FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جہاں لکشمی قید ہے

                   راجندر یادو

ترجمہ: اعجاز عبید

ذرا ٹھہریئے، یہ کہانی وشنو کی بیوی لکشمی کے بارے میں نہیں، لکشمی نام کی ایک ایسی لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنی قید سے چھوٹنا چاہتی ہے۔ ان دو ناموں میں شبہ ہونا فطری ہے جیسا کہ کچھ لمحے کے لئے گووند کو ہو گیا تھا۔

ایک دم گھبرا کر جب گووند کی آنکھیں کھلیں تو وہ پسینے سے تر تھا اور اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اسے لگا، کہیں اچانک اس کی دھڑکن بند نہ ہو جائے۔ اندھیرے میں اس نے پانچ چھ بار پلکیں جھپکائیں، پہلی بار تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کہاں ہے، کیسا ہے – جیسے زمان و مکاں کا علم اسے بالکل بھول گیا۔ پاس کے ہال کی گھڑی نے ایک کا گھنٹہ بجایا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ گھڑی کہاں ہے، وہ خود کہاں ہے اور گھنٹہ کہاں بج رہا ہے۔ پھر دھیرے  دھیرے اسے یاد آیا، اس نے زور سے اپنے گلے کا پسینہ پونچھا اور اسے لگا، اس کے دماغ میں پھر وہیں کھٹ کھٹ گونج اٹھی ہے، جو ابھی گونج رہی تھی ۔۔۔۔

پتہ نہیں، خواب میں یا سچ مچ ہی، اچانک گووند کو ایسا لگا تھا، جیسے کسی نے دروازے پر تین  چار بار کھٹ  کھٹ کی ہو اور گڑگڑا کر کہا ہو ‘مجھے نکالو، مجھے نکالو!’ اور وہ آواز کچھ ایسے پراسرار طریقے سے اس کے احساسات کو پھر اسے آہستہ  آہستہ یاد آیا کہ یہ غلط فہمی ہی تھا اور وہ لکشمی کے بارے میں سوچتا ہوا ایسا سویا کہ وہ خواب میں بھی چھائی رہی۔ لیکن اصل میں یہ آواز کیسی عجیب تھی، کیسی صاف تھی! اس نے کئی بار سنا تھا کہ فلاں مرد یا عورت سے خواب میں آ کر کوئی کہتا  ‘مجھے نکالو، مجھے نکالو۔’ پھر وہ آہستہ  آہستہ مقام کی بات بھی بتانے لگتا اور وہاں کھدوانے پر کڑھائی یا ہانڈی میں بھرے سونے  چاندی کے سکے یا خزانہ اسے ملتے اور وہ دیکھتے  دیکھتے مالا مال ہو جاتا۔ کبھی  کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی ایسے آدمی نے اس مادے کو نکلوانا چاہا تو اس میں کوڑیاں اور کوئلے نکلے یا پھر اس کے کوڑھ پھوٹ آیا یا گھر میں کوئی موت ہو گئی۔ کہیں اسی طرح، زمین کے نیچے سے اسے کوئی لکشمی تو نہیں پکار رہی ہے؟ اور وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا، اس کے دماغ میں پھر لکشمی کا قصہ مجسم ہو اٹھا۔ وہ مدہوش سا پڑا رہا ۔۔۔

دور کہیں دوسرے گھڑیال نے پھر وہی ایک گھنٹہ بجایا۔

گووند سے اب نہیں رہا گیا۔ رضائی کو چاروں طرف سے بند رکھے ہوئے ہی بڑے احتیاط سے اس نے کہنی تک ہاتھ نکالا، لیٹے  ہی  لیٹے الماری کے کھانے سے کتاب  کاپیوں کے نزدیک رکھی اس نے ادھ جلی موم بتی نکالی، وہیں کہیں سے تلاش کر کے دیاسلائی نکالی اور آدھا اٹھ کر، تاکہ جاڑے میں دوسرا ہاتھ مکمل نہ نکالنا پڑے، اس نے دو  تین بار گھس کر دیاسلائی جلائی، موم بتی روشن کی، پھر پگھلے موم کی بوند ٹپکا کراسے دوات کے ڈھکن کے اوپر جما دیا۔ دھیرے  دھیرے ہلتی روشنی میں اس نے دیکھ لیا کہ دروازے سب پورے بند ہیں، اور دروازے کے سامنے والی دیوار میں بنے، جالی لگے روشندان کے اوپر، دوسری منزل سے ہلکی  ہلکی جو روشنی آتی ہے، وہ بھی بجھ چکی ہے۔ سب کچھ کتنا پرسکون ہو چکا ہے۔ بجلی کا سوئچ اگرچہ اس کے تخت کے اوپر ہی لگا تھا، لیکن ایک تو جاڑے میں رضائی سمیت یا رضائی چھوڑ کر کھڑے ہونے کی سستی، دوسرے لالہ روپا رام کا ڈر، صبح ہی کہے گا  ‘گووند بابو، بڑی دیر تک پڑھائی ہو رہی ہے آج کل۔ ‘ جس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ بہت بجلی خرچ کرتے ہو۔

پھر اس نے چپکے سے، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو، تکیے کے نیچے سے رضائی کے اندر اندر  ہی  اندر ہاتھ بڑھا کر وہ میگزین نکال لیا اور گردن کے پاس سے ہاتھ نکال کر اس کے سینتالیسویں صفحے کو بیسویں بار کھول کر بڑی دیر گھورتا رہا۔ ایک بجے کی پٹھان کوٹ  ایکسپریس جب دہاڑتی ہوئی گزر گئی تو دفعتاً اسے ہوش آیا۔ 47 اور 48  جو صفحے اس کے سامنے کھلے تھے ان میں جگہ  جگہ نیلی سیاہی سے کچھ سطروں کے نیچے لائنیں کھینچی گئی تھیں  یہی نہیں، اس صفحے کا کونا موڑ کر انہیں لائنوں کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔ اب تک گووند ان یا ان کے آس  پاس کی سطروں کو بیس بار سے زیادہ گھور چکا تھا۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے ادھر  ادھر دیکھا اور پھر ایک بار ان لائنوں کو پڑھا۔

جتنی بار وہ انہیں پڑھتا، اس کا دل ایک انجانے مزےسے دھڑک کر ڈوبنے لگتا اور دماغ اسی طرح بھنا اٹھتا جیسے اس وقت بھنایا تھا، جب یہ رسالہ اسے ملا تھا۔ اگرچہ اس درمیان ان کی ذہن بہت مشکل حالات سے گزر چکا تھا، پھر بھی وہ بڑی دیر تک کالی سیاہی سے چھپی کہانی کے حروف کو ٹھہری ہوئی نگاہوں سے گھورتا رہا۔  دھیرے  دھیرے اسے ایسا لگا، حروف کی یہ لائن ایک ایسی کھڑکی کی جالی ہے، جس کے پیچھے بکھرے بالوں والی ایک معصوم لڑکی کا چہرہ جھانک رہا ہے۔ اور پھر اس کے دماغ میں بچپن کی سنی کہانی اپنی شکل کے ساتھ ظاہر ہونے لگی  شکار کھیلنے میں ساتھیوں کا ساتھ چھوٹ جانے پر بھٹکتا ہوا ایک راجکمار اپنے تھکے  ماندے گھوڑے پر بالکل ویرانے میں، سمندر کے کنارے بنے ایک بڑے سنسان قلعہ کے نیچے جا پہنچا۔ وہاں اوپر کھڑکی میں اسے ایک انتہائی خوبصورت راجکماری بیٹھی دکھائی دی، جسے ایک راکشس نے لا کر وہاں قید کر دیا تھا ۔۔۔ چھوٹی سے  چھوٹی تفصیلات کے ساتھ کھڑکی میں بیٹھی شہزادی کی تصویر گووند کی آنکھوں کے آگے واضح اور ٹھوس ہوتی گئی۔ اور اسے لگا، جیسے وہی راجکماری ان ، چھپی لائنوں کے پیچھے سے جھانک رہی ہے  اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں سوکھ گئی ہیں، اس کے ہونٹ پپڑا گئے ہیں ۔۔۔ چہرہ مرجھا گیا ہے اور ریشمی بال مکڑی کے جالے جیسے لگتے ہیں  جیسے اس کے پورے جسم سے ایک آواز نکلتی ہے  ‘مجھے چھڑاؤ، مجھے چھڑاؤ!’

گووند کے ذہن میں اس نامعلوم راجکماری کو چھڑانے کے لئے جیسے رہ  رہ کر کوئی کریدنے لگا۔ ایک  آدھ بار تو اس کی بڑی شدید خواہش ہوئی کہ اپنے اندر رہ  رہ کر کچھ کرنے کی حوصلہ افزائی کو وہ اپنے تخت اور الماری کی دیوار کے درمیان میں بچی دو فٹ چوڑی گلی میں گھس  گھس کر دور کر دے۔

تو کیا واقعی لکشمی نے یہ سب اسی کے لئے لکھا ہے؟ لیکن اس نے تو لکشمی کو دیکھا تک نہیں! اگر آپ کے تخیل میں کسی جوان لڑکی کا چہرہ لائے بھی تو وہ آخر کیسی ہو؟ ۔۔۔ کچھ اور بھی باتیں تھیں کہ وہ لکشمی کے طور پر ایک خوبصورت لڑکی کے چہرے کا تصور کرتے ڈرتا تھا  اس کی ٹھیک شکل صورت اور عمر بھی نہیں معلوم اسے ۔۔۔

گووند یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ سب اسی کے لئے لکھا گیا ہے، یہ لائنیں کھینچ کر اسی کا دھیان اپنی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ پھر بھی وہ اس غیر متوقع بات پر یقین نہیں کر پاتا تھا۔ وہ اپنے کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی لڑکی اس طرح اسے اشارہ کرے گی۔ یوں شہروں کے بارے میں اس نے بہت کافی سن رکھا تھا، لیکن یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ گاؤں میں انٹرویو پاس کرتے ہوئے شہر آنے کے ایک ہفتے میں ہی اس کے سامنے ایک ’خوش قسمت ‘ بات آ جائے گی ۔۔۔

وہ جب  جب ان سطروں کو پڑھتا تب  تب اس کا سر اس طرح چکرانے لگتا، جیسے کسی دس منزلہ مکان سے نیچے جھانک رہا ہو۔ جب اس نے پہلے  پہل یہ لائنیں دیکھی تھیں تو اس طرح اچھل پڑا تھا، جیسے ہاتھ میں انگارہ آ گیا ہو!

بات یہ ہوئی کہ وہ چکی والے ہال میں اینٹوں کے تخت جیسے بنے چبوترے پر بڑی پرانی کاٹھ کی صندوق کے اوپر لمبا  پتلا رجسٹر کھولے دن  بھر کا حساب ملا رہا تھا، تبھی لالہ روپا رام کا سب سے چھوٹا، نو  دس سال کا لڑکا رام سوروپ اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ لڑکا ایک پھٹے  پرانے سے چیسٹر کی، جو واضح طور پرکسی بڑے بھائی کے چیسٹر کو کٹوا کر بنایا گیا ہوگا، جیبوں میں دونوں ہاتھوں کو ٹھونسے پاس کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔

گووند جب پہلے ہی دن آیا تھا اور حساب کر رہا تھا، تبھی یہ لڑکا بھی آ کھڑا ہوا تھا۔ اس دن لالہ روپا رام بھی تھے، اس لئے صرف یہ دکھانے کو کہ وہ ان کے صاحبزادے میں بھی کافی دلچسپی رکھتا ہے، اس سے اصولوں کے مطابق نام، عمر اور اسکول  کلاس وغیرہ پوچھے تھے، نام رام سوروپ، عمر نو سال، چنگی  پرائمری اسکول میں چوتھے کلاس میں پڑھتا تھا۔ پھر تو صبح  شام گووند اسے چیسٹر کے سائے ہی جاننے لگا، شکل دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔ چیسٹر کے نیچے نیکر پہنے ہونے کے کارن اس کی پتلی ٹانگیں کھلی رہتی اور وہ پاؤں میں بڑے  پرانے کرمچ کے جوتے پہنے رہتا، جن کی پھٹی  نکلی زبانوں کو دیکھ کر اسے ہمیشہ دم  کٹے کتے کی پونچھ کی یاد آ جاتی تھی۔

تھوڑی دیر اس کا لکھنا تاکتے رہ کر لڑکے نے چیسٹر کے بٹن کے کساؤ اور سینے کے درمیان میں رکھا رسالہ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور بولا، ‘منشی جی، لکشمی بہن نے کہا ہے، ہمیں کچھ اور پڑھنے کو دیجئے۔’

‘اچھا، کل دیں گے ۔۔۔’ من  ہی  من بھنا کراس نے کہا۔

یہاں آ کر اسے جو ‘منشی جی’ کا نیا خطاب ملا ہے، اسے سن کر اس کی روح خاک ہو جاتی۔ ‘منشی’ نام کے ساتھ جو ایک کان پر قلم لگائے، گول  میلی ٹوپی، پرانا کوٹ پہنے، مڑے  تڑے آدمی کی تصویر سامنے آتی ہے  اسے بیس  بائیس سال کا نوجوان گووند سنبھال نہیں پاتا۔

لالہ روپا رام اسی گاؤں کے ہیں  شاید اس کے والد کے ساتھ دو  تین جماعت پڑھے بھی تھے۔ شہر آتے ہی خود کفیل ہو کر پڑھائی چلا سکنے کے لئے کسی ٹیوشن وغیرہ یا چھوٹے پارٹ  ٹائم کام کے لئے لالہ روپا رام سے بھی وہ ملا تو انہوں نے انتہائی جوش و خروش سے اس کے مردہ باپ کو یاد کر کے کہا  ‘بھیا، آپ تو اپنے ہی بچے ہو، ذرا ہماری چکی کا حساب  کتاب گھنٹے  آدھ گھنٹے دیکھ لیا کرو اور مزے میں چکی کے پاس جو کوٹھری ہے، اس میں پڑے رہو، اپنے پڑھو۔ آٹے کی یہاں تو کمی ہے ہی نہیں۔ اور انتہائی تشکر سے پروہ ان کی کوٹھری میں آ گیا، پہلی رات حساب لکھنے کا انداز سمجھتے ہوئے لالہ روپا رام، موتیا بند والے چشمے کے موٹے  موٹے شیشوں کے پیچھے سے دیکھتی آنکھوں اور موٹے ہونٹوں سے مسکراتے، اس کا احترام بڑھانے کو ‘منشی جی’ کہہ بیٹھے تو وہ چونک پڑا۔ لیکن اس نے تہیہ کر لیا کہ یہاں جم جانے کے بعد وہ عاجزی سے اس لفظ کی مخالفت کرے گا۔ رام سوروپ سے ‘منشی جی’ نام سن کر اس کی بھوئیں تن گئیں، اس لئے اس نے نظر انداز کرتے ہوئےسے وہ جواب دیا تھا۔

‘کل ضرور دیجیئے گا۔ ” رام سوروپ نے پھر درخواست کی۔

‘جی ہاں بھائی، ضرور دیں گے۔’ اس نے دانت پیس کر کہا، لیکن چپ ہی رہا۔ وہ اکثر لکشمی کا نام سنتا تھا۔ حالانکہ اس کی کوٹھری بالکل سڑک کی طرف الگ ہی پڑتی تھی، لیکن اس میں پیچھے کی طرف جو ایک جالی دار چھوٹا  سا روشندان تھا، وہ گھر کے اندر اندر نیچے کی منزل کے چوک میں کھلتا تھا۔ لالہ روپا رام کا خاندان اوپر کی منزل پر رہتا تھا اور نیچے سامنے کی طرف پن چکی تھی، پیچھے کئی طرح کی چیزوں کا سٹور  روم تھا۔ یہ ‘لکشمی’ نام کے لئےاس کی دلچسپی بھی ہے کہ چاہے کوٹھری میں ہو یا باہر، پن چکی کے ہال میں، ہر پانچویں منٹ پر اس کا نام مختلف شکلوں میں سنائی دیتا تھا  ‘لکشمی بی بی نے یہ کہا ہے’،  ‘روپے لکشمی بی بی کے پاس ہے’، ‘چابی لکشمی بی بی کو دے دینا۔’ اور اس کے جواب میں جو ایک پتلی سخت  سی مالکانہ انداز کی آواز سنائی دیتی تھی، لیکن خود وہ کیسی ہے؟ اس کی بس ایک جھلک  دیکھ پانے کو اس کا دل کبھی  کبھی بری طرح تڑپ  سا اٹھتا۔ لیکن پہلے کچھ دنوں اسے اپنا اثر جمانا تھا، اس لئے وہ آنکھ اٹھا کر بھی اندر اندر دیکھنے کی کوشش نہ کرتا۔ من  ہی  من اس نے سمجھ لیا کہ یہی لکشمی ہے، اور کافی اہم ہے ۔۔۔ دقت یہ تھی کہ اندر کچھ دکھائی بھی تو نہیں دیتا تھا۔ سڑک کے کنارے تین  چار دروازے والے اس چکی کے ہال کے بعد ایک آٹھ  دس فٹ لمبی گلی تھی اور چوک کے اوپر لوہے کا جال پڑا تھا، اس پر سے اوپر والے لوگ جب گزرتے تھے تو لوہے کی جھنجھناہٹ سے پہلے تو اس کا خیال ہر بار ادھر چلا جاتا تھا۔ بچے تو کبھی  کبھی اور بھی اچھل  اچھل کر اس پر کودنے لگتے تھے۔ یہاں سے جب تک کسی بہانے پوری گلی پار نہ کی جائے، کچھ بھی دیکھنا ناممکن تھا۔ چونکہ غسل خانہ اور نل وغیرہ اسی چوک میں تھے، جن کی وجہ سے نیچے اکثر سیلن اور گیلا پن رہتا تھا، اس لئے صبح چوک میں جاتے ہوئے انتہائی سیدھے لڑکے کی طرح نگاہیں نیچی کئے ہوئے بھی وہ اوپر کی پوزیشن کو بھانپنے کی کوشش کرتا تھا۔ اوپر سر اٹھا کر آنکھ  بھر کر دیکھ لینے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ اپنی کوٹھری کا واحد دروازہ بند کر کے، تخت پر چڑھ کر مکڑی کے جالے اور دھول سے بھرے جالی دار روشندان سے جھانک کر اس نے وہاں کی صورتحال کو بھی جاننے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ کم بخت جالی کچھ اس طریقے سے بنی تھی کہ اس کے ‘فوکس’ میں مکمل سامنے والا چھجا اور ایک آدھ فٹ لوہے کا جال ہی آتا تھا۔ کئی بار اسے لگا، جیسے دو چھوٹے  چھوٹے تلوے گزرے ۔۔۔ بہت کوشش کرنے پر ٹخنے نظر آئے۔۔۔جی ہاں، ہیں تو کسی لڑکی کے پاؤں، کیونکہ ہاتھ میں ساری کا کنارہ بھی جھلکا تھا ۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور تخت سے اترتے ہوئے بڑے ادا کارانہ انداز میں سینے پر ہاتھ مارا اور بدبدایا  "ارے لکشمی ظالم، ایک جھلک تو دکھا دیتی ۔۔۔ ‘

‘منشی جی، تم تو دیکھ رہے ہو، لکھتے کیوں نہیں؟’ رام سوروپ نے جب دیکھا کہ گووند آہستہ  آہستہ ہولڈر کا پچھلا حصہ دانتوں میں ٹھوکتا ہوا حساب کی کاپی میں بنا پلک جھپکے کچھ گھور رہا ہے تو پتہ نہیں کس طرح یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ وہ جو کچھ سوچ رہا ہے، اس کا تعلق سامنے رکھے حساب سے نہیں ہے ۔۔۔

اس نے چونک کر لڑکے کی طرف دیکھا ۔۔۔ اور چوری پکڑی جانے پر جھینپ کر مسکرایا، تبھی اچانک ایک بات اس کے دماغ میں کوندی۔ یہ لکشمی رام سوروپ کی بہن ہی تو ہے۔ ضرور اس کا چہرہ اس سے کافی ملتا  جلتا ہوگا۔ اس بار اس نے توجہ سے رام سوروپ کا چہرہ دیکھا کہ وہ خوبصورت ہے یا نہیں۔ پھر اپنی بے وقوفی پر مسکرا کر ایک انگڑائی لی۔ چاروں طرف ڈھیلے ہوئے کمبل کو پھر سے چاروں طرف کس لیا اور غیر متوقع محبت سے بولا، "اچھا منا، کل صبح دے گا۔ ‘ ۔۔۔ اس کی خواہش ہوئی کہ وہ اس سے لکشمی کے بارے میں کچھ بات کریں، لیکن سامنے ہی چوکیدار اور مستری سلیم کام کر رہے تھے ۔۔۔

اصل میں آج وہ تھک بھی گیا تھا۔ اچانک مصروف ہو کر بولا اور جلدی  جلدی حساب کرنے لگا۔ دنیا  بھر کی سفارشات کے بعد اس کا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آ گیا کہ وہ منتخب لڑکوں میں سے ہے۔ آتے وقت کچھ کتاب اور کاپیاں بھی خرید لایا تھا، سو آج وہ چاہتا تھا کہ جلد  سے  جلد اپنی کوٹھری میں لیٹے اور کچھ آگے  پیچھے کی باتیں ۔۔۔ دنیا  بھر کی باتیں سوچتا ہوا سو جائے ۔۔۔ سوچے، لکشمی کون ہے ۔۔۔ کیسی ہے ۔۔۔ وہ اس کے بارے میں کس سے پوچھے؟ ۔۔۔ کوئی اس کا ہم عمر اور اعتماد کا آدمی بھی تو نہیں ہے۔ کسی سے پوچھے اور روپا رام کو پتہ چل جائے، تو؟ لیکن ابھی تیسرا ہی تو دن ہے ۔۔۔ من  ہی  من اپنے پاس رکھی میگزین اور کہانی کی کتابوں کا شمار کرتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اس بار اسے کون  سی دینی ہے

آگے جا کر جب کافی دن ہو جائیں گے تو وہ چپ چاپ اس میں ایک ایسا چھوٹا  سا خط رکھ دے گا جو کسی دوست کے نام لکھا گیا ہوگا یا اس کی زبان ایسی ہوگی کہ پکڑ میں نہ آ سکے ۔۔۔ بھول سے چلا گیا، پکڑے جانے پر وہ آسانی سے کہہ سکے گا ۔ اسے تو خیال بھی نہیں تھا کہ وہ پرچہ اس میں رکھا ہے۔ بیس جواب ہیں۔ اپنی ہوشیار بیوقوفی کے تصور پر وہ مسکرانے لگا۔

جس کے بارے میں وہ اتنا سب سوچتا ہے، وہ اسی لکشمی کے پاس سے آیا ہوا رسالہ ہے  اس نے اسے اپنے نرم ہاتھوں سے چھو جائے گا، تکیے کے نیچے، سرہانے بھی رکھا ہوگا ۔۔۔ لیٹ کر پڑھتے ہوئے تو ہو سکتا ہے، سوچتے  سوچتے چھاتی پر بھی رکھ کر سو گئی ہو ۔۔۔ لیٹ کر اس کا تن  من گدگدا اٹھا۔ کیا لکشمی اس موضوع میں بالکل ہی نہ سوچتی ہوگی؟ حساب لکھنے کی مصروفیت میں بھی اس نے گردن موڑ کر ایک ہاتھ سے میگزین کے صفحے پلٹنے شروع کر دئے اور ایک کونا  مڑے صفحے پر اچانک اسکا ہاتھ ٹھٹھک گیا  یہ کس نے موڑا ہے؟ ایک منٹ میں ہزاروں باتیں اس کے دماغ میں چکر لگا گئیں۔ اس نے میگزین اٹھا کر حساب کی کاپی پر رکھ لی۔ مڑا ورق مکمل کھلا تھا۔ چھپے صفحے پر جگہ  جگہ نیلی سیاہی سے نشان دیکھ کر وہ چونک پڑا۔ یہ کس نے لگائے ہیں؟ اسے خوب اچھی طرح خیال ہے، یہ پہلے نہیں تھے ۔۔۔

‘میں تمہیں جان سے زیادہ پیار کرتی ہوں ۔۔۔ اس نے ایک نیلی لائن کے اوپر پڑھا ۔۔۔

‘ایں! یہ کیا چکر ہے ۔۔۔؟ ‘ وہ ایک دم جیسے بوکھلا اٹھا۔ اس نے فورا ہی سامنے بیٹھے مستری سلیم اور دلاور سنگھ کو دیکھا، وہ اپنے میں ہی کام میں مصروف تھے۔ اس کی نگاہ اپنے  آپ دوسری لائن پر پھسل گئی۔

‘مجھے یہاں سے بھگا لے چلو ۔۔۔’

‘ارے ۔۔۔۔!’

تیسری لائن  ‘میں پھانسی لگا کر مر جاؤں گی ۔۔۔۔’

اور گووند اتنا گھبرا گیا کہ اس نے فٹ سے رسالہ بند کر دیا۔ تشویش سے ادھر  ادھر دیکھا، کسی نے تاڑ تو نہیں لیا؟ اس کی پیشانی پر پسینہ ابھر آیا اور دل چکی کے موٹر کی طرح چلنے لگا۔ ٍرسالےکے ان اوراق کے درمیان میں ہی انگلی رکھے ہوئے اس نے اسے گھٹنے کے نیچے چھپا لیا۔ کہیں دور سے رنگ  برنگی سرورق کی تصویر کو دیکھ کر یہ کم بخت چوکیدار ہی نہ مانگ بیٹھے۔ ان لائنوں کو ایک بار پھر دیکھنے کی زبردست خواہش اس کے دل میں ہو رہی تھی، لیکن جیسے ہمت نہ پڑتی تھی۔ کیا واقعی یہ نشان لکشمی نے ہی لگائے ہیں؟ کہیں کسی نے مذاق تو نہیں کیا؟ لیکن مذاق اس سے کون کرے گا، کیوں کرے گا؟ ایسا اس کا کوئی واقف بھی تو نہیں ہے یہاں کہ تین دن میں ہی ایسی ہمت کر ڈالے۔

اس نے پھر رسالہ نکال کر پورا الٹ  پلٹ ڈالا۔ نہیں، نشان وہی ہیں، صرف۔ وہ ان تینوں لائنوں کو پھر ایک ساتھ پڑھ گیا اور اسے ایسا لگا کہ اس کے دماغ میں ہوائی جہاز بھنا اٹھا ہو۔ گووند کا دماغ چکرا رہا تھا، دل دھڑک رہا تھا اور جو حساب وہ لکھ رہا تھا، وہ تو جیسے بالکل بھول گیا۔ اس نے قلم کے پچھلے حصے سے کان کے اوپر کھجلایا، خوب آنکھیں گڑا کر جمع اور خرچ کے کھانوں کو دیکھنے کی کوشش کی، لیکن صرف رگ  رگ میں سن  سن کرتی کوئی چیز دوڑے جا رہی تھی۔ اسے لگا، اس کا دل پھٹ جائے گا اور آتشبازی کے انار کی طرح دماغ پھٹ پڑے گا ۔۔۔ اب وہ کس سے پوچھے؟ یہ سب نشان کس نے لگائے ہیں؟ کیا واقعی لکشمی نے؟

اس حسین سچ پر یقین نہیں ہوتا۔ میں چاہے اسے نہ دیکھ پایا ہوؤں، اس نے تو ضرور ہی مجھے دیکھ لیا ہو گا۔ ارے، یہ لڑکیاں بڑی تیز ہوتی ہیں۔ گووند کی خواہش ہوئی، اگر اسے اسی لمحے شیشہ مل جائے تو وہ لکشمی کی آنکھوں سے ایک بار اپنے کو دیکھے۔۔ کیسا لگتا ہے؟

لیکن یہ لکشمی کون ہے؟ بیوہ، کنواری، شادی شدہ، مطلقہ ، کیا؟ کتنی بڑی ہے؟ کیسی ہے؟ اس کی رگ  رگ میں شدید مروڑ  سی اٹھنے لگی کہ وہ ابھی اٹھے اور دوڑ کر اندر اندر کے آنگن کی سیڑھیوں سے دھڑا دھڑ چڑھتا ہوا اوپر جا پہنچے۔ لکشمی جہاں بھی، جس کمرے میں بیٹھی ہو، اس کے دونوں کندھے جھنجھوڑ کر پوچھے، ‘لکشمی، لکشمی، یہ تم نے لکھا ہے؟ تم نہیں جانتی لکشمی، میں کتنا بدنصیب ہوں۔ میں قطعی اس خوش قسمتی کے قابل نہیں ہوں۔ ‘ اور سچ مچ اس غیر متوقع خوش قسمتی سے گووند کا دل اس طرح پسیج اٹھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ازاربند سے لٹکتے ہوئے بلب کو گھورتا ہوا وہ ان کے ماضی اور مستقبل کی گہرائیوں سے اترتا چلا گیا، پھر اس نے آہستہ سے اپنی آنکھوں کے کناروں میں بھرے آنسوؤں کو انگلی پر لے کر اس طرح جھٹک دیا، جیسے دیوتا پر چندن چڑھا رہا ہو۔ اسکا ڈھیلا پڑا ہاتھ اب بھی میگزین کے اسی ورق کو پکڑے تھا۔

ایک بار اس نے پھر ان سطروں کو دیکھا  مان لو لکشمی اس کے ساتھ بھاگ جائے؟ کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کیسے رہیں گے؟ اس کی پڑھائی کا کیا ہوگا؟ بعد میں پکڑ لئے گئے تو؟

لیکن آخر یہ لکشمی ہے کون؟

لکشمی کے بارے میں سوالات کا ایک بھیڑ اس کے دماغ پر ٹوٹ پڑا، جیسے شکاری کتوں کا باڑا کھول دیا گیا ہو یا ایک کے بعد ایک کے سر پر کوئی ہتھوڑے کی چوٹیں کر رہا ہو، بڑی سختی اور ظلم کے ساتھ۔ جیسے چھت پر سے اچانک گر پڑنے والے آدمی کے سامنے ساری دنیا ایک جھٹکے کے ساتھ، ایک لمحے میں چکر لگا جاتی ہے، اسی طرح اس کے سامنے سینکڑوں  ہزاروں چیزیں ایک ساتھ چمک کر غائب ہو گئیں۔

اینٹوں کے اونچے تخت نما چبوترے پر پرانی چھوٹی  سی صندوقچی کے آگے بیٹھا گووند حساب لکھ رہا تھا اور ابھی حساب نہ ملنے کی وجہ سے جو کچے پرزے ادھر  ادھر بکھرے تھے، وہ سب کے سب یوں ہی بکھرے رہے۔ اس نے کھلے لیجر پر دونوں کہنیاں ٹکا دیں اور کھجوروں سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ کنپٹی کے پاس کی رگیں چٹخ رہی تھیں۔ ایسا تو کبھی دیکھا یا سنا نہیں ۔۔۔ فلم، ناولوں میں بھی نہیں دیکھا، پڑھا۔ سچ مچ ان نشانات کا کیا مطلب ہے؟ کیا لکشمی نے ہی یہ لائنیں کھینچی ہیں؟ ہو ستا ہے، کسی بچے نے ہی کھینچ دی ہوں ۔۔۔ اس امکان سے تھوڑا چونک کر گووند نے پھر پاس کھول دیا  نہیں، بچہ کیا صرف انہی لائنوں کے نیچے نشان لگاتا؟ اور لکیریں اتنی نمایاں اور سیدھی ہیں کہ کسی بچے کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ کسی نے اسے بیکار پریشان کرنے کو تو نشان نہیں لگا دی؟ ہو سکتا ہے، وہ لکشمی بہت چہل باز ہو اور ذرا مزا لینے کو اسی نے سب کیا ہو ۔۔۔

اگرچہ گووند اس طرح آنکھیں بند کئے سوچ رہا تھا، لیکن اس کے دل  ہی دل میں خوف تھا کہ مستری اور دربان اسے دیکھ کر کچھ سمجھ نہ جائیں۔ سب سے بڑا ڈر اسے لالہ روپا رام کا تھا۔ ابھی روئی  بھری، سلائی کی کترنوں سے بنی، میلی  سی پوری آستینوں کی صدری پہنے اور اس پر میلی چیکٹ، زمانے پرانی شال لپیٹے آہستہ  آہستہ ہانپتے ہوئے چھڑی ٹیکتے بڑی تکلیف سے سیڑھیاں اتر کر وہ آئیں گے ۔۔۔

اچانک چھڑی کی کھٹ  کھٹ سے چونک کر اس نے جو آنکھوں کے آگے سے ہاتھ ہٹائے،  تو دیکھا، سچ ہی لالہ روپا رام چلے آ رہے ہیں۔ ارے، کم بخت یاد کرتے ہی آ پہنچے۔  بیٹھے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا؟ اس نے جھٹ رسالے کو گھٹنے کے نیچے اور بھی سرکا لیا اور سامنے پھیلے کاغذوں پر آنکھیں ٹکا  کر مصروفیت کا مظاہرہ کرنے لگا۔ مستری اور چوکیدار کی کھسر  پسر بند ہو گئی۔ بیچ کی گلی  پار کر کے لالہ روپا رام داخل ہوئے۔

موٹے  موٹے شیشوں کے پیچھے سے ان کی آنکھیں بڑی ہو کر خوفناک  نظر آتی تھیں۔ آنکھوں اور پلکوں کا رنگ مل کر ایسا دکھائی دیتا تھا، جیسے پیچھے مور کے پر لگے ہوں۔ سر پر روئی  بھرا کنٹوپ تھا، اس کے کانوں کو ڈھکنے والے کونے موٹر کے ‘مڈگارڈ’ جیسے اب اوپر مڑے تھے اور افسانوی راکشسوں کے سینگوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ چہرہ ان کا جھریوں سے بھرا تھا اور چشمے کا فریم ناک کے اوپر سے ٹوٹ گیا تھا، اسے انہوں نے ڈورا  لپیٹ کر مضبوط بنا لیا تھا۔ دانت ان کے نقلی تھے اور شاید ڈھیلے بھی تھے، کیونکہ انہیں وہ ہمیشہ اس طرح منہ چلا  چلا کر پیچھے سرکاتے رہتے تھے جیسے ‘چیونگ گم’ چبا رہے ہوں۔ گووند کو ان کے اس منہ چلانے اور منہ سے نکلتی طرح  طرح کی آوازوں سے بڑی ابکائی  سی آتی تھی اور جب وہ اس سے بات کرتے تو وہ کوشش کر کے اپنی توجہ اس طرف سے ہٹائے رکھتا۔ لالہ روپا رام کی گردن ہمیشہ اس طرح ہلتی رہتی، جیسے کھلونے والے بڈھے کی گردن کا سپرنگ ڈھیلا ہو گیا ہو! گھٹنوں تک کی میلی  کچیلی دھوتی اور ملٹری کے کباڑیا مارکیٹ سے خرید کر لائے گئے موزوں پر باندھنے کی پٹیاں، جو شاید انہیں گٹھیا کے درد سے بچاتی تھیں، بغیر فیتے کے کھیسیں پھاڑتے پھٹے  پرانے بوٹ۔  انہیں دیکھ کر ہمیشہ گووند کو لگتا کہ اس آدمی کا آخری  وقت قریب آ گیا ہے۔

جب لالہ روپا رام پاس آ گئے تو اس نے  ان کے احترام میں چہرے پر چکنائی والی مصنوعی مسکان لا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے استقبال کیا۔ اینٹوں کے چبوترے پر تقریباً دو سو سیاہی کے داغ اور سوراخ والی دری پر، رام سوروپ کے اس کے بہت قریب مل  کر کھڑے ہونے سے، ایک موٹی  سی شکن پڑ گئی تھی، اسے  ہاتھ سے ٹھیک کر کے اس نے کہا، ‘لالہ جی، یہاں بیٹھیں ۔۔۔ ۔ ‘

لالہ جی نے ہانپتے ہوئے بغیر بولے ہی اشارہ کر دیا کہ نہیں، وہ ٹھیک ہیں اور وہ ٹین کی کرسی پر ہی اس کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور ہانپتے رہے۔ اصل میں ان کو سانس کی بیماری تھی اور وہ ہمیشہ پیاسے کتے کی طرح ہانپتے رہتے تھے۔

ان کے وہاں آ بیٹھنے سے ایک بار تو گووند کانپ اٹھا، کہیں کم بخت کو پتہ تو نہیں چل گیا؟ کچھ پوچھنے  تاچھنے نہ آیا ہو۔ اگرچہ لالہ روپا رام اس وقت کھا  پی کر ایک بار چکر ضرور لگاتے تھے، لیکن اسے یقین ہو گیا کہ ہو  نہ  ہو، بڈھا تاڑ گیا ہے۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ روپا رام ابھی ہانپ رہے تھے۔ گووند سر جھکائے ہی حساب  کتاب جوڑتا رہا۔ آخر صورت حال سنبھالنے کی نظر سے اس نے کہا، ‘لالہ جی، آج میرا نام آ گیا کالج میں۔’

‘اچھا!’ لالہ جی نے کھانسی کے درمیان میں ہی کہا۔ وہ ایک ہاتھ سے ڈنڈے کو زمین پر ٹیکے تھے، دوسرے ہاتھ میں کلائی تک گومکھی بندھی تھی، جس کے اندر اندر انگلیاں چلا  چلا کر وہ مالا گھما رہے تھے اور ان کا وہ ہاتھ ٹوٹا  سا لگ رہا تھا۔

ماحول کا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا تھا کہ ایک حادثہ ہو گیا۔

انہوں نے سانس اکٹھی کر کے کچھ بولنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ اندر اندر آنگن کا ٹٹٹر (لوہے کا جال)  بھیانک  طریقے سے جھنجھنا اٹھا، جیسے کوئی بہت ہی بھاری چیز اوپر سے پھینک دی گئی ہو۔ اور پھر زور سے بجتی ہوئی کھنکھناتی کرچھی جیسے چیز نیچے آ گری، اس کے پیچھے چمٹا، سنڈاسی ۔۔۔ اور پھر تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی بالٹی، کڑاہی، توا وغیرہ نکال کر ٹٹٹر پر پھینک رہا ہے اور پانی اور چھوٹی  موٹی چیزیں نیچے گر رہی ہے۔ اس کے ساتھ اندر کچھ ایسا شور اور کہرام سنائی دیا، جیسے آگ لگ گئی ہو!

گووند جھٹک کر سیدھا ہو گیا  کہیں سچ مچ آگ  واگ تو نہیں لگ گئی؟ اس نے سوالیہ نظروں سے چونک کر لالہ کی طرف دیکھا اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ لالہ پریشان ضرور دکھائی دیتا تھا لیکن کوئی خوفناک حادثہ ہو گیا ہے اور اسے دوڑ کر جانا چاہئے، ایسی کوئی بات اس کے چہرے پر نہیں تھی۔ مستری اور چوکیدار، دونوں بڑے دبے طنز سے ایک  دوسرے کی طرف دیکھتے، مسکراتے، لالہ کی طرف نظریں ڈال رہے تھے۔ کسی کو بھی کوئی خاص فکر محسوس نہیں  ہو رہی تھی۔ اندر شور بڑھ رہا تھا، چیزیں پھینکی جا  رہی تھیں اور ٹٹٹر کی کھڑکھڑاہٹ  گھنگھناہٹ گونج رہی تھی۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہےتجسس سے اس کی پسلیاں جیسے  تڑخنے لگیں۔ وہ لالہ سے یہ پوچھنے ہی والا تھا کہ کیا ہے، تبھی بڑے عذاب سے ہاتھ کی لکڑی پر سارا زور دے کر وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور گھسٹتا  سا جہاں سے آیا تھا ، اسی گلی میں چلا گیا۔ جاتے ہوئے پلٹ آہستہ سے اس نے کواڑ بند کر دیئے۔ مستری اور چوکیدار نے جیسے آزاد ہو کر بدن ڈھیلا کیا، ایک  دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھا، کھنکھارا اور پھر ایک بار کھل کر مسکرائے۔ لالہ کا پیچھا کرتی گووند کی نگاہ اب ان لوگوں کی طرف مڑ گئی اور جب اس سے نہیں رہا گیا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ مرغے کے پروں کی طرح کمبل کو بانہوں پر پھڑپھڑا کراس نے لپیٹا اور اس رسالے کو دیکھتا ہوا چبوترے سے نیچے اتر آیا۔ تھوڑی دیر یوں ہی تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا، پھر اس کوریڈور کے دروازے تک گیا کہ کچھ دکھائی یا سنائی دے۔ شور  و غل میں چار  پانچ گھٹی  گھٹی آوازیں ایک ساتھ کواڑ کی درار سے سنائی دیں اور اس میں سب سے تیز آواز وہی تھی جسے اس نے لکشمی کی آواز سمجھ رکھا تھا۔ اے خدا، کیا ہو گیا؟ کوئی کہیں سے گر پڑا، آگ لگ گئی، سانپ  بچھو نے کاٹ لیا؟ لیکن جس طرح سے لوگ بیٹھے دیکھ رہے تھے، اس سے تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ کم بخت کواڑ کیوں بند کر گیا؟ اس وقت ٹٹٹر اس طرح دھمادھم بج رہا تھا، جیسے اس پر کوئی تانڈو رقص  کر رہا ہو۔ اس اونچی، چیختی مہین آواز میں وہ عورت، جسے وہ لکشمی کی آواز سمجھتا تھا، اتنی تیز اور زور سے بول رہی تھی کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ کچھ نہیں سمجھ سکا۔

‘پریشان کیوں ہو رہے ہو بابو جی؟’ چوکیدار کی آواز سن کر وہ ایک دم سیدھا کھڑا ہو گیا۔ مسکراتا ہوا وہ کہہ رہا تھا، ‘آج چنڈی جاگ گئی ہے۔’ اس کی اس بات پر مستری ہنسا۔

گووند بری طرح جھجھلا اٹھا۔ کوئی اتنی بڑی بات ہو رہی ہے اور یہ بدمعاش اس طرح مزہ لوٹ رہے ہیں۔ پھر بھی وہ اسی انتہائی فکر اور پریشانی کے ساتھ ادھر مڑا۔

اس بڑے کمرے یا چھوٹے ہال میں ہر چیز میں ہر چیز پر آٹے کا مہین پاؤڈر چھایا ہوا تھا۔ ایک طرف آٹے میں نہائی چکی، سیاہ پتھر کے بنے ہاتھی کی طرح چپ چاپ کھڑی تھی اور اس کا پسے آٹے کو سنبھالنے والا غلاف ہاتھی کی سونڈ کی طرح لٹکا تھا۔ اسی کی سیدھ میں دوسری دیوار کے نیچے موٹر لگی تھی، جہاں سے ایک چوڑا  پٹا چکی کو چلاتا تھا۔ اتنے حصے میں حفاظت کے لئے ایک ریلنگ لگا دیا گیا تھا۔ سامنے کی دیوار میں چسپاں لمبے  چوڑے لال چوکور فریم پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کو کراس کے نیچے ‘خطرہ’ اور ‘ڈینجر’ لکھے تھے۔ اس چبوترے کی بغل میں ہی چھت سے جاتی زنجیر میں ایک بڑا لوہے کا ترازو، کتھا کلی کی مدرا میں ایک بازو بلند کئے لٹکی تھی، کیونکہ دوسرے پلڑے میں من  سے لے کر چھٹانک تک کے باٹوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اگرچہ لالہ روپا رام اکثر چوکیدار کو ڈانٹتے تھے کہ رات میں اسے اتار کر رکھ دیا کر، لیکن کسی  کسی دن آدھی رات تک چکی چلتی اور دکان  دفتر والے تو صبح پانچ بجے سے ہی آنے لگتے۔  اس وقت برف جیسے ٹھنڈے ترازو کو چھونا اور ٹانگنا دلاور سنگھ کو زیادہ پسند نہیں تھا۔ وہ اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ لڑائی میں صبح  ہی  صبح یخ ٹھنڈی بندوقیں لے کر مارچ اور پریڈ کر لیا، اب کیا زندگی  بھر ٹھنڈا لوہا ہی چھونا اس کی قسمت میں لکھا ہے؟ اس لئے وہ اسے ٹنگا ہی رہنے دیتا۔ اگرچہ ٹھیک درمیان میں ہونے کی وجہ سے وہ جب بھی دروازہ کھولنے اٹھتا تو خود ہی اس سے ٹکراتا  الجھتا اور رات کی تنہائی میں فوجی گالیوں کی استقبالیہ تقریر کرتا۔ پرانا کیلنڈر، ایک اور پسائی کے لئے بھرے اناج یا پسے آٹے کے تھیلے، کنستر، پوٹلیاں اور اوپر چڑھ کر اناج ڈالنے کا مضبوط  سا سٹول۔ اس وقت دونوں ٹانگیں، جن  میں کیل دار فُل بوٹ ڈٹے ہوئے تھے، زمین پر پھیلائے چوکیدار مزے میں کھاٹ کی پاٹی پر جھکا بیٹھا اپنی پرانی  پہلی جنگ کے سپاہی پنے کی یاد  اوور کوٹ ارد گرد لپیٹے شان سے بیڑی دھونک رہا تھا اور آہستہ  آہستہ سامنے بیٹھے مستری سلیم سے باتیں کرتا جا رہا تھا۔

اس کے اور مستری کے درمیان میں آگ جل رہی تھی، جب کبھی دھیان آ جاتا تو پاس رکھے کوئلے  یا لکڑی کچھ ڈال دیتا اور کبھی  کبھی اپاہج کی طرح سے ہاتھ یا پاؤں اس سمت میں بڑھا کر آگ تاپ لیتا۔ سلیم سر جھکائے گرم پانی کی بالٹی میں ٹیوب ڈبو  ڈبا کران  میں پنکچر دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس کے آس  پاس دس  ​​بارہ سیاہ  سرخ ٹیوب، ربڑ کی کترنیں، قینچی، پینچ، پلاس، سلوشن، چمڑے کی ٹوکری اور ایک طرف ٹائر لٹکے دس  ​​بارہ سائیکل کے پہیوں کا ڈھیر تھا۔ اپنے اس سامان سے اس نے آدھے سے زیادہ کمرہ گھیر لیا تھا۔

جب گووند اس کے پاس آیا تو وہ سر جھکائے ہی ہنستا ہوا ٹیوب کے پنکچر کو پکڑ کر کان میں لگی کاپینگ پنسل کو تھوک سے گیلا کرتے ہوئے (حالانکہ ٹیوب پانی سے بھیگا تھا اور سامنے پانی  بھری بالٹی رکھی تھی) نشان لگاتا ہوا جواب دے رہا تھا، ‘یہ کہا جمعدار صاحب نے؟’ پھر ایک بھوں  کو ذرا ترچھی کر کے بولا، ‘لالہ کچھ ناواں ڈھیلا کرے تو ۔۔۔ اس لڑکی پر جن کا سایہ ہے، اس کا علاج تو ہم اپنے مولوی بدرالدین صاحب سے منٹوں میں کر دیں۔ ‘

گووند کا ماتھا ٹھنکا، لالہ کی کسی لڑکی پر کیا کوئی دیوی آتی ہے؟ اسے اپنے گاؤں کی ایک براہمی بیوہ، تارا کا دھیان آ گیا۔ اسے بھی جب دیوی آتی تھی تو گھر کے برتن اٹھا  اٹھا کر پھینکتی تھی، اس کا سارا بدن اینٹھنے لگتا تھا، منہ سے جھاگ آنے لگتے تھے، گردن مروڑ کھانے لگتی تھی، آنکھیں باہر نکلنے لگتی تھیں۔ کون لڑکی ہے لالہ کی؟ لکشمی تو نہیں؟ خدا نخواستہ لکشمی نہ ہو! اس کا دل خدشہ سے ڈوبنے  سا لگا۔ اس نے سنا، شور اب تقریباً ختم ہو گیا تھا اور کہیں دور سے رہ  رہ کر ایک ہلکی  سی رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ شاید کسی کو دورہ  وورہ ہی پڑا ہے، تبھی تو یہ لوگ فکر مند ہیں۔

گووند کو سنا کر چوکیدار بولا، ‘ناواں؟ تم بھی یار مستری، کسی دن بیچارے بڈھے کا ہارٹ فیل کرا دو گے۔ اور بیٹا، یہ ‘جن’ کا علاج آپ کے مولوی کے پاس نہیں ہے، سمجھے؟ وہ تو ہوا ہی دوسری ہے۔ آؤ بابو جی، بیٹھو۔ ‘

چوکیدار نے بیٹھے  بیٹھے سٹول کی طرف اشارہ کیا۔ اصل میں وہ گووند کو ‘بابو جی’ ضرور کہتا تھا، لیکن اس کا خاص احترام نہیں کرتا تھا۔ ایک تو گووند قصبے سے آیا تھا اور اس شہر میں چوکیداری کرتے ہو چکے تھے نقد بیس سال، دوسرے وہ فوج میں رہا تھا اور قاہرہ تک گھوم آیا تھا  عمر، تجربہ، تہذیب، ہر طریقے سے وہ خود کو گووند سے بہتر ہی سمجھتا تھا۔ لیکن گووند کو ان سب کا دھیان نہیں تھا۔ اس نے سٹول سے ٹک کر ذرا سہارا لیتے ہوئے فکر مند لہجے میں پوچھا، ‘کیوں بھائی، یہ شور و غل کیا تھا؟ کیا ہو رہا تھا؟ ‘

مستری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور چوکیدار کی مسکراتی نظروں سے اس کی آنکھیں ملیں۔ اس نے اپنی کھچڑی مونچھوں پر ہتھیلی پھیرتے ہوئے کہا، ‘کچھ نہیں بابو جو، اوپر کوئی چیز کسی بچے نے گرا دی ہوگی ۔۔۔۔’

مستری نے کہا، ‘جمعدار صاحب جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ صاف  صاف کیوں نہیں بتا دیتے؟ اب ان سے کیا چھپا رہے گا؟ ‘

‘تو خود کیوں نہیں بتا دیتا؟’ چوکیدار نے کہا اور جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال لیا، کاغذ نوچ کر آٹے کی لوئی بنانے کی طرح اسے ڈھیلا کیا، پھر ایک بیڑی نکال کر مستری کی طرف پھینکی۔ دوسری کو دونوں طرف سے پھونکا اور جلانے کے لئے کسی دہکتے کوئلے کی تلاش میں آگ میں نگاہیں گھماتے تھوڑی مصروفیت سے بات جاری رکھی، "تجھے کیا معلوم نہیں ہے؟ "

ان دونوں کی چہل سے گووند کی جھجھلاہٹ بڑھ رہی تھی۔ اسے لگا، ضرور ہی دال میں کالا ہے، جسے یہ لوگ ٹال رہے ہیں۔ مستری زبان نکالے پنکچر کے مقام کو ریگمال سے گھس رہا تھا۔ وہ جب بھی کوئی کام  یکسوئی  سے کرتا تو اپنی زبان کو نکال کر اوپر کے ہونٹ کی طرف موڑ لیتا تھا۔ اس چاند کے درمیان میں ابھرتے گنج کو دیکھ کر گووند نے سوچا کہ گنجا پن تو رئیسی کی نشانی ہے، لیکن یہ کم بخت تو آدھی رات میں یہاں پنکچر جوڑ رہا ہے۔ اس نے اسی طرح سر جھکائے ہی کہا، "اب میں بابو جی کو قصہ بتاؤں یا ان ٹیوبوں سے سر پھوڑوں؟ سالے سڑکر حلوہ تو ہو گئے ہیں، پر بدلے گا نہیں۔ دل تو ہوتا ہے، سب کو اٹھا کر اس انگیٹھی میں رکھ دوں، جو ہوگا صبح دیکھا جائے گا ۔۔۔ ‘

‘یہ اتنے ٹیوب ہیں کاہے کے؟’ ذرا اپنے پن کا احساس جتانے کے لئے گووند نے پوچھا، ‘حالت تو سچ مچ ان کی بڑی خراب ہو رہی ہے۔’

‘آپ کو نہیں معلوم؟’ اس بار کام چھوڑ کر مستری نے غور سے گووند کو دیکھا، ‘یہ آپ کے لالہ کے جو دو درجن رکشہ چلتے ہیں، ان کا کوڑا ہے۔ یہ تو ہوتا نہیں کہ اتنے رکشے ہیں، روز ٹوٹ  پھوٹ، مرمت ہوتی ہی رہتی ہے، ہمیشہ کے لئے لگا لے ایک مستری، دن بھر کی چھٹی ہوئی۔ سو تو نہیں، ٹیوب  ٹائر میرے سر ہیں اور باقی ٹوٹ  پھوٹ مستری علی احمد ٹھیک کرتے ہیں۔ ‘ پھر ان سے یوں ہی پوچھا، ‘آپ بابو جی، نئے آئے ہیں؟’

‘جی ہاں، دو  تین دن ہی تو ہوئے ہیں۔ میں یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ ‘ گووند نے کہا۔ اس کے پیٹ میں کھلبلاہٹ مچ رہی تھی، لیکن وہ نئے سرے سے پوچھنے کا فارمولا تلاش کر رہا تھا۔

‘تبھی تو‘ مستری بولا،’ تبھی تو آپ یہ سب پوچھ رہے ہیں۔ رات کو اس کا حساب رکھتے ہیں نہ؟ جی ہاں، تھوڑے دنوں میں اپنے فرزند کو بھی آپ سے پڑھوائے گا۔ ​​’ اپنے ‘فرزند’ لفظ میں جو طنزاس نے کیا تھا، اس سے خود ہی خوش ہو کر مسکراتے ہوئے اس نے چوکیدار کی دی ہوئی بیڑی سلگائی۔

‘ابے، انہیں یہ سب کیا بتاتا ہے؟ وہ تو اس کے گاؤں سے ہی آئے ہیں۔ انہیں سب معلوم ہے۔ ‘ چوکیدار بولا۔

‘نہیں، سچ، مجھے کچھ نہیں معلوم۔’ گووند نے ذرا سمجھاتے ہوئے کہا،

‘ان لالہ کے تو والد ہی یہاں چلے آئے تھے نہ، سو ہم لوگوں کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ بتائیے نہ، کیا بات ہے؟ ‘ گووند نے احتراماً ذرا خوشامد کے لہجے میں پوچھا۔

شاید اس کے تجسس سے متاثر ہو کر ہی مستری بولا، ‘اجی کچھ نہیں، لالہ کی بڑی لڑکی جو ہے نہ، اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔ کوئی کہتا ہے اسے ہسٹیریا ہے، پر ہمارا تو قیاس ہے کہ بابو جی، دورہ  وورا نہیں، اس پر کسی آسیب کا سایہ ہے ۔۔۔ اس بیچاری کو تو کچھ ہوش نہیں رہتا۔ ‘

‘بیوہ ہے؟’ جلدی سے بات کاٹ کر گووند دھک  دھک کرتے دل سے پوچھ بیٹھا  ہائے، لکشمی ہی نہ ہو!

اس بار دوبارہ دونوں کی نگاہوں کا آپس میں ٹکرا کرمسکرانا اس سے چھپا نہ رہا۔ بیڑی کے طویل کش کے دھوئیں کو نگل کر اس بار چوکیدار زبردستی سنجیدہ بن کر بولا، ‘اجی، اس نے اس کی شادی ہی کہاں کی ہے؟’

‘نام کیا ہے؟’ گووند سے نہیں رہا گیا۔

‘لکشمی۔’

‘لکشمی ۔۔۔۔’ اس کے منہ سے نکل گیا اور جیسے ایک دم اس کی ساری طاقت کسی نے لینا لی ہو، تجسس اور بے قراری اس کا تنا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔

چوکیدار اس بار انتہائی پراسرار طرز سے ہنسا، جیسے کہہ رہا ہو  اچھا، تم بھی جانتے ہو؟ ‘

گووند کے ذہن میں قدرتی سوال اٹھا، اس کی عمر کیا ہے؟

لیکن چوکیدار نے پوچھا، "تو سچ مچ بابو جی، آپ ان کے گھر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ ‘

‘نہیں بھائی، میں نے بتایا تو، میں ان کے بارے میں کچھ بھی قطعی نہیں جانتا۔’ خود  اعترافی کے انداز سے گووند بولا۔

‘لیکن لکشمی کا قصہ تو سارے شہر میں مشہور ہے،’ چوکیدار بولا۔

‘آپ شاید نئے آئے ہیں، یہی وجہ ہے۔’ پھر مستری کی طرف دیکھ کر بولا، ‘کیوں مستری صاحب، تو بابو جی کو قصہ بتا ہی دوں ۔۔۔۔’

‘ارے لو، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ اس میں چھپانے کیا؟ یہاں رہیں گے تو کبھی  نہ  کبھی جان ہی جائیں گے۔ ‘

‘اچھا تو پھر سن ہی لو یار، تم بھی کیا کہو گے ۔۔۔’ چوکیدار نے لطف میں آ کر کہنا شروع کیا، "آپ شاید جانتے ہیں، یہ ہمارا لالہ شہر کا مشہور کنجوس اور مشہور رئیس ہے ۔۔۔۔ ‘

‘لامحالہ جو کمجوس ہوگا وہ رئیس تو ہوگا ہی۔’ مستری بولا۔

‘نہیں مستری صاحب، مکمل قصہ سننا ہو تو درمیان میں مت ٹوکو۔’ چوکیدار اس مداخلت پر ناراض ہو گیا۔

‘اچھا  اچھا، سناؤ۔’ مستری بڈھوں کی طرح مسکرایا۔

‘اس کی یہ چکی ہے نہ، اس پر ہزاروں من اناج پستا ہے، ویسے بھی دو  ڈھائی سو من تو کم  سے  کم پستا ہی ہے روز۔ افسروں اور کلرکوں کو کچھ کھلا  پلا کر جنگ کے زمانے میں اسے ملٹری سے کچھ ٹھیکے مل ہی جاتے تھے۔ آپ جانو، ملٹری کا ٹھیکہ تو جس کے پاس آیا سو بنا۔ آپ ان دنوں دیکھتے ‘لکشمی فلور مل’ کے ہلّے۔ بورے یوں چن چن کر رکھے رہتے تھے، جیسے محاذ کے لئے بالو بھر  بھر رکھ دیئے ہوں! اس میں اس نے خوب روپیہ کمایا، ملٹری کے گیہوں فروخت کر دئے اونے  پونے داموں اور ردی سستے والے خرید کوٹہ مکمل کیا، اس میں کھڑیا ملا دی۔ پسائی کے الٹے  سیدھے پیسے تو اس نے مارے ہی، بلیک، چار  سو بیسی، چوری  کیا  کیا اس نے نہیں کیا! اس کے علاوہ ایک بڑی صابن کی فیکٹری اور ایک بہت بڑا جوتوں کا کارخانہ بھی اس کا ہے۔ اسے اس کے بیٹے سنبھالتے ہیں۔ پچیس  تیس رکشے اور پانچ موٹر  ٹرک چلتے ہیں۔ شاید گاؤں میں بھی کافی زمین اس نے لے رکھی ہے۔ ایک کام ہے سالے کا! اتنا تو ہمیں پتہ ہے، باقی اس کی اصل آمدنی تو کوئی نہیں جانتا، کچھ  نہ  کچھ کرتا ہی رہتا ہے۔ خدا ہی جانے! رات  دن کسی  نہ  کسی تگڑم میں لگا ہی رہتا ہے۔ کروڑوں کا اسامی ہے۔ اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سب صرف اسی پچیس  چھبیس سال میں جمع کی ہوئی رقم ہے۔ ‘ چوکیدار دلاور سنگھ ملٹری میں رہ کر آنے کی وجہ سے خوب باتونی تھا اور مورچے کے اپنے افسروں کے قصوں کو، اپنی بہادری کے کارناموں کو خوب نمک  مرچ لگا کر اتنی بار سنا چکا تھا کہ اسے کہانی سنانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ ہر بات کے اتار  چڑھاؤ کے ساتھ اس کی آنکھوں اور چہرے کے تیور تبدیل ہوتے رہتے تھے۔

اس کی باتیں غور اور دلچسپی سے سنتے ہوئے بھی گووند کے ذہن میں ایک بات ٹکرائی، لکشمی کو دورے آتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے جو یہ نشان لگا بھیجے ہیں، یہ بھی دوروں کی حالت میں ہی لگائے ہوں اور ان کا کوئی خاص گہرا مطلب نہ ہو۔ اس بات سے سچ مچ اسے بڑی مایوسی ہوئی، پھر بھی اس نے اوپر سے حیرت ظاہر کرتے ہوئے پوچھا، ‘صرف، پچیس  چھبیس سال؟’

نئی بیڑی جلاتے چوکیدار نے زور سے سر ہلایا۔ گووند نے سوچا  ‘اور لکشمی کی عمر کیا ہوگی؟’

‘اور کنجوسی کی تو حد آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی۔ بڈھا ہو گیا ہے، سانس کی بیماری ہو رہی ہے، سارا بدن کانپتا ہے، لیکن ایک پیسے کا بھی فائدہ دیکھے گا تو دس میل دھوپ میں ہانپتا ہوا پیدل جائے گا، کیا مجال جو سواری کر لے۔ گرمی آئی تو مکمل جسم ننگا، کمر میں دھوتی  آدھی پہنے، آدھی بدن میں لپیٹے۔ جاڑا ہوا تو یہی ڈریس، بس، اسی میں گزشتہ دس سال سے تو میں دیکھ رہا ہوں۔ کبھی کسی مکان کی مرمت نہ کرانا، سفیدی  صفائی نہ کرنا اور ہمیشہ یہی خیال رکھنا کہ کون کتنی بجلی خرچ کر رہا ہے، کہاں بیکار نل یا پنکھا چل رہا ہے۔ لڑکا ہے سو اسے مفت کے چنگی کے اسکول میں ڈال دیا ہے، لڑکی گھر پر بٹھا رکھی ہے۔ ایک  ایک پیسے کے لئے گھنٹوں رکشہ والوں، ٹرک والوں سے لڑنا، بحثیں کرنا اور چکی والوں کی ناک میں دم رکھنا، انہیں دن  رات یہ سکھانا کہ کس چالاکی سے آٹا بچایا جا سکتا ہے۔ بیسیوں روپے کا آٹا روز ہوٹل والوں کو فروخت ہے، وہ الگ۔ جس دن سے چکی کھلی ہے، گھر کے لئے تو آٹا مارکیٹ سے آیا ہی نہیں۔ آپ یقین مانیں، کم  سے  کم بارہ  پندرہ ہزار کی آمدنی ہوگی، لیکن صورت دیکھئے، مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ کسی آنے  جانے والے کے لئے ایک کرسی تک نہیں۔ پان  سپاری کی تو بات ہی دور ہے۔ کون کہہ دے گا کہ یہ پیسے والا ہے؟ یہ عمر ہونے آئی، صبح سے شام تک بس، پیسے کے پیچھے ہائے  ہائے! دنیا کے کسی اور کام سے اسے مطلب ہی نہیں ہے۔ جلسہ  ہو، سوسائٹی ہو، ہڑتال ہو، چھٹی ہو، کچھ بھی ہو  لیکن لالہ روپا رام اپنی ہی دھن میں مست! نوکروں کو کم  سے  کم دینا پڑے، اس لئے خود ہی ان کے کام کو دیکھتا ہے۔ مجھ سے تو کچھ اس لئے نہیں کہتا کہ مجھ پر تھوڑا بھروسہ ہے، دوسرے میری ضرورت سب سے بڑی ہے۔ لیکن باقی ہر بندہ روتا ہے اس کے نام کو۔ اور لطف یہ کہ سب جانتے ہیں کہ جھکی ہے۔ کوئی اس کی بات کو غور سے سنتا نہیں۔ بعد میں سب اس کا نقصان کرتے ہیں، آس پاس کے سبھی ہنستےاور گالیاں دیتے ہیں ۔۔۔ ‘

‘بچے کتنے ہیں ۔۔۔؟’ چوکیدار کو ان بیکار کی باتوں میں بہکتے دیکھ کر گووند نے سوال کیا۔

‘اسی بات پر آتا ہوں،’ چوکیدار اطمینان سے بولا، ‘سچ بابو جی، میں یہ دیکھ  دیکھ کر حیران ہوں کہ اس عمر تک تو اس نے یہ دولت جٹائی ہے، اب اس کا یہ کم بخت کرے گا کیا؟ لوگ جمع کرتے ہیں بیٹھ کر کھائیں، لیکن یہ راکشس تو جمع کرنے میں ہی لگا رہتا ہے۔ اسے جمع کرنے کی ہی ایسی ہائے  ہائے رہی ہے کہ دولت کس لئے جمع کی جاتی ہے، اس بات کو یہ بے چارہ بالکل بھول گیا ہے۔ ‘ پھر بڑے فکر مند اور فلسفیانہ موڈ میں دلاور سنگھ نے سلگتی ہوئی راکھ کو دیکھتے ہوئے کہا، ‘اس عمر تک تو جوڑنے کی ایسی ہوس ہے، اب اس کا یہ لطف کب اٹھائے گا؟ سچ مچ بابو جی، جب کبھی میں سوچتا ہوں تو بیچارے پر بڑا رحم آتا ہے۔ دیکھو، آج تک یہ بے چارہ بھاگ   دوڑ کر، گرما کی لو اور   دھوپ کی فکر چھوڑ کر جمع کر رہا ہے۔ ایک پائی اس میں سے کھا نہیں سکتا، جیسے کسی دوسرے کا ہو  اب فرض کریں، کل یہ مر جاتا ہے، تو یہ سب کس کے لئے جمع کیا گیا؟ بیچارے کے ساتھ کیسی لاچاری ہے، مر کر  جی کر، نوکر کی طرح جمع کئے جا رہا ہے، نہ خود کھا سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی دوسرا چھو بھی لے۔  جیسے دولت کے اوپر بیٹھا سانپ، خود کھا نہیں سکتا، کھانے تو خیر دے گا ہی کیا؟ اس کی حفاظت کرنا اور شامل ۔۔۔ ‘ اور لالہ روپا رام کے لئے  رحم  کے جذبات سے بھر کر چوکیدار نے ایک گہری سانس لی۔ پھر دوسرے ہی لمحے دانت کٹکٹاتا ہوا بولا، ‘اور کبھی  کبھی دل ہوتا ہے، چھرا لے کر سالے کی چھاتی پر جا چڑھو، اور مربے کے آم کی طرح گودو۔ اپنے پیٹ میں جو اس نے اتنا پیسہ بھر رکھا ہے”، اس کی ایک  ایک پائی اگلوا لوں۔ چاہے خود نہ کھائے لیکن، جسے اپنے بچوں کو بھی کھلا  پلا نہیں سکتا، اس دولت کا کیا ہوگا؟ ‘

‘اس کے بچے کتنے ہیں؟’ اس بار پھر گووند بیتاب ہو گیا۔ اصل میں وہ چاہتا تھا کہ فلسفیانہ باتوں کو چھوڑ کر وہ جلد  سے  جلد اصل موضوع پر آ جائے  اور لکشمی کے بارے میں بتائے۔

بیان میں بہہ جانے کی اپنی کمزوری پر چوکیدار مسکرایا اور بولا، ‘اس کے بچے ہیں چار، بیوی مر گئی، باقی کسی ناتےدار، کسی رشتہ دار کو جھانکنے نہیں دیتا، اوپر تو کوئی نوکر بھی نہیں ہے۔ بس، ایک مری  مرائی سی بڑھیا بنا لی ہے، لوگ بڑے بھائی کی بیوی بتاتے ہیں۔ بس وہی ساری دیکھ بھال کرتی ہے۔ اور تو کسی کو میں نے ساتھ دیکھا نہیں۔ خود کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ۔۔۔۔ ‘

‘بڑے دو لڑکے ساتھ نہیں رہتے ۔۔۔’ اس بار مستری بولا۔

‘جی ہاں، وہ لوگ الگ ہی رہتے ہیں۔ دن میں ایک آدھ چکر لگا جاتے ہیں۔ ایک جوتوں کا کارخانہ دیکھتا ہے، دوسرا صابن کی فیکٹری سنبھالتا ہے۔ اس سالے کو ان پر بھی یقین نہیں ہے۔ پورے کاغذ  پتر، حساب  کتاب اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔ پابندی سے شام کو وہاں جاتا ہے وصولی کرنے۔ لیکن لڑکے بھی بڑے تیز ہیں، ذرا شوقین  طبیعت پائی ہے۔ اس کے مرتے ہی دیکھ لینا مستری، وہ اس کی ساری کنجوسی نکال ڈالیں گے۔ ‘ پھر یاد کر کے بولا، ‘اور کیا کہا تم نے؟’ ساتھ رہنے کی بات، سو بھیا، جب تک اکیلے تھے، تب تک تو کوئی بات نہیں تھی، لیکن اب تو ان کی بیویاں آ گئی ہیں نا، ایک آدھ بچہ بھی آ گیا ہے گھر میں، سو اسے دن بھر گود میں لٹکائے پھرتا ہے۔ اس کے گھر میں ایک چنڈی جو ہے نہ، اس کے ساتھ سب کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ ‘

ایک دم گووند کے دل میں آیا  لکشمی۔ اور وہ اوپر سے نیچے تک کانپ اٹھا۔ کون؟ لکشمی! ‘ اس کے منہ سے نکل ہی گیا۔

‘جی، جی ہاں، اسی کی بدولت تو یہ سارا کھیل ہے، وہی تو اس بھنڈار کی چابی ہے۔ وہ نہ ہوتی تو یہ تام  جھام آتا کہاں سے؟ اس نے تو اس  کے دن ہی پلٹ دیئے، نہیں تو تھا کیا اس کے پاس؟ ‘ اس بار یہ بات چوکیدار نے ایسے لٹکے سے کہی، جیسے کسی راز کی چابی دے دی ہو۔

‘کس طرح بھائی، کیسے؟’ گووند پوچھ بیٹھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا۔ یہ کیا تضاد ہے؟ ایک پل کو اس کے دماغ میں آیا  کہیں یہ روپیہ کمانے کے لئے تو لکشمی کا استعمال نہیں کرتا؟ راکشس! چنڈال!

اس کی بے قراری پر چوکیدار پھر مسکرایا، اور بولا، ‘باپ تو اس کا ایسا رئیس تھا بھی نہیں، پھر وہ کچی گرہستی چھوڑ کر مر گیا تھا۔ زیادہ سے  زیادہ ہزار  ہزار روپیہ دونوں بھائیوں کے پلے پڑا ہوگا۔ شادیاں دونوں کی ہو ہی چکی تھیں۔ کچھ کاروبار کھولنے کے خیال سے یہ سٹے میں اپنے روپے دونے  چوگنے کرنے جو پہنچا تو سب گنوا آیا۔ بڑے بھیا روچو رام نے ایک پن چکی کھول ڈالی۔ پہلے تو اس کی بھی حالت ڈانوا ڈول رہی تھی، لیکن سنتے ہیں کہ جب سے اس  کی لڑکی گوری پیدا ہوئی، اس کی حالت سنبھلتی ہی چلی گئی۔ یہ اسی کے یہاں کام کرتا تھا، میاں  بیوی وہیں پڑے رہتے۔ ایسا کچھ اس لڑکی کا پاؤں آیا کہ لالہ روچو رام سچ مچ کے لالہ ہو گئے۔ ان دونوں کے بڑے  بوڑھوں کا کہنا تھا کہ لڑکی ان کے خاندان میں بھگوان ہوتی ہے۔ اب تو اپنا لالہ کبھی اس اوجھا کے پاس جا، کبھی اس پیر کے پاس جا، کبھی اس کی ‘منت’، کبھی اس کا تعویذ’  دن  رات بس یہی کہ اے خدا، میرے لڑکی ہو۔ اور پتہ نہیں کس طرح، خدا نے سن لی اور لڑکی ہی آئی۔ آپ یقین نہیں کریں گے، پھر تو واقعی ہی روپا رام کے نقشے بدلنے لگے۔ پتہ نہیں گڑا ہوا ملا یا چھپر پھاڑ کر ملا۔  لالہ روپا رام کے ستارے پھر گئے ۔۔۔۔ اسے یقین ہونے لگا کہ یہ سب بیٹی کی خوشی ہے اور اصل میں یہ کوئی دیوی ہے۔ اس نے اس کا نام لکشمی رکھا اور صاحب، کہنا پڑے گا کہ لکشمی واقعی لکشمی ہی بن کر آئی۔ تھوڑے دنوں میں ہی ‘لکشمی فلور مل’ الگ بن گئی۔ اب تو اس کا یہ حال ہے کہ یہ مٹی بھی چھو دے تو سونا بن جائے گا اور پتھر کو اٹھا لے تو ہیرا۔ پھر آ گئی جنگ اور اس کے پنجے  چھکے ہو گئے۔ اس ٹھیکے ملنے لگے۔ سمجھئے، ایک کے بعد ایک مکان خریدے جانے لگے  سامان لانے  لے  جانے والے ٹرک آئے۔ ادھر روچو رام بھی پھل رہا تھا، اور دونوں بھائی فخر سے کہتے تھے  ‘ہمارے یہاں لڑکیاں لکشمی بن کر ہی آتی ہیں۔’ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ تصویر کی شکل بدل گئی ۔۔۔ ‘ چوکیدار دلاور سنگھ جانتا تھا کہ یہ اس کی کہانی کا کلائمیکس ہے۔ اس لئے سامعین کی بیتابی کو جھٹکا دینے کے لئے اس نے انگلی میں دبی، بیکار جلتی بیڑی کو دو  تین کش لگا کر ختم کیا اور بولا: ‘گوری شادی کے قابل ہو گئی تھی۔ شاید کسی پڑوسی لڑکے کو لے کر کچھ ایسی  ویسی باتیں بھی لالہ روچو رام نے سنیں۔ لوگوں نے انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں تو انہوں نے گوری کی شادی کر دی۔ اور اس کی شادی ہونا تھا کہ جیسے ایک دم سارا کھیل اجڑ گیا۔ اس کے جاتے ہی لالہ ایک بہت بڑا مقدمہ ہار گیا اور بھگوان کی لیلا دیکھئے، انہی دنوں اس پن چکی میں آگ لگ گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ گھریلو دشمن کا کام تھا۔ جو بھی ہو، بڑے ہاتھی کی طرح جو یکبارگی گرے تو اٹھنا دشوار ہو گیا۔ لوگ روپے داب گئے اور ان کا دوالا نکل گیا۔ دیوالہ کیا جی، ایک طرح سے بالکل ملیامیٹ ہو گیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا اور چھلا  چھلا تک بک گیا۔ ایک دن لالہ جی کی لاش تالاب میں پھولی ہوئی ملی۔ اب تو ہمارے لالہ روپا رام کو سانپ سونگھ گیا، ان کے کان کھڑے ہو گئے اور لکشمی پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسے اسکول سے اٹھا لیا گیا اور وہ دن سو آج کا دن، بے چاری نیچے نہیں اتری۔ گھر کے اندر اندر نہ کسی کو آنے دیتا ہے، نہ جانے دیتا ہے۔ ماسٹر رکھ کر پڑھانے کی بات پہلے اٹھی تھی، لیکن جب سنا کہ ماسٹر لوگ لڑکیاں کو بہکا کر بھگا لے جاتے ہیں تو وہ خیال ایک دم چھوڑ دیا گیا۔ لکشمی خوب روئی  پیٹی، لیکن اس راکشس نے اسے بھیجا ہی نہیں۔ لڑکی دیکھنے  دکھانے کے قابل ۔۔۔۔ ‘

بات کاٹ کر مستری بولا، "ارے دیکھنے  دکھانے کے قابل کیا، ہم نے خود دیکھا ہے۔ جدھر سے نکل جاتی ہے ادھر بجلی  سی کوند جاتی ہے۔ سو میں ایک ۔۔۔۔ ‘

اس بات کی مخالفت نہ کر کے، یعنی قبول کر کے چوکیدار بولا، ‘اسکول میں بھی سنتے ہیں، بڑی تعریف تھی، لیکن سب کی سالے نے  ریڑ مار دی۔ اسے یہ یقین ہو گیا کہ لڑکی واقعی لکشمی ہے اور جب دوسرے کی ہو جائے گی تو اس کا بھی ایک دم ستیا ناس ہو جائے گا۔ اسی ڈر سے نہ تو کسی کو آنے  جانے دیتا ہے اور نہ اس کی شادی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مانتا ہے۔ بری طرح اس کی عزت کرتا ہے، اس کی ہر ضد پوری کرتا ہے، لیکن نکلنے نہیں دیتا۔ لکشمی سولہ کی ہوئی، سترہ کی ہوئی، اٹھارہ، انیس ۔۔۔ سال پر سال گزر گئے۔ پہلے تو وہ سب سے لڑتی تھی۔ بڑی چڑچڑی اور ضد ہو گئی تھی۔ کبھی  کبھی گالی دیتی اور مار بھی بیٹھ جاتی تھی، پھر بھی معلوم نہیں کیا ہوا کہ گھنٹوں رات  رات بھر پڑی زور  زور سے روتی رہتی، پھر دھیرے  دھیرے اسے دورہ پڑنے لگا ۔۔۔ ‘

‘اب کیا عمر ہے؟’ گووند نے درمیان میں پوچھا۔

‘اس کی ٹھیک عمر تو کسی کو بھی پتہ نہیں، لیکن انداز سے پچیس  چھبیس سے کم کیا ہوگی؟’ نفرت سے ہونٹ ٹیڑھے کر کے چوکیدار نے اپنی بات جاری رکھی، "دورہ نہ پڑے تو بیچاری جوان لڑکی کیا کرے؟ ادھر گزشتہ پانچ  چھ سال سے تو یہ حال ہے کہ دورے میں گھنٹے  دو  گھنٹے وہ بالکل پاگل ہو جاتی ہے۔ اچھلتی  کودتی ہے، بری  بری گالیاں دیتی ہے، بے مطلب روتی  ہنستی ہے، چیزیں اٹھا  اٹھا کر ادھر  ادھر پھینکتی ہے۔ جو چیز سامنے ہوتی ہے اسے توڑ  پھوڑ دیتی ہے۔ جو ہاتھ میں آتا ہے، اس سے مار پیٹ شروع کر دیتی ہے اور سارے کپڑے اتار کر پھینک دیتی ہے۔ بالکل ننگی ہو جاتی ہے اور جانگیں پیٹ  پیٹ کر باپ سے کہتی ہے، ‘لے، تو نے مجھے اپنے لئے رکھا ہے، مجھے کھا، مجھے چبا، مجھے بھوگ ۔۔۔!’ یہ پٹتا ہے، گالیاں کھاتا ہے اور سب کچھ کرتا ہے، لیکن پہرے میں ذرا ڈھیل نہیں ہونے دیتا۔ چپ چاپ سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا  بیٹھا سنتا رہتا ہے۔ کیا زندگی ہے بیچارے کی! باپ ہے سو اسے بھوگ نہیں سکتا اور چھوڑ تو سکتا ہی نہیں۔ میری تو عمر نہیں رہی، ورنہ کبھی دل ہوتا ہے لے جاؤں، جو ہوگا سو دیکھا جائے گا ۔۔۔۔ ‘ اور ایک سخت درد سے مسکراتا چوکیدار دیر تک آگ کو دیکھتا رہا، پھر دھیرے سے ہونٹ چبا  کر بولا، ‘اس کی بوٹی  بوٹی گرم لوہے سے داغ جائے اور پھر شست  باندھ کر گولی سے اڑا دیا جائے۔’

گووند کا بھی دل بھاری ہو آیا تھا۔ اس نے دیکھا،بڈھے چوکیدار کی گیلی آنکھوں میں سامنے کی انگیٹھی کی دھندلی آگ کی پرچھائیں جھلملا رہی ہے۔

آدھی رات کو اپنی کوٹھری میں لیٹے لکشمی کے بارے میں سوچتے ہوئے موم بتی کی روشنی میں اس کی سب باتوں کی ایک  ایک تصویر گووند کی آنکھوں کے آگے متشکل ہو  اٹھی۔ اور پھر اس نے تاریکی کے ہالوں سے گھری، گرم  گرم آنسو بہاتی موم بتی کی دھندلی روشنی میں  پھر ایک بار وہ سطریں پڑھیں:

‘میں تمہیں جان سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔’

‘مجھے یہاں سے بھگا لے چلو ۔۔۔۔’

‘میں پھانسی لگا کر مر جاؤں گی ۔۔۔۔’

گووند کے ذہن میں اپنے  آپ ایک سوال اٹھا: ‘کیا میں ہی پہلا آدمی ہوں جو اس پکار کو سن کر اتنا بے قرار ہو اٹھا ہوں یا اوروں نے بھی اس آواز کو سنا ہے اور سن کر ان سنا کر دیا ہے؟

اور کیا واقعی جوان لڑکی کی آواز کو سن کر ان سُنا کیا جا سکتا ہے؟ ‘

٭٭٭

اصل کہانی گدیہ کوش ڈاٹ آرگ سے حاصل۔

http://www.gadyakosh.org/gk/%E0%A4%9C%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%81_%E0%A4%B2%E0%A4%95%E0%A5%8D%E0%A4%B7%E0%A5%8D%E0%A4%AE%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A5%88%E0%A4%A6_%E0%A4%B9%E0%A5%88_/_%E0%A4%B0%E0%A4%BE%E0%A4%9C%E0%A5%87%E0%A4%A8%E0%A5%8D%E0%A4%A6%E0%A5%8D%E0%A4%B0_%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%B5#.UqFASj967X4

  گوگل ٹرانسلیٹ کی جزوی مدد سے ترجمہ کیا گیا

جہاں لکشمی قید ہے

                   راجندر یادو

ترجمہ: اعجاز عبید

ذرا ٹھہریئے، یہ کہانی وشنو کی بیوی لکشمی کے بارے میں نہیں، لکشمی نام کی ایک ایسی لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنی قید سے چھوٹنا چاہتی ہے۔ ان دو ناموں میں شبہ ہونا فطری ہے جیسا کہ کچھ لمحے کے لئے گووند کو ہو گیا تھا۔

ایک دم گھبرا کر جب گووند کی آنکھیں کھلیں تو وہ پسینے سے تر تھا اور اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اسے لگا، کہیں اچانک اس کی دھڑکن بند نہ ہو جائے۔ اندھیرے میں اس نے پانچ چھ بار پلکیں جھپکائیں، پہلی بار تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کہاں ہے، کیسا ہے – جیسے زمان و مکاں کا علم اسے بالکل بھول گیا۔ پاس کے ہال کی گھڑی نے ایک کا گھنٹہ بجایا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ گھڑی کہاں ہے، وہ خود کہاں ہے اور گھنٹہ کہاں بج رہا ہے۔ پھر دھیرے  دھیرے اسے یاد آیا، اس نے زور سے اپنے گلے کا پسینہ پونچھا اور اسے لگا، اس کے دماغ میں پھر وہیں کھٹ کھٹ گونج اٹھی ہے، جو ابھی گونج رہی تھی ۔۔۔۔

پتہ نہیں، خواب میں یا سچ مچ ہی، اچانک گووند کو ایسا لگا تھا، جیسے کسی نے دروازے پر تین  چار بار کھٹ  کھٹ کی ہو اور گڑگڑا کر کہا ہو ‘مجھے نکالو، مجھے نکالو!’ اور وہ آواز کچھ ایسے پراسرار طریقے سے اس کے احساسات کو پھر اسے آہستہ  آہستہ یاد آیا کہ یہ غلط فہمی ہی تھا اور وہ لکشمی کے بارے میں سوچتا ہوا ایسا سویا کہ وہ خواب میں بھی چھائی رہی۔ لیکن اصل میں یہ آواز کیسی عجیب تھی، کیسی صاف تھی! اس نے کئی بار سنا تھا کہ فلاں مرد یا عورت سے خواب میں آ کر کوئی کہتا  ‘مجھے نکالو، مجھے نکالو۔’ پھر وہ آہستہ  آہستہ مقام کی بات بھی بتانے لگتا اور وہاں کھدوانے پر کڑھائی یا ہانڈی میں بھرے سونے  چاندی کے سکے یا خزانہ اسے ملتے اور وہ دیکھتے  دیکھتے مالا مال ہو جاتا۔ کبھی  کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی ایسے آدمی نے اس مادے کو نکلوانا چاہا تو اس میں کوڑیاں اور کوئلے نکلے یا پھر اس کے کوڑھ پھوٹ آیا یا گھر میں کوئی موت ہو گئی۔ کہیں اسی طرح، زمین کے نیچے سے اسے کوئی لکشمی تو نہیں پکار رہی ہے؟ اور وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا، اس کے دماغ میں پھر لکشمی کا قصہ مجسم ہو اٹھا۔ وہ مدہوش سا پڑا رہا ۔۔۔

دور کہیں دوسرے گھڑیال نے پھر وہی ایک گھنٹہ بجایا۔

گووند سے اب نہیں رہا گیا۔ رضائی کو چاروں طرف سے بند رکھے ہوئے ہی بڑے احتیاط سے اس نے کہنی تک ہاتھ نکالا، لیٹے  ہی  لیٹے الماری کے کھانے سے کتاب  کاپیوں کے نزدیک رکھی اس نے ادھ جلی موم بتی نکالی، وہیں کہیں سے تلاش کر کے دیاسلائی نکالی اور آدھا اٹھ کر، تاکہ جاڑے میں دوسرا ہاتھ مکمل نہ نکالنا پڑے، اس نے دو  تین بار گھس کر دیاسلائی جلائی، موم بتی روشن کی، پھر پگھلے موم کی بوند ٹپکا کراسے دوات کے ڈھکن کے اوپر جما دیا۔ دھیرے  دھیرے ہلتی روشنی میں اس نے دیکھ لیا کہ دروازے سب پورے بند ہیں، اور دروازے کے سامنے والی دیوار میں بنے، جالی لگے روشندان کے اوپر، دوسری منزل سے ہلکی  ہلکی جو روشنی آتی ہے، وہ بھی بجھ چکی ہے۔ سب کچھ کتنا پرسکون ہو چکا ہے۔ بجلی کا سوئچ اگرچہ اس کے تخت کے اوپر ہی لگا تھا، لیکن ایک تو جاڑے میں رضائی سمیت یا رضائی چھوڑ کر کھڑے ہونے کی سستی، دوسرے لالہ روپا رام کا ڈر، صبح ہی کہے گا  ‘گووند بابو، بڑی دیر تک پڑھائی ہو رہی ہے آج کل۔ ‘ جس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ بہت بجلی خرچ کرتے ہو۔

پھر اس نے چپکے سے، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو، تکیے کے نیچے سے رضائی کے اندر اندر  ہی  اندر ہاتھ بڑھا کر وہ میگزین نکال لیا اور گردن کے پاس سے ہاتھ نکال کر اس کے سینتالیسویں صفحے کو بیسویں بار کھول کر بڑی دیر گھورتا رہا۔ ایک بجے کی پٹھان کوٹ  ایکسپریس جب دہاڑتی ہوئی گزر گئی تو دفعتاً اسے ہوش آیا۔ 47 اور 48  جو صفحے اس کے سامنے کھلے تھے ان میں جگہ  جگہ نیلی سیاہی سے کچھ سطروں کے نیچے لائنیں کھینچی گئی تھیں  یہی نہیں، اس صفحے کا کونا موڑ کر انہیں لائنوں کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔ اب تک گووند ان یا ان کے آس  پاس کی سطروں کو بیس بار سے زیادہ گھور چکا تھا۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے ادھر  ادھر دیکھا اور پھر ایک بار ان لائنوں کو پڑھا۔

جتنی بار وہ انہیں پڑھتا، اس کا دل ایک انجانے مزےسے دھڑک کر ڈوبنے لگتا اور دماغ اسی طرح بھنا اٹھتا جیسے اس وقت بھنایا تھا، جب یہ رسالہ اسے ملا تھا۔ اگرچہ اس درمیان ان کی ذہن بہت مشکل حالات سے گزر چکا تھا، پھر بھی وہ بڑی دیر تک کالی سیاہی سے چھپی کہانی کے حروف کو ٹھہری ہوئی نگاہوں سے گھورتا رہا۔  دھیرے  دھیرے اسے ایسا لگا، حروف کی یہ لائن ایک ایسی کھڑکی کی جالی ہے، جس کے پیچھے بکھرے بالوں والی ایک معصوم لڑکی کا چہرہ جھانک رہا ہے۔ اور پھر اس کے دماغ میں بچپن کی سنی کہانی اپنی شکل کے ساتھ ظاہر ہونے لگی  شکار کھیلنے میں ساتھیوں کا ساتھ چھوٹ جانے پر بھٹکتا ہوا ایک راجکمار اپنے تھکے  ماندے گھوڑے پر بالکل ویرانے میں، سمندر کے کنارے بنے ایک بڑے سنسان قلعہ کے نیچے جا پہنچا۔ وہاں اوپر کھڑکی میں اسے ایک انتہائی خوبصورت راجکماری بیٹھی دکھائی دی، جسے ایک راکشس نے لا کر وہاں قید کر دیا تھا ۔۔۔ چھوٹی سے  چھوٹی تفصیلات کے ساتھ کھڑکی میں بیٹھی شہزادی کی تصویر گووند کی آنکھوں کے آگے واضح اور ٹھوس ہوتی گئی۔ اور اسے لگا، جیسے وہی راجکماری ان ، چھپی لائنوں کے پیچھے سے جھانک رہی ہے  اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں سوکھ گئی ہیں، اس کے ہونٹ پپڑا گئے ہیں ۔۔۔ چہرہ مرجھا گیا ہے اور ریشمی بال مکڑی کے جالے جیسے لگتے ہیں  جیسے اس کے پورے جسم سے ایک آواز نکلتی ہے  ‘مجھے چھڑاؤ، مجھے چھڑاؤ!’

گووند کے ذہن میں اس نامعلوم راجکماری کو چھڑانے کے لئے جیسے رہ  رہ کر کوئی کریدنے لگا۔ ایک  آدھ بار تو اس کی بڑی شدید خواہش ہوئی کہ اپنے اندر رہ  رہ کر کچھ کرنے کی حوصلہ افزائی کو وہ اپنے تخت اور الماری کی دیوار کے درمیان میں بچی دو فٹ چوڑی گلی میں گھس  گھس کر دور کر دے۔

تو کیا واقعی لکشمی نے یہ سب اسی کے لئے لکھا ہے؟ لیکن اس نے تو لکشمی کو دیکھا تک نہیں! اگر آپ کے تخیل میں کسی جوان لڑکی کا چہرہ لائے بھی تو وہ آخر کیسی ہو؟ ۔۔۔ کچھ اور بھی باتیں تھیں کہ وہ لکشمی کے طور پر ایک خوبصورت لڑکی کے چہرے کا تصور کرتے ڈرتا تھا  اس کی ٹھیک شکل صورت اور عمر بھی نہیں معلوم اسے ۔۔۔

گووند یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ سب اسی کے لئے لکھا گیا ہے، یہ لائنیں کھینچ کر اسی کا دھیان اپنی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ پھر بھی وہ اس غیر متوقع بات پر یقین نہیں کر پاتا تھا۔ وہ اپنے کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی لڑکی اس طرح اسے اشارہ کرے گی۔ یوں شہروں کے بارے میں اس نے بہت کافی سن رکھا تھا، لیکن یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ گاؤں میں انٹرویو پاس کرتے ہوئے شہر آنے کے ایک ہفتے میں ہی اس کے سامنے ایک ’خوش قسمت ‘ بات آ جائے گی ۔۔۔

وہ جب  جب ان سطروں کو پڑھتا تب  تب اس کا سر اس طرح چکرانے لگتا، جیسے کسی دس منزلہ مکان سے نیچے جھانک رہا ہو۔ جب اس نے پہلے  پہل یہ لائنیں دیکھی تھیں تو اس طرح اچھل پڑا تھا، جیسے ہاتھ میں انگارہ آ گیا ہو!

بات یہ ہوئی کہ وہ چکی والے ہال میں اینٹوں کے تخت جیسے بنے چبوترے پر بڑی پرانی کاٹھ کی صندوق کے اوپر لمبا  پتلا رجسٹر کھولے دن  بھر کا حساب ملا رہا تھا، تبھی لالہ روپا رام کا سب سے چھوٹا، نو  دس سال کا لڑکا رام سوروپ اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ لڑکا ایک پھٹے  پرانے سے چیسٹر کی، جو واضح طور پرکسی بڑے بھائی کے چیسٹر کو کٹوا کر بنایا گیا ہوگا، جیبوں میں دونوں ہاتھوں کو ٹھونسے پاس کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔

گووند جب پہلے ہی دن آیا تھا اور حساب کر رہا تھا، تبھی یہ لڑکا بھی آ کھڑا ہوا تھا۔ اس دن لالہ روپا رام بھی تھے، اس لئے صرف یہ دکھانے کو کہ وہ ان کے صاحبزادے میں بھی کافی دلچسپی رکھتا ہے، اس سے اصولوں کے مطابق نام، عمر اور اسکول  کلاس وغیرہ پوچھے تھے، نام رام سوروپ، عمر نو سال، چنگی  پرائمری اسکول میں چوتھے کلاس میں پڑھتا تھا۔ پھر تو صبح  شام گووند اسے چیسٹر کے سائے ہی جاننے لگا، شکل دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔ چیسٹر کے نیچے نیکر پہنے ہونے کے کارن اس کی پتلی ٹانگیں کھلی رہتی اور وہ پاؤں میں بڑے  پرانے کرمچ کے جوتے پہنے رہتا، جن کی پھٹی  نکلی زبانوں کو دیکھ کر اسے ہمیشہ دم  کٹے کتے کی پونچھ کی یاد آ جاتی تھی۔

تھوڑی دیر اس کا لکھنا تاکتے رہ کر لڑکے نے چیسٹر کے بٹن کے کساؤ اور سینے کے درمیان میں رکھا رسالہ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور بولا، ‘منشی جی، لکشمی بہن نے کہا ہے، ہمیں کچھ اور پڑھنے کو دیجئے۔’

‘اچھا، کل دیں گے ۔۔۔’ من  ہی  من بھنا کراس نے کہا۔

یہاں آ کر اسے جو ‘منشی جی’ کا نیا خطاب ملا ہے، اسے سن کر اس کی روح خاک ہو جاتی۔ ‘منشی’ نام کے ساتھ جو ایک کان پر قلم لگائے، گول  میلی ٹوپی، پرانا کوٹ پہنے، مڑے  تڑے آدمی کی تصویر سامنے آتی ہے  اسے بیس  بائیس سال کا نوجوان گووند سنبھال نہیں پاتا۔

لالہ روپا رام اسی گاؤں کے ہیں  شاید اس کے والد کے ساتھ دو  تین جماعت پڑھے بھی تھے۔ شہر آتے ہی خود کفیل ہو کر پڑھائی چلا سکنے کے لئے کسی ٹیوشن وغیرہ یا چھوٹے پارٹ  ٹائم کام کے لئے لالہ روپا رام سے بھی وہ ملا تو انہوں نے انتہائی جوش و خروش سے اس کے مردہ باپ کو یاد کر کے کہا  ‘بھیا، آپ تو اپنے ہی بچے ہو، ذرا ہماری چکی کا حساب  کتاب گھنٹے  آدھ گھنٹے دیکھ لیا کرو اور مزے میں چکی کے پاس جو کوٹھری ہے، اس میں پڑے رہو، اپنے پڑھو۔ آٹے کی یہاں تو کمی ہے ہی نہیں۔ اور انتہائی تشکر سے پروہ ان کی کوٹھری میں آ گیا، پہلی رات حساب لکھنے کا انداز سمجھتے ہوئے لالہ روپا رام، موتیا بند والے چشمے کے موٹے  موٹے شیشوں کے پیچھے سے دیکھتی آنکھوں اور موٹے ہونٹوں سے مسکراتے، اس کا احترام بڑھانے کو ‘منشی جی’ کہہ بیٹھے تو وہ چونک پڑا۔ لیکن اس نے تہیہ کر لیا کہ یہاں جم جانے کے بعد وہ عاجزی سے اس لفظ کی مخالفت کرے گا۔ رام سوروپ سے ‘منشی جی’ نام سن کر اس کی بھوئیں تن گئیں، اس لئے اس نے نظر انداز کرتے ہوئےسے وہ جواب دیا تھا۔

‘کل ضرور دیجیئے گا۔ ” رام سوروپ نے پھر درخواست کی۔

‘جی ہاں بھائی، ضرور دیں گے۔’ اس نے دانت پیس کر کہا، لیکن چپ ہی رہا۔ وہ اکثر لکشمی کا نام سنتا تھا۔ حالانکہ اس کی کوٹھری بالکل سڑک کی طرف الگ ہی پڑتی تھی، لیکن اس میں پیچھے کی طرف جو ایک جالی دار چھوٹا  سا روشندان تھا، وہ گھر کے اندر اندر نیچے کی منزل کے چوک میں کھلتا تھا۔ لالہ روپا رام کا خاندان اوپر کی منزل پر رہتا تھا اور نیچے سامنے کی طرف پن چکی تھی، پیچھے کئی طرح کی چیزوں کا سٹور  روم تھا۔ یہ ‘لکشمی’ نام کے لئےاس کی دلچسپی بھی ہے کہ چاہے کوٹھری میں ہو یا باہر، پن چکی کے ہال میں، ہر پانچویں منٹ پر اس کا نام مختلف شکلوں میں سنائی دیتا تھا  ‘لکشمی بی بی نے یہ کہا ہے’،  ‘روپے لکشمی بی بی کے پاس ہے’، ‘چابی لکشمی بی بی کو دے دینا۔’ اور اس کے جواب میں جو ایک پتلی سخت  سی مالکانہ انداز کی آواز سنائی دیتی تھی، لیکن خود وہ کیسی ہے؟ اس کی بس ایک جھلک  دیکھ پانے کو اس کا دل کبھی  کبھی بری طرح تڑپ  سا اٹھتا۔ لیکن پہلے کچھ دنوں اسے اپنا اثر جمانا تھا، اس لئے وہ آنکھ اٹھا کر بھی اندر اندر دیکھنے کی کوشش نہ کرتا۔ من  ہی  من اس نے سمجھ لیا کہ یہی لکشمی ہے، اور کافی اہم ہے ۔۔۔ دقت یہ تھی کہ اندر کچھ دکھائی بھی تو نہیں دیتا تھا۔ سڑک کے کنارے تین  چار دروازے والے اس چکی کے ہال کے بعد ایک آٹھ  دس فٹ لمبی گلی تھی اور چوک کے اوپر لوہے کا جال پڑا تھا، اس پر سے اوپر والے لوگ جب گزرتے تھے تو لوہے کی جھنجھناہٹ سے پہلے تو اس کا خیال ہر بار ادھر چلا جاتا تھا۔ بچے تو کبھی  کبھی اور بھی اچھل  اچھل کر اس پر کودنے لگتے تھے۔ یہاں سے جب تک کسی بہانے پوری گلی پار نہ کی جائے، کچھ بھی دیکھنا ناممکن تھا۔ چونکہ غسل خانہ اور نل وغیرہ اسی چوک میں تھے، جن کی وجہ سے نیچے اکثر سیلن اور گیلا پن رہتا تھا، اس لئے صبح چوک میں جاتے ہوئے انتہائی سیدھے لڑکے کی طرح نگاہیں نیچی کئے ہوئے بھی وہ اوپر کی پوزیشن کو بھانپنے کی کوشش کرتا تھا۔ اوپر سر اٹھا کر آنکھ  بھر کر دیکھ لینے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ اپنی کوٹھری کا واحد دروازہ بند کر کے، تخت پر چڑھ کر مکڑی کے جالے اور دھول سے بھرے جالی دار روشندان سے جھانک کر اس نے وہاں کی صورتحال کو بھی جاننے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ کم بخت جالی کچھ اس طریقے سے بنی تھی کہ اس کے ‘فوکس’ میں مکمل سامنے والا چھجا اور ایک آدھ فٹ لوہے کا جال ہی آتا تھا۔ کئی بار اسے لگا، جیسے دو چھوٹے  چھوٹے تلوے گزرے ۔۔۔ بہت کوشش کرنے پر ٹخنے نظر آئے۔۔۔جی ہاں، ہیں تو کسی لڑکی کے پاؤں، کیونکہ ہاتھ میں ساری کا کنارہ بھی جھلکا تھا ۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور تخت سے اترتے ہوئے بڑے ادا کارانہ انداز میں سینے پر ہاتھ مارا اور بدبدایا  "ارے لکشمی ظالم، ایک جھلک تو دکھا دیتی ۔۔۔ ‘

‘منشی جی، تم تو دیکھ رہے ہو، لکھتے کیوں نہیں؟’ رام سوروپ نے جب دیکھا کہ گووند آہستہ  آہستہ ہولڈر کا پچھلا حصہ دانتوں میں ٹھوکتا ہوا حساب کی کاپی میں بنا پلک جھپکے کچھ گھور رہا ہے تو پتہ نہیں کس طرح یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ وہ جو کچھ سوچ رہا ہے، اس کا تعلق سامنے رکھے حساب سے نہیں ہے ۔۔۔

اس نے چونک کر لڑکے کی طرف دیکھا ۔۔۔ اور چوری پکڑی جانے پر جھینپ کر مسکرایا، تبھی اچانک ایک بات اس کے دماغ میں کوندی۔ یہ لکشمی رام سوروپ کی بہن ہی تو ہے۔ ضرور اس کا چہرہ اس سے کافی ملتا  جلتا ہوگا۔ اس بار اس نے توجہ سے رام سوروپ کا چہرہ دیکھا کہ وہ خوبصورت ہے یا نہیں۔ پھر اپنی بے وقوفی پر مسکرا کر ایک انگڑائی لی۔ چاروں طرف ڈھیلے ہوئے کمبل کو پھر سے چاروں طرف کس لیا اور غیر متوقع محبت سے بولا، "اچھا منا، کل صبح دے گا۔ ‘ ۔۔۔ اس کی خواہش ہوئی کہ وہ اس سے لکشمی کے بارے میں کچھ بات کریں، لیکن سامنے ہی چوکیدار اور مستری سلیم کام کر رہے تھے ۔۔۔

اصل میں آج وہ تھک بھی گیا تھا۔ اچانک مصروف ہو کر بولا اور جلدی  جلدی حساب کرنے لگا۔ دنیا  بھر کی سفارشات کے بعد اس کا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آ گیا کہ وہ منتخب لڑکوں میں سے ہے۔ آتے وقت کچھ کتاب اور کاپیاں بھی خرید لایا تھا، سو آج وہ چاہتا تھا کہ جلد  سے  جلد اپنی کوٹھری میں لیٹے اور کچھ آگے  پیچھے کی باتیں ۔۔۔ دنیا  بھر کی باتیں سوچتا ہوا سو جائے ۔۔۔ سوچے، لکشمی کون ہے ۔۔۔ کیسی ہے ۔۔۔ وہ اس کے بارے میں کس سے پوچھے؟ ۔۔۔ کوئی اس کا ہم عمر اور اعتماد کا آدمی بھی تو نہیں ہے۔ کسی سے پوچھے اور روپا رام کو پتہ چل جائے، تو؟ لیکن ابھی تیسرا ہی تو دن ہے ۔۔۔ من  ہی  من اپنے پاس رکھی میگزین اور کہانی کی کتابوں کا شمار کرتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اس بار اسے کون  سی دینی ہے

آگے جا کر جب کافی دن ہو جائیں گے تو وہ چپ چاپ اس میں ایک ایسا چھوٹا  سا خط رکھ دے گا جو کسی دوست کے نام لکھا گیا ہوگا یا اس کی زبان ایسی ہوگی کہ پکڑ میں نہ آ سکے ۔۔۔ بھول سے چلا گیا، پکڑے جانے پر وہ آسانی سے کہہ سکے گا ۔ اسے تو خیال بھی نہیں تھا کہ وہ پرچہ اس میں رکھا ہے۔ بیس جواب ہیں۔ اپنی ہوشیار بیوقوفی کے تصور پر وہ مسکرانے لگا۔

جس کے بارے میں وہ اتنا سب سوچتا ہے، وہ اسی لکشمی کے پاس سے آیا ہوا رسالہ ہے  اس نے اسے اپنے نرم ہاتھوں سے چھو جائے گا، تکیے کے نیچے، سرہانے بھی رکھا ہوگا ۔۔۔ لیٹ کر پڑھتے ہوئے تو ہو سکتا ہے، سوچتے  سوچتے چھاتی پر بھی رکھ کر سو گئی ہو ۔۔۔ لیٹ کر اس کا تن  من گدگدا اٹھا۔ کیا لکشمی اس موضوع میں بالکل ہی نہ سوچتی ہوگی؟ حساب لکھنے کی مصروفیت میں بھی اس نے گردن موڑ کر ایک ہاتھ سے میگزین کے صفحے پلٹنے شروع کر دئے اور ایک کونا  مڑے صفحے پر اچانک اسکا ہاتھ ٹھٹھک گیا  یہ کس نے موڑا ہے؟ ایک منٹ میں ہزاروں باتیں اس کے دماغ میں چکر لگا گئیں۔ اس نے میگزین اٹھا کر حساب کی کاپی پر رکھ لی۔ مڑا ورق مکمل کھلا تھا۔ چھپے صفحے پر جگہ  جگہ نیلی سیاہی سے نشان دیکھ کر وہ چونک پڑا۔ یہ کس نے لگائے ہیں؟ اسے خوب اچھی طرح خیال ہے، یہ پہلے نہیں تھے ۔۔۔

‘میں تمہیں جان سے زیادہ پیار کرتی ہوں ۔۔۔ اس نے ایک نیلی لائن کے اوپر پڑھا ۔۔۔

‘ایں! یہ کیا چکر ہے ۔۔۔؟ ‘ وہ ایک دم جیسے بوکھلا اٹھا۔ اس نے فورا ہی سامنے بیٹھے مستری سلیم اور دلاور سنگھ کو دیکھا، وہ اپنے میں ہی کام میں مصروف تھے۔ اس کی نگاہ اپنے  آپ دوسری لائن پر پھسل گئی۔

‘مجھے یہاں سے بھگا لے چلو ۔۔۔’

‘ارے ۔۔۔۔!’

تیسری لائن  ‘میں پھانسی لگا کر مر جاؤں گی ۔۔۔۔’

اور گووند اتنا گھبرا گیا کہ اس نے فٹ سے رسالہ بند کر دیا۔ تشویش سے ادھر  ادھر دیکھا، کسی نے تاڑ تو نہیں لیا؟ اس کی پیشانی پر پسینہ ابھر آیا اور دل چکی کے موٹر کی طرح چلنے لگا۔ ٍرسالےکے ان اوراق کے درمیان میں ہی انگلی رکھے ہوئے اس نے اسے گھٹنے کے نیچے چھپا لیا۔ کہیں دور سے رنگ  برنگی سرورق کی تصویر کو دیکھ کر یہ کم بخت چوکیدار ہی نہ مانگ بیٹھے۔ ان لائنوں کو ایک بار پھر دیکھنے کی زبردست خواہش اس کے دل میں ہو رہی تھی، لیکن جیسے ہمت نہ پڑتی تھی۔ کیا واقعی یہ نشان لکشمی نے ہی لگائے ہیں؟ کہیں کسی نے مذاق تو نہیں کیا؟ لیکن مذاق اس سے کون کرے گا، کیوں کرے گا؟ ایسا اس کا کوئی واقف بھی تو نہیں ہے یہاں کہ تین دن میں ہی ایسی ہمت کر ڈالے۔

اس نے پھر رسالہ نکال کر پورا الٹ  پلٹ ڈالا۔ نہیں، نشان وہی ہیں، صرف۔ وہ ان تینوں لائنوں کو پھر ایک ساتھ پڑھ گیا اور اسے ایسا لگا کہ اس کے دماغ میں ہوائی جہاز بھنا اٹھا ہو۔ گووند کا دماغ چکرا رہا تھا، دل دھڑک رہا تھا اور جو حساب وہ لکھ رہا تھا، وہ تو جیسے بالکل بھول گیا۔ اس نے قلم کے پچھلے حصے سے کان کے اوپر کھجلایا، خوب آنکھیں گڑا کر جمع اور خرچ کے کھانوں کو دیکھنے کی کوشش کی، لیکن صرف رگ  رگ میں سن  سن کرتی کوئی چیز دوڑے جا رہی تھی۔ اسے لگا، اس کا دل پھٹ جائے گا اور آتشبازی کے انار کی طرح دماغ پھٹ پڑے گا ۔۔۔ اب وہ کس سے پوچھے؟ یہ سب نشان کس نے لگائے ہیں؟ کیا واقعی لکشمی نے؟

اس حسین سچ پر یقین نہیں ہوتا۔ میں چاہے اسے نہ دیکھ پایا ہوؤں، اس نے تو ضرور ہی مجھے دیکھ لیا ہو گا۔ ارے، یہ لڑکیاں بڑی تیز ہوتی ہیں۔ گووند کی خواہش ہوئی، اگر اسے اسی لمحے شیشہ مل جائے تو وہ لکشمی کی آنکھوں سے ایک بار اپنے کو دیکھے۔۔ کیسا لگتا ہے؟

لیکن یہ لکشمی کون ہے؟ بیوہ، کنواری، شادی شدہ، مطلقہ ، کیا؟ کتنی بڑی ہے؟ کیسی ہے؟ اس کی رگ  رگ میں شدید مروڑ  سی اٹھنے لگی کہ وہ ابھی اٹھے اور دوڑ کر اندر اندر کے آنگن کی سیڑھیوں سے دھڑا دھڑ چڑھتا ہوا اوپر جا پہنچے۔ لکشمی جہاں بھی، جس کمرے میں بیٹھی ہو، اس کے دونوں کندھے جھنجھوڑ کر پوچھے، ‘لکشمی، لکشمی، یہ تم نے لکھا ہے؟ تم نہیں جانتی لکشمی، میں کتنا بدنصیب ہوں۔ میں قطعی اس خوش قسمتی کے قابل نہیں ہوں۔ ‘ اور سچ مچ اس غیر متوقع خوش قسمتی سے گووند کا دل اس طرح پسیج اٹھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ازاربند سے لٹکتے ہوئے بلب کو گھورتا ہوا وہ ان کے ماضی اور مستقبل کی گہرائیوں سے اترتا چلا گیا، پھر اس نے آہستہ سے اپنی آنکھوں کے کناروں میں بھرے آنسوؤں کو انگلی پر لے کر اس طرح جھٹک دیا، جیسے دیوتا پر چندن چڑھا رہا ہو۔ اسکا ڈھیلا پڑا ہاتھ اب بھی میگزین کے اسی ورق کو پکڑے تھا۔

ایک بار اس نے پھر ان سطروں کو دیکھا  مان لو لکشمی اس کے ساتھ بھاگ جائے؟ کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کیسے رہیں گے؟ اس کی پڑھائی کا کیا ہوگا؟ بعد میں پکڑ لئے گئے تو؟

لیکن آخر یہ لکشمی ہے کون؟

لکشمی کے بارے میں سوالات کا ایک بھیڑ اس کے دماغ پر ٹوٹ پڑا، جیسے شکاری کتوں کا باڑا کھول دیا گیا ہو یا ایک کے بعد ایک کے سر پر کوئی ہتھوڑے کی چوٹیں کر رہا ہو، بڑی سختی اور ظلم کے ساتھ۔ جیسے چھت پر سے اچانک گر پڑنے والے آدمی کے سامنے ساری دنیا ایک جھٹکے کے ساتھ، ایک لمحے میں چکر لگا جاتی ہے، اسی طرح اس کے سامنے سینکڑوں  ہزاروں چیزیں ایک ساتھ چمک کر غائب ہو گئیں۔

اینٹوں کے اونچے تخت نما چبوترے پر پرانی چھوٹی  سی صندوقچی کے آگے بیٹھا گووند حساب لکھ رہا تھا اور ابھی حساب نہ ملنے کی وجہ سے جو کچے پرزے ادھر  ادھر بکھرے تھے، وہ سب کے سب یوں ہی بکھرے رہے۔ اس نے کھلے لیجر پر دونوں کہنیاں ٹکا دیں اور کھجوروں سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ کنپٹی کے پاس کی رگیں چٹخ رہی تھیں۔ ایسا تو کبھی دیکھا یا سنا نہیں ۔۔۔ فلم، ناولوں میں بھی نہیں دیکھا، پڑھا۔ سچ مچ ان نشانات کا کیا مطلب ہے؟ کیا لکشمی نے ہی یہ لائنیں کھینچی ہیں؟ ہو ستا ہے، کسی بچے نے ہی کھینچ دی ہوں ۔۔۔ اس امکان سے تھوڑا چونک کر گووند نے پھر پاس کھول دیا  نہیں، بچہ کیا صرف انہی لائنوں کے نیچے نشان لگاتا؟ اور لکیریں اتنی نمایاں اور سیدھی ہیں کہ کسی بچے کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ کسی نے اسے بیکار پریشان کرنے کو تو نشان نہیں لگا دی؟ ہو سکتا ہے، وہ لکشمی بہت چہل باز ہو اور ذرا مزا لینے کو اسی نے سب کیا ہو ۔۔۔

اگرچہ گووند اس طرح آنکھیں بند کئے سوچ رہا تھا، لیکن اس کے دل  ہی دل میں خوف تھا کہ مستری اور دربان اسے دیکھ کر کچھ سمجھ نہ جائیں۔ سب سے بڑا ڈر اسے لالہ روپا رام کا تھا۔ ابھی روئی  بھری، سلائی کی کترنوں سے بنی، میلی  سی پوری آستینوں کی صدری پہنے اور اس پر میلی چیکٹ، زمانے پرانی شال لپیٹے آہستہ  آہستہ ہانپتے ہوئے چھڑی ٹیکتے بڑی تکلیف سے سیڑھیاں اتر کر وہ آئیں گے ۔۔۔

اچانک چھڑی کی کھٹ  کھٹ سے چونک کر اس نے جو آنکھوں کے آگے سے ہاتھ ہٹائے،  تو دیکھا، سچ ہی لالہ روپا رام چلے آ رہے ہیں۔ ارے، کم بخت یاد کرتے ہی آ پہنچے۔  بیٹھے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا؟ اس نے جھٹ رسالے کو گھٹنے کے نیچے اور بھی سرکا لیا اور سامنے پھیلے کاغذوں پر آنکھیں ٹکا  کر مصروفیت کا مظاہرہ کرنے لگا۔ مستری اور چوکیدار کی کھسر  پسر بند ہو گئی۔ بیچ کی گلی  پار کر کے لالہ روپا رام داخل ہوئے۔

موٹے  موٹے شیشوں کے پیچھے سے ان کی آنکھیں بڑی ہو کر خوفناک  نظر آتی تھیں۔ آنکھوں اور پلکوں کا رنگ مل کر ایسا دکھائی دیتا تھا، جیسے پیچھے مور کے پر لگے ہوں۔ سر پر روئی  بھرا کنٹوپ تھا، اس کے کانوں کو ڈھکنے والے کونے موٹر کے ‘مڈگارڈ’ جیسے اب اوپر مڑے تھے اور افسانوی راکشسوں کے سینگوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ چہرہ ان کا جھریوں سے بھرا تھا اور چشمے کا فریم ناک کے اوپر سے ٹوٹ گیا تھا، اسے انہوں نے ڈورا  لپیٹ کر مضبوط بنا لیا تھا۔ دانت ان کے نقلی تھے اور شاید ڈھیلے بھی تھے، کیونکہ انہیں وہ ہمیشہ اس طرح منہ چلا  چلا کر پیچھے سرکاتے رہتے تھے جیسے ‘چیونگ گم’ چبا رہے ہوں۔ گووند کو ان کے اس منہ چلانے اور منہ سے نکلتی طرح  طرح کی آوازوں سے بڑی ابکائی  سی آتی تھی اور جب وہ اس سے بات کرتے تو وہ کوشش کر کے اپنی توجہ اس طرف سے ہٹائے رکھتا۔ لالہ روپا رام کی گردن ہمیشہ اس طرح ہلتی رہتی، جیسے کھلونے والے بڈھے کی گردن کا سپرنگ ڈھیلا ہو گیا ہو! گھٹنوں تک کی میلی  کچیلی دھوتی اور ملٹری کے کباڑیا مارکیٹ سے خرید کر لائے گئے موزوں پر باندھنے کی پٹیاں، جو شاید انہیں گٹھیا کے درد سے بچاتی تھیں، بغیر فیتے کے کھیسیں پھاڑتے پھٹے  پرانے بوٹ۔  انہیں دیکھ کر ہمیشہ گووند کو لگتا کہ اس آدمی کا آخری  وقت قریب آ گیا ہے۔

جب لالہ روپا رام پاس آ گئے تو اس نے  ان کے احترام میں چہرے پر چکنائی والی مصنوعی مسکان لا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے استقبال کیا۔ اینٹوں کے چبوترے پر تقریباً دو سو سیاہی کے داغ اور سوراخ والی دری پر، رام سوروپ کے اس کے بہت قریب مل  کر کھڑے ہونے سے، ایک موٹی  سی شکن پڑ گئی تھی، اسے  ہاتھ سے ٹھیک کر کے اس نے کہا، ‘لالہ جی، یہاں بیٹھیں ۔۔۔ ۔ ‘

لالہ جی نے ہانپتے ہوئے بغیر بولے ہی اشارہ کر دیا کہ نہیں، وہ ٹھیک ہیں اور وہ ٹین کی کرسی پر ہی اس کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور ہانپتے رہے۔ اصل میں ان کو سانس کی بیماری تھی اور وہ ہمیشہ پیاسے کتے کی طرح ہانپتے رہتے تھے۔

ان کے وہاں آ بیٹھنے سے ایک بار تو گووند کانپ اٹھا، کہیں کم بخت کو پتہ تو نہیں چل گیا؟ کچھ پوچھنے  تاچھنے نہ آیا ہو۔ اگرچہ لالہ روپا رام اس وقت کھا  پی کر ایک بار چکر ضرور لگاتے تھے، لیکن اسے یقین ہو گیا کہ ہو  نہ  ہو، بڈھا تاڑ گیا ہے۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ روپا رام ابھی ہانپ رہے تھے۔ گووند سر جھکائے ہی حساب  کتاب جوڑتا رہا۔ آخر صورت حال سنبھالنے کی نظر سے اس نے کہا، ‘لالہ جی، آج میرا نام آ گیا کالج میں۔’

‘اچھا!’ لالہ جی نے کھانسی کے درمیان میں ہی کہا۔ وہ ایک ہاتھ سے ڈنڈے کو زمین پر ٹیکے تھے، دوسرے ہاتھ میں کلائی تک گومکھی بندھی تھی، جس کے اندر اندر انگلیاں چلا  چلا کر وہ مالا گھما رہے تھے اور ان کا وہ ہاتھ ٹوٹا  سا لگ رہا تھا۔

ماحول کا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا تھا کہ ایک حادثہ ہو گیا۔

انہوں نے سانس اکٹھی کر کے کچھ بولنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ اندر اندر آنگن کا ٹٹٹر (لوہے کا جال)  بھیانک  طریقے سے جھنجھنا اٹھا، جیسے کوئی بہت ہی بھاری چیز اوپر سے پھینک دی گئی ہو۔ اور پھر زور سے بجتی ہوئی کھنکھناتی کرچھی جیسے چیز نیچے آ گری، اس کے پیچھے چمٹا، سنڈاسی ۔۔۔ اور پھر تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی بالٹی، کڑاہی، توا وغیرہ نکال کر ٹٹٹر پر پھینک رہا ہے اور پانی اور چھوٹی  موٹی چیزیں نیچے گر رہی ہے۔ اس کے ساتھ اندر کچھ ایسا شور اور کہرام سنائی دیا، جیسے آگ لگ گئی ہو!

گووند جھٹک کر سیدھا ہو گیا  کہیں سچ مچ آگ  واگ تو نہیں لگ گئی؟ اس نے سوالیہ نظروں سے چونک کر لالہ کی طرف دیکھا اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ لالہ پریشان ضرور دکھائی دیتا تھا لیکن کوئی خوفناک حادثہ ہو گیا ہے اور اسے دوڑ کر جانا چاہئے، ایسی کوئی بات اس کے چہرے پر نہیں تھی۔ مستری اور چوکیدار، دونوں بڑے دبے طنز سے ایک  دوسرے کی طرف دیکھتے، مسکراتے، لالہ کی طرف نظریں ڈال رہے تھے۔ کسی کو بھی کوئی خاص فکر محسوس نہیں  ہو رہی تھی۔ اندر شور بڑھ رہا تھا، چیزیں پھینکی جا  رہی تھیں اور ٹٹٹر کی کھڑکھڑاہٹ  گھنگھناہٹ گونج رہی تھی۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہےتجسس سے اس کی پسلیاں جیسے  تڑخنے لگیں۔ وہ لالہ سے یہ پوچھنے ہی والا تھا کہ کیا ہے، تبھی بڑے عذاب سے ہاتھ کی لکڑی پر سارا زور دے کر وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور گھسٹتا  سا جہاں سے آیا تھا ، اسی گلی میں چلا گیا۔ جاتے ہوئے پلٹ آہستہ سے اس نے کواڑ بند کر دیئے۔ مستری اور چوکیدار نے جیسے آزاد ہو کر بدن ڈھیلا کیا، ایک  دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھا، کھنکھارا اور پھر ایک بار کھل کر مسکرائے۔ لالہ کا پیچھا کرتی گووند کی نگاہ اب ان لوگوں کی طرف مڑ گئی اور جب اس سے نہیں رہا گیا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ مرغے کے پروں کی طرح کمبل کو بانہوں پر پھڑپھڑا کراس نے لپیٹا اور اس رسالے کو دیکھتا ہوا چبوترے سے نیچے اتر آیا۔ تھوڑی دیر یوں ہی تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا، پھر اس کوریڈور کے دروازے تک گیا کہ کچھ دکھائی یا سنائی دے۔ شور  و غل میں چار  پانچ گھٹی  گھٹی آوازیں ایک ساتھ کواڑ کی درار سے سنائی دیں اور اس میں سب سے تیز آواز وہی تھی جسے اس نے لکشمی کی آواز سمجھ رکھا تھا۔ اے خدا، کیا ہو گیا؟ کوئی کہیں سے گر پڑا، آگ لگ گئی، سانپ  بچھو نے کاٹ لیا؟ لیکن جس طرح سے لوگ بیٹھے دیکھ رہے تھے، اس سے تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ کم بخت کواڑ کیوں بند کر گیا؟ اس وقت ٹٹٹر اس طرح دھمادھم بج رہا تھا، جیسے اس پر کوئی تانڈو رقص  کر رہا ہو۔ اس اونچی، چیختی مہین آواز میں وہ عورت، جسے وہ لکشمی کی آواز سمجھتا تھا، اتنی تیز اور زور سے بول رہی تھی کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ کچھ نہیں سمجھ سکا۔

‘پریشان کیوں ہو رہے ہو بابو جی؟’ چوکیدار کی آواز سن کر وہ ایک دم سیدھا کھڑا ہو گیا۔ مسکراتا ہوا وہ کہہ رہا تھا، ‘آج چنڈی جاگ گئی ہے۔’ اس کی اس بات پر مستری ہنسا۔

گووند بری طرح جھجھلا اٹھا۔ کوئی اتنی بڑی بات ہو رہی ہے اور یہ بدمعاش اس طرح مزہ لوٹ رہے ہیں۔ پھر بھی وہ اسی انتہائی فکر اور پریشانی کے ساتھ ادھر مڑا۔

اس بڑے کمرے یا چھوٹے ہال میں ہر چیز میں ہر چیز پر آٹے کا مہین پاؤڈر چھایا ہوا تھا۔ ایک طرف آٹے میں نہائی چکی، سیاہ پتھر کے بنے ہاتھی کی طرح چپ چاپ کھڑی تھی اور اس کا پسے آٹے کو سنبھالنے والا غلاف ہاتھی کی سونڈ کی طرح لٹکا تھا۔ اسی کی سیدھ میں دوسری دیوار کے نیچے موٹر لگی تھی، جہاں سے ایک چوڑا  پٹا چکی کو چلاتا تھا۔ اتنے حصے میں حفاظت کے لئے ایک ریلنگ لگا دیا گیا تھا۔ سامنے کی دیوار میں چسپاں لمبے  چوڑے لال چوکور فریم پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کو کراس کے نیچے ‘خطرہ’ اور ‘ڈینجر’ لکھے تھے۔ اس چبوترے کی بغل میں ہی چھت سے جاتی زنجیر میں ایک بڑا لوہے کا ترازو، کتھا کلی کی مدرا میں ایک بازو بلند کئے لٹکی تھی، کیونکہ دوسرے پلڑے میں من  سے لے کر چھٹانک تک کے باٹوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اگرچہ لالہ روپا رام اکثر چوکیدار کو ڈانٹتے تھے کہ رات میں اسے اتار کر رکھ دیا کر، لیکن کسی  کسی دن آدھی رات تک چکی چلتی اور دکان  دفتر والے تو صبح پانچ بجے سے ہی آنے لگتے۔  اس وقت برف جیسے ٹھنڈے ترازو کو چھونا اور ٹانگنا دلاور سنگھ کو زیادہ پسند نہیں تھا۔ وہ اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ لڑائی میں صبح  ہی  صبح یخ ٹھنڈی بندوقیں لے کر مارچ اور پریڈ کر لیا، اب کیا زندگی  بھر ٹھنڈا لوہا ہی چھونا اس کی قسمت میں لکھا ہے؟ اس لئے وہ اسے ٹنگا ہی رہنے دیتا۔ اگرچہ ٹھیک درمیان میں ہونے کی وجہ سے وہ جب بھی دروازہ کھولنے اٹھتا تو خود ہی اس سے ٹکراتا  الجھتا اور رات کی تنہائی میں فوجی گالیوں کی استقبالیہ تقریر کرتا۔ پرانا کیلنڈر، ایک اور پسائی کے لئے بھرے اناج یا پسے آٹے کے تھیلے، کنستر، پوٹلیاں اور اوپر چڑھ کر اناج ڈالنے کا مضبوط  سا سٹول۔ اس وقت دونوں ٹانگیں، جن  میں کیل دار فُل بوٹ ڈٹے ہوئے تھے، زمین پر پھیلائے چوکیدار مزے میں کھاٹ کی پاٹی پر جھکا بیٹھا اپنی پرانی  پہلی جنگ کے سپاہی پنے کی یاد  اوور کوٹ ارد گرد لپیٹے شان سے بیڑی دھونک رہا تھا اور آہستہ  آہستہ سامنے بیٹھے مستری سلیم سے باتیں کرتا جا رہا تھا۔

اس کے اور مستری کے درمیان میں آگ جل رہی تھی، جب کبھی دھیان آ جاتا تو پاس رکھے کوئلے  یا لکڑی کچھ ڈال دیتا اور کبھی  کبھی اپاہج کی طرح سے ہاتھ یا پاؤں اس سمت میں بڑھا کر آگ تاپ لیتا۔ سلیم سر جھکائے گرم پانی کی بالٹی میں ٹیوب ڈبو  ڈبا کران  میں پنکچر دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس کے آس  پاس دس  ​​بارہ سیاہ  سرخ ٹیوب، ربڑ کی کترنیں، قینچی، پینچ، پلاس، سلوشن، چمڑے کی ٹوکری اور ایک طرف ٹائر لٹکے دس  ​​بارہ سائیکل کے پہیوں کا ڈھیر تھا۔ اپنے اس سامان سے اس نے آدھے سے زیادہ کمرہ گھیر لیا تھا۔

جب گووند اس کے پاس آیا تو وہ سر جھکائے ہی ہنستا ہوا ٹیوب کے پنکچر کو پکڑ کر کان میں لگی کاپینگ پنسل کو تھوک سے گیلا کرتے ہوئے (حالانکہ ٹیوب پانی سے بھیگا تھا اور سامنے پانی  بھری بالٹی رکھی تھی) نشان لگاتا ہوا جواب دے رہا تھا، ‘یہ کہا جمعدار صاحب نے؟’ پھر ایک بھوں  کو ذرا ترچھی کر کے بولا، ‘لالہ کچھ ناواں ڈھیلا کرے تو ۔۔۔ اس لڑکی پر جن کا سایہ ہے، اس کا علاج تو ہم اپنے مولوی بدرالدین صاحب سے منٹوں میں کر دیں۔ ‘

گووند کا ماتھا ٹھنکا، لالہ کی کسی لڑکی پر کیا کوئی دیوی آتی ہے؟ اسے اپنے گاؤں کی ایک براہمی بیوہ، تارا کا دھیان آ گیا۔ اسے بھی جب دیوی آتی تھی تو گھر کے برتن اٹھا  اٹھا کر پھینکتی تھی، اس کا سارا بدن اینٹھنے لگتا تھا، منہ سے جھاگ آنے لگتے تھے، گردن مروڑ کھانے لگتی تھی، آنکھیں باہر نکلنے لگتی تھیں۔ کون لڑکی ہے لالہ کی؟ لکشمی تو نہیں؟ خدا نخواستہ لکشمی نہ ہو! اس کا دل خدشہ سے ڈوبنے  سا لگا۔ اس نے سنا، شور اب تقریباً ختم ہو گیا تھا اور کہیں دور سے رہ  رہ کر ایک ہلکی  سی رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ شاید کسی کو دورہ  وورہ ہی پڑا ہے، تبھی تو یہ لوگ فکر مند ہیں۔

گووند کو سنا کر چوکیدار بولا، ‘ناواں؟ تم بھی یار مستری، کسی دن بیچارے بڈھے کا ہارٹ فیل کرا دو گے۔ اور بیٹا، یہ ‘جن’ کا علاج آپ کے مولوی کے پاس نہیں ہے، سمجھے؟ وہ تو ہوا ہی دوسری ہے۔ آؤ بابو جی، بیٹھو۔ ‘

چوکیدار نے بیٹھے  بیٹھے سٹول کی طرف اشارہ کیا۔ اصل میں وہ گووند کو ‘بابو جی’ ضرور کہتا تھا، لیکن اس کا خاص احترام نہیں کرتا تھا۔ ایک تو گووند قصبے سے آیا تھا اور اس شہر میں چوکیداری کرتے ہو چکے تھے نقد بیس سال، دوسرے وہ فوج میں رہا تھا اور قاہرہ تک گھوم آیا تھا  عمر، تجربہ، تہذیب، ہر طریقے سے وہ خود کو گووند سے بہتر ہی سمجھتا تھا۔ لیکن گووند کو ان سب کا دھیان نہیں تھا۔ اس نے سٹول سے ٹک کر ذرا سہارا لیتے ہوئے فکر مند لہجے میں پوچھا، ‘کیوں بھائی، یہ شور و غل کیا تھا؟ کیا ہو رہا تھا؟ ‘

مستری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور چوکیدار کی مسکراتی نظروں سے اس کی آنکھیں ملیں۔ اس نے اپنی کھچڑی مونچھوں پر ہتھیلی پھیرتے ہوئے کہا، ‘کچھ نہیں بابو جو، اوپر کوئی چیز کسی بچے نے گرا دی ہوگی ۔۔۔۔’

مستری نے کہا، ‘جمعدار صاحب جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ صاف  صاف کیوں نہیں بتا دیتے؟ اب ان سے کیا چھپا رہے گا؟ ‘

‘تو خود کیوں نہیں بتا دیتا؟’ چوکیدار نے کہا اور جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال لیا، کاغذ نوچ کر آٹے کی لوئی بنانے کی طرح اسے ڈھیلا کیا، پھر ایک بیڑی نکال کر مستری کی طرف پھینکی۔ دوسری کو دونوں طرف سے پھونکا اور جلانے کے لئے کسی دہکتے کوئلے کی تلاش میں آگ میں نگاہیں گھماتے تھوڑی مصروفیت سے بات جاری رکھی، "تجھے کیا معلوم نہیں ہے؟ "

ان دونوں کی چہل سے گووند کی جھجھلاہٹ بڑھ رہی تھی۔ اسے لگا، ضرور ہی دال میں کالا ہے، جسے یہ لوگ ٹال رہے ہیں۔ مستری زبان نکالے پنکچر کے مقام کو ریگمال سے گھس رہا تھا۔ وہ جب بھی کوئی کام  یکسوئی  سے کرتا تو اپنی زبان کو نکال کر اوپر کے ہونٹ کی طرف موڑ لیتا تھا۔ اس چاند کے درمیان میں ابھرتے گنج کو دیکھ کر گووند نے سوچا کہ گنجا پن تو رئیسی کی نشانی ہے، لیکن یہ کم بخت تو آدھی رات میں یہاں پنکچر جوڑ رہا ہے۔ اس نے اسی طرح سر جھکائے ہی کہا، "اب میں بابو جی کو قصہ بتاؤں یا ان ٹیوبوں سے سر پھوڑوں؟ سالے سڑکر حلوہ تو ہو گئے ہیں، پر بدلے گا نہیں۔ دل تو ہوتا ہے، سب کو اٹھا کر اس انگیٹھی میں رکھ دوں، جو ہوگا صبح دیکھا جائے گا ۔۔۔ ‘

‘یہ اتنے ٹیوب ہیں کاہے کے؟’ ذرا اپنے پن کا احساس جتانے کے لئے گووند نے پوچھا، ‘حالت تو سچ مچ ان کی بڑی خراب ہو رہی ہے۔’

‘آپ کو نہیں معلوم؟’ اس بار کام چھوڑ کر مستری نے غور سے گووند کو دیکھا، ‘یہ آپ کے لالہ کے جو دو درجن رکشہ چلتے ہیں، ان کا کوڑا ہے۔ یہ تو ہوتا نہیں کہ اتنے رکشے ہیں، روز ٹوٹ  پھوٹ، مرمت ہوتی ہی رہتی ہے، ہمیشہ کے لئے لگا لے ایک مستری، دن بھر کی چھٹی ہوئی۔ سو تو نہیں، ٹیوب  ٹائر میرے سر ہیں اور باقی ٹوٹ  پھوٹ مستری علی احمد ٹھیک کرتے ہیں۔ ‘ پھر ان سے یوں ہی پوچھا، ‘آپ بابو جی، نئے آئے ہیں؟’

‘جی ہاں، دو  تین دن ہی تو ہوئے ہیں۔ میں یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ ‘ گووند نے کہا۔ اس کے پیٹ میں کھلبلاہٹ مچ رہی تھی، لیکن وہ نئے سرے سے پوچھنے کا فارمولا تلاش کر رہا تھا۔

‘تبھی تو‘ مستری بولا،’ تبھی تو آپ یہ سب پوچھ رہے ہیں۔ رات کو اس کا حساب رکھتے ہیں نہ؟ جی ہاں، تھوڑے دنوں میں اپنے فرزند کو بھی آپ سے پڑھوائے گا۔ ​​’ اپنے ‘فرزند’ لفظ میں جو طنزاس نے کیا تھا، اس سے خود ہی خوش ہو کر مسکراتے ہوئے اس نے چوکیدار کی دی ہوئی بیڑی سلگائی۔

‘ابے، انہیں یہ سب کیا بتاتا ہے؟ وہ تو اس کے گاؤں سے ہی آئے ہیں۔ انہیں سب معلوم ہے۔ ‘ چوکیدار بولا۔

‘نہیں، سچ، مجھے کچھ نہیں معلوم۔’ گووند نے ذرا سمجھاتے ہوئے کہا،

‘ان لالہ کے تو والد ہی یہاں چلے آئے تھے نہ، سو ہم لوگوں کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ بتائیے نہ، کیا بات ہے؟ ‘ گووند نے احتراماً ذرا خوشامد کے لہجے میں پوچھا۔

شاید اس کے تجسس سے متاثر ہو کر ہی مستری بولا، ‘اجی کچھ نہیں، لالہ کی بڑی لڑکی جو ہے نہ، اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔ کوئی کہتا ہے اسے ہسٹیریا ہے، پر ہمارا تو قیاس ہے کہ بابو جی، دورہ  وورا نہیں، اس پر کسی آسیب کا سایہ ہے ۔۔۔ اس بیچاری کو تو کچھ ہوش نہیں رہتا۔ ‘

‘بیوہ ہے؟’ جلدی سے بات کاٹ کر گووند دھک  دھک کرتے دل سے پوچھ بیٹھا  ہائے، لکشمی ہی نہ ہو!

اس بار دوبارہ دونوں کی نگاہوں کا آپس میں ٹکرا کرمسکرانا اس سے چھپا نہ رہا۔ بیڑی کے طویل کش کے دھوئیں کو نگل کر اس بار چوکیدار زبردستی سنجیدہ بن کر بولا، ‘اجی، اس نے اس کی شادی ہی کہاں کی ہے؟’

‘نام کیا ہے؟’ گووند سے نہیں رہا گیا۔

‘لکشمی۔’

‘لکشمی ۔۔۔۔’ اس کے منہ سے نکل گیا اور جیسے ایک دم اس کی ساری طاقت کسی نے لینا لی ہو، تجسس اور بے قراری اس کا تنا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔

چوکیدار اس بار انتہائی پراسرار طرز سے ہنسا، جیسے کہہ رہا ہو  اچھا، تم بھی جانتے ہو؟ ‘

گووند کے ذہن میں قدرتی سوال اٹھا، اس کی عمر کیا ہے؟

لیکن چوکیدار نے پوچھا، "تو سچ مچ بابو جی، آپ ان کے گھر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ ‘

‘نہیں بھائی، میں نے بتایا تو، میں ان کے بارے میں کچھ بھی قطعی نہیں جانتا۔’ خود  اعترافی کے انداز سے گووند بولا۔

‘لیکن لکشمی کا قصہ تو سارے شہر میں مشہور ہے،’ چوکیدار بولا۔

‘آپ شاید نئے آئے ہیں، یہی وجہ ہے۔’ پھر مستری کی طرف دیکھ کر بولا، ‘کیوں مستری صاحب، تو بابو جی کو قصہ بتا ہی دوں ۔۔۔۔’

‘ارے لو، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ اس میں چھپانے کیا؟ یہاں رہیں گے تو کبھی  نہ  کبھی جان ہی جائیں گے۔ ‘

‘اچھا تو پھر سن ہی لو یار، تم بھی کیا کہو گے ۔۔۔’ چوکیدار نے لطف میں آ کر کہنا شروع کیا، "آپ شاید جانتے ہیں، یہ ہمارا لالہ شہر کا مشہور کنجوس اور مشہور رئیس ہے ۔۔۔۔ ‘

‘لامحالہ جو کمجوس ہوگا وہ رئیس تو ہوگا ہی۔’ مستری بولا۔

‘نہیں مستری صاحب، مکمل قصہ سننا ہو تو درمیان میں مت ٹوکو۔’ چوکیدار اس مداخلت پر ناراض ہو گیا۔

‘اچھا  اچھا، سناؤ۔’ مستری بڈھوں کی طرح مسکرایا۔

‘اس کی یہ چکی ہے نہ، اس پر ہزاروں من اناج پستا ہے، ویسے بھی دو  ڈھائی سو من تو کم  سے  کم پستا ہی ہے روز۔ افسروں اور کلرکوں کو کچھ کھلا  پلا کر جنگ کے زمانے میں اسے ملٹری سے کچھ ٹھیکے مل ہی جاتے تھے۔ آپ جانو، ملٹری کا ٹھیکہ تو جس کے پاس آیا سو بنا۔ آپ ان دنوں دیکھتے ‘لکشمی فلور مل’ کے ہلّے۔ بورے یوں چن چن کر رکھے رہتے تھے، جیسے محاذ کے لئے بالو بھر  بھر رکھ دیئے ہوں! اس میں اس نے خوب روپیہ کمایا، ملٹری کے گیہوں فروخت کر دئے اونے  پونے داموں اور ردی سستے والے خرید کوٹہ مکمل کیا، اس میں کھڑیا ملا دی۔ پسائی کے الٹے  سیدھے پیسے تو اس نے مارے ہی، بلیک، چار  سو بیسی، چوری  کیا  کیا اس نے نہیں کیا! اس کے علاوہ ایک بڑی صابن کی فیکٹری اور ایک بہت بڑا جوتوں کا کارخانہ بھی اس کا ہے۔ اسے اس کے بیٹے سنبھالتے ہیں۔ پچیس  تیس رکشے اور پانچ موٹر  ٹرک چلتے ہیں۔ شاید گاؤں میں بھی کافی زمین اس نے لے رکھی ہے۔ ایک کام ہے سالے کا! اتنا تو ہمیں پتہ ہے، باقی اس کی اصل آمدنی تو کوئی نہیں جانتا، کچھ  نہ  کچھ کرتا ہی رہتا ہے۔ خدا ہی جانے! رات  دن کسی  نہ  کسی تگڑم میں لگا ہی رہتا ہے۔ کروڑوں کا اسامی ہے۔ اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سب صرف اسی پچیس  چھبیس سال میں جمع کی ہوئی رقم ہے۔ ‘ چوکیدار دلاور سنگھ ملٹری میں رہ کر آنے کی وجہ سے خوب باتونی تھا اور مورچے کے اپنے افسروں کے قصوں کو، اپنی بہادری کے کارناموں کو خوب نمک  مرچ لگا کر اتنی بار سنا چکا تھا کہ اسے کہانی سنانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ ہر بات کے اتار  چڑھاؤ کے ساتھ اس کی آنکھوں اور چہرے کے تیور تبدیل ہوتے رہتے تھے۔

اس کی باتیں غور اور دلچسپی سے سنتے ہوئے بھی گووند کے ذہن میں ایک بات ٹکرائی، لکشمی کو دورے آتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے جو یہ نشان لگا بھیجے ہیں، یہ بھی دوروں کی حالت میں ہی لگائے ہوں اور ان کا کوئی خاص گہرا مطلب نہ ہو۔ اس بات سے سچ مچ اسے بڑی مایوسی ہوئی، پھر بھی اس نے اوپر سے حیرت ظاہر کرتے ہوئے پوچھا، ‘صرف، پچیس  چھبیس سال؟’

نئی بیڑی جلاتے چوکیدار نے زور سے سر ہلایا۔ گووند نے سوچا  ‘اور لکشمی کی عمر کیا ہوگی؟’

‘اور کنجوسی کی تو حد آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی۔ بڈھا ہو گیا ہے، سانس کی بیماری ہو رہی ہے، سارا بدن کانپتا ہے، لیکن ایک پیسے کا بھی فائدہ دیکھے گا تو دس میل دھوپ میں ہانپتا ہوا پیدل جائے گا، کیا مجال جو سواری کر لے۔ گرمی آئی تو مکمل جسم ننگا، کمر میں دھوتی  آدھی پہنے، آدھی بدن میں لپیٹے۔ جاڑا ہوا تو یہی ڈریس، بس، اسی میں گزشتہ دس سال سے تو میں دیکھ رہا ہوں۔ کبھی کسی مکان کی مرمت نہ کرانا، سفیدی  صفائی نہ کرنا اور ہمیشہ یہی خیال رکھنا کہ کون کتنی بجلی خرچ کر رہا ہے، کہاں بیکار نل یا پنکھا چل رہا ہے۔ لڑکا ہے سو اسے مفت کے چنگی کے اسکول میں ڈال دیا ہے، لڑکی گھر پر بٹھا رکھی ہے۔ ایک  ایک پیسے کے لئے گھنٹوں رکشہ والوں، ٹرک والوں سے لڑنا، بحثیں کرنا اور چکی والوں کی ناک میں دم رکھنا، انہیں دن  رات یہ سکھانا کہ کس چالاکی سے آٹا بچایا جا سکتا ہے۔ بیسیوں روپے کا آٹا روز ہوٹل والوں کو فروخت ہے، وہ الگ۔ جس دن سے چکی کھلی ہے، گھر کے لئے تو آٹا مارکیٹ سے آیا ہی نہیں۔ آپ یقین مانیں، کم  سے  کم بارہ  پندرہ ہزار کی آمدنی ہوگی، لیکن صورت دیکھئے، مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ کسی آنے  جانے والے کے لئے ایک کرسی تک نہیں۔ پان  سپاری کی تو بات ہی دور ہے۔ کون کہہ دے گا کہ یہ پیسے والا ہے؟ یہ عمر ہونے آئی، صبح سے شام تک بس، پیسے کے پیچھے ہائے  ہائے! دنیا کے کسی اور کام سے اسے مطلب ہی نہیں ہے۔ جلسہ  ہو، سوسائٹی ہو، ہڑتال ہو، چھٹی ہو، کچھ بھی ہو  لیکن لالہ روپا رام اپنی ہی دھن میں مست! نوکروں کو کم  سے  کم دینا پڑے، اس لئے خود ہی ان کے کام کو دیکھتا ہے۔ مجھ سے تو کچھ اس لئے نہیں کہتا کہ مجھ پر تھوڑا بھروسہ ہے، دوسرے میری ضرورت سب سے بڑی ہے۔ لیکن باقی ہر بندہ روتا ہے اس کے نام کو۔ اور لطف یہ کہ سب جانتے ہیں کہ جھکی ہے۔ کوئی اس کی بات کو غور سے سنتا نہیں۔ بعد میں سب اس کا نقصان کرتے ہیں، آس پاس کے سبھی ہنستےاور گالیاں دیتے ہیں ۔۔۔ ‘

‘بچے کتنے ہیں ۔۔۔؟’ چوکیدار کو ان بیکار کی باتوں میں بہکتے دیکھ کر گووند نے سوال کیا۔

‘اسی بات پر آتا ہوں،’ چوکیدار اطمینان سے بولا، ‘سچ بابو جی، میں یہ دیکھ  دیکھ کر حیران ہوں کہ اس عمر تک تو اس نے یہ دولت جٹائی ہے، اب اس کا یہ کم بخت کرے گا کیا؟ لوگ جمع کرتے ہیں بیٹھ کر کھائیں، لیکن یہ راکشس تو جمع کرنے میں ہی لگا رہتا ہے۔ اسے جمع کرنے کی ہی ایسی ہائے  ہائے رہی ہے کہ دولت کس لئے جمع کی جاتی ہے، اس بات کو یہ بے چارہ بالکل بھول گیا ہے۔ ‘ پھر بڑے فکر مند اور فلسفیانہ موڈ میں دلاور سنگھ نے سلگتی ہوئی راکھ کو دیکھتے ہوئے کہا، ‘اس عمر تک تو جوڑنے کی ایسی ہوس ہے، اب اس کا یہ لطف کب اٹھائے گا؟ سچ مچ بابو جی، جب کبھی میں سوچتا ہوں تو بیچارے پر بڑا رحم آتا ہے۔ دیکھو، آج تک یہ بے چارہ بھاگ   دوڑ کر، گرما کی لو اور   دھوپ کی فکر چھوڑ کر جمع کر رہا ہے۔ ایک پائی اس میں سے کھا نہیں سکتا، جیسے کسی دوسرے کا ہو  اب فرض کریں، کل یہ مر جاتا ہے، تو یہ سب کس کے لئے جمع کیا گیا؟ بیچارے کے ساتھ کیسی لاچاری ہے، مر کر  جی کر، نوکر کی طرح جمع کئے جا رہا ہے، نہ خود کھا سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی دوسرا چھو بھی لے۔  جیسے دولت کے اوپر بیٹھا سانپ، خود کھا نہیں سکتا، کھانے تو خیر دے گا ہی کیا؟ اس کی حفاظت کرنا اور شامل ۔۔۔ ‘ اور لالہ روپا رام کے لئے  رحم  کے جذبات سے بھر کر چوکیدار نے ایک گہری سانس لی۔ پھر دوسرے ہی لمحے دانت کٹکٹاتا ہوا بولا، ‘اور کبھی  کبھی دل ہوتا ہے، چھرا لے کر سالے کی چھاتی پر جا چڑھو، اور مربے کے آم کی طرح گودو۔ اپنے پیٹ میں جو اس نے اتنا پیسہ بھر رکھا ہے”، اس کی ایک  ایک پائی اگلوا لوں۔ چاہے خود نہ کھائے لیکن، جسے اپنے بچوں کو بھی کھلا  پلا نہیں سکتا، اس دولت کا کیا ہوگا؟ ‘

‘اس کے بچے کتنے ہیں؟’ اس بار پھر گووند بیتاب ہو گیا۔ اصل میں وہ چاہتا تھا کہ فلسفیانہ باتوں کو چھوڑ کر وہ جلد  سے  جلد اصل موضوع پر آ جائے  اور لکشمی کے بارے میں بتائے۔

بیان میں بہہ جانے کی اپنی کمزوری پر چوکیدار مسکرایا اور بولا، ‘اس کے بچے ہیں چار، بیوی مر گئی، باقی کسی ناتےدار، کسی رشتہ دار کو جھانکنے نہیں دیتا، اوپر تو کوئی نوکر بھی نہیں ہے۔ بس، ایک مری  مرائی سی بڑھیا بنا لی ہے، لوگ بڑے بھائی کی بیوی بتاتے ہیں۔ بس وہی ساری دیکھ بھال کرتی ہے۔ اور تو کسی کو میں نے ساتھ دیکھا نہیں۔ خود کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ۔۔۔۔ ‘

‘بڑے دو لڑکے ساتھ نہیں رہتے ۔۔۔’ اس بار مستری بولا۔

‘جی ہاں، وہ لوگ الگ ہی رہتے ہیں۔ دن میں ایک آدھ چکر لگا جاتے ہیں۔ ایک جوتوں کا کارخانہ دیکھتا ہے، دوسرا صابن کی فیکٹری سنبھالتا ہے۔ اس سالے کو ان پر بھی یقین نہیں ہے۔ پورے کاغذ  پتر، حساب  کتاب اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔ پابندی سے شام کو وہاں جاتا ہے وصولی کرنے۔ لیکن لڑکے بھی بڑے تیز ہیں، ذرا شوقین  طبیعت پائی ہے۔ اس کے مرتے ہی دیکھ لینا مستری، وہ اس کی ساری کنجوسی نکال ڈالیں گے۔ ‘ پھر یاد کر کے بولا، ‘اور کیا کہا تم نے؟’ ساتھ رہنے کی بات، سو بھیا، جب تک اکیلے تھے، تب تک تو کوئی بات نہیں تھی، لیکن اب تو ان کی بیویاں آ گئی ہیں نا، ایک آدھ بچہ بھی آ گیا ہے گھر میں، سو اسے دن بھر گود میں لٹکائے پھرتا ہے۔ اس کے گھر میں ایک چنڈی جو ہے نہ، اس کے ساتھ سب کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ ‘

ایک دم گووند کے دل میں آیا  لکشمی۔ اور وہ اوپر سے نیچے تک کانپ اٹھا۔ کون؟ لکشمی! ‘ اس کے منہ سے نکل ہی گیا۔

‘جی، جی ہاں، اسی کی بدولت تو یہ سارا کھیل ہے، وہی تو اس بھنڈار کی چابی ہے۔ وہ نہ ہوتی تو یہ تام  جھام آتا کہاں سے؟ اس نے تو اس  کے دن ہی پلٹ دیئے، نہیں تو تھا کیا اس کے پاس؟ ‘ اس بار یہ بات چوکیدار نے ایسے لٹکے سے کہی، جیسے کسی راز کی چابی دے دی ہو۔

‘کس طرح بھائی، کیسے؟’ گووند پوچھ بیٹھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا۔ یہ کیا تضاد ہے؟ ایک پل کو اس کے دماغ میں آیا  کہیں یہ روپیہ کمانے کے لئے تو لکشمی کا استعمال نہیں کرتا؟ راکشس! چنڈال!

اس کی بے قراری پر چوکیدار پھر مسکرایا، اور بولا، ‘باپ تو اس کا ایسا رئیس تھا بھی نہیں، پھر وہ کچی گرہستی چھوڑ کر مر گیا تھا۔ زیادہ سے  زیادہ ہزار  ہزار روپیہ دونوں بھائیوں کے پلے پڑا ہوگا۔ شادیاں دونوں کی ہو ہی چکی تھیں۔ کچھ کاروبار کھولنے کے خیال سے یہ سٹے میں اپنے روپے دونے  چوگنے کرنے جو پہنچا تو سب گنوا آیا۔ بڑے بھیا روچو رام نے ایک پن چکی کھول ڈالی۔ پہلے تو اس کی بھی حالت ڈانوا ڈول رہی تھی، لیکن سنتے ہیں کہ جب سے اس  کی لڑکی گوری پیدا ہوئی، اس کی حالت سنبھلتی ہی چلی گئی۔ یہ اسی کے یہاں کام کرتا تھا، میاں  بیوی وہیں پڑے رہتے۔ ایسا کچھ اس لڑکی کا پاؤں آیا کہ لالہ روچو رام سچ مچ کے لالہ ہو گئے۔ ان دونوں کے بڑے  بوڑھوں کا کہنا تھا کہ لڑکی ان کے خاندان میں بھگوان ہوتی ہے۔ اب تو اپنا لالہ کبھی اس اوجھا کے پاس جا، کبھی اس پیر کے پاس جا، کبھی اس کی ‘منت’، کبھی اس کا تعویذ’  دن  رات بس یہی کہ اے خدا، میرے لڑکی ہو۔ اور پتہ نہیں کس طرح، خدا نے سن لی اور لڑکی ہی آئی۔ آپ یقین نہیں کریں گے، پھر تو واقعی ہی روپا رام کے نقشے بدلنے لگے۔ پتہ نہیں گڑا ہوا ملا یا چھپر پھاڑ کر ملا۔  لالہ روپا رام کے ستارے پھر گئے ۔۔۔۔ اسے یقین ہونے لگا کہ یہ سب بیٹی کی خوشی ہے اور اصل میں یہ کوئی دیوی ہے۔ اس نے اس کا نام لکشمی رکھا اور صاحب، کہنا پڑے گا کہ لکشمی واقعی لکشمی ہی بن کر آئی۔ تھوڑے دنوں میں ہی ‘لکشمی فلور مل’ الگ بن گئی۔ اب تو اس کا یہ حال ہے کہ یہ مٹی بھی چھو دے تو سونا بن جائے گا اور پتھر کو اٹھا لے تو ہیرا۔ پھر آ گئی جنگ اور اس کے پنجے  چھکے ہو گئے۔ اس ٹھیکے ملنے لگے۔ سمجھئے، ایک کے بعد ایک مکان خریدے جانے لگے  سامان لانے  لے  جانے والے ٹرک آئے۔ ادھر روچو رام بھی پھل رہا تھا، اور دونوں بھائی فخر سے کہتے تھے  ‘ہمارے یہاں لڑکیاں لکشمی بن کر ہی آتی ہیں۔’ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ تصویر کی شکل بدل گئی ۔۔۔ ‘ چوکیدار دلاور سنگھ جانتا تھا کہ یہ اس کی کہانی کا کلائمیکس ہے۔ اس لئے سامعین کی بیتابی کو جھٹکا دینے کے لئے اس نے انگلی میں دبی، بیکار جلتی بیڑی کو دو  تین کش لگا کر ختم کیا اور بولا: ‘گوری شادی کے قابل ہو گئی تھی۔ شاید کسی پڑوسی لڑکے کو لے کر کچھ ایسی  ویسی باتیں بھی لالہ روچو رام نے سنیں۔ لوگوں نے انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں تو انہوں نے گوری کی شادی کر دی۔ اور اس کی شادی ہونا تھا کہ جیسے ایک دم سارا کھیل اجڑ گیا۔ اس کے جاتے ہی لالہ ایک بہت بڑا مقدمہ ہار گیا اور بھگوان کی لیلا دیکھئے، انہی دنوں اس پن چکی میں آگ لگ گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ گھریلو دشمن کا کام تھا۔ جو بھی ہو، بڑے ہاتھی کی طرح جو یکبارگی گرے تو اٹھنا دشوار ہو گیا۔ لوگ روپے داب گئے اور ان کا دوالا نکل گیا۔ دیوالہ کیا جی، ایک طرح سے بالکل ملیامیٹ ہو گیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا اور چھلا  چھلا تک بک گیا۔ ایک دن لالہ جی کی لاش تالاب میں پھولی ہوئی ملی۔ اب تو ہمارے لالہ روپا رام کو سانپ سونگھ گیا، ان کے کان کھڑے ہو گئے اور لکشمی پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسے اسکول سے اٹھا لیا گیا اور وہ دن سو آج کا دن، بے چاری نیچے نہیں اتری۔ گھر کے اندر اندر نہ کسی کو آنے دیتا ہے، نہ جانے دیتا ہے۔ ماسٹر رکھ کر پڑھانے کی بات پہلے اٹھی تھی، لیکن جب سنا کہ ماسٹر لوگ لڑکیاں کو بہکا کر بھگا لے جاتے ہیں تو وہ خیال ایک دم چھوڑ دیا گیا۔ لکشمی خوب روئی  پیٹی، لیکن اس راکشس نے اسے بھیجا ہی نہیں۔ لڑکی دیکھنے  دکھانے کے قابل ۔۔۔۔ ‘

بات کاٹ کر مستری بولا، "ارے دیکھنے  دکھانے کے قابل کیا، ہم نے خود دیکھا ہے۔ جدھر سے نکل جاتی ہے ادھر بجلی  سی کوند جاتی ہے۔ سو میں ایک ۔۔۔۔ ‘

اس بات کی مخالفت نہ کر کے، یعنی قبول کر کے چوکیدار بولا، ‘اسکول میں بھی سنتے ہیں، بڑی تعریف تھی، لیکن سب کی سالے نے  ریڑ مار دی۔ اسے یہ یقین ہو گیا کہ لڑکی واقعی لکشمی ہے اور جب دوسرے کی ہو جائے گی تو اس کا بھی ایک دم ستیا ناس ہو جائے گا۔ اسی ڈر سے نہ تو کسی کو آنے  جانے دیتا ہے اور نہ اس کی شادی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مانتا ہے۔ بری طرح اس کی عزت کرتا ہے، اس کی ہر ضد پوری کرتا ہے، لیکن نکلنے نہیں دیتا۔ لکشمی سولہ کی ہوئی، سترہ کی ہوئی، اٹھارہ، انیس ۔۔۔ سال پر سال گزر گئے۔ پہلے تو وہ سب سے لڑتی تھی۔ بڑی چڑچڑی اور ضد ہو گئی تھی۔ کبھی  کبھی گالی دیتی اور مار بھی بیٹھ جاتی تھی، پھر بھی معلوم نہیں کیا ہوا کہ گھنٹوں رات  رات بھر پڑی زور  زور سے روتی رہتی، پھر دھیرے  دھیرے اسے دورہ پڑنے لگا ۔۔۔ ‘

‘اب کیا عمر ہے؟’ گووند نے درمیان میں پوچھا۔

‘اس کی ٹھیک عمر تو کسی کو بھی پتہ نہیں، لیکن انداز سے پچیس  چھبیس سے کم کیا ہوگی؟’ نفرت سے ہونٹ ٹیڑھے کر کے چوکیدار نے اپنی بات جاری رکھی، "دورہ نہ پڑے تو بیچاری جوان لڑکی کیا کرے؟ ادھر گزشتہ پانچ  چھ سال سے تو یہ حال ہے کہ دورے میں گھنٹے  دو  گھنٹے وہ بالکل پاگل ہو جاتی ہے۔ اچھلتی  کودتی ہے، بری  بری گالیاں دیتی ہے، بے مطلب روتی  ہنستی ہے، چیزیں اٹھا  اٹھا کر ادھر  ادھر پھینکتی ہے۔ جو چیز سامنے ہوتی ہے اسے توڑ  پھوڑ دیتی ہے۔ جو ہاتھ میں آتا ہے، اس سے مار پیٹ شروع کر دیتی ہے اور سارے کپڑے اتار کر پھینک دیتی ہے۔ بالکل ننگی ہو جاتی ہے اور جانگیں پیٹ  پیٹ کر باپ سے کہتی ہے، ‘لے، تو نے مجھے اپنے لئے رکھا ہے، مجھے کھا، مجھے چبا، مجھے بھوگ ۔۔۔!’ یہ پٹتا ہے، گالیاں کھاتا ہے اور سب کچھ کرتا ہے، لیکن پہرے میں ذرا ڈھیل نہیں ہونے دیتا۔ چپ چاپ سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا  بیٹھا سنتا رہتا ہے۔ کیا زندگی ہے بیچارے کی! باپ ہے سو اسے بھوگ نہیں سکتا اور چھوڑ تو سکتا ہی نہیں۔ میری تو عمر نہیں رہی، ورنہ کبھی دل ہوتا ہے لے جاؤں، جو ہوگا سو دیکھا جائے گا ۔۔۔۔ ‘ اور ایک سخت درد سے مسکراتا چوکیدار دیر تک آگ کو دیکھتا رہا، پھر دھیرے سے ہونٹ چبا  کر بولا، ‘اس کی بوٹی  بوٹی گرم لوہے سے داغ جائے اور پھر شست  باندھ کر گولی سے اڑا دیا جائے۔’

گووند کا بھی دل بھاری ہو آیا تھا۔ اس نے دیکھا،بڈھے چوکیدار کی گیلی آنکھوں میں سامنے کی انگیٹھی کی دھندلی آگ کی پرچھائیں جھلملا رہی ہے۔

آدھی رات کو اپنی کوٹھری میں لیٹے لکشمی کے بارے میں سوچتے ہوئے موم بتی کی روشنی میں اس کی سب باتوں کی ایک  ایک تصویر گووند کی آنکھوں کے آگے متشکل ہو  اٹھی۔ اور پھر اس نے تاریکی کے ہالوں سے گھری، گرم  گرم آنسو بہاتی موم بتی کی دھندلی روشنی میں  پھر ایک بار وہ سطریں پڑھیں:

‘میں تمہیں جان سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔’

‘مجھے یہاں سے بھگا لے چلو ۔۔۔۔’

‘میں پھانسی لگا کر مر جاؤں گی ۔۔۔۔’

گووند کے ذہن میں اپنے  آپ ایک سوال اٹھا: ‘کیا میں ہی پہلا آدمی ہوں جو اس پکار کو سن کر اتنا بے قرار ہو اٹھا ہوں یا اوروں نے بھی اس آواز کو سنا ہے اور سن کر ان سنا کر دیا ہے؟

اور کیا واقعی جوان لڑکی کی آواز کو سن کر ان سُنا کیا جا سکتا ہے؟ ‘

٭٭٭

اصل کہانی گدیہ کوش ڈاٹ آرگ سے حاصل۔

http://www.gadyakosh.org/gk/%E0%A4%9C%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%81_%E0%A4%B2%E0%A4%95%E0%A5%8D%E0%A4%B7%E0%A5%8D%E0%A4%AE%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A5%88%E0%A4%A6_%E0%A4%B9%E0%A5%88_/_%E0%A4%B0%E0%A4%BE%E0%A4%9C%E0%A5%87%E0%A4%A8%E0%A5%8D%E0%A4%A6%E0%A5%8D%E0%A4%B0_%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%B5#.UqFASj967X4

  گوگل ٹرانسلیٹ کی جزوی مدد سے ترجمہ کیا گیا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

p dir=”RTL”