عمران شاہد بھنڈر کے تضادات اور تعصبات
عابد خورشیدؔ
فہرست مضامین
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن کے حوالے سے)
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل
کتاب ۱۵
مرتبین: ارشد خالد، امین خیال
کچھ عرصہ قبل مجھے عمران شاہد بھنڈر کے تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’اَدبِ لطیف‘‘ (۷۵ سالہ نمبر ، شمارہ ۱۱۔ ۱۲، نومبر+دسمبر ۲۰۱۰ء) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ میں اِس مضمون کے سلسلے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر وزیر آغا کو اپنی ساٹھ برس پر محیط علمی و اَدبی زندگی میں قدم قدم پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی اصل وجہ اُن کا علمی و اَدبی سطح کا اجتہاد تھا۔ تاریخ ، علم و اَدب میں جس کسی شاعر‘ ادیب یا مفکر نے جب جب نئے راستوں کو اختیار کرنے کی کوشش کی، مروّجہ اصولوں اور معیارات کو چیلنج کیا‘ اُسے ہمیشہ طرزِ کہن پر چلنے والوں کی جانب سے مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔ نظری اور اطلاقی تنقید کے سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا کے فقیدالمثال کام کی وجہ سے کئی نظریہ بند اَدبی گروہوں نے طویل عرصہ تک اُن کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی‘ مگر جب علمی و اَدبی سطح پر وہ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو شخصی حوالے سے اُن پر نکتہ چینی کا آغاز کر دیا۔ تاہم ڈاکٹر وزیر آغا مخالفت کی کالی آندھیوں کے سامنے تا حیات سینہ سپر رہے۔
بڑے بوڑھے ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ چاول کا ایک ’’دانہ‘‘ چکھنے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ دیگ میں پکنے والی شے کا کیا حال ہے۔ لہٰذا پوری دیگ کھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اسی اصول پر کاربند ہو کر میں ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن (مطبوعہ اَدبِ لطیف‘ نومبر ‘ دسمبر ۲۰۱۰ء) کے مختصر جائزے تک ہی خود کو محدود رکھوں گا۔
مذکورہ بالا مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کے تحریر کردہ کچھ فرمودات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ آغا کی اپنی فکر اَن گنت تضادات کی گرفت میں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آغا نے سطح سے آگے نہیں دیکھا۔ آغا مظہر سے آگے نہیں پہنچ پائے۔
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹریشن) (ص۱۸۵)
۲۔ آغا نے امتزاج کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی خاطر اُن حتمی تضادات یا Aporias کو نظر انداز کر دیا جو دریداؔ کے فلسفے کا تعین کر رہے تھے۔ ‘‘(ایضاً،ص۱۸۵)
۳۔ آغافلسفیانہ مقولات کا ایک دوسرے سے فرق اور اُن کے مابین مماثلتوں کو دریافت کرنے کے عمل سے نہیں گزرتے‘‘ (ایضاً،ص۱۹۳)
۴۔ ڈی کنسٹرکشن کے علاوہ کانٹ، ہیگل،ہسرل اور ہائیڈ گر وغیرہ ، آغا کے لیے کبھی موجود نہیں رہے ہیں۔ (ایضاً،ص۲۰۹)
۵۔ آغا جب یہ کہتے ہیں کہ ’’گورکھ دھندے کو ساخت میں تبدیل ہونے دیا جائے‘‘ تو ایسا لگتا ہے کہ آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔
(ایضاً،ص۲۱۲/۲۱۳)
۶۔ آغا نے اُن تمام نکات کو کُلی طور پر نظر انداز کر دیا (جو دریداؔ کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ) (ایضاً،ص۱۸۸)
مندرجہ بالا چھ (۶) اعتراضات پڑھنے کے بعد اب ذرا عمران شاہد بھنڈر کا یہ بیان دیکھیے:
’’اُردو زبان میں اب تک جو مضامین یا کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ، اُن میں سے وزیر آغا کی کاوش لائق تحسین ہے۔ ‘‘
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن)(ص۱۸۵)
حالانکہ عمران شاہد بھنڈر واشگاف اعلان کر چکے ہیں کہ آغا کی اپنی فکر اَن گنت تضادات کی گرفت میں ہے۔ آغا مظہر سے آگے نہیں پہنچ پائے، آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ وغیرہ وغیرہ اور اَب فرما رہے ہیں کہ :
’’وزیر آغا کی کاوش لائق تحسین ہے۔ ‘‘صاف پتا چلتا ہے کہ متذکرہ بالا اعتراضات فقط آغا صاحب کے نقطۂ ہائے نظر کو باطل قرار دینے کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ مگر سچ زبان پر آ ہی جاتا ہے، سو بھنڈر کی زبان پھسل گئی اور سچ اپنی جھلک دِکھا گیا، ورنہ آپ خود سوچیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا پر اتنے اعتراضات داغنے کے بعد یہ کیوں کر لکھا جا سکتا ہے کہ ’’وزیر آغا کی کاوش لائقِ تحسین ہے۔ ‘‘
آگے چلیے اور عمران شاہد بھنڈر کا دوسرا بیان پڑھیے:
آغاکے مغربی فلسفے کے بارے میں دلچسپ خیالات کے باوجود اُن کا دریداؔ کے ساتھ تعلق یک رُخا نہیں بلکہ استرداد و قبولیت کا ہے۔ ‘‘
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) (ص۲۱۲/۲۱۳)
جب کہ دوسری طرف بھنڈر کے بقول:
’’دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن کا ہر پہلو آغا کی گرفت سے باہر رہا۔ (ص۲۰۶)……. آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا‘‘(ص،۲۱۲/۲۱۳)آغا نے ان تمام نکات کو کُلی طور پر انداز کر دیا(جو دریداؔ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں ) ص(۱۸۸)
کیا یہ بھنڈر کی صریحاً تضاد بیانی نہیں ہے !اُنھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جان بوجھ کر آغا صاحب کے خیالات کی غلط تفہیم کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جیسے کہ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن کے ہر پہلو سے آغا صاحب ناواقف ہیں ، تو پھر اِس صورت میں بھنڈر کا درج بالا بیان:
’’اُن کا (یعنی وزیر آغا کا) دریداؔ کے ساتھ تعلق یک رُخا نہیں بلکہ استردادوقبولیت کا ہے۔ ‘‘ آخر کیا ثابت کرتا ہے! (جب کہ حقیقت میں آغا صاحب نے دریداؔ کا بغور مطالعہ کیا تھا)ایک دوسری جگہ پر بھنڈر صاحب کچھ یوں رقم طراز ہیں :
’’قطع نظر اِس سے کہ دریداؔ موجودگی کے فلسفے کو ختم کر سکاہے یا نہیں …… اِس قسم کی سلطنت جو موضوعی سگنی فائیڈ کو یقینی بنا کر معنی کا منبع و ماخذ بن جانا چاہتی ہے…… قطعِ نظر اِس سے کہ یہ تمام قضا یا آغا کی سمجھ سے باہر رہے، تاہم اِس کے باوجود آغا نے چند اہم نکات کی شناخت کی ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن)ص (۲۱۰)
سبحان اللہ ! ایک طرف بھنڈر بار بار یہ اعلانات فرما رہے ہیں کہ :
٭۔ ’’آغا نے ان تمام نکات کو کُلی طور پر نظر انداز کر دیا (جو دریداؔ کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں )‘‘ص(۱۸۸)
٭۔ ’’دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن کا ہر پہلو آغا کی گرفت سے باہر رہا۔ ‘‘ ص،(۲۰۶)
٭۔ آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ ‘‘ص (۲۱۳)
٭۔ ’’(آغا نے) ان حتمی تضادات کو نظر انداز کر دیا جو دریداؔ کے فلسفے کا تعین کر رہے تھے۔ ‘‘ ص(۱۸۵)
اور اَب اچانک آغا صاحب نے چند ’’اہم نکات‘‘ کی شناخت کر دی ہے۔
قارئین کرام آپ خود سوچیں کہ جب عمران شاہد بھنڈر کی نظروں میں ڈاکٹر وزیر آغا کا مطالعہ اور تجزیہ، نامکمل، ادھورا اور تضادات کا شکار ہے تو اِس صورت میں آغا صاحب اُن قضایا کے بارے میں ’’اہم نکات‘‘ کی شناخت کیسے کر سکتے ہیں !
فاضل مضمون نویس عمران شاہد بھنڈر کی تضاد بیانی کا اِس سے اعلیٰ نمونہ اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ! بھنڈر صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ ’’اہم نکات‘‘ کی شناخت وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اُن قضایا کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو۔
اب آگے بڑھیے اور عمران شاہد بھنڈر کی کھلم کھلا تضاد بیانی پر مبنی ایک اور مثالی نمونہ ملاحظہ فرمائیے، بقول عمران شاہد بھنڈر:
٭۔ آغا کو مغربی فلسفے میں مظہر اور جوہر کی کسی بحث سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۷)
٭۔ اگر آغا نے دریداؔ کی ’’تقریر اور مظہر‘‘ کا مطالعہ کیا ہوتا تو کم از کم (اِس علمی مسئلے پر)اِس حد تک غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ ‘‘
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن)ص (۲۰۲)
بھنڈر مزید فرماتے ہیں :
’’میرا خیال ہے کہ آغا نے دریداؔ کی ’’تحریریات‘‘ یا ’’تقریر اور مظہر‘‘ یا پھر اُس کی تحریر اور افتراق‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ‘‘
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن)ص (۲۰۸)
اب آپ کے سامنے ایک نہایت اہم بیان پیش کیا جا رہا ہے ، توجہ فرمائیے ، بقول عمران شاہد بھنڈر:
’’آغا آگے چل کر دریداؔ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ …… ’’جب یہ مفکرین گورکھ دھندے کو ازلی و ابدی قرار دے کر اُن کا تجزیہ کرتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی آواز گورکھ دھندے کے اندر سے آ رہی ہے کہ کسی Pivotal Point سے ! میرا خیال ہے کہ آواز اندر سے آ رہی ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۱۱)
ڈاکٹر وزیر آغا کی بطور حوالہ پیش کردہ متذکرہ بالا رائے کے بارے میں اب عمران شاہد بھنڈر کی رائے پڑھیے اور سر دھُینے، بھنڈر رقم طراز ہیں :
’’یہاں آغا نے درست طور پر دریداؔ کے فلسفے کے ایک ایسے اہم نکتے کی نشاندہی کی ہے جسے دریداؔ اپنی اہم کتابوں (’’تحریریات‘‘ ’’پوزیشنز‘‘ ’’تقریر اور مظہر‘‘ اور ’’تحریر اور افتراق‘‘) وغیرہ میں کئی بار دہراتا ہے۔ ‘‘(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۱۱)
جب کہ اپنے مضمون ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘ میں عمران شاہد بھنڈر بقائمی ہوش و حواس یہ علی الاعلان فرما چکے ہیں کہ :
’’آغا نے دریداؔ کی ’’تحریریات، ’’تقریر اور مظہر‘‘ اور ’’تحریر اور افتراق‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ص(۲۰۸)
’’دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن کا ہر پہلو آغا کی گرفت سے باہر ہے‘‘ ص (۲۰۶)
’’آغا نے دریداؔ کی تقریر اور مظہر کا مطالعہ کیا ہوتا تو کم از کم (اِس علمی مسئلے پر) اس حد تک غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے‘‘ ص(۲۰۲)
معزز قارئین ! آپ نے خود دیکھ لیا ہے کہ فاضل مضمون نگار نے ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں کس انتہا کی کذب بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ داناؤں نے بلاوجہ تو نہیں کہا تھا : ’’دروغ گو حافظہ نہ باشد‘‘۔ عمران شاہد بھنڈر ’’ڈی کنسٹرکشن‘‘ سے متعلق دیگر مباحث کے سلسلے میں بھی ڈاکٹر وزیر آغا کے نقطۂ نظر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنی مرضی کی تفہیم و تشریح پیش کرتے ہیں اور حسب منشا مطالب اخذ کرتے ہیں اور یوں آغا صاحب کے نقطۂ نظر یا زاویۂ نگاہ کے بارے میں ایک عام قاری کو بھٹکانے اور اِس کے دل و دماغ میں شکوک و شبہات کے بیج بونے کی اپنے تئیں جان توڑ کوشش کرتے ہیں۔
اب تک سامنے آ چکے ’’واضح تضادات‘‘ عمران شاہد بھنڈر کی غلط بیانیوں ، جھوٹے الزامات اور بلند بانگ دعووں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا پر اعتراضات وارد کرنے کے جوش میں بھنڈر بھول جاتے ہیں کہ وہ کون کون سے ’’متضاد‘‘ فرمان پہلے جاری کر چکے ہیں۔ اب میں بھنڈر کے ڈاکٹر وزیر آغا پر کیے گئے بعض دوسرے اعتراضات میں سے صرف چند ایک کے جوابات ، انتہائی اختصار سے فراہم کرنے کی سعی کروں گا۔ کیونکہ میرے خیال میں بھنڈر کے ہر اعتراض کا جواب دینا اِس لیے ضروری نہیں کہ اُنھوں نے آغا صاحب کی ہر بات سے بلاوجہ اختلاف کرنے کا منصوبہ پہلے ہی سے تیار کر رکھا ہے اور اِسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُنھوں نے کم و بیش چالیس صفحات کا طویل مضمون لکھ مارا ہے۔
مگر اِس سے پہلے خود عمران شاہد بھنڈر کی ’’دریدا فہمی‘‘ پر کچھ معروضات پیش کرنا ضروری ہیں۔ بھنڈر کے مطابق ڈاکٹر وزیر آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا بلکہ ڈی کنسٹرکشن کا ہر پہلو آغا کی گرفت سے باہر رہا۔ مگر کیا بھنڈر نے دریداؔ کے فلسفے کی تفہیم میں کامیابی حاصل کی ! اگر یہ واضح ہو جائے کہ بھنڈر نے دریداؔ کو سمجھنے میں جگہ جگہ ٹھوکر کھائی ہے ; دریداؔ کے خیالات کو اُن کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا اور اِس طرح اُلجھاؤ پیدا کیا ہے تو اس کا صاف مطلب ہو گا کہ وہ اِس اہلیت کا حامل نہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے دریداؔ کے مطالعات پر اُنگلی رکھ سکے۔ کسی موضوع کے سلسلے میں جس شخص کی اپنی اہلیت مشکوک ہو جائے ، اِس موضوع پر اس کی رائے اور فیصلے خود بخود فسخ ہو جاتے ہیں۔
ژاک دریداؔ سے متعلق بھنڈر کی بنیادی رائے یہ ہے کہ وہ اَدبی نقاد کے برعکس فلسفی ہے۔ اس کے فلسفے میں بقول بھنڈر: ’’اِس وقت تضادات دِکھائی دیتے ہیں جب اس کے فلسفے کو بطور ’’کتاب‘‘ یا فلسفہ کے طور پر پڑھا جائے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن، ص۱۸۳) دوسرے لفظوں میں اگر دریداؔ کے فلسفے کو بطور فلسفہ نہ پڑھا جائے تو اس میں تضادات نہیں ہوں گے۔ کیا فلسفیانہ متن کو ایک اساطیری ، اَدبی، مذہبی یا تاریخی متن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے؟ فلسفے کو فلسفے کے طور پر ہی پڑھا جائے گا اور اَدب کو اَدب کے طور پر۔ دونوں کی علمیات اور رسمیات جدا جدا ہیں۔ بھنڈرؔ نے آگے لکھا ہے کہ دریداؔ نے مختلف فلسفیوں کے فلسفوں میں مماثلتیں دریافت کر کے دراصل ’’کتاب‘‘ کی حیثیت کو چیلنج کیا اور ’’کتاب‘‘ کو متن کی طرح پڑھا ہے۔ (ص ۱۸۸)گویا دو طرح کی قرأتوں کی بس چلتے چلتے نشاندہی کی ہے، اوّل تو دونوں قسم کی قرأت میں طریقِ کار اور نتائج کے حوالے سے فرق نہیں کیا، دوم متضاد باتیں کہی ہیں۔ بھنڈرؔ کے مطابق دریداؔ کو مختلف فلسفیوں کے ہاں اِس وقت تضادات نظر آئے، جب دریداؔ نے اُنھیں متن کی طرح پڑھا۔ (کاش وہ اِس جگہ متن کے تصور کی پوری وضاحت کر دیتے جو پسِ ساختیاتی فکر نے تشکیل دیا ہے !) مگر دریداؔ کے تضادات اِس وقت سامنے آتے ہیں جب اسے بطور ’’کتاب‘‘ پڑھا جائے ! چہ بوالعجبی !۔ اِسی طرح بھنڈرؔ ، دریداؔ کو فقط فلسفی سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر وزیر آغا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ :’’زیادہ مناسب ہوتا اگر دریداؔ کو فلسفی کی نظر اور فلسفی کی حیثیت سے دیکھتے، ایک ایسا فلسفی جس کا روشن خیال فلسفوں (اِس ترکیب کا جواب نہیں ) کے ساتھ استرداد اور قبولیت کا رشتہ ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن، ص۱۸۷) اُردو تنقید نے عام طور پر اور ڈاکٹر وزیر آغا نے خاص طور پر دریداؔ سے اصلاً اَدبی نقاد کے طور پر تعرض رکھا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریداؔ نے خاصی تعداد میں اَدبی مطالعات کیے ہیں اور اَدبی مطالعے کے طریقوں پر بحثیں کی ہیں۔ اگر دریداؔ فقط فلسفی ہوتے تو ہم جیسے اَدب کے طالب علموں کے لیے زیادہ دلچسپی کے حامل نہ ہوتے۔ مجھے اپنی ساری بے بضاعتی کے ساتھ یہ بات تسلیم ہے کہ میرے لیے دریداؔ اِس لیے اہم ہے کہ اس نے اَدبی متن میں واحد معنیٰ کی مطلقیت کو چیلنج کیا ہے اور متن کے ایک معنیٰ کے اندر ہی اس مقتدر حیثیت کو چیلنج کرنے کی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ میرا مسئلہ اَدب اور اَدب کی تفہیم کے وہ سارے طریقے ہیں جو مشرق و مغرب کے بڑے ذہنوں نے فراہم کیے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھنڈرؔ کی اصل دلچسپی فلسفے سے ہے ،اَدب سے نہیں۔ اگر اَدب سے ہوتی تو وہ اپنی تحریروں میں دریداؔ کے اَدبی مطالعات سے زیادہ سے زیادہ سروکاررکھتے اور اس کے فلسفے سے اسی حد تک واسطہ رکھتے، جہاں تک وہ اَدبی متن کی تفہیم و تعبیر میں معاون ہوتا۔ لگتا ہے ، دریداؔ کی کتابActs of Literature (مرتبہ:ڈیرک پیڑج) بھنڈر کی نظروں سے نہیں گزری، جس میں اَدبی مطالعے کے طریقوں پر دریداؔ کا انٹرویو بعنوان” The Strange Institution called Literature”اور روسوؔ ، ملارمےؔ ، جوائس ؔ ، پال دی مانؔ ، فرانسس یونگ، اور پال سیلانؔ شامل ہیں ، جو دریداؔ کی مختلف کتابوں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ دریداؔ کو زیادہ تر جدیدیت پسند مغربی اَدبا کی ڈی کنسٹرکشن سے دلچسپی تھی۔
آئیے اب اِس امر کا بھی جائزہ لیتے چلئے کہ عمران شاہد بھنڈر ، دریداؔ کے فلسفے کو کتنا اور کس طور سمجھتے ہیں ! دریداؔ کے فلسفے میں تضادات کا ذکر کرنے کے بعد بھنڈر لکھتے ہیں کہ :
’’تاہم اِن تضادات کے باوجود دریداؔ کئی جگہوں پر بالکل واضح الفاظ میں اپنا فلسفہ پیش کرتا ہے، اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں دریداؔ کا فلسفے کے بارے میں نقطۂ نظر پیش کرنا ضروری ہے‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن، ص۱۸۴)
بھنڈر اپنے قاری کے دل میں توقع پیدا کرتے ہیں کہ اب وہ دریداؔ کے فلسفے سے اسے متعارف کرائیں گے۔ دریداؔ کی کتابوں سے کچھ ایسے اقتباسات سامنے لائیں گے، جس سے دریداؔ کے فلسفے سے آگاہی حاصل ہو گی، مگر بھنڈر، دریداؔ کے انٹرویو پر مبنی کتاب ’’پوزیشنز‘‘ سے دو اقتباسات سیاق و سباق سے ہٹ کر انتہائی غیر منظم انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پہلا اقتباس یہ ہے:
’’میں ] دریداؔ [ خود کو فلسفیانہ ڈسکورس کی حد پر رکھتا ہوں ، میں حد کہتا ہوں ، موت نہیں ، جسے آج کل فلسفے کی موت کہا جارہا ہے، میں اس پر ذرا بھی یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ (ص۱۸۴)
بھنڈر نے اس اقتباس کو دریداؔ کے فلسفے کے ضمن میں پیش کیا ہے۔ دریداؔ کا معمولی قاری (مجھ جیسا) بھی جانتا ہے کہ مغربی فلسفیانہ اور تنقیدی فکر میں دریداؔ کی کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اِس نے ساخت شکنی (ڈی کنسٹرکشن) کا تصور متعارف کرایا۔ التوا اور افتراق، ضمیمہ، اے پوریا، آرکی رائٹنگ، تکثیریت، فری پلے آف فینگ، وغیرہ ، ساخت شکنی ہی سے کسی نہ کسی طور جُڑے ہوئے ہیں۔ آپ دریداؔ کے فلسفے کا تعارف ، ساخت شکنی اور اس سے وابستہ اصطلاحات کی مربوط وضاحت کے بغیر کیسے کروا سکتے ہیں۔ مذکورہ اقتباس سے تو یہی لگتا ہے کہ بس یہ اقتباس بھنڈر کے ہاتھ لگا اور پیش کر دیا۔ یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ دریداؔ نے اسے کس سیاق و سباق میں پیش کیا۔ ہر علمی رائے کی حقیقی معنویت اس کے سیاق و سباق ہی میں ہوتی ہے۔ دریداؔ نے مذکورہ رائے Henri Ronseکو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کی ، جو Implications کے عنوان سے کتاب Positions میں شامل ہے۔ ہنری رونزؔ ، دریداؔ ، سے استفسار کرتے ہیں کہ آپ کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے کہ فلسفے اور غیر فلسفے میں رشتہ کیا ہے ! اپنے سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ہنری رونزؔ نے لکھا ہے :
”It seems to be almost impossible to define the status of your discourse. But is it necessary to do so? Doesn`t this question itself fall within the realm of metaphysics?”
اِس کے جواب میں دریداؔ نے وضاحت سے اپنا موقف پیش کیا ہے ، جس کا مختصر اور ادھورا حصہ بھنڈر نے دُہرایا ہے۔ دریداؔ کہتا ہے:(ظاہر ہے یہ فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ ہے جو Alan Bass نے کیا ہے۔ )
”I try to keep myself at the limit of philosophical discourse. I say limit not death, for I do not at all believe in what today is so easily called the death of philosophy (nor, moreover, in the simple death of whatever- the book, man or god, especially since, as we all know, what is dead wields a very specific power). Thus the limit on the basis of which philosophy become possible , defined itself as the episteme, functioning within a system of fundamental constraints, conceptual oppositions outside of which philosophy becomes impracticable. In my readings, I try therefore, by means of a necessarily double gesture……..” (Positions, P.6)
آپ نے دیکھا کہ دریداؔ کا کہنا کہ:’’میں خود کو فلسفیانہ ڈسکورس کی حد پر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ‘‘ بھنڈر نے کوشش کا لفظ ترجمہ سے حذف کر دیا ہے اور اس سے دریداؔ کے اصل مفہوم کی وضاحت نہیں ہو گی۔ ’کرنا، فعل میں عادت، یقین وغیرہ کے تلازمات ہیں اور کوشش کرنا، فعل میں انکسار کا تلازمہ ہے۔ خیر!
دراصل اِس سوال کے جواب میں ہے کہ :’’آپ کے ڈسکورس کے مرتبے یا حیثیت کو واضح کرنا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ ‘‘ اور اس لیے ناممکن لگتا ہے کہ ساخت شکنی میں معانی کا مسلسل التوا اور افتراق ہے۔ دریداؔ دفاعی انداز میں جواب دیتا ہے کہ وہ اپنی قرأت میں فلسفیانہ ڈسکورس سے باہر نہیں جاتا۔ تاہم اِس کی ’حد‘ پر رہتا ہے۔ یہ ’حد‘ کیا ہے؟ اس کا جواب بھنڈر کی زبانی سنیے:
’’لہٰذا اِس حوالے سے دیکھیں تو دریداؔ نے ایسی ’حد‘ کا ذکر کر دیا ہے جسے ……. ”Difference”نے محدود کر دیا مگر اس کے باوجود فلسفے میں وہ احتیاج ’’موجود‘‘ رہی جو اس ’حد‘ کو وسعت دے سکے۔ ‘‘ (ص۱۸۴)
بھنڈر کیا کہنا چاہتے ہیں آپ اپنا سر پیٹتے رہ جائیں ، کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ ’حد‘ کو Difference نے محدود کر دیا !! بھنڈر کی ’’دریدا فہمی‘‘کا بھانڈہ پھوڑنے کے لیے اِس ایک بات کا تجزیہ کافی ہے۔ دریداؔ نے ’’پوزیشنز‘‘ ہی میں اپنی اصطلاحDifference کی وضاحت کی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
”Difference is the systematic play of differences, of traces of difference of the spacing by which elements relate to one another. This spacing is the production, simultaneously active and passive (the Difference indicates this indecision as regards activity and passivity, that which cannot yet be governed and organzied by that opposition) of intervals without which the ‘full’ terms could not signify, could not function.” (P-38-39)
اب آپ ہی بتائیے کہ Differenceکی اصطلاح جن ’’افتراقات‘‘ افتراقات کے مدھم نشانات کا منظم کھیل ہے۔ ‘‘ وہ دریداؔ کے فلسفیانہ ڈسکورس کی ’حد‘ کو محدود کرتی ہے یا دریداؔ ، فلسفیانہ ڈسکورس کی جس حد کا ذکر کر رہا ہے ، اس کی نشان دہی کرتی ہے؟ سادہ بات یہ ہے کہ دریداؔ یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ فلسفیانہ متون کی قرأت میں اس فلسفیانہ ڈسکورس کے اندر رہتا ہے ، اس سے باہر نہیں جاتا، اگر وہ باہر جاتا تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ وہ فلسفے کی موت میں یقین رکھتا ہے۔ فلسفیانہ ڈسکورس کی حد کے اندر رہتے ہوئے ہی ، دریداؔ یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ وہ کتاب، آدمی اور دیوتا/ خدا کی موت میں بھی یقین نہیں رکھتا، اور اس کا سبب دریدا نے کیا خوب بتایا ہے:
’’جس کی مرگ ہو چکی ہے، ایک خاص طاقت کی حامل ہو گئی ہے۔ ‘‘
خیر آگے دریداؔ خود ہی واضح کر دیتا ہے کہ وہ ’حد‘ سے کیا مراد لے رہا ہے ، مبادا غلط فہمی پیدا ہو، دریداؔ کا خیال دوبارہ انگریزی ترجمے میں دیکھئے:
”Thus the limit on the basis of which philosophy became possible……”
بھنڈر اگر دریداؔ کے ان سادہ خیالات کی درست تفہیم نہیں کر سکتے تو اُن کے پیچیدہ اور گنجلک تصورات کے سلسلے میں کیا کیا لغزشیں اُن سے سرزد ہوئی ہیں۔ اُنھیں جاننے کے لیے ارسطو کا دماغ نہیں چاہیے۔ بالکل یہی صورت بھنڈر کے درج کردہ دوسرے اقتباس کے سلسلے میں ظاہر ہوئی ہے۔ بھنڈر نے دریداؔ کے فلسفے کی وضاحت کی ذیل میں لکھا ہے کہ : ’’میں ] دریداؔ [ اِس فیصلہ کن فتق (Rupture) پر یقین نہیں رکھتا، جسے آج کل غیر مبہم علمیاتی بریک کہا جا رہا ہے۔ ‘‘ یہ اقتباس ’’پوزیشنز‘‘ ہی کے دوسرے انٹرویو سے لیا گیا ہے ، جو کرسیٹوا نے لیا ہے اور جسے Semiology and Grammatologyکے عنوان سے شامل کتاب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ، دریداؔ نے اِس انٹرویو میں نشانیات اور تحریر کی سائنس سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کرسیٹواؔ کا استفسار ، نشانیات (نشان کی سائنس) سے متعلق ہے جو ابلاغ اور ساخت پر استوار ہے۔ کرسٹیواؔ دریافت کرتی ہے کہ نشانیات کے ماڈل (یعنی نشان اور اس کے متعلقات ، ابلاغ اور ساخت ) کی ’’لوگو مرکز‘‘ حدود کیا ہیں ! اِس کے جواب میں دریداؔ نے طویل جواب لکھا ہے، جو آٹھ صفحات پر محیط ہے۔ اپنے جواب کے آخر میں دریداؔ ساخت سے متعلق ، اپنی رائے ظاہر کرتا ہے، اسے مبہم کہتا ہے اور نشان کے تصور سے ساخت کو مماثل قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ بیک وقت لوگو مرکز اور نسل مرکز تیقنات کو محدود کر سکتی اور جھنجھوڑ سکتی ہے۔ دریداؔ کی فکر میں ’’متفرق ‘‘ تصورات کی بیک وقت موجودگی اور کارفرمائی پر زور ملتا ہے۔ لہٰذا وہ نشانیات کے ضمن میں بھی، اپنے اِس جواب میں کہتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ تصورات کی قلبِ ماہیت ہو ! اُنھیں بے دخل کیا جائے، ان کے ابتدائی مفروضوں کے خلاف سوچا جائے اور اس سارے عمل سے تصورات کے نئے سلسلے تخلیق کیے جائیں اور اس مقام پر دریداؔ وہ بات کہتا ہے ، جس کا اُردو ترجمہ بھنڈر نے دیا ہے۔ اس کے بعد دریداؔ انقطاع (Breaks) سے متعلق وہی بات، ایک دوسرے پیرایے میں دُہراتا ہے ، جو وہ’موت‘ کے سلسلے میں پہلے کہہ چکا ہے:
” Breaks are always , and fatally, reinscribed in an old cloth that must continually, interminably be undone.” (P-24)
لہٰذا دریداؔ rupture یا Breaks کو مسترد کرتا ہے اور یہاں بھی وہ اپنے ساخت شکنی یا ڈی کنسٹرکشن کے تصور ہی کی وضاحت کر رہا ہے ،جس کی تفہیم میں بھنڈر ناکام رہا ہے اور محض اِدھر اُدھر کی باتیں ہانکتا رہا ہے۔
دریداؔ شناسی میں بھنڈر کی کج مج بیانی کے سلسلے کا یہ محض آغاز ہے۔ آگے وہ جہاں جہاں ڈاکٹر وزیر آغا کی ’’دریدائی قرأت‘‘ کو ناقص و نامکمل ثابت کرنے کے لیے دریداؔ کے خیالات پیش کرتے ہیں ، دریداؔ کی فلسفیانہ فکر پر اپنی ناقص اور بعض صورتوں میں مضحکہ خیز دسترس کا گویا خود اعلان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے جہاں Differanceکے تصور کو ’’اصل حقیقت‘‘ کے مماثل ٹھہرا یا ہے، وہاں آغاصاحب کی رائے کو غلط ثابت کرنے کے لیے دریداؔ کی کتاب Margins of Philosophyسے اقتباسات ترجمہ کیے ہیں۔ اصل انگریزی اور بھنڈر کے ترجمے کو پہلو بہ پہلو رکھنے ہی سے اُن کی دریداؔ شناسی کا بھرم ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اقتباسات درج کرنے سے پہلے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ دریداؔ کی کتابMargins of Philosophy کا ترجمہ ’’فلسفے کی حدود‘‘ کرنا ، اگر غلط نہیں تو ناقص ضرور ہے۔ Margins، کنارے اور حاشیے کو کہتے ہیں اور بھنڈر کا ترجمہ دیکھئے:
’’Difference بطور موجودگی وجود یا وجودیت کے تعین یہ سوال قائم کرتا ہے…… Differa)nceخواہ کتنا ہی شاندار، یکتا، اہم اور ماورائی وجود کیوں نہ ہو، یہ موجود نہیں ہے، یہ کسی پر تسلط قائم نہیں کرتا اور نہ ہی کہیں سے اپنی حکمرانی قائم کرتا ہے۔ اِس کو بڑے لفظ سے بیان نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اِس کی کہیں حکمرانی ہے، تاہم یہ حکمرانی کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے باطن میں ہر وہ شے جو ماضی یا مستقبل میں سلطنت کی موجودگی کی خواہش رکھتی ہے، اسے اِس سے خوفناک حد تک خطرہ درپیش ہے۔ ‘‘
(ڈی کنسٹرکشن اور وزیر آغا، ص۲۰۰)
اب دریداؔ کا اقتباس ملاحظہ کیجئے:
”….. Therefore it is the determination of Being as presence or as being as beingness that is interrogated by the thought of difference. Such a question could not emerge and be understood unless the Difference between Being and beings were somewhere to be broached. First consequence : Difference is not. It is not a present being, however excellent, unique, principal, or transcendental. It governs nothing, reigns over nothing, and nowhere excercises any authority. It is not announced by any capital letter. Not only is there no kingdom of difference, but Difference instigates the subversion of every kingdom, which makes it obviously threatening and infallibly decaded by every-thing within us that desires a kingdom, the post or future presence of kingdom. And it is always in the name of a kingdom that one may reproach Difference with wishing to reign, believing that one sees it aggrandize itself with a capital letter.” (Margins of Philosophy) P-21-22
آپ نے ملاحظہ کیا، بھنڈر نے دریداؔ کے مقالے Difference سے جس اقتباس کا ترجمہ کیا ہے ، وہ کس درجہ ناقص اور گمراہ کن ہے۔ Being as presence کا ترجمہ ’’موجودگی موجود ‘‘لایعنی ہے۔ بڑے حرفB کے ساتھ Being سے مراد ہستی مطلق ہے۔ دریداؔ کا مقصود ہستی مطلق ، کی موجودگی ہے۔ اسی طرحbeingness کو وجودیت کہنا شاہد بھنڈر جیسے ’’فلسفی‘‘ کو زیب دیتا ہے۔ اسے (انسانی) ہستی یا وجود کے ’’ہونے‘‘ کی مجموعی حالت کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذاDifference کے تصّور سے ہستی مطلق کی موجودگی یا (انسانی) ہستی کے ’’ہونے‘‘ پر جرح کی جاتی ہے۔ اگلے جملے میں دریداؔ نے ہستی مطلق اور انسانی وجود کے ضمن میں لکھا ہے کہ جب تک ان کے فرق پر بحث نہ شروع کی جائے۔ مذکورہ جرح ممکن نہیں۔ یہ اہم بات بھنڈر نے نظر انداز کر دی ہے۔ Present being کا ترجمہ موجود بھی ناقص ہے۔ capital letter کا ترجمہ ’’بڑا لفظ‘‘ مضحکہ خیز ہے۔ letter لفظ نہیں حرف ہوتا ہے۔ بھنڈر کے اگلے دو جملے بھی کج مج ترجمے کی ’’عمدہ مثال‘‘ ہیں۔ دریداؔ کہتا ہے کہ Differanceکی کوئی عملداری نہیں ، مگر یہی Difference ہر عملداری کو تہ بالا کرنے پر اُکساتا ہے۔ یہ عملداری معنی، نظریے یا ہر اس تصور ، خواہش، خیال کی ہو سکتی ہے جسے استحکام ہو۔ Kingdomکو کہیں حکمرانی اور کہیں سلطنت کہنا، بس لغت دیکھ کر اس کا اُردو مترادف لکھنے کا معاملہ ہے جو دریداؔ کے اصل مفہوم تک رسائی میں پوری طرح ناکام ہے۔ آگے جا کر بھی بھنڈر یہ واضح نہیں کر پاتے کہ Difference کا دریدائی تصور ،دراصل تصور نہیں ، تصورات کی تشکیل کا ایک پوٹینشل ہے۔ بھنڈر، دریداؔ کے بے محل اور سیاق و سباق سے ہٹ کر اقتباسات کے غلط ملط ترجمے کرتے جاتے ہیں اور خود کو اس اہلیت سے محروم کر لیتے ہیں جو ڈاکٹر وزیر آغا کی ’’دریدائی قرأت‘‘ پر ماہرانہ رائے دینے کے لیے ناگزیر ہے، جس کی اپنی زبان میں لکنت ہو ، وہ کسی دوسرے کے طرزِ گفتار پر کیا رائے ظاہر کرے گا۔ اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ جسے ٹھیک طرح سے چند قدم چلنا نہ آتا ہو، وہ دوسروں کو دوڑنا سکھانے چلا ہے۔
اب آئیے بھنڈر کے ڈاکٹر وزیر آغا پر کیے گئے چند اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ زیرنظر مضمون ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘میں عمران شاہد بھنڈر فرماتے ہیں :
’’(آغا) دریداؔ کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ ’’دریدا اور اس کے ہم نواؤں نے گنجلک ( یا اینٹی سٹرکچر) تک رسائی حاصل کی اور خود کو گہراؤ Abyss میں نیچے ہی نیچے جاتے محسوس کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ گنجلک کو ہمہ وقت کھولنے کے عمل میں جٹے رہے اور معنی کے التوا کا منظر دیکھتے رہے مگر اُسے عبور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ‘‘ (آغا صاحب کی یہ رائے (Quote) کرنے کے بعد) بھنڈر صاحب لکھتے ہیں : ’’اگر واقعی ایسا ہوا تھا تو دریدا کن مفکروں سے زیادہ حساس تھا اور اس کی حساسیت کی نوعیت کیا تھی !‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۶)
اِس کا جواب آغا صاحب نے کچھ اِس انداز میں دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’خود دریداؔ بھی جب لفظوں کے گورکھ دھندے سے لفظوں کی ایک ایسی ساخت مرتب کرتا ہے جو اِس کے افکار کو وضاحت کے ساتھ قابلِ فہم انداز میں بیان کرتی ہے تو کیا اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اِس نے خود بھی گورکھ دھندے سے باہر نکلنے کا راستہ اختیار کر لیا ہے ! خود انسانی تجربات بھی اِس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ عناصر کا اُفقی نیز وقت کا عمودی گورکھ دھندا….. یہ دونوں راستہ تلاش کرنے کے عمل میں مزاحم تو ہیں مگر اِس پر حاوی نہیں۔ دریداؔ ایسے مفکرین اپنی جگہ غلط نہیں ، دوسروں کی بہ نسبت اِس اعتبار سے حساس ہیں کہ اُنھوں نے ایک ایسے منطقے کو محسوس کیا ہے ، جس تک دوسرے مفکرین کی رسائی ہی نہیں۔ ‘‘(امتزاجی تنقید کا سائنسی و فکری تناظر‘‘ ص۱۰۵)
آغا صاحب کے مذکورہ اقتباس سے اِس اعتراض کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ : ’’دریداؔ کس زاویے سے دوسروں سے زیادہ حساس تھا!‘‘ یعنی اِس نے لفظوں کے گورکھ دھندے سے لفظوں کی ایک ایسی ساخت مرتب کی تھی جو اِس کے افکار کو قابلِ فہم انداز میں پیش کر سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ اس نے خود بھی گورکھ دھندے سے باہر نکلنے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ دیگر مفکرین سے مراد وہ حضرات ہیں ، جنھوں نے ڈی کنسٹرکشن کے حوالے سے کچھ نہ کچھ اظہارِ خیال کیا تھا۔ اِس سلسلے میں آغا صاحب کے نقطۂ نظر کو مزید اُجاگر کرنے سے قبل عمران شاہد بھنڈر کے ایک اور بیان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ آغا صاحب کی پیش کی جانے والی وضاحت میں اِس کا جواب بھی مضمر ہے۔
بقول بھنڈر:
’’مرکز سے باہر آ کر مرکز کو دیکھنا یا مرکز پر حملہ کرنا ممکن نہیں ، کیونکہ اِس سے اندر اور باہر کی تفریق جنم لے لیتی ہے۔ جس کا تعلق ڈی کنسٹرکشن کے مفہوم میں لوگوس (Logos) کے فلسفے کے ساتھ ہے جو ڈی کنسٹرکشن کی زد پر ہے۔ ‘‘(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۹۶)
اب ڈاکٹر وزیر آغا کا اِس سلسلے میں نقطۂ نظر پیش خدمت ہے جس میں بھنڈر کے مذکورہ بیان کے بارے میں مزید صراحت بھی کر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’دلچسپ نکتہ یہ اُبھرتا ہے کہ دریداؔ نے گورکھ دھندے (موّاج سمندر) کو اصل حقیقت قرار دینے نیز یہ موقّف اختیار کرنے کے بعد کہ اِس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ، خود ہی اِس کے اندر ایک ایسا مقام دریافت کر لیا ہے جہاں رُک کر وہ اِس گورکھ دھندے پر غور کر سکے۔ یہ عمل ایک ایسا detached outlook ہے جو گورکھ دھندے سے منقطع ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ دریداؔ ساخت شکنی کا بہت گرویدہ ہے ، دیکھنے کی بات ہے کہ کس طرح اِس نے گورکھ دھندے کے اندر ہوتے ہوئے بھی اس پر ایک منضبط اور مرتب انداز میں غور کر کے (یعنی خود کو اِس سے (detachکر کے) اُسے deconstruct کر دیا ہے! ‘‘(امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر‘ ‘ ص۱۰۶)
گویا اُس نے گورکھ دھندے کے اندر سے یعنی مرکز سے باہر آ کر مرکز کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دریداؔ کی یہی وہ حساسیت تھی کہ جس کے باعث وہ دیگر معاصر مفکرین سے زیادہ حساس قرار دیا جا سکتا ہے۔
عمران شاہد بھنڈر کے نزدیک:
’’متصوفانہ فکر میں ’’اثبات کا لمحہ، حتمی موجودگی کے اثبات سے عبارت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ متصوفانہ فکر اِس اثباتی لمحے کو ڈی کنسٹرکشن کے وار سے بچا سکے۔ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۹۹)
اِسی سلسلے میں بھنڈر مزید رقم طراز ہیں :
’’آغا کے مطابق صوفیا ’’گنجلک‘‘ سے باہر آ کر دیکھنے لگے تھے۔ ‘‘
آغا صاحب کی یہ رائے نقل کرنے کے بعد بھنڈر لکھتے ہیں :
’’صوفیا سے اندر اور باہر کی تفریق منسوب کر کے اُنھیں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں پر صوفیا کے لیے ڈی کنسٹرکشن کے وار سے بچنا ممکن نہیں رہتا …… آغا کی متصوفانہ تفریق نہ صرف ڈی کنسٹرکشن کی زد پر ہے بلکہ روشن خیال فلسفیوں سے قبل کی ایسی دُنیا میں داخل ہونے کی کوشش ہے جس کے تحت صرف یہ تسلیم کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ مغربی فلسفہ صوفیا کے بعد سے اب تک آگے نہیں بڑھ سکا۔ ‘‘
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۱۲)
اِسی ضمن میں بھنڈر نے ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے حضرت علیؓ کا قول درج کیا ہے:
’’حضرت علیؓ سے یہ قول منسوب ہے کہ تمام صفات، حقیقت عظمیٰ کو بیان کرنے میں گنگ اور دم بخود ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی معنی (چاہے ظاہر معنی ہو چاہے مخفی) حقیقتِ عظمیٰ کو بیان نہیں کر سکتا کیوں کہ لازوال اور لامحدود پردہ در پردہ حجاب اندر حجاب’’ہستی‘‘ پر کوئی ایک معنی منطبق نہیں ہو سکتا‘‘۔ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۹۴)
یہ اقتباس نقل کرنے کے بعد عمران شاہد بھنڈر فرماتے ہیں :
’’آغا نے جو قول پیش کیا ہے وہ براہِ راست متصوفانہ فکر سے متصادم ہے کیونکہ متصوفانہ فکر میں مسلسل نفی کے بعد اثبات کا لمحہ حقیقتِ عظمیٰ کا براہِ راست مشاہدہ کرنے سے عبارت ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۹۴)
دوسرے لفظوں میں آغا صاحب کا پیش کردہ قول موصوف کی نظروں میں ڈی کنسٹرکشن کی زد پر ہے۔
درج بالا حضرت علیؓ کے قول کے سلسلے میں یہ صراحت ضروری ہے کہ اس کے شروع میں جو جملہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’’امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر‘‘ میں لکھا تھا اسے بھنڈر نے حذف کر دیا ہے تاکہ وہ اپنے مطلب کا مفہوم اُجاگر کر سکیں ….. آغا صاحب کے الفاظ کچھ یوں ہیں :
’’ویسے مذاہبِ عالم میں بھی حقیقتِ عظمیٰ کی پہچان اور عرفان کے ضمن میں معنیٰ کا التواکا منظر ہمیشہ دِکھائی دیتا رہا ہے۔ ‘‘(امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر) ص (۸۰)
اُس کے بعد آغا صاحب نے حضرت علیؓ کا قول درج کیا تھا۔ دراصل آغا صاحب نے معانیٰ کے التوا کے منظر کا ذکر کیا تھا، جب کہ بھنڈر نے اسے متصوفانہ فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے یہ کہ بھنڈر نے متصوفانہ فکر اور عارفانہ تجربے کے درمیان فرق کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ اس سے قطعِ نظر صوفیاء کے لیے ڈی کنسٹرکشن کے وار سے بچنا ایک حوالے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے پڑھیے:
’’انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت ہے کہ وہ نہ صرف مظاہر کے غدر میں ’’ساخت‘‘ تلاش کرتا ہے بلکہ ہر ساخت کے عقب میں ایک اور ساخت دریافت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس آخری ساخت یعنی ’’اینٹی ساخت‘‘ پر پہنچ کر رُک جاتا ہے جو ساری ساختیاتی ہائر آرکی کا منبع و مصدر ہے۔ تاہم وہ اِس نقطے پر حتمی طور پر رُک نہیں جاتا۔ بعض اوقات وہ اس کے عقب میں جا کر اِس منطقے سے آشنا ہوتا ہے جو یکتائی کا مظہر ہونے کے باعث ساخت اور اینٹی ساخت دونوں سے ماورا ہے۔ (سٹرکچر اور اینٹی سٹرکچر….. امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر) ص(۱۰۲)
آغا صاحب کی پیش کردہ اس تصریح کے بعد صوفیاء کے سلسلے میں اندر اور باہر کی تقسیم اور اثبات کے لمحہ کا ڈی کنسٹرکشن کی زد پر ہونے کا معاملہ سلجھ جاتا ہے۔ اور بالفرض محال ’’اثباتی لمحے‘‘ کی ڈی کنسٹرکشن ہو بھی جائے تو جو نئی حقیقت منکشف ہو گی وہ حقیقتِ عظمیٰ کا ہی روپ ہو گی۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا ایک دوسری جگہ پر یوں رقم طراز ہیں :
’’جب بھی کسی مغربی مفکر کو حقیقت عظمیٰ کے سابقہ روپ کو عبور کرنے کی توفیق ہوئی ہے، تو اِس نے حقیقتِ عظمیٰ ہی کی نفی کر دی ہے اور اِس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ عبور کرنے کے بعد جو نئی ’’حقیقت‘‘ اِس پر منکشف ہوتی ہے۔ وہ حقیقتِ عظمیٰ ہی کا ایک روپ ہے۔ ‘‘ (امتزاجی تنقید کا سائنسی و فکری تناظر) ص (۷۰)
عمران شاہد بھنڈر کا ڈاکٹر وزیر آغا پر یہ اعتراض کہ اُنھوں نے ڈی کنسٹرکشن کا تعلق تصوف سے جوڑا ہے، ایک وقت میں مجھے بھی پریشان کرتا تھا۔ کہاں ایک پس ساختیاتی یورپی فلسفی نقاد اور کہاں تصوف کے گہرے عارفانہ رموز۔ مگر کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست نے مطلع کیا کہ فارسی میں ’’درسایہ آفتاب‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں مولانا روم کا ساخت شکنی کے حوالے سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ (حیران کن بات یہ ہے کہ فارسی میں ڈی کنسٹرکشن کا ترجمہ ساخت شکنی ہی کیا گیا ہے۔ یہی اصطلاح اُردو میں ڈاکٹر وزیر آغا نے وضع کی تھی) گویا ایک صوفی شاعر کی کوئی نہ کوئی نسبت، دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن سے قائم کی گئی تھی، پھر مجھے لائبریری سے ایک کتاب دیکھنے کو ملی Ian Almond کی ،Sufism and Deconstruction : A comparative study of Derrida and Ibn Arabiیہ کتاب ۲۰۰۴ء میں روٹلیج نے شائع کی۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ ڈی کنسٹرکشن کا تعلق تصوف سے فقط آغا صاحب نے نہیں جوڑا، ایران اور مغرب کے مفکرین بھی دونوں کے باہمی ربط پر غور و تامل کر رہے ہیں۔ اس سے میرے دل میں ڈاکٹر وزیر آغا کے لیے احترام اور تحسین کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ آئن ایلمنڈ کی مذکورہ کتاب سے ہی دو اقتباسات ضرور دینا چاہوں گا تاکہ واضح ہو سکے کہ ڈی کنسٹرکشن اور وحدت الوجودی تصوف میں مغرب کے ایک اہل نظر نے کن مماثلتوں کی نشاندہی کی ہے:
”…..just as Ibn Arabi believes that no thinker can provide` a definition of the Real [al-haqq] Derrida insists that no thinker can escape the history of metaphysics.” (P-9)
”Both Ibn ‘Arabi and Derrida , in their own context speak of letter and freedom. It is no exaggeration to say that a certain emancipatory spirit underlies both their projects ___ `emancipatory ‘ not in any social sense, but rather the emancipation of the unknowability of the Real / the uncontrollability of writing from shackles of rational / metaphysical thought ….. Derrida`s liberation is a purely semantic one , where-as Ibn` Arabi has a more spiritual aim in mind” (P-10)
دیکھیے، عمران شاہد بھنڈر، آئن ایلمنڈ کی مذکورہ کتاب کا جواب کب لکھتے ہیں ، ہمیں انتظار رہے گا۔ اگر وہ اِس کتاب کا جواب لکھیں گے تو ہمارا یہ گمان دور ہو جائے گا کہ وہ ’’کسی طے شدہ منصوبے کے تحت‘‘ اُردو کے بڑے نقادوں کی پگڑی اچھالنے کی مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کر لیں گے کہ وہ ہر ایک سے فکری تسامحات دور کرنے کا نیک کام کر رہے ہیں ، یہ تسامحات اُردو نقادوں کے ہاں نظر آئیں یا مغربی نقادوں کے ہاں۔ دوسری طرف ہماری رائے میں عمران شاہد بھنڈر ایک سادہ سی بات نہیں سمجھ پائے کہ ڈی کنسٹرکشن اور متصوفانہ فکر میں مماثلت کی نشان دہی اِس dialogicalعمل کو آگے بڑھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ، جو انسانی فکر کو ثقافتی اور زمانی زنجیروں سے آزاد کراتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تقابلی مطالعات ، ثقافتی و فکری افہام و تفہیم اور رواداری کو فروغ دیتے ہیں ، کسی ایک ثقافت کی برتری کے تصور کا قلع قمع کرتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ مختلف ثقافتوں اور مختلف زمانوں کے مفکرین بعض بنیادی تعقلاتی مماثلتیں رکھتے ہیں ، جیسا کہ آئن ایلمنڈ کہتے ہیں کہ دریداؔ اور ابن العربیؔ کے یہاں ’’آزادی کوش روح‘‘ مشترک ہے۔ تاہم اس اشتراک کے تناظر الگ الگ ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آئن ایلمنڈ نے دریداؔ اور ابن العربیؔ کے جن الگ الگ تناظرات کی نشاندہی کی ہے ، ڈاکٹر وزیر آغا کہیں پہلے (۱۹۹۸ء میں ، جب اُن کی کتاب ’معنی اور تناظر‘ شائع ہوئی) اُنھی جدا تناظرات کی نشاندہی کر چکے تھے۔ آئن ایلمنڈ کہتے ہیں کہ دریداؔ کی آزادی خالص فلسفۂ معنی سے متعلق ہے،جب کہ ابن العربیؔ کامنشا روحانی ہے۔ اب ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے دیکھئے:
’’دریداؔ کا ساخت شکنی کا نظریہ محض معانی کے فرق اور ان کے لامتناہی التوا کے حوالے سے موجودگی کو گنجلک اور گہراؤ قرار دینے تک محدود ہے اور ہر چند کہ اِس عمل میں معنی آفرینی کی رو جاری رہتی ہے، مگر یہ کسی ماورائی حقیقت یا ’’معنی‘‘ تک پہنچ نہیں پاتی۔ اس کا زیادہ کام مروّج اور متعین معانی کی حامل ساخت کو Deconstrualکرتے چلے جانا ہے۔ ‘‘ (معنی اور تناظر، ص ۱۲۶)
واضح رہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا اور آئن ایلمنڈ دونوں کا مقصود ایک کی مدد سے دوسرے کو ردّ کرنا نہیں ، بلکہ دونوں کی مماثلتوں اور امتیازات کی نشاندہی سے انسانی فکر کی توسیع کرنا ہے۔ بھنڈر محض دوسروں کو غلط ثابت کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ، جو ایک علم دشمن روّیہ ہے۔
عمران شاہد بھنڈر ایک اور مقام پر کچھ یوں فرماتے ہیں :
’’آغا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دریداؔ عقب یا ماورائیت کو اِس مفہوم میں قبول نہیں کرتا کہ جسے معنی کا مرکز کہا جا سکے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آغا جب یہ کہتے ہیں کہ : ’’گورکھ دھندے کو ساخت میں تبدیل ہونے دیا جائے۔ ‘‘…… تو ایسا لگتا ہے کہ آغا نے دریداؔ کے فلسفے کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ ‘‘(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص(۲۱۲،۲۱۳)
گویا عمران شاہد بھنڈر کے نزدیک ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ کہنا کہ : ’’گورکھ دھندے کو ساخت میں تبدیل ہونے دیا جائے۔ ‘‘ اُن کے دریداؔ کو عدم توجہ سے پڑھنے کا نتیجہ ہے۔ با الفاظِ دیگر عمران شاہد بھنڈر’’ساخت آفرینی‘‘ کے امکان کو رّد کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف زیر نظر مضمون ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘ ص نمبر ۲۱۷ پر بھنڈر لکھتے ہیں :
’’ساخت کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہی ردِ تشکیل کا بنیادی وصف ہے۔ا )قرأthere no kingdom of differaلبتہ ساخت آفرینی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
مگر جب ڈاکٹر وزیر آغا نے گورکھ دھندے کو ساخت میں تبدیل کر دینے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ بات بھنڈر کو بہت ناگوار گزری۔
عمران شاہد بھنڈر اپنے مضمون میں ایک دوسری جگہ پر ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے نقل کرتے ہیں :
’’ساخت کا اگلا مرحلہ موضوعیت میں توسیع کے مترادف ہو گا۔ لیکن اِس کے لیے ڈی کنسٹرکشن کا اخراج نہیں اِس کا انضمام ہونا ضروری ہے…… آغا صاحب کی رائے پیش کرنے کے بعد بھنڈر لکھتے ہیں :
’’آغا کی خواہش بہر حال قابلِ تحسین ہے۔ ‘‘(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص(۲۱۷ )
چونکہ ڈاکٹر وزیر آغا کی پیش کردہ ہر تشریح، توضیح اور اُن کے نقطۂ نظر کو رّد کرنا، جھٹلانا ، توڑ مروڑ کے پیش کرنا، بھنڈر کا اصل مقصد ہے ، لہٰذا فوراً ہی معاملے کو اُلجھانے کی خاطر دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن اور افلاطونی فلسفے کے حوالے سے آغا صاحب کے خیالات کو آپس میں گڈ مڈ کر کے بھنڈر نتیجہ اخذ کرتے ہیں :
’’آغا نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے (وہ اقتباس)’’اُن نکات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جن سے فلسفے کی توسیع کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۱۸)
حالانکہ آغا صاحب نے جب اِس ’’خواہش، کا اظہار کیا تھا کہ ’’ڈی کنسٹرکشن کا اخراج نہیں اِس کا انضمام ہونا ضروری ہے تو اِس سلسلے میں اُنھوں نے کوئی مخصوص راستہ اختیار کرنے کی سفارش نہیں کی تھی۔ بہر حال آغا صاحب نے جس’’خواہش‘‘ کا اظہار کیا ہے، کم از کم وہ تو بھنڈر کے لیے ’’قابل تحسین‘‘ ہے۔ مگر چونکہ بھنڈر نے ’’میں نہ مانوں ‘‘ کی پالیسی ایک منصوبہ بندی کے تحت اختیار کر رکھی ہے، لہٰذا وہ آغا صاحب کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کا ابطال کرنے پر مائل رہتے ہیں۔
’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘ میں ایک جگہ پر عمران شاہد بھنڈر رقم طراز ہیں :
’’آغا کی موجودگی کے فلسفے کے ساتھ ہمدردی میرے لیے قابلِ احترام ہے۔ تاہم میں اس ’’موجود‘‘ کا قائل نہیں ہوں جو معنیٰ کا منبع ہونے کا دعویٰ کرے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۰۲)
دراصل ژاک دریداؔ اور اس کے ہمنوا ایک طرح سے دہریت کے فلسفے کے زیر اثر تھے۔ دوسری طرف بھنڈر صاحب بھی چونکہ دریداؔ کے فلسفے سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں ، لہٰذاوہ ’’موجود‘‘ یعنی اُس واحد ہستی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں جو معنیٰ کا منبع ہونے کی دعویدار ہے۔ با الفاظِ دیگر بھنڈر صاحب حقیقت اولیٰ کے وجود سے منکر ہیں۔ اس انکار کا سبب اُن کی انتہا پسندانہ ’’مارکسی سوچ‘‘ بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ مارکسیت کے فلسفے میں مذہب اور خدا کے وجود کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
آخر میں عمران شاہد بھنڈر کے ڈاکٹر وزیر آغا پر عائد کردہ ایک اور الزام کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
بھنڈر لکھتے ہیں کہ:
’’حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آغا نے کانٹ کے Noumenon کو نیوٹن کے ٹھوس مادے کے مماثل قرار دیا ہے۔ آغاکا یہ قول کانٹ اور نیوٹن دونوں کی عدم تفہیم کی عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘(وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۹)
در آنحالیکہ ڈاکٹر وزیر آغا نے جب کانٹ کے Noumenon کو نیوٹن کے مادی ایٹم کے مماثل قرار دیا تھا وہ کہنا دراصل یہ چاہتے تھے کہ جس طرح Noumenon ،پُراسراریت یا مخفی ابعاد کا اعلامیہ ہے اور اس کو نشان زد کرنا یا جاننا ممکن نہیں ہے، بعینہٖ نیوٹن کے مادی ایٹم کو بھی پوری طرح جان لینا ممکن نہیں ہے۔ طبعیات کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایٹم کے نیوکلس میں ہیڈرونز اور کوارکس کی نشاندہی ہو چکی ہے جو اس پہلو کی غمازی کرتے ہیں کہ اصل حقیقت نقاب اندر نقاب اور پردہ در پردہ ہے۔ پُراسراریت سے لبریز ہے جسے آسانی سے جانا یا سمجھانہیں جا سکتا۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
’’دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوکلس کے اندر کوئی End Particle نظر نہیں آرہا تھا۔ مادہ یا Substance گویا غائب ہو گیا تھا یا یوں کہیے کہ دریداؔ کے معنیٰ کی طرح مسلسل ملتوی ہوتا جا رہا تھا۔ ہر Trace کے اندر مزیدTracesدِکھائی دے رہے تھے۔ ‘‘ (معنی اور تناظر) ص(۲۱۲)
چنانچہ اسی نسبت سے (یعنی پُراسراریت اور نہ جان سکنے کے باعث) ڈاکٹر وزیر آغا نے نیوٹن کے مادی ایٹم کو Noumenon کے مماثل قرار دیا تھا۔ جب کہ دوسری طر ف بھنڈر کے بقول:
’’اگر نومینا کی فوق تجربی تشریح کی جائے جس کے مطابق نومینا فہم محض کے مقولات پر مشتمل ہے تو یہ درست ہو سکتا ہے کہ اسے جانا نہیں جا سکتا۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۲۱۹)
چلئے مشروط طور پر ہی سہی، بھنڈر صاحب نے کم از کم یہ عندیہ تو ظاہر کیا کہ ’’نومینا‘‘ کو جانا نہیں جا سکتا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کا روّیہ معاندانہ ہے۔ ہر چند کہ ’’اختلافِ رائے‘‘ فلسفیانہ مباحث کی بنیاد سمجھی گئی ہے، مگر بھنڈر نے اختلاف رائے کے پردے میں اپنے اندر کے تعصبات کا زیادہ مظاہرہ کیا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر وزیر آغا نے ژاک دریداؔ کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنا موقف خوش اسلوبی سے پیش کر دیا تھا۔ خود بھنڈر بھی اِس امر کا برملا اقرار کر چکے ہیں کہ :
’’آغاکا دریداؔ کے ساتھ تعلق یک رُخا نہیں بلکہ استرداد و قبولیت کا ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۶)
اِس بیان کے بعد آغا صاحب پر باربار یہ پھبتی کسنا کہ وہ دریداؔ کو سمجھنے میں ناکام رہے،ایک غیر علمی رویّہ ہے۔ آغا صاحب کا دریداؔ کے نظریات کو پرکھنے اور جانچنے کا اپنا ایک الگ زاویۂ نگاہ تھا، اُن کے نقطۂ نظر سے کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے، مگر، بھنڈر کا یہ کہنا کہ :
’’آغابنیادی قضایا کو ہی گرفت میں نہ لے سکے‘‘ بھنڈر کے جارحانہ روّیے کی غمازی کرتا ہے۔ اس سے قطعٔ نظر دریداؔ کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کا ایک اور بیان، تصویر کا دوسرا رُخ پیش کرتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں : ’’جس طرح دریداؔ دوسرے فلسفیوں کے فلسفوں میں ’’متن‘‘ کی بنیاد پر تضادات دکھاتا ہے، بالکل اسی طرح دریداؔ کے فلسفے میں اس وقت تضادات دِکھائی دیتے ہیں جب اس کے فلسفے کو بطور ’’کتاب‘‘ یا فلسفے کے طور پر پڑھا جائے۔ نہ صرف یہ کہ تضادات دِکھائی دیتے ہیں بلکہ فلسفیانہ سبجیکٹ کی بنیاد پر اُن کی تحلیل کا امکان بھی رہتا ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۳)
مگر دوسری طرف جب بھنڈر، ژاک دریداؔ کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کرتے ہیں تو دریداؔ کی وکالت کرنے پر یوں اُتر آتے ہیں کہ جیسے اُس کے پیش کردہ فلسفے میں کوئی تضاد، جھول یا تناقص سرے سے موجود ہی نہیں ہے، جب کہ ساری خامیاں اور کمیاں صرف ڈاکٹر وزیر آغا کے ڈی کنسٹرکشن کے بارے میں پیش کردہ اُن کے خیالات اور نقطۂ نظر میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ازبس ضروری ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے بطور ایک فلسفی دریداؔ کی ڈی کنسٹرکشن کا مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ بہ حیثیت ایک اَدبی نقادڈی کنسٹرکشن کے ڈسپلن کو پڑھنے ، جانچنے ، سمجھنے کی حتیٰ المقدور سعی کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر آغا نے غالبؔ کے شعر :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب ؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
کا دریداؔ کی ساخت شکنی کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ بھنڈر صاحب کو اس کے مطالعے کی دعوت اِس لیے نہیں دے رہا کہ اَدبی مطالعات ، اِن کی ترجیحات میں کہیں شامل نہیں۔ علاوہ بریں تھیوری اور ما بعد جدیدیت کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کے اخذ کردہ نتائج اُن کے گہرے تفکر کا ثمر ہیں ، نیز آغا صاحب کے اُن موضوعات پر تحریر کردہ مضامین، اُردو اَدب کے عام قارئین کی معلومات میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ اُنھیں غور و فکر کرنے پر مائل بھی کرتے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر نے عالم خود فراموشی میں تو اس حقیقت کا اقرار نہیں کیا تھا:
’’اُردو زبان میں اب تک جو مضامین یا کتابیں میری نظروں سے گزری ہیں ، اُن میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کاوش لائق تحسین ہے۔ ‘‘ (وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن) ص (۱۸۵) ’’لائق تحسین‘‘ قرار دینے کے بعد، بھنڈر کا ڈی کنسٹرکشن کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کی ہر رائے سے اختلاف کرنا اور اُن کی ہر بات کو جھٹلانا آخر کیا ظاہر کرتا ہے۔
؎ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ تھیوری اور ما بعد جدیدیت کے حوالے سے آغا صاحب نے جو کچھ تحریر کیا ہے۔ اِس بارے میں اُن کا نقطۂ نظر قابلِ فہم ہے۔ اس کے برعکس بھنڈر کے اس سلسلے میں خیالات تشریحات اور توضیحات ابہام اور ابلاغ کی پیچیدگیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
لڑھکتے ہوئے پتھروں کو بتاؤ
ہمالہ جہاں تھا، وہیں پر کھڑا ہے
(وزیر آغا)
٭٭٭
تشکر: ارشد خالد جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید