FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

  عقیدہ  —  ظہُورِ مَہْدِی

 

 

قرآن کریم، احادیث نبوی ؐ اور تاریخ کی روشنی میں

 

 

               عبد الرحمٰن کاندھلوی

 

 

 

 

 

بِسْمِ اللہ ِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ

جب سے خانہ کعبہ پر ایک فراہ، بے دین اور بقول لوگوں کے ایک مرتد فرقے نے قبضہ کیا، اور ظہور مہدی کا دعویٰ کیا۔ اس وقت سے مہدویت کی بحث خاص و عام کی زبان پر جاری اور اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہے۔

لیکن سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر مہددیت سے متعلق احادیث قطعی طور پر صحیح ہیں اور حقیقتاً اس کا عقیدے سے کچھ تعلق ہے اور فی الواقع آنے والے مہدی کا نام محمد اور باپ کا نام عبداللہ ہے تو موجودہ مدعی مہدیت کے گمراہ اور مرتد ہونے کی کیا دلیل ہے؟ ہماری عقل اس فتوے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

موجودہ اہل سنت اور فرقہ جعفریہ دونوں فرقوں میں مہدی کے ظہور کا تصور کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ لیکن دونوں کے مہدی جدا گانہ ہیں۔ اہل سنت کے مہدی تو ابھی وجود میں بھی نہیں آئے۔ اور شیعوں کے مہدی ایک ہزار سال قبل پیدا ہو کر مستور ہو گئے۔

ہمارا تعلق چونکہ اہل سنت سے ہے۔ اسی لئے ہماری بحث کا تعلق بھی سنی مہدی سے ہے۔ اہلِ سنت کی کتابوں میں مہدی سے متعلق جتنی احادیث پائی جاتی ہیں۔ کیا فی الواقع وہ صحیح احادیث ہیں یا شیعہ حضرات کی روایات سے ماثر ہو کر اہلِ سنت نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ موضوعات اور جال کی کتابوں میں محدثین کرام نے ایسی ہزار ہا احادیث پر بحث کی ہے جو کتب اہل سنت میں پائی جاتی ہیں لیکن دراصل وہ موضوع، منکر اور شدید ضعیف ہیں۔

ہم جب اس نظریئے کے تحت کتب احادیث کی چھان بین کرتے ہیں تو صحیح بخاری صحیح مسلم اور موطٔا امام مالک جیسی صحیح کتابوں میں کسی ایسی ایک روایت کا وجود نظر نہیں آتا۔ بلکہ یہ روایات نسبتاً کم درجے کی کتابوں میں نظر آتی ہیں۔ جیسے سنن ابی داؤد، ترمذی اوور ابن ماجہ وغیرہ۔ ان میں مہدی سے متعلق متعدد احادیث ملتی ہیں۔ یہ تینوں کتابیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطٔا امام مالک بلکہ سنن نسائی کے بھی ہم پہ نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں ضعیف، منکر، منقطع اور مرسل ہمہ قسم کی روایات پائی جاتی ہیں۔ ان پر صحت کا حکم اکثریت کے لحاظ سے لگایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے خود متعدد روایات کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے۔ جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کتابوں میں ہمہ قسم کی روایات پائی جاتی ہیں۔

ظہور مہدی سے متعلق روایات چند اقسام پر مبنی ہیں۔

۱۔        بعض احادیث تو ایسی ہیں جن میں قرب قیامت کی علامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان روایات میں مہدی کا کوئی ذکر نہیں۔ مثلاً یہودیوں اور رومیوں سے جنگ، یا و جال کے ظہور کے واقعات یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا واقعہ، ان میں ہے بہت سے واقعات صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان احادیث میں مہدی کا کسی جگہ کوئی ذکر موجود نہیں۔ ان واقعات کو زبردستی مہدی سے متعلق کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ احادیث جن میں ایک عادل خلیفہ کا ذکر ہے جو لوگوں کو بے پناہ مال دے گا۔ صحیح مسلم وغیرہ میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کسی جگہ یہ موجود نہیں کہ وہ مہدی ہو گا یا اس کا نام محمد صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم ہو گا۔ ان احادیث کو بھی زبردستی مہدی کے ساتھ چسپاں کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ انہی احادیث کو دیکھ کر مہدویت کی روایات وضع کی گئی ہوں۔

۲۔       کچھ روایات ایسی ہیں جن میں مہدی کا ذکر ہے۔ جن میں سے بعض روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مہدی اہل بیت سے ہوں گے۔ بعض میں ان کے صفات اور ان کا نام بیان کیا گیا ہے۔ ہماری بحث انہی روایات سے ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ضعیف روایات اعتقادات میں قطعاً قابلِ قبول نہیں ہوتیں، بلکہ اگر روایت صحیح بھی ہے اور وہ درجۂ تواتر تک نہیں پہنچتی تو اس پر عقیدے کی بنیاد پر ہرگز قائم نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ عقیدے کی بنیاد ظنیات (گمان) پر نہیں رکھی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

اِنَّ الظَّنَّ لاَ یَغنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیَْساط

ترجمہ:  یقیناً ظن حق میں کچھ کام نہیں آتا۔

میرے نزدیک اس موضوع پر جتنی روایات پائی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں ہم سطور ذیل میں ان روایات پر محدثانہ بحث کریں گے۔ یہ بھی عرض کر دیں کہ ہم بھی ایک انسان ہیں۔ ممکن ہے بلحاظ انسانیت ہم سے کسی غلطی کا ارتکاب ہو رہا ہو تو علماء سے ہماری عرض ہے کہ وہ ہمیں ہماری خامیوں کے بارے میں متنبہ کریں گے۔

اس مسئلہ پر سب سے بہترین حدیث حضرت عبداللہ مسعود کی حدیث ہے۔ جس کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ ’’کہ اگر دنیا کے خاتمہ میں ایک روز بھی باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طویل فرما دے گا۔ حتیٰ کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص اُٹھے گا۔ جس کا نام وہی ہو گا جو میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام بھی وہی ہو گا جو میرے باپ کا نام ہے۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجود سے بھری ہوئی تھی‘‘۔ ابو داؤد ج۔۲ ص ۲۳۹ ترمذی ج۔۲ ص ۵۶ مطبوعہ مجتبائی دہلی مطبوعہ قرآن محل۔ ترمذی کا قول ہے یہ حدی حسن صحیح ہے۔

لیکن یہ روایت تین زمانوں تک ’’خبر واحد‘‘ رہی، اسے ان الفاظ میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ ؓ سے اس کو روایت کرنے والے صرف زرؓ بن جیش ہیں۔ اور ان سے عاصم کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا۔ ہاں عاصم سے روایت کرنے والے متعدد حضرات ہیں۔ جن کے الفاظ میں اختلاف بھی ہے۔

جہاں تک حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کا تعلق ہے تو تمام اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ سب عادل ہیں وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ زرؓ بن جیش کی ذات پر بھی کس نے جرع نہیں کی۔ بلکہ بعض احادیث سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی صحابی رسول ؐ تھے۔ لیکن جہاں تک عاصم ؒ کا تعلق ہے تو ان کی ذات انتہائی مشکوک ہے۔ یہ تو دنیا تسلیم کرتی ہے ہ وہ قرأت کے سب سے بڑے امام ہیں۔ بلکہ آج تمام روئے زمین پر انہی کی قرأت کے مطابق تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ لیکن حدیث میں ان کا کیا مقام ہے؟ تو ابن عدیؓ کامل میں اور ذہبی میزان الاعتدال‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ عاصم ؒ قرأت میں تو مسلم ہیں لیکن حدیث میں قابل تسلیم نہیں۔ اگرچہ فی الواقع یہ سچے ہیں۔ لیکن انہیں احادیث میں اکثر وہم ہوتا تھا۔ ابن خراشؒ کہتے ان کی احادیث منکر ہوتی ہیں۔ امام الرجال یحییٰ ؒ بن سعید القطان فرماتے ہیں، میں نے جتنے بھی ایسے افراد کو دیکھا جن کا نام عاصم تھا۔ ان سب کا حافظہ خراب پایا۔ امام ؒ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان سے امام بخاری و امام مسلم نے بھی روایت لی ہے۔ لیکن وہ بطور شہادت لی ہیں اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ابن سعدؒ کہتے ہیں کہ اگرچہ عاصم ؒ ثقہ ہیں۔ لیکن حدیث میں غلطیاں بہت کرتے ہیں، امام ابو حاتمؒ رازی فرماتے ہیں کہ وہ اس لائق نہیں کہ انہیں ثقہ کہا جا سکے۔ میزان الاعتدال ج۔ ۲ ص، ۵۳ مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ۔ غالباً یہی وجہ ہے جو امام بخاری و امام مسلم نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا۔ ورنہ عاصمؒ کے علاوہ اس کے تمام ردات ثقہ ہیں۔ اس لحاظ سے یہ روایت محدثین کی نظر میں حجت نہیں اور نہ یہ صحت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ بلکہ بقول ابن خراشؒ منکر اور بقول ابی حاتمؒ ضعیف ہے۔

امام ابن ماجہؒ نے حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود سے ایک اور حدیث نقل کی ہے۔ جس کے الفاظ بالکل جداگانہ ہیں اس روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔

وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی خدمت میں حاضر تھے، اتنے میں بنو ہاشم کی ایک جماعت آئی، انہیں دیکھ کر حضورﷺ  رونے لگے اور آپ کے چہرۂ مبارک کی رنگت تبدیل ہو گئی۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ  ہم آپ کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہم اہل بیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو پسند فرمایا ہے اور میرے بعد میرے اہل بیت کو تکالیف پہنچیں گی۔ اور انہیں دھکے دیئے جائیں گے۔ حتیٰ کہ مشرق کی جانب سے ایک گروہ آئے گا جس کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے لوگ ان سے خیر کا سوال کریں گے تو وہ انہیں کچھ نہ دیں گے۔ جس پر لوگ ان سے جنگ کریں گے تو اللہ کی جانب سے اس گروہ کی مدد کی جائے گی جس پر وہ لوگوں کی خواہشات پوری کریں گے۔ لیکن ان کو خلیفہ تسلیم نہ کریں گے۔ حتیٰ کہ یہ گروہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا۔ جو زمین کو انصاف سے اسی طرح بھر دے گا۔ جس طرح وہ ظلم وجود سے بھری ہوئی تھی۔ اس زمانہ کے جو لوگ اس گروہ کو پائیں وہ اس گروہ کے پاس پہنچ جائیں۔ خواہ انہیں برف پر گھسٹ کر جانا پڑے۔ ابن ماجہ ترجمہ ج۔۲ ص ۵۳۳۔ مطبوعہ قرآن محل۔

یہ روایت جن لغویات سے معمور ہے انہیں نظر انداز بھی کر دیا جائے تو اس میں مہدی کا کوئی ذکر نہیں۔اور یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی پہلی روایت کے بالکل خلاف ہے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اہل بیت کی اصطلاح قرآن اور احادیث صحیح میں ازواج مطہرات کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ اہل بیت کے معنی ہیں۔ گھر والا، یا گھر والی‘‘ اور اولاد باپ کی گھر والی‘‘ نہیں ہوتی اور نہ کوئی صاحب عقل اس کا تصور کر سکتا ہے۔

یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بنو علیؓ اور بنو عباسؓ دونوں اپنے اہل بیت ہونے کے مدعی تھے اور بنی عباسؓ نے اہل بیت ہی کے نام سے خلافت حاصل کی تھی۔

یہ بھی تاریخی طور پر مسلمہ حقیقت ہے کہ بنو عباسؓنے حصولیِ خلافت کے لئے سیاہ رنگ کو اپنا شعار بنایا تھا۔ اور تمام خلفائے عباسیہ سیاہ لباس پہنتے رہے اور خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد شیعہ حضرت نے اسے اپنا لیا۔ چونکہ اس روایت میں سیاہ جھنڈوں کا ذکر ہے اس لئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ روایت خلافت عباسیہ کے قیام کے لئے وضع کی گئی اور چونکہ اولاد علیؓ بھی بنو عباس ؓ کے ساتھ تھی۔ اس لئے بعد میں اس روایت کو شیعہ اور سنی دونوں طبقوں نے اپنے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور چونکہ اس روایت میں اہل بیت کا اطلاق بنو ہاشم پر کیا گیا ہے اس لئے آنے والا شخص، حضرت عباسؓ، حضرت حمزہؒ حارث بن عبدالمطلب، زبیر بن عبدالمطلب، ابو لہب بن عبدالمطلب اور ابو طالب کی اولاد میں سے کسی کی نسل سے بھی ہو سکتا ہے جو لوگ اس کے دعویدار ہیں کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہو گا یہ روایت ان کے جواب کے لئے کافی ہے۔

ہمارے نزدیک یہ روایت پہلی روایت سے بھی زیادہ مہمل ہے۔ اس کے دو راوی مجروح ہیں۔ علی بن صالح اور یزیدین ابی زیاد الکوفی۔ حافظ ابن  حجر علی بن صالح کے بارے میں فرماتے ہیں یہ مجہول ہے امام ذہبی میزان میں فرماتے ہیں اس پر حدیثیں وضع کرنے کا الزام ہے۔ میزان الاعتدال ج۔ ۳ ص ۱۳۳۔ مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ۔ گویا اس روایت کا واضع علی بن صالح ہے اور جس طرح سے اس نے نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم پر جھوٹ بولا ہے، اسی طرح اس نے اس جھوٹ میں عبداللہ ؒ بن مسعود، علقمہؒ اور ابرا ہیم نخفیؒ کو بھی شامل کر لیا ہے۔ کیونکہ جو شخص حضورﷺ  کی جانب جھوٹی بات منسوب کر سکتا ہے۔ اس کے لیے دوسروں کی جانب جھوٹ منسوب کرنا بہت آسان ہے۔

دوسرا راوی یزید بن ابی زیاد الکوتی ہے یہ کوفہ کے مشہور علماء میں شمار ہوتا تھا۔ لیکن اس کا حافظہ بہت خراب تھا۔ امام یحییٰ رح بن المبارک فرماتے ہیں۔ اس کی روایت اٹھا کر باہر پھینک دو۔ امام وکیعؒ بن الجراح جو امام ابو حنیفہ کے چالیس سال کا تب رہے۔ فرماتے ہیں یہ یہ جھنڈوں والی حدیث کوئی حدیث کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں اس کی حدیث کی کوئی حقیقت نہیں امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں یہ روایت صحیح نہیں۔ بلکہ ابو اسامہؒ تو اس حدیث کے بارے میں یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر یزیدبن ابی زیاد پچاس قسمیں کھا کر بھی یہ کہے کہ اس نے یہ حدیث ابراہیم نخفیؒ سے سنی ہے تب بھی میں اس کی تصدیق نہ کروں گا۔ کیونکہ نہ تو ابراہیم نخفیؒ کا یہ مذہب تھا۔ نہ علقمہؓ کا اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا۔ ابن عدیؒ کہتے ہیں۔ اس کی احادیث منکر ہوتی ہیں ابن فضیلؒ فرماتے ہیں یہ اپنے زمانے کے شیعوں کا امام تھا۔ میزان ج۔۴ص ۴۲۴ مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ۔

اس موضوع پر حضرت علیؓ سے بھی متعدد احادیث مروی ہیں۔ جن میں سے ایک روایت امام ابو داؤد ؒ نے ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اگر زمانہ کے خاتمہ میں ایک روز بھی باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص مبعوث فرمائے گا۔ جو زمانہ کو اس طرح عدل بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجود سے بھری ہوئی تھی۔

اس روایت سے اوّل تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اہل بیت سے کیا مراد ہے اور پہلی روایت کی رو سے تمام بنو ہاشم مراد ہیں۔ ثانیاً یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ مہدی ہو گا۔ نہ اس کا نام اور اس کی کوئی صفت ظاہر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بنو ہاشم کا ہر عادل حاکم اس حدیث کے تحت داخل ہو گا۔

اس روایت کے اتفاق سے دو راوی شیعہ ہیں ایک فضل بن وکین اور دوسرا فطر بن خلیفہ۔ جہاں تک فضل بن وکین کا تعلق ہے وہ اگرچہ حافظ الحدیث سمجھے جاتے تھے۔ لیکن شیعہ ہیں۔ محدثین کہتے ہیں۔ یہ غالی قسم کے شیعہ نہ تھے اور نہ صحابہ پر تبرا کرتے تھے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ جب فضل بن وکین کسی شخص کی تعریف کرے، اور یہ کہے کہ وہ بہت عمدہ آدمی ہے تو سمجھ لو کہ وہ شخص کی تعریف کرے، اور یہ کہتے کہ وہ بہت عمدہ آدمی ہے تو سمجھ لو کہ وہ شخص ضرور شیعہ ہے۔ میزان ج۔۳ اور ۳۵۰۔ مطبوعہ داراحیا الکتب العربیہ۔

کیا ایک شیعہ سے یہ ممکن نہیں کہ اس نے اپنے تشیع کے پیش نظریہ روایت بیان کی ہو اور چونکہ وہ اہل سنت میں بھی مقبول تھا۔ اس لئے مصلحتاً اس نے مہدی کا نام حذف کر دیا ہو۔ ممکن ہے ہمارا یہ خیال علمائے اہل سنت کو ناگوار گندے۔ کیونکہ فضل بن وکین امام بخاریؒ کے استاد ہیں۔ لیکن اگر اس کی ہر روایت قابلِ قبول ہوتی تو اہم بخاریؒ بھی اس حدیث کو روایت کرتے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پھر یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ فضل بن وکین کے اس روایت میں استاد محترم اپنے شاگرد رشید سے بہت آگے نظر آتے ہیں ان کا اسم گرامی فطر بن خلیفہ ہے۔

فطر کوفہ کا باشندہ ہے اگرچہ امام ابوؒ حاتم فرماتے ہیں اس کی حدیث اچھی ہوتی ہے، لیکن وار قطنیؒ کہتے ہیں اس کی حدیث اچھی ہوتی ہے، لیکن وار قطنیؒ کہتے ہیں اس کی حدیث حجت نہیں، امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اگرچہ لوگ اس فطر کق ثقہ سمجھتے تھے، لیکن یہ غالی قسم کا خشبی تھا۔ خشبہ عربی میں لکڑی کو کہتے ہیں۔

انہیں خشبیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لاٹھیاں اور ڈنڈے ہاتھ میں لے کر حکومت وقت کے خلاف خروج کیا تھا (تحفہ اثنا عشریہ ص ۲۷) مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب) گویا یہ فرقہ بلا اسباب جنگ خروج کا قائل تھا۔ فطربن خلیفہ بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔

ابن عدیؒ کہتے ہیں اس کی احادیث منکر ہوتی ہیں، جو زجانیؒ کہتے ہیں، یہ گمراہ ہے ثقہ نہیں ہے۔ احمد بن یونسؒ کا بیان ہے کہ میں اسے دیکھ کر اس طرح آگے بڑھ جاتا تھا۔ جس طرح کوئی کتے کو چھوڑ کر گذر جاتا ہے۔ میزان ج۔ ۳ ص ۳۶۴۔ مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ۔

ہم ابھی احمد ؒ کی ایک اور روایت امام ابو داؤد ؒ نے ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کی جانب دیکھ کر فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے اسے سیّد فرمایا ہے۔ عنقریب اس کی اولاد سے ایک شخص پیدا ہو گا اس کا نام وہی ہو گا جو تمہارے نبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کا نام تھا۔ وہ اخلاق میں حضورﷺ  کے مشابہ ہو گا۔ لیکن صورت میں مشابہ نہ ہو گا۔ (اس جملہ کا ترجمہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ وہ صورت میں حضور کے مشابہ ہو گا۔ لیکن اخلاق میں مشابہ نہ ہوگا) وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

حضرت علیؓ کے اس قول سے قطعاً یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مہدی ہو گا۔ پھر شیعوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اولادِ حسینؓ سے ہوگا۔ ہمارے مہدی پرست سینوں دونوں باتوں کا بھرم رکھتے ہوئے جج کی حیثیت سے بلا تحقیق یہ فیصلہ سنایا کہ وہ حسنی اور حسینی ہو گا۔ حالانکہ خود حضرت علیؓ اس کے دعویدار ہیں کہ وہ اولاد حسن سے ہوگا۔

اس روایت کی پوزیشن کیا ہے؟ تو اسے حضرت علیؓ سے نقل کرنے والے ابو اسحاق سبیعؒ ہیں۔ ان کا اسم گرامی عمر دین عبداللہ ہے۔ یہ مشہور تابعی اور ثقہ ہیں۔ لیکن آخر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ اس لئے بعض محدثین نے اشتباہ کے باعث ان کی حدیث کو ترک کر دیا۔ تا وقتیکہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ روایت انہوں نے خرابی حافظہ سے قبل بیان کی تھی اور سننے والے نے خرابی حافظہ سے قبل سنی تھی۔ ان کی یہ روایت قبول نہیں کی جا سکتی۔

اس کے علاوہ کوفہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے تدریس سے کام لیا۔ تدریس محدثین کی ایک اصطلاح ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ راوی اپنے استاد کا نام چھوڑ دے اور حدیث کو استادالاستاد کی جانب منسوب کر دے۔ عام طور پر یہ عمل اس وقت کیا جاتا ہے جب کہ استاد ضعیف ہو۔ اس طرح حدیث کے ضعف کو چھپایا جاتا ہے۔ امام وکیعؒ فرماتے ہیں جب کپڑے کا عیب چھپانا حرام ہے تو حدیث کا عیب چھپانا کیسے حلال ہو گا۔ اسی لئے ہم بھی ان عیوب کے اظہار پر مجبور ہیں اور بعض اوقات مدلس راوی یعنی جو تدیس کر رہا ہے۔ کئی کئی راویوں کو چھوڑ دیتا ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور مدلس کی روایت قبول نہیں ہوتی۔خاص طور پر روایت جو عَنْ فُلانِ  (فلاں سے روایت ہے) سے مروی ہو۔ لیکن اگر مدلس ثقہ ہے جیسے ابو اسحاق سبیعی وہ اگر یہ کہتے کہ میں نے فلاں سے یہ روایت سنی تو یہ روایت قابل قبول ہو گی۔ اس لئے کہ ان الفاظ سے سننے کی صراحت ثابت ہوتی ہے لیکن عن فلاں سماعت کی صراحت ثابت نہیں ہوتی، اور اتفاق سے یہ روایت بھی قابل قبول ہو گی۔ اس لئے کہ ان الفاظ سے سننے کی صراحت ثابت ہوتی ہے لیکن عن فلاں سے سماعت کئی صراحت ثابت نہیں ہوتی، اور اتفاق سے یہ روایت بھی عن فلاں سے مروی ہے جو ہرگز قابل قبول نہیں۔

دوسرا عیب اس روایت میں یہ ہے کہ اس کا ایک اور راوی عمر و بن ابی قیس الرازی ہے اگرچہ وہ سچا ہے لیکن اسے وہم بہت ہوتا تھا۔ خود امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں۔ اس میں برائی تو کوئی نہیں، لیکن وہ حدیث میں غلطیاں بہت کرتا ہے۔ وار نشر الکتب العربیہ تقریب، ۲۶۳ میزان ج۔ ۳ ص ۲۸۔ مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ۔

اس کا ایک اور راوی ہارون بن المغیرۃ الرازی ہے۔ امام نسائی ؒ فرماتے ہیں یہ ثقہ ہے لیکن خود امام ابو داؤد فرماتے ہیں یہ شیعہ تھا۔ مسلمانی کہتے ہیں۔ اس کی حدیث پر اعتراض ہے میزان ج۔۲ ص ۲۸۷ مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ گویا اس روایت میں تین عیوب جمع ہیں۔ ایک راوی شیعہ ہے دوسرا راوی لغزشیں کرتا ہے۔ تیسرا راوی مدلس ہے اور آخر میں اس کا حافظہ بھی خراب ہو گیا تھا۔ ایسی صورت میں اس روایت کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

امام ابواداؤد ؒ نے حضرت علیؓ سے ایک اور روایت ہلال بن عمرو کے ذریعہ نقل کی ہے۔ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا۔ ماوراء انسہر سے ایک شخص ظاہر ہو گا جس کا نام حارث حراث ہو گا۔ اس کے لشکر کا ہرا دل دستہ منصور نامی شخص کے ساتھ ہو گا۔ وہ آل محمدﷺ  کو اسی طرح پناہ دے گا جیسے قریش نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا۔ ماوراء انسہر سے ایک شخص ظاہر ہو گا جس کا نام حارث حراث ہو گا اس کے لشکر کا ہرا دل دستہ منصور نامی شخص کے ساتھ ہو گا۔ وہ آل محمدﷺ  کو اسی طرح پناہ دے گا جیسے قریش نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کو پناہ دی۔ اس وقت ہر مومن پر اس کی مدد اور اس دعوت قبول کرنا واجب ہے۔

اگرچہ بظاہر اس روایت کا مہدی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ لیکن امام ابو داؤدؒ نے اسے مہدی کے بیان میں ذکر کیا ہے۔ غالباً انہوں نے آل محمدﷺ  سے مہدی مراد لئے ہیں۔ اسی لئے ہم اس پر تبصرہ کر رہے ہیں۔

مہدی کا نام سنتے سنتے لوگوں کی زندگیاں گذر گئیں۔ لیکن یہ حارث حراث اور منصور کا نام کسی نے نہ سنا ہو گا۔ ہمارے علماء کہتے ہیں۔ یہ حارث حراث مہدی کے لشکر کا امیر ہو گا۔ ہمارے نزدیک تو یہ روایت جہالت علمی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کو انصار نے پناہ دی تھی نہ کہ قریش نے۔ قریش نے تو آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم ایسی خلاف واقعہ بات کیسے فرما سکتے تھے۔ ہمارے مولویوں نے اس کی تادین کی کہ پناہ دینے سے فتح مکہ کے بعد پناہ دینا مراد ہے۔ لیکن کوئی ان احمقوں سے دریافت کرے کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے کہ مفتوح قوم نے فاتح کو پناہ دی ہو؟ اور یہ مفروضہ اس وقت قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب کہ حضورﷺ  فتح مکہ کے بعد مکہ میں قیام فرماتے لیکن  اپنے مدینہ ہی میں آ کر قیام فرمایا اور فتح مکہ کے بعد حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت آپ نے انصار سے فرمایا تھا۔ جب میری قوم نے مجھے میرے شہر سے نکالا تو تم نے مجھے پناہ دی، اسے گروہ انصار تم جہاں بھی ہو تمہارے ساتھ ہو۔ (بخاری و مسلم) یہ تمام امور اس روایت کے جھوٹ ہونے کا ثبوت ہیں۔

اس روایت کے دوراوی تو وہی ہیں جو سابقہ روایت کے تھے۔ یعنی عمر و بن ابی قیس جو احادیث میں غلطیاں کرتے تھے اور دوسرا ہارون بن المغیرہ جو شیعہ تھا۔ لیکن اس میں مزید دو اور راوی بھی نا قابل قبول ہیں، ایک ہلال بن عمرو اور دوسرا اس کا شاگرد ابوالحسن۔

امام ذہبیؒ میزان میں فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا یہ ابو الحسن کون ہے یعنی یہ راوی مجہول ہے اور ہلال بن عمرو کی یہ روایت منکر ہے۔ میزان ج۔ ۴ ص ۳۱۵ ( مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ) حافظ ابن حجرّ ؒ فرماتے ہیں۔ ہلال بن عمرو الکوفی بھی مجہول ہے تقریب ص ۳۶۶۔(دار نشتر الکتب الاسلامیہ)

سنن ابو داؤد ؒ کے حاشیہ نویس نے اپنے حاشیہ میں امام دار قطنیؒ کے حوالہ سے حضرت علیؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہمارے مہدی کی دو نشانیاں ہیں جو آج تک جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے ظاہر نہیں ہوئیں۔ اور یہ ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ کو سورج گہن ہو گا۔ اور نصف رمضان میں چاند گہن ہو گا۔ یہ روایت شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے بھی اپنی کتاب علامات قیامت میں آنکھیں بند کر کے نقل کر دی ہے اور اس پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس فرضی روایت میں علی سے مراد حضرت علیؓ بن ابی طالب ہیں یا نہیں ! غالباً شاہ صاحب اسماء الرجال اور تاریخ سے واقف نہ تھے یا روایت پرستی کے مرض میں مبتلا ہو کر ضعف پرست بھی بن گئے تھے۔ اتفاق سے ہمارے علماء نے بھی یہ دونوں عیوب ان جیسے حضرات سے ورثہ میں حاصل فرمائے ہیں اور مزید یہ کہ ان علماء کو شخصیت پرستی کا مرض بھی لاحق ہو گیا تھا۔

اس کا ایک راوی جابر ہے۔ یہ جابر بن یزید الجعفی الکوفی ہے جو محمد بن علی بن حسین یعنی امام باقرؒ کا شاگرد مشہور ہے۔ کم از کم اس کا دعویٰ یہی ہے۔ لیکن جب ہم اس کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دعویٰ سرا سر جھوٹ پر مبنی نظر آتا ہے۔ یہ جابر رجعی تھا۔ فرقہ رجعیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ فرقہ رجعیہ شیعوں کا ایک طبقہ تھا جو اس بات کا قائل تھا کہ حضرت علیؓ کی شہادت واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ زندہ آسمانوں پر اُٹھا لے گئے اور بادلوں میں وہی گھومتے پھرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بادلوں سے جو کڑک پیدا ہوتی ہے وہ حضرت علیؓ کے کوڑے کی آواز ہوتی ہے اور قیامت کے قریب حضرت علیؓ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور اپنے مخالفین کو ختم کریں گے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ مخالفین حضرت علیؓ کی آمد سے قبل ہی ملک عدم پہنچ جائیں گے۔ یعنی حضرت علیؓ تو اس دنیائے فانی میں اپنے دشمنوں کو تلاش کرنے آئیں گے اور ان کے دشمن دارالبقا میں جا کر روپوش ہو جائیں گے۔ اب ہمارے علماء خود ہی فیصلہ کریں کہ جب حضرت علیؓ خود ہی تشریف لانے والے ہیں تو اب ان کی اولاد کی آمد کی کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔ رہ گیا سورج گہن اور چاند گہن کا مسئلہ وہ محکمہ موسمیات والے پہلی ہی سے حل کر سکتے ہیں۔ اس لئے اب عوام الناس کو کسی پریشانی میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں متعدد محدثین کا بیان ذکر کیا ہے کہ یہ جابر حضرت علیؓ کی دوبارہ آمد پر ایمان رکھتا تھا اور ابو جعفر محمد یعنی جناب باقر سے روایات نقل کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ستر ہزار احادیث تو مجھے امام باقر کی یاد ہیں، اور پچاس ہزار نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی اور ان تمام روایات میں سے میں نے زندگی میں ایک روایت کے علاوہ کوئی روایت بیان نہیں کی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہی روایت ہو۔ کیونکہ اس کا تعلق علم باطن سے ہے، اور باطنی علوم ان لوگوں سے بیان نہیں کئے جا سکتے۔ جو رمز آشنا نہ ہوں۔ ورنہ دوسری صورت میں یہ علم ظاہر بن جائے گا۔ امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس جابر سے تیز ہزار روایات سنی ہیں۔ جن میں سے ایک کا بیان کرنا بھی حلال نہیں سمجھتا۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں عطاء بن ابی رباحؒ سے زیادہ فقیہ ارو جابر جعفی سے زیادہ کذاب کوئی انسان نہیں دیکھا۔ تفصیل کے لئے ’’مقدمہ مسلم‘‘ میزان الاعتدال اور کتاب العلل ترمذی ملاحظہ کیجئے۔

جابر بن یزید نے یہ روایت محمد سے نقل کی ہے۔ یہ محمد حضرت امام زین العابدینؒ کے صاحبزادے اور جناب جعفرؒ کے والد ہیں۔ جو امام باقر کے لقب سے مشہور ہیں۔ ان کی کنیت ابو جعفر ہے۔ گویا محمد ؒ بن علی، ابو جعفر اور باقر سے ایک ہی ذات مراد ہے، جابر کا دعویٰ ہے کہ محمد ؒ نے یہ روایت علی سے سنی ہے۔ اب علی سے کون شخص مراد ہے۔ اگر بقول شاہ رفیعؒ الدین حضرت علیؓ بن ابی طالب مراد ہیں تو ابو جعفر باقر  ؒ تو کجا ان کے والد محترم امام زین العابدینؒ بھی حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے۔ اس صورت میں درمیانی راوی غائب ہیں اور روایت منقطع ہے کیا خبر کہ وہ راوی بھی جابر بن یزید کے ہم جنس ہوں۔ اگر روایت کو متصل ثابت کرتا ہے۔تو پھر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ علی سے مراد علیؒ بن حسین یعنی امام زین العابدینؒ ہیں جو امام باقرؒ کے والد ہیں۔ ایسی صورت میں یہ حضرت زین العابدینؒ کا قول ہو گا۔ نہ کہ حدیث اور جو شخص امام باقر  ؒ کی جانب سے پچاس ہزار جھوٹ بول سکتا ہے اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی جانب سے تیس ہزار جھوٹ بول سکتا ہے ظاہر ہے کہ اس کا حضرت علیؓ بن ابی طالب اور حضرت علی بن حسینؓ کی جانب سے جھوٹ بولنا کیا دشوار ہے اور اس کا سب سے اہم ثبوت اس روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’ ہمارا مہدی‘‘ گویا یہ بات سنیوں کے مہدی کی بیان نہیں کی جا رہی ہے۔ بلکہ جابر اپنے طبقہ کے مہدی کا ذکر کر رہا ہے اور جابر کے نزدیک مہدی سے مراد حضرت علیؓ ہیں۔

یہ تحقیق اس بات کا عین ثبوت ہے کہ ہمارے ہندو پاک کے علماء نے مہدی کی روایات کو آنکھیں بند کر کے قبول کیا ہے۔

حضرت علیؓ کی ایک اور روایت امام ابن ماجہ نے بایں الفاظ نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلّی نے فرمایا ’’مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے جن کی اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں اصلاح فرما دے گا۔ ابن ماجہ مترجمہ ج۔ ۲ ص ۵۳۴ مطبوعہ قرآن محل۔

گویا وہ پہلے سے تو اصلاح یافتہ نہ ہوں گے لیکن معصول حکومت کے لئے ایک ہی رات میں ان کی اصلاح کر دی جائے گی۔

اس روایت کے دو راوی مجروح ہیں۔ پہلے راوی ابراہیم بن محمد بن حنیفہ ہیں، عقیلی فرماتے ہیں یہ مقبر نہیں اور ان کی یہ حدیث منکر ہے۔ میزان ج۔ ۱ ص ۶۳ مطبوعہ دارالکتب احیاء العربیہ، دوسرا راوی یاسین بن معاذ الزیات ہے یہ کوفہ کے فقہاء اور مفتیوں میں شمار ہوتا تھا۔ لیکن یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں اس کی حدیث کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ امام بخاریؒ کہتے ہیں اس کی حدیث منکر ہے۔ امام نسائی اور ابن جنیدؒ کہتے ہیں یہ مستردک ہے۔ ابن حیانؒ کہتے ہیں یہ من گھڑت روایات نقل کرا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یاسین سے مراد یاسین، زیات نہ ہو بلکہ یاسین بن شیبان الکوفی ہو تو امام بخاریؒ کہتے ہیں اس کی حدیث پر اعتراض ہے۔ ابن سیمان کہتے ہیں کہ یاسین بن شیبان سے اس کے علاوہ اور کوئی روایت مروی نہیں۔ میزان ج۔ ۴ ص ۳۵۹۔ مطبوعہ دارالکتب احیاء العربیہ۔

اس موضوع پر ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی روایات بھی پائی جاتی ہیں۔ جن میں یہ ایک روایت مختصر اور ایک تفصیلی ہے۔ مختصر روایت صرف اتنی ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا۔ مہدی فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔ ابو داؤد ابن ماجہ۔

اس کا ایک راوی زیاد بن بیان ہے۔ امام ذہبیؒ کہتے ہیں۔ اس کی حدیث صحیح نہیں۔ امام بخاریؒ کہتے ہیں۔ اس کی حدیث پر اعتراض ہے۔

تفصیلی روایت اس طرح ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا۔ ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو مدینہ کا ایک شخص بھاگ کر مکہ چلا جائے گا تو مکہ کے لوگ اس کے پاس آئیں گے اور زبردستی اس کی بیعت کریں گے۔ اور رکن سبحانی اور مقام ابراہیم کے درمیان یہ بیعت ہو گی۔ ان کے مقابلے کے لئے شام کا ایک لشکر بھیجا جائے گا۔ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ یہ صورت حال دیکھ شام کے ابدالی اور …… کے سرادار ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی بیعت کریں۔ پھر قریش کا ایک شخص کا ان کے مقابلے کھڑا ہو گا۔ جس کی ننہیل بنو کلوب میں ہو گی۔ وہ ان کے مقابلے کے لئے لشکر بھیجے گا۔ خلیفہ ان پر غالب آئے گا۔ افسوس ہے اس شخص پر جو بنو کلب کی غنیمت حاصل کرنے حاضر نہ ہو۔ یہ شخص مال تقسیم کرے گا۔ اور سنت نبوی کے مطابق عمل کرے گا اور اسلام کی چکی دوبارہ چلنے لگی گی۔ یہ سات سال زندہ رہیں گے۔ اس کے بعد ان کی وفات ہو جائے گی۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں بعض روایات میں نو سال کا ذکر ہے۔ اس حدیث سے چند امور ثابت ہوتے ہیں :

۱۔        اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ مہدی ہو گا اور نہ اس کے نام کا ذکر ہے لیکن امام ابو داؤد ؒ نے اسے مہدی کے بیان میں ذکر کیا ہے۔

۲۔       وہ شخص خلیفہ ہو گا حالانکہ اب دنیا سے خلافت کا وجود ہی مٹ چکا ہے۔

۳۔       ان کی تمام لڑائی شامیوں اور عربوں سے ہو گی۔ جو خود اسلام کے نام لیوا ہیں۔

۴۔       دارالخلافہ مدینہ ہو گا۔ حالانکہ حضرت عثمان ؓ کے بعد سے آج تک مدینہ دارالخلافہ نہیں بنا۔ اب اگر مہدی کو زبردسستی ظاہر کرنا ہی مقصود ہے تو پہلے خلافت کو زندہ کیجئے۔

۵۔       اس روایت میں ابدال کا ذکر ہے۔ حالانکہ تمام محدثین اس پر متفق ہیں کہ جن روایات میں ابدال اور اقطاب کا ذکر ہے وہ سب موضوع ہیں۔

۶۔       اس روایت میں شام کے ابدال کا ذکر ہے۔ کیا ابدال مکہ اور مدینہ چھوڑ کر شام میں مقیم ہوئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو وہ نہایت ہی متبرک مقام ہے۔

حضرت ام سلمہؓ سے اسے جو شخص روایت کر رہا ہے، سند میں اس کا نام تک موجود نہیں اور وہ مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ہر گز قابل قبول نہیں ہوتی۔

دوسرا راوی صالح ابو الخلیل ہے اسے اگرچہ ابن معینؒ نے ثقہ کہا ہے لیکن ابن …… کہتے ہیں یہ حجت نہیں۔ تقریب مد ۱۵۰۔ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ۔

اس موضوع کی ایک حدیث حضرت ابو سعید …… سے بھی مروی ہے۔ جو ابو داؤد میں پائی جاتی ہے۔ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا مہدی مجھ سے ہوں گے۔ ان کی پیشانی کشادہ ہو گی اور ناک بلند ہو گی۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور سات سال مالک رہیں گے۔

اس کا ایک راوی عمران بن داؤد ہے۔ اس کی کنیت ابو العوام ہے۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں میرے خیال میں اس کی حدیث اچھی ہے۔ امام نسائی  ؒ کہتے ہیں، ضعیف ہے خود امام ابو داؤد کا قول ہے کہ وہ ضعیف ہے، امام ابوداؤد کہتے ہیں۔ اس نے ابراہیم بن عبداللہ بن حسنؒ کے زمانے میں ایک سخت قسم کا فتویٰ دیا تھا۔ جس کی رو سے مسلمانوں کا خان بہانا جائز قرار دیا تھا۔ یزید بن زریعؒ کہتے ہیں یہ خارجی تھا اور مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتا تھا۔ یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں یہ کچھ نہیں ہے۔ میزان ج۔ ۳ ص ۲۳۷۔ مطبوعہ داراحیاء۔

کتب العربیہ:

دوسرا راوی سہل بن تمام بن بزیغ ہے۔ ابن حجّرُ کہتے ہیں ہیں یہ اگرچہ سچا ہے لیکن حدیث میں غلطیاں کرتا ہے۔ تقریب ص ۱۳۹۔ دار نشر الکتب الاسلامیہ۔

اس کا تیسرا راوی ابو نفرہ ہے۔ جس کا نام منذر بن مالک ہے۔ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن سعدؒ کہتے ہیں یہ ثقہ تو ہے لیکن کسی نے اسے حجت نہیں سمجھا ہے۔ عقیلیؒ اور ابن عدیؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام بخاریؒ کہتے ہیں۔ اس کی روایت حجت نہیں۔ ابن حیانؒ کہتے ہیں ثقہ ہے لیکن غلطیاں کرتا ہے گویا اس روایت سے تین راوی مشکوک ہیں۔

امام ترمذیؒ اور امام ابن ماجہؒ نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے ایک اور حدیث نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں ہمیں اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ ہم پر آپ کے بعد مصائب نہ آئیں تو ہم نے حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا میری امت میں مہدی ہو گا جو پانچ یا سات یا نو سال حکومت کرے گا۔ اس کے پاس ایک شخص آکر کہے گا۔ اے مہدی مجھے بھی کچھ عطا کر وہ اسے کپڑے میں اتنا مال بھر دے گا کہ وہ اسے اٹھا نہ سکے گا۔

ابن ماجہؒ کے الفاظ ہیں کہ میری امت میں مہدی ہو گا جو سات یا نو سال حکومت کرے گا۔ ان کے زمانہ میں اتنی نعمت ہو گی کہ لوگوں نے کبھی دیکھی نہ ہو گی۔ وہ لوگ آئندہ کے لئے ذخیرہ نہ کریں گے اور مال اس وقت ڈھیروں کی طرح ہو گا۔ ایک شخص آکر کہے گا کہ اے مہدی مجھے مال دے۔ وہ کہے گا لے لو۔

اس حدیث کو حضرت ابو سید بخاریؒ سے ابو الصدیق الناجیؒ نقل کر رہے ہیں اور ان سے زیدائمی۔ گویا دونوں روایات کے آغاز کے راوی ایک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں کے الفاظ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زید العمی کبھی کچھ کہتا ہے اور کبھی کچھ یعنی جو کچھ اس کے تخیل میں آتا ہے اسے حدیث بنا کر پیش کر دیتا تھا۔ اور ’’دروغ گورا حافظہ نباشد‘‘ کے مصداق اسے سابقہ بیان کردہ الفاظ بھی یاد نہ رہتے تھے۔ محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ حافظ بن حمیرؒ فرماتے ہیں یہ ہرات کا قاضی تھا۔ اس کے باپ کا نام حواری ہے اور یہ ضعیف ہے۔ تقریب ص ۱۱۳۔ مطبوعہ دار نشر الکتب الااسلامیہ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ابو حاتمؒ کا قول ہے یہ ضعیف ہے۔ البتہ برائے تحقیق اس کی روایت لکھ لی جائے۔ یحییٰ بن معین ؒ کہتے ہیں۔ یہ کوئی شے نہیں۔ا مام نسائی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ ابن عدیؒ فرماتے ہیں امام شعبہ نے جن جن لوگوں سے روایات لی ہے ان میں یہ سب سے زیادہ ضعیف ہے۔ میزان ج۔۲۰ ص ۱۰۲۔ مطبوعہ داراحیاء کتب العربیہ۔

جہاں تک ابو الصیق النائمی کا تعلق ہے، وہ مشہور تابعی ہیں اور ان کا اسم گرامی مکبرین عمرو ہے، صحا ح ستہ کے تمام مصنفین نے ان کی روایات نقل کی ہیں۔ لیکن ابن سعدؒ کہتے ہیں محدثین کو ان کی احادیث میں کلام ہے اور انہوں نے ان کی روایات کو منکر سمجھا ہے۔

یہ دونوں راوی تو ترمذی اور ابن ماجہ دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن ترمذی کے بقیہ راوی ثقہ ہیں جب کہ ابن ماجہ کے راویوں میں ایک اور راوی محمد بن مردان العقیلی بھی ضعیف ہے۔ امام ابو داؤد کہتے ہیں یہ سچا ہے۔ لیکن ابو زرعہؒ کہتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں۔ یہ ضعیف ہے۔ گویا ترمذی کی روایت پر دو اعتراض اور ابن ماجہ کی روایت پر تین اعتراض ہیں۔

ابن ماجہ نے ایک اور روایت حضرت ثوبانؓ سے نقل کی ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا۔ تمہارا ایک خزانہ حاصل کرنے میں تین شخص قتل ہو جائیں گے۔ اور تینوں خلیفہ کے بیٹے ہوں گے۔ نتیجتًہ یہ خزانہ تینوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہو گا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے ظاہر ہوں گے وہ تمہیں اس بری طرح قتل کریں گے کہ پہلے تمہیں اس طرح کسی نے قتل نہ کیا ہو۔ اس کے بعد نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے کوئی اور بات فرمائی جسے میں محفوظ نہ رکھ سکا۔ (یعنی کام کی بات محفوظ نہیں رہی)  اور آخر میں فرمایا کہ جب تم اسے دیکھو تو بیعت کر لو۔ خواہ بیعت کے لئے تمہیں برف پر گھسٹ کر جانا پڑے۔ (کیا مہدی سائبریا کے علاقہ میں ہوں گے۔ کیونکہ عرب سے تو برف کا کوئی تعلق نہیں ) کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہو گا۔

…… بھی متعدد روایات میں مشرق کا ذکر آ چکا ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ …… تصور کس مقام سے کیا جائے گا۔ اگر مدینہ سے مشرق مراد ہے تو مدینہ کے مشرق …… کا علاقہ ہے پھر تو مہدی کو عراق و ایران میں تلاش کرنا چاہئے۔

جہاں تک سیاہ جھنڈوں کا تعلق ہے تو تاریخ اسلام میں سب سے پہلے سیاہ جھنڈے ابو مسلم …… سال کے ساتھ آئے تھے۔ اور بنو امیہ کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اور اتفاق سے منصور عباسی کے بیٹے کا نام بھی مہدی تھا۔ کہیں اس منصوبے کا تذکرہ تو نہیں ہو رہا ہے اور غالباً راوی اسی لئے درمیان کے الفاظ بھی بھول گیا ہے کہ کہیں یہ راز فاش نہ ہو جائے۔

اس کا راوی عبدالرزاق بن ہمام ہے۔ اس سے اگرچہ تمام محدثین نے روایات لی ہیں۔ لیکن اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ وہ شیعوں کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس ’’راخضی‘‘ کہا جاتا ہے، لوگوں میں جو یہ حدیث مشہور ہے کہ جب تم میرے ممبر پر معاویہؓ کو دیکھو تو قتل کرو …… حدیث ہے کہ میں نے خواب میں بنو امیہ کو ممبر پر بندروں کی طرح کودتے دیکھا تو مجھے ناگوار گزارا۔ جس پر سورۃ قدر نازل ہوئی۔ ان مہملات کا راوی بھی یہی عبدالرزاق ہے۔ یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ اگر یہ عبدالرزاق مرتد بھی ہو جائے تب بھی اس کی روایات ترک نہ کریں گے۔ کیونکہ یہ یحییٰ خود اس کے راقضی ہونے کے مقر ہیں۔ عباس بن عبدالعظیم الغبری کا قول ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں عبدالرزاق کذاب ہے۔ بلکہ واقدی کذاب اس سے زیادہ سچا ہے۔ امام عبداللہ بن المبارک ؒ کے بھائی زید بن المبارکؒ فرماتے ہیں۔ میں نے اس سے ابتداء میں روایات لکھی تھیں۔ لیکن پھر سب کو جلا دیا۔ کیونکہ اس نے (خاکم بدہن) حضرت (کو احمق قرار دیا تھا۔ یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ عبدالرزاق تو عبیداللہ بن موسیٰ سے بھی زیادہ …… ہے۔ میزان ج۔ ۲ص ۶۰۸ مطبوعہ داراحیاء کتب العربیہ۔

یہ بھی محدثین کے نزدیک ایک مسلمہ اصول ہے کہ شیعہ راوی کی وہ روایت ہر گز قبول نہ کی جائے گی جس سے اہل بیت کی فضیلت یا صحابہ کی برائی ثابت ہوتی ہو۔ یہی وجہ ہے جو امام بخاریؒ و امام مسلم ؒ نے اس روایت کو نظر انداز کیا۔ حالانکہ ان ہر دو حضرات نے عبدالرزاق سے اور موضوعات سے متعلق متعدد روایات نقل کی ہیں۔ یہ عبدالرزاق آخر میں نابینا ہو گیا تھا۔ اور حافظہ خراب ہو گیا۔ نتیجتہً حدیث بیان کرنا ہوتا اور کوئی سامع اپنی جانب سے کچھ الفاظ بولتا تو انہیں بھی حدیث میں داخل کر دیتا۔

ابن ماجہ نے ایک اور حدیث حضرت انسؓ بن مالک سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایاہم عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور اہل جنت کے سردار ہیں۔ یعنی میں حمزہؓ،علیؓ، جعفرؓ، حسینؓ اور مہدی۔

گویا حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد، اسی طرح حارث بن عبدالمطلب، زبیر بن عبدالمطلب اور دیگر چچاؤں کی اولاد جنت کی سردارنہیں۔ کیونکہ وہ عبدالمطلب کی اولاد نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علیؓ …… کے بڑے بھائی عقیلؓ بن ابی طالب اور ان کی اولاد بھی عبدالمطلب کی اولاد ہونے سے ………… اسی لئے وہ جنت کی سردار نہیں۔ کم از مسلم بن عقیلؓ کو اس میں داخل کرنا چاہئے تھا۔ اور یہ بھی ہماری عقل میں نہیں آیا کہ حضرات زین العابدینؒ، باقر  ؒ، جعفر ؒ، علی ؓ، … موسی …… ؒ اور حسن عسکریؒ وغیرہ کیوں اولاد عبدالمطلب ہونے سے خارج ہوئے۔

اس کا ایک راوی علی بن  … ایمانی ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔ اس کا نام علی نہیں۔ بلکہ عبداللہ ہے اور ابو العنار کنیت ہے اور یہ ضعیف ہے۔ تقریب ص ۲۴۶۔ امام ذہبیؒ کہتے ہیں اس کا کچھ حال معلوم نہیں۔ لیکن امام بخاری ؒ کا قول ہے یہ منکر الحدیث ہے۔

اس روایت کے مزید دو راوی ہدبہ بن عبدالوہاب اور سعید بن عبدالحمید بن جعفر بھی قطعاً مجہول ہیں۔ حتیٰ کہ ابن عدیؒ ذہبیؒ اور ابن مخیر نے ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ کیا خبر کہ یہ دونوں ملک عدم سے وجود میں بھی آئے تھے یا نہیں۔

امام ابن ماجہؒ نے ایک اور روایت عبداللہ ؓ بن حارث بن جزء الزبیدی سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ مشرق سے کچھ لوگ آئیں گے اور وہ مہدی کی حکومت قائم کریں گے۔

اہل مکہ اور اہل مدینہ بلاوجہ فکر میں مبتلا ہیں۔ لیکن ہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ کہیں وہ مشرق سے اپنے ساتھ مہدی کو پکڑ نہ لائیں۔

اس کا ایک راوی عمرو بن جابر الحفرمی ہے۔ اس کی کنیت ابو زرعہ ہے، امام احمد بن سنبلؒ فرماتے ہیں یہ حضرت جابرؒ سے منکر احادیث روایت کرتا ہے اور مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ امام نسائی  ؒ کہتے ہیں یہ معتبر نہیں ہے۔ عبداللہ بن لہیعہؒ کا بیان ہے کہ انتہائی احمق تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ حضرت علیؓ بادلوں میں گھومتے پھرتے ہیں وہ ہمارے پاس بیٹھا ہوتا اور کوئی بادل دیکھتا تو جھٹ کہتا کہ وہ حضرت علیؓ تشریف لے جارہے ہیں یہ ایک احمق بوڑھا تھا۔ میزان ج۔ ۳ ص  ۲۵۰۔ مطبوعہ داراحیاء کتب العربیہ۔

گویا یہ شیعوں میں سے فرقہ رجعیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ جن کے نزدیک مہدی کے بجائے حضرت علیؓ دوبارہ تشریف لائیں گے۔ ایسی صورت میں مہدی سے حضرت علیؓ مراد ہوں گے۔

لطف یہ کہ عبداللہ بن لہیعہ جو یہ تمام لطیفہ نقل کر رہا ہے اور اسے احمق بھی قرار دے رہا ہے۔ پھر خود اس سے مہدی والی روایت بھی نقل کرتا ہے۔ گویا وہ خود بھی حماقت کے ارتکاب میں اس سے پیچھے نہیں۔ اس عبداللہ بن لہیعہ کے بارے میں سخت اختلاف ہے بعض محدثین کہتے ہیں ثقہ ہے۔ بعض محدثین فرماتے ہیں یہ ثقہ تھا لیکن اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور اس کی تمام بیاضیں جل گئیں۔ جس کے بعد اس کی احادیث میں غلط باتیں شامل ہو گئیں۔ اس لئے اس کے بعد کی تمام روایات نا قابلِ قبول ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے اس حادثہ سے قبل اس سے روایات سنی تھیں وہ قبول کی جائیں گی۔ حادثہ سے قبل روایات سننے والوں میں عبداللہ بن المبارکؒ، عبداللہ بن وہبؒ اور عبداللہ بن عمر التوایرؒی ہیں اور اتفاق سے اس روایت کو یہ حضرت نقل نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ اسے نقل کرنے والا عبدالغفار بن ابی داؤد ہے اور اس نے آگ کے حادثہ کے بعد روایات سنی ہیں۔

اس کے برعکس محدثین کی ایک بہت بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ ابتداء ہی سے ضعیف ہے۔ اس کے قائل امام یحییٰ بن سعید القطانؒ، امام بخاریؒ، امام نسائی  ؒ، امام ترمذیؒ وغیرہ ہیں۔ ابو حاتمؒ کہتے ہیں۔ اس کی حدیث مضطرب ہوتی ہے۔ جو زجانیؒ کہتے ہیں اس کی حدیث پر کوئی نور نہیں ہوتا۔ یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں وہ آگ لگنے سے پہلے بھی ضعیف تھا۔ اور بعد میں بھی ضعیف ہے۔ ابن عدی کہتے وہ غالی شیعہ ہے۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں۔ وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتا اور پھر ان کے ناموں کو چھپاتا ہے۔ ابو زرعہؒ کہتے ہیں اس کے گھر میں کوئی آگ نہیں لگی تھی وہ جھوٹ بولتا ہے امام نسائی  ؒ فرماتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں اس سے صرف ایک روایت لی ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔

یہ تو ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات کا حال ہے اور جو روایات بعد کے مصنفین کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا کیا حال ہو گا۔ انہیں انہی روایات پر قیاس کر لیجئے۔ اس قسم کی احادیث پر کیا کسی عقیدے کی بنیاد قائم کی جا سکتی ہے؟کم از کم اس ناچیز کی عقل تو اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ بے شک بعض علماء کے نزدیک اس قسم کی متعدد روایات جمع ہو کر ظن کا قائدہ ضرور دیتی ہیں اور وہ ظن عمل کے جواز کے لئے کافی ہوتا ہے۔ لیکن عقیدے کے لئے احادیث صحیح متواترہ کا ہونا شرط ہے۔ حالانکہ ان میں سے ایک روایت بھی درجۂ صحت تک نہیں پہنچتی۔ اور عقیدے کے لئے ظن کافی نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

بلکہ کفار کا ایک عیب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ ظن کی پیروی کرتے ہیں۔

وَمَا یَتَّبِعُوْنَ اَکْثَرَھُمْ اِلاَّ ظَنَّا ً    ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں۔

اس سے ثابت ہوا کہ ظنیات پر عقیدے کی بنیاد قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ بلا تحقیق ہر روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ارشاد الہیٰ ہے۔

 یٰآیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقً بِنَبٍ فَتَبَیَّنُواط اَن تُصِیْبُوْا قَوْماً بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِھُوْا عَلیٰ مَافَعَلْتُمْ نٰدِمیْنَ۔   (اے ایمان والو جب تمہارے پاس کوئی بد عمل خبر لے کر آتے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو کہیں تم کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو اور بعد میں نادم ہو)۔

اس لئے امام محمد بن سیریں ؒ فرماتے ہیں۔ یہ سندات کی تحقیق بھی دین ہے۔ تم اپنا دین حاصل کرنے سے قبل اس کی تحقیق کر لیا کرو کہ دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔

اس لئے ہم نے تمام روایات کا تجزیہ پیش کر دیا ہے۔ اب قارئین خود ہی فیصلہ فرما لیں کہ مہدی کا کوئی وجود ہے یا نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضورﷺ  کی وہ دعا بھی یاد رکھئے جو آپ نے امیر معاویہؓ کے لئے فرمائی تھی۔ اے اللہ (اسے ہادی اور مہدی بنا دیجئے) اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والا بنا دیجئے۔ اور اس کے ذریعے دوسروں کو ہدایت عطا کیجئے۔ (ترمذی ج۔ ۲ ص ۶۴۷ مطبوعہ قرآن محل) اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور بلحاظ سند یہ حدیث گذشتہ تمام روایات سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ کیونکہ اس کے اکثر راوی بخاری کے راوی ہیں۔ بقیہ راوی مسلم کے راوی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ شرط مسلم پر صحیح ہے اور جب یہ روایت صحیح اور سابقہ تمام روایات ضعیف، منکر اور مردود ہیں تو کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ اگر روئے زمین پر کوئی مہدی ہے تو وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اگر وہ اس منصب پر فائز نہیں ہو سکتے تو ان کے بعد کوئی اور مہدی نہیں۔ اس لئے اس حدیث کی بنا پر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ دراصل ہمارے مہدی امیر معاویہ ہیں اور وہ اس دار فانی سے کوچ فرما چکے۔ اب کوئی آنے والا مہدی باقی نہیں رہا۔

اگر مہدی سے مراد لغوی معنی ہیں۔ یعنی ہدایات پایا ہوا۔ تو اس معنی کے لحاظ سے ہزار ہا مہدی گذر چکے ہیں اور آئندہ بھی برابر آتے رہیں گے۔ بلکہ وہ ایک وقت میں سینکڑوں کی تعداد میں بھی ہو سکتے ہیں، اور آئندہ بھی برابر آتے رہیں گے۔ بلکہ وہ ایک وقت میں سینکڑوں کی تعداد میں بھی ہو سکتے ہیں، خواہ ان کا نام محمد ہو یا عبداللہ یا یزید نام سے کچھ بھی فرق واقع نہ ہو گا۔اور ان کی صرف آمد سے امتّ مشکلات سے عہد برآ ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس کا واحد علاج صرف یہ ہے کہ سب پکے مومن بن جائیں اور باہم متحد ہو جائیں۔ ورنہ اگر ایسی صورت میں مہدی بھی ظاہر ہو گئے تو اس امت کے اکثر افراد انہیں بھی قبول نہ کریں گے بلکہ ہر فرقہ انہیں اپنے مسلک کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ وطنیت اور صوبائیت کے پیشِ نظر بھی ان کی مقبولیت اور عدم مقبولیت پر ایک نئی بحث اور نئے فتنے کا دروازہ کھل جائے اور پھر یہ فتنہ مختلف قسم کے فتنوں کو جنم دے۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ اگر وہ پیدا ہو چکے ہیں تو اپنے ظہور کے نخیل سے باز رہیں اور اگر ابھی عالم وجود میں تشریف نہیں لائے تو اللہ سے ہماری دعا ہے کہ وہ کبھی تشریف نہ لائیں۔ تاکہ امت مزید نئے فتنوں سے دو چار نہ ہو۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کچھ ضعیف روایات اس قسم کی بھی پائی جاتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی حضرت عباسؓ کی اولاد سے ہوں گے۔ ان تمام امور کے برعکس اما ابن ماجہؒ حاکم ؒ اور ابن عبدالبرؒ نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے۔

لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم   عیسیٰ بن مریم کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔

اگرچہ یہ روایت بھی درجۂ صحت تک نہیں پہنچتی۔ لیکن جب ضعیف روایات ہی کا سہارا پکڑتا ہے تو کیوں نہ اس روایت کا سہارا پکڑا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ تمام روایات ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ ان میں سے کسی روایت پر بھی عقیدے کی بنیاد قائم نہیں کی جا سکتی۔

اسلام سے قبل یہود و انصاری اس بات کے مدعی تھے کہ ایک آنے والا آئے گا۔ اگرچہ اس آنے والے سے مراد حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی ذاتِ اقدس تھی۔ اور وہ آ چکی۔ لیکن چونکہ یہودو نصاریٰ نے حضورﷺ  کی نبوت کا انکار کیا اس لئے وہ آج تک ایک آنے والے کے منتظر ہیں۔

ان کی دیکھا دیکھی سب سے پہلے سبائی فرقہ اس کا قائل ہوا کہ حضرت علیؓ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ فرقہ …… اس کا قائل ہے کہ محمد بن حنیفہؒ زندہ آسمانوں پر اٹھا لئے گئے اور دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔

تیسرا اگر وہ اس کا قائل ہے کہ آنے والا اولادِ عباسؓ سے ہو گا۔

ایک گروہ اس کا قائل ہے کہ آنے والا اولاد حسن ؓ سے ہوگا۔

ایک اور گروہ اسے اولاد حسینؓ سے بیان کرتا ہے۔

ایک فرقہ اسے حسنی اور حسینی بیان کرتا ہے۔

ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ اس لئے کہ ان کی آمد کا تذکرہ متعدد احادیث میں روایت کیا گیا ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ عربی زبان میں مہدی ہر ہدایت یافتہ کو کہا جاتا ہے، یہ کسی مخصوص شخص کا لقب نہیں اور نہ قرآن و سنت میں یہ لفظ کسی مخصوص شخص کے لئے استعمال کیا گیا ہے، بلکہ ہم جہاں تک احادیث صحیحہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے بھی عربیت کے لحاظ سے اسے عام طور پر استعمال فرمایا ہے اور اس کا ثبوت  وہ مشہور حدیث ہے جو حضرت جریرؓ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے انہیں یمن ذی الخلصہ کو گرانے کے لئے بھیجا جو کعبہ یمانیہ کہلاتا تھا۔ تو حضرت جریرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ جریرؓ کا بیان ہے کہ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ حتیٰ کہ آپ کی انگلیوں کے نشان میرے سینے پر نظر آنے لگے اور فرمایا۔ اے اللہ اسے گھوڑے پر ثابت رکھ۔ اور اسے ہادی اور مہدی بنا دے۔ صحیح بخاری ج۔ ص ۴۲۴۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎           یہ نقطہ نظر عام اہل سُنت کا ہے لیکن بعض محققین اس آیت قرآنی کے پیش نظر ’’وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَطاَنَا ئِنْ مِتَّ نَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ‘‘ (اور پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ بھلا اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ ہمیشہ جیتے رہیں گے) الانبیاء آیت ۳۴۔ اور بہت سے دوسرے دلائل کی بنا پر حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی کے قائل نہیں ہیں۔

نوٹ:    اس مضمون پر ہماری کتاب ’’انتظار مہدی و مسیح‘‘ بہت وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ادارہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن کی مشہور حدیث ہے۔ میری سنت اور خلفاء راشدین مہد بین کی سنت کو لازم پکڑو۔ اس حدیث میں آپ نے لفظ مہدی کو جمع کے طور پر استعمال کیا ہے اور خلفائے راشدین کو مہدی قرار دیا ہے۔ جس سے یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہدی بہت سے ہوں گے۔ وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر وہ خلیفہ جو ہدایت پر گامزن ہو وہ خلیفہ راشد بھی ہے اور مہدی بھی ہے اور امیر معاویہ اس میں بدرجۂ اولیٰ داخل ہیں کیونکہ ان کی مہدیت کے لئے حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے دعا فرمائی۔ اسی طرح حضرت جریرؓ عبداللہ بھی مہدی ہیں۔ اور حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بھی مہدی ہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے تمام صحابہ کرام مہدی ہیں۔

تعجب تو یہ ہے کہ جس طبقہ فکر میں ہزاروں اور لاکھوں مہدی گذر چکے ہوں اور ان کی زندگی کا نمونہ ان کے سامنے موجود ہو۔ پھر بھی وہ ایک خیالی مہدی کے تصور میں سرگرداں ہو۔ تو اس سے بڑھ کر حیرت کا مقام کیا ہو گا۔

حدیث اور فن حدیث کی کتابیں جن کا حوالہ اس کتابچے میں ہے

صحیح بخاری:        امام محمد بن اسمعیٰل بخاری المتوفی ۲۵۵؁ کی تصنیف ہے۔ یہ حدیث کی سب سے زیادہ صحیح کتاب سمجھی جاتی ہے۔ امام بخاری نے اپنی اس کتاب میں جتنی صحت کا اہتمام کیا ہے۔ اتنا کسی دوسرے مصنف نے نہیں کیا۔ حدیث کی چھ صحیح کتابوں میں سے ایک۔

صحیح مسلم:                      اس کے مرتب مسلم بن حجاج قشیری ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں انتہائی صحت کا اہتمام کیا ہے اور ہر حدیث کی صحیح سندات جمع کی ہیں۔ ۲۶۱؁ میں ان کی وفات ہوئی۔ حدیث کی چھ صحیح کتابوں سے ایک۔

سنن نسائی:                     ان کی کنیت ابو عبدالرحمان اور اسم گرامی احمد بن شعیب ہے۔ انہوں نے بھی انتہائی صحت کا اہتمام کیا ہے، لیکن ان کی کتاب میں صرف مسائل فقہیہ سے متعلق احادیث پائی جاتی ہیں۔ سندات اور ان کے اختلاف کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان کرتے اور ان کی خامیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث کی چھ صحیح کتابوں میں سے ایک۔

سنن ابی داؤد:  امام ابو داؤد کا اسم گرامی سلیمان بن اش عت ہے۔ سبحتان کے باشندہ ہیں۔ ۲۷۵؁ میں وفات ہوئی۔ ان کی کتاب میں مسائل فقہیہ کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ ان کے مزاج پر فقہی غلبہ زیادہ تھا۔ اس لئے فقہی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے حدیث ضعیف، منقطع، مرسل اور معلول روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات ان پر جرح بھی کرتے ہیں۔ مسائل فقہیہ کے لحاظ سے یہ سب سے اہم کتاب ہے۔ حدیث کی چھ صحیح کتابوں میں سے ایک۔

جامع ترمذی:      اس کے مصنف محمد بن عیسی ترمذی ہیں۔ المتوفی ۲۷۹؁۔ ان کیتاب ایک نرالی قسم کی کتاب ہے، اولا سرخی قائم کرتے اور اس موضوع پر جو حدیث صحیح ہوتی ہے اسے پیش کرتے ہیں۔ اگر کوئی حدیث صحیح موجود نہیں پاتے جو نسبتاً کم ضعیف ہو تو اُسے بیان کرک یء اس پر جرح کرتے پھر صحابہ اور علماء کا مسلک بیان کرتے ہیں۔ حدیث کی چھ صحیح کتابوں میں سے ایک۔

سنن ابن ماجہ:     اس کے مصنف محمد بن یزید بن ماجہ اتفردینی ہیں۔ ان کی وفات ۲۷۹؁ میں ہوئی۔ حدیث کی صحیح کتابوں میں سے ایک۔

المؤطا:               اس کے مصنف امام مالک بن انس المدنی ہیں جو ۹۵؁ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ۱۷۹؁ میں وفات پائی۔ ان کی تصنیف آج کی حدیث کی موجودہ کتابوں میں سب سے اول تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ یہ غیر ثقہ راوی سے کوئی روایت نقل نہیں کرتے۔ ماہرین اور ناقدین حدیث کے ایک طبقے کے نزدیک بلحاظ صحت اس کا مقام بخاری و مسلم سے زیادہ ہے لیکن اس میں زیادہ تر صحابہ و تابعین کے اقوال اور انہی کی فقہی آراء پائی جاتی ہیں۔ اسی باعث ایک لحاظ سے یہ فقہی کتاب ہے۔

میزان الاعتدال: یہ حافظ عبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان المتوفی ۷۴۸؁ کی تصنیف ہے جو ذہبی کے لقب سے مشہور ہیں۔ یہ امام ابن تیمیہ کے ہم عصر ہیں۔ حدیث، اصولِ حدیث، رجال، جرح و تعدیل اور علل کے امام ہیں۔ ان فنون میں یہ بہت سے متقدمین پر بھی فوقیت رکھتے ہیں۔ حدیث کی صحت و ضعف پر ان کے قول کو حجت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی یہ کتاب میزان امام ابن عدی کی کامل کا خلاصہ ہے۔ جس میں دس ہزار کے قریب راویوں پر بحث کی گئی ہے۔

تقریب:                        یہ حافظ ابن حجرا المتوفی ۸۵۳؁ کی تصنیف ہے۔ دراصل یہ ان کی کتاب تہذیب التہذیب کا خلاصہ ہے۔ جو خود انہوں نے کیا ہے۔ اس سے راویان حدیث کا مختصر سا خاکہ جلد ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ لیکن حافظ صاحب جرح کے معاملہ میں بہت نرم واقع ہوئے ہیں۔ ذرا سے سہارے پر بھی راوی کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر راوی حنفی المذہب ہو تو معمولی سے سہارے پر اسے ضعیف ثابت کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد ان جیسی ہستی بھی کوئی نہیں گزری۔ اس لحاظ سے یہ علمی تحقیق کا آخری سہارا ہیں۔

کتاب العلل:      اس نام کی متعدد کتابیں ہیں۔ ایک کتاب امام ترمذی المتوفی ۲۷۹؁ کی بھی ہے جو جامع ترمذی کے آخری صحہ کے طور پر شامل ہے۔

سیرت الرسول               محمد بن عبدالوہاب

البدایہ و النہایہ   (حافظ ابن کثیر) حافظ عماد الدین ابواھذ ء اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی المتوفی ۴۷۷؁ھ

٭٭٭

تشکر: فہد حارث جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید