FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

علی اور جنّی

 

 

ربیعہ سلیم مرزا

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

علی اور جنّی

 

ربیعہ سلیم مرزا

 

 

 

رات کے سنّاٹے میں علی کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں، مگر اس کا دل کسی خاص کام کے انتظار میں دھڑک رہا تھا۔

دن میں جب  وہ اپنی دادی کی پرانی الماری کی صفائی کر رہا تھا تو اچانک ایک چمکدار چیز پر اس کی نظر پڑی۔  گرد سے اٹی ہوئی ایک پرانی، نیلی جلد والی کتاب، جس کے سرورق پر سنہری نقوش چمک رہے تھے۔

علی کو مدھم مدھم سا یاد تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو دادی اس بہت ساری خوبصورت کہانیاں سناتی تھیں۔ جب وہ حیرانی سے پوچھتا،  ’’دادو،  آپ نے یہ سب کہانیاں کہاں سے سُنیں‘‘

تو دادی چُپکے چُپکے مُسکاتیں اور کہتیں میرے پاس ایک کتاب ہے۔ جو مجھے یہ سب کہانیاں سُناتی ہے۔ اب دادی کے گزرنے کے بعد ان کی الماری علی اپنے کمرے میں اٹھا لایا تھا۔ اور اب اسے کتاب بالآخر مل ہی گئی تھی۔

’’علی۔‘‘

اماں کی پکار پر تب تو علی نے وہ کتاب چھپا دی تھی، لیکن اب رات میں اسے انتظار کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔

رفتہ رفتہ سب لوگ سو گئے۔ تو علی نے احتیاط سے دروازہ بند کیا۔ اور تیزی سے الماری کے پٹ وا کر کے وہ کتاب نکال لی۔

جیسے ہی علی نے اسے کھولا، کتاب کے صفحات ہوا میں لہرانے لگے اور ایک نیلا دھواں بلند ہوا۔  لمحے بھر میں وہ دھواں گھوم کر ایک شکل اختیار کر گیا۔  ایک بڑا، نیلا جن علی کے سامنے موجود تھا۔

’’میں جِنی ہوں !‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔  ’’یہ کتاب جادو کی ہے، مگر اس کے راز صرف وہی جان سکتا ہے جو دل سے سیکھنا چاہے‘‘

علی حیرت سے جن کو دیکھ رہا تھا، اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔  ’’کیا میں اس راز کو جان سکتا ہوں؟‘‘

جن نے قہقہہ لگایا۔  ’’صرف اگر تم تین آزمائشیں پاس کر لو۔‘‘

علی نے بے خوفی سے سر ہلایا، اور اچانک کتاب کے صفحات میں روشنی پھوٹ پڑی۔  اس کے بیچ میں ایک چمکدار دروازہ نمودار ہوا۔  جیسے ہی علی نے اس دروازے کو چھوا، وہ ایک جادوئی دنیا میں داخل ہو گیا۔

یہ جگہ خوابوں جیسی تھی! درختوں سے نیلی روشنی نکل رہی تھی، زمین پر چمکدار پتھر بکھرے تھے، اور ہوا میں ستارے معلق تھے۔  سامنے ایک پرانا، سنہری خزانے کا صندوق رکھا تھا، جس کے قریب جاتے ہی ایک پراسرار گونجدار آواز ابھری۔

’’انمول خزانہ وہی ہے جو آزمائش کے بعد ملے۔‘‘

علی کے پیچھے سے اچانک ایک زوردار قہقہہ گونجا۔  ایک خوفناک جادوگرنی، جو سیاہ چغہ پہنے تھی، ایک بڑی دیگ کے ساتھ کھڑی تھی۔  دیگ میں سے نیلے رنگ کا دھواں اٹھ رہا تھا، اور وہ زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ بولی،

’’اگر تمہیں یہ خزانہ چاہیے، تو پہلے یہ بتاؤ، اصل طاقت کیا ہوتی ہے؟‘‘

علی نے گہری سانس لی اور سوچا۔  خزانہ؟ طاقت؟ کیا یہ طاقت سونے اور چاندی میں ہے؟ یا جادو میں؟ اچانک اس کے ذہن میں جنی کے الفاظ گونجے،

’’انمول خزانہ وہی ہے جو آزمائش کے بعد ملے۔‘‘

علی نے اعتماد سے جادوگرنی کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا، ’’اصل طاقت علم میں ہے !‘‘

جادوگرنی ایک لمحے کو خاموش رہی، پھر اس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔  اس نے اپنے دیگ سے ایک چمکتا ہوا نیلا کرسٹل نکالا اور علی کو دیتے ہوئے بولی۔

’’تم نے اپنی آزمائش پاس کر لی!‘‘

جیسے ہی علی نے کرسٹل کو چھوا، ایک زوردار روشنی کے جھماکے کے ساتھ وہ دوبارہ کتاب کے پاس واپس آ گیا۔  جنی مسکراتے ہوئے اس کا انتظار کر رہا تھا۔

’’اب تم جادو کے سب سے بڑے راز کے حقدار ہو!‘‘ جنی نے کہا اور کتاب کھول دی۔  اس کے صفحات پر الفاظ جگمگانے لگے:

’’سچا جادو وہ ہے جو علم، ہمت اور سچائی کے لیے استعمال کیا جائے۔‘‘

علی کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔  اس نے نیلے کرسٹل کو مٹھی میں مضبوطی سے تھاما اور سوچا، اب آگے کیا ہو گا؟ کیا مجھے مزید راز ملیں گے؟

جنی نے کتاب کے صفحات پر ہاتھ پھیرا، اور وہ آہستہ آہستہ خودبخود پلٹنے لگے۔  ہر صفحے پر چمکدار سنہری نقوش بننے لگے، جیسے کسی نے انہیں آسمانی روشنی سے لکھا ہو۔

’’تم نے پہلی آزمائش پاس کر لی علی۔  مگر یہ تو محض آغاز تھا!‘‘  جنی نے مسکرا کر کہا۔

’’اگلی آزمائش تمہیں جادوئی بھول بھلیّاں میں داخل کرے گی۔  وہاں سے نکلنے کا راستہ تمہیں خود ڈھونڈنا ہو گا، لیکن یاد رکھو، راستہ وہی پائے گا جو اپنی عقل اور نیکی پر بھروسا رکھے گا۔‘‘

یہ کہہ کر جنی نے اپنے ہاتھ بلند کیے، اور نیلے دھوئیں کا ایک گرداب اٹھنے لگا۔  اچانک علی کو ایسا لگا جیسے زمین اس کے پیروں کے نیچے سے کھسک رہی ہو۔  پلک جھپکتے ہی وہ کسی اور جگہ پہنچ چکا تھا۔

یہ ایک عجیب و غریب سرنگ تھی، جس کے اندر چمکدار نیلی بیلیں لپٹی ہوئی تھیں۔  دیواروں پر سنہری روشنی جھلملا رہی تھی، اور علی کے سامنے تین دروازے تھے۔  ہر دروازے پر ایک علامت بنی ہوئی تھی:

پہلے دروازے پر ایک چمکتا ہوا تاج تھا

دوسرے پر ایک کھلی ہوئی کتاب بنی تھی۔

تیسرے دروازے پر دل کی شکل تھی۔

’’صحیح دروازہ چننے کے لیے، اپنے دل اور دماغ دونوں کا استعمال کرو!‘‘ علی نے اپنے اندر جنی کی آواز گونجتی محسوس کی۔

علی نے سوچا۔

’’کیا تاج طاقت کا نشان ہے؟ نہیں، طاقت ہمیشہ صحیح راستہ نہیں ہوتی…‘‘

’’کیا کتاب صحیح انتخاب ہو سکتی ہے؟ علم اہم ہے، لیکن شاید یہ اتنا آسان نہیں …‘‘

’’دل کا نشان؟ نیکی، محبت اور سچائی کی علامت؟‘‘

اس کے دل نے اسے اشارہ دیا کہ وہ دل والے دروازے کو چُنے۔  اس نے ہمت کر کے دروازے کو چھوا، اور اچانک روشنی کی ایک لہر پھیل گئی۔

وہ ایک نئی دنیا میں پہنچ چکا تھا!

یہ جگہ نہایت خوبصورت تھی۔  ہر طرف بڑے بڑے آئینے لگے تھے، اور ان آئینوں میں علی کو اپنے مختلف عکس نظر آ رہے تھے -کبھی وہ بچپن میں اپنی دادی کے ساتھ تھا، کبھی وہ اپنی ماں کی مدد کر رہا تھا، اور کبھی وہ کسی دوست کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہا تھا۔

اچانک، ایک آئینہ روشن ہو گیا، اور اس میں ایک پراسرار سایہ نمودار ہوا۔  یہ ایک دھندلی سی مخلوق تھی، جس کے سرخ چمکتی ہوئی آنکھیں تھیں۔

’’تم نے صحیح دروازہ چن لیا، لیکن ابھی تمہاری آزمائش ختم نہیں ہوئی، علی!‘‘ مخلوق کی گونجتی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’اگر تم واقعی اس جادوئی کتاب کے مالک بننا چاہتے ہو، تو یہ بتاؤ:  سب سے بڑی طاقت کیا ہے؟‘‘

علی کے ذہن میں فوراً پہلا سبق آیا-’’اصل طاقت علم میں ہے !‘‘ لیکن وہ رکا۔

’’نہیں، اس سے بڑی طاقت بھی ہونی چاہیے … کیا یہ نیکی ہے؟ یا سچائی؟‘‘

علی نے گہری سانس لی اور مسکرا کر جواب دیا:  ’’سب سے بڑی طاقت محبت ہے‘‘

اچانک ہر آئینہ جگمگانے لگا، اور مخلوق غائب ہو گئی۔  جنی کی آواز گونجی:

’’علی، تم نے دوسری آزمائش بھی پاس کر لی!‘‘

علی کے ہاتھ میں اچانک ایک سنہری چابی نمودار ہوئی۔  یہ چابی چمک رہی تھی، جیسے اس میں کوئی خاص جادو چھپا ہو۔

’’یہ چابی کس کام کی ہے؟‘‘ علی نے سوچا، مگر جنی کی ہنسی سنائی دی:

’’یہ جاننے کے لیے تمہیں تیسری آزمائش کا سامنا کرنا ہو گا!‘‘

علی نے سنہری چابی کو غور سے دیکھا۔  وہ جانتا تھا کہ اس میں کوئی خاص راز چھپا ہے، مگر یہ چابی کس دروازے کو کھولے گی؟

اچانک، ایک تیز روشنی چمکی، اور علی نے خود کو ایک نئے مقام پر پایا۔  یہ جگہ کسی پراسرار محل کی مانند تھی۔ اونچی دیواریں، سنہری ستون، اور بیچ میں ایک بڑا دروازہ، جس کے درمیان میں چابی کے برابر کا سوراخ تھا۔

’’یہی تمہاری آخری آزمائش ہے، علی!‘‘ جنی کی آواز گونجی۔

’’یہ دروازہ کھولو، مگر یاد رکھو، اندر جو کچھ بھی ہو گا، وہ تمہارے دل اور نیت کا امتحان لے گا!‘‘

علی نے پر جوش ہو کر چابی دروازے میں ڈالی اور آہستہ سے گھمائی۔  ایک گہری گونج سنائی دی، اور دروازہ خودبخود کھل گیا۔

وہ ایک وسیع وادی میں آ پہنچا۔

یہاں آسمان نیلے اور جامنی رنگ میں گھلا ملا تھا، اور زمین پر سنہری گھاس اُگی تھی۔  علی نے جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھایا، اچانک ایک پراسرار آواز سنائی دی۔

’’خوش آمدید، علی!‘‘

سامنے ایک باریش بزرگ کھڑے تھے، جن کی آنکھیں کسی جادوئی روشنی سے جگمگا رہی تھیں۔

’’کیا تم جانتے ہو کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘

علی نے نفی میں سر ہلایا۔  بزرگ مسکرا دیے اور بولے:

’’یہاں ایک ایسا راز چھپا ہے جو صدیوں سے صرف منتخب لوگوں کو ملتا آیا ہے۔  لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے تمہیں اپنی سب سے بڑی کمزوری کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘

’’میری سب سے بڑی کمزوری؟‘‘ علی نے حیرت سے پوچھا۔

بزرگ نے ہاتھ بلند کیا، اور اچانک ہوا میں ایک آئینہ نمودار ہوا۔  علی جیسے ہی اس کے قریب گیا، اس میں اس کا اپنا عکس نظر آیا، مگر… یہ ویسا نہیں تھا جیسا وہ خود کو جانتا تھا۔

یہ عکس اُس علی کا تھا جو کبھی ضدی، غصے والا اور لا پرواہ ہوا کرتا تھا۔

’’یہ تمہارا پرانا عکس ہے، علی!‘‘ بزرگ نے کہا۔

’’اگر تم اسے قبول کر سکتے ہو، اس سے سیکھ سکتے ہو، اور خود کو بہتر بنا سکتے ہو، تب ہی تم اس آزمائش میں کامیاب ہو گے۔‘‘

علی کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔  اس نے اس عکس کو غور سے دیکھا۔  وہ مانتا تھا کہ وہ ہمیشہ نیک اور بہادر نہیں تھا۔  کبھی کبھی وہ اپنی ماں کی بات نہیں مانتا تھا، کبھی کبھی وہ دوسروں کی مدد کرنے کے بجائے خود غرض ہو جاتا تھا، کبھی وہ اپنی غلطیوں کو ماننے سے انکار کر دیتا تھا۔

مگر اب، وہ سمجھ چکا تھا۔

’’ہاں، میں نے غلطیاں کی ہیں‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔

’’مگر میں ان سے سیکھنا چاہتا ہوں۔  میں بہتر بننا چاہتا ہوں۔‘‘

اچانک آئینہ چمک اٹھا اور علی کا عکس مسکرا دیا۔  آئینہ ٹوٹ کر سنہری روشنی میں بدل گیا، اور وہ روشنی علی کے دل میں اترتی محسوس ہوئی۔

بزرگ نے خوشی سے سر ہلایا۔

’’تم نے اپنی آخری آزمائش بھی پاس کر لی، علی! اب تم جادوئی کتاب کے اصل راز کے حقدار ہو۔‘‘

جیسے ہی بزرگ نے ہاتھ بلند کیا، جنی دوبارہ نمودار ہوا، اور جادوئی کتاب کھل گئی۔  اس کے صفحات پر ایک نیا سنہری جملہ جگمگایا۔

’’سب سے بڑی طاقت وہ ہے جو تم اپنے اندر پیدا کرتے ہو۔ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر، سچائی کو قبول کر کے، اور دوسروں کی مدد کر کے۔‘‘

علی مسکرا دیا۔  وہ جان چکا تھا کہ حقیقی جادو کسی منتر میں نہیں، بلکہ انسان کی نیت، اس کے عمل اور اس کے علم میں ہوتا ہے۔

یہی اس جادوئی کتاب کا سب سے بڑا راز تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل