FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

 (25)

عباس خان نمبر

 

مرتّب

ارشد خالد

معاون مدیر

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)

 

 

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے

http: //akkas-international.blogspot.de/

اور

http: //issuu.com/akkas

اور

http: //punjnud.com/BookList.aspx?LanguageId=2&CategoryId=9&SubcategoryId=19

ناشر: مکتبہ عکاس

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

………………………………………………………….

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 


ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

آخری بات سنائے کیوں کوئی، آخری بات سُنیں کیوں، ہم نے

اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے

(میرا جی)

عباس خان کی فکری وفلسفیانہ کتاب ’’سچ‘‘ کا آخری حصہ

 

دنیا کے آسان ترین کاموں میں سے ایک کام نصیحت کرنا ہے۔ میں یہ الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔

ایک سچ کی فوری دریافت کی استدعا کرتا ہوں۔ اس کی دریافت کوئی مشکل یا دقت طلب کام نہیں۔ اس کرۂ

ارض کی اہم ترین ہستی انسان ہے۔ سب کچھ اس کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کے متعلق بس اتنا طے کر لیا جائے کہ کیا یہ فرشتوں سے بڑھ کر ہے یا فساد کی جڑ ہے ؟اس دریافت کے بعد درج ذیل امور کے متعلق سچ تک پہنچنا کوئی پریشان کن کام نہیں ہو گا۔

۱۔ افزائش نسل انسانی کی یہ زمین کس حد تک متحمل ہو سکتی ہے ؟

۲۔ کیا عورت محض ایک صنعت ہے یا ایک ایسی ہستی جو نسل انسانی کو ترتیب دیتی ہے ؟

۳۔ کیا کنبے کے وجود کو ختم کر دیا جائے ؟

۴۔ جمہوریت کی رُو سے کیا لیڈر عوام ہوتے ہیں ؟

۵۔ کیا امن کے لئے اسلحہ اور جنگیں ضروری ہیں ؟

۶۔ افلاس اور محرومی کیا صرف مقدر کے تابع ہیں ؟

۷۔ کیا رواداری اور برداشت کمزوری اور بزدلی کی علامت ہیں ؟

۸۔ کیا سکون صرف لذتوں اور آسائشوں سے حاصل ہوتا ہے ؟

۹۔ کیا کامیاب انسان وہ ہے جو صاحب مال ہے یا حاکم ہے ؟

۱۰۔ کیا حد سے زیادہ شخصی آزادی نے مغرب کی نئی نسل کو گمراہ اور بے کار نہیں کر دیا اور کیا مغرب کو اپنا نظام  حیات چلانے کے لئے ادھر کے نوجوانوں کی ضرورت نہیں پڑ رہی؟

۱۱۔ نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں ہے نمود اس کی

کہ روح مشرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے مغرب سے متاثر ہو کر اپنا سچ ترکی میں نافذ کر دیا۔ اس کی دیکھا دیکھی ایران کے فرماں روا رضا شاہ نے بھی ایران میں یہی کام شروع کر دیا۔ اس پر علامہ اقبال نے مندرجہ بالا شعر کہا۔ وہ روح شرق کیا شرق سے بھی رخصت نہیں ہو گئی؟صرف فلموں اور ڈراموں کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی اس ضمن میں کیا ثبوت کے طور پر کافی نہیں ؟

۱۲۔ کیا اقوام متحدہ کو ایک مقتدر عالمی پارلیمنٹ میں نہیں بدلا جا سکتا؟

 

 

 

 

 

 

اپنی بات

 

عباس خان ۱۹۶۶ء میں افسانہ نگار کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ ۱۹۷۸ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا۔ پھر وہ اپنے فرائضِ منصبی کے ساتھ پڑھنے لکھنے کا کام مسلسل کرتے رہے۔

اب تک فکشن کے باب میں ان کے تین ناول، افسانوں کے چھ مجموعے اور افسانچوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ دیگر ادبی کام میں فکرو فلسفہ کے مطالعہ کے ساتھ اپنے غور و فکر کو شامل کر کے انہوں نے   ’’سچ‘‘ کو شائع کیا۔ کچھ عرصہ کالم نگاری بھی کی۔ مجموعی طور عباس خان کی سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

اتنا اہم علمی و ادبی کام کرتے رہنے والے عباس خان کی بے نیازی کہیں یا کچھ اور کہ مجھ جیسے کئی لوگ ان کے نام اور کام سے نا آشنا تھے۔ ان کے ساتھ میرا تعارف ہونا اور میرا ان سے رابطہ ہونا، مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں نے عباس خان کو دریافت کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ انڈیا کے اردو کے ادبی حلقوں میں عباس خان کو مناسب پذیرائی مل رہی ہے۔ وہاں کے بعض رسائل نے ان کے گوشے بھی شائع کئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ادبی حلقوں میں عام طور پرعباس خان کا نام سننے میں نہیں آتا۔ اپنے عمدہ تخلیق کاروں کی قدر کرنے کے بجائے ناقدری کرنے کا یہ رویہ شاید ہمارا عمومی مزاج بن گیا ہے۔

عباس خان سے رابطہ ہونے کے بعد میں نے ہندوستان کے ان رسائل کو دیکھا جن میں ان کے گوشے شائع ہوئے ہیں۔ پھر ان کی کتابیں ملیں تو مزید تعارف ہوا اور میں نے عباس خان نمبر شائع کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اور اب عکاس کا عباس خان نمبر پیشِ خدمت ہے۔

انڈیا کے جن ادبی رسائل نے عباس خان کے گوشے شائع کئے ہیں ان میں ماہنامہ ’’شاعر‘‘ بمبئی، ’’اسباق ‘‘ پونہ، ’’رنگ ‘‘ دھنباد، ’’بے باک‘‘ ، مالیگاؤں، ’’سبقِ اردو‘‘ ، بدوہی، شامل ہیں۔ ان رسائل میں مطبوعہ بعض مضامین اور دیگر مواد سے اس نمبر میں استفادہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح عباس خان کی بعض کتابوں میں شامل پیش لفظ اور دیگر مضامین کو بھی اس نمبر میں لے لیا گیا ہے۔ بعض دوستوں نے اس نمبر کے لئے نئے مضامین لکھ کر پاکستان میں عباس خان کے ادبی کام کی پذیرائی کے سلسلے کی ابتدا کی ہے۔

امید ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں عکاس کے عباس خان نمبر کو علمی سنجیدگی اور ادبی دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا اور ان کی تفہیم کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا۔ انشاء اللہ۔

ارشد خالد

 

 

 

عباس خان

 

خاندانی نام                                                                             غلام عباس خان

قلمی نام                                                                                              عباس خان

جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب فرزند اقبال نے عباس چہارم نام دے رکھا ہے۔

تاریخ پیدائش            بستی گجہ تحصیل و ضلع بھکر صوبہ پنجاب پاکستان

بمطابق ریکارڈ15دسمبر1943حقیقتاً سے ایک سال زیادہ۔

شہروں سے دور عین دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے  اس کے مکینوں کی زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہے۔

تعلیم                                                                  ایم۔ اے (سیاسیات)ایل ایل بی دونوں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے۔

پہلا افسانہ                                                                                       پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور کے مجلے المیزان کے 1966ء کے شمارے   میں آخری شام کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس سال مصنف اس مجلے کے خود مدیر تھے۔

ذریعہ معاش                      سرکاری ملازمت عدلیہ واحتساب میں۔ (سبکدوش)اپنے طور پر زمینداری تا حیات۔

تصانیف۔

ناول:

1۔ زخم گواہ ہیں                                              1984ء ہندوستان میں بھی شائع ہوا، 1988میں۔

2۔ تو اور تو                                                                           2003ء

3۔ میں اور امراؤ جان ادا                                           2005ء

افسانوں کے مجموعے:

1۔ دھرتی بنام آکاش           1978ء

2۔ تنسیخ انسان                                                 1981ء

3۔ قلم، کرسی اور وردی                                           1987ء

4۔ اس عدالت میں                         1992ء

5۔ جسم کا جوہڑ      1999ء

6۔ آٹھ آنے کی پیاس     2013ء

افسانچوں کے مجموعے:

1۔ ریزہ ریزہ کائنات               1992ء

2۔ پل پل                                                                                 1996ء

3۔ ستاروں کی بستیاں 2009 ء

4۔ خواہشوں کی خانقاہ 2015 ء

٭سلطنت دل سے۔ رام لعل کے خطوط بنام عباس خان۔ 2012 ء

فکروفلسفہ: 1۔ سچ 2014 ء

کالموں کے مجموعے: 1۔ دن میں چراغ 2002ء۔ یہ ان مختصر کالموں کا مجموعہ ہے جو روز نامہ نوائے وقت میں شائع ہوتے ہیں اس مجموعے کا ترجمہ ایس اے جے شیرازی نے انگریزی زبان میں Light Within کے عنوان سے کیا۔ قومی اور بین الاقوامی امور پر روزنامہ نوائے وقت میں مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔

آنے والی کتابیں:

1۔ دراز قد بونے (حصہ اول)چند علمی و ادبی شخصیات اور ایک روز نامے کے بارے میں

انعامات: ۱۔ پولس میگ ایوارڈ۔                                        ۲۔ ملتان ایوارڈ۔

یہ انعام در اصل دوستوں کی عنایات ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آج تک کوئی انعام نہیں ملا اور یہ سب سے بڑا انعام جو ملا ہے۔

افراد کنبہ:                                 ساجدہ عباس، بیوی جو وفات پا چکی ہیں۔ قدسیہ عباس بیٹی اور محمد مرتضیٰ عباس خان بیٹا۔

پتے:        1 Abbas khan 57 ghulam Abbas khan Stree ,Garden

Town, Sher shah Road, Multan, punjab, pakistan

2 c\o caravan book Depot, Sadar

Multan, Punjab 60000 pakistan

حاصل عمر بقول عباس خان:            حاصل عمرم سہ حرف است وبس

خام بودم، پختہ شدم، سو ختم

(زندگی کا حاصل صرف تین حرف ہیں۔ میں خام تھا، پختہ ہوا اور پھر جل کر راکھ ہو گیا )

٭٭٭

 

 

 

 

 

تعارف ۔۔۔ قدرت اللہ شہاب

 

 (عباس خان کے افسانوی مجموعہ ’’قلم کرسی وردی‘‘ کا پیش لفظ)

 

عباس خان ایک کہنہ مشق افسانہ نویس ہیں۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ چوتھا مجموعہ ہے۔

عباس خان روایتی قسم کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ہر کہانی میں ایک مرکزی خیال یا واقعہ ہوتا ہے جس کے گرد کہانی کا تار و پود بُنا جاتا ہے پھر ایک نقطۂ عروج ّآتا ہے اور کہانی اپنا بھید کھول دیتی ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات براہ راست زندگی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ تفصیلات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ کہانیاں آپ بیتیاں بن گئی ہوں۔ عباس خان زندگی کے ہلکے پھلکے پہلوؤں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ اور بنیادی طور پر طنز کو کام میں لاتے ہیں۔ ان کے طنز کی دھار بڑی تیز اور کاٹ دار ہوتی ہے۔ پیشکش کا انداز بڑا ڈرامائی ہوتا ہے۔

عباس خان کا کہانی بیان کرنے کا طریقہ بڑا منفرد ہے۔ بڑی سنجیدگی سے جزویات کے ذریعے کہانی کی تعمیر کئے جاتے ہیں پھر نقطۂ عروج پر پہنچ کر دفعتاً طنز کی تلوار کو میان سے نکال کر ایک بھر پور وار کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے عباس خان کی کہانیاں قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اور سوچنے پر مائل کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر عباس خان اپنی کہانی ’’ کنٹرول‘‘ ایک مضحکہ خیز بلکہ بھیانک منظر سے شروع کرتے ہیں۔ ایک ٹریفک سارجنٹ ٹریفک جام کر کے سڑک کے درمیان کرسی ڈال کر بیٹھ جاتا ہے۔ گاڑیاں رک جاتی ہیں سڑک کے دونوں طرف کاروں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ڈرائیور پوچھتے ہیں ٹریفک کیوں بند کر رکھی ہے۔ کسی کو تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا۔ گاڑیوں والے مضمحل ہو جاتے ہیں اور اُن سے باہر نکل آتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں لیکن ٹریفک سارجنٹ گل محمد بنا بیٹھا ہے۔

یہ سیچویشن بڑی ہیجانی اور مضحکہ خیز ہے لیکن مصنف سیچویشن کے اس پہلو کے متعلق بات نہیں کرتے وہ بڑی سنجیدگی سے تفصیلات سپرد قلم کئے جاتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ ایسا کرنے سے کہانی کے نقطۂ عروج کے تاثر میں وہ شدت نہیں رہتی۔ وہ جھنجھوڑ نہیں رہتی جو وہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

کہانی کے دوران قاری کو شبہ نہیں پڑتا۔ کہ یہ سارا بکھیڑا اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ نئے ڈی ایس پی کا ماہانہ مقرر کیا جائے۔ کہانی میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز تفصیل خود سارجنٹ ہے۔ More loyal than the king قسم کا کردار ہے۔ ہمارا معاشرہ اس نوعیت کا ہے جو More loyal than the king قسم کے اہل کاروں کی پرورش کرتا ہے۔

’ لا دوا‘ افسانے میں غلام فرید نمبردار کے ڈیرے پر تحصیلدار کو پیٹ کا درد ہوا۔ پھر وہ گردے کے درد میں تڑپتے رہے۔ درد اس قدر بڑھ گیا کہ پیشاب کرنے کے لیے باتھ روم میں جانا ممکن نہ رہا۔ ساری رات وہ حکیموں کے جوشاندے اور گل قند کھاتے رہے۔ اگلے روز انہیں پلنگ پر ڈالا گیا۔ چار آدمیوں نے پلنگ اٹھایا اور انہیں گھر پہنچایا گیا۔

ان تفصیلات کو مصنف اس قدر سنجیدگی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کو شبہ نہیں پڑتا کہ سارا اہتمام صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ پلنگ جو تحصیلدار کو پسند تھا ان کے گھر پہنچ جائے۔

عباس خان کا اسلوب حقیقت پسندانہ ہے۔ کہانی کو دلکش بنانے کے لیے وہ لفظوں کا سہارا نہیں لیتے، جملوں کی پھول پتیاں نہیں لگاتے، جذباتی قسم کے اسم صفت استعمال نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ خشک اور سپاٹ لفظوں میں تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیان غلو سے پاک رہتا ہے۔ روایتی کہانی میں یہ خصوصیت قابل ذکر سمجھی جاتی ہے۔

عباس خان تفصیل نگار ہیں۔ انہیں جزئیات پر بڑا ملکہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن یہ تفصیل نگاری بے مقصد نہیں ہوتی۔ وہ صرف ان تفصیلات کو لائم لائٹ میں لاتے ہیں جو کہانی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس مجموعے میں بیشتر کہانیوں کا موضوع دفتر اور دفتریات ہے۔ ان کے کردار دفتری اہل کار ہیں اور مرکزی خیال دفتری کرپشن ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے عباس خان نے اہلکار کی حیثیت سے زندگی گزاری ہو اور دفتر کو بہت قریب سے دیکھا ہو۔

ظاہر ہے کہ وہ خود دفتر کے رنگ میں نہیں ڈھلے بلکہ خود کو الگ رکھ کر دفتری ماحول اور کرداروں کا مشاہدہ کرتے رہے۔ اس لحاظ سے مجموعہ بڑا انمول ہے۔ کیونکہ اس میں دفتری کرداروں، ان کے برتاؤ، دفتری رسم و رواج اور طور طریقوں کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی گئی ہے اور دفتری ہیپوکریسی کو اجاگر کو کیا گیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مصنف نے ایک ہی موضوع پر خود کو مقید کر کے قاری کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے محروم رکھا ہے۔ یہی بات کرداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس مجموعے میں زیادہ تر اہل کاروں کے کردار پیش کئے گئے ہیں۔ مصنف نے زیب داستان کے لئے کسی خاتون یا لڑ کی کا کردار پیش نہیں کیا۔ در اصل وہ اپنے افسانوں میں زیبِ داستان کے قائل نہیں۔ اہ اپنی تحریر میں دل کشی پیدا کرنے کے لیے کوئی اضافی منظر شامل کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے ہلکے پھلکے پہلوؤں کو پیش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے عباس خان ایک سنجیدہ مفکر ہیں اور اپنی تحریروں میں معاشرے کے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھانے کے قائل ہیں۔

ان تحریروں میں یہاں وہاں ایسی جھلکیاں ملتی ہیں جو مصنف کے ذاتی مسلک پر روشنی ڈالتی ہیں۔

عباس خان موجودہ زندگی کی مادی روش سے غیر مطمئن ہیں۔ وہ بیرونی ترقی کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک ہم اپنے اندر کے انسان کی طرف توجہ نہیں دیتے صحیح معنوں میں ترقی ممکن نہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ عباس خان نے اپنے مسلک کے برملا اظہار کے لئے کوئی تحریر پیش نہیں کی۔ ان کی افسانوں کے اختتام پر عام طور سے کوئی کمی، بد دیانتی، دو رخی یا ہیپو کریسی سامنے آتی ہے۔ یعنی ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی منفی پہلو اجاگر ہوتا ہے جو معاشرے کی کمزوریوں یا عیبوں کی نشان دہی کرتا ہے۔

مانا کہ وہ معاشرے سے مایوس ہیں لیکن میری دانست میں وہ افراد کی عظمت پر ضرور یقین رکھتے ہیں۔ وہ افراد جن کے کردار کی عظمت کے بل بوتے پر اپنی خامیوں کے باوجود یہ معا شرہ ابھی تک قائم ہے اور جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان سے ابھی تک مایوس نہیں ہوا۔

کاش کہ عباس خان اس مجموعے میں ایسی کہانیاں بھی شامل کرتے جن کا تاثر منفی کی بجائے گھور اندھیرے میں روشنی اور امید کی ایک کرن دکھا جاتا۔

٭٭٭

 

عباس خان ایک سینئر افسانہ نگار ہیں۔ ان کے سینے میں ایک حساس دل ہے اور ان کا ذہن مسائل کا تجزیہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ ان کے افسانے اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ان پر نہ ترقی پسندی کی چھاپ ہے نہ جدیدیت کا رنگ غالب ہے۔ وہ مابعد جدے دیت کے ’’متن و معنی‘‘ والے مباحث سے بھی بے نیاز نظر آتے ہیں۔ انہوں نے افسانے کو اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اسے خالص بیانیہ اسلوب میں پوری دیانت داری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کی زبان نہایت سادہ، صاف اور سریع الفہم ہے ان کے افسانوں کی تفہیم میں ترسیل کا المیہ پیش نہیں آتا بلکہ ان کا بیانیہ اس قدر شفاف ہے کہ افسانے کا کوئی منظر ہو یا منظر کا کوئی گوشہ قاری پر یوں روشن ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بھی طرح کی ذہنی کثرت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پہلی قرأت میں ہی افسانے کے سارے ابعاد منکشف ہو جاتے ہیں۔ سلام بن رزاق۔ ممبئی

٭٭٭

 

 

 

 

عباس چہارم  ۔۔۔ جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال

 

 

ادب کی دنیا میں اب تک تین عباس گزرے ہیں۔ یہ علی عباس حسینی، غلام عباس اور خواجہ احمد عباس ہیں۔ اب ادب کی دنیا عباس خان کو لئے ہوئے ہے۔ یوں اس کو ہم عباس چہارم کہہ سکتے ہیں۔

انسان اور انسان کا ترتیب کر دہ یہ جہان اس کے خلاف ہیں یا وہ انسان اور انسان کے ترتیب دئیے ہوئے اس جہان کے در پے ہیں۔ ذمے داری فریقین میں سے چاہے جس پر ڈالی جائے، یہ امر مسلم ہے کہ ان میں ایک شدید جنگ موجود ہے۔ انسان اپنی خصلتوں اور یہ جہان اپنی مصلحتوں سے اس پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ان پر لفظوں کے وار کرتا ہے۔ اس جنگ کا جس طرح اس کے تیوروں سے ظاہر ہوتا ہے، سوائے فریقین کی جذباتی بے چینی وغیرہ کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلنا جیسا کہ آج تک اس قسم کی جنگوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر کوئی مثبت نتیجہ نکلا بھی تو کچھ عرصہ بعد فریقین آپس میں پھر گتھم گتھا ہو گئے اس ضمن میں بڑے پیمانے پر انقلابِ فرانس کو دیکھ لیجئے، انقلابِ روس کو پھر دیکھ لیجئے یا اس قسم کے دیگر انقلابات۔ اس جنگ نے اُس کو البتہ ادیب بنا دیا ہے۔

اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ کوئی مقامی جنگ نہیں۔ انسانی فطرت ہر جگہ ایک سی ہے اور اس جہان کی وسعت اس زمین کے آخری کونے تک ہے۔ یہ جنگ لہٰذا ایک عالمی جنگ ہے۔ ایک عالمی جنگ چھوٹے چھوٹے ہتھیاروں اور معمولی ذرائع کے ساتھ نہیں لڑی جا سکتی۔ اس کے لئے بڑے سے بڑا ہتھیار اور ایک سے بڑھ کر ایک ذریعہ ضروری ہے۔ چنانچہ لفظوں میں موجود اُس کے خیالات عام خیالات نہیں۔ یہ اپنے میں خاص گہرائی، خاص وسعت اور خاص وزن رکھتے ہیں۔ اس طرح اس کا ایک عالمی مقام بنتا ہے۔ اُس نے اب تک سات کتابیں شائع کی ہیں۔

۱۔ زخم گواہ ہیں (ناول) ۲۔ دھرتی بنام آکاش ( افسانے ) ۳۔ تنسیخ انسان ( افسانے )

۴۔ قلم، کرسی اور وردی ( افسانے ) ۵۔ اس عدالت میں ( افسانے )

۶۔ ریزہ ریزہ کائنات ( افسانچے ) ۷۔ پل پل ( افسانچے )۔

اس کا ناول ہمارے نظام عدل کی کمزوریوں کو سامنے لاتا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے ناول کم پڑھا جا رہا ہے اس کے اب تک پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بھارت سے بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ اس ناول پر جارج دھامیل کا یہ قول صادق آتا ہے کہ ناول حال کی تاریخ ہوتا ہے اور تاریخ ماضی کا ناول۔ اس کے افسانوں کے مجموعے بہت سارے قابل افسانے لیے ہوئے ہیں اس سلسلے میں ’’پردے کے پیچھے ‘‘ ’’ پہلی کتاب‘‘ ’’بازگشت‘‘ ’’ ماں ‘‘ ’’ ازل سے اب تک‘‘ ’’ پہلا راز ‘‘ ’’ آٹھ آنے کی مٹھاس‘‘ ’’ اپنا اپنا انصاف‘‘ ’’ لادوا‘‘ ’’ مجھے یقین ہے ‘’ اور ’’ آمنے سامنے ‘‘ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح اُس نے کئی عمدہ افسانچے تحریر کئے ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لئے ناول اور افسانوں سے اندازِ تحریر اور خیالات کے نمونے پیش کرنا مشکل ہے۔ افسانچے کیونکہ مختصر ہیں لہٰذا ان میں سے کچھ یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کا ایک افسانچہ ’’ خوشیوں کی تقسیم‘‘ یوں ہے

’’ آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ‘‘

’’ ابھی ابھی میری بچی مجھے مل کر گئی ہے۔ اس کے ایک سوال پر مسکرا رہا ہوں ‘‘

’’ کونسا سوال ‘‘

’’ ہمارے پڑوس میں ایک امیر آدمی رہتا ہے اس کی بیگم کسی بات پر رو رہی تھی۔ میری بچی نے اس کو روتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے پوچھا

’’ بابا! یہ اتنی امیر ہے پھر بھی روتی ہے۔ کیوں ؟ ‘‘

ایک اور افسانچہ ’’ عمر قید‘‘ کے عنوان سے اس دلیل کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے۔

’’ کیا چاہتے ہو ‘‘

’’ آزادی ‘‘

’’ ہم کا فی عرصہ سے آزاد ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ؟ ‘‘

’’ معلوم ہے۔ ہم حقیقی معنوں میں آزاد نہیں۔ ہم بندھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’ کس شے سے بندھے ہوئے ہیں ؟ ‘‘

’’اپنے اپنے مفادات سے ‘‘

افسانچہ ’’ اگلا سبق ‘‘ دیکھئے

’’ وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں سواریوں کو آوازیں لگانے پر ملازم تھا۔ اس نے وہاں گاڑیوں کے پرزے چرا چرا کر فروخت کرنے شروع کر دئیے۔ جب کچھ رقم اکٹھی ہو گئی تو اس نے سڑکیں بنانے والے محکمے میں ٹھیکیداری شروع کر دی۔ وہاں اتنی آمدنی ہوئی کہ سیاست میں بھی آ گیا۔ اِس وقت وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا چیر میں ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے محصولات کا وہ بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔ وہ چینی بنانے کا ایک کارخانہ لگا  چکا ہے اور دوسرا لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔

’’ آپ یہ سب کچھ مجھے کیوں بتا رہے ہیں ؟ ‘‘

’’ آپ کو سمجھانے کے لیے کہ اب ایسے لوگوں کو سلیف میڈ کہتے ہیں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

مزید ایک افسانچہ ’’ سامنا‘‘ مثال دینے کے قابل ہے۔

’’ آپ میرا کام کیوں نہیں کرتے ‘‘

’’ آپ کا کام غلط ہے لہٰذا نہیں ہو سکتا‘‘

’’ میں نے آپ کو بڑے بڑے آدمیوں کی سفارش کرائی ہے۔ بطورِ مٹھائی ایک معقول رقم میں آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ دنیا میں سب کام اس طرح ہو رہے ہیں ایک آپ ہیں کہ اٹک گئے ہیں۔ ‘‘

’’ میں ایک شخص کا سامنا نہیں کر سکتا‘‘

’’ کس شخص کا؟ ‘‘

’’اپنے آپ کا ‘‘

اس کے متعلق یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اُس نے اپنی تحریروں کی بناوٹ پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی ان میں سموئے گئے خیالات پر دی ہے۔ اس کی تحریروں کی بناوٹ بھی لیکن کم جاذب نہیں ہے۔ اس کے افسانوں اور افسانچوں میں ایک موڑ ایسا آتا ہے جب تحریر اور خیال عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ عروج بڑا ڈرامائی ہوتا ہے۔ یہ عموماً آخر میں آتا ہے۔ اس مقام پر قاری چونک اُٹھتا ہے۔ اُس کی سوچوں کو شدت سے حرکت ملتی ہے۔ در اصل یہاں پر وہ بات ہوتی ہے جو وہ قاری تک پہچانا چاہتا ہے۔

یہیں اُس کی یہ خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ وہ تجریدیت کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا۔ اُس نے اپنی بات واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ اس سے وہ ابہام سے دور رہا۔ یوں وہ کہانی کار کے طور پر اس دھارے سے جا ملتا ہے جو تجریدیت سے پہلے تھا۔ تجریدیت کے ہر سو چھا جانے کے باوجود اس نے کہانی کو زندہ رکھا ہے۔ وہ افسانے میں کہانی کو واپس لانے والا پہلا ادیب ہے۔ اس شاہراہ پر یقیناً اور لوگ بھی تھے لیکن وہ خالصتاً کہانی کے مبلغ نہ تھے۔

٭٭٭

 

عباس خان اپنے افسانوں میں آج کے موضوعات کو سمیٹتے ہیں۔ اپنے تجربات مشاہدات جذبات اور احساسات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کی زبان رواں دواں ہے۔

نور شاہ۔ سری نگر، کشمیر

٭٭٭

 

 

 

عباس خان ۔۔۔ سید ظفر معین بلے

 

عباس خان کا ایک افسانچہ اس طرح ہے۔

پس منظر

’’بڑے بڑے عالی شان بنگلے دیکھ کر آپ شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں ؟‘‘

’’ میں نے ایسے بنگلے بڑے غور سے اندر اور باہر سے دیکھے ہیں۔ ان کے سامنے کا حصہ بڑا مسحور کن ہوتا ہے۔ ان کی پچھلی طرف لیکن رہن سہن کی ساری ابتری موجود ہوتی ہے۔ کہیں پر بچوں کے میلے لچیلے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے کھلونے پڑے ہوتے ہیں۔ کہیں گھسا پٹا فرنیچر، کہیں سبزی کے چھلکے اور کہیں پہ مکھیوں کی یلغار میں کھانے پینے کے برتن۔ گھر کا گٹر بھی قریب ہوتا ہے اور کسی پائپ سے رسنے والی پانی بھی۔ یہیں کوڑے کرکٹ کا ڈرم پایا جاتا ہے۔ کار میں استعمال ہونے والے خالی ڈبے، صفائی کرنے والے کپڑے اور جھاڑو اِدھر ہی ہوتے ہیں۔ انہی عالی شان اور بڑے بنگلوں کی طرح اکثر زندگیاں ہوتی ہیں۔ سامنے کچھ اور، پچھلی طرف کچھ اور۔ کیا ان کا پچھلا حصہ حقیقی ہے یا ان کا اگلا حصہ؟۔ ‘‘

اس کے اس مشاہدہ کے مطابق چونکہ ہر انسان کا ایک پیش منظر ہوتا ہے اور ایک پس منظر۔۔ اس لئے ان کے یہ دونوں منظر موجود ہیں۔ ان کے پیش منظر کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کے پس منظر کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہاں اس کا پس منظر کی جھلک دیکھنے کے لئے پردہ ہٹایا جا رہا ہے۔

بچپن اور لڑکپن اس نے گاؤں میں پابندیوں سے ہٹ کر گزارا ہے۔ سونے۔ چلنے، کھیلنے کھانے، پینے، ہنسنے اور دوستوں کے ہمراہ گلی میں کھانے پکانے میں وہ آزاد تھا۔ اس کے ارد گرد مفلسی کے مظاہر روح فرسا تھے۔ وہ چنانچہ جو کچھ گھر سے پاتا غرض مندوں کے حوالے کر دیتا۔ اس کے اس انداز زندگی کو دیکھ کر لوگ اس کے والد کو کہتے ہیں۔ ’’ خان صاحب! آپ کا بیٹا بہت سادہ لوح ہے ‘‘ اس کا والد یہ فقرہ سن کر اداس ہو جاتا۔ کیونکہ سیاست دانوں کے الفاظ کی طرح سادہ لوح کا مطلب وہاں کچھ اور لیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے مطابق سادہ لوح کا مطلب احمق تھا۔ اس صورتِ حال کی روشنی میں اس کی تقریباً ساری زندگی کو سمجھا جاتا ہے۔ اس نے بدستور خود کو پابندیوں سے آزاد رکھا ہوا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ وہ احمق ہے اس نے ملازمت کے لیے مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ احمق کہنے والوں کو ہی سامنے رکھتے ہوئے اُس کا انسان اور انسان کے ترتیب دیئے گئے اس جہاں پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اس نے اسی بنا پر اپنی تحریروں میں طنز کو اپنا لیا تھا۔

کالج میں پہنچا تو جارج بڑناڈ شا۔ ابو لعلاء معری، ٹالسٹائی اور جین مت کے بارے میں پڑھ کر گوشت کھانا ترک کر دیا۔ اس کی زندگی سے گوشت کے اخراج نے اس کے دل کو وہ گداز عطا کیا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے کوئی چیونٹی بھی آ کر مر جائے تو وہ گھنٹوں اداس رہے گا۔

گاؤں والوں کی مفلسی اور گوشت سے اجتناب نے اسے کمزوروں سے ہمدردی اور ظالموں سے نفرت سکھائی۔ وہ کارل مارکس کا دیوانہ بن گیا۔ اب اس کو یہ احساس ہوا کہ مساوات اور انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسانی خود غرضی ہے۔ فرائیڈ کے الفاظ میں ہر انسان پر دو بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔ یہ خوف اور لالچ ہیں۔ کارل مارکس سے انسانی فطرت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی نظام کو روس میں دھچکا پہنچا۔

اپنی کتاب ’’ دراز قد بونے ‘‘ میں اس نے لکھا ہے، ’’ میری روح نے اس گاؤں میں جہاں میں پیدا ہوا حسن ازل کی جھلک دیکھ لی تھی۔ یہی وجہ ہے یہ مجھے شدت سے وہاں رہنے پر مجبور کرتی رہی اور کرتی رہتی ہے۔ ‘‘ اپنے گاؤں سے اب تک محبت اس کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ لوگ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں رہائش رکھی جائے۔ ان کی استطاعت بڑھتی ہے تو یہ شہر انہیں اچھے نہیں لگتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لندن پیرس یا نیو یارک میں رہائش اختیار کریں۔ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہائش کے مواقع ہونے کے باوجود گاؤں سے چمٹا ہوا ہے۔ گاؤں سے محبت کی تہہ میں حسن ازل کی جھلک کا دیدار یقیناً ہو گا لیکن ایک بڑی وجہ اور بھی ہے۔ اس کو ماضی سے محبت ہے۔ گاؤں اس کے ماضی کا مرکز و محور ہے۔ وہ عہد رفتہ کی یادوں میں کھویا رہے گا۔ آپ اس کو ایک کمرہ میں بند کر دیں وہ اس میں تنہا کئی کئی دن بسر کر لے گا۔ اس جہان میں کھو کر جو اس کی چاہتوں کا مرکز ہے۔ اس پر گاؤں کی عنایات ذرا ملاحظہ فرمائیے۔

کھجور کے پتوں کی چٹائی چارپائی پر بچھا کر اس پر سونے کو ترجیح دینا۔۔ ایسی چٹائی کو زمین پر بچھا کر اس پر لکھنے کے لیے بیٹھنا۔ خوراکوں میں مکھن کو پسند کرنا اور پھلوں میں کھجور کو۔ چٹائی پر آلتی پالتی مارے کھانا کھانا انہی عنایات کا حصہ ہے۔ وہ سادہ لوح قطعاً نہیں بلکہ سادہ ضرور ہیں۔ اس کی کوشش ہو گی کہ اس کے صرف دو جوڑے کپڑوں کے ہوں۔ نہاتے وقت ایک کو دھو لیا اور دوسرا نہا کر پہن لیا۔ وہ سفید رنگ کے کپڑوں کے گرویدہ ہے۔ بیوی زندہ تھی تو وہ کئی رنگوں میں اس کے ملبوسات تیار کرائے رکھتی تھی۔ اب یہ فرض بہن بھائی، بہنیں اور بچے سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ کھیتوں کے اطراف میں بنے راستوں پر چلنا، مویشیوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز میں محو ہو جانا اور درختوں کے سایوں کو گھٹتے بڑھتے دیکھنا، گاؤں کے ہی اثرات کا نتیجہ ہے۔

وہ لوگوں کو ملنے سے بہت گھبراتا ہے۔ اِدھر بے تکلف دوستوں سے اس بات پر لڑائی ہے کہ ملاقات کے لیے وقت کیوں نہیں نکالتے۔ اس کی صرف ایک کتاب کی رونمائی ہوئی۔ اس کے لیے اس کو دوستوں نے مجبور کیا۔ لوگوں کے ہجوم میں گھِر کر اس کا دل فیل ہوتے ہوتے بچا۔ اس کے بعد اس نے اس طرف کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔

کوئی اس پر احسان کرے تو اظہار تشکر کے طور پر اس کے سامنے بچھ بچھ جائے گا۔ اس کے مطابق اُس پر سب سے زیادہ احسانات اللہ تعالیٰ کے ہیں اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے ہر وقت اس کے سامنے بچھا رہے۔ وہ اس تک اپنے احساسات کے ذریعے پہنچا ہے۔

اس کی ایک عادت نے خاص طور پر اس کو کئی مرتبہ رسوا کیا۔ کسی ذی روح یا بے جان شے کو سامنے پا کر اس کو مسلسل دیکھنا رہے گا۔ مثال کے طور پر اس کے سامنے کوئی عورت ہے۔ یہ اس کو اِن خیالات کے تحت دیکھے گا کہ اس نے خوبصورت نظر آنے کے لیے کیا کیا جتن کئے ہیں۔ بالوں کو رنگا ہے۔ ان میں سے مانگ نکال کر انہیں اس طرح تقسیم کیا ہے کہ آدھے چہرے کے اِس طرف اور آدھے چہرے کے اُس طرف ایک ایک محراب بناتے ہوئے لٹک رہے ہیں۔ ٹھوڑی کے نیچے پہنچ کر یہ ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں۔ کانوں کی بالیاں، کلائیوں کی چوڑیاں اور سب کپڑوں کے رنگ پر ہیں۔ قمیص کہیں بہت تنگ کہیں بہت کھلی ہے۔ ہاتھوں کی کچھ انگلیوں میں سونے کی بنی انگوٹھیاں ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ بے چاری خوبصورت نہیں لگتی۔ ہو سکتا ہے کسی کو لگتی بھی ہو۔ یہ کیا کم ہے کہ اس تردد کے بعد وہ خود کو بے حد خوبصورت سمجھتی ہے۔ پتہ نہیں شادی شدہ ہے یا کنواری ہے۔ ہو سکتا ہے بیوہ ہواور دوسرے خاوند کی تلاش ہو، شادی شدہ ہے تو پتہ نہیں خاوند کو پسند آتی ہے کہ نہیں۔ اگر پسند والی بات نہیں اور وہ مر گیا ہے تو اچھا ہوا۔ یہ اگر ورزش شروع کر دے تو اس کی شخصیت میں کم از کم اتنی کشش تو پیدا ہو جائے گی جو ٹیلی وژن پر گاتی حبشنوں میں نظر آتی ہے۔ اتنی دیر میں وہ عورت منہ موڑ لے گی، اٹھ کر چلی جائے گی یا اس سے لڑ پڑے گی۔

ایک وقت تھا جب یہ خاموش رہتا تھا۔ بڑھتی عمر کے پیشِ نظر اُس نے گھی کی بجائے خوردنی تیل کا استعمال شروع کر دیا۔ اس نے اس کے دماغ میں خشکی پیدا کی۔ اس خشکی کے پیشِ نظر اس نے بہت بولنا شروع کر دیا۔ اس نے ایک جگہ پڑھا کہ زیادہ بولنے والے کم عقل ہوتے ہیں۔ اب لہٰذا یہ خاموش رہنے کو ضروری سمجھتا ہے۔

کسی کی اپنے اعزاز میں دعوت قبول کرنا اس کے لیے نا ممکن ہے۔ کسی شادی میں شمولیت کے لئے کہا جائے تو ہسپتال میں جا داخل ہو گا۔ کسی کے ہاں مہمان بننا پسند نہیں۔ ہوٹل میں ٹھہرے گا۔ اگر جیب میں پیسے کم ہیں تو کسی سرائے میں وقت گزار لے گا۔ بڑے ہوٹلوں، بڑے درزیوں، بڑے حجاموں اور کاروباری کمپنیوں سے سخت نفرت ہے، اس لیے کہ اپنی شہرت کے سہارے یہ دو روپے کی جگہ دو صد لیتی ہے یا لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کی دلی آرزو یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی تنظیم پیدا ہو جو اس کے سرمائے پر ہاتھ ڈالے۔

عجیب ہے وہ انسانوں سے دور بھاگتا ہے۔ لیکن انسانوں کے سہارے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب تک والدین زندہ تھے انہیں چمٹا رہا ایک بچے کی طرح۔ وہ وفات پا گئے تو بھائی بہنوں کی توجہ کا محتاج ہو گیا۔ اب بچے اس کو دلاسہ دیتے ہیں۔ دوست کئی بنے لیکن تعلق اور محبت میں استحکام صرف ان سے رہا جو بچپن میں قریب آئے یا ہم جماعت بنے۔ دو فی صد کو چھوڑ کر باقی جو دوست بنے وہ اغراض کے بہت تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے۔ یوں وہ آگے نکل گئے یہ پیچھے رہ گیا۔

زندگی کے اس مقام پر وہ کیا محسوس کرتا ہے ؟۔ اس کا موضوع انسان اور یہ جہان رہا ہے اس حوالے سے جواب میں وہ علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھتا ہے۔

خلقِ خدا کی گھات میں رند، فقیر، میر و پیر

تیرے جہان میں وہی گردش صبح و شام ابھی

تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست

بندہ ہے کوچۂ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

عباس خان کی افسانہ نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر انور سدید

 

عباس خان سے میرا پہلا تعارف ان کی کتاب ’’ دھرتی بنام آکاش‘‘ سے ہوا تھا۔ یہ افسانوں کی کتاب تھی جس کا ہر افسانہ دھرتی کی کسی کرب ناک کیفیت کو منظر پر لاتا اور اختتام پر افسانہ نگار آکاش کی طرف دیکھتا اور ایک حرفِ سوال ان کہے انداز میں ابھر آتا کہ

’’ اے انصاف کرنے والے اور اے دھرتی کو پیدا کرنے والے یہ سب کچھ کیا دیکھ رہا ہے ؟ ‘‘

میرا خیال تھا کہ کچھ عرصہ بعد عباس خان کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور ان کی افسانہ نگاری بھی ختم ہو جائے گی۔ لیکن اب میں اندازہ کرتا ہوں کہ جب تک دھرتی موجود ہے اس قسم کے سوالات ابھرتے رہیں گے اور فلک سے نالوں تک کا جواب نہیں آئے گا اور عباس خان کی افسانہ نگاری مشاہدات کے نئے نئے روپ ہمارے سامنے لاتی رہے گی۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ عباس خان سے میری پہلی ملاقات اور تا حال آخری ملاقات میں کم و بیش گیارہ سال کا فاصلہ واقع ہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے اپنے افسانوں کی نہ صرف متعدد کتابیں شائع کر دی ہیں بلکہ اب وہ افسانے کے مختصر میدان سے نکل کر ناول کی وسیع اقلیم میں بھی آ گئے ہیں۔ گویا وہ جس کرب سے ابتدا میں گزرے تھے، وہ ۱۹۹۰ء میں کچھ اور دبیر ہو گیا ہے اور اس کرب کا حدود اربعہ کم نہیں ہوا بلکہ اس کا مدار پھیل گیا ہے۔

دوسری تبدیلی یہ نظر آئی کہ عباس خان نے اپنی پہلی کتاب ’’ دھرتی بنام آکاش‘‘ سرگودھا سے شائع کی تھی اب ان کے ناشر نیاز احمد ہیں جن کا ادارہ سنگِ میل پبلی کیشنز ہے۔ جو ادبی کتابوں کی اشاعت میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔ اس وقت اردو زبان و ادب کے جتنے اہم مصنفین ہیں، سب اس ادارے کے دام محبت میں گرفتار ہیں۔ پچھلے دنوں اس ادارے سے منٹو نامہ شائع ہوئی تھی تو مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ نیاز احمد نے قرۃ العین حیدر سے ان کی تمام کتابوں کے حقوقِ اشاعت حاصل کئے اور انہوں نے حجاب امتیاز علی کی متعدد کتابوں کو یکجا کر کے چھاپنے کا منصوبہ بنایا تو مجھے اچنبھا نہیں لگا۔ یہ سب بڑے مصنفین ہیں اور ان کی کتابیں حسن و رعنائی اور زیب و زینت سے چھاپنے کے لئے سنگِ میل جیسے بڑے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے حیرت تو اس وقت ہوئی جب نیاز احمد نے عباس خان کے افسانوں کی کتاب بھی ایسے ہی خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی جیسے انہوں نے قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ شائع کی تھی۔ اب عباس خان کا ناول ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ چھپ کر آ یا ہے تو یقین جانیئے کہ یہ کئی دنوں تک شلف میں پڑا رہا اور میں اسے ہاتھ اس ڈر سے نہ لگاتا کہ کتاب میلی ہو جائے گی۔

آپ شاید اسے ایک بری عادت قرار دیں کہ میں کتاب پڑھتے وقت دونوں اطراف سے ترشی ہوئی سرخ اور نیلی پنسل اپنے پاس رکھتا ہوں اور اپنے پسند اور نا پسند کے حصوں پر نیلے اور سرخ نشانات لگاتا جاتا ہوں اختتام تک پہنچتے پہنچتے کتاب ’’ ارہر کا کھیت‘‘ بن جاتی ہے اور اس کا ہر صفحہ رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں ’’ نئی گلکاری‘‘ پیش کرتا ہے۔ عباس خان کا ناول پڑھتے وقت میں نے پنسل کو دانستہ ہاتھ نہیں لگایا۔ وجہ ظاہر ہے کہ میں کتاب کے حسنِ طباعت و کتابت و اشاعت کو مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس کتاب کے بند قبا کو کھولنے کے بعد جب میں نے اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کتاب نے ایک سرخ پنسل کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور یہ میرے نامہ اعمال پر جگہ جگہ نشان لگاتی چلی جا رہی ہے۔ میں ملزم ہوں اور الزام ثابت کرنے کے لئے دھرتی کے زخم اپنی گواہی منظرِ عام پر لا رہے ہیں میں فردِ جرم سن رہا ہوں لیکن ’’ ناٹ گلٹی‘‘ پلیڈ نہیں کر رہا۔

’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ غیر روایتی قسم کا ناول ہے، میں غیر روایتی ناول اسے قرار دیتا ہوں جو ’’ امراؤ جان ادا ‘‘ کے انداز میں لکھا جائے او جس پر ’’ اگلی‘‘ امریکن (ugly american ) کی تکنیک کا شعور غالب نہ آیا ہو، اس قسم کے ناول میں مصنف قصے کے زیر و بم کو تیکنیکی ضابطوں کا پابند نہیں بناتا، بلکہ لالۂ خود رو کی طرح اس کرب کو قاری کی طرف منتقل کرتا ہے جو الفاظ میں ظاہر نہ ہوتا تو مصنف کی جان لے کر ٹلتا۔ عباس خان نے بھی ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ کر تراشیدہ ہیرا بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے فطری صورت میں تراشیدہ ہی رہنے دیا چنانچہ آپ اسے جس زاویے سے بھی دیکھیں، یہ زخموں کی نئی صورتیں آنکھوں کے سامنے لاتا ہے اور تاثر کی نئی گرہ کھولتا ہے۔

’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ بظاہر معاشرہ کی دھتکاری ہوئی ایک لڑ کی کی کہانی ہے۔ یہ لڑکی جہاں آرا ہے جس کے باپ کی حیثیت پدری مشکوک ہے۔ وہ بھیک مانگتے مانگتے دنیا سے کوچ کر گیا ہے۔ لیکن جہاں آرا کی ماں بخت بھری زندہ ہے۔ وہ محرومیوں کے ہجوم میں زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ نہ اپنی بیٹی جہاں آرا کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر استعمال شدہ اور پچکے ہوئے خالی گھی کے ڈبے کی طرح پھینکنا چاہتی ہے۔ لہٰذا وہ ارتقا کا اگلا قدم اٹھاتی ہے۔ وہ اپنی بیوہ بیٹی کو نواب زادہ قیصر علی خان کے گھر ملازم کروا دیتی ہے، خود بھی نواب زادہ کے ڈیرے پر اُٹھ آتی ہے اور یوں دونوں بھکاریوں کا پیشہ چھوڑ کر گھریلو ملازمین کی با عزت صف میں شامل ہو جاتی ہیں۔

یہ اجمال اس ناول کا ابتدائیہ ہے جو آٹھ دس سطروں میں عباس خان نے پیش کر دیا ہے۔ اس کے بعد ناول کی ساری کہانی معاشرے کے ان واقعات کو پیش کرتی ہے جو اپنا رخ خود متعین کرتے ہیں لیکن جب مصنف کے سامنے لائے جاتے ہیں تو ہر شخص کے معاشرتی مقام کے مطابق اپنا روپ تبدیل کر لیتے ہیں۔ معاشرہ اس روپ کے مطابق گواہی فراہم کرتا ہے اور انصاف کرنے والا مبینہ شہادت کے مطابق فیصلہ دے دیتا ہے۔ جہاں آرا اور بخت بھری بھی اسی معاشرے کے دو کردار ہیں جو زندگی بھر بے انصافیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان دو عورتوں کے مدارِ حیات میں متعدد کردار ابھرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر ولی بننا چاہتا ہے تو کوئی تیشہ اٹھا کر فرہاد بننے کا متمنی ہے تو کوئی دیکھ کر اپنے آپ کو سکندر تسلیم کر رہا ہے اور کوئی سر منڈوا کر قلندر بنا پھرتا ہے۔ ان کرداروں میں سیفل اور نا تو جیسے بھکاری بھی ہیں جو محمد شجاعت بے قرار کے دلکشا کیفے کے سامنے بھیک کے ایک اڈے کے لئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور گل میر بھی جو حقوق زن و شومیِ کا مقدمہ مجید سے لڑ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ مجید مر چکا ہے لیکن عباس خان بتاتے ہیں مجید تو ابھی قید میں ہے، ہاں جہاں آرا مر چکی ہے جو اس ناول کا سب سے بڑا کردار ہے۔ اس کی اساس پر ہی یہ ناول تخلیق ہوا ہے اور اس کی بنیاد پر ہی پوری زندگی ہمارے سامنے آئی ہے۔ سارا معاشرہ بے نقاب ہوا ہے۔ لیکن ٹھہرئیے اس ناول کی تحریک میں ایک مقولہ بھی شامل ہے جو عرصہ تک عباس خان کے ذہن و خیال کے گرد منڈلاتا رہا اور پھر جب جہاں آرا کے خاندان پر چسپاں ہو گیا تو یہ مقولہ ناول ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ کی وجہ تخلیق بن گیا۔ مقولہ یہ ہے۔

’’ خواہشات اگر گھوڑے ہوتے تو صرف بھکاری اس پر سوار ہوتے ‘‘

اس بنیادی تھیسس میں عباس خان نے معاشرے اور عدالت کی لیبارٹری میں لے جانے کی کاوش کی ہے اور ہمیں ایسے ایسے مناظر اور واقعات دکھائے ہیں جو کسی پیشہ ور مصنف کی گرفت میں آ نہیں سکتے۔ اس ناول کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف ہمیں ہر جگہ موجود نظر آتا ہے۔ وہ دیکھی ہوئی حقیقت کو ہی بیان نہیں کرتا بلکہ واسطہ اور بالواسطہ طور پر اپنا ردِ عمل بھی پیش کرتا ہے اور معاشرے کے دوہرے تہرے معیارات کو منکشف کرتا چلا جاتا ہے۔ اس عمل میں عباس خاں نے متعدد تمثیلات پارینہ سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس قسم کی صورتِ حال جس سے ہم دوچار ہیں، ہر زمانے میں موجود تھیں، اس لئے اے برادرانِ اسلام! مایوسی کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دو۔ صادق قدروں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ اس قسم کی ایک تمثیل حسبِ ذیل ہے۔

لیکن پہلے بیانِ مصنف…

انصاف کا تصور ایک سطح پر بڑا دلچسپ ہے۔ زمانے قدیم کا تصور عدل اس واقعہ سے واضع ہے اور اب بیان واقعہ۔ ’’ حضرت ابراہیمؑ نے ایک مرتبہ لوطؑ کی عافیت و خیر معلوم کرنے کے لئے اپنے خالہ زاد بھائی الی عرز دمشقی کو سدوی روانہ کیا۔ یہ جب بستی کے قریب پہنچے تو ایک سدوی نے انہیں اجنبی سمجھ کر ان کے سر پر پتھر دے مارا۔ الی عرز کے سر سے خون جاری ہو گیا۔ ان کا خون بہتا دیکھ کر وہ سدوی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میرے پتھر کی وجہ سے آپ کا سر لال ہو گیا ہے اور خوبصورت بھی۔ آپ پر واجب ہے اس کا معاوضہ مجھے ادا کریں۔ آپ نے انکار کیا تو وہ سدوی اسے کھینچ کر حاکم سدوم کی عدالت میں لے گیا۔ حاکمِ سدوی نے مدعی کا بیان سننے کے بعد حکم دیا کہ الی عزر سدوی کو معاوضہ ادا کرے کیوں کہ وہ اس کا حق دار ہے۔ ‘‘

اس تمثیل کی معنویت عباس خان نے بیکن کے اس قول سے بھی واضح کی ہے کہ جج قانون کا ایک ایسا طالبعلم ہے جو اپنے امتحان کے پرچے خود مارک کرتا ہے۔ آپ اگر اپنے امتحان کے پرچے خود مارک MARK کرنا چاہتے ہیں تو عباس خان کے ناول کا مطالعہ کیجئے اس میں ذرا سی تاخیر بھی نا واجب ہو گی۔

٭٭٭

 

افسانہ کئی روپ بدل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ یقین جانئے کہ اس کا ہر روپ اپنی ندرت اور جدت کے سبب قارئین کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ پھر یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ کہ ہر بدلے ہوئے روپ کی بنیاد وہی روایات ہوتی ہیں جس سے انسانی فطرت کا رشتہ جڑا ہے۔

معروف قلم کار عباس خان کی کہانیوں کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر انسانی سوچ اور نفسیات کے علم بردار ہیں۔ کہانی کیا ہوتی ہے ؟۔۔ انسانی سوچ کا آئینہ ہی تو ہے۔ جسے ہم روزانہ سوچتے ہیں اور سنتے ہیں۔ اس کی کہانی ’’ راستہ ‘‘ کا کردار احمد علیم جو زندگی کو عذاب سمجھتا ہے اور پھر رات دن اس سے جوجھتے ہوئے اپنے سفرِ حیات کی تکمیل کرتا ہے تو کہانی ’’ مٹی کے بت ‘‘ کا مدثر معیار کے مقابلے میں حالاتِ زندگی اُسے سمجھوتے کی دہلیز تک کس طرح لے آتے ہیں۔ یہ اور اس قبیل کی دیگر مثالیں اُن کی فنی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادبی معراج کا پتہ دیتی ہیں۔

چونکہ کہانی فنکار کی ذاتی سوچ اور مشاہدات کا مظہر ہوتی ہیں، فنکار کا تجربہ اور مشاہدہ جس قدر گہرا ہو گا کہانی میں تاثیر بھی اسی مناسبت سے آئے گی۔

عباس خان نے اپنی مختصر کہانیوں میں ایسے ہی ذہنی رویوں، سوچ کے دائروں اور مشاہدوں کو لفظوں کا جامہ عطا کر کے کہانیوں کا روپ دینے کی کامیاب سعی فرمائی ہیں۔ انسانی نفسیات اور سوچ کے یہ شہہ پارے کہانی کاروں کی بھیڑ میں انہیں انفرادیت کے وقار سے بھی ہم کنار کرتے دکھائی دیتی ہے۔

توقع ہے کہ مستقبل میں بھی یہ روانیِ ادب کے کھیت کھلیانوں کو اسی طرح ثمر بار رکھیں گے۔

معین الدین عثمانی: انسانی سوچ اور نفسیات کا نمائندہ فنکار۔ عباس خان

٭٭٭

 

 

 

 

ناول۔۔ تُو اور تُو  ۔۔۔ آغا امیر حسن

 

عباس خان معاشرتی برائیوں کو نفرت اور کراہت سے دیکھتے ہیں اور ان کے خلاف وہ ہمیشہ قلمی جہاد میں مصروف رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کا یہ ناول اور سابقہ کتابیں ہیں۔ لیکن انہوں نے نفرت انگیز باتوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کبھی کراہت آمیز انداز میں نہیں کیا۔ وہ قارئین کے ذہنوں میں سرد پڑتی ہوئی نفرت کی چنگاریوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے سلگتا ہوا رکھنا چاہتے ہیں کہ کل کو وہ الاؤ بن کر ان معاشرتی برائیوں کو جلا کر راکھ کر سکیں۔

’’ تُو اور تُو ‘‘ دورِ جدید کی انسا نیت پر بھر پور طنز ہے۔ عباس خان کے اس خوبصورت ناول کا مرکزی کردار ’’شیطان‘‘ ہے جو اپنے نام سے وابستہ برائی اور بدی سے تنگ آ کر اپنا ’’ کردار ‘‘ بدلنا چاہتا ہے اور پھر اس کے انسان بننے پر ایک دلچسپ صورت حال شروع ہو جاتی ہے۔

انسان کے روپ میں شیطان اس کرۂ ارض پر جگہ جگہ بھٹکا لیکن انسانوں نے اسے کہیں چین نہ لینے دیا۔ اس کے سفر کا آغاز سعودی عرب سے ہوتا ہے جہاں انسان کے روپ میں وہ منظرِ عام پر آتا ہے، یہاں اسے غیر قانونی تارک وطن ہونے کی وجہ سے اسیرِ زندان ہونا پڑتا ہے۔ اس کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت کیا پیش کرے اور یہ کہاں سے حاصل کرے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسے شہریت اور شناخت مل سکتی ہے۔ اس لیے کہ۔۔ ۔ کون سا ایسا غیر قانونی کام ہے جو پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ وہ پاکستان پہنچتا ہے اور اسے دنیا میں رہنے کے لیے شناخت اور شہریت مل جاتی ہے۔ اب شیطان چونکہ صاف ستھری اور گناہوں سے پاک زندگی گزارنا چاہتا ہے، لہٰذا اسے پاکستان مناسب ملک محسوس ہوتا ہے۔ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت پہنچتا ہے وہاں اسے پاکستانی جاسوس قرار دے کر پکڑ لیا جاتا ہے۔ تفتیش کے اذیت ناک مرحلے سے گزرنے پر بے گناہ ثابت ہوتا ہے لیکن اسے بھارت چھوڑنے کا حکم مل جاتا ہے۔

شیطان بھارت سے انگلستان پہنچتا ہے۔ اسے قانون پسندمعاشرے میں ایک اچھی زندگی ملنے کی توقع ہوتی ہے لیکن یہاں ہم جنس پرستی، شادی کے بغیر ازدواجی تعلقات، کنواری مائیں اور بلیو فلمیں اس کے لیے نا قابلِ برداشت ہو جاتی ہیں اور وہ بہتر زندگی کے لیے امن پسند، قانون پسنداور جمہوریت پسند امریکہ کا رخ کرتا ہے۔ وہ امریکہ پہنچتا ہے تو یہاں بھی اسے نا قابلِ برداشت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نیویارک میں آٹھ گھنٹے بجلی بند رہی۔ ان آٹھ گھنٹوں میں کیا کچھ نہ ہوا۔ ہر سٹور لوٹا گیا، ہر وہ عورت جو دفتر میں تھی، کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی تھی یا شاپنگ میں مصروف تھی، مردوں کے رحم و کرم پر چلی گئی۔ ہر وہ آدمی مارا گیا یا زخمی ہوا جو کہیں بھی مزاحم ہوا۔

آٹھ گھنٹے میں اصل امریکہ باہر نکل آیا۔ امریکہ نے شیطان کو بحیثیت شیطان استعمال کرنا چاہا لیکن شیطان راضی نہ ہوا۔

اب شیطان جاپان پہنچا۔ پھر سویت یونین، روس کا رخ کیا لیکن انسانی کیفیات کو دیکھتے ہوئے اس کی مایوسی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ اس نے دیکھا کہ رنگوں، نسلوں، خطوں، مذاہب اور زبانوں کا فرق بے معنی ہے۔ اس زمین پر رہنے والے سن انسان اندر سے ایک جیسے ہیں۔ وہ پیٹ اور جنس کی خاطر زندہ ہیں۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اور جسے خیر و خوبی کا مرقع ہونا چاہیے اتنا گر گیا ہے کہ شیطان بھی زچ ہو کر اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ

’’ میں ان حالات میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ میری التجا ہے کہ مجھے فطری موت دے دی جائے۔ ‘‘

عباس خان کے اس ناول میں ان کا فن اپنے عروج پر اور تحریر کی کاٹ اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ حسبِ معمول انہوں نے اپنی سادگی اور شگفتگی سے کام لیا ہے۔ واقعات کا تانا بانا قاری کی دلچسپی مسلسل برقرار رکھتا ہے۔

٭٭

 

عباس خان کے افسانے کسی تحریک یا رجحان سے منسلک نہیں ہیں ان کے افسانوں کا بیانیہ پاور فل ہے۔ افسانہ اپنے کردار کے ساتھ قاری کے ذہن کو روشن کر دیتا ہے۔ اس کے یہاں تجربے نہیں ہے۔ بغیر کسی ابہام کے اپنے موقف کو بیان کر جاتے ہیں۔ ان کے افسانے میں کہانی زندہ ہے۔ کہانیوں میں انسانی نفسیات کی گرہیں کھولی گئی ہیں۔ آٹھ آنے کی مٹھاس، ان کے مجموعے کا ٹائیٹل افسانہ ہے جو متاثر کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں تمام تر فنی لوازمات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ طنز کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے افسانے قاری کو سوچ و فکر پر مائل کرتے ہیں۔ م۔ ناگ۔ ممبئی، مدیر صحافت ممبئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

عالمی ترقی یافتہ سماج پر لفظی یلغار  ۔۔۔ رفیق جعفر (پونے )

 (ناول ’’تو اور تو‘‘ کے حوالے سے )

 

عالمی ترقی یافتہ سماج پر لفظی یلغار کرنے والے عباس خان عصری اردو فکشن نگاری میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ عام یا عامیانہ ادب سے پرے یہ صرف صالح مقصدی ادب پسند کرنے والوں کے لئے لکھتے ہیں۔ اگر ادب کے عام قاری کو ان کی تحریر کی شوخی اور طنز کے تیرو نشتر کا تجربہ ہو جائے تو وہ عباس خان کے فکشن کا گرویدہ ہو جاتا اور مستقبل قاری بن جاتا ہے۔ ادھر ہند میں ان کے نام اور کام کی کم تشہیر کے باوجود یہ مخصوص ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے فکشن کے سنجیدہ مطالعے سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس تشہیری سائنسی دور میں ادب کی اہمیت کم سمجھی جانے لگی ہے لیکن یہ بات سو فیصد صحیح نہیں ہے۔ ادب اگر سلیقہ سے زمانے اور معاشرے کی عکاسی کرتا ہے تو وہ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عوام اور خواص کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرتا اور اپنی اہمیت منوا لیتا ہے۔ یہ بات سرحد پار کے معتبر فکشن نگار عباس خان پر بھی صادق آتی ہے کہ ملتان (پاکستان )میں بیٹھ کر یہ ادیب فکشن کی دنیا میں زرخیز زمینیں تلاش کر کے اردو گلشن کو اپنی کاوشوں سے سجا سنوار رہا ہے۔

عباس خان کے افسانے اور ناولیں عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ زبان اسلوب اور مواد کی رنگا رنگی ادب کے پرانے قارئین کو چونکاتی ہے اور نئے قارئین بھی پیدا کرتی ہے۔ میں نے ان کے صرف دو چار ہی افسانے پڑھے ہیں اور جب ان کا ناول ’’تواور تو‘‘ پڑھنے کو ملا میں چونکہ ان کے طرز نگارش سے واقف تھا اس لئے ناول کا مطالعہ، خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ پڑھنے میں لطف آیا اور اس پر لکھنے کی تحریک ملی، یہ کہنا سچ ہے کہ ان کی تحریر نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔

’’تو اور تو‘‘ کتاب دور جدید کی انسانیت پر ایک بھرپور طنز کے اعلان کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ یہ طنز طنز نہیں ایک وار ہے لفظی یلغار ہے جو شکار تک ضرور پہنچتا اور اپنا کام کر جاتا ہے، انوکھے موضوع کو دلچسپ انداز میں عباس خان نے رواں اور موزوں ترین زبان کے سہارے پیش کر کے موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کتاب کے تیسرے صفحے پر چند سطریں شائع کی گئی ہیں اس سے ناول کا موضوع سامنے آتا ہے۔

’’انسان کے روپ میں شیطان اس کرۂ ارض پر جگہ جگہ بھٹکا لیکن انسانوں نے اسے کہیں  چین نہ لینے دیا۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جسے خیرو خوبی کا مرقع ہونا چاہیئے وہ اپنی سلطنت میں اتنا گر چکا ہے کہ شیطان زچ ہو کر اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے ’’میں ان حالات میں بطور شیطان بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ میری التجا ہے کہ مجھے فطری موت دے دی جائے۔ ‘‘

ان سطروں میں کتاب کا موضوع صاف ہے اور یہی ناول کے پس منظر اور پیش منظر کی کہانی کی روح ہے یہی روح ناول کے ۱۵۹صفحات میں متحرک ہے۔ ہر صفحہ شیطان کی شریف انسان بن نے کی جد و جہد کا منظر نامہ پیش کرتا ہے اور انسان کی ابلیسیت کی داستان بھی بیان کرتا ہے۔ مسلم معاشرے کے ذریعے بیان کی گئی شیطان کی یہ کہانی اردو سماج کے لئے موزوں مناسب اور دلچسپ ہے۔ اس میں کئی کردار مہمان اداکار کی طرح آتے جاتے ہیں لیکن شیطان کو مرکزیت حاصل ہے۔ شیطان کے کردار کو تقویت پہچانے وجود میں لانے اور متحرک کرنے کیلئے سید محمد ہادی کا کردار اہم ترین ہے۔ اس کردار کے رول کی بنیادی اہمیت کو جاننے کے لئے ناول کے پہلے حصے کی تمہیدی سطریں ملاحظہ فرمائیں۔

’’خانہ کعبہ پہنچ کر سید محمد ہادی نے خدا تعالیٰ کے حضور فریاد کی ’’اے خالق و مالک کل کائنات، آپ سے پوشیدہ نہیں انسان کا دشمن اور آپ کا نا فرمان کبیر غم سے چور چور ہے۔ وہ خود کو پہچان چکا ہے۔ آپ کی رحمت بے کنار بہے۔ وہ معافی چاہتا ہے۔ اس کو معافی عطا فرما اور اس کو وہ روپ میسر ہو اور اس کے پاس وہ کچھ ہو جس کا وہ خواہش مند ہے۔ ‘‘ سید محمد ہادی کی دعا منظور ہوئی خدا تعالیٰ کے حکم سے شیطان کو خانہ کعبہ کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر لایا گیا اور ایک اٹھارہ سالہ خوبرو نوجوان بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ اس کی مطلوبہ اشیاء بھی تھی۔ اس کے ماضی کے متعلق یادداشت مدھم سی رہ گئی۔ جب کہ شیطانی قوت یکسر ختم ہو گئی۔ شیطان نے جب اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا تو خدا تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی خاطر وہیں سڑک پر سجدے میں گر گیا۔ اس کو سڑک پر سجدہ کرتے دیکھ ایک عرب اس کے پاس آیا۔ اس نے اتنے زور سے اس کو پاؤں سے ٹھوکر ماری کہ وہ پرے جا پڑا۔ (صفحہ نمبر28)

سید محمد ہادی جو کو اس ناول کی کہانی کا اہم ترین کردار ہے اس سے شیطان نے کبھی خواہش کی تھی کہ آپ نمازی ہیں، پرہیز گار ہیں، نیک ہیں آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو نیک دل سید محمد ہادی نے شیطان کے لئے دعا کی اور دعا قبول ہو گئی۔ وہ انسان کے روپ میں ملک عرب میں نمودار ہوا اور سجدہ میں گر گیا۔ جیسے ہی اٹھا ایک عرب کی لات نے اس کا استقبال کیا۔ عباس خان کے ناول کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ سعودی عرب سے وہ پاکستان جاتا ہے۔ امریکہ جاتا ہے۔ عرض ساری دنیا کا سفر کرتا ہے۔ طرح طرح کے بے مروت انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے تکلیف برداشت کرتا ہے۔ شیطانیت تو وہ اب چاہنے کے باوجود اختیار نہیں کر سکتا۔ پریشان ہو جاتا ہے۔ سوچتا ہے کہ انسان بن کر انسانوں میں آ کر تو وہ اور بھی پریشان ہو گیا۔ یہ انسان تو شیطان سے بڑھ کر نکلے۔ اب کیا کیا جائے۔

شیطان کے انسان کے روپ کے سفر کی صعوبتوں کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگار عباس خان نے ساری دنیا کے ممالک کی سیاست اور سماج میں پھیلی ہوئی بے چینی، قانون کے نام پر بد امنی، دھوکہ دہی، مکاری، مذہب بیزاری، اور اسی قسم کی بہت ساری بد اعمالیوں کا حقیقت آمیز ذکر کیا ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج یہ ترقی یافتہ دنیا کا انسان کتنا خود غرض، بیکار اور بدکار ہو گیا ہے اس نے شیطان کو بھی مات دیدی ہے۔ ناول میں واقعات اور حالات کی تبدیلی ناول پڑھنے والے کو باندھے رکھتی ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز حادثات جو شیطان کے ساتھ پیش آتے ہیں اس سے قاری واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور شیطان کے انسان کے روپ میں آ جانے کے پچھتاوے کا وہ قائل ہو جاتا ہے۔

یہاں مصنف کے بیان کی چند سطریں اس ناول کی تیاری کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔

’’کئی کتب، رسائل، اخبارات میرے مطالعے میں رہتے ہیں۔ ان سے حاصل کردہ معلومات

کہیں کہیں ناول میں در آئی ہیں۔ سوائے ایک کتاب کے مجھے یاد نہیں کہ کس کتاب رسالے یا

اخبار سے کونسی معلومات لی گئی اور معلومات دینے والے کون ہیں۔ چنانچہ مخصوص حوالہ دینے

سے قاصر ہوں میں بہر حال متعلقین کی فیض رسانی کا معترف ہوں ‘‘ (صفحہ نمبر22)

مصنف کا یہ اعتراف ان کی اعلی ظرف کی دلیل ہے اگر مصنف اس کا اظہار نہ بھی کرتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ کہانی تو کہانی ہوتی ہے۔ مصنف نے ناول میں شامل حکایات، واقعات اپنی تخلیق کردہ کہانی کی ضرورت کے لحاظ سے لیے ہیں۔ یہ تخلیق ان کی اپنی ہے۔ داستان انھوں نے گڑھی ہے اور زیب داستان کے لیے مطالعے کا سہارا لیا ہے۔ عباس خان کا اس موضوع پر لکھنے کا فیصلہ غیر معمولی اور چونکانے والا ہے کہ انھوں نے شیطان کی ارضی کہانی بیان کر کے موجودہ دنیا کے انسانوں کے کرتوتوں کو سامنے لایا ہے۔ حالات کو ایک ایسے آئینے خانے میں لا کھڑا کیا ہے جہاں بلا تفریق مذہب ملت عقائد اور رنگ ونسل ہر شخص اپنا مکروہ چہرہ دیکھ کر عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ سوچ سکتا ہے کہ انسان کے روپ میں آیا شیطان بھی ہم سے نفرت کرتا ہے اور ہم میں وہ رہنا پسند نہیں کرتا اور فطری موت مرنا چاہتا ہے۔ یہ آج کے انسان سے نفرت کی انتہا ہے۔ عباس خان کی عالمی ترقی یافتہ سماج پر یہ لفظی یلغار لاجواب اور فکر انگیز ہے جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

زخم گواہ ہیں  ۔۔۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام حسین بلوچ

 

 

فرانسیسی مفکر روسو نے اپنی آپ بیتی ’’ اعترافات‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ایسی کتاب لکھی گئی ہے اور نہ لکھی جائے گی۔ ان کی تدفین کے وقت اس کا نسخہ اس کے کفن میں رکھ دیا جائے۔ صور اسرافیل پھونکے جانے پر میدانِ حشر میں جب سب لوگ جزا و سزا کے لیے دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہوں گے تو وہ ان کے ساتھ اعترافات کے اس نسخے کو ہاتھ میں لیے اپنی قبر سے باہر آئے گا اور اللہ تعالیٰ سے کہے گا کہ اے ربِ عظیم ! وہ بہت بُرا انسان تھا۔ اپنی مخلوق کو اس کے ارد گرد اکٹھا کر کے اس کو کہے کہ وہ اس حالتِ زار پر اس کو برا بھلا کہے لیکن یہ بھی پوچھ لے اس سب مخلوق میں ہے کوئی ایسا ہے جس نے زندگی میں جو کوئی برا کام کیا ہو اس کا اس طرح اعتراف کیا ہو؟

’’زخم گواہ ہیں ‘‘ جو کہ ایک ناول ہے اس کے متعلق اس قسم کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی کتاب لکھی گئی ہے اور نہ لکھی جائے گی لیکن اس کو اعترافات کے قبیلے کی ایک کتاب کہا جا سکتا ہے۔ اس میں مصنف کے جو کہ ایک جج ہے، مشاہدات ہیں۔ یہ مشاہدات ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کے بارے میں ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام روسو کے انداز میں اپنے اعترافات کرتا نظر آتا ہے۔

عدل کا شعبہ یوں تو ہر معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے مگر مسلمانوں کے تو یہ ایمان کا حصہ ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ اس دنیا کے ہر انسان کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے عدل کے تابع ہے جو وہ روزِ قیامت فرمائے گا۔ اس دنیا میں بھی وہ عدل فرماتا رہتا ہے۔ اس نے یہ صفت انسان کو عطا کی ہے۔

انسان کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب حضرت علامہ اقبال کے الفاظ میں موزوں رہے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے انسان کے متعلق مخاطب ہو رہے ہیں۔

یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا

کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا

نہ خود بیں، نہ خدا بیں نہ جہاں بیں

یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟

انسان اپنی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ اس کو بھٹکانے والی اس کی خواہشات کی چڑیلیں ہیں۔ چنانچہ حضرت علیؑ کو اپنے خطبے تمام عالم کو وسیاست نامہ میں نظام الملک طوسی کو، اپنے بادشاہ ملک شاہ سلجوقی کو، یہ بات یاد دلانی پڑتی ہے کہ سلطنت کو قائم رکھنا ہے تو عدل کو اہمیت دو۔ عدل کے اس مقام کے پیش نظر، یہ بات جاننے کے باوجود کہ پاکستان کے نظام عدل پر تنقید مناسب نہیں، ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ کے مصنف نے قلم اٹھایا ہے۔ یہ اس کی اخلاقی جرأت کی بہترین مثال ہے۔

فکشن کی دنیا میں اس موضوع پر مصر کے توفیق الحکم کے ناول ’ انصاف کی بھول بھلیاں ‘ کی ایک مثال دی جا سکتی ہے، پر اس کے موضوع پر اظہار، محدود ہے۔ اس کے مقابلے میں ’ ’ زخم گواہ ہیں ‘‘ تفصیلات سے بھرا پڑا ہے۔

جب یہ ناول شائع ہوا تو اس میں کام کرنے والے کچھ طبقوں کے کچھ افراد نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ امکان تھا کہ وہ مصنف کے خلاف کچھ کر کے چھوڑیں گے لیکن جلد ہی تفہیم کی فضا قائم ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے کہ اس میں بیان کردہ مشاہدات حرف بہ حرف درست ہیں۔ جب یہ درست ہیں تو پھر گلہ کیسا۔ انہوں نے بلکہ اس بات کی تائید کی عیاں کردہ خامیوں کو دور کیا جائے۔

ناول کا پلاٹ اس طرح ترتیب دے گیا ہے کہ قاری کچہری کی سر زمین پر کسی انصاف کے متلاشی کے پہلے قدم سے لے کر تقریباً عدالت کے فیصلے تک ہر ہر مرحلے سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس کے سامنے عرائض نویسوں، اسٹام فروشوں، وکلاء کے منشیوں، گواہان، وکلاء، عدالت کے اہل کاروں اور ججوں کی شخصیات کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری اس عرائض نویس سے ملتا ہے جو کہتا ہے کہ اس کو خاص اجرت دی جائے تو وہ ایسا دعویٰ لکھ دے گا کہ اس کو پڑھ کر جج کو کمرہ عدالت گھومتا نظر آئے گا۔ عام اجرت میں صرف سادہ دعویٰ لکھا جا سکتا ہے۔ قاری اس ریڈر عدالت سے ملتا ہے جو جج کی چھٹی کے دوران مسلوں پر لکھتا ہے کہ افسر جلیس صاحب رخصت اتفاقیہ پر تشریف فرما ہیں، لہٰذا مسل داخل دفتر ہووے۔ اسی میدان میں وہ تعمیل کروانے والا جو صوبہ پنجاب کی تعمیل کے متعلق رپورٹ لکھتا ہے کہ صوبہ پنجاب ترک سکونت ہے۔ اس کا درست پتہ لیا جائے تاکہ مقدمہ کی اس کو اطلاع دی جا سکے۔ پھر وکیلوں کے منشی ہیں جو اپنے وکیلوں کے پاس موٗکل گھیر لاتے ہیں۔ ان سے مختلف حیلوں بہانوں سے رقم بٹورتے ہیں۔ اور مؤکلوں اور عدالت کے اہل کاروں کے درمیان لین دین کا کام کرتے ہیں۔ قاری کا آمنا سامنا وکلاء صاحبان سے بڑے زور شور سے ہوتا ہے۔ ایک وکیل صاحب دعویٰ دائر کئے بغیر اپنی طرف سے مؤکل کو تاریخیں دیئے رکھتے ہیں۔ دوسرے جج کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور تیسرے نے ہر پھڈے میں ٹانگ اڑا رکھی ہے۔ وہ نائب تحصیلدار اور سول جج کی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ اور بورڈ آف ریونیو تک ہر عدالت کے کیس لے لیتا ہے۔ وہ بر سر نہیں آتے لہٰذا اس کے مقدمات طویل عرصے تک دھکے کھاتے رہتے ہیں اور چوتھے وکیل صاحب چوری کی مقدمے میں ملزم کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ملزم اونٹ چرانے گیا تھا۔ اونٹ کہیں گیا ہوا تھا۔ ملزم نے دیکھا کہ بیل رسہ تڑ وا کر ادھر اُدھر گھوم رہا ہے۔ چنانچہ وہ بیل کو لے کر چل پڑا۔ ملزم کی نیت اونٹ چرانے کی تھی نا کہ بیل کی۔ نیت نہ ہونے کی وجہ سے جرم نہیں بنتا۔ قریب ہی اسٹام فروش بیٹھے ہیں جو اسٹام بلیک کر تے ہیں۔ گواہوں میں سے خان گل گواہ کا تذکرہ کافی ہو گا۔ وہ حقیقتوں کو خوبصورت طریقے سے چھپاتا ہے۔ جرح میں گواہ مذکور سے پوچھا جاتا ہے کہ مدعیہ کے باپ کا رنگ کیسا ہے۔ موصوف جواب دیتا ہے کہ اس کا رنگ سفید تھا لیکن دھوپ میں پھرنے کی وجہ سے کچھ کالا ہو گیا تھا۔ اس کے قد کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا قد لمبا تھا لیکن بڑھاپے کی وجہ سے وہ جھک گیا تھا اس لئے وہ کچھ چھوٹا چھوٹا لگتا ہے۔ اس سے پھر پوچھا جاتا ہے اس کی داڑھی تھی کہ نہیں ؟ جواب آتا ہے کہ وہ قلندر آدمی تھا لہٰذا کبھی داڑھی رکھ لیتا تھا اور کبھی منڈوا ڈالتا تھا۔ آخر میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس بیماری سے مرا تو گواہ بتاتا ہے کہ آہ، بیماری کا پتہ چلتا تو علاج نہ کر لیتے۔ آ خر میں جج صاحب قاری کو ملتا ہے۔ عدالت کی بے جا بحثیں سن سن کر اس کا معدہ خراب ہے، اس کو آدھے سر کا درد رہتا ہے اور شوگر کا عارضہ لاحق ہونے والا ہے۔ اس کا دماغ بُز اخفش کی طرح ختم ہو رہا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ بے جا بحث سے جان چھڑوانا مشکل ہے تو وہ ادھر سے توجہ ہٹا کر خیالی دنیا میں کھو جاتا ہے۔

ناول میں مقدمات کی مسلیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ عدالت میں دو کیس چل رہے ہیں۔ ان میں ایک تنسیخ نکاح کا ہے اور دوسرا بیوی گھر آباد ہونے کا جو خاوند نے جواباً کر رکھا ہے۔ دوران سماعت بیوی مر جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دونوں دعوے ابھی چل رہے ہوتے ہیں کہ بیوی مر جاتی ہے۔ خاوند کا وکیل بیوی کے ورثاء کو مسل پر بطور اس کے قائم مقامان لانا چاہتا ہے اور ان کے ورثاء میں صرف اس کی ماں ہے۔

ناول یہیں تک محدود نہیں۔ یہ انسان کے بخت کی سیاہی اور انسان کی حسرتوں کے خون سے پینٹ کیا گیا ایک مرقع بھی ہے۔ اس کا مرکزی کردار بخت بھری ہے جس کی آرزوئیں کئی کئی میل دور نکل جاتی ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لیتیں۔ وہ قدم قدم پر اپنی تمناؤں کے خون کا قصاص مانگتی نظر آتی ہے۔ اس کی بیٹی جہاں آرا ہے۔ زندگی میں خوشیوں کی خاطر وہ اس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔ تیسرا کردار گل میر کا ہے۔ انگریزی زبان کی طرف مائل ہو جانے پر اس کا وکیل اس کو گول میر بلاتا ہے۔ بخت بھری کے نزدیک گل میر امیر ہے کیونکہ اس کے پاس گدھے ہیں ’ مٹی اٹھانے کے بورے ہیں ‘ کسیاں ہیں اور اپنا گھر ہے۔ وہ جہاں آرا کا نکاح اس سے کر دیتی ہے۔ درمیان میں مجید وارد ہو جاتا ہے۔ وہ کراچی سے پیسے کما لاتا ہے اور چالاکی و ہوشیاری سیکھ آتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جہاں آرا کی اس سے شادی ہو اس لیے تنسیخ نکاح کے لیے معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے۔

تکنیکی طور پر ناول کا انداز نیا ہے۔ ناول کے کئی باب ہیں۔ تقریباً ہر باب کے شروع میں موقع کی مناسبت سے مضمون کی صورت میں باتیں لکھی گئی ہیں۔ یہ باتیں بہت ساری اہم معلومات مہیا کرتی ہیں۔ ناول میں تاریخی واقعات ہیں، شعر و شاعری ہے اور چٹکلے ہیں۔

کسی نے عدالت میں کوئی کیس کرنا ہے یا کسی نے کسی کیس کا دفاع کرنا ہے تو وہ پہلے اس ناول کو پڑھ لے۔ قانون کے طالب علموں کے لیے اس کا مطالعہ ضروری قرار دیا جائے تا کہ وہ عملی زندگی میں طریقہ حصولِ انصاف کا کوئی عمدہ تصور لے کر داخل ہوں۔

اس ناول کا مصنف کہہ سکتا ہے کہ اس کے مرنے پر اس کا ایک نسخہ اس کے کفن میں رکھ دیا جائے تا کہ روز محشر جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو تو اس کو ہاتھ میں لیے اس کی سرکار میں عرض کرے۔ ’’ حضور! اس منصب کے دوران اس نے جہاں دیانت داری سے اپنا فرض سر انجام دیا وہاں قلم سے جہاد کا فرض بھی نبھایا۔ اس کی اس کاوش پر اس کو بخشش کا حکم صادر فرمائیے۔ ‘‘

٭٭

 

عباس خان کے افسانوں کو پڑھ کر مجھے ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا، میں ان کے کوائف سے واقف نہیں تھا۔ ان کے افسانے پڑھ کر میں جھومتا رہا اور عش عش کرتا رہا کہ بالکل نئے لب و لہجے میں نئے انداز میں قصہ بیان کرنے والے سامنے آ گئے ہیں۔ جن کے ہاتھوں اُردو فکشن کا مستقبل یقیناً محفوظ ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ عباس خان ستر سے اوپر کے ہیں اور اب مجھے رشک آ گیا کہ جس دوڑ میں لشٹم پشٹم ہم سب کس طرح شامل تھے۔ اُس دور کا اگلا مسافر ہم سے کتنی دور نکل گیا اور ہم غبار دیکھتے رہے۔

عباس خان کے افسانوں کو پڑ ھ کر شدت سے یہ احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے کسی پیش روکا اثر قبول نہیں کیا اور اپنے لئے بالکل نئی راہ نکالی جو ان کی شناخت میں بھی معاون ثابت ہوئی۔ انہیں جو بات کہنی ہوتی ہے اسے وہ اس انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ ذرا بھی بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا، وہ ناک پر انگلی رکھنے کے لئے اپنے ہاتھ کو نہیں گھماتے، انہیں افسانہ لکھتے وقت کسی تمہید کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بے دھڑک اپنی بات کہہ دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ادراک پر فوراً ایک نشانہ سا لگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ عباس خان لفاظ کے قائل نہیں بلکہ وہ اسے بہت احتیاط کے ساتھ خرچ کرنا جانتے ہیں۔ کرافٹ من شپ (Craftsmanship) کو جس طرح انہوں نے برتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں، در اصل وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

عباس خان کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شعور واحساس کی ساری کھڑکیاں کھل گئی ہیں اور ان سے تازہ اور خوشگوار ہوائیں آ رہی ہیں۔ پروفیسر عبد الصمد۔ پٹنہ

٭٭٭

 

 

 

 

عباس خان کی ناول نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر پرویز شہریار (نئی دہلی)

 

عباس خان کی شخصیت بر صغیر ہند و پاک کے سنجیدہ ادبی حلقوں میں محتاج تعارف قطعی نہیں ہے۔ آپ کا شمار دونوں ممالک کے اُن ادیبوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی متواتر تحریروں کے ذریعے بہت تیزی سے آسمانِ ادب پر اپنے فکشن کے ذریعے نئی بلندیاں سر کی ہیں اور اس کے اُفق پر اپنے دستخط درج کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

گذشتہ دہائیوں میں فکشن کی دُنیا میں ایک زبردست بدلاؤ آیا ہے۔ ناقدینِ ادب کی دیرینہ شکایت تھی کہ اردو فکشن میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انھیں اپنی رایوں پر اب نظر ثانی کرنے کی ضرورت در پیش آ گئی ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں بھی افسانوی ادب کے آفاق کی مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ نئی بلندیاں طے کی جا رہی ہیں اور موضوعات کی نئی کہکشاؤں کا تیزی سے ظہور ہو رہا ہے۔

کوئی ایک دو نام ہوں تو اُن کا شمار بھی کیا جائے، حالیہ برسوں میں درجنوں معرکۃ الآرا ناول ہندوستان میں اور اتنے ہی ناول پاکستان میں بھی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں جو کہ ایک نئی سحر کی آمد کے نقیب معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ناول صرف گذشتہ اکیسویں صدی کے اولیں دہائی میں وجود میں آئے ہیں اور یقیناً ان ناول نگاروں نے اپنے سماج کو اپنے ماحول کو اور اپنے گرد و پیش کی آبادی کو گہرائی سے متاثر کیا ہے۔ ادبی سماجیات کے مطالعے سے اس پر مزید روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس دور کے افسانوی ادب سے سیاسی اور تہذیبی اقدار کی نمایاں تبدیلیوں کا انکشاف بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس طرح سماج ادب کو متاثر کرتا ہے، اسی طرح ہر دور کا ادب بھی اپنے متداول سماج اور اس کی ثقافت کو بدلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

ناول کے ارتقا کے اس تناظر میں عباس خان کا ناول ’زخم گواہ ہیں ‘ بھی اپنے سنجیدہ ادبی حلقے کو بدرجہ احسن متاثر کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے اس سے پہلے ’ میں اور امراؤ جاں ادا‘ کے علاوہ ’تو اور تو‘ کے ذریعے بھی اپنی شناخت مستحکم کرا ئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عباس خان نے ’ دھرتی بنام آکاش‘، ’تنسیخ انسان‘، ’قلم، کرسی اور وردی‘، ’اس عدالت میں ‘ اور ’جسم کا جوہڑ‘ جیسے افسانوی مجموعے کے ذریعے افسانوی ادب کے دامن کو نئے موسم کے پھولوں سے بھرے ہیں۔ عباس خان افسانچے بھی لکھتے رہے ہیں اور ان کی زود نویسی کا یہ عالم ہے کہ اب تک ان کے کئی عدد افسانچوں کے بھی مجموعے منظر عام پر آ کردادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے نام یوں ہیں: ’ستاروں کی بستیاں ‘، ’ریزہ ریزہ کائنات‘ اور ’پل پل‘ وغیرہ۔ اس کے علاوہ، ’دن میں چراغ‘ ان کے اخباروں میں لکھے کالموں کا مجموعہ ہے۔ جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مجموعہ کا انگریزی میں "Light Within” کے نام سے ترجمہ ہو چکا ہے جو بہت مقبول ہوا اور اس کے دادو تحسین کا سلسلہ انگریزی میں "Light Within” کے نام سے ترجمہ ہو چکا ہے جو بہت مقبول ہوا اور اس کے دادو تحسین کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ تا دمِ تحریر فلسفیانہ موضوع پر مبنی عباس خان کی ایک کتاب اور منصۂ شہود پر آ گئی ہے جس کا نام ہے، ’سچ‘ اور ’دراز قد بونے ‘ جو کہ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ یہ اپنے آپ میں اسمِ بامسمیٰ ثابت ہوا ہے کیونکہ اس میں انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ

قد آور ہو گئے خاموش جب سے

بہت بڑھ چڑھ کے بونے بولتے ہیں

عباس خان کے ناول ’زخم گواہ ہیں ‘ پر بحث کے آغاز سے قبل میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو بے محل نہ ہو گا۔ ان کا اصلی نام غلام عباس خان ہے لیکن قلمی نام صرف عباس خان ہی لکھنا پسند آیا۔ چنانچہ، اس حوالے سے فرزندِ علامہ اقبال انھیں عباس چہارم کہا کرتے ہیں۔ عباس خان کی پیدائش دستیاب ریکارڈ کے مطابق 15 دسمبر1943ہے۔ آپ کی پیدائش صوبۂ پنجاب کے ضلع بھکر کے ایک تحصیل بستی گجہ میں ہوئی، جہاں سے دریائے سندھ خاموشی اور گہرائی کا پیغام اپنے کناروں پر آباد باشندوں کو صبح و مسا دیتا رہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عباس خان کی شخصیت میں بھی مفکرانہ گہرائی اور گیرائی جزو لاینفک کے طور پر جمع ہو گئی ہیں۔ عباس خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قانون اور سیاسیات میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ کا تعلق زمیندار خاندان سے تھا۔ لہٰذا، عدلیہ اور احتساب کی سرکاری ملازمت یعنی جج کے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد انھوں نے زمینداری کو اپنا تا حیات مشغلہ بنا رکھا ہے۔ ان کے قلم کی جولانی سب سے پہلے 1966 میں ’آخری شام‘ کے نام سے ایک افسانے کی شکل میں منظر عام پر آئی اور پھر اس کے بعد سے دادو تحسین کا ایک سلسلہ جو شر وع ہوا تو وہ آج تک جاری ہے۔

عام حالات میں کسی ناول پر بات کرتے ہوئے اس کے متن سے مکالمہ کرنا ہی کافی ہوتا ہے لیکن ’زخم گواہ ہیں ‘ ایک ایسا ناول ہے جس کا موضوع بہت ہی نازک اور خطرناک قسم کا ہے۔ اس موضوع پر لکھنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس موضوع سے ناول نگار کا تعلق بہت گہرا ئی سے مربوط رہا ہے۔ اس لیے، ناول نگار عباس خان کے عہدے کا ذکر یہاں لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اس ناول کا موضوع پاکستان کی عدلیہ ہے۔ ایک ایسے ملک کی عدلیہ جسے مملکت خداداد سمجھا جاتا  ہے۔ جہاں عدل و انصاف کو ایمان کا لازمی جُز تصور کیا جاتا ہے، جہاں کی موجودہ صورتِ حال نہ صرف اس وقت طوائف الملوکی سے دو چار ہے بلکہ یہ صورتِ حال پہلے بھی کچھ بہتر نہیں تھی۔ تبھی تو اس حالت زار کو دیکھ کے علامہ اقبال کو کہنا پڑا تھا ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ ناول1984 میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس وقت صورت حال اس سے مختلف تھی۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام کا سیاسی پارٹیوں سے تشکیل شدہ حکومت پر اعتماد ہو یا نہ ہو لیکن ملک کی عدلیہ پر اعتماد ضرور ہوتا تھا۔ کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کا دارومدار اس ملک کی عدالت اور اس کے عدالتی نظام پر ہوتا ہے۔ عدالتوں کا سر براہ جج ہوتا ہے اور یہاں ’زخم گواہ ہیں ‘ میں ناول نگار خود ہی جج رہ چکا ہے۔ جج کے عہدے پر فائز رہ کر فاضل ناول نگار نے عدالت کی تمام تر کار روائیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اوراس کی خامیوں کا بچشم خود مشاہدہ بھی کیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مقدس صحائف گیتا، بائیبل اور قرآن کو ہاتھ میں لے کر حلف لیا جاتا ہے کہ جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے کچھ نہ کہوں گا۔ اس حلف برداری کے بعد جو بھی ہوتا ہے، اس سے ہم اور آپ سبھی لوگ واقف ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا کذب بیانی سے یہاں کام لیا جاتا ہے، اس سے زیادہ کسی اور سماجی ادارے میں نہ لیا جاتا ہو گا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اُس ناول نگار کا جو روزانہ کے منافقانہ امور کا خود چشم دید گواہ رہا ہو اُس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس کا ضمیر یہ سب کچھ کس طرح برداشت کرتا ہو گا۔ بے حسی اور بات ہے لیکن ایک حساس شخص کے لیے جو ایک فنکار بھی ہو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھنے جیسا رد عمل ظاہر کرنا کس قدر اذیت ناک اور صبر آزما رہا ہو گا۔ وہ بھی ایک دو نہیں ملازمت کی پوری مدت اس کی شہادت میں جس نے گزاری ہو، اس کا قلم بھلا کیونکر خاموش رہ سکتا تھا۔ لہٰذا عباس خان نے اخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے قلم کو اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیا اور عدالتی نظام کے کمزور پہلو ؤں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا تاکہ اس تلخ و تند تریاق سےامراض کا صفایا کیا جا سکے گا۔ سماج کے ایک انتہائی حساس ادارے کے جسم کے متاثرہ عضووں کی جراحی کی تاکہ فاسد مواد کا اخراج ہو سکے اور عدل و انصاف کی روح بحال ہو، اُس کی تطہیر ہو جائے اور معاشرہ شیشے کی طرح شفاف نظر آنے لگے۔ اپنی طنز کی نشتر زنی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس ناول میں جہاں کہیں بھی موقعہ ملا ہے تہذیبی اقدار کے منافقانہ رویوں کا مزاحیہ پیرائے میں استہزا اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اُن کے پیشِ نظر مقصد صرف اور صرف اِصلاح معاشرہ رہا ہے۔

ناول کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان مر جاتا ہے لیکن اس پر عدالت میں چلنے والی مقدمہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ Delay in justice is denial of justice یہ کسی بھی مہذب سماج کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھتے وقت ہر کوئی محتاط رہنا چاہتا ہے، مبادا توہینِ عدالت اور استہزا کا معاملہ نہ درج ہو جائے۔ لہٰذا، عباس خان اس نظام کی کوتاہیوں پر قلم اُٹھاتے وقت طنز و مزاح کا پیرایہ اظہار اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا ورنہ اس تحریر پر بھی ایک لامتناہی شنوائیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا اور مصنف کو منصف کے سامنے ملزم کے کٹہرے پر کھڑا ہونا پڑ سکتا تھا۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے کیونکہ سعادت حسن منٹو جیسے عظیم افسانہ نگاروں نے بھی اس خواہ مخواہ کی آگ سے اپنا دامن بچانے کے لیے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ جیسے افسانچے لکھے تھے جس کا اندازِ بیان طنزیہ و مزاحیہ تھا۔ ان کے پیشِ نظر بھی مقصد وہی نشتر زنی کے ذریعے سماج کے مفلوج حصوں کی جراحی کرنی تھی، تاکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے نام سماج کے نہاد اور خودساختہ ٹھیکیداروں کے دماغ سے تعصبات کے کیڑوں کو نکالا جا سکے۔

’زخم گواہ ہیں ‘ کے قصے کا لبِ لباب یہ ہے کہ دو مقدمات عدالت میں فیصلے کے لیے زیر غور ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمہ مجیدؔ کا ہے، جسے ہم ناول میں ویلن کہہ سکتے ہیں۔ اُس نے نکاح کے تنسیخ کا مقدمہ چلا رکھا ہے۔ دوسرا بیوی کے گھر آباد ہونے کا ہے جو اسی مذکورہ مقدمے کے جواب میں جہاں آرا کے شوہر گل میرؔ نے خود اپنی بیوی کو حاصل کرنے کی خاطر دائر کر رکھا ہے۔ گل میر کو ہم اس ناول کا ہیرو مان سکتے ہیں۔ چھ سات سال کا عرصہ بیت جاتا ہے اور وکیلوں کی مہربانی سے تاریخ پر تاریخ پڑتی جاتی ہے۔ کبھی جج نہیں تو کبھی وکیل نہیں تو کبھی گواہ نہیں تو کبھی دستاویز نہیں اور کبھی سب کچھ میسر آ جائے تو غیر ضروری جرح کی طوالت سے مقدمہ آگے کھسکنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔ اوپر سے وکیلوں کی فیس بھرنے کے لیے موکلوں کو غیر قانونی طریقے سے روپے حاصل کرنے پڑتے ہیں، اس پر انھیں جیل ہو جاتی ہے اور وہ مزید مقدموں میں پھنس جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں آرا ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اوراس سے پہلے کہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچے، جہاں آراؔ کی موت ہو جاتی ہے۔ لیکن اس پر بھی مقدمہ ختم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ شوہر کا وکیل بیوی کے ورثاء مسل اور قائم مقام کے طور پر جہاں آرا کی ماں بخت بھریؔ جو کہ تب تک اندھی ہو کر سڑک پر بھیک مانگنے لگتی ہے، اس پر مقدمہ چلانا چاہتا ہے کیونکہ اب جہاں آرا کی وہی واحد وارث ہے۔

ناول کا پلاٹ کچھ اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ عدالت میں کسی موکل کے قدم رکھنے سے لے کر فیصلہ ہونے تک کے سبھی مراحل سے اور اس کے سبھی پیچ وخم سے قاری پوری طور پر واقف ہو جاتا ہے۔ عدالت کے ماحول ہے، میں اسٹامپ پیپر سے لے کر منصف کے فیصلے تک جتنے بھی عدالتی امور ہیں، اس سے وابستہ افراد سے سابقہ پڑتا ہے۔ نظامِ عدلیہ ایک الگ ہی دُنیا کا نام ہے، جہاں کسی عام انسان کا روز مرہ کی زندگی میں گزر نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بار کوئی اس چکر ویو میں پھنس جائے تو پھر ابھیمنو کی طرح تمام عمر باہر نکلنے کا سراغ ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔ خود عباس خان نے ناول کے ابتدائی صفحات پر چند مقولات نقل کیے ہیں، جن سے عدالت کے اند باہر کے پُر اسرارکاروبار کی نقاب کشائی ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں ان اقوال کا ذکر بے محل نہ ہو گا:

’’وکیل ایک ایسا تعلیم یافتہ انسان ہے جو آپ کی جائیداد آپ کے دشمنوں سے بچا کر خود رکھ لیتا ہے۔ ‘‘ (لارڈ برائم)

’’اگر قانون کی زبان ہوتی تو وہ سب سے پہلے قانون دانوں کی شکایت کرتا۔ ‘‘

(لارڈ ہیلی فاکس)

’’جج قانون کا ایک ایسا طالب علم ہے جو اپنے امتحان کے پرچے کود مارک کرتا ہے۔ ‘‘ (بیکن)

ان مقولات میں طنز کی مختلف جہات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک شگفتگی بھی ہے، مزاح کی چاشنی بھی ہے اور طنز کی کاٹ بھی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار میں ایک نسوانی کردار بخت بھریؔ کا ہے۔ دوسری اس کی بیٹی جہاں آرا ہے اور تیسرا نرینہ کردار گل میرؔ کا ہے۔ جہاں آرا کی نظر میں گل میر ایک اچھا شوہر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نان و نفقہ کا انتظام کرنے کے لیے چند گدھے ہیں، مٹی ڈھونے کے بورے ہیں، کسیاں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ سر چھپانے کے لیے اپنا گھر ہے۔ جہاں آرا کی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر اس کی ماں بخت بھری اپنی بیٹی کا نکاح گل میر سے کرا دیتی ہے۔ لیکن کہانی میں دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب درمیان میں کہیں سے مجیدؔ آ ٹپکتا ہے۔ وہ کراچی شہر سے خوب پیسے کما کر لاتا ہے۔ شہر میں رہ کر چالاک اور ہوشیار ہو جاتا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ جہاں آرا کی اس سے شادی ہو جائے۔ اس لیے تنسیخ نکاح کی خاطر عدالت میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔

کردار کے انتخاب میں عباس خاں نے اشتراکی نظریے سے قربت کا ثبوت دیتے ہوئے سماج کے بالکل ہی نادار طبقے سے کردار لیے ہیں جن کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھیک مانگ کے اپنے گذر اوقات کر رہے ہوتے ہیں۔

اس ناول کے مرکزی کرداروں میں جہاں آرا کا بہت ہی اہم رول ہے۔ مجید اگراس کے منگیتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو گل میر اس کا شوہر نا مراد ہے۔ یہ اپنے کو کسی حسن کی ملکہ سے کم نہیں سمجھتی ہے۔ اب ذرا اس کا حلیہ دیکھئے کہ عباس خان نے کس ڈب سے بیان کیا ہے:

نلکے کی ہتھی جتنا قد، مٹر کے دانے برابر آنکھیں، بجلی کے بلب کی شکل والا سر، موٹر کی ڈگی کی طرح کھلنے والا منھ اور کلر شور والی بارانی زمین میں لیٹ بوئی جانے والی جو کی فصل کی طرح سر پر پتلے پتلے بال، پاؤں بڑے بڑے، ٹانگیں پنسل سیکچھ زیادہ موٹی اور چلتی ایسے جیسے پھسلنے کا خطرہ، کمر، سینے اور بازوؤں کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے۔ رنگ البتہ گورا تھا۔ اس کی خاص وجہ ہے جس کا آگے چل کر ذکر آئے گا۔

(زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 23 )

کرداروں کی تشکیل میں عباس خان نے اپنے تمام تر مشاہدے جھونک دئیے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں ایک فقیر کی نفسیات کو کس طرح اُبھارا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

ناتوؔ پر جب نزع کا عالم طاری ہوتا ہے تو وہ چونکہ صدا لگانے والا ایک فقیر ہے۔ لہٰذا نزع کے عالم میں بھی پکارتا رہتا ہے۔

’’ بابا اللہ کے نام پر، بابا اللہ کے نام پر۔ ‘‘ حتیٰ کہ کلمہ اور درود پڑھنے کی جگہ بھی وہ یہی دہرا رہا تھا۔ ’’ بابا اللہ کے نام پر ‘‘ سبھی لوگ کوشش کر کے تھک چکے تھے اور روح نہیں نکل رہی تھی۔ لہٰذا نا تو کی بیوی بخت بھری نے آ کر جب نا تو کے کان میں زور سے کہا تو جسد خاکی سے روح پرواز کر جاتی ہے۔

’’جہاں آرا کے ابا! کاسہ بھر گیا ہے، شام بھی ہو گئی ہے، لہٰذا اب گھر چلیں۔ یہ سنتے ہی نا تو نے کلمہ پڑھا اور جان مالک حقیقی کے سپرد کر دی۔ ‘‘ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 54)

کرداروں کے ناموں سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کردار سماج کے نہ صرف نادار بلکہ اَن پڑھ اور ان گھڑ طبقے سے لیے گئے ہیں جو اپنے آپ میں ایک طنز سے کم نہیں۔ نورے کُکی، محمد پکارے، اکبر ٹاکی، بشیر برچھے، حاکم شتربان، رب نواز مٹکی وغیرہ، وغیرہ۔

جہاں آرا جب سات سال کی ہوئی اور دو گھڑے ایک ساتھ اٹھانے لگی تو سمجھ لیا گیا کہ جوان ہو گئی۔ جہاں آرا کو اس کے ناناسیفل نے اُس کی فنِ گدا گری کی مکمل تربیت دی۔ اس تربیت کے دوران تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل بھی اس نے خود ہی کرایے۔ بھیک مانگتے مانگتے جب وہ دو پہر کے وقت سستانے بیٹھتا تو جہاں آرا کو بھیک مانگنے کے گُر سکھایا۔ یہ گر اس نے کیسے سیکھائے ذرا ملاحظہ فرمائیے:

’’دیکھو بیٹی ہم فقیر ہیں۔ شرم جھجک سے ہم لوگوں کے کام رُک جاتے ہیں۔ ہمارے واسطے حوصلہ بہت ضروری ہے، انکساری ہمارے لیے اکسیر ہے۔ موقع کے مطابق صدا لگاؤ، آدمی کی حیثیت دیکھ کر اُسے ہمدردی پر اُکساؤ…کوئی میک اپ کرنے والی بڑھیا سامنے آئے تو بار بار دہراؤ، اللہ یہ حسن و جمال قائم رکھے، فقیرنی کا سوال ہے۔ کوئی حاملہ دیکھو تو سب سے پہلے کہو اندر باہر خیر ہو، فقیرنی مدد مانگتی ہے … کچہری میں جاؤ تو مخالف کی شکست کا ورد کرو اور اسٹیشن پر جاؤ تو سفر کا صدقہ مانگو… ان باتوں کو جب اچھی طرح سمجھ لو گی تو پیٹ بھرنا تمھارے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ ‘‘ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 56)

عباس خان کے اس ناول میں شگفتہ جملوں اور مزاحیہ فقروں کی جا بجا جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ مثلاً یہ اقتباس دیکھیے:

’’مفلس کی زندگی میں صرف دو ہی تو دن ہوتے ہیں۔ ایک وہ جب شادی ہوتی ہے، دوسرا وہ جب بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اس (بخت بھری) کے لیے پہلا دن ہی نہیں آ رہا تھا۔ جیسے خاوندوں کی ساری دُنیا میں راشننگ ہو گئی ہو۔ خاوند صرف اسے ہی ملے گا جس کے پاس خوبصورتی کا راشن کارڈ ہو اور جس پر دولت کی مہر لگی ہو۔ ‘‘ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 36)

’’ کہتے ہیں دو بھوکوں نے دُنیا کو ہلا ڈالا۔ روٹی کا بھوکا کارل مارکس اور جنس کا بھوکا فرائیڈ… ظاہراً کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔ کارل مارکس ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا۔ وہ اچھے اچھے اداروں میں پڑھا اور اکثر معقول جگہوں پر رہائش اختیار کی۔ وہ کبھی بغیر کھانا کھائے نہ سویا۔ فرائیڈ کو عورتوں کی کمی نہ تھی۔ کئی لوگ اپنی بیٹیاں اور دوسری عزیزائیں جو نفسیاتی مریض ہوتیں بغرض علاج اُس کے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ تنہا کمروں میں ان کو زیر مشاہدہ رکھتا اور علاج کرتا۔ ‘‘

ایک جگہ ظریفانہ جملہ ملاحظہ فرمائیں عباس خاں لکھتے ہیں کہ:

’’انسان بھوک اور جنس کی طاقتوں کے درمیان پس رہا ہے … چاہیے تو یہ تھا کہ بھوک لگتی کھانا مل جاتا، جنس تنگ کرتی تو مرد عورت کو مل جاتا اور عورت مرد کو۔ دونوں کام کر کے انسان آگے بڑھ جاتا اور کوئی بڑا کام کرتا۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتے کرتے تخلیق کے معراج تک پہنچ جاتا۔ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر37)

عباس خان کے انفرادی تخلیقی رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس وقت کے ایک عظیم ناول نگار عبد الصمد نے لکھا ہے کہ:

’’عباس خاں کے افسانوں کو پڑھ کر شدت سے یہ احساس ہوا کہ انھوں نے اپنے کسی پیش رو کا اثر قبول نہیں کیا اور اپنے لیے بالکل نئی راہ نکالی جو اُن کی شناخت میں بھی معاون ثابت ہوئی……کرافٹ میں شپ کو جس طرح انھوں نے برتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں … عباس خاں نکے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شعور و احساس کی ساری کھڑکیاں کھُل گئی ہیں اور ان سے تازہ اور خوشگوار ہوائیں آ رہی ہیں ……‘‘

عباس خاں نے ناول کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں معیاری افسانے بھی تخلیق کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھیں افسانچہ نگاری سے بھی اُتنا ہی لگاؤ رہا ہے جتنا کے افسانے اور ناول سے ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے عبد القادر فاروقی نے لکھا ہے کہ عباس خان کو تینوں ہی اصناف میں یکساں مہارت حاصل ہے:

’’وہ جتنے اچھے افسانے و ناول لکھتے ہیں اتنے ہی اچھے افسانچے بھی لکھتے ہیں۔ بیک وقت ان اصناف پر یکساں عبور کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ‘‘

اسی طرح سے رام لعل نے عباس خان کے ایک افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عباس خان طبقاتی کشمکش کے معاملے میں بورژوا طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ انھیں پرولتاری طبقے سے سروکار رہتا ہے اور ایسا سروکار رکھتے ہیں جس میں کوئی ریا کاری یا منافقت والی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس طبقے سے جذباتی سطح پر جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ رام لعل کا یہ قول ہر چند کہ افسانوں کے لیے ہے تاہم اس کا اطلاق ان کے ناولوں پر بھی ہوتا ہے:

’’مجھے یہ افسانہ حسب معمول آپ (عباس خاں ) کی باریک بینی، جزئیات نگاری اور مقصد کی طرف قدم قدم بڑھنے کی خاصیت کی بنیاد پر پسند آیا۔ آپ کے افسانوں میں (ناولوں میں بھی) عام آدمی کے لیے جو ہمدردی ہے، وہ بورژوا ہمدردی ہرگز نہیں ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ لکھنے والے کے اندر سے پھوٹ رہی ہے اور وہ خود بھی اسی طبقے کا ایک فرد ہے۔ ‘‘

قدرت اللہ شہاب نے بتایا کہ عباس خان کے فکشن میں جو جزئیات اور مشاہدات کی تفصیلات ہوتی ہیں، انھیں دیکھ کے یوں لگتا ہے گویا یہ کہانیاں نہیں بلکہ آپ بیتیاں بن گئی ہیں۔ عباس خاں بہت باریک بینی سے ذاتی مشاہدات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ عباس خان کے فن کی امتیازات کی بنا پران کے فکشن کے اسلوب کی شناخت دور ہی سے ہو جاتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کے الفاظ میں یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’عباس خان کا کہانی بیان کرنے کا طریقہ منفرد ہے۔ بڑی سنجیدگی سے جزئیات کے ذریعے کہانی کی تعمیر کیے جاتے ہیں پھر نقطۂ عروج پر پہنچ کر دفعتاً طنز کی تلوار کو میان سے نکال کر ایک بھرپور وار کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے عباس خاں کی کہانیاں قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں اور سوچنے پر مائل کر دیتی ہیں …‘‘

عباس خان کے زبان و بیان کی داد سلام بن رزاق نے بھی دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عباس خان کی اکہری نثر میں ابلاغ کا کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ عباس خان کی نثر سریع الفہم ہوتی ہے۔ انھوں نے ان کی سادہ، سلیس اور رواں بیانیہ کے امتیازی اوصاف کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’اُن کی زبان نہایت سادہ، صاف اور سریع الفہم ہے۔ ان کے افسانوں کی تفہیم میں ترسیل کا المیہ پیش نہیں آتا بلکہ ان کا بیانیہ اس قدر شفاف ہے کہ افسانے کا کوئی منظر ہو یا منظر کا کوئی گوشہ قاری پر یوں روشن ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بھی طرح کی ذہنی کسرت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پہلی قرأت میں ہی افسانے کے سارے ابعاد منکشف ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

اسی طرح آپ دیکھیں کہ ایک طرف اگر طارق اسمعیل ساغر افسانے میں کہانی کو زندہ رکھنے کا سہرہ عباس خان کے سر باندھتے ہیں تو دوسری طرف سلطان اخترجیسے ادب شناس اور نکتہ سنج اُن کے افسانوں اور ناولوں میں اصلاح معاشرہ کے عناصر کو فوقیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے کرداروں کی نفسیاتی موشگافیوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ساری خوبیوں سے مزین تخلیقی کاوشوں پر داد و تحسین سے نوازتے ہوئے ان کے یہ الفاظ دیکھیے:

’’عباس خان کی کہانیاں انسانی نفسیات کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں تو وہیں انسان کی ذہنی الجھنوں کو سلجھانے کا کام بھی کرتی ہیں۔ عباس خان اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں کے ذریعے اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ‘‘

اکثر ہم سب نے کورٹ کچہریوں میں وکیلوں کو اپنے مؤکل کے ذریعے کرائے پر لائے گئے ان پڑھ اور اوگڑھ گواہان کو جھوٹی گواہی دینے کے بارے میں سنتے آئے ہیں۔ عباس خان نے اس ناول میں ایسے وکلأ کے کر توت کا کس طرح سے پردہ فاش کیا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

’’سارے ایک ہی تفصیل بیان کریں، کمی بیشی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد میں پوچھوں گا۔ مدعا علیہ کو کیا ہوا تو تم نے کہنا ہے۔ وہ پاگل ہو گیا تھا۔ اب بھی اسے پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔ یہ کافی عرصے لا پتہ بھی رہا ہے۔ آخر میں عدالت کو بتانا کہ اس نے دوسری شادی مدعا علیہ کی اجازت کے بغیر کی، غیر فطری عمل بھی کرتا تھا، حق مہر ادا نہیں کیا، اب فریقین میں سخت ناچاقی ہے، دونوں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کر تیار نہیں، عدالت میں مجبوراً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں، عدالت کا ڈر نہ ہو تو ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں اور حدود اللہ قائم رہنا اب نا ممکن ہے۔ ‘‘ (زخم گواہ ہیں، صفحہ 149)

کس طریقے سے کسی پریشان حال انسان کو کورٹ کچہری میں انصاف کے لیے منصف کے پاس پہنچنے سے پہلے وہاں موجود معاونِ عملۂ عدالت کے خون نچوڑنے والے پنجوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہ عملہ اُسے عموماً عدالتی کار روائیوں میں معاونت کرنے کے بجائے ہر قدم پر فیس کے نام پر لوٹنا شروع کر دیتا ہے اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو یہ سب مل کے جنگلی کتوں اور بھیڑیوں کی طرح اُسے بھنبھوڑنے لگتے ہیں۔ ان کی دہائی سننے والا وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ نیچے سے اوپر تک سبھی اس کام میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ غلام حسین بلوچ نے اس ناول کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ

’’اس کے سامنے عرائض نویسوں، اسٹام فروشوں، وکلاء کے منشیوں، گواہان، وکلاء، عدالت کے اہل کاروں اور ججوں کی شخصیات کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری اس عرائض نویس سے ملتا ہے جو تا ہے کہ اس کو خاص اجرت دی جائے تو وہ ایسا دعویٰ لکھ دے گا کہ اس کو پڑھ کر جج کو کمرۂ عدالت گھومتا نظر آئے گا۔ ‘‘

یہ تو رہی بات عرائض نویسوں کی۔ اب وکیلوں کی لن ترانی دیکھئے جسے عباس خان نے ان کی روح کی گہرائیوں تک بے نقاب کر دیا ہے۔ بقول غلام حسین بلوچ ملاحظہ فرمائیں:

’’ قاری کا آمناسامنا وکلاء صاحبان سے بڑے زور شور سے ہوتا ہے۔ ایک وکیل صاحب دعویٰ دائر کیے بغیر اپنی طرف سے مؤکل کو تاریخیں دئیے رکھتے ہیں، دوسرے جج کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور تیرے نے ہر پھٹے میں ٹانگ اڑا رکھی ہے۔ وہ نائب تحصیلدار اور سول جج کی عدالت کے کیس لے لیتے ہیں … ‘‘

عباس خان کی تحریروں میں شگفتگی اور تلخی دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انھوں نے بہت سنجیدگی سے معاشرتی مسائل کو اپنے فکشن کے ذریعے طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مسائل کو منظر عام پر لانے کے پیچھے اصلاحِ معاشرہ کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔ اُن کے قلم میں روانی ہے کبھی کبھی یہ قلم طنز میں بجھا ہوا نشتر بھی بن جاتا ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی ان دیکھی ہوئی سماوی یا ماورائی باتیں نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے گرد و پیش کے ماحول میں موجود برائیوں پر سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ وہ زمین سے جڑی ہوئی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ معاشرے کے جسم سے فاسدمواد کو نکال باہر کرنے میں ہی عافیت ہے۔ لہٰذا اس کے لیے وہ تلخ و شیریں ہر طرح کے حربے بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جا بجا طنز  و مزاح کے پہلو بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی گرفت انسانی نفسیات اور جذبات پر کافی مضبوط ہے۔ عباس خان نا گفتہ بہ باتوں کو بھی اس سلیقے سے پیش کر جاتے ہیں کہ بد مزگی کے بجائے پڑھنے والے کے ذہن میں شگفتگی اور تازگی برقرار رہتی ہے۔ عباس خان اسی گد گداہٹ کے دوران معاشرے کے سڑے گلے اعضاء کی جراحی کر کے اس کے فاسد مواد کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آخر میں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ عباس خان ایک ایسے ناول نگار ہیں جن کا اسلوب منفرد ہے، اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی اس تحریر میں جس طرح سے قانون، کورٹ کچہری اور پولیس والوں کی اصطلاحات کا تخلیقی استعمال کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نہ اس سے پہلے کسی نے اس طرح کی اصطلاحات سے ادبی جمالیات کی تشکیل کا کام لیا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی سے اس حد تک توقع کی جا سکتی ہے۔ اس میدان میں عباس خان ہی کی اجارا داری قائم رہے گی۔ عباس خان جتنا وکیلوں اور ججوں کی اداؤں اور عشوہ سامانیوں سے واقف ہیں، میرا خیال ہے دُنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ناول نگار اتنا واقف ہو گا۔ اس ناول کی اپنی تاریخی حیثیت بھی ہے۔ آج اتنا کچھ بدل جانے کے باوجود بر صغیر کی عدالتوں میں حالات جس کے تس بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، جب تک ایسے حالات بنے رہیں گے، عباس خان کے ناول کی معنویت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ روز افزوں اس میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 


ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل