FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

علامہ اقبال پر جوش کے اعتراضات کا جائزہ

 

 

                پروفیسر ایوب صابر

 

 

 

 

 

 

 

جوش ملیح آبادی نے اپنی سوانح عمری یادوں کی برات، اپنی منظومات، انٹرویو اور کالم میں علامہ اقبال کے فکری انہدام کی سخت کوشش کی ہے۔  یادوں کی برات میں لکھتے ہیں کہ

روح ادب شائع ہوئی تو اقبال نے میری شاعری کی تعریف کی اور یہ بھی فرمایا کہ حافظ اور ٹیگور کی پیروی ترک کر کے فکری شاعری کی طرف آ جاؤں۔  میری تخئیل کا دھارا زور شور سے تصوف کی وادیوں کی طرف بہہ رہا تھا، ان کی نصیحت پر عمل پیرا نہ ہو سکا لیکن یہ نصیحت مجھ پر اثر کرتی رہی اور جب تصوف سے روگردانی کر کے میں سیاسی شاعری کرنے لگا اور سیاست سے مڑ کر میری شاعری تجسس اور تشکک کی جانب گامزن ہو گئی تو میرے ناصح حضرت اقبال کی شاعری اقوال، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس تصوف اور مابعدالطبیعیات سے انہوں نے مجھے روکا تھا، اس پر ’حرکی ‘ کا لیبل لگا کر وہ خود اسی طرف چلے گئے اور عقل کو ’ بولہب ‘ اور ’’عشق‘‘ کو ’’مصطفیٰ‘‘ کا خطاب دے کر— السلام اے عشق خوش سودائے ما۔ — کے نعرے لگانے لگے۔

اس کے بعد جوش ملیح آبادی لکھتے ہیں :

چونکہ وہ اعلیٰ درجے کے پڑھے لکھے اور بلا کے ذہین انسان تھے، اس لیے شروع شروع میں انہوں نے مغرب کے الحاد اور مشرق کے مابین مصالحت کی بڑے خلوص کے ساتھ کوشش کی۔  لیکن جب ان کی سعی مشکور نہیں ہوئی تو انہوں نے، نٹشے کے ’’ مافوق البشر ‘‘ کو مشرف بہ اسلام کر کے ’’ شاہین بچہ ‘‘ بنا دیا۔  قرآن کے مردود لفظ  ’’عشق ‘‘ کو آسمان پر چڑھا کر اسے تمام انسانی شرف و مجد کا مرکز تسلیم کیا اور قرآن کے محبوب لفظ  ’’عقل‘‘ کو خاک میں ملا کر، اس کو تمام مقاصد کا سر چشمہ ٹھہرا دیا۔  اور میں چیخ اٹھا :

چیست، یاران طریقت، بعدازیں تدبیر ما (۱)-

اسی کتاب میں، آگے چل کر، ’’پلان چٹ‘‘ کے ذریعے اقبال کو آدھا شاعر قرار دیا ہے۔  بقول جوش

’’ پلان چٹ لکٹری کا ایک، قلب صورت، آلہ ہوتا ہے جس کے ایک طرف پنسل لگانے کا سوراخ ہوتا ہے، اور جب کسی کی ’ روح‘ بلا نے کے واسطے، ذہن پر زور ڈالا جاتا ہے تو وہ آلہ خودبخود معرض حرکت میں آ جاتا اور کاغذ پر جوابات لکھنے لگتا ہے ‘‘(۲)-

اس پلان چٹ کی ’مدد‘ سے غالب کو مغلوب اور فانی کو ایک فاحشہ عورت کا عاشق قرار دیا ہے۔  پلان چٹ کا اعتبار قائم کرنے کے لیے تلک کی ایک پیش گوئی بیان کی جو آزادی کے بارے میں تھی اور سچی ثابت ہوئی۔  یہ تمہید اٹھانے کے بعد علامہ اقبال پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں :

’’ فانی صاحب نے ایک رات کو میر تقی میر کی ’روح ‘ کو بلا کر پوچھا : اقبال کیسے شاعر ہیں پلان چٹ نے لکھا : میں ان کو آدھا شاعر مانتا ہوں، اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے ‘‘(۳)۔

یادوں کی برات ہی میں علامہ اقبال پر، کچھ الزامات قاضی خورشید احمد کے حوالے سے عائد کیے ہیں۔  اقبال کا شعر ہے :

کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

بقول جوش، قاضی خورشید احمد نے یہ شعر سن کر زور سے منہ جھٹکا، لاحول پڑھی اور کہا بھلا یہ بھی کوئی شعر ہے۔  شاعر صاحب اللہ تعالیٰ سے فرما رہے ہیں کہ ہر چند میرے ماتھے میں ہزاروں سجدے پھدک رہے ہیں لیکن تو جب تک چانکی بائی آف الہ آباد کے لباس میں، انگیا کرتی پہن کر نہیں آئے گا، میں تیری بار گاہ میں سجدہ نہیں کروں گا۔  اس سے زیادہ مادہ پرستی اور اہانت الٰہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جوش لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب کو اس غزل کے دو اور شعر یاد آ گئے جن میں سے پہلا یہ ہے :

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم ہائے سیاہ کو، ترے عفو بندہ نواز میں

اس پر قاضی موصوف کا (بقول جوش ) انتقاد یہ تھا کہ شعر کے معنی یہ ہوئے کہ شاعر نے جس قدر بھی اودے، نیلے، پیلے، سفید اور دھانی گناہ کیے تھے، وہ جب پناہ مانگنے آئے تو انہیں بھگا دیا گیا اور شاعر صاحب کے حبشیوں کی طرح کالے گناہوں کو پناہ دے دی گئی۔  اس کے علاوہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’ جہاں ‘‘ کا لفظ انتہائی حشو ہے۔ – اسی حوالے سے جوش لکھتے ہیں :

’’اب دوسرا شعر دیکھیے

کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا تو حرم سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو ہے

بحرم چو سجدہ کردمز حرم ندا برآمد

کہ مرا خراب کر دی تو بسجدۂ ریائی

اور دوسری بات یہ ہے کہ مصرعہ اول کے جزو اول یعنی ’’ کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جس کو میں زبان پر نہیں لا سکتا۔  تو بہ توبہ ’’ کھڑا ہوا ‘‘۔  ایسی فحاشی۔  معاذ اللہ ‘‘ (۴)

ایک انٹرویو میں جو ۱۹۷۸ء میں، پاکستانی اخبارات میں، شائع ہوا تھا، جوش ملیح آبادی نے، علامہ اقبال کے بارے میں کہا :

’’میرے نزدیک قدرت نے انہیں سمندر بنایا تھا۔  وہ کوشش کر کے ایک دریا میں تبدیل ہو گئے۔  قدرت نے انہیں آفاقی شاعری کے لیے پیدا کیا تھا۔  وہ اسلامی شاعری پر اتر آئے۔  وہ قطبین کو چھو سکتے تھے۔  لیکن انہوں نے اپنے آپ کو محدود کر لیا، عرب اور حجاز میں۔  پھر انہوں نے جو تعلیم دی اس سے نقصان پہنچا ‘‘-

ایک روز وہ بیمار تھے۔  میں پہنچا ان کے پاس۔ — میں نے ان سے کہا صاحب آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسلام اور قرآن کی۔  اس لیے کہ ہم لوگ جو ہیں، اسلامی شاعر نہیں ہیں۔  آپ مبلغ اسلام ہیں۔  آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ اسلام کے خلاف باتیں کریں۔ — عشق کو قرآن نے ترک کیا۔  تھرڈ کلاس کے حب کے لفظ کو قرآن نے لیا۔ — عشق جو ہے وہ قرآن کا مردود لفظ ہے۔ — فکر اس کا محبوب لفظ ہے۔  تو آپ نے قرآن کے محبوب لفظ کو مردود قراد دیا اور مردود لفظ کو محبوب قرار دیا۔  آپ فرماتے ہیں ؎

عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب‘‘(۵)

عشق کا لفظ قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔  یہ بات جوش ملیح آبادی کو معلوم ہوئی تو اقبال شکنی کے لیے ایک ہتھیار ان کے ہاتھ آ گیا ؛ چنانچہ اپنے شعروں میں، اس حوالے سے، اقبال کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا ہے :

اک جنس کا میلان ہے اور کچھ بھی نہیں

اک جسم کا ہیجان ہے اور کچھ بھی نہیں

اے مرد خدا ! روح سے کیا عشق کو کام

یہ خون کا ارمان ہے اور کچھ بھی نہیں

سوئے ہوئے فتنوں کو جگا دیتی ہے

جاگے ہوئے ذہنوں کو سلا دیتی ہے

جس قوم کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

وہ عقل سے عشق کو بڑھا دیتی ہے (۶)

یا علم کی منزلوں میں گھبراتے ہیں

یا علم کی وادیوں سے کتراتے ہیں

کیوں شرم انہیں آتی نہیں اے عقل سلیم

جو لوگ کہ عشق عشق چلاتے ہیں (۷)

اردو ادب کے آٹھ سال مرتبہ عشرت رحمانی ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی۔  ’عقل و عشق‘ کے عنوان سے جوش کی یہ نظم بہترین سمجھ کر شامل کی گئی:

وہاں معقولیت کی اور پرسش ہو، یہ ناممکن

جہاں مجذوبیت ہے دولت کون و مکاں ساقی

قیامت ہے خودی کا دیوتا بھی یہ نہیں کہتا

کہ اے انسان تو خود ہے خدائے این و آں ساقی

پہن کر مغربی پہناؤں کی سب سے بڑی ٹوپی

نیا ملا سناتا ہے پرانی داستاں ساقی

وہی عشق سبک سر، خیر سے جو عقل کی ضد ہے

جسے مطلق نہیں اندازۂ سود و زیاں ساقی

وہی عشق فریب انگیز جس کے دام میں آ کر

دم اژدر پکڑ لیتا ہے طفل ناتواں ساقی

لباس عشق میں وہ خبط ہے یہ کون سمجھے گا

نہیں جس عشق کی دست فراست میں عناں ساقی

بہت کم لوگ واقف ہیں کہ عشق پختہ و بالغ

نہال عقل کی ہے ایک شاخ مے چکاں ساقی

کسے سمجھائیں کن الفاظ میں اور کس توقع پر

کہ نور عقل سے روشن ہے یہ سارا جہاں ساقی

کہ دانش صرف دانش ہے لباس مردم کامل

کہ حکمت صرف حکمت ہے کلاہ مقبلاں ساقی

یہ ہند و پاک کیا، کل ایشیا اک خواب آبا ہے

یہ تیرا جوش بیداری کو لے جائے کہاں ساقی ؟(۸)

’’حب وطن اور اسلام‘‘ کے عنوان سے، جوش کی حسب ذیل نظم، اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی:

ظرف اور اس حد تک کا تنگ اے حامی دین مبیں

حیف ! اے نا آشنائے رحمۃ للعالمیں

سعی کرنا چاہیے پہلے تو گھر کے واسطے

گھر سے فرصت ہو تو پھر نوع بشر کے واسطے

تیرے لب پر ہے عراق و شام و مصر و روم و چین

لیکن اپنے ہی وطن کے نام سے واقف نہیں

کون کہتا ہے زمین و آسماں تیرا نہیں

کل جہاں تیرا، مگر ہندوستاں تیرا نہیں

مرد حق کو قعر باطل سے ابھرنا چاہیے

کعبۂ حب وطن میں سجدہ کرنا چاہیے

سب سے پہلے مرد بن ہندوستاں کے واسطے

ہند جاگ اٹھے گا پھر سارے جہاں کے واسطے (۹)

مخالفت اقبال کے سلسلے میں جوش ملیح آبادی کی تان ایک اخباری کالم پر ٹوٹتی ہے جس میں علامہ اقبال کو، نام لیے بغیر، غدار قرار دیا ہے۔  کالم کا متعلقہ حصہ حسب ذیل ہے :

’’ اور اس خون کو کھولا دینے والے موقع پر جبکہ ہندوستان کے راہنماؤں کے سروں پر ڈنڈے برس رہے تھے اور ان کو جیل کی کوٹھڑیوں میں ٹھونسا جا رہا تھا، اس وقت ہم (شعرائے اردو) اپنی غداری کے صلے میں انگریز سرکار سے ’’ ان بہادر ‘‘ اور ’’سر‘‘ کے خطاب وصول پا رہے تھے ‘‘(۱۰)

علامہ اقبال پر جوش کے اعتراضات کو، تفصیلاً، ان کے اپنے الفاظ میں نقل کیا گیا ہے۔  مختصراً یہ اعتراضات حسب ذیل ہیں :

۱۔  ایک مصرعے میں اقبال نے ’جہاں ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ’انتہائی حشو ‘ ہے۔

۲۔  ’ جرم ہائے سیاہ ‘ غلط۔  جرم کالے، پیلے اور سیاہ نہیں ہوتے۔

۳۔  اقبال علم کی وادیوں سے کتراتے ہیں۔

۴۔  اقبال، مسلم ممالک کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہندوستان کا نام نہیں لیتے۔  وہ ’حب وطن‘ سے بے بہرہ، لہٰذا ’قعر باطل‘ میں غرق ہیں۔

۵۔  اقبال آفاقی شاعری کے لیے پیدا کیے گئے تھے، لیکن وہ اسلامی شاعری پر اتر آئے، اور اس طرح محدود ہو کر رہ گئے۔

۶۔  اللہ تعالیٰ سے لباس مجاز میں نظر آنے کی خواہش کا اظہار کر کے اقبال، ’مادہ پرستی ‘ اور ’اہانت الٰہی کے مرتکب ہوئے۔

۷۔  کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جسے زبان پر نہیں لایا جا سکتا۔

۸۔  اقبال نے ’عشق کو آسمان پر چڑھا دیا ‘ اور ’ عقل کو خاک میں ملا دیا ‘ حالانکہ ’ عشق ‘ قرآن کا مردود اور ’عقل‘ محبوب لفظ ہے۔

۹۔  اقبال آدھے شاعر ہیں، اس لیے کہ وہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں، اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے۔

۱۔۔  اقبال نے نٹشے کے ’مافوق البشر‘ کو مشرف بہ اسلام کر کے ’شاہین بچہ ‘ بنا دیا۔

۱۱۔  اقبال کی شاعری اقوال، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی۔

۱۲۔  اقبال نے تصوف اور مابعد الطبیعیات کو ’ حرکی ‘ کا لیبل لگا کر اپنا لیا۔

۱۳۔  انگریز سرکار سے اقبال نے سر کا خطاب غداری کے صلے میں وصول کیا۔

ان میں سے بیشتر الزامات۔ – دوسرے مخالفین اقبال نے بھی، اپنے اپنے انداز میں، اقبال پر عائد کیے ہیں۔ – ان کا مطالعہ وجائزہ راقم کا خاص موضوع ہے۔  تاہم جوش کے خاص حوالے سے ان الزامات کا مطالعہ خاصا دلچسپ ہے، اس لیے کہ بیشتر اعتراضات کا ہدف جوش خود بنتے ہیں، اور علامہ اقبال پر یہ الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں۔  جوش، علامہ اقبال کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور اس خبط میں بری طرح مبتلا ہیں۔  اس خبط کے محرکات کا ذکر بھی ہو گا، لیکن پہلے علامہ اقبال کے خلاف عائد کیے گئے الزامات پر ایک نظر ڈال لینا مناسب رہے گا۔

’ نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ میں ’جہان ‘ کو جوش نے ’ انتہائی حشو ‘ قرار دیا ہے۔  ’انتہائی ‘ کا لفظ یہاں بہرحال حشو ہے۔  سوال اصل یہ ہے کہ یہاں لفظ ’جہاں ‘ حشو ہے یا نہیں۔  ابتدائی یا انتہائی کے لفظ کا اضافہ بے معنی اور فالتو ہے۔  اقبال کے مصرع میں لفظ ’جہان‘ معنی کی تکمیل کرتا ہے۔  اس کے برعکس جوش کے ہاں الفاظ ہی نہیں، پورے مصرعے، پورے شعر اور پورے پورے بندحشو ہوتے ہیں۔  پہلے چند مثالیں حشو الفاظ کی پیش کی جاتی ہیں :

ہندوستان سے خطاب کرتے ہوئے جوش کہتے ہیں ؎

تجھ کو عورت نے جنا ہے، جھوٹ ہے یہ اولیں

آدمی کی نسل سے اور تو، نہیں ہرگز نہیں ! (۱۱)

کسی ملک کو عورت جنتی ہے اور کیا وہ آدمی کی نسل سے ہوتا ہے ؟ اس سے قطع نظر نشاندہی اس بات کی کرنی ہے کہ شعر کے پہلے مصرعے میں ’ یہ اولین ‘ حشو ہے۔  یہ الفاظ زائد ہیں اور محض وزن پورا کرنے کے لیے ٹھونسے گئے ہیں۔

’ کیا گل بدنی ‘ کا ایک شعر ہے ؎

یہ طے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی

مہکا ہوا یہ تن ہے کہ یہ رات کی رانی

دوسرے مصرعے میں ایک ’ یہ ‘ حشو ہے۔  یہ مصرع اس طرح درست ہوتا ہے ؎

مہکا ہوا یہ جسم ہے یا رات کی رانی (۱۲)

اثر نے کہا تھا کہ ’’ جوش دل پھینک بھی ہیں اور الفاظ پھینک بھی ‘‘ (۱۳)۔  پروفیسر جگن ناتھ آزاد، مثالیں دے کر، لکھتے ہیں :

’’ جوش صاحب کی نظم چالیس بند پر مشتمل ہونے کے باوجود جہاں سے چلی تھی، قریب قریب وہیں آ کے ختم ہو گئی، اوراقبال کی نظم کا مذکورہ بند نو اشعار میں اتنی منزلیں طے کر گیا کہ اس پر اس وقت تک دنیا کی مختلف زبانوں میں صفحے کے صفحے لکھے جا چکے ہیں (۱۴)۔

رشید حسن خان نے جوش کی نظم ’’ ماتم آزادی ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے اکتالیسواں بند نقل کیا ہے، جو یوں ہے ؎

سرو سہی، نہ ساز، نہ سنبل، نہ سبزہ زار

بلبل، نہ باغباں، نہ بہاراں، نہ برگ و بار

جیحوں، نہ جام جم، نہ جوانی، نہ جوئیبار

گلشن، نہ گل بدن، نہ گلابی، نہ گل عذار

اب بوئے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ

وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’ لفظ جمع کر دیے گئے ہیں، حرفوں کی مناسبت سے۔  اصل بات وہ ہے جو آخری مصرعے میں کہی گئی ہے۔  چھے مصرعوں کے بند میں پانچ مصرعے قطعاً زائد اور فضول ہیں ‘‘(۱۵)۔

رشید حسن خان کے مضمون کا عنوان ہے ’’ جوش کی شاعری میں لفظ اور معنی کا تناسب‘‘- اس مضمون میں وہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’’ جوش ملیح آبادی کی چار چھے نظمیں پڑھی جائیں یا ان کے دو چار شعری مجموعوں کا مطالعہ کیا جائے، دونوں صورتوں میں آخر کار یہی تاثر ذہن میں باقی رہ جائے گا کہ شاعر ایک بات کو بار بار کہنے اور ایک پھول کے مضمون کو، سو رنگ سے نہیں، سو لفظوں میں دہرانے کے شوق بے حد کا مارا ہوا ہے ‘‘۔  وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’لفظ ان کے یہاں مفہوم کی توسیع نہیں کرتے، محض تکرار کرتے ہیں، اور یہ تکرار بالآخر بے مزا ہو کر رہ جاتی ہے۔ — آپ ان کے مجموعے کو پڑھ لیں تو پھر باقی مجموعوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔  ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ لفظی اصراف کی بدترین مثال کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘(۱۶)۔

رشید حسن خان مزید لکھتے ہیں :

’’ موضوع سخن کوئی ہو، عنوان کچھ بھی ہو، انداز ایک ہے۔  یعنی وہی فضول گوئی اور وہی تکلف نگاری اور تصنع آرائی۔ — مجاز نے جوش کو ’’ڈکشن ‘‘ کے بجائے ’’ڈکشنری‘‘ کا شاعر کہا تھا۔  اس ایک جملے میں مجاز نے بہت کچھ کہہ دیا (۱۷) ‘‘-

جوش نے اقبال کی ترکیب ’جرم ہائے سیاہ ‘ کو غلط قرار دیا ہے، اس لیے کہ جرائم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔  اودے، نیلے، پیلے، سفید اور دھانی گناہوں کا ذکر کر کے اور حبشیوں کی طرح کالے گناہوں کی تشبیہ استعمال کر کے مضحکہ بھی اڑایا ہے ؛ حالانکہ یہ ترکیب خود جوش ملیح آبادی کے ہاں بھی ملتی ہے ؎

جتنے بھی زمیں پر مجرم ہیں، خواہش ہی کے زیر فرماں ہیں

ہر جرم سیہ کے محضر پر خواہش ہی کی مہریں تاباں ہیں (۱۸)

جوش نے علامہ اقبال پر ’ علم کی وادیوں سے کترانے ‘ کا الزام عائد کیا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ اس الزام کے مصداق خود جوش ہیں۔  اقبال کو علم حاصل کرنے کے جو مواقع میسر آئے، ان سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔  سید میر حسن سے بھر پور فیض اٹھایا اور اردو، فارسی، عربی پر دستگاہ حاصل کی۔  لاہور پہنچ کر بی اے اور ایم اے کیا اور پروفیسر آرنلڈ سے، فلسفے کے ضمن میں، خاص طور پر استفادہ کیا- پھر وہ یورپ گئے اور بہت کچھ حاصل کر کے واپس آئے۔  یورپ میں انہوں نے نہ صرف پی ایچ ڈی اور بیرسٹری کی اسناد حاصل کیں بلکہ یورپی تہذیب کا گہرا مشاہدہ کیا۔  اقبال نے زندگی بھر مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف علوم کے سلسلے میں ایک مفکرانہ نظر پیدا کر لی۔  بقول ابوالاعلیٰ مودودی علامہ اقبال علم کا سمندر پئے بیٹھے تھے (۱۹)۔

شبیر حسن خان کو بھی علم حاصل کرنے کے مواقع ملے، لیکن اپنے جنسی مشاغل کی بدولت انہیں ضائع کر دیا۔  یہ قصہ جوش نے فخریہ بیان کیا ہے۔  یادوں کی برات میں وہ ’’ علی گڑھ میں۔  ایم اے او کالج میں میرا داخلہ ‘‘ کے زیر عنوان رقم طراز ہیں :

’’ ہر چند مظہر علیم صاحب مہربان استاد تھے مگر ایک ناگفتنی علت کی بنا پر ہمارے مابین رقابت پیدا ہو گئی تھی اور وہ محسن اللہ خان، عبدالجلیل خان اور مجھ سے ناخوش رہا کرتے تھے۔ — ایک بار مجھے اور محسن کو یہ شرارت سوجھی کہ، چھت کے روشندان سے، مظہر علیم صاحب کے منہ پر پیشاب کیا جائے۔  چنانچہ، رات کے بارہ بجے، ہم دونوں چھت پر چڑھ گئے۔  ان کے کمرے میں لیمپ جل رہا تھا۔  ہم نے جب یہ دیکھا کہ عین روشن دان کے نیچے ان کی چار پائی بچھی ہوئی ہے، تو ہم دونوں نے بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے اپنے پائے جامے کھولے اور نشانہ باندھ کر، شر شر ان کے منہ پر دھاریں مارنے لگے۔  سوتے میں ان کے منہ پر جب گرما گرم پیشاب کی دھاریں پڑنے لگیں، وہ چیخ مار کر اٹھ کر کھڑے ہوئے ‘‘-

جوش نے کتاب ضبط ہونے کے خوف سے ’’ ناگفتنی شرارتیں ‘‘ نہیں لکھیں۔  اپنے نزدیک جو گفتنی شرارتیں تھیں، وہ بیان کی ہیں۔  بہرحال، ان شرارتوں کا محور جوش کا جنسی رجحان تھا۔  موصوف کو کالج سے نکال دیا گیا (۲۰)، اور وہ میٹرک تک بھی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔  تین چار دوسرے سکولوں میں بھی انہوں نے داخلہ لیا لیکن میٹرک نہ کر سکے (۲۱)۔

ان حقائق کی روشنی میں ’علم کی وادیوں سے کترانے ‘ کا علامہ اقبال پر جوش کا الزام، جوش کی حیلہ جو عقل کا شاہکار ہے۔

علم کی وادیوں سے کترانے کا مفہوم ممکن ہے جوش کے نزدیک یہ ہو کہ اقبال نے علم کی مخالفت کی ہے یا علم کی اہمیت سے انکار کیا ہے۔  معترضین اقبال نے یہ الزام، بہرحال، اقبال کے خلاف عائد کیا ہے۔  یہ غلط فہمی اقبال کے سطحی مطالعے سے پیدا ہوئی ہے (۲۲)۔  اقبال اللہ اور رسولؐ کی محبت کو، عقل اور علم سمیت، ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں، لیکن وہ نہ عقل کے مخالف ہیں اور نہ علم کے۔  اقبال کا حقیقی مقصد علم کی اہمیت کا انکار نہیں بلکہ عشق کو اہم تر قرار دینا ہے ؛ بشرطیکہ علم کے ساتھ فروتر مقاصد وابستہ نہ ہوں، اور عشق بھی حقیقی نصب العین یعنی اللہ سے ہو(۲۳)۔ علم اور عشق، دونوں انسان کے امتیازی اوصاف ہیں، تاہم اپنے نصب العین سے شدید محبت کا مرتبہ بلند تر ہے۔  حسب ذیل اشعار سے اقبال کے موقف کی وضاحت ہوتی ہے ؎

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی

نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی(۲۴)

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل (۲۵)

وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں

تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم ! (۲۶)

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جو (۲۷)

آخری شعر کا وہی مفہوم ہے جو مولانا رومی کے مصرعے ’’ علم را برتن زنی مارے بود‘‘ کا ہے۔  اسی طرح اگر عشق حقیقی نصب العین کے ساتھ نہ ہو تو مادہ پرستی کی مختلف شکلیں جنم لیتی ہیں۔  زن پرستی، نسل پرستی، وطنیت پرستی اور زر پرستی وغیرہ مادہ پرستی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔

اقبال حب وطن سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے۔  ’ہمالہ‘ سے لے کر جو ’بانگ درا‘ کی پہلی نظم ہے، ’شعاع امید ‘ تک جو آخری زمانے کا کلام ہے، اقبال کشور ہندوستان سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔  تاہم حب وطن (Patriotism) اور وطنیت پرستی (Nationalism)میں فرق ہے۔  اقبال نے ۱۹۔ ۵ء تک نیشنلزم کی حمایت کی لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا، ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کی جگہ ’’ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کا نظریہ اختیار کر لیا۔  یہ ذہنی سفر محدود وطن پرستی سے اسلامی بین الاقوامیت کی طرف تھا۔  ملت اسلامیہ کسی ایک علاقے میں محدود نہیں ہے۔  وہ مکانی اور زمانی حدود سے ماورا ہے۔  اقبال جہاں عراق، شام، مصر اور فلسطین کا ذکر کرتے ہیں، وہاں ہندوستان کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ مشرق و مغرب کی شب کو سحر کرنے کے آرزو مند ہیں۔  وطنی قوم پرستی قید مقامی کا شکار ہوتی ہے۔  اقبال ملت کو ’قید مقامی ‘کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں اور اسے آفاقی کردار کے لیے آمادہ کرتے ہیں، جو اس کا اصل کردار ہے ؎

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ؟

ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے (۲۸)

علامہ اقبال وطنی قوم پرستی کے ’قعر باطل‘ سے ابھر کر ہی عظیم اسلامی شاعری کر پائے۔  یہ حق پرستی تھی۔  اقبال کے آفاقی نقطۂنظر کو محکم بنیاد اسلامی فکر ہی نے مہیا کی۔

ہمہ اوستیوں کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اہانت الٰہی کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ مادی کائنات ہی کو خدا تصور کرتے ہیں۔  خدا کو لباس مجاز میں دیکھنے کی خواہش سے اہانت الٰہی کیسے ہو گئی؛ جبکہ شاعر کو معلوم ہے کہ ایسا کبھی ہوا نہیں۔  یہ تو محبت کا ایک اظہار ہے۔  ’’ میں تیری درگاہ میں تب تک ایک بھی سجدہ نہیں کروں گا ‘‘، اقبال کے شعر کا مفہوم نہیں ہے ؛ البتہ جوش نے خود اس طرح کی باتیں کہی ہیں اور بار بار اہانت الٰہی کا ارتکاب کیا ہے۔  کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں ؎

یقیں ہے تو کیوں گم ہے گرداب میں

جھلک قصر دانش کی محراب میں

یقیں بن کے جب تک نہ آئے گا تو

تو اے وہم دیرینۂ اہل ھو،

رہ کفر کی خاک چھانے گا جوش

نہ مانا ہے تجھ کو نہ مانے گا جوش (۲۹)

جوش کا رویہ محبت کا نہیں، چیلنج کا ہے۔  اللہ کو چیلنج کرنا اللہ کی توہین کے مترادف ہے۔  حسب ذیل رباعی میں جوش نے اہانت الٰہی کا ارتکاب انتہائی حد تک کیا ہے ؎

کل رات گئے عین طرب کے ہنگام

پر تو یہ پڑا پشت سے کس کا سر جام

تم کون ہو، جبریل ہو، کیوں آئے ہو

سرکار فلک کے نام کوئی پیغام (۳۰)

جوش معترض ہیں کہ ’’ کبھی قبلہ رخ جو کھڑا ہوا ‘‘ میں ایک ایسی فحاشی اور بدتمیزی کی گئی ہے جسے زبان پر نہیں لایا جا سکتا ؛ حالانکہ جوش کی زبان پر اس سے زیادہ فحش الفاظ آتے ہیں۔  اور اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ خود جوش نے گھڑے ہیں اوراقبال سے منسوب کر دیے ہیں۔  علامہ اقبال کا شعر اس طرح ہے ؎

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں (۳۱)

جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ میں نے جوش سے کئی بار کہا کہ پہلا مصرع یوں نہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں۔  لیکن وہ صرف یہی نہیں کہ اس کو اسی طرح پڑھنے پر مصر تھے بلکہ اس پر اعتراضات بھی کرتے تھے جن میں فحاشی اور بدتمیزی کا اعتراض شامل ہے (۳۲)- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ اعتراض جوش کا اپنا ہے اور یادوں کی برات میں اسے (بعض دوسرے اعتراضات سمیت) مصلحتاً قاضی خورشید احمد کے حوالے سے بیان کیا ہے۔  اقبال کے مصرعے میں تبدیلی کر کے اس پر فحاشی اور بدتمیزی کا الزام عائد کرنا جوش کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے !

فحاشی اور بدتمیزی کا الزام علامہ اقبال پر ہے، لیکن اس کے مرتکب خود جوش ہیں۔  انہوں نے فحاشی اور بدتمیزی قولاً بھی کی اور عملاً بھی کی، اور زندگی بھر کرتے رہے۔  ایک استاد کے منہ پر پیشاب کرنے کا واقعہ اوپر درج ہوا ہے۔  یادوں کی برات اور خطوط جوش ملیح آبادی میں فحاشی اور بدتمیزی کی انتہا ہے۔  انیس معاشقوں کا فحش بیان کیا ہے اور بقول سید حامد ’’ ان بہو بیٹیوں کے نام بھی گنائے جن کی آبرو ریزی پر فاضل مصنف کو فخر ہے (۳۳) ‘‘-

۱۹۷۶ء میں جوش کی عمر اسی برس تھی۔  عمر کے اس حصے میں آدمی بدکاری کے قابل نہیں رہتا ؛ تاہم جوش سے جو کچھ ہو سکا، کرتے رہے۔  آخری محبوبہ کے بارے میں جسے ’’فتنۂآخرالزمان ‘‘ کہتے تھے، ۹ دسمبر ۱۹۷۶ء کے ایک مکتوب میں موصوف نے داستان غمزہ سنانے کا جو پست اور لچر انداز اپنایا ہے اور اپنا دامن اپنے ہی ہاتھوں سامنے سے پھاڑ نے کی جو کوشش کی ہے، وہ ہم نقل کرنے سے قاصر ہیں (۳۴)۔  انسان دوستی کے مدعی، جوش کا یہ اصل کردار ہے۔  جنگلی جانور بھی اس سطح تک پستی میں نہیں اترتے۔  خطوط جوش ملیح آبادی کے صرف دو صفحے (۱۔ ۵، ۱۔ ۷) پڑھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال کو ( جعل سازی کے سہارے ) فحاشی کا مرتکب ٹھہرانے والا، فحاشی میں خود کس قدر مبتلا ہے (۳۵)۔

’’عشق تمام مصطفٰے ‘‘ اور ’’ عقل تمام بولہب ‘‘ پر جوش بہت معترض ہیں۔ — یہ قرآن کا مردود لفظ ہے۔  عشق جنس کا میلان ہے اور جسم کا ہیجان ہے۔  اعصاب پر عورت سوار ہو تو عقل سے عشق کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔  جو لوگ عشق عشق چلاتے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے۔  وغیرہ-

قرآن کے نزدیک جو عشق مردود ہے، وہ انہی صفات کا حامل ہے اور اس عشق میں خود جوش مبتلا رہے ہیں۔  جنسی میلان اور جسمانی ہیجان ہی ان کا سرمایۂحیات ہے۔  عورت کو انہوں نے، اعصاب پر، اتنا سوار کیا کہ خوار ہو کر رہ گئے۔  جوش کا بیان ہے :

’’ آج سرکار تشریف نہیں لائیں گی، گھر بیٹھ کر ایتوار منائیں گی۔ – ہائے، دل پھٹا جا رہا ہے میرا- ارے، کوئی مجھے موت کے چنگل سے بچائے۔  ارے، ہے کوئی، جو میرے پاس آئے، میرا دل بہلائے ؟ کوئی نہیں، کوئی نہیں۔  چنٹو، چنٹو، چنٹو، ارے خدا کے واسطے آؤ۔  میری چنٹو آؤ۔  اف دم گھٹ رہا ہے میرا(۳۶) ‘‘-

قرآن کے علاوہ یہ عشق، اقبال کے نزدیک بھی مردود ہے۔  ایسے معاملات میں اقبال نے عقل سے کام لینے کی تلقین کی ہے ؎

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے (۳۷)

اقبال عقل سلیم کی حمایت اور عقل عیار کی مخالفت کرتے ہیں۔  اسی طرح اعلیٰ مقاصد کے ساتھ لگاؤ کے معنی میں عشق کی حمایت اور جنسی ہیجان والے عشق کی مخالفت کرتے ہیں۔  انسان کا اعلیٰ ترین مقصد اللہ تعالیٰ ہے جو بہترین صفات سے متصف ہے۔  قرآن حکیم نے اللہ کے ساتھ ’’ شدید محبت ‘‘ کو مومن کا وصف قرار دیا ہے۔  شدید محبت کے لیے ’’عشق ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔  عشق جنس پرستوں کا بھی ہوتا ہے جیسے جوش کا، اور عشق اللہ اور رسول کے ساتھ بھی ہوتا ہے جیسا کہ اقبال کو تھا۔  ان معنوں میں عشق کا لفظ، رومی سمیت، عظیم صوفیا نے استعمال کیا ہے اور اب یہ لفظ اسلامی ادبیات کا جز ہے۔  یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود جوش نے بھی، ان معنوں میں، عشق کا لفظ استعمال ہے ؎

ہاں اے حسین بے کس و نا چار ! السلام

اے کشتگان عشق کے سردار ! السلام (۳۸)

’’ عقل تمام بولہب‘‘ کو سمجھنے کے لیے جوش کی عقل کا تجزیہ کار آمد رہے گا۔  اس عقل عیار کی قدم قدم پر مثالیں یادوں کی برات میں ملتی ہیں ؛ تاہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں جوش کے چند بیانات کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے۔  جوش نے پلان چٹ کے ذریعے اقبال کو آدھا شاعر بتایا ہے، اوراقبال کی ذاتی پونجی کو اوچھی قرار دیا ہے۔  قاضی خورشید احمد کے حوالے سے اقبال پر فحاشی اور بدتمیزی کا الزام عائد کیا ہے، اور وہ بھی اقبال کے مصرعے میں مطلوبہ تبدیلی کر کے۔  یہ عقل عیار کی کارستانی ہے، اور تمام بولہبی ہے !

جوش لکھتے ہیں کہ مجھے دو چیزوں سے شدید نفرت تھی۔  ایک بادہ خواری، اور دوسری دروغ گفتاری۔  بادہ خواری اختیار کر لی لیکن دروغ گفتاری سے نفرت قائم رہی(۳۹)۔  اگلے ہی صفحے پر یہ بیان نظر سے گزرتا ہے :

’’ اگر غیر مفکر عوام میں، جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے، اس کو مان لیا جائے تو مجھے اعتراف ہے کہ اپنے اٹھارہ معاشقوں کے دور متلاطم میں، اپنی بیوی کے دل کو ٹوٹ جانے سے بچا لینے کی خاطر میں نے اپنے سر پر قرآن رکھ رکھ کر، ایک بار نہیں، اٹھارہ ہزار مرتبہ ’’جھوٹ‘‘ بولا، اور بڑے دھڑلے کے ساتھ بولا ہے ‘‘-

’غیر مفکر عوام‘ کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔  جوش کی عقل یہاں بھی ڈنڈی مار رہی ہے۔  وہ جس عقل اور جس فکر کے علمبردار ہیں، اس سے انسان صرف گمراہ ہو سکتا ہے۔  یادوں کی برات میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ میری جوانی کو اللہ تعالیٰ نے عاشقی پر مامور فرمایا۔  اس کے حکم سے مجھے سرتابی کی مجال نہ تھی اور اگر مجھے دوزخ میں جھونکا گیا تو میں اس کی پھاٹک کی محراب پر، آتشیں حروف میں یہ کندہ کر دوں گا کہ زمین ہی کی طرح آسمان پر بھی عدل و انصاف کا کوئی پتا نہیں پایا جاتا (۴۰)۔

یہ تو ہیں عقل عیار اور بولہبی کی مثالیں۔  اب دانش نورانی کی ایک مثال ؎

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند (۴۱)

اقبال عقل کے مخالف نہیں، عقل اور عشق کی آمیزش کے حامی ہیں تاکہ بہترین نتائج حاصل ہو سکیں ؛ تاہم عقل عیار کے مخالف ہیں جو بولہبی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔  اقبال کہتے ہیں :

عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے (۴۲)

عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات (۴۳)

آہ یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے !

اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے !(۴۴)

عقل اور عشق کے ضمن میں اقبال کا موقف اور تلقین حسب ذیل اشعار سے واضح ہے :

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ

سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ (۴۵)

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے (۴۶)

عشق چوں با زیرکی ہمبر شود

نقش بند عالم دیگر شود

خیز و نقش عالم دیگر بنہ

عشق را با زیرکی آمیز دہ (۴۷)

جوش کے نزدیک اقبال آدھے شاعر ہیں کہ دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پونجی بالکل اوچھی ہے۔  یہ الزام پلان چٹ کے سہارے عائد کیا ؛ تاہم اقبال کے شعر ؎جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی۔ — الخ پر ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو ہے۔  جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں۔ – ’’ حالانکہ یہ عراقی کے شعر کا پرتو اسی صورت میں ہے، جس صورت میں ’’ بانگ درا ‘‘میں چھپا ہے نہ کہ جس طرح جوش صاحب اسے پڑھا کرتے تھے ‘‘(۴۸)۔  اقبال کے ہاں، ڈھونڈنے سے، ایسی مثالیں اور بھی مل سکتی ہیں، لیکن اس بنا پر اقبال کی ذاتی پونجی کو اوچھا قرار دینا احمقانہ بات ہے۔  علامہ اقبال کے ہاں افکار کی ثروت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔  جہاں تک دوسروں کے خیالات کی ترجمانی کا تعلق ہے، جوش نے، ایک اور اعتراض میں، خود اس کی نفی کر دی ہے۔  طنزو تعریض سے پر جوش کا شعر ہے ؎

پہن کر مغربی پہناؤں کی سر سے بڑی ٹوپی

نیا مُلّا سناتا ہے پرانی داستاں ساقی

یہ اعتراض اقبال کو رجعت پسند کہنے والے اشتراکیوں کا ہے۔  جوش نے ان کے خیال کو پیش کیا ہے۔  اعتراض یہ ہے کہ نیا ملا پرانی داستان سناتا ہے۔  یہ بات درست ہے۔  لیکن اس سے دوسروں کے خیالات کی ترجمانی، کی نفی ہو جاتی ہے۔  اقبال نے ۱۹۱۲ ء میں کہا تھا ؎

ہاں، یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں

اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں

دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں (۴۹)

اقبال کی داستان مختصر لفظوں میں لا الٰہ الا اللہ ہے۔ یہی خودی کا سرنہاں ہے، اور یہی نغمۂماضی، حال اور مستقبل پر محیط ہے ؎

خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ

خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ (۵۰)

اس ’نئے ملا ‘ نے ’پرانے مولوی ‘ ہی کی طرح اذان دی ؎

چو رومی در حرم دادم اذاں من

ازو آموختم اسرار جاں من

بہ دور فتنۂ عصر کہن، او

بہ دور فتنۂ عصر رواں من (۵۱)

جوش اپنی شاعری پر اقبال کا کوئی اثر ماننے سے انکار کرتے تھے ؛ تاہم انہوں نے اقبال کی خوشہ چینی کی۔  اقبال کا ایک متروک شعر ہے ؎

قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا

فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا

اور جوش کہتے ہیں ؎

در پہ آیا ہے وحی لے کر جبریل

خدام ! خود اس پہ وحی نازل کر دو

تم کون ہو، جبریل ہو، کیوں آئے ہو

سرکار فلک کے نام کوئی پیغام (۵۲)

’زبور عجم ‘ کی ایک نظم میں ’’ انقلاب ! انقلاب ! اے انقلاب‘‘ کے الفاظ ہر شعر کے بعد دہرائے گئے ہیں۔  جوش نے ایک نظم میں ’’ ہوشیار، ہوشیار اے مرد غافل ہوشیار ‘‘ کے الفاظ دہرائے ہیں۔ ’ زبور عجم ‘ ہی کی ایک اور نظم کے ہر بند کے بعد۔ – ’’ از خواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں۔  جوش نے اس کی پیروی ’’ بیدار ہو بیدار ہو بیدار ہو بیدار کی شکل میں کی ہے۔

نیٹشے کے فوق البشر کو مشرف بہ اسلام کرنے کا الزام، ۱۹۲۰ ء میں ای ایم فوسٹر نے لگایا تھا- اقبال نے اس کی مؤثر تردید کر دی تھی(۵۳)- جوش کا اعتراض یہ بھی ہے کہ اقبال نے تصوف اور مابعدالطبیعیات پر’ حرکی‘ کا لیبل لگا کر اسے اختیار کر لیا۔  اقبال کا تصوف اور مابعدالطبیعیات تصور خودی سے الگ نہیں ہیں۔  انہوں نے اسلامی تصوف کو کبھی ترک نہیں کیا ؛ البتہ تصوف کی اصلاح کی ہے۔  ’حرکی ‘ کا لیبل لگانے سے کوئی بات نہیں بن سکتی۔  اقبال کا پیغام ہی ایمان اور عمل کا ہے، اور یہ نچوڑ ہے قرآنی تعلیمات کا۔

جوش، معترض ہیں کہ اقبال کی نصیحت کے زیر اثر، میں نے فکری شاعری شروع کی تو میرے ناصح حضرت اقبال کی شاعری اقوال، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی۔  جہاں تک روایات اور عقائد کا تعلق ہے، اقبال اسلام میں خرافات کی آمیزش کے خلاف ہیں۔  مثلاً ’’ساقی نامہ ‘‘ میں کہتے ہیں ؎

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتان عجم کے پجاری تمام !

حقیقت خرافات میں کھوگئی

یہ امت روایات میں کھوگئی!

تاہم اسلامی روایات اور اسلامی عقائد اقبال کا سرمایہ حیات ہیں۔  وہ ان کے علمبردار بھی ہیں اور ترجمان بھی، اور یہ کردار انہیں عظیم بناتا ہے (۵۴)۔ جہاں تک اقوال کی شاعری کا سوال ہے، تو اس کے لیے خود جوش نے شعوری کوشش کی۔  جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں ؎

’’ بعض دفعہ میں نے انہیں فلسفیانہ کتابوں پر نظر ڈالتے بھی دیکھا، اور ان کتابوں کا استعمال اکثر انہوں نے یوں کیا کہ ان میں مندرج فلسفیانہ مقولوں کو منظوم لباس پہنا دیا- کبھی نظم کے اشعار میں اور کبھی رباعیات میں۔  لیکن اقبال کا تعلق فلسفے کے ساتھ منہ کا مزا بدلنے کے لیے نہیں بلکہ ایک گہرا تعلق ہے ‘‘(۵۵)۔

جوش کی فکری شاعری کے بارے میں آزاد لکھتے ہیں :

’’غالباً جوش کا غنچۂ فکر محض نفس کے زور سے وا ہوا۔  آفتاب کا پرتو اس کے نصیب میں نہیں تھا۔  خدا جانے انہیں اپنی اس کوتاہی کا احساس تھا یا نہیں، لیکن انہوں نے اپنے کلام میں فکری عناصر کی کمی کو شکوہ الفاظ سے پورا کرنے کی کوشش کی، اور ظاہر ہے کہ اس کوشش کو کوشش ناکام ہی ہونا تھا۔  شکوہ الفاظ، فکری شگفتگی اور ندرت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ تفکر کی چمک دمک پیدا کرنے کے لیے صرف بار بار عقل، خرد، فکر اور فلسفے کا، مختلف انداز سے، ذکر کرنا ہی کافی نہیں، اس میں فکر کی گہرائی کا ہونا ضروری ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جوش کے یہاں فلسفیانہ قسم کے اشعار بھی قاری کو دعوت فکر نہیں دیتے، اوراقبال کے یہاں دعوت فکر قدم قدم پر موجود ہے (۵۶) ‘‘-

جگن ناتھ آزاد نے مثالوں سے اس نکتے کی وضاحت کی ہے اور لکھا ہے کہ جوش کے اشعار تبحر، تجسس، تامل، تفکر وغیرہ وغیرہ کی بھرمار کے باوجود قاری کو دعوت فکر دینے سے معذور ہیں، لیکن اقبال کے اشعار بیک وقت و جدان کو متاثر بھی کرتے ہیں اور قاری کو غور و فکر کی دولت بھی عطا کرتے ہیں (۵۷)۔

جوش کے اس اعتراض پر بحث ہو چکی ہے کہ اقبال کی ذاتی (فکری) پونجی اوچھی ہے۔  اس الزام کا صحیح مصداق بھی دراصل جوش خود ہیں۔  ان کی نہ تعلیم مکمل ہوئی، اور نہ اقبال کی طرح فلسفہ، تاریخ، دین، سیاست اور دوسرے علوم میں دست گاہ حاصل ہو سکی- اشتراکیوں کی فراہم کی ہوئی کچھ کتب کا مطالعہ کیا تو کارل مارکس کو ’’اولین پیغمبر فرش زمین ‘‘ قرار دیا۔  نیٹشے کے تصورات کا کچھ علم ہوا تو ’’ پڑھ کلمۂ لا الٰہ الا انسان ‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا۔  خدا کو اپنے سے چھوٹا کہنے کے علاوہ بھی لغو بیانی اور الحاد میں مبتلا رہے۔  سچ یہی ہے کہ جوش کی ذاتی پونجی اوچھی ہے۔

’سر‘ کے خطاب پر متعدد اہل قلم نے اعتراض کیا ہے، لیکن یہ الزام کہ’ سر‘ کا خطاب اقبال کو سیاسی خدمات کے صلے میں ملا، ہندو اخبار ’بندے ماترم ‘ نے لگایا تھا۔  جوش نے کھلم کھلا غداری کا لفظ استعمال کیا ہے۔  بات صرف اتنی ہے کہ اقبال اس خطاب کے مستحق تھے۔  خطاب کی اصل وجہ اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ اور اس پر یورپ اور امریکہ میں چھپنے والے متعدد ریویو تھے۔  خطاب ملنے کی روداد مرزا جلال الدین، عبدالمجید سالک، عبدالسلام خورشید اور محمد احمد خان نے بیان کی ہے (۵۸)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے نہ خطاب کی خواہش کی اور نہ کوشش۔  ان کے نزدیک اس کی کوئی خاص وقعت بھی نہ تھی۔  خطاب کے بعد اقبال کی حق گوئی میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

’ سر‘ کا خطاب انگریزوں نے متعدد لوگوں کو دیا۔  انہوں نے خواہش بھی کی ہو گی اور کوشش بھی، اور ان کی سیاسی خدمات بھی ہوں گی، لیکن اعتراض اقبال پر ہوا۔  اس میں شک نہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک ترک موالات کی تحریک چل رہی تھی۔  جن راہنماؤں کا ذکر جوش نے کیا ہے، وہ یا ہندو تھے یا نیشنلسٹ مسلمان۔  اقبال سرے سے ترک موالات کے خلاف تھے، اس سے متحدہ قومیت فروغ پا رہی تھی۔  اگر اقبال بھی متحدہ قوم پروری کی اس رو میں بہہ جاتے تو پاکستان تو نہ بنتا۔  وہ پاکستان جس میں اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ سمجھ کر بالآخر جوش بھی یہاں آ گئے تھے ! اقبال، انگریزوں کی غلامی سے نجات کے خواہش مند تھے، لیکن اس کی جگہ ہندوؤں کی غلامی میں مبتلا ہو جانے کے روا دار نہ تھے۔

اقبال کے ساتھ غداری کا تصور وابستہ کرنا ہی شرمناک ہے، اور اس تناظر میں کوئی بحث کرنا ہی نا مناسب ہے۔  استعمار سمیت جس طرح ہر باطل قوت کے خلاف ہندی مسلمانوں، عالم اسلام اور عالم انسانی کو بیدار کرنے کی کوشش علامہ اقبال نے کی ہے، اس سے کلام اقبال کا سر سری مطالعہ کرنے والے بھی آگاہ ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جوش نے اقبال کے لیے غدار کا لفظ کیوں استعمال کیا، انہیں فحاشی اور بدتمیزی کا مرتکب کیوں قرار دیا، ان کی فکری پونجی کو اوچھا کیوں کہا، ان کے علاوہ دوسرے سنگین الزامات اقبال پر کیوں عائد کیے۔  یہ الزامات اس قدر ناروا ہیں کہ عام حالات میں کوئی معقول انسان اتنی پست سطح تک نہیں اترتا۔  علامہ اقبال نے جوش کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ مدد کی۔  حیدر آباد کی ملازمت کے لیے جوش نے جن صاحبان سے سفارشی خط لیے تھے، ان میں اقبال شامل تھے۔

جگن ناتھ آزاد، جوش کے بہت قریب رہے ہیں۔  جوش کی نفسیات کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’ جوش اپنے آپ کو اقبال سے بہتر فلسفی شاعر سمجھتے تھے۔  اگرچہ انہوں نے کبھی ان الفاظ میں اپنی شاعری کا ذکر نہیں کیا، لیکن نو برس کی رفاقت میں اتنی بات ضرور میرے سامنے آ گئی تھی۔  ایک بار جوش صاحب کی محفل میں ان کے برادر خورد رئیس احمد صاحب نے کہا، اقبال خوش قسمت تھا کہ اسے نکلسن ایسا مترجم مل گیا۔  اگر جوش صاحب کو بھی کوئی ایسا ہی مترجم مل جائے تو یورپ اور امریکہ میں ان کا نام اقبال سے بھی زیادہ مشہو رہو سکتا ہے۔  جوش صاحب نے اس احمقانہ بات پر رئیس احمد خان کو ہر گز نہ ٹوکا (۵۹) ‘‘۔

رشید حسن خان لکھتے ہیں کہ جوش نے کھلے لفظوں میں کبھی اعتراف تو نہیں کیا، مگر ہے یہ واقعہ کہ وہ اقبال کو اپنا حریف تصور کرتے تھے۔  یہ غلط اندیشی کی انتہا تھی۔  جوش اوراقبال میں زمین، آسمان کا فرق تھا۔  اقبال کو حریف فرض کرنے کا نتیجہ تھا کہ سیاسی اورسماجی شعور کا اقبال سے بڑھ کر مظاہرہ کرنا لازم ٹھہرا۔  اس کے لیے یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ جس قدر چلا کر بات کہی جائے گی اور جس قدر زیادہ شور مچایا جائے گا، اسی قدر اس شعور کا حق ادا ہو گا۔  یوں ان کی صلاحیت کا بہت بڑا حصہ ایسی شاعری کی نذر ہوتا رہا جس میں سطحی جوش و خروش کتنا ہی ہو اور بیان کی درشتی کتنی ہی ہو، صداقت اور حسن اس قدر کم ہے کہ گویا نہیں ہے (۶۰)۔

جوش کا دعویٰ ’’شاعر آخر الزمان ‘‘ ہونے کا ہے، اور وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ اہل نظر کو میرا کلمہ پڑھنا چاہیے ؎

دانائے رموز ایں و آں ہوں اے دوست

مولائے اکابر جہاں ہوں اے دوست

کیوں اہل نظر پڑھیں نہ کلمہ میرا

میں شاعر آخرالزماں ہوں اے دوست(۶۱)

لیکن بقول پروفیسر محمد منور، اقبال ہیں کہ ان کا زمانہ آنے ہی نہیں دیتے (۶۲)۔  اقبال، عالم اسلام کا بلند ستارہ ہیں اور ایک آفاقی مفکر اور شاعر ہیں۔  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔  اس کے برعکس جوش کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔  ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی مرتب کردہ کتاب جوش ملیح آبادی۔  تنقیدی جائزہ کے دیباچے میں شکایت کی ہے کہ شاہد احمد دہلوی نے ساقی کے جوش نمبر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر جوش مخالف مضامین شائع کیے ؛ تاہم جوش ملیح آبادی۔  تنقیدی جائزہ سے بھی اصل حقائق سامنے آ گئے ہیں۔  مثلاً گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جوش اس قدر جلد روایت پارینہ بن جائیں گے (۶۳)- نارنگ صاحب کو حیرت ہے، مگر ایسا ہی ہونا تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔  یہ وقت کا امتحان تھا اور وقت کی میزان سے سلامت گزرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے نہال غم کی آبیاری نفس کے آب گم سے نہیں روح و عقل کے چشمۂصافی سے ہوتی ہے۔  ’الفاظ‘ کی منزل سے گیا کون سلامت۔  یاں اسباب لٹا ہر سفری کا، بجز اس کے کہ جس کا اسباب شعر خود مسبب الاسباب کی عطا رہا ہو!

 

 

 

 

حواشی

 

۱۔       یادوں کی برات، اضافہ شدہ ایڈیشن، مکتبہ شعر و ادب، سمن آباد، لاہور، ۱۹۷۵ء، صفحات ۱۷۰۔  ۱۷۱

۲۔       ’ پلان چٹ ‘ جیسا مفید آلہ بڑے پیمانے پر تیار ہوناچاہیے۔  برصغیر پاک و ہند میں بہت فروخت ہو گا، اس لیے کہ یہاں اکثر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے مخالفین کتنے گھٹیا ہیں۔  یہ آلہ نقادوں کے لیے بھی کار آمد ہے۔  معلوم ہو سکتا ہے کہ کون آدھا شاعر ہے اور کون چوتھائی۔  جوش کے نام لیواؤں کو اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

۳-۴   کتاب مذکور، صفحات ۴۹۔ ، ۴۱۸۔  ۴۴۹

۵۔     ہندوستان میں اقبالیات۔  آزادی کے بعد اور دوسرے توسیعی لیکچر، جگن ناتھ آزاد، مکتبہ علم و دانش، مزنگ لاہور، ۱۹۹۱ء صفحات ۹۲۔  ۹۳

۶-     بحوالہ میزان اقبال، پروفیسر محمد منور، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۸۶ ء صفحات ۱۴۶۔  ۱۴۷

۷-    بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۹۴

۸ تا ۱۰ بحوالہ میزان اقبال، صفحات (بالترتیب) ۱۴۸-۱۴۹، ۱۳۲- ۱۳۳، ۱۲۱۔  ۱۲۲

۱۱-۱۲  دیکھیے ساقی، جوش نمبر، مرتبہ شاہد احمد دہلوی، کراچی، ۱۹۶۳ء صفحات ۱۷، ۱۸۷۔  ۱۸۸

۱۳-    جوش ملیح آبادی : تنقیدی جائزہ، مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، ۱۹۹۲ ء صفحہ ۱۸۶

۱۴-    ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۱۔ ۹

۱۵-۱۷        تلاش و تعبیر، جمال پرنٹنگ پریس، جامع مسجد دہلی، ۱۹۸۸ء صفحات ۳۱ تا ۴۱

۱۸-    بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۱۔ ۶

۱۹۔     اقبال کی ایک تصویر، مولانا مودودی کے الفاظ میں۔  مشمولہ سیارہ اقبال نمبر، لاہور، مئی ۱۹۶۳ ء

۲۰۔ ۲۱ یادوں کی برات، صفحات، ۱۳۴ تا ۱۳۷، ۱۴۴ تا ۱۵۶

۲۲۔    تفصیل کے لیے دیکھیے ’’ اقبال کے نظریۂعلم کے چند پہلو ‘‘، ڈاکٹر سید عبداللہ، مشمولہ صحیفۂاقبال نمبر ۲، مجلس ترقی ادب، لاہور، جنوری ۱۹۷۴ ء، صفحہ ۱۲

۲۳-   ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے حکمت اقبال میں ان امور کو جامعیت، عمدگی اور توازن کے ساتھ بیان کیا ہے۔

۲۴-۲۸        کلیات اقبال اردو، صفحات (بالترتیب) ۲۷۴، ۳۵۵، ۴۸۸، ۶۲۹، ۳۴۱

۲۹-۳۰         بحوالہ ہندوستان میں اقبالیات، صفحات ۱۰۵۔ ۱۰۱

۳۱-    کلیات اقبال اردو، صفحہ ۲۸۱

۳۲-   ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۹۶

۳۳-   جوش ملیح آبادی۔  تنقیدی جائزہ، مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم، صفحات ۸۱۔  ۸۲

۳۴تا ۳۶ خطوط جوش ملیح آبادی، جامع و مرتب، راغب مراد آبادی، ویلکم بک پورٹ، کراچی، ۱۹۹۳ ء صفحات ۱۵۱، ۱۵۰

۳۷-   کلیات اقبال اردو، صفحہ ۵۶۵

۳۸-   بحوالہ تلاش و تعبیر، صفحہ ۳۹

۳۹-۴۰۔       یادوں کی بارات، صفحات ۱۷۶۔  ۱۷۷، ۶۴۱

۴۱-۴۶ کلیات اقبال اردو، صفحات (بالترتیب) ۵۲۶، ۳۵۲، ۶۶۴، ۱۶۱، ۳۴۳، ۵۰۴

۴۷-   کلیات اقبال فارسی، صفحہ ۶۵۳

۴۸-   ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۹۶

۴۹-۵۰        کلیات اقبال اردو، صفحات ۱۹۶، ۴۷۷-۴۷۸

۵۱-    کلیات اقبال فارسی، صفحہ ۹۳۸

۵۲-   ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۱۰۱

۵۳-   تفصیل کے لیے دیکھیے، میرا مضمون ’’ علامہ اقبال کی فکری اساس ‘‘ مشمولہ قومی زبان کراچی، شمارہ نومبر ۱۹۹۷ ء

۵۴-   جوش ملیح آبادی نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ میں نے جب روح ادب کی متصوفانہ شاعری کو ترک کر دیا اوراقبال کی نصیحت کے مطابق فکری شاعری شروع کی تو خود اقبال نے اقوال، روایات اور عقائد کی شاعری شروع کر دی۔  یہ سب حیلے ہیں، اپنا قد بلند کرنے اوراقبال کو گرانے کے۔  روح ادب ۱۹۲۰ ء میں شائع ہوئی۔  اقبال کا شعری رجحان اور نقطۂنظر، اس سے پہلے، متعین ہو چکا تھا۔

۵۵-۵۶       ہندوستان میں اقبالیات، صفحات ۱۰۳۔ ۱۰۴، ۱۰۵

۵۷-   دیکھیے، (۱) ملفوظات اقبال، صفحات ۱۲۳ تا ۱۲۵ (۲) ذکر اقبال، صفحات ۱۱۸ تا ۱۲۔ (۳) سرگذشت اقبال، صفحات ۱۶۱ تا ۱۶۴ (۴) اقبال کا سیاسی کارنامہ، صفحات ۶۱۶ تا ۶۲۵۔  نیز دیکھیے، محمد حنیف شاہد کا مضمون  ’سر ہو گئے اقبال ‘ صحیفہ اقبال نمبر ۷۸-۱۹۷۷۔ ( علاوہ ازیں ’ سر‘ کے خطاب پر اعتراضات کا جامع جائزہ میرے تحقیقی مقالے کا حصہ ہے، اور تیار ہے لیکن مسودے کی شکل میں ہے۔ )

۵۸-   ہندوستان میں اقبالیات، صفحہ ۹۷

۵۹-   تعبیر و تلاش، صفحات ۴۵۔  ۴۶

۶۰۔    کتاب جوش، ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی، نامی پریس لکھنؤ، ۱۹۹۱، صفحہ

۶۱۔      میزان اقبال، صفحہ ۱۲۳

۶۲-   جوش ملیح آبادی۔  تنقیدی جائزہ، صفحہ ۹۲

٭٭٭

ماخذ:

http://iqbalcyberlibrary.net/txt/IAU-JAN-2000.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید