فہرست مضامین
عجائب القرآن
علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ
الحمد للہ رب العلمین و الصلوۃ والسلام علی سید المرسلین،
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
المدینۃ العلمیۃ
از بانی دعوت اسلامی، عاشق اعلیٰ حضرت، شیخ طریقت، امیر اہلسنت، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ
الحمد للہ علی احسانہ و بفضل رسولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ‘‘ دعوت اسلامی، نیکی کی دعوت، احیائے سنت اور اشاعت علم شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزم مصمم رکھتی ہے، ان تمام امور کو بحسن خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس المدینۃ العلمیۃ بھی ہے جو دعوت اسلامی کے علماء مفتیان کرام(کثّر ھم اللہ تعالیٰ)پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی اور اشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔
اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں :-
1۔۔۔ شعبہ کتب اعلیٰ حضرت رحمۃ تعالیٰ علیہ
2۔۔۔ شعبہ درسی کتب
3۔۔۔ شعبہ اصلاحی کتب
4۔۔۔ شعبہ تراجم کتب
5۔۔۔ شعبہ تفشیش کتب
6۔۔۔ شعبہ تخریج
المدینۃ العلمیۃ کی اوّلین ترجیح سرکار اعلیٰ حضرت امام اہلسنت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، مجدد دین و ملّت، حامی سنت، ماحی بدعت، عالم شریعت، پیر طریقت، باعث خیر و برکت، حضرت علامہ مولیٰنا الحاج الحافظ القاری الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن کی گراں مایہ تصانیف کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتیٰ الوسعیٰ سہل اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اس علمی تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کتب کا خود بھی مطالعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں۔
اللہ عزوجل، دعوت اسلامی کی تمام مجالس بشمول المدینۃ العلمیۃ کو دن گیارھویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عمل خیر کو زیور اخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے، ہمیں زیر گنبد خضرا شہادت، جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم
رمضان المبارک 1425 ھ
پیش لفظ
الحمد اللہ عزوجل ! ہماری یہ کوشش ہے کہ اپنے اکابرین کی کتب کو احسن اسلوب میں پیش کریں۔ اس سلسلے میں امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن کے کئی رسائل (تخریج و تسہیل شدہ )طبع ہو کر عوام و خواص سے خراج تحسین پا چکے ہیں۔
جب کہ بہار شریعت حصہ اول بھی شائع ہو چکا ہے۔ اب عجائب القرآن مع الغرائب القرآن پیش خدمت ہے جو شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ اعظمٰیٰ علیہ الرحمۃ کی تالیف ہے۔ اس میں قرآنی واقعات کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
طباعت جدید کیلئے اس کتاب کے مسودے کی تطبیق مستند نسخہ جات سے کی گئی ہے۔
حوالہ جات کی تخریج کی گئی ہے اور آیات کا ترجمہ امام اہلسنت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن کے ترجمہ قرآن کنز الایمان سے درج کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنے کیلئے مدنی انعامات پر عمل اور مدنی قافلوں کا مسافر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃ کو دن گیارھویں رات بارھویں ترقی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
شعبہ تخریج (المدینۃ العلمیۃ)
کیوں لکھا ؟ اور کیا لکھا ؟
ربیع الاول 1400ھ میں چند مقتدر علماء اہل سنت نے اپنے خواہش بصورت فرمائش ظاہر فرمائی کہ میں قرآن مجید کا ایک ترجمہ سلیس اور عام فہم زبان میں لکھ دوں، اس وقت پہلی بار مجھ پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا۔ میں نے جواب میں ان حضرات سے اپنی ضعیفی اور بیماری کا عذر کر کے اس کام سے معافی طلب کر لی اور عرض کر دیا کہ اگر چند سال قبل آپ لوگوں نے اس طرف توجہ دلائی ہوتی تو میں ضرور یہ کام شروع کر دیتا مگر اب جب کہ ضعیفی کے ساتھ مرض فالج نے میری توانائیوں کو بالکل مضمحل کر دیا ہے، اتنا بڑا کام میرے بس کی بات نہیں۔ پھر بعض عزیزوں نے کہا کہ اگر پورے قرآن مجید کا ترجمہ نہیں لکھتے تو ‘نوادر الحدیث ‘ کی طرح قرآن مجید کی چند آیتوں ہی کا ترجمہ اور تفسیر لکھ کر آیتوں کی مناسب تشریح کر دیتے تو بہت اچھا اور بے حد مفید علمی کام ہو جاتا۔
یہ کام میرے نزدیک بہت سہل تھا۔ چنانچہ میں نے تو کلا علی اللہ اس کام کو شروع کر دیا۔ مگر ابھی تقریباً ایک سو صفحات کا مسودہ لکھنے پایا تھا کہ ناگہاں 13 دسمبر 1981 کو رات میں سوتے ہوئے فالج کا دوسری مرتبہ حملہ ہوا اور بایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں اس طرح مفلوج ہو گئے کہ ان میں حس و حرکت ہی باقی نہ رہی۔ فوراً ہی بذریعہ جیپ براؤن شریف سے دو طالب علموں کی مدد سے اپنے مکان پر گھوسی آ گیا اور دو ماہ پلنگ پر پڑا رہا۔ مگر الحمد للہ! کہ بہت جلد خداوند کریم کا فضل عظیم ہو گیا کہ ہاتھ پاؤں میں حس و حرکت پیدا ہو گئی اور تین ماہ کے بعد میں کھڑا ہونے لگا اور رفتہ رفتہ بحمدہ تعالیٰ اس قابل ہو گیا کہ جمعہ و جماعت کیلئے مسجد تک جانے لگا۔ چنانچہ وہ مسودہ جو ناتمام رہ گیا تھا، اب بحالت مرض اس کو مکمل کر کے عجائب القرآن کے نام سے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس مجموعہ میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں سے چن کر پینسٹھ ان عجیب عجیب چیزوں اور تعجب خیز و حیرت انگیز واقعات کو جن کا قرآن مجید میں مختصر تذکرہ ہے، نقل کر کے ان کی مناسب تفصیل و توضیح تحریر کر دی ہے اور ان واقعات کے دامنوں میں جو عبرتیں اور نصیحتیں چھپی ہوئی ہیں، ان کو بھی ‘ درس ہدایت ‘ کے عنوان سے پیش کر دیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند کریم میری دوسری تصنیفات کی طرح اس انیسویں کتاب کو بھی مقبولیت دارین کی کرامتوں سے سرفراز فرما کر نافع الخلائق بنائے اور اس خدمت کو میرے اور میرے والدین نیز میرے اساتذہ و تلامذہ و مریدین و احباب کیلئے زاد آخرت و ذریعہ ء مغفرت بنائے اور میرے نواسے مولوی فیض الحق صاحب سلمہ المولیٰ تعالیٰ کو عالم با عمل بنائے اور ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ اس کتاب کی تدوین و تبییض اور طباعت وغیرہ میں میرے دست و بازو بنے رہے۔ (آمین)
یہ کتاب اس حال میں تحریر کر رہا ہوں کہ کمزوری و نقاہت سے چلنا پھرنا دشوار ہو رہا ہے۔ مگر الحمد للہ کہ داہنا ہاتھ کام کر رہا ہے اور دل و دماغ بالکل درست ہیں۔ علاج کا سلسلہ جاری ہے۔
قارئین و ناظرین کرام دعا فرمائیں کہ مولیٰ تعالیٰ مجھے جلد شفا یاب فرمائے تاکہ میں آخر حیات تک درس حدیث و دینی تصانیف و مواعظ کا سلسلہ جاری رکھ سکوں۔
وما ذلک علی اللہ بعزیز وھو حسبی ونعم الوکیل والحمدللہ رب العٰلمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
عبد المصطفیٰ الاعظمی عفی عنہ
جنتی لاٹھی
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو ‘ عصاء موسیٰ ‘ کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ کے بہت سے ان معجزات کا ظہور ہوا جن کو قرآن مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔
اس مقدس لاٹھی کی تاریخ بہت قدیم ہے جو اپنے دامن میں سینکڑوں ان تاریخی واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے جن میں عبرتوں اور نصیحتوں کے ہزاروں نشانات ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جن سے اہل نظر کو بصیرت کی روشنی اور ہدایت کا نور ملتا ہے۔
یہ لاٹھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی اور اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات میں مشعل کی طرح روشن ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ چنانچہ حضرت سید علی اجہوزی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ
واٰدمُ معَہ اُنزلَ العُودُ والعَصَا
لمُوسیٰ مِنَ الاٰس النّباتِ المُکرم
واَورََاقُ تین وّ الیَمینُ بمَکۃَ
وخَتمُ سُلَیمٰنَ النبی المُعَظم
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ عود (خوشبودار لکڑی )حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو عزت والی پیلو کی لکڑی کا تھا، انجیر کی پتیاں، حجر اسود جو مکہ معظمہ میں ہے اور نبی ء معظم حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی یہ پانچوں چیزیں جنت سے اتاری گئیں۔ (تفسیر الصادی، ج1، ص 69، البقرۃ: 60 )
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد یہ مقدس عصاء حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو یکے بعد دیگرے بطور میراث کے ملتا رہا یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ملا جو ‘ قوم مدین ‘ کے نبی تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکم خداوندی عزوجل کے مطابق آپ کو یہ مقدس عصاء عطا فرمایا۔
پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کیلئے روانہ ہوئے اور وادی مقدس مقام ‘ طویٰ ‘ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔ اس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اس کو اس طرح بیان فرمایا کہ
وما تلک بیمینک یٰموسیٰ قال ھیَ عصای ج اتوکؤا علیھا و اھش بھا علیٰ غنمِی وَلی فیھَا ماٰرب اخریٰ (طہ: 17، 18)
ترجمہ کنزالایمان : اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے۔ میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اس میں اور کام ہیں۔
ماٰرب اخریٰ (دوسرے کاموں )کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات بن احمد نسفی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مثلاً
(1)اس کو ہاتھ میں لے کر اس کے سہارے چلنا (2)اس سے بات چیت کر کے دل بہلانا (3)دن میں اس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا (4)رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (5)اس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (6)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (7)بوقت ضرورت اس کا درخت بن کر حسب خواہش پھل دینا (8 )اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ (مدارک التنزیل، ج3، ص 251، پ16، طہ:18)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس مقدس لاٹھی سے مذکورہ بالا کام نکالتے رہے مگر جب آپ فرعون کے دربار میں ہدایت فرمانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو جادوگر کہہ کر جھٹلایا تو آپ کے اس عصا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزات کا ظہور شروع ہو گیا، جن میں سے تین معجزات کا تذکرہ قرآن مجید نے بار بار فرمایا جو حسب ذیل ہیں:-
عصا اژدھا بن گیا
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصا اژدھا بن گیا!
اس کا واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک میلہ لگوایا اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کیلئے مقابلہ پر لگا دیا اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں ینسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادو گروں کا سامان لیکر جمع ہو گیا اور ان جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بد مست ہو گئے اور جوش شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑے اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور با آواز بلند اعلان کرنا شروع کر دیا کہ
‘‘امنا برب ھٰرون و موسیٰ“
یعنی ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔
چنانچہ قرآن مجید نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :-
قالوا یٰموسیٰ اما ان تلقی و اما ان نکون اول من القیٰ ہ قال بل القوا ج فاذا حبالھم و عصیھم یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعیٰ ہ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ ہ قلنا لا تخف انک انت الاعلٰیٰ ہ والق مافی یمینک تلقف ما صنعوا ط انما صنعوا کید سحر ط ولا یفلح السحر حیث اتیٰ ہ فالقی السحرۃ سجّدا قالوا امنا برب ھٰرون و موسیٰ ہ (پ 16 طہ 65 تا 70)
ترجمہ کنز الایمان :-
بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اور ڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادو کا فریب ہے اور جادو کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادو گر سجدے میں گرا لئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے
بنی اسرائیل کا اصل وطن ملک شام تھا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے دور حکومت میں یہ لوگ مصر میں آ کر آباد ہو گئے اور ملک شام پر قوم عمالقہ کا تسلط اور قبضہ ہو گیا۔ جو بدترین قسم کے کفار تھے۔ جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے خطرات سے اطمینان ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قوم عمالقہ سے جہاد کر کے ملک شام کو ان کے قبضہ و تسلط سے آزاد کرائیں۔ چنانچہ آپ چھ لاکھ بنی اسرائیل کی فوج لے کر جہاد کے لئے روانہ ہو گئے مگر ملک شام کی حدود میں پہنچ کر بنی اسرائیل پر قوم عمالقہ کا ایسا خوف سوار ہو گیا کہ بنی اسرائیل ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیر لیا۔ اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ سزا دی کہ یہ لوگ چالیس برس تک‘ میدان تیہ ‘ میں بھٹکتے اور گھومتے پھرے اور اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ میدان تیہ میں تشریف فرما تھے۔ جب بنی اسرائیل اس بے آب و گیاہ میدان میں بھوک پیاس کی شدت سے بےقرار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کھانے کیلئے ‘ من و سلویٰ ‘ آسمان سے اتارا۔
مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا، اور سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں تھیں۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ پیاس سے بےتاب ہونے لگے اور پانی مانگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مار دیا تو اس پتھر میں بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ خاندان اپنے اپنے ایک چشمے سے پانی لے کر خود بھی پینے لگے اور اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے اور پورے چالیس برس تک یہ سلسلہ جاری ریا۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا جو عصا اور پتھر کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ اور معجزہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
واذ استسقیٰ موسیٰ لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ط فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا ط قد علم کل اناس مشربھم (پ1، البقرۃ: 60)
ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مدت دراز تک فرعون کو ہدایت فرماتے رہے اور آیات و معجزات دکھاتے رہے مگر اس نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اور زیادہ اس کی شرارت و سرکشی بڑھتی رہی اور بنی اسرائیل نے چونکہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا اس لئے اس نے ان مومنین کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس دوران میں ایک دم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی اتری کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لیکر رات میں مصر سے ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات میں مصر سے روانہ ہو گئے۔ جب فرعون کو پتا چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی گرفتاری کیلئے چل پڑا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو بنی اسرائیل فرعون کے خوف سے چیخ پڑے کہ اب تو ہم فرعون کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کی پوزیشن بہت نازک ہو گئی کیونکہ ان کے پیچھے فرعون کا خونخوار لشکر تھا اور آگے موجیں مارتا ہوا دریا تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کو تسلی دے رہے تھے۔ جب دریا کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی لاٹھی دریا پر ماردو۔ چنانچہ جونہی آپ نے دریا پر لاٹھی ماری تو فوراً ہی دریا میں بارہ سڑکیں بن گئیں اور بنی اسرائیل ان سڑکوں پر چل کر سلامتی کے ساتھ دریا سے پار نکل گئے۔ فرعون جب دریا کے قریب پہنچا اور اس نے دریا کی سڑکوں کو دیکھا تو وہ بھی اپنے لشکروں کے ساتھ ان سڑکوں پر چل پڑا۔ مگر جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو اچانک دریا موجیں مارنے لگا اور سب سڑکیں ختم ہو گئیں اور فرعون اپنے لشکروں سمیت دریا میں غرق ہو گیا۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمایا کہ
فلما ترآء الجمعٰن قال اصحب موسیٰ انا لمدر کون ہ قال کلاج ان معی ربی سیھدین ہ فاوحینا الیٰ موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر ط فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم ہ وازلفنا ثم الاٰخرین ہ وانجینا موسیٰ ومن معہ اجمعین ہ ثم اغرقنا الاٰخرین ہ ان فی ذلک لایٰۃ ط وما کان اکثرھم مؤمنین ہ (پ19، الشعراء: 61 تا 67 (
ترجمہ کنزالایمان: پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے آ لیا موسیٰ نے فرمایا۔ یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے پہاڑ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچا لیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔
یہ ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس لاٹھی کے ذریعہ ظاہر ہونے والے وہ تینوں عظیم الشان معجزات جن کو قرآن کریم نے مختلف الفاظ اور متعدد عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرما کر لوگوں کیلئے عبرت اور ہدایت کا سامان بنا دیا ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جب کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔
پہلا معجزہ
اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔
اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے ان کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمت نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کر سکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کیلئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ ارحم الراحمین نے آپ کی براءت اور بے عیبی ظاہر کر دینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور ان کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی براءت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکار ہو گیا اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کیلئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کیلئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سر پٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر، یعنی اے پتھر ! میرا کپڑا۔۔۔۔ اے پتھر ! میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتا رہا۔
یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے۔ اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ ء کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ
واللہ ما بموسیٰ من باس
‘ یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔‘
جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی براءت کا اعلان کر چکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب30، ج2، ص442، رقم 3404، تفسیر الصاوی، ج5، ص 1659، پ22، الاحزاب: 69 (
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ
یآیھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین اٰذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا ط وکان عنداللہ وجیھا ہ
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔ (پ22، الاحزاب: 69)
دوسرا معجزہ
میدان تیہ میں اسی پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس برس تک بنی اسرائیل میدان تیہ میں استعمال کرتے رہے۔ جس کا پورا واقعہ پہلے گزر چکا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: فقلنا اضرب بعصاک الحجر (پ1، البقرۃ: 60 )میں ‘ پتھر ‘ سے یہی پتھر مراد ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ)معجزات کے منکرین جو ہر چیز کو اپنی ناقص عقل کی عینک ہی سے دیکھا کرتے ہیں۔ اس پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا محال قرار دے کہ اس معجزہ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ اتنے چھوٹے سے پتھر سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ حالانکہ یہ منکرین اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بعض پتھروں میں خداوند تعالیٰ نے یہ تاثیر پیدا فرما دی ہے کہ وہ بال مونڈ دیتے ہیں، بعض پتھروں کا یہ اثر ہے کہ وہ سرکہ کو تیز اور ترش بنا دیتے ہیں، بعض پتھروں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لوہے کو دور سے کھینچ لیتے ہیں، بعض پتھروں سے موذی جانور بھاگ جاتے ہیں، بعض پتھروں سے جانوروں کا زہر اتر جاتا ہے، بعض پتھر دل کی دھڑکن کیلئے تریاق ہیں، بعض پتھروں کو نہ آگ جلا سکتی ہے نہ گرم کر سکتی ہے، بعض پتھروں سے آگ نکل پڑتی ہے، بعض پتھروں سے آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے تو جب خداوند قدوس نے پتھروں میں قسم قسم کے اثرات پیدا فرما دیئے ہیں تو پھر اس میں کونسی خلاف عقل اور محال بات ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پتھر میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر بخش دیا اور اس میں یہ خاصیت عطا فرما دی کہ وہ زمین کے اندر سے پانی جذب کر کے چشموں کی شکل میں باہر نکالتا رہے یا اس پتھر میں یہ تاثیر ہو کہ جو ہوا اس پتھر سے ٹکراتی ہو وہ پانی بن کر مسلسل بہتی رہے یہ خداوند قادر و قدیر کی قدرت سے ہرگز ہرگز نہ کوئی بعید ہے نہ محال نہ خلاف عقل۔ لہٰذا اس معجزہ پر ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانھر ط وان منھا لما یشقق فیخرج منہ المآء ط وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ ط (پ1، البقرۃ: 74 )
ترجمہ کنزالایمان: اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔
بہر حال پتھروں سے پانی نکلنا یہ روزانہ کا چشم دید مشاہدہ ہے تو پھر بھلا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہو جانا کیونکر خلاف عقل اور محال قرار دیا جا سکتا ہے۔
میدان تیہ
جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور تمام بنی اسرائیل مسلمان ہو گئے اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان نصیب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ آپ بنی اسرائیل کا لشکر لے کر ارض مقدس (بیت المقدس )میں داخل ہو جائیں۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی قوم کا قبضہ تھا جو بدترین کفار تھے اور بہت طاقتور و جنگجو اور نہایت ہی ظالم لوگ تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے جہاد کیلئے روانہ ہوئے مگر جب بنی اسرائیل بیت المقدس کے قریب پہنچے تو ایک دم بزدل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس شہر میں ‘ جبارین ‘ (عمالقہ )ہیں جو بہت ہی زور آور اور زبردست ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ لوگ اس شہر میں رہیں گے ہم ہرگز ہرگز شہر میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہاں تک کہہ دیا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کا خدا جا کر اس زبردست قوم سے جنگ کریں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کی زبان سے یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بڑا رنج و صدمہ ہوا اور آپ نے باری تعالیٰ کے دربار میں یہ عرض کیا کہ
رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفسقین (پ6، المائدۃ: 25 )
ترجمہ کنزالایمان: اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ۔
اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ
فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ ج یتیھون فی الارض ط فل تاس علی القوم الفسقین (پ6، المائدۃ: 26 )
ترجمہ کنزالایمان: تو وہ زمین ان پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چھ لاکھ بنی اسرائیل ایک میدان میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے مگر اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ اسی میدان کا نام ‘ میدان تیہ ‘ ہے۔ اس میدان میں بنی اسرائیل کے کھانے کیلئے من و سلویٰ نازل ہوا اور پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے بار بار مختلف عنوانوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس میں سے سورہ ء مائدہ میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے جو بلاشبہ ایک عجیب الشان واقعہ ہے جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور شرارتوں کی تعجب خیز اور حیرت انگیز داستان ہے مگر اس کے باوجود بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت و شفقت بنی اسرائیل پر ہمیشہ رہی کہ جب یہ لوگ میدان تیہ میں بھوکے پیاسے ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگ کر ان لوگوں کے کھانے کیلئے من و سلویٰ نازل کرایا اور پتھر پر عصا مار کر بارہ چشمے جاری کرا دیئے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر اور آپ کے حلم اور تحمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
روشن ہاتھ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہدایت کیلئے اس کے دربار میں بھیجا تو دو معجزات آپ کو عطا فرما کر بھیجا۔ ایک ‘ عصا‘ دوسرا ‘ید بیضا ‘ (روشن ہاتھ )حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا، پھر جب آپ اپنا گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا تھا۔ اس معجزہ کو قرآن عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا کہ
واضمم الیٰ جناحک تخرج بیضآء من غیر سوء ایٰۃ اخریٰ ہ لنریک من ایٰتنا الکبریٰ ہ
ترجمہ کنزالایمان: اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ (پ16، طہ: 22، 23 )
اسی معجزہ کا نام ‘ ید بیضاء ‘ ہے جو ایک عجیب اور عظیم معجزہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دست مبارک سے رات اور دن میں آفتاب کی طرح نور نکلتا تھا۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 563، پ16، طہ22 )
من و سلویٰ
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدان تیہ میں مقیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کھانے کیلئے آسمان سے دو کھانے اتارے۔ ایک کا نام ‘من‘ اور دوسرے کا نام ‘سلویٰ‘ تھا۔ من بالکل سفید شہد کی طرح ایک حلوہ تھا یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا شمار کراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وانزلنا علیکم المن و السلویٰ (پ1، البقرۃ : 57 )
ترجمہ کنزالایمان: اور تم پر من اور سلویٰ اتارا۔
اس من و سلویٰ کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم تھا کہ روزانہ تم لوگ اس کو کھا لیا کرو اور کل کیلئے ہرگز ہرگز اس کا ذخیرہ مت کرنا۔ مگر بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں کو یہ ڈر لگنے لگا اگر کسی دن من و سلویٰ نہ اترا تو ہم لوگ اس بے آب و گیاہ، چٹیل میدان میں بھوکے مر جائیں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ چھپا کر کل کیلئے رکھ لیا تو نبی کی نافرمانی سے ایسی نحوست پھیل گئی کہ جو کچھ لوگوں نے کل کیلئے جمع کیا تھا وہ سب سڑ گیا اور آئندہ کیلئے اس کا اترنا بند ہو گیا اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کھانا کبھی خراب ہوتا اور نہ گوشت سڑتا، کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اسی تاریخ سے شروع ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے نہ کھانا بگڑتا تھا نہ گوشت سڑتا تھا۔ (تفسیر روح البیان۔ ج1، پ1، البقرۃ: 57)
بارہ ہزار یہودی بندر ہو گئے
روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے ستر ہزار آدمی ‘ عقبہ ‘ کے پاس سمندر کے کنارے ‘ ایلہ ‘ نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی فراخی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا اس طرح امتحان لیا کہ سینچر کے دن مچھلی کا شکار ان لوگوں پر حرام فرما دیا اور ہفتے کے باقی دنوں میں شکار حلال فرما دیا مگر اس طرح ان لوگوں کو آزمائش میں مبتلا فرما دیا کہ سینچر کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں نہیں آتیں تھیں تو شیطان نے ان لوگوں کو یہ حیلہ بتا دیا کہ سمندر سے کچھ نالیاں نکال کر خشکی میں چند حوض بنا لو اور جب سینچر کے دن ان نالیوں کے ذریعہ مچھلیاں حوض میں آ جائیں تو نالیوں کا منہ بند کردو اور اس دن شکار نہ کرو بلکہ دوسرے دن آسانی کے ساتھ ان مچھلیوں کو پکڑ لو۔ ان لوگوں کو یہ شیطانی حیلہ بازی پسند آ گئی اور ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب مچھلیاں نالیوں اور حوضوں میں مقید ہو گئیں تو یہی ان کا شکار ہو گیا۔ تو سینچر ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو ان کے لئے حرام تھا۔ اس موقع پر ان یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے۔
(1)کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حیلہ سے منع کرتے رہے اور ناراض و بیزار ہو کر شکار سے باز رہے۔
(2)اور کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے دوسروں کو منع نہ کرتے تھے بلکہ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے۔
(3)اور کچھ وہ سرکش و نافرمان لوگ تھے جنہوں نے حکم خداوندی کی اعلانیہ مخالفت کی اور شیطان کی حیلہ بازی کو مان کر سینچر کے دن شکار کر لیا اور ان مچھلیوں کو کھایا اور بیچا بھی۔
جب نافرمانوں نے منع کرنے کے باوجود شکار کر لیا تو منع کرنے والی جماعت نے کہا کہ اب ہم ان معصیت کاروں سے کوئی میل ملاپ نہ رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کو تقسیم کر کے درمیان میں ایک دیوار بنالی اور آمد و رفت کا ایک الگ دروازہ بھی بنا لیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔ تو انہیں دیکھنے کے لئے کچھ لوگ دیوار پر چڑھ گئے تو کیا دیکھا کہ وہ سب بندروں کی صورت میں مسخ ہو گئے ہیں۔ اب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور انکے پاس آ کر ان کے کپڑوں کو سونگھتے تھے اور زار و زار روتے تھے، مگر لوگ ان بندر بن جانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان بندر بن جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ یہ سب تین دن تک زندہ رہے اور اس درمیان میں کچھ بھی کھا پی نہ سکے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ شکار سے منع کرنے والا گروہ ہلاکت سے سلامت رہا اور صحیح قول یہ ہے کہ دل سے برا جان کر خاموش رہنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہلاکت سے بچا لیا۔ (تفسیر الصاوی، ج1، ص72، پ1، البقرۃ: 65 )
اس واقعہ کا اجمالی بیان تو سورہ بقرہ کی اس آیت میں ہے:
ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃ خسئین (پ1، البقرۃ: 65 )
ترجمہ کنزالایمان: اور بےشک ضرور تمہیں معلوم ہے تم کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔
اور مفصل واقعہ سورۂ اعراف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی۔ جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے۔ جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبب اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا۔ بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہو پھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچا لئے وہ جو برائی سے منع کرتے تھے۔ اور ظالموں کو برے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔ (پ9، الاعراف: 163 تا 166 )
درس ہدایت!!!
معلوم ہوا کہ شیطانی حیلہ بازیوں میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیوں کا انجام کتنا برا اور کس قدر خطرناک ہوتا ہے اور خدا کے نبی جن بدنصیبوں پر لعنت فرما دیں وہ کیسے ہولناک عذاب الہٰی میں گرفتار ہو کر دنیا سے نیست و نابود ہو کر عذاب نار میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور دونوں جہاں میں ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔ (نعوذ باللہ منہ)
اصحاب ایلہ کے اس دل ہلا دینے والے واقعے میں ہر مسلمان کیلئے بہت بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کا سامان ہے۔ کاش! اس واقعہ سے مسلمانوں کے قلوب میں خوف خداوندی کی لہر پیدا ہو جائے اور وہ اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی نافرمانیوں کی پگڈنڈیوں میں بھٹکنے سے منہ موڑ کر صراط مستقیم کی شاہراہ پر چل پڑیں اور دونوں جہانوں کی سر بلندیوں سے سرفراز ہو کر اعزاز و اکرام کی سلطنت کے تاجدار بن جائیں۔
دنیا کی سب سے قیمتی گائے !
یہ بہت ہی اہم اور نہایت ہی شاندار قرآنی واقعہ ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے قرآن مجید کی اس سورۃ کا نام ‘ سورہ بقرہ ‘ (گائے والی سورۃ )رکھا گیا ہے۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی نیک اور صالح بزرگ تھے اور ان کا ایک ہی بچہ تھا جو نابالغ تھا اور ان کے پاس فقط ایک گائے کی بچھیا تھی۔ ان بزرگ نے اپنی وفات کے قریب اس بچھیا کو جنگل میں لے جا کر ایک جھاڑی کے پاس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یا اللہ عزوجل میں اس بچھیا کو اس وقت تک تیری امانت میں دیتا ہوں کہ میرا بچہ بالغ ہو جائے۔ اس کے بعد ان بزرگ کی وفات ہو گئی اور بچھیا چند دنوں میں بڑی ہو کر درمیانی عمر کی ہو گئی اور بچہ جوان ہو کر اپنی ماں کا بہت ہی فرمانبردار اور انتہائی نیکوکار ہوا اس نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ میں سوتا تھا، اور ایک حصہ میں عبادت کرتا تھا، اور ایک حصہ میں اپنی ماں کی خدمت کرتا تھا اور روزانہ صبح کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے ایک تہائی رقم صدقہ کر دیتا اور ایک تہائی اپنی ذات پر خرچ کرتا اور ایک تہائی رقم اپنی والدہ کو دے دیتا۔
ایک دن لڑکے کی ماں نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! تمہارے باپ نے میراث میں ایک بچھیا چھوڑی تھی جس کو انہوں نے فلاں جھاڑی کے پاس جنگل میں خدا عزوجل کی امانت میں سونپ دیا تھا۔ اب تم اس جھاڑی کے پاس جا کر یوں دعا مانگو کہ اے حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل و حضرت اسحٰق علیہم السلام کے خدا! تو میرے باپ کی سونپی ہوئی امانت مجھے واپس دیدے اور اس بچھیا کی نشانی یہ ہے کہ وہ پیلے رنگ کی ہے اور اس کی کھال اس طرح چمک رہی ہوگی کہ گویا سورج کی کرنیں اس میں سے نکل رہی ہیں۔ یہ سن کر لڑکا جنگل میں اس جھاڑی کے پاس گیا اور دعا مانگی تو فوراً ہی وہ گائے دوڑتی ہوئی آ کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی اور یہ اس کو پکڑ کر گھر لایا تو اس کی ماں نے کہا۔ بیٹا تم اس گائے کو لے جا کر بازار میں تین دینار میں فروخت کر ڈالو۔ لیکن کسی گاہک کو بغیر میرے مشورہ کے مت دینا۔ ان دنوں بازار میں گائے کی قیمت تین دینار ہی تھی۔ بازار میں ایک گاہک آیا جو درحقیقت فرشتہ تھا۔ اس نے کہا کہ میں گائے کی قیمت تین دینار سے زیادہ دوں گا مگر تم ماں سے مشورہ کئے بغیر گائے میرے ہاتھ فروخت کر ڈالو۔ لڑکے نے کہا کہ تم خواہ کتنی بھی زیادہ قیمت دو مگر میں اپنی ماں سے مشورہ کئے بغیر ہرگز ہرگز اس گائے کو نہیں بیچوں گا۔ لڑکے نے ماں سے سارا ماجرا بیان کیا تو ماں نے کہا کہ یہ گاہک شاید کوئی فرشتہ ہو۔ تو اے بیٹا! تم اس سے مشورہ کرو کہ ہم اس گائے کو ابھی فروخت کریں یا نہ کریں۔ چنانچہ اس لڑکے نے بازار میں جب اس گاہک سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ ابھی تم اس گائے کو نہ فروخت کرو۔ آئندہ اس گائے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لوگ خریدیں گے تو تم اس گائے کے چمڑے میں سونا بھر کر اس کی قیمت طلب کرنا تو وہ لوگ اتنی ہی قیمت دے کر خریدیں گے۔ چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد بنی اسرائیل کے ایک بہت مالدار آدمی کو جس کا نام عامیل تھا۔ اس کے چچا کے دونوں لڑکوں نے اس کو قتل کر دیا اور اس کی لاش کو ایک ویرانے میں ڈال دیا۔ صبح کو قاتل کی تلاش شروع ہوئی مگر جب کوئی سراغ نہ ملا تو کچھ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قاتل کا پتا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایک گائے ذبح کرو اور اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے لاش کو مارو تو وہ زندہ ہو کر خود ہی اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ یہ سن کر بنی اسرائیل نے گائے کے رنگ، اس کی عمر وغیرہ کے بارے میں بحث و کرید شروع کر دی اور بالآخر جب وہ اچھی طرح سمجھ گئے کہ فلاں قسم کی گائے چاہئے تو ایسی گائے کی تلاش شروع کر دی یہاں تک کہ جب یہ لوگ اس لڑکے کی گائے کے پاس پہنچے تو ہو بہو یہ ایسی ہی گائے تھی جس کی ان لوگوں کو ضرورت تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے گائے کو اس کے چمڑے میں بھر کر سونا اس کی قیمت دے کر خریدا اور ذبح کر کے اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے مقتول کی لاش کو مارا تو وہ زندہ ہو کر بول اٹھا کہ میرے قاتل میرے چچا کے دونوں لڑکے ہیں جنہوں نے میرے مال کے لالچ میں مجھ کو قتل کر دیا ہے یہ بتا کر پھر وہ مر گیا۔ چنانچہ ان دونوں قاتلوں کو قصاص میں قتل کر دیا گیا اور مرد صالح کا لڑکا جو اپنی ماں کا فرمانبردار تھا کثیر دولت سے مالا مال ہو گیا۔ (تفسیر الصاوی،ج 1، ص75، پ1، البقرہ 71)
اس پورے مضمون کو قرآن مجید کی مقدس آیتوں میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:
ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو بولے کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں۔ فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتا دے گائے کیسی۔ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ اوسر بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تو کرو جب کا تمہیں حکم ہوتا ہے۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے ہمیں بتا دے اس کا رنگ کیا ہے کہا وہ فرماتا ہے، وہ ایک پیلی گائے ہے۔ جب کی رنگت ڈبڈباتی دیکھنے والوں کو خوشی دیتی۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صاف بیان کرے وہ گائے کیسی ہے، بے شک گایوں میں ہم کو شبہ پڑ گیا اور اللہ چاہے تو ہم راہ پا جائیں گے۔ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے، بے عیب ہے جس میں کوئی داغ نہیں۔ بولے اب آپ ٹھیک بات لائے۔ تو اسے ذبح کیا اور ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے۔ اور اللہ کا ظاہر کرنا جو تم چھپاتے تھے۔ تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو۔ اللہ یونہی مردے جلائے گا اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو۔ (پ1، البقرۃ: 67 تا 83)
درس ہدایت
اس واقعہ سے بہت سی عبرت انگیز اور نصیحت خیز باتیں اور احکام معلوم ہوئے ان میں سے چند یہ ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں:-
(1)خدا کے نیک بندوں کے چھوڑے ہوئے مال میں بڑی خیر و برکت ہوتی ہے۔ دیکھ لو اس مرد صالح نے صرف ایک بچھیا چھوڑ کر وفات پائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ ان کے وارثوں کو اس ایک بچھیا کے ذریعے بے شمار دولت مل گئی۔
(2)اس مرد صالح نے اولاد پر شفقت کرتے ہوئے بچھیا کو اللہ کی امانت میں سونپا تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ اولاد پر شفقت رکھنا اور اولاد کیلئے مال چھوڑ جانا یہ اللہ والوں کا طریقہ ہے۔
(3)ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کرنے والوں کو خداوند کریم غیب سے بے شمار رزق کا سامان عطا فرما دیتا ہے دیکھ لو کہ اس یتیم لڑکے کو ماں کی خدمت اور فرماں برداری کی بدولت اللہ تعالیٰ نے کس قدر صاحب مال اور خوش حال بنا دیا۔
(4)خداوند قدوس کے احکام میں بحث اور کرید کرنا مصیبتوں کا سبب ہوا کرتا ہے۔ دیکھ لو بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کر دیتے تو فرض ادا ہو جاتا مگر ان لوگوں نے جب بحث اور کرید شروع کر دی کہ کیسی گائے ہو؟ کیسا رنگ ہو ؟ کتنی عمر ہو ؟ تو مصیبت میں پڑ گئے کہ انہیں ایک ایسی گائے ذبح کرنی پڑی جو بالکل نایاب تھی۔ اسی لئے اس کی قیمت اتنی زیادہ ادا کرنی پڑی کہ دنیا میں کسی گائے کی اتنی قیمت نہ ہوئی، نہ آئندہ ہونے کی امید ہے۔
(5)جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی امانت میں سونپ دے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے اور اس میں بے حساب خیر و برکت عطا فرما دیتا ہے۔
(6)جو اپنے اہل و عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دے اللہ تعالیٰ اس کے اہل و عیال کی ایسی پرورش فرماتا ہے کہ جس کو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
(7)امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو پیلے رنگ کا جوتا پہنے گا وہ ہمیشہ خوش رہے گا اور اس کو غم بہت کم ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پیلی گائے کیلئے یہ فرمایا کہ تسرالنظٰرین کہ وہ دیکھنے والوں کو خوش کر دیتی ہے۔ (تفسیر روح البیان،ج1، ص160، پ1، البقرۃ:69 )
(8 )اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور جس قدر بھی زیادہ بے عیب اور خوبصورت اور قیمتی ہو اسی قدر زیادہ بہتر ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
ستر ہزار مردے زندہ ہو گئے !
یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کی قوم کا ایک بڑا ہی عبرت خیز اور انتہائی نصیحت آمیز واقعہ ہے جس کو خداوند قدوس نے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں بیان فرمایا ہے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے ؟
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ ہیں جو منصب نبوت پر سرفراز کئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وفات کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ عطا فرمائی۔ ان کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے خلافت سے سرفراز ہو کر مرتبہ پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین اور نبی ہوئے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ابن العجوز (بڑھیا کے بیٹے )ہے اور آپ ذوالکفل بھی کہلاتے ہیں۔ ‘ ابن العجوز ‘ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں اور آپ کا لقب ذوالکفل اس لئے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچا لیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔ (تفسیر الصاوی، ج1، ص206، پ2، البقرۃ: 243 )
مردوں کے زندہ ہونے کا واقعہ
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ فرما دیا کہ موتوا یعنی تم سب مر جاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کر سکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن و بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موت ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑ گڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آ گئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔
آپ بڑے سوز دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام )آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بےشک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہو جاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل(علیہ السلام )آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ کے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ سبحان اللٰھم و بحمدک لاالہٰ الا انت پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی وہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہو جاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہو جاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہو جاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔ (تفسیر روح البیان، ج1، ص378، پ2، البقرۃ: 243 )
یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ
الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت ص فقال لھم اللہ موتوا قف ثم احیاھم ط ان اللہ لذو فضل علی الناس ولکن اکثر الناس لا یشکرون ہ (پ2، البقرہ: 243 )
ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مر جاؤ پھر انہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
درس ہدایت
بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں۔
(1)آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آ سکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذا بندوں کو لازم ہے کہ رضاء الہٰی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ میں مر سکتا ہوں اور جب میری موت آ جائے گی تو میں کچھ بھی کروں کہیں بھی چلا جاؤں بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔
(2)اس آیت میں خاص طور پر مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کر سکتا لہٰذا مجاہدین کو میدان جنگ میں دل مضبوط کر کے ڈٹے رہنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا،نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے،یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہو جاتا ہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور ا س کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی اور وہ ہر جگہ جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجر عظیم اور مال غنیمت کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے تھے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔ شاعر مشرق نے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کسی مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ سنایا کہ
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
(کلیات اقبال، بانگ درا، ص164)
(((لطیفہ)))منقول ہے کہ بنو امیہ کا بادشاہ عبدالملک بن مروان جب ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو موت کے ڈر سے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے شہر سے بھاگ نکلا اور ساتھ میں اپنے خاص غلام اور کچھ فوج بھی لے لی اور وہ طاعون کے ڈر سے اس قدر خائف اور ہراساں تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے کی پشت پر سوتا تھا۔ دوران سفر ایک رات اس کو نیند نہیں آئی۔ تو اس نے اپنے غلام سے کہا کہ تم مجھے کوئی قصہ سناؤ۔ تو ہوشیار غلام نے بادشاہ کو نصیحت کرنے کا موقع پا کر یہ قصہ سنایا کہ ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کیلئے ایک شیر کی خدمت گزاری کیا کرتی تھی تو کوئی درندہ شیر کی ہیبت کی وجہ سے لومڑی کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا اور لومڑی نہایت ہی بے خوفی اور اطمینان سے شیر کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ اچانک ایک دن ایک عقاب لومڑی پر جھپٹا تو لومڑی بھاگ کر شیر کے پاس چلی گئی اور شیر نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ عقاب دوبارہ جھپٹا اور لومڑی کو شیر کی پیٹھ پر سے اپنے چنگل میں دبا کر اڑ گیا۔ لومڑی چلا چلا کر شیر سے فریاد کرنے لگی تو شیر نے کہا کہ اے لومڑی! میں زمین پر رہنے والوں درندوں سے تیری حفاظت کر سکتا ہوں لیکن آسمان کی طرف سے حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔ یہ قصہ سن کر عبدالملک بادشاہ کو بڑی عبرت حاصل ہوئی اور اس کی سمجھ میں آ گیا کہ میری فوج ان دشمنوں سے تو میری حفاظت کر سکتی ہے جو زمین پر رہتے ہیں مگر جو بلائیں اور وبائیں آسمان سے مجھ پر حملہ آور ہوں، ان سے مجھ کو نہ میری بادشاہی بچا سکتی ہے نہ میرا خزانہ اور نہ میرا لشکر میری حفاظت کر سکتا ہے۔ آسمانی بلاؤں سے بچانے والا تو بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچ کر عبدالملک بادشاہ کے دل سے طاعون کا خوف جاتا رہا اور وہ رضاء الہٰی پر راضی رہ کر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے شاہی محل میں رہنے لگا۔ (تفسیر روح البیان، ج1، ص378، پ2، البقرۃ: 244 )
سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عزیز بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کر دیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کر دیا اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنا لیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔
بخت نصر کون تھا ؟
قوم عاملقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ‘ نصر ‘ کے پاس لا وارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا بخت نصر (نصر کا بیٹا )رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہر سف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔ (تفسیر جمل، ج1، ص321، البقرۃ: 259)
کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام جب کسی طرح ‘ بخت نصر ‘ کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہو چکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کرے گا ؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کر دیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کر دیا اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلا بلا کر اس شہر میں آباد کر دیا اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اور قسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور با رونق بنا دیا۔ جب حضرت عزیز علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مر چکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑیں ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمرو ہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیز! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے ؟ تو آپ نے خیال کر کے کہا کہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں، اے عزیز! تم پورے سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیز! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان میں گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیز علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا:
اعلم ان اللہ علیٰ کل شئ قدیر ہ (پ3، البقرۃ: 259 )
ترجمہ کنزالایمان: میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
اس کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیز علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیز کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیز کا کیا ذکر ہے ؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہو چکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! میں ہی عزیز ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ! آپ کیسے عزیز ہو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آ گیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیز علیہ السلام تو ایسے با کمال تھے کہ ان کی ہر دعاء مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیز علیہ السلام ہیں تو میرے لئے دعا کیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آ جائے اور میرا فالج اچھا ہو جائے۔ حضرت عزیز علیہ السلام نے دعاء کر دی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقیناً حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لیکر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلا شبہ یہ حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیز کو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیز ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنائیے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کر دیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیز نے توراۃ صحیح پڑھی یا نہیں ؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کر دی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کر دو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کر دوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیز نے جو توراۃ پڑھی وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیز کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ بے شک حضرت عزیز یہی ہیں اور یقیناً یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذاللہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ )
(تفسیر جمل علی الجلالین، ج1، ص322، پ3، البقرۃ: 259 )
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
او کالذی مر علیٰ قریۃ وھی خاویۃ علیٰ عروشھاج قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا ج فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ ط قال کم لبثت ط قال لبثت یوما او بعض یومط قال بل لبثت مائۃ عام فانظر الی طعامک و شرابک لم یتسنہ ج وانظر الیٰ حمارک و لنجعلک ایٰۃ للناس و انظر الی العظام کیف نشزھا ثم نکسوھا لحما ط فلما تبین لہ لا قال اعلم ان اللہ علی کل شئ قدیر ہ (پ3، البقرۃ: 259 )
ترجمہ کنزالایمان: یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں بلکہ سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں )اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
درس ہدایت
(1)ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیز علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ ء انگور اور خود حضرت عزیز علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہو جائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہو سکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیز علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم )
(2)بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالیٰ اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
تابوت سکینہ
یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخر زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔
پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔
یہ بڑا ہی مقدس اور با برکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہو جاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہو جاتے تھے۔ اور جس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصرٌ مّن اللہ و فَتحٌ قَریب کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہو جایا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوت سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرت خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہو گئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہو گیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کر دیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کر ڈالا اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دئیے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آ جائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ صندوق آ گیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔ (تفسیر الصاوی، ج1، ص209۔ تفسیر روح البیان، ج1، ص385۔ پ2، البقرۃ: 247 )
تابوت سکینہ میں کیا تھا ؟
اس مقدّس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔ (تفسیر روح البیان، ج1، ص386، پ2، البقرۃ: 248 )
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :-
وقال لھم نبیھم ان ایۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ من ربکم و بقیۃ مما ترک اٰل موسیٰ وال ھرون تحملہ الملئکۃ ط ان فی ذٰلک لایٰۃ لکم ان کنتم مؤمنین ہ (پ2، البقرۃ: 248 )
ترجمہ کنزالایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہاری پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔
درس ہدایت
بنی اسرائیل کے صندوق کے اس واقعہ سے چند مسائل و فوائد پر روشنی پڑتی ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں:
(1)معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات کی خداوند قدوس کے دربار میں بڑی عزت و عظمت ہے اور ان کے ذریعہ مخلوق خدا کو بڑے بڑے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔ دیکھ لو ! اس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جوتیاں، آپ کا عصا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی پگڑی تھی، تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ صندوق اس قدر مقبول اور مکرم و معظم ہو گیا کہ فرشتوں نے اس کو اپنے نورانی کندھوں پر اٹھا کر حضرت شمویل علیہ السلام کے دربار نبوت میں پہنچایا اور خداوندی قدوس نے قرآن مجید میں اس بات کی شہادت دی کہ فیہ سکینۃ من ربکم یعنی اس صندوق میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ یعنی مومنوں کے قلوب کا اطمینان اور ان کی روحوں کی تسکین کا سامان تھا۔مطلب یہ کہ اس پر رحمت الہٰی کے انوار و برکات کا نزول اور اس پر رحمتوں کی بارش ہوا کرتی تھی تو معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات جہاں اور جس جگہ بھی ہوں گے ضرور ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہوگا اور اس پر نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں سے مومنین کو سکون قلب اور اطمینان روح کے فیوض و برکات ملتے رہیں گے۔
(2)اس صندوق میں اللہ والوں کے لباس و عصا اور جوتیاں ہوں جب اس صندوق پر اطمینان کا سکینہ اور انوار و برکات کا خزینہ خدا کی طرف سے اترنا، قرآن سے ثابت ہے تو بھلا جس قبر میں ان بزرگوں کا پورا جسم رکھا ہوگا، کیا ان قبروں پر رحمت و برکت اور سکینہ و اطمینان نہیں اترے گا ؟ ہر عاقل انسان جس کو خداوند عالم نے بصارت کے ساتھ ساتھ ایمانی بصیرت بھی عطا فرمائی ہے، وہ ضرور اس بات پر ایمان لائے گا کہ جب بزرگوں کے لباس اور ان کی جوتیوں پر سکینہ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ان بزرگوں کی قبروں پر بھی رحمت خداوندی کا خزینہ ضرور نازل ہو گا۔ اور جب بزرگوں کی قبروں پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے تو جو مسلمان ان مقدس قبروں کے پاس حاضر ہو گا ضرور اس پر بھی بارش انوار رحمت کے چند قطرات برس ہی جائیں گے کیونکہ جو موسلا دھار بارش میں کھڑا ہوگا ضرور اس کا کپڑا اور بدن بھیگے گا، جو دریا میں غوطہ لگائے گا ضرور اس کا بدن پانی سے تر ہو گا، جو عطر کی دوکان پر بیٹھے گا ضرور اس کو خوشبو نصیب ہو گی۔ تو ثابت ہو گیا کہ جو بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیں گے ضرور وہ فیوض و برکات کی دولتوں سے مالا مال ہوں گے اور ضرور ان پر خدا کی رحمتوں کا نزول ہوگا جس سے ان کے مصائب و آلام دور ہوں گے اور دین و دنیا کے فوائد منافع حاصل ہوں گے۔
(3)یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ بزرگوں کے تبرکات یا ان کی قبروں کی اہانت و بے ادبی کریں گے وہ ضرور قہر و قہار اور غضب جبار میں گرفتار ہوں گے کیونکہ قوم عمالقہ جنہوں نے اس صندوق کی بے ادبی کی تھی ان پر ایسا قہر الہٰی کا پہاڑ ٹوٹا کہ وہ بلاؤں کے ہجوم سے بلبلا اٹھے اور کافر ہوتے ہوئے انہوں نے اس بات کو مان لیا کہ ہم پر بلاؤں اور وباؤں کا حملہ اسی صندوق کی بے ادبی کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ان لوگوں نے اس صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کی بستی میں بھیج دیا تاکہ وہ لوگ غضب الہٰی کی بلاؤں کے پنجہ قہر سے نجات پا لیں۔
(4)جب اس صندوق کی برکت سے بنی اسرائیل کو جہاد میں فتح مبین ملتی تھی تو ضرور بزرگوں کی قبروں سے بھی مؤمنین کی مشکلات دفع ہوں گی اور مرادیں پوری ہوں گی کیونکہ ظاہر ہے کہ بزرگوں کے لباس سے کہیں زیادہ اثر رحمت بزرگوں کے بدن میں ہوگا۔
(5)اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قوم سرکشی اور عصیان کے طوفان میں پڑ کر اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم )کی نافرمان ہو جاتی ہے اس قوم کی نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھ لیا کہ جب بنی اسرائیل سرکش ہو کر خدا کے نافرمان ہو گئے اور قسم قسم کی بدکاریوں میں پڑ کر گناہوں کا بھوت ان کے سروں پر عفریت بن کر سوار ہو گیا تو ان کے جرموں کی نحوستوں نے انہیں یہ برا دن دکھایا کہ صندوق سکینہ ان کے پاس سے قوم عمالقہ کے کفار اٹھا لے گئے اور بنی اسرائیل کئی برسوں تک اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
ذبح ہو کر زندہ ہو جانے والے پرندے
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدوس کے دربار میں یہ عرض کیا کہ یا اللہ تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے، تو آپ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ؟ میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تاکہ میرے دل کو قرار آ جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندوں کو پالو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو پھر تم انہیں ذبح کر کے اور ان کا قیمہ بنا کر اپنے گرد و نواح کے چند پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا گوشت رکھ دو۔ پھر ان پرندوں کو پکارو تو وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آ جائیں گے اور تم مردوں کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک گدھ، ایک مور۔ ان چار پرندوں کو پالا اور ایک مدت تک ان چاروں پرندوں کو کھلا پلا کر خوب ہلا ملا لیا۔ پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان چاروں کا قیمہ بنا کر تھوڑا تھوڑا گوشت اطراف و جوانب کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور دور سے کھڑے ہو کر ان پرندوں کا نام لے کر پکارا کہ یایھا الدیک ‘ اے مرغ‘ یایتھا الحمامۃ ‘ اے کبوتر‘ یایھا النسر ‘ اے گدھ‘ یایھا الطاؤس ‘ اے مور‘ آپ کی پکار پر ایک دم پہاڑوں سے گوشت کا قیمہ اڑنا شروع ہو گیا اور ہر پرند کا گوشت، پوست، ہڈی، پر، الگ ہو کر چار پرند تیار ہو گئے اور وہ چاروں پرند بلا سروں کے دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ گئے اور اپنے سروں سے جڑ کر دانہ چگنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر دیکھ لیا اور ان کے دل کو اطمینان و قرار مل گیا۔
اس واقعہ کا ذکر خداوند کریم نے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ:-
واذ قال ابرھم رب ارنی کیف تحی الموتی ط قال اولم تومن ط قال بلی و لکن لیطمئن قلبی ط قال فخذ اربعۃ من الطیر فصر ھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزاء اثم ادعھن یاتینک سعیا ط واعلم ان اللہ عزیز حکیم ہ (پ3، البقرۃ: 260 )
ترجمہ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم نے اے رب میرے مجھے دکھا دے تو کیونکر مردے جلائے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں عرض کی یقیں کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آ جائے۔ فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلا لے پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بلا وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاؤں سے دوڑتے اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔
درس ہدایت::: مذکورہ بالا قرآنی واقعہ سے مندرجہ ذیل مسائل پر خاص طور سے روشنی پڑتی ہے۔ ان کو بغور پڑھئے اور ہدایت کا نور حاصل کیجئے اور دوسروں کو بھی روشنی دکھائیے۔
مردوں کو پکارنا
چاروں پرندوں کا قیمہ بنا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہاڑوں پر رکھ دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ثم ادعھن یعنی ان مردہ پرندوں کو پکارو۔ چنانچہ آپ نے چاروں کو نام لیکر پکارا تو اس سے یہ مسئلہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کا پکارنا شرک نہیں ہے کیونکہ جب مردہ پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے پکارنے کا حکم فرمایا اور ایک جلیل القدر پیغمبر نے ان مردوں کو پکارا تو ہرگز ہرگز یہ شرک نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خداوند کریم کبھی بھی کسی کو شرک کا حکم نہیں دے گا نہ کوئی نبی ہرگز ہرگز کبھی شرک کا کام کر سکتا ہے۔ تو جب مرے ہوئے پرندوں کو پکارنا شرک نہیں تو وفات پائے ہوئے خدا کے ولیوں اور شہیدوں کا پکارنا کیونکر شرک ہو سکتا ہے، جو لوگ ولیوں اور شہیدوں کے پکارنے کو شرک کہتے ہیں اور یا غوث کا نعرہ لگانے والوں کو مشرک کہتے ہیں، انہیں تھوڑی دیر سر جھکا کر سوچنا چاہئیے کہ اس قرآنی واقعہ کی روشنی میں انہیں ہدایت کا نور نظر آئے اور وہ اہل سنت کے طریقے پر صراط مستقیم کی شاہراہ پر چل پڑیں۔ (واللہ الموفق )
تصوف کا ایک نکتہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرند ایک بری خصلت میں مشہور ہے مثلاً مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ رہتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے۔ تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی۔ جس کی بدولت انہیں نفس مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل زندہ ہو جائے اور اس کو نفس مطمئنہ کی دولت نصیب ہو جائے اس کو چاہئیے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کر ڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے۔ اگر کوئی ان چاروں بری خصلتوں کو ذبح کر ڈالے گا تو انشاءاللہ عزوجل وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفس مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم )(تفسیر جمل، ج1، ص328، پ3، البقرۃ: 260 )
طالوت کی بادشاہی
بنی اسرائیل کا نظام یوں چلتا تھا کہ ہمیشہ ان لوگوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ جو ملکی نظام چلاتا تھا اور ایک نبی ہوتا تھا جو نظام شریعت اور دینی امور کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا اور یوں دستور چلا آتا تھا کہ بادشاہی یہود ابن یعقوب علیہ السلام کے خاندان میں رہتی تھی اور نبوت لادی بن یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا طرہءامتیاز تھا۔ حضرت شمویل علیہ السلام جب نبوت سے سرفراز کئے گئے تو ان کے زمانے میں کوئی بادشاہ نہیں تھا تو بنی اسرائیل نے آپ سے درخواست کی کہ آپ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تو آپ نے حکم خداوندی کے مطابق ‘ طالوت ‘ کو بادشاہ بنا دیا جو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑا عالم تھا۔ لیکن بہت ہی غریب و مفلس تھا۔ چمڑا پکا کر بکریوں کی چرواہی کر کے زندگی بسر کرتا تھا۔ اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت شاہی خاندان سے نہیں ہے لہٰذا یہ کیونکر اور کیسے ہمارا بادشاہ ہو سکتا ہے اس سے زیادہ تو بادشاہت کے حقدار ہم لوگ ہیں کیونکہ ہم لوگ شاہی خاندان سے ہیں۔ پھر طالوت کے پاس کچھ زیادہ مال بھی نہیں ہے۔ ایک غریب و مفلس انسان بھلا تخت شاہی کے لائق کیونکر ہو سکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شمویل علیہ السلام نے یہ تقریر فرمائی کہ۔۔۔۔۔
ترجمہ کنزالایمان: فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمھارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔ (پ2، البقرۃ: 247، 248)
چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد چار فرشتے صندوق لے کر آ گئے اور صندوق کو حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر تمام بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہی کو تسلیم کر لیا اور آپ نے بادشاہ بن کر نہ صرف انتظام ملکی سنبھالا بلکہ بنی اسرائیل کی فوج بھرتی کر کے قوم عمالقہ کے کفار سے جہاد بھی فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرماتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
ترجمہ کنزالایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ بےشک اللہ نے طالوت کو تمھارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ بولے اسے ہم پر بادشاہی کیوں کر ہو گی ؟ اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمھارے پاس تابوت جس میں تمھارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے۔ بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمھارے لئے، اگر ایمان رکھتے ہو۔ (پ2، البقرۃ: 247، 248)
درس ہدایت
(1)اس واقعہ سے جہاں بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے ایک بہت ہی واضح درس یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نوازش کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ چاہے تو چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں بڑے سے بڑا آدمی بنا دے۔ دیکھ لو حضرت طالوت ایک بہت ہی کم درجے کے آدمی تھے اور اتنے مفلس تھے کہ یا تو دبگر تھے جو چمڑے کو دباغت دے کر اپنی روزی حاصل کرتے تھے یا بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے مگر لمحہ بھر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحب تخت و تاج بنا کر بادشاہ بنا دیا۔
(2)اس واقعہ سے اور قرآن مجید کی عبارت سے معلوم ہوا کہ جسمانی توانائی اور علم کی وسعت بادشاہی کے لئے مالداری سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ بغیر جسمانی طاقت اور علم کے نظام ملکی کو چلانا اور سلطنت کا انتظام کرنا تقریباً محال اور ناممکن ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا درجہ مال سے بہت بلند تر ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
٭٭٭
ماخذ:
http://www.faizeraza.net/forum/showthread.php?t=1173
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور موجودہ ای بک کی تشکیل :اعجاز عبید