فہرست مضامین
- عام آدمی کے خواب
- احوال واقعی
- میں کیوں لکھتا ہوں
- میں اور میرے کردار
- گفتگو
- لیمپ پوسٹ
- ٹوٹے پَر، لمحہ لمحہ، زرد کبوتر
- ڈوبتے جسم کا ہاتھ
- دور ہوتا چاند
- بے چہرہ آدمی
- پونے آدمی کی کہانی
- پچھلے پہر کی موت
- نُچی ہوئی پہچان
- اُلٹی قوس کا سفر
- ریت پر گرفت
- بیزار آدم کے بیٹے
- پھیکی مٹھاس کا تسلسل
- جَلا وطن
- بے پانی کی بارش
- ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ
- پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ
- لا =؟
عام آدمی کے خواب
(افسانے)
رشید امجد
جلد اول
احوال واقعی
یہ اس کتاب کی پہلی جلد ہے۔ مکمل اصل کتاب میں سے دو طویل کہانیاں ’سمندر قطرہ سمندر‘ اور ’الف کی موت کی کہانی‘ اور ایک اور مختصر مجموعہ ’مرشد‘ کو نکال دینے کے بعد جو کتاب اور اس کی کہانیاں باقی بچی ہیں، ان کو چار جلدوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔ یہ اس برقی کتاب کی پہلی جلد ہے۔
ا۔ ع۔
یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے، لیکن تمام تر جدوجہد اور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا، ایک عام آدمی کے گھر پیدا ہوا، جیا اور ایک عام آدمی کی حیثیت سے مر گیا، لیکن اُس نے خواب دیکھے اور خواب وراثت میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وراثت میں منتقل کرنے کے لیے اُس کے پاس اور کچھ تھا بھی نہیں ، سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا، منتقل کر دئیے، اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔۔۔ یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔
رشید امجد
میں کیوں لکھتا ہوں
’’اور جس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے اُس کو حقیقتاً پہچان لیا ہے، اُس نے اپنے وجود کو معروف کے وجود سے بھی زیادہ عظیم اور بزرگ تر کر لیا، کیونکہ جو شخص کسی چیز کو اُس کی حقیقت کی تہہ تک پہنچ کر پہچان لیتا ہے وہ دراصل اُس چیز سے بھی زیادہ قوی ہو جاتا ہے‘‘ حسین بن منصور حلاج کا یہ قول ’’طواسین‘‘ میں درج ہے۔ لکھنا بھی ایک اظہار ہے اور اس اظہار کی توفیق اُسی کو حاصل ہوتی ہے جو حقیقت کو پہچان لیتا ہے، مجھے لکھنے کا دعویٰ نہیں ، اپنے تئیں میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں حقیقت کو اس کی تہہ تک پہنچ کر پہچاننا چاہتا ہوں۔ یہ نامعلوم کی تلاش ایک ایسا سفر ہے جس میں اپنا آپ گم ہو جاتا ہے۔ زماں کیا ہے اور مکاں سے پہلے وہ کس صورت میں تھا؟وہ جو دور سرمئی دھند میں کہیں چھپا بیٹھا ہے، کیا ہے اور کون ہے؟ میرا اس سے تعلق کیا صر ف خالق اور تخلیق کا ہے یا اس اسرار میں ، میرا بھی کوئی کردار ہے، یہ وہ سوال ہیں جو مجھے لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اظہار ایک بنیادی شے ہے، ہر وجود اپنا اظہار چاہتا ہے اور اس اظہار کے لیے مختلف وسیلے تلاش کرتا ہے۔ میرا وسیلہ لفظ ہے چنانچہ میں لفظوں کو جوڑ کر وہ جملہ بناتا ہوں جو میرے باطن کو منکشف کرتا ہے۔ یہ ایک طویل ریاضت ہے، جس کا پہلا مرحلہ اپنے آپ کو جاننا ہے۔ اپنی شناخت اور پہچان کہ اس کے بعد ہی اگلا سفر شروع ہو تا ہے۔ سفر صرف خارجی نہیں ہوتا، خارجی سفر میں تو درمیانے یا اچھے درجے کا سفر نامہ ہی ہاتھ آ سکتا ہے، ایک سفر اندر کا بھی ہے، بہت ہی پر اسرار لمحہ لمحہ، قدم قد م چلتے جانا اور اس تجربے کو لفظوں کی مالا میں پُر و کر تخلیق بنا لینا، یہی لکھنے کی بنیاد ہے۔
میرے خواب، خواہشیں اور بے تاب تمنائیں وہ سامان ہیں جن سے میں لکھنے کا اہتمام کرتا ہوں۔ اور یہ میرے باطن سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور خارج سے بھی، خارج سے یوں کہ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں ، اس کے مسائل و معاملات میرے بھی ہیں۔ ان میں بہتری کی تمنا اور آئیڈیل کے خواب میری تحریروں میں آدرش بنتے ہیں ، لیکن میرا دائرہ صرف خارج تک محدود نہیں ، میرے اندر بھی ایک دنیا موجود ہے اور اُس کے سوالات مختلف ہیں۔ میری شناخت کی دو سطحیں ہیں جن کے اظہار کیلیے میں لکھتا ہوں ، اول یہ کہ اس معاشرے میں ، میں کہاں کھڑا ہوں ، کس طبقہ کا فرد ہوں اور اس طبقاتی تضاد کے ظلم سے خود کو اور اپنے عہد کو کیسے بچا سکتا ہوں۔ اس طبقاتی معاشرے میں کیا میری شناخت صرف میرا شناختی کارڈ نمبر ہے، یا میں اس معاشرے میں کہیں اور بھی وجود رکھتا ہوں۔ یہ میری تحریروں کا سماجی اور سیاسی پس منظر ہے، میں بار بار کیوں فتح کر لیا جاتا ہوں میری رائے کہاں ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟میں اپنی لکھتوں میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، اسی لیے لکھتا ہوں ، لیکن یہ میرے ہونے کا خارجی لمحہ ہے، میری شناخت کا ایک داخلی اور باطنی لمحہ بھی ہے اور و ہ یہ کہ میں کون ہوں ؟اس عظیم کائنات میں میرا وجود کیا معنی رکھتا ہے، میں ہوں بھی یا نہیں ، یہ دائرہ در دائرہ سچ کا سفر کہاں ختم ہوتا ہے، ایک لمحہ ہے جہاں سر گشتگی اور تحیر کے سوا کچھ نہیں ، جو راز ہے وہ راز ہی ہے۔ میں اس لیے بھی لکھتا ہوں کہ یہ راز مجھ پر منکشف ہو جائے اور اس انکشاف سے مجھے جو مسرت اور سرشاری ملتی ہے میں اپنے قاری کو اس میں شریک کرنا چاہتا ہوں ، اسی لیے تو میں نے خرقہ اتار کر قلم سنبھال لیا ہے کہ سچ کی کوئی زبان، کوئی انداز، کوئی بھیس لباس نہیں ہوتا۔
میں عام شخص کے لیے نہیں لکھتا، میرا قاری مجھے خود تلاش کرتا ہے، میری لذتوں میں وہی شریک ہو سکتا ہو جو میرے تجربے کی اسراریت کو محسوس کر سکتا ہے۔ میں کہانی جوڑتا نہیں ، ٹکڑے اکٹھے نہیں کرتا۔ کہانی ایک خیال کی طرح میرے ذہن میں آتی ہے اور تخلیقی عمل سے گزر کر ایک وحدت کی طرح کاغذ پر بکھر جاتی ہے۔ میں اس کے لیے لفظ تلاش نہیں کرتا، یہ خیال اپنے لفظ خود لے کر آتا ہے، میری تخلیقی دنیا بہت سوں سے مختلف ہے، میرا تخلیقی عمل بھی مختلف ہے۔ میں جو کچھ لکھتا ہوں یہ میری باطنی واردات ہے۔ا س میں میرا ماحول اور معاشرہ بھی آ جاتا ہے کہ بہر حال میں اس کا ایک فرد ہوں ، لیکن میں اپنی پہچان ایک سماجی ماہر کے طور پر نہیں کرانا چاہتا، میں ایک تخلیقی فنکار ہوں اور جہاں فن آئے گا وہاں تکنیک بھی ہو گی۔ تکنیک اور فن ہو گا تو اسلوب بھی آئے گا یہ سب مل کر جو کچھ بنائیں گے اسے دو جمع دو چار کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا، اس کی تفہیم کا طریقہ مختلف ہو گا۔
میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے اپنے ہونے کا احساس رہے، یہ میری مجبوری نہیں میرا اظہار ہے کہ اظہار کے بغیر کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جو وجود رکھے گا وہ اس وجود کا احساس بھی کرائے گا۔ جیسا میں نے کہا میرے اظہار کا ذریعہ لفظ ہے، میں لفظوں کو جوڑ جوڑ کر اپنے آپ کو منکشف کرتا ہوں۔ معاشرے میں میرا سفر ناک کی سیدھ میں نہیں ، جو کچھ نظر آتا ہے میرے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے، جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو یہ تجربہ میری کہانی میں ایک خارجی معنویت پیدا کرتا ہے، اسے سماج سے جوڑتا ہے اور اس میں روح عصر اور جدید حسیت پیدا کرتا ہے۔ میرا باطنی سفر پیچ در پیچ ہے کہ یہاں کوئی منزل نہیں ، ایک سرمئی دھند ہے جس میں چلتے رہنا، چلتے ہی رہنا، ایک مبہم سی سچائی، ایک ایسا تجربہ جسے بیان کرنے کے لیے علامت اور استعارہ کی ضرورت پڑتی ہے، در حقیقت یہی میری کہانی کا اثاثہ ہے۔ یہ میری کہانی کا باطن ہے۔ اس کی اندرونی معنویت، جو اسے ماورائے عصر بناتی ہے۔
لکھنا۔۔۔ ادب لکھنا ایک پیچیدہ عمل ہے، ایک ایسا تخلیقی پراسیس جسے قطعیت کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ خیال کس عمل سے گزرتا ہے اور کیونکر ایک فن پارے کی صورت اختیار کرتا ہے، اس کے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے، اور اس سے بھی زیادہ مشکل اس سوال کا جواب ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں ؟بس میں لکھتا ہوں کہ مجھے لکھنا آتا ہے، شائد نہیں ، یہ جواب مکمل نہیں۔ میں لکھوں نہ تو اور کیا کروں کہ مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ اظہار کے راستے تو آدمی ڈھونڈ ہی لیتا ہے، اس لیے یہ بھی کوئی مناسب جواب نہیں تو پھر کوئی کیوں لکھتا ہیَ؟ شہرت کے لیے، کسی آدرش کی تکمیل کے لیے، صرف اپنی ذات کے اظہار کے لیے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب باتیں مل کر وہ اکائی بناتی ہیں جو لکھنے کا محرک ہوتی ہے۔ جس طرح کسی اچھے فن پارے کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، کہ اچھا فن پارہ صرف خیال یا صرف اسلوب یا صرف تکنیک یا صرف جذبے کی بنیاد پر اچھا نہیں ہوتا بلکہ یہ سب جب ایک تناسب سے ایک اکائی میں ڈھل جاتے ہیں تو بڑا فن پارہ وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح لکھنا بھی ایک مکمل عمل ہے۔ لکھنے والا اپنے سماجی عمل سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور اس سے ماورا ایک اور حقیقت کو بھی تلاش کر رہا ہوتا ہے اگر وہ صرف سماجی اظہار تک محدود رہ جائے تو دوسرے درجے کا حقیقت نگار بن جائے گا، جس کے لیے سادہ بیانیہ ہی کافی ہے لیکن اگر وہ سماجیات کے ساتھ ساتھ اَن دیکھے کو بھی دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں پیچیدگی آ جائے گی جس کے اظہار کے لیے علامت اور استعارے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اب یہ ہر لکھنے والے کا اپنا ظرف اور استطاعت ہے کہ وہ اپنے آ پ کو کہاں رکھنا چاہتا ہے اور کن میں مقبول ہونا چاہتا ہے۔
لکھنے کے لیے ایک اضطراب اور بے چینی بہت ضروری ہے، یوں بھی نفس مطمئنہ کس کو ملا ہے، کشف کے بڑے سے بڑے تجربے کے بعد بھی ایک کسک، ایک بے چینی تو موجود رہتی ہے، لکھنا بھی ایک مکاشفہ ہی ہے۔ لکھنے والا مطمئن ہو جائے تو صورتِ حال کا غلام بن جاتا ہے، اس کے اندر دربار داری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے لفظوں سے وہی کام کرتا ہے جو بھانڈ اپنی حرکتوں اور پھبتیوں سے کرتا ہے۔ تفریح اور حظ آفرینی میں ایک فرق ہے۔ لکھنے والا اپنی تحریر میں خود موجود ہوتا ہے۔ میں اپنے ہر کردار کے اندر بھی ہوں اور اس سے باہر بھی۔ ایک اضطراب مجھے لیے لیے پھرتا ہے۔ کسی ان دیکھے، نامعلوم کی تلاش میں ، یہ اضطراب ختم ہو جائے تو میرے اندر کا لکھنے والا مر جائے گا۔ کہتے ہیں کوئی درویش ہمیشہ یہ دعا مانگتا تھا کہ ’’اے خدا مجھے مضطرب رکھ‘‘ کسی نے کہا، ’’تو عجب شخص ہے، لوگ خدا سے اطمینان مانگتے ہیں اورتو اضطراب کا طالب ہے۔‘‘ درویش بولا،’’یہ اضطراب ہی تو میرے ہونے کی دلیل ہے‘‘ سو میں بھی ہمیشہ اضطراب کی دعا مانگتا ہوں کہ میرا بے چین ہونا، میری تحریروں کی زندگی ہے۔ میرے عہد کے جو لکھنے والے بے چینی کی دولت سے عاری ہیں ، وہ قصیدے لکھ رہے ہیں ، لطیفے سنا رہے ہیں اور تالیاں پٹوا رہے ہیں ، ان میں اور شو بز کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ، ان کی زندگی سٹیج پر پردہ گرنے تک محدود ہے۔ اس لیے ہر لکھنے والے کو انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ ویسے انتخاب کا مرحلہ تو ہر لمحے موجود ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق چلنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ غالبؔ اگر ذوقؔ کی راہ پر چلتے تو وقتی شہرت تو ضرور مل جاتی لیکن پھر وہ بھی اس طرح کے مصرعے کہتے:-
؎ شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن آب میں
وہ اس دکھ کا اظہار نہ کرتے
؎ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن وقت سب سے بڑا نقاد ہے اس کی چھلنی میں سے گزر کر غالبؔ ہی زندہ رہتا ہے، ہر لکھنے والے کو اس نکتہ پر غور کرنا چاہئیے۔
میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں ، اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ ایسے سب سر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہو گا، ہماری رائے کی اہمیت ہو گی۔ یہ خواب سہی، میری بے تاب تمنائیں سہی، لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔ میں تو درویش بننا چاہتا تھا لیکن اس کا ظرف نہ تھا، دنیا دار اس لیے نہ بن سکا کہ دنیاداری کا سلیقہ نہ تھا، سو میں نے لکھنے والے کا بھیس اپنا لیا ہے کہ اپنا تماشا دیکھوں اور دوسروں کا بھی۔
’’ازل سے ابد تک ایک خواب، ایک پر اسرار سرمئی دھند جس میں کچھ دکھائی دیتا ہے کچھ نہیں ، اور میں جو وجود اندر وجود ایک چھوٹا سا جرثومہ ہوں کائنات کی وسعتوں کو دریافت کرنے چلا ہوں ، عظمت کی یہ تلاشا نا کی تسکین کے سوا اور کیا ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔۔۔ ‘‘ یہی میرے لکھنے کا جواز ہے!
٭
میں اور میرے کردار
میں اور میرے کردار، ایک دوسرے کے ساتھ زندہ ہیں۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ یہ کردار مجھے اپنے سے باہر کہیں دکھائی دیتے ہیں ، آہستگی سے میرے قریب آتے ہیں اور پھر جست لگا کر میرے اندر کہیں گم ہو جاتے ہیں ، مدتیں گزر جاتی ہیں ، مجھے ان کی کوئی خبر نہیں ملتی، پھر کسی دن اچانک وہ میرے باطن سے نمودار ہو تے ہیں اور میری کسی کہانی میں لفظوں کا لباس اوڑھ کر اپنی ایک پہچان بنا لیتے ہیں ، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ کردار میرے اندر ہی کہیں جنم لیتے ہیں ، کسی دن اچانک باہر نکل کر ہجوم میں گم ہو جاتے ہیں ، میں انہیں تلاش ہی کرتا رہ جاتا ہوں ، ان کی پرچھائیاں میری کہانیوں میں بے نام کرداروں کی صورت ’دوسری ذات، کی تلاش بن جاتی ہیں۔
جس زمانے میں ، میں واہ کالج میں تھا تو روزانہ بس میں آنا جانا ہوتا، جاتے ہوئے اکثر ایک بوڑھا شخص مجھے اپنی جانب متوجہ کر لیتا، میلے کپڑوں ، پھٹی جوتی اور گندے صافے میں بھی اس کے چہرے کی جھریوں میں زمانے رینگتے نظر آتے۔ وہ عموماً ٹیکسلا موڑ پر اتر جاتا۔ ایک دن وہ کسی سے باتیں کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ پتھر تراشتا ہے، ان سے ڈیکوریشن پیس اور مورتیاں بناتا ہے، کئی دن گزر گئے بس آگے پیچھے ہو جاتی تو میری اس سے ملاقات نہ ہوتی، ایک دن مجھے لگا کہ اس نے اپنی نشست سے جست لگائی ہے اور میرے اندر کہیں ڈوب گیا ہے۔ میں نے اسے تلاش کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ عرصہ گزر گیا، ایک دن کالج سے واپسی پر بس ٹیکسلا موڑ پر رکی تو وہ بوڑھا بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ میرے اندر سے نکل آیا۔ بس رک گئی، یا شاید چلتی رہی، سارا منظر بدل گیا۔
’’میرے اندر کوئی چیز تیزی سے پھیلنے لگتی ہے۔ بس نے رفتار پکڑ لی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف کے مناظر تیزی سے دوڑ رہے ہیں ، میرا وجود سیٹ کی گرفت سے نکل کر بس میں پھیلنے لگا ہے۔ کوئی میرے قریب سے سرگوشی کرتا ہے۔ میں گھبرا کر چاروں طرف دیکھتا ہوں ، باہر سنسناتی ہوئی ہَوا مسلسل بڑبڑا رہی ہے:
’’ٹیکسلا۔۔۔ ٹیکسلا۔۔۔ ٹیکسلا۔۔۔ ‘‘
میرا وجود ساری بس پر چھا جاتا ہے۔ بس کے اندر کی ہر چیز اس میں سمٹ جاتی ہے۔ اب میں سڑک پر دوڑ رہا ہوں۔ کٹے پھٹے زخمی میدان تیزی سے پیچھے رہ رہے ہیں۔ چاروں اور دور دور تک زمین بنجر اور ویران ہے۔ اِکا دُکا درخت بھی نظر آ رہے ہیں۔ میرا وجود اب سڑک کی گرفت سے نکلنے کے لیے جد و جہد کر رہا ہے لیکن دونوں کنارے مجھے مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ میں کناروں کے ساتھ ساتھ کئی میل تک دوڑتا چلا جا رہا ہوں ، دفعتہً ایک طرف کا کنارہ کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں سمٹ کر جلدی سے اس کی راہ باہر نکل جاتا ہوں اور تیزی سے پھیلنے لگتا ہوں۔ اب کوئی حدبندی نہیں۔ میں پورے میدان پر چھا رہا ہوں۔ چٹیل پن ختم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ گھنا لہلہاتا جنگل ابھر رہا ہے۔ میرا وجود پھر سمٹنے لگتا ہے۔‘‘
یہ اقتباس میرے افسانے ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘ سے ہے۔ اس افسانے کا خیال مجھے اس ادھیڑ عمر نے سجھایا تھا جسے میں بس میں جاتے دیکھا کرتا تھا۔ لمبے گھیرے کی شلوار، کھلی بانہوں کا میلا کُرتا اور پاؤں میں پھٹی جوتی والا یہ بوڑھا میرے اندر اتر گیا تھا اور جب باہر آیا تو اپنے ساتھ بڑے مندر کی رقاصہ کوشلیا، کلاکار دیا شنکر، مدن موہن، پنڈت چندر، پروفیسر کلیم اور نجمہ محمود علی کو ساتھ لے آیا۔ یہ سارے کردار مجھے وقت کی قید سے نکال لے گئے۔ میں نے ٹیکسلا کی عظمتوں کو لشکارے مارتے دیکھا، پھر اس کے اجڑنے کا منظر بھی میرے سامنے آیا۔ اس کے کھنڈروں میں گائیڈ کی بات سنی:
’’جی ہاں ، یہ ٹیلہ کبھی مندر تھا جہاں گوتم کی داسیاں گیت گایا کرتی تھیں۔‘‘
عنائت اللہ نے مجھ سے کہا تھا۔۔۔ ’’موت کتنی بھیانک شے ہے۔ چیزوں کے چہرے مسخ کر دیتی ہے۔‘‘
اور میں نے جواباً کہا تھا۔۔۔ ’’ہاں ، وہ انسانوں کی طرح شہروں پر بھی نازل ہوتی ہے، عنائت ہمارے چہرے کتنے بدل چکے ہیں۔‘‘
اور پھر انہی کھنڈرات میں سے مَیں نے ٹیکسلا کو نیا جنم لیتے دیکھا تھا۔ وہاں ہیوی کمپلیکس بن رہا تھا۔ وہاں ایک بڑی اسلحہ ساز فیکٹری قدم جما رہی تھی۔ سارے علاقے پر چھائی دھوئیں کی چادر ٹیکسلا کی نئی زندگی کی نوید دے رہی تھی۔ مدتوں سے سویا ہوا یہ عظیم شہر آنکھیں مل رہا تھا۔ میں خوشی سے ناچنے لگا تھا۔ ٹیکسلا سانس لے رہا ہے۔۔۔ ٹیکسلا سانس لے رہا ہے، اور میرے سامنے کی سیٹ پر بیٹھا وہ بوڑھا زیر لب مسکرا رہا تھا۔ اس کردار نے مجھے ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘ جیسا افسانہ عطا کیا تھا جسے میں اپنے بہترین افسانوں میں شمار کرتا ہوں۔
بوڑھے پراسرار کردار مجھے اکثر اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ ایک شام ایک دوست کو لینے بس اڈے پر انتظار کرتے مجھے اسی طرح کا ایک بوڑھا دکھائی دیا جو ایک بینچ پر بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی لیکن وہ مجھے اپنی کہانی سنا گیا۔ میری کہانی ’’پھول تمنا کا ویران سفر‘‘ انہی خوشبوؤں کی عطا ہے جو ہم دونوں نے اسی بینچ پر بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کی تھیں۔
بعض کہانیاں عجب طرح جنم لیتی ہیں۔ فتح محمد ملک کی کتاب چھپ رہی تھی۔ اس کی کتابت اعجاز کھوکھر نے کی تھی۔ ایک اتوار ان کے گھر غلطیاں لگانے کا کام ہوا۔ واپسی پر میں جڑی ہوئی کاپیاں ساتھ لے آیا کہ ایک نظر دیکھ لوں۔ لفافہ ٹیکسی میں رہ گیا۔ دو تین دن تلاش ہوئی لیکن مسودہ نہ ملا۔ اعجاز کھوکھر کو کتاب نئے سرے سے لکھنا پڑی لیکن مجھے ایک عجب کہانی مل گئی۔ اس کہانی کا عنوان ’’بانجھ لمحے میں مہکتی لذت‘‘ ہے۔
’’کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘ بیوی اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔ ’’خیریت توہے نا، تم ٹھیک ہو نا۔‘‘
وہ ایک لمحہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔ ’’کل رات میں خود کو ٹیکسی میں بھول آیا ہوں۔‘‘
بیوی نے لمحہ بھر کے لیے حیرت سے دیکھا لیکن اگلے ہی لمحے جھنجھلاہٹ اس کے سارے چہرے پر رینگنے لگی۔۔۔ ’’کیا‘‘
’’ہاں ‘‘ وہ رک رک کر کہنے لگا ’’ٹیکسی جب گلی کی نکڑ پر رکی تو بے خیالی میں مَیں خود کو پچھلی سیٹ پر ہی بھول گیا۔‘‘
بیوی نے سر پر ہاتھ مارا اور بولی۔۔۔ ’’تو یہ کون ہے؟‘‘
’’ارے واقعی یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ کو اور پھر بچوں کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہے تھے۔
’’واقعی یہ کون ہے؟‘‘
لمحہ بھر خاموشی رہی، پھر بولا۔۔۔ ’’ہو سکتا ہے یہ وہی ٹیکسی ڈرائیور ہو جس کی ٹیکسی میں مَیں گھر آ رہا تھا، یا پھر کوئی اور ہو۔۔۔ کوئی بھی‘‘
میرے پہلے افسانوی مجموعے ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ میں تو بعض کردار اپنے اصلی ناموں سے بھی آ گئے ہیں۔ مثلاً سرور کامران، مظہر الاسلام وغیرہ اور کہیں یہ کردارا اور ب کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ کے یہ دونوں بنیادی کردار میں اور مظہر الاسلام ہیں۔ میںا ہوں اور مظہر ب ہے۔ یہ ہم دونوں کی سچائیوں کی تلاش کا سفر ہے جو شاید مکمل نہیں ہو پایا لیکن یہیں ’’ریت، رسی اور موت‘‘ بھی ہے جس کے کردار جمیلہ شاہین، سرور کامران اور میں اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی مجموعے میں وہ لڑکی بھی ہے جسے تصویریں بنانے کا شوق تھا اور میں جب بھی اسے چھونے کی کوشش کرتا وہ رنگوں کی پیالی میں ڈبکی لگا جاتی۔ میں پہروں ان پیالیوں کے پاس بیٹھا اس کے باہر نکلنے کا منتظر رہتا۔ وہ باہر نکلتی تو یوں رنگوں میں لتھڑی ہوئی ہوتی کہ میری انگلیاں پھسل جاتیں اور پھڑپھڑا کر اُڑ جاتی۔۔۔ دور، بہت دور۔
یہ وہ دور تھا جب میں ان کرداروں کو اپنے آس پاس تلاش کیا کرتا تھا، مل جاتے تو میری باچھیں کھِل جاتیں۔ میں انہیں گھیر گھار کر اپنے تخلیقی سیلف کے حوالے کر دیتا جو ان کی تراش خراش کرتا رہتا اور پھر کسی دن بنا سنوار کر کسی کہانی کے طاق میں بٹھا دیتا۔ پھر میرے اندر کوئی ایسی تبدیلی آئی کہ میں نے کرداروں کو باہر تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر ڈھونڈنا شروع کر دیا کہ مجھ پر منکشف ہوا ہے کہ میرے اندر جو جہان ہے وہ باہر کی دنیا سے کہیں بڑا، پراسرار اور عظیم ہے۔
میں پہلی بار کراچی گیا تو اعجاز راہی مجھے سمندر دکھانے لے گیا۔ سمندر کو پہلی بار دیکھ کر مجھ پر ایک عجیب محویت طاری ہو گئی۔ میں نے اعجاز سے کہا۔۔۔ ’’میں پہلی بار سمندر دیکھ رہا ہوں ، یہ لمحہ کتنا عجیب ہے۔‘‘
دفعتہً کوئی کھلکھلا کر ہنسا۔ یہ سمندر تھا۔ مجھے حیرت زدہ دیکھ کر بولا۔۔۔ ’’میں تو ہمیشہ سے تمہارے اندر موجود ہوں ، یہ حیرت کس لیے؟‘‘
’’دن کے وقت سمندر میرے گھر سے تیرہ سو چھبیس کلومیٹر دور ہوتا ہے لیکن جونہی رات گھنی سیاہ پلکیں اٹھا کر شہر کے چوک میں اترتی ہے، سمندر رینگتا رینگتا میرے کمرے کی دیوار سے آ لگتا ہے اور نرم لچکیلی انگلیوں سے بند کھڑکی پر دستکیں دیتا اور میرا نام لے لے کر پکارتا ہے۔‘‘
(میلہ جو تالاب میں ڈوب گیا)
ایک دن میں نے رخسانہ سے کہا تھا۔۔۔ ’’میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اعجاز راہی کے ساتھ سمندر کے کنارے کھڑے جب سمندر نے مجھے یاد دلایا کہ عرصہ سے، شاید ازل سے وہ میرے اندر ہے تو مجھے مرشد کی بات یاد آئی:
’’مرشد نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی۔۔۔ اے خدا مجھے احدیت کے سمندر کی گہرائیوں میں داخل کر۔‘‘
اس نے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔ ’’لیکن میں تو ابھی دنیا کے سمندر میں بھی نہیں اتر سکا۔‘‘
مرشد مسکرایا۔۔۔ ’’دنیا بھی تو وہی ہے۔‘‘ (سمندر مجھے بلاتا ہے)
میرے افسانوں میں دو کردار جو کبھی سیّال اور کبھی ٹھوس صورت میں بار بار نمودار ہوئے ہیں میری بیوی رخسانہ اور بیٹی سعدیہ کے ہیں۔ سعدیہ جب دودھ پیتی بچی تھی تو میں اسے اپنے سینے پر لٹا کر اسی بڑے گنبد میں بیٹھ جاتا تھا جو میرے پرانے گھر میں تھا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے میں نے انکشاف کے کئی درجے طے کیے۔ وقت کو کبھی ٹھہرتے اور کبھی پَر لگائے اُڑتے دیکھا۔ میری کہانیوں میں بیٹی کے سارے کردار سعدیہ کے گرد گھومتے ہیں۔
اپنی ایک ایک کہانی کا دروازہ کھولوں تو کرداروں کا ایک ہجوم ہے، جن میں سے کچھ پہچان رکھتے ہیں ، کچھ کے نام ہیں ، کچھ بے شناخت اور بے نام ہیں۔ میرے بعض کردار ایسے بھی ہیں جو اگرچہ انسانی وجود نہیں رکھتے لیکن میرے ساتھ ان کا برتاؤ انسانوں جیسا ہے۔ یہ کردار مجھے کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں ، مانوسیت ہوتی ہے تو ہمارا مکالمہ شروع ہو جاتا ہے۔ میرا گھر، میری گاڑی، سڑکیں ، دیواریں اور گلیاں میرے کردار ہیں۔ نانک پورہ میں مَیں جس گھر میں رہتا تھا، اس کی ایک ایک اینٹ سے میرا مکالمہ ہوتا تھا۔ جن دنوں ہم اس گھر سے نئے گھر میں منتقل ہونے کے پروگرام بنا رہے تھے اور سامان سمیٹ رہے تھے تو مجھے لگا، وہ مجھ سے روٹھا روٹھا سا ہے، مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اسے الوداع کہتا، چنانچہ جس دن ہم نے اپنے نئے گھر گلستان کالونی میں منتقل ہونا تھا، میں علی الصبح گھر سے نکل گیا اور بیوی بچوں کو کہ گیا کہ دوپہر تک سامان سوزوکیوں میں لاد کر نئے گھر چلے جائیں اور چابی نیچے والوں کو دے جائیں۔ میں صبح سویرے ناشتہ کیے بغیر ہی چپکے سے نکل گیا کہ میں اس لمحے کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا جب اس گھر کو تالا لگا رہا ہوتا۔ شام کو میں نئے گھر پہنچا تو سب لوگ سامان سمیت وہاں آ چکے تھے۔ دو ایک دن تو سامان سنبھالتے اور نئے گھر کی خوشی میں گزر گئے لیکن تیسری رات عجب ہوا۔ شاید آدھی رات کو یوں لگا جیسے باہر کی گھنٹی بج رہی ہے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا، رخسانہ اپنی نیند میں مست تھی، بچے اپنے اپنے کمروں میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے، مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ میرا وہم ہو، لیکن گھنٹی دوبارہ بجی۔ میں اٹھا، باہر آیا، گیٹ کھولا، کیا دیکھتا ہوں کہ نانک پورے والا گھر سامنے کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر دکھ اور شکایت کا ایک تاثر ابھرا۔۔۔ ’’مجھے ملے بغیر کیوں چلے آئے؟‘‘ میں کیا جواب دیتا، میں نے چپکے سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم تا دیر ایک لفظ کہے بغیر ایک دوسرے کے جذبات کا جواب دیتے رہے۔
یہ غیر مرئی کردار میری کئی کہانیوں میں موجود ہیں لیکن میرے افسانوی مجموعے ’’کاغذ کی فصیل‘‘ کے اکثر کردار میری باہر والی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ کی دونوں بہنیں ایک عرصہ تک واہ مین سبط علی صبا کے پڑوس میں رہیں۔ ان میں سے ایک ہماری کلاس فیلو تھی اور میں اور ایک اور دوست ہر ہفتہ انہیں ملنے واہ جاتے تھے۔ میں اس زمانے میں ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ چنانچہ یہ سارا افسانہ اسی ماحول میں پھوٹا اور یہی دو کردار اس کے مرکزی کردار بنے، البتہ ان کا بھائی جو افسانے میں بھی ایک فرضی کردار تھا، میرے تخیل کی پیداوار تھا۔ اسے میرے اندر کے افسانہ نگار نے تخلیق کیا تھا۔ اسی مجموعے کے ایک اور افسانے ’’مکھن کا بال‘‘ کا سارا منظر میں نے خود دیکھا تھا اور اس کے سارے کردار مجھے اس گاؤں ملے تھے جہاں میں اپنے ایک دوست سردار کے ساتھ ایک دن کے لیے گیا تھا۔
بعض اوقات کچھ تجربے اور کچھ مشاہدے بھی کرداروں کا روپ اپنا لیتے ہیں۔ شِکر دوپہر میں کوٹھے کوٹھے پیتل کے لوٹوں کو تلاش کرتے صحن میں وہ منظر جس نے مجھے پہلی بار جسمانی لذت کا احساس دلایا یا نیم تاریک ڈیوڑھی میں خوشبو کی اپنائیت ’’کاغذ کی فصیل‘‘ کے دو تین افسانوں میں موجود ہے۔ یہ اس دور کی کہانیاں ہیں جب ابھی میں نے علامت کی پُر اسرار دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا۔ جنس اور لذت میرے لیے بڑے عجیب معنی رکھتے تھے۔ پھر جانے کیا ہوا کہ میں اس دنیا سے نکل کر ایک نئی دنیا میں چلا آیا۔ یہ علامت کی دھندلی دنیا تھی، ’’لیمپ پوسٹ‘‘ جو میرا پہلا علامتی افسانہ ہے، کچھ حقیقت اور کچھ تخیل سے مل کر وجود میں آیا ہے۔
’’لیمپ پوسٹ‘‘ کا کردار ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے۔ یہ کردار بھی کچھ حقیقت اور کچھ تخیل کی پیداوار ہے۔ اس افسانے کی ساری فضا میں جو اسرار ہے وہ میرے اندر کا اسرار ہے۔
میری کہانیوں کا ایک ایسا کردار ہے جس کا ذکر کئی کہانیوں میں ہے۔ یہ کون ہے میں نہیں جانتا، یہ ایک نسوانی کردار ہے، میں اسے اپنا آئیڈیل کہتا ہوں ، جسے میں تلاش کر رہا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ میں آج تک اسے اس کی مکمل صورت میں نہیں دیکھ سکا۔ مجھے اس کی آنکھیں نظر آتی ہیں ، کہیں ہونٹ، کہیں زلفیں ، کبھی میں اس کی آواز سنتا ہوں۔ یہ کردار میری کئی کہانیوں میں ہے۔ میں اس سے بچھڑا ہوا ہوں۔ اسی کے فراق کا دکھ اٹھا رہا ہوں۔ میری کہانی ’’ایک کہانی اپنے لیے‘‘ میں اس کی کئی پرتیں کھلی ہیں۔ مجھ سے کئی بار پوچھا گیا ہے کہ وہ کون ہے جس کے فراق کی کسک میری کئی کہانیوں میں موجود ہے۔ کیا یہ میری جوانی کا کوئی ناکام معاشقہ ہے۔ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ میرے پاس اس کا جواب ہے بھی نہیں۔ اپنی یادداشتوں میں ، میں نے اپنی محبتوں کا جو ذکر کیا ہے وہاں یہ لکھا ہے کہ میں کبھی کسی محبت میں سنجیدہ نہیں رہا، بس ایک ابال اور پھر خاموشی۔ یہ ٹھیک بھی ہے، لیکن یہ کردار کون ہے جو مجھے اکثر Haunt کرتا ہے، مجھے پکارتا ہے، اپنی طرف بلاتا ہے۔ کیا واقعی میری زندگی میں ایسی کوئی خاتون تھی۔ شاید ہو اور میں نے اپنے لا ابالی پن میں اس وقت تو اسے نظرانداز کر دیا ہو اور اب وہ میرے حواس پر چھا گئی ہو، لیکن یہ شاید درست نہیں۔ میں کچھ خواتین کے قریب ضرور گیا لیکن میرے مزاج میں جو جلد بازی اور اضطراب ہے اس نے مجھے کسی ایک جگہ ٹھہرنے نہیں دیا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ میرا یہ کردار دراصل میرے اندر کے اضطراب کی علامت ہے۔ اضطراب اور بے چینی میری زندگی ہے۔ اس درویش کی طرح جو خدا سے ہمیشہ مضطرب رہنے کی دعا مانگا کرتا تھا، میں بھی اضطراب کی تمنا کرتا ہوں۔ بے چینی میرا تحرک ہے اور یہ کردار، جو میری کئی کہانیوں میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے اسی بے چینی کی علامت ہے۔ اسے میرے اندر کے اضطراب نے تراشا ہے۔ میں نے حقیقی دنیا میں عشق کا دکھ نہیں اٹھایا، اس لیے اس کردار کے ذریعے میں نے دکھ اٹھانے کی اس کیفیت اور لذت کو خود تخلیق کیا ہے۔ میں اس کے لیے تڑپتا ہوں۔ اسے یاد کرتا رہتا ہوں اور پہروں اداس رہتا ہوں۔ کبھی کبھی وہ مجھے چند لمحوں کے لیے کہیں مل جاتا ہے۔ بیوی کے ساتھ کسی سٹور سے نکلتے ہوئے، لمحہ بھرکے لیے اس کا سامنا ہوتا ہے۔ ٹھٹھک کر ایک دوسرے کو دیکھنا اور پھر اجنبی بن جانا۔ دیر تک اداسی کی لذت کو محسوس کرتے رہنا۔ یہ سب میرے اندر کی دنیا ہے۔ اپنے اندر بھی تو ہم بہت سے کرداروں اور ماحول کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ یہاں وقت ایک سیل رواں نہیں۔ وقت ٹھہر بھی جاتا ہے، اور اس ٹھہرے ہوئے لمحے میں زمانے ایک ہو جاتے ہیں ، لمحہ بھر میں حال سے ماضی، ماضی سے حال اور مستقبل میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔ میرے افسانے ’’تلاش‘‘ کی ساری بُنت اسی تصور پر ہے۔ یہاں یہ کردار صدیوں سے میرے ساتھ ہے۔ زمانے بیت گئے ہیں ، ظاہر کی چیزیں بدل گئی ہیں ، لیکن اندر کی دنیا نہیں بدلی۔ میں جب تک سوچتا ہوں ، میں ہوں اور جب تک میں ہوں میرا یہ کردار بھی موجود ہے۔
میرے کرداروں کی جنم بھومی جیسا کہ میں نے کہا، اندر اور باہر دونوں دنیائیں ہیں ، اور ان میں جو فرق ہے وہ ان دنیاؤں کے طور طریقوں کا فرق ہے۔ اندر کی دنیا کو دیکھنے اور جاننے بلکہ سمجھنے کے لیے بہت دور تک اندر اترنا پڑتا ہے لیکن یہ عجب بات ہے کہ جب آپ اپنے طور پر اندر کی یاترا کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کائنات میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں اندر کی سرنگ سے ہوتے ہوئے آدمی خلاء میں کیسے پہنچ جاتا ہے۔ شاید باطن ایک دریچہ ہے جس کے دوسری طرف بے انت ہے۔ اسی لیے مجھے ذاتی طور پر وہ کردار زیادہ Haunt کرتے ہیں جو میرے اندر سے جنم لیتے ہیں ، یوں ہوتا ہے کہ میں اکیلا کہیں جا رہا ہوتا ہوں ، کہیں کسی موڑ یا اشارے پر گاڑی ذرا دھیمی ہوتی ہے تو کوئی کردار اگلا دروازہ کھول کر اچانک میرے ساتھ آ بیٹھتا ہے، مجھ سے باتیں کرتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے وہ غائب نہیں ہوا میرے اندر کہیں اتر گیا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ گاڑی پوری رفتار سے جا رہی ہے، اچانک احساس ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ بیٹھا ہے، میں اسے دیکھتا ہوں ، پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں اور ہماری گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ مجھے معلوم ہے یہ میرے اندر کی دنیا سے باہر نکلا ہے۔ ممکن ہے کہ باہر سے ہی اندر گیا ہو، عرصہ تک اندر کی دنیا کی سیر کرتا رہا ہو اور اب میری کہانی میں داخل ہونے کے لیے باہر نکل آیا ہو۔ باہر کے کردار بھی تو اندر ہی کی دنیا میں پکتے ہیں۔ جیسے کمہار کچی مٹی کو اپنے چاک پر ایک صورت عطا کر کے اسے پکنے کے لیے رکھ دیتا ہے، کبھی کبھار میرے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے کہ میں بھول ہی جاتا ہوں کہ میں نے کسی کو پکنے کے لیے اپنے تخلیقی سیلف میں رکھا ہوا ہے۔ یہ تخلیقی عمل ہے بھی تو عجب پُر اسرار، اس کی گہرائیاں کون ناپ سکا، اس کے اسرار کون جان سکا، کہانی بن جاتی ہے، کبھی تھوڑی سی محنت کر کے بنانا پڑتی ہے، کبھی بنی بنائی آ جاتی ہے اور کردار، وہ بھی کبھی چلتے چلاتے مل جاتے ہیں ، کبھی اندر سے باہر آ جاتے ہیں کہ اندر اور باہر دونوں دنیائیں اپنی اپنی معنویت، وسعت اور اسرار رکھتی ہیں اور مجھے یوں لگتا ہے کہ میرا اندر کا جہان باہر والے سے زیادہ پُر اسرار، بامعنی اور ہمہ جہت ہے اس لیے مجھے وہاں سے کردار تلاش کرنے اور انہیں اپنی کہانی میں سمونے میں زیادہ لطف آتا ہے۔
٭
گفتگو
محرک گفتگو: ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
س لکھنے کی ابتدا کیونکر ہوئی۔ ابتدا میں کن مصنفین سے متاثر ہوئے۔ ادبی ذوق کے نکھار میں کن لوگوں کا حصہ رہا؟
ج یہ ۱۹۶۰ء کے آغاز کی بات ہے۔ میں ۵۰۱ ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں حاضری کے فارم مکمل کرنے کے بعد میں فارغ ہو جاتا تھا چنانچہ ایک آدھ کتاب ساتھ لے جاتا تھا اور پڑھتا رہتا تھا۔ اسی سیکشن میں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا اس کا نام اعجاز حسین تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ چنانچہ میں نے لکھنا شروع کر دیا اور اختر رشید ناز کے نام سے اس زمانے کے رومانی پرچوں (رومان وغیرہ) میں یہ کہانیاں بھیجنا شروع کر دیں۔ دو تین کہانیاں آگے پیچھے چھپ گئیں۔ مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ اسی دوران اعجاز راہی ایک شام تین چار دوستوں کو لے کر میرے گھر آن پہنچا اور بتایا کہ یہ سارے راولپنڈی کے نوجوان ادیب ہیں۔ ان میں نثار ناسک اور سلیم الظفر شامل تھے۔ میرے پاس انھیں چائے پلانے کے پیسے نہیں تھے نہ گھر میں کوئی ڈھنگ کی جگہ بیٹھنے کے لیے تھی چنانچہ ہم کشمیری بازار میں واقع پارک میں چلے گئے۔ نثار ناسک ہم میں بڑا تھا۔ اس نے نوجوان ادیبوں کے مسائل پر بڑی مبسوط گفتگو کی۔ تجویز دی کہ ہمیں ہر شام کہیں اکٹھا ہونا چاہیے اور ایک ادبی انجمن بھی بنانا چاہیے۔ چنانچہ بڑی بحث کے بعد ’’بزم میر‘‘ کے نام سے ایک انجمن کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ مجھے اس کی مجلس عاملہ کارکن بنایا گیا۔ دوسرے دن شام سے ہم نے پنڈی ہوٹل (راجہ بازار) میں اکٹھا ہونا شروع کر دیا۔ یہیں میری ملاقات غلام رسول طارق سے ہوئی۔ ’’بزم میر‘‘ کے ہفتہ وار اجلاس بھی شروع ہو گئے۔ یہ اجلاس موچی بازار کے ایک ہوٹل میں ہوتے تھے۔ دوسرے تیسرے جلسے میں میں نے ایک کہانی پڑھی۔ جب جلسہ ختم ہو گیا تو غلام رسول طارق نے مجھے روک لیا اور کہنے لگے۔ یہ کہانی تم نے خود لکھی ہے۔ میں نے کہا، جی میں نے ہی لکھی ہے۔ کہنے لگے، کل دوپہر کو مجھے صدر بوہڑ ہوٹل میں ملنا میں صدر میں ایک پریس میں کام کرتا ہوں اور دوپہر کا کھانا اس ہوٹل میں کھاتا ہوں۔ میں دوسرے دن وہاں پہنچ گیا۔ طارق صاحب بڑی شفقت سے ملے اور کہنے لگے۔ دیکھ بچے تم میں کہانی لکھنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ لیکن ایک تو فضول لوگوں سے بچو اور دوسرے کوئی ڈھنگ کا نام رکھو۔ یہ اختر رشید ناز اچھا نام نہیں۔ میں نے کہا تو آپ ہی کوئی نام رکھ دیں۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد طے پایا کہ اب میں رشید امجد ہوں۔ انھوں نے میری گزشتہ دن پڑھی کہانی میں ایک دو زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ اسے کسی اچھے پرچے میں بھیجو۔ میں نے یہ کہانی میرزا ادیب صاحب کو بھیج دی جو ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر تھے۔ ایک ہفتہ میں ہی میرزا صاحب کا خط آیا جس میں کہانی کی بڑی تعریف کی گئی تھی اور یہ مژدہ تھا کہ کہانی زیر ترتیب شمارے میں آ رہی ہے۔ سو رشید امجد کی پہلی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ کے نام سے ادب لطیف کے ستمبر ۶۰ء کے شمارے میں چھپی۔ یہ کہانی اس وقت کچھ نیم استعاراتی سی تھی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ کہانی ادب لطیف میں چھپ جائے گی، چنانچہ میں نے اس کے آخر میں لکھا تھا (ایک چینی کہانی سے ماخوذ)۔ اس کے بعد میں نے کئی کہانیاں لکھیں جو سادہ بیانیہ میں تھیں۔ ۱۹۶۵ء میں ، میں نے اسی کہانی کو دوبارہ لکھا اور یہی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ ایک نئے علامتی انداز سے اوراق کے چوتھے شمارے (اکتوبر ۱۹۶۶ء) میں چھپی۔ یہ میرے نئے دور کا آغاز تھا۔ ستمبر ۶۰ء میں اختر رشید ناز سے رشید امجد برآمد ہوا تھا اور اکتوبر ۱۹۶۶ء میں اس رشید امجد میں سے ایک نئے رشید امجد نے جنم لیا جس نے علامت کو اپنا پیرایۂ اظہار بنایا۔ اس دوران جن لوگوں کو میں نے پڑھا ان میں منٹو اور بیدی دور تک میرے ساتھ چلے۔ میری ابتدائی کہانیوں پر منٹو کے خاصے اثرات ہیں ، خصوصاً موضوع کے حوالے سے، جنس ایک عمر میں سب سے پسندیدہ موضوع ہوتا ہے۔ میری ابتدائی کہانیوں کا محور بھی جنس ہے۔ ان میں منٹو جیسی نفسیاتی دبازت تو نہیں ، لیکن میں نے جنس کو معاشی بدحالی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ ’’بزم میر‘‘ کے بعد ’’حلقہ ذہن جدید‘‘ وجود میں آیا۔ اس کا سیکرٹری میں تھا۔ اس کے بعد ’’لکھنے والوں کی انجمن‘‘ وجود میں آئی۔ اب پنڈی میں نئے لکھنے والوں کا ایک مضبوط گروپ بن گیا تھا۔ نئی لسانی تشکیلات کی بحثیں زور و شور سے جاری تھیں۔ کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس بھی شروع ہو چکے تھے لیکن سینئر لکھنے والے ہمیں گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ اختر احسن اور مصطفی کمال نے ’’پنڈی کلچرل فورم‘‘ کے نام سے ادبی انجمن بنائی تھی لیکن نئے پن کے تمام تر دعووں کے باوجود یہ لوگ بھی ایک اسٹیٹس سے نیچے نہیں اترے تھے چنانچہ راولپنڈی اسلام آباد کے تمام نئے لکھنے والے منشا یاد، اعجاز راہی، سرور کامران، مظہر الاسلام، نثار ناسک، سلیم الدین سلیم، سلیم الظفر، بشیر مرنی مرحوم لکھنے والوں کی انجمن میں اکٹھے ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہمارے کچھ سینئر آفتاب اقبال شمیم، ماجد الباقری بھی انجمن کے جلسوں میں آنے لگے اس وقت ’’اوراق‘‘ اور ’’شب خون‘‘ نئے ادب کے ترجمان تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد پنڈی آتے اور انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے۔ اب ہم لوگوں نے حلقہ میں بھی جانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ حلقے کے جلسوں میں نئے ادب کی بحثیں شروع ہو گئیں۔ میرے ادبی ذوق کے نکھار میں حلقہ ارباب ذوق، لکھنے والوں کی انجمن اور شخصیات میں سے استاد غلام رسول طارق کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا اور ’’اوراق‘‘ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ خصوصاً جدید فکری رجحانات اور رویوں کو نمایاں کرنے اور مجھے بطور ایک علامت نگار متعارف کروانے میں وزیر آغا اور’ ’اوراق‘‘ کے نام میرے لیے ہمیشہ محترم رہیں گے۔
س آپ کے علامتی افسانوں میں تمثیلی انداز نمایاں ہے۔ تمثیل ہماری اساطیری داستانوں میں بھی موجود ہے۔ یوں ایک طرف تو آپ کا شمار جدید علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ کا رشتہ قدیم داستانوں سے جا ملتا ہے۔ یہ کوشش شعوری ہے یا بات خود بخود بن جاتی ہے؟
ج میرے افسانوں میں علامت، تجرید اور استعارے کے ساتھ ساتھ تمثیل بھی موجود ہے۔ تمثیلی انداز ہمارے ادب میں نیا نہیں۔ ہماری داستانی روایت کا ایک حصہ ہے، اور اس طرح میرا ایک رشتہ داستانوں سے بھی قائم ہوتا ہے۔ پہلی بار مجھے اس کا احساس قاضی عبدالستار نے کرایا تھا۔ وہ ایک وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ میری ان سے دو تین ملاقاتیں اکادمی کے جلسوں میں ہوئیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے اسلوب کا مطالعہ رجب علی بیگ سرور کو ذہن میں رکھ کر ہونا چاہیے۔ اس وقت تو میں نے اس پر غور نہیں کیا لیکن بعد مجھے خیال آیا کہ میرا ایک گہرا تعلق اساطیر سے ہے، لیکن میرا انداز اور اسلوب اساطیری یا داستانی نہیں بلکہ میں نے اسے ایک جدید صورت میں استعمال کیا ہے جو اپنے عہد کی مروج زبان، محاورے اور انداز و مزاج کے دائرے میں اپنی ایک الگ شناخت بناتا ہے۔ یہ کوشش اگر شعوری ہو بھی تو اس کے پیچھے ایک لاشعوری رویہ ضرور موجود ہے جو میرے اسلوب کو روایت سے بھی جوڑتا ہے اور اسے نیا پن بھی عطا کرتا ہے۔
س کہا جاتا ہے کہ (چند ایک سے قطع نظر) سب سے زیادہ نقصان، ان افسانہ نگاروں نے جدید افسانے کو پہنچایا ہے جنہوں نے افسانہ نگاری کو شاعری سے قریب تر کرنے کی کوشش کی۔ آپ کے افسانوں میں بھی شعری فضا پائی جاتی ہے۔ آپ اس کی وضاحت کریں گے؟
ج مجھے آپ سے اتفاق نہیں کہ شعری فضا نے افسانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ بات یوں ہے کہ علامت، استعارہ اور تشبیہ شعری وسائل ہیں۔ جدید افسانہ نگار نے ان شعری وسائل کو استعمال کر کے اپنی کہانی میں معنوی دبازت پیدا کی ہے اور اسے ہمہ جہت بنایا ہے۔ ان شعری وسائل کا استعمال انور سجاد کے یہاں بھی ہوا ہے لیکن انور سجاد کے یہاں شعری فضا پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اسلوب کی خشکی اور حسابی ترتیب اس میں مزاحم ہے۔ یہ شعری وسائل ہر جدید افسانہ نگار کے یہاں موجود ہیں لیکن میرے یہاں ان کے استعمال کے طریقہ کار نے ایک ملائمت اور معنوی دبازت پیدا کی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ افسانے کو نظم سے قریب کرنا دیگر رویہ ہے اور شعری وسائل کا استعمال دوسرا رویہ ہے۔ میرے افسانوں میں یہ فضا اور وسائل Readability پیدا کرتے ہیں اور میرے اسلوب میں ایک ایسی روانی پیدا کرتے ہیں کہ کہیں معنوی ترسیل نہ بھی ہو رہی ہو تو بھی قرات میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ بعض افسانے (خاص طور پر ساٹھ کی دہائی میں ) تو پڑھتے ہوئے بار بار جھٹکا لگتا ہے۔ میرے اسلوب میں یہ بات نہیں۔ میں نے شعری وسائل کو معنوی دبازت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور انہیں تخلیقی سطح پر اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے، اس لیے ان کے استعمال میں شعوری کوشش شامل نہیں بلکہ یہ میرے مجموعی تخلیقی عمل کا ایک حصہ ہیں۔ پھر یہ کہ میرے تہہ دار شعور اور انکشافات ذات کے گہرے مطالعے اور بیان کے لیے ان کا استعمال ضروری تھا۔
س بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی، آپ کی کہانیوں میں نمایاں ہیں۔ یہ بے نام کردار اور بے چہرہ انسان معاشرے کی بے معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا ان بے نام کرداروں اور بے چہرہ انسانوں کے ہجوم میں آپ خود اپنے تشخص اور اپنی پہچان کے متلاشی ہیں ؟
ج سایہ دراصل جسم ہی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہیں جو خود بے شناخت ہوا جا رہا ہے۔ ہمارا عہد ایک بڑے زوال کے تسلسل میں ہے اور زوال میں چیزیں بے چہرہ اور بے شناخت ہو ہی جاتی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کا افسانہ (The other) دوسری ذات کی تلاش کا افسانہ ہے۔ یہ زمانہ دروں بینی کا ہے جب افسانہ نگار باہر سے اندر کی طرف جا رہا تھا۔ خارج سے باطن کی طرف اس سفر کے پس منظر میں سیاسی زوال، سماجی زوال، مارشل لاء اور بہت سے دوسرے عوامل شامل ہیں۔ اندر کی شخصیت بے نام اور بے چہرہ ہے اس سارے حوالے سے میرے افسانوں میں شناخت اور تشخص ایک اہم موضوع ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک ارتقاء ہوا ہے۔ میرے پہلے مجموعے ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ میں جنسی اور معاشی فرسٹیشن کا شکار ایک ایسا اینگری ینگ مین ہے جو جنس اور معاش کی کشمکش میں اپنا تشخص ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کی بے شناختی بے انفرادی اور ہیجان خیز جذباتیت سے وابستہ ہے۔ لیکن آگے جا کے شناخت کا یہ مسئلہ طبقاتی کشمکش سے جڑ جاتا ہے۔ تیسرے مجموعے ’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ میں میرے کردار سیاسی جبر میں اپنا چہرہ تلاش کر رہے ہیں۔ ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ میں شناخت کا یہ مسئلہ کائناتی ہو جاتا ہے جہاں ازل سے ابد تک کے سفر میں شناخت کا معاملہ روحانی ہو جاتا ہے اور اس میں مابعد الطبیعاتی رنگ آ جاتا ہے۔ شناخت کے ان مرحلوں میں میرے اسلوب میں بھی ایک تبدیلی آئی ہے اور شناخت کی ان پرتوں کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شناخت کی صورتیں بدلی ہیں میرے اسلوب و اظہار میں بھی جذباتیت اور غصہ کم ہوتا گیا ہے اور کشفی دبازت اور پہلو داری بڑھتی گئی ہے۔
س آپ کے افسانوں میں تشبیہی انداز کے بجائے استعاراتی فضا نمایاں ہے۔ بعض علامتوں یا بیشتر علامتوں سے آپ کے قاری واقف نہیں ہوتے اور یہ عمل ان کے لیے الجھن کا باعث ہے۔ آپ قاری کا امتحان کیوں لینا چاہتے ہیں ؟ آپ کے بعض افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ افسانہ لکھتے ہوئے آپ کے پیش نظریہ رائے ہوتی ہے کہ کہانی ایک حل طلب معمہ ہے اور اگر یہ معمہ نہ ہو تو قاری کے لیے اس میں کشش پیدا ہونا ناممکن ہے۔
ج میرے افسانوں میں صرف علامت کا استعمال نہیں بلکہ میں نے پیکر تراشی، استعارہ اور کہیں تمثیل سے بھی کام لیا ہے۔ بعض افسانے Absurd بھی ہیں۔ تجرید بھی ہے۔ علامت کا تعلق اسلوب سے ہے اور تجرید کا خیال سے۔ میں نے بعض جگہ ان سارے وسائل کو اکٹھا بھی کیا ہے۔ اچھی علامت تو اپنے ماحول سے پیدا ہوتی ہے، یہی صورت دوسرے وسائل کی بھی ہے۔ لیکن بہرحال علامت استعارہ یا اشارہ نہیں ہوتی اس کے معنوی تہہ تک پہنچنے کے لیے ذہانت کی ضرورت ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ذہین قاری کی اصطلاح بہت عام تھی، میں اس پر اصرار تو نہیں کرتا لیکن یہ بات بہرحال اپنی جگہ ہے کہ لکھا ہوا لفظ سب کے لیے نہیں ہوتا اور وہ لفظ جو کسی فن کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کا ترسیلی دائرہ اور بھی محدود ہو جاتا ہے۔ میرے چند افسانوں کو چھوڑ کر جو ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھتے ہیں ، ترسیل یا ابلاغ کا مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔ میرا اسلوب اتنا رواں ہے کہ افسانہ خود کو پڑھواتا چلا جاتا ہے۔ نئے افسانے میں مجموعی طور پر ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بات چند افسانوں کی وجہ سے ہوئی اور بہت سے نقادوں نے جدید افسانے کو پڑھے بغیر اس کی رٹ لگانا شروع کر دی۔ ترسیل یا ابلاغ کے ضمن میں مجھے میرا جی کا یہ جملہ دوہرانا ہے کہ ’’ابلاغ ایک اضافی قدر ہے‘‘ ایک وقت میں کسی فن پارے کا عدم ابلاغ دوسرے وقت میں ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی خوبی بن جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ابلاغ کی اپنی سطحیں ہیں جو قاری کی ذہنی سطحوں کے مطابق اپنے معنی وا کرتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ نیا افسانہ بہرحال پرانے افسانے سے مختلف ہے نہ صرف ہئیت و بنت کاری کے حوالے سے بلکہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی، اس لیے وہ قاری جس کے پڑھنے کی ٹریننگ پرانے افسانے کے حوالے سے ہوتی ہے، ابتداء میں نئے افسانے کو سمجھنے میں دقت محسوس کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نیا افسانہ اپنا دائرہ وسیع کرتا گیا۔ تیسرے یہ کہ ابتداء میں خود نئے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی عجز بیاں کی وجہ سے کئی ابلاغی مسائل پیدا ہوئے جو آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے۔ اس لیے اب نئے افسانے یا میرے افسانے کے بارے میں عدم ابلاغ کی بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔
س بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کہانی کار اپنی کہانی کی ابتداء اس کے انجام سے کرتا ہے۔ اس کی تکنیک کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ کہانی کی ابتدا چونکا دینے والی ہو یا نہ ہو لیکن دلچسپ ضرور ہوتا کہ قاری کا تجسس اسے آگے پڑھنے پر مجبور کرے؟
ج ہر کہانی کا اپنا ایک ہیئتی یا تکنیکی ڈھانچہ ہوتا ہے جو ظاہری ڈھانچے کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ آپ کے یہ دونوں سوال اس افسانہ نگار سے متعلق ہیں جو کہانی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک میکانیکی طریقے سے کہانی بناتا ہے۔ نئی کہانی اس طرح نہیں لکھی جاتی۔ میں واقعات کے ٹکڑے نہیں جوڑتا، مجھے پر پوری کہانی ایک اکائی کی صورت وارد ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھتے ہوئے یا بعد میں ایک آدھ جگہ کوئی تبدیلی کر لی جائے۔ میں نے اپنی اکثر کہانیاں ایک نشست میں لکھی ہیں۔ اگر پورا خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ مجھ پر وارد نہ ہو تو میں کہانی نہیں لکھ سکتا۔ پرانا افسانہ نگار واقعات کو جوڑ کر یا کسی کردار کو تلاش کر کے اس کے گرد کہانی بنتا تھا۔ میری اکثر کہانیوں کی بنیاد Idea ہے۔ پوری کہانی ایک خیال کے گرد بنی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹھوس واقعات کی بجائے بعض اوقات سیال صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ تو ہے کہ کہانی کا آغاز ہی ٹریپ کرنے والا ہوتا ہے۔ میری اکثر کہانیوں کہ پہلے یا ابتدائی چند جملے ایسے ہیں کہ قاری حیرت اور تجسس کے ساتھ کہانی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
س کہانی کی تخلیق کا سفر آپ اکیلے طے کرتے ہیں یا قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یا قاری بہت بعد میں شامل ہوتا ہے۔
ج زندگی کے معمولی واقعات میں سے غیر معمولی واقعات کا انتخاب کہانی کار کی باریک بینی اور زندگی کے گہرے مشاہدے کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی تب وجود میں آتی ہے جب اس واقعہ کا ذکر کیا جائے جو ابھی پیش آنا ہے۔
س آپ کا کیا خیال ہے اچھی کہانی وہ ہے جو پڑھنے والے کو اچھی لگے، یا جو تخلیق کار کو پسند ہو؟
س کیا آپ کہانی شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کرتے ہیں ، کہانی کا موضوع اور خاکہ سوچتے ہیں اور کیا کہانی اس خاکے کے مطابق ہو جاتی ہے جو آپ نے سوچا ہے اور اسی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا لکھتے ہوئے اصل موضوع سے ہٹ جاتے ہیں ؟
ج ان تین سوالوں کو میں اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ میرے افسانے موضوعاتی نہیں ہیں۔ وہ تو کسی خیال یا Ideaپر لکھے گئے ہیں۔ میرا تخلیقی عمل یوں ہے کہ میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے یا کسی صورتِ حال کو دیکھ کر یا اس سے گزرتے ہوئے ایک Ideaپیدا ہوتا ہے۔ اس پر میرے ذہن میں ایک تخلیقی پروسیس شروع ہو جاتا ہے بعض اوقات فوراً اور بعض اوقات مہینوں یہ خیال اس تخلیقی پروسیس سے گزرتا رہتا ہے۔ میں لکھنے سے پہلے اس کی منطقی یا تکنیکی ترتیب قائم نہیں کرتا۔ یہ خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ میرے ذہن کی سکرین پر واضح ہوتا ہے۔ اگر یہ ابتدائی جملے مناسب نہ ہوں تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔ اگر ایک جملہ لکھتا ہوں یا دو ایک جملے لکھ کر انہیں بار بار کاٹوں تو مجھے خود اس کا احساس جاتا ہے کہ یہ کہانی ابھی اپنے تخلیقی پروسیس سے پوری طرح نہیں گزری۔ میں اسے اسی طرح چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن اگر میں نے اس کے ابتدائی چند جملے لکھ لیے اور وہ میرے خواہش کے مطابق ہوئے تو کہانی آگے چل پڑتی ہے۔ کہانی شروع کرتے ہوئے میرے ذہن میں اس کا ایک دھندلا سا اختتام ہوتا ہے۔ بعض اوقات کہانی اس سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات آگے نکل جاتی ہے۔ اس اختتام کے بارے میں میری پلاننگ کم ہوتی ہے۔ بس مجھے کوئی چیز احساس کرا دیتی ہے کہ کہانی یہاں ختم ہونی چاہیے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہونے کے بعد میں جب اسے دوبارہ پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کہانی جہاں ختم کی گئی ہے اس سے کچھ پہلے مکمل ہو گئی ہے، چنانچہ میں بعد کا حصہ کاٹ دیتا ہوں یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بات ابھی بنی نہیں سو دو چار جملے یا پیرا گراف اور لکھنا پڑتا ہے۔ یہ کام میرا تخلیقی سیلف نہیں بلکہ میرے اندر کا نقاد کرتا ہے۔ اب یہ بات شاید واضح ہو گئی ہے کہ میں کہانی لکھتے ہوئے کوئی خاکہ نہیں بناتا یا موضوع نہیں سوچتا نہ ہی اس کے آغاز، درمیان اور نقطہ عروج کی کوئی بات میرے ذہن میں ہوتی ہے۔ میری کہانی ایک مکمل اکائی کی شکل میں وارد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری اکثر کہانیوں میں پیچ ورک نہیں ہوتا۔ بہرحال ان کا ایک موضوع ضرور بنتا ہے ایک مرکزی خیال یا مرکزی رو بھی ہوتی ہے۔ میری اکثر کہانیوں کے موضوع ایسے ہیں جو ایک عام افسانہ نگار کے تخلیقی پروسیس کا حصہ نہیں بن سکتے اس لیے میرا تخلیقی عمل اور اس کا طریقہ کار قدرے مختلف ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ مجھے ایک خیال سوجھتا ہے جو کہانی کی صورت اختیار کرتا ہے میں کسی واقعہ میں سے خیال نہیں نکالتا۔ میرے یہاں شعری وسائل کا زیادہ استعمال بھی اسی سبب سے ہے کہ میرے خیال اور موضوع عام یا سیدھے سادے طریقے کے متحمل نہیں۔ میرے اکثر افسانے (ابتدائی افسانوں کو چھوڑ کر) ایک چھوٹی سی بات سے شروع ہوتے ہیں اور ازلی و ابدی صداقتوں کو جا چھوتے ہیں۔ میرے افسانوں کا مرکزی کردار بیک وقت کئی زمانوں میں سانس لے رہا ہے اور وہ حال کے لمحہ پر کھڑا ایک ہی جست میں کبھی ماضی اور کبھی مستقبل میں اتر جاتا ہے۔ لیکن پڑھنے والے کو زمانی جھٹکا نہیں لگتا۔
س کہا جاتا ہے کہ موپساں نے یوں افسانے تخلیق کئے جیسے صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ لیے جائیں۔ کیا آپ کا ایسے افسانے لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ یا آپ کے خیال میں زندگی یا حقیقت جیسی کہ وہ ہے اسے اسی طرح پیش کر دینا افسانہ نگار کی سہل پسندی کو ظاہر کرتا ہے جس میں افسانہ نگار کا اپنا کوئی نظریہ کوئی فلسفہ کسی مخصوص اسلوب میں ظاہر نہ ہو؟
س ای ایم فاسٹر نے کہا ہے کہ زندگی فکشن میں دو سطحوں میں پیش ہوتی ہے:
ایک Life in Time، دوسرے Life in Values، آپ کا نظریہ کیا ہے؟
ج یہ دونوں سوال ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ نیا افسانہ حقیقت نگاری نہیں بلکہ وہ اس دھند میں سے نکلتا ہے جو ظاہری حقیقت کے پیچھے ہے۔ اس دھند اور اس میں چھپی پر اسرار دنیا تو عام شخص نہیں دیکھ سکتا۔ اصل حقیقتیں یا سچائیاں اس سے مختلف ہیں جو ہمیں بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ محض بیانیہ حقیقت نگاری یک سطحی ہوتی ہے۔ اب تو حقیقت نگاری کا رویہ بھی بدل گیا ہے اور وہ لوگ جو خود کو حقیقت نگار کہتے ہیں محض حقیقت بیان نہیں کرتے بلکہ اس سے کچھ آگے جاتے ہیں۔ صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ کر کہانی بنا لینا بڑا فن نہیں۔ ہمارا مشرقی مزاج تو جزو میں کل اور قطرے میں دریا دیکھنے کا ہے۔ انسان وقت اور اقدار دونوں ہی میں زندہ ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پرانے تنقیدی نظریے، کلیے یا رویے نئی کہانی کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے۔ آج کی کہانی سماجی سیاسی رویوں سے متعلق ہوتے ہوئے بھی بڑے ازلی و ابدی سوالات سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک مکمل فن صرف ناف سے نیچے، یا شکم تک، یا دل تک محدود نہیں ، اب اس میں ذہن بھی شامل ہے اور یہ کائنات کی تسخیر اور نت نئے انکشافات کا زمانہ ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کے یہاں وقت، اقدار، سماج، سیاست حقیقت اور دھند، تجسیم و تجرید سب کچھ موجود ہوتا ہے، کبھی ملی جلی صورت میں ، کبھی انفرادی عکس کی شکل میں۔
س بانجھ لمحہ میں مہکتی لذت، بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس، گم راستوں میں کشف، فاصلے سے بچھڑا غم، منجمد موسم میں ایک کرن، بے راستوں کا ذائقہ، بے ثمر عذاب، بے دروازہ سراب، دھند منظر میں رقص، کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر۔۔۔ یہ عنوانات صرف ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ سے منتخب کئے گئے ہیں۔ یہ تمام عنوانات موجود کو غیر موجود، معنویت کو بے معنویت، روشنی کو دھند اور اثبات کو نفی میں تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری کی دلیل نہیں اور اسے مایوسی کی طرف نہیں لے جاتی؟
ج ہمارا یہ موجود اصل حقیقت کا پرتو ہے۔ اعیان نا مشہود تک ہماری رسائی براہ راست ممکن نہیں۔ ہم جسے معنویت سمجھتے ہیں وہ دراصل بے معنویت ہے چنانچہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم کو ایک بار موجود سے نا موجود کی طرف جانا پڑتا ہے۔ روشنی سے دھند اور اثبات سے نفی کا یہ سفر بہت اہم ہے، اس لیے کہ ایک بار نفی کرنے کے بعد ہی اثبات کا اثبات ہو گا اور بے معنویت کے نقطے سے معنویت کا اشارہ ملے گا۔ صوفیاء اپنی نفی کے بعد اثبات کا سفر شروع کرتے تھے۔ موجود صورت میں حقیقت اور معنویت دونوں ہی اضافی چیزیں ہیں۔ کلی حقیقت اور کلی معنویت کا کوئی کلی تصور موجود نہیں۔ موجود سے نا موجود کی طرف جانا اور پھر اس نقطہ سے دوبارہ موجود کی طرف لوٹنا ایک کشفی عمل ہے۔ یہ سارے عنوانات اسی کشفی عمل اور مابعد الطبیعاتی پروسیس کی علامتی صورتیں ہیں اور اپنی اپنی کہانی کی مرکزی واردات کی نوعیت کا انکشاف کرتے ہیں۔ میری کہانیاں صرف زمینی وارداتوں یا حکایات تک محدود نہیں ، ان میں اٹھائے گئے سوال بڑے ہیں اور انسان و کائنات کی ازلی و ابدی حقیقتوں اور وارداتوں سے منسلک ہیں۔ اس لیے عنوانات بھی انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔ میری کہانیوں میں شناخت اور تشخص کا عمل فرد سے شروع ہو کر اجتماع اور اجتماع سے پھر فرد اور فرد کے حوالے سے کائناتی ہو جاتا ہے۔ انسانی المیہ کئی سطحوں پر موجود ہے۔ طبقاتی معاشرے میں بے چارگی ایک معنی رکھتی ہے۔ پورے گلوب پر اس کے معنی دوسرے ہیں۔ خالصتاً فرد کی سطح پر اس کا احساس اور اظہار دوسرا ہے اور انسان کی تخلیق اور لمحہ ازل میں کل سے اس کی جدائی اور کائنات کے وسیع تر تصور میں اس کی بے چارگی اور تنہائی ایک بالکل ہی الگ چیز ہے۔ یہی صورت تنہائی کی بھی ہے۔ تنہائی کو ہمارے ادب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن تنہائی کی کئی سطحیں ہیں۔ فرد کی انفرادی تنہائی، مجمع میں تنہائی اور روحانی و ازلی تنہائی۔ پھر اس کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ انفرادی بے چارگی، طبقاتی و معاشی جبر، سماجی و سیاسی جبر اور ان سب سے مختلف ازلی و ابدی روحانی تنہائی ان سب کی کیفیت اور اسباب مختلف ہیں ، لیکن ان میں ایک ارتقائی سفر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، میرے فنی سفر میں شاید ارتقاء موجود ہے، چنانچہ یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری نہیں بلکہ حقیقت کی تلاش اور اس کو پانے جاننے کی معنویت سے عبارت ہے۔
س قبر، موت، جنازہ آپ کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ کبھی شہر میں جنازہ گم ہو جاتا ہے اور قبر لاش مانگتی ہے۔ کبھی بیوی کو بار بار یقین دلایا جا رہا ہے کہ میں مر چکا ہوں۔ کبھی گھر قبر اور قبر گھر معلوم ہونے لگتے ہیں۔ کبھی ماں کے مرنے کی دعا ہے۔ کبھی زہر پینے کے بعد موت کا انتظار تو کبھی اپنی قبر کھدنے کا انتظار۔ کیا موت آپ کے نزدیک ذریعہ نجات ہے؟
ج قبر، موت اور جنازہ مختلف ادوار میں مختلف معنویت کی علامت ہے۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ کی کہانیوں میں قبر اور موت خارج میں موجود ناموافق صورتحال سے پناہ کی جگہ ہیں۔ یہاں آ کر ایک سکون ملتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے دشمن فضا سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ یہ فرار انفرادی نوعیت کا ہے اور حقیقت سے آنکھ چرانے کے رویے سے عبارت ہے۔ یہاں فرد طبقاتی جبر اور معاشی ناہمواری کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور کسی حد تک، کچھ نہ کر سکنے کے رویے نے اس کے اندر ایک غصہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ غصیلا جو ان اشیاء اور قدروں کو توڑنا پھوڑنا چاہتا ہے۔ ان کے ہونے کا انکار کرتا ہے اور جب رد عمل شدید ہوتا ہے تو قبر اور موت اس کی پناہ گاہیں بنتی ہیں۔ یہاں کی دھند اور تاریکی میں اس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ لیکن جب مارشل لاء کے جبر و تشدد میں شناخت اور پہچان مٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اسے تلاش کیا جاتا ہے تو قبر، موت اور جنازہ سیاسی علامتیں بن جاتے ہیں (’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ کے افسانوں میں ) لیکن جب شناخت اور پہچان کا یہ سفر روحانی ہو جاتا ہے اور مابعد الطبیعاتی سچائیوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو قبر اور موت کی علامتیں اپنے معنی بدل لیتی ہیں (’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ کے افسانوں میں )۔ یوں ان علامتوں میں ایک معنوی اور فکری ارتقاء بھی پیدا ہوا ہے جو میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
س آپ کے افسانوی مجموعوں ’’کاغذ کی فصیل‘‘ بے زار آدم کے بیٹے‘‘ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ اور دشت خواب‘‘ ان سب میں اسلوبی سطح پر فرق واضح ہے۔ اس میں قاری کی خواہش کا احترام شامل ہے یا پھر یہ تبدیلی غیر شعوری طور پر بدلتے ماہ و سال کے ساتھ ہوئی ہے؟
ج میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ (۱۹۷۴ء) ہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے پہلا مجموعہ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ہے جو بہت بعد میں (۱۹۹۳ء) میں چھپا۔ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ سے ’’دشت خواب‘‘ تک اور اب تازہ افسانوں میں میرے اسلوب میں ایک تبدیلی آئی ہے، لیکن اس کی وجہ کسی کی خواہش کا احترام نہیں۔ میرے ابتدائی افسانے زیادہ تر جنسی حقیقت نگاری کی ذیل میں آتے ہیں۔ کہانی کی بنت اور موضوع کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں اسی بیانیہ انداز میں لکھا جائے۔ لیکن یہ بیانیہ بھی بالکل سادہ نہیں بلکہ میرے بعد کے اسلوب کے اشارے اس میں موجود ہیں اور اس سادہ بیانیہ میں بھی استعارہ اور تشبیہ کی جھلکیاں موجود ہیں۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ میں ایک غصیلا نوجوان، طبقاتی اور معاشی جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔ یہ شناخت ذاتی ہے اور یہاں علامتیں بھی کہیں کہیں پرسنل ہو جاتی ہیں لیکن مجموعی فضا میں ان کے معنی موجود ہیں۔ اسلوب میں استعارہ سازی کا عمل پیکر تراشی سے مل کر ایک نیا انداز پیدا کر رہا ہے۔ ’’ریت پر گرفت‘‘ کے افسانوں میں تجریدیت زیادہ ہے اس لیے اسلوب میں دبازت، شعری و سائل کا استعمال، شعریت اور پیکر تراشی میں باطنی گہرائی نمایاں ہے۔ موضوع کی گنجلک اور دبازت کی وجہ سے اسلوب میں بھی ادقیت ہے۔ اس مجموعہ میں کسی حد تک ترسیل کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ یہ افسانے ذہین قاری کا تقاضا کرتے ہیں ، لیکن اسی مجموعہ کا آخری افسانہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘ ایک نئے ذائقے اور مزاج کی نشاندہی کرتا ہے اور یہاں سے اسلوب کی ایک نئی پرت شروع ہوتی ہے جس میں جملہ بظاہر سادہ ہے لیکن علامتی دبازت اور معنویت گہری ہے۔ ’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ کی کہانیاں مارشل لائی جبر اور تشدد میں گھرے شخص کی کہانیاں ہیں جو اس جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے افسانوں کا اسلوب اپنی ایک الگ علامتی معنویت لیے ہوئے ہے۔ یہاں قبر، موت اور جنازہ اور کہیں قبرستان اور گٹر سیاسی فضا میں سی چنی گئی علامتیں ہیں۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ کی کہانیوں میں شناخت کا عمل ایک وسیع تر سماجی پروسیس میں شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلوب میں بھی ایک تبدیلی ہوتی ہے۔ ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ کی شناخت کائنات کے وسیع تر تناظر میں ایک کشفی روحانی عمل کا حصہ ہے، چنانچہ اسلوب میں ایک نئی طرح کی دبازت اور معنویت آ جاتی ہے۔ علامتیں آفاقی ہو جاتی ہیں اور ایک نیا کردار مرشد اپنی پہچان کراتا ہے۔ مرشد کے کردار کی ابتدائی جھلکیاں میرے شروع کے افسانوں میں بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن اس کی واضح صورت اس مجموعے میں سامنے آئی ہے۔ اسلوب کی ساری صورتیں میرے مجموعی اسلوب کی مختلف پرتیں ہیں اور یہ میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے ارتقائی تصور سے جڑی ہوئی ہیں۔
س ایک تخلیق کار کی حیثیت سے آپ کے نزدیک ماضی اہم ہے، حال یا مستقبل۔ آپ کا تصور وقت کیا ہے؟
ج میرے یہاں وقت کا تصور ماضی، حال یا مستقبل کے کسی ایک نقطے تک محدود نہیں۔ میں ماضی کو حال کے لمحہ موجود سے مل کر مستقبل کی طرف سفر کرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ ’’دریا‘‘ میرے یہاں ایک خاص استعارہ ہے جو بہتے ہوئے وقت کی تصویر بناتا ہے۔ اس میں ماضی و حال اور مستقبل ایک ہو جاتے ہیں۔ میرے پاس وقت کا تصور زمانی تقسیم کے بغیر ہے۔ ماضی حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ اصل اہمیت وہ جست ہے جو لمحہ موجود کو پھیلا کر وقت کا تسلسل بنا دیتی ہے۔ وہ تسلسل جو وقت کو زمانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ میرے افسانے ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ (بھاگے ہے بیاباں مجھ سے) کا کرداریوں کہتا ہے:
’’شیخ کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز پراسرار تبسم ابھرا، بولے ’’وقت ایک دریا کی مانند ہے جس کی لہروں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ دیکھنے میں وہ الگ الگ نظر آتی ہیں۔ ماضی کی گود سے حال، حال کی گود سے مستقبل اور مستقبل کی گود سے پھر ماضی طلوع ہوتا ہے۔ ایک دائرہ جس کا ایک مرکز ہے اور اس مرکزہ کی کوئی زبان نہیں نہ کوئی اس کا احاطہ کر سکتا ہے۔‘‘
ایک ہی لمحہ میں کئی جہانوں میں رہنے کی اذیت و لذت میرے تصور وقت کا ایک اہم پہلو ہے۔ ایک ہی لمحہ میں بیک وقت کئی حقیقتوں کی آگاہی کے نتیجے میں میرے تخلیقی عمل میں تہہ داری پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرے اظہار میں بھی تہہ داری آئی ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے ایک مضمون میں میرے بارے میں لکھا ہے کہ ’’تہہ دار شعور تضادات اور تقابل کے علاوہ بے یقینی کی صورت میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ یہ بے یقینی عمل اور بے عملی کے درمیان لٹکتے رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اس کے علاوہ بیک وقت دو انتہاؤں کی کھینچا تانی بھی تہہ دار شعور کو جنم دیتی ہے۔‘‘ لمحہ موجود میں مختلف طرح کے احساسات اور کیفیات کو گرفت میں لینے کی کوشش نے وقت کو ایک گزراں لمحہ بنا دیا ہے یوں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو کر صرف وقت رہ جاتا ہے۔ یہ مختلف احساسات کی درمیان حدوں کو توڑنے، ان میں یکجانی پیدا کرنے اور لمحہ میں ابدیت کا عکس دیکھنے، زمانے کی قید سے آزاد وقت میں زندہ رہنے اور مختلف زمانوں کے واقعات و تجربات کو بیک وقت سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے آپ پر طاری کر کے ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ چنانچہ میرے پاس وقت کا تصور کسی زمانی قید تک محدود نہیں بلکہ ایک ہی لمحہ میں کئی لمحوں کی بازیافت ہے جہاں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔
س ٹوٹی ہوئی دیوار (کاغذ کی فصیل) یہ کہانی تیس سال پہلے کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ آج ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہانی کسی دیہاتی سکول کا منظر ہی پیش نہیں کرتی بلکہ مہذب شہر کے مہنگے سکول کی صورتِ حال بھی ایسی ہے۔ بحیثیت استاد آپ نظام تعلیم کو کہاں تک درست سمجھتے ہیں ، کیا تجاویز پیش کرتے ہیں ؟
ج یہ کہانی (ٹوٹی ہوئی دیوار) تیس سال پہلے لکھی گئی تھی، آج بھی صورتحال یہی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کا زوال تو بہت پرانا ہے۔ بلکہ اس کا آغاز تو برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہمارے مدرسے کسی بھی طرح کی سیاسی اور حکومتی مداخلت سے آزاد تھے۔ بادشاہ مدرسہ کو ایک بار جو جاگیر دے دیتا تھا، بعد والوں کے لیے ممکن نہ تھا کہ اسے واپس لے لیں۔ ہمارے ان مدرسوں میں دین کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے علوم پر بھی توجہ دی جاتی تھی چنانچہ حدیث، فقہ اور تفسیر کے ساتھ ساتھ منطق، حساب اور فلسفہ بھی نصاب میں شامل تھا۔ انگریزوں نے اس نظام پر ضرب لگائی۔ جاگیریں چھین لیں اور مدرسوں کو زکوٰۃ اور چندے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا انگریزی ٹائپ کے مدرسے قائم ہوئے جن میں سے دین تقریباً خارج ہو گیا۔ ان مدرسوں کا مقصد انگریز حکومت کے لیے وفادار سرکاری ملازم پیدا کرنا تھا۔ مولانا شبلی نے علی گڑھ کے بارے میں کہا تھا ’’یہ ہر میجسٹی کے لیے وفادار ملازم پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔‘‘ اکبر الٰہ آبادی کو بھی یہی اختلاف تھا کہ مسلمانوں کو ہنر اور مختلف پیشے سکھانے کی بجائے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے سرکاری وفادار ملازم بنایا جا رہا ہے۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کا اولین مقصد آئی سی ایس کرنا ہوتا تھا اور یہ نہ ہو سکے تو پھر کلرک بن جانا۔ یہ رویہ اور مقصد آج بھی موجود ہے۔ ہماری تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہے اور سرکاری کی اطاعت کرنا۔ میکالے نے جو تعلیمی پالیسی بنائی تھی اسے جب منظوری کے لیے وائسرائے کے پاس بھیجا تو اس پر جو نوٹ لکھا وہ قابل غور ہے۔ اس نے لکھا، ’’ہم چند ہزار انگریز کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر اس وقت تک دیر تک حکومت نہیں کر سکتے، جب تک یہاں ایک ایسی جماعت وجود میں نہ آ جائے جو نسلاً ہندوستانی ہو اور ذہنی طور پر انگریز، مجھے یقین ہے کہ اس تعلیمی پالیسی پر عمل کر کے چند ہی برسوں میں ایسی جماعت وجود میں آ جائے گی۔‘‘ یہ تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے کہ چند ہزار انگریز (جن کی تعداد پچیس تیس ہزار سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی اور کسی وقت تو یہ دس ہزار سے بھی کم رہی) کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر نوے سال حکومت کر گئے اور اس دوران کوئی بڑا واقعہ یا ہنگامہ بھی نہیں ہوا۔ ایک شہر میں انگریز حاکم چار پانچ ہی ہوتے تھے۔ ایک کمشنر، ایک ڈپٹی کمشنر، ایک ایس پی اور ایک افسر مال اور ایک دو اور۔ باقی سارا انتظام یہی نسلاً ہندوستانی ذہنی انگریزی کرتے تھے۔ یہی وہ جماعت تھی جسے میکالے کے نظام تعلیم نے جنم دیا۔ یہی نظام تعلیم تقریباً اسی صورت میں آج بھی رائج ہے اور ہمارے حاکم عوام کو محکوم سمجھتے ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم قومی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔ ہم طالب علم کی ذہانت کا نہیں یادداشت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارا معیار نمبر ہیں۔ ہم پروفیشنل کالجوں یا دوسرے اداروں میں داخلے کے لیے نمبروں کو معیار سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقررہ نمبروں سے ایک نمبر کم والا نا اہل ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جہاں داخلہ ٹیسٹ اور امتحان کا نظام ہے وہ بھی ہماری روایتی بددیانتی کی وجہ سے ناکام ہو گیا ہے۔ سیاسی مقاصد اور شہرت کے لیے غیر ضروری نصابی بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو انگریزی اور اُردو زبان کے نصاب میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بعض زبانوں کی غیر ضروری لازمی تعلیم بھی ایک بوجھ ہے۔ انگریزوں نے دینی مدارس اور دنیاوی مدارس کو الگ الگ کر کے مسلمان معاشرے میں جس تقسیم کا بیج بویا تھا وہ آج بھی قائم ہے۔ ادھر سے دنیا نکل گئی، ادھر سے دین نکل گیا۔ وہ ایک انتہا اور یہ دوسری انتہا ہو گئی۔ دین و دنیا کے اسی جھگڑے نے ہماری مجموعی دانش، رواداری اور قومی مزاج کو متاثر کیا۔ اب تک ہماری جتنی تعلیمی پالیسیاں بنی ہیں۔ وہ میکالے کے نظام تعلیم کے اصولوں پر ہی قائم ہیں۔ بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی صرف انتظامی تبدیلیوں کے پیچھے سیاسی مقاصد اور کچھ لوگوں کو ملازمتیں دینا اور ان کے لیے نئے محکمے کھولنا رہا ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں تو سیاسی وابستگیوں اور مفاد سے بالا ہو کر اس پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن شاید یہ ممکن نہیں کہ ہم جس مجموعی زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں اس میں صورتِ حال یہی رہے گی۔ جب کوئی قوم اپنے زوال پر فخر کرنے لگے اور زوال سے لطف اٹھانا شروع کر دے تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔
س آج قاری کی جگہ ناظر نے لے لی ہے۔ کیا یہ صورتِ حال ادب کے لیے نقصان دہ نہیں ؟
ج یہ تبدیلی تو دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس سے خوف زدہ ہونے کی بجائے خود کو اس کے مطابق تیار کرنا چاہیے۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی ادب فیڈ ہو رہا ہے۔ بنیادی بات تو اظہار اور قاری یا ناظر تک پہنچنے کی ہے۔ اگر یہ کام کتاب کی بجائے سکرین یا کمپیوٹر کا نیٹ ورک کر رہا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہم زمانے کو تو واپس نہیں لے جا سکتے، خود کو اس کے مطابق تیار کر سکتے ہیں اور یہی ہمیں کرنا چاہیے۔
٭
لیمپ پوسٹ
اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔۔
اندھیرا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کھڑکی کے پٹ کھول دئیے۔ گلی کے سرے پر لیمپ کی نحیف روشنی تاریکی کے دامن میں سسک رہی تھی اور چاروں طرف پھیلا ہوا سنّاٹا کروٹیں لے رہا تھا۔ میرا سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ کھڑکی سے چھن چھن کر آتی نحیف کرنیں ہلا ہلا کر مجھے جگا رہی تھیں۔ سانس کے تار درست کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے گلی میں جھانکا، گلی کے سرے پر کھڑا، میرا دوست میری راہ تک رہا تھا۔ وہ ہر رات یوں ہی میری راہ دیکھا کرتا ہے، روشنی کی یہ لاغر کرنیں ہر رات یوں ہی مجھ سے لپٹ جاتی ہیں اور مجھے بے بس کر کے اس کے پاس لے جاتی ہیں۔
میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلا، اندھیرے نے گلی کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا۔ میں نل پر آیا اور چلّو بنا کر یوں پانی پینے لگا جیسے چشمہ سے جل بھر رہا ہوں۔ ٹھنڈے پانی کے چند گھونٹوں نے ذہن سے چمٹی ہوئی سیاہی دھو ڈالی۔ میں نے دو چار چھینٹے منہ پر مارے اور گلی کے سرے پر آ گیا۔ لیمپ پوسٹ سنسان رات میں تنہا، اداس کھڑا میری راہ تک رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کے پیلے چہرے پر زندگی انگڑائیاں لینے لگی۔ میں اس کے پہلو میں بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔
یہ لیمپ پوسٹ میرا سب سے پیارا دوست ہے، جو میرے دُکھ اور درد کو خوب سمجھتا ہے۔ میں نے اس سے گھنٹوں باتیں کی ہیں لیکن اس کے ماتھے پر سلوٹ نہیں آئی۔ وہ کبھی ضروری کام کا بہانہ بنا کر کھسکنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ وہ میری باتیں توجہ سے سنتا ہے اور میرے غم پر آنسو بہاتا ہے۔ وہ ساری رات میرے غم میں اندھیرے کے دامن پر سر رکھے روتا رہتا ہے۔ اس کی سسکیاں سن کر میں اپنے کمرے سے نکل آتا ہوں اور اس سے لپٹ کر پہروں باتیں کرتا ہوں۔۔۔ اپنی باتیں ، گاؤں کی باتیں ، راحت کی باتیں۔
اپنے دوست کے سرد، محبت بھرے سینہ پر سر رکھے ایسی باتیں کرتے ہوئے میں کبھی کبھی رونے لگتا ہوں۔ میرے آنسوؤں سے اس کے برف ایسے ٹھنڈے سینہ میں زندگی کروٹیں لینے لگتی ہے اور وہ اندھیرے کے آنچل سے منہ نکال کر مجھے ٹک ٹک دیکھا کرتا ہے۔ روتے روتے میری ہچکی بندھ جاتی ہے تو وہ میری توجہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی زخمی سڑک کی طرف مبذول کرا دیتا ہے۔۔۔ دور بہت دور کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ میں ہمہ تن متوجہ ہو کر آنے والے کا انتظار کرتا ہوں۔ آنے والے کا سایہ دور سے نظر آتا ہے لیکن جب وہ میرے قریب پہنچتا ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ محض سایہ ہی ہے۔ میں اس کی طرف لپکنے کی کوشش کرتا تو میرا دوست۔۔۔ لیمپ پوسٹ میرا بازو تھام لیتا ہے۔ سایہ گزر جاتا ہے، لیکن قدموں کی چاپ دیر تک سناٹے میں گونجتی رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسا سایہ ہے جس کا وجود نہیں لیکن قدموں کی چاپ اتنی وزنی ہے؟۔۔۔ یہ سائے روز آتے ہیں ، گزر جاتے ہیں۔ قدموں کی چاپ کچھ دیر گونجتی ہے پھر دم توڑ دیتی ہے۔ میں اور میرا دوست چپ چاپ یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ جب کبھی بہت پریشان ہوتا ہوں تو میرا دوست اندھیرے کی چادر سے چہرہ نکال کر مجھے دیکھتا ہے، اس کے چہرے پر بکھری ہوئی محبت میرا خوف دور کر دیتی ہے اور میں اس کے سینہ پر سر رکھے سو جاتا ہوں۔
میرے دوست کی سمجھ میں نہ آنے والی باتیں کبھی کبھی مجھے الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ میں اس سے روٹھ کر گلی میں آ جاتا ہوں اور اونچی اونچی عمارتوں کو دیکھنے لگتا ہوں ، جن کی اینٹوں کی آنچ سے انسانی احساسات کے پھول جھلس کر رہ گئے ہیں۔ میرے چاروں طرف چمنیوں کا کثیف اور بدبو دار دھواں پھیلا ہوا ہے۔۔۔ دھواں ، جو انسانی ذہن کی گہرائیوں تک پہنچ چکا ہے۔ موٹی موٹی شیشے کی چار دیواریاں ہیں جن کے اندر دلوں کے آئینوں اور جوانی کے پھولوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ لوہے کی زنجیروں کی طرح بکھری بکھری گلیاں ، جو کشاں کشاں زمانے کے تقاضوں کی طرف گھسیٹے لیے جا رہی ہیں۔ زرد زرد چہرے، گھٹی گھٹی زندگی، کھوکھلے قہقہے، دبی دبی ہچکیاں۔۔۔ بس زندگی کا نقد یہی ہے۔
گلی کے چہرے پر رَچی ہوئی سیاہی دیکھ کر میں اپنے کمرے میں بھاگ آتا ہوں۔ اس کمرے میں بھی گھٹن ہے۔ اس پورے مکان میں گھٹن ہے۔ بدنما، تکونا حویلی نما مکان۔۔۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ زمانے کے بوجھ سے ایک طرف کو جھکا ہوا، لاتعداد کمرے، اَن گنت تنگ و تاریک راہداریاں ، مہیب سناٹا، میرے دن تو اسی ادھیڑ بن میں گزرتے ہیں کہ زندگی جیسی لطیف شے کو اس ہیبت ناک مکان میں بھلا کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
میں سہم جاتا ہوں !
اور سوچتا ہوں راحت جیسی خوبصورت اور نازک مزاج لڑکی نے اس مکان میں بھلا اتنا عرصہ کیسے گزار لیا ہے۔ بوڑھے چوہدری صاحب اور ان کی بیوی تو خیر آج مرے کل دوسرا دن والی بات ہے، انہیں مکان کی خوبصورتی سے کیا غرض؟ یہی کیا کم ہے کہ اتنا لمبا چوڑا مکان انہیں ورثہ میں ملا ہوا ہے اور پھر چوہدری صاحب کو شاید قدرت نے ذہنی زاویوں کی مناسبت سے اس مکان میں رکھا ہے۔ مزاج ایسا کہ ان سے بات کرنے کے لیے صدیوں پیچھے لوٹنا پڑتا ہے۔ ضد اور بد مزاجی انہیں ورثہ میں ملی ہے۔ کسی صحیح بات کو غلط رنگ دینے کے لیے انہیں زیادہ دیر سوچنا نہیں پڑتا، جو بات کہہ دی پتھر کی لکیر ہو گئی۔
کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اور راحت کبوتروں کا جوڑا ہیں جو بدقسمتی سے گدھوں کے گھونسلے میں آن پھنسے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر اس مکان میں راحت کا تصور نہ ہوتا تو میں کبھی کا یہاں سے بھاگ چکا ہوتا، چاہے مجھے بھوکوں ہی کیوں نہ مرنا پڑتا۔ چوہدری صاحب اور ان کی بیوی سے تو مجھے اسی حد تک دلچسپی ہے کہ ان کے گھر میں راحت کا تصور ہے ورنہ اپنے پھوپھا پھوپھی ہونے کی حیثیت سے میں کبھی ان کو اتنی اہمیت دینے کو تیار نہیں کہ وہ میرے حواس پر چھا جائیں۔ یہ درست ہے کہ میرے ماں باپ کی موت پر انہوں نے مجھے پالا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ میرے ذہنی زاوئیے ہی بدل ڈالیں۔
راحت کے پیار نے میرے ذہن سے ماحول کی تاریکیوں کا احساس ختم کر دیا ہے، لیکن رات کے سناٹے میں جب سب سو جاتے ہیں تو میرے دکھ جاگ اٹھتے ہیں ، میں پہروں سوچتا ہوں۔۔۔ میں ایک ہیرا ہوں۔
ایسا ہیرا جو بد قسمتی سے راہ گزر پر گر گیا اور لوگ روا روی میں اسے روندتے چلے گئے۔ اس سوچ کے ساتھ ہی۔۔۔
ذہن میں درد کا مینہ برس اٹھتا ہے اور میں گلی میں آ جاتا ہوں۔ میرا دوست۔۔۔ لیمپ پوسٹ بانہیں پھیلا کو مجھے آغوش میں لے لیتا ہے اور میں اس کے دامن پر سر رکھے پہروں سسکتا رہتا ہوں۔
چوہدری صاحب کو میرا اور راحت کا میل ملاپ پسند نہیں لیکن مکان کی ساخت کی وجہ سے وہ ہماری کسی ملاقات میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ سب کے کمرے الگ الگ ہیں۔ اس لیے میرے اور راحت کے راستے میں کوئی مشکل حائل نہیں۔ کبھی کبھی ہم دونوں چوہدری صاحب اور ان کی بیوی کو سوتا چھوڑ کر حویلی کی چھت پر چلے جاتے ہیں اور اُجلی اُجلی روشنی میں پہروں بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ حویلی کے سامنے بہتی ہوئی ندی کا نظارہ سرد جسموں میں بھی حرارت پیدا کرتا ہے۔
ایک رات۔۔۔
میں منڈیر سے ٹیک لگائے راحت کی خوبصورتی سے ماحول کا مقابلہ کر رہا تھا کہ منڈیر کی پشت سے سیاہ کیڑے نے سر اُبھارا، میرا رنگ پیلا پڑ گیا۔ یہ کیڑا کئی سالوں سے یونہی میرا خون پی رہا ہے۔ میں نے منڈیر سے الگ ہونا چاہا۔ لیکن میرا سارا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔ سیاہ کیڑا میرے کندھوں سے ہوتا ہوا ذہن کی طرف بڑھتا رہا۔ ذہن کے قریب پہنچ کر اس نے پنجہ بڑھایا اور ذہن کے نرم نرم گودے میں گاڑ دیا۔ میرے سارے جسم میں درد کی ٹیس اٹھی۔ درد کی شدت کو دبانے کے لیے میں نے راحت سے پوچھا۔
’’اس ندی کا کیا نام ہے؟‘‘
’’ا س کا کوئی نام نہیں ، بس یہ ایک ندی ہے‘‘۔۔۔ راحت نے بغیر مڑے جواب دیا۔
سیاہ کیڑا دھیرے دھیرے دوسرا پنجہ بھی بڑھانے لگا۔ خود کو مصروف رکھنے کے خیال سے میں نے پھر سوال کیا۔
’’یہ ندی کہاں سے آتی ہے؟‘‘
’’کیا جغرافیائی باتیں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ مجھے اس سے دلچسپی ہے‘‘۔۔۔ میں نے درد کی شدت کو دباتے ہوئے کہا۔
’’چوہدری صاحب کے قول کے مطابق یہ ندی چھوٹے چھوٹے نالوں سے مل کر بنتی ہے۔‘‘
’’یہ یہاں جاتی ہے؟‘‘
راحت نے مڑ کر میری آنکھوں میں جھانکا۔
’’یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’بس یونہی۔۔۔ ‘‘
’’لیکن کیوں ؟‘‘
’’بتاؤ نا۔۔۔ ‘‘
’’یہ ندی آگے چل کر ایک بہت بڑے دریا سے مل جاتی ہے۔‘‘
سیاہ کیڑے کا دوسرا پنجہ بھی ذہن کے گودے میں پیوست ہو چکا تھا اور وہ نوچ نوچ کر اپنی خوراک حاصل کر رہا تھا۔ درد کی شدت سے میری آنکھوں سے آنسو بہہ اٹھے۔
راحت گھبرا گئی اور پوچھنے لگی۔
’’کیا ہوا۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘
’’سوچتا ہوں بڑی چیزوں کو چھوٹی چیزیں بُری کیوں لگتی ہیں ؟‘‘
میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔ سیاہ کیڑا میرا ذہن کھائے جا رہا تھا۔ درد ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی، پھر مسلسل چیخیں گونجنے لگیں۔۔۔ چوہدری صاحب گرجدار آواز میں کانوں میں زہر انڈیل رہے تھے۔
چند گھنٹوں بعد مجھے اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔
میں گلی سے باہر نکلنے لگا تو لیمپ پوسٹ نے میرا بازو تھام لیا اور پوچھنے لگا۔
’’کہاں جاؤ گے؟‘‘
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’تو تمہیں سب معلوم ہے۔‘‘
وہ ہنسا، پھر میری پریشانی دیکھ کر افسردگی سے کہنے لگا۔
’’پگلے۔۔۔ مجھے تو یہ بہت پہلے سے معلوم تھا۔‘‘
’’تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟‘‘
’’تم نے پوچھا ہی کب تھا؟‘‘
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر وہ پوچھنے لگا۔
’’کس سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟‘‘
’’چوہدری صاحب سے۔‘‘
’’کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’جدھر کا راستہ مل گیا۔‘‘
’’اگر وہاں بھی کوئی چوہدری ہوا تب۔۔۔ ‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا اور سڑک پر بھاگنے لگا۔ وہ مجھے آوازیں دیتا رہ گیا۔۔۔ وہ روتا رہا۔۔۔ سسکتا رہا۔ مجھے دور تک اس کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں ، لیکن میں بھاگتا رہا۔ اس سے دور۔۔۔ بہت دور۔۔۔
میں کہاں جاؤں گا، کیا کروں گا؟ یہ باتیں میری سوچ سے بالا تر تھیں۔ سیاہ کیڑے نے میرے ذہن کو کھا لیا تھا، ماحول نے میری روح کو ڈَس لیا تھا۔ مجھے سوائے درد کے کوئی احساس نہ تھا۔۔۔ میں اگر کوئی بات جانتا تھا تو وہ یہی کہ مجھ سے زندگی چھین لی گئی ہے اور اب مجھے بغیر زندگی کے زندہ رہنا ہے۔
اسٹیشن پر ایک مانوس آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’ٹھہرو۔۔۔ ‘‘
’’تم۔۔۔ ‘‘
’’ہاں ہم دونوں ساتھ چلیں گے۔‘‘
’’مگر۔۔۔ ‘‘
’’مگر وگر کچھ نہیں۔۔۔ ‘‘
’’چوہدری صاحب۔۔۔ ‘‘
’’ان کا ذکر نہ کرو۔۔۔ ‘‘
اور پھر بغیر دیکھے، بغیر سوچے، قدم انجانی منزل کی طرف اٹھ گئے۔
کراچی میں تین سال گزر گئے۔
میں فیکٹری میں ملازم ہو گیا۔
میں تمام دن دھوئیں میں گھرا رہتا۔ یہ دھواں میرے سانسوں کی پگ ڈنڈی پر چلتا ہوا میرے پھیپھڑوں کی تہوں میں پہنچتا رہا۔ فیکٹری کے زنگ آلود ماحول نے میری ہڈیوں کو ڈس لیا تھا۔ لیکن میں پھر بھی خوش تھا، کیونکہ مجھے اس سیاہ کیڑے سے نجات مل چکی تھی، جس نے صدیوں میرے ذہن کا گودا کھایا تھا، برسوں میرا خون پیا تھا۔۔۔ وہ کیڑا دم توڑ چکا تھا۔ مجھے ذہنی آزادی ملنے ہی والی تھی۔
پھر میں نے ترقی کی طرف یکے بعد دیگرے کئی قدم بڑھائے۔ میں اپنے دوست کو بھول گیا، راحت کی چکا چوند بھی ماند پڑ گئی۔
لیکن۔۔۔ پھر، ایک دن کیڑے نے رینگنا شروع کر دیا، حویلی یاد آ گئی۔
میری نظروں کے سامنے لیمپ پوسٹ بھی اُبھر آیا۔۔۔ میری اندھیری راتوں کا دوست۔۔۔ وفادار، بے لوث اور خلوص سے پُر۔۔۔ میں نے سوچا کیوں نہ کچھ دنوں کے لیے چوہدری صاحب کے پاس چلا جائے، ان کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔ میں اپنے دوست سے بھی ملنا چاہتا تھا۔
اگلی صبح میں کراچی سے چل پڑا۔
شام ہو چکی تھی،
میرا دوست گلی کی نکڑ پر کھڑا سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کار گلی میں پارک کی اور دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔ اس کے سینے سے لگ کر مجھے سکون مل گیا۔ میں چند لمحے اسے اپنے بارے میں بتاتا رہا لیکن وہ چپ رہا۔ شاید مجھے سے ناراض ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا پہلے حویلی سے ہو آؤں پھر آ کر اسے منا لوں گا۔ اچانک میر ی نظر سڑک پر پڑی۔ کچھ لوگ مجھے یوں لیمپ پوسٹ سے لپٹتے دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ مجھے بڑی خفت ہوئی اور میں جلد ی سے حویلی کی طرف بڑھ گیا۔
حویلی کے دروازے پر میں چند لمحوں کے لیے ٹھٹکا۔
میں نے سوچا، چوہدری صاحب کا رویّہ خدا جانے کیسا ہو۔
حویلی میں نیم تاریکی تھی۔ میں چوہدری صاحب کے کمرے کی طرف گیا۔ وہ پرانی کرسی پر چپ چاپ بیٹھے تھے۔
’’کون۔۔۔ ؟‘‘
میں گھبرا گیا۔
’’چوہدری صاحب۔۔۔ ‘‘
’’تم۔۔۔ ‘‘ ان کی گرجدار آواز گونجی، پھر انہوں نے حیرت سے میرے شاندار لباس کو دیکھا اور کہنے لگے۔
’’باہر گاڑی تم نے کھڑی کی ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔ ‘‘
چند لمحے خاموشی رہی۔
’’چوہدری صاحب میں شرمندہ ہوں ، میں نے بغاوت کی ہے، اصل میں راحت۔۔۔ ‘‘
میں ابھی فقرہ پورا بھی نہ کرنے پایا تھا کہ چوہدری صاحب کہنے لگے۔
’’جس دن سے تم نے ہمیں چھوڑا، راحت چارپائی سے نہیں اٹھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کی ماں تو چل بسی مگر۔۔۔ ‘‘
مجھے تو ایک پل کے لیے سکتہ ہو گیا۔
میں راحت کے کمرے کی طرف بھاگا۔
وہ چارپائی پر تکیہ کے سہارے لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے دھُند سی چھانے لگی۔ وہ تو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ اچانک مجھے یوں لگا جیسے میرے قریب سے گزر کر کوئی چارپائی کی طرف گیا ہے۔ ایک ہیولا سا چارپائی کی جانب بڑھتا نظر آیا۔۔۔ اور پھر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے چارپائی پر وہی پہلی کی سی خوبصورت راحت لیٹی ہے۔۔۔ خوبصورت، صحت مند اور گداز۔۔۔
میں باہر کی طرف بھاگا اور اپنے دوست کے پاس آ کر جلدی جلدی سب کچھ کہہ سنایا، لیکن وہ چپ رہا۔ میں اس کے سینے سے لگ کر خوب رویا، مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ روتے روتے مجھے محسوس ہوا کہ آج اس کے سینہ میں زندگی کی کوئی حرارت نہیں۔ میں نے اسے جھنجھوڑا، ہلایا۔۔۔ پُکارا، دوستی کا واسطہ دیا، لیکن وہ خاموش رہا۔۔۔ اور تب مجھ پر یہ اذیت ناک انکشاف ہوا کہ میں لکڑی کے لیمپ پوسٹ کو ہلا رہا ہوں ، بے جان، مردہ، لکڑی کے لیمپ پوسٹ کو۔۔۔ میں بوجھل قدموں سے حویلی کی سمت چل پڑا۔
ڈیوڑھی سے گزرتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
باہر سڑک پر لیمپ پوسٹ کی لاش پڑی تھی، اندر کمرے میں راحت تھی۔۔۔ صحت مند اور گداز۔۔۔
اور میں دہلیز پر کھڑا دونوں کو بِٹ بِٹ دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭
ٹوٹے پَر، لمحہ لمحہ، زرد کبوتر
صبح آنکھ کھلتے ہی میں اپنے آپ کو بہت سی گالیاں نکالتا ہوں ، بستر سے نکلتے ہی مجھ پر غبار چھا جاتا ہے اور میں اسی کہر میں لپٹا اپنے آپ کو کوستا دفتر کی تیاری کرتا ہوں۔
گھر سے نکلتے ہی میں خود کو بھاگتے ہوئے اسی ہجوم میں پاتا ہوں جو ایک دوسرے کو نیچے گراتا ایک ہی سمت میں بھاگا چلا جا رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر نیچے گرتے ہیں اور فوراً ہی اٹھ کر پھر بھاگنے لگتے ہیں۔ ہم سب ایک ہی رفتار سے ایک ہی سمت دوڑ رہے ہیں۔ بس اسٹاپ پر بھی ہجوم ہے، ہر کوئی بے چینی سے موڑ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ خدا خدا کر کے بس موڑ کی گلی سے نمودار ہوتی ہے۔ یہ بس بھی ہماری طرح دوڑ دوڑ کر تھک چکی ہے مگر پھر بھی دوڑے جا رہی ہے۔ بس کو دیکھتے ہی ہجوم میں حرکت ہوتی ہے اور چشم زدن میں سب بھوکے گدھوں کی طرح بس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو گراتا، دھکے دیتا دوسرے سے پہلے سوار ہونا چاہتا ہے۔ میں بھی دوسروں کو بے رحمی سے دھکے دیتا سوار ہو جاتا ہوں ، بس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ مجھے سب بھیڑ بکریوں کی طرح لگتے ہیں ، جنہیں ہانک کر مال گاڑی کے ڈبے میں بند کر دیا گیا ہو۔۔۔ میں ہانکنے والے کو تلاش کرتا ہوں ، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آتا۔ میں اپنے ساتھ کھڑے ایک ادھیڑ عمر سے پوچھتا ہوں۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ کون۔۔۔ ؟‘‘
وہ حیرت سے مجھے دیکھتا ہے پھر کچھ نہ سمجھ کر دوسری طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ بس چل پڑتی ہے۔ لوگ دروازے کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں۔ کنڈیکٹر چیخ کر لٹکے ہوئے لوگوں سے اتر جانے کے لیے کہتا ہے مگر کوئی ٹَس سے مَس نہیں ہوتا۔ بس رک جاتی ہے لیکن لٹکے ہوئے بدستور لٹکتے رہتے ہیں۔ تنگ آ کر کنڈیکٹر سیٹی بجاتا ہے۔ بس گھسٹنے لگتی ہے۔ مجھے خیال آتا ہے، اگر لٹکے ہوئے لوگوں میں سے کوئی نیچے گر گیا تو۔۔۔ ؟ میں گھبرا کر پاس کھڑے ہوئے دبلے پتلے شخص سے پوچھتا ہوں۔
’’اگر ان میں سے کوئی نیچے گر گیا تو۔۔۔ ؟‘‘
وہ برا سا منہ بنا کر کہتا ہے۔
’’بس لیٹ ہو جائے گی اور کیا ہو گا۔۔۔ وقت پر دفتر نہ پہنچا تو وہ حرامی آج پھر بکواس کرے گا۔‘‘
میرے ذہن میں اپنے ہیڈ کلرک کی شکل گھومنے لگتی ہے۔ میں سوچتا ہوں ، ہر ماتحت کو اپنا انچارج حرامی نظر آتا ہے۔ اگر کوئی نیچے گر جائے تو واقعی بس لیٹ ہو جائے گی۔ مجھے بار بار خیال آتا ہے کہ ابھی کوئی نیچے گر جائے گا مگر کوئی بھی نیچے نہیں گرتا۔
کنڈیکٹر بغیر ٹکٹ کی صدا لگا رہا ہے۔ میں نے ابھی تک ٹکٹ نہیں لیا۔ کنڈیکٹر آواز لگاتا میرے قریب آ جاتا ہے لیکن میں چپ رہتا ہوں اور خاموشی سے دوسری طرف دیکھنے لگتا ہوں۔
اگلے اسٹاپ پر آگے بیٹھی ہوئی دو عورتیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ گزرنے کے لیے راستہ بالکل نہیں ، دروازے تک آدمی ہی آدمی ہیں۔ وہ مردوں سے ٹکراتی دروازے کی طرف بڑھتی ہیں۔ مرد اور پھیل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دونوں بڑی مشکل سے نیچے اترتی ہیں۔ اس وقت ان کی حالت لیموں کش سے نکلے ہوئے لیموں کی سی ہے۔ بس دوبارہ گھسٹنے لگتی ہے۔ میرے قریب کھڑے دو نوجوان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اترنے والیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔
کنڈیکٹر ابھی تک بغیر ٹکٹ کی آواز لگا رہا ہے۔ میرے ساتھ کھڑے ادھیڑ عمر نے بھی ٹکٹ نہیں لیا۔ ہم دونوں کی نظریں ملتی ہیں اور ہم دونوں مسکراتے ہیں۔ اپنے اسٹاپ پر خاموشی سے اتر جاتا ہوں اور دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ٹکٹ کے پیسوں کو جیب میں تھپتھپاتے ہوئے مسکراتا ہوں۔ صبح سے اب تک میں پہلی بار ہنسا ہوں۔
اپنی کرسی پر بیٹھ کر میں درازیں کھول کر فائلیں نکالتا ہوں اور انہیں یوں میز پر سجاتا ہوں ، جیسے دکاندار اپنا مال سجاتے ہیں۔ ہیڈ کلرک اپنی میز پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ وہ ہر روز اخبار لے کر آتا ہے اور اس کی ایک ایک سطر پڑھتا ہے، پھر یہ اخبار اسسٹنٹ کے پاس چلا جاتا ہے۔ وہاں سے ساتھ والے سے ہو کر مجھ تک پہنچتا ہے اور میرے بعد چپڑاسی کی باری آتی ہے۔ دفتر میں سارا کام اسی طرح ہوتا ہے، حتیٰ کہ جھاڑ اور برہمی کا اظہار بھی اسی ترتیب سے ہوتا ہے۔ ہم سب میں سے چپڑاسی سب سے زیادہ صابر ہے کیونکہ وہ اپنا غصہ کسی پر نہیں نکالتا۔
اخبار پڑھنے کے بعد ہیڈ کلرک مجھے اپنے پاس بلا کر ایک فائل دیتا ہے اور اسے آج ہی ختم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ میں میز پر آ کر کام شروع کر دیتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزرتی ہے کہ چپڑاسی آ کر صاحب کا بلاوا دیتا ہے۔ میں بھاگتا ہوا اندر جاتا ہوں ، صاحب اندر میز پر اخبار پھیلائے گم ہے۔ میں مؤدب کھڑا رہتا ہوں ،
’’جی سر۔۔۔ ‘‘
وہ سر اٹھاتا ہے۔۔۔ ’’آ، ہاں۔‘‘
پھر دراز کھول کر کاغذ نکالتے ہوئے کہتا ہے۔
’’بھئی یہ میرا ذاتی کام ہے۔۔۔ ذرا جلدی کر دو۔‘‘ وہ کاغذوں کا پلندہ میرے حوالے کر کے دوبارہ اخبار کی سطروں میں کھو جاتا ہے۔
میں اپنی میز پر آتا ہوں۔ ہیڈ کلرک کا دیا ہوا کام ابھی ادھورا ہے۔۔۔ میں اندر سے لائے پلندے کی طرف دیکھتا ہوں۔۔۔ دفتر کا کام میری ذمہ داری ہے۔۔۔ صاحب کا کام کرنا بھی میری ذمہ داری ہے۔۔۔ میں خود کو ذمہ داری کی دیوار کے نیچے دبتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔
چھٹی ہوتے ہی میں پھر بس اسٹاپ کی طرف دوڑ تا ہوں اور دھکم پیل کرتا سوار ہو جاتا ہوں ، بھوک چمک اٹھی ہے، میں جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا ہوں۔ اندر آتے ہی ماں سے پوچھتا ہوں۔
’’کیا پکا ہے؟‘‘
’’آلو وَڑیاں۔۔۔ ‘‘ وہ بے دلی سے جواب دیتی ہے۔
میری چمکتی ہوئی بھوک پر اوس پڑ جاتی ہے۔
’’رو ز ہی آلو وَڑیاں ؟‘‘
’’پیسے جو نہیں تھے۔۔۔ ‘‘ وہ روز کا دہرایا ہوا جملہ دہرا دیتی ہے۔ میں چوکی پر بیٹھ جاتا ہوں ، ماں روٹیوں کی چنگیر اور پلیٹ آگے رکھ دیتی ہے۔ میں کہتا ہوں ، ’’تمہارے پاس تو روز ہی پیسے نہیں ہوتے۔‘‘
اس کے چہرے پر سرخ دھاریاں ابھر آتی ہیں ، ’’تیرے باپ کی کمائی آتی ہے نا۔‘‘
میرے پاس کوئی جواب نہیں ، لیکن یہ آلو وڑیاں۔۔۔
میرا غصہ اسی طرح رہتا ہے۔
’’تمہیں خرچ کرنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے۔‘‘
وہ چراغ پا ہو جاتی ہے۔
’’تو ہزار روپیہ دیتا ہے نا۔۔۔ شرم نہیں آتی، سوا سو میں اور کیا آئے گا۔ پتہ نہیں میں کیسے گھر کا خرچ چلاتی ہوں۔‘‘ پھر وہ روہانسی ہو جاتی ہے۔
میں خاموشی سے کھانا زہر مار کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے، میری اس بات سے اسے بڑا دکھ پہنچا ہے۔ میرا باپ کئی سال پہلے مر گیا ہے۔ ماں نے صرف ہمارے لیے دوسری شادی نہیں کی۔ میں ہمدردی سے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔
وہ ابھی تک بڑبڑا رہی ہے۔
’’تمھی لوگوں کے لیے میں نے اپنی زندگی برباد کر دی ہے۔‘‘
میں خاموشی سے باہر نکل جاتا ہوں۔
بازاروں میں بھیڑ ہے۔ میرے قریب سے دو صحت مند لڑکیاں گزرتی ہیں۔ میں مڑ کر انہیں دیکھتا ہوں ، میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے پیچھے پیچھے چلوں۔ لیکن ان کے پیچھے نہیں جاتا کیونکہ میرے پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ میرے اوپر میری شرافت کا لبادہ پڑا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جھنجھلا کر اسے اتار پھینکوں لیکن میں خاموشی سے دوسری سڑ ک پر مڑ جاتا ہوں اور بے مقصد چلتا رہتا ہوں۔
شام کے دھند لکے گہرے ہو گئے ہیں۔ میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کسی جگہ بیٹھ کر گر م گرم چائے پیوں۔ میں اس مخصوص ہوٹل کی طرف چل پڑتا ہوں جہاں میرے دوست اکٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن جونہی میں اندر جانے لگتا ہوں مجھے خیال آتا ہے اندر ابھی کوئی نہیں۔ اگر میں پہلے جا کر بیٹھ گیا تو مجھے بعد میں آنے والے سب دوستوں کو چائے پلانا پڑے گی۔
میں خاموشی سے باہر آ جاتا ہوں۔ اندر میزوں پر رکھی ہوئی پیالیوں میں سے نکلتی ہوئی بھاپ میرے اندر کسی چیز کو بار بار ابھارتی ہے لیکن میں خود پر جبر کرتا ہوں۔ مجھ پر پھر جھلاہٹ کا دورہ پڑتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے کپڑوں نے میرے اندر کی کسی چیز کو جکڑ رکھا ہے۔ مجھے ہر شخص بندھا نظر آتا ہے۔ میں دانت کچکچاتا ہوٹل کے دروازے سے دور چلا جاتا ہوں۔
کچھ دیر کے بعد جب کچھ لوگ آ جاتے ہیں تو چوروں کی طرح جا کر ان کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ دائیں کونے پر بیٹھا ہوا سانولے رنگ والا میرے لیے چائے کا آرڈر دیتا ہے۔ اس کے چہرے پر بیزاری کے آثار ہیں۔ وہ گفتگو میں صرف ہوں ، ہاں کر کے ہی اپنی موجودگی ظاہر کر رہا ہے۔ حالانکہ مجھے وہی موجود نظر آتا ہے، باقی سب غائب ہیں۔ اتنے میں ہمارا ایک اور دوست اندر آتا ہے۔ نئے آنے والے کو دیکھ کر اس کے چہرے پر نفرت کی لکیریں ابھرتی ہیں۔
میں سوچتا ہوں ، میری آمد پر بھی اس کے چہرے پر یہی لکیریں ابھری ہوں گی۔ مجھے وہ رسّی سے بندھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ آج سب سے پہلے اندر آیا ہے۔ پہلے آ جانا بھی ایک گناہ ہے۔ میں بھی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے پہلے آگیا ہوں۔ میں بھی رسی سے بندھا ہوں۔۔۔ مجھے ارد گرد بیٹھے ہوئے تمام لوگوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور میں کسی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل جاتا ہوں۔
رات بتدریج تاریکی کے تالاب میں ڈوب رہی ہے۔ میں فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چل پڑتا ہوں۔ سامنے سے ایک جوڑا بانہوں میں بانہیں ڈالے ہنستا ہوا آ رہا ہے۔ میں بڑی حسرت سے عورت کی طرف دیکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی چیز مسلسل تڑخ رہی ہے۔ میں اداس ہو کر گھر کی طرف چل پڑتا ہوں۔
جب میں دہلیز سے اندر قدم رکھتا ہوں تو میرے نتھنوں میں آلو وڑیوں کی بو آتی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے، زور زور سے چیخوں مگر میں چپ چاپ باورچی خانے میں جاتا ہوں۔ سب سو رہے ہیں۔ میں کھانا نکالتا ہوں ، سالن جما ہوا ہے۔ میں اسے گرم کرنا چاہتا ہوں مگر میں اسے گرم نہیں کرتا اور اسی طرح کھانا شروع کر دیتا ہوں۔
پھر میں بڑے کمرے میں آتا ہوں۔ سب سو رہے ہیں۔ مجھے ان سب پر غصہ آتا ہے۔ اتنی جلدی سونے کی کیا تُک ہے، ابھی تو صرف دس ہی بجے ہیں۔ اسی وقت ماں کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ حسبِ معمول بڑبڑاتی ہے۔
’’اتنی رات گئے آیا ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’دس بجے رات ہوتی ہے؟‘‘
وہ بھی جواباً غصہ سے کہتی ہے۔۔۔ ’’تو کیا سویر ہوتی ہے۔‘‘
میں جھنجھلا کر کہتا ہوں۔۔۔ ’’میں تواسی وقت آؤں گا۔‘‘
وہ بے بس ہو جاتی ہے اور روہانسی ہو کر جواب دیتی ہے۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں آئے گا۔۔۔ میرا کوئی زور ہے تجھ پر۔‘‘
پھر وہ بڑبڑاتی ہے۔
’’اسی دن کے لیے تو میں نے یہ دکھ سہے ہیں۔‘‘
مجھے اس پر بڑا رحم آتا ہے۔ میں خاموشی سے بستر میں گھس جاتا ہوں۔ بستر پر لیٹ کر میں سوچتا ہوں ، صبح پھر جلدی اٹھنا ہے۔ پھر فوراً ہی مجھے صاحب کا وہ کام یاد آتا ہے جسے میں ادھورا چھوڑ کر آیا ہوں۔ کل صبح جاتے ہی چڑھ جائے گا۔ میں بیزاری سے پہلو بدلتا ہوں۔ سامنے انور کی چارپائی ہے۔ صبح وہ پھر فیس کے لیے روئے گا۔ ماں نیند میں بھی بڑبڑا رہی ہے۔ مجھے اس پر ترس آتا ہے۔ میں سوچتا ہوں اس بے چاری نے صرف ہمارے لیے ہماری اپنی زندگی برباد کر لی ہے۔ اچانک مجھے ماں پر بے حد غصہ آتا ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کر لیتی تو کم از کم میرا ایک بوجھ تو کم ہو جاتا۔ اچانک مجھے اپنے آپ سے نفرت سی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود کو ایک گندی سی گالی نکالتا ہوں اور لحاف کو اوپر کھینچ لیتا ہوں۔
٭٭٭
ڈوبتے جسم کا ہاتھ
۔۔۔ اور سب راحتیں اسی کے لیے ہیں جو دائرے میں رہنے کا فن جانتا ہے۔
سرمئی رنگ کے اس دائرے میں ہم دو ہیں۔
ایک وہ جو تیز کلہاڑا لیے میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے اور دوسرا میں ، جو کلہاڑے کے ہر وار پر اپنے جسم کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کرتا ہے۔ اس دائرے میں صرف وہی جاگتا ہے کہ اس کے تیز کلہاڑے کی چمک، رنگت کے سرمئی پن کی خالق ہے اور میں سوتا ہوں کہ میرے لیے جاگنے کے لمحے صرف وہ ہیں ، جب میں اس کی امانت اسے لوٹاتا ہوں۔ وہ کہتا ہے جب سے میں نے سانسوں کا قرض لیا ہے وہ میرے ساتھ ہے لیکن میری پہچان کے دھند لکے اس موڑ پر آ کر میرا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جہاں اس نے مجھ پر پہلا وار کیا تھا۔
جماعت کے کمرے میں حسب معمول آخری بنچ پر بیٹھا بلیڈ بجا رہا تھا کہ ماسٹر جی نے میز پر زور سے ہاتھ مارا، ’’رول نمبر ۱۷۔‘‘
میرے ساتھ والے نے میری پسلیوں میں کہنی ماری۔ میں نے جلدی سے بلیڈ پر کتاب رکھ دی۔۔۔ ’’جی سر۔۔۔ جی سر۔۔۔ ‘‘
’’تیری فیس معاف ہے؟‘‘
میں نے دانت نکالے۔۔۔ ’’جی۔۔۔ جی سر۔‘‘
آگے بیٹھے ہوئے ایک لڑکے نے کہا۔۔۔ ’’یہ غریب ہے سر۔‘‘
میں نے جواباً پھر دانت نکالے، ماسٹر جی نے زور سے ہُوں کی اور کہنے لگے۔۔۔ ’’اوئے حرامی! تو پھر پڑھتا کیوں نہیں۔۔۔ فیل ہو گیا تو فیس لگ جائے گی سمجھا؟‘‘
میں چپ چاپ بیٹھ گیا اور ماسٹر جی کی نظر بچا کر پھر بلیڈ بجانے لگا۔
چھٹی کے بعد تپتی دوپہر میں گھر آتے ہوئے جب میں سنسان سڑک پر مٹکے میں سے پانی پی رہا تھا تو میں نے اسے دیکھا۔
وہ تیز چمکتا کلہاڑا لیے مٹکے کی اوٹ سے برآمد ہوا اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
میں اس کی اچانک موجودگی سے خوف زدہ ہو گیا اور میں نے گھگیا کر پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘
وہ خوفناک ہنسی ہنسا۔۔۔ ’’میں۔۔۔ تمہارے وجود کا خدا ہوں۔‘‘
’’خدا؟‘‘
’’مگر خدا تو زمین پر نہیں اترتا۔‘‘
’’لیکن اب میں تمہارے سفر میں تمہارا شریک ٹھہرایا گیا ہوں۔‘‘
اس نے کلہاڑا اٹھایا اور وار کیا۔
گھر آ کر میں نے ماں سے کہا۔۔۔ ’’امی۔۔۔ آج میں نے اپنے خدا کو دیکھا ہے۔‘‘
’’خدا؟‘‘
’’ہاں جی۔۔۔ اس کے ہاتھ میں تیز چمکتا کلہاڑا تھا۔‘‘
اور میرے جسم نے کلہاڑے کی تیزی کی گواہی دی۔
’’کیا بکتا ہے۔۔۔ چل جا کر سو جا۔‘‘
لیکن سونا کہاں۔ میں نے تو اس کے ہونے کا اقرار کر لیا تھا۔
اٹھتے بیٹھتے اس کی تیز چمک میرے سر پر منڈلاتی اور میں رات رات بھر جاگ کر اس کے ہونے کی گواہی دیتا۔۔۔
دو ماہ بعد جب نتیجہ نکلا تو میں نے ماسٹر سے پوچھا، ’’سر جی۔۔۔ اب تو میری فیس نہیں لگے گی نا؟‘‘
انہوں نے زور سے میری کمر تھپتھپائی۔۔۔ ’’واہ! تو نے تو کمال کر دیا۔‘‘
اس کے کلہاڑے کا پھل سرخ ہو گیا تو میں نے اپنا جسم ہٹا لیا اور اطمینان کا سانس لے کر بھاگتا ہوا گھر آیا۔ اباجی نے میری کامیابی کا سن کر گلے لگا لیا۔ پھر بولے، ’’بیٹا اسی طرح محنت کرنا، یہ آخری سال ہے۔‘‘
میں نے ان کے سینے سے چمٹے چمٹے کلہاڑے والے کو اپنے پیچھے محسوس کیا۔
اس رات جب میں بستر پر لیٹا چادر کو انگوٹھے پر لپیٹ رہا تھا کہ وہ اندھیرے کے کواڑ کھول کر رات کے بطن سے باہر آیا۔
’’میں زمیں کی مسافتوں میں تمہارا گواہ ہوں۔‘‘
’’جاؤ، جاؤ۔۔۔ مجھے سونے دو، اب میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔‘‘
اس کی ہنسی رات کے ماتھے پر جھومر کی طرح چمکی، ’’میرا کلہاڑا پیاسا ہے۔۔۔ اپنے جسم کے چشمے کھول دو۔‘‘
میں نے اس کی پیاس بجھانے کے لیے اپنی راتیں اور دن اس کے حوالے کر دئیے۔ میر ی آنکھوں کے سیاہ حلقے پھیل کر گالوں کو چھونے لگے اور میرے کانپتے ہاتھ لفظوں کی حکومت میں سفر کرتے کرتے شل ہو گئے۔ تب ایک سال بعد سفر کا اختتام ہوا۔ میں نے اسے اپنا شریک ٹھہرائے جانے کے خراج کی قسط ادا کی۔
جس دن مجھے نوکری ملی، میں نے فضا میں بانہیں پھیلا کر قہقہہ لگایا، ’’اب تم کبھی نہیں آؤ گے۔۔۔ لینے بھی کیا آؤ گے؟‘‘
میں نے اپنے وجود کو تھپتھپایا، ’’ہاں۔۔۔ آج سے میرے تمہارے راستے الگ الگ ہیں ، سن رہے ہو۔۔۔ سنتے ہو نا؟‘‘
جواب میں ایک پُر اسرار خاموشی۔۔۔ گھپ اندھیرا۔
’’ہاں اب کیوں بولو گے؟‘‘میں نے قہقہہ لگایا۔
’’میرے چھنکتے قہقہوں کی عمر اتنی کم کیوں ہے؟‘‘ میں نے اسے قریب دیکھ کر سوال کیا، ’’آخر کیوں ؟‘‘ ’’اتنی قلیل تنخواہ میں کیا کیا ہو گا؟‘‘ ابا جی نے آج صبح ہی کہا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں میں جانتا ہوں ‘‘۔۔۔ میں روہانسا ہو گیا۔
’’ایک اور وار۔۔۔ ہاں ایک وار اور۔‘‘
’’اُف۔۔۔ ‘‘
’’ہاں ! میں اپنے ہونے کا جزیہ ادا کروں گا۔۔۔ ضرور ادا کروں گا۔‘‘
دن رات پھر اپنی پہچان کھو بیٹھے۔۔۔ ایک۔۔۔ دو چار طویل سال، جن میں دن کے چہرے سے راتوں کا وجود الگ ہو گیا۔
’’اعلیٰ تعلیم کے بعد اچھی ملازمت کیوں نہیں ملے گی‘‘۔۔۔ اباجی نے مجھے تھپکی دی، ’’ملازمت بھی کرنا اور پڑھنا بھی۔۔۔ بھئی کمال کر دیا۔‘‘
نئی جگہ آنے کے بعد قسط کی ادائیگی فر ض ٹھہرا، ’’جاؤ اب کبھی نہ آنا‘‘۔۔۔ میرے لہجے میں حکم تھا۔۔۔
’’اب میرے تمہارے وجود ایک دوسرے کے لیے اجنبی پانیوں سے گزریں گے۔‘‘
اس نے اپنا حصہ اٹھایا، کلہاڑے کو فضا میں گھمایا اور واپس مڑ گیا۔
’’ہاں ہاں واپس جاؤ۔۔۔ یہ راستے میرے ساتھ تمہارے قدموں کے لیے حرام کر دئیے گئے ہیں ‘‘ اور میں نے قہقہہ لگایا۔
لیکن میرا یہ قہقہہ ابھی میرے ہونٹوں کے لمس سے آشنا ہی ہوا تھا کہ وہ پھر آ موجود ہوا۔
’’اب کیوں آئے ہو۔۔۔ کیوں ؟‘‘
’’بیٹا!میرے بعد اب تو ہی اس گھر کا باپ ٹھہرے گا۔‘‘ اباجی نے بستر مرگ پر آخری سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ اس گھر کی سرداری تیرا مقدر تھی، مقدر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔‘‘
اس نے کلہاڑا کندھے سے اتارا اور ہاتھ میں لے کر اسے تولنے لگا۔
جاؤ بھوکے گدھ کی طرح میرے سر پر نہ منڈلاؤ۔۔۔ میں تمہیں اپنے وجود کا ایک ٹکڑا اور دے دوں گا۔۔۔
گھر میں جوان لڑکیاں ہوں تو انہیں رخصت کرنے کے لیے کئی ٹکڑے دینا پڑتے ہیں اور تم صرف ایک ہی کی بات کر رہے ہو؟ صرف ایک۔۔۔
ہاں ، ابھی مجھے صرف سب سے بڑی کی فکر ہے۔
اس نے سر ہلایا۔
تیز چمک نے رات کے سینے پر انگڑائی لی اور میں روتے روتے اباجی کے بے جان جسم سے لپٹ گیا۔
آؤ۔ اب ہم ہواؤں سے راستوں کی بھیک مانگیں۔
جانے والے کے لیے جانا مقدر ٹھہرایا گیا۔
اس کا رستہ میلا نہ کرو۔
اب قبیلہ کی سرداری میرا حصہ ہے۔
ہاں ہاں۔۔۔ ہر سردار کے ساتھ ایک کلہاڑے والا ہوتا ہے۔
’’امی۔۔۔ کلہاڑے والا آپ کے پاس بھی آتا ہے؟‘‘
’’کلہاڑے والا!‘‘
’’ہاں وہی۔۔۔ جو ہماری سانسوں میں ہمارا حصہ دار بنایا گیا ہے۔‘‘
’’بے چارہ۔۔۔ میرے بچے! باپ کا اتنا دکھ نہ کر۔۔۔ جا تھوڑی دیر سوجا۔۔۔ میرے لال۔‘‘
لیکن نیند کہاں ہے؟
اباجی۔۔۔ ہاں ان کا حصہ بھی میں ہی ادا کروں گا۔ بیٹا باپ کا وارث بنایا گیا ہے۔
لیکن کام کرنے والے جانوروں کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ دیتے ہیں ؟ تا کہ صبح کا سانولا پن اور شام کی شفق بے رنگ دھبّوں میں بدل جائے۔ پھر یہ دھبّے پھیلتے پھیلتے گدلے بدبو دار تالاب بن جائیں۔ جن کا پانی رفتہ رفتہ سوکھے تو نمدار زمینیں اپنی آزادی دلدلوں کے ہاتھ بیچ دیں۔۔۔ دلدلیں۔۔۔ تہہ بہ تہہ۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ دھنستے جانا، ڈوبتے جانا۔۔۔ ڈوبتے ہی جانا۔۔۔
’’بھائی ہو تو ایسا ہو۔‘‘ بارات رخصت ہوئی تو ماں نے میرا کندھا دبایا، ’’باپ کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔۔۔ میرا بچہ۔‘‘
’’میں اس کا حصہ اس کے حوالے کر چکا ہوں امی۔‘‘
’’حصہ۔۔۔ کون سا حصہ؟‘‘ ماں نے حیرت سے دہرایا۔۔۔ ’’تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا ہے؟‘‘
’’ہاں ابھی ایک رہتی ہے، ابھی مجھے ایک ٹکڑا اور دینا ہے۔‘‘
ماں بڑبڑاتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
میں نے سرگوشی کی، ’’میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے۔ تم دیوار کی آوٹ میں کھڑے ہو۔ آ جاؤ۔۔۔ ابھی میرا تاوان پورا نہیں ہوا۔‘‘
’’اب رہ بھی کیا گیا ہے۔۔۔ صرف تین سال‘‘
اس کے جانے کے بعد میں نے زور سے کہا،’’کیا؟‘‘ ساتھ والے بستر پر لیٹا ہوا چھوٹا بھائی چونک پڑا۔
’’ہاں ہاں ، تین سال ہی تو۔۔۔ دیکھو نا، دو ایک سال میں چھوٹی سے بھی فارغ ہو جائیں۔‘‘
’’تب تک تو میں بھی بی اے کر ہی لوں گا، کیوں بھائی جان؟‘‘
میں نے سر ہلایا۔
’’صر ف تین سال، اس کے بعد میں تمہیں ایک ذرّہ بھی نہیں دوں گا۔۔۔ ہاں اور میں نے خلا میں ہاتھ پھیلا کر اسے گندی گالی دی۔
صبح کنگھی کرتے ہوئے میں نے سفید ہوتے بالوں کو بیزاری سے گھورا۔ بال اتنی جلدی سفید ہو گئے ہیں۔ خیر خون تو نہیں ہوا نا۔ ہو بھی کیسے؟ میں تو ہر بار ایک ٹکڑا کاٹ کر اس کے حوالے کرتا ہیں۔
دفتر میں چائے پیتے ہوئے میرے ساتھی نے کہا۔۔۔ ’’شادی کب کر رہے ہو؟ عمر کافی ہو چکی ہے۔‘‘
میں خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا۔
’’صرف تین سال‘‘
لیکن ان تین سالوں میں وہ بار بار آیا اور اپنی امانت وصول کرتا رہا۔ اس وقت غسل خانے کے ٹھنڈے فرش پر میرا بدن پھیل پھیل کر سکڑ رہا تھا۔
’’پھر آدمی ساری عمر کسی کام کا نہیں رہتا۔‘‘ وہ میرے سامنے تھا، ’’ہاں پھر آدمی سارا بیکار ہو جاتا ہے۔‘‘
اس نے اپنا حصہ اٹھایا اور چلا گیا۔
اگلے دن میں نے عہد کیا کہ میں خود کو بیکار نہیں ہونے دوں گا۔ اب میرا جسم کبھی نہیں کٹے گا۔ وہ ایک صدا۔۔۔ وہ ایک صدا۔۔۔
جوان عورتوں کے جوان جسم
مجھ سے یہ کہتے ہیں آؤ
ہمیں ان دھند لکوں سے آ کر نکالو
کہ محصور ہیں ہم
حصاروں کو توڑو۔
یہ ٹوٹیں تو چشمے اُبل آئیں گے نیلگوں زمزموں کے۔
کبوتر کئی پھڑپھڑائیں گے۔
مٹیالے جھاگوں کی بے انتہا دلدلوں میں سبھی۔۔۔ ہم سبھی ڈوب جائیں گے۔
یہ صدا۔۔۔ یہ آوازیں دن بھر اُڑ اُڑ کر میرے کانوں کے گھونسلوں میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور غسل خانے کے ٹھنڈے فرش کو دیکھتے ہی پھڑپھڑا کر باہر نکل آتی ہیں۔
تب جسم پھیلتا ہے اور۔۔۔ وہ اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔
تب یہ تین سال بھی گزر گئے۔ میں نے اس سے آخری بار کہا۔ آج میں تمہیں آخری ٹکڑا دے رہا ہوں۔۔۔ پھر کبھی نہ آنا، ہاں۔
اور اب کئی سال گزر چکے ہیں۔
میں بہت دنوں سے بیمار ہوں۔ میری بیوی اور بچے میرے قریب بیٹھے ہیں۔
اچانک میری بیوی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے، ’’آپ کو کچھ ہو گیا تو ہمارا کیا ہو گا؟‘‘
میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور پھر روتی ہوئی بیوی کو دیکھتا ہوں۔۔۔ تب میری نظر اسی پر پڑتی ہے۔ وہ بڑی خاموشی سے جانے کب کا میرے پیچھے کھڑا ہے، اس کے ہاتھ میں چمکتا، تیز کلہاڑا اپنا حق مانگ رہا ہے۔
لیکن اب میں اسے کیا دوں ؟ میں تو پہلے ہی ایک ایک کر کے سب کچھ اس کے حوالے کر چکا ہوں۔
٭٭٭
دور ہوتا چاند
دائیں طرف بیٹھے ہوئے چھوٹے قد کے شخص نے، جس کے چہرے پر لمبی مسافت کی لکیریں نمایاں تھیں ، دونوں کو دیکھا اور کہنے لگا۔
’’آخر ہم کب تک اس کی راہ دیکھیں گے؟‘‘
دوسرے دونوں چپ رہے لیکن ان کے چہروں پر تائید کی چمک لمحہ بھر کے لیے اُبھری اور وہ دوبارہ اپنی اپنی پیالی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پہلے نے چسکی لی اور پیالی نیچے رکھ دی اور کہنے لگا،
’’میں اس کا انتظار نہیں کر سکتا، پتھر کے اس نصف دھڑ کے ساتھ میں کب تک اس کی راہ دیکھوں گا۔۔۔ ‘‘
اس پر اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے نے سر ہلایا۔
’’ہاں ہم کب تک اپنے مفلوج جسموں پر اپنی داستانوں کا بوجھ لیے اس کی راہ تکیں گے، کب تک؟‘‘
’’ہمیں اپنی اپنی کہانی شروع کر دینی چاہئے۔‘‘۔۔۔ تیسرے نے سر ہلایا۔
پہلے نے اسے تحسین بھری نظروں سے دیکھا۔
’’تو پھر میں اپنی کہانی شروع کرتا ہوں ‘‘ اور اس نے اپنی کہانی یوں شروع کی۔
’’اے درویشو! میں جو پتھر کے نصف دھڑ کے ساتھ تمہارے سامنے بیٹھا ہوں ، پہلا درویش ہوں۔ میں اس پیلے جنگل کا سحر زدہ ہوں جو نیلے طوطوں کا مسکن ہے۔ یہ نیلے طوطے ہر آنے والے کو اپنی آنکھوں اور نوکیلی چونچو ں سے کھا جاتے ہیں۔ میں جب جنگل میں داخل ہوا تو چاند نصف قطر سے گزر کر دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ میں اپنے ہونے کا غم لیے سرد تاریک جنگل میں اترنے لگا۔ درختوں کی اوٹ میں پتوں کے پیچھے لاتعداد آسیب میری حرکتیں دیکھ رہے تھے۔ میں لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھ رہا تھا اور آسیب قدم بہ قدم پیچھے ہٹ رہے تھے۔
سنسان ہوا سیٹیاں بجاتی شاخوں میں جھولا جھول رہی تھی اور پتے پُر اسرار لہجہ میں دبی ہنسی ہنستے ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ رہے تھے۔ میں شاخوں کو ہٹاتا، سانپوں کی پھنکاریں سنتا آگے بڑھتا رہا۔ دفعتاً فضا میں سیٹی گونجی اور نیلا طوطا منڈلاتا ہوا، سیٹیاں بجاتا میرے سر پر سے گزر گیا۔ آسیب دور دور تک سمٹ گئے۔ شاخوں کے ساتھ جھولا جھولتی ہوا بھی ٹھٹک کر رہ گئی۔ میں نے خود کو خاموشی کی گہری دلدل میں محسوس کیا۔
میرے سامنے خوف کی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا، وہ الٹے تھے۔ خوف کی دھند۔۔۔ میں نے گھبرا کر اپنے وجود کو دیکھا۔۔۔ میرا وجود۔۔۔ نہیں یہ تو میرا جسم نہیں۔ اس کے نیچے کا وجود کسی دوسرے کا تھا۔۔۔ کس کا؟
میں نے اس اجنبی جسم کو چھوا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرا نصف دھڑ پتھرایا جا رہا ہے۔
میں واپس بھاگ پڑا۔
دور سے طوطوں کی سیٹیاں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی چلی جا رہی تھیں۔ میں شاخوں کو پھلانگتا ہوا شہر کی طرف بھاگتا رہا۔ جوں ہی میں جنگل سے نکلا، تیز روشنی نے چاروں جانب سے گھیر لیا اور میں نے دیکھا۔۔۔ میرا جسم میرے پاس تھا۔
میں خوشی سے ہنسا اور دونوں ہاتھ پھیلا کر ناچنے لگا۔
اسی لمحہ روشنی نے میرے ہاتھ میں آئینہ دے دیا۔
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’کس لیے؟‘‘
اور پھر میں نے دیکھا۔۔۔ میری آنکھیں پھیل گئیں ، میرے جسم پر کسی دوسرے کا سر تھا۔‘‘
یہاں پہنچ کر پہلا درویش چپ ہو گیا اور اپنے ساتھ والے سے کہنے لگا۔
’’بھائی تمہارے پاس بیس پیسے ہوں گے؟‘‘
اس نے سر ہلایا۔۔۔ ’’ہیں تو۔‘‘
پہلے درویش نے تشکّر بھری نظروں سے اسے دیکھا اور بولا،
’’میرے لیے ایک کپ چائے اور منگواؤ۔‘‘
چائے آ گئی تو پہلے درویش نے چسکی لے کر اطمینان کا لمبا سانس لیا اور ادھوری کہانی کے سرے یوں جوڑے۔
’’اور اب میں شہر میں رہتا ہوں مگر میرا سرا ابھی تک نہیں ملا۔ چمکیلی آنکھوں اور نوکیلی چونچوں والے نیلے طوطے نصف رات گزرنے کے بعد آتے ہیں اور مجھ سے وہ جسم مانگتے ہیں جو میں پہلے جنگل سے چرا لایا ہوں۔ میں ان طوطوں کے خوف سے بستی بستی پھرتا ہوں مگر وہ ہر جگہ آ جاتے ہیں۔ آخر تنگ آ کر میں نے سمندر کی راہ لی اور چاہتا تھا کہ ایک پل میں چرائے ہوئے جسم کی امانت اس کی نیلاہٹ کے سپرد کر دوں کہ ایک مردِ توانا نے، جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں ، مجھے شانوں سے پکڑ لیا اور کہنے لگا،
’’الّو کے پٹھے خودکشی کرتے ہو۔‘‘
میں نے گھگھیا کر کہا، ’’حضور غلطی ہو گئی، اس بار معاف کر دیں۔‘‘
اس نے لمبی سی ہُوں کی اور بولا، ’’جیب میں کتنے پیسے ہیں ؟‘‘
میں نے کہا، ’’حضور پیسے ہوتے تو پہلے چائے نہ پی لیتا۔‘‘
اس نے جواباً میری مرحوم ماں سے اپنے رشتے کا اعلان کیا اور بولا۔
’’دفع ہو جاؤ۔‘‘
سو، اے پیارے بھائیو! میں اس آفت زدہ شہر کی طرف آگیا، جہاں تم دونوں سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
پہلا درویش چپ ہو گیا۔ چند لمحے گہرا سناٹا چھایا رہا۔ اس دوران بیرا خالی پیالیاں اٹھا کر لے گیا۔ تینوں چمکیلی میز پر کہنیاں ٹیکے اپنی اپنی سوچ میں گم تھے۔ اس خاموشی کو پہلے درویش کے ساتھ بیٹھے ہوئے موٹے نے توڑا۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہنے لگا۔
’’میں دوسرا درویش اپنی کہانی یوں شروع کرتا ہوں ، میں اندھیری راتوں کا مارا ہوا ہوں۔ جب شہر کے دو حصے ہوئے تو میں ہوا کے جنگل سے نکل کر روشنیوں کے مندر میں آگیا، جہاں رقص، خوشی اور پوجا جاری تھی۔ شیشے جیسی نازک لڑکی ناچ ناچ کر تھک چکی تھی اور شہر، خدا اور بندر تینوں مست ہو کر جھوم رہے تھے۔ دوسری جانب اس لمبی شاہراہ پر، جہاں کل تک روشنیاں جگمگایا کرتی تھیں ، ہوا کا راج تھا۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ الٹے لٹکے ہوئے انسان عکس، رقص اور خوشی سے بے نیاز چیخ کے لمبے سروں میں دفن تھے۔ مندر والے ان چیخوں سے دور رقص کی تانوں پر سر دھن رہے تھے، لیکن۔۔۔ ہاں میرا ایک کان شاہراہ پر رہ گیا تھا۔ دفعتاً شاہراہ کے برابر والے قبرستان کی قبروں کے منہ کھل گئے اور ان میں سے ایک ایک کر کے مردے نکلنے لگے۔
ایک شخص نے، جس کے منہ پر خون ملا ہوا تھا اور جس کے ناخن لمبے اور پاؤں الٹے تھے، بغل میں سے مُرلی نکالی اور بجانے لگا۔ مرد ے مُرلی کی تان پر مست ہو کر شاہراہ کے ساتھ ساتھ الٹے لٹکے انسانوں کے گرد ناچنے لگے۔
مُرلی والا ان سے بے خبر مُرلی بجانے میں مصروف تھا۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ شعلے رقص کرتے رہے اور پھر وہاں کچھ نہ رہا۔ مُرلی کی دھن تیز ہو گئی اور ناچ جوبن پر آگیا۔
مندر میں روشنی ہی روشنی ہے مگر میں اندھیری راتوں سے ڈرتا ہوں۔ اندھیری راتیں۔۔۔ جب وہ مُرلی والا مُرلی بجاتا میرے چاروں اور پھرنے لگتا ہے، اور۔۔۔
مردے۔۔۔ ‘‘
یہاں پہنچ کر دوسرا درویش خاموش ہو گیا۔
تیسرے درویش نے اپنی کہانی یوں بیان کی:
’’میں دریا سے خوف زدہ ہوں کہ دریا ان کا مسکن ہے جو ہر تیرنے والے کو کھا جاتی ہیں۔ میں خود کو بڑا تیراک سمجھتا تھا لیکن ایک دن میں ان کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ چاروں طرف سے مجھ پر حملہ آور ہوئیں اور میری آنکھیں ، ٹانگیں اور سر کھا گئیں۔ اب میرے جسم کی باری ہے۔ میں دریا سے بھاگ جانا چاہتا ہوں ، مگر دریا میرے چاروں جانب تا حدّ نظر پھیلا ہوا ہے۔‘‘
اس موقع پر ایک دبلا پتلا شخص اندر آیا اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
تینوں اسے دیکھ کر بیک وقت چلّائے، ’’تم آزاد بخت ہو؟‘‘
’’نہیں ‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا، ’’میں چوتھا درویش ہوں۔‘‘
یہ سن کر پہلے درویش نے مکّہ مارا۔
’’اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟‘‘
’’بس نہیں ملی۔‘‘
پہلا درویش دوبارہ میز پر ہاتھ مارنا چاہتا تھا کہ دوسرے درویش نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’بیرا آ جائے گا۔‘‘
بیرے کا سن کر پہلے درویش کا اٹھا ہوا ہاتھ اوپر ہی رہ گیا۔
دوسرے درویش نے آنے والے سے کہا۔۔۔ ’’ہاں تو بھائی ہم تو اپنی اپنی بپتا سنا چکے۔۔۔
افسوس تم نہ سن سکے۔‘‘
چوتھے نے اطمینان سے سر ہلایا۔
’’کوئی بات نہیں ، کل سن لوں گا۔‘‘
اس دوران پہلے تینوں پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
چوتھے نے کہا۔۔۔ ’’بھائیو! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، میرے پاس چائے کے پیسے ہیں۔۔۔ ‘‘
تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
چوتھے درویش کے لیے چائے آ گئی تو کہانی شروع ہو ئی۔
’’ہاں تو، میں جب گھر سے نکلا تو لوگ بارش کی دعا مانگ رہے تھے کہ بارش اپنے ساتھ ہریالی کا زخم لے کر آئے گی۔ میں چلا تو میرے چاروں طرف چپ کا بیکراں سمندر پھیلا ہوا تھا اور میں بادبان پھٹی کشتی کی طرح بے مقصد لہروں کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ تا حدّ نظر سیاہ پھیلی بانہیں مجھے نرغے میں لینے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ گلی گلی کرن زدہ تھی اور ہر قدم پر جھاڑیوں کے پیچھے موت تھی۔ جگہ جگہ بارود کی بو اور گولیوں کا شور تھا۔ اس لمحہ کسی کو نام و نشان پوچھنے کی فرصت نہیں تھی۔ میں بے ناموں کی اس بستی میں دھوئیں کی دیواریں پھلانگتا آگے بڑھتا رہا۔ مکانوں کی روشنیاں گل ہو رہی تھیں اور زمین سورج کا گھر بنی ہوئی تھی۔ میں راستہ بھول گیا۔۔۔ ہاں میں راستہ بھول گیا۔‘‘
چوتھا درویش چپ ہو گیا۔
کافی دیر چاروں اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے رہے پھر پہلا بولا۔
’’آزاد بخت ابھی تک نہیں آیا۔ آخر ہم کب تک اس کی راہ دیکھیں گے؟‘‘
’’ہاں کب تک؟‘‘۔۔۔ دوسرا بڑبڑایا۔
تیسرے نے سر ہلا کر تائید کی۔
’’بہت دیر ہو چکی۔۔۔ آؤ اسے تلاش کریں۔‘‘
چاروں کیفے سے باہر نکلے۔ اسی صورت کوئی چیختا ہوا قریب سے گزرا۔
’’آزاد بخت کو اغوا کر لیا گیا‘‘
’’آزاد بخت کو اغوا کر لیا گیا‘‘
چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر مختلف چار سمتوں میں چل پڑے۔
٭٭٭
بے چہرہ آدمی
آنکھ کھلتے ہی بد مزہ، کسیلی سی کوئی چیز منہ میں گھلتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں بند کئے ہی کھنکار کر گلا صاف کیا اور بلغم کا تھوبا فرش پر دے مارا۔ کمرے کی ساری چیزیں بھیگی، دھندلی روشنی میں بد ہیئت اور اُداس نظر آ رہی تھیں۔ ہر چیز پر معمول کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ اس نے منہ کے کسیلے پن کو پھر کھنکار کر صاف کیا اور برآمدے میں نکل آیا۔
ساتھ والے کمرے سے آواز آ رہی تھی،’’پرانی صداقتیں ہمارے لیے اپنے معنی کھو چکی ہیں۔‘‘
اس نے بے دلی سے سر جھٹکا اور غسل خانے میں گھس گیا۔ پانی کے کئی چھینٹے منہ پر مارنے کے بعد لمبا سانس لیا اور تازہ پانی کے کئی گھونٹ پی کر شَپ شَپ کرتا ساتھ والے کمرے میں آگیا۔
میز کے گرد وہ تینوں چائے کی پیالیاں سامنے رکھے گفتگو میں محو تھے۔ اس کے آنے پر انہوں نے لمحہ بھر کے لیے سر گھما کر اسے دیکھا، پھر مصروف ہو گئے، وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور خاموشی سے چائے بنانے لگا۔
’’صداقتیں تو اپنی جگہ موجود ہیں لیکن ہمارا دور اپنی بے معنویت کے سبب ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
اس نے بے دلی سے سر ہلایا۔ لٹّو کی طرح کی کوئی شے اس کے ذہن میں مسلسل گھوم رہی تھی۔ اس نے تھوک نگل کر منہ کے کسیلے پن کو دور کرنے کی کوشش کی۔
’’صداقتیں۔۔۔ ؟‘‘
’’لیکن صداقت ہے کیا، تم سچائی کسے کہتے ہو؟‘‘اس نے سر جھٹک کر اشیاء کو پہچاننے کی کوشش کی، بھیگے ہوئے اسفنج کی سی کوئی نمدہ نما چیز اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس دھندلاہٹ سے جھانکنے کی کوشش کی۔
’’صداقت یہی ہے نا، ہر انسان اپنے مفاد کے لیے جو کچھ کہتا ہے وہ سچ ہے، ہے نا؟‘‘
اس کے اندر کوئی چیز بے تحاشا ہاتھ پیر مار کر اس دھند لے غبار کو چیرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے سر جھٹک کر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔
’’لیکن سچائی سڑک پر پڑی ہوئی کوئی شے بھی تو نہیں۔‘‘
’’اور میرے اندر بھی نہیں۔‘‘
’’سچائی یہ ہے۔۔۔ ارے نو بج گئے، اُف ! میرا تو پیریڈ ہے۔‘‘
’’نو؟‘‘۔۔۔ اس کے اندر کوئی چونکا۔ وہ غنودگی کے عالم میں اپنے کمرے کی طرف دوڑا۔ کچھ دیر بعد جب وہ کپڑے بدل کر باہر جانے لگا تو ساتھ والے کمرے سے آواز آ رہی تھی، ’’سچائی یہ ہے کہ ہم سب جھوٹے ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ ‘‘
لفظ دور ہوتے گئے، وہ دوڑتا دوڑتا ہوا سیڑھیاں اترا اور تیزی سے سڑک عبور کرنے لگا۔
کلاس میں داخل ہو کر اس نے تھکا دینے والی اکتاہٹ کے ساتھ رجسٹر روسٹرم پر پھینکا۔ روزانہ کے دیکھے ہوئے بیزار چہرے، تھکی ہوئی آنکھوں سے گھور رہے تھے، اس نے رجسٹر کھولا۔ رول نمبر ون، ٹو، تھری۔۔۔ روزانہ کی بیزار کن تکرار اور ’’یس سر‘‘ کی مردہ آوازیں۔ آخری رول نمبر پکار کراس نے رجسٹر بند کیا اور انگلی سے میز بجاتے ہوئے بولا،
’’اچھا تو آج ہمیں کیا پڑھنا ہے؟‘‘
’’سچائی کی تلاش سر‘‘
’’سچائی کی تلاش‘‘ کوئی بڑبڑایا۔
’’کون سی سچائی‘‘ کسی نے چیخ کر پوچھا۔
’’سچائی۔۔۔ یہ ہے‘‘ اس نے تھوک سے گلا تر کیا اور مردہ سی آواز میں بولا، ’’سچائی یہ ہے کہ ہمیں سچ کو تلاش کرنا چاہئے۔۔۔ ‘‘ اور اس کا جی چاہا کہ کَس کر اپنے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ مارے اور باہر نکل جائے۔
سٹاف روم میں واپس آ کر اس نے بے دلی سے رجسٹر میز پر پھینکا۔ کڑوی، بدمزہ، کسیلی چیز اس کے منہ میں مسلسل گھل رہی تھی اور بھیگے ہوئے اسفنج کی سی کوئی چیز مسلسل اس کے گرد پھیلتی جا رہی تھی۔ سُن ہوتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے دروازے کو کھولا اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ باہر نکل گیا۔
شام کو جب وہ کیفے میں پہنچا تو سارے ایک نہ ختم ہونے والی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔
’’روحِ عصر:۔۔۔ ہمارے دور کی روح عصر منافقت ہے۔‘‘
دوسرے نے یہ سن کر پہلے کو گھورا۔۔۔ ’’یہ دراصل انفرادیت پسندی ہے اور یہ بھی ایک نعرہ ہے۔‘‘
’’نعرے پر تمہیں سانپ کیوں کاٹ لیتا ہے؟‘‘
’’انفرادیت پسندی میں یہ نعرہ ہی تو نہیں۔‘‘
’’انفرادیت سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ دوسرے نے غرّا کر پوچھا۔۔۔ ’’یہ کہ معاشرے سے آنکھیں بند کر کے نام نہاد ذات کے کنویں میں ڈبکیاں لگاتے رہیں اور ہر ڈبکی پر ریت اور کنکروں کی ایک مٹھی نکال کر پڑھنے والوں کے منہ پر دے ماریں۔۔۔ یہ ہے تمہاری انفرادیت۔‘‘
اور اسے محسوس ہوا جیسے اس کے دونوں ہاتھوں میں ریت اور کنکر ہیں۔ اس نے جلد ی سے اپنے ہاتھ کھول دئیے اور کہنے لگا، ’’ہمیں اپنی آنکھوں کھلی رکھنا چاہئیں۔۔۔ ‘‘ پھر اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ ’’میرے اندر تو سارے گہری نیند سو رہے ہیں۔‘‘
باہر ساری سڑک رنگ برنگی خوشبوؤں اور خوش صورت کھنکتے قہقہوں کے ساتھ جاگ رہی تھی۔ اس نے دوسرے کا ہاتھ دبایا۔۔۔ ’’یہاں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ سارے مسئلے حل ہو گئے ہیں۔‘‘
کھنکتے صحت مند قہقہوں کا ترنّم۔۔۔ رنگوں اور آوازوں کا نہ ختم ہونے والا سمندر۔
’’ہاں یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘
معاً اسے محسوس ہوا اس کی گردن اکڑ گئی ہے۔ اس نے زور سے اپنے سر کو جھٹکا دیا، ’’میری گردن پر بہت سا کلف لگا ہوا ہے۔‘‘
اور اس کی گردن یک دم اتنی ڈھیلی پڑ گئی کہ اسے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں اس کا سر نیچے نہ جا گرے۔ اس نے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے ابھرتے ڈوبتے رنگوں اور آوازوں کو سنا، ہر شے بے چہرہ ہوئی جا رہی تھی۔۔۔ بے آواز کڑوی کسیلی چیز اس کے حلق میں ابھری۔ اس نے زور سے منہ مارا، ’’بے چہرہ، بے نام۔‘‘
دوسرے نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ہر چیز اپنے پیچھے پہچان کی ایک لکیر چھوڑ کر غائب ہوئی جا رہی ہے۔‘‘
کڑوی شے اس کے سارے حلق میں تیزی سے پھیل رہی تھی اور چپکتی زرد دھند ہر طر ف جھپٹ رہی تھی۔ اس کے ساتھی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے تھے اور وہ اکیلا چوک میں کھڑا دم بدم بڑھتی سنسناہٹ کی گواہی دے رہا تھا۔ دکانوں کی روشنیاں ایک ایک کر کے بجھ رہی تھیں اور لوہے کے دروازے تیز، چیختی کرخت آواز کے ساتھ بند ہو رہے تھے۔ اس نے سنسان ہوتے بازار کو دیکھا اور یونہی بے مقصد ایک طرف چل پڑا۔
’’ہر شے بے مقصد ہے، دن کے بعد رات، پھر دن، ایک ہی دائرہ، بے مقصد دائرہ۔‘‘
اس نے اکتائے ہوئے انداز میں وقت دیکھا، ’’اُف، گیارہ بج گئے!۔۔۔ صبح اٹھنا بھی تو ہے۔‘‘
’’ہماری کوئی سمت نہیں۔ سارے راستے اسی دائرے میں واپس آ جاتے ہیں۔‘‘
کمرے میں آ کر اس نے بوٹ کو جھٹکے کے ساتھ اُچھالا اور لمبی کراہ کے ساتھ بستر گر گر پڑا۔
دوسرے نے کتاب سے نظریں اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھا، ’’تھکے ہوئے نظر آ رہے ہو؟‘‘
’’تھکاوٹ۔۔۔ ؟‘‘
’’سو جاؤ۔‘‘ دوسرے نے ہمدردی سے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے بیزاری سے کہا پھر اُچھل کر ساتھ والے کا ہاتھ پکڑ لیا اور راز دارانہ لہجے میں کہنے لگا، ’’تمہیں معلوم ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں ؟‘‘
دوسرے نے کتاب بند کر دی اور پُر تشویش نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’کئی دنوں سے تم عجیب طرح سوچنے لگے ہو۔‘‘
’’ہاں ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
دوسرے نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے کتاب پڑھنے لگا۔
اس نے دیوار کی طرف منہ کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ زرد رنگ کے لاتعداد جالے اس کے چاروں طرف بکھر گئے۔ وہ انہیں علیحدہ علیحدہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن جوں جوں وہ علیحدہ کرتا وہ اور اُلجھ جاتے۔ الجھتے ہی چلے جاتے۔۔۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں اور کروٹ بدل کر پھر سونے کی کوشش کی۔ اب روئی کے چھوٹے چھوٹے گالے اس کے چاروں طرف تیر رہے تھے، وہ اچھل اچھل کر انہیں پکڑنے لگا۔ یکبارگی گالوں کی جسامت بڑھنے لگی اور وہ ایک ایک کر کے اس کے گرد جمع ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ ان میں چھپ گیا۔ اس کا دم گھٹنے لگا، لمحہ بہ لمحہ دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا۔۔۔ سانس رکنے لگا۔۔۔ اس نے بڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔
دوسرا سو چکا تھا اور دھندلی روشنی دم توڑ چکی تھی۔
’’مجھے نیند کیوں نہیں آتی؟‘‘
’’نیند کی بھی کوئی سمت نہیں۔‘‘
وہ اس بات پر خود ہی ہنسا۔ کروٹ بدلتے ہوئے اسے خیال آیا، ’’میرا معدہ خراب ہو گیا ہے، مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے۔‘‘
ہاں میرا معدہ واقعی خراب ہو گیا ہے۔ مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس ضرور جانا چاہئے۔
صبح جب وہ پیریڈ لے کر سٹاف روم میں آیا تو بحث زوروں پر تھی۔
’’تو پھر تمہارے خیال میں ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟ الٰہ دین کا چراغ !ہیں ؟‘‘ پہلے نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا،’’خرابی جڑوں تک جا پہنچی ہے۔ اب تو جھوٹ کے اس سارے ڈھانچے کو بدلنا ضروری ہو گیا ہے۔‘‘
دوسرے نے اس کی بات پر افسوس سے سر ہلایا، ’’یہ سب کچھ ماضی سے منقطع ہونے کا نتیجہ ہے۔ سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں اگر ہم ماضی کی طرف لوٹ جائیں۔‘‘
پہلے نے اسے تمسخرانہ انداز سے دیکھا۔۔۔ ’’اور ماضی میں تو کوئی مسئلہ ہوا ہی نہیں کرتا تھا!کیوں ؟‘‘
’’مسئلہ۔۔۔ مسئلہ۔۔۔ مسئلہ، یہ سب نعرے بازی ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کا طریقہ، مجھے بتاؤ تو سہی تمہارے کتنے مسئلے ادھورے ہیں۔‘‘
’’میرا کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ کسی نے سرگوشی کی۔
’’ہاں ہاں ہے‘‘ کوئی دوسرا زور سے چیخا۔
’’میرا تمہارا واقعی کوئی مسئلہ نہیں کہ ہم نے خود کو سجے ہوئے دائروں میں مقیّد کر لیا ہے۔ لیکن اس دائرے سے باہر بھی کچھ لوگ رہتے ہیں۔‘‘
اس بات پر دوسرے کی بھنویں تن گئیں ، ’’ساری بات بدمعاشی اور کاہلی کی ہے۔ یہ لوگ کام چور اور سست ہیں۔‘‘
’’ہاں ایک طبقے کا مؤقف یہی ہے،‘‘ پہلے نے غرّاتے ہوئے کہا، ’’اور جانتے ہو یہ طبقہ کون سا ہے؟ جس نے ذہنی بدمعاشی سے ہاتھ پیر ہلائے بغیر ساری چیزوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔‘‘
’’لیکن اس کا حل کیا ہے؟‘‘ تیسرا جو ابھی تک خاموشی سے ساری گفتگو سن رہا تھا، آہستہ سے بڑبڑایا۔
’’سچائی‘‘ اس نے سر ہلایا،’’اور سچائی یہ ہے کہ حقدار کو اس کا حق ملے۔‘‘
’’حق تو سب کو ملا ہوا ہے۔ کس نے کس کا حق چھینا ہوا ہے۔‘‘دوسرے نے آخری ٹکڑے پر زور دے کر کہا۔۔۔
’’ہاں ایک گروہ یہی کہتا ہے،حق کی بات نہ کرو کیونکہ ان کے دل بہت کمزور ہیں۔‘‘
اسی وقت گھنٹی سنائی دی، دوسرا اپنا رجسٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔ا س کے جانے کے بعد پہلے نے قہقہہ لگایا، ’’ماضی کا ٹھیکیدار! یہ سب اسی گروہ کے غلام ہیں۔‘‘ پھر اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر رازدارانہ لہجہ میں کہا، ’’تمہیں معلوم ہے اسے اسی کام کی باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے۔‘‘
یہ دیکھ کر کہ اس کی بات سن کر دوسرے بے یقینی سے اسے دیکھ رہے ہیں ، وہ لہجے میں زور پیدا کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’بھائی میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ، یہ واقعی پیڈ (Paid) آدمی ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘۔۔۔ بیک وقت سب کے منہ سے نکلا، ’’حیرت ہے؟‘‘
’’حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘ پہلے نے انہیں گھورا، ’’بھائی ان کی تو نیندیں اڑ گئی ہیں ، اب اس جیسے چند لوگ ہی ان کی آخری امید ہیں۔ سو انہوں نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیئے ہیں۔‘‘
’’لیکن سچائی کیسے آئے گی؟‘‘ اس نے اداسی سے کہا، ’’جھوٹ دیمک کی طرح ہمارے ذہنوں کو چاٹ رہا ہے، ہم میں سے کون سچ کے لیے اپنا ہاتھ کٹوائے گا۔‘‘
ہاں ،یہاں تو ہاتھ کھڑا کرنا اور ہاتھ کھڑے کروانا ایک کاروبار بن چکا ہے اور کاروبار کے لیے کھنکتے اور چمکتے سونے کی ضرورت ہے اور یہ کھنکتا، چمکتا سونا ان کے پاس نہیں جو سچ کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
’’پھر۔۔۔ ؟‘‘ بڑے بڑے سوالیہ نشان اس کے گرد ناچنے لگے۔
’’ہاں پھر۔۔۔ ؟‘‘
’’ایک تبدیلی۔۔۔ بنیادی تبدیلی۔۔۔ سچ کو پہچاننے کے لیے اب تبدیلی لازمی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟ پھر وہی پھر۔۔۔ ‘‘
’’تبدیلی لانے والے اس حد تک پیچھے دھکیل دئیے گئے ہیں کہ تیز روشنی میں آتے ہی چندھیا جائیں گے اور چمکتے سونے کی کھنک۔۔۔ ‘‘
’’لیکن نیند کی پری اب اپنے پر سمیٹ رہی ہے۔‘‘ کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی، ’’ہاں جگانے والا آ گیا ہے، وہ دیکھو۔‘‘
’’دیکھو لوگ اس کے انتظار میں بارش میں بھیگ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں ان کے دل سچ کے ساتھ ہیں ، وہ اس کے منتظر ہیں لیکن۔۔۔ ‘‘
اسے یاد آیا، انہوں نے کہا تھا، ہمارے دل تمہارے ساتھ ہیں لیکن تلواریں۔۔۔ افسوس ہم اپنی تلواریں بیچ چکے ہیں۔
اس نے گھبرا کر اپنی تلوار کو دیکھا۔
لیکن میرے پاس تو تلوار ہے ہی نہیں ، میری تلوار تو وہ پہلے ہی چھین کر لے گئے ہیں۔
اس کی مسکراہٹ بتدریج بجھتی گئی اور وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر رہ گیا۔
گہری نم آلود خاموشی ہر شے پر چھا گئی۔
کچھ دیر کے بعد جب وہ گھر جانے لگا تو تیسرا بھی اس کے ساتھ ہو گیا۔ سڑک پار کرتے ہوئے اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور راز داری کے ساتھ کہنے لگا۔
’’تمہیں معلوم ہے یہ دوسرا بھی پیڈ(Paid)ہے؟‘‘
’’پیڈ!‘‘ اس نے حیرت سے دہرایا اور رُک کر اسے دیکھنے لگا، ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
’’Paid‘‘تیسرے نے دہرایا۔ "Paid”کا مطلب ہے پی اے آئی ڈی۔‘‘
’’ہر چیز پر قیمت کی تختی آویزاں ہے‘‘ اس نے سوچا، ’’اور جو نہیں بکے انہیں کسی نے خریدا ہی نہیں۔‘‘
اور اس کا جی چاہا کہ کھلکھلا کر ہنسے، لیکن قہقہہ اس کے لبوں تک آتے آتے دم توڑ گیا۔ کڑوی کسیلی شے اس کے حلق میں سر اُبھار رہی تھی۔ وہ گھسٹتا ہوا کمرے میں آیا اور بغیر کپڑے اتارے بستر پر گر پڑا۔
کوئی آدھا دن ڈھلے کسی نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا۔ اس کا ساتھی پریشانی کے عالم میں اس پر جھکا ہوا تھا، ’’تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘
’’کیا ہوا مجھے؟‘‘
دوسرے نے اس کے لباس کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بغیر جوتے اتارے بستر پر پڑا تھا۔
’’اوہ۔۔۔ تھکاوٹ؟‘‘ اس نے جمائی لی۔
’’ہاں میں واقعی تھک گیا ہوں۔‘‘ اس نے چپ چاپ اپنے آپ سے کہا۔
دوسرا ابھی تک اس پر جھکا ہوا اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا، ’’تم کچھ بیمار نظر آتے ہو۔۔۔ ڈاکٹر کو دکھا لو۔‘‘
اور اسے محسوس ہوا، نقاہت اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑی ہے۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر اٹھا اور ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اس سے کہنے لگا، ’’کھانے کے لیے کچھ ہے؟۔۔۔ میں نے آج کھانا کھایا ہی نہیں۔‘‘
دوسرے نے الماری کھول کر بسکٹوں کا ڈبہ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
دو تین بسکٹ کھانے کے بعد اسے تازہ دمی کا احساس ہوا۔ ڈبہ میز پر رکھ کر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
فرنچ ریولوشن کی ایک بات یاد آ گئی ہے، روٹی نہ ملے تو کیک کھاؤ۔‘‘
اور اسے یاد آیا، چپڑاسی نے کل ہی اس سے کہا تھا، ’’جناب! اسّی روپے کا تو خالی آٹا بھی نہیں آتا۔‘‘
رات کو سونے سے پہلے اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی، ’’اے خدا!۔۔۔ سچ کہا ں ہے؟ مجھے اس کی بشارت دے۔ اے خدا! مجھے بشارت دے۔۔۔ مجھے بشارت دے۔‘‘
اور جب اس نے آنکھیں بند کیں تو گہری سیاہی مائل دھند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ کوئی تیز شے اس کے جسم کو کاٹنے لگی۔ کروٹ بدل کر اس سے چھٹکارا حاصل کیا، لیکن اب لمبی لمبی چونچوں والے اڑتے ہوئے پرندے اس کے گرد منڈلانے لگے اور نوچ نوچ کر اس کا گوشت کھانے لگے۔ تکلیف کی شدت سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ اس نے تھوک سے حلق تر کیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، ’’افسوس، دعا نے بھی اپنا کھو دیا۔‘‘
اندھیرا بہت گہرا ہو گیا تھا۔ دفعتاً اندھیرے میں دراڑیں پڑ گئیں ، اس کے اندر کسی نے سرگوشی کی،
’’سچ وہی ہے اور وہ آ رہا ہے، ہم اس کے لیے بارشوں میں بھیگیں گے۔۔۔ بھاگتے رہو، جاگتے رہو۔‘‘
اس نے سر ہلا کر تائید کی،’’جاگتے رہو۔۔۔ جاگتے رہو؟‘‘
٭٭٭
پونے آدمی کی کہانی
مجھے نہیں معلوم کہ میں اسے کب سے، کیسے اور کیوں جانتا ہوں ، میں نے اسے ایک دن اچانک ہی محسوس کر لیا۔ وہ جانے کب سے بُکل مار کے چھپا بیٹھا تھا۔ اپنے قریب کسی دوسری ہستی کا احساس ہوتے ہی میرے چاروں طرف خوف کی دھند پھیل گئی۔ میں کئی دن اسے چھپ چھپ کر، کبھی قریب سے کبھی دور سے دیکھتا رہا، وہ میرے ہی جیسا تھا لیکن چپ چاپ، بکل مارے کسی گہری سوچ میں گم۔ کئی دنوں کی تاک جھانک کے بعد میں بڑی ہمت سے دبے پاؤں ڈرتے ڈرتے اس کے قریب آیا۔ اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنائیت کے گہرے بندھن تھے۔ خوف کی دھند رفتہ رفتہ چھٹنے لگی، ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’میں تمہیں جانتا ہوں۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر روشنی کی ایک لہر تڑپی۔
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ ’’میرا کوئی نام نہیں۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’نام تو ضروری ہے۔۔۔ ہم اپنے ناموں ہی کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
’’نام۔۔۔ نام میں کیا رکھا ہے۔۔۔ ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی بڑی بات ہے۔‘‘
میں نے اصرار کیا۔۔۔ ’’نام تو ہونا ہی چاہئے۔‘‘
کہنے لگا۔۔۔ ’’دنیا میں پہلے ہی کروڑوں نام ہیں ، ایک میں نے نہ رکھا تو کیا ہو گا ؟‘‘
’میں نے کہا۔۔۔ ’’اپنا کوئی نام رکھ لو۔ اس کے بغیر ہم محض سائے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تم ہی رکھ دو۔۔۔ زید، عمر، بکر کوئی سا نام۔‘‘
میں نے اسے بے نام کہنا شروع کر دیا۔
رفتہ رفتہ ہم گہرے دوست بن گئے۔ اس کی باتوں میں بڑا سحر تھا۔ میں پہروں ان کے جادو میں ڈوبا رہتا۔ شروع شروع میں اُسے تلاش کر کے اس کی باتیں سنتا۔ مگر دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیا کہ میں اس سے نفرت کرنے لگا ہوں۔ میں اس سے دور بھاگ جانا چاہتا ہوں لیکن وہ میرے وجود کے صحرا میں ایسی کونپل تھا کہ میں اسے اکھاڑنا چاہتا تو میرا اَنگ اَنگ درد کی لہروں میں بہہ جاتا۔
لمحہ لمحہ یہ کونپل میرے پورے وجود میں پھیل رہی تھی۔ میں تنہائی کے ایک ایک پل کے لیے ترس ترس گیا تھا اور اب میری یہ پیاس خوف کی کالی چادر میں لپٹی چلی جا رہی تھی۔ وہ بھاری پتھر کی طرح میرے وجود کے گدلے تالاب میں گر پڑا تھا اور پانی اُچھل اُچھل کر باہر گر رہا تھا۔۔۔ مجھے اسے بچانا تھا ورنہ میں خالی ڈبے کی طرح لڑکھڑاتا پھرتا، مگر اسے میری اس بات سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ تو اس گدلے تالاب کی گدلاہٹ دور کرنے پر تلا ہوا تھا کہ گدلاہٹ کی موت ہی گیان کی پہلی نشانی تھی۔ مجھے گیان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے تو اپنے کمرے کی کھڑکیوں کے ان سوراخوں سے دلچسپی تھی جن سے میں اڑوس پڑوس کی عورتوں کے مرمریں بدنوں کی قوسیں گنا کرتا تھا۔ کافی عرصے تک اسے ان سوراخوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو سکا۔ میں ہمیشہ اس کی غیر موجودگی میں ان سوراخوں کے پاس اکثر اکڑوں بیٹھ کر اپنے جسم کے پھیلنے، سکڑنے کا تماشا دیکھا کرتا تھا۔
میں اسے اس راز میں شریک نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن ایک دن میں نے اسے اپنے ساتھ محسوس کیا۔ شرمندگی اور خوف سے میرا سارا جسم منجمد ہو گیا۔۔۔ وہ اُچک کر سوراخ کے قریب آیا اور دوسری طرف جھانکنے لگا۔۔۔ اور جھانکتا رہا۔ میں نے سوچا چلو روز روز کی بک بک ختم ہوئی۔ مگر یہ محض میرا وہم تھا۔ آدھی رات کو اس نے اچانک مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں۔ وہ میرے سینہ پر چوکڑی مارے دونوں ہاتھوں سے میرا گلا دبا رہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنا گلا چھڑایا۔ اس نے ہاتھ تو ہٹا لیے مگر سینہ سے نہیں اترا۔ میں نے محسوس کیا، اس کا بوجھ اچانک بڑھ گیا ہے اور وہ دیو قامت پیکر کی طرح مجھے دبوچے ہوئے ہے۔
میں نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ ’’تم تو میرے دوست ہو۔‘‘
اس نے نفرت سے مجھے دیکھا۔۔۔ ’’میں کسی کا دوست نہیں۔‘‘
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’میرا کیا قصور ہے؟‘‘
کہنے لگا۔۔۔ ’’تم کمینے اور کتے ہو۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’تم بھی تو میرے ساتھ تھے۔‘‘
’’میں کسی کے ساتھ نہیں۔‘‘
میں نےا س کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی مگر اس کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا۔ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے بوجھ کے نیچے میں خود کو ریزہ ریزہ ہوتے محسوس کر رہا تھا، میں بڑی مشکل سے کہہ سکا۔
’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔‘‘
وہ بڑی خوفناک ہنسی ہنسا۔
’’ہر انسان مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
میرے اندر چھناکے سے چیزیں ٹوٹ رہی تھیں۔ سوراخوں کے رنگین منظر اور گداز جسم بکھر بکھر رہے تھے۔ میری اس کیفیت سے اسے بڑی خوشی ہوئی۔ دونوں ہاتھوں سے بچوں کی طرح تالی بجاتے ہوئے بولا، ’’ہوں ! تو تم واقعی کفارہ ادا کرنا چاہتے ہو۔‘‘
میں نے تڑپ کر نیچے سے نکلنے کی آخری کوشش کی مگر میرا وجود ناف ناف اپنے اعمال کی پتھریلی زمین میں گڑا ہوا تھا اور وہ دونوں ہاتھوں میں پتھر لیے میرے گرد ناچ رہا تھا۔ دفعتاً اس کا چہرہ آگ میں جلنے لگا، اس نے اچھل کر مجھے دبوچ لیا، میں درد کی شدت سے بلبلا رہا تھا۔۔۔ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا چہرہ نوچ رہا تھا اور وہ دور کونے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ میرے آنکھیں گہرے پانی میں ڈوب گئیں اور گھپ خاموش اندھیرا دبے پاؤں چاروں طرف پھیلتا چلا گیا۔
اس دن کے بعد میرے دل میں اس کے لیے نفرت کی کالک گہری ہوتی چلی گئی۔ مگر اس نفرت کے ساتھ خوف کی چادر بھی تنی ہوئی تھی۔ ان دنوں میں اس سے زیادہ ہی متنفر تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ان دنوں میں ایک لڑکی میں دلچسپی لے رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرے گا، اس لیے میں نے اسے راحت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ لیکن حسب ِ معمول اس سے یہ بات بھی چھپی نہ رہ سکی۔ ایک رات جب ہم دونوں الگ الگ کونے میں دبکے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے، اس نے مجھ سے کہا۔
’’تو تم بھی راحت کے طلب گار ہو۔‘‘
میں نے کہا، ’’کون سی راحت؟‘‘
اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا۔۔۔ ’’کتنی کتابیں پڑھ چکی ہے؟‘‘
’’شاید آدھی۔‘‘
’’باقی آدھی بھی جلدی سے پڑھوا دو۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’تاکہ تم سفر سے واپس آ سکو۔‘‘
میں نے شانے ہلائے۔۔۔ ’’میں کہیں نہیں گیا، میںا پنی جگہ موجود ہوں۔‘‘
لیکن میں جھوٹ بول رہا تھا۔ میں واقعی بہت لمبے سفر پر نکل آیا تھا۔ یہ گھنے جنگل کا سفر تھا۔ روز بروز طویل ہوتا جا رہا تھا۔ پھر ایک دن وہ راہ چپکے سے میرے قدموں کے نیچے سے نکل گئی جس پر چل کر میں یہاں تک آیا تھا۔ دراصل راحت کیرئیر اِسٹ لڑکی تھی۔
میں جنگلوں میں اکیلا رہ گیا۔ میرے بے نام ساتھی نے مجھ سے پوچھا۔
’’اکیلے رہ گئے ہو؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’ہاں میں اکیلے پن کے عذاب میں جل رہا ہوں۔‘‘
اس نے شانے اچکائے۔
مجھے اس کی بے رخی اچھی نہیں لگی۔ میں پھر گھنے جنگل میں بھٹکنے لگا۔
نسیم بٹ کی ناک چینیوں کی طرح تھی۔ تاریک سرد رات میں وہ مجھے سورج کی کرن کی طرح محسوس ہوئی۔ سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ لیکن اس سفر میں مَیں اکیلا نہیں تھا۔ عزیز الرحمن بڑا سیدھا سادا شخص تھا، مروّت اور خلوص کا مارا ہوا۔ اس نے چند ہی دن میں مجھے اپنے اور نسیم بٹ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، مگر میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔۔۔ میں مکّار اور ریاکار تھا۔
میں اور عزیز الرحمن ایک ہی پگڈنڈی پر چل رہے تھے۔ اس عرصے میں مَیں دانستہ اپنے بے نام ساتھی سے چھپ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ نظروں کا تند کلہاڑا لے کر مجھے تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ مگر میں اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ میں بزدل اور ڈرپوک تھا۔ عزیز الرحمن خاموشی سے میرے ساتھ چل رہا تھا، وہ خود بھی کچھ نہیں کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ بزدل تھا۔ میں اسے پھلانگ کر آگے نکل جانا چاہتا تھا مگر میں اسے نہیں پھلانگ سکا۔
میں چاہتا تو یہ چھلانگ لگا سکتا تھا مگر میرے بے نام ساتھی کا خوف میرے اعصاب پر عذاب کی رات بن کر آ گرا تھا۔۔۔ میں یہ عذاب برداشت نہیں کر سکا اور ایک رات عزیز الرحمن کو پگڈنڈی پر اکیلا چھوڑ کر چپکے سے گھنے جنگل میں اتر گیا۔
اس رات میرے چہرے پر زردی کا غلاف چمک رہا تھا۔
اس نے مجھے دیکھ کر سر ہلایا۔۔۔ ’’تو تم آ گئے ہو۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’ہاں میں پگڈنڈی کی گرفت سے نکل آیا ہوں۔‘‘
اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ وہ بڑا بے رحم تھا، مسکراتا رہا۔
میں اور میرا بے نام ساتھی گھنے تاریک سرد جنگل میں تنہا تھے۔
میں نے اپنے سفر کا آغاز اُجلے پانیوں اور کھلے پھولوں والی وادی سے شروع کیا تھا۔ ٹھنڈے گھنے سایوں تلے سفر کی لذتوں سے ہمکنار ہوا تھا اور اب میں سائے کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ترس رہا تھا مگر میرا بے نام ساتھی ان سب سے الگ تھا، اسے کسی بات کا غم نہیں تھا۔
معروفہ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا۔ میری ماں نے بچپن میں مجھے پچھلی پائیوں کے بارے میں جو کچھ بتایا تھا وہ اس کی زندہ شکل تھی۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ اس کے پاؤں الٹے نہیں تھے۔
میرے بے نام ساتھی نے مجھ سے کہا۔۔۔ ’’گرد کی دلدل میں ڈوب گئے تو کبھی نہ اُبھر سکو گے۔‘‘
وہ چپ ہو گیا۔ میں گرد آلود راستہ پر گرد میں لپٹا جا رہا تھا۔ راستہ سمندروں کا طالب تھا اور میں بارش کی ٹوٹی کنی۔۔۔ میں اس میں جذب ہونے کی بجائے اس کے اوپر جما رہ گیا۔ پھر تیز ہوا چلنے لگی۔ تیز ہوا گھنے بادل بھی لائی اور بارش ہوئی تو مجھے معروفہ کے سیدھے پاؤں میں الٹے پاؤں چھپے ہوئے نظر آ گئے۔
اس رات میں نے گھنے جنگل میں آگ جلائی اور اپنے گرد لپٹی ہوئی تاریکیوں کو کھرچ کر کندن ہونا چاہا۔ مگر گوشت جلنے کی بو مجھے کندن نہ بنا سکی۔ تھوڑی دیر بعد جب میں کراہتا ہوا راہ کی تلاش میں گھنے درختوں سے سر ٹکراتا پھر رہا تھا، میرے بے نام ساتھی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔
’’آؤ ان تمام پگڈنڈیوں کا ماتم کریں جو گھنے جنگلوں میں کھو گئیں۔‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا، اس کی آنکھوں میں سائے تیر رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا، ہم دونوں ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔
٭٭٭
پچھلے پہر کی موت
ان سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں خدا سے ملنے جا رہا ہوں۔
یہ بوڑھی، خاموش سیڑھیاں کئی سالوں سے یوں ہی اداس ہیں۔ زرد زینوں پر قدم رکھتے ہوئے خوف کی پرچھائیاں مجھ سے لپٹ جاتی ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا وجود نیچے۔۔۔ بہت نیچے پہلے زینہ پر رہ گیا ہے اور میں ہوا کا لبادہ اوڑھے ان زرد سہمے ہوئے زینوں پر چڑھ رہا ہوں۔ ان زینوں پر دو موڑ ہیں۔۔۔ جو بے صدا ہونٹ لیے حیران،خاموش آنکھوں سے آنے والے کو بِٹ بِٹ دیکھتے رہتے ہیں اور جب آنے والا قریب آتا ہے تو اندھیرے کے ہاتھوں سے پکڑ کر اسے چپکے سے نگل جاتے ہیں۔ میں ان موڑوں سے بہت ڈرتا ہوں اور اکثر سوچا کرتا ہوں ، زینوں پر موڑ کیوں ہوتے ہیں اور یہی سوچتے سوچتے ان اندھے، بے صدا موڑوں سے ٹکرا جاتا ہوں۔ وہ اپنے اندھے ہاتھوں سے مجھے دبوچ لیتے ہیں۔ میں چیختا ہوں لیکن میری آواز کے دائرے ان موڑوں کی سرد، نم آلود دیواروں سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں اور سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے اندھیرے کی دلدل میں گر جاتے ہیں۔ میں جلدی سے پاؤں بڑھاتا ہوں اور پہلا موڑ گزر جاتا ہوں ، میں اور اوپر چڑھتا ہوں۔۔۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔ پانچ زینے۔ دوسرے موڑ کی کوکھ جلی ماں با نہیں پھیلائے مجھے دبوچنے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔ میرا جسم لہو کی بوند بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ سرد جمے ہوئے لہو کی بوند اور خوف بلوری برف کے ٹکڑوں کی طرح میرے جسم سے چپک جاتا ہے۔۔۔ یہ کوکھ جلی ماں مجھے اپنے سینے سے لپٹانے کے لیے بے قرار ہے۔ میں سہم کر رُک جاتا ہوں اور دیوار کی برف ایسی ٹھنڈی سطح سے لگ کر اسے دیکھتا ہوں ، وہ اپنی سحر آلود آنکھیں مجھ پر جما کر سرگوشی کرتی ہے۔
’’میرے بچے! آ میرے سینے سے لگ جا۔‘‘
اس کی آواز میں خشک پتوں کی کھنک اور تیز ہوا کا شور ہے۔ میں قدم آگے بڑھاتا ہوں وہ اپنے بازو پھیلاتی ہے لیکن اس کے پاؤں۔۔۔ اس کے پاؤ ں الٹے کیوں ہیں ؟ اس کے پاؤں الٹے کیوں ہیں ؟ خوف کا پہلا قطرہ میرے ذہن میں گرتا ہے، میںا اندھیرے کے جالوں سے الجھتا دو چار زینے نیچے اتر آتا ہوں اور دیوار سے لگ کر اسے دیکھتا ہوں۔۔۔ وہ اندھیرے کی چادر کو اپنے چمک دار دانتوں سے بھنبھوڑتے ہوئے ہنستی ہے۔
’’ہی ہی ہی۔۔۔ ڈر گئے، ڈر گئے نا۔‘‘
اس کے دانت اندھیرے کی چلمن میں نیزے کی انی کی طرح چمکتے ہیں ، میں اندھیرے کی دھند میں لپٹا، دیوار سے چمٹا اسے دیکھتا رہتا ہوں ، اس کے کھلے بازو مجھے دبوچنے کے لیے اسی طرح پھیلے ہوئے ہیں ، اس کی آواز کے سائے میرے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔ میں لمبی سانس لیتا ہوں اور اندھیرا سمٹ کر میرے سینے میں بھر جاتا ہے۔
میں چیختا ہوں۔۔۔ ’’روفی!‘‘
میری آواز دائرے بن کر کوکھ جلی ماں کے پہلوؤں سے نکل جاتی ہے۔
وہ ہنستی ہے۔۔۔ ’’ہی ہی ہی۔۔۔ ‘‘
چند لمحوں بعد موڑ کی اوٹ میں روشنی کی کرن پھوٹتی ہے، ساتھ ہی روفی کی آواز آتی ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
میں بغیر جواب دئیے اوپر چڑھنے لگتا ہوں ، کوکھ جلی ماں روشنی کی اس کرن سے سہم کر دیوار سے لگ جاتی ہے۔ میں ہوا کی طرح اس کے پہلو سے گزر جاتا ہوں۔ دوسرے موڑ سے گزرنے کے بعد میں سانسیں درست کرتے ہوئے مڑ کر دیکھتا ہوں ، کوکھ جلی ماں موڑ کی اندھی گلی میں اکیلی کھڑی،بازو پھیلائے، الٹے پاؤں کا طلسم لیے شوک رہی ہے۔
زینوں کے اختتام پر صحن ہے، ویران صحن۔۔۔ جسے دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بیوہ سفید ساری کا آنچل پھیلائے بیٹھی ہے۔ صحن کے بائیں طرف تکونا کمرہ ہے جس میں روفی رہتی ہے۔ وہ دہقان زادی ہے، اس کے جسم کے قوسوں میں نم آلود مٹی کی باس ہے، اس کے رنگ میں بھی مٹی ملی ہوئی ہے، لیکن اس کی آنکھیں بڑی چمک دار ہیں ، وہ مجھے آڈ کی طرح لگتی ہیں جس میں بہتا پانی سورج کی چمک سے دیکھنے والے کو آنکھیں مار رہا ہو۔۔۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے زینہ کے دونوں موڑوں کی ساری سیاہی اس نے اپنی آنکھوں میں سمیٹ لی ہے۔
روفی تکونے کمرے کے جس حصے میں رہتی ہے، وہاں زنگ آلود کھڑکی ہے جو چشمِ حیراں کی طرح ہر وقت کھلی رہتی ہے۔ سورج کی پہلی کرن اس کے زنگ آلود کواڑوں سے الجھ کر تکونے کمرے کی دیواروں سے ٹکراتی ہے اور گھائل ہو کر فرش پر لوٹنے لگتی ہے۔ روفی کو اس پہلی کرن کی موت کا منظر بہت اچھا لگتا ہے، وہ ساری ساری رات تاریکی کے دامن پر سر رکھے، اس منظر کے انتظار میں جاگتی رہتی ہے۔ صبح ہوتے ہی سورج کی کرن اس زنگ آلود کھڑکی سے تکونے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور سرد یخ بستہ دیواروں سے ٹکرا کر فرش پر تڑپنے لگتی ہے، پھر یکے بعد دیگرے کئی کرنیں جلوس کی شکل میں اندر آتی ہیں اور اس پہلی کرن کے گرد اکٹھی ہو کر ماتم کرتی ہیں۔ دن بھر ماتم جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ شام ہو جاتی ہے اور وہ اس پہلی کرن کی لاش کندھوں پر اٹھائے اسی زنگ آلود کھڑکی کی راہ باہر نکل جاتی ہیں۔
تکونے کمرے کی دیواروں پر صرف ایک تصویر آویزاں ہے جس میں ایک شخص اپنی بندوق سے نکلتے دھوئیں کو دیکھ رہا ہے، کچھ فاصلہ پر دشمن کا جسم پڑا ہے جس کے سینہ سے خون کا فوارہ اُبل رہا ہے۔ مرتا ہوا دشمن اَدھ کھلی آنکھوں ، بے آواز صداؤں سے پوچھ رہا ہے۔
’’تم نے مجھے کیوں مار دیا۔۔۔ تم تو میرے بھائی ہو؟‘‘
مجھے اس تصویر سے بڑی نفرت ہے، میرا جی چاہتا ہے اس شخص سے بندوق چھین لوں لیکن اس سے کیا ہو گا، مرنے والا تو مر جائے گا۔ خون کا یہ فوارہ یوں ہی ابلتا رہے گا کہ فوارے اُبلا ہی کرتے ہیں ، ان کی زندگی اسی میں ہے کہ ابلتے رہیں۔ روفی کو یہ تصویر بہت اچھی لگتی ہے۔ اسے ابلتے خون کے فوارے میں زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اس تصویر کے سامنے لے جاتی ہے اور بندوقچی کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہے۔
’’دیکھو، اسے دیکھو، اگر دشمن کو نہ مارتا تو خود اس کے ہاتھوں مر جاتا۔‘‘
میں ہاتھ چھڑا کر بھاگ آتا ہوں اور پلنگ پر بیٹھ کر ہانپنے لگتا ہوں ، اس پلنگ کے سرہانے الماری ہے جس کی تین آنکھیں ہیں ،سب سے پچھلی آنکھ میں کتابیں ہیں جس کی جلدیں الٹی ہیں۔ میں نے کئی بار انہیں سیدھا کیا ہے لیکن روفی انہیں پھر الٹ دیتی ہے کہ اسے الٹی جلدیں ہی خوبصورت لگتی ہیں۔
دوسری آنکھ ویران ہے، اس میں بوسیدہ سے فریم میں قید کسی شخص کی تصویر ہے۔ یہ شخص اداس، ملول اور غم زدہ ہے اور آنکھیں بند کئے کچھ سوچ رہا ہے۔ روفی کہتی ہے، یہ تصویر میری ہے، لیکن میں اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ، وہ ضرور مجھ سے مذاق کرتی ہے۔۔۔ یہ تصویر میری ہو ہی نہیں سکتی، لیکن وہ کہتی ہے کہ یہ تصویر میری ہی ہے۔ میں کسی دن اس کی نظر بچا کر یہ تصویر ساتھ لے جاؤں گا اور اسے زینوں کی اندھی دلدل میں پھینک دوں گا یا پھر کوکھ جلی ماں کو دے دوں گا کہ اس کا کھویا ہوا بیٹا شاید یہی ہے۔
الماری کی تیسری آنکھ میں پوڈر کے کئی ڈبے سلیقے سے سجے ہوئے ہیں۔ روفی کو پوڈر لگانے کا بڑا شوق ہے۔ آئے دن نت نئی قسم کے پوڈر خریدتی ہے۔ پوڈر کے ان ڈبوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے آئینہ کا ایک ٹکڑا پڑا ہے۔ روفی عجیب ہے، اتنے مہنگے پوڈر خریدتی ہے لیکن آئینہ نہیں لاتی۔۔۔ یہ آئینہ بھی میں اس کے لیے لایا تھا اور پھر ایک دن یہ میرے ہی ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ میں اس دن زینے کے اندھے موڑوں سے بہت ڈرا تھا۔ اوپر آیا تو روفی میرے چہرے کی پرچھائیں دیکھ کر کہنے لگی۔
’’ڈر گئے۔۔۔ تمہیں ڈر کیوں لگتا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘
روفی نے آئینہ میرے ہاتھ میں دے دیا۔
میں نے اپنی صورت دیکھی جس پر اندھے موڑوں کی سیاہی منقش ہو چکی تھی۔۔۔ میں نے اپنی آنکھیں دیکھیں جن میں کوکھ جلی ماں کی پرچھائیں کھلے بازو اور اُلٹے پاؤں کا طلسم لیے شوک رہی تھی۔۔۔ ’’ہی ہی ہی۔۔۔ ‘‘
آئینہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
میں سسک پڑا۔۔۔ ’’یہ موڑ بہت اندھے ہیں۔‘‘
وہ ہنسی۔۔۔ ’’تم بڑے بزدل ہو۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’ہاں میں بزدل ہوں ، میں واقعی بزدل ہوں۔ روفی! ان اندھے موڑوں کو روشنی دے دو۔‘‘
وہ خاموشی سے آئینہ کے ٹکڑے چننے لگی۔
میں اس کے لیے نیا آئینہ لانا چاہتا ہوں۔ میں نے کئی بار جگمگاتی دکانوں میں آنکھیں مارتے ہوئے آئینے دیکھے ہیں لیکن انہیں اٹھاتے ہوئے میرے ہاتھ لرز جاتے ہیں ، اگر کسی دن یہ بھی ٹوٹ گیا۔۔۔ اندھے موڑوں کی سیاہی میرے چہرے پر منعکس ہو جاتی ہے اور کوکھ جلی ماں ، کھلے بازوؤں اور الٹے پاؤں کا طلسم لیے، میری آنکھوں کی چلمن سے جھانکتے ہوئے ہنسنے لگتی ہے۔
ڈوبتے چاند کی ایک اداس رات میں روفی کے لیے دو کتابیں لایا۔ گیتوں اور کہانیوں کی کتابیں اس کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’یہ دونوں کتابیں ادھوری ہیں۔‘‘
اس نے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور کہنے لگی۔۔۔ ’’یہ گیت تم نے لکھے ہیں ؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’ہاں یہ ادھورے گیت میرے ہیں ، یہ ادھوری کہانی بھی میری ہی ہے۔‘‘ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ ادھورے گیت پڑھنے لگی، میں ادھوری کہانی سنانے لگا۔ ہم بڑی دیر یوں ہی بیٹھے رہے۔ پھر میں نے کہا۔۔۔ ’’میری ایک بات مانو گی۔‘‘
اس نے سیاہ آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا۔
میں نے کہا، ’’یہ تصویر اتار دو۔۔۔ مجھے ابلتے ہوئے خون سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
وہ تڑپ کر میرے پہلو سے نکل گئی۔
’’تم اتنے بزدل کیوں ہو؟‘‘
’’میں بزدل نہیں۔۔۔ لیکن یہ ابلتا خون۔۔۔ ‘‘
وہ تصویر کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اسے دیکھتے ہوئے بولی، ’’ابلتا خون اور سسکتا دشمن۔۔۔ کتنا پیارا منظر ہے۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’تم بھی کوکھ جلی ماں کی طرح ہو، کاش تمہارے پاؤں بھی الٹے ہوتے۔‘‘ اس کا چہرہ لاش کی طرح زرد ہو گیا۔
کہنے لگی،’’نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔ تم بڑے کمینے ہو۔‘‘
میں چپ چاپ باہر نکل آیا۔
زینے کی دلدل بہت گہری تھی اور میں اکیلا۔
میں اسی دلدل میں اترنے لگا۔ اترتا ہی چلا گیا۔۔۔ لیکن موڑ کہاں تھے۔ میں تیزی سے اترنے لگا۔ دور سے مجھے موڑ کی حیران آنکھ نظر آئی۔ کوکھ جلی ماں جانے کہاں چلی گئی تھیں۔ موڑ خالی تھا۔ میں نے بھاگ کر اس میں پناہ لی۔ وہ گلی بن گیا، جس کا دوسرا سرا نہیں تھا۔ اس کی دیواریں آسمان سے ملی ہوئی تھیں۔ میں تیزی سے چلنے لگا، دیواریں بھی میرے ساتھ چل پڑیں۔ میں بھاگنے لگا، دیواریں بھی میرے ساتھ بھاگنے لگیں۔میں چیخنے لگا، دیواریں بھی میرے ساتھ چیخ پڑیں۔ میں رک گیا تو دیواریں بھی میرے ساتھ رک گئیں۔ میں کئی منٹ ان کے درمیان کھڑا ہانپتا رہا۔ پھر تیزی سے دوڑنے لگا۔۔۔ چند لمحوں بعد میں نچلے زینہ پر پڑا تھا۔ میرے بازو اور ٹانگوں میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ میں بڑی مشکل سے ڈیوڑھی میں آیا اور دروازہ کھول کر روشنی میں نہائی ہوئی سڑک پر گر پڑا۔
٭٭٭
نُچی ہوئی پہچان
دور سے آتی پروں کی پھڑپھڑاہٹ اب قریب آتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سانسوں اور پھنکارنے کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ ہم نے سر اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا، سارے چہرے منجمد تھے اور آنکھیں خاموشی سے ایک دوسرے کو گھور رہی تھیں۔ ہمارے چہروں پر پھیلا ہوا سناٹا ایک تڑاخے سے ٹوٹ گیا۔ پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور پھنکارنے کی آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھی۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سب چپ تھے اور قریب آتی آوازوں کو سن رہے تھے۔ آوازیں اب قریب آ گئی تھیں ، یک دم گہری خاموشی چھا گئی۔ سب دم بخود نئی آواز کے منتظر تھے۔
دیوا رسے ٹکراتے پروں کی مدھم سرسراہٹ اور سانسوں کی گہری گہری آوازوں کے درمیان پرندے نے روشندان سے اپنی چونچ اندر کی اور باری باری ہم میں سے ہر ایک کو دیکھا، پھر اس کی نظریں ساتویں پر جا ٹھہریں۔ ساتواں اپنی جگہ سے اٹھا اور میز کے کونے کو دونوں مٹھیوں سے بھینچتے ہوئے کہنے لگا۔
’’تم گواہ رہنا، میں اپنی مرضی سے جا رہا ہوں۔‘‘
اور اس کی آنکھوں سے دو آنسو میز کی چمکیلی سطح پر بکھر گئے۔
پرندے نے چونچ باہر کھینچ لی۔ ساتواں اپنی جگہ سے باہر آیا اور آہستہ آہستہ دروازے کی جانب چلنے لگا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا، جہاں باقی چھ پتھرائے ہوئے چہروں کے ساتھ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ وہ چند لمحے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھتا رہا۔ پھر ایکا ایکی تیز ی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی پتھرائے ہوئے چہرے پگھلنے لگے اور منجمد آنکھیں تیزی سے حرکت میں آ گئیں۔ باہر کی ساکت فضا میں مسرت کی چیخ ابھری اور پھنکارنے کی آوازوں میں دبی دبی ہنسی کی آوازیں بھی شامل ہو گئیں ، پھر پروں کی سرسراہٹ کے ساتھ دبی دبی، گھٹی گھٹی چیخیں ابھریں ، سانسوں کی آوازیں تیز ہو گئیں اور پَر ایک بار زور سے پھڑپھڑائے اور پھر دھیرے دھیرے آوازیں اور پھڑپھڑاہٹ دور ہوتی چلی گئی۔
کمرے میں نم آلود خاموشی پر پھیلائے بیٹھی تھی۔ سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے میز کی چکنی سطح کو گھور رہے تھے، جس پر گرے ساتویں کے دو آنسو اب بکھر کر لکیروں میں بدل گئے تھے اور ڈھلوان کی طرف بہہ رہے تھے۔
دفعتاً چھٹے نے سر اٹھایا اور کہنے لگا۔۔۔ ’’کیا وہ یوں ہی ایک ایک کر کے سب کو لے جائے گا۔‘‘
کسی نے جواب نہ دیا۔
چھٹے نے انگلی سے میز پر بہتی لکیریں صاف کر دیں اور کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
’’ہمیں اسے تلاش کرن چاہئے۔‘‘
کسی نے اس کی تائید نہ کی۔
’’اگر تم میں سے کوئی میرا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تو میں اکیلا ہی جاؤں گا۔‘‘
اس بار بھی کوئی نہ بولا۔
چھٹا اپنی جگہ سے نکل کر دروازے کی طرف چل پڑا۔ سب کے چہروں پر ہچکچاہٹ کی تہیں نمایاں ہونے لگیں۔ وہ دروازے کے پاس جا کر ایک لمحہ کے لیے ٹھہرا اور مڑ کر کہنے لگا۔
’’تم گواہ رہنا۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘
اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
چند لمحے گہری خاموشی رہی، پھر میں نے، جو پانچواں تھا، باقیوں سے کہا۔
’’ہم میں سے کون اس کا ساتھ دے گا؟‘‘
چاروں چپ رہے۔
میں اپنی جگہ سے آگے آیا۔۔۔ ’’میں اس کی گواہی دوں گا۔‘‘ جب میں دروازے کی طرف چل پڑا تو وہ چاروں بھی میرے پیچھے پیچھے آئے۔
باہر گہرا سناٹا تھا اور ساری بستی دھند اور تاریکی کی بکل میں گہری نیند سو رہی تھی۔ چھٹا کچھ فاصلے پر کھڑا اندھیرے کو سونگھ رہا تھا۔ ہماری آواز سن کر اس نے مڑ کر دیکھا۔ بستی کے سارے مکان خاموش تھے اور ویران گلیوں میں سنسناتی ہوا، دروازوں پر دستک دیتی، ہماری جانب بڑھ رہی تھی۔ چھٹے نے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگا۔
’’ہمیں دیر نہ کرنی چاہئے، وہ زیادہ دور نہ گیا ہو گا۔‘‘
اس کی بات سن کر چاروں آگے بڑھے اور بیک زبان بولے۔
’’اس کی ایک آنکھ ہمارے اندر ہے اور سب کچھ دیکھ رہی ہے۔‘‘
چھٹے نے ان کی بات سن کر غصے سے ہوا میں ہاتھ پھیلائے اور چیخ کر بولا۔
’’یہ آنکھ ہمارے عقیدے کے ساتھ مر چکی ہے۔ مجھے میرے پاؤں نظر نہیں آتے، میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
ان چاروں میں سے تیسرا آگے آیا۔۔۔ ’’ہمارے پاؤں کے نیچے دلدل ہے۔ تم اسے ننگا کر کے ہمیں مارنا چاہتے ہو۔‘‘
پھر اس نے باقی تینوں کی طرف دیکھا۔
’’یہ ہمارا دشمن اور اس زمین کا غدار ہے۔ ہمیں اس کا ساتھ چھوڑ دینا چاہئے۔‘‘
چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور چاروں کونوں میں پھیل گئے اور چلّا چلّا کر کہنے لگے۔
’’اے لوگو!اے بستی والو! اس کی بات نہ سنو، یہ گمراہ کرنے والا اور بد کردار ہے، یہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ان کی آواز سن کر بستی یک دم ہڑ بڑا کر جاگ اٹھی اور لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں ، ڈنڈے لے کر گھروں سے نکل آئے اور چھٹے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بستی کا ایک سفید بوڑھا ہجوم کی دیوار توڑ کر سامنے آیا اور کہنے لگا۔
’’تم گمراہ کرنے والے ہو۔۔۔ تم ہمارے عقیدوں کو توڑنا چاہتے ہو، ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘
مجمع میں سے تائید کی آوازیں ابھریں۔
چھٹے نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ دور سے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور پھنکارنے کی آوازیں سنتے ہی مجمع پر خو ف و ہراس چھا گیا اور لوگ تیزی سے اِدھر اُدھر دوڑنے لگے۔ چند لمحوں بعد بستی پھر دھند اور تاریکی کی بکل میں گہری نیند سو گئی۔
چھٹے نے دور تاریکیوں میں گھورا اور کہنے لگا۔
’’وہ پھر آ رہا ہے۔‘‘
ہم سارے چھٹے کے قریب جمع ہو گئے۔
پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور پھنکارنے کی آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی تھیں۔
چھٹے نے کہا، ’’تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا؟‘‘
تیسرا قریب آیا اور کہنے لگا، ’’ہم اس کی اطاعت کا حلف اٹھا چکے ہیں۔‘‘
اور وہ کمرے کی طرف مڑ گیا۔ باقی کے تین بھی اس کے ساتھ چلے گئے۔ میں اور چھٹا اکیلے رہ گئے۔
پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور پھنکارنے کے شور سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ چھٹے نے میری طرف دیکھا اور چیخ کر بولا۔
’’تم گواہ رہنا۔۔۔ میں اس کی اطاعت سے منحرف ہوتا ہوں۔‘‘
اور چند قدم آگے بڑھ کر میدان میں آگیا۔
پرندہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ دفعتاً اس نے غوطہ لگایا اور دھند کا سینہ کاٹ کر سامنے آگیا۔ اس کے پنجوں پر خون کے قطرے ابھی تک چمک رہے تھے۔ اس نے ایک نظر مجھے اور پھر چھٹے کو دیکھا اور دوسرے لمحے اس پر جھپٹ پڑا۔ میرے سارے بدن میں درد کی ٹیسیں دوڑ گئیں۔ وہ پرندے کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔ میں نے درد سے تڑپتے، چیختے ہوئے پرندے پر چھلانگ لگائی۔ اس نے غرّا کر پَر جھٹکے، میں دور جا گرا۔ چھٹا ابھی تک اس کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔ میں تیزی سے اٹھا اور پرندے پر جھپٹ پڑا۔ اس بار اس کی گردن میرے ہاتھوں میں آ گئی۔ پرندہ بار بار پر جھٹک رہا تھا۔ میرے سارے بدن میں ٹیسیں اٹھ رہی تھی لیکن میں پوری طاقت سے اسے دباتا رہا۔ دفعتاً زور دار دھماکا ہوا۔ کوئی روشن چیز ہمارے پاؤں کے نیچے سے ابھری اور تاریکی کو چیرتی ہوئی دوسری طرف بڑھی۔ روشنی کی لا تعداد کرنیں چاروں طرف پھیل گئیں۔ بستی میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ رفتہ رفتہ دھند اور تاریکی چھٹنے لگی۔
پرندے کا بے جان جسم میدان کے کونے میں پڑا تھا۔ تاریکی پوری طرح چھٹ چکی تھی اور ہمیں اپنے پاؤں نظر آ رہے تھے۔ ہمارے پاؤں کے نیچے دور دور تک سر سبز زمین سانس لے رہی تھی۔۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا، وہ کمرہ جس میں وہ چاروں گئے تھے، ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ میں نے چھٹے کو چھوا، وہ گہری سانسیں لے رہا تھا۔ میرے چھوتے ہی اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ہم دونوں لڑکھڑاتے ہوئے بستی کی طرف چل پڑے۔ ہمارے پاؤں کے نیچے دور دور تک پھیلی ہوئی سر سبز زمین ہمارے چاروں طرف ناچ رہی تھیں۔ گھروں کے دروازے کھلنے شروع ہو گئے تھے اور لوگ حیرت اور خوشی سے کبھی ایک دوسرے کو اور کبھی چاروں طرف ناچتی سرسبز لہلہاتی زمین کو دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭
اُلٹی قوس کا سفر
جب سارے کالے طوطے ایک ایک کر کے اپنے گھونسلوں سے اُڑ گئے تو میں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ میرے ساتھ وہ دو بھی تھے جنہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ وہ سر جھکائے چپ چاپ میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ کالے طوطوں کی سیٹیاں ہمارے لیے راستوں کی لکیریں بچھا رہی تھیں اور آسمان پر سیاہی مائل پھیلی ہوئی دھند دھیرے دھیرے نیچے اتر رہی تھی۔ یکبارگی میں نے ان متعدد راستوں کو اور پھر مڑ کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور چیخ کر کہا۔
’’ہاں مجھے اعتراف کر لینا چاہئے کہ میں راستوں کی پہچان کھو چکا ہوں۔‘‘
دونوں نے جھکائے ہوئے سر اوپر اٹھائے۔
میں نے کہا، ’’راستوں سے میرے رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘
میں نے کندھے پر اٹھائے ہوئے بوجھ کو ٹٹولا۔ اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ چکے تھے۔ میرے ٹٹولنے پر بھی اس میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ ہم نے اسے کئی دنوں کی مسلسل کوششوں کے بعد قابو میں کیا تھا۔ ہم بہت دنوں سے اس کی تاک میں تھے لیکن وہ کسی طرح قابو میں ہی نہ آتا تھا، ہمیشہ اپنے آپ کو سبزے میں چھپا لیتا۔ تب ہم نے اس کے کچھ ساتھیوں کو ورغلا کر سبزے کو کٹوانا شروع کیا۔ جب ساری پناہ گاہیں ٹوٹ گئیں اور سارے لہلہاتے کھیت دھوئیں کی زد میں آ گئے تو وہ ہمارے سامنے آگیا۔ اب چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ وہ چپ چاپ کھڑا سہمی نظروں سے راستہ تلاش کر رہا تھا۔ تب دھوئیں کی لکیر کٹے ہوئے کھیتوں سے بلند ہوئی۔ دھوئیں کی لکیر دیکھ کر اسے جھر جھری سی آئی۔ دفعتاً لکیر نے اس پر حملہ کر دیا۔ وہ خوف زدہ ہو کر اسی جھنڈ کی طرف بھاگ پڑا جہاں ہم گھات لگائے بیٹھے تھے۔ دھوئیں کی لکیر اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ درختوں سے چند قدم کے فاصلے پر رُک گیا۔ میں نے پھندے کو دونوں ہاتھوں سے دبا کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا اور اپنی جگہ سے ایک قدم آگے کھسک آیا۔ دھوئیں کی لکیر قریب آ چکی تھی۔ وہ اس سے چھپنے کے لیے نیچے جھکا ہی تھا کہ اسی وقت میں نے پھندا پھینکا، پھندے کی گرفت میں آتے ہی وہ تڑپ کر اُچھلا لیکن میں نے اپنی جگہ سے جست لگا کر اسے دبوچ لیا۔ وہ دونوں تھیلا لے کر جھنڈ سے باہر آئے اور ہم نے اسے تھیلے میں بند کر لیا۔ آخری وقت تک وہ اچھلتا رہا لیکن جوں ہی تھیلے کا منہ بند ہوا، اس کی ساری مدافعت ختم ہو گئی۔ دھوئیں کی لکیر اپنی جگہ سے نکل کر واپس چلی گئی۔ میں نے تھیلے کو کندھے پر رکھا اور ہم اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔
کالے طوطوں کی قطاریں دور جا کر نقطوں میں بدل چکی تھیں اور ہم تینوں راستے کے بیچوں بیچ کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سیاہی مائل دھند دھیرے دھیرے گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور راستے دھند لانے لگے تھے۔ دفعتاً ایک آواز چاروں طرف پھیل گئی۔ ایک مدھم سی نسوانی آواز، کوئی عورت کسی کو پکار رہی تھی۔ آواز سنتے ہی ہم سنبھل گئے۔ میں نے بوجھ کو مضبوطی سے تھاما اور چل پڑا۔ آواز مسلسل ہمارا پیچھا کر رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آواز دینے والا سر پٹ بھاگا چلا آ رہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ آواز کے دائرے ہمارے گرد اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ جوں جوں آواز قریب آنے لگی، ہمارے قدموں کی رفتار تیز ہو گئی اور پھر ہم تقریباً تقریباً دوڑنے لگے، جوں جوں آواز قریب آنے لگی، تھیلے میں بھی حرکت شروع ہو گئی اور وہ آہستہ آہستہ ہاتھ پیر مارنے لگا۔ میں نے تھیلے کے منہ پر گرفت مضبوط کر لی۔ آواز اب بہت قریب آ گئی تھی اور الفاظ دھند کے سحر سے نکل کر صاف سنائی دینے لگے تھے۔ کوئی عورت پکار رہی تھی۔ آواز کی قربت کے ساتھ ساتھ تھیلے میں بھی حرکت بڑھ گئی تھی۔ میں رک گیا اور مڑ کر چیختے ہوتے ہوئے بولا۔
’’اے عورت تو کون ہے؟ اور کیوں ہمارے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے؟‘‘
ایک لمحہ کے لیے خاموشی چھا گئی، پھر تاریکی کا سینہ چیرتی ایک آواز اُبھری۔
’’اسے چھوڑ دو۔ اسے مجھے واپس کر دو۔‘‘
میں نے چیخ کر کہا، ’’یہ ناممکن ہے۔ تو واپس چلی جا۔‘‘
ہم نے پھر رفتار تیز کر دی۔
وہ مسلسل چیختی رہی، ’’اسے چھوڑ دو۔ اسے مجھے واپس دے دو۔‘‘
میں رک گیا اور چیختے ہوئے بولا۔
’’واپس چلی جا۔ ہم اسے واپس نہ کریں گے۔‘‘
جواباً ایک سسکی ابھری، چند لمحوں کے توقّف کے بعد بولی۔
’’آخر تم اسے کیوں لیے جا رہے ہو؟‘‘
’’ہم اسے کیوں لیے جا رہے ہیں ؟‘‘ میں نے خود سے سوال کیا۔
’’کیوں ؟‘‘
پھر میں نے باری باری ان دونوں سے پوچھا۔
’’آخر ہم اسے کیوں لیے جا رہے ہیں۔‘‘ میں بڑبڑایا۔ میں نے باری باری ان دونوں کو دیکھا اور تھیلے کو ٹٹولتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’تمہیں معلوم ہے ہم تمہیں کیوں لیے جا رہے ہیں ؟‘‘
لیکن وہ بھی چپ رہا۔
وہ پھر گڑگڑائی، ’’اسے مجھے دے دو۔ میں منت کرتی ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔‘‘
میں نے چیخ کر پوچھا، ’’تمہیں معلوم ہے ہم اسے کیوں لیے جار ہے ہیں۔‘‘
وہ جواباً چپ رہی۔
میں نے کہا، ’’اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ۔‘‘
وہ پھر بھی چپ رہی۔
میں نے دونوں نے کہا، ’’اسے بھی معلوم نہیں۔‘‘
اور ہم دوبارہ چل پڑے۔
دھند اب اتنی گہری ہو چلی تھی کہ ہم اب سب سایوں میں بدل گئے تھے۔ ہمارے اپنے قدموں کی چاپ اور پیچھے آنے والی سسکیاں خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں۔ وہ کبھی دوڑنے لگتی کبھی رک جاتی اور چیخ چیخ کر اسے پکارتی۔ ہم یوں ہی چلتے چلتے ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ میں نے اوپر سے دیکھا۔ دور ہوتے ہوئے نقطے اب نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ ہم تینوں ایک دم ہراساں ہو گئے۔ آواز بہت قریب آ چکی تھی۔ پہلے وہ دونوں اترے پھر میں نے بوجھ کو سنبھال کر پہلا قدم اتارا۔ جونہی میرے قدموں نے پانی کو چھوا، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور کہنے لگی،
’’میں کہتی ہوں ، رک جاؤ، مت لے جاؤ اسے۔‘‘
اس کی چیخ سنتے ہی تھیلے میں ایک دم ہل چل مچ گئی اور وہ میرے کندھے سے اچھل کر کنارے پر جا گرا۔ میں تیز ی سے اس کی طرف لپکا۔ لیکن میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ تھیلے کا منہ کھول کر باہر آیا اور سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے باہر نکلتے ہی دونوں چیخنے لگے۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ بھنور میں پھنس چکے تھے اور رفتہ رفتہ ڈوب رہے تھے۔ میں کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا۔ پھر اس کی طرف دوڑا۔ وہ کنارے پر سہما ہوا حیران حیران مجھے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی دوڑتی ہوئی قریب آ گئی اور ہانپتے ہوئے بولی،
’’چھوڑ دو اسے، اسے مجھے واپس کر دو۔‘‘
اسی وقت اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ آواز سن کر وہ بھی مڑا۔ وہ قریب آ گئی اور اس کی پشت پر کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر میری طرف دیکھے بغیر بولی،
’’تم کہاں چلے گئے تھے۔۔۔ مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔‘‘
میں دم بخود گھٹنے گھٹنے پانی میں کھڑا دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’میری بانہیں کب سے تمہارے لیے بے تاب ہیں۔‘‘ اس نے جھک کر اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا اور وہ سہمے ہوئے رستہ بھولنے والے بچے کی طرح اس کی گود میں سمٹ گیا۔ میں خاموشی سے آگے آیا اور جھک کر تھیلا اور پھندا اٹھا لیا جو اُس کے پاؤں میں پڑا تھا۔ پھر میں نے تھیلے کو کاندھے پر رکھا اور پھندے کو ہلاتے ہوئے پانی میں اتر گیا۔
کچھ دیر بعد جب دھند چھٹنے لگی تو میں نے اسے دیکھا، وہ اسی طرح مجھے بازوؤں میں لیے کھڑی تھی۔
میں نے کہا، ’’مجھے معاف کر دو۔‘‘
اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ میں نے کہا، ’’مجھے معاف کر دو۔ میں تم سے الگ ہو ہی نہیں سکتا۔ میرا تمہارا رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں مسکراہٹوں کے دئیے جل اٹھے اور میرے شانوں پر اس کے بازوؤں کا دباؤ بڑھ گیا۔
میں نے جھک کر اس کے پاؤں چھوئے۔ اس کا اَنگ اَنگ مہک اٹھا۔ وہ میرے چاروں طرف پھیل گئی اور اپنی سوندھی سوندھی خوشبوؤں اور لہلہاتے سبزوں کے ساتھ میرے گرد ناچنے لگی۔ میں نے لمبے لمبے سانس لے کر اس کی سوندھی سوندھی خوشبوؤں کو سینے اور سبزے کو آنکھوں میں سمیٹ لیا۔ دھند چھٹ چکی تھی اور راستہ نظر آنے لگا تھا۔ میں نے ایک بار پھر جھک کر اس کے پاؤں چھوئے اور آہستہ آہستہ واپس چل پڑا۔
٭٭٭
ریت پر گرفت
ایک کسیلا بھیگا پن چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ہر شے چپکتی ہوئی سی، اپنے فوکس سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھیں مَل مَل کر انہیں پہچاننے کی کوشش کی لیکن چیزیں پھیل پھیل کر اور بے ڈھنگی ہوئی جا رہی تھیں۔ اس نے دیوار کے سہارے اٹھنا چاہا لیکن لڑکھڑا کر گر پڑا۔ دیواریں تیزی سے پیچھے ہٹ رہی تھیں اور چھت گھومتی ہوئی اس کی طرف دوڑی چلی آ رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر کہنیوں کے سہارے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اینٹھتے ہوئے جسم نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہ دوبارہ لڑکھڑا کر نیچے جا پڑا۔ اس نے پھیلتے ہوئے فرش کے کناروں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹنے کے لیے بانہیں پھیلائیں لیکن کنارے اس کے بازوؤں کے حلقہ سے پھسل گئے اور وہ گھسیٹتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔ بھاگتی چیزیں سرسراتی آہٹوں کے ساتھ اس کے قریب آتیں اور تیزی سے پیچھے ہٹ کر زردی مائل دھند لکے میں غائب ہو جاتیں۔ اس نے اس زردی مائل جالے کو توڑ نے کے لیے دونوں بازو فضا میں پھیلائے لیکن زردی مائل دھندلکا اس کے ہاتھ نہ آیا۔ بے شمار بے نار چہرے، تھکی آنکھوں اور مردہ آوازوں کے ساتھ اسے مسلسل گھور رہے تھے۔ اس نے کراہ کر کروٹ لی اور دونوں ہاتھوں سے اپنا جسم ٹٹولنے لگا۔
’’اے خدا!مجھے اس اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے اکیلا نہ چھوڑ۔ اے خدا میری مدد کر، میری مدد کر۔‘‘ لیکن لفظ بھیگی ہوئی پھلجھڑی کی طرح لمحہ بھر کے لیے چمک کر بجھ گئے۔
چہرے اور دیواریں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی تھیں۔ اس نے چیخ چیخ کر کسی کو پکارا لیکن لفظوں کی ساری عمارتوں میں بڑی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔
’’میں کہاں جاؤں ؟‘‘
’’میں کہاں جاؤں ؟‘‘
اس کا جسم بتدریج اینٹھتے ہوئے بے حرکت ہوا جا رہا تھا۔
’’ہر شے میرا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔‘‘
اس نے اپنے چہرے کو چھوا۔
’’میرا چہرہ وہی ہے۔‘‘
’’کیا پتہ وہ نہ ہو؟‘‘ شعلہ چمکنے سے پہلے ہی بجھ گیا۔
’’میں وہی ہوں ؟‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘لفظ پھر دھڑام سے نیچے آگرے۔ مڑے تڑے چہروں نے زردی مائل دھند کا جالا چیر کر اسے دیکھا مگر آوازیں باہر نکلتے ہی بے صدا ہو گئیں اور تاریکی میں سرسراتی ہوئیں اس کے گرد چکر لگانے لگیں۔
دھیرے دھیرے جب چیزوں کا زردی مائل دھندلا پن گہرا ہونے لگا تو اس نے ایک بار پھر آنکھیں پھاڑ کر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔ لیکن چیزیں اس کی پہچان کے دائرے سے بدستور کھسکی ہوئی تھیں۔
’’مجھے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
لیکن لفظ دوبارہ اپنی جگہ سے سرک گئے۔
اس نے ارد گرد ناچتے چہروں کو ٹٹولنے اور چھونے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ لگاتے ہی چہرے جگہ جگہ سے تڑخ گئے۔
اس نے طویل اُکتایا ہوا سانس لیا۔ یوں لگا جیسے ساری تاریکی اس کے اندر گھس گئی ہے۔ اس نے جلدی جلدی اس تاریکی کو اُگلنے کی کوشش کی لیکن چیزیں اور چہرے پھر بھی ٹوٹے ہی رہے۔ جیسے وہ کسی بہت ہی پرانے عجائب گھر سے گزر رہا تھا جہاں کوئی چیز پوری نہیں تھی۔ چہرے اور جسم ٹوٹے ہوئے اور آوازیں ادھوری اور بے لفظ تھیں۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘
’’آج کیا دن ہے؟‘‘
دن، ہفتے، مہینے اور سال ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، قہقہے لگاتے، اس کا منہ چڑاتے زردی مائل دھند میں گم ہوئے جا رہے تھے۔
’’سب کچھ بدل رہا ہے؟‘‘
’’سب کچھ بدل رہا ہے؟‘‘
چیزیں اپنے پیچھے دھندلاہٹ چھوڑ کر گم ہو رہی تھیں اور دن ایک دوسرے کے پیچھے تیزی سے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ روتے ہوئے دن، ہنستے ہوئے دن، ناچتے گاتے دن، اداس زرد رَو دن، سارے دن سر جھکائے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گزرے چلے جار ہے تھے۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘
اس نے انگلیوں پر گننے کی کوشش کی، ایک ہندسہ، پھر دوسرا ہندسہ، پہلا، پہلا اور دوسرا ہندسہ شاید دوسرا اور پہلا۔۔۔ پہلا، دوسرا یا شاید پہلا۔۔۔ یا شاید۔۔۔
ہندسے اس کی انگلیوں کو چھوتے ہی گیلی مٹی کی طرح گھلتے چلے جا رہے تھے۔
’’آج کیا دن ہے؟ ‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔
اس کی اپنی آواز ایک سرسراہٹ، بے لفظ سرسراہٹ بن کر اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘
اس نے ذہن پر زور ڈالا لیکن وہ اندھیرے، بھیگے ہوئے خلا میں ہاتھ مار کر رہ گیا۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
چیزیں دھندلی ہوتی ہوتی نقطوں میں بدل رہی تھیں اور دھیرے دھیرے اپنی اپنی جگہ سے سرکتی چلی جا رہی تھیں۔ اس نے پھر ہندسے جوڑنے کی کوشش کی۔ ایک ہندسہ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اگلا ہندسہ اس کے ہاتھ میں آتے ہی چُر مُر ہو گیا۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘ وہ روہانسا ہو گیا۔ منہ چڑاتا ہوا سوالیہ نشان اس کے گرد ناچنے لگا۔
’’آج کیا دن ہے؟‘‘اس نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔
لیکن کھویا ہوا دن لوٹ کر نہیں آیا۔ اس نے بے بسی سے دیوار پر لگے ہوئے کیلنڈر کو دیکھا اور اینٹھتے ہوئے جسم کو گھسیٹ کر کہنیوں کے سہارے اٹھنے کی کوشش کی۔ کھویا ہوا دن دور کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس نے چیخ کر اسے پکارنا چاہا لیکن لفظ اور ہندسے جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے تھے اور سارے چہرے بے ڈھنگے اور فوکس سے نکلے ہوئے تھے۔ چیزیں اپنی جگہ چھوڑ چکی تھیں اور سرک سرک کر نیچے گر رہی تھیں۔ اس نے بے ساختہ ہاتھ پھیلائے، جیسے دور ہوتی کسی شے کو پکڑنا چاہتا ہو، لیکن پھسلتی ہوئی شے اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ اسی کے ہاتھ ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے گر گئے اور زردیلا بھیگا پن چاروں طرف سے اس پر جھپٹ پڑا۔
٭٭٭
بیزار آدم کے بیٹے
یہ بات میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ میں ۱ نہیں۔ ۱ اپنا جسم مجھے دے کر کہیں چلا گیا ہے۔ جاتے وقت اس نے مجھ سے کہا تھا، ’’کسی کو معلوم نہ ہو کہ میں چلا گیا ہوں اور میں نے اپنا جسم تمہیں دے دیا ہے۔‘‘
میرے یقین دلانے پر وہ اطمینان سے سر ہلاتا ہے، میرا شانہ تھپتھپاتا ہے، چند لمحے اپنے جسم کو دیکھتا رہتا ہے، پھر تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔
میں کچھ دیر تاریکی میں اسے نظروں سے ٹٹولتا رہتا ہوں ، پھر اس کے جسم کو اوڑھ لیتا ہوں۔
میرے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ب قہقہہ لگاتا ہے، ’’ہار گئے نا، میں پہلے ہی کہتا تھا، میرے ساتھ نہ دوڑنا۔‘‘
میں خاموشی سے بیٹھ جاتا ہوں ، میرا جی چاہتا ہے اسے بتاؤں کہ تمہارا دوست ا اپنا جسم مجھے دے کر کہیں چلا گیا لیکن مجھے اپنا وعدہ یاد آ جاتا ہے، میں سر ہلاتا ہوں۔۔۔ ’’کوئی بات نہیں ، پھر کبھی سہی۔‘‘
وہ اپنی مونچھیں پھڑپھڑاتا ہے۔۔۔ ’’تم دوڑنے کا تکلّف ہی نہ کیا کرو۔‘‘
ج اسے ٹوکتا ہے۔۔۔ ’’نہیں یار اسے دوڑنے دیا کرو۔ ذرا شغل ہی سہی۔‘‘
میں خاموشی سے باہر نکل آتا ہوں ، وہ دونو ں بھی میرے پیچھے لپکتے ہیں۔
کشمیر روڈ کی بتیاں جھلملا رہی ہیں۔ میں پان کی دکان پر لگے ہوئے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتا ہوں۔ مجھے یاد آتا ہے۔ وہ بہت دور نکل چکا ہو گا۔ میں اس کے قدموں کی چاپ سننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن سرسراتی ہوئی ہوا میرے چہرے کو تھپتھپاتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ مجھے ۱ سے یہ پوچھنا یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دوڑ میں ہمیشہ ہار کیوں جایا کرتا تھا۔ وہ اگر ہار جاتا تھا تو ہر بار اس میں حصہ کیوں لیتا تھا؟
ب دس کا نوٹ نکال کر سگریٹ والے کو دیتا ہے، میں حیرت سے اسے دیکھتا ہوں۔۔۔ ’’مال کہاں سے آیا؟‘‘
وہ دیدے نچاتا ہے۔۔۔ ’’ماں نے بجلی کا بل جمع کرانے کے لیے دیا تھا۔‘‘
ج کہتا ہے۔۔۔ ’’اور اگر بجلی کٹ گئی تو؟‘‘
وہ بقایا لیتے ہوئے اطمینان سے سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’اللہ سبب کرنے والا ہے، کیوں ا ؟‘‘
میرا جی کہتا ہے اسے بتاؤں کہ میں الف نہیں ، لیکن، میرا وعدہ میرے لبوں پر آئے ہوئے الفاظ واپس دھکیل دیتا ہے، ’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’کیا ٹھیک ہے؟‘‘ وہ میرے شانے پر ہاتھ مارتا ہے۔
’’یہی کہ ایک تمہاری نیلامی ہو گی۔‘‘
’’نیلامی؟‘‘
’’ہاں نیلامی، کس دن جب میں کمیٹی چوک پر پہنچوں گا تو تمہاری نیلامی ہو رہی ہو گی۔‘‘
وہ سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو ہونا ہی ہے ایک دن، یار یہ تو بتاؤ تم کون سا حصہ خریدو گے؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’اگر تمہارے ساتھ میری بھی نیلامی نہ ہوئی، تو میں تمہاری مونچھیں اور ہونٹ خرید لوں گا۔‘‘
ج کہتا ہے۔۔۔ ’’اور میں اس کی وِگ خریدوں گا۔‘‘
اگلے چوک پر ج اچانک غائب ہو جاتا ہے، میں اور ب اکیلے رہ جاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں۔۔۔ ’’اب کہا ں جائیں ؟‘‘
ب سوچنے لگتا ہے۔۔۔ ’’کہاں جائیں ، چائے پی پی کر تو بُرا حال ہو گیا ہے۔‘‘
ہم پھر چلنے لگتے ہیں۔ ب کہتا ہے۔۔۔ ’’ہم کون ہیں ؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’ہم ہم ہیں۔۔۔ تم ب اور میں ا ہوں۔‘‘
وہ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’یار اگر تم اور میں ب نہ ہوتے تو کیا فرق پڑتا؟‘‘
’’کیا فرق پڑتا؟۔۔۔ پھر شاید ہم ج اور د ہوتے یا ر اور س، بہرحال کچھ نہ کچھ ضرور ہوتے، یا شاید کچھ بھی نہ ہوتے۔‘‘
ب دفعتاً کہتا ہے، ’’تم کسی کو قتل کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’کسے قتل کروں ، کوئی مجھ سے قتل ہونا پسند ہی نہیں کرتا۔‘‘
وہ مایوسی سے سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’تو پھر اپنے آپ کو ہی قتل کرتے رہو۔‘‘
ہم پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔
اگلے چوراہے پر وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’کتنے بجے ہیں ؟‘‘
’’گیارہ۔۔۔ اب گھر چلیں۔‘‘
وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’ابھی نہیں ، ابھی میری ماں گدھ کی طرح کمرے میں منڈلا رہی ہو گی۔‘‘
مجھے یاد آتا ہے ا نے کہا تھا کہ اس کے گھر میں بھی کئی گدھ رہتے ہیں۔ میں خاموشی سے دروازہ کھولتا ہوں۔ نم آلود بو مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ میں آہستگی سے اندر داخل ہوتا ہوں۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ کئی گدھ پروں میں سر دئیے اونگھ رہے ہیں ، میرے اندر جاتے ہی وہ پروں سے اپنی چونچیں باہر نکالتے ہیں۔ ان کی لمبی نکیلی چونچوں پر لہو جما ہوا ہے۔ جونہی میں کمرے کے وسط میں پہنچتا ہوں ، وہ مجھ پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور میرا گوشت نوچنے لگتے ہیں۔ میں زمین پر گر پڑتا ہوں ، وہ شور مچاتے، پروں کو پھڑپھڑاتے مجھے نوچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ میں دونوں ہاتھو ں سے انہیں پرے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میرے ہاتھ حرکت نہیں کرتے۔ رفتہ رفتہ مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔
اگلی صبح جب میں ہوٹل میں داخل ہوتا ہوں تو بیرا مسکرا کر مجھے دیکھتا ہے۔ میں اپنی خاص جگہ پر جا بیٹھتا ہوں۔ وہ بڑی نرمی سے میرے جسم پر رینگتی ہوئی آگ اتار لیتا ہے، مجھے سکون سا ملنے لگتا ہے۔
’’ہاں یہی میرا گھر ہے!‘‘ میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر سوچتا ہوں۔
کچھ دیر بعد ب آتا ہے اور تھکے ہوئے انداز سے کرسی پر گر پڑتا ہے، پھر اس کی نرمی محسوس کر کے ایک گہرا سانس لیتا ہے، ’’کیا سکون ہے یہاں۔۔۔ ہے نا؟‘‘ وہ میری طرف دیکھتا ہے۔
میں سر ہلاتا ہوں۔
’’پتہ نہیں کس بے وقوف نے کہا تھا کہ گھر جنت ہوتی ہے۔‘‘ وہ کچھ سوچتا رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’یار ہم گھر سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں ؟‘‘
’’ہاں واقعی‘‘۔۔۔ میں سوچنے لگتا ہوں۔
’’شاید اس لیے کہ وہاں گدھ رہتے ہیں۔۔۔ ہے نا ؟‘‘
’’شاید یہی وجہ ہو، یا شاید کچھ اور ہو۔‘‘
ہم بل منگاتے ہیں۔ پھر اپنی جیبیں ٹٹول کر چند سکے پلیٹ میں رکھ دیتے ہیں ، بیرا گنتا ہے، پھر بیس پیسے نکال کر میز پر رکھتے ہوئے کہتا ہے، ’’آج میں ٹپ نہیں لوں گا۔‘‘
ہم دونوں بیک وقت اس کی طرف دیکھتے ہیں۔
’’آج آپ کے پاس پیسے کم ہیں۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’لے لو یار ہماری خیر ہے۔‘‘
وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’نہ جی، آج آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
ب ٹپ کے پیسے جیب میں ڈال لیتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے،’’میری ماں سے تو یہ بیرا ہی اچھا ہے۔‘‘ میں اس کی تائید کرتا ہوں۔۔۔ ’’بے شک یہ ہمارا باپ ہے، ہماری ماں ہے، ہمارا بھائی ہے اور یہ ہوٹل ہمارا گھر ہے۔‘‘
ہم دونوں باہر آ جاتے ہیں۔ سڑک روشنیوں کی رِم جھم میں نہا رہی تھی۔
ب کہتا ہے۔۔۔ ’’یار اگر میں ا ہوتا اور تم ب ہوتے تو کیا ہو جاتا؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں ‘‘۔۔۔ میں جواب دیتا ہوں۔۔۔ ’’میری وِگ تمہارے سر پر ہوتی اور تمہاری وِگ میرے سر پر۔‘‘
’’یہ تو کوئی فرق نہ ہوا‘‘۔۔۔ وہ پریشان ہو جاتا ہے۔۔۔ ’’صرف وگیں بدلنے سے تو ہم الگ الگ نہیں ہو جاتے۔‘‘
ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ بہت دیر بعد وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’اگر میں ج ہوتا اور تم د ہوتے تو کیا ہوتا۔‘‘
’’اگر تم ج ہوتے تو تمہاری جیب میں دو کارڈ ہوتے، ایک دائیں بازو کا دوسرا بائیں بازو کا۔۔۔ اور اگر میںد ہوتا تو میری بیوی بھی ہر رات دیر سے گھر آنے پر میری عینک اتار لیتی اور مجھے خوب مارتی۔‘‘
ہم دونوں پریشان ہو جاتے ہیں۔
وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس بار بحث میں کون سا کارڈ استعمال کروں۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’بہت دیر ہو گئی ہے۔ میری بیوی آج بھی میری عینک اتار لے گی اور مجھے مارے گی۔‘‘
’’اب کیا کریں ؟‘‘
’’اب کیا کریں ؟‘‘
ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔
دفعتاً ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم تو ا اور ب ہیں۔
وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’ہم تو خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہمارا نہ کوئی گھر ہے، نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہماری جیب میں کوئی کارڈ ہے۔‘‘
’’واقعی‘‘۔۔۔ میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’ہم تو کچھ بھی نہیں ، صرف ا اور ب ہیں۔‘‘
وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’چھوڑو اس بک بک کو۔۔۔ دیکھو کیا شاندار لڑکی ہے اور کیا جاندار ہے ہپ اس کی۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’کوئی شریف خاتون ہے۔‘‘
ب لال بھبھوکا ہو جاتا ہے۔۔۔ ’’تم یہ ایکٹنگ کس لیے کرتے ہو؟‘‘
میں سوچتا ہوں ، واقعی یہ اداکاری میں کس لیے کر رہا ہوں ، لوگ تو میری ایک ایک حرکت سے واقف ہیں ، کہیں میں اپنے آپ سے تو ڈرامہ نہیں کر رہا۔
ب کہتا ہے۔۔۔ ’’یار ا ! تم بھی زبردست ایکٹر ہو، تمہارا تو کہیں مجسمہ نصب کرانا چاہئے تا کہ آنے والی نسلیں تمہارے کارناموں سے آگاہ ہو سکیں۔‘‘
میں خاموش رہتا ہوں۔
وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’اور سچی بات ہے تمہاری تاج پوشی بھی ہونا چاہئے، ٹھیک ہے نا؟‘‘
میں سر ہلاتا ہوں۔
دھیرے دھیرے روشنی سمٹنے لگتی ہے اور تاریکی سونگھتی ہوئی ہماری طرف بڑھنے لگتی ہے۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’صبح وہ ملی تھی۔‘‘
’’کون؟‘‘۔۔۔ وہ چونکتا ہے۔
’’وہی نیلے سوٹ والی جو اس دن فنکشن میں آئی تھی۔‘‘
’’پھر۔۔۔ ‘‘
’’بس باتیں کرتی رہی، میں نے کل اسے چائے پر بلایا ہے۔‘‘
اس کی بانچھیں کھل جاتی ہیں۔ ہم دونوں پھر ہوٹل میں آ جاتے ہیں۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’میں اسے یہاں نہیں لانا چاہتا، کوئی اور جگہ بتاؤ۔‘‘
وہ میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھتا ہے۔۔۔ ’’مال کتنا ہے؟‘‘
’’بیس۔‘‘
وہ اپنی جیب سے مختلف ہوٹلوں کے مینو نکال کر میز پر پھیلا دیتا ہے، پھر باری باری ایک ایک کو پڑھتا ہے اور نفی میں سر ہلا کر دوسری طرف رکھ دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک مینو الگ نکال لیتا ہے اور اسے بغور پڑھتے ہوئے کہتا ہے،’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
میں مینو اس کے ہاتھ سے لے کر ہوٹل کا نام پڑھنے لگتا ہوں۔ وہ مینو میرے ہاتھ سے لیتا ہے اور کہتا ہے، ’’دو دروازے ہیں اس ہوٹل کے، تم دوسرے دروازے سے جانا اور بائیں طرف جو کیبن ہیں نا، ان میں بیٹھنا۔‘‘
میں سر ہلاتا ہوں۔
اگلے دن اس کا انتظار کرتے ہوئے مجھے اپنا آپ اس شکاری کی طرح محسوس ہوتا ہے جو جال لگائے بیٹھا ہو۔ کچھ دیر بعد وہ آ جاتی ہے۔
ہم چپ چاپ ہوٹل میں چلے جاتے ہیں۔
میں چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہتا ہوں ، پھر کہتا ہوں ، ’’تمہیں معلوم ہے تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں ؟‘‘
’’باتیں کرنے‘‘۔۔۔ وہ ہنس کر کہتی ہے۔
’’میں تمہیں قتل کرنے کے لیے یہاں لایا ہوں۔‘‘
’’جی!‘‘۔۔۔ وہ چونکتی ہے۔
’’میں تمہیں یہاں قتل کرنے کے لیے لایا ہوں کیونکہ میں قصائی ہوں۔‘‘
’’جی!‘‘ حیرت اس کے لبوں سے لٹکنے لگتی ہے۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں ، میں قصائی ہوں۔ ب بھی قصائی ہے۔ ج اور د بھی۔۔۔ ا سے ی تک ہم سب قصائی ہیں۔‘‘
’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘۔۔۔ وہ تشویش اور ہمدردی سے مجھے دیکھتی ہے۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اور دیکھو میری جیب میں چھرا بھی ہے۔‘‘
’’چھرا‘‘۔۔۔ خوف اس کے سارے چہرے پر بہنے لگتا ہے۔
’’ہاں چھرا۔۔۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں۔‘‘
میں اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوں۔
وہ خوف زدہ ہو کر باہر بھاگ جاتی ہے۔
بیرا چائے لیے اندر آتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’بیگم صاحبہ کو کیا ہوا؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’وہ قتل ہونے سے بچنا چاہتی ہے، لیکن کوئی نہ کوئی اسے ضرور قتل کر دے گا۔ باہر ب چھرا لیے کھڑا ہو گا۔ اس سے بچ گئی تو ج چوک پر ہو گا۔ اس سے بھی بچ گئی تو د ہو گا۔ا سے ی تک آخر وہ کس کس سے بچے گی۔‘‘
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب قاتل ہیں۔
میں باہر آتا ہوں۔
اردگرد پھرتے ہوئے لوگوں کی جیبوں سے چھرے جھانک رہے تھے۔ مجھے ان کے ہاتھوں اور چہروں پر خون جما ہوا نظر آتا ہے۔ میں نے اپنے اندر ایک ڈریکولا چھپایا ہوا ہے۔ میرے قریب سے ایک لڑکی گزرتی ہے۔ میرے اندر کا ڈریکولا پھڑ پھڑ کر باہر نکلتا ہے اور لڑکی پر جھپٹتا ہے۔ وہ چیخیں مارتی بھاگ جاتی ہے۔ میں گھبرا کر چاروں طرف دیکھتا ہوں کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں ، لیکن میرے چاروں طرف ہر شخص اپنے ڈریکولا کو چھپانے کی فکر میں ہے۔
میں ہنستا ہوں۔۔۔ ’’سب ٹھیک ہے، ہم سب ایک ہی جیسے ہیں۔‘‘
کچھ دیر بعد جب میں ب کو ساری بات بتاتا ہوں تو غصے سے اس کے نتھنے پھول جاتے ہیں۔ وہ جنگلی سؤر کی طرح اچھل کر میرا گریبان پکڑ لیتا ہے اور چیختے ہوئے کہتا ہے۔۔۔ ’’تم تو بہت ایماندار بنتے ہو، لیکن اندر سے تم پکے حرامزادے ہو۔‘‘
میں سر ہلاتا ہوں۔۔۔ ’’ممکن ہے یہ ٹھیک ہو۔‘‘
’’ممکن نہیں۔۔۔ تم واقعی ہو۔‘‘ وہ چیختا ہے۔
میں کندھے جھٹکتا ہوں۔۔۔ ’’میں کیا کروں ؟ اسے دیکھ کر مجھے اپنی ماں یاد آ گئی تھی۔‘‘
’’تمہاری ماں کی۔۔۔ ‘‘ وہ میری ماں کو بے تحاشا گالیاں دیتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’تمہارا صرف ایک ہی علاج ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’تمہاری ماں مر جائے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘ میں پوچھتا ہوں ، ’’میری زندگی میں تو یہ ممکن نظر نہیں آتا، وہ تو میرے لہو کا آخری قطرہ پی کر مرے گی۔‘‘
وہ جو اب نہیں دیتا، سوچتا رہتا ہے، پھر طویل وقفے کے بعد کہتا ہے۔۔۔ ’’آؤ مل کر دعا کریں۔‘‘
غیر شعوری طور پر ہمارے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔
’’لیکن دعا مانگیں کس سے؟‘‘ ہم ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔
اور ہمارے ہاتھ خود بخود نیچے گر پڑتے ہیں۔
ہم ہوٹل میں آ جاتے ہیں۔ میز کے گرد ج۔ د۔ س۔ ی۔ سبھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ بحث زوروں پر ہے۔ زبان کی کمانوں سے لفظ اُڑ اُڑ کر ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں۔ اخلاق، دیانتداری، حبّ الوطنی۔۔۔ لفظوں کا ایک سیلاب مجھے اپنے ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔ میں خاموشی سے بیٹھا سوچتا ہوں ، ’’لفظ کھوکھلے کیوں ہو گئے ہیں ؟‘‘
دفعتاً میں اچھل کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔۔۔ ’’تم سب بکواس کرتے ہو۔‘‘
سب چپ ہو جاتے ہیں اور حیرت سے میری جانب دیکھتے ہیں۔ ب مجھے کرسی پر گھسیٹ لیتا ہے۔
’’کیا تکلیف ہے تمہیں ؟‘‘
’’تم سب فراڈ ہو۔‘‘
وہ ایک دم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ب کہتا ہے۔۔۔ ’’فکر کی کوئی بات نہیں ، تازہ ہوا میں جا کر ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’میں باہر نہیں جاؤں گا۔‘‘
وہ مجھے اٹھا کر سڑک پر لے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ میں ٹھیک ہونے لگتا ہوں ، ہم چلتے رہتے ہیں رات کی سیاہی کے ساتھ ساتھ ایک ایک پل ٹوٹتا رہتا ہے۔ میں اور ب اکیلے رہ جاتے ہیں۔
اگلے چوک پر ب رک جاتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’بہت دیر ہو گئی۔ اب میں اپنی قبر کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
اس کے جانے کے بعد میں سوچتا ہوں ، ہماری قبریں اتنی دور دور کیوں ہیں ، لیکن میری قبر تو میرے ساتھ ہے۔ میں اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوں ، میری قبر نے مجھے چاروں طرف سے لپیٹا ہوا ہے۔ چاروں طرف قبریں ہی قبریں ہیں۔ مجھے خیال آتا ہے، ب اب اپنی قبر کے قریب ہو گا، لیکن قبر کیوں ؟ وہ تو اس کا گھر ہے۔ ب گھر سے اتنا ناراض کیوں ہے؟ گھر اسے قبر کیوں نظر آتا ہے؟ میں ماں کے مرنے کی دعائیں کیوں مانگتا ہوں۔۔۔ ؟
چیزیں الجھنے لگتی ہیں ، گھر قبر کیوں بن گئے ہیں ؟ ہوٹل گھر کیوں ہو گئے ہیں ؟ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا۔
ب ذہنی طور پر صحت مند ہے، کام کرتا ہے، پھر بھی اس کا گھر قبر ہے۔
کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے، میں اشیا کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں ، لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رخنہ رہ جاتا ہے اور ب اس رخنہ سے باہر کھسک جاتا ہے۔ میں جھنجھلا کر ب کو پرے جھٹک دیتا ہوں۔
’’میں کیا ہوں ؟‘‘۔۔۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔
میں کتنی خوبی سے ڈگڈگی بجاتا ہوں۔۔۔ ڈگڈگی تو ب بھی بجاتا ہے۔ دفعتاً مجھے خیال آتا ہے۔ ب ڈگڈگی تو واقعی خوب بجاتا ہے، لیکن سانپ کہاں ہے؟ وہ تو کبھی نکلا ہی نہیں۔ مجھے یاد آتا ہے ا نے جاتے وقت مجھے ایک پٹاری دی تھی اور کہا تھا کہ اس میں سانپ ہے، اسے کبھی نہ کھولنا۔ میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ڈھکن اتارتا ہوں۔ سانپ پٹاری کے فرش پر بے حرکت پڑا ہے۔ میں پٹاری ہلاتا ہوں ، وہ ایک طرف جا پڑتا ہے۔ میں ڈرتے ڈرتے انگلی سے اسے چھوتا ہوں۔
مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔۔۔ میں ہنستے ہنستے دہرا ہو جاتا ہوں۔
پٹاری میں سانپ کی بجائے ریشمی رسّی ہے۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ ا اپنا جسم مجھے کیوں دے گیا تھا؟ شاید اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس کی پٹاری میں سانپ نہیں۔ا سی لیے اسے گھر قبر اور ہوٹل گھر محسوس ہوتا تھا۔ تو کیا ب کی پٹاری میں بھی سانپ نہیں ، ج، د،س،ی، کسی کی پٹاری میں سانپ نہیں ؟
سب یونہی ڈگڈگی بجا رہے ہیں۔
میں ہنستے ہنستے سڑک پر لیٹ جاتا ہوں۔
اگلی صبح میں ب سے کہتا ہوں۔۔۔ ’’مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ ہم سب کو کیا بیماری ہے۔‘‘
’’کیا ؟‘‘۔۔۔ وہ تجسّس سے آگے کھسک آتا ہے۔
’’ہم سب اندر سے کھوکھلے ہیں ، ہماری پٹاریوں میں سانپ ہے ہی نہیں۔‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ وہ میرے سامنے آ جاتا ہے۔
’’میں نے اپنی پٹاری کھول کر دیکھی ہے۔‘‘
وہ اچھل کر میرا گریبان پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں ا ہوں ‘‘۔۔۔ میں گھبرا کر کہتا ہوں۔
’’تم ا نہیں ‘‘۔۔۔ وہ خونخوار نظروں سے مجھے ٹٹولتا ہے۔۔۔ ’’سچ بتاؤ تم کون ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں ا ہوں ‘‘۔۔۔ خوف مجھے اپنی مٹھی میں جکڑ لیتا ہے۔
’’نہیں تم ا نہیں ہو سکتے، ا کبھی اپنی پٹاری کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا، تم کوئی اور ہو۔‘‘
میں ہتھیار ڈال دیتا ہوں۔۔۔ ’’ہاں میں ا نہیں۔‘‘
وہ خونخوار نظروں سے مجھے ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’میں ا نہیں ‘‘۔۔۔ میں اسے بتاتا ہوں۔۔۔ ’’ایک رات ا اپنا جسم مجھے دے گیا تھا، میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں یہ راز کسی کو نہ بتاؤں گا، ب کو بھی نہیں۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنستا ہے۔
میں حیرانی سے اسے دیکھتا ہوں۔۔۔ ’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘
وہ ہنستا ہی چلا جاتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’تمہارے خیال میں مَیں ب ہوں ؟‘‘
مجھے لفظ نہیں سوجھتے۔۔۔ ’’تو تم بھی۔۔۔ ‘‘
وہ ہنستے ہنستے مجھ پر گر پڑتا ہے۔ میں اسے دیکھے چلا جاتا ہوں۔ وہ سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’ب بھی ایک رات اپنا جسم مجھے دے گیا تھا۔‘‘
اس کا مطلب ہے، ج۔ د۔ س۔ا سے ی تک سبھوں کے جسموں میں دوسرے رہ رہے ہیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے، میرے چاروں طرف خالی پیپے لڑھک رہے ہیں ، سڑکوں ، گلیوں ، گھروں ، ہوٹلوں۔۔۔ ہر جگہ خالی پیپے بج رہے ہیں۔
کھوکھلا پن۔۔۔ کھوکھلا پن۔
ب ہنس رہا ہے، میں ہنسنے لگتا ہوں۔
ب لہک لہک کر گاتا ہے۔
ہم سب گنہگار ہیں۔
سب بے ایماں ہیں۔
سب ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاں !
٭٭٭
پھیکی مٹھاس کا تسلسل
سنسان راستوں پر موت دبے پاؤں ہمارا تعاقب کرتی ہے۔
اور بڑھاپا قطرہ قطرہ ہم پر گرتا ہے۔
میں اور وہ ہر صبح جب آدم جی روڈ سے گزرتے ہیں تو ٹھیک سات بج کر پچاس منٹ پر ہلکے بادامی رنگ کی ایک گاڑی ہمارے قریب سے گزرتی ہے۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی ایک خوش شکل لڑکی، جس نے بڑے بڑے شیشوں کی کالی عینک پہنی ہوتی ہے، ہمیں دیکھ کر مسکراتی اور ہاتھ ہلاتی ہے۔ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے؟ نہ ہی وہ ہمارے بارے میں کچھ جانتی ہے۔ اس ایک لمحہ کی تکون پر ہم ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں اور دوسرے لمحے کی بانہیں پھیلنے اور آنکھیں کھلنے سے پہلے پہلے متضاد سمتوں میں لڑھک جاتے ہیں ، لیکن اس کی مسکراہٹ ہمیں گود میں لیے، لوریاں دیتی ایک مقدس امانت کی طرح ایک لمحے سے دوسرے لمحے کے سپرد کرتی چلی جاتی ہے۔ ہم اپنی کمروں کے گرد لپٹے ہوئے سرخ کپڑے کھولتے ہیں ، جھاڑتے ہیں اور باڑے کے بڑے دروازے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بیل باڑے کے درمیانی پول میں ، نتھنے پھلائے کبھی ایک دیوار اور کبھی دوسری دیوار سے اپنا جسم رگڑتا ہے۔ ہمارے قدموں کی چاپ سن کر اس کے منہ سے کف بہنے لگتا ہے۔ درمیانی پول کے قریب پہنچ کر ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں لہراتی نمی کی تحریر پڑھتے ہیں اور کچھ کہے بغیر متضاد سمتوں کی طرف جا کر پول کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ پھر ہم ان کھلے دروازوں میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے سرخ کپڑوں کو فضا میں لہراتے ہیں۔ بیل اس ایک لمحہ کی گرفت میں آ کر ساکت ہو جاتا ہے اور باری باری ہم دونوں کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کا جسم اس گرفت سے دھیرے دھیرے باہر نکلتا ہے، وہ سموں سے زمین کریدتے کریدتے دو قدم میر ی طرف بڑھتا ہے، رک جاتا ہے۔ دو قدم اس کی طرف بڑھتا ہے، رک جاتا ہے۔
کل رات وہ واپس آگیا۔
کئی دن پہلے اس نے رنگوں کی پیالی میں چھپ کر بیٹھی ہوئی لڑکی کے لیے خودکشی کر لی تھی، میں اس کی لاش کو کیلنڈر میں لپیٹ کر اس کی دیوار پر ٹانک آیا تھا، بہت دنوں بعد ایک دن وہ اپنی رنگوں کی پیالی سے باہر نکلی اور دیوار پر لٹکے ہوئے کیلنڈر کی تاریخ بدلنے لگی تو اس کی لاش زمین پر گر پڑی۔ پھر ہم نے مل کر اسے قبر میں دفن کیا اور اس کی قبر پر یہ کتبہ لگایا کہ یہاں وہ سو رہا ہے، جس نے رنگوں کی پیالی کی تہہ میں جھانکنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اسی پیالی میں ڈوب کر مر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد وہ تمام سڑکیں ، کیفے اور محفلیں سونی ہو گئیں ، جہاں ہم دونوں جایا کرتے تھے۔ اب شام کا دھند لکا پھیلتے ہی رات سمٹ جاتی ہے اور گھر اپنی بانہیں پھیلا کر مجھے دبوچ لیتا اور کمرے میں دھکیل دیتا ہے۔ کمرے کی دیواروں سے چپکی ہوئی اداسی اپنی زردی قطرہ قطرہ مجھ پر انڈیل دیتی ہے اور میں کتابوں کے ورق اوڑھ کر تنہائی کو چپکے چپکے اپنے اندر اتارتا رہتا ہوں۔
لیکن کل رات وہ واپس آگیا۔
میں کمرے میں اگی ہوئی اداسی اور تنہائی کی فصلیں کاٹ رہا تھا کہ وہ دبے پاؤں اندر آیا اور ہوا کے جھونکے کی طرح میری بغل میں سے ہوتا ہوا میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔
’’تم۔۔۔ ‘‘ حیرت میرے لبوں سے چمٹ گئی اور لفظ تالو کے تالاب میں ڈبکیاں کھانے لگے۔
’’ہاں میں۔۔۔ ‘‘ اس نے شانے اچکائے، ’’میں اکتا گیا ہوں وہاں سے، شام ہوتے ہی سنسنی پھیل جاتی ہے۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔ ‘‘
’’میں رات کو یہاں رہا کروں گا اور صبح ہوتے ہی چلا جایا کروں گا۔‘‘اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اس نے اپنا کفن اتارا اور بستر میں گھس گیا۔
اور اب وہ ہر رات، جب ساری چیزیں سیاہی کی بکل میں دبک جاتی ہیں ، چپ چاپ آتا ہے اور صبح کسی کے جاگنے سے پہلے پہلے چلا جاتا ہے۔ میں جب آدھے بستر پر اس کے پہلو میں لیٹتا ہوں تو اس کے جسم سے نکلتی مشک کافور اور عرق گلاب کی ملی جلی خوشبو مجھے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ میں دھیرے دھیرے، رک رک کر اپنی انگلیوں سے اس کے جسم کو ٹٹولتا ہوں ، اس کے جسم پر رینگتی ٹھنڈک میری انگلیوں کو اپنے اندر کھینچتے لگتی ہے، خوف قطرہ قطرہ مجھ پر گرتا ہے۔ میں جلدی سے منہ موڑ لیتا ہوں ، میری پیٹھ اس کی پیٹھ سے ٹکراتی ہے۔ رینگتی ٹھنڈک پھسلنے لگتی ہے، میں اپنے آپ کو سمیٹ لیتا ہوں اور فاصلے کا دائرہ ہم دونوں کے درمیان پھیلتا چلا جاتا ہے۔
بیل مٹی کو اپنے سموں تلے روندتا دوڑا چلا آ رہا ہے، سرخ کپڑے سے کچھ فاصلے پر رُک جاتا ہے۔ نتھنے پھلا پھلا کر ہوا میں چھپے ہوئے لمس کو سونگھتا ہے، سینگوں کو گیلی مٹی سے رگڑتا ہے، پھر یک دم سیدھا ہو کر دوڑتا ہوا کپڑے میں گھس جاتا ہے۔ میرا جسم اچھل کر دیوار سے ٹکراتا اور رگڑ کھاتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے۔ میں تیزی سے پہلو بدل کر سیدھا ہوتا ہوں اور بیل کے مڑنے سے پہلے پہلے اس کے سینگوں سے لپٹا ہوا سرخ کپڑا کھینچ لیتا ہوں۔ بیل اپنے سموں پر پہلو بدلتا ہے، نتھنے پھلاتا اور ہوا کو سونگھتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے۔ چند لمحے خاموش کھڑا رہتا ہے، پھر آہستگی سے دوسری طرف مڑتا ہے، جہاں وہ سرخ کپڑا لیے وقت کی بانہوں میں پھڑپھڑا رہا ہے۔
ب مجھ سے پوچھتا ہے۔۔۔ ’’سارا دن اونگھتے رہتے ہو، رات کو کیا کرتے ہو؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں لفظوں کو جلدی سے اس پر انڈیل دیتا ہوں۔ میں اسے کیسے بتاؤں کہ مجھے ہر رات اس کے یخ جسم کے ساتھ، جس میں سے مشک کافور اور عرق گلاب کی ملی جلی خوشبو اٹھتی رہتی ہے، شراکت کرنا پڑتی ہے۔ یہ بات میں اپنی ماں کو بھی نہیں بتا سکتا، جو ہر صبح مجھ سے پوچھتی ہے کہ میں روز رات کو کس سے باتیں کرتا ہوں۔
میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ ’’اب یہ کاروبار زیادہ دن تک نہیں چل سکے گا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ اس نے مڑے بغیر پوچھا۔
’’میری ماں کو شک ہو گیا ہے، کہتی ہے رات کو تم کس سے باتیں کرتے ہو؟‘‘
’’پھر۔۔۔ ‘‘ وہ تیزی سے مڑا اور ہمارے درمیان پھیلی ہوئی ہوا کی تہہ کھل گی۔ اس کے جسم کی ٹھنڈک سرک کر میرے نیچے پھیل گئی۔
’’پھر کیا۔۔۔ ‘‘میں نے جسم کو سمیٹتے اور اس کے جسم سے رستی ٹھنڈک کو پرے کھسکاتے ہوئے کہا۔
’’میں نے اسے ٹال تو دیا ہے، لیکن اسے یقین نہیں آیا، اگر کسی دن ماں کمرے میں آ گئی تو دونوں کو گھر سے نکال دے گی۔‘‘
خاموشی دھند کی طرح سارے کمرے میں پھیل گئی۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’یوں نہیں ہو سکتا کہ تم واپس چلے جاؤ۔‘‘
کہنے لگا۔۔۔ ’’بالکل نہیں ، مجھے وہاں وحشت ہوتی ہے۔‘‘ پھر میرے قریب کھسکتے ہوئے بولا، ’’اور یہ تمہارا قصور ہے، تم نے مجھے ایسے واہیات قبرستان میں کیوں دفن کیا؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’یہ تمہاری ماں کی تجویز تھی۔ کہتی تھی، یہ قبرستان گھر سے قریب ہے، آنے جانے میں آسانی ہو گئی۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور ہنستا ہی چلا گیا۔
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگا۔۔۔ ’’وہ زندگی بھر مجھے الّو بناتی رہی ہے، لیکن اب میں نے اسے بے وقوف بنا یا ہے۔‘‘
میری آنکھوں میں اگتا ہوا سوال چھلک پڑا۔
کہنے لگا۔۔۔ ’’وہ میری قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتی اور آنسو بہاتی ہے، لیکن اسے معلوم نہیں کہ میں تو اس میں موجود ہی نہیں۔‘‘
پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’کہیں اسے بتا نہ دینا، ورنہ وہ میری تلاش میں قبرستان کی ایک ایک قبر کھدوا دے گی اور وہاں بہت سی قبروں میں کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘
اب بیل اس کی طرف دوڑ رہا ہے، اس کے قریب پہنچ کر سرخ کپڑے کو سونگھتا ہے، پھر اس کی بغل میں سے ہوتا ہوا دوسری جانب نکل جاتا ہے، اس کا جسم فضا میں اچھلتا باڑے کی دیوار سے ٹکراتا اور پھر زمین پر آ گرتا ہے۔ بیل اپنے سموں پر آدھے دائرے کا چکر مکمل کرتا ہے۔ وہ بیل کو دوبارہ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن منہ کے بل زمین سے جا لگتا ہے۔ بیل اچھل کر اسے ٹکر مارتا ہے اور اسے سینگوں پر اٹھا کر دیوار کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگتا ہے۔ خون کی لکیر دیوار کے سائے کو چاٹتی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگتی ہے۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’اب تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ معاملہ بہت خراب ہو گیا ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ اپنے حصے کے آدھے بستر پر پھیلتے ہوئے بولا۔
’’میری ماں کو یقین ہو گیا ہے، میرا خیال ہے وہ کل دروازے سے کان لگا کر سنتی رہی ہے۔‘‘ میں نے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ آدھے بستر پر لیٹتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی نے مجھے مشک کافور کی ٹکیہ میں لپیٹ دیا ہے، میں جلدی جلدی اپنا ریپر اُتارتا ہوں اور منہ دوسری طرف کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگتا ہوں ، لیکن جب سے وہ آیا ہے، کمرے کی ہوا بہت بھاری ہو گئی ہے۔ لگتا ہے جیسے ہوا کی بجائے پورا کمرہ میرے اندر چلا گیا ہے۔ ساری چیزیں الٹ پلٹ ہو جاتی ہیں ، شیلف اوندھے جا پڑتے ہیں اور کتابوں کے ورق اپنا دامن جھٹک جھٹک کر لفظ جھاڑنے لگتے ہیں ، میں اپنے منہ میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک چیز کو باہر نکالتا ہوں ، کمرے کو باہر کھینچتا ہوں ، لیکن اس کے جسم کو اندر ہی رہنے دیتا ہوں۔ پھر میں کمرے کو اچھی طرح جھاڑتا ہوں ، صاف کرتا ہوں اور ایک ایک چیز کو اپنی جگہ رکھتا ہوں ، لیکن جب میں بستر پر لیٹنے لگتا ہوں تو وہ میرے منہ سے نکل کر بستر پر آ گرتا ہے اور اپنے حصے کا آدھا بستر مانگتا ہے۔۔۔ ؟
میں اسے کہتا ہوں۔۔۔ ’’کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم کوئی اور قبر تلاش کر لو؟‘‘
وہ کندھے جھٹکتا ہے۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’تو پھر یوں کرتے ہیں کہ میں تمہیں کیلنڈر میں لپیٹ کر اسی لڑکی کے کمرے کی دیوار پر ٹانک آتا ہوں ، جسے تم بہت چاہتے ہو۔‘‘
وہ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’لیکن اگر اس نے پھر تاریخ بدلنے کے لیے کیلنڈر کھول لیا تو۔۔۔ ؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’میں تمہیں نیچے گرنے سے پہلے پہلے دوبارہ اسی کیلنڈر میں لپیٹ دوں گا۔‘‘
وہ رضامند ہو جاتا ہے۔
ہم اندھیرے کا کمبل اوڑھ کر باہر نکلتے ہیں اور چپ چاپ سنسان گلیوں کا وظیفہ کرتے ہیں ، اس کے گھر پہنچ کر میں آہستگی سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولتا ہوں۔ وہ گہری نیند میں مسکرا رہی ہے۔ میں دیوار پر لٹکے ہوئے کیلنڈر میں اسے لپیٹ کر خاموشی سے باہر نکل آتا ہوں۔
جب میں کمرے میں لوٹتا ہوں تو اداسی کی گرد تہہ بہ تہہ چیزوں پر جم چکی ہے، اس کے حصہ کا آدھا بستر بانہیں پھیلا کر اسے پکارتا ہے۔ میں پائنتی پر بیٹھ جاتا ہوں اور اس کے حصے کے آدھے بستر پر ہاتھ پھیرنے لگتا ہوں۔ اسی وقت دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوتی ہے، میں دروازہ کھولتا ہوں۔
وہ دہلیز سے لگا کھڑا ہے۔
’’تم۔۔۔ ‘‘
وہ شانے جھٹکتا ہے۔ پھر میری بغل میں سے ہو کر اندر آتا اور اپنے حصے کے آدھے بستر پر گر پڑتا ہے۔
میں دروازہ بند کر کے اس کی طر ف مڑتا ہوں ، ’’اب کیا ہوا؟‘‘
وہ چپ چاپ مجھے دیکھتا رہتا ہے۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’اس نے پھر تاریخ بدل لی؟‘‘
وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔
’’پھر کیا ہوا؟ کچھ کہو بھی۔‘‘ میں جھنجھلا جاتا ہوں۔
وہ خاموشی سے بِٹ بِٹ مجھے دیکھے چلا جاتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’اس کیلنڈر میں کوئی اور بھی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں چونکتا ہوں۔
وہ مجھے دیکھتا رہتا ہے، پھر کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔
’’مطلب یہ کہ اس کیلنڈر میں میری طرح کوئی اور بھی لپٹا ہوا ہے، میں نے سوچا، شراکت کر کے ہی رہنا ہے، تو پھر تمہارے پاس کیوں نہ رہا جائے؟‘‘
میں خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہتا ہوں۔
وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’آ جاؤ۔ تمہارے حصے کا بستر تمہیں بلا رہا ہے۔‘‘
میں کچھ کہے بغیر اپنے حصے کے آدھے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔ اس کے جسم سے رستی ٹھنڈک میرے گرد لپٹنے لگتی ہے اور مشک کافور اور عرق گلاب کی ملی جلی خوشبو کی چادر تن جاتی ہے۔ میر ی پیٹھ اس کی پیٹھ سے مَس ہوتی ہے، ایک لمحہ کے لیے اس کے جسم کی ساری ٹھنڈک میرے اندر داخل ہو جاتی ہے، میں زور زور سے سانس لے کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔
بیل ایک سینگ پر اسے اٹھائے اب میری طرف مڑتا ہے، میں خود کو ایک طرف کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، لیکن میرا کپڑا اس کے سینگ میں الجھ جاتا ہے، بیل کپڑے سمیت آگے نکل جاتا ہے۔ پھر رکتا ہے اور مڑ کر مجھے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے ایک سینگ میں اس کا جسم پرویا ہوا ہے اور اس کا سرخ کپڑا اس کے جسم کے ساتھ لٹک رہا ہے، دوسرا سینگ خالی ہے۔ میں دائرے کے بیچوں بیچ تنہا کھڑا ہوں ، خون کی لکیر میرے گرد اپنی بانہیں سمیٹ رہی ہے۔ بیل سموں سے زمین کریدتا ہوا میری طرف بڑھتا ہے، پھر جھک کر میرے پیٹ پر اپنا دوسرا سینگ مارتا ہے اور میر ے جسم کو اس میں پرو کر سیدھا ہو جاتا ہے۔ ہم دونوں اس کے دونوں سینگوں میں پروئے ہوئے ہیں ، سرخ کپڑے ہمارے جسموں کے ساتھ لٹک رہے ہیں اور پیاسی زمین اچھل اچھل کر بہتے لہو کو چاٹ رہی ہے۔
ہم ہر روز صبح جب آدم جی روڈ سے گزرتے ہیں تو ٹھیک سات بج کر پچاس منٹ پر ہلکے بادامی رنگ کی ایک گاڑی ہمارے قریب سے گزرتی ہے۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی ایک خوش شکل لڑکی، جس نے بڑے بڑے شیشوں کی کالی عینک پہنی ہوتی ہے، ہمیں دیکھ کر مسکراتی اور ہاتھ ہلاتی ہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے؟ نہ ہی وہ ہمارے بارے میں کچھ جانتی ہے، لیکن اس ایک لمحہ کی تکون پر ہم ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں اور دوسرے لمحے کی بانہیں پھیلنے اور آنکھیں کھلنے سے پہلے پہلے متضاد سمتوں میں لڑھک جاتے ہیں۔پھر۔۔۔
سنسان راستوں پر موت دبے پاؤں ہمارا تعاقب کرتی ہے،
اور بڑھاپا قطرہ قطرہ ہم پر گرتا ہے۔
٭٭٭
جَلا وطن
وہ کئی دنوں سے میرا پیچھا کر رہا ہے اور میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب بھی اسے موقع ملا اور میں تنہائی میں اسے مل گیا، وہ مجھے اغوا کر لے گا۔ اس سے بچنے کے لیے میں خود کو ہر وقت لوگوں کے اژدہام میں دفن رکھتا ہوں ، تا کہ وہ میرے جسم کو نہ دیکھ سکے۔ رات گئے جب سب ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگتے ہیں تو میں بڑی عاجزی کے ساتھ ب سے کہتا ہوں کہ مجھے میرے گھر کی سیڑھیوں تک چھوڑ آئے۔ ب باقاعدگی سے میرے گھر کی سیڑھیوں تک میرے ساتھ آتا ہے اور جب میں دروازے کو اندر سے بند کر لیتا ہوں تو وہ زور سے خدا حافظ کہہ کر اندھیرے میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ میں تیزی سے زینے پھلانگتا اوپر چڑھتا ہوں اور کمرے میں داخل ہو کر جلدی سے اپنی قبر میں گھس جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں بے حس و حرکت پڑا رہتا ہوں ، پھر رفتہ رفتہ مجھے اپنے ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے اور میں آہستہ آہستہ اپنے سارے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوں۔ دن بھر کے اڑے ہوئے پرندے ایک ایک کر کے واپس آنے لگتے ہیں اور شور مچاتے میرے گرد منڈلاتے ہیں۔ میں اپنے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر ان کے سامنے پھینکتا ہوں ، وہ اپنا اپنا حصہ لے کر دیوار کے ساتھ جا لگتے ہیں اور اونگھنے لگتے ہیں۔ میں اندر ہی اندر ہنستا ہوں ، لیکن دوسرے لمحے میری ہنسی ٹو ٹ کر میر ی گردن پر بہنے لگتی ہے۔ وہ بڑے سکون کے ساتھ میرے برابر لیٹا ہوا ہے، میں ہڑ بڑا کر آدھا اٹھ جاتا ہوں ، وہ پورے اطمینان سے مجھے دوبارہ اندر گھسیٹ لیتا ہے۔ چند لمحے مجھے دیکھتا رہتا ہے، پھر ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہتا ہے۔۔۔
’’میں کل شام تمہیں اغوا کر لوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اچھل کر باہر بھاگ جاتا ہے۔ میں گم سم پڑا لکیر پیٹتا رہتا ہوں ، جب کوئی چیز میرے ہاتھ نہیں آتی تو میں گھبرا کر منہ لحاف سے باہر نکال لیتا ہوں۔ ساتھ والی چارپائی پر سوئی ہوئی میری بہن کے ہونٹو ں سے مسکراہٹ جھانک جھانک کر مجھے دیکھتی ہے، شاید وہ خواب میں کسی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے، لیکن کس سے ؟ مجھے یاد آتا ہے کہ آج صبح دودھ والے نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری بہن کوٹھے سے سامنے والے دکاندار کو اشارے کرتی اور رقعے پھینکتی ہے۔ مجھے اپنے کندھوں سے بوجھ سا ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے، وہ اسے بھگا کر کیوں نہیں لے جاتا۔ میں کندھے جھٹکتا ہوں ، لیکن دوسرے لمحے میرے اندر سے وہ کود کر باہر آتا ہے اور چیختے ہوئے کہتا ہے۔۔۔
’’تم بڑے کمینے شخص ہو۔‘‘
میں سر ہلاتا ہوں۔۔۔ ’’ہاں ، میں واقعی کمینہ ہوں۔‘‘
’’تم کتے ہو!‘‘۔۔۔ وہ پھر چیختا ہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں۔۔۔ ’’ہاں ، میں کتا ہوں !‘‘
اور میرے اندر بیٹھا ہوا کتا میرے ہونٹوں سے اپنی لمبی زبان نکال کر چپڑ چپڑ میرا منہ چاٹنے لگتا ہے۔ میں غرّاتے ہوئے اس کی طرف لپکتا ہوں ، وہ دوڑ کر میری ماں کے بستر میں گھس جاتا ہے۔
’’کمینے، ذلیل!‘‘وہ اچھل کر میرے منہ پر تھپڑ مارتا ہے، پھر کتابوں کا ایک ڈھیر لگاتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔
’’کیا تمہیں پڑھایا نہیں گیا تھا کہ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے؟‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے‘‘۔۔۔ میں چیختا ہوں۔۔۔ ’’لیکن بوجھ سے میرے کندھے ٹوٹے جار ہے ہیں۔‘‘
دفعتاً مجھے احساس ہوتا ہے کہ کوئی غلط بات ہو گئی ہے، مجھے اپنے پاؤں کے نیچے سے جنت کھسکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ میں جھک کر ماں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ، دھیرے دھیرے ایک گہری دھند مجھے اپنے اندر سمیٹنے لگتی ہے۔
صبح ناشتہ کرتے ہوئے میں ماں سے کہتا ہوں۔۔۔
’’میں آج شام اغوا ہو جاؤں گا!‘‘
وہ سر اٹھائے بغیر کہتی ہے۔۔۔ ’’تمہاری تنخواہ کا کیا ہو گا، وہ تو ہر ماہ مجھے ملتی رہے گی نا؟‘‘
میرے بدن پر ایک لمبی دراڑ پڑ جاتی ہے۔ میں سبزی کاٹنے والی چھری سے اپنا ایک ہاتھ کاٹ کر ماں کی جھولی میں پھینک دیتا ہوں۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر میرا کٹا ہوا ہاتھ اٹھا کر اپنے پرس میں ڈال لیتی ہے، پھر کہتی ہے۔۔۔ ’’تمہارا دوسرا ہاتھ بھی اچھا ہے، لیکن میرا یہ مقدر کہاں ؟‘‘
بہن کہتی ہے۔۔۔ ’’میرا کیا ہو گا؟‘‘
میں چند لمحے اسے دیکھتا رہتا ہوں۔ جی چاہتا ہے اس سے پوچھوں کہ سامنے والے دکاندار کا کیا حال ہے۔ لیکن کچھ کہنے کی بجائے میں دوبارہ چھری اٹھاتا ہوں اور اپنا دوسرا ہاتھ کاٹ کر اسے دے دیتا ہوں ، وہ میرا کٹا ہوا ہاتھ پر س میں رکھ لیتی ہے اور کہتی ہے۔۔۔
’’دوپہر کو تو گھر آؤ گے نا؟‘‘
میں جواب دئیے بغیر ساتھ والے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ دیواریں خاموشی سے مجھے گھورتی ہیں۔ میں ان کے قریب جاتا ہوں اور ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ جاتا ہوں۔ فرش مجھے اپنی گود میں سمیٹ لیتا ہے۔۔۔ باہر آنے سے پہلے میں برابر والے کمرے میں جھانکتا ہوں ، ماں پر س کو مضبوطی سے ہاتھوں میں دبائے مسکرا رہی ہے اور میری بہن کھڑکی میں کھڑی سامنے والے دکاندار کو اشارے کر رہی ہے۔ میں دوڑتا ہوا باہر نکل آتا ہوں۔
کچھ دیر بعد جب میں د کے دروازے پر دستک دیتا ہوں تو وہ کافی دیر کے بعد باہر آتا ہے، اس کی آنکھوں میں نیند تیر رہی ہے۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’میں آج شام اغوا ہو جاؤں گا۔‘‘
’’تومیں کیا کروں ؟‘‘۔۔۔ وہ جھلائے ہوئے لہجہ میں کہتا ہے۔ دفعتاً وہ چونکتا ہے۔۔۔ ’’کیا کہا تم نے؟‘‘
’’میں آج اغوا ہو جاؤں گا!‘‘
وہ کچھ دیر میری آنکھوں میں جھانکتا، پھر تشویش سے کہتا ہی۔۔۔
’’لیکن ہمارے الیکشن کا کیا ہو گا؟ تمہارے نہ ہونے سے ہمارا ایک ووٹ کم ہو جائے گا۔‘‘
میں کچھ دیر سوچتا رہتا ہوں ، پھر اپنی کھا ل اتار کر اس کے ہاتھ دے دیتا ہوں ، وہ دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھالتے ہوئے کہتا ہے۔
’’اچھا، تو اور کیا حال ہیں ؟ چائے تو پیتے جاؤ۔‘‘
میں جلدی سے آگے نکل جاتا ہوں۔
قریب ترین بوتھ سے میں اُس لڑکی کو ٹیلی فون کرتا ہوں ، جس سے میں محبت کرتا ہوں۔
گھنٹی بجتی رہتی ہے، پھر اس کی اکتائی ہوئی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔
’’ہیلو!۔۔۔ کون ہے ؟‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘
وہ کہتی ہے۔۔۔ ’’میں نے تم سے کئی بار کہا ہے، ابھی میں نے کچھ نہیں سوچا۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’آخر اس میں دیر کیا ہے؟‘‘
وہ جھنجلا جاتی ہے۔۔۔ ’’تمہارے status کی بات ہے، تمہارے پاس نہ کار ہے نہ کوٹھی۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’اب سوچنے کی مہلت نہیں ، میں آج اغوا ہو رہا ہوں۔‘‘
وہ ٹیلی فون بند کر دیتی ہے۔
میں ٹیلی فون کے تار کو پکڑے پکڑے اس کے کمرے میں پہنچ جاتا ہوں۔ وہاں ایک اور شخص بیٹھا ہے جس سے وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔
وہ شخص کہتا ہے۔۔۔ ’’میں تو کسی کار کو زیادہ چلا لوں تو اُکتا جاتا ہوں ، بس اب نئی گاڑی لوں گا۔ آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟‘‘
وہ اس کے سامنے بچھی چلی جاتی ہے۔۔۔ ’’آپ کی شخصیت میں ایک عجیب دلکشی ہے۔‘‘
میں درمیان میں بول پڑتا ہوں۔۔۔ ’’یہ بات تو تم نے مجھ سے بھی کہی تھی۔‘‘
وہ مجھے پرے دھکیل دیتی ہے اور اس سے کہتی ہے۔۔۔
’’You are loveable.‘‘
’’یہ بھی تم نے مجھ سے کہا تھا‘‘۔۔۔ میں پھر درمیان میں آ جاتا ہوں۔ وہ دوبارہ مجھے پرے کر دیتی ہے۔ میں اس کی میز سے سیاہی کی شیشی اٹھا کر سامنے بیٹھے ہوئے شخص پر انڈیل دیتا ہوں اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ کا لا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، لیکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دونوں ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہتے ہیں۔ میں جھنجھلا کر باہر نکل آتا ہوں۔ دروازے کے سامنے ایک کار کھڑی ہے، میں اس کے سارے شیشے توڑ دیتا ہوں اور ٹائروں میں بڑے بڑے سوراخ کر دیتا ہوں۔
کچھ دیر بعد جب میں ب کو ساری بات بتاتا ہوں تو وہ بڑے سکون سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔
’’تم اُلّو کے پٹھے ہو۔۔۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ وہ تمہیں بے وقوف بنا رہی ہے۔‘‘
میں خاموشی سے سر ہلاتا ہوں۔۔۔ ’’مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ لوگ مجھے بے وقوف بنا رہے ہیں۔‘‘
دفعتاً میں چونکتا ہوں۔۔۔ ’’یار ب ! میں آج اغوا ہو جاؤں گا۔‘‘
’’اچھا!‘‘۔۔۔ وہ کندھے جھٹکتا ہے۔۔۔ ’’کسی دن تم اغوا ہو ہی جاؤ۔‘‘
مجھے اپنے پاؤں ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، میں بھرائی آواز میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’آج مجھے اکیلا نہ چھوڑنا !‘‘
وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’مجھے تو ایک لڑکی سے ملنے جانا ہے۔۔۔ ‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’مجھے اکیلے نہ چھوڑنا۔۔۔ ورنہ۔۔۔ ‘‘
وہ میری بات کاٹ دیتا ہے۔۔۔ ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں۔ بھئی میں نے اسے ٹائم دیا ہوا ہے، وہ میرا انتظار کر رہی ہو گی۔‘‘
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’تو مجھے بھی ساتھ لے جاؤ۔‘‘
’’ہیں۔۔۔ تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں !‘‘۔۔۔ وہ چونکتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو سارا طریقۂ واردات ہی غلط ہو جائے گا۔‘‘
دیواریں ، گلیاں اور سڑکیں تیز دھوپ میں بھیگی ہوئی ہیں ، میں ان کے درمیان اکیلا قدم قدم چلتا رہتا ہوں۔ سارے دروازے بند ہیں ، اندر سے قہقہوں کی خوشبوئیں رِس رِس کر باہر نکل رہی ہیں۔ میں ایک ایک دروازے کے سامنے رکتا ہوں ، ایک ایک کھڑکی کی جانب دیکھتا ہوں ، لیکن کوئی پٹ وا نہیں ہوتا۔ دھوپ کا سیلاب مجھے آگے بہائے لیے چلا جاتا ہے، میں دروازوں سے رِستی ہنسی کی خوشبوؤں کی رسّی تھامے قبرستان کے بڑے دروازے کی طرف بڑھتا ہوں ، اس کا بڑا دروازہ دونوں بانہیں کھولے مجھے پکارتا ہے۔ اندر جانے سے پہلے میں مڑ کر سڑکوں ، گلیوں اور بند دروازوں کو دیکھتا ہوں۔ بند دروازے، سنسان سڑکیں۔۔۔ کوئی آواز میرا تعاقب نہیں کرتی، میں کان لگا کر کچھ دیر سننے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید کوئی مجھے پکارے۔۔۔ پھر جلدی سے اندر چلا جاتا ہوں ، دروازہ کھلنے کی آواز سن کر میری ماں پچھلے کمرے سے چیختی ہے، ’’کون ہے۔۔۔ ؟‘‘
’’میں ہوں !‘‘۔۔۔ میں جواب دیتا ہوں۔ اچانک مجھے خیال آتا ہے۔۔۔ ’’کیا میں واقعی ہوں ؟‘‘
میں اپنے آپ کو ٹٹولتا ہوں ، اپنی آنکھوں ، اپنے ہونٹوں اور گالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوں۔۔۔ ’’کیا میں واقعی ہوں ؟‘‘۔۔۔ میرے اندر کوئی بڑبڑاتا ہے۔ میں غور سے اپنے جسم کو دیکھتا ہوں ، دو تین قدم آگے چل کر۔۔۔
’’میں ہوں !‘‘۔۔۔ میں چیختا ہوں۔۔۔ ’’میں ہوں ‘‘
’’سُن لیا۔۔۔ سُن لیا‘‘۔۔۔ میری ماں جواباً چیختی ہے۔۔۔ ’’روٹی کھانی ہے تو سالن گرم کر لو!‘‘
میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فرش پر بکھر جاتا ہوں۔ پچھلے کمرے میں میری ماں اور بہن ایک دوسرے سے جھگڑ رہی ہیں۔۔۔
ماں کہتی ہے۔۔۔ ’’اس سوٹ کے ساتھ یہ دوپٹہ میچ کرے گا۔‘‘
بہن کہتی ہے۔۔۔ ’’آج کل رنگوں کا تصور بدل گیا ہے، اس کے ساتھ یہ ٹھیک رہے گا!‘‘
میں تیلی چولہے میں پھینکتا ہوں ، شعلہ لپک کر مجھے چومنے کی کوشش کرتا ہے۔
بہن کہتی ہے۔۔۔ ’’امی، اب میں برقع نہیں پہنوں گی، کپڑوں کی ساری شو ماری جاتی ہے۔‘‘
شعلے لپک لپک کر پتیلی کو چاٹتے ہیں۔ تیز بو میرے نتھنوں میں گھستی چلی جاتی ہے۔ میری ماں ساتھ والے کمرے سے دوڑی ہوئی آتی ہے۔
’’سارا سالن جلا دیا۔۔۔ رات کو تیرا باپ پکائے گا دوبارہ؟‘‘
میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دروازے میں کھڑی ہوئی میری بہن خونخوار نظروں سے مجھے دیکھتی ہے، پھر پیر پٹختے ہوئے کہتی ہے۔
’’میں تو نہیں پکاتی اور۔۔۔ رات کو یہی کھانا سب!‘‘
’’ہم کیوں کھائیں گے۔۔۔ مرن جو گا!‘‘
دونوں منہ پھلائے واپس چلی جاتی ہیں ، میں گُم سُم شعلوں کو گھورتا رہتا ہوں۔ پتیلی میں سے بُو کی ایک لکیر اُوپر اٹھتی ہے اور دائرہ در دائرہ چاروں طرف پھیلتی چلی جاتی ہے۔
ساتھ والے کمرے سے بہن کی آواز آتی ہے۔۔۔ ’’تو امی، پھر یہ دوپٹہ ٹھیک رہے گا نا؟‘‘
میں باہر آ جاتا ہوں ، سُنسان گلیاں اور سڑکیں لپک کر مجھے اپنی گود میں چھپا لیتی ہیں۔ میں ان کی چھاتیوں سے چُوسر چُوسر دودھ پیتا ہوں ، میرے پاؤں ان کے نرم نرم پیٹوں پر مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے ایک آغوش سے دوسرے آغوش میں دے کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔۔۔ میں ایک مقدس امانت کی طرح ایک سڑک سے دوسری سڑک پر ہوتا ہوا ہوٹل میں آ جاتا ہوں۔
ہوٹل سنسان پڑا ہے، میں چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ بیرا پانی کا گلاس لا کر میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔ میں خالی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہتا ہوں۔
’’چائے ؟‘‘۔۔۔ وہ پوچھتا ہے۔
میں جواب دیئے بغیر اُسے تکتا رہتا ہوں۔۔۔ بس تکتا ہی رہتا ہوں۔ وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔
’’جناب ! ایک بات پوچھوں ؟‘‘
’’پوچھو!‘‘
وہ کچھ دیر تذبذب میں رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’آپ کا گھر کہاں ہے؟‘‘
میں نفی میں سر ہلاتا ہوں۔
’’کسی دوسرے شہر میں۔۔۔ ؟‘‘
میں پھر نفی میں سر ہلاتا ہوں۔
’’کہیں بھی نہیں !‘‘۔۔۔ وہ بے یقینی سے کہتا ہے۔۔۔ ’آپ کے رشتہ دار تو ہوں گے کہیں نہ کہیں ؟‘‘
’’کوئی بھی نہیں ‘‘۔۔۔ وہ حیرت کی مٹھی میں پھڑپھڑاتا ہے۔
’’آپ کی ماں نہیں !‘‘
میں نفی میں سر ہلاتا ہوں۔
’’اور بہن بھائی۔۔۔ ؟‘‘
میں پھر نفی میں سر ہلاتا ہوں۔ وہ بھی سر ہلاتا ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ کچھ کہے بغیر چلا جاتا ہے اور چائے کا کپ لا کر میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے، سارا شہر خالی ہے اور میں کھنڈروں اور عمارتوں میں اکیلا ہوں۔۔۔ بالکل اکیلا، خدا کی طرح۔۔۔
میں آسمان کی طرف منہ کر کے خدا کو پکارتا ہوں۔۔۔
’’اللہ میاں کیا حال ہے؟‘‘ وہ غم ناک نظروں سے مجھے دیکھتا ہے۔
میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’اللہ میاں ہر وقت غم نہ کیا کرو، غم کرنے سے صحت خراب ہو جاتی ہے۔‘‘
دفعتاً سارا شہر جاگ اٹھتا ہے اور لوگ دیواروں ، دروازوں سے لاٹھیاں لیے نکلتے ہیں اور میرے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔ میں آگے آگے دوڑتا ہوں اور چیختا ہوں۔۔۔
’’اُلو کے پٹھو۔۔۔ آنکھیں کھولو!‘‘
لیکن وہ آنکھیں بند کئے لاٹھیاں لیے میرے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ قریب آتے چلے جاتے ہیں ، میرے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں۔
بیرا کہتا ہے۔۔۔ ’’چائے تو ٹھنڈی ہو گئی، میں دوسری لا دیتا ہوں۔‘‘
وہ پیالی اٹھا کر چلا جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں ، شاید اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ جب وہ چائے لے کر واپس آتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں۔
’’میں آج شام اغوا ہو جاؤں گا۔‘‘
وہ افسوس سے سر ہلاتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو بہت بُرا ہو گا، ایک آپ ہی تو ہیں جو اتنی ٹِپ دیتے ہیں۔ یہ آپ کے دوست تو ایسے ہیں کہ بس چلے تو بل میں سے بھی دو چار آنے مار لیں۔‘‘
’’سب کی آنکھیں بند ہیں ‘‘۔۔۔ میں سوچتا ہوں۔۔۔ ’’سب کی آنکھیں بند ہیں۔‘‘
شام دھیرے دھیرے چائے کی پیالیوں میں گھل رہی ہے، اس کے قدموں کی چاپ دور سے سنائی دیتی ہے۔ میں ایک ایک چہرے کو ٹٹولتا ہوں ، سارے چہرے اپنے اپنے لفظوں کی چار دیواریوں میں قید ہیں۔ میں میز کے نیچے ہاتھ لے جا کر پورے دن کی پرتیں کھولتا ہوں ، آوازوں کی بے شمار چیونٹیاں میرے بدن پر رینگنے لگتی ہیں۔۔۔
’’ہمارے الیکشن کا کیا ہو گا ؟ تمہارے نہ ہونے سے ایک ووٹ کم ہو جائے گا۔‘‘
’’چند دنوں میں مَیں نئی کار لے لوں گا، آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟‘‘
’’میں تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں ، یہ تو سارا طریقۂ واردات غلط ہو جائے گا۔‘‘
’’اس سوٹ کے ساتھ یہ دوپٹہ میچ کرے گا نا؟‘‘
’’ایک آپ ہی تو ہیں جو اتنی ٹپ دیتے ہیں۔‘‘
میں دن کو پورے میز پر پھیلا دیتا ہوں اور اس پر دوڑنے لگتا ہوں اور ایک ایک دروازہ کھولتا چلا جاتا ہوں۔ پہلے دروازے کے پیچھے میری ماں اور بہن ہنس رہی ہیں۔ میں دوسرا دروازہ کھولتا ہوں ، وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔
’’You are loveable.‘‘
میں جلدی سے یہ دروازہ بھی بند کر دیتا ہوں۔ تیسرے دروازے کے پیچھے وہ اپنے طریقۂ واردات میں مصروف ہے۔ میں ایک ایک کر کے سارے دروازے کھولتا ہوں اور بند کرتا جاتا ہوں۔ پھر دن کو تہہ کر کے جیب میں ڈال لیتا ہوں۔
سب کی آنکھیں بند ہیں اور سب ایک بے معنی بحث میں مصروف دوسرے سے بات چھیننے کی کوشش میں ایک دوسرے کو پرے دھکیل دیتے ہیں۔۔۔ میں ایک ایک کو دیکھتا ہوں ، قدموں کی چاپ لمحہ لمحہ قریب آ رہی ہے۔
’’میں کل شام تمہیں اغوا کر لوں گا۔‘‘
اس کے لفظ قطرہ قطرہ میرے کانوں میں ٹپکتے ہیں۔
’’مجھے یاد ہے،۔۔۔ مجھے یاد ہے‘‘۔۔۔ میں کہتا ہوں۔
آنکھیں بند ہیں اور گفتگو میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو شباب پر ہے۔ قدموں کی چاپ قریب اور قریب آتی چلی جاتی ہے۔
بند آنکھیں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے دھکم پیل۔۔۔ بند دروازے ہنسی ہنسی، رنگ میچنگ طریقۂ واردات میں اپنی جگہ سے اُٹھتا ہوں ، کسی کو میرے اٹھنے کا احساس نہیں ہوتا، سب آنکھیں بند کئے دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے ایک دوسرے کو گرا رہے ہیں ، میں بند دروازے کے کواڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔
وہ سامنے درخت کے نیچے کھڑا مسکرا رہا ہے۔۔۔ مسکرائے ہی جا رہا ہے۔
٭٭٭
بے پانی کی بارش
’’اور اللہ کا قہر یہ نہیں ہے کہ بارش نہیں ہوتی اور قحط پھیل جاتا ہے، اللہ کا قہر یہ بھی ہے کہ وہ خوب بارشیں برساتا ہے، لیکن فصل پھر بھی نہیں اُگتی۔‘‘
(حدیث)
ساری ہی راتیں تاریک اور ڈراؤنی ہوتی ہیں ، لیکن وہ رات اتنی گھنی، سیاہ اور ڈراؤنی تھی کہ اُسے اپنے آپ سے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سمیٹ کر ایک کونے میں ڈھیر کر لیا تھا اور اب اس خوف سے ہاتھ بھی نہیں ہلا رہا تھا کہ کہیں اس کے اپنے ہاتھ ہی اسے نہ دبوچ لیں ، حالانکہ بار بار اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر تسلی کر لے کہ اس کی گردن پر اس کا چہرہ موجود ہے۔ اسے یقین سا ہو چلا تھا کہ اس کے چہرے میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ہو چکی ہے لیکن وہ اس کا اقرار کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ یہ بات اس کے بس میں نہیں تھی۔ ہوش سنبھالنے کے بعد وہ اپنے چہرے کو دیکھتا آیا تھا، اس سے پیار کرتا تھا اور اب وہ ایکا ایکی کس طرح یہ دیکھ سکتا تھا۔ نہیں ، وہ کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے سوچا، کاش یہ گھنی سیاہ ڈراؤنی رات اتنی پھیل جائے کہ وہ کبھی اپنے چہرے کو نہ دیکھ سکے۔ لیکن ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے، اس اداس گھنی سیاہ ڈراؤنی رات کی بھی ایک صبح تھی اور وہ اس سے بچنا چاہتا تھا۔ یہ بھی عجیب بات تھی۔ وہ صبح کے تصور ہی سے کھل اٹھا کرتا تھا۔ لیکن یہ ایسی صبح تھی جس کے خیال ہی سے اس کا سر جھکا چلا جا رہا تھا۔
’’صبح ہم ایک دوسرے کو کیسے دیکھ سکیں گے؟‘‘ اس نے سوچا اور چہرے کو گھٹنوں سے رگڑنے لگا۔
گھنٹوں کی رگڑ سے چہرے کا سویا ہوا لمس جاگ اٹھا۔ بے اختیار اس کا جی چاہا کہ ہاتھوں سے چہرے کی ایک ایک پور ٹٹولے، لیکن خوف بوند بوند رات کے پیالے میں گھل رہا تھا اور سیاہی کی رسی اس کے ہاتھوں کے گرد لپٹتی ہی چلی جا رہی تھی۔ وہ صرف انگلیاں ہلا کر رہ گیا۔
اسے کئی دن پہلے اس سیاہ ڈراؤنی رات کے آنے کی بشارت مل گئی تھی اور اس نے شہر کے بڑے چوک میں کھڑے ہو کر، چیخ چیخ کر سب کو اس عذاب کی کہانیاں سنائی تھیں ، لیکن کسی نے اس کی بات نہ سنی، بلکہ ہنس ہنس کر اس کا مذاق اڑایا اور اب سب اسی کی طرح کونوں اور اوٹوں میں دبکے ایک دوسرے کو اپنا منہ دکھانے سے اجتناب برت رہے تھے۔ ان میں سے کسی میں یہ حوصلہ نہیں تھا کہ دوسرے کا چہرہ دیکھ سکے۔ بلکہ وہ اپنا چہرہ دیکھنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تھے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو یقین سا ہو چلا تھا کہ اس کے چہرے میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ہو چکی تھی۔
’’صبح ہم ایک دوسرے کو کیسے دیکھ سکیں گے؟‘‘ اس نے پھر سوچا اور آنے والی پیلی اداس صبح تھرتھراتی ہوئی اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں اترنے لگی۔ اس نے گھبرا کر پتلیوں کو سمیٹ لیا اور اندھے کونے سے نکل کر سڑک پر دوڑنے لگا۔ سڑکوں گلیوں اور بازاروں میں ویرانی گراں مارتی ہوئی ناچ رہی تھی۔ بند دروازوں پر لٹکی ہوئی ناموں کی پلیٹوں پر اداسی پھن پھیلائے شوک رہی تھی۔ وہ ویرانی کے ہاتھوں میں سے ہوتا ہوا بڑے چوک میں آ گیا۔ چمگادڑوں کی ڈار کی ڈار پَھڑپَھڑ کرتی قریب سے گزر گئی، دور سے کوئی الّو چیخا اور اداسی کا رقص اور تیز ہو گیا۔ وہ چبوترے پر بیٹھ گیا۔ ساتوں خواب ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے ڈرامہ گھر میں اترنے لگے۔ یہ خواب وہ مسلسل دیکھتا رہا تھاا ور اس نے اسی چبوترے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ان کے بارے میں بتایا تھا، لیکن کسی نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرے۔
ساتوں خواب ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے ڈرامہ گھر میں اتر رہے تھے۔ پہلا خواب ایک بڑے کھیت پر پھیلا ہوا تھا۔۔۔ انہوں نے اپنے بیجوں کو منافقت کے پانی سے سینچا تھا۔ ان کے کھیتوں میں فصل کی جگہ دیواریں اگیں۔۔۔ صبح وہ دیر تک باتوں کے ٹوٹے سرے جوڑتا رہا۔ پھر بڑے چوک میں آ کر اس نے سرخ سبز سب بتیوں کے بٹن آف کر دئیے۔ ساری ٹریفک ایک لمحہ میں منجمد ہو گئی۔
وہ چبوترے پر چڑھ گیا اور چیخ کر کہنے لگا، ’’کیا تم جانتے ہو ہم کھیتوں میں منافقت بو رہے ہیں ؟‘‘
اس کے گرد جمع لوگوں میں سے کچھ تو اس کی بات سن کر ہنس پڑے‘ اور کچھ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے اپنے اپنے راستوں پر چل دئیے۔ ٹریفک کا سپاہی ہجوم کی دیوار چیرتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر نیچے گھسیٹ لایا۔ کچھ دیر بعد جب اسے ٹریفک انسپکٹر کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ اسی طرح بڑبڑا رہا تھا۔
انسپکٹر نے اس سے پوچھا۔۔۔ ’’تم نے ٹریفک کیوں روکی؟‘‘
وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر جھک کر اس کے کان میں کہنے لگا۔۔۔ ’’ہم اپنے کھیتوں میں منافقت بو رہے ہیں۔ دیواریں اگ آئیں تو ہم آدھے رہ جائیں گے۔‘‘
انسپکٹر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور سپاہی سے کہنے لگا، ’’اسے دھکے دے کر باہر نکال دو۔۔۔ الّو کا پٹھا۔‘‘
وہ سارا دن لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ ہر شخص اپنے اپنے راستے پر بھاگا چلا جا رہا تھا۔
پھر اس نے دوسرا خواب دیکھا کہ کچھ لوگ کھلیانوں اور کارخانوں میں بھوک بانٹتے پھر رہے ہیں۔ کسان اور مزدور اپنے کاموں میں بھوک کی بھیک لے کر ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں اور بھوک بانٹنے والے ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔ اس دن چبوترے پر چڑھ کر اس نے چیخ کر کہا۔۔۔ ’’حق داروں کو ان کا حق دو، ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔‘‘
سپاہی اسے پکڑ کر پھر انسپکٹر کے پاس لے گیا، انسپکٹر نے اسے دیکھ کر پہلے تو دانت کچکچائے پھر سپاہی سے کہنے لگا۔۔۔ ’’اسے کان پکڑوا کر دس جوتے لگاؤ۔‘‘
آدھ گھنٹہ کان پکڑنے اور دس جوتے کھانے کے بعد وہ چپ چاپ تھانے سے باہر نکلا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہا، لیکن کسی نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ آپ ہی آپ کیوں بڑبڑا رہا ہے۔ کسی کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں تھی۔
پھر اس نے تیسرا خواب دیکھا کہ وہ ٹھاٹھیں مارتے بپھرے ہوئے دریا میں بغیر چپوؤں کی کشتی میں سفر کر رہے ہیں۔۔۔ اس صبح وہ دن چڑھنے تک اخبار کی سرخیاں چاٹتا رہا۔ پھر اخبار کی خبروں کو کندھوں پر لٹکائے سارے شہر میں پھر ا۔ پہلے وہ شہر کے پکے حصے میں گیا۔ وہاں بڑی بڑی خوبصورت عمارتوں پر ترقی کا ڈھول بج رہا تھا اور اس کے گرد لوگ سکے کھنکھناتے، ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جا رہے تھے۔ پھر وہ شہر کے کچے حصے میں گیا۔ وہاں بد صورت مکانوں پر اداسی کی پھوار پڑ رہی تھی۔ ڈھول دونوں طرف سے پھٹ چکا تھا اور پیلے ویران چہرے خالی کا سہ ہاتھوں میں لیے پھٹے ہوئے ڈھول کو حیرت اور اجنبیت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک کچے مکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، ’’جب تک ہمارے خالی کاسے نہیں بھریں گے، یہ ڈھول یوں ہی پھٹا رہے گا۔‘‘
وہ سر ہلاتا چبوترے کی طرف چل پڑا، لیکن سپاہی نے اسے چبوترے پر چڑھنے سے پہلے ہی بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگا۔۔۔ ’’ابھی تسلی نہیں ہوئی؟‘‘
اس نے ملتجی نظروں سے سپاہی کو دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ ’’دریا بپھرا ہوا اور ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ہمارے پاس چپّو ہی نہیں۔ ہمیں چپّو چاہئے، ورنہ ہم سب ڈوب جائیں ، سب ڈوب جائیں گے۔‘‘
سپاہی نے اسے ماں کی گالی دی اور اس کی پشت پر لات مار کر اسے سڑک کے دوسری طرف دھکیل دیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر آ رہا۔
’’ہمیں چپّو دو۔۔۔ ہمیں چپّو دو۔‘‘ وہ بڑبڑاتا رہا اور چمکیلی تیز رفتار کاریں سیٹیاں بجاتی، سائیں سائیں کرتی اس کے قریب سے گزرتی رہیں۔
پھر اس نے چوتھا خواب دیکھا کہ کچے مکانوں میں رہنے والے سب لوگ چوہے بن گئے ہیں اور بلوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ موٹی تازی بلی ان کے بلوں کے باہر غرّاتی پھر رہی تھی۔
’’کسی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کوکب تک روکا جا سکتا ہے؟‘‘ صبح اٹھ کر اس نے خود سے کہا اور دوڑتا ہوا اپنے بل سے باہر نکل آیا۔ بلی غرّاتی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی۔ وہ لپک کر دوسرے بل میں گھس گیا۔ پھر سارے چوہے ایک بل میں سے نکل کر دوسرے بل میں گھستے رہے۔ بلی بھاگ بھاگ کر ہانپنے لگی اور بے دم ہو کر گر پڑی۔
اس دن چبوترے کے گرد ایک کی بجائے کئی سپاہی تھے۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ اس نے کئی بار چبوترے کے قریب جانے کی کوشش کی لیکن سپاہیوں نے لاٹھیاں مار مار کر اسے دور بھگا دیا۔
پھر اس نے پانچواں خواب دیکھا کہ بھوک بانٹنے والے، کھیت کی منڈیر پر سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ وہ دیر تک سر جوڑے سوچتے رہے، پھر انہوں نے پرانی بلی کو پکڑ کر ایک طرف کر دیا اور اس کی جگہ اسی جیسی لیکن دوسری بلی لے آئے۔ اس کے بعد وہ کھیت میں آئے اور انہوں نے بیچوں بیچ دیوار کھڑی کرنا شروع کر دی۔
ایک دیوار کی ایک طرف رہ گیا اور دوسرا دوسری طرف۔ دونوں ایک دوسرے کو نفرت سے دیکھنے لگے۔۔۔ اگلے دن وہ سارا دن اداس رہا۔ اخباروں کی سیاہ سرخیاں گلیوں اور بازاروں میں چیختی چلّاتی بین کرتی پھر رہی تھیں۔۔۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔
’’بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے، لیکن چپّوؤں کی بات کسی کو یاد نہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔۔۔ ’’اور کشتی کے پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے۔‘‘
چھٹا اور ساتواں خواب اس نے ایک ساتھ دیکھے۔۔۔ کشتی کے پیندے میں سوراخ ہو چکا تھا اور پانی رفتہ رفتہ، بہت ہی آہستگی سے اندر آ رہا تھا۔ پھر بپھرتا،ٹھاٹھیں مارتا دریا، یک دم خون کے دریا میں بدل گیا۔ کنارے پر کھڑا روشنی کا مینار لڑکھڑا کر کشتی پر آ گرا، کشتی ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ گئی۔ چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں ، ادھ موئے، مرتے چیختے انسان۔۔۔ ٹوٹے ہوئے کاسے۔۔۔
اُفق کی سرحدوں کی اوٹ سے گھنی سیاہ ڈراؤنی رات نے اپنا چہرہ نکالا اور دھیرے دھیرے چاروں طرف پھیلنے لگی۔۔۔ گھنی سیاہ ڈراؤنی رات، پَھڑ پَھڑ کرتی چمگادڑیں اور الّوؤں کی چیختی، نوحہ کرتی صدائیں۔
ساتوں خواب ایک ایک کر کے، اس کی آنکھوں کے ڈرامہ گھر میں اپنا اپنا تماشہ دکھا کر گھنی سیاہ ڈراؤنی رات میں ڈوب گئے اور وہ ویران، اداس چوک کے چبوترے پر بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ صبح ان بدلے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ ایک دوسرے کا سامنا کیسے کر سکیں گے؟
’’کاش اس رات کی صبح کبھی نہ ہو۔‘‘ خواہش نے سسکی بھری، لیکن راتیں کیسی ہی ہوں ، ہر رات کے بطن سے صبح کا شگوفہ ضرور پھوٹتا ہے۔ پر اس رات کی گود میں جس صبح نے آنکھ کھولی وہ اتنی پیلی اور اداس تھی کہ اس پر رات ہی کا گمان ہوتا تھا۔ ان کے ناموں کی دہائی دیتی یہ صبح جب شہر کے بڑے چوک میں ا تری تو وہ ایک ایک کر کے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلے اور سر جھکائے اپنے اپنے کاموں پر چل دئیے۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ دوسرے کی طرف دیکھے یا یہ پوچھے کہ یہ رات اتنی گھنی سیاہ اور ڈراؤنی کیوں تھی؟
کئی دنوں تک یہی ہوتا رہا کہ وہ ایک دوسرے سے نظریں ملانے اور بات کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ دنوں کے بطن سے ہفتوں اور ہفتوں کے بطن سے مہینوں نے جنم لیا اور پھر بادل گھِر گھِر آئے آئے اور مدتوں بعد شہر کی سوکھی زمین اور پیاسی دیواروں پر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا۔
اس دوران وہ اپنے گھر میں بند رہا تھا۔ اس نے اپنے کمرے کی ساری کھڑکیاں ، دروازے اور روشندان بند کر لیے تھے اور کتابوں کی قبر میں دفن ہو گیا تھا۔ جس دن بارش کا پہلا جھونکا آیا، اس نے کتاب کے صفحوں سے سر اٹھا کر روشن دان کے شیشوں پر ناچتی بوندوں کو دیکھا اور کتاب بند کر دی۔ پھر خوب تیز بارش ہوئی۔ میلے شیشے دھل دھل کر صاف ہو گئے اور چمکنے لگے۔ بارش کی ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار بند دروازوں کی جھریوں سے گزرتی کمرے میں آنے لگی۔ اس نے سارے دروازے کھول دئیے اور باہر نکل آیا۔ لیکن باہر آتے ہی حیرت اس کی آنکھوں کے کٹوروں میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ بازار، گلیاں اور سڑکیں جھلمل جھلمل کر رہی تھیں اور خوشیوں سے لدے ہوئے قہقہے روشنیوں کے سیلاب میں تیرتے پھر رہے تھے۔ اس نے حیرت اور پریشانی سے اپنے آپ کو دیکھا اور کہنے لگا، ’’کیا یہ میں ہوں ؟ اور کیا یہ وہی شہر ہے جہاں کچھ عرصے پہلے وہ گھنی سیاہ ڈراؤنی رات اتری تھی؟‘‘
اس نے راہ چلتے ایک شخص کو روکا اور اس سے پوچھا۔۔۔ ’’کیا یہ ہم ہی ہیں ؟‘‘
اس شخص نے اسے گھورا۔۔۔ ’’ہم کون؟‘‘
’’وہی۔۔۔ ‘‘اس نے بے چینی سے کہا، ’’وہی جنہوں نے اُس رات رو رو کر یہ عہد کیا تھا کہ اب اپنے کھیتوں میں منافقت نہیں بوئیں گے۔‘‘
اس نے غصے سے اسے دیکھا اور بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔
اس نے اس رات پہلا خواب دوبارہ دیکھا کہ وہ پھر اپنے بیجوں کو منافقت کے پانی سے سینچ رہے ہیں اور ان کے کھیتوں میں فصل کی جگہ دیواریں اگ رہی ہیں۔
’’بھوک پھر بانٹی جا رہی ہے۔‘‘اس نے بڑے چوک میں اعلان کیا، ’’ہمیں تو کہا گیا تھا کہ بارش ہونے کے بعد بھوک بانٹنے والے بھی ہماری صفوں میں کھڑے ہوں گے۔‘‘
سپاہی اسے پکڑ کر انسپکٹر کے پاس لے گیا۔ انسپکٹر کچھ دیر اسے غور سے دیکھتا رہا، پھر سپاہی سے پوچھنے لگا۔۔۔ ’’یہ وہی ہے نا؟‘‘
سپاہی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
انسپکٹر نے زور سے ہُوں کی اور اس سے کہنے لگا۔۔۔ ’’کیا تکلیف ہے تمہیں۔۔۔ ؟‘‘
اس نے انسپکٹر کی آنکھوں میں جھانکا اور کہنے لگا۔۔۔ ’’میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔‘‘
’’اچھا تو تمہیں خواب نظر آتے ہیں۔‘‘ انسپکٹر نے مونچھوں کے سرے مروڑے اور سپاہی سے کہنے لگا۔۔۔ ’’اسے پچھلے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘
پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’اب تمہیں دن کو بھی خواب نظر آئیں گے۔‘‘
اگلے کئی دنوں تک وہ اپنی چوٹوں کو سہلاتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ انہیں پھر بے وقوف بنایا گیا ہے۔
’’ہمارے سکے پھر کھوٹے ہیں۔‘‘اس نے سوچا، ’’ہم ہر بار کھوٹے سکے ہی کیوں چنتے ہیں ؟‘‘
شاید وہ بہت ہی چالاک ہیں ، یا وہ ہر بار نیا روپ بدل کر آتے ہیں ، یا پھر ہم ہی اتنے بے وقوف ہیں کہ ہر بار دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔۔۔ کھلیانوں سے بھوک کاٹتے کاٹتے ہماری کمریں دوہری ہو گئی ہیں۔ کارخانوں سے بیماری سمیٹتے سمیٹتے ہمارے سینے چھلنی ہو گئے ہیں۔ لیکن ہماری عقلوں پر پڑے پتھر کسی طرح ہٹتے ہی نہیں۔
اس نے چبوترے پر چڑھ کر صدا دی۔۔۔ ’’فصلوں کی جگہ پھر دیواریں اگ رہی ہیں۔‘‘
اور جب سپاہی آیا تو وہ دوڑ کر گلیوں میں چھپ گیا اور گلیوں کے موڑ کاٹتا ہوا اگلے چوک میں آ نکلا لیکن اس کی ساری صدائیں بے اثر گئیں۔ لوگوں نے ہنستے ہنستے اس کی باتیں سنیں اور ہنستے ہنستے اپنی راہ چلتے بنے۔
لوگوں کے اس روئیے نے اسے گھیر گھار کر پھر کمرے میں دھکیل دیا۔ وہ کئی دنوں تک دروازے کھڑکیاں بند کر کے خواب دیکھتا اور کتابیں پڑھتا رہا۔ قوموں کے عروج و زوال کی کہانیاں تاریخ کے صفحات سے اُڑ اُڑ کر اس کے کمرے کی دیواریں پر اپنا آپ دہراتی ہیں۔ ایک شخص کے بانسری بجانے کی پاداش میں سارے شہر کو جلنا پڑا تھا، لیکن یہاں تو پوری قوم ہی بانسری بجانے میں محو تھی۔ اس کے سامنے کتابوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے۔ لفظوں کا لبادہ اتار کر تاریخ نے اس سے پوچھا، ’’مجرموں کو سزا کب ملے گی؟‘‘
وہ بہت دیر سوال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔ ’’لیکن کون کسے مجرم ٹھہرائے گا؟ یہاں تو ساری قوم ہی وعدہ معاف گواہ بنی ہوئی ہے۔‘‘
تاریخ کتابوں میں واپس چلی گئی اور وقت سر جھکائے باہر نکل گیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر آیا۔ شہر اسی طرح تھا، رنگ برنگے قہقہے، روشنیوں کا سیلاب، ہر شخص بھاگتا ہوا، دوسروں کو گرا کر، آگے بڑھنے کی جستجو میں مگن۔
’’یہ وہی شہر ہے جہاں وہ گھنی سیاہ ڈراؤنی رات اتری تھی؟‘‘ اس نے وقت سے پوچھا۔
وقت مڑے بغیر آگے بڑھتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’اور وہ گھنی سیاہ ڈراؤنی رات پھر آ رہی ہے۔۔۔ وہ دیکھو!‘‘
اس نے دیکھا، اُفق کے کناروں سے گھنی سیاہ ڈراؤنی رات آہستہ آہستہ نیچے اتر رہی تھی۔
وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور اپنی ساری دانش کو لفظوں ، لفظوں کو کتابوں اور کتابوں کو الماریوں میں بند کرنے لگا۔ پھر اس نے دیواروں پر لگی ہوئی ساری تصویریں اتار کر انہیں الٹا لٹکایا اور شہر کے قریبی پہاڑوں کی طرف چل پڑا۔ سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ کر اس نے مڑ کر شہر کی طرف دیکھا۔۔۔ مسجدوں کے گنبدوں ، درس گاہوں کے دروازوں ، کیفوں ، ہوٹلوں ، گھروں اور دفتروں ، ہر چیز پر منافقت کی چھاپ لگی ہوئی تھی اور منافقت کی چیلیں سارے شہر پر منڈلاتی پھر رہی تھیں۔۔۔ اس نے منہ پھیر لیا۔ شام کے قریب اسے چھوٹا سا غار نظر آیا۔ سورج کی ڈوبتی روشنی میں اس نے غار کو صاف کیا۔ جیب سے سارے سکے نکالے اور انہیں پھینکتے ہوئے بولا، ’’یہ سارے سکے کھوٹے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ہی اپنی جیب میں کھوٹے سکے ڈالے۔ آج میں ان سے نجات حاصل کرتا ہوں۔‘‘
پھر اس نے کپڑے اتارے اور ننگ دھڑنگ غار میں گھس گیا۔
دو راتیں اور ایک دن وہ اندھیروں اور اجالوں سے لڑتا رہا کہ روشنی اور اندھیرے غار کے اندر بھی موجود تھے۔ وہ کہیں بھی جاتا، آنے والی گھنی سیاہ ڈراؤنی رات سے بچ نہیں سکتا تھا۔ تیسرے دن جونہی روشنی نے غار کی دہلیز پار کی، وہ باہر نکل آیا۔ اس کے کپڑے اسی طرح پڑے تھے۔ اس نے کپڑے پہنے، پھینکے ہوئے ایک ایک سکے کو اٹھایا اور انہیں دوبارہ جیب میں ڈالتے ہوئے بولا، ’’ہم نے جو بویا ہے وہ تو کاٹنا ہی پڑے گا، اور میں بھی تو انہی میں سے ایک ہوں۔‘‘
اس نے اُفق کی دہلیز کی طرف دیکھا۔
گھنی سیاہ ڈراؤنی رات زینہ زینہ نیچے اتر رہی تھی۔
اترتی ہی چلی آ رہی تھی۔
٭٭٭
ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ
سامان گاڑی میں رکھ دینے کے بعد قابیل، ہابیل سے پوچھتا ہے۔۔۔ ’’تم تو سچ مچ جا رہے ہو؟‘‘
ہابیل اس کی اداس آنکھوں میں جھانکتا ہے۔۔۔ ’’تمہیں اب بھی یقین نہیں۔‘‘
قابیل نفی میں سر ہلاتا ہے۔
ہابیل کہتا ہے۔۔۔ ’’میرے دودھ کے رشتے دھند لا گئے ہیں ، پرانی زمین نے میرے لیے اپنی بانہیں سمیٹ لی ہیں ، اب نئی زمینوں کے ذائقے مجھے پکارتے ہیں۔‘‘
قابیل بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتا، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’تمہاری اپنی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور جب جڑیں کھوکھلی ہو جائیں تو زمین انہیں باہر اُگل دیتی ہے۔‘‘
ہابیل لمحہ بھر کے لیے خاموشی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو، لیکن دیوار میں دراڑ آ جائے تو پھر ٹوٹ جانا اس کا مقدر ہو جاتا ہے۔ بس میں اس لمحہ کو نہیں دیکھ سکتا، میں اس سے پہلے پہلے یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔۔۔ دور۔۔۔ بہت دور۔۔۔ جہاں میرا کوئی نام، کوئی چہرہ نہیں ہو گا۔‘‘
’’نام اور چہرہ تو دودھ کے رشتوں سے ہے اور جب تم یہ رشتے کاٹ رہے ہو تو تمہارا کوئی نام، کوئی چہرہ نہیں۔‘‘
پھر وہ غور سے ہابیل کے چہرے کی ایک ایک پور کو ٹٹولتا ہے، لیکن اس کے کاسے میں اجنبیت کے چند قطروں کے سوا اور کچھ نہیں گرتا۔
’’پھر بھی یوں چلے جانا تو کوئی تُک نہیں۔‘‘
’’تُک‘‘۔۔۔ ہابیل شانے اچکاتا ہے۔۔۔ ’’یہاں تو کسی چیز کی بھی کوئی تُک نہیں ، مثلاً ہم دونوں موجود ہیں ، کیوں۔ اس کی کوئی تُک نہیں۔ میں جا رہا ہوں اور تم مجھے چھوڑنے آئے ہو، اس کی بھی کوئی تُک نہیں۔۔۔ تُک، تُک، تُک۔۔۔ آؤ مل کر گائیں۔۔۔ تُک، تُک، تُک۔‘‘
’’یہ شخص کون ہے؟‘‘۔۔۔ قابیل اپنے آپ سے پوچھتا ہے، یقیناً یہ وہ شخص تو نہیں جسے وہ برسوں سے جانتا ہے اور جس نے کئی گرم دنوں اور ٹھٹھرتی راتوں میں اس کا ساتھ دیا ہے۔
’’تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ وہ چپکے سے اس کے بدن کو چھوتا ہے، لیکن ہابیل اپنا آپ چرا لیتا ہے، قابیل کو اس میں سے وہ مانوس مہک نہیں آتی۔
’’تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں ابھرتی روشنیوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، ان ویران، کھنڈراتی آنکھوں میں یہ روشنی کہاں سے آ گئی۔ وہ اس روشنی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جب روشنی اس کے ہاتھوں میں آ کر نکل نکل جاتی ہے، تو وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’تم نے یہ چمک کہاں سے لی؟‘‘
ہابیل ہنستا ہے، ہنستا ہی چلا جاتا ہے، پھر جب ہنسی کی گرد دھیرے دھیرے بیٹھنے لگتی ہے تو اس قوسِ قزح میں سے اداسی کا پہلا قطرہ گرتا ہے۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’ہوائیں اپنی پہچان کھو چکی ہیں ، اب بادلوں سے پانی کی بجائے بھوک برستی ہے اور شناسائی کے سارے پرانے رشتے ٹوٹ گئے ہیں۔ تم جانتے ہو،چراغ بجھنے سے پہلے پھڑپھڑا تا کیوں ہے؟‘‘
’’ہاں میں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جنہوں نے اپنی آوازیں بیچ ڈالی ہیں وہ بند کمروں میں چیختے ہیں۔‘‘
ہابیل چابک کھائے ہوئے گھوڑے کی طرح بدک کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔ ’’کچھ بھی ہو میں نے آواز کو ہمیشہ مقدس جانا ہے، تم جانتے ہو جب سب آوازوں کو نقرئی ڈبیوں میں بند کر رہے تھے، میں نے بجھے ہوئے الاؤ کو کریدا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ قابیل اعتراف کرتا ہے۔ ہابیل کی زندگی کے سارے سانس لیتے اوراق اس کی آنکھوں میں پھڑپھڑانے لگتے ہیں ، وہ کَن اَکھیوں سے ہابیل کے چہرے کو چاٹتا ہے، لیکن اسے شنائی کی مٹھاس نہیں ملتی۔
یہ سپاٹ چہرہ کس کا ہے؟
دونوں چپ ہو جاتے ہیں ، خوف کی ابابیلیں ان کے چاروں طرف منڈلاتی ہیں اور جدائی کے کنکر ایک ایک کر کے ان پر پھینکتی ہیں۔
ایک بات بار بار قابیل کے ہونٹوں تک آ کر بے شباہت ہوئی جاتی ہے، آخر وہ پوچھ ہی لیتا ہے۔۔۔ ’’مال کمانے جا رہے ہو؟‘‘
ہابیل چند لمحے کے لیے ساکت رہ جاتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’تم مجھے گدھ سمجھتے ہو جو پرانی لاش کو چھوڑ کر تازہ لاش کی تلاش میں جا رہا ہو۔‘‘
’’تو پھر کیوں جا رہے ہو؟‘‘
’’اب بادلوں سے ہریالی کی بجائے بنجر پن برستا ہے۔ میں اسے پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، میں اس سے دور بھاگتا رہا ہوں۔ اس کی چھاتیاں سوکھ رہی تھیں اور میں تتلیاں پکڑ رہا تھا، اس کی گود تو ہمیشہ میرے لیے کھلی رہی، میں ہی اس کے قریب نہیں گیا، مجھے جانے ہی نہیں دیا گیا۔ یقین جانو، میں اس کے قریب ہونا چاہتا تھا، لیکن میرے ارد گرد رنگین تتلیاں چھوڑ دی گئی تھیں۔ اور اب جب کہ اس کی چھاتیاں سوکھ گئی ہیں ، میں اپنا تڑخا ہوا چہرہ لے کر اس کے سامنے نہیں جا سکتا۔‘‘
قابیل اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔ ’’اور بھی تو ہیں۔‘‘
ہابیل فوراً ہاتھ چھڑا لیتا ہے۔۔۔ ’’لیکن میرا عذاب یہ ہے کہ میں جانتا ہوں۔‘‘
خاموشی قطرہ قطرہ ان پر گرتی ہے، پھر دھیرے دھیرے خاموشی کا گھونگھٹ ہٹا کر پلیٹ فارم کا شور گراں مارتا ہوا باہر آتا ہے اور ان کے گرد بھنگڑا ڈالنے لگتا ہے۔ ہے جمالو۔۔۔ ہے جمالو۔۔۔ ہے جمالو۔۔۔ ’’جمالو بھی بے وفا نکلی۔‘‘۔۔۔ قابیل کی آواز سوکھتی چلی جاتی ہے۔
’’ہم بھول گئے تھے کہ جمالو نے بھی انہی بے وفا ہواؤں کا دودھ پیا ہے، اصل میں ہم ہی اندھے ہیں۔‘‘
اندھا پن، تاریکی اور خاموشی انہیں اپنی گود میں سمیٹ لیتے ہیں۔
گارڈ پہلی وسل دیتا ہے۔
قابیل کو یاد آ جاتا ہے کہ ہابیل جا رہا ہے۔
’’تو تم سچ مچ جا رہے ہو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ‘‘ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔ ’’اور جانے سے پہلے میں اپنا نام اور چہرہ یہیں چھوڑے جا رہا ہوں۔‘‘
گارڈ وسل دیتا ہے۔
وہ دوڑ کر ڈبے میں چڑھ جاتا ہے۔
گاڑی سٹیشن کی گود سے پھسل کر اندھے فاصلوں کے پیٹ میں سرک رہی ہے۔
قابیل چیختا ہے۔۔۔ ’’لوٹ کر کب آؤ گے؟‘‘
لیکن فاصلے کا اندھا پن اس کی آواز اور ہلتے ہاتھ، دونوں کو نگل لیتا ہے۔
وہ آہستہ آہستہ جیسے کوئی خواب میں چل رہا ہو، گھر کی طرف چل پڑتا ہے۔ اداسی اور سنسناہٹ اس کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہی ہیں۔
وہ سوچتا ہے، اگر لوگ اسی رفتار سے جاتے رہے تو ایک دن وہ اس شہر میں اکیلا رہ جائے گا۔
بالکل اکیلا،
الف اکیلا،
اوپر خدا، نیچے زمین
اور درمیان میں وہ الف اکیلا۔۔۔
وہ آسمان کی طرف منہ کر کے چلّاتا ہے۔۔۔ ’’آ جاؤ یار۔۔۔ نیچے آ جاؤ، اکیلے اداس ہو رہے ہو، آ جاؤ مل کر رہیں۔‘‘
ایک تیز رفتار کار سائیں سائیں کرتی، ہوا کے دائرے کاٹتی، اس کے قریب سے گزر جاتی ہے۔
کار والا کھڑکی سے منہ نکال کر چیختا ہے۔۔۔ ’’اندھے۔‘‘
وہ فوراً اپنے آپ میں لوٹ آتا ہے،
اسے یاد آتا ہے۔۔۔ ہابیل جا چکا ہے۔
فاصلہ دونوں کے درمیان اپنی بانہیں پھیلا چکا ہے۔
وہ دوڑ کر واپس آتا ہے، پلیٹ فارم ویرانی اور اداسی کی گود میں سر رکھے سو رہا ہے۔ چمکتی لائنیں گاڑی کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر بہت دور چھوڑ آئی ہیں۔
وہ لائنوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے چیختا ہے۔۔۔ ’’ہابیل! مجھے قتل تو کرتے جاؤ، ہابیل! مجھے قتل تو کرتے جاؤ۔‘‘
لیکن اس کی صدا سنّاٹوں سے سر مار مار کر خالی جھولی لیے لوٹ آتی ہے۔
وہ قریب سے گزرتے ہوئے ایک شخص سے پوچھتا ہے۔۔۔ ’’تمہیں معلوم ہے، برسوں پہلے قابیل نے ہابیل کو کیوں قتل کیا تھا؟‘‘
وہ شخص اسے حیرت سے دیکھتا آگے بڑھ جاتا ہے۔
’’تمہیں معلوم نہیں۔‘‘ لفظ اس کے ہونٹوں کے پیالے سے قطرہ قطرہ ٹپکتے ہیں ، ’’لیکن میں جانتا ہوں ، شہر خالی ہو گیا تھا اور ان دونوں کے درمیان وہ آگیا تھا، جس کا کوئی نام نہیں۔ ایک دن موقع پا کر وہ ہابیل کے جسم میں گھس گیا اور قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا، لیکن اب وہ کہاں ہے؟‘‘
وہ اپنے آپ کو ٹٹولتا ہے۔
نہیں ، وہ میرے اندر نہیں اور وہ ہابیل کے اندر بھی نہیں تھا۔ تو پھر وہ کہا ں ہے؟
وہ چاروں طرف دیکھتا ہے، چھوتا ہے، چھکتا ہے، سنتا ہے، سونگھتا ہے۔ اب وہ کسی کے اندر نہیں گھستا، بلکہ باہر رہ کر چہروں پر جالے بُنتا اور ناموں کو دیمک بن کر چاٹتا ہے۔
ہابیل کے چہرے پر بھی اسی نے جالا بُن دیا تھا اور اب وہ میرے چہرے پر بھی جالا بُن رہا ہے تاکہ زمین میرے لیے بھی اپنے چشمے بند کر دے اور میں بھی چلا جاؤں۔ وہ ایک ایک کر کے سب کو بھگا دینا چاہتا ہے، تا کہ اکیلا رہ جائے اور ساری چیزیں اس کی جھولی میں سمٹ جائیں۔
’’لیکن میں باہر نہیں جاؤں گا۔‘‘ وہ دور گم ہوتی دھوئیں کی لکیر کی طرف منہ کر کے چیختا ہے۔۔۔ ’’ہابیل! میں تمہاری طرح نہیں بھاگوں گا۔ میں اسی تڑخے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کے پاس جاؤں گا اور اس کی سوکھی چھاتیوں سے لپٹ کر۔۔۔ اس سے کہوں گا کہ وہ اپنے بند چشمے کھول دے۔‘‘
لیکن یہ چہروں پر جالے بُننے والا ہے کون؟
اس کا نام کیا ہے؟
٭٭٭
پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ
اس نے اپنے چہرے کی خشک پتیوں میں سرسراتی ہوئی زردی کو آواز کے پیالے میں پھینٹتے ہوئے دوسرے کو دیکھا اور بولا۔۔۔ ’’وہ جگہ بڑی عجیب ہے، بارش کی کنیاں ایک ایک کر کے نیچے اترتی ہیں ، لیکن جب اوپر دیکھتے ہیں تو آسمان پر دور دور تک بادل نظر نہیں آتے۔ اسی لمحے اندھیرے کی بکل میں سے ایک عورت نکلتی ہے اور کہتی ہے۔۔۔ وے رانجھنا تو کہاں چلا گیا تھا اور۔۔۔ ‘‘
’’اور پھر۔۔۔ ‘‘
’’پھر یہ کہ اگلے ہی لمحے وہ عورت اپنی آواز کی طرح اندھیرے میں گھل جاتی ہے۔‘‘جملہ ختم کر کے اس نے اپنا سر اپنے اندر ڈال لیا اور چیخ کر پوچھا۔۔۔ ’’میں کون ہوں ؟‘‘
جواب ملا۔۔۔ ’’ایک خفیف ذرّہ‘‘
اس نے اپنی سوکھتی ٹہنیوں میں تازہ سبزہ دوڑتا محسوس کیا اور اپنا سر باہر نکال کر کہنے لگا۔۔۔ ’’جب وہ رانجھنا کہہ کر اندھیرے کے تہہ خانے میں اتر گئی تو میں اسے تلاش کرتا ہوا آگے بڑھا اور گھنے جنگلوں کا آنچل ہٹاتے ہوئے کھلے میدان میں نکل آیا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ اپنے جسم کی فصیل سے آدھا نیچے لٹک گیا اور بولا۔۔۔
’’لیکن۔۔۔ یہ میں ہے کیا۔۔۔ کیا میں ہوں ؟‘‘
درخت کی اس الگ تھلگ ٹہنی پر
جہاں پتیوں کی نحیف رگوں میں
موت زردی بن کر
سرسرا رہی ہے
جہاں اک اَن دیکھا سرد ہاتھ
جڑوں کو ریشوں سے جدا کر رہا ہے
جہاں زندگی کے نیون سائن کے سارے رنگ
جلنا بجھنا بھول کر
اک خاموش گھنیری چپ کی تسبیح پھیر رہے ہیں
وہاں۔۔۔ کیا میں ہوں
کیا میں ہوں
اس نے پھر کچھوے کی طرح اپنا سر اپنے اندر گھسیڑ لیا اور کچھ تلاش کرنے لگا۔ بہت دیر بعد جب اس نے سر باہر نکالا تو دوسرے نے پوچھا۔۔۔ ’’کچھ ملا؟‘‘ اس نے سر ہلایا اور بولا۔۔۔ ’’میرے دل کی جگہ ایک خلا ہے جس میں سے ہوا سرسراتی ہوئی گزرتی ہے۔ میں تو بس اس کی سن سناتی ہوئی سیٹیاں ہی سنتا ہوں۔‘‘
دوسرے نے اپنی آنکھوں کی کھڈی پر فکر کی موٹی چادر بُنی اور پھر اسے ادھیڑتے ہوئے کہنے لگا، ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارا دل پنجرے کی طرح ہے، جس میں ایک ننھا سا پرندہ بند ہے۔‘‘
اس نے سر ہلا کر اقرار کیا اور آنسوؤں سے اپنا منہ دھوتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا،
اے شہر کی ٹھنڈی ہواؤ
گھنے سیاہ بادلوں سے کہو کہ اپنے حاملہ پیٹ کھولیں
اور پانیوں کے تازہ بچے
ہماری کھلی گودوں میں ڈالیں
ہم جو بھیگنے کی دعائیں لے کر مسلسل چل رہے ہیں
ہمارے پاؤں کے تلوؤں میں
اک ایسی پھسلن چھپی بیٹھی ہے جو ہمیں
رکنے نہیں دیتی
اے بے مروّت بارشو
ہم پر برسو۔۔۔ خوب برسو
کہ ہمارے جسموں کی مٹی گھرنے لگے
اور ہمارے اندر چھپا ہوا
سنسان، تنہا کھنڈر باہر نکل آئے
اور اس میں چھپا
وہ ننھا سا خوب صورت پرندہ
پھڑپھڑا کر اُڑ جائے
آسمان کی نیلی وسعتوں کی سمت
اپنے گھر کی طرف۔۔۔ !
دوسرے نے اپنے ہاتھ نیچے گرا لیے اور بولا۔۔۔ ’’اسے رہائی مبارک ہو۔‘‘ اس نے اَن سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی، ’’میدان کے بیچوں بیچ ایک ٹیلے پر وہ مقبرہ تھا، میں آہستہ آہستہ اس کے قریب چلا گیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر جانے سے پہلے مجھے لگا میں کسی کھنڈر کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے افسوس سے دونوں ہاتھ ملے اور کہنے لگا۔۔۔ ’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایک کھنڈر ہوں جس پر گوشت کی تہہ چڑھا دی گئی ہے۔۔۔ میں اپنے اندر سے کھوکھلا ہوں۔‘‘
اس نے پھر اپنا سر اپنے اندر ڈالا اور چیخ کر بولا۔۔۔ ’’اگر میں کچھ نہیں تو پھر وہ کیا ہے؟‘‘
’’وہ‘‘۔۔۔ دوسرے نے لفظوں کو اپنی بھو کی زبان سے چاٹا۔۔۔ ’’وہ۔۔۔ وقت ہے۔‘‘
جو موسموں کے تند کلہاڑوں سے ہمارے جسموں کو گودتا ہے کہ ہم اس کی تعریف میں گیت گائیں
اور پھر سیکنڈوں ، منٹوں اور گھنٹوں کی تیز چکّی میں پس کر
ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
’’تو وہ بھی میری طرح شک کی مٹھیوں میں ہے۔‘‘ اس نے اپنا سر باہر نکالا اور بولا، ’’تو میں مقبرے کے اندر چلا گیا۔ ایک ویران سی قبر کے سرہانے وہی عورت بال کھولے کھڑی تھی۔ میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں اوپر دیکھا۔ مقبرے کا اوپر والا حصہ کھلا ہوا تھا۔ عورت مجھے دیکھ کر ہنسی اور قبر کی چادر ہٹا کر اندر چلی گئی۔‘‘
دوسرے نے اس کے خاموش ہوتے ہی سوال اس کے آگے پھینک دیا۔۔۔ ’’رشتوں اور چہروں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟‘‘
رشتے اور چہرے
سبز مخملی کپڑوں میں لپٹی اس زمین پر
جڑواں بھائی ہیں
اور جدائی
سفر کی صورت
ایک پھسلتی ہوئی ڈھلوان ہے
’’جب وہ عورت قبر کی چادر ہٹا کر اندر چلی گئی‘‘ اس نے ٹوٹے ہوئے قصے کے تار جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’تو میں آگے بڑھا۔ تازہ آسمان گنبد کے کھلے منہ میں سے جھانک رہا تھا۔ میں نے خود سے کہا۔۔۔ بھلا یہ گنبد کھلا کیوں ہے؟‘‘
عورت نے قبر کی چادر ہٹا کر منہ باہر نکالا اور بولی۔۔۔ ’’چھتیں ڈائنوں کی طرح ہیں جو آزادیوں کے نوزائیدہ بچوں کو کھا جاتی ہیں۔‘‘
’’کیا وہ خوب صورت تھی؟‘‘دوسرے نے پوچھا
’’ہاں ! حسن اس کے چہرے پر منجمد ہو گیا تھا۔‘‘
’’کیا وہ بھی حسن ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔۔۔ ’’اور کیا حسن بھی عمر کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور کیا وہ بھی فنا کی پھسلتی ڈھلوان پر ہے؟‘‘ اس نے افسوس سے دونوں ہاتھ ملے۔۔۔
جواں دہکتے چہرے لمحہ بھر کے لیے
ہمارے سامنے آتے ہیں ،
اور پھر بوڑھی زرد تھکاوٹ انہیں ہم سے
چھین کر لے جاتی ہے
اور پھر عمر کی بھٹی میں پگھلا کر
جب انہیں دوبارہ ہمارے سامنے لاتی ہے
تو وہ بنجر گوشت کا بانجھ لوتھڑا
ہوتے ہیں
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حسن بھی نہیں ، وہ عمر بھی نہیں ، کہ عمر تو خود وقت کے ہاتھوں میں ایک پھسلتی ہوئی رسی ہے، تو پھر وہ کیا ہے؟‘‘
دوسرے نے شانے ہلائے اور بولا۔۔۔
شاید وہ خود زندگی کی آنکھ سے گرا
ہوا آنسو ہے
جو وقت کے موٹے کرتے میں جذب ہو گیا ہے
اور اب
ہماری سانسوں کی پتوار سے چپکا
ہم سے اپنے نام کی گواہی لے رہا ہے
اور ہمارے لفظوں میں
اپنے نام کے حرف ڈھونڈ رہا ہے
’’پھر یہ ہوا کہ میں قبر کے قریب چلا گیا۔‘‘
’’پھر‘‘۔۔۔ دوسرے نے تجسّس سے پوچھا۔
’’پھر میں نے قبر کی چادر ہٹا کر اندر جھانکا، اندر اندھیرا تھا۔ میں قبر کے اندر اتر گیا، سیڑھیاں تاریکی کے پیٹ میں نیچے تک گئی ہوئی تھیں ، میں ایک ایک کر کے نیچے اترتا رہا۔ پھر تاریکی نے اپنے بازو کھولے۔ درمیان میں ایک چبوترا تھا جس پر۔۔۔ !‘‘
وہ چپ ہو گیا۔
’’جس پر۔۔۔ ؟‘‘ دوسرے نے جلدی سے پوچھا۔
’’کوئی بھی نہیں تھا‘‘ لفظ اس کی زبان پر اٹک گئے۔۔۔ ’’قبر خالی تھی۔‘‘
’’کوئی بھی نہیں تھا؟‘‘ دوسرے نے بیتابی سے پوچھا۔۔۔ ’’پھر۔۔۔ ‘‘
’’میں نہیں جانتا، میں کچھ بھی نہیں جانتا۔‘‘
وہ چیخنے لگا۔۔۔ ’’وہ کیا ہے اور کہاں ہے، میں کون ہوں اور کیا ہوں ؟‘‘
دونوں زور زور سے چیخنے لگے۔ پھر دونوں چپ ہو گئے۔
بہت دیر بعد دونوں نے سر اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک دوسرے کے قریب گئے۔ پھر انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے سر بدلے، اپنی آنکھیں بدلیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔
وہ بولا۔۔۔
وقت کے ہونٹوں کی ٹہنیوں پر ہمارے نام
کی کونپلیں پھوٹتی ہی نہیں
اس کی ونجلی کی لَے میں ہمارے جسموں کا شہد
گھلتا ہی نہیں
ہمارے لیے زندگی اب کورے کاغذ کی طرح ہے
کہ ہم جس بوڑھے شہر میں رہ رہے ہیں
اس کی ہوا بھی حاملہ ہو چکی ہے
اور اب
ہمارے سروں پر چیختے چنگھاڑتے
منڈلاتے ہوئے
آنے والے بچے کی اذیت کا دکھ سہہ رہی ہے
اور کہہ رہی ہے
ہم سب بانجھ چالاک لفظوں کی مملکت میں
اک بے چہرہ عصر کی بے صدا آوازیں ہیں
اور کچھ بھی نہیں
صدا اور زمانہ دونوں جڑواں بھائی تھے
لیکن اب دونوں کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے
زمانہ اب میلے کاغذوں پر لکھا ہوا اِک بے معنی گیت ہے
جس کے ترنم کی سب طنابیں ٹوٹ چکی ہیں
اور آواز۔۔۔ آواز تو اب
مشینوں کے چلنے، بند ہونے کا ایک طے شدہ عمل ہے
جس میں زاویوں کے بدلنے، رنگوں کے پھیلنے
اور راتوں کے طشت پر ناچتے چاند کی کوئی کہانی نہیں ہے
اب سیاہ رات ایک بانجھ عورت کی طرح
روشنی کو حسد کی سلائیوں سے چھیدتی ہے
اور ہم
ہم جو یہ سب دیکھتے ہیں
شہادت کی انگلی سے ہونٹوں کے کھلے دروازوں پر چپ کی مہر لگا کر آنے والے لفظوں کی بصارت چھینتے ہیں۔
کہ ہونٹوں کی چلمنوں کے پیچھے چھپے ہوئے سارے لفظ
اب فاحشہ عورتیں ہیں
وہ چپ ہوا تو دوسرا بہت دیر تک سوچتا رہا، پھر بولا۔۔۔ ’’افسوس! میں نے تمہیں رہائی کی جو مبارک دی تھی وہ ضائع ہوئی کہ ہم تو ابھی تک اسی طرح قید ہیں۔‘‘
’’ہاں ‘‘۔۔۔ اس نے سر ہلایا۔۔۔ ’’ہم لفظوں کی اس مملکت میں ’’ہے‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں اور لفظ۔۔۔ لفظ تو اب فاحشہ عورتیں ہیں۔‘‘
اور وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر بلک بلک کر رونے لگے۔
٭٭٭
لا =؟
اس نے اپنے آپ کو سزا دی ہے،
کہ زہر کا پیالہ پی لے، یا جلا وطن ہو جائے، لیکن بزدلی بچپن ہی سے اس کے دل کے آنگن میں گداں مارتی چلی آئی ہے اور موت نے کئی بار اس کے گھر پر شب خون مارا ہے، اس لیے اس نے جلا وطن ہونے کو ترجیح دی ہے، لیکن جانے سے پہلے وہ رشتوں کی ان تمام ڈوریوں کو کاٹ پھینکنا چاہتا ہے، جن سے اس کی زندگی کی کشتی کا مستول بندھا ہوا ہے۔
وہ کئی سالوں سے سیدھی زندگی گزار رہا تھا کہ ایک دن ایک چیل اڑتی ہوئی آئی اور اس کے کندھے پر بیٹھ گئی۔ اس نے چیل کو اڑانے کی بہت کوشش کی، لیکن چکر کاٹ کر وہیں آ بیٹھی اور اپنی چونچ سے اس کے جسم پر بے اطمینانی کے بچے اگانے لگی۔ اس دن وہ ڈر سے باہر نہیں نکلا کہ لوگوں کی آنکھوں کی تسبیح میں پروئے ہوئے سوالوں کے جواب کہاں سے لائے؟ لیکن جب رات نے دیواروں پر دستک دے کر اندھیرے کے مشکیزے کا منہ کھولا تو اس نے چیل کو اڑانے کی ایک کوشش اور کی، لیکن چیل سیاہی کی چسکی لے کر وہیں آ بیٹھی، اس رات بے خوابی اس کے بستر پر ناچتی رہی۔ صبح جب روشنی نے رات کے ٹھٹھرتے بدن پر کرنوں کی چادر ڈالی تو اس نے دیکھا کہ چیل ساری رات اس کے جسم پر ناچتی کھودتی رہی تھی اور اب آلنا بنا کر اس کے دل پر بیٹھ گئی تھی۔
اس کی چونچ اس کے ہونٹوں پر
اس کے کان، اس کے کانوں میں
اس کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں
اور اس کا جسم اس کے جسم میں رَچ بس گیا تھا
وہ بوکھلا کر باہر بھاگا
لوگوں کے جسموں میں دھوئیں کے تنور لگے ہوئے تھے اور ان کے مساموں سے بدبو دار شے رِس رہی تھی۔
اس نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ اس کے نتھنوں نے ایک نئے احساس کو سونگھا۔ اس نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو ٹھونگا مارا۔ اس شخص نے مڑ کر دیکھا اور ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا،
اب تم ہی بتاؤ، میں کیا کروں ؟
اذیتیں میرے راستوں کے سبھی موڑوں پر چھپی ہوئی ہیں
گھات لگائی بیٹھی ہیں
اور میں قطرہ قطرہ مر رہا ہوں
میں اس شہر میں ، جہاں ہر شخص اپنی خوشبو چھوڑ چکا ہے
اپنے خوشبو دار جسم کے ساتھ کیسے رہوں ؟
کل وہ مجھے ملا تھا
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’کیسے ہو؟‘‘
کہنے لگا، ’’چیل اڑ گئی ہے۔ وہ مجھے چھوڑ گئی ہے۔‘‘
خوف اور اذیت کے جہاز ساری رات اور سارا دن اس کی پلکوں کے رَن وے سے اپنے پہئے چھواتے رہتے ہیں اور اَن دیکھا دکھ کاک پٹ سے اچھل کر باہر نکلتا ہے۔ اس کے شور کی باڑیں پھلانگ کر اس کے وجود کے گلی کوچوں میں دوڑتا رہتا ہے۔
یہ جانے کتنی ویں رات ہے کہ اس کا جسم اسے بستر کی گور میں یوں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گیا ہے۔ ان ساری گزرتی ہوئی راتوں میں وہ اسی طرح خوف اور اذیت کے میدان میں فٹ بال کی طرح ایک ٹھوکر سے دوسری ٹھوکر پر ناچتا رہا ہے۔ ہر رات سونے سے پہلے وہ یہ عہد کر کے سوتا ہے، آج رات وہ اپنے جسم کو باہر نہیں جانے دے گا۔ لیکن آدھی رات کو باہر سے آواز آتی ہے اور اس کا جسم اسے چپکے سے ایک طرف کر کے باہر نکل جاتا ہے۔
اس نے مجھے بتایا ہے کہ آدھی رات کو وہی چیل اسے آواز دیتی ہے،
’’تو پھر اب تم نے کیا سوچا ہے؟ کیا اب بھی بیعت نہیں کرو گے؟‘‘
اس کے ہونٹوں میں پھیکی مسکراہٹ کا نغمہ پھوٹا اور وہ مری ہوئی آواز میں بولا۔۔۔ ’’میری آنکھوں میں ابھی دوسرے نہیں آئے۔‘‘
’’آواز گونجتی ہے تو زندگی جاگ اٹھتی ہے۔‘‘۔۔۔ یہ بات اس نے کئی دن پہلے مجھ سے کہی تھی۔
میں نے پوچھا تھا۔۔۔ ’’آجکل کہاں رہتے ہو، نظر نہیں آتے؟‘‘
وہ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔۔۔ ’’پتہ نہیں۔‘‘
پھیلے ہوئے بے سمت فاصلوں کے
اندھے پیٹ میں
وہ رفتار کی ٹھہری ہوئی سوئی میں پرویا
ہر روز اپنی چونچ سے اپنی قبر کھودتا ہے
اور اپنے پروں سے مٹی اڑاتا ہے
وہ مٹی
جو اس کے بدن سے لمحہ بہ لمحہ جھڑ رہی ہے
ہر نئی صبح کا سورج
زیرو کے بلب کی طرح، بے بسی سے
اس کے جسم کی گھنی تاریک راہداریوں میں
منٹوں ، سیکنڈوں اور گھنٹوں کی خیرات بانٹتا ہے
اسے ایک اور دن زندہ رکھنے کے لیے
سانسوں کا انجکشن لگاتا ہے
’’کسی سے خوف زدہ ہو؟‘‘
’’ہاں ‘‘
’’کس سے؟‘‘
’’میں نہیں جانتا، میں صرف اس کے قدموں کی چاپ سنتا ہوں۔‘‘
آواز۔۔۔ آواز۔۔۔ آواز
ہونہہ
اب تو آوازیں ردّی کاغذوں کی طرح بے اثر ہو چکی ہیں اور گندی ٹوکریوں میں دم توڑ رہی ہیں
زبانوں پر زہر کے سر کنڈے اُگ آئے ہیں
ہونٹوں کی بیلوں پر منافقت کی پیلی پتیاں کھِل اٹھی ہیں
مکانوں میں تو اب صرف سائے سر سرا رہے ہیں
اور بدنوں کی چار دیواریوں میں شک کے حمل ٹھہر چکے ہیں
’’تو اب تم شاعری کرنے لگے ہو؟‘‘
’’شاعری۔۔۔ یہ شاعری ہے، مجھے تو نہیں معلوم۔‘‘
’’آج کل کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
اس نے کندھے جھٹکے۔۔۔ ’’پتہ نہیں ‘‘
خوف اور اذیت کا یہ کھیل اب دن کی روشنی میں اپنی پہچان کرانے لگا ہے۔ اس کا جسم اب دن کو بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ وہ جب بھی اسے پکڑنا چاہتا ہے تو جسم ہاتھ پکڑ کر اسے پرے کر دیتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’مجھے زندہ رہنا ہے اور زندہ رہنے کے لیے مجھے وہی کچھ کرنا پڑے گا جو دوسرے کرتے ہیں۔ ورنہ تم ہی کوئی راستہ بتاؤ۔‘‘
اس کے پاس کوئی جواب نہیں
کوئی راستہ نہیں
کہنے لگا۔۔۔ ’’اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہر سانس کے ساتھ ہوا کی بجائے اذیت میرے اندر جاتی ہے۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’تو بیعت کر لو۔‘‘
اس نے انکار میں سر ہلایا۔۔۔ ’’ابھی میں نے دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنا اور دوسروں کے کانوں سے سننا نہیں سیکھا۔‘‘
سر کنڈوں میں بیٹھی ہوا
سیٹیاں بجا بجا کر پوچھتی ہے،
تم کون ہو۔۔۔ تم کون ہو؟
آؤ میرے ہاتھ پر بیعت کر و
چلو میرے ساتھ چلو
آؤ میں تمہیں منافقت کے دودھ میں
گندھی ہوئی روٹی کھلاؤں
اس گندے جوہڑ کا پانی پلاؤں
جہاں لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلنے والے مگرمچھ رہتے ہیں
’’اب تم ہی بتاؤ، میں کہاں تک خود کو بچائے رکھوں۔‘‘
اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے شانے پکڑ لیے اور بولا۔۔۔ ’’جب میں پیدا ہوا تھا تو میرے باپ نے میرے کان میں اذان دی تھی۔‘‘
پھر اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔ ’’تمہارے باپ نے بھی تمہارے کان میں اذان دی تھی؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’مجھے تو یاد نہیں۔ اگر دی بھی تھی تو میں اسے بھول گیا ہوں۔‘‘
اس نے سر ہلایا۔۔۔ ’’لیکن میرے کانوں میں تو وہ آواز اب بھی گونجتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ میں ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔‘‘
’’شاید یہ ٹھیک ہے، اسی لیے تمہیں آس پاس کی ہر شے اجنبی لگتی ہے یا پھر یوں ہے کہ تم پیدا ہوتے ہی مر گئے تھے اور اب پھر پیدا ہوئے ہو۔‘‘ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا۔۔۔ ’’کیا کوئی شخص ایک ہی زندگی میں دوسری بار پیدا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’ہم ہر روز پیدا ہوتے ہیں اور ہر روز مرتے ہیں۔ میری دادی کہا کرتی تھیں ، آدمی جس روز پیدا ہوتا ہے، اسی روز اس کی قبر بھی کھد جاتی ہے اور ہر رات کو قبریں اپنے اپنے آدمی کو پکارتی ہیں اور کہتی ہیں ،
اے میرے محبوب
دیکھ میں تیرے فراق میں پہاڑ ایسی کالی راتیں
کسی بے کلی سے کاٹ رہی ہوں
آ میرے سینے سے لگ جا
’’آ۔۔۔ آ۔۔۔ آ۔۔۔ ‘‘
’’یار تمہاری دادی بڑی عقلمند عورت ہے۔ اب وہ کہاں ہے، میں اس سے اپنے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس نے اپنی قبر کی آواز سن لی تھی۔‘‘
’’لیکن اب قبروں کی آوازیں کون سنے گا؟ اب تو سب نے اپنے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال لیا ہے۔‘‘
’’ہاں اب تو ہم دوسروں کے کانوں سے سنتے ہیں۔‘‘
’’اچھا ایک بات بتاؤ؟‘‘
’’پوچھو‘‘
’’کیا اس شہر کے سارے لوگ میلے پر آئے ہوئے ہیں ؟‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’کسی کو کسی چیز کی فکر ہی نہیں۔ دیکھو نا، رات سورج کا کلیجہ چبا کر اب اس کی ہڈیوں میں سرسرا رہی ہے، لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں۔‘‘
’’ہم سب دوسروں کے BAT MAN(تابع مہمل ) ہیں۔‘‘
’’اور دوسرے‘‘
’’وہ پہلوں کے‘‘
’’اور پہلے‘‘
’’پہلے ان سے بھی پہلوں کے‘‘
’’گویا ہم سب دوسروں کے BAT MAN(تابع مہمل ) ہیں ‘‘
’’آؤ مل کر ہنسیں۔۔۔ ہاہاہا‘‘
’’ہاہاہا‘‘
’’رات، سورج کا کلیجہ چبا کر اب‘‘
’’اب اپنے پنجوں سے ہمارا گوشت نوچ رہی ہے‘‘
وقت کی تسبیح سے ہمارے ناموں کے دانے
ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گر رہے ہیں
ایک دو۔۔۔ تین چار
ایک دو۔۔۔ تین چار
ایک دو۔۔۔ تین چار، کئی طویل ٹھٹھرتی ہوئی راتوں کو آنکھوں کی گودیوں میں اتار اتار کر اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ زہر کا پیالہ پی لے یا پھر جلا وطن ہو جائے۔
تو کیا وہ سچ مچ جلا وطن ہو جائے
اسے اس شہر سے بڑی محبت ہے، وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، کسی حالت میں بھی
تو پھر زہر کا پیالہ پی لے، لیکن بزدلی تو بچپن ہی سے۔۔۔ !
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اجازت دی اور سید زبیر جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید