فہرست مضامین
- عقاب کی آنکھیں
- انتساب
- دو لفظ
- ایک جنون سے دوسرے جنون تک کا سفر
- (ڈائری سے پہلے)
- ندی کے ہونٹوں میں دبا ماؤتھ آرگن
- ایم فار — ملک
- جنگ بھوکی ہے
- آنکھوں میں جلتا ہوا کیستوریا
- تھوڑا سا فرق
- ایک کہانی ‘بہت پرانی
- دوپہر کی آگ
- مشکوک نظروں کا پہلا دن
- رقص سلگتی آنکھوں کا
- سانپ سیڑھی
- کمیونزم اور ریپ
- سالگرہ کی رات
- سیلاب کی ایک رات
- سیلاب کا ایک دن
- ڈاکٹر بھٹ
- یہ میڈیکل کالج ہاسپٹل ہے
- پاگل بوڑھا
- ڈاکٹر بھٹ ایک پراسرار شخصیت
- نفرت
- میری آنکھوں کا کلینڈر
- موت
- سرکس یا کچے گوشت کا بیوپار
- ایک آوارہ خیال
- رشتہ اور ایک جواب
- وجود
- پورے ایک دن کی کیفیت
- دوسرے دن کا ایک واقعہ
- تیسرے دن کی صبح
- وہی واقعات وہی کیفیت
- فرار
- فرار کا پہلا دن
- ہوٹل میں ملازمت
- منزل کے آثار
- یوگ، جوگی اور سنیاس
- انجانے سفر کا پہلا دن
- جنگل کی طرف
- معمول
- ایک دن کا واقعہ
- بے لباسی
- گناہ کی لذت
- تسکین کہاں ہے … ؟
- سکون کی تلاش میں
- اب تک کی کہانی
- سنو … میں کس سے بولوں
- جانور بھی وہی حرکتیں کرتے ہیں
- سچ کیا ہے … ؟
- میری آواز گھٹ رہی ہے
- ایک لاش
- میں لوٹ رہا ہوں کیا تم مجھے قبول کرو گے؟
عقاب کی آنکھیں
(ناول)
مشرف عالم ذوقی
انتساب
تبسم
کے
نام
دو لفظ
پہلا ناول — پہلا تجربہ
۱۹۷۹ — یہ وہی سال تھا جب میں زندگی کی سترہ بہاروں اور سترہ خزاؤں کا حساب لگا رہا تھا۔ اور یہ وہی سال تھا جب میں نے سقراط کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس ناول کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا تھا … سقراط نے کہا تھا کہ روح ایک سنگیت کے مانند ہے اور بیماریوں کی وجہ سے جسم کے اجزاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں … روح اپنے سنگیت سے جسم میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ محض ۱۷ سال کی عمر میں، میں نے انسانی جسم کے تعلق سے ایک بچے کی جو داستان قلمبند کی، کیا اب میں اس داستان کو لکھ سکتا ہوں ؟ تو میرا جواب ہے۔ میں لکھ ہی نہیں سکتا۔ ۱۹۸۶۔ ۱۹۸۵ یعنی ۲۳ سال کی عمر میں، میں دلی آ گیا تو عقاب کی آنکھیں کا مسودہ بھی میرے ساتھ تھا۔ جب اس ناول کی اشاعت کے بارے میں غور کرتا تو پہلا سوال یہی پیدا ہوتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ۱۷ سال کی عمر میں تم کیا کیا سوچ رہے تھے؟ لیکن میرا سچ بھی یہی ہے۔ آنکھیں کھولیں تو ایک پرانی کوٹھی تھی، جس کے در و دیوار خستہ حالت میں موجود تھے۔ باہر جانے پر پابندی تھی۔ اور گیارہ برس کی عمر سے میری کہانیاں بچوں کے رسائل میں شائع ہونے لگیں۔ اور ۱۷ سال کی عمر میں، میں عقاب کی آنکھیں تحریر کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ یہ وہ دور تھا جب میں کانن ڈائیل، اگا تھا کرسٹی، رائیڈرہیگرڈ، ڈیوما کو پڑھ چکا تھا۔ مجھے صرف کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ اور اس کے علاوہ مجھے کوئی شوق نہیں تھا۔ اس وقت، ۱۹۷۹ میں یہ دنیا اس قدر پھیلی نہیں تھی۔ بقول جیسی روزین، آج ہم حقیقی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمارے آن لائن افعال کا احتساب ہوتا ہے، ایک دنیا جو آج سوشل نیٹ ورکنگ کے سہارے کل سے ہزاروں لاکھوں برس آگے نکل گئی ہے۔ گزرے ہوئے کل کی دنیا ۱۹۷۹ تک ایک محدود دنیا تھی۔ اور یہی دنیا ایک کمسن بچے کی فکر کے ساتھ جگہ جگہ اس ناول میں آپ کو دیکھنے کو ملے گی۔
۱۷ سال کی عمر میں زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا کوئی بڑا تجربہ نہیں تھا میرے پاس۔ زبان و بیان کی سطح پر بھی ممکن ہے آپ کو کچا پن نظر آئے مگر آج کی تاریخ میں، میں نے اس ناول میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے — شاید میں رد و بدل یا اضافہ کرتا تو ناول کی معنوی دنیا کے ساتھ یہ چھیڑ چھاڑ ناول کی بنیادی شکل مجروح کر دیتی۔ ناول میں میڈیکل کالج اسپتال کا ذکر ہے، یہ اسپتال مظفر پور بہار میں ہے۔ اس میں جا بجا لوہے کی بدنما سلیپچی کا ذکر آیا ہے، یہ میری دادی اماں استعمال کرتی تھیں۔ اس وقت میڈیکل ٹیسٹ کی سہولیات بھی ناقص تھیں۔ دادی اماں کو یہی سلیپچی استعمال کرنا پڑتی تھی … انسانی فطرت کے علم کے لیے میں نے اپنے اس وقت کے مشاہدے اور تجربے سے کام لیا، ممکن ہے یہ ناول آج تخلیق کرتا تو اس کی صورت بدلی ہوئی ہوتی۔
اب یہ ناول، جیسا بھی ہے، آپ کے سامنے ہے۔
مجھے آپ کی گرانقدر رائے کا انتظار رہے گا۔
— ذوقی
پہلا حصہ
سیاہ رات/ اندھے گھوڑے کا ہنہنانا/ ابوالہول کے کنویں میں بے لباس ماں باپ کا جمع ہونا/ لوہے کی بد نما سلیپچی کا رقص کرنا اور کہانی کا بیت الخلا کے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹانا۔
ایک جنون سے دوسرے جنون تک کا سفر
(ڈائری سے پہلے)
(۱)
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ ’یاد‘ سے یادوں کے راستے کھل جاتے ہیں — تو کیا ایک ’جنون‘ سے دوسرے جنون کا راستہ پیدا ہو جاتا ہے — ؟
جنون … …
ایک جنون باہر تھا — مجھے سب کچھ یاد تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ کم از کم اس چھوٹی سی عمر میں۔ جیسا میں تھا — اس طرح کے ہنگامے میں نے پہلے بار دیکھے تھے۔ تب عمر ہی کیا تھی۔ ہوا کے دوش پر لہرانے والی عمر — دوڑتے دوڑتے گر جانے والی عمر — اور
آپ کسی بڑے بوڑھے کی طرح ہشیار کرتے ہوئے، ذرا سا لطف لینے کے بہانے، چیخ کر ہنستے ہوئے کہتے ہیں —
’میاں ‘ اس عمر کا کچھ تو خیال کرو۔ ٹھوکر لگ گئی تو سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا … ‘
ٹھوکر — تب ٹھوکر لگنے کی فکر ہی کس کو تھی؟ وہی دوڑتے دوڑتے گر جانے والی عمر — کھیل کے بہانے ہم بار بار دوڑتے تھے۔ اور ہر بار ٹھوکر لگ جاتی تھی۔ گر جاتے تھے۔ گھٹنے چھل جاتے تھے۔ خون بہتا تھا۔ پھر اٹھتے تھے۔ پھر دوڑ شروع ہو جاتی تھی۔
’یاد‘ سے یادوں کے راستے کھل جاتے ہیں —
اور ایک جنون سے دوسرے ’جنون‘ کا آغاز ہوتا ہے —
’جنون — ‘
کچھ عجیب عجیب سے لفظ پہلی بار کان سے ٹکرائے تھے — ریپ … دنگا … فساد … آگ لگی ہے — بھلہی پور میں۔ قصاب ٹولہ میں — خبریں آ رہی تھیں —
سارے منظر ایک ایک کر کے آنکھوں کے پردے پر جگہ گھیر تے ہیں۔
باہر کابڑاسا ’لاہوری دروازہ‘ جھم سے بند کیا گیا — یہ گھر کا مین، اور شاہی دروازہ تھا۔ بھاری بھرکم — دروازوں کے دائیں بائیں جانب دو بڑے سوراخ تھے، جس میں لکڑی کے دو وزنی ’بلّم‘ کو لگا کر بند کیا جاتا تھا —
دروازہ بند — باہر دکانوں پر شٹر گر رہے تھے۔ میں ادھر ادھر گھر والوں کی گھبراہٹ اور سہمے ہوئے چہروں کا جائزہ لے رہا تھا —
میں پھدک پھدک کر بندر بنتے جانور سے اچانک، شیطان لومڑی بن گیا تھا۔
دوپہر کا — باہر والا کمرہ۔ منی دی اور بڑے بھیا —
باہر سے خوفزدہ کرنے والی آوازیں کان کے پردے سے اب بھی ٹکرا رہی تھیں۔ پاپا بڑے بھیا کو تنبیہ کر گئے تھے۔
’خدا کے لیے — سمجھ رہے ہونا۔ کہیں جانا مت۔ بہتر ہے کہ کمرہ … ‘
’جی پا پا … ‘
’اور منی تم … ‘
’میں … ‘ منی کا چہرہ سپاٹ تھا۔ لیکن اب شیطان لومڑی نے دل ہی دل میں قہقہہ لگایا تھا — اس کے چہرے پر پسینے چھا گئے تھے۔ نہیں — چپ چپا دینے والے پسینے … نہیں — بلکہ —
’جی پاپا … ‘
’خیال رہے — ‘
’منی میرے ساتھ رہے گی … ‘
بڑے بھیا نے منی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں۔ نہیں — وہ منی دیدی میں اتر گئے تھے۔ منی دیدی کے جسم میں …
اور — باہر آگ لگی تھی۔
باہر’ جنون‘ کا طوفان آیا ہوا تھا۔
شیطان لومڑی نے دیکھا — پاپا کے جاتے ہی بڑے بھیا اور منی دی کمرے میں بند ہو گئے تھے۔ چٹخنی گر گئی تھی —
جے بجرنگ بلی —
اللہ اکبر —
نعرۂ تکبیر —
مکان سے دس قدم آگے لوٹ پاٹ کا بازار گرم تھا۔ خوفناک آوازیں جسم میں طوفان اٹھا رہی تھیں۔ مگر اب اس طوفان کی رنگت بدل رہی تھیں۔
یعنی باہر کے جنون نے ایک نئے جنون کو راستہ دکھا دیا تھا —
جے بجرنگ بلی۔
دل کی ناؤ چلی …
میں نے دروازے میں سوراخ تلاش کر لیا تھا —
نعرۂ تکبیر —
یا علی —
دروازے میں سوراخ مل ہی جاتے ہیں … اور ’ سوراخ‘ ایک نئے جنون کے تجربہ گاہ کے لیے راستہ دے دیتے ہیں …
لیکن اندر کیا ہو رہا تھا —
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ جنون نے جنون کے در کھول دیئے تھے … میرا چہرہ ’انگارہ‘ بن گیا تھا — نہیں — بارش۔ نہیں آگ کا گولہ۔ نہیں، چمگادڑ — چمگادڑ بھی نہیں — دیوار پر لٹکتی پینڈولم والی گھڑی بن گیا تھا۔ گھڑی بھی نہیں —
دراصل میں کانپ رہا تھا —
جے بجرنگ بلی —
یہ کیساشور ہے۔ پاپا نے کہا تھا —
’’لوگ راستہ بھول جاتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ اتیت، ماضی، بھوت، یعنی Past۔ ۔ ۔ لوگ Past کیوں یاد رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ صرف حال کیوں نہیں دیکھتے۔ حال پر رہیں تو کوئی جنگ نہیں ہے — پہلے کون کیا تھا۔ کیا نہیں تھا۔ ان باتوں پر لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ باہر مت جانا — کھڑکی سے بھی مت جھانکنا — وہ لٹیرے ہیں۔ ایسے موقع پر پولیس بھی لٹیروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ کچھ توڑ پھوڑ کریں گے۔ پھر لوٹ جائیں گے۔ باہر مت جانا ‘‘
میں باہر نہیں گیا تھا —
میں صرف ایک جنون کے دوسرے جنون میں منتقل ہونے کی کارروائی دیکھ رہا تھا۔ تبھی کسی نے میرے کان اینٹھے۔ میں نے چونک کر دیکھا۔
یہ منی دی تھیں —
سراپا شرارت بنی ہوئی —
’یہ کیا کر رہے تھے؟‘
’جی … ‘
مجھے تم سے یہی امید تھی … اسی لیے میں پچھلا دروازہ کھل کر …
’جی … ‘
’کیا کر رہے تھے … ؟‘
’جی … ‘
منی دی کی آنکھوں میں شرارت تھی —
’کچھ دیکھا کیا … ؟‘
’جی — ‘
انہوں نے ایک شرارت بھرا تھپڑ گال پر مارا۔ اس جگہ پر ہاتھ رکھا، جہاں سوراخ تھا — ’یہ کیا ہے … ‘
’جی — ‘
’ہول۔ سوراخ … ‘
’جی — ‘
’پاگل۔ بدمعاش۔ ۔ تم یہی ہو؟ اندر جاتے ہوئے وہ واپس مڑی تھیں — ’اب مت جھانکنا۔ اپنے کمرے میں جاؤ — ‘
’جی … ‘
٭٭٭
میرے قدم بھاری بھاری اٹھ رہے تھے۔ منی دی نے یہ کیا کہہ دیا۔ تم یہی ہو۔ مطلب سوراخ — اندر کیا تھا۔ باہر کیا تھا۔ میری کنپٹی جل رہی تھی۔ جسم میں طوفان آیا ہوا تھا۔ سارا بدل جل رہا تھا …
تو قارئین، یہی وہ لمحات تھے۔ جب ناول کی شروعات ہو گئی۔ تو یہ میرے ڈائری کے چند صفحے ہیں، جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ڈائری کے چند صفحے۔ اور ان صفحات کے سامنے آتے ہی میرے ذہن میں مارو کاٹو، کے وہ بے ہنگم شور ابھی بھی گونج رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں۔
’کیا سچ مچ — ایک جنون، دوسرے جنون کے لیے راستہ کھول دیتا ہے — ‘
٭٭٭
ندی کے ہونٹوں میں دبا ماؤتھ آرگن
(۲)
آج جبکہ میں یہ ڈائری لکھنا شروع کر رہا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اسے کہاں سے شروع کروں، کہاں ختم کروں —
سب سے پہلے میں تمہیں یاد کر رہا ہوں، لزی!یاد ہے بچپن کے اس بے حد خوبصورت دور میں ایک تم ہی تھیں، جس سے میں باتیں کیا کرتا تھا۔ اس بہانے تم مجھے دوست بھی کہہ سکتی ہو — یاد ہے ان دونوں زیادہ تر میں کھویا رہتا تھا۔ چپ چاپ — ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا۔ تمہارے ساتھ گزارنے کو کچھ لمحے مل جاتے۔ تو وہ بھی یوں ہی اپنی خالی، پاگل پن بھری باتوں سے ضائع کر دیتا۔ اور تم چڑھ کر مجھ سے لڑائی کرنے بیٹھ جاتیں۔
یاد ہے — جب بیٹھے بیٹھے میری آنکھیں تمہارے جسم میں پیوست ہو جاتی تھیں۔ نہیں — اتر جاتی تھیں … چھوٹے چھوٹے بدن کی ناؤ میں … ’اوئے ناؤ چلی رے … میری ناؤ چلی رے پانی میں … نہیں — میری آنکھیں تمہارے جسم کے ’چمڑے‘ میں گم ہو جاتی تھیں۔ جسم کا چمڑہ — بکرے کا چمڑہ۔ جانور کا چمڑہ … یہ جسم کا چمڑہ کیسا ہوتا ہے …، کیا دیکھ رہے ہو؟ تمہیں مجھ سے ڈر لگتا تھا — پھر تم وہاں سے بھاگ جاتی۔ ممی کے پاس جا کر میر ی شکایت درج کر دیتی۔ کبھی مسکرا کر پوچھتی — ’اس طرح کیوں دیکھنے لگتے ہو۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے تم وہ کالی بلی بن گئے ہو۔ جو میرے گھر روز آتی ہے۔ ممی کہتی ہیں۔ یہ کالی بلی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ ان میں چڑیلوں کی روح ہوتی ہے۔ ‘‘
تم میری طرف دیکھ کر کہتی۔ ’’ تم جب اس طرح دیکھتے ہو تو میں وہی کچھ محسوس کرنے لگتی ہوں۔ اچانک رات کے وقت وہ کالی بلی نکل کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی ہے۔ اور تب مجھے تمہاری بڑی بڑی ڈراؤنی آنکھوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ بتاؤ نہ کیوں گھور نے لگتے ہو اس طرح … ؟
اس وقت میں کیا کہتا — تمہارا جسم ایک ناؤ بن جاتا ہے۔ میں اس ناؤ میں تیرنے لگتا ہوں … پھر تمہارا جسم۔ اچانک پھولتے پھولتے ایک بدبو دار چمڑے میں تبدیل جاتا ہے … چمڑے سے بدبو آتی ہے … اور اچانک میں تم سے شدید طور پر نفرت کرنے لگتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘ چلو، میں تمہیں بتاتا ہوں مگر۔ ۔ ۔ تمہیں کیا بتاتا — اور بتاتا تو تم سمجھتی ہی کیا — تمہاری عمر کیا تھی۔ مشکل سے آٹھ دس سال، اس وقت میں تمہارے ’وجود‘ میں کیا محسوس کرتا تھا۔ بتانے کی کوشش بھی کرتا تو تم کیا سمجھتیں اور اب بتاؤں گا۔ شاید تب بھی نہ سمجھو —
٭٭٭
یاد ہے۔ گھر چھوڑ نے اور سماج سے الگ ہونے، خاندان سے دور ہونے اور پھر سے سماج میں لوٹ آنے کے درمیان مجھے کتنے طویل عرصے کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ شاید تم تصور بھی نہ کرسکو۔ اور میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس وقت میں تم میں کیا تلاش کرتا تھا — کچھ بتاؤں گا تو ہنسوگی … ہنسی تو مجھے بھی آ رہی ہے، اپنی بیوقوفی پر — جانتی ہو، کیا سوچ رہا ہوں — اس وقت کی تمہاری تصویر کو اپنے ذہن کے پردے پر رکھ کر محسوس کر رہا ہوں، تمہارا چہرہ یا مٹھائیاں لیتے ہوئے کیسے خوشی سے پھول جایا کرتا تھا۔ تمہارے گال میں ڈمپل پڑ جایا کرتے تھے لزی — ڈمپل۔ گڈّھا۔ میں اس گڈھے کو غور سے دیکھا کرتا۔ نہیں — یہ صرف ایک ڈمپل ہے — ماؤتھ آرگن۔ نہیں، یہ کچھ اور بھی ہے — جیسے گڈھے، پاس کی گلیوں میں تھے۔ مگر نہیں۔ یہ میری لزی کا چہرہ ہے … اور اس چہرے پر ڈمپل پڑ رہے ہیں — تمہیں یاد ہے۔ میں اپنی درمیان والی انگلی سے چھوکر کہتا — یہ ’ماؤتھ آرگن‘ کہاں سے لے آئی ہو تم؟ اور بس تم مسکرادیتی تھی اور پھر ہمیشہ کی طرح تمہارے گالوں پر ڈمپل پڑ جایا کرتے۔ ہنسی بس اس بات پر آ رہی ہے کہ آج میری بات پر تم لاکھ ہنسنے کی کوشش کرو، تب بھی شاید ڈمپل نہ پڑیں۔
وقت نے ایک لمبی اڑان بھری۔ عمر کاسورج کہاں سے ڈوبا اور کہاں سے نکلا — حیرت کا چاند کہاں غروب ہوا اور کہاں سے طلوع ہوا۔ میری عمر نے بچپن کی ایک انجان دو پہر صدیاں اوڑھ لیں — اور جب صدیوں کی ’صدری‘ اپنے بدن سے اتارنے کی نوبت آئی تو — میں صدیوں کا بوڑھا، ایک بچے سے بھی زیادہ ’بچہ‘ بن چکا تھا۔ باگمتی مسکرارہی تھی۔ باگمتی پر جوبن آیا تھا اور آج بھی — مگر یہ سب کیوں یاد کر رہا ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر اس عجیب و غریب سفر کی کہانی، بتانا ممکن ہی نہیں ہے — تو یہ سفراب شروع ہو رہا ہے۔ باگمتی کے ہونٹوں پر ’ماؤتھ آرگن‘ دبا ہے۔ باگمتی آہستہ آہستہ کوئی خوبصورت موسیقی کی دھن چھیڑ رہی ہے۔ میں عمر کے گھوڑے پر لہراتا ہوا تمہاری عمر کاحساب لگا رہا ہوں۔ اور اپنی عمر کا حساب دے رہا ہوں — ارے ہاں، میں کیا تھا اس وقت — کیسا لگتا تھا — چہرہ کیسا تھا۔ بدن کیسا تھا — اور میرا حلیہ کیسا تھا — کیسادکھتا تھا میں — آنکھوں میں پرچھائیاں رقص کرتی ہیں۔
اس وقت تم بھی تو میرے جیسی ہی تھی۔ میں بھی کتنا موٹا تازہ اور روئی کے گولے ساملائم تھا۔ میں اپنے گم سم چہرے پر خاموشی کی تہہ چڑھا لیتا — مگر اب ہنسی آ رہی ہے۔ شاید تم بھی میری ہی طرح ہنسو۔ بس اس طرح کہ پوری ہنسی منہ سے باہر نہ نکل سکے۔ بس منہ کے اندر ہی اندر دم توڑ جائے۔ جانتی ہو، میں بہت جھک گیا ہوں — اب تو آنکھ کی بینائی بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ اتنا صاف نظر نہیں آتا — پورا چہرہ جھریوں سے بھر گیا ہے۔ تمہاری کیا حالت ہے۔ آئیں — کچھ تو بتاؤ لزی — تم کیسی ہو؟ یادوں کا، میرے حصے کا وہ چاندی کا رتھ، اب بھی تمہارے پاس ہے یا نہیں — یا تم نے کھو دیا۔ اور — وقت بدل گیا۔ ہم دونوں نے’ حاتم‘ کی طرح — دل کھول کر مٹھی مٹھی نکال کر — چاول کے دانوں کی طرح — وقت لٹا دیا —
٭٭٭
لزی۔ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہے کہ اب بیتے ہوئے دونوں کو یاد کرنے سے زخم تکلیف دینے لگتے ہیں۔ ذہن تاریک لمحوں میں ڈوبنے لگتا ہے۔ وقت کی عمیق کھائی سامنے روشن ہو جاتی ہے — اور میں دیکھتا ہوں۔ عمر کے پندرہ سال کے بعد کا ایک اندھیرا تاریک کنواں — یاد ہے۔ جانے سے کچھ روز قبل میں تم سے ملا تھا اور میں نے کہا تھا۔
’’لزی — مر جاؤں گا، مگر یہاں نہیں رہوں گا۔ یہاں رہوں گا تو وقت سے قبل سوچتے سوچتے میرا دم نکل جائے گا۔ ‘‘
اب لگتا ہے کہ کتنا غلط سوچتا تھامیں — تم نے میری مدد کی ہوتی کاش! اس وقت تم نے مجھے سمجھایا ہوتا — مجھے راستے کی دشواریوں سے آگاہ کیا ہوتا۔ تو آج مجھے اس بات کا افسوس نہ ہوتا کہ میرے پندرہ سال کے بعد سے لے کر آج تک کی زندگی بس صفر رہی — اور پندرہ سال تک میں بڑھاپے کی زندگی جیا —
یعنی پندرہ سال۔ پندرہ سال تھے ہی نہیں — زندگی اور وقت کی کتاب میں — میری زندگی سے تقدیر لکھنے والے نے یہ پندرہ سال غائب کر دیئے تھے۔ پندرہ سال — تو یہ ڈائری ان گمشدہ پندرہ برسوں کا سفر نامہ ہے۔ مگر اس کی ابتدا تو تمہاری ذات سے ہو چکی تھی — تمہارے جسم سے۔ آنکھیں۔ چہرہ۔ پاؤں۔ سینے کے پاس کے دو خالی، گھڑے — خالی گھڑے — خالی گڈھا — نا، نا … ہنسو مت۔ اس وقت کیا کیا سوچتا تھا، کیسے کیسے سوچتا تھا، کیسی کیسی علامتیں اور استعارے گڑھتا تھا، تمہیں کیا بتاؤں لزی — تم اچانک جسم کے تابوت سے غائب ہو کر صرف اور صرف ایک بھرے بدن والی عورت کی چھاتیاں بن گئی تھیں۔ میں رات کے اندھیرے میں ان چھاتیوں میں چھپ جاتا تھا۔ یہ چھاتیاں پراسرار جنگل میں بدل جاتی تھیں۔ میں ’خالی گڈھے ‘کو کسی ماہر بت تراش طرح تراش کر سڈول اور پرکشش چھاتیوں، میں تبدیل کر دیتا تھا۔
جنگل بلاتا تھا — آؤ نا …
نہیں — یہیں ٹھیک ہوں۔
جنگل مچل مچل جاتا تھا’’ — آؤ — نا … ‘‘
’ نہیں … ‘
’آؤ نا … ‘
’ نہیں … ‘
’آؤ نا … ‘
لزی — ہنسنا مت۔ غصہ مت ہونا۔ تم اچانک ایک چھوٹی تصویر سے انلارج کر کے ایک بڑے فریم میں قید ہو کر میرے ننگے بند کے سامنے لگے آئینہ میں اتر جاتی تھی —
آئینہ — بدن میں تھر تھری مچ جاتی تھی — میں چیختا تھا — ہٹو لزی — نہیں ایسے مت آؤ۔ بڑی مت بنو — میں تمہیں اس طرح بڑی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ لزی — کپڑے پہن لو —
’نا‘ — تم شرارتوں کے پنکھ پھیلا دیتی — پھر آئینہ حیران ہو جاتا۔ پھر تم آئینہ میں گم ہو جاتیں۔ میں لمحہ لمحہ اپنی اڑان کے ہیلی کوپٹر کو زمین پر لانے کی کوشش کرتا اور — وقت بوڑھا ہو جاتا تھا لزی — وقت کے چہرے کی جھریاں جوان ہو جاتی تھیں —
لزی تم حیرت کے ساتھ شاید غم بھی کرو — بڑھاپے کی ان جھریوں میں، میرا لہولہان سچ مجھے بار بار زخمی کر رہا ہے — مجھے میرا الٹا پٹا چہرہ دکھا رہا ہے۔ بڑھاپا — کیسی زندگی ہوتی ہے، ’سزا‘ جیسے بڑھاپے کی — تم ہی بتاؤ بڑھاپے میں کیا آدمی جیتا ہے — یہاں جینے کی بات پر مجھے مسز ڈولچی والے کی یاد آ رہی ہے — یاد ہے اس بھد بھدی سی’ گرانڈیل‘ عورت کی۔ جسے ایک بار تم نے ہی چڑاتے ہوئے کہا تھا — آنٹی تو بوڑھی ہو گئیں۔ آنٹی کیا جانیں۔ کھیل کا مزہ — یاد ہے لزی، اس پر ڈولچی والی کتنے فخر سے مسکرائی تھیں۔ پھر بولی تھیں۔ ’’بچپن، بچپن ہوتا ہے بڑھاپے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ تم کیا جانو۔ بڑھاپے کا مزہ — ‘‘۔
اس وقت تو نہیں مگر اب محسوس ہوتا ہے۔ ایساکہتے ہوئے مسز ڈولچی والی کی آنکھوں میں ان کی تین نسلیں گھوم گئی ہوں گی۔ ریٹائرڈ نیوی کیپٹن یعنی ان کے شوہر۔ ان کا اکلوتا بیٹا پروفیسر منچدا — ا ور منچدا کا بیٹا یعنی ان کا پوتا۔ رکو — ہر وقت اچھلتا رہتا — مسز ڈولچی والی کو خوب تنگ کرتا۔ تبھی تو ان کی آنکھوں میں فخر و غرور کا جذبہ آ گیا تھا۔
سچ! جذبے تو وقت کی پیداوار ہیں لزی۔ بچپن میں آدمی سمجھتا ہے۔ بچپن ہی سب سے اچھا ہے۔ عمر کا سب سے خوشگوار سب سے اچھا دور۔ جوانی تو بڑی ظالم بڑی چیز ہے۔ بچپن ختم ہوتے ہی جوانی کی سرحدآئی نہیں کہ جوانی کے ٹھنڈے نرم و نازک ہوا کے خوشگوار جھونکے بدن کو کچھ اس طرح گدگدانے لگتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے۔ کاش وقت ٹھہر جاتا۔ اس سے اچھا دور پھر کہاں ملے گا۔ اور اف کتنا تکلیف دہ ہو گا وہ وقت جب بال سفید ہونے لگیں گے۔ مگر بچے جوان ہوئے۔ بڑھاپا آیا اور بچوں کی شادی کی بات سامنے آئی تو ایک بار پھر سے خوشگوار موسموں سے گزرنا پڑتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے اب تک کی ساری بات جھوٹ تھی۔ اتنی سچی خوشی تو کبھی محسوس ہی نہیں ہوئی۔ بچوں کی شادی — سرپر سہرا۔ اس سے زیادہ خوشی کی کوئی دوسری بات ہے کیا؟
مگر تم کیا جانو۔ لزی، کوئی عمر خراب نہیں ہوتی۔ ہر بڑھتی ہوئی عمر میں ’ذائقہ‘ ہے۔ مگر صرف اس کے لیے جو وقت کے تقاضے کو پورا کرتا ہے — اور جس نے وقت کو ہی کھو دیا ہو۔ آج مجھے اسی ’ذائقہ‘ کا خیال آ رہا ہے جسے میں نے بچپن میں کھو دیا تھا۔ گھر کے سارے فرد میرے سامنے روشن ہیں۔ ماں باپ، بڑی بہن، منجھلی بہن، بڑے بھیا، چھوٹا بھائی، تمہارا پورا خاندان — مجھے سب یاد آ رہا ہے۔ ماسٹر صاحب یاد آ رہے ہیں۔ ہم جماعت دوستوں کی یاد آ رہی ہے۔ جن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی میں عمر اور وقت میں ان سے بہت آگے نکل گیا تھا۔ اور جتنا آگے نکل گیا تھا۔ آج اتنا ہی پیچھے لوٹ گیا ہوں۔
لزی! تمہیں کیسے بتاؤں کہ اس چھوٹی سی چودہ سال تک کی عمر میں، میں نے کیا کیا محسوس کیا اور ایک لمبے بن واس پرکیسے نکل پڑا —
چودہ سال کا بن واس۔ چودہ سال کی تپسیا۔ اس تپسیا کے نتیجہ میں شری رام کو کیا ملا تھا — شری رام تو مکت کنٹھ سے شریشٹھ پرش‘ کا درجہ پا گئے تھے۔ مگر میرے نصیب میں کیا آیا تھا —
چودہ برسوں کا بن واس — ؟
یہ بن واس کیسا تھا۔ اس بن واس کے پیچھے کون تھا۔ میں — صرف میں — ہر چہرہ، ہر تصویر — میرے سامنے آتے ہی اپنے کپڑوں کی گانٹھ کھولنے لگتی تھی — جیسے … جیسے کوئی بلیو (Blue) فلم ہوتی ہے۔ میں بچہ ہو کر بھی بچہ نہیں تھا۔ وہی پرانا منظر — جیسے تم انلارج کر کے، ایک ننگی عورت بن کر میرے آئینہ میں ڈال دی گئی تھی۔ آدم قد آئینہ میں —
تصویریں حرکت کرتی ہیں —
ذہن سناٹے میں ڈوب جاتا ہے —
آوازیں شب خون مارتی ہیں —
میں آئینہ کے پر اسرار جنگل میں ہوں — یہاں ہر شخص ننگا ہے۔ میں بھی۔ اور میں اپنے جسم کے’ الجبرا‘ میں الجھ رہا ہوں —
یہ خط مستقیم، یہ خط منحنی — اور یہ خط۔ اور یہ … ‘
آنکھیں کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں —
اور یہ خط —
دھت … یہ جسم اتنا گندہ کیوں ہے۔ اور ذلیل۔ یہ دو ہاتھ پاؤں۔ اوبڑ کھابڑ — دھت —
پاپا نے بچپن میں، گولیورس ٹریول کی کہانی سنائی تھی۔ گولیور جب گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو — گھوڑے اپنا اور انسانی جسم کا موازنہ کرتے ہیں۔ یہ انسانی جسم — میں اس جسم سے جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتا، یہ جسم میرا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے۔ پھر آپ ہی آپ کمرے میں ایک بلیو فلم چل پڑتی — چیل، کوؤں کی کہانی — انسانی لذت کی ایک گھناؤنی داستان …
میں چھٹپٹا رہا ہوں۔ میں اس گندی کہانی کے خونی صفحوں سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔
اور میں چیخ پڑتا —
تو لزی، بس ایک یہی فلم میری آنکھوں کے آگے چل پڑتی اور میں دیکھتا، محسوس کرتا، ایک حمام میں ہم سب ننگے ہو گئے ہیں۔ میں، میرا پورا گھر — میرا دوست — مجھ سے باتیں کرنے والی چھوٹی لیڈی یعنی تم لزی۔ تمہارا گھر — اسکول میں پڑھنے والے دوست — ماسٹر صاحب … اف! کتنی گندگی ہے یہ پوری قوم … ایک گندگی سے پیدا ہوئی ہے — ایک ’برے کام‘ کے تحت عالم وجود میں آئی — سب گندے ہیں۔ انسان گندہ ہے۔ خدا نے اتنے گندے طریقے سے انسان کو پیدا کیوں کیا … ؟
اور جانتی ہو لزی! جب جب میں ایسا سوچتا۔ میری کنپٹیاں جلنے لگتیں۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہو جاتیں۔ جسم میں عجب سا ہیجان برپا ہو جاتا اور اس وقت اگر مجھے گھر کا کوئی فرد پکار لیتا یا آوازیں دیتا تو میں اس کے لیے اتنی شدید نفرت محسوس کرتا کہ تم خیال بھی نہیں کرسکتی ہو۔ جب دل بہت چھٹپٹاتا اور کسی صورت چین نصیب نہیں ہوتا تومیں گھر سے کچھ دوری پر جو آوارہ سی برساتی ندی بہتی ہے۔ وہاں چلا جاتا اور کنارے بیٹھ کر ندی کے پانی میں اپنے پاؤں کو دیر تک ہلاتا رہتا — برسات کے دنوں میں تو یہ ندی پوری طرح بھر جاتی تھی — یہاں تک کہ ہمارے تمہارے گھروں میں بھی اس ندی کا پانی آ کر لگ جاتا۔ اس وقت میری خواہش ہوتی تھی کاش یہ ندی اتنی بڑھ جائے کہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ سب لوگ ختم ہو جائیں اور خدا کو، دنیا بنانے والے کو یہ سمجھ آ جائے اور وہ انسان کی وجود کے بارے میں، اور اس کی پیدائش کے نئے طریقے ایجاد کرے —
ہنستی ہونا لزی!کتنا احمقانہ خیال تھا میرا۔ مگر کیا کروں۔ ان دنوں میں ایسا ہی سوچتا تھا۔ اور اس بات پر غصہ ہوتا کہ کیا انسان کی پیدائش کی اور کوئی دوسری صورت نہیں ہوسکتی تھی۔ کیا اس جنسی لذت کی بیداری ضروری تھی۔ اس کے بغیر تیسرا وجود ممکن نہیں۔ اس کے لیے کیا وہ گھناؤنا کھیل ضروری ہے … ؟
اور پھر آنکھوں کے آگے لگتا۔ وہ کھیل میرے گھر میں چل رہا ہے — میرے گھر میں —
آئینہ میں ساراگھر موجود ہے۔ سب کے بدن سے کپڑے ہٹ گئے ہیں — ممی پاپا۔ بڑے بھیا منی، دی اور …
میں چلا رہا ہوں۔
کپڑے پہن لو —
سنو۔ میں تم لوگوں کو بغیر کپڑوں کے نہیں دیکھ سکتا —
کسی کو بھی نہیں — گاندھی جی، صوفی، ولی، پیغمبر، سنت — کسی کو بھی نہیں — میری آنکھیں جل رہی ہیں۔ جسم میں لرزہ طاری ہے — اندر سے ایک آواز چیختی ہے۔
’کل — کل تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ ‘
’نہیں — ‘
آواز قہقہہ میں بدل جاتی ہے — آئینہ میں دیکھو۔ تمہاری تصویر انلارج کی جا رہی ہے۔ ‘
تم نے دیکھا ہے نا لزی۔ میرا گھر، کتنا چھوٹا ہے اور خاندان کتنا بڑا۔
٭٭٭
میں ڈر جاتا تھا … ایک دن میرے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ میں اسی’گندے کام‘ کا نتیجہ ہوں، جو ڈیڈی نے ممی کے ساتھ … اف کتنا بدتمیز ہو گیا ہوں میں لزی — مگر لزی کیا کروں، یہ سب سوچتے ہی میری نظروں کے آگے وہی بلیو فلم چل پڑتی۔ چیل کوؤں کی طرح ایک دوسرے پر بے شرمی سے ٹوٹ پڑنے والا گھناؤنا کھیل — اور میرے منہ کا مزہ کڑوا ہو جاتا —
میں اسی’ برے کام‘ کا نتیجہ ہوں …
میرا دل کہتا۔ تو لگتا، اپنے ہی ہاتھوں پکڑ کر اپنا گلا دبا دوں۔ دل پھر کہتا … پھر ایک دن تمہارے برے کام سے تمہاری جنسی خواہشات کے عوض کسی اور کا وجود بھی پردہ سے باہر جھانکے گا۔ جھانکنے دونا — یہ فطری قانون ہے۔ جو اٹوٹ ہے، بدل نہیں سکتا۔
سب ننگے ہیں۔ صوفی، پیغمبر، سنت، مہاپرش، گیانی، دیش بھکت اور —
سب ننگے ہیں —
گاندھی جی کے تین بندر —
سب ننگے ہیں —
اہنسا کاسدھانت —
سب ننگے ہیں —
بہادری اور ویرتا کی کہانیاں —
سب ننگے ہیں —
مہاپرش۔ اسکول ٹیچر۔ گھر میں باہر سے آنے والی لڑکیاں، کام کرنے والیاں —
سب ننگے ہیں —
چاچا نہرو نے دیش کو آزاد کیا۔
سبھاش چندر بوس —
گاندھی جی نے سب کو ایکتا سکھائی —
نہیں۔ بند کرو یہ کتابیں۔ مجھے کچھ نہیں جاننا ہے۔ کچھ بھی نہیں سیکھنا ہے۔ ہر تصویر میرے سامنے دو حصے میں بٹ جاتی ہے۔ تصویر پیدا کیسے ہوئی۔ پہلا حصہ
اور تصویر ٹوائلٹ میں بیٹھنے والوں پر فوکس کرتا ہے۔ دوسراحصہ
میں آنکھیں بند کر رہا ہوں۔
انسان مر رہا ہے —
انسان گندہ ہو رہا ہے —
یہ جسم مجھے کا ٹ رہا ہے —
یہ جسم مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔
سیتا جی نے سوئمبر رچایا —
رام جی نے دھنش توڑا …
بند کرو …
بند کرو ساری کہانیاں —
میرے سامنے کوئی بھی مت آؤ —
مجھے زندہ رہنے دو
مجھے — اکیلے رہنے دو۔
میں زور سے چیخ پڑتا ہوں —
میری مٹھیاں کس جاتیں۔ فطری قانون؟ اگر فطرت یہی ہے تو مجھے اس سے نفرت ہے — شدید نفرت۔
فطری قوانین … جسم کی مانگ — اور تاریک کنواں۔ کنویں میں اترے ہوئے ننگ دھڑنگ لوگ …
کیا یہ لوگ میرے اپنے ہیں — ؟
اپنے ہیں۔ تو گندے کیوں لگ رہے ہیں — ؟
کپڑے اتار کر، انسان کی عظمت کہاں کھو جاتی ہے — ؟
اور یہ جسم۔ کس قدر گندہ ہے یہ جسم۔ دو ہاتھ، دو پاؤں اور پاؤں کے درمیان — جیسے ایک بدنما چمگادڑ — ابکائی آتی ہے۔ خدا نے یہ کیسا جسم بنایا ہے۔ ایک دم گندہ اور گھناؤنا — یہ جسم اس کے پاس بھی ہے۔ ممی ڈیڈی کے پاس بھی — فطری قوانین کی پیروی بھی سب کرتے ہوں گے۔ مثال کے لیے ٹوائلٹ جانا — پیشاب گاہ میں جانا اور —
میر اجسم لرز رہا ہے۔
بدن ایک ڈراؤنے خواب کی طرح، کس راکسش کے چنگل میں ہے۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے —
نہیں — مجھے اس خیال سے باہر نکلنا ہی ہو گا۔
ورنہ مر جاؤں گا میں —
باہر — باہر یہ کون گا رہا ہے۔ میں ذہن کو، کہیں اور الجھا نے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کیسا گیت ہے — نہیں ؟ یہ گیت بھی انسانوں کے لیے گایا گیا ہے۔ ہمارے تمہارے جیسے انسانوں کے لیے۔ انسان، جو ا یک انتہائی گندہ جسم لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ اور انتہائی گندے طریقے سے اپنے جیسے انسان بنا کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے —
یہ کیسا گیت ہے … سنگیت ہے …
ڈمہ … ڈم … ڈم … نگاڑے بج رہے ہیں —
٭٭٭
برساتی ندیوں کا گیت سنا ہے تم نے؟ نہیں سنا تو آج ہی جا کر سن لو۔ ہنسو نہیں لزی۔ سچ اتنا خوبصورت اور پرکشش ہوتا ہے کہ میں افسوس کرتا ہوں۔ اس بن واس سے الگ میں نے اپنی ساری زندگی اسی ندی کے پاس گزاری ہوتی۔
میں ایک چھوٹا سا واقعہ تمہیں بتا رہتا رہا ہوں۔ ان دنوں برسات کا موسم تھا۔ اور باگمتی ندی پانی سے جل تھل ہو گئی تھی۔ دور دور تک پانی — جہاں نظر گھماؤ وہاں پانی — ہمارا اور تمہارا گھر بھی اس کی چپیٹ میں آ گیا تھا۔ سارا سامان ہم لوگوں نے کوٹھے پر پہنچا دیا تھا۔ اور بس کوٹھے سے چلتی ہوئی ناؤ کو تکا کرتے۔ بڑا خوبصورت لگتا تھا یہ سب۔ جانتی ہو لزی۔ ایک دن دوپہر کے وقت جو پانی کا ریلا تیزی سے آیا تو نظروں کے سامنے ایک چھوٹی سی ناؤ الٹ گئی۔ اس ناؤ میں بہت سے لوگ تھے۔ میری نگاہوں کا مرکز وہ بچہ تھا جو دیر سے اٹکھیلیاں کئے جا رہا تھا۔ پانی کم تھا۔ اس لیے اور لوگ تو بچ گئے مگر بچہ …
وہ بچہ ہمیشہ کے لیے سوگیا —
اس چھوٹے سے واقعے نے آس پاس موجود کئی لوگوں کی آنکھیں نم کر دی ہوں گی۔ مگر شاید تمہیں میرے لیے نفرت محسوس ہو۔ میں جی بھر کر خوش ہوا تھا۔ ندی نے جیسے اپنے کانپتے رسیلے ہونٹوں میں ماؤتھ آرگن داب لیا ہو۔ تیز سریلی آواز خوابیدہ فضاؤں میں جھومنے لگی ہو اور پہلی بار اس ہمیشہ کے لیے گم ہو جانے والے کھیل، کو دیکھ کر میں نے سکھ کی سانس لی تھی۔ چلو، مرنے کے بعد اس جسم سے رابطہ ٹوٹ سکتا ہے۔
مرنے کے بعد مکتی ہے —
مرنے کے بعد اصل زندگی ہے —
مرنے کے بعد شانتی ہے —
سکھ ہے —
مرنے کے بعد اچھاؤں، بھوگ، سمبھوگ، کامچھاؤں، سے بھی ہم الگ ہو جاتے ہیں —
پھر ہم مر کیوں نہیں جاتے —
ہم زندہ کیوں ہیں — ’’گاؤ خوشی کے گیت رے مانجھی
گاؤ خوشی کے گیت …
جھوم جھوم رے باگمیتا …
باگمتی تو جھوم …
باگمتی … باگمتی … تو جھوم جھوم … رے جھوم …
آکاش کو چھو لے —
سمندر کی طرح گرج —
لہروں کو طوفان بنا دے
سب کو مار گرا دے …
انت بھلا تو سب بھلا …
مگر —
٭٭٭
چودہ برسوں کا بن واس …
کہانی بار بار اسی بن واس سے شروع ہوتی ہے اور بار بار اسی بن واس پر لوٹ آتی ہے۔
مگر ٹھہرو لزی۔ میں صرف اس لیے بن واس پر روانہ نہیں ہوا کہ مجھے اس دنیا سے نفرت تھی۔ میرے بن واس لینے میں کئی اہم وجوہات بھی شامل ہیں۔ میں تمہیں سب بتاؤں گا۔ ایک ایک کر کے —
یہ ڈائری کچھ زیادہ ہی طویل ہو جائے تو معاف کر دینا۔ اب میں ان چودہ برسوں کی طر لوٹ رہا ہوں۔ جو میں تمہارے درمیان رہا اور ہر نئی چیز کو اپنی حیرت زدہ کھلی آنکھوں سے پاگلوں کی طرح دیکھتا رہا — اور چودہ سا ل کے بعد والی زندگی بھی تمہاری سامنے رکھوں گا۔ آج میں خود کو کتنا ہلکا محسوس کر رہا ہوں۔ شاید تم اس کا تصور بھی نہ کرسکو —
اب میری کہانی سنو اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ — برساتی ندی نے اپنے کانپتے رسیلے ہونٹوں میں ماؤتھ آرگن داب لیا ہے۔ اس کی رسیلی آواز ہم سب کو کھینچ رہی ہے۔ بلا رہی ہے … آؤ … آؤ … میں بہت گہری ہوں … بہت عمیق … تم سب آ جاؤ گے … تم سب سماجاؤگے … آؤ … آؤ … ‘‘
٭٭٭
ایم فار — ملک
(۳)
بھوک کیا ہے؟
کبھی تم نے سوچا ہے لزی —
کل کہتا تو تم بڑے اطمینان سے مسکرا کر کہتی۔ ہاں جب کچھ کھانے کی خواہش ہوتی ہے تو بھوک لگ جاتی ہے۔ اگر بات صرف خواہش کی ہوتی تو کل تم ٹافی اور مٹھائیاں کھا کر بھی اپنی بھوک مٹا سکتی تھی۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔ مگر یہ جو وقت باندھ دیا گیا ہے کہ صبح کے وقت ناشتہ، دوپہر کے وقت کھانا اور پھر رات کے وقت کھانا۔ مگر اس درمیان بھی تو منہ چلتا ہی رہتا ہے۔ کبھی ٹافی کھا لی۔ کبھی کیلا سیب اڑا لیا — کبھی نارنگی کھا لی۔ مگر یہ صرف کل کی باتیں تھیں لزی۔ جب بھوک کا صرف ایک ہی مطلب سمجھتے تھے۔ کھانا … مگر غلط … اور انہی دنوں میں نے جانا تھا۔ بھوک کا مطلب کچھ اور بھی ہوتا ہے۔
بتاؤ تم ہی۔ دوپہر میں کہیں پڑھا جاتا ہے کیا۔ ممی بڑے اطمینان سے اکیلے کمرے میں مجھے بٹھا گئی تھیں اور ہاتھوں میں وہ تصویروں والی کتاب تھما گئیں۔ سونی اور راجن بھیا اوپر والے کمرے میں سونے چلے گئے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کہ بس کتابیں ہی پڑھتا چلا جاؤں۔
کمرے میں بیٹھا بیٹھا تصویروں کو دیکھ رہا تھا۔ ممی پاپا پر غصہ بھی آ رہا تھا۔ پھر یاد آیا۔ اوہ۔ سنڈے ہے نا، آج۔ پاپا کاآفس تو بند ہو گا — ممی سے باتیں کریں گے۔ اس لیے اسے پڑھنے کو بٹھا گئے ہیں۔ مگر وہ کوئی بچہ تھوڑے ہی ہے جو روئے گا۔ اسے بھی بٹھا لیا ہوتا۔ وہ بھی گپ شپ لڑاتا۔ باتیں کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے — اور یہاں۔ بس اکیلے میں بیٹھ کر تصویریں دیکھو۔ ایک ٹک کب تک تصویریں دیکھتا۔ دل نہیں لگا اور پھر خالی بیٹھے بیٹھے سے بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ اٹھنے کی خواہش ہوتی تو ڈر سا لگنے لگتا۔ ممی پاپا غصہ نہ ہو جائیں اور کہیں پوچھ دیا کہ کیا یاد کیا ہے۔ تو اور بھی مشکل ہو جائے گی۔ بس بیٹھا رہا۔ تصویریں دیکھتا رہا۔ پیٹ میں بلی اور چوہوں کی پوری فوج نے اچھل کود مچانا شروع کر دیا تھا۔ برداشت کی جب ساری حدیں ٹوٹ گئیں تو کتاب کو وہیں رکھ کر ممی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ ممی پاپا پر غصہ بھی آیا۔ ہونہہ، باتیں کرنا تھا تو دروازہ کھلا رکھ کر کرتے۔ کون ڈسٹرب کرنے جا رہا ہے۔ اور ایسی بھی کیا باتیں کہ بس دروازہ بند کر دیا جائے۔ اور وہاں اکیلے، میں بور ہوتا رہوں۔ پھرسوچا، جب ممی کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے تو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ ٹھیک ہے دروازہ بند رکھیں — وہ بھی بات نہیں کرے گا۔ خود ہی آئیں گے بیچارے منانے کو۔ منا مان جا، تب وہ بھی نخرہ دکھائے گا —
دھوپ سیڑھیوں سے ہو کر نشیب میں اتر گئی ہے۔ میں نے دروازہ کے سوراخ سے اندر کو جھانکا ہے۔ اور پھر جیسے جسم میں ہزاروں چیونٹیاں بیک وقت سرسرا اٹھی ہیں۔ اس دن اسکول سے لوٹتے ہوئے پتھر پر گر پڑا تھا اور سرمیں جتنی چوٹ آئی تھی ویسی ہی چوٹ محسوس ہونے لگی۔ ممی کے بدن سے ساڑی ہٹ چکی تھی۔ پاپا ان سے لڑائی کر رہے تھے۔ مگر اس کے باوجود ممی ہنس رہی تھیں۔ کھلکھلا رہی تھیں۔ دل میں ایک تیز غصہ اٹھا۔ ہونہہ۔ اگر وہ اپنی جانگھیا اتار دیتا ہے تو کتنی ڈانٹ پڑتی ہے — ممی سے۔ کبھی کبھی مار بھی پڑ جاتی ہے۔ وہ رونے لگتا ہے تو ممی سمجھاتیں۔ اچھے بچے کپڑے نہیں اتارتے۔ چھی چھی … کتنا جھوٹ بولتے ہیں یہ —
اور پھر کچھ دیکھ اس کے منہ میں پانی آنے لگا۔
پاپا نے ممی کا بلاؤز ہٹا کر ’وہ‘ کھول لیا تھا۔ تب پہلی بار اس کی آنکھوں میں عقاب منڈلایا تھا۔ عقاب اڑ رہا تھا … عقاب اڑتے اڑتے کہیں دور نکل گیا۔ اس کے ہونٹوں میں لپلپاہٹ کا احساس ہونے لگا اور وہی پرانا ذائقہ اس کے لبوں پر پھر سے مچلنے لگا۔ ممی اب بھی ہنس رہی تھیں۔ کھلکھلا رہی تھیں۔
میں نے پھر کہا … چھی … کتنی جھوٹی ہو تم … اس دن جب میں ممی کے بغل میں سویا اور بلاؤز ہٹا کر دودھ پینے کی خواہش کی تو ممی نے کتنے جھٹکے سے میرا شرارتی ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ پھر کیسے سمجھا تے ہوئے بولی تھیں۔ ’’بڑے بچے دودھ نہیں پیا کرتے۔ تم اب بڑے ہو گئے ہو۔ اور پاپا کو …
چھی …
میں نے پھر کہا۔ پاپا بچے ہیں کیا۔ اتنا جھوٹ کیوں بولتی ہیں ممی۔ پھر احساس ہوا۔ دروازہ پاپا نے ہی بند کروایا ہو گا کہ کہیں وہ آ گیا — وہ بھی دودھ پینے کی خواہش ظاہر کرے گا۔ ہونہہ۔ سب سمجھتے ہیں۔ جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں۔ وہ کوئی بچہ تھوڑے ہی ہے۔ سب سمجھتا ہوں۔ سب جانتا ہوں۔ اچھا ٹھہرو ابھی دروازہ پیٹتا ہوں۔
اور پھر میں نے زور زور سے دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
’کون ہے — کیا ہے؟‘
پاپا اور ممی کی مشترکہ آواز سرسرائی۔
دروازے کے باہر سے، میں نے بڑے اطمینان اور چور پکڑنے والے انداز میں جواب دیا۔
’’میں پاپا۔ بھوک لگی ہے۔ ‘‘
پھر لگا۔ جیسے مسہری چرچرائی ہو۔ اور دروازے کے اندر سے پاپا ممی کی شہد کی مکھیوں جیسی بھن بھن کرتی ہوئی مدھم آوازیں باہر آئیں — اور ہوا کے خفیف جھونکے آہستگی سے انہیں اڑا کر لے گئے۔
’یاد کر لیا سب۔ ؟‘
ممی کی آواز آئی تو اس پر دوبارہ جھنجھلاہٹ سوار ہو گئی — پھر بڑی آہستگی اور دھیمے پن سے کہا۔ چھی، جھوٹی کہیں کی۔
دروازہ کھل گیا۔
سامنے ممی کھڑی تھیں۔ میں نے ان کا اوپر سے لے کر نیچے تک معائنہ کیا۔ ممی نے بلاؤز پہن لیا تھا۔ ساڑی بھی پہن لی تھی۔ مسہری پر پاپا کتابیں پڑھنے میں مگن تھے۔
’اس طرح کیا دیکھ رہے ہو، کھانا کھاؤ گے۔ ؟‘
’ہاں ‘
’پاپا کے پاس بیٹھو — ابھی لائی۔ ‘
’کیا کیا یاد ہوا ہے۔ ‘
پاپا نے مسہری کے پاس مجھے بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
میں خاموش رہا۔ بس یہی سوچتا رہا۔ کتنے چالاک ہیں پاپا۔ ابھی دودھ پی رہے تھے اور ابھی کتنے بھولے بن رہے ہیں۔ سمجھتے ہوں گے میں کچھ جانتا ہی نہیں۔
’بتاؤ! اے فار … ؟‘
میں نے کہا … ایپل …
شاباش — پھر پاپا لگاتار پوچھتے رہے …
ذرا ٹھہر کر انہوں نے دوبارہ پوچھا۔
’اچھا بیٹے ام فار … ؟
کتاب پر بنی ہوئی بندر کی تصویر لمحہ لمحہ مجھے منہ چڑھانے لگی تھی۔ مگر اب تک تو مجھے سینکڑوں ورڈ میننگ یاد ہو چکے تھے۔
’شاباش … شاباش … بتاؤ … ‘
’ملک … ‘
میں نے آہستگی سے کہا۔ اور شرارتی انداز میں پاپا کے چہرے کو پڑھنے لگا۔ آنکھوں میں سوال نمایاں تھا … تم نے دودھ پیا ہے نا … !
اسی وقت ممی پلیٹ میں کچھ کھانے کاسامان لے کر آ گئیں۔
’بہت تنگ کرتے ہو تم۔ ایک وقت تو کھاتے ہی نہیں۔ پھر یونہی بے معنی پاپا کو دیکھ کر مسکرانے لگیں۔
’کھانا کھا کر اپنے کمرے میں سوجاؤ‘
ممی اتنا کہہ کر پاپا کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔ میں خاموش رہا۔ خاموش — کسی بت کی طرح۔ کھانا کھاتے ہوئے ہونٹ اب بھی اسی دودھ کا ذائقہ لے رہے تھے … لقمہ ہاتھوں میں بنا کر میں ٹھہر گیا اور ایک معنی خیز شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ ممی کی طرف دیکھنے لگا۔
’ممی۔ بتاؤ تو، ام فار … ؟‘
’کیا ہے۔ ‘ ممی الٹا مجھ سے مخاطب ہوئیں۔
میں کھانا ختم کر چکا تھا۔
’پلیٹ ممی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ تم بتاؤ … ام فار … ؟‘
ممی نے کتابی جملہ دہراتے ہوئے پلیٹ، میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا —
ام فار منکی، منکی معنی بندر۔
’غلط۔ ‘
میں نے ویسے ہی مسکراتے ہونٹوں سے جواب دیا۔
’ام فار ملک … ملک معنی … دودھ‘
پھر میں ٹھہر انہیں … دروازہ سے باہر بھاگ کھڑا ہوا۔
٭٭٭
جنگ بھوکی ہے
(۴)
’فرض کر لیتے ہیں — ‘
تو قارئین، اس ڈائری کی بہت ساری باتیں فرض کر لینے پر منحصر ہیں۔ جیسے فرض کر لیتے ہیں ایسا ہوا ہو گا۔ فرض کر لیتے ہی کہ ایک شہر تھا۔ فرض کر لیتے ہیں کہ —
ان دنوں میری معلومات ہی کیا تھی اور جنرل نالج — سونی دی اور راجن بھیا کی باتیں سنتا تھا۔ کبھی کبھی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ یہ باتیں میری بساط، میری سمجھ سے باہر تھیں — ہاں اتنا جان رہا تھا کہ یہ ساری باتیں میرے پڑوسی ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔ پڑوسی ملک سے جہاں میری پھوپھی رہتی ہیں —
فرض کر لیتے ہیں اس پڑوسی ملک کا نام کیستور یا ہے —
یقیناً آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ایک فرضی نام رکھنے کا جواز کیا ہے۔ پاکستان، برما، سری لنکا، بنگلہ دیش یاسارک کانفرنس میں شامل ممالک کیوں نہیں — جبکہ آگے جن باتوں کا تذکرہ ہے، اس کی شہادت کے لیے بہ آسانی ان میں سے کسی بھی ایک ملک کا نام لیا جا سکتا ہے۔
لیکن قارئین!
جیسا میں نے کہا، اس ناول کا بہت کچھ فرض کر لینے پر منحصر ہے۔ اس لیے کسی قریبی یاپڑوسی ملک کا نام لے کر تعلقات کوٹھیس پہچانا نہیں چاہتا — ایسا کوئی بھی ملک جہاں چھوت چھات اور نسلی منافرت کی کہانیاں دہرائی جا رہی ہوں — رنگ اور قوم کے نام پر بندوقوں اور توپوں کے منہ کھل رہے ہوں۔ تو ایسا کوئی بھی ملک پھوپھی کا ملک ہوسکتا ہے —
تو فرض کرتے ہیں — اس ملک کا نام کیستوریا ہے۔
اور کیستوریا میں بہادروں میں بہادر ایک لڑکی ہے۔ مایاتیا — جو اتفاق سے سیاہ فام ہے۔ یعنی سیاہ فام مایا تیا — یعنی۔
’’اس دھرتی پر
ہم اپنے سفید دانتوں سے ہنستے ہیں
اس وقت بھی
جب ہمارا دل لہولہان ہو رہا ہوتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
سیاہ فام مایاتیا۔ جوان ماتیا — کیستوریا بھوکی جنگ، انقلاب اور مایاتیا کے تذکرے اکثر و بیشتر کھانے کی میز پر شروع ہو جایا کرتے تھے۔ وہ غور سے راجن بھیا کی، سلگتی آوازوں کا زہر محسوس کیا کرتا تھا —
— مایاتیا قیامت ہے
— شعلہ ہے
— اسے کبھی بھی اپنی پرواہ نہیں۔ وہ صرف کیستوریا نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے انقلاب کی علامت بن گئی ہے۔
— کوئی نہیں جانتا کہاں رہتی ہے، کہاں چھپتی ہے؟
— اس کے پاس ہزاروں خودکش دستے ہیں۔ اسے نہ مرنے کی پرواہ ہے اور نہ جینے کی۔ بس وہ آزادی کی خواہاں ہے —
— کیستوریا کی آزادی، ساری دنیا کی آزادی ہو گی۔
— دیکھ لینا کیستوریا آزادی ہو جائے گا۔
— مایاتیا تو آگ ہے آگ۔ کیستوریائی حکومت کو اس نے پاگل بنا دیا ہے — اور ایک دن آئے گا جب یقیناً کیستوریائی حکومت مایاتیا کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی …
٭٭٭
رات ہوتے ہی میں ’فتناسی‘ کے اندھیرے چوراہے پر کھڑا ہوتا۔ چاروں طرف سے روشنیوں کی بوچھاریں کرتی گاڑیاں میرے قریب آ کر شوں کرتی نکل جاتیں … چوراہا پھر اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ مگر اچانک … چوراہا نور سے جگمگا اٹھتا ہے —
یہ میری فنتاسی کا چوراہا ہے۔
اور اس چوراہے پر مایاتیا ہے — بیحد کم کپڑوں میں ملبوس —
میں آہستہ سے پوچھتا ہوں۔
’مایاتیا تم صرف جنگ لڑتی ہو؟
ہاں —
ہر لمحہ — ہر وقت؟
ہاں —
جب سورج نکلتا ہے؟
ہاں —
اور جب گھوڑے ہوا میں ہنہناتے ہیں۔ ؟
ہاں —
اور جب دو محبت کرنے والے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔ ؟
ہاں —
تم نے کبھی پیار نہیں کیا مایاتیا۔ ؟
نہیں —
کیوں — ؟
بغاوت میں الجھی رہی —
کبھی تمہارے جسم نے بغاوت نہیں کی … میرا مطلب ہے … !
٭٭٭
مایاتیا تنگ کپڑوں میں ہے … کپڑوں کی گانٹھیں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں — ایک سیاہ فام جسم کپڑوں سے باہر ہے۔
خوبصورت چاندنی رات نے مایاتیا کا جسم پہن لیا ہے —
مایاتیا رات کے پر شباب لباس کو اوڑھ کر انگارہ بن گئی ہے …
مایاتیا کے جسم سے شعلے اٹھ رہے ہیں …
اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ ہے —
آؤ —
دیکھتے کیا ہو — آؤ نا —
نہیں —
ڈرتے ہو؟
نہیں —
میرا جسم — کیسا لگا میرا جسم … ؟
آؤنا … آؤ —
٭٭٭
مایاتیا کے جسم میں سما گیا ہوں —
ایک ننھی منی سی عمر، علی الصباح بانگ دیتی ہے —
میرا جسم کانپ رہا ہے …
یہ … مجھے کیا ہو رہا ہے —
کیا ہو رہا ہے مجھے —
٭٭٭
ڈائننگ ٹیبل —
وہی جنگ سے نکلے مکالمے کھانے کی میز پر پھیل گئے ہیں۔
راجن بھیا نوالہ اٹھاتے ہوئے ٹھہر گئے ہیں — وہ کبھی بھی ماری جا سکتی ہے۔
سونی دی کی آنکھوں میں خوف ہے — لڑکی ایک حد تک جنگ کرسکتی ہے —
پاپا کا چہرہ شانت ہے — ’بکواس — اب وقت کے پہیے نے گھومتے گھومتے یہ فرق ختم کر دیا —
ممی خبر سناتی ہیں —
’بیچاری پھوپھی‘
پاپا اداس ہیں — ’ کیستوریا جل رہا ہے۔ اسے بولو۔ یہاں آ جائے‘ کمرے میں سناٹا ہے —
راجن بھیا کہتے کہتے ٹھہر گئے ہیں — ’’ہم کون سی صدی میں ہیں پاپا — یہ کون سی صدی ہے — آج بھی ساری دنیا میں اکیلا، ہیرو مذہب ہے — مہذب ہوتے ہوئے آج بھی ہمارا سماج وہی ہے — ٹوٹا پھوٹا — اور بٹا بٹا — قوم، رنگ، نسل اور — جبکہ صرف دو قومیں ہونی چاہیں — ایک بیوقوف انسانوں کی قوم اور دوسری عقلمندوں کی — ہارتے ہارتے ہم ایک مذہب اپنی تسلی کے لیے لے آتے ہیں — اور پھر — دیکھتے ہی دیکھتے مذہب ایک خون پینے والا درندہ بن جاتا ہے — مذہب — یعنی خون پینے والا آدم خور — پھر بھی ہم اپنی تسلیوں کے لیے اسے پالتے رہتے ہیں۔ کیوں پاپا — مہذب دنیا کواس مذہب سے چھٹکارا نہیں مل سکتا — ‘
پاپا دھیرے دھیرے لقمہ چباتے ہیں۔
’’ہمیں دیکھئے — ہم مذہب سے گھبرا چکے ہیں — چاروں طرف مذہب — خونی رقص پیش کرتا ہوا۔ انسانوں کو جلاتا ہوا — کبھی الگ الگ گھروں میں بٹا ہوا — مذہب اگر اتحاد اور انسانیت کی بنیاد ہوتا تو لوگ کیوں لڑتے پاپا — کبھی نہیں لڑتے۔ مگر —
سونی دی کے چہرے پر اداسی ہے۔ ’’مذہب اب افیم بھی نہیں ہے۔ ہم اسے باہر سے ڈسٹ بین میں رکھ دینا چاہتے ہیں —
’کچھ لوگ … اگر غلط ہو جائیں تو … ‘
پاپا مذہب کی حمایت میں بولتے بولتے ٹھہر گئے ہیں۔
’کیا جانتے ہو مذہب کے بارے میں ‘
پاپا کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی ہیں — ’لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جائیں تو مذہب کا کیا قصور — ؟
مذہب کی بنیاد غلط ہے‘ — یہ سونی دی تھیں۔
’مذہب شروعاتی انسان کے لیے کھلونا ہوسکتا ہے۔ مگر ارتقاء کے مرحلے طے کرنے کے بعد … ‘
پاپا سنجیدہ ہو گئے ہیں — ’’آنے والے کل میں بھی یہی مذہب ہو گا اور لڑنے مرنے کے لئے تم لوگ ہو گے‘‘
’مذہب بس یہی کرسکتا ہے۔ ‘
’’مذہب توازن کا نام ہے۔ پاپا ہنستے ہیں — ابھی تمہارا کچا ذہن مذہب کو دریافت نہیں کرسکتا۔ ‘
بس — اس سے زیادہ نہیں، راجن بھیا سنجیدگی سے سنتے ہیں —
’بہار شریف میں اب تک دنگے بھڑک رہے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں کو کالج میں پڑھنے والے لڑکوں نے باہر کھینچ کر —
’’باہر کھینچ کر‘‘ — مجھے جملہ ختم ہونے سے مطلب نہیں ہے۔ میں ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا ہوں۔ آخری جملہ کانوں میں اب بھی چیخ رہا ہے — میں بس آخری جملے کی زد میں ہوں —
باہر عقاب کے پھڑپھڑا نے کی آواز آتی ہے —
عقاب …
میں اس پرندے کو بار بار کیوں دیکھتا ہوں۔ یہ پرندہ میری آنکھوں میں بار بار کیوں لہراتا ہے —
عقاب اپنی مخصوص آواز میں چیخ رہا ہے۔ اس کی آنکھیں بھیانک ہو گئی ہیں … اور اب —
وہ اڑنے کے لیے پر تول رہا ہے —
میرا سارا جسم پسینے میں شرابور ہے —
آئینہ کے سامنے کھڑ ا ہوا لمبی لمبی سانس چھوڑتا ہوں —
٭٭٭
آنکھوں میں جلتا ہوا کیستوریا
(۵)
پھوپھی اور ان کے بچوں کی آمد نے سارے گھر کو چونکا دیا تھا۔ اچانک دو روز پہلے ٹیلی گرام آیا۔ ’یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ پھر انڈیا آ رہے ہیں ‘۔ پاپا کو اور پورے گھر کو معلوم ہو گیا تھا، پھوپھی کا بڑا لڑکا کیستوریا میں گورے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا — ایک اداس مغموم گیت پورے گھر میں گونج رہا تھا۔ صبح ہی صبح پھوپھی آ گئیں۔ ان کی آنکھیں اشکبار تھیں — جیسے خوب روئی ہوں۔ ان کے بچوں میں صرف ایک منی دی تھی اور ایک چھوٹا بٹو — منی کی عمر بارہ سال کی ہو گی اور بٹو پانچ کا۔ پھوپھی کے شوہر دوسال قبل ہی اس دنیا سے کوچ کر چکے تھے۔ لے دے کر بیٹے کاآسرا تھا۔ اور اس کو بھی حکومت کے لوگوں نے چھین لیا تھا۔
ٹیکسی سے اترنے کے بعد ہی پھوپی پاپا کے گلے لگ گئیں اور خوب روئیں — پاپا کا بھی برا حال تھا۔ آنسو تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے۔ آسمان بادلوں سے بھر گیا تھا۔
پاپا نے لمبی خاموشی سے اتنا ہی کہا تھا —
’کومیلا۔ اب وہاں تمہارا ہے ہی کون۔ مکان بیچ دو۔ اور یہیں بس جاؤ۔ گھر زیادہ بڑا نہیں۔ مگر جہاں تک گزارہ کاسوال ہے۔ وہ تو ہو جائے گا نا۔ پھر میری بیوی، بیٹے، بیٹی۔ تمہارے بچوں کو بھی کھیلنے کھلانے کی ضرورت ہو گی۔ دل لگ جائے گا۔ ‘
پھوپھی بس خاموش رہیں۔ نہ ان کا سر اقرار میں ہلا نہ انکار میں۔ ان کی آنکھوں کے سارے خوشنما پھول زرد پڑ گئے تھے۔ ڈیڈی سے سنتا آیا تھا۔ یہی پھوپھی تھیں جو بچپن میں شیطان کی خالہ کے نام سے مشہور تھیں۔ کہتے ہیں ان کے انگ انگ میں بجلی بھری تھی۔ آگ بھری تھی اور آگ کے وہی شعلے اب ان کی آنکھوں میں دھدھک رہے تھے۔ ایک پورا کیستوریا ان کی آنکھوں میں جل رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد پھوپھی کے بچے سب لوگوں سے گھل مل گئے۔ بٹو نے مجھ سے دوستی گانٹھ لی۔ اور منی نے سونی دی سے۔ راجن بھیا واحد تھے جو کبھی بٹو کو گودی میں اٹھائے پھرتے۔ کبھی منی سے ڈھیر سارے سوالات پوچھتے۔
شروع میں تو منی دی بس خاموشی سے مسہری کے ایک طرف بیٹھی رہیں اور بیچ بیچ میں راجن بھیا اور سونی دی کے سوالات کا جواب دیتی رہیں۔ اس درمیان منی دی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا، جیسے ایک نہ بھولنے والا غم ان کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا ہے۔ بجھی بجھی سی منی دی کو دیکھ کر سب کا دل لہو لہان ہوا جا رہا تھا۔
’مگر یہ ہوا کیسے؟‘
راجن بھیا نے افسردگی سے منی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
منی نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی۔ پھر گویا ہوئی —
’دو مہینے قبل ہی بھیا کا خط آیا تھا۔ وہ جس فیکٹری میں کام کرتے تھے — وہاں سے ایسے لوگوں کو نکالا جا رہا تھا جو بعد میں آ کر کیستوریا میں بس گئے تھے — اور وہاں کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ جب ان لوگوں نے ایک ہو کر اس کے خلاف احتجاج بلند کیا اور نعرے لگائے تو ان پر قاتلانہ حملوں کی سازش بھی ہوئی۔
بھیا کا وہاں سے خط آیا تھا۔ یہاں کی ہوا خراب ہو گئی ہے۔ یہ لوگ ہم لوگوں کو دشمن سمجھتے ہیں۔ ہم پر دشمن ہونے کا الزام لگاتے ہیں — ہم ہر جگہ سے نکالے جا رہے ہیں۔ ‘‘منی نے ٹھنڈی سانس بھری —
’’ممی نے بھیا کو خط بھی بھیجا۔ جب ایسی بات ہے تو چلے آؤ۔ کیا ضرورت ہے وہاں رہنے کی۔ یہاں کماؤ کھاؤ۔ شادی بھی یہیں آ کر کرو۔ ‘‘
منی اداس ہو گئی تھی۔
’’مگر بھیا نے کسی کا کہنا نہیں مانا — وہ آخر دم تک یہی لکھتے رہے — ہارنے سے کام نہیں چلے گا۔ ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔ آخر حقوق کے لیے لڑنا ہر شہری کا فرض ہے۔ پھر ہمیں یہاں کی شہریت بھی تو مل چکی ہے۔ اس فرق کو ختم کرنا ہو گا۔
پھر یہ سننے میں آیا۔ بھیا اپنی فیکٹری میں اپنے طبقے کے لوگوں کے کمانڈر بن گئے ہیں۔ ان پر مایاتیا کے گروپ کے ہونے کا بھی الزام تھا۔
وہاں سے بھیا کے ایک دوست آئے تھے۔ یہ واقعہ بھیا کی موت کے ایک مہینے قبل کا ہے۔ وہ ہم لوگوں سے ملنے آئے تھے۔ اور انہوں نے ہی ممی سے گزارش کی تھی کہ وہ بھیا کو یہاں بلا لیں۔ وہ بھی یہاں بھاگ کر آئے تھے۔ انہوں نے ہی بتایا تھا۔ اپنے حقوق کے لیے لڑنے، آوازیں اٹھانے کے لیے بھیا مایاتیا سے مل گئے ہیں۔ مایاتیا کے پیچھے پولیس ہے۔ آج پورے کیستوریا میں اس کا گینگ بری طرح پھیل چکا ہے۔ ہر وہ شہری جو بعد میں وہاں آ کر بسا ہے اور جس پر دشمن ہونے کا الزام عائد ہے۔ وہ مایاتیا سے مل رہا ہے۔ مایاتیا ایسے لوگوں کو پیغامات بھیجتی ہے۔ لڑنے کے طریقے بتاتی ہے۔ بھیا رات بھر وہاں اندھیری تاریک سڑکوں پر پمفلٹ بانٹتے پھرتے ہیں۔ کئی بار گشتی پولیس کی زد میں آتے آتے بچے۔
ان کی زندگی کو ہر پل خطرہ ہے۔ بھیا کے دوست نے بتایا تو ہم سب کا دل دھک سے ہو کر رہ گیا تھا۔
پھر معلوم ہوا۔ بھیا مایاتیا گروپ کے اہم ممبر میں سے ایک ہو گئے ہیں۔ پولیس بھیا کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ بھیا کو پکڑنے کا انعام بھی رکھ دیا گیا ہے۔
فیکٹری سے بھیا پر دنیا بھر کا چارج لگا کر کب کا نکالا جا چکا تھا۔ اور ان کے دوسرے ساتھی احمد بخش، طاؤس، کریم جان، دلجیت سنگھ یہ سارے لوگ بھی بھیا کے ساتھ ہی نکالے جا چکے تھے۔ دلجیت اور کریم خان بھیا کے ساتھ ہی کام کرتے تھے۔ اور یہ لوگ بھی مایاتیا گروپ کے خاص لوگوں میں سے تھے۔ جب ان کی بھی فیکٹری سے نکالے جانے کی بات سامنے آئی تو انہوں نے ایک ہو کر آواز لگائی — ہنگامے کئے۔ بدلے میں انہیں کوڑے ملے۔ سزاملی اور جیل سے باہر آ کر کریم خان کو معلوم ہوا کہ اس کی دنیا لٹ چکی ہے۔
فیکٹری کے منیجر اور دوسرے کارکن کریم خان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر میں گھس گئے اور کریم خان کی جوان لڑکی کے ساتھ زبردستی کی۔ ہنگامہ کرنے پر کریم خان کی بیوی کو ’کلہاڑی‘ سے کاٹ دیا۔ لڑکی نے پاگل ہو کر سوسائیڈ کر لیا۔
کریم خان جب قید سے باہر نکلا اور اسے ساری باتوں کا علم ہوا تو اس کا خون کھول اٹھا۔ اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ اور خود زندگی سے اب اسے کوئی مطلب نہیں رہ گیا تھا۔ غصہ میں بھوت ہو کر وہ اسی وقت منیجر صاحب کے گھر جا دھمکا۔ اس وقت گھر پر منیجر صاحب کی جوان بیوی تھی۔ اور بچے تھے۔ کریم خان کی لہولہان آنکھوں میں اپنی جوان بچی کی تصویر رقص کرنے لگی تھی۔ اس نے منیجر صاحب کے سارے بچوں کو یک مشت موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر جی بھر کر اس کی بیوی کے ساتھ زبردستی کی اور فاتح کی طرح کندھا اچکا تا وہاں سے چلا گیا۔
گولی کی آواز دور دور تک گونجی — مگرکسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ غصے میں بھرے ہوئے کریم خان کا کچھ بگاڑ سکے۔
مگر ابھی کریم خان کچھ ہی دور چلا ہو گا کہ پولیس کی گاڑی نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
اور چاروں طرف سے نکلتی پستول کی گولیوں نے اسے چھلنی کر دیا۔
منی کچھ پل کے لیے خاموش ہوئی تو راجن نے ایک سردسانس کھینچتے ہوئے کہا۔
’’جنگ کے دوران قانون کچھ نہیں ہوتا۔ قانون پولیس لے لیتی ہے۔ اعلیٰ حکام لے لیتے ہیں۔ جن کی اکثریت ہوتی ہے۔ وہ لے لیتے ہیں۔ ‘‘
منی دی نے آگے بتانا شروع کیا۔
’’اور پھر جب بھیا کو کریم خان کے موت کی خبر ملی تو وہ غصے سے پاگل ہو اٹھے۔ فیکٹری پر ان لوگوں نے بم پھینک دیا اور پوری فیکٹری — منی کا لہجہ کانپ رہا تھا۔ لیکن اس نے اپنی تقریر جاری رکھی — آدھی رات کے وقت پولیس کی موجودگی میں فیکٹری آگ کی نذر ہو گئی۔ ‘‘
’پھر کیا ہوا؟‘
’ اس واقعے کے بعد بھیا اور مشہور ہو گئے۔ ایک رات کالی پہاڑی کے قریب وہ لوگ کوئی خاص میٹنگ کر رہے تھے۔ جانے کیسے پولیس کو خبر مل گئی — ان لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ اور وہاں پر موجود سارے لوگ گرفتار کر لیے گئے۔
پھر اس کے دوسرے روز ہی —
منی کا گلہ بھر آیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے گنگا جمنا بہہ چلی تھی اور اس ’گنگا جمنی‘ میں جلتے ہوئے کیستوریا کی آگ مچل رہی تھی۔
٭٭٭
تھوڑا سا فرق
(۶)
یہاں آنے کے بعد پھوپھی صبح دیر تک سویا کرتی تھیں — جب تک انہیں اٹھایا نہیں جاتا، وہ بس لیٹی رہتیں اور چپکے چپکے روتی رہتی تھیں — ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا جیسے ہر وقت ان میں ایک چرخی نما تصویر گھوم رہی ہو۔ تصویر بدل رہی ہو، کھوئی کھوئی ہوئی پھوپھی کو دیکھ کر بہت دکھ محسوس ہوتا —
کمرے میں اب تک اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ مسہری پر بے سدھ سی پھوپی پڑی تھیں — چادر جسم سے الگ ہٹ گئی تھی۔ اور چہرہ اداسی کے بھنور میں ڈوبا ہوا محسوس ہوا تھا۔ آگے بڑھ کر کھڑکی کے سارے دروازے کھول دیے — پردہ ہٹا دیا۔ سورج کی شعاعیں چھن چھن کر کمرے میں آنے لگی تھیں۔
پھوپھی نے آنکھیں کھولیں اور ان کے ہونٹوں پر ایک درد بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’کتّا بجا۔ ‘‘
’’ساڑھے آٹھ‘‘
’’ساڑھے آٹھ؟‘‘
چادر کو الگ ہٹاتے ہوئے وہ تیزی سے اٹھیں —
ایک بجھا بجھا سارنگ ماحول میں بکھر گیا تھا۔
پھوپھی کو دیکھ کر میں بس یہی سوچ رہا تھا۔ یہ کیستوریا والے کتنے ظالم ہیں۔ آدمیوں کو مار کر کیا ملتا ہے انہیں۔ ۔ ۔ کیسے لگاتے ہیں گھروں میں آگ — کیسے شوٹ کرتے ہیں۔ لگتا ہے ان لوگوں کے پاس انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی۔
سوچتے سوچتے آگے بڑھا تو دیکھا کہ ڈائننگ روم میں کھانا رکھا جا چکا تھا۔
راجن بھیا تیور میں دکھ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں آج کا اخبار جھول رہا تھا — دیکھئے یہ سب آپ کا مذہب کرا رہا ہے۔ ‘
’’اس کا مطلب ہوا تم خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے — ‘‘ ڈیڈی سخت غصے میں آ گئے تھے۔
’’رکھتا ہوں، مگر یہ سب جو کچھ ہو رہا ہے کیستوریا میں — ساری دنیا میں — نسل اور رنگ کی لڑائی۔ اپنے ملک میں فرقہ وارانہ فساد — یہ سب کون لوگ لڑ رہے ہیں۔ وہی نہ جنہیں خدا پر اعتقاد ہے۔ سب کے خدا الگ الگ ہو گئے ہیں — ہر رنگ، نسل، قوم والوں نے اپنا الگ الگ خدا بنا لیا ہے — الگ الگ طرز سے پوجتے ہیں — اس نے انگلی اٹھائی تو وہ لڑ گیا۔ اس نے اٹھائی تو یہ لڑ گیا۔ پھر کیا ضرورت ہے ڈیڈی، ایسے خدا کی — میرے خیال میں دنیا اتنی ترقی کر رہی ہے کہ اب اس لڑائی اور دنگے کی دنیا سے ہٹ کر کسی مذہب کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مذہب کیا ضروری ہے۔ دنیا میں بھیجا گیا ہے تو عیش کرو۔ ایک ساتھ جیو — نہ چھوت چھات۔ نہ فرق — گورے، کالے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے ایک طرح کے نام … کھانے پینے، جینے میں ایک طرح کے انداز — یاد ہے ڈیڈی، کبھی Marxنے یہی کہا تھا۔ کیا ضروری ہے ان چھوٹے بڑے گھروں کی۔ یہ سارے چھوٹے بڑے گھر توڑ دیئے جائیں۔ ان گھروں نے چھوٹے اور بڑے کا فرق پیدا کیا ہے،
ڈیڈی سنتے رہے۔ پھر خاموشی سے کہا —
’’یہ تم نہیں بول رہے ہو۔ تمہارا نا پختہ ذہن بول رہا ہے۔ مذہب ایک ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بنیاد ہوتی ہے۔ جس کے وجود پر قائم رہ کر ہی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ مذہب سے زندگی کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مذہب ایک ترتیب کا نام ہے۔ ایک تسلسل کا نام ہے۔ جو دنیا میں آنے کے بعد ہم سیکھتے ہیں اور اسی انداز میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچ پوچھو تو بغیر مذہب کے ہم اس وحشی جانور کی طرح ہیں جو مالک کی مرضی کے خلاف چراگاہ میں چر رہا ہے — ‘
کچھ پل کی خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوئے — ’’اس آزاد مذہب کی بات کو کبھی میں نے بھی سراہا تھا۔ ‘‘
’’اب ذرا غور سے میری بات سنو۔ ایسے آزاد لوگوں کے سماج میں جینے کے طریقے، رہنے سہنے کے طریقے، سب آزاد ہوں گے۔ ایک گھناؤنا جنسی ماحول پیدا ہو گا۔ ماں باپ بھائی بہن، بیوی شوہر، ان سب باتوں کا فرق مٹ جائے گا۔ جنسی بے راہ روی بڑھ جائے — آنے والی نسل اتنا گھبرا جائے گی کہ وہ زندگی کے نام پر نفرت کرنے لگے گی۔ ا س لیے ان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اپنا کچھ اصول بنائیں۔ کچھ قوانین بنائیں۔ اور یہی قوانین، یہی اصول جن پر ہم چلتے ہیں۔ جن سے ہمارا تسلسل قائم رہتا ہے۔ جن سے ہمیں سچی خوشی اور زندگی ہے۔ یہی تو مذہب ہے۔ ‘‘
راجن کی آنکھیں فکر میں ڈوب گئی تھیں۔ وہ کچھ بولا نہیں۔ مگر اب بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے ڈیڈی کی بات نہیں سمجھی ہو یا پھر وہ ڈیڈی کی بات سے متفق نہیں ہو۔
٭٭٭
روٹی کا ایک لقمہ منہ میں لیتے ہوئے ممی نے پھوپھی سے کہا۔ ’’ سوچتی ہوں اس بار الف کی سالگرہ ذرا دھوم دھام سے مناؤں ؟
’’کب ہے اس کی سالگرہ؟ پھوپھی کی آواز گہرے کنویں سے آتی ہوئی سنائی پڑی۔
’اب سے تین روز باقی ہیں — چوبیس تاریخ کو پیدا ہوا تھا، اپنا الف۔ ‘
راجن بھیا نے کچھ حساب لگاتے ہوئے کہا — ؟
واہ! چوبیس تاریخ کو — جانتے ہو الف تمہاری لکی نمبر کتنا ہوا — ؟ چھ — ایسے لوگ سورج کے طابع ہوتے ہیں — ان کی شخصیت میں سورج کی طرح ہی ایک وقار ایک ٹھہراؤ، ایک چمک ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بہت سلیقہ مند ہوتے ہیں اور ایسے لوگ آرٹسٹ قسم کے ہوتے ہیں — ان کا ہر انداز ایک Art ہوتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ سوچتے ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا سوچتا ہے۔ یہ زندگی کے ہرمسئلے پر بہت باریکی سے نظر رکھتے ہیں اور ایک بات اور …
اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔
ڈیڈی غور سے ان کی بات سن رہے تھے — ’’پورے جیوتش ہو گئے ہو — کہاں کہاں سے پڑھتے رہتے ہو یہ سب۔ ‘‘
’’یونہی ڈیڈی — زندگی کے بارے میں جانتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ اور جانے کیوں ان Lucky numbers پر بھروسہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ‘‘
’’ایک بات اور کیا … ؟‘‘
منی نے پوچھا جو راجن بھیا کی بات بڑے غور سے سن رہی تھی … راجن بھیا نے ڈیڈی کے سامنے کچھ بولتے ہوئے شرم محسوس کی۔ پھر کہا — ’’ایسے لوگ لڑکیوں کے معاملے میں بڑے خراب ہوتے ہیں — ‘‘
ڈیڈی کا لقمہ سرک گیا تھا اور وہ ٹھٹھا کرہنس پڑے۔ ممی بھی کھاتے کھاتے رک گئی تھیں — اور ہنسنے لگی تھیں۔ منی اور سونی دی کا ٹھہاکہ بھی دیر تک گونجتا رہا۔
پھوپھی اپنا ٹھنڈا ہاتھ اس کے کندھے پر مارتی ہوئی بولیں …
’’شرارتی کہیں کا۔ ‘‘
جانے کیوں مجھے کچھ بھی بولنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ بس آہستہ سے مسکرا دیا۔ راجن بھیا کی بات ذہن میں اب بھی گونج رہی تھی … ’’ایسے لوگ لڑکیوں کے معاملے میں بڑے خراب ہوتے ہیں۔ ‘‘
ابھی بات ہوہی رہی تھی کہ منی کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ کر زمین پر گر پڑی’’ … چھن … چھناک … ‘‘
کیا ہوا۔ ‘‘ پھوپھی کو جیسے سکتہ مار گیا ہو۔
کچھ نہیں — منی نے کہا — پلیٹ گر گئی ہے۔
ہم سب نے محسوس کیا — جیسے پھوپھی کا چہرہ بالکل زرد پڑ گیا ہو۔ آواز کی تیز گونج آج بھی ان کے سینے پر ضرب پہنچاتی رہتی ہے۔ شاید آج بھی انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کا شہید بیٹا اپنی جان بچانے کے لیے زور سے چیخ رہا ہے۔ اور اس کی درد بھری آواز دور تک گونج رہی ہے۔ بارود، گولے اور بم لگاتار چھوٹ رہے ہوں …
ڈیڈی نے ہی کہا تھا …
’’پھوپھی کی آنکھوں میں آج بھی کیستوریا جلتا ہے۔ آج بھی ان کی آنکھوں میں ان کا بیٹا چیختا، چھٹپٹاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ‘‘
پھوپھی کا چہرہ ابھی بھی سیاہ پڑا ہوا تھا —
ممی نے سہارا دیا …
’’آئیے … منہ دھو لیجئے … ‘
ایک لاش کی طرح وہ اٹھیں — بیسن پر منہ دھونے لگیں۔ ممی نے بات بناتے ہوئے کہا …
’’لگتا ہے کوئی آئے گا — جب اس طرح برتن گرتا ہے اور چھناک کی آواز پیدا ہوتی ہے تو کوئی ضرور آتا ہے … ‘‘
’’لو آنے والا آ گیا … ‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا —
باہر دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
سامنے مسز ڈولچی والی اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھڑی تھیں —
آئیے — ممی نے مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا۔
وہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ اندر آ گئیں۔
پھر ممی انہیں اور پھوپھی دونوں کولے کر اندر چلی گئیں۔ ہم بٹو، کیٹی، گرینی اور گڈو کے ساتھ باہر والے دالان میں چلے گئے۔ میں نے آہستہ سے گپو کو ٹہوکا دیا …
’’اے گپو چل نا، ددّا سے کہانی سننے۔ ‘‘
گرینی نے جو مشکل سے چار سال کی ہو گی۔ مسکراتے ہوئے کہا … ہاں، ددّا ہمیں خوب کہانیاں سناتی ہیں — ‘‘
’’میری ایسی کوئی ددّا نہیں۔ پاپا بھی کہانی نہیں سناتے۔ ممی بھی نہیں — تمہیں تو مزہ آتا ہو گا۔ ‘‘
’’ہاں بہت مزہ — کیٹی نے اچھلتے ہوئے کہا — ددا تو ہمارے ساتھ کھیلتی بھی ہیں۔ ‘‘
’’تمہارے ساتھ کھیلتی ہیں۔ ‘‘ بٹو نے تتلا تے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں ددا ہمیں خوب مانتی ہیں۔ ‘‘
پھر ہم جھنڈ بنا کر ددا کے پاس آ گئے —
’’ددا کہانی … ‘‘
ممی نے میری طرف دیکھا۔ لیجئے، کیپٹن آ گئے۔
مسز ڈولچی والی مسکرائیں — کیا کروں بہو۔ میرا انہی میں دل لگتا ہے۔ دیکھو نا ستربرس کی ہو گئی۔ بس یہ منچندا کے لڑکے ہیں۔ انہی پوتے پوتیوں میں خوش رہتی ہوں۔
پھر قدرے ٹھہر کر بولیں — بہو … پھر باتیں کروں گی۔
ان بچوں کا دل توڑتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔
ممی بس ہولے سے مسکراپڑیں —
٭٭٭
ایک کہانی ‘بہت پرانی
(۷)
’’ایک کہانی بہت پرانی
ڈولچی والی، سب کی نانی‘‘
میں زور سے چلایا۔ سب اچانک میری طرف مڑ کر کھلکھلا پڑے۔ ڈولچی والی مجھے بے حد پسند تھیں۔ بھرے بھرے بدن والی۔ جیسے سارے بدن میں چربی ہی چربی ہو — ہنسنے پر آئیں توبس، قہقہے رکنے کا نام ہی نہ لیں۔
میں زور سے چلایا ضرور مگر آنکھیں ڈولچی والی کی ’ساڑی‘ میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔
ساڑی کا آنچل ہٹ گیا تھا اور —
ایک کہانی بہت پرانی —
باہر بادل چھا گئے ہیں —
میں لہو لہو منظروں سے آنکھیں چرانے کی ہمت کر رہا ہوں۔ مگر آنکھیں کیلے کے چھلکے کی طرح پھسل کر —
یہاں ایک جانور سڑ گیا ہے …
یہاں ایک جانور بدبو دے رہا ہے …
یہاں ایک جانور …
’ابھی نہیں … ابھی رکو۔ پلیز ڈولچی والی … ‘
میں بیسن کی طرف بھاگتا ہوں۔
بیسن پر لگے شیشے میں عکس دیکھتا ہوں۔
چہرے پر پانی کی بوندوں کا چھڑکاؤ کرتا ہوں …
ڈولچی والی …
میرے گھر مت آیا کرو —
نہیں۔ آیا کرو ڈولچی والی —
ایک کہانی بہت پرانی
ڈولچی والی سب کی نانی …
تم۔ تم آیا کرو ڈولچی والی …
میں اپنے راستے بدلنے کی کوشش کروں گا …
آئینہ میں اب کون آ گیا ہے۔
نہیں۔ یہ میں ہوں ؟
میں کون — ؟
الف —
ہاں … میں نے اطمینان کاسانس لیا ہے
میں دوبارہ واپس آ گیا ہوں —
’کہاں گئے تھے — ؟
نیند آ رہی تھی۔
’کہانی میں نیند؟‘
’کہانی میں اکثر نیند آ جایا کرتی ہے‘
پھر بھاری بھرکم مسز ڈولچی والی درمیان میں بیٹھ گئیں اور ہم سب بچے ان کے چاروں طرف گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے …
مسز ڈولچی والی کا پوپلا منہ گلاب کی طرح کھل اٹھا …
’’ایک جہاز والا تھا — اس کے پاس اپنا ایک جہاز تھا — اس کی ایک خوبصورت سی بیو ی تھی — اور ایک پیارا سالڑکا۔ جہاز والا ہر مہینے گھر آتا اور اپنی بیوی بچوں کے لیے ڈھیر سارے سامان لاتا … پھر چلا جاتا … جب وہ لوٹ کر آتا تو سارے گھر میں خوشیاں چھا جاتیں — ساراگھر مسکرانے لگتا۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے ذریعے لگائے گئے درخت بھی کمہلا جاتے۔ جب وہ آتا تو ہر درخت میں پانی ڈالتا۔ ان کا خیال رکھتا اور درخت اس کی موجودگی میں جیسے ہنسنے لگتے۔ ‘‘
مسز ڈولچی والی کی آنکھیں اچانک ہی سکڑ گئی تھیں۔ ممی بھی ڈری اور سہمی سہمی ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
’’اور پھر ایک دن جب جہاز والا آیا تو اس نے دیکھا — ہمیشہ کی طرح اس کے لگائے گئے پودے پھر سوکھ گئے ہیں۔ کمہلا گئے ہیں۔ اس نے پھر سے انہیں شادابی بخشی — اور بیوی بچوں سے بولا —
میں باہر جا رہا ہوں۔ تمہارے لیے کیا کیا لاؤں گا۔
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک خوبصورت سی ساڑی۔
بچے نے مسکراتے ہوئے کہا … ایک چھوٹا سا خوبصورت فاؤنٹن پین۔
جہاز والے نے مسکراتے ہوئے کہا … ’’ضرور ضرور‘‘۔
اور وہ اجازت لے کر سفر پر نکل پڑا … ایک بار پھر جاتے وقت اس نے پھلواری میں پودوں پانی دیا۔ درختوں کی کیاری درست کی اور سفر پر نکل گیا …
اچانک ہم نے محسوس کیا۔ مسز ڈولچی والے کا گلا بھرا گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ پھوپھی حیران نظروں سے مسز ڈولچی والے کو دیکھنے لگیں — اور ہم بچے بھی اس طرح اپنی اپنی جگہ بت ہو گئے جیسے کاٹھ مار گیا ہو —
ممی نے ہم بچوں کو پھٹکارتے ہوئے کہا … ’’جاؤ … جاؤ … کہانی بعد میں سننا … ‘‘
ہم اٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ مسز ڈولچی والے نے خود کو دبایا۔ آنسوؤں کے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی — اور ان کے جھری نما چہرے پرآنسوؤں کی بوندیں کانپ کانپ اٹھیں —
اور پھر ہم نے محسوس کیا … ان کے ہونٹوں پر جبراً ایک مسکراہٹ طلوع ہو رہی ہو … ایک شگفتہ مسکراہٹ —
’’کیوں بھگاتی ہو بچوں کو — بیٹھنے دونا۔ ‘‘
اتنا کہہ کر وہ ممی کی طرف مڑیں …
’’سنا کہ ان بچوں کی پھوپھی آئی ہیں … سوچا ملتی چلوں … ‘‘
انہوں نے ایک نظر پھوپھی کی زندہ لاش پر ڈالی … اور خود بھی مغموم ہو گئیں —
دیر تک سب وہاں خاموش بیٹھے رہے۔ جب مسز ڈولچی والی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں تو ممی سوگوار لہجے میں بڑبڑا اٹھیں۔
’بیچاری … ‘
پھوپھی نے آہستہ سے پوچھا — کیا ہوا تھا … ‘
ان کا لڑکا نیوی کیپٹن تھا — ایک دن جہاز ڈوب گیا …
ممی نے رک کر بتایا … مگر آج تیس سال ہو گئے … اور یہ واقعہ انہیں آج بھی کل جیسا ہی لگتا ہے۔
پھوپھی نے کچھ نہیں کہا۔ بس آہیں بھر کر رہ گئیں۔
اپنے کمرے کی طرف لوٹتے ہوئے بٹونے مجھ سے پوچھا … اچھا بھیا! وہ جہاز والا کون تھا … ؟
میں نے اٹک اٹک کر، چبا چبا کر اس لفظ کو ادا کیا —
ایک دوزخی، جس نے ددا کو اکیلا کر دیا۔ ‘
اندر پھر وہی کہانی جاگ اٹھی تھی …
ڈولچی والی سب کی نانی …
ایک کہانی …
میں آہستہ آہستہ ان کے جسم سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور کسی قدر اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو گاس تھا۔ جانور کھو گیا تھا۔ جہاز والا زندہ ہو گئا تھا۔ زندگی کھو گئی اور موت کا احساس جاگ گیا تھا …
موت …
مجھے محسوس ہونے لگا، یہ ہماری ہنسی اچھل کود، سب وقتی ہے۔ سب بیکار ہے — دنیا ایک جہنم کا پلندہ ہے۔ پھوپھی اور ددا میں کیا فرق ہے۔ دونوں مر رہے ہیں — دونوں زندہ لاش کی طرح ہیں۔ پھوپھی کا زخم تازہ ہے اور ددا زخم کے پرانے ہونے پر بھی جی رہی ہیں … گھٹ گھٹ کر … ہنس ہنس کر … پھوپھی کا لڑکا کیستوریا میں مارا گیا اور ددا کا لڑکا سمندر میں ڈوب گیا …
بس تھوڑا فرق ہے …
جینے اور مرنے کے درمیان بس تھوڑا سا فاصلہ ہے …
اور درمیان کے جتنے بھی مرحلے ہیں سب وقتی ہیں … سب بے بنیاد۔
جو مر گئے وہ خوش ہیں — اور جو زندہ ہیں، دکھ جھیل رہے ہیں۔
٭٭٭
دوپہر کی آگ
(۸)
رات کی پراسرار اندھیری سرنگ میں میرے ساتھ
ساتھ کون تھا؟
شاید کوئی نہیں —
شاید، یہ پوری دنیا —
اندھیرے کے آسیب چاروں جانب سے، نکل کر
مجھے گھیر لیتے —
ایک گیلے، احساس والی رسی ہوتی تھی …
اس رسی پر، کچھ کپڑے ٹنگے ہوتے تھے …
ان کپڑوں میں،
جانی پہچانی سی خوشبو ہوتی تھی …
یہ خوشبو مجھے بلاتی تھی۔
مجھ کو اپنا کہتی تھی —
پھر یہ رسی ٹوٹ گئی۔
کپڑے گندی زمین پر بکھر گئے —
میں رات کے اندھیرے سے ڈرنے لگا
رات، جاؤ تم —
میرے انگنا، مت آؤ تم …
مجھ کو تم سے ڈر لگتا ہے …
سب باتیں زندہ ہو جاتی ہیں۔
سب باتیں مجھ کو ڈستی ہیں …
٭٭٭
تو رات ہو گئی۔ پراسرار سناٹے کی چادر تن گئی —
کیاسچ مچ سب سوجاتے ہیں یا — ڈولچی والی بھی سوگئی ہوں گی یا —
صوفی، سنت، ولی اور دیش بھکتوں کی نظر میں رات کیسی ہوتی ہو گی؟
میری طرح —
سب کو یہ راتیں ڈستی ہوں گی۔ ؟
اللہ گم ہو جاتا ہو گا — ؟
بھگوان کسی گلی میں جا چھتپے ہوں گے۔ ؟
اور دیش بھکتوں کے لئے ملک —
ستراسی، نوے سو
سو میں لگا دھاگہ
چور نکل کے بھاگا —
ملک بھاگا —
بھگوان بھاگے —
اور جسم آیا —
بندر والے نے ڈگ ڈگی بجائی —
ڈم … ڈم … ڈم …
بندر کا تو ناچ دیکھا
ڈم … ڈم … ڈم …
رات ہو گئی ہے —
مجھے رات کے احساس سے خوف محسوس ہو رہا ہے۔
٭٭٭
رات کا تصور میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ گذری ہوئی ساری باتیں لاشعور کے پردے پر زندہ ہو کر چلنے لگتی تھیں۔ فلم دیکھو۔ فلم … لو شروع ہو گئی فلم۔ اپنا تھیٹر چالو ہے۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے۔ بدن جل رہا ہے۔ سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ بھولی بسری ساری تصویریں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہی ہیں۔
دن میں جو کچھ ہوتا … وہی کچھ رات میں بند آنکھوں کے ذریعہ دہرایا جاتا۔ میں دیکھتا … کمرہ بند ہے … میں دروازے کے پاس کھڑا ہوں … جھنجھلایا جھنجھلایاسا۔ دروازے کے سوراخ سے جھانکتا ہوں۔ ممی کی ساڑی ہٹ چکی ہے … اور پاپا ’وہ‘ پینے میں لگے ہیں …
میں دیکھتا … لزی مجھ پر چڑھ گئی ہے … اور محسوس کرتا … وقتی طور پر کوئی بجلی میرے جسم کے ریزے ریزے میں داخل ہو چکی ہے … اور بدن کے کسی مخصوص حصے میں ایک خاص چن چنا ہٹ سی محسوس کرنے لگتا …
میں ذہن اور تصور کے پردے پر کیستوریا کو جلتے ہوئے محسوس کرتا … پھوپھی کے لڑکے کو گوروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے … گورے! کتنے بھیانک ہو گئے ہیں۔ ان کا جسم گورا … بلکہ ایسا لگتاجیسے جسم کا گورا پن بیماری میں تبدیل ہو گیا ہو … اور وہی احساس — جسم سڑ گیا ہے —
سڑے ہوئے جسم سے بد بو آ رہی ہے —
بدو بھیا شکاریوں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پستول دبی ہو گی … ان کی بڑی بڑی ڈراونی آنکھوں میں خون کے آنسو ہوں گے اور بدو بھیا چھٹپٹاتے ہوئے سڑک پر اینٹھی ہوئی لاش کی طرح گر گئے ہوں گے —
میری آنکھوں میں دہشت بھرے مناظر اکٹھے ہونے لگتے۔ نفرت کا احساس کلکاریاں مارنے لگتا ہے … نگاہوں میں دور تک لاشوں کے انبار لگنے لگے … چیختے، چھٹپٹاتے، سسکتے جسموں سے رس رس کر بہتے ہوئے خون مجھے منجمد کر دیتے — میں دیکھتا … بٹو کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ کر زمین پر گر پڑی ہے … اور پھوپھی کا چہرہ خطرے کے سگنل جیساہو گیا ہے … ان کی آنکھوں سے دہشت باہر جھانکنے لگی ہے …
مجھے احساس ہوتا … مسز ڈولچی والے کی مسکراتی آنکھوں نے کتنے خونی مناظر دیکھے ہیں … کتنی آہیں جذب کی ہیں … اور مسکراتی آنکھیں زخموں سے کس قدر بھیگی ہوئی ہیں …
میں سناٹے میں آ جاتا —
کسی کی آواز آتی … الف ادھر آؤ
خاموشی سے اٹھتا … ہر پگ گن کر آگے بڑھاتا … محسوس کرتا … مسکراہٹ بیکار شے ہے۔ مہمل ترین … زندگی بس گھسیٹتے رہو … یا پھر مرتے رہو …
پھر محسوس ہوتا … آوازیں چاروں طرف سے سرگوشیاں کرنے لگی ہوں … الف ادھر آؤ … ادھر آؤ … ادھر آؤ …
آوازیں بتدریج تیز ہوتی جاتیں …
آئس کریم والے کی آواز فضا میں گونجتی … اور تپتی دوپہر یا کی گرمی جسم میں بھر جاتی —
ہر طرف سہمی سہمی دیرانی … ہر طرف دھیمی دھیمی ہوائیں …
پاس والے کمرے سے اٹھتی ہوئی ممی ڈیڈی کی سرگوشیوں جیسی، کھلکھلانے کی آوازیں …
دوپہر کی خاموشی جب حد سے زیادہ طویل ہو جاتی تو راجن بھیا کے کمرے کی طرف روانہ ہو جاتا —
اور چپکے سے ایک طرف کھڑا ہو کر کھویا کھویا سا دیکھنے لگتا …
راجن بھیا۔ اور منی دیدی۔
منی دیدی اور راجن —
ان کے ہونٹ آپس میں مل گئے ہیں … ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے شرابور … کیسا دودھ جیسا میٹھا ذائقہ محسوس کر رہے ہوں گے …
دروازہ اب بھی خاموشی سے مسکرارہا ہے …
میرے قدم ساکت ہو جاتے …
میرے قدم جم گئے ہیں … برف جیسے …
دوپہر آگ برسارہی ہے اور میرا سارا جسم آگ کے شعلوں میں جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
میری کنپٹیوں میں آگ بھر گئی ہے۔ دروازہ ویسے ہی آہستگی سے لگا کر میں پاگلوں کی طرح اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ دماغ آوارہ خیالات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔
٭٭٭
وہ لمحہ جانے کیوں مجھے بہت اجنبی سالگا۔ کیوں کہ حقیقت یہ تھی کہ اس لمحے سے خود میں بھی ناواقف تھا۔ وہ آگ کیسی تھی۔ جو منٹوں میں میرے پورے وجود کو جھلسا گئی اور میں نے بڑا عجیب سامحسوس کیا تھا —
ان دنوں میرے کلاس میں ایک کتاب پڑھائی جاتی تھی … سماج ادھین — سوشل سائنس — سماج ادھین کے ذریعے ہمیں پڑھایا جاتا۔ آدمی ایک سماجی جانور ہے — وہ سماج میں پیدا ہوتا ہے — سماج میں اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ وہ سماج میں سانس لیتا ہے اور سماج میں ہی مر جاتا ہے۔
وہ ایک سوال جو اس واقعے کے چند ہی دنوں بعد میرے دل میں ابھرا۔ وہ تھا۔ یہ سماج کیا ہے۔ ضرورتیں کیا ہیں … ؟
کھانا … ؟پینا … ؟یا گھر … ؟
یا پھر وہ جو راجن بھیا اور منی دیدی چاہتے ہیں … ؟
یا وہ جو ڈیڈی اور ممی کی مشترکہ کھلکھلاہٹ سے وجود میں آتا ہے؟ ذہن میں مسلسل چھنا کے ہو رہے تھے۔ اور لاشعور کے کونے سے ادب و تہذیب سے کٹا ہوا ایک جنگلی پرندہ سرنکالے بے شرمی سے ٹھٹھا کر ہنس رہا تھا۔
سچ کیا ہے؟
تہذیب کیا ہے — ؟
سماج ایک اندھا کنواں ہے۔ جس میں دو مختلف جنسوں کے لوگ اترے ہوئے ہیں اور بے شرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں … جو تنہائی میں ڈیڈی ممی کرتے ہیں —
اور جو دوپہر کی جھلسا دینے والی شدید دوپہر میں منی دیدی اور راجن کرتے ہیں — ذہن کے دریچہ سے ایک شیش ناگ سے سرنکالا — آہستگی سے پھنکارا … سوچتے کیا ہو … چلو … اس پاگل سماج سے دور … جہاں یہ گھناؤنے لوگ نہ بستے ہوں۔ جہاں یہ ڈیڈی ممی نہ ہوں۔ جہاں راجن اور منی جیسے لوگ نہ ہوں …
٭٭٭
سورج کا گولہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتاجا رہا تھا، ساری دنیا کے لیے اور سب کے لیے نفرت کی تیز لہریں میرے دل میں جاگنے لگی تھیں … سب نفرت کے مستحق ہیں۔ یہ سب جاگتے ہوئے وحشی درندے … لوٹ کھسوٹ کرنے والے جانور …
اور سب اسی تاریک گہرے کنویں میں اترے ہوئے ہیں۔
ایک اندھا تاریک کنواں —
اور اسی کنویں میں وہی چیل کوؤں جیسا، چھینا جھپٹی، والا کھیل چل رہا ہے …
سب کے لباس جسم سے الگ ہو گئے ہوں۔
قہقہے بڑھنے لگے ہوں … نیم مردہ قہقہے … فلک شگاف قہقہے …
اور اس کنویں میں پوری دنیا سمٹ آئی ہو …
تن کے کپڑوں سے جدا، سب نے اپنی آواز ایک کر دی ہو … نقرئی قہقہے کنویں کی سخت دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر کان کے پردے پھاڑنے لگے ہوں …
سب ننگے ہیں … سب کے کپڑے جسم سے الگ ہیں۔
اور سب کے سب وحشی راگ الاپے جا رہے ہیں …
اور دو ننگے جسموں کا گھناؤنا کھیل اپنے عروج پر پہنچتا جا رہا ہو۔
چلو … بھاگو یہاں سے …
کسی نے میرے اندر پھر انگڑائی لی …
میں نے ڈری ڈری اور سہمی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھا۔ چاروں طر ایک بے رنگ منظر عیاں تھا۔
میں دبے افسردہ قدموں سے اپنے کمرے میں لوٹ آیا …
سوچتے کیا ہو … بھاگ چلو —
یہاں ایک طوفان آیا ہوا ہے — بھیانک طوفان —
اس طوفان میں سب کچھ اڑ رہا ہے۔
تم کون ہو؟
کہاں سے آئے —
ہا … ہا — بند کمرے سے — ؟
بند کمرے میں کون تھا؟
ہا … ہا — بند کمرے سے — ؟
بند کمرے سے؟
بند کمرے میں کون تھا؟
ہا … ہا
پاپا ممی — راجن بھیا منی دی —
جنگلی پرندہ — سماج ادھین — مین از اے سوشل اینمل — انسان ایک سماجی جانور ہے —
جانور ننگے رہتے ہیں۔
انسان نے لباس پہن لیا ہے —
پھر کمرے میں خاموشی سے، جانور بنتے ہوئے لباس اتار دیتا ہے۔
MAN IS A SOCIAL ANIMAL
تم بھی یہی کرو گے —
کیونکہ تم بھی ایک سماجی جانور ہو —
یہ ریت ہے۔ پر مپرا ہے۔ یہی سنگیت ہے —
صوفی، سنت، ہائے — رات میں وش کنیا —
ایک وش کنیا ہوتی ہے — سارے بدن میں، دنیا کی تمام لذتوں کا زہر پی کر ’نیل‘ بن جانے والی
اور نیل — وش کنیا —
رات میں وش کنیا — جسم انگیٹھی بن جاتا ہے — اور وش کنیائیں جلتی ہوئی اپنا زہر انڈیلنے میں لگ جاتی ہیں …
چلو، بھاگ چلو، رات سے، وش کنیاؤں سے — جسم سے۔ دور بھاگ چلو — بھاگ چلو —
میں پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔
یہ میری عمر کا بارہواں سال تھا۔
٭٭٭
مشکوک نظروں کا پہلا دن
(۹)
صبح ایک زخمی لباس پہن کر آئی تھی۔ زخمی صبح — جسم بری طرح ٹوٹ رہا تھا۔ کھڑ کی سے باہر آتی ہوئی آوارہ ہواؤں کے سرد جھونکے میرے اندر نفرت کے طوفان اٹھا رہے تھے۔ آنکھیں اب بھی جل رہی تھیں — اور نیند آنکھوں کی پتلیوں میں اس طرح انگڑائی لے رہی تھی جیسے کوئی دوشیزہ اپنے محبوب کے دو زانو پہ سررکھنے کو بے چین ہو۔ پتلیاں کبھی تیز جلن سے بند ہو جاتیں اور کبھی ذہنی کشمکش سے دوچار ہو کر کھل جاتیں — بے خوابی میرے وجود سے پیر تسمہ پاکی طرح لپٹ گئی تھی۔
رات میں خیالوں کی لہروں میں دور تک بہتا چلا گیا تھا — منی دی اور راجن بھیا کی ہنسی کی آوازیں، دیر تک مجھے پاگل بنا تی رہیں۔ دماغ تیز جلن سے پھٹا جا رہا تھا اور اندر ہی اندر عجیب سی کڑواہٹ اور حقارت گھل مل رہی تھی۔
ایک سیاہ منظر نے مجھے پوری طرح ڈس لیا تھا —
منی دی اور راجن بھیا شام کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے تھے۔ میں غور سے ایک ٹک انہیں دیکھتا رہا تھا۔ بند دروازے کے پیچھے کھیلے گئے اس ناخوشگوار کھیل کے لمس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر بے اطمینانی سے، وہاں سے ہٹ گیا تھا۔
’خاموش کیوں ہوا، الف۔ کچھ ہوا ہے کیا۔ ـ؟‘
سونی دی نے پوچھا تو دل چاہا۔ زور زور سے قہقہے لگاؤں، ہنسوں — ابھی کچھ اور ہونے کو باقی ہے کیا۔ سب کچھ تو ہو گیا۔
مگر چپ رہ گیا۔ پھر وہ تکلیف دہ رات آئی تھی۔ کنکریلے بستر پر لیٹتے ہی خیال آیا۔ ممی پاپا کے کمرے میں چلی گئی ہوں گی — اور کیا — منی دی راجن بھیا کے کمرے میں — اور وہی اندھا تاریک کنواں —
ایک نفرت میں ڈوبی ہوئی کہانی میرے سامنے پھر شروع ہو گئی تھی —
میرا بستر خون سے تر بتر تھا۔ مگر نیند اس رات میری آنکھوں سے کوسوں دور ہو گئی تھی —
٭٭٭
صبح ہوئی تو لگا، صبح ایک زخمی لباس اوڑھے ہوئی ہو — سارا جسم گھناؤنے زخموں سے رس رہا ہو —
آنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔ ٹوتھ برش ہونٹوں میں دبایا — اور باہر نکل گیا۔ باہر دالان میں ایک تیز سناٹا پسرا پڑا تھا۔ چھ بجے تھے۔ ممی پاپا کے کمرے کا دروازہ اب تک بند تھا۔ رسوئی گھر سے برتن ڈھن ڈھنانے کی آواز گونج رہی تھی۔
باہر نل کے پاس آ کر ٹھہر گیا — اور وہیں پر رکھے پتھر کے ٹیلے پرسرجھکا کر خاموشی سے برش کرنے لگا۔ تصویریں مدھم مدھم سی اب بھی نظروں کے آگے سے گزر رہی تھیں — اور ہر تصویر ایک خاص نقطہ پر آ کر ٹھہر جاتی تھی اور اس ٹھہر نے کے کچھ ہی وقفے کے بعد محسوس ہوتا جیسے نقطے کا ہالہ وسیع ہوتا جا رہا ہو اور تصویر بالکل صاف صاف نظر آنے لگی ہو —
سرجھکائے اپنے ہی خیالات میں گم برش کر رہا تھا کہ ایک آواز نے مجھے چونکا دیا —
بابوجی۔ داتون … ؟ داتون لو گے بابوجی … ‘‘
سامنے ایک میلی سی ساڑی میں لپٹی ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں التجا کی چمک تھی۔ جیسے کہہ رہی ہو — ’’لے لونا ایک۔ اندر جا کر ممی سے کہو۔ بھوکی ہوں۔ بابوجی … لے لونا … ‘‘
وہ دیر تک التجا بھری نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی — اور میں کھویا ہوا اس کی نازک عمر کے نشیب و فراز میں ڈوبتا رہا —
’’بابوجی اندر جا کر پوچھو نا؟‘‘
اس کی آنکھوں میں اب التجا کے ساتھ بے چینی بھی سمٹ آئی تھی — میری آنکھیں اس کی گردن کے بعد کے حصے پر آ کر ٹھہر گئی تھیں جو لمحہ لمحہ بھوک یا اضطرابی کیفیت کے عمل سے دوچار ہو کر کانپ رہا تھا — اوپر نیچے کر رہا تھا … اور اس کی تھرتھراہٹ جھینی پھٹی ہوئی ساڑی کے کناروں سے صاف نظر آ رہی تھی —
’’نہیں لینا، ہمارے گھر میں داتون کوئی استعمال نہیں کرتا۔ سب برش کرتے ہیں۔ ‘‘
میں نے ویسے ہی اس پر نظریں جمائے ہوئے کہا اور بجھ سی گئی — دبے افسردہ قدموں سے ’داتون لے لو‘ کا جملہ دہراتی ہوئی آگے بڑھ گئی —
میں اسے جاتے ہوئے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک کہ وہ نگاہوں سے غائب نہ ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد جس سوال نے میرے اندر تیزی سے انگڑائی لیا … وہ بہت گھناؤناقسم کا تھا …
— کتنی عمر ہو گی اس کی ؟
— میں اس میں کیا دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا؟
— اس کی آنکھیں، ہونٹ، چہرہ — کمر کے پاس، سیاہ گوشت کا بکھراؤ —
یہ محض داتون والی نہیں تھی۔
’داتون لے لو … لے لو جی … ‘
اس کے سیاہ جسم سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں … اور ایسی ہر چنگاری مجھے جلا دینے کے لیے کافی تھی …
سوال مجھ پر حاوی ہوتے جا رہے تھے۔ ’’کیا یہ داتون والی بھی … ؟‘‘
’مطلب … ‘‘
’’مطلب کہ … ‘‘
’’تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں الف … ‘‘
’’اب میں کیسے سمجھاؤں … اس داتون والی کا ایک پتی ہو گا۔ پتی یعنی شوہر۔ ‘‘
’’ضرور ہو گا … ‘‘
’’داتون والی اپنے شوہر کے ساتھ سوتی ہو گی‘‘
’’پاگل۔ یہ کیسا سوال ہے؟‘‘
’’سوال نہیں ہے۔ بتاؤ نا۔ ‘‘
’’ہاں، شوہر ہے تو سوتی کیوں نہیں ہو گی۔ ‘‘
’’اور — !‘‘
’’اور کیا‘‘
’’وہ سب کرتی ہو گی جو … ‘‘
’’جو سے کیا مطلب ہے … ‘‘
’’جو دوسرے کرتے ہوں گے‘‘
’’ارے … اس کا شوہر ہے۔ شوہر کے ساتھ وہ سب کچھ کرے گی۔ ‘‘
’’مثلاً ساتھ سوئے گی۔ ‘‘
’’ہاں ‘‘
’’مثلاً اس کا شوہر، اس کے جسم کو ایک تانا شاہ کی طرح … ‘‘
’’تانا شاہ — ؟‘‘
’روند دے گا‘
’چلو یہ بھی صحیح۔ ‘
’’وہ اس داتون والی کی ساڑی بھی کھولے گا۔ اس کا بلاؤز اتارے گا۔ اور اس کے سیاہ سینے کو … ‘‘
’’اب حد ہو گئی الف … حد ہو گئی۔ ‘‘
میں اپنے ضمیر کوسمجھاتا ہوں۔ ناراض مت ہو۔ میری دماغی کیفیت اس وقت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے جو پوچھتا ہوں۔ جو اب دیتے جاؤ۔
’’تو سنو۔ وہ شوہر ہے۔ وہ سب کچھ کرتا ہو گا، جو وہ ایک تانا شاہ، کی حیثیت سے کرسکتا ہے۔ ‘‘
’’ — مثلاً‘‘
— وہ دودھ بھی پیتا ہو گا — یہی نا — جسم کے آغوش میں آنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ خرگوش سے سانپ بنتے ہاتھوں کا مطلب کیا ہے؟ یہ ہاتھ عورت کے بدن پر رینگتے ہیں … جیسے سانپ رینگتا ہے۔ یہ ان تمام جگہوں کو پہچانتا ہے، جہاں سانپ بدن کی بین پر مدہوش ہوسکتا ہے …
— ’’تو یہ داتون والی … ‘‘
’’اب داتون والی کا تذکرہ چھوڑو‘‘
ساڑی — ’التجا‘ کی چمک — بلاؤز سے جھانکتے انگارے —
داتون والی کاسیاہ، بل کھاتا جسم دیر تک آنکھوں کی ٹیڑھی میڑھی سڑک پر رقص کرتا رہا۔ اس درمیان کتنی ہی بار میں نے خوف کی جھر جھری لی۔ کتنی ہی بار آنکھوں کو بند کیا۔ گنگنانے کی کوشش کی۔ اور جلد از جلد برش سے نجات پانے کی کوشش کی —
٭٭٭
برش کر لینے کے بعد جب میں دوبارہ باہر آیا تو دالان میں کرسیاں بچھ چکی تھیں۔ ممی پاپا بیٹھے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔
میں نے حقارت بھری نگاہوں سے دونوں کو گھورا اور خواہش ہوئی۔ ویسے ہی لوٹ جاؤں کہ پاپا کی ’عقابی نظروں ‘ نے مجھے پڑھ لیا۔ اور ان کی تیز آواز نے مجھے اپنی جگہ منجمد کر دیا …
’الف ادھر آؤ۔ ‘
میں خاموشی سے آگے بڑھا اور ایک کرسی پر سمٹ گیا —
پاپا نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھایا اور مجھے اپنے حلقے میں لے کر ممی سے مخاطب ہوئے —
’اب اپنے الف کی سالگرہ میں کتنے دن رہ گئے ہیں۔ ‘
’چوبیس کو ہے۔ دو دن اور ہیں ‘
’دو دن اور — ؟‘
’’ہاں کیوں … ‘‘
’’دو دن تو بہت کم ہیں ‘‘
’’ہاں۔ کم تو ہیں ‘‘
’لوگوں کو بلانا بھی تو پڑے گا اور انتظام بھی تو کرنا ہے۔ ‘
’وہ سب ہو جائے گا۔ ‘
’مگر کب؟‘
’’آج ہی — آپ کھانے کا انتظام تو کریں۔ بلانے کا مجھ پر چھوڑ دیں۔ ‘‘
پاپا خاموش ہو گئے۔ پھر جب انہیں میری’ پراسرار خاموشی‘ کا احساس ہوا تو وہ قدرے چونکتے ہوئے میری طرف مڑے —
’’ہاں۔ تو تم کہہ رہے تھے کہ تمہاری کاپیاں سب بھر گئی ہیں۔ کتنی لادوں۔ ؟‘‘
’چھ۔ ‘ میں نے جبرا ً مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
پاپا ممی کی طرف دیکھ کر بے بات کی ہنسنے لگے تھے —
’’دیکھ رہی ہو الف کو — کتنا سمجھدار ہو گیا ہے۔ اب تو بدمعاشی بھی نہیں کرتا۔ چپ رہتا ہے۔ ‘‘
ممی کچھ سوچتی رہیں۔ کچھ بولیں نہیں —
’’ٹھیک ہے جاؤ‘‘
میں وہاں سے اٹھا اور اندر کی طرف جانے لگا۔ ممی کی سرگوشی نے میرے کانوں میں جیسے تیزاب انڈیل دیا تھا —
’’تم کیاسمجھتے ہو — الف کی خاموشی کوئی اچھی چیز ہے۔ ارے ہنسنے ہنسانے کی عمر ہے اور اس میں عمر میں خاموشی۔
پاپا نے سمجھاتے ہوئے کہا — تم یوں ہی باؤلی ہو جاتی ہو — ذراسی بات میں گھبرا جاتی ہو۔ بس دیکھنا آج کل میں ٹھیک ہو جائے گا اور پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ دیکھنا خوب قہقہے بکھیرے گا۔
٭٭٭
دس بجے مسز ڈولچی والی آ دھمکیں۔ آج ان کے ساتھ بچے نہیں آئے تھے۔ وہ اکیلی آئی تھیں۔
بند دروازے پردستک پڑی اور ایک کانپتی تھرتھراتی آواز تیزی سے گونجی … بہو … او بہو …
ہم سمجھ گئے … ڈولچی والی آ گئیں —
ان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ سے حیرت ہوئی ہے۔ اتنی عمر میں بھی وہ اتنا کیسے چل پھر لیتی ہیں۔
ممی نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا —
نوج، بچے جینا حرام کر دیتے ہیں ‘۔
’’مگر ہوا کیا۔ آپ تو بچوں سے؟ — ممی نے حیرت سے کہا … مسز ڈولچی والے کے ہونٹوں پر بلا کی مسکراہٹ سمٹ آئی —
’’کیا کہوں بہو۔ آنے نہیں دیتے — ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ مگر سوچا کچھ دیر تمہارے یہاں بھی بیٹھ رہوں۔ آنے لگی تو بچوں نے اتنے ہنگامے کیے کہ پوچھو نہیں۔ بس یوں سمجھو جی جان چھڑا کر بھاگی ہوں۔ ‘‘
اتنا کہہ کر وہ دھم … م … سے مسہری پر بیٹھ گئیں —
مسہری کے دوسرے کنارے پر میں بیٹھ گیا —
’کیوں۔ کوئی شیطانی کرے گا کیا؟ وہ مسز ڈولچی والے نے اپنے دونوں گالوں کو پھلاتے ہوئے کہا۔ پھر ممی کی طرف مڑیں۔
’میں سمجھ گئی — وہ منچندا کے لڑکے بھی جب شیطانی کے موڈ میں آتے ہیں نا، تو ایسے ہی خاموشی سے آ کر میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ میں تو سمجھ جاتی ہوں۔ مگر انجان بنی رہتی ہوں۔ اور وہ بچے … مسز ڈولچی والی زور زور سے بچوں کی طرح کھلکھلا کرہنس پڑی تھیں۔
’’میرے یہ پتلے پتلے اجلے بال مسہری کے کناروں سے باندھ دیتے اور اور پھر زور زور سے ہنسنے لگتے جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو … ’تو بھی کوئی تیر مارے گا کیا … ؟‘
’نہیں … ‘
میں نے چبا چبا کراس چھوٹے سے لفظ کو ادا کیا۔ مسز ڈولچی والی پھر ممی سے اپنی لمبی چوڑی گفتگو میں گم ہو گئیں۔ اور میں غور سے ان کے جھری نما چہرے کو پڑھنے لگا۔ پچ پچا گال۔ اندر کودھنسی سکڑی آنکھیں۔ جھریوں میں سمٹا چہرہ۔ پوپلے ہونٹوں سے پھوٹتی ہوئی زندہ دل ہنسی۔ اجلے بلاؤز میں دھنسا ہوا چپٹا سینہ۔
اور پھر …
کلینڈر ایک لمحے میں پھڑ پھڑاتے ہوئے تیس چالیس سال پہلے لوٹ گیا —
تیس چالیس سال پہلے —
تب کی، ڈولچی والی کیسی ہوں گی — ؟
جسم کیسا ہو گا —
سینہ کیسا ہو گا —
اور — ؟
ایک زندہ دل گاتی ہوئی ندی تھی —
ماحول میں گونجتا ہوا نغمہ تھا —
ایک شگفتہ، شاداب چہرہ تھا —
ایک پرکشش جسم کا ایفل ٹاور تھا —
اور غباروں کی طرح پھولا ہوا —
ایفل ٹاور — لوگ فتح کا جشن منانے آتے ہوں گے — لوڈولچی والی —
اور —
وہی۔ مست — تیزی سے بہتی ندی۔ گیت گاتی ندی —
پہاڑی کی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ندی —
ندی کے مست مست نغمے وادیوں میں پھیل جاتے ہوں گے۔ ہوائیں بوسہ لیتی ہوں گی۔ آبشار مستی سے جھومنے لگتے ہوں گے۔ درخت سرشاری کی کیفیت میں ہلنے ڈولنے لگتے ہوں گے۔
— لہریں جوگن بن جاتی ہوں گی۔
اور پھر پہاڑ اور ندی کا مشترکہ گیت گونج اٹھتا ہو گا —
— مگر نہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ میرے سامنے کھل جاتا اور ایک کھیل … ایک گمشدہ تصویر زہریلے ناگ کی طرح پھن مارے میرے ذہن کے پردوں پر زندہ ہو جاتی اور میں وہی پرانا کھیل دیکھتا۔ وہی چیل اور کوؤں کی چھینا جھپٹی کا کھیل۔ وہی اندھیرے تاریک کنویں میں اترے ہوئے دو لوگ — وہی وحشیانہ حرکتیں … وہی نوچنے کھسوٹنے کے مناظر …
ذہن کی نسیں چٹخنے لگتیں — اور تصویر کے اس دوسرے رخ میں میرے سامنے مسز ڈولچی والی کھل کرسامنے آ جاتیں — اور ایک نفرت … تیز نفرت جیسی شے لمحہ لمحہ میرے اندر چیخنے لگتی اور ایک گندہ، بدبو دیتا ہوا جسم میرے سامنے آ جاتا۔ مجھے اس جسم سے ڈر لگتا تھا۔ میں اس جسم سے دور بھاگتا تھا —
اور اسی لمحہ مجھے مسز ڈولچی والی اتنی بری معلوم ہوئیں کہ مجھے ابکائیاں آنے لگیں۔ میں نے ایک نفرت بھری نگاہ اس بری عورت پر ڈالی اور سہماسا کمرے سے باہر نکل گیا —
٭٭٭
وہ دن میرے لیے بہت عجیب سادن تھا۔ خاموشی نے مجھے اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ کسی سے بات کرنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ اور وہی گھناؤنا کھیل ہر لمحہ میرے دل و دماغ میں انگڑائیاں لے رہا تھا —
وہاں سے ہو کر ڈیڈی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ ڈیڈی آفس چلے گئے تھے۔ اور ان کی غیر موجودگی میں یہ کمرہ سونی دی اور راجن بھیا کے اختیار میں آ جاتا ہے۔ کمرے میں تینوں آدمی بیٹھے ہوئے محو گفتگو تھے — راجن بھیا کچھ بول رہے تھے اور سونی دی اور منی دی کے قہقہے فضا میں تحلیل ہو رہے تھے —
مجھے دیکھتے ہی منی زور سے بولی — آؤ الف!
نہیں۔ ‘
میں وہاں سے گزرنے لگا —
سونی دی کی آواز سنائی پڑی — جانے کیا ہو گیا ہے اسے — کچھ سمجھ میں نہیں آتا —
’پاگل — راجن بھیا نے برجستہ کہا — ایکٹنگ کرتا ہے۔ دیکھنا۔ دوچار روز میں ٹھیک ہو جائے گا‘۔
وہاں سے ہو کر افسردہ قدموں سے کوٹھے کی سیڑھیاں طے کرنے لگا — اوپر والے کمرے میں جا کر بستر پر بے دلی سے دھنس گیا۔ کچھ میگزین اٹھا لی۔ اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔
میگزین کے ایک ورق پر میری نگاہ مرکوز ہو گئی۔ وہی ننگا پن — ننگا مرد۔ ننگی عورت — اور وہی گھناؤنا کھیل —
جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں — میگزین سانپ کی طرح ذہن کو ڈسنے لگا — فوراًاسے بند کیا اور اسے اپنی جگہ رکھ دیا۔ ایسالگا جیسے ساری دنیا پر اس گھناؤنے کھیل نے قبضہ کر لیا ہو — ہر جگہ یہی گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ تہذیب نے اپنے جسم کالباس اتار کر پھینک دیا ہو —
سیڑھیوں پر قدموں کی تھاپ گونجی۔ کوئی اوپر آ رہا تھا۔ بے دلی سے میں نے آنکھیں موند لیں —
قدموں کی چاپ میرے دروازے پر آ کر رک گئی تھی —
میں نے آنکھیں کھولیں۔ سامنے ممی کھڑی تھیں —
’الف‘ اسکول کیوں نہیں گئے۔ ؟‘
’دل نہیں تھا۔ ‘
دل کیوں نہیں تھا؟‘
’طبیعت ٹھیک نہیں ہے — میں نے اکتائے ہوئے جواب دیا۔
’کیا ہوا طبیعت کو؟‘ ممی نے پریشانی سے پوچھا۔
’بس یونہی کوئی خاص نہیں۔ ‘
’ڈاکٹر کو بلاؤں کیا؟‘
’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ‘
’پھر کیا بات ہے؟ وہاں اسکول میں بھی تمہارا انتظار ہو رہا ہو گا — ‘
’وہ تو ہے‘
’تمہیں جانا چاہئے تھا۔ اسکول اس طرح ناغہ نہیں کرتے۔ اور اگر طبیعت میں کچھ خرابی ہے تو کھل کر کہو۔ ‘
’نہیں، کچھ نہیں ہوا ہے۔ ‘
’ٹھیک ہے۔ ‘
ممی واپس لوٹ گئیں۔ میں نے راحت بھری سانس لی۔ جیسے کسی دیو کی قید سے آزاد ہوا ہوں۔ ہونٹوں پر تلخی گھل گئی تھی۔ جانے کیوں آتی ہیں بار بار — ایسے ہی مجھ سے ہمدردی ہے تو پھر بند کیوں نہیں کرتیں … بند دروازے کے پیچھے کھیلے جانے والا وہ گھناؤنا کھیل —
ماسٹر جی کہتے ہیں پانی میں لاتعداد پلو(کیڑے) ہیں۔ ۔ ۔ جنہیں Bacteria کہتے ہیں۔
تو پھر اس گھر میں کیا ہے —
سماج میں سانس لینے والے ان گھناؤنے جانوروں کے لیے کون سانام دینا پڑے گا … پلو … Bacteria —
Bacteria یعنی پلو … پلو یعنی کیڑا … پھر میرے ذہن میں ایسے کتنے ہی لاتعداد کیڑے جمع ہونے لگے —
بیکٹیریا —
پھر سوشل سائنس میں پڑھا ہوا وہ جملہ یاد آیا۔ انسان ایک سماجی جانور ہے۔
MAN IS A SOSIAL ANIMAL
میرا جسم جل رہا ہے —
— ممی جا چکی ہیں۔
میرا جسم پگھل رہا ہے —
— مسز ڈولچی والی رقص کر رہی ہیں۔
میرا جسم آگ کا گولہ بن چکا ہے —
— میں اسکول نہیں گیا۔
جسم میں سانپ سرسرارہے ہیں —
— دنیا اتنی گندی کیوں ہے؟
جسم نیلا پڑتا جا رہا ہے —
— لوگ کپڑے کیوں اتار تے ہیں۔ ایک گندے میلے جسم کو دکھانا کیوں چاہتے ہیں۔ کیوں چاہتے ہیں ؟
یہ کیسا کھیل ہے۔ جو گھناؤنا بھی ہے حسین بھی۔
جو گناہ بھی ہے اور ثواب بھی — جلوہ بھی ہے۔ عذاب بھی —
اور پہلی بار … ہاں اس دن پہلی بار ایک زندہ دل ہنسی میرے ہونٹوں سے باہر نکلی اور ہوا کے خوشگوار جھونکوں کالمس تیزی سے میرے پاس سے ہو کر گزر گیا …
سوال پھر اٹھا … یہ کیسا کھیل ہے … ؟
اور جواب ملا … حکیم مقنع —
’’حکیم مقنع‘‘
اور میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا۔
یہ گھناؤنا کھیل حکیم مقنع ہے۔
میرا سارا وجود ہنسی کا پیکر بن گیا تھا۔ میں دیر تک دل کھول کر ہنستا رہا۔
ایک دن یونہی کتاب پلٹ رہا تھا کہ حکیم مقنع کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ داستان اتنی دلچسپ تھی کہ میں دیر تک لطف اندوز ہوتا رہا۔
حکیم مقنع ایک بہت بڑے حکیم اور سائنسداں تھے۔ اپنے علم کی بدولت انہوں نے اپنے محل میں چاند اگائے تھے۔ جوآسمانی چاند کی طرح مقررہ وقت پر زمین کی سرحد سے نکل کر چالیس میل اوپر جا کر پورے آب و تاب کے ساتھ جگمگانے لگتا — یہ کارنامہ کوئی معمولی اور کسی ایرے غیرے کا کارنامہ نہیں تھا۔ اس کارنامے سے ان کی عزت میں چار چاند لگ گیا تھا اور لوگ انہیں خدا تسلیم کرنے لگے تھے —
حکیم مقنع کا پورا چہرہ اور جسم ہمیشہ نقاب کی زد میں رہتا — جب نادان بندوں نے اپنے خدا کے جلوے دیکھنے کی التجا کی … تو جواب ملا … ناممکن … میرا جلوہ دیکھ کر تو غش کھا جائے گا۔ یہ پورا جسم روشنی کا ایک ہیولیٰ ہے … تیری آنکھوں میں وہ تاب نہیں جوتو اس جلوہ کو دیکھ سکے —
حکیم مقنع نے کئی کارنامے دکھائے۔ اور خدائی کے ایسے ایسے معجزے دکھلائے کہ لوگوں کو ان کے خدا کے نہ ہونے میں شک ہی نہیں رہ گیا تھا …
پھر جب ایک دن اس نقلی خدا کا پول کھلا اور حکیم مقنع کے سرسے نقاب ہٹائی گئی تو لوگوں نے اپنے جلے ہوئے خدا کا دیدار کیا۔ ایک بھدا، بدنما جلا ہوا چہرہ۔ ایک ہیبت ناک چہرہ، ایک وحشی درندے کا چہرہ —
حکیم مقنع کی کہانی اسی وقت ختم ہو گئی —
— مگر یہ کہانی ختم کہاں ہوئی تھی —
یہ کہانی تو روپ بدل بدل کر بار بار سامنے آتی رہی۔ کبھی ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کی شکل میں۔ اور کبھی —
حکیم مقنع — ڈاکٹر جیکل اور مسٹرہائیڈ اور — وہ گندہ کھیل —
بند دروازے کے پیچھے کا کھیل —
اس کھیل نے آہستہ سے سرگوشی کی —
مجھے پہچانو۔ میں حکیم مقنع ہوں۔ ہاں، تمہارا حکیم مقنع — ظاہر سے خدا باطن سے شیطان —
مجھ میں ڈوب، ابھر کر دیکھو —
میرے دو نہیں، دو ہزار چہرے ہیں۔
میرے بد نما چہرے پر مت جاؤ۔ اس کھیل کو غور سے دیکھو۔ کیا یہ سچ مچ برا ہے اور گھناؤنا — آہ، تم غلط ہو میرے بچے — یہ تو … لذت کی انتہا ہے، انسان کی معراج — منزل — بلندی — عروج — اور تسکین کاسامان۔ آہ، تم اس کھیل کے دوسرے رخ کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے — یہ باطن میں چاند ہے۔ چاند۔ جس میں دھبے نہیں ہیں، یہ صرف روشن اجالا ہے — میں ہی حکیم مقنع ہوں —
میں نے بے دلی سے اپنی آنکھیں موند لیں …
مضبوطی کے ساتھ ایک خواہش میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ گئی تھی۔ ممی ڈیڈی کو تو نہیں مگر راجن اور منی دی کو ضرور روکوں گا۔ انہیں سمجھاؤں گا۔ بھگوان کے لیے یہ سب بند کرو۔ تم نہیں سمجھتے ہو۔ تمہاری یہ چنچل کھلکھلاہٹ مجھے کیسی ضرب پہنچاتی ہے۔ تمہارے ذریعے کھیلا گیا یہ کھیل مجھے کیسی اذیت دیتا ہے۔ مجھے نفرت ہے۔ اور اس کے چلتے تم سب میری نگاہ میں نفرت کے مستحق بنتے رہے ہو۔ بند کرو ابھی سے — یہ سب۔ بند کرو۔ ورنہ میری نسیں اتنی چٹخ جائیں گی کہ پھٹ جائیں گی اور میرا قصہ اس صفحہ ہستی سے ختم ہو جائے گا۔
’الف کھانا کھالو۔ تمہاری پیشانی گرم ہے۔ ‘ —
کسی کے نرم ہاتھوں کی تپش پا کر اچانک میں کانپ اٹھا — واقعی میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ میرے پاس سونی دی۔ پریشان سی کھڑی تھیں۔
’تمہاری طبیعت خراب ہے۔ ‘
’نہیں ‘ — میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ڈائننگ ٹیبل پرکھانا لگ چکا تھا۔ کھانے کی میز پر خلاف توقع گہرا سناٹا ماحول پر طاری رہا۔ میں جان رہا تھا۔ ماحول میں پھیلی ہوئی اس خاموشی کی واحد وجہ میں ہوں —
کھانا کھانے کے بعد پروگرام کے مطابق میں راجن بھیا کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ اور ان کی ریڈنگ ٹیبل کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی وقفے کے بعد مسکراتے اور قہقہے بکھیرتے ہوئے راجن بھیا اور منی دی اندر داخل ہوئے۔ میری موجودگی نے ان کے ہونٹوں پر تلخی بکھیر دی تھی۔ —
’ تم یہاں … ‘راجن بھیا نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔
’ہاں۔ یہی سوؤں گا۔ ‘ میں نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
’مگر تمہارا بستر تو اوپر ہے۔ —
’اوپر جانے کی خواہش نہیں۔ ‘
’مگر یہاں ہم لوگ پڑھیں گے۔ ‘
’پڑھئے۔ میں تو یہاں بیٹھا ہوں — اس کرسی پر — ہنگامہ نہیں کروں گا۔ ‘
’مگر ڈسٹربنس تو ہو گا۔ ‘
اس بار منی دی بھی مسکراتی ہوئی میری طرف دیکھنے لگی تھیں — ہاں الف! یہاں ہم لوگ پڑھیں گے۔ تم اوپر جاؤ نا … ‘
’نہیں — میں نے مضبوط ارادے کے ساتھ جواب دیا۔
جھنجھلائے سے دونوں بستر پر گرگ ئے — راجن بھیا نے ایک کتاب کھینچ لی — اور منی دی سے کچھ باتیں کرنے لگے — دونوں کی آنکھوں سے ناگواری اور جھنجھلاہٹ کا ملا جلا رنگ ظاہر ہو رہا تھا —
میں آرام سے کسی فاتح کی طرح کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ نظریں اب بھی کبھی ونڈو اسکرین سے باہر اور کبھی کنکھیوں سے دونوں کے اترے چہروں کا جائزہ لے رہی تھیں۔
راجن بھیا نے آہستگی سے منی د ی کا ہاتھ تھام لیا تھا — منی دی نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی — مگر وہ کسی بلی کی طرح ڈری ڈری اور سہمی سی دکھائی پڑ رہی تھیں۔ راجن بھیا کا پورا چہرہ آگ کی تیز بھٹی میں جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ پھر محسوس ہوا راجن بھیا کے کانپتے ہونٹوں نے منی دی کے ہونٹوں سے سرگوشی کی ہو … اور ادھر آؤ … اور ادھر سے دھیما احتجاج اٹھا ہو … نا!
پھر احتجاج بہتی ہوئی ندی کے تیز ریلے میں بہہ گیا ہو — کنکھیوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے راجن بھیا نے منی دی کے چہرے کو اور قریب کیا — اور ایک ترچھی نگاہ باہر کی طرف دیکھتے ہوئے میرے چہرے پر ڈالی — اور منی دی کے سرخ کانپتے ہونٹوں پر اپنا ہونٹ دکھ دیا —
اور اچانک میرے سارے جسم میں طوفان پیدا ہو گیا … میں تیزی سے اٹھا اور نفرت و حقارت کی چبھتی ہوئی نگاہ ان کی طرف ڈالتا ہوا تیز قدموں سے دروازے سے باہر نکل گیا —
اس درمیان دونوں تیزی سے ایک دوسرے الگ ہو گئے تھے — اور دونوں نے سہمی ہوئی حالت میں بس اتنا ہی کہا تھا … اس نے دیکھ لیا ہے، ہاں اس نے دیکھا ہے۔
اور راجن بھیا نے بڑے اطمینان سے سرکو جھٹکا دیا تھا —
’دیکھنے دو‘ و ہاں سے ہو کر میں تیزی سے باہر کی طرف بھاگا — ابو والا کمرہ بند تھا۔ ایک ’زہریلی‘ نظر اس بند کمرے کی طرف ڈالتے ہوئے تیز قدموں سے کوٹھے کی سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ اوپر والے ایک کمرے میں سونی دی لیٹی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں وہی کتاب تھی — جسے صبح میں اس نے دیکھا تھا اور تیزی سے ان گھناؤنی تصویروں کو دیکھ کر بند بھی کر دیا تھا — سونی دی پر غصہ بھری نگاہ ڈالتے ہوئے تیزی سے دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔ اور بستر پر گر کر لمبی لمبی سانس لینے لگا۔ …
میرا سارا جسم آگ کی تیز بھٹی میں تپ رہا تھا۔
٭٭٭
رقص سلگتی آنکھوں کا
(۱۰)
اسکول کی سیڑھیاں طے کرتے ہی لزی سے ملاقات ہو گئی۔ لزی نے اپنا مخصوص یونیفارم پہن رکھا تھا اور اس لباس میں وہ کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ تیزی سے میری طرف بڑھی۔ اور اس کے ہونٹوں پر ایک شگفتہ سی مسکراہٹ کا رنگ بکھر گیا۔ جواب میں ‘میں بھی آہستہ سے مسکرادیا — میرے قریب آ کر وہ ٹھٹھک گئی …
’’جاؤ الف !میں تم سے بات نہیں کرتی۔ شام کو گھر کیوں نہیں آتے ہو؟‘‘
’’میری ممی مجھے شام میں ہوم ورک کرنے کو بیٹھا دیتی ہیں۔ ‘‘
’کل اسکول بھی نہیں آئے؟‘
’ہاں لزی کل۔ اسکول بھی نہیں آیا۔ ‘
مگر کیوں — ’ کیا ہوا ہے تمہیں۔ ‘
’کچھ نہیں لزی۔ ‘
’’کچھ ہوا ضرور ہے؟‘‘
’نہیں — کہہ دیا، نا — ‘
’کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے۔ تم پہلے ایسے نہیں تھے —
لزی کے ہونٹوں پر پریشانی سمٹ آئی تھی۔
’آج کل بہت اداس رہتے ہو۔ کھوئے کھوئے سے — کیوں ؟‘
’کوئی بات نہیں لزی‘
’آؤ‘ میر ے ساتھ آؤ‘
لزی مجھے لے کر آگے بڑھ گئی۔ ساڑھے نو بج رہے تھے۔ گھنٹی لگنے میں ابھی آدھے گھنٹے کی دیری تھی۔
اسکول کے خوشنما پارک میں آ کر ایک بینچ پر ہم دونوں بیٹھ گئے۔
’بتاؤ گے نہیں الف‘
ایک چھوٹی موٹی گڑیا کی طرح وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ ششدر حیران سی — میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اور کھل کر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔
’لزی۔ کچھ بتاؤں گا تو سمجھو گی بھی؟‘‘
’ہاں۔ ‘
’ایک بات بتاؤ گی‘
’ہاں ‘
یہ جنگ کیوں ہوتی ہے۔ ‘
’’جنگ ؟‘‘
’’ہاں جنگ — ‘‘
’کون سی جنگ کی بات کر رہے ہو؟‘
’’وہی جنگ، خونی جنگ — بارود اور مشین گنوں والی جنگ — ٹینکوں اور توپوں والی جنگ۔ انسانی قربانی والی جنگ۔ آج کل ڈیڈی ممی روز اسی جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔ کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے۔ آج صبح میں، میں انہیں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ صبح کا اخبار دیکھا ہے تم نے ؟ کیستوریا میں فوجی بغاوت پھیل گئی — مجھے کیا معلوم۔ ڈیڈی بتا رہے تھے۔ وہاں کے جنرل نے وہاں کے پرائم منسٹر کو شوٹ کر دیا۔ اور خود وہاں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی — ‘‘
’پھر کیا ہوا۔ … ؟
’اور پھر جانتی ہو کیا ہوا۔ جیسا ایسے موقع پر آتا ہے۔ عوام میں بیزاری۔ خوف۔ دراصل یہ سارے حکمراں یہی چاہتے ہیں کہ آپ خاموش کر دیئے جائیں تاکہ یہ آسانی سے آپ پر حکومت کرسکیں — جنرل نے پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا — ٹینکر اور توپ سے شہر کے دہانے بھر دیے گئے۔ پرائم منسٹر کے کارکنوں کو ایک ایک کر کے گولی مار دی گئی۔ اب بتاؤ۔ ہم کس صدی میں آ گئے ہیں لزی — یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
’’پاپا بتا رہے تھے — وہاں کی حالت اچھی نہیں ہے — بڑی خراب ہے اور خاص کر جو لوگ بعد میں وہاں جا کر بس گئے ہیں ان کی تو خیر نہیں۔ ‘‘
’پاپا ایک اور بات بتا رہے تھے۔ ‘
میں نے قدرے سوچتے ہوئے کہا … وہاں باہر کے لوگوں کی عزت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جب سے یہ نیا جنرل آیا ہے تب سے ’ ملک چھوڑو‘ کا نعرہ اور بھی زیادہ بلند ہو گیا ہے۔ احتجاج کا جواب یہ لوگ گولے اور بارودوں سے دیتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں بیچ سڑک پر ننگی کر کے کوڑوں سے ماری جاتی ہیں —
اور جانتی ہو، پاپا یہ بھی کہہ رہے تھے … وہ لوگ ان لڑکیوں کے ساتھ بہت گھناؤنی حرکتیں کرتے ہیں۔ جانتی ہو لزی … ؟
میں نے لزی کی آنکھوں میں جھانکا اور اس نے معصومیت سے نفی میں سرہلا دیا۔
’پاپا مجھے یہ سب نہیں بتاتے‘
میرے لہجے میں کڑواہٹ کھل گئی تھی۔ چہرے کے نقوش سکڑ گئے تھے۔ آنکھیں جیسے ابل آئی ہوں …
’یہ کیا ہو رہا ہے تمہیں الف … ‘
اس کی آواز سن کر میں چونکا اور عام حالت میں خود کو لانے کی کوشش کرنے لگا —
اسی وقت رنگ ٹن ٹنائی اور ہم الگ الگ کلاسوں میں چلے گئے —
٭٭٭
کلاس کے خاتمے کے بعد وہی پراسرار خاموشی اپنے وجود پر مسلط کیے ہوا میں باہر نکل آیا۔ اپنے ساتھیوں کے شور و غل اور ہنگاموں سے الگ ایک میں ہی تھا جو اکیلا اور ان سے کٹا کٹا چل رہا تھا — میرے قدموں میں افسردگی اور تھکن سرایت کر گئی تھی۔ داہنے ہاتھ میں کتاب تھامے آگے بڑھتے ہوئے میرے قدم اچانک ٹھٹھک کر رک گئے تھے۔ ایک جگہ کچھ بچوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا اور بچے دونوں ہاتھوں سے تالیاں پیٹتے ہوئے شاید بچے کوئی دلچسپ منظر دیکھ رہے تھے۔ میں بھی آگے بڑھا۔ اور اچانک میری آنکھیں نفرت کی تیز تیز لہروں سے ٹکرانے لگیں —
سامنے ایک نر کتے کا پلا، مادہ کتے کے ساتھ وہی گھنونا عمل دہرا رہا تھا — نر، مادہ کے جسم پر چڑھا ہوا بے شرمی کے انداز سے حرکتیں کر رہا تھا — میں خود کو لمحہ لمحہ شدید غصے کی کھائی میں گرتا ہوا محسوس کر رہا تھا — میری نسیں بھینچ رہی تھیں اور ان میں تناؤ آ رہا تھا۔ آنکھیں غصے اور نفرت سے ابل رہی تھیں۔ چہرہ شکن آلود ہو رہا تھا۔ ہاتھوں کی مٹھیاں غصے سے بھینچ گئی تھیں —
بچے اب بھی تالیاں پیٹ رہے تھے۔ لزی کب میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی، مجھے معلوم بھی نہیں ہوا۔ اس نے میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کی طرف دیکھا۔ اور میری غصے سے ابلتی ہوئی آنکھوں کو بھی — پھر آہستگی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا — میں نے بے دردی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا — اور پاس پڑا ہوا ایک موٹا وزنی پتھر اٹھا لیا۔ اور آناً فاناً وہ پتھر غصے اور نفرت سے ابلتے ہوئے زورسے اس کتے کی طرف اچھال دیا —
اور پھر ایک تیز سناٹا چھا گیا۔ ایک زور کی ’کیوں ‘ … کی آواز کے ساتھ کتا تیزی سے دوسری طرف گر پڑا تھا۔ اس کے پیٹ میں چوٹ آ گئی تھی —
بچوں کے جھنڈ میری اس عجیب حرکت کو حیرت سے دیکھنے لگے تھے — اور ایک موٹے ہاتھ نے تیزی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا —
’یہ کیا الف۔ کیا کیا تم نے پاگل؟‘
میں نے دیکھا۔ یہ میرے ماسٹر جی تھے۔ جن کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں۔ بچے اب بھی حیرانی سے میری طرف دیکھ رہے تھے —
لزی کا چہرہ بھی پریشان معلوم ہو رہا تھا —
’چھوڑ دیجئے میرا ہاتھ سر۔ ‘
میں نے تیزی سے اپنا ہاتھ جھٹکا اور گرے ہوئے کتے کی طرف ایک غصہ بھری نظر ڈالتا ہوا تیز قدموں سے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔
٭٭٭
سانپ سیڑھی
(۱۱)
یہ سب کیا تھا۔ یہ کیا ہو گیا — میرے لیے ان سب کا تجزیہ آسان نہیں ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے، میرے اندر ایک جانور سڑ گیا ہے — اور اب اس جانور کی لاش بدبو دینے لگی ہے۔
بیمار بیمارسی لزی کا ہاتھ جھٹک کر میں واپس تو آ گیا، مگر سارا واقعہ، سارے چہرے دیر تک آپس میں گڈمڈ، گڈمڈ ہوتے رہے —
نر اور مادہ کتیا —
لیکن انسان کیا ہے۔ ؟
بچے تماشہ کیوں بنائے ہوئے تھے۔ کیا جانتے ہیں اس کھیل کے بارے میں ؟
کھیل؟
’تم کیا جانتے ہو اس کھیل کے بارے میں، میں خود سے پوچھتا ہوں۔
کچھ بھی نہیں — مگر مجھے اس کھیل سے نفرت ہے۔ مجھے سب سے نفرت ہے۔ انسانوں سے۔ اپنے آپ سے — ماسٹر جی سے —
ماسٹر جی کہنا کیا چاہتے تھے؟
ماسٹر جی نے میرا ہاتھ کیوں پکڑا تھا؟
کیا ماسٹر جی بھی اس منظر کو دیکھ رہے تھے؟
سانپ سیڑھی … ان دنوں مجھے لوڈو کھیلنا بیحد پسند تھا۔ لوڈو میں ایک طرف سانپ سیڑھی کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ غلط پانسہ چلتے ہی سانپ کاٹ لیتا تھا اور ہم پھر سے پیچھے لوٹ آتے تھے …
زندگی ’لوڈو‘ کا کھیل بن گئی تھی۔
ہر خانے پرسانپ تھا۔ آپ پانسہ کہاں چلیں گے — ہر خانہ پرسانپ …
سانپ رینگ رہے ہیں —
مادہ اور نر کتا —
لوڈو کا کھیل۔ سانپ سیڑھی — سانپ رینگتا ہے۔ سیڑھی لڑکھڑاتی ہے۔ اور سیڑھی گر جاتی ہے۔ سیڑھی ٹوٹ جاتی ہے۔
میں اپنے کمرے میں آ گیا ہوں۔ اپنے بستر پر۔ لیکن — یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔
الف — سب تمہاری طرح نہیں سوچتے۔
تم ایسے کیوں ہو گئے ہو —
میں نہیں جانتا —
جاننا تو پڑے گا۔ الف —
امی میرے کمرے میں آئی ہیں۔ دیر تک خاموشی سے میری حرکتوں کو پڑھتی رہیں — پھرواپس لوٹ گئی ہیں —
’تم … تم گھر چھوڑ کیوں نہیں دیتے — یہ دنیا‘
’انسانوں کی بھیڑ سے باہر کیوں نہیں چلے جاتے — ‘
’ مگر کہاں جاؤں ؟‘
’کہیں بھی — ‘
’کہیں بھی، کہاں ؟‘
’اس کا جواب تو تم دو گے الف۔ ‘
میں کیا جواب دوں — جیسے میرا مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میری سالگرہ میں کتنے روز رہ گئے ہیں —
آوارہ خیالات سے نجات پانے کے لیے میں بار بار ذہن کو جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور سانپ سیڑھی کے کھیل بار بار میری آنکھوں کے آگے فریز ہو جاتے ہیں —
٭٭٭
کمیونزم اور ریپ
(۱۲)
صبح سے ہی گھر میں ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ ۲۴؍ تاریخ تھی۔ یعنی میری پیدائش کا دن۔ ایسے موقع پر بھی مجھے بہت عجیب سا احساس ہو رہا تھا — جیسے میں ایک بلی کا بکرا ہوں اور یہ پورا گھر مجھے لٹکانے لے جا رہا ہو — راجن بھیا کی کہی ہوئی بات ذہن میں گشت لگا رہی تھی … ’’ایسے لوگ لڑکیوں کے معاملے میں … تم بہت لکی ہو الف … تمہارا لکی نمبر چھ ہے … ایسے لوگ لڑکیوں کے معاملے میں … ‘‘
ذہن پھر آوارہ خیالات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ برے خیالات کو جھٹکا۔ اور خود کو معمول پر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ ممی روم سجانے میں جٹی ہوئی تھیں۔ راجن بھیا خریداری میں مشغول تھے۔ منی دی اور سونی دی باتیں کر رہی تھیں —
آج ۲۴؍ تاریخ ہے … آج کے دن میں پیدا ہوا تھا۔
گھوم پھر کر میں اسی نقطہ پر آ کر ٹھہر جاتا۔ میں پیدا کیسے ہوا تھا؟ لوگ پیدا کیسے ہوتے ہیں ؟ بچہ اس دنیا میں کیسے آتا ہے؟ـ اس کے وجود کی کیا صورت ہے … ؟
یہ سوال چپکے چپکے مجھے تنگ کر رہا تھا۔
لوگ اس دنیا میں کیسے آتے ہیں۔ الف، تم آج پیدا ہوئے تھے — ۲۴۔ ۲۴ مارچ — یعنی بس آج ہی کے دن … تم پیدا ہو گئے۔ جیسے سب پیدا ہو جاتے ہیں — انسان، جانور … اور — وہی لوڈو … سانپ سیڑھی کا کھیل۔ ماسٹرجی۔ سانپ سرسراتا ہوا، لوڈو سے اچھل کر میرے جسم میں اتر گیا تھا۔ سانپ میرے جسم میں رینگ رہا تھا۔ اور لوڈو کے کھیل میں وہی کتا داخل ہو گیا تھا —
سیڑھی اور کتا —
میں سانپ کے سرسرانے کی آواز سن رہا ہوں۔ آج میرا برتھ ڈے ہے۔ میری سالگرہ — میں بھی پیدا ہو گیا۔ آخر، میں بھی — سیڑھی اور کتا — سانپ اپنی زبان نکالے ڈسنے کے انتظار میں ہے …
۲۴مارچ — اور ظالم، الف، تم آخر پیدا ہوہی گئے —
٭٭٭
اور اچانک میں بہت عجیب سامحسوس کرنے لگا۔ میری نظروں کے آگے لمبی لمبی سیڑھیوں کی قطاریں تھیں۔ رنگ برنگی سیڑھیوں کی۔ اونچی نیچی سیڑھیوں کی — اور ہر سیڑھی کی اوپری منزل پر ایک موٹا تازہ دیو قامت کتا کھڑا غرّا رہا تھا — کتے کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور سیڑھی آہستہ آہستہ ہلنے لگی تھی — کتے کی غراہٹ لمحہ لمحہ تیز ہونے لگی تھی — اور اسی رفتار سے سیڑھی بھی ہلنے لگی تھی اور اچانک دونوں کا توازن بگڑ گیا تھا — سیڑھی اور کتا دونوں ہی زمین سے آ لگے تھے — سیڑھی چت ہو گئی تھی — اور کتا نڈھال ساٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگا تھا — اور پھر اچانک ہی یہ منظر ذہن سے چھلانگ لگا کر لوڈو کی بساط پر کھیلا جانے لگا تھا —
ٹھیک اسی وقت گھبرائے ہوئے راجن بھیا داخل ہوئے — ان کے ہاتھوں میں کچھ پیکٹ تھے اور چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ وہ حواس باختہ کمرے میں داخل ہوئے اور سامان کے پیکٹ ممی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے —
’اخبار آیا کہ نہیں۔ ‘
امی نے راجن بھیا کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا —
’کیا ہوا ہے؟‘
’غضب ہو گیا ممی۔ کل رات مایاتیا گرفتار کر لی گئی اور اسے بیچ چوراہے پر ننگی کر کے …
راجن بھیا ہانپ رہے تھے اور ان کا آخری جملہ بار یک سیسے کی طرح لمحہ لمحہ میرے کانوں میں انڈیلتا ہوامحسوس ہو رہا تھا —
’مایاتیا ماردی گئی۔ ‘
سونی دی اور منی دی کی آنکھوں میں گھبراہٹ تھی —
’ہاں ‘ وہ مجاہد تھی — جنگ آزادی کی مجاہد۔ وہ لڑتی رہی۔ سکھ چین لٹا کر لڑتی رہی — آخری دم تک لڑتی رہی۔ اپنوں کے لیے —
راجن بھیا نے ہر لفظ کھینچ کر کہا —
’اسی وقت جانے کہاں سے پھوپھی بھی آ گئی تھیں۔ ان کا چہرہ بالکل سپید ہو رہا تھا۔ آنکھیں خلا میں جھانک رہی تھیں —
انہوں نے بس اتنا ہی پوچھا — مایاتیا ماردی گئی۔
’ہاں پھوپھی کل … کل رات ہی … ‘
اس کے بعد پھوپھی نے کچھ نہیں پوچھا —
وہ خاموشی سے دبے پاؤں اپنے کمرے میں لوٹ گئی تھیں —
کچھ دیر کے بعد اخبار آ گیا۔ اور اخبار کی چھینا جھپٹی شروع ہو گئی —
جانے کیوں مجھے بھی افسوس ہو رہا تھا۔ یہ افسوس تھا یا کچھ اور ۔ میں سمجھ نہیں سکا مگر راجن بھیا کا وہی جملہ بار بار کانوں میں گونج رہا تھا — اسے بیچ چوراہے پر ننگی کر کے —
اخبار میں مایاتیا کی بڑی سی تصویر چھپی تھی —
میں نے تصویر کو غور سے دیکھا۔ مایاتیا ایک پرکشش بھرے بھرے بد ن والی لڑکی تھی۔ میں نے تصویر کو غور سے دیکھا — آنکھوں میں اس کا جسم لرز رہا تھا۔ میں خبر کی سرخی پڑھنے لگا۔
مفہوم بس اتنا تھا۔ ۔ ۔ کیستوریا، جنگ آزادی کی آخری امید بھی ختم ہو گئی —
کل رات باغی گروپ کی انتہائی اہم لیڈر مایاتیا کو اچانک پولیس نے اس وقت اپنی حراست میں لے لیا جب وہ نلہاڑی کے قریب کچھ لوگوں کے ساتھ سازش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ان کے ساتھ اس گروپ کے کئی اہم لیڈر بھی گرفتار کر لیے گئے۔ ملک کے خلاف لکھی گئی کئی تحریریں بھی پکڑی گئیں۔ جن میں بے باک اور ورغلانے والی انقلابی نظمیں اور غزلیں بھی تھیں۔ کئی ایسے پمفلٹ بھی پکڑے گئے۔ جس میں آزاد ہو کر ایک ساتھ لڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ بارود اور گولیوں کی بھی اچھی تعداد ان کے پاس سے حاصل ہوئی۔ مایاتیا پر قانون کی خلاف ورزی اور بھی کئی دیگر اہم الزامات لگائے گئے تھے —
سب سے اہم بات یہ تھی کہ گرفتار کر لینے کے بعد جنرل کے سپاہی اتنے زیادہ مشتعل ہو گئے تھے کہ ان لوگوں نے مل کر مایاتیا کو بیچ چوراہے پر ننگا کر دیا اور اس کی آبرو لوٹ لی۔ اخبار میں اس پورے ’حادثہ‘ کی تفصیل درج تھی۔ میں نے یہ خبر کئی بار پڑھی ہو گی۔ لیکن ہر بار بس انہی پاراگراف‘ کے آگے آنکھیں ٹھہر جاتی تھی۔ کیستوریا کے خطرناک فوجی۔ جوان مایاتیا۔ مایاتیا کا پکڑا جانا۔ اسے ننگا کیا جانا — ایک سپاہی جسم کے سب سے نازک حصے میں، غصے میں آ کر بندوق کی ’موٹھ‘ گھسیڑ دیتا ہے اور —
سب سے نازک حصے میں …
شاید میں اس سے آگے کچھ بھی نہیں سوچ پا رہا تھا۔
میں بس اسی ایک منظر کے آگے ‘فریز‘ کر دیا گیا تھا۔
٭٭٭
مجھ سے آگے نہیں پڑھا گیا۔ اخبار میں نے بند کر دیا۔ پہلے ہی صفحہ پر مایاتیا کی بڑی سی تصویر میری نگاہوں میں ناچ رہی تھی اور میں ذہن کے اسکرین پراس گداز بدن والی عورت کو محسوس کر رہا تھا جسے جنرل کے سپاہیوں نے ننگا کر دیا تھا اور اس کے سب سے نازک حصہ میں گن کی موٹھ کو داخل کر دیا تھا اور منظر بار بار میری نگاہوں کے آگے ناچ رہا تھا اور ایک بڑا عجیب سا سوال میرے ذہن میں جنم لے رہا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے جنرل کے سپاہیوں نے کیسا سکھ محسوس کیا ہو گا — ؟
مایاتیا ایک بہت ہی اہم لیڈر تھی۔ وہ ہمیشہ بندوقوں اور پستولوں سے لڑتی رہی —
اور آخر میں بندوق کی موٹھ اس کے نازک ترین حصہ میں داخل کر دی گئی —
مایاتیا زندگی بھر جنگ لڑتی رہی —
اور زندگی کے آخری لمحہ میں جنرل کے سپاہیوں نے اس کے جسم کے ساتھ ایک جنگ لڑی —
جب مایاتیا کا بھرا بھرا خوبصورت جسم سپاہیوں کے جسم کے نیچے آیا ہو گا اُف … دور تک لمبا سناٹا … موٹے تھل تھل جسموں کے نیچے — جنرل کے سپاہی جشن منا رہے ہوں گے … یاہو … وہ جھوم رہے ہوں گے۔ گا رہے ہوں گے۔ یا وہ جنگلی بن گئے ہوں گے اور ایک وحشیانہ کھیل سب کی آنکھوں کے سامنے شروع ہو گیا ہو گا —
کیا یہی حد ہے۔ انسان کی آخری حد — لذت اور اشتہا کی آخری حد۔ جنون کی آخری حد — جنگ کی آخری حد — پستولوں، گولیوں، بموں، دھماکوں، بارودوں کے بعد سسکاریوں، وحشیانہ حرکتوں، جھٹپٹا ہٹوں کی آخری حد —
وہ اکثر سنتارہتا تھا — ماسٹر جی سے — کبھی گھر کے لوگوں سے — اور راجن بھیا سے جو سینہ تان کر کہتے — وہ غریبوں کے لیے لڑتی ہے۔ اس نے غریبوں کو اپنے مظلوم بھائیوں کو … یہ نعرہ دیا تھا۔ حقوق مانگو نہیں۔ چھین لو۔ زبردستی — ظلم کا بدلہ ظلم سے دو۔ اینٹ کا جواب پتھرسے۔ ظلم سہنا پاپ ہے۔
ڈیڈی نے کہا، مایاتیا کمیونسٹ ہے …
راجن بھیا نے بتایا۔ مایاتیا کمیونسٹ ہے —
ماسٹرجی نے بتایا … وہ سچ کہتی ہے۔ حقوق مانگو نہیں چھین لو۔ زبردستی —
مایاتیا کمیونسٹ ہے —
تصویر کچھ لمحے کے لیے بدل گئی — اور اس نے دیکھا۔ جنرل کے سپاہی مادر زاد ننگی مایاتیا کے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں۔ مایاتیا چیخ رہی ہے۔ چلا رہی ہے —
مایاتیا کمیونسٹ ہے۔ وہ پکڑی گئی۔ اور جنرل کے سپاہیوں نے اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ اس کے ساتھ ریپ کیا۔
تصویریں گڈمڈ ہوتی ہیں اور ایک صاف شفاف تصویر ذہن کے اسکرین پر پھیل جاتی ہے —
مایاتیا کمیونسٹ ہے۔ اس لیے مایاتیا کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ کمیونسٹ کیا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ کس کے لیے لڑتے ہیں۔ کیوں لڑتے ہیں۔ ایک بہت عجیب ساخیال سانپ کی طرح میرے اندر سرسرا رہا تھا —
کمیونزم اور Rape۔
دونوں جنگ بھوک اور حقوق کی ہے — بھوک کے لیے روٹی نہیں تو جنگ کرو —
نہیں ملے تو چھین لو —
Rape کے لیے جسم چاہئے … جسم —
جسم نہیں ملے تو زبردستی کرو —
انسانی خواہش انہی ’بھوکوں ‘ کے ساتھ آج ریگستان کی تپتی ہوئی دھوپ میں جل رہی ہے — پیٹ روٹی مانگتا ہے۔ اور بھوک جسم مانگتی ہے۔ بھوک کے لیے جسم چاہئے۔ عورت کا بھرا بھرا جسم۔ روٹی چاہئے — بڑی بڑی تازی روٹی۔ دونوں کہاں سے ملے گی؟
دونوں کے لیے زبردستی کرو۔ زبردستی یعنی جنگ —
اور پھر اچانک مجھے احساس ہوا جیسے میری مٹھیاں آہستہ آہستہ بھینچنے لگی ہوں۔ اور چہرے کا رنگ بالکل بدل گیا ہو۔ اور ایک انقلاب میرے جسم میں انگڑائیاں لینے لگا ہو — ذہن خون، آگ، جنگ اور بھوک کے درمیان جب حد سے زیادہ کشمکش چلنے لگی تو گھبرا کر بالائی منزل پرچلا گیا اور ریلنگ سے عقب کی طرف بہتی ہوئی ندی کو دیکھنے لگا —
کل ہی کی تو بات ہے ہمارے پڑوسی کام ناتھ نے کہا تھا — اس بار بارش نہیں ہو گی — اس بار باڑھ نہیں آئے گی —
’ہاں اس بار نہیں لگتا ہے۔ ڈیڈی نے حامی بھری تھی … ہاں۔ لگتا ہے بارش نہیں آئے گی۔
میں نے بھی سوچا — باڑھ بڑی خوفناک چیز ہے۔ سب سامان سمیٹو۔ کوٹھے پر لے جاؤ۔ نقصان کا خوف ہر وقت ذہن پر مسلط رہتا ہے — خدا بچائے باڑھ سے —
لیکن باڑھ آ جائے تو —
لہریں باندھ توڑ دیں تو — ؟
پھر اگر یہ ندی بڑھ جائے … بڑھ جائے اور ایک ایساسیلاب آئے کہ پورا ملک، پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے۔ سب کچھ ڈوب جائے … سب کچھ فنا ہو جائے … تو … ؟
پھر کوئی جنرل کا سپاہی اس طرح مایاتیا کے ساتھ زبردستی نہیں کرے گا اور کوئی کمیونسٹ نہیں مرے گا —
پھر کوئی راجن بھیا گرمی کی تپتی دوپہر یا میں منی دی کے گرم جسم کے ساتھ چیل کوؤں کا کھیل نہیں کھیل پائیں گے۔
پھر کوئی …
اوہ … یہ سارا System ہی غلط ہے۔ یہ قدرت کا سارا نظام ہی غلط ہے — خدا اس سیلاب سے اس پوری دنیا کو ختم کرنے اور ایک نئے نظام کے ساتھ دوبارہ اس دنیا کو پیدا کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا۔ جسم اور بھوک سے پرے ایک نئی دنیا کا تصور، میرے ذہن میں شیش محل کی طرح تعمیر ہو رہا تھا —
٭٭٭
شام میں نڈھال سا اٹھا۔ بدن تھکا تھکامحسوس ہو رہا تھا — منہ ہاتھ دھوتے ہوئے ڈیڈی کی آواز سنائی دی۔
’الف!منہ اچھی طرح دھونا۔ صاف صاف کپڑے پہن لینا اور ہاں۔ اب تم بڑے ہو گئے ہو — پورے بارہ سال کے۔ اس لیے پارٹی میں کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے شرمندگی ہو۔ سب سے ہنس ہنس کر ملنا۔ ہنس ہنس کر باتیں کرنا —
میں خاموش رہا تو ڈیڈی نے پھر کہا۔
’سنو، کرو گے نا ایسا، جواب دو۔ ؟‘
’ہاں۔ ‘
’ہاں سے کام نہیں چلے گا۔ ٹھیک سے کہو۔ ‘
’ہاں ڈیڈی سب سے ملوں گا۔ باتیں کروں گا‘
میں نے لفظ چبا چبا کر کہا۔
ڈیڈی نے پھر کہا۔ ’’ شاباش! اب جھٹ سے تیار ہو جاؤ۔ چھ بجے سے لوگ آنے شروع ہو جائیں گے۔ ‘‘
٭٭٭
سالگرہ کی رات
(۱۳)
تیاری سے قبل خود کو بحال کرنے میں لگ گیا۔ راجن بھیا سے باتیں ہوئیں — سونی دی سے فلم پر گفتگو ہوئی — کچھ گانے گنگنائے — بے بات قہقہے بھی لگائے — اور یہ سب اس لیے کیا کہ میں خود کو خوش رکھنے کی کوشش کر رہا تھا —
چھ بجے جب سج دھج کر میں ڈرائنگ روم میں پہنچا، اس وقت وہاں، چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ مسز ڈولچی والی، انکل — ماسٹر جی، رگھوویر انکل — سلیمان صاحب اور ان کی بیوی بچے — اور بھی دیگر کئی لوگ جن کو وہ پہچانتا نہیں تھا۔ سب آ چکے تھے — ہال میں ڈھیر سارے اس کے جیسے ہی لڑکے بھی تھے جو نئے نئے سوٹ اور کپڑوں میں چہک رہے تھے —
ٹیبل پرسجا ہوا کیک رکھا ہوا تھا۔
ممی نے مجھے سب سے ملایا۔ میں بھی سب سے ملا۔ سب سے ہاتھ ملایا۔
دبی دبی ہنسی کی آوازوں میں گفتگو بھی ہوئی۔ بچوں کے ساتھ اچھلا کودا بھی۔
اسی وقت میں نے دیکھا کہ ماسٹر جی نے بابا کو اشارے سے بلایا اور کنارے لے گئے۔ مجھے کچھ تعجب سا ہوا اور خوف بھی آیا —
لوگوں سے کٹتا ہوا تیزی سے میں ان کے قریب پہنچ گیا — اور لکڑی کے ’پایہ‘ سے قریب کھڑے ہو کر ا ن کی گفتگو سننے کی کوشش کرنے لگا —
ماسٹر جی کہہ رہے تھے۔ الف کو آپ لوگ ڈاکٹر سے کیوں نہیں دکھاتے؟
’کیوں ‘؟ ڈیڈی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔
’آج کل وہ اسکول میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ کل بھی ایک عجیب بات ہوئی۔ ہوا یوں کہ دو کتے آپس میں کھیل رہے تھے کہ جناب آئے — پہلے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا۔ پھر پاس پڑا ہوا پتھر اٹھا کر اس زور سے کتے کو مارا کہ ہم سب ڈر گئے۔ وہ خاموش اور چپ چپ بہت عرصے سے رہنے لگا ہے۔ مگر اس قسم کی واردات پہلی بار ہوئی تھی — پھر جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کچھ پوچھنا چاہا تو اس نے غصے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ اور غصے میں بھنبھنا تا ہوا آگے بڑھ گیا۔ میں سمجھتا ہوں۔ یہ سب ذہنی پریشانی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مگر یہ بھی تو پتہ چلے کہ آخر اس ذہنی یا دماغی پریشانی کی وجہ کیا ہے۔ میرے خیال میں آپ اس کا علاج کرائیے۔
’’ہاں میں بھی سوچ رہا ہوں ‘ ڈیڈی نے ٹھہر ٹھہر کر کہا — آپ تو جانتے ہی ہیں یہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ جانے کیا ہو گیا ہے اسے۔ ‘
ماسٹر جی نے پھر کہا۔ ’’ مجھے اس کے چہرے سے — بغاوت کی بو آ رہی ہے۔ مگر سوال ہے بغاوت وہ کس سے کرنا چاہتا ہے۔ خود سے — ؟لیکن کیوں — سماج سے — ؟ یہ بھی تو معلوم نہیں۔ الف کاکیس واقعی سیریس ہے۔
ماسٹر جی نے آگے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا — کچھ دنوں پہلے کچھ شکاریوں نے جنگل سے ایک Wolf boy پکڑا تھا۔ اس کی کہانی ہر اخبار اور میگزین میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے رہنے کا انداز وغیرہ سب جانوروں کی طرح تھا۔ لوگوں نے اسے Wolf-boy کا نام دیا مگر دراصل وہ Wolf-boy نہیں تھا۔ اس کے بارے میں جب پوری معلومات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ اسی سماج کا ایک حصہ تھا۔ اس کے ماں باپ سب تھے۔ مگر اچانک اس کے دماغ میں انسانی نفرت کی بنیادیں پڑنے لگیں — اور وہ ہر اس فطری عمل سے نفرت کرتا تھا جو انسان کرتا ہے۔ حتی کہ چلنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا باتیں کرنا — ان سب سے اس کا دماغ اتنا زیادہ ڈسٹرب ہوا کہ اس نے گھر چھوڑ دیا اور جنگل میں بھاگ گیا۔ اور وہاں جا کر وہ فطری عمل سے بغاوت کی کوشش کرنے لگا اور اپنے انداز کو جانوروں کی طرح ڈھال لیا۔ اٹھنے بیٹھنے سب میں جانوروں سی عادتیں شامل کر لیں۔ یہ انسانی نیچر بھی عجیب ہوتا ہے۔ کیسے کیسے لوگ ہیں ہماری، آپ کی اس دنیا میں —
ماسٹر جی ایک لمحہ کو چپ ہوئے — جانتے ہیں پھر کیا ہوا، جب وہ پکڑا گیا تو وہ باضابطہ، صحیح معنوں میں ایک جانور بن چکا تھا۔ اس کے ہاتھ پنجوں کے بل چلتے چلتے ٹیڑھے میڑھے ہو گئے — وہ بولنا بھول گیا — جانوروں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھتا تھا اور پاگلوں کی طرح ہاتھ پاؤں کے بل خود کو کھینچنے لگتا تھا —
ڈیڈی دھیمے دھیمے سنتے رہے۔ ان کے چہرے کا رنگ ہر لمحہ بدل رہا تھا —
ماسٹر جی نے پھر کہا۔ ’اس لیے میں کہتا ہوں۔ اس کی خاموشی اچھی چیز نہیں ہے، آپ اس کا ڈھنگ سے علاج کرائیے۔ ہر وقت اس کے پاس رہنے اور ہنسنے ہنسانے کی کوشش کیجئے۔ تاکہ وہ بہلتا رہے۔ یہ آپ نے اچھاکیا کہ اس کا برتھ ڈے منا رہے ہیں۔ اور آج کسی قدر وہ خوش بھی معلوم ہو رہا ہے۔ ‘
پھر ڈیڈی دوسرے لوگوں سے ملنے لگے تو میں وہاں سے ہٹ گیا — دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ جس بات کا ڈر تھا۔ وہی ہوا تھا۔ اب جانے ڈیڈی اس کے ساتھ کیاسلوک کریں۔ یہی سوال برابر مجھے کھائے جا رہا تھا۔
میں کچھ لمحے کے لیے سنبھلا اور ہونٹوں پر ہنسی تیر گئی۔ کمار انکل، آنٹی اور لزی کمرے میں داخل ہو رہے تھے — کمار انکل اور آنٹی نے کھلونے اور پھولوں کاگلدستہ میری طرف بڑھایا اور لمبی عمر کی دعائیں دینے لگے۔ لزی کے ہونٹوں پر تبسم مچل رہا تھا۔
’الف۔ برتھ ڈے مبارک ہو‘
میں اس کی طرف حیرت سے مڑا۔ ’ تمہیں دیکھ کر سچ مچ خوشی ہوئی۔ ‘
’مجھے بھی — لزی مسکرارہی تھی —
٭٭٭
ہر طرف قہقہے تھے۔ مسکراہٹیں تھیں — ہم عمر بچے بچیوں کے جھنڈ تھے — میں سب سے گھرا ہوا تھا — انجان دوستوں سے بھی — جان پہچان والوں سے بھی — ڈیڈی ان سبھوں سے میری دوستی کرا رہے تھے — اور میں سب سے مسکراتا ہوا مل رہا تھا۔ مگر میں ایسا کیوں محسوس کر رہا تھا جیسے میری ہی طرح ڈیڈی کے ہونٹوں پر بھی وہی کھنچا ہوا تبسم ہے۔ وہی میری طرح زبردستی کی مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ میں سمجھ رہا تھا، ڈیڈی مجھے لے کر اداس ہیں —
کیک پر رکھی ہوئی بارہ موم بتیاں میری پھونک کی منتظر تھی۔ میں آگے بڑھا اور میری ہلکی سی پھونک نے بارہ موم بتیوں کو گل کر دیا تھا۔ ہر طرف سے مبارکباد کے شور آنے لگے تھے —
لزی نے آہستہ سے میرے ہاتھ کو پکڑا اور داب دیا — میں مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ مسز ڈولچی والی تیز قدموں سے میری طرف بڑھی آ رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں ربن سے لپٹا ہوا ایک پیکٹ تھما تھا —
میرے قریب آ کر انہوں نے مجھے ایک زور دار کس(Kiss) کیا — پھر شرارتی مسکراہٹ سے مجھے دیکھتی ہوئی بولیں —
’جانتے ہو الف! اس پیکٹ میں کیا ہے‘۔
’نہیں۔ ‘ میں نے دلچسپی سے کہا۔
’اس میں ایک دل ہے۔ کانچ کا دھڑکتا ہوا دل۔ ‘
اتنا کہہ کر انہوں نے تحفہ کھولا۔ بڑا پیارا اور خوبصورت ساتحفہ تھا۔ کانچ کا بنا ہوا ایک نازک سا دل — جس کی کپکپاہٹ کی آواز سوئیوں جیسی گونج رہی تھی۔
لزی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’آنٹی … دل تو دھڑک رہا ہے۔ ‘
’ہاں۔ ‘
مسز ڈولچی والی نے اس ہاں کو قدرے کھینچتے ہوئے کہا۔
تمہاری اس نازک عمر کے لیے میرا ایک چھوٹا سا تحفہ۔ ‘
انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے آس پاس کھڑی عورتوں کا جائز ہ لیا۔ سب مسکرائے جا رہی تھیں۔ انہوں نے ایک نگاہ سب پر ڈالتے ہوئے میری طرف دیکھا پھر کہا —
’بس۔ جیسے جیسے تم بڑے ہو گے۔ ویسے ویسے اس دل کی دھڑکن بھی بڑھتی جائے گی۔ اور کل یہ دل کی دھڑکن تمہاری زندگی کاسب سے خوبصورت تحفہ ثابت ہو گی۔‘
’سب سے خوبصورت تحفہ۔ ‘ مگر اچانک جیسے انہوں نے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو — ان کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔ ہم سب چونک گئے تھے۔ وہ کانپ رہی تھیں … تھرتھرا رہی تھیں۔ نہیں — مجھے جانا ہو گیا۔ منچندا کے لڑکے انتظار کر رہے ہیں — نہیں لڑکو — اپنا ہنگامہ جاری رکھو — آواز لڑکھڑا رہی تھی — ساری۔ ویری ساری۔ لوگ جانے کے لیے کیوں آتے ہیں۔ کبھی ایسا ہی ایک تحفہ کیپٹن — کیپٹن نے بھی دیا تھا۔ جانے کیوں یہ تحفہ خریدتے ہوئے مجھے خیال نہیں رہا — شومسٹ گو آن — شومسٹ گو آن …
وہ ایک جھٹکے سے اٹھیں اور پھر تیز رفتاری سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
محفل میں سناٹا چھا گیا۔ ممی انہیں لینے لپکیں۔ دوسری عورتوں کے چہرے بھی حیرت سے فق ہو گئے تھے۔
ڈولچی آنٹی کمرے سے باہر جا چکی تھیں۔
اور اچانک میرا ہاتھ کانپنے لگا اور آنٹی کا دیا ہوا تحفہ ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ ایک چھنا کے کی آواز ہوئی۔
سب چونک اٹھے —
ہم سب نے دیکھا۔
آنٹی کا دیا ہوا نازک سادل زمین پر گر کر ٹوٹ چکا تھا — دل کی دھڑکنوں کی تھرتھراہٹ تقریباً بند ہو چکی تھی —
سوئی نے چلنا بند کر دیا تھا —
٭٭٭
سیلاب کی ایک رات
(۱۴)
میں بہت حد تک اب ان سوالوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کر رہا تھا، جو مجھے برابر پریشان کرتے رہے تھے —
آخر انسان اس دنیا میں آتا کیسے ہے؟
سالگرہ کی رات مجھے بہت ساری باتوں کا جواب مل گیا تھا — کہنا چاہئے وہ ایک نہ بھولنے والی رات تھی۔ ایک ایسی رات جو میری زندگی میں خاموش سوالوں کے کتنے ہی جواب لکھ گئی تھی —
یہ سب کیا تھا — ؟
مسز ڈولچی والی ایسا کیوں کرتی ہیں — ؟ ایک کھوئی ہوئی زندگی، ایک کھویا ہوا اتیت، لوگ اپنی زندگی کی گانٹھ سے کیوں باندھ لیتے ہیں۔
کانچ کا ننھا، دھڑکتا ہوا دل —
سوئی بند ہو گئی تھی —
ایک خاموش جزیرہ تھا۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی — اور پھر خاموشی ٹوٹ گئی —
جو خاموشی ریت کے جزیرے میں دفن ہو چکی تھی، وہ اب آہستہ آہستہ سر نکال رہی تھی — پارٹی ختم ہو چکی تھی — لوگ اپنے اپنے گھر جا چکے تھے — مسز ڈولچی والی نے اس پارٹی کو یادگار بنا دیا تھا — ان کی بے باک ہنسی اور پھر ان کی آنکھوں میں ناگہاں طوفان کا سمٹ آنا ہم سب کے لیے حیران کن تھا۔ ان کے اچانک چلے جانے نے ہم سب کو گونگا کر دیا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے لوگوں کو بس اتنا ہی سمجھ میں آیا … لگتا ہے کوئی پرانی یاد تازہ ہو گئی ہو گی۔
پرانی یادیں … ؟ دل نے سوال کیا۔ مگر جواب لوٹ کر نہیں آیا — لوگوں کے چلے جانے تک بارہ بج چکے تھے۔ اب جو مسئلہ ہمارے سامنے تھا وہ تھا سونے کا۔ ڈرائنگ روم میں اوپر اور نیچے کی تمام ’چوکیاں ‘ اور چارپائیاں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ یہ سب اہتمام لوگوں کے بیٹھنے کے لیے ہوا تھا؟‘
’ہم سوئیں گے کہاں۔ ‘؟
پارٹی کے خاتمے پر راجن بھیا نے پوچھا —
پاپا نے بتایا … ’’ آج بھر ایسے ہی گزارہ کر لو۔ جہاں جی میں آئے سوجاؤ۔ کل یہ پلنگ چوکیاں سب کے کمرے میں چلی جائیں گی — اتنا کہہ کر وہ اور ممی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں اسی ڈرائنگ روم کے ایک طرف سمٹ کر رہ گیا۔
سب اپنی دنیا میں لوٹ آئے تھے۔
سب کی آنکھوں میں نیند جاری تھی۔
بس — میں جاگ رہا تھا —
مجھے نیند نہیں آ رہی تھی —
میں سونا بھی نہیں چاہتا تھا —
خیالات، ہوائی گھوڑے، پر مجھے اڑا کر لیے جا رہے تھے۔ یہ ہنسنا، یہ گانا، یہ محفل، یہ شور و غل کتنی وقتی چیزیں ہوتی ہیں — یہ سب۔ احساس کے پھر وہی دروازے تھے۔ وہی گیلی رسی تھی۔ لوگ پیدا کیوں ہوتے ہیں … پاپا ممی اس وقت کہاں ہوں گے — خیال آیا پاپا اور ممی اپنے کمرے میں بند ہو گئے ہوں گے اور بیچاری پھوپھی اپنے کمرے میں اداس مغموم بیٹھی ہوں گی۔ صبح کاسوال تازہ دم ہو کر پھر میرے سامنے ننگاہو گیا تھا۔ بچہ دنیا میں کیسے آتا ہے … ؟
’ماں کے پیٹ سے — ‘جواب ملا۔
ماں کے پیٹ میں وہ کیسے پہنچتا ہے — اور وہاں سے باہر کیسے آتا ہے — بند آنکھوں میں یہی سلگتے ہوئے سوال تھے۔ جواب کچھ روز سے مجھے تنگ کرنے لگے تھے — اور میں انہی بہکے بہکے سوالوں کے نرغے میں آ گیا تھا — میرا ذہن گھنونے زخموں کی طرح رسنے لگا — یہ کھیل جانور بھی کھیلتے ہیں — مگر جانور تو کپڑے نہیں پہنتے — مطلب یہ ہوا کہ آدمی اور جانور کے بیچ کا فرق صرف، کپڑا ہی ہے۔ یعنی لباس —
ذہن پھر پریشان تھا اور مسلسل وہی سوال دل و دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگے —
’کتنا گھنونا ہے یہ کھیل … پھر بھی لوگ یہ کھیل کیوں کھیلتے ہیں۔ جانور بھی — انسان بھی۔ یہ کیسا کھیل ہے۔ اس کھیل میں کیا لطف آتا ہے؟‘
یہی سوال تھے۔ جن کے دائرے ذہن کے ارد گرد کستے ہوئے جا رہے تھے۔
اور اچانک کسی کی تیزی کی آواز سے چونک پڑا تھا — ممی پاپا کو بلاتی ہوئی دھیمی آواز میں سرگوشیاں کر رہی تھیں —
’منی نہیں ہے کمرے میں — کہاں گئی ہے۔ ‘
اور پھر اس شور ہنگامہ میں سونی دی کی آواز بھی آئی۔ پھوپھی کی نیند بھی ٹوٹ گئی —
پاپا، ممی، سونی دی اور —
’منی کمرے میں نہیں ہے‘
اب اس بھیڑ میں، میں بھی شامل ہو گیا تھا۔
اور اچانک ہم نے دیکھا — ڈیڈی کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ انہوں نے ممی کی طرف غصہ بھری آنکھوں سے دیکھا اور پھر بڑے اطمینان سے گویا ہوئے۔
’منی راجن کے کمرے میں ہو گی۔ ‘
پھوپھی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ میرے دل و دماغ پر جیسے بجلی گر پڑی تھی۔
سونی دی کا چہرہ فق ہو رہا تھا — اور پھر پوری فون راجن کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ ڈیڈی غصے میں تھے اور ان کے پیچھے ممی سہمی اور بجھی بجھی سی تھیں — اور سب کے پیچھے میں تھا۔ سہماسہما — ڈیڈی راجن بھیا کے کمرے کی طرف آ کر ٹھہر گئے۔
— ’راجن !دروازہ کھولو۔ ‘
دروازہ کھولو۔ راجن — ‘
— یہ کیا بدتمیزی ہے‘
اندر سے خاموشی سسکتی رہی۔
ڈیڈی نے پھر دروازے پر زور زور سے مکا مارنا شروع کیا۔
’راجن !دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔ ‘
’دروازہ بند کیوں ہے؟‘
’ دروازہ کھولتے کیوں نہیں ‘
اور پھر دستکوں کی باڑھ آ گئی۔
میرا دل ڈر رہا تھا۔ لگتا ہے کچھ ہو کر رہے گا۔
پھر دروازہ آہستہ سے کھلا۔ سامنے راجن بھیا تھے۔ چہرہ زرد ہو رہا تھا — نظریں جھکی ہوئی، غلطی کا احساس دلا رہی تھیں —
بستر کے پاس ویسی ہی جھکی نظروں کے ساتھ منی دی کھڑی تھیں۔ اور وہ بھی احساس ندامت سے شرم میں گڑی جا رہی تھیں۔
پورا گھر دروازے پرسمٹ آیا تھا۔ ڈیڈی کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
’جانتے ہو۔ منی کون ہے تمہاری۔‘ ان کے لہجے میں ابلتا ہوا غصہ تھا۔ راجن بھیا نظریں جھکائے رہے۔
آواز کی بجلی گرجتی رہی —
’کون ہے تمہاری؟‘
’کیا رشتہ ہے تم سے‘
راجن بھیا چپ تھے —
پاپا کی آواز پھر بلند ہوئی —
’کیا لگتی ہے منی تمہاری۔ ‘
’ب … ہن … راجن بھیا خاموشی سے گویا ہوئے۔
’اور رات کے دو بجے بہن تمہارے کمرے میں بند ہے۔ اور تمہارے چہرے کا رنگ اڑا ہوا ہے۔ مطلب سمجھتے ہو اس کا — ؟‘
خاموشی پھر سلگتی رہی —
’منی تمہاری بہن ہے اور کیا یہی تمہاری تہذیب ہے … ؟‘
ڈیڈی غصے میں بول رہے تھے۔ ان سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ راجن بھیا نے جیسے بلا کی ہمت جٹی ہو۔
اور پھر ان کی دھیمی آواز جیسے سب مجمع کو گونگا بنا گئی —
’ہاں ‘ میں شرمندہ ہوں — مگر میں نے کوئی غلط نہیں کیا۔ ‘
’جانتے ہو، منی کون ہے تمہاری‘ — ڈیڈی اتنے زور سے چیخے — جیسے اسے مار ہی تو دیں گے —
’ہاں منی میری بہن ہے۔ مگر پھر بھی میں کہتا ہوں۔ میں نے غلط کیا۔ ‘‘
’غلط کیسے نہیں۔ زبان لڑاتا ہے — ڈیڈی مشتعل ہو رہے تھے۔ راجن بھیا نے اتنی ہمت جٹا لی کہ وہ اس غلطی کے بعد بھی ڈیڈی سے منہ لڑانے کی ہمت کر بیٹھے تھے۔
بڑے اطمینان بھرے لہجے میں انہوں نے لب کھولا —
’ہاں ڈیڈی۔ یہ غلط نہیں۔ کیوں کہ یہ ضرورت تھی — ا ور ضرورت پوری کرنے سے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ‘
کیا — ؟ ڈیڈی کو یقین نہیں آ رہا تھا — کیا کہا تم نے۔ کیا کہا … ‘
’میں نے وہی کہا ہے، جو آپ نے سنا ہے ڈیڈی۔ ‘
’یعنی تم نے … اف بھگوان … تو تم مریادا ریکھا بھی پار گئے۔ اور اب کہتے ہو کہ وہ محض ایک ضرورت تھی اور ضرورت پوری کرنے میں … ‘
’ہاں۔ میں اب بھی قائم ہوں۔ ضرورت پوری ہونے سے کوئی طوفان نہیں آتا۔ کوئی آندھی نہیں آتی۔ یہ آندھی یہیں آتی ہے۔ ہماری، ہندستانی تہذیب میں بس۔ رشتوں کو آپ لوگوں نے ناسور بنا دیا ہے۔ میں نے کیا کیا ہے — اور میں نے کوئی گناہ نہیں کیا، اور ہم آج بھی بھائی بہن ہیں کیونکہ جو ہم نے کیا …
’’را … جن۔ ‘ڈیڈی زور سے دہاڑے۔ پھر ممی، پھوپھی اور سونی کی طرف گھومے — تم لوگ جاؤ — منی کو اشارے سے روک دیا۔ تم نہیں۔ کیونکہ یہ سارا ہنگامہ تم سے شروع ہوا ہے۔ کیا تم بھی یہی مانتی ہو۔ ـ؟
پھوپھی دروازے سے لگ کر کھڑی تھیں —
ممی نے آواز بلند کی۔ ’یہ کیا ناٹک کر رہے ہیں۔ جو کچھ ہوا، اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیجئے — ‘
’آہ پردہ — ‘ڈیڈی کی آواز دم توڑ رہی تھی … ’ راجن تم نے جو کچھ کیا، اچھا نہیں کیا۔ اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ تم اب بھی بھائی بہن ہو۔ اس رشتے کی حقیقت جانتے ہو۔ ‘
’آپ جو جانتے ہیں میں وہ نہیں جانتا۔ میں بس اتنا جانتا ہوں وہ ضرورت تھی۔ ‘
راجن بھیا نے قدرے توقف کے بعد کہا — ’ ڈیڈی، یہ تہذیب ہمیں آپ سے ہی ورثے میں ملی ہے۔ آپ نے ہمیشہ مجھے اونچی سوسائٹی میں سانس لینے اور جینے کو کہا۔ اور آج جب میں نے ایک ضرورت پوری کی ہے تو آپ اسے رشتے سے تولنے لگے ہیں۔ ‘
ڈیڈی نے خود کو روکا۔ ان کا چہرہ بھیانک ہو رہا تھا۔ پھوپھی بت کی طرح ایک ٹک سب کے چہروں کو تکے جا رہی تھیں —
’تم نے جو حرکت کی ہے۔ وہ نہایت ذلیل اور گھناونی ہے۔ ‘
اس سے پہلے کہ ڈیڈی راجن بھیا پر ہاتھ چھوڑ دیں، راجن بھیا اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے۔
ممی نے کپکپاتے ہوئے، لرزتے ہوئے وجود کے ساتھ ڈیڈی کو روکا۔ ’ یہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ غلطی تو ہوہی گئی۔ مگر ذرا یہ بھی تو اندازہ لگائیے کہ لڑکا جوان ہو چکا ہے — وہ دوبارہ آپ پر بھی تو … ‘
اتنا کہہ کر ممی نے نفرت بھری آنکھوں سے راجن کو دیکھا۔ اور راجن کسی فلمی ہیرو کی طرح دوبارہ گویا ہوا۔
آپ لوگ جو بھی سمجھنا چاہیں۔ سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کا حق ہے لیکن آپ کو سمجھنا چاہئے میں غلط کہاں ہوں۔ کیسے ہوں۔ ایک بچہ اس دنیا میں آتا ہے۔ ’جنسی کشش ‘ پیدا ہونے کے ساتھ ہی فطرت بچے میں بھر دیتی ہے۔ تمہیں بتاؤ ممی، کیا سبب ہے کہ ایک چھوٹی بچی اپنے باپ کی گود میں زیادہ آرام محسوس کرتی ہے اور چھوٹے بچے کا زیادہ لگاؤ اپنی ماں سے ہوتا ہے۔ یہ جنسی کشش ہوتی ہے۔ جنسی بھوک۔ اور اس بھوک کی بنیاد پیدائش کے وقت سے ہی پڑ جاتی ہے۔ جیسے روٹی کپڑا اور مکان ضرورتوں میں سے ہے اور اسے اسی انداز میں پورا کیا جاتا ہے ویسے یہ بھوک بھی جسم کی خاص ضرورتوں میں سے ہے۔ نہ جانے آپ جیسے لوگ کیوں اسے گناہ غلط یا ناجائز سمجھتے ہیں ؟‘
ڈیڈی کے پاس شاید راجن بھیا کی اس بکواس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ غصے کے ساتھ اپنے کمرے میں لوٹ گئے تھے۔ ممی انگاروں پر لوٹ رہی تھیں۔ منی دی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ پھر وہ منی دی کو لے کر اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئیں —
راجن بھیا کسی فلمی ہیرو کی طرح اپنے کمرے کی طر ف چلے گئے اور دروازہ اندر سے بند کر لیا —
ہم سب اپنے اپنے کمروں میں روانہ ہو گئے —
وہ رات سالگرہ کی رات سے زیادہ کسی سیلاب کی رات تھی۔ جس میں ایک اجنبی بھوک نے ایک زبردست سیلاب برپا کر دیا تھا —
٭٭٭
سیلاب کا ایک دن
(۱۵)
سورج کا گولہ آگ برسارہا تھا —
گھر کے پچھواڑے بہتی ہوئی باگمتی ندی نے ایک کروٹ لی اور کسی جوان عورت کے دھڑکتے ہوئے سینے میں آئے طوفان کی طرح دور تک بہتی چلی گئی۔ رات سے ہی ہنگامہ تھا۔ باگمتی پر جو بن آ رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح سب ڈر گئے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہو جائے۔ باگمتی تو’ باؤلی ندی ہے۔ باگمتی جب کروٹ بدلتی ہے تو سارا شہر خطروں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے — بظاہر یہ بل کھاتی، اٹھلاتی چھوٹی سی ندی ہے لیکن برسات کے دنوں میں موسمی بارش سے کبھی کبھی کتنی خطرناک ہو جاتی ہے۔ ہم سے یہ بات چھپی نہ تھی — کتنی کہانیاں تھیں — کتنے افسانے تھے۔ جو اس ندی کے بارے میں مشہور تھے۔ کتنی روایتیں تھیں — کتنے واقعات تھے جو محلے اور شہر کے بزرگ آج بھی آنکھیں گھما گھما ہمیں سنایا کرتے اور سناتے وقت ان کے چہرے ایسے خوفناک ہو جاتے جیسے ندی پھر سے وہی زہریلا لباس پہن لے گی اور ایک بار پھر شہر واسیوں کو ڈسنے کے لیے اپنی بانہیں پھیلا دے گی —
قصے ایک نہیں ہزاروں تھے۔ افسانے لاکھوں تھے۔ باگمتی برسات کی اندھیری تاریک راتوں میں بھوتوں کابسیرا بن جاتی ہے۔ سارامحلہ عجیب ڈراؤنی آوازوں سے چونک چونک جاتا ہے۔ یہ آوازیں بد روحوں کی ہوتی ہیں۔ چھٹپٹاتے، سسکتے ہوئے، ان لوگوں کی، جنہیں ندی کی خطرناک لہروں نے نگل لیا تھا۔ وہ روحیں آج بھی بھٹک رہی ہیں۔ گھٹ رہی ہیں۔ مگر آرام انہیں میسر نہیں —
اور جب باگمتی نے کروٹ لی تو بوڑھے بوڑھیوں کے قول زیر لب آ گئے۔ باگمتی پروہ آج بھی شیطان کا بچہ بیٹھا ہوا اپنی منحوس آواز میں لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اور جو لوگ اس کے بلاوے پر چلے جاتے ہیں باگمتی انہیں اپنے میں جذب کر لیتی ہے۔
ایسی ہزاروں روایتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں — سورج پوری طرح سامنے آ چکا تھا۔ چیخ و پکار کی دھیمی آوازوں کے درمیان نیند نے مجھے بیدار کر دیا — دھند چھٹ گئی۔ آوازوں کا شور باہر سے گونج رہا تھا۔ لمحہ لمحہ بڑھتا، اونچا ہوتا ہوا شور ندی کی آوازہ لہروں سے گزرتا ہوا میرے کانوں میں گونج رہا تھا — گھر میں افرا تفری مچی تھی۔ لوگ نیچے اوپر کر رہے تھے۔ سامانوں اور گٹھریوں سے — لدے، گھرے لوگ — باگمتی ندی نے آج پھر کروٹ لی تھی۔ ریلنگ سے باہر دیکھا تو ہر طرف وہی افرا تفری وہی بھاگم بھاگ نظر آیا۔ سمیرہ چاچی کامٹی کا مکان رات کے اندھیرے میں کب ڈھہ گیا، کچھ معلوم نہ ہوا —
رات کی ’ڈراؤنی آنکھیں ‘ اب بھی مجھے ڈس رہی تھیں اور میں طوفان، ہوا، اور بادلوں کی کڑک، اب بھی محسوس کرہا تھا۔ بجلیوں نے کتنے گھر جلائے ہوں گے — بارش نے مٹی کے بنے کتنے کچے مکان اجاڑ دیئے ہوں گے۔
ان مکانوں میں آدمی نہیں رہتے۔ ان مکانوں میں رہتے ہیں، زندگی ڈھونڈنے والے — جو ہل کی طرح برابر خود کو بنجر زندگی کے سہارے ڈھونے کی ناکام سعی کرتے رہتے ہیں۔
ان مکانوں میں زندگی نہیں رہتی —
سیلاب کے پہلے بھی نہیں —
اور سیلاب کے بعد بھی نہیں —
سمیرہ چاچی کون تھیں … ؟
اگر یہ سوال میں خود سے کروں تو بھی شاید جوا ب نہ مل پائے۔ کپڑے کے نام پر ان کے بدن پر ہمیشہ چیتھڑے کے چند ٹکڑے دیکھے۔ بڑھاپے کی نیم خستہ ڈگر پر بھی وہ اپنے لاغر وجود کو ڈھونے کا کام کرتی رہیں۔ کبھی محلے اور اڑوس پڑوس کے گھروں میں سلہٹ پرمسالہ پیس دیا۔ کبھی جھاڑو دے دیا۔ کچھ پیسے مل گئے تو چائے پی لیا۔ اور بس …
اتنا ہی کافی ہے سمیرہ چاچی کے تعارف کے لیے — کیوں کہ سمیرہ چاچی جیسے لوگوں کا کوئی تعارف اور کوئی نام نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کے ’پوپلے‘ منہ میں ساری عمر پتھر ٹھونستی رہتی ہیں اور زندہ رہتی ہیں —
رات کی ’گرج‘ ذہن میں خوف کی گانٹھیں باندھ رہی تھیں — بادل زوروں سے گرج رہے تھے اور پانی پیٹ پیٹ کر برس رہا تھا۔
نیند ٹوٹی تو مشرق سے سورج جھانک رہا تھا۔ جانے بارش کب بند ہوئی۔ کب بادل چھٹے اور ننگاسورج پھر سے دنیا کی بے لباسی چاک کرنے آ پہنچا۔ ملنے والوں میں سب سے پہلی منی دی تھیں۔ گھبرائی ہوئی سہمی سہمی، انہوں نے ہی بتایا …
’الف جانتے ہو سمیرہ چاچی مر گئیں … ان کا مکان گر گیا۔ ‘
کیسے … ؟
مگر میں نے کچھ نہیں پوچھا …
سامنے ایک کھلی حقیقت ’ننگی ‘تھی۔ کل تک جہاں ایک چبوترا تھا، مٹی کا مکان نظر آتا تھا — آج وہاں حد نظر تک پھیلا ہوا پانی نظر آ رہا تھا۔ مجھے یاد آیا — سمیرہ چاچی نے میری واقفیت تک کبھی بلاوز نہیں پہنا۔ اکثر مصالحہ پیستے پیستے ان کی ساڑھی سے ڈھلک کر وہ سوکھا ہوا گوشت کاٹکڑہ باہر آ جاتا تھا۔ کوڑے کے ڈھیر پر پھینکے گئے ’لوتھڑے‘ کی طرح — دھنسا ہوا مٹی کا لوندہ، کمہار کے گھر کے پاس نہاتے ہوئے بھی یہ’ لوتھڑہ‘ ان کے جسم سے نکل کر باہر آ جاتا اور میری آنکھوں میں نفرت بھر جاتی —
میں نے سمیرہ چاچی کی موت کی خبر سنتے ہی آنکھیں موند لیں۔ ذہن بھٹکا تو خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا۔ کہتے ہیں مرنے والے کے بارے میں اچھی باتیں کرنی چاہئیں۔ وہ کتنا بھی برا ہو — اس کے بارے میں خراب بات نہیں سوچنا چاہئے۔ مگر میرے پاس ان کے بارے میں سوچنے کے لیے تھاہی کیا؟
’الف۔ تمہاری ’کتابیں ‘ ابھی نہیں آئی ہیں۔ ‘
ڈیڈی کی آواز سن کر چونکا۔ وہ میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں سامان دبا ہوا تھا۔
’اپنی کتابیں اوپر لے آؤ۔ ‘
ڈیڈی آگے بڑھ گئے۔ تو میں پھرسے وہی کچھ دیکھنے لگا۔ گھر کی نچلی سطح پر جمع ڈھیر سارا پانی۔ تا حد نظر جہاں نظر دوڑا ؤ وہاں پانی ہی پانی —
ایک ٹھہاکے کی آواز سن کر میں چونکا۔
سامنے والے انکل کے مکان کے کوٹھے پر بھی وہی دوڑ دھوپ کا عالم تھا — لزی مجھے دیکھتے ہی چیختی —
’الف۔ الف … ہا … ہا … مزہ آ رہا ہے نا … اب اسکول — بھی بند … بس کوٹھے سے پانی دیکھتے رہو۔ ‘
’ہاں۔ مزہ آ رہا ہے۔ ‘
آواز نے سرگوشی کی … بہت مزہ … اور سمیرہ چاچی جو مر گئیں … اس پر بھی مزہ آ رہا ہے … اب وہ عفریت سا بدنما سڑے ہوئے سنترے جیسا لچ لچ کرتا ہوا پچکا سینہ دیکھنے کو نہیں ملے گا …
میں نے آنکھیں جھالیں —
لزی کی آنکھیں پھر سے باگمتی کے جوبن کو دیکھ رہی تھیں — صبح سے ہی باگمتی میں ناؤ چلنی شروع ہو گئی تھی۔ کچھ لمحے تک … یونہی باگمتی میں آئے سیلاب کو دیکھتے رہنے کے بعد میں نیچے چلا آیا۔ نیچے کمرہ، دالان سب میں گھٹنے کے اوپر تک پانی تھا۔ کرسی، پلنگ، فرنیچر اور بھی چھوٹے چھوٹے کتنے سامان کمرہ اور دالان میں بھرے پانی پر تیر رہے تھے …۔
ساری چیزوں کو اکٹھا کرنے، بچانے اور اوپر لے جانے میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ چاول، گیہوں اور آلو کے بورے پانی میں بری طرح شرابور ہو گئے تھے۔ جو چیزیں بچ گئی تھیں وہ بس مال غنیمت کی حیثیت رکھتی تھیں —
دھوپ محلے میں اتر آئی تھیں۔ سیڑھی — مکان — چھتیں — تیکھی دھوپ کے لمس محسوس کر رہی تھیں۔
محلہ اب حشر کا میدان بنا ہوا تھا۔
ڈولچی آنٹی کے قہقہے ان کے گھر سے صاف سنائی دے رہے تھے۔ وہ اپنی نتنی پوتیوں کو اشارے سے ناؤ دکھا کر بڑی بے باکی سے قہقہے لگائے جا رہی تھیں۔ پانیوں میں ڈوبے سامانوں کو نکالنے والے لوگ لنگی، دھوتی کا پانچا موڑے ہوئے کارنامہ دکھا رہے تھے۔ اس کے باوجود پانی نے انہیں بری طرح بھگو ڈالا تھا۔ پینٹ، لنگی اور دھوتی کا پانچہ بری طرح شرابور ہو گیا تھا۔ گھٹنے تک ساڑی اٹھائے ہوئے عورتیں بھی سامانوں سے لدی پھندی بالائی منزل اور سیڑھیاں ایک کر رہی تھیں۔
میری نظریں اب بھی ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ بھیگے ہوئے لباس — گھٹنے اور پائنچے سے جھانکتی پنڈلیاں … سینے کے پیچ و خم … یہ سب محلے والیوں کے تھے …
جوپڑوسی ہونے کے ناطے اپنے تھے … چاچی … دیدی … پھوپھو … اور — رشتے ہوا میں اڑ رہے تھے —
کیا یہی جسم ہے۔
جسم — جس کی خوبصورتی کر لے کر مثالیں گڑھی جاتی ہیں۔ شاعر، شعر کہتے ہیں۔ غزلوں میں عورت کے حسن کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔
یہ جسم کتنا گندہ ہے۔
اس جسم میں کوئی کشش نہیں —
جیسے کباڑ خانے میں جمع فالتو سامان —
ان سب سے اچھی باگمتی ہے۔
اور باگمتی اٹھلا رہی ہے —
باگمتی پر جوبن آیا ہے۔
اور اچانک میری نظر ایک عجیب منظر پر فریز ہو جاتی ہے —
چھوٹی سی ناؤ۔ ایک عورت ایک بچہ، تین چار مرد، ایک ملاح، پتوار کبھی دائیں کھیتا، کبھی بائیں …
عورت نے اپنے مڑے گھٹنوں میں کچھ سامان داب رکھا ہے۔ پیچھے والے کنارے پر بھی مٹھری میں بندھا ہوا کچھ سامان ہے۔ مرد بھی سامانوں سے لیس ہے۔
اور بچہ اٹکھیلیاں کئے جا رہا ہے۔ بے بات قہقہے لگائے جا رہا ہے۔ باگمتی اٹھلا رہی ہے اور ملاح وجد میں آ کر ناؤ کھے رہا ہے۔
بچہ تالیاں پیٹ رہا ہے۔ کبھی اچک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ عورت روکتی ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے مارنے کو کہتی ہے۔ بچہ بیٹھ جاتا ہے اور کشتی لمحہ لمحہ آگے بڑھ رہی ہے۔
باگمتی میں اور بھی کئی کشتیاں اتر آئی ہیں۔ مگر میری نظراس مخصوص کشتی نے اور اس پر بیٹھے ہوئے بچے نے کھینچ لیا ہے … ڈر نہیں لگتا اس کو … ؟
لزی پوچھتی ہے …
دیکھ رہے ہو اس کو … ؟
’ہاں — ‘ میں اپنی چھت‘ سے جواب دیتا ہوں۔
ناؤ باگمتی کی اٹھلاتی لہروں پر ڈولنے لگی ہے۔
بچہ پھر کھڑا ہو کر تالیاں پیٹ رہا ہے۔ ناؤ والا ہنس رہا ہے۔ لزی بھی قہقہے بکھیر رہی ہے۔
اور پھر …
قہقہے ایک دم سے رک جاتے ہیں۔
اچانک جانے کیسے ہو گیا۔ ناؤ الٹ گئی۔ زخمی ماحول میں شور گونج اٹھا۔ بچے کا — عورت کا … مردوں کا …
شور بڑھا۔
کچھ لوگوں نے ہمت کی اور تیزی سے تیرتے ہوئے آگے بڑھے …
باگمتی اب بھی اٹھلا رہی ہے۔ بل کھا رہی ہے۔
عورت بچ گئی ہے۔ ناؤ والے نے سب کو بچا لیا ہے۔ مرد بھی بچ گئے ہیں … صرف وہ بچہ۔
جب وہ باگمتی کی تہوں سے نکالا گیا تو پھول کر کپا ہو رہا تھا۔ پانی اس کے جسم میں داخل ہو چکا تھا۔ اور اس کا مردہ جسم سب کا منہ چڑھا رہا تھا۔
لزی کے قہقہے بند ہو گئے۔ ممی، پاپا اور راجن بھیا سب کے چہرے خاموش ہو گئے۔
فضا ساکت ہو گئی تھی اور ایک اداس بوجھل گیت فضا میں منڈلا رہا تھا۔ اور میں سوچ رہا تھا۔ وہ عورت بچ گئی۔ جس کا بچہ مرگیا۔ جو کبھی اس کے ابھرے تھل تھل سینے پر ہاتھ رکھ دیتا ہو گا اور دودھ پینے کی خواہش میں منہ لگانا چاہتا ہو گا تو عورت ہاتھ جھٹک دیتی ہو گی۔ عورت بچ گئی اور اس کا بچہ مرگیا۔
کیا یہی زندگی ہے — ؟
٭٭٭
ڈاکٹر بھٹ
(۱۶)
اچانک ہی جب پھوپھی کے منہ سے خون آنے لگا تو ہم سب چونک اٹھے۔ منی نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ ممی کے تو جیسے ہاتھ پاؤں ہی ٹھنڈے ہو گئے۔ اچھی بھلی پھوپھی کو جانے یہ کیا ہو گار تھا۔ راجن بھیا اور ڈیڈی دوڑتے ہوئے کسی اچھے ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے۔ کئی بار اپنے فیملی ڈاکٹر کو بلانے کے لیے نمبر بھی لگایا مگر ہر بار لائن انگیج ملی۔ ڈیڈی بری طرح گھبرا گئے تھے۔ سونی دی، منی دی اور ممی پھوپھی کو دلاسہ دئیے جا رہی تھیں — کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر آئے — پھوپھی کی نبض دیکھی۔ بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھولے ہوئے پیٹ کو دبا دبا کر دیکھا۔ اور جب ہر طرح سے جانچ چکے تو انہوں نے ڈیڈی کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ پہلے ان کا بلڈ چیک کرائیے۔ اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ بلڈ پریشر بھی کسی قدر بڑھا ہوا ہے۔ ‘‘
’مگر منہ سے خون کیوں آیا؟‘
ڈاکٹر بھٹ اس موضوع پر خاموش رہے۔ بس اتنا ہی کہا تھا۔ بلڈ چیک کرنے کے لیے آج ہی دے دیجئے۔ جتنی جلد رپورٹ آ جائے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ‘
پھر وہ اپنی شاندار کار پر بیٹھے اور پھر … ر … ر … سے اڑ گئے۔ عام لوگوں کی بہ نسبت میری سوچ ذرا الگ تھی۔ میں اب بھی بس یہی محسوس کر رہا تھا۔ ڈاکٹر بھٹ کے کڑے کھر درے سخت ہاتھ پھوپھی کے پچ پچے سے سینہ کو دبا رہے ہیں۔ ڈاکٹر بھٹ کی بڑی بڑی گہری آنکھوں نے مجھے بے پناہ متاثر کیا تھا۔ جانے کیوں۔ یہ آنکھیں مجھے بیحد زہریلی، معلوم ہوئیں۔ بالکل اپنی آنکھوں کی طرح — جن میں پوری دنیا ننگی ہو گئی ہو۔ کیا ڈاکٹر بھٹ بھی میرے جیسا ہی سوچتے ہیں … میرے نازک سے ذہن میں یہ عجب سا‘ بے تکا سوال سرنکال رہا تھا۔ اور میں وقتی طور پر اس سوال کو کوئی معنی نہیں دے پا رہا تھا۔
اس رات دیر تک مجھے نیند نہیں آئی۔ ڈیڈی نے اسی وقت پاس والے کلینک سے کمپاؤنڈ ر کو بلا لیا تھا — اس نے سرینج سے پھوپھی کے بازو سے بلڈ نکالا۔ پھر چیک کرنے کے لیے لے گیا۔
منی دی روتے روتے ایک طرف پسر گئی تھیں۔ پھوپھی کے پاس ڈیڈی، ممی اور سونی دی رہ گئے تھے۔ پاس ہی راجن بھیا بھی بیٹھے تھے۔ خاموش۔ اداس — کسی بت کی مانند۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے راجن بھیا کی محبت آمیز آنکھیں اپنی بیچارگی کا ماتم کر رہی ہوں۔ کیسے بے بس ہیں کہ اس موقع پر منی دی کو دلاسہ بھی نہیں دے سکتے۔ اس واقعے کے بعد ڈیڈی نے ان پر ایک طرح سے روک لگا دی تھی۔ وہ منی دی سے مل نہیں سکتے۔ بات نہیں کرسکتے۔ اور منی دی کو زبردستی ان سے الگ الگ رکھا جاتا تھا۔
کرسی پر بے چارگی سے کروٹیں بدلتے راجن بھیا کو دیکھ کر ایک ’زہریلی خوشی‘ میرے سارے بدن میں سرایت کر رہی تھی۔ اور پھر میرے اپنے ہی خیال میرے ارد گرد سانپوں کی طرح لپٹ گئے۔ راجن بھیا دوپہر کی آگ میں جل رہے ہیں — منی دی سے ان کے ہونٹ مل رہے ہیں — دو نرم و نازک لال لال گوشت کے دھبے — پھر زبان ملے ہوں گے۔ ایک دوسرے کو وحشیوں کی طرح دانتوں سے کاٹا ہو گا — اچھا کیا ڈیڈی نے — اب اور کمرے میں بند ہوں وحشی کہیں کے …
میں نے راجن بھیا کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی ایک ٹک اپنی چمکتی آنکھوں سے بے سدھ پڑی منی دی کو گھور رہے تھے —
ڈیڈی اور ممی بھی ایسے ہی واقعے کی ایک کڑی ہیں۔
اور ڈاکٹر بھٹ کو کس پلڑے میں رکھا جائے — گوشت کا بیوپاری۔ ماہر سرجن کیسے کیسے جسم روز دیکھتا ہو گا۔ ڈاکٹر بھٹ … یہ عضو کتنے گندے ہیں۔ سڑے ہوئے۔
جیسے کڑوی دوا کی بدبو میرے منہ میں گھل گئی ہو۔ یہ انسانی جسم اتنا گندہ کیوں ہے —
بستر پر لیٹے ہوئے بھی میں ایسا ہی محسوس کر رہا تھا … لال لال آپس میں دو ملتے ہوئے گوشت … دانتوں کی کٹکٹاہٹ … ’ پچ پچے‘سے سینے کا اتار چڑھاؤ … چنگاری کی طرح ایک سوال لپکا … کیا ان گھنونے عضو کے بغیر آدمی کا وجود کسی صورت ممکن نہیں۔ آج منی دی کتنی اچھی لگتی ہیں۔
کتنی خوبصورت — پھولے پھولے سے ہونٹ … نہیں گوشت۔ نہیں ہونٹ … چلو یہی تسلیم کر لیتے ہیں … سرخ پھولے پھولے گوشت والے ہونٹ — اور باہر کو نکلا ہوا غبارے جیسا سینہ۔ دو چھوٹے چھوٹے نرم مٹی کے لوندے۔ نہیں … نہیں۔ دو گوشت کا بریڈ پیس۔ بریڈ پیس کے نام پر اسے زور کی ہنسی آئی۔ ایک پیس گوشت کے دوسرے بریڈ پیس پر جھکا ہوا تھا … اور (شاید) راجن بھیا کے ہاتھ گوشت کے دوسرے’بریڈپیس‘ کے ساتھ شرارت میں مصروف تھے …
نہیں … ہٹو …
نہیں …
ہٹو نا …
اب منی دی سامنے ہیں … منی دی کا بدن سامنے ہے … پاؤں کے تلوے‘ سے لے کر سرتک۔ یہاں لباس نہیں ہے۔ گوشت کا ایک حسین پہاڑ۔ اور اس پہاڑ سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔
تصویر بدلتی ہے۔ منی دی کے برابر ایک دوسری پینٹنگ آویزاں کر دی جاتی ہے۔ یہ پھوپھی ہیں — بڑی عمر والی پھوپھی — بیمار پھوپھی۔ سڑے ہوئے جسم والی پھوپھی —
تصویر کے پہلے فریم میں — جوان منی دی کے برابر ایک جوان پھوپھی کی پینٹنگ ہے۔ تصور نے پھوپھی کو منی دی کی عمر میں لا کھڑا کیا ہے۔ عمر کے پاؤں پاؤں، پیچھے لوٹ کر پھوپھی ایک جوان پھوپھی میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ آنکھیں، ناک، کان، چہرہ، سینہ کی گولائیاں — پاؤں … اور — سرخ سرخ ہونٹ — گوشت کا ایک حسین پہاڑ جس سے شعاعیں نکل رہی ہیں —
تصویر کے دوسرے فریم میں بوڑھی پھوپھی کی پینٹنگ کے پاس ایک بوڑھی منی دی کی پینٹنگ لگا دی جاتی ہے۔
وہ چونکتا ہے — کیا یہ منی دی ہیں ؟
ڈھلکا ہوا سینہ۔ جھریوں بھرا چہرہ اور —
یہ جسم سڑ جاتا ہے۔ یہ جسم عمر کے پاؤں پاؤں سفر کرتا ہوا بوڑھا، بدنما اور گندہ ہو جاتا ہے۔ ناقابل برداشت —
کل پھوپھی بھی ویسی ہوں گی — منی دی جیسی —
کل منی دی ویسی ہو جائیں گی — پھوپھی جیسی —
’کشش ‘ ایک دن کھو جاتی ہے —
عمر ایک دن سوجاتی ہے —
وقت، سڑے ہوئے سنترے جیسا ہو جاتا ہے۔
مجھے اسی سڑے ہوئے سنترے سے نفرت ہے۔
سڑک سے گزرنے والی، پھل سبزیاں بیچنے والیاں مجھے کبھی پسند نہیں آئیں۔
آنچل ہٹا ہوا — اور بدنما گولائیاں نفرت کے میزائیل چھوڑتی ہوئی —
عمر کے پاؤں پاؤں سفر کرتا ہوا یہ قبہ نور گوشت کا ایک لوتھڑہ بن جاتا ہے۔ بس اس لوتھڑے سے وہ خوف محسوس کرتا ہے۔
جوانی کیا ہے۔ بڑھاپا کیا ہے —
جوانی اور جوانی کی خوبصورتی کی آخری حد — ایک ناقابل برداشت بڑھاپا ہے — ؟
تو کیا ہم اسی ناقابل برداشت بڑھاپے کے انتظار میں زندہ رہتے ہیں۔
٭٭٭
میں عورت اور مرد میں جوانی کو نہیں بڑھاپے کوت لاش کرتا ہوں۔ ایک جوان لڑکی میرے پاس سے گزرتی ہے تو میں اسے بڑھاپے کے پردے پر دیکھتا ہوں — اور وہ جو ڈھلتی عمر کے لوگ ہوتے ہیں، میں ان میں گم ہوئی جوانی کے لمحوں کو تلاش کرتا ہوں۔ میں پھر اسی سوال پر آ گیا ہوں۔ جوانی کیا ہے۔ بڑھاپا کیا ہے —
جوانی کی آخری حد بڑھاپا —
اور بڑھاپے کی آخری حد — ایک بدبو دار سڑاہوا جسم —
مجھے اسی جسم سے نفرت ہے۔ مجھے اس جسم سے ہول آتا ہے —
اور مجھے پھرمحسوس ہوا … ڈاکٹر بھٹ کی جلتی ہوئی آنکھیں پھوپھی کے جسم میں اتر گئی ہوں اور ان کے کھردرے سخت ہاتھ پھوپھی کے ’پچ پچے‘ سینے کو دبا رہے ہوں … دبا رہے ہوں … زوروں سے — آہستے سے … اور میری آنکھیں نفرت کے سیلاب میں ڈوبتی چلی گئیں —
٭٭٭
آج زندگی میں پہلی بار میں عجیب سا محسوس کر رہا تھا۔ سیلاب میں ناؤ کے الٹ جانے سے مر گئے اس بچے کی شبیہ میری نگاہوں کے آگے ناچ رہی تھی۔ اس دن کتنا خوش ہوا تھا میں … چلو ایک پوری نسل گندگی سے بچ گئی —
میں پھوپھی کے بے حس و حرکت عضو کو دیکھ رہا تھا … جو ہمیشہ سے میری نفرت و حقارت کے مستحق رہے تھے — دھنسے ہوئے سینے کی رفتار خاموش ہو گئی تھی۔ بلاؤز کا اوپر والا بٹن کھلا ہوا تھا اور ساڑی کا آنچل ہٹ چکا تھا۔ اور ان کا سانولا، ابھرا ہوا گوشت میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ پاؤں سے بھی ساڑی ہٹ گئی تھی۔ جہاں سے سوکھی پنڈلیاں باہر جھانک رہی تھیں —
میں محسوس کر رہا تھا … ڈاکٹر بھٹ کے کھردرے ہاتھ، آنکھوں میں سخت جلن لیے اسے دبار ہے ہوں … آہستہ آہستہ … دھیمے دھیمے …
میں غور سے دیکھ رہا تھا —
پھوپھی کی پنڈلیاں کتنی گھنونی تھیں۔ سوکھی سوکھی — ان کے پاؤں کتنے خراب ہیں — گنواروں کی طرح سب انگلیاں برابر ہیں … ان کا کالا میل سے بھرا تلوا … کھلے ہوئے کمر کا جھری بھرا حصہ … سب کتنا عجیب لگتا ہے … کتنا خراب … کتنا گندہ … چھی … چھی …
میں نے نظریں ہٹائیں … سوچا … اتنا گندہ ہے … پھر بھی ڈاکٹر بھٹ انہیں دبا رہے تھے … پھر ڈاکٹر بھٹ کا چہرہ آنکھوں کے آگے سانپ کی طرح رینگ گیا۔ اس چہرہ میں ایک عجیب قسم کا تناؤ شامل تھا۔ آج دوبارہ میں نے وہی محسوس کیا تھا — ڈاکٹر بھٹ ڈاکٹر ضرور ہیں۔ مگر ایک عورت مریضہ کے لیے ان کی آنکھوں میں نفرت جھلکتی ہے۔ وہ بھی میری ہی طرح عورت کے گھنونے جسم سے نفرت کرتے ہیں —
اس دن جب ڈاکٹر بھٹ تشریف لائے تو میں یہی کچھ محسوس کرتا رہا۔ ڈاکٹر بھٹ کی آنکھوں میں وہی جلن ہے۔ وہی تپش ہے … وہی زہر ہے … جواس کے اندر ہے … جو وہ محسوس کرتا ہے — یہ انسانی جسم کتنا گندہ ہے — اس جسم کے بارے میں سوچتے ہی اسے وومیٹنگ ہونے لگتی ہے اور منہ کا مزہ کڑوی دوائیوں جیسا کسیلا ہو جاتا ہے — اچانک مجھے ڈاکٹر بھٹ کی آنکھوں کی تیز جلن یاد آئی — ایسا میں نے کیوں محسوس کیا — کیا میرا ایسا سوچنا غلط ہے۔ مگر شاید نہیں — دیر تک وہ جلتی ہوئی آنکھیں بجلی کی طرح میرے ذہن میں کوندتی رہیں —
کیا اس انسانی جسم کی بد صورتی نے ڈاکٹر بھٹ کے دماغ میں بھی یہی کیفیت پیدا کی ہے، جیسا کہ میں سوچتا ہوں —
اگر ایسا ہے تو ڈاکٹر بھٹ سے ملنا پڑے گا۔ ڈاکٹر بھٹ کی جلتی ہوئی آنکھیں دیر تک میری آنکھوں کا تعاقب کرتی رہیں —
٭٭٭
سب کام جلدی جلدی ہو رہا تھا۔ راجن بھیا نے اسپتال سے فون کر کے ایمبولینس منگوا لیا تھا۔ ایمبولینس سے اسٹریچر کون کالا گیا اور پھوپھی کو اسٹریچر پر رکھ کر ایمبولینس میں لٹا دیا گیا —
ہم سب ایمبو لینس میں ٹھونس ٹھونس کر بھر گئے تھے۔ لوٹتے وقت خاموش گھر ہمارے منہ تک رہا تھا۔ اور ایک ماتمی دھن سارے گھر میں گونج رہی تھی۔
زندگی کیا ہے — ؟
موت کیا — ؟
میڈیکل کالج ہاسپٹل ہمارے گھر سے لگ بھگ نو میل دور تھا۔ بند ایمبولینس کے اندر روشنی چھٹک رہی تھی اور پھوپھی کاجسم کسی لاش کی طرح بے جان اسٹریچر پر پڑا ہوا تھا … بے حس و حرکت …
پھر پھوپھی کو فیملی وارڈ میں ایڈمٹ کر دیا گیا۔ جو کیبن انہیں ملا۔ وہ بہت اچھا تھا۔ اسٹریچر سے ہاتھوں کا سہار دیتے ہوئے انہیں بیڈ پر لٹا دیا گیا۔ ہمارے کیبن کے سامنے والے وارڈ میں تھوڑی تھوڑی جگہ چھوڑ کر لگاتار کئی بیڈ بچھے ہوئے تھے۔ اور ہر بیڈ پر کوئی عورت مریضہ لیٹی ہوئی تھی۔ اور اس کے عزیز و اقارب نظر آ رہے تھے۔
ایک تیز بدبو پورے وارڈ میں پھیلی ہوئی تھی۔
٭٭٭
یہ میڈیکل کالج ہاسپٹل ہے
(۱۷)
اسپتال میں آنے کے بعد کیسا عجیب محسوس ہوتا ہے۔ آدمی باہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی سے بالکل کٹ کر رہ جاتا ہے — ہر نظر آنے والا آدمی مریض … ہر آدمی بیمار … اور اس کو گھیرے ہوئے مردہ چہرے والے اس کے عزیز رشتہ دار … سب کے سب بیمار نظر آتے ہیں … ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے اسپتال کی دنیا ایک الگ دنیا ہے — پورا وارڈ ایک خاندان ہے — اور ہر بیڈ پر کراہتا ہوا آدمی خاندان کا ایک ممبر ہے —
پھوپھی کو جس وارڈ میں جگہ ملی تھی۔ وہ وارڈ نمبر چار کے بغل والا کیبن تھا اور یہ کیبن نیچے سے پانچویں منزل پر تھا — سیڑھی رولنگ تھی اس لیے اسٹریچر سے آنے میں کسی طرح کی تکلیف نہیں ہوئی — یہ میرا اس طرح کا پہلا تجربہ تھا — آس پاس پھیلے ہوئے، بیڈ پر لیٹے ہوئے، کراہتے ہوئے مریض میری نگاہوں کے مرکز تھے۔ سب کے سب بیمار ہیں۔ ہرکسی کو کوئی نہ کوئی بیماری ضرور ہے —
کہیں کوئی اپنے زخموں کے ساتھ کراہ رہا ہے۔ مکھیاں زخموں پر آ کر بھنبھنا رہی ہیں۔ کوئی پنکھا جھیل رہا ہے۔ عزیز شناسا اداسی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی دنیا ہے —
پاس والے بیڈ سے ایک چیخ ابھری۔ ایک تیز چیخ … اور آس پاس کیبن والے لوگوں کے دل دہل گئے … کیا ہوا … ؟
کچھ نہیں۔ کوئی مر گیا ہے؟
مرگیا ہے … ؟
’ہاں وہ بیڈ نمبر … ‘
تو کیا …
اپنے اپنے بیڈ پر پڑے ہوئے مریض اٹھ گئے ہیں۔ ان کی آنکھیں عجب انداز میں سکڑ گئی ہیں۔ چہرے پر وحشت برس رہی ہے … مرگیا ہے … ؟ آوازیں سمندر کی آوارہ لہروں پر ’ہچکولے‘ کھا رہی ہیں …
ہاں …
جواب ملتا ہے … ’بیچاری … آکسیجن ٹیوب خراب تھی … اگرآکسیجن وقت پر مل جاتا تو شاید بچ جاتی …
’آکسیجن ٹیوب خراب ہے۔ ایک عورت مر گئی۔ ‘
ایک مریض نے دوسرے مریض سے کہا —
دوسرامریض بدبداتے ہوئے لیٹ گیا اور جیسے مضحکہ اڑانے والے انداز میں اپنے عزیزوں کی طرف مڑا …
’کون سی نئی بات کہی تم نے۔ ابھی پرسوں جو رام دین مرا ہے۔ اس بیچارے کو خون ہی غلط دے دیا گیا تھا۔ کسی دوسرے گروپ کا۔ بیچارہ کیسے چھٹپٹاتے ہوئے مرا۔ ‘
’خیر!اس کے مرنے کا کوئی غم نہیں۔ یہ تو کافی عمر کی تھی۔ آج نہیں تو کل مرتی ہی۔ ‘
دوسرے نے منہ بنایا — ’ہونہہ اگر ایسے ہی مرنا ہی ہے تو کیوں نہ سارے لوگوں کا ’ٹینٹوا‘ داب دیتے ہیں — کیوں اتنی تکلیف دیتے ہیں۔ آئیں ؟‘
آس پاس کے مریض اٹھ گئے ہیں — بڑھیا پر گفتگو شروع ہو گئی ہے —
’سب سے لڑتی رہتی تھی — ‘
’تو کیا ہوا۔ اسی عمر میں سب لڑتے ہیں۔ ‘
’دل کی اچھی اور صاف تھی۔ ‘
’لڑتی بھی تھی، پھر پیارسے باتیں بھی کرتی تھی‘
گفتگو آگے بڑھتی ہے —
’بڑھیا تھی بڑی اچھی۔ جس وقت جو ضرورت ہو، جا کر مانگ لو … ‘
دوسری مریضہ جس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اور شکنجے سے‘ کپڑے کے ذریعہ جس کا ہاتھ باندھ دیا گیا تھا … اپنے پوپلے منہ سے بڑبڑائی — کون مرگیا ہے … رامیشور دیا … ‘
’ہاں وہی تو جس سے لڑتی تھی۔ ‘
’ارے مرنا ہے کیا۔ سب کو مرنا ہے … ‘
بڑھیا اپنی جگہ خاموش ہو گئی ہے۔
نرس اس کے پاس آ کر غصے سے کھڑی ہو گئی ہے —
’کیوں گراتا ہے یہ بار بار۔ تو بھی اس کی طرح مرنا چاہتا ہے کیا۔ یہ بار بار شکنجہ گرائے گا تو ہاتھ سے نکال کر رسہ گلے میں باندھ دے گا۔ بس پھانسی لگ جائے گی۔ سمجھے۔ ‘
مریضہ حواس باختہ لیٹ گئی ہے۔ ہاتھ ابھی بھی زخم سے چور ہے۔
غصے سے بکتی ہوئی نرس آگے بڑھ گئی ہے —
بڑھیا کے مردہ جسم کے ارد گرد اس کے بیٹے بیٹیوں کی درد ناک چیخ گونج اٹھی ہے۔ میا … رے … میا … ‘
سینے پر ہاتھ مارتا ہوا اس کا بیٹا پچھاڑیں کھا رہا ہے۔
ہاؤس سرجن اس پر برستا ہے۔
’اے … کیا کرتا ہے۔ اور مریض کو ڈسٹرب ہو گا نا۔ نرس … سسڑ — ان سب کو باہر نکالو … رونا ہے تو باہر رو …‘
ہاؤس سرجن دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگتا ہے۔
بڑھیا کی لاش اب تک لا وارث، بیڈ پر پڑی ہوئی ہے۔ اس کے بیٹے غم سے نڈھال، چور ہو کر باہر چلے آئے ہیں۔ وہ میلی کچیلی سی عورت — شاید اس مری ہوئی بڑھیا کی لڑکی ہے۔ اس سے برداشت نہیں ہو رہا ہے۔ وہ پھر رونے کی کوشش میں چیختی ہے۔ اس کا بھائی ڈانٹتا ہے —
’اے … ای … سنا نہیں۔ ڈاکٹر بابو کہہ گئے ہیں۔ یہاں رونا منع ہے۔ ‘
’ہم تو روئب — وہ عورت روتے روتے چیختی ہے — ڈاکٹر بابو کون ہوتا ہے روکنے والا — ڈاکٹر نہیں کاتل ہے۔ اپن مائی کا جان لی ہس ہے۔ اگر مائی کو ٹیوب وقت پر دیا جاتا تو ہمرا مائی نئی کھے مرتی۔ او کاتل ہے۔ ‘
وہ زوروں سے رونے لگتی ہے —
’ارے چپ‘ — بھائی پھر ڈانٹتا ہے — سن لے گا او۔ تو باہرے کر دے گا۔
نرس دوبارہ باہر نکل آئی ہے۔
’اے ای، کیا کرتا ہے، دس بار بولا … یہاں رونا منع ہے۔ مریض ڈسٹرب ہوتا ہے۔
ہاؤس سرجن اپنی فائل لے کر آ گیا ہے —
’سسٹر — ڈیڈ رجسٹر پر اس کا نام چڑھا دو — اور اس کو چھٹی کر دو۔ ‘
’او کے سر۔ ‘
سسٹر نیچے چلی جاتی ہے۔
کچھ دیر کے بعد وہ واپس لوٹتی ہے۔
’تم اب لاش لے جا سکتا ہے۔ ‘
وہ عورت دھیمی آواز میں اب بھی رو رہی ہے — بیٹا بھی بار بار آنکھیں مل رہا ہے — دوسرے مریض رحم طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
دھوتی کے چھور سے منہ پوچھتا ہوا بوڑھی عورت کا لڑکا دائی کی طرف دیکھتا ہے۔
’اے دائی، میا کونیچے لے چلو‘
’کتنا دو گے۔ ہم تو دس سے کم نہیں لیں گے۔ ‘
دائی کسی تاجر کی طرح اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی ہے —
غریب ہوں — پانچ دے دوں گا۔
’نہیں دس سے کم نہیں لوں گی۔ غریب ہو اسی لیے تو دس لے رہی ہوں — ‘
وہ شخص پھر اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے۔ جس کی بے جان آنکھیں اب ہمیشہ کے لیے وارڈ کی ’سسکیوں ‘ اور چیخ سننے سے محروم ہو گئی ہیں۔ وہ پاگل ہو رہا ہے۔ پریشان آنکھوں سے دائی کو دیکھتا ہے — ’بتاؤ … مری ہوئی مائی کو اٹھانے کا کتنا لو گی … غریب ہوں … مری ہوئی مائے کی اتنی قیمت نہیں دے پاؤں گا — کتنا لو گی … بتاؤ — دکھ آسان کر دو میرا … اس جگہ سے چھٹی دے دو … ‘
وارڈ ایک بار پھر سے، سسکنے لگا ہے ایک تیز چیخ دوبارہ گونج اٹھی ہے۔ دوسرے بیڈ والے تماشائی نظروں سے بوڑھے کی جانب دیکھنے لگے ہیں۔ بوڑھا کھانا دیکھ کر چیخ رہا ہے۔ ’ای کھانا کھلا کر ہم کا مارو گے کا‘
آس پاس والے بیڈ سے ٹھہاکے گونج رہے ہیں —
ایٹنڈنٹ ناگواری کے عالم میں بوڑھے کو ڈانٹتا ہے —
’اے بوڑھے۔ جادہ بکر بکر مت کر — تو رے لیے نواب صاحب کا کھانا آوے گا کا؟‘
اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
’نواب صاحب، کا مطلب — کھانا ایسا ہوتا ہے۔ ‘
’پھر کیا ہوتا ہے۔ کھا — ورنہ ای بھی لے جائب — ‘
بوڑھے نے ناگواری سے کھانا شروع کر دیا ہے۔
اور پھر اچانک پورا ہاسپٹل اندھیرے میں ڈوب گیا۔ ہر طرف اندھیرا۔ اندھیرے میں طرح طرح کے شور ابھرنے لگے۔ درد سے چھٹپٹاتے لوگوں کی گھٹی گھٹی آوازیں پھیلنے لگیں۔ مریض، مریضاؤں کے پاس موم بتی روشن کرنے کے بعد، ان کے عزیز باہر نکل آئے تھے۔ شاید گرمی نے وارڈ میں حبس پھیلا دیا تھا۔
سرینج کے ذریعے وہ عورت جس کو پانی چڑھا یاجا رہا تھا، اچانک شدید گرمی کی کیفیت سے بے قابو ہو کر چیخ پڑی …
’’روشنی … روشنی … جان نکل رہی ہے۔ ‘‘
ہاؤس سرجن نے اس دیہاتن عورت کو زوروں سے جھٹک دیا — چپ! لائٹ کہاں سے آئے گی۔ جنریٹر تو سپرنٹنڈنٹ صاحب کے گھر پر ہے۔ ‘
ہلکی مدھم موم بتی کی روشنیوں کے بیچ وارڈ ایک بار پھر سے مریض کی سسکیوں سے گونج اٹھا ہے —
وارڈ کی سسکیوں اور چیخوں کی ملی جلی آوازوں نے میرے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا — دلخراش آوازیں میرے سینے میں لمحہ لمحہ چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ ہر طرف درد سے چیختے، چھٹپٹا تے، لا وارث مریضوں کے شور —
جنہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے —
جو درد سے چیختے، آکسیجن، ٹیوب کی خرابی کے سبب یا خون کے بر وقت نہ ملنے کے سبب — سرینج کے خراب ہونے کے سبب — قبل از وقت موت کی گود میں سوتے جا رہے ہیں … یہ وہ لوگ ہیں … جنہیں دنیا کی تاریخ میں غریب کہا جاتا ہے — اور انسانیت جن کے نام پر ہمیشہ خاموش ہو جاتی ہے۔
یہ وہ ہیں، جن کے نام پر سیاست ہوتی ہے۔
یہ وہ ہیں، جو سیاست کے نام پر مار دیئے جاتے ہیں —
کیونکہ یہ غریب ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں —
٭٭٭
وارڈ کے سسکتے چھٹپٹاتے لوگوں کو دیکھنا اب میرے بس کی بات نہیں رہ گئی تھی۔ میں دوبارہ پھوپھی کے کیبن میں لوٹ آیا تھا۔ پھوپھی کی آنکھیں اب بھی مندی ہوئی تھی۔ اعضا ویسے ’ہی شتھل‘ تھے۔ دو ہاؤس سرجن ان پر جھکے ہوئے تھے — کوئی نبض دیکھ رہا تھا کوئی بی پی چیک کر رہا تھا —
ایک ہاؤس سرجن کو دوسرے ہاؤس سرجن سے سرگوشیوں میں کہتے سنا … خیال رکھنا … وی آئی پی ہیں۔ کسی بات کی تکلیف نہ ہو۔ ‘
’بے فکر رہو۔ ‘ دوسرے نے کہا۔
وارڈسے مریضوں کے چیخنے کی آوازیں اب تک آ رہی ہیں۔ اس وارڈ میں روشنی تھی۔ وہاں اندھیرا —
یہاں ڈاکٹر ہی ڈاکٹر تھے —
اور وہاں ملک الموت پہنچ چکے تھے۔
آوازیں لگاتار میرا پیچھا کر رہی تھیں —
اور میں سوچ رہا تھا — میڈیکل کالج ہاسپٹل میں سب چلتا ہے — !
٭٭٭
پاگل بوڑھا
(۱۸)
پھوپھی کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی تھی — وہاں کے ہاؤس سرجن نے بتایا۔ ڈاکٹر بھٹ گیارہ بجے آئیں گے — اور اس سے قبل تک وہ کسی طرح کا مشورہ نہیں دے سکتے — جو کچھ وہ کہیں گے، انہی کے مشورے پر عمل ہو گا۔ کون سی دوائی بدلی جائے اور کون سی بڑھائی جائے، اس کے بارے میں وہ جو جیسا بھی مشورہ دیں گے — اسی پر عمل کیا جائے گا —
پھوپھی کی آنکھیں اب بھی بند تھیں اور وہ ہلکے ہلکے کراہ رہی تھیں۔ ان کے سینے کی رفتار سست تھی۔ پیٹ کے پاس سے ساڑی ہٹ چکی تھی پھولے ہوئے پیٹ سے اینٹھی ہوئی ’سکے‘ جیسی ’ڈھونری‘ باہر جھانک رہی تھی — ڈیڈی نے آگے بڑھ کر ان کا آنچل درست کیا۔ صبح نو بج گئے تھے۔ یعنی ڈاکٹر بھٹ کے آنے میں دو گھنٹے کی دیری تھی — میں چپ چاپ باہر نکل آیا۔
فیملی وارڈ اب بھی اپنے ننگے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا — مجھے غصہ آ رہا تھا۔ یہ عورتیں اپنے لباس کا خیال کیوں نہیں رکھتیں — سینہ کھلا ہے تو کھلا ہے — پاؤں پر سے ساڑی ہٹ گئی ہے، تو ہٹ گئی ہے۔ بے شرمی کی بھی حد ہوتی ہے۔ عورتیں یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ ایک بیمار جسم، دیکھنے والی آنکھوں کو بھی بیمار کر دیتا ہے۔
اور پھر میری طواف کرتی ہوئی نظریں اس جلی ہوئی جوان عورت پر ٹک کر رہ گئیں۔ اس کا پورا جسم جلا ہوا تھا — اس کے پیروں سے اس کی ساڑی ہٹا دی گئی تھی۔
جلا ہوا چہرہ بڑا ہی بھیانک تھا — اور خوفزدہ کرنے والا — آگ اور اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر، چہرہ جھلس جائے تو کیسا ہو جاتا ہے — جلا ہوا گوشت کیسا ہوتا ہے — جلے ہوئے گوشت سے کیسی بدبو آتی ہے۔
فیملی وارڈ کی طرف ایک نفرت بھری نگاہ ڈالتا ہوا میں ہاسپٹل کی سیڑھیوں سے اترنے لگا۔ گیٹ کیپر نے مجھے دیکھتے ہوئی آہستہ سے ’دروازہ‘ کھول دیا — اور میں خاموش دبے قدموں سے باہر نکل کر ڈاکٹر بھٹ کا انتظار کرنے لگا —
اب وقت ہو گا ا تھا اور ڈاکٹر بھٹ کے ’ڈائرکشن‘ میں کام کرنے والے ہاؤس سرجن ڈاکٹر بھٹ کے آنے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ اور ان سب کی نظروں کا مرکز وہ بوڑھا شخص تھا۔ جو میدان کے دوسری طرف پتھر کے ستون کے قریب کھڑا تھا۔
لوگوں کی نظریں اس پاگل بوڑھے پر ٹک گئی تھیں۔ بوڑھے نے میلا کچیلا پینٹ شرٹ پہن رکھا تھا — شرٹ پر جھولتی ہوئی گندی ٹائی بڑی مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔ وہ اتنا گندہ اور غلیظ نظر آ رہا تھا کہ اسے دیکھتے ہی نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کے بال اینٹھے ہوئے اور سخت تھے۔ آنکھوں میں غصے اور نفرت کی تیز جلن تھی اور اس کی مٹھیاں سخت اور ’بھینچی‘ ہوئی تھیں۔
آس پاس کے بچے پاگل کو دیکھ کر ہنگامہ مچا رہے تھے — پاگل اپنی دنیا میں گم تھا۔ اسے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ اچانک ایک آواز میرے کانوں میں سنائی پڑی۔
’ڈاکٹر بھٹ کا انتظار کر رہا ہو گا پاگل!‘
’ڈاکٹر بھٹ کا؟‘
میرے لہجے میں حیرانی تیز تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ کوئی تیس پینتیس سال کا ایک غریب آدمی تھا — آس پاس کھڑے کچھ لوگوں کو اس پاگل کے بارے میں بتا رہا تھا۔
پاگل اب بھی اسی انداز میں کھڑا تھا۔ جیسے اسے دنیا جہان کی پرواہ ہی نہ ہو۔ پھر ہنگامہ مچا —
بھیڑ منتشر ہو گئی —
ڈاکٹر بھٹ کی لال فیئٹ ہاسپٹل گیٹ کے پاس آ کر ٹھہر گئی — وہ پاگل اپنی جگہ سے ایک انچ ہلا —
ڈاکٹر بھٹ نے کار کا دروازہ کھولا — شان سے اترے —
ان کے آگے پیچھے چاروں طرف ہاؤس سرجن کی بھیڑ تھی — یہ وہ تھے جوان کے ’ڈائرکشن‘ میں کام کر رہے تھے —
پھر ڈاکٹر بھٹ اپنے ہاؤس سرجن کی بھیڑ کے ساتھ آگے بڑھنے لگے کہ اچانک ایک کھٹاک کی آواز آئی —
ہم سب کے قدم اپنی اپنی جگہ منجمد ہو گئے — ڈاکٹر بھٹ کی نگاہ بھی سب کے ساتھ ساتھ ٹھہر گئی —
ایک بڑا سا پتھر گاڑی کی پشت پر لگا تھا — اور وہاں ستون کے قریب کھڑے پاگل کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے —
ڈاکٹر بھٹ کی آنکھوں میں تیز نفرت سمٹ آئی — کچھ ہی لمحے بعد ان کی آنکھوں میں نفرت مگر فتح کے آثار تھے —
پھر وہ اپنے شاگردوں کے جھنڈ کے ساتھ آگے بڑھ گئے —
وارڈ نمبر ۷ کے قریب آ کر ڈاکٹر بھٹ کے قدم ٹھہر گئے۔ اس وارڈ میں قریب قریب جتنے بھی مریض تھے سب انہی کے زیر علاج تھے۔ ایک دیہاتی شخص تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں ڈاکٹر بھٹ سے مخاطب ہوا —
’ڈاکٹر بھٹ! ذرا دیکھئے تو میری ماں کو کیا ہوا۔ وہ کچھ بولتی بھی نہیں۔ ‘
ڈاکٹر بھٹ تیز قدموں سے اپنے شاگرد ہاؤس سرجن کے ہمراہ آگے بڑھ گئے —
وہ ایک بڑھیا تھی۔ اس کے پوپلے ہونٹ کھلے ہوئے تھے — آنکھیں پھٹ گئی تھیں — جسم کسی لاش کی طرح سرد ہو رہا تھا۔
’جلدی‘ — ڈاکٹر بھٹ نے اپنے ایک شاگرد کی طرف اشارہ کیا۔
وہ کوئی ستراسی سال کی بڑھیا ہو گی۔ اس کا لاغر بوڑھا جسم بیڈ کے آدھے حصے میں ہی سمٹ گیا تھا۔ بلاؤز سے باہر جھولتے ہوئے، اس پچکے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں نے حرکت کرنا بند کر دیا تھا —
ایک ہاؤس سرجن آگے بڑھا — بڑھیا کے پچ پچے سینہ کے درمیان تیز تیز دونوں ہاتھوں کور گڑنے لگا —
’آکسیجن ٹیوب۔ ‘
ڈاکٹر بھٹ کی تیز آواز فیملی وارڈ میں گونج اٹھی۔
فوراً زنگ لگی ہوئی آکسیجن ٹیوب آ گئی اور بڑھیا کی ناک میں لگا دی گئی —
ہاؤس سرجن اب بھی تیز تیز اس کے پچ پچے سینے کو ہاتھوں سے Pump کر رہا تھا — ’سر کوئی حرکت نہیں … ‘
اسٹاپ … اسٹاپ‘
ڈاکٹر بھٹ کی جذبات سے عاری آواز آہستہ آہستہ گونجی … بڑھیا کے ادھ ننگے جسم کا جائزہ لیا …
پھر وہ بڑے اطمینان سے کھڑے ہو گئے۔ ہاؤس سرجن کی آنکھوں میں بھی بیزاری اور ناگواری تھی۔
’شی از نو مور … ساری … ‘
بڑھیا کا لڑکا غش کھا کر گر پڑا — ڈاکٹر بھٹ دوسرے مریضوں کو چیک کرنے آگے بڑھ گئے —
اور پھر وہ دیر تک وارڈ نمبر ۷ کے زیر علاج مریضوں کو چیک کرتے رہے۔ میں دیر تک سوچتارہا۔ کیا میں ڈاکٹر بھٹ کی طرح ایسا کرسکتا ہوں۔ شاید نہیں۔ مجھ میں گندے، سڑے ہوئے جسم کو دیکھنے کی تاب نہیں ہے — جسم کے گھناؤنے حصوں پر ان کے ہاتھ مشینی انداز میں حرکت کر رہے تھے — اور میں محسوس کر رہا تھا، اس فیملی وارڈ میں آنے کے بعد ڈاکٹر بھٹ کی اپنی شخصیت دم توڑ جاتی ہے اور سامنے ہوتا ہے … کوئی دوسرا ڈاکٹر بھٹ … جس کے ہر انداز، ہر طریقہ سے انسانی نفرت ٹپکتی ہے۔ خاص کر ان جاہل جٹ گنوار بوڑھی، جوان عورتوں کے لیے ان کی آنکھوں میں تیز نفرت آمیز چمک ہوتی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود ڈاکٹر بھٹ اپنے مریضوں میں کتنا مقبول ہے …
مگر آخر یہ نفرت … سمندر کی لہروں کی طرح ڈاکٹر بھٹ کی آنکھوں میں اٹھتی چڑھتی کیوں رہتی ہے … اس کی وجہ کیا ہے … ؟
یہی ڈاکٹر بھٹ اپنے کلینک میں اور اسپتال کے گیٹ پر اپنی شاندار فئیٹ کار سے اترتے ہوئے کتنا پر وقار کتنا وجیہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہی وقار فیملی وارڈ میں داخل ہونے کے ساتھ ہی کیوں دم توڑ جاتا ہے اور اس کے لہجے سے نفرت اور حقارت کی بو کیوں محسوس ہونے لگتی ہے۔
وارڈ کی دوسری مریض عورتوں کو چیک کرنے کے بعد ڈاکٹر بھٹ پھوپھی کے کیبن میں تشریف لائے تھے۔
پھوپھی کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ پیٹ پھولا ہوا تھا۔ سرینج سے پانی ان کے جسم میں پہنچایا جا رہا تھا۔ ان کے ہونٹ آہستہ آہستہ کانپ رہے تھے۔
ڈاکٹر بھٹ نے آگے بڑھ کر پھوپھی کی پلکوں کو اٹھایا گرایا۔ پھر نبض دیکھی اور بلڈ یوریا اور ہومو گلوبن کی تازہ رپورٹ مانگی۔
’نبض ٹھیک ہے‘
ڈاکٹر بھٹ کی جلتی ہوئی نگاہ پھوپھی کے پھولے پیٹ پرجم گئی —
’’پیشاب کتنی بار ہوا ہے؟‘‘
’کل سے آدھی بوتل بھی نہیں بھری ہے — پاپا نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ‘
’سارا قصور پیشا ب کا ہے‘
ڈاکٹر بھٹ نے لفظ پیشاب پر زور دیتے ہوئے کہا — اور ایک گھناؤنا منظر میری نگاہوں میں دوڑ گیا۔ میرے منہ کا مزہ کڑوا ہو گاو تھا۔
ڈاکٹر بھٹ نے دوبارہ کہا۔
’بلڈیوریا ابھی بھی بہت بڑھا ہوا ہے۔ پیشاب ہو گا تو پیٹ کی پھولن خود بہ خود غائب ہو جائے گی۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے پر ٹیوب کے ذریعے پانی دیتے رہیے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ Condition اب بھی کچھ روز تک ایسی ہی برقرار رہے گی۔
ان کی زہریلی آنکھیں پھوپھی کے جسم پر مچل رہی تھیں۔ ہاؤس سرجن کو اپنا قیمتی مشورہ ’بانٹتے‘ ہوئے وہ دوبارہ باہر نکل آئے —
ساتھ ساتھ میں بھی ہولیا۔
اور یوں ہوا کہ ایک بار پھر کھڑے سارے لوگ چونک پڑے۔
ایک بڑا سا ڈھیلا دوبارہ کار کی پشت سے ٹکرایا تھا اور وہ پاگل بوڑھا مٹھیاں بھینچے، غصے اور نفرت کے انداز میں ڈاکٹر بھٹ کو گھور رہا تھا۔ ڈاکٹر بھٹ نے ایک نگاہ اس پاگل بوڑھے پر ڈالی۔ پھر کار اسٹارٹ کر دی۔ اور پھر کار یہ جا … وہ جا …
کچھ ہی دیر بعد کار نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
بوڑھا پھر گفتگو کا ایک حصہ بن گیا تھا۔
’جانے کون ہے یہ بوڑھا — ؟‘
’ڈاکٹر بھٹ سے کیا دشمنی ہے؟‘
’پاگل ہے — ‘
’پاگل ہے تو ڈاکٹر بھٹ ہی کیوں ملتا ہے — ؟‘
’ڈاکٹر اس کے خلاف شکایت کیوں نہیں کرتا — ؟‘
ایک آدمی بتا رہا تھا —
’بوڑھا ہمیشہ معمول کے مطابق اپنے وقت پر یہاں چلا آتا ہے اور ڈاکٹر بھٹ کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور پھر ڈاکٹر بھٹ کو دیکھ کر اس کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں — وہ نئے حملے کے انتظار میں اپنی آنکھیں چڑھا لیتا ہے۔ کچھ لوگ بتاتے ہیں یہ ڈاکٹر بھٹ کا باپ ہے ڈاکٹر بھٹ نے اپنی ماں کا خون کر دیا تھا۔ ‘
میں بری طرح چونک گیا۔ وہ بوڑھا پاگل اب رفتہ رفتہ اپنی عام حالت میں لوٹنے لگا تھا۔ اس کی مٹھیوں کاکساؤ ڈھیلا پڑنے لگا تھا۔ اس کی آنکھوں کی آتشی چمک رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگی تھی۔ پھر اس نے اپنی میلی کچیلی ٹائی کی گرہ درست کی۔ شرٹ کو پینٹ کے اندر ڈالا اور ایک شاہانہ شان سے خود کو جھٹکتا ہوا آس پاس کے لوگوں سے بے خبر آگے بڑھنے لگا۔
میری نظر دوبارہ اس غریب پھٹے حال آدمی پر ٹک گئی۔ جو ڈاکٹر بھٹ کی آمد پر کچھ لوگوں کو اس بوڑھے کے بارے میں بتا رہا تھا۔ میں نے ہمت بٹوری، پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
’سنئے‘
وہ آدمی مڑا — اور مڑ کر میری طرف دیکھنے لگا — اس کی آنکھیں میرے بدن کے بیش قیمت سوٹ اور چہرے پر ٹھہر گئی تھیں — میں نے دوبارہ کہا۔ آئیے نا … ہم لوگ چائے پیتے ہیں … ‘
’چائے‘ — وہ چونک گیا۔
’میں بہت چھوٹا ہوں۔ ہے نا — مگر میں آپ سے کچھ جاننا چاہتا ہوں۔ گھبرائیے مت میرے پاس پیسے ہیں —
وہ خاموشی سے میرے ساتھ ہولیا — ا س نے ایک گندہ پائجامہ پہن رکھا تھا — ایک پرانا پھٹا ہوا کرتا، اس کی غریبی کی ساری کہانی کہہ رہا تھا — پھر ہم دونوں کے ملے جلے قدم اسپتال کے احاطہ میں قائم ایک چھوٹے سے ہوٹل میں آ کر ٹھہر گئے —
آمنے سامنے ہم دونوں بیٹھ گئے۔
’سموسہ کھائیں گے آپ‘
وہ کچھ بولا نہیں — خاموشی سے ظاہر تھا۔ بھوکا ہے۔
میں نے آرڈ ر دیا۔ ایک جگہ سموسے اور دو کپ چائے۔
سموسہ آ گیا تھا — ا س نے ایک سموسہ اٹھا لیا — پھر اپنی آنکھوں سے میری کچی عمر کو ٹٹولا — پھر پوچھا۔ کیا پوچھنا ہے۔ ‘
’اس پاگل بوڑھے کے بارے میں — وہ کون ہے — ڈاکٹر بھٹ سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ ‘
اس آدمی کی آنکھوں میں بلا کی چمک سمٹ آئی —
’میں تمہیں سب بتا دوں گا لڑکے، اس کی ساری کہانی۔ ساری داستان۔ کون سے اسکول میں پڑھتے ہو تم؟
’مدر میری اسکول میں ‘ — میرا چھوٹا سا جواب تھا۔
’کس کلاس میں ؟‘
آٹھویں کلاس میں۔ ‘
اس نے ایک زور کی ہونہہ کی۔ پھر ایک سانس لیا۔ جیسے خود کو آنے والے لمحے یا اپنی لمبی چوڑی کہانی کے لیے تیار کر رہا ہو۔ پھر قدرے خاموشی کے بعد اس نے میری طرف دیکھا۔
’’اس بوڑھے کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بھٹ کا باپ ہے۔ اور وہ بوڑھا اپنی بیوی کے غم میں پاگل ہو گیا ہے — جس کا ڈاکٹر بھٹ نے خون کر دیا ہے۔ اس وقت یعنی جس وقت یہ قصہ ہوا تھا، یعنی ڈاکٹر بھٹ نے اپنی ماں کا خون کیا تھا۔ اس وقت اس معاملہ کو لے کر بہت بہت ہنگامہ مچا تھا۔ ڈاکٹر بھٹ کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ مگر پھر وہ چھوٹ گئے تھے۔ کہتے ہیں سیاسی لوگوں سے کافی بنتی ہے ڈاکٹر بھٹ کی —
ـ’اس نے پھر ایک لمبا سانس لیا اور ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ آج ڈاکٹر بھٹ اس شہر کا سب سے اچھا ڈاکٹر ہے۔ لیکن ان دنوں ڈاکٹر بھٹ کی کہانی ہر اخبار میں چھپی تھی — مگر ڈاکٹر کی زندگی کی اصل کہانی سے کوئی واقف نہ ہو پایا۔ صرف مجھ کو چھوڑ کر۔ کیوں کہ میں ڈاکٹر بھٹ سے بہت قریب رہا — میں نے اس کی پوری زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے۔ اس خاموش سے دیکھنے والے ڈاکٹر کی زندگی میں بہت عجیب واقعہ ہوا ہے۔
اس نے پھر میری طرف دیکھا اور کہا —
’مجھے شک بھی ہے کہ تم سمجھ بھی پاؤ گے یا نہیں۔ خیر، میں تمہیں بتاؤں گا۔ ؎
وہ چار سموسے گلے کے پارا تار چکا تھا — اس نے گلاس ہاتھ میں لیا اور غٹاغٹ پوراگلاس پانی گلے میں انڈیل دیا۔ پھر ایک اطمینان کاسانس کھینچا۔ ہاتھ پاؤں سیدھے کئے —
’’میں تمہیں پوری کہانی بتاؤں گا۔ کیونکہ تم نے یہ سموسہ کھلا کر مجھ پر احسان کیا ہے۔ آج میں صبح سے بھوکا تھا۔ مگر اب … خود کو کتنا ہلکا محسوس کر رہا ہوں یہ تم تصور بھی نہیں کرسکتے … اب میں اس بوڑھے پاگل کی کہانی کی طرف لوٹ رہا ہوں۔ ‘‘
اتنا کہہ کراس نے میرے آنکھوں میں جھانکا اور کہا۔
’پہلے اتنا ہی سمجھ لو۔ وہ بوڑھا پاگل ڈاکٹر بھٹ کا باپ ہے۔ ‘
یکایک وہ ٹھہر گیا — لیکن تم کیا سمجھوگے — تمہاری عمر۔ اتنی چھوٹی سی عمر — وہاں تمہاری تلاش ہو رہی ہو گی —
’نہیں — آپ اس کی فکر نہ کریں — ‘
’لیکن تمہیں اس کہانی سے … ؟‘
’آپ نہیں سمجھیں گے — اس لیے کہ آپ ابھی بھی مجھے بہت چھوٹا محسوس کر رہے ہیں … ‘
’وہ تو تم ہو ہی — ‘
’شاید نہیں — ‘میں مسکرایا — میں اتنا چھوٹا نہیں ہوں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں … ‘
’خیر — زندگی بھی کیسے کیسے کھیل کھلاتی ہے — کیسے کیسے رنگ آتے جاتے ہیں — کیسی کیسی لہریں، کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں — زندگی خوبصورت بھی ہے۔ اور نفرت کے قابل بھی — اور کبھی بھی یہ زندگی سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک عمر آتی ہے جب سیکس سارے باندھ توڑ دیتا ہے — ایک عمر آتی ہے جب بدن میں سیکس کے جوار بھاٹا اٹھتے ہیں۔ اور ایک عمر آتی ہے، جب یہ انسانی جسم بے حد گندہ اور گھناؤنا نظر آنے لگتا ہے — ہے نا — ڈاکٹر بھٹ زندگی کی پراسرار گندگی کا شکار ہو گیا تھا — ‘
’’پراسرار گندگی؟ — میں چونکا — ‘‘
’کہانی سنو میاں — ‘وہ خیالوں کی لہروں پر بہتا ہوا دور نکل گیا تھا —
٭٭٭
ڈاکٹر بھٹ ایک پراسرار شخصیت
(۱۹)
میں ڈاکٹر بھٹ کے بچپن کادوست ہوں۔ ہم نے ساتھ پڑھا لکھا۔ ساتھ کھیلا کودا، ان دنوں بھی ڈاکٹر بھٹ بڑا خاموش واقع ہوا تھا۔ اکثر جب اسکول میں ماسٹر جی پڑھا رہے ہوتے تو وہ انجانے میں کہیں کھو جاتا۔ اس کی آنکھیں بہت بڑی بڑی تھیں — اور اتنی گہری اور خوف ناک لگتیں کہ اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے بھی خوف سامحسوس ہوتا۔ ان دنوں میں ڈاکٹر بھٹ کو بہت عزیز تھا۔ وہ کوئی بات بھی مجھ سے چھپا تا نہیں تھا۔ جبکہ اپنے ہی دوسرے ہم کلاس دوستوں کو وہ منہ بھی نہیں لگا تا تھا۔ مگر یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ڈاکٹر بھٹ جیساپیارا دوست ملا تھا۔
وہ اسکول کا زمانہ تھا جب ڈاکٹر بھٹ کے بارے میں، میں نے بہت غلط رائے قائم کی تھی۔ ممکن ہے میری جگہ کوئی دوسرا بھی ہوتا تو وہ یہی رائے قائم کرتا — ان دنوں اس کی آنکھوں میں ’خون بھری چمک‘ ہوتی، اور اس بات کو بڑے آرام سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ’خون بھری چمک … ‘ مجھے اس لفظ کے لیے معاف کرنا، مگر اس وقت اس سے مناسب کوئی دوسرا لفظ میرے پاس نہیں ہے۔
تنہائی کے عالم میں ڈاکٹر بھٹ کے چہرے کے نقوش حد درجہ سکڑ جاتے — وہ مجھے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا کرتا تھا۔ انہی دنوں اس نے بتایا کہ وہ اپنی ماں سے نفرت کرتا ہے۔ شدید نفرت۔
یہ بات میرے لیے اگر عجیب تھی تو چونکا دینے والی بھی تھی۔ اسکول میں پڑھنے والا کوئی لڑکا اپنی ماں سے اتنی شدید نفرت کرسکتا ہے۔ مجھے یقین نہ تھا — اس نے بتایا جب اس کی ماں ساڑی بدلتی ہے۔ بلاؤز بدلتی ہے تو وہ چھپ چھپ کر چپکے چپکے ماں کے بے لباس جسم کو تکا کرتا ہے اور ایک اذیت ناک تکلیف میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس کا دل چاہتا ہے — ماں کے ابھرے ہوئے سینے کے گوشت کاٹ کر پھینک دے — میں حیرت زدہ رہ گیا تھا — مجھے کسی لڑکے سے ایسی امید نہ تھی جو اپنی ماں کے بارے میں ایسی گندگی باتیں بتاتا —
انہی دنوں، کچھ دنوں کے لیے ان سب باتوں کو لے کر ہماری دوستی بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا — ایسی باتوں سے پرہیز کرنے کو کہا۔ دماغ کو پڑھائی کی طرف لگانے کا مشورہ دیا۔ مگر وہ دن بہ دن ایسی ہی باتوں کے درمیان الجھتا رہا۔
ہاں ایک دن اس نے بتایا کہ بچپن میں دو بار اس نے ماں کا دودھ پیا تھا۔ وہ بھی زبردستی — اس کی ماں بہت ہی زیادہ ماڈرن تھیں۔ ہر وقت فیشن میں ڈوبی ہوئی۔ ہر وقت بنے ٹھنے رہنا، پاپا کے دوستوں میں گھلے ملے رہنا اور یہی باتیں ایسی تھیں — جن سے ڈاکٹر بھٹ شدید نفرت کرتا تھا۔
ہاں تو ڈاکٹر بھٹ نے بتایا تھا کہ بچپن میں اس نے دو بار ماں کا دودھ پیا تھا اور سینے کے پاس والے ’تل‘ کو زوروں سے نوچا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے لے کر ماں کے سینے کو دیر تک بھینچتا رہا تھا۔ اور اسے محسوس ہوا، جیسے اس گوشت کے ریشے سے بجلی کی ترنگیں باہر پھوٹ رہی ہوں — اس کا احساس کسی فالج زدہ شخص کی طرح مفلوج ہو کر رہ گیا۔
اس کیفیت میں آنے تک جو بات غور طلب تھی وہ اس نے یہ بتائی — کہ اس کیفیت میں وہ یہ بات پورے طور پر بھول جاتا تھا کہ اس میں اور دودھ پلانے والی اس عورت میں ماں اور بچے کا رشتہ ہے اور اس سے قطع نظر، وہ دیر تک اپنی ماں کے گوشت کے لوتھڑوں کو نوچتا رہتا۔ یہ سب اتنا زیادہ ہوتا کہ ماں جھنجھلا کر اسے پرے کرتی۔ اور اپنے بلاؤز کے بٹن بند کرنے لگتی۔
اس کی آنکھوں میں خوفناک حد تک ایک زہر آلود مسکراہٹ امڈ آئی۔ جیسے وہ اپنی بند آنکھوں سے بلاؤز کے اندر قید لوتھڑوں سے ٹپکتے ہوئے دودھ کا ابھی ابھی ذائقہ لے رہا ہو —
اور پھر ایک دن اس کیفیت سے مجبور ہو کر اس نے اپنی جوان ماں کے سینے کے تل کو اس قدر زور سے کاٹ لیا کہ اس سے خون بہنے لگا — اور تب اس کی ماں کسی شیرنی جیسی بپھر اٹھی تھی۔ اور اس پر ہاتھوں کی لاتعداد بارش دیر تک ہوتی رہی تھی۔
اور اس واقعے کے بعد بھٹ کو اس کی ماں نے دودھ پلانا بند کر دیا تھا۔ لیکن ماں کے لیے اس کی نفرت کسی بھی طرح کم نہیں ہوئی —
اور اس واقعے کے بعد بھٹ خوفناک اور گندی ذہنیت کا آدمی بن چکا تھا۔ وہ پڑھنے میں بہت تیز تھا۔ اتنا تیز کہ کلاس میں جو کچھ بھی پڑھایا جاتا۔ وہ پہلے سے ہی پڑھا ہوتا۔ مگر اس واقعے کے بعد اس کی پڑھائی کچھ مہینوں تک ڈسٹرب رہی تھی۔
اور انہی دنوں اس نے بتایا — وہ چھپ چھپ کر اپنی ماں کا ننگا جسم دیکھا کرتا ہے۔ اسے کپڑے بدلتے ہوئے دیکھ کر اس کے جسم میں سینکڑوں چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں — وہ جب ٹب میں بیٹھ کر نہاتی ہے۔ تو وہ دروازے کے مین ہول سے دیر تک جھانکا کرتا ہے اور وہ گالیوں میں بتاتا … وہ اس کی ماں کب ہے — وہ ایک بدترین کھلونا ہے … ایک ایسا گندہ کھلونا، جس کے لیے ہر لمحہ اس کے اندر کی نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا کھلونا، جس سے اس کے ڈیڈی اور اس کے ڈیڈی کے دوست لطف اٹھاتے ہیں — اپنے دوست بھٹ کو اس گندی ذہنیت سے باہر نکالنے کا میرے پاس سوائے سمجھانے کے اور دوسرا کوئی حل نہیں تھا — اور میں سمجھ رہا تھا۔ بھٹ نے اپنے اور اپنی ماں کے درمیان جو دیوار اٹھائی ہے اسے صرف موت ہی پاٹ سکتی ہے — اس کے گندے، آوارہ خیالات کو بدل پانا، اور اسے صحیح راستے پر لانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
اور انہی دنوں، ڈاکٹر بھٹ ایک وحشی درندے کی طرح ہمارے پیچھے چلنے لگا تھا۔ اکثر اس کے ہاتھوں میں ننگی تصویروں والی کتابیں دیکھی جاتیں۔ اور ہمیں محسوس ہوتا، عورت کے اعضا کے بارے میں جتنا کچھ بھٹ جانتا ہے شاید ہمارے بائلوجی کے سر بھی نہ جانتے ہوں۔
وہ سڑک سے گزرتی ہوئی عورتوں کو دیکھتا — ان کے جسم کے پیچ و خم پر آہ بھری نظریں ڈالتا — وحشیانہ انداز میں گھورتا — یہ سب مجبوری کے باوجود بھٹ کا اب محبوب مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمیں معلوم تھا، وہ اس پستی کے سمندر میں بہتا بہتا بہت دور چلا گیا ہے — اتنی دور کہ اب خواہش کے باوجود بھی اس کو بچایا نہیں جا سکتا۔ ڈاکٹر بھٹ کے باپ بھی ڈاکٹر تھے۔ اپنے شہر کے مشہور ڈاکٹر، ہر باپ کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھٹ بڑا ہو کر ایک مشہور ڈاکٹر بنے۔ مگر بھٹ ان دنوں پستی اور زوال کے راستے پر چل پڑا تھا۔ ایک دن ٹیچر نے اس کے ڈیسک سے جو کتاب برآمد کی۔ وہ وہی کتاب تھی ننگی تصویروں والی — کلاس کے سارے لڑکے دم بخود ہو کر بھٹ کا کارنامہ دیکھ رہے تھے۔ ٹیچر نے بھٹ کو تو کچھ نہ کہا مگر پرنسپل سے جا کر شکایت کر دی۔ اور پرنسپل نے اس سلسلے میں بھٹ کے باپ کو ایک خط بھیجا — خط کا مفہوم کچھ اس طرح تھا۔
ڈاکٹر صاحب!
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں آپ کے لڑکے بھٹ نے ایک ایسی شرم ناک اور گری ہوئی حرکت کی ہے کہ ہم براہ راست اس سلسلے میں اس سے جواب بھی طلب نہیں کرسکتے — اور نہ ہی پوچھنے کی جسارت ہی کرسکتے ہیں کہ اس نے یہ کہاں سے سیکھا اور ایسا کیوں کیا۔ اس کے ڈیسک سے ننگی تصویروں والی کتاب ملی ہے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں — اسکول میں پڑھنے والے ایک چھوٹے سے لڑکے کو ان تصویروں سے کیا مطلب ہوسکتا ہے — اور اس کا اثر اس کے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں پر کس قدر پڑسکتا ہے — ہمارا ارادہ تو بھٹ کو اسکول سے نکال دینے کا تھا مگر آپ کی عزت اور شہرت کے خیال سے ہم آپ سے اس سلسلے میں جواب طلب کرتے ہیں۔ آپ ہمیں اتنا اطمینان ضرور دلا دیں کہ وہ مستقبل میں ایسی شرمناک اور گری حرکت نہیں کرے گا اور اگر وہ دوبارہ اس کے پاس سے ایسی کتابیں پائی جائیں گی تو سوائے اسکول سے نکال دینے کے، ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو گا۔
آپ کا
پرنسپل
سینٹ ہائی اسکول
بھٹ نے بتایا تھا۔ یہ خط ملتے ہی اس کے ڈیڈی غصے سے لال پیلے ہو گئے تھے۔ اور وہ بڑی ڈھٹائی سے خاموش بنا رہا تھا اور ان کے یہ پوچھنے پر کہ یہ کتابیں اور تصویریں دیکھنے کا شوق اس میں کہاں سے پیدا ہوا تو اس نے بڑے ہی اطمینان اور سادگی بھرے انداز میں جواب دیا تھا — آپ اور ماں کے رشتے سے …
اور بھٹ دیر تک ہنستا رہا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اچانک ڈیڈی کا چہرہ فق ہو گیا تھا اور وہ بڑے اطمینان سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
رات میں کھانے کے وقت بھی خاموشی پسری رہی — اس کی ماں نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا — مگر اس نے ترچھی نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا — ماں کے تھل تھل ہوتے ہوئے جسم کے تنگ بلاؤز کو، سینے کے کساؤ اور ابھرے پن کو — ہونٹوں کی گہری لالی کو — چہرے پر پاؤڈر کی مصنوعی چمک کو۔
اور پھر بھٹ نے جو کچھ بتایا اسے سن کر میں بالکل دنگ رہ گیا …
بھٹ نے چہرے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ، ایک ساتھ الجھن اور نفرت کی گہری گہری سانس لیتے ہوئے بتایا …
میری ماں اور طوائف میں کوئی فرق نہیں۔
طوائف ناچتی ہے۔ اور پیسے کے لیے بک جاتی ہے۔
فرق صرف اتنا ہے، میری ماں نہ ناچتی ہے اور نہ پیسے کے لیے بکتی ہے۔ لیکن دونوں عمل ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق صرف سوسائٹی کا ہے۔ غیروں کے سامنے ننگی ہونے والی عورت کو طوائف کہہ دیا اور اونچی سوسائٹی والوں کو … یہ غیر کتنے اپنے ہو جاتے ہیں۔ یہ میری ماں سے پوچھو۔
اس کے لہجے میں نفرت تھی —
وہ بھی پاپا کے دوست انکل کے سامنے بے لباس ہو جاتی ہے۔ اور پھر اس نے سڑک کی دوسری جانب غصے سے تھوک دیا —
’میری ماں کو کوڑھ ہو جائے۔ ‘
اور اس دن پہلی بار میں نے محسوس کیا تھا۔ ڈاکٹر بھٹ گندہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ذہنیت گندی ہے — وہ ماحول گندہ ہے۔ وہ فضا گندی ہے جہاں کی آب و ہوا بھٹ جیسے معصوم لڑکے کے ذہن کو ایسا ہونے پر مجبور کر دیتی ہے …
اس کے بڑی بڑی گہری، نفرت آمیز آنکھیں اچانک جب ایساکہتے ہوئے میری طرف دیکھتی ہیں تو یقین جانو میری ہمت نہیں ہوتی کہ میں اس کی آنکھوں کا سامنا کرسکوں۔
اور یہیں سے ڈاکٹر بھٹ اور اس کی ماں کے درمیان نفرت کی شروعات ہوتی ہے۔ ان دنوں وہ ذہنی طور پر اتنا پریشان تھا کہ اکثر مجھ سے کہتا … پتہ نہیں یہ مجھے کیا ہو جاتا ہے … شاید یہ سب صرف میں ہی سوچتا ہوں یا میرے جیسے دوسرے بھی … کبھی کبھی لگتا ہے سوچتے سوچتے ذہن کی نسیں ٹوٹ جائیں گی … میں نے اسے رائے دیا — کیوں نہیں تم میرے گھر آ جاتے … ‘‘
اس غریب شخص نے پہلی بار خاموشی سے میری طرف دیکھا اور چائے کا گلاس ایک ہی دفعہ میں انڈیل کر ٹیبل پر رکھ دیا — پھر کہا — ان دنوں میرا جو گھر تھا وہ کسی قلعہ سے کم نہیں تھا۔ میرا باپ ایک بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ‘
اس نے پھر میری آنکھوں میں دیکھا۔ جیسے پوچھ رہا ہو۔ کیوں حیرت ہے نا، میں ایک غریب شخص جس کے پاس پہننے کو بھی کچھ نہیں — اس نے دوبارہ کہا۔ یہ وقت کی بات ہے۔ میرے باپ کو دو خراب عادتیں تھیں۔ ایک جوا دوسری عورت — میں چاہتا تو بھٹ سے کہہ سکتا تھا کہ میری کہانی تم سے کچھ الگ نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تم جو دیکھ کر جیتے ہو، میں وہی دیکھ کر پی جاتا ہوں — اس جوئے اور عورت نے میرے باپ کو موت کی گود میں سلادیا — دھن دولت سب کچھ اس نے گنوا دیا۔
وہ پھر سے اپنے معمول پر لوٹ آیا تھا۔ قدرے خاموشی کے بعد اس نے پھر بتانا شروع کیا۔
میرے ایسا کہنے پر بھٹ نے کہا نہیں یار، میں تمہارے گھر تو نہیں رہ سکتا۔ مگر میں اپنے گھر بھی نہیں رہ سکتا۔ ہر وقت وہ طوائف میری نگاہوں میں ناچتی رہتی ہے اور میں ذہنی طور پر اتنا پریشان ہو جاتا ہوں کہ پڑھ نہیں پاتا۔ مگر مجھے اس کی صورت نکالنی ہو گی — میں ڈیڈی سے کہوں گا کہ میں ایک الگ کمرہ لے کر کہیں اکیلے میں رہنا اور پڑھنا چاہتا ہوں۔
ان دنوں وہ اپنے کیریئر کو لے کر بڑا فکر مند ہو گیا تھا۔ پھر اس نے اپنے گھر سے کئی میل دور ایک گھر میں ایک کمرہ اپنے لیے حاصل کر لیا — وہیں رہ کر پڑھنے لگا۔
وہاں میں اس سے ملنے اکثر جاتا تھا — اور یہ بات وہاں جا کر میں نے محسوس کی کہ وہ گھر سے ضرور کٹ گیا ہے مگر اس کی پراسرار خاموشی میں، اور اس کی آنکھوں کی زہر آلود، آتشی چمک میں کوئی فرق نہیں آیا ہے — عورت اس کے مزاج پر اب بھی کسی انگارے جیسی موجود ہے۔ مگر ان دنوں وہ پوری طرح میڈیکل کی تیاری میں جٹ گیا تھا۔
مگر اس کی تباہی و بربادی کا اصل قصہ بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہیں سے میرے گھر پر بھی بربادی کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ میرا باپ کنگال ہونا شروع ہو گاس تھا۔ جوئے میں وہ اپنی ساری دولت لگا چکا تھا۔ اور جو مکان تھا، وہ بھی اب آہستہ آہستہ ہم سے چھنتا ہوامحسوس ہو رہا تھا۔ پیسے کی کمی اور تنگدستی کی وجہ سے میں ذہنی طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ میڈیکل کمپٹیشن میں ہم دونوں بیٹھے — مگر بھٹ بازی مار گیا۔ اور میرے حصے میں ناکامی ہاتھ لگی۔
’اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ ‘ ذرا توقف کے بعد، ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اس نے دوبارہ بولنا شروع کیا —
اور میں دن بہ دن کنگال ہوتا جا رہا تھا۔ مگر بھٹ سے میرے مراسم اب تک اچھے تھے۔ وہ مجھ سے اکثر ملتا۔ اکثر اپنی بھیانک سوچوں کی تہہ مجھ پر کھول دیتا۔
اور انہی دنوں میری زندگی میں ز بردست اتار چڑھاؤ کے دن آئے — میرا کوئی نہ تھا — کوئی یار و مددگار نہیں — میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا — اب بھٹ مجھ سے نہیں ملتا تھا — ملتا تو پلٹ کرراستہ بدل دیتا — زندگی میں ایک کہانی وہ بھی ہوتی ہے دوست، جب صرف اندھیرا ہوتا ہے۔ اور اندھیرے کی سلطنت میں ہم اپنی گم نامی کی کہانی لکھ رہے ہوتے ہیں —
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب وہ میڈیکل کے دوسرے سال میں تھا۔
ایک دو روز کی چھٹی میں گھر آیا ہوا تھا۔ اس کی پراسرار خاموشی گھر والوں کے لیے ایک معمہ بن گئی تھی۔ وہ بہت کم بولتا تھا۔ زیادہ تر وہ اسی وقت بولتا، جب گھر میں لوگ اس سے سوالات کرتے۔ اس کی ماں اب تک ویسی ہی فیشن میں ڈوبی ہوئی، اس کے ڈیڈی کے دوستوں میں گم تھی۔ ویسی ہی ہونٹوں کی سرخی اس کے ہونٹوں پر آج بھی نمایاں تھی۔ ویسی ہی تڑک بھڑک اور جسم کی کھلم کھلا نمائش کرتی وہ آج بھی نظر آتی تھی۔ مگر اس کا نمائشی بدن اب بھٹ کے دل میں کوئی انقلاب، کوئی طوفان نہ اٹھاتا تھا۔
شاید اسی لیے میں بھٹ کو قصور وار نہیں مانتا ہوں — نہ اس کی اس قسم کی گندگی ذہنیت کو — بچپن کی غلط کہانیوں کو وقت کا دیمک کب کا نگل چکا تھا — اور اب حال کی پتھریلی سڑکوں پر کوئی اندر تھا جس کے اندر ایک بھیانک جنگ چل رہی تھی۔
یہ وہی ماحول تھا۔ یہ وہی معاشرہ تھا، جہاں بھٹ کا بچپن گزرا اور اس گندے ماحول سے نکلنے والے بھٹ نے جسم کی وہ کینچلی نکال پھینکی — جسے معصومیت سے سماجی آداب و اظہار ورسم و رواج کہا جاتا ہے۔ جس کے سائے میں ایک پوری زندگی گزار دی جاتی ہے — کہتے ہیں۔ اپنی ماں سے نفرت کی خاص وجہ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس نے ماں کے سینے کے کالے تل کو کاٹ لیا تھا۔ بھٹ کی ماں کو چاہئے تھا وہ فوراً اس بات پر غور کرتی۔ آخر اس وحشی پن کاسبب کیا ہے۔ انہی دنوں ماں کے سینے کا تل بھٹ کی نظروں میں آگ کے گولے جیسا بننے لگا تھا۔
اور پھر ماں کا فیشن، ڈیڈی اور ڈیڈی کے دوستوں کے ساتھ تھرکتے ہوئے وہی گھناؤنا کھیل … سسکاریوں اور سانسوں کا ملا جلا سنگیت۔ اور بھٹ کا ذہن ان سب باتوں کو لے کر گندگی کی معراج پر پہنچ چکا تھا۔ اسے ہر عورت میں اپنی ماں کاعکس نظر آتا۔ اور اس کے جسم کے ابھرے اعضا ماں کی طرح ہی، سانپ کی زبان کی نکالے ڈستے نظر آتے۔
مگر بات حدسے زیادہ اس وقت بڑھی جب ایک دو روز کی چھٹی کے موقع پر بھٹ گھر آیا ہوا تھا۔ ان دنوں اس کی عمر مشکل سے بائیس سال کی ہو گی۔ وہ میڈیکل کے دوسرے سال میں تھا۔
گھر کے پیچھے والے حصے میں صرف ایک ہی لیٹرین تھا۔ جس کی اندر سے لگانے والی کنڈی ٹوٹ گئی تھی اور وقت کی کمی کے باعث اب تک نظر انداز کی جا رہی تھی۔ بیت الخلا کی طرف جاتے ہوئے ہر وقت ایک خیال ذہن سے چپکا رہتا کہ کہیں کوئی آنہ جائے۔
اس درمیان لیٹرین کے اندر جانے کی صورت میں گھر کے افراد نے ایک نئی صورت کھوج نکالی تھیں —
دروازے کے باہر ہاتھوں سے لکھا ایک بورڈ آویزاں کر دیا جاتا … No Vacancy
یا پھر ڈاکٹر صاحب کاسائن بورڈ دروازے پر رکھ دیا جاتا … اندر آنا منع ہے یا اندر ڈاکٹر ہیں۔
بھٹ ان دنوں نیا نیا آیا تھا اور اس عجیب صورتحال کے بارے میں اس کی واقفیت نہیں تھی۔
اس دن صبح کے کوئی آٹھ بجے ہوں گے۔ پیٹ کے اندر طوفان آیا ہوا تھا۔
وہ تیزی سے لیٹرین کی طرف بڑھا۔ اور No Vacancy کے بورڈ سے قطع نظر اس کے ہاتھوں نے کھلے ہوئے دروازے کے پٹ کو الگ کر دیا۔
اور اچانک اس کی آنکھیں خونی ہو گئیں۔
ان میں وحشت ہی وحشت جھانک رہی تھی۔
سب کچھ منٹوں میں ہو گیا تھا۔
اندر لیٹرین میں بھٹ کی ماں پہلے سے ہی موجود تھی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی گھبراہٹ میں وہ زور سے چیخی —
’گیٹ لاسٹ‘
بھٹ کی آنکھیں جیسے اس کے وجود … اس کے جسم میں پیوست ہو گئی تھیں —
’گیٹ لاسٹ‘
ماں پھر چیخی —
بھٹ کی آنکھوں میں چکر آ رہے تھے۔ وہ لڑکھڑا رہا تھا۔ لڑکھڑا تے قدموں سے اپنے کمرے میں آیا۔ تب تک غشی اس کے وجود پر حاوی ہو چکی تھی۔
٭٭٭
نفرت
(۲۰)
اور پھر بھٹ وہاں سے بھاگ کھڑ ا ہوا۔ لیٹرین کے اندر کا وہ ہولناک منظر اس کی نگاہوں کے آگے اب تک ناچ رہا تھا۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ آنکھیں لال سرخ ہو گئی تھیں۔ چہرہ عجیب انداز میں سکڑ گیا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں آ گیا اور ایک کرسی پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
دماغ کی نس نس چٹخ رہی تھی۔
اس کے دماغ میں مسلسل دھماکے ہو رہے تھے —
اس واقعے کے دوسرے روز میری ملاقات اچانک شام کے وقت اس سے پارک میں ہو گئی۔
میں بے روزگاری کے سبب بے کار تھا اور ذریعہ معاش سے نا امید ہو کر دل کو بہلانے کے لیے پارک میں چلا آیا تھا۔ اچانک دیکھا … بھٹ افسردہ قدموں سے چلا جا رہا ہے۔
میں نے اسے آواز دی — پھر بھی وہ آگے بڑھتا رہا۔
میں چلایا … ’ بھٹ رک جاؤ۔ ‘بھٹ چونکا۔ میری طرف دیکھا اور خاموشی سے، کھویا کھویا سا چلتا ہوا میرے قریب آ گیا۔
کچھ دیر تک ہم دونوں ایک بینچ پر خاموش بیٹھے رہے۔ اس نے کچھ کنکریاں چن لی تھیں۔ جو وہ رہ رہ کر پاس سے بہتی ہوئی پارک کی خوبصورت ندی میں پھینک رہا تھا۔ شاید یہ سلسلہ وہ خود کو قدرے ہلکا اور کچھ کہنے کے لائق بنانے کے لیے کر رہا تھا۔
قدرے ٹھہر کر وہ اسی انداز میں، کنکریاں پھینکتا ہوا بڑبڑایا — دوست !سچ کہتا ہوں … میں مر جاؤں گا۔
کیا — میں چونکا … پریشانی کے انداز میں اس کی طرف دیکھا — مگر کیوں ؟
کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ہو۔ اور شاید یقین بھی نہ کرو۔
’مگر تمہارے ساتھ ہوا ہے کیا — میں نے اسے کرید نے کی کوشش کی۔ ‘
وہ کنکریوں کاسلسلہ جاری رکھتا ہو بولا۔
’یا تو میں خود مر جاؤں گا۔ یا پھر ماں کو مار ڈالوں گا۔ ‘
میں اب بھی حیرت کے سمندر میں گم تھا۔ میں جانتا تھا بھٹ اپنی ماں سے بہت زیادہ نفرت کرتا ہے مگر نفرت اس حد کت پہنچ سکتی ہے میں اس سلسلے میں سوچ بھی نہیں پایا تھا۔
ذرا ٹھہر کروہ دوبارہ بولا۔
’جانتے ہو، آج چار روز ہو گئے ہیں۔ میں اب تک پیشاب یا پاخانے کے لیے نہیں گیا ہوں۔ ‘
میں زور سے چونکا اور اس کی طرف بغور دیکھا۔ اس کا چہرہ واقعی پیلا پڑا ہوا تھا۔ چہرے پر کش مکش اور جھنجھلاہٹ کا ملا جلا رنگ تھا۔ وہ قدرے دبلا بھی ہو گیا تھا۔
اس نے کنکری پھینکنے کاسلسلہ منقطع کرتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
’’اگر کھاؤں نہیں تو موت یقینی ہے اور اگر کھاتا ہوں تو پھر ان فطری اصولوں سے بغاوت ممکن نہیں۔ ‘‘
کیا مطلب — میں پھر چونکا۔
’کیا تم پاخانے جانے اور پیشاب کرنے کے حق میں نہیں ہو؟‘
’ہاں ‘
اس کا ٹھہرا ہوا جواب تھا۔
اور جیسے دنیا ٹھہر گئی — میرا منہ کھلا ہوا تھا — یعنی سراسر فطری اصولوں سے بغاوت — مگر کیوں — یہ کیسی پہیلی ہے۔ انہونی بات، نہ سنی، نہ دیکھی —
’ ہاں۔ میں نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے وہاں جانے سے نفرت ہے۔ مجھے سوچ کر گھن آتی ہے — ذرا سوچو، کتنی شرمناک حالت ہوتی ہے — ایک آدمی دونوں پیر سکوڑے بیٹھا ہوا ہے — پھر طاقت آزمائی — اور پھر پیشاب کا وہی عالم، پینٹ کھول دیا۔ اور ایک گندہ سیال پیشاب کی صورت باہر نکل آیا۔ دوست میں جب سوچتا ہوں کہ ایسی ہی صورت میری ماں کی بھی ہوتی ہے۔ میری بہن کی بھی ہوتی ہے۔ کسی بھی مرد یا عورت یا پھر میرے باپ یا پھر کسی بھی انسان کی ہوتی ہے۔ تو تم تصور نہیں کرسکتے۔ نفرت کی کیسی لہر میرے اندر دوڑ جاتی ہے۔
وہ ذرا ٹھہرا۔
اس کا چہرہ شکن آلودہ ہو رہا تھا —
’میں نے دیکھا ہے۔ اپنی ماں کو … ‘
اس کے ہونٹ شدید نفرت کے تحت بھینچ گئے تھے — اور پھر یوں ہوا کہ اس نے اپنا سرتیزی سے دونوں ہتھیلیوں سے تھام لیا اور بنچ کی پیٹی پر اپنا سر ٹکا کر آنکھوں کو بند کر لیا۔
’میرے دوست — بھٹ میرے دوست بھٹ، یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ ‘
میں زوروں سے چلایا۔ یہ سب تمہارے ذہن کی گندگی ہے۔ تم اول فول باتیں سوچنا بند کرو۔ تمہارا میڈیکل کالج کب کھل رہا ہے۔ ‘
میں جانتا تھا۔ میری تسلی بخش باتیں فی الحال اس کے لیے بیکار ہی ہیں۔ اور بے کار ثابت بھی ہوئیں — وہ یونہی کچھ وقفے تک آنکھیں موندے پڑا رہا۔
پھر اٹھا اور بغیر کچھ کہے وہاں سے چل دیا۔
٭٭٭
’مائی لٹل فرینڈ‘
ذرا توقف کے بعد وہ آدمی مجھ سے مخاطب ہوا — اب تمہیں ساری بات معلوم ہو چکی ہو گی۔ وقت بھی کافی گزر چکا ہے۔ تمہارا احسان کہ تم نے ظالم پیٹ کی بھوک کچھ دیر کے لیے ختم کر دی۔ ڈاکٹر بھٹ کا قصہ بھی تمہاری سمجھ میں آ چکا ہو گا اور اگر نہیں بھی، تو تھوڑا بہت تو تم ضرور ہی سمجھ گئے ہو گے۔ آگے کی داستان بس اتنی ہے، ممکن ہے اسی کیفیت کے عالم میں ڈاکٹر بھٹ خود کو روک نہیں سکا ہو گا۔
لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بھٹ کی ماں گیس کا چولہا پھٹنے سے مر گئی تھی۔ مگر بھٹ کے باپ نے بہت واویلا مچایا۔ ان کا کہنا تھا۔ یہ سب کرشمہ بھٹ کا ہے۔ بھٹ نے ہی چولہے میں کچھ گڑبڑی کی تھی۔ بھٹ کو معلوم تھا کہ اس کی ماں تین بجے کے قریب کافی گرم کرنے رسوئی گھر میں جاتی ہے۔ اور اس وقت رسوئی گھر میں کوئی نہیں رہتا۔
بھٹ نے پہلے سے ہی گیس کھول دی تھی اور کمرے میں بھاپ جمع ہو رہا تھا۔ ایسی ہی بہت ساری باتیں تھیں جو سننے میں آ رہی تھیں —
ڈاکٹروں کے مطابق بھٹ کا دماغی توازن ان دنوں ٹھیک نہ تھا۔ اور اگر ایسی حالت میں ا س نے اس طرح کی کوئی بات کی بھی تھی تو اسے جرم کہنا بہتر نہ ہو گا۔
اس لیے اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ہاتھ جس کا بھی ہو۔ بھٹ بچ گیا۔ اس کا باپ پاگل ہو گیا۔
بھٹ کی پڑھائی کئی مہینے تک ڈسٹرب رہی۔ اس بیچ وہ اپنے دماغی توازن کو برقرار رکھنے اور روزگار کی تلاش میں لگا رہا۔ اور دوسری طرف وہ اپنی پڑھائی پربھی توجہ دیتا رہا۔ نتیجہ خیر خواہ نکلا اور بالآخر وہ ایک ڈاکٹر بن گیا۔
چائے کی دو ٹھنڈی پیالیاں میرے سامنے رکھی تھیں۔ اور میرے سامنے خلا میں بس ایک ہی لفظ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ نفرت — انسانی جسم سے نفرت — جسم کی ساخت اور بناوٹ سے نفرت — فطری اصولوں سے نفرت۔
پھوپھی بیمار ہیں۔ ان کے سڑے ہوئے اعضا سے نفرت — منی دی سے نفرت۔
راجن بھیا اور منی دی کے بند کمروں سے جھانکتی محبت سے نفرت۔
محبت کے لمس اور محبت کے احساس سے نفرت
پاپا اور ممی کے بند کمرے میں کھیلے جانے والے گندے کھیل سے نفرت
میری مٹھیاں دھیرے دھیرے بند ہو رہی تھیں۔
او ر بند آنکھوں میں ساری دنیا ننگی ہو کر وحشیانہ رقص کر رہی تھی —
٭٭٭
میری آنکھوں کا کلینڈر
(۲۱)
انہی دنوں ایسا احساس ہونے لگا تھا، جیسے میری یہ دونوں آنکھیں ایک کلینڈر ہوں۔ کلینڈر کے اوپر موٹے حرفوں میں ۱۲کا ہندسہ جگمگا رہا ہو۔ یعنی میں پورے بارہ برس کا ہو گیا ہوں اور اس کے نیچے ۱۲برس گزرنے کی کہانی کی ساری تاریخیں ایک ساتھ موجود ہوں۔
میں دیکھ رہا ہوں۔
منی دی اور راجن بھیا کی بند کمرے سے سسکیاں جمع ہو رہی ہیں … میں ان سسکیوں کے بھنور میں ڈوبتا جاتا ہوں —
ممی اور ڈیڈی کے کمرے سے آتی ہوئی سنسنی خیز سسکیوں کی آوازیں۔ یہ آوازیں مجھے بند کمرے میں پاگل کر دیتی تھیں —
مسز ڈولچی والی کی عجیب داستان —
کیستوریا کی خونی جنگ —
نسل کی جنگ، ذات کی جنگ، گورے کالے کی جنگ —
پھوپھی کے ساتھ کیستوریا کے بدنما رشتے کی جنگ —
پھوپھی کے بدصورت اعضا کے ساتھ میرے احساس کی جنگ —
اور اب صرف جنگ —
گھر کے ساتھ —
سماج کے ساتھ —
خود کے ساتھ۔ ایک گھناؤنی، نفرت آمیز جنگ —
میں آنکھیں موندنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تھکے ہارے قدموں سے ہاسٹل کی سیڑھیاں پھلانگ رہا ہوں۔ گیٹ کے قریب والی نالی کے پاس ایک عورت ساڑی اٹھائے ہوئے پیشاب کرنے میں مشغول ہے۔
کالی کلوٹی بدصورت سی عورت۔ گندے بلاؤز میں ابھرا ہوا اس کا موٹا بھاری بھرکم سینہ۔ کالے میل جمے پاؤں۔
اور بیٹھنے کا فحش انداز۔
اور اس سے زیادہ شرمناک …
مجھے ڈاکٹر بھٹ کی بات یاد آ رہی تھی اور لمحہ لمحہ میرا ذہن اس فطری اصول سے بغاوت پر آمادہ نظر آ رہا تھا۔
پھوپھی کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بھی میری نظر میں وہی بدنما رنگ جمع تھے۔ جو مسلسل مجھے گھیر کر کھڑے ہو جاتے … مجھ پر قہقہہ لگاتے —
کھلے ہوئے بیڈ پر کپڑوں کی فکر سے بے نیاز پڑے ہوئے مرد۔ عورتیں بوڑھے، لڑکے، لڑکیاں …
ان سب کے جسموں کو بیماری لگ گئی ہے —
وہی جسم، جو بند کمرے میں گندے فحش کھیلوں کو آواز دیا کرتا ہے۔ وہی جسم، جس کے لیے کپڑے، احساس کی طرح اتار دیئے جاتے ہیں — وہی جسم جو بند کمرے میں ایک دوسرے کو پاگل بنا دیتا ہے۔ وہی جسم جس کو صحت مند رکھنے کے لیے محبت کی جاتی ہے — جسے پرکشش بنائے رکھنے کے لیے جاگنگ اور ڈائٹنگ کی جاتی ہے۔ مگر کیا ہوتا ہے۔ ایک دن یہ جسم سڑ جاتا ہے۔
یہی جسم بیمار ہو کر کتنا گھناؤنا نظر آنے لگتا ہے۔
بیڈ پر پڑے جوان لڑکے لڑکیاں —
جسم کی خوبصورتی اب بیمار ہو کر بیڈ سے لگ گئی ہے۔ سوکھا مرجھایا چہرہ۔ بدصورت سا، ابھرا ہوا سینہ۔
لڑکوں کا مرجھایا جسم — جسم — جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک سڑے گلے گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے —
کھیل چلتا رہتا ہے — عمر کا پہیہ جب ایک مخصوص عمر پر آ کر ٹھہر جاتا ہے تب یہی انسانی اعضا اتنے ڈھیلے ڈھالے اور کراہیت آمیز ہو جاتے ہیں۔ کہ سوچ کر گھن آنے لگتی ہے۔
پھوپھی کے پڑوس والے بیڈ پر جو بوڑھا ہے۔ وہ پیشاب کرنے کے لیے بوتل استعمال کرتا ہے۔
اور پھوپھی خود …
ذہن آوارہ خیالات کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
لگتا ہے اب میرے روپ میں کسی دوسرے ڈاکٹر بھٹ کا جنم ہو رہا ہے۔ میری آنکھوں کے کلینڈر کے نیچے والی تصویر مسکراتی رہی ہے …
جسم — میں اس وقت جسم کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچ رہا ہوں۔ یہ جسم کتنا گندہ، کتنا گھناؤنا ہے — اس کے باوجود جسم سے یہ محبت کیوں ہے؟
مجھے احساس ہوا، میرے جسم سے تیز بدبو اٹھنے لگی ہو — ایسی تیز بدبو کہ مجھے اپنے آپ سے گھبراہٹ ہونے لگی تھی —
٭٭٭
موت
(۲۲)
زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اس وقت اس کے جسم پر کوئی لباس نہیں ہوتا۔
وہ روتا ہے چیختا ہے۔
وہ اپنے ماں باپ کا کھلونا ہوتا ہے۔
اس کا ننگا جسم ماں باپ اور جان پہچان والوں کے سامنے کھلا ہوتا ہے۔
وہ بس روتا رہتا ہے۔ اور ادھر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔
انسان پیدا ہوتا ہے مرنے کے لیے —
موت جو اٹل ہے۔
موت ہے کیا … ؟
میں سوچ رہا ہوں۔ موت کیا ہے۔
ایک طویل بیماری کے بعد پھوپھی نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی ہیں۔
ہاسپٹل کا وہ کمرہ منی دی، راجن بھیا کی سسکیوں سے گونج اٹھا ہے۔
پاپا کی آنکھیں نم ہیں۔
پھوپھی اب چلی گئیں۔ اب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ ایک دن گوشت کا یہ بولتا، چیختا لوتھڑہ بھی سوجاتا ہے۔ ایک دن گوشت کے اسی لوتھڑے سے چاند جھانکتا ہے۔ ایک دن اسی چاند کو چرانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اور ایک دن یہی چاند بادلوں کے درمیاں گم ہو جاتا ہے … موت یہی ہے … بدبو دیتے لوتھڑے کی زندگی اور بدبو دیتے لوتھڑے کا بادلوں کے بیچ گم ہو جانا —
پھوپھی کے سڑے ہوئے جسم کے گھناؤنے حصے اب جلا دیئے جائیں گے۔ پیشاب والی نلی ہٹا دی گئی ہے۔
ان کے ایک تہائی حصے میں ہلکا پیلا پیشاب موجود ہے۔
مگر پھوپھی موجود نہیں ہیں۔
پھوپھی سوگئی ہیں۔
اب ان کے یہ گھناؤنے حصے کبھی نہیں دیکھنے کو ملیں گے۔
اب ان کے اس بدصورت جسم کو دیکھنے کے لیے آنکھیں نہیں پھیلیں گی۔
اب یہ گوشت پوست اور ہڈیوں والا جسم آگ میں جل کر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
اب وہ نظر آنے والی دھند، نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائے گی۔
جو دکھائی دے رہا ہے۔ وہ محض ایک دھند ہے۔
کبھی تاریک … کبھی صاف اور کبھی بالکل ختم۔
میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ پھوپھی کی تصویر نگاہوں میں ناچ رہی ہے۔
وہ سارے منظر — پھوپھی کابستر پر نہیں ہونا۔ ان کا بدصورت، بدنما اور نفرت کی بارش کرتا ہوا جسم۔ ڈاکٹر بھٹ کا ان کے جسم کے مختلف حصوں کو دبانا۔
اب یہ جسم آگ میں جل کر ہمیشہ کے لیے بھسم ہو جائے گا۔ کیوں کہ زندگی کی اصل سچائی یہی ہے۔
دنیاوی رشتے محض ڈھونگ ہیں —
انسان اکیلا آیا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہو جائے گا۔
اور سچ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے اکیلا رہا ہے — موت ایک سچائی ہے تو قدرت نے دنیا میں آنکھیں کھولنے کا بھیانک تحفہ ہمیں کیوں دیا۔ ؟
فرق بس یہی ہے۔
مجھے اس فرق پر اس وقت بہت زور کی ہنسی آئی۔ مگر وہاں کے ماحول نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔
پھر کچھ سوچ کر میں نے منی دی کو دیکھا — ذرا غور سے۔
اس وقت ایک عجیب سا خیال آیا۔ مجھے احساس ہوا …
منی دی آ ج اس جوان گوشت میں کتنی تندرست، چہکتی ہوئی اور خوبصورت نظر آ رہی ہیں۔ ان کے جسم کی بوٹیوں پر اگر بوڑھا گوشت چڑھا دیا جائے تو — ان کی شبیہ کیا ہو گی۔ مطلب۔
لتھڑا ہوا، لٹکا سا بدنما سا سینہ … جھریوں جیسا چہرہ۔ بوڑھے گوشت سالٹکا ہوا پیٹ — اندر کی جانب دھنسی ہوئی آنکھیں … ایک بوڑھا جھولتا ہوا خوفناک بدن —
پھر منی دی کیسی لگیں گی۔ ؟
پھر ایک دوسری تصویر نگاہوں میں کوندی۔ منی دی کا بوڑھا جسم بستر پر خاموش پڑا ہے۔
جسم کے وہ حصے جنہیں آج ٹھنڈی آہیں بھر کر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ حصے آگ کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔
گوشت کا یہ بوڑھا بدنما روپ کتنا بوجھل لگتا ہے۔ سوال گوشت کا ہے — گوشت تازہ ہے۔ تو دیکھئے اور چکھئے — دونوں میں اچھا لگتا ہے — اور گوشت اگر پرانا ہو جائے توسڑ جاتا ہے — اس کی سڑانڈ پھیلنے لگتی ہے — وہ سکڑ جاتا ہے۔ اینٹھ جاتا ہے۔
انسانی گوشت والے جسم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
آج وہ حرکتیں کرتا ہوا گوشت، سانسوں کی تھرکن سے ڈولتا ہوا گوشت ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر، پھوپھی کی موت کا سر ٹیفکیٹ تھما رہا ہے۔
ہنسی آتی ہے۔ دل کرتا ہے پوچھوں۔ سر ٹیفکیٹ دینے والے ڈاکٹر، ذرا ٹھہرو۔ ہم زندہ ہیں۔ اس کی گارنٹی کیا ہے … ؟ تم ہمیں ایک زندگی والا سر ٹیفکیٹ دے سکتے ہو۔
تسلی بہت بڑی چیز ہے۔
خواہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔
اور موت بھی تو بس ایک تسلی ہے۔
جو زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے ہر قدم پر ہم خود کو دیتے آئے ہیں۔
پھر کچھ سوچ کر میں نے خود سے کہا۔
’بیٹے الف۔ اب میں کبھی گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ‘
اور جانے کیوں گوشت کے نام پر میرے سامنے جانوروں کے گوشت کی جگہ انسانی گوشت ابھرنے لگے۔
منی دی کاسینہ … پھوپھی کے بلاؤز سے جھانکتا ہوا بدنما سینہ … ممی کا … ‘ میرے اندر ہی اندر ایک نفرت بھری آندھی چل پڑی۔
میں گوشت کے بازار میں تھا … جہاں ہر طرح کے انسانی گوشت موجود تھے … تازہ بھی۔ سڑے ہوئے بھی۔ بدبو دیتے ہوئے … اور سچ یہ ہے کہ اب مجھے اپنے اس سڑے ہوئے انسانی جسم سے بھی بدبو پھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
٭٭٭
سرکس یا کچے گوشت کا بیوپار
(۲۳)
پھوپھی ہمیشہ کے لیے بادلوں کے درمیان گم ہو گئی تھیں۔ گھر میں ان کے جانے کے بعد ایک عجیب ساخلا پیدا ہو گیا تھا۔ میں بار بار ان کے کمرے کی طرف جاتا۔ لگتا، پھوپھی لیٹی ہوئی ہیں۔ پاپا نے انہیں اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ پھوپھی خاموشی سے اٹھ کر بیٹھتی ہیں — مگر اب پھوپھی کہاں — گھر سے ہاسپٹل اور ہاسپٹل سے بہت دور چلی گئیں — ان کے جانے سے منی دی آدھی ہو کر رہ گئی تھیں۔ ہر وقت خاموش خاموش — کھوئی کھوئی — راجن بھیا ہر وقت ان کے ساتھ رہتے۔
اکثر میں دیکھتا۔ منی دی راجن بھیا کی بانہوں میں جھول رہی ہیں۔
پاپا نے راجن کو سمجھا یا تھا۔ منی پریشان ہے۔ اتنا بڑا دھکا سہہ لینا اس کے بس کی بات نہیں۔ چھوٹی لڑکی ہے۔ تم ایک کام کیوں نہیں کرتے — سرکس دکھا آؤ۔ فلم لے جاؤ۔ تاکہ دل بہلے۔
اور اس دن شام میں اچانک سرکس کا پروگرام بن گیا تھا۔ کئی دنوں کے بعد پہلی بار ایسا محسوس ہوا، جیسے منی دی کے چہرے پر پھر وہی پرانی چمک لوٹ آئی ہو —
سب لوگ تیار ہو گئے۔ میں، ممی، راجن بھیا اور منی دی۔
پاپا نے کہا۔ پہلے کھانا کھا لو۔ اس کے بعد ہی سرکس جانا۔
کھانا لگ گیا۔
ہم سب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں خاموشی تھی۔ ٹیبل پرکھانا سج گیا تھا۔
میں نے کھانے کی طرف دیکھا۔ گوشت کی پلیٹ پر میری آنکھیں ٹھہر گئیں۔ شوربے دار گوشت میں بڑے شوق سے کھایا کرتا تھا۔ مگر آج، اچانک گوشت کو دیکھ کر بڑا عجیب سالگا۔
ممی نے گوشت بڑھایا۔ میں نے ہاتھ روک دیا۔
وہ تعجب سے بولیں۔ کیوں، تم تو بڑے شوق سے کھاتے تھے۔
میں نے گوشت کی طرف دیکھا۔ پھر منی دی کی طرف — ان کے جسم کے نازک پیچ و خم کا اندازہ لگایا۔ پھر ممی کی طرف دیکھا۔ میرے لہجے میں تلخی تھی۔ آنکھوں میں نفرت کے سائے منڈلا رہے تھے۔
اور ایک ہلکا سا نا گوار لہجہ اختیار کرتا ہوا بولا۔
’میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ ‘
میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
کرسیوں پر بیٹھے لوگ میری حرکات وسکنات کو تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ مگر میں کیا کہتا۔ میں نے گوشت کیوں نہیں کھایا۔ میرے منہ کا ذائقہ عجیب انداز کا ہو گیا تھا۔ جانور کے گوشت کی جگہ انسانی گوشت آ گئے تھے۔ بھری بھری چھاتیاں، کولہے۔ لٹکتے ہوئے پیٹ … میرا سارا جسم لرز رہا تھا —
نالی کے پاس میں نے زور سے تھوکا۔
اندر کی کیفیت عجیب ہو گئی تھی۔ بار بار پلیٹ میں سجے ہوئے گوشت کے ٹکڑے میری آنکھوں میں لہرا رہے تھے … تم تو گوشت بہت شوق سے کھاتے ہو — یہ ممی نے کہا تھا … کھاؤ — کھاؤ — یہ منی دی کا گوشت … یہ پھوپھی کا … یہ منی دی کا سینہ ہے … کولہے کا گوشت — چاپ کا گوشت اور یہ … اور اچانک جیسے زور زور سے میری آنکھوں سے آگے ڈرم پیٹا جا رہا ہو —
دیکھو۔ یہ بھی گوشت ہے۔
یہ گال، یہ بھی گوشت ہے۔
یہ سینہ، یہ بھی گوشت ہے۔
اور … یہ سب گوشت ہے۔
میرے منہ کا ذائقہ لمحہ لمحہ تبدیل ہو رہا تھا۔ نسیں بھینچ رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کیفیت کے تحت سرکس بھی نہیں جا پاؤں گا۔ مگر پھر لگا یہاں مفت میں ہی پریشان ہوں گا۔ کیوں کہ یہی کیفیت مجھے گھنٹوں چین نہیں لینے دے گی۔
میرے ذہن میں ایک اور گوشت کا تصور ابھر رہا تھا — اور وہ تھا کسی مرے ہوئے آدمی کا تصور۔ پھوپھی کا تصور … پھوپھی کے ٹھنڈے جسمانی گوشت کا تصور … ان کے اینٹھے پچکے بدن کا تصور۔ عجیب عجیب خیال میرے ذہن میں ابھر رہے تھے اور میں لمحہ لمحہ دماغ کی نسوں کے تناؤ میں قید ہوتا جا رہا تھا۔
سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تھے۔
اور اب اگلا پروگرام سرکس کا تھا۔
سرکس شروع ہو گیا۔
میرے بغل میں منی دی تھی۔ ان کے بغل میں راجن بھیا اور راجن بھیا کے بغل میں ممی بیٹھی تھیں۔
سرکس انتہائی عروج پر چل رہا تھا۔ اور میں بغور سرکس میں کام کرنے والی عورتوں کے کپڑوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ جو برائے نام تھے۔ اور برائے نام لباس سے ان کے سوئے ہوئے اجلے گورے اور کچھ سانولے ٹیڑھے میڑھے گوشت باہر جھانک رہے تھے۔
سرکس کے لڑکے لڑکیاں کبھی ڈولتے۔ کبھی جمنا سٹک دکھاتے۔ کبھی تار پر چلتے۔
ان کے جسم پر کتنا کم لباس ہے۔ میں سوچ رہا تھا۔ ان کے جسم کے کھلے ہوئے یہ گوشت کتنے بدنما لگ رہے ہیں۔ اگر یہ پورا کپڑا اتار دیں تو۔ شاید اور بھی بدنما لگیں۔
کپڑوں کے اندر آدمی کتنا اچھا لگتا ہے۔
کیوں کہ وہ سارے بدنما اعضا جو نفرت کے مستحق ہیں، ڈھک جاتے ہیں۔
اور کپڑوں کے باہر آدمی کتنا خراب اور گندہ نظر آتا ہے۔
وہ سارے بدصورت اعضا باہر آ جاتے ہیں۔
میں نے منی دی کا جائزہ لیا۔ اگر وہ سارا کپڑا اتار دیں تو؟ اور اچانک ذہن کے پردے پر میں نے دیکھا۔
منی دی اپنے تمام کپڑے اتار رہی ہیں۔
اف۔ بس اس پل منی دی اتنی بد صورت اور گندی نظر آئی کہ میں بتا نہیں سکتا۔
میں نے پھر سرکس کے مناظر کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
کھیل آگے چل رہا تھا — سرکس میں کچھ مسخرے بھی تھے۔ مگر ہنسنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ منی دی اور راجن بھیا خوب کھل کر ہنس رہے تھے۔
پورا پنڈال ہنسی اور قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
پھر ایک نیا آئٹم شروع ہوا۔
ایک موٹا سا جانور اپنا بد نما دہانہ کھولے آگے بڑھا۔ ایک جوان سی لڑکی اس بدنما سے لگنے والے جانور کو پاؤ روٹی کا بڑا سا ٹکڑا کھلا رہی تھی۔
منی نے پوچھا۔ یہ کون سا جانور ہے۔
راجن بھیا نے بتایا۔ ہپوپوٹیمس۔
ہپو پوٹیمس۔ میں نے اس نام کو دہرایا۔ لڑکی برائے نام لباس میں تھی۔ ہپوپوٹیمس آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ دونوں جسموں میں کتنا فرق ہے۔ اگر وہ لڑکی اس جانور پر چڑھ جائے تو … یا پھر ہپوپوٹیمس ہی اس لڑکی پر چڑھ جائے تو … ؟
’’تو کیا ہو گا … ؟‘‘
احمقانہ خیال کو جھٹک کر میں پھر دیکھنے لگا۔
تنگ بلاؤز سے لڑکی کے سینے کا ابھرا حصہ باہر جھانک رہا تھا۔ سرکس کی ساری لڑکیاں اتنا کم لباس کیوں پہنتی ہیں۔ ؟
فلم والی لڑکیاں بھی برائے نام لباس کیوں اختیار کرتی ہیں۔ ؟
انڈسٹری کے لوگ پبلی سیٹی کے لیے لڑکیوں کو ہی اپنا شکار کیوں بناتے ہیں۔ ؟
محسوس ہوا۔ سب اس گوشت کا کمال ہے۔ اس گرم، ابھرے گوشت کا۔
مگر ایک سوال مجھے پھر پریشان کر رہا تھا۔ مرے ہوئے آدمی کا گوشت اتنا بھیانک اور بدنما کیوں ہو جاتا ہے۔ ؟
سرکس آگے چل رہا تھا۔
اور میں سوچ رہا تھا۔ اس دنیا میں ایک بیوپار چل رہا ہے۔ ہر کوئی ایک بیوپار کر رہا ہے۔ وہ بیوپار ہر گھر میں ہوتا ہے۔ ہر گلی کوچے، سڑک غرض ہر جگہ ہوتا ہے۔ فلم میں — سرکس میں … ہر جگہ …
اور وہ بیوپار ہے کچے گوشت کا۔
انسانی گوشت کا۔
٭٭٭
ایک آوارہ خیال
(۲۴)
ہاسپٹل سے گھر لوٹنے کے بعد کئی روز تک مجھے نیند نہ آسکی۔ اپنے ہی خیالات کے دائرے میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ اس آدمی سے ملاقات۔ ڈاکٹر بھٹ کی زندگی۔ اور اپنے خیالات کی یکسانیت نے میر ے اندر بے چینی پیدا کر دی تھی۔ انہی دنوں محسوس ہوا۔ جیسے ڈاکٹر بھٹ نے جو کچھ سوچا۔ وہ کس قدر سچ تھا۔ یہ فطری قانون بظاہر ایک انسان کے کے لیے کتنا ضروری ہے۔ مگر تصور کیجئے تو شاید بند آنکھوں میں عذاب کی سی کیفیت ہو گی۔ کاش! بھگوان نے پیدائش کے اس طریقے کو رکھا ہی نہ ہوتا۔
میں نے تصور کے پردے پر خود کو دیکھا۔ میں لائٹرین کے اندر اچکوں بیٹھا ہوا ہوں۔ اس وقت میری حالت کتنی عجیب اور واہیات ہوتی ہے۔
پھر محسوس ہوا، صرف میری نہیں، دنیا میں آئے تمام لوگوں کی یہی حالت اور کیفیت ہے۔ ان کی بھی جو موت کے حوالے ہو گئے۔ ان کی بھی جو زندہ ہیں اور زندگی کا لطف لینا چاہتے ہیں۔ خوبصورت لباسوں میں تفریح گا ہوں میں، مہنگے لباس زیب تن کر کے، چہرے پر پالش کرنے کے بعد خوبرو نظر آتے ہیں۔ وہ سارے بڑے لوگ وہ سارے چھوٹے لوگ، خود میرے گھر کے لوگ۔ لزی کے گھر کے لوگ، ماسٹر جی اور تمام لوگ، ان کی شخصیت بند لیٹرین میں … شاید تصور کرنا بھی میرے لیے مشکل تھا۔
آوارہ خیالات کا سفر جاری تھا۔
جب پاپا آفس سے لوٹے تو میں نے بس ایک تصوراتی جائزہ لیا۔ پاپا بند لیٹرین میں ہیں۔
ایک تیز کراہیت میرے دماغ میں بدبو کی طرح داخل گئی۔ میں نے نفرت سے پاپا کی طرف دیکھا اور خاموش رہا۔
ممی، راجن بھیا اور منی دی کے ساتھ بھی جب یہی تصوراتی جائزہ لیا تو احساس ہوا، یہ بری کیفیت سب کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہر ذی روح کے ساتھ اور اس عمل کے دوران ہرانسان بد نما ہو جاتا ہے۔ اگر ذرا بھی ایسے لوگوں سے عقیدت رکھنے والا کوئی بھولے سے ان لوگوں کو بند لیٹرین میں دیکھ لے تو شاید وہ تھوڑے وقفے کے لیے ہی سہی اس آدمی سے نفرت ضرور کرنے لگے گا۔
سوچنے کی ڈگر پر جب میں کچھ اور آگے بڑھا تو محسوس ہوا۔ ترقی، پڑھائی، پوجا پاٹھ، مسلمانوں میں نماز اور ساری مذہبی پابندیاں شاید اسی لیے بنائی گئی ہیں کہ انسان اس درد کے لامتناہی سفر کو بھول سکے۔
ان سب کے بارے میں کچھ بھی محسوس نہ کرسکے۔ کیونکہ محسوس کرنے کا مطلب ہے بغاوت۔ فطری اصولوں سے بغاوت۔ جو ممکن نہیں۔ دوسری صورت ہے نفرت۔ اور ان سب کی ملی جلی شکل ہے۔ موت۔
صبح اٹھا توسر بھاری بھاری تھا۔ کسی کے ٹھہاکے کی آواز سن کر نیچے گیا تو معلوم ہوا لزی آئی ہے۔ کئی روز سے میں اسکول بھی نہیں جا سکا تھا۔ پھوپھی کی موت کے سبب۔ اور کچھ گھر کی مشغولیت کے سبب۔
لزی مجھے دیکھ کر چونکی — تم اسکول نہیں آ رہے ہو۔ کیا بات ہے — آج چلو گے نا؟
ہاں
میں نے آہستگی سے کہا اور پھر ٹوتھ پیسٹ لے کر باہر نکل گیا۔ دوچار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ لزی چپکے سے اٹھ کر میرے پاس چلی آئی۔ برآمدے میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔
’سنو الف۔ کیا بات ہے، تم کچھ پریشان سے رہتے ہو۔ ‘
اس وقت لزی کسی بزرگ کی طرح سوال رہی تھی۔ میں نے نظریں اوپر اٹھا کر لزی کا معائنہ کیا۔ لزی تو اب کافی بڑی ہو گئی ہے — جی چاہا، ٹھہاکا مارکر ہنسوں۔ پھر خود کو دبایا اور کہا۔
’ہاں لزی۔ آج کل ذہن بہت ڈسٹرب رہتا ہے۔ ‘
’لزی کی آنکھوں میں پریشانی تھی — مگر بات کیا ہے الف‘
تم ابھی بہت چھوٹی ہو لزی۔ تم میری بات نہیں سمجھ سکوگی۔ !‘
میں اب بارہ کی ہوں۔ سمجھے۔ اب چھوٹی نہیں رہی۔ لزی نے برا سامنہ بنایا۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔ کہو تو … !
’سنو گی … ؟‘
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
لزی شاید میرے لہجے کو بھانپ نہ سکی تھی۔ بولی — کہو تو۔
تو سنو مجھے وہ سب اچھا نہیں لگتا۔ جو ایک انسان کرتا ہے۔ ‘
مگر کیا کرتا ہے۔
’کہا نا۔ تم نہیں سمجھو گی۔ ‘
مگر آخر ہے کون سی بات۔
’وہی جو ایک انسان کرتا ہے۔ وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ‘
مگرانسان آخر کون سا ایسا ایک کام کرتا ہے۔ جو تمہیں اچھا نہیں لگتا۔ اور وہ انسان ہے کون۔
’وہ انسان ہم سب ہیں لزی۔ ‘
لزی چونکی — ہم سب۔ ؟ مگر ہم سب کیا کرتے ہیں۔
’میں نے کہانا۔ تم نہیں سمجھو گی۔ ‘
مگر آخر ہم کون سا ایسا کام کرتے ہیں ؟
میری آواز میں غصہ شامل تھا۔ تم بھی کرتی ہو اور میں خود کرتا ہوں۔ مگر سوچ کر گھن آتی ہے۔
گھن آتی ہے، وہ چونکی۔
ہاں لزی۔ وہی جو ہرانسان کرتا ہے۔ صبح اٹھ کر۔ رات کے وقت …
اچھا تو یہ بات ہے … لزی ٹھٹھا مار کر ہنس پڑی۔ بیوقوف … اس میں پریشان ہو رہے ہو۔
میں نے کہانا، تم نہیں سمجھو گی — تم نے جسے چھوٹی بہت معمولی اور ضروری چیز سمجھا ہے، اسی کو اگر صحیح طور پر سمجھ لو تو شاید تم بھی میری طرح ہی پریشان ہو جاؤ۔
میں نے بات بدلتے ہوئے کہا۔ دیکھو اس راز کو کبھی کسی سے ظاہر نہ کرنا۔
لزی اپنے خاص انداز میں مسکرائی۔ اسکول چلو گے؟
’ہاں ‘
کچھ دیر بعد لزی اپنے گھر روانہ ہو گئی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا، لزی اب کتنی بڑی ہو گئی۔ اب اس کے انداز میں بھی فرق آ گیا ہے۔ اب اس کی آنکھوں سے ایک عجیب سی محبت جھلکتی ہے۔
جانے وہ شرارتی لزی وقت کے تھپیڑوں میں کہاں کھو گئی تھی۔ پھر اچانک ایک عجیب ساخیال ذہن میں چکر کاٹنے لگا کہ لزی جب کپڑے اتا کر لیٹرین میں ہوتی ہو گی اس وقت وہ کیسی لگتی ہو گی۔ ؟
ایک عجیب سی گندی تصویر میری نظروں کے آگے لہرائی۔ میں نے ذہن کو ایک جھٹکا دیا تاکہ وہ تصویر دوبارہ غائب ہوسکے۔
٭٭٭
رشتہ اور ایک جواب
(۲۵)
پاپا ایک گھنٹے میں لوٹ آئے تھے۔ ان کے چہرے پر اب پہلی جیسی الجھن کے آثار نہیں تھے۔ آتے ہی ممی سے بولے۔
اب پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے ڈاکٹر بھٹ سے سب بات کر لی ہے۔ تم جانتی ہو کہ ڈاکٹر بھون کی لڑکی کے ساتھ یہی کیس ہوا تھا۔ اس وقت شالنی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اور ڈاکٹر بھون نے کس آسانی اور خاموشی کے ساتھ سارا کام بخوبی انجام دے دیا تھا۔
مطلب؟ ممی چونکیں۔
مطلب؟ صاف ہے۔ جو وجود میں آئے گا اسے کسی انا تھا لیے یا کسی نرسری میں پرورش کے لیے دے دیا جائے گا۔
مگرایسا کرنے سے …
کچھ نہیں ہو گا۔ ساری بات بعد میں سنبھل جائے گی۔
ڈیڈی نے کچھ سوچا پھر بولے — راجن کہاں ہے۔ اسے میرے کمرے میں بھیج دو۔ اس سے کچھ ضروری بات کرنا ہے۔
ڈاکٹر بھون نے راہ داری طے کی اور ڈیڈی کے ساتھ اندر آئے۔ ان کے ساتھ ان کی ایک نرس بھی تھی۔
ڈاکٹر بھون آتے ہی بولے۔ میرے ہاسپٹل کی یہ ایک اچھی اور ذمہ دار نرس ہے۔ تم گھبرانا نہیں۔
پھر ہنستے ہوئے بولے۔ گھبرانا نہیں … جوانی میں میں غلطی کس سے نہیں ہوتی اور یہ تو بدلتا ہوا سماج ہے۔
بہت دیر تک ڈاکٹر بھون اور نرس دونوں منی کا چیک اپ کرتے رہے۔ پھر باہر نکل آئے۔
ڈاکٹر بھون کے جانے کے بعد ڈیڈی راجن بھیا سے مخاطب ہوئے۔
راجن، تم میرے کمرے میں چلو۔ تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ پھر سونی دی اور ممی کو ہدایت کی کہ وہ لوگ منی کے پاس ہی رہیں۔ شاید کچھ تکلیف ہو …
اس درمیان جو کچھ میں محسوس کرسکا۔ وہ تھا۔ سونی دی کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی۔ ان کے چہرے پر چڑھا ہوا ایک عجیب سارنگ — سونی دی اس درمیان پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ منی دی اور راجن بھیا کے کارناموں کے موقع پر بھی انہوں نے بس ایک خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ بس ایسا محسوس ہوتا، جیسے وہ ایک ذہنی تذبذب، ایک نفسیاتی جنگ کی شکار ہو کر رہ گئی ہوں۔
ان کی آنکھوں میں کبھی کوئی خواب سلگتا ہوا نظر آتا۔
کبھی کوئی خواب بجھتا ہوا۔
پھوپھی کی بیماری نے بھی انہیں بری طرح توڑ دیا تھا۔
منی دی کے اندر اب بہت ساری تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ ان کا جسم ہرا بھرا دکھنے لگا تھا۔
منی دی پر ایک خاموش نظر ڈالتے ہوئے میں ڈیڈی کے کمرے کی طرف چپکے سے روانہ ہو گیا۔
٭٭٭
میں اتنا نادان بھی نہ تھا کہ اتنی ذرا سی بات سمجھ میں نہ آتی۔ یہ احساس ہو گیا تھا کہ گھر میں کسی نئے مہان کی آمد جلد متوقع ہے۔ وہ نیا مہان منی دی کے پیٹ سے آئے گا۔ اب ساری تصویر ذہن کے پردے پر پوری طرح صاف صاف نظر آنے لگی تھی۔ ڈیڈی کے کمرے کی طرف آتے ہوئے میں ٹھہر گیا تھا۔ چپل اتار دی اور آہستہ آہستہ قدم دابتا ہوا کمرے کے پاس آ کر رک گیا۔ کھڑکی سے اندر کی جانب دیکھا۔ ایک کرسی پر ڈیڈی اور دوسری پر راجن بھیا بیٹھے تھے۔ اور کمرے میں تیز خاموشی حاوی تھی۔
پھر خاموشی کو ڈیڈی کی آواز نے توڑا۔ وہ راجن کی طرف مخاطب تھے۔
جانتے ہو!میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے۔
راجن بھیا خاموش تھے۔ ان کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ شاید وہ اپنے اندر کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔
ڈیڈی نے پھر کہا۔ ابھی تم اپنے پاؤں پر بھی نہیں کھڑے ہوئے ہو کہ اپنے بارے میں کچھ اچھا برا سوچ سکو۔ اس معاملے میں کچھ کہتے ہوئے مجھے عجیب سالگ رہا ہے۔ مگر کہنا ہی پڑے گا۔
ڈیڈی پھر خاموش ہو گئے تھے۔ ان کے اندر ایک سہما ہوا پرندہ جھانک رہا تھا۔
مجھے حیرت ہو رہی تھی۔ آخر کون سی ایسی بات ہے کہ ڈیڈی اور راجن بھیا نے اتنی خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ڈیڈی نے کچھ وقفے کے بعد پھر اس خاموشی کو توڑ دیا۔
’سنو راجن‘ جو کہتا ہوں۔ اسے غور سے سنو۔
سچ پوچھو۔ تو غلطی مجھ سے ہی ہوتی رہی۔ یہاں قدم قدم پر میں غلطیوں کا شکار ہوتا رہا۔ اعلیٰ اور ماڈرن تہذیب بھی دھوکہ تھی۔ ہم سچائی سے بہت دور رہے۔ ہم لوگوں نے اپنے اوپر ایک نقلی اور گروی رکھی تہذیب کا چولہ اوڑھ لیا تھا۔ ہم اپنے معاشرے، اپنی تہذیب سے کوسوں دور نکل گئے تھے۔ ہم اپنے ہندستانی ہونے کی اصلیت بھول گئے تھے۔ ہم اپنے ماحول کی حقیقت سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ اور ہم دھوکے میں، اندھیرے میں ہی ایک شطرنج کی بساط نکال کر بیٹھ گئے۔
ڈیڈی ہانپ رہے تھے۔
ہم نے تمہاری پرورش نئے ماحول میں کی۔ نئی تہذیب میں کی — تاکہ تم نئے اور ماڈرن بن سکو۔ مگر غلطی مجھ سے بھی ہو گئی۔ تم لوگوں کو ماڈرن بنانے کے پیچھے لفظ ماڈرن کی تشریح کرنا بھول گیا۔ ماڈرن کا مطلب خود کو بھول جانا نہیں ہوتا۔ ماڈرن ہونے کا مطلب ہوتا ہے اچھے پیسوں میں اچھی طرح رہنا۔ اچھی تہذیب سے واقف ہونا۔ ننگے اور زہر آلود معاشرے کی نمائندگی کرنا نہیں۔ فحش کتابیں پڑھنا نہیں۔ اپنے مشرقی ماحول سے باہر جانا نہیں اور وہ تہذیب جو تم جیسے کالج اسٹوڈنٹ کے دیمک زدہ دماغوں کی سوچ بن گئی ہے۔ یہ ماڈرن ہونا نہیں ہے — بلکہ یہ تو ہمارا دماغی دیوالیہ پن ہے۔ نئے بچے ہماری تہذیب کو ختم کر رہے ہیں۔
ڈیڈی ہانپ رہے تھے۔ تم جسے ضرورت کہتے ہو وہ ضرورت نہیں بلکہ رشتے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ضرورت ہوتی کیا ہے۔ جسے پورا کرنا اہم ہوتا ہے۔ تمہارے کھوکھلے دماغ نے یہ بھی سمجھنے کی بھول نہیں کی۔ ضرورت اور رشتے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ضرورت رشتے بناتی ہے بیٹے۔ ہندو مذہب کی بات چھوڑو۔ تم میرے صرف ایک سوال کا جواب دو۔
راجن بھیا اب بھی خاموش ہو کر ڈیڈی کی لمبی چوڑی گفتگو کوسن رہے تھے۔
ڈیڈی کے چہرے پر ایک ٹھہرا ہوا سمند ر تھا۔ وہ پھر بولے۔ تم میرے صرف ایک سوال کا جواب دے دو۔ وہ تھرڈ پرسن جواس دنیا میں آنے والا ہے تم اسے کیا کہو گے۔ ضرورت؟ یا رشتہ؟
راجن بھیا اب بھی خاموش تھے۔
ڈیڈی پھر آگے بڑھے۔
’’ جو کل تک تمہاری ضرورت تھی وہ آج تمہارا رشتہ بن گئی ہے۔ اب بھی کرتے ہو اس سے انکار۔ وہ بچہ جو نیا نیا اس تہذیب اس ماحول میں آنکھ کھولے گا۔ وہ کیا جانے کہ اس کے وجود کے پیچھے کون ہے اور وہ بغیر کسی رسم و رواج کے اس دنیا میں آیا ہے۔ افسوس میں یہ دعا بھی نہیں کرسکتا کہ وہ بچہ اس دنیا میں آئے ہی نہیں۔ مگر میرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ تمہاری جسمانی ضرورت نے ایک نئے رشتے کو دنیا میں آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور یہ مت بھولو کہ اپنی ضرورت تم نے جس سے پوری کی ہے، وہ تمہاری بہن ہے۔ اور ابھی ہمارا دھرم اتنا وسیع نہیں ہوا کہ اس رشتے پر منظوری کی مہر لگا سکے۔ ‘‘
ڈیڈی پھر ہانپ رہے تھے … بتاؤ … کیا تم منی کے ساتھ شادی کرسکتے ہو … ؟
راجن بھیا نے خاموشی کے ساتھ اثبات میں سرہلا دیا تھا۔
’چلو پھر ایک ناممکن ممکن بن گیا۔
ڈیڈی اچانک بدل گئے تھے — ان کے چہرے پر ایک طنز یہ ہنسی مچل رہی تھی۔ آج تہذیب کا ایک ورق اور بکھر گیا۔ دیکھنا ہے۔ کتنے اوراق بکھرنے باقی ہیں۔
٭٭٭
وجود
(۲۶)
ایک سوال کنڈلی مار کر میرے اندر بیٹھ گیا تھا کہ کیا انسانی وجود کے سامنے آنے کی صورت اتنی گھناؤنی ہے۔ اتنی نفرت آمیز۔
منی دی اور راجن بھیا کا معاملہ ڈیڈی اور ممی دونوں نے مل کر بڑی خوبصورتی سے سنبھال لیا تھا۔ ڈیڈی کے ذریعہ اتنا ضرور معلوم ہو گا ا تھا کہ منی دی کی ڈیلیوری میں ابھی کم از کم چھ مہینے کی دیر ہے۔ اس درمیان دونوں کی شادی کے سارے انتظام مکمل ہو گئے تھے۔ کارڈ چھپ گئے۔ رشتہ داروں، عزیزوں، محلے پڑوس میں تمام کارڈ بانٹ دیئے گئے۔ اور ایک مہینے کے اندر جو تیاری نہیں ہونی چاہئے تھی وہ ساری تیاری ہو گئی۔
خدا خدا کر کے شادی کا دن آیا اور عام ہندو ریتی رواج کے مطابق شادی کی ساری رسمیں بخوبی انجام پا گئیں۔
ایک بھیانک زہریلا بچھو میرے ذہن کو ڈس رہا تھا۔ مجھے بڑا عجیب سالگ رہا تھا۔ یہ سارا تماشہ مجھے ایک گندے فحش کھیل کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ اور وہ دن بھی آیا جب منی دی اور راجن بھیا دستور کے مطابق ایک کمرے میں بند کر دیئے گئے۔
شادیانے دیر تک کانوں میں زہر گھولتے رہے۔
پھر وہی کھیل شروع ہو گا … بچھو کا ڈنک ذہن پر اپنا اثر دکھا رہا تھا … وہی ننگا ناچ اب پھر دوبارہ شروع ہو گا … جسے منی دی اور راجن بھیا اسے کسی بہانے باہر بھیج کر کھیلا کرتے تھے: جیسے کبھی ممی اور ڈیڈی کیا کرتے تھے … دونوں اپنے جسم سے کپڑے پھینک دیں گے … ننگے بدصورت اعضا کپڑے سے باہر آ جائیں گے … وہ گھنونے اعضا جن کے تصور سے گھن آتی ہے۔ پھر ان دونوں کے جسم ایک دوسرے میں کھو جائیں گے۔ اور ایک گھناؤنا کھیل بند کمرے میں شروع ہو جائے گا …
میرے اندر ہی اندر عجیب سازہر پھیلنے لگا ہے۔ سارا چہرہ سرخ ہو گیا ہے۔ ہاتھوں کی مٹھیاں عجیب انداز میں کس گئی ہیں۔ دماغ سن ہو رہا ہے۔ منی دی اور راجن بھیا کے کمرے میں عریاں کھیل شروع ہو گیا ہو گا۔
دماغ کی نسیں بھینچ رہی ہیں … اور اس کھیل کی بدولت نئے مسافر کا وجوداس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے۔
بچھو نے مجھے پوری طرح ڈس لیا ہے … تو آدمی کے وجود کی صورت یہ ہے … ؟ بچہ ایسے پیدا ہوتا ہے … !دو ننگے جسموں کے ملنے سے … ایک جسم عورت کا، اور ایک مرد کا … مجھے چکر آ رہے تھے۔ ساری دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
تو کیا میرے وجود کی صورت بھی یہی ہے۔ ؟ میں اپنے ماں باپ کی گندگی کا نتیجہ ہوں — ؟ ان دونوں کے گندے گھناؤنے کھیل کا نتیجہ جو ماں باپ نے بند کمرے میں کھیلا ہو گا۔ ؟
منی دی اپنے ماں باپ کے گندے کھیل کا نتیجہ ہیں۔
لزی ورما انکل اور آنٹی کے ذریعہ کھیلے گئے گھناؤنے کھیل کا نتیجہ ہے۔
اور اس صفحہ ہستی پر جتنے بھی لوگ ہیں۔ یہ پوری مخلوق … یہ پوری انسانی قوم، برادری … سب اسی گندے کھیل کا نتیجہ ہیں۔
یہ پوری قوم گندی ہے۔
یہاں کا ہر فرد نفرت کامستحق ہے۔
ماں باپ بھائی بہن سب —
آس پڑوس والے — لزی … ماسٹر صاحب … یہ سارے لوگ … اس ساری دنیا کے لوگ … سب گندگی کی پیداوار ہیں —
دماغ چٹخ رہا تھا …
ہر آدمی گندہ ہے … ہر آدمی گھناؤنا ہے … ہر آدمی نفرت کامستحق ہے۔
ذہن چیخ رہا تھا۔ تم بھی … الف! تم بھی اسی گندگی کا نتیجہ ہو جو تمہارے ماں باپ نے بند کمرے کے اندر کھیلا ہو گا۔ کپڑے اتار کر دو بدصورت جسم ایک دوسرے میں سما گئے ہوں گے۔
ایک بند کمرہ …
کھیل چل رہا ہے۔
لاکھ نظریں ہٹانے پر بھی کھیل بند نہیں ہوتا۔
دماغ کی نسیں اتنی زور سے چٹخنے لگتی ہیں کہ کمرہ بند کر کے زور زور سے رونے لگتا ہوں۔
سر کو دونوں ہاتھوں سے بھینچے ہوئے دیر تک روتا ہوں۔ بند کمرہ میری سسکیوں کی آوازوں سے دیر تک گونجتا رہتا ہے۔
٭٭٭
پورے ایک دن کی کیفیت
(۲۷)
صبح اٹھا تو آنکھیں سرخ تھیں۔ دیر تک رونے سے آنکھیں پھول گئی تھیں۔ ذہن اب تک آوارہ خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ رات کا ایک تہائی حصہ صرف جاگنے میں گزر گیا تھا۔ کب آنکھ لگ گئی، پتہ بھی نہیں چلا۔ جاگا تو صبح کافی ہو گئی تھی۔ ممی، بابا وغیرہ کب کے اٹھ چکے تھے۔
بابا باہر والے بیٹھک میں کرسی پر بیٹھے اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔ ممی رسوئی گھر میں اپنے کام میں مشغول تھیں۔ سونی دی بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی نظر آئیں۔
رات والا خیال اب بھی اندر سے اپنی زہر میں ڈوبی زباں دکھا رہا تھا۔ یہ سارے لوگ نفرت کے مستحق ہیں۔
یہ سارے لوگ گندگی سے جنمے ہیں۔
یہ سارے لوگ اپنے ماں باپ کے گھناؤنے فعل کا نتیجہ ہیں۔
زہر ایک بار پھر اپنا اثر دکھانے لگا تھا۔ ذہن پر آئے آوارہ بادلوں کے جھنڈ کو جھٹکا — اپنے کمرے سے ٹوتھ پیسٹ اٹھایا۔ اور باہر چلا آیا۔
دیر تک پیسٹ کرتا رہا۔ اچانک ماں کی آواز سن کر چونک پڑا۔ کیوں مسٹر الف کیا خیال ہے۔ اب تو شادی بیاہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ اور ادھر بھی آپ لگاتار اسکول میں غیر حاضر رہے ہیں۔ کیا اب بھی آپ کا ارادہ نیک نہیں ہے —
ایسے کیا دیکھ رہے ہو، پاپا نے چونکتے ہوئے کہا۔
طبیعت تو اچھی ہے نا۔ ‘
دوسری بار انہوں نے بڑے پیارسے کہا تھا۔ اگر اچھی نہیں تو کوئی بات نہیں آج اسکول مت جاؤ۔ گھر پر پڑھائی کرو۔
پاپا …
مجھے اس گھناؤنے نام سے نفرت محسوس ہوئی … یہاں ہر آدمی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے … یہ سارے رشتے والے نام محض ڈھونگ بے معنی ہیں۔ رشتہ تو وہی ہے … انسان کا اندھیرے سے رشتہ۔ ننگے جسم کا ننگے جسم سے رشتہ — اف کتنا گھناؤنا رشتہ ہے … ایک آدمی کا دوسرے سے …
منہ ہاتھ دھونے سے جب فارغ ہو کر ڈرائنگ روم میں لوٹا اس وقت ٹیبل پرکھانا لگ چکا تھا۔
پاپا بیٹھ چکے تھے۔ منی دی اور راجن بھیا دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ راجن بھیا کے چہرے سے ایک عجیب سی خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ اور منی دی بھی مسکرا رہی تھیں۔
ایسا لگا جیسے سب کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہوں۔
بالآخر ایک ایک کر کے سب نے پوچھا …
الف! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟
’ہاں ‘ میں نے ہونٹ سکوڑ کرنا گواری سے جواب دیا۔ اور اپنے حصے کا نکال کر کھانے میں لگ گیا۔
ممی نے ٹوکا۔ الف یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ابھی کسی نے کھانا شروع بھی نہیں کیا اور تم نے شروع کر دیا …
میں نے ہاتھ روک دیا۔ پاپا نے برہمی کے انداز میں ممی کو گھورا — میری دونوں آنکھیں جل رہی تھیں۔ پاپا نے شاید میرے اندر کی بیماری کو بھانپ لیا تھا۔
’جانے دو۔ اس میں کیا ہوا۔ یہاں کوئی غیر تھوڑے ہی ہے۔
میرے اندر جھنجھلاہٹ سوار ہو گئی تھی۔
ایک بے معنی قہقہہ فضا میں اچھالتے ہوئے پاپا بولے۔ راجن اور منی نے چھوٹے ہوتے ہوئے بھی پہل کر دی۔ اب سونی بیٹا کے بارے میں سوچنا ہے … کیوں ؟
اتنا کہہ کر وہ ممی کی طرف معنی خیز انداز میں مڑے — ادھر بی اے کے اکزام سے فرصت ملی اور ادھر چٹ منگنی پٹ بیاہ۔
سونی دی نے ہاتھ روک لیا اور شرم سے گردن جھکا لی۔ ماحول میں دیر تک ہنسی قہقہے گونجتے رہے۔ میرا تیز چلتا ہوا ہاتھ رک گیا تھا …
توسونی دی کی بھی شادی ہو جائے گی … ؟
میں نے سونی دی کا جائزہ لیا۔ وہ ایک بھری بھری عورت نظر آئیں۔ اچانک محسوس ہوا جیسے سونی دی کی شادی ہو گئی ہے اور انہیں ایک اجنبی مرد کے کمرے میں بند کر دیا گیا ہے۔ کمرہ بند ہے اور پھر کپڑے اتر گئے ہیں۔
گھناؤنے اعضا کا وہی وحشیانہ کھیل شروع ہو گیا ہے۔
نسیں پھر سے تننے لگی تھیں۔ اندر کی کیفیت پر قابو رکھتے ہوئے میں نے دوبارہ سونی دی کی طرف قاتلانہ نظروں سے دیکھا اور پھر جانے کیوں سب کچھ اتنا عریاں، وحشیانہ نظر آنے لگا کہ نوالے کا حلق سے اترنا بھی مشکل ہو گیا۔ سر بھاری ہو گا تھا۔ کھانا چھوڑ کر میں اٹھ کھڑا ہوا۔
منہ ہاتھ دھونے کے بعد میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ اور اسکول جانے کے لیے کتابیں نکالنے لگا تھا۔ اب میں دسویں کلاس میں تھا۔
کچھ دیر بعد ممی کمرے میں داخل ہوئی۔
بیٹے الف! یہ لو اپنا کھانے کا بکس۔ ٹفن میں ضرور سے کھانا۔
اچھا! میں نے کتابیں نکالتے ہوئے کہا۔ میرے لہجے میں ناگواری شامل تھی۔
ممی سے کھانا لیتے ہوئے میں نے ممی کا جائزہ لیا۔ میرے سامنے ایک موٹی تھل تھل عورت اپنے گھناؤنے جسم کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ دھندلے بے لباس خاکے ذہن کے آگے تیرتے ہوئے نظر آئے۔
میں نے سرکو تیزی سے تھام لیا۔
ممی گھبرا گئیں۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے ملے جلے انداز میں بولیں۔ بیٹے الف! طبیعت ٹھیک ہے نا … ؟
مجھے اب بھی وہی کچھ نظر آ رہا تھا۔ وہی گھناؤنا کھیل نظروں کے آگے گزر رہا تھا۔
’’بیٹے الف … اگر تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آج اسکول مت جاؤ … ‘‘
دھندلے بے لباس خاکے میرے ذہن میں اب تک وہی ننگا ناچ دہرا رہے تھے۔ گھبراہٹ کے انداز میں چیختا ہوا بولا …
ممی … بھگوان کے واسطے ممی … اس وقت ڈسٹرب مت کرو۔ چلی جاؤ یہاں سے۔
ممی نے جانے کیا سمجھا، وہ تیز قدموں سے واپس لوٹ گئیں۔ میں نے آنکھیں ملیں اور پھر سے اپنے حواس میں لوٹنے کی کوشش کی۔ کتابیں اٹھا کر اور چپ چاپ جانے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتا ہوں۔ دروازے پر گھر کی پوری فوج جمع ہے۔ سب کی آنکھوں میں پریشانی اور گھبراہٹ کا ملا جلا رنگ تھا اور آنکھوں میں وہی سوال … الف … تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے … ؟
میں اسکول جا رہا ہوں۔
میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
مگر آج تمہاری طبیعت — پاپا کے انداز میں بے چینی تھی۔
مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں اسکول جا رہا ہوں۔
اتنا کہہ کر بغیر کسی کے جواب کا انتظار کیے میں باہر نکل آیا اور اپنے قدم اسکول کی طرف تیز کر دیئے۔
٭٭٭
گھنٹی بجنے میں ابھی دیر تھی۔ میں اسکول کے پارک میں چلا آیا۔ جانے کہاں سے لزی بھی وہاں پہنچ گئی۔ لزی کو دیکھ کر میں نے بیٹھنے کا بہانہ کیا اور اپنے خیالات میں کھویا رہا۔ لزی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
میرا سارا وجود جل رہا تھا … میرے چاروں طرف آگ ہی آگ تھی۔ ایک ایسی آگ جس میں ساری دنیا کے لوگ جل رہے ہوں۔ اور اس آگ کے لامتناہی سمندر میں ہم سب ننگے تھے۔
میری پیشانی پر تفکر اور سوچ سے پسینے کی بوندیں جمع ہو گئی تھیں …
لزی چند لمحوں تک مجھے دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔ الف … کیا طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
میں نے غصے میں ہونٹ بھینچ لیا۔ آج یہ لفظ کتنے لوگوں نے دہرایا تھا۔ اب اس لفظ سے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔
طبیعت … طبیعت ٹھیک ہے، میں نے غصے میں جواب دیا۔
اتنی بے رخی کیوں ہے — لزی کے لہجہ میں پریشانی تھی۔
طبیعت ٹھیک ہے لزی۔ میں نے تنگ آ کر کہا۔
بگڑتے کیوں ہو۔ لزی کو میرا انداز پسند نہیں آیا تھا۔ پھر شاید اسے کچھ احساس ہوا۔ اس نے محتسبانہ انداز میں کہا۔
کچھ پریشانی ہے۔ ؟
ہاں، میں نے اثبات میں سرہلا یا۔
کوئی تکلیف بھی
ہاں
مگر کیا؟
تم سمجھو گی نہیں
مگر بتاؤ بھی تو
بس یوں سمجھ لو کہ میں پاگل ہو گیا ہوں …
کیوں ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔
پھر کیا کروں — میں جو سوچتا ہوں۔ وہی اگر تم سوچتی تو تم بھی ایسا ہی کہتی۔
تم سوچتے بہت ہو۔ میں نے کتنی بار کہا۔ زیادہ مت سوچا کرو۔
نہیں لزی۔ سوچتا نہیں، جو اصلیت ہے۔ وہی سوچتا ہوں اور سوچتا ہوں تو لگتا ہے۔ پاگل ہو جاؤں گا۔
مگر آخر ایسی کیا بات ہے۔
’سنوگی … ‘ میں نے لزی کی پریشان آنکھوں میں جھانکا۔ پھر بڑے عجیب انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ میرے ذہن میں پھروہی دھندلے بے لباس خاکے منڈلانے لگے تھے۔
سنوگی۔
میں نے دوبارہ ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔ تو سنو۔ کیا تم نے کبھی اپنے متعلق سوچا ہے … ؟
کیا بات ہے — لزی چونکی … کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو … ‘
’نہیں لزی۔ بہکی بہکی باتیں نہیں۔ اصلیت ہے۔ اگر سوچو تو معلوم ہو گا کہ تم … ہاں لزی تم بھی ایک گندگی کا نتیجہ ہو۔
کیا … ؟ لزی اس طرح چونکی جیسی کسی نے اسے گولی ماردی ہو۔
ہاں لزی … تم ہی کیا۔ اور میں بھی کیا — ہم سب گندگی کا نتیجہ ہیں۔
میں نے ہم پر زور دے کر کہا۔ ہم سب … اپنے ماں باپ کی گندگی کا نتیجہ ہیں۔ لزی پاگلوں کے انداز میں مجھے گھور رہی تھی۔
میں بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
میرا پورا جسم آگ میں جل رہا تھا۔
اسی وقت، اسکول کی گھنٹی بجی اور ہم مختلف کلاسوں میں بٹ گئے۔
کلاس چل رہا تھا … میں جان بوجھ کر پیچھے والی بنچ پر بیٹھا تھا۔ کئی دوستوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر بات کرنی چاہی مگر میں نے خراب طبیعت کا بہانہ بنا دیا۔ کسی سے بھی بات کرنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔
کلاس ختم ہونے کے بعد میں خاموشی سے گھر چلا آیا۔ سارے راستے مجھ پر خاموشی حاوی رہی۔ گھر میں میری وجہ سے ایک بوجھل ماحول پیدا ہو گیا تھا۔
٭٭٭
دوسرے دن کا ایک واقعہ
(۲۸)
اس رات دیر تک نیند نہیں آئی۔ بے خوابی میرے وجود سے لپٹی رہی۔ میرے سامنے ایک کنواں تھا۔ ایک گہرا کنواں — جس میں دنیا کے تمام لوگ اپنے لباس اتار کر کود پڑے تھے اور ایک وحشیانہ کھیل اس کنویں میں کھیلا جا رہا تھا۔ ساری رات یہ کنواں میری نگاہوں میں روشن رہا۔
دوسرے دن بھی وہی حال تھا۔ دیرسے اٹھا۔ کسی سے بولنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔
کھانے کی میز پر ہم سب بیٹھ گئے تو پاپا نے خاموشی توڑی۔
سنو الف !ان کے لہجے میں پیار تھا۔
کیا ہے — میں نے کھانے سے ہاتھ روک کر پوچھا۔
آج تم اسکول نہیں جاؤ گے۔
کیوں۔ ؟
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے … آج میں نے ڈاکٹر کو بلایا ہے۔ تمہارے علاج کے لیے۔
مگر میں علاج نہیں کراؤں گا۔
کیوں ؟ ڈیڈی کے لہجے میں حیرانی تھی۔
میں نے کہہ دیا نا … میں علاج نہیں کراؤں گا۔
’’ طبیعت خراب ہے اور علاج نہیں کراؤں گا۔ ؟‘‘
میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہذیانی انداز میں چیختا ہوا بولا۔ آپ سب لوگ کان کھول کرسن لیجئے۔ زیادہ میری بیماری یا علاج کی بات کی گئی تو میں جان دے دوں گا۔
میرا جسم غصے سے کانپ رہا تھا۔
مگر بیٹا، تمہاری طبیعت … ڈیڈی کے لہجے میں پیار تھا۔
’ میر ی طبیعت اچھی ہے اور کان کھول کر سن لیجئے … ڈاکٹر یا علاج کی بات کی تو میں گھرسے بھاگ جاؤں گا۔ ‘
پاپا تھر تھر کانپنے لگے تھے۔ سب کی نظروں میں میرے لیے ہمدردی جھانک رہی تھی۔ اور سب لوگوں کو ششدر چھوڑ کر میں وہاں سے چلا آیا تھا۔
اسکول کے لیے کتابیں نکالتے ہوئے میں سوچ رہا تھا۔ یہ لوگ میرا علاج کرائیں گے۔ میرا … پہلے خود کا علاج کرائیں یہ گندے لوگ … گھناؤنے لوگ … انہیں ممی ڈیڈی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے …
٭٭٭
تیسرے دن کی صبح
(۲۹)
لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گا۔ چاروں طرف آوازوں کا جنگل ہے اور اس میں جنگل میں میں قید ہو گیا ہوں۔ عجیب عجیب آوازیں آگے پیچھے چاروں طرف سے ڈس رہی ہیں۔ عجیب عجیب وحشیانہ شورآسمان سرپر اٹھا رہے ہیں۔ شور بڑھ رہا ہے۔ لمحہ لمحہ بڑھتا ہی جا رہا ہے …
میرے چاروں طرف سرسراتے سانپ ہیں، جن کی زہر آلود زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ وہی آوازیں — چیختی چنگھاڑتی آوازیں چاروں طرف سے مجھ پر حملہ کر رہی ہیں۔
الف … تم گندے ہو …
الف … گم گھناؤنے ہو …
الف … اپنے وجود کے بارے میں کبھی سوچا … تمہارا وجود تمہارے ماں باپ کے گھناؤنے کھیل کا نتیجہ ہے …
یہ سارے لوگ … جو تمہیں نظر آتے ہیں … قدم قدم پر تمہاری رہبری کرتے ہیں۔ تمہیں پڑھاتے ہیں … تمہیں گائڈ کرتے ہیں۔ تمہیں محبت سکھاتے ہیں۔ یہ سارے لوگ گندگی کا نتیجہ ہیں الف …
آوازوں کا شور بڑھتا چلا جاتا ہے …
اور میں دیکھتا ہوں ماں باپ، بھائی بہن — آس پڑوس اور لاکھوں آدمیوں کے ہجوم کو جو بے لباس ہو کر ناچ رہے ہیں۔ ہاں ہم گندے ہیں۔ گھناؤنے ہیں — فرض کرو … کہ ہم وجود میں کیسے آئے … ذرا تصور کرو اور ہمارے وجود کی صورت اور کیفیت کا اندازہ لگاؤ تب ہم سے نفرت کرو۔ سنو ہمیں ختم کر دو … ہمیں مار ڈالو …
اور پھر ایسا احساس ہوا جیسے ایک گہری کھائی میں، میں گرتا چلا جا رہا ہوں … گرتا چلا جا رہا ہوں …
صبح نیند کھلی تو چاروں طرف گھر کے لوگ جمع تھے۔ ڈیڈی کی آنکھیں نم تھیں۔ ممی لگتا تھا بہت روئی ہیں۔ میرے پاس میں لزی بھی بے چین تھی۔ اس کی آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھیں۔ منی دی راجن بھیا، سونی دی، اور لزی کے ماں باپ سب بت بنے میرے سامنے کھڑے تھے۔
نظر دوڑائی تو دیکھا میرے پاس والی کرسی پر ڈاکٹر بھون مجھے ہوش میں دیکھ کر مسکرائے جا رہے تھے۔
تمہیں ہوش آ گیا بیٹے۔ پاپا نے جلدی سے پوچھا۔ میں نے دیکھا … سب کی آنکھوں میں ڈوبتی ہوئی چمک پھر سے لوٹ رہی ہو … مگر مجھے ہوا کیا تھا۔
کچھ نہیں بیٹے۔ ڈاکٹر بھون نے پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔ یہ لوگ بے کار میں ڈر جاتے ہیں۔ کل تم نے کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا۔
خواب؟
میں چونکا۔ مجھے یاد آیا۔
ڈاکٹر بھون نے پیار سے کہا — بیٹے کھانے میں تم کو کیا پسند ہے۔ میں سمجھ گیا خواب کی بات پر ڈاکٹر بھون سمجھ چکے ہیں کہ کہیں میں دوبارہ اسی کیفیت میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میں نے ناگواری سے کہا … سب کچھ …
پھر بھی جو تمہیں خاص کر پسند ہو۔
چاکلیٹ۔
میں نے یونہی کہہ دیا۔
ڈاکٹر بھون پاپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سنئے — آپ الف کو چاکلیٹ نہیں کھلاتے کیا۔ ارے جناب جب یہ چاکلیٹ اتنے شوق سے کھاتا ہے تو پھر اسے ڈبہ ڈبہ لا کر دے دیجئے۔
ڈیڈی بہت دیر بعد مسکرائے تھے۔ ہاں بیٹے۔ میں آج ہی چاکلیٹ کے کئی ڈبے لادوں گا۔
الف چاکلیٹ مجھے دو گے؟ لزی نے پوچھا۔
تمہیں کیوں دے گا؟ راجن بھیا نے بھی زبردستی آئی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
کیوں میرا دوست ہے۔ لزی نے ڈھٹائی سے کہا۔
میں آنکھیں بند کیے سوچ رہا تھا۔ مگر یہ کیا جانیں کہ مجھے کیا ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ رات میرے ساتھ کیا کیا گزری۔ پہلے میں دیر تک روتا رہا۔ پھر پاگلوں سی حرکت کرنے لگا۔ کتابیں پھینک دیں۔ چیخا چلایا — برتن توڑ کر پھینک دیئے۔ پاگلوں کی طرح ناچتا رہا اور آخر میں تھک ہار کر پلنگ پر گر پڑا اور پھر بے ہوش ہو گیا۔ تب ڈاکٹر بھون کو بلایا گیا — انہوں نے چیک اپ کیا اور نیند کی دوا دے کرسلادیا۔
لیٹے لیٹے اب بوجھ سا لگنے لگا تھا۔ آنکھوں میں نیند بھی بھری ہوئی تھی۔ شاید انجکشن کا اثر تھا یا پھر نیند والی گولی کا۔ آنکھ بھی بوجھل لگ رہی تھی۔
کیا بات ہے الف … ممی نے پوچھا … لیٹرین جاؤ گے کیا،
میں خاموش رہا۔
’سنو بیٹے، آج سلیچی ہی میں کر لو۔ ڈاکٹر نے کہا ہے ٹیسٹ کرنے کے لیے۔ پاپا کے لہجے میں پیار تھا۔ ‘
میرا ذہن پھرسے زخمی ہو گیا۔ لیٹرین کا نام سنتے ہی دھماکہ ہوا۔ پرانے واقعات تازہ ہو گئے۔ مجھے ڈاکٹر بھٹ یاد آنے لگا۔
مجھے یاد آیا۔ ڈاکٹر بھٹ نے کیسے اپنی ماں کا خون کر دیا تھا۔
کمرے سے سارے لوگ باہر جا چکے تھے۔
میں نے کمرہ اندر سے بند کر لیا۔ سلیچی کی طرف دیکھا۔ میں چونک گیا۔ سلیپچی ناچ رہی تھی۔ اب ایک نیا منظر سامنے تھا۔ اس نئے منظر میں گھر کے تمام لوگ تھے۔ باری باری یہ لوگ سلیپچی پر بیٹھتے تھے۔ ایک بدبو تھی، جو فضا میں پھیلتی جا رہی تھی …
٭٭٭
وہی واقعات وہی کیفیت
(۳۰)
لوہے کی بدنما سی سلیپچی رقص کرتے کرتے ٹھہر گئی۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ ماحول میں بدبو پھیل چکی تھی۔ جب میں اس گندے اور گھناؤنے عمل سے فارغ ہوا تو محسوس ہوا کہ آدمی فطری اصولوں سے بغاوت کر ہی نہیں سکتا — ہاں نفرت ضرور کرسکتا ہے — میرے ذہن میں ایک ساتھ کئی باتیں ابھر رہی تھیں۔ کیا ضروری ہے کہ پیٹ میں جو کھانا جاتا ہے اس کے باہر نکلنے کی صورت بس ایک یہی گندہ عمل ہو۔ ؟ آخر بھگوان نے کوئی دوسری صورت پیدا کیوں نہیں کی۔ اتنی گھناؤنی صورت کیوں رکھی۔ جب میں اس بارے میں آگے سوچتا تو ایک عجیب سی جنگ ذہن دھماکہ کرنے لگتی۔
اپنے کمرے سے جب میں گھر کے کسی فرد کو لیٹرین کا رخ کرتے ہوئے دیکھتا تو اس کے بارے میں گھناؤنا خیال جنم لینے لگتا۔ میں سوچتا اب تک کپڑے کے اندر یہ شخص جتنا اچھا لگ رہا ہے لیٹرین جاتے ہی اس کا حلیہ بھی بگڑ جائے گا اور وہ دیکھنے میں بھی ناقابل برداشت ہو گا۔
ان واقعات کی یورش ذہن پر ضرب پہنچا رہی تھی۔ میرے دماغ پر پے در پے ہتھوڑے برس رہے ہوں۔
میرے سامنے سے گزرتا ہوا ہر آدمی تصویر کے دو ٹکڑے میں تقسیم تھا۔ نمبر (۱) اس کی پیدائش کا گھناؤنا عمل۔ (۲) اس کا بیت الخلا میں ہونا۔
اور یہ دونوں رخ میرے مکمل وجود کو زخمی کر رہے تھے۔
ذہن میں وہی کنواں روشن تھا اور وہی عجیب و غریب کھیل۔
میں بار بار کروٹیں بد ل رہا تھا۔ جیسے ہزاروں بچھو میرے جسم میں داخل ہو گئے ہوں۔ میرا سارا جسم اذیت اور تکلیف سے ٹیس دے رہا تھا — میں بار بار بے چینی اور تکلیف کے عالم میں کروٹیں بدل رہا تھا۔
آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ ایک گہرا کنواں تھا۔ طلسمی کنواں۔ لیکن یہ کنواں کسی داستان ہوشربا سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ یہ میرے گھر کا کنواں بھی نہیں تھا۔ یہ بہت گہرا کنواں تھا۔ کمال یہ تھا کہ اس کنویں میں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ غور سے دیکھنے پر اس کنویں میں گھر کے تمام لوگ نظر آ رہے تھے۔ پاپا … ممی … راجن بھیا۔ منی … سونی دی … سب کے سب لباس … عریاں … سب ہنستے مسکراتے ہوئے رقص میں مصروف … میں نے پھر غور سے دیکھا …
یہ ماں تھی …
یہ ڈیڈی تھے …
یہ راجن بھیا تھے …
یہ منی دی تھی …
یہ لزی …
یہ لزی کے ممی ڈیڈی …
یہ اسکول میں پڑھانے والے ماسٹرجی …
یہ ڈولچی آنٹی …
اور سب کے سب عریاں رقص کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس گہرے کنوئیں میں میری آنکھیں بند تھیں …
میں تھر تھر کانپ رہا تھا۔ کپڑے پہن لو … پلیز … کپڑے پہن لو … پہن لو کپڑے … میں آپ لوگوں کو اس طرح بے لباس نہیں دیکھ سکتا۔ میں جسم کی اذیت سے گزر رہا ہوں … پلیز … رقص روکیے اور خود بھی دیکھ لیجئے۔ بدن کی ساخت سے زیادہ گھناؤنا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ آپ لوگوں کے کپڑے کہاں ہیں۔ پہن لیجئے …
میں چیخنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اب طلسمی کنویں سے قہقہے کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ اور اس قہقہے میں گھ روالوں کے ہنسنے کی آوازیں دب گئی تھیں —
٭٭٭
فرار
(۳۱)
میں نے فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک بڑا اہم فیصلہ کہ میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔ اور اب اس گھر میں اگر کچھ دن اور ٹھہر گیا تو میرے دماغ کی نسیں چٹخ کر ٹوٹ جائیں گی۔ کم سے کم اس مقدس رشتے کی جانب جسے لوگ ماں باپ کہتے ہیں، بھائی بہن کہتے ہیں، ان رشتے کی طرف تو میں نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکوں گا۔ مجھے جانا ہی ہو گا۔ اگر میں نہیں جا سکا تو شاید میں خود اپنی موت مر جاؤں گا۔
نئی صبح میرے لیے فیصلہ کی صبح تھی۔ کیونکہ اس نئی صبح مجھے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنا تھا۔ یا تو زندگی روپی موت کو ترجیح دینی تھی یا پھر راہ فرار حاصل کرنا تھا۔
صبح ہو گئی تھی۔
راجندر انکل، ممی اور ڈیڈی کے قہقہے صحن میں گونج رہے تھے۔ یہ لوگ مجھے سانپوں کی مانند نظر آ رہے تھے وہی، گہرا خوفناک کنواں اور ان کے جسم سے بے لباسی جھانک رہی تھی۔ رات والا خوفناک منظر نگاہوں کے آگے اب بھی ناچ رہا تھا۔
آؤ … لباس اتار پھینکتے ہیں … تک دھنا دھن … یہاں سب عریاں ہیں۔ دیکھتے کیا ہو، تم بھی کپڑے اتار پھینکو۔
آوازوں کاملا جلا شور ذہن کے پردے پھاڑ رہا ہے …
الف … بھاگو یہاں سے … تم یہاں نہیں رہ سکتے۔ جب تک تم ان لوگوں کے سامنے رہو گے تمہیں اپنے وجود کی گھناؤنی صورت ان کے بدنما انسانی بدن سے جھانکتی نظر آئے گی۔
کیونکہ تمہارے وجود کی تکمیل میں دونوں کا حصہ ہے۔ تمہارے ماں باپ کا۔ اچانک ممی پاپا اور راجندر انکل کو کچھ احساس ہوا۔ وہ میری طرف مڑے۔
الف تم اٹھ گئے، نہا لیا، کافی پی، لیٹرین سے ہو آئے۔
جی چاہا کہہ دوں۔ راجندر انکل، میرے سامنے لیٹرین کا نام مت لیا کیجئے۔ اس نام سے مجھے بدبو آتی ہے۔
اپنے جذبوں کو کس حد تک روکنے میں کامیاب ہوا، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ اس وقت بس اتنا ہی کہہ سکا۔
’راجندر انکل۔ ابھی تو اٹھا ہوں۔ ابھی برش کروں گا۔ ‘
ممی نے ایک زور دا رٹھہاکا لگایا اور پھر اٹھتی ہوئی بولیں۔ الف جائے یا نہیں جائے۔ میں تو لیٹرین چلی۔
پھر ممی تیزی سے لیٹرین کی طرف مڑ گئی۔
پاپا اور راجندر انکل بغیر بات کے مسکرادیئے —
ممی لیٹرین جا رہی ہیں۔
میں محسوس کر رہا تھا۔
لیٹرین میں بھی جاؤں گا۔
پھر پاپا بھی جائیں گے۔
برش کرتے ہوئے ذہن کی نسیں پھر سے چٹخنے لگی تھیں …
لیٹرین کے اندر ممی کیسی لگتی ہوں گی۔ جب وہ اچکوں بیٹھی ہوں گی اور …
ذہن میں نگاڑے بج رہے تھے … ڈم … ڈم … ڈم …
ذہن پر آوارہ پرندوں کے جھنڈ تیرنے لگے۔
اسکرین پھر سے روشن ہو گیا تھا۔
دورآسمان پر کوؤں کا جھنڈ نظر آ رہا تھا۔
میں نے آہستہ سے بڑبڑایا۔ کوے ہیں۔ کوے اڑتے ہیں — کوؤں کے جھنڈ آسمان پر منڈلا رہے ہیں۔ میں زور زور سے بڑبڑایا۔ چند لمحوں تک دیکھتا رہا۔ لیکن بڑبڑانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
اسکرین اب بھی روشن تھا اور کنویں کے عریاں آسیب ممی پاپا کی شکل میں سامنے آ گئے تھے۔
الف … تم یہاں جی نہیں پاؤ گے …
اٹھتے بیٹھتے ہر وقت تمہیں یہ تصویریں ڈستی رہیں گی۔
برش کرنے کے بعد تم کیا کرو گے؟
میں نے برش ختم کیا۔ منہ دھویا۔ ممی لیٹرین سے لوٹ آئی تھیں۔ وہ پھرسے قہقہہ زار ہو گئی تھیں۔ میں ممی میں، اسی لیٹرین والی ممی کا گھناؤنا عکس محسوس کر رہا تھا۔
چلو الف … تم بھی ہو آؤ تاکہ پیٹ ہلکا ہو …
٭٭٭
کھانے کے بعد میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ ذہن و دماغ پر بہت ساری تصویریں اب بھی چکر کاٹ رہی تھیں اور میں لمحہ لمحہ اس گہری کھائی میں خود کو گرتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
کمرہ بند کیا۔ قلم کاغذ نکال کر بیٹھ گیا۔
پھر اس پر لکھنا شروع کیا۔
پاپا!
میں جا رہا ہوں۔
میں کیوں جا رہا ہوں۔ یہ وجہ شاید میں آپ کو بتا نہ سکوں گا۔ اور جو بتاؤں گا تو شاید آپ سمجھ نہ سکیں۔
بس یہی سمجھ لیجئے کہ میں جا رہا ہوں۔
مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔
کیوں کہ ہر کوشش فضول ہو گی۔
اگر میں ہاتھ آ بھی گیا تو میری موجودگی اس پاگل شخص کی طرح ہو گی جو زندگی بھر ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
امید ہے آپ مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ الف۔
خط لکھ کر میں نے اسے کئی بار پڑھا۔ پھر اسے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ پینٹ شرٹ پہنا۔ کچھ روپے جیب میں ڈالے اور نامعلوم منزل کی سمت جانے کا ارادہ کر لیا۔
باہر پاپا ممی اور راجندر انکل بیٹھے کافی اور باتوں کا مزہ لے رہے تھے۔
میں باہر نکل آیا۔
اور اب میرے قدم تیز تیز انجانی منزلوں کی سمت دوڑ رہے تھے۔ میں پریشان بھی تھا۔ وہ خط ان لوگوں کو مل گیا تو …
میں تیز تیز بھاگ رہا تھا۔
اسی وقت ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ مجھے اس شہر سے باہر چلا جانا چاہئے۔ ورنہ یہاں پکڑ لیا جاؤں گا۔
آٹو رکشہ پکڑ کر میں نے اسٹیشن کا رخ کیا۔ ٹکٹ والی کھڑی کی کے پاس کئی جگہوں کے نام اور کرائے درج تھے۔ ان میں سے ایک جگہ کا نام چن کر میں نے ٹکٹ لے لیا۔
اور پھر دوڑ کر گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔
میرا پورا جسم سناٹے میں ڈوبا تھا۔
سلیپچی ناچ رہی تھی۔ کنویں میں جمع آسیب ننگے جسموں کے ساتھ رقص کر رہے تھے … سانپ نے کینچلی اتار پھینکی تھی۔ انسان کو پتھر میں تبدیل کرنے والی ساحرہ مسکرا رہی تھی … کوہ قاف سے خوفناک آوازیں بلند ہو رہی تھیں … اور ٹرین تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔
٭٭٭
حصہ دوم
بندر کا چمگادڑ کی طرح الٹا لٹکنا/ ملنا جوگی اور جوگن سے/کرنا جنگل کا رخ/ لباس میں چھپکلی کا گرنا اور تلاش کرنا انسانوں کو/ ندی میں بہتی مردہ عورت کو دیکھ کر جسم میں گھوڑے کا ہنہنانا اور بے چہرہ پرندوں سے باتیں کرنا
فرار کا پہلا دن
(۳۲)
گاڑی جنکشن پر کھڑی تھی۔ میں نے دیکھا۔ وہی شہر تھا جہاں کا میں نے ٹکٹ لیا تھا۔ یہاں آنے میں مجھے دو تین گھنٹے لگ گئے تھے۔ دماغ اب بھی بوجھل ہو رہا تھا اور ایک خوف اندر ہی اندر بیٹھا ہوا تھا کہ اگر پاپا اور راجندر انکل نے مل کر کوتوالی میں رپورٹ درج کروا دی تو … ؟
دل کہتا تھا۔ اتنی جلد وہ لوگ رپورٹ نہیں درج کرائیں گے۔ سوچا ہو گا کہیں گھومنے میں تاخیر ہو گئی ہو گی۔ مگر زیادہ دیر ہونے پر فکر ہوسکتی ہے۔ اور اس کے بعد کا پورا منظر مجھے معلوم تھا۔ یعنی پاپا پہلے اسے شہر میں ہی تلاش کریں گے۔ پھر کوتوالی میں رپورٹ درج ہو گی۔ پھراسٹیشنوں پر چھان بین شروع ہو گی۔ کون سی گاڑی صبح سے اس وقت تک پاس ہوئی ہے۔ کس پر میں چڑھ سکتا ہوں۔ یہ سب بہت معمولی خیالات تھے۔ وہ کوتوالی میں اس کا چہرہ مہرہ لباس سب کچھ درج کرائیں گے۔
ایک خیال اسے بار بار آ رہا تھا۔ اس کے جیب میں جوپیسے ہیں ان سے کام لینا چاہئے۔ سب سے پہلا کام کہ وہ اپنا لباس تبدیل کر دے۔ اس کپڑے میں وہ پہچان لیا جائے گا۔ اس خیال کے تحت وہ کپڑے والی دکانوں کی تلاش میں نکل گیا۔
ایک جگہ کپڑوں کی بہت ساری دکانیں تھیں۔ اس کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ حلیہ تبدیل کرنے کے لیے لباس تو خرید ہی سکتا تھا۔
ایک دکان سے اس نے پاجامہ اور کرتا اپنے لیے منتخب کیا۔ پیٹ میں چوہے بھی تیز رفتاری سے دوڑ رہے تھے۔ پاؤں بھی چلتے چلتے تھک گیا تھا — ایک چھوٹے موٹے ہوٹل کے پاس آ کر وہ ٹھہر گیا۔ پہلے وہاں باتھ روم کے بارے میں پوچھا۔ پھر باتھ روم میں جا کر ہاتھ منہ دھویا اور لباس تبدیل کر لیا۔ ان سارے کاموں سے فارغ ہو کر وہ دوبارہ باہر نکل آیا۔ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر بیرے کو کھانا کا آرڈر دیا۔
بہت دیر تک وہ پیٹ کی منحوس بھوک مٹاتا رہا — ان سب سے فارغ ہو کر ایک بار پھر اس کے سامنے وہی سوال آن کھڑا ہوا تھا۔ وہ جائے گا کہاں ؟
وہ بھاگ تو ضرور آیا ہے۔ مگر جائے گا کہاں۔
مگر اسے یقین تھا۔ وہ اس سماج سے فرار اختیار کرے گا۔ کچھ بھی ہو جائے۔ گھر واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ وہاں اس کا دم نکل جائے گا۔
ہوٹل سے نکلتے ہوئے اچانک وہ ٹھہرا۔ ایک گندی جوان عورت بھیک مانگ رہی تھی۔ اس کا لباس قریب قریب پھٹا ہوا تھا اور لباس سے اس کا میلا کالا، بد صورت چمڑا نما جسم باہر جھانک رہا تھا۔
چند لمحوں تک وہ اس کالی چمڑی والی عورت کے بدصورت جسم کا مطالعہ کرتا رہا اور جب ذہن بالکل گندہ ہو گیا تو وہ دوبارہ آگے بڑھ گیا۔ اس کے اندر اب جوش بھرا ہوا تھا۔ یہاں وہ خود کو کسی قدر ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
شام ہو گئی تھی — وہ تھک گیا تھا۔ بدن درد کر رہا تھا۔ پاؤں میں چلنے کی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ یہاں وہاں بھٹکتا رہا۔ پاپا اور ممی پریشان ہوں گے۔ پاپا نے اب کھوج شروع کر دی ہو گی۔ اس لیے اس کا چوکنا رہنا ضروری ہے۔
اس لیے وہ شہر سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگا۔ جہاں رہ کر وہ پکڑا نہیں جائے۔ یہاں زیادہ تر جھگیاں ہی آباد تھیں۔ کچھ مٹی کے بنے مکانات بھی نظر آ رہے تھے۔ جگہ جگہ سوروں کی یلغار بھی دکھ رہی تھی۔ آس پاس کچھ گھٹیا قسم کے ہوٹل بھی تھے۔ یہاں کی زمین بھی مٹی کی ہی تھی، چاروں طرف دھول ہی دھول بھری ہوئی تھی۔
یہ راستہ — شہر سے کٹا ہوا ہے۔ کبھی کبھی ایک دو کار یا جیپ نظر آ جاتے۔
ایک عورت کو دیکھ کر وہ بری طرح چونک گیا۔ وہ عورت نالی کے قریب پیشاب کرنے میں مشغول تھی۔
ذہن پھر سے پاگل ہونے لگا تھا۔
چھوٹے موٹے ننگے ادھ ننگے بچے دھول بھری ہوئی زمین پر ایک دوسرے سے جھگڑا کر رہے تھے۔
اور ان سے ذرا ہٹ کر دوسری جانب ایک کتا مرا ہوا تھا۔
گندے …
گھنونے …
میں نے نفرت سے آنکھیں بند کرنا چاہیں مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔
اب ہلکی ہلکی رات ہو چلی تھی۔ جاتے جاڑے کا موسم تھا۔ ہلکی ہلکی خنکی فضا میں موجود تھی۔ مجھے ٹھنڈمحسوس ہونے لگی تھی۔ سرد ہواؤں نے جسم کو منجمد کر دیا تھا۔ یہاں تو کوئی سائبان بھی نہیں ہے۔ جہاں آدمی رات گزارسکے۔
میں کہاں جاؤں ؟
یا پھر لوٹ جاؤں ؟
یہ سوال مجھے تنگ کر رہا تھا اور اس سوال کے جواب میں مجھے وہی روشن اسکرین نظر آ رہا تھا۔ چرچراتی ہوئی مسہری نظر آ رہی تھی۔ نہیں، میں نے دل کو سمجھایا۔ اب وہاں جانے کے بارے میں سوچنا ہی فضول ہے۔ یہاں گزارا کرسکتا ہوں۔ وہاں اس ماحول میں نہیں جی سکتا —
میں وہاں نہیں رہ سکتا۔
سردی تیز ہو گئی تھی۔ اور میرے قدم آہستہ آہستہ کسی سائبان کی تلاش میں بڑھ رہے تھے۔
پاپا پریشان ہوں گے۔ راجندر انکل بھی پریشان ہوں گے۔ ممی شاید رو رہی ہوں گی۔ سب نے مل کر میری تلاش شروع کر دی ہو گی۔ گندے گھناؤنے لوگ۔ میں تمہارے ہاتھ آنے والا نہیں … میں تمہارے ساتھ نہیں جی سکتا۔ میں تمہارے ساتھ مر جاؤں گا۔
سڑک پر بتیاں روشن تھیں۔ ٹمٹماتے ہوئے نیلے پیلے ٹیوب لائٹ کی روشنی ہر جگہ پھیل گئی تھی — دور تک سناٹاچھایا تھا۔ پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ بیت الخلا جانے کی خواہش ستارہی تھی۔
نالی کے پاس اپنی ضرورت سے فارغ ہوتا ہوں۔ آج اگر پائخانہ نہیں کیا تو کون ساپہاڑ گر جائے گا۔ لعنت مجھ پر، اگر ایک دن بھی برداشت نہ کرسکا۔
خود کوسمجھانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ دور چھوٹے چھوٹے مکانوں کا ایک سلسلہ نظر آ رہا ہے۔
رات گزارنی تھی اور اس کے بعد سفر ہی سفر … خالی جیب میرا منہ چڑھانے لگتی تھی۔
اب کیا ہو گا؟
خیر سوچا جائے گا۔ اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے۔ کوئی نہ کوئی حل نکل ہی جائے گا۔
ایک سائبان کے نیچے ٹھٹھرا ہوا لیٹ جاتا ہوں۔
سردی بڑھتی جا رہی ہے۔
رات کا قافلہ گزر رہا ہے۔ آہستہ آہستہ۔
لیکن مجھے اس بات کی چنداں فکر نہیں ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ میں خوفناک کنواں اور بے لباس انسانوں کے ہجوم سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔
٭٭٭
ہوٹل میں ملازمت
(۳۳)
دوسرے دن کتے کے بھونکنے کی آواز سن کر میں چونک پڑا۔
’کون ہے۔ ‘اندر سے آواز آئی تھی۔
میرے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ اس کی نظروں میں میرے لیے بے چارگی اور ہمدردی شامل تھی۔ شاید اس بے چارگی کی وجہ میں تھا، میں جو گھر ہوتے ہوئے بھی سردی کے عالم میں یہاں زمین پر پڑا تھا۔
کون ہے، اندر سے پھر ایک آواز آئی۔
کوئی نہیں ممی۔ ایک لڑکا ہے، بے چارہ۔ جاڑے سے ٹھٹھر رہا ہے۔
شرم و ندامت کی گٹھری لیے جب میں نے وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو اس لڑکی کی ہنسی کی آواز سن کر چونک پڑا۔
’سنو‘ کل تم یہیں سوئے تھے کیا؟
’ہاں ‘
’تمہارا کوئی نہیں ہے کیا؟‘
’نہیں۔ ‘
’بے چارہ‘ — لڑکی کے لہجہ میں ہمدردی کا شائبہ تھا۔
’اس کپڑے میں تمہیں جاڑا نہیں لگتا۔ ؟‘
’لگتا ہے‘
مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ گھر سے چلتے وقت میں نے کوٹ کیوں نہیں لیا۔ ورنہ اس قدر جاڑے کا سوال ہی نہیں تھا۔
’رکو، میں آتی ہوں۔ ‘
اتنا کہہ کر وہ لڑکی اندر چلی گئی۔ میں نے سوچا ہوسکتا ہے کہ مجھے کچھ کھانے کے لیے دے۔ اب کافی بھوک ستانے لگی تھی۔ بھوک کا احساس جان لینے لگا تھا۔ سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ ابھی دھوپ نہیں نکلی تھی مگر ہلکا ہلکا سویرا چھانے لگا۔
کچھ دیر بعد وہ لڑکی لوٹی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانا پھٹا کوٹ تھا۔
لو پہن لو۔ چوہے نے کاٹ ڈالا ہے۔ مگر تمہیں آ جائے گا۔
یہ میری پہلی بھیک تھی۔ جسے لیتے ہوئے مجرمانہ احساس ہوا۔ پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی۔ بھیک تو نہیں مانگی میں نے۔ اس نے خود لا کر دی ہے۔ چلو یہ بھی زندگی کا ایک تجربہ ہے۔
وہ لڑکی دوبارہ اندر چلی گئی تھی۔ اپنے کپڑے کی گٹھری لیے میں دوبارہ چل پڑا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ بھوک مٹانے کا تھا اور یہ مسئلہ مجھے کھائے جا رہا تھا۔ بھوک کیسے مٹے گی۔
کچھ نہ کچھ حل تو نکلے گا۔
پھراحساس ہوا، اگر وہ لڑکی کوٹ کی جگہ روٹی دے جاتی تو … تو شاید بھوک کا مسئلہ حل ہو جاتا … مگر پھر محسوس ہوا۔ اس نے اچھا ہی کیا۔ بھوک سے زیادہ ضرورت اس کوٹ کی تھی — سردی کافی ہے۔ شاید کوٹ کے بغیر وہ ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتا۔ وہ اس لڑکی سے اگر روٹی مانگتا تو وہ انکار نہیں کرتی؟
ہاں وہ انکار نہیں کرتی۔ مگر اس کی عزت کچھ گھٹ ضرور جاتی۔ کیوں کہ کوٹ کے لیے اس کو ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا تھا۔ اس نے کوٹ کو ایک نظر دیکھا اچھا خاصہ گرم کوٹ تھا۔ صرف بعض جگہ چوہے نے کاٹ کھایا تھا۔ پھر بھی کوٹ کی رونق اب بھی باقی تھی۔ اور سردی کی ضرورت بہرحال پوری ہو رہی تھی۔
روٹی کامسئلہ پھر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ کسی سے کچھ مانگتے ہوئے شرم کا احساس ہو رہا تھا۔ زندگی میں آج تک بھیک نہیں مانگی۔
مگر بھیک کے معاملے میں سب چلتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ، گالی گفتہ، مار پیٹ سب۔
تو کیا اسے سب سہنا پڑے گا۔ ؟
نہیں، اس نے ارادہ کر لیا تھا۔ جیسے بھی ہو وہ بھیک نہیں مانگے کا۔ اگر چھوٹی موٹی ملازمت مل گئی تو وہ کر لے گا۔ مگر بھیک نہیں مانگے گا۔
یہی سوچ کروہ آگے بڑھنے لگا۔
کچھ آگے چلا ہو گا کہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ٹریفک جام تھا۔ ایک بارات گزر رہی تھی۔ بارات میں گاڑی میں بیٹھا ہوا ایک دولہا تھا۔ گاڑی سجی ہوئی تھی۔ بارات کافی اچھے گھر کی تھی۔ ایک سیڑھی پر چڑھ کر اس نے بھی دیکھا۔ ناچتے گاتے لوگوں کے ہمراہ بارات آگے بڑھ رہی تھی۔ مگر اس کی سوچ پھر اسی راستے کی جانے مڑ گئی تھی۔
پھر یہ بارات والا بھی کمرے میں بند ہو جائے گا۔ اپنی بیوی کے ہمراہ — پھر دونوں بے لباس ہو کر وہ گھٹیا کھیل دہرانے لگیں گے — اسے یاد آیا۔ ایسے ہی منی اور راجن بھیا کو کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔
اس کے ذہن میں پھر سیٹیاں بجنے لگی تھیں۔ اور پھر سیٹیاں تھم گئیں — راجن بھیا منی دی اور سونی دی کی تصویر اس کی نگاہوں میں مچلنے لگی — کچھ پل کے لیے وہ مغموم ہو گیا۔ اب شاید وہ کبھی ان لوگوں کو دیکھ نہیں سکے۔ اس کی مٹھیاں آپ ہی آپ بھینچ گئیں۔ اور وہ دیکھے گا بھی نہیں۔
اس کے سامنے پھر سانپوں کی قطاریں اور وہی روشن اسکرین تھا۔
ایک چھوٹے موٹے ہوٹل کے پاس آ کر وہ ٹھہر گیا۔
ہوٹل کا مالک ایک موٹا آدمی تھا۔ ہوٹل والا مالک پوری چھان رہا تھا۔ دوسری طرف جلیبیاں چھنا رہی تھیں۔ بہت سے لوگ پتوں میں پوری ترکاری لے کر کھا رہے تھے۔ وہیں دوچار کتے بھی تھے۔ جو جھوٹے پتوں پر ٹوٹ پڑتے۔
اس کا دماغ جھنجھنا رہا تھا۔ وہ ان کتوں سے بھی گیا گزرا ہو گیا ہے۔ نہ ان پتوں پرہی ٹوٹ سکتا ہے — اور نہ مانگ سکتا ہے کچھ دیر تک وہ للچائی نظروں سے جلیبی اور پوری کی طرف ایک ٹک دیکھتا رہا۔
پھر اسے لگا۔ پوڑی تلنے والا اپنے ہاتھ روک کر اس کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔ اسے ڈر ہوا کہ اخبار میں اس کی تصویر نہ نکلوائی گئی ہو اور وہ اسے پہچان نہیں گیا ہو۔ مگر نہیں — وہ نظروں کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔ اس کی نظر میں اس پہچان کا شائبہ تک نہ تھا۔
بھوکا ہے — پوری والا اس سے مخاطب تھا۔
’ہاں ‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’کھائے گا‘
’ہاں ‘
’جیب میں پیسہ نہیں ہو گا؟
’ہاں — نہیں ہے‘
’پھر بھی کھائے گا۔ ‘ پوری والا معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ اس بار کچھ بھی نہیں بولا۔
پوری والے نے پھر پوچھا۔ گھر سے بھاگا ہے۔ ‘
اس بار وہ بڑے زور سے چونکا جیسے اسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔
’تمہیں کیسے پتہ؟‘
پوڑی والا زور سے ہنسا۔ تمہارے چہرے پر لکھا ہے۔ یہاں جتنے بھی لونڈے کام کرتے ہیں۔ قریب قریب سبھی تمہاری طرح گھر سے بھاگے ہوئے ہیں۔ ‘
وہ ذرا ٹھہر کر بولا۔
’ کیوں بھاگا تھا۔ ؟ اسکول سے نکال دیا گیا تھا یا فیل ہو گیا۔ ‘
’ایسی کوئی بات نہیں۔ ‘
پھر ضرور فلم میں کام کرنے کا شوق ہو گا۔ اس لیے بھاگا ہو گا۔ اس کے چہرے پر تبسم مچل رہا تھا۔
اس نے جھوٹ موٹ میں اثبات میں سر ہلا دیا۔
میں کہتا نہ تھا۔ میرا اندازہ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ خیر۔ کام کرے گا میرے یہاں۔
’ہاں ‘
’ٹھیک ہے‘ — پوڑی والا ہنسا۔ پھر بولا۔ پہلے پوری کھا کر پیٹ بھر۔ پھر یہ ڈھیر سارے برتن دھو ڈال۔ ویسے میرے یہاں آدمیوں کی کمی نہیں۔ مگر ایک تیرے رکھ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اچھا، میں بہت دھارمک قسم کا آدمی ہوں۔ بھگوان پہ وشواس رکھتا ہوں۔ سمجھے۔
پوری والا دل کھول کرہنسا۔ ایسا کرنے سے بھگوان پیسہ دیتا ہے۔ خیر۔ تو یہ سب بات نہیں سمجھے گا۔
اتنا کہہ کر پوری والا پھر سے پوری تلنے میں گم ہو گیا تھا۔
اس کی دکان پر بھیڑ لگنے لگی تھی۔ لوگ آنے لگے تھے۔ پوری والا مستی میں گاتا ہوا پوری چھان رہا تھا۔
پھر کچھ دیر کے بعد اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا — کہیں جائیو نہیں۔ یہیں پر کھڑا رہ۔ میں تجھے ابھی دیتا ہوں۔ یہیں کھڑا کھڑا کھا لینا۔ پھر کام شروع۔ سمجھے۔
وہ پھر کوئی گانا گنگنانے لگا تھا۔
میں سوچ رہا تھا۔ چلو۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ اب کچھ دن یہیں گزار نا ہو گا۔
ایک نامعلوم سمت اب بھی میرا تعاقب کر رہی تھی۔
٭٭٭
منزل کے آثار
(۳۴)
ہوٹل میں رہتے ہوئے مجھے کئی مہینے گزر گئے۔ یہ ہوٹل محض ایک ٹھکانا تھا، جہاں میں رہ کر نامعلوم منزلوں کے بارے میں سوچا کرتا۔ میرا اگلا قدم کیا ہو گا؟ ان مہینوں میں گھر کی یاد کئی بار آئی۔ کئی بار میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ کئی باران چہروں کو دیکھنے کی خواہش ہوئی تھی، جنہیں اٹھتے بیٹھتے بار ہا دیکھا کرتا تھا۔ مگر پھر وہی سب کچھ مجھے یاد آ جاتا۔ سانپ کی سرخ زہر میں ڈوبی زبانیں۔ اور یہ خیال میں دل سے نکال دیتا۔ گھر والے بھی مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اب تھک گئے ہوں گے۔ ممی ڈیڈی رو پیٹ کر اب میری طرف سے مایوس ہو گئے ہوں گے۔
ممی ڈیڈی — ایک بار پھر جیسے مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ مسہری کا چرمرانا۔ اور وہی فحش گندہ کھیل۔
آوازیں چاروں طرف سے جکڑ لیتیں۔ الف … تم گندے ہو … گھناؤنے ہو …
اف!‘
میں نے ماضی میں جھانکا۔ گھرسے بھاگے ہوئے کئی مہینے گزر گئے تھے۔ مگر اس مدت میں بھی میں یہاں کے ماحول میں خود کو ڈھال نہ سکا۔ ہوٹل کے نوکروں نے کئی بار مجھ سے ملنے جلنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے کراہیت آتی تھی۔ ہوٹل والا مجھ سے خوش رہتا تھا۔ وہ اکثر کہتا۔ تو ضرور کسی اچھے گھر کا لڑکا ہے۔ ایک تو ہی ہے جو روز نہاتا ہے اور صاف رہتا ہے۔
اس نے کئی بار میرے متعلق پوچھنا چاہا مگر میں نے کبھی بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
’تم نہیں سمجھو گے؟‘
’کیوں ؟‘
’بات ہی کچھ ایسی ہے؟‘
’کچھ گڑ بڑ معاملہ تھا کیا؟‘
’ہاں ایسا ہی سمجھو‘
میں آہستگی سے مسکرادیتا۔
شروع شروع تو لگا کہ میں یہاں ایک لمحہ بھی ٹک نہیں پاؤں گا۔ نہ ڈھنگ کا لیٹرین نہ باتھ روم۔ اف کتنا گندہ رہتا تھا لیٹرین — جانے میں کراہیت آتی۔ اور پھر وہاں جا کر وہی پرانا زخم تازہ ہو جاتا۔
ایک دن میں نے تصور کے پردے پر ہوٹل کے مالک کو بھی دیکھا اور ایک دم سے اس سے نفرت محسوس ہونے لگی۔
ہوٹل کے مالک کی بیوی کا تھل تھل بدن بھی میرے ذہن کے آگے گھوم جاتا۔ اور اس کا بیٹا بھی —
اندر سے تیز آواز بلند ہوتی۔
یہ سارے لوگ گھناؤنے ہیں۔
مجھے لگا۔ مجھے یہ ہوٹل بھی چھوڑنا پڑے گا۔
وہی روشن اسکرین میرے سامنے آ جاتا۔
اور میں دیکھتا۔ دنیا کے تمام لوگ بے لباس ہو کر ننگے ناچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ان کے بدنما سڑے ہوئے جسم ایک دوسرے میں مل رہے ہیں۔
جسم کی بناوٹ اور بدصورتی نس نس میں تیزاب بھر دیتی۔ اور پھر لگتا۔ جیسے میں چیخ کرسڑک سے گزرتے ہوئے لوگوں سے کہوں۔
دیکھو … تم سب گھناؤنے ہو۔
اپنے متعلق سوچو۔
اپنے وجود کے ننگے پن کے بارے میں۔
یا تمہارے پاس سمجھ نہیں۔ یا تم سوچنا نہیں چاہتے۔
مگر آواز دل کے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی۔
ہوٹل کے لوگ بڑی گندی گندی باتیں کرتے تھے۔ مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی۔ اور ان باتوں کے درمیان ایک بار پھر وہی اسکرین میرے سامنے روشن ہو جاتا۔
اب میں کہاں جاؤں گا … ؟
ہر جگہ انسان بستے ہیں۔
انسانی بستی سے دور کیا رہا جا سکتا ہے … ؟
کیا خود سے فرار ممکن ہے۔ ؟
خود سے فرار ممکن نہیں — مگر اکیلے پن اور اپنے درمیان ایک سمجھوتہ کرسکتا ہوں۔ جہاں کوئی نہیں ہو۔ وہاں یہ احساس ضرور ماند پڑ جائے گا۔
مجھے لگتا۔ ان لوگوں سے دور ہو جانا ہو گا۔
تبھی مجھے آرام ملے گا۔
سانپ کی اس بستی سے نکل کرکسی دوسرے مقام پر جانا ہی ہو گا۔ مگر کہاں جاؤں کیسے جاؤں۔
میرا پورا چہرہ پسینے میں بھیگ جاتا۔
ہوٹل والا مالک کہتا تھا۔ بیٹا صبح اٹھا کر بھگوان میں دھیان لگا۔ ایسا کر کے من کو شانتی ملتی ہے۔
ہاں۔ میں ایسا کرسکتا ہوں۔
مجھے احساس ہوا تھا۔ میں دنیا سے کٹنا چاہتا ہوں۔ دنیا کے لوگوں سے دور جانا چاہتا ہوں۔
پھر میں من کی شانتی حاصل کرنے لگا۔ وقت گزرنے لگا …
پھر گھنٹوں میں بھگوان کی یاد میں کھویا رہنے لگا۔ ہوٹل والے نے کچھ منتر بتا دیئے تھے۔ میں ان کا جاپ کرتا۔ اور خود کو دنیا سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں لگ جاتا —
جب ہوٹل چلنے لگتا اور گندے آدمیوں کا ہجوم ہوٹل میں داخل ہوتا تو ایک بار پھر میری پریشانی میں اضافہ ہو جاتا۔
کوئی مجھے چپکے سے آواز دیتا …
خوبصورت کہلانے والی یہ دنیا اتنی بدصورت کیوں ہے؟
انسانی جسم میں اتنی گندگی کیوں بھری ہے؟
لوگ پیدا کیوں ہوتے ہیں ؟
پھر — زندگی کیسے گزارتے ہیں۔
اور اچانک ایک دن احساس ہوا، جیسے میں اپنی منزل کے کافی قریب پہنچ چکا ہوں۔
٭٭٭
یوگ، جوگی اور سنیاس
(۳۵)
جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ہوٹل کے مالک سے میری کافی انسیت ہو گئی تھی۔ وہ میرے صاف رہنے اور پوجا پاٹھ دیکھ خوش رہنے لگا تھا۔
ایک صبح اس نے مجھے بلایا اور کہا۔
جانتے ہو الف۔ بغل والے گاؤں میں پانچ آدمیوں کی ایک ٹولی آئی ہے۔ ان لوگوں نے سنیاس لیا ہے اور اب دنیا چھوڑ کر جنگل میں بسنے جا رہے ہیں۔
جوگ لیا ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں ان میں چار مرد ہیں اور ایک لڑکی۔ یہ لوگ دنیا کا موہ چھوڑ کر جنگل میں نکل جائیں گے۔ اور پھر وہاں سے کبھی اس دنیا کی طرف واپس نہیں آئیں گے۔
میرے اندر جیسے دھماکہ ہوا تھا …
دنیا کا موہ۔ اسی چیز سے تو میں بھی فرار حاصل کر رہا تھا۔ ہوٹل کا مالک آگے بتا رہا تھا۔
ایسے لوگ بڑے پہنچے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا آشیر واد ضرور لینا چاہئے۔ ان کے آشیرواد لینے سے گھر میں رونق بڑھتی ہے۔ دولت میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ کل میں اس گاؤں کا رخ کروں گا۔ کیوں کہ پرسوں وہ لوگ وہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ پھر کہاں جائیں گے۔ کوئی ٹھکانہ نہیں۔
مجھے لگا۔ میری منزل میرے بہت قریب آ گئی ہو۔
اپنی کیفیت پر قابو پایا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’لوگ سنیاس کیوں لیتے ہیں۔ ‘
’ کیوں کہ دنیا سے ان کا موہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ لو گ دنیا داری کو ایک پاپ کا گڑھا سمجھتے ہیں۔ یہ موہ … یہ بال بچے … گھر سب ڈھونگ ہے — پھر بھگوان سے لو لگانے کے لیے ایسے لوگ اکانت واس میں چلے جاتے ہیں۔
’دیکھا‘
میں نے خود سے کہا۔ ایک دن سب کو یہی کرنا ہو گا …
پھر ذرا ٹھہر کر میں نے اس سے پوچھا۔ اچھا یہ بتاؤ بابا۔ کیاں میں وہاں چل سکتا ہوں۔ ؟
ہاں ضرور۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔ تو بھی تو دھرم میں کافی وشواش رکھتا ہے۔ تو ضرور چلے گا۔ کل صبح چل چلیں گے۔ گاؤں پاس ہی ہے — دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔
تو ہم کل چلیں گے۔
میں سوچ رہا تھا اور کسی قدر خود کو ایک نئی دنیا میں تصور کر رہا تھا۔
شاید میں اسی منزل کی تلاش میں چلا تھا۔
بھگوان سے لو لگا نے پر انسان دنیا سے کٹ جاتا ہے۔
دنیا موہ کا نام ہے۔
دنیا بھوگیوں کے لیے ہے۔
دنیا کا موہ تیاگنے والا جوگی بن جاتا ہے۔
وہاں شاید مجھے چین مل جائے اور سخت اذیت کے خوفناک سمندر سے باہر نکل آؤں گا۔
کیوں کہ وہاں میرے ماں باپ نہیں ہوں گے۔
میرا گھر نہیں ہو گا۔
گھر بار کی تلخ یادیں نہ ہوں گی۔
سماج نہ ہو گا۔
جنہیں دیکھ کر کراہیت سے دماغ کی نسیں بھینچنے لگتی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر ذہن میں گندگی کا طوفان اٹھنے لگتا ہے۔
مجھے شانتی چاہئے …
ہاں … مجھے شانتی چاہئے …
وہاں شانتی ملے گی۔
لوگوں کا ہجوم نہیں رہے گا۔
میں بھی شانتی کی تلاش میں جاؤں گا۔
میں بھی۔
میں نے فیصلہ کر لیا تھا اور منزل بہت صاف صاف مجھے نظر آنے لگی تھی۔
اس دن ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ اور وہ پہلی رات تھی جب میرا ذہن آوارہ خیالات کے بادلوں سے پرے رہا۔ مجھے اچھی طرح نیند نصیب ہوئی۔
٭٭٭
سورج کی شعاعیں نکلنے سے قبل ہی نہا دھو کر میں اور ہوٹل کا مالک دونوں تیار ہو گئے تھے۔
گاؤں کا کچھ حصہ ہم لوگوں نے بس سے طے کیا۔
اور بس کے بعد والا سفر بیل گاڑی سے طے کرنا تھا۔ ہم دونوں ایک بیل گاڑی پر سوار ہو گئے۔
راستے بھر انہی جوگیوں سے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ ہوٹل والا بار بار ان جوگیوں کی دلچسپ کہانیاں سناتا رہا۔
٭٭٭
سارا گاؤں جوگی جوگن کے گن گا رہا تھا۔
گاؤں کی سرحد میں داخل ہوتے ہی انسانوں کے سیلاب سے واسطہ پڑا۔ آدمیوں کا جم غفیر انہی جوگیوں سے ملنے جا رہا تھا۔
یہ ایک کچا راستہ تھا۔ دور تک سوندھی مٹی کی خوشبو پھیلی ہوئی — آس پاس کچے پھوس اور مٹی کے بنے مکانوں کی قطاریں۔ کچھ دور تک سناٹا۔ برگد کے پیڑ اور آم کے درختوں سے ہوتے ہوئے ہم کھیت میں اتر گئے۔ اور آہستہ آہستہ قدم دابے آگے بڑھنے لگے۔ گاؤں آ گیا تھا۔
آس پاس چھوٹے موٹے ہوٹل بھی تھے۔ بجلی کے کھمبے بھی جگہ جگہ پر نظر آ رہے تھے — کل ملا کر یہ گاؤں ایک بھرا پڑا گاؤں لگ رہا تھا۔ پتلی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ہم ایک پل کے قریب آ گئے تھے۔ پل کا درمیانی فاصلہ زیادہ سے زیادہ آٹھ دس قدم کا تھا۔ اور پل کو پار کرتے ہوئے ہم ان جوگیوں کے خیمے تک پہنچ گئے تھے۔
وہاں ہزاروں لوگوں کا مجمع لگا تھا۔ لوگوں کی چیخ و پکار کے درمیان کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ گاؤں میں مجمع ایسے ہی لگا کرتا ہے۔ کوئی بھی مہان پرش یا لیڈر گاؤں میں پدھارتا ہے تو لوگ ایسے ہی جوق در جوق پہنچ جاتے ہیں۔
صبح دس بجے کی ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیل گئی تھی۔
بھیڑ کے بیچ سے ہوتے ہوئے ہم آگے بڑھے۔ خیمے سے باہر ایک چادر بچھی ہوئی تھی اور چادر پر چار جوان جوگی جن عمر زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی ہو گی براجمان تھے۔ ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی جس کی عمر تیس کے درمیان کی ہو گی۔
ان سب لوگوں نے بھگوا وستردھارن کیا ہوا تھا۔ اور پلتھیا مارے آنکھیں موندے شونیہ میں تاک رہے تھے۔
بابا بڑے مہان ہیں۔
بابا نے دنیا کا موہ تیاگ دیا ہے۔
بابا سنیاس لے رہے ہیں۔
اس طرح کے الفاظ بھیڑ سے ہوتے ہوئے کانوں میں گونج رہے تھے۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ لوگ آنکھیں کھولتے۔ اور شردھالو کے سرپر آشیرواد کا ہاتھ رکھتے۔ شردھالو اٹھ کر ان کے پاؤں پر متھا ٹیکتا۔ پھر وہ ہٹ جاتا اور بھیڑسے دوسرے لوگ نکل کر بابا کے پیروں پر گر جاتے۔
بھیڑ آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی۔
آشیرواد لے لے کر لوگ رخصت ہو رہے تھے۔
آگے بڑھتے بڑھتے دوپہر ہو گئی تھی۔ دھوپ میں پہلی جیسی گرمی نہ رہی تھی۔ ہم باباؤں کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہوٹل والے کے اندر عجیب قسم کا جوش تھا اور اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ باباؤں سے کافی متاثر ہے۔
دو بجے کے قریب ہم لوگوں کا نمبر آیا۔ آشیرواد لینا تو محض ڈھونگ تھا۔ میری دلی خواہش بابا سے اکیلے ملنے کی تھی — اور میں چاہ رہا تھا، جیسے بھی ہو جلد اس ہوٹل والے مالک سے پنڈ چھوٹے۔
ہوٹل والے نے بابا کے پیروں کو پکڑ لیا تھا۔
’بابا۔ آشیرواد۔ بیوپار بڑھے اور میں ایک اچھا ہوٹل کھول سکوں۔ ‘
بابا دیر تک اس کے سرپر آشیرواد کا ہاتھ پھیر تے رہے اور وہ آنکھیں موندے دیر تک بابا کے پیروں پر پڑا رہا۔
اس بیچ مجھے موقع ملا اور میں چپکے سے بھیڑ کے درمیان کھسک گیا اور بھیڑ سے ہوتا ہوا دور نکل گیا۔
شام کا جھٹپٹا چھا گیا تھا۔ مجھے قوی امید تھی، وہ ہوٹل والا اب تک میری تلاش میں رکا نہ ہو گا۔ اس نے اچھی طرح یہ سمجھ لیا ہو گا کہ میں بھیڑ میں کہیں گم ہو گیا اور پھر کسی نہ کسی طرح اس کے ہوٹل تک پہنچ ہی جاؤں گا۔ اور یہی سوچ کر وہ گھر روانہ ہو گیا ہو گا۔
میں دوبارہ بابا لوگوں کے خیمے تک چل پڑا۔ اب وہاں اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے۔
اس وقت ہلکی خنکی فضا میں چھائی تھی۔ میرے ہاتھوں میں کپڑے والی پوٹلی اب بھی موجود۔ پوٹلی تھامے چند لمحوں تک میں آس پاس کا جائزہ لیتا رہا۔
بابا لوگ وہاں سے اٹھ چکے تھے۔ چادر بھی اٹھ گئی تھی۔ خیمے میں کچھ چہل پہل نظر آئی — ایک آدمی سے معلوم ہوا۔ بابا شام کے وقت کسی سے نہیں ملا کرتے ہیں — ان کو یہاں تین دن ہوئے ہیں۔ آتے ہی انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ ان کے آگے پیچھے مجمع نہ لگایا جائے۔ مگر یہ گاؤں والے کہاں مانتے ہیں۔ مہان پرش سمجھ کر ان کا چرچا ہو گیا۔ اور آس پاس کے گاؤں میں ان کی خبر پھیل گئی۔
بابا شام میں نہیں ملا کرتے ہیں۔
اس خبر نے مجھے متاثر کیا۔ اسی صورت میں اپنی دل کی بات ان لوگوں سے بخوبی کہہ سکتا تھا۔ کوئی نہ کوئی حل میرے لیے ضرور نکل جاتا۔ یہی سوچ کر میں خیمے کی طرف چل پڑا۔
خیمے سے نزدیک آ کر میں نے خیمے کے اندر کا جائزہ لیا۔
اندر الگ الگ آسن پر وہ پانچوں آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔
میں اندر گھس آیا۔
کچھ ہی دیر بعد ان میں سے سب نے باری باری آنکھیں کھولیں۔ شاید ان لوگوں کو میرے آنے کا احساس ہو گیا تھا۔
کیا بات ہے بچہ۔ ان میں جو عمر میں سب سے زیادہ لگ رہا تھا، اس نے پوچھا۔
میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
پر اب دیر ہو چکی ہے۔ اب ہم کل صبح یہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ اور کہاں جائیں گے یہ ہم لوگوں کو خود پتہ نہیں۔ تیرے کھیلنے کی عمر ہے۔ جا کھیل۔
مگر ؟ میں نے احتجاج کیا۔
کیا ہے؟
میں گھر سے بھاگ آیا ہوں ؟
کیا؟ بڑے جوگی نے غور سے میری طرف دیکھا
اب تو سال گزر گیا —
بات کیا تھی؟ سنیاسی کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا سکو ن تھا۔
بات؟ میں نے خود کو ٹٹولا۔
اور نظروں کے آگے وہی روشن اسکرین تھرتھرا نے لگا تھا جہاں بے لباس کئی خاکے تیر رہے تھے۔
اچانک میری مٹھیاں سخت ہو گئیں — اور میں غصے میں بڑبڑایا۔ کیوں کہ مجھے اپنی دنیا کے لوگوں سے نفرت ہے۔ اپنے ماں باپ بھائی، اور سب سے نفرت ہے۔ سب گندے ہیں۔ گھناؤنے ہیں۔ گندگی کو پیدا کر رہے ہیں۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ میں اس سماج میں نہیں جی سکتا۔ میرا دم گھٹتا ہے۔ مجھے شانتی چاہئے۔
اچانک جانے کہاں سے میرے اندر ہمت آ گئی تھی اور میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔
ان جوگیوں نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا — اتنی کم عمری میں تو دنیا تیاگے گا؟
تیاگی بن سکے گا؟
ہاں مجھے سب سے نفرت کا؟
دنیا موہ کا نام ہے۔
ایک آنکھیں بند کئے کہہ رہا تھا — موہ کا دوسرا نام پاپ ہے۔ پاپ کا راستہ ترک کرنا ہو گا۔ سچائی وہی ہے — ہری اوم — بس اسی کے نام سے جیو۔ دنیا کا موہ تیاگو۔ یہ دنیا تو بھوگیوں کے لیے ہے۔
اس کی نگاہوں میں میرے لیے حیرت تھی۔ پھر اس نے میری طرف مڑ کر دیکھا۔ حیرت ہے۔ تیری سمجھ میں یہ سب کیسے آ گیا۔
بڑی لمبی کہانی ہے۔
میں نے ٹھہر ٹھہر کرآہستہ آہستہ سب بتانا شروع کیا۔ وہ لوگ ہمہ تن گوش ہو کر میرا بیان سنتے رہے۔ اس بیچ میرے چہرے نے کئی بار رنگ بدلے۔ اس رنگ میں دنیا کے لیے ایک گہری نفرت چھپی ہوئی تھی۔
جب میں سنا چکا تو ان سادھوؤں نے میری طرف دیکھا۔
یہ سب سچ ہے۔ آشچر یہ ہے تو اتنی کم عمری میں یہ سب کیسے سمجھ گیا۔ سب بھگوان کا کرشمہ ہے۔ سارے پرشنوں کا اتر وہی جانتا ہے۔
ایک سادھو میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
توایسا بول نہ بچہ کہ تو شانتی کی کھوج میں نکلا ہے۔ اور میرے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔
’ہاں میں یہی چاہتا ہوں۔ ‘
میں نے آہستہ سے کہا۔
کل ہم یہاں سے کوچ کر رہے ہیں۔ کل صبح تم بھی تیار رہنا۔
ہاں میں تیار ہوں۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔
میں نے اپنے اندر کی کیفیت دباتے ہوئے کہا۔
سنیاسیوں نے دوبارہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اب تم دیکھو جیسا ہم کرتے ہیں۔ ویسا کرنے کی کوشش کرو۔ اور دنیا سے دھیان ہٹا کر سارا دھیان بھگوان کی طرف لگانے کی کوشش کرو۔
شونیہ میں صرف بھگوان بیٹھا ہے۔ شونیہ رہس ہے۔ اور اسی رہس میں بھگوان کی پراپتی ہے۔
ہم اسی کو دیکھیں گے۔
تم ایسا کرو گے تو تمہارا دھیان دنیا سے کٹ جائے گا اور تم وہ گندی باتیں نہیں سوچ پاؤ گے۔
تتھا ستو … ہری اوم …
شونیہ میں اندھکار … اور اندھکار میں بھگوان شیو کی آنکھوں کی جوت ہے … بھگوان کو نمن کرو …
سنیاسی اور سنیاسن پھر سے اسی مدرا میں بیٹھ گئے تھے۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں۔
میں نے بھی اپنی نگاہیں بند کر لیں … شونیہ … رہس ہے۔
میں اسی مدرا میں بیٹھ گیا۔
مگر یہ کیا …
اسکرین روشن تھا … گہرا کنواں … سلیپچی … ننگے لوگ … بے شرم لوگ … ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے لوگ …
مجھے امید تھی، آہستہ آہستہ میں اس گہرے کنویں سے باہر نکل سکوں گا —
٭٭٭
انجانے سفر کا پہلا دن
(۳۶)
دوسرے دن چار بجے تک ہم لوگ تیار ہو گئے۔ گاؤں کے نل پر جا کر ہم لوگوں نے منہ ہاتھ دھویا۔ میدان میں جا کر لیٹرین بھی کرنا پڑا۔ پہلی بار یہ سب کچھ عجیب سالگا۔ میدان میں بیٹھتے ہوئے اور بھی گندہ محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر کے لیے نسوں میں تناؤ آیا تھا۔ میں پھر سوچنے لگا تھا۔ کاش! یہ فطری اصول نہ ہوتے —
کچھ ہی دیر بعد وہ چاروں جوگی اور وہ جوگن تیار ہو کر آ گئے۔ اب نہانے کی میری باری تھی۔ آج تک زندگی میں کبھی اتنی صبح نہایا نہیں تھا۔ مگر نہانا ہی تھا۔ کپڑا اتارا۔ ٹھنڈک سے جسم کانپ رہا تھا۔
نہانے کے بعد میں نے بھیگے ہوئے کپڑے کو اچھی طرح نچوڑ ا اور پوٹلی میں باندھ دیا۔
آسمان اندھیرے میں لپٹا ہوا تھا۔
’بس۔ اب ہمارا سفر شروع ہوتا ہے۔ ‘
ان میں سے ایک جوگی نے کہا۔ پھر رام رام کہتے ہوئے ان لوگوں نے کوئی شلوک پڑھا اور ہم سب گاؤں باہر کی طرف نکل پڑے — اور ہم سب گاؤں باہر کی طرف نکل پڑے —
خیمہ ویران تھا۔ مسافر انجانی منزلوں پر جانے کے لیے تیار تھے۔ گاؤں والوں نے کھانے پینے کے ہزار سامان ساتھ کر دیئے تھے۔ کل ملا کر ہم چھ لوگ تھے اور سب لوگوں کے ہاتھ ان سامانوں کے بوجھ سے بھرے ہوئے تھے۔ اندھیرے میں ہی ہمارا قافلہ شانتی کی تلاش میں آگے بڑھنے لگا۔
پھر ہم چلتے رہے۔ چلتے رہے۔ نہ دن یاد رہا۔ نہ تاریخ …
گیرو اوستردھاران کیے ہاتھوں میں کمنڈل لیے جوگیوں کی فوج بھی میرے ساتھ چلتی رہی۔ بچپن میں کبھی سنا ہوا ایک گانا ذہن کے ارد گرد طواف کر رہا تھا۔ گاتا جائے بن جارا … لے کر ہاتھ میں اک تارا …
یہ سب کچھ عجیب سالگ رہا تھا۔
ہمارے قدم تھکان سے کوسوں دور تھے۔
اندھیرا ختم ہو چکا تھا۔ صبح کی سپیدی چاروں طرف پھیل گئی تھی — ہم لوگ گاؤں کی سرحد سے دور نکل آئے تھے۔ ابھی بھی ایک دو جگہ کچھ مکانات نظر آ جاتے۔ کئی جگہ دلدلوں سے بھی سامنا ہوا۔ گہرے نالے بھی پار کرنے پڑے۔
مگر ہم سب میں ایک عجیب سا جوش بھرا ہوا تھا۔ اور یہی جوش ہمیں ہماری نامعلوم منزل کی طرح کھینچے لے جا رہا تھا۔
دس بجے کے قریب ایک تنہا مقام پر آ کر یہ قافلہ رکا۔ دور دور تک کھیتوں کی قطاریں پھیلی ہوئی تھیں اور دھان کے پودے چاروں طرف اپنی چمک بکھیر رہے تھے۔
’ اب جوسامان ہے۔ ہمیں اس میں سے کچھ کھا لینا چاہئے۔ ‘
بڑے جوگی نے کہا۔
یہ وہی جوگی تھا جو ہم سب کی رہنمائی کر رہا تھا۔
پھر ہم سب ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے۔ بڑے جوگی نے پوٹلی کھول دی۔ سنیاسنی جس کا نام انورادھا تھا وہ اب بھی کھڑی آسمان پرسیاہ بادلوں کے جھرمٹ کو دیکھ رہی تھی۔
لگتا ہے پانی برسے گا؟
ہاں، بڑے جوگی نے بڑے اطمینان سے کہا۔ برسنے دو، کہیں نہ کہیں ٹھکانہ بن ہی جائے گا۔
بڑے جوگی نے پوٹلی کھول دی۔ پوٹلی کے اندر چوڑا، ٹھیگوا اور ہاتھ کے بنے کئی کھانے کی چیزیں نظر آ رہی تھیں۔ جتنا ہوسکا ہم سب نے کھایا۔ مگر اس بیچ ماحول میں خاموشی پسری رہی۔
آگے چل کر پانی پی لیں گے۔
اتنا کہہ کر بڑے جوگی نے پوٹلی باندھ لی۔
ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے۔
پھر یہ قافلہ آگے بڑھنے لگا۔
آگے کچھ ہی دور بڑھنے پر قصباتی ندی اٹھلا رہی تھی۔ ہم سب نے جھک کر ہاتھ کا اگو چھا(یا چنگل) بنا کر پانی پیا۔
بڑے جوگی نے دوبارہ اعلان کر دیا تھا۔ جتنا سیر ہو کر پینا چاہو پی لو۔ اب دوپہر سے قبل ہم لوگ ٹھہر نے والے نہیں۔
شانتی کی تلاش میں چلتا ہوا قافلہ پھر مست رفتار سے آگے بڑھنے لگا۔
میں سچ کہتا ہوں۔ یہ سب اتنا اچھا اور عجیب و غریب لگ رہا تھا کہ اب میں اپنے خیالات کی اذیت سے کوسوں دور چلا آیا تھا — جہاں گھر کا ہنگامہ نہ تھا اور نہ چلتی ہوئی وہ عریاں تصویریں — یہ سب کچھ ایک طرح کا ایڈونچر لگ رہا تھا۔ اور ہم جو ش و خروش کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔
راستے راستے چلتے ہوئے اونچے نیچے نالے پار کرتے ہوئے، ٹیڑھے میڑھے سنکرے پلوں کو عبور کرتے ہوئے، دلدلوں اور کھائیوں کو دھیان میں رکھ کر پار کرتے ہوئے اب شام ہو گئی تھی۔
پاؤں بری طرح در د کرنے لگا تھا۔ اس بیچ ہم کئی جگہ ٹھہرے ہوں گے مگر زندگی میں آج تک کبھی اتنا چلنا نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اب پاؤں کا جوڑ جوڑ درد کرنے لگا تھا۔
شام کی دہلیز پر پر چھائیاں سمٹ آئی تھیں۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ جہاں ہم آئے تھے شاید وہ کسی گاؤں کی سرحد ہی تھی۔
لگتا ہے بارش زور کی ہو گی۔ یہیں خیمہ گاڑ لینا اچھا ہے۔ گاؤں کے اندر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کل صبح اٹھ کر ہم پھر آگے چلیں گے۔
ٹھیک ہے۔
دوسرے جوگیوں نے آسمان پر سمٹے بادلوں کے جھنڈ اور ہلکی بارش کی بوندوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
ہم سب مل کر کھمبا گاڑنے اور خیمہ لگانے میں جٹ گئے۔ یہاں بالکل تنہائی تھی۔ ٹھنڈی ہوا زوروں سے چل رہی تھی۔ خنکی بڑھی ہوئی تھی۔ اور سارے مناظر بڑے ڈراؤنے اور خوفناک نظر آ رہے تھے۔
میں نے دل کو سمجھایا۔ اتنے لوگ ساتھ ہیں پھر ڈرنے کی بات کیا ہے، یہی سوچ کر میں نے سکون کی سانس لی۔
ہم سب خیمے کے اندر چلے آئے۔
جوگیوں نے پھرآسن دھر لیا تھا۔
میں اس جوگن انورادھا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جس کے جوان بدن سے اس کا ابھرا ہوا سینہ کپڑوں کے خول سے باہر جھانک رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں اس کا پورا خاکہ گھومنے لگا۔ منہ میں ایک تیز کڑواہٹ حلول کر گئی۔ یہ جوگن ہمارے بیچ کہاں سے آ گئی۔ ؟
میرا ذہن پھر گندہ ہو رہا تھا۔ اسی وقت مجھے بڑے جوگی کا کیا خیال آیا۔
’ ایسا کرنے سے آدمی دنیا کو بھول جاتا ہے۔ آسن پر بیٹھو۔ من کو شانت کرو … ‘
میں اسی انداز میں بیٹھ گیا مگر اب بھی وہ جوگن میری نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اور اب بھی کنکھیوں سے اس کے جسم کا جائزہ لیتا جا رہا تھا۔
ذہن پر وہی روشن اسکرین دوبارہ تھرتھرا نے لگا۔ کنپٹیاں جلنے لگیں۔ میں نے سر کو دو تین بار جنبش دی اور لگاتار یہی عمل دہرایا۔
اور لمحہ لمحہ میں دوبارہ اپنے حواس میں لوٹ آیا تھا۔
جانے کیوں میں خود کو نادم محسوس کر رہا تھا — میں نے ان جوگیوں کا جائزہ لیا۔ وہ اب بھی ’پلتھیاں ‘ مار، آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔
میں نے اطمینان کاسانس لیا۔
دوبارہ آنکھیں بند کیں۔ یہ سب کچھ محض ایک دکھاوے کی طرح لگ رہا تھا۔ جب کہ ذہن میں اب بھی عجیب و غریب خیالات ابھر رہے تھے۔ اور میں سوچ رہا تھا کیا — یہ سچ ہے کہ اس طرح بیٹھنے اور آنکھیں موندنے کے بعد یہ لوگ دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔ ؟ اور صرف بھگوان کے ہو کر رہ جاتے ہیں — کیا یہ صحیح ہے کہ اس عمل کے دوران ان کے اندر کسی قسم کی کوئی غلط قسم کی بات نہیں ابھرتی — ؟ پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے۔ میرے عمل میں ہی کچھ غلطی رہ جاتی ہو۔
ورنہ دوسری صورت کیا ہوسکتی ہے؟
رات کے کھانے کے بعد ہم لوگ وہیں گمچھا اور چادر بچھا کر لیٹ گئے۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ خیمہ بار بار ہل رہا تھا۔ خیمہ اب بھی سرد ہواؤں کے زور سے ہل رہا تھا۔
اس دن بہت خوف محسوس ہوا۔
مگر وہ پہلا دن تھا۔
سوچتے سوچتے کب مجھے نیند آ گئی، پتہ بھی نہ چلا۔
٭٭٭
جنگل کی طرف
(۳۷)
اسی طرح چلتے چلتے، کھائیاں، دلدلیں، ٹیڑھے میڑھے راستے، پگڈنڈیاں عبور کرتے کرتے کئی مہینے گزر گئے مگر پھر بھی ہم صحیح راستے کا تعین نہ کرسکے۔ اب تک ہم لوگوں نے کئی گاؤں پار کئے۔ کئی طرح کی مشکلیں راستے میں آئیں۔ بڑے خوفناک اور خطرناک قسم کے جانوروں سے پالا پڑا۔ کتنی ہی بار ہم دلدلوں میں گرتے گرتے بچے۔ کتنی بار ہم گہری کھائیوں میں دھنسے اور موت سامنے ناچتی نظر آئی۔ جانوروں کے جھنڈوں نے کئی بار ہمیں گھیرنا چاہا۔ مگر ہمیشہ بچ بچ کر نکلتے رہے۔
اب ہم لوگ انسانی بستی سے کوسوں دور نکل چکے تھے۔
ہمارے کھانے تو کب کے ختم ہو چکے تھے۔ راستے میں کسی جنگلی پھل کو بڑے احتیاط سے چکھتے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پھل زہریلا ہو۔ اور جب بھی اس کی کڑواہٹ یا زہریلے ہونے کا احساس ہوتا تو اسے فوراً پھینک دیتے۔ اسی لیے ہم لوگ کسی بھی اجنبی پھل یا پتوں کا ایک ہلکا سا ٹکرا چکھ کر پہلے اسے دیکھ لیتے تھے۔
راستے میں ندیوں، نالوں نے ہماری رہنمائی کی۔ ہر صبح چلنے سے پہلے ہم نہاتے ضرور تھے۔ اور اس نہانے کے دوران کپڑا صاف کرنا اور اس کو سکھانا بھی شامل تھا۔
راستے میں کوئی بھی ندی پہلے نظر آتی، وہاں ہم رک جاتے۔
اس درمیان کئی واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سب سے اہم واقعہ جس سے ایک بار پھر میں اس پرانے الف سے مل گیا تھا۔ وہ تھا سنیاسنی انورادھا کا نہاتے ہوئے جسم کو دیکھنے کا اتفاق۔
اس کا جسم دھوپ میں دہکتا ہوا اور گرم محسوس ہو رہا تھا۔
جیسے کوئی بکرا آگ پر لٹکا دیا گیا ہو۔
اس کا ننگا جسم عجیب جانے کیوں مجھے ٹیڑھا میڑھامحسوس ہوا۔
اس کا ابھرا ہوا گوشت دیکھ کر پھر وہی کیفیت میرے اندر پیدا ہونے لگی تھی۔
اور وہی روشن اسکرین کا تھرکنا میرے سامنے شروع ہو گیا۔ اس لیے میں نے سوچ لیا تھا۔ جب بھی کوئی صبح ہمیں نہانے کی ضرورت پڑے گی۔ سب سے پہلے میں ہی غسل کروں گا۔ جلد نہا کر اٹھ جاؤں گا۔ کپڑا سوکھنے کے لیے ایک طرف ڈال دوں گا۔ اور اس درمیان میں آنکھیں موندے دوسری جانب بیٹھ جاؤں گا۔ تاکہ اس جوگن کا خیال بھی دماغ میں نہ آئے اور نہ ہی اس جانب بھولے سے دیکھنا پڑ جائے — کیونکہ اس صورت میں میرے اندر جو کیفیت ابھرتی تھی۔ وہ لائق بیان نہیں اور کم سے کم میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اس کیفیت کو پوری طرح کاغذ پر اتار سکوں۔
بس اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ میرے اندر ایک بھیانک جانور اس وقت غرانے لگتا اور اس کی ہر غراہٹ کے ساتھ میں اپنے دماغ کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فضا میں بکھرتے ہوئے محسوس کرتا۔
کئی بار گاؤں کی طرف سے گزرتے ہوئے ہمارا شاندار استقبال کیا گیا۔ عورتیں مرد اور بچے سبھی ہمارے پیر چھوتے اور یہ سب باتیں مزید ذہن کو پاگل بنانے کے لیے کافی تھیں۔ ہم جلد از جلد انسانی بستی سے کوسوں دور جانا چاہتے تھے۔
اب ہم چلتے چلتے عادی بن چکے تھے۔ تھکن کا نام نہیں لیتے۔ وہ شاید آخری گاؤں ثابت ہوا تھا — جہاں ہم نے لوگوں کو آشیرواد دیئے تھے اور جہاں دو روز رکنا پڑ گیا تھا۔ کیونکہ اس کے بعد، چلتے رہنے کے بعد کئی دنوں کے بعد بھی کوئی گاؤں یا کوئی انسانی قدم نظر نہیں آیا۔
اب کئی مہینے گزر چکے تھے۔ گھڑی کی کمی کا احساس ہوتا — یہاں کلینڈر بھی نہیں تھا کہ ہم وقت دیکھ سکتے کہ کتنا وقت اس طویل سفر میں گزرا ہے۔ گھر کی یادیں بھی روشن تھیں۔ اب بھی کبھی رات کے سناٹے میں اور کبھی انورادھا کے جسم کے پیچ و خم سے گزرتے ہوئے سارے مناظر تازہ ہو جاتے اور ایک بار پھر وہی خونخوار کھیل ذہن میں چلنے لگتا۔
اب گرمی شروع ہو گئی تھی۔ ہم چلتے چلتے بیٹھ جاتے۔ سورج سوانیزے پر آ جاتا اور ایسا لگتا جیسے ہم سب بھاپ بن کراڑ جائیں گے۔
ہمارے جوتے ٹوٹ چکے تھے۔ لباس تار تار ہونے لگا تھا۔ کپڑے کے بغیر جسم کے تصور سے ہی گھن آتی تھی۔ اف! کیا وہ وقت بھی آئے گا … اور پھر ذہن کی نسیں دوبارہ اینٹھنے لگتی تھیں۔ جانے کتنے ماہ گزر گئے ہوں گے۔
اب بڑے جوگی نے فیصلہ کر لیا تھا۔ کوئی اچھا مقام دیکھ کر جہاں جنگلی جانوروں کی رسائی ممکن نہ ہو، ہم وہاں اپنا خیمہ لگا لیں گے۔ چاروں طرف جنگلی پیڑوں، بڑے بڑے آم کے درختوں نے سایہ کر رکھا تھا۔ اب ڈر خوف نام کی چیز سرے سے مٹ چکی تھی۔ ہم ایسی جگہ پر تھے جہاں کے محض تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ جہاں کوئی آدمی نہ ہو۔ ہم صرف پانچ آدمی۔ بڑے بڑے پیڑوں اور کانٹے دار جھاڑیوں کا ایک لمبا سلسلہ ہو اور دور تک — حد نظر تک صرف خوفناک جنگل ہی نظر آتا ہو۔
ایک جگہ آ کر ہم ٹھہر گئے۔ بڑے جوگی نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ دور، کہیں بہت دور کچھ نیلا جیسا نظر آ رہا تھا۔
لگتا ہے … کوئی پہاڑی جگہ ہے۔ ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔
’چلو‘
ہم پھر آگے بڑھنے لگے۔
وہ جگہ میلوں دور تھی۔ وہ جگہ واقعی شاندار تھی۔ وہ ایک ٹیلہ تھا۔ جس پر جنگلی گھانسوں اور کانٹے دار درختوں نے اپنا سایہ کر رکھا تھا۔
بہت دیر تک ہم اپنا ہاتھ خوناخون کرتے رہے۔ کانٹے ہاتھوں میں چبھ جاتے مگر ہم جڑوں سے انہیں صاف کرنے میں لگے رہے۔ ذراسی کوشش کے بعد پوری گھاس جڑ سے صاف ہو جاتی۔
لگ بھگ پورا دن اسی گھاس کو صاف کرنے میں لگ گیا۔ ہم پوری طرح تھک چکے تھے۔ ہاتھوں میں کانٹے چبھ گئے تھے۔ پورا ہاتھ زخمی تھا اور درد کر رہا تھا۔ مگر کام کے جوش میں ہاتھ کے چھلنے اور خون بہنے کی فکر کسی کو بھی نہیں تھی اور سب اسی جوش و خروش کے ساتھ کام میں لگے ہوئے تھے۔
گھاس صاف ہو گئی۔ اور وہاں خیمہ نصب کرنے کے امکانات نظر آنے لگے تو ہمارے چہرے پر عجیب سی خوشی کھل گئی۔
’یہاں شانتی ہے۔ ‘
کافی دیر کے بعد بڑے جوگی نے منہ کھولا تھا۔ ہم انسانی آبادی سے کوسوں دور ہیں۔
یہاں ہم اچھی طرح بھگوان کو یاد کرسکتے ہیں۔
ہری اوم …
انورادھا اب بھی دور کے جنگل کا جائزہ لے رہی تھی۔ پہلی باراس کے چہرے کا میں نے جائزہ لیا۔ وہاں مجھے ایک عجیب سی اداسی نظر آئی۔ کیا انورادھا کے دنیا چھوڑنے کی وجہ یہی ہے — کیا انورادھا بھی کچھ اس کے جیسا ہی محسوس کرتی تھی۔ مجھے انورادھا سے کچھ پل کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی۔ پھر لگا کاش یہ جسم اتنا بدصورت نہ ہوتا تو میں انورادھا سے اتنی سخت نفرت نہ کرتا۔ ایک بات میں صاف ظاہر کر دوں۔ مجھے مردوں کے جسم سے زیادہ خوفناک اور بدنما عورتوں کا جسم لگتا ہے۔ جانے اس میں بھٹ کی کہانی کو دخل ہے یا پھر کیوں ؟میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا۔
ہم نے مکمل طور پر اپنا خیمہ وہاں لگا دیا۔ اب ہمیں اسی ویرانی میں اپنی باقی زندگی بسر کرنی تھی۔
٭٭٭
معمول
(۳۸)
جنگل میں رات جس پریشانی میں گزرتی تھی، اس کے متعلق ہم ہی جانتے تھے۔ انسانی بستی سے کٹنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ رات میں جب نیند آ جاتی تو بڑی عجیب و غریب اور ڈراؤنی آوازیں ماحول میں طاری ہو جاتیں۔ جیسے ہزاروں بھوتوں نے مل کر ایک ساتھ چنگھاڑنا شروع کر دیا ہو۔ شروع شروع میں تو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ پھر ہم عادی ہوتے گئے۔
ہمارے خیمے سے ندی کی دوری آدھے میل سے کم نہ تھی۔ صبح ہم انتہائی سویرے اٹھ کر وہاں ضرور چلے جاتے اور سب سے پہلا کام نہانا دھونا ہی ہوتا تھا۔
کھانے کے لیے ہم نے کچھ پیڑوں کا انتخاب کیا تھا۔ جو بڑے پھل دار اور ہمارے شہری پھلوں کی بہ نسبت بڑے بڑے اور میٹھے تھے۔ ان میں تو بعض گنے سے بھی زیادہ مٹھاس رکھتے تھے۔ یہی پھل ہمارے کھانے اور ناشتے سب کچھ تھے — کئی بڑے بڑے عجیب و غریب جنگلی جانوروں سے سابقہ پڑا۔ کبھی کبھی جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ بھی دیکھنے کو مل گئے۔ مگر شیر کی چنگھاڑ سننے میں کبھی نہیں آئی۔
صبح ہوتے ہی نہانے اور کھانے سے فارغ ہو کر سارے جوگی آسن پر بیٹھ جاتے تھے۔
کبھی کبھی وہ لوگ کئی کئی گھنٹے بس اسی انداز میں بیٹھے رہ جاتے اور کبھی اس انداز میں کئی کئی دن گزر جاتے۔
ان جوگیوں کا نام تو مجھے معلوم نہیں تھا — نہ میں نے کبھی پوچھا اور نہ کبھی ان لوگوں نے بتایا۔ ان جوگیوں کو میں نے عمر کے لحاظ سے بڑے جوگی، دوسرے جوگی تیسرے جوگی، چوتھے جوگی جیسے ناموں میں تقسیم کر دیا تھا۔
پہلے مجھے اس انداز میں بیٹھنے میں بڑی تکلیف ہوتی مگر پھر آہستہ آہستہ وہ لوگ مجھے ترغیب دینے لگے۔ سہی ڈھنگ سے بیٹھنا سکھانے لگے۔ آنکھیں کس طرح موندی جائیں گی۔ یہ سب بتانے لگے۔ اس طرح کہ ہمیں محسوس ہونا چاہئے کہ ہماری آنکھیں بند ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ اتنا سوچنا ہی تسلی بخش ہے۔ آگے صرف اندھیرا ہے اور اندھیرے کے آگے روشنی کا ایک ہجوم ہے۔ روشنی ایک طاقت ہے۔ جو خدا کے علاوہ اور کسی میں نہیں — یہ سب کچھ مجھے بتایا گیا۔ اور میں ایسا ہی کرنے لگا۔ شروع شروع میں ایک گھنٹہ آنکھیں موندے رہنے سے ہی پوری آنکھیں درد کرنے لگتیں۔ پھر عادت پڑتی گئی۔ اور اب میں اس لائق ہو چکا تھا کہ کئی کئی گھنٹے آنکھیں موندے پڑا رہ جاتا اور تھکن یا گھبراہٹ غالب نہ آتی — مگر ایسا کرنے سے محض میں خود کو ان کے روپ میں ڈھال رہا تھا۔ جب کہ سچائی یہ تھی کہ خدا تو درکنار مجھے کسی روشنی یا روشنی کے جمگھٹے تک کا احساس نہیں تھا۔ ہاں نظریں کبھی بہکتیں تو ان نظروں میں انورادھا کا جسم اور چہرہ ضرو رشامل ہو جاتا۔
کبھی جانے کیوں ایسا احساس ہوتا۔ جیسے انورادھا کا جسم ایک بجلی گھر ہے — جہاں بہت زیادہ والٹ والا کرنٹ پاس ہو رہا ہو۔ کبھی کبھی ایسالگتا، جیسے آسن پر بیٹھی ہوئی انورادھا نے آنکھیں کھول دی ہوں اور اس کی آنکھیں میر ے جسم میں الجھ گئی ہوں۔
اور ایسا سوچ کر انورادھا کا عریاں جسم میری نگاہوں کے آگے کھلنے اور بند ہونے لگتا — میرا وجود کسی سڑی ہوئی لاش کی طرح بدبو دینے لگتا —
اس بیچ کچھ باتیں بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ ان جوگیوں کے چہرے بڑے خوفناک دکھنے لگے تھے۔ داڑھی اور مونچھیں اتنی گھنی ہو گئی تھیں کہ سارا چہرہ چھپ گیا تھا۔ کپڑے چاک ہو گئے تھے اور محض جھول کی طرف جسم پر ڈولتے رہتے۔ داڑھی کے بال اتنے بڑے بڑے اور بھیانک دکھنے لگے تھے کہ انہیں دیکھ کر کسی جانور کا خیال دل میں ابھرتا — ان میں انورادھا ہی کچھ ٹھیک لگتی۔ میرا لباس بھی چیتھڑا ہو چکا تھا۔ وقت تیز رفتاری سے اڑ چکا تھا۔ میری داڑھی بڑھ گئی تھی۔ مونچھیں نکل آئی تھی۔ بال بڑے بڑے اور گھناؤنے ہو گئے تھے۔ پانی کے عکس میں اپنا ہی چہرہ دیکھ کر میں ڈر جاتا تھا۔ صبح میدان جانے کا خیال بھی مجھے پریشان کرتا تھا۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے …
میں تو یہاں شانتی کی تلاش میں آیا ہوں …
بڑے جوگی کہتے ہیں … شانتی من میں ہوتی ہے …
لیکن من میں شانتی کہاں … من میں تو انورادھا کا ننگا جسم ہے۔ جو مجھ پر ہر لمحہ برچھیوں سے حملہ کرتا ہے …
اس ویرانی کے عالم میں بھی زندگی مجھ پر اپنا دائرہ تنگ کر چکی تھی۔
٭٭٭
ایک دن کا واقعہ
(۳۹)
جنگل میں رہنے کے اب ہم لوگ عادی بن چکے تھے۔ سب کچھ اپنے معمول کی طرح چل رہا تھا۔ جنگلی جانوروں کی ڈراؤنی آوازیں لاکھوں مرتبہ سن چکے تھے۔ اور اب ان آوازوں سے بھی کسی قسم کا خطرہ اور خوف نہیں رہ گیا تھا — یہاں کبھی کبھار جب کوئی عجیب و غریب قسم کا جانور نظر آ جاتا تب بھی ہم اپنی جگہ آنکھیں بند کیے آسن پر رہتے۔
اس دن ایک حادثہ ہو گیا تھا اور یہ حادثہ ہمارے تیسرے جوگی کو پیش آیا تھا۔ تیسرے جوگی کی طبیعت ان دنوں خراب چل رہی تھی۔ شاید جنگل کی ٹھنڈی ہوا لگ گئی تھی۔ یہاں آنے کے کچھ ہی دنوں کے بعد تقریباً باری باری سبھی کو بخار نے گھیر لیا تھا۔ کئی دنوں تک یہ بخار رہا۔ پھر اپنے آپ غائب ہو گیا۔ اور اس بخار کے درمیان معمولات میں کسی قسم کا فرق نہیں آیا تھا۔ کیونکہ کسی طرح کی بھی فکر یا تشویش ہمارے پاس نہیں تھی یا یوں کہ دل میں جو نازک یا معصوم جذبہ ہوتا ہے۔ وہ جذبہ اب ہمارے دل میں محفوظ نہیں تھا۔
اس دن صبح ہی صبح میری طبیعت خراب ہو گئی — ہوا یوں کہ جب میں میدان سے واپس آ رہا تھا تو دیکھا انورادھا بھی میدان(لیٹرین) میں ہے — اسے اس حال میں دیکھ کر میں پھر سے گندگی کا شکار ہو گیا تھا۔
نہانے دھونے یا میدان سے لوٹنے اور پھل کھا لینے کے بعد دوبارہ جوگیوں نے آسن دھر لیا تھا۔
جنگل کی فضا میں تیسرے جوگی کے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس کا چہرہ بھی مرجھایا ہوا تھا۔ اور وہ بیمار نظر آ رہا تھا۔ شاید جنگل کی ٹھنڈک اسے بیمار کر گئی تھی۔
کہتے ہیں جنگل کی ٹھنڈک بہت خراب ہوتی ہے اور یہ ٹھنڈک آدمیوں کی جان لے کر ہی چھوڑتی ہے۔
اس ٹھنڈک اور بیماری کے باوجود تیسرے جوگی نے بھی باہر اپنا آسن جما دیا تھا اور اس کی بند آنکھیں شونیہ میں دیکھ رہی تھیں۔ اچانک جانے کہاں سے ایک عجیب و غریب قسم کا جانور آ نکلا۔
اس کا چہرہ خاصہ لمبا اور بھیانک تھا۔ اس کے چہرے پر اس کی دو بڑی بڑی گول آنکھیں بڑی بھیانک اور ڈراؤنی دکھ رہی تھیں — اس کا جسم کتے کی طرح تھا اور لمبائی بھی کتے کے برابر ہو گی۔ اس کی گردن کے پچھلے حصہ میں کانٹے کی طرح کوئی چیز باہر نکلی ہوئی تھی۔ وہ دیکھنے میں خطرناک لگ رہا تھا۔
وہ عجیب و غریب جانور خونخوار انداز میں غرا رہا تھا۔
وہ جانور کچھ دیر تک تو زوروں سے غراتا رہا اور پھر عجیب و غریب انداز میں تیزی سے آگے بڑھا۔ اس کا انداز جھپٹنے والا تھا اور اتنا خوفناک تھا کہ میری زور دار چیخ نکل گئی۔ میرا سارا جسم تھر تھر کانپنے لگا۔
میری چیخ سن کرجوگیوں اور انورادھا نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
سب کی آنکھوں میں وحشت سما گئی تھی۔
وہ جانور جھڑپنے کے انداز میں بڑ رہا تھا۔ اور دفعتاً وہ انورادھا کی طرف جھپٹا۔ اس سے پہلے کہ ہم لوگ کچھ دیکھ پاتے یا سنبھل پاتے۔ فضا میں انورادھا کی دردناک چیخ گونج اٹھی۔ جانور نے انورادھا کے پاؤں کو زخمی کر دیا تھا۔ اسی درمیان تیسرا جوگی بیمار ی کی فکر نہ کرتا ہوا تیزی سے دوڑا۔
یہ ایک خوفناک منظر تھا۔
جانور نے تیسرے جوگی پر حملہ کر دیا تھا۔
ایک خونی کھیل ہمارے سامنے چل رہا تھا اور کسی گونگے تماشائی کی طرح ہم سب آنکھیں پھاڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
جانور نے تیسرے جوگی کو بری طرح زخمی کر دیا تھا۔
تیسرا جوگی بری طرح ہانپ رہا تھا۔ اس کے جسم کے مختلف حصے سے خون بہہ رہا تھا۔ جانور پر اس کی گرفت لمحہ لمحہ ڈھیلی ہوتی جا رہی تھی اور دوسرے ہی لمحہ وہ جانور سے الگ ہو کر، چکرا کر زمین پر گر گیا۔
جانور تیز رفتاری سے بھاگ کھڑا ہوا۔
وہ خونی منظر اب بد ل چکا تھا۔ ہم ہکا بکا دیکھتے رہ گئے۔ اچانک چونکے، زمین پر ایک طرف انورادھا بے ہوش پڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف لہو لہان تیسرا جوگی پڑا تھا۔
ذہن اب بھی دہشت زدہ تھا۔
انورادھا محض بے ہوش تھی۔ اس کی نبض ٹھیک طرح سے چل رہی تھی — اس کے داہنے پاؤں کا گوشت اس جانور نے درندگی سے نوچ ڈالا تھا۔ اور اچانک بڑے جوگی کی آواز سے ہم چونک پڑے۔
اس کی تو نبض ڈوب چکی ہے۔
کیا؟
ہم بری طرح چونکے اور دوڑتے ہوئے تیسرے جوگی کی طرف بھاگے۔ دوسرا اور چوتھا جوگی بھی اس پر جھکے ہوئے تھے اور پہلی بار ان دونوں کے اندر میں نے انسانیت کی آواز کو محسوس کیا۔
یہ مر چکا ہے۔
بڑا جوگی کہہ رہا تھا۔ مگر اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ انسانی جذبے سے کوسوں دور — یہ مرچکا ہے …
میں سوچ رہا تھا۔
یہ جو ابھی کچھ دیر پہلے تک میرے ساتھ تھا — لیکن اب مر چکا ہے۔
یہ جو ابھی کچھ دیر پہلے بولا کرتا تھا — اب کبھی نہیں بولے گا۔
کیونکہ یہ مر چکا ہے۔
اس کا جسم مرگیا ہے۔ شانت۔ اب اس شانت جسم میں کہیں کوئی گندگی نہیں ہے۔
میں نے محسوس کیا۔
میرے اندر ہمدردی ہی ہمدردی تھی۔
دوسرے اور چوتھے جوگیوں کے اندر بھی انسانیت باقی تھی۔
بڑا جوگی اب تک سپاٹ تھا اور کہہ رہا تھا۔
مرتیو ستیہ ہے۔ ایک دن سب کو مرنا ہے۔ ہم سچائی کی تلاش میں نکلے تھے۔ سچ بھگوان ہے۔ تیسرے جوگی نے اس تلاش کو پا لیا۔ یہ اس تلاش میں ہم سے آگے نکل گیا۔ کیونکہ سچائی اسی مارگ تک جانا ہے۔ سچ یہی ہے۔ ستیہ ہی شیو ہے۔ اور جس نے بھگوان کو پا لیا اس کے بارے میں سوچ کر رونا کیا — یہ موہ، لالچ کی دنیا سے نکل گیا۔ اس نے آزادی پائی۔
بڑا جوگی بڑبڑا رہا تھا۔
میرے ذہن کے پردے پر ایک لاش رکھی ہوئی تھی۔ پھوپھی کی لاش — پھوپھی کے ٹھنڈے بے حس و حرکت بدنما حصے میرے آگے تھرک رہے تھے۔ انسانی جسم مرنے کے بعد بالکل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
اور مرنے کے بعد اپنی ساری گندگی بھی لے جاتا ہے۔
میں نے دوبارہ تیسرے جوگی کی طرف دیکھا پھر بڑے جوگی سے پوچھا۔
’اب کیا کریں گے۔ ‘
’اب کیا۔ اس کی لاش کو ہم بہا دیں گے۔ ‘
انورادھا کے جسم کو بھی وہیں ندی کے پاس لے چلو تاکہ اسے ہوش آسکے۔
اتنا کہہ کر بڑے جوگی نے تیسرے جوگی کے مردہ جسم کو اٹھا لیا۔ دوسرے جوگی نے انورادھا کو کسی پھول کی طرح اٹھا لیا۔
ہم پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
اس وقت بھی ایک آوارہ خیال میرے دل پر قبضہ کئے ہوئے تھا کہ بے ہوش انورادھا کا بھرا بھرا بدن دوسرے جوگی کے بدن کو چھو رہا ہو گا۔ مجھے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہئے۔
مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہئے۔
پھر میں نے تیسرے جوگی کے متعلق سوچنا شروع کیا اور میری آنکھیں کسی قدر نم ہو گئیں۔
ندی قریب ہی بہہ رہی تھی۔ یہاں تک آتے آتے بڑے جوگی اور چھوٹے تھک کر چور ہو چکے تھے۔ تیسرے جوگی کی لاش کو ندی کے ایک طرف رکھ دیا گیا۔ دوسری طرف انورادھا کے بے ہوش جسم کو رکھ کر اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جانے لگا۔
پانچ چھ بار پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد انورادھا نے ایک تیز چیخ کے ساتھ آنکھیں کھول دیں اور وہ خوف سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔
اس کی نظر تیسرے جوگی کے مردہ جسم پر پڑی — اس نے پھر ایک تیز چیخ ماری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
یہ تم کیا کر رہی ہو۔
بڑے جوگی نے اسے بے دردی سے کھینچا۔ کیا تم بھول گئی۔ سنیاس لے کر جسم انسانی تقاضوں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ہم سنیاسی ہیں۔ رونا دھونا عام انسانوں کا کام ہے۔ جن کو دنیا کا دکھ ہوتا ہے — ہم نے موہ تیاگ دیا ہے۔ ہمیں اب رونے دھونے سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے۔
مگر بڑے جوگی کی باتوں کا انورادھا پر کوئی اثر نہ تھا۔
بڑا جوگی تیسرے جوگی کی لاش کے پاس منتر اور شلوک کا جاپ کر رہا تھا۔ اس عمل میں دس پندرہ منٹ صرف ہو گئے۔ اور جب وہ منتر کا جاپ کر چکا اور خاموش ہو گیا تو اس عمل کے بعد اس نے ہماری جانب دیکھا۔
اب اسے آخری یاترا پر روانہ کرو۔
رام نام ستیہ ہے۔ رام نام ستیہ ہے …
ہم نے دونوں طرف سے تیسرے جوگی کی لاش کو ا ٹھا لیا اور رام نام ستیہ ہے بولتے ہوئے اسے ندی کے حوالے کر دیا۔
میری آنکھیں نم تھیں۔ تیسرے جوگی کی لاش نے مجھے سوگوار کر دیا تھا۔ اس موقع پر جو بات اہم تھی وہ تھی انورادھا کی چیخ۔ وہ چیخ بے شک ایک سنیاسنی اور جگ چھوڑنے والی جوگن کی چیخ تھی۔ لیکن وہ ایک انسانی چیخ تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک ویسی ہی تھی جیسی ایک انسان کی دوسرے انسان کے مرنے پر ہوتی ہے۔
بڑا جوگی اب بھی بڑبڑا رہا تھا۔
ہمارا انت یہی ہے۔
ہماری تلاش یہی ہے۔
سچائی یہی ہے …
وہ اور بھی جانے کیا کیا بڑبڑا رہا تھا مگر میں ایک ٹک انورادھا کو دیکھے جا رہا تھا۔ جو اب بھی سوگوار آنکھوں سے ندی کی دھار کو دیکھ رہی تھی — جہاں تیسرے جوگی کی لاش اپلا رہی تھی۔
اب یہ ہم میں سے نہیں رہا۔
اب اسے ہم کبھی دیکھ نہیں پائیں گے۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔
کل ہم بھی نہیں رہیں گے۔
پھر ہم خود کو کیسے دیکھ پائیں گے۔
میں ڈوبنے لگا ہوں۔
میں کون ہوں۔
میں الف کیوں ہوں۔
ندی کی دھار اپر تیسر ے جوگی کی لاش اب بھی اپلا رہی ہے — ندی لمحہ لمحہ تیسرے جوگی کی لاش کو نکلتی جا رہی ہے۔
وہاں سے بوجھل اداس ہمارے قدم اپنے خیمے کی طرف لوٹ رہے تھے۔ انورادھا لنگڑاتے ہوئے چل رہی تھی۔ آج پہلی بار میں بھی انسانی تقاضے پر عمل کر رہا تھا۔
خیمے میں لوٹ کر آنے کے بعد ہم تھک کر زمین پر لیٹ گئے۔ انورادھا کے پاؤں کا درد بڑھ چلا تھا۔
لگتا ہے اس کے پاؤں میں زہر پھیل گیا ہے۔ جانور نے کاٹا ہے، میں نے بڑے جوگی کی طرف دیکھا۔
تب؟ بڑے جوگی نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’ابتدائی علاج۔ ‘
میں نے انورادھا کو لیٹ جانے کا اشارہ کیا۔ کچھ نہ سمجھتی ہوئی بھی وہ لیٹ گئی۔ میں اس کے جسم پر جھک گیا … بے لباس جسم … کپڑے چیتھڑے ہو چکے تھے … جسم کے خطوط نمایاں تھے … میں اس کے پاؤں سے جانور کا زہر نکال رہا تھا … یا اپنا انسانی زہر انورادھا کے جسم میں پیوست کر رہا تھا …
ایک عجیب و غریب احساس میرے جسم کے اندر اندر پھیل گیا — کوئی بجلی سی میرے اندر کوندی۔
لمحہ بھر کے بعد میں اس عمل سے فارغ ہوا اور ایک بلغمی کھکھار زمین کے باہر تھوک دیا اور انورادھا کو دیکھا۔
وہ ممنون نگاہوں سے میر ی جانب دیکھ رہی تھی۔
اور اچانک مجھے لگا، اس کی نگاہیں ٹھیک ویسی ہو گئی ہیں، جیسی گرمی کی دوپہر میں منی دی کی ہو جایا کرتی تھیں۔
اور میرے اندر کوئی جوالا مکھی دھیمی دھیمی آنچوں پر سلگنے لگا۔
میں تیزی سے باہر کی جانب نکل آیا۔
٭٭٭
بے لباسی
(۴۰)
کئی دنوں تک ذہن بوجھل رہا۔ تیسرے جوگی کی یاد دلوں میں اب بھی رہ رہ کر مچل اٹھتی اور ایک ساتھ کئی واقعات نگاہوں کے آگے گھومنے لگتے۔ ان واقعات میں تیسرے جوگی کا اس عجیب و غریب جانور سے لڑنا بھی شامل تھا۔ اس کی جیت بھی تھی۔ اور اس کی دردناک موت بھی شامل تھی۔ انورادھاکا سوجا ہوا پاؤں بھی تھا جس کو بے رحمی سے اس درندے نے نوچ کھایا تھا اور میری ہمدردی بھی تھی جس کے عوض میں نے اس وقت زہر کو چوسنے کی کوشش کی تھی۔
اب سوچتا ہوں تو بڑا عجیب سالگتا ہے۔ اس وقت جانے کہاں سے میرے اندر اتنی ہمت آ گئی تھی اور میں انورادھا کے زخم کو چوسنے میں کامیاب ہوسکا تھا۔ زخم اور گوشت کا کٹاؤ نگاہوں کے آگے اب بھی رہ رہ کر مچل اٹھتا اور ذہن پر پھر کہرا چھانے لگتا۔ میری کیفیت دوبارہ عجیب ہو جاتی۔
ان سارے واقعات کے دوران بھی بڑے جوگی دوسرے جوگی، چوتھے جوگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ہاں فرق آیا تھا تو بس انورادھا کے معمول میں۔ اب بھی آسن پر بیٹھے اسے دیکھ کر لگتا جیسے وہ محض ایک اصول نبھا رہی ہو۔ جنگل اس کے لیے ایک قید بن گیا ہو۔ اور جب کبھی اس کی نگاہیں میری نگاہوں سے ٹکراتیں تو اس کی آنکھیں جلتی ہوئی محسوس ہوتیں۔
میں اپنی بے چینی اور اذیت کو دباتے ہوئے سوچتا — آخر انورادھا کے سنیاسی بننے میں کسی فعل کو دخل ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ وہ عورت ہو کر انسانی بستی چھوڑ نے پر مجبور ہوئی۔
دوسرے دن کی صبح مجھے ان سارے سوالوں کو پوچھنے کا موقع مل گیا تھا۔
انورادھا آہستہ قدموں سے ندی کی طرف جا رہی تھی۔ اس کے پاؤں کا زخم اب ٹھیک ہو چلا تھا اور شاید درد بھی غائب ہو گیا تھا۔ بڑے جوگی نے ایک پیڑ کی پتی توڑ کر اسے لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ اور یہ پتی بہت اچھی جڑی بوٹی ثابت ہوئی تھی۔
انورادھا نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ اور اسی پل ایسا احساس ہوا جیسے اس کا پورا جسم آگ کی طرح جل رہا ہو — ایک عجیب و غریب قسم کی دعوت دیتی ہوئی وہ مجھے محسوس ہوئی۔ میرے شریانوں میں گرم خون کا ابال آ گیا تھا۔ میری داڑھی بھی بڑھ گئی تھی۔ جسم پر بڑے بڑے بال اگ آئے تھے۔ اور یہ ساری باتیں میری جوانی کی علامتیں تھیں۔
میں خاصہ جوان ہو چکا تھا۔
انورادھا کی آنکھوں میں پیاس ہی پیاس نظر آ رہی تھی۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھیں منی دی کی آنکھیں بن گئی تھیں۔ راجن بھیا اور منی دی کے ذریعے بند کمرے میں ہونے والا کھیل میرے سامنے دوبارہ کھیلا جانے لگا۔ اسکرین پر اس سے پہلے کہ وہی مناظر تھرکنے لگیں۔ میں نے دیکھا انورادھا پلٹ کر دوبارہ ندی کا رخ کر چکی تھی۔
ندی اب کچھ فرلانگ دور رہ گئی تھی۔
میں نے اپنی کیفیت پر قابو پایا اور پھر ندی کی طرف بڑھنے لگا۔
اور پھر جیسے جسم کے اندر ہزاروں بادل گرج اٹھے۔ انورادھا پیاسی نظروں سے دوبارہ میری جانب دیکھ رہی تھی۔
مجھے لگا، جیسے اس نے اپنی بانہیں پھیلا دی ہوں۔
نہاؤ گے؟
انورادھا کی آواز سن کر میں چونک پڑا۔ اس کی آواز میں مٹھاس تھی مگر جانے کیوں مٹھاس میں بہت کڑواہٹ کا احساس ہوا۔
میرے سامنے صرف ایک سوال تھا انورادھا کے سنیاسنی بننے میں کس بات کو دخل ہے اور اس سوال کے تحت میں نے اس سے پوچھا۔
سنو انورادھا …
میں نے پہلی بار اس کا نام لیا — انورادھا کے لب تھر تھرائے۔ اس کا جسم کانپا۔ آنکھوں میں خوابیدہ ڈورے تیرے اور وہ لہراتی ہوئی میرے پاس آ کر ٹھٹھک گئی۔
کیا ہے؟
ایک بات پوچھوں
پوچھو۔ اس کی آنکھیں سلگ رہی تھیں۔
تم سنیاسنی کیوں بنی۔ ؟
میں … ؟
اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ میں تیرہ چودہ برس کی تھی۔ جب میرے ماں باپ مر گئے۔ اس دنیا میں میرا کوئی نہ تھا۔ موت کے بارے میں میرا نظریہ بڑا بھیانک تھا یہی اٹل ہے۔ موت ہی سچائی ہے۔ اور میں موت سے بہت زیادہ خوف زدہ نظر آنے لگی تھی۔ انہی دنوں میری ملاقات ان دو جوان سادھوؤں سے ہوئی۔ ان کی باتوں میں سچائی کا احسا ہوا اور میں بھی ان کے ساتھ شانتی کے مارگ پر نکل کھڑی ہوئی۔
اتنا کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا — آؤ نہاؤ۔
’نہیں ‘
انورادھا دونوں بانہیں پھیلائے میری طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں عجیب انداز میں جل رہی تھیں۔
آؤ … نا … میں کہتی ہوں … میرے پاس آؤ …
مجھے یہ لفظ سارے جنگل میں گونجتا ہوامحسوس ہوا۔ وہ میری طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں عجیب انداز میں جل رہی تھیں۔
آؤ … میرے پاس آؤ … میرا جسم تمہیں آواز دے رہا ہے … آؤ …
انورادھا کی آنکھوں میں پیاس کی شدت تھی۔
آؤ … وہ میری طرف بڑھ رہی ہے اور ایک دھچکے سے اس نے اپنا جھول اتار دیا۔
اس کا سارا جسم ننگا تھا۔ عریاں …
نہیں …
میں زور سے چیخا … اتنے زور سے کہ پورا جنگل دہل گیا۔ میری حالت عجیب ہو گئی تھی۔ انورادھا کے بد نما حصے میرے حواس پر چھا گئے تھے۔ دو گوشت کے لوتھڑوں والے باہر نکلے ہوئے ابھار۔ اس کے نیچے والا بد صورت حصہ۔ پتلے ہڈی نما پاؤں۔
میری نس نس بھنچ رہی تھی۔
اپنے اندر کی آگ میں سلگ رہا تھا۔
میری کنپٹیاں جل رہی تھیں۔
میرے سامنے میرا پورا گھر آ گیا تھا۔ منی دی راجن بھیا آ گئے تھے۔ ممی ڈیڈی آ گئے تھے۔ ان کے بد صورت اعضا آ گئے تھے جن کے ڈر سے میں نے راہ فرار اختیار کیا تھا۔ میری آنکھیں شدید نفرت کے تحت کانپ رہی تھیں۔
ذہن کا اسکرین روشن ہو گیا تھا اور وہاں ہزاروں لاکھوں بے لباس خاکے عریاں کھیل کھیلتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔
میں —
میں دوبارہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا — مہربانی … مہربانی انورادھا … اپنے کپڑے پہن لو — میں مر جاؤں گا … پہن لو …
میری چیخ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہی تھی …
اور اسی پل انورادھا کا زبردست ٹھہاکا گونجا … بیوقوف … اب یہ کپڑے کہاں رہے۔ جنہیں پہنا جائے … اب جسم سے یہ سارے کپڑے ہٹ جائیں گے۔ ہم تم سب اسی فطری لباس میں نظر آئیں گے۔
جس لباس میں ہم پیدا ہوئے تھے۔ اسی فطری لباس میں ہم نظر آئیں گے۔ آخر یہ جھول ہمارے جسم پر کب تک جھولتا رہے گا … تم بھی یہ جھول اتار دو …
نہیں …
انورادھا کا ننگا جسم دھوپ میں چمک رہا تھا۔ اور میرے حواس پر ہر لمحہ کوئی بجلی تیزی سے گر رہی تھی۔
نہیں …
میں چیخ رہا تھا … پھر میں تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔
میرے قدموں میں خوف کی آمیزش تھی اور میں تیز تیز پاگلوں کی طرح اپنے خیمے کی طرف بھاگ رہا تھا۔
خیمے میں آ کر، میں کچھ پل کے لیے ٹھہرا۔
چاروں جوگی آسن پر بیٹھ چکے تھے۔
اور چاروں ننگے تھے۔
شاید ان لوگوں نے بھی اپنے جھول پھینک دیئے تھے۔
کیا یہی سچائی ہے۔
کیا جسم کا ننگا ہونا ہی سچ ہے۔
منظر دوبارہ مجھے اسی خوفناک کنویں میں ڈھکیل رہا تھا۔
پاگلوں کی طرح میں دوسری طرف بھاگا اور ایک جگہ بیٹھ کر چیخ چیخ کر رونے لگا۔
آسمان میری چیخ سے گونج اٹھا تھا۔
٭٭٭
گناہ کی لذت
(۴۱)
وقت کی آواز کو سننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ہم اپنے جھول اپنے بد ن سے اتار پھینکیں۔ اور ہم نے یہی کیا — اپنے بدن سے اپنے جھول جیسے کپڑے اتار پھینکے۔
اب ہم فطری لباس میں تھے۔
کوئی چیخ اب بھی میرے چاروں طرف طواف کر رہی تھی۔
الف! کیا تم نے اسی لیے گھر تیاگا تھا۔
یہاں شانتی کہاں ہے؟ یہاں تو تمہارے سامنے وہی جسم ہے۔ وہی بدنما جسم جس میں ایک عجیب سی کراہیت تم محسوس کر رہے تھے۔
یہاں کسی کو اپنے ننگے ہونے کا احساس تک نہیں تھا۔
میں دیکھتا۔ ننگے جوگیوں کو — ان کے جھولتے بدن کو۔
آسن پر بیٹھی سنیاسنی کو۔
اب وہ سنیاسنی کم انورادھا زیادہ اور اس سے زیادہ ایک ننگا جسم بن گئی تھی۔
تیسرے جوگی کی یاد دلوں سے غائب ہو چکی تھی۔
اور انسانی تقاضے کا جیتا جاگتا ثبوت دو بارہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ اب تک جس سے آنکھیں چراتا رہا تھا۔ بڑے جوگی کو چھوڑ کر ان تینوں جوگیوں کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک کبھی کبھی محسوس ہوتی تھی۔ اور یہی چمک انورادھا کی آنکھوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی تھی۔
اور پھر عجیب عجیب واقعات ہونے لگا — وہ جوگی جو بھوگ اور موہ مایا چھوڑ کر یہاں اس ویرانے میں آئے تھے، ان کے اندر بھوگ ولاس کی باتیں جنم لے رہی تھیں۔ مجھے اس کا احساس ہو چلا تھا۔ اور اندر وہی سویا ہوا جانور اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ رات میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
ہلکی سی آہٹ سے میں چونک پڑا تھا۔
یہ وہی آہٹ تھی جیسی آہٹ میں ممی اور پاپا کے کمرے میں محسوس کیا کرتا تھا۔ مسہری کے چرمرانے کی آواز اور پھر وہی عریاں کھیل کی شروعات ہو جاتی۔
رات کی تنہائی اور اندھیرے میں، میں نے محسوس کیا۔ انورادھا کاجسم دو تین جسموں کے نیچے دبا ہوا ہو۔ اس کی سسکیاں گونج رہی ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ میری کنپٹیاں لال سرخ ہو گئیں۔ چہرے کے نقوش بڑے عجیب انداز میں سکڑ گئے۔ مٹھیاں کسنے لگیں۔ جسم کانپنے لگا۔ شریانوں کے گرم خون میں طوفان آ گیا۔ میرا وجود اس عریاں کھیل کے درمیان کسی مرتے ہوئے پرندے کی طرح چھٹپٹا رہا تھا۔
انورادھا کی سسکیاں گونج رہی تھی۔
اور وہ تینوں عجیب حرکتیں کر رہے تھے۔
وہی جانوروں جیسی حرکتیں۔ مجھے یاد آیا۔ اس دن اسکول میں جب میں نے اس کتے کو اپنی شدید نفرت کے تحت پتھر کھینچ کر مارا تھا، وہ کتا جاگ گیا تھا۔
اس کھیل میں بڑے جوگی بھی شامل تھے۔
شاید اس کھیل کی ابتدا بہت قبل ہو چکی تھی۔
انورادھا کی موجودگی اور اس کھیل کے متعلق یہ احساس مجھے قبل ہی ہو گیا تھا۔
چاروں جوگیوں میں ا یک جنگ تھی۔ اور وہ پاگلوں کی طرح انورادھا پر ٹوٹ رہے تھے۔
میری نسیں چیخ رہی تھیں۔
یہ تو بھوگ ہے۔
یہ جوگ نہیں ہے۔
یہ سب وہی ہے۔ وہی عریاں کھیل۔ جوساری دنیا کھیلتی ہے۔ جو میرے ماں باپ کھیلتے تھے۔ جو منی اور راجن بھیا کھیلتے تھے۔ جو پورا سماج پوری دنیا کھیلتی ہے۔ جس سے ہمارا وجود روشن ہوا۔ وہی بے شرمی اور بے ہنگم والا کھیل، میں جس سے فرار چاہتا تھا۔ یہاں وہی کھیل چل رہا تھا۔
پاگل کتوں کی طرح انورادھا کی ننگی بوٹیوں پر یہ کتے ٹوٹ رہے تھے۔
میرا جسم آگ کی طرح گرم ہو رہا تھا۔ اور ہر لمحہ اپنی کیفیت کی گرمی سے تپا جا رہا تھا۔
دوسرے ہی لمحہ میری ایک زور کی چیخ نکلی۔ ایک ہذیانی چیخ۔ اور میں دوڑتا ہوا خیمے سے باہر نکل آیا۔
باہر آ کر میں زور زور سے رونے لگا۔
میری کیفیت پاگلوں جیسی تھی۔
اور اس کیفیت میں میں صرف وہی دیکھ رہا تھا۔ میرے ماں باپ ایک دوسرے سے کشتی لڑ رہے ہیں اور درمیان سے میرا وجود جھانک رہا ہے۔
میرا وجود ننگا ہے۔
میرا وجود اسی ننگے کھیل کی معرفت اس دنیا میں آیا ہے۔
میرا سارا جسم آگ کی بھٹی پر تپ رہا تھا۔ اندر کا منظر میرے جسم میں بھاپ کی طرح کھول رہا تھا۔
بڑا جوگی باہر آیا — میں نے اپنے سر کو تھام رکھا تھا۔ دماغ کی نسیں کڑکڑا رہی تھیں۔
کچھ لمحہ تک وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر مجھ سے بولا۔
’آؤ تم بھی اندر آؤ‘۔
میں نے بڑے جوگی کی طرف دیکھا۔ اندھیرے میں اس کا ننگا جسم اتنا خوفناک اور بد نما نظر آیا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ کچھ دیر پہلے جانوروں کی طرح کھیلا جانے والا کھیل میری نگاہوں کے آگے ابھرنے لگا۔
میں چیخا۔ مجھے تنگ مت کرو۔ مجھے چھوڑ دو۔ بھگوان کے لیے مجھے چھوڑ دو۔
رات کا پچھلا پہر گزر گیا ہے۔
ٹھنڈ کافی پڑ رہی ہے۔ اب یہ جسم ٹھنڈک اور گرمیوں کا عادی ہو چکا ہے۔
دماغ اب بھی سنسنا رہا ہے۔ اور اب بھی ذہن پر وہی روشن اسکرین تھرک رہا ہے۔ یہ روشن اسکرین ایک پوری دنیا کا نآئینہ ہے جہاں دنیا کے سارے لوگ بے لباس تھرک رہے ہیں۔
الف! خود کو دیکھو۔
کیا تم پھر اسی دنیا میں جانا چاہتے ہو۔
کیا تمہارے اندر دنیا کا موہ سما رہا ہے۔ ؟
نہیں۔ نہیں۔ میرے لیے دنیا کوئی موہ نہیں رکھتی۔ میں دنیا میں دوبارہ واپس نہیں جا سکتا۔ میں اپنے ماں باپ کی گھنونی صورت دیکھنے نہیں جاؤں گا۔ اب یہ سوچنا میرے لیے بیکار ہے۔
اور ان جوگیوں کے درمیان؟
میرا ذہن چیخ رہا تھا۔ یہ جوگی بھی ننگے رہتے ہیں۔
یہ بھی گندے گھناؤنے ہیں۔ ان کے جسمانی اعضا بھی کتنے بد نما ہیں۔
یہ بھی چیل کوؤں والا کھیل کھیلتے ہیں۔
یہاں زندگی نہیں یہاں اذیت ہے۔ یہاں تکلیف ہے۔ یہاں میں دنیاوی احساس سے جڑ جاتا ہوں۔ مجھے اپنے ماں باپ یاد آنے لگتے ہیں۔ مجھے منی دی، راجن بھیا اور سونی دی کی یاد آنے لگتی ہے۔
لزی کی اچھل کود … اس کے جسم پر چڑھنا … سب کچھ نظروں کے آگے گھومنے لگتا ہے …
وہ سب کچھ جو ایک فحش اور عریاں تصویروں کی طرح ہے۔
وہ سب کچھ جو مجھے پاگل کرتا ہے۔
ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔
اور اس حالت میں میں خود سے کہتا ہوں — تم نے اپنا جسم دیکھا ہے الف! اپنی بڑھی ہوئی داڑھی اور جھولتے لمبے بالوں کا تصور کیا ہے — اپنے پاؤں کی ہڈیاں اور جسم کے نازک اعضا کا تصور کیا ہے …
تمہارے جسم پر بالوں کی تہہ جم چکی ہے۔
تم لباس سے الگ ہو چکے ہو۔
اب تم ایک جانور ہو۔
اب تم دنیا میں جا بھی نہیں سکتے۔
اور الف! جن چیزوں سے تم نفرت کرتے ہو۔ وہی فطری اصول تم خود بھی دہراتے ہو۔ پیشاب، پائخانہ، ان سب اصولوں سے تو تم بھی دوچار ہوتے ہو۔
الف یہ مت بھولو۔ تم بھی گندے ہو۔
تم بھی نفرت کے مستحق ہو۔
ذہن پر پے در پے چاروں طرف سے آوازوں کا شور گونج رہا ہے۔ آوازیں چاروں طرف سے جنگل کے سرسراتے ہوئے پتوں سے نکل کر میرے ذہن میں گونج رہی ہیں۔ اور میں وہی تصور کر رہا ہوں۔ میں پائخانے میں بیٹھا ہوں۔ میں پیشاب کر رہا ہوں۔ میں دھو رہا ہوں۔
انورادھا بھی یہی عمل دہرا رہی ہے۔
جوگی بھی یہی عمل دہرا رہے ہیں۔
ممی ڈیڈی بھی یہی عمل دہراتے ہیں۔
ساری دنیا یہی عمل دہرا رہی ہے۔
کیا ان کے بغیر آدمی نہیں جی سکتا۔ ؟
رات کا پچھلا پہر ڈھل رہا ہے … جسم کو بڑے بڑے بالوں نے چھپا دیا ہے۔ سردی کا احساس یہ بال کم کر رہے ہیں۔ نسوں کے بھینچنے میں اب کمی آ رہی ہے۔
جنگل سورہا ہے۔
شجر اب بھی ہل رہے ہیں — آوارہ ہوائیں چھٹک کر جسم میں طوفان پیدا کر رہی ہیں۔
الف! تم سوجاؤ …
ورنہ تم مر جاؤ گے …
ہاں ! مجھے سوجانا چاہئے …
کچھ نہیں — کچھ نہیں — اب سوجاؤ …
میں آنکھیں موندنے کی کوشش کرتا ہوں مگراسکرین روشن ہے۔ پرچھائیاں تیر رہی ہیں …
٭٭٭
تسکین کہاں ہے … ؟
(۴۲)
وہ رات میرے لیے کانٹوں کا بسترثابت ہوئی۔ ہر لمحہ جیسے میں ہچکیاں لے کرانورادھا اور دوسرے جوگیوں سے کہتا رہا۔
بھگوان کے لیے کہیں سے بھی میرے لیے لباس لے آؤ۔
میرے سامنے بے لباس مت آؤ۔
میں تو اپنا ہی جسم دیکھ کر پاگل ہو جاتا ہوں۔
تم اپنا بے لباس جسم لے کر میرے پاس مت آؤ۔
بھگوان کے لیے وہ گھنونا کھیل مت دہراؤ۔ تم جوگی ہو۔ یہاں شانتی اور بھگوان کی تلاش میں آئے ہو۔ یہ بھوگ اور لالچ۔ یہ واسنا۔ تمہارے اندر کہاں سے آ گئی۔ ؟
جوگ … یہ شانتی … یہ تپسیا … سب ڈھونگ ہے۔ صبح کی ہلکی کرن ہر طرف پھیل گئی تھی۔
اٹھو۔
میرے سامنے بڑے جوگی اپنے ننگ دھڑنگ جسم کے ساتھ کھڑے تھے۔
سنو۔ ان کے لہجے میں ایک معمولی انسان کی بے قراری شامل تھی۔
سنو۔ جسم میں ہی شانتی چھپی ہے۔
تم جسے گندہ کہتے ہو۔ وہ گندہ نہیں بلکہ وہی سچائی ہے۔ اور یہ بھوک جسم کی آتما ہے۔
جسم کو بھوک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
جسم بھوک کادوسرا نام ہے۔
یہ بھی تپسیا کاہی ایک انگ ہے۔
دیکھو۔ ہمیں اپنے کیے پر ذرا بھی چھوبھ نہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں اس سے ہمیں شانتی ملی۔
ہم اسی شانتی کی تلاش میں چلے تھے۔
جسم میں بھگوان بند ہیں۔
ہم نے جسم سے شانتی پائی ہے۔
یہ بھوگ نہیں۔ یہ شانتی کا تقاضا ہے۔ تپسیا اور جوگ کا ایک اہم ادھیائے۔ جو تم ابھی نہیں سمجھو گے۔ کیوں کہ تم اب تک جسم اور گندگی کے ڈھونگ سے گزر رہے ہو۔ آنکھیں کھولو۔ اپنے جوان جسم کی حقیقت کو سمجھو۔
دیکھو۔ ہم اب سچائی کے مارگ پر ہیں۔
وہ لباس ہمیں قید رکھتا تھا۔ ہمارے جسم کو قید۔
ہماری بھوک کو قید
سچائی اسی فطری لباس میں ہے — ہم جس لباس میں اس دنیا میں آئے — سچ یہی ہے اور یہ جسم سچائی اور شانتی کا دوسرا نام ہے۔
آنکھیں کھولو۔ انورادھا تمہاری منتظر ہے۔
میرے سامنے چاروں جوگی کھڑے تھے۔
سچائی یہی ہے۔ میں نے خود سے دہرایا۔ انورادھا کے ننگے جسم کو دیکھا۔ سچائی جسم کی بھوک ہے؟
دماغ اب بھی درد کر رہا تھا اور جسم اب تک اذیت میں گرفتار تھا۔
انورادھا کی آنکھیں اب جنسی لذت لیے میری طرف دیکھ رہی تھیں اور وہ آنکھیں جیسی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو … آؤ … آؤ … میں سچائی ہوں …
کچھ دیر کے لیے میں سب کچھ بھول گیا — مجھ پر جیسے سحریا جادو کر دیا گیا ہو۔
’ ہم لوگ نہا کر آتے ہیں۔ ‘
ان جوگیوں نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ میں نے پاگلوں کے انداز میں انہیں جاتے ہوئے دیکھا۔
بڑے جوگی کا جملہ اب بھی ذہن کے آگے گونج رہا ہے۔
جسم۔ شانتی کادوسرا نام ہے۔
ہمارے جسم میں بھگوان قید ہیں۔
جسم کو پا لینے کے بعد ہم شانتی کوپا لیتے ہیں۔
جسم شانتی کا نام ہے۔
میں نے دیکھا انورادھا اب تک میری طرف دیکھے جا رہی تھی۔
اس کا سانولا چہرہ بھبھک رہا تھا۔ آگ کی تیز بھٹی کی طرح اس کے عریاں جسم میں ایک عجیب طرح کی ہل چل مچی ہوئی تھی۔
اس کے شانوں اور کمرے کے حصے تک اس کے لمبے اور بے ترتیب بال جھول رہے تھے۔
اس کی بانہیں پھیلی ہوئی تھیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی آؤ … آؤ …
میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ مجھ پر جیسے جادو کر دیا گیا ہو — یہ ننگا بدن ایک بھوک ہے۔ یہاں شانتی چھپی ہے۔ شانتی پا کر آدمی بھگوان کو پا لیتا ہے۔
جسم شانتی کادوسرا نام ہے۔
میں عجیب انداز میں انورادھا کی طرف بڑھا۔
اور دوسرے ہی لمحے ہم دونوں کے ننگے جسم ایک ہو گئے تھے۔ ہم دونوں پاگلوں کے انداز میں ایک دوسرے سے گتھ گئے تھے۔ اور ایک دوسرے کو کتوں کی طرح جھنجھوڑ رہے تھے۔ کاٹ رہے تھے — میری عقل دنگ تھی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
سرسے پاؤں تک خون کا ابال آیا ہوا تھا۔
جسم آگ کی بھٹی کی طرح تپ رہا تھا۔ انورادھا آگ کی طرح جل رہی تھی۔ وہی حالت میری تھی۔ میں نے فولادی قد آور بانہوں میں اس کے ننگے دبلے جسم کو بری طرح جکڑ لیا۔ اس کی چیخ جنگل کی فضاؤں میں گم ہو گئی۔ اس کی سسکیاں جوان ہو رہی تھیں اور اس کا جسم میرے جسم میں سمٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے جسم کی گرمی اور تپش نے مجھے پاگل بنا دیا تھا۔ اور ایک شیطان میرے اوپر حاوی ہو گا تھا۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو کاٹ کھایا اور اس کی زبان کو بھی … ایک عجیب سالمس میرے اندر سرایت کر گیا۔ انورادھا اب بھی سسک رہی تھی۔ چھٹ پٹا رہی تھی اور میرے جسم میں پیوست ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں کتے کی طرح اسے چاٹ رہا تھا۔ وہ عجیب طرح سے آوازیں نکال رہی تھی۔ اس کی سسکیاں پاگل کر رہی تھیں۔ اس کی آہوں میں عجیب سی جنسی لذت شامل تھی۔
اور پھر کچھ ہی لمحے کے بعد ہم تھکے ہوئے جانوروں کی طرح ہانپ رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے۔
سب کچھ پہلی بار اور بہت عجیب قسم سے ہوا تھا۔ میں نے تھکی تھکی آنکھوں سے انورادھا کی طرف دیکھا اور اپنے جسم کی طرف —
اسکرین دوبارہ روشن ہو گیا تھا —
میری نسیں آج ضرور ٹوٹ جائیں گی۔
میں ہانپ رہا تھا … سسکیاں لے رہا تھا … مچل رہا تھا۔ غرا رہا تھا … انورادھا مسکرا رہی تھی … کھیل رک گیا تھا … جسم شانت تھا …
مگر اب …
دماغ میں نگاڑے بج رہے تھے … ڈم … ڈم …
٭٭٭
سکون کی تلاش میں
(۴۳)
رفتہ رفتہ میں بے ہوشی کی حالت سے واپس آیا۔ نشہ ٹوٹ چکا تھا۔ جسم میں ایک عجیب طرح کی کمزوری داخل ہو گئی تھی۔ بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ انورادھا اٹھ کر جا چکی تھی۔
اور میں مبہوت سا اب تک پاگلوں کے انداز میں سب کچھ دیکھے جا رہا تھا۔
یہ میں نے کیا کر دیا۔
جس چیز سے میں آج تک بھاگتا رہا، اسی کہانی کو دہرا دیا …
جس کھیل کو بند اندھیرے کمرے میں ممی اور پاپا کو دہراتے ہوئے دیکھ کر عجیب سا پاگل پن میرے اوپر سوار ہو جایا کرتا — منی دی اور راجن بھیا کے اسی کھیل کو دیکھ کر میں ان سب سے نفرت کرنے لگتا تھا …
وہی کھیل میں نے بھی دہرا دیا۔
الف … تم بچھوؤں کے چنگل میں پھنس گئے ہو۔
ذرا کچھ دیر پہلے والے واقعے پر غور کرو۔ یہ لوگ تمہیں پاگل بنا دیں گے۔ میں نے غور کیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں بھی پاگل ہو گیا تھا۔ میں انورادھا کے ننگے جسم پر چیل کوؤں کی طرح ٹوٹ پڑا تھا۔ مرد اور عورت کے بدنما اعضا مل کرا یک ہو گئے تھے — جانوروں جیسا کھیل چلنے لگا تھا۔ وہی اٹھا پٹک کا کھیل۔ وہی نوچنے بکوٹنے اور ایک دوسرے کو چوسنے کا کھیل۔ یہ کھیل کتنا بھیانک ہے۔ کتنا بے حیا ہے یہ کھیل اور الف تم نے اسی کھیل کو کھیلا ہے۔
تم گھناؤنے ہو الف۔
انورادھا بھی گھناؤنی ہے۔
وہ چاروں جوگی بھی یہی حیثیت رکھتے ہیں۔
جسم گھنونا ہے۔
جسم بھوک چاہتا ہے۔
بھوک شانتی نہیں۔
بھوک بھوگیوں کے لیے ہے۔
بھوک بجھا نے والے گندے ہوتے ہیں۔ تپسوی نہیں۔ یہ لوگ جوگی نہیں۔ بلکہ گندے ہیں — یہ بھی تو وہی کھیل دہراتے ہیں یہ بھی وہی گندگی پھیلا تے ہیں۔
میری نسیں دو بارہ چٹخنے لگیں۔ الف! تمہیں مر جانا چاہئے …
نہیں …
موت بڑی خوفناک ہوتی ہے …
پھوپھی کی موت کتنی خوفناک تھی۔ تیسرے جوگی کی موت بھی بڑی خوفناک تھی۔ میری آنکھیں بند ہو جائیں گی اور میں کچھ بھی دیکھ نہ سکوں گا۔
پھر جانے میں کہاں ہوں گا۔ ؟
نہیں۔ میں نہیں مرسکتا۔
مگر یہاں ان بھوگیوں کے پاس نہیں رہ سکتا۔
یہاں ان لوگوں کے پاس بھی وہی بھوک ہے۔
دماغ میں جیسے کوئی بم پھٹ گیا تھا۔
میں راجن ہو گیا ہوں۔
میں ڈیڈی ہو گیا ہوں۔
اور پھر وہی چیخ مجھے کثرت سے سنائی دینے لگتی ہے۔
الف … ان جوگیوں کاساتھ چھوڑ و۔ تم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
تمہیں یہاں سے بھاگ جانا چاہئے الف۔
یہاں شانتی نہیں …
یہاں واسنا ہے … درندگی ہے … خوف ہے …
یہ سب جھوٹے ہیں۔
یہ جسم جھوٹا ہے۔ جسم جو گندہ بھی ہے اور گھناؤنا بھی۔
انسان گندگی کا پتلا ہے۔
ذہن چیخ رہا ہے۔
نظروں کے آگے میرے فولادی جسم میں دبا ہوا انورادھا کا بدصورت جسم نظر آ رہا ہے اور پل پل مجھے اپنی سانسیں گھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔
پھر جیسے دماغ پرکسی ہتھوڑے کی چوٹ پڑی ہو۔
الف! … یہاں تسکین نہیں ہے۔
یہاں شانتی بھی نہیں ہے۔
تم کیسے جی سکتے ہو۔ بھاگ جاؤ یہاں سے … ہیں دور نکل جاؤ …
جہاں کسی انورادھا کا وجود نہیں ہو۔
جہاں کسی جوگی کا وجود نہیں ہو۔
جہاں کسی کا بھی وجود نہیں ہو۔
وہاں تم جی سکو گے … تمہیں یہ سب سوچنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہاں جسم کی گندگی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔
پھر تم کچھ نہیں سوچ سکو گے۔
اس لیے جتنا جلد ممکن ہو یہاں سے نکل جاؤ
میں نے اپنی ڈوبتی سانسوں پر قابو پا لیا۔
ہاں یہ صحیح ہے۔ مجھے سانپوں کی بستی سے نکلنا ہی چاہئے۔ یہ لوگ بچھو کی طرح ڈستے ہیں۔ پل پل اپنے ننگے جسم کی بدولت — مجھے یہاں سے واپس نکلنا ہی چاہئے۔
اور پھر میں دوڑ پڑا۔
بغیر اپنی سمت معین کیے تیز رفتاری سے آگے کی طرف دوڑ پڑا۔
اور میں … دوڑتا جا رہا ہوں … مجھے پیچھے نہیں دیکھنا ہے … بس آگے ہی آگے …
آگے منزل ہے۔
یا آگے کوئی منزل نہیں …
آگے بھوک ہے … یا آگے کوئی بھوک نہیں …
میں سرپٹ دوڑ رہا ہوں … دوڑتا ہی جا رہا ہوں۔
٭٭٭
اب تک کی کہانی
(۴۴)
جنگل میں میرے ساتھ ہزارہا واقعات ہوئے ہوں گے۔ ہزاروں جنگلی جانوروں سے پالا پڑا۔ کتنی بار میں درندوں کی خوراک ہوتے ہوتے بچا۔ ایک تو رات کی تاریکی، جنگل کا ماحول اور دوسرا غصے میں بھرا ہوا جنگلی جانور۔ ذرا آپ تصور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ایسے کتنے ہی واقعات جنہیں میں آپ کو بتا نہ سکا کیونکہ آپ ان واقعات کے متعلق ہزار مرتبہ پڑھ چکے ہوں گے — سن چکے ہوں گے، مجھ سے قبل بھی کتنے لوگوں نے اپنے ماہ وسال جنگل میں گزارے۔ ان لوگوں نے واپس لوٹ کر اپنے تجربات دنیا کو بتائے۔ ایسی کچھ کتابیں میں بچپن میں پڑھ چکا تھا — وہ خوفناک یادیں اب بھی کہیں ذہن میں محفوظ تھیں۔ جنگل کے روز مرہ کے واقعات ان واقعات سے کہیں الگ نہ تھے جو میرے ساتھ گزرے۔ جنگلی سور سے ملاقات۔ ہاتھیوں کے چنگل میں پھنسنا۔ گینڈے کے غصے کا شکار ہونا۔ چیتے کا حملہ اور بھی ایسے کتنے ہی واقعات تھے، جو میرے ساتھ پیش آئے اور ایک طرح سے ان واقعات نے میرے تجربے میں جہاں اضافہ کیا وہیں مجھے لڑنے اور ان کے ساتھ جینے کا عادی بھی بنا دیا۔ اب یہ واقعات میرے لیے بہت معمولی بن کر رہ گئے تھے۔ کیوں کہ اب میرا ان جنگلی جانوروں سے خوف اٹھ چکا تھا۔ میں خود بڑے بڑے بالوں، داڑھی اور ننگے جسم کے ساتھ کسی جنگلی جانورسے کم نہیں تھا۔ یقین جانئیے کئی بار تو ایسا لگا جیسے ان جانوروں نے مجھے اپنی ہی صنف کا سمجھ لیا ہو اور مجھے دیکھ کر آگے بڑھ گئے ہوں۔ کئی ایسے جنگلی جانوروں سے بھی سابقہ پڑا جو ہیئت میں دیو پیکر لگ رہے تھے اور جن کے بارے میں میں نے کبھی سنا تک نہ تھا۔ بڑے عجیب و غریب جانور، ان کی لمبائی چوڑائی تک عام جانوروں سے الگ تھی۔ ان کے منہ خوفناک تھے۔ مگر یہ سب جانور میرے لیے بے ضرر ثابت ہوئے۔ ان جانوروں کے جھنڈ کے بیچ میں اپنے طور پر ایک اکیلا جانور تھا۔ ان واقعات کی کڑی اگر جوڑنا شروع کروں تو جنگلی جانوروں سے ہی میری کہانی بھر جائے گی — اس لیے جہاں جہاں میری ذہنی سطح اس جنگلی ماحول میں متاثر ہوئی، صرف اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ درندے اور جنگلی جانوروں سے مجھے کوئی سروکار نہیں جو ہزار رہا، مختلف صورتوں میں میرے سامنے آئے۔ کئی بار میں مرتے مرتے بچا — کئی بار ان کے موٹے موٹے ناخن اور پنجے میرے جسم کے مختلف حصے میں گھس گئے اور خون کا فوارہ میرے جسم سے ابل پڑا۔ کہتے ہیں جنگل کی جڑی بوٹیوں میں بہت شفا ہے۔ میں کئی طرح کے پیڑوں کی پتیوں کو توڑ تا اور انہیں لگا کر دیکھتا۔ جب ان سے کوئی تسلی بخش فائدہ نظر آتا تو میں اس مخصوص گھاؤ کے حصے پر پتوں کی تہہ چڑھا دیتا اور آرام سے سوجاتا کہ اب مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔
میرا جسم ہر طرح کے موسموں کو سہنے کا عادی ہو گیا تھا۔ خاص کر برسات کا موسم، میرے لیے بڑا مہنگا ثابت ہوتا۔ اس موسم میں سرچھپا نے کے لیے کوئی جگہ نہ رہ جاتی۔ میں بڑے بڑے درختوں کے سائبان کے نیچے لیٹ جاتا۔ آدم قد درختوں کا یہ لمبا سلسلہ کسی قدر مجھے بارش سے بچا لیتا تھا۔ پورا جاڑا مجھے اپنے جسم پرسہنا پڑتا۔ ویسے تو میں عادی ہو چکا تھا مگر جنگلی موسم کا جاڑا اس وقت بڑا بھیانک ہو جاتا جب ہوائیں زوروں سے چلتیں اور پورا جنگل۔ جنگلی مور کی طرح جھومنے لگتا — سرد ہوائیں جسم میں پہنچ کر طوفان اٹھا دیتیں۔ اور کپڑے کی غیر موجودگی مجھے ٹھٹھر نے پر مجبور کر دیتی۔
زندگی کا مفہوم میرے سامنے اب بھی بے معنی تھا۔ کبھی کبھی گھر کی یاد آتی۔ اور گھر سے اپنے تعلق کا شدید احساس ہوتا۔ کبھی کبھی انسانی تقاضے مجھے رونے پر مجبور کر دیتے۔ ممی پاپا کی محبت بے چین کر دیتی۔ اس جنگلی ماحول میں میرا کون تھا جو مجھے سمجھاتا۔ بجھاتا۔ میرا رونا بڑا عجیب ہوتا — یہ ایک قسم کی چیخ۔ میں نے صحیح کیا۔ میں دوزخ سے باہر نکل آیا ہوں۔
اب تک آپ نے میرے بارے میں پڑھا — میری عجیب و غریب کہانی سے گزرے۔ یہ ابتدا بچپن سے ہوئی تھی۔ جب مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں نے پریشان کرنا شروع کیا۔ گھر کی چھوٹی موٹی بات کو میں اپنے طریقے سے لیتا۔ ماں باپ کو بھائی بہن کو، کیستوریا کی جنگ میں ماری جانے والی لیڈر مایاتیا کو۔ مایاتیا کے بھیانک انجام کو۔ اور ان سب کے بارے میں میری اپنی سوچ کو۔ دراصل ان ساری سوچوں نے ہی مل کر میرے اندر زہر کے پیڑ کو گھنا کر دیا تھا۔ اور ان سب نے ایک جٹ ہو کر مجھے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر میرے سامنے وہ دن بھی آیا جب میں نے محسوس کیا کہ انسان کے وجود کی صورت کیا ہے اور جب یہ خیال میرے اندر پیدا ہوا اور انسانوں کی اصلیت میرے ذہن میں آئی تو ایک عجیب چھنا کا ہوا اور اس صفحہ ہستی پر جی رہے پرانسان سے شدید نفرت کرنے لگا۔ ماں باپ بھائی بہن جیسے مقدس رشتے سے لے کر ہرانسان میرے نزدیک گھناؤنا تھا — اور ان ساری باتوں نے میرے اندر اس طرح بے چینی پیدا کر دی تھی کہ میرے پاس صرف ایک ہی چارہ رہ گیا تھا کہ میں اس سماج کو خیرباد کہہ دوں۔ میں تب ہی جی سکتا ہوں۔ اپنے ذہن کے قید خانے سے نکل کر میں ان جوگیوں میں شامل ہو گیا اور یہ جوگی بھی بھوگی ثابت ہوئے …
ان بھوگیوں کاساتھ چھوڑ کر میں دوڑ رہا ہوں۔ عقب کی جھاڑیوں اور کھائیوں کو عبور کرتا ہوا میں پاگل پن کی حالت میں دوڑ رہا ہوں۔
تم تھک گئے ہو … تمہیں بھوک لگی ہے …
میں نے اپنے شل ہوتے ہوئے قدموں کومحسوس کیا ہے۔
اور اب میرے سامنے صرف ایک ہی سوال ہے …
اب میں کیا کروں گا۔
میرے آگے دور تک صرف تاریکی ہے۔ اندھیرا ہے۔ اور جنگل ہے …
گھنا جنگل …
اب جوگی بھی نہیں۔ یہاں دور تک انسان نہیں …
دوڑتے دوڑتے میں ٹھہر گیا ہوں …
جنگل کا خوفناک اندھیرا مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔
٭٭٭
سنو … میں کس سے بولوں
(۴۵)
وہ میرا پہلا دن تھا جب میں انسانی بستی اور پانچوں جوگیوں سے کٹ کر اکیلاسویا۔ انسانی بستی سے میرا وجود کب کا کٹ چکا تھا — مگر یہاں اس تاریک جنگل میں میر ا کون تھا۔ میں بھاگ تو ضرور آیا تھا اور شاید بھاگ نہ آتا تومر چکا ہوتا۔
اور اسی لیے میں بھاگ آیا تھا۔
وہاں پانچ انسانی وجود تھے میرے علاوہ۔ اور یہاں ایک بھی نہیں۔ یہاں اس پورے بھیانک جنگل میں تنہا ہوں۔
رات کا پچھلا پہر خوف کی دستک دے رہا ہے۔ جنگلی درخت تیز ہواؤں کے تھپیڑوں سے ہل رہے ہیں ماحول میں جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں گونج رہی ہیں۔ ایک پیڑ کے سائے تلے میں گر گیا ہوں۔
راستے میں جہاں کہیں بھی کوئی پھل یا کھانے والی چیز نظر آئی اسے توڑ کر کھا گیا۔ پیٹ بھاری بھاری تھا۔ آنکھ نیند سے بوجھل رہی تھی۔ جنگلی ہوائیں بھیانک گیت ماحول کے حوالے کر رہی تھیں۔
سورج کی کرن پھوٹی۔ میں آنکھ ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ حد نظر تک جنگلی پیڑوں کا ایک لمبا سلسلہ۔ دور دور تک صرف درختوں کی قطار۔ خاموشی اور ویرانی۔
سنو میں کس سے بولوں۔
یہاں تو بولنے والا بھی کوئی نہیں۔ … میں انسان ہوں … اور انسان بغیر گفتگو کے جی نہیں سکتا۔
تم میری آواز سنو گے۔
میں الف ہوں۔ میں یہاں بھٹک رہا ہوں۔ مجھے راستہ معلوم نہیں۔ میری کوئی منزل نہیں۔ میں یہاں بھٹک رہا ہوں۔
ہذیانی کیفیت میں، میں چیخ رہاں۔ میری آواز پتوں، ہواؤں اور درختوں سے ٹکرا رہی ہے۔
میری آواز جنگل میں دور گونج رہی ہے اور ٹکرا کرواپس آ جاتی ہے۔ میں کس سے بولوں … میں دوڑ رہا ہوں … دوڑتے دوڑتے ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھتا ہوں
سنو! میں انسان ہوں …
اور انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔
بغیر بولے جی نہیں سکتا۔ تم … ؟ میری آواز سنو گے … ؟ میرا ساتھ دو گے۔
میری آواز میں مجھ سے باتیں کرو …
میں دوڑ رہا ہوں … پاگلوں کی طرح — پاگلوں کے انداز میں چیخ رہا ہوں۔
ہرن کا جھنڈ مجھے دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ میں پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے جھپٹا ہوں … جھنڈ قلانچیں بھرتا ہوا بہت دور نکل گیا اور میں پاگلوں کے انداز میں اپنی نظریں چاروں طرف دوڑا رہا ہوں۔
ہوں … ہوں …
میں شاید رونا بھی بھول چکا ہوں …
میرے آنسو اندر ہی اندر پگھل رہے ہیں۔
میرے پاس ہچکیاں بھی نہیں۔ میری نظریں وحشیانہ طور پر چاروں طر گھوم رہی ہیں۔
جسم کے اندر ایک طوفان برپا ہے۔
یہاں کوئی نہیں۔ ایک آدمی نہیں۔
بڑا جوگی بھی نہیں۔
دوسرا جوگی بھی نہیں —
انورادھا —
انورادھا کا ننگا بدن … میرے جسم کے ننگے پن سے مل کر ایک بنتا ہوا … بڑے جوگی کی آوازیں … جسم شانتی کا دوسرا نام ہے …
جسم کو پا کر آدمی شانتی پا لیتا ہے۔
شانتی بھگوان کی سادھنا ہے …
شانتی پا کر آدمی بھگوان کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔
جسم … شانتی … شانتی ہے کیا؟
انورادھا کاجسم … ؟
میرا ملاپ …
سچائی کیا ہے؟
وہی گھناؤنا کھیل …
بیڈروم سے گونجنے والی خوفناک آوازیں …
آوازیں … جو بے سکون کر دیتی ہیں …
آوازیں … جو نشہ ہیں …
آوازیں … جن میں جسم کی لہریں شامل ہو جاتی ہیں …
یہ سسکیاں میرے وجود کا حصہ بھی بن چکی ہیں …
الف … الف … اپنے جسم کو دیکھو …
داڑھیوں اور بالوں سے بھرا ہوا ایک بھیانک جسم … جسم کے لٹکے ہوئے خوفناک حصے … پاؤں کے بڑھے ہوئے بال … کمر کے نیچے تک ڈولتے ہوئے سرکے بالوں کی جٹا …
یہ جسم ہے … انسانی جسم …
ہم جانور ہو گئے ہیں — ہم ہمیشہ سے جانور تھے۔
انسان اسی جسم سے محبت کرتا ہے۔ جو گھناؤنا ہے …
انسانی اسی جسم کی خاطر عورت کے جسم پر چیل کوؤں کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ جسم بھوک کا نام ہے … لیکن بھوک کیوں ہے؟ کیوں پیدا کی گئی بھوک؟
میں بھوگی ہوں …
میں … اوں … اوں … اوں …
سنو … میں کس سے بولو …
یہاں میری بات کون سمجھے گا …
میں اپنے قصے کس کو بتاؤں …
سنو … یہ میں بول رہا ہوں … میں جو انسانی بستی سے کوسوں دور آ گیا ہوں … میں … جو ایک جانور بن گیا ہوں …
جنگل میری چیخوں سے گونج رہا ہے …
میں وحشیانہ انداز میں دوڑ رہا ہوں … میری بات سنو … جنگلی ہوائیں شائیں شائیں کر رہی ہیں۔ پیڑ ڈول رہے ہیں۔ جانور اپنے جھنڈ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ اور میں تیز تیز جنگل جنگل دوڑ رہا ہوں۔
میری چیخ دور تک گونج رہی ہے۔ ان جانوروں کے ساتھ کئی جانور ہیں۔ کوئی آدمی نہیں۔ میں انسانوں کی بستی چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے اپنے بھوگی جوگیوں کو چھوڑ دیا ہے۔ انورادھا کے ننگے جسم کی بھوک سے دور نکل آیا ہوں۔
جسم بھوک مانگتی ہے۔
بھوک ہی سچ ہے۔
مگر بھوک ہے کیا؟
میرا سارا جسم جل رہا ہے۔
نظروں کے آگے میں انورادھا کے ساتھ وہی کھیل دہرا رہا ہوں۔ پاگل کتے کی طرح میں اس کے جسم کے مختلف اعضا پر اپنے دانت گڑا رہا ہوں۔ انورادھا کے منہ سے عجیب بھینچی بھینچی چیخیں نکل رہی ہیں۔ عجیب عجیب آہیں اور سسکیاں وہ چھوڑ رہی ہے۔ وہ چھٹپٹا رہی ہے میں اسے اپنے جسم سے دبا رہا ہوں — وہ میرے جسم کے نیچے دبی ہوئی ہے۔
دونوں کے ننگے جسم مل گئے ہیں۔
انورادھا …
میں دوبارہ چلاتا ہوں …
میری آواز سنو …
میں کس سے بولوں …
یہاں میری کوئی نہیں سنتا۔
اور میری بھیانک رونے چیخنے کی آواز دور تک جنگلوں میں پھیل جاتی ہے۔
٭٭٭
جانور بھی وہی حرکتیں کرتے ہیں
(۴۶)
الف! تمہیں لکھنا آتا ہے؟
کیا تمہیں پڑھنا آتا ہے؟
تم تو پڑھائی اور لکھائی پر جان چھڑکتے تھے۔ تمہیں تو پڑھنے سے بہت محبت تھی۔ اب کیا تمہیں تمہاری کتابیں یاد نہیں آتیں۔ ممی ڈیڈی اور لزی یاد نہیں آتی۔ ؟
سنو!تم نے صرف جسم دیکھا ہے — جسم کومحسوس کیا ہے۔
جسم کیا ہے؟
یہ داڑھی اور بالوں والا جسم۔ کیا صرف یہی سچائی ہے۔
اور وہ ماں باپ جو تمہارا برتھ ڈے مناتے تھے۔ تم پر جان دیتے تھے۔ تمہاری ذرا سی بیماری پر پریشان ہو جاتے تھے۔ رو دیتے تھے۔ ان کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ؟
الف!تم نے اپنے ماں باپ میں بھی صرف جسم کو تلاش کیا۔
محبت کو نہیں۔
محبت کیا ہے؟
محبت … ایک ضروری انسانی تقاضہ … لیکن تم تو محبت کے غلط مفہوم نکال رہے تھے …
محبت جسموں کا ملاپ ہے۔
اور جسم گندہ ہے۔ بدصورت ہے۔
یہاں کوئی نہیں۔
یہ پورا جنگل جانوروں، درختوں اور ان کی چیخوں سے بھرا ہے۔ یہاں صرف خوف کی حکومت ہے۔ ویرانی ہے۔ تنہائی ہے۔ یہاں وہ سب کچھ نہیں۔ جس کی تم خواہش رکھتے تھے۔
الف! کیا تمہیں لکھنا یاد ہے …
لفظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
میری فولادی بانہوں میں کپکپی سرایت کر گئی تھی۔ میرا پتھروں جیسا جسم کانپ رہا ہے۔
کیا مجھے لکھنا نہیں آتا۔
کیا میں لکھنا بھول چکا ہوں۔
نہیں …
میری ہذیانی آواز دوبارہ آسمان میں گونجنے لگتی ہے۔ جنگلوں میں جانے کتنے برسوں سے بھٹک رہا ہوں۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ جان پہچان والوں کی تصویر بھی ذہن سے غائب ہو رہی ہے۔ یہاں جانوروں کے بیچ بالکل جانور ہو گیا ہوں۔ مگر میں لکھنا نہیں بھول سکتا۔ مجھے لکھنا عزیز تھا۔ مجھے پڑھائی عزیز تھی۔ الف! یہاں زندگی نہیں۔
سچائی وہی ہے۔
نہیں۔ میری آواز پھر گونجی — کیا میں سچائی کو جانے بغیر غلط سمت نکل آیا؟
میں دوڑ رہا ہوں … دور تک لٹکتے بانسوں کی قطاریں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک بانس میں توڑ لیتا ہوں۔
بانس توڑنے کے بعد میں زمین پر بیٹھ گیا ہوں۔ یہ بانس قلم کا کام دے گی۔ میں لکھ سکتا ہوں۔ آس پاس کی زمین کی گھاس سخت ہے۔ انہیں اکھاڑنے اور صاف کرنے میں گھنٹہ گزر گیا ہے۔ اور جب وہاں کی گھاس صاف ہو گئی اور دور تک صاف نظر آنے لگی تو کچھ پل کے لیے میرے اندر دوبارہ بے چینی پیدا ہو گئی۔
بانس کا قلم بنا کر زمین پر لکیریں کھینچنے لگتا ہوں۔
میں الف ہوں۔
میں یہاں بھٹک رہا ہوں۔
یہاں کوئی آدم زاد نہیں۔ بس صرف اکیلا میں ہوں۔
میں یہاں اس لیے آیا کہ مجھے تم لوگوں سے نفرت تھی۔
مجھے تم لوگوں سے آج بھی نفرت ہے۔
اگر تم کبھی اس طرف آؤ تو یہ لکھا ہوا ضرور پڑھنا۔ میں تم میں سے ہی تھا مگر میں تم سے نفرت کرتا رہا۔ کیونکہ تم گھناؤنے ہو۔ گندے ہو۔ جیسے میرے ماں باپ تھے۔ جنہوں مجھے پیدا کیا۔
تم جان لو۔ بڑے ہو کر تم بھی وہی گھناؤنی حرکتیں کرو گے۔ اور پھر ایک دن جب تم اپنے بارے میں گہرائی سے سوچوگے تو تم کبھی خود کو معاف نہ کرسکو گے۔
دیکھو۔ میں یہاں بھٹک رہا ہوں۔
میں تمہارے پاس جانا بھی نہیں چاہتا۔
اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تمہارے پاس جانے کا راستہ کہاں ہے۔ میں کدھر سے آیا۔ کیسے آیا — مجھے یہ بھی نہیں معلوم۔
سنو۔ میری بات غور سے سنو۔
تم لوگوں سے کٹ کر میں ایک جانور ہو گیا ہوں۔
میرے جسم پر بھالو کی طرح بڑے بڑے بال اگ آئے ہیں۔ اور اگر تم مجھے دیکھ لو گے تو ڈر جاؤ گے۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ایک بھیانک جانور دکھنے لگا ہوں۔
سنو۔ جسم کی سچائی یہی ہے۔
تم سماج میں رہ کر آدمی رہتے ہو۔
اور سماج سے باہر ہو کر تمہارا جسم ایک جانور بن جاتا ہے۔
میں بھی جانور کی طرح اس جنگل میں بھٹک رہا ہوں۔
کبھی کندمول کھاتا ہوں۔ کبھی کوئی جنگلی پھل۔
اور کبھی کوئی زہریلی چیز کھا کر بے ہوش پڑا رہتا ہوں۔ یہاں کے جنگلی پھل بھی عجیب ہیں۔ جنگلی جانور بھی۔
اور یہ جنگلی جانور مجھے پھر اپنی ذات کا ایک اکیلا جانور سمجھنے لگے ہیں۔ اور سنو جب تمہارا گزر اس طرف سے ہو اور تم میری عبارت پڑھ سکو تو مجھے کھوجنا ضرور۔
جانوروں کے بھیس میں مجھے پہچاننے کی کوشش ضرور کرنا۔ کیونکہ میں تمہاری ہی طرح ایک آدمی ہوں۔
اور اسی جنگل میں کسی جگہ تمہیں میری لاش مل جائے گی۔ کیونکہ کیا پتہ کب میں کسی جنگلی جانور کی خوراک بن جاؤں یا پھر یہ جنگلی موسم ہی مجھے نگل لے۔
تم میری تلاش ضرور کرنا اور لوگوں کو بتانا۔
اور تم ان لوگوں میں بھی مجھے تلاش کرنا۔
ان کے دلوں میں جھانکنا۔ شاید کسی دل میں بھی میرے خیال کی موجودگی ہو۔ اور میری طرح چپ چاپ اسے جنگل میں بھٹکنے کے لیے مت چھوڑ دینا۔
اور جب تم یہاں سے میری لاش لے جانا تو اس پر کوئی کپڑا نہیں ڈھانپنا۔ دیکھو۔ میں ننگا ہی پیدا ہوا تھا اور ننگا ہی مرا۔ جب اصلیت یہی ہے تو پھر اسے چھپانا کیوں کر۔
اب میں نے جانا کہ پیدائش کے بعد بچے کے بدن پر کپڑا کیوں ڈال دیا جاتا ہے۔ کپڑے کی ایجاد کیوں ہوئی۔ کیونکہ انسانی جسم کا تصور ہی خوفناک ہے۔
تم میری مثال میرے ننگ دھڑنگ مردہ جسم کے ساتھ ہی دنیا کے سامنے رکھنا اور اسے پڑھا دینا۔
یہ میں لکھ رہا ہوں۔
میرا نام الف ہے۔ جو دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں موت کے حوالہ ہو گیا۔
اچھا۔ الوداع۔
بانس کے قلم سے زمین اتنا کچھ لکھ لینے کے بعد میں نے کئی بار اسے غور سے پڑھا۔ اور خوشی کا احساس ہوا۔ میں لکھنا نہیں بھولا۔ میں اب بھی لکھ سکتا ہوں۔ آدمیوں کے درمیان سے کٹے ہوئے سالہا سال گزر گئے۔ مگر میں اب تک لکھنا نہیں بھولا ہوں۔ مجھے سب کچھ یاد ہے۔
ہا … ہا … ہا … ہا …
میں پاگلوں کی طرح قہقہے بکھیرنے لگتا ہوں۔ میرے قہقہے سے برگد کے پیڑ پر بیٹھے ہوئے طیور اڑ گئے ہیں۔ ان کے چہچہانے کی تیز آواز میرے کانوں میں آ رہی ہے۔
ہا … ہا … ہا …
میں نے دوبارہ قہقہہ لگایا۔
انسانو! میرے جسم کو دیکھو۔ اور سبق لو۔ یہ بالوں سے بھرا ہوا جسم۔ یہ داڑھی میں چھپا ہوا چہرہ۔ دراصل یہی تمہاری ننگی سچائی ہے جسے تم آج تک کپڑوں میں ڈھانپتے رہے ہو۔
بھگوان کے واسطے خطرناک کھیل بند کرو۔ اپنی نسل کو بچاؤ۔ کل جب میری طرح میرے بعد آنے والی نسل یہ سوچنا شروع کر دے گی تو تم سے نفرت کرنے والے لوگوں کی باڑھ آ جائے گی۔ اس لیے میں اب بھی تم سے کہتا ہوں۔ یہ نفرت آمیز کھیل بند کرو۔
جسم۔ نفرت …
ممی … ڈیڈ … راجن … منی … سونیادی … پورا گھر … سب کے سب گندے … ماسٹرجی … لزی … اس کے ممی ڈیڈی …
جوگی … انورادھا …
انورادھا … اور میں …
میں …
الف … اس ناپاک کھیل میں تم نے بھی حصہ لیا ہے۔ تم جوان چیزوں سے بھاگتے رہے رہو۔
میرے اندر ایک بجلی چمکی ہے۔
شریانوں میں گرم گرم خون دوڑ رہا ہے۔
نس نس میں جیسے تیزاب بھر دیا گیا ہو۔
سانسوں میں عجیب سی ہلچل مچ گئی ہے۔
جسم آگ کی گرم بھٹی کی طرح تپ رہا ہے۔
یہ کیسی آگ ہے۔
میں کیوں جل رہا ہوں۔
یہ انورادھا کا نام میرے اندر کیسی آگ بھر دیتا ہے۔
انورادھا کا ننگا جسم میری نظروں کے آگے منڈلا رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ اپنی بانہیں پھیلا کے مجھے بلا رہی ہے۔ اس کے سینے کے گوشت کے لوتھڑے نے میرے اندر کی کراہیت کو نگل لیا ہے۔ میں آگے بڑھ رہا ہوں۔
میں اس پر ٹوٹ پڑا ہوں۔
چیل کوؤں کی چھینا جھپٹی والا کھیل شروع ہو گیا ہے۔
میری نسیں چٹخ رہی ہیں — اندر ایک بڑی بھیانک جنگ شروع ہو گئی ہے۔ روشن اسکرین تیزی سے جلتا اور بجھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اور اس روشن اسکرین میں لاکھوں بے لباس خاکے تھرک رہے ہیں۔ اور وہی عریاں فحش ناچ ایک بار پھر سے شروع ہو گیا ہے۔
یہ ناچ بند کرو۔
میں اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں۔ سرکوزوروں سے تھام لیتا ہوں آنکھیں موند لیتا ہوں۔
اور پھر دوبارہ آنکھیں کھولتا ہوں۔
آنکھ آہستہ آہستہ کھل رہی ہے۔ روشن اسکرین بجھ گیا ہے اور پھر غائب ہو گیا ہے۔ میرے حواس دوبارہ بحال ہو رہے ہیں اور دفعتاً میری نگاہ جھاڑی میں ٹک جاتی ہے۔
جھاڑی میں ایک بلی جیسا جانور تھا۔ جس کے پاؤں بہت چھوٹے اور موٹے تھے۔ جس کی ساخت بلی جیسی تھی۔ جس کا منہ بہت زیادہ پھولا ہوا تھا۔ ان میں ایک نر تھا دوسری مادہ۔ اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہی گھنونا عمل دہرا رہے تھے۔
اچانک میری آنکھیں پاگلوں کی طرح اسے گھورنے لگیں اور میں ایک ٹک اس منظر کو دیکھنے لگا۔ یہ کھیل میرے لیے بظاہر نیا تھا۔
اور اب میں پاگلوں کے انداز میں اس عجیب و غریب کھیل کی جانب دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭
سچ کیا ہے … ؟
(۴۷)
یہ سب کچھ وہی تھا جو میں نے انورادھا کے ساتھ کیا تھا اور ڈیڈی نے ممی کے ساتھ — فرق صرف جسمانی ساخت کا تھا۔ ہم انسان تھے اور وہ جانور — اس جانور کا منہ ضرورت سے زیادہ پھولا ہوا تھا۔ یہ بلی کے برابر تھا اور اس سے زیادہ چوکنا۔ اس کا کان خرگوش کی طرح تھا۔ ذراسی بھی آہٹ ملتے ہی وہ فورا پھدک کر وہاں سے بھاگ جاتا۔ اس کا منہ پھولا ہوا تھا — اپنی کم علمی کی وجہ سے میں نے اس کا نام گیلی سویا رکھ دیا تھا۔ کیونکہ اس کا نام مجھے معلوم نہیں تھا۔ جھاڑی میں نر اور مادہ گیلوسیا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہی جنسی عمل دہرا رہے تھے۔
نر کبھی کالے کے جسم پر چڑھ کر کھڑا ہو جا تا اور کبھی اس کے جسم کو اپنے چھوٹے مگر موٹے پیروں کی مدد سے داب دیتا — مادہ اس کھیل سے لطف لے رہی تھی۔ انورادھا کی طرح اس کے جسم سے بھی کپکپی حرارت کا احساس ہو رہا تھا۔ اور کبھی اس عمل کے دوران دونوں زمین پر لوٹنے لگتے تھے۔
میری نظریں دوبارہ اس منظر کی جانب مرکوز ہو گئی تھیں۔ اور بار بار انورادھا کے ساتھ گزرا ہوا وہ لمحہ مجھے یاد آ رہا تھا۔ اور ذہن پر بار بار یہی الفاظ حرکت کر رہے تھے …
الف … دیکھا … جانور بھی یہی کرتے ہیں۔
پھر انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق ہے۔
جانوروں کی نسل بھی اسی طرح بڑھتی ہے۔ اس گندے عمل کے تحت وہ بھی وجود میں آتے ہیں۔
یہ سب فطری قانون کے تحت ہوتا ہے۔ سچ پوچھو تو یہ فطری قانون ہی گندہ ہے۔ بھگوان کو چاہئے تھا کہ اگرانسان کو پیدا ہی کرنا تھا تو اس کے لیے کسی اور عمل کو رکھا ہوتا۔ پیدائش کا یہ عمل جتنا گندہ اور گھناؤنا ہے اتنا ہی لوگوں کے اندر اس عمل کو دہرانے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ دیکھو الف … یہ گیلو سیا بھی وہی حرکت کر رہے ہیں۔
ذہن چیخ رہا ہے۔
دیکھو اب دونوں سرد پڑ چکے ہیں۔ بالکل ٹھنڈے …
جیسے اس کھیل کے بعد ممی ڈیڈی ہو جاتے تھے۔
جیسے تم ہو جاتے تھے۔
ویسے یہ جانور بھی بالکل ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
مگر! ذہن پر ایک سوال تھرا رہا تھا۔
جسم اگر گھناؤنا ہے تو پھر یہ بات ہرانسان کو ماننی چاہئے۔
پھر ہرانسا ن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جسم سے نفرت کرے۔
جوگیوں کے بھوگ کی مثال سامنے تھی۔
وہ بھی دنیا داری کے آگے جھک گئے تھے۔ اور انورادھا کا ننگا جسم بھوک بن گیا۔
اور وہ اس بھوک میں شانتی تلاش کرنے لگے۔
کیا ان جوگیوں کا کہنا صحیح تھا۔
کیا ان لوگوں نے صحیح میں انورادھا کے جسم میں شانتی تلاش کر لی تھی۔ ؟
کیا انورادھا کو ساتھ رکھنے کا مقصد شانتی تھا۔
اور یہ شانتی جسم کی شانتی تھی … ؟
تصویریں تیزی سے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔ انورادھا کے جسم پر سانپ تیر رہے تھے۔ میرا جسم سیب کا درخت بن گیا تھا۔ ایک لوہے کی سلیپچی تھی جو ہوا میں اڑ رہی تھی۔ ایک کنواں تھا جہاں ننگے جسم مشینی روبوٹ بن گئے تھے۔ اور ان سب سے الگ ہم دونوں تھے … انورادھا کے جسم کا سانپ، سیب کے درخت کے ارد گرد رقص کر رہا تھا …
میں آنکھیں بند کیے یہ تماشہ دیکھنے پر مجبور تھا۔
٭٭٭
میری آواز گھٹ رہی ہے
(۴۸)
سورج آہستہ آہستہ مشرق کی اوٹ سے سرنکال رہا ہے۔ جنگلی جانوروں کی چیخوں سے جنگل گونج رہا ہے۔ دھوپ کی شعاعیں میری آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ نہ جانے رات کب نیند آئی اور کب سویا۔ میرے چاروں طرف گھاس اُگی ہوئی ہے۔ اور ان گھاسوں اور جنگلی پیڑوں کے بیچ میں پڑا ہوا ہوں۔
شجر ڈولنے لگے ہیں اور ہوا کے گیت جنگلی ماحول میں گونج رہے ہیں۔
جھاڑی کے پاس اب بھی نر اور مادہ گیلوسیا پھدک رہے ہیں۔ میرا جسم مجھے بھاری لگ رہا ہے۔ گیلوسیا کو دیکھ کر مجھے سب کچھ یاد آ گیا ہے۔
مجھے اپنے اسکول کی یاد آ رہی ہے۔ اور اس دن جب میں اپنے اسکول سے چھٹی کی گھنٹی لگنے کے بعد گھر لو ٹ رہا تھا تو اچانک رک گیا تھا۔
سامنے بہت سے لڑکے مجمع لگائے ٹھہاکے لگا رہے تھے۔ ہنس رہے تھے اور ان کے درمیان نر اور مادہ کتے کے پلے ایک دوسرے کے ساتھ وہی کھیل دہرا رہے تھے۔ وہی کھیل میں جس سے شدید طور پر نفرت کرتا تھا اور دوسرے ہی لمحہ جذبات سارے باندھ کر توڑ کر بہہ گیا تھا — میں اپنی کیفیت دبا نہ سکا اور پاس میں پڑا ہوا پتھر اٹھا کر زور سے اس کتے کی طرف اچھا دیا تھا۔
سب ایک ہی واقعے کی کڑی لگ رہے تھے۔
اور پھر جیسے ذہن میں دھماکے گونجنے لگے تھے۔ اور جیسے کوئی مجھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
سنو الف … جسم کی بھوک کو جسم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
جسم کی بھوک میں ہی شانتی چھپی ہے۔
جسم کے بھوک کی تعریف مختلف ہے۔
اور پھر میں نے سماجی پابندیوں کومحسوس کیا۔ شادی بیاہ اور دوسرے مسائل میرے سامنے کھلتے گئے۔ شادی کیوں ہوتی ہے؟ نوجوانوں پر ذمہ داری کا بوجھ کیوں ڈال دیا جاتا ہے۔
لڑکا اور لڑکی کے جوان ہوتے ہی ان کے سامنے پہلا مسئلہ شادی بیاہ کا کیوں آتا ہے؟
کیوں کہ سماج جسم اور بھوک کے مسئلے سے اچھی طرح واقف ہے۔
اور یہ بھوک جائز ہے۔
اور یہ بھوک ضروری ہے۔
سماج اس شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ رسم و رواج کے بعد لڑکے اور لڑکی ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں۔ یہ سماجی بندھن ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اور یہ سماجی بندھن سماج میں جینے والے ہر آدمی کے لیے ضروری ہے۔
میرے ذہن کی گانٹھیں یکے بعد دیگرے کھل رہی تھیں۔ بچپن سے لے کر آج تک کے واقعات نگاہوں کے آگے گزر رہے تھے۔
ممی اور ڈیڈی کا وہ کھیل۔
ممی اور ڈیڈی محض سماجی بندھن کی پیروی کر رہے تھے۔
راجن اور منی ؟
ان کی بھوک کو سمجھ کر انہیں ازدواجی بندھن میں قید کیا گیا۔ کیونکہ جسم کی بھوک سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کھانے پینے اور مکان کی ضرورتوں کی طرح ایک ضرورت جسم کی بھی ہوتی ہے۔
ہم کھائے بغیر بھی جی نہیں سکتے۔
ہم پانی کے بغیر بھی جی نہیں سکتے۔
مکان کے بغیر ہماری حالت خانہ بدوشوں کی طرح ہو جاتی ہے — اپنی ضرورتوں کی طرح جسم کی بھی ایک ضرورت ہوتی ہے اور وہ ضرورت ہے بھوک۔ جس کے لیے مرد اور عورت بنائے گئے۔
الف … تم اسی بھوک سے بھاگ رہے تھے۔
الف۔ کیا تم بغیر کھائے جی سکتے ہو۔ ؟
بغیر پئے جی سکتے ہو؟
اسی طرح فطری قوانین سے بغاوت بھی ممکن نہیں ہے۔ لوہے کی سلیپچی ہوا میں اڑ رہی ہے۔
تم نے جسم کی بھوک کو نہیں سمجھا۔
اور اسی بھوک کے لیے کچھ اخلاقی پابندیاں لگائی گئی ہیں تاکہ انسان گمراہ نہیں ہو۔ زہریلے سانپ نے سیب کے درخت پر حملہ کر دیا ہے۔
تم سچائی سے منہ موڑتے رہے۔
سچ کو سمجھو الف … سیب ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں …
دیکھو۔ یہ جانور ہو کر بھی سچ کو سمجھتے ہیں۔
یہ کتے، گیلوسیا، یہ ہرن اور جتنے بھی جانور ہیں۔ دیکھو سب یہ فعل دہراتے ہیں۔
مگر تم پر تو گھناؤنے پن کا ایک نشہ چڑھ گیا تھا۔
اور تم سچ کو بھول چکے تھے۔
ان جوگیوں کی بات یاد ہے الف۔ ؟
بھگوان اور شانتی کی بات یاد ہے الف۔
وہ بھگوان اور شانتی کی تلاش میں آئے تھے۔ دنیا سے منہ موڑنے — مگر کیا ہوا۔ دنیا سے منہ موڑنے والا جانور ہوتا ہے۔ یا دنیا داری سے انکار ممکن نہیں۔
ان جوگیوں نے بھی اس سچ کو سمجھ لیا کہ تیاگ محض ڈھونگ ہے اور انورادھا کے ننگے جسم میں انہوں نے سچائی کو پا لیا۔ جسم کی ضرورت کومحسوس کیا۔
جسم شانتی ہے۔
درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر سیب گر رہے ہیں۔
انورادھا …
جس کے ننگے جسم کی دعوت پر تم خود کو روک نہ سکے تھے۔ کیونکہ جسم کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
میرا پوراجسم کانپ رہا ہے۔
شریانوں میں گرم خون دوڑ رہا ہے۔ مٹھیاں کبھی ڈھیلی ہوتی ہیں۔ کبھی تن جاتی ہیں — جسم کے نازک حصہ میں عجیب سی چبھن محسوس ہو رہی ہے۔ میرا سارا جسم جل رہا ہے۔
مجھے شانتی چاہئے …
میں چلارہا ہوں۔
مجھے شانتی چاہئے …
انورادھا تم کہاں ہو … ؟
میری آواز درختوں اور ہواؤں سے ٹکرا رہی ہے۔
انورادھا … تمہارا جسم گھناؤنا نہیں۔ مجھے تمہاری تلاش ہے … تم کہاں ہو۔
میرے اندر سے عجیب گھٹی ہوئی بھیانک آوازیں نکل رہی ہیں۔ نظروں میں وہ سب کچھ تیر رہا ہے۔ اور پھر اچانک میرے آگے لزی کھڑی ہو گئی ہے۔
اور میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھ پر لزی جھک رہی ہے۔ میرے جسم سے لپٹ رہی ہے۔ مجھ سے کہہ رہی ہے۔ الف … تم یہ سب کیا سوچنے لگتے ہو۔ تمہیں یہ سب نہیں سوچنا چاہئے الف … الف … تمہیں کیا ہوا ہے … الف … تم اتنے پریشان کیوں ہو … ارے، تمہارے جسم سے اتنے سارے سانپ کیوں لپٹے ہوئے ہیں۔
ا س کی آنکھوں میں محبت کی چمک ہے اور اس چمک میں شانتی ہے۔ شانتی … میں جسے چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔
میرے بغیر لزی کیسے جیتی ہو گی۔ ؟
اسے میری یاد آ رہی ہو گی۔
میرے ماں باپ زندہ بھی ہوں گے یا مر گئے ہوں گے۔
ممی … ڈیڈی … لزی …
کہاں ہو … تم سب
تم سب کہاں ہو …
مجھے بلا لو … ممی … ڈیڈی …
میں پاگلوں اور وحشیوں کے انداز میں چیخ رہا ہوں۔ میرے بال بڑھ گئے ہیں —
مجھے بلا لو …
میں آنا چاہتا ہوں … میں واپس لوٹنا چاہتا ہوں۔
میں یہاں نہیں رہ سکتا۔
پاگلوں کے انداز میں میں دوڑ رہا ہوں۔
جنگلی جانور مجھ سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں۔
دوڑتے ہوئے میری نگاہ دوبارہ خاردار جھاڑی پر جاتی ہے۔ مادہ گیلوسیا نر کو بڑے پیار سے چوم رہی ہے۔
لزی مجھ سے ایسی ہی محبت کرتی تھی۔
میری سانسیں تیز ہو گئی ہیں۔
لزی … لزی … میں آنا چاہتا ہوں لزی …
مگر اف …
میں سرپکڑ لیتا ہوں۔
یہ جنگل میری آواز کی مجبوری کیوں نہیں سمجھتا۔
یہ جنگلی جانور میری آواز کا جواب کیوں نہیں دیتے۔
اس اذیت کے بارے میں میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
اور تم بھی نہیں سوچ سکتے۔ بغیر کسی سے بولے یا باتیں کیے میں کس اذیت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔
انسان کچھ دیر کے لیے خاموش رہ سکتا ہے۔ مگر بغیر بولے نہیں جی سکتا۔ یہاں میں کس سے باتیں کروں۔ کس سے اپنی کیفیت کہوں۔ کون سنے گا۔ کون محسوس کرے گا۔
سنو … میری آواز گھٹ رہی ہے …
میں آواز کے بغیر نہیں جی سکتا۔
میری آواز سنو …
لوہے کی سلیپچی ہوا میں اڑتے اڑتے دیوار سے ٹکراتی ہے … انورادھا کے جسم کے سانپ آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے اس کے جسم سے دور نکل گئے ہیں … سیب کا درخت گم ہے۔ جنگل آباد ہے۔ خوفناک جنگل … باہر دھماکے ہو رہے ہیں …
میں پاگلوں کی طرح اس جنگل میں دوڑتا پھر رہا ہوں۔
٭٭٭
ایک لاش
(۴۹)
میرے اندر ہی اندر ایک کشمکش چل رہی تھی … ایک دنیا اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اب وہ دنیا مجھے آواز دے رہی تھی۔ میں خود سے سوال کر رہا تھا۔
تم کتنے ناسمجھ تھے الف … !
تم زندگی کی سچائی سے منہ موڑتے رہے …
مجھے یاد آیا۔ بچپن میں کہیں پڑھا تھا۔
Man is a social animal
انسان ایک سماجی جانور ہے۔ وہ سماج میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ سماج میں پروان چڑھتا ہے۔ سماج میں رہ کر ہی وہ اپنے دکھوں کو بانٹتا ہے۔ سماج میں ہی وہ اپنا سکھ تلاش کرتا ہے اور آخر کار سماج میں ہی مر جاتا ہے۔ سماج اور جو آدمی سماج میں نہیں رہتا یا سماج سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا تو وہ جانور ہوتا ہے۔ یا پھر بھگوان۔
تم سماج سے بھاگ آئے۔ تم نے سماج کے بغیر جینے کا تصور کیا۔ تم نے سماج کے سچ سے انکار کیا اور حقیقت کا تجزیہ کیے بغیر اس سے نفرت کرتے رہے۔
انسانی جسم قدرت کا ایک مکمل شاہکار ہے۔ اور اس کے شاہکار ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قدرت نے جسم کے ہر حصہ کو اپنے طور پر مکمل بنایا ہے۔ سرکی جگہ منہ ہوتا تو خراب محسوس ہوتا۔ ناک کی جگہ کان ہوتا تو بدنما لگتا یا پھر منہ پیشانی پر ہوتا اور پیشانی عین منہ کے پاس توانسان کا چہرہ کتنا بدنما نظر آتا۔ ناک محسوس کرنے کے لیے ہے۔ ناک کے ذریعہ ہم اچھے اور برے کھانوں کی تمیز کرتے ہیں۔ اور منہ ان کھانوں کو نگلتا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں۔ پیر سے چلنا ہوتا ہے۔ اسی طرح جسم کے دوسرے حصوں کی اپنی اپنی ضرورتیں ہیں۔ ہاتھ چیزوں کو پکڑتے ہیں۔
قدرت نے پیدا کر کے انسانوں کو چھوڑ دیا۔ تاکہ وہ اپنے ڈھنگ سے اچھے اور برے کو سمجھ سکیں۔ اپنے ڈھنگ سے کام کرسکیں۔ اپنے ڈھنگ سے خود کی شناخت کرسکیں۔
سب سے پہلے جب دنیا کا وجود عمل میں آیا تھا تو یہاں صرف دو حقیقتیں تھیں۔ منو اور شردھا۔ آدم اور حوا۔
منو اکیلے تھے اور شاید منو اکیلے جی بھی نہیں سکتے تھے۔ شردھا کاساتھ ہونا ضروری تھا اور پھر شردھا یعنی حوا کا وجود عمل میں آیا — منو اور شردھا نے ایک دوسرے کی ضرورتوں کوسمجھا۔ کیونکہ اکیلے اور بغیر سماج کے بھی انسان نہیں جی سکتا۔
اور پھرسماج بنتا گیا۔ نسل در نسل آدمیوں کی فوج بڑھتی گئی۔ دنیا کا وجود ہوا۔
اور یہ وہ زمانہ تھا۔ جب لوگ کپڑوں کے بغیر تھے۔ پتھروں کا زمانہ تھا۔ لوگ آدی مانو کہے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں میں سمجھنے اور سوچنے کی طاقت آئی۔ لوگ پتوں سے اپنے جسم کو ڈھکنے لگے۔ کھانے میں جائز اور ناجائز کا فرق بھی آہستہ آہستہ سمجھ میں آتا گیا۔
انسانی قوم ترقی یافتہ ہوتی گئی۔
مگر الف!
میرے سامنے ایک پوری کہانی روشن تھی۔
ایک پوری دنیا سامنے تھی۔
جس کو جانتے بوجھتے اور پڑھتے ہوئے بھی میں غلط سمت کی جانب مڑ گیا تھا۔ دراصل میں سچ سے فرار حاصل کر رہا تھا۔
اور تب سے پاگلوں کی طرح خود اپنے وجود سے کٹ کر بھاگتا رہا۔
جانور بھی سچائی کوتسلیم کرتے ہیں۔
اور تم الف …
تم اس کا اعتراف نہ کرسکے۔
تم محض ڈھونگ اور جسم کی گندگی کو لے کراس سے نفرت کرتے رہے۔ انسانی تقاضے بھول کر جنگل میں جانور بننے آ گئے۔
مگر اب میں کہاں جاؤں۔ ؟
وہ کون سی سرحد ہے۔ جہاں آدمیوں کی بو باس ملے گی۔ جہاں مجھے میرے لوگ ملیں گے۔ جن سے میں اپنی کیفیت کہہ پاؤں گا۔
میرے اندر ایک کش مکش ہے۔ ایک جنگ ہے۔ جسم کے سب سے نازک حصے میں ایک عجیب سی ہل چل ہے اور نگاہوں میں انورادھا کا ننگا جسم بے دردی کے ساتھ مچل رہا ہے۔ میری نظروں میں لزی گھوم رہی ہے۔
لزی اب کتنی بڑی ہو گی۔ ؟
لزی کا جسم اب کیسا ہو گا۔ ؟
لزی اب کافی بڑی ہو چکی ہو گی۔
اب وہ مجھے بھول چکی ہو گی۔
ہوسکتا ہے وہ بھی شادی جیسے بندھن میں بندھ گئی ہو گی۔ میری نسیں دوبارہ چٹخ رہی ہیں۔
ذہن پر روشن اسکرین دوبارہ تھرکنے لگا ہے۔ مگر وہاں بے لباس خاکوں کی جگہ اب ایک گھر کی تصویر ہے۔ ایک سماج ہے جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کام میں مشغول ہے۔
میں ان سب کو پہچان رہا ہوں۔
یہ ممی ہیں۔
یہ ڈیڈی ہیں۔
یہ راجن اور منی دی ہیں۔
یہ سونیا دی ہیں۔
اب کیسے ہوں گے … ؟
کیا اب ان سے ملاقات ہوسکے گی۔ ؟
مجھے انسانی بستی کی تلاش ہے۔ اب بھی آوازوں کی اذیت کا دکھ جھیل رہا ہوں۔
سامنے ندی ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔
اب تو میں گھٹنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ مگر کیا یہی زندگی ہے؟
پھر لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔
الف۔ تم زندگی کا مفہوم بھول کر محض بھٹکتے رہو۔ تم نے زندگی کا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔
الف۔ پہلے تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے فکر اور عقل کی سطح پر جس قدر آگے بڑھ گئے تھے، تم وقت کے حساب سے اتنا ہی پچھڑ گئے۔
دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہو گی الف۔
اور تم اب تک لاسمتی کا دکھ جھیل رہے ہو۔
اچانک میری نظریں ٹھہر گئی ہیں۔
ندی کے کنارے ایک لاش پڑی ہے۔
لاش ایک جوان عورت کی ہے۔
مردہ جسم ٹھہرے ہوئے وقت کی طرح ٹھہر گیا ہے۔
عورت کا چہرہ بہت معصوم ہے۔
جسم پانی سے پھولا ہوا لگ رہا ہے۔ بے حرکت جسم سے زندگی باہر نکل چکی ہے۔
اس کے سوکھے پاؤں کی ہڈیاں اور بے کشش جسم مردہ سا کنارے پڑا ہوا ہے۔
یہ عورت ہے — ذہن چیختا ہے۔
انورادھا کی طرح ہی یہ عورت ہے۔ ایک جوان عورت۔ میرے اندر اس عورت کے مردہ ہونے کا احساس گم ہو گیا ہے۔ اور صرف یہی احساس ہو رہا ہے کہ وہ عورت ہے …
مگر بے جان عورت …
برسوں کے بعد آج میں نے ایک عورت دیکھی۔
مگر میں اس سے بول نہیں سکتا۔
میں وحشیانہ طور پر قہقہے لگاتا ہوں۔
میں عورت سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کچھ بول نہیں سکتا۔
کیونکہ عورت مردہ ہے۔
اس کا جسم مردہ ہے۔
سنو الف۔ ہم اسی سچائی کے لیے جیتے ہیں۔ اور ایک دن جب یہ جسم مر جاتا ہے تو اس وقت ہماری بھوک بھی جسم کی سچائی سے اپنا منہ موڑ لیتی ہے۔
یہ عورت ہے۔ ذہن پر پھر وہی احساس غالب ہے۔
انورادھا اور لزی کی طرح ہی ایک جوان عورت۔
عورت کا احساس اچانک میرے اندر آگ کی بھٹی کی طرح تپنے لگتا ہے۔ میرا سارا جسم جل رہا ہے۔
جسم میں خون کا ابال آ گیا ہے۔
میری مٹھیاں بند ہو گئی ہیں۔
میری حلق میں تھوک سوکھ رہے ہیں۔
اور ایک خواہش … ایک عجیب سی خواہش میرے اندر بیدار ہوئی ہے۔ اس مری ہوئی عورت سے اپنے جسم کی جلتی ہوئی بھوک مٹانے کی خواہش — میں عجیب نظروں سے اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
میں اب بھی آگ کی طرح سلگ رہا ہوں۔
اور پھر اچانک گھٹی ہوئی آواز میں چیخ پڑتا ہوں۔
نہیں الف … یہ پاپ ہے۔
مہا پاپ — کیوں کہ اب میں سچ اور جھوٹ سمجھنے لگا ہوں۔
انسانی تقاضا میری سمجھ میں آ گیا ہے۔
مری ہوئی عورت کے ساتھ جسم کی سچائی بھی مر جاتی ہے۔
آج اس کی ضرورت ختم ہو گئی۔
جسم کے ساتھ ہی ضرورت شامل تھی۔
اور جسم کی ضرورت ختم ہو جائے تو تم اس سے رشتہ نہیں جوڑ سکتے۔
تمہیں جسم کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے اپنی بستی میں جانا پڑے گا — انسانوں کے درمیان۔
دیکھو الف!
مجھے لگا … سارا جنگل چیخ رہا ہو …
یہ عورت کہتی ہے۔ کہ اب انسانی بستی دور نہیں۔
اس عورت کی لاش اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ندی کے آگے ممکن ہے، انسانی بستی کا وجود ہو۔ وہاں، جہاں تم بول سکو گے۔ باتیں کرسکو گے۔
جانے کیا سوچ کر میں اس مردہ عورت پر جھک جاتا ہوں — اس عورت کی لاش کو کھینچ کر دوبارہ ندی میں ڈال دیتا ہوں۔
اور بہت پرانا … کوئی بہت پرانا جملہ … میرے ہونٹوں سے نکلتا ہے … رام نام ستیہ ہے … رام نام ستیہ ہے …
عورت کی لاش ندی کے سینے پرتیر رہی ہے۔
اور میں محسوس کر رہا ہوں۔ دور۔ ایک شمع جل رہی ہو۔ امید کی شمع۔
٭٭٭
میں لوٹ رہا ہوں کیا تم مجھے قبول کرو گے؟
(۵۰)
دنیا والو …
معزز انسانو!
تم نے میری کہانی سنی۔
میں لوٹنا چاہتا ہوں
میں تمہارے قریب آنا چاہتا ہوں۔
کیا تم مجھے قبول کرو گے۔
ہاں۔ یہ سچ ہے۔ میرے جسم پر بڑے بڑے، بھیانک قسم کے بال اگ آئے ہیں۔ میرا چہرہ بھی بالوں سے بھرا ہوا ہے۔ میرا پورا جسم بالوں سے بھرا ہے۔ میں ننگا ہوں۔ اور دنیا میں جینے کے طور طریقے بھول آیا ہوں …
جانوروں کے درمیان رہ کر میں ایک جانور بن گیا ہوں۔
مگر میں یہاں اکیلے جی نہیں سکتا۔
تم نے میری کہانی پڑھی — میں ایک پل بھی نہیں جی سکتا۔
میں ایک سبق ہوں تمہارے لیے۔
کیا تم مجھے قبول کرو گے۔ ؟
میں جو تمہارے درمیان سے ہٹ کر جانور بن گیا تھا۔
میں جو جسم کی سچائی کو گدلے پانی میں دیکھنے کا عادی ہو گیا تھا۔
میں جو جسم کی ضرورت اور سچائی سے انکار کرتا تھا۔
میں جو تمہارے سامنے جانوروں جیسا ننگا اور بالوں سے ڈھکا ہوا کھڑا ہوں۔ کیا تم مجھے قبول کرو گے۔
میں۔ میں تمہیں اپنی کہانی بتاؤں گا۔ تمہیں جسم کی ضرورت اور اس کی سچائی بتاؤں گا۔ اپنے بارے میں بتاؤں گا کہ میں کیسے غلط سوچ میں گرفتار ہو کر تمہارے درمیان سے بہت دور چلا گیا — میں غلط راستے اور سچائی میں لوٹنے کے متعلق تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔ اور تم سے رو رو کر کہوں گا۔ بھگوان کے لیے کبھی میری طرح مت سوچنا — جسم کی ضرورت اور سچائی کو میری طرح غلط معنوں میں لے کر گمراہ مت ہو جانا …
جسم سچائی ہے۔
اور سچائی شانتی کا مارگ —
اور اس مارگ سے پت بھرشٹ ہونے والا جانور ہو جاتا ہے۔ تم ایسا مت کرنا۔
دیکھو۔ میں لوٹنا چاہتا ہوں۔
مگراس حالت میں جبکہ میں ننگا ہوں۔ اور میں پورا پورا جانور لگ رہا ہوں۔
کیا تم مجھے قبول کرو گے۔
مجھے اپنے سماج میں جگہ دو گے۔
بولو …
بولو …
٭٭٭
ختم شد
تاریخ 26.08.1979 —
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی