FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

عام آدمی کے خواب

(افسانے)

جلد دوم

               رشید امجد

 

احوال واقعی

مکمل اصل کتاب میں سے دو طویل کہانیاں ’سمندر قطرہ سمندر‘ اور ’الف کی موت کی کہانی‘ اور ایک اور مختصر مجموعہ ’مرشد‘ کو نکال دینے کے بعد جو کتاب اور اس کی کہانیاں باقی بچی ہیں، ان کو چار جلدوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔ یہ اس برقی کتاب کی دوسری جلد ہے۔

ا۔ ع۔

 

            یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے، لیکن تمام تر جدوجہد اور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا، ایک عام آدمی کے گھر پیدا ہوا، جیا اور ایک عام آدمی کی حیثیت سے مر گیا، لیکن اُس نے خواب دیکھے اور خواب وراثت میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وراثت میں منتقل کرنے کے لیے اُس کے پاس اور کچھ تھا بھی نہیں ، سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا، منتقل کر دئیے، اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔۔۔  یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔

            رشید امجد

 

تماشا عکس تماشا

اس نے زہر پی لیا ہے اور اب موت کا انتظار کر رہا ہے۔

وہ یہی کہتے ہیں کہ یا تو چپ چاپ ہمارے پیچھے پیچھے چلتے آؤ، یا پھر زہر پی لو،

وہ زندہ رہنا چاہتا ہے، لیکن یوں بغیر جانے بوجھے زندہ رہنا بھی کیا؟

زندگی کے رنگوں کو اپنی آنکھ دیکھنا، اپنے کانوں سننا، سوال کرنا، لیکن سوال کرنے کی اجازت ہی نہیں ، بس دوسروں کے جواب ہی میں سے اپنا سوال تلاش کرنا۔۔۔

سوار گھوڑے سے اتر کر لمحہ بھر توقّف کرتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’جناب آپ واپس چلے جائیں۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’شہر کے لوگ نہیں چاہتے کہ آپ ان کے پاس آئیں۔‘‘

’’لیکن کیوں ؟ انہوں نے تو خود ہمیں خط لکھ کر بلوایا ہے، اب ان کے دل کیسے بدل گئے؟‘‘

’’دل تو ان کے اب بھی آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں۔۔۔ ‘‘

اور وہ کہتے ہیں چپ چاپ چلے آؤ، بولو کچھ نہیں ،

زندگی کو دوسروں کی آنکھ سے دیکھنا بھی عجب تجربہ ہے،

نیزے پر ٹنگا سر آنکھیں کھولتا ہے، مسکراتا ہے۔۔۔  ’’میں کٹ کر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔‘‘

یہ بات سن کر وہ غرّاتے ہیں اور دوڑتے ہوئے گلیوں میں گھس جاتے ہیں ، صحنوں میں لوریاں دیتی عورتیں سہم جاتی ہیں ، وہ جھپٹ کر بچوں کو پنگوڑوں میں سے اٹھا لیتے ہیں اور پھر اس سے پہلے کوئی سمجھے، کہے، کرے، بچوں کی گردنیں مروڑ کر انہیں پنگوڑوں میں پھینک دیتے ہیں۔

مروڑی ہوئی گردنوں والے بچے پنگوڑوں میں جوان ہوتے ہیں۔

طوفانی اندھیری رات میں ندی کی لہروں پر تیرتی ٹوکری میں سلامت گردن والا بچہ آپ ہی آپ مسکراتا ہے۔

دور کنارے پر منظر گوپیاں ایک دوسرے کو دیکھ کر شرماتی ہیں اور وہ جو اُن سب میں نکھری نکھری سی ہے، سر اٹھا کر ندی کی سمت دیکھتی ہے۔

’’اس نے کہا تھا، جب طوفان ندی کی تہوں میں ات لگے تو میں آؤں گا۔‘‘

وہ غرّاتے ہوئے دوسری گلیوں کی طرف بڑھتے ہیں ، عورتیں پنگوڑوں میں پڑے بچوں کو اٹھا کر اندر والے کمروں میں بھاگ جاتی ہیں۔

’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’چپ۔۔۔  چپ‘‘

’’لیکن‘‘

’’لیکن کچھ نہیں۔۔۔  یا چپ یا پھر یہ زہر۔۔۔ ‘‘

سارے راستے بند ہیں۔

وہ اپنا دھنش پھینک کر منہ موڑ لیتا ہے۔۔۔  ’’میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

کالے گھور بادلوں میں مسکراہٹ چمکتی ہے۔۔۔  ’’یہ تو اپنی بقا ہے۔‘‘

’’لیکن یہ کیسی بقا ہے جس کے لیے فنا کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘

مسکراہٹ گھنی ہو جاتی ہے۔۔۔  ’’بقا، فنا ہی کی ٹہنی کا پھول ہے۔‘‘

منتظر گوپیوں میں وہ نکھری نکھری سی سر اٹھا اٹھا کر ندی کی طرف دیکھے جاتی ہے۔۔۔  ’’وہ ضرور آئے گا، وہ دکھ میں آنے کا پابند ہے اور میں نے اسے پکارا بھی تو ہے۔‘‘

’’حاضر جناب!‘‘

’’تمہارا نام؟‘‘

جناب میرا کوئی نام نہیں۔۔۔  نام تو اب ایک سوکھی ٹہنی ہے۔ میرا تو اب صرف نمبر ہے، ۰۸۲۷۲۴۔ ۴۰۔ ۲۱۱، جناب یہاں اب محلوں اور گلیوں کے بھی نمبر ہی ہیں ، نام تواب بس گئے دنوں کی خوشبو ہیں اور خوشبو لوٹ کر کب آتی ہے؟

’’تو تمہارا شہر؟‘‘

’’جناب میرا شہر بھی اب نمبر ہے۔ زپ نمبر، پھر اس کے اندر نمبر۔۔۔  شہروں کے اندر شہر اور ان کے اندر اور شہر۔۔۔  تہہ در تہہ شہر ہی شہر‘‘

وہ کسی بہت ہی اندر کے شہر کی بہت ہی اندر کی گلی کے، بہت ہی اندر کے مکان میں پیدا ہوا ہے اور اب اندر اندر سے رِس رِس کر بہت اوپر اوپر آنا چاہتا ہے۔۔۔

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ’’تو چلے آؤ۔۔۔  بے شک چلے آؤ، لیکن بولنا مت۔‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’لیکن‘‘

’’لیکن کچھ نہیں ‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  ؟

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ؟

کوئی کچھ نہیں کہتا، بس تماشا دیکھتا ہے کہ تماشا دیکھنے سے کسی کا کوئی حرج نہیں ہوتا۔ لیکن تماشا بھی آخر کب تک دیکھا جا سکتا ہے، اس لیے اس نے زہر پی ہی لیا ہے اور اب موت کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن مو ت تو اس شہر ہی سے روٹھی ہوئی ہے۔

اور تماشا دیکھتے دیکھتے اب خود تماشا بن بیٹھا ہے،

زہر اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کئے جا رہا ہے، لیکن موت نہیں آتی، بس ٹکر ٹکر موت کی رہ دیکھے جانا،

تو پھر اس نے زہر پی ہی لیا ہے!

٭٭٭

 

خواب آئینے

میں ، وہ اور دوسرے سب تصویر کی نا تکمیلی کا نوحہ ہیں۔

ایسا نوحہ کہ جس کا نہ کوئی عنوان ہے، نہ موضوع،

پہلی سطر سے ماتم شروع ہوتا ہے اور آخری سطر، لیکن آخری سطر تو ابھی لکھی ہی نہیں گئی، اس آخری سطر کو لکھنے کے لیے میں ، وہ اور دوسرے سب کبھی دن کے روشن کاغذ پر لکیریں کھینچتے ہیں اور کبھی رات کے سیاہ بدن پر نقطے بناتے ہیں۔ منظر سارے ایک دوسرے میں کہیں اتنے مدغم ہیں کہ پہچا ن نہیں ہو پاتی اور کہیں اتنے دور دور کہ فاصلے دھاگے کے گولوں کی طرح پھیلتے کھلتے چلے جاتے ہیں ، لیکن آخری سطر نہیں لکھی جاتی،

ماتم ہے کہ پہلی سطر ہی سے شروع ہو گیا ہے، امید ہے کہ ماچس کی بھیگی تیلی کی طرح ہے، کہ ہے تو سہی لیکن روشنی نہیں ہوتی۔

روشنی شناخت کی کنجی ہے۔

میں ، وہ اور دوسرے سب دن کے روشن بازاروں اور رات کی کالی گلیوں میں اسے تلاش کرتے کرتے اپنے آپ کو بھی کھو بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ،

’’میں کون ہوں ؟‘‘

’’تم کون ہو؟‘‘

’’وہ کون ہے؟‘‘

وہ جو خوشبو کی طرح محسوس تو ہوتی ہے دکھائی نہیں دیتی۔

(لیکن خوشبو تو صرف ان کے لیے ہے جو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں )

(۲)

اُفق کی سیڑھیاں اترتے اترتے سورج کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ لڑکھڑا کر اس کی گود میں آن گرتا ہے۔

ویگن کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی وہ، جلدی سے اسے چادر کی بکل میں چھپا لیتی ہے۔ کَن انکھیوں سے دوسروں کو دیکھتی ہے اور چادر کے اندر ہی اندر سورج کے چمکتے چہرے پر انگلیاں پھیرنے لگتی ہے، پھر آپ ہی آپ مسکرائے چلی جاتی ہے۔

نرم نرم اندھیرا ہائی وے کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیتا ہے۔

ویگن پوری رفتار سے اندھیرے کے سینے میں دور نیچے اترتی چلی جاتی ہے۔

وہ فرنٹ سیٹ پر سورج کو چادر میں چھپائے، مسکرا رہی ہے۔

اور اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ اسے مسلسل دیکھتا چلا جا رہا ہے۔

’’میری کنجی۔۔۔  میں کتنے عرصے سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں ، اب میں اپنے آپ کو کھولنا چاہتا ہوں۔‘‘

اس کی بڑبڑاہٹ سن کر ساتھ والا اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ پہلے کا نام الف اور دوسرے کا  ب  ہے۔

الف کہتا ہے۔۔۔  ’’میں اب اپنے آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں ، مدتوں سے بند اس تالے کو کھولنا چاہتا ہوں۔‘‘

ب  سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’اب تو شاید ان تالوں پر اتنا زنگ چڑھ گیا ہے کہ کنجی مل بھی جائے تو کون جانے یہ تالے کھل بھی سکیں گے۔۔۔  لیکن کنجی بھی کہاں ہے؟‘‘

الف مسکراتا ہے۔۔۔  ’’کنجی تو مل گئی ہے۔۔۔  لیکن یہ بے مروّتی بھی عجب شے ہے۔‘‘

ب کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا ہے۔

روشن چہرے کبھی کبھی کتنے اندھیرے ہو جاتے ہیں ؟ لیکن چادر کے نیچے سورج کو چھپا لینے سے سورج چھپ تو نہیں جاتا۔

وہ من ہی من میں مسکراتی ہے اور چادر کے اندر ہی اندر سورج کے چمکتے چہرے پر اپنی نرم نرم انگلیاں پھیرتی ہے۔

الف کہتا ہے۔۔۔  ’’کہانی سناؤں تمہیں ؟‘‘

ب  کہتا ہے۔۔۔  ’’سناؤ، لیکن سنو، میں درویش نہیں ، میرے پاس جواباً کوئی کہانی نہیں۔‘‘

’’تو سنو میں وہ ہوں جس نے اسے کھو دیا ہے، میں اس کے انتظار میں پتھر ہو گیا ہوں۔‘‘

’’کہیں تم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھ لیا تھا۔‘‘

’’پیچھے مڑ کر کیا دیکھتا، میں تو دیکھ ہی نہیں رہا تھا، بس وہی تھی اور کچھ بھی نہیں تھا اور وہ کہتی تھی انتظار ہلکی آنچ پر پکتی ہنڈیا ہے جس کا اپنا ہی ذائقہ ہے۔ لیکن‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘ ب  دلچسپی سے پوچھتا ہے۔

’’کئی شامیں صبحوں میں اور کئی صبحیں شاموں میں بدل گئی ہیں لیکن تصویر مکمل نہیں ہو پائی۔‘‘

’’کون سی تصویر؟‘‘ ب  حیرانی سے پوچھتا ہے۔

’’بس وہ تصویر جس میں اس کا پورا چہرہ بنانا چاہتا تھا، میں چپکے چپکے اس کی تصویر بنا رہا تھا، معلوم نہیں اسے کیسے معلوم ہو گیا، بس اس شام وہ آئی تو چپ چاپ تھی، میں نے بہت پوچھا، کچھ تو کہو۔ پہلے تو بولی ہی نہیں پھر کہنے لگی۔۔۔  تصویر کب مکمل ہو گی؟ میں تو حیران رہ گیا۔‘‘

’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘

’’اس کے ہونٹوں پر اداس مسکراہٹ کی لَے جاگی۔ ہم دونوں چپ ہو گئے۔ میں خاموشی سے موٹر سائیکل چلاتا رہا، دفعتاً مجھے احساس ہوا کہ وہ پیچھے نہیں ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔۔۔  وہ واقعی نہیں تھی۔‘‘

ب  کچھ دیر چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’لیکن وہ چلتے موٹر سائیکل سے کیسے اتر سکتی ہے؟‘‘

’’یہی معمہ تو حل نہیں ہوتا۔‘‘

’’تم نے ضرور کہیں موٹر سائیکل روکی ہو گی۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  مجھے ایک ایک لمحہ یاد ہے۔۔۔  میری گرفت میں ہے، بس وہ پیچھے بیٹھے بیٹھے غائب ہو گئی۔‘‘

فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی وہ پھر چپکے چپکے مسکراتی ہے اور چادر میں چھپائے سورج کے چہرے پر انگلیاں پھیرتی ہے۔

’’پھر کبھی نہیں ملی؟‘‘ ب  افسوس سے پوچھتا ہے۔

’’میں ، وہ اور دوسرے سب اسے تلاش کر رہے ہیں۔ میرا موٹر سائیکل ابھی تک اسی سڑک کے کنارے کھڑا ہے، اب تو اس پر اتنی دھول پڑگئی ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ اس کا نمبر بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اب تو نئے نمبر آ گئے ہیں۔‘‘

’’تو تم موٹر سائیکل بھی لینے نہیں گئے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  میں تو اس کی تلاش میں نکلا ہوں ، اسے ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔‘‘

چند لمحے گہری خاموشی،

پھر الف سر اٹھا کر فرنٹ پر بیٹھی ہوئی اسے دیکھتا ہے، مسکراتا ہے اور  ب  سے کہتا ہے۔۔۔  ’’مدتوں بعد آخر وہ مل ہی گئی نا۔‘‘

’’کہاں۔۔۔  کب ؟‘‘ ب بیتابی سے پوچھتا ہے۔

الف ایک لمحہ کے لیے چپ رہتا ہے، پھر عجب پُر اسرار نگاہوں سے  ب  کو دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ جو فرنٹ سیٹ پر ہے نا، سورج کو گود میں چھپائے، یہ وہی ہے۔ بالکل وہی۔‘‘

ب  پہلے اسے پھر فرنٹ سیٹ کو، پھر اسے دیکھتا ہے، کچھ دیر خاموش رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’لیکن فرنٹ سیٹ پر تو کوئی نہیں۔‘‘

الف حیر ت سے  ب  کو دیکھتا ہے۔۔۔  ’’تمہاری نظر کمزور تو نہیں ؟‘‘

ب  کو غصہ آ جاتا ہے۔۔۔  ’’میری نظر تو ٹھیک ہے تمہارے ساتھ ضرور کچھ گڑ بڑ ہے۔ فرنٹ سیٹ تو شروع ہی سے خالی ہے۔‘‘

’’کون کہتا ہے خالی ہے۔‘‘ الف زور سے کہتا ہے۔

’’میں کہتا ہوں۔‘‘ ب  بھی چیخ کر جواب دیتا ہے۔

ڈرائیور اور دوسری سواریاں ان کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

’’کیا بات ہے؟‘‘

الف روہانسا ہو جاتا ہے۔۔۔  ’’اتنے عرصہ بعد تو وہ مجھے ملی ہے اور اب یہ کہتا ہے کہ فرنٹ سیٹ پر کوئی نہیں۔‘‘

دائیں طرف بیٹھا ہوا ایک شخص اس کی تائید کرتا ہے۔۔۔  ’’وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

پیچھے سے ایک شخص کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ غلط ہے فرنٹ سیٹ خالی ہے۔‘‘

الف ڈرائیور سے پوچھتا ہے۔۔۔  ’’کیوں جناب فرنٹ سیٹ خالی ہے؟‘‘

ڈرائیور سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’بالکل خالی ہے۔۔۔  شروع سے ہی خالی ہے۔‘‘

کنڈیکٹر فوراً ٹوکتا ہے۔۔۔  ’’یہ غلط کہہ رہا ہے۔۔۔  فرنٹ سیٹ خالی نہیں ، وہ شروع ہی سے وہاں بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

آدھی سواریاں ایک طرف اور آدھی دوسری طرف۔۔۔  آدھے کہتے ہیں فرنٹ سیٹ خالی ہے، باقی آدھے کہتے ہیں ، فرنٹ سیٹ خالی نہیں وہ وہاں بیٹھی ہوئی ہے۔

ڈرائیور نے عین ہائی وے کے درمیان ویگن کھڑی کر دی ہے۔ سب نیچے اتر آئے ہیں اور چیخ چیخ کر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں دونوں طرف ٹریفک رک جاتی ہے اور ان کے گرد ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے،

کچھ اِدھر ہو جاتے ہیں اور کچھ اُدھر۔

کچھ الف کے ساتھ ہیں ، کچھ  ب  کے ساتھ،

اب شام تاریکی کی گھنی قبر میں دفن ہو گئی ہے۔

سارے ایک دوسرے سے گتھم  گتھا ہو جاتے ہیں اور چیخ چیخ کر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی دوسرے کی بات نہیں سنتا،

اور ان سب سے بے پروا، وہ فرنٹ سیٹ پر سورج کو چادر میں چھپائے مسکرائے چلی جاتی ہے۔

(۳)

میں ، وہ اور دوسرے سب تصویر کی نا تکمیلی کا نوحہ ہیں۔

ایسا نوحہ کہ جس کا نہ کوئی عنوان ہے نہ موضوع۔

پہلی سطر سے ماتم شروع ہوتا ہے اور آخری سطر۔۔۔  اس آخری سطر کے انتظار میں ، میری، اس کی اور ہم سب کی بھنویں سفید ہو گئی ہیں ، ہاتھوں میں رعشہ آگیا ہے، قلم کی سیاہی خشک ہو گئی ہے۔

اور اب آخری سطر ذہن میں آبھی جائے تو کیا فائدہ؟ کہ میرے، اس کے اور سب کے لفظ پڑے پڑے بانجھ ہو چکے ہیں۔

کہ بانجھ لفظوں سے کوئی جنم نہیں لیتا۔

اور اب آخری سطر لکھے بھی مدتیں بیت چکی ہیں۔

لیکن میں ، وہ اور دوسرے سب ابھی تک نا تکمیلی کا نوحہ ہیں۔

ایسا نوحہ کہ جس کا نہ کوئی عنوان ہے نہ موضوع!

٭٭٭

 

منجمد موسم میں ایک کرن

وہ اپنے آپ پر منکشف ہونا چاہتا ہے،

لیکن جوں جوں اپنا آپ کھولتا ہے، دھند بڑھتی جاتی ہے اور اسے اپنا آپ نظر آنے کی بجائے چیزوں کے ایسے ایسے چہرے نظر آنے لگتے ہیں ، جنہیں کبھی دیکھا نہ سنا۔

اجنبی دنیا، ایک نیم تاریک گلی جو اس کے وجود کی بالکنی سے شروع ہوتی ہے اور پھیلتے پھیلتے اس اونچے ٹیلے کو جا چھوتی ہے، جو شہر سے باہر زمین میں دور تک پاؤں پھیلائے خراٹے لے رہا ہے۔ اس ٹیلہ پر رو ز میلہ لگتا ہے، صبح ہوتے ہی لوگ ٹولیوں میں گاتے ناچتے وہاں آتے ہیں اور سارا دن ڈھول کی دھمال پر رقص کرتے ہیں ، شام ہوتے ہی رقص رک جاتا ہے اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے سار ے لوگ ٹیلے کی بلندی سے نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ میلہ آہستہ آہستہ خاموشی اور اندھیرے کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔

اس کے وجود کی بالکنی سے ٹیلہ تک پھیلی نیم تاریک گلی شاں شاں کرنے لگتی ہے،

وہ نیچے اترتا ہے۔۔۔  گلی سے ہوتا ہوا ٹیلہ پر آتا ہے۔

اپنے آپ پر منکشف ہونا ایک عجیب لمحہ ہے۔

اور شاید ایک عجیب لذت۔

وہ اپنے ہونٹ چاٹتا ہے، میلہ کی دکانیں بھری پُر ی ہیں۔

لیکن ایک اداسی۔۔۔  سنسناتی اداسی،

ویرانی۔۔۔  ویرانی سی ویرانی

اجتماعی خودکشی

عورتیں اپنے اپنے مرد کی لاش پر بین کرتی ہیں ،

میں اپنے آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔  اپنے آپ پر منکشف ہونا چاہتا ہوں۔

انفرادی آزادی

اجتماعی خودکشی اور انفرادی آزادی

وہ آہستگی سے نیم تاریک گلی میں رینگ آتا ہے

کسی کی چاپ ہولے ہولے اس کے کانوں پر دستک دیتی ہے، نیم تاریک گلی میں چلنا خواب آگیں ہے،

لیکن اس لمحہ ایک ڈراؤنا خواب، ایک المناک بین دبے پاؤں اس کے پیچھے چلا آتا ہے۔

مڑ کر دیکھوں ،

پتھر ہو جانے کا ڈر۔۔۔

ڈر، خوف۔۔۔  بھری جنگ میں اکیلے رہ جانے کا خوف

تلواروں کی گونج اور رتھوں کے شور میں وہ سر اٹھاتا ہے۔۔۔  ’’اگر آپ اس سمے اپنے درشن دیویں تو میں اَمر ہو جاؤں گا۔‘‘

مسکراہٹ اپنے چہرے سے نقاب سرکاتی ہے۔

کشف ایک آئینہ ہے۔

تیر پر ٹنگا سر جنگ کے خاتمہ تک کھلی آنکھ سے ایک ایک لمحہ کو گزرتے دیکھے گا تو میں اپنا دھنش اٹھاتا ہوں ،

مسکراہٹ گھنی ہو جاتی ہے۔

زندگی تو نیم تاریک گلی ہے۔۔۔

لیکن اس نیم تاریک گلی میں وہ میرے پیچھے کیوں آتا ہے اور میری آنکھوں کے خواب کیوں چرا کر لے جاتا ہے۔

خواب خواہشوں کی نازک کلائیوں میں پہنی چوڑیوں کی کرچیاں ہیں۔

ٹوٹی کرچیاں۔۔۔  خواب ہی خواب، ٹیلہ کے اس طرف بھی خواب، اس طرف بھی خواب،

اور وہ آواز جسے سن کر سارے ایک ایک کر کے نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔

یا اخی۔۔۔  یا اخی

لیکن وہ تو ابھی اس نیم تاریک گلی ہی میں رینگ رہا ہے، جہاں کوئی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتا ہے۔

کون ہے۔۔۔  ؟

میلہ میں اس کی آواز گونجتی ہے۔۔۔  یہاں کون ہے۔۔۔  ؟

کوئی نہیں سنتا، لوگ ڈھول کی تھاپ پر ناچتے گاتے، دھمالیں ڈالتے آتے ہیں ،

عجب رنگا رنگی ہے۔

آوازوں کی آبشاریں ، چہروں کے قمقمے، ذائقوں کی بھنبھناہٹیں ،

یا اخی۔۔۔

یا اخی۔۔۔  یا اخی

ناچتے گاتے جسموں میں جھٹکا لگتا ہے، سر اٹھا کر آواز کی سمت کا تعیّن کرتے ہیں اور لبیک لبیک کہتے دوڑ پڑتے ہیں۔ ایک ایک کر کے۔۔۔  ایک ایک کر کے گہرائیوں کے فاصلے میں اترنے لگتے ہیں ،

میلہ سنسان ہو جاتا ہے

تو آ ج کا دن بھی تمام ہوا۔۔۔  کھیل ختم ہوا۔

لیکن کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا،

کل کھیل پھر شروع ہو گا، اسی سج دھج کے ساتھ

’’زندگی کیا ہے؟‘‘

ہونٹوں پر ایک پُر اسرار مسکراہٹ جنم لیتی ہے، ’’زندگی ایک چپ آواز ہے۔‘‘

’’چپ آواز‘‘

’’سمجھ میں آ جائے تو آواز، نہ سمجھ آئے تو گہری چپ۔‘‘

میلہ میں جو اس آواز کو سن لیں وہ لبیک کہتے ہیں ، جو نہ سن پائیں وہ نیم تاریک گلی میں سے ہوتے ہوئے واپس اپنے آپ میں آ جاتے ہیں ،

بالکنی کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

دونوں ہاتھ بلند ہوتے ہیں۔۔۔  ’’لو ماتا جنگ تو تمام ہوئی اب ہم جاتے ہیں۔‘‘

بِنتی کرتے ہاتھ عرض کرتے ہیں۔۔۔  ’’اب آپ کے درشن کب ہوں گے؟‘‘

لمحہ بھر توقّف ہوتا ہے۔۔۔  ’’جب تم دکھ میں ہو گی کہ میں دکھ کے ہر لمحہ میں آنے کا پابند ہوں۔‘‘

بِنتی کرتے ہاتھ دعا کرتے ہیں۔۔۔

’’مجھے ہمیشہ دکھ میں رکھنا۔‘‘

اور دکھ میری پہچان ہے۔

وہ نیم تاریک گلی میں اترتا ہے، آہستہ آہستہ ٹیلہ پر آتا ہے، سنسانی دبے پاؤں چاروں طرف پھر رہی ہے۔

تیر پر ٹنگا سر آنکھیں جھپکاتا ہے،

’’تو یہ سرا بھی اسی طرح ٹنگا ہے، لیکن جنگ تو کبھی کی تمام ہوئی اور جانے والے جا بھی چکے۔‘‘

آگے بڑھ کر سر کو تیر سے اٹھانا چاہتا ہے مگر رُک جاتا ہے۔

مجھے تو ابھی اپنا کشف ہی نہیں ہوا،

اٹھے ہاتھ نیچے گر جاتے ہیں ، خاموشی سے واپس پلٹتا ہے اور بوجھل قدموں سے نیم تاریک گلی طے کر کے اپنے جسم کی چار دیواری میں آ گرتا ہے۔

اپنے آپ پر منکشف ہونے کی تمنا۔۔۔  بس ایک تمنا ہی ہے۔

برف کی سِل پروہ سارے دائرے میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کی آنکھ جھپکنے کے منتظر ہیں۔ وہ بھی اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے کہ یا تو آنکھ جھپکا کر اپنے آپ کو دوسروں سے چیڑ پھڑوا لے یا پھر کسی کی آنکھ جھپکتے ہی اسے چیڑ پھاڑ ڈالے۔

ایک لمحہ کی فرصت ہے۔

اور اس لمحہ بھر کی فرصت میں اگر وہ آگے بڑھ کر، ہمت کر کے درخت کی شاخ پر جوڑ کھاتے پرندے کے جوڑے میں سے تیر کو کھینچ کر نکال بھی لے تو کیا، کہ وہ عین لذت کی گھڑی میں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے پر مجبور کر دئیے گئے تھے،

تو پھر اپنے آپ پر منکشف ہونا بھی کیا، اور نہ ہونا بھی کیا؟

٭٭٭

 

بے راستوں کا ذائقہ

موت سب سے پہلے خواب بن کر اس کی آنکھوں میں اتری اور صبح آنکھ کھلنے سے پہلے اپنا بدن چرا کر نکل گئی۔

اس دن وہ بھاگم بھاگ بیوی کے سکول پہنچا، وہ ورانڈے میں دوسری استانیوں کے ساتھ بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ اسے یوں پریشان دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔  ’’کیا بات ہے؟‘‘

’’میں مر گیا ہوں۔‘‘ اس نے پھولی ہوئی سانسوں میں کہا۔

بیوی کے منہ سے چیخ نکلی، لیکن اگلے ہی لمحہ غصہ کھٹ کھٹ کرتا، اس کے منہ پر پھیل گیا۔۔۔  ’’شرم نہیں آتی ایسا مذاق کرتے ہوئے۔‘‘

’’یہ مذاق نہیں۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’میں سچ مچ مر گیا ہوں۔‘‘

’’کیا بکواس ہے؟‘‘ بیوی جھنجلا گئی۔

دوسری استانیاں بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئیں ، ایک بولی۔۔۔  ’’بھائی صاحب آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟‘‘

’’سچ کہہ رہا ہوں ، واقعی مر گیا ہوں۔‘‘

پھر بیوی کی طرف منہ کر کے کہنے لگا، ’’چلو جلدی کرو، ابھی بہت سے لوگوں کو اطلاع دینا ہے۔ کفن دفن کا بندوبست بھی کرنا ہے۔‘‘

بیوی نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا، کچھ کہنا چاہا، پھر چپ ہو گئی اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔

سڑک پر پہنچ کر اس نے کہا۔۔۔  ’’میرا خیال ہے رتّہ والا قبرستان بہتر رہے گا، بڑے گھنے درخت ہیں وہاں۔‘‘

بیوی نے تُنک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’تمہیں ہوا کیا ہے؟‘‘

’’ہونا کیا ہے، بس میں مر گیا ہوں۔‘‘

’’پر کیسے؟‘‘

وہ سوچ میں پڑ گیا۔۔۔  ’’کیسے؟‘‘

وہ مسلسل اسے گھور ے جا رہی تھی۔

’’کیسے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا، سوچا، ذہن پر زور دیا مگر اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔

بس اتنا یاد آتا ہے کہ موت خواب بن کر اس کی آنکھوں میں اتری تھی، اس کے بعد۔۔۔  اس کے بعد کچھ یاد نہ تھا۔

وہ سوچتا رہا، سوچتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’چلو چھوڑو۔۔۔  آؤ کہیں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘

چائے کا آرڈر لے کر بیرا گیا ہی تھا کہ منیجر ان کی میز پر آیا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

’’میں۔۔۔  میں ہوں۔‘‘

’’اور یہ عورت؟‘‘

’’میری بیوی ہے۔‘‘

’’ثبوت؟‘‘

’’بس یہ میری بیوی ہے۔‘‘

’’نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟‘‘

اس نے مڑ کر بیوی کو دیکھا اور سوچا اس عورت سے، جو اس کے دو بچوں کی ماں ہے، اس کے تعلقات کیاہیں ؟

وہ مسلسل اسے دیکھتا رہا،

وہ بولی۔۔۔  ’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔ ‘‘ وہ بولا۔۔۔  ’’پھر کب ملو گی؟‘‘

’’کیا ؟‘‘ وہ چیخ کر بولی۔۔۔  ’’تم مجھے گرل فرینڈ سمجھ رہے ہو؟‘‘

اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر پیر پٹختی باہر نکل گئی۔

دوسری رات موت، جس نے اس کی آنکھوں کا دریچہ کھلا دیکھ لیا تھا، چپکے سے آئی اور آنکھوں کے راستے جسم میں اتر گئی۔ ساری رات وہ اس کے جسم کے اندر گھومتی پھری اور صبح ہوتے ہوتے چپکے سے نکل گئی۔

دن چڑھے وہ قبرستان گیا اور گورکن سے کہنے لگا۔۔۔  ’’میری قبر کھود دو۔‘‘

گورکن نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔

’’قبر ذرا لمبی چوڑی ہو، سلیں بھی صاف ستھری۔۔۔  اور ہاں ، جگہ اچھی ہو، کسی گھنے درخت کے پاس۔‘‘

گورکن نے انگلی سے سر کھجایا، اسے گھورا اور جواب دئیے بغیر دوسری طرف چلا گیا۔

اگلی رات موت دستک دے کر آئی، اس نے اس کے جسم کے کواڑوں کو زور زور سے کھٹکھٹایا۔

وہ سہم گیا اور ڈری آواز میں بولا۔۔۔  ’’کون؟‘‘

’’میں ‘‘ موت نے سرگوشی کی۔۔۔  ’’دروازہ کھولو۔‘‘

’’میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔‘‘ وہ کپکپاتی آواز میں بولا۔۔۔  ’’میں تمہیں اندر نہیں آنے دوں گا۔‘‘

موت کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔  ’’میں تو تمہارے اندر ہی ہوں۔‘‘

’’تو پھر یہ باہر سے دروازہ کون کھٹکھٹا رہا ہے؟‘‘

’’تم خود۔‘‘

’’میں۔۔۔ ‘‘ اس نے بوکھلا کر اپنے سارے وجود کو ٹٹولا، وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستے ہنستے دوہری ہو گئی،

’’تو میں اپنے جسم سے باہر ہوں اور موت اندر ہے۔‘‘

وہ بولی۔۔۔  ’’آؤ مکالمہ کریں۔‘‘

’’کس سے؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔۔۔  ’’میں تو اپنے اندر ہی نہیں۔‘‘

اگلی رات اس نے پھر دستک دی۔

اس نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔۔۔  ’’کون؟‘‘

’’آؤ مکالمہ کریں۔‘‘ وہ کھلکھلائی۔

’’پہلے یہ بتاؤ تم کہاں ہو۔ میرے اندر یا باہر؟‘‘

’’میں تمہارے اندر بھی ہوں اور باہر بھی ہوں۔‘‘

’’تو میں کہاں ہوں۔۔۔  میں تو نہ اپنے اندر ہوں نہ باہر۔‘‘

’’آؤ مکالمہ کریں۔‘‘ وہ کھلکھلائی۔

وہ یہ سن کر اور دبک گیا، وہ ساری رات دستکیں دیتی، اس کا نام لے لے کر پکارتی رہی،

صبح وہ ناشتہ کئے بغیر قبرستان پہنچا۔

گورکن اپنی کوٹھڑی میں چائے پی رہا تھا۔

’’میری قبر کھد گئی؟‘‘

گورکن نے مشکوک نظروں سے اس کو دیکھا۔

’’تو ٹھیک ہے۔۔۔  میں خود ہی کھود لوں گا۔‘‘

اس نے کدال اٹھائی، قبرستان کا چکر لگایا اور ایک گھنے درخت کے نیچے قبر کھودنا شروع کی، کچھ ہی دیر میں وہ پسینہ پسینہ ہو گیا، اس نے قمیض اتار پھینکی، پھر کچھ دیر بعد بنیان، پھر پتلون۔۔۔  بس انڈروئیر رہ گیا۔

سورج آہستہ آہستہ چلتا اس کے عین سر پر آن کھڑا ہوا اور جھک کر قبر میں جھانکنے لگا۔ قبر اس کے سر سے اونچی ہو گئی۔ اس نے مٹی نکال کر اسے اچھی طرح صاف کیا، ایک ایک کر کے سلیں اکٹھی کیں ، پانی کی بالٹی۔۔۔  گارا بنایا اور قبر میں اترکر چت لیٹ گیا۔

اب صورت یہ ہے کہ وہ قبر میں چت لیٹا ہوا ہے، قبر کے گرد اگرد اس کی بیوی بچے، ماں ، بہن، بھائی، دوست، رشتہ دار گھیرا ڈالے کھڑے ہیں اور اسے قبر سے باہر نکلنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

وہ اندر سے جواب دیتا ہے۔۔۔  ’’میرا مردہ خراب نہ کرو، جلدی سلیں رکھ کر مٹی ڈالو۔‘‘

بیوی گڑگڑاتی ہے۔۔۔  ’’خدا کے لیے باہر آ جاؤ، میرا نہیں تو ان چھوٹے چھوٹے بچوں ہی کا خیال کرو۔‘‘

وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔

ماں کہتی ہے۔۔۔  ’’بیٹا اب نکل آؤ، میرے بڑھاپے ہی کا کچھ خیال کرو۔‘‘

وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’میرا مردہ خراب نہ کرو۔‘‘

وہ سب ایک آواز ہو کر کہتے ہیں۔۔۔  ’’اب نکل آؤ۔‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  اچھا یہ بتاؤ میں کون ہوں ؟‘‘

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ’’تم الف ہو۔‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنستا ہے۔۔۔  ’’میں الف نہیں ہوں۔ میں نہ اپنے اندر ہوں نہ باہر اور وہ میرے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔‘‘

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ’’اچھا تو پھر بتاؤ تم اگر الف نہیں تو کون ہو؟‘‘

وہ شانے اچکاتا ہے۔۔۔  ’’یہی تو مجھے معلوم نہیں۔۔۔  کہ میں نہ اپنے اندر ہوں نہ باہر۔۔۔  اور وہ میرے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔‘‘

دائرہ در دائرہ وہ سب کے سب اسے اپنے بتائے ہوئے نام، شخصیت اور ماحول کے چوکھٹے میں زبردستی فٹ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ، مگر وہ بار بار، پہلو بدل بدل کر اس چوکھٹے سے پھسل جاتا ہے،

اور ان سب کے اردگرد۔۔۔  وہ جو قبر کے گرد اگرد گھیرا ڈالے اسے باہر نکل آنے اور اسے ان کی پسند کا نام، شخصیت اور ماحول اختیار کر کے ان کی مرضی بن جانے کو کہہ رہے ہیں اور و ہ جو قبر کے اندر چت لیٹا دوسروں کی مرضی کے مطابق بن جانے اور باہر نکلنے سے انکاری ہے۔ ان سب کے اردگرد موجود اور نا موجود کی سرمئی دھند میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وقت اور موسم اس سارے تماشا کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔

بس ہنستے ہی چلے جاتے ہیں ،

٭٭٭

 

بے ثمر عذاب

میں اپنی تاریخِ پیدائش بھول گیا ہوں اور اب تذبذب کی سیڑھیوں پر کھڑا اپنی عمر کا تعیّن کر رہا ہوں۔ کبھی لگتا ہے کہ زندگی کے مٹیالے کاغذ پر بنا ہزاروں سال پرانا نقش ہوں۔ تاریخ کے پھڑپھڑاتے صفحوں کے ساتھ سانس لینے کی کوشش، حال کی چار دیواری پھلانگ کر ماضی کے دھند لکے موسموں میں دیر تک مسلسل بھیگنے کی خواہش، مگر یہ تو تذبذب کی سیڑھی ہے اور میں اپنی عمر کا تعیّن کر نے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کبھی لگتا ہے، ابھی ابھی بس ایک ہی لمحہ پہلے پیدا ہوا ہوں ، چوسنی منہ میں ہے، چوسنی منہ میں نہیں ہے۔ وہی سیڑھی ہے اور میں ہوں اور عمر کا تعیّن کرنے کی کوشش، تو میری تاریخِ پیدائش گم ہو گئی ہے۔ شاید کوئی تاریخ ہو ہی نہ، تو میں پیدا کب ہوا؟ شاید ہوا ہی نہ ہوں۔ مگر میں موجود ہوں ، اپنے جسم کو چھوتا ہوں ، لمبے لمبے سانس لے کے ہونے کا احساس کرتا ہوں۔

تو میں ہوں۔ بس میری عمر معلوم نہیں ، عمر دس ہزار سال بھی ہو سکتی ہے۔ پانچ ہزار بھی۔ ایک ہزار بھی۔۔۔  اور ایک لمحہ بھی۔

تاریخ کھولتا ہوں ، صفحے پھٹے ہوئے ہیں ، شاید میں نے خود ہی انہیں پھاڑ دیا ہے۔ تو میری عمر صرف ایک ہزار سال ہے۔ لیکن فوراً ہی احساس ہوتا ہے کہ ہزاروں سال ہونے کے باوجود میری جڑیں زمین میں نہیں ، تو میری جڑیں کہاں ہیں ؟

گھبرا کر سارے وجود کو ٹٹولتا ہوں۔

حیرت ناک انکشاف۔۔۔  میر ی جڑیں ہی نہیں۔

تو زندہ کیسے ہوں۔

معلوم نہیں زندہ ہو ں بھی کہ نہیں ؟

پھر سارے وجود کو ٹٹولتا ہوں۔۔۔  ایک ایک پور کو چھوتا ہوں ، درد، احساسِ حرارت، سب موجود ہیں۔ مگر جڑیں نہیں ، تو جڑیں کہاں ہیں ؟

شاخیں ، شاخوں پر پتے، پتوں پر چہچہاتے پرندے۔

کاغذ پر بنے نقش۔

شاخیں ، شاخیں نہیں۔

پتے، پتے نہیں۔

پرندے، پرندے نہیں۔

سب کچھ ان جیسا ہے، شاخیں شاخوں جیسی، پتے پتوں جیسے، پرندے پرندوں جیسے، چہکار، اگر یہ چہکار ہے تو چہکار جیسی اور میں خود۔

ہزار سالہ وجود پر انگلیاں پھیرتا ہوں۔

بھر بھری مٹی، تڑخی ہوئی زمین، لکیریں ہی لکیریں ، مسخ عبارتوں کے پھٹے اوراق، بوسیدہ عمارت جو نہ تو موجود ہے اور نہ ہی نا موجود۔

ذرا زور لگاتا ہوں ، ساری عمارت کھسک کر دوسری طرف چلی جاتی ہے۔

تاریخ کے شروع کے تو سارے ورق پھٹے ہوئے ہیں ، میں نے خود ہی پھاڑ دئیے ہیں۔ ان پھٹے اوراق میں ہزاروں سال سسک رہے ہیں۔ دھندلاہٹوں میں بیل گاڑیوں کے قافلے نظر آتے ہیں۔

ہریالے میدانوں کو روندتے سبزوں کو چاٹتے قافلے مجھے دھکیل دھکیل کر جنگلوں میں پھینک دیتے ہیں۔

میٹھے پانیوں کی لذت، لہلہاتے کھیتوں کے ذائقے بانہیں سمیٹ لیتے ہیں۔

گھنے جنگل میں اکیلے ہونے کا دکھ۔

مگر میں نے تو یہ صفحات پہلے ہی پھاڑ ڈالے ہیں ، رشتے ٹوٹ گئے ہیں تو میرے پاس بے معنی چپ لفظوں کا ڈھیر رہ گیا ہے۔ جو نہ بولتا ہے، نہ دیکھتا ہے۔

لفظوں کی زبانیں کٹی ہوئی ہیں۔

میں نے خود ہی کاٹی ہیں۔

میں اپنی عمر ہزار سال سے آگے نہیں لے جانا چاہتا، اس سے آگے مجھے احساسِ کمتری ہونے لگتا ہے۔

تو میں ہزار سال کا ہوں۔

اس سے پہلے میری کوئی تاریخ ہے نہ جغرافیہ، نہ وجود کی پہچان۔

تاریخ کے صفحات میں دیمک، جغرافیہ پر بھاری بوٹ، چیونٹیاں رینگ رینگ کر دانہ دانہ اکٹھا کرتی ہیں۔

تو دراصل میں ایک چیونٹی ہوں۔

چیونٹیوں کی لمبی قطار میں چاول کا آدھا دانہ اٹھائے اپنے سوراخ کی طرف دوڑا جاتا ہوں۔

چاول کا آدھا دانہ ہزار سالہ زندگی کا انعام

بوسیدہ عمارت کی کھڑکی سے سر نکال کر چیختا ہوں۔۔۔  ’’میری عمر ہزار سال ہے۔‘‘

چیونٹیاں سر ہلاتی، کورس میں گاتی ہیں۔۔۔  ’’ہزار سال، ہزار سال۔‘‘

درخت کی شاخ پر بیٹھا الّو دیدے نچاتا ہے، ’’میری عمر بھی ہزار سال ہے۔‘‘

’’تو کیا تم نے بھی اپنی پرانی تاریخ پھاڑ ڈالی ہے؟‘‘ میں اس سے پوچھتا ہوں۔

وہ ہنستا ہے۔۔۔  ’’میں نئی تاریخ بناؤں گا، بغیر جغرافیے کے۔‘‘

جغرافیے کے بغیر تاریخ بنانے کے جنون میں ہی تو میں نے سارے صفحے پھاڑ ڈالے ہیں۔

آتے جاتے موسموں کی پھوار۔

الّو، عمارت میں سب منجمد ہو جاتے ہیں۔

بوسیدگی کا ایک ڈھیر، جس کی کوئی تاریخ، کوئی جغرافیہ نہیں۔

تو میری عمر صرف ایک ہزار سال ہے اور میری جڑیں نہیں۔

میں اپنے وجود کو اٹھا کر لکیر کے دوسری طرف لے جاتا ہوں۔

گملے کو جہاں مرضی لے جائیں۔

تو میں جیسا اس طرف تھا ویسا ہی اس طرف بھی ہوں۔

زمین کا پیار، مزاج، پانیوں کا ذائقہ اور ہواؤں کی تبدیلیوں سے مجھے کچھ نہیں ہوتا۔

میں نہ بڑھتا ہوں ، نہ پھولتا پھلتا ہوں۔

دس ہزار سال کی تاریخ کو میں نے پھاڑ دیا ہے۔ رہ گئے ہزار سال، تو انہیں دیمک چاٹ گئی ہے۔ دیمک کے چاٹے ہوئے مٹیالے پن میں ہاتھیوں کا جلوس، نقار خانوں کا شور، تلواروں کی گونج۔۔۔  بھائی بھائی کو قتل کرتا اور باپ کو قید کرتا ہے۔ مار دھاڑ کے ان ہزار سالوں کے تقدس کے لیے میں نے پچھلے دس ہزار سال پھاڑ دئیے ہیں اور ان ہزار سالوں کو بھی دیمک چاٹ گئی ہے۔

میری عمر ایک لمحہ ہے۔

میں ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں اور ابھی ابھی مر گیا ہوں۔

شاید میں پیدا بعد میں ہوتا ہوں ، مر پہلے جاتا ہوں۔

شاید میں ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہوں۔

تو پھر یہ کون ہے۔۔۔  یہ وجود۔۔۔  میں اپنے بدن پر ہاتھ پھیرتا ہوں۔

’’کیا یہ وجود ہے؟‘‘ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔

الّو شاخ سے اڑ کر میرے کاندھے پر آن بیٹھتا ہے۔ میری بات سن کر ہنستا ہے۔

’’یہ وہم اور وجود کا ملغوبہ ہے۔‘‘

تو میں موجود ہی نہیں ، پھر تاریخ پیدائش بھولنے کا مطلب؟

میری ساری عمر میرا اپنا واہمہ ہے۔

ہزار سال کا ہونا بھی میرا اپنا تصور ہے۔۔۔  ایک لمحہ کا ہونا بھی میرا اپنا قصور۔۔۔  تاریخ میری کو تو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔

ہزار سال بھی ختم ہوئے۔

تو بات اس لمحہ میں سمٹ گئی ہے۔

 میں ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔

میں بلک بلک کر رونے لگتا ہوں۔

ماں دوڑی دوڑی پنگھوڑے کے پاس آتی ہے اور جھک کر میرے گالوں کو تھپتھپاتی ہے۔

’’میرا پپو! بھوک لگی ہے۔‘‘

میں کہتا ہوں ، ’’میری چوسنی لاؤ۔۔۔  فیڈر بھی لاؤ۔‘‘

ماں چیخ مار کر پرے ہٹ جاتی ہے۔

’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘ سارے لوگ اردگرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

’’یہ۔۔۔  یہ‘‘ ماں خوف زدہ ہو کر پنگھوڑے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

’’یہ۔۔۔  یہ بول رہا ہے۔‘‘

’’تو اس کا مطلب، یہ پیغمبر ہے۔‘‘

وہ سارے عقیدت اور احترام سے جھک جاتے ہیں۔

’’یہ پیغمبر ہے۔۔۔  اور اس سے پہلے کہ ہم پر عذاب آئے، آؤ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں۔‘‘

وہ آگے بڑھ کر میرا دایاں ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

میرا دایاں ہاتھ نہیں ہے۔

وہ میرا بایاں ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

میرا بایاں ہاتھ بھی نہیں ہے۔

یہ تو لُنجا ہے۔

میں کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر غاں  آں۔۔۔  غاں آں کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

گونگا بھی۔

گونگا اور لُنجا۔

وہ سب دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔

اور ان سب کے درمیان پنگھوڑے میں لیٹا میں اپنی تاریخ پیدائش یاد کر رہا ہوں اور یہ بھی کہ کب سے گونگا اور لُنجا ہوں۔

دس ہزار، پانچ ہزار، ایک ہزار سال سے۔۔۔  یا ابھی ابھی اسی لمحہ سے۔

٭٭٭

 

ہریالی بارش مانگتی ہے

ہریالی بارش مانگتی ہے اور بادل خوب گھِر گھِر آتے ہیں لیکن بارش نہیں ہوتی، پیا سا شہر ہانپ ہانپ کر اپنے ہی آپ سے باہر اُبل پڑا ہے۔۔۔  ایک پھیلاؤ ہے کہ سمٹے نہیں سمٹتا، لیکن ایک دائرہ ہے گرداگرد جو تنگ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔

(۲)

کلاس میں لیکچر دیتے ہوئے اس نے لڑکوں پر ایک نظر ڈالی اور باہر دیکھنے لگا۔

گرمی۔۔۔  شدید گرمی۔

لڑکوں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔

’’ہاں گرمی اور بارش نہیں ہوتی، ہریالی تو بارش مانگتی ہے۔‘‘

اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔  ’’سارے گلاب سوکھ گئے ہیں۔ بنجر پن ایک ایک چہرے پر کنڈل مارے بیٹھا ہے۔‘‘

شگفتہ چہرے شہر کا حسن ہیں اور یہاں تو سارا شہر ہی پیاس سے ہانپ رہا ہے، بارش کب ہو گی؟

بادلوں کے ٹکڑے آسمان کے طشت میں ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔

روز کی طرح آج بھی یہ ایک دوسرے کو پکڑتے، چھپتے چھپاتے شہر کی بانہوں کے دائرے سے نکل جائیں گے اور حبس زدہ چہرے والی گرم رات ان پر ٹوٹ پڑے گی۔

رات کا تصور آتے ہی اسے جھر جھری آ گئی۔

حبس زدہ گرم رات نے تو ان سے پیمان کے سارے زاویے چھین لیے ہیں اور ایک حبس زدہ بے غیرت چپچپاہٹ ان کے چہروں پر چپکا دی ہے۔

وہ باہر نکل آیا۔

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ کسی نے پوچھا۔

’’ہریالی تلاش کرنے۔‘‘

’’ہریالی؟‘‘

اس نے کندھے اچکائے، موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور سڑک پر نکل آیا۔

’’کہاں جاؤں ؟‘‘

بادلوں کے سرمئی ٹکڑے ایک ایک کر کے آسمان سے رخصت ہو رہے تھے۔

وہ شہر سے باہر نکل آیا۔۔۔  فضا میں دفعتاً سیاہی سی گھلنے لگی۔ بادلوں کے بھاگے ہوئے ٹکڑے پھر اکٹھے ہونے لگے تھے۔

شہر اب پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔  گھنے درختوں کے خشک چہرے اس کے دونوں طرف پھیلے ہوئے تھے۔

بارش۔۔۔  بارش شاید اب کبھی نہ ہو۔۔۔  اس نے سوچا۔۔۔  اور یہ سارے چہرے ایک ایک کر کے مرجھا جائیں گے۔۔۔  سارا شہر بے آبرو ہو جائے گا۔

درخت۔۔۔  شہر کا لباس اور جب یہ لباس ایک ایک کر کے تار تار ہو جائے تو ننگا شہر کیسا لگے گا۔

اس نے موٹر سائیکل سڑک کے کنارے کھڑی کر دی اور درختوں کے جھنڈ میں گھس گیا، گرمی اور خشکی نے درختوں کے چہروں پر آبلے ڈال دئیے تھے،

فضا میں ایک عجب حبس زدگی تھی۔

اب تو چند ہی دن کا کھیل باقی رہ گیا ہے۔۔۔  ننگا شہر کیسا لگے گا۔

اور میں بھی تو ننگا ہو جاؤں گا۔

ہاں میں بھی

لیکن میں تو اب بھی ننگا ہی ہوں۔۔۔  پسینے میں شرابور کپڑوں سے لُو کے بھبھکے اٹھ رہے ہیں۔

اس نے ایک ایک کر کے سارے کپڑے اتار دئیے اور ننگ دھڑنگ ایک درخت کے تنے پر بیٹھ گیا۔

آسمان گہرے گھنے بادلوں میں چھپ گیا۔

لیکن بارش نہیں ہو گی۔۔۔  بادل تو روز اسی طرح گھِر گھِر آتے ہیں ، لیکن برستے نہیں۔۔۔  معلوم نہیں وہ شہر سے کیوں اتنا ناراض ہو گئے ہیں ؟

ہریالی تو بارش مانگتی ہے۔۔۔  اور بارش

’’بارش نہیں ہوتی۔۔۔  ہے نا‘‘ کسی نے کھنکتی آواز میں اس کا جملہ پورا کیا۔ وہ اچھل پڑا اور تیزی سے کپڑوں کی طرف بڑھا۔

وہ سامنے والے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے عجب شانِ بے نیازی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’’میں۔۔۔  دراصل‘‘ وہ ہکلا کر رہ گیا۔

وہ ہنسی۔

’’بارش نہیں ہوتی؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

وہ اس کے قریب آ گئی۔۔۔  اس کے بالکل سامنے، چند لمحے یونہی کھڑی رہی، پھر دفعتاً اس نے جانے کیا کیا۔۔۔  جانے کیا ہوا کہ اس کا سارا لباس پلک جھپکنے میں اس کے بدن سے کھسک کر پاؤں میں آن گرا۔

وہ تو ششدر رہ گیا۔

کچھ دیر کے لیے سمجھ ہی نہ آیا کہ کہاں ہے۔۔۔  اور یہ کیا ہوا ہے۔

وہ اپنے بدن کی ساری توانائیوں اور جلوؤں کے ساتھ سامنے کھڑی مسکرائے جا رہی تھی۔

اور وہ اس کے سامنے زمین پر یوں پڑا تھا جیسے لڑ لڑ کر ہار گیا ہو۔

لیکن میں تو ابھی میدان میں اترا ہی نہیں۔

وہ چند قدم آگے آئی۔۔۔  اسے دیکھتی رہی پھر بولی۔۔۔  ’’ہریالی اس شہر سے روٹھ گئی ہے۔۔۔  ہے نا۔‘‘

وہ دم بخود اسے دیکھے جا رہا تھا۔

’’لیکن‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’میں ہریالی ہوں۔۔۔  میں ہی تو بارش ہوں۔‘‘

’’تم‘‘

’’ہاں میں۔۔۔  تم نے مجھے خود ہی شہر سے نکال دیا ہے، تمہیں میری ضرورت ہی نہیں۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  نہیں ‘‘ اس نے اچھل کر اسے دبوچ لیا۔۔۔  ’’مجھے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔  مجھے۔۔۔  مجھے۔۔۔ ‘‘

بادل گہرے ہو گئے۔۔۔  فضا نے آنکھوں میں گہرا سرمہ لگا لیا۔۔۔

جانے کتنی دیر گزر گئی۔

اپنے حواس میں آیا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔  بس مسلی ہوئی گھاس سے جانے والی کے بدن کی مہک آ رہی تھی،

یہ خواب تھا، یا حقیقت، اسے کچھ سمجھ نہ آیا،

اس رات خوب بارش ہوئی۔

ہر چیز دھل گئی۔۔۔  لیکن سب چیزیں بدلی بدلی سی لگتی ہیں۔

کیا سب کچھ وہی ہے۔۔۔  ویسا ہی ہے۔

وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا اور پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔

 کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔  چہروں اور چیزوں پر ایک عجیب منافقانہ مسکراہٹ ہے۔ اب بارش روز ہوتی ہے، خوب ہوتی ہے لیکن ہریالی میں ایک عجب زرد پن ہے جو جائے نہیں جاتا!

٭٭٭

 

 بے دروازہ سراب

اسی چار دیواری میں ، غیر منتظم طور پر کہانی کہیں چھپی بیٹھی ہے اور وہ لفظوں کا جال لیے اسے دیر سے تلاش کر رہا ہے، لیکن بس ایک جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتی ہے۔

لُک چھپ جانا

مکئی دا دانہ

راجے دی بیٹی آئی جے

آواز سن کر چوکنّا ہوتا ہے، لفظوں کی ڈوریاں کھینچ کھینچ کر دیکھتا ہے، لیکن کہانی بَل کھاتی اس کے پہلو میں سے نکل کر کسی کونے میں جا چھپتی ہے۔ ایک لمحہ کے لیے خیال آتا ہے کہ کہانی کے بغیر ہی لفظوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر فرضی کہانی بنا لی جائے۔

فرضی کہانی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

لفظ کو دوسرے لفظ سے جوڑتا ہے، لفظوں کا مینار اٹھتا چلا جاتا ہے، جب آخری لفظ رکھتا ہے تو مینار دھڑم سے نیچے گر پڑتا ہے، کونے میں چھپی کہانی کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے،

 لُک چھپ جانا

مکئی دا دانہ

تو کیا کروں ؟

کہانی کو کیسے تلاش کروں۔۔۔  کہاں سے لاؤں اسے؟

مان جاؤ۔۔۔  آ جاؤ، دیکھو لفظ تمہارے انتظار میں منہ کھولے بیٹھے ہیں ،

کہانی نہیں مانتی۔۔۔  نہیں آتی،

تو کیا کروں ؟ کہانی کے بغیر ہی کہانی لکھوں ،

دھوپ اندھی، اندھیرا روشن اور لوگ چوہے،

چوہے سارے صحن میں ، گلیوں اور بازاروں میں دوڑتے ہیں ، دن روتا ہے، رات ہنستی ہے اور کہانی کونے میں چھپی چھپی پتھر ہوتی جاتی ہے،

اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور وہ دونوں ہاتھوں کو پھیلا پھیلا کر ہلا ہلا کر اسے تلاش کر رہا ہے۔ کہانی اس کے اردگرد ناچتی ہے، کبھی دائیں ، کبھی بائیں گدگدی کر کے بھاگ جاتی ہے۔

وہ دوڑ دوڑ کر ہانپ گیا ہے، پھولی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’سنو، خدا کے لیے سنو، میری بات تو سنو۔‘‘

کہانی کھلکھلاتی ہے۔۔۔  ’’کہو‘‘

’’میرے پاس آؤ۔۔۔  دیکھو لفظ اب سڑنے لگے ہیں ، ان میں بو پڑ گئی ہے۔۔۔  دیکھو۔۔۔ ‘‘

کہانی لمحہ بھر کو چپ رہتی ہے، پھر کہتی ہے۔۔۔  ’’کرداروں کے بغیر میرا وجود کیا؟ جاؤ پہلے کردار تلاش کرو۔‘‘

’’کردار‘‘۔۔۔  وہ بڑبڑاتا ہے۔۔۔  ’’لیکن میری آنکھوں پر تو پٹی بندھی ہے۔‘‘

کہانی کچھ سوچتی ہے پھر چپکے سے اس کی پٹی کھول دیتی ہے۔

کیا دیکھتا ہے کہ ایک لق و دق صحرا ہے، چار سو ریت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اوپر بھونکتا سورج،

وہ آنکھیں جھپکتا ہے۔

اب کیا دیکھتا ہے کہ بھرا بازار ہے، کھوے سے کھوا چھِل رہا ہے، خریداروں کا ہجوم، دکانیں رنگا رنگ اشیاء سے لدی پڑی ہیں ،

کردار ہی کردار،

سامنے سے گزرتے ایک ادھیڑ عمر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے۔۔۔  ’’جناب‘‘۔۔۔

لیکن اس سے پہلے کہ کچھ اور کہے بازو کندھے سے نکل کر سڑک پر جا گرتا ہے۔

ادھیڑ عمر غصہ سے کہتا ہے۔۔۔  ’’معلوم نہیں میرا بازو مصنوعی ہے۔‘‘ وہ بوکھلا کر بازو اٹھاتا ہے اور جلدی جلدی کندھے میں فٹ کرنے لگتا ہے،

بازو فٹ ہو جاتا ہے تو وہ شخص مسکرا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے، ’’ہاں ، اب بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ‘‘ وہ جلدی سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایک خوبصورت عورت قریب سے گزرتی ہے۔

’’سُنیے‘‘

وہ جواب نہیں دیتی۔

’’سُنیے۔۔۔  سُنیے۔۔۔  سُنیے‘‘

وہ مڑ کر دیکھتی ہے۔۔۔  ’’شاید آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں ، افسوس میں سن نہیں سکتی، میرے کان مرمت ہونے کے لیے گئے ہوئے ہیں ، شام کو ملیں گے۔‘‘

وہ بدک کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

چاروں طرف کردار ہی کردار ہیں ، لیکن۔۔۔  ؟

دفعتاً ایک بچہ نظر آتا ہے،

’’یہ ضرور اصلی ہو گا۔۔۔ ‘‘

دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہے۔ پیار سے اس کے گال تھپتھپاتا ہے۔ بچہ فوراً بولنے لگتا ہے۔۔۔  ’’میرا نام شانی ہے، میرے ابو کا نام۔۔۔  میری امی کا نام۔۔۔  میں۔۔۔  میں۔۔۔ ‘‘

آواز بند ہو جاتی ہے۔

کیا ہوا؟

چابی ختم ہو گئی ہے۔

وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔

’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘ لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں ، وہ روتے روتے سر اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہے،

ٹوٹے بازو۔۔۔  پتھر کی آنکھیں۔۔۔  پیوند لگے سر، لکڑی کے پاؤں ،

وہ کتابوں کے ڈھیر میں اتر جاتا ہے۔

دیمک لگی تاریخ کے ایک ایک واقعہ کو ٹٹولتا ہے، اپنے وقت کے بڑے بڑے کردار تاریخ کے کوڑا گھر میں اوندھے پڑے ہیں ، ہاتھ لگاتا ہے تو بھُر جاتے ہیں ،

وہ پھر اسی چار دیواری میں آ جاتا ہے،

کہانی کسی کونے میں چھپی بیٹھی ہے۔۔۔  اسے دیکھ کر کھلکھلاتی ہے۔

’’میں کیا کروں۔۔۔  سارے کردار بے کردار ہیں ؟‘‘

کہانی ہنستی چلی جاتی ہے، پھر کہتی ہے۔۔۔  ’’کردار تو ماحول کی پیداوارہیں ، جاؤ پہلے ماحول تلاش کرو۔‘‘

وہ سر ہلاتا ہے اور باہر آتا ہے،

کیا دیکھتا ہے کہ باغ باغیچے ہیں ، پھل دار پودے ہیں ، رنگا رنگ پھول ہیں ، بھوک سی محسوس ہوتی ہے، آگے بڑھ کر پھل توڑتا ہے، منہ میں ڈالنے لگتا ہے تو پھل پتھر کا نکلتا ہے،

بازار میں آتا ہے تو دکانیں چیزوں سے بھری نظر آتی ہیں ، ہاتھ لگاتا ہے تو مٹی ہو جاتی ہیں ، ڈبوں کے منہ کھولتا ہے تو اندر سے سڑاند نکلتی ہے۔۔۔  بھوک باؤلے کتے کی طرح اس کے پیچھے دوڑتی ہے۔۔۔

بھوک۔۔۔  ڈبے، برتن اندر سے خالی ہیں ، باہر سے ٹن ٹناٹن بجتے ہیں ،

غشی اور کمزوری کے عالم میں تھکن سے چور ڈولتا ہے، ساری چیزیں اڑتی ڈولتی نظر آتی ہیں ،

ایک بڑا سا خلا ہے جس میں وہ بھی ہے، چیزیں بھی، لوگ بھی اور کہانی بھی،

لیکن کہانی کہیں چھپی بیٹھی ہے اور وہ لفظوں کا جال لیے اسے دیر سے تلاش کر رہا ہے، لیکن کہانی بس ایک جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتی ہے۔

لُک چھپ جانا

مکئی دا دانہ

راجے دی بیٹی۔۔۔

مگر راجے کی بیٹی تو راجہ مانگتی ہے اور وہ نہ راجا ہے نہ راجاؤں جیسا!

٭٭٭

 

کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر

پہلی، دوسری۔۔۔  پانچویں اور ساتویں بار وہی منظر،

سردیوں کے پت جھڑ کی ایک بیمار رات،

نیم روشن، نیم تاریک

آسمانوں اور بادلوں کے ٹکڑے جگہ جگہ گھات لگائے چاند کو دبوچنے کے لیے منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ ننگے درختوں کی لمبی قطار۔۔۔

سڑک پر دور کہیں کسی کے آنے کی چاپ سر اٹھاتی ہے۔

مگر کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

نہ آتا ہے، نہ چاپ سر جھکاتی ہے۔

بس انتظار کی ایک لمبی مٹیالی چادر۔۔۔

اس وقت کون ہو سکتا ہے؟

کوئی بھی نہیں۔

کوئی تو ہے کہ چاپ سنائی دیتی ہے۔

تو دکھائی کیوں نہیں دیتا؟

رات نیم روشن، نیم تاریک

دکھائی دے بھی سکتا ہے، نہیں بھی دے سکتا۔

مگر ہے کون جو اس وقت چلا آتا ہے؟

قریب ہی کہیں سے کسی پرندے کی پھڑپھڑاہٹ خاموشی کے بلیک بورڈ پر ایک لمبا فقرہ لکھتی ہے!

 کسی طرف سے ایک کتا رینگتا ہوا سر نکالتا ہے۔

اور نالی میں سے چپڑ چپڑ پانی پیتا ہے۔

پھر منہ اٹھا کر ہوا میں سونگھتا ہے اور بھونکنے لگتا ہے۔

شاید اس نے بھی چاپ سن لی ہے،

مگر شاید اسے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا،

سردیوں کے پت جھڑ کی یہ رات، جس کی عمر معلوم نہیں سر جھکائے آہستہ آہستہ چلی جاتی ہے۔

ننگی شاخوں سے لپٹے گھونسلوں میں دبکے پرندے گردن نکال کر چوری چوری اسے گزرتے دیکھتے اور اپنے پروں میں دبک جاتے ہیں۔

گھروں میں آتش دانوں کے آگے، بستروں میں بیتی کہانی، اس ایک جگہ آ رُکی ہے جہاں سے نہ تو واپس جانے کا کوئی راستہ ہے اور نہ آگے کچھ دکھائی دیتا ہے۔

کہانی کے کردار بے بسی سے چیختے ہیں۔۔۔  ’’ہمیں نہ تو کچھ سنائی دیتا ہے، نہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔  ہمارے راستوں پر دھند چوکڑی مار کے بیٹھ گئی ہے، ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا، کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ ‘‘

فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں سے ایک کردار کا نام الف ہے۔ اس کا نام الف کیوں ہے، یہ اسے معلوم نہیں ، بس اسے الف کے نام سے پکارا جاتا ہے اس لیے وہ الف ہے۔ ب بھی ہو سکتا تھا اور ج بھی، مگر ہم نے چونکہ فرض کر لیا ہے کہ وہ الف ہے اس لیے وہ الف ہی ہے۔

تو یہ الف اس وقت، سردیوں کی پت جھڑ کی اس بیمار رات میں ، جس کی عمر کا نہ تو اندازہ ہے نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کتنا عرصہ یوں ہی چلتی رہے گی۔۔۔  اس سڑک پر جہاں دور کہیں سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے، چپ چاپ کھڑا ہے۔ اس کے سارے ملنے جلنے والے اس وقت اپنے اپنے گھروں میں آتش دانوں کے سامنے یا بستروں میں کہانی کے اس موڑ کی بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں ، جہاں کہانی نہ آگے جاتی ہے اور نہ پیچھے ہٹتی ہے،

بھونکتا کتا چپ ہو گیا ہے۔

آسمان پر بادلوں کے کھلے مین ہول چاند کو نگلنے کے لیے منہ کھولے بیٹھے ہیں ، چاند ان سے بچتا بچاتا، پھونک پھونک کر قدم رکھتا، چلا جا رہا ہے۔

کسی پرندے کی پھڑپھڑاہٹ، رات کی سلیٹ پر نقش بناتی ہے، کئی پرندے اپنے اپنے گھونسلوں سے گردنیں نکال کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں ، کتا آہستہ آہستہ چلتا الف کے پاس آ کھڑا ہوتا ہے۔

قدموں کی چاپ تیز ہوتی جاتی ہے۔ الف اور کتا، دونوں سر اٹھا کر اُدھر دیکھتے ہیں۔

دھند میں پہلے ایک نمودار ہوتا ہے، اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، چوتھا اور پانچواں۔۔۔

’’ہالٹ۔۔۔ ‘‘ دور سے آواز سنائی دیتی ہے۔

الف دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیتا ہے۔

پانچوں قریب آ جاتے ہیں۔

’’کون ہو تم۔۔۔  ؟‘‘

الف اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

’’گونگے ہو۔۔۔  ؟‘‘

الف سر ہلاتا ہے۔

’’اور یہ۔۔۔ ‘‘ وہ کتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

کتے کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ دو قدم ہٹ کر بھونکنے لگتا ہے۔

پانچوں سر جوڑ کر ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں انڈیلتے ہیں ، پھر ان میں سے ایک جو آگے ہے الف سے کہتا ہے۔۔۔  ’’جاؤ۔۔۔  فوراً بھاگ جاؤ۔‘‘

الف دبک کر اپنے گھر میں رینگ جاتا ہے۔

پھر وہ کتے کی طرف دیکھتے ہیں ، جو ابھی تک بھونک رہا ہے اور ان پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہا ہے۔

وہ اپنی بندوقیں سیدھی کرتے ہیں۔۔۔  تڑ تڑ۔۔۔  تڑ تڑ

کتے کی غرّاہٹ سسکی میں ڈوب جاتی ہے۔

عین اسی لمحہ چاند کا پاؤں پھسلتا ہے۔

اور وہ بادلوں کے کھلے مین ہول میں جا گرتا ہے۔

پانچوں گھپ اندھیرے میں کھل کھل ہنستے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔ چاپ آہستہ آہستہ ڈوب جاتی ہے۔

پھر کچھ دیر بعد دور پرے ایک اور چاپ سنائی دیتی ہے۔

مگر کوئی دکھائی نہیں دیتا،

یہ سردیوں کے پت جھڑ کی ایک بیمار رات ہے۔

اب بالکل تاریک،

کہ آسماں پر بادلوں کے کھلے مین ہول میں گرا چاند جانے کس حال میں ہے؟ معلوم نہیں ، ننگے درختوں کی لمبی قطار۔۔۔

اور خون میں لت پت کتا، جس کی کھلی آنکھوں میں منجمد نفرت، تاریخ کے کتبوں کی طرح نقش ہے اور جس کا کھلا منہ اب بھی بھونکنے کی حالت میں ہے،

دور کہیں ، کسی کے آنے کی چاپ سر اٹھاتی ہے۔

مگر دکھائی کوئی نہیں دیتا۔

بس انتظار کی ایک لمبی، اداس سُر ہے۔

مگر گیت کے بول سنائی نہیں دیتے۔

٭٭٭

 

دھند منظر میں رقص

عجب تماشے کی رات ہے،

سورج سوا نیزے سے ابھی ذرا اوپر ہی ہے، روشنی کا لبالب بھرا طشت آسمان کے بیچوں بیچ، عجب پُر اسرار روشنی ہے، نہ ٹھنڈی، نہ گرم، بس روشنی ہے اور روشنی میں چیزیں دروازوں ، کھڑکیوں اور چھتوں پر بنی ٹھنی بیٹھی ہیں ، عجب تماشے کا عالم ہے۔

وجود کی آدھی ٹوٹی ریلنگ سے لٹکا میں جھک جھک کر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ پہلی نظر میں ہر شے اجنبی دکھائی دیتی ہے، قریب سے دیکھتا، سوچتا ہوں تو کچھ کچھ یاد پڑتا ہے لیکن لفظوں کی گرفت میں نہیں آتا۔ عجب بات ہے کہ اس لمحہ ہر شے اپنے خول سے باہر ہے، پہچان دھند لائی ہوئی ہے اور چیزیں اپنے آپ سے نکل کر پھیلتی گئی ہیں ، پھیلتی ہی گئی ہیں ،

میں ٹوٹی ریلنگ سے اتر کر وجود کے پھیلتے تنبو پر لیٹ گیا ہوں اور جھک کے نیچے دیکھتا ہوں۔۔۔  دور دھندلاہٹوں سے ایک ڈنڈا بردار، جس کا چہرہ اندھیرے میں لپٹا ہوا ہے، زور زور سے ڈنڈا ہلاتی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے سامنے بیٹھا بچہ توتلی زبان میں سبق پڑھ رہا ہے۔

’’میلا نام الفپھ۔۔۔  میلے ابو کا نام بھ، میلے دادا کا نام۔۔۔ ‘‘

ڈنڈا بردار کے چہرے کے گرد لپٹا اندھیرا بہت گہرا ہے، رفتہ رفتہ بچے کی زبان صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔

میرا نام ا  ہے، میرے ابو کا نام  ب  ہے، میرے دادا کا نام۔۔۔ ‘‘

میں سر جھٹکتا ہوں۔۔۔  کس نے میرا نام ا  رکھا ہے، نہیں میں اپنی مرضی سے اپنا نام رکھوں گا۔‘‘

ڈنڈا بردار کی انگارہ آنکھیں کھلتی ہیں ، ڈنڈا اوپر اٹھتا ہے اور۔۔۔  درد کی تیز ٹیس میرے سارے وجود میں دوڑ جاتی ہے۔

’’نہیں میرا نام ا  نہیں۔۔۔ ‘‘

 ڈنڈا پھر اوپر اٹھتا ہے،

میرا باپ  ب  کیوں ،  ج  کیوں نہیں ؟‘‘

ڈنڈا اوپر اٹھتا ہے۔

’’میرا نام ا  ہے، میرے باپ کا نام  ب  ہے اور میرے دادا کا نام۔۔۔ ‘‘

ا  اور  ب،  ج  اور  د۔۔۔  دن سالوں کے رشتے پھیلتے چلے جاتے ہیں ،

لیکن یہ عجب تماشے کی رات ہے۔

میرا وجود رینگ رینگ کر ا  اور  ب  کے بوسیدہ چوغوں سے باہر نکل آیا ہے۔

اس لمحہ کہ چیزیں دروازوں ، کھڑکیوں اور چھتوں پر بنی ٹھنی بیٹھی ہیں ،

اور سورج سوا نیزے سے ابھی ذرا اوپر ہی ہے۔۔۔

میں نہ ا  ہوں ، نہ  ب،  نہ  ج

میں صرف میں ہوں

اور پہچان کے بوسیدہ چوغے گل گل کر نیچے گر رہے ہیں۔ چیزیں ننگی ہوئی جا رہی ہیں اور ان کے بھی میری طرح کئی نام ہیں ، مگر اس رات، کہ عجب تماشے کی رات ہے، ان کے بھی کوئی نام نہیں۔ لگتا ہے ساری چیزیں اپنے اپنے لبادوں سے رینگ رینگ کر باہر نکل آئی ہیں۔ گلے سڑے کپڑوں کا ایک ڈھیر کونے میں لگا ہوا ہے، کوئی اس طرف دیکھتا بھی نہیں۔

ہر شے اپنے ہی تماشے میں محو ہے،

عجب ننگا پن ہے، لیکن ننگا پن نہیں ، ایک بڑا سا آئینہ ہے جس میں سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے، ذرا ذرا سا نقطہ، باریک سے باریک لکیر۔۔۔  اوپر سورج ہے، جو ابھی سوا نیزے سے ذرا اوپر ہی ہے،

میں اپنے وجود کے تنبو سے پھسل کر عین تماشے کے درمیان آن گرتا ہوں۔

تو میں الف نہیں

ب بھی نہیں

ج بھی نہیں

تو میں کون ہوں۔۔۔  ؟

میں صرف میں ہوں

بغیر کسی نام، بغیر کسی چہرے کے

بس میں۔۔۔  میں ہوں ،

میں نہ کسی کو جانتا ہوں ، نہ پہچانتا ہوں۔۔۔

یہ لمحہ بھی عجب ہے کہ تماشے میں لوگ تو ہیں مگر ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ بس خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر گزرتے چلے جاتے ہیں۔

’’مجھے کوئی پہچانتا ہے؟‘‘۔۔۔  میں چیخ کر پوچھتا ہوں۔

کئی چہرے اوپر اٹھتے ہیں ، لیکن نہ تو کسی آنکھ میں شناسائی چمکتی ہے، نہ کسی لب پر نام کے حرف سنائی دیتے ہیں ،

آنکھیں آنکھیں ہی نہیں

لب لب ہی نہیں

صرف ایک مَیں ہے جو اوپر سے نیچے تک، دائیں سے بائیں تک ساری جہتوں پھیلی ہوئی ہے،

الف میں

ازل سے اب تک میں۔۔۔  میں ہی میں

میں ڈبکیاں کھاتا ہوں ، ڈوب ڈوب جاتا ہوں ،

سانس رکنے لگتی ہے، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں ، چاروں طرف ایک سمندر ہے اور میں کچھ بھی نہیں ، اس سمندر کے سامنے بالکل کچھ بھی نہیں۔۔۔  بس ڈوبا جا رہا ہوں۔ سانسیں بند ہونے لگتی ہیں ، منظر ڈوبنے لگتا ہے۔ ایک عجب اندھیرا ہے کہ اندھیرا بھی نہیں ، مجھے پانی بکل میں لپیٹ لیتا ہے۔

ایک گہری چپ!

صبح پہلے تیز گھنٹی پھر کوئی کندھے سے ہلا کر مجھے جگاتا ہے،

’’آج دفتر نہیں جانا۔۔۔ ‘‘

’’آئیے، آئیے مسٹر الف آپ کیسے ہیں ؟‘‘

’’مزا ج بخیر۔۔۔  تشریف رکھیے نا۔‘‘

’’السلام علیکم۔۔۔  بہت دنوں بعد دکھائی دئیے۔‘‘

آؤ بھائی آؤ نا۔۔۔ ‘‘

’’بیٹے کیسے ہو؟‘‘

’’ابو میری کاپیاں۔۔۔ ‘‘

’’جان! آج تو بہت دیر لگا دی آپ نے۔‘‘

مکالموں کا ایک لامتناہی جنگل، لفظ اگتے چلے جاتے ہیں ،

چہرے بھی تو لفظ ہی ہیں !

لفظ، لفظ، لفظ۔۔۔  بغیر ارادے کے منہ سے نکلتے چلے جاتے ہیں ،

مگر وہ رات۔۔۔

وہ تو عجیب تماشے کی رات تھی، سورج سوا نیزے سے ابھی ذرا اوپر ہی تھا اور۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

ثمر سے بے ثمر پیڑوں کی جانب

ایک ذلیل سی، سر سے پیر تک دھند میں لپٹی صبح،

ہائی وے پر ایک کار ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف دوڑے جار ہی ہے، دونوں شہروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ ان کے نام اور جغرافیے کیا ہیں اور وہ ایک دوسرے سے کتنے فاصلے پر واقع ہیں ؟ چونکہ یہ ہائی وے ہے اور یہاں ہر چیز انتہائی رفتار سے دوڑ رہی ہے، اس لیے یہ کار بھی، جس کا رنگ کتھئی ہے، پوری رفتار سے دوڑے جار ہی ہے۔ جس شہر سے آئی ہے اور  جس شہر کی طرف جار ہی ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت سے شہروں میں کوئی فرق نہیں ، اس لیے وہ جس شہر کی طرف جا رہی ہے اس کی بجائے کسی دوسرے شہر کی طرف بھی جا سکتی ہے۔

کار میں چار شخص ہیں ، جن میں سے ایک مر رہا ہے اور ایک پیدا ہو رہا ہے، باقی دو میں سے ایک گاڑی چلا رہا ہے۔ معلوم نہیں چلا بھی رہا ہے کہ نہیں ، مگر اپنے طور پر وہ یہی سمجھتا ہے۔ دوسرا موجود ہے، یا شاید موجود نہیں ہے، اپنے طور پر اگرچہ وہ بھی خود کو موجود ہی سمجھتا ہے۔ کار میں گھنیری چپ ہے اور ہائی وے پر دھند چہل قدمی کر رہی ہے۔ باقی دو میں سے اگلی سیٹ پر ایک ادھیڑ عمر گردن کو شانوں میں دبائے موت کو اشاروں سے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر لفظ بارش کے قطروں کی طرح جھلمل کرتے ہیں ، لیکن آواز نہیں آتی۔ اس کے بالکل پیچھے سیٹ پر بار بار اُچھلتا، دھند میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا، خاموشی سے پیدا ہو رہا ہے۔

مرتا ہوا شخص نم آلود انگلیوں سے زندگی کے کیلنڈر کو ٹٹولتا ہے، چند دن پہلے کوئی اس کے سارے لفظ اس سے ادھار مانگ کر لے گیا تھا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ کچھ عرصہ وہ لفظوں کے بغیر اشاروں کنایوں سے کام چلاتا رہا، مگر جب چند دنوں کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا تو اشارے کنائے بھی ختم ہونے لگے۔ لفظوں کے بغیر دم گھٹنے لگا۔ وہ لفظ مانگنے والے کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر گیا، لیکن وہ نہ ملا۔ اس جیسے کئی تھے مگر وہ سب اصل کی نقل تھے اور سارے شہر ایک جیسے۔

لفظوں کے بغیر زندگی گزارنے کا تجربہ کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ دنیا کے کئی ملکوں میں لوگ لفظوں کے بغیر ہی رہتے ہیں۔ لیکن اسے سمجھ نہ آیا کہ لفظوں کے بغیر اس کی خوشبو ختم ہو گئی ہے۔ اسے اپنا آپ کوڑا ڈرم لگتا ہے، جس میں بھانت بھانت کی سڑاند اٹھتی رہتی ہے۔ اس کے نتھنوں میں خوشبو کے پھاہے رکھے گئے مگر اب اسے ذائقے میں سڑاند کا احساس ہونے لگا۔ انہوں نے اس کے کھانے میں خوشبو شامل کر دی تو اسے آوازوں میں سڑاند محسوس ہونے لگی۔ انہوں نے اس کے کانوں میں بھی خوشبو کے پھاہے رکھ دئیے تو اسے لمس میں سڑاند آنے لگی اور اب اسے خیالوں اور سوچوں میں بھی سڑاند آنے لگی ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اسے مرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن موت اتنی کنجوس اور خصیص ہو گئی ہے کہ حاملہ عورت کی طرح پھونک پھونک کر سیڑھیاں اترتی ہے۔ وہ اسے اشاروں سے بلا رہا ہے، کنایوں سے کہہ رہا ہے، لیکن موت نہ آتی ہے، نہ مکالمہ کرتی ہے۔ کہتے ہیں موت مکالمے سے بہت کتراتی ہے اور وہ مکالمہ کرنا چاہتا ہے، لیکن مکالمے کے لیے لفظوں کی ضرورت ہے اور لفظ اس نے کسی کو ادھار دے دئیے ہیں۔

دوسرا شخص آہستہ آہستہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسے نہ مکالمے سے دلچسپی ہے نہ لفظوں سے، اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس لفظ ہیں بھی کہ نہیں ، بس وہ تو اچھل اچھل کر دھند میں لپٹی شبیہوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے نہ بو آتی ہے نہ خوشبو،

روشنی ہے تو ٹھیک، نہیں ہے تو بھی ٹھیک۔

’’میں کون؟‘‘

’’عامل‘‘

’’تم کون؟‘‘

’’معمول‘‘

’’جو کہوں گا مانو گے؟‘‘

’’مانوں گا۔‘‘

’’گھوم جاؤ‘‘

’’گھوم گیا‘‘

’’ان اچکن والے صاحب کی جیب میں کیا ہے؟‘‘

ایک گہری چپ

’’معمول۔۔۔  معمول۔۔۔  ارے او معمول، بھائی،

بول تو سہی۔۔۔  کچھ تو بتا؟‘‘

ایک گہری، گھنیری چپ

کار چلانے والا ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔۔۔  ’’دھند بڑھتی ہی جار ہی ہے۔۔۔  عجیب بات ہے، جوں جوں دن چڑھتا جاتا ہے دھند کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔‘‘

مرتا ہوا شخص آنکھوں سے باہر دیکھنے کی سعی کرتا ہے اور شانے ہلا کر چپ ہو جاتا ہے۔

پیدا ہوتا شخص اچھل کر شیشہ کھولتا ہے، دھند کہنی مار کے اندر آنے کی کوشش کرتی ہے، وہ جلدی سے شیشہ چڑھا دیتا ہے اور غوں غوں کر کے سیٹ میں دبک جاتا ہے۔

یاد آیا، اسی کار میں ایک چوتھا بھی ہے، وہ چپ چاپ ونڈ سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا ہے، کار چلانے والے کی بات سن کر وہ لمحہ بھر کے لیے اسے اور باقی دو کو دیکھتا ہے اور دوبارہ ونڈ سکرین پر نظریں جما دیتا ہے۔

کار چلانے والا پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’عجیب بات ہے، جوں جوں سورج بلند ہو رہا ہے، دھند کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔۔۔  مجھے تو لگتا ہے یہ سورج کی بجائے کوئی اور چیز ہے۔‘‘

کوئی اس کی بات کا جواب نہیں دیتا۔

ایک کے پاس لفظ ہی نہیں کہ اس نے اپنے لفظ کسی کو ادھار دے دئیے ہیں ، دوسرے کے پاس لفظ ہیں مگر جواب نہیں۔

تیسرے کے پاس لفظ بھی ہیں اور جواب بھی، لیکن وہ بولتا نہیں ،

ایک عجیب قسم کی ذلیل اور بے غیرت خاموشی چاروں طرف چوکڑی مارے بیٹھی ہے اور کار چپ چاپ چاروں کو لیے ہائی وے پر ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف دوڑے جار ہی ہے۔

مگر۔۔۔  مگر یہ کسے یقین ہے کہ یہ ہائی وے ہی ہے؟

کیا معلوم ؟

٭٭٭

 

دشتِ امکاں

خزانے والا خواب برسوں پرانا تھا،

ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے کہا تھا۔۔۔  ’’مجھے یقین ہے کہ اس گھر میں کہیں خزانہ ہے۔‘‘

ان کی خاموشی پر وہ جھجک سی گئی۔۔۔  ’’رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔‘‘

اس نے پوچھا۔۔۔  ’’کون سا خواب؟‘‘

’’وہی خزانے والا۔۔۔  میں وہاں تک پہنچ بھی گئی تھی۔‘‘

اس نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔  ’’تو پھر نکال کیوں نہ لائیں ؟‘‘

’’بس‘‘ ماں نے جھرجھر لی۔۔۔  ’’میں وہاں تک پہنچ تو گئی، لیکن۔۔۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘ چھوٹی بہن نے جلدی سے پوچھا۔

’’جب میں نے ہاتھ بڑھا کر اٹھانا چاہا تو۔۔۔ ‘‘ ماں نے پھر جھر جھری لی، ایک لمحہ کے لیے جیسے خواب اس کی آنکھوں میں مجسّم ہو گیا۔۔۔  ’’کسی نے میری کلائی پکڑ لی۔‘‘

وہ ہنس پڑا۔۔۔  ’’خزانے کے سانپ کی بات تو سنی ہے لیکن سانپ نے کلائی کب سے پکڑنی شروع کر دی ہے۔‘‘

ماں نے برا سا منہ بنایا اور بولی۔۔۔  ’’تم بس مذاق ہی اڑانے کے لیے ہو، لیکن میں سچ کہتی ہوں اس گھر میں کہیں خزانہ ضرور ہے، ایک دن تم۔۔۔  یاد رکھنا بس۔‘‘

اس نے کندھے جھٹکے۔۔۔  ’’جلدی سے چائے بنا دیں ، دفتر دیر ہو رہی ہے۔‘‘

بس میں سوار ہوتے ہوئے اسے ایک لمحہ کے لیے ماں کی بات یاد آئی اور خزانے کی نرم نرم گرمی اس کے جسم میں لہراتے لمس کی طرح رقص کرنے لگی، لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی نظریں اگلی سیٹوں سے جا چپکیں ، وہ ابھی ابھی سوار ہوئی تھی اور کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نظروں ہی نظروں میں سٹاپ آ گیا۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے سرگوشی کی۔۔۔  ’’واپسی پر چائے کا کپ چلے گا نا۔‘‘

وہ مسکرائی اور اٹھلاتی ہوئی آگے نکل گئی۔

چائے پیتے ہوئے وہ چپ چپ رہی۔

 اُس نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا بات ہے، آج ہیڈ مسڑیس سے ڈانٹ تو نہیں پڑی؟‘‘

’’نہیں تو۔‘‘

’’پھر‘‘

’’بس اب تم ماں جی کو ہمارے گھر بھیج ہی دو۔‘‘

وہ چپ ہو گیا، بہت دیر چپ رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’بھیج دینے میں تو ہرج نہیں اور ماں آنا بھی چاہتی ہے، لیکن۔۔۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’سوچتا ہوں کہ کچھ ہاتھ کھل جاتا تو اچھا تھا۔‘‘

ایک لمحہ کے لیے اسے خزانے کا خیال آیا، کیا معلوم واقعی گھر میں کہیں خزانہ ہو۔۔۔  اگر ہاتھ آ جائے تو۔۔۔  ایک گرم لہر نے اس کے اندر انگڑائی لی۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ ہنسی۔۔۔  ’’اندر ہی اندر مسک رہے ہو۔‘‘

’’بس ایسے ہی۔۔۔ ‘‘ اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’خواب بھی عجب چیز ہیں۔‘‘

’’سوچتا ہوں اگر خواب نہ ہوتے تو ہم جیسوں کا کیا بنتا۔‘‘

وہ ہنسی۔۔۔  ’’اسی تنخواہ پر گزارہ کرتے۔‘‘

چند لمحے خاموشی رہی، پھر بولی۔۔۔  ’’تو کب آ رہی ہیں ماں جی؟‘‘

’’جب کہو‘‘ اس نے شانے اچکائے۔۔۔  ’’لیکن بہنوں کی شادی ہو جاتی تو اچھا تھا۔ باپ تو میرا ہے نہیں ، آخر یہ سب کرنا تو مجھے ہی ہے۔‘‘

’’تو مل کر کریں گے‘‘ اس نے اس کا ہاتھ دبایا۔۔۔  ’’اب تم اکیلے ہو پھر میں تمہارے ساتھ ہوؤں گی۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔  بس خیال سا آیا کہ کیا معلوم گھر میں کہیں خزانہ ہو ہی؟

رات کو کھانا کھاتے ہوئے اس کا دل چاہا کہ ماں خزانے والی بات پھر چھیڑ لے، لیکن ماں کو اس رات گیس اور بجلی کے بلوں کی فکر تھی کہ اگلے دن ان کی آخری تاریخ تھی۔

پھر کئی ماہ گزر گئے۔ خزانے اور خواب آئے گئے ہو گئے۔ اس دوران ماں اس کی شادی کی بات پکی کر آئی۔

ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے پھر خزانے کا ذکر چھیڑا اور بولی۔۔۔  ’’رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔۔۔  لیکن بس۔۔۔ ‘‘ لمحہ بھر چپ رہنے کے بعد بولی۔۔۔

’’بس کوئی میری کلائی پکڑ لیتا ہے، ٹھنڈے برف ہاتھ والا۔‘‘

بہن نے پوچھا۔۔۔  ’’آپ نے مڑ کر دیکھا کہ وہ کون ہے؟‘‘

ماں نے خوف سے جھرجھری لی۔۔۔  ’’ایک ٹھنڈا برف ہاتھ، میرا تو سارا جسم کانپنے لگتا ہے اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔‘‘

وہ بولا تو کچھ نہیں لیکن سوچا۔۔۔  کیا معلوم واقعی یہاں خزانہ ہو اور یہ کوئی غیبی بشارت ہی ہو؟

اگلے دن ماں اور بہنوں نے اس کے سسرال تاریخ مقرر کرنے جانا تھا۔

وہ گھر میں اکیلا رہ گیا، کچھ دیر پڑھتا رہا، پھر جانے کیسے خزانے کا خواب آہستہ آہستہ دبے پاؤں اس کے اندر داخل ہوا اور لمحوں میں سارے وجود پر پھیل گیا۔

اس نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور سوچنے لگا کہ اگر خزانہ ہے تو کہاں ہو سکتا ہے؟

برسوں سے خزانے کا ذکر سنتے سنتے ایک دو جگہیں اس کے ذہن میں کلبلاتی رہتی تھیں ، لیکن دوسروں کی ہنسی اور اس خوف سے کہ کہیں اس کے تجسّس کا مذاق نہ اڑایا جائے اسے کبھی انہیں دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اب گھر خالی دیکھ کر اس نے پرانے تھیلے سے چھینی اور ہتھوڑا نکالا اور بڑے دالان کی الماری کے آخری خانے کی طرف چل پڑا۔ یہ خانہ اسے ہمیشہ اندر سے کھوکھلا محسوس ہوا تھا۔ کیا معلوم اس کے نیچے کوئی خفیہ خانہ ہو اور اس میں۔۔۔  تختہ نکالتے نکالتے اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا، لیکن خزانے کے گرم گرم لمس نے درد کا احساس ابھرنے نہ دیا۔ خانے کے نیچے کچھ بھی نہیں تھا۔

لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔

سونے کے کمرے کے فرش کا ایک ٹکڑا بھی اسے مشکوک لگتا تھا۔ تختے کو اپنی جگہ جما کر اس نے سونے کے کمرے کی غربی دیوار کے ساتھ ان دو اینٹوں کو نکالا جو ذرا مختلف انداز سے لگی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں سے بھی کچھ نہ نکلا۔ ایک دو جگہیں اور بھی تھیں لیکن گھر والوں کی واپسی کا وقت ہوا جا رہا تھا۔

اگلے چند دن شادی کی تیاریوں اور ہنگاموں میں گزر گئے۔ بیوی کے آنے سے گھر میں کچھ آسانیاں ہو گئیں۔ اس کی تنخواہ نے کئی رکی ہوئی ضرورتوں کو پہیے لگا دئیے۔ جہیز کی چیزوں نے خالی گھر کو بہت حد تک بھر دیا۔

اگلے دو سالوں میں بہنیں بھی بیاہ کر اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔

اس دوران ماں کبھی خواب کا ذکر کرتی تو چند دنوں کے لیے خزانے کا تصور اسے ایک نئی گرماہٹ سے آشنا رکھتا۔ وہ موقعہ دیکھ کر مختلف جگہوں کی کھدائی کر تا رہتا۔ مایوس ہوتا، چند دن بعد کسی دوسری جگہ کا انتخاب کرتا۔۔۔  کچھ دن خزانے کا خواب اسے نرم گرم بکل میں دبائے رکھتا، پھر آہستہ آہستہ زندگی کی رواروی کی ٹھنڈک اس پر غالب آ جاتی۔

ماں بھی اب خزانے کا ذکر سب کے سامنے نہ کرتی، شاید اسے بہو کے سامنے اپنے خواب کا ذکر کرتے جھجک آتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی جب بہو باورچی خانے میں ہوتی تو اِدھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی کرتی۔۔۔  ’’خزانہ کہیں ہے ضرور۔‘‘

وہ سنجیدگی سے پوچھتا۔۔۔  ’’لیکن کہاں ؟‘‘

اور کبھی مذاق سے کہتا۔۔۔  ’’تو کیا سارے گھر کو کھود ڈالوں ، ایک گھر ہی تو ہے ہمارے پاس۔‘‘

ماں چپ ہو جاتی اور خزانے کے ذکر پر کئی کئی مہینوں کی دھول پڑ جاتی، لیکن مرنے سے چند روز پہلے وہ تواتر سے خزانے کا ذکر کرنے لگی۔ ناشتہ کی میز پر جونہی بہو کچھ لینے اِدھر اُدھر ہوتی وہ سرگوشی میں کہتی۔۔۔  ’’پھر وہی خواب۔۔۔  ضرور یہ کوئی غیبی بشارت ہے۔‘‘

بظاہر وہ اس کی بات پر توجہ نہ دیتا لیکن اندر ہی اندر اسے یقین سا ہونے لگتا کہ خزانہ کہیں ہے ضرور۔ سب کی نظریں بچا کر وہ ان جگہوں کو بار بار دیکھتا جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ وہاں خزانہ ہو سکتا ہے۔

ماں کے مرنے کے بعد بھی خزانے کا تصور اس کے ذہن سے پوری طرح محو نہ ہوا۔ مرنے سے ایک دن پہلے اس نے پھر کہا تھا۔۔۔  ’’میرا خواب جھوٹا نہیں ہو سکتا، یہ تو غیبی اشارہ ہے۔‘‘

جب کبھی گھر خالی ہوتا تو وہ پرانے تھیلے سے اپنے اوزار نکال کر مختلف جگہیں ٹٹولتا۔ واپسی پر اس کی بیوی کسی اکھڑی ہوئی اینٹ یا الماری کا ٹوٹا خانہ دیکھ کر استفسار کرتی تو وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹال دیتا۔ کچھ دن کے لیے خزانے کا تصور دھند لا جاتا، پھر کسی صبح ماں یاد آ جاتی تو خزانہ بھی چمکنے لگتا اور جب بیوی بچوں کو لے کر کسی دن میکے جاتی تو وہ اپنے اوزاروں کے تھیلے کو نکال لیتا۔۔۔  ہاتھ زخمی ہوتے، دیواروں کا اُکھڑا پلستر گھر کی خستگی میں اور اضافہ کر دیتا۔

پھر متعدد الماریوں ، دیواروں اور فرش کے حصوں کو اکھیڑ اکھیڑ کر وہ خزانے سے مایوس ہو گیا اور رفتہ رفتہ کئی سالوں میں خزانے کا خواب، اس کی گرماہٹ اور چمک اس کی زندگی سے نکل گئی۔

لیکن اب برسوں بعد ناشتہ کرتے ہوئے جب اس کے بیٹے نے یہ کہا کہ ’’ابو! میرا خیال ہے اس گھر میں کہیں خزانہ ہے۔‘‘ تو وہ چونک پڑا۔

’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘

بیٹا ایک لمحے چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’ابو میں نے رات خواب دیکھا ہے۔‘‘

جواباً وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔  اسے یاد آیا کہ اگلے ماہ وہ دونوں میاں بیوی ریٹائر ہو جائیں گے تو گھر کا سارا بوجھ بیٹے پر آن پڑے گا۔ اس نے اپنے کندھے پر اس ٹھنڈے برف ہاتھ کی ٹھنڈک کو محسوس کیا۔ ایک انجانا خوف اس کے سارے وجود پر چھا گیا۔ بڑی حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔۔۔  ’’شاید وراثت میں خواب بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘

٭٭٭

 

جاگنے کو ملا دیوے خواب کے ساتھ

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالبؔ

کہ جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ

اب یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ اک خواب سا ہے۔ حال کو غائب سے ملانے کی فضول سی کوشش، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ساری باتیں بے جواز ہو جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی گہری دھند میں سے گزر کر آئے ہیں ، جس میں کچھ دکھائی دیا کچھ نہیں دیا۔ اپنا آپ بھی عجیب لگتا ہے۔ میری ماں کہتی تھی کہ میری پیدائش سے چند ماہ پہلے اس نے خواب دیکھا کہ وہ ایک دریا کے کنارے کھڑی ہے، دور سے ایک پھول بہتا ہوا آیا، اس نے آگے بڑھ کر پھول اٹھا لیا۔۔۔  آنکھ کھلی تو اس نے تعبیر نکالی کہ اس کے یہاں بیٹا ہو گا۔ میرے وجود میں شاید خوشبو تو نہیں لیکن پھول کی طرح پتی پتی ہو جانا ضرور موجود ہے۔ اس سے مجھے خیال آتا ہے کہ خواب ہماری تمنائیں ہی نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات منظر نامے بھی ہوتے ہیں جو قبل از وقت ہمیں نظر آ جاتے ہیں۔ غور کرتا ہوں تو سب کچھ خواب ہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔  زندگی، زندگی کی تگ و دو، کسی دن اچانک آنکھ کھلے گی تو محسوس ہو گا کہ یہ سب کچھ تو واہمہ تھا، ایک خواب۔۔۔  خواب در خواب۔

دنیا کے اندر بھی ایک دنیا چھپی ہوئی ہے جو ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔

لیکن کیا ہر اسرار کا جاننا ضروری ہے، اگر ہم بہت سی چیزوں کو نہ بھی جانیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟

ایک شخص نے خواب دیکھا کہ وہ کسی اجنبی شہر میں جا پڑا ہے اور وہاں اس کا کوئی آشنا نہیں۔ نہ اسے کوئی پہچانتا ہے اور نہ وہ کسی کو۔ سرگرداں پھرتا پھرا، پشیماں ، غصہ اور افسوس کہ میں اس شہر میں کیوں آیا، یہاں نہ کوئی میرا آشنا نہ دوست۔ ہاتھ ملتے اور ہونٹ چباتے اس نے تاسّف کیا اور اسی تاسّف میں آنکھ کھل گئی۔ دیکھا نہ شہر ہے نہ راوی۔ احساس ہوا کہ تاسّف، غصہ اور پشیمانی سب بے فائدہ تھی۔ اپنی اس حالت پر وہ اور پشیماں ہوا، تاسّف کیا، اسی تاسّف میں آنکھ لگ گئی اور پھر خواب میں خود کو اسی شہر میں پایا۔ دوبارہ غصہ، غم اور افسوس شروع کر دیا کہ یہ کیسا شہر ہے جہاں نہ کوئی آشنا ہے نہ دوست، اسی تاسّف میں آنکھ کھلی تو۔۔۔

اب معلوم نہیں ہو پاتا کہ جاگنا کیا ہے اور خواب دیکھنا کیا؟

یہ جو چند لمحوں کے لیے غوطہ سا لگ جاتا ہے اور ہم کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو کسی اور دنیا میں پاتے ہیں تو لمحہ بھر کے لیے سارے رشتے، سارے حوالے اور سلسلے گڑ بڑا کر رہ جاتے ہیں۔ میں جو دریا پر بہتا ایک پھول تھا اور جسے میری ماں نے اٹھا کر جھولی میں ڈال لیا تھا، کہاں سے بہتا ہوا آ رہا تھا، کس ڈالی سے، کس زمین سے میرے سفر کا آغاز ہوا تھا اور یہ جو کبھی کبھی غوطہ لگا کر لمحہ بھر کے لیے میں کسی اور جہان میں پہنچ جاتا ہوں ، یہ کیا زمانوں سے ماورا کسی پُر اسرار ماضی کی کشش ہے یا کہیں آگے نکل جانے کی خواہش، میرا یہ سفر تو ایک دائرے، ایک زبان کا پابند ہے۔ کہتے ہیں ہر شخص کی جینز (Genes) میں ایک کلاک فٹ ہے جو اپنے وقت مقررہ پر ٹک سے بند ہو جائے گا، سفر کا خاتمہ، لیکن جی نہیں مانتا کہ یہ خاتمہ ہے۔۔۔  ہو سکتا ہے یہ کسی نئے سفر کا آغاز ہو، جیسے رات کو ہم الارم لگا کر سوتے ہیں ، یہ بھی دراصل الارم ہی ہے، ایک باب کا خاتمہ، دوسرے کا آغاز اور ان دونوں کے درمیان ایک وقفہ۔ جس نے اسے جان لیا اس نے سارے اسرار سمجھ لیے، لیکن جان لینا اور جانے ہوئے کی لذت میں دوسروں کو شریک کرنا تو اور ہی بات ہے، اس کا تو مزہ ہی الگ ہے۔

ایک بادشاہ نے کسی درویش سے کہا، جب تجھ پر تجلی نازل ہو اور تو نور کے قریب ہو تو مجھے یاد کرنا۔ درویش نے جواب دیا، جب میں نور کے قریب پہنچتا ہوں اور اُس آفتاب جمال کی تاب مجھ پر تجلی ڈالتی ہے تو میں خود بھی اپنے آپ کو یاد نہیں رہتا، تمہیں کیسے یاد کروں ؟

لگتا ہے یہ ساری کائنات ایک وجود ہے جس کے اندر ہم جراثیموں کی طرح حرکت کر رہے ہیں اور اندر ہی اندر سے اسے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس کائنات کے جینز(Genes) میں بھی ایک کلاک فٹ ہے جو اپنے وقت پر بند ہو جائے گا اور پھر ایک خاموشی۔۔۔  لیکن کیا معلوم یہ ساری کائنات کسی اور بڑے وجود کے اندر پل رہی ہو اور وہ بڑا وجود کسی اس سے بھی بڑے وجود کے اندر ہو۔۔۔  اور ان سب کے جینز (Genes) کا اپنا اپنا کلاک ہو جو اپنے وقت پر بند ہوتا رہے گا۔

ازل سے ابد تک ایک خواب، ایک پُر اسرار سرمئی دھند جس میں کچھ دکھائی دیتا ہے کچھ نہیں اور میں جو وجود اندر وجود ایک چھوٹا سا جرثومہ ہوں کائنات کی وسعتوں کو دریافت کرنے چلا ہوں ، عظمت کی یہ تلاش انا کی تسکین کے سوا اور کیا ہے؟

’’میں ہوں ‘‘

اگر ہو ں بھی تو کیا۔۔۔  نہیں ہوں تو کیا۔

چھوٹے لوگ کتنے اچھے ہیں کہ اپنے غموں اور خوشیوں کو چھپا نہیں سکتے اور فوراً شرکتیں چاہتے ہیں لیکن یہ بڑے لوگ اپنے اندر ہی سے باہر نہیں نکلتے،

ایک درویش کسی شہر میں گیا۔ دیکھا کہ وہاں کا ہر شخص آئینہ کا اسیر ہے۔ درویش نے تاسّف کیا، افسوس اس شہر کے رہنے والے اپنے چہرے کی حقیقت کو نہیں پہچانتے۔۔۔

میرے ارد گرد پھیلا ہوا یہ شہرِ آئینہ!

آئینہ کے اسیر ہو جائیں تو غیر کا تصور باقی نہیں رہتا، اپنا ہی آپ ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔

مجنوں نے ایک بار چاہا کہ لیلیٰ کو خط لکھے۔ قلم ہاتھ میں لیا، لیکن محسوس ہوا کہ اس کا خیال آنکھ میں ، نام زبان پر اور یاد دل میں ہے، پس جب ہر مقام پر وہی ہے تو خط کسے۔۔۔  قلم توڑ دیا اور کاغذ پھاڑ دیا۔

زندگی کی اس رواروی میں اپنا سامنا کتنا مشکل ہے، خوف آتا ہے، دوسروں کا تماشا کرنے میں تو مزہ آنے لگتا ہے، آدمی کیا ہوتا ہے کیا بن جاتا ہے۔۔۔  میں جو دریا میں بہتا پھول تھا، جسے میری ماں نے اٹھا کر گود میں چھپا لیا تھا، کیا کیا آدرش تھے میرے، زمانے کو بدل دینے کے خواب، لیکن وقت کی گرم استری نے سارے بل، سارے سلوٹیں نکال کر کیسا سیدھا ملائم کر دیا ہے۔ وہ انقلابی مکالمے، سسٹم کے خلاف نفرت کے جذبات اور اب میں خود اس کا ایک پرزہ ہوں ، وہ سارے انقلابی ساتھی، مستقبل کو بدلنے کے خواب دیکھنے والے اس سسٹم میں کہیں نہ کہیں فٹ ہیں اور اسے معمول کے مطابق چلنے میں مدد دے رہے ہیں ، کیا ہم سب اپنا رستہ بھول گئے ہیں ؟

ایک قافلہ راستہ بھول کر، بھوکا پیاسا، بھٹکتے بھٹکتے ایک جنگل میں جا نکلا، وہاں ایک کنواں نظر آیا جس پر ڈول نہیں تھا۔ رسی اور ڈول لے کر قافلے والے کنوئیں پر آئے۔ ڈول کو کنوئیں میں لٹکایا، رسی کھینچی تو ڈول غائب۔ دوسرا ڈول لٹکایا وہ بھی غائب۔ قافلہ کے ایک آدمی کو رسی باندھ کر کنوئیں میں لٹکایا۔ وہ اوپر نہ آیا۔ دوسرے کو لٹکایا، وہ بھی نہ آیا، تیسرا، چوتھا۔۔۔  قافلہ میں ایک سیانہ تھا، اس نے کہا میں جاتا ہوں۔ انہوں نے اسے نیچے لٹکایا۔ وہ کنوئیں کی تہہ میں پہنچا تو ایک بلا دکھائی دی۔ سیانے نے سوچا اب چھٹکارہ نہیں ، مقابلے کی بجائے میں کیوں نہ بے خود ہو جاؤں اور دیکھوں کہ مجھ پر کیا گزرتی ہے؟

بلا نے کہا۔۔۔  اے شخص اب تو میرا قیدی ہے، اگر میرے سوال کا صحیح جواب دے گا تو رہائی ملے گی ورنہ ساری عمر یہیں بسر ہو گی۔ سیانے نے کہا، پوچھو۔ بلا بولی۔۔۔  سب سے اچھی صورتِ حال کون سی ہوتی ہے؟ سیانے نے سوچا، میں قیدی اور مجبور ہوں ، اگر کسی مثالی صورت کا ذکر کر بھی لوں تو کیا فائدہ۔ بولا۔۔۔  سب سے اچھی صورتِ حال وہ ہے جسے ذہنی طور پر قبول کر لیا جائے، چاہے وہ کسی بھی جگہ کسی بھی حالت میں کیوں نہ ہو۔

بلا بولی۔۔۔  واہ، تو نے کیا اچھی بات کی ہے، جا تو رہا ہوا اور تیرے ساتھیوں کو بھی رہائی ملی۔

مجھے معلوم نہیں کہ اس رہائی کے بعد بھی قافلے والوں کو پانی ملا یا نہیں اور وہ جنگل سے نکل پائے کہ نہیں ، لیکن ہم سے تو سوال کرنے والا بھی کوئی نہیں کہ ہم تو اپنی بلا بھی آپ ہی ہیں اور قیدی بھی آپ ہی۔

٭٭٭

 

جنگل شہر ہوئے

برگد کا وہ پیڑ، جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی، بہت پیچھے رہ گیا ہے اور شناسائی کی لذت صدیوں کی دھول میں اَٹ کر بدمزہ ذائقہ بن گئی ہے، ملاقات کی یاد۔۔۔  بس ایک دھندلی سی یاد ہے۔ جب وہ اسے کریدنے کی کوشش کرتا ہے تو دور کہیں ایک مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے اور اس کے اندر بہت نیچے کوئی چیز لمحہ بھر کے لیے پھڑپھڑاتی ہے، جدائی کا صدیوں پر پھیلا لمحہ ایک آن میں سمٹ آتا ہے، کھنکھتے گھنگھروؤں کی صدا عین اس کے سامنے رک جاتی ہے، مترنم آواز کے ساگر میں کنکری گرتی ہے، گورے ہاتھوں میں پکڑے دودھ کے پیالے سے زندگی بوند بوند اس کے حلق میں اترتی ہے۔ وہ سوکھی انتڑیوں میں پھیلی دانائی سے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔  ایک نامعلوم خوشی کا جل بھری آنکھوں سے جھانکتی اور پھر آہستہ آہستہ مسکراہٹ بن کر پھیل جاتی ہے۔

شناسائی کی لذت۔۔۔

’’دکھ اندھیرا جال ہے جسے خواہش کی مکڑی دھیرے دھیرے بُنتی رہتی ہے، لیکن یہ دکھ ہی تو دنیا ہے۔‘‘

اسی لمحہ میں تو وہ اس پرانی دنیا سے نکل کر نئے جہان میں داخل ہوا تھا۔۔۔  لیکن یہ تو برسوں پرانی بات ہے، اب نہ برگد ہے۔۔۔  نہ دودھ کا پیالہ جس سے زندگی قطرہ قطرہ اس کی سوکھی انتڑیوں میں اتری تھی۔۔۔  اب یہ سب دور کہیں ایک دھند لا سا عکس ہے جس سے آگے خلا ہے۔۔۔  نہ ختم ہونے والے فاصلوں کا سلسلہ !

وہ آنکھیں جھپکتا ہے۔۔۔  سٹیج کے پیچھے نہ ختم ہونے والے فاصلوں کا خلا ہے اور آگے تیز روشنیوں میں وہ دھندلے عکس کی طرح۔۔۔  تماشائیوں کی سیٹیوں ، کراہوں اور لذت بھری آہوں کے درمیان زپ کھولتی ہے، زپ کے کناروں سے ہی اس کے گورے بدن کا دریا اچھل کر باہر آتا ہے۔

وہ گلاس اٹھا کر جلدی جلدی گھونٹ بھرتا ہے۔ بل کھاتا کڑوا ذائقہ رقص کرتا اس کی انتڑیوں میں اترتا ہے۔

دودھ کا پہلا قطرہ شناسائی کی لذت، برگد کی گھنی شاخوں میں روشنی پھیل جاتی ہے۔۔۔  غلافی آنکھوں میں پھیلا کاجل سات رنگوں میں بدل جاتا ہے، دور کہیں مور ناچتا ہے،

خواہش بھی تو ایک ست رنگا پرندہ ہے

جو دکھائی دیتا ہے وہ کیا ہے، جو نہیں دیتا وہ کیا ہے؟

تماشائیوں کی سسکاریاں اسے جھنجھوڑتی ہیں۔

اپنے بدن کو ہاتھوں کے پیالے میں سمیٹے وہ سٹیج کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رقص کرتی ہے۔

سٹیج کے پیچھے ایک خلا ہے، آگے تماشائیوں کی لذت بھری سسکاریاں ، ایک ہی لمحوں میں کئی جہانوں میں رہنے کی اذیت۔ پلک جھپکتا ہے تو۔۔۔  برگد کا پیڑ، سوکھی انتڑیوں پر لپٹی دانائی میں شناسائی کی لذت، جھکی آنکھوں میں کاجل سرسراتا ہے۔

دوسری پلک جھپکتا ہے تو۔۔۔  تماشائیوں کی لذت بھری سسکاریاں تھرکتی ہیں ، بدن ہاتھوں کے پیالے سے آزاد ہو جا تا ہے۔

کیا موجود ہے، کیا نا موجود؟

حقیقت کیا ہے، تصور کیا ہے؟

روح اور جسم کا رشتہ۔۔۔  جسم تو ہمیشہ نمائش چاہتا ہے۔

اس کی آنکھوں میں ناپسندیدہ تاثر کروٹ لیتا ہے۔۔۔  چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے وہ کہتی ہے۔۔۔  ’’تمہاری ذہنی سطح بہت پست ہے، تم فن کو نمائش کہتے ہو۔‘‘

’’فن‘‘ وہ مردہ سی آواز میں دہراتا ہے۔

’’میں نے یہ فن بڑی ریاضت سے سیکھا ہے۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہے۔۔۔

۔۔۔  تماشائیوں کو ایسے لمحہ میں لے جانا جہاں چیزیں ساکت ہو جاتی ہیں ، وقت رک جاتا ہے، زماں و مکاں کا تصور ہی بدل جاتا ہے، ایک جست، لمحہ بھر کی جست، جہاں بدن کی غلاظتیں نیچے رہ جاتی ہیں۔۔۔  میں ، دیکھنے والوں کو ایک لمحہ کے لیے ہی سہی، اس جہان سے نکال کر تصور کی اس دنیا میں لے جاتی ہوں جہاں پہنچنے کے لیے لوگ برسوں برگدوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی انتڑیاں سکھاتے تھے اور تم۔۔۔  تم کہتے ہو یہ نمائش ہے۔ وہ کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔  ’’تم بہت چھوٹی سطح پر جی رہے ہو، تم تو اس لمحہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

وہ کھٹ کھٹ کرتی چلی جاتی ہے۔

وہ لمحہ۔۔۔  کیا ہے اس کا تصور؟

برگد کا پیڑ کہاں چلا گیا ہے؟

جنگل اسے پکارتا ہے۔۔۔

توانائی کا ذائقہ۔۔۔  دودھ کا پہلا قطرہ۔

اس کی مردہ سوکھی انتڑیوں میں زندگی کی کونپل مسکرا کر آنکھ کھولتی ہے۔

’’جسم اور دنیا دونوں بے وفا ہیں اور سچ تو ایک جست کے فاصلے پر ہے۔۔۔

۔۔۔  ایک جست جو جسم اور دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔‘‘

وہ اپنا سر اٹھاتی ہے۔

’’خواہش ایک ناگ ہے جو انسان کو مسلسل ڈستا رہتا ہے، پہلے پہلے آدمی چیختا ہے، پھر یہ نشہ بن جاتا ہے، ڈسوائے بغیر جینا مشکل ہو جاتا ہے، بس یہی سچ ہے۔‘‘

وہ چپ چاپ دونوں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔

خاموشی ایک عبادت ہے۔

جنگل چپ ہو جاتا ہے۔۔۔

ایک گہری چپ، پھر دفعتاً اس چپ میں ایک لذت بھری سسکاری گونجتی ہے۔ وہ گھبرا کر آنکھیں کھولتا ہے۔۔۔  تماشائیوں کی سسکاریوں کا تناؤ ان کے چہروں پر منجمد ہو رہا ہے۔

اذیت یا پہچان؟

وہ ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر دیتا ہے، کڑواہٹ ہونٹوں سے حلق کی گہرائیوں تک مچلتی ہے۔

منہ کھولے تماشائی۔۔۔  وہ اپنے فن کے آخری مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے، کوئی اس کے وجود کو تیز آلے سے کاٹتا لگتا ہے۔

’’مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ وہ چیختا ہے۔۔۔  ’’اذیت کیا ہے پہچان کیا ہے؟‘‘

تماشائیوں کا سحر ٹوٹ جاتا ہے، وہ نفرت اور بے چینی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔

شاید یہ اذیت ہی جاننا ہے کہ جانے بغیر دکھ اور سکھ کے لمحے جدا جدا نہیں ہوتے۔

برگد کی چھاؤں میں کیسا سکون ہے؟

’’لیکن یہ سکون زندگی نہیں ، دکھی لوگ خوشی کے ایک ایک لفظ کے لیے ترس رہے ہیں۔‘‘

وہ سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔

’’تو تمہارا خیال ہے، میں سر جھکائے تمہارے پیچھے پیچھے چلوں گی۔‘‘وہ قہقہہ لگاتی ہے۔

۔۔۔  ’’تم خاصے بیوقوف ہو۔‘‘

ایک لمحہ خاموشی رہتی ہے، پھر وہ کہتی ہے۔۔۔  ’’میں اگلے ہفتہ یورپ کے دورے پر جا رہی ہوں ، چلو گے؟‘‘

وہ کچھ نہیں کہتا، بس چپ چاپ اسے دیکھے جاتا ہے۔

’’تم اپنی چھوٹی سی دنیا سے نکلنا نہیں چاہتے۔‘‘ وہ کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔  ’’مجھے پاسپورٹ آفس جانا ہے۔‘‘

چھوٹی سی دنیا میں گم نام ہو جانے کا بھی تو ایک اپنا ذائقہ ہے۔

اور وہ جاننا۔۔۔  وہ سفر وہ سب کیا ہوئے؟

یہ حقیقت ہے یا تصور؟

معلوم نہیں یہ موجود ہے یا نا موجود؟

اور برگد کا پیڑ تو بہت پیچھے رہ گیا ہے اور جاننے کے اس لمحہ کے درمیان صدیوں کی بدمزہ دھول پھیل گئی ہے۔

وہ یکے بعد دیگرے کئی گلاس خالی کر دیتا ہے۔

بیرہ اسے حیرت سے دیکھتا ہے۔۔۔  ’’صاحب، اب بس کریں۔‘‘

وہ بند ہوتی آنکھوں اور ڈوبتے حواس کے ساتھ سر اٹھاتا ہے۔

جسم اور دنیا دونوں ہی بے وفا ہیں۔

پھر خود ہی ہنستا ہے لیکن آواز نہیں نکلتی، گلاس ہاتھ کی گرفت سے لڑھک جاتا ہے۔

میرا جنگل مجھے بلاتا ہے۔

لیکن جنگل تو اب شہروں میں بدل گئے ہیں اور شہروں میں نہ برگد ہوتے ہیں ، نہ گورے ہاتھوں میں دودھ کا پیالہ لیے کوئی انتظار کرتا ہے۔ شہروں میں تو سٹیج ہی سٹیج ہیں اور یہ سٹیج بھی کئی ہفتوں سے ویران ہے کہ وہ یورپ جا چکی ہے۔

یہ تصور ہے یا حقیقت؟

کیا موجود ہے اور کیا نا موجود؟

٭٭٭

 

سفر کشف ہے

جب کھدائی کا کام مکمل ہوا تو سورج دن کے زینے کی آخری سیڑھی اتر رہا تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتوں سے اس گمشدہ شہر کی کھدائی کر رہے تھے اور جوں جوں نیچے اترتے جا تے منظر کی حیرتیں انہیں اپنے اندر کھینچتی چلی جاتیں۔ اس دوران کئی بار پتھریلی زمین اور تیز دھوپ نے انہیں مایوسیوں کی آخری حدوں تک گھسیٹا لیکن وہ سر جھکائے اپنے کام میں لگے رہے اور اب جب وہ آخری سِل ہٹا رہے تھے تو ان کی تھکی آنکھوں اور پتھرائے بازوؤں میں سوئی ہوئی ساری تمنائیں بے رنگ سی ہو گئیں۔ سل کے نیچے زینہ تھا جس کی آخری سیڑھیاں نیم تاریکی میں گم ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے اس نیم تاریکی کو دیکھ کر کہا،

’’میرا خیال ہے صبح کا انتظار کر لیا جائے۔‘‘

لیکن ان میں سے جو ذرا کم عمر تھا اپنی بے تابی چھپا نہ سکا اور بولا۔

’’راستہ کھل جائے تو پھر آنے والے کا انتظار کرتا ہے، ہم نہ اترے تو ہم سے پہلے کوئی اور اندر چلا جائے گا۔‘‘

باقی دو کوئی فیصلہ نہ کر پائے، پہلا جو سیڑھیوں کی تاریکی دیکھ کر کچھ مایوس ہو گیا تھا، قدرے ہچکچا کر بولا۔۔۔  ’’اب تو رات ہے، اس تاریکی میں کون آئے گا۔‘‘

لیکن نوجوان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔۔۔  ’’اندھیرا ہی تو وہ چور دروازہ ہے جس سے بے شناسی آتی ہے۔‘‘

باقی دو اب بھی چپ رہے۔ پہلا تذبذب میں مبتلا ہو گیا۔۔۔  ’’میرا خیال تو تھا، خیر جیسا سب کہیں۔‘‘

نوجوان نے کندھے اچکائے اور سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔

نیم تاریکی میں سنبھل سنبھل کر زینہ زینہ اترتے وہ گمشدہ شہر کے منظروں میں گم ہو جاتے ہیں۔

اس آرٹ گیلری میں تصویریں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتی ہیں اور دیکھنے والے پتھر ہو جاتے ہیں۔

پہلی تصویر میں ایک شخص تیز تیز قدم اٹھاتا گھر کی طرف چلا جا رہا ہے لیکن فاصلہ ختم نہیں ہو رہا اور پیچھے آتے قدموں کی صدا تیز ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بار بار مڑ کر دیکھتا ہے لیکن پیچھے کوئی نظر نہیں آتا، بس قدموں کی ایک صدا ہے کہ ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔ وہ مڑ کر چیختا ہے۔

’’کون ہے۔۔۔  سامنے آؤ۔‘‘ لیکن نہ کوئی جواب آتا ہے نہ کوئی سامنے۔ وہ چلنا چاہتا ہے لیکن خوف کی ٹھنڈک اس کے چہرے پر دھیرے دھیرے دستکیں دیتی ہے۔ وہ رک جاتا ہے اور آہستہ آہستہ صدا اور وہ، دونوں پتھر ہونے لگتے ہیں۔

دوسری تصویر بھرے بازار کی ہے۔

صبح ہو چکی ہے اور لوگ دفتروں اور دکانوں پر جانے کے لیے گھروں سے نکل آئے ہیں لیکن ہر ایک کو شبہ ہے کہ دوسرے کی آستین میں خنجر ہے۔ وہ ایک دوسرے سے دور دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سڑک پر آگے پیچھے چلتے ہوئے بار بار مڑ کر دوسرے کو دیکھتے ہیں ، رک جاتے ہیں تاکہ پیچھے والا آگے نکل جائے لیکن پیچھے والا آگے آنے کو تیار ہی نہیں ، اس آگے پیچھے کی کوشش میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ رکا کھڑا ہے۔

بس سٹاپوں پر لائن نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑے ہونے میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے فاصلے پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ بسیں اور ویگنیں خالی جا رہی ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی بجائے سب پیدل چل رہے ہیں۔ بھاگ رہے ہیں۔ چلتے ہیں رک جاتے ہیں ، رک جاتے ہیں پھر چل پڑتے ہیں۔

ہانپتے کانپتے دفتر میں پہنچتے ہیں تو سارے اپنی اپنی کرسیوں پر گرے ہانپ رہے ہیں لیکن ان کی آنکھیں چوکنی ہیں۔ میزوں کی ترتیب بدل چکی ہے، کرسیوں کے رخ اس طرح ہیں کہ سارے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔ کام کے دوران بھی سب بار بار ایک دوسرے کو گھورتے ہیں اور اس افراتفری میں ایک فائل کے کاغذ دوسری میں اور دوسری کا نوٹ تیسری پر لکھا جا رہا ہے۔

رات نے اپنا دامن اس شہر سے سمیٹ لیا ہے۔

ایک پھیلا ہوا دن ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔

گھروں میں کوئی دوسرے سے کھانے کی پلیٹ لینے کے لیے تیار نہیں ، کیا معلوم دوسرے نے اس میں زہر۔۔۔  ؟

بیوی خاوند کو اور خاوند بیوی کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔

بیٹا باپ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور باپ بیٹے کو۔۔۔  ؟

ریستورانوں میں ان کے سامنے رکھی چائے کی پیالیاں ٹھنڈی ہو چکی ہیں۔ کیا معلوم باورچی نے یا بیرے نے۔۔۔  ؟

کمروں میں داخل ہونے سے پہلے وہ ٹھٹھک جاتے ہیں اور دوسرے کے اندر جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ دوسرا پہلے کا اور اب وہ راہداریوں ، گلیوں اور سڑکوں پر کھڑے ہیں کہ پہلے کون اندر جائے،

میزبان ڈرائنگ کے دروازے پر کھڑا کہہ رہا۔۔۔  ’’تشریف لائیے۔‘‘

مہمان اپنی جگہ جما کھڑا ہے۔۔۔  ’’پہلے آپ چلیے۔‘‘

خاوند سے کہتی ہے۔۔۔  ’’کھانا لگ گیا ہے آ جائیے۔‘‘

خاوند کہتا ہے۔۔۔  ’’پہلے تم کھا لو۔‘‘

گھروں ، دفتروں ، بازاروں میں وہ ایک دوسرے کو تاڑ رہے ہیں۔

فائلوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ باورچی خانوں میں چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ میزوں پر رکھا کھانا جم گیا ہے۔ رات دن میں بدل گئی ہے۔ ان کے بستر جسموں کی گرمی کے لیے ترس ترس گئے ہیں اور جسم ٹھٹھر ٹھٹھر کر پتھر ہو گئے ہیں۔

پتھر ہوتے ہوئے ان میں سے پہلے نے کہا۔۔۔  ’’شاید یہی ہمارا مقدر تھا۔‘‘

درمیان والے دونوں چپ رہے، ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو ان کی گالوں پر بہہ نکلے، نوجوان نے تاسّف سے سر ہلایا اور بولا۔۔۔  ’’ہمارے بعد شاید مدتوں بعد جب کوئی اس گمشدہ شہر کی کھدائی کر لے گا تو وہ ہمیں بھی اسی کا ایک حصہ سمجھے گا، افسوس، ہماری کوئی علیحدہ نشانی باقی نہیں رہی۔‘‘

پہلے نے بمشکل سر ہلایا کہ پھیلتا پتھر اس کے کندھوں تک آن پہنچا تھا۔۔۔  ’’کون جانے ہمارے بعد کوئی ادھر آئے گا بھی؟‘‘

درمیان والے دونوں کچھ نہ بولے، ان کی گالوں پر بہتے آنسو بھی پتھر ہو چکے تھے،

نوجوان نے کہ اس کی آنکھیں ہی متحرک تھیں ، آخری نظر تینوں کو دیکھا اور سنا کہ اوپر کہیں کدال چل رہی ہے،

پتھر ہونے کے آخری لمحے میں اس نے سوچا۔۔۔  ’’کوئی آ ضرور رہا ہے لیکن جانے وہ بھی ہماری ہی طرح۔۔۔  یا شاید اس طلسم کو توڑ کر ہمیں بھی زندگی سے ہمکنار کر دے، کون جانے؟‘‘

اوپر کھدائی کی آخری سل ہٹاتے ہوئے ایک نے کہا۔۔۔  ’’میرا خیال ہے صبح کا انتظار کر لیا جائے۔‘‘

لیکن ان میں سے جو ذرا کم عمر تھا، تیزی سے بولا۔۔۔  ’’راستہ کھل جائے تو کسی کا انتظار نہیں کرتا، ہم نہ اترے تو ہم سے پہلے کوئی اور۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

دریچے سے دور

کبھی وہ زمانہ تھا کہ کہانی شفیق ماں کی طرح اسے لوریاں دیتی تھی۔ اس وقت وہ ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ دن بھر ہتھوڑوں کی آوازوں میں کرچ کرچ ہو کر جب شام کو گھر لوٹتا تو کہانی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی اور کسی سنسان سڑک پر اس کا ہاتھ تھام کر یوں اس کے ساتھ ساتھ چلتی جیسے کوئی محبوبہ۔۔۔  شام کو وہ اپنے جیسے کچھ دوستوں کے ساتھ درمیانے درجے کے ایک چائے خانے میں لفظوں کے چھوٹے چھوٹے غبارے بنا کر دن بھر کی تھکن کو ہوا میں اڑا دیتا۔ رات گئے گھر جاتے ہوئے کہانی اس کے ساتھ ساتھ چلتے اپنی سرمئی انگلیوں سے اس کے بدن کو سہلاتی۔ اس سہلانے میں ماں کی ممتا اور محبوبہ کا لمس ایک ساتھ محسوس ہوتا۔ سونے سے پہلے نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ وہ کہانی کو دھیرے دھیرے کاغذ کی سیڑھیوں سے اترتا دیکھتا اور پھر جاگنے اور سونے کے درمیان غنودگی میں کہانی اپنے رنگ برنگے آنچل کو اس کے پورے وجود پر پھیلا دیتی اور وہ نیند کے زینے سے اترتا کسی انجانی دنیا میں داخل ہو جاتا۔

اگلے دن پھر وہی معمول، صبح آنکھیں ملتے اٹھنا، جلدی جلدی چائے کے کپ میں رَس بھگو کر کھانا، سائیکل نکال کر دوڑتے ہوئے اس پر چڑھنا اور ہوٹر کی آواز کے ساتھ ورکشاپ میں داخل ہو جانا۔ پھر وہی روزانہ کی مشق۔ ٹوکن لے کر حاضری لگوانا اور ڈیسک پر بیٹھ کر رجسٹر کھولنا۔۔۔  ان تمام موقعوں پر کہانی اس کے قریب ہی ہوتی اور ایک ہی اشارے پر لپک کر اس کے قریب آ جاتی۔ وہ بڑی بے نیازی سے اس کی انگلی پکڑتا کبھی جھٹک دیتا، لیکن کہانی سائے کی طرح اس کے ساتھ لگی رہتی۔

دن کو جب اس کا افسر کسی معمولی سی بات پر اسے جھاڑتا اور اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹنے سی لگتی تو کہانی لپک کر اس کے پاس آتی اور اپنی نرم سرمئی انگلیوں سے سہلاتی۔ چند ہی لمحوں میں  اس کے اندر بھڑکتا شعلہ ٹھنڈا پڑ جاتا اور وہ سر جھکا کر رجسٹر پر اندراج کرنے لگتا، کہانی دھیرے دھیرے اپنا سنہری جالا اس کے گرد بنتی رہتی۔ شام کو گھر آتے ہی وہ اس جال کے ایک ایک تار کو کاغذ کے کھردرے جسم پر پھیلا دیتا۔ شام کو کیفے میں گپ شپ کرتے وہ چہکتا تو ساتھی پوچھتے، ’’لگتا ہے آج کچھ ہاتھ آگیا ہے؟‘‘

وہ مسکراتا۔۔۔  ’’کہانی نے اپنے خزانے میرے لیے کھول دئیے ہیں۔‘‘

رات گئے گھر لوٹتے، سنسان سڑک پر چلتے چلتے، کہانی اچانک کسی دروازے، فٹ پاتھ یا کسی دکان کے تھڑے سے یوں ابھرتی جیسے دیہاتی دوشیزہ نہاتے ہوئے اچانک تالاب سے باہر آ جائے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹھکتا اور پھر اسے اپنے بازوؤں میں دبوچ لیتا۔۔۔  گھر آتے ہی بغیر کھانا کھائے وہ کاغذوں پر جھک جاتا۔

ماں کہتی۔۔۔  ’’پہلے کھانا تو کھالو۔‘‘

کہانی اس کے وجود پر اس طرح پھیلی ہوتی کہ اسے جواب دینے کی بھی فرصت نہ ملتی، بس سر ہلا ہلا کر رہ جاتا۔۔۔

ماں کھانا رکھ جاتی، لیکن وہ سر نہ اٹھاتا۔

بہت دیر بعد جب وہ کاغذ کے آخری سرے پر اپنے دستخط کرتا تو کھانا جم چکا ہو تا۔ وہ بے زاری سے سر ہلاتا تو کہانی کھلکھلا کر ہنس پڑتی۔ ہنسی کی پھوار میں ٹھنڈا کھانا بھی اسے کسی بڑی دعوت کی طرح محسوس ہوتا۔

یہ وہ دن تھے جب اس کی خواہشیں قدم قدم پر دم توڑتی تھیں۔ چیزیں اور لوگ آنکھیں مارتے اس کے پاس سے گزر جاتے تھے لیکن وہ نہ کسی چیز کو لے سکتا تھا نہ چھو سکتا۔ بس دیکھتے رہنا ہی اس کا مقدر تھا۔۔۔  جوان بہنوں کے بوجھ اور بیوہ ماں کی انتظار کرتی کھلی آنکھوں نے اس کے کندھوں کو جھکا دیا تھا۔ وہ کسی کو اپنا دکھ نہیں بتا سکتا تھا۔ بس ایک کہانی تھی جو دکھ کے ان لمحوں میں اس کی رفیق تھی۔ اس کی رفاقت میں اسے مامتا کی ٹھنڈک محسوس ہوتی۔ کبھی کبھی جب کسی رنگین آنچل کو دیکھ کر اس کے اندر ایک لاوا سا پھیلتا تو کہانی اپنی نرم ٹھنڈی چھاؤں سے شانت کر دیتی، وہ اس سے مکالمہ کرتا۔

’’میری کائنات یہی ہے۔۔۔  یہی بے بسی؟‘‘

کہانی مسکراتی۔۔۔  ’’نہیں۔۔۔  سبھی راستے کھلے ہیں۔‘‘

وہ مایوسی سے سر ہلاتا۔۔۔  ’’لیکن میرے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ سارے راستے دوسروں کے لیے ہیں۔‘‘

کہانی کہتی۔۔۔  ’’راستے متعصب نہیں ہوتے۔ ان کی بانہیں سب کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ بس کوئی آنا بھی چاہئے۔‘‘

’’لیکن کیسے آئے۔۔۔  کوئی کیسے آئے؟‘‘ وہ چیختا۔

کہانی آہستگی سے اس کا کندھا سہلاتی۔۔۔  ’’اپنے آ پ کو قابو میں رکھو۔‘‘

کہانی کے اسی حوصلے نے اسے ہمت دلائی اور وہ کسی کو بتائے بغیر مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا۔ دھندلاہٹوں ، مایوسیوں ، امیدوں اور طرح طرح کے خوابوں کے درمیان اس نے امتحان دیا۔ انٹرویو میں گیا اور ایک دن اچانک غیر متوقع طور پر اسے کامیابی کی اطلاع ملی۔

اس شام وہ اور کہانی خوب کھلکھلا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ وہ دونوں کئی صفحوں پر لوٹ پوٹ ہوئے۔ نئی ملازمت کے پہلے دن دفتر جاتے ہوئے اس نے کہانی سے کہا۔۔۔  ’’میرا تمہارا ساتھ اَن مٹ ہے۔‘‘

کہانی مسکرائی۔۔۔

زندگی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ نئی ملازمت میں تنخواہ کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ چند ہی سالوں میں ماں کی انتظار کرتی تھکی آنکھوں میں نئی چمک آ گئی۔ بہنیں بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں۔ ماں شادی کے لیے کہتی تو وہ انکار میں سر ہلا دیتا اور چپکے سے کہانی سے کہتا، ’’میرے لیے تو سب کچھ تم ہی ہو۔‘‘

لیکن ماں نے اس کی شادی کر دی۔ بیوی اچھی پڑھی لکھی عورت تھی۔ اس کے ساتھ کہانی کا بھی احترام کرتی تھی۔ اسے جو ڈر تھا کہ کہانی اور بیوی ایک ساتھ کیسے رہیں گے، تو ایسا کچھ نہ ہوا۔۔۔  اس نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔  کہانی اب بھی اس کے ساتھ تھی اور بیوی سے محبت کرنے کے باوجود بہت سے جذبے اور باتیں اب بھی ایسی تھیں جنہیں وہ صرف کہانی ہی سے کہہ سکتا تھا۔ دونوں اب بھی ایک دوسرے کے راز دار تھے۔

یہ راز داری۔۔۔  سرگوشیاں۔۔۔  وقت کے تھال پر دنوں ، مہینوں کی گرد جمتی رہی۔ دو بچے ہو گئے۔ اس دوران بہت کچھ بدل گیا۔ اس نے محلہ میں پرانا آبائی مکان بیچ کر ایک نئے علاقہ میں شاندار کوٹھی بنوائی، ملازمت میں ترقی اور نئے گھر میں آنے کے بعد مصروفیات بڑھ گئیں ، کہانی سے ملاقات میں وقفہ ہونے لگا۔۔۔  لیکن ان کی سرگوشیاں اور ایک دوسرے میں شرکت قائم رہی۔

کیفے میں جانا ایک عرصہ سے موقوف ہو گیا تھا۔۔۔  اب لوگ خود اس سے ملنے آتے تھے، کہانی کا بھی ذکر ہوتا۔ لیکن آہستہ آہستہ کہانی اس کے وجود سے کھسکنے سی لگی۔ اب اسے کاغذ پر پھیلاتے، اس کے سرمئی لمس کو محسوس کرتے اسے تھوڑی سی دقت ہوتی۔ وہ دیر تک قلم منہ میں دبائے اس کا انتظار کرتا۔ بڑی مشکلوں سے وہ چند لمحوں کے لیے اس کے پاس آتی اور پھر بہت لمبے عرصے کے لیے کہیں گم ہو جاتی۔

شروع شروع میں اسے کہانی کی اس بے رخی سے صدمہ سا ہوا۔ لیکن بچوں کی کلکاریوں ، دفتر کے ہنگاموں اور زندگی کی پر تعیش دبازتوں نے اسے اپنے اندر سمیٹ لیا۔ مگر کبھی کبھی جب وہ تنہا ہوتا تو کہانی سے اپنی لمبی رفاقت کا خیال آتا۔

وہ اپنے آپ سے پوچھتا۔۔۔  ’’مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے؟‘‘پھر خود ہی جواب دیتا۔۔۔  ’’چیزوں سے میرا رابطہ ٹوٹ گیا ہے، وہ سنسان سڑکیں ، لمبی گلیاں اور اَدھ کھلے دروازے، ورکشاپ کے ہتھوڑوں کی شورشیں ، ابھرتی ڈوبتی سسکیاں ، کیفے کی گرم گرم بحثیں اب میرے راستے کا حصہ نہیں رہیں۔۔۔  اور خود ہی تائید میں سر ہلاتا۔۔۔  ’’عرصہ ہوا میں نے کوئی کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی۔‘‘

اس پر ایک اداسی چھا جاتی اور کسی کو بتائے بغیر وہ کسی طرف نکل جاتا۔ ایسی حالت میں کبھی کبھی کسی ویرانے میں یا کسی رونق میں اسے کہانی نظر آ جاتی۔ وہ لپک کر اس کے قریب پہنچتا، لیکن وہ کنی کترا کر نکلنے کی کوشش کرتی۔ بڑے تعاقب، بڑی جستجو کے بعد کہیں ہاتھ آتی۔۔۔  لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا، ورنہ عموماً اسے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا۔۔۔

پھر زندگی کے ہنگامے اور پھیل گئے۔ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے اس نے سوچ لیا۔۔۔  اگر کہانی میرے پاس نہیں تو کیا ہوا، میر ی عزت میں تو اور اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے لوگ اسے کہانی کی وجہ سے بلاتے تھے، اب اس کے عہدے کی وجہ سے بلانے لگے تھے۔ کسی نے بھول کر بھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کی دیرینہ رفیق کہانی اسے کیوں چھوڑ گئی ہے۔۔۔  بس اسی خیال نے اسے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ پوچھتے کیوں نہیں ، کہانی نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔ اس کا رویہ میرے ساتھ ایسا روکھا کیوں ہو گیا ہے۔ اب تو کہیں سر راہے مل بھی جائے تو یوں آنکھیں پھیر لیتی ہے جیسے کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ اس کی مامتا، شفقت اور محبوبیت کہاں چلی گئی؟ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ کیا ہے کہ جب چیزیں اور منظر باہر سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں تو۔۔۔  اندر ایک چیز سلامت ہوتی ہے، لیکن جب باہر کے منظر اور چیزیں جڑ جاتی ہیں تو اندر کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘

وہ مجھ سے بھی پوچھتا ہے۔۔۔  ’’کہانی مجھ سے کیوں روٹھ گئی ہے۔۔۔  ؟‘‘

لیکن میرا تو اپنا آپ مجھ سے روٹھ گیا ہے، میں اسے کیا جواب دوں ؟۔۔۔

٭٭٭

 

تمنا کا دوسرا قدم۔۔۔ ۱

صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو کھلی کھڑکی سے منظر اسی طرح اونگھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سیمنٹ کی بوسیدہ دیوار پر جھکا ہوا درخت، جس کی بوڑھی شاخیں بند دریچے کو چھو رہی ہیں۔ یہ دریچہ ہمیشہ بند رہتا ہے، جانے کب سے اسی طرح بند ہے۔

وہ روزانہ دیر تک بستر پر لیٹا اسے دیکھتا رہتا ہے۔ شیو کرتے، دانت مانجھتے، منہ دھوتے اس کی نظریں بار بار ادھر جاتی ہیں لیکن دریچے میں کوئی رنگ دکھائی نہیں دیتا۔ دن بھر دفتر کے شور، فائلوں کی لپک جھپک میں دریچہ ذہن کے کسی قدرتی گوشے میں چھپا رہتا ہے، لیکن شام ہوتے ہی جب وہ اپنے کمرے میں آ کر کھڑکی کھولتا ہے تو دریچہ مسکرا کر آنکھ مارتا ہے۔ اس کے آنکھ مارنے اور مسکرانے میں ایک عجیب محبوبانہ شکایت اور لگاؤ ہے کہ وہ بغیر پوچھے اپنے دن بھر کی ساری مصروفیت کی ایک ایک تفصیل سنانے لگتا ہے اور پھر دفعتاً جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی بولتا چلا جا رہا ہے تو کھسیانا سا ہو کر آرام کرسی میں دراز ہو جاتا ہے۔ نرم ریشمی اندھیرا آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیلنے لگتا ہے۔ مدھم موسیقی کی سروں میں دریچہ آہستہ آہستہ کھسکتا اس کی کھڑکی کے قریب آ جاتا ہے۔ وہ لپک کر اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے درمیان تو ریت کا ایک جلتا سمندر حائل ہے۔ وہ اس جلتے سمندر کے دونوں کناروں پر کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں لیکن کسی میں اتنا حوصلہ نہیں کہ اس جلتے سمندر میں اتر پڑے۔ دھیرے دھیرے پھیلتا اندھیرا انہیں اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ وہ کرسی پر بیٹھا بیٹھا پتھر ہوتا جاتا ہے۔

بہت دیر بعد جب اس کا ملازم کھانے کے لیے بلاتا ہے تو وہ آہستگی سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب آتا ہے اور اندھیرے میں گھور گھور کر بند دریچے کو دیکھتا ہے۔ کھانا کھانے، کچھ دیر پڑھنے اور پھر سونے کے درمیانی وقفوں میں بار بار اس کی نظریں دریچے کے بند کواڑوں سے ٹکراتی ہیں اور اس وقت تک جب نیند اپنی سرمئی ٹھنڈی انگلیوں سے اس کے پپوٹوں کو سہلا رہی ہوتی ہے، دریچہ اس کی آنکھوں کی گیلری میں جھلملاتا رہتا ہے۔

گہری نیند میں اسے اپنے نام کی آوازیں سنائی دیتی ہے۔ بوجھل آنکھوں سے وہ کھلے دریچے میں اسے کھڑا دیکھتا ہے، دونوں ہاتھ پھیلائے وہ اسے اپنی طرف بلاتی ہے۔ کھڑکی سے نکل کر ہوا میں چلتا وہ اس کے ساتھ دریچے میں داخل ہوتا ہے۔

سبز لہلہاتے کھیتوں میں بانسری کی آواز ٹھنڈی پھوار کی طرح اس کے جسم کو سہلاتی ہے۔

وہ کہتا ہے، ’’تم چلی جاتی ہو تو وقت رک جاتا ہے۔‘‘

وہ ہنستی ہے۔۔۔  ’’وقت تو کسی کے لیے نہیں رکتا۔ بس ہم ہی کہیں سستانے لگتے ہیں۔‘‘

وہ سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’شاید سستانے کے یہ چند لمحے ہی زندگی کی خوشبو ہیں۔‘‘

’’اور خوشبو اجنبیت کو تعلق میں بدل دیتی ہے۔‘‘ پھر وہ اچانک اداس ہو جاتی ہے۔۔۔  ’’فاصلہ تعلق کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔‘‘

وہ چند لمحے چپ رہتا ہے، پھر کہتا ہے، ’’مجبوریاں ہم پر حکومت کرتی ہیں اور بے بس ہونا بھی کتنا بڑا دکھ ہے۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولتی۔

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’ہم میں سے ہر ایک، ایک دائرے میں بند ہے اور دائرے کی حدوں تک ہی آگے پیچھے جا سکتا ہے، شاید یہی مقدر ہے۔‘‘

وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتی ہے۔۔۔  ’’اپنے اپنے دائروں میں ہم جہاں تک ایک دوسرے کے قریب آ سکتے تھے آ گئے ہیں اور اب پیچھے ہٹنا ہمارا مقدر ہے۔۔۔  تو کب جا رہے ہو ؟‘‘

’’شاید پرسوں۔‘‘

’’شاید کیوں ؟‘‘

شاید اس لیے کہ پرسوں صبح میں چلا جاؤں گا اور کوئی یہیں رہ جائے گا یا شاید کوئی چلا جائے گا اور میں یہیں۔۔۔  اس کی سرمئی آنکھوں میں بادل تیرتے ہیں۔

’’میں روز رات کو دیا جلاؤں گی اس دریچے کے سامنے اور تم جہاں کہیں بھی ہو گے میری آواز سنو گے۔‘‘

وہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔  ’’میں جہاں بھی ہوں گا، وہاں صرف میرا جسم ہو گا لیکن میں۔۔۔  میں ہمیشہ اس دریچے کے پاس، اس جلتے دئیے کے سامنے۔۔۔ ‘‘

اس کی آواز ہچکیوں میں ڈوب جاتی ہے۔ پھر ہچکیاں پھیلتے پھیلتے چیخوں میں بدلنے لگتی ہیں۔

ملازم دوڑتا ہوا آتا ہے اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھتا ہے۔

’’کیا بات ہے صاب۔۔۔  آپ ٹھیک تو ہیں نا ؟‘‘

وہ گم سم آنکھیں پھیلائے اسے دیکھتا رہتا ہے۔

ملازم دوڑ کر میز کی دراز کھولتا ہے اور شیشی میں سے دو گولیاں نکال کر جگ میں سے پانی انڈیلتے ہوئے اس کی طرف بڑھاتا ہے۔۔۔  ’’لیجیے، ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ اب جب بھی دورہ پڑے یہ گولیاں لے لیجیے۔‘‘

وہ بغیر کچھ کہے گولیاں کھا لیتا ہے۔

صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو کھلی کھڑکی سے منظر اسی طرح اونگھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سیمنٹ کی بوسیدہ دیوار پر جھکا ہوا درخت جس کی بوڑھی شاخیں بند دریچے کو چھو رہی ہیں۔

یہ دریچہ کب کھلے گا؟

٭٭٭

 

شام کی دہلیز پر آخری مکالمہ

شام نے ابھی اپنی سرمئی پلکیں اٹھائی ہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی، وہ ہانپتا ہوا اندر آیا اور بولا۔۔۔  ’’سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

چند لمحے چپ رہا پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’میں زندہ نہیں ہوں۔‘‘

’’وہ تو مجھے معلوم ہے، تم نے کئی دن پہلے اپنے مرنے کا اعلان کیا تھا۔‘‘

اس نے تیز نظروں سے مجھے دیکھا۔۔۔  ’’میرا مذاق تو نہیں اُڑا رہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔  ’’مجھے تمہاری بات کا پورا یقین ہے۔‘‘

اس نے اطمینان سے سر ہلایا اور ٹانگیں پسار کر کرسی سے ٹیک لگا لی۔

کبھی آدمی مر کر بھی نہیں مرتا اور کبھی کبھی مرنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے، چنانچہ جب کچھ دن پہلے اس نے مرنے کا اعلان کیا تو مجھے زیادہ حیرت نہ ہوئی، لیکن دوسروں کا رویہ بڑا مختلف تھا۔ انہوں نے پہلے تو مذاق اڑایا مگر جب وہ اپنی موت پر اصرار کرتا رہا تو اسے پاگل سمجھنا شروع کر دیا۔

اس کا چھوٹا بھائی کہنے لگا۔۔۔  ’’مجھے تو پہلے ہی شبہ تھا کہ ایک دن یہی ہو گا، پچھلے کئی ہفتوں سے اس کی حرکتیں ہی ایسی تھیں۔‘‘

بیوی نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔۔۔  ’’مجھے بھی اب لگتا ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے ان کا رویہ عجیب سا تھا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں کہ اس کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب ہے یا نہیں لیکن وہ یہ اصرار ضرور کئے جا رہا ہے کہ اب میرا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب وہ ایک مشین ہے جس کا ہر عمل معمول کے مطابق ہے، مخصوص وقت پر اٹھنا، تیار ہو کر دفتر جانا۔۔۔  دفتر میں بھی معمول کا ایک عمل، شام کو وقت پر واپسی،

دفتر میں ہمارے ساتھی چند دن تو بہت پریشان رہے کہ اس جیسے ہنس مکھ اور خوش اخلاق شخص کو۔۔۔  یہ کیا ہو گیا ہے۔۔۔  آگے بڑھ بڑھ کر ملنے والے کو یہ کونسی گہری چپ لگ گئی ہے۔۔۔  خاموشی سے آنا اور سارا دن فائلوں میں ڈوبے رہنا،

ایک دن یونہی میں نے پوچھا۔

’’زندگی کے دنوں اور ان دنوں میں کیا فرق ہے؟‘‘

اس نے خالی نظروں سے مجھے دیکھا۔۔۔  ’’شور اور خاموشی میں بڑا وقفہ ہوتا ہے۔‘‘

چند لمحے سوچتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’زندگی تو پانی پر تیرتا ہوا پھول ہے اور موت بھیگ کر ڈوب جانا۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو، جب معمول کا بوجھ ہماری ہمت سے زیادہ ہو جاتا ہے تو ہم پانی کی تہہ میں اترنے لگتے ہیں ، لیکن ایک بات بتاؤ۔‘‘

اس نے سر اٹھایا،

’’رشتے اور جذبے تو بڑے طاقت ور ہوتے ہیں ، کسی بچے کی کلکاری بھی تمہیں سطح پر نہیں لاتی۔‘‘

اس کی آنکھیں لمحہ بھر کے لیے چمکیں۔۔۔  ’’یہ جو سب سے چھوٹا لڑکا ہے نا۔۔۔  سومی، جب وہ اپنی ننھی ننھی انگلیوں سے میرے گال تھپتھپاتا ہے تو لگتا ہے میں پھر اکٹھا ہونے لگا ہوں۔‘‘

’’تو اکٹھے ہو کیوں نہیں جاتے، کہیں تمہیں بکھرنے میں مزہ تو نہیں آنے لگا؟‘‘

’’اکٹھا ہونا اور پھر بکھر جانا۔۔۔  بکھر کر دوبارہ اکٹھے ہونا۔ مجھے معلوم نہیں اذیت کہاں ہے اور لذت کہاں۔۔۔  ؟ بس یہ کوئی لمحہ ہے جسے ہم زندگی بھر تلاش کرتے رہتے ہیں۔‘‘

’’ایک لمحہ‘‘

’’ہاں صرف ایک لمحہ، کبھی مل جاتا ہے اور  کبھی پوری زندگی گزار کر بھی ہاتھ نہیں آتا۔‘‘

اور اس کے باہر پانی کی ایک منہ زور لہر ہے۔۔۔  اچھلتی ناچتی منہ زور لہر، جو آہستہ آہستہ سب کو کھینچ کر تہہ میں لے جاتی ہے۔‘‘

یہ سارا منظر خواب اور جاگنے کے درمیان کا ہے۔

خواب کے لمحوں اور جاگنے کے لمحوں کے درمیان ایک وقفہ ہے۔۔۔  جہاں سے کبھی ہم پلک جھپکنے میں گزر جاتے ہیں اور کبھی ہمیشہ کے لیے وہی رہ جاتے ہیں !

(۲)

میں۔۔۔  شاید میں نہیں ہوں۔

مجھے اپنے ہونے میں بھی شبہ ہے اور نہ ہونے کی بھی کوئی تصدیق نہیں۔ اپنے ہونے کا احساس تو خوشبو کی طرح ہے جسے کلی کی طرح ہم اپنے اندر چھپائے پھرتے ہیں۔

لیکن جونہی کلی کھلتی ہے یہ خوشبو ہماری نہیں رہتی،

اب یاد نہیں وہ کونسا لمحہ تھا جب آوازوں نے اپنی پہچان بدلی تھی اور رشتے بے آواز ہوئے تھے، یونہی ہوتا ہے، کبھی چیزیں بدل جاتی ہیں اور کبھی ہم خود بدل جاتے ہیں۔ زندگی ایک ایسے تختۂ سیاہ کی طرح بن جاتی ہے جس پر پکے حروف میں زندگی کے معنی لکھ دئیے جاتے ہیں۔۔۔  ایک ایسی تحریر جس کے مفہوم سے ہم آشنا نہیں ہوتے لیکن ان کے مطابق زندگی کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔

میرے رشتے، میرے جذبے، میری شرکتیں ، سب اجنبی ہیں ، شاید کبھی میری ان سے آشنائی رہی ہو، لیکن اب میرے لیے ان کے کوئی معنی نہیں ہیں۔

یہ بکھرے بالوں والا میرا چھوٹا بھائی، اس کے لیے زندگی کتنی آسان ہے، نہ کچھ کرنا، بس کتابیں اٹھا کر کالج جانا اور سارا دن گپیں لگانا۔۔۔  میرا اس سے کیا رشتہ ہے، یہی کہ ماں باپ کے بعد میں ہی اس کا کفیل ہوں اور مجھ پر یہ فرض عائد کر دیا گیا ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے مجھے یہ سب کرنا ہے اور یہ عورت۔۔۔  ہر وقت میری جھوٹی خوشنودی کے لیے مصنوعی مسکراہٹ کا جال لیے مجھے قابو کرنے کے چکر میں رہتی ہے۔۔۔  میرا اس سے صرف بدن کا ہی ایک رشتہ ہے، ضرورتوں کا رشتہ، جذبوں سے عاری، مجھے معلوم ہے اسے مجھ سے کوئی دلچسپی نہیں ، صرف پہلی تاریخ کو ملنے والی تنخواہ نے اس کے قدم باندھ رکھے ہیں اور میں اس شخص کو بھی جانتا ہو، جس سے یہ اب بھی ہنس ہنس کر ملتی ہے، وہ اس کا پرانا کلاس فیلو، اب تو وہ کم بخت میرا افسر ہو گیا ہے۔۔۔  بس اس دن اتفاق ہی سے میں نے ان کی باتیں سن لی تھیں ، میں بھی تو حیران تھا کہ وہ آخر میرے گھر آنے پر اتنا مصر کیوں ہے۔۔۔  لیکن میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

’’ابو جی۔۔۔  آپ کب آئیں گے؟‘‘۔۔۔  یہ آواز، جذبوں سے بھری یہ آواز، بس یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب ساری بکھری ہوئی چیزیں ایک جگہ اکٹھی ہونے لگتی ہیں۔۔۔  ایک مرکزی نقطہ۔۔۔  میں جلدی سے باہر نکل آتا ہوں ،

لگتا ہے میں ایک کمپیوٹر ہوں ، احساس سے عاری، جذبوں سے خالی۔۔۔  گھر سے دفتر، دفتر سے گھر۔۔۔  دفتر میں وہ افسر۔۔۔  اور گھر میں یہ بیوی۔۔۔

’’ابو جی۔۔۔  آپ کب۔۔۔ ‘‘ نہیں نہیں میں اس آواز کو نہیں سننا چاہتا، میں کسی کو نہیں جانتا، کسی کو نہیں پہچانتا، تہہ میں ڈوبا ہوا پھول، پھول نہیں رہتا پتی پتی ہو کر پانی ہی بن جاتا ہے۔

یہ پانی کیا ہے؟

لیکن اس سے بھی پہلے یہ پھول کیا ہے، جو پانی کی سطح پر تیرتا ہے، پھر کسی دن ایکا ایکی ڈوب جاتا ہے۔

ڈوبنے اور تیرنے کے درمیان یہ جو وقفہ

 یہ کیا ہے

خواب کا یا جاگنے کا

اور ان کے درمیان ایک پل صراط ہے، جو اس پر سے جلدی سے گزر جائے وہ پار چلا جاتا ہے، جو نہ گزر سکے ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جاتا ہے۔

میں بھی درمیان ہی میں رہ گیا ہوں۔۔۔  تیرتے ہوئے ڈوب گیا ہوں اور  ڈوب کر بھی تیرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

خواب کیا ہے۔۔۔  جاگنے کا لمحہ کیا ہے

میں خواب دیکھ رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں ؟

(۳)

بہت دنوں سے مجھے یوں لگ رہا ہے جسے تالاب کی ٹھہری سطح کے نیچے کوئی بڑی لہر مضطرب سی ہے، اس کی حرکتوں اور گفتگو میں ایک عجب طرح کی بے چینی ہے،

یوں لگتا ہے یہ کوئی خود کلامی ہے۔ فائلوں پر جھکے جھکے وہ اچانک سر اٹھا کر خلا میں کسی کو گھورتا ہے، بہت دیر تک کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد یوں سر ہلاتا ہے جیسے کسی سے باتیں کر رہا ہو، پھر انگوٹھے کی پور کو دانتوں سے کاٹتے ہوئے دوبارہ فائلوں میں ڈوب جاتا ہے۔

میں پوچھتا ہوں۔۔۔  ’’کیا بات ہے، کس سوچ میں ہو؟‘‘

وہ خالی نظروں سے دیکھتا ہے۔۔۔  ’’فیصلے کا لمحہ بڑا دشوار ہے اور عجیب بھی۔‘‘

’’کیسا فیصلہ؟‘‘ میں حیرت سے پوچھتا ہوں۔

’’ہونے یا نہ ہونے کا۔۔۔  خود کو دریافت کرنے کا۔‘‘ وہ یوں بولتا ہے جیسے میری بجائے کسی اور سے مخاطب ہو،

میں سوچتا ہوں شاید واقعی اس کا ذہن ماؤف ہو رہا ہے۔ کل اس کی بیوی بھی کہہ رہی تھی کہ اب تو کسی کو دکھانا ہی پڑے گا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

کہنے لگی۔۔۔  ’’بس بیٹھے بیٹھے جنون سا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کوئی غیر مرئی چیز ان کے سامنے ہے جسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ، یا پھر چپ چاپ بیٹھے اپنے آپ سے باتیں کر تے رہتے ہیں۔۔۔  میں تو کہتی ہوں ان پر کسی کا سایہ ہو گیا ہے۔‘‘

’’سایہ۔۔۔ ‘‘ وہ ہنسا۔۔۔  ’’ہم سب سائے ہی تو ہیں کسی اور کے۔‘‘

اور یہ سایہ بھی کیا چیز ہے۔۔۔  اصل سے علیحدہ بھی، منسلک بھی۔ سائے معدوم ہوتے ہیں تو چیزیں وجود میں آتی ہیں اور چیزوں کے اجزا بکھرتے ہیں تو سایے بن جاتے ہیں۔

سائے سے وجود اور وجود سے پھر سایا۔

دائرہ در دائرہ۔۔۔  ایک سفر، نہ ختم ہونے والا سفر

’’میں کیا کروں ؟‘‘ اس نے بڑی بے بسی سے پوچھا۔۔۔  ’’مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ میں سایہ ہوں یا وجود۔‘‘

’’کچھ بھی ہو۔۔۔  لیکن اپنے آپ کو محسوس کرو۔‘‘

وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا، پھر بولا۔۔۔  ’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔‘‘

پھر مشین کی طرح اٹھا اور اپنا ٹفن بکس لے کر دفتر سے نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد مجھے یوں ہی احساس ہوا کہ اس کی باتوں میں کوئی عجیب سی بات تھی، کوئی چھپی ہوئی بات جس نے مجھے بے چین سا کر رکھا ہے۔ میں نے سوچا کہ گھر جانے سے پہلے اس کے یہاں سے ہوتا جاؤں گا، لیکن اس شام بچوں کے لیے کچھ چیزیں لینا تھیں ، بازار میں برسوں پرانا ایک ساتھی مل گیا، اسی کا ذکر چھڑ گیا اور چائے پیتے ہوئے اتنی دیر ہو گئی کہ مجھے اس کے یہاں جانا یاد ہی نہ رہا۔

گھر پہنچا تو میری بیوی پریشان حا ل دروازے میں کھڑی تھی۔

’’خیر تو ہے؟‘‘ میرا دل ڈوب سا گیا۔

’’انو بھائی نے خود کشی کر لی۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ‘‘

’’صفدر آیا تھا، کہہ گیا تھا کہ آپ جب بھی آئیں سول ہسپتال پہنچیں۔‘‘

میں الٹے پاؤں واپس مڑا۔ ایمرجنسی کے کاریڈار میں صفدر اور اس کے کچھ رشتہ دار پریشان کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور میرے کندھے سے سر ٹکا کر رونے لگا۔

’’میں نے پوچھا۔۔۔  ’’ہوا کیا؟‘‘

’’انہوں نے۔۔۔  انہوں نے۔۔۔ ‘‘وہ آنسوؤں میں بات مکمل نہ کر سکا۔

میں اسے ایک طرف کر کے اندر لے گیا۔

وہ زندگی اور موت کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ گلوکوز اور خون کی بوتلیں دونوں طرف لٹکی ہوئی تھیں۔ میں قریب چلا گیا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے آنکھیں کھولیں ، ان میں عجب طرح کی چمک تھی۔ اپنے آپ کو محسوس کر لینے والی چمک،

میں نے کہا۔۔۔  ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘

وہ بولا نہیں۔۔۔  شاید بول ہی نہیں سکا۔

مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں ، میں نے اس کی موت پر بھی جانے کیوں پرسا نہیں دیا تھا اور اب زندہ ہونے پر بھی مبارک نہ دے سکا،

بس کچھ کہے بغیر چپ چاپ باہر نکل آیا۔

٭٭٭

 

آئینۂ تمثال دار

زندگی کے تھکے تھکے بوڑھے راستوں پر بوند بکھرنے کے دوران گئے دن بہت یاد آتے ہیں ، سورج کے ڈوبنے کا منظر عجیب سا لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت کی بانسری نے ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے کر ساکت کر دیا ہے، بس ایک سرمئی سا ہیولہ متحرک ہے جو کھینچ کر ماضی کے دھندلکوں میں لیے جا رہا ہے۔۔۔  لیکن ماضی بھی تو اب تصویر کی طرح ہے اور تصویروں میں کھو جانے کی اپنی ایک لذت ہے، دکھ کا مزہ، زندگی کی پگڈنڈیوں پر بہت کچھ بھول آنے کی کسک۔

شام کے دھند لکوں میں کیفے ٹیریا کے کسی ویران کونے میں وہ کھنکتی آواز۔۔۔  اب یوں لگتا ہے جیسے وقت نے اس آئینہ تمثال دار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔۔۔  وہ  ہفت رنگ منظر، آوازوں سے گونجتے، چہروں سے روشن ہوتے منظر،

سب کچھ بکھر گیا ہے، ان منظروں میں چہچہاتے پرندے اپنی اپنی ڈالیوں سے اُڑ کر جانے کن کن پنجروں میں کہاں کہاں بند ہو چکے ہیں۔ وقت کے صیّاد نے ہمیں اپنے جال میں پکڑ کر زمانے کے بے رحم ہاتھوں میں بیچ دیا ہے اور زمانے نے ہمیں اپنے اپنے ڈرائنگ روموں میں سجا لیا ہے، جہاں نہ آواز ہے، نہ چہرہ،

آوازوں اور چہروں کے بغیر زندگی عجب مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہے۔ ارد گرد کے لوگ، جن کے ساتھ عمریں بیت جاتی ہیں لیکن دل نہیں کھلتے، عمر بھر ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے سربستہ راز، ایک دوسرے سے خوفزدہ۔

اور تمنا ہے کہ ٹمٹماتی شمع کی طرح نہ بجھتی ہے نہ کھل کر جلتی ہے،

ایک درویش پر بڑا خوف طاری تھا، کسی نے پوچھا۔۔۔  ’’یہ خوف کس لیے؟‘‘

جواب دیا۔۔۔  ’’محبوب کے حضور پیش ہونے جا رہا ہوں۔‘‘

پوچھنے والے نے پوچھا۔۔۔  ’’تو پھر خوف کیسا؟‘‘

جواب دیا۔۔۔  ’’جو کچھ اندر ہے ظاہر ہو جائے گا۔۔۔  باطن اور ظاہر کا فرق جاتا رہے گا۔‘‘

بعض اوقات آدمی اس فرق سے ماورا ہو جاتا ہے لیکن اظہار نہیں کرتا، اظہار کرنا ہی تو مشکل ہے، ایک عمر تک تو اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی، لیکن جب بچے جوان ہو کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں تو زندگی بہت سپاٹ ہو جاتی ہے، کھڑکی سے طلوع ہوتے اور ڈوبتے سورج کا منظر ایک سا لگتا ہے اور شام دبے پاؤں اپنی طرف بڑھتی محسوس ہوتی ہے۔

بس زندگی اتنی سی تو ہے۔

درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ہو کر خواب دیکھنا، کالج کے دنوں میں خاموش سا عشق کرنا اور کتابیں رَٹ رَٹ کر چھوٹا موٹا افسر بن جانا۔۔۔  پھر روایتی سگھڑ بیوی، بچے، بچوں کا مستقبل اورا ب زندگی کی شام، جس کی دہلیز پر کھڑے ہو کر، مڑ کر دیکھتا ہوں تو سب دھندلکا۔۔۔  دھند لکا،

کسی نے کہا تھا میری حالت پتھر کی سی تھی لیکن مرشد کی نظر نے مجھے گوہرِ آب دار بنا دیا۔۔۔  گوہرِ آب دار بننا تو بہت آسان ہے، پتھر رہ کر گوہرِ آبدار کی تمنا کرنا کتنا مشکل ہے۔

زندگی کے اس طویل سفر میں کیا کھویا، کیا پایا۔۔۔  اس کا حساب کون کر سکتا ہے، عمر کے اس حصہ میں تو صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں ، وقت نے یادداشتوں کے رنگ محل میں کئی دراڑیں ڈال دی ہیں۔۔۔  بس ایک کھنکتی آواز اور چمکتا چہرہ ہی باقی رہ گیا ہے۔۔۔

کہتے ہیں ، جنگل میں کسی درخت کی شاخ پر پرندوں کا ایک جوڑا اتصال کے لمحہ اور نشہ میں مگن تھا کہ کسی شکاری نے انہیں نشانہ بنایا۔ تیر دونوں کو چیرتا ہوا اس طرح گزرا کہ دونوں اس میں پروئے گئے۔

یہ بھی قسمت کی بات ہے کہ دونوں لذت کی اس گھڑی میں ایک ساتھ ہست سے نیست میں داخل ہوئے، معلوم نہیں لذت کی یہ کیفیت ان کے ساتھ ساتھ گئی یا اسی دنیا میں رہ گئی، درخت کی شاخ پر جوڑ کھانے کا فیصلہ تو اپنا تھا لیکن شکاری کا تیر اپنا نہیں تھا۔۔۔  بس ہمارے فیصلے بھی اپنے ہوتے ہوئے بھی اپنے نہیں ہوتے، میں نے اسے کہا تھا۔۔۔  ’’میں اپنی دنیا خود بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

اب لگتا ہے اس سے بے معنی بات اور کوئی نہیں تھی۔

بعض اوقات ہم معمولی چیزوں کے بارے میں غیر معمولی سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں اور بعض اوقات اہم معاملات کے بارے میں انتہائی غیر سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔

اسے مجھ سے گلہ ہی یہ تھا کہ میں کسی معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوتا،

وہ کہتی۔۔۔  ’’ایک بار ابو سے ملو تو سہی۔‘‘

میں کہتا۔۔۔  ’’کیا فائدہ؟‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’دیکھو میں تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں۔‘‘

میں کہتا۔۔۔  ’’لیکن مجھ میں جو سکت نہیں۔‘‘

لیکن اب اتنے برسوں بعد سمجھ آیا ہے کہ یہ ساری باتیں بے معنی تھیں ، اصل سبب میرا مڈل کلاس اخلاق اور اس کا دیا ہوا احساسِ کمتری تھا، میں تو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا تھا، باہر کی چیزوں کو کیسے جوڑ پاتا۔۔۔  یہ ٹکڑے ابھی تک نہیں جڑے، اس دن بھی جب ہم آخری پرچہ دے کر کیفے ٹیریا کی کونے والی میز پر خاموش بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے، اس دن بھی میری یہی حالت تھی،

وہ خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔

یہ ہماری آخری ملاقات تھی،

گھر کی طرف آتے ہوئے مجھے محسوس ہوا تھا کہ میں زندگی کا راستہ بھول گیا ہوں ، اب معلوم نہیں اس بھول میں قصور میرا تھا یا وقت نے ماہر لائن مین کی طرح عین وقت پر کانٹا بدل دیا تھا۔۔۔  بس میں راستہ بھول گیا اور جنگل میں جا پہنچا،

جنگل میں اپنی شناخت نہیں رہتی۔۔۔  زندگی ایسے ہی گزر گئی۔ معمول کا پہیا۔۔۔  شادی، بچے، ان کی تعلیم اور اب زندگی کی شام ہو چلی ہے۔

ایک شام جب سرمئی بادل آسمان پر تیر رہے تھے، کرشن بہت اداس تھے، کسی گوپی نے پوچھا۔۔۔  ’’مہاراج! کیا بات ہے؟‘‘

بولے۔۔۔  ’’رادھا یاد آ رہی ہے۔۔۔ ‘‘

گوپی نے گھوڑے پر زین کسی اور کالی ڈراؤنی رات کا سینہ چیر کر رادھا کو لینے چلی،

معلوم نہیں وہ رادھا کو ساتھ لا سکی یا نہیں ، لیکن اس کا یوں چلے جانا بھی تو ایک بات ہے،

آخری پرچے والے دن کیفے کی اس میز پر جو آئینہ تمثال دار ٹوٹا تھا وہ پھر کبھی نہ جڑ سکا، لیکن اس کے بکھرے ٹکڑوں میں یادوں کے کئی عکس جھلملاتے رہے۔۔۔  میرے پاس اس کی یہی ایک تصویر ہے جو ایک ٹوٹے ہوئے ٹکڑے میں سے جھانک کر مجھے اپنی طرف بلاتی رہتی ہے۔۔۔  میری زندگی اب خود ایک ٹکڑا ہے۔۔۔  بڑے منظر سے ٹوٹا ہوا ایک ٹکڑا۔ بچے جوان ہو کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں ، بیوی بہوئیں تلاش کر تی پھر رہی ہے اور میں کھڑکی کے سامنے کھڑا سورج کے طلوع ہونے اور ڈوبنے کا منظر دیکھتا رہتا ہوں ،

کسی شام میں بھی یوں ہی زندگی کے اُفق سے نیچے اتر جاؤں گا، کسی نامعلوم جہان میں ، لیکن یہ بات مجھے کبھی نہ معلوم ہو سکے گی کہ یہ آئینہ تمثال دار کس نے توڑا۔۔۔  میں نے، اس نے یا زمانے نے۔۔۔

٭٭٭

 

سناٹا بولتا ہے

ہم سب زمانے کے کاغذ پر دم توڑتے ہوئے وہ حرف ہیں جنہیں بے معنویت کی دیمک چاٹ گئی ہے۔

وہ ان دم توڑتے ہوئے حرفوں میں ایک ایسا کردار ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ ایک زمانے میں اس کا ایک نام تھا، لیکن مسلسل بولے جانے کے بعد اب اسے اپنے نام کے حرفوں میں کوئی دلکشی نظر نہیں آتی، اس لیے اس نے اپنے نام کے حروف اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے ہیں اور اپنا نام وہ رکھ لیا ہے، ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد وہ اسے بھی مٹا دے اور اپنا نام زیرو رکھ لے، لیکن یہ تو بعد کی بات ہے، فی الحال اس کا نام وہ ہے۔

وہ کے صبح و شام معمول کے غلاف میں اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ ان کی پہچان باقی نہیں ، اس لیے اگر کبھی صبح شام کو اور شام صبح کے وقت بھی طلوع ہو جائے تو اسے خبر نہیں ہوتی۔ اس کی ہر سوچ گھڑی کے ڈائل میں قید ہے اور سانسیں سوئیوں کی ٹک ٹک میں پروئی ہوئی ہیں۔ وہ دن کے بستر پر پڑا ہوا ایسا مریض ہے، جس کی بیماری اور معمولات کا چارٹ اس کے سرہانے لٹک رہا ہے۔ اس کی صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر شروع ہوتی ہے، جب وہ نوکر کے تیسری بار ہلانے پر آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے آپ کو اسی نارنجی رنگ کی چھت کے نیچے ان ہی پرانی دیواروں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ ہر رات سونے سے پہلے وہ یہی سوچ کر سوتا ہے کہ صبح جب وہ سو کر اٹھے گا تو اس کی آنکھ کسی اور کمرے میں کھلے گی، لیکن ہر صبح وہ اسی پلنگ پر ہوتا ہے جس کا ایک پایا اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھی اس پائے پر رشک آتا ہے کہ اس کمرے میں جہاں ہر چیز اپنی مقررہ جگہ میں قید ہے، کم از کم یہ پایا تو ایسا ہے کہ جو اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہے اور جب بھی کوئی اس پلنگ پر بیٹھنے لگتا ہے، یہ پایا اپنی حرکت سے اپنے الگ ہونے کا احساس دلا دیتا ہے۔ اس نے کئی بار کوشش کی تھی کہ وہ اس پائے کی طرح اپنے علیحدہ ہونے کا احساس دلائے اور کسی طرح اس کمرے کی فضا پر جم کر بیٹھی یکسانیت کو بھنبھوڑ ڈالے۔ اس نے کئی بار کمرے میں رکھی چیزوں کی ترتیب بدلی تھی، لیکن اس کی بیوی انہیں پھر پرانی ترتیب میں لے آئی۔ عرصہ تک میاں بیوی کے درمیان یہ خاموش کھیل جاری رہا۔ وہ صبح اٹھتے ہی چیزوں کی جگہیں بدل دیتا، لیکن جب دفتر سے لوٹتا تو ہر چیز واپس اپنی جگہ پر چلی گئی ہوتی اور کمرہ پھر اسی مانوسیت اور یکسانیت کے پنجے میں پھڑپھڑا رہا ہوتا۔ ایک طویل عرصے تک اس کے اور بیوی کے درمیان یہ خاموش جنگ جاری رہی، پھر ایک صبح یوں ہوا کہ جب نوکر نے تیسری بار اسے ہلایا تو اس نے خاموش تھکی ہوئی نظروں سے چیزوں کو دیکھا اور چپ چاپ باتھ روم چلا گیا۔ اس دن جب وہ دفتر سے لوٹا تو اس کی بیوی بہت خوش تھی، اتنی خوش کہ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کے خاوند نے اپنی پیشانی سے اپنے نا م کے حروف کھرچ لیے ہیں اور اپنا نام وہ رکھ لیا ہے۔ اس دن کے بعد اس نے کمرے کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا اور کمرہ ہی کیا، دوسری چیزوں کے بارے میں بھی ان کی مقررہ جگہوں سے سمجھوتہ کر لیا۔

اب اس نے دفتر میں کوئی غلط فیصلہ دینے پر اپنے بڑے افسر سے جھگڑنا چھوڑ دیا ہے۔ دوستوں سے غلط باتیں سن کر انہیں ٹوکنا ترک کر دیا ہے، کتابوں میں بے علمی کی باتیں پڑھ کر ان کے مصنفوں کو خط لکھنا بند کر دیا ہے۔ اب وہ نہ تو بیوی کو رنگوں کے بھونڈے چناؤ پر کچھ کہتا ہے اور نہ ہی سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کی بری حرکات اسے بری لگتی ہیں۔ اس کے آس پاس کچھ ہی ہو جائے، اس کے بدن کی دیواروں پر ذرا سا ارتعاش بھی نہیں ہوتا۔ اب وہ سارا اخبار مزے لے لے کر پڑھ جاتا ہے۔ سب سے ملتا ہے، سب کی سنتا ہے، بات بات پر قہقہے لگاتا ہے، کیوں کہ اب وہ۔۔۔  وہ ہے، صرف وہ، جس نے اپنے نام کے حرف اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے ہیں۔

معمول کے دائرے میں گھومتے ہوئے ابتدا میں اسے کبھی کبھی بڑی دقّت ہوتی تھی کیوں کہ اس کی شخصیت کے بعض دندانے دار کنگرے دائرے میں گھومتے گھومتے کہیں اڑ جاتے اور وہ شخص جس کے نام کے حروف اس نے اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے تھے، اس کے بدن کے ملبے میں کروٹیں لینے لگتا۔ غلاف میں لپٹے ہوئے صبح و شام پھڑپھڑانے لگتے اور کھرچے ہوئے نام والا شخص اس کے بدن کی چاردیواری سے سر نکال کر باہر جھانکنے لگتا، لیکن اگلے ہی لمحے معمول کا ریلا اسے اپنے ساتھ بہائے لیے چلا جاتا اور اب اس دائرے میں مسلسل گھومتے گھومتے اس کی شخصیت کے سارے دندانے دار کنگرے  بھُر گئے ہیں اور وہ گریس لگے بیرنگ کی طرح بغیر آواز دئیے اپنے محور پر گھومتا رہتا ہے۔

کئی دنوں سے یہ سوچ اس کے ذہن کی نالیوں میں رینگ رہی ہے کہ وہ مر چکا ہے، ان چلتے پھرتے سانس لیتے لوگوں میں لاش کی طرح ہے، جو صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر اپنی قبر سے نکلتا ہے اور خود کو گھڑی کی سوئیوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ ٹک ٹک کی آوازوں کے ساتھ جب ڈائل کا چکر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ واپس اسی قبر میں آ گرتا ہے اور بیوی کے گرم گدازجسم سے لپٹ کر سو جاتا ہے۔ بس اس زندگی میں اب یہ چند لمحے ہی اس کی زندگی کے لمحے ہیں ، ساری رات اور دن سوتا رہتا ہے، لیکن ان لمحوں میں وہ کچھ دیر کے لیے جاگتا ہے اور پھر اسی گہری، موت ایسی نیند کی بکل میں لوٹ جاتا ہے۔

اس کا یہ احساس کہ وہ مر چکا ہے، اتنی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ ایک دن وہ ڈائل کے ہندسوں کی چار دیواری سے باہر کود جاتا ہے اور فائلوں کے ڈھیر کو میز پر چھوڑ کر سڑک پر نکل آتا ہے۔ وہ دیر تک مختلف سڑکوں پر پھرتا رہتا ہے، پھر چائے پینے کے لیے ایک ریستوران میں داخل ہو جاتا ہے، ریستوران کی فضا میں آواز ننگی ہو کر ناچ رہی ہے اور لوگ پتھر کے ہو چکے ہیں۔ ان کی آنکھیں گندی میزوں پر جمی ہوئی میل میں پروئی ہوئی ہیں اور کان آواز کی تال پر ناچ رہے ہیں۔ اس کے اندر آنے پر کوئی سر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ وہ کچھ دیر دروازے میں کھڑا میزوں کا جائزہ لیتا ہے، ساری میزیں کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں ، ایک میز پر دو شخص بیٹھے ہیں ، وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی سر اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ وہ کون ہے؟

’’یہ لوگ کون ہیں اور میں کہاں آ گیا ہوں ؟‘‘۔۔۔  وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے، سب لوگ پتھر کے ہو چکے ہیں کہ ان کے چہروں پر مایوسی اور اداسی کھدی ہوئی ہے، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ سوچتا ہے۔۔۔  کیا ان سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا اور کیا اب مجھے بھی پیچھے مڑ کر دیکھنا ہو گا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا ہے کہ دروازے سے ایک ہیجڑا اندر داخل ہوتا ہے اور درمیان میں پہنچ کر ناچنے لگتا ہے، اس کے ساتھ ہی جھکے ہوئے چہرے اوپر اٹھنے لگتے ہیں اور پتھر کے دھڑ پگھلنے لگتے ہیں۔ ہیجڑا ناچتے ناچتے کبھی کسی کے سر پر چپت رسید کرتا، کبھی کسی کے گال پر چٹکی لیتا ہے تو لوگ خوشی سے تالیاں پیٹنے لگتے ہیں ، ہیجڑا ناچتے ناچتے باہر نکل جاتا ہے، اٹھے ہوئے سر دوبارہ ڈھلک جاتے ہیں اور وجود پتھر میں ڈھلنے لگتے ہیں۔

’’اس سے پہلے کہ میں بھی پیچھے مڑ کر دیکھوں ، مجھے یہاں سے نکل بھاگنا چاہئے۔‘‘وہ سوچتا ہے اور دوڑتا ہوا باہر نکل جاتا ہے۔

سڑک پر ٹریفک رکی ہوئی ہے، چوک میں دو ٹرک آمنے سامنے آ گئے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک بضد ہے کہ پہلے دوسرا حرکت کرے۔ ان کے پیچھے دونوں طرف بسوں ، تانگوں اور کاروں کی لمبی قطاریں بڑے اطمینان سے کھڑی ہیں۔ کچھ لوگ چوک میں جمع ہو گئے ہیں اور مزے سے دونوں ٹرک ڈرائیوروں کے مکالمے سن رہے ہیں۔ وہ قریب کھڑے ایک شخص کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ شخص پتھر کا ہے۔ پھر وہ قطار میں کھڑی ایک کار کو چھوتا ہے، وہ بھی پتھر کی ہے۔ وہ ایک اور شخص کو چھوتا ہے، وہ بھی پتھر کا ہے۔ ایک، دو، تین، چار۔ سب پتھر کے ہیں۔۔۔  ان سبھوں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا، وہ سوچتا ہے اور گلی میں سے گزر کر دوسری سڑک پر جا نکلتا ہے۔ سڑک کے دوسرے کنارے ہجوم کے قریب جاتا ہے۔ مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے، لوگ اس کی تال پر ناچ رہے ہیں۔

’’تو یہ بھی پتھر کے ہیں۔‘‘ وہ سوچتا ہے اور گلیوں میں سے ہوتا ہوا ایک اور سڑک پر آ جاتا ہے، لیکن یہاں کے لوگ بھی پتھر ہیں وہ جس سڑک پر جاتا ہے، ہر جگہ پتھر ہی پتھر۔۔۔  پتھر ہی پتھر،

وہ دوڑ کر اپنے ڈائل پر چڑھ جاتا ہے اور پرانے ہندسوں کی چادر اوڑھ لیتا ہے، کم از کم یہاں سوئیوں کی ٹک ٹک تو ہے۔

رات کو بیوی کے پاس لیٹے ہوئے سوچ اس کے ذہن سے اُبل کر باہر آ گرتی ہے۔ ریستوران میں بیٹھے، سڑکوں پر پھرتے لوگ، ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے روشن دان سے اندر آنے لگتے ہیں۔ اس کے جسم کے ملبے میں مدت سے دفن، کھرچے ہوئے نام والا شخص، پہلو بدلتا ہے۔ لفظوں کے سوکھے چشمے ابلنے لگتے ہیں۔ پورے شہر میں ایک وہی تو ہے جسے اپنی بے معنویت کا احساس ہے۔۔۔  وہ اچھل کر اٹھ بیٹھتا ہے، اس سارے شہر میں وہی تو ایک تنہا زندہ آدمی ہے، وہ زور دار قہقہہ لگاتا ہے،

ہاں ، اس سارے شہر میں وہی تو ایک تنہا آدمی ہے، جس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا،

وہ ہنستا چلا جاتا ہے، پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔

اس کی بیوی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔  ’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘

لیکن وہ جواب دئیے بغیر بلک بلک کر روتا رہتا ہے۔

اس رات کے بعد وہ کبھی نہیں رویا،

لیکن یہ بات آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکی کہ اس رات وہ بلک بلک کر کس کے لیے رویا تھا؟

٭٭٭

 

بند کنوئیں میں سرسراہٹ

یہ بات شاید صبح ہوئی، دوپہر کو یا رات کو کسی وقت، اب اسے ٹھیک سے یاد نہیں ، بس اس کا پہلا احساس یہ تھا کہ اس کے اندر کوئی پھڑپھڑا کر باہر نکلا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ملگجی روشنی میں اس نے دیکھا کہ ایک دشت ہے، ہُو کا عالم اور وہ بیچوں بیچ کھڑا اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اتنے میں کہیں سے ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور چند لمحے اس کے گرد چکر لگاتا رہا پھر اس کے اندر داخل ہو گیا۔ اب ایک اور ہی منظر ہے۔

وہ بھرے بازار کے بیچوں بیچ کھڑا ہے۔ لوگوں کا اژدہام ہے، سارے لوگ بھاگے جا رہے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ دوڑتا چلا جاتا ہے۔ منظر پھر بدلتا ہے اور اب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہے، میز پر فائلوں کا انبار ہے۔ بس یہ ساری کہانی ہے۔ ایک لمحہ یا کئی سو لمحوں کی، یہ اسے معلوم نہیں۔

یہ واردات اچانک ہو جاتی ہے، اسے اس وقت پتہ چلتا ہے جب ہو چکتی ہے، اس کے بعد بہت دیر تک اسے یوں لگتا ہے جیسے کسی نے بید سے اس کی پٹائی کی ہے اور روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا ہے۔ فائلوں کے حرف اسے بے معنی لگتے ہیں ، چہروں پر چڑھے ہوئے ماسک اتر جاتے ہیں اور ہر چیز اپنی جگہ سے کھسکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ گھر میں ہوتا ہے تو بیوی کی باتوں میں ایک عجیب تصنع محسوس ہوتا ہے، بچوں کی آوازوں میں بے سُر اپن آ جاتا ہے۔ سارا کچھ گھردندے کی طرح بھر بھراتا محسوس ہوتا ہے۔

اجنبی فضا میں اڑتا پرندہ اپنا راستہ بھول گیا ہے۔ کیا پرندے بھی راستہ بھول جاتے ہیں ؟ اور اسی لمحہ یہ اذیت کہ وہ ساری عمر اپنے آپ کو دھوکا دیتا رہا ہے جو نہ بنا، وہ بنتا رہا اور جو بنا وہ تھا نہیں۔ شاید اب بھی نہیں۔

ویسے دیکھنے کو اسے کوئی دکھ نہیں ، سجا سجایا گھر، ماڈرن بیوی، پھول جیسے بچے، عزت والی نوکری۔

بیوی کہتی ہے۔۔۔  ’’تم بڑے ناشکرے ہو، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنے آپ کو کوستے رہتے ہو۔‘‘

اس کے پاس جواب نہیں۔۔۔  کیا واقعی میں ناشکرا ہوں ؟

لمحہ بھر کے لیے لگتا ہے بیوی ٹھیک ہی کہتی ہے۔ آخر اسے فکر کس بات کی ہے۔ لیکن ساری مصیبت تو اس پرندے کی ہے جو اس کے جسم کے قفس میں کہیں پھڑپھڑاتا ہے اور کبھی کبھی اچانک باہر نکل کر کھلی فضا میں ایک چکر لگاتا ہے اور پھر اس کے جسم کے ملبہ میں دفن ہو جاتا ہے۔

تو کیا میں کوئی قبر ہوں ؟

کیا قبریں بھی احساس رکھتی ہیں ، ان کا بھی کوئی جذبہ ہوتا ہے؟

یا پھر یہ کہ وہ کوئی اور ہوں اور قبر میرے اردگرد کہیں اور ہے جو مجھے تو نظر نہیں آتی شاید اس پرندے کو دکھائی دیتی ہے۔

تو کیا میں خود پرندہ ہوں ؟

لیکن میں تو ا  ابنِ  ب  ہوں۔

’’ڈیڈی۔۔۔ ‘‘

’’جی بیٹے۔۔۔ ‘‘

’’شام کو آئس کریم کھلانے لے جائیں گے نا۔‘‘

’’جی بیٹے۔۔۔ ‘‘

’’میرے لیے ساڑھی۔۔۔  میرے لیے۔۔۔  میرے لیے۔۔۔ ‘‘

دن فرمائشوں کے دھاگوں سے بُنا ہوا دن،

رات۔۔۔  سمندر سے بھی گہری رات،

وہ ان دونوں کے درمیان کہیں اٹکا ہوا ہے۔

پرندہ پھڑپھڑاتا ہے۔۔۔  اس کے اندر ایک قلابازی کھاتا ہے اور پھُر سے اس کے حلق سے ہوتا ہوا فضا میں بلند ہو جاتا ہے، وہ آنکھوں پر دونوں ہاتھوں کا چھجا بنا کر اسے فضا میں اڑتے دیکھتا ہے۔

کچھ دیر بعد یہ پرندہ اپنے پنجرے میں لوٹ آئے گا۔

ہاں لوٹ آئے گا۔

’’ڈیڈی۔۔۔ ‘‘ اس کا بیٹا پکارتا ہے۔

’’اجی سنئے نا۔۔۔ ‘‘بیوی کچھ کہہ رہی ہے۔

’’ابو۔۔۔ ‘‘ بیٹی ہاتھ ہلا رہی ہے۔

’’جناب میرا کیس۔۔۔ ‘‘کوئی کہہ رہا ہے۔

’’سر۔۔۔  یہ فائل بہت ضروری ہے۔‘‘ اس کا پی اے میز پر جھکا ہوا ہے۔

پرندہ کہاں جائے۔ اتنی ساری قینچیاں اس کے پَرکاٹ رہی ہیں۔

وہ ایک لمبی آہ بھرتا ہے اور سوچتا ہے کبھی تو یہ ساری قینچیاں ٹوٹیں گی، نئے پر نکلیں گے اور پرندہ فضا میں اونچا اور اونچا اڑتا چلا جائے گا۔

لیکن کب۔۔۔  ؟

پھر خود ہی مسکراتا ہے۔۔۔  میں بھی عجیب ہوں۔ اپنے آپ کو خود ہی مٹانے پر تلا ہوا ہوں۔

اسے جھرجھری آتی ہے۔۔۔

لیکن سب سے الگ فضا میں اڑنے کی خواہش۔

خواہشیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ہیں نا،

وہ اندر ہی اندر مسکراتا ہے اور پی اے سے کہتا ہے۔

’’لو بھئی پہلے ذرا بیگم صاحبہ سے بات کروا دو، پھر آ جاؤ بہت دن ہو گئے آج اس فائل کو ضرور ڈسپوز آف کرنا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

چپ صحرا

پہلے گواہ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولا۔۔۔  ’’جنابِ عالی یہ واقعہ نہ تو میرے سامنے ہوا ہے اور نہ مجھے اس کے بارے میں کوئی ذاتی علم ہے، لیکن میں مفادِ عامہ کے لیے گواہی دینے حاضر ہو گیا ہوں۔ جناب میں اس شخص کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ لفظوں کی حرمت پر یقین رکھتا ہے اور کھلم کھلا ہمارے خیالات کی نفی کرتا ہے۔ ایسا شخص معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ آزادیِ اظہار کی بات کرتا ہے۔ آپ ہی بتائیے جنابِ والا! یہ بھی کوئی کرنے کی بات ہے۔ بس جناب لمبی چوڑی بات کیا کرنا، آپ فوراً اس کو سزا سنائیں ، میرے خیال میں تو کسی اور گواہی کی ضرورت بھی نہیں ، میری گواہی کافی مضبوط اور مدلّل ہے۔‘‘

(۲)

میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میری آواز کو دیمک لگ گئی ہے، لکھ بھی نہیں سکتا کہ قلم زنگ آلود ہے۔ کمرے میں ایک عجیب پر اسرار خاموشی ہے، کمرے کے باہر تاریک راتوں میں جو سانپ شونکتا رہتا تھا، رینگ کر کمرے کے اندر چلا آیا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ سانپ نے حضرت سلیمانؑ سے یہ عہد کیا تھا کہ کسی لکھنے والے کے کمرے میں نہیں جائے گا۔ اب یا تو اس عہد کا عرصہ ختم ہو گیا ہے یا سانپ نے بد عہدی کی ہے، یا حضرت سلیمانؑ نے ہی اجازت دے دی ہے۔ بہر حال کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ سانپ لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوا ہے اور میں سہما ہوا کونے میں کھڑا ہوں۔ اب شاید میں رینگ رینگ کر باہر نکل جاؤں گا اور سانپ میری جگہ لکھنے کا کام کرے گا۔ دراصل پچھلے چند دنوں سے کچھ عجیب گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ ابھی پرسوں ہی کی تو بات ہے، گھڑیاں الٹی چلنے لگیں۔ لوگ خوش ہو ہو کر تالیاں بجاتے تھے۔ میں نے چیخ کر کہا کہ یہ برے وقت کی دلیل ہے، اس پر ماتم کرو۔ لیکن میری بات سننے کی بجائے لوگوں نے الٹا مجھے لعن طعن شروع کر دیا۔ میں بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا اور اب صورت یہ ہے کہ گھڑیاں مسلسل پیچھے کی طرف دوڑ رہی ہیں اور ہم صدی صدی پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ چند دنوں میں ہم پتھر کے زمانے میں داخل ہو جائیں گے۔

(۳)

’’یا ہو‘‘۔۔۔  اس نے نعرہ لگایا اور غار پر حملہ کر دیا۔ غار والے بے خبری کی نیند سو رہے تھے۔ نعرہ سن کر ہڑ بڑا کر اٹھے۔ اتنے میں اس نے مرد پر حملہ کر دیا اور تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اس کے نرخرے میں اپنے دانت اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔ تازہ گرم خون کے پہلے گھونٹ نے ہی اس کے ہاتھوں کی گرفت میں سختی پیدا کر دی۔ غار والی عورت اس دوران سہمی ہوئی دیوار سے لگی کھڑی رہی۔ اس نے آخری قطرہ چوس کر شکار کو چھوڑ دیا اور اُچھل کر عورت کو دبوچ لیا۔ پھر اسے کندھے پر ڈال کر باہر نکلا۔۔۔

’’یا ہو۔۔۔  یاہو‘‘

(۴)

عجیب خوفناک بات ہے۔۔۔  میں کہانی لکھنا ہی بھول گیا ہوں۔ یہاں تو ہر شخص اندر سے ڈریکولا بن چکا ہے۔ اس کے منہ میں دو خوفناک دانت ہیں جن سے وہ موقعہ ملتے ہی دوسروں کا لہو پیتا ہے۔ اب کہانی کیا۔۔۔  کون لکھے گا، کون سنے گا؟ یہاں ہر شخص کو دوسرے کا لہو پینے کی چاٹ پڑ گئی ہے اور صورت یہ ہے کہ سارا شہر ڈریکولا بن گیا ہے۔ تو اب یہ کیا کریں گے؟ شاید دوسرے شہروں کا رخ کریں۔۔۔  ؟ لیکن میں چپ نہیں رہ سکتا،

میں بھی اگرچہ ڈریکولا ہی ہوں لیکن میں چیخ چیخ کر کہوں گا۔۔۔  ہم سب ڈریکولا ہیں۔۔۔  ہم سب ڈریکولا ہیں۔۔۔  ہم سب۔۔۔

(۵)

بچہ سے بادشاہ کے ننگے ہونے کا اعلان سن کر سارے لوگ ششدر رہ گئے۔ بادشاہ ایک لمحے کے لیے سٹپٹایا، کچھ سوچا اور جلوس کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ نے اپنے با تدبیر مشیروں کو طلب کیا۔ دیر تک اجلاس ہوتا رہا، پھر چند ہی برسوں میں ہوا یوں کہ بچہ سمیت سارے لوگ ننگے ہو گئے اور بادشاہ نے کپڑے پہن لیے۔ اب صورت یہ ہے کہ بادشاہ جب جلوس کی صورت باہر نکلتا ہے تو سارے ننگے لوگ سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہیں اور بادشاہ ان کی طرف دیکھ دیکھ کر کہتا ہے۔۔۔  ’’واہ، واہ، میرے عوام نے کیسے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے ہیں۔۔۔  واہ وا۔‘‘

(۶)

کہنے کو تو بہت سی باتیں ابھی باقی ہیں ، لیکن لفظ بے وفا ہو گئے ہیں۔ بس پر اسرار صحرا، گھپ خاموشی،

تھتھا تھیّا تھتھا

چھیتی کر اؤے طبیبانیئں تاں میں تر چلی آں ،

چھیتی کروائے طبیبا

چھیتی۔۔۔  چھیتی

(۷)

دوسرے گواہ نے حلف اٹھانے کے بعد کہا۔۔۔  ’’جناب والا! میں پہلے معزز گواہ کی تائید کرتا ہوں ، جناب اس شخص کو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاہئے۔ دیکھیں نا جناب یہ شخص ہمیں آئینہ دکھانا چاہتا ہے، احمق کہیں کا۔ ہمیں ہماری روایتوں سے توڑنا چاہتا ہے۔ میں بھی اگرچہ ذاتی طور پر اس کے گناہوں سے آگاہ نہیں لیکن جنابِ والا میں کارِ خیر کے طور پر گواہی دینے حاضر ہو گیا ہوں۔۔۔ ‘‘

تیسرے گواہ نے کہا۔۔۔  ’’جنابِ والا اگرچہ دو مدلّل گواہیوں کے بعد میری گواہی کی ضرورت تو نہیں رہتی لیکن کام کی نیکی کی اہمیت کا خیال کر کے میں حاضر ہو گیا ہوں۔۔۔ ‘‘

اسی لمحہ حاضرین میں سے ایک شخص نے اٹھ کر مصنف سے کہا۔۔۔  ’’لیکن جنابِ والا! ملزم کو تو پھانسی دی جا چکی ہے پھر یہ کارروائی کس لیے؟‘‘ مصنف نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن انصاف کے تقاضے تو بہر حال پورے ہونا ہی چاہئے نا۔‘‘

٭٭٭

 

بنجر لہو منظر

رات شہر کے گرد اگرد کنڈل مار کے بیٹھی ہوئی ہے،

اور شہر جو کبھی تھا،

(اب خیال آتا ہے کہ شاید کبھی بھی نہیں تھا)

اندھیرے میں بتاشے کی طرح گھل رہا ہے،

میں اپنے گھر میں ، اپنے کمرے میں ، اپنے بستر پر چادر اوڑھے لیٹا ہوں ،

اس شہر میں اب انسانوں پر دوسرے حکومت کرتے ہیں ، اس لحاظ سے اب اسے ان کا شہر کہنا مناسب ہو گا، ان کا خیال ہے انسان شعور سے عاری ہیں ، اس لیے انہیں شعور سکھانے کے لیے یہ انتظام ضروری ہے۔

وہ چادر کا کونا ہٹا کر سر اندر کرتا ہے۔۔۔  ’’تمہیں معلوم نہیں کہ چادر کے نیچے بھی سوچنا منع ہے۔‘‘

چابک کی سرسراہٹیں سارے کمرے میں گونجنے لگتی ہیں۔

میں میز سے کتاب اٹھاتا ہوں ،

سارے لفظ بے معنی ہو چکے ہیں۔ کتاب میں لکھا ہے، انسان نے صدیوں کی مسافت طے کر کے جدید دور میں قدم رکھا ہے۔ غلامی کا دور ختم ہوا۔۔۔

شڑاپ۔۔۔  شڑاپ

ٹکٹکی میرے گھر کی دیواروں پر دستک دیتی ہے،

’’میں غلام ابنِ غلام ابنِ غلام حاضر ہوں۔‘‘

ٹکٹکی مسکراتی ہے،

کتّا میرے لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی لمبی سرخ زبان اس کے جبڑوں سے باہر لٹک رہی ہے۔

کتاب میں لکھا ہے۔۔۔

کتاب میں سب بکواس لکھا ہے، جھوٹ۔۔۔

میں غلام ابن غلام ابن غلام حاضر ہوں۔۔۔  اور میرے بچے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ میرے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔۔۔  اس شہر میں پیدا ہوئے ہیں۔۔۔

شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں کتے تازہ خون کی مہک سونگھتے پھر رہے ہیں ،

کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا وہ ایک بٹن آف کرتا ہے،

ریڈیو، ٹی وی، اخباروں اور رسالوں میں گونجتی آوازیں ، تصویریں اور خبریں ایک لمحہ میں غائب ہو جاتی ہیں ، چہرے، شکلیں پلک جھپکنے میں گم ہو جاتی ہیں۔

وہ ہنستا ہے۔۔۔  ہنستا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔

’’صرف ایک بٹن آف کرنے کا وقفہ، ایک پورے کا پورا دور ختم ہو گیا، بس اتنی سی بات۔‘‘

وہ دوسرا بٹن آن کرتا ہے۔

ایک لمحہ میں ریڈیو، اخباروں اور رسالوں میں نئی آوازیں ، نئی خبریں ، ٹی وی کی سکرین پر ایک ہی پل میں پرانی تصویر کی جگہ نئی تصویر،

ایک بٹن آف، دوسرا آن، ایک لمحہ کا وقفہ۔

شہر، گھر، دفتر اور ریستوران قید خانے میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،

ٹی وی کی سکرین پر پرانی اناؤنسر نئے دور کے شروع ہونے کی خبر دیتی ہے،

میری بیوی ٹی وی آف کرتے ہوئے حسرت سے کہتی ہے۔۔۔  ’’انہوں نے ہمیں پھر فتح کر لیا ہے۔‘‘

فاتح جرنیل ٹینک پر سوار، بڑے چوک میں آتا ہے، ہجوم کو دیکھتا، پوچھتا ہے۔۔۔  ’’یہ کون ہیں ؟‘‘

’’لوگ جناب‘‘

’’یہ لوگ ہیں ‘‘ وہ ہنستا ہے۔۔۔  ’’اچھا تو یہ لوگ ہیں !‘‘

چبوترے پر نصب مینار پر لگی گھڑی وقت کے گزرنے کا اعلان کرتی ہے۔۔۔  لمحہ بہ لمحہ۔۔۔  لمحہ بہ لمحہ۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’گھڑی جناب۔۔۔  وقت بتاتی ہے۔‘‘

’’لیکن ہمیں تو وقت کی کوئی ضرورت نہیں ، اسے بند کر دو اور کیلنڈر کو پیچھے لے جاؤ۔‘‘

ٹکٹکی پر بندھا شخص کراہتا ہے۔

خون کی مہک سونگھ کر کتے غرّاتے ہیں ،

پنجے مارتے ہیں۔

زمین پیاس سے ہانپ رہی ہے۔ بہتر آدمی سینہ تانے، دیوار بنے میدان میں ڈٹے کھڑے ہیں ،

وہ غرّاتا ہے، نیزے پر ٹنگے ہوئے سر کو دیکھ کر غرّاتا، پنجے مارتا، ہوا میں سونگھتا ہے،

عورت برف سر اوپر اٹھاتی ہے۔۔۔  ’’اب اجازت ہے کہ بیٹے کی لاش سولی سے اتار لوں۔‘‘

وہ پھر غرّاتا، پنجے مارتا، ہوا میں سونگھتا ہے۔

ٹکٹکی کے سامنے سر جھکائے لمبی قطار۔

شڑاپ۔۔۔  شڑاپ

میں بیٹی سے کہتا ہوں۔۔۔  ’’میری بچی، میری جان، میں تم سے شرمندہ ہوں ، لیکن یہ میں نے بھی نہیں ، میرے باپ نے کیا تھا اور وہ اب زندہ نہیں ، ہم کس سے پوچھیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘

’’سوال کرنا منع ہے۔‘‘ غرّاہٹ

شڑاپ۔۔۔  شڑاپ

میری بیوی چائے کی پیالی میرے سامنے رکھتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔

’’معلوم نہیں چائے کی پیالی میں چمچ کے ساتھ چینی ہلانے کی اجازت ہے یا نہیں۔‘‘

میں سر ہلاتا ہوں۔۔۔  ’’معلوم نہیں۔‘‘

میری بیٹی کہتی ہے۔۔۔  ’’ابو آپ کو تو کچھ بھی معلوم نہیں ، میری کتاب میں لکھا ہے، انسان بڑا عظیم ہے، وہ چاند پر پہنچ گیا ہے۔‘‘

چبوترے پر پیچھے ہاتھ بندھے شخص کو لایا جاتا ہے۔

فردِ جرم پڑھی جاتی ہے۔

یہ شخص سر اٹھا کر چلتا ہے۔

فیصلہ۔۔۔  اس کا منہ کالا کیا جائے،

وہ اس کا منہ کالا کرتے ہیں ،

پھر تالیاں بجاتے، نعرے لگاتے ہیں۔

’’ابو! انسان بہت عظیم ہے نا۔‘‘

’’شاید ہے، یا پھر شاید نہیں ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’شاید کسی جگہ ہوتا ہو گا، کسی جگہ نہیں ہوتا ہو گا۔‘‘

’’تم نے اس زمانے کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھا۔‘‘ بوڑھا چچا برف بھوئیں اٹھاتا ہے۔۔۔  ’’دشمن جب شہر میں داخل ہوتا تو خوف سڑکوں پر کنڈل مار کے بیٹھ جاتا، وہ سڑکوں اور گلیوں میں لوگوں کو گریبانوں سے پکڑ پکڑ کر ٹھڈے مار مار کر پوچھتے۔۔۔  ’’کون ہو تم؟‘‘

’’کون ہو تم؟‘‘

’’میں۔۔۔  میں ‘‘

’’جھک کر کیوں چلتے ہو؟‘‘

’’پاؤں میں چوٹ لگی ہے؟‘‘

’’کیوں لگی ہے؟‘‘

’’گر گیا تھا۔‘‘

’’کیوں گرے تھے؟‘‘

’’جی پتہ نہیں۔۔۔  بس قسمت جو خراب ہے۔‘‘

شڑاپ۔۔۔  شڑاپ

بوڑھا چچا برف بھوئیں جھکاتا ہے۔۔۔  ’’وہ گھروں میں گھس جاتے اور عورتوں کو۔۔۔  لڑکیوں کو۔۔۔ ‘‘

میری پیٹھ پر ٹکور کرتی بیوی اچھل کر بیٹی کو گود میں اٹھا لیتی ہے،

’’دروازہ تو بند ہے نا‘‘

’’بند ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔‘‘

رات دبے پاؤں چلتی آپ ہی آپ مسکراتی ہے،

اندر ہی اندر کھلکھلاتی ہے،

چادر کے نیچے میں اپنا ہاتھ بیوی کے ہاتھ پر رکھتا ہوں ،

وہ چادر ہٹا کر سر اندر کرتا ہے۔۔۔  ’’اپنے گھر میں ، اپنی چادر کے نیچے بھی تم اپنی بیوی کے سارے جسم کو نہیں دیکھ سکتے۔‘‘

ٹکٹکی شہر میں گھوم رہی ہے،

شڑاپ۔۔۔  شڑاپ

میری بیٹی سبق یاد کرتی ہے۔۔۔  ’’انسان بڑا عظیم ہے۔۔۔  انسان بڑا عظیم ہے۔۔۔  انسان۔۔۔ ‘‘

میں خواب دیکھتا ہوں کہ جیسے خوبصورت باغ میں ہوں۔ چاروں طرف پھول کھلے ہوئے ہیں۔ پھل شاخوں سے جھول رہے ہیں ، پرندے چہچہا رہے ہیں۔

میری بیوی کہتی۔۔۔  ’’کتنی اچھی خوشبو ہے۔‘‘

’’امی پھول کتنے پیار ے ہیں۔‘‘ میری بیٹی چہکتی ہے۔ مگر اس کی آواز تیز شور میں ڈوب جاتی ہے۔ سوروں کا ایک گروہ کا گروہ شور مچاتا، دندناتا، باغ کی دیواروں کو توڑتا، روشوں ، کیاریوں اور پودوں کو روندتا چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔

’’میری بیٹی۔۔۔  میری بچی۔‘‘ میں اس کی طرف بڑھتا ہوں ، درد کی ایک ٹیس۔۔۔  خون کا فوارا۔۔۔  ایک لمبی چیخ

’’کیا ہوا۔۔۔ ‘‘ساتھ والے پلنگ پر سوئی ہوئی بیوی اور بیٹی ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتی ہیں۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ، شاید خواب تھا۔۔۔  شاید۔‘‘

دونوں سہمی نظروں سے مجھے دیکھتی ہیں۔۔۔  دیکھتی ہی رہتی ہیں۔

مست بپھرے ہوئے سؤر شور مچاتے، شہر کی گلیوں اور بازاروں میں دوڑ رہے ہیں ، دروازے توڑ رہے ہیں۔

’’ٹکریں مار رہے ہیں ، ڈکار رہے ہیں۔۔۔

اور رات شہر کے گردا گرد کنڈل مار کے بیٹھی ہوئی ہے،

اور شہر جو کبھی تھا

اب خیال آتا ہے کہ شاید کبھی بھی نہیں تھا،

اندھیرے میں بتاشے کی طرح گھل رہا ہے۔۔۔  گھل رہا ہے،

گھل رہا ہے!

٭٭٭

 

چلتے رہنا بھی اِک موت ہے

جوں ہی رات دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتی ہے، کارنس پر رکھا مجسمہ آہستہ سے نیچے اترتا ہے اور اس کے سرہانے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے، وہ پوچھتا ہے۔۔۔  ’’کون؟‘‘

مجسمہ کہتا ہے۔۔۔  ’’میں ؟‘‘

’’میں کون؟‘‘

’’میں ماضی ہوں۔‘‘

وہ سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔  ’’لیکن میں تمہیں نہیں پہچانتا۔‘‘ مجسمہ مسکراتا ہے۔۔۔  ’’ماضی سے سب کو خوف آتا ہے۔‘‘

وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا اور مجسمہ کی پتھرائی آنکھوں میں منجمد یادوں کو کریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ مجسمہ کی پتھرائی آنکھوں میں شناسائی کی گرماہٹ سرا بھارتی ہے، اسے اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں کمرے کی ساری چیزیں ایک ایک کر کے گم ہونے لگتی ہیں۔ چاردیواری اپنا دامن سمیٹ لیتی ہے۔

وہ دیکھتا ہے کہ موجیں مارتا دریا اس کے سامنے ہے اور وہ مجسمے کی انگلی تھامے اس کے کنارے کنارے چلا جا رہا ہے۔

’’یہ کون سا دریا ہے؟‘‘ وہ پوچھتا ہے۔

مجسمہ لمحہ بھر کے لیے دریا کو دیکھتا ہے پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ وقت ہے اور وقت کسی کا نہیں بنتا۔‘‘

کچھ آگے جا کر کسی شہر کے آثار شروع ہوتے ہیں۔

’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘

’’یہ ہمارا وجود ہے، جسے ہم جانتے ہیں اور نہیں بھی جانتے۔‘‘

وہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔

سڑکوں پر عجب ویرانی ہے۔

وہ چلتے چلے جاتے ہیں ، لیکن کسی سے ملاقات نہیں ہوتی،

’’یہ کیسا شہر ہے جہاں کوئی نہیں رہتا۔‘‘

مجسمے کی پتھریلی آنکھوں میں زندگی رینگنے لگتی ہے اور اس کی پتھر انگلی میں لمس لہراتا ہے۔

وہ پھر اپنا سوال دہرا تا ہے۔۔۔  ’’یہ کیسا شہر ہے؟‘‘

مجسمہ ہنستا ہے اور ہنستے ہنستے اس کا پتھریلا جسم ملائم ہوتا جاتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ اس جیسے جیتے جاگتے آدمی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

وہ چونک کر اس قلبِ ماہیت کا منظر دیکھتا ہے۔

مجسمہ، جواب آدمی بن گیا ہے، اپنے ہاتھوں کو جھٹک کر پورے جسم کو ہلاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی شہر کی گلیوں ، سڑکوں پر آدمی ایسے نمودار ہوتے ہیں جیسے پلک جھپکتے میں زمین سے اُگ آئے ہوں۔

وہ لمحہ بھر کے لیے ڈر جاتا ہے۔

چاروں طرف لوگوں کے بولنے کا شور اور ان کے چلنے پھرنے کی حرکتیں اسے بوکھلا دیتی ہیں۔

’’یہ کیا ہے۔۔۔  کیا میں کسی طلسم میں پھنس گیا ہوں ؟‘‘

مجسمہ، جواب آدمی بن گیا ہے۔۔۔  کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ سب میں ہوں اور میں تم ہو۔۔۔  اس لیے یہ سب کچھ تم ہی تم ہو۔‘‘

اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔

شہر کا منظر کھلتا چلا جاتا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں باتیں کرتے لوگ اس کی موجودگی سے بے خبر اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں۔ دفعتاً منظر بدلتا ہے، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے لوگ یک دم، کسی غیبی اثر سے، اپنی بانہیں چھڑا کر دور دور ہٹ جاتے ہیں اور پھر چشمِ زدن میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک دوسرے کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ چیختے چلّاتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ وہ بھی اسی دھکم پیل اور مار دھاڑ میں بھاگ پڑتا ہے، بھاگتے بھاگتے اس کی نظر ایک بچے پر پڑتی ہے جسے دوسرا بچہ نیچے گرا کر مارنے لگتا ہے۔ وہ چیختا ہے، یہ تو میرا بیٹا ہے۔ پھر اسے خیال آتا ہے، نہیں یہ میں ہوں ، پھر دفعتاً ایک اور خیال آتا ہے، نہیں یہ میرا باپ ہے۔ نہیں یہ نہیں۔۔۔  نہیں میرا بیٹا۔۔۔  نہیں میرا باپ۔۔۔  ہم ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ وہ مارنے والا ہے اور نیچے گرا ہوا اس کا بیٹا ہے۔ نہیں نہیں مارنے والا اس کا باپ ہے اور نیچے گرا ہوا وہ ہے۔ وہ چیختا ہے۔ مجھے مت مارو مجھے مت مارو۔۔۔  وہ چیختا چلاتا جاتا ہے۔ منظر آہستہ آہستہ بدلتا ہے۔ شہر اور لڑتے لوگ دھندلے ہوتے ہوتے گم ہو جاتے ہیں۔ اس کا کمرہ آہستہ سے اسکرین پر ابھرتا ہے، رات دبے پاؤں اس کے کمرے سے نکل جاتی ہے اور مجسمہ کارنس پر جا کر پھر سے پتھر ہو جاتا ہے۔

وہ گھبرا کر ساتھ والے بستر پر سوتی بیوی اور بیٹے کو دیکھتا ہے۔

’’شکر ہے۔‘‘ وہ اطمینان کا سانس لیتا ہے۔

دن دروازے پر دستک دیتا ہے۔ وہ بستر سے اٹھتے ہوئے اپنے آپ سے کہتا ہے، ’’آج کی رات بھی بیت گئی۔‘‘لیکن اسے خوف ہے کہ کسی صبح جب وہ سو کر اٹھے گا یا تو ساتھ والے بستر پر اس کا بیٹا نہیں ہو گا، یا وہ خود نہیں ہو گا۔

اور کارنس پر رکھے مجسمہ کے ساتھ ایک اور مجسمے کا اضافہ ہو جائے گا!

٭٭٭

 

بجھی چنگاریوں میں ایک چمک

تصویر اس کے بیڈ کے بالکل سامنے اس طرح آویزاں ہے کہ سونے سے پہلے اور صبح آنکھ کھلتے ہی نظر اس پر پڑتی ہے۔ بھورے رنگ کے فریم میں قید بہت سے ہاتھ ہیں ، اٹھے ہوئے ہاتھ جن کی پھیلی ہتھیلیوں پر آگ روشن ہے۔ کھلی آنکھوں سے آگ جلاتی کاٹتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو کر دھند لا رہی ہوتی ہیں تو آگ ننھے ننھے چراغوں میں بدل جاتی ہے اور ہتھیلیوں پر رقص شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن صبح آنکھ کھلتے ہی جب اس کی نظر پڑتی ہے تو شعلے جلانے لگتے ہیں۔

وہ ان ہاتھوں کے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے کہ پھیلے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر روشن آگ کبھی اسے جلاتی ہے کبھی گدگداتی ہے اور چہرے تو کبھی اس کی گرفت میں نہیں آئے۔ یہ چہرے بھی عجیب ہوتے ہیں ، پڑھنے کے لیے جھکو تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہو تو جھک جھک پڑتے ہیں۔

تصویریں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ جس لمحہ کو چاہیں قید کر لیں ، جس لذت کو چاہیں دائمی بنا لیں ، دکھ کے لمحے کو بھی۔۔۔  لیکن دکھ کا لمحہ تو یوں بھی دائمی ہی ہوتا ہے کہ داغ مٹ بھی جائے تو کسک نہیں جاتی۔

اور یہ قیدی ہاتھ، جن کی ہتھیلیوں پر چراغ جل رہے ہیں ، اس کسک ہی کی تو یاد ہیں اور وہ چہرہ جانے اب کہاں ہو گا۔ اس کی بند ہوتی بوجھل آنکھوں میں چراغ جھلملاتے ہیں ، منظر دھیرے دھیرے اپنے بازو وا کرتا ہے اور اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے۔

وہ قدم قدم آگے بڑھتی ہے اور اپنی غلافی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہے۔

لمحہ منجمد ہو جاتا ہے۔

چراغوں کی لو میں وہ بپھرے دریا اور کھرتے کناروں کو دیکھتا ہے۔

زندگی بھی عجیب چیز ہے، سانس کے اس طرف ایک منظر اور دوسری طرف دوسرا منظر۔

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’انتظار ایک عجیب ذائقہ ہے جس کی لذت برسوں ختم نہیں ہوتی۔‘‘

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہے۔۔۔  ’’اور یہ ازل کا لمحہ ہے، شاید ابد بھی۔‘‘

خاموشی رینگ رینگ کر ان کے درمیان جمع ہو جاتی ہے۔ ایک دھند ہے، وہ اس دھند میں سائے بنے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’دریا جوش میں ہے اور انجام قریب آ رہا ہے۔‘‘

وہ مسکراتی ہے۔۔۔  ’’انجام کی پروا کسے ہے؟‘‘

دوسرے کنارے پر دو گھورتی غصہ بھری آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں ، ایک اطمینان۔۔۔  بس اب کھیل ختم ہونے والا ہے۔

اس کنارے پر وہ ہنستی ہے۔۔۔  ’’کھیل تو اب شرو ع ہو گا، ازل اور ابد ایک دوسرے سے ہم کنار ہونے والے ہیں۔‘‘

غنودگی کے اس لمحہ میں وہ آنکھیں پھیلا کر تصویر کو دیکھتا ہے۔ اٹھے ہاتھوں کی پھیلی ہتھیلیوں پر جلتے چراغوں کی لَو لمحہ بھر کے لیے تیز ہو تی ہے، پھر دھیرے دھیرے مدھم ہوتی چلی جاتی ہے، آنکھیں بند ہوتے ہوتے، وہ اس چہرے کا تصور کرتا ہے، جواب ان ہاتھوں سے دور کہیں چھپا بیٹھا ہے۔

وہ رقص کرتی آتی ہے۔

وہ ونجلی نیچے رکھ دیتا ہے۔

وہ پوچھتی ہے۔۔۔  ’’ونجلی بجانی کیوں بند کر دی؟‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’اس کی تان تو تم ہو۔‘‘

وہ ہنستی ہے۔۔۔  ’’تمہاری باتوں میں ایک عجیب مزہ ہے۔‘‘

’’ہاں ، تعلق ایک مزہ ہی ہے، ایک عجیب لذت، جس کی مٹھاس صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔‘‘

اور یہ اٹھے ہاتھ اور پھیلی ہتھیلیاں صدیوں سے منتظر ہیں

وہ لمحہ

جانے وہ لمحہ جدائی کا ہے یا وصال کا

جدائی کیا ہے؟ وصال کیا ہے؟

وہ سر ہلاتی ہے۔۔۔  ’’جدائی اور وصال ایک ہی لمحہ کے دو رُخ ہیں۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولتا۔

وہ کہتی ہے۔۔۔  ’’ہم ایک لمحے میں جدا ہوتے ہیں اور اگلے لمحے میں مل جاتے ہیں۔‘‘

’’پھر جدا ہونے کے لیے۔‘‘

’’جدائی، ایک خوشبو ہے اور جب یہ خوشبو پھیلتی ہے تو اٹھے ہاتھوں کی پھیلی ہتھیلیوں پر چراغ جل اٹھتے ہیں۔‘‘

’’یہ عجیب تصویر ہے، مجھے تو کبھی کبھی اس سے آوازیں آتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘ پھر اپنے آپ سے کہتا ہے۔۔۔  ’’وہ ابھی تک مجھے نہیں بھولی اور یہ تصویر بھی تو اسی نے بنائی تھی۔‘‘

اور دور بہت دور گھر کی آخری سیڑھی پر بیٹھی وہ سوچ رہی ہے۔۔۔  ’’وہ لوٹ کر نہیں آیا، یہ بہار بھی یوں ہی گزر گئی۔‘‘

٭٭٭

 

سوالیہ ہاتھ کے دروازوں میں

شیشے کی آنکھوں میں تیرتا سورج، دروازہ بند ہوتے ہی، اس کی گود میں آن گرا، اس نے کلبلا کر پہلو بدلا،

اس ٹھٹھرے ہوئے چہرے کی نمکین اداسی کا ذائقہ ابھی تک اس کے ہونٹوں کی پلیٹ میں سر سرا رہا تھا۔

اس نے سوچا، عجیب بات ہے میں جب بھی سفر کرتا ہوں ، میرے سامنے ایسے ہی اداس چہرے آتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب اداسی کوکتی ہے تو سارے اداس لوگ اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

اسے خیال آیا۔۔۔  وہ تو خود، دور دراز اونچے پہاڑوں میں گھری ہوئی ایسی تنہا جھیل ہے جس کی سیر کے لیے آج تک کوئی نہیں آیا۔ کسی نے اس کی تہہ میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ تہہ میں جھانکنا تو الگ، کسی نے اس کی سطح کوبھی نہیں چھوا۔

اسے تو حسرت ہی رہی تھی کہ کبھی کوئی کنکر پھینک کر ہی اس کی سوئی ہوئی سطح کو جگا دے،

لیکن وہ تو سورہا تھا۔

ایک گہری نیند،

کبھی کبھی وہ سوچتا میں سویا ہوا ہی پیدا ہوا ہوں اور اسی سوئی ہوئی حالت میں مر جاؤں گا،

بس ایک کنکر،

ایک چھوٹے سے کنکر کی خواہش ہر لمحہ اس کے سینے کے پنجرے میں پھڑکتی رہتی تھی۔

لیکن اسے تو ہمیشہ اداس اور سوتے ہوئے چہروں ہی سے واسطہ پڑتا تھا،

اور اب پھر یہ اداس، سویا ہوا چہرہ ریل کار کی نشستوں کی بالکونی میں سے جھانک جھانک کر اسے اپنی طرف بلا رہا تھا،

یہ چہرہ۔۔۔

یہ چہرہ تو کسی بکھرے ہوئے خواب کے خیمہ کی ٹوٹی ہوئی طناب تھا، جو اس کے سامنے لٹک رہی تھی۔

خواب۔

لیکن خواب تو وہ خود بھی تھا کہ اس نے ہمیشہ خواب ہی میں چیزوں کو دیکھا اور پہچانا تھا،

آنکھ کھلتی تو اس کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہ ہوتا۔

بس ریزہ ریزہ یادیں اور بکھرے ٹوٹے چہرے، لیکن ان سب ٹوٹے پھوٹے چہروں میں ایک چہرہ ایسا ضرور تھا، جسے وہ مدتوں سے تلاش کر رہا تھا، مگر شاید وہ چہرہ نہیں تھا، بلکہ کسی چہرے کی دھند لی سی شبیہ تھی۔ اس نے ہمیشہ اس دھندلی شبیہ کو ٹکڑوں اور ریزوں ہی میں دیکھا تھا، کبھی اس چہرے کی پیشانی کسی دوسرے چہرے کی ٹیرس سے جھانکتی ہوئی نظر آ جاتی، کبھی اس چہرے کی آنکھیں کسی دوسرے چہرے کی اَدھ کھلی کھڑکیوں میں آن کھڑی ہوتیں۔

کبھی ہونٹ۔۔۔  کبھی ٹھوڑی اور کبھی کوئی اور حصہ کسی نہ کسی دوسرے چہرے کی عمارت میں سے جھانک کر اسے اپنی طرف بلا لیتا، لیکن پورا چہرہ۔

وہ پیشانی۔۔۔  آنکھیں۔۔۔  ہونٹ، کبھی ایک ساتھ نظر نہیں آئے تھے،

اور اس وقت بھی اس سامنے بیٹھے اداس چہرے پر پڑتی اداسی کی پھوار میں چھپی آنکھیں بار بار اس کی شناسائی کے دروازے پر دستکیں دے رہی تھیں ،

تو دکھ بھی ایک رشتہ ہے،

اور ہم سب درد کی اس سلائی میں پروئے ہوئے وجود ہیں جنہیں بھڑکتی آگ پر روسٹ کیا جا رہا ہے،

اور یادیں۔۔۔

یادیں تو اب لمحہ کے  بطن میں چھپی ہوئی ہیں ،

بس ایک لمحہ۔۔۔

اور جب اس لمحہ کے نافے میں سے دکھ کی خوشبو نکلتی ہے تو لمحہ پھیل کر صدیوں کے دامن کو جا چھوتا ہے۔

پہلے دکھ کے لفظ سالوں کے صفحوں میں بھی پورے نہیں آتے تھے،

لیکن اب۔۔۔

اب تو ایک لمحہ ہی صدیوں جیسی گہرائی لیے ہوئے ہے،

بس ایک لمحہ۔۔۔

اور یہ وہی لمحہ تھا، جب اس چہرے کی شبہہ میں سے کوئی ایک بکھرا سا ٹکڑا اس کے سامنے آ جاتا اور اسے یہ احساس ہونے لگتا کہ وہ ابھی تک سویا ہوا ہے،

بس ایک کنکری کے انتظار میں جو شاید اس چہرے میں چھپی ہوئی تھی۔

لیکن وہ چہرہ تو ٹکڑے، ٹکڑے۔ بکھرے بکھرے۔

اور اس وقت بھی اس کی آنکھوں پر کھڑی یہ سانولی اداسی اسے آوازیں دے رہی تھی۔

تو یہ بھی میر ی طرح ایک دکھی چہرہ ہے، اس نے سوچا اور کھڑکی میں سے باہر جھانکنے لگا۔

اس کے تازہ رسے کانوں میں پڑے مُندرے اس کے گالوں کی سرحدوں کو چھو رہے تھے اور ہاتھ میں پکڑا ہوا کاسا سامنے کھڑے مانوس چہرے کے سامنے پھیلا ہوا تھا،

خوشی کا ایک حرف

بس ایک حرف۔۔۔  صرف ایک حرف

لیکن اس کے کاسے میں تو چھید تھا۔

اس نے کندھوں پر بیٹھی ہوئی اداسی اور دکھ کی چڑیوں کو اُڑانا چاہا، چڑیاں ریل کار میں منڈلانے لگیں اور ان میں سے ایک سامنے والے چہرے کی اداس چھاؤں میں سکڑ کر بیٹھ گئی۔

طویل داستانیں کئی کئی سلگتے دنوں اور کئی کئی ٹھٹھرتی راتوں کے بدن پر پھیلی ہوئی تھیں۔

لیکن اب

اب تو صرف ایک لمحہ ہے، بس ایک لمحہ

دریا کی ٹھنڈی، اچھلتی لہروں نے اس کے جسم کی دیواروں کو پہلا بوسہ دیا۔ اس سے چند ہی فٹ کے فاصلہ پر لہریں اس چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اٹھائے بھاگے چلی جا رہی تھیں۔

اور چند ہی فٹ ادھر۔۔۔

موت اس کے ٹھنڈے لبوں کو بوسہ دے رہی تھی،

لیکن موت تو پھسلتی ریت ہے،

جو ہر بار اس کے وجود کی چھلنی میں سے نیچے جا گرتی ہے،

مسکراہٹ ایک اداس رنگ تتلی کی طرح اس کے ہونٹوں کی ڈالی پر آن بیٹھی،

ترکش درخت کی آخری ٹہنی پر اٹکا ہوا تھا اور وہ اسے چاروں طرف سے گھیرے کھڑے تھے۔ اس نے گرنے سے پہلے سامنے لٹکے ہوئے اداس چہرے کو اپنی آنکھوں کی زبان سے بوسہ دیا اور ریل کار کی کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگا۔ زمین تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہی تھی اور اداسی بھاگتی زمین پر پاؤں جماتی اس کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے سارے تیر ٹوٹے ہوئے تھے اور بے بسی کی چیلیں اپنی آنکھوں میں بھوک کی شمعیں جلائے اس کے چاروں طرف منڈلا رہی تھیں۔

اس نے کھڑکی بند کر دی اور ایک دول محے تذبذب کے رسے پر جھولنے کے بعد اس اداس چہرے پر کود گیا،

وہ کھردرا، ٹھنڈا چہرہ ویران پڑا تھا۔

اس نے اپنے شوق کی پوروں سے اس کے چپّے چپّے کو ٹٹولا اور اپنی تمنا کی زبان سے چاٹ چاٹ کر اسے جگانا چاہا کہ شاید وہ گمشدہ شبیہ کہیں چھپی ہوئی نظر آ جائے، لیکن یہ اداس چہرہ تو اس کے اپنے دل کی طرح ٹھنڈا ہے۔

اس کا دل۔۔۔

اس کے سینے میں دل کی جگہ ایک پنجرہ ہے جس میں ایک پرندہ قید ہے۔

کبھی یہ پرندہ خود ہی چہکنے لگتا، کبھی خود ہی مرجھا کر گر پڑتا اور اس کے پر پنجرے کی تیلیوں سے ٹکرا ٹکرا کر بکھر جاتے،

اور اس کی ساری خواہشیں بکھرے پروں کے تابوت میں سج کر اس کے بدن کے گلی کوچوں میں سے گزرتیں اور دور پہاڑوں میں گھری ہوئی تنہا جھیل میں چھپا ہوا کوئی دھندلاتے دھندلاتے ہواؤں میں گم ہو جاتا،

اور پھر کبھی راہ چلتے

کبھی کسی ریستوراں میں

کبھی کسی سینما ہاؤس میں

کبھی کسی تقریب

کبھی کسی سفر میں

اس چہرے کا کوئی نہ کوئی بکھرا ٹکڑا اس کے سامنے آن کھڑا ہوتا

کبھی آنکھیں

کبھی ہونٹ

کبھی پیشانی

کبھی کچھ۔۔۔  کبھی کچھ

اور  اس وقت بھی اس اداس چہرے کے البم میں سجی ہوئی یہ آنکھیں ، وہ ان آنکھوں میں تیرتے خوابوں کے چمکیلے ریشمی لمس کو اپنی انگلیوں سے چھونا چاہتا ہے، لیکن اس کی انگلیوں کی پوروں پر تو لمبی لمبی نکیلی چونچوں والے پرندوں کے گھونسلے ہیں جو اس سرمئی لمس کو اس کے قریب آنے سے پہلے ہی تار تار کر دیتے ہیں۔

تار تار تو وہ خود بھی ہے

ایک تار تار چادر

اسی لیے ہر چیز اس کے بدن کی چھلنی میں سے نیچے جا گرتی ہے، چمکیلے لمس والے خواب، دھندلی شبیہیں بناتے چہرے اور سرسراتی یادیں۔

اس کے اپنے پاس بھی کچھ بھی نہیں۔

بس ایک سوچ۔۔۔

جو جانے کیسے اس کے تار تار بدن کی دھجیوں سے چپک کر رہ گئی ہے، ایک خواہش۔۔۔  کہ کوئی جھیل کی سوئی ہوئی سطح پر ایک کنکری پھینکے، بس ایک چھوٹی سی کنکری،

اور اس نے کئی بار اپنے آپ کو جدائی کے سانپ سے بھی ڈسوایا ہے لیکن زہر اس کے بدن کے چھیدوں میں سے قطرہ قطرہ ٹپک جاتا ہے۔ ہاتھوں کے چلوؤں میں کئی بار چمکیلے خوابوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے لیکن جب خواب بوند بوند اس کے ہاتھ کے بُک میں جمع ہوتے ہیں تو کوئی سسکار جیسی آنکھوں سے اس کی ہتھیلیوں میں چھید کر دیتا ہے۔ سارے خواب قطرہ قطرہ نیچے جا گرتے ہیں اور اسے اس وقت معلوم ہوتا ہے جب اس کی دونوں ہتھیلیوں پر خالی پن پھر سے ناچنے لگتا ہے۔

وہ دوبارہ جھیل بن جاتا ہے۔

ایک کنکری کے انتظار میں۔۔۔  بس ایک چھوٹی سی کنکری کے انتظار میں۔

اس نے مڑ کر اس اداس چہرے کی تلاشی لینا شروع کر دی، لیکن اس ویران چہرے کی گلیوں میں شناسی کی ایک بھی شمع روشن نہ تھی۔

تو کیا پھر ان کے درمیان صرف دکھ ہی کا رشتہ ہے۔

اس نے کھڑکی میں سے باہر جھانک کر تازہ ہواؤں کو اپنے سانسوں کے رسوں میں جکڑنے کی کوشش کی، جس طرح وہ کبھی اپنے تار تار بدن کی کھڑکیوں میں سے جھانک کر پاس سے گزرتی چیزوں کے لمس کو پکڑنے کی کوشش کیا کرتا تھا، لیکن جونہی کوئی شے اس کے ہاتھوں کی گرفت میں آنے لگتی، اس کی انگلیوں کی پوروں پر بیٹھے ہوئے سارے پرندے پھڑپھڑا کر اپنے گھونسلوں سے نکل آنے اور خواہشیں دھجی دھجی ہو کر چاروں طرف بکھر جاتیں۔

وہ بھوکے بچے کی طرح طرح بلک بلک کر خود ہی سو جاتا

اور وقت کی غلیل میں سے کئی دن ایک ایک کر کے ماضی کی جھولی میں جا گرتے۔

پھر کسی بس اسٹاپ پر

کسی ریستوراں میں

کسی تقریب میں

کسی سفر میں

اس چہرے کا کوئی بکھرا ٹوٹا ٹکڑا کسی دوسرے چہرے کی پلیٹ میں سج کر اس کے سامنے آ جاتا۔

اور پھر وہی ہتھیلیوں کی اوک میں خوابوں کو بوند بوند اکٹھا کرنا

اور۔۔۔  اور۔۔۔

اس نے پہلو بدل کر اپنا سر دوسری طرف کر لیا، آج وہ اپنی ہتھیلیوں کا بُک نہیں بنائے گا۔

وہ تیزی سے گزرتے کھمبوں کو گننے لگا۔

ایک، دو، تین۔۔۔  چوتھے کھمبے کی جگہ وہ چہرے سامنے آگیا۔

اس نے سر جھٹک کر گزرتے درختوں کو پکڑنا چاہا

ایک، دو، تین۔۔۔  چوتھے درخت کی بجائے وہی چہرہ

پھر اس نے بھاگتی زمین کی طرف دیکھنا شروع کیا،

لیکن وہ وہاں بھی تھا۔

وہ تو بادلوں کے بکھرے ٹکڑوں میں بھی تھا۔

اس نے سر اندر کر لیا۔

وہ اداس چہرہ سامنے موجود تھا۔

تو کیا اداس چہرے ہی میرا مقدر ہیں۔۔۔  اس نے سر جھٹکا، لیکن اسے احساس ہوا کہ اس کی گردن کی حرکت بہت ہلکی ہے۔ اس کے ہاتھوں نے بے ساختہ اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا لیکن اس کی انگلیاں خلا میں جھول کر رہ گئیں۔

اس کی گردن پر کچھ بھی نہیں تھا،

تو وہ دیکھ کہاں سے رہا ہے۔۔۔  اس کی آنکھیں

اس کی آنکھیں تو سامنے والے اداس چہرے پر تھیں ، اس کے ہونٹ، اس کے گال، اس کے کان۔۔۔  خدا جانے کہاں کہاں کس کس چہرے میں چھپے ہوتے تھے،

تو اصل میں وہ اب تک اپنا ہی چہرہ تلاش کرتا رہا ہے۔

اس رات وہ ایک مکان کی دیوار پھاند کر اندر کود گیا اور ایک عورت کے بستر میں چپکے سے گھس کر گم ہو گیا۔

بستر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا، ’’شاید اس بار پورے چہرے کے ساتھ پیدا ہو جاؤں۔۔۔  شاید۔‘‘

٭٭٭

 

ایک نسل کا تماشا

مجھے معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور اس لمحے کو بھی دیکھ سکتا ہوں جب ایک روز گزرتے ہوئے بادشاہ کی نظر ایک درویش پر پڑی۔ بادشاہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور درویش کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔  ’’اے شیخ! کیا تو جانتا ہے کہ میں شاہِ وقت ہوں ؟‘‘

درویش نے یہ سن کر خندہ کیا،

بادشاہ نے پوچھا۔۔۔  ’’’’تم ہنسے کیوں ؟‘‘

درویش بولا۔۔۔  ’’تیری کم عقلی اور تیرے جہل اور تیرے نفس اور تیرے حال پر۔‘‘

یہ سن کر بادشاہ پر ایسی کپکپی طاری ہوئی کہ وہ رونے لگا اور گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ وہیں کھڑے کھڑے بادشاہی سے ہاتھ کھینچا اور درویش کی خدمت میں داخل ہو گیا۔ تین روز تک درویش نے اسے اپنی نگاہ میں رکھا، تیسرا دن گزرنے پر اس کے لیے تھوڑی سی رسی کا بندوبست کیا اور کہا۔۔۔  ’’اے شخص! مہمانی کے دن پورے ہو گئے، اب لکڑی کاٹنے کا کام کر۔‘‘

درویش کے حکم کے مطابق بادشاہ، جو اب ایک عام شخص تھا، اس کام میں مشغول ہو گیا۔ لکڑیوں کا گٹھڑ سر پر دھر کے بازار میں آیا، لوگ اسے دیکھتے اور روتے تھے۔ اس نے گٹھڑ بیچا اور اس کے مول میں سے اپنی روکھی سوکھی کے لیے کچھ گرہ میں ڈالا اور باقی صدقہ کیا۔

اب یہی معمول ٹھہرا اور یونہی یہ درویش بادشاہ دربدر کی خاک چھانتا ایک روز خود رزقِ خاک ہوا۔ بعد ایک مدت کے اسی خاک سے ایک اور درویش نے جنم لیا اور صدیوں کی مسافتیں طے کرتا اس شہرِ نا پرساں میں وارد ہوا۔ جس روز وہ شہر کی فصیل سے اندر آیا، اتفاق سے وہی دن تھا جب اس شہرِ نا پرساں کا بادشاہ جلوس کرتا شہر کی سڑکوں سے گزر رہا تھا۔ درویش بھی ایک طرف کھڑا ہو گیا، بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو پوچھا۔۔۔  ’’اے شخص تو نووارد لگتا ہے اور صورت سے فقیر دکھائی دیتا ہے، کیا تو جانتا کہ میں شاہِ وقت ہوں ؟‘‘

درویش ہنسا،

بادشاہ نے پوچھا ’’تو ہنسا کیوں ؟‘‘

درویش نے کہا۔۔۔  ’’حالات کے تغیر پر کہ جو بادشاہ تھا، وہ حقیقت آشنا ہو کر فقیر بنا اور فقیر نے اپنا منصب کھویا تو بادشاہ ہوا۔‘‘

یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا، اس نے حکم دیا کہ درویش کو شہر کے بڑے چوراہے میں کوڑے لگائے جائیں تا کہ وہ جان لے کہ بادشاہ کون ہے اور فقیر کون؟

شہر کے بڑے چوراہے میں ٹکٹکی پہلے سے موجود تھی، درویش کو وہاں لائے۔ تماشا دیکھنے کو سارا شہر اُمڈ آیا کہ شہر کے لوگ تماش بین تھے۔ خود بھی تماشا بنتے اور دوسروں کو بھی تماشا بناتے۔

یہ روز کا معمول تھا کہ اس بڑے چوراہے میں کسی ایک کو کوڑے لگائے جاتے۔ ہجوم میں سے آدھے خوش ہوتے اور  تالیاں بجاتے اور آدھے افسوس کرتے۔ افسوس کرنے والوں میں مَیں بھی شامل ہوں ، لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ تماشا ہے کیا؟

’’تمہیں معلوم ہے؟‘‘ میں ساتھ والے سے پوچھتا ہوں۔

وہ خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتا ہے، پھر کندھے اچکائے ہوئے کہتا ہے۔۔۔  ’’بس یہ ایک تماشا ہے، ایک منظر اور ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ وہ جو ٹکٹکی پر بندھا ہے اور ہم جو یہ سب دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’تو کیا دیکھتے جانا ہی ہمارا مقدر ہے؟‘‘

بس دیکھتے جانا۔۔۔  لیکن میں صرف دیکھنا نہیں چاہتا کچھ جاننا بھی چاہتا ہوں۔

’’شش‘‘۔۔۔  وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔۔۔  ’’خاموش رہو۔۔۔  دیکھنے سے آگے جاننے کی حد شروع ہوتی ہے۔‘‘

ایک بادشاہ نے اپنے غلاموں سے کہا کہ ایک مہمان آنے والا ہے، تم سونے کا ایک ایک پیالہ پکڑے کھڑے رہو۔ ایک غلام اس بادشاہ کا خاص مقرب تھا، اسے بھی حکم دیا کہ ایک پیالہ پکڑے۔ جب بادشاہ نے صورت دکھائی تو وہ خاص غلام بادشاہ کے دیدار سے بے خود و سر مست ہو گیا۔ پیالہ اس کے ہاتھ سے جا گرا اور ٹوٹ گیا۔ دوسرے غلاموں نے یہ دیکھا تو سمجھے کہ شاید ایسا ہی کرنا چاہئے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے پیالے زمین پر دے مارے اور توڑ ڈالے۔ بادشاہ سخت برہم ہوا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟ وہ بولے جہاں پناہ کے مقرب خاص نے ایسا کیا تھا۔ بادشاہ بولا، بے وقوفو! وہ اس نے نہیں میں نے کیا تھا۔

یہ سارا شہر ایک عجب سرمستی کے عالم میں ہے، میلے پر آئے ہوئے شخص کی طرح۔۔۔  ہر طرف ایک میلہ ہے، ٹکٹکی کے گرد بھی میلہ ہی ہے، اسی میلے کی ہو ہاؤ میں درویش کو ٹکٹکی سے اتارا گیا۔ بہت سے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ ایک نے پوچھا۔۔۔  ’’ہمیں بتاؤ، ہمیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘

درویش نے کہا۔۔۔  ’’تمھیں نسیان ہو گیا ہے اور سارا شہر ہی شہرِ نسیان ہے۔‘‘پھر درویش نے انہیں ایک حکایت سنائی،

ایک قافلہ رات کے گھپ اندھیرے میں جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو صحیح طور پر دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ وہ چلتے رہے اور اپنے اپنے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے درمیان ایک خونخوار بھی موجود ہے۔ اسے دیکھ کر خوف سے ان کے قدم رک گئے اور آوازیں بند ہو گئیں۔ وہ اس کے سامنے ساکت و جامد ہو گئے۔

یہ حکایت سن کر ان میں سے ایک نے سر اٹھایا۔۔۔  ’’تو یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔‘‘

اور یہ سارا تماشا رات کا ہے۔ رات تو اپنے اندھیرے میں شکلیں بدل دیتی ہے۔ کیا معلوم وہ خونخوار جانور انہی میں سے کسی ایک کی بدلی ہوئی صورت ہو اور ایک ایک کر کے وہ سارے ہی اسی طرح کے جانوروں میں بدل جائیں۔

میرا نام کیا ہے۔۔۔  میں کون ہوں ؟

ایک شخص راستہ بھٹک کر ایک بیاباں میں جا نکلا۔ بھوک اور پیاس سے اس کی حالت بری تھی۔ اتنے میں ایک خیمہ دکھائی دیا۔ مارا مارا وہاں پہنچا تو ایک عورت دکھائی دی۔ مسافر نے اس سے پانی مانگا۔ عورت نے مسافر کو پانی دیا جو آگ سے زیادہ گرم اور نمک سے زیادہ کھاری تھی۔

ہونٹوں سے گلے تک جہاں سے پانی گزرا، سب کچھ جلتا گیا۔ مسافر نے بڑی شفقت سے عورت کو کہا۔۔۔  تم نے مجھ پر بڑی مہربانی کی۔ میرا خیال ہے کہ شہر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہو گا۔ تم نے خود کو کیوں مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ اگر کسی طرح راستہ تلا ش کر کے وہاں پہنچ جاؤ تو وہاں میٹھا اور ٹھنڈا پانی ملے گا اور طرح طرح کی نعمتیں بھی میسر آئیں گی۔ اتنے میں اس عورت کا شوہر آگیا۔ وہ چند جنگلی چوہے شکار کر کے لایا تھا۔ اس نے عورت سے کہا کہ انہیں پکائے۔ اس میں انہوں نے کچھ مسافر کو بھی دئیے۔ مسافر مصیبت کا مارا بھوکا تھا مجبوراً انہیں بھی کھا گیا اور خیمہ کے باہر سو رہا۔ عورت نے اپنے شوہر سے کہا۔۔۔  تم نے سنا، اس مسافر نے شہر کی کیا کیا تعریفیں کیں اور کیا کیا قصے سنائے۔ پھر وہ تمام گفتگو جو مسافر نے کی تھی، خاوند کے سامنے دہرائی۔ خاوند نے سب کچھ سن کر کہا۔۔۔  ’’ٹھیک ہے وہاں میٹھا پانی اور لذیذ کھانا ملتا ہے لیکن انسان، انسان نہیں رہتا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ عورت نے پوچھا۔

’’وہ جانور بن جاتا ہے۔۔۔  خونخوار جانور۔‘‘

جنگل میں ایک میلہ ہے جس میں ہر طرف ہو ہاؤ کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ کان پڑی صدا سنائی نہیں دیتی۔ چہرے کون یاد رکھے اور نام کون جانے۔۔۔  کوڑا لہراتے ہوئے ایک آتا ہے، اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے، پھر دوسرا۔۔۔  اس کے بعد تیسرا اور یہ سلسلہ۔۔۔  کون بادشاہ ہے کون درویش؟ کبھی بادشاہ درویش بن جاتا ہے اور کبھی درویش بادشاہ، کیا کریں ، کس کی سنیں ، کس کے ساتھ چلیں ؟

یہ تماشا ایک نسل کا ہے یا کئی نسلوں کا؟

جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ بولتا نہیں۔ بس امڈتی اندھیری رات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی رضا گھٹی میں پڑ چکی ہے تو پھر ایسی صورت میں چند لمحوں کے لیے سر اٹھا بھی لیا تو کیا اور نہ اٹھایا تو کیا؟

ایک شیر نے ایک ہرن کا پیچھا کیا، ہرن بھاگ کھڑا ہوا۔ اس وقت دو ہستیاں تھیں ، ایک شیر اور دوسرے ہرن، لیکن جب شیر نے اسے جالیا اور وہ شیر کے پنجۂ اجل میں آگیا تو شیر کی ہیبت نے اسے بے ہوش کر دیا اور وہ بے خود ہو کر شیر کے سامنے گر گیا، اس لمحہ صرف شیر ہی ایک ہستی باقی رہ گیا۔

ایک لمحہ آیا، گزر گیا۔

کہتے ہیں ، زمین میں ایک چھوٹا سا حیوان ہے جو زمین کے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اور ظلمت میں رہتا ہے۔ اس کی آنکھ اور  کان نہیں ہیں ، اس لیے کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں آنکھ اور کان کی ضرورت نہیں ، تو پھر جب اسے آنکھ اور کان کی ضرورت ہی نہیں تو اسے آنکھ اور کان کیوں دئیے جائیں۔

اس جنگل کے میلے میں آنکھ اور کان کی ضرورت کا احساس ہے بھی کسے؟

درویش سر نیوڑائے ٹکٹکی کے نیچے بیٹھا ہے۔ اس کے نتھنوں میں بادشاہ کے دستر خوان کی گرم گرم خوشبو ہلکورے لیتی ہے۔

’’میرا مقام بادشاہ کا دستر خوان ہے یا یہ ٹکٹکی؟‘‘ وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے۔

دفعتاً اس اپنے آپ سے گھن سی آتی ہے۔

’’تف ہے مجھ پر کہ میں گرم خوشبوؤں کے حصار میں پھنس گیا۔ میرا مقام شاہی دستر خوان نہیں یہ ٹکٹکی ہے۔‘‘

کہتے ہیں کہ اسی رات درویش نے شہر چھوڑ دیا۔ صبح بادشاہ کے جی میں جانے کیا آیا کہ بھرے دربار میں تخت سے اترا، شاہی چغہ اتار کر اپنے اجداد کا خرقہ پہنا اور ٹکٹکی کے پاس آ بیٹھا۔

آگے کی کہانی مجھے معلوم نہیں ، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور درویش اور بادشاہ دونوں کو اسی طرح جانتا ہوں جیسے اپنے آپ کو۔

٭٭٭

 

ایک کہانی اپنے لیے

زندگی کے طویل خارزار میں وہ مجھے چند لمحوں کے لیے ملتی ہے اور اس کے بعد اداسی کی لمبی شاہراہ ہے جس پر میں اکیلے ہی سفر کرتا ہوں ، یہ چند لمحوں کی ملاقات ہی اس طویل خارزار میں میرا زادِ راہ ہے۔ مجھے لگتا ہے، میری زندگی ایک نہ ختم ہونے والی اداس شام ہے جس کے زرد جھروکوں سے وہ کبھی کبھی، چند لمحوں کے لیے نمودار ہو تی ہے اور اپنے پیچھے ایک اداسی چھو ڑ کر غائب ہو جاتی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ کون ہے؟ اور اس کے کتنے روپ ہیں۔ میں نے تو اسے ہمیشہ ایک نئے روپ میں ہی دیکھا ہے۔

الگ الگ صورتوں ، جدا جدا شکلوں ،

لیکن ان سب کے پیچھے وہ ایک ہی ہے، وہی مجھے اداس کر دینے والی، جس کا کوئی ایک نام نہیں ، کئی نام ہیں۔

اس کا مجھ سے ملنا بھی عجیب ہے اور جدا ہونا بھی عجیب،

ان دونوں کا درمیانی وقفہ کبھی کبھی تو چند لمحوں کا ہوتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ میر ی زندگی کی راہ داری کے ایک سرے سے داخل ہوتی ہے اور تیز تیز چلتی دوسرے سرے سے نکل گئی ہے۔ اس کے آنے اور جانے کا احساس مجھے اس اداسی سے ہی ہوتا ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔۔۔  لیکن کبھی کبھی کیا برسوں بیت جاتے ہیں اور میری اس سے ملاقات نہیں ہو پاتی اور یہ برسوں بعد ہی کی بات ہے، بلکہ یوں لگتا ہے صدیاں بیت گئی ہیں۔

بس اس شام وہ اچانک ہی مل گئی۔ میں ایک دوست کی شادی میں گیا تھا، واپسی پر اس نے مجھ سے کہا کہ ایک صاحبہ کو راستے میں اتارتے جانا۔ میں نے کہا۔۔۔  ’’ٹھیک ہے، مجھے ادھر ہی جانا ہے۔‘‘

چند لمحوں کے بعد وہ آ گئی۔۔۔  میں نے اسے پہچانا نہیں۔

جب گاڑی گلی سے نکلی تو وہ بولی۔۔۔  ’’سنا ہے آپ کہانیاں لکھتے ہیں۔‘‘

میں نے سر ہلایا۔

’’مجھے بھی بڑا شوق ہے۔ لیکن میں لکھتی نہیں ، بس پڑھتی ہوں۔‘‘

’’لکھتی کیوں نہیں ؟‘‘

’’بس‘‘۔۔۔  اس نے عجب شانِ بے نیازی سے سر ہلایا۔ چند لمحے خاموشی رہی، پھر بولی۔۔۔  ’’جب آدمی کوئی کہانی پڑھتا ہے تو اس میں بس جاتا ہے۔‘‘

اس کے لہجے میں عجب طرح کی اداسی تھی، بس اسی لمحے میں نے اسے پہچان لیا لیکن میں اسے بتا نہ سکا، نہ یہ پوچھ سکا کہ اتنا عرصہ وہ کہاں رہی۔۔۔  میں تو کبھی اسے نہیں بتا سکا کہ میں اسے پہچان سکتا ہوں اور نہ کبھی یہ پوچھ سکا کہ میرا اس کا رشتہ کیا ہے؟

 اس لمحے بھی جب وہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی عجب شانِ بے نیازی سے مجھے دیکھے جا رہی ہے۔

’’آپ اور کیا کرتے ہیں ؟‘‘ اس کے سوال نے مجھے چونکایا۔

اس کی سوالیہ نظریں جانے کب سے میرے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔

’’پڑھاتا ہوں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ ‘‘ اس نے ایسے کہا جیسے یہ کوئی اہم بات نہ ہو۔

پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ کچھ بول نہیں رہی تھی اور میرا تو ازل سے اس کے سامنے یہی حال رہا ہے کہ زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ میں تو اسے آج تک کچھ بھی نہیں بتا پایا، لیکن بتانے کے لیے ہے بھی کیا؟

’’آپ کے کتنے بچے ہیں ؟‘‘وہ پھر سراپا سوال بھی ہوئی تھی۔

’’تین‘‘

’’اچھا۔۔۔ ‘‘ اس اچھا میں نہ حیرت تھی نہ کوئی اور جذبہ۔

’’اور آپ کیا کر رہی ہیں ؟‘‘ میں نے بڑی جرأت سے پوچھا۔

’’بی اے کا امتحان دیا ہے، نتیجے کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

’’پھر کیا کریں گی؟‘‘

’’شاید ایم اے کر لوں۔۔۔  آ پ کے یہاں ایم اے کی کلاسیں ہیں نا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں میں نے کیا کہا۔۔۔  یاد آیا، کئی برس پہلے وہ اسی طرح مجھے ملی تھی، کلاس کی سب سے اگلی سیٹ پر، پہلے ہی دن میں نے اسے پہچان لیا تھا، لیکن وہ مجھے پہچان نہ سکی۔ دو سال یوں گزر گئے جیسے لمحوں کو پَر لگ گئے ہوں۔ آخری دن جب الوداعی تقریب ہو رہی تھی، وہ میرے پاس آئی۔ اس کے ہاتھ میں سرخ گلاب تھا۔

اس نے کہا۔۔۔  ’’سر! اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یہ پھو ل آپ کے کالر میں لگا دوں ؟‘‘

میں کچھ نہ بولا۔۔۔  بس یہ سوچتا رہا کہ آخر اس نے مجھے پہچان ہی لیا، لیکن دو سال کیوں خاموش رہی؟

پھول لگاتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس کے بعد وہ مجھے نہیں ملی لیکن اس کی بھیگی آنکھیں اب بھی میرے ساتھ ہیں۔

اس لمحے جب وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی۔۔۔  ’’اگر میں پاس ہو گئی تو داخلہ مل جائے گا۔‘‘

اس کی آنکھوں میں وہی اپنائیت، وہی بھیگا پن ہے۔

برسوں پہلے یہی بھیگا پن اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں تھا جب میں پہلی بار اپنی بیوی کے ساتھ اس کے گاؤں گیا تھا۔ گاؤں میں کسی عزیز کی شادی تھی۔ میری بیوی اور دوسرے لوگ ساتھ والی بڑی حویلی میں تھے۔ مجھے باہر کی طرف کھلنے والے ایک کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا۔

میں اپنے ساتھ ایک نئی کتاب لے گیا تھا اور اسی میں منہمک تھا کہ آواز آئی۔۔۔  ’’آپ چائے تو نہیں پئیں گے؟‘‘

میں نے چونک کر سر اٹھایا، وہ دہلیز پر کھڑی تھی۔

’’جی۔۔۔ ‘‘

شہر کے لوگ چائے بہت پیتے ہیں نا‘‘۔۔۔  وہ کھلکھلائی۔

’’اگر آپ کہیں تو آپ کے لیے چائے بنا لاؤں ؟‘‘

’’جی۔۔۔ ‘‘ میں بوکھلایا ہوا تھا۔

’’اچھا بنا لاتی ہوں۔‘‘۔۔۔  وہ دہلیز کے پار اندھیرے میں غائب ہو گئی۔ چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ میری بیوی کی رشتہ دار ہے۔ اس نے کہا۔۔۔  ’’آپ تو مجھے نہیں جانتے، لیکن میں آپ کو پہچانتی ہوں ، میں باجی کی شادی میں بھی آئی تھی۔‘‘

میں اسے کیسے بتاتا کہ میں تو اسے صدیوں سے جانتا ہوں۔ وہ ہمیشہ یونہی میری زندگی کی دہلیز پر کھڑے ہو کر چند لمحوں کے لیے مجھ سے بات کرتی ہے اور پھر وقت کے سرابوں میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔

وہ کہہ رہی تھی۔۔۔  ’’میں آپ کی کہانیاں بھی پڑھتی ہوں۔‘‘

’’اچھا‘‘۔۔۔  میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔

کہنا تو میں چاہتا تھا کہ کبھی مجھے بھی پڑھ لو، میں ایسی کہانی ہوں جو صرف اسی کے لیے ہے، لیکن یہ بات تو میں اس وقت بھی اس سے نہ کہہ سکا جب وہ میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ پورے دو برس ہم ایک ہی کلاس میں رہے۔ روز ملتے، نوٹس تبدیل کرتے، گھنٹوں کورس کی باتیں کرتے لیکن ان دو برسوں میں مَیں اسے یہ نہ بتا سکا کہ میں اسے پہچان گیا ہوں اور نہ یہ پوچھ سکا کہ اس نے بھی مجھے پہچانا ہے یا نہیں۔

آخری دن جب سب ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے اس نے مجھے کہا۔۔۔  ’’معلوم نہیں زندگی کی شاہراہ پر کبھی دوبارہ مل پائیں یا نہیں ، لیکن میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘‘

اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ یہ بھیگی آنکھیں ہی تو میرا سرمایہ ہے۔ میں اس سرمائے کو برسوں سے سنبھالے پھر رہا ہوں ، اس لمحے سے جب میری عمر سات سال تھی۔

ہم صبح راولپنڈی جار ہے تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ملاقات کے لیے آئی تھی۔ اس کے ابو میرے والد کو اب بھی سمجھا رہے تھے کہ سرینگر چھوڑ کر نہ جاؤ۔

میرے والد بڑے یقین سے کہہ رہے تھے،’’بس چند دنوں کے لیے جا رہا ہوں۔ میری بہن امرتسر سے وہاں آ گئی ہیں ، ان سے ملنا ضروری ہے۔‘‘

اس کے والد بولے۔۔۔  ’’دیکھو حالات ٹھیک نہیں ہیں ، ایسا نہ ہو کہ تم وہاں پھنس کر رہ جاؤ۔‘‘

میرے والد نہیں مانے۔۔۔  اس لمحے میں اور وہ گیلری میں کھڑے تھے۔ وہ چپ چاپ مجھے دیکھتی رہی، ایک لفظ بھی نہ بولی۔ جب وہ لوگ جانے لگے تو آہستہ سے بولی۔۔۔  ’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘

میں نے دیکھا۔۔۔  اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ، میں ان بھیگی آنکھوں کو ساتھ لے آیا۔۔۔  اگلے دن ہم راولپنڈی پہنچ گئے اور تین دن بعد راستے بند ہو گئے۔ سرینگر بارڈر کے اُس پار رہ گیا۔۔۔  وہ بھی بارڈر کے اس پار رہ گئی، لیکن اس کی بھیگی آنکھیں اب بھی میرے پاس ہیں۔ برسوں بیت گئے، اس کا چہرہ دھند لا گیا۔

شاید صدیوں بعد کی بات ہے۔۔۔  ہمارے پڑوس میں نئی آوازیں سنائی دیں۔ امی نے بتایا کہ نئے پڑوسی آ گئے ہیں۔

شام کو ہم لوگ ان کے یہاں آ گئے۔ جونہی اس نے چائے کی پیالی میرے ہاتھ میں دی، میں نے اسے پہچان لیا، لیکن اس کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ ایک لمحہ کے لیے جب اس کی امی میری امی کو گھر دکھانے اندر والے حصہ میں لے گئیں تو میں نے پوچھا۔۔۔  ’’سرینگر سے کب آئیں ؟‘‘

’’جی۔‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔۔۔  ’’ہم تو کراچی سے آ رہے ہیں ، میرے ابو کی ٹرانسفر ہوئی ہے نا یہاں۔‘‘

میں کچھ نہ بولا۔۔۔  اسے کیسے بتاتا کہ وہ کراچی سے نہیں سرینگر سے آئی ہے۔

اگلے دن اور پھر کئی دن۔۔۔  کئی بار وہ چھت پر دکھائی دی، بس ایک نظر دیکھتی اور سر جھکا لیتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ گزر گئے۔ اس کے ابو واپس کراچی جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ٹرانسفر کرالی۔

آخری دن جب وہ لوگ جا رہے تھے، ہم لوگوں سے ملنے آئے۔

سب لوگ ڈرائنگ روم میں چائے پی رہے تھے۔ میں صحن کے ایک نیم تاریک گوشے میں کھڑا جالیوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً مجھے اپنے پاس کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔ مڑ کر دیکھا تو وہ تھی۔

’’آپ۔۔۔ ‘‘

’’کل ہم جا رہے ہیں۔‘‘ اس کی آواز میں اداسی تھی۔

میں چپ رہا۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر کوئی چیز مجھے دی اور تیزی سے واپس چلی گئی۔ میں نے دیکھا۔۔۔  سرخ گلاب کا تازہ پھول۔

اگلی صبح جب وہ لوگ ٹیکسی میں سامان رکھ رہے تھے تو میں اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے میری طرف دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

یہ اداس بھیگی آنکھیں ہی تو میرا سب کچھ ہے۔

’’یہاں سے بائیں طرف مڑ جائیے۔۔۔  بائیں طرف‘‘ میں اپنے آپ میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ اسے دوسری بار۔۔۔  ’’بائیں طرف‘‘ کہنا پڑا۔

’’جی۔۔۔  اچھا اچھا‘‘ میں نے بوکھلا کر گاڑی بائیں طرف موڑی۔ ایک سائیکل والا نیچے آتے آتے بچا۔

’’میں یہاں اپنی ایک عزیزہ کے گھر ٹھہری ہوں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ ‘‘میرے پ اس لفظ ہی نہیں تھے۔ پوچھتا کیا؟

’’کل صبح واپس چلی جاؤں گی۔۔۔  اب دائیں طرف۔‘‘

میں دائیں طرف مڑ گیا۔۔۔  تو کل تم واپس چلی جاؤ گی، میں نے سوچا۔۔۔  کہاں ؟

لیکن میں پوچھ نہیں سکا۔

’’اب بائیں اور وہ پارک کے سامنے۔‘‘

میں نے پارک کے سامنے گاڑی روک دی۔ وہ چند لمحے سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی، پھر اس نے سر اٹھایا۔۔۔  ’’اچھا جی۔۔۔  خدا حافظ‘‘

میں نے دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

’’تم نے مجھے پہچان لیا۔۔۔ ‘‘میری آواز کانپ رہی تھی۔۔۔  ’’تو تم نے مجھے پہچان ہی لیا۔‘‘

لیکن وہ تو کب کی جا چکی تھی۔

اداسی آہستہ آہستہ میرے چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور لمبی خاموش سڑک پر گھر کی طرف چل پڑا۔

لیکن میرا گھر کہاں ہے؟

میں وہاں کبھی پہنچ بھی پاؤں گا؟

٭٭٭

 

دل زندہ رہے

بہت دنوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے آس پاس سب طوطوں میں تبدیل ہو گئے ہیں ، یا یوں ہوا ہے کہ ظاہری ہیئت تو آدمیوں جیسی ہے لیکن باطن طوطے کا ہو گیا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخباروں ، کتابوں اور رسالوں میں سے ایک ہی آواز ابھرتی ہے۔۔۔  ’’میاں مٹھو‘‘

ایک کورس میں جواب آتا ہے۔۔۔  ’’جی‘‘

’’چوری کھانی ہے؟‘‘

’’کھانی ہے۔‘‘

اور چوری کھانے کے لیے سب درختوں سے نیچے اتر کر پنجروں میں داخل ہو جاتے ہیں ،

کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا شخص مسکراتا ہے۔۔۔  ’’یہاں کوئی جبر نہیں ، کوئی زبردستی نہیں ، سب اپنی مرضی سے پنجرے میں آئے ہیں ، دراصل انہیں درخت اب اچھے نہیں لگتے، اس لیے بہتر ہے کہ انہیں کٹوا ہی دیا جائے۔‘‘

پنجروں میں چوری کھاتے طوطے خوشی سے ٹیں ٹیں کرتے ہیں ، پروں کو پھیلاتے اور پھڑپھڑاتے ہیں۔۔۔  ’’ہم کوئی قید تو نہیں ، ہمارے پَر سلامت ہیں اور یہ چوری۔۔۔ ‘‘

ٹیں ٹیں اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے پنجرے کی تیلیاں ہلتی ہیں اور چوری کے برتن پانی کے برتنوں سے جا ٹکراتے ہیں۔

شہر کی درس گاہوں ، گھروں اور محفلوں میں طوطے بنانے کا کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبار، رسالے اور درسی کتابیں ، سب اس کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ درخت تیزی سے کٹ رہے ہیں اور پنجرے کا سائز بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ پورا شہر ایک پنجرہ بن گیا ہے، ایک ہی عمل۔۔۔  طوطے بنا نے کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے، صرف کنٹرول کرنے والے کی آواز اور چہرہ بدلتا ہے۔۔۔

ان طوطوں کے درمیان میں بھی ایک طوطا ہوں ، لیکن ذرہ سا مختلف،

’’میاں مٹھو چوری کھانی ہے؟‘‘

’’کھانی تو ہے لیکن تھوڑی سی اڑنے کی اجازت بھی۔‘‘

ایک ہد ہد دورانِ سفر ایک رات پریوں میں پھنس گیا اور ان کے نشیمن میں اتر آیا۔ ہد ہد حدتِ نظر کے لیے مشہور ہے اور پریاں اپنی کمزور بینائی کے لیے۔ اس رات ہد ہد نے اپنا آشیانہ ان کے نشیمن میں بنایا۔ انہوں نے اس سے مختلف خبریں پوچھیں۔ رات تمام ہوئی تو ہد ہد نے رختِ سفر باندھا اور سفر پر روانہ ہونے لگا۔ پریوں نے پوچھا۔۔۔  ’’اے مسکین! تو نے یہ کیا بدعت شروع کر دی ہے کہ تو دن میں عازمِ سفر ہوتا ہے؟‘‘

ہد ہد نے جواب دیا۔۔۔  ’’یہ عجب بات ہے کہ تمام کام دن ہی میں عمل میں آتے ہیں۔‘‘

پریوں نے کہا۔۔۔  ’’شاید تو دیوانہ ہے، جب طلسماتی دن میں سورج خود ظلمت پذیر ہو جاتا ہے تو کسی چیز کو تو کیسے دیکھ سکتا ہے؟‘‘

ہد ہد نے کہا۔۔۔  ’’تمہارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس جہاں میں جو نور ہے وہ نورِ خورشید کے طفیل ہے اور تمام تر روشنی اکتسابِ نو رو اقتباس میں ضو پر مبنی ہے۔‘‘

پریوں نے یہ سن کر اس پر الزام لگایا کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور یہ کہ دن میں کسی شے کو کیوں کر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہد ہد نے جواب دیا۔۔۔  ’’ہم قیاس کے ذریعے مختلف چیزوں کو اپنا احاطۂ وجود میں لاتے ہیں۔ ہر کوئی ہر روز دیکھتا ہے اور دیکھو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں اپنے آپ کو عالمِ شہود میں پاتا ہوں۔‘‘

پریوں نے جب یہ بات سنی تو وہ آہ و بکا پر اتر آئیں اور ایک حشر برپا کر دیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔۔۔  ’’یہ دن میں روشنی کا مدّعی ہے جب کہ آنکھوں کا مظنہ یہ ہے کہ اس وقت بینائی نہیں رہتی۔‘‘

انہوں نے فوراً ہد ہد کی آنکھوں پر حملہ کر دیا۔

ہد ہد نے یہ صورت دیکھ کر سوچا کہ اگر میں اپنے مسلک سے نہیں ہٹتا تو یہ مجھے مار ڈالیں گی۔ ان کا حملہ میری چشم پر ہے اور موت اور کور چشمی بیک وقت واقع ہو ں گی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کہا۔۔۔  ’’دیکھو میں نے تمہارا درجہ دریافت کر لیا ہے اور کور چشم ہو گیا ہوں۔‘‘

اڑنے کی مشروط اجازت!

’’میاں مٹھو۔۔۔  بے شک اُڑو، یہ پنجرہ بہت بڑا ہے۔ تم اس کے اندر آسانی سے اُڑ سکتے ہو۔‘‘

پنجرے کی فضا تو آسمان جیسی ہے۔

اور آسمان کا دائرہ بھی تو کناروں ہی میں محدود ہے اور اڑان کی خواہش، جسم کی اڑان تو اس پنجرے کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہے، لیکن یہ اندر جو شے چھپی بیٹھی ہے، یہ کوئی لمبی زقند بھرنا چاہتی ہے،

ایک درویش نے دوسرے سے کہا۔۔۔  ’’آؤ جلتے تنور میں کودیں ، دیکھیں باہر کون نکلتا ہے؟‘‘

دوسرا مسکرایا اور بولا۔۔۔  ’’تم جلتے تنور میں سے زندہ نکلنا چاہتے ہو۔ میں نیستی کے سمندر میں غوطہ لگا کر باہر آنا چاہتا ہوں۔‘‘

تو یہ گریہ کس لیے، زقند نہ لگا سکنے کی مایوسی یا زقند لگانے کی اجازت نہ ملنے کا دکھ،

اور یہ زقند بھی کیا چیز ہے۔۔۔  کیا خواہش ہے؟

دن کو زقند کا معاملہ ہی اور ہے۔۔۔  صبح سویرے کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا وہ ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں کے ذریعے دن بھر کے معمولات طے کرتا ہے۔

’’طوطے ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں اور چوری کھانے کے لیے باری باری اپنی جگہ سے زقند بھریں اور اپنے اپنے پنجرے میں آ جائیں۔‘‘

طوطے ٹیں ٹیں کرتے زقندیں بھرتے اپنے اپنے پنجرے میں آتے ہیں ، گرم گرم چوری سے اٹھتی مہک انہیں مدہوش کئے دے رہی ہے۔

اوپر خالی آسمان بانہیں پھیلائے پکارتا ہے مگر وہ نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔

کنٹرول روم میں بیٹھا وہ مسکرائے جا تا ہے۔

سارے شہر میں ڈرل کا سماں ہے۔

ایک دو تین چار۔۔۔  ایک دو تین چار!

لیکن رات اپنی ہے۔۔۔  سر پر پھیلا آسمان، زقند بھرنے کی خواہش چٹکیاں لیتی ہے، لیکن یہ زقند پنجرے تک نہیں ، کھلے آسماں میں دور تک جانے، نئے راستے تلاش کرنے کی خواہش ہے،

میں کون ہوں ؟

کیا میں پنجرے میں بیٹھ کر چوری کھانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں۔ کنٹرول روم میں بیٹھا یہ شخص۔۔۔  یہ شخص نہیں ، اس کا کوئی چہرہ نہیں ، یہ بھی ایک عمل ہے، جو کئی صدیوں سے یوں ہی جاری ہے، شہر کبھی آزاد ہوتا ہے، کچھ دیر کے لیے، پھر پابند ہو جاتا ہے یا یہ کہ وہ خود ہی کبھی کبھی پنجرے کو ظاہری طور پر غائب کر دیتا ہے اور کبھی وہ نظر آنے لگتا ہے۔۔۔  یہ آزادی، یہ پابندی۔۔۔  اور ان کے درمیان میں۔۔۔  میں کون ہوں ؟

یہ میرے اندر کبھی کبھی کیا شے سرسراتی ہے، یہ نیلے آسمان میں زقند لگا کر گم ہو جانے کی آرزو کیا ہے؟

رات کی تنہائی میں جب چیزیں سو جاتی ہیں ، میں اپنے وجود کی فصیل پر کھڑا ہو کر ایک لمبی زقند بھرتا ہوں۔ میرا اپنا آپ فضا میں اٹھ کر پھیلنے لگتا ہے۔ ایک بے کراں سمندر میرے چاروں طرف ہے، خاموش، پُر اسرار، وقت کی قید سے آزاد، اربوں شمسی سالوں کے فاصلوں پر پھیلی کائنات میرے چاروں طرف موجود ہے۔۔۔  ستارے ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ میں انہیں اپنے اندر سمیٹنا چاہتا ہوں لیکن میرے دامن کے کناروں کی حدود۔۔۔  تو یہاں بھی وہی پابندی، یہ بھی ایک پنجرہ ہی ہے، میرے شہر کے پنجرے سے بڑا، فرق صرف چھوٹے بڑے ہی کا ہے۔

میں اس پُر اسرار کائنات میں زقند تو لگا سکتا ہوں ، مستقل طور پر وہاں نہیں رہ سکتا، زمین مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے،

رات بیت گئی۔۔۔  دن چڑھتے ہی وہی کنٹرولڈ عمل۔۔۔

میری رات بھی محدود، دن بھی طے شدہ

تو زقند بھرنے کی خواہش کیا ہے؟

ایک درویش نے زنجیروں میں جکڑے شخص کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ شور و غوغا کر رہا ہے۔ پوچھا کہ اتنی وزنی بیڑیوں کے باوجود تم شور مچا رہے ہو اور خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ وہ بولا کہ بیڑیاں میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں نہ کہ میرے قلب میں !

دل زندہ رہا تو ایک دن میں بھی ایک لمبی زقند لگا کر کائنات میں ایسا گم ہو جاؤں گا کہ لوٹ کر نہیں آؤں گا!

بس چوری کھانے کے باوجود دل زندہ رہے!

٭٭٭

 

ہوا کے پیچھے پیچھے

میں پچھلے کئی برسوں سے اس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا ہوں۔ وہ گاڑی چلانے میں ایسی منہمک ہوئی ہے کہ مجھے بھول بیٹھی ہے۔ اس دوران کئی لوگ فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھے اور اتر گئے، لیکن میں اسے یاد ہی نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ میں بھی پیچھے بیٹھا ہوں۔

کئی برس پہلے جب وہ اور میں یونیورسٹی میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے تو ایک دن اس نے مجھے لفٹ دی تھی۔ ہوا یوں کہ اس روز شدید بارش تھی، میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ اسی دن نہیں میرے پاس ویسے بھی کچھ نہیں تھا۔ میرے مستقبل کا انحصار اسی امتحان پر تھا، چنانچہ میں ہر وقت کتابوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ میرے ساتھی جب بھی کوئی تفریحی پروگرام بناتے، میں کنی کترا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تو امتحان کا خوف اور دوسرے میری حالت تھی جو زبانِ حال سے سب کچھ کہہ رہی تھی، اس لیے کوئی بھی مجھ پر توجہ نہیں دیتا تھا لیکن وہ ساری کلاس کی توجہ کا مرکز تھی۔ میں تو اسے بس دور ہی سے دیکھ دیکھ کر رہ جاتا تھا۔ اس کے قریب جانے کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

بس اس روز ایسا ہوا کہ بارش تیز تھی۔ سب ایک ایک کر کے چلے گئے۔ میں بارش سے بچنے کے لیے اپنے لنڈے کے کوٹ میں سمٹا سکڑا کونے میں دبکا کھڑا تھا کہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ دوسری طرف سے نکلی۔ مجھے دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے رکی، چلی، پھر جانے کیا سوچ کر پلٹ آئی۔

’’ہمارے ساتھ آ جائیں۔‘‘

اس کی سہیلی نے برا سا منہ بنایا۔ شاید اسے یہ بات پسند نہیں آئی۔ بارش تیز تھی۔ میں نے اپنے لنڈے کے کوٹ کو، جسے میں نے کمبل کی طرح اوڑھ رکھا تھا، سمیٹتے ہوئے سر ہلایا اور بغیر کچھ بولے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ اس وقت مجھے اپنے آپ سے ایک عجیب سی ندامت ہوئی اور یوں لگا جیسے میں دنیا کا سب سے حقیر شخص ہوں۔ بس کوئی چیز میرے اندر ٹوٹ سی گئی، لیکن تیز بارش نے بے بس کر دیا۔

اس کی سہیلی اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں پچھلی سیٹ پر چلا گیا۔ گاڑی کالج کے گیٹ سے نکل کر بڑی سڑک پر آئی تو اس نے پوچھا۔

’’آپ کہاں رہتے ہیں ؟‘‘

میں ایک لمحہ کے لیے گڑ بڑا گیا، میرا گھر شہر کے ایسے حصے میں تھا جہاں بارش میں گاڑی کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’آپ مجھے چیرنگ کراس کے پاس اتار دیجیے۔‘‘

’’وہاں سے کیسے جائیں گے بارش تو بہت تیز ہے؟‘‘اس نے شیشے میں سے کن انکھیوں سے مجھے دیکھا۔

میں بارش میں پہلے ہی بھیگا ہوا تھا اور سردی سے کپکپا رہا تھا۔ اس کی سہیلی نے پھر منہ بنایا۔۔۔  ’’آپ تو شاید سبزی منڈی کی پچھلی طرف رہتے ہیں ، میں ایک بار اپنی نوکرانی کو دیکھنے وہاں گئی تھی۔‘‘

مجھے یوں لگا جیسے گاڑی کی چھت اچانک اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہے اور میں تیز بارش میں بھیگ رہا ہوں۔

’’تو کوئی بات نہیں ، میں آپ کو وہیں اتار دوں گی۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔

مجھے محسوس ہوا، اس کی مسکراہٹ میں عجب طرح کا طنز ہے۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’نہیں نہیں ، وہاں بہت کیچڑ ہو جاتا ہے۔ گاڑی پھنس گئی تو نکلنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

’’وہ تو بہت گندہ علاقہ ہے۔‘‘ اس کی سہیلی نے پھر وار کیا۔۔۔  ’’میں تو خشک دنوں میں گئی تھی پھر بھی گاڑی کی سروس کرانا پڑی۔‘‘

ایک بار پھر گاڑی کی چھت اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور کاغذ کا بنا شخص بھیگ بھیگ کر گلنے لگا۔

وہ بولی۔۔۔  ’’گاڑی کی کوئی بات نہیں ، آپ تو پہلے ہی بھیگے ہوئے ہیں ، بیمار نہ پڑ جائیں۔‘‘

میں نے جلدی سے کہا۔۔۔  ’’نہیں نہیں ، آپ مجھے چیرنگ کراس پر ہی اتار دیں۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولی۔

چیرنگ کراس پر جب میں گاڑی سے اتر رہا تھا تو وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میں بارش میں بھیگتا ہوا فٹ پاتھ پر بڑھے ایک چھجے کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ وہ چند لمحے سٹیرنگ پر بیٹھی مجھے دیکھتی رہی، پھر اس کی گاڑی زن سے آگے نکل گئی۔

اسی دن کے بعد میں اس سے دور دور رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ اسے میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا ہے اور کلاس کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی میرے لنڈے کے کوٹ اور بغیر استری کی پتلون کو دیکھ کر ہنستی ہے۔ ان دو سالوں میں اس نے ایک دو بار مجھ سے نوٹس مانگے، میں ٹال گیا۔ اس کے سامنے آتے ہی مجھے یوں لگتا جیسے تیز بارش شروع ہو گئی ہے اور میں چیرنگ کراس کے فٹ پاتھ پر کھڑا بھیگ رہا ہوں اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی مجھے دیکھ کر ہنس رہی ہے۔ دو سال یوں بیت گئے، درختوں پر بور آئی، پھول کھلے اور مرجھا گئے۔

امتحان دے کر میں ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں کام کرنے لگا۔ رزلٹ کی اطلاع ایک دوست سے ملی۔ میں یونیورسٹی بھر میں اوّل آیا تھا۔

دوسرے دن میں مختصر چھٹی لے کر یونیورسٹی آیا۔ بہت سے لوگ جمع تھے، وہ بھی تھی۔ میرے استاد نے، جو ہمیشہ میری ہمت بندھاتے رہتے تھے، مجھے گلے لگا لیا۔ میں جھینپا جھینپا سا سب کے درمیان کھڑا تھا۔ سردیاں پھر آ چکی تھیں اور  لنڈے کا وہی پرانا کوٹ پھر میرا مذاق اڑا رہا تھا۔

’’مبارک ہو۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا۔

وہ تھی۔

میں ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔ بس اسے دیکھتا رہا۔ یوں لگا جیسے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں۔

میں اسے کبھی نہیں پا سکتا، لیکن میں ہمیشہ اس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا رہوں گا، اس انتظار میں کہ کبھی تو وہ مڑ کر دیکھے گی۔

اب مجھے یاد نہیں کہ اس دن اور کیا کیا ہوا۔ بس یہ یاد ہے کہ جب سب جانے لگے تو اس نے کہا۔۔۔  ’’چلیں میں آپ کو اتار دوں گی۔‘‘

لیکن اسی لمحہ میرے استاد آ گئے اور بولے۔۔۔  ’’میرے ساتھ چلو تمہارے لیے ایک جاب ہے۔‘‘

گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا۔۔۔  اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے میری زندگی کے گیٹ سے باہر نکل گئی۔

سر مجھے جس کمپنی منیجر کے پاس لے کر گئے اس نے اسی وقت مجھے رکھ لیا اور ایک ہفتہ کے اندر اندر ٹریننگ کے لیے کراچی بھجوا دیا۔ چند مہینوں بعد میں مزید ٹریننگ کے لیے باہر چلا گیا۔

زندگی کی ڈگر بدل گئی۔ لیکن مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ میں ابھی تک اس کی گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھا اس کے مڑ کر دیکھنے کا منتظر ہوں۔

برسوں بیت گئے، میری شادی ہو گئی، بچے ہوئے۔ میں شاید اسے بھول گیا۔ بس کبھی اچانک کوئی پرانا ساتھی مل جاتا تو یونیورسٹی کے دنوں کی باتیں تازہ ہو جاتیں۔ اس کا ذکر بھی ہوتا۔۔۔  لڑکوں کے بارے میں تو معلوم ہو جاتا کہ کون کہاں کہاں ہے، لیکن لڑکیوں کے بارے میں کسی کو بھی علم نہ تھا کہ کو ن کدھر گئی۔

برسوں بعد۔۔۔  یا شاید صدیوں بعد، وہ ایک دن اچانک مل گئی، میں ایک جنرل سٹور کے باہر بیوی بچوں کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ سامنے آ گئی۔

ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ ایک لمحے کے لیے لگا جیسے میں بارش میں بھیگا ہوا برآمدے کے کونے میں دبکا کھڑا ہوں اور وہ میر ے پاس سے گزر رہی ہے۔

گزری۔۔۔  رکی اور مڑی۔

’’کیسے ہیں ؟‘‘

’’آپ کیسی ہیں ؟‘‘

’’جی رہی ہوں۔۔۔ ‘‘

’’میں تو جی بھی نہیں رہا، ابھی تک اسی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تمہارے مڑ کر دیکھنے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

’’تم خود ہی اتر گئے تھے۔‘‘

’’کیا کرتا، جہاں میں رہتا تھا وہاں کیچڑ بہت تھی۔‘‘

’’یہ کیچڑ کیا میں تو تمہارے ساتھ موت کی دلدل میں بھی اترنے کے لیے تیار تھی۔‘‘

مجھے یوں لگا جیسے دفعتاً تیز بارش شروع ہو گئی ہے اور کاغذ سے بنا ہوا شخص بھیگ بھیگ کر گلا جا رہا ہے۔

’’کس سوچ میں ہو؟‘‘ میں چونک پڑا۔ میری بیوی سٹور سے نکل آئی تھی۔

میں نے سنا۔۔۔  یہی بات اس کے خاوند نے اس سے پوچھی تھی۔ ہم دونوں چپ رہے۔ نہ میں نے اپنی بیوی سے اس کا تعارف کروایا نہ اس نے مجھے اپنے خاوند سے ملوایا۔ کچھ کہے بغیر ہم دونوں چپ چاپ اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے لیکن جانے سے پہلے اس نے مڑ کر مجھے دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

میں کچھ نہیں کہہ سکا۔۔۔  کہتا بھی کیا۔

کہ اب کہنے کے لیے رہ بھی کیا گیا ہے؟

٭٭٭

 

منظر سے باہر خوشبو

صبح آنکھ کھلی تو طبیعت میں ایک بشاشت سی تھی۔ خوشی بھی عجب چیز ہے، غیر محسوس طریقہ سے آتی ہے اور چپکے سے چلی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو معلوم نہیں ہو پاتا کہ خوش ہونے کی وجہ کیا ہے اور کبھی کبھی ظاہری خوشی کے موقع پر بھی اداسی جائے نہیں جاتی، بس اس صبح بھی یہی ہوا، میں نہیں جان پایا کہ یہ بشاشت اور ہلکا پن کہاں سے آیا ہے، اسی صبح ناشتہ کی میز پر بیوی سے بھی کوئی اختلافی بات نہ ہوئی، بچوں کو اسکول چھوڑ کر دفتر آیا تو یہ بشاشت ایک گنگناہٹ میں بدل گئی تھی۔ دفتر میں کوئی خاص کام نہ تھا، خیال آیا کہ بیٹی نے بہت دنوں سے قلم ٹھیک کرانے کے لیے دیا ہوا ہے، چلو اسے ہی ٹھیک کرا لاؤں۔ اس کے لیے پرانے شہر جانا تھا۔ شہر کی پرانی سڑکوں اور گلیوں میں ایک عجیب مزہ ہے۔ زندگی کی مہک، اپنائیت کا احساس، میں نے چالیس سال محلہ میں گزارے ہیں ، اب ادھر جاتا ہوں تو لگتا ہے گلی نے پاؤں پکڑ لیے ہیں۔ نئی آبادیوں میں سکون تو ضرور ہے لیکن وہ خلوص کی گرم جوشی اور محبت کی مہک سے خالی ہیں ، کاغذی پھولوں اور اصلی پھولوں کا فرق، لیکن کیا کیا جائے، نام نہاد معیارِ زندگی نے ہمیں اپنی جڑوں سے علیحدہ کر دیا ہے، میں پرانا گھر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا، لیکن بچوں نے مجبور کر دیا۔ یہ اولاد بھی عجب چیز ہے، بڑے بڑے اصول پرست اس کے ہاتھوں ذلیل ہو جاتے ہیں۔ مجھے بھی ان کی ضد نے اپنی جڑوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے زمین سے نکال کر گملے میں لگا دیا ہے۔ رنگین منقش خوبصورت گملے میں ، لیکن میری زمین۔۔۔  میری وہ گندی گلی، وہ پرانا مکان، کئی بار سوتے سوتے میں یوں لگتا ہے جیسے وہ مجھے آوازیں دے رہے ہیں ، اپنی طر ف بلا رہے ہیں۔ میری بیوی ماڈرن اور بڑے خاندان کی ہے، وہ میری بات سن کر کہتی ہے۔۔۔  ’’تم ابھی تک اپنی اوقات نہیں بھولے۔۔۔ ‘‘ میں چپ ہو جاتا ہوں۔۔۔  شاید وہ ٹھیک ہی کہتی ہے، آدمی مرتے دم تک اپنے آپ کو نہیں بھول سکتا، کم از کم میں تو بالکل نہیں بھول سکتا۔ اس نئے گھر کے سجے سجائے بیڈروم میں بھی مجھے وہ کمرہ یاد آتا ہے جس کی چھت بار ش کے ساتھ ہی ٹپکنے لگتی تھی، وہاں میری مٹی ہے۔۔۔  اور یہاں میرا معیار۔۔۔

قلم ٹھیک کرا کے میں اپنی گلی کا بھی چکر لگا آیا، طبیعت کی بشاشت اور کھل گئی۔ میں مزے مزے سے اِدھر اُدھر دیکھتا مین روڈ تک آ پہنچا۔ آگے اشارہ بند تھا اور گاڑیوں کی لمبی قطار۔۔۔  موٹر سائیکل کا فائدہ یہ ہے کہ رینگ رینگ کر آگے نکلا جا سکتا ہے۔ میں بھی کھسکتا کھسکتا آ گے بڑھتا رہا اور ایک سوزوکی کے پیچھے آن رکا۔ دفعتاً سسکیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ چونک کر دیکھا سوزوکی کی چھت کھلی تھی اور اس کی سیٹوں پر دونوں طرف چار پانچ آدمی بیٹھے تھے۔ درمیان میں ایک سفید کپڑا ابھرا ہوا تھا۔ لمحہ بھر کے لیے میں نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے احساس ہو گیا کہ درمیان میں کپڑے کے نیچے کسی کی لاش پڑی ہے۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا اور سوزوکی تیزی سے آگے نکل گئی۔

من میں بشاشت کا جو پرندہ چہک رہا تھا، لمحہ بھر میں اس کی گردن ڈھلک گئی۔ موت شاید کسی ہسپتال میں ہوئی ہو گئی اور اب لاش گھر لے جائی جا رہی ہے۔

گھر، جہاں جانے کون کون لاش کا منتظر ہو گا۔

بوڑھی ماں۔۔۔  سفید سر باپ۔

خوابوں کے زینے چڑھتی بیوی۔۔۔  یا کوئی بیٹی۔

مجھے اپنی بیٹی یاد آ گئی، ایک لمحے کے لیے یوں لگا جیسے چارپائی پر میں پڑا ہوں۔

یہ موت، یہ دکھ کیا ہے۔۔۔  کیا زندگی دکھ ہی کا ایک طویل لمحہ ہے جس میں پل بھر کے لیے خوشی کا کوئی پرندہ چہکنے لگتا ہے، لیکن کوئی صیّاد اگلے ہی لمحے اسے اپنے جال میں پکڑ کر لے جاتا ہے۔۔۔

ایک پرندہ دوسرے پرندوں کے ساتھ اڑ رہا تھا کہ کسی صیّاد کے جال میں پھنس گیا۔ صیّاد نے اس کے پیروں میں حلقے ڈال کر پنجرے میں بند کر دیا۔ کچھ دن تو اسے تازہ فضائیں بہت یاد آئیں لیکن پھر وہ اس قید کا عادی ہو گیا۔ لیکن ایک دن اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھی آزاد ہو گئے ہیں اور اڑنے والے ہیں لیکن اس کے پیروں کے گرد حلقے اسی طرح موجود ہیں۔ اس نے ساتھیوں سے التجا کی کہ وہ اسے بھی آزاد کرائیں۔ پہلے تو وہ ڈرے کہ یہ صیّاد ہی کی کوئی چال نہ ہو لیکن جب اس نے بہت آہ و زاری کی اور پرانے تعلقات کا واسطہ دیا تو وہ قریب آئے اور اسے بھی کسی نہ کسی طرح پنجرے سے نکالا۔ وہ پنجرے سے باہر آیا تو پیروں کے حلقے اسی طرح تھے۔ اس نے ساتھی پرندوں سے التجا کی کہ وہ اسے ان حلقوں سے بھی نجات دلائیں۔ اس پر وہ بولے۔۔۔  اگر ہم کو اس پر قدرت ہوتی تو ہم پہلے اپنے پیر اس بند سے آزاد کرتے، بس اسی آزادی پر قناعت کرو جو حاصل ہو گئی ہے۔ چنانچہ وہ سارے وہاں سے اڑے۔ انہوں نے سات اونچے پہاڑ پار کئے اور آخر میں آٹھویں پہاڑ پر پہنچے جہاں ایک رحمدل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ اس کے محل میں پہنچے تو ایک نورِ جمال نظر آیا۔ ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ انہوں نے اس سے اپنی مجبوری بیان کی۔ بادشاہ نے کہا۔۔۔  ’’تمہارے پیروں کے حلقے وہی کھول سکتا ہے جس نے انہیں تمہارے پیروں سے باندھا ہے۔ اس کے لیے تمہیں اسی صیّاد کے پاس واپس جانا ہو گا۔‘‘

دنیا کے بندھن دنیا میں ہی کھل سکتے ہیں ، یہاں کی مجبوریاں ، بے بسیاں تو یہیں لوٹنا پڑے گا؟

شاید وہ پرندے اڑے ہی نہیں تھے، ان کی عقل نے پرواز کی ہو گی اور انہیں صیّاد نے نہیں ان کے اپنے آپ نے شکار کیا ہو گا۔

مجھے کئی بار احساس ہوتا ہے کہ موت میرے اندر ہی کہیں چھپی بیٹھی ہے، بس کسی دن وہ ظاہر ہو جائے گی۔ لیکن بات اس کے ظاہر ہونے یا غالب آ جانے کی نہیں بلکہ مجبوریوں اور بے بسیوں کی ہے جو ساری عمر ہمیں شکار کرتی رہتی ہیں اور موت شاید ہمیں ان کے پنجوں سے چھٹکارہ دلاتی ہے لیکن کیا معلوم موت بھی ان کے سامنے مجبور ہو اور یہ سارا ڈرامہ اسی طرح جاری رہتا ہو۔

مجھے خیال آیا کہ یہ سار قصور اس سوزوکی کا ہے، یا میرے پرانے شہر جانے کا، دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ نئی آبادیوں میں رہ کر پرانی گلیوں کے خواب کیوں ؟ مجھے دراصل اپنی گلی کو چھوڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ میری مٹی وہیں کی ہے، وہاں میری جڑیں ہیں ، لیکن بے بسی۔۔۔  بچوں کا مستقبل؟۔۔۔  میری بیوی کہتی ہے، ’’تم کیا چاہتے ہو کہ تمہارے بچے بھی تمہاری طرح بے بسی کے دکھ اٹھائیں۔‘‘ میرے پاس اس کا کوئی جوا ب نہیں ، میری اصول پسندی کا صلہ آخر مجھے کیا ملا ہے؟

تو یہ نئی آبادی۔۔۔  سوشل تعلقات کی ایک نئی صبح اور میری زندگی کی شام۔

سوزوکی بھاگی جا رہی ہے اور  لاش۔۔۔

میں سر جھٹکتا ہوں ، دوسروں کے دکھ اپنے آپ پر طاری کر لینا میری مجبوری ہے۔ کیا کروں ؟ کہاں جاؤں ؟ کہیں نہیں جا سکتا، بس قطرہ، قطرہ گھلنے اور بوند بوند ٹپکنے کے لیے یہاں موجود ہوں اور اپنے حصے کا عذاب بھگت رہا ہوں۔

صبح آنکھ کھلے، اگر بشاشت کا پرندہ چہچہانے بھی لگے تو کیا، کسی بھی لمحہ کوئی دکھ اپنا یا پرایا، کہیں نہ کہیں گھات لگائے بیٹھا ہے، تو پھر بشاشت کیا اور اداسی کیا؟

سوزوکی اب گھر پہنچ چکی ہو گی اور لاش اتاری جا رہی ہو گی!

میری بیٹی چیخ مار کر مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔۔۔  ’’ہائے میرے۔۔۔  !‘‘

میں آنکھیں بند کئے سوچتا ہوں ، جب جڑیں ہی کٹ جائیں ، تو پھر خوشی کیا اور اداسی کیا!

٭٭٭

 

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

موڑ کاٹتے ہوئے دفعتاً میری نظر ٹوٹی ہوئی دیوار کے ساتھ لگے بورڈ پر پڑی۔ یوں لگا جیسے اس نے مجھے آواز دی ہے۔ بورڈ پر تازہ روشنائی سے لکھا تھا۔۔۔  مزار مستان شاہ مست۔۔۔  بورڈ کے ساتھ ہی دیوار سے گزرتی پگڈنڈی ذرا آگے جا کر درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گئی تھی۔ میں نے بہت چاہا کہ روز کی طرح موڑ کاٹ جاؤں ، لیکن جانے کیا ہوا کہ چاہتے ہوئے بھی موڑ نہ مڑ سکا۔ موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے پگڈنڈی پر ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ سے گزرتے ہی ایک کھلا قطعہ آگیا جس کے بیچوں بیچ ایک قبر تھی۔ میں قبر کے سرہانے چلا گیا، دفعتاً احساس ہوا کہ کوئی میرے پاس کھڑا ہے۔ مڑ کر دیکھا توایک سفید ریش، جس کی لمبی سرمئی زلفیں شانوں پر جھول رہی تھیں ، سرخ بوٹی ایسی آنکھوں سے مجھے گھور رہا ہے۔

مجھے حیران دیکھ کر اس نے پوچھا۔۔۔  ’’کسی کو ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’ہاں۔۔۔  صاحبِ مزار کو۔‘‘

اس کی مسکراہٹ ہونٹوں کے کونوں سے نکل کر سارے چہر ے پر پھیل گئی، چند لمحے خاموشی رہی پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

کہتے ہیں ، ایک درویش کو پیاس لگی، ایک دروازے پر آ کر پانی طلب کیا۔ اندر سے ایک لڑکی کوزۂ آب لے کر نکلی۔ پانی پیتے ہوئے درویش کی نظر لڑکی کے چہرے پر پڑی تو دل اس کے جمال پر فریفتہ ہو گیا۔ وہیں بیٹھ گیا، حتیٰ کہ صاحب خانہ آگیا۔ درویش نے کہا، میرا دل ایک گلاس پانی میں مقید ہو گیا ہے۔ صاحب خانہ نے کہا کہ وہ میری لڑکی ہے، میں اسے تمہارے حوالے کرتا ہوں لیکن پہلے لباس بدل لو۔ اس نے درویش کو حمام میں بھیج کر مکلف پوشاک سے آراستہ کیا اور اس کا خرقہ اتار ڈالا۔ جب رات ہوئی تو درویش اپنے وظیفے کے لیے تیار ہوا اور سوچا کہ اپنے روزانہ کے ورد سے فارغ ہو کر دلہن کی طرف ملتفت ہوؤں گا، دفعتاً اس پر ایسا جذب طاری ہوا کہ زور زور سے چلانے لگا۔۔۔  میرا خرقہ لاؤ۔۔۔  جلد میرا خرقہ لاؤ۔ لوگوں نے متعجب ہو کر پوچھا۔۔۔  کیا ہوا؟ کہا، میں نے غیر پر جو نظر ڈالی تو اس کی سزا میں میرا لباسِ محبوبیت اتر گیا۔

اے شیخ، میں تو عرصہ سے غیر کی محبت میں ہوں ، خواہشوں کا منہ زور ریلا ہے کہ اپنے ساتھ بہائے لیے جا رہا ہے۔

وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئی کہتی ہے۔۔۔  ’’لابی میں کیوں بیٹھے ہو، ہال میں چلو نا، شو شروع ہونے والا ہے۔‘‘

میں کندھے اچکاتا ہوں۔

وہ کہتی ہے۔۔۔  ’’ہیر کے میک اپ میں کیسی لگتی ہوں ؟‘‘

میں بے خیالی میں سر ہلاتا ہوں۔۔۔  ’’بہت اچھی۔‘‘

تھوڑی دیر بعد وہ سٹیج پر رانجھے کے ساتھ نمودار ہو گی اور اس کی ونجلی کی تان پر نثار ہونے کی اداکاری کرے گی، لوگ تالیں بجائیں گے اور میں۔۔۔  میں ؟

’’شو ختم ہونے کے بعد کہیں گم نہ ہو جانا۔‘‘ وہ جاتے جاتے لمحہ بھر کے لیے رکتی ہے۔۔۔  ’’کہیں بیٹھ کر چائے پئیں گئے؟‘‘

کسی شخص نے ایک سیاہ پوش درویش سے پوچھا۔۔۔  آپ نے سیاہ پوشی کیوں اختیار کی؟ درویش نے جواب دیا۔۔۔  تین چیزیں ورثے میں ملی تھیں ، فقر، علم اور شمشیر۔ شمشیر سلاطین نے لے لی مگر اس کے محل پر اسے استعمال نہ کیا۔ علم، علماء نے اختیار کیا مگر اسے پڑھنے پڑھانے تک ختم کر دیا۔ فقر، فقراء نے اختیار کیا مگر اسے آلہ تمنا و حصولِ مال بنا لیا، میں اب سیاہ پوشی اختیار نہ کروں تو کیا کروں ؟

رانجھے کی ونجلی کی تان پورے ہال میں گونج رہی ہے اور وہ اس کے ارد گرد گھومتی ہوئی اس پر بچھی جار ہی ہے، چند لمحوں کے لیے لگتا ہے میں بھی سٹیج پر موجود ہوں ، لیکن مجھے تو ونجلی بجانا ہی نہیں آتا، میں کیا کروں ؟ کان چھدوا بھی لوں تو کیا؟

کسی درویش نے ایک شخص سے پوچھا۔۔۔  اس شوریدہ سری سے کیا مراد ہے؟ کہا، مخلوق سے اپنے آپ کو چھپانا چاہتا ہوں۔ درویش ہنسا اور کہا۔۔۔  لوگ بہت ہیں اور تو اکیلا ہے اس لیے ان سے چھپ نہ سکے گا، بہتر ہے خود کو ان پر چھوڑ دے۔

سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ہے۔

’’Best Performance‘‘ میرے قریب سے کوئی کہتا ہے۔۔۔  ’’She is Born Artist‘‘ مجھے لگتا ہے میرا وجود ہوا میں تحلیل ہو رہا ہے۔ چاروں طرف ایک سرمئی دھند چھا رہی ہے۔ لمحہ لمحہ گزر رہا ہے، شاید صدیاں بیت گئی ہیں۔

’’لو تم لوگ ہال میں چھپے بیٹھے ہو، میں ساری لابی میں تمہیں ڈھونڈ آئی۔‘‘

کچھ لوگ ایک شخص کے درپے تھے، وہ ان سے بچتا بھاگتا ایک درویش کے حجرے میں آ چھپا۔ متلاشی وہاں پہنچ گئے اور درویش سے اس کے بارے میں پوچھا۔ درویش نے کہا۔۔۔  ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ شخص کہاں ہے؟ پوچھا۔۔۔  کہاں ؟۔۔۔  درویش بولا۔۔۔  ابھی ابھی میرے حجرے میں گیا ہے۔ متلاشی حجرے میں گئے وہاں کسی کو نہ پایا، سمجھے کہ درویش نے ان سے مذاق کیا ہے۔ غضب ناک ہو کر بولے۔۔۔  سچ بتاؤ کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔ درویش نے قسم کھا کر کہا کہ وہ میرے حجرے میں ہے۔ متلاشی دوبارہ گئے مگر وہ شخص دکھائی نہ دیا۔ پھر سہ بارہ دیکھنے گئے۔ آخر مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ وہ شخص باہر آیا اور درویش سے بولا۔۔۔  یہ تو میں جانتا ہوں کہ تمہاری برکت نے مجھے ان کی نظروں سے مخفی کر دیا تھا لیکن تم نے ان سے یہ کیوں کہا کہ میں اندر ہوں۔ درویش نے جواب دیا۔۔۔  تمہیں میری برکت نے نہیں تمہارے اپنے خوف نے مخفی کر دیا تھا، پھر میں جھوٹ کیوں بولتا؟

’’کیا بات ہے تم میری جھوٹی تعریف بھی نہیں کر رہے، لوگ تو داد دے دے کر تھک گئے ہیں۔‘‘

’’ہاں تمہاری پرفارمنس اچھی تھی۔۔۔  بہت اچھی۔‘‘

’’لوگ کہہ رہے تھے میں اصلی ہیر لگتی ہوں۔‘‘

’’کاش ایسا ہوتا۔۔۔ ‘‘

’’کاش کیوں ؟‘‘

’’پھر تم سٹیج پر نہ ہوتیں ، میرے ساتھ ہوتیں۔‘‘

’’تمہارے ساتھ تو میں اب بھی ہوں ، لیکن تم یہ کیا دقیانوسی باتیں کرنے لگتے ہو۔ ہاں یاد آیا، ہم یہ ڈرامہ لے کر اگلے ماہ کراچی جا رہے ہیں ، چلو گے۔‘‘

’’میں ‘‘

’’ہاں تم‘‘

’’میں کیا کروں گا، مجھے تو ونجلی بجانا ہی نہیں آتی۔‘‘

’’تو تم کان چھدوا کر فقیر بن جانا‘‘ وہ ہنستی ہے۔

’’لیکن مجھے تو مانگنا بھی نہیں آتا‘‘

ایک بادشاہ نے کسی درویش سے کہا۔۔۔  کچھ مانگیے۔ درویش نے کہا، مجھے مانگنا نہیں آتا۔ بادشاہ نے کہا۔۔۔  تو پھر کچھ دیجیے۔ درویش بولا۔۔۔  افسوس میرے پاس دینے کے لیے بھی کچھ نہیں۔

’’یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘ لمبی زلفوں اور سرخ بوٹی ایسی آنکھوں والا سفید ریش کھلکھلائے جا رہا ہے۔

’’صاحب ِ مزار سے ملنے‘‘

’’لیکن وہ تو کبھی کے یہاں سے جا چکے۔‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم؟‘‘

یوں لگتا ہے جیسے سارا منظر پانی میں ہلتے عکس کی طرح لہریں لے رہا ہے۔ کھلا قطعہ زمین، اس کے بیچوں بیچ مستان شاہ مست کی قبر کے تعویذ کے پاس کھڑا میں اور میرے سامنے یہ سفید ریش جس کی سرمئی زلفیں شانوں پر لٹک رہی ہیں۔

یہ سب کیا ہے؟

وہ کئی دن ہوئے اپنے یونٹ کے ساتھ کراچی جا چکی ہے۔ کراچی سے اسے گلف اور پھر شاید یورپ جانا ہے۔۔۔  شاید،

یہ سب کیا ہے؟

سارا منظر پانی میں پڑے عکس کی طرح جھلملاتا ہے۔

یہ قبر، میں اور سفید ریش،

لہریں اٹھتی ہیں ، ڈوب جاتی ہیں۔

میں چپ چاپ واپس مڑتا ہوں ، موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے سے پہلے وہیں سڑک پر کھڑے کھڑے، جیب سے اس کا خط نکال کر پڑھتا ہوں۔۔۔

اگلے دن دفتر سے لوٹتے ہوئے غیر شعوری طور پر اس موڑ پر میرے پاؤں بریک پر پڑتے ہیں۔ موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے پگڈنڈی سے ہوتا درختوں کے جھنڈ میں جاتا ہوں لیکن وہاں تو کچھ بھی نہیں۔

نہ کوئی کھلی جگہ نہ کوئی قبر۔

مستان شاہ مست کی قبر کہاں گئی؟

اور وہ سفید ریش جس کے شانوں پر سرمئی لمبی زلفیں جھولتی ہیں۔۔۔  ؟

میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں سڑک پر آتا ہوں۔

ایک شخص پگڈنڈی کی طرف آ رہا ہے۔ میں اس سے پوچھتا ہوں۔

۔۔۔  ’’مستان شاہ کی قبر کہاں گئی؟‘‘

’’مستان شاہ کی قبر۔۔۔  کون سی قبر؟‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا ہے۔۔۔

۔۔۔  ’’یہاں تو کوئی قبر نہیں۔‘‘

’’نہیں ‘‘اب میں حیران ہوتا ہوں۔۔۔  ’’لیکن یہ پگڈنڈی؟‘‘

’’یہ پگڈنڈی تو ان درختوں سے گزر کر بڑی سڑک پر نکل جاتی ہے۔‘‘

اور وہ بورڈ۔۔۔  میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ وہاں کوئی بورڈ نہیں۔۔۔  کسی بورڈ کا نشان بھی نہیں ،

تو یہ سب کچھ کیا ہے؟

کھلے قطعہ زمین میں مستان شاہ مست کی قبر، قبر کے تعویز کے ساتھ کھڑ امیں اور میرے سامنے سفید ریش جس کی سرمئی لمبی زلفیں شانوں پر جھول رہی ہیں۔۔۔  سارا منظر پانی میں تیرتے عکس کی طرح لہر لہر ہوا جا رہا ہے۔

موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے سے پہلے میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر جیب میں پڑے اس کے خط سے جا لگتا ہے۔

’’مجھے معاف کر دینا، میں اس کی ونجلی کے سامنے Resistنہیں کر سکی۔۔۔  !‘‘

٭٭٭

 

سفر، جس سے واپسی نہ ہوئی

بہت عرصہ تک شہر سے باہر جانے کا اتفاق نہ ہو تو گھر ایک شفیق ماں کی طرح یوں اپنی گود میں سمیٹ لیتا ہے کہ چند دن کے لیے گھر چھوڑنے کے تصور سے بھی اداسی چھا جاتی ہے، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، پچھلے کئی برسوں سے میں شہر سے نہیں نکلا، اب دو ایک دنوں کے لیے ایک تقریب میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا پڑا تو طبیعت میں عجب طرح کی بے چینی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے لوٹ کر نہیں آؤں گا، دل میں طرح طرح کے واہمے اور وسوسے پیدا ہو رہے تھے۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے یہی دل چاہ رہا تھا کہ سفر کا ارادہ ملتوی کر دوں ، جوں توں کر کے فلائنگ کوچ تک پہنچا۔ کوچ جب شہر سے نکلی تو آہستہ آہستہ طبیعت سنبھلنے لگی۔ کچھ دیر بعد بھاگتی زمین اور سمٹتے پھیلتے منظروں نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ احساس ہوا کہ اتنے برس شہر سے نہ نکل کر میں کئی منظروں اور تازہ ہواؤں کے ذائقوں سے محروم رہ گیا ہوں۔ تقریب دو دن میں ختم ہو گئی۔ ایک آدھ دن کی مصروفیت اور تھی، وہ نمٹی تو دفعتاً گھر یاد آگیا۔ ہوا یوں کہ میں چھوٹے بیٹے کے لیے کھلونے لینے بازار آیا۔ کھلونے لیتے ہوئے یوں لگا جیسے برسوں سے گھر نہیں گیا، ایک عجب طرح کی اداسی نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ جلدی جلدی سامان سمیٹا اور واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔

فلائنگ کوچ میں صرف فرنٹ سیٹ خالی تھی۔ مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بڑا ڈر لگتا ہے کیونکہ حادثے کی صورت میں آگے بیٹھے ہوؤں کی لاشیں بھی پہچانی نہیں جاتیں اور مجھے تو اس تصور ہی سے خوف آتا ہے کہ مجھے بغیر پہچانے گمنامی کی حالت میں کہیں دفن کر دیا جائے، لیکن اس وقت مجبوری یہ تھی کہ اگلی کوچ کو ایک گھنٹہ بعد جانا تھا، اس لیے مجبوراً ٹکٹ لے لیا۔ ڈرائیور کو شاید میرا ہی انتظار تھا۔ میں ابھی پوری طرح بیٹھ بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے گاڑی چلا دی۔ بیگ سیٹ کے نیچے جما کر میں نے طائرانہ نظروں سے دائیں بائیں دیکھا۔ دائیں طرف ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر ایک عورت اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ میری پچھلی سیٹ پر بیٹھا شخص شاید اس کا شوہر تھا، کیونکہ جس وقت میری نظر اس پر پڑی وہ اس سے سرگوشیاں کر رہی تھی۔۔۔  اس کے بعد میں نے کچھ نہیں دیکھا،

دیکھنے کے لیے تھا بھی کیا؟

اس کا چہرہ۔۔۔  میرے بائیں طرف والے آئینہ میں پوری طرح منعکس تھا۔ ڈرائیور نے سائڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے شیشے کو ذرا سا ٹیڑھا کیا ہوا تھا، جس کی وجہ سے پوری سیٹ اس میں سے نظر آ رہی تھی۔

برسوں پہلے ہم اسی طرح آگے پیچھے بیٹھتے تھے اور اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ وہ کلاس میں بیٹھے بیٹھے کئی بار اپنا دستی آئینہ نکال کر مجھے دیکھتی ہے۔

وہ دن ہی ایسے تھے۔

کلاس ختم ہونے کے بعد ہم گھنٹوں ورانڈے میں کھڑے، کبھی لیکچرز اور کبھی نوٹس کے تبادلے کے بہانے بے معنی گفتگو کرتے رہتے۔ جی چاہتا ساری عمر یوں ہی ایک دوسرے سے باتیں کرتے گزر جائے، لیکن وقت کا اپنا انداز اور رفتار ہے۔

ورانڈے میں کتابوں کے بہانے،

کئی باتیں۔۔۔

کہ جن کا کوئی بھی مقصد نہیں ہے۔

مسائل۔۔۔ جن کا کوئی بھی حل نہیں ہے۔

ذاتوں کے فرق سے طبقوں کے فرق تک یہ مسائل حل ہونے والے نہیں تھے، یا شاید ہم نے سنجیدگی سے انہیں حل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ہماری ملاقاتیں تو انتظار کے اداس گیتوں سے شروع ہوئی تھیں اور اداسی اور جدائی کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں پر جا رکتی تھیں۔ کلاس کے بعد ورانڈے میں کھڑے کھڑے ایک دوسرے کو تسلی دینے کی ناکام کوششوں کے علاوہ کبھی کبھی کسی کیفے ٹیریا میں لذت و انبساط کے چند لمحے۔۔۔  بس یہی وہ یادیں تھیں جو میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں اور اس وقت بھی آئینہ سے منعکس ہو کر میرے چاروں طرف بکھر گئی تھیں۔

میں نے کَن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔

کیا میرے لیے اب اس کے پاس شناسائی کی کوئی مٹھاس نہیں ؟

میں نے خود سے سوال کیا،

لیکن باوجود کو شش کے میں جواب نہ پا سکا۔

وہ اپنے دونوں بچوں اور خاوند میں اتنی مگن تھی کہ اس نے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا۔

مجھے اذیت سی ہوئی،

اتنے برسوں بعد بھی میرے سینے میں اس کی یاد کا الاؤ اسی طرح بھڑک رہا ہے اور وہ مجھے پہچانتی تک نہیں۔

میرا جی چاہا، زور زور سے چیخ کر پوچھوں۔۔۔  تم مجھے پہچانتی کیوں نہیں ؟

لیکن میں جو سدا کا بزدل ہوں ، اپنے اندر ڈوبا رہنے والا، ایک لفظ نہ بول سکا۔

میں اس وقت بھی ایک لفظ نہیں بول سکا تھا جب اس نے بتایا تھا کہ اس کی منگنی ہو رہی ہے۔

میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔

اس نے کہا تھا۔۔۔  ’’کچھ تو کرو۔۔۔  ورنہ ہمارے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گے۔‘‘

میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ چند دن بعد جب اس کی چھوٹی بہن نے، جو ہم سے ایک جماعت پیچھے تھی، اس کی منگنی کے لڈو کلاس میں بانٹے تو میں اپنے سامنے آئے ڈبے سے بھی منہ نہ موڑ سکا۔

کلاس کے بعد اس نے مجھے کہا تھا۔۔۔  ’’تم نے لڈو کھا کیسے لیا؟‘‘

میں اسے کیسے بتاتا کہ اس طرح کے زہر تو مجھے قدم قدم پر پینا پڑتے ہیں۔ میری تو ساری زندگی ہی اپنے خوابوں کے ملبے پر کھڑے ہونے اور سنبھلنے کی کوشش کرتے گزری ہے۔

اس دن کے بعد وہ مجھ سے دور ہوتی گئی۔

کلاس کا اختتام ہو رہا تھا۔

میرے دوسرے بہت سے خوابوں کی طرح یہ خواب بھی، بس ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔

ایک دن اس نے کہا تھا۔۔۔  ’’چلو بھاگ چلیں۔‘‘

میں نے سر ہلایا۔۔۔  ’’مجھ میں اتنی ہمت ہوئی تو اپنے گرد اتنے سارے جہنم کیوں اکٹھے کر لیتا، آخری دن آگیا۔ الوداعی پارٹی ہو گئی۔ پارٹی میں اس نے میرے قریب آنے کی بہت کوشش کی لیکن میں بچنے کی کوشش کرتا رہا۔ اب پاس آنے کے لیے رہ بھی کیا گیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس سے گفتگو نہ ہو، لیکن جاتے جاتے اس نے مجھے پکڑ ہی لیا۔

کہنے لگی۔۔۔  ’’شاید یوں ہی ہونا تھا۔ لیکن تمہاری یاد ہمیشہ ایک خزانے کی طرح میرے دل میں محفوظ رہے گی۔‘‘

اس بات کو برسوں بیت گئے ہیں۔

اور اب وہ کھلکھلا کر اپنے بچوں اور شوہر سے باتیں کر رہی ہے۔

بائیں طرف والے آئینے میں اس کا سراپا چھلک چھلک رہا ہے۔

چہرے پر سرخی ہے، جسم بھر گیا ہے اور کانوں میں پڑی بڑی بڑی بالیوں نے چہرے کو اور بھی نکھار دیا ہے۔

برسوں پہلے میں نے اسے کہا تھا۔۔۔  ’’تم بڑی بالیاں پہنا کرو، مجھے اچھی لگتی ہیں۔‘‘

اور اب ان بڑی بالیوں میں وہ اچھی لگ رہی تھی۔

لیکن اس کا سراپا، یہ حسن، اب میرے لیے نہیں۔

وہ خاوند کی کسی بات پر کھلکھلا کر ہنسی، میں نے ذرا سا گھوم کر دیکھا۔

کتنی خوش ہے؟

ایک لمحہ کے لیے میرے اندر نفرت کا الاؤ سا بھڑکا، لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اپنی اس کمینگی پر خود کو لتاڑا۔۔۔  اس کی خوشی پر خوش ہونے کی بجائے میں کیا سوچ رہا ہوں ؟

یہ خیال آتے ہی ایک سکون سا ملا، لیکن اگلے ہی لمحے کسی نے میرے اندر سرگوشی کی۔

کم از کم پہچان تو لیتی، ایسی بھی کیا بے رخی؟

میرے اندر پھر ایک بار الاؤ بھڑکا۔۔۔

وہ اپنے بیٹے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کسی سہانے سپنے میں کھوئی ہوئی تھی۔

لگا میری آنکھوں میں برسات امڈ آئی ہے، لیکن میں نے اسے برسنے نہیں دیا۔ بس چپ چاپ آئینے میں اسے دیکھتا رہا۔

الاؤ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔

میں نے خود سے کہا۔۔۔  ’’مجھے اس سے کیا، میں تو آج بھی اسی طرح ہوں۔‘‘

اس خیال نے بچے کھچے الاؤ پر بھی پانی چھڑک دیا۔ دھواں اٹھا تو ایک سکون سا ملا۔

یہ میری پرانی عادت ہے، کچھ نہ کر پاؤں تو اس دھوئیں میں پناہ لیتا ہوں۔

دھواں میرے چاروں طرف پھیلتا جا رہا تھا۔ آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا۔ سپنے۔۔۔  میرے اپنے سپنے، میرے اپنے خواب چاروں طرف پھیل گئے اور تھپک تھپک کر لوریاں دینے لگے۔

بریک لگنے کے جھٹکے سے آنکھ کھلی۔ بس اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے آئینہ میں دیکھا، وہ اپنا سامان ٹھیک کر رہی تھی۔ میں نے آہستگی سے بیگ اٹھایا اور یوں دروازے کی طرف چلا جیسے اس جہان سے جا رہا ہوں۔

دروازے میں رش تھا۔ چند لمحوں کے لیے رکنا پڑا۔ اگلی سواریاں ہٹیں تو میں آگے بڑھا۔ دفعتاً مجھے احساس ہوا کہ کسی نے آہستگی سے میرے ہاتھ کو دبایا ہے۔

میں یکدم مڑا۔

وہ میرے بالکل پیچھے تھی۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، کرتا۔۔۔  اس کی آنکھوں سے ایک گرم گرم موتی نکل کر میرے ہاتھ پر آن گرا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے جلدی سے آنکھیں صاف کیں اور میرے بازو سے ہوتی ہوئی نیچے اتر گئی۔

میں وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔

اور اب مجھے گھر آئے بھی کئی دن گزر چکے ہیں ، لیکن یوں لگتا ہے جیسے میں ابھی تک وہیں کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ پر گرا موتی ابھی تک اسی طرح گرم ہے اور چمک رہا ہے!

٭٭٭

 

 دل دریا

ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا سامنے ہے اور پار کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے پار کیا ہی نہ جائے اور اسی کنارے چلتے چلے جائیں ، شاید کہیں کوئی راستہ مل جائے یا ادھر کا کنارہ کسی دوسرے کنارے سے ہم آہنگ ہو جائے۔ لیکن کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو پار جانا ہو گا، دریا عبور کرنے کا خوف، بلکہ اس کی تیز رفتاری کا خوف کب تک راستہ روکے رکھے گا۔

کہتے ہیں ، ایک پیر اپنے مریدوں کے ساتھ جنگل سے گزر رہا تھا۔ جنگل بڑا بھیانک اور خوف ناک تھا لیکن پیرا ور اس کے مرید بے خوف و خطر آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔ چلتے چلتے ایک رات ایک مرید کو سونے کی ایک ڈلی مل گئی۔ اس نے کسی کو بتائے بغیر اسے اپنی گٹھڑی میں چھپا لیا۔ رات کو اسے دفعتاً احساس ہوا کہ کہیں چور ڈاکو اُن پر حملہ نہ کر دیں۔ بڑا بے چین ہوا اور اسی عالم میں اٹھ کر اِدھر اُدھر پھرنے لگا۔ پیر کی آنکھ کھل گئی۔ مرید کو مضطرب دیکھ کر پوچھا، کیا بات ہے؟ مرید بولا، حضرت! ڈر لگ رہا ہے۔ پیر نے تسلی دی، بیٹا ڈر کس بات کا، جاؤ سو جاؤ! اگلے دن مرید نے پھر کہا، حضرت ڈر لگ رہا ہے، کہیں ڈاکو ہم پر حملے نہ کر دیں۔ پیر نے کہا، ہمارے پاس کیا ہے، اگر حملہ کر بھی دیں تو ہمیں کیا فکر! مرید چپ ہو گیا لیکن شام پڑتے ہی پھر بولا، حضرت ڈر لگ رہا ہے۔ پیر نے ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا پھر بولا، ڈر والی چیز پھینک دو، ڈر خود بخود ختم ہو جائے گا۔

لیکن ڈر والی چیز پھینکنا کیا اتنا ہی آسان ہے اور یہ پار جانے کا خوف، اس سے کیسے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، یہ سوچ کر کہ آدمی ساری عمر اسی کنارے رہے؟ لیکن دوسرا کنارہ آوازیں جو دیتا ہے، اس کی پکار سن کر رات کو آنکھ کھل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے، ادھر کوئی ہے شاید اپنا ہی آپ اور اپنے آپ سے ملنے کی تمنا رات کو جگا دیتی ہے۔ دن بھر بے چین رکھتی ہے۔ اس تمنا کو چھوڑا بھی نہیں جا سکتا اور اسے پورا کرنے کی ہمت بھی نہیں۔ کئی بار سوچا کہ لمحہ بھر کے لیے آنکھیں بند کر کے اس بپھرتے دریا میں کود جاؤں ، پھر دیکھا جائے گا، دوسرے کنارے پر نہ پہنچا تو کہیں نہ کہیں تو پہنچ ہی جاؤں گا، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو ادھر والے کنارے پر چلتے چلتے بھی پہنچ ہی جاؤں گا، اصل بات تو دوسرے کنارے کی ہے۔ ایک یوگی اور ایک ویدانتی دریا کے کنارے اکٹھے ہوئے، پار جانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ یوگی نے اپنے یوگ کے زور پر دریا کی لہروں پر پاؤں رکھا اور قدم قدم چلتا پار ہو گیا۔ ویدانتی اسی کنارے پر بیٹھ گیا، اس نے سوچا۔۔۔  اور سوچ کی لہروں پر چلتا دریا کی اتھاہ گہرائیوں میں سے ہو آیا۔ دوسرے کنارے پہنچ کر یوگی نے طنزاً آواز دی، ’’میں تو پار اُتر لیا۔‘‘

ویدانتی سوچ سمندر سے نکلا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا، ’’لیکن میں اس کی گہرائیوں سے ہو آیا۔‘‘

تو پھر یوگی کی راہ سچ ہوئی یا ویدانتی کی؟

دوسرے کنارے جانا اہم ہے یا اس بپھرتے دریا کی اتھاہ کو پانا؟ تو اسی کنارے چلتے جائیں ، کبھی تو وہ مقام آئے گا ہی جہاں پہ بپھرتا دریا اپنے سے بڑے کسی اور دریا میں گم ہو جائے گا، نہ کنارے رہیں گے نہ پار اترنے کی تمنا۔ لیکن اتھاہ گہرائی تو پھر بھی رہے گی جو اس دریا سے نکل کر اس سے بھی بڑے دریا اتر جائے گی، تو سفر یہی ہے کہ ایک دریا سے دوسرے دریا میں اور دوسرے سے تیسرے میں ، یہ کائنات بھی اپنے سے بڑی کسی دوسری کائنات کے اندر دُبکی بیٹھی ہے اور وہ اپنے سے بڑی کسی تیسری کے اندر اور یہ سلسلہ جانے کہاں جا کر ختم ہو تا ہے اور ان کے اندر چھوٹا ہوتے ہوتے میں ایک ذرّے کی طرح۔۔۔  لیکن یہ تو مرکزی نقطہ ہوا، تو کیا میں۔۔۔  میں !

روایت ہے کہ جب اسے سولی پر چڑھایا گیا تو ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ ایک ’’اَنا‘‘ تو نے کہی اور ایک ’’اَنا‘‘ میں نے کہی تھی، پھر یہ کیا بات ہے کہ تجھ پر تو رحمت کی بارش ہوئی اور میں راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ حلّاج نے جواب دیا کہ تیری اَنا تری ذات میں رہی جب کہ میں نے اسے خود سے دور کر دیا۔۔۔  تو دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کی تمنا سے بڑھ کر یہ ٹھہرا کہ اس کی اتھاہ گہرائیوں کو جانا جائے۔

سو میں اب اس بپھرتے دریا کے کنارے کنارے چلا جا رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کسی دن، جب میں اس کی اتھاہ گہرائی کو پالوں گا تو اس یوگی کی تلاش میں نکلوں گا جو اپنے یوگ کے زور پر اس کی لہروں پر چلتا دوسرے کنارے پر جا اترا تھا اور اس سے پوچھوں گا کہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کا اپنا آپ باقی بھی رہا کہ نہیں !

اس کنارے پر میں کچھ پا سکا کہ نہیں ، لیکن کم از کم یہ تو ہے کہ میں موجود ہوں۔۔۔  اپنے ہونے کے احساس کے ساتھ، تو کیا یہی اس بپھرتے دریا کی اتھاہ گہرائی نہیں !

٭٭٭

 

تسلسل

رات گئے جب وہ تصویر بغل میں دبائے میرے پاس آیا تو شہر کے بڑے چوک میں جمع لوگ تتربتر ہو چکے تھے۔ لاش کو سولی سے اتار لیا گیا تھا اور  سوگواروں کو لاٹھیاں مار مار کر بھگا دیا گیا تھا۔

میرے دروازہ کھولنے پر اس نے چاروں طرف دیکھا اور تیزی سے اندر آگیا، پھر اپنے پیچھے دروازہ بند کر کے اس نے بغل میں سے تصویر نکالی اور میرے حوالے کر دی۔ میں نے خاموشی سے اخبار میں لپٹی تصویر پکڑ لی۔ وہ بغیر کچھ کہے واپس مڑا اور دروازہ کھول کر تاریک گلی میں گم ہو گیا۔ دروازہ بند کرنے سے پہلے میں نے گلی میں جھانکا اور تیزی سے دروازہ بند کر کے کمرے میں آ گیا۔ کمرے میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں تصویر کو چھپایا جا سکے۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے تصویر کو پلنگ کے گدے کے نیچے رکھ دیا اور خود صوفے پر لیٹ گیا۔

دفعتاً مجھے خیال آیا کہ تلاشی لینے والے سب سے پہلے گدے ہی کو اٹھا کر دیکھیں گے، لیکن اور کوئی جگہ تھی بھی نہیں۔ الماری میں چند کتابیں اور دو ایک آرائش کی چیزیں تھیں۔ لکھنے کی میز بھی سامنے تھی۔ کپڑوں کی الماری میں چھپانا بھی بے سود تھا، لے دے کے یہی ایک جگہ تھی۔

دیکھا جائے گا۔۔۔  میں نے خود سے کہا، لیکن دوسرے ہی لمحے جب خیال آیا کہ اگر یہ تصویر میرے پاس سے بر آمد ہو گئی تو میرا کیا حشر ہو گا، تو سارے جسم میں ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔

اس تصویر کو اپنے پاس رکھنا مو ت کو دعوت دینا تھا۔ کئی دنوں سے سارے شہر میں اس کی تلاش ہو رہی تھی لیکن کسی نہ کسی طرح یہ تصویر ہر رات ایک نئے گھر میں منتقل ہو جاتی اور مخبر کی اطلاع پر پڑا چھاپہ ناکام رہتا۔ شہر کے بڑے چوک میں صاحبِ تصویر کی لاش سب سے اونچے کھمبے پر علی الصبح لٹک جاتی۔ دن چڑھے وہاں سوگواروں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔ مسلح سپاہیوں کے دستے ہجوم پر ٹوٹ پڑتے۔ ہجوم کو ایک طرف دھکیل کر ہٹایا جاتا تو وہ دوسری طرف سے نکل آتا۔ شام تک یہی تماشا رہتا اور جب وہ کسی نہ کسی طرح ہجوم کو چیر کر لاش کو کھمبے سے اتارتے تو رات شہر پر ٹوٹ پڑتی۔ وہ لاش کو لے کر دور کہیں دفن کر آتے۔ لوگ آہ و پکار کرتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے لیکن اگلی صبح جانے کیسے لاش قبر سے نکل کر سب سے اونچے کھمبے سے لٹک جاتی۔

شروع شروع میں ان کا خیال تھا کہ کوئی لاش قبر میں سے نکال لاتا ہے، اس پر انہوں نے اسے دفن کر کے قبر پر سخت پہرہ بٹھا دیا لیکن لاش پھر بھی نکل گئی اور کھمبے سے جا لٹکی۔ اس پر انہیں خیال آیا کہ یہ لاش کا نہیں اس کی تصویر کا کیا دھرا ہے۔ بس پھر کیا تھا،وہ تصویر کی تلاش میں نکل پڑے اور انہوں نے شہر کی ہر تصویر کو چیر ڈالا کہ شاید وہ ان میں کہیں چھپی ہو، لیکن اصل تصویر ان کے ہاتھ نہ لگی۔ اس کے سوگوار ہر رات تصویر کو نئے گھر میں منتقل کر دیتے اور مخبر کی اطلاع پر پڑا چھاپہ ناکام رہتا۔

فریم میں جڑی اس تصویر پر اخبار کا کاغذ لپٹا ہوا تھا جسے موٹے دھاگے سے چاروں طرف سے اس طرح باندھ دیا گیا تھا کہ تصویر کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی۔ تصویر اسی طرح لپٹی لپٹائی آتی اور اگلی رات کہیں اور چلی جاتی۔ میں نے بھی تصویر اسی طرح اٹھا کر گدے کے نیچے رکھ دی تھی اور صوفے پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ آخر کب تک تصویر کو یوں چھپایا جاتا رہے گا۔ اچھے دنوں کی امید تو اب خاک ہوئی جا رہی تھی اور تلاش کرنے والے سدھائے ہوئے کتوں کی طرح ایک ایک انچ زمین سونگھ رہے تھے۔۔۔  ایک نہ ایک دن تو وہ تصویر تک پہنچ ہی جائیں گے اور پھر اچھے دنوں کا خواب بھی خواب بن کر رہ جائے گا۔

دفعتاً دروازہ پر دستک سی ہوئی، میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ خوف کی ایک لہر میرے سارے وجود پر پھیل گئی۔ جلدی سے ڈیوڑھی میں آیا اور دروازے کی درزوں میں سے باہر جھانکا۔

گلی سنسان پڑی تھی اور تیز ہوا دروازوں پر دستکیں دے رہی تھی۔

میں واپس کمرے میں آگیا۔

آخر کب تک تصویر کی حفاظت کرتے رہیں گے؟

کب تک؟

دفعتاً میرے دل میں ایک عجب سے خیال نے جنم لیا کہ ایک نظر اس تصویر کو دیکھوں تو سہی۔

یہ تصویر ہے کیسی؟

لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اس خیال کو جھٹک دیا۔۔۔

آج تک کسی نے بھی اس پر لپٹا کاغذ نہیں اتارا۔ یہ تصویر اسی طرح کاغذ میں لپٹی، بندھی ہوئی ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جاتی ہے۔

میں دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا۔ لیکن بار بار کوئی اُکساتا کہ ایک نظر تصویر کو دیکھوں۔ میں نے خود کو اِدھر اُدھر کے خیالوں میں الجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار کاغذ میں لپٹی تصویر میرے سامنے آ کھڑی ہوتی اور کہتی کہ مجھ پر لپٹا یہ کاغذ اتارو، آخر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں دبے پاؤں ڈیوڑھی میں آیا۔ دروازہ بند تھا، گلی سنسان، میں خاموشی سے کمرے میں آیا۔ کانپتے ہاتھوں سے گدا اٹھا کر تصویر نکالی۔ فریم پر اخبار لپٹا ہوا تھا اور اس کے گرد موٹے دھاگے کا جال تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ دھاگہ کھولا۔ اخبار ہٹایا۔

یوں لگا جیسے میرا سارا جسم پتھرا گیا ہے۔

یہ تو میری اپنی تصویر تھی!

٭٭٭

 

ایک گمنام سیّاح کی ڈائری کے چند اوراق

یہ ایک گمنام سیّاح کی ڈائری کے چند اوراق ہیں۔ یہ سیّاح سیّاحت چھوڑ کر اس شہر میں آن بسا تھا۔ شہر کی کھدائی کے دوران یہ اوراق ایک دیوار کے نیچے سے ملے۔

پہلا ورق

یہ عجب شہر ہے۔ میں نے کئی شہروں کی سیّاحت کی ہے لیکن اس طرح کا شہر اور اس طرح کے لوگ کہیں نہیں دیکھے۔ اس شہر کے وسط میں ایک بڑا چوک ہے جس میں ایک مشکی گھوڑا کھڑا ہے۔ گھوڑے کا اَنگ اَنگ پھڑک رہا ہے اور نتھنوں سے پھنکاریں نکل رہی ہیں۔ اس پر خوبصورت زین کسا ہے اور خالی رکابیں ہر ایک شخص کو سواری کی دعوت دے رہی ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور چابکدستی سے اس کی لگامیں تھام لیں۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑے نے پچھلے سموں سے زمین کریدی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گیا اور سوار کو لے کر سارے شہر میں دوڑتا پھرا۔ ایک لمبا چکر لگا کر وہ بھرے بازاروں میں سے ہوتا ہوا اُسی چوک میں آیا اور اُچھل کر سوار کو اس طرح نیچے پھینکا کہ سوار اس کے سموں تلے آ کر بری طرح کچلا گیا۔ اسے کچلتے دیکھ کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑا سوار کو کچل کر دوبارہ اپنی جگہ آ کھڑا ہوا۔ اس کا پھڑکتا انگ انگ نئے سوار کو دعوت دینے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور شخص کچلے ہوئے شخص کے اوپر سے دوڑتا ہوا، اچھل کر اُس پر سوار ہو گیا۔ گھوڑا اسے لے کر شہر کی سڑکوں پر ہوا ہو گیا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑا شہر کا چکر لگا کر چوک میں واپس آیا اور سوار کو نیچے گرا کر اُسے اپنے پاؤں تلے کچل ڈالا۔ لوگوں نے پھر تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔۔۔  اس کے بعد ایک اور شخص کچلے ہوئے شخص کے ملبے پر کھڑا ہو کر اُچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا۔۔۔  اور اسی طرح ایک کے بعد ایک۔۔۔

لوگ سوار ہوتے ہوئے شخص کے لیے بھی تالیاں بجاتے ہیں اور جب وہ گھوڑے کے پاؤں تلے کچلا جا رہا ہوتا ہے تو بھی اسی طرح خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے ہیں۔

دوسرا ورق

چند روز اس شہر میں رہنے کے بعد یہ عجب انکشاف ہوا ہے کہ اس شہر کے لوگ اگرچہ بظاہر چل پھر رہے ہیں لیکن اپاہج ہیں۔ ان کا چلنا پھرنا ایک قیاس ہے۔ وہ کب سے اپاہج ہیں مجھے معلوم نہیں۔ انہیں تو اس کا احساس بھی نہیں کہ اندر سے اپاہج ہو چکے ہیں۔ روزمرّہ کا کام بظاہر ٹھیک چل رہا ہے۔ سڑکوں پر چہل پہل ہے۔ دفتروں میں رونق ہے۔ ہر سمت ایک ہنگامہ ہے۔ جن بیساکھیوں پر وہ چل رہے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتیں یا پھر یہ کہ سارے شہر نے ایک خاموش سمجھوتہ کر لیا ہے۔

کہ وہ ایک دوسرے کو اپاہج ہونے کا احساس نہیں دلائیں گے۔

تیسرا ورق

کئی مہینے یہاں گزارنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ شہر گفتگو کا بڑا رسیا ہے۔ گلی کوچوں ، بازاروں ، کلبوں ، ہوٹلوں ، دفتروں اور درس گاہوں میں مسلسل بحثیں ہو رہی ہیں لیکن ان بحثوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ان کے لفظ بے حرمت ہو چکے ہیں۔ اخباروں میں بڑے بڑے تنقیدی مضامین چھپتے ہیں۔ لوگ انہیں مزے لے لے کر پڑھتے ہیں ، ایک دوسرے کو متوجہ کراتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ یہاں جلسے اور سیمینار بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان جلسوں اور سیمیناروں میں زبردست تنقید ہوتی ہے۔ مفید تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ساری کارروائی یہیں تک محدود رہتی ہے۔ شہر کی زندگی اور نظام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ گفتگو میں جذبہ بہت ہے، اتنا کہ اکثر ان بحثوں اور گفتگو میں وہ ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں لیکن نتیجہ۔۔۔  ؟

چوتھا ورق

یہاں کا یہ عجب دستور دیکھا کہ محسنوں کو دار پر لٹکاتے ہیں اور غداروں کی برسیاں مناتے ہیں۔ پھر دونوں صورتوں میں بعد میں پچھتاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں ہیرو اور غدار میں تمیز کرنا نہیں آتا۔ وہ صرف تالیاں بجاتے یا اُوئے اُوئے کرتے ہیں۔ یہاں سارا کام فتووں پر چلتا ہے۔ یہ فتوے مذہبی رہنما بھی جاری کرتے ہیں اور سیاسی رہنما بھی۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر ان پر عمل کرتے ہیں اور بعد میں افسوس۔

اتنا عرصہ اس شہر میں رہنے کے باوجود میں معلوم نہیں کر سکا کہ اس طلسم کے پیچھے کون جادوگر بیٹھا ہے۔ کئیوں کا خیال ہے کہ وہ کسی دور دیس میں رہتا ہے اور یہاں صرف اس کے کارندے ہیں۔ کئیوں کا خیال ہے کہ وہ یہیں اندر ہی موجود ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ بس کبھی کبھی لگتا ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ جادوگر خود ہے، یہ خود ہی اپنے خلاف سازش کرتے ہیں اور خود ہی شور مچاتے ہیں۔ خود ہی تماشہ گر، خود ہی تماشہ اور خود ہی تماشائی۔

پانچواں ورق

بہت دنوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے ہر شے بے اعتبار ہو گئی ہے۔ ذائقے پھیکے پڑ گئے ہیں ، ثمر بے مٹھاس، درخت بے چھاؤں ، موسم بے اثر اور پھول بے خوشبو۔ یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ ایک شوکیس میں سجا ہوا ہے کہ دید تو ہے حرکت نہیں۔

چھٹا ورق

لوگوں کے مزاج میں ایک عجب طرح کی تندی اور غصہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو چیر پھاڑ دینا چاہتے ہیں ، بس کسی بہانے کی ضرورت ہے۔ کل زبردست جنگ ہوئی، آدھا شہر ایک طرف، آدھا دوسری طرف۔ اس لڑائی میں انہوں نے ایک دوسرے کو یرغمال بنایا اور اب ایک دوسرے کے یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے گفتگو ہو رہی ہے۔ میں کس طرف ہوں ، کچھ سمجھ نہیں آتا، لگتا ہے کسی اَن دیکھی گولی پر میرا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ کسی دن یہ گولی کسی طرف سے آئے گی اور بس۔۔۔

اس سے پہلے کہ میرے نام کی گولی مجھے تلاش کر لے، میں یہ شہر چھوڑ دوں گا۔۔۔  میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آج رات خاموشی سے۔۔۔

آخری صفحہ

آخری صفحہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہے، لفظ مٹ گئے ہیں۔ بڑی کوشش سے جو کچھ پڑھا جا سکا اور اِدھر اُدھر سے سن سنا کر جو کچھ معلوم ہوا اُس کا لبِ لباب یہ ہے کہ سیّاح اس رات شہر نہ چھوڑ سکا۔ اس کے شہر چھوڑنے سے پہلے ہی آفت نے شہر کو لپیٹ میں لے لیا۔ سنا ہے کہ زمین کے نیچے جو بیل دنیا کو اپنے سینگ پر اٹھائے پھرتا ہے، وہ شہر والوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ایسا غصے میں آیا کہ اس نے لمحہ بھر میں شہر کو ایک سینگ سے اچھال کر دوسرے سینگ پر الٹ دیا، سب کچھ تہہ و بالا ہو گیا۔ شہر والوں کے ساتھ سیّاح بھی مارا گیا، لیکن وہ اب سیّاح کہاں رہ گیا تھا۔۔۔  وہ تو اسی شہر کا باسی بن چکا تھا، سو سفر نامہ، سیّاح اور شہر ایک ہی انجام سے دو چار ہوئے!

٭٭٭

 

بے خوشبو عکس

داستان گو اس کہانی کو یوں سنا تا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد، عورتیں ، بوڑھے، جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر بدحواسی کے عالم میں کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔ جدھر جاتا اُدھر سے ڈھول بجاتے ہجوم میں گھِر جاتا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ بھاگ کر شیر اتنا بد حواس ہو گیا کہ شہر کے ایک چوراہے میں آن گرا۔ آوازوں کے برستے پتھروں سے بچنے کے لیے اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دبا لیا، لیکن آوازیں مسلسل اس پر ٹوٹ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اتر رہی تھیں۔ شہر کے لوگ اب اس کے گرد اگرد اکٹھے ہو گئے تھے اور مسلسل ڈھول پیٹ رہے تھے۔ جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا وہ اسے بجا رہا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شیر بے بسی کے عالم میں کبھی اپنا سر اٹھاتا اور آوازوں کے تھپیڑوں سے گھبرا کر دوبارہ گھٹنوں میں دبا لیتا۔ آہستہ آہستہ اس کی حالت بدلنے لگی اور کچھ دیر بعد یوں معلوم ہوا جیسے اس کے وجود میں سے گیدڑ جنم لے رہا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کے وجود میں سے مکمل گیدڑ نکل آیا۔ اس نے منہ اٹھا کر گیدڑ کی آواز نکالی اور دم دبا کر ایک گلی میں بھاگ گیا۔

شہر کے لوگ ہنستے قہقہے لگاتے اپنے اپنے ڈھول اور برتن پیٹتے گھروں کی طرف لوٹے۔

داستان گو نے ایک شخص سے پوچھا۔۔۔  ’’یہ کیا تماشہ ہے؟‘‘

وہ شخص بولا۔۔۔  ’’اجنبی لگتے ہو۔‘‘

داستان گو نے سر ہلایا تو وہ کہنے لگا۔۔۔  ’’ہم شیروں کو گیدڑ بنا دیتے ہیں۔‘‘

پھر وہ ہنسنے لگا، لمحہ بھر توقّف رہا پھر بولا۔۔۔  ’’جب بھی اس شہر میں کوئی شیر پیدا ہوتا ہے تو ہم سب مل کر اتنا ہونکا لگاتے ہیں کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں بے بسی سے دوڑنے لگتا ہے۔ ہم اسے دوڑا دوڑا کر اور ڈھول پیٹ پیٹ کر ایسا بے بس اور بدحواس کرتے ہیں کہ بالآخر وہ گیدڑ بن جاتا ہے۔‘‘

داستان گو نے پوچھا۔۔۔  ’’اب تو اس شہر میں ایک بھی شیر نہیں ہو گا؟‘‘

اس شخص نے فخر سے سر اٹھایا۔۔۔  ’’ہم نے رہنے ہی نہیں دیا۔‘‘

داستان گو بتاتا ہے کہ میں کئی دن سے اس شہر میں رہا اور میں نے دیکھا کہ شہر کے لوگ تماشے کے بڑے شوقین ہیں۔ انہیں دوسروں کو بے بس اور بدحواس کرنے کا ایسا چسکا پڑا ہے کہ اگر شیر نہ ملے تو اپنے ہی کسی ساتھی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اس کے گرد اکٹھے ہو کر اس طرح ہو ہاؤ کرتے اور ڈھول پیٹتے ہیں کہ وہ آدمی شہر کے کسی چوراہے پر بے دم ہو کر گر پڑتا ہے۔ وہ اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ڈھول پیٹے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس آدمی کے قالب سے بھیڑ برآمد ہونے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ آدمی سے بھیڑ بن جاتا ہے۔

داستان گو بتاتا ہے کہ اب شہر میں یا گیدڑ ہیں یا بھیڑیں۔ شہر کے اونچے مکانوں ، سجے ریستورانوں اور پر ہجوم دفاتر میں ہر طرف بھیڑیں ہی بھیڑیں یا گیدڑ ہی گیدڑ دکھائی دیتے ہیں۔ داستان گو جب کوئی سوال کرتا ہے تو وہ حیرت سے اسے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اجنبی تو نہیں ، کیونکہ ہم تو سوال کرنے کی عادت ہی بھول بیٹھے ہیں۔ اور انہیں برا لگتا ہے کہ یہ سوال کرنے والا ان کے درمیان کہاں سے آگیا، سو ایک صبح انہوں نے داستان گو کو شہر بدر کر دیا کہ انہیں نہ کوئی داستان سننی تھی نہ سنانا تھی۔

داستان گو بتاتا ہے کہ شہر چھوڑنے سے پہلے میں نے شہر کی فصیل سے شہر پر آخری نظر ڈالی۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔ بھیڑیں اور گیدڑ سر جھکائے اپنے روز کے کاموں میں مصروف تھے۔ کسی کو ذرا بھر بھی فکر نہ تھی کہ داستاں گو اس شہر سے نکالا جا رہا ہے کہ انہیں سوچنے اور سوال کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔

بس یہ آخری منظر تھا جو داستان گو نے شہر کی فصیل سے دیکھا۔

داستان گو چپ ہوا تو میں نے پوچھا۔۔۔  ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔۔۔  ’’میں وہاں سے چلا آیا اور ملک ملک، در بدر کی خاک چھانتا پھرا لیکن اس شہر کو، کہ میرے دل میں بستا تھا، بھول نہ سکا۔ جی چاہتا تھا کہ وہاں لوٹ جاؤں لیکن شہر بدری کے حکم اور لوگوں کے خوف نے دل تو ڑ دیا تھا۔‘‘

داستان گو خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا۔۔۔  بعد ایک مدت کے میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور میں نے شہر لوٹنے کا ارادہ کر لیا۔ کوسوں کی مسافتیں سمیٹتا ایک صبح شہر کے دروازے پر جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور دور دور تک کوئی پہرے دار دکھائی نہیں دیتا۔ حیرت زدہ ہوا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔  خیر قدرے پس و پیش کے ساتھ اندر داخل ہوا۔

یا حیرت۔۔۔  کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کا شہر ویران پڑا ہے اور سڑکوں گلیوں میں دھول اُڑ رہی ہے۔

الٰہی یہ کیا قصہ ہے۔۔۔  شہر کے لوگ کسی نئے کھیل میں تو مشغول نہیں۔ کچھ ڈر بھی لگا کہ یہ شہر کے لوگوں کی کوئی نئی گھات نہ ہو۔ کیا معلوم شیروں کے بعد، شہر کے آدمی گیدڑ بن چکے ہوں اور اب وہ اجنبیوں کو گیدڑ بناتے ہوں۔ کچھ جھجکا، پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھا۔۔۔  بازار کے بازار سنسان پڑے تھے۔ البتہ گلیوں اور سڑکوں پر جا بجا خون کے دھبّے اور کٹے ہوئے، چبائے ہوئے انسانی اعضا دکھائی دئیے۔ دل میں ڈر جاگا کہ ضرور کوئی اسرار ہے؟

ابھی اسی سوچ میں تھا کہ آگے بڑھوں یا لوٹ جاؤں کہ کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ چونک کر آواز کی سمت بڑھا تو دیکھا کہ ایک تھڑے کے نیچے ایک شخص، جس کا آدھا دھڑ کوئی چبا گیا ہے، پڑا کراہتا ہے۔

قریب جا کر پوچھا۔۔۔  ’’اے شخص! یہ کیا ماجرا ہے، شہر والے کیا ہوئے اور تجھ پر کیا افتاد پڑی؟‘‘

آواز سن کر اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور نحیف مرئی آواز میں بولا۔۔۔  ’’اے داستان گو! میں نے تجھے پہچا ن لیا ہے۔ ہم نے تمہیں شہر بدر کیا تھا۔‘‘

داستان گو نے کہا۔۔۔  ’’لیکن جب مجھے شہر بدر کیا گیا تھا اس وقت تو شہر ہنستا بولتا تھا، ایسی کیا افتاد پڑی کہ شہر کا شہر ہی ویران ہو گیا اور اس شہر کے تماش بین لوگ کہاں گئے ؟‘‘

اس شخص نے کہ زخموں سے چور اور مرنے کے قریب تھا، بڑی مشکل سے کہا۔۔۔  ’’شہر والوں کو چسکا پڑ گیا تھا کہ شیر کو گیدڑ بنا دیتے تھے۔ جب بھی کوئی شیر پیدا ہوتا وہ ڈھول پیٹ پیٹ کر اور شور مچا مچا کر اسے گیدڑ بنا دیتے، پھر انہوں نے ان آدمیوں سے بھی، جو ذرا سر اٹھا کر چلنا چاہتے تھے، یہی سلوک کیا۔

’’پھر‘‘۔۔۔  داستان گو نے سوال کیا،

’’پھر یہ کہ شیر تو سارے ایک ایک کر کے ختم ہو گئے، لیکن شہر والوں کے مسلسل شور اور ڈھول پیٹنے سے آس پاس کے گیدڑ شیر بن گئے اور ایک دن وہ شہر پر ٹوٹ پڑے۔ شہر والوں نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا اور انہیں دیکھ کر ڈھول پیٹتے باجے بجاتے ان کے گرد اکٹھے ہو گئے لیکن۔۔۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’یہ کہ جوں جوں شور بڑھتا گیا اور ڈھول باجوں کی آوازیں تیز ہوتی گئیں ، گیڈروں کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں ، ان کا جوش بڑھتا گیا اور ایک لمحہ وہ آیا کہ وہ شیروں کی طرح دھاڑیں مارتے ہوئے لوگوں پر ٹوٹ پڑے۔‘‘

داستان گو چپ ہو گیا۔

بہت دیر خاموشی رہی پھر داستان گو نے مجھ سے پوچھا۔۔۔

’’تمہیں کیا ہوا؟ تم کیوں اتنے چپ ہو؟‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’میرے شہر والے مجھے بھی شہر بدر کر رہے ہیں۔‘‘

داستان گو کچھ نہیں بولا۔ ہم دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

کہ مقدر کے لکھے کو تو شاید ٹالا جا سکتا ہے، لیکن اپنے کئے کو ٹالنا ممکن نہیں !

٭٭٭

 

عکسِ بے خیال

پچھلے کئی دنوں سے پرانا گھر میرا پیچھا کر رہا ہے،

اس گھر میں میری زندگی کے بہت سے سورج طلوع اور غروب ہوئے۔ میں نے زندگی کے پہلے زینہ پر وہیں قدم رکھا تھا اور جب میں وہاں سے نکلا تو زندگی کے زینے اتر رہا تھا۔ وہاں کی ایک ایک دیوار پر میری خواہشوں اور تمناؤں کے نقش کھدے ہوئے ہیں۔کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے ان دیواروں ہی میں سے جنم لیا ہے اور کسی دن مجھے انہی دیوارو ں میں گم ہو جانا ہے، میر ی طرح کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دیواروں سے مکالمہ کرتے ہوں اور دیواروں کی گود میں بیٹھ کر ایک نئے جہان کی سیر کرتے ہوں ، میں نے ان دیواروں سے بہت مکالمہ کیا ہے،، اپنے جاننے، ہونے، پانے اور کھو جانے کے بارے میں بے شمار سوال کئے ہیں اور دیواروں نے مجھے جواب دئیے ہیں ، کبھی مطمئن کرنے والے، کبھی پیاس کو اور بڑھا دینے والے، کبھی مایوس کر دینے والے۔۔۔  اور ان کی گود، ایک ایسی بکل ہے جس میں گم ہو کر میں ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہوں ، ایک ایسی دنیا جو یا تو میری اس ظاہری دنیا کا عکس ہے، یا پھر یہ ظاہری دنیا اس کا عکس ہے۔۔۔  عکس اور حقیقت کا یہ مغالطہ، میرے ہونے یا نہ ہونے کا کھیل۔۔۔  ہاں یہ سب ایک کھیل ہی ہے، جس کا تعلق میرے اس پرانے گھر سے ہے اور اسی سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ انسانوں کے علاوہ چیزیں بھی جذبے رکھتی ہیں اور تعلقات بنانا جانتی ہیں۔ انسانوں کے تعلقات میں تو رشتے کی کوئی نہ کوئی نوعیت ضرور ہوتی ہے، لیکن چیزوں کے رشتے عجیب ہیں ، شاید ان کی بھی ایک روح ہوتی ہے اور یہ جو ہم پرانی چیزوں سے، آثار قدیمہ سے، محبت کرتے، ان کی قدر دانی کرتے ہیں تو یہ اسی روح کا تسلسل ہے۔۔۔  ایک روحانی تسلسل، جو نسل در نسل چلتا اور ورثے میں منتقل ہوتا ہے، لیکن جس طرح جذبے اور تعلقات اپنی کئی تہیں رکھتے ہیں ، اسی طرح اس گھر کے ساتھ میرا تعلق بھی کئی طرح کا ہے، میرے بیوی بچوں کا اس سے تعلق اتناہی ہے کہ یہ گھر پرانے محلہ میں ہے اور اب ہماری ضرورت کے لحاظ سے رہنے کے قابل نہیں ، لیکن میرا تعلق اس سے اور طرح کا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے پرانے پن اور چھوٹے سے احاطہ کے اندر ایک بڑا جہان چھپا بیٹھا ہے، میں نے اس جہان کو دریافت کر لیا ہے اور میرے بیوی بچے اسے دریافت نہیں کر سکے، چنانچہ ان کا یہ مسلسل اصرار کہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں ، اس لیے گھر بدلنا چاہئے اور یہ کہ یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں ، انہیں اندرون شہر گندگی اور بدبو کا احساس ہوتا ہے اور مجھے اندرونِ شہر اپنائیت اور خوشبو محسوس ہوتی ہے۔۔۔  یہ بھی اپنی اپنی دریافت ہے، چیزوں سے اپنا اپنا رشتہ، اپنا اپنا مکالمہ، لیکن ایک عمر کے بعد آدمی صرف اپنا نہیں رہتا، بیوی بچوں کا ہو جاتا ہے۔۔۔  میں نے ان کی بات مان لی اور یہ گھر چھوڑ دیا۔

جس دن ہم سامان منتقل کر رہے تھے مجھے ذرّہ بھر بھی احساس نہیں تھا کہ اس گھر سے میرا رشتہ کیا ہے۔ اسے چھوڑتے ہوئے ایک بے اطمینانی اور اداسی ضرور تھی، لیکن پرانے پڑوسیوں سے رخصت ہونے کی رقّت آمیزی اس پر حاوی ہو گئی۔ نئے گھر کی پہلی رات، سٹیشن پر بکھرے سامان کے ساتھ گاڑی کے انتظار کی کیفیت میں گزر گئی، پھر ایک رات اور۔۔۔  دوسری رات شاید کئی راتیں ، نئے گھر کی آرائش، نیا ماحول۔ میں پلٹ کر پرانے محلہ میں نہ جا سکا، لیکن کئی راتوں کے بعد، ایک رات، رات گئے کال بیل مسلسل بجتی رہی، آنکھ کھلی تو حیرت کا احساس ہوا کہ میرے سوا کوئی نہیں جاگا۔۔۔  کال بیل مسلسل بجے جا رہی تھی، مجھے لگا یہ صرف میرے لیے ہے اور اسے سن کر کوئی میرے اندر پکارے جا رہا ہے۔۔۔  لبیک، لبیک۔۔۔  لبیک۔

میں آہستگی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر آیا۔۔۔  سامنے پرانا گھر کھڑا تھا۔۔۔  میں چپ چاپ اسے دیکھے گیا، اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، نہ کوئی شکوہ، نہ اداسی، نہ خوشی، بس چپ چاپ کھڑا تھا، میں بھی اس کے سامنے خاموش کھڑا رہا،

شاید ایک لمحہ بیتا۔۔۔  یا ایک صدی یا کئی صدیاں ،

پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے اندر سمو لیا،

وہی سیلن زدہ دیواریں ، زندگی کی مہک سے لبالب، وہی بوسیدہ چھت تحفظ کے احساس سے چمکتی دمکتی، میں اپنے چھوٹے سے وجود سے نکل کر اس کی کائنات میں گم ہو گیا اور نہ جانے کتنی دیر وہاں رہا، شاید رات کے پچھلے پہر تک، کائنات کے اختتام تک۔۔۔  ازل سے ابد تک۔

اور اب یہ روز کا معمول ہے کہ رات گئے، پرانا گھر کال بیل بجاتا ہے، جسے صرف میں سنتا ہوں ، میں خاموشی سے باہر آتا ہوں اور اس کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر ایک نئی دنیا میں پہنچتا ہوں۔۔۔  یہ نئی دنیا اس باغ کی طرح ہے جہاں کبھی خزاں نہیں آتی۔

کہتے ہیں ، ایک بادشاہ کا ایک باغ تھا۔ اس میں چاروں طرف خوشبودار پودے اور ہریالی تھی۔ آرائش سے خالی کوئی جگہ نہ تھی۔ خوبصورت اور دلکش چشمے، قسم قسم کے طیور شاخوں کے اطراف میں خوش الحانیاں کرتے تھے۔ اس باغ میں طاؤس بھی تھے۔ ان طاؤسوں میں سے ایک کو بادشاہ نے پکڑا اور حکم دیا کہ اس کو چمڑے میں سی دیا جائے تاکہ اس کے پروں کے نقوش ظاہر نہ ہوں اور نہ ہی وہ باوجود کوشش کے اپنے حسن و جمال کا نظارہ کر سکے۔ بادشاہ نے یہ حکم بھی دیا کہ اس کے اوپر ایک ٹوکری رکھ دی جائے۔ اس ٹوکری میں باجرے کے دانے ڈالے جائیں تا کہ وہ اس کی خوراک کا ذریعہ اور معیشت کا سامان بنیں۔ اس طرح ایک مدت بیت گئی۔ اس طاؤس نے رفتہ رفتہ وطن کو، خود کو، باغ کو، اپنے ہمدموں کو فراموش کر دیا۔ اسے سوائے اس گندے اور فضول چمڑے کے کچھ دکھائی نہ دیتا۔ شروع شروع میں باغ کی کشادگی، ہریالی اور خوشبو بہت یاد آتی لیکن آہستہ آہستہ ناہموار اور تاریک جگہ میں اس کا دل لگ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس ٹوکری کے پیندے سے زیادہ وسیع کوئی جگہ نہیں ، لیکن کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں سے باغ کے پھولوں ، اشجار کی خوشبو ٹوکری کے سوراخوں کے راستے اس تک پہنچتی رہتی۔ اسے عجیب لذت حاصل ہوتی اور طبیعت میں اضطراب پیدا ہو جاتا۔ اڑنے کی لذت کا احساس ہوتا اور دل میں شوق چٹکیاں لیتا۔ لیکن یہ اندازہ نہ ہوتا کہ اس کے گرد منڈھے چمڑے اور ٹوکری کے علاوہ اور کیا ہے۔ عرصہ دراز کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ اس طاؤس کو اس کے سامنے پیش کیا جائے اور اسے ٹوکری اور چمڑے سے رہائی دی جائے۔ جب اسے رہائی دی گئی تو وہ اپنے آپ کو پہچان نہ سکا اور اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ اس کا اصل روپ کیا ہے۔

وہ چمڑا منڈھا بدبو دار گندہ روپ،

یا یہ چمکیلے پروں والا خوبصورت انداز،

بس ایک اسرار ہے کہ کھلتا نہیں ،

ایک کسک، ایک تڑپ، ایک سفر،

دن بھر بدبو دار چمڑے میں منڈھے ہوئے ٹوکری کے نیچے دانہ دانہ رزق کی تلاش اور رات گئے جب کوئی مسلسل کال بیل بجائے جاتا ہے، جس کی آواز صرف میں ہی سنتا ہوں تو طاؤس ٹوکری کے نیچے سے نکلتا ہے، بدبو دار چمڑا اتارتا ہے اور وہ اپنے اصل روپ میں آ جاتا ہے۔

ایک تماشا۔۔۔  مسلسل تماشا،

لیکن یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ان میں سے حقیقت کونسی ہے اور خواب کون سا؟

٭٭٭

 

بیکسیِ پرواز

روایت ہے کہ وہ چھ تھے اور انہوں نے کئی دنوں سے سوچ بچار کے بعد بلا کا مقابلہ کیا جو شہر کی فصیل پر بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو اندر نہ آنے دیتی اور نہ کسی کو شہر سے باہر جانے دیتی۔ وہ آنے والے اور جانے والے سے ایسے سوال پوچھتی جن کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، تب وہ اس شخص کو مار ڈالتی۔ چنانچہ اس خوف سے نہ کوئی شہر آتا اور نہ شہر سے باہر جانے کا ارادہ کرتا۔۔۔

اسی طرح بہت سے گرم دن سرد دنوں میں اور سرد دن گرم دنوں میں بدلتے گئے۔ تب ایک ایک کر کے وہ چھ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مل کر بلا کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔  روایت یہ ہے کہ وہ چھ تھے،

اور اب صورت یہ ہے کہ ہم پانچ ہیں اور چھٹے کا انتظار کر رہے ہیں ، یہ چھٹا کون ہے اور کہاں ہے؟

ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ، لیکن ہم پانچوں اسے تلاش کر رہے ہیں۔

صبح گھر سے نکلتے ہی میں ایک ایک چہرے کو اس امید سے ٹٹولتا ہوں کہ شاید اس میں چھٹے کی شناسائی کے کچھ پہلو مل جائیں ، لیکن مجھے ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ ادھر بلا اسی طرح شہر کی فصیل پر بیٹھی آنے جانے کے راستے روکے ہوئے ہے۔ نہ کوئی شہر میں آتا ہے نہ جاتا ہے۔ تازہ ہوا کے سارے جھونکے مقید ہو چکے ہیں اور شہر مدتوں سے باسی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے۔ بلا سے چھٹکارہ پانے کے لیے چھے کی ضرورت ہے کہ روایت یہی ہے کہ وہ چھے تھے،

اور۔۔۔  اور ہم پانچ ہیں ،

تو یہ چھٹا۔۔۔

یہ چھٹا کون ہے، کہاں ہے؟

’’تم تو چھٹے نہیں ؟‘‘ میں قریب سے گزرتے ایک شخص سے پوچھتا ہوں۔

وہ حیرت سے مجھے دیکھتا ہے۔۔۔  ’’کون چھٹا؟‘‘

’’نہیں نہیں ، تم نہیں ہو۔‘‘ میں جلدی سے آگے بڑھ جاتا ہوں۔

تو یہ چھٹا۔۔۔  ؟

شہر کی فصیل پر بیٹھی بلا پھیل پھیل کر سارے شہر میں اتر آئی ہے۔ ہم پانچوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور بے بسی سے کندھے اچکا اچکا کر رہ جاتے ہیں کہ ہم صرف پانچ ہیں اور روایت یہ ہے کہ وہ چھ تھے۔۔۔

میں ایک سفید ریش سے پوچھتا ہوں۔۔۔  ’’چھٹا تم میں سے تو نہیں ؟‘‘

وہ نفی میں سر ہلاتا ہے پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’تم اتنے پریشان کیوں ہو، آخر ہماری نسل نے بھی تو چھٹے کے بغیر اپنی عمریں گزار ہی دی ہیں۔‘‘

میں کہتا ہوں۔۔۔  ’’لیکن بلا تو وہیں ہے۔‘‘

وہ بے نیازی سے کندھے اچکاتا ہے۔۔۔  ’’تو ہوتی رہے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

’’لیکن کوئی یہاں نہیں آتا، نہ باہر جاتا ہے۔‘‘

’’اس کی ضرور ت بھی کیا ہے؟‘‘

میں اسے اپنی بات نہیں سمجھا سکتا، میں تو اپنی عمر کے لوگوں کو بھی اپنی بات نہیں سمجھا سکتا۔ وہ بھی کہتے ہیں۔۔۔  ’’بلا ہے تو سہی لیکن ہم کیا کریں۔ ہم سے پہلے والے بھی یوں ہی رہ کر چلے گئے، ہم بھی چلے جائیں گے۔ بس یہ دنیا تو فانی ہے، ایک آتا ہے دوسرا جاتا ہے۔ ایسے چل چلاؤ میں بلا کیا اور بلا کا نہ ہونا کیا۔‘‘

اس بات کا جواب میں کیا دوں۔ کبھی کبھی تو مجھے بھی خیال آتا ہے کہ بلا کا ہونا بھی کیا اور نہ ہونا بھی کیا۔۔۔  لیکن بلا شہر کی فصیل پر موجود ہے اور پھیل پھیل کر سارے شہر میں اتر رہی ہے۔ شہر والوں کے وجود میں پتھر اُگنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے پاؤں کا انگوٹھا پتھر بنا پھر آہستہ آہستہ سارے وجود میں پھیلنے لگا اور اب سارا شہر نصف دھڑ کے ساتھ صرف سوچتا ہے، حرکت نہیں کرتا۔

اب کسی کو تلاش کرنے کی بات ہی ختم ہو گئی ہے کہ ہم حرکت نہیں کرتے حرکت کے بارے میں سوچ لیتے ہیں ، توا ب چھٹے کو بھی محسوس ہی کرنا پڑے گا لیکن محسوس کرنا گنتی میں نہیں آتا اور ہمیں چھ کی گنتی کرنا ہے کہ روایت میں یہی لکھا ہے کہ وہ۔۔۔

چھٹے کی فکر میں مَیں رات رات بھر جاگتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔ اس طرح کی ایک رات، بہت دیر ہو چکی تھی، میرا بیٹا اپنے کمرے سے آیا۔۔۔  ’’ابو۔۔۔  یہ آپ رات رات بھر کیا سوچتے رہتے ہیں ؟‘‘

میں کچھ دیر چپ رہا پھر کہا۔۔۔  ’’چھٹے کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں چھے کی ضرورت ہے اور ہم پانچ ہیں۔‘‘

میرا بیٹا چند لمحے مجھے دیکھتا رہتا ہے پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہتا ہے۔۔۔  ’’چھٹا میں ہوں۔‘‘

مجھے یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے بلا کے سامنے پھینک دیا ہے اور میں اس کے سوال کے حصار میں لمحہ بہ لمحہ اس سے قریب اور قریب ہوا جا رہا ہوں۔

روایت میں آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے کہ ان چھے نے مل کر مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک مارا گیا۔۔۔

’’تو میرا بیٹا۔۔۔ ‘‘ میں چپ ہو جاتا ہوں۔

اگلی صبح جب ہم پانچوں اکٹھے ہوتے ہیں تو کوئی بھی چھٹے کا ذکر نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے ان میں سے ہر ایک کے بیٹے نے وہی بات کہی جو رات میرے بیٹے نے کہی تھی۔

ہم پانچوں چپ ہیں۔

کوئی بھی بلا کا ذکر نہیں کرتا۔۔۔  لیکن بلا شہر کی فصیل پر موجود ہے۔ آنے جانے کے راستے بند ہیں۔ تازہ ہواؤں کو بھولا ہوا شہر اندر ہی اندر گل سڑ رہا ہے۔

کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے۔۔۔  ہمارا کیا بنے گا؟ یہ بلا کب تک یونہی شہر کی فصیل پر بیٹھی رہے گی؟

کوئی میرے اندر سرگوشی کرتا ہے۔۔۔  جب تم اپنے بیٹے کی بات مان لو گے۔

مجھے اسی خیال سے جھرجھری آ جاتی ہے۔

لیکن ہو سکتا ہے کسی دن میں مان ہی جاؤں۔۔۔ لیکن کب؟

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اجازت دی اور سید زبیر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

عام آدمی کے خواب

               (افسانے)

               رشید امجد

جلدسوم

 

احوال واقعی

مکمل اصل کتاب میں سے دو طویل کہانیاں ’سمندر قطرہ سمندر‘ اور ’الف کی موت کی کہانی‘ اور ایک اور مختصر مجموعہ ’مرشد‘ کو نکال دینے کے بعد جو کتاب اور اس کی کہانیاں باقی بچی ہیں، ان کو چار جلدوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔ یہ اس برقی کتاب کی تیسری جلد ہے۔

ا۔ ع۔

 

            یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے، لیکن تمام تر جدوجہد اور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا، ایک عام آدمی کے گھر پیدا ہوا، جیا اور ایک عام آدمی کی حیثیت سے مر گیا، لیکن اُس نے خواب دیکھے اور خواب وراثت میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وراثت میں منتقل کرنے کے لیے اُس کے پاس اور کچھ تھا بھی نہیں ، سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا، منتقل کر دئیے، اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔۔۔  یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔

            رشید امجد

 

منجمد اندھیرے میں روشنی کی ایک دراڑ

ریستوران کی سب سے اوپری منزل میں وہ چار تھے۔

کونے والی میز پر بیٹھا ہوا بوڑھا، اپنی پلکوں پر عمر کا سفید بت سجائے، برسوں کے گھسے ہوئے منکوں سے خبروں کا ورد کر رہا تھا۔ درمیان والی میز پر بیٹھی لڑکی، لذت کی تازہ اور میٹھی رَس بھری کھجوریں کھاتے ہوئے شوق کی گٹھلیاں ایک ایک کر کے اس کے وجود کے خالی ڈرم میں پھینک رہی تھی اور وہ خود جو اپنی خواہشوں کے تنور میں لگتی روغنی روٹیوں کی مہک تو محسوس کر سکتا تھا لیکن انہیں اتار نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہاتھ جلتے تھے۔

ریستوران کی اس سب سے اوپری منزل میں وہ چار تھے۔

ایک وہ بوڑھا، جو عمر کے سوکھے ہونٹوں سے وقت کا سفید کف سیرپ چُسک کر رہا تھا۔ دوسری وہ لڑکی جو وقت کے ٹینس کورٹ میں عمر کے چھکّے سے نکلی ہوئی گیند کی طرح لذتوں کے ڈھلوان پر لڑکھڑاتی چلی جا رہی تھی اور وہ تیسرا وہ خود، جس کی آنکھوں کے چھجے سے لٹکی انتظار اور شوق کی بیلیں لٹکے لٹکے مرجھا بھی گئی تھیں۔۔۔  یہ ہوئے تین تو چوتھا کون تھا؟

چوتھا تھا تو ضرور، لیکن کس میز پر؟

اس کی آنکھیں میزوں کے شفاف اور ڈھلوان چہروں پر پھسلنے لگیں۔ شاید چوتھا آدمی میز کے نیچے گھس گیا تھا۔

تو یہ لڑکی۔۔۔  اس کمرے میں دوسری تھی، شاید جرمن تھی، یا سوئس یا پھر؟ کہیں کی بھی ہو، عورت کی کوئی جغرافیائی پہچان نہیں۔ بستر میں ساری عورتیں ایک سی ہوتی ہیں۔

لیکن اس کے پاس کیا تھا؟ اس شہر میں تو وہ پردیسی تھا، ایک ٹورسٹ، جو دنیا کو فاصلوں کی گرد سے نکالنے نکلا تھا۔ سفر کی لذتیں چکھنے کے لیے اس کے پاؤں مدتوں سے بے چین تھے اور اب کہیں جا کر اس کی یہ خواہش حقیقت کے رنگین لباس میں اس کے سامنے آئی تھی۔ا سے اپنے شہر سے نکلے کتنے دن ہوئے ہیں ؟ اس نے انگلیوں کے پوروں پر وقت کے تھان کو لپیٹنے کی کوشش کی۔ جتنے دن بھی ہوئے ہوں ، اس وقت تو وہ اس ریستوران کے سب سے اوپری منزل میں ان تینوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔

’’لیکن چوتھا کدھر گیا؟‘‘۔۔۔  اس نے میزوں کے چمکتے ہونٹوں سے سوال کیا۔ پھر دوبارہ سب کو گنا۔۔۔  ایک وہ بوڑھا، جو سر پر عمر کی سفید کلغی سجائے اخباروں کی تہوں میں گزرے ہوئے سال ڈھونڈ رہا تھا۔ دوسری وہ لڑکی، جس کی آنکھوں میں پھدکتی شوق کی چڑیاں بار بار۔۔۔  اس کے جسم کی ٹہنیوں پر منڈلا رہی تھیں اور تیسرا وہ خود۔۔۔  کیا چوتھا ابھی تک میز کے نیچے ہی تھا؟ کیا اس کے پاس بل دینے کے لیے کچھ نہیں ؟

اس نے کندھے جھٹک کر ان پر بیٹھی ہوئی فکر کی چڑیوں کو اڑایا اور شیشے کی دیوار سے لٹک کر نیچے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔

لڑکی نے مینو ایک طرف کر دیا اور جھک کر اس کو دیکھنے لگی۔ لڑکی کی آنکھوں میں شناسائی کا چرخہ چل رہا تھا۔ اس کے گھوں گھوں سن کر وہ پرانے سوئیٹر کی طرح ادھڑنے لگا اور دھاگا دھاگا ہو کر اس کے دل کے تکلے پر لپٹنے لگا۔

بوڑھا ان دونوں سے بے نیاز اخبار کے کالموں میں تیر رہا تھا، لیکن چوتھا۔۔۔  ؟

لڑکی ذرا سا ترچھا ہو گئی۔ پھر اس کی آنکھوں نے کھلکھلا کر انگڑائی لی اور اس کی خواہشوں کے کھنگروں کی تال پر ٹھمک ٹھمک ناچنے لگی۔

ہنسی اس کے اندر ہی اندر پھیلی اور سمٹی۔ اس کی آنکھوں میں اگی ہوئی زبانیں شیشے کی دیوار سے پھسلتیں نیچے سڑک پر اتریں اور شوکیسوں میں سجی چیزوں اور بھاگتی کاروں کو بو سے دینے لگیں ، اسے نیچے جا کر بہت سی چیزیں خریدنا تھیں۔ لوگ باہر جاتے ہیں تو بہت کچھ لاتے ہیں ، وہ بھی واپسی پر بہت سی چیزیں ان شوکیسوں کی گود میں سے نکال لے جائے گا۔

لڑکی مینو سے کھیل رہی تھی، شاید بیرے کا انتظار ہو۔ لیکن بیرا اتنی دیر سے نچلی منزل میں کیا کر رہا تھا؟ کہیں اسے معلوم تو نہیں ہو گیا کہ چوتھا میز کے نیچے چھپا ہوا ہے؟ شاید وہ کسی اور کو بلا لائے۔

اس نے رک رک کر ساری کرسیوں کو گنتی کی تسبیح میں پرو دیا۔

چوتھا اس خوبی سے چھپا تھا کہ کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کوئی بھی اسے ڈھونڈ نہیں سکے گا۔

اس کے ذہن میں اطمینان نے کنڈل مارا اور وہ گنگنانے لگا۔ لڑکی کن آنکھوں کی چلمن سے اسے دیکھ رہی تھی وہ اچھل کر اس کی پلکوں کی ٹیرس سے لٹک گیا۔ پھر دھیرے سے اس کی آنکھوں کے برآمدے میں اترا اور ان میں جلتی خوشبوؤں کو اپنے بدن میں لپیٹ کر غڑم سے اس کے اندر کود گیا۔

یہ اجنبی لڑکی۔۔۔  اور یہ اجنبی شہر

اس اجنبی شہر کی تازہ ہوا، اس کے زنگ آلود پھیپھڑوں میں سانسوں کے پیانو پر زندگی کے نئے سروں کی دستک دے رہی تھی۔

یہ اجنبی شہر

جب تم پر پھیلی ہوئی زندگی کی شفیق بانہیں سمٹ جائیں تو ہجرت کرو

لیکن ہجرت کے لیے تو پاسپورٹ چاہئے، فارن کرنسی چاہئے، کرایہ چاہئے۔

اور۔۔۔  اور خدا جانے کیا کیا چاہئے۔

سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز نے اسے خیالات کے مچان سے نیچے گرا دیا۔

شاید بیرا کسی کو لے کر آ رہا تھا؟

تو چوتھا۔۔۔

اس نے جلدی جلدی سر گھما کر چاروں کونوں کی خبر لی، چوتھا بڑی خوبی سے کسی میز کے نیچے چھپا ہوا تھا۔

شاید وہ اسے نہ پکڑ سکیں۔۔۔  یقیناً نہیں پکڑ سکیں گے

کھٹک۔۔۔

بل میز کی گود میں سے پھسلتا ہوا اس کی آنکھوں کی چار دیواری میں آ گرا۔ اس کے لرزتے ہاتھوں نے جیب کی اندھیری گہرائیوں میں چھپے ہوئے سکّوں کو آواز دی اور انہیں گنتی کی شباہت میں ڈھال کر بل کے کھلے منہ میں ڈال دیا۔

لڑکی آنکھوں کی پلیٹ میں لذت کے رَس گلے سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اسے اپنی آنکھوں کے پنگھوڑے میں بٹھا کر یوں لوریاں دی تھیں۔ تو کیا وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے!

اس نے کئی سفر ناموں میں اس مرحلہ کو بار بار پڑھا تھا۔ جب کہانی سنانے والا اپنے آپ کو جبر کی ہتھیلیوں میں مسلتے ہوئے اس لڑکی کو الوداع کہتا ہے جو اسے ایسی ہی میٹھی نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔

تو اس کا مطلب ہے کہ اب الوداع کی گھڑی آن پہنچی۔

وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔۔۔  ’’اچھا تو اے اجنبی لڑکی الوداع!‘‘

لڑکی نے اسے اپنی آنکھوں کے سایوں میں سمیٹا اور بولی۔۔۔  ’’کچھ دیر تو اور رکو۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  مجھے جانا ہے۔‘‘

اس نے مڑنے سے پہلے سارے کمرے کو اپنی آنکھوں کے آنگن میں سمیٹا۔ عمر کے طوطے کو پچکارتا بوڑھا، عمر کی رنگین تتلی کے پیچھے بھاگتی لڑکی اور الوداع کی اَنی پر کھڑا وہ خود۔۔۔  اسے چوتھے کا خیال آیا۔

اس نے کمرے کی ایک ایک شے کو ٹٹولا۔۔۔  تو وہ ابھی تک میز کے نیچے چھپا بیٹھا تھا،

’’اچھا تو الوداع‘‘۔۔۔  وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

سیڑھیاں اترتے ہی اسے بیرے کی آواز سنائی دی۔۔۔  ’’پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں۔۔۔  ہونہہ۔‘‘

اچھا تو چوتھا۔۔۔  آخر بیرے نے میز کے نیچے تلاش کر ہی لیا۔

سیٹرھیوں کے آخری زینے نے اسے سڑک کی جھولی میں دھکیل دیا۔

’’ارے تمہاری تو آج درخواست آئی تھی کہ بیمار ہو۔‘‘

اس نے مڑ کر دیکھا، اس کے دفتر کا ایک ساتھی اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ رہا تھا۔

’’درخواست!‘‘۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے کونوں پر بڑبڑاہٹ کی کونپلیں پھوٹیں ، پھر کچھ سوچتے ہوئے، جیسے اچانک کوئی چیز اس کی یاد کی جھولی میں آن گری ہو، بولا۔۔۔  ’’اچھا اچھا، سمجھ گیا۔ تم چوتھے آدمی کی بات کر رہے ہو، وہ اوپر ہے اور بیرے نے اسے پکڑ لیا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

شام، پھول اور لہو

وہ ان میں سے ایک تھی، جنہیں مجھے قتل کرنا تھا،

وہ کل شام میرے بدن کی دیوار سے لٹک کر چیخنے لگا۔۔۔  ’’خدا کے لیے اسے قتل کر دو۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’لیکن مجھے تو قتل کرنا آتا ہی نہیں۔‘‘

اس نے دراڑوں میں انگلیاں پھنسا دیں۔۔۔  ’’بس کسی طرح اسے قتل کر دو، ورنہ میں مر جاؤں گا۔‘‘

میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔  ’’بات کیا ہے؟‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’میں جب صبح اٹھتا ہوں تو میرے منہ پر بالوں کی بجائے لڑکیاں اگتی ہیں۔‘‘

میں نے سر ہلایا۔۔۔  ’’تو اس میں خوفزدہ ہونے کی کیا بات ہے۔ کوئی اچھا سا بلیڈ استعمال کرو۔‘‘

اس نے شانے اچکائے۔۔۔  ’’وہ تو کرتا ہی ہوں۔ لیکن اب تو میری ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پوروں پر بھی اُگ آئی ہیں۔‘‘

اس نے ہتھیلی پھیلا دی، میں نے دیکھا، چہرے اس کی ہتھیلی کی ریکھاؤں سے اگتے ہیں اور کھلکھلا کر بھاگ جاتے ہیں۔

’’دیکھا۔۔۔  دیکھا تم نے۔۔۔ ‘‘اس نے میرے بازو سے لٹکے لٹکے اچھل کر  پاس سے گزرتی ہوئی خوشبو کو چاٹتے ہوئے کہا۔

میں نے باقی خوشبو کو اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’لیکن میں کر ہی کیا سکتا ہوں ، میں تو خود اناڑی ہوں ، ایک بار قتل کرتے ہوئے خود قتل ہوتے ہوتے بچا تھا۔‘‘

اس نے میرے بازو کو دباتے ہوئے تیز سسکی بھری۔۔۔  ’’کچھ تو کرو۔‘‘

میں نے بے بسی سے سر ہلایا۔ مجھے اپنی عادت معلوم ہے کہ اسے بچاتا بچاتا میں خود مارا جاؤں گا۔ دلدلیں مجھے آوازیں دیتی ہیں اور جب تک ان میں پوری طرح دھنس نہیں جاتا، مجھے اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

میں اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا لیکن وہ سوال بن کر میرے ساتھ لٹک رہا تھا۔

آخر تنگ آ کر میں نے کہا، ’’تو چلو۔‘‘

اس کے چہرے سے چمٹی ہوئی اداسی دھل گئی۔ ہم دونوں ہجوم کے دریا میں اتر پڑے اور سڑک کی کشتی کو پاؤں سے کھیتے ایک چوک سے دوسرے چوک کو عبور کرتے رہے۔ لیکن جب بڑا چوک آیا تو دفعتاً مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہے، بلکہ میرے ہاتھ میں اس کی انگلی ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا وہ سرخ بتی سے چمٹا پچھلے چوک کے گرداب میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔

شام کو جب وہ آیا توا س کا چہرہ گرد بنا ہوا تھا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا ہوا ہے؟‘‘

اس نے کندھے جھٹکے اور دانت نکوس کر صوفے پر گر پڑا۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’چلو ٹیکسلا چلیں۔۔۔  سنا ہے وہاں آج کل ٹوٹے چل رہے ہیں۔‘‘

وہ اچھل کر میرے سینے سے لگ گیا اور  دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

حیرت میری آنکھوں کے پیالوں میں گھلنے لگی، ’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’میں وہاں گیا تھا، باہر بورڈ لگا ہے۔ نئی انتظامیہ، صاف ستھرے ماحول میں مع خاندان تشریف لائیں۔‘‘

’’پھر۔‘‘

’’پھر‘‘۔۔۔  اس نے آنسو پونچھے۔۔۔ ’’میں نے آہٹوں کو سونگھا اور جب انہیں پکڑنے کی کوشش کی تو وہ دیوار کی اوٹ میں چھپ گئیں ، اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں ، اب تو یہ کھنڈر بھی ہمارے نہیں رہے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’کتابوں میں یوں لکھا ہے کہ وہ گھات لگا کر پتھروں کی اوٹ میں بیٹھ گئے اور شمال سے اٹھتی ہوئی گرد کو دیکھنے لگے۔ جب گرد کا گنبد قریب آیا تو رنگوں کے چشمے صاف نظر آنے لگے۔ وہ نعرہ مار کر اپنی جگہ سے نکلے اور ان پر ٹوٹ پڑے، پھر انہوں نے ایک ایک رنگ کو اپنی پلکوں سے چنا اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے جنگل میں اتر گئے۔‘‘

وہ دوبارہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’اب کیا ہوا ؟‘‘

اس نے اپنے سینہ پر دو ہتڑ مارا۔۔۔  ’’کل میں سارا دن اپنی کھڑکی سے لٹک کر پڑوس کے صحن سے رنگ چننے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن رنگ میری پلکوں سے چھوتے ہی اپنی خوشبو چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

پھر اس نے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔۔۔  ’’اسے قتل کر دو، ورنہ میرے سارے جسم پر چہرے اُگ آئیں گے۔‘‘

رات چنگھاڑتی ہوئی ہم پر ٹوٹ پڑی تھی۔

باہر سردی ننگی دیواروں سے لپٹ رہی تھی اور ساتھ والے کمرے میں وہ اسے قتل کر رہا تھا۔ اس کی چیخیں درمیان والے دروازے کی دہلیز سے نکل کر سارے فرش پر رینگ رہی تھیں۔ ہوا اس کے لہو کے رنگ کو ہاتھوں میں اٹھائے میرے چاروں طرف ناچ رہی تھیں۔ میں نے فرش پر رینگتی چیخوں کو دونوں ہاتھوں کے کٹورے میں بھرا اور پھر ایک ہی لمحہ میں انہیں اپنے منہ میں انڈیل لیا۔ چیخیں کرچ کرچ ہو کر میرے پیٹ کے اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ پھر میں نے ہوا کے ہاتھوں سے اس کے لہو کے رنگ کو اپنے منہ پر ملا اور ایک نعرہ مار کر ساتھ والے کمرے میں جا گھسا۔ لاش پلنگ کے بیچوں بیچ پڑی تھی اور خون چادر پر اپنی تصویر بنا رہا تھا۔ میرا نعرہ سن کر لاش میں ایک لمحہ کے لیے حرکت ہوئی اور پھر وہ اسی طرح خون کے تھال پر تیرنے لگی۔

صبح جب سورج کی کرنوں نے دیواروں پر چپکی ہوئی سردی کو کھرچ کھرچ کر اتارنا شروع کیا تو لاش اپنے آپ کو سمیٹ کر باہر کی طرف دوڑی۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگے لیکن تیز روشنی نے اسے اپنے پیٹ میں نگل لیا۔ ہم بس دیکھتے ہی رہ گئے۔

کچھ دیر بعد وہ بولا۔۔۔  ’’چلو عجائب گھر چلیں۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’فائدہ‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’شاید وہاں ہمیں آنکھیں مل جائیں۔‘‘

میں شانے اچکا کر اس کے ساتھ ہو لیا۔

عجائب گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔

سارے مجسمے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہم نے بتی جلائی اور حیرت کی سسکی ایک ساتھ ہم دونوں کے لبوں سے لٹکنے لگی۔ سارے مجسموں کی آنکھیں نکلی ہوئی تھیں اور ناکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

سارے مجسمے رو رہے تھے۔

کچھ دیر بعد جب ہم کیفے کی طرف جا رہے تھے تو اس نے میرے کندھے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا، ’’آج روشنیاں کہاں چلی گئی ہیں ؟‘‘

میں نے شیشوں میں سے باہر جھانکا۔ چاروں طرف اندھیرے کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا اور ہماری گاڑی اندھیرے کی قبر میں اترتی جا رہی تھی۔

لمحے بوجھل پتھر بن کر ہماری گردنوں سے لٹک رہے تھے۔

اس نے میرے کندھوں کو جھنجوڑا۔۔۔  ’’ہم کب پہنچیں گے؟‘‘

میں نے اس کی آنکھوں میں ناچتے خوف کو سونگھا۔۔۔  ’’شاید کبھی نہیں۔‘‘

اس نے تلملا کر میری طرف دیکھا۔

’’ہاں شاید کبھی نہیں۔‘‘۔۔۔  میری آواز میرے ہونٹوں کی بجائے دور کہیں سے آ رہی تھی۔

ستارے شہر کے اندھیرے میں گم ہو گئے ہیں اور ہم جس لائن پر جا رہے ہیں اس پر کوئی سٹیشن ہی نہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن چپ رہے کہ ہمارے نا کردہ جرم کی تحریر ہمارے چہروں کی تختی پر نیون سائن کی طرح جل بجھ رہی تھی۔

٭٭٭

 

یاہو کی نئی تعبیر

اندھیرا آنکھیں ملتا ہوا رات کے بستر سے کہنیوں کے بل اٹھ رہا ہے۔ اور کجلایا سویرا سمٹی سمٹائی دلہن کی طرح ملگجا گھونگھٹ نکالے دبے پاؤں سیڑھیاں اتر رہا ہے۔

پچھلی رات،

پچھلی ساری رات میں آنکھوں کی جھولی میں انتظار کے پھول لیے نیند کی نیلی چڑیا کی راہ تکتا رہا ہوں ، لیکن نیند کا جہاز میری پلکوں کی بندرگاہ میں لنگر انداز نہیں ہوا۔

ساری رات،

پچھلی ساری رات۔۔۔  میں اپنی خواہشوں کے پنجرے سے اڑے ہوئے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ، لیکن سارے پرندے دھند میں لپٹی ہوئی زمین سے دور دور نکل گئے ہیں۔

کئی دنوں سے زمین کے چہرے میں چھپکلی اگ آئی ہے اور اس کی چھاتیوں میں سرسراتے دودھ میں خواہشوں کے گندے انڈوں کی لیس دار جاگ گھل گئی ہے۔ ایک زنگ آلود کالی روشنی میرے جسم کی کڑھائی میں وہ تبرک تل رہی ہے جس کا بپتسمہ صدیوں پہلے میرے جسم نے مجھے دیا تھا۔

میں کھڑکی کھول دیتا ہوں۔

صبح نے اپنا ملگجا گھونگھٹ اتار دیا ہے اور اب دیواروں سے اتر کر گلیوں اور بازاروں میں دوڑ رہی ہے۔ میں اپنے بدن کی ریلنگ سے لٹکے سارے پردے ہٹا دیتا ہوں اور کیلنڈر کے چکنے صفحوں پر چڑھ کر دنوں ، مہینوں اور سالوں کے صفحے الٹنے لگتا ہوں۔ دھندلا غبار میرے چاروں طرف پھیل جاتا ہے اور کیلنڈر کے خوشبودار صفحوں سے تاریخیں اڑ اڑ کر دور نیلاہٹوں کی جانب جانے لگتی ہیں ، میں ان کے ساتھ ساتھ دن، مہینوں اور سالوں کی گھنیری وادیوں میں سے گزرتا دور۔۔۔  بہت دور نکل آتا ہوں۔

یادیں اپنے پاؤں میں گھنگھرو باندھتی ہیں اور میرے وجود کے اجڑے کھنڈر میں چھن چھنا چھن ناچنے لگتی ہیں۔

’’یاہو‘‘۔۔۔  اس نے نعرہ مار کر سامنے پڑے ہوئے شخص پر جست لگائی اور اسے پنجوں میں دبوچ کر اس کے نرخرے میں دانت گاڑ دئیے۔ تڑپنے والے نے خر خر کرتے ہوئے نرم زمین کو مٹھیوں کی ڈھلوانوں پر روکنے کی کوشش کی لیکن زندگی نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور گرم نمکین خون کا ذائقہ اس کے دشمن کے لبوں پر دستکیں دینے لگا۔

وہ کچھ دیر اس کے نرخرے کے پیالے سے ہونٹوں کے خشک کھیت کو سیراب کرتا رہا۔ پھر اس نے اس کے جسم کو نوچنا شروع کر دیا اور نرم نرم تازہ گرم گوشت اتار کر کھانے لگا۔

’’یا ہو‘‘۔۔۔  سب ہنس رہے تھے اور آنکھوں میں للچاہٹ کی شمعیں جلائے، گوشت سے اٹھتی بُو کو اپنے نتھنوں میں باندھ رہے تھے۔

اس کا اشارہ پاتے ہی وہ سب زمین پر پڑے ہوئے جسم پر ٹوٹ پڑے اور دیکھتے دیکھتے سارا جسم ہاتھوں کی کنڈیوں میں لٹکنے لگا۔ اس نے منہ سے لگے ہوئے خون کو کہنی سے صاف کیا اور لوگوں کو ایک طرف کرتا اس بڑی چٹان کی طرف بڑھا، جس کے ساتھ لگی وہ ہانپ رہی تھی۔

سارا جھگڑا اس کی وجہ سے ہوا تھا۔ بات اتنی سی تھی کہ اس کے جسم کے گداز ابھاروں نے اسے اشارہ کیا تھا۔ چنانچہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چٹان کی دوسری طرف اترنے لگا تھا کہ اس شخص نے آ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مگر اب وہ شخص کہاں تھا؟

اس نے مڑ کر دیکھا، زمین پر تو چند دھبّے ہی تھے۔ وہ شخص تو بوٹی بوٹی ہو کر مختلف ہاتھوں میں پہنچ چکا تھا۔

’’یا ہو‘‘۔۔۔  اس نے نعرہ لگایا اور سہمی ہوئی عورت کا ہاتھ پکڑ کر چٹان کی طرف چلا گیا۔

’’یا ہو۔۔۔  یا ہو‘‘

میں اپنے جسم کے لمبے لمبے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور منہ سے نکلنے والی یا ہو کے پیچھے دوڑنے لگتا ہوں۔ فاصلوں کی گود میں بیٹھے ہوئے دیوتا مجھے پکارتے ہیں ، میں ان کے قریب چلا جاتا ہوں۔ سالوں کی تیز درانتیاں میرے جسم پر اُگے ہوئے لمبے بالوں کی کالی فصلیں کاٹ رہی ہیں۔

مجھے نیند آ رہی ہے، میں اونگھ رہا ہوں ،

سالوں کے جسموں سے رستی دھند مجھے لوریاں دینے لگتی ہے۔

پونتو خوس، تلوار میان میں ڈال کر باہر جانے لگا تو سارے غلاموں نے اسے دعاؤں کے ہاروں سے لاد دیا۔ ارنیا قریب ہی تھا۔ وہ ہوا میں دشمن کی بو سونگھتا پیدل ہی وہاں تک آیا۔ ارتیوس پہلے ہی آ چکا تھا اور اب ارنیا کی پیاسی مٹی پر کھڑا اس کی راہ تک رہا تھا۔ وہ بڑے وقار کے ساتھ اس کے سامنے آیا۔ دونوں نے اپنی اپنی تلواروں کو دن کی سفید روشنی کی سلامی دی اور چند قدم ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف دوڑے۔

پونتوخوس نے وار کرنے سے پہلے اپنے منہ میں دیوتاؤں کے مقدس نام کا شہد گھولا اور کہنے لگا، ’’اے اپالو! اگر تو میری مدد کرے تو میں تیرے مندر میں ایک موٹی تازہ جوان گائے کی قربانی دوں اور ایک دوسری گائے کی چربی سے تیرے مندر کی آگ تیز کر دوں۔‘‘

اپالو اس کی تلوار کی نوک پر آ بیٹھا، ارتیوس اب صرف اپنا دفاع کر رہا تھا اور پونتوخوس کی تلوار کی نوک پر بیٹھا ہوا اپالوارتیوس کے نرخرے کا بوسہ لینے کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا۔

ایک لمحے کے لیے جب ارتیوس کے پاؤں لڑکھڑائے تو تلوار کی نوک پر بیٹھا ہوا اپالو اسی کے نرخرے میں اتر گیا۔

گرم نمکین خون ارنیا کے پیاسے ہونٹوں کو گلابی بناتا چاروں طرف پھیل گیا۔

سب نے تالیاں بجا کر پونتو خوس کی بہادری کا گیت گایا۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے زمین پر پڑے ہوئے ارتیوس کو دیکھا اور بازار کی طرف چل پڑا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے لیکن پچھلے چند دنوں سے ارتیوس کی نیک نامی اور شہرت کے پرندے سارے شہر پر منڈلانے لگے تھے اور یہ بات اسے کسی قیمت پر قبول نہ تھی۔ اس نے بہت دنوں سے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس ارنیا میں وہ ارتیوس کی زندگی کا قالین لپیٹ دے گا۔

اور اب وہ تلوار پر چمکتے ہوئے لہو کے قطروں کو اچھالتا، ڈیانا کے بڑے معبد کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔

یور کلیا ڈیانا کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ دونوں نے مسکراہٹوں کے طشت میں اپنی خواہشوں کے دئیے جلا کر ایک دوسرے کو پیش کئے۔

پونتوخوس نے جیب سے سکہ نکال کر مندر کی صنددقچی میں ڈالا اور یورکلیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے پچھلے حصے میں لے گیا۔

میں اپنے جسم پر نظر ڈالتا ہوں۔ میرے جسم کے کھیت میں اگی ہوئی بالوں کی فصل کٹ چکی ہے۔ دور سے آتی روشنیاں میرے جسم پر استری کر رہی ہیں اور میرے بدن پر پڑی ہوئی سلوٹیں ایک ایک کر کے نکل رہی ہیں۔

نیند میری آنکھوں کے کٹوروں میں غنودگی گھول رہی ہے۔ میں لڑکھڑا کر سالوں کے پنگھوڑے میں گر پڑتا ہوں۔

ندی کا پانی گنگناتے ہوئے خاموشی سے چلا جا رہا تھا۔ بشن داس بھورے رنگ کی ایک چٹان سے ٹیک لگائے وینا بجا رہا تھا کہ امبا دبے پاؤں اس کے قریب آئی اور اپنی سریلی آواز کو وینا پر لپیٹتے ہوئے بولی۔۔۔

’’ہے رام۔۔۔  ! تم ابھی تک یہیں ہو؟‘‘

بشن نے وینا ایک طرف رکھ دی اور بولا۔۔۔  ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

کیسری رنگ کی ساڑھی اور جوڑ ے میں گیندے کا پھول سجائے وہ اسے بڑی پیاری لگ رہی تھی، امبا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔  ’’شاکیہ منی کو دیکھنے نہیں جاؤ گے؟‘‘

بشن نے سر ہلایا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

بڑ کے درخت سے پھوٹتا سورج آسمان کی وسعتوں میں چمک رہا تھا۔

وہ آلتی پالتی مارے بڑ کے نیچے بیٹھا تھا اور اپنی آواز کی طشتری میں سکون اور اطمینان کے ذائقے سجا کر سب کے کانوں میں ابدیت کا شہد ٹپکا رہا تھا۔

’’دھرم کرو۔۔۔  دھرم کرو‘‘

اس کی آواز بشن کے کانوں میں بیٹھے پرکھوں کی روایتوں کے جالے توڑنے لگی۔ اس نے کَن آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔  ہاں ، اس نے اپنے شریر کو ریاضت کی آگ میں جلا کر اپنی آتما کو کندن بنا لیا تھا اور اب سراپا مسکراہٹ بنا بیٹھا تھا۔

اس کی آواز اس کے کانوں میں رَس گھول رہی تھی۔۔۔  ’’کسی کو دکھ نہ دو۔ سب روحیں ایک سی ہیں۔‘‘

ذات پات کے سارے رشتے تڑخ رہے تھے۔ ریزہ ریزہ ہو رہے تھے۔

وہ امبا کو وہیں چھوڑ کر چپ چاپ باہر نکل آیا۔

شام کو جب وہ امبا سے ملنے ندی کنارے جا رہا تھا تو دفعتاً کسی کا پاؤں اس کی گیروی دھوتی پر اپنا نشان ڈال گیا۔ اس نے مڑ کر غصے سے دیکھا۔ ارونی سہما ہوا ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

’’تم۔۔۔ ‘‘ اس کے اندر کا برہمن جست لگا کر باہر آگیا۔

’’تم نے مجھے بھرشٹ کر دیا۔‘‘

ارونی نے اپنی آنکھوں میں بے یقینی کے تھان کو لپیٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔

’’لیکن مہاراج، وہ تو کہتا ہے کہ اب کوئی شودر نہیں ، کوئی برہمن نہیں اور تم نے بھی تو اس کے سامنے اس کا اقرار کیا تھا۔‘‘

بشن پرے ہٹتے ہوئے بڑبڑایا۔۔۔  ’’دفع ہو جاؤ۔۔۔  کتے!‘‘

کچھ دیر بعد جب وہ ندی کنارے پہنچا تو امبا گھاس پر لیٹی ندی کی لہریں گن رہی تھی۔ اس نے پھول توڑا اور اس کے جوڑے میں سجانے لگا۔ امبا کے ہونٹوں پر مٹھاس کی بانسری بجنے لگی۔

 بشن نے اسے اسی مسکراہٹ کی چادر میں لپیٹ لیا۔

بڑ کے نیچے آواز کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔

’’دھرم کرو، دھرم کرو۔۔۔  سنکھ بجاؤ، سنکھ بجاؤ۔‘‘

میرے جسم پر پھیلے ہوئے سیاہ دھبّے پوتر لفظوں کے لیپ میں چھپ رہے ہیں۔ میں اونگھتے اونگھتے مسکراتا ہوں۔۔۔  زمانے کے پنگھوڑے میں لیٹے لیٹے سالوں اور صدیوں کی چوسنی چوستے چوستے کئی خواب میری پلکوں کی چلمن پر دستک دیتے ہیں۔

دریا کی پھیلی بانہوں کو دیکھ کر قافلہ رک گیا۔

شمعون نے راحیل کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔  ’’اب کیا ہو گا؟‘‘

راحیل نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دریا کی طرف دیکھنے لگی۔

دریا درمیان سے پھٹ چکا تھا۔

اور سارے دوڑتے ہوئے اسے پار کر رہے تھے۔ راحیل نے شمعون کا ہاتھ پکڑا اور دریا کی گود میں اتر پڑی۔ شمعون نے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے بڑی عقیدت اور احترام سے اسے دیکھا جو سب سے آگے عصا ہاتھ میں لیے چلا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔۔۔

’’اب سب ایک دوسرے کی بانہیں ہیں۔‘‘

دوسرے کنارے پر پہنچ کر سب نئی وادیوں میں اتر گئے۔ یونتن پیچھے رہ گیا تھا، اس نے اسے آواز دی، جب یونتن رک گیا تو وہ بڑے سکون سے اس کے قریب آیا اور پھر اچانک اس نے یونتن کو نیچے گرا لیا۔ یونتن کے ساتھ اس کا خاندانی جھگڑا برسوں سے آج کے دن کا انتظار کرتا چلا آ رہا تھا اور آج اس نے یونتن کے گرم ابلتے نمکین خون کی سرخی کو دن کی روشنی دکھا کر اس کا فیصلہ کر دیا اور عصا ہاتھ میں لیے وہ کہہ رہا تھا۔

’’اب سارے ایک دوسرے کی بانہیں ہیں۔‘‘

میں لڑ کھڑا کر اگلے خواب کی طلسمی وادی میں جا گرتا ہوں۔

لمبے چوغے والے نے کتاب بند کر دی اور بولا۔۔۔  ’’تو یوں ہے کہ جو دوسروں کی غلطی معاف کر دے وہ مقدس باپ کی نظروں میں اتر گیا اور یوں سمجھو کہ اسے سب کچھ مل گیا۔‘‘

اس نے اپنے دل کی گہرائیوں میں ملائم سکون محسوس کیا اور  بڑی عقیدت سے الٹے پاؤں باہر آ گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو رُتھ سو چکی تھی اور اس کا غلام پروینس حسبِ معمول جاگ رہا تھا۔ جونہی وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا، پروینس نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔  ’’مالک! امی جیرس آج پھر مالکن کے پیچھے پیچھے باغ میں گیا تھا۔‘‘

یہ بات سنتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوا اور دوڑتا ہوا اسلحہ خانہ میں آیا۔ تلوار نکال کر اس نے اس کی دھار کو جانچا اور اسی رفتار سے خواب گاہ میں آیا۔ رُتھ مسکراہٹوں کی بگھی میں بیٹھی رنگین خوابوں کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔

’’کتیا‘‘ وہ لفظوں کو دانتوں کے آرے میں کترتے ہوئے بڑبڑایا اور تلوار لہراتا امی جیرس کے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔

میں چونک کر اسے دوڑتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن وہ فاصلوں کی دھند میں گم ہو جاتا ہے۔ دن، صدیاں ایک دوسرے کی بانہیں پکڑے میرے ساتھ لکن میٹی کھیل رہے ہیں۔

وہ دوسرے کمرے سے تلوار لے آئی اور اویس کو دیتے ہوئے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

اویس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں سمیٹ لیا اور بولا۔۔۔

’’پگلی، ہم صبح ہونے سے پہلے لوٹ آئیں گے اور پھر۔۔۔ ‘‘

اس نے اس کے ہونٹوں کی گلابی قبر پر مخملی خواہشوں کے پھول چڑھائے۔

عائشہ نے اس کا بازو پکڑ لیا، ’’نہ جاؤ۔‘‘

اویس نے جھٹک کر اسے پرے کیا اور بولا۔۔۔  ’’تم چاہتی ہو سارا قبیلہ مجھے بزدل کہے۔‘‘

عائشہ نے پھر اس کا بازو تھام لیا۔۔۔  ’’لیکن شب خون مارنے کی کوئی وجہ بھی تو ہو۔‘‘

اویس نے غصے سے اسے گھورا، ’’یہ کیا کم وجہ ہے کہ وہ ہمارے کنوؤں کے پانیوں میں حصہ مانگتے ہیں۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی کہ اذان کی آواز ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر فضا میں دوڑنے لگی۔

اویس نے نرمی سے ہاتھ چھڑا لیا اور عائشہ کو ایک طرف کرتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’خدا حافظ، ہم فجر کی نماز واپس آ کر پڑھیں گے، انشا اللہ۔‘‘

تلواروں سے ٹپکتا گرم گرم لہو میری پلکوں پر گرتا ہے۔ میں جلدی سے آنکھیں کھولتا ہوں۔ سبز مخملی روشنی دھندلائی ہوئی ہے اور میری خواہش کا اندھا رتھ ساری زمین کو روندے چلا جا رہا ہے۔

لی یونگ چی نے سرخ کتاب بند کر کے گھٹنوں پر رکھ لی اور دور پھیلے فاصلوں کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ اس کتاب کے لفظوں کی کوکھ سے پھوٹنے والی روشنی نے تو اسے مانجھ دیا ہے۔

اس کا انگ انگ لشکنے لگا ہے۔

اس نے فاصلوں کی دھند میں سے چانگ پو کے قدموں کی آہٹ کو سننا چاہا، جو صبح سے شہر گئی ہوئی تھی اور اپنے ساتھ خبروں کی تازہ فصل لانے کا وعدہ کر گئی تھی۔ آج ان کی چھٹی کا وقت تھا اور چانگ پوکمیون کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ صبح سویرے شہر چل گئی تھی۔

اس نے کتاب کھولی۔

اس کتاب نے اس کی زندگی کے سارے رخ ہی بدل دیئے تھے۔ وہ ساتھیوں کے ساتھ کو رس لگاتا، قدم بہ قدم، شانہ بہ شانہ آگے بڑھا چلا جا رہا تھا۔

ایک سکون، ایک اطمینان۔

وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔

شام کو چانگ پو اور دوسرے ساتھی واپس آئے تو ان کندھوں سے زرد کیڑے چمٹے ہوئے تھے۔

کچھ لوگ خیمے کو ٹڈیوں کی طرح کاٹ رہے ہیں ، ہمیں ان کا محاسبہ کرنا ہے۔

اس کے ہاتھوں کی گرفت بندوق پر مضبوط ہو گئی۔

زرد بخار کے جراثیم چاروں طرف پھیل گئے۔ سب ایک دوسرے کو شبہ کی کلہاڑیوں اور شک کی درانتیوں سے کاٹ رہے تھے۔

خون۔۔۔  گرم، ابلتا، نمکین خون،

میں اپنے ہونٹ چوستا ہوں۔

حیرت کے اہرام میں لپٹی میری آنکھیں سارے جسم کا طواف کرتی ہیں۔

میرے جسم پر ملائم شفاف چکناہٹ گنگنا رہی ہے۔

میں اپنی آنکھوں کو منہ کے راستے اندر اتار دیتا ہوں۔

اندر بڑی بڑی خوفناک چہروں والی سیاہ نوکیلی چٹانیں سر اٹھائے گا رہی ہیں۔

میری آنکھیں زخمی ہو جاتی ہیں۔

ان پر سیاہی جمنے لگتی ہے۔

باہر سے میں کتنا ملائم اور شفاف ہوں۔

لیکن اندر سے۔۔۔  ؟

’’یاہو۔۔۔ ‘‘میرے منہ سے نکلے ہوئے خوب صورت، ملائم اور لذیذ لفظ سامنے والے کے نرخرے میں گڑ جاتے ہیں۔ میں ہونٹوں کی طشتری میں گرم، ابلتے، نمکین لہو کا ذائقہ چکھتا ہوں۔

’’یاہو۔۔۔  یا ہو۔‘‘

میرے اندر اُگے ہوئے لمبے سیاہ بالوں کے جنگلوں میں کوئی سرسراتا ہے اور چپکے چپکے ہنستا ہے۔

٭٭٭

 

تشبیہوں سے باہر ایک پھڑپھڑاہٹ

جب ریل کار سٹیشن کی گود سے پھسل کر اندھے فاصلوں کی پھیلی بانہوں میں داخل ہوئی تو اس کے پہئے لانبی لانبی بھو کی زبانیں نکالے پٹڑی کے شفاف جسم کو چاٹ رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے شہر کا آخری پل عبور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ ریل کے پہئے دھیرے دھیرے پٹڑی سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور ڈبہ ہوا میں تیر رہا ہے۔ اس نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر پہیوں کی طرف دیکھا۔۔۔  پٹڑی دور نیچے تیر رہی تھی۔ اس نے گھبرا  کر سر اندر کر لیا اور دائیں ہاتھ والے سے کہا۔۔۔  ’’ہم تو ہوا میں سفر کر رہے ہیں۔‘‘ دائیں ہاتھ والے نے اخبار سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے دوبارہ اخبار پڑھنے لگا۔ وہ دو ایک لمحے اس انتظار میں رہا کہ وہ جواب دے گا، لیکن جب اس نے اخبار سے سر نہ اٹھایا تو اس نے بائیں ہاتھ والے سے کہا۔۔۔  ’’بھائی زمین سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔‘‘

بائیں ہاتھ والے نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔۔۔  ’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

اس نے گھبرا  کر کھڑکی سے سر باہر نکلا اور جھک کر نیچے دیکھنے لگا، ریل کار ہوا میں اڑ رہی تھی۔

’’اب کیا ہو گا؟‘‘۔۔۔  اس نے سوچا۔۔۔  ’’میں گھر کیسے پہنچوں گا؟‘‘

’’گھر۔۔۔  کون سے گھر؟‘‘ سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص نے تمسخر سے کہا۔

’’میرے اپنے گھر۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ لیکن پھر فوراً ہی اسے خیال آیا کہ کیا اس کا کوئی اپنا گھر ہے؟

گھر۔۔۔  گھر۔۔۔  ریل کار کی آواز اس کے کانوں میں سیٹیاں بجانے لگی تو دائیں طرف والا اور بائیں طرف والا، دونوں ہی میری بات سننے کے لیے تیار نہیں اور یہ سامنے والا پوچھتا ہے کہ میرا گھر کون سا ہے؟

تو۔۔۔  تو پھر

اس نے بے بسی سے چاروں طر ف دیکھا۔

وہ بھی تو سامنے والی نشست پر ہی بیٹھی ہوئی تھی اور بڑی دیر سے اس کی آنکھوں میں توجہ کے سائبان تنے ہوئے تھے۔

تو یہ میری بات سمجھ رہی ہے۔

وہ اچک کر کھڑکی میں جھانکنے لگا اور جب اپنی سیٹ کی طرف مڑا تو اس نے سرگوشی میں اس سے کہا۔۔۔  ’’ہم ہوا میں سفر کر رہے ہیں۔‘‘

اس نے اپنی تائید مسکراہٹ کی مخملی پٹی میں لپیٹ کر اس کی طر ف پھینکی۔ وہ مطمئن ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا اور تجسّس کے ننھے منے ہاتھوں سے اس کے سراپا کو ٹٹولنے لگا۔

جنگل کے ہرن سینگ میں سینگ پھنسائے اس کے سینے پر کلیلیں کر رہے تھے اور وہ بار بار پلکوں کی بالکونی سے جھانک جھانک کر اس پر شناسائی کے مسکراتے کنکر پھینک رہی تھی۔

اس نے سوچا، فرض کرو میں اس کا نام ’’ی‘‘ رکھ لیتا ہوں۔

تو ’’ی‘‘ مسکراہٹوں کے چپوؤں سے اس کے دل کی کشتی کو کھیتے ہوئے گہرے پانیوں میں لیے جا رہی ہے۔

دفعتاً اسے خیال آیا۔ اس کا نام ’’ی‘‘ ہی کیوں ؟ آخر اس سے پہلے بھی تو بے شمار حرف ہیں ، ان میں سے کوئی کیوں نہیں ؟

تو پھر کیا۔۔۔  کیوں نہ ’’الف‘‘ سے شروع کروں ؟

تو اس نے ’’الف‘‘ سے شروع کیا۔

لیکن ’’الف‘‘ تو مدت ہوئی بوڑھا ہو چکا ہے۔

’’ب‘‘ ویسے ہی بیمار ہے اور بستر پر لیٹا ہوا ہے۔

’’ج‘‘ کا آدھا حصہ ٹوٹا ہوا ہے۔

اس نے ایک ایک حرف کو اس کے گنگناتے بدن پر چسپاں کرنے کی کوشش کی، مگر سارے حروف بیمار اور کھوکھلے تھے۔

اب کیا کروں ؟

ہمارے تو حروفِ تہجی ہی بیمار ہیں۔

تو پھر ’’ی‘‘ ہی ٹھیک ہے۔

ہاں تو یہ ’’ی‘‘ اس کے ساتھ ہی سٹیشن سے سوار ہوئی تھی۔ کچھ دیر نشستوں کی Adjustment، آس پاس کے چہروں کی گنتی اور پھر دھیرے دھیرے دوسرے چہرے اس کی دلچسپی کی تسبیح سے ایک ایک کر کے کھسکتے چلے گئے اور لڑی میں بس ’’ی‘‘ کا ایک چہرہ رہ گیا، جسے اپنی آنکھوں کی پوروں سے اس نے اتنا چکنا کر لیا ہے کہ اب اس کی پلکیں اٹھتے ہی وہ پھسل کر اس کے دل کے آنگن میں آ گرتا ہے۔

تو یہ ’’ی‘‘ ہے،

اور میں۔۔۔  میں کون ہوں ؟

اسے خیال آیا، اسے اپنے لیے بھی کوئی حرف منتخب کر لینا چاہئے۔

لیکن ’’الف‘‘ سے ’’ی‘‘ تک سارے حروف تو بخار میں مبتلا ہیں۔

تو پھر۔۔۔  وہ میں ہی رہے،

تو میں فی الحال میں ہی ہوں ،

ہاں تو اس میں کو کہا جاتا ہے؟

انہیں تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اتنے برسوں میں ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں جان سکا تھا کہ برانچ لائن کون سی ہے اور مین لائن کون سی، ویسے کرنے کو مسلسل سفر کر رہے تھے۔

’’لیکن کیا ہم واقعی سفر کر رہے ہیں یا اتنے برسوں سے پلیٹ فارم پر ہی کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘

اس نے دائیں ہاتھ والے سے پوچھا۔ دائیں ہاتھ والے نے اخبار سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر جھک کر اس کے کان میں بولا، ’’میاں تم پلیٹ فارم کی بات کرتے ہو، مجھے تو لگتا ہے جیسے ہم ابھی تک اپنی ماں کے پیٹ ہی سے باہر نہیں نکلے۔‘‘

تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے،

اور مڑ کر ’’ی‘‘ کو دیکھنے لگا۔

’’ی‘‘ بہت خوبصورت تو نہیں تھی، لیکن اس کے گنگناتے بدن کے کچے آنسوؤں میں جوانی کے بہت سے لکّے کبوتر غٹرغوں غٹر غوں کر رہے تھے۔

’’تو کیا ہم سب جنم لے چکے ہیں ؟‘‘اس نے بائیں ہاتھ والے سے پوچھا،

بائیں ہاتھ والے نے کتاب سے سر اٹھایا، اس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’یار تم سوال بہت کرتے ہو، ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’بھائی میں کہہ رہا تھا کہ کیا ہم سفر کر رہے ہیں ، لیکن ٹھہرو پہلے میں تمہارا نام رکھ لوں۔‘‘

بائیں ہاتھ والا اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا، پھر بولا۔۔۔  ’’یہی تو المیہ ہے کہ میرا کوئی نام نہیں۔ ہم دوسروں کے ناموں کو اپنا سمجھتے ہیں ، لیکن حقیقت میں ہمارا کوئی نام نہیں۔ جب تک ہم ایک نا م کے حروف تلاش نہیں کرتے اسی پلیٹ فارم پر ہی بیٹھے رہیں گے۔‘‘

’’تو کیا ہم پلیٹ فارم پر ہی ہیں ؟‘‘ اس نے گھبرا کر سوال کیا اور اُچک کر کھڑکی میں جھانکنے لگا۔

’’میاں ہم تو پچھلے کئی سو سالوں سے اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ بائیں ہاتھ والے نے آنسو پونچھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔

وہ دھڑام سے اپنی سیٹ پر گر گیا۔

تو میں کیا کروں ؟

کیا میرے مقدر میں یہی لکھا ہے کہ میں بھی اپنے سے پہلوں کی طرح اسی پلیٹ فارم پر مر جاؤں ؟

اس نے رحم طلب نظروں سے ’’ی‘‘ کی طرف دیکھا اور سرگوشی میں بولا، ’’اے اچھی لڑکی! کیا تو میری کوئی مدد کر سکتی ہے؟‘‘

’’ی‘‘ نے مسکرا  کر اس کی طرف دیکھا اور اسی سرگوشی میں پوچھا، ’’کیسے؟‘‘

’’اس طرح کہ میرے پیدا ہونے میں میری مدد کرو۔‘‘

’’ی‘‘ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

پھر وہ کھڑکی میں سے باہر دیکھنے لگا۔

دور دور تک پھیلے کھیتوں میں کام کرتے کسان سیدھے ہو رہے تھے اور اپنی درانتیاں اوپر اٹھا رہے تھے۔

یہ سب کمزور ہیں ، انہیں دودھ کی ضرورت ہے۔

لیکن کون سے دودھ کی۔۔۔ ؟

تو دراصل یہ گاڑی چل نہیں رہی بلکہ ایک ہی جگہ کھڑی ہے۔

تو پھر کیا کروں۔

اس نے دائیں بائیں بیٹھے دونوں شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بولا۔۔۔  ’’آؤ نیچے اتر کر دیکھیں گاڑی چل کیوں نہیں رہی؟‘‘

دونوں نے بیک وقت حیرت اور استعجاب سے اس کی طرف دیکھا اور پھر غصہ سے بولے۔۔۔  ’’یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔‘‘

’’تو پھر کس کا ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔

یہ ان دونوں کا مسئلہ نہیں۔

یہ ’’ی‘‘ کا بھی مسئلہ نہیں۔

تو پھر یہ مسئلہ کس کا ہے؟‘‘

’’ی‘‘ نے اب اخبار پڑھنا شروع کر دیا تھا اور اس دوران وقفوں وقفوں سے پلکوں کا گھونگھٹ اٹھا کر اس کی طرف دیکھ لیتی تھی۔

وہ بھول گیا تھا کہ گاڑی چل نہیں رہی،

اس کے دل کے گملے میں اب ننھے منے پودے سر اٹھانے لگے تھے اور ’’ی‘‘ کے بدن سے نکلتی خوشبوؤں کی ننھی منی کنکریاں اس کے نتھنوں کے صحن میں آ کر گر رہی تھی۔

تو اصل میں ہم سفر نہیں کر رہے۔

ایک لمحے کے لیے اسے پھر خیال آیا۔

لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کے آس پاس سارے مطمئن بیٹھے ہیں تو اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو پرے پھینک دیا اور ٹانگیں پھیلا کر سیٹ میں گھس گیا۔

باہر اب تاریکی کی پھوار پڑ نے لگی تھی۔

’’ی‘‘ نے جھک کر سیٹ کے نیچے سے اپنے ٹوکری نکالی اور اس میں سے لفافہ نکال کر اسے کھولنے لگی۔ لفافہ کھولتے ہوئے وہ مسلسل کَن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر لفافہ میں سے اس نے کیک کا ٹکڑا نکالا اور اسے ہاتھ میں لے کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

اسے ایک دم ڈھیر ساری بھوک کا احساس ہوا۔

’’میں تو صدیوں سے بھوکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔۔۔  تو ’’ی‘‘ یہ ٹکڑا مجھے دے گی۔

وہ سراپا انتظار اور سوال بن کر ’’ی‘‘ کے سامنے پھیل گیا۔

’’ی‘‘ ایک یاد و لمحے تذبذب کی پینگ جھولتی رہی پھر اس نے اطمینان کا لمبا سانس لے کر کیک کے ٹکڑے کو منہ میں رکھ لیا اور لفافے میں سے ٹکڑے نکال کر کھانے لگی۔

تو اصل میں ’’ی‘‘ بھی اندر سے ایک کھوکھلا حرف ہے۔

ہم کریں بھی کیا

ہمارے تو سارے حروفِ تہجی ہی اندر سے کھوکھلے اور بیمار ہیں۔

’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘۔۔۔  اس نے چیخ کر کہا۔

سارے اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’کیا بات ہے؟‘‘۔۔۔  دائیں ہاتھ والے نے برہمی سے پوچھا۔

ہمیں جو کچھ ورثہ میں دیا گیا ہے وہ سب کا سب کھوکھلا اور بیمار ہے اور یہ سارے حروف تہجی متعدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

’’ی‘‘ نے کیک کھا کر لفافے سے انگلیاں صاف کیں اور لفافے کو کھڑکی میں سے باہر پھینک دیا۔

اس نے دیکھا، کھیتوں میں کام کرتے کسان درانتیاں لیے ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔

’’ی  نے مجھے کیک کا ٹکڑا کیوں نہیں دیا؟‘‘

اس کے اندر دکھ اور غم کی ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنا اٹیچی لے کر نیچے اترا تو پلیٹ فارم پر اس کا دوست اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ اس کی طرف دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔

اس کے دوست نے لپک کر اسے کندھے سے پکڑ لیا اور بولا۔۔۔  ’’عجیب آدمی ہو، میں تمہیں لینے آیا ہوں اور تم مجھے دیکھ کر بھی دوسری طرف چلے جا رہے ہو۔‘‘

اس نے جھٹکے سے کندھا چھڑا لیا اور بولا۔۔۔  ’’میں نے سفر ہی نہیں کیا، تم مجھے کیوں لینے آئے ہو؟‘‘

پھر یہ دیکھ کر کہ اس کا دوست حیرت سے اسے تکے جا رہا ہے، وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔۔  ’’ہم سب تو اسی پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ ہم اس کے ایک دروازے سے باہر جاتے ہیں اور دوسرے سے پھر اندر آ جاتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سفر کر رہے ہیں۔‘‘

پھر کچھ دیر بعد بولا۔۔۔  ’’دراصل ہمارے حروف تہجی ہی بیمار ہیں۔ جب تک ہم نئے حروف تہجی نہیں بنائیں گے اسی ناسفری کے آشوب میں گھلتے رہیں گے۔‘‘

دور کھیتوں میں جمع ہوتے کسانوں کی آوازیں اب اس کے جسم کے دروازوں پر دستکیں دے رہی ہیں۔

اس نے اپنا اٹیچی گھما کر لائنوں پر پھینک دیا اور بولا، ’’لعنت ہے مجھ پر۔ میں اتنا عرصہ ایک بے معنی اور بے مقصد بوجھ اٹھائے پھرتا رہا ہوں۔‘‘

’’ی‘‘ نے اب خوشبو کا نقاب اتار پھینکا تھا۔۔۔  ہاتھوں میں کیک کا ٹکڑا لیے رَس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

لیکن وہ اس کی طرف دیکھے بغیر چپ چاپ باہر نکل آیا۔

٭٭٭

 

تیز دھوپ میں مسلسل رقص

اوپر تیز بخار میں جلتا اور سورج

نیچے بھول بھلیاں ، راستہ بھٹکی سانسوں کے آبشار

لذت سے ہمکنار، لذت سے محروم فاصلے

پھیلے ہوئے سمٹے ہوئے فاصلے

جستجو کے پھڑپھڑاتے ہوئے پروں پر چمٹے ہوئے ہاتھ، خواہشوں کے گیلے پیڑ پر اُگے ہوئے ہاتھ، خالی اور بھرے ہوئے ہاتھوں کے درمیان تیزی سے گھومتی ہوئی رسی پر اچھل اچھل کر کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانے کی کوشش میں الجھا ہوا وہ سر گھما کر چاروں طرف دیکھتا ہے۔

تیز دھوپ سے بچنے کی صورت

آنکھوں پر گہرے رنگ کا چشمہ

وہ صفحہ الٹ کر لفظوں کو چوسنے لگتا ہے۔

اندھیرے کی بانسری پر جھومتا ہوا سورج جب رینگ رینگ کر مشرقی منڈیر سے سر نکالتا ہے تو میونسپلٹی کی لاری اس کے مٹیالے منہ پر چھینٹیں مار مار کر اسے جگاتی ہے۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھتی ہے۔ اس کی پسلیوں میں سے پھوٹتی گلیوں کی نیم تاریکیوں سے لوگ ایک ایک کر کے باہر نکلتے ہیں اور اس کی چھاتیوں کو گدگداتے بڑے چوک میں گم ہو جاتے ہیں۔ اس کے دائیں طرف ایک لمبی خاموش دیوار ہے جو اس کی انگلیوں کی پوروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ دیوار مدتوں سے یوں ہی سکتے کے عالم میں ہے۔ بائیں طرف ایک دو۔۔۔  تین چار نیم تاریک گلیاں ہیں۔ جو سارا دن ابکائیاں لے کر لوگوں کو اس کی جھولی میں اگلتی رہتی ہیں۔ سر کی طرف بتی والا بڑا چوک ہے جس کے جبڑے صبح ہوتے ہی پھیل جاتے ہیں اور وہ نتھنے پھلا پھلا کر سارا دن بڑی چھوٹی گاڑیوں ، ٹانگے، سائیکل اور پیدل چلنے والے لوگوں کو اس کے منہ پر تھوکتا رہتا ہے۔ پاؤں کی طرف دو ڈھائی فرلانگ کے فاصلے پر ایک موڑ ہے جہاں پہنچتے پہنچتے اس کی شکل دھندلی دھندلی ہو جاتی ہے۔

ٹریفک کی زنجیر سارا دن اس کے سینے پر کروٹیں لیتی رہتی ہے اور وہ اس کے نیچے دبی، کبھی لمبے لمبے سانس لے کر اور کبھی رینگ رینگ کر اس بوجھ کو دائیں بائیں کرتی رہتی ہے۔ شام کی پھوار پڑتے ہی جب ٹریفک کی بھاری زنجیر ٹوٹتی ہے، وہ منہ میں تھکن کی چوسنی لیے اپنے دونوں کناروں میں سمٹ کر اونگھنے لگتی ہے۔ صبح سویرے جب سورج رات کے بند دروازوں پر دستک دے رہا ہوتا ہے، میونسپلٹی کی لاری بڑے چوک کے حاملہ پیٹ سے سر نکالتی ہے اور اس کے مٹیالے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی، موڑ کی اندھی گلیوں میں گم ہو جاتی ہے۔

معمول کے ٹھکے ٹھکائے یک رنگ چوکھٹے میں پھنسا ہوا  دن

طلوع اور غروب کے یکساں سانچے، وہ گہرے رنگ کا چشمہ لگا کر اگلا صفحہ پلٹتا ہے۔

تیز بخار میں ہذیانی رقص کرتا سورج، اس کے عین سر پر آ کھڑا ہوتا ہے۔

وہ جلدی سے صفحہ الٹتا ہے۔

لیکن اسی صبح جب پانی کے چھینٹوں کے انتظار میں کسمساتے اسے بہت دیر ہو گئی تو۔۔۔  اس نے اپنے کناروں سے سر نکال کر بڑے چوک کی طرف دیکھا۔ میونسپلٹی کی لاری بستی والے گھیرے سے لگی سہمی سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ پتھروں کا اونچا ڈھیر دونوں ہاتھ پھیلائے اسے روکے ہوئے تھا۔

وہ سر گھما کر دیکھتی ہے، پتھروں کے یہ پھوڑے اس کے سارے جسم پر پھیلے ہوئے ہیں اور درد اُس کی پور پور میں رینگ رہا ہے۔

یہ رات، اذیت کی رات۔

وہ آہ بھر کر انگڑائی لیتی ہے اور اس کی نظریں اس پر پڑتی ہیں ، وہ اپنے ڈگمگاتے قدموں پر جسم کا سارا بوجھ ڈالے اس کے کنارے کنارے چلا آ رہا ہے۔ وہ اَدھ کھلی نیم خواب آنکھوں سے اسے دیکھتی ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے اس کے پاس بیٹھ جائے۔ وہ اچک کر اس کے پاؤں پکڑنا چاہتی ہے لیکن وہ اس سے پہلے ہی پتھروں کے ایک ڈھیر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ پتھروں کے نیچے ہی نیچے سرک سرک کر اس کے قریب آتی ہے اور ڈھیر کی درزوں میں سے سر نکال کر اس کے ساتھ آ لگتی ہے۔

’’تو یہ شخص وہی ہے۔‘‘

وہ دھیرے سے اس کے پاؤں میں چٹکی لیتی ہے۔ لیکن وہ اسی طرح گم سم دور خلا میں کسی نامعلوم شے کو گھورتا رہتا ہے۔

’’تو یہ شخص وہی ہے۔‘‘

یہ شخص ہر صبح سات بجے گلی نمبر ۴ سے نکل کر بڑے چوک میں جاتا ہے۔ چار بجے انیس نمبر بس اسے دوبارہ چوک کی جھولی میں اگل جاتی ہے اور وہ اسی طرح خاموشی سے گلی نمبر ۴ میں لوٹ جاتا ہے۔ شام کو وہ ایک عورت اور بچے کے ساتھ باہر آتا ہے۔ عورت کھنکھناتا جسم، متجسّس آنکھیں ، خواہشوں کے لیسلے پیڑ پر اگے کانٹوں میں پھنسے زخمی ہاتھ۔

بچہ معصومی کی رنگین پینگ پر ہلا رے کھاتا، دھنک رنگوں کو پکڑنے کی کوشش میں مگن!

واپسی پر گلی میں داخل ہونے کی ترتیب۔۔۔  سب سے پہلے خواہشوں کے ہاتھوں رہن رکھی آنکھوں والی عورت، پھر جمائیاں لیتا بچہ اور آخر میں وہ جوہے اور نہیں بھی۔

وہ پتھروں کی درزوں میں سے سر نکال کر اسے غور سے دیکھتی رہتی ہے؟ یہ شخص پچھلے کئی سالوں سے اسی طرح زندگی کی وقت کی چرخی پر لپیٹ رہا ہے۔ صبح شام، صبح شام، پھر وہی رات اور اس کے بعد وہی صبح شام، صبح و شام۔ عورت اس سے قدرے مختلف ہے۔ اس کی آنکھوں کے طاقچے میں ہر روز نئی نئی شمعیں جھلملاتی ہیں۔ وہ کئی بار عورت کے پاؤں کے نیچے سرکتی گلی نمبر چار کے نیم تاریک دہانے تک آئی ہے۔ اس کا کئی بار جی بھی چاہا ہے کہ عورت کے ساتھ اندر جائے، لیکن دونوں کناروں کے اندر بندھے اس کے پاؤں راستہ روک لیتے ہیں۔ عورت جب بھی گلی سے نکلتی ہے وہ چوکنی ہو جاتی ہے اور دوڑ کر اس کے قریب آ جاتی ہے۔ جب عورت پہلی بار دن کے وقت اکیلی باہر آئی تھی تو وہ اس کے ساتھ ساتھ سبزی والے کی دکان تک گئی تھی۔ کچھ دنوں تک عورت کا یہ سفر گلی سے سبزی والے اور سبزی والے سے گلی تک محدود رہا پھر وہ دکان نمبر سا ت تک آنے لگی۔ یہ ایک چھوٹا سا جنرل سٹور ہے۔ شروع شروع میں عور ت جنرل سٹور کے شوکیس کے پاس کھڑے ہو کر سودا خریدتی ہے پھر رفتہ رفتہ وہ آگے اور آگے، سٹور کے پچھلے حصہ میں جانے لگتی ہے۔

یہ شخص تو چار بجے واپس آتا ہے جب عورت سٹور کے پچھلے حصہ کی سیر کر کے اور اپنی ٹوکری بھر کر گلی میں واپس جا چکی ہوتی ہے۔ وہ جلدی سے گلی میں داخل ہوتی ہے۔ شام کو وہی ترتیب، پہلے عورت پھر بچہ اور آخر میں وہ کنارے کنارے بڑے چوک تک۔ واپسی اسی طرح، پہلے عورت پھر بچہ اور آخر میں وہ اور اب یہ وہ پتھروں کے اس ڈھیر سے ٹیک لگائے کسی نامعلوم خوف کے پنجوں میں پھڑ پھڑا رہا ہے۔

وہ اچھل کر اس کے چہرے پر لکھے لفظ پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سارے لفظ بے ترتیب، بے ڈھنگے، لائنیں ٹیڑھی اور مٹی مٹی۔ اس کی آنکھوں میں کل رات کا منظر منجمد ہو جاتا ہے۔

ایک کار گلی نمبر چار کے قریب آ رکتی ہے۔ گلی سے پہلے عورت اور اس کے پیچھے بچے کو گود میں لیے وہ باہر آتا ہے۔ عورت جلدی سے کار میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔  وہ بچے کو گود میں لیے گم سم اسے دیکھتا رہتا ہے۔ کار تیزی سے مڑتی ہے۔ بچہ لپک کر عورت کو پکارتا ہے لیکن کار بڑے چوک کی گود میں گم ہو جاتی ہے۔ وہ جلدی سے گلی میں کود جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ٹرک نمودار ہوتا ہے اور پتھروں کا ایک ڈھیر اس کے سینے پر پھینک کر چوک کی طرف بھاگ نکلتا ہے۔ پھر رات گئے تک پتھروں کے ڈھیر اس کے سارے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔

وہ صفحہ پلٹنے سے پہلے گہرے رنگ کا چشمہ اتار دیتا ہے اور سر اٹھا کر تیز بخار میں جلتے، ہذیان بکتے سورج کو دیکھتا ہے، سورج اپنی ہتھیلیوں پر الاؤ جلائے پورے آسمان پر ناچ رہا ہے۔

تھتھیا تھیا تھیا۔۔۔  تھتھیاتھیا تھیا

گلی نمبر تین کی مسجد میں نماز ختم ہو گئی ہے اور اِکا دُکا نمازی گلی سے نکل رہے ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھتا ہے اور پتھروں کے ڈھیر کے پاس کھڑا بے چینی سے بڑے چوک کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔

وہ پتھروں کے ڈھیروں کے نیچے سرکتی سرکتی بڑے چوک کے قریب آتی ہے۔ کار چوک کے دوسرے سرے سے نکلتی ہے۔ پتھروں کے ڈھیر دیکھ کر چوک ہی میں رک جاتی ہے۔ عور ت باہر نکلتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کے قریب آتی ہے۔ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور کچھ کہے بغیر آہستہ آہستہ گلی نمبر چار کی تاریکی میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد ایک خوفناک چہرے والا انجن بڑے چوک کی طرف سے آتا ہے۔ اس کے پیچھے بیلچوں اور گینتیوں کی قطار ہے۔ انجن پھک پھک کرتا اس کے سینے پر آ چڑھتا ہے۔ بیلچے اور گینیتاں بھوکے گدھوں کی طرح اس کی لاش پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔

وہ پھر گہرے رنگ کی عینک اپنے منہ پر چڑھا لیتا ہے۔ ہاتھوں میں حدّت اور چبھن کے برچھے لیے ہذیانی سورج اس کے عین سر پر ناچ رہا ہے۔ رفتار، بوجھ اور دکھ کا رقصِ مسلسل۔

وہ سر گھما گھما کر ایک ایک کو دیکھتا ہے۔ پھر کتاب کو زور سے دیوار پر دے مارتا ہے۔ کتاب کے مضمون پر ٹنگے حرف ٹوٹ ٹو ٹ کر تڑخ تڑخ کر نیچے گرتے ہیں۔

سوکھے ہوئے لفظ۔۔۔  تڑخے ہوئے لفظ

چوسے ہوئے لفظ۔۔۔  پھوکے لفظ

تیز دھوپ سے بچنے کی صورت

آنکھوں پر گہرے رنگ کا چشمہ

لیکن بدن پر رینگتی دھوپ، جسم تو اسی طرح جل رہا ہے!

٭٭٭

 

جاگتی آنکھوں کا خواب

اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میز پر پڑے ہوئے اسے ایک لمحہ گزرا ہے، ایک سال یا ایک صدی۔ وہ تو بس لیٹا ہوا چھت کو اپنی آنکھوں میں پرو رہا تھا اور تنہائی کا ہانپتا کتا زبان باہر لٹکائے اس کے سارے جسم کو چاٹ رہا تھا۔ سورج نیچے اتر کر اس کے سر پر آ بیٹھا تھا اور اس نے اپنی ٹانگیں اس کے سینے پر پھیلا دی تھیں ، اس لیے اسے احساس نہیں تھا کہ وہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں یا تو سو رہی تھیں یا اسی کی طرح وقت کی ٹوٹی ہوئی رسیوں سے لٹک رہی تھیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی، جانے کب سے وہ اسی طرح تنہائی کی کھڈی پر سانسوں کی اُون سے اپنی زندگی کا قالین بُن رہا تھا۔ اب یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ قالین تھا کہ دری، کیونکہ وہ جب بھی اس پر ہاتھ پھیرتا، کھردرا پن اس کی پوروں پر رینگنے لگتا اور وہ جھنجھلا کر دوبارہ میز پر آ گرتا۔ اسے آپریشن کے لیے اس کمرے میں لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کا ایک گردہ خراب ہو گیا ہے۔ اس کے بدن کے کھلیان میں گندے خو ن کی قلم لگ گئی ہے۔ ہاں اسے یاد آیا، اسے گردے کے آپریشن کے لیے یہاں لایا گیا تھا، لیکن کب۔۔۔  ایک لمحہ، ایک سال، یا ایک صدی پہلے، جانے کب اسے یہاں لایا گیا تھا۔ شاید وہ پیدا ہی اسی میز پر ہوا ہو۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر میز کو چھونا چاہا لیکن اس کے بازو میں درد کی گیند لڑھکنے لگی۔ اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر نے اس کے بازو میں انجکشن لگایا تھا۔ دوا سوئی کی گود میں سے پھسل کر اس کے سارے جسم میں پھدکنے لگی تھی۔۔۔  پھر۔۔۔  پھر اس نے اپنی نظروں کی کمند کو سر پر لٹکتی ہوئی روشنی کی فصیل سے پرے پھینکا۔ اس کی بیوی دیوار سے لٹکی ہوئی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر اس نے کلکاری ماری اور اُڑ کر اس کے سر پر لٹکتی روشنی کے تھال پر آ بیٹھی اور اس کے ساتھ یوں ہلنے لگی جیسے جھولا جھول رہی ہو۔

اس نے اپنی نظروں کو سمیٹا اور کہنے لگا۔۔۔  ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ بچوں کا کیا حال ہے؟ وہ کس کے پاس ہیں ؟‘‘

بیوی نے جھولتے جھولتے اپنی قمیض کا دامن اوپر اٹھایا، دودھ کی ایک دھار اس کے پیاسے منہ پر ماری۔ نمکین دودھ اس کے چہرے کے کٹورے سے پھسلتا ہوا قطرہ قطرہ اس کے ہونٹوں کی ٹرے میں اکٹھا ہونے لگا۔

ماں۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے باجے پر گنگناہٹ ہوئی، لیکن دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ وہ تو اس کی بیوی ہے۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔۔۔  اس کی بیوی کا جسم پگھل رہا تھا اور بوند بوند اس کے سینے پر گر رہا تھا۔ اس نے اچھل کر پرے ہٹنا چاہا لیکن اس کے جسم کی گاڑی کے سارے پہیے پنکچر ہو گئے تھے۔

اس کی بیوی کا جسم قطرہ قطرہ اس کے سینے پر جمع ہو رہا تھا اور ٹھنڈک دھیرے دھیرے اس کے نیچے سرک رہی تھی۔ اسے یاد آیا، ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد اس کے گردے کا آپریشن شروع کیا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھنا چاہا لیکن اس کے سینے پر اس کی بیوی کے جسم کا ڈھیر لگا ہوا تھا، اس کا اٹھا ہوا سر پھر میز پر آ گرا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس کی آواز کا پرندہ پھڑپھڑا کر اڑا لیکن کمرے کی دیوار سے ٹکرا کر فرش پر آ گرا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس نے سرگوشی کی۔

ڈاکٹر کہاں ہے؟ اس نے سوچا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے پنجرے سے آواز کے سارے پرندے پھڑپھڑا کر اڑے لیکن کمرے کا چکر لگا کر واپس آ گئے۔

ڈاکٹر کمرے میں موجود نہیں تھا۔

سرمئی ابابیلیں اس کے چاروں طرف منڈلا رہی تھیں اور تاریکی کی کنکریاں ایک ایک کر کے اس کے چاروں طرف پھینک رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نظروں کی کدالوں سے تاریکی کی ان چٹانوں کو چیرنے کی کوشش کی لیکن اس کی آنکھوں کے پیاسے کاسوں میں روشنی کی ایک بوند بھی نہ گری۔

پہچان کی ساری رسیاں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں اور چیزیں اور منظر اس کی آنکھوں کے کیمرے میں جل بجھ رہے تھے۔۔۔  جل بجھ رہے تھے اور وہ خود تنہائی کی زنجیر سے بندھا اس میز پر گھپ اندھیرے میں بھیگ رہا تھا۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال یا ایک صدی، جانے کب سے وہ اس میز پر پڑا وقت کی طنابوں کو انتظار کی کند چھری سے کاٹ رہا تھا۔ کوئی چپچپی سی چیز اس کی پیٹھ کے نیچے سرک رہی تھی۔ شاید ڈاکٹر اس کا آپریشن ادھورا چھوڑ گیا ہو، کیا معلوم اس کا گردہ باہر پڑا ہویا شاید ڈاکٹر اسے نکال کر ساتھ لے گیا ہو، کیا معلوم۔۔۔  کیا معلوم،

اس کے سوالوں کی ٹوکری میں سارے انڈے کچے تھے۔ وہ انہیں آنچ دے دے کر تھک گیا تھا لیکن جوابوں کے بچے نہیں نکل رہے تھے۔

سارے سوال منجمد ہو گئے تھے۔

تو ڈاکٹر چلا گیا ہے۔۔۔  اس نے اپنے آپ سے کہا۔

بے بسی کی ڈائن تنہائی کا چغہ پہنے کمرے کی دیواروں سے نکلی اور دھیرے دھیرے چلتی اس کے قریب آئی تو وہ سحر زدہ سا ان پتلیوں میں تیرنے لگا۔ وہ آہستہ سے جھکی اور پھر اس نے اپنے لمبے دانت اس کی گردن میں گاڑ دئیے۔۔۔  اور اداسی، مایوسی، تنہائی کا زہر قطرہ قطرہ اس کے بدن کے مشکیزہ میں ٹپکنے لگا۔

تو ڈاکٹر چلا گیا ہے۔

اس کے بدن کی کھلیان میں بے بسی، اداسی، تنہائی کی کونپلیں ، لہلہاتی فصلیں بن گئی تھیں اور مایوسی کی چڑیاں ان میں پھدکتی پھر رہی تھیں۔

وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح میز پر پڑا ان بے شمار کیڑوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے وجود  پر رینگ رہے تھے اور اس کے بدن کی نرم سندھوری مٹی میں اپنا گھر بنا رہے تھے۔

اس کا وجود اس فراموش کردہ دیوار کی طرح تھا جس میں مختلف کیڑوں اور پرندوں نے اپنے آلنے بنا لیے ہوں اور اب ہر کوئی اپنے گھر کو وسیع اور بڑا کرنے کے لیے اسے اندر ہی اندر کھودتا چلا جا رہا ہو۔

وہ کھوکھلا تنا تھا جس پر بے بسی اور مایوسی کی موٹی چھال تنی ہوئی تھی۔

اس کی آنکھیں بند دروازے کی چوکھٹ سے لٹکی ہوئی تھیں اور  وقت کی مکڑی دروازوں کے پٹوں پر انتظار کے جالے بن رہی تھیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی، وقت کی گھڑی کا ڈائل بجھا ہوا تھا اور سوئیاں ٹوٹ کر نیچے گر پڑی تھیں۔ اس لیے اسے معلوم نہیں ، ایک لمحہ، ایک سال یا ایک صدی۔۔۔  دروازہ آہستہ سے کھلا۔ اس کی پتھرائی آنکھوں میں پہچان کا شعلہ چمکا۔

ایک شخص سفید لباس میں اندر آیا۔ اس نے اپنی نظروں کی کمند پھینک کر اسے جکڑ لینے کی کوشش کی۔ اس شخص کے سر کے بال سفیدی چاٹ رہے تھے اور ہاتھ جھریوں کے دستانوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ وقت کی مکڑی نے اس کے چہرے پر عمر کا جالا بُن دیا تھا۔ وہ چپ چاپ  اس کے قریب کھڑا رہا۔ پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’مجھے معاف کر دینا، میں بھول گیا تھا۔ آج میں ریٹائر ہو رہا ہوں۔ جانے سے پہلے میں اپنا دراز صاف کر رہا تھا کہ تمہارے کاغذات نکل آئے اور مجھے یاد آیا کہ تم تو آپریشن تھیٹر میں ہی پڑے ہو۔۔۔  مجھے معاف کر دو۔‘‘

وہ ندامت کے چند آنسو اس کے کانوں کے پیاسے کٹوروں میں ٹپکا کر باہر چلا گیا۔

دروازہ ایک بار پھر بند ہو گیا۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  ایک صدی، وقت کبھی بھی اس کا دوست نہیں بنا تھا۔ اس نے ہمیشہ موقع کی مچان سے اس پر چھپ کر وار کیا تھا اور اس بار پھر اس نے اپنی تیز چھری سے اس کے خیمے کو کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ دن اور لمحے تو اس سے چھین لیے گئے تھے اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک لمحہ، ایک سال یا ایک صدی بیت گئی ہے۔

وہ اسی طرح اپنی نظروں کے برمے سے بند دروازے کو چھیدنے میں لگا رہا۔۔۔  دروازہ پھر کھلا، ایک نوجوان شخص سفید لباس پہنے اندر آیا۔ چند لمحے اسے دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’میں نیا ڈاکٹر ہوں ، پرانے ڈاکٹر نے تمہارے کاغذات ابھی ابھی مجھے دئیے ہیں۔‘‘ پھر اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’مجھے افسوس ہے، تمہیں اتنی تکلیف اٹھانا پڑی، میں ابھی آ رہا ہوں۔‘‘

دروازہ دوبارہ بند ہو گیا۔

تنہائی، اکیلے پن اور اداسی نے پھر اسے اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا، بے بسی اور مایوسی کی چڑیاں اس کے بدن کی آنتوں میں چوں چوں کرتی پھدکنے لگیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی۔

بند دروازے کی طر ف دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا، خدا جانے یہ ڈاکٹر بھی آئے گا یا پہلے کی طرح اسے آنے والے کے حوالے کر جائے گا۔

کون جانے۔۔۔  کون جانے

کمرے میں اڑتی آوازوں کی گرد دھیرے دھیرے نیچے بیٹھنے لگی اور خاموشی کی دیمک اندر ہی اندر اسے چاٹنے لگی۔

دفعتاً اس گھپ خاموشی سے خیال کے سانپ نے پھن اٹھایا اور اس کے سارے وجود کو چاٹنے لگا۔

سب لوگ اسے بھول گئے ہیں۔

اس کی بیوی اس کے محبت کے خیمے سے باہر نکل گئی ہے۔ اس کے بچے اس کے پروں سے پھسل گئے ہیں۔ وہ سب زندگی کی رنگا رنگیوں میں اپنے اپنے خیمے گاڑ رہے ہیں۔

سب اسے بھول گئے ہیں۔

اور اس کی آنکھوں میں منجمد چشمے پھوٹ بہے۔

٭٭٭

 

گمشدہ آواز کی دستک

وہ اس گھنے شہر میں ، جس کی جوان چھاتیوں پر رات سانس لیتی، اندھیرا کروٹیں بدلتا ہے، زمین کا ایک ٹکڑا خریدنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے یہ زمین مکان بنانے کے لیے چاہئے۔ لیکن یہ بات کسی کو بھی معلوم نہ تھی کہ زمین کا یہ ٹکڑا وہ اپنی قبر کے لیے خرید رہا ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے کے لیے وہ خود بھی تیار نہ تھا کہ موت اس کے جسم کی ٹوٹی شاخوں پر ابھی پوری طرح نہیں بیٹھی تھی لیکن اس نے کئی دوسرے جسموں کے کھنڈروں میں اسے منڈلاتے دیکھا تھا۔ ویسے بھی قبر کے بارے میں اس کا اپنا ایک تصور تھا۔ لوگ مکان کا ڈیزائن بڑی محبت اور پیسے خرچ کر کے بنواتے ہیں لیکن قبر کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ معاملہ ہر شخص دوسروں پر چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اس کا رویہ اس بارے میں مختلف تھا۔ وہ بچپن ہی سے اپنی قبر، اس کا ڈیزائن اور دوسری باتوں کے بارے میں اس طرح سنجیدگی سے سوچتا جیسے یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہو۔ قبر سے اس کی دلچسپی اس وقت سے شروع ہوئی تھی جب وہ اپنے باپ کے جنازے کے ساتھ قبرستان گیا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے ہو۔ لیکن اس کی یادداشت کی البم کی پہلی تصویر اپنے باپ کے جنازے ہی کی تھی۔

قبرستان پہنچ کر لوگوں نے نماز پڑھی تھی۔ پھر اس کے باپ کو قبر میں اتارا گیا تھا۔ جب سلیں رکھنے کی باری آئی تو اچانک کسی کو اس کا خیال آ گیا اور اس نے پکار کر اس سے کہا کہ آؤ آخری بار باپ کا چہرہ دیکھ لو۔ وہ لوگوں کے پیچھے دبکا کھڑا تھا، اس کا نام سنتے ہی سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک بزرگ اسے بڑی شفقت سے پکڑ کر قبر کے قریب لے آیا۔ اس نے جھانک کر دیکھا، باپ کا چہرہ تو اسے نظر نہ آیا لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ قبر کچھ چھوٹی ہے اور اس کے باپ کا جسم اس میں پھنسا پھنسا سا ہے۔ پھر ساری رات اسے یہی احساس ہوتا رہا کہ اس کا باپ قبر کے چوکھٹے میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے پیر اور سر دونوں طرف کی دیواروں میں دھنسے ہوئے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر اسے بلا رہا ہے۔ قبر کے چھوٹے ہونے اور باپ کے دھنسے رہنے کی یہ تصویر اس کے قد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ گہری اور واضح ہوتی چلی گئی۔ اس دوران اس کی ماں نے ان کے پڑوسی سے شادی کر لی اور وہ ہائی سکول میں پہنچ گیا۔ اس کا نیا باپ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔ لیکن وہ اس کی نفرت کی آگ پر پانی نہ ڈال سکا۔ وہ جب بھی اپنے نئے باپ کو دیکھتا، اسے قبر میں پھنسے ہوئے باپ کے پاؤں یاد آ جاتے۔ اس کی آنکھوں کے صفحوں پر وہ راتیں رینگنے لگتیں ، جب اس کا باپ رات کو کراہ کر پانی مانگا کرتا تھا۔ اس کی آنکھ کھلتی تو ماں موجود نہ ہوتی۔ وہ اٹھ کر باپ کو پانی پلاتا۔ پھر صحن میں آتا۔ لیکن سیڑھیوں میں پھیلی ہوئی آوازوں کے  بھنور اسے واپس کمرے میں دھکیل دیتے۔ ایسی ہی ایک رات کو اس کے باپ نے پانی مانگا اور پھر ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ اس کی ماں کہتی تھی کہ اس کا باپ اسی رات مرا ہے۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ وہ اس سے کئی راتیں پہلے ہی مر گیا تھا، وہ تو اس کی لاش کو پانی پلایا کرتا تھا۔

اور اب کئی سال دیمک لگ لگ کر عمر کی ردّی کی ٹوکری میں گر گئے تھے لیکن اسے اب بھی سوتے ہوئے اپنے باپ کے پاؤں یاد آتے۔ پھر محسوس ہوتا کہ اسے بھی قبر میں اتار دیا گیا ہے۔ قبر چھوٹی ہے لیکن دفن کرنے والے اسے زبردستی ٹھونک ٹھانک کر اس میں فٹ کر گئے ہیں اور سلیں لگا کر بھاگ گئے ہیں۔ گھپ اندھیرے میں اسے اپنے پاؤں دیوار میں پھنسے ہوئے محسوس ہوتے۔ وہ ہل ہل کر انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرتا لیکن پاؤں اور پھنستے چلے جاتے۔ پھر جب اس کی بیوی اس کی بڑبڑاہٹ سن کر بتی جلاتی تو اسے معلوم ہوتا کہ اس کے پاؤں تو کمبل میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ چونک کر بیوی کو دیکھتا اور پھر اس سے پوچھتا۔۔۔

’’ہمارے دائیں طرف کون رہتا ہے؟‘‘

وہ کہتی ’’۔۔۔  آپا صدیقہ‘‘

وہ کہتا۔۔۔  ’’نہیں ،اس کے خاوند کا نام بتاؤ؟‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’حاجی عبد الغفور‘‘

وہ پوچھتا۔۔۔  ’’اور بائیں طرف‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’اچھن خان‘‘

اور پھر پوچھتا۔۔۔  ’’اور پچھلی طرف‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’عبد المجید‘‘

’’اور سامنے‘‘

’’عبد المنان‘‘

’’اور اوپر‘‘

وہ جھنجلا کر کہتی۔۔۔  ’’خدا‘‘

لیکن وہ اس کی جھنجلاہٹ کو محسوس کئے بغیر اسی سنجیدگی سے پوچھتا،’’اور نیچے‘‘

ایک دو منٹ تک اس کی بیوی کو کچھ نہ سوجھتا پھر وہ غصے سے کہتی۔۔۔  ’’قبرستان۔‘‘

قبرستان کا لفظ سنتے ہی اس کے ذہن میں پہلے قبر اور پھر اپنے باپ کے پھنسے ہوئے پاؤں ابھرتے۔ اسے لگتا جیسے قبر کی دیواریں اسے چاروں طرف سے دبا رہی ہیں۔ وہ سکڑتا چلا جاتا، یہاں تک کہ قبر ہی قبر باقی رہ جاتی۔ وہ سوچتا، وہ ہے ہی نہیں اور ساری رات وہ اسی ہے اور نہیں کی کشمکش میں الجھا کبھی کئی سال پیچھے چلا جاتا اور کبھی کئی سال آگے نکل جاتا۔ اسے اپنی ماں یاد آتی اور اس کے ساتھ ہی میٹھے دودھ کی ایک پھوار اس کے پیاسے ہونٹوں کے بنجر کھیتوں کو سیراب کر جاتی۔ پھر سیڑھیوں پر پھیلے ہوئے بھنور اس کے کانوں میں بھوند بھوند سرگوشیاں ٹپکاتے اور قبر کی دیوار میں پھنسے ہوئے باپ کے پاؤں اس کے جسم میں داخل ہو جاتے۔ وہ آنکھیں بند کئے چپکے سے اٹھتا اور دوڑ کر بیوی سے لپٹ جاتا۔ ساری رات ’’ہے اور نہیں ‘‘ کی اسی کشمکش میں وہ کبھی دھندلاتے نقطے بنتا، کبھی گہرا ہوتے ہوتے سارے بستر پر پھیل جاتا اور ایک رات کے بعد دوسری رات اسی طرح جسم کی چادر پر گدگدیاں کرتے ہوئے گزرتی چلی جاتی۔

کئی بار اس نے سوچا، ساری خرابی اس بستر کی ہے جس میں داخل ہوتے ہی اسے قبر یاد آ جاتی۔ پھر کئی بار اس نے سوچا، ساری خرابی اس کی بیوی کی ہے جو سرِ شام ہی منہ لپیٹ کر سو جاتی ہے۔ کئی بار اس نے یہ سوچا کہ ساری خرابی اس کے بیٹے کی ہے جو کتابوں کے صحن سے باہر ہی نہیں نکلتا۔ یا پھر ساری خرابی اس مکان کی ہے جس کی دائیں طرف حاجی عبد الغفور، بائیں طرف اچھن خان، پچھلی طرف عبد المجید، سامنے عبد المنان رہتے ہیں اور اوپر۔۔۔  اوپر نہ جانے کیا تھا لیکن نیچے قبرستان ضرور تھا اور سارا مسئلہ قبر کے خیال سے گڑبڑاتا تھا۔ اس لیے وہ زمین کا ایسا ٹکڑا خریدنا چاہتا تھا جس میں وہ اپنی مرضی سے مکان بنوائے اور اس کے نیچے اپنی مرضی کی قبر۔

لیکن زمین خریدنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ بس میں تو شاید کچھ بھی نہیں تھا۔ ساری زندگی دوسروں نے ہی اس پر حکومت کی تھی۔ پہلے وہ ماں سے ڈرتا تھا اب بیوی سے اور مرنے کے بعد فرشتوں کا خوف تھا جو قبر میں اس کا حساب لینے آئیں گے۔ خوف، خوف۔۔۔  خوف۔ اس نے زندگی کی ٹرے سے بس ایک ہی چیز چنی تھی، باقی ساری چیزیں تو اسے سیکنڈ ہینڈ ہی ملی تھیں۔ شوکیسوں میں لگی ہوئی چیزوں کو تو وہ للچا للچا کر دیکھ ہی سکتا تھا اور پھر جب یہی چیزیں پرانی ہو کر شوکیسوں سے نکل کر ہر مال دو دو روپے والی ریڑھی پر آتیں تو اس کے نام کی چٹ بھی نکل آتی۔ اس کے گھر کی ہر شے، جس میں اس کی بیوی بھی شامل تھی، سیکنڈ ہینڈ اور ہر مال دو دو روپے والی ریڑھی سے خریدی ہوئی تھیں۔

کبھی کبھی اسے خیال آتا، وہ اپنا باپ ہے اور اس کی بیوی اس کی ماں ہے۔ اس کی ماں ایک بڑے گھرانے کی بیٹی تھی۔ اس کی شادی اس غلط فہمی میں ہو گئی کہ اس کے باپ کے ظاہری رکھ رکھاؤ کے پیچھے ایک بڑی جائیداد ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ لیکن اس کے باپ کے گھر میں قدم رکھتے ہی اسے معلوم ہو گیا کہ وہ تو سفید پوش ہے اور یہ بات وہ ساری زندگی نہ بھولی۔ وہ جب بھی لفظوں کو چوس چوس کر ان کا پھوگ اس کے باپ کے ننگے منہ پر مارتی تو اس کا باپ سہم جاتا اور قطرہ قطرہ زمین پر ٹپکنے لگتا۔ زمین پر گرتے ہی اسے معلوم ہو جاتا کہ یہ اس کا باپ نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ پھر اس کی بیوی سارے کمرے میں ناچتی اور پہلوانوں کی طرح دونوں رانوں پر ہاتھ مار مار کر اسے مقابلے کی دعوت دیتی۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتا تو معلوم ہوتا کہ اس کے دونوں پاؤں تو قبر کی دیوار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پھر قبر سکڑنے لگتی۔ اس کے جسم کی ہڈیاں دیواروں کے بوجھ سے کڑکڑا کر ٹوٹنے لگتیں اور ایک اداس لَے اس کے ہونٹوں کی بانسری پر ابلنے لگتی۔۔۔  پھر سل رکھنے کی آواز، دوسری سل، تیسری سل اور پھر مٹی کا ایک ڈھیر۔

صبح جب وہ بستر سے اٹھتا تو سارا جسم مٹی میں لتھڑا ہوا ہوتا، پاؤں دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی اور زمین کا ٹکڑا لینے کی خواہش کبوتر کی طرح اس کے دل میں پھڑپھڑانے لگتی۔

اور آنے والی رات بیوی سے وہی مکالمہ

ہماری دائیں طرف کون رہتا ہے؟

بائیں طرف کون ؟

اور اسی مکالمے کے دوران، جس کے لفظ ہمیشہ ایک ہی ہوتے، اس کا بیٹا سکول سے کالج میں پہنچ گیا۔ ڈرائنگ روم میں پرانی کرسیوں کی جگہ نئے ڈیزائن کے صوفے نے لے لی۔ دری کی جگہ قالین بچھ گیا۔ لیکن زمین خریدنے کی خواہش اسی طرح پھیلتی رہی۔ وہ ہر ایک ملنے والے سے کہتا، مجھے کوئی سستی سی زمین لے دو، میں مکان بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن زمین کے ٹکڑے آسمان کے ٹکڑوں جتنے مہنگے تھے۔ ان کی قیمت سن کر اس کا دل نارسائی کی مٹھیوں میں سکڑنے لگتا اور ایک بھیگی تمنا ہونٹوں کی وادیوں میں ٹمٹمانے لگتی۔ زمین خریدنے کی خواہش دیمک بن کر اس کے جسم کو اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جا رہی تھی۔ کئی بار اس نے کوشش بھی کی کہ خواہش کے اس پرندے کو پکڑ کر اس کے پَر نوچ ڈالے لیکن وہ جب بھی اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھتا، پرندہ ایک ڈالی سے اُڑ کر دوسری ڈالی پر جا بیٹھتا۔ دو ایک بار اس نے جھپٹا مار کر اسے دبوچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن دو ایک پروں کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔

پرندہ اسی طرح پھدکتا رہا اور اس کی زندگی کی میز سے کئی اور سفید کاغذ لفظوں کے حمل سے کالے ہو کر وقت کی ویسٹ پیپر باسکٹ میں جا گرے۔ ایک صبح سے دوسری صبح تک وہی تکرار۔۔۔  وہی خواہش اور ہر رات سونے سے پہلے وہی مکالمہ،

ہماری دائیں طرف کون رہتا ہے؟

بائیں طرف

پچھلی طرف

سامنے

اوپر

اور نیچے

قبرستان کے ساتھ ہی قبر کا تنگ دہانہ اور دیواروں میں پھنسے ہوئے پاؤں

اور دن کے رسے پر ایک صبح سے دوسری صبح کو گود میں چھلانگ لگاتے ہوئے کئی باتیں اِدھر اُدھر ہو گئیں۔

ایک ایسی ہی صبح جب وہ ابھی جسم سے اندھیرے کی گرد جھاڑ کر ناشتہ کی میز پر آیا ہی تھا کہ اس کا ایک دوست آ گیا اور آتے ہی بولا۔

’’لو بھئی خوش ہو جاؤ، ایک بہت سستی زمین مل گئی ہے۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’تو لے لو۔‘‘

دوست نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’میں تمہارے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’لیکن میں زمین لے کر کیا کروں گا؟‘‘۔۔۔  اس نے توس پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔

دوست حیرت کی پھلجھڑیوں کی چنگاریوں سے خود کو بچاتے ہوئے ایک دو لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔  ’’خود ہی تو کہتے تھے کہ مکان بناؤں گا۔ یہ مکان تو کرائے کا ہے نا۔۔۔ ‘‘

 وہ کچھ دیر چپ رہا پھر آہستگی سے کہنے لگا۔۔۔  ’’دراصل میں نے اسی مکان کے نیچے قبر بنا لی ہے، خوب لمبی چوڑی ہے۔ اتنی کہ اس میں آسانی سے اٹھا بیٹھا اور چلا پھرا جا سکتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

شناسائی، دیوار اور تابوت

جب ڈاکٹر اس کی آنکھوں کی مومی گلیوں میں منظروں کے لُک چھپ جانے کا تماشا کر چکا تو اس نے اسے یہ خبر سنائی کہ اس کی آنکھوں کی آرٹ گیلری میں زندگی کی رنگا رنگ تصویریں ابھی دھندلائی نہیں۔

ڈاکٹر کی بات سن کر وہ پنجوں کے بل کرسی کی گود میں سے نکلا اور کمرے کی دیوار پر چڑھنے لگا۔ پھر چھت سے لٹک کر اس نے کلکاری ماری اور کہنے لگا۔۔۔  ’’تو پھر میر ی بیوی میری بات کی تصدیق کیوں نہیں کرتی؟‘‘

’’کس بات کی تصدیق؟‘‘ ڈاکٹر اس کی آوا ز کے گیند کو دبوچتے ہوئے بولا۔

’’یہی کہ ہمارے گھر کی دیواروں پر بے رخی کی کونپلیں اگ آئی ہیں اور چھت سے اجنبیت کے ذرّے جھڑتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر کی آنکھوں میں حیرت کی شمعیں پھڑپھڑائیں۔۔۔  ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

اس نے کمرے کی چھت پر ایک چکر لگایا اور بولا۔۔۔  ’’آپ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ۔۔۔ ‘‘

پھر دفعتاً اس نے چونک کر اپنے آپ کو آوا ز دی اور دوڑ کر ہونٹوں کے ہارمونیم پر آئے ہوئے باقی کے جملے کی گردن مروڑ دی۔ جملہ ٹوٹ کر فرش پر گر گیا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا اور ٹوٹے ہوئے جملے کو ڈاکٹر کی جیب میں ٹھونس کر اسے حیرت کی گلیوں میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل آیا۔

بڑی سڑک پر زندگی بدستور گھسٹ رہی تھی۔ اس کے تلوؤں نے سڑکوں کی مانوسیت کو بوسہ دیا اور اس کے پاؤں خود بخود دفتر کی طرف چل پڑے۔ آج کل اسے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مشین کی طرح ہے جس کا کنٹرول سوئچ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک دفتر کی عمارت میں ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ دفتر کا موڑ مڑنے لگا تو خیال کی ریت اس کے ذہن کی خالی تھالی میں سر سرائی۔ کیوں نہ میں بیوی کو بتاتا چلوں کہ میری آنکھوں کے ڈربوں میں ابھی بے بسی کے کبوتر نہیں پھڑپھڑائے اور آج تو اس کی رسی بھی اتنی لمبی تھی کہ ڈاکٹر سے ہوتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے کہیں بھی جا سکتا تھا۔

گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے پھر ٹیڑھی دیواروں اور لمحہ بہ لمحہ سرکتی چھت کا خیال آیا۔ وہ جب گھر آتا تو اس کی بیوی کی گرم گداز بانہیں اس کے جسم پر بسی ہوئی دفتری بوریت کی تہوں کو کھرچ کھرچ کر اتار دیتیں اور اس کی بیوی کے بدن میں دہکتی ہوئی بھٹی، اس کے ذہن کے تالاب پر منڈلاتی خیالوں کی مکڑیوں کو پل بھر میں پگھلا دیتی، وہ اچھل کر بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے ناچتا۔۔۔  اور ناچتے ناچتے نیند کی دلدلوں میں ڈوب جاتا۔

صبح کرنوں کی کرین اسے نیند کی گہری دلدلوں سے باہر نکالتی۔۔۔  جب وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا ہوتا تو اس کی بیوی اپنی توجہ کا سائبان  اس پر یوں تان دیتی کہ گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک اسے دیکھتی ہی رہ جاتی۔

اس کی بچی توتلی زبان میں اسے بار بار یاد دلاتی کہ واپسی پر اسے کیا کیا لانا ہے اور پھر جب نو کا ہندسہ سوئیوں کو اپنی گو دمیں سمیٹ لیتا تو وہ ہڑ بڑا کر سائبان میں نکل آتا، لیکن اس کی بیوی اسے پھر اندر گھسیٹ لیتی اور کہتی۔۔۔  ’’گھڑی تو دس منٹ آگے ہے۔ دس منٹ تو رک جائیے۔‘‘

اور وہ یہ جانتے بھی کہ گھڑی کی سوئیاں صحیح وقت کی گواہیاں دے رہی ہے، دس منٹوں کے لیے بیوی کے آنچل میں لپٹا رہتا۔ اس کی بیوی اور بچی اسے دروازے تک چھوڑنے آتیں اور جب تک وہ گلی سے باہر نہ نکل جاتا، ہاتھ ہلاتی رہتیں۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب اس کے گھر کی دیواروں سے خوشبو کے رنگ برسا کرتے تھے، لیکن ایک رات لیٹے لیٹے اس کی نظر دیواروں پر پڑی تو وہ چونک اٹھا۔ دیواریں ٹیڑھے پن کی بے رنگیوں میں ڈوب رہی تھیں اور چھت ان کے ہاتھوں سے سرک رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر بیوی کی طرف دیکھا جو منہ دوسری طرف کئے سور ہی تھی۔

اسی رات تنہائی نے اس پر پہلا فائر کیا۔

ایک لمحے کے لیے اسے وہ راتیں یاد آئیں جب بستر پر لیٹتے ہی اس کی بیوی اپنے بدن کی چادر پھیلا دیتی تھی، لیکن اب اس کی بیوی لیٹتے ہی سو جاتی تھی۔

اس نے جھک کر بیوی کے چہرے کو کریدنا چاہا لیکن اس کے سپاٹ چہرے پر کوئی موڑ نہیں تھا۔ ہاں اب بہت دنوں سے اس کی بیوی کے چہرے پر کوئی موڑ نہیں۔ لیکن شروع شروع میں ان دونوں کے چہرے پر اتنے موڑ اور سلوٹیں تھیں کہ وہ پہروں ایک دوسرے کے چہروں کی انجان نیم تاریک گلیوں میں کھوئے رہتے تھے، لیکن اب اس کی بیوی کا چہرہ ایک ایسے میدان کی طرح ہے جس کا ایک ہی چکر کاٹ کر وہ اُکتا جاتا ہے۔ اور اس کا جسم۔۔۔  اس کی طنابیں اب ڈھیلی پڑ گئیں ہیں اور جسم کا خیمہ ڈولنے لگا ہے۔

اس کی گھر کی دیواروں کے گھونسلوں میں اجنبیت کے کبوتر غٹر غوں ، غٹر غوں کر رہے ہیں۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے پھر ٹیڑھی دیواروں اور لمحہ بہ لمحہ سرکتی چھت کا خیال آیا۔ اسے یاد آیا کہ جس رات اس نے پہلی بار دیواروں پر اجنبیت کے جلتے بجھتے نیون سائن کی تحریر پڑھی تھی، اس نے بیوی کو جھنجوڑ کر نیند کی گود میں سے باہر کھینچا تھا۔

وہ ہڑ بڑا کر اٹھی۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

’’دیکھو۔۔۔  دیکھو۔‘‘ اس نے دیواروں اور چھتوں کی طرف اشارہ کیا، ’’ہمارے گھر کی دیواریں اپنے سائے سمیٹ رہی ہیں۔‘‘

بیوی کے چہرے پر بے یقینی کے آنچل نے ایک لمحہ کے لیے سایہ کیا، پھر وہ اسے بچے کی طرح تھپکی دیتے ہوئے بولی۔۔۔  ’’سو جاؤ۔ شاباش۔۔۔  سو جاؤ۔‘‘

کچھ دیر بعد وہ تو سو گئی مگر وہ ساری را ت اجنبیت کے پنگوڑے میں ہچکولے کھاتا رہا کہ کسی بھی لمحے چھت دیواروں کی بانہوں سے پھسل کر اس کی جھولی میں آن گرے گی۔ صبح اس نے پھر دیواروں کی چھت پر پھوٹتی ہوئی ٹیڑھے پن کی کونپلوں کا ذکر چھیڑا، لیکن اس کی بیوی نے بات کو سمیٹ کر صحن کی نالی میں پھینک دیا اور بولی۔۔۔  ’’دفتر سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، نو بجنے میں ابھی دس منٹ تھے۔

’’ابھی تو دس منٹ ہیں۔‘‘ اس نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔

’’گھڑی پیچھے ہے۔‘‘بیوی نے گھڑی کی ٹک ٹک کو پہیے لگا دئیے اور اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔

اور اب اس کی بیوی نو بجنے سے پہلے ہی اسے دفتر سے دیر ہو جانے کا احساس دلانے لگتی ہے اور اگر وہ دیواروں اور چھت کا ذکر کرتا ہے تو اَن سنی کرتے ہوئے بے شمار مسئلوں میں سے کسی کا ذکر چھیڑ دیتی ہے۔

ایک دن جب اس نے اصرار سے بیوی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے گھر کی دیواریں روز بروز اپنی جڑیں چھوڑتی جا رہی ہیں ، تو اس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جائے۔ یوں بھی پچھلے کئی دنوں سے رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں دئیے جلنے لگے تھے۔ اس لیے جب بیوی نے اسے یہ مشورہ دیا تو اگلے ہی دن وہ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس چلا آیا۔ لیکن اب گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے اچانک خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی بیوی کی آنکھوں میں دھندلاہٹیں گنگنا رہی ہوں اور دیواریں اور چھت سچ مچ سرک رہے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی اس کی مٹھیاں جوش کی پھسلن سے کھل گئیں۔۔۔  یقیناً یہی بات ہے۔ اس لیے اس کی بیوی کو دیواروں کا ٹیڑھا پن نظر نہیں آتا اور اسی لیے صبح نو بجے سے پہلے ہی نو کا اعلان کر کے اسے دفتر کی پیاسی، بھوکی بانہوں میں دھکیل دیتی ہے۔ اور شاید اسی لیے اس کے جسم کی چادر میں سے خوشبو کی گرم بھاپ نہیں اٹھتی، اسی لیے وہ بستر پر گرتے ہی سو جاتی ہے، اتنی جلدی کہ پہلے کی طرح اس کے سونے کا بھی انتظار نہیں کرتی۔

ہاں یقیناً اس کی بیوی کی آنکھوں میں دھندلاہٹ گنگنا رہی ہے۔

گھر کی دہلیز کو چھوتے ہی اس نے چیخ کر بیوی کو پکارا۔۔۔  ’’لو بھئی، میں تو دھندلاہٹ کے سیلاب سے نکل آیا ہوں ، اب تم۔۔۔ ‘‘

لیکن اس کا جملہ ٹوٹ کر گہری اجنبیت کی گود میں گر پڑا جس نے سارے گھر کو اپنی بکل میں دبا رکھا تھا۔ تنہائی نے مورچہ لگا کر اس پر چاروں طر ف سے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ اسے وہ دن یاد آئے جب وہ گھر لوٹتا تو اس کی بیوی ڈیوڑھی میں اس کی منتظر ہوتی۔ کئی بار اس نے حیرت سے پوچھا بھی تھا۔۔۔  ’’تمہیں کیسے معلوم ہوتا ہے کہ میں آ رہا ہوں ؟‘‘

اس کی بیوی جواب دیتی۔۔۔  ’’جب تم گلی میں داخل ہوتے ہو تو مجھے تمہاری خوشبو آ جاتی ہے۔‘‘

اور اب وہ اکیلا ڈیوڑھی کے تابوت میں کھڑا اجنبیت کی اس دھند کو چیرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دفعتاً ایک سریلی آواز صحن کی دیواروں سے رسنے لگی۔ وہ لپک کر صحن میں گیا اور ٹھٹک کر رہ گیا۔

صحن کی دیوار پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے چاروں ہاتھوں میں مختلف ساز تھے۔ وہ ان سب کو بیک وقت بجا رہا تھا اور اس کی بیوی سارے صحن میں ناچتی پھر رہی تھی۔ اس نے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے سارے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں۔۔۔  ہونٹ ہی ہونٹ۔۔۔  اور ہاتھ ہی ہاتھ تھے۔

وہ تو آواز تھا۔۔۔  سراپا آواز۔

تنہائی، دکھ، شرم اور شکست کے کئی ملے جلے احساسوں کی چیونٹیوں نے اس کے تلوؤں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ اسے لگا کہ جیسے وہ لڑکھڑا کر دیوار سے جا لگا ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اچھل کر پرے ہٹ گیا اور خاموشی سے باہر نکل آیا۔

دفتر جانے کی بجائے وہ سارا دن شہر کی سڑکوں پر لوگوں کے چہرے گنتا رہا۔ شام کو جب وہ معمول کے مطابق گھر آیا تو بیوی نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے کَن انکھیوں سے دیکھا، بیوی کے چہرے پر کوئی غیر معمولی تاثر نہیں تھا۔ اس نے خاموشی سے لقمہ توڑا اور ایک لمحے کے لیے اسے وہ دن یاد آئے جب اس کی بیوی اس کے انتظار میں کھانا نہیں کھاتی تھی۔

کھانے کے بعد وہ خاموشی سے کمرے میں چلا گیا۔ اس کی بیٹی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ وہ دیر تک اخبار کی سرخیاں کھرچتا رہا۔ اس دوران اس نے بار بار صحن کی دیوار کی طرف دیکھا، وہ خالی تھی۔ پھر اس نے گھرکی ایک ایک دیوار ٹٹولی، بے رخی کی کونپلیں اب لہلہا کر درخت بن گئی تھیں اور اجنبیت کی سفیدی موسلا دھار بارش کی طرح چھت سے گر رہی تھی۔

وہ بے دم ہو کر کرسی کی قبر میں گر پڑا۔

رات کو وہ جب سونے لگے تو بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’ڈاکٹر نے کیا کہا؟‘‘

’’ملا نہیں۔‘‘ اس نے آنکھیں کھولے بغیر کہا اور پہلو بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن نیند نہیں آئی۔ وہ ساری رات آنکھوں کے سامنے پھڑپھڑاتی ہوئی نیند کی لاش کو آنکھوں کے تابوت میں دفن کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن آوا ز کی رسی سے لٹکتی ہوئی نیند کھلکھلا کر بھاگ جاتی۔۔۔  پھر اس نے صحن کی دیوار پر بیٹھے ہوئے شخص کو پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن جونہی اس کی بانہیں اس کے قریب پہنچتیں ، وہ کبھی پھیل کر کبھی سمٹ کر۔۔۔  کبھی سمٹ کر کبھی پھیل کر۔۔۔  اس کی بانہوں کی پرکار سے باہر نکل جاتا۔

صبح جب اس کے جسم کا ڈبہ دفتر جانے والی لائن پر پھسلنے لگا تو بیوی نے اسے یاد دلایا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے، وہ جواب دئیے بغیر گلی میں آیا لیکن جب دفتر کامو مڑنے لگا تو خود بخود اس کے پاؤں گھر کی طرف اٹھ گئے۔

دہلیز پر کھڑے ہو کر اس نے اندر کی ایک ایک شے کو سونگھا، اس کا گھر اسی طرح اجنبیت کی بکل میں سر رکھے سو رہا تھا۔ وہ دبے پاؤں ڈیوڑھی میں آیا۔ آواز صحن کی دیواروں سے رِس رہی تھی۔

اس نے اندر جھانکا۔۔۔  وہ شخص صحن کی دیوار پر بیٹھا اپنے چاروں ہاتھوں سے مختلف ساز بجا رہا تھا اور اس کی بیوی سارے صحن میں ناچتی پھر رہی تھی۔

اس نے پھر دیوار پر بیٹھے ہوئے شخص کا چہر ہ دیکھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی چہر ہ نہیں تھا۔ اس کے جسم پر ہونٹوں کی جھاڑیوں ، کانوں کے کاسوں ، آنکھوں کی کھڑکیوں اور ہاتھوں کے جنگل کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ دوڑتا ہوا جائے اور دیوار سے گھسیٹ کر اس کا گلہ گھونٹ دے۔۔۔  لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے اٹھے ہوئے قدم ہوا ہی میں منجمد ہو گئے، اگر کسی نے دیکھ لیا۔۔۔  وہ لوگوں کی آنکھوں کی عدالت میں تنہا کھڑا تھا۔

اس نے کوٹھے کی طرف دیکھا جس کی منڈیروں سے سناٹا جھانک رہا تھا۔ لیکن کیا معلوم عین اس وقت کوئی آ جائے۔۔۔  تو پھر، تو پھر وہ دبے پاؤں کوٹھے پر آیا۔

منڈیروں پر اٹھکیلیاں کرتی سورج کی کرنیں اسے دیکھ کر سایوں کے آنچل میں سمٹ گئیں۔ اس میں نے آہستہ سے سر نکال کر پڑوس والے صحن میں جھانکا اور اس کے ہونٹوں کے تابوت میں چیخ کی ممی پھڑپھڑا کر رہ گئی۔

ساتھ والے صحن کی دیوار پر بھی وہ موجود تھا اور پڑوس والے کی بیوی اس کی لَے پر ناچ رہی تھی۔

وہ دوڑ کر دوسری طرف گیا۔۔۔  تیسری طرف پھر چوتھی طرف۔۔۔  اس کے سارے جسم پر آنکھیں اور کان اگ آئے۔

آواز کے رنگ اِس سرے سے اُس سرے تک سارے صحنوں کی دیواروں پر آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور صحن صحن سبھی اپنے کانوں کے کاسے پھیلائے آواز کے شہد کو بوند بوند سمیٹ رہی تھیں۔

اس کے ڈگمگاتے قدم سنبھل گئے۔

تو میں اکیلا نہیں۔

اس نے سر ہلایا اور چپ چاپ باہر آگیا۔

شام کو جب وہ گھر آیا تو کھانا کھاتے ہوئے اس نے بیوی سے کہا۔۔۔  ’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میر ی آنکھوں میں دھندلاہٹوں نے خیمے گاڑ لیے ہیں۔‘‘

بیوی نے تشویش سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’تو آپ عینک لگوانے میں دیر نہ کرو۔‘‘

دوسرے دن جب وہ زیرو کی عینک لگا کر گھر آیا تو بیوی کے چہرے پر اطمینان کنڈل مارے بیٹھا تھا۔ کہنے لگی، ’’اب تو تمہیں ٹھیک نظر آتا ہے نا؟‘‘

’’ہاں ‘‘۔۔۔  اس نے ٹیڑھی دیواروں اور سرکتی ہوئی چھت پر اگی ہوئی بے رخی اور اجنبیت کی لہلہاتی فصلوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔  ’’اب سب کچھ ٹھیک ہے۔‘‘

اور اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’ٹھیک ہے، شاید ٹھیک ہی ہے۔‘‘

٭٭٭

 

ڈوبتی پہچان

سورج جب قبرستان کے گھنے درختوں سے الجھتا رینگ رینگ کر اپنے بل میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا، مستری نے قبر کام کام مکمل کر لیا۔

پچھلے کئی مہینوں سے اس کی یہ خواہش تھی کہ ماں کی قبر پکی کرائے لیکن خالی جیبیں اس خیال کو تھپتھپا کر آنے والے دن کی جھولی میں ڈال دیتیں۔ وہ اندر اندر ہی سلگ سلگ کر خیالوں ہی خیالوں میں کبھی اینٹیں کبھی سیمنٹ کبھی ریت خریدتا، نام کی خوبصورت سی سل بنواتا اور سونے سے پہلے اس خیال کو پوری توجہ سے آنے والے دن کی جیب میں ڈال دیتا۔ بہت دن ہوئے اس کے ڈرائنگ روم میں ایک تصویر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اس کی ماں کی تصویر ہے، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خیالی تصویر ہے۔۔۔  تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے خالی منظر کو گھور رہی تھی۔ خالی یوں کہ منظر میں جو وادی تھی، وہ اپنے دریاؤں کے باوجود دست بدعا تھی۔ وہ اس تصویر کے بارے میں جاننے کا شوق تو رکھتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس تصویر کی وادی اتنے سارے دریاؤں کے باوجود کسی بنجر دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ دریاؤں کا پانی سوکھ کیوں گیا ہے اور زمین کے ہاتھ خالی کیوں ہوئے جا رہے ہیں ؟ لیکن اس کے لیے اس نے کبھی لمبی چوڑی چھان بین نہیں کی۔ ایک دو بار ماں سے پوچھا مگر وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی، بلکہ الٹا اس سے پوچھ بیٹھی کہ وہ تصویر کے بارے میں اتنا متجسّس کیوں ہے۔

جب کبھی وہ ڈرائنگ روم میں اکیلا ہوتا، تصویر اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ وہ اس کے خطوط میں شناسائی کی روشنی تلاش کرتا۔ بہت پہلے جب وہ چھوٹا تھا، اس نے اپنے باپ سے بھی یہی سوال کیا تھا۔ باپ نے جواب دینے کی بجائے الٹا اسے تیز نظروں سے گھورا اور کہا۔۔۔  ’’تم اپنی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے۔‘‘

جس دن اس کا باپ فوت ہوا، تصویر بلک بلک کر روئی۔ لیکن اس وقت اسے اپنا ہوش نہیں تھا۔ وہ خود چھلک چھلک کر رو رہا تھا۔ بعد میں دوسرے تیسرے دن جب لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے تو اس نے ماں کو بتایا کہ تصویر بھی روئی تھی۔۔۔  ماں ہنس پڑی۔۔۔  ’’پگلے، کہیں تصویریں بھی روتی ہیں۔‘‘ ماں کی ہنسی گہرے غم میں گندھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا۔ وہ کچھ کہے بغیر ڈرائنگ روم میں چلا آیا اور تصویر کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ آنکھیں صاف دھلی ہوئی تھیں۔ اسے شبہ سا ہوا کہ ان میں نمی تیر رہی ہے اور منظر اپنی وادی سمیت بھوک کی دھند میں لپٹا اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ وہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور غور سے تصویر کو دیکھنے لگا۔ ایک عورت ہونٹوں پر غم میں گندھی مسکراہٹ سجائے سامنے کے منظر کو دیکھ رہی تھی۔ وادی جس کی راہیں خشک ہوئی جا رہی تھیں اور ہونٹوں پر نفرتوں کی پپڑیاں جم رہی تھیں۔ وہ اونگھ گیا۔

اس کی ماں مر رہی تھی اور تصویر بلک بلک کر رو رہی تھی۔ وہ ہڑ بڑا کر جا گ اٹھا۔ جس دن برسات کی پہلی جھڑی لگی، وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ بار بار خیال آتا کہ پانی قبر میں گھس گیا ہے اور ماں سردی سے ٹھٹھرتی دیوار سے لگی اسے آوازیں دے رہی ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ بارش میں بھیگتا قبرستان آیا۔ قبر ٹھیک ٹھاک تھی۔ لیکن اسے شبہ رہا کہ پانی کہیں نہ کہیں سے رِس رِس کر اندر جار ہا ہے۔ وہ گورکن کی کوٹھڑی میں پہنچا۔ وہ چائے پی رہا تھا۔ اس کی بات سن کر اس نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’فکر نہ کرو، پانی اندر نہیں جا سکتا۔‘‘

’’پھر بھی کسی اور طرف سے۔۔۔  میرا مطلب ہے نیچے ہی نیچے کہیں سے۔‘‘ گورکن دو تین لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’اچھا، بارش بند ہو جائے تو میں تھوڑی سی مٹی اور ڈال دوں گا۔ ‘‘

وہ اطمینان سے سر ہلاتا واپس آگیا۔ اگلے دن بارش پھر ہوئی اور زور و شور سے ہوئی۔ وہ بھیگتا بھیگتا صبح سویرے قبرستان آیا۔ بہت سی قبریں بیٹھ گئی تھیں مگر اس کی ماں کی قبر اسی طرح تھی۔ پھر بھی اسے شبہ ہوا کہ وہ بیٹھ رہی ہے۔ گورکن اس کی بات سن کر بولا۔۔۔  ’’تو پھر پکی کرالو۔‘‘ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ واپس آتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن قبر پکی کرانے کے لیے اس کے پاس پیسے جمع نہ ہو سکے۔ بارشیں روز ہوتیں۔ وہ قبرستان جاتا، ہر روز کچھ اور قبریں بیٹھ جاتیں۔ اس کی ماں کی قبر بھی خاصی نیچی ہو گئی تھی۔ تاہم ابھی اس کی شکل و صورت قائم تھی۔ ساری رات اسے یہی احساس رہتا کہ پانی بوند بوند اندر جا رہا ہے اور اس کی ماں سردی سے ٹھٹھری دیوار سے لگی اسے آوازیں دے رہی ہے۔ تصویر نے بھی چپ سادھ رکھی تھی۔ غم میں گندھی مسکراہٹ پتھر ہو گئی تھی۔ شاید اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا ہے، لیکن پیچھے تو گہرا اندھیرا ہے اور آگے دھند ہی دھند۔۔۔  دھند۔ اس دھند میں سنبھل سنبھل کر قدم قدم چلتا، وہ گھوم پھر کر اس غم آلود مسکراہٹ کی چار دیواری میں لوٹ آتا۔ کبھی تو یہ مسکراہٹ غم کی قید سے آزاد ہو گی۔ وہ سوچتا اور ہر صبح تصویر کی دہلیز پر آ کھڑا ہوتا۔ لیکن مسکراہٹ اسی طرح غم آلود، سامنے کا منظر اداس، وادی کے بلکتے بھوکے چہرے، ویران مسکراہٹ غم آلود، منظر کا چہرہ اداس، ضرورتیں نوکیلے ناخنوں سے اس کے جس کو مسلسل ادھیڑ رہی تھیں۔ تھکی انگلیوں سے جینے کی موہوم امیدوں کو ٹٹولتا وہ بے دم ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر تصویر بیچ ڈالے تو ڈھیر سارے روپے مل سکتے ہیں۔ ایک دوست نے ایک بار کہا تھا۔۔۔  ’’اس تصویر کو کوئی غیر ملکی مہنگے داموں خرید لے گا۔‘‘

تصویر بیچنے کا خیال شاید اسی دن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ اور بات کہ اس وقت اسے یہ بات اتنی بری لگی کہ وہ اس دوست سے سچ مچ لڑ پڑا۔ مسکراہٹ غم آلود، سامنے کا منظر دھندلا، ضرورتوں کے ہاتھ لمبے اور لمبے ہوتے چلے گئے۔ اس نے ایک دن چپکے سے تصویر بیچ ڈالی۔

ڈھیر سارے پیسے ملے تو خالی ہاتھ سمٹ گئے اور آسائشیں خود بخود اس کی دسترس میں چلی آئیں۔ دن کی سختی میں نرمی آ گئی۔۔۔  لیکن رات کو تصویر کی خالی جگہ دیکھ کر اس کی ماں آ کھڑی ہوتی اور غم آلود مسکراہٹ کے ساتھ بڑی حسرت سے اسے دیکھتی رہتی۔ اس نے سوچا کہ اس کی وجہ جگہ کا خالی ہونا ہے۔ سو اس نے وہاں کیلنڈر لگا دیا۔ کیلنڈر لگنے سے دن اور مہینے اس کی مٹھی میں آ گئے۔ ماں اب خواب میں آنے لگی۔ وہی غم آلود مسکراہٹ اور حسرت بھری نظریں۔ اس نے سوچا شاید ماں قبر میں خوش نہیں۔ قبر پکی کروانے کا خیال پھسل کر اس کے پورے وجود پر چھا گیا۔ قبر پکی کرنے کا کام اگلے دن شروع ہو گیا۔ دو مستریوں نے شام تک کام کر لیا۔ نام کی سل بھی لگ گئی۔ اس رات وہ عجیب طرح کی نیند سویا۔ خواب میں اس نے دیکھا، وہ بہت بڑے کمرے میں دوڑ رہا ہے۔ دھند گہری ہو گئی ہے اور دیواریں ، فرش، چھت سب اس دھند میں گم ہوئے جار ہے ہیں۔ صبح سویرے اس نے اگر بتیوں کا پیکٹ لیا اور قبرستان کی طرف چل پڑا۔ قبر پر اگر بتیاں لگا کر جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اچانک ایک شبہ نے سر سرا کر اس کے ہاتھوں کو ڈس لیا۔ اسے احساس ہوا کہ یہ تو اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ اس کی ماں کی قبر تو ساتھ والی ہے جو اسی طرح کچی ہے۔ یہ غلطی کس سے ہوئی۔ اس سے یا مستریوں سے۔ یقیناً یہ مستریوں کی غلطی ہے۔ وہ انہیں قبر دکھا کر چلا گیا تھا، انہوں نے غلطی سے ساتھ والی قبر پکی کر دی۔۔۔  اب کیا ہو۔۔۔  کیا ہو؟

سارا دن ماں بوند بوند اس کی آنکھوں کے کٹوروں میں اترتی رہی۔ دوسرے دن مستری ساتھ والی قبر پکی کر رہے تھے۔ شام کو اس نے غور سے قبر کا جائزہ لیا۔۔۔  ہاں یہ اس کی ماں ہی کی قبر ہے۔ اگلی صبح اگر بتیاں جلا کر وہ دعا مانگ کر واپس مڑنے لگا۔ تو شک رینگ رینگ کر پھر اس کے ذہن میں اتر آیا۔ یہ قبر بھی اس کی ماں کی نہیں۔ اس نے غور سے دونوں پکی قبروں کو دیکھا۔ دونوں میں سے کوئی بھی اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ وہ تو ان سے اگلی قبر ہے۔ شک اور یقین کی اس دھند میں تیسری، چوتھی اور پھر پانچویں اور چھٹی قبر بھی پکی ہو گئی۔ لیکن اسے شبہ ہی رہا کہ ان میں کوئی بھی قبر اس کی ماں کی نہیں۔

اب ہر رات وہ خواب دیکھتا کہ قبر کی چھت بیٹھ رہی ہے۔ پانی بوند بوند رِس رہا ہے اور ماں سردی سے ٹھٹھر رہی ہے۔ تصویر کے منظر میں اداس میلے کبوتر اُڑ رہے ہیں۔ ان کی اُڑان میں شکست اور تھکاوٹ ہے۔ چہرے بلک رہے ہیں اور خوف جسموں پر دستک دے رہا ہے۔ جسم بھُر رہے ہیں۔ ریزہ ریزہ۔۔۔  ریزہ ریزہ

اس نے وہ ساری قطار پکی کروا دی۔ لیکن اب اسے یہ شبہ ہوا کہ اس کی ماں کی قبر اس قطار میں ہے ہی نہیں ، وہ تو اگلی قطار میں ہے۔ اب دوسری قطاروں کی قبروں کے پکے ہونے کا کام شروع ہوا۔ ہر روز ایک قبر پکی ہوتی۔ اگلی صبح اگر بتیاں جلا کر دعا مانگتے اسے خیال آتا کہ یہ اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ وہ اس سے اگلی قبر پکی کروانے کا کام شروع کراتا، مطمئن ہو کر گھر جاتا۔ خواب میں تصویر کی غم آلود مسکراہٹ والی عورت اداس سوچ میں ، رہن رکھا منظر اپنی پرتیں کھولتا۔ اس کے ہونٹ ہلتے مگر آواز سنائی نہ دیتی۔ بھوک سے بلکتی وادی میں ٹھٹھرتے چہرے، اداس غم آلود مسکراہٹ، بوند بوند رستا پانی۔۔۔  سوالیہ نشان۔۔۔  سوالیہ نشان۔۔۔

ادھورے الجھے ہوئے نشان، دوسری کے تیسری اور چوتھی قطار کی قبریں پکی ہوتیں گئیں۔ لیکن اس کی ماں کی قبر اسی طرح کچی رہی۔ رات کو خواب میں تصویر کی غم آلود مسکراہٹ، قبر کی بیٹھی چھت، بوند بوند رستا پانی اور سردی سے ٹھٹھرتی ماں ، دھندلاتے دھندلاتے اداس خالی منظر میں گم ہو جاتے۔ جس دن قبرستان کی آخری قبر بھی پکی ہو گئی، اس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور ساری پکی قبروں کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’ان میں سے کوئی ایک قبر میری ماں کی بھی ہے۔ مجھے معلوم نہیں ، مگر وہ پکی تو ہو گئی ہے نا۔۔۔ ‘‘

اگلی صبح سورج ابھی مشرق کی چلمن سے جھانکنے کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ اس نے بیوی اور  بچوں کو جگایا اور کہا کہ وہ سب اس کے ساتھ ماں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے چلیں۔ قبرستان پہنچ کر اس نے بیوی بچوں سے کہا کہ وہ سب قبروں پر پھول اور اگر بتیاں لگا دیں۔ اس کی بیوی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔۔۔  ’’بھئی یہ سب میری ماں کے پڑوسی ہیں۔۔۔ ‘‘ اور دل ہی دل میں اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’سچی بات ہے مجھے معلوم ہی نہیں کہ ان میں میری ماں کی قبر ہے کونسی۔۔۔ ‘‘

قبروں پر اگر بتیاں لگیں تو سارا قبرستان خوشبو سے مہک اٹھا۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ دعا مانگ کر سب نے ہاتھ نیچے کر لیے لیکن اس کے ہاتھ خلا میں ہی پتھر ہو گئے۔ اسے یاد آیا، یہ تو وہ قبرستان ہی نہیں جس میں اس نے اپنی ماں کو دفن کیا تھا۔ تو اس کی قبر ابھی تک کچی ہے۔۔۔  تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ کے ساتھ خالی منظر کو دیکھ رہی ہے۔۔۔  قبر کی چھت دھیرے دھیرے بیٹھ رہی ہے۔ پانی بوند بوند رِس رہا ہے اور ماں دیوار سے لگی ٹھٹھر رہی ہے۔ جھکے ڈھلکے شانوں کے ساتھ سب سے پیچھے آئے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’میں دوسرے قبرستان کی ایک ایک قبر پکی کر وا دوں گا۔‘‘

اسے خیال آیا اس شہر میں تو کئی قبرستان ہیں ، ’’کوئی بات نہیں ‘‘۔۔۔  وہ بڑبڑایا۔۔۔

’’میں اس شہر کے سارے قبرستانوں کی ایک ایک قبر پکی کرا دوں گا۔‘‘

اطمینان کے پرندے نے ایک لمحہ کے لیے رنگ برنگے پر پھڑپھڑائے اور دوسرے لمحے خالی منظر گم ہو گیا۔۔۔

اسے خیال آیا۔۔۔

’’کیا معلوم یہ وہ شہر ہی نہ ہو جہاں اس کی ماں دفن ہے۔‘‘

٭٭٭

 

گملے میں اُگا ہوا شہر

            جنازے کا جلوس جب بڑی سڑک سے قبرستان والی بغلی سڑک پر مڑا تو کراہوں کے تیز نوکیلے ناخنوں نے فضا کے پرسکون چہرے کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیا۔

            اس نے گہرا سانس لے کر سینے پر بیٹھے ہوئے بوجھ کو ایک طرف کھسکانے کی کوشش کی اور اسی لمحہ معاً اسے احساس ہوا کہ جنازہ موجود نہیں ہے۔ اس نے ایڑیوں کے بل  اُچک کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں ، جنازہ کہیں نہیں تھا۔

            ’’جنازہ کدھر گیا؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور سر گھما کر ساتھ والے کی طرف دیکھا۔ اس کے دائیں بائیں کئی لوگ سر جھکائے، گہرے سانس لیتے سینوں پر رکھے بوجھوں کو اِدھر اُدھر کھسکانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے ایڑیوں کے بل اُچک کر پھر ایک نگاہ دوڑائی لیکن جنازہ نظر نہ آیا۔

            ’’بھائی صاحب۔۔۔ ‘‘ اس نے ساتھ والے کی طرف دیکھا۔۔۔  ساتھ والے نے سر اٹھا کر اسے گھورا اور منہ نیچے کر لیا۔

            ’’بھائی صاب۔۔۔ ‘‘ ساتھ والے نے اسے پھر گھورا۔

            ’’۔۔۔  جنازہ گم ہو گیا ہے۔۔۔ ‘‘ اس نے اٹکتے اٹکتے کہا۔

            ’’کیا۔۔۔  ؟ کیا گم ہو گیا ہے؟‘‘ ساتھ والے نے پہلے اس کی طرف دیکھا پھر سامنے دیکھا اور اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا: ’’ارے، جنازہ کہاں گیا۔۔۔ ؟‘‘

            آس پاس کے لوگوں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھا۔۔۔  ’’ارے۔۔۔ ‘‘

            ’’جنازہ کدھر گیا۔۔۔ ؟‘‘

            ’’جنازہ کدھر گیا۔۔۔ ؟‘‘

            افراتفری ایک ہی لمحہ میں جست لگا کر ان کے درمیان آن کھڑی ہوئی اور بال کھول کر دھمال ڈالنے لگی۔

            آدھا جلوس بڑی سڑک پر اور آدھا بغلی سڑک پر۔ حیرانی کے فوکس میں قید چہرے، دائرے میں چکر لگاتے سوال۔

            اس نے ذہن پر زور دے کر گزرتے لمحوں کی دوڑ پکڑنے کی کوشش کی۔۔۔  بڑے میدان میں مرنے والے کو سولی سے اتار کر جنازے کی ڈولی میں ڈالا گیا تھا۔ اس نے اچھل اچھل کر اردگرد کھڑے لوگوں کے سروں سے اوپر اٹھ کر خود اسے دیکھا تھا۔ انسانوں کے چاروں طرف پھیلے ہوئے سمندر میں ان گنت کندھوں سے ہوتا ہوا جنازہ بڑی سڑک پر جسے مرکزی شاہراہ نمبر ایک کہتے تھے لایا گیا تھا۔

            اس نے آگے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔  لوگ گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے: ’’جنازہ کہاں گیا؟‘‘

            اس نے نئے سرے سے  لمحوں کو جوڑنا شروع کیا۔۔۔  لوگوں کو اس کی موت کی اطلاع صبح سویرے ہی مل گئی تھی۔ سرگوشیاں رقص کرتی سارے شہر میں پھیل گئی تھیں۔ دکانیں کھلی ہی نہیں تھیں یا صبح ہی بند ہو گئی تھیں اور سڑکیں سنسان۔ لوگ بڑے میدان میں جمع ہو گئے تھے۔۔۔  جب جنازہ اٹھایا گیا تو آہیں موسلا دھار بارش کی طرح سارے شہر پر برس پڑیں۔

            دوسرے بازار تک تو اسے یاد تھا، شاید اس کے بعد بھی اس کی نظر جنازے پر پڑی ہو لیکن وہ ٹھیک سے یاد نہیں کر پا رہا تھا کہ آخری بار اس نے جنازہ کب اور کہاں دیکھا تھا۔

            لوگوں کی ٹولیاں اور گروہ شہر کی گلیوں میں اور سڑکوں پر جنازہ تلاش کر رہے تھے۔

            وہ پچھلی شاہراہ کی طرف چل پڑا۔۔۔  چوک چورا ہے، گلیاں ، نکڑیں ، ٹولیاں ، گروہ۔ بس جنازے کی گمشدگی کی باتیں۔۔۔  ہر کوئی اپنی اپنی کہہ رہا تھا۔

            ’’شاہراہ نمبر ایک کا موڑ کاٹتے تو میں نے خود دیکھا تھا۔۔۔

            ’’میں نے شاہراہ نمبر تین کے درمیانی چوک میں دیکھا تھا۔۔۔ ‘‘

            ’’میں نے بغلی سڑک کے موڑ سے سو گز ادھر دیکھا تھا۔۔۔ ‘‘

            لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ جنازہ گم کہاں ہوا ہے؟

            کیا معلوم، جنازہ اٹھایا ہی نہ گیا ہو اور لاش ابھی تک سولی پر ہی لٹک رہی ہو۔ اس کے دھیان  میں آیا۔

            کیا معلوم، یہ سب وہم ہو۔ سارا راستہ وہ سوتا آیا ہو اور اب جاگا ہو۔

            یا پھر وہ اب جاگ رہا ہو اور جنازہ واقعی گم ہو گیا ہو۔

            وہ بڑے میدان کی طرف بڑھنے لگا۔

            اندھیرا شہر کو نرغے میں لے رہا تھا اور رات کوئی دم میں شہر پر ٹوٹ پڑنے والی تھی۔۔۔  اور لوگ بھاگ رہے تھے، دوڑ رہے تھے۔

            ’’کچھ پتہ چلا‘‘؟ کسی نے کسی سے پوچھا،  اسے کچھ پتہ نہ چلا۔

            ’’نہیں۔۔۔ ‘‘ کسی نے کسی کو کہا، وہ کچھ جان نہ سکا

            ’’بڑے میدان میں تو اندھیرا بھرا ہوا ہے۔۔۔ ‘‘ اس نے سنا اور اس کے قدم رک گئے۔

            دفعتاً بھاگتے دوڑتے لوگوں میں سے ایک، کوئی اس کی طرف مڑا: تم کون ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔  میں ہوں !‘‘ پھر اس نے چپکے سے اپنے آپ سے پوچھا: میں کون ہوں ؟۔ مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔

            ’’میں۔۔۔  ‘‘ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا۔ ذہن پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا۔ دھندلائیوں میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے بس اتنا یاد آیا کہ لوگ ایک تابوت اٹھائے جا رہے تھے، اس تابوت میں۔۔۔

            اس تابوت میں شاید وہ تھا۔ یا پھر شاید وہ نہیں تھا۔

            اب بھی شک کے کلہاڑے سے ہاتھوں میں لیے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے: ’’تم کون ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ ‘‘ دوسرا جواب دینے کے لیے ذہن پر زور ڈالتا ہے مگر اسے کچھ یاد نہیں آتا۔ دھندلائیوں میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے بس اتنا یاد آتا ہے کہ لوگ ایک تابوت اٹھائے جا رہے تھے، اس تابوت میں اس تابوت میں شاید وہ تھا، یا پھر شاید وہ نہیں تھا۔

            ۲

            جوں ہی قبر کھودنے کا کام مکمل ہوا۔ ان کے چہروں پر جگمگا ہٹیں کروٹیں لینے لگیں۔

            وہ پچھلے کئی مہینوں سے یہ قبر کھود رہے تھے۔۔۔  کبھی نیچے سے دلدل نکل آتی اور کبھی آسمان پانی بن جاتا۔ قبر کھودنے کے دوران انھیں معلوم ہوا، اندر ہی اندر شہر کی زمین دلدل اور آسمان پانی ہو چکا ہے۔ مگر انھیں ہر صورت میں قبر کھودنا تھی اور اب کہ قبر کھد چکی تھی۔ وہ مٹی کے ڈھیر کے پاس بیٹھے سستا رہے تھے۔۔۔  سلیں ترتیب سے ایک طرف پڑی تھیں۔ گارا بنانے کے لیے پانی سے لبالب بھری بالٹی بھی پاس ہی رکھی تھی۔ بس ایک جنازے کا انتظار تھا۔

            لمحوں کے سلسلے سرکتے رہے، کھسکتے رہے اور آخر قبر کھودنے والوں کی آنکھیں قبرستان کی طرف بڑھتا ہوا راستہ دیکھ دیکھ پتھرا گئیں۔۔۔  ڈوبتا سورج اور خالی قبر۔

            پھر پراسرار سناٹے کے تنے ہوئے خیمے سے دفعتاً ایک آواز گونجی۔۔۔  جنازہ گم ہو گیا ہے۔

            سورج ڈوب گیا۔ سروں پر منڈلاتی رات نیچے اترنے لگی۔

            قبر کھودنے والوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:’’۔۔۔  لیکن اب ہم دفن کسے کریں گے؟‘‘

            ’’دفن۔۔۔ ؟‘‘ دوسرا چونکا۔

            ’’ہاں قبر کھد جائے تو پھر لاش مانگتی ہے۔۔۔ !‘‘

            سب نے ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔۔۔  نیچے اترتی رات روشنی کو دبوچ رہی تھی اور خالی قبر اپنی جسامت سے کہیں بڑی دکھائی دے رہی تھی۔

            ’’۔۔۔ لیکن لاش کس کی؟‘‘ ایک بڑبڑایا۔

            ’’کوئی بھی لاش۔۔۔  کھدی ہوئی قبر تو بس مردہ مانگتی ہے۔۔۔ ‘‘

            ’’ایک لاش۔۔۔ ‘‘

            ’’کوئی بھی لاش۔۔۔ ‘‘

            سرگوشیوں کے کندھوں سے سوال پھسلا۔ قبرستان سے نکلا اور رینگتا رینگتا سارے شہر میں پھیل گیا۔۔۔  چوک،  چوراہے، بازار، گلیاں ، نکڑیں ، ٹولیاں ، گروہ۔ چپ چاپ ایک دوسرے کو تکتی ہوئی آنکھیں۔۔۔  رات نیچے اتر آئی تھی اور بال کھولے شہر میں پھر رہی تھی۔

            ایک ایک کر کے ہر شخص سہمے ہوئے گھروں میں کھو گیا۔ جہاں بچے اور عورتیں پہلے ہی رو رو چپ ہو چکی تھیں۔

            وہ شاید گھر میں تھا، یا پھر شاید گھر میں نہیں تھا۔

            ’’۔۔۔  اتنی دیر؟‘‘شاید اس کی بیوی نے کہا، یا پھر شاید اس کی بیوی نے نہیں کہا۔

            ’’کھدی ہوئی قبر تو بس لاش مانگتی ہے۔۔۔  لاش نہ ملے تو شہر تباہ ہو جاتا ہے۔۔۔ !‘‘ دونوں میں سے شاید کسی نے کسی سے کہا، یا پھر شاید دونوں میں سے کسی نے کسی سے نہیں کہا۔

            ’’کیا۔۔۔ ؟ ‘‘ شاید دونوں نے بیک وقت کہا، یا پھر شاید دونوں نے بیک وقت نہیں کہا۔

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  ‘‘ دونوں نے شاید بیک وقت جواب دیا۔ یا پھر شاید دونوں نے بیک وقت جواب نہیں دیا۔

            دونوں شاید ایک ساتھ ایک بستر پر تھے یا پھر شاید دونوں ایک ساتھ ایک بستر پر نہیں تھے۔۔۔  نیند شاید ان کی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی، یا پھر شاید نیند ان کی آنکھوں میں بھری ہوئی نہیں تھی۔

            باہر رات شاید اپنے بال باندھ رہی تھی، یا پھر شاید باندھ نہیں رہی تھی۔۔۔  سورج ایک آنکھ کھولے شہر کو دیکھ رہا تھا، یا پھر شاید شہر کو نہیں دیکھ رہا تھا۔

            شاید اندھیرے میں شاید روشنی میں۔۔۔  یا پھر شاید نہ اندھیرے میں ، نہ روشنی میں ، کھدی ہوئی قبر اپنی جسامت سے بہت بڑی ہو گئی تھی اور لاش مانگ رہی تھی۔

            شاید دن گزر گیا۔ یا پھر شاید نہیں گزرا۔

            شاید رات پھر آ گئی، یا پھر شاید نہیں آئی۔

            شک ان کے بدنوں کے ادھڑے بوسیدہ دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ خالی منظر ان کی بوڑھی نظروں کو نوچ رہا ہے۔ بھوک ان کی انتڑیوں کو بل دے رہی ہے۔۔۔  اور ایسے میں وہ سب،  سب کے سب، ان میں سے ہر کوئی، وحشت زدہ آنکھیں پھاڑے کسی دوسری آنکھ کے جھپکنے کا منتظر ہے کہ کھدی ہوئی قبر تو بس لاش مانگتی ہے۔۔۔

٭٭٭

 

سناٹا بولتا ہے

            معلوم نہیں یہ رات کا پہلا پہر ہے، درمیانہ یا پچھلا،

            یا شاید دن ہے جس نے رات کے ہاتھ پر بیعت کر لیا ہے،

            یا پھر شاید رات ہی ہے،

            کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی، خوفناک جبڑوں والا اندھیرا تھوتھنی اٹھا اٹھا کر بھونک رہا ہے،

            ’’وہ سہم کر میرے ساتھ لگ جاتا اور سرگوشی کرتا ہے۔۔۔  ماچس جلاؤں ؟‘‘

            ’’نہیں ،  تیلیاں اس طرح ختم ہوتی رہیں تو۔۔۔ ‘‘

            ’’تو؟‘‘ اس کی آواز میں خوف سرسراتا ہے۔

            ’’۔۔۔  میں نہیں جانتا‘‘۔

            شاید ایک دو یا اس سے بھی زیادہ دن،  مہینے یا سال،  یقین سے چھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم کب سے گٹر کی دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں ، اتنا سا خیال آتا ہے کہ ہم گفتگو کرتے چلے جا رہے تھے۔۔۔  مین ہول کھلا ہو گا، وہ گرا، اسے نکالنے کی کوشش میں مَیں ، یا شاید میں گرا ہوں گا اور مجھے نکالنے کی کوشش میں وہ، پورے یقین کے ساتھ کوئی بھی بات نہیں کی جا سکتی،

            رینگتے پانی کی سرسراہٹ، اندھیرا بار بار اپنے جبڑے کچکچاتا ہے اور لمبی کالی زبان نکال کر ہمارے منہ چاٹتا ہے، ہماری گالوں پر لیس دار رات کی چپچپاہٹ، وہ تیلی جلاتا ہے بیمار نحیف شعلہ سر اٹھا کر دو تین اکھڑے اکھڑے سانس لیتا ہے۔۔۔  گھپ اندھیرا،

            زیادہ گہرے اور منظم اندھیرے میں تھوڑی سی غیر منظم روشنی اندھیرے کو اور دبیز کر دیتی ہے۔ اوپر سڑک پر بھاری تیز رفتار گاڑی گزرتی ہے،

            میں کہتا ہوں۔۔۔  ’’اس کا مطلب ہے ہم ابھی بڑی سڑک کے نیچے ہی ہیں ‘‘۔

            وہ ہنستا ہے۔۔۔  ’’اس صورت حال میں بڑی سڑک کے نیچے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

            ’’شاید کچھ نہیں ، لیکن یہ احساس بھی غنیمت ہے‘‘

            ’’اگر ہم اسی سیدھ میں چلتے جائیں تو شاید کوئی کھلا ہوا مین ہول نظر آ جائے‘‘

            ’’اس سیدھ میں تو شاید ہی ملے‘‘ وہ بڑبڑاتا ہے۔۔۔  ’’بہرحال چلے چلو‘‘

            ہم ابھی دو چار قدم ہی چلتے ہیں کہ کوئی چیز میرے پاؤں سے لپٹ جاتی ہے، میں جھک کر چھوتا ہوں۔۔۔  ننھا منا سا ایک ہاتھ،

            ’’ماچس جلاؤ۔۔۔  جلدی ‘‘ میں چیختا ہوں ،

            لرزتی روشنی میں ایک نوزائدہ بچہ میرے پہلو سے گزرتا آگے نکل جاتا ہے،

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو میرا بچہ ہے۔۔۔  مگر یہ تو ابھی ماں کے پیٹ میں تھا‘‘۔

            میں اسے تسلی دیتا ہوں۔۔۔  ’’شاید اس دوران اس کی ماں نے اسے جن دیا ہو‘‘

            ’’اور پھر کسی نالی میں پھینک دیا ہو‘‘ وہ بڑبڑاتا ہے۔۔۔  یا پھر یہ کہ اس کی ماں نے اسے کسی نالی ہی کے کنارے جنا ہو اور بہتا ہوا یہاں آگیا ہو‘’

            ایک لمحہ کے سکوت کے بعد وہ دفعتاً چیختا ہے۔۔۔  میرے بیٹے۔۔۔  میرے بچے‘‘

            جواباً رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور لیس دار اندھیرے کی چپچپاہٹ،

            ’’میرا بچہ۔۔۔  میرا بیٹا‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے:

            ’’صبر کرو۔۔۔  صبر‘‘ میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوں۔۔۔  سارے بچے اب اسی طرح بہتے ہوئے یہیں آئیں گے کہ اب ساری مائیں اپنے بچوں کو یوں ہی نالیوں میں بہائیں گی‘‘۔

            ’’نالیوں میں کیوں ؟‘‘ وہ چپ ہو کر سوال کرتا ہے۔

            ’’دریا تو سارے خشک ہو گئے ہیں اور شہر میں قتل طفلاں کی منادی بھی ہو چکی ہے،  مائیں بے چاری کیا کریں۔۔۔  چلو آگے چلیں ، کسی کھلے مین ہول کی تلاش میں ‘‘۔

            وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے۔۔۔  ’’میری عمر اب چالیس سال ہونے والی ہے، اس سیلن زدگی، رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اس لیس دار اندھیرے کے جبڑوں میں پستے پستے چالیس سال ہو چکے ہیں ، معلوم نہیں میری زندگی کے اور کتنے سال باقی ہیں ، ان باقی سالوں میں کھلا میں ہول ملے گا بھی کہ نہیں ‘‘۔

            ’’کیا معلوم۔۔۔ ؟‘‘ میری آواز دم توڑ رہی ہے،۔۔۔ ‘‘ شاید ہمارے بچوں کو مل جائے، شاید وہ بھی ہماری ہی طرح ساری زندگی کھلے مین ہول کے خواب دیکھتے دیکھتے اسی گٹر میں بھٹکتے اندھیرے کے لیس دار جبڑوں میں پستے گزار دیں ‘‘۔

            ’’چلو آگے چلیں ‘‘ وہ میرا ہاتھ دباتا ہے۔

            گہری گپ خاموشی،  جس میں رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اندھیرے کے خراٹے گونج رہے ہیں۔

            ہمارے سروں پر آوازوں کے بادل تیرتے ہیں۔

            ایک آواز۔۔۔ ’’ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں ؟‘‘

            دوسری آواز۔۔۔  ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔

            تالیاں ، نعرے،  تحسین کا شور،

            وہ کہتا ہے۔ ’’بادشاہ نے بادشاہ کے ساتھ جو سلوک کرنا تھا کر دیا، مگر ہم کہاں ہیں ؟ ‘‘

            ’’ہم۔۔۔ میں اس کاشانہ تھپتھپاتا ہوں۔۔۔ ’’بادشاہوں کے کھیل میں ہم کوئی چیز نہیں ہوتے، بس ہم تو کھلے مین ہول کے خواب ہی دیکھتے ہیں ‘‘۔

            وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’ہم میں سے پہلے کون گٹر میں گرا تھا‘‘۔

            ’’تم۔۔۔ ‘‘ میں اندھیرے میں اسے گھورتا ہوں۔

            ’’نہیں تم۔۔۔ ‘‘ وہ دو قدم پرے ہو جاتا ہے۔

            ’’نہیں تم۔۔۔ ‘‘

            ’’تم۔۔۔ ‘‘ وہ مجھ پر جست لگاتا ہے، ہم ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتے ہیں ، اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں ،  جب تھک جاتے ہیں تو آمنے سامنے کی دیواروں سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگتے ہیں۔

            بہت دیر کی چپ کے بعد وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’آگے چلیں ‘‘

            ’’چلو۔۔۔ ‘‘

            چلتے چلتے ہم ایک کھلی سی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ سخت سے ٹکڑے ہمارے پاؤں سے ٹکراتے ہیں۔

            وہ ماچس جلاتا ہے۔

            چاروں طرف ہڈیاں اور انسانی پنجر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ہڈی اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو میرے باپ کی ہڈی لگتی ہے، اس کے جبڑے کی ساخت ایسی ہی تھی‘‘۔

            میں انسانی پنجروں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’لو جی میں سمجھتا تھا میرا باپ مجھ سے اچھا تھا، اب معلوم ہوا کہ وہ بھی میری طرح ساری عمر کھلے مین ہول کے خواب دیکھتا رہا‘‘۔

            دفعتہً اس کی آواز لرزنے لگتی ہے۔۔۔ ’’ہم بھی۔۔۔  ہم بھی۔۔۔ ‘‘

            میں جھک کر دیکھتا ہوں ، سب کے منہ پر پلاسٹر ٹیپ لگے ہوئے ہیں ، کیڑے ان کا گوشت کھا گئے ہیں ، مگر ٹیپ اسی طرح ہیں ،

            ’’مگر ہم تو صرف اظہار کے حوالے سے ہی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور ان کے منہ تو بند ہیں۔۔۔  بند کر دیئے گئے ہیں ‘‘

            پانی کی سرسراہٹ، بل کھاتی سیلن

            ایک گوشت خور کیڑا اس کی ٹانگ پر چڑھ جاتا ہے، وہ چیخ مارتا ہے اور ٹانگ جھٹک کر آگے چل پڑتا ہے۔۔۔

            ابھی دو چار ہی قدم اٹھتے ہیں کہ بہت سی ملی جلی آوازیں اندھیرے میں سے نکل کر ہمارے پاؤں پکڑ لیتی ہیں۔

            وہ جلدی سے تیلی جلاتا ہے۔

            ننگ دھڑنگ بچے، پانی میں شپ شپ کرتے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔

            ’’یہ کون ہیں ؟‘‘ وہ میرے ساتھ لگ جاتا ہے۔

            ایک بچہ جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہے آگے بڑھ کر پوچھتا ہے۔۔۔  تم کون ہو؟‘‘

            ’’ہم۔۔۔  ہم گٹر میں گر پڑے تھے‘‘۔

            ’’اور یہ کہ تمہارا پاؤں پھسل گیا تھا۔ وہ کھڑکھڑاتا ہے۔۔۔  سب یہی کہتے ہیں ‘‘۔

            ’’مگر تم کون ہو؟‘‘

            ’’ہم۔۔۔  ہم ربڑ کے غباروں میں پیدا ہوئے ہیں ، اس گٹر کے اندر‘‘

            ’’ربڑ کے غبارے‘‘

            ’’ہاں وہ غبارے جو لوگ استعمال کر کے گٹر میں پھینک دیتے ہیں ‘‘

            وہ شور مچاتے ہمارے دائیں بائیں سے گزرتے ادھر ادھر نکل جاتے ہیں ، وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’مجھے یاد آیا، ایک رات میری ماں نے بھی ایک غبارہ نالی میں پھینکا تھا اور اس میں میں تھا پر معلوم نہیں وہ شخص جو راتوں رات ہی چپکے سے چلا گیا تھا میرا باپ تھا کہ نہیں ‘’۔

            ’’اور شاید میں بھی اسی غبارے میں تھا اور وہ شخص،  وہ ضرور ہمارا باپ تھا اور وہ ہماری ماں تھی۔۔۔  انھوں نے تو ہمیں بہت روکا تھا۔ مگر ہم خود ہی اس گٹر میں آ گئے۔ میں یا شاید ہمیں ورغلایا گیا تھا۔۔۔  سنہرے خواب دکھا کر،  مگر یہاں آ کر معلوم ہوا یہ تو گٹر ہے۔۔۔  گٹر‘‘

            اوپر اب آوازوں کی دستک میں بھاری پن اور تواتر پیدا ہو رہا ہے،

            ’’شاید اوپر صبح ہو چکی ہے‘‘ میں بڑبڑاتا ہوں۔

            ’’مگر ہمیں کیا؟‘‘ اس کی آواز بیٹھی ہوئی ہے

            ’’سورج کی شکل کیسی ہو گی؟‘‘ میں اس سے پوچھتا ہوں۔۔۔  ’’اس کی کرنوں میں گرمی تو ہوتی ہو گی نا‘‘

            ’’اب تو یاد بھی نہیں۔۔۔  اور میرے منہ پر تو ٹیپ لگا ہوا ہے، اور ایسی باتیں کرنا منع بھی ہے، میں تمہیں کیسے بتاؤں ، کیا بتاؤں ؟‘‘

            ہم اس وقت کسی بڑی سڑک کے نیچے ہیں ، ہارنوں کی پوں پوں ، بریکوں کی رگڑ اور قدموں کی آوازیں۔۔۔

            وہ تیلی جلاتے ہوئے اعلان کرتا ہے۔۔۔ ’’ صرف دو تیلیاں باقی ہیں ‘‘

            لرزتی روشنی میں ایک عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے

            ’’وہ حسرت سے اوپر دیکھتا ہے۔۔۔  کہیں بھی کوئی راستہ نہیں ‘‘

            ’’نقشوں میں ضرور ہو گا‘‘۔ میں سوچتا ہوں۔۔۔  ’’مگر نقشے تو صرف دیواروں پر لگانے کے لیے ہوتے ہیں ‘‘۔

            ’’یہ ہوا میں تازگی کیسی ہے؟‘‘ وہ چونکتا ہے۔

            ’’کیا معلوم یہ تازگی ہے بھی کہ ہم ہی اس سیلن زدگی کے عادی ہو گئے ہیں ؟‘‘

            ’’نیم روشنی، نیم تازگی۔۔۔  ہم بھی تو نیم زندہ ہی ہیں ‘‘

            اوپر اب دوپہر گزر رہی ہو گی۔

            اب سہ پہر۔۔۔  اب سانولی نمکین شام،

            لوگ دفتروں ، دکانوں سے گھر آ رہے ہوں گے، دروازوں پر منتظر بیویاں مسکراہٹوں کے بوسے لیے ان کی راہ تک رہی ہوں گی۔۔۔  ابو ابو کرتے ننھے بچے اپنی توتلی زبانوں کے ساتھ انھیں پکار رہے ہوں گے،

            تیلی جلاتے ہوئے وہ اعلان کرتا ہے۔۔۔ ’’بس ایک ہی تیلی باقی ہے‘‘۔

            ’’اسے مت جلانا۔۔۔  مت جلانا‘’ میں چیختا ہوں۔

            ’’کیوں ؟‘‘

            ’’بس اسے جلانا مت‘‘

            ’’کیوں نہ جلاؤں ؟‘‘ وہ ضد کرتا ہے۔۔۔  ’’وجہ بتاؤ‘‘

            ’’آخری لمحے میں ، جب ہم ایک دوسرے کی آخری تصدیق کریں گے تو اس وقت۔۔۔  اس وقت‘‘

            اوپر نعروں کا شور۔۔۔  میری آواز ڈوب جاتی ہے

            مقرر کی چیختی آواز، مگر لفظ فضا ہی میں رہ جاتے ہیں ،

            وہ افسوس سے سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا‘‘۔

            ’’معلوم نہیں لفظوں ہی میں سے معنی نکل گئے ہیں ، یا آوازیں کھوکھلی ہو گئی ہیں ، خدا جانے کہاں کیا گڑبڑ ہے‘‘۔

             شور۔۔۔ چیختی آوازیں ،

            پھر تڑتڑ۔۔۔ گولیوں کی تڑتڑ

            سناٹا بولتا ہے،

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’ ہم شہر میں ہیں اور گٹر نیچے ہے‘‘

            میں کہا ہوں۔۔۔ ’’ہم گٹر میں ہیں اور شہر اوپر ہے‘‘

            اب معلوم نہیں ، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہم گٹر میں ہیں یا شہر میں ، شہر میں ہیں یا گٹر میں ،

            وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’لو یہ جھگڑا چھوڑو، میں آخری تیلی جلانے جا رہا ہوں ‘‘۔

            وہ تیلی کو ماچس پر رگڑتا ہے،

            ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کا یہ آخری موقعہ، مجسم آنکھ بنے، آمنے سامنے۔۔۔  ٹک ٹک،  ٹک ٹک

            تیلی ماچس سے رگڑ کھاتی ہے،

            ہمارا سارا وجود آنکھ میں ڈھل جاتا ہے

            وہ تیلی کو ماچس سے رگڑتا ہے۔۔۔  رگڑتا چلا جاتا ہے

            تیلی بغیر جلے، ٹوٹ کر نیچے پانی میں جا گرتی ہے

            سرسراتے اندھیرے اور رینگتے پانی میں ، آنکھیں پھاڑے ہم ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کے انتظار میں پتھر ہوتے جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

پت جھڑ میں خود کلامی

            قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے ہوئے وہ اور میں ،

            درمیان میں چپ قبرستان،

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے،

            پیاسے درختوں کے بنجر ہاتھوں سے وقفہ وقفہ سے پھسلتے پتے ویران قبروں پر خاموشی سے گرتے ہیں ، ہوا رکی ہوئی ہے اور فضا میں کبھی کبھی کسی اداس پرندے کی آواز لمحہ بھر کے لیے نشان بتاتی ہے ہے پھر ڈوب جاتی ہے۔

            تھکاوٹ سے چور راستے قبروں کے درمیان چپ چاپ لیٹے ہوئے ہیں۔

            وہ ایک لمبی تیز سسکاری جیسی آواز نکالتا ہے۔

            ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں چیخ کر پوچھتا ہوں۔

            ’’کچھ نہیں ، میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ میں موجود تو ہوں نا‘‘

            گہری چپ

            مجھے اس پر رشک آتا ہے کہ وہ موجود ہے اور خود پر شبہ ہوتا ہے کہ میں موجود نہیں۔

            میرے منہ سے بے ساختہ لمبی اُو نکلتی ہے۔

            ’’میں بھی موجود ہوں ‘‘ میں چیخ کر اسے بتاتا ہوں۔

            سانولی نمکین شام آہستہ آہستہ ہمارے درمیان رات کا جالا بُن رہی ہے۔

            میں دیوار سے کھسک کر آہستہ سے نیچے اترتا ہے۔

            میں سامنے والی قبر کا کنبہ اٹھا کر آواز دیتا ہو۔۔۔  کوئی ہے؟‘’

            میری آواز قبرستان کے دوسرے سرے سے واپس آتی ہے۔

            وہ پکارتا ہے۔۔۔  ’’کوئی ہے؟‘‘

            میں اگلی قبر کا کتبہ اٹھاتا ہوں

            قطار در قطار ویران قبریں۔۔۔  خالی کھوکھلی آوازیں

            میں قبرستان کی دوسری طرف نکل آتا ہوں اور آہستہ سے دیوار پر جا بیٹھتا ہوں۔

            وہ بھی دیوار پر چڑھ جاتا ہے۔

            قبرستان کے آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے میں اور وہ،

            درمیان میں قبرستان،

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے

            درختوں سے جھڑتے پتے اداس قبروں اور چپ راستوں پر لڑکھڑا رہے ہیں۔

            شام کی جھولی میں سمٹا اندھیرا دبے پاؤں باہر نکل کر چپکے چپکے چاروں طرف پھیل رہا ہے۔

            قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے ہم دونوں دھندلا رہے ہیں ، مجھے وہ اب شام کے اندھیرے میں تحلیل ہوتا سایہ لگ رہا ہے،

            میں آواز دیتا ہوں۔۔۔  ’’سامنے دیوار پر کون ہے؟‘‘

            ’’میں ‘‘اس کی آواز گونجتی ہے۔

            پھر وہ آواز دیتا ہے۔۔۔  ’’سامنے دیوار پر کون ہے؟‘‘

            ’’میں ‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔

            ہم دونوں ایک دوسرے کا اقرار کر کے پھر کھسک کر دیوار سے نیچے اترتے ہیں اور دبے پاؤں ایک ایک قبر کا کتبہ اٹھا کر اندر جھانکتے ہیں۔

            سنسان خالی قبریں بھاں بھاں کر رہی ہیں۔

            ہم چکر کاٹ کر دیوار کے پاس لوٹ آتے ہیں اور اچک کر بیٹھ جاتے ہیں۔

            تاریخ میں لکھا ہے۔

            انھوں نے خوابوں ، چاہتوں اور جذبوں میں گوندھ گوندھ کر یہ شہر بنایا اور گیت گاتے ہوئے اس میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے کہ ان کی قربانیاں رنگ لائیں ، پھر بعد چند دنوں کے وسوسوں نے انھیں آن گھیرا، کسی نے ان کے دل میں یہ شک ڈال دیا کہ دشمن ان کے شہر کو لوٹنا چاہتے ہیں ، انھوں نے شہر کی حفاظت کے لیے سپاہی رکھے اور اپنی روٹی میں سے حصہ کاٹ کر انھیں دینے لگے۔

            گہرا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا ہے۔

            قبرستان کے آمنے سامنے والی دیواروں پر بیٹھے ہم دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔

            ’’میں ہوں ‘‘ وہ ایک لمبی چیخ مارتا ہے۔

            ’’میں بھی ہوں ‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔

            ہم گھپ اندھیرے میں آوازوں سے اپنے ہونے کی تجدید کرتے ہیں ، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھتے ہیں ، تاریکی میں گم سم کھڑے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔

            ایک ایک کر کے،

            ایک ایک کر کے،

            میں دھیرے سے نیچے اترتا ہوں اور قبروں کے درمیان پھیلے ہوئے چپ راستوں پر چلنے لگتا ہوں۔

            ’’ابو آئے‘‘ میری بیوی پکارتی ہے۔

            ’’اکا۔۔۔  اکا‘‘ میری بیٹی واکر گھسیٹی دروازے کی طرف لپکتی ہے۔

            تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے۔

            کہ سپاہی ان کے حصے کی روٹی کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہو گئے اور ان کی تعداد شہر والوں سے زیادہ ہو گئی۔ وہ دشمن کا انتظار کرنے لگے لیکن جب بہت عرصہ تک کسی طرف سے دشمن دکھائی نہ دیا تو انھوں نے خیالی دشمن کی باتیں شروع کر دیں۔ مگر پھر بھی کام نہ بنا تو انھوں نے شہر والوں کو دشمن سمجھ لیا اور کہنے لگے کہ ہم شہر والوں سے شہر کی حفاظت کریں گے۔

            گاڑھا اندھیرا اور گاڑھا۔۔۔  اور گاڑھا ہو گیا ہے۔

            درخت قبریں ، راستے گم ہو گئے ہیں ،

            جس دیوار پر میں بیٹھا ہوا ہوں وہ بھی کھو گئی ہے، مجھے اپنا آپ بھی نظر نہیں آ رہا میں صرف سوچ سکتا ہوں۔

            میں چیخنا چاہتا ہوں ، مگر میری آواز اندھیرا ہے۔

            میں بولنا چاہتا ہوں ، مکر میرے لفظ اندھیرا ہیں۔

            میں سوچتا ہوں۔۔۔  میں ہوں

            اس سے آگے اندھیرا گاڑھا اندھیرا۔

            میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سامنے والی دیوار پر بیٹھے ہوئے اس کو دیکھنا چاہتا ہوں ، مگر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا،

            اندھیرا ہی اندھیرا

            لفظ گم۔۔۔  آواز گم۔۔۔ وجود گم،

            اور تاریخ میں آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے۔

            ان کے سپاہی دشمن کو فتح کرنے کی تو سکت نہیں رکھتے تھے اس لیے اپنی بہادری کا بھرم رکھنے کے لیے خود ہی بار بار اپنے شہر کو فتح کرنے لگے اور شہر والے دشمن قرار پائے اور ان سے شہر کی حفاظت سپاہیوں کا مقدس فرض، سپاہیوں ی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی، پھر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ شہر والے ایک ایک کر کے ختم ہو گئے اور صرف سپاہی ہی سپاہی رہ گئے، گلیان اور مکان سونے ہو گئے اور رفتہ رفتہ بھُربھُر کرتی قبریں بن گئے۔

            گہرے اندھیرے میں قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے میں اور وہ جانے کب سے یوں ہی بیٹھے ہیں۔

            گھپ اندھیرے میں اُلو کی آواز اُبھرتی ہے۔

            کچھ دیر کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔

            پھر اُلو کی تیز آواز مسلسل ہو جاتی ہے۔

            درخت، قبریں اور راستے اس کی تیز آواز کے پروں میں پھڑپھڑا کر چپ ہو جاتے ہیں۔

            گہرا گھور اندھیرا،

            میری بیوی مجھے شانے سے پکڑ کر ہلاتی ہے۔۔۔  ’’اب سو بھی جائیں رات بہت ہو گئی ہے‘‘۔

            میں خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

            ’’آپ کیا سوچتے رہتے ہیں آج کل‘‘ وہ پریشانی سے پوچھتی ہے۔

            میں جواب نہیں دیتا اور مڑ کر سوئی ہوئی بیٹی کو دیکھتا ہوں ، جو اندھیرے سے ہے خیر چوسنی منہ میں لیے مستقبل کے دھندلے زینے چڑھ رہی ہے اور نہیں جانتی کہ اس کے مستقبل کے سنہری خوابوں کے گرد خونخوار چہروں والے کتے غرا رہے ہیں۔

            رات کے سناٹے میں اُلو کی تیز آواز گونجتی ہے۔

            اندھیرے میں مسلسل گونجنے لگتی ہے۔

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے۔

            گھپ اندھیرا، درخت اداس،

            سنسان راستوں پر پتے ایک ایک کر کے جھڑتے ہیں ،

            اور اُلو کی آواز مسلسل تیز۔۔۔  اور تیز۔۔۔  اور تیز!

٭٭٭

 

میلہ جو تالاب میں ڈوب گیا

            دن کے وقت سمندر میرے گھر سے تیرہ سو چھبیس کلو میٹر دور ہوتا ہے، لیکن جونہی رات گھنی سیاہ پلکیں اٹھا کر شہر کے چوک میں اترتی ہے، سمندر رینگتا رینگتا میرے کمرے کی دیوار سے آ لگتا ہے اور نرم لچکیلی انگلیوں سے بند کھڑکی پر دستکیں دیتا اور میرا نام لے لے کر پکارتا ہے۔

            میں سر اٹھا کر ساتھ والے پلنگ پر سوتی بیوی اور بیٹی کو دیکھتا ہوں اور آہستہ سے کھڑکی کھول کر ہاتھ سمندر کے ہاتھ میں دے دیتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں۔۔۔  ’’اے سمندر تیرے کئی روپ ہیں ، انجانے دیسوں ،  روشنیوں کے،  تاریکی کے ان گنت راستے تیرے وجود سے طلوع اور غروب ہوتے ہیں ، مجھے بشارت دے کہ میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            سمندر ہنستا ہے، کھکھلا کر ہنستا ہے۔۔۔  ’’مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ؟‘‘ میرے کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھا ہوا سمندر، کھڑکی میں سے سر نکالے میں ، شاید حقیقت کہیں اور ہے، ہم محض ایک تصویر، ایک عکس ہیں ، یا پھر ہم حقیقت ہیں اور عکس کہیں اور دہرایا جا رہا ہے۔

            بڑبڑانے کی آواز سنائی دیتی ہے، میں سر موڑ کر دیکھتا ہوں ، میری دو سال کی بیٹی نیند میں بڑبڑا رہی ہے۔

            مجھے آوازیں بہت سنائی دیتی ہیں۔ مگر جسم دکھائی نہیں دیتے۔ وقت ایک پر کٹے کبوتر کی طرح میرے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اسے ہُش ہُش کر کے اڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ اڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ میں ہُش ہُش کرتا رہتا ہوں۔ میری بیوی مجھے بڑی احتیاط سے تہ کر کے کتابوں کی الماری میں رکھ دیتی ہے لیکن میں اس کی نظر بچا کر چپکے سے باہر نکل آتا ہوں اور بڑے چوک کی طرف چل پڑتا ہوں لیکن میں بڑے چوک سے آگے نہیں جا سکتا کہ میرے پاس جو اجازت نامہ ہے اس کی حد یہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔

            اس شہر میں پھول اگانے کی بھی اجازت نہیں کہ کلی کا کھلنا بھی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔

            سارے کام اجازت ناموں سے ہوتے ہیں۔ مرنے کے لیے بھی اجازت لینا پڑتی ہے، اسی لیے میں مرنے سے پہلے مرنے کا ایک تجربہ کرنا چاہتا ہوں ،

            میں نے کھڑکی پوری طرح کھول دی ہے اور سمندر کے کندھے پر پاؤں رکھ کر آہستہ سے نیچے اتر آیا ہوں۔ سمندر کے پھیلے جسم کے ساتھ کروٹ لے کر لیٹا ہوا ساحل سستا رہا ہے اور کن انکھیوں سے پر شور مہیب لہروں کو دیکھ رہا ہے اوپر سیاہ آسمان، چمکتے تارے اور چائے کی پرچ جتنا بے جان چاند، پیچھے تاریکی میں ڈوبا ہوا شہر اور سامنے انگڑائیاں لیتا سمندر

            ایک آواز سنائی دیتی ہے۔

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک آواز۔۔۔  بغیر وجود کے ایک آواز‘‘

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک آواز۔۔۔  ایک آواز‘‘

            آواز ایک چھناکے کے ساتھ ساحل پر گرتی ہے اور جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک وجود۔۔۔  بغیر آواز کے ایک وجود‘‘

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک وجود۔۔۔ ایک وجود‘‘

            وجود دوڑ کر سمندر کے سینہ پر چھلانگ لگاتا ہے اور پھر آواز بن جاتا ہے۔

            آواز سے وجود اور وجود سے پھر آواز بن جانے کا کھیل،

            کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر پاؤں پھیلا کر لیٹا ہوا سمندر اور کھڑکی میں آدھا لٹکتا ہوا میں۔۔۔  میں جو مرنے سے پہلے مرنے کا ایک تجربہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر میری بیوی مجھے احتیاط سے تہ کر کے کتابوں کی الماری میں رکھ دیتی ہے۔ شیشوں کی الماری میں سماعت سے محروم میں صرف دیکھ سکتا ہوں ، بول نہیں سکتا، میں جلدی جلدی دو تین کتابوں کے پشتے ادھیڑتا ہوں ، اور کپڑے کی دھجیوں میں اپنے کان اور آواز کو لپیٹ کر پوری طاقت سے چوک کی طرف اچھال دیتا ہوں۔ شیشے چھنا سے سے ٹوٹتے ہیں اور میرے کان اور آواز چوک میں عین اس چبوترے پر جا گرتی ہے جس پر چڑھا شخص مجمع کی طرف منہ کر کے چیخ رہا ہے۔۔۔  ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘

            جن میں سے سسکاریاں ابھرتی ہیں ،

            وہ شخص چبوترے کے درمیان لگے بجلی کے پول پر چڑھنے لگتا ہے۔ چکنے پول پر اس کے ہاتھ بار بار پھسلتے ہیں اور وہ چند فٹ اوپر جا کر پھر نیچے آ جاتا ہے۔ شمع کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ جونہی اس کے ہاتھ پھسلتے ہیں۔ مجمع اطمینان کا سانس لیتا ہے لیکن جب وہ پھر چند فٹ اور کھسکتا ہے تو مجمع کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ وہ اوپر چڑھنے کی کوشش میں کئی قدم پھسلتا اور پھر دھڑام سے نیچے چبوترے پر، میرے کانوں کے قریب آ گرتا ہے۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھتا ہے اور مجمع کی طرف منہ کر کے کہتا ہے۔۔۔  ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘

            مجمع کے منہ سے سسکاریاں نکلتی ہیں۔

            لوگ دوڑ کر ساحل پر آتے ہیں اور سمندر میں کود جاتے ہیں۔ لہروں پر تیرتی آوازیں ساحل پر گر کر تپتی ریت میں وجود آشنا ہوتی ہیں اور چبوترے کے گرد پھر اتنا ہی مجمع جمع ہو جاتا ہے۔

            چبوترے پر کھڑا شخص،  لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنے لفظ دہراتا ہے۔۔۔ ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘۔

            اور کھمبے پر چڑھنے، پھسلنے اور گرنے کا وہی عمل۔۔۔ ،

            اس شہر کے لوگوں کو تاریخ بنانے کا بڑا چسکہ ہے مگر ان کا جغرافیہ روز بروز سمٹتا چلا جا رہا ہے۔۔۔  لیکن انھیں پرواہ نہیں۔ جغرافیہ رہے نہ رہے تاریخ ضرور بننی چاہیے۔ رات سے آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے۔

            سمندر کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ میں ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا اس دیوار تک آ جاتا ہوں جو سمندر کو شہر سے جدا کرتی ہے۔ میں سمندر کی طرف سے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میرے ہاتھ کائی زدہ چکناہٹ پر سے پھسل جاتے ہیں اور میں دھم سے سمندر کے قدموں میں آن گرتا ہوں ، پھر اٹھ کر شہر کی طرف چل پڑتا ہون جو تالاب میں بنا ہوا ہے۔

            تالاب کے کنارے مزار کے گرد لگا ہوا میلا نشے میں جھوم رہا ہے، رنگ برنگی روشنیاں ، بھری ہوئی دکانیں ، سجے ہوئے پنڈال اور قہقہے لگاتے لوگ، میلا موج میں آ کر ایک بھرپور انگڑائی لیتا ہے اور اس کا پاؤں پھسل کر تالاب کے بھر بھرے کناروں پر آ پڑتا ہے تالاب بہت پرانا ہے اور اس کے کنارے  اتنے بھربھرے ہو گئے ہیں کہ وہ میلے کے پھسلتے پاؤں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتے اور بیٹھ جاتے ہیں ، میلا اپنے آپ کو سنبھالنے اور پھیلے ہاتھوں سے آس پاس کی اونچائیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے، مگر تالاب کے پرانے اور بھربھرے کنارے اسے سنبھلنے نہیں دیتے اور میلا اپنی رنگ برنگی روشنیوں ،  بھری دکانوں ، سجے پنڈالوں اور قہقہے لگاتے لوگوں سمیت پلک جھپکنے میں تالاب میں جا گرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب جاتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد تالاب سے یہ شہر اگتا ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کب یہ شہر بھی پھسل کر کسی تالاب میں جا گرے گا، اسی لیے تو میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ کر لینا چاہتا ہوں۔

            رات کے سیاہ بالوں میں اب چاندی پھولنے لگی ہے۔ میں اپنی کھڑکی میں واپس آ جاتا ہوں۔نیچے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سمندر گہرے گہرے سانس لے رہا ہے۔ میں کھڑکی میں سیدھا ہو کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایک ہی لمبی چھلانگ لگا کر سمندر کے سینہ پر جا پڑوں ، ابھی اپنے بازو کھولتا ہی نہیں کہ پیچھے سے میری بیٹی کی آواز آتی ہے۔۔۔  ’’ابو کا کر رہے ایں ؟‘‘

میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ میری بیٹی ادھ کھلی آنکھوں میں نیند لیتے بازو پھیلائے مجھے بلا رہی ہے۔ میں دھم سے بستر پر گر پڑتا ہوں۔ میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ نہیں کر سکتا اور اب تھوری دیر بعد رات کے سارے سر میں سفیدہ کھل جائے گا اور رات کے جوان مہکتے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں پڑ جائیں گی، سفید رتھ پر سوار دن دوڑتا ہوا آئے گا اور سمندر جو اس وقت میرے کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلا کر سستا رہا ہے، پھر کھسک کھسک کر میرے گھر سے تیرہ سو چھبیس کلو میٹر دور چلا جائے گا اور میں اس میلے میں جو اپنی رنگ برنگی روشنیوں ، دکانوں ، سجے پنڈالوں اور قہقہے لگاتے لوگوں سمیت پھسل کر تالاب میں ڈوب گیا ہے۔ پھر اکیلا رہ جاؤں گا۔

٭٭٭

 

کوڑا گھر میں تازہ ہوا کی خواہش

            شام رات کے پیانو پر اندھیرے کا گیت بجا رہی ہے۔

            سائن بورڈوں کی گود میں سوئی ہوئی روشنیاں آنکھیں ملتے ہوئے جاگ رہی ہیں۔

            فٹ پاتھ پر قدم قدم چلتے ہوئے میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہ جو اگلے سٹاپ پر میری منتظر ہے۔

            سیاہ برقعہ میں اس کا گدرایا بدن مجھے دور ہی سے اشارے کرتا اور سیٹیاں مارتا ہے۔

            ’’ہے‘‘۔

            ’’ہے‘‘۔

            ہم چپ چاپ ایک بغلی سڑک پر مڑ جاتے ہیں۔

            فٹ پاتھ کے ساتھ درختوں کی لمبی قطار گہری سوچ میں گم،  سانس روکے سوکھے پتے۔ پاؤں کے نیچے چُر مر چُر مر کی بے صدا آوازیں اور ٹریفک کا شور، باغ کے ایک نسبتاً ویران حصہ میں خالی بنچ پر بیٹھ کر کتابیں اور رجسٹر بے دلی سے ایک طرف پھینکتا ہوں۔ وہ برقعہ کے اگلے دو بٹن کھول کر لمبا سانس لیتی ہے۔

            گری ہوئی کتاب میں سے لفظ رینگ رینگ کر باہر نکلتے لگتے ہیں۔

            لفظ۔۔۔  جو اس شہر کی الماریوں میں ، کتابوں کے پنجروں میں بند قید تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

            لفظ جب باسی ہو جائیں تو بُو دینے لگتے ہیں۔

            تعفن سے لبریز گندی بُو

            میں جلدی سے کتاب بند کر دیتا ہوں۔

            لفظ اپنے قید خانے میں سمٹ جاتے ہیں۔

            وہ کہتی ہے۔۔۔ ’’کوئی بات کرو؟‘‘

            ’’کیا‘’

            ’’کچھ بھی‘‘

            ’’اچھا یہ بتاؤ یہ سڑک کہاں سے آتی ہے؟‘‘

            ’’معلوم نہیں ‘‘۔

            ’’یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟‘‘

            ’’معلوم نہیں ‘‘

            ’’اچھا تو جو تمہیں معلوم ہے وہ بتاؤ‘‘۔

            ’’مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ، میری تو یادداشت ہی کمزور ہے۔ میں ایک لمحہ پہلے کی بات بھی بھول جاتا ہوں۔ مجھے تو اس گزرتے لمحے کی بھی خبر نہیں ‘’۔

            پت جھڑ کی سوکھی بانہوں میں جکڑا باغ، پتھر کی ٹھنڈی سِل، اور ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے ہم دونوں ،

            میں حاضری کا رجسٹر اٹھاتا ہوں۔

            ’’یس سر‘‘

            ’’یس سر‘’

            تو دراصل ہم یس سر کی مجسم صورتیں ہیں۔

            ہر روز ایک بینڈ ماسٹر ہمیں نئی دھُن پر ناچنا سکھاتا ہے،  دھن تو وہی پرانی ہے، صرف ساز ہی نیا ہوتا ہے۔

            بینڈ ماسٹر ہمیں پرانی دھن کے نئے انداز پر ٹرینڈ کرتا ہے اور جب خود ہی تھک جاتا ہے تو ساز کسی دوسرے کے حوالے کر کے چلا جاتا ہے۔

            نیا بینڈ ماسٹر آتا ہے

            ’’یس سر‘‘

            ’’یس سر‘‘

            ’’کوئی بات کرو نا‘‘۔

            میں اس کی کھڑکی کے نیچے کھڑا ہو کر سیٹی بجاتا ہوں ،

            وہ نیم پٹ کھول کر سرگوشی کرتی ہے۔۔۔ ’’کوئی دیکھ نہ لے‘‘۔

            ’’ہاں کوئی دیکھ نہ لے‘’۔

            دیکھ لیے جانے کا خوف آسیب بن کر پورے شہر پر منڈلا رہا ہے۔

            کوئی دیکھ نہ لے۔

            بند کمروں میں بھی دیکھ لیے جانے کا تشنج۔

            ’’کچھ تو کہو‘‘

            دور کہیں سے گانے کی آواز ابھرتی مدھم ہوتی پت جھڑ میں ڈوب جاتی ہے۔

            زندگی تو ایک گیت ہے اور ہم اس گیت کے بے وزن مصرعے ہیں۔

            ’’اچھا تو پھر تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘

            ’’کس بارے ، وہ چونکتی ہے۔

            ’’میرے ساتھ بھاگ جانے کے بارے میں ‘‘

            وہ ہنس پڑتی ہے،

            ’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں تمہیں اغوا کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            وہ چپ ہو جاتی ہے۔

            گہری چپ

            کائی کا خاموش سمندر چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔

            میں سائلنسر اتری موٹر سائیکل پر پھٹ پھٹ کرتا آتا ہوں۔

            آواز سن کر وہ کھڑکی میں طلوع ہوتی ہے۔

            ’’چلو بھاگ چلیں ‘‘۔

            وہ سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر ہائے کہتی ہے اور کھڑکی میں ڈوب جاتی ہے۔

            گہرا ہوتا اندھیرا میرے پاؤں میں گدگُدی کرتا ہے۔

            ’’تو سارا مسئلہ دانتوں کا ہے‘‘۔

            وہ سر جھکائے ناخن سے ناخن کریدتی ہے۔

            میرے سر پر رکھا ٹوکرا ایک دم وزنی ہو جاتا ہے۔

            سب نے وزنی ٹوکرے اٹھا رکھے ہیں۔

            کسی کو نہیں معلوم ان میں کیا ہے۔

            کچھ بھی نہیں۔

            اندر سے تو یہ کب کے خالی ہو چکے ہیں ، ہم تو صرف ان کی بوسیدگی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔

            ’’میں نے اس برقعہ کے نیچے جدید فیشن کا لباس پہنا ہوا ہے‘‘۔

            ’’مجھے معلوم ہے‘‘۔

            یہ بات سارے شہر کو معلوم ہے لیکن پھر بھی سارے شہر سے برقعہ اوڑھا ہوا ہے۔

            اپنے آپ سے بھی چھپنے کا شوق یا بیماری

            میں کتاب اٹھا لیتا ہوں ، چند سطریں پڑھ کر بند کر دیتا ہوں۔

            لکھے ہوئے سارے لفظ زنجیریں ہیں۔

            اور جو لفظ لکھے نہیں گئے، انھیں لکھنے کی جرأت نہیں۔

            ہر شخص نے کپڑوں کے نیچے زرہ بکتر پہنی ہوئی ہے۔

            وہ آہستہ سے میرے پھیلے ہوئے ہاتھ کو دباتی ہے اور اٹھ کر روشنی کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔

            باغ کے وسط میں فوارے کے حوض کے پاس رک کر جھک کر ہم پانی میں عکس دیکھتے ہیں۔

            ہمارے چہروں پر دھندلاہٹوں کے نیلگوں جزیرے ہیں۔

            ہوا اپنی سرمئی انگلیوں سے ہمیں گدگداتی ہے لیکن ہمیں ہنسی نہیں آتی۔ شہر میں ہنسنے پر پابندی ہے۔

            ہم ہنسے بغیر پوری سنجیدگی سے اپنے اپنے عکس کی مضحکہ خیزی کا تماشا کرتے رہتے ہیں۔

            ہمیں اس مضحکہ خیزی کا احساس بھی ہے۔

            لیکن ہنسنے پر پابندی ہے۔

            جانے میرے جی میں کیا آتا ہے۔ میں ہاتھ ڈال کر ٹھہرے ہوئے پانی کو ہلا دیتا ہوں۔ میرا اور اس کا عکس پھیل کر بکھر کر پانی ہو جاتا ہے۔

            بس اتنی سی بات ہے۔

            ہم جو صرف ہلتے عکس ہیں۔

            وہ قریب سے گزرتے چنا جور گرم والے سے دو پڑیاں لیتی ہے۔

            دانہ دانہ چگتے ہوئے ہم ٹکٹکی باندھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔

            دفعتہً  وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے۔

            میں بھی ہنس پڑتا ہوں۔

            ہنستے ہنستے ہم ایک دوسرے پر گر پڑتے ہیں۔

            ہماری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔

            ’’تو پھر‘‘

            ’’تو پھر اب چلیں شازیہ گھبرا رہی ہو گی‘‘۔

            ابو۔۔۔  ابو کرتی شازیہ ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے بند پپوٹوں پر دستک دیتی ہے۔

            ’’چلو‘’

            تیز تیز قد اٹھاتے بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے میں مڑ کر پت جھڑ میں لپٹے درختوں پر ایک نظر ڈالتا ہوں ، اور پھر اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

            میں اس عورت کو۔۔۔  جو میری بیوی ہے اغوا کرنا چاہتا ہوں۔

            لیکن۔۔۔ ؟

٭٭٭

 

ریزہ ریزہ شہادت

            جس وقت وہ پہنچا گھوڑا پسلیوں کے بل فٹ پاتھ پر گر چکا تھا اور دو وردیوں والے تتلی پکڑتے باغ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ وہاں پہنچنے والا چوتھا شخص تھا۔ پہلے تینوں گھوڑے کے ارد گرد کھڑے حیرت و تجسس اور دکھ کے ملے جلے جذبوں سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔ گھوڑے میں ابھی جان تھی اور وہ اپنی درد بھری آنکھوں سے باری باری تینوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بار بار ایک پاؤں اٹھانے کی کوشش کرتا پھر تیزی سے نیچے گرا لیتا۔ باغ میں جو دو آدمی تتلی پکڑنے گئے تھے۔ انھوں نے جال نکالا اور اس کے سرے، ڈوریاں ٹھیک کرنے لگے۔

            اس نے باری باری تینوں کو دیکھا لیکن و ہ سر جھکائے گھوڑے کی جانکنی کا تماشا کر رہے تھے ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

            سامنے والے نے جواب دینے کی بجائے کندھے جھٹکے اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔ باقی تین بھی شانے اچکا کر رہ گئے۔ فٹ پاتھ کی دہلیز کے ساتھ رگڑ کا لمبا نشان پھیل کر سڑک تک آ گیا تھا اور گھوڑے کی پسلیوں سے بہتا خون اس میں رنگ بھر رہا تھا۔ گھوڑے نے ٹانگیں ہلا کر اٹھنے کی کوشش کی مگر بے دم ہو کر اسی پہلو زمین پر آ رہا۔

            باغ میں گئے دونوں آدمیوں نے پھولوں کے گرد جال پھیلایا اور کونے میں بیٹھ کر تتلی کا انتظار کرنے لگے۔ اس نے جھک کر گھوڑے کی پسلیوں سے نیچے دیکھنے کی کوشش کی۔ زخم تو نظر نہ آیا البتہ رستے خون کی رفتار اس کے پھیلاؤ اور گھیراؤ کو ظاہر کر رہی تھی۔خون کا دھبہ اب سڑک کے درمیان آ گیا تیزی سے آتے سائیکل سوار نے خون دیکھ کر بریکیں لگائیں۔ ’’کیا ہوا‘‘۔ وہ سائیکل سے اترتے ہوئے بولا۔ چاروں چپ رہے۔ گھوڑا جانکنی کے عالم میں تھا۔ اس کی آنکھوں میں موت کی غنودگی پھیل رہی تھی۔

            باغ کے کونے میں بیٹھے ایک نے دوسرے سے کہا۔۔۔  ’’تتلی کہاں ہے؟‘‘

            ’’خاموش رہو‘‘ دوسرے نے سرگوشی کی۔

            دو راہ گیر بھی وہاں رک گئے۔

            ’’کیا ہوا‘‘

            کیا ہوا؟

            جواباً اچکتے شانے اور گہری خاموش چپ۔ گھوڑے نے پسلیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کی ساری پسلیاں پھڑپھڑائیں۔ ٹانگیں ہلیں ، جسم ذرا سا اوپر اٹھا اور پھر دھپ سے نیچے جا گرا۔ اس کے ذہن کے خیمہ میں خون میں نہایا گھوڑا آن کھڑا ہوا۔ پیاسا میدان اور خون خون خیمے۔

            خون، خون۔۔۔  خون،

            سرخ، گرم، ابلتا خون،خون کا دائرہ پھیل کر سڑک کے بیچو بیچ آ گیا۔ ایک گزرتی کار چیختی بریکوں کے ساتھ فٹ پاتھ سے آ لگی۔ ’’کیا ہوا‘‘؟ کار والا بڑے نخرے سے نیچے اترا گھوڑے کے قریب آ کر اس نے ترحم سے اسے دیکھا اور بولا۔۔۔ ’’ oh poor soul‘‘

            پھر کار کی طرف منہ کر کے بولا۔۔۔  ’’گھوڑا مر رہا ہے‘‘۔

            ’’ہائی۔۔۔  میں نے آج تک کسی گھوڑے کو مرتے نہیں دیکھا‘‘ کار میں سے نسوانی آواز آئی۔ کار والے نے سامنے کھڑے ایک شخص کو کندھے سے پکڑ کر ایک طرف ہٹایا اور  بولا۔۔۔

            ’’پلیز، ذرا ایک طرف ہو جائیے، بے بی گھوڑے کو دیکھنا چاہتی ہے‘‘۔۔۔

            بے بی نے کار میں سے منہ نکال کر گھوڑے کو دیکھا۔ ’’What Exciting Scene‘‘  ”oh poor soul” دوسری عورت نے جو عمر کی آدھی سے زیادہ سیڑھیاں پھلانگ چکی تھی۔ اس کے شانوں سے جھانکا۔۔۔  ’’What a Scene‘‘

            گھوڑے نے پتلیاں پھیر پھیر کر ایک ایک کو دیکھا، اس کے نرخرے سے نکلتیں خرخر کی آوازیں قدرے اونچی ہو گئیں۔ ’’تتلی‘‘ باغ میں بیٹھے ہوئے ساتھ والے نے کہا۔

            ’’ہاں تتلی، دوسرے سے سرگوشی کی۔

            تتلی اوپر ہی اوپر منڈلا نے لگی۔

            ایک اسکوٹر والا کار سے ذرا پیچھے اسکوٹر روک کر فٹ پاتھ پر آ گیا۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے کار میں بیٹھی عورتوں کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیری فٹ پاتھ کی سلیں خون پی کر ہونٹ چاٹنے لگیں۔ ان سب کو دو دو چار چار قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان کے ہٹنے سے فضا قدرے خالی ہوئی تو گھوڑے نے لمبا گہرا سانس لیا اور موت کی غنودگی کو سمیٹتا ہوا پوری آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ اس کی گردن دو تین لمحے تنی رہی، پھر نڈھال اور بے دم ہو کر زمین پر گری اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی کمانوں کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گئیں۔

            تتلی نیچے اور نیچے اترنے لگی۔ دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دو اور راہ گیر ان میں شامل ہو گئے۔

            ’’کیا ہوا؟‘‘

            ’’کیا ہوا؟‘‘

            گھوڑے نے ان کی آوازیں سن کر ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں ، پھر بند کر لیں اور موت کے گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ خون کا دائرہ گداں مارتا سڑک کے دوسرے کنارے کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ تتلی نے ایک ادھورا چکر کاٹا اور پھول پر آ بیٹھی۔ دونوں کے سانس زبانوں پر آ رکے، ہاتھوں میں پھڑپھڑاہٹ اور ڈوری پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔

            اس کی آنکھوں کی کربلا میں بھوکے پیاسے خیمے ابھر آئے، پیاسے خیموں سے گھوڑا باہر نکلا اور اپنے سوار کو لے کر خون خون میدان میں قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔

            کار والے نے ناک سکیڑی۔۔۔  ’’یہ گھوڑے کے خون کی بو بھی عجیب ہے، ’’Not Tolerable‘‘ اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

            کار میں بیٹھی عورتوں نے پرس کھول کر معطر رومال نکالے، خوشبو کے چھوٹے چھوٹے نقطے خون کی مہک کو گدگدانے لگے، اسکوٹر والے نے کار کی طرف دیکھتے ہوئے پھر ہونٹوں پر زبان پھیری اور وہ دو قدم پیچھے ہو گیا۔

            خون کا دائرہ پھیل گیا۔۔۔  انھیں چند قدم اور پیچھے ہٹنا پڑا۔ دونوں نے بیک وقت ڈوری کھینچی۔۔۔  تتلی پھڑپھڑائی، اڑنے کی ایک ناکام کوشش کی۔

            گھوڑے نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا، اٹھنے کی آخری کوشش کی۔ اس بار اس نے دونوں ٹانگیں جوڑ کر اٹھنا چاہا۔ مگر ذرا سا اٹھ کر دھپ سے نیچے جا گرا۔

            انھوں نے ہاتھ بڑھا کر تتلی کو پکڑا، احتیاط سے ڈبے میں بند کیا، جال سمیٹا اور چپ چاپ سڑک پر آ گئے۔ اس کے ذہن میں ساحل سمندر سے لگا گھوڑا ابھر آیا جو سموں سے ساحل کی ریت کریدتا آگے اور آگے بڑھنے کے لیے مچل مچل گیا۔ آگے سمندر۔۔۔  گہرا نیلا سمندر۔۔۔

            گھوڑا الوداعی ہچکیاں لینے لگا۔ کار والے نے کار کی طرف واپس جاتے ہوئے ترحم سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’oh poor soul ‘‘

            ’’گھوڑے کے خون کی بو خاصی ناگوار ہے‘‘ اس نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے ساتھ والیوں سے کہا۔۔۔  کار خون کے دائرے کو کاٹتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اسکوٹر والے نے کار کی طرف دیکھ کر پھر ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔  اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور کار کے کاٹے ہوئے دائرے میں سے ہوتا ہوا کار کے پیچھے چلا گیا۔۔۔  گھوڑے کی آنکھیں بند ہو گئیں ، پاؤں خاموش،  صرف پسلیوں کا ارتعاش دھیمے سروں میں جاری رہا۔ راہ گیر ایک ایک کر کے اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے، سڑک پر پھیلا خون جم کر لوتھڑے کا چوغہ اوڑھنے لگا، سامنے والے کھمبے کا بلب بھی تھک کر دھندلا پڑ گیا وہ گھوڑے کے پاس اکیلا رہ گیا۔

            پیاسے خیموں سے نکلتا خون میں ڈوبا گھوڑا، سموں سے ریت کریدتا گھوڑا۔۔۔  سب ایک ایک کر کے ذہن کے دھندلکوں میں گم ہونے لگے۔

            گھوڑا خاموشی سے چپ چاپ مر رہا تھا، اس کا جسم ساکت اور آنکھیں بند تھیں۔ پسلیوں کا ہلکا سا ارتعاش جاتی زندگی کے آخری سانس گن رہا تھا۔

            سڑک دور دور تک سنسان ہو گئی۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور پاس پڑے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’کم از کم ایک آدمی تو ایسا ہو جو آخری سانس تک اس کے پاس رہے۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

٭٭٭خوا ا ب سے اپاہچہ فضا ا سرانڈ

سہ پہر کی خزاں

            اس نے لمبا سانس لیا اور کہنے لگا۔ ’’میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            ب کے ہونٹوں پر عجیب پراسرار مسکراہٹ نے آنکھ کھولی۔ ’’زندگی اک ست رنگا کبوتر اس کے سارے رنگ کس نے دیکھے‘‘۔

            اس نے چٹکیوں سے چاندنی کو پکڑنے کی کوشش کی، بہتی چاندنی اس کی انگلیوں سے پھسل کر ادھر اُدھر نکل گئی۔

            ’’ایک خواب۔ محض ایک خواب‘‘

            ب نے ہنکارا بھرا۔ ’’خواب مگر اکیلے کا نہیں ‘‘۔

            وہ تیزی سے مڑا۔ ’’دوسرا کون؟‘‘

            ب مسکرایا۔ ’’وہی جسے دکھانے کے لیے ہم سب کچھ کرتے ہیں ؟‘‘

            ’’یہ تو ہے‘‘۔ وہ مسکرائی ’’تم باہر کیوں نہیں نکلتے؟‘‘

            ’’باہر نہیں تو کہاں ہوں ؟‘‘

            وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔  ’’باہر آنے کے انتظار میں ‘‘۔

            ’’اور انتظار ایک کڑوا پھل ہے‘‘۔ ب نے اس کے کندھوں پر کھڑے ہوتے ہوئے اعلان کیا اور دیوار کے دوسری طرف کود گیا۔

            چاند گہرے گہرے سانس لے رہا تھا اور اندھیرا پاؤں کے نیچے چُرمرا رہا تھا۔

            وہ تھوڑی دیر پہلے توڑے گئے پھول کو پتی پتی کرنے لگا۔

            وہ پتیوں پر پاؤں رکھتی ہوئی آئی۔۔۔  ’’ہائی‘‘۔

            ’’ایک گھنٹہ تین منٹ لیٹ‘‘۔

            اس نے بے پرواہی سے شانے جھٹکے اور بولی۔ ’’شاپنگ کے لیے نکل گئی تھی‘‘۔

            اس کے چہرے پر بہت سے رنگ آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔ ’’میں ‘’

            ’’مجھے معلوم تھا تم انتظار کر رہے ہو گے‘‘۔ وہ ہنسی ’’تم اور کر ہی کیا سکتے ہو؟‘‘

            ’’تم میری توہین کر رہی ہو‘‘۔

            ’’میں تو صرف دیر سے آنے کی وجہ بتا رہی ہوں ‘‘۔

            ’’وجہ۔۔۔  خود کو محفوظ رکھنے کی ایک ڈھال۔۔۔  ہونہہ‘‘

            وہ اس کے قریب بیٹھ گئی اور نرمی سے بولی۔ ’’تم لفظوں سے کھیلتے ہو‘‘۔

            ’’لفظ تو ٹوٹی ہوئی کمانیں ہیں ‘‘۔ ب نے آہستگی سے اس کا کندھا دبایا‘‘۔ اور ہم تو صرف تعمیل کرتے ہیں ‘‘۔

            وہ اپنے آپ میں سمٹنے لگتا ہے۔ سمٹتا ہی چلا جاتا ہے۔

            اس کے سامنے کھڑی وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی۔ پھر لفظوں کو چبا چبا کر بولی بغیر مانگے کبھی کچھ نہیں ملتا‘‘۔

            اس کی آنکھوں میں لہر سی اچھلی،  لیکن دوسرے لمحے ڈوب گئی۔ ’’میرے پاس مانگنے کے لفظ نہیں ‘‘۔

            ب نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بولا۔ ’’کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر مانگے ہی مل جاتا ہے، مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ طلب ایک تیز رفتار گاڑی ہے جو دوڑتی ہی رہتی ہے، کبھی نہیں ٹھہرتی‘‘۔

            اس نے کندھے جھٹکے۔۔۔  ’’لیکن میں دوسروں کی طرح اس گاڑی کے پیچھے نہیں دوڑ سکتا‘‘۔

            ب مسکرایا۔ ’’دوڑ تو تم اب بھی رہے ہو‘‘۔

            ’’ہم الگ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے اندر ہی ہوتے ہیں ‘‘۔

            وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ’’میں کسی کے اندر نہیں ، اپنا چہرہ خود بنانا چاہتا ہوں ‘‘۔

            ب ہنسا، دیر تک ہنستا رہا، پھر بولا۔ اپنا چہرہ ہم خود تو بنا سکتے ہیں ، لیکن اسے شناخت دوسرے ہی کرتے ہیں۔ اپنی شناخت کے لیے ہمیں دوسروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔

            ’’نمبر‘‘ بوڑھے اکاؤٹنٹ نے عینکوں کے دھندلے شیشوں میں سے اسے گھورا۔

            اکاؤنٹنٹ نے پے رول پر نشان لگایا اور تنخواہ کا ٹوکن اس کی طرف لڑھکا دیا۔ نوٹ گنتے ہوئے اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لین دین کے پورے صفحے کو جلدی جلدی جمع تفریق کیا اور دس دس کے دو نوٹ نکال کر پتلون کی پچھلی جیب میں رکھ لیے۔

            ’’تو آج تمہیں تنخواہ ملی ہے‘‘۔ وہ مسکرائی۔

            ’’ہاں اور میں بڑی مشکل سے بیس روپے بچا سکا ہوں ‘‘۔

            ’’تم بے وقوفی کی حد تک صاف گو ہو‘‘۔ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’اور یہ اچھی بات نہیں ‘‘۔

            بیرا چائے لے آیا۔ اس دوران وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ بیرا چائے اور کباب رکھ کر چلا گیا تو وہ بولا ’’مجھ میں بہت سی اچھی باتیں نہیں ہیں ‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘ اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ ’’تم ڈیڈی سے نہ ملنا نہیں ایسے لوگ ذرا بھی اچھے نہیں لگتے‘‘۔

            کیبن کی چھت میں بڑا سا سوراخ ہو گیا اور تیز جلتا سورج عین اس کے سر پر ناچنے لگا۔

            ’’اپنی شناخت کراؤ‘‘ ب نے سسکاری لی اور قریب سے گزرتی ایک عورت کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔

            عورت کچھ دور جا کر بس سٹاپ پر کھڑی ہو گئی اور مڑ مڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔

            ب نے چٹخارہ بھرا۔ اور بولا۔ ’’اس عورت نے اپنی شناخت دو منٹوں میں کرا دی ہے اور تم دو سال سے مل رہے ہوں مگر ابھی تک یہ بھی نہیں جان سکے کہ وہ تمہیں سمجھتی کیا ہے؟‘‘

            ’’تم مجھے کیا سمجھتی ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔  میں تمہیں۔۔۔  بس اچھا آدمی‘‘۔

            ’’صرف اچھا آدمی‘‘ اسکے چہرے پر گھنے سیاہ بادل چھا گئے۔

            ’’نہیں میرا مطلب ہے‘‘۔

            ’’کیا؟‘‘

            ’’یہی کہ تم اچھے آدمی ہو مگر۔۔۔ ‘‘

            ’’مگر کیا؟‘‘

            وہ ہنسی‘’ یہ کہ تم ضرورت سے زیادہ اچھے اور۔۔۔ ‘‘

            ’’اور ایسے لوگ تمہارے ڈیڈی کو پسند نہیں ‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘ اس نے سر ہلایا۔

            ’’اور تمہیں ‘‘۔

            وہ کچھ دیر ناخن سے ناخن کھرچتی رہی پھر آہستہ آہستہ،  بہت ہی آہستہ سے بولی۔ ’’میں بھی تو اسی دنیا میں رہتی ہوں ‘‘۔

            گھنی سیاہ رات سارے جنگل میں پھیل گئی۔ گہرے گھپ اندھیرے میں وہ سر سے پاؤں تک بھیگ گیا۔

            بہت دیر بعد وہ جنگل سے باہر نکلا۔ ’’واقعی تم اسی دنیا میں رہتی ہو‘‘۔

            ب چپ چاپ اسے چائے پیتے دیکھتا رہا۔ اس نے پیالی میز پر رکھ دی اور ڈوبی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔ ’’اس کے بعد ہم چپ چاپ اٹھے، خاموش سے باہر آئے اور کچھ کہے بغیر اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے‘‘۔

            ب اب بھی چپ رہا۔

            ’’میں کیا کروں ؟‘‘

            ب کے ہونٹ اس کے چہرے میں دفن ہو گئے۔

            ’’میں کیا کروں ؟‘‘

            گہری الف خاموشی،

            اس نے ب کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا۔

            ب کچی مٹی کے کھلونے کی طرح بھرکر زمین پر بکھر گیا۔

            سنسان ویران سڑک پر دھند چپ چاپ قدم قدم چل رہی ہے۔

            سلاخ دار کھڑکی کے پیچھے پتھر ہوتی آنکھوں سے،  دور سے کسی کے آنے کی تمنا میں وہ دیر سے یونہی کھڑا ہے۔

            ملازم آتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔  ’’بیگم صاحبہ کھانے کی میز پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں ‘‘۔

            ’’آ رہا ہوں ‘‘۔ وہ جانے سے پہلے پھر ویران سنسان سڑک کو دیکھتا ہے۔

            یہ سڑک کتنی ویران اور اداس ہے۔

            اسے خیال آتا ہے کہ دس سال پہلے ہوٹل والے واقعہ کے دوسرے دن جب وہ اس کے ڈیڈی سے ملنے آیا تھا تو یہ سڑک!

            وہ سلاخوں میں سے باہر جھانکتا ہے۔

            سنسان ویران سڑک پر دھند اکیلی ہی قدم قدم، قدم قدم چل رہی ہے۔

٭٭٭

 

دھوپ میں سیاہ لکیر

            اوپر غیر دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے بادل، نیچے شرماتی لجاتی شام، وہ ایک نظر بادلوں پر،  دوسری شام پر ڈالتا ہے، کک اور زن سے گلی سے نکل کر سڑک پر آ جاتا ہے، چوک میں اسے دائیں طرف مڑ کر ریستوران میں جاتا ہے، جہاں روز شام کو بیٹھتا ہے۔ دائیں طرف کی بتی سرخ ہے، وہ غیر ارادی طور پر بائیں مڑ جاتا ہے۔

            ساری زندگی یوں ہی غیر ارادی طور پر نہ چاہے راستوں پر چلنے کی مجبوری،  کئی بار باگ چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتی ہے، مگر ہاتھ بدل جاتے ہیں ، باگ نہیں چھوٹتی، کئی ہاتھ،  مختلف چھوٹے بڑے، سخت نرم ہاتھ۔۔۔  دائیں طرف مڑنے کی تمنا، مگر بائیں چلنے کی مجبوری۔۔۔  بائیں چلنے کی خواہش، مگر دائیں مڑنے کی مجبوری، خواہش تو ہاتھ میں پھسلتی ریت،

            اندھیرا اور اوباش لڑکوں کی طرح سیٹیاں بجاتا شرماتی شام کے پیچھے لگا ہوا ہے، شام چھجوں ، سائبانوں اور کونوں میں سمٹ رہی ہے، وہ ان کے درمیان سے گزرتا، مرکزی شاہراہ پر آ گیا ہے۔ دور دھندلاتے پہاڑ اشارے کرتے،  نام لے لے پکارتے ہیں۔ وہ ایک لمحہ کے لیے سپیڈ کم کر کے واپس مڑنے کے لیے پیچھے نظر ڈالتا ہے، مگر رکے بغیر آگے نکل جاتا ہے۔

            گھوڑا دونوں ٹانگیں اٹھا کر ہنہناتا ہے، باگ توڑ کر نکل جانا چاہتا ہے، مگر؟ زندگی کے راستوں پر کبھی ماں ، کبھی باپ ٹریفک سپاہی کے روپ میں ، سرخ بتی،

            ’’میں ‘‘۔۔۔  ’’میں ‘‘، لیکن ہمیشہ ’’وہ‘‘۔۔۔  ’’وہ‘‘

            تانگے میں جتا گھوڑا۔۔۔  کوچوان ہنستا ہے، سواریاں کھلکھلاتی ہیں ،

            غیر ارادی طور پر  ایکسی لیٹر پر اس کے ہاتھ کا دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

            دروازے میں کھڑی اس کی بیٹی کہتی ہے۔۔۔ ’’ابو،  ایک شاپنر، ایک پنسل، ایک ربر۔۔۔ ‘‘

            بیٹی کے پیچھے کھڑی بیوی۔۔۔  ’’جلدی آ جانا‘‘

            موٹر سائیکل مرکزی شاہراہ پر اڑتی چلی جا رہی ہے، بھورے پہاڑ رات کی گود میں چھپ گئے ہیں ، ٹھنڈی ہوا اس کی گالوں پر چٹکیاں لیتی ہے وہ مڑنے کے لیے سپیڈ کم کرتا ہے، مگر بڑھا دیتا ہے۔

            شہر اندھیرے کے تالاب میں ڈوبے کنکر کی طرح لہر کی صورت اس کے ذہن میں پھیلتا سمٹتا ہے۔ سردی اس کے انگ انگ میں انگڑائیاں لیتی ہے۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            کھوئی آنکھوں کے سامنے پھیلی سڑک، واپس مڑنے کا ارادہ، موٹر سائیکل بھاگتی چلی جاتی ہے۔ اوپر بادل ایک دوسرے کو بوسہ دیتے ہیں۔ بارش کی پھوار اس کے چہرے کو بھگو دیتی ہے۔ آس پاس کا سارا منظر اندھیرے کی بُکل میں۔۔۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            ’’ابو ایک شاپنر، ایک پنسل، ایک ربر‘‘

            ’’جلدی آ جانا‘‘

            دھندلائے چہرے، دھندلائی آوازیں ‘

            سڑک کی ویرانی اس کے ساتھ ساتھ سمٹ رہی ہے، شہر دور۔۔۔  بہت دور تالاب میں ڈوبے کنکر کی طرح۔۔۔

            موٹر سائیکل جھٹکے لیتا ہے، غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ ریزرو کو آن کر دیتا ہے۔

            سامنے گیارہویں میل کا پتھر۔۔۔

            گھر ابھی تک اس کی بانہوں کے دائرے میں۔۔۔ مڑنے کی خواہش پھر اس کی آنکھوں میں چمکتی ہے، مگر موٹر سائیکل رکے بغیر پھر رفتار پکڑ لیتا ہے،

            بارھواں میل۔۔۔

            تیرھواں۔۔۔

            چودھواں۔۔۔

            بارش کے موٹے موٹے قطرے۔۔۔  سردی ماہر شکاری کی طرح اس پر جال پھینکتی ہے پانی کوٹ، سویٹر اور قمیص سے رستا ہوا اس کے بدن پر ٹھنڈی انگلیاں پھیرتا ہے۔

            جھرجھری۔۔۔

            پندرھواں میل۔۔۔  سولھواں ، پھر سترھواں ، اٹھارواں ،

            سر جھٹک کر، جھرجھری لے کر، خود کو سنبھالنے کوشش

            ریزرو کی گنجایش اب ایک دو میل اور۔۔۔

            ایک دو میل،

            مایوسی کی ننھی چڑیا اس کے کندھے پر پھدکتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

            اب چڑھائی شروع ہو چکی ہے۔ مشین کی طرح اس کا پاؤں گیئر بدلتا ہے۔

            گھر دور۔۔۔  ایک موہوم نقطہ کی طرح،

            ’’ابو، میرے لیے ایک شاپنر،ایک۔۔۔ ایک‘‘

            ’’جلدی گھر آ جانا۔۔۔  جلدی، جلدی۔۔۔ جلدی‘‘

            شفاف صاف آسمان پر نیلی چڑیا اڑ رہی ہے، دفعتاً بلندیوں سے شکرا۔۔۔  چونچ نکالتا ہے، پنجے پھیلا کر جھپٹتا ہے۔۔۔

            بارش اس کے بدن پر دریاؤں کی طرح بہہ رہی ہے۔۔۔  سردی ریڑھ کی ہڈی پر لمبی نکیلی چونچ مارتی ہے۔۔۔  مارتی چلی جاتی ہے،

            دوسرا گیئر،  موٹر سائیکل اب پہاڑ پر جانے والی سڑک پر دوڑے جا رہی ہے۔

            شہر کی روشنیاں۔۔۔  دور، جھلملاتی۔۔۔  تیرتی، تیرتی۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            گھر۔۔۔  سونے کا کمرہ،  ہیٹر کے آگے دری پر اس کی بیٹی، بیوی، درمیان میں چلغوزوں کی ٹرے۔۔۔  بیٹی ایک چلغوزہ چھیل کر اس کے منہ میں ڈالتی ہے اور کُلے میں جھول جاتی ہے۔۔۔  ’’ابو جی‘‘

            بیوی اس کے کندھے سے ٹیک لگائے چلغوزے چھیل رہی ہے،

            ہیٹر کی تمازت۔۔۔  لمس، گرم لمس، وجودوں کا، سانسوں کا۔

            بارش تیز ہو گئی ہے۔

            سردی ہاتوں میں گینتی لیے اس کے جسم پر اس کی قبر کھود رہی ہے۔

            اندھیرا گپ

            ’’میں کہاں۔۔۔ ؟؟‘‘

            بارش کا پانی آنکھوں میں اتر رہا ہے،

            منجمد ہاتھ۔۔۔

            دفتر میں ہیٹر کے سامنے خوش گپیوں کی سرسراہٹیں ، گرم چائے کا لمس،

            موٹر سائیکل کی آواز اور رفتار میں کپکپاہٹ۔۔۔  ریزرو بھی ختم ہو رہا ہے۔

            اوپر اندھیرا اور اندھیرے سے برستا منوں پانی۔۔۔

            ’’ابو جی میرے لیے۔۔۔ ‘‘

            ’’جلدی۔۔۔ ‘‘

            گھوڑا باگ تڑوانے کی کوشش میں دائیں بائیں سر مارتا ہے، سموں سے زمین کریدتا ہے۔۔۔

             اس کے وجود کی ڈائری سے لکھے ہوئے، کٹے ہوئے بے شمار ورق پھڑپھڑا کر نکلتے ہیں اور اڑتے اڑے، پرزہ پرزہ ہو جاتے ہیں۔

            ایکسی لیٹر پر اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں ،

            واپسی، ایک خواہش جس کے پر ٹوٹے ہوئے ہیں ،

            موٹر سائیکل جھٹکے لیتا ہے۔۔۔  ریزرو بھی ختم ہو رہا ہے۔

            وہ بے بسی سے ادھر اُدھر دیکھتا ہے۔۔۔  سڑک کے دونوں طرف گھنا جنگل،

            ’’ابو جی۔۔۔  ‘‘

            موٹر سائیکل ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی ہیڈ لائٹ کی روشنی بھی۔۔۔

            گپ اندھیرا،

            سردی نکیلی چونچوں سے اس کا سارا جسم ادھیڑ رہی ہے۔ موٹر سائیکل سے اترنے کی کوشش میں لڑکھڑا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل لڑھک کر سڑک کے درمیان جا گرتی ہے۔ وہ اٹھتا ہے، سنبھلتا ہے، گر پڑتا ہے۔۔۔  درد کدال ہاتھ میں لیے اس کی قبر کھود رہی ہے۔۔۔  سردی بھوکے گدھ کی طرح اسے نوچ نوچ رہی ہے۔۔۔

            اندھیرا تیرتا اندھیرا۔۔۔

            شہر، روشنیاں ، گھر۔۔۔  دھندلائی شبیہیں ،

            آنسو اور بارش کا پانی،

            ’’ابو جی۔۔۔ ‘‘

            وہ بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔

            ’’ابو میرے لیے۔۔۔ ‘‘

            ’’جلدی آ۔۔۔  جلدی،۔۔۔ ‘‘

            مسکراتے چہرے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہے ہیں ،

            آنکھوں کو کھلا رکھنے کی ناکام کوشش،

اندھیرا، بارش اور سردی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس کے گرد ناچ رہے ہیں ،

            دور نیچے۔۔۔  شہر کے ایک گھر میں ہیٹر کے سامنے چلغوزے چھیلتے ماں بیٹی سے کہتی ہے۔۔۔  ’’اب سو جاؤ میری جان‘‘

            بیٹی جواب دیتی ہے۔۔۔  ’’ابو آئیں گے تو سوؤں گی۔۔۔  شاپنر، پنسل اور ربر۔۔۔  لائیں گے میرے لیے‘‘

            دور پرے۔۔۔  ویران سڑک پر گرا ہوا موٹر سائیکل،  فاصلہ پر بارش میں بھیگتا، سردی کے پنجوں میں پھڑپھڑاتا ایک شخص۔۔۔  بند آنکھوں میں خواب،  خوابوں میں آوازیں ،

            دھندلے خواب،  دور ہوتی آوازیں ،

            ’’ابو جی۔۔۔  میرے لیے‘‘

            ’’جلدی آ جانا۔۔۔ آ۔۔۔ آ‘‘

            ’’ابو جی۔۔۔ ابو۔۔۔ اب‘‘

٭٭٭

 

بانجھ ریت اور شام

            آسمان کا طشت اندھیرے سے لبالب بھرا ہوا ہے۔

            اور الف ننگی رات ہاتھوں میں خوف کے چابک لیے گلیوں اور سڑکوں پر ناچ رہی ہے،

            خار دار باڑوں اور بے بسی کے جبڑوں میں دبا ہوا شہر،

            غراتے کتے تھوتھنیاں اٹھا کر ہوا میں سونگھتے ہیں ،

            غراتے ہیں ،

            ہوا اور رات الف ننگی ہو کر،

            ہاتھوں میں دہشت اور خوف کی چابکیں لیے سڑکوں ، گلیو ں میں دوڑتی ہیں ،

            یہ خوف کی رات ہے،

            مجسم رات،

            صبح سے شام اور شام سے صبح تک رات ہی رات

            اس رات، اندھیرے کی پھوار میں بھیگتا وہ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھکتا ہے، تاریکی میں چھپے ڈراؤ نے خواب، پیچھے سے دبے پاؤں آتے اور حملہ کرنے والے کی چاپ، ٹھنڈک اس کی گالوں پر نرم نرم انگلیاں پھیرتی ہے، ہوا اس کی پسلیوں میں ٹھوکا دیتی ہے، اسے اپنے اندر کسی چیز کے پھیلنے، سکڑنے کا احساس ہوتا ہے، لڑکھڑاتے منظر آنکھوں کی انگلیوں سے پھسل جاتے ہیں۔

            دروازہ کھولتے اس کی بیوی پُر اسرار نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہے،

            چپ دریا میں سانس کی لہریں ،

            وہ کہتی۔۔۔  ’’میں نے سنا ہے۔۔۔ ‘‘

            ’’وہاں ‘‘وہ بات کاٹتا ہے ’’کوئی ہے ضرور جو دبے پاؤں آتا ہے اور پیچھے سے اچانک وار کر دیتا ہے‘‘۔

            ’’تم نے دیکھا اسے‘‘ بیوی اس کی آنکھوں پر دستک دیتی ہے۔

            ’’میں۔۔۔  میں کیسے دیکھ سکتا ہوں ، تمہیں کیسے خیال آیا؟‘‘

            ’’ویسے ہی۔۔۔  ویسے ہی‘‘

            کچھ دیر بعد پھر وہی سوال۔۔۔  وہی بات۔۔۔

            ’’سنا ہے وہ دبے پاؤں آتا ہے اور اچانک پیچھے سے وار کر دیتا ہے‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘

            ’’وہ ایک اور شہر اتنا بڑا، آخر کوئی اسے پکڑتا کیوں نہیں ، کچھ کہتا کیوں نہیں ؟‘‘

            ’’کون کہے، ہر کوئی دوسرے سے اس کی توقع کرتا ہے‘‘۔

            بے معنی گفتگو، پھوکے لفظوں کی چھینٹیں ،

            گہری خاموشی سہمے ہوئے لوگوں کے درمیان سرسراتی ہے،

            سوال آنکھیں ملتا سر اٹھاتا ہے،

            ’’ہے کون جو دبے پاؤں پیچھے سے آتا ہے اور اچانک وار کر جاتا ہے‘‘۔

            بڑبڑاہٹ۔۔۔

            ’’تم نے دیکھا اسے‘‘ ساتھ والی میز سے آواز آتی ہے۔

            ’’میں نے۔۔۔  نہیں تو، تم نے۔۔۔ ‘‘

            ’’میں نے بھی نہیں ‘‘۔

            ٹی ہاؤس کی میز پر لفظ بکھرے ہوئے ہیں ، وہ انھیں جوڑتا ہے، جھکے ہوئے سر اور جھُک جاتے ہیں ،

’’تو کیا یہ مقدر ہے کہ وہ اچانک وار کرے اور ہم۔۔۔  ایک ایک کر کے، ایک ایک کر کے‘‘۔

            وہ جانے والوں کے نام گنتا ہے، ہندسے ختم ہو جاتے ہیں ،

            اندھیرا آسمان کے طشت میں بوند بوند جمع ہو رہا ہے، یہاں تک کہ آسمان کا طشت لبالب بھر جاتا ہے، تاریکی کی پھوار میں بھیگتا وہ سر سے پاؤں تک اندھیرے میں لتھڑ جاتا ہے،

            ڈراؤنے خواب کھلکھلا کر ہنستے ہیں ،

            پیچھے آنے والا ناچتے شعلے کی طرح پھڑپھڑاتا، گلی کی نکڑ سے نمودار ہوتا ہے۔ اسے اپنے اندر کسی شے کے پھیلنے، سمٹنے اور پھر پھیلنے کا احساس ہوتا ہے،

            لڑکھڑاتے ہوئے بہت سے منظر۔۔۔  بہت سے منظر،

            بہت سے منظر،

            وہ سر اٹھاتا ہے تو ناچتا شعلہ گزر چکا ہے،

            آسمان کے طشت کے کناروں سے چاند منہ نکال کر اسے آنکھ مارتا ہے

            بیوی دروازہ کھولتے ہوئے کوئی سوال نہیں کرتی،

            بیٹی کو گود میں اٹھاتا ہے تو ٹافیاں نہیں مانگتی،

            کھانے میں سے کچے گھی کی ہمک نہیں آتی،

            دیواروں سے سیلن کی بو بھی نہیں ،

            بستر کی سختی چبھتی نہیں ،

            کوئی سوال نہیں۔۔۔  کوئی جواب نہیں ،

            صبح دفتر جاتے ہوئے مسکراہٹیں ، ٹاٹا کی چہکار،

            دفتر میں میز پر کوئیPendingفائل نہیں ،

            مسکراہٹیں ہی مُسکراہٹیں ،

            واپسی پر ٹی ہاؤس میں میز صاف ستھری،  کوئی بکھرا ہوا لفظ نہیں ،

            گھر آتے ہوئے جب وہ گلی کی نکڑ پر پہنچتا ہے تو دائیں ، بائیں پھر مڑ کر دیکھتا ہے اور کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے،

            بیوی مسکراہٹ کے چراغ جلائے دروازہ کھولتی ہے،

            بیٹی دوڑ کر ٹانگوں سے لپٹ جاتی ہے،

            اور سرمئی دھند کے دوسری طرف اس کی بیوی تعزیت کے لیے آنے والوں کو بتا رہی ہے ہ پرسوں رات گھر آتے ہوئے جب وہ گلی کی نکڑ پر پہچا تو اچانک اس پر دل کا دورہ پڑا، اور۔۔۔  اور۔۔۔  اور پھر وہ پھُسک پھُسک کر رونے لگتی ہے!

٭٭٭

 

طناب ٹوٹا خیمہ

            یہ شہر بہت پراسرار ہے یہاں لوگ جاگ رہے ہیں پھر بھی سور ہے، سو رہے ہیں پھر بھی جاگ رہے ہیں۔

            سڑک کے بیچو بیچ اس منڈیر پر جو اس چوڑی سڑک کو دائیں بائیں تقسیم کرتی ہے، پنجوں کے بل توازن درست کرتی۔ ایک عورت، ایک مرد، ان کے درمیان ایک گول مٹول بچہ۔۔۔  سڑک پار کرنے کی کوشش میں ایک قدم اٹھاتے ہیں لیکن سنسناتی گاڑیوں کی سیٹیاں انھیں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔

            چوک میں ٹریفک کا سگنل سرخ ہوتا ہے۔

            دونوں بچے کو بازوؤں سے پکڑ لیتے ہیں اور ڈولی ڈنڈا۔۔۔  ڈولی ڈنڈا کرتے سڑک کی پھیلی بانہوں میں اتر جاتے ہیں۔

            بچہ بازوؤں میں جھولتے ہوئے ہنستا ہے۔۔۔  غوں غوں غوں۔

            ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر پھولی سانسوں کو ٹھیک کرتے ہوئے وہ دور تک پھیلے خلا، میں نظر دوڑاتا ہے۔ دائیں ہاتھ ٹیلے کے ساتھ جڑے پانچ چھ کیکر کے درخت ہیں۔ اوپر سے یہ کئی دکھائی دیتے ہیں لیکن نیچے جا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ زمین دور دور تک کٹی پھٹی ہے۔ اونچے نیچے ٹکڑے،  گندم کی سبز بالیاں جن میں پھیلاہٹ جھلملا رہی ہے۔ بائیں طرف درختوں کا ایک خاموش جھنڈ کھیتوں کے درمیان خاموش سوئی ہوئی پگڈنڈی۔

            تینوں سڑک کے دوسری طرف پہنچ گئے ہیں۔ بچے کو فٹ پاتھ پر کھڑا کر کے مرد گزرتی ٹیکسیوں کو ہاتھ دے رہا ہے۔

            ایک ٹیکسی ان کے قریب رک جاتی ہے۔

            وہ بچے کو بازوؤں میں جھلاتے ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔

            بچہ اُچک اُچک کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

            ٹیکسی کی رفتار تیز ہوتی ہے پھر کم ہونے لگتی ہے۔

            برابر کی گلی میں سے بھینسوں کا ایک قافلہ نکلتا ہے اور سڑک عبور کرنے لگتا ہے۔

            مرد ہنستا ہے۔

            عورت اس کی طرف دیکھتی ہے تو کہتا ہے۔ ’’اس سڑک پر چھٹی اور بیسویں صدی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ‘‘۔

            ٹیکسی بھینسوں کے درمیان سے راستہ بنانے کی کوشش میں ایک اور گاڑی سے رگڑ کھاتی ہے۔

            دونوں ڈرائیور نیچے اتر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے زور زور سے بولتے ہیں۔

            پیچھے دور تک ٹریفک رکی ہوئی ہے۔

            بھینسوں والا بڑے مڑے سے۔۔۔  ہو ہو کرتا چلا جا رہا ہے۔

            ٹیلے کے چاروں طرف ایک پراسرار خاموشی ہے۔

            اکا دُکا درختوں کے ساتھ چلتی پگڈنڈی ڈھلوان کی طرف مڑنے لگتی ہے اس سے آگے گہری کھائی ہے۔ اتنے سالوں میں بھی اس پر پل نہیں بن سکا۔ کھائی کے دوسری طرف جرنیلی سڑک ہے جس پر سارا دن ٹرک، بسیں اور کاریں دوڑتی رہتی ہیں۔ کھائی سے اس طرف خاموش کھیت ہیں ، جہاں رات پستی ہوئی آئی ہے اور پاؤں پسار کر لیٹ جاتی ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی سورج گھر کے آنگنوں میں جھاتیاں مارنے لگتا ہے۔

            کُکو۔۔۔  کُکو کی آواز وقفوں وقفوں سے چاروں طرف گونجتی ہے۔ ایک ہی لے۔۔۔  ایک ہی سُر میں۔

            ٹیکسی ایک چھوٹی سڑک پر دوسری گاڑیوں کے ہجوم میں گھری قدم قدم چل رہی ہے بچہ اُچھل اُچھل کر کھڑکی کی طرف لپکتا ہے۔

            ’’دیکھو، دیکھو شیشے سے سر نہ ٹکرا جائے‘‘۔ مرد عورت کو خبردار کرتا ہے،

            اونچے ٹیلے پر بیٹھا وہ سامنے والے کھیت میں کام کرتی ایک عورت اور اس کے بچے کو دیکھ رہا ہے عورت چھولئے کے پکے پودے توڑ رہی ہے اور بچہ انھیں گڈیوں میں باندھ رہا ہے۔

            سورج کی کرنوں میں جوانی کا گرم خون دوڑنے لگا ہے، وہ جسموں میں چٹکیاں لینے لگی ہیں۔

            پسینے میں ڈوبی ہوئی عورت اور بچہ۔

            چھولئے،  مسور اور گیہوں کی مسحورکن خوشبو

            اور مسلسل۔۔۔ کُکو۔۔۔ کُکو

            ٹیکسی آگے پیچھے کے رش میں اب تقریباً رُک گئی ہے۔

            بچہ شیشے میں سے جھانکتے ہوئے مسلسل، غوں غوں۔۔۔  غوں غوں کر رہا ہے۔

            عورت کہتی ہے۔۔۔  ’’جان دیکھو منا باتیں کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔

            بچہ یہ سن کر۔۔۔ ’’ اُکاں۔۔۔ کناں۔۔۔ کاں ‘‘ کرتا ہے۔

            ’’دیکھا۔۔۔  دیکھا۔۔۔۔۔۔  عورت خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔

            مرد مسکراتا ہے۔ ایک گہری پر اسرار مسکراہٹ

            ’’بس بولنے کا چاؤ ہی ہوتا ہے‘‘۔ وہ مسکراتا رہتا ہے۔ ’’ہم بول سکتے ہیں مگر کیا واقعی بول سکتے ہیں ؟‘‘

            بچہ اس بات سے بے نیاز، شیشوں میں سے جھانکتے ہوئے۔۔۔  غوں ،  غاں ، آکناں۔۔۔  کاں کا‘‘ کرتا رہتا ہے۔

            آگے ایک ٹانگے والا بد کے ہوئے گھوڑے کو رام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

            پیچھے مسلسل پُوں پُوں میں پروئی ہوئی لمبی گاڑیوں کی قطار۔

            ایک موٹر سائیکل ٹیکسی کے برابر آ کر رکتی ہے موٹر سائیکل پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا ہے لڑکے نے جین کی جیکٹ اور پتلون پہنی ہوتی ہے۔ لڑکی نے پتلون نما پائجامہ،

            سٹیئرنگوں کے پیچھے بیٹھے سارے مرد اسے دیکھتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے اور مزے سے ہارن بجاتے رہتے ہیں۔

            سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ پر دو عورتیں سفید ٹوپی دار برقعہ پہنے سڑک پار کرنے کی جستجو میں کبھی ادھر کبھی ادھر جاتی ہیں۔ ان کے لمبے خیمہ نما برقعے ان کے لیے مصیبت بنے ہوتے ہیں اور بار بار ان کے پاؤں میں الجھتے ہیں۔

            ٹیلہ پر بیٹھا وہ خاموش چپ نظروں سے چاروں طرف دیکھتا ہے، عورت اور بچے نے چھولئے کی گڈیاں سروں پر رکھ لی ہیں اور وہ مزے مزے پگڈنڈی پر چلے جا رہے ہیں۔

            گھوڑا تانگے والے کی مسلسل کوششوں کے باوجود تہیں مان رہا۔ سٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھے سارے پوں پوں کر رہے ہیں۔ برابر کی سڑک میں ایک بیل گاڑی نکل کر ٹیکسی کے دوسری طرف آن کھڑی ہوتی ہے۔

            بچہ شیشوں میں سے جھانکتے۔۔۔  ’’اُکاں۔۔۔ کاں کاں ‘‘ کر رہا ہے۔

            بدکا ہوا گھوڑا

            اس کے پیچھے گاڑیوں ، بیل گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی قطاریں رفتہ رفتہ ساکت ہوتی چلی جاتی ہیں۔

            ایک پُر اسرار شور

            شور ہی شور

            دفعتاً ٹیکسی ڈرائیور کو احساس ہوتا ہے کہ پچھلی سیٹ پر گہری خاموشی ہے۔

            وہ تیزی سے مڑتا ہے۔

            پچھلی سیٹ خالی ہے۔

            وہ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھتا ہے اور اس کی نظر دکانوں پر لگے سائن بورڈوں پر جا رکتی ہے

            عورت چائے کے ایک اشتہار پر چپکی ہوئی ہے۔

            مرد سگریٹ کے ایک اشتہار پر کھڑا ہے۔

            اور بچہ۔۔۔  دودھ کے ایک اشتہار پر گلاس ہاتھ میں لیے کچھ کہہ رہا ہے۔

            یہ شہر بہت پر اسرار ہے یہاں لوگ جاگ رہے ہیں ، پھر بھی سو رہے ہیں ، سو رہے ہیں پھر بھی جاگ رہے ہیں۔

٭٭٭

 

پیلا شہر سراب

            بڑی غیر متوقع اور عجیب رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے بھری دوپہر میں رات نے گھات لگا کر حملہ کیا ہے اور آناً فاناً سارے شہر کو اندھیرے کی بُکل میں لپیٹ لیا ہے۔

            آسمان پر گھنے سیاہ بادلوں نے شب خون مارا ہے۔۔۔ !

            بادلوں کے آگے آگے دوڑتے ستارے جان بچانے کی کوشش میں دور گہرائیوں میں ڈوب ڈوب گئے ہیں۔

            بڑی سڑک پر دکانیں بند ہو رہی تھیں۔

            شٹروں کے گرنے، شوکیس کے کھینچنے کی اکا دکا آوازوں کے درمیان،  ہوائی سرسراہٹ کا مسلسل احساس اور ایک عجیب بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبا تیز تیز چلتا وہ، تعاقب کرتی آہٹ کا ایک ہی روم۔

            وہ شخص اس کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔

            ہوا میں سرسراہٹ،  بوند بوند گرتی ہے یقینی۔

            اس کے قدموں میں تیزی آ جاتی ہے۔

            تعاقب کرتی آہٹ کا روم وہی،

            وہ دونوں اس کی رفتار کا برابر ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔ !

            ’’تعاقب‘‘ خوف پہلو سے بل کھاتا نکل جاتا ہے۔

            وہ تیز ہو جاتا اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے۔

            وہ بھی تیز ہو جاتے ہیں۔

            سامنے چوک۔ سمت کا انتخاب۔

            پیدل کراسنگ کی بتی سرخ ہے لیکن وہ ٹریفک کی پروا کیے بغیر دوڑ پڑتا ہے اور گاڑیوں سے بچتا بچاتا ہانپتا کانپتا دوسری طرف نکل جاتا ہے۔

            پیچھے آتے وہ دونوں سڑک کے درمیان پہنچ چکے ہیں۔

            ’’تو تعاقب‘‘۔۔۔  وہ دوڑ پڑتا ہے۔۔۔  دوڑتا رہتا ہے۔

            دکانیں کب کی بند ہو چکی ہیں ، لوگ گھروں کو جا چکے ہیں اور وہ اس تنہا اکیلی سڑک پر،  ہانپتی ہوا کے ساتھ قدم قدم چل رہا ہے۔

            وہ میرا پیچھا کیوں کر رہے ہیں ؟

            ’’کیوں ؟‘‘

            فضا میں شعلہ لپکتا ہے، ہوا بجلی کے تاروں کو جھولے کی رسی کی طرح گھما رہی ہے۔

            تار سے تار ٹکراتی ہے تو شعلہ لپکتا ہے اور پھر گھور اندھیرا۔۔۔

            اگر تار ٹوٹ کر مجھ پر آ گریں ؟

            وہ جست لگا کر سڑک کے بیچو بیچ آ جاتا ہے۔

            یہ انتہائی تاریک رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے اندھیرے نے روشنی کی ایک ایک کرن کو چُن چُن کر نگل لیا۔

            وہ سڑک کے بیچو بیچ چل رہا ہے۔

            اُڑتی مٹی سے آنکھوں کو بچاتے، اسے خیال آتا ہے اگر اچانک کوئی تیز رفتار گاڑی آ جائے تو۔

            تو۔۔۔

            وہ سمٹ کر دوسری طرف کی فٹ پاتھ پر آ جاتا ہے۔

            ہوا تیز ہاتھوں سے سائن بورڈوں کو ڈھول کی طرح بجا رہی ہے۔

            اس کے سر پر سائن بورڈوں کی قطار ہے۔

            ہوا پھنکارتی ہے، خوف کا کتا اس کے گرد چکر لگاتا،  بھوں بھوں کر رہا ہے۔

            اکر کوئی سائن بورڈ مجھ پر آن گرے تو۔۔۔

            تو۔۔۔

            وہ اچھل کر سڑک کے بیچو بیچ آ جا تا ہے۔

            یہ بڑی ڈراؤنی سرد رات ہے۔

            کھمبوں پر لگے ہوئے بلب تھک کر پیلے پڑ گئے ہیں اور ٹمٹماتے ہوئے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔

            وہ رک جاتا ہے۔ جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے اور سڑک پر تقریباً اوندھا ہو کر سگریٹ سلگانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ہوا ہاتھوں میں تیر کمان لیے نشانے لگا رہی ہے۔

            وہ سڑک کے درمیان بیٹھ جاتا ہے اور گھٹنوں میں سردے کر ماچس جلاتا ہے۔ دفعتاً اسے خیال آتا ہے اگر ایسے میں کوئی گاڑی اس کے اوپر سے گزر گئی تو۔۔۔

            تو۔۔۔

            وہ اتنی تیزی سے اچھلتا ہے کہ سگریٹ منہ سے نکل کر دور جا گرتی ہے۔

            یہ رات ٹوٹ ٹوٹ کر اندھیرے میں ڈوبی ہوتی ہے۔

            گہرا گاڑا اندھیرا تارکول کی طرح چیزوں کے منہ پر بہہ رہا ہے۔

            ایک طرف کی فٹ پاتھ پر بجلی کی تاریں اور تیز طوفانی ہوا۔

            دوسری طرف کی فٹ پاتھ پر سائن بورڈ اور ہانپتی کانپتی پاگل ہوا۔

            سڑک کے بیچو بیچ شاں شاں کرتی تیز گاڑیاں۔

            ’’گھر۔۔۔ ‘‘

            کہیں دور تاریکی میں ڈوبا ہوا گھر عکس کی طرح ہلتا جھلملاتا ہے۔

            تیز ہوا، ڈراؤنی شکلیں بناتے بادل۔

            نہ ختم ہونے والی ہیبت ناک رات اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔

             چیزیں اندھیرا

            آواز اندھیرا

            پہچان اندھیرا

            رنگ اندھیرا۔۔۔  اندھیرا ہی اندھیرا

            وہ سڑک کے بیچو بیچ کھڑا کبھی مڑ کر دیکھتا ہے کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا۔ کبھی ایک طرف کی  فٹ پاتھ پر نظر ڈالتا ہے جس کے اوپر بجلی کی تاریں ہوا کے زور سے پھڑپھڑا رہی ہیں۔ ان کے ٹکرانے سے بجلی کا شعلہ لحظہ بھر کے لیے اندھیرے میں چمکتا ہے۔ پھر تیز رگڑ اور موت کی سیٹی کا مسلسل شور دوسری طرح کی فٹ پاتھ پر بڑے بڑے سائن بورڈ ہل ہل کر اپنی اپنی میخوں میں ڈھیلے ہو کر جھول رہے ہیں۔

            سر پر گہرے گھنے اُمڈتے بادل اور دل ہلانے والی گڑگڑاہٹ۔

            سڑک کے بیچو بیچ تیز گاڑیوں کے نیچے آ کر کچلے جانے کا خوف آگے گھورا اندھیرا جس میں ڈوبے ہوئے گھر کا تصور۔۔۔  ایک خواب محض ایک خواب۔

            اس خواب کے پیچھے قدم قدم چلتا وہ کبھی رُک جاتا ہے چل پڑتا ہے پھر رُک جاتا ہے۔ آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھتا ہے پھر چل پڑتا ہے۔

            بادل پورا زور لگا کر چیختے ہیں اور بارش کا ایک بھرپور تھپڑ اس کے منہ پر آ کر لگتا ہے کھمبے کے اوپر زور دار دھماکہ ہوتا ہے۔ شعلہ چمکتا ہے تو سڑک دور دور تک روشن ہو جاتی ہے لیکن دوسرے لمحے بتاشے کی طرح اندھیرے میں بیٹھ جاتی ہے۔ ایک سائن بورڈ چرچراتا ہے اور دھماکے سے نیچے آن گرتا ہے۔

            وہ کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی درمیان ہونے کی کوشش میں سر سے پاؤں تک بھیگ جاتا ہے۔

            عمریں بیت جاتی ہیں۔

            برف سر اور برف بھنوؤں کے ساتھ گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسے لگ رہا ہے جیسے ٹھنڈک اس کے بدن پر ننگی ننگی انگلیاں پھیر رہی ہے۔

            دروازہ کھُلتا ہے اس کی بیوی لپک کر کہتی ہے۔ ’’ شکر ہے آپ‘‘۔

            پھر ذرا گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔۔۔  ’’کون ہیں آپ؟‘‘۔

            ’’میں۔۔۔  میں ‘‘ وہ تتلا کر رہ جاتا ہے۔

            اندر سے اس کی بیٹی کی آواز آتی ہے۔۔۔ ’’امی کون ہے؟‘‘

            پتہ نہیں کون ہے، اس کی بیوی خوفزدہ سی آواز میں کہتی ہے اور جلدی سے دروازہ بند کر لیتی ہے۔

            یہ بڑی غیر متوقع اور عجیب رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے بھری دوپہر میں رات نے گھات لگا کر حملہ کیا ہے اور آناً فاناً سارے شہر کو اندھیرے کی بکل میں لپیٹ لیا ہے۔

            یہ بڑی غیر متوقع اور عجیب۔۔۔ !

٭٭٭

 

دھند ریت

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سرک پر مڑی تو اسے برسوں پہلے کی وہ رات یاد آ گئی۔ جب وہ ائر پورٹ آیا تھا۔ باہر جانے کے تجسس کے ساتھ ساتھ شہر چھوڑنے کا دکھ بھی اس کے دل میں چٹکیاں لے رہا تھا۔ وہ شہر سے بہت پیار کرتا تھا لیکن اس کی خالی جیبیں اور ضرورتوں کے بھیانک عفریت اسے دھکیل کر ائر پورٹ لے آئے،  جہاز میں بیٹھنے تک وہ مڑ مڑ کر دور دھندلکے میں گم شہر کو دیکھتا رہا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے شہر کی سیمیں کلائی اس کے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی ہے وہ سیڑھیوں کے درمیان رک گیا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگا۔ شہر کی سرمئی کلائی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ شہر کی کچی، سوندھی خوشبو دور دور ہوتی گئی۔

            اس کا دل بیٹھ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور امڈتے آنسوؤں کو اندر ہی اندر چوسنے لگا۔ ٹیکسی لمبی سڑک پر بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ راستے کی ملی جلی روشنیاں آنکھیں مارتیں اسے گدگدا رہی تھیں۔

            وہ برسوں بعد واپس آیا تھا۔

            یہ طویل برس اس نے مشقتوں کے پہاڑ چڑھتے گزارے تھے۔ نئے شہر کی رنگ برنگی روشنیوں میں اسے کئی بار اپنا شہر یاد آیا۔ پھر دھیرے دھیرے وہ آس پاس کے شور کا عادی ہوتا گیا۔

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سڑک پر تیزی سے دوڑی جا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے بھاگتے کھمبوں کی روشنی دھندلاہٹوں میں تیر رہی تھی۔ ان طویل برسوں میں اپنے شہر سے اس کا رابطہ دوستوں عزیزوں کے خطوں یا اخباروں کے تبصروں اور خبروں تک محدود رہا تھا۔

            ٹیکسی کے شیشوں سے سڑک کی ڈھلوانوں پر اگے گھنے درختوں کو دیکھ کر اسے مٹیالی دیواروں والا ہوٹل یاد آگیا۔

            کھرچتے اور تھکے قدموں گھر لوٹ جاتے۔

            ’’وہ مٹیالے نام والا ہوٹل تو وہیں ہے نا‘‘

            ڈرائیور نے مڑ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’کون سا ہوٹل؟‘‘

            ’’وہ‘‘۔۔۔  وہ چپ ہو گیا۔۔۔  ’’کچھ نہیں ‘‘

            ڈرائیور نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

            ٹیکسی پل سے گزر ہی تھی۔

            وہ اس ٹوٹے پل سے کئی بار گزرا تھا۔ اس رات بھی جب وہ شہر چھوڑ کر جا رہا تھا۔ ٹیکسی پل کی ناہموار سطح سے اچھل اچھل پڑی تھی۔ وہ ڈر سا گیا تھا کہ کہیں ٹیکسی اچھل کر ندی میں نہ جا گرے۔

            وہ سنبھل گیا۔

            ٹیکسی خاموشی سے گزر گئی۔

            ’’تو پل بن گیا ہے‘‘۔

            ’’کیا‘‘

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ‘‘

            ڈرائیور نے شانے جھٹکے اور چپ چاپ ون سکرین میں دیکھنے لگا،

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سڑک پر دوڑے جا رہی تھی۔

            ’’سڑک اتنی لمبی کیوں ہو گئی ہے؟ ‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا، اور مشکوک آنکھوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھا۔

            ’’یہ مجھے کہیں اور تو نہیں لے جا رہا‘‘

            راستہ سنسان اور طویل

            شہر کتنی دور ہے؟

            دھندلاتی روشنیاں گہری تاریکی میں تبدیل ہوتی جا رہی تھیں اور سڑک کے آس پاس کا منظر پہچان کھو رہا تھا۔

            ٹیکسی اندھیرے میں رک گئی۔

            ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے جلدی سے پوچھا۔

            ’’شہر آگیا ‘‘

            ’’شہر۔۔۔  کہاں ہے شہر‘‘

            ڈرائیور نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔  دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’یہ شہر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

            اس نے شیشوں سے باہر جھانکا۔

            دھند۔۔۔  دھند، دھند

            ڈرائیور دروازہ کھول کر باہر آگیا۔

            اس نے سوچا اترنے سے انکار کر دے۔ ڈرائیور شاید اس ویرانے میں اسے لوٹنے کا ارادہ کر رہا ہے لیکن پھر سوچا اندر بیٹھنے سے بھی کیا۔

            وہ بھی باہر آ گیا۔

            ’’کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’یہ اور کہاں ؟‘‘

            ’’کہاں ‘‘

            ڈرائیور ایک دو لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’تم پاگل تو نہیں ‘‘

            ’’پاگل۔۔۔ پاگل تو تم ہو‘‘

            ’’بابا میری جان چھوڑو۔۔۔  چودہ روپے بنے ہیں ‘’

            ’’لیکن شہر‘‘

            ’’کون سا شہر۔۔۔  یہ شہر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

            ’’ک۔۔۔ کہاں ؟‘‘

            ’’یہ بازار۔۔۔ دکانیں اور روشنیاں ، یہ کیا ہے؟‘‘

            ’’کون سا بازار۔۔۔  کہاں ہیں دکانیں ؟‘‘

            ’’اوہ خدا یا کس پاگل سے واسطہ پڑ گیا ہے؟‘‘ ڈرائیور ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے  بولا۔۔۔ ’’بھائی مجھے چودہ روپے دے دو میری جان چھوڑو‘‘

            ’’لیکن شہر‘‘

            ’’شہر، شہر۔۔۔  یہ شہر نہیں تو کیا میرا سر ہے؟‘‘

            ’’کہاں۔۔۔  ؟‘‘ وہ چیخ اٹھا۔۔۔  ’’مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے، کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’جہنم میں ‘‘ ڈرائیور غصہ سے بولا۔۔۔  ’’میرے چودہ روپے دو‘’

            ’’میں نہیں دوں گا، پہلے مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            ڈرائیور دو تین لمحے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا، پھر گھوم کر اسی کے سامنے آ گیا۔ اور غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔

            ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ غصہ سے بولا۔

            ’’دیکھ رہا ہوں تم اندھے تو نہیں ‘‘

            ’’اندھا میں۔۔۔  اندھے تم ہو‘‘ وہ دو قدم آگے بڑھ آیا۔

            ڈرائیور کی نظر میں ابھی تک اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کے آگے بڑھنے سے وہ ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہٹا تو اس کی نظریں اس کے پاؤں پر پڑیں۔

            وہ چونک پڑا۔

            دہ تین لمحے سکوت، پھر وہ بولا۔۔۔  ’’تم زمین پر تو کھڑے ہی نہیں ، تمہیں شہر کیسے دکھائی دے؟‘‘

            ’’کیا؟‘‘ اس نے بوکھلا کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھا۔۔۔ ‘‘ اگر میں زمین پر نہیں کھڑا تو کیا ہوا میں ہوں ؟‘‘

            ’’اور کیا‘‘

            ’’کیا بکواس کرتے ہو؟ مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے پکڑ لیا اور زمین کی طرف دباتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’ابھی تمہیں شہر نظر آتا ہے‘‘۔

            ’’یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔  نیچے گرا کر میرا بٹوہ نکالنا چاہتے ہو‘‘

            اگلے لمحے وہ ڈرائیور سے گتھم گتھا ہو گیا۔

(۲)

            جب وہ ایئرپورٹ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تو دوسری ٹیکسیاں سواریاں لے کر نکل رہی تھیں ؟ جہاز آئے دیر ہو چکی تھی۔

            بے دلی سے سگریٹ سلگا کر، وہ مرجھائی نظروں سے بڑے گیٹ کو دیکھنے لگا۔ بڑا گیٹ سنسانی کی سیٹیاں بجا رہا تھا۔

            اس کا جی چاہا، کبھی وہ بھی اس گیٹ سے نکلے، ہاتھوں میں چمڑے کے سوٹ کیس، چیزوں سے، کپڑوں سے،  ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس۔

            وہ رعب سے آواز دے۔۔۔  ’’ٹیکسی‘‘

            ’’ٹیکسی‘‘

            ’’جی صاحب‘‘

            گاڑی شہر جانے والی لمبی سڑک پر رواں ہوئی تو اس نے کن انکھیوں سے سواری کا جائزہ لیا، پشت سے ٹیک لگائے یہ شخص تیزی سے دوڑتے منظروں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا،

            اس نے سوچا، یہ لوگ ضرورتوں کی منہ زور چڑیلوں سے بھاگ کر شہر چھوڑ جاتے ہیں ، باہر جا کر محنت کی چکیوں میں پستے ہیں اور پھر جب واپس آتے ہیں تو ان کے بٹوے پھولے ہوئے ہوتے ہیں۔

            ’’بزدل‘‘

            ’’کیا‘‘

            ’’کچھ نہیں ‘‘ وہ سنبھل گیا۔

            ایک گہری چپ

            اس جہاز سے آنے والی سواریاں عموماً منہ مانگا کرایہ دیا کرتی ہیں ، اسی لیے وہ اس وقت ایئر پورٹ آ جاتا ہے اور دن بھر کی چخ چخ ایک ہی پھیرے میں دور ہو جاتی ہے،  لیکن آج معاملہ قدرے مشکوک محسوس ہو رہا ہے۔ ڈکی میں چمڑے کے دو سوٹ کیس،

            چیزوں سے،  کپڑوں سے، ڈالروں سے بھر ے ہوئے سوٹ کیس،

            ایک دن وہ بھی ان سوٹ کیسوں کے ساتھ آئے گا۔۔۔  ابھی تو وہ صرف ٹیکسی چلا رہا ہے،

            بی۔اے کرنے کے بعد بھی ٹیکسی

            دفتروں کی خاک چھان چھان کر،  کورا روکھا جواب سن سن کر آخر یہ ٹیکسی

            خواب، خواب۔۔۔  خواب

            سوٹ کیس۔۔۔  چیزوں سے،  کپڑوں سے، ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس،

            آج کام کچھ پھیکا ہے

            ’’کوئی بات نہیں ‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ ’’میں جھگڑا نہیں کروں گا‘‘۔

            ٹیکسی شہر کی حدود میں داخل ہو گئی۔

            اس نے کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیا۔۔۔  ’’یہ شخص ٹھیک نہیں ، پر میں کرائے کا جھگڑا کروں گا ہی نہیں ‘‘

            ٹیکسی شہر کے بیچو بیچ آ گئی۔

            ایک گہری اداس، نم آلود چُپ،

            اس نے فٹ پاتھ کے ساتھ ٹیکسی روک دی۔

            پھر بھی ایک اداس، غم ناک، بھیگی بھیگی ٹھنڈی چُپ،

            ’’شہر آ گیا‘’

            ’’شہر۔۔۔  کہاں ؟‘‘

            ’’کیا کہاں ؟‘‘

            ’’شہر‘‘

            ’’شہر‘‘۔۔۔  یہ شہر ہی تو ہے‘‘ وہ نیچے اترتے ہوئے بولا،

            پیچھے بیٹھا ہوا وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر وہ بھی نیچے اتر آیا۔۔۔  ’’کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’یہ اور کہا؟‘‘

            ’’کیا یہ شخص کرایہ نہ دینے کے لیے،  یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس نے جھک کر میٹر دیکھا، چودہ روپے بنے تھے،

            یہ بازار، دکانیں ، روشنیاں۔۔۔  اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا؟

            اسے یقین ہو گیا کہ اس شخص سے کرایہ بھی وصول نہیں ہو گا، آخری کوشش کے طور پر اس نے پھر کرائے کا مطالبہ کیا تو اس کی وہی رٹ۔۔۔  ’’مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            وہ گھوم کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا، اور غور سے اس کا جائزہ لینے لگا۔

            یہ کیا۔۔۔  یہ شخص تو زمین پر کھڑا ہی نہیں

            تو کیا شہر اسی لیے اسے نظر نہیں آ رہا،

            اسے تو آگ ہی لگ گئی۔۔۔  تم زمین پر تو کھڑے ہی نہیں ، تمہیں شہر کس طرح نظر آئے،

            ’’کیا۔۔۔  کیا‘‘ وہ بوکھلا گیا۔۔۔  ’’مین زمین پر نہیں تو کیا ہوا میں کھڑا ہوں ‘‘۔

            ’’ہاں۔۔۔  ہوا ہی میں کھڑے ہو‘‘ وہ لفظوں کو چبا چبا کر بولا۔۔۔ ‘‘ بالکل ہوا میں کھڑے ہو،

            دوسرے شخص نے ایک لمحہ تک سٹ پٹاہٹ کے بھنور میں غوطہ کھایا، پھر فوراً سنبھل کر غصہ سے بولا۔۔۔  بکواس کرتے ہو، مجھے لوٹنا چاہتے ہو‘‘۔

            ’’کیا۔۔۔  کیا‘‘

            اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

(۳)

            وہ اندر داخل ہوا تو اس کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی۔۔۔  ’’ابو میری ٹافیاں ‘‘

وہ جیب سے دو ٹافیاں نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیتا ہے۔

            ’’ابو۔۔۔ سچ‘‘

            ’’بیٹے بس‘‘

            اس کی بیٹی دونوں ٹافیاں ایک ساتھ منہ میں ڈال کر ننھے ہاتھ پھیلاتی ہے۔۔۔  ’’ابو۔۔۔ اور‘‘

            وہ بے بسی سے بیٹی کے خالی ہاتھوں کو دیکھتا ہے۔۔۔ ’’میں جب باہر جاؤں گانا تو اپنی بیٹی کے لیے ڈھیر ساری ولایتی ٹافیاں لاؤں گا۔۔۔  ہے نا‘‘

            پھر جیب سے دن بھر کی ریزگاری نکال کر بیوی کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے، دھیمے، سست لہجہ میں کہتا ہے۔۔۔  آج ایئر پورٹ سے خالی ہی آنا پڑا ہے‘‘۔

            بیوی پیسے گننے لگتی ہے، لیکن وہ اسی طرح کھڑا رہتا ہے‘‘۔

            ’’کیا بات ہے؟‘‘ بیوی سر اٹھا کر تشویش سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔

            وہ ہچکچاتا ہے، پھر رکتے رکتے کہتا ہے۔۔۔  میں زمین پر ہی کھڑا ہوں نا‘‘

            ’’کیا مطلب ‘‘ بیوی حیرت سے کہتی ہے۔

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ‘‘ وہ تیزی سے ساتھ والے کمرے میں چلا جاتا ہے!

٭٭٭

 

چپ فضا میں تیز خوشبو

ریکارڈنگ ہال کی تیز روشنی میں ساری چیزیں تیرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ، اس کا اپنا آپ وجود کی تنگنائے سے نکل کر اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سامنے والا کیمرہ مین ٹرالی کو آگے پیچھے کر کے زاویے درست کرتا ہے۔ دو نمبر کیمرہ نے اس کے ساتھ والے کو کور کرنا ہے، تین نمبر کیمرے نے لمبے شاٹ لینے ہیں اور ٹائٹل کو کور (Cover) کر کے منظر ایک نمبر کیمرے کو منتقل کر دینا ہے، پروڈیوسر باری باری تینوں کیمروں کے فوکس سے ان کی ترتیب ٹھیک کرنے کے لیے کرسیوں کو آگے پیچھے سرکاتا، میز کو ذرا ٹیڑھا کرتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’آپ سمجھ گئے نا، جب ایک نمبر کا کیمرہ مین انگلی سے دائرہ بنائے گا تو پروفیسر صاحب آپ گفتگو شروع کریں گے، بالکل نیچرل طریقہ سے، بغیر کسی تمہید کے، ٹائٹل کے لانگ شاٹ کے فوراً بعد دو نمبر کیمرہ آپ کا کلوز اپ لے گا، لیکن آپ نے براہِ راست کیمرہ کی طرف نہیں دیکھنا۔‘‘ پھر بائیں طرف والی روشنی کو دیکھ کر نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’اسے نوّے کے زاویے پر لائیں۔‘‘

نیلی وردی والا روشنی میں لمبی سی چھڑی سے لائٹ کو آگے پیچھے کر کے زاویہ درست کرتا ہے۔

پروڈیوسر ایک نمبر کیمرے سے ان کی ترتیب چیک کرتا ہے اور اس کی طرف منہ کر کے کہتا ہے۔۔۔  ’’پروفیسر صاحب! آپ نے کرسی کے ہتھوں کو اتنی مضبوطی سے کیوں پکڑ رکھا ہے۔‘‘

وہ کیسے بتائے کہ اگر اس نے ہتھیاں چھوڑ دیں تو اس کا سارا جسم کرسی کی گرفت سے نکل کر فضا میں تیرنے لگے گا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر گرفت ڈھیلی کر دیتا ہے اور پاؤں پر بوجھ ڈال کر زمین کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

پروڈیوسر اطمینان سے چاروں طرف دیکھتا اور کہتا ہے۔۔۔  ’’میں کنٹرول روم میں جا رہا ہوں ، جب ایک نمبر کیمرہ مین انگلی سے دائرہ بنائے تو پروفیسر صاحب آپ۔۔۔ ‘‘

وہ سر ہلاتا ہے۔

پروڈیوسر کنٹرول روم میں چلا جاتا ہے۔

ایک منٹ۔۔۔  دو منٹ۔۔۔

پھر تین آوازیں ایک ساتھ گونجتی ہیں۔

Silent              Silent              Silent

ریکارڈنگ ہال میں سے زندگی رینگ رینگ کر باہر نکل جاتی ہے اور موت دبے پاؤں اندر داخل ہو تی ہے۔

گہری گھپ خاموشی

وہ تھوک سے گلا تر کرتا ہے

لمحہ لمحہ گزرتا ہے۔۔۔  ٹک، ٹک، ٹک،

نمبر ایک کا ہاتھ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے، انگلی اٹھتی ہے، دائرہ بننے لگتا ہے، وہ بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے۔

لیکن۔۔۔  لیکن آواز نہیں نکلتی۔

پسینے کی لہر سارے جسم کو اپنے اندر لپیٹ لیتی ہے۔

وہ منہ کھولتا ہے۔۔۔  جملہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیا عمدہ جملہ سوچا ہوا تھا، مگر ایک لفظ یاد نہیں آتا، منہ سے آواز ہی نہیں نکلتی۔

تیز روشنیاں چاروں طرف سے ٹوٹے پڑ رہی ہیں۔

لمحہ لمحہ گزر رہا ہے۔

بولنے کی کوشش۔۔۔  آواز نہیں۔

گفتگو اس نے شروع کرنی ہے، پھر ساتھ والے سے سوال کر کے اسے شامل کرنا اور پھر تیسرے ساتھی سے سوال۔۔۔  لیکن بات شروع ہو تو تب نا۔

بولنے کی ایک اور کوشش۔۔۔

تھوک سے گلا تر کر کے ٹوٹے پھوٹے جملوں کو جوڑنے کی کوشش

لیکن آواز نہیں

کَن انکھیوں سے ساتھ والوں کو دیکھتا ہے، دونوں اس کی طرف دیکھ رہے ہیں ،

لیکن آواز؟

سارا زور لگا کر ایک بے ربط سا جملہ بولنے کی کوشش،

لیکن ہونٹ سر سرا کر رہ جاتے ہیں۔

پروڈیوسر ابھی دوڑتا ہوا آئے گا۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

بس آتا ہی ہو گا۔

چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں ، کائنات کا سلسلہ بھی عجیب ہے، چیزیں جنم لیتی ہیں اور پھر کسی بلیک ہول میں گم ہو جاتی ہیں ، ہر روشنی کے پیچھے ایک بلیک ہو ل ہے، ہر سانس بھی ایک بلیک ہول ہے کہ ہر سانس کے پیچھے موت کی دستک ہے، چھوٹی چھوٹی دستکیں اور پھر ایک لمبی اونچی دستک۔ وقت بھی ایک بلیک ہول ہے جو بالآخر ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

وہ بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے لیکن آواز

لفظ گم ہو گئے ہیں۔

بیوی کہتی ہے۔۔۔  ’’پروگرام کا چیک اوپن کرا لینا، دس بارہ روپے رہ گئے ہیں اور ابھی تو چار پانچ دن باقی ہیں۔‘‘

بیٹی ماں کے پہلو سے سر نکالتی ہے۔۔۔  ’’ابو! گڑیا۔۔۔  چابی والی۔۔۔  آپ نے وعدہ کیا تھا نا، اب پروگرام ملے گا تو۔۔۔ ‘‘

بیٹا توتلی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’ابا۔۔۔  ابا‘‘

وہ آنکھیں جھپکاتا ہے،

ریکارڈنگ روم میں موت کی سی خاموشی ہے،

موت تو ایک خوشبو ہے، جو دھیرے دھیرے ہر چیز پر نشہ طاری کر دیتی ہے اور اس نشہ کے عالم میں ہم چپکے سے ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ سارے حصے فوری طور پر نہیں مرتے۔ بعض حصے موت کے کئی دن بعد تک زندہ رہتے ہیں۔ بال اور ناخن قبر میں بھی بڑھتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ، ذہن کے بعض حصے بھی موت کے کئی کئی دن بعد تک اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کیا عذاب ہے کہ آدمی مر چکا ہے لیکن اس کے ذہن کے کچھ حصے کام کر رہے ہیں اور وہ خود اپنی آخری رسوم کو دیکھ رہا ہے، اچانک یا حادثاتی موت کی شکل میں تو بہت سے حواس اور کبھی کبھی وجود کا سرمئی ہیولا بھی کئی کئی دن تک موجود رہتا ہے، لیکن پھر ایک چپ۔

گہری چپ۔۔۔

وہ چپ کے پنجوں سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑاتا ہے، بولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آواز نہیں نکلتی۔

آغاز کے لیے کیا عمدہ جملہ سوچا ہوا تھا، وہ جملہ کیا تھا؟ تو کوئی اور جملہ۔۔۔  لیکن لفظ تو اس سے دور بھاگ گئے ہیں۔

بولنے کی کوشش۔۔۔  آواز؟

پسینے کے قطرے سارے چہرے پر پھیلتے جار ہے ہیں۔

عینک کے اوپر سے لڑکوں کو دیکھتا ہے۔

کائنات بھی ایک جسم ہے، جیسے ہمارا یہ جسم، جس کے اندر کئی دنیائیں آباد ہیں ، جراثیموں سے بھری ہوئی دنیائیں۔ اور ہمارا ذہن ان سب کو، پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ کائنات بھی ایک جسم ہے اور ہم اس کے اندر چھوٹے چھوٹے جراثیم ہیں ، اس کا بھی ایک ذہن ہے۔۔۔  ایک ماسٹر مائنڈ۔

گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی لڑکے کندھے جھٹک کر اس کی باتوں کو واپس اس کے منہ پر دے مارتے ہیں۔

سٹاف روم میں ایک ساتھی کہتا ہے۔۔۔  ’’یار ذرا حساب کر کے تو بتاؤ، نئے سکیلوں سے کتنا فرق پڑے گا؟‘‘

’’نئے سکیل؟‘‘

’’آ ج کا اخبار نہیں دیکھا، پے کمیشن کی سفارشات۔‘‘

’’لیکن یہ تو صرف سفارشات ہیں ، اصل تو خدا جانے کیا ہو گا؟‘‘

’’تو کیا۔۔۔  دل خوش کرنے میں کیا نقصان ہے؟‘‘

پروڈیوسر کہتا ہے۔۔۔  ’’پروفیسر صاحب بات آپ شروع کریں گے، جونہی ایک نمبر انگلی سے دائرہ بنائے آپ۔۔۔ ‘‘

وہ بولنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے، لیکن آواز نہیں نکلتی۔

معلوم نہیں آواز گم ہو گئی ہے یا لفظ ختم ہو چکے ہیں۔

آواز ایک پرندہ ہے۔

لفظ اس کی چہکار

سوچ  ہفت رنگ فضا

نہیں شاید۔۔۔

لفظ ایک پرندہ

آواز چہکار

سوچ۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔  شاید یوں

سوچ ایک پرندہ

لفظ اس کی چہکار

اور آواز۔۔۔  ؟

آوا ز نہیں نکلتی، کوشش کے باوجود آواز نہیں نکلتی۔

بھاری غرارے والی خاموشی ریکارڈنگ ہال میں ٹہل رہی ہے۔

تیز روشنیاں۔۔۔  کیمروں کی آگے پیچھے ہوتی بے آواز ٹرالیاں۔

فضا ایک انتہائی حساس مووی کیمرے کی طرح ہر حرکت، ہر آواز کو ریکارڈ کر رہی ہے۔ فضا میں ازل سے ابد تک کی ہر حرکت، ہر آواز محفوظ ہے اور اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ کیا معلوم اس لمحہ کائنات کے کسی حصے میں اس کی تصویر بھی ری کاسٹ ہو رہی ہو اور یہ بھی کیا معلوم کہ اس لمحہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر بیت رہا ہے وہ ری کاسٹ ہو اور اصل منظر کہیں اور ہو۔۔۔  ہزاروں نوری سالوں کے فاصلہ پر کسی جگہ، وہ اس لمحہ یا اس سے ہزاروں سال پہلے موجود ہو اور یوں ہی بولنے کی کوشش میں بار بار منہ کھول رہا ہو اور آواز نہ نکلتی ہو، لفظ بے وفا ہو گئے ہوں۔

وقت کے ساتھ ساتھ تو سب کچھ بے وفا ہو جا تا ہے، عمر بھی، دن بھی، یادیں بھی۔ بس سب کچھ پاس سے گزر جاتا ہے۔۔۔  اور  آدمی ہاتھ بڑھا بڑھا کر ہی رہ جاتا ہے۔۔۔  لیکن پروگرام کے بعد اسے چیک ضرور اوپن کرانا ہے، کسی کے سامنے نہیں ، بس کسی بہانے سے کچھ دیر کے لیے رک جانا ہے اور جب دوسرے دونوں چلے جائیں تو۔۔۔

لیکن پروگرام ریکارڈ ہو تو تب نا۔۔۔  پروڈیوسر تو ابھی کنٹرول روم سے چیخنے ہی والا ہے۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے، آپ بولتے کیوں نہیں ؟‘‘

وہ پھر بولنے کے لیے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے،

پہلی میں ابھی چار دن باقی ہیں بلکہ پانچ دن، تنخواہ تو دو ہی کو ملے گی نا،

اور چیک اوپن۔۔۔

لیکن بولنے کی ہر کوشش بے کار۔

آواز ساتھ چھوڑ گئی ہے۔۔۔  بے وفا ہو گئی ہے۔

کیا کہے؟۔۔۔  کیسے کہے؟

کتنے عمدہ عمدہ جملے سوچ کے آیا تھا۔

ابھی گفتگو شروع کرنا ہے اور اختتام بھی۔۔۔

پروڈیوسر نے کہا تھا۔۔۔  ’’جب آخری دو منٹ رہ جائیں گے تو نمبر ایک دو بارہ انگلی سے دائرہ بنائے گا، بس آپ بات نیچرل طریقہ سے اُچک لیں اور پانچ چھ اختتامی جملے کہہ کر ختم کر دیں۔‘‘

لیکن ابھی تو ابتدائی جملے بھی نہیں کہے گئے، اختتام کب اور کیسے ہو گا؟

وہ پھر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مسلسل بولنے کی کوشش میں ہونٹ پھڑپھڑانے لگے ہیں۔ ایک آخری کوشش کے طور پر وجود کا سارا زور لگا کر، ساری توانائیاں اکٹھی کر کے بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے۔۔۔  لیکن آواز نہیں نکلتی، ہونٹوں کی سرسراہٹ کے ساتھ ساتھ اس کا وجود سکڑنے لگتا ہے۔ ریکارڈنگ ہال چھوٹے سے بلیک ہول کی طرح اسے اپنے اندر گم کر رہا ہے۔۔۔  اسے تیزی سے اپنے اندر سمیٹ رہا ہے۔ وہ ہاتھ پیر مارتا ہے، خود کو اس کی کشش سے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بے سود، بلیک ہول اسے تیزی سے اپنی طر ف کھینچے چلا جاتا ہے، ایک گھنی تاریکی تیزی سے اس کے قریب آتی جاتی ہے۔ تیز روشنیاں پلک جھپکنے میں بجھ جاتی ہیں اور ریکارڈنگ ہال مختلف آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔ پروڈیوسر بھاگتا ہوا اندر آتا ہے اور کہتا ہے۔

’’واہ وا۔۔۔  کمال ہو گیا، بہت اچھی ریکارڈنگ ہوئی ہے، یہ پروگرام تو ہٹ جائے گا۔‘‘

اور وہ  بِٹر بِٹر اس کا منہ دیکھے جاتا ہے!

٭٭٭

 

سہ پہر کا مکالمہ

صبح سب سے پہلے بیوی نے دیکھا کہ وہ بستر پر نہیں ہے۔

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد کہ باتھ روم میں نہ ہو، اس نے سارے کمرے دیکھ ڈالے۔ باہر والا دروازہ اندر سے بند تھا۔ دوبارہ ایک ایک کمرہ دیکھا، پھر بڑے بیٹے کو جگایا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘بڑا بیٹا ہڑ بڑا کر اٹھا۔

’’تمہارے ابو!‘‘ آواز رندھ گئی۔

’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘ بیٹا اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’’تمہارے ابو۔۔۔  گھر میں نہیں ہیں۔‘‘

بڑے بیٹے نے بے یقینی اور جھنجھلاہٹ سے اس کی طرف دیکھا، ’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں نے ایک ایک کمرہ دیکھ لیا۔ وہ کہیں نہیں۔‘‘

گفتگو سن کر بیٹی بھی اٹھ گئی، ’’تو پھر کہاں ہیں ؟‘‘

’’باہر والا دروازہ بھی اندر سے بند ہے۔‘‘ اب آنسو رکے نہیں رکتے۔

چند لمحے عجیب پُر اسرار سکوت۔۔۔

پھر وہ سب اپنے اپنے بستروں سے نکل کر اسے تلاش کرتے ہیں۔ باتھ روم میں ، سونے کے کمروں میں ، ڈرائنگ روم میں ، باورچی خانے میں ، اسٹور میں۔

بڑا بیٹا کہتا ہے، ’’کہیں صبح سویرے باہر نہ نکل گئے ہوں۔‘‘

ماں جھنجلا کر کہتی ہے، ’’لیکن دروازہ اندر سے بند ہے۔‘‘

چھوٹا بیٹا چند لمحے سوچتا رہتا ہے، ’’کیا معلوم رات ہی کو گھر نہ آئے ہوں ؟‘‘

بیٹی نفی میں سر ہلاتی ہے، ’’میں نے خود دروازہ کھولا تھا، جب انہوں نے گھنٹی بجائی تھی۔‘‘

چھوٹا بیٹا اسے گھورتا ہے، ’’تم تو ہر وقت اپنے ہی خیالوں میں رہتی ہو، کیا پتا وہ باہر ہی رہ گئے ہوں اور تم نے دروازہ بند کر لیا ہو۔ یا وہ گھنٹی ہی بجاتے رہے ہوں اور تم نے دروازہ کھولا ہی نہ ہو۔‘‘

بیٹی غصے سے اسے دیکھتی ہے، ’’تم تو ہر وقت میرے ہی پیچھے رہتے ہو۔‘‘

ماں بستر پر ہاتھ پھیرتی ہے، ’’رات کو وہ یہاں سوئے تھے۔‘‘

بڑا بیٹا مشکوک نظروں سے ماں کی طرف دیکھتا ہے، ’’کیا معلوم؟‘‘

چھوٹا بیٹا کہتا ہے، ’’مجھے ساری رات باہر کھڑ کھڑ سنائی دیتی رہی ہے۔ میرا خیال ہے وہی ہوں گے۔ وہ ضرور رات کو باہر ہی رہ گئے ہیں ؟‘‘

’’کیا معلوم وہ گھر ہی میں کہیں ہوں ؟‘‘ ماں بڑبڑاتی ہے۔

وہ پھر اسے تلاش کرنے گھر کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں۔

ایک ایک کمرہ دیکھتے ہیں۔

’’رات کو انہیں کھانا کس نے دیا تھا؟‘‘ بڑا بیٹا ماں اور بہن کی طرف دیکھ کر سوال کرتا ہے۔ ماں کو یاد آتا ہے اس نے انہیں کھانا دیا تھا۔ پھر یاد آتا ہے شاید اس نے نہیں دیا تھا۔ بیٹی کو یاد آتا ہے شاید اس نے یا شاید اس نے نہیں۔

دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر چپ رہتی ہیں۔

’’سوال ہے، اب انہیں کہاں تلاش کیا جائے؟‘‘ بڑا بیٹا بڑبڑاتا ہے۔

’’کیوں نہ ان کے سارے دوستوں کے گھر فون کیا جائے، شاید دیر ہونے کی وجہ سے کہیں رک گئے ہوں۔‘‘ چھوٹا بیٹا رائے دیتا ہے۔

بیٹی جھنجلا کر کہتی ہے، ’’میں نے خود دروازہ کھولا تھا، وہ رات کو گھر آئے تھے، کیوں امی؟‘‘

ماں کو کچھ یاد نہیں آتا۔ کبھی خیال آتا ہے وہ آئے تھے، اس نے ان کے لیے کھانا گرم کیا تھا۔۔۔  کھانا کھاتے ہوئے وہ باتیں کرتے رہے تھے، پھر کتاب۔۔۔  کبھی خیال آتا ہے وہ آئے ہی نہیں ، وہ ساری رات انتظار اوڑھ کر ان کی راہ تکتی رہی ہے۔

’’کیوں امی؟‘‘

’’لیکن فون کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘

’’دروازہ اندر سے بند ہے۔‘‘ بڑا بیٹا بڑبڑاتا ہے، ’’اس کا مطلب ہے وہ آئے ہی نہیں اور اگر آئے ہیں تو پھر کہیں گئے نہیں۔‘‘

تو پھر کہاں ہیں ؟

وہ پھر اسے تلاش کرنے کے لیے گھر کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں۔

ایک ایک کمرہ، ایک ایک کونا، ایک ایک الماری۔

’’میرا خیال ہے وہ رات کو آئے ہی نہیں۔‘‘ بڑا بیٹا صوفے میں گرتے ہوئے مایوسی سے کہتا ہے، ’’امی آپ بتائیں نا۔‘‘

ماں کو کچھ یاد نہیں آتا۔ کبھی خیال آتا ہے اس نے کھانا گرم۔۔۔  کبھی نہیں ، ساری رات انتظار۔۔۔

’’مجھے کچھ پتا نہیں ، کچھ معلوم نہیں۔‘‘ وہ روہانسی ہو جاتی ہے۔

بیٹی آگے بڑھ کر اسے سنبھالتی ہے۔ چھوٹا بیٹا فون کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

بڑا بیٹا کہتا ہے، ’’میں ذرا باہر تو دیکھ لوں ، کہیں وہ ابھی تک دروازے پر ہی نہ کھڑے ہوں۔‘‘

وہ باہر جاتا ہے۔ پھر اندر آ کر مایوسی سے سر ہلاتا ہے۔

ماں اب رونے لگتی ہے، ’’وہ کبھی رات کو باہر نہیں رہے۔ یہ پہلی رات ہے۔‘‘

خالی بستر پر شکنیں ہیں بھی اور نہیں بھی۔

وہ رات کو سوئے تھے یا شاید نہیں۔

تھوڑی دیر بعد چھوٹا بیٹا منہ لٹکائے آتا ہے، ’’وہ کسی دوست کے یہاں بھی نہیں۔‘‘

’’تو پھر کہاں گئے؟‘‘ اب بیٹی کی آنکھوں میں بھی آنسو جھلملانے لگے ہیں ، ’’کہیں میں نے واقعی انہیں باہر چھوڑ کر دروازہ بند نہ کر لیا ہو؟‘‘ کبھی یاد آتا ہے، وہ آئے تھے۔ گھنٹی کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھولا تھا، انہوں نے اسے پیار کیا تھا، پھر اس کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے تھے، وہ دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ کبھی یاد آتا ہے گھنٹی کی آواز سن کر اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا تھا۔ گھنٹی بار بار بجتی رہی تھی مگر اس نے۔۔۔

’’نہیں نہیں ، وہ اندر آئے تھے۔۔۔  وہ اندر آئے تھے۔‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چیختی ہے، ’’وہ نہیں آئے تھے۔۔۔  نہیں۔۔۔  نہیں۔‘‘

ماں اور بڑا بیٹا اسے شانوں سے پکڑ کر صوفے میں دھکیل دیتے ہیں۔

چھوٹا بیٹا بڑبڑاتا ہے، ’’وہ آئے ہی نہیں۔ اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا ہو گا۔‘‘

بڑا بیٹا اسے ڈانٹتا ہے، ’’چپ رہو۔‘‘

خود وہ رات گئے تک ناول پڑھتا رہا تھا۔ کبھی یاد آتا ہے کہ گھنٹی کی آواز آئی تھی اور کسی نے دروازہ کھولا تھا اور کوئی اندر آیا تھا۔ کبھی یاد آتا ہے کہ گھنٹی بجی ہی نہیں۔

چھوٹا بیٹا اصرار کئے جاتا ہے، ’’رات کو کوئی ضرور باہر تھا۔ ساری رات کھڑ کھڑ ہوتی رہی ہے۔‘‘

اسے کبھی یاد آتا ہے کہ ساری رات کوئی دیواروں ، کھڑکیوں اور دروازوں پر دستکیں دیتا رہا ہے۔ کبھی یاد آتا ہے کہ وہ ساری رات مزے سے سویا رہا، ذرا بھی آواز نہیں آئی۔

’’تو وہ گھر کے اندر بھی نہیں ہیں اور باہر بھی نہیں۔‘‘ ماں افسوس سے سر ہلاتی ہے۔

دنوں ، سالوں اور مہینوں کے بعد کئی بند تھان خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ رنگ برنگی کھٹی میٹھی تصویریں۔۔۔  ذائقے، کڑواہٹیں ، مٹھاسیں ، دکھ سکھ کے کئی لمبے سال سمٹ کر سوئی کے ناکے میں سما جاتے ہیں۔

’’تو وہ نہیں ہیں۔‘‘ وہ چیخ مار کر بیٹی سے لپٹ جاتی ہے۔

دروازہ اندر سے بند ہے، یا شاید نہیں ہے۔

کسی نے دروازہ کھولا، شاید نہیں کھولا۔

وہ ساری رات باہر ہی کھڑے رہے، یا اندر آ گئے۔

شاید۔۔۔  یا شاید نہیں۔

وہ سارے ڈرائنگ روم میں صوفوں میں دھنسے اپنے اپنے جہنم کو سمیٹ رہے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں بولتا، بس کبھی کبھی سر اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے مجرموں کی طرح سر جھکا کر اپنے اپنے طوقوں میں دبک جاتے ہیں۔

ایک عجب پر اسرار خاموشی۔

اور ان سب سے الگ وہ۔۔۔  جسے یہ سارے تلاش کر رہے ہیں ، لکھنے کی میز پر بیٹھا سر جھکائے کتاب پڑھے جا رہا ہے۔ کبھی کبھی سر اٹھا کر ان کی بوکھلاہٹیں ، اداس چہرے اور مایوس باتیں سنتا ہے اور پھر سر جھکا کر پڑھنے لگتا ہے۔

یہ کہانیاں بھی کم بخت عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں اور کبھی شروع ہو کر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔

٭٭٭

 

بانجھ لمحے میں مہکتی لذت

سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے دفعتاً اسے یاد آیا کہ پچھلی رات ٹیکسی سے اترتے ہوئے وہ خود کو پچھلی سیٹ پر بھول آیا ہے۔

اس کی بیوی اور تینوں بچے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کرتے تالیاں بجا رہے تھے اور وہ چھری ہاتھ میں پکڑے بوکھلائی نظروں سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ تالیاں بجاتے بجاتے اس کی بیوی کو دفعتاً اس کی بوکھلاہٹ کا احساس ہوا تو اس نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا بات ہے؟ تم ٹھیک تو ہونا؟‘‘

وہ منہ کھولے بِٹ بِٹ دیکھتا رہا۔

’’کیا بات ہے۔۔۔  کیا بات ہے؟‘‘ اب بچے بھی متوجہ ہو گئے۔

اس نے بغیر کیک کاٹے چھری میز پر رکھ دی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘ بیوی اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، ’’خیریت تو ہے نا، تم ٹھیک ہونا؟‘‘

وہ ایک لمحہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’کل رات میں خود کو ٹیکسی میں بھول آیا ہوں۔‘‘

بیوی نے لمحہ بھر کے لیے حیرت سے دیکھا، لیکن اگلے ہی لمحہ جھنجلاہٹ اس کے سارے چہرے پر رینگنے لگی۔۔۔  ’’کیا؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘ وہ رک رک کر کہنے لگا، ’’ٹیکسی جب گلی کی نکڑ پر رُکی تو بے خیالی میں مَیں خود کو پچھلی سیٹ پر ہی بھول گیا۔‘‘

بیوی نے سر پر ہاتھ مارا اور بولی۔۔۔  ’’میرے خدایا، اگر تم خود کو بھول آئے ہو تو یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اس کے بازوؤں کو دبایا۔۔۔  ’’یہ کون ہے؟‘‘

’’ارے واقعی یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ کو اور پھر بچوں کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہے تھے۔

’’واقعی یہ کون ہے؟‘‘

لمحہ بھر خاموشی رہی پھر بولا۔۔۔  ’’ہو سکتا ہے یہ وہی ٹیکسی ڈرائیور ہو جس کی ٹیکسی میں مَیں گھر آ رہا تھا، یا پھر کوئی اور ہو۔۔۔  کوئی بھی۔‘‘

’’تمہارا تو دماغ چل گیا ہے۔‘‘ بیوی غصہ سے بولی۔۔۔  ’’اٹھو کیک کاٹو، بچوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔‘‘

’’نہیں ، یہ میں نہیں ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

’’تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔  ’’اس کے وجود میں یہ کون ہے؟‘‘

کوئی اجنبی۔۔۔  لیکن کون ؟

’’اٹھو کیک کاٹو۔‘‘ بیوی نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔  ’’دیکھو بچے پریشان ہو رہے ہیں۔‘‘

اس نے ویران نظروں سے بچوں کو دیکھا جو منہ کھولے اسے دیکھے جا رہے تھے، ’’تو ان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ میں نہیں ہوں۔ عجیب بات ہے، یہ میری خوشبو بھی نہیں پہچانتے، بالکل اپنی ماں کی طرح ہیں اور یہ عورت یہ جان کر بھی کہ یہ میں نہیں ہوں کیک کاٹنے کی ضد کئے جا رہی ہے۔‘‘

وہ بے دلی سے اٹھا اور کیک کاٹنے لگا۔

بچوں اور بیوی نے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا کورس شروع کیا لیکن اب ان کی آواز میں پہلے کی سی کھنک نہیں تھی۔

کیک کاٹتے ہوئے وہ مسلسل سوچتا رہا کہ وہ کہاں اپنے آپ کو بھولا تھا۔

ٹیکسی مورس تھی اور ڈرائیور چھوٹے قد کا، جس نے کالی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ پچھلی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس کے اترنے کے بعد شاید ڈرائیور کی نظر پچھلی نشست پر پڑی ہو اور اسے معلوم ہو گیا ہو کہ وہ وہیں رہ گیا ہے۔ یا کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہ ہو اور اسی طرح ٹیکسی بند کر دی ہو۔۔۔  یا۔۔۔  ؟

ساری رات اسی بے چینی میں گزری، بار بار خیال آتا کہ کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہ ہو اور وہ اسی طرح پچھلی نشست پر ہی پڑا ہو، پھر خیال آتا کہ شاید ڈرائیور نے مڑ کر دیکھ لیا ہو، لیکن کس لیے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے ڈرائیور نے غیر اہم سمجھ کر کہیں پھینک دیا ہو اور وہ ابھی تک کسی ویران سڑک کے کنارے پڑا ہو۔ سردی اور ویرانی اس کے بدن پر رینگنے لگیں۔ اس نے کروٹ بدل کر گہری نیند سوتی بیوی کو دیکھا۔۔۔  ’’یہ عورت کتنی عجیب ہے، یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے، کتنے اطمینان سے سوئی ہوئی ہے۔۔۔  کتنے ہی برس بیت گئے لیکن اس عورت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اسی طرح بالکل اسی طرح، اس کے خوابوں اور خیالوں سے بالکل مختلف۔‘‘

صبح ناشتہ کی میز پر بھی وہ چپ چپ تھا، بچے ایک دوسرے سے سلائس چھین رہے تھے، بیوی نے چائے بنا کر پیالی آگے کی اور بولی۔۔۔  ’’کس سوچ میں ہو؟‘‘

وہ ایک لمحہ چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’معلوم نہیں اب وہ ٹیکسی ملتی بھی ہے کہ نہیں۔ تھی وہ مورس اور ڈرائیور۔۔۔ ‘‘

بیوی نے غصے سے گھورا۔۔۔  ’’تو تم ابھی تک اسی پاگل پن میں ہو۔۔۔  یہ تمہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔  کچھ عرصہ سے عجیب عجیب باتیں کر نے لگے ہو۔‘‘

ناشتہ کر کے اس نے بچوں کو سکول چھوڑا اور اسی جگہ آن کھڑا ہوا جہاں سے ٹیکسی پکڑی تھی۔ بس دھند لا دھند لا یاد تھا کہ مورس تھی اور ڈرائیور نے کالے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ شاید مورس نہیں سَنی تھی، یا نہیں یہ بھی نہیں۔۔۔  شاید۔۔۔  اور ڈرائیور نے کالے رنگ۔۔۔  یا شاید نہیں ؟

ساری چیزیں عجب طرح دھند لا گئی تھیں اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوئی جا رہی تھیں۔ بے خیالی اور دھند لائی آنکھوں سے ایک ایک ٹیکسی کو دیکھتا رہا۔ کئی ٹیکسیوں پر شبہ بھی ہوا۔ دوڑ کر پہنچا، کئی ڈرائیوروں سے پوچھا، لیکن۔۔۔  ؟

دن کروٹ لے کر شام کی گود میں سو گیا لیکن وہ اسی طرح پاگلوں کی طرح ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ رات گئے گھر آیا تو بیوی بچے پریشانی سے اس کے منتظر تھے۔

’’اتنی دیر۔۔۔ ‘‘

’’ابو آپ کہاں تھے؟‘‘

’’ابو۔۔۔ ‘‘

’’ابو۔۔۔ ‘‘

تھکاوٹ، بے چینی اور اداسی چاروں طرف منڈلا رہی تھی۔

بار بار خیال آتا کہ ابھی تک ٹیکسی کی پچھلی نشست پر ہی نہ پڑا ہو، دھند چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور چیزیں ایک دوسر ے کی اوٹ میں چھپ گئی تھیں۔

’’یہ میں نہیں ہوں۔‘‘ اس نے اپنے بدن پر ہاتھ پھیرا۔۔۔  ’’یقیناً یہ میں نہیں ہوں لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں۔ بچوں کو بھی نہیں ، بیوی کو بھی نہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔

’’کس مزے سے سو رہی تھی۔ یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے۔‘‘

کروٹیں بدلتی رات چپکے سے صبح کے روشن  بطن میں اتر گئی۔ اس کے اداس اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’تو تم ابھی تک اسی چکر میں ہو۔‘‘

اس نے سر ہلایا لیکن کچھ کہا نہیں۔ کہتا بھی کیا۔۔۔  مکالمہ کے لیے دونوں طرف کے سیٹوں کی فریکیونسی ایک سی ہونا چاہئے ورنہ آواز کی بجائے شاں شاں ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔

اس دن بھی وہ چوراہوں پر مختلف ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ یہ ہو، شاید یہ۔۔۔  نہیں یہ نہیں۔۔۔  شاید وہ۔۔۔  ؟

اب اسے بالکل یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ ٹیکسی کس ماڈل اور مارکہ کی تھی، مورس، سَنی، ٹیوٹا، یا ڈرائیور چھوٹے قد۔۔۔  نہیں لمبے قد، شاید درمیانہ، جیکٹ کالی، بھوری، نیلی۔۔۔  یا۔۔۔

سب کچھ گہری دھند میں گڈ مڈ ہو گیا ہے۔

کچھ یاد نہیں ، بس یاد ہے تو اتنا کہ پچھلی سیٹ پر وہ، اپنے وجود کی ساری خوشبوؤں ، تمناؤں اور خوابوں کے ساتھ اس لفافہ میں تھا۔ دفعتاً اسے خیال آیا تھا کہ لفافہ پر پتہ تو تھا، شاید ڈرائیور نے اسے پوسٹ کر دیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی خوشبوؤں ، تمناؤں اور خوابوں کے لذت بھرے لمس اس کے سارے وجود پر پھیل گئے۔ لمبی لمبی غلافی آنکھوں ، مسکراتے سرخ ہونٹوں اور کھلے گلاب ایسے روشن چہرے کے ساتھ وہ لمحہ بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں آئی۔۔۔  کیا معلوم خط اسے مل ہی گیا ہو اور اس وقت وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز مزے مزے سے اسے پڑھ رہی ہو۔

لیکن کیا معلوم ؟

کوئی جواب بھی تو نہیں آیا۔۔۔  ؟

٭٭٭

 

لاشیئت کا آشوب

اندھیرا جونہی شام کی طنابیں توڑ کر رات کے خیمے سے باہر نکلتا ہے، وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو، ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

وہ اپنے جسم کے ملبے سے خوشبو کی صورت اٹھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو بستر اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’نہیں ، پہلے مکالمہ ہو گا۔‘‘

وہ ہنستے ہیں۔۔۔  ’’وقت اور موت کبھی مکالمہ نہیں کرتے۔‘‘

وہ ان کی بات سنے بغیر ضد کئے جاتا ہے۔۔۔  ’’نہیں پہلے مکالمہ، پھر میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘

وہ جواب نہیں دیتے اور کمرے میں پاؤں پسار کر لیٹے سنّاٹے میں سما جاتے ہیں۔

وہ کھڑکی کے نیچے بہتے دریا کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتر آتا ہے اور کنارے کنارے چلنے لگتا ہے۔ دریا اس کی پرواہ کئے بغیر چپ چاپ بہتا رہتا ہے۔ چند لمحے اس کی توجہ کا انتظار کرنے کے بعد جھنجلا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’تم مجھے پہچانتے کیوں نہیں ؟‘‘

دریا کھلکھلا کر ہنستا ہے۔۔۔  ’’وقت اور دریا کسی کو نہیں پہچانتے۔‘‘

’’لیکن میں۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں گئے دنوں کی کائی اور زمانوں کا زنگ جم جاتا ہے۔

’’تمہیں یاد نہیں ، میں کبھی یہاں سے گزرا تھا، کس طمطراق کے ساتھ، تم میرے قدموں میں جھکے تھے۔‘‘

دریا چپ رہتا ہے۔

’’اور میں نے تمہارے کناروں پر اپنے قدموں کے کتنے ہی نشان ثبت کئے تھے۔‘‘ تاسّف اس کی آواز میں سرسرانے لگتا ہے۔۔۔  ’’تب فتح میرے قدموں سے قدم ملا کر چلتی تھی اور اب۔۔۔ ‘‘

سامنے اس کا مقبرہ ہے،

سنسان، خاموش، دبیز سناٹا اس کے گرد کنڈل مارے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا مقبرے کے احاطہ میں آ جاتا ہے۔ سامنے اس کی قبر ہے۔ بیمار دیا دق کے مریض کی طرح ٹھہر ٹھہر کر، کانپ کانپ کر قبر کے سرہانے کھانس رہا ہے۔

’’تو یہ میری قبر ہے۔‘‘

اداسی احاطے میں بوند بوند ٹپک رہی ہے۔

’’میں۔۔۔  جس کے لیے وقت رک جایا کرتا تھا، جس کے نام کے بغیر تاریخ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔  تو یہ میں ، اب اس ٹوٹی قبر کی صورت باقی رہ گیا ہوں ، شاید مدتوں سے کسی نے فاتحہ بھی نہیں پڑھی۔‘‘

وہ دریا کی سمت آن کھڑا ہوتا ہے۔

دریا اسے دیکھ کر مسکراتا ہے،

’’تو تم مجھے پہچان گئے ہو۔‘‘ اس کے لبوں پر مسکراہٹ کا بور آنکھ کھولتا ہے۔

دریا ہنکارا بھرتا ہے۔۔۔  ’’وقت اور دریا کسی کو یاد نہیں رکھتے۔۔۔  اور تم۔۔۔  تمہیں تو تمہارے اپنے بیٹے بھی بھول گئے ہیں۔‘‘

وہ مڑ کر دریا کے دوسرے کنارے سے لپٹے شہر پر نظر ڈالتا ہے، نیند میں بڑبڑاتے لوگ کروٹ بدل کر سو جاتے ہیں۔ سارے دروازے اندر سے بند ہیں ، لیکن گلیوں اور سڑکوں پر اس کے قدموں کے نشان اب بھی ہمک رہے ہیں۔ دن بھر ڈیزل چھوڑتی بسیں ، ٹرک، کاریں ، ٹانگے اور سکوٹر فرش کو کھر چ کھرچ کر اس کے نشانات مٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، لیکن جونہی اندھیرا رات کے خیمے سے اَڑیل گھوڑے کی طرح بدک کر باہر نکلتا ہے، یہ نشان سر اٹھاتے ہیں۔ وہ رینگ رینگ کر ان نشانوں سے نکلتا ہے اور اندھیرے میں گردن گردن ڈوبی گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے لگتا ہے۔ ایک ایک دروازے پر دستک دیتا ہے۔

’’کون؟‘‘

’’میں۔۔۔  دروازہ کھولو۔‘‘

لیکن کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔

وہ پھر دستک دیتا ہے۔

’’کون؟‘‘

’’میں۔۔۔  دیکھو میں تمہارا نام ہوں ، تمہاری پہچان ہوں۔۔۔  دروازہ کھولو۔‘‘

جواباً گہری گھنیری چپ۔۔۔

’’تو کیا میں نہیں ہوں۔‘‘۔۔۔  وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے، پھر اپنے سارے وجود پر ہاتھ پھیر کر اطمینان کرتا ہے کہ وہ ہے۔

’’دیکھو میں ہوں۔۔۔  میں اب بھی ہوں۔‘‘

مگر وہی گہری گھنیری چپ۔۔۔

اور نہ ہونے کی رات۔۔۔

ہو کر بھی نہ ہونا۔۔۔

لا حاصلی کا عذاب۔۔۔  بوند بوند اس پر گرتا ہے۔

جب رات اپنے بادبان کھولتی ہے اور اندھیرا ہمک ہمک کر باہر نکلتا ہے تو اس نہ ہونے کی رات کے پاؤں پھیل جاتے ہیں۔

میں ہوں بھی کہ نہیں۔۔۔

ایک کھنڈر، جس کے در و دیوار پر وقت چمگادڑوں کی بیٹھوں کی صورت نقش کندہ کرتا جاتا ہے۔

دریا اور وقت نہ کسی کا ساتھ دیتے ہیں ، نہ کسی کے لیے رکتے ہیں اور نہ کسی کو پہچانتے ہیں۔

تو میں کوئی بھی نہیں۔۔۔

اگر کوئی تھا بھی تو اب کچھ نہیں۔

فرش ٹوٹے احاطے میں ، جہاں ہر وقت سناٹا پاؤں پسارے خراٹتا رہتا ہے، ایک شکستہ قبر ہے، جس کی لوح پر لکھی تاریخ اپنے واقعات سمیت سمٹتی جاتی ہے۔۔۔  ایک ٹوٹا دیا، جس کا تیل اور بتّی دونوں اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں کہ ہر سانس پر کھانستے ہیں۔

لا حاصلی کا عذاب

ہو کر بھی نہ ہونا

نہ ہونے کی رات۔۔۔  ہر رات

اور ہر رات جب اندھیری رات کے کوزے میں قید جن کی طرح آزاد ہوتا ہے تو وہ آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو بستر اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

تب وہ دیکھتا ہے کہ کمرے کی چھت اور دیواریں بوسیدگی کے پنجوں میں پھڑپھڑا رہی ہیں۔

’’اب میرے لیے جانے اور نہ جانے میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے؟‘‘

لیکن وہ اصرار کئے جاتے ہیں۔۔۔  ’’چلو‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’آ ؤ پہلے مکالمہ کریں۔‘‘

لیکن مکالمے سے وہ بہت گھبراتے ہیں ، سارا شہر ہی مکالمے سے گھبراتا ہے۔ وہ سب کچھ بغیر مکالمے کے کرنا چاہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے موت اور وقت کبھی مکالمہ نہیں کرتے۔

لیکن اس نے تو وقت سے مکالمہ کیا تھا اور موت۔۔۔  موت تو تب اس کے سائے کے پیچھے چھپتی پھرتی تھی۔

مگر اب موت دندناتی اس کے تعاقب میں چلی آتی ہے اور وقت مکّار عورت کی طرح دیدے نچا نچا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’میں کسی سے مکالمہ نہیں کرتا۔۔۔ ‘‘

اب وہ کھوکھلے درخت کی طرح ہے جس کے تنے میں پرندوں نے آلنے بنائے ہیں۔ یہ درخت اپنی عمر گزار چکا ہے، اب ان پرندوں کے سہارے جی رہا ہے اور یہ دریا۔۔۔  اب اسے دیکھ دیکھ کر ہنستا ہے۔ کبھی کہتا ہے میں تجھے نہیں پہچانتا اور کبھی پہچان کی چٹکیاں بھر کر اس کے نیم مردہ جسم میں گدگدی کرتا ہے۔۔۔  اور یہ قبر، وہ پھر قبر کے پاس آ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔  یہ قبر اب فاتحہ کے لیے ترستی ہے، ٹمٹماتا دیا آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔

تو یہاں اب کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا۔

شاید کوئی آئے گا بھی نہیں۔ کسی کو اب اس قبر کی یاد نہیں ، شاید ضرورت بھی نہیں۔

سب اپنے اپنے خوابوں میں گم ہیں

اور قبریں تو ہمیشہ اکیلی اور  تنہا ہوتی ہیں ،

اکیلی اور تنہا

اور ماضی صرف میوزیم اور کھنڈروں میں باقی رہ جاتا ہے۔

وہ چند لمحے سوچتا رہتا ہے، پھر خود بخود اس کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں اور وہ جو فاتحوں کا فاتح تھا، اپنی قبر پر خود ہی فاتحہ پڑھنے لگتا ہے۔

٭٭٭

 

بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس

اس کے گھر کا دروازہ گم ہو گیا ہے اور اب اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔

وہ اس جگہ، جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، حیرانی، پریشانی کے بوجھ تلے دبا کھڑا ہے۔ یاد آتا ہے کہ صبح جب وہ دفتر جانے کے لیے نکلا تھا تو دروازہ موجود تھا، بیوی ڈیوڑھی تک آئی تھی۔ بیٹے نے بسکٹوں کے ڈبہ کی فرمائش کی تھی، بیٹی نے کاپیوں کے لیے کہا تھا۔ اور اب بسکٹوں کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑے وہ گم سم اس جگہ کھڑا ہے جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، لیکن دروازہ نہیں ہے۔ بس ایک سنگین حصار ہے جس نے سارے گھر کو اپنے کنڈل میں دبایا ہوا ہے۔ اس نے دیوار کو کئی جگہ سے ٹٹول کر، چھُو کر، دبا کر دیکھا ہے مگر کہیں راستہ نہیں ، بس ایک مضبوط دیوار ہے جو اوپر اٹھتی چلی گئی ہے اور گھر اس کے اندر، کہیں اس کی بُکل میں دبکا بیٹھا ہے، اس نے آوازیں بھی دی ہیں مگر آواز دیوار سے ٹکرا کر واپس منہ پر آ لگتی ہے۔ تو اب کیا کرے؟

اندھیرا تھکے ہوئے پرندے کی طرح تیزی سے زمین کی طرف گرتا چلا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے سردی رتھ میں سوار دوڑی چلی آتی ہے۔

تو وہ کیا کرے؟

اندر جانے کا راستہ گم ہو گیا ہے۔

اور وہ اس جگہ، جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، حیرانی کی چادر میں لپٹا خاموش کھڑا ہے۔

ایک عجیب خوفناک، لمبوترے چہرے والا خوف دبے پاؤں گلی میں چلا آتا ہے۔ اس کے بیوی بچے کہاں ہیں ؟

گھر کہاں ہے؟

یہ دیوار ہے تو گھر کدھر ہے؟

گھر ہے تو دروازہ کہاں ہے؟

صبح دروازہ یہاں تھا، گھر بھی، دروازہ بھی،

بیوی ڈیوڑھی میں آئی تھی، بیٹے نے  بسکٹ لانے کے لیے کہا تھا، بیٹی نے کاپیاں۔ وہ گلی میں ہوتا، سلام دعا کرتا، بڑی سڑک تک آیا تھا، بس میں بیٹھ کر دفتر پہنچا تھا، دن بھر فائلوں پر لفظوں اور قوانین کی شطرنج کا کھیل۔

مگر اب گلی کے ہونٹ چپ ہیں ، چہرے بے پہچان،

وہ کبھی ایک طرف، کبھی دوسری طرف جاتا ہے، لیکن اندر جانے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کے اندازے کے مطابق جس جگہ دروازہ ہونا چاہئے تھا، وہاں کچھ بھی نہیں ، بس ایک دیوار سی ہے جو اوپر اٹھتی چلی گئی ہے۔ دستکیں دے دے کر اس کے ہاتھ شیل ہو گئے ہیں ، دیوار سے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔  گہری خاموشی۔

مڑ کر گلی میں دیکھتا ہے۔۔۔  گہری خاموشی۔

اور اس گہری چپ خاموشی میں وہ اندر جانے کی تمنا میں قطرہ قطرہ گھلتا جا تا ہے۔

اندھیرا اور سردی بھوکے شکاری پرندوں کی طرح چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے ہیں۔

دروازہ گم۔۔۔

اور گلی سنسانی کے دریا میں ڈبکیاں کھا رہی ہے۔

اسے خیال آتا ہے کہ صبح سے اس نے سوائے چائے کے کچھ نہیں کھایا۔۔۔  اندر، گھر کے اندر۔۔۔  باورچی خانہ میں اس کی بیوی گرم گرم روٹیاں اتار رہی ہو گی، دونوں بچے چوکیوں پر بیٹھے سبق یاد کر رہے ہوں گے۔۔۔  سالن کی پتیلی سے اٹھتی ذائقہ دار گرم خوشبو چٹخارہ۔۔۔  بھوک اس کی انتڑیوں میں سیٹیاں بجاتی تیز تیز چلتی ہے۔

وہ  بسکٹ کے ڈبے کو کھولتا ہے۔ رک جاتا ہے۔۔۔  یاد آتا ہے کہ بیٹے نے بڑے اصرار سے  بسکٹ لانے کے لیے کہا تھا، رک کر سوچتا ہے اور دروازہ تلاش کرنے کے لیے دائیں بائیں جاتا ہے۔ پتھر کی خنک دیوار اوپر اٹھتی چلی گئی ہے، وہ اس خنکی کو پوروں پر محسوس کرتا ہے، پھر زور زور سے بیوی اور بچوں کو آوازیں دیتا ہے۔

شوکتی سردی اور بھونکتا اندھیرا منہ چھپا کر اندر ہی اندر ہنستے ہیں۔

بھوک اب اس کے سارے جسم میں دوڑتی پھر رہی ہے۔

پیکٹ کھولتا ہے،  بسکٹ نکال کر منہ میں رکھنے لگتا ہے، رکتا ہے، پھر جلدی سے منہ میں ڈال لیتا ہے۔

گاڑھا اندھیرا آسمان کی طرف منہ کر کے بھونک رہا ہے، سردی شور مچاتی ساری گلی میں کِکلیاں ڈال رہی ہے۔

وہ ٹھٹھر کر دیوار کے ساتھ لگ جاتا ہے۔

بیوی کا مسکراتا چہرہ، بچوں کی میٹھی باتیں

وہ اب کھانا کھا کر سونے کے کمرے میں چلے گئے ہوں گے۔

گرم بستر

اس کی آنکھوں میں ایک لہر سی اٹھتی، بیٹھ جاتی ہے۔

سونے کا کمرہ تو گلی کی طرف ہے، شاید اس کی آواز اُن تک پہنچ جائے۔۔۔  مگر کیا معلوم سونے کا کمرہ دوسری طرف ہو۔

ذہن میں گھر کے نقشے کو مرتّب کرنے کی کوشش،

ڈیوڑھی کے سامنے صحن،دائیں طرف سونے کا کمرہ، بائیں طرف ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ بائیں طرف۔۔۔  نہیں بائیں طرف تو سٹور ہے اور دائیں طرف۔۔۔  نہیں سونے کا کمرہ بائیں۔۔۔  دائیں ، ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ، باورچی خانہ۔۔۔  دائیں بائیں۔۔۔  نہیں بائیں دائیں۔۔۔  دائیں بائیں۔۔۔  بائیں دائیں۔

تو جس جگہ وہ اس وقت ہے اس کے قریب سونے کا کمرہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔

کیا خبر ہو ہی؟

شاید اس کی آواز سن لیں ،

آواز دینے کے لیے منہ کھولتا ہے مگر۔۔۔

نام۔۔۔  لفظ۔۔۔  بیوی کا نام ہی یاد نہیں آتا،

بیٹے اور بیٹی کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے

ان کے نام بھی یاد نہیں آتے۔۔۔

بیوی۔۔۔  بیٹا، بیٹی۔۔۔  نام، لفظ۔۔۔  ایک گہری چپ۔

’’میں۔۔۔  میں ‘‘ وہ چیختا ہے۔

مگر فوراً خیال آتا ہے۔۔۔  ’’میں کون؟‘‘

نام بے نشان، بے پہچان

لفظ بے معنی، بے چہرہ

سمندوں سے بھی گہرا اندھیرا اور موجیں مارتی سردی،

رات پینجے کی طرح تیزی سے اندھیرے کو دھنک رہی ہے،

اندھیرے کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔

منجمد ہوتا جسم، خواہشوں کے  بھنور

ڈوبتے ہوئے۔۔۔  ابھرنے کی تمنا

کسی طرح دیوار میں سَن لگائی جائے۔

تیزی سے جیبیں ٹٹولتا ہے، مگر بال پوائنٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔۔۔  ایک رومال، چند سکے، بسکٹوں کا خالی ڈبہ اور دو کاپیاں ،

وہ لکھتا ہے۔۔۔

میرا نام۔۔۔  میرا نام کیا ہے؟

میری پہچان۔۔۔  میری پہچان کیا ہے؟

میرے بیوی بچے۔۔۔  میری بیوی بچے کہاں ہیں ؟

میرا گھر۔۔۔  میرا گھر کہاں ہے؟

اندر جانے کی تمنا۔۔۔  مگر راستہ نہیں ، راستہ کہاں ہے؟

ہر جملہ کے بعد ایک سوالیہ نشان۔۔۔  بال پوائنٹ کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے۔۔۔

لفظ بے ترتیب۔۔۔  نام بے چہرہ، بے پہچان

دیوار کے ساتھ ساتھ گھسٹتا دھم سے زمین پر گر پڑتا ہے،

بھوک کی چنگاریوں میں شعلے بھڑکنے لگے ہیں ،

اکڑتے جسم کو ہلانے کی کوشش میں وہ لڑکھڑا لڑکھڑا کر کھڑا ہوتا ہے۔

گھسٹ گھسٹ کر دیوار کو ٹٹولتا ہے

کبھی اس طرف، کبھی اُس طرف

بیوی بچوں کے نام یاد کرنے کی کوشش

نام یاد نہیں آتے،

آواز دینے کے لیے منہ کھولتا ہے،

آواز نہیں نکلتی

نہ لفظ ہیں۔۔۔  نہ آواز۔۔۔  نہ پہچان،

بس ایک سنگین، ٹھنڈی دیوار ہے، سنسان اندھیری گلی اور شوکتی ہوئی سردی۔

وہ ناخنوں سے دیوار کو کھرچتا ہے۔

ذہن میں گھر کا نقشہ اور کمروں کی ترتیب یاد کرتا ہے۔

سونے کا کمرہ بائیں یا دائیں

ڈرائنگ روم اِدھر یا اُدھر

اندر جانے کا راستہ۔۔۔  ؟

اس کے اندازے کے مطابق جہاں جو ہونا چاہئے تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ بس ایک دیوار ہے۔۔۔  یا شاید وہ بھی نہیں ہے۔

رات بیتتی جا رہی ہے۔

شاید نصف بیت گئی ہے یا شاید نہیں۔

شاید صبح ہونے والی ہے یا شاید نہیں ہونے والی،

صبح ہونے تک وہ شاید۔۔۔  یا شاید نہیں۔

کچھ معلوم نہیں۔۔۔  کوئی بات یقینی نہیں ،

بس دور دور تک پھیلا ہوا اندھیرے اور سردی کا تنبو ہے، منجمد کرتی سردی اور کلباتی بھوک بھونک بھونک کر اسے بھنبھوڑ رہی ہیں ، بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر بھونک رہی ہیں اور پرانے سوئیٹر کی طرح تیزی سے ادھڑتے ہوئے وہ نہ کچھ سوچ رہا ہے، نہ دیکھ رہا ہے، نہ سن رہا ہے۔

بس تیزی سے اُدھڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ادھڑتا ہی چلا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

گم راستہ میں کشف

انکشاف کا یہ لمحہ،

 یہ عجب بے ڈھنگے چہرے، سوکھی لٹکتی زبان والا لمحہ،

موڑ مڑتے ہی دفعتاً احساس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے،

تیزی سے گھوم کر دیکھنا، بریکوں پر پاؤں کا دباؤ،

پاؤں پسارے لیٹی سڑک پر کاروں ، رکشاؤں ، بسوں اور سکوٹروں کی قطاریں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رینگ رہی ہیں۔

وہ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

سڑک کے بیچوں بیچ یوں یکدم رک جانے سے رینگتی قطاریں الٹ پلٹ ہو جاتی ہیں۔

ہارن کی مسلسل آوازیں ، گھورتی آنکھیں اور بڑبڑاتے لب۔۔۔  وہ تیزی سے موٹر سائیکل فٹ پاتھ کی طرف گھسیٹتا ہے۔

پچھلے اشارے تک تو وہ ساتھ تھی، شاید کوئی بات بھی کی تھی۔

نہیں پچھلے اشارے پر وہ اس کے ساتھ نہیں تھی

اس سے پچھلے اشارے پر۔۔۔  شاید نہیں

ٹریفک کا لہریں مارتا دریا کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں ہے

کیا معلوم وہ جب کسی اشارے پر چند لمحوں کے لیے رکا ہو تو چپکے سے اتر گئی ہو؟

یا کہیں جھٹکا لگا ہو اور وہ گر گئی ہو؟

کیا معلوم؟

شاید وہ ابھی تک پچھلے اشارے پر ہی کھڑی ہو؟

یا جہاں گری ہو وہاں پڑی ہو اور موٹریں ، رکشا، بسیں اور سکوٹر اس کے اوپر سے گزر رہے ہوں۔

موٹر سائیکل موڑتا ہے۔

پچھلے اشارے پر چند لمحوں کے لیے رکی ٹریفک زبان باہر نکالے ہانپ رہی ہے، اس کی بھوکی نظریں بے چینی سے منظر کو چاٹتی ہیں۔

شاید اس سے پچھلے اشارے پر۔۔۔

پچھلے اشارے سے اس سے بھی پچھلے اشارے تک، منظر کرچ کرچ بکھرا ہوا ہے۔ اس کی ٹٹولتی آنکھیں ایک چہرے سے دوسرے چہرے کی سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی ہیں۔ دن ورق ورق کھلتا ہے۔

صبح وہ ایک ساتھ گھر سے نکلے تھے،

گلی کا موڑ مڑتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔۔  ’’پہلے ذرا درزی کی طرف۔‘‘

درزی کی دکان کے سامنے وہ اتری تھی، دکان کے اندر بھی گئی تھی، لیکن باہر نکلنا؟

شاید وہ درزی کی دکان سے باہر ہی نہ آئی ہو اور وہ اس کے بغیر ہی وہاں سے چل پڑا ہو؟

نہیں۔۔۔  وہ سر جھٹکتا ہے۔ بڑی سڑک پر جب وہ بس سے آگے نکلنے کی کوشش میں ایک کار سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گیا تھا تو اس نے کندھا دباتے ہوئے کہا تھا۔۔۔  ’’اتنی تیزی کیوں دکھاتے ہو؟‘‘

کیا معلوم عین اسی وقت جب وہ بل کھا کر کار کی زد سے بچا تھا، وہ سڑک پر گر گئی ہو؟

لیکن پھر یاد آیا کہ آگے جا کر وہ پٹرول پمپ پر رکا تھا، وہ نیچے اتری تھی۔

تو کہیں وہ پٹرول پمپ پر ہی نہ رہ گئی ہو۔۔۔  وہ اسے بٹھائے بغیر وہاں سے چل پڑا ہو؟

لیکن پھر فوراً خیال آتا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے ایک جنرل سٹور سے کچھ سامان بھی خریدا تھا۔

تو شاید وہ جنرل سٹور میں۔

کیرئیر پر سامان کا تھیلا رکھا ہوا ہے، شاید وہ تھیلا اٹھا لایا ہو اور اسے وہیں چھوڑ آیا ہو اور وہ ابھی تک۔۔۔

لیکن سٹور سے باہر نکل کر اس نے ایک بھکاری کو روپیہ دیا تھا۔

تو شاید وہ اسی بھکاری کے پاس کھڑی ہو۔

نہیں۔۔۔  نہیں ، اس کے بعد، اس کے بعد بھی

تو پھر

تو ہم کہاں جا رہے تھے

شاید وہ راستہ میں کہیں اتر کر پہلے ہی وہاں پہنچ گئی ہو۔

بہت سوچتا ہے۔۔۔  کچھ یاد نہیں آتا کہ وہ جا کہاں رہے تھے، گھر سے کیوں نکلے تھے، کسی کے پاس جانے کے لیے، پٹرول ڈلوانے کے لیے، جنرل سٹور سے کچھ خریدنے کے لیے، بھکاری کو روپیہ دینے کے لیے۔۔۔  معلوم نہیں وہ گھر سے کیوں نکلے تھے اور گھر، گھر کہاں ہے؟۔۔۔  کچھ یاد نہیں آتا۔

تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں سے آ رہے تھے اور کہاں جا رہے تھے؟

ایک عجب طرف کی دھند ہے کہ جس میں دکھائی بھی دیتا ہے اور نہیں بھی دیتا۔ کوئی جگہ ضرور ہے جہاں انہوں نے جانا تھا۔ لیکن کہاں ، یہ معلوم نہیں۔ گھر بھی کہیں ہے جہاں سے وہ آ رہے تھے، مگر کہاں ہے یہ معلوم نہیں ؟

ایک عجب طرح کی دھند ہے۔

دوپہر ڈھل کر سرمئی شام میں گھلتی جا رہی ہے۔ وہ اسی طرح فٹ پاتھ کے ساتھ موٹر سائیکل ٹکائے کھڑا کا کھڑا ہے۔

وہ راستہ میں کہیں ؟

درزی کی دکان پر، جنرل سٹور میں ، پٹرول پمپ پر آگے، پھر آگے یا پیچھے، بہت پیچھے، شاید پچھلے اشارے پر یا اس سے پچھلے، یا اس سے بھی پچھلے۔

سر جھٹکتا ہے اور شروع سے دن کی تہیں کھولنے لگتا ہے۔

گھر سے نکلتے ہوئے، درزی کی دکان، جنرل سٹور، پٹرول پمپ

سرمئی شام گہرے اندھیرے میں ڈھلتی جا رہی ہے

سڑک آہستہ آہستہ ویران ہو گئی ہے اور سردی دبے پاؤں اس کے بدن پر قدم قدم چلتی ہے۔ دن کی تہیں کھلتی ہیں ، بند ہوتی ہیں پھر کھلتی ہیں

لیکن دن تو جا چکا ہے

اب ٹھنڈی انگلیوں والی رات اس کے بدن کو ٹٹول رہی ہے۔

شاید وہ ابھی تک سڑک کے کنارے، یا درزی، یا جنرل سٹور۔۔۔  یا،

رات نے اپنے چہرے پر پڑا گھونگھٹ الٹ دیا ہے، سردی بال کھولے، بازو پھیلائے اس کے چاروں طرف ناچ رہی ہے۔

ویران سڑک۔۔۔  تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ایک آدھ گاڑی یا سکوٹر گزرتا ہے تو لمحہ بھر کے لیے روشنی پھیلتی، پھر مرجھا جاتی ہے۔

گھپ اندھیرا۔۔۔  اور ناچتی ٹھنڈ،

وہ اسی طرح کھڑا کا کھڑا، دن کی تہیں کھولتا، لپیٹتا، پھر کھولتا ہے۔

سردی نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا ہے۔

کانپتے جسم، بجتے دانتوں اور یخ ہوتے ہاتھوں سے وہ دن کی تہیں کھولنا چاہتا ہے، لیکن اس کے سامنے دھند۔۔۔  چیزیں سمٹنے مٹنے لگتی ہیں۔

دھندلی یادوں۔۔۔  صبح گھر سے نکلنا، درزی کی دکان، جنرل سٹور، پٹرول پمپ، پہلا، دوسرا، تیسرا۔۔۔  اور پھر دھند۔۔۔  ایک عجب دھند، جس میں دکھائی دیتا بھی ہے اور نہیں بھی،

اور آتش دان کے سامنے بیٹھی ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ سوچتی ہے۔۔۔  آج پھر اس نے دیر کر دی ہے، کھانا پھر ٹھنڈا ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

قافلے سے بچھڑا غم

قدموں کے نشان شہر کی ناف تک تو آتے دکھائی دیتے ہیں ، آگے پتہ نہیں چلتا۔ بس ایک خراٹے لیتا سناٹا ہے کہ چوکڑی مارے بیٹھا ہے اور وہ جو قافلہ سے بچھڑ گیا ہے شہر کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا سوال پہ سوال کئے جا رہا ہے۔ سنسان سڑکیں اور ویران گلیاں اس کے سوال سن کر بِٹر بِٹر دیکھتی ہیں اور خالی جھولیاں اس کے سامنے الٹ دیتی ہیں۔

منظر یہ ہے۔۔۔

دکانوں میں چیزیں سجی ہیں ، کاؤنٹر کھلے پڑے ہیں ، لیکن آدمی نظر نہیں آتے

ہوٹلوں میں میزوں پر کھانے کی چیزیں ترتیب سے رکھی ہیں ، لیکن نہ کوئی کھانے والا ہے، نہ کھلانے والا،

بس سٹاپ خالی پڑا ہے، بس کھڑی ہے، انجن سٹارٹ ہے، لیکن نہ ڈرائیور ہے نہ کنڈیکٹر، نہ کوئی سواری،

سڑک پر کاروں ، بسوں اور سکوٹروں کی لمبی قطار ہے، انجن سٹارٹ ہیں ، لیکن آدمی کوئی نہیں ،

اس شہر کے لوگ کہاں گئے ہیں ؟ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے اور بڑے چوک کی طرف چل پڑتا ہے۔

اشارہ بند ہے، سرخ بتی زبان باہر نکالے ہانپ رہی ہے۔

تو یہ ٹریفک اسی طرح بند رہے گی، لیکن لوگ۔۔۔  لوگ کہاں گئے ہیں ؟

شاید گھروں میں بند ہیں ؟

دستک

خاموشی

دستک۔۔۔  کوئی ہے؟

خاموشی

وہ دروازہ کھول کر اندر چلا جاتا ہے، باورچی خانے میں چولہا جل رہا ہے، دیگچی میں سالن پک رہا ہے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔  ڈرائنگ روم، بیڈ روم، سٹور، کہیں بھی کوئی نہیں ،

یا خدا یہ کیا طلسم ہے کہ گھر سجے سجائے، دکانیں بھری پُر ی، سڑکیں کاروں ، بسوں اور سکوٹروں سے ٹھسا ٹھس، لیکن آدمی کوئی نہیں۔ خوف اس کے بدن پر رینگنے لگتا ہے،

وہ بغیر کسی ارادے کے، بغیر کسی سمت کا تعیّن کئے دوڑ پڑتا ہے،

دوڑتا رہتا ہے۔۔۔  ہانپنے لگتا ہے تو رُک جاتا ہے،

یہ تو کوئی سکو ل ہے

شاید یہاں کوئی ہو۔۔۔  یہاں ضرور کوئی ہو گا۔

کوئی ہے؟

کوئی ہے۔۔۔  کوئی ہے؟ اس کی اپنی آواز چاروں طرف سے اس پر ٹوٹ پڑتی ہے، وہ نڈھال ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔۔۔  بہت دیر اسی طرح کھڑا رہتا ہے، پھر اپنے آپ کو اکٹھا کر کے آگے بڑھتا ہے۔۔۔  کلاس روم میں ڈیسکوں پر بستے کھلے پڑے ہیں ، کاپیاں کھلی ہیں ، بلیک بورڈ پر سوال لکھا ہوا ہے، لیکن نہ پڑھانے والا موجود ہے نہ پڑھنے والے، ایک گہری چپ ہے،

یا خدا یہ کیا جادو ہے۔۔۔  لوگ اس شہر سے کہاں گئے ہیں ؟

ہلکی سی آہٹ ہوتی ہے

کون۔۔۔  اس کے اندر تجسّس کی پو پھٹتی ہے،

آہٹ قریب محسوس ہوتی ہے، ہلکی سی چڑچڑاہٹ۔۔۔  ایک چوہا گردن باہر نکالتا ہے، چوہا آہستہ سے سامنے آتا ہے، چند لمحے اس کی طرف دیکھتا ہے، پھر دوڑتا ہوا سامنے کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے،

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں ؟

منظر وہی ہے،

سڑکوں پر کاریں ، بسیں ، سکوٹر اور سائیکل اپنی روانگی کی حالت میں ہیں ، لیکن نہ کوئی چلانے والا ہے، نہ سفر کرنے والا، بس انجن چل چل کر آپ ہی آپ بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں۔

گھروں میں چولہے جل رہے ہیں ، سالن اور روٹیاں پک رہی ہیں ، لیکن نہ کوئی کھانے والا نہ کھلانے والا،

ہوٹلوں کی میزوں پر کھانے سجے ہوئے ہیں لیکن۔۔۔

دفتروں میں فائلیں میزوں پر کھلی پڑیں ہیں ، لیکن کرسیاں خالی ہیں

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں ، تو کیا اسے بھی۔۔۔  اسے بھی

کوئی چیز اس کے اندر اُچھلتی ہے،

بانسری کی مدھم آواز آہستہ آہستہ ابھرتی ہے اور لمحہ بہ لمحہ تیز ہونے لگتی ہے۔ کونوں کھدروں سے چوہے سیلاب کی طرح اچھل اچھل کر باہر نکلتے ہیں اور بسوں ، کاروں ، سکوٹروں ، گھروں ، دفتروں ، ہوٹلوں اور درس گاہوں میں پھیل جاتے ہیں۔ بانسری کی آواز اب چاروں طرف پھیل گئی ہے۔۔۔

رکی چیزیں دفعتاً چل پڑی ہیں ،

اس کے پیٹ کی گہرائیوں میں کوئی چیز اچھلتی ہے اور پھسلتی ہوئی اس کے حلق میں آن اٹکتی ہے۔ وہ منہ کھول کر اسے اگل دینا چاہتا ہے، لیکن اچھلتی شے باہر نہیں نکلتی، اندر ہی اندر اُچھلتی رہتی ہے۔ وہ چیختا ہے، چیخ آدھی باہر نکلتی ہے اور منجمد ہو جاتی ہے۔

آدھی اندر، آدھی باہر

حلق میں اٹکی شے اندر ہی اندر گھومتی ہے

وہ اچھل اچھل کر منہ سے بے ہنگم آوازیں نکالتا ہے،

اردگرد کھڑے لوگ ہنستے، تالیاں بجاتے ہیں اور جیبوں سے سکے اور نوٹ نکال نکال کر اس کے سامنے پھینکتے ہیں۔

٭٭٭

 

کھلے دروازے پر دستک

شام کی بانسری سے نکلتی اندھیرے کی تان گہری ہوتی جاتی ہے۔

سامنے والی دیوار اور اس پر بیٹھا کبوتر دھیرے دھیرے روئی کے گالوں ایسے نرم اندھیرے میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ نیچے صحن کی کھردری اینٹوں پر بے چینی سے اِدھر اُدھر آتی جاتی بلی پنجوں سے اینٹیں کریدتی ہے، اس کی تیز غرّاتی میاؤں میاؤں سن کر کبوتر چوکنّا ہو کر چاروں طرف دیکھتا ہے، دیوار کی اونچائی پر نظر کرتا ہے اور پھر دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ بلی صحن میں بے چینی سے پھر رہی ہے۔ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن چند فٹ کے بعد پھسل کر واپس صحن میں آ جاتی ہے۔ سر اٹھا کر کبوتر کو دیکھتی، ہونٹوں کو سسکارتی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔

صحن کے سامنے والے کمرے میں بیڈ پر لیٹا وہ کھلے دروازے سے سارا منظر دیکھ رہا ہے۔ اس نے کئی بار ہش ہش کر کے بلی کو بھگانے کی کوشش کی ہے لیکن بلی کچھ دیر کے لیے اِدھر اُدھر ہوتی ہے، پھر چند ہی لمحوں بعد کبوتر کے گرم خون کی مہک اسے صحن میں واپس کھینچ لاتی ہے۔ وہ صحن کی کھردری اینٹوں کو پنجوں سے کریدتی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔ کبوتر اس کی بھوکی میاؤں میاؤں سن کر چوکنّا ہوتا، اِدھر اُدھر دیکھتا، پھر مطمئن ہو کر پروں میں سمٹ جاتا ہے۔ شام کی بانسری سے نکلتی اندھیرے کی تان گہری ہو گئی ہے۔

کبوتر اور دیوار تاریکی کی نرم دبازت میں ڈوب گئے ہیں۔ کبوتر کا سفید ہیولہ بس ایک نشان سا ہے۔

اسے خیال آتا ہے۔۔۔  کبوتر صبح سے پہلے کہیں جائے گا اور یہ بلی۔۔۔  بلی مایوس ہو کر غصے سے چکر کاٹتی ہے۔ اس کی بھوک سے لتھڑی میاؤں میاؤں میں چیر پھاڑنے والی غرّاہٹ شامل ہوتی جا رہی ہے۔

بیڈ پر لیٹے لیٹے اسے اپنا آپ کبوتر میں تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ تیز پنجوں اور چمکیلی آنکھوں والی بلی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی ہے۔ وہ سمٹ سمٹ کر دیوار کے ساتھ لگ جاتا ہے، ساتھ والے پلنگ پر سوئی اس کی بیوی اس کے بوجھ سے گھبرا کر کروٹ لیتی ہے۔ وہ کہنی کے بل بستر پر گر جاتا ہے۔ چند لمحے یوں ہی پڑا رہتا ہے پھر صحن میں نکل آتا ہے۔ کبوتر سامنے والی دیوار پر سفید دھبّا بنا دبکا بیٹھا ہے۔ بلی اسے دیکھ کر صحن سے غائب ہو جاتی ہے۔ پانی پی کر وہ واپس بیڈ پر آتا ہے اور ٹکٹکی باندھے صحن کو دیکھتا رہتا ہے۔ بلی جا چکی ہے اور ابھرتی چاندنی میں سامنے دیوار پر بیٹھا کبوتر صاف نظر آ رہا ہے۔

دیوار کے اختتام پر ایک اور اوپر اٹھتی دیوار ہے جس کے بعد ساتھ والوں کی چھت ہے۔ وہ سوچتا ہے بلی کا وہاں پہنچنا ناممکن ہے۔ ساتھ والوں کا دروازہ بند ہو چکا ہے اس لیے ان کے کوٹھے تک بلی نہیں پہنچ سکتی اور اگر پہنچ بھی جائے تو سیدھی دیوار پر وہ اتنا نیچے نہیں اتر سکتی،

لیکن بلی ہے کہاں ؟

وہ اٹھ کر صحن میں آتا ہے، بلی کہیں دکھائی نہیں پڑتی۔ اوپر دیوار کو اور پھر چھت کو دیکھتا ہے اور بستر پر آ گرتا ہے۔

موت بلی کی طرح نفس کے کبوتر کا تعاقب کرتی ہے۔ کبوتر لاکھ بچنے کی کوشش کر کے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں اس کی جھپٹ میں آ ہی جاتا ہے۔ گرم خون بھی کیا چیز ہے؟ چیزیں بھی کیا ہیں ، کوئی بلی کوئی کبوتر۔۔۔  کبوتر، بلی ہوتا تو کیا اور اگر بلی کبوتر ہوتی تو پھر بھی کیا؟

دفعتاً اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ سارا صحن چاندنی میں نہایا ہوا ہے۔ دیوار پر بیٹھا کبوتر پروں میں سر دئیے گہری نیند کے سپنوں میں ہے۔ وہ چاروں طرف نظر گھماتا ہے۔ اچانک ساتھ والوں کی چھت پر ہیولہ سا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہڑ بڑا کر دروازے میں آتا ہے۔۔۔  ساتھ والوں کی چھت پر بلی بڑی آہستگی سے اِدھر اُدھر پھر رہی ہے۔۔۔  وہ حیرت سے سوچتا ہے، یہ اوپر کیسے پہنچی؟ کیا دروازہ کھلا تھا؟ وہ ڈیوڑھی میں جاتا ہے۔ دروازہ بند ہے۔ تو پھر۔۔۔  شاید کسی نالی سے یا۔۔۔

وہ گھبرایا سا صحن میں آتا ہے۔ بلی ساتھ والوں کی چھت پر ٹہل رہی ہے۔ وہ چھت سے دیوار کے زاویے اور اونچائی کا اندازہ کرتا ہے اور نفی میں سر ہلاتا ہے۔ بلی نیچے کبھی نہیں پہنچ سکتی۔۔۔  بالکل نہیں۔۔۔  ممکن ہی نہیں۔ کچھ دیر صحن میں کھڑے رہنے اور دیوار و چھت کا اندازہ کرنے کے بعد بستر پر آ لیٹتا ہے اور تکئے کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے کبوتر پر نظریں جما دیتا ہے۔ کبوتر بلی کی ان ساری کارروائیوں سے بے خبر مزے سے دیوار پر بیٹھا کسی خوشبو دار خواب کے سحر میں ڈوبا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ نیند اس کے پپوٹوں کو سہلانے لگتی ہے۔ نیند کی نرم نرم سیڑھیاں اترنے سے پہلے وہ نیم وا غنودتی آنکھوں سے اوپر بلی اور نیچے کبوتر کو دیکھتا ہے اور آہستہ سے نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔  ناممکن !

جبر اور ظلم طاقتور مقناطیس کی طرح چیزوں اور ماحول کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تو ایک کیفیت ہے جو دکھائی نہیں دیتی، صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔

بلی کی آنکھوں میں بھی ایک مقناطیس ہوتا ہے اور وہ۔۔۔  !

اسے لگتا ہے کوئی چیز اس کے سینہ پر کودی ہے۔ ہڑبڑا کر اٹھتا ہے۔ سامنے دیوار پر بلی کبوتر سے تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھی آخری چھلانگ کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ حیرت سے پھڑپھڑاتی آنکھوں سے کبھی چھت کو کبھی دیوار کی اونچائی اور کبھی کبوتر اور بلی کو دیکھتا ہے۔ کبوتر کی گردن اس کے پروں میں ہے اور بلی چمکیلی آنکھیں اس پر جمائے قدم قدم آگے کھسک رہی ہے۔۔۔  اسے سانس رکتا سا لگتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ زور سے چیخے اور بھاگ کر کوئی چیز اٹھا کر بلی کی طرف پھینکے، لیکن فاصلہ۔۔۔  اونچائی۔۔۔  نہ اس کے منہ سے آواز نکلتی ہے، نہ پاؤں حرکت کرتے ہیں۔

بلی ایک انچ اور آگے سرک آئی ہے اور اب ایک ہی لمحہ میں کبوتر پر جست لگانے والی ہے، بس ایک ہی لمحہ۔۔۔  اور عین اسی لمحہ کبوتر ایک دم آنکھیں کھولتا ہے اور چشم زدن میں لمبی اڈاری مار کر اندھیری فضا میں گم ہو جاتا ہے۔ بلی کے اٹھے پنجے فضا ہی میں معلق رہ جاتے ہیں۔ وہ بچوں کی طرح اچھلتا اور ہنستا چلا جاتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔ رونے کی اونچی آواز سن کر اس کی بیوی جاگ پڑتی ہے۔ ساتھ والے کمرے سے بچے دوڑے آتے ہیں کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟ خیر تو ہے۔ وہ روتے روتے ایک لمحہ کے لیے حیران بیوی بچوں کو دیکھتا ہے اور بھرّائی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’کبوتر کو تو اس کی چھٹی حِس نے بچا لیا۔۔۔  میری تو چھٹی حِس بھی ختم ہو چکی ہے۔‘‘

اور وہ دو بارہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اجازت دی اور سید زبیر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید