فہرست مضامین
پاکستانی ادب کے معمار
صہبا اختر: شخصیت اور فن
ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
پیش نامہ
پاکستان اکادمی ادبیات، ترویج ِ ادب کے سلسلے میں جن منصوبوں پر کام کر رہی ہے، ان میں ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے جاری اشاعتی منصوبے کو ملک بھر میں بے حد پذیرائی ملی۔ معماران ِادب کے سلسلے میں پاکستان کی تمام زبانوں کے تخلیق کاروں کے احوال و آثار کے بارے میں جو کتب شائع کی جا رہی ہیں وہ ان شخصیات اور ان کے فن کے بارے میں بنیادی نوعیت کی معلومات ہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ ایک تجزیاتی و تحقیقی زاویۂ نگاہ بھی سامنے لاتی ہیں۔
شاعر ِ پاکستان صہبا اختر، ’’پاکستانی ادب کے معماران‘‘ میں یقیناًاولین صف میں موجود ہیں۔ وہ ان تاریخ ساز شاعروں میں سے ہیں جو ادب میں ہی نہیں عوام کے دلوں میں بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انھوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ ان کی وطن سے محبت گروہ بندی اور تعصبات سے پاک تھی۔ صہبا اختر نے پاکستانیت کی جنگ میں ہمیشہ کامیابی حاصل کی۔ وہ آزادی کے سب سے بڑے داعی ہیں ، کیونکہ وہ جانتے ہیں صبح ِ آزادی سے پہلے سو برس کی رات تھی۔
صہبا نے حمد، نعت، غزل، نظم، قطعات و رباعیات سبھی اصناف ِسخن کو برتا اور ان کی ہرکاوش ان کے تخلیقی وجدان کی گواہی پیش کرتی ہے۔ وہ شاعر ہی نہیں انسان بھی بہت اچھے تھے۔ اپنی خداداد ذہانت، طبیعت کی روانی، جوش و جذبہ، قادر الکلامی اور سب سے بڑھ کر جذبۂ حب الوطنی کے سبب انھوں نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔
اس اشاعتی منصوبے کی پیش ِنظر کتاب’’ صہبا اختر :شخصیت اور فن‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان کی درخواست پر معروف محقق اور نقادڈاکٹرقرۃ العین طاہرہ صاحبہ نے تحریر کی ہے۔ اس کتاب سے اہل ادب اور عام قاری صہبا اخترکی شخصیت اورفن سے بہتر طور پر آگاہ ہو سکیں گے۔
یہ کتاب صہبا اختر کے بارے میں ایک اہم دستاویز کی حیثیت کی حامل ہے۔ امید ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے ’’پاکستانی ادب کے معمار ‘‘سلسلے کی اس کتاب کو ملک اوربیرون ملک پسند کیا جائے گا۔
فخر زمان
پیش لفظ
۹۴۔ ۱۹۹۳ء کا ذکر ہے میں جامعہ پنجاب سے ڈاکٹریٹ کے لیے جناب حفیظ ہوشیار پوری کی شخصیت اور فن پر کام کر رہی تھی۔ صہبا اختر، حفیظ کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ، حفیظ کی شاگردی کا برملا اعتراف انھوں نے بارہا کیا ’’صہبا کو صہبا بنانے میں حفیظ کا بڑا ہاتھ ہے‘‘ میں نے جناب صہبا کو حفیظ کے بارے میں ایک سوالنامہ ارسال کیا۔ سوالنامے کا جواب دینے کے بجائے انھوں نے ایک نہایت مربوط و مفصل مضمون، حفیظ سے اپنے تعلق کے حوالے سے رقم کیا اور اسے خود پہنچانے میرے گھر تشریف لائے۔ یہ ان کی عظمت کی دلیل تھی۔ اس مضمون کے آخری پیرا گراف میں وہ لکھتے ہیں۔
’’کیا یہ سچ نہیں ہے کہ نامعلوم عہد کی تاریخ ہزاروں من مٹی کے نیچے مدفون ہو کر بھی، اک دن زندہ ہو جاتی ہے۔ آج قرۃ العین طاہرہ، ادب کی ایک طالبہ، حفیظ ہوشیار پوری کی دریافت اور تلاش میں مصروف ہے اور کل اردو ادب کی ساری دُنیا، حفیظ، حفیظ پکارے گی۔
مبارک ہیں وہ قلم، جو اپنے عہد کے عہد آفریں لوگوں کو اپنے محسنوں کی طرح یاد رکھتے ہیں اور انھیں زندہ رکھنے کا مبارک فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ‘‘
میں نے یہ پیراگراف پڑھا اور سوچا کہ میں اپنے عہد کی اس عہد آفریں شخصیت پر بھی لکھوں گی۔ میری خواہش تھی کہ حفیظ پر کام مکمل کرنے کے بعد صہبا اختر کی قومی و ادبی خدمات پر کام کروں گی، لیکن یہ علم نہ تھا کہ میں یہ قرض اس وقت اُتار پاؤں گی کہ جب وہ ہم میں موجود نہ ہوں گے۔
اکادمی ادبیات نے جب کسی تخلیق کار کی شخصیت و فن پر لکھنے کی دعوت دی تو مجھے محسوس ہوا کہ قرض چکانے کا وقت آ گیا ہے۔ صہبا اختر نے حمد، نعت، نظم، طویل نظم اور منظوم ڈرامے لکھے لیکن ایک مسلمان محبِ وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے انھوں نے ملکی واقعات، حادثات و سانحات پر جو نظمیں کہیں وہ ان کا تعارف بن گئیں۔ وطن سے محبت کی آئینہ داریہ نظمیں ، عصر موجود میں بڑھتی ہوئی ہوس پرستی، لالچ، بغض و نفرت، علاقائی، لسانی، گروہی و مذہبی تعصبات و منافرت کے خلاف اعلان بغاوت ہیں۔ تحریکِ پاکستان، قیام پاکستان اور اس کے بعد آج تک تاریخ کا تسلسل صہبا کی نظموں میں موجود ہے۔ نتیجتاً وہ لوگ جن کے لیے حبِ وطن کا جذبہ ثانوی درجہ رکھتا ہے، صہبا کی شاعری کو وقتی وہنگامی کہہ کر نظرانداز کرتے رہے۔ ان کی یہ روش بھی صہبا کو اپنے مقصد سے ہٹا نہ سکی۔ وہ تخلیقِ شعر میں داد یا تنقیص سے بے نیاز مصروفِ عمل رہے اور پھر وہی جو صہبا کو مشاعرے کا شاعر اور ان کی شاعری کو ہنگامی کہہ کر اہم نہ جانتے تھے، وہ بھی پاکستان کے لیے صہبا کی مسلسل محبت دیکھ کر ان کے اشعار کی صداقت پر ایمان لاتے ہوئے انھیں ’’شاعرِ پاکستان‘‘کے خطاب کا حقدار قرار دینے پر مجبور ہوئے۔
صہبا نے اپنی شاعری کا آغاز صنفِ غزل سے کیا۔ نغمگی، غنایَت، اثر انگیزی اور سحرکاری ان کی غزل کا حصہ ہے کہ وہ عصر موجود میں ہونے والے تجربات مشاہدات کے لیے جدیدیت کی راہ اپنانے کے بجائے روایت کو ہمراہ لے کر چلتے ہیں اور روایت نام ہے مزاج کی شائستگی، تہذیبی رکھ رکھاؤ، نفاست ولطافت اور الفاظ کے صحیح و خوب صورت انتخاب کا۔ صہبا کی غزل اسی روایت کا تسلسل ہے۔ طویل نظمیں صہبا کی قادرالکلامی اور زورِ بیان کا بین ثبوت ہیں۔ محبت و حسن شناسی ان نظموں کا اساسی وصف ہے۔ جسے حضور ﷺکی محبت حاصل ہو جائے۔ اس کا نصیب، دنیا کی سب سے بڑی نعمت دل مطمئن ہوتا ہے اور صہبا اس نعمتِ عظیم کے لیے ہمیشہ ہدیۂ تشکر بجا لاتے رہے۔ ان کی نعت میں عشقِ رسول کا جذبہ پوری صداقت اور والہانہ انداز میں جلوہ گر ہوا ہے۔
حفیظ پر کام کرتے ہوئے مجھے بہت سے اصحاب علم و دانش سے ملنے، انھیں فون کرنے یا خط و کتابت کا اتفاق ہوا۔ کچھ کا روّیہ بے مہری کا تھا، لیکن اکثر حضرات نے میرے کام کی نوعیت اور حفیظ کی شخصیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میری بھرپور مدد کی۔ خیال تھا کہ صہبا پر کام کرتے ہوئے بھی اہلِ قلم میری درخواست پر توجہ دیں گے لیکن مجھے افسوس ہے کہ بیشتر نے اسے اہمیت نہ دی۔ صہبا کے دوستوں جناب محسن بھوپالی اور جناب ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی ممنون ہوں جنھوں نے صہبا سے حقِ محبت ادا کیا۔ جناب صہبا کے فرزند جناب اعظم اختر، جناب عظیم اختر، دختر محترمہ ثمینہ اختر اور اہلیہ سعیدہ اختر کے مثالی تعاون کے لیے میں ان کی شکرگزار ہوں۔
دانش، سرمد اور فارد کے حصے کا بہت سا وقت اِس کی نذر ہوا، اس کا مجھے بہت احساس ہے۔ شاہد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں کہ ان کی مدد کے بغیر اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا میرے لیے ممکن نہ تھا۔
ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
توقیت، صہبا اختر
اصل نام اختر علی رحمت
قلّمی نام صہبا اختر
والد منشی رحمت علی (آپ ڈراما نویس، شاعر، اسٹیج کی دنیا کے نام ہدایت کار اور فن کار تھے)
والدہ حسن آراء بیگم۔ LSMFڈاکٹر
پیدائش ۳۰ستمبر۱۹۳۰میٹرک سرٹیفکیٹ کے مطابق جموں کشمیر (کشمیری نہیں ہیں ، نسلاً پنجابی)
تعلیم اسلامیہ ہائی سکول:( تیسری جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک) علی گڑھ یونیورسٹی:
ایف ایس سی فائنل کے طالبِ علم تھے کہ پاکستان بن گیاکراچی آکر اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا لیکن مالی حالات کے پیش نظر تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔
پہلی نظم: سکول کی طالبِ علمی کے زمانے میں لکھی، عنوان تھا ’’صبح‘‘
ملازمت برما آئل کمپنی لاکھڑا، سندھ
انکم ٹیکس بحیثیت کلرک
ڈی جی ایس ڈی بحیثیت کلرک
محکمہ خوراک فوڈانسپکٹر سے راشنگ کنٹرولر
ازدواجی زندگی شادی اگست ۱۹۵۳ء بیگم سعیدہ اختر
اولاد تین بیٹیاں :ڈاکٹر شہلا، ڈاکٹر ثمینہ، روبینہ بینکر
تین بیٹے: انجینئر عظیم اختر، انجینئر اعظم اختر، ڈاکٹر ندیم اختر
صحافت روزنامہ حریت۔ روزنامہ مشرق
ریڈیو طویل غنائیے، غزلیں ، گیت، حمد اور نعتیں بہ حیثیت سٹاف آرٹسٹ پڑھیں ، قومی و ملی و جنگی نغمے نشر ہوئے۔ ٹی وی ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ۱۹۷۱ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔
فلمی گیت نگاری سمندر، لاڈلا، جیمزبانڈ زیرو زیرو سیون، جھک گیاآسمان، پھر صبح ہو گی، وغیرہ فلموں کے لیے گیت لکھے۔
تصانیف ۱۹۷۷ء سرکشیدہ آدم جی ایوارڈ یافتہ
۱۹۸۱ء اقراء نعتوں کا مجموعہ
۱۹۸۴ء سمندر طویل نظمیں
۱۹۹۵ء مشعل قومی نظمیں
۱۹۹۸ء خزینہ غزلیں
اعزازات
۱۹۷۴ء ستارۂ ادب۔ جشنِ کورنگی، کراچی
۱۹۹۵ء شاعرِ پاکستان۔ پیٹریاٹ پاکستانیز دبئی
۱۹۹۶ء صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات)
انتقال ۱۹ فروری۱۹۹۶ء (۲۹رمضان)
٭٭٭
سوانح
خاندانی پس منظر
وہ اپنے والدین کا لاڈلا بیٹا تھا۔ کچھ کر لینے کی دھن اور کچھ پا لینے کی لگن اپنے آپ کو منوانے کی جستجو، بغیر کسی بڑے نام اور سہارے کے، صرف اپنی ذات، اپنی جدوجہد اور اپنی محنت کا ثمر دیکھنے کی آرزو لیے وہ والدین کی اس دُنیا سے نکل آیا جو عزت، نیک نامی اور شرافت سے پُر تھی۔ ایک ایسی دُنیا جہاں علم کی قدر تھی لیکن فن سے تعلق صرف اتنا تھا کہ فنکار کا فن دیکھ کر تعریف تو کر دی جاتی تھی لیکن یہ تصور بھی محال تھا کہ اس خاندان کا کوئی فرد فنکار ہو۔ اسٹیج کی دُنیا بڑی چکچوندھ کر دینے والی تھی، لیکن اس کے ماں باپ کے نزدیک یہ دُنیا، ان کی دُنیا سے یکسر مختلف تھی۔ ہر ایک نے نوجوان کو سمجھانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ماں باپ بہن بھائی عزیز دوست سبھی نے اپنی سی کر ڈالی لیکن وہ اپنی راہ متعین کر چکا تھا۔ شہرت اور دولت اس کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔ اس نے باپ کی دولت و جائداد سے عاق کر دینے کی دھمکی کی بھی پروا نہ کی کہ خود اس کے دست و بازو اب یہ دولت حاصل کر سکتے تھے۔ خود اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت، اس کی کشش اور فخر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ باپ نے اپنی دھمکی پر عمل کر ڈالا۔ اس نے پروا نہ کی اور اپنی دُنیا آپ بسانے کا ارادہ لے کر وہاں آ پہنچا جہاں اس کے گرد، ادب اور فن کے بڑے بڑے نام جگمگا رہے تھے۔ اُسے یقین تھا کہ ایک دن اس کا شمار بھی بڑے فنکاروں میں ہو گا، تب اس کے والد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا کہ اس نے جوہرِ قابل کو پہچاننے میں دیر کر دی۔ یوں رحمت علی رحمت، فن و ادب کے بڑے ناموں ، رابندر ناتھ ٹیگور، جرم محمد آبادی، آغا حشر، دین بندھومتر کے حلقے میں شامل ہونے کے لیے اپنے خاندان سے ناتا توڑ بیٹھا۔ یہ سبھی فن کی خدمت میں مصروف تھے۔ رحمت علی ہر شعبہ میں اپنی قسمت آزما رہا تھا اور کامیابی اس کے قدم چوم رہی تھی۔
’’ کلکتہ کے ظہیر انور نے اپنے ایک مقالے’’ ڈرامہ اور سماجی وابستگی میں ‘‘ صہبا اختر کے والد رحمت علی کے ایک ڈرامے ” با وفا عاشق” کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ڈرامہ جاگیردارانہ نظام اور بور ژوائی ظلم و تشدد کے خلاف آواز تھا۔ ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، منشی رحمت علی کے فن اور عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ وہ (منشی رحمت علی رحمت) ہماری ادبی تاریخ کے ایک اہم اور نامور ڈرامہ نویس ہیں۔ آغا حشر کے دور میں توجہ حاصل کر لینا کسی ڈرامہ نگار کے لیے معمولی بات نہیں۔ ‘‘ ۲؎
پرویز بلگرامی نے اس تاریخی پس منظر کو یوں اُجاگر کیا ہے۔
’’ یہ وہ دور تھا جب دانش وروں کا فقدان تھا۔ پڑھے لکھے لوگوں کو منشی کہنا لوگ عزت کا باعث سمجھتے تھے۔ رحمت علی کو بھی منشی رحمت علی کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اسٹیج دُنیا گلیمر کی دُنیا کہلاتی تھی۔
نوجوان کھنچے چلے جاتے تھے۔ منشی رحمت علی کو بھی گلیمر کی اس دُنیا نے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا اور وہ اسٹیج کی دُنیا سے وابستہ ہو گئے تھے۔ شاعری تو ان کی رُوح میں تھی۔ الفاظ کے ساتھ کھیلنا ان کے لیے معمولی سا کام تھا۔ ضرورت نے انھیں ڈراموں کی تخلیق کے فن میں طاق کر دیا۔ وہ ڈراما نگاری کے علاوہ ہدایت کاری و اداکاری بھی کرنے لگے اور جلد ہی مشہور ہو گئے۔ ‘‘ ۳؎
اس دور میں ان کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’تصویر رحمت، ’’دردِ جگر‘‘، ’’با وفا عاشق‘‘ اور ’’جلاد عاشق‘‘ عوام میں بہت پسند کیے گئے ہیں۔
خوشی و خوشحالی چہار جانب سے اس پر برس رہی تھی۔ کشمیر کی پُر فضا وادی، ایک صحت افزا مقام تھا۔ اس کے گھر چاند کی روشنی کے جگمگانے کے دن قریب آ رہے تھے۔ وہ اپنی رفیقہ حیات اور دو بچیوں کے ہمراہ کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں میں فطرت کے حسن کا مشاہدہ کر رہا تھا، جہاں کا دن انتہائی روشن اور رات اپنی پُراسراریت کے باوجود بے حد خوب صورت ہوا کرتی ہے۔ ۳۰ ستمبر۱۹۳۰ء آسمان پر چمکتے چاند نے اسے نوید دی کہ اس کی محبت کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے۔ اطلاع ملتے ہی اس کے لبوں سے بے ساختہ یہ شعر نکلا ؎
دور دیکھو وہ فلک پر مہ انور چمکا
اور زمیں پر میری تقدیر کا اختر چمکا
دوست اس خوشی کے وقت اس کے ہمراہ تھے۔ محفل سجی ہوئی تھی۔ مبارک باد کے شور میں ایک فیصلہ بھی ہو گیا کہ بچے کا نام اختر رکھا جائے۔ دوستوں کے لیے تو والدین کو چھوڑا گیا تھا۔ پھر ان کی رائے کا احترام کیوں نہ کیا جاتا۔ بیٹے کا نام اختر علی رکھا گیا اور ناز و نعم سے پرورش ہونے لگی۔ اختر کے والد امرتسر کے رہنے والے تھے وہ کبھی ایک جگہ جم کر نہیں بیٹھے۔ اختر جموں میں پیدا ہوئے۔ کلتہ میں رحمت علی کی رہائش تھی۔ کام کے سلسلے میں مختلف شہروں میں قیام رہتا، لیکن قسمت اور کامیابی لازم و ملزوم تو نہیں۔ قسمت کو بدلتے، کامیابی کو ناکامی میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ باپ جائداد سے عاق کر چکا۔ اس کی نافرمانی کی سزا، اُسے اپنی زندگی اور اپنے گھر سے نکال کر دے چکا۔ رحمت علی رحمت پر زیست کرنے کے سبھی دروازے ایک ایک کر کے بند ہوتے جا رہے تھے۔ ناکامی، مایوسی اور محرومی اسے مجبور کرتی تھی کہ وہ درِ دولت کو ایک مرتبہ کھٹکھٹا کر تو دیکھے۔ بابِ شفقت کی کنڈی ہلا کر تو دیکھے۔ لمحہ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا جب ماں کے جھریوں بھرے ہاتھ اور باپ کے نحیف قدم دروازہ نہ کھول دیں گے، لیکن انا خود داری اور عزت نفس۔ اس کا کیا کیا جائے۔ ماں باپ نے نہ سہی، کسی بہن بھائی ہی نے یہ جملہ کہہ دیا ’’تو آ گئے بھائی‘‘ تو وہ کیا کہہ پائے گا۔ اپنی غلطی پر پشیمان ہو گا یا اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی کا خواستگار ہو گا اور پھر انھی سوچوں نے اسے بابِ شفقت تک نہ جانے دیا۔ ہرچند کہ حالات اب بہت بدل چکے تھے۔ وہ تنہا نہ تھا۔ اس کے ساتھ، بیوی اور بچے بھی تھے۔ وہ خود حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر سکتا تھا لیکن معصوم بے گناہوں کو کس بات کی سزا دیتا۔ اس نے چاہا کہ بچوں کو لے کر باپ کے در پر چلا جائے لیکن غیرت نے گوارا نہ کیا۔ ابھی فیصلہ کی گھڑی آئی نہ تھی کہ ایک قیامت اور ٹوٹی۔ ذہن و دل کے درمیان ہونے والی جنگ نے ایک اور کروٹ لی۔ جہاں بھوک ہو وہاں بیماری بن بلائے مہمان کی طرح آ دھمکتی ہے اور بلائے جان بن کر وہاں سے جانے کا نام نہیں لیتی۔ فالج کے حملے نے پہلے ہاتھ مفلوج کیا اور پھر ٹانگ بھی متاثر ہو گئی۔ بیماری نے جسم مفلوج کیا اور فاقہ کشی نے ذہن کو ماؤف کر کے رکھ دیا۔
انسان خود تو بھوک کا عذاب کسی نہ کسی طرح کاٹ ہی لیتا ہے، لیکن جہاں بات بیوی بچوں کی آ جائے۔ اس عذاب کا سہنا بے انتھا کٹھن ہو جاتا ہے۔ وہ جو منشی رحمت علی کے نام سے آج تک زندگی بسر کرتا آیا تھا۔ منشی سے اُس کی لیاقت اور قابلیت کی بنا پر کہا جاتا تھا۔ مفلسی ہوئی تو لیاقت کہاں رہی۔ جس پر چہار جانب سے اللہ کی رحمت کا نزول ہو رہا تھا، جو علی مشکل کشا کا نام لیوا تھا۔ یوں مایوس ہوا کہ درِ رحمت پر دستک دینا اور علی مشکل کشا سے اپنی مشکلات کے حل مانگنا بھی بھول گیا۔ مسائل کے ختم نہ ہونے والے ازدحام سے گھبرا کر منشی رحمت علی نے اپنی وفا شعار بیوی حسن آرا بیگم سے ایک درخواست کی کہ تمھاری والدہ پنجاب سے بریلی منتقل ہو چکی ہیں۔ کلکتہ سے پنجاب کا فاصلہ بہت زیادہ ہے لیکن بریلی نسبتاً کم دوری پر ہے۔ میری حالت کا کچھ پتہ نہیں۔ اس بیماری کی حالت میں ، میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا۔ تم لوگوں کی ذمہ داری نبھانا تو بہت دور کی بات ہے۔ تم اپنی والدہ کے پاس بریلی چلی جاؤ۔ بچوں کی زندگی کا کچھ سہارا ہو جائے گا یہاں تو بھوک انھیں موت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ رحمت علی کی بیگم ایک حوصلہ مند خاتون تھیں۔ انھیں یہ تجویز پسند نہ آئی۔ اچھے وقتوں میں اکٹھے جینے مرنے کے وعدے کیے ہوں اور مشکل وقت میں یوں ساتھ چھوڑ جانا، انھیں گوارا نہ ہو، لیکن رحمت علی کے اصرار پر بے بس ہو گئیں۔ بریلی پہنچنے پر اختر علی کی نانی اماں نے انھیں اپنی دوسری بیٹی جو نسبتاً خوشحال تھیں ، کے گھر بھیج دیا۔ حویلی کافی بڑی تھی۔ بڑی حویلی کا نظام چلانے اور دیکھ بھال کرنے والے نہ ہوں تو صرف اتنا حصہ ہی آباد رہتا ہے جہاں گھر کے مکین قیام پذیر ہوں۔ باقی حصے میں جھاڑ جھنکار اور خود رو پودوں کو من مانی کرنے موقع مل جاتا ہے۔ حویلی کا ایسا ہی ایک گوشہ اختر علی کی والدہ کو عنایت کر دیا گیا۔ ظاہر ہے وہ اس حصے کی حقدار نہ تھیں۔ انھیں خدا خوفی کے نتیجے میں یہاں قیام کرنے اجازت ملی تھی۔ اختر علی کی والدہ نے اپنی ننھی بیٹیوں اور معصوم بیٹے کے ساتھ مل کر اس حصے کو رہنے کے قابل بنایا۔ گھر ملا تو زندگی کے دوسرے مسائل کی طرف نگاہ کرنے کی مہلت ملی۔ اختر علی کی والدہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ وہ ایل ایس ایم ایف کی میڈیکل ڈگری رکھتی تھیں۔ بچوں کے لیے بھی ان کی خواہش تھی کہ وہ علم کی دولت کے حصول میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ بڑی بیٹی کو انھوں نے بریلی کے ایک اچھے سکول میں داخل کروا دیا۔ سکول خاصے فاصلے پر تھا۔ گرمی کا موسم تھا محلے کی سب بچیاں بیل گاڑی میں سوار ہو کر سکول جایا کرتی تھیں۔ روشن، اختر علی کی خوب صورت بہن، بیل گاڑی کے اگلے حصے میں تپتے سورج تلے بیٹھتی تھی۔ گرم خشک ہوا اور دھوپ کی حدت نے اسے تیز بخار میں مبتلا کر دیا۔ چہرہ جو پہلے ہی سرخ گلاب کی مانند تھا۔ اب لال بھبھوکا ہو چکا تھا۔ ماں نے جلدی سے بچی کو بستر پر لٹا دیا۔ تنگ دستی نے ایک مرتبہ پھر ماں کا کلیجہ دہلا کر رکھ دیا۔ بچی کے سر پر برف رکھنے کی فوری ضرورت تھی تاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی حرارت کو کم کیا جائے لیکن برف، برف خریدنے کے لیے تو پیسے چاہییں۔ بخار سے نبٹنے کے لیے تو دوا چاہیے۔ دولت انتہائی گھٹیا چیز ہے لیکن یہی دولت کتنی اہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دولت ہو تو زندگی بھی خریدی جا سکتی ہے اور چونکہ ان کے پاس دولت نہ تھی زندگی خریدی نہ جا سکی۔ برف اور ٹھنڈے پانی کو ترستا جسم تیسرے روز خود ہی ٹھنڈا ہو گیا۔ روشن آنکھوں ، خوب صورت چہرے اور لمبے بالوں والی روشن، تاریک قبر کی گود میں اُتار دی گئی۔ ماں کے لیے یہ صدمہ شدید تھا۔ شوہر کلکتہ میں حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا اور وہ یہاں اتنے بڑے صدمے کو جھیلنے کے لیے تنہا، لیکن تنہا کیوں اس کی والدہ یہاں تھیں۔ اس کی پیاری بہن جس کی حویلی میں وہ رہ رہی تھی لیکن قدرت کی ستم ظریفی۔ جس حویلی میں میت پڑی تھی جہاں سے جنازہ اُٹھایا جانا تھا۔ انتباہ کیا جا رہا تھا کہ حویلی ہی میں رہنے والے دوسرے فرد کو اس بات کا علم نہ ہو پائے۔ اختر علی کی خالہ بیمار تھیں۔ خالو کو اپنی بیمار بیوی کا بہت خیال تھا۔ انھوں نے اختر علی کی والدہ سے کہہ دیا تھا جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب چیخ پکار کرنے سے کیا فائدہ تمھارے رونے کی آواز اگر حویلی کے دسرے حصے میں چلی گئی تو مریضہ کو تکلیف ہو گی اور اختر علی کی والدہ نے اپنی دق میں مبتلا بہن کی خاطر اپنا دوپٹہ منہ میں ٹھونس لیا کہ آواز نہ نکلے۔ موت اتنے دبے پاؤں آتی ہے۔ اتنی خاموشی سے ہمارے پیارے ہم سے چھین کر لے جاتی کہ ہم پر گزرنے والے صدمے ہمارے برابر میں رہنے والوں ، ہمارے دل میں بسنے والوں کو بھی محسوس نہیں ہو پاتے۔ مفلسی اور موت انسان کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔ زندگی کے سارے پہلو، جذبوں کے سبھی رُخ اپنا آپ متعارف کروا دیتے ہیں۔ غم، دکھ، افسوس، بے بسی، محرومی، لاچاری اور پھر ان جذبوں کے ردِ عمل میں غصہ، ناراضگی، احتجاج یہ تمام عناصر اختر علی کی بہت بچپن کی زندگی میں ہی اس کے اندر رچ بس گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اختر علی جو اپنی چھوٹی عمر اور چھوٹے ذہن کے ساتھ بہن کو قبر میں اُتارنے کے بعد گھر آ رہا تھا۔ راستے میں قلفی والا نظر آیا۔ بچے قلفیاں خرید کر کھا رہے تھے۔ اُسی خالو نے، جس نے بہن بھائی اور ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کے مرنے پر رونے بھی نہ دیا تھا۔ ایک آنے کی قلفی لے دی۔ قلفی پکڑ تو لی۔ لیکن اسے احساس تھا کہ یہ قلفی اس پر ترس کھا کر بھیک کے طور پر دی گئی ہے۔ گرمی کی شدت سے حلق میں کانٹے، قلفی ہاتھ میں لیکن ذہن اور دل میں لاوا اُبل رہا تھا۔ اس لاوے کو پل بھر میں ، پل بھر کے لیے ٹھنڈا کیا جا سکتا تھا لیکن اس لاوے کو ٹھنڈا کرنے کا طریقہ دوسرا تھا۔ اس نے نہایت حقارت سے وہ قلفی گرم ریت پر پھینک دی۔ بہن برف کے لیے ترستی مر گئی۔ ایسے میں یہ قلفی کیا اس کے حلق کے کانٹے ختم کر سکتی تھی۔ اس کے دل کی سرزمین خار دار جھاڑیوں سے اٹی پڑی تھی۔ وہ کہاں کہاں کانٹے اکھیڑ تا۔ ماں کو احساس ہو چکا تھا کہ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے کچھ فائدہ اُٹھائے۔ باپ نے اپنے سامنے نوکری کرنے کی کبھی اجازت نہ دی اور نا ہی ماں نے کبھی اس کی ضرورت سمجھی تھی لیکن اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔ ایک ڈاکٹر کے یہاں دو روپیہ روز پر نوکری کر لی۔ مفلسی میں سب سے مشکل کام بچت کرنا ہوتا ہے لیکن اس سلیقہ شعار عورت نے یہ امر محال بھی ممکن کر دکھایا۔ کرایہ پر ایک مکان لیا۔ تنہا پریکٹس شروع کر دی۔ خیال تھا کہ اب دن بدل جائیں گے، لیکن ایسا نصیب کہاں۔ روشن سے دو سال چھوٹی بہن گلشن پولیو کا شکار ہوئی۔ اپاہج کی زندگی کیا لیکن اس کی مسکراہٹ جینے کی اُمنگ پیدا کرتی اور اس کے آنسو اشرف المخلوقات کی بے بسی کا اعلان کرتے اور پھر انسان کی بے بسی کی انتہا یوں ہوئی کہ بریلی کے قبرستان میں روشن کے پہلو میں ایک اور ننھی سی قبر بن گئی۔ قبریں کچی تھیں۔ نہ جانے کب کے نام و نشان مٹ چکے ہوں گے لیکن وہ قبریں جو اختر علی کے دل میں تھیں وہ ہمیشہ تازہ رہیں۔ ماں اور اختر علی دونوں کے لیے یہ صدمہ کم جانکاہ نہ تھا۔ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ روتے اور تسلی دیتے۔ بیمار و لاچار باپ کو کلکتہ میں اس سانحے کی خبر ملی کہ بھوک کے ہاتھوں بے بسی کی موت سے بچانے کے لیے انھوں نے اپنے جگر گوشوں کو خود سے دور، کلکتہ سے بریلی بھیجا تھا لیکن موت تو ہر جگہ رسائی رکھتی ہے۔ اسے کبھی کوئی روک سکا ہے؟ خبر سن کر بریلی پہنچے۔ بچیوں کی قبر سے لپٹ کے روتے رہے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بیوی معاشی جدوجہد میں شریک ہو گی۔ بیوی کو انھوں نے کام کرتے دیکھا۔ معاشی تنگی کے مہیب سائے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ وہ گھبرا کر "علاج” کے لیے بمبئی روانہ ہو گئے۔ یہ وہی رحمت علی تھے کہ دولت کی ریل پیل نے انھیں اپنا ہر شوق پورا کرنے کا موقع دیا تھا لیکن یہ سب باتیں خیال و خواب ہو چکی تھیں۔ اب رحمت علی بمبئی کی تنگ و تاریک کوٹھری میں جہاں آ کر جھانکنا بھی کسی کو گوارا نہ تھا، مقیم ہوئے۔ اس محرومی و تنہائی کے سامنے اردو شاعری کے تمام دیوان ہیچ تھے۔ لفظوں کے معنی لغت میں تلاش کیے جائیں تو وہ اپنا الگ مفہوم رکھتے ہیں اور انھی لفظوں کے معنی جب زندگی بتائے تو ان کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے۔ وہ جو سٹیج کی دُنیا میں بادشاہ بننے کا خواب بُنتے ہوئے ماں باپ سے الگ ہو گیا تھا۔ بمبئی کی ایک تاریک کوٹھری میں اس خواب کی بھیانک تعبیر سناتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ ماں باپ، بیوی بچوں سبھی کے ہوتے ہوئے لا وارث قرار پایا۔ وہاں کون اپنا تھا جو اُس کی لاش اس کے عزیزوں کے پاس بریلی پہنچاتا۔ وہ جس کے پیدا ہونے پر کان میں اذان دینے کے ساتھ ہی خیرات و صدقات کے دریا بہا دیے گئے تھے۔ مبارک باد دینے والوں کا ہجوم تھا۔ آج اس اذان کی نماز پڑھنے والے اسی کی طرح کے چند مفلوک الحال تھے، جنھیں اس بات کی جلدی تھی کہ جلدی سے اسے قبر میں اُتارا جائے تاکہ وہ اپنی دیہاڑی پر جا سکیں۔ محلے والے بہرحال دل درد مند رکھتے تھے۔ اس کی بیوی اور بچوں کو خط کے ذریعے رحمت علی کے قیدِ حیات سے چھوٹ جانے کی خبر پہنچا دی گئی۔ وہ جو زندگی میں بھی ان کے قریب نہ رہ پایا تھا۔ لیکن ایک آس، ایک سہارا تو تھا۔ آس ٹوٹ جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ماں جو پے در پے صدموں سے نڈھال تھی۔ اس صدمے سے پر اتنا ٹوٹ کے روئی کہ روشن کی موت پر رو نہ سکنے کا جو دُکھ تھا۔ وہ بھی اس بہانے تازہ ہو گیا۔ بے بسی و لاچاری اتنی کہ یہ مقدور بھی نہیں کہ بچوں کے ہمراہ بمبئی ہو آئے۔ قبر ہی دیکھ لے۔ دل کی سبھی باتیں جی میں ہی رہ گئیں۔ قصور بخشوائے گئے۔ نہ سرہانے یاسین شریف پڑھی گئی۔ دل تھا کہ داغ داغ اور زندگی تھی کہ گھسیٹے لیے چلی جاتی تھی۔ اختر علی بچوں کو والد کے ساتھ اور ددھیال والوں کے ساتھ لاڈ کرتے دیکھتا تھا لیکن یہاں تو ایسا کچھ نہ تھا:
’’ ان کے والد رحمت علی ایک شاعر اور ڈرامہ نگار تھے اور آغا حشر کے ساتھ کام کیا تھا۔ اس شوق کی پاداش میں رحمت علی کے والد نے قطع تعلق کر لیا تھا۔ رحمت علی سخت انا پرست انسان تھے۔ انھوں نے اپنے خاندان سے پھر کوئی رابطہ نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد تعلق ہمیشہ کے لیے گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔ ‘‘ ۴؎
تعلیم، اساتذہ
اختر علی کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ وہ اپنے ددھیالی رشتے داروں سے واقف نہیں۔ ننھیال میں بھی صرف تین خالائیں تھیں۔ دو خالائیں ہندوستان رہ گئیں۔ ایک لاہور آئیں جنھوں نے اختر علی کو ہمیشہ پیار کی نگاہ سے دیکھا۔ جب صدمے شدید ہوں تو پیار کی ایک نگاہ بھی بہت بڑا سہارا ہوا کرتی ہے۔ اختر علی کی ماں کی ساری توجہ بچوں پر مبذول تھی۔ اس نے پہلے بھی اپنی کبھی فکر نہ کی تھی۔ اب تو یہ بچے ہی اس کی زندگی کا محور تھے۔ وہ انھیں ہر نظر بد سے، ہر آندھی سے بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔ اختر علی چھوٹی عمر میں ہی بڑا ہو چکا تھا۔ موت کے پے در پے واروں نے اسے انسان کی بے بسی کا تماشا دکھا دیا تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ انسان لاکھ کوشش کرے، کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ قریب تھا کہ وہ تقدیر و تدبیر کے فلسفے میں اُلجھ کر رہ جاتا۔ تقدیر کا جبر اسے حوصلہ ہار دینے پر مجبور کرتا دوسری طرف اس کی ماں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ ہارے ہوئے انسان میں بھی کتنا حوصلہ ہوتا ہے۔ وہ صبح سے شام تک محنت کرتیں۔ بچوں کو اتنا پیار و محبت اور شفقت دیتیں کہ انھیں احساس ہونے لگتا زندگی اتنی بُری چیز نہیں۔ ماں کا حوصلہ دیکھ کر، تمام دن انھیں کام میں شدید مصروف دیکھ کر اختر علی خود کو ملامت کرتا لیکن محرومیوں کی دلدل سے کبھی نکل نہیں پایا۔ بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر ایک روز ماں نے کہا کہ بیٹا ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ انسان ہر کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ صرف ایک چیز ایسی ہے جو کھو جائے تو وہ دوبارہ نہیں ملتی اور وہ قیمتی چیز حوصلہ ہے۔ زندگی کی بازی میں حوصلہ کبھی نہ ہارنا۔ ماں کی یہ بات اختر علی کے دل کو لگی۔ وہ ماں کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن ماں اسے پڑھانا چاہتی تھی۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ ایک بہترین طالب علم کے طور پر پہچانا جائے اور اختر علی نے ماں کی خواہش پوری کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔ اس محنت کا صلہ اسے ملنا ہی تھا۔ سکول کے ذہین طلبا میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اختر علی کو اس کی والدہ نے اسلامیہ انٹر کالج بریلی میں تیسری جماعت میں داخل کروایا تھا۔
صہبا اختر کی مداح آمنہ عالم جو خود بھی اعلیٰ شعری ذوق رکھتی ہیں اور اپنے اشعار کی داد و اصلاح اکثر صہبا سے وصول کر چکی ہیں۔ حق ہمسائیگی اور ذہنی قربت کے باعث وہ اور ان کے شوہر صہبا اختر سے دلی تعلق رکھتے تھے۔ کبھی اکٹھے بیٹھتے تو بچپن کی باتیں ، محرومیاں ، علم کی لگن، دورانِ گفتگو، بات کہیں سے کہیں جا پہنچتی۔ صہبا کے عہدِ طالب علمی کے حوالے سے وہ اپنے تاثرات میں لکھتی ہیں۔
’’ صہبا اختر کے بقول ابتدائی جماعتوں میں وہ ایک اوسط درجے کے طالب علم تھے لیکن ثانوی جماعتوں میں ان کی تعلیمی کارکردگی اتنی اچھی ہو گئی تھی کہ وہ اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گئے۔ انگریزی، حساب، اردو اور تاریخ کے مضامین میں ان کی Distinction آیا کرتی تھی اور اس کی وجہ وہ اپنے اساتذہ کی لگن اور محنت قرار دیتے تھے۔ ‘‘ ۵؎
سال بہ سال محنت رنگ لاتی رہی۔ اختر علی کا شمار دسویں جماعت کے ذہین ترین طلبا میں ہونے لگا۔ سبھی استاد اس کی ذہانت کے قائل تھے لیکن کلاس ٹیچر، یہ وہی خالو تھے جن کی حویلی میں اختر علی کچھ عرصہ مقیم رہا تھا۔ جہاں روشن نے وفات پائی تھی۔ جہاں روشن کے سر پر برف رکھنے کے لیے اسے ایک آنہ بھی نہ ملا تھا، جہاں اسے اور اس کی ماں کو روشن کے مرنے پر رونے بھی نہ دیا گیا تھا۔ اختر علی کی نفرت تیسری جماعت سے دسویں جماعت تک برقرار رہی وہ جو تیسری جماعت سے دسویں جماعت تک ہر لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہے، جنھیں وہ دیکھنا بھی نہ چاہتا تھا، سلام تو دور کی بات۔ وہ بھی اسے سمجھ چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے بھی اس سے مخاطب ہونے کی کبھی کوشش نہ کی۔ وہ امتحان میں کامیاب ہوتا۔ سوائے ماں کے کون تھا جسے وہ اپنی خوشی میں شریک کرتا۔ ماں کا حوصلہ مندی کا درس روزِ اول سے ہی اس کے ساتھ تھا۔ وہ بھوک اور مصیبت، محرومی و بدنصیبی کے بڑھتے سائے دیکھتا لیکن کبھی حوصلہ نہ ہارتا۔ شعلہ بیان مقرر ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان کے تن پر قیمتی پوشاک اور پیٹ میں روٹی موجود ہو۔ اس نے ثابت کر دیا کہ بوسیدہ کپڑوں اور خالی پیٹ کے ساتھ بھی بہترین تقریر کی جا سکتی ہے اور سب میں اول رہنے کا فخر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شعلہ بیانی کی دھوم مچی۔ ماں خوش تھی کہ میرا بیٹا آپ اپنا منوا رہا ہے۔ صرف تقریر و مباحثہ کے فن میں ہی نہیں بلکہ سکول کے انتظامی امور میں بھی وہ احساس ذمہ داری کا ثبوت دینے کے باعث وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہے:
’’اپنے سکول میں صہبا اختر نے وائس پریذیڈنٹ کے انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کے مخالف ایک نواب کا بیٹا تھا جو ٹم ٹم میں سکول آیا کرتا تھا اور کافی خوبرو تھا، جبکہ اختر علی ایک غریب گھرانے کے یتیم طالب علم تھے، لیکن اس کے باوجود انھیں الیکشن میں کامیابی ہوئی۔ اس کے علاوہ اسکاؤٹنگ میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اس کی وجہ ان کی تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی تھی۔ اختر علی کرکٹ اور ہاکی کا بھی اچھا کھلاڑی تھا۔ مقابلوں میں انعام بھی حاصل کیے۔ ‘‘ ۶؎
ماں ، اختر علی کی ان کامیابیوں پر بے حد خوش تھی لیکن جب ایک روز اس نے بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ اپنی ماں کو بتایاکہ میں نے نظم کہی ہے تو ماں سکتے کے عالم میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ ماں کو جب اس کے اس نئے کارنامے کا علم ہو گا تو وہ کتنی خوش ہو گی لیکن ماں کا ردِ عمل بالکل غیر متوقع تھا۔ کچھ لمحے تو وہ بالکل خاموش رہی اور پھر ایک دم انھوں نے نظم چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ تمھارا کام شعر کہنا نہیں صرف پڑھنا ہے پڑھنا۔ میں تمھیں شعر و شاعری کے حوالے نہیں کر سکتی، وہ ادب و فن سے لگاؤ کا نتیجہ بھگت چکی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ تاریخ اپنے آپ کودہرائے۔ شعر و ادب سے پیٹ نہیں بھرا جا سکتا اور وہ اپنے بچے کو فاقوں سے حتیٰ المقدور محفوظ رکھنا چاہتی تھیں ، اختر ماں کی ڈانٹ سن کر، ان کی شاعری سے نفرت کی وجہ پوچھے بغیر ٹوٹے دل کے ساتھ اٹھا، نانی یہ سب تماشا دیکھ رہی تھیں ، بچے کا اترا چہرہ دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ اختر علی کو آواز دی کہ آؤ بیٹا میرے پاس آؤ۔ مجھے سناؤ نظم۔ نانی نے نظم سنی، دل کھول کر تعریف کی اور پھر گھر میں آنے والے ہر فرد کو انھوں نے وہ نظم سنوائی۔ نظم سن کر سبھی نے تعریف کی۔ اس سے اختر علی کا شعر کہنے کا حوصلہ بلند ہوا اور یوں اختر کی شاعری کی صبح طلوع ہوئی۔
سکول کے اساتذہ میں اگر ایک وہ خالو تھے جن سے اختر علی کا رشتہ سلام دعا تک کا نہ تھا۔ وہیں دوسرے اساتذہ اس کی شاعری، اس کی تقریروں اور ذہانت کی تعریف کرتے۔ ایسے ہی ایک استاد نثار احمد فاروقی تھے، جنھوں نے اس جوہر قابل کو پرکھ لیا تھا۔ محبت تو بنجر زمین کو بھی سیراب کر سکتی ہے۔ اختر علی بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا اور یہ صلاحیتیں جناب نثار احمد فاروقی کی محبت اور توجہ سے نکھرتی تھیں۔
"بطور خاص خواجہ نثار احمد فاروقی کو وہ اپنا محسن مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں شاعر بنانے میں نثار احمد فاروقی کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ سکول کے بعد صہبا کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتے اور ابو الکلام آزاد کی ’’غبارِ خاطر‘‘ سنایا کرتے اور نہ صرف سناتے بلکہ سمجھاتے بھی تھے۔ ” ۷؎
نثار احمد فاروقی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ چھٹی کے بعد اختر علی ان کے ہمراہ ان کے گھر آ جاتے۔ شاعروں اور ادیبوں کی تحریریں سناتے، جو اس کی سمجھ میں کچھ آ جاتیں کچھ نہ آتیں۔ وہ کوئی کتاب اٹھا لیتے۔ اس میں سے کوئی پیراگراف پڑھنا شروع کرتے۔ اختر علی ان کے لہجے، تلفظ، ادائیگی اور اندازِ بیان سبھی پر توجہ دیتا۔ نثار احمد فاروقی ہر مقابلے کے لیے اسے تقریر لکھ کر دیتے۔ تقریر کس طرح کی جاتی ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست، لہجے کا اُتار چڑھاؤ اور آواز کا زیر و بم سبھی کچھ سمجھاتے۔ وہ تقریر رٹ لیتا اور جب سٹیج پر تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوتا، تو سب پر سحر طاری ہو جاتا۔ تالیوں کی گونج میں جب وہ اول انعام حاصل کرتا تو اس کا سرفخر سے بلند ہو جاتا۔
’’ تقریری مقابلوں میں عموماً اول انعام صہبا اختر کو ہی ملا کرتا۔ ‘‘ ۸؎
انعامات کپ اور ٹرافی کی صورت میں ملتے، کبھی کبھی ان کے ہمراہ کچھ کتابیں بھی مل جاتیں ، عموماً اقبال اور جوش کے مجموعہ کلام انعام میں ملتے۔ اس نے ان تمام شعرا کو گھول کے پی رکھا تھا۔ تقریر و مباحثہ ہوتا یا کوئی ادبی گفتگو۔ وہ ان شعرا کے کلام سے بھرپور فائدہ اُٹھاتا۔ پھر وہ خود بھی شعر کہہ رہا تھا۔ غیر شعوری طور پر ان شعرا کا اثر بھی اس کے اشعار میں اپنی جھلک دکھاتا رہا۔ کامیابی اس کے قدم چوم رہی تھی۔ ہر نئی کامیابی پر وہ ماں کے قدموں میں جھک جاتا۔ اُسے احساس تھا کہ ماں نے اس کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ کتنے فاقے کاٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو سراپا عشق ہے۔ اس کا پہلا عشق عورت ہے۔ عورت جو ماں ہے۔ اس کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے لیکن اسے احساس تھا کہ اس نے ماں کی خدمت نہیں کی بلکہ ماں نے اس کی خدمت کی ہے۔ ماں اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ تو دیکھنا چاہتی تھی مگر شعر و شاعری سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ وہ شعر بھی کہتا رہا لیکن تعلیم سے غفلت کبھی نہیں برتی۔ اسے احساس تھا کہ ماں کی واحد خوشی اس کے امتحان کا نتیجہ ہے۔ میٹرک میں اختر نے اچھے نمبر لیے تو ماں کو دُکھ کی لمبی رات مختصر ہوتی نظر آئی۔ میٹرک اس کی منزل نہ تھی۔ ماں اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھی۔ تعلیم سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے علی گڑھ کالج میں داخلہ کی خواہش فطری تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا علمی و ادبی ماحول اختر علی کے لیے باعث کشش تھا۔ بریلی سے علی گڑھ کا فاصلہ کم نہ تھا لیکن بیٹے کی ہی نہیں ، ماں کی بھی خواہش یہی تھی کہ اختر اعلیٰ تعلیم اس اعلیٰ درسگاہ سے حاصل کرے۔ ماں کی دعائیں اور اختر علی کی کوشش کامیاب ہوئی۔ وہ اپنے کالج کے بہترین طالب علموں میں شمار ہونے لگا۔ شاعری اور شعلہ بیانی تقریر ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ شاعری اور تقریروں سے دلچسپی کے علاوہ ایک عشق اور بھی تھا جس کا آغاز لڑکپن سے ہو چکا تھا اس کا ثبوت اختر کی زندگی کے آخری لمحے تک ملتا ہے۔ یہ عشق تھا پاکستان سے۔ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور پھر اس خواب نے ہند میں بسنے والے ہر مسلمان کی آنکھ میں جگہ بنا لی۔ وہ سوتے جاگتے یہی خواب دیکھتے اور اس کی تعبیر کے حصول کے لیے یک جان ہو گئے۔ اختر کی آنکھیں بھی اسی خواب کی تعبیر چاہتی تھیں۔ اس خاکہ میں رنگ بھرا ہوا دیکھنا چاہتی تھیں۔
تحریک پاکستان، قیام پاکستان
عشق اک آگ کا دریا ہے، جسے ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے اور پاکستان سے عشق مسلمانوں کی زندگی بن چکا تھا۔ آزادی لمحوں کا کھیل نہیں ہوتی۔ اس کے حصول کے لیے سالوں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ اختر علی کو یاد تھا کہ ابھی وہ آٹھویں نویں جماعت میں تھا، تب بھی اس کے شعروں میں پاکستان جھلکتا تھا۔ اس کی تقریروں میں وہ جوش و جذبہ موجود تھا جو کسی شے کے حصول کے لیے ضروری سمجھا جاتا۔ ’’آزادی‘‘ کے موضوع پر نظمیں کہتا رہا، تقریریں کرتا رہا۔ اس کے اساتذہ اُس کے فن شعر اور فن تقریر کی نوک پلک سنوارنے کے لیے موجود تھے۔ سکول کی سطح پر ہونے والے کئی بین الصوبائی تقریری مقابلوں میں اختر کے لیے بہترین مقرر کا خطاب حاصل کرنا معمولی بات ہو چکی تھی پھر ایسے میں آزادی کے موضوع پر تقریر ہو، وہ آزادی جو اس کی روح و جاں میں بسی تھی، وہ اس موضوع سے کیسے انصاف نہ کرتا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی اس کی شعلہ بیانی کی دھوم تھی۔ قیامِ پاکستان کے لیے مسلم لیگ کی جدوجہد شروع ہو چکی تھی اور مسلم یونیورسٹی کو اس جدوجہد میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علی گڑھ کو قائد اعظم نے مسلم ہند کا "اسلحہ خانہ” قرار دیا تھا۔ ابھی وہ فرسٹ ایئر سائنس کا امتحان دے کر فارغ ہوا ہی تھا کہ مسلم لیگ کی تحریک پر علی گڑھ کے تقریباً ڈیڑھ سو طلبہ پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیا گیا جس کی قیادت جناب منظر عالم کر رہے تھے۔ اس وفد کا مقصد مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد سے سندھ کے عوام کو آگاہ کرنا اور آزادی کی جدوجہد کو بھرپور بنانا تھا۔ اختر کو منتخب ہی اس بنا پر کیا گیا تھا کہ وہ جوش و جذبہ جو اس کے دل میں پاکستان کے لیے موجود تھا، وہ اس کے لفظوں میں بھی جھلکتا تھا۔ سینئر طلبہ تو سندھ کے مختلف اضلاع میں اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مصروف ہوئے۔ آٹھ دس طالب علموں کے لیے شہر کراچی کا انتخاب کیا گیا۔ اختر بھی انھی میں شامل تھا۔
قیام ’’سندھ مدرسہ‘‘ کے ہوسٹل میں رہا۔ یہ وہی مدرسہ ہے جہاں سے قائد اعظم نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ ان کی خوشبو ابھی تک اس مدرسے میں موجود تھی۔ وہ جو آج سب کا محبوب ترین رہنما تھا۔ اختر کی خوش نصیبی، اسے ان دنوں روحانی قرب کے احساس نے سرشار کر رکھا تھا۔ اس کے مقدر کا ستارہ عروج پر تھا۔ معلوم ہوا کہ قائد اعظم کراچی تشریف لا رہے ہیں۔ وہ جو انھیں روحانی طور پر محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ شاید وہ قائد اعظم کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ ۱۹۴۶ء کی ایک روشن صبح کی اُمید نے اختر علی اور اس کے ساتھیوں کو تمام رات سونے نہ دیا۔ قائداعظم کے استقبال کی تیاریاں ، قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کے نئے زاویے تمام رات اسی بحث و مباحثہ میں گزر گئی۔ سردیوں کا موسم، ایئرپورٹ کی کھلی فضا میں کوئٹہ کی برفانی ہوا کے تھپیڑے اس گرمجوشی کی فضا میں بالکل سخت محسوس نہ ہو رہے تھے۔ ہزارہا لوگوں کا ہجوم اپنے محبوب قائد کی جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس زمانے میں ایئرپورٹ پر حد بندیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ قائداعظم جہاز سے باہر آئے۔ لوگوں کا ازدحام قائد اعظم کی طرف لپکا۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ اپنے رہنما کی ایک جھلک، ایک جھلک اور دیکھ لے۔ اختر علی بھی اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح قائد اعظم کو قریب سے دیکھ سکے اور پھر وہ اس بے پناہ ہجوم میں راستہ بناتا قائد اعظم کے قریب پہنچ گیا اور اتنا قریب ہو گیا کہ قائد اعظم کے اوور کوٹ کی آستین کا بوسہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ ایک بوسۂ عقیدت اس کے لیے زندگی بھر سرمایہ فخر رہا۔ اس سعادت کو حاصل کرنے کے بعد جس مہم کے لیے آئے تھے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اختر علی جب علی گڑھ واپس پہنچا تو پاکستان کی منزل اسے قریب آتی نظر آئی اور پھر لاکھوں مسلمانوں کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔ جان و مال کی قربانیاں رائگاں نہ گئیں۔ وہ آزادی کی خوشی سے سرشار تھا۔ اپنی ارضِ موعود کی طرف مسلمانوں کی ہجرت شروع ہو گئی۔ آزادی کے ساتھ ہی کشت و خون ریزی کا منظم سلسلہ شروع ہو گیا۔ مشرقی پنجاب، دہلی، بہار اور یو پی کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچنے لگے۔ پاکستان آنے والے قافلوں پر حملے کیے جاتے۔ ان حملوں میں فسادیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور نیم فوجی اداروں کے رُکن شریک ہوتے۔ ریل گاڑیاں زخمیوں اور کٹی ہوئی لاشوں کے ساتھ پاکستان پہنچتیں ، جو زندہ ہوتے وہ خاک وطن کو بوسہ دے کر اللہ کا شکر بجا لاتے۔ دوسری جانب ان مسلمانوں کی بھی کمی نہیں تھی جو ہندوستان کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے تھے۔ ہر ایک پاکستان جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اختر علی کی پیاس دیدنی تھی۔ پانی سامنے دھرا تھا اور وہ ہونٹوں تک پیالہ نہ لے جا سکتا تھا۔
پاکستان سے محبت، پاکستان آمد
ہندو، سکھ، مرہٹے سبھی مسلمانوں کے خلاف تھے اور شہر بریلی بھی کب تک اس رقصِ دہشت انگیز سے بچا رہ سکتا تھا۔ گونجتے نعروں اور حملے کی خبروں نے بریلی کے باسیوں کو رات رات بھر جاگ کر پہرہ دینے پر مجبور کر دیا۔ اختر علی کی پیاس بڑھتی جا رہی تھی۔ بے تاب ہو کر اس نے اپنی ماں سے کہا کہ یہاں خوف سے قطرہ قطرہ مرنے سے بہتر ہے کہ اپنے خوابوں کے دیس چلتے ہیں۔ نئے وطن میں مسائل تو بہت ہوں گے لیکن ہمیں انھیں مل کر حل کرنا ہے۔ یہاں مسلمانوں کا مستقبل واضح نہیں ہے۔ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کی غلامی قبول کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ماں خاموشی سے اختر علی کی تقریر سنتی رہی، پھر کہنے لگی۔ احمقانہ باتیں نہ کرو۔ اک عمر کی جدوجہد کے بعد اب حالات پھر بدلے ہیں۔ رہنے کا ٹھکانہ بنا ہے۔ اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں۔ پھر نئے ملک میں ہمیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رہنے، کھانے پینے کا بندوبست، روزگار کا مسئلہ اور ہزاروں مسائل ہوں گے۔ یہ ہنگامے تو چند دن کی بات ہے، حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔ تم اپنی پڑھائی مکمل کر لو پھر دیکھا جائے گا، لیکن اختر علی جانتا تھا کہ عشق کی آگ جتنی دبائی جائے اتنی ہی بھڑکتی ہے۔ ماں کے سامنے کبھی خاموش ہو جاتا اور کبھی پُر جوش انداز میں دلائل دینے لگتا۔ ’’ ہندوستان کے حالات مسلمانوں کے لیے بہتر نہیں رہے۔ مسلمانوں کو اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے جو کسی بھی وقت ہمارے شہر، ہمارے محلے، ہمارے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ آپ تھوڑی سی ہمت سے کام لیں تو ہم اس پچھتاوے سے بچ سکتے ہیں کہ پاکستان ہوتے ہوئے بھی ہم پاکستان سے محروم ہیں۔ جائے پناہ ہوتے ہوئے بھی ہم ہندوؤں کا تر نوالہ بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘ لیکن ماں کا ایک ہی جواب ہوتا۔ چند روز کی بات ہے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو حالات معمول پر آ جائیں گے۔ ماں جو اختر علی کا پہلا عشق تھا۔ دوسرا عشق آزادی تھا، پاکستان اس کا حصول تھا۔ اختر علی کے لیے فیصلہ کرنا دشوار ہو رہا تھا کہ وہ کس عشق سے دستبردار ہو۔ وہ ماں کے لیے زندہ تھا اور ماں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا۔ پاکستان اس کا دل تھا۔ وہ کیسے اس دل کو اپنے جسم سے الگ کر کے زندہ رہ سکتا تھا۔ کشمکش اور تذبذب نے مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کر دیا تھا اور آخر ایک روز اختر علی بول اُٹھا، ماں میں پاکستان ضرور جاؤں گا۔ یہ الگ بات کہ یہ کہتے ہوئے اس کا دل اور آنکھیں دونوں آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ اگر آپ لوگ میرے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوئے تو میں سب کو، آپ کو بھی چھوڑ کر پاکستان چلا جاؤں گا اور ماں نے محسوس کر لیا کہ پاکستان کے عشق کی جڑیں اس کے اندر کتنی گہری اُتری ہوئی ہیں۔ وہ اختر کو سینے سے لگائے کچھ دیر سوچتی رہیں پھر روتے ہوئے انھوں نے صرف یہ کہا جیسی تمھاری مرضی اور یہ لفظ سنتے ہی اختر علی نے یوں محسوس کیا کہ جیسے آزادی کا پروانہ آج ابھی اس وقت ملا ہے۔ روتی ہوئی ماں کو دلاسہ دیا۔ پانی پلایا اور کہا ’’آپ فکر نہ کریں وہاں رہنے کا، کھانے پینے کا، سب بندوبست میں کروں گا۔ میرا وعدہ ہے کہ آپ کو اور بہن بھائی کو کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔ مملکتِ پاکستان کی تعمیر میں نوجوانوں کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ ‘‘ ماں نے حقیقت کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ اختر علی تمھاری ساری باتیں درست لیکن یہ تو سوچو کہ بریلی سے پاکستان تک کا سفرکس طرح طے ہو گا۔ تم جانتے ہو کہ راستے میں مسافروں سے بھری ہوئی ریل گاڑیاں خون میں ڈوب ڈوب گئی ہیں۔ جانتے بوجھتے میں تمھیں ، تمھاری بہن، تمھارے بھائی کو درندوں کے حوالے کیسے کر سکتی ہوں۔ تم سب جانتے ہو۔ راستے میں بچیوں کے ساتھ، عورتوں کے ساتھ کس قسم کے حالات پیش آ رہے ہیں ، تم تنہا کیا اس کا مقابلہ کر سکو گے۔ تم محض اپنے شوق کی خاطر کیوں بھرے گھر کو مسائل کے لامتناہی سلسلے میں دھکیلنا چاہتے ہو۔ مجھے اپنی زندگی کی پروا نہیں۔ پاکستان جائیں گے، مگر حالات معمول پر آنے دو اور پھر اختر علی نے سوچا کہ ہر عشق کے نصیب میں کامیابی کہاں۔ عشق تو محرومی و نارسائی ہی کا دوسرا نام ہے۔ شاید مطلوبہ چیز پا لی جائے تو پھر عشق کا جذبہ اتنا گہرا نہیں رہتا۔ مقدر میں ہجر و فراق رقم ہے تو یہی سہی۔ اختر علی خود کو سنبھالنے کے لیے تاویلیں گھڑتا اور خود ہی انھیں رد کر دیتا۔ کوشش کرتا کہ ماں کے سامنے پاکستان کا ذکر ہی نہ آئے۔ وہ پہروں اس کے متعلق سوچتا رہتا۔ اسے وہ لوگ انتہائی خوش قسمت نظر آتے جنھوں نے کوئی قربانی بھی نہ دی۔ گھر بیٹھے آزادی کی نعمت ان کی جھولی میں آ گری کہ وہ رہتے ہی ان مقامات پر تھے کہ جہاں مسلم اکثریت تھی۔ پھر اسے وہ لوگ بھی دکھائی دیتے جنھوں نے بڑے سکون کے ساتھ اپنے تمام اثاثے پاکستان منتقل کیے اور بڑے آرام کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر دو گھڑی میں پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ انھی سوچوں میں غلطاں اختر علی کبھی ماں کی بات مان لینے کو اور کبھی مادر وطن کی آواز پر لبیک کہنے کو لپکتا۔ تذبذب کی کیفیت کتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔ اس کا احساس ان دنوں ہوا۔ جب کبھی وہ پاکستان جانے کا ارادہ پختہ کرتا اسی لمحے ماں کا چہرہ سامنے آ جاتا اور پھر ساتھ ہی اباجی کی قبر بھی جو اس نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اگر وہ پاکستان چلا گیا تو پھر بمبئی میں باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی خواہش کبھی پوری نہ ہو گی۔ اس کے دل میں پہلے ہی اپنے ددھیال کی طرف سے ناواقفیت کی خلش موجود تھی۔ وہ مضبوط تعلق جو منوں مٹی تلے دفن تھا۔ کیا وہ اس تعلق کو بھی توڑ دیتا۔ پھر روشن اور گلشن کو چھوڑ کر جانا آسان تھا کیا۔ بہنیں تو ویسے بھی پیاری ہوتی ہیں ، پھر گلشن و روشن جیسی خوب صورت بہنیں ، جنھیں بچپن میں بے بسی کے ہاتھوں موت کے حوالے کر چکا تھا۔ اسے ایسے ہی خیالات ستاتے وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتا۔ بڑھتے قدموں میں زنجیریں ڈال دی جاتیں اور وہ ان زنجیروں کو چاہتے ہوئے بھی خود سے الگ نہ کر پاتا وہ تذبذب کا شکار رہا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں کا روپ دھارتے رہے۔ آخر خدا کی مہربانی سے اس کشمکش سے اسے نجات ملتی نظر آئی۔ بریلی میں فوجیوں کی چھاؤنی تھی۔ بلوچ رجمنٹ نے پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ اس کے ایک مہربان دوست جو اس کا خیال بالکل چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھتے تھے، بلوچ رجمنٹ میں ملازم تھے۔ انھیں علم تھا کہ پاکستان جانے کی خواہش اختر علی کے دل میں کتنی گہری ہے۔ پاکستان کی سرزمین کو بوسہ دینے کی آرزو اسے کس کس طرح تڑپاتی ہے۔ وہ اختر علی کے روئیں روئیں سے واقف تھے، جو پاکستان، پاکستان پکارتا تھا۔ اس کی والدہ کے نظریات و خیالات بھی جانتے تھے کہ حالات کی ستائی ہوئی یہ خاتون خود میں اتنا بڑا قدم اُٹھانے کی جرأت نہیں پا رہی لیکن انھوں نے کسی نہ کسی طرح اس کی والدہ کو راضی کر لیا اگر اختر علی کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ زندہ تو رہے گا لیکن جبراً۔ اختر علی کے اس مخلص دوست انصار حسین نازش ہی کی کوششوں سے اسے اور اس کے اہل خانہ کو جس میں ماں ، ایک بہن اور ایک بھائی شامل تھا، ایک فوجی افسر کے خاندان میں شامل کر کے فوجی ٹرین میں سیٹیں حاصل کر لی گئیں۔ بچیوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی۔ انھیں الوداع کہہ کر پاکستان کے سفر پر نکلے تو اختر علی کے دل میں جوش اور ولولہ اور ماں کے دل میں اندیشے سر اُٹھاتے رہے۔ تمام اہل محلہ جنھوں نے خونی رشتوں سے زیادہ مصیبت کے وقت ان کا ساتھ دیا تھا۔ یوں رو رہے تھے کہ جیسے کوئی دُنیا سے رُخصت ہو رہا ہو۔ واقعی وہ ان کی دُنیا سے دور جا رہے تھے۔ جہاں سے واپس آنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور تھا۔ بریلی سے مغربی پاکستان کی سرحد تک کے اس سفر میں فوجی ٹرین کی ایک بوگی سویلین کے لیے مخصوص تھی۔ گنجائش سے اس قدر زیادہ مسافر تھے کہ پہلو بدلنا تک ممکن نہ تھا۔ تھوڑا بہت مال و اسباب جو سبھی مسافر ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ انھیں سٹیشن پر ہی چھوڑنا پڑا کہ فی خاندان بمشکل ایک مختصر صندوق کی جگہ بنائی جا سکتی تھی۔ وہ کھانا جو سفر میں کھانے کے لیے لایا گیا تھا۔ اسے بھی ساتھ نہ لے جا سکے، چنانچہ تمام مسافر شدید بھوک پیاس کے وقت پانی سے حلق تر کرتے۔ یہ سفر آسان نہ تھا ٹرینوں کے لٹنے اور مسافروں کے قتل و غارت گری کی داستانیں سبھی کے علم میں تھیں۔ اختر علی اور ان کے ساتھی فوجی ٹرین میں سوار تھے۔ اُمید تھی کہ اس پر حملہ کرنا شاید سکھوں اور ہندوؤں کے لیے آسان نہ ہو گا، پھر فوجی افسروں کی ہدایت پر عمل کرنا، فرض تھا۔ ان کا حکم تھا کہ ریل گاڑی کا کوئی دروازہ، کوئی کھڑکی نہ کھولی جائے۔ اتنے نفوس، بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ڈبے میں ٹُھنسے ہوئے تھے۔ حبس سے دم گھٹتا تھا۔ بھوک، پیاس اور گرمی الگ جان لیوا تھی۔ کب صبح ہوئی کب دوپہر اور کب شام۔ دن کب ڈھلا، رات کیسے گزری۔ ایک ایک لمحہ صدیوں کی طرح تھا۔ گھڑی کی سوئیاں حرکت کرنا بھول گئی تھیں۔ وقت تھم گیا تھا۔ کہیں جنگل میں ٹرین رُکتی۔ مسافر اپنی سانسیں بھی روک لیتے۔ مبادا خون کے پیاسے ان کے دشمن، ان کی موجودگی کا احساس کر کے ان پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ ان تمام مسافروں کو اللہ کی ذات پر مکمل بھروسا اور فوجی جوانوں پر پورا اعتماد تھا جو دورانِ سفر خصوصاً گاڑی کے رُکتے ہی پہلے سے آخری ڈبے تک آہنی دیوار کی طرح تن کر کھڑے ہو جاتے۔ آخرکار پاکستان کی سرحد آ گئی۔ واہگہ کی سرحد پر استقبال کرنے والے سبز ہلالی پرچم لیے۔ خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔ ٹرین کے رُکتے ہی سارا سٹیشن نعرۂ تکبیر اللہ اکبر اور قائد اعظم زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ اختر علی کے لیے اب اپنے جوش اور جذبے پر بند باندھنا ممکن نہ تھا۔ اس نے فوجیوں کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھا اور اجازت ملتے ہی ریل کے ڈبے سے چھلانگ لگا دی اور پھر اس مقدس خاکِ پاک پر پہلا سجدہ کیا۔ سجدۂ تشکر اس رب ذوالجلال کے حضور کہ جس نے آزادی کی نعمت پاکستان کی صُورت میں انعام کی تھی۔ اختر علی کے ساتھ ہزاروں سرسجدے میں جھکے ہوئے تھے۔ سمت کا تعین، لباس کی ترتیب کچھ ہوش نہ تھا۔ وہی سجدۂ شکر گزاری بارگاہ ایزدی میں قابل قبول ہے کہ جس میں بندہ اپنے رب کے حضور اس طرح پیش ہو کہ پھر اسے اپنے گرد و پیش کی کچھ خبر نہ رہے۔ سجدے سے سراُٹھایا تو دیکھا کہ پاکستانی، میزبان، اپنے تھکے ہارے، نڈھال بھوکے پیاسے مہمانوں کے لیے دودھ، شربت اور پانی لیے موجود ہیں۔
مسلمانوں کا ایک بیکراں ہجوم مختلف راستوں سے گزرتا پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ بے سروسامانی، بھوک، پیاس، بیماری اور تھکن سے نڈھال انسانوں کے اس سیلاب کو جو بحرِ بے کراں کی طرح بہتا چلا آ رہا تھا، سمیٹنا، سنبھالنا، بسانا، اس نوزائیدہ ملک کے لیے آسان نہ تھا۔ لوگ سفر کی تھکن سے تو نڈھال تھے لیکن ان کے جوش و ولولے ماند نہ پڑے تھے۔ وہ قربانیاں دیتے آئے تھے اور ان میں مزید قربانیاں دینے کا عزم موجود تھا۔ اختر علی اور اس کا خاندان بھی دیگر خاندانوں کی طرح کہ سب ایک پلیٹ فارم پر قیام پذیر تھے، انتظار کی گھڑیاں گزارتا رہا۔ تین دن کے بعد کراچی جانے کے لیے ریل گاڑی کا ٹکٹ اور سیٹیں میسر آئیں۔ یہ سفر آزمائشوں کا سفر تھا۔ بریلی سے کراچی تک کا راستہ جہاد کا راستہ تھا۔ ہر قدم پر حوصلوں کی آزمائش۔ ماں نے ایک مرتبہ بچپن میں اختر علی کو اداس دیکھ کر جو سبق دیا تھا یہ سبق آج بھی اُسے ازبر تھا۔ اس جملے کے اثر اور طاقت نے اختر علی کو سخت محرومیوں اور بدنصیبیوں میں کبھی حوصلہ ہارنے نہ دیا۔ ہر مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کیا، بے چارگی، محرومی، یتیمی کے دُکھ، رشتہ داروں اور زمانے کی بے رُخی غریبی و مفلسی کبھی بھی اختر علی کے بڑھتے قدموں کو روک نہ سکیں۔ اختر علی نے ماں کے دیے ہوئے سبق کو کبھی نہ بھلایا۔ وہ مرد پیدا ہوا تھا۔ مرد بن کر زیست کرنے اور مرد بن کر ہی قبر میں اُترنے کی آرزو تھی۔ اُسے اکثر احساس ہوتا کہ قسمت اس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔ جس چیز کے حصول کے لیے ہاتھ بڑھایا مشکلات کے پہاڑ راہ میں کھڑے نظر آئے اور اگر اس نے وہ چیز حاصل کی بھی تو شدید محنت کے بعد۔ پاکستان مل گیا۔ کراچی پہنچ گئے لیکن ان حالات میں کہ کراچی جیسے نئے شہر میں جہاں کوئی جان پہچان نہیں کوئی عزیز رشتہ دار موجود نہیں ، چنانچہ اختر علی اپنے بہن بھائی اور ماں کے ہمراہ مہاجر کیمپ میں رہنے لگا۔ مہاجر کیمپ کی زندگی ایک اور ہی منظر پیش کر رہی تھی۔ انتظامیہ محدود، کاموں کی یلغار، انھیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیتی۔ مہاجرین کی بھوک، پیاس، بیماری، رہائش اور روزگار نہ جانے کیسے کیسے مسائل تھے۔ ایک حل کیا جاتا تو دوسرا آ موجود ہوتا اور یہیں پہلی مرتبہ پاکستان کے باسیوں میں خود غرضی کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ روٹی پہلے مجھے ملے۔ دوا پہلے میں پاؤں۔ رہائشی ٹھکانا میرے حصے میں آئے تو میں اس کیمپ کی گندی اور بیمار فضا سے جلد نکل بھاگوں۔ اختر علی کے لیے غربت اور بھوک کوئی نیا تجربہ نہ تھا۔ نیا تھا تو وہ طرز عمل اور روّیے جو اُس نے لوگوں کے دلوں میں اور چہروں پر دیکھ لیے تھے۔ اختر علی پاکستان آ کر شرمندہ نہ تھا۔ صرف اس بات کا احساس تھا کہ ماں سے یہ وعدہ کر کے چلا تھا کہ آپ پاکستان جانے کی حامی تو بھریں ، میں بہن بھائی اور آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے دوں گا۔ گھر کی تلاش جاری رہی۔ تمام مسائل کا حل روپیہ ہے جبکہ اختر علی کا ہاتھ اور جیب دونوں خالی تھے۔ پگڑی اور ایڈوانس تو دور کی بات۔ اس کے پاس تو اس روز کا کرایہ دینے کے لیے بھی پیسے نہ تھے لیکن اس نے مایوس ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ اسے اپنے خدا پر مکمل یقین تھا اور پھر خدا نے اس کی مدد یوں کی۔ محمد بلوچ نامی ایک فرشتہ صفت انسان نے جس سے اس کے والد کا دوستی کا رشتہ نکل آیا۔ اسے بندر روڈ پر بغیر کسی شرط یا روپے کے، ایک فلیٹ دلوا دیا۔ چھت میسر آئی تو ایسے لگا کہ جیسے اب زندگی ایک ڈگر پر چلنے لگے گی۔ اختر علی کی والدہ نے سب سے پہلے اختر علی کی تعلیم کے سلسلہ کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی۔ اسلامیہ کالج کراچی میں اختر کو داخل کرانے کے لیے انھوں نے اُس ہار کو بیچ دیا جو سہاگ کی نشانی تھی اور جسے کتنی ہی مصیبتوں سے بچا بچا کر وہ پاکستان لائی تھیں۔ اختر علی نے کالج میں داخلہ لے لیا اور ماں نے مشقت جاری رکھی۔ یہاں آ کر بھی انھوں نے پریکٹس شروع کی لیکن بیماری و نقاہت، بھوک اور پریشانی نے آخر دل کی بیماری کی شکل اختیار کر لی۔ وہ خود کو بھول کر بیٹے کی تعلیم مکمل دیکھنا چاہتی تھیں۔ اختر سبھی کچھ دیکھتا تھا اور اسے ماں کے دل میں تڑپتی یہ خواہش بھی نظر آتی تھی کہ اختر علی پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ وہ ماں کی بیماری دیکھتا۔ گھر کی مفلسی دیکھتا۔ ماں کو اس حالت میں کام کرتے دیکھتا تو کھلی کتاب میں اسے الفاظ کی جگہ ماں کا کمزور چہرہ جھانکتا نظر آتا۔ وہ چہرہ جو التجا کر رہا ہوتا کہ اختر علی، محنت کر، اتنی تعلیم حاصل کر کہ تو دُنیا کو تسخیر کر لے۔ ایسا نہ ہو کہ دُنیا تجھے تسخیر کر لے اگر ایسا ہو گیا تو تری ماں بے موت مر جائے گی۔ وہ تمام خیالات جھٹکتا، کتاب کی طرف متوجہ ہوتا۔ یہ آنکھ مچولی ہر وقت جاری رہتی۔ ماں پڑھائی چھوڑنے نہ دیتی اور وہ ماں کی مدد کرنا چاہتا اور آخر ایک دن اس تذبذب کی فضا سے جان چھوٹی۔ وہ کالج کے لیے گھر سے نکلا تو راستے میں بارش نے آن لیا۔ بارش کراچی میں یا تو ہوتی نہیں اور اگر ہوتی ہے تو نہایت طوفانی۔ برستی بارش اور کیچڑ نے سفر دشوار کر دیا۔ کالج پہنچنا ضروری تھا۔ بس سے اُترتے ہوئے پاؤں پھسلا اور اختر علی چاروں شانے چت کیچڑ میں ، اکلوتی پینٹ کیچڑ میں لتھڑ گئی۔ اُسی حالت میں گھر پہنچا، وہ راستے میں ہی فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ آگے نہیں پڑھے گا۔ اس نے گھر جاتے ہی ماں کو اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ ایسی خود غرضی نہیں دکھا سکتا کہ آپ بغیر دو ادارو کے، محنت مزدوری اور فاقے کے ساتھ میری تعلیم کا بوجھ اٹھائیں اور میں کتابیں کھول کر آپ کے سامنے بیٹھا رہوں۔ آج کے بعد میں کالج جانے کے بجائے ملازمت تلاش کروں گا۔
روزگار
اختر کے اس فیصلے پر ماں جی بھر کر روئی۔ اتنی کم تعلیم پر اختر علی کو کون سی نوکری ملے گی۔ اختر علی ہمت سے جواب دیتا۔ میں محنت مزدوری کر لوں گا۔ میں اب آپ کو قطرہ قطرہ موت سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھ سکتا، ماں کی کوئی التجا، کوئی درخواست اس پر اثر نہ کر سکی۔ وہ صبح ہوتے ہی کراچی کی سڑکوں پر کام کی تلاش میں نکل آتا لیکن اس شہر ناپرساں میں ایک یتیم بے آسرا لڑکے کا حال کون پوچھتا۔ ان دنوں وہ اتنا پیدل چلتا کہ اسے محسوس ہوتا کہ اس کی ٹانگیں پتھر ہو چکی ہیں۔ اسی تلاش کے دوران میں ایک روز میکلوڈ روڈ پر برما آئل کمپنی کے دفتر پہنچ گیا، انگریز منیجر نے چند ایک سوالات کیے۔ کلرکی کی پیش کش اس کے لیے اس لمحے کسی بادشاہت سے کم نہ تھی لیکن یہ بادشاہت کراچی میں نہیں تھی۔ اندرون سندھ لا کھڑا کے مقام پر، برما آئل کمپنی تیل کے حصول کے لیے کنوؤں کی کھدائی کروا رہی تھی۔ اختر علی کو وہاں جا کر کام کرنا تھا اور اختر علی نے بغیر سوچے سمجھے، کسی سے مشورہ کیے بغیر یہ پیش کش قبول کر لی۔ انگریز منیجر نے کرائے کے لیے پچاس روپے پیشگی دیے۔ اسے علم تھا کہ اختر علی دھوکہ نہ دے گا۔ اختر علی نے ماں کو خوشخبری سنائی جو ماں نے دکھی دل کے ساتھ سنی اور وہ سفر پر روانہ ہو گیا۔ اختر علی نے اندرونِ سندھ کے ریگزاروں میں تپتی دوپہروں اور جلتی راتوں میں وہ مشقت کی کہ جس نے ہاتھ پاؤں شل کر کے رکھ دیے۔ وہ انتہائی جزرسی سے کام لیتا رہا، برائے نام کھانا اور بس۔ وہ تقریباً ساری تنخواہ گھر بھیجتا۔ ماں اپنا علاج کیا کرواتی۔ وہ تو ایک ایک پیسہ بہن کی شادی کے لیے جوڑ رہی تھی اور پھر خدا کی مہربانی سے اختر علی اور اس کی ماں اس فرض سے خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوئے۔ ماں کراچی میں ، اختر علی سندھ کے ریگستانوں میں۔ اداسی اور تنہائی نے بچپن کا وہ شوق جس نے اسے منفرد طلبہ میں لا کھڑا کیا تھا، اسے زندہ کیا۔ محرومی، اداسی اور تنہائی شعروں میں ڈھلتی رہی۔ ماں کی بے بسی کا خیال آتا تو جی چاہتا نوکری ٹھکرا کر واپس چلا جائے اور پھر اُسے ماں کے دل کے دورے کی خبر ملی۔ وہ جو پہلے ہی ماں کی جدائی میں بے حال ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً ہی کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُسے اس بات کی پروا نہ تھی کہ افسرانِ بالا نے اس کی چھٹی کی درخواست نامنظور کر دی ہے۔ وہ کراچی پہنچا۔ بیٹے کو دیکھ کر ماں کی جان میں جان آئی۔ ماں کی حالت سنبھلی تو وہ پھر نوکری کی تلاش میں دربدر پھرتا رہا اور پھر اسے محکمہ انکم ٹیکس میں کلرکی مل گئی:
’’ اور ملازمت کا یہ حال تھا … کہ کلرکی سے بڑا عہدہ… میرے نصیب میں نہ تھا۔ ‘‘ ۹؎
ذہنی عدم مطابقت کی بنا پر انکم ٹیکس کی یہ کلرکی اختر علی کے لیے ایک عذاب تھی لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ ایک روز وہ شدید بخار کے باعث دفتر حاضر نہ ہو سکا۔ دوسرے دن افسران کے سامنے جواب دہ ہوا۔ چھٹی کی وجہ پوچھی گئی۔ اختر علی نے وجہ بتائی۔ اس افسر نے انگریزی کا ایک معتبر اخبار سامنے رکھا۔ جس میں خبر تھی کہ کل رات کے مشاعرے میں دیگر شعرا کے ہمراہ صہبا اختر بھی موجود تھا۔ اختر علی نے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے اور اُسے جھوٹا گردانا گیا۔ پھر وہی پاؤں وہی گردش وہی خار مغیلاں۔ وہی تلاش روزگار اور وہی شعر کی صورت میں ان تجربات اور احساسات کا ڈھلنا اور پھر ڈی جی ایس ڈی کے محکمہ میں اسے کلرکی مل گئی۔ کلرکی اس کی عزت نفس کو کچلتی جا رہی تھی۔ محنت میں عار نہ تھا لیکن افسران بالا کا روّیہ اس طبقے کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز تھا۔ اختر علی اس احساس کمتری کو اپنی شاعری کے ذریعے زائل کرنا چاہتا تھا۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ صرف کلرک ہی نہیں ایک اچھا شاعر بھی ہے لیکن شاید اس کا موقع ابھی آیا نہ تھا کہ لوگ اختر علی کو صہبا اختر تسلیم کرتے۔ اخبار، رسالے والے اس کا کلام شائع کرتے اور نہ ہی ریڈیو پر اسے موقع دیا جاتا۔ مشاعروں میں ازخود چلا جاتا لیکن اکثر اسے اپنا کلام سنانے کا موقع نہ ملتا۔ ایسے ہی بددل کر دینے والے حالات سے نبردآزما، شام کے وقت وہ ہوٹل میں آ بیٹھتا۔ اختر انصاری اکبر آبادی بھی وہاں ہوتے۔ مالی حالت ان کی بھی کچھ بہتر نہ تھی لیکن وہ ادبی دنیا میں متعارف تھے۔ بعد ازاں انھوں نے حیدرآباد سندھ سے نئی قدریں کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ان کا شعار تھا۔ وہ جو اپنی صلاحیتوں کے باوجود کہیں چھپ نہ پاتے۔ اختر انصاری انھیں شائع کرتے اور رفتہ رفتہ ان کی پہچان بن جاتی اور وہ دیگر رسالوں میں چھپنے لگتے اور پھر ’’نئی قدریں ‘‘ کو ایک معمولی پرچہ جان کر اس سے منہ موڑ لیتے۔ اس زمانے میں بھی اختر انصاری اکبر آبادی نئے ابھرتے ہوئے ان تخلیق کاروں کو کہ جن کا دست گیر کوئی نہ ہوتا، ان کی تخلیقات مختلف اخبارات و رسائل میں شائع کرواتے۔ تخلیق کار میں دم ہوتا تو وہ خود اپنا مقام بنا لیتا یا پھر اندھیروں میں گم ہو جاتا۔ صہبا اختر کی غزلیں ، نظمیں بھی اختر انصاری اکبر آبادی کی معرفت مختلف رسائل و اخبارات میں جگہ پانے لگیں۔ شاہد احمد دہلوی کا رسالہ ساقی، اپنے بلند ا دبی مرتبہ کی بنا پر معتبر رسائل میں شمار کیا جاتا تھا۔ صہبا اختر کی تخلیقات اس میں بھی شائع ہونے لگیں۔ دن بھر کی تھکن اور کلرکی کی ذہنی مشقت کے بعد صہبا بھی شام کو اس ہوٹل میں آ جاتا:
’’ عیدگاہ کے قریب ہی ایک گوشے میں ایک ہوٹل تھا۔ وہاں میں اور اختر انصاری اور میری طرح کے کچھ اور محروم شاعر اور ادیب شام کو وقت گزارنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت وقت ہوا کرتا تھا، لیکن پیسہ بہت کم۔ ہوٹل ادھار سے چلتا تھا اور اکثر چندے کی چائے ہوا کرتی تھی۔ یہ ایک اوسط درجے کا ہوٹل تھا۔ ہوٹل کا مالک تھوڑا بہت خوش مذاق بھی تھا یا یہ کہ اس کا ہوٹل ہماری وجہ سے آباد رہتا تھا۔ وہ بہر طور گوارا کر لیا کرتا تھا۔ ایک شام کی بات ہے۔ ایک صاحب قریب کی میز پر آ کر خاموش بیٹھ گئے۔ کچھ کھایا پیا اور چلے گئے۔ چھریرا بدن، روشن آنکھیں ، سانولا رنگ، قدرے خوش لباس اور پر نور چہرہ، یہ پہلا خاکہ تھا۔ اس شخص کا جسے میں نے ایک دو بار نظر بھر کر دیکھا۔ پھر میں کسی دوسری بات میں الجھ گیا اور جب سامنے دوبارہ دیکھا تو وہ کرسی خالی تھی۔ اختر انصاری نے کہا۔ ارے تم انھیں نہیں پہچانتے۔ یہ حفیظ ہوشیارپوری تھے۔ میں نے کہا حفیظ صاحب اور یہاں اس ہوٹل میں جہاں ہم جیسے فٹ پاتھیے آتے ہیں۔ اختر انصاری بولے۔ حفیظ صاحب ان تمام باتوں سے بالا انسان ہیں۔ ‘‘ ۱۰؎
اور پھر ایک دن اختر انصاری نے صہبا اختر کو حفیظ ہوشیار پوری سے ملا دیا۔
پرویز بلگرامی نے دونوں کے باہمی تعارف اور تعلقات کے ابتدائی دور کو یوں پیش کیا:
’’ عوام میں اب ان کی کچھ پہچان بننے لگی تھی اور یہ سب مہربانی تھی جناب اختر انصاری اکبر آبادی کی، وہی انھیں ہر جگہ متعارف کروا رہے تھے۔ ایک دن انھوں نے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں صہبا اختر کو حفیظ ہوشیار پوری سے ملوا دیا، اس ہوٹل سے کچھ دوری پر بندر روڈ کے قریب عیدگاہ کے پاس صہبا اختر کا مکان تھا، وہ حفیظ صاحب کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ حفیظ صاحب کچھ دیر تک ان کے ساتھ رہے اور پھر اجازت لے کر چلے گئے۔ تیسرے دن وہ خود آئے اور فرمایا۔ میاں صہبا چلو میں تمھیں کچھ لوگوں سے ملواؤں۔ صہبا اختر ان کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ وہ انھیں ایک بڑے ہوٹل میں لے گئے۔ وہاں ڈنر سے پہلے مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں شہر کے کئی بڑے شعرا، وکلا، آفیسر اور تاجر موجود تھے۔ مشاعرے میں حفیظ صاحب نے صہبا کا تعارف کچھ اس انداز میں کرایا۔ ’’دوستو آج میں آپ لوگوں کے لیے ایک تحفۂ خاص لے کر آیا ہوں اور وہ تحفہ ہے یہ نوجوان جس کا نام صہبا اختر ہے۔ میں نے آج تک اس عمر کا اس سے بڑا شاعر نہیں دیکھا۔ بلکہ پختہ شاعروں میں بھی ایسا شاعر نہیں دیکھا۔ ‘‘ ایک استاد فن کی طرف سے بھری محفل میں یہ برملا اعلان ہر ایک کو چونکا دینے کے لیے کافی تھا۔ سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ حفیظ صاحب نے دھیمی آواز میں فرمائش کر دی۔ ’’اپنی بحر طویل والی غزل سناؤ۔ ‘‘
صہبا اختر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو گھبرا جاتا۔ اتنے بڑے بڑے شعرا کے درمیان اتنی تعریف کے بعد کچھ سنانا آسان تو نہ تھا۔ دل ڈر جاتا کہ کہیں حفیظ ہوشیار پوری کی بات غلط نہ ہو جائے۔ کچھ حفیظ ہوشیار پوری کی سند، کچھ اہل محفل کی ادبی دیانت داری اور کچھ صہبا اختر کا حوصلے سے پڑھنے کا انداز۔ اس بحر طویل والی غزل نے محفل لوٹ لی۔ ہر ایک نے کھل کر داد دی۔ گراں بار مصائب کی جفاؤں کے اس شکار کو بالآخر بڑے لوگوں سے داد مل ہی گئی۔ انھوں نے اپنی اس کاوش کے بل پر پوری محفل لوٹ لی تھی۔ ایک ایک شعر کو کئی کئی بار سنا گیا اور داد سے نوازا گیا۔ اب ان کی پہچان بڑے لوگوں میں بھی قائم ہو گئی تھی۔ ‘‘ ۱۱؎
اختر علی اب صہبا اختر کے نام سے اپنی پہچان ملک کے اعلیٰ ادبی حلقوں میں کروا چکے تھے، ان کی زندگی میں حفیظ کی آمد خوشگوار مستقبل کی نوید تھی۔ حفیظ سے ملاقات کے بعد، صہبا اختر کو اپنی زندگی کے تمام خلا بھرتے محسوس ہوئے۔ بہتر شعر کہنے کی کوشش اور خواہش حفیظ سے ملنے کے بعد اور بھی بڑھ گئی کہ اب حفیظ جیسا لفظ آشنا شخص صہبا کے لیے استاد کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔ حفیظ جس کے ہر کام میں بے داغ تکمیلیت کی عادت نے خود اپنی زندگی میں اپنے مجموعۂ کلام کی اشاعت کی اجازت نہ دی کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں ، پھر اشاعت کے لیے دوں گا۔ صہبا اختر کو جب بھی فرصت ملتی حفیظ صاحب کے دفتر پہنچ جاتے کہ ذہنی ہم آہنگی، اس معاشرے میں مقدر کے ساتھ ہی ملتی ہے۔ حفیظ بھی صہبا کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتے۔ صہبا اختر دفتر پہنچتے۔ حفیظ فائلوں میں غرق ہوتے۔ وہ گھنٹوں استغراق کے عالم میں فائلوں کے ڈھیر نمٹاتے۔ صہبا انھیں دیکھتے رہتے کہ اس شخص کو یہ احساس نہیں کہ دفتر کا وقت ختم ہو چکا۔ لوگ جا چکے اور یہ اس وقت تک نہ اُٹھتے جب تک کام مکمل نہ ہو جاتا۔ حفیظ کی شخصیت کے یہ تمام پہلو صہبا نے بہت قریب سے دیکھے۔ شاعری سے تو پہلے ہی متاثر تھے۔ شخصیت سے بھی متاثر ہوئے۔ حفیظ صاحب صہبا کی زندگی کے ہر پہلو سے واقف تھے وہ جانتے تھے کہ صہبا اختر اپنی کلرکی سے کس قدر پریشان ہے۔ جیسے ہی انھیں علم ہوا کہ ان کے دوست شیخ اعجاز احمد جو محکمہ خوراک میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ان کے دفتر میں انسپکٹروں کی ضرورت ہے تو حفیظ نے فوراً صہبا سے رابطہ کیا کہ کل صبح ہی شیخ اعجاز احمد کے پاس درخواست لے کر چلے جاؤ۔ شیخ صاحب جن سے حفیظ صاحب کے توسط سے صہبا اختر کی اکثر و بیشتر ملاقات ہوتی رہی تھی:
’’ چنانچہ میں درخواست لے کر پہلے اپنے کرم فرما شیخ اعجاز احمد کے پاس پہنچا اور پھر ان کی وساطت سے مجھے محکمہ خوراک میں فوڈانسپکٹر کا عہدہ مل گیا اور اس طرح پہلی بار کلرکی کے عذاب سے مجھے نجات حاصل ہوئی اور پھر محکمہ خوراک کراچی میں۔ ایک مدت دراز تک میں نوکری کرتا رہا اور ترقی کرتے کرتے راشننگ کنٹرولر کی حیثیت سے آخر کار میں نے خرابی صحت کی بنا پر از خود۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کر لی۔ ‘‘ ۱۲؎
صہبا اختر شاعر تھے اور شاعر عروض کی پابندیوں کو برداشت کر لیتے ہیں بلکہ ان پر شدت سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات ندامت کا باعث ہوتی ہے۔ اگر کہیں زیر زبر پیش کی غلطی بھی گرفت میں آ جائے اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے کلام میں عروض کا کوئی سقم نہیں لیکن جب وہی شاعر غم روزگار سے دوچار ہو کر دو اور دو چار کے چکر میں پڑتے ہیں تو ان کے لیے زندگی اذیت بن جاتی ہے۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو کام وہ دل سے کرنا نہیں چاہتے اس میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں اور وہ کام جن کی خواہش کے پھول ان کے دل کی سرزمین میں سراُٹھاتے رہتے ہیں انھیں نہیں کر پاتے۔ کبھی وقت مہلت نہیں دیتا تو کبھی حالات اجازت نہیں دیتے۔ محکمہ خوراک کی ملازمت اچھی تھی۔ حالات میں بہتری پیدا ہوئی۔ بُرے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ صہبا ملازمت کرتے رہے اور وقت گزرتا رہا:
’’ شیخ اعجاز احمد صاحب جو آج بھی میرے بزرگ اور کرم فرما ہیں۔ حفیظ صاحب کے طفیل اور ان کی معرفت مجھے محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی جو آج تک جاری ہے۔ اس نوکری میں بھی جو میں مجبوراً کرتا ہوں۔ مجھے کچھ افسر تو نہایت شفیق اور مرتبہ شناس ملے لیکن کچھ ایسے افسروں سے بھی سابقہ پڑا جن کی نا انصافیوں کا میں شکار رہا اور مجھے اس کا ملال ہے اور رہے گا۔ ‘‘ ۱۳؎
صہبا اختر نے فاقوں کے سفر سے آغاز کیا تھا لیکن رب العزت نے انھیں جو رتبہ بخشا وہ اُسی کو زیبا ہے:
’’ پاکستان بننے کے بعد میں کراچی آ گیا تھا۔ سنا تھا کہ کراچی میں کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا۔ یہاں آ کر تلاش روزگار میں صبح سے شام تک مارا مارا پھرا کرتا لیکن ناکامی میرا مقدر ہو چکی تھی۔ مایوسی تنہائی اور بے روزگاری کے دُکھوں پر اس روز بھوک اس طرح غالب ہوئی کہ میری خودداری بھی اس سیلاب میں بہہ گئی۔ میں بھابھی کے گھر گیا۔ وہ لوگ کھانا کھا چکے تھے۔ بھابھی برتن سمیٹ رہی تھیں۔ ڈلیا میں آدھی روٹی پڑی تھی۔ نہ جانے کتنی دقت سے میرے منہ سے نکلا بھابھی یہ روٹی، اور بھابی نے نہایت تیزی سے وہ ڈلیا اُٹھائی اور ڈھک کر اوپر رکھ دی مجھ پر کیا گزری میں بیان کرنا نہیں چاہتا لیکن میرا مولانا سب کچھ دیکھتا ہے اور پھر ایسا ہوا کہ اس شہر کراچی میں جہاں آدھی روٹی بھی میرے نصیب میں نہ تھی۔ رب العزت نے مجھے وہ عزت و سعادت بخشی کہ سارے شہر کے رزق کی تقسیم میرے ہاتھوں ہوتی رہی۔ مجھے محکمہ خوراک میں ملازمت ملی اور میں ترقی کرتے کرتے اعلیٰ عہدے پر پہنچ گیا۔ میری کوشش اور خواہش یہی تھی کہ اس شہر میں کوئی بھی شخص آدھی روٹی کے لیے نہ ترسے۔ ‘‘۱۴؎
صہبا اختر نے اپنے فرائض منصبی نہایت دیانت داری اور ذمہ داری سے سرانجام دیے اور جب انھیں احساس ہوا کہ وقت کی کمی اور ناسازی صحت کی بنا پر وہ اپنے سرکاری فرائض کے ساتھ انصاف نہ کر سکیں گے تو انھوں نے خود ہی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کر لی:
’’ عروج کی بلندیوں پر پہنچنے والے اس شاعر کو اب وقت کی تنگی نے ستانا شروع کر دیا۔ اگر وہ روزگار کو وقت دیتا تو فن کی خدمت ناممکن ہو جاتی۔ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا تھا کیونکہ صحت اب مسلسل ذہنی مشقت کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ انھیں کسی ایک کام کو منتخب کرنا تھا یا تو نوکری کرتے یا پھر ادب کی خدمت:
ہے امانت قوم کی میرا قلم
میرا فن لفظوں کی عیاشی نہیں
وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ادب کی دُنیا میں فقط نام کو خدامِ ادب باقی ہیں۔ خرابی صحت نے جب انھیں مجبور کر دیا کہ وہ دو میں سے کسی ایک راہ کو منتخب کریں تو انھوں نے خود ہی ۱۹۸۷ء میں راشننگ کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ‘‘ ۱۵؎
ریڈیو
ریڈیو لسانیات کی ایک ایسی تجربہ گاہ تھی کہ جہاں تلفظ و اعراب کے لیے لغت کے بجائے، اس کی جانب دیکھا جاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ریڈیو کے محکمے سے منسلک اردو ادب کے اجنہ تھے۔ ان صاحبانِ علم و دانش کی موجودگی میں زبان کے بگاڑ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ پطرس بخاری، زیڈ۔ اے بخاری، ن۔ م۔ راشد، شمس الدین بٹ، انصار ناصری، اثنین قطب، حمید نسیم، حفیظ ہوشیارپوری اور ضیامحی الدین وغیرہ جیسے لفظ آشنا لوگ موجود تھے۔ اردو شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے ریڈیو سے وابستگی کو ایک اعزاز اس لیے بھی سمجھتے تھے کہ انھیں وہاں کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور اُن کی شعری تربیت ہو گی۔ ریڈیو تک رسائی ہر ایک کا مقدر نہ تھی۔ پھر بے نام فرد تو ہر در سے واپس کیا جاتا ہے۔ تاوقتیکہ اے کوئی جوہر شناس پہچان نہ لے:
’’لیکن میرے ارد گرد جو شاعر تھے وہ مجھے بڑا شاعر تو کجا شاعر ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ نہ کوئی اخبار نہ کوئی رسالہ میری غزلیں شائع کرتا۔ ریڈیو کے دروازے بھی مجھ پر بند تھے۔ ‘‘ ۱۶؎
اور پھر حفیظ ہوشیارپوری جن کی جوہر شناس نگاہ، صہبا کے شعری مستقبل کو تابناک دیکھ رہی تھی۔ صہبا کو ریڈیو پر متعارف کروانے کا وسیلہ بنے۔ یہ صہبا کی صلاحیتیں ہی تھیں کہ جنھوں نے اپنا لوہا ہر دوست دشمن سے منوایا۔ صہبا حفیظ کے تمام عمر ممنون احسان رہے اور حفیظ کا تذکرہ محبت کرتے رہے:
’’ ارتقائے ادب کے لیے جس سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی پہلی کڑی پر قدم میں نے حفیظ صاحب کے وسیلے سے رکھا۔ وہ صرف ان کا کرم تھا کہ وہ ریڈیو جس کے دروازے مجھ پر بند تھے جس کے اجارہ دار مجھے نگاہِ کم سے دیکھتے تھے اور کوئی غزل تو کیا، میرا ایک مصرع بھی نشر کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ ایک ایسا بھی وقت آیا کہ وہی لوگ، ریڈیو سے میرے طویل غنائیے منظوم ڈرامے، غزلیں ، گیت، حمد، نعت اور سلام سب کچھ بہ نفس نفیس پڑھنے اور بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ نشر کرنے پر مجبور تھے۔ ‘‘ ۱۷؎
فلمی گیت نگاری
ساٹھ کی دہائی، صہبا کے لیے کامیابی کی نوید لیے طلوع ہوئی۔ یہی وہ دور ہے کہ جب صہبا کی ذات ہر مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ ہر اخبار، رسالہ ان کی تخلیق کے حصول کے لیے کوشاں رہتا۔ ریڈیو ان کے لکھے ہوئے قومی نغمے اپنے سامعین کی فرمائش پر بار بار نشر کرتا۔ ۱۹۶۴ء میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا، تو ان کی خدمات اس ادارے نے بھی مستعار لیں۔ ہرگلوکار متمنی ہوتا کہ صہبا اس کے لیے گیت لکھیں۔ وہ جانتا تھا کہ گیت کے بول اسے کامیابی سے ہمکنار کریں گے چنانچہ صہبا کے بے شمار ملی و قومی نغمات جنھیں ملک کے معروف گلوکاروں نے اپنی آوازوں سے سجایا۔ بے حد مقبول ہوئے۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ، فلم انھیں کیسے نظر انداز کیے رکھتا۔ صہبا اختر کے نغموں کی دھوم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکی تھی۔ موسیقار لال محمد اقبال ریڈیو کے علاوہ فلم کے شعبہ سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ صہبا نے ان کی موسیقی میں فلم پریتم آن ملو، کے لیے ایک گیت لکھا
چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی اک چاند
فلم تو مکمل نہ ہو سکی لیکن فلم والوں سے متعارف کیا ہوئے انھیں بے شمار فلموں میں گیت لکھنے کی دعوت دی گئی۔ فلموں کے لیے لکھے گئے صہبا کے ان گیتوں نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ سمندر، لاڈلا، جیمز بانڈ زیرو زیرو سیون، جھک گیا آسمان، جلتے ارمان بھجتے دیپ، آزادی یا موت، بادل اور بجلی، سنگتراش، پھر صبح ہو گی، اکیلے نہ جانا، ہنی مون، روٹھا نہ کرو وغیرہ۔ انھوں نے پچاسیوں باکس آفس پر کامیاب فلموں کے گیت لکھے۔ ان کے فلمی گیتوں میں شگفتگی بھی ہے اور لوچ بھی۔ نغمگی بھی اور ادبی جاشنی بھی۔
چند مشہور گیتوں کے مکھڑے دیکھیے
ع۔ جنم جنم تیرا میرا ساتھ رہے گا۔ (گلوکارہ رونا لیلیٰ)
ع۔ پھر صبح ہو گی یہ اندھیرے نہیں رکنے والے(گلوکار مسعود رانا)
ع۔ چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کے سہرا (گلوکارہ رونا لیلیٰ)
ع۔ تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی(مہدی حسن)
ع۔ تم جاتے ہو تو جاؤ مگر نہ جاتے تو اچھا تھا(مالا)
ع۔ دنیا جانے میرے وطن کی شان (عالم لوہار)
ع۔ اک اڑن کھٹولا آئے گا، اک لال پری لائے گا(احمد رشدی)
ع۔ آج جانے کی ضد نہ کرو۔ (حبیب دی محمد)
ع۔ باتیں فلک کی، قصے زمیں کے جھوٹے کہیں کے (نگہت سیما)
’’…اب ہم ایک ایسی فلم کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی کامیابی میں ان کے تحریر کردہ گیتوں کا بڑا دخل تھا اور یہ فلم تھی وحید مراد کی ذاتی فلم’’سمندر‘‘ اس کے موسیقار دیبو تھے۔ دیبو نے صہبا اختر مرحوم کے تحریر کردہ گیتوں کی دھنیں کچھ اس قدر عمدہ بنائی تھیں کہ یہ گیت اپنی مقبولیت کے سبب ان سب گیتوں سے آگے تھا۔ دراصل وحید مراد مرحوم کے مخصوص نغمہ نگار مسرور انور ہوا کرتے تھے جبکہ موسیقار سہیل رعنا۔ فلم ’’احسان‘‘ کی ناکامی کی وجہ سے وحید مراد مرحوم نے اپنی فلم ’’سمندر‘‘ میں نغمہ نگار اور موسیقار دونوں بدل دیے، اور ان دونوں نے مرحوم وحید مراد کے انتخاب کی لاج رکھ لی۔ وحید مراد مرحوم کی یہ فلم جہاں اور خوبیوں کی وجہ سے پسند کی گئی۔ وہیں اپنے مقبول اور معیاری گیتوں کی وجہ سے بھی پسند کی گئی۔ اس فلم کے تمام گیت سچوئشن کے لحاظ سے انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھے۔ ‘‘ ۱۸؎
احمد رشدی کی آواز، دیبو کی موسیقی، کراچی کے ساحلِ سمندر پر فلمایا ہوا گیت
ع تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر
الفاظ اور آواز کے جادو نے دو آتشہ کی کیفیت پیدا کر دی۔ پھر اسی فلم کا، احمد رشدی کا گایا ہوا ایک اور لازوال نغمہ جس میں صہبا نے محبت کے سبھی رنگ سمو دیے تھے۔ مقبولیت میں سب سے آگے تھا، ان کا یہ گیت۔
یوں روٹھ نہ گوری مجھ سے/دل ٹوٹ گیا جو تجھ سے /جوڑا نہ جائے گا/یہ پیار نہیں وہ کاجل/جو آنکھوں سے چھٹ چھٹ جائے/یہ ساتھ نہیں وہ مہندی/جو ہاتھوں سے چھٹ چھٹ جائے/جو بیت گیا وہ لمحہ/آنچل کی طرح پھر تجھ سے موڑا نہ جائے گا…
گیت کی نغمگی اور بات سے بات پیدا کرنے کا حسن۔ اس کی پسندیدگی اور شہرت کا باعث ہوا۔ یہ گیت آج بھی اتنی ہی چاہت سے سنے جاتے ہیں۔ اس گیت کے علاوہ۔
تم جاتے ہو تو جاؤ مگر، نہ جاتے تو اچھا تھا
بھی اپنے تیکھے پن اور تکرارِ لفظی سے پیدا کیے گئے حسن کی بدولت پسند کیا گیا۔ اسی فلم کا احمد رشدی اور مالا کا گایا ہوا ایک گیت۔ ع ٹھہرو ستم کی لہرو، بھی مقبول ہوا۔
کسی ایک فلم کے سبھی گانوں کی مقبولیت، اسی فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ ’’سمندر‘‘ ایسی ہی فلم تھی کہ جس کے تمام گیت بے انتہاپسند کیے گئے۔ وجہ صرف یہی تھی کہ لکھنے والا روایتی فلمی شاعر نہ تھا بلکہ زندگی اور شعر و ادب کا وسیع مطالعہ رکھنے والا خلاق ذہن کا مالک صہبا اختر تھا۔
’’بھارتی فلمی دنیا والے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ساحر لدھیانوی ایسا شاعر تھا جس کے گیتوں کو ادبی درجہ دیا جا سکتا ہے، تو ہم مقابلے میں صہبا اختر کے گیت پیش کر سکتے ہیں۔ ان کے تمام گانوں میں ادبی جھلک نمایاں ہے اور اس پر فلمی شاعری کا لیبل ہٹا دیا جائے تو خالصتاً ادبی شاعری کہلائے گی۔ خاص کر مہدی حسن، حبیب ولی محمد وغیرہ کے گائے ہوئے گانوں کو تو کوئی فلمی شاعری کہہ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ ۱۹؎
صحافت
تخلیق کار کا ذرائع ابلاغ سے موثر رابطہ اس کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تخلیقات میں تاثیر ہو تو ذرائع ابلاغ والے خود ہی اس رابطہ کو منقطع نہیں ہونے دیتے۔ ان کی جانب سے متواتر فرمائشیں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ یہ مقام چند روز میں ہی نہیں مل جاتا۔ شروع میں صبر و برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اک عمر تگ و دو میں گزرتی ہے، تب کہیں جا کر پہچان قائم ہوتی ہے اور جب یہ شناخت قائم ہو جائے تو پھر تخلیق کار کا طوطی چہار جانب بولتا ہے:
’’ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں۔ جب ماہ نو سے میری تحریریں شکریے کے ساتھ واپس آ جاتی تھیں اور پھر وہ دن بھی آئے کہ ماہ نو کی فائلیں میری نظموں سے بھر گئیں اور ایک ماہ نو ہی کیا پاکستان کا کوئی ایسا وقیع رسالہ نہیں تھا جس میں میری نگارشات شامل نہ ہوں۔ ‘‘ ۲۰؎
صہبا کے قلم کی شہرت اور تاثیر نے قبولیت عام کی سند حاصل کی تو سبھی جانب سے فرمائشیں دستک دینے لگیں :
’’بالآخر صہبا نے ادب کی دُنیا میں اپنا ایک مقام بنا ہی لیا۔ اب کوئی ایسا رسالہ نہ تھا جس میں ان کی نگارشات شامل نہ ہوں۔ کچھ دنوں بعد جناب فخر ماتری مرحوم نے حریت نکالا تو انھوں نے خاص طور سے صہبا اختر کو دعوت دی کہ وہ ہر ہفتے ایک نظم حریت کے لیے لکھیں۔ یہ کام صہبا کو بھی بہت بھایا کیونکہ اس طرح عوام سے ان کا براہ راست رابطہ ہو گیا۔ وہ جو کچھ سوچتے تھے۔ اسے باآسانی عوام تک پہنچا سکتے تھے۔ حریت کے بعد انھوں نے روزنامہ مشرق میں تواتر سے قطعات و نظمیں لکھنا شروع کیں۔ ‘‘ ۲۱؎
دُنیائے صحافت کی شعری سلطنت کے بے تاج بادشاہ ہونے کی حیثیت سے صہبا نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑنے شروع کیے۔ ان کی زود گوئی اور قادر الکلامی نے سب کو ششدر کر دیا۔ شعر کہنا اور وہ بھی ایسے کہ دل میں ترازو ہو جائیں۔ قارئین کا حلقہ جس میں گھریلو خواتین، سبزی فروش و طالب ِعلم بھی تھے اور بڑے بڑے عالم و دانش ور بھی سماجی و معاشرتی سدھار کے رہنما بھی تھے اور شاعر و ادیب بھی۔ سبھی منتظر رہتے کہ دیکھیں صہبا آج کیا کہتا ہے۔ شہر میں ، ملک میں ، دنیا میں ہونے والا کوئی اہم واقعہ ایسا نہ تھا کہ جسے صہبا نے نظم نہ کیا ہو۔ یہ صرف لفظوں کا کھیل نہ تھا۔ دل کا درد بھی اس میں شامل تھا، پھر کراچی تو سالوں سے مختلف حوادث کی زد میں رہا۔ ملکی تاریخ و سیاست بھی نشیب و فراز کا شکار رہی اور وطن سے محبت تو صہبا نے علی الاعلان کی اور دوسروں کو بھی محبت کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ محبت، محبت، محبت کرو۔ محبت کا منتظر کون نہیں ہوتا۔ سبھی قارئین ان کے قطعات اور منظومات کے منتظر رہے۔
ازدواجی زندگی
صہبا اختر محکمہ خوراک میں ملازم ہوئے۔ معاشی مسائل کے حل کی صورت نظر آنے لگی۔ شاعر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ قلبی سکون میسر ہوا کہ راہ متعین ہو تو حصولِ منزل ناممکن نہیں رہتا۔ تمام زندگی مسائل کی گتھیاں سلجھاتے گزری تھی۔ اس لیے دوسروں کے مسائل سے منہ پھیرنے کے بجائے ان کے حل میں حتی المقدور کوشاں رہتے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ درپیش ہوا، نتیجہ صہبا کی شادی کی صورت میں سامنے آیا۔ صہبا کی شادی اگست ۱۹۵۳ء میں کراچی میں ہوئی۔ کن حالات میں ہوئی۔ اس کے بیان سے پہلے ان کی اہلیہ کا مختصر تعارف۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ گردش لیل و نہار کوئی نئی نہیں۔ کبھی فلک زمین سے جا ملتا ہے۔ کبھی زمین آسمان تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ سعیدہ بنت خواجہ نذیر حسن علمی و ادبی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق پانی پت سے تھا۔ ان کے والد مظفرنگر میں رہائش پذیر تھے۔ مولانا الطاف حسین حالی، خانم سعیدہ کی والدہ کے پرناناتھے۔ ان کی والدہ ایک بہن اور ایک بھائی تھے۔ والدہ کے ایک ماموں زادبھائی خواجہ غلام السیدین دہلی میں سیکرٹری تعلیم کے عہدے پر فائز تھے۔ خواجہ غلام السیدین اردو اور انگریزی میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، تعلیمی موضوعات پر اُن کے مقالے آج بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ’’آندھی میں چراغ‘‘ اُن کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ دوسرے بھائی مشہور افسانہ نگار خواجہ احمد عباس تھے، جنھوں نے کئی کامیاب فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ ان کی خالہ محترمہ صالحہ عابد حسین مشہور ناول نویس اور افسانہ نگار تھیں۔ خالہ زاد بھائی خواجہ حبیب لاہور کے ایڈیشنل کمشنر مقرر ہوئے۔ والدہ کے ایک چچا زاد بھائی مبشر حسن پاکستان کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ دوسرے چچازاد بھائی مشہور ماہر نفسیات خواجہ ذکی حسن ہیں۔ خانم سعیدہ کے والد قیام پاکستان سے پہلے بھارت میں محکمۂ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار تھے۔ پولیس سے وابستہ کہانیوں کے برعکس انتہائی فرض شناس ذمہ دار اور ایماندار۔ پاکستان آنے کے بعد بیوی نے مشورہ دیا کہ تلاش ملازمت کے بجائے کیوں نہ کوئی کاروبار شروع کیا جائے۔ والد نے محکمۂ پولیس یا کسی اور محکمہ میں حصولِ ملازمت کو مشکل دیکھ کر بجلی کے گورنمنٹ کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ ایک روز وہ منوڑہ پر بجلی کے کھمبوں کی تنصیب میں مصروف تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ ان کے کچھ کام کرنے والے سیمنٹ چوری میں مصروف ہیں۔ وہ ان کارکنوں کو چیک کرنے کے لیے سائٹ پر پہنچے تو اچانک ایک کرین ٹوٹ کر ان پر آن گری۔ یا شاید ان کی ایمانداری کے صلے میں ان پر گرائی گئی۔ ان کے دماغ پر چوٹ لگی۔ وہ وہیں انتقال کر گئے۔ چھوٹا بھائی اصغر عالم، والد کے انتقال کے دو ماہ بعد پیدا ہوا۔ اس عورت کے دکھ کا تصور کرنا آسان نہیں جو ایک نئے ملک میں نئی جگہ پر یوں بے سائباں ہو گئی ہو، جس پر آٹھ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی ہو اور ان کی تربیت کا فرض بھی۔ آٹھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر خانم سعیدہ اس وقت کو، اس دُکھ کو اور ان پریشانیوں کو کبھی بھول نہ پائیں۔ والدہ جو اس اچانک صدمے سے انتہائی دکھی اور پریشان رہنے لگی تھیں لیکن انھیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ آٹھ زندگیوں کو یوں پالنا ممکن نہ ہو گا۔ زیورات کب تک ساتھ دیں گے۔ انھوں نے تلاش معاش کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ وہ گھریلو خاتون جس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اُسے گھر سے باہر قدم رکھنا ہو گا ایک سیمنٹ کی ایجنسی لے کر کام شروع کیا۔ بات نہ بنی۔ پھر انڈسٹریل ہوم کھولا۔ سوئی سلائی کا کام ہونے لگا لیکن اتنے بڑے خاندان کی ضروریات اس سے پوری ہونا ممکن نہ تھیں۔ چنانچہ راشننگ شاپ کے لیے درخواست دی۔ اسی کی تحقیقات کے سلسلے میں صہبا اختر ان کے گھرانسپکٹر کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ خواجہ عالم سے بات چیت کے دوران خواجہ عالم نے کہا کہ میں شاعر بھی ہوں۔ صہبا اختر نے کہا شاعر تو وہ ہوتا ہے جس کے دل کو لگی ہو۔ تم تو ابھی اتنے چھوٹے سے ہو۔ یہ سن کر خواجہ عالم نے کہا کہ بھائی میرے تو گھر کو لگی ہے۔ صہبا جواب سن کر چونکے، پوچھنے پر خواجہ عالم نے مختصراً گھر کے حالات بتائے کہ والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ بڑا بیٹا میں ہی ہوں۔ ماں ہماری زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے جو جتن کر رہی ہے وہ دیکھتا ہوں تو دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ صہبا ایسے ہی حالات سے گزر چکے تھے۔ ایک دکھی دل ہی دوسروں کے دکھوں اور پریشانیوں کو کچھ محسوس کر سکتا ہے چنانچہ صہبا کی والدہ اور ان کی بہن کبھی کبھی صہبا کے ہمراہ ان کے گھر چلی جاتیں۔ کچھ ان کے دکھ سنتیں کچھ اپنی کہتیں۔ ذہنی مطابقت تو دکھوں اور پریشانیوں کے باعث ہو ہی چکی تھی۔ آخر ایک روز صہبا کی والدہ نے خانم سعیدہ کی والدہ سے ان کے رشتے کی درخواست کی۔ والدہ پہلے تو جھجکیں کہ بڑی بیٹی کے ہوتے ہوئے چھوٹی بیٹی کی شادی کیسے طے کر دوں۔ اس وقت خانم سعیدہ کی عمر چودہ برس تھی اور وہ جیکب لائن سکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ صہبا کی والدہ کے شدید اصرار پر انھوں نے رشتہ قبول کر لیا۔ یوں خانم سعیدہ نے سعیدہ صہبا اختر بن کر صہبا کے صحن اور دل میں قدم رکھا۔ اس شادی میں جناب اختر انصاری اکبر آبادی، جناب کرار نوری، ڈاکٹر جمیل جالبی اور جناب حفیظ ہوشیارپوری شریک ہوئے۔ شادی کے موقع پر والدہ نے بڑی دِقتوں سے بچایا ہوا کچھ زیور انھیں پہنانا چاہا تو صہبا اختر نے انکار کیا کہ ابھی آپ کی اور بیٹیاں بھی ہیں ان میں سے کسی کو دے دیجیے گا۔ صہبا نے اپنی اہلیہ کے بہن بھائیوں اور والدہ کو کبھی سسرالی رشتہ دار سمجھ کر ان سے تکلف یا تکلیف کا تعلق نہ رکھا بلکہ انھیں اپنی ذمہ داری جانا۔
بیگم سعیدہ اختر، صہبا کی رفیقہ حیات کہ صہبا جنھیں عظیم محسنہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، ان کے بارے میں کہتے ہیں :
’’ میری زندگی کی تعمیر میں میری بیوی کا بڑا حصہ ہے۔ حالانکہ میری جب اس سے شادی ہوئی تو زیور تو کیا، اس کا ہاتھ میں پتیل کا چھلا بھی نہیں تھا لیکن خدا کے فضل سے میں زندگی بھر کے اس سودے میں نقصان میں نہیں رہا۔ میری بیوی نے مجھے ہر رنگ میں محبت، ہر حال میں رفاقت اور ہر مصیبت میں وفا کی دولت عطا کی۔ میرے گھر کو بنایا، سنوارا، میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے محنت کرنے پر مائل کیا۔ میرے آنسوؤں کو اپنے آنسو اور میری مسکراہٹوں کو اپنی مسکراہٹیں دیں۔ یہاں تک کہ میری آوارگی اور بد مزاجی کو برداشت کیا اور پھر مجھے جو سب نے بڑی دولت عطا کی وہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والے میرے وہ بچے ہیں جو مجھے اپنی جان سے زیادہ پیارے ہیں۔ میں خداوند تعالیٰ کا بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے ایک باوفا بیوی کے علاوہ چھ خوب صورت ذہین، شریف محنتی اور سعید بچے عطا فرمائے۔ خداتعالیٰ ان کی عمریں دراز کرے اور انھیں سدابہار رکھے۔ میں خوش ہوں کہ خدا نے میرے بچوں کو میرے جیسے نصیب دے کر پیدا نہیں کیا اور پروردگار سے دعا کرتا ہوں کہ خدا انھیں وہ تمام نعمتیں عطا کرے جو مجھے زندگی میں نہیں مل سکیں۔ میں اپنے بچوں کی طرح اپنے ملک کے تمام بچوں کے لیے شاندار مستقبل کی دعا کرتا ہوں۔ خدا میرے گلزارِوطن کو ان پھولوں سے ابدالآباد تک سرسبز و شاداب رکھے۔ خدا میرے وطن کو قائم و دائم رکھے آمین۔ ‘‘ ۲۲؎
بیگم سعیدہ، صہبا اختر کے اخلاص و ایمانداری سے حاصل کیے گئے، رزق حلال کا ثمر لائق اور ذہین اولاد بتاتی ہیں۔
’’… وہ اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی نوکری سے بھی بہت مخلص تھے۔ راشننگ انسپکٹر کی حیثیت سے صہبا صاحب نے بہت عرصے تک کام کیا اور کبھی ایمانداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایماندار نہیں ہوتے ان کے چہرے پر رونق نہیں ہوتے۔ بچے قابل نہیں ہوتے اور مجھے اللہ نے کس چیز سے نہیں نوازا کہ میں غلط طریقے اپناؤں۔ اس زمانے میں بعض لوگ ان ہی کے محکمہ میں شکرآٹا وغیرہ سستا حاصل کر لیتے تھے، لیکن وہ ہمیشہ اپنے اصول پر قائم رہے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ ہمیشہ محنت کی۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت کو ہرچیز پر فوقیت دی۔ گھر سے کہیں نہیں جاتی تھی کہ بچوں کے استاد پڑھانے آئیں گے میں نہیں ہوں گی تو بچے ڈھنگ سے پڑھائی نہیں کریں گے۔
میرے ماشاء اللہ چھ بچے ہیں۔
۱۔ روبینہ اختر۔ بینکر ۲۔ شہلا اختر۔ ڈاکٹر
۳۔ عظیم اختر۔ سول انجینئر ۴۔ اعظم اختر۔ مکینیکل انجینئر
۵۔ ثمینہ اختر۔ ڈاکٹر ۶۔ ندیم اختر۔ ڈاکٹر
۱۔ داماد اصغر نقوی۔ ڈاکٹر ۲۔ داماد محمد جمشید۔ اسکواڈرن لیڈر، ایئرفورس
۳۔ داماد محمد سید ندیم۔ ڈاکٹر
میرے تمام بچے نیک اور سعادت مند ہیں ، اپنے والد سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ان کی یاد میں ہر سال ایک میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ اُمید ہے کہ ان کے بچے سارا ندیم، رافع ندیم، محمد عباس اور فزا اعظم، معظم عظیم، مژگان اعظم، صنم نقوی، ذیشان جمشید، احمر نقوی، محمد شاہ زیب اعظم، حسین اختر بھی اپنے دادا/نانا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وطن اور اہلِ وطن سے محبت کا عملی ثبوت پیش کریں گے۔ ‘‘ ۲۳؎
ڈاکٹر عظیم اختر، صہبا کے بڑے فرزند، پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر، N.E.D یونیورسٹی سے B.Eکرنے کے بعد مقامی فرم سے منسلک ہیں۔ عظیم اختر کہتے ہیں کہ والدین دنیا میں خصوصاً ہمارے معاشرے میں عام طور پر اچھے ہی ہوتے ہیں لیکن میرے خیال میں میرے والدین EXTRA ORDINARY والدین میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کا محور صرف اور صرف اپنے وطن اور اپنے بچوں کی محبت کو نبھانا تھا۔ میرے والد Self madeانسان تھے۔ وہ مسلسل محنت پر یقین رکھتے تھے اور اس بات پر بھی کہ انسان کبھی حوصلہ نہ ہارے تو کامیابی اس کا مقدر ہے۔ وہ بہت خود دار، سرکشیدہ شخصیت کے مالک، خوش شکل اور رعب دار تھے۔ نماز پابندی سے ادا کرتے، مشاعرے میں نماز پڑھ کر جاتے۔ بہت کھرے اور بہت محبت والے انسان تھے۔ بلاغرض اور بلاتفریق محبت کرتے۔ بڑی سرکاری شخصیت یا عہدوں سے متاثر نہ ہوتے تھے۔ کبھی کسی سے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے متعلق سوچتے بھی نہ تھے۔ کبھی کسی کا دل نہ دکھاتے۔ کوئی بات بری لگتی تو Direct آدمی سے اس بات کا اظہار کر دیتے۔ کسی گروپ، سیاسی وابستگی سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھا۔ وطن سے بے پناہ محبت، وطن کے خلاف کوئی ایک جملہ بھی، ملک کے اندر یا باہر سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہاکی، کرکٹ میچ میں پاکستان کو ہارتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خصوصاً انڈیا کے خلاف جیت پر فوراً سجدہ ریز ہو جاتے۔ خدانخواستہ صورتِ حال برعکس ہوتی تو ہم دوا لیے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
ابا کو کھانے میں دال، کباب، کڑھی چاول اور حلیم بہت پسند تھے۔ کرکٹ، تاش، کیرم بورڈ شوق سے کھیلتے تھے۔ مذہبی پروگرام بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ اور طالب جوہری ان کے پسندیدہ عالم تھے۔
ابا کی محبت کا، بے پناہ عشق کا اتنا مضبوط جال ہے کہ ہم اس سے باہر جا ہی نہیں سکتے۔ ان کی کمی کا احساس روز بروز شدت کے ساتھ ہوتا جا رہا ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے وہ یاد آ جاتے ہیں ، آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کا کہیں ذکر ہو، بے چشم غم سن ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ ۲۴؎
ثمینہ اختر، صہبا اختر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی، جنھیں ایک لمحے کے لیے بھی باپ کا دعائیہ لہجہ نہ بھولا۔ ’’جیو بیٹا، بہت بڑے آدمی بنو‘‘ ان کی جدائی کا دکھ کس کس طرح دل کے ٹکڑے کرتا ہے۔
’’سورج کیسے غروب ہو جاتا ہے؟ پہاڑ کیسے نظروں کے سامنے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں ؟ سر کے اوپر سے چھت اور پاؤں کے نیچے سے زمین کیسے اچانک نکل جاتی ہے۔ ان سب باتوں کا مفہوم مجھے اس وقت سمجھ میں آیا جب میرا سورج جیسا باپ اچانک غروب ہو گیا۔ وہ جو مشاعروں کو لوٹ لینے کے عادی تھے۔ ہماری زندگی کی ساری روشنیاں ، ساری رونقیں اپنے ساتھ لپیٹ کر لے گئے۔ فیض صاحب کی اصطلاح میں ان کے کسی ساتھی کا بچھڑ جانا، زندگی کے ایک باب کے ختم ہو جانے کے مترادف تھا لیکن ابا کا جانا ایسا تھا، جیسے میری زندگی کی کتاب ہی ختم ہو گئی۔ اتنے گہرے اندھیرے میں اگر ابا کی خوبصورت یادوں کے جگنو بھی نہ ہوتے تو ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ رہ جاتا۔ میرے بے حد چاہنے والے خوبصورت، خود دار اور بے حد وضع دار ابا، زندگی کے ہر ہر روپ میں اتنے ہی شاندار تھے جتنے بڑے اور شاندار وہ شاعر تھے۔ ‘‘ ۲۵؎
بیماری، وفات، تعزیت
جتنے وار فتنہ سفرِ ہیں ہم
اتنی راہوں میں دلکشی ہے کہاں
ساتھ آئے کوئی کہ رہ جائے
زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں
(فرید جاوید)
انسان ہمیشہ زندگی کی مصروفیات کا شاکی رہتا ہے اور جب زندگی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے تو بھی شکوہ کرنا نہیں بھولتا۔ زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں۔ پھر ایک ایسا شخص جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو جس کا چہرہ، جس کی آواز اور جس کا لہجہ سبھی زندگی اور شگفتگی کی نوید دیتے ہوں جس نے غم بھی حوصلے سے برداشت کیے ہوں ، جسے دکھوں پر مسکرانے کا فن آتا ہو جو گھور اندھیروں میں امید کی مشعل چلانے کا عزم رکھتا ہو، جس کی ذات اپنے اندر سمندر کی ہیبت اور رعب سمیٹے ہوئے ہو، جس کے سرکشیدہ نے کسی کوتاہ قد، کج کلاہ دانشور، شاعر، حکمران، کسی کے سامنے جھکنا سیکھا ہی نہ ہو۔ جو اقِرا کا مفہوم جانتا ہو، اسے پھر کسی اور کی پروا نہیں رہتی جس کے پاس شعر و سخن کا خزینہ ہو اور جس نے دنیائے شعر پر بے تاج بادشاہت کی ہو۔
اس کے متعلق علم ہو کہ وہ قدم قدم پر موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ زندگی قطرہ قطرہ، اس سے چھینی جا رہی ہے تو پھر متوقع ہجر کا صدمہ جانکاہ دکھائی دیتا ہے۔
’’جہاں تک مجھے معلوم ہے صہبا کو عارضۂ دل میں مبتلا کرنے میں ان کی احساسات اور جذبات سے پُر شاعری کو بڑا دخل تھا۔ وہ اکثر اپنی نظموں کو مکمل کرنے کے لیے راتوں کو جاگا کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اس رت جگے کے نتیجے میں جو نظم انھیں عطا ہو وہ اپنی مثال آپ ہو۔ چنانچہ ان کا راتوں کو جاگنا اور خود کلامی کرنا رنگ لایا۔ ان کی صحت جواب دینے لگی۔ دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔ یہیں سے آخر بیماری ِدل نے ان کی توانائیوں کو چوسنا شروع کر دیا اور انجام یہ نکلا کہ وہ بہت جلد عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے ان کے ساتھ اپنی بیشتر ملاقاتوں میں دبے الفاظ میں یہ درخواست کی تھی کہ وہ شاعری کو اپنے اوپر مسلط نہ کریں ورنہ یہ بوتل کا جن ثابت ہو گا۔ کہنے لگے وہ تو ہو گیا ہے۔ اب میں اپنی سوچ کو روکنا بھی چاہوں تو نہیں روک سکتا۔ یہ سوچ مجھے بہت پریشان کرتی ہے اور اس نے میری نیند بھی چھین لی ہے اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی۔ ‘‘ ۲۶؎
صہبا نے اپنے نظریہ شعر اور حیات و ممات کے فلسفے کے بارے میں چند اشارے پہلے مجموعہ کلام سرکشیدہ کے دیباچے میں رقم کیے ہیں :
’’میں آپ سے یہ بات بھی نہیں چھپاؤں گا چونکہ میں ایک محروم اور تنہا انسان ہوں ، ایک ایسا آدمی ہوں جو ہمیشہ حالات کی ستم ظریفی کا شکار رہا ہے، اس لیے مجھ میں انانیت از خود پیدا ہو گئی جو اپنا اظہار چاہتی تھی اور اس انا کو جب تسکین کا کوئی اور پہلو نہ مل سکا تو پہلے وہ عشق میں ڈھلی اور پھر شعر میں۔ میں یہ شعر صرف اس لیے نہیں کہتا کہ یہ میری فطرت کا تقاضا ہے بلکہ شاید اس لیے بھی کہتا ہوں کہ مجھے خود نمائی کا شوق ہے۔ میں شعر اس لیے بھی کہتا ہوں کہ موت سے ڈرتا ہوں اور گمنامی کی موت نہیں مرنا چاہتا بلکہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ ۲۷؎
۱۹۷۷ء میں شائع ہونے والے اس مجموعہ کلام سرکشیدہ کے دیباچے میں خدا اور اس کے نبی سے اظہارِ عقیدت و محبت عیاں ہے:
’’مجھے افسوس ہے کہ میں ایک بے عمل مسلمان ہوں اور اللہ تعالیٰ کا ایک گنہگار بندہ بھی ہوں اس کے باوجود مجھے خدا سے پیار، رسول سے عشق، آلِ رسول سے محبت اور غلاموں سے عقیدت ہے۔ اس لیے میں نے حمد بھی نعت بھی منقبتی قصیدے بھی لکھے ہیں اور بعض نام نہاد بڑے شاعروں کی طرح مذہبی شاعری کو اپنے لیے کسرِشان نہیں بلکہ باعث افتخار و نجات سمجھتا ہوں اس لیے کہ انسان دوستی اور اسلام دوستی میرے لیے ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ ‘‘ ۲۸؎
ایک ایسا شاعر جو حضور ؑ سے عقیدت و محبت میں اتنا بڑھ چکا ہو کہ جب اس کے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ اسے دوسری دنیاوی مصروفیات و تخلیقات ترک کر کے ایک نعتیہ مجموعہ کہ جو اس کے لیے باعث نجات بھی ہو سکتا ہے پیش کرنا ہے تو وہ سبھی کچھ بھول کر اس کی تخلیق میں محو ہو جاتا ہے۔
’’پھر یوں ہوا کہ میں نے دُعا کی۔ اے رب العالمین۔ میری مدد فرما میں قلم اور میز پر سادہ کاغذ رکھ کر۔ میں نے عالم خیال میں درِرسول پر صدا لگائی۔ اے مدینہ علم۔ اے رسول بر حق مجھے خیال دے۔ لفظ دے۔ اظہار دے۔ بیان دے۔ وہ توفیق عطا فرما جو نعت سرائی کا سرور اور احساس و افکار کا نور بن سکے۔ بحمد للہ میری دُعا مستجاب اور میری عاجزانہ صدا کامیاب ہوئی۔ اس دن کے بعد، بلکہ اسی ساعت نئی نعتیں سوچنا اور لکھنا میرا معمول بن گیا۔ اکثر تو یوں ہوا کہ سرشام لکھنے بیٹھا تو دوسرے دن صبح تک لکھتا رہا۔ مسلسل کرسی پر بیٹھ کر لکھتے رہنے سے میری کمر میں ایسا درد ہو گیا کہ ڈاکٹر نے سارے کام بند کر کے فرش پر سیدھے لیٹے رہنے کی تاکید کر دی اور مستقل دواؤں کا سلسلہ جاری کر دیا لیکن مسئلہ پھر وہی تھا۔ انتظار کا اور انتظار میرے لیے ناممکن تھا۔ دواؤں سے قطع نظر میں نے پھر دُعاؤں کا سہارا لیا اور بفضلِ خدا جلد ہی ٹھیک ہو گیا اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ‘‘ ۲۹؎
وہ شخص جو حب رسول میں یوں ڈوبا ہو کہ ’’اقراء‘‘ کی تخلیق کے دوران میں جسے محسوس ہو کہ ایک مبارک اور مقدس روشنی اس پر مسلسل خیالات کی بارش کر رہی ہے۔ صریر خامہ نوائے سروش ثابت ہو رہی ہے اور ہر شعر کی تخلیق کے بعد کلمۂ تشکر زبان سے ادا ہو رہا ہو۔ ایسا شخص طویل زندگی کی خواہش رکھتا ہو۔ صرف اس لیے کہ وہ ’’حرف نا گفتہ‘‘ بھی کہہ سکے جسے کہنے کی فرصت زندگی نے کبھی نہ دی، خواہش صرف اتنی کہ نعت، دریا دریا لکھوں اور سمندر سمندر چھاپوں ، تو اس کی اپنی زندگی تریسٹھ برس سے زیادہ کیسے ہو سکتی تھی کہ اس کے ممدوح نے بھی تریسٹھ برس ہی کی عمر پائی تھی اور پھر پیر کا روز، کیا یہ اتفاق ہے؟
’’ پاکستان کے عالمگیر شہرت یافتہ شاعر صہبا اختر پیر ۱۹ فروری۱۹۹۶ء، ۲۹ رمضان المبارک کو سحری سے آدھے گھنٹے قبل دل کے دورے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر ۶۳ برس تھی۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ صہبا اختر گذشتہ کئی ماہ سے علیل تھے۔ ان کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر محفل مرتضیٰ کشمیر روڈ میں ادا کی گئی۔ ان کے انتقال کی خبر علی الصبح معروف شاعر منیر سیفی کے ذریعے متعدد دانشوروں کو ملی۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق قاسمی، ساجد علی ساجد اور صفدر صدیق رضی نے ٹیلی فون کے ذریعے اخبارات اور دانشوروں کو خبریں فراہم کیں۔ نماز جنازہ کے وقت متعدد لوگ محفل مرتضیٰ پہنچ گئے۔ تاہم غیر اہم اور آؤٹ روٹ ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگ کشمیر روڈ ہی کے چکر لگاتے رہے۔ نمازِ جنازہ میں سرشار صدیقی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، پروفیسر سحر انصاری، مدبر رضوی، سلیم کوثر، راشد نور، صفدر صدیق رضی، غوث متھراوی، سبطین جعفری، آصف انصاری، ساجد علی ساجد، تاجدار عادل اور مرحوم کے عزیز و اقارب نے شرکت کی۔ بعد ازاں ان کی میت گلشن اقبال ملک پلانٹ سے متصل قبرستان لائی گئی۔ اس موقع پر موجود دانشور، راغب مراد آبادی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، رضی اختر شوق، رضوان صدیقی، ضیاء الحق قاسمی، معراج حسن عامر اور حیدر حسنین نے جنازے کو کاندھا دیا اور میت کو لحد میں اتارا۔ ‘‘ ۳۰؎
صہباکی زندگی کے آخری ایام علالت میں گزرے۔ بیماری نے جسم کو متاثر کیا، لیکن ذہن و دل، عزم و حوصلہ میں شکستگی نہیں آئی۔ عیدالفطر سے دو روز قبل رمضان المبارک کے آخری عرشے میں داخل خلد ہوئے، موت کو کس طرح خوش آمدید کہا۔ عظیم اختر ان دنوں کی روداد کہتے ہیں :
’’ابا کے روز و شب پر نظر ڈالی جائے تو کچھ چیزیں ان کے معمول کا حصہ تھیں۔ مثلاً رات کو سونے سے پہلے کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک نیند نہ آ جائے۔ اس دوران میں کمرہ کا بلب روشن رہتا۔ تاریکی میں نہیں سوتے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن ابا کی موت ہوئی، اس وقت بجلی نہیں تھی۔ گھر میں جنریٹر بھی تھا لیکن باوجود کوشش کے وہ نہیں چل سکا۔ ابا نے اپنی وفات سے دو دن قبل مجھ سے آدھی رات یا علی الصبح اچانک نیند سے بیدار ہونے پر کہا۔ بیٹا اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ تم میرے لیے جگہ دیکھ رکھو۔ گھر کے قریب قبرستان میں پتا نہیں جگہ ہے یا نہیں ؟ اس موقع پر میں یہ سمجھا کہ ابا نے خواب دیکھا ہے اور depressed ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس دن یعنی ۱۸ فروری ۱۹۹۶ء بروز اتوار رات کے دس بجے میں ابا کو آغا خاں ہسپتال سے کچھ Test کرا کے گھر لایا تھا۔ ابا نے بڑے اطمینان سے مجھے اپنے پاس بٹھا کر دوبارہ کہا کہ بیٹا گھر کے قریب قبرستان میں جگہ دیکھ لو اور کچھ گھر سے متعلق ضروری ہدایات دیں۔ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ابا چند گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ ۲۹ رمضان بروز پیر ۱۹ فروری صبح صادق کا وقت، ابا ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے اور جس وقت قریبی ہسپتال سے اباکو ایمبولینس میں لے جایا جا رہا تھا۔ اس وقت اذان ہو رہی تھی۔ ‘‘ ۳۱؎
با عمل انسان زندگی کی آخری سانس تک اپنے فرائض کی ادائگی میں مصروف رہتا ہے، کاموں کی ایک طویل فہرست اس کے پیش نظر رہتی ہے لیکن فرصتِ زندگی بہت کم ہے۔ کچھ کام ہو جاتے ہیں۔ کچھ کی حسرت رہ جاتی ہے۔ صہبا بشرطِ زندگی اور تائید خداوندی اپنے آئندہ تخلیقی کاموں کی فہرست پیش کی تھی۔
خزینہ غزلوں کی کلیات
خراج عہد آفرین لوگوں کے نام نظمیں
ارژنگ رباعیات کا مجموعہ
تلچھٹ مختلف رسالوں اور اخباروں میں گم کلام کا انتخاب
دُعا قرآن پاک کی چند دُعاؤں کا منظوم ترجمہ
ایقان حمد نعت سلام قصائد اور مراثی کا مجموعہ
سرگزشتِ صہبا صہبا کی مکمل سوانح حیات
ان کی وفات کے بعد ان کا صرف ایک مجموعہ کلام ’’خزینہ‘‘ منظر عام پر آسکا ہے۔
تلچھٹ کے عنوان سے صہبا گم کلام کا انتخاب چاہتے تھے۔ اس کام کا ذمہ راقمہ نے لیا ہے۔ اس سلسلے میں ، راقمہ تقریباً ایک ہزار قطعات، منظومات، غزلیات و رباعیات جو مختلف رسالوں اور اخباروں میں بکھری پڑی تھیں ، انھیں تلاش کر چکی ہے، بشرطِ زندگی اور وسائل ان کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
شخصیت۔ عادات
منفی خصوصیات رکھنے والے اس معاشرے میں پرورش پانے والے ہر فرد کے کردار کو مثبت دیکھنے کی خواہش کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے بھڑکتی آگ سے ٹھنڈے میٹھے پانی کی توقع کرنا۔ کسی بھی برائی کی کثرت، اس کا عام ہونا، اسے اچھائی میں نہیں بدل سکتا۔ بعض برائیاں ہماری عادات میں شامل ہو چکی ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی غلط کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی اخلاقی بیماریوں کا علاج کسی معالج کے پاس نہیں۔ اخلاقی جرم کی سزا کسی قانون میں نہیں۔ شاید اس بنا پر ہم سب سے بڑی عدالت کے خوف سے بھی بے نیاز ہو کر دن بھر اس عمل کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں۔ سنو، لیکن کسی اور سے نہ کہنا، کہہ کر ہم اس غیر موجود شخص کے بارے میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ غیبت کی مذمت تو خدا تعالیٰ نے بھی کی ہے۔ ’’(مسلمانو) اور نہ تم میں سے ایک کو ایک پیٹھ پیچھے بُرا کہے۔ بھلا تم میں سے کوئی (اس بات کو) گوارا کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ (یقیناً) تم کو گوارا نہیں۔ ‘‘ رسول اللہ نے بھی غیبت کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ صہبا کی شخصیت اور کردار کی خوبیوں کے ذکر میں اکثر و پیشتر احباب نے ان کی اس خوبی کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ غیبت نہ کرتے تھے نہ سن سکتے تھے اور پھر بھی لوگوں کی پسندیدہ شخصیت تھے:
’’ صہبا ایک دلربا شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے ان کی زبان سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ کسی کے بارے میں برے کلمات نہیں سنے۔ وہ تو صرف محبت کرنا جانتے تھے۔ دنیاوی ہیر پھیر بھی انھیں نہیں آتے تھے۔ بہت بھولے بھالے بہت معصوم، ایک دفعہ سبی کے مشاعرے میں ، میں نے اور امجد نے ان کے ساتھ ایک ایکٹیویٹی کی اور اس معصوم شخص کو بہت دیر بعد جب پتہ چلا تو وہ ایک سپورٹس مین کی طرح ہماری ہنسی میں شریک ہو گئے۔ کیا شاندار انسان ہمارے درمیان موجود تھا جو عید سے دوروز پہلے پوری خاموشی کے ساتھ ہم سے رخصت ہو گیا۔ ‘‘ ۳۲؎
استاد مکرم، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے بکمالِ شفقت، صہبا کے ساتھ بیتے برسوں کی کتھا میری فرمائش پر لکھی وہ بھی صہبا کی اس صفت کی طرف بطور خاص اشارہ کرتے ہیں کہ وہ کبھی کس کی برائی نہیں کرتے تھے، ان کی سرشت ہی ایسی تھی کہ وہ ایسا کر ہی نہ سکتے تھے:
’’ مجھے اپنی زندگی میں صہبا اختر کے سوا کوئی اور آدمی ایسا نہیں ملا، جس سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ اب تو فضا میں اتنی کشیدگی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مذاق بھی نہیں کرتے۔ آج سے بیس سال پہلے فضا مختلف تھی مگر اکثر صہبا کی موجودگی میں اور کبھی کبھی اس کی غیر موجودگی میں لوگوں سے کہتا کہ صہبا اگرچہ مسلمان ہے اور پھر شیعہ ہے۔ کڑوا کریلا اور نیم چڑھا۔ مگر آج تک اس سے کس کی غیبت نہ سنی اور صہبا مسکرا کر رہ جاتا اور دوست میری تائید کرتے۔ آج تو پیار کی ان باتوں میں لوگ تعصب تلاش کر لیں ، ہمارا عہد وہ تھا کہ ایک دوسرے کو چھیڑتے، لیکن اس وسعتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کے مسلک کے احترام میں بڑے بڑوں کو ٹوک دیتے۔ کسی کی اچھائیوں کو دہراتے۔ لوگوں کی غیبت میں ان کی عزت کی حفاظت کرتے۔ اگر کسی کی برائی ہو رہی ہوتی تو صہبا خاموش رہتے لیکن اگر یہ سمجھتے کہ اس شخص کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ جھوٹ اور غلط ہے تو صہبا اپنی رائے کا ضرور اظہار کرتے۔ ‘‘ ۳۳؎
’’ سن پچاس میں کراچی آتے ہی جو چند نئے دوست ملے ان میں صہبا اختر بھی شامل تھا۔ وہ میرا محفلوں کا ساتھی بھی تھا اور تنہائیوں کا یار بھی۔ ریڈیو پاکستان میں کافی ہاؤس، چائے خانوں اور مشاعروں میں صبح سے شام تک ہم ساتھ رہے تھے۔ میں نے اس طویل مدت میں صہبا اختر سے کسی کی غیبت کبھی نہ سنی۔ ‘‘ ۳۴؎
’’صہبا اختر اتنے کھرے انسان کہ میں نے ان سے کسی کی برائی نہیں سنی بلکہ ان کی موجودگی میں کینہ پرور اور منافق قسم کے اہلِ قلم کسی کے بارے میں نا زیبا بات کرتے تو صہبا بھائی بگڑ جاتے۔ ‘‘ ۳۵؎
’’گھر میں ، میں واحد تھی جو ان سے بیٹھ کر جوش، فیض، ساحر اور خود ان کی شاعری پر باتیں کیا کرتی تھی کہ ابا میرے پسندیدہ شاعر بھی تھے۔ میں اکثر ابا سے ان کے ہم عصر شعرا کے بارے میں بھی باتیں کیا کرتی تھی۔ میں ان کی بیٹی ہوں۔ وہ چاہتے تو کسی کی برائی مجھ سے کر سکتے تھے لیکن وہ کبھی کسی کو برا نہیں کہتے تھے۔ میں اگر کبھی کسی پر تنقید بھی کرتی تھی تو وہ کہتے تھے۔ نہیں نہیں بیٹا وہ اپنے رنگ کا بڑا شاعر ہے۔ اس کا اپنا انداز ہے۔ ‘‘ ۳۶؎
صہبا اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود اپنے ماضی اور ماضی کے دوستوں کو کبھی نہیں بھولے۔ اگر کسی شام مشاعرہ نہ ہوتا کسی ادبی تقریب میں شرکت نہ کرنی ہوتی تو اپنے کسی بیٹے کے ساتھ کسی پرانے دوست کے پاس چلے جاتے اور بے تکلفی کے ساتھ ماضی کو یاد کرتے۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے مجھے بتایا:
’’آخری دنوں میں وہ میرے پاس کئی مرتبہ آئے۔ اتفاق سے میں ہر بار اپنے چھوٹے سے لان میں پلنگ پر لیٹا ہوتا۔ صہبا آتے تو اُٹھ بیٹھتا اور ہم دونوں گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے۔ سرشار صدیقی اور قمر جمیل کا اکثر ذکر ہوتا۔ حفیظ ہوشیارپوری مرحوم اور رفیق خاور مرحوم کی یادیں تازہ کی جاتیں۔ آج مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ موت کے قدموں کی چاپ وہ سن رہے تھے۔ ‘‘ ۳۷؎
اسلام میں قریبی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے کہ انسان جب بار بار اپنے عزیزوں پر احسان کرے گا تو یہ اس کی فطرت بن جائے گی اور پھر وہ ہر ایک کے ساتھ احسان کرنے لگے گا۔ احسان یہ نہیں کہ کسی کے ساتھ بہت بڑی نیکی کی جائے، اس کی مالی امداد کی جائے بلکہ کسی کو صحیح راستہ بتا دینا، راہ سے کانٹے اٹھا دینا بھی احسان ہے۔ نیکی کرنا اور بھول جانا، احسان کرنا اوراُسے فراموش کر دینا، یہی انسان کی بڑی صفت ہے۔ آج کے معاشرے میں یہ صفت عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا اس کا مجھ پر اتنا ہی احسان ہے کہ جتنا اس استاد کا جس سے میں تمام زندگی علم حاصل کرتا رہا۔
آج کے دور میں صہباغالباً واحد شخص ہیں کہ جس نے اپنے محسنوں کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ اکثر و پیشتر تحریروں اور گفتگو میں بھی اس کا تذکرہ کرتے رہے:
’’ اس عظیم انسان اور شاعر کے بارے میں بھی، جس کا اسم گرامی حفیظ ہوشیارپوری ہے اور جو میری زندگی میں میرا سب سے بڑا محسن ہے۔ میرے پاس کوئی دستاویز، کوئی تحریر یا تاریخ وار حوالہ نہیں ہے۔ اس لیے میں بہت سی باتوں کا اظہار صرف امر واقعہ کے طور پر ماہ و سال کی قید سے بے نیاز ہو کر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ حفیظ ہوشیارپوری مجھے زندگی کے اس موڑ پر ملے جب میں نوجوان تھا اور پاکستان کو وجود میں آئے ابھی دوچار سال ہی گزرے تھے اور جب میری زندگی تنگ دستی سے اور میری شاعری، زمانے کی کج روی سے مصروف پیکار تھی۔ شدید ناآسودگی کے دور میں اس وقت میری شاعری گھر سے لے کر فٹ پاتھ اور فٹ پاتھ سے لے کر مختلف چائے خانوں تک محدود تھی۔
مجھے احساس تھا کہ میرا لا شعور احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ یاسیت کا اندھیرا بتدریج مجھ پر حاوی ہو رہا تھا۔ اس ذہنی کیفیت سے اور اس احساس کمتری سے نبرد آزما ہونے کے لیے میں نے زیادہ سے زیادہ مطالعے اور بہتر سے بہتر شعر کہنے کی کوشش کی۔ خوش نصیبی سے اداسی کے اس زہر آلود اندھیرے میں کچھ چاند چہروں کی چاندنی اور کچھ مسیحا نفسوں کی مسیحائی میرے بہت کام آئی۔ ‘‘ ۳۸؎
اُن مسیحانفسوں میں اختر انصاری اکبر آبادی بھی شامل تھے کہ نا قدری اور ناآسودگی کے اس دور میں انھوں نے صہبا کو علمی و ادبی طور پر متعارف کروایا۔ رسائل کے مدیران تک رسائی میں رہنمائی کی اور حفیظ ہوشیارپوری جیسے مستند شاعر سے تعارف کا وسیلہ بھی بنے۔ صہبا نے حفیظ ہوشیار پوری کے لیے ہمیشہ عظیم محسن کے الفاظ استعمال کیے ہیں :
’’پھر اس موقع پر مجھے ایک بڑے آدمی یعنی خوب صورت شاعر حفیظ ہوشیار پوری کی سرپرستی بھی حاصل ہو گئی۔ اس سے مجھے اس نئے شہر میں آباد ہو جانے کا حوصلہ مل گیا۔ ایک معمولی تعارف کے بعد ایک دن اچانک میرے گھر آ گئے۔ میں نے انھیں بڑے احترام سے گھر کے اس واحد صوفے پر بٹھایا جس کے ٹوٹے ہوئے پائے کی جگہ پتھر رکھے ہوئے تھے اور انھیں چادر سے چھپایا گیا تھا۔ حفیظ صاحب نے شعر سنے، کئی غزلیں سنیں ، بے انتہاتعریف کی اور چلے گئے۔ پھر ایک دن وہ مجھے نگار ہوٹل لے گئے اور میں عمائدین شہر کے حلقے کا رکن بن گیا۔ ‘‘ ۳۹؎
’’حفیظ صاحب نے ریڈیو میں بحیثیت شاعر میرا (تعارف) کروایا۔ فی پروگرام چار آنے پر بس پھر کیا تھا۔ وہی لوگ جو میری غزلیں پڑھے بغیر انھیں ناقابلِ اشاعت قرار دے کر واپس کر دیا کرتے، میری غزلیں چھاپنے کی فرمائش کرنے لگے اور ’’ماہ نو‘‘ میں جہاں کبھی ایک شعر نہیں چھپا تھا، دس صفحات پر مشتمل میری نظم شائع ہو گئی۔ حفیظ صاحب کے بڑے احسانات ہیں۔ ‘‘ ۴۰؎
صہبا، شعری اصلاح کے احوال میں بھی حفیظ کے ممنون احسان ہیں کہ اکثر بیشتر تازہ غزل انھیں ہی سنائی جاتی۔ کوئی لفظ بدلنا ہوتا تو حفیظ پر خلوص مشورہ دیتے۔ بسا اوقات پورا مصرع ہی تبدیل کرنے کو کہتے۔ صہبا کو زندگی کے آخری لمحے تک وہ تھپڑ یاد ہے جو حفیظ نے ایک مرتبہ عروض کی غلطی ہونے پر صہبا کے منہ پر مارا تھا۔ وہ طمانچہ صہبا کے لیے ایک اعزاز سے کم نہ تھا کہ آئندہ ان سے ایسی غلطی پھر کبھی نہ ہوئی:
’’ بہرحال میں ادب کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے حفیظ صاحب سے جو میری نظر میں فرد کے بجائے خودکسی ادب کے ادارے کی طرح تھے، مستفید ہوتا رہا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ میں اپنی تازہ شاعری پر مبنی غزلیں یا نظمیں ان کے سامنے ایک بیاض نما کاپی کی شکل میں رکھ دیتا اور وہ انھیں دیکھ کر جہاں چاہتے ایک نیلی پنسل سے کبھی ان کے الفاظ میں رد و بدل کر دیتے یا کبھی وہ پورا مصرع بدل دیتے۔ سنا ہے ناصر کاظمی کو بھی ناصر کاظمی بنانے میں حفیظ ہوشیارپوری کا ہاتھ تھا۔ میں دوسروں کے بارے میں تو کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن اپنے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ادب میں سربلندی صرف حفیظ صاحب کے صدقے میں حاصل ہوئی یہ تو رہی شاعرانہ زندگی کی بات اس سے ہٹ کر میری معاشی زندگی پر بھی صرف حفیظ صاحب کا احسان ہے۔ ‘‘ ۴۱؎
اور پھر حفیظ صاحب نے صہبا کو شیخ اعجاز احمد محکمہ خوراک کے جوائنٹ سیکرٹری سے ملنے کے لیے کہا کہ اس وقت چند فوڈانسپکٹروں کی اسامیاں خالی تھیں۔ صہبا نے پہلی مرتبہ کلرکی کے عذاب سے جان چھڑوائی:
’’ حفیظ صاحب کی کس کس عظمت اور کس کس احسان کا تذکرہ کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ احسان کر کے بھول جانے والے اس بیکراں انسان کا فیض صرف مجھ تک ہی محدود نہیں رہا ہو گا۔ خدا جانے، حفیظ صاحب نے کس کس ضرورت مند اور جوہر قابل کو نوازا ہو گا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ احسان فراموشی کا دور ہے اور عین ممکن ہے کہ آج بہت سے بڑے لوگ یا شاعر اس کا اعتراف نہ کریں کہ یہ عظیم انسان اور شاعر جسے حفیظ کہتے ہیں ان پر کیا کیا احسان کر گیا ہے۔ مگر میں یہ برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میری شاعری کا حرف حرف اور میری معاشی زندگی کا ایک ایک سانس حفیظ صاحب کا مرہون منت تھا، ہے، اور رہے گا حفیظ صاحب شعر و شاعری کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل محنت، دیانت اور خود سپردگی کے قائل تھے۔ انھوں نے ملازمت کے دوران بھی اور ملازمت کے بعد بھی کراچی کے بہت سے ادبی اداروں کے لیے کام کیا۔ میں ان کے نام نہیں لینا چاہتا کہ اس میں کچھ لوگوں کی پردہ نشینی پر بھی حرف آتا ہے۔ تاہم اتنا عرض کر دوں کہ انھوں نے بہت سے حضرات کے لیے فارسی انگریزی کی بہت سی کتابوں کے ترجمے بھی کیے اور وہ دستار فضیلت جو ان سروں پر رکھی گئی۔ دراصل اس درویش کا صدقہ تھی جو میرا ممدوح بھی ہے اور محسن بھی۔ جب بھی ادبی کامرانیوں سے سرشار ہو کر۔ میں حفیظ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تو وہ فرماتے نہیں صہبا۔ ایسا نہ کہو۔ تم نے اب تک جو کچھ ادب میں حاصل کر لیا ہے۔ وہ اپنے میرٹ پر کیا ہے اور آئندہ بھی جو حاصل کرو گے۔ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ ہاں میں نے دریافت ضرور کیا ہے۔ ‘‘ ۴۲؎
حفیظ صہبا کے لیے معتبر شاعر، محترم دوست اور مخلص انسان ہی نہ تھے بلکہ ان کے مزاج کی درستگی و کجروی کو محبت و نرمی سے بدلنے پر قادر بھی تھے:
’’ حفیظ صاحب میرے بزرگ تھے، جہاں تک حفظ مراتب کا تعلق ہے، وہ میرے استاد معنوی ہی نہیں تھے بلکہ میری ذاتی زندگی میں بھی اس طرح دخیل تھے کہ میرے لیے ایک روحانی باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ اس کے باوجود ادب و شعر کے حوالے سے میں ان سے کسی حد تک بے تکلف مراسم بھی رکھتا تھا۔ میری ساری زندگی ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ اس لیے وہ میری جمال پرست زندگی کے حجاب در حجاب معاملات بھی ان پر روشن تھے۔ وہ خود ایک شاعر تھے اور ایک شاعر کی قلب و نظر کی ضرورتوں بلکہ مجبوریوں سے بھی آشنا تھے۔ اس دور میں جب میری شاعری زندگی کی بہت سی محرومیوں کا شکار تھی۔ اس لیے قدرتی طور پر یا تو رومان پرستی میرا سہارا تھی یا ترقی پسند تحریک کی بغاوت مزاجی میرا شعار تھی۔ اس لیے شعلہ رخساروں کی شعلہ سامانی اور سرمایہ داروں کے خلاف آتش بیانی سے میری شاعری عبارت تھی۔
اس دور میں … میری ایک محبوب دوست۔ فرض کر لیجے کہ اس کا نام ’’ع‘‘ تھا۔ میرے دل و دماغ پر اپنی تمام سحرسامانیوں کے ساتھ محیط تھی۔ حفیظ صاحب اس لڑکی کے بارے میں ، غزلوں اور نظموں کے روپ میں میری قصیدہ نگاری سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے بلکہ اسے ذاتی طور پر بھی جانتے تھے اس لیے کہ ’’ع‘‘ خود میرے ساتھ چل کر ان سے کئی بار مل بھی چکی تھی۔ جب میں اور ’’ع‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ حفیظ صاحب سے ملاقات کرتے تو وہ ہم دونوں کو اس پیار اور اس بزرگانہ شفقت سے خوش آمدید کہتے کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم دونوں ان کی نظر میں خود ان کی اپنی کتاب ہستی کے دو گم شدہ اوراق ہیں۔ وہ اس لڑکی کی ذہانت اور اس کی شخصیت میں جادوجگانے والی محبوبیت کو شاید مجھ سے بھی زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ کسی غلط فہمی کی بنا پر میں ’’ع‘‘ سے شدید ناراض ہو گیا۔ عنفوانِ شباب کے رومانی دور میں اس طرح کی غلط فہمیاں اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اکثر عشق کرنے والوں کے درمیان طوفان خیز قیامتیں اٹھاتی رہتی ہیں۔
پھر کیا تھا۔ میرے مزاج کی حدت اور احساس کی شدت نے ’’ع‘‘ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ میں نے اسے بے وفا اور عہد شکن سمجھ کر، غصے کے شدید جذبات سے مملو، نظم لکھ ڈالی۔ اس نظم کا عنوان تھا۔ ایک نئی قلوپطرہ ’’ع‘‘ کے نام وہ نظم اس دور کے ایک مشہور ادبی رسالے کے سالنامے میں شائع ہو گئی۔
ایک دن۔ حفیظ صاحب کا فون آیا کہ صہبا آج شام پانچ بجے میرے گھر پہنچو۔ میں حسبِ حکم حفیظ صاحب کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اہل خانہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ دروازہ خود کھولا اور کہا آؤ۔ خلاف معمول رویے میں کچھ سردمہری تھی۔ پھر کہا بیٹھو ایک کرسی پر میں بیٹھ گیا بیچ میں میز تھی اور اس میز کے دوسرے طرف کرسی پر وہ خود بیٹھ گئے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ میز پر وہی رسالہ رکھا ہوا تھا جس میں ’’ع‘‘ کے خلاف میری نظم شائع ہوئی تھی۔ پھر اس رسالے کی طرف دیکھا۔ کہا اسے اٹھاؤ۔ فلاں ورق الٹو۔ وہ ورق پہلے ہی سے موڑ رکھا تھا۔ میں نے تعمیل حکم میں اس ورق کو غور سے دیکھا تو وہی نظم سامنے آ گئی۔
میں سمجھ گیا کہ کیوں ناراض ہیں۔ میں نے کہا جی وہ بات یہ ہے کہ ع نے میرے ساتھ بہت بے وفائی کی ہے۔ مجھے بہت دکھ دیا ہے۔ میں کیا کرتا۔ اگر یہ نظم نہ لکھتا تو کیا کرتا۔ میں پاگل ہو جاتا۔ گرج کر کہا، بکواس مت کرو، خاموش ہو جاؤ۔ تم نے اس کو نہیں یہ نظم لکھ کر شاعری کو ذلیل کیا ہے۔ کیا شاعری ایسی ہوتی ہے۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کو جب چاہا آسمان پر بٹھا دیا اور جب چاہا قعرِ مذلت میں پھینک دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم جیسا شاعر جو اپنے محبوب کی قصیدہ نگاری کرتا ہے، پھر اس کی ہجو نگاری بھی کر سکتا ہے۔ صاحبزادے عشق آگ میں جل کر راکھ ہونے کا نام ہے محبوب پر چاہے وہ بے وفا ہی کیوں نہ ہو۔ گالیوں کی آگ برسانے کا نام نہیں ہے۔ میں نے پھر اپنے دفاع میں کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی تو فرمایا۔ تم جھوٹے ہو۔ اگر وہ تم سے محبت نہ کرتی تو تمھارے لیے اور تمھاری نظم کے خلاف احتجاجاً یوں آنسو نہ برساتی پھرتی۔ وہ بے قصور ہے۔ تمھیں اس سے معافی مانگنا پڑے گی۔ میں نے کہا اچھا سر میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔ مگر اس نظم کا کیا کروں۔
’’ فرمایا۔ اسے دیوان بلکہ اپنے ذہن سے بھی پھاڑ پھینکو اور اس کے بدلے ، پھر کوئی نظم باقاعدہ معافی نامے کی شکل میں لکھ کر مجھے سنانا۔ ہاں تو تم معافی مانگنے کے لیے تیار ہو۔ میں نے کہا جی میں وعدہ کرتا ہوں۔ جیسے ہی اس سے ملاقات ہو گی۔ میں تعمیل حکم کروں گا۔ جیسے ہی میں نے یہ کہا تو مسکرائے اور بولے عین ادھر آ جاؤ یکایک میں نے دیکھا کہ پردے کو جنبش ہوئی اور ’’عین‘‘ میرے سامنے موجود تھی پھر مسکرا کر بولے۔ ’’عین‘‘ سے معافی مانگو۔ میں نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ پھر مسکرائے اور ہم دونوں کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے اور کہنے لگے میں کافی ہاؤس جا رہا ہوں ایک گھنٹے بعد آؤں گا۔ معافی نامہ لکھ کر تیار رکھو۔ ‘‘ ۴۳؎
آج کے عہد میں احسان کرنے والے اور ایسے احسان ماننے والے اب کہاں ؟ حفیظ ہوشیار پوری صہبا کے بزرگ دوستوں میں سے تھے۔ ان کا حلقہ احباب وسیع نہ تھا لیکن بے تکلف دوستوں کی محفل میں حفیظ کی شوخی اور چلبلا پن عروج پر ہوتا۔ بدیہہ گوئی میں تو کوئی ان کا ہم سر نہ تھا۔ ’’ساقی نامہ‘‘ جو کہیں شائع نہ ہوا، لیکن کلامِ سینہ بہ سینہ، شہر بھر میں دھوم مچا گیا:
’’ حفیظ صاحب اپنے بے تکلف دوستوں میں بھی کسی بات سے لطف اندوز ہوتے تو صرف مسکرا دیتے۔ میں نے انھیں کبھی زور دار انداز میں بے ہنگم قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حفیظ صاحب نے اپنے قریب ترین حلقہ احباب کے بارے میں ایک مثنوی بھی تحریر فرمائی تھی جس میں ایک شعر میرے بارے میں بھی تھا۔
وہ صہبا جو صہبائے بے جام ہے
فقط نام ہی سے جو بدنام ہے
حفیظ صاحب کی یہ مثنوی بھی صرف حلقہ احباب دوستاں کی تعریف و توصیف یا ذاتی محبتوں کا اظہار ہی نہیں بلکہ ادب کا ایک شاہکار بھی ہے اور اس اعتبار سے بھی ایک یادگار تصنیف ہے کہ شاید ہی کسی شاعر نے اپنے دوستوں کا بیان اس طرح کیا ہو جس طرح حفیظ نے کیا۔ ‘‘ ۴۴؎
مشاعرے
صہبا اختر کے مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں جو طنطنہ رعب اور گھن گرج تھی۔ وہ انھی سے مخصوص ہے ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ لہجے کی قطعیت مخاطب کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی اور وہ آپ سے اختلاف کرنے کی جر اء ت ہی نہیں کر پاتا تھا۔ صہبا کی بیشتر نظموں کا محور وطن سے محبت تھا۔ اس محبت سے کون انکار کر سکتا ہے یا پھر ان مسائل کا بیان کہ جن کے باعث وطن کی صبح درخشاں تیرگی اور تاریکی کا شکار ہو سکتی تھی۔ ہر محب وطن کو اس کا احساس تھا۔ یوں لحن اور جذبہ دو آتشہ کی کیفیت پیدا کر دیتے۔
وہ جنھوں نے صہبا کو صرف سنا ہے، پڑھا نہیں ہے۔ وہ صہبا کی شخصیت اور شاعری کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ احمد ندیم قاسمی اس حوالے سے رقم طراز ہیں :
’’ صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ ۴۵؎
’’ ۱۹۶۸ء کی بات ہے، سبی میں مشاعرہ تھا۔ پاکستان کے تمام شہروں سے شاعر مدعو کیے گئے تھے۔ صہبا بھی موجود تھے۔ اپنے آپ میں گم، نہایت کم گو، لا ابالی انسان۔ جب ان کی باری آئی تو خاموش کم گو صہبا گرجتے بپھرتے سمندر کی مانند نظر آنے لگے۔ مشاعرہ پڑھنے کا ان کا خاص انداز ہے، دوسرے شاعروں سے جدا۔ وہاں کے لوگ اس انداز سے واقف نہ تھے۔ انھیں اچنبھا ہوا۔ بہرحال محفل خوب جمی۔ صہبا نظم کے شاعر تھے۔ نظم طویل کہتے تھے لیکن سانس نہیں ٹوٹتا تھا۔ مشاعرے میں عموماً طویل نظم کامیاب نہیں رہتی لیکن صہبا پڑھ رہے ہوں تو نظم کے جلد ختم ہو جانے کا افسوس رہتا۔ ‘‘ ۴۶؎
’’صہبا اختر صاحب ہمارے عہدے کے ممتاز شاعروں میں تھے۔ میں پچھلے چالیس سال سے ان کا کلام پڑھتا بھی رہا ہوں اور انھیں مشاعروں میں بھی سنا۔ ان کے کلام سنانے کے انداز میں ایک خطیبانہ رنگ تھا، جو جوش ملیح آبادی کی یاد دلاتا تھا۔ جوش صاحب کی طرح انھیں بھی کلام پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ الفاظ کا ایک خزینہ ان کے تابع رہتا تھا۔ ‘‘۴۷ ؎
مشاعرے ہماری تہذیبی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شاعروں کی تر بیت و تعارف میں ہی نہیں بلکہ سامعین کی پرورشِ ذوق میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
’’غالباً ۱۹۵۵ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں ، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پیجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔ بس اس مشاعرے کے بعد موصوف کی شہرت و مقبولیت کا گراف افقی اور عمودی دونوں صورتوں میں بڑھتا ہی گیا۔ اکثر و بیشتر اندرونِ سندھ کے مشاعروں ہی میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں ، پھر بیرونِ سندھ کے بڑے بڑے مشاعروں میں بھی ان کی زندہ دلی، خلوص و محبت اور شاعرانہ بانکپن کا نقش بھی دیدہ و دل میں گھر کر گیا۔ ہاں ان کی شاعری میں یہ فرق نمایاں ہونے لگا کہ شروع شروع میں ترنم سے اپنی غزلیں سناتے پھر قطعات اور جوشیلی نظمیں بڑی گھن گرج سے سناتے اور خوب داد پانے کا دور آیا۔ انڈو پاک مشاعرے ہوں یا عالمی مشاعرے وہ اپنے پیام و کلام اور زبان و بیان سحر خیزی سے ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن جاتے تھے۔ ‘‘۴۸؎
کشور ناہید ترنم کے حوالے سے جگر صاحب حفیظ جالندھری، مجاز، جذبی، مخدوم، ادیب سہارن پوری، احسان دانش، جگن ناتھ آزاد، قمر جلالوی، سید آلِ رضا کا تذکرہ کرتی ہیں جن کا لہجہ تہذیب و شائستگی لیے ہوتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ادا جعفری، زہرہ نگاہ، سحاب قزلباش، حبیب جالب، کلیم عثمانی، مظفر وارثی، حمایت علی شاعر، جمیل الدین عالی، طفیل ہوشیار پوری اور سید ضمیر جعفری بھی اس فن میں یکتا رہے۔ کشور ناہید صہبا کے لحن کا آہنگ، آواز کا دبدبہ، الفاظ کا طنطنہ، جذبے کا جوش و خروش، سبھی کا تذکرہ کرتی ہیں جو سننے والوں پر گہرا اثر ڈالتا تھا۔
’’…تحت میں پڑھنے والوں کی گھن گرج میں شور علیگ اور صہبا اختر… دونوں شاعر کراچی سے تھے، صہبا اختر نے مارشل لاء کے کوڑوں کے زمانے میں ایک نظم لکھی تھی۔ محبت محبت محبت کرو اور اتنے تحکم کے ساتھ یہ مصرع ادا کرتے تھے کہ ہم سننے والے بھی اس لفظ محبت کی ادائگی سے ڈر کر کہتے تھے کہ صہبا بھائی آپ بھی تو لفظوں کے کوڑے مارتے ہیں۔ ‘‘ ۴۹؎
’’تیس ببتیس برس پہلے کا ذکر ہے سکھر کے ایک بڑے مشاعرے میں صدارت کے لیے میں نے صہبا بھائی کا نام تجویز کیا لیکن انھوں نے صدارت قبول کرنے کے بجائے میرے حق میں زور دار خطابت کا جادو جگایا اور مجھے حکم دیا کہ صدارتی نشست پر براجمان ہو جاؤں۔ اکتوبر ۷۱ کا واقعہ ہے کہ سکھر ہی میں کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہونا تھا۔ یونائٹڈ بنک کے مفتی صابر اس کے منتظمِ اعلیٰ تھے۔ انھوں نے کراچی کے شعرا کو مدعو کرنے کے لیے مجھے روانہ کیا۔ مشکل یہ تھی کہ انعقادِ مشاعرہ میں دو دن ہی باقی تھے۔ میرے لیے انتہائی روا روی میں چند ممتاز شعرا سے رابطہ کرنا اور انھیں کسی معقول نذرانے کے بغیر شرکتِ مشاعرہ پر راضی کرنا ایک کڑی آزمائش تھا۔ بہر کیف میں سویرے سویرے سب سے پہلے صہبا بھائی کے گھر گیا۔ سو رہے تھے، جگائے گئے، بڑی خوش دلی سے گلے ملے اور میری درخواست کو نہ صرف من و عن قبول کر لیا بلکہ میرے کہنے پر تحریری یقین دہانی بھی کر دی۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ پھر میں نے بھائی دلاور فگار، حمایت علی شاعر اور محسن بھوپالی کو بھی راضی کر لیا۔
مذکورہ مشاعرہ سکھر کی ادبی تاریخ کا ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں بھائی صہبا اختر نے منفرد لہجے کی جو غزل پڑھی تھی اور جس پر بہت داد ملی تھی، اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
سر ہنگام ِ جاں ، ہنگامۂ دل ہو ں فقط اپنا
مرے طوفاں مجھی تک ہیں ، میں ساحل ہوں فقط اپنا
نہ تخت و تاج قبضے میں نہ صبر و فقر حصے میں
مدد حاصل نہیں کوئی میں حاصل ہوں فقط اپنا
رقیبوں سے رقابت کیا حریفوں سے شکایات کیا
کہ اس آئینہ خانے میں مقابل ہوں فقط اپنا
میرپور خاص میں بھی ’’فن کدہ‘‘ کے جو فہم بالشان مشاعرے ہوئے تھے۔ صہبا صاحب نے میری دعوت پر ان مشاعروں میں بھی ایسی اچھی نظمیں اور قطعات سنائے جن کی اثر آفرینی بہر طور اپنی مثال آپ رہی۔ ‘‘۵۰؎
اعزازات
” ایک دفعہ نہ جانے کہاں حمید نسیم صاحب اور حفیظ صاحب کی موجودگی میں میں نے اپنا یہ شعر پڑھا۔
ہزار چہرۂ تصاویر کو نگاہ میں رکھ
کہ رنگا رنگ سخن کا نگار خانہ رہے
دوسرا مصرع سن کر حفیظ صاحب نے میرے منہ پر طمانچہ مار دیا اور کہا کیا بکتا ہے۔ طمانچہ کھا کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں نے دوسرا مصرع دوبارہ پڑھا
کہ رنگ رنگ سخن کا نگار خانہ رہے
’’ یہ صرف اہل عروض یا اہل علم ہی جانتے ہیں کہ مجھ سے اس مصرعے میں غلطی یہ ہوئی کہ میں نے جہاں رنگ رنگ کہنا چاہیے تھا وہاں رنگا ر نگ کہہ دیا اور اس طرح رنگا کا الف خارج ازبحر ہو گیا یعنی کہ فارسی کے الفاظ میں الف کا گرانا جائز ہے مجھ سے فوری طور پر درست مصرع سن کر مسکرائے شاباش کہا اور گلے سے لگا لیا۔ حفیظ صاحب ویسے نرم دل اور شفیق رویوں کے انسان تھے مگر اس دن نہ جانے وہ کیسے Rash mood میں تھے کہ انھوں نے مجھ سے شعری غلطی سرزد ہونے پر بے ساختہ میرے منہ پر طمانچہ مار دیا۔ بہرحال مجھے حفیظ صاحب کا وہ طمانچہ آج بھی یاد ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا پھر عمر بھر مجھ سے ایسی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔ ‘‘ ۵۱؎
صہبا کے لیے حفیظ کی طرف سے یہ تھپڑ کسی اعزاز سے کم نہ تھا کوئی اور ہوتا تو شاید یہ بات چھپا جاتا لیکن صہبا نے اسے تمغے کی طرح سجا کر رکھا یہی تھپڑ تھا جس کے باعث انھوں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا اور کوشاں رہے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہو اور اسی وجہ سے آنے والی زندگی کا سورج اپنے دامن میں ان کے لیے اعزازات اور انعامات کی کرنیں لیے طلوع ہوا:
’’ ۱۹۷۴ء میں جشنِ کورنگی میں جب ستارہ ادب پیش کرنے کا سوال پیدا ہوا تو انجم فوقی، عالی جوپنوری، جوہر سعیدی اور ظفر چوہدری کے ساتھ صہبا اختر کا انتخاب کیا گیا، جو دوسرے شعرا کے مقابلے میں بہت کم عمر تھے لیکن بہ اعتبار شہرت منفرد مقام حاصل کر چکے تھے۔ جشنِ کو رنگی میں ان ستارہ ہائے ادب کو جس انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا اس کا منظر آج بھی نگاہوں میں محفوظ ہے۔ ‘‘ ۵۲ ؎
اپنے آدرش مقصد اور اصولوں سے شدید وابستگی اور ثابت قدمی برہمن کو کعبے میں دفن کر دینے کا اعزاز بخش سکتی ہے۔ صہبا نے شعر و ادب کو کیا دیا۔ صرف اس کا ہی جائزہ لیا جائے تو بھی ان کی خدمات اتنی ہیں کہ جن کا تذکرہ فخر کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور اگر شعر و ادب میں پاکستانیت کے حوالے سے بات کی جائے۔ اسی پاکستان کے حوالے سے کہ جس کی چھت چھاؤں میں بیٹھ کر اس میں نقص نکالے جاتے ہیں۔ ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ صہبا نے پاکستانیت کے حوالے سے بات کی۔ ان کا جینا مرنا اس کے ساتھ تھا ان کی زندگی کی یا ان کی شاعری کی کہانی کا پہلا ورق پڑھا جائے یا آخری، اس میں پاکستان اور نظریہ پاکستان سے شدید تعلق اور وابستگی کا سچا اظہار ہے۔ پاکستان کی مٹی کا ایک ایک ذرہ ان کی محبت کا گواہ ہے۔ ان کا تحریر کیا ہو ایک ایک لفظ، ان کی سوچ کا ہر زاویہ پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ہی ختم ہوتا ہے۔ وہ یہاں بسنے والے عوام کے خلوص سے کبھی شاکی نہیں ہوئے۔ ہاں اس بات کا احساس ضرور ہے کہ عوام کو اس قدر سادہ و معصوم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی قسمت بنانے والے آقاؤں ، استحصالی قوتوں ، اندرونی و بیرونی دشمنوں ، علاقائی، صوبائی، لسانی، گروہی تعصبات کو ہوا دینے والوں کو پہچان ہی نہ سکیں۔ عوام کی یہ غلطی پاکستان کے حق میں زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے، پھر پاکستان کی تاریخ بدقسمتی سے اکثر و بیشتر مارشل لائی جبر کا شکار بھی رہی۔ یہ جبر و تشدد حبس اور گھٹن کا ماحول تخلیقی سوتوں کو خشک و بنجر نہیں کرتا بلکہ ان کونپلوں کو یہ بادسموم خوب راس آتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ کہنے والے کے پاس جرات و بے خوفی کی صلاحیت موجود ہو۔
کیا یہ اعزاز کم نہیں کہ صہبا وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جو پاکستانی قوم کہنا چاہتی ہے لیکن عدم صلاحیت کی بنا پر کہہ نہیں سکتی اور جب وہی بات صہبا کہہ دیتے تو عوام پکار اُٹھتے ہیں کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ میرے دل میں ہے:
’’ یہ شاعر میرے دل کی پاکستان کے بارہ کروڑ عوام کی آواز ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں جو چاہتا تھا اور مادر وطن سے وابستہ ہر شخص چاہتا ہے۔ وہ صہبا کہہ دیتا ہے اس دور بلا خیز میں بیباک بلند آہنگ شاعر ہونا ایک معجزہ ہے۔ صہبا اختر کو جب میں پڑھتا اور سنتا ہوں تو یقین کر لیتا ہوں کہ امن کا سلامتی، سکون کا سورج بس ابھرنے ہی والا ہے۔ صبح ہونے والی، ظلمت کی رات کٹنے والی ہے۔ ‘‘۵۳؎
یہ امر بھی صہبا کے لیے باعث اعزاز ہے کہ جب قیام ِپاکستان کے بعد پاکستان کا قومی ترانہ لکھوانے کے لیے حکومت پاکستان نے شعرا کو دعوت دی توسیکڑوں ترانے لکھے گئے۔ انتخاب کا مرحلہ یقیناً دشوار تھا کہ شعرا نے جوش و جذبے اور حب وطن سے معمور ان نغموں میں اپنا خونِ جگر اپنی روح بھی شامل کر دی تھی۔ کم عمر صہبا نے بھی قومی ترانہ لکھا۔ ان کا ترانہ پانچویں نمبر پر آیا۔
فنکار کسی ملک کے غیرسرکاری سفیر ہوا کرتے ہیں۔ وہ جب دوسرے ممالک میں اپنے فن کی نمود کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں تو ایک احساس ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ بیرون ملک اپنے ملک کی شناخت بن کر جا رہے ہیں۔ ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے، کوئی ایسی بات ان کے لبوں سے پھسل نہ جائے جو ان کے وطن، عوام اور خود ان کی ذات کے لیے شرمندگی کا باعث ہو۔ ایسے ہی غیرسرکاری سفیروں میں دو روّیے پائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہی جو بیرون ملک اپنے وطن کا وقار بلند کرنا اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جن کے خیال میں تخلیق کار، فنکار ان معمولی باتوں سے ماورا ہوتا ہے۔ وہ اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔ اپنی تخلیقات کی بدولت وہ رتبہ حاصل کر چکا ہوتا ہے کہ اب وطنیت اور قومیت کے محدود دائروں میں خود کو مقید نہیں رکھ سکتا۔ وہ آفاق گیر شہرت حاصل کر کے خود کو کائناتی و آفاقی حوالوں سے متعارف کروانا پسند کرتا ہے۔ پاکستانیت اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
’’ صہبا اختر مقامی قومی اور بین الاقوامی مشاعروں کی ضرورت تھے۔ ان کے بغیر کسی مشاعرے کا تصور ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ کسی شادی ہال میں جائیں اور دلہن ابھی بیوٹی پارلر سے نہ آئی ہو۔ مشاعروں کے دلہا صہبا اختر نے مشاعروں کے سلسلے میں دیارِ غیرکے کئی سفر کیے اور بیرون ملک پاکستانیوں اور غیرپاکستانیوں سے محبت کے انمول خزانے وصول کر کے لوٹے جب بھی انھیں پاکستان کے نام پر آواز دی گئی۔ انھوں نے لبیک کہا۔ خواہ وہ کسی حالت میں ہی کیوں نہ ہوں۔
صہبا اختر مرحوم نے بالکل سچ کہا ہے کہ
یاد رکھنا یاد رکھنا اے اہلِ وطن
تا دم آخر نہیں کھائی شکست
میں نے پاکستانیت کی جنگ میں
وہ نہ صرف سچے پاکستانی تھے بلکہ پاکستانیت کے ایک بلند آہنگ پرچارک بھی تھے اور اس کا گواہ پیٹریاٹ پاکستانیز دُبئی کا ۱۹۹۵ء کا مشاعرہ ہے۔ یوں تو اس سے قبل کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے اور ” خالص پاکستانی مشاعرہ” کہہ کر پیٹریاٹ پاکستانیز کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اور اس کے مشاعروں کو کامیاب بھی بناتے رہے مگر ۱۹۹۵ء میں جب وہ دبئی پہنچے تو ہم سب بہت حیران اور پریشان ہو گئے کہ ان کی صحت قطعی اس قابل نہ تھی کہ وہ سفرکرتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے منع بھی کیا تھا مگر وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر دُبئی آئے اور صرف اور صرف پاکستان کے جذبے سے سرشار آئے۔ سو ان کا جذبہ دیکھ کر ہماری منیجنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ انھیں اہل دُبئی کی طرف سے شاعرِ پاکستان کا خطاب دیا جائے۔ چنانچہ جب انھیں یہ خطاب دیا گیا اور جناب اقبال حیدر نے جو مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے۔ ان کے تاثرات پوچھے تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس خطاب کے ملنے کی بھی خوشی ہے مگر اس سے بڑھ کر یہ خوشی ہے کہ اہل دُبئی نے مجھے یہ خطاب پاکستان اور پاکستانیت کے حوالے سے دیا ہے۔ اللہ ان کے اس جذبے کو سلامت رکھے اور باوجود اقبال حیدر کے پر خلوص مشورے کے کہ آپ بلند آہنگ میں کلام نہ پڑھیں۔ انھوں نے پاکستان کے حوالے سے جب نظم پڑھی تو آہستہ آہستہ شروع کی مگر اپنے مخصوص رنگ میں ان مصرعوں پر ختم کی کہ
قائد اعظم کے ورثے کی حفاظت چاہیے
نسل آئندہ کو ہم سے یہ امانت چاہیے
گھر سلامت چاہیے اور تا قیامت چاہیے‘‘ ۴۶؎
’’دبئی کے ایک مشاعرے میں صہبا صاحب کو شاعر پاکستان کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں انھوں نے بیماری کے باوجود صرف اس لیے شرکت کی تھی کہ یہ مشاعرہ پاکستان کا نام پر ہو رہا تھا۔ ‘‘ ۵۴؎
اسی مشاعرہ کا تذکرہ عطا الحق قاسمی صہبا کی وفات پر لکھے گئے اپنے تعزیتی کالم میں کرتے ہیں :
’’مرحوم سے میری آخری ملاقات گزشتہ برس محبانِ پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ دبئی کے مشاعرے میں ہوئی، جہاں پاکستان سے ان کی محبت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انھیں شاعر پاکستان کا خطاب دیا گیا اور مینارِپاکستان پر مشتمل ایک شیلڈ پیش کی گئی۔ صہبا اس روز بہت خوش تھے۔ مجھے کہنے لگے میں نے تو اپنی دھن میں وطن کے نغمے گائے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے ہم وطن اپنے دل میں میرے لیے اتنے محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔ صہبا بھائی آپ کو واقعی اندازہ نہیں تھا اور اس میں آپ کے ہم وطنوں کا بھی قصور تھا۔ جنھوں نے اپنی محبت کو کبھی عملی شکل نہیں دی۔ ‘‘ ۵۵؎
’’پاکستان کے لیے جس طرح انھوں نے درد مندی سے سوچا اور لکھا اس کی روشنی میں بلاشبہ وہ شاعر پاکستان کا اعزاز پانے کے مستحق تھے جو عوام نے انھیں دیا۔ ‘‘ ۵۶؎
’’وہ سب لوگ جنھوں نے نجی محفلوں میں صہبا سے ان کا کلام سنا ہے۔ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ان کے لہجے کی اثرانگیزی دراصل صادق جذبوں کی غماز ہے وہ صرف اچھے ہی نہیں سچے شاعر بھی ہیں۔ زبانِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے اور سارا پاکستان ہم آواز ہو کر انھیں شاعر پاکستان کہہ رہا ہے۔ ان آوازوں میں میری آواز بھی شامل ہے۔ ‘‘ ۵۷؎
’’جہاں تک ان کی شاعرانہ حیثیت کا تعلق ہے تو بے جھجک کہا جا سکتا ہے کہ وہ امن و محبت کے پیامبر اور ملی و قومی یکجہتی کے نمائندہ تھے اور انھی اوصاف کے سبب ان کو شاعر پاکستان کہا جاتا ہے اور اس اعتراف میں ان کو اس سال ۲۴ مارچ ۱۹۹۷ء کی یادگار تقریب میں بعد از وفات صدر پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز عطا کیا گیا۔ ‘‘ ۵۸؎
’’صہبا صاحب کی وطن دوستی اور وطن سے والہانہ عشق کا جذبہ ان کی شاعری پر نمایاں طور پر غالب ہونے لگا۔ اس طرح ان کی غزلوں کا یہ منفرد اسلوب وقتی طور پر مشاعرہ سننے اور دیکھنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو گیا۔ چنانچہ اس طرح صہبا کے معاصر وسیع و بسیط ہجوم میں شامل غزل گو شاعر کے بجائے وطن کے نغمہ خواں کی حیثیت سے ابھرے اور وہ مصلحتوں اور ستائش سے بے نیاز ہو کر صرف پاکستان کے لیے لکھتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے زندہ دِلانِ ادب نے انھیں شاعر پاکستان کے اعلیٰ ترین خطاب سے نوازا جو کسی بھی درجہ انھیں ملے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے کم نہیں۔ ‘‘ ۵۹؎
انعامات و اعزازات کسی بھی فرد کی خدمات کے اعتراف کے طور پر عطا کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اندھوں میں ریوڑیاں بانٹنے کے رواج کے باعث اکثر و بیشتر وہ لوگ جو واقعی انعام و اعزاز کے حقدار ہوتے ہیں ؛ اپنی خود داری و انا، بے نیازی و لاپروائی کی وجہ سے ارباب حل و عقد کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں اور اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔ صہبا اختر کو بھی نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پروا۔ تمام زندگی صرف کام سے کام رکھتے رہے۔ ان کی خدمات اتنی کم نہ تھیں کہ ان سے صرف نظر کیا جا سکے۔ ان کے دوست احباب سبھی اسی امر سے آگاہ تھے۔ صہبا کے عزیز دوست جمیل الدین عالی، صہبا کی یاد میں رقم کیے گئے اپنے کالم میں ارباب حل و عقد کی توجہ ان کی قومی ملی اور ادبی خدمات کی طرف کرواتے ہیں :
’’ کیا بوالعجبی ہے حالات کی کہ ایسے مقبول اور کھرے مبلغِ پاکستانیت، کئی کتابوں کے مصنف شاعر کو کسی بھی حکومت پاکستان نے کوئی سرکاری اعزاز نہیں دیا جبکہ نہ جانے کس کس جونیئر اور بے اثر کو محض اسلام آبادی روابط کیا کچھ دلواتے رہے اور دلواتے رہتے ہیں۔ چند ہفتے قبل پڑھا تھا کہ مشعل کی رسم اجرائی وزیر مملکت برائے ثقافت جناب فخر زمان نے فرمائی تھی اور وہ خاصے کلماتِ توصیفی زبان پر لائے تھے۔ شاید کچھ لوگ اب بھی نہ کہیں تو ۱۴ اگست کے سرکاری اعزازات کی فہرست میں صہبا اختر مرحوم کا نام بھی دیکھنا چاہیں گے۔ رہی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ پوئٹری کی بات تو علامہ اقبال، مولانا حالی، مولانا ظفر علی خان سے لے کر حبیب جالب تک بہت سی قابل تحسین مثالیں مل جاتی ہیں اور صہبا کا ذخیرہ جو بڑا موضوع اور ایک جگمگ جگمگ کرتا ہوا خزانہ ہے بشرطیکہ اسلام آباد کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوں۔ ‘‘ ۶۰؎
صہبا کو باقاعدہ اعزازی سند کی صورت میں دبئی کی ایک شعری نشست میں شاعر پاکستان کے دیے گئے خطاب سے قبل بھی وہ شاعرِ پاکستان کے لقب سے جانے جاتے ہیں جو ان کی پاکستان سے گہری وابستگی کا مظہر ہے۔
’’ملک و ملت کی محبت میں سرشار ہو کر بہت سے شعرائے کرام نے شعر کہے مگر جو شہرت جناب صہباکو ملی وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئی ہو۔ صہبا صاحب کو پاکستان سے عشق رہا اور جب وہ اس حوالے سے شعر کہتے یا پڑھتے تو ان پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے ایک مشاعرے کی نظامت کے دوران ان کو ’’شاعرِ پاکستان‘‘ کے لقب سے پکارا جو اتنا مقبول ہوا کہ ان کو ہر مشاعرے میں اس نام سے پکارا جانے لگا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت وقت ان کو اس اعزاز سے نوازتی۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتی مگر پبلک ریلیشنگ نہ ہونے کی وجہ سے صہبا اختر اس سے محروم رہے۔ وطن کے ترانے لکھنے والوں کی اگر اس طرح ناقدری ہوتی رہی تو وطن کی قدر میں کیسے اضافہ ہو گا۔ صہباکسی صلے کی پروا کیے بغیر وطن کے نغمے لکھتے رہے۔ تاریخ میں اس حوالے سے ان کا نام سرفہرست ہو گا۔ وطن کی محبت میں سرشار ہو کر صہبا صاحب جب مشاعروں میں یہ نظمیں پڑھتے تو ہم نے سامعین کی آنکھوں کو نمناک دیکھا ہے۔ ‘‘ ۶۱؎
جانے والوں کی یاد میں ریفرنس مذاکرے اور تعزیتی تقریبات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے ان کی کمی کتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ انھیں بھولے نہیں ہیں اور ا ن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ صہبا کے جانے کے بعد ایسا ہی ایک سپاس نامہ ان کے شہر کی تین تنظیموں ڈائیلاگ، بزم ہنر اور ادبی دائرے نے مشترکہ طور پر ترتیب دیا۔ پنج ستارہ ہوٹل میں ہونے والی اس تقریب کے مہمان خصوصی فخر زمان تھے اور صدارت ڈاکٹر جمیل جالبی کی تھی۔ نظامت کے فرائض ساجد علی ساجد نے انجام دیے۔
تقریب سے مظہر نقوی، اقبال حیدر، دلاور فگار، سلطانہ مہر، حسین انجم، جاذب قریشی، حمایت علی شاعر، سلمیٰ عزیز، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سرشار صدیقی، راغب مراد آبادی اور قمرزیدی نے خطاب کیا اور صہبا کے حوالے سے یادیں تازہ کیں۔ مہمان خصوصی فخرزمان نے اپنے خطاب میں صہبا کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کے سامنے چند سفارشات پیش کیں جن میں اکثر پوری کی جا چکی ہیں۔
٭ مشعل کی نظموں کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
٭ وزارتِ تعلیم صہبا صاحب کی کتابیں بھی خریدے گی۔
٭ ان کی قومی و ملی نظموں کا پاکستانی اور بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔
٭ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات میں صہبا اختر کے نغموں کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لایا جائے تاکہ ان کی شاعری پچاس سالہ تقریبات میں اہم کردار ادا کر سکے۔
٭ فخرزمان کے ایما پر جناب حمایت علی شاعر نے صہبامرحوم کی سوانح عمری ترتیب دینے کا بیڑا اٹھایا۔
اس ادبی ریفرنس میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ان تین ادبی تنظیموں یعنی ڈائیلاگ، بزم ہنر اور ادبی دائرہ مشترکہ طور پر شاعر پاکستان صہبا اختر مرحوم پر پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلم کو ایک ہزار روپے ماہانہ بطور وظیفہ تین سال تک ادا کریں گے جو جامعہ کراچی کے توسط سے دیا جائے گا۔
صہباخوش قسمت انسان تھے۔ انھوں نے دل کھول کر محبتیں کیں اور جی بھر کے محبتیں سمیٹیں۔ ان کے جانے کے بعد بھی ان محبتوں میں کمی نہیں آئی۔ محبتوں کے یہ اعزازات مقدر ہی سے ملا کرتے ہیں۔ کراچی کی ایک معروف شاہراہ کو ان کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ناظم آباد، کراچی ہی میں ان کے نام سے ایک لائبریری قائم کی گئی ہے جو تشنگان علم کے لیے مددگار ہے۔ ’’شاعرِ پاکستان صہبا اختر اکیڈمی، کراچی‘‘ کے نام سے ادارے کا قیام، صہبا اختر کے جذبہ حب الوطنی کو استقامت بخشنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ میر خلیل الرحمن میموریل نے جو اپنا پروگرام ترتیب دیا۔ صہبا کن کن حوالوں سے ان میں موجود نہیں۔
میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی پچاس سالہ جشن آزادی کی تقریبات پورے سال منعقد کرے گی۔ ان تقریبات میں قومی سیمیناروں ، قومی مشاعروں اور قومی نغموں کی تقریبات کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ وطن عزیز جس نے ہمیں وقار بخشا جو ہم سب کی پہچان ہے اور ہماری شان ہے۔ یہ پیارا وطن جس نے ہمیں زندگی کی ہر نعمت سے نوازا لیکن ہم نے وطن عزیز کے لیے کیا کچھ کیا۔ یہ ایسا سوال ہے جو ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
’’میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی نے پنجاب گروپ آف کالجز کے تعاون سے ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر مشہور شاعر، شاعر پاکستان صہبا اختر کے مصرع
وطن نے ہم کو کیا دیا؟
وطن کو ہم نے کیا دیا؟
کے موضوع پر ۲۹ جون کو الحمرا ہال نمبر۲ میں چار بجے شام ایک قومی سیمینار منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ قومی سیمینار گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ‘‘ ۶۲؎
اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’سرکشیدہ‘‘ پر آدم جی ادبی انعام پانے والے شاعر صہبا اختر کو ۱۹۹۷ء میں ان کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی (بعداز وفات) عطا کیا گیا۔
٭٭٭
صہبا اختر، معاصرین کی نظر میں
صہبا اختر کو شاعرِ پاکستان کہا جاتا ہے اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو محسنِ پاکستان۔ جمیل الدین عالی اس حوالے سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں وطن ماں ہے اور ماں پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ عبد القدیر خان نے پاکستان کے لیے، اپنے وطن کے لیے جو کچھ کیا اس پر ساری قوم فخر کے اس احساس سے آشنا ہوئی جو اس سے پہلے اور اس کے بعد انھیں نصیب نہ ہوا۔ عبد القدیر خان امن اور محبت کے خواہاں ہیں اور اپنے عوام کے چہروں پر خوشی و خوشحالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب صہبا کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’آپ کی شاعری زندگی کی امنگ اور ترنگ کی شاعری ہے۔ توقع ہے کہ آپ کی ’’مشعل‘‘ نہ صرف امنگ اور ترنگ پیدا کرے گی بلکہ یہ تاریکیوں میں روشنی بھی بکھیرے گی۔ آپ کی ’’مشعل‘‘ نہ صرف یہ کہ تاریکیوں کو اجالوں میں تبدیل کرے گی بلکہ بصیرت اور بصارت دونوں کے لیے قابلِ فکر ہو گی۔ ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر جمیل جالبی معروف نقاد محقق، ادبی مورخ، مترجم، پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی اعلیٰ اسناد رکھنے والے، رائٹرز گلڈ کے بانی اراکین میں شامل، پاکستانی کلچر، تنقید اور تجربہ، مثنوی قدم راؤ پدم راؤ کی تدوین، تاریخِ ادب اردو اور ارسطو سے ایلیٹ تک جیسی اہم کتابوں کے مصنف، صہبا اختر کے دیرینہ دوستوں میں سے ایک، صہبا کی وفات کا سانحہ انھیں تنہا کر گیا۔
’’ میں صہبا اختر کو کم و بیش چالیس پینتالیس سال سے جانتا تھا، ان کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا اور آج ان کی وفات کی خبر سنی، جو یقیناََ بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس تمام عرصے میں صہبا اختر کو بہت وضع دار او رکھ رکھاؤ کا انسان پایا۔ وہ شعر و ادب کے لیے پیدا ہوئے تھے اور ساری عمر شعر و ادب میں ہی لگے رہے … ان کی آواز میں توانائی اور روانی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، خاص طور پر ان میں طویل نظمیں لکھنے کی بڑی صلاحیت تھی۔ ‘‘ ۲ ؎
خواجہ عبدالحئی، مشفق خواجہ، شاعر، ادیب، محقق، تنقید نگار، انجمن ترقیء اردو سے وابستہ ہو کر اردو زبان و ادب کے لیے نا قابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ ان کے لیے صہبا کا جانا ذاتی صدمے کا سبب بنا۔
ِِ’’ صہبا اختر کی وفات نے ہم سے ایک سچا، کھرا اور محبِ وطن شاعر چھین لیا ایک ایسا شاعر جس کی شاعری کی اساس پاکستان کی محبت تھی اور اس محبت سے یہ شاعر اس حد تک سرشار تھا کہ خود پاکستان کی شناخت بن گیا۔ صہبا اختر کی قومی شاعری کے بے مثل ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن وہ ایک بلند پایہ غزل گو بھی تھے۔ آزادی کے بعد غزل کی تعمیر و تشکیل میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے، ان کی وفات میرے لیے ایک ذاتی سانحہ بھی ہے۔ ان سے میری چالیس برسوں کی نیاز مندی تھی اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسے دوست سے محروم ہو گیا ہوں جو ہمیشہ میری یادوں کا حصہ بنے رہے گا۔ ۳؎
افتخار عارف صہبا کے جذبہ حب الوطنی کے مداح رہے ہیں اور ان کی قومی و ملی شاعری کو اردو شعر و ادب کے لیے ایک اثاثہ قرار دیتے ہیں۔
’’شاید ہی کوئی اور ایسا شاعر ہماری نسل میں قومی اور ملی شعری سرمائے کے حوالے سے اتنا وقیع اثاثہ رکھتا ہو، جو صہبا صاحب کے لیے ہی سببِ امتیاز ہے اور ہمارے لیے بھی سببِ اعتبار ہے۔ جس اخلاص، درد مندی اور دل آویزی کے ساتھ صہبا اختر نے ملی شاعری کی اصلیت کو آگے بڑھایا ہے وہ پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث افتخار ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسی قدرتِ بیان، ہنر پرایسی دسترس، موضوعات کا اتنا تنوع اور اتنی لمبی سانس بہت کم نظر آتی ہے۔ ‘‘ ۴ ؎
فخر زمان صہبا کی شاعری میں فرد کو تنہائی، مایوسی اور اقتصادی و سیاسی تباہی سے پیدا شدہ صورتحال سے نکالنے کی آرزو معاشرتی اقدار اور روایات کی پاسداری کو اہم جانتے ہیں۔
’’صہبا اختر کی شاعری ہر لحظہ بدلتی ہوئی صورتِ حال میں انسانی رشتوں کی شکست و ریخت کا احساس دلاتی ہے۔ وہ اعلیٰ معاشرتی اقدار اور روایات کے علمبردار ہیں۔ روایتی رشتوں کے انقطاع سے ان کے ہاں جو درد مندی جاگی ہے، وہ اسے نئے رشتوں کی تلاش میں آسودہ کرتے ہیں۔ صہبا اختر نے تقلید کی بجائے اپنے تجربے، مشاہدے اور ذکر کی روشنی میں اپنی راہ خود متعین کی ہے۔ ان کے اشعار تنوع اور تازگی سے مملو ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کی بظاہر معمولی مگر باطن سے بے حد اہم حقیقتوں کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘ ۵؎
’’صہبا اختر ایک عظیم شاعر تھے کہ جنھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھا۔ ‘‘ ۶ ؎
’’صہبا اختر صاحب معاصر شعری ادب میں ایک اہم حیثیت کے حامل شاعر ہیں۔ ان کے لہجے میں روایت اور جدت کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے مناظر کی حقیقت پسندانہ عکاسی ان کے تخلیقی تجربات کے اہم موضوعات ہیں۔ ‘‘ ۷ ؎
صہبا کا جانا، ایک عظیم سانحہ ہے۔ پروفیسر اقبال عظیم اپنے صدمے کا اظہار کرتے ہیں۔
’’صہبا میرا بیٹا تھا، اسی مناسبت سے مجھے دلی رنج ہے۔ ‘‘۸؎
’’صہبا صرف نظم کا ہی شاعر نہیں۔ اس نے غزل، قطعہ، مرثیہ، غرض صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور کامیابی کا انعام حاصل کیا ہے۔ اس کے قلم میں بلا کی قوت، ذہن میں بلند پروازی کی صلاحیت، دل میں بے پناہ پرخلوص جذبات کی بو قلمنی اور زبان میں الفاظ اور حسین تراکیب کا سمندر ملتا ہے۔ ‘‘ ۹؎
’’وہ تعصب تنگ نظری، کوتاہ اندیشی، سماجی بے انصافی، معاشرتی ناہمواری، ظلم و تشدد، بے راہ روی، مغرب زدگی، رشوت ستانی، تعلیمی انحطاط، علمی و ادبی کساد بازاری اور ایسے موضوعات پر بڑی جاندار، فکر انگیز اور خیال پرور نظمیں بڑے دلدوز انداز میں لکھتا ہے اور انھیں مخصوص لب و لہجے اور گرج دار انداز میں ہزاروں سامعین کے مجمعے میں سنا کر داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔ ‘‘ ۱۰؎
’’صہبا اختر غزل، نظم، قطعہ، رباعی، مرثیہ، سلام، قومی نظموں غرض متعدد اصنافِ سخن پر تخلیقی دسترس رکھتے تھے۔ ان کا جو کلام شائع ہو چکا ہے وہ ان کی قادر الکلامی اور انفرادیت کا آئینہ دار ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
’’صہبا صاحب ایک قابلِ احترام انسان اور بہت درد مند دل رکھنے والے شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے حرف و لفظ کی روشنی میں ، زندگی کی رہ گزر پر دور تک دیکھنا سیکھ لیا تھا اور خوبصورتیوں کو چنتے چنتے وہ اس راہگذر پر بہت دور نکل گئے تھے۔ ‘‘ ۱۲؎
قمر علی عباسی، ریڈیو کی ان اعلیٰ اقدار و روایات کے امین ہیں جن کی طرح پطرس بخاری، ذوالفقار علی بخاری، محمدنسیم، رشید احمد، اثنین قطب، جی۔ کے فرید، ن۔ م۔ راشد، حفیظ ہوشیارپوری، عزیز حامد مدنی، رضی اختر، شوق، عشرت رحمانی، آغا ناصر، بذلِ حق محمود، سلیم احمد وغیرہ ڈال گئے تھے۔ ان کے سفرنامے تجربوں اور مشاہدوں کی وسیع کائنات سمیٹے ہوئے ہیں۔ انھیں صہبا اختر کی شاعری میں محبتوں کے رشتے منعکس نظر آتے ہیں۔
’’صہبا اختر میرے ملک، میری زبان کی شناخت ہیں ان کی آواز میں بارش کی پہلی پھوار، بہار کی پروائی اور بہار کے پہلے پھول کی خوشبو ہے، پھر وقت کے ساتھ وطن کی محبت اور انسان سے گہرے رشتے نے ان کے خون میں آگ لگا دی اور یہ شعلے ان کے اشعار میں صاف نظر آتے ہیں۔ یہ خوش گلو، شعلہ بیان، محبتوں کا، رشتوں کا، میرا پسندیدہ شاعر ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالاہے، صہبا اختر کو پڑھا ہے۔ ہر اداس شام اور تنہائی میں ان کا ساتھ رہا۔ ‘‘ ۱۳؎
راغب مراد آبادی ’’صہبا اختر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی گئی ایک طویل نظم میں یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
فنِ شعر، آسان نہیں۔ تن کا ڈھیروں لہو خشک ہوتا ہے تب اک مصرع ترکی صورت نظر آتی ہے۔ شاعری تن آسانوں کا کام نہیں۔ پھر فن شعر میں مستند چند ایک نام آج کی ترقی یافتہ ایٹمی دنیا میں ایسے بھی نظر آ جاتے ہیں جو تاریخ گوئی کے فن میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور مہارت بھی۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ واقعہ یا حادثے سے متعلق ایسے موزوں الفاظ مل جائیں جن سے ان کے دلی جذبات و احساسات کی عکاسی ہو سکے اور وہ دیگر حادثات و واقعات پر منطبق نہ ہو سکیں۔ راغب مراد آبادی، صہبا کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ صہبا کے جانے کا غم ان کا ذاتی غم ہے۔ اپنے دکھ کو انھوں نے قطعہ تاریخ میں یوں سمویا ہے۔
ممتازِ جہان راز صہبا اختر
شاعر اک عہدساز صہبا اختر
سنگ مرمر پہ بس یہی لکھوا دو
’’بر گور اردو نواز صہبا اختر‘‘۱۵؎
راغب مراد آبادی رباعی گو کی حیثیت سے منفرد مقام کے حامل ہیں۔ اپنی ایک رباعی میں صہبا کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ذی علم، ذکی، ذہین، صہبا اختر
مشہور، محب، متین صہبا اختر
ہمراہ اجل کے گئے سوئے افلاک
شاعر زیبِ زمین صہبا اختر ۱۶؎
امداد نظامی ’’صہبا، وہ حسیں پیکر اقدارِ محبت ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں رقم طراز ہیں :
’’میرے لیے تیسری اچھی خبر… بہت ہی اچھی خبر یہ ہے کہ مجھے ملنے والے مکتوب میں کہیں بھی صہبا اختر کو ’’مرحوم‘‘ نہیں لکھا گیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مجھے بے حد دکھ ہوتا، لیکن میں ایک بار پھر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا۔ میرے دل و دماغ اور جذبہ و احساس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ صہبا اختر کو مرحوم تصور کر لیں۔ صہبا اختر کیسے مر سکتا ہے۔ صہبا اختر کبھی نہیں مر سکتا۔ حافظ نے اپنی ذات کو بنیاد بنا کر صہبا اختر جیسے زندۂ جاوید لوگوں کے لیے ہی تو کہا تھا ؎
مرتے نہیں ہیں عشق سے زندہ ہوں جن کے دل
لوحِ جہاں پہ ثبت ہمارا دوام ہے
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
مثبت است بر بریدۂ عالمِ دوام ۱۷ِ؎؎
اعجاز بزمی نے ’’صنعتِ توشیع‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔
ص صہبائے شاعری کا سخن در نہیں رہا
ہ ہے یاد جس کی باقی وہ اختر نہیں رہا
ب بے کیف محفلیں ہیں وہ شاعر خموش ہے
ا اردو زبان کے نغموں کا ماہر خموش ہے
ا الفاظ کے خزینہ کا مالک چلا گیا
خ خود داریء خیال کا مالک چلا گیا
ت تھی جس کی ذات عین محبت کہاں ہے وہ
ر روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘ ۱۸ ؎
شمیم صبا متھراوی، غزل گوئی کے علاوہ فنِ تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’قومی زبان‘‘ میں رخصت ہو جانے والوں کا ماتم اور افسوس، تاریخی قطعات کی صورت میں کرتے ہیں۔
سنہ انتقال صہبا اختر ۱۹۹۶ء
شعری حلقوں میں کیوں نہ ماتم ہو
کوچ ٹھہرا ہے اک سخنور کا
ہے تاریخ اے شمیم کہو
’’یہ جنازہ ہے صہبا اخترکا‘‘ ۱۴۱۶ھ ۱۹ ؎
٭٭٭
صہبا کی نعتیہ شاعری
نعت کہنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ شاعر نعت کہتا ہے تو خود پر کئی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔ وہ نعت کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک، ان کی احادیث و سنن، ان کی سیرت و کردار، ان کی شکل و صورت ان کے لباس سبھی سے مکمل آگاہی رکھتا ہے۔ اس کی نعت کے مضامین قرآن و احادیث سے اخذ کیے گئے ہوتے ہیں اور وہ ان کا پورا ادراک اور شعور رکھتا ہے۔ نعت کہنے کے لیے اس کا سراپا ادب و نیاز ہونا ضروری ہے۔ محبت و عقیدت کے جذبہ و احساس کو پابند رکھنا اس لیے بھی ملازم ہے کہ کہیں نعت، حمد کی سرحد میں داخل نہ ہو جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات با صفات ایسی ہے کہ جو خود خدائے بزرگ و برتر کی بھی محبوب ہے۔ یہ درجہ انھیں تمام انسانوں ، اولیاؤں ، پیغمبروں اور رسولوں سے ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ عبد و معبود کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نعت کہے۔
نعت کا آغاز آپ کی بعثت کے بعد ہوا، اس دور کے صحابی شاعروں کے لیے یہ آسانی تھی کہ وہ نعت کہتے، حضور ﷺ کی خدمت میں سناتے، وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات و صفات، سیرت و کردار، لباس و شکل و صورت سبھی سے آگاہ تھے۔ ان کا تعلق براہِ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تھا۔ بعد میں آنے والے شعرا نے اکتسابی علم کی بنا پر نعتیں کہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روحانی تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ نیتوں اور جذبوں کی سچائی ان کے ہر شعر سے ہویدا ہے۔ شعر کی کونپل شاعر کے اندر سے پھولتی ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا لیکن اگر انسان ارادہ کر لے، اس یقین میں خدا کی رضا بھی شامل ہو جائے تو پھر اس کی تکمیل میں کوئی سدِ راہ نہیں ہو سکتا۔ صہبا کا پہلا مجموعہ کلام، ’’سرکشیدہ‘‘ منظر عام پر آیا اور بہت پسند کیا گیا۔ طویل نظموں کے مجموعہ ’’سمندر‘‘ کی اشاعتی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ان کے دلی دوست اطہر نفیس (مرحوم) نے مشورہ دیا کہ فی الحال اس مجموعہ کو چھوڑ کر نعتیہ کلام کا مجموعہ شائع ہونا چاہیے۔ صہبا نے اپنے دوست کی بات فوراً مان لی۔
’’ میں یہ اعتراف کر لوں کہ ابتدائی طور پر جب میں نے اپنے نعتیہ کلام کا جائزہ لیا تو اسے بہت محدود پایا۔ مجھے اپنی تنگ دستی سے بے حد شرمندگی محسوس ہوئی لیکن میں وعدہ بھی کر چکا تھا اور اعلان بھی۔ آرزو کے بعد تکمیلِ آرزو میں عجلت پسندی میری فطرت ہے۔ میں انتظار نہیں کر سکتا، میں نے تہیہ کر لیا کہ کم سے کم مدت میں ، میں زیادہ سے زیادہ لکھ کر اپنے نعتیہ کلام کی اس کمی کو پورا کر لوں گا۔ ابتدا میں اس کتاب کا مشکل سے چوتھائی حصہ کلام میرے پاس موجود تھا اور بس، پھر یوں ہوا کہ میں نے دعا کی۔ بحمد للہ میری دعا مستجاب اور میری عاجزانہ صدا کامیاب ہوئی اس تحریر کے درمیان، اس عالم غور و فکر میں ، مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جسے ایک مبارک اور مقدس روشنی، مجھ پر مسلسل خیالوں کی بارش کر رہی ہے یا جیسے کوئی ابر رحمت ہے جو لگاتار میرے دامن کو موتیوں سے بھرے جا رہا ہے۔ اس عالم سرشاری میں ہر چمک، ہر خیال، ہر شعر، ہر نعت، ہر نظم کے بعد میری زبان سے کلمہ تشکر ادا ہوتا رہا۔ ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر ثمینہ ندیم اپنے والد کے مذہبی رجحانات کا تذکرہ کرتے ہوئے اقرا ء کی تخلیق کے دوران میں ان کی جذباتی حالت کا تذکرہ کرتی ہیں۔
’’جہاں تک ابا کے مذہبی رجحانات کا تعلق ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سچے ماننے والے تھے۔ اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ وہ فرقہ پرستی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔ اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعا مانگنا ان کی شخصیت کا خاصا تھا، یہاں تک کہ نیند میں بھی اکثر ان کے منہ سے ایک جملہ نکلتا تھا۔ ’’رب العزت رحم کر‘‘ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی بے اندازہ محبت کا یہ حال تھا کہ جب انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری کا مجموعہ، ’’ اقراء‘‘ لکھا تو وہ ساری ساری رات لکھتے رہتے تھے۔ میں کہتی تھی ابا آپ ساری رات جاگتے رہتے ہیں۔ لکھتے رہتے ہیں۔ تھکتے نہیں تو وہ کہتے تھے بیٹا جب میں نعت لکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ساری رات آسمان سے نور کی برسات ہوتی ہے۔
جیسے بھی حالات ہوں۔ ابا کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں۔ وہ ۱۲ ربیع الاول کو میلاد اور نعتیہ مشاعرہ ضرور کروایا کرتے تھے۔ عشق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس طرح ڈوبے ہوئے تھے کہ نعتیہ شاعری میں کہیں کہیں ایسا لگتا تھا کہ جیسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہم کلام ہو گئے۔ ‘‘ ۲؎
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صہبا کی عقیدت و محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کوشش اور عبادت و ریاضت سے کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اس طرح یہ بات بھی ممکن نہیں کہ کوئی اپنی کوشش، جستجو، شوق اور مطالعے سے شاعر بن جائے۔ یہ صلاحیت بھی رب کی عطا ہے۔ جسے رب العزت چاہے بخش دے۔ صہبا شاعر تو تھے ہی نعت کا ارادہ کیا اور خدائے بزرگ و برتر نے انھیں اس میں سرخروئی نصیب کی۔
تو نے میری سمت جب بھی روشنی پیغام کی
نعت کا مصرع بنا دی ہر کرن الہام کی
مجھے ملا تھا سر شام اک ستارہ فروش
بنامِ نعت مجھے دے گیا پیامِ سروش
براہ راست ہے مجھ پر یہ بارشِ الہام
کرم نہیں ہے کسی مکتبِ مجازی کا
شاعر اکتسابی نہیں ہوتا، وہبی ہوتا ہے اور صہبا جیسا شاعر جو ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی اس صلاحیت پر شکر گزار بھی ہے اور فخر بھی کرتا ہے۔
میرے معبود نے محروم مجھ کو بھی نہیں رکھا
کتاب اترے نہ اترے
روشنی مجھ پر اتاری ہے
’’اقراء‘‘ کا سرِآغاز ہی یہ رباعی ہے۔
جو اس سے ملا اس کی حفاظت کی ہے
جو اس نے کہا اس کی اطاعت کی ہے
دیوان کسی اور نے بخشا ہے مجھے
میں نے تو فقط اس کی کتابت کی ہے
’’انسان کامل‘‘ مولانا سید سلیمان ندوی نے یہ خطبہ مدارس یونیورسٹی کے لالی ہال میں دیا، اکتوبر۱۹۲۵ء کو دیے گئے، اس خطبے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس دنیا میں مثالی نمونہ بنا کر بھیجا اور ہر انسان زندگی کے ہر شعبے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ہدایت پاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے دین و دنیا میں سرخروئی حاصل کر سکتا ہے۔
اس خطبہ میں انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی سے مثالیں دے کر واضح کیا ہے کہ آپ کی ذات میں ہر طائفہ انسانی کے لیے مثال موجود ہے۔
’’ایک ایسی شخصیت زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکے کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو۔ اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب میں محصور اور مدینے کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو۔ اگر فاتح ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر ایک نظر ڈالو۔ اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درسگاہ کے معلم قدس کو دیکھو۔ اگر واعظ و ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو۔ اگر تنہائی و بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکے کے صادق و امین نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ تمھارے سامنے ہے۔ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دُشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو۔ اگر یتیم ہو تو عبداللہ و آمنہ کے جگر گوشے کو نہ بھولو، اگر عدالت کے قاضی اور پنچائیت کے ثالث ہو تو کعبے میں طلوع آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبے کے ایک گوشے میں کھڑا کر رہا ہے۔ مدینے کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو، جس کی نظر انصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب برابر تھے۔ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ اور عائشہ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو۔ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ کے والد اور حسن و حسین کے نانا کا حال پوچھو۔ غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمھاری زندگی کے لیے نمونہ، تمھاری سیرت کی روایتی اصلاح کے لیے سامان، تمھارے ظلمت خانے کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔ ‘‘ ۳؎
یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو
کسی کے لال ہو تو آمنہ کے لال کو دیکھو
وفا داری کے اس آئینِ اعلیٰ پر نظر ڈالو
جو شوہر ہو تو سر تاجِ خدیجہ پر نظر ڈالو
امین ہو تو عرب کے اس امانت دار کو دیکھو
جو صادق ہو تو اس مردِ صداقت کار کو دیکھو
جو تاجر ہو تو سیکھو اس سے انداز تجارت بھی
شرافت بھی صداقت بھی امانت بھی
مفکر ہو تو اس کی فکر کے عنوان کو دیکھو
حرا کی خامشی میں آمدِ قرآن کو دیکھو
اگر مظلوم ہو تو اہلِ طائف پر عطا دیکھو
جبیں پر زخم کھا کر بھی لبوں پر وہ دعا دیکھو
مسافر ہو تو اس کے جاوۂ غربت کو بھی سمجھو
مہاجر ہو تو اس کے مقصدِ ہجرت کو بھی سمجھو
جو ناظم ہو تو دیکھو اس کی تنظیمِ عدالت کو
جو حاکم ہو تو دیکھو اس کے اندازِ حکومت کو
ذرا اس فاتحِ عالم کا انداز ظفر دیکھو
وہ سارے دشمنوں پر ایک رحمت کی نظر دیکھو
اسے جس طور سے چاہو اسے جس ڈھنگ میں دیکھو
وہ اک انسان ِکامل ہے اسے جس رنگ میں دیکھو
اسلامی تاریخ اور سیرت مبارکہ کے کئی اہم واقعات صہبا نے نظم کیے ہیں۔
غار حرا میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عبادت و ریاضت کا انعام، اقرا کی صورت میں انھیں ملا۔
انوار میں لپٹی ہوئی
یہ رات ہے غارِ حرا
ان انجم و مہتاب میں
قرآن ہے بکھرا ہوا
اور سکوت نیم شب
جیسے لبِ جبریل کی
اک نور سے بوجھل صدا
اک گونج بن کر دمبدم
یہ کہہ رہی ہو بر ملا
ہاں دیکھ اسے جویائے راز
ہاں دیکھ اسے حیرت زدہ
اب سرِ لوحِ فلک ہے ہر طرف لکھا ہوا
اقراء باسم ربک
اقراء باسم ربک
اسی طرح آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں تین گواہ، حضرت علی ایک کم سن بچے، ایک خاتون حضرت خدیجہ آپ کی زوجہ محترمہ اور ایک بزرگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ تین گواہ، میں صہبا نے ان جلیل القدر صحابہ کا تذکرہ کیا ہے۔
آپ پر ایمان لائے ابتدا میں صرف تین
ان گواہوں کی طرح
دے رہے ہیں جو گواہی آپ کی
وہ بھی ہیں گنتی میں تین
آسمان، جبرئیل، قرآنِ مبین
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کفار مکہ کے مظالم کا نشانہ بنی۔ آپ نے ان تمام مظالم کے جواب میں دعا فرمائی اور جب آپ اور آپ کے صحابہ پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں رکاوٹیں بڑھتی ہی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔ خیر مقدم کا گیت، وہ نغمہ ہے جسے بنی نجار کی معصوم بچیوں نے سرکار دو عالم کے خیر مقدم کے طور پر اس وقت گایا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہلی بار مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے۔
آئے سرکارِ مدینہ آئے
لائے انوارِ مدینہ
ہیں قدم بوسِ رسالت
گل و گلزارِ مدینہ
کندنی رنگ ہے گہرا
ہے لباس آج سنہرا
چاندنی رات نے پہنا
(طلع البدر علینا)
صہبا کی کی سرکشیدگی و انانیت ان کی ذات سے بھی عیاں ہے اور اشعار سے بھی لیکن جب وہ نعت کہتے ہیں تو یہی سرکشیدہ، سرخمیدہ کا روپ دھار لیتا ہے۔
” مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست صہبا اختر صاحب غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے، سرکشیدہ، وغیرہ تخلیق کرنے کے بعد اب نعت پاک کا مجموعہ اقراء لا رہے ہیں۔ ان کی یہ تخلیق اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص جو فراعینِ جہاں کے سامنے سرکشیدہ تھا۔ دربار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوتا ہے تو سرخمیدہ ہے اور اس کا دل عشقِ رسول سے سرشار ہے۔ خدا کرے کہ اقراء کو دُنیا میں شرف قبولیت حاصل ہو اور عقبیٰ میں یہ صہبا صاحب کی نجات کا ضامن ہو۔ ” ۴؎
صہبا کا تخیل بے پناہ وسعت کا حامل ہے، حالی کے نزدیک تخیل نام ہے ایسی روحانی و ہبی طاقت کا جو تجربے یا مشاہدے کے ذریعے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ شاعر اسے اپنے فہم و ادراک اور جذبہ و احساس کے مطابق ازسرِنو مرتب کرتا ہے اور ایسے خوبصورت پیرایہ اظہار عطا کرتا ہے جو اسے انفرادیت بخشتا ہے۔ ۵؎
صہبا کا تخیل اس سے کہیں زیادہ توانا اور مضبوط ہے کہ ان کا عروج بنی نوعِ انسان سے تعلق کے باوجود، اپنے کردار کی عظمت اپنے اوصاف کی بلندی کی بنا پر اعلیٰ درجے پر فائز ہے جسے دیکھا نہیں ہے جسے صرف سوچا ہے۔ محسوس کیا ہے اور کس کس زاویے سے محسوس کیا ہے۔ اس کا بیان صہبا ہی سے مخصوص ہے۔
صبح دم جب بزمِ گل میں چہچہاتے ہیں طیور
پوچھیے جب جھلملاتا ہے فضائے شب میں نور
روشنی جب پردۂ ظلمت سے کرتی ہے ظہور
تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضورؐ
(تصورِ حضورؐ)
اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صہبا کا تعلق بہت گہرا ہے۔ یہ تعلق صرف ایک ذات سے ہی نہیں ، بلکہ ان کے افکار و خیالات میں ، اپنی روح میں پہلے انھیں تصویر کرتے ہیں۔ ان کا اندازِ زیست، ان کے اصحابِ علم و فضل اور اس پوری فضا، پورے عہد کو اپنے اندر زندہ کرتے ہیں۔
میں اپنی روح میں پہلے انھیں تصویر کرتا ہوں
پھر اس کے بعد ان کے نام کو تحریر کرتا ہوں
میں ان کے عہد میں زندہ ہوں صہبا
یہاں جو جی رہا ہے میں نہیں ہوں
صہبا کی شاعری میں تخلیقی ارتقا کا احساس ہوتا ہے، الفاظ میں پھٹ پڑنے کی قوت ہے۔ گرجنے برسنے کی کیفیت بھی اپنا جلوہ دکھا جاتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ناقدینِ فن کی توجہ خیال افروزی کی طرف کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
’’صہبا اختر کی نظموں میں بظاہر لفظیات کا بہت ٹھاٹھ ہوتا ہے لیکن ہر لفظ کے پیچھے خیال افروزی کی جو مشعل جگمگا رہی ہوتی ہے، وہ بہت کم ناقدینِ فن کو دکھائی دے سکی ہے…قارئین صہبا اختر کے نعتیہ کلام میں الفاظ کا یہی ٹھاٹھ اور ہر لفظ کے اندر کی جگمگاہٹیں دیکھیں گے تو وہ صہبا اختر کی قادر الکلامی کے معترف ہو جائیں گے۔ ‘‘ ۶؎
علم کی طلب جتنا حاصل کیا جائے اسی قدر بڑھتی ہے اور صہبا تو وہ طالب علم ہیں کہ علم جہاں سے بھی ملے، حاصل کرنا چاہتے ہیں ، دینی و دنیاوی علوم کے حصول میں کئی مشکل مراحل آتے ہیں۔ انسانی ذہن کی رسائی ان لا ینحل مسائل کا حل بھی چاہتی ہے اور جب تک ان پر تمام سوالات پر جوابات منکشف نہیں ہو جاتے، طبیعت کا اضطراب اور ذہنی جستجو چین لینے نہیں دیتی۔ صہبا ہمیشہ دعا گو رہے۔
فرشتوں کے لیے جس علم کا ادراک مشکل ہے
دعاکرتے ہیں مجھ پروہ علم آسان ہو جائے
علم کیا آگہی کیسی، خبرکیاہے مگر
اس کی رحمت نے قلم سے جو مجھے سکھلا دیا
آغا مسعود حسین اپنے کالم میں صہبا کی علم سے محبت کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں۔
’’ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا گھر دیکھنے کو نہ گئے۔ مسجد کوفہ میں اس منبر کو بھی دیکھا جس پر بیٹھ کر حضرت علی ’’خطبہ‘‘ دیا کرتے تھے۔ کہنے لگے میں نے منبر علیؓ کا سات مرتبہ طواف کیا اور اللہ سے دعا کی کہ مجھے علم کی محبت اور ثروت سے مالا مال کر دے اور مجھے بے پناہ علم دے، وہ یہ واقعہ سنا کر خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا کہ صہبا صاحب آپ کو یہ دعا نہیں مانگنی چاہیے تھی۔ دراصل علم کی عطا بھی اگر ذہنی و جسمانی برداشت کی قوت سے باہر ہو جائے تو وہ بلائے جان بن جاتی ہے۔ ویسے بھی آپ صاحب علم ہیں۔ اس کی روشنی سے روشنی پیدا کریں۔ وہ میرا جملہ سن کر چونک گئے اور بولے ’’بڑے ادراک کی بات کہی تم نے۔ تم مجھے کالم نویس سے زیادہ صوفی معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘ ۷؎
حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح میں صحابہ کرام نے نعتیں کہیں اور آپ کی توصیف میں کہے گئے اشعار آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سماعت فرمانا پسند کیے۔ اس وجہ سے دیگر شعرا نے بھی نعت کہنے کا عمل جاری رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کو تاکید کی، میرے محبوب پر درود و سلام بھیجو کہ ان پر خود ربِ جلیل بھی درود و سلام بھیجتا ہے اور ملائکہ بھی۔ چنانچہ نعت گوئی ایک ایسا حکم ٹھہرا کہ جو ہر شاعر کے دل کی صدا بھی ہے۔ صہبا نے اس فرض کو دل سے نبھایا۔ شاعر داد کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن نعت کہتے ہوئے وہ اس امر کو مدِ نظر نہیں رکھتا۔
ہم کو فقط رسولؐ کی مدحت سے کام ہے
توصیفِ پیشگی ِزمانہ حرام ہے
خدا تعالیٰ بعض ایسی شخصیات کو دنیا میں بھیجتا ہے جنھوں نے کچھ اہم کام کرنے ہوتے ہیں۔ رسولوں ، پیغمبروں ، اولیا اور صوفیا سے قطع نظر عام انسانوں میں بھی کچھ انسان خصوصیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صہبا کو محبت کی تقسیم کے لیے منتخب کیا۔ صہبا نے جس سے بھی محبت کی، ٹوٹ کر کی۔ ماں ہو یا مادرِ وطن، خدائے واحد کی ذات ہو یا اس کے محبوب کی، محبت کرتے ہیں تو خود کو فراموش کر دیتے ہیں۔ وہ شعر نہیں کہتے۔ عبادت کرتے ہیں۔ تقلید و تتبع کے قائل نہیں لیکن نعت گو شعرا سے متاثر ہوتے ہیں اور انھیں محترم و معتبر جانتے ہیں۔
کبھی شہیدی و حالی و محسن و اقبال
کبھی میں نعت میں کعبی، رواحی، حسانی
صہبا کی نعت میں بے معنویت و ابہام سے مکمل گریز ہے۔ سطحیت، عامیانہ رنگ، عمومی مضامین، ناتجربہ کارانہ انداز، زبان و بیان کے اسالیب و لسانی باریکیوں سے ناواقفیت کا کہیں بھی احساس نہیں ہوتا۔ نعت کا ہر شعر ان کی ماہرانہ تراش خراش کا آئینہ دار ہے۔ غنائیت و صوتیت عروج پر ہے۔ مترنم بحریں ، رچاؤ کے حامل اشعار ایک ترنم ساز فضا کی تشکیل کرتے ہیں۔
مری چشمِ نم مری عرضِ غم
مرے آنسوؤں کا گواہ تو
جو چراغِ دیدۂ و دل بھی ہے
وہ چراغِ شامِ سیاہ تو
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ایک کتاب پر ایمان رکھنے کے باوجود، تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس یقین کے باوجود، مسلمان مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں یہ فرقے کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ دو نمایاں فرقے شیعہ اور سنی ہیں۔ بعض اشخاص کی انتہاپسندی نے انھیں جانی دشمن تک بنا دیا ہے، لیکن تمام انگلیاں برابر نہیں۔ ان لوگوں کی کمی نہیں جو اہل تشیع سے تعلق رکھنے کے باوجود، دوسرے فرقوں سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان میں صہبا سرِفہرست کہے جا سکتے ہیں۔
’’…اس ورثے میں وہ ماحول بھی شامل ہے جو صہبا کو ملا۔ ماحول انسان ہی بناتے ہیں۔ اس لیے اس نقطۂ نظر سے ایک حد تک ماحول کو بھی ورثہ میں شامل ہے۔ صہبا کی ذات میں اسلام کے دو دھارے(سنی اور شیعہ) جمع ہو گئے تھے۔ اسی لیے وہ اسلام کو اس کی تمام تر وسعت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں اقراء میں ملتی ہیں۔ پھر اس نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی ہے، جہاں سنی اور شیعہ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ سرسید تو شیعوں کے لیے الگ مسجد بنانا چاہتے تھے لیکن شیعہ رہنماؤں نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے ایک مسجد کافی ہے۔ اس روپے کو دوسرے کاموں میں صرف کیا جائے۔ ‘‘ ۸؎
چاند کو میں نے جب نعتوں کا یہ تحفہ دیا
چاند نے جھک کے میرے دیوان کوبوسہ دیا
کی ہیں مہ و نجوم سے باتیں چمن چمن
اترا ہے مجھ پہ نعت کا دیواں کرن کرن
مجھے ملا تھا سرشام اک ستارہ فروش
بنام نعت مجھے دے گیا پیامِ سروش
مسنونِ خواب پرور میں دل بیدار کو صہبا
مسلسل خواب حاصل تھے جہاں کل رات کو میں تھا
میں بھی رہتا ہوں اور مرا دل بھی
رات بھر فکر شعر میں غرقاب
اسی وجہ سے صہبا کی نعت میں رات اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور جلوہ آرائیوں کے ہمراہ عیاں ہے۔ چاند، چاندنی، ماہ، نجوم، ستارہ فروش، چراغ، سرِشامِ فراغ، فسوں ، خواب پرور، قندیل، مہتاب ان کی نعت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
صہبا اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں محبوب مجازی سے متعلق جذبہ و احساس اور حبِ رسول میں بے انتہا فرق ہے، چنانچہ آپ نے ان تمام مستعمل تشبیہات و استعارات اور دیگر ضائع لفظی و معنوی سے گریز کیا جس کا تعلق حسن مجازی و محبوب مجازی سے تھا۔ اس سلسلے میں رندی و سرمستی، جام و سبو، پیالہ و صراحی، ساقی و ساقی گری و دیگر لوازمِ میکدہ سے گریز کیا گیا ہے۔ چند ایک اشعار ایسے موجود ہیں لیکن اس کے لیے فضا کی پاکیزگی کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا ہے۔
رند ہوں اس نگر کا میں صہبا جہاں
کوثری ہے فضا، زمزمی ہیں سبو
منافق کو مشرک سے زیادہ سزا وار ٹھہرایا گیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ مشرک و کافر علی الاعلان اسلام سے دشمنی اور اپنے مذہب سے وفا داری کا اظہار کرتا ہے جبکہ منافق ظاہر میں کچھ اور بباطن کچھ اور ہوتا ہے اور زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
’’منافق ایک زیرک اداکار ہوتا ہے۔ اس کی تمام صلاحیتیں اپنی ہمہ وقت اداکاری سے اپنے منافقانہ روّیوں کو مخفی رکھنے میں صرف ہوتی ہیں۔ اسی ہنر کے سبب خود عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بھی منافق موجود رہے ہیں۔ ہمارے سامنے بے شمار غیرمسلموں کی شاعری بھی موجود ہے۔ غیرمسلم شعرا نعتیہ اشعار بھی کہتے رہے اور اعلائے کلمۃ الحق سے دانستہ گریز کے سبب ایمان کی نعمت سے بھی محروم رہے۔ اس پس منظر میں جب بعض جدید شعراء کی ایسی نعتیں بھی نظر سے گزریں جن میں نعتیہ فکر تو ہے لیکن اظہار کا قرینہ واضح طور پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات و شخصیت کی نشاندہی سے عاری محسوس ہوا تو یہ احساس اجاگر ہوا کہ ایسی غیر مختص شاعری بصورت مدح کسی بھی ذات و شخصیت سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ ‘‘۹؎
صہبا بھی اس روش پر اعتراض کرتے ہیں۔
تم منافق ہی منافق ہو اگر
تو صداقت کے ثنا خواں کیوں ہو
نظیر اکبر آبادی، میرانیس اور جوش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ذخیرۂ الفاظ، ان الفاظ کو برتنے، سلیقہ، مترادفات کا استعمال، انھیں اردو شاعری میں ممتاز حیثیت کا حامل قرار دیتا ہے۔ صہبا اختر کی نظمیں اور خصوصاً ان کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’اقراء‘‘ کے مطالعے کے بعد نظیر و انیس و جوش کی فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ صہبا لفظوں سے کھیلنے کا فن جانتے ہیں اردو شاعری کی کون سی صفت ہے جو شعوری بلکہ بیشتر غیر شعوری طور پر ان کے اشعار میں اپنی جھلک نہیں دکھاتی۔ تضاد، مراۃ النظیر، اشتقاق، شبہ اشتقاق، حسن تعلیل، کنایہ، استعارہ، تشبیہ تلمیح، سبھی با اندازِ دگر جلوہ گر ہیں۔
’’صہبا اختر کے سامنے الفاظ تو ہمیشہ ہی صف باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ الفاظ تو خود ان سے التماس کرتے ہیں کہ وہ انھیں اپنے اظہار کا وسیلہ بننے کا موقع دیں۔ غزل میں ویسے ان کی ذات ہی نے اظہار پائی ہے لیکن جہاں وطن سے محبت کا موضوع ان کے سامنے آیا ہے تو الفاظ کے درد بست میں جہاں طنطنہ شامل ہوا ہے، وہاں خلوص کی گہرائیاں بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ در آئی ہیں لیکن جب عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مرحلہ آیا تو شدت دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گئی۔ یوں لگا کہ انھوں نے عشق کیا ہی نہیں۔ سچے مسلمان کی تو پہچان بھی یہی ہے کہ وہ رسول عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنے متعلقین اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبت کرے۔ ’’اقراء‘‘ کے ایک ایک لفظ سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچائیاں اور تنہائیاں اپنی بھرپور شدت کے ساتھ قاری کا دامن دل بار بار پکڑتی ہیں۔ ‘‘۱۰؎
’’جوش کے بعد شاید وہ دوسرے شخص ہیں ، ان کی شاعری سنتے اور پڑھتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ الفاظ ان کے سامنے پرے باندھے کھڑے ہوتے ہیں ، پھر اشعار میں ان کی نشست میں ایسی پرکاری ہوتی ہے جیسے کسی ہار میں موتی پروئے ہوئے ہوں … انھوں نے نعتیں لکھی ہیں ، عام رواج سے ہٹ کر ہر لفظ دل کی گہرائیوں اور احساس کا پتہ دیتا ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
’’صہبا اختر غزل میں ڈھکی چھپی باتیں کرتے ہیں اور نظم میں ایک شعلہ بیان خطیب کی طرح دل اور دماغ دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ ان کے الفاظ اور نئی تراکیب کا بے پناہ ذخیرہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار و بیان پر غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ ‘‘ ۱۲؎
صہبا کی نعت جذبوں کا والہانہ پن، قدرتِ اظہار، اسلوب کی انفرادیت اور پر شکوہ انداز کے باعث اپنی شناخت قائم کرتی ہے۔
کیا تاج و کلاہ و طبل و علم
سب زیرِ نگیں ، سب زیرِ قدم
تو جلوہ فروز دشت و دمن
تو نورِ چراغِ طاق ِحرم
صہبا اختر مجسم محبت، جو خدا سے محبت کرتا ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی نہیں ان کی امت سے بھی محبت کرے گا۔ یوں اس کی محبت دنیا کے کونے کونے تک پھیل جائے گی۔ دنیا کے انھی گوشوں میں ایک گوشہ پاکستان بھی ہے جو خدا کے دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔
’’صہبا شدید محبتوں کا آدمی تھا۔ ایسے آدمی کی محبت میں جوش و خروش ہوتا ہے مگر پائداری نہیں ہوتی۔ صہبا استثنیٰ کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کی محبت جوش اور استقلال کا سنگم تھی۔ وہ پاکستان سے شدید محبت کرتا تھا۔ پانچویں عشرے میں ، میں اس سے کہتا تھا کہ پاکستان سے تمھاری محبت اسلام سے محبت کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیوں صہبا اپنی ’’مذہبیت‘‘ سے انکار کرتا، شاید وہ عمل اور خیال میں ہم آہنگی کا قائل تھا۔ اسی لیے اسلام پر گفتگو کرتے شرماتا… مگر بعد میں اس نے تسلیم کیا کہ پاکستان سے اس کی محبت اسلام سے محبت کا ایک پہلو ہے۔ صہبا اختر کی نعتیہ شاعری میں جو وسعت ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جو احاطہ ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے۔ ۱۳؎
صہبا اختر کی نعت میں والہانہ پن اور شیفتگی اسی بنا پر ہے کہ انھوں نے دل کی گہرائیوں میں موضوع کی اہمیت اور حساسیت کو جذب کیا۔ نادر تشبیہات و نئے استعارات سے مزین کیا اور روایتی تلمیحات و استعارات و تشبیہات سے صرفِ نظر کیا۔
ہٹا کے دوش سے دنیا کے دھوپ کی چادر
بنام سایۂ رحمت سیماب دے کے گیا
’’صہبا کا اپنا ایک الگ آہنگ ہے، اس نے نادر استعارات اور خوبصورت امیجری سے شاعری میں اضافہ کیا ہے۔ نظم ہو کہ غزل دونوں اصناف کیا بلکہ ہر صنف کی ہر سطر میں صہبا کا باطن بولتا ہے۔ وہ ایک سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور اس کا ثبوت اس کی وہ تمام نعتیں ہیں جنھوں نے دلوں کو گداز اور آنکھوں کو نم کیا ہے، حالانکہ وہ ایک خاص طنطنے کا شاعر ہے۔ وہ ایسا اچھا نعت گو بھی ہے جس کی نعت گوئی پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ۱۴؎
نعت کے لیے جس پاکیزہ فضا، فکر و خیال کی طہارت اور ذکی النفس کی ضرورت ہے صہبا ان اوصاف سے متصف ہیں۔
’’صہبا اختر نے اس مشکل ترین صنفِ سخن میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ہر مصرع اور ہر لفظ کوثر سے وضو کرنے کے بعد ہی تحریر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ۱۵؎
خود صہبا اپنی اس کیفیت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔
ہو گی اس نور سے، بعد میں گفتگو
پہلے آنکھیں کریں ، آنسوؤں سے وضو
تکرارِ لفظی سے شعر کی غنائیت و موسیقت تاثر اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ تکرارِ لفظی سے شعر میں حسن پیدا کرنے میں صہبا کو کمال حاصل ہے۔ اقراء میں جابجا اس کی مثالیں موجود ہیں۔ سحر اندر سحر، گل بہ گل، چمن چمن، کرن کرن، دمن دمن، سخسن سخن، شکن شکن، تھکن تھکن، وطن وطن، سنن سنن اور جھنن جھنن، سینہ بہ سینہ، مدینہ بہ مدینہ، نگینہ بہ نگینہ، سفینہ بہ سفینہ، زینہ بہ زینہ، خزینہ بہ خزینہ، دفینہ بہ دفینہ، یم بہ یم، سحر سحر، افق افق، شاخ شاخ نے شعر کے صوتی حسن کو بڑھایا ہے۔
ہے سلسلہ نور ازل سینہ بہ سینہ
انوارِ مدینہ ہیں مدینہ بہ مدینہ
یہ روشنائی یم بہ یم
یہ شاخ شاخ کے قلم
یہ سب ستاروں کے ورق
سحر سحر افق افق
جو میرے ساتھ ساتھ ہوں
مرے ہزار ہاتھ ہوں
صہبا اختر نے ’’یاران نعت‘‘ کے حوالے سے اپنے ان معاصرین کا تذکرہ عقیدت و احترام سے کیا ہے، جنھیں امت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
ارمغانِ نعت سے سرشار ہیں یارانِ نعت
نغمہ کوش ونغمہ گر ہیں زمزمہ کاران نعت
اس سلسلے میں وہ اپنے بزرگ معاصرین، ہم عمر شعراء اور نوجوان نعت گو شعراء سبھی کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت احسان دانش، حفیظ تائب، تابش دہلوی، احمد ندیم قاسمی، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، ملیح آبادی، شیر افضل جعفری، نازش رضوی، سیف زلفی، سید فیضی، طفیل عاصی، انور جمال۔ قیصر بارہوی، راز کشمیری، اقبال عظیم، منور بدایونی، شور علیگ، حنیف اسعدی، راغب مراد آبادی، رحمن کیانی، سعید وارثی، شاہد الوری، اختر فیروز، محشر بدایونی، محسن بھوپالی، امید فاضلی، شبنم رومانی، حمایت علی شاعر سبھی کی صنفِ نعت میں معجز رقم خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔
شاعر و محشر اگر پرچم کشائے نعت ہیں
محسن و امیدو شبنم بھی فدائے نعت ہیں
اور پھر اسی قافلہ نعت گو میں خود کو شامل دیکھنا انھیں اپنی خوش قسمتی کی انتہا معلوم ہوتی ہے۔
اے خوشاقسمت کہ صہبا بھی پسِ جویانِ نور ہے
شریکِ کاروانِ نعت گویانِ حضورؐ
صہبا کے نزدیک نعت کہنا شہرت و ستائش کی تمنا سے بے پروا و بے نیاز ہے۔ آسمان نعت پر ان ستاروں کا ہجوم کہ جنھیں شمار کرنا ممکن نہیں۔ جگمگا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام تر اصنافِ سخن پر نعت گوئی کو فوقیت حاصل ہے۔ نعت صرف جذبہ و احساس کا بیان ہی نہیں بلکہ فکر و دانش کی گہرائی بھی ہے۔
اب عقیدہ ہی نہیں ہے بس سروسامانِ نعت
علم کے خورشید روشن ہیں سرایوانِ نعت
صہبا کا خیال ہے کہ نعت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہنے کی صلاحیت و اعزاز جسے عطا ہو جائے وہ بلند ترین رتبے کو حاصل کر سکتا ہے۔
وہی قدسی، وہی جامی، وہی حسان ہو جائے
سلیقہ نعت لکھنے کابے امکان ہو جائے
٭٭٭
نظم گوئی
صہبا اختر نے ۱۹۷۷ء میں اپنے پہلے شعری مجموعہ’’سرکشیدہ‘‘ کے دیباچے میں اختر علی سے صہبا اختر تک کے سفر کی دلگداز داستان تفصیل سے رقم کی ہے۔ سرکشیدہ میں شامل نظمیں مختلف النوع تجربات و مشاہدات کی دنیا سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس مجموعہ میں چند نظموں کے علاوہ آزاد نظمیں ، غزلیں ، رباعیات، دوہے اور قطعات بھی شامل ہیں۔ کئی تخلیقات بعد میں آنے والے مجموعوں میں اپنے موضوعات کے مطابق، بارِ دگر شائع ہوئی ہیں۔
طویل ادبی نظموں کا مجموعہ ’’سمندر‘‘ ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا۔ انتساب، ریئر ایڈمرل جناب محمد اسحق ارشد کے نام ہے۔
’’سمندر‘‘ میں حمدونعت کے علاوہ متنوع موضوعات پر۱۹ نظمیں موجود ہیں جو صہبا کی وسعتِ تخیل اور وسیع الفاظ کا خزینہ رکھنے کی آئینہ دار ہیں۔ وہ تشبیہہ، استعارہ، علامت تمثیل و تجسیم سے کام لیتے ہوئے حیرت انگیز فضا تشکیل کرتے ہیں۔
تسخیرِ ماہتاب سے پہلے کہی گئی ۲۱۶ اشعار پر مشتمل مثنوی ’’ملکہ برشگال‘‘ صہبا کی قوتِ مخیلہ اور قدرت کلام کا شہ پارہ ہے۔ برشگال، برسات، بارش، برکھا، مینہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ہندی لفظ برش کال ہے۔ فارسی والوں نے اسے برشگال بنا دیا ہے۔ ساون کا مہینہ، برکھا رت، برسات کا موسم یہ رُت، کس کے لیے ان دیکھی یا ان جانی ہے۔ برستی بارش، گھنگھور گھٹائیں ، ٹھنڈی ہوائیں کسے متاثر نہیں کرتیں۔ صہبا اختر اسے برنگِ دگر دیکھتے ہیں۔ خواب کے اس منظر میں صہبا قاری کو بھی شریک کرتے ہیں۔
صہبا کی اس ڈرامائی نظم میں تخیلی عنصر نقطہ عروج پر ہے۔ تشبیہ، استعارہ اور تمثیل و تجسیم سے بھرپور کام لیا گیا ہے۔
صہبانے زندگی میں کیے گئے تینوں عشقوں کا اعتراف کیا ہے۔ عورت، وطن اور کتاب، جس فرد نے یہ تین کامیاب عشق کیے ہوں ، اس کے با کمال اور خوش قسمت ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے۔ ۱۸۱ اشعار پر مشتمل نظم ’’کتابیں ‘‘ صہبا کی کتاب سے محبت کا ہی نہیں بلکہ قدرتِ کلام کا بھی واضح اظہار ہیں۔ کتاب عکس ہے انسان کا، فطرت کا، مذہب کا، زمین و آسمان کا، زمینی و آسمانی رشتوں کا اور اس کی وضاحت صہبا نے خوب صورت تشبیہات، استعارے، علامات، تمثیلات اور تلمیحات سے یوں کی ہے کہ اشعار کے تسلسل اور بہاؤ میں جو نغمگی ہے، اس میں کہیں کمی آنے نہیں پاتی۔ صہبا کتاب کا ذکر نہایت محبت کے ساتھ کرتے ہیں اور محبت کا کوئی ایک وطن، کوئی ایک مذہب، کوئی ایک ذات، کوئی ایک زبان نہیں ہوتی۔ بین الاقوامیت و آفاقیت اس کی پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کتاب کی بات کرتے ہیں تو تفریقات اور تفرقات سبھی صفحہ کائنات سے معدوم ہو جاتے ہیں۔ کتابیں ، حضرت داؤد ؑ کے راگ، کہ نغمہ داؤدی کے سحر سے کون آگاہ نہیں ، حضرت داؤد جب زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ وجد میں آ جاتے، پرندے ساکت ہو جاتے۔
کتابیں ہی زرتشت کی نہ بجھنے والی آگ، کتابیں صدا، صحیفہ، اوستا و گیتا، نانک کا وجدان، گوتم کا نروان، الواحِ موسیٰ، انفاسِ عیسیٰ، توریت و انجیل، نغماتِ جبرئیل بھی ہیں۔ حتیٰ کہ خود خدا بھی کتابوں میں کلام کرتا محسوس ہوتا ہے۔ کتابوں میں احساس کی نرمی، گلاب کی پتیوں کی مانند موجود ہے، کتابوں کا مقصد، روحانیت و انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی ترویج ہے۔ کتاب کے اثر کے سامنے خنجر، پتھر، تیغ و سناں سب بے مایہ ہیں۔ کتابیں عقل و علم کے دبستان ہیں اور ماہ و نجوم کے شبستان ہیں۔ دن کا آغاز حرفِ کتاب ہی سے ہوتا ہے۔ تہذیب و آداب کا سرچشمہ اور اقطاب کا وظیفہ کتاب میں ہے۔ وحی خدا کا نزول بھی کتاب کے ذریعے ہی بنی نوع انسان تک ہوا۔ انھی کتابوں میں رسول سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ دُنیا فانی ہے، انسان ہمہ وقت پادر رکاب ہے جبکہ کتابیں ہی ازل اور کتابیں ہی ابد ہیں۔ کتابوں سے ابوجہل نے گریز اختیار کیا اور اس کا انجام معلوم۔ کتابیں اللہ تعالیٰ کا جمال اور تمنائے قرب ہیں۔ کتابیں ہی اذان، زمینِ وفا اور آوازِ کوہِ صفا ہیں۔ سکوتِ مراد، کلامِ حرم اور چراغِ لوح و قلم ہیں۔ کتابیں افکار کا خزینہ اور انوار کا مدینہ ہیں۔ وہ کتاب ہی ہے کہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دل دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔
کتابیں ہیں وہ تابشِ مستقل
دھڑکتا ہے جس میں محمد کا دل
کتابوں کی تقدیس ہے لا جواب
کتابوں میں شامل ہے ام الکتاب
کتابیں ، اجالوں کی پیغامبر، ستاروں کی نور نظر، سکون و سرود و سحاب، ہجوم گلال و گلاب، زندگی کے چہرے کی دمک اور رنگ، جلالِ خدا و جمالِ بتاں ہیں۔ کتابوں ہی میں تاریخ کا نادیدہ منظر دکھائی دے جاتا ہے۔ دوش و فردا اس میں ہویدا ہیں۔ عالم زشت و خوب کتابوں میں سمٹ آتے ہیں اور کتابوں کی پہنائی میں سمندر ڈوب جاتے ہیں۔ کتابوں کی دُنیا نوائے سروش ہے۔ اس میں آفاق کی سانسیں موجود ہیں۔ کتابیں ہنستی بھی ہیں۔ گاتی بھی ہیں۔ قلب ونظر کو روشنی بھی بخشتی ہیں۔ دانش کا دل اور ہنر کا دماغ ہیں۔ کتابیں خواب کی تعبیر بھی ہیں اور تسخیرِ ماہتاب کا فن بھی جانتی ہیں۔ کتابیں تمدن کی روح رواں ہیں اور یہی سفینہ تلاطم میں نوح کا اجالا بن کر ابھرتی ہیں۔ کتابیں ہی انسان کی معراج ہیں اور انھیں کبھی زوال نہیں۔ حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن کتابیں نہیں کہ کتابوں کے اقتدار کو کوئی تاجدار چھین نہیں سکتا۔ کتاب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اسے فنا نہیں۔ یہ صدیوں کی داستانیں سناتی ہیں۔ یہ صدیوں کے خیال اور دماغ، دھڑکنیں اور آہٹیں خاموش لمحوں کی گونج اور قدموں کی چاپ کو زندہ رکھتی ہیں۔ کتابوں کی گویائی ہمیشہ زندہ رہنے والی ہے۔
صہبا کتاب کی عظمت و حرمت، اہمیت و ضرورت کا اعتراف کرنے کے بعد اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ سچ سے نگاہ چرانا ممکن نہیں ہے۔ آج کی زروسرمایہ کی دُنیا میں کتاب سے ناطہ رکھنا، اس کا لکھنا پڑھنا کارِ بے کاراں ہے۔ ان کتابوں کے مصنف، محسوسات و معلومات کا ایک وسیع خزانہ رکھنے کے باوجود حقیر و غریب، پریشان رہے ہیں تو کیا اس صورت حال میں معاشرے سے کتاب اور صاحب کتاب دونوں کا اخراج لازمی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں بھی کتابوں کی ضرورت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج بھی دنیا میں وہ لوگ موجود ہیں جو ان نغمہ گروں ، حیات آفریں تخلیق کاروں کا احترام کرتے ہیں۔
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور وہ قلم
جو کرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سرِطاق فن اک دیا رکھ دیا
لکھے حرف جو بھی مجھے احترام
قلم کے قبیلے کو میرا سلام
” دیواریں ” مکالماتی نظم ہے جس میں دو کردار ہیں۔ شاعر اور اس کا ہمسایہ۔ ہمسایہ مادی زندگی کی تمام تر آسائشوں اور سہولتوں کا متمنی ہے۔ اپنی زندگی میں دوسروں کی عدم مداخلت اور اپنے تحفظ کا سب سے اہم ذریعہ ان دیواروں کو جانتا ہے جو اس کے ارد گرد کھڑی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ دیواریں ہر دکھ کا علاج ہیں اور ازل سے ہی انسان نے اس جبر لا شعوری کو بخوشی اپنا رکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی زمانے میں انسان جنگلوں اور کہساروں میں رہا کرتا تھا اور تہذیب سے عاری زندگی بسر کر رہا تھا لیکن اب جب سے دیواروں نے سراُٹھانا شروع کیا ہے، تمام دُنیا تہذیب و تمدن سے آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ نے انسان کے نام وہ جاگیر لکھ دی ہے جہاں اس نے چاردیواری کھینچ دی ہے۔ یہ دیواریں انسان کو دُشمنوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ انھیں احساس ملکیت عطا کرتی ہیں اور پروانہ قانون اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں۔ شاعر نے ہمسائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ تم کس پروانۂ قانون کی باتیں کرتے ہو۔ شاید تم نے وہ بے سروساماں لوگ نہیں دیکھے جنھیں دیوار تو کیا سایہ دیوار تک میسر نہیں ہے۔ ننگ و افلاس و بے گھری کا تہذیب و تمدن سے کیا واسطہ۔ وہ تو یہی جانتے ہیں کہ ان کا سفر دائرہ در دائرہ ہے۔ وہ ایک جنگل کے قانون سے نکل کر دوسرے جنگل کے قانون کے دائرے میں آن پہنچے ہیں۔ دُنیا کے ظلم و ستم وہی ہیں۔ ظالم کا چہرہ بدل دینے سے ظلم ختم نہیں ہو جاتا۔ آج کا تہذیب یافتہ متمدن انسان بھی حرص و ہوس کے ہاتھوں ، پتھر کے عہد میں جی رہا ہے۔ کمزور کو طاقتور آج بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے انسان، جانوروں کا شکار کیا کرتا تھا۔ آج انسان، انسان کا دُشمن ہے۔ اس تمدن نے قربت کے بجائے دوریوں کو جنم دیا ہے۔ یہی وہ دیواریں ہیں جو انسانوں کو تقسیم کر رہی ہیں۔ آج کا انسان دوسروں میں عیب تلاش کرنے میں اس قدر محو ہے کہ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کی فرصت نہیں اور ضرورت بھی اس لیے نہیں سمجھتا کہ تمام برائیاں اسے دوسروں میں نظر آتی ہیں ، خود میں نہیں۔ کبھی اسے فرصت ملے تو اسے احساس ہو جائے گا کہ وہ دیواریں جو اس نے بڑے فخر سے اُٹھائی تھیں۔ ایک بڑا رقبہ اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔ ایسی ہی دیواریں اس کے دل کے اندر بھی تعمیر ہو چکی ہیں۔ خود غرضی کی ان دیواروں نے تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ دیواریں ، ملکوں ، قوموں کی صورت میں انسان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر رہی ہیں۔ یہ دیواریں کہیں نیلے سمندر اور کہیں کہسار کی صُورت میں عیاں ہیں تو کہیں صحرا یا گلزار کے روپ میں کھڑی ہیں۔ فطرت، ملت، غربت، شہر، صوبہ کلیسا، گردوارے، مندر، مسجد، صلیب و ہیکل رنگ و نسل و قوم کی شکل میں۔ یہ دیواریں انسان کو انسان سے نہ صرف جدا کر رہی ہیں بلکہ بغض و نفرت کینہ و زہر پھیلا رہی ہیں۔ کہیں یہ لسانی تعصبات کی صُورت، جلوہ گر ہیں تو کہیں مذہبی۔ کہیں علاقائی تعصبات ہیں تو کہیں گروہی۔ یہ دیواریں آزاد انسان کو پایہ زنجیر کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اس کا جسم آزاد ہے اور نہ ذہین۔ دُنیا ہولناک تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ ہر دیوار کے پیچھے ایک لشکر صف آرا ہے اور شاعر محسوس کر رہا ہے کہ ساری دیواریں کسی بھی وقت آپس میں ٹکرا کر قیامت برپا کر دیں گی۔ شاعر اس صُورت حال سے سخت کبیدہ خاطر ہے اور یہ خواہش کرتا ہے کہ زندانِ دُنیا سے عداوت و تعصب کی دیواریں گر جائیں۔ اس طرح محبت کی روشنی کو جو مقید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بھی ناکام ہو جائے گی۔ وہ ایسی صبح کا منتظر ہے کہ جب ساری زمین عالمِ انسانیت کا آنگن نظر آنے لگے اور یوں زمانہ جو نفرتوں کی زرد دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ وہاں محبت کی حکمرانی ہو۔ شاید اسی طرح قیامت کی وہ گھڑی جو سر پر کھڑی ہے، ٹل جائے۔
صہبا اختر، ان دیواروں کو گرا دینا چاہتے ہیں جو اہلِ پاکستان کو مختلف صوبوں علاقوں ، زبانوں ، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر رہی ہیں۔ یہ دیواریں نسل انسانی کے گرد اپنا حصار اس قدر تنگ کر رہی ہیں کہ ایک روز وہ ان میں گھٹ کر رہ جائے گی۔ صہبا اس وقت کو روکنا چاہتے ہیں :
’’صہبا اختر کو اپنے ملک میں باہم نفاق، لسانی، گروہی نفرتوں اور صوبائی عصبیتوں سے جنم لینے والا قہر آگیں انتشار جو جوع و کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ یہ اذیت نہیں جھیل سکتے۔ انھیں شدید احساس ہے کہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
صد ہزاروں بے نوا جاں دادہ اَند
سنگ بنیاد وطن بنہادہ اَند
لاکھوں بے نواؤں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر اس وطن کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ اس لیے وہ اس کی تعمیر میں کوئی رخنہ نہیں دیکھ سکتے۔ صہبا اختر تعمیر پاکستان کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں درد ہے۔ وہاں جوش او ر ولولہ بھی ہے۔ جہاں یاسیت چھانے لگتی ہے وہاں اُمید کی کرن بھی پھوٹتی نظر آتی ہے۔ ‘‘ ۱؎
وجہ صرف یہ ہے کہ صہبا اختر مایوسی اور بے بسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ وہ اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن ڈھونڈ لاتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ تعصبات میں گھرے عوام بہت معصوم اور سادہ ہیں۔ انھیں ان تعصبات کا شکار کچھ مطلب پرست لوگوں نے بنایا ہے۔ صہبا عوام کو انھی مطلب پرستوں اور تخریب کاروں سے ہوشیار رہنے کا درس دیتے ہیں اور پر اُمید ہیں کہ ایک نہ ایک روز عوام اُن کی چالیں سمجھ جائیں گے اور انھیں اپنے وطن سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔
محبت لا محدود و لامکاں جذبہ ہے اس کے ارد گرد دیواریں نہیں اُٹھائی جا سکتیں۔
میں ایک دُنیا محبت کی سجاتا ہوں خیالوں میں
پھر اس دُنیا میں دیواریں اُٹھانا بھول جاتا ہوں
صہبا اختر نسلاً پنجابی ہیں ، پنجاب میں کبھی رہے نہیں لیکن اپنی جڑوں سے لگاؤ کسے نہیں ہوتا لیکن ان کے روّیے یا مزاج سے یا ان کی کسی بات یا ان کے کسی شعر سے اس کا فخر یا احساس نہیں ہوتا۔ کیوں وجہ صرف یہ ہے کہ محبت کی سرحد کوئی نہیں ہوتی۔ محبت تو خوشبو کی مانند ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔ وہ پنجابی بھی ہیں۔ وہ سندھی بھی ہیں وہ مہاجر بھی ہیں۔ پاکستان کی مٹی کے ذرے ذرے سے ان کا گہرا تعلق ہے اور اسی ناطے وہ ہر اس ذرے کے احسان مند ہیں کہ جس نے انھیں پناہ دی۔ صہبا پاکستان بننے سے پہلے پاکستان آئے تو سندھ، کراچی میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد آئے لاہور سے ہوتے ہوئے سندھ، کراچی ہی ان کا مستقر ٹھہرا، وہ سندھ آج کے سندھ سے مختلف تھا۔ اب اختلافات کی خلیج اتنی چوڑی ہو گئی ہے کہ اسے پاٹنے کے لیے ایک نیا عزم، ایک نیا ولولہ درکار ہے۔ صہبا نے نہایت نامساعد حالات میں سندھ میں قدم رکھا۔ اس سندھ میں کہ جس نے بے حال مہاجروں کو اپنا جانا۔ انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی۔ صہبا کی شخصیت و کردار کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے محسن کو اور اس احسان کو جوان کی ذات پر کیا گیا، فراموش نہیں کرتے۔ خواہ وہ احسان پانی کے ایک گھونٹ کی صورت میں ہو یا سرچھپانے کی جگہ کی شکل میں۔ صہبا بریلی سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے۔ بے گھری اور بے روزگاری کا دُکھ نا قابلِ برداشت یوں ہوتا جا رہا تھا کہ اہل خانہ ہمراہ تھے۔ صہبا جیسے حوصلہ مند نوجوان بھی جنھوں نے ہر مصیبت کا مقابلہ کرنے کا عزم لے کر اس پاک سرزمین پر قدم رکھا تھا؛ وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ مسائل کا خاتمہ آسان ہے یا زندگی کا۔ ایسے میں بے بسی اور مایوسی کی حالت میں جناب محمد بخش بلوچ نے ایک اتفاقی ملاقات میں ، ان کا احوال معلوم ہونے پر بندر روڈ یعنی کراچی کے دل میں واقع ایک خوب صورت فلیٹ بغیر کس قیمت کے عنایت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے رزق، موت، وحی، صور پھونکنے اور نامہ اعمال تحریر کرنے کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں ، لیکن ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے، ان کے مسائل حل کرنے کا کام فرشتوں کو نہیں فرشتہ خصلت انسانوں کو سونپا ہے۔ ’’جیے سندھ‘‘ دراصل اس شخصیت محمد بخش بلوچ کی خدمت میں نذرانۂ عقیدت ہے جو صہبا کے لبوں سے تمام سندھ اور سندھی بھائیوں کے لیے دعا بن کر طلوع ہوا ہے۔
جیے سندھ کہ جس نے پھول دیے
اس وقت کہ جب میں صحرا تھا
جیے سندھ کہ جس نے جام دیے
اس وقت کہ جب میں پیاسا تھا
صہباسرزمین سندھ کے شکرگزار ہیں کہ جس نے اپنا پیار، گھربار اور ہر سکھ دیا۔ سچل اور سسی کا سندھ، شہباز و بھٹائی کا سندھ، جو پیار کا ڈیرا تھا اور ہے۔ بادسموم ہمیشہ تو نہیں چلتی رہتی، پروائی کے جھونکے اور باد صبا کی سرسراہٹ بھی جلد ہی سنائی دینے لگتی ہے۔ خود غرضی کی لُو کو محبت کی مہکتی فضائیں جلد یا بدیر ختم کر دیتی ہیں۔
محبت اور شعر و ادب کی بنیادیں اسی جذبے پر استوار ہوئی ہیں۔ محبت خوشبو ہے، روشنی ہے، سکون ہے، خدا ہے، خدا کی عطا کی ہوئی لازوال نعمت ہے۔ انسان خداسے محبت کرتا ہے، کائنات و فطرت کی بو قلمونیوں و نیرنگیوں سے کرتا ہے۔ ماں ، باپ، بہن بھائی عزیز و اقارب سیاسی، مذہبی سماجی رہنما، انسان کسی سے بھی محبت کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی، کیا محبت ہمیشہ مثبت نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ کیا یہ کبھی خطرناک ثابت نہیں ہوتی۔ اس کی حدت یا شدت سب کچھ جلا کر راکھ کر سکتی ہے یا کندن بنا دیتی ہے۔ اپنی ذات سے محبت، ایسے میں یا تو دُنیا حقیر دکھائی دینے لگتی ہے یا پھر ہر طرف اپنا ہی جلوہ نظر آنے لگتا ہے۔ یوں بھی ہوا ہے کہ اپنی ذات سے محبت انسان کو مثبت راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ وہ شر کا انکار اور خیر کا اقرار کرتے ہوئے، اپنی ذات ہی سے اپنے ماحول کی درستگی کا آغاز کرتا ہے۔ باطنی و ظاہری صفائی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی عیوب سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ نتیجتاً ’’ا نسان‘‘ کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ محبت کے خد و خال ہر شاعر کے تخیل نے اپنے انداز میں تراشے ہیں۔ صہبا جو مجسم محبت ہیں ، محبت کی رسائی کہاں کہاں تک دیکھتے ہیں۔ محبت ظلمت میں نور کے دیئے روشن کرتی ہے۔ محبت کبھی غزل کے روپ میں ، کبھی صبح ازل کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ محبت خدا کا حسین خیال بھی ہے اور جزد و کل کے درمیان کی کڑی بھی۔ محبت ہی کی بنا پر کائنات قائم و دائم ہے۔ محبت نغمہ ہے اور دُنیا ساز ہے۔ کبھی تو صہبا نرم مدھم لہجے میں ، تو کبھی للکار کر پیغام دیتے ہیں۔
محبت، محبت، محبت کرو
محبت کسی رنگ نسل مذہب اور طبقاتی تقسیم کو نہیں مانتی۔ ہر مذہب کی بنیاد محبت پر رکھی گئی ہے۔ محبت اوستا ہے، گیتا ہے، عیسیٰ و نانک و گوتم ہے، سیتاور ادھاو مریم ہے۔ ہر آسمانی کتاب محبت کا نور لیے طلوع ہوتی ہے۔ ہر رسول محبت کا پیامبر ہے۔ محبت ہی توریت و انجیل و جبرئیل کی آواز ہے۔ محبت ہی وجدان، عرفان و قرآن ہے۔ محبت ہی زمانے اور وقت کا سکوت ہے۔ یہی صحرائے دل کی اذاں ہے۔ وہ شعلوں میں پھول کھلانا جانتی ہے۔ محبت خدا اور رسول ہے۔ تجلیِ باب ِحرم ہے۔ اس کا درجہ کسی بھی عبادت سے کم نہیں اور صہبا اس کارِ عبادت کے مسلسل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
مسلسل یہ کارِ عبادت کرو
محبت، محبت، محبت کرو
یہ خدا کی تحریر کا اجالا، فرشتوں کی مسکراہٹ، ستاروں کا راستہ، بہاروں کے رنگ، ماؤں کی آنکھوں کا نور، بہنوں کے دل کا سرور، کائنات کا ہار سنگھار اسی سے عبارت ہے۔
جب محبت اس قدر طاقتور اور پُر اثر جذبہ ہے تو پھر انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس سے کام لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ محبت کرتا تو ہے لیکن اسے محدود رکھتا ہے۔ خود اپنی ذات تک، اپنے گھر تک، اس کے بعد علاقہ غیر شروع ہو جاتا ہے اور غیروں سے دشمنی کی جا سکتی ہے، محبت نہیں ، اس علاقہ میں دُشمن بستے ہیں جہاں منافقت کے بازار سجے ہیں۔ سچائی دُھواں دُھواں ہو چکی ہے اور اب تو انسان اور زیادہ ترقی یافتہ ہو چکا ہے۔ تصنع اور منافقت بھی عہدِ گزشتہ کی تحریریں ہوئیں۔ نفرتوں کا اظہار اب برملا ہونے لگا ہے، من وتو کے فساد نے شہر بھر میں فسادات کی آگ بھڑکا دی ہے۔ انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے اور جب انسان ایک دوسرے سے دور ہونے لگیں تو پھر محبت نہیں انتقام جنم لینے لگتا ہے اور انتقام ہمیشہ سے خون کا خوگر رہا ہے۔ لہو بہا کر محبت کو فروغ نہیں دیا جا سکتا اور جب لہو کا بازار گرم ہو تو پھر کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس کا لہو کس بھاؤ بکا اور جب لہو کی قیمتیں لگنے لگیں تو آزادی سستی ہو جاتی ہے، خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر محبت کا پیامبر ہے، مجسم محبت ہے۔ وہ کبھی اپنے فرض سے غافل نہیں رہا ہے۔ وہ اس عہدِ خونچکاں میں ایک ایک بشر کو یہ پیغام سنانا چاہتا ہے کہ عقیدوں ، قبیلوں ، ذاتوں ، نسلوں اور زبانوں کے آسیب سے خدارا نکل آؤ۔ یہ جنگ محبت کے رنگ دھندلا دے گی اور اگر ایسا ہو گیا تو آدمیت کی تذلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی۔ محبت سروں کو نہیں دلوں کو اسیر کرنے کا نام ہے۔ اے نسلِ انساں دُنیا میں صرف اور صرف ایک کام کرو۔ محبت محبت محبت کرو۔ سارے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔
صہبا کی اس نظم ’’محبت‘‘ میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے واقفیت کا ادراک بھی ہے اور محبت سے کنارہ کش ہو جانے یا محبت کا دامن تھام لینے سے جو نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ہے۔ محبت نرم مدھم کومل جذبہ جو ملائم اور نغمگی سے بھرپور لہجے کا تقاضا کرتا ہے لیکن صہبا کی اس نظم میں گھن گرج بھی شامل ہے اور زورِ خطابت بھی نمایاں ہے۔ تکرارِ لفظی نے احساس کی شدت کو نمایاں کیا ہے۔ اندازِ خطابت اور اک پھول کا مضمون ہو، سورنگ سے باندھوں ، والی کیفیت نے نظم کے حسن اور اثر آفرینی میں اضافہ کیا ہے۔ نظم میں تخیل بھی ہے اور دلیل بھی اور صہبا کی
تخلیقی قوت کا اظہار بھی کہ وہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے تشبیہ، استعارہ، تمثیل، محاکات اور تلمیحات سبھی سے بھرپور کام لیتے ہیں۔ نظم کے موضوع کی مناسبت سے ایسی فضا تشکیل دیتے ہیں کہ قاری خود کو اس کا ایک جزو سمجھنے لگتا ہے اور یہی تخلیق کار کی بڑی خوبی ہے وہ محبت محبت محبت کرو، التجائیہ انداز میں نہیں ، للکار کر کہتے ہیں۔ یہ للکار اس وقت ہی پیدا ہو سکتی ہے جب شاعر کو احساس ہو کہ اس کے ہمراہی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ چند ہی قدم کے فاصلے پر گہری کھائی ہے۔ اندھی دلدل ہے دکھائی نہ دینے والی آگ کا جنگل ہے تو وہ اس وقت خبردار کرنے کے لیے نرم مدھم لہجے میں نہیں بلکہ پکار کر کہتے ہیں کہ اس راہ نہ چلو بلکہ محبت محبت محبت کرو کہ یہی راہ منزل تک لے جاتی ہے۔
٭٭٭
شاعرِ پاکستان
جذبۂ حُب وطن سے انکار کسی بدقسمت شخص کو ہی ہو سکتا ہے۔ صہبا یقیناً بے انتہا خوش نصیب انسان تھے کہ قدرت نے انھیں یہ جذبہ گہرے سمندروں سے بڑھ کر بخشا تھا۔ ان کی ہر نظم، پاک وطن کی مقدس مٹی کی مہک، وہ مہک جو بارش کے پہلے چھینٹے کے بعد تپتی زمین سے اٹھتی ہے، لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ محبت ہے کہ جس کی حد ہے نہ شمار۔ اس جذبۂ محبت کے لیے بھی ہمیں خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس نے ہمیں آزادی کی نعمت بخشی اور جس کے نتیجے میں وطن کی محبت کے سوتے دلوں سے پھوٹے۔ ’’صبح آزادی‘‘ صہبا کی ایک ایسی ہی نظم ہے کہ جس میں انھوں نے آزادی کی بیش بہا نعمت پر خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے۔ نظم استفہامیہ انداز سے شروع ہوتی ہے۔ اہلِ وطن سے سوال کیا گیا ہے کہ اے میرے یارو اس صبح آزادی نے ہمیں کون سا تحفہ ہے جو نہیں بخشا؟ ایک آزادی ملنے سے ہمیں خاکی زمین، نیلا آسمان، چمکتا چاند، جگمگاتے ستارے، بہاروں کا تبسم، ہواؤں کی جنوں خیزی، برگ و گل، سروسمن، دشت و دمن، گلزار وباغ سرسبز میدان جھلملاتے آبشار، چمکتے سمندر، بہتے چشمے، بلند و بالا پہاڑ، ایک وطن ملنے سے ہمیں کیا کچھ نہیں ملا۔ تو اے میرے خوش نصیبانِ وطن ان نعمتوں کی قدر کرنا سیکھو۔ یہ نعمتیں بغیر کد و کاوش کے تمھاری جھولی میں نہیں گریں۔ بلکہ جسم لہولہان ہوئے ہیں۔ دل کے ہزاروں ٹکڑے ہوئے ہیں۔ ان گنت یعقوب، لا تعداد یوسف آزمائش سے گزرے ہیں۔ ان گنت شہیدوں کا لہو اس خاک میں ملا ہے۔
سرکٹائے ہیں ہزاروں تو ہوئے سربلند
اب اگر سرکو بلند رکھنا ہماری خواہش ہے تو ہمیں ان شہیدوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جن کی قربانیوں کے باعث آج ہم سرخرو ہیں۔ اس سرخروئی کو برقرار رکھنے کے لیے، مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے، ہمیں حال کے اندھیروں کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ ہر دم اندرونی و بیرونی دشمنوں سے خبردار رہنا ہے۔
قدر آزادی کرو، ورنہ رفیقان بہار
گر یہ آزادی کسی سے روٹھ جائے ایک بار
کرنا پڑتا ہے اسے، پھر صدیوں اس کا انتظار
صبح آزادی کا سورج، جسم و جان کا قرض ہے
اس کی کرنوں کی حفاظت، اب ہمارا فرض ہے
نظم میں منظر نگاری کا فن عروج پر ہے۔ خطابیہ انداز کی اس نظم میں صوتی آہنگ کی تاثیر، روانی، تسلسل ترنم اور بہاؤ کی کیفیت قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہے۔
کسی بھی قوم کے لیے یوم آزادی کی صبح ایک فخر اور سرخوشی کی کیفیت لیے طلوع ہوتی ہے۔ دن بھر جشنِ آزادی کا سماں قابل دید ہوتا ہے۔ شکرانے کے نوافل پڑھتے جاتے ہیں ، ہر دل بے کراں خلوص سے لبریز اور ہر زبان بے پایاں عقیدت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ گلی کوچوں میں جھنڈیاں اور چھتوں پر علم لہراتے نظر آتے ہیں۔ شام کے وقت غریب کی کٹیا ہو یا ایوان حکومت ہر طرف چراغاں کا منظر قابل دید ہوتا ہے۔ ” چراغاں ” میں ۱۴اگست کی شام کا تاثر رقم کیا گیا ہے۔
سمندر کے تلاطم میں چاندی کا ہاتھ
بتا رہا ہے زمین آسماں سے دور نہیں
غالب نے کہا تھا۔
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
صہبا کہتے ہیں کہ زمین پر ہر طرف چراغاں ہے۔ آسمان پر ستارے اس حسن میں اضافہ کر رہے ہیں ، اب خلا کی ظلمتِ بے پایاں ہی محروم آرائش و روشنی ہے۔ وہاں جا کر بھی چراغ جلا آئیں۔
خلا کی ظلمت بے پایاں میں چراغ جلائیں
میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے۔ منصور نے عشق حقیقی میں جذب ہو کر انالحق کا نعرہ بلند کیا اور مولویوں ، مفتیوں کی نظر میں گردن زدنی ٹھہرا کہ ان کی نگاہ گہرائی و گیرائی تک رسائی نہیں رکھتی۔ صہبا حبِ وطن میں یوں غرق ہوئے کہ میں بھی پاکستانی ہوں کے بجائے میں بھی پاکستان ہوں کا نعرہ لگا دیا۔ سننے والوں کو عجیب سالگا لیکن جب انھوں نے سوچا تو بات سمجھ میں آ گئی کہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ اپنی تمام خامیوں اور خوبیوں سمیت لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں بھی پاکستان ہوں تو پھر پاکستان کے ساتھ کسی خامی، کجی یا برائی کا تصور محال ہے کہ محبوب تو لاجواب و لاثانی ہوا کرتا ہے۔ اسے تو ہر خامی سے پاک جان کر ہی چاہا جاتا ہے اور اس محبت کی انتہا یونہی ہوا کرتی ہے کہ رانجھا رانجھا کوک دی نی میں آپے رانجھا ہوای، چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں بھی پاکستان ہوں تو اپنی ہی ذات پر کس قدر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اب ہمیں خود کو ہر خامی سے پاک رکھنا ہے۔ ورنہ یہ خامی سارے پاکستان کی متصور ہو گی اور اگر اس کی تعریف ہو گی تو گویا ہر فرد کی تعریف ہو گی۔ دیکھا جائے تو میں پاکستانی ہوں ایک الگ بات ہے اور میں پاکستان ہوں ایک الگ دعویٰ ہے۔ میں پاکستانی ہوں کہہ کر ہر فرد اپنے اپنے حقوق کا طالب ہوتا ہے لیکن جب وہ کہتا ہے میں پاکستان ہوں تو یہ کہہ کر وہ اپنے تمام فرائض پوری دیانت داری اور محنت سے ادا کرنے کا تہیہ کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے اور یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے کہ جس کا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہو۔ صہبا کسی ایک صوبے کسی ایک علاقے یا شہر کا ذکر نہیں کرتے بلکہ چاروں صوبوں کا تذکرہ والہانہ انداز میں کرتے ہیں اور ان چاروں صوبوں کے عوام، وقت کے اس تقاضے کو اچھی طرح جان چکے ہیں کہ وہ محض پاکستانی نہیں بلکہ مکمل پاکستان ہیں۔ یہ تاویل تو صہبا کے چاہنے والے پیش کرتے ہیں۔
خود صہبا اختر میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے، کے مفہوم کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
’’کسی نے میرے تحریر کردہ ملی نغمے، میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے، کے بارے میں سوال کیا تھا کہ صہبا صاحب اس مصرع کا کیا مطلب ہوا؟ کہنا تو آپ کو چاہیے تھا کہ میں بھی پاکستانی ہوں اور تو بھی پاکستانی ہے تو میں نے جواب دیا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان سے کچھ اس طرح ڈوب کر عشق کریں کہ آپ یہ نعرۂ مستانہ لگائیں کہ میں پاکستان ہوں اور جب آپ پاکستان سے عشق کی اس منزل کو سر کر لیں گے اور ہم سب ایک ہی عشق اور ایک ہی رنگ میں نہا جائیں گے تو پھر آپ جو برائی کریں گے وہ اپنے ہی گھر میں کریں گے۔ جب کسی گھر کا چراغ بجھائیں گے، جب کسی سورج کو قتل کریں گے تو آپ کو یوں لگے گا کہ یہ تو آپ نے اپنے ہی گھر کو اندھیرا کر دیا۔ یہ تو اس نے اپنی ہی جنت کو جلا ڈالا۔ یہ سارے عذاب من و توکی تقسیم کے پیدا کردہ ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کے درمیان نا قابلِ عبور دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ ہمیں ان تمام دیواروں کو ڈھانا ہو گا۔ ‘‘ ۱؎
صہبا کے یار ِعزیز جناب حمایت علی شاعر کہ جن کی عادت میں تحقیق اور جستجو شامل ہے۔ پاکستان سے صہبا کی دیوانہ وار محبت کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ صہبا اور پاکستان میں اس قدر شدید محبت ان اعداد کی یکسانیت کا کرشمہ جو صہبا اختر اور پاکستان، دونوں کے عدد مشترک ہیں ، یعنی کہ تین۔
اس ملک کو گونگے بہرے اور اندھے، بے حس لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بہت نقصان پہنچایا ہے اللہ کا شکر ہے کہ ابھی کچھ آنکھیں دیکھتی، کان سنتے اور لب بولتے ہیں۔ یہی بولتے لب اللہ کے حضور فریاد کر رہے ہیں کہ آج میرا مدینہ ظلم کا شکار ہے۔ وطن کا سفینہ بھنور کی زد میں ہے۔ کوئی ناخدا نہیں جو آگے بڑھے اور اسے سنبھالے۔ انصاف، زندگی اور شاعری سبھی پکار اُٹھے ہیں کہ دُنیا والے نہ سہی خدا تو ان کی فریاد سُن لے۔ مصیبت و آفت میں گھرے وطن کو محب وطن عوام ہی بچا سکتے ہیں۔ صہبا کہتے ہیں کہ میں نے وطن کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے اپنے لہو سے مشعل روشن کی ہے۔ اے میرے ساتھیو! اسے حلف نامہ بنا کر عہد کرو کہ اس پر اشکوں اور نفرتوں کے بادل چھانے نہ دیں گے۔ یہ اس صُورت میں ممکن ہے کہ ہر اک طاق میں مِشعلِ دل جلا دی جائے تاکہ اس کی روشنی میں اندرونی و بیرونی دُشمنوں کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہو۔
مِشعل، سات بندوں پر مشتمل اس نظم میں صہبا نے حوصلہ، اُمید رجائیت آگے بڑھنے، وطن کو قائم و دائم رکھنے کا پیغام دیا ہے۔
شخص کو شخصیت تک کے مراحل طے کرنے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ وہ عرصہ زیست کہ جو سونے کو کندن بننے میں لگتا ہے۔ فرد اپنے وضع کردہ اصول و ضوابط، اندازِ زیست اور مروجہ ڈھانچے میں خود کو ڈھالنے میں بڑی دشواریوں سے گزرتا ہے۔ من مارنا، طبیعت پر جبر کرنا رفتہ رفتہ اس کے لیے اتنا مشکل نہیں رہ جاتا۔ وہ تجرباتی و تجزیاتی ذہن رکھتا ہے۔ اس کی ذات اور اس کی سوچ کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ذات کے علاوہ اپنے گرد و پیش کا غائرنگاہ سے مطالعہ کرتا ہے۔ اس مطالعے اور تجزیے میں وہ جذباتی سوچ نہیں رکھتا۔ اپنے اُصولی موقف پر ڈٹ جانے کا حوصلہ بھی اس میں ہے اور فیصلہ کرنے کی قوت و جرات بھی رکھتا ہے اور اس فیصلہ کو جو بہت سے ذہنوں کے لیے قابل نہیں ہے، ان کا مقابلہ کرنے بلکہ انھیں قائل کرنے کا عزم و حوصلہ بھی اس میں ہے۔ یہ کام محنت یا اپنے سکھ کو تج دیے بغیر ممکن نہیں۔ قطرے کو گہر بننے تک جو مراحل درکار ہیں وہی شخص کو شخصیت کی سطح پر آنے کے لیے طے کرنے پڑتے ہیں۔ ورنہ کائنات کا ہر فرد چمکتا دمکتا چاند ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ رہنما تو بہتیرے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم ایک ہی ہیں۔
قائد اعظم ایک عظیم رہنما ہی نہیں ، وطن سے محبت رکھنے والے ہر فرد کے دل کی دھڑکن بھی ہیں۔ آپ کی ذات ہر فرد کے لیے آئیڈیل ہے۔ سورج، روشنی، حرارت اور زندگی کی علامت ہے۔ یہی ایمان کی روشنی، جذبے کی حرارت اور زندگی کا جوش، قائد اعظم کی ذات میں موجود تھا۔ صہبا کی شاعری میں سورج ایک اہم علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس کی شعاعیں مختلف مفاہیم رکھتی ہیں جن میں بنیادی مفہوم قائد اعظم کی شخصیت کی صورت میں واضح ہوتا ہے۔
” یہ سورج” صہبا اختر کے ایک طویل غنائیے کا اقتباس ہے۔ سورج استعارہ ہے اس ذات کا جو بظاہر ناتواں ہے لیکن جس کے سامنے بڑے بڑوں کے قدم اکھڑ جاتے تھے جو اپنے پر مغز جوابات سے، اپنے عزم و حوصلہ اور جرات کے باعث مخاطب کو چاروں شانے چت کر دیا کرتے تھے۔ قائد اعظم جنھوں نے درد کی تیرہ فضاؤں اورپستی و بدنصیبی سے دوچار قوم کو خدا کے حکم سے ایک نئی حیات سے آشنا کیا۔ نئی زندگی کی راہیں مایوسی سے رجائیت کی طرف اور اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر کرتی ہیں۔ چنانچہ سرسید و حالی، شوکت و جوہر، اکبر و اقبال کے جلو میں قائد اعظم کی شخصیت ایک روشن سورج کی طرح ابھری اور غلامی کے اندھیروں میں نقیب روشنی بن کر ظاہر ہوئی۔
قائد اعظم ہر محب وطن کے لیے مینارۂ نور ہیں۔ صہبا اختر، قائد اعظم کی شخصیت سے متاثر تھے، قائد اعظم کا مزاج منطقی تھا۔ اصول و ضوابط کی پابندی ان کے لہو میں رچی بسی تھی۔ جنگ محبت اور سیاست میں سبھی کچھ جائز سمجھا جاتا ہے لیکن قائد اعظم کا کردار ایسا نہ تھا کہ دیانت داری، خلوص اور محنت کو آپ نے ہمیشہ اولیت دی، انھی اوصاف کی بنا پر قائد اعظم ہر پاکستانی کے دل میں دھڑکتے ہیں۔
مِشعل، جو ملی ترانوں ، قومی نظموں قطعات و رباعیات کا مجموعہ ہے۔ اس میں مرکزی حیثیت قائد اعظم کی شخصیت کو حاصل ہے، یہ نظمیں اس محبت کی گواہ ہیں جو صہبا کے دل میں قائد اعظم کے لیے موجود تھی۔
قائد اعظم مسلسل عمل، محنت وجد و جہد کی وہ علامت کہ جن کی کاوشوں اور ان کے نتائج دیکھ کر صدیوں پرانا مقولہ، محنت کبھی رائگاں نہیں جاتی۔ سچ کا روپ دھارتا نظر آتا ہے۔ صہبا اختر قائد اعظم کے عزمِ مسلسل، کاوش پیہم اور بے خوف و نڈر ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ قائد اعظم ایک جانب گرمیِ صحرا تو دوسری طرف نرمیِ دریا تھے۔ اغیار میں شعلہ اور احباب میں شبنم۔ قائد اعظم ہی کی ذات تھی کہ جو کاہش، خدمت اور جذبہ محبت سے سرشار تھی۔ ہر درد کا درماں ، ہر زخم کا علاج، قائد اعظم ہی تھے۔ سارا وطن قائد اعظم کا اور قائد اعظم وطن کے ہی نہیں سارے زمانے کے بھی تھے۔ صہبا اختر نظم’’ قائد اعظم‘‘میں قائد اعظم کے عزمِ مسلسل اور کاوشِ پیہم کا، ان کی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کا فیصلہ کیا تو تمام عمر اس پر قائم رہے۔ وطن کے حصول کے لیے آغازِ جوانی ہی میں جدوجہد کرنے کا جو ارادہ کیا، اس میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوئی۔ لالچ اور خوف ان کے نزدیک بے معنی الفاظ تھے۔ جب انھیں بتایا گیا کہ ۱۴ اگست کی آزادی کے جشن کی تقریبات میں ان پر قاتلانہ حملہ ہونے والا ہے اس لیے انھیں ان تقریبات میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے۔ تب بھی ان کی قوتِ ارادی حوصلے اور یقین کی عمارت میں ہلکی سی دراڑ بھی نہ پڑی تھی اور تقریبات میں شرکت کے فیصلے کو انھوں نے مؤخر نہ کیا۔
نظم ’’آوازیں ‘‘ کی ابتدا سرزمین روما کی تہذیب اور دیومالائی کرداروں سے ہوتی ہے۔
فاتح اعظم آگسٹس پائندہ باد
فاتح اعظم آگسٹس پائندہ باد
ختم ہوئی سب وار وگیر شعلہ و رعد
انتونی کی موت ہوئی اک فال سعد
امن کا سورج ابھرا ہے ظلمت کے بعد
قائد اعظم زندہ باد
قائد اعظم زندہ باد
آگسٹں لاطینی زبان میں سال کے آٹھویں مہینے، یعنی اگست کو کہتے ہیں۔
صدیوں پہلے بھی اگست ہی کے ماہ میں ظلم و جور کی آندھی تھمی تھی اور ایک طویل ظلمت کے بعد امن کا سورج ابھرا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک عالم میں اگست اک نقش گرِ ایام کی صورت یاد رکھا جاتا ہے۔
’’خاک کا سورج‘‘ قائد اعظم کے یومِ وفات پر کہا گیا نوحہ ہے کہ اس نوحے میں پوری قوم کی آواز شامل ہے۔ قائد اعظم سے جتنی محبت کی گئی۔ اتنی کسی اور شخصیت کے حصے میں نہ آئی۔ یہ محبت اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی۔ اس لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور قائد اعظم نے اپنی بھوک، پیاس، نیند اور آرام سبھی کچھ وار دیا تھا۔ ۱۹۴۱ء سے ہی ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی، لیکن اپنے مقصد کے حصول کی لگن نے انھیں کسی اور طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہ دی۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً تیرہ ماہ بعد ہی وہ اپنے چاہنے والوں کے درمیان سے اٹھ گئے۔ یہ مقدر بھی ہر کسی کا نہیں ہوتا ہے کہ وہ اتنی چاہتوں اور محبتوں کے ساتھ اس بزمِ جہاں سے رخصت ہو۔ آج وہ سورج ڈوب چکا ہے، لیکن اس طرح کہ
خاک میں مل کر بھی اس سورج کی کرنیں آفاقی ہیں۔
اِس سورج کو خاک کے سپرد کرنے کے بعد بھی عوام، اس کی روشنی اور حرارت کو اپنے چہار جانب محسوس کرتے ہیں ، جس طرح ان کی زندگی میں ، ان کے چاہنے والے ان کے قرب کے متلاشی رہے تھے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے، ان کی آواز سننے کے لیے انھیں چھونے کے لیے جان پر کھیل جایا کرتے تھے، یہ بات سبھی پر عیاں ہے۔ صہبا کے لیے یہ احساس، ایک اعزاز کی طرح تمام زندگی ان کے ساتھ رہا۔
’’ میرے لیے یہ احساس کہ میں نے پاکستان کی تخلیق سے پہلے اپنے نجات دہندہ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا ہے، بڑے فخر کی بات بن گیا۔ ‘‘ ۲؎
قائد اعظم کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی، کسی دل نے انھیں خود سے جدا نہ سمجھا۔ قائد اعظم کے مزار پر روزانہ سیکڑوں ہزاروں مداح انھیں نذرانہ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں اور اس احساس کے ساتھ آتے ہیں کہ وہ ان کے درمیان آج بھی موجود ہیں۔
اسیر قبر کیوں ہو گا، جو آزادی دہند ہے
دفین خاک ہے وہ جسم، لیکن روح زندہ ہے
وہ زندہ ہے کہ اس کا نام، اس کا کام زندہ ہے
وہ زندہ ہے کہ اس کے عشق کا پیغام زندہ ہے
صہبا قائد اعظم کی زندگی اور پائندگی کے ثبوت میں ’’پاکستان‘‘ کو پیش کرتے ہیں ، جو نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے، جس کے عوام نے پاکستان کو ہر حال اور ہر صورت میں زندہ وپائندہ رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔
حیات جاوداں کے فیض سے ہر آن زندہ ہے
وہ زندہ ہے کہ اس کی جان پاکستان زندہ ہے
۶ ستمبر۱۹۶۵ پاکستان کی تاریخ کے روشن دن ایک ایسے باب کا آغاز ہوا، جسے سنہری حروف میں رقم کیا گیا۔ ہندوستان نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم کیا ہی نہ تھا۔ روزِ اول ہی سے وہ اس مر میں کوشاں رہا کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے وجود کو ختم کر دیا جائے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ایک جنگ اور پھر ستمبر ۱۹۶۵ء کا معرکہ حق و باطل، کہ جس نے پاکستانی فوج کی بہادری اور عزم و ہمت اور تکنیکی مہارت کو پوری دنیا سے متعارف کروا دیا۔ جوش و جذبہ جب عشق و جنون میں ڈھل جائے تو یقیناً اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باند ھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں ، گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ ‘‘ (الصف۴) تو پاکستان کی فوج عوام کی بھی محبوب ٹھہری اور خدا کی بھی۔ اس جنگ میں جرأت و بہادری کے وہ کارنامے دیکھنے میں آئے، جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ وہ جو اقبال کا شاہین، مرد مومن، تصوراتی سپاہی تھا۔ پاک فوج کا ایک ایک جوان ساری دنیا کے سامنے اس کی عملی تفسیرین کر ابھرا۔ اسلحہ کی کمی کے باوجود سپاہی کا بے تیغ لڑنا۔ یقینِ محکم عملِ پیہم اور محبت سے تلوار کا کام لے کر زندگی کے جہاد سے فاتح لوٹنا۔ دل بیدار پیدا کر کے ضربِ کاری سے دشمن کو نیست و نابود کر دینا۔ حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، لیکن رزمِ حق و باطل میں فولاد کی صورت سامنے آنا۔ جنگ میں شیر ان غالب سے بڑھ کر اور صلح ہو تو غزال تاتاری کی مانند نرم خو، شمشیر وسناں کو اولیت دینا اور آسائش کو نظر انداز کرنا۔ پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا ان کی تربیت کا حصہ ہونا۔ غازی کے حوصلے و قوت کا اس انتہائی درجے پر ہونا کہ جسے عقل تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا اور پہاڑ کا ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی ہو جانا، اور پھر انتہائے مقصود یہ کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔ تو ایسے میں اللہ کے یہ پراسرار بندے ایسے ایسے کارنامے کر جاتے ہیں کہ جس پر دشمن بھی اور عالمی مبصر بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ بیرونی فوجی مبصر جس بھی محاذِ جنگ سے لوٹتے ہیں ایسے جملے غیر ارادی طور پر بھی ان کے قلم سے پھیل پڑتے۔ ’’پاکستان کی مختصر سی فوج نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے حالانکہ اس کے لیے چھ گنا زیادہ فوج کی ضرورت تھی۔ ‘‘ ہر محاذ پر یہی صورت حال تھی۔
مر مٹنے کا یہ جذبہ پاک فوج میں ہی نہیں عوام میں بھی اس طرح بیدار ہوا کہ کم عمر بچے حضرت معوذ ومعاذ کی یاد تازہ کرنے لگے، طلبا و طالبات، گھریلو خواتین، تاجر، کسان، مزدور، ڈاکٹر، نرسیں ، دفتری ملازم غرض ہر طبقہ انسانی اور ہر صنف انسانی نے اپنی استطاعت اور طاقت سے بڑھ کر اپنے اپنے شعبہ میں خدمات انجام دیں ، ملک کے لیے ایسا جذبہ اتحاد و یگانگت چشم فلک نے اس سے پہلے کبھی کا ہے کو دیکھا ہو گا۔ شاعر و ادیب گلوکار وموسیقار سبھی نے اپنے فرائض اس طرح پورے کیے کہ وہ خود سے لمحہ بھر کے لیے بھی شرمندہ نہ ہوئے۔
’’ پاکستانی ادب اپنے مخصوص طرز احساس کی بدولت تمام عالمی ادب میں اپنا ایک علیحدہ تشخص رکھتا ہے۔ یہ امتیاز اس درجہ منفرد ہے کہ پاکستان کی عام اردو شاعری، ماورائے پاکستان لکھی جانے والی تمام اردو شاعری کے ہجوم میں بھی نہایت آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ قومی طرز احساس کا یہ تاثر بین السطور میں لفظاً پڑھا بھی جا سکتا ہے کہ معنویت کی تہہ میں رچابسا اس کا زریں تموج محسوس بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ کسی فنی اہتمام یا فکری منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس نظریاتی معجزے کا کرشمہ ہے جو پاکستانی اہلِ قلم کے لہو میں ہمہ وقت گردش کرتا رہتا ہے اور غیر شعوری بلکہ بے اختیاری طور پر اظہار جس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جاتا ہے۔ بطور خاص قومی موضوعات پر کی جانے والی شاعری میں اس جذبے کی غور کی دو سطحیں ہیں۔ ایک بالواسطہ اور دوسری بلاواسطہ ہے۔ اول الذّکر میں اس کو اشاراتی پیرائے میں علامات واستعارات کے بلیغ اسلوب میں ظاہر کیا جاتا ہے جب کہ آخر الذکر میں واضح اور راست انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کا کمال فن یہ ہے کہ انھوں نے اپنی قومی شاعری میں ان کو دو انتہاؤں سے گریز کیا ہے۔ اور اشارت وضاحت کو دونوں کو حسبِ موضوع برتا ہے۔ اس طرح ان کی قومی نظمیں محض سیاسی بیان کے زمرے میں آنے سے بھی محفوظ رہی ہیں اور شاعری کے تسلیم شدہ عصری معیار کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کرتی ہیں۔ ان کے جذبے کی صداقت متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو خالص شاعری پسند کرنے والوں کو بھی کبھی مایوس نہیں کرتیں اور قومی موضوعات سے دلچسپی رکھنے والوں کو بھی مطمئن کرتی ہیں۔ ‘‘ ۳؎
صہبا جن کی رگوں میں دوڑنے والے لہو کے ہر قطرے سے پاکستان، پاکستان کی صدا سنائی دیتی ہے۔ وہ کسی اہم واقعہ یا حادثے کے منتظر نہیں کہ جوان کی قومی غیرت کو بیدار کرے اور پھر وہ وطن سے محبت کا اعتراف کریں۔ صہبا نے پاکستان سے اس وقت محبت کی جب پاکستان کا وجود بھی نہ تھا۔ ان کا ہر لفظ شعر وطن کی عظمت ومحبت کا شاہد ہے۔ اس بات کا اعتراف ہر انصاف پسند پاکستانی کو ہے۔
’’ اتنی ڈھیری سی قومی نظمیں لکھ کر عوام کے دلوں میں وطن کی محبت کا شعلہ تیز سے تیز کرنے والے شاعر کے بغیر یوم دفاع ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس لیے میں نے، یوم دفاع نمبر، کے لیے انھیں منتخب کیا ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں اور پھر اس جنگ کے بعد فضاؤں میں گونجنے والے ان کے نغمے آج بھی لہو کی گردش کو تیز کر دیتے ہیں۔ ‘‘ ۴؎
جوش و جذبہ بیدار کرنے والی رزمیہ شاعری، خون کو گرما دینے والے جنگی ترانے، جذبہ حب الوطنی کو دو چند کرنے والے قومی نغمے اور ملی گیت، صہبا نے پاک وطن کی شان سلامت رکھنے کے لیے کتنی ہی دعائیہ نظمیں کہیں لیکن ان کی ایک نظم ’’لوری‘‘ اس دور میں کہی جانے والی نظموں میں اپنے تاثر، تاثیر، انفرادیت اور انوکھے جذبے کے باعث بہت سے دلوں کو مضطرب کر گئی۔ ۷۷ اشعار پر مشتمل یہ نظم جس کے بارے میں صہبا کہتے ہیں کہ انھوں یہ نظم جنگ۱۹۶۵ء کے بعد کہی تھی، یہ ایک بیوہ ماں کی لوری ہے جس کا مجاہد شوہر جنگ میں شہید ہو چکا ہے۔ اور وہ یہ لوری اپنے شیر خوار بچے کو دے رہی ہے۔
لوری ایک قدیم ترین روایت، جب بچہ رات کو نیند سے بے چین ہو رہا ہو تو ماں اسے اپنی آغوش میں لے کر تھپکتے ہوئے نرم مدھم سروں میں دھیرے دھیرے ایسی کتھا سنائی ہے کہ نیند کی پریاں اس کی پلکوں کو غیر محسوس طریقے سے بند کرتی جاتی ہیں اور ماں طمانیت و تشکر کا احساس لیے خود بھی اپنی نیند یا اپنا کام مکمل کر لیتی ہے، لیکن یہ لوری سنانے والی ماں ، ایک عام ماں نہیں ہے۔ وہ ایک شہید کی بیوہ ہے، جس نے ابھی چوڑیوں کی کھنک پوری طرح سنی بھی نہ تھی کہ اس کی کلائیاں خالی ہو گئیں ، جس کے حنائی ہاتھوں کی مہک بھی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ اس کا رنگِ حنا چرالیا گیا۔ وہ اپنے بچے کو لوری دے رہی ہے۔ اے میری آنکھوں کی روشنی، میرے خوابوں کی زندگی مت سو۔ چاند تارے جاگ رہے ہیں اور میرے زخم بھی۔ میری لوری خواب آور نہیں یہ تو نیندیں اڑانے والی ہے۔ میری زندگی اور تنہائی کا اب تو ہی سہارا ہے۔ میرا مستقبل اور میری زندگی ترے ہی دم سے ہے۔ تیرا باپ جو تجھے دیکھ دیکھ جیتا تھا۔ دشمنوں کے ہاتھوں سے صرف اس لیے جام شہادت پی گیا کہ تو اور تیرے جیسے بے شمار معصوم مسکراتے رہیں ، تو یہ بات یاد رکھ کہ صرف میں ہی تیری ماں نہیں یہ زمین مجھ سے بڑھ کر تیری حفاظت کرنے والی ہے۔ یہ زمین جو نورِ آزادی سے جگمگا رہی ہے، جو میرے تیرے لیے خزانے اگلتی ہے، جس کے دریا شہد سے بھرے ہیں۔ جس کا ہر نظارہ رشک ِجنت ہے۔ تو اے میرے نورِ نظر اپنی اس ماں کو کبھی فراموش نہ کرنا۔ ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ تیرے جوان ہونے کی منتظر ہے کہ تو طوفان بن کر چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالے اور وہ تمام قرض جو ابھی تک چکائے نہ گئے تھے، دشمنوں سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لے تو ایسے حالات میں میرے بچے تجھے نیند کیسے آسکتی ہے۔ اپنے وطن کا ایک ایک چپہ، ایک ایک گاؤں اور شہر دیکھ، جہاں بارود کی بو، کڑکتی بجلیاں ، گولیوں کی باڑھ، شعلوں کی بارش، اجل کا دھواں ، پھیلانے کے لیے رہزنوں اور بزدلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں چھپ کر قاتل نہ جانے کیا کیا ارادے لے کر آئے تھے، لیکن میری مٹی پر قدم رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔
ہر محاذ دشمن کے ٹینکوں جہازوں تو پوں کا مدفن بنا۔ جذبہ شوق شہادت اس قدر فزوں تھا کہ میری قوم کے پاک فوج کا ایک ایک جوان پہلے، سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنا چاہتا تھا۔ بیس بیس پچیس پچیس برس کے ابھرتے نوجوان جسموں نے ابھی زندگی کی کتنی خوشگوار بہاریں دیکھنا تھی۔ ان کے لیے اس بہار سے بڑھ کر کوئی اور بہار لالہ و گل سے مزین نہ تھی۔
اس فضا میں بھی قوم کے وہ دلیر
نام سے جن کے کانپتے تھے شیر
بن گئے غیرت وطن کی شان
ایک ناقابل شکست چٹان
جان نثاری کی خود ہی کھا کے قسم
اپنے سینوں سے باندھ باندھ کے بم
کھوگئے سرفروش رستوں میں
بچھ گئے ٹینکوں کے رستوں میں
رہ گیا شہ رگوں سے خون رس کر
ہڈیاں سرمہ ہو گئیں پس کر
جس سے شعلوں کے تیز دھارے مڑے
ٹینک ٹکڑے ہوئے پہاڑ اڑے
حوصلہ سرکشوں کا چھوٹ گیا
دشمن کا طلسم ٹوٹ گیا
تو اے میرے لعل تیرے جسم میں بھی وہی لہو دوڑ رہا ہے جو اس زمین وطن کی خاص نشانی ہے۔ تجھے دشمنوں کے سب ستم یاد رکھنے ہیں۔ تو اے میرے بیٹے جاگ، یہ وقت سونے کا نہیں ، جاگ اے خون کے افق کی لکیر، اے میرے فردا کے خواب کی تعبیر، اے شعلہ لب تقدیر، اے انتقام کی شمشیر، اے لوحِ عصر کی تحریر، تجھے کسی طرح بھی سونا، زیب نہیں دیتا۔ میری آنکھوں کی روشنی مت سو۔ اس ماں کے لہجے میں تاسف یا غم نہیں بلکہ فخر اور حوصلہ ہے۔
ایک مسلمان ماں اور دیگر ماؤں میں یہی تو فرق ہے کہ اگر کوئی اور ماں ہوتی تو وہ اپنے بچے کو جنگ سے بچانا چاہتی، جس نے اس کا سہاگ لوٹ کر اسے بے کس اور اس کی زندگی کو ویران کر دیا ہے، اس جنگ سے نفرت کرتی اور خوفزدہ ہوکر بچے کو کہیں دور لے جانا چاہتی، لیکن مسلمان، اپنی ملت کو، اپنے مذہب کو ہمیشہ اپنی ذات پر، اس کے آرام وآسائش پر فوقیت دیتے آئے ہیں۔ آزادی یا موت ان کا نعرہ رہا ہے وہ شیر کی ایک روز کی زندگی کو گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ پھر وہ کس طرح دشمن کے سامنے سرجھکا دیتے۔ صہبا اختر کی اس لوری نے سرفروش اور خوددار قوم کو مزید حوصلہ بخشا ہے۔
’’یہ نظم اتنی مشہور ہوئی تھی کہ ہر ایک زبان کا حسن بن گئی تھی۔ یہ نظم پہلی بار نیاز سٹیڈیم حیدرآباد میں پڑھی گئی۔ اس آل پاکستان مشاعرہ میں جسے امدادی رقوم کے حصول کی خاطر منعقد کیا گیا تھا، ملک کے تقریباً سارے بڑے شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ یوں تو اس مشاعرے میں ہر ایک شاعر نے داد وصول کی تھی لیکن صہبا اختر نے جس طرح مشاعرہ لوٹا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے جب لوری سنانا شروع کی تو ایک سماں بندھ گیا۔ جنگ کا جوش ابھی باقی تھا۔ لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور پھر داد کا وہ طوفان اٹھا کہ الامان الحفیظ اس وقت کے اخبارات نے لکھا تھا کہ اس نظم میں ہزارہا توپوں کی گرج تھی۔ ‘‘ ۵؎
صبہا اختر کی نظم لوری اس دور کی معرکۃ الارا نظموں میں سے ایک تھی۔ صہبا سے بار بار سنی گئی۔ کئی جگہ شائع ہوئی۔ صہبا کی نظم لوری ۱۹۶۵ء میں کہی گئی قومی منظومات کے مجموعے ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘(۱۹۶۶ئ) میں اشاعت کے لیے منتخب کی گئی تو اس میں اور مشعل (۱۹۹۶ء) میں شائع شدہ نظم میں کہیں کہیں ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہبا نظم کہنے کے بعد بھی اس میں بہتری کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
مشعل میں شائع شدہ لوری میں نظم کے ساتویں شعر کی جگہ یہ مصرع درج ہے۔
جلوۂ صبح زندگی مت سو۔
تیرھویں شعر کی جگہ یہ مصرع رقم ہے۔ ’’ یہ آب حیات پی، مت سو‘‘
تیئسویں شعر کی جگہ میرے ہونٹوں یک نغمگی مت سو لکھا گیا ہے۔
بتیسویں شعر میں ؎
شہد بن بن کے ٹوٹتے دریا
رقم ہے۔
چونتیسویں شعر ؎
مت بھلانا کبھی یہ میری جاں
ہے زمین وطن بھی تیری ماں
جاگ رہا ہے پاکستان میں ، درج نہیں ہے۔ اڑتیسویں شعر کے بعد جاگ رہا ہے پاکستان میں یہ شعر درج ہے۔
نگراں ہے کہ تو کرے تسخیر
جوش غیرت سے وادی کشمیر
جبکہ مِشعل میں شائع شدہ لوری میں یہ شعر شامل نہیں۔
اکتالیسویں شعر کی جگہ یہ مصرع درج ہے’’ میرے خوابوں کی روشنی مت سو۔ ‘‘
پچپن ویں شعر میں ایک مصرع ’’قلب اعدا پہ بڑھ کے ڈالا ہاتھ۔ ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ میں قلبِ اعدا پہ بڑھ کے ڈالے ہاتھ شائع ہوا ہے۔
انسٹھویں شعر ؎
روشنی عظمتوں کی دکھلائی
داستاں کر بلا کی دہرائی
کی جگہ
بجلیوں کا طلسم توڑ دیا
دشمنوں کو جلا کے راکھ کیا
جاگ رہا ہے پاکستان میں درج ہے۔ مشعل کے پہلے تین اشعار کی ترتیب بدی ہوئی ہے، جاگ رہا ہے پاکستان، میں آخری شعر سے پہلے یہ دو شعر درج ہیں۔
جاگ تاریخِ آگہی کی طرح
جاگ بے خواب روشنی کی طرح
طالبِ خوں ہیں تجھ سے دشت و دمن
میرے بیٹے، وطن کا بیٹا بن
انقلاب کسی بھی قوم کے لیے ایک بڑا واقعہ ہوسکتا ہے۔ انقلاب عوامی کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کرتا ہے اور ادیب و شاعر اس سے گریز اس لیے اختیار نہیں کرسکتے کہ بالآخر وہ بھی اس قوم کا حصہ ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے بعد اردو ادب و شاعری میں جو میلانات و رجحانات نمایاں ہوئے ہیں ان میں اس سانحے کا اثر سب سے واضح ہے جس نے پورے ملک کو شکست وافسردگی کی فضا سے دوچار کر دیا۔ وہ ملک جو بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ لا تعداد مسلمانوں نے خوابوں کی اس سر زمین کی طرف ہجرت کی اور اس وطن کی مٹی نے بہت شفقت اور محبت سے انھیں خوش آمدید کیا۔ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے والوں کو مختلف صوبوں میں بسایا گیا۔ مستحسن بات یہ تھی کہ سبھی پاکستانی تھے۔ کوئی سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچی یا بنگالی نہ تھا۔ سب انسان تھے۔ مسلمان تھے جن کا وطن پاکستان تھا۔ سب کا پاکستان۔ وہ پاکستان اس لیے آئے تھے کہ انھوں نے پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کی تھی۔ قربانیاں دی تھیں پھر آہستہ آہستہ قومیتوں کے تعصب سامنے آنے لگے۔ اس فتنے نے ایسا زہر پھیلا یا کہ ساری فضا مسموم ہو گئی۔ کبھی یہ نسلی طور پر سامنے آیا تو کبھی لسانی۔ کبھی حکومت پر ایک صوبے کو نوازنے کے الزامات لگائے جاتے اور دوسرے صوبوں کو نظر انداز کر دینے کا شکوہ کیا جاتا۔ یہ صورت حال شدید نفرت میں ڈھلتی گئی۔ پاکستانی کے نعرے کی جگہ جئے سندھ، پنجاب، سرحد، بنگال کے نعرے ابھرنے لگے۔ سب سے بڑا تصادم مشرقی اور مغربی پاکستان کے باسیوں کے درمیان تھا جو کبھی آپس میں محبت کرتے تھے۔ محبت کرنے والوں کے درمیان تیسرا فریق فتنہ گری میں کوشاں رہا ہے۔ ’’وہ تمھیں کھا گئے ہیں۔ اعلی عہدوں پر خود فائز ہیں۔ سنہری ریشہ انھیں تخت اور تمھیں تختے کی طرف لے جا رہا ہے۔ ‘‘ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنانے میں کن عوامل کو دخل رہا ہے اور وہ کون سے اسباب تھے جس نے ایک متحد ملک کو دو حصو ں میں تقسیم کر دیا۔ یہ سوال ایک الگ باب کا متقاضی ہے۔
آزادی کے بعد ۱۹۶۵ ء کی جنگ بھی ایک اہم واقعہ تھی اور ہمارے شعر و ادب پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے لیکن چونکہ پاکستانی سرخرو تھے، اس لیے عوام، فوج اور حکومت سبھی کے سر فخر سے بلند تھے۔ اس کے برعکس ۱۹۷۱ء کا سانحہ غیر متوقع، اچانک اور شدید تھا۔ شکست کا غم کم نہیں ہوا کرتا۔ شعر وادب میں اس سانحے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور نتیجہ یہی اخذ کیا گیا کہ سقوط ڈھاکہ سیاسی وفوجی مسئلے سے زیادہ ایک ایسا سانحہ ہے جو دل سے تعلق رکھتا ہے۔ کچھ نے اسے مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں اور کچھ نے قیامِ پاکستان کی تاریخ کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔
’’یحییٰ خان نے عوام کے مطالبے پر انتخابات کرائے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی لیکن بدقسمت قوم کو جمہوریت کا یہ راستہ بھی راس نہ آیا۔ پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان، اقتدار کی رسہ کشی بالآخر ہندوستان کی براہ راست مداخلت اور دوسری عالمگیر طاقتوں کی پروردہ سازشوں کے نتیجے میں میرا عظیم اور محبوب ملک دو لخت ہو گیا۔ عالمِ اسلام کا یہ بدترین سانحہ خدا جانے میری پوم نے کس طرح برداشت کیا؟‘‘ ۶؎
آمنہ عالم اس سانحے کا تجزیہ، مٹی اور مملکت کو ملکیت بنانے کی خواہش کے حوالے سے کرتی ہیں۔
’’ہمارے ماضی کے اوراق گواہ ہیں کہ جب ہم نے نظریہ کو ایمان بنا کر مٹی سے محبت کی تو ایک مملکت وجود میں آ گئی اور جب دلوں میں اسی مٹی کو ملکیت بنانے کی خواہش نے جنم لیا تو یہی مملکت تقسیم ہو گئی کہ محبت ہمیشہ مہکنے، پھلنے پروان چڑھنے کے لیے ہوتی ہے اور ملکیت کا مقدر میراث کی شکل میں تقسیم ہی ہونا لکھا ہے۔
صہبا اختر کے دل میں اس مٹی کی محبت بہت گہری ہے۔ ان کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے غلامی کے اندھیروں میں آنکھیں کھولیں مگر روشنی کی متلاشی رہی، جس نے آزادی کے حصول میں مقدور بھر کوشش کی۔ ایک طرف تعمیرِ وطن کی خوشیاں سمیٹیں تو دوسری طرف ہجرت کا دکھ سہا۔
جس قوم کو انھوں نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے دیکھا تھا۔ اس قوم نے ۱۹۷۱ء میں دو لخت ہونے کا کرب بھی برداشت کیا۔ لیکن صہبا نے درد کو کبھی چیخ نہیں بننے دیا۔ زخم کو ناسور نہ ہونے دیا۔
فقط زمین محبت نہیں ہوئی ٹکڑے
کہ آسمان رفاقت بھی بے طناب ہوا
دو نیم ارضِ وطن بھی ہے میرے دل کی طرح
میں کرب کرب خواب سے گزرا تو نیم خواب ہوا
ان کے اندر کا رجائی انسان ہمیشہ ہمت اور استقلال کا درس دیتا رہا۔ محبت کے ترانے رقم کرتا رہا۔ ان کے شعروں میں نا امیدی کی چمک ماند پڑی نہ چراغ الفت کی لو ٹمٹمائی۔ ‘‘ ۷؎
وہ سبق جو صہبا نے بہت بچپن میں اپنی والدہ سے لیا تھا کہ بیٹا حوصلہ کبھی نہ ہارنا۔ صہبا اس سبق کو زندگی بھر نہ بھولے۔ بات ذاتی زندگی کی ہو یا قومی زندگی کی۔ صہبا اور پاکستان کے عوام کسی نہ کسی آزمائش کا شکار رہے ہیں۔ صہبا پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
’’پاکستان کی تاریخ شروع ہی سے، کسی نہ کی بدنصیبی کا شکار رہی ہے۔ ‘‘ ۸؎
لیکن اگر تاریخ کی جگہ سیاست کا لفظ استعمال کیا جاتا تو بہتر تھا یا پھر یوں کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ سیاست کی بساط کے شاہ کے باعث شروع ہی سے کسی نہ کسی بدنصیبی کا شکار رہی ہے۔ عوام بے لوث ہیں۔ قربانی دینے والے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ بانیِ پاکستان کی قیامِ پاکستان کے بعد جلد مفارقت کے نتیجے میں وطن کی بنیادیں مستحکم نہ ہوسکیں۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران حب الوطنی کے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے جو اسلام کی اولین کی تاریخ میں رونما ہوئے تھے لیکن بعد میں ایسے چمکتے دمکتے لمحے کم ہی نظر آئے۔ قوم نے دامے درمے سخنے ہر انداز میں اس وطن کے لیے کام کیا۔ فوجی جوان ہمارے ہیرو قرار پائے۔ ادنیٰ و اعلیٰ ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے اپنے میدان میں ان تھک کام کیا اور اس ایثار و قربانی کے نتیجے میں پاکستان دنیا میں ایک قابل فخر قوم کے طور پر متعارف ہوا۔ لیکن پھر وہی سیاست اپنا وار کر گئی۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین باب ہے، جسے ہر اہل وطن نے ذاتی صدمے کی طرح شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ شاعروں نے ان حالات کا اپنے انداز سے تجزیہ کیا۔ اس دور کی شاعری میں اس صدمے کی بازگشت بہت دور تک اور دیر تک گونجتی رہی۔ آشوب ہجرت کے مسائل سے گزر کر انھوں نے یہ وطن پایا تھا لیکن یہ صدمہ زیادہ شدید تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی علیحدگی میں کن عوامل کا ہاتھ تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستانیوں کو وہ حقوق حاصل نہ ہوپائے تھے، جس کے لیے انھوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی پروانہ کرتے ہوئے حصہ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کی معاشی بدحالی کے علاوہ جذبہ رقابت اور ایک دوسرے کو کمتر جاننے کا بھی ہاتھ تھا، کہ جس کا وہاں کے مقامی باشندوں کو سامنا کرنا پڑا۔ سبب کوئی بھی ہو۔ المیہ شدید تھا اور ان شعرا نے جو رجائی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ غم و مصائب کا مقابلہ حوصلے سے کرنا جانتے تھے۔ ان سے بھی امیدو حوصلہ چھین کر گہرے صدمے سے دو چار کر دیا۔
’’مجھے یاد ہے کہ یا تو میں اس شدت سے اس شام رویا تھا جب میری ماں کا انتقال ہوا تھا یا پھر اس شام رویا جب ریڈیو سے سقوط ڈھاکہ کا اعلان سنا۔
مجھے یاد ہے بلیک آؤٹ میں ٹی وی سے اس شام افتخار عارف، عبید اللہ علیم اور جون ایلیا پی آئی بی کالونی میں میرے گھر پہنچے اور مجھ سے کہا کہ چلو فوراً ٹی وی چلو۔ اسلم اظہر کراچی ٹی وی پر اس وقت پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔
بہر حال میں ان حضرات کے ساتھ ٹی وی پہنچا۔ اسلم اظہر جو اس وقت کراچی ٹی وی اسٹیشن کے جنرل منیجر تھے۔ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے فرمایا کہ صہبا صاحب ہمیں فوراً ایک پروگرام کرنا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں اعتراف ہے کہ ہمیں شکست ہو گئی۔ مگر اس دل شکستہ ساعت میں تمام قوم کے مورال کو بلند کرنا ہے اور وہ اس لیے کہ اگر ہم نے آج اس شکست کا مقابلہ نہیں کیا تو ہمارے پاس مغربی پاکستان کی بقا کے لیے بھی کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت ہم نے کسی خطیب کو نہیں بلایا۔ کسی لیڈر کو زحمت نہیں دی۔ اس وقت صرف آپ جیسے شاعر اس ریز ہ ریزہ قوم کو شکست کی اس تاریک ترین رات میں حوصلوں کا کوئی شعلہ دکھا سکتے ہیں۔ آج ہماری طرف سے آپ کے کلام پر کوئی سنسر، کوئی قدغن نہیں۔ آپ جس طرح چاہیں لکھیں ، جو چاہیں پڑھیں۔ بس ہماری شرط صرف ایک ہے کہ خدارا اس شکست کو اس قوم کی رگوں میں اترنے نہ دیں۔ ہمیں صرف اس وقت ایک بلند کردار قوم کے اعلیٰ ترین مورال کی ضرورت ہے۔ اس کی بحالی کی سعادت میں ہماری مدد کیجیے اور دیکھے اس وقت ساڑھے سات بجے ہیں۔ آپ حضرات کو اس پروگرام میں شریک ہونا ہے۔ میں Tell up دے رہا ہوں۔
میں نے ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر کاغذ قلم سگریٹ اور چائے منگائی، بمشکل تمام اپنے آنسوؤں کو روکا، اس لیے کہ ایک قومی فریضہ میرے سامنے تھا اور فی البدیہہ دو نظمیں تحریر کیں۔ پہلی نظم یا د نہیں دوسری نظم کا آغاز کچھ یوں تھا۔
سنو میری بہنو، سنو میری ماؤ
نہ گریہ کرو اور نہ آنسو بہاؤ
اس پروگرام کے ختم ہوتے ہی ٹی وی اسٹیشن پر ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ شاباش کے ساتھ دعائیں دے رہے تھے۔ جب میں ٹی وی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آس پاس کے بہت سے لوگ اپنی کاروں میں ٹی وی سٹیشن پہنچ گئے۔ ان میں بزرگ تھے، کچھ خواتین تھیں۔ ٹیلی فون کالز کی طرح، یہ لوگ بھی ان حوصلہ مندی کی صداؤں پر دعائیں دے رہے تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ آنے والی ایک نئی کار سے ایک خوب صورت لڑکی، سفید لباس اور سفید چادر میں ملبوس دیوانہ وار آگے بڑھی اور اس نے ایک جذباتی لہجے میں کہا، سنو شاعر، میں ایک مجاہد کی بیوی ہوں۔ میرا شوہر بھی مشرقی پاکستان کے محاذ پر گیا ہے۔ دیکھو میرے یہ مہندی میں رنگے ہاتھ۔ ابھی میری شادی کو صرف چھ ماہ ہوئے ہیں۔ خدا کے لیے مجھے یہ یقین دلا دو۔ کہ میرا شوہر قیدی نہیں بنا بلکہ شہید ہو گیا ہے۔ میں لاش دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں ، کہ اس جنگ میں اس نے گولی اپنی پیٹھ پر نہیں بلکہ اپنے سینے پر کھائی ہے۔ مجھے میرے شوہر کے جنازے پر لے چلو۔ میں مہندی سے نہیں اس کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا چاہتی ہوں۔ خدا کے لیے مجھے یقین دلا دو کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہو ں اور یہ کہتے کہتے وہ بے ہوش ہونے لگی تو اس کے اعزا اسے بمشکل تمام اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ چہرہ اور وہ ماتمی غیرت مندی کی آگ میں ڈوبے ہوئے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ ‘‘ ۹؎
ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ۱۲۳ اشعار پر مشتمل فی البدیہہ کہی گئی یہ نظم ہارے ہوئے حوصلوں ، ٹوٹی ہوئی ہمتوں اور اکھڑتے سانسوں کے لیے اس حقیقت کا اظہار لیے سامنے آئی کہ زندگی غم اور خوشی کا مجموعہ ہے۔ ہم خوشی کا، فتح کا استقبال کرسکتے ہیں تو غم کو، شکست کو قبول کرنے کی ہمت خود میں کیوں نہیں پاتے۔ ہم شکست کو قبول کریں گے تب ہی اس شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے ازسر نو تیار ہوں گے۔ اس نظم میں زندگی کے تضادات کے ذریعے فتح وشکست کا فلسفہ سمجھانے، متضاد الفاظ کے استعمال سے زیست کے منفی و مثبت روّیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ بہار و خزاں ، نشیب و فراز، مختار و مجبور، ازل و ابد، جزر و مد، غلامی و آزادی، مقتول و قاتل، شکست وفتح کے تقابلی جائزے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کی زندگی میں ان دونوں کا عمل دخل برابر کا ہے۔ توازن اس وقت بگڑتا ہے جب خود انسان کے اپنے اعمال و تدابیر میں کجی رہ جائے۔
صہا اختر کی اس فی البدیہہ نظم کے مطالعے کے بعد، اس تنقیص یا الزام کا خیال آتا ہے، جو تمام عمر صہبا پر لگتا رہا وہ وقتی و ہنگامی شاعر ہے۔ جس موضوع پر چاہے نظم لکھوا لو۔ وہ منٹوں میں لکھ دے گا، تو حقیقتاً یہ الزام، الزام لگانے والوں کی اپنی کوتاہی اور کج فہمی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ خودایسی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے۔ فی البدیہہ کہی گئی اس نظم کی تاثیر نے اہل وطن کے مردہ ہوتے دلوں اور حوصلوں میں ایک نئی روح پھونکی۔ فوراً ہی یہ نظم زبان زد عام ہوئی۔
’’دوسرے دن میری یہ نظم ملک کے مشہور گلوکار مہدی حسن نے اپنی آواز اور موسیقی میں ٹی وی پر نشر کی۔ وہ بھی دوسروں کی طرح میری اس نظم سے بے حد متاثر تھے۔ ‘‘ ۱۰؎
صہبا اس سانحے پر، جس نے انھیں زخم زخم کر ڈالا تھا۔ اپنی قوم کو حوصلہ اور تسلی دینے کے لیے لمحہ بھر میں اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹتے ہیں۔ بہنوں اور ماؤں سے مخاطب ہو کر، ساری قوم کو یاسیت کے گھورا اندھیروں سے نکال کر ر جائیت کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ امتحان و آزمائش کا وقت ہے جس میں اس قوم کو پورا اترنا ہے۔ زندہ قوموں پر مختاری کے ساتھ ساتھ کبھی مجبوری کے لمحے بھی آ جاتے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے جہاں فراز ہیں وہاں نشیب بھی ہیں۔ کبھی عزت و توقیر کبھی ذلت ورسوائی کا سامنا ہوتا ہے۔ فتح وشکست تو مقدر سے ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو وطن کے لیے جانیں قربان کرتے ہیں وہ کبھی جنگ نہیں ہارتے۔ ماناکہ اس جنگ میں ہمیں شکست ہوئی لیکن وجہ اپنی فوج کی بزدلی اور مخالف فوج کی بہادری نہ تھی فقط اپنے ہی پیارے دشمنوں کی صف میں جا شامل ہوئے تھے۔ مسلم تاریخ گواہ ہے کہ اسے اتنا نقصان کفر نے، دشمنوں نے نہیں پہنچایا۔ جتنا خود غداروں نے پہنچایا ہے۔
کہاں دشمنوں نے مٹایا ہے ہم کو فقط سازشوں نے ہرایا ہے ہم کو
ڈبویا، محبت کے خوابوں نے کیا کیا ڈسا آستینوں کے سانپوں نے کیا کیا
کہیں میر جعفر، کہیں کوئی صادق ہمیشہ سے ہیں فتنہ و شر کے خالق
جلایا ہے سینے کے داغوں نے ہم کو بجھایا ہے گھر کے چراغوں نے ہم کو
تو یہ صدمہ کوئی نیا تو نہیں کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو ہمارے نوجوان حوصلہ نہیں ہارتے۔ آج پاکستان کے عوام اور پابندِ سلاسل فوج بیک زبان کہہ اٹھی ہے۔ ؎
شکست اس تمازت سے ظلمت کو دیں گے
جو ہم آج ہارے ہیں کل جیت لیں گے
تو ایسے میں اے بہنو اور ماؤ۔ تمھارے گریہ و ماتم کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہے اور دعاؤں کی ضرورت اس وقت اور زیادہ شدت اختیار کر گئی جب غریب الوطن نوے ہزار فوجی سخت ذہنی وجسمانی صدمے اٹھا رہے تھے۔
تمھاری وہ بہنیں ، تمھاری وہ مائیں
جو دیتی ہیں ہر دم، تمھی کو صدائیں
ہیں ان کے لبوں پر، ہزاروں دعائیں
صداؤں سے کب تک
دعاؤں سے کب تک
نہ تبدیل تصویر حالات ہو گی
وطن کے غریب الوطن اے اسیرو
بہت جلد تم سے ملاقات ہو گی
(ایک گیت)
صہبا کو وطن کی مٹی کے ذرے ذرے سے محبت ہے۔ خواہ وہ مٹی مشرقی پاکستان کی ہو یا مغربی پاکستان کی۔ مشرقی پاکستان ان کے خوابوں کی سرزمین تھی۔ صہبا نے سنہرا دیس، نظم اس وقت لکھی تھی جب خوابوں کی سرزمین کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی نہ تھا۔ صہبا نے مکمل نظم محض تخیل کے زور پر لکھی ہے۔ ایک ایک منظر کی تفصیل وجزئیات وہاں کی خوبصورت فضائیں ، سبزہ، جنگل، محنتی و جفاکش مانجھی، لہراتی بل کھاتی دوشیزائیں۔ سبھی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس نظم کے ذریعے شاعر نے اپنے مشاہدات میں قاری کو بھی شامل کرنا چاہا ہے۔ مہاگنی کے صندلی پیکر، کاسالونگ کے جنگل، اپچاری میں چھائے ہوئے چاندی کے بادل، سوبالانگ کے نیچے دروں میں پریوں کے لہراتے آنچل۔ لوشائی پر چمکتی کرنیں ، کرنا فلی میں کاغذ کے کارخانے، کیانگ کے مندر کی وش کنیائیں۔ اِندر کی پریاں سبھی کچھ ان کے سامنے ہے میگھنا، پدما کے چڑھتے دریا، پتواروں کی باڑھ سے ٹکرا کر شرماتے دیکھے۔ گھر گھر سنگیت کی دیوی، پاروماشی، کے گیتوں کی گونجتی آواز، مانجھی کے گیتوں کی مدھر تانیں دل لبھاتی رہیں۔ مست گھٹائیں ، سرد فضائیں ، کہکشاں ، قوس قزح وہاں کیا کیا نہ تھا۔ صہبا نے مشرقی پاکستان کی تصویر اس طرح کھینچی ہے کہ جزئیات تک کو نگاہ میں رکھا ہے۔ مشرقی پاکستان انھوں نے دیکھا نہیں صرف سنا ہے اور اس بات کا انھیں افسوس ہے۔
کاہکشاں شاخوں میں جھولے قوس قزح پوریں چٹخائے
جس کی زمیں سونا اگلے زر کار فلک ہیرے برسائے
میں نے اس سپنوں کے نگر کوساری عمر نہ دیکھا ہائے
’’ ان کی قوت متخیلہ اتنی بھرپور ہے کہ وہ اپنے وطن کی آنکھوں سے وہ مناظر بھی دیکھنے پر قادر رہے ہیں جو ظاہر کی آنکھوں نے کہیں نہ دیکھے اس حوالے سے مشرقی پاکستان پر ان کی نظم ’’سنہرا دیس‘‘ میں مہاگنی کے صندلی پیکروں اور مندروں میں پھول بچھاتی کنیاؤں ، اپچاری میں چھاؤنی ڈالے چاندی جیسے بادلوں اور گھاٹ کے رستوں پر رنگ اڑاتی حوروں کے تذکرے۔ ان کے عالم ِشوق کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ ‘‘ ۱۱؎
صہبا نے اس نظم میں تخیل سماعی یعنی IMAGINATION AUDTIORY سے بھی کام لیا ہے۔
گھر گھر میں سنگیت کی دیوی، پاروماشی، گیت سنائے
بھٹیالی سینے میں اترے، چٹکا دل کا درد بڑھائے
مانجھی او مانجھی کی آوازوں سے ساری دھرتی گائے
نئی پرانی آوازیں ، تانیں ، انسانی و غیر انسانی اشیاء کی آوازیں ان کے تخیل میں موجود ہیں۔ صہبا نے بصری تخیل بھری یادوں۔ VISIUAL MEMORIES سے بھی کام لیا ہے۔ یہاں یاد بھی محض تخیل پر انحصار کرتی ہے، یاد اس چیز کو کہا جاتا ہے جو پہلے کبھی دیکھی ہو یا سنی ہو یا اپنائی گئی ہو۔ سنہرے دیس سے صہبا کا گہرا جذباتی تعلق تھا، وہ ان کا اپنا دیس تھا۔ اس لیے اسے دیکھایا سنا نہیں تھا، پھر بھی اس کا تصور، اس کی یاد ان کے ذہن میں ہمہ وقت موجود رہی، پھر صہبا نےVERBAL IMAGINATION سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ یعنی سنہرے دیس سے متعلق جتنے الفاظ انھوں نے سنے یا پڑھے تھے۔ انھیں اپنے انداز میں استعمال کیا۔
’’پاکستان کے ساتھ ساتھ مشعل میں مرحوم مشرقی پاکستان کی تصویر بھی ملے گی۔ اس سنہرے دیس کی تصویر، مہاگنی کے صندلی پیکر، پٹ سن کے کھیت، سندربن، میگھنا، پدما، کرنا فلی، مانک چاری، کیانگ کا مندر، کا سارنگ کے جنگل، اپچاری کے بادل سویا لانگ کے درے، کھپریلوں کے گھر اور دریاؤں میں سانولے سلونے مانجھی۔ میں مشرقی پاکستان میں کچھ مہینے رہ چکا ہوں اس لیے صہبا اختر صاحب کی نظم پڑھ کر ایک عجیب NOSTALGIA میں گرفتار ہو گیا۔ ‘‘ ۱۲؎
اور پھر صہبا اختر کو اپنی خوابوں کی اس سرزمین میں جانے کا موقع بھی ملا لیکن کن حالات میں جب سبز لہلہاتے کھیت اور لہراتے پانی میں سرخی کا رنگ چھلکنے لگا تھا۔ صہا کے ذہین میں تمام یادیں لمحہ بہ لمحہ تازہ ہیں۔
’’ان ساعتوں میں مجھے یاد آیا کہ مرحوم مشرقی پاکستان کے سقوط ڈھاکہ سے پہلے بھی ریڈیو ڈھاکا میں چودہ اگست۱۹۷۱ء کے سلسلے میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں اس وقت کے مغربی پاکستان کے کئی شاعر مدعو تھے۔ مگر شاید حالات کے خوف سے، کسی ضرورت کے تحت بہت سے شاعروں نے وہاں جانے سے گریز کیا۔ مجھ سے بھی بہت سے لوگوں نے کہا کہ مت جاؤ، وہاں صورت حال بہت خراب ہے۔ دوسروں سے قطع نظر میں نے اپنی بیوی سے رائے طلب کی تو انھوں نے کہا، نہیں آپ ضرور جائیے۔ اس لیے کہ شاید انھیں آپ کی ضرورت ہے۔ آپ خود کو شاعرِ پاکستان سمجھتے ہیں تو پاکستان کے اس مشکل وقت میں ، آپ کا وہاں جانا اور بھی ضروری ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جسے مرنا ہے وہ بستر پر بھی مر جاتا ہے اور جسے زندہ رہنا ہے وہ میدان جنگ میں بھی نہیں مرتا۔ میری بیوی کے یہ الفاظ میرے لیے بڑے حوصلے کا سبب بنے۔ بہر حال جب میں ائرپورٹ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ صرف تین شاعر یعنی میں ، دلاور فگار اور جناب ضمیر جعفری بمشکل تمام اس قلم کے جہاد میں قلم بکف کفن بر دوش نکلے۔ کراچی سے ہمارا ہوائی جہاز سری لنکا سے ہوتا ہوا ڈھاکا پہنچا۔
پھر مجھے ڈھاکا کا وہ آخری مشاعرہ یاد آیا۔ جنرل نیازی اس مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے۔ ان کے پر جوش اور بلند آہنگ خطبۂ صدارت نے ہمارے حوصلے اور بھی بڑھا دیے۔ میں نے اس مشاعرے میں آزادی کے موضوع پر یکے بعد دیگر ے سامعین کے اصرار پر دو نظمیں پڑھیں۔
بعد میں وہاں مری کئی نظمیں مرحوم صدیق ملک نے بطور خاص اس لیے ریکارڈ کیں کہ وہ نظمیں اپنے فوجیوں کو سنانا چاہتے تھے۔ مجھے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال کے وہ چہرے یاد آئے جو اس AUDIENCE میں شامل تھے۔ وہ بیگمات یاد آئیں جو لحظہ بہ لحظہ میری نظموں کے زیرو بم کے ساتھ بقول کیپٹن صدیق جس طرف میرا ہاتھ مڑتا تھا۔ ان کے چہرے مڑ جاتے تھے۔ وہ ستارہ تاب آنکھیں ، وہ ماہتاب چہرے، وہ سب حوریں فرشتے میری آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔ وہ سارے بانکے سجیلے فوجی اور سامعین میں شامل سارے وطن دوست وہ سارے فرض شناس لوگ مجھے پیہم یاد آئے تھے پھر ڈھاکا میں ظلم کی آگ کا ایندھن بننے والے۔ وہ محب وطن ضدی بہاری سب یاد آنے لگے ؎ اے بساآرزو کہ خاک شد…‘‘ ۱۳؎
اسی مشاعرے کا تذکرہ پرویز بلگرامی یوں کرتے ہیں :
’’۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان میں شورش کا بازار گرم ہوا اور حب الوطنی جگانے کے لیے شاعروں نے اپنی خدمات پیش کیں ، ان میں سب سے پہلا نام صہبا اختر کا آتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے مرکز ڈھاکا میں ۱۴ اگست ۱۹۷۱ء کو آزادی کی تقریب کو رنگا رنگ بنانے کے لیے آل پاکستان مشاعرے کے میزبان کیپٹن صابر تھے اور اس مشاعرے میں صہبا اختر کی نظموں نے ایسا سماں باندھا کہ ہر چہرے پر عزم و حوصلے کا ایک نیا باب نظر آنے لگا۔ ہر ایک چہرہ تمتما اٹھا۔ ان کی نظموں کو بریگیڈئر سالک مرحوم خاص طور پر ریکارڈ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے سن کر فوجیوں کا حوصلہ مزید بلند ہو گا۔
وہ مشاعرہ ایسے دور میں منعقد ہوا تھا جب ہر طرف مکتی باہنی کے غنڈے دندناتے پھر رہے تھے اور موقع ملتے ہی معصوم عوام کے خون سے ہاتھ رنگ لیتے۔ صہبا اختر کی نظموں نے انھیں بھی مکتی باہنی کی ہٹ لسٹ پر پہنچا دیا اور وطن دشمنوں کا ٹولہ ان کی تاک میں بیٹھ گیا۔ مشاعرہ ہال سے انھیں ریسٹ ہاؤس جانا تھا۔ وہیں ان کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا، مگر وہ مشاعرے سے سیدھے اپنے ایک دوست علمدار رضا جو وہاں کے کمشنر تھے، ان کے گھر چلے گئے۔ انھیں لے کر ریسٹ ہاؤس جانے والی جیپ خالی لوٹ گئی۔ ابھی جیپ نے آدھا سفر طے کیا تھا کہ مکتی باہنی نے اس خالی جیپ پر حملہ کر دیا۔ وہ جیپ چھلنی ہو گئی۔ اگر خدانخواستہ اس جیپ میں …‘‘ ۱۴؎
سنہرے دیس سے سنہری یادیں لیے صہبا وطن کے اس حصے میں جہاں ان کا قیام تھا، لوٹ آئے لیکن ساتھ میں ایک کسک بھی ان کے چلی آئی۔ کچھ ہونے والا ہے۔ فضا میں کچھ نامانوسیت کی بو پھیلی ہوئی تھی لیکن انھیں اپنی فوج کی بہادری اور اپنے عوام کے جذبوں یر یقین تھا لیکن جب یقین کی دیوار میں دراڑیں پڑنے لگیں اور پھر وہ دیوار گر جائے تو……
’’مشرقی پاکستان کے اس مشاعرے سے لوٹتے ہوئے انھیں زیادہ دن نہ ہوئے تھے کہ وہ سانحہ عظیم رونما ہو گیا۔ ہمارا ایک بازو قطع ہو گیا۔
شکار گاہ کی خواہش تھی ملک گیروں کو
بطور خاص میرا ملک انتخاب ہوا
دو نیم ارض وطن بھی ہے میرے دل کی طرح
میں کرب خواب سے گزرا تو نیم خواب ہوا
میرے شہید بہت خوش نصیب تھے صہبا
کہ ان کے بعد ہوا جو بھی انقلاب ہوا‘‘ … ۱۵ ؎‘‘
صہبا نے اپنی ذات کے بارے میں خود سے وابستہ افراد کے بارے میں شاید اتنا نہیں سوچا جتنا کہ اس سرزمین کے بارے میں فکر مند رہے، اس سرزمین کے بارے میں کہ جس نے ان کی ذات کو، ایک پہچان ایک شناخت عطا کی۔ وہ پاکستان کی شناخت ممالک ِعالم میں ایک عظیم ترین ملک حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے بسا اوقات ایسا ہو نہیں پاتا۔ وہ پاکستان کی سیاست پر ایک محبِ وطن پاکستانی کی طرح گہری نظر رکھتے ہیں۔
۷۰ء کی دہائی سے لے کر ۹۸ ء بلکہ کسی حد تک آج بھی کراچی جن حالات سے دوچار رہا ہے، وہ ہر محب وطن کے لیے باعثِ آزار ہیں۔ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر شہرِ کراچی، شہرِ تشدد کا روپ دھار گیا۔ کراچی کے لہراتے نیلگوں سمندر کو خون کے سمندر میں بدلنے والے لوگ کون تھے۔ ان کے مقاصد کیا تھے۔ گھر کے بھیدی تھے یا باہر کے تخریب کار۔ حق مارنے والے تھے یا حق چاہنے والے۔ ۷۱ء کا سانحہ بہت پرانا نہیں ہے۔ کیا اسے آئیڈیل بنا کر کچھ عناصر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والے بڑی تعداد میں کسمپرسی کی حالت میں کراچی پہنچے اور انھوں نے اپنی محنت سے کراچی کو عروس البلاد کا روپ دیا۔ لہٰذا وہ کراچی پر اپنا حق زیادہ جانتے ہیں۔ دوسری طرف مقامی باشندے تھے، جو نسل درنسل اس شہر میں آباد ہیں اور باہر سے آنے والوں کو اپنے حقوق میں شراکت دار سمجھتے رہے۔ ایسے شراکت دار جو انھیں قبول نہ تھے۔ بہر حال ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر تھا اور وہ خود کو درست جانتا تھا۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ مہاجرین بے چارے ہر گز نہیں ہیں ، جب وہ بھارت سے یہاں آئے تو وہاں بھی تجارت پر قابض تھے۔ کراچی آ کر انھوں نے اپنے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا کاروبار جمایا۔ بھارت سے یہاں ہجرت کے وقت اپنے خاندان کے چند ایک افراد کو وہیں چھوڑ آئے تاکہ وہاں بھی ان کی جائداد اور کاروبار محفوظ رہیں۔ یہاں ان مہاجرین کو جب یہ احساس ہوا کہ مقامی لوگ ان کی آسودگی اور خوشحالی کی طرف نگاہ کر کے اپنی بے روزگاری و بدحالی کو زیادہ محسوس کر رہے ہیں پھر نسلی ولسانی تعصب بھی غیر محسوس طریقے سے فضا میں سرایت کرتا جا رہا تھا، ان مہاجرین نے اپنے تحفظ کے لیے ایک جماعت… بنائی۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی موجود ہیں جن کے نظریئے کے مطابق قیامِ پاکستان کے وقت مہاجرین نے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیں۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ، اپنے پیاروں کی لاشیں بے گور و کفن چھوڑ کر خون کا سمندر عبور کر کے سرزمینِ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں اور کوششیں مسلم قومیت نے کی تھیں۔ کسی سندھی، بنگالی، بلوچی، پٹھان یا اردو بولنے والوں نے نہ کی تھیں۔ سبھی نے خود کو ایک قومیت، مسلم قومیت تصور کیا تھا۔ ایک مسلم قومیت کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں سندھی مہاجر، پختون مہاجر کے نعرے کیوں کر بلند ہوئے۔
ادب زندگی کا عکاس ہے، ترجمان ہے، پھر ادیب کے لیے ان تجربوں سے، جن سے کہ وہ براہ راست گزرا ہے، صَر فِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ کراچی کے سانحے پر لکھے جانے والے ادب کو کسی طرح بھی وقتی ہنگامی یا صحافتی ادب کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس شہر کے لکھاریوں نے نظم و نثر ہر دو اصناف میں خود پر بیتی جانے والی روداد رقم کی ہے کہ ہر شخص ان حالات سے بالواسطہ متاثر ہوا ہے۔ خون کے آنسو رویا ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے یہ فخر اس اس ندامت میں بدل چکا ہے کہ مسلمان مسلمان کا جانی دشمن ہے۔ وہ چال جو دشمنوں کی تھی کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ اسے خود اپنی نادانی کے باعث بھائی نے بھائی کے خون کا پیاسا ہو کر کامیاب بنا دیا ہے۔ ہند کے سیاست دان ہوں یا ہندو قوم، کسی نے بھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہ کیا تھا۔ یہ ان کی خواہش تھی یا سازش، بہرحال وہ اس آگ کی ہولی دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے۔
برہمن زاد ہند بھی شاید یہ کہتے ہوں
مسلمانوں کے ہاتھوں خود مسلمانوں پہ کیا گزری
بتان رنگ و خون میں گھر گئے، جو بت شکن آخر
خود ان کے دیدہ و دل کے، صنم خانوں پہ کیا گزری
بہت تعمیرِ خواہش تھی، جنھیں آزاد گلشن کی
خود ان کے خواب آزادی کے کاشانوں پہ کیا گزری
(تضمینِ درد)
یہ صورتِ حال ہر درد مند پاکستانی کے لیے تشویش ناک تھی اور ہے۔ شاعر حساس دل رکھتا ہے۔ اپنی جذباتیت اور حساسیت کی بنا پر ممکن ہے وہ اپنی سوچ میں انتہا پسند دکھائی دینے لگے۔ ممکن ہے جس مسئلے کو وہ سوچ رہا ہے، جس منظر کو وہ دیکھ رہا ہے، وہ منفی پہلوؤں کی طرف زیادہ متوجہ دکھائی دے۔ پس منظر اور پیش منظر اتنا ہولناک ہو کہ ان حالات میں خوبی یا خوبصورتی تلاش ہی نہ کرسکے تو کیا ایسے میں ہم شاعر کی سوچ کی منفی، کہہ کر رد کر دینے کا حق رکھتے ہیں یا جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے، سمجھانا چاہتا ہے، اس کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ شاعر، ادیب یا دانشور ایک عام انسان ہوتے ہوئے بھی عام سطح پر بلند ہے۔ اپنے علم، مطالعے مشاہدے اور خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر اسے وہ کچھ بھی دکھائی دے جاتا ہے جو عام فر کی نگاہ سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ، وہ کچھ بھی سوچ سکتا ہے جہاں عام انسان کی سوچ نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ان عوامل کی نشاندہی کرتا ہے جن کی طرف سے آنکھیں موندنا جرم ہے۔ صہبا کی ہر نظم، ہر سوچ، کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ’’ناقدین پاکستان سے‘‘ میں ملک کے ان سیاست دانوں کا تذکرہ ہے کہ جو خطِ تقسیم کو روزِ اول سے ہی غلط تسلیم کرتے آئے ہیں۔ صہبا کہتے ہیں کہ اگر ان کی بات درست مان لی جائے تو پھر ہم اپنا یہ جرم بھی مان لیتے ہیں۔
خزاں کے آستانے کو بہاروں سے سجایا ہے
ہمارا جرم یہ ہے ہم نے پاکستان بنایا ہے
ہم اپنے سب گناہوں کی تلافی مانگ لیتے ہیں
چلو تاریخ سے چل کر معافی مانگ لیتے ہیں
صہبا کہتے ہیں کہ کہیں مصلحت سے کام لیتے ہوئے ہم تلاشِ صبحِ فرد اسے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اس خاک سے جو عہد محبت باندھا تھا اسے توڑ دیتے ہیں۔ الٹے قدم چلتے ہوئے ماضی میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں ، اور جو جو گناہ اس وطن کے قیام کے سلسلے میں ہم کرچکے ہیں اس کی معافی چاہ لیتے ہیں۔ لیکن……
مگر کیا اس معافی سے گنہ دھل جائیں گے سارے؟
بکھر جائیں گے اندھیارے، سمٹ آئیں گے اجیارے
سرِ ساحل بھی، جن کی روح میں طوفان رہتے ہیں
وہ سارے وسوسہ پیشہ جنھیں شیطان کہتے ہیں
ہر اک تعمیر کو ایک جذبۂ تخریب دیتے ہیں
ہمیں ترکِ بہشتِ پاک کی ترغیب دیتے ہیں
ان ناقدین پاکستان سے، جو قیام پاکستان کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے، اسے غلط ثابت کرنے میں کوشاں ہیں اور اس بات کے داعی کہ ایک نہ ایک روز اس غلط فیصلے کا احساس ہوکر رہے گا۔ اس دعویٰ کے جواب میں صہبا اختر بتاتے ہیں کہ وہ وطن جس کی بنیاد میں محنت اور محبت شامل ہو، جہاں خون پسینہ ایک کیا گیا ہو، یہ اس کے فنا کی نہیں بقا کی دلیل ہے۔ ہمارے سامنے صدیاں ہیں ، صدیوں کی روانی ہے کہ ہم فانی سہی لیکن وطن تو غیر فانی ہے۔
’’ایک پرندہ اور آتش نمرود‘‘ صہبا اختر کی اس تمثیلی نظم میں ، اجتماعیت کے ہجوم میں فرد کی اہمیت اور ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔ وہ ماضی کے واقعات وسانحات کے تناظر میں آج کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ، اس لیے کہ ہمارا ماضی بے معنویت کی گرد تلے دفن نہیں ہوا۔ ہمارا آج بھی اس سے رشتہ مضبوط ہے۔ ہم آج بھی ماضی کے روشن ابواب سے اکتسابِ علم اور تجربات سے مستفید ہوتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ ان واقعات سے پُر ہے کہ جہاں جہالت کے گھور اندھیروں میں ایک ننھی سی کرن نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا اور پھر پورے صحرائے عرب کو بقعہ نور بنا دیا۔ جہاں ایک یتیم بے کس، بے یار و مدد گار شخص نے، خدائے واحد کے موجود ہونے کا اعلان کیا اور سنگِ زمانہ کو گل و گلزار سمجھ کر صبر و برداشت سے کام لیتا رہا اور اس سے بہت پہلے بھی، جب آزر کے گھر ابراہیم جنم لیتا ہے۔ بت تراش و بت گر و بت فروش کے درمیان ایک بت شکن سامنے آتا ہے اور ساری خدائی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اس کا یقین اور حوصلہ، باطل قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا، اس فرد واحد کی ایمان پر پختگی نارِ نمرود کو نورِ ابراہیم میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ماضی کے خواب عہدِ گذشتہ کی طرف لوٹنے کے لیے نہیں بلکہ آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ صہبا بھی کراچی میں جب ہر فرد کو رعد و برق کی مثال بنتے دیکھتے ہیں لالہ زار عشق میں محبت کے نغموں کے بجائے موت کو راگ الاپنے سنتے ہیں۔ نار جہنم کو فروزاں ہوتے دیکھتے ہیں تو اس آگ کو اپنی محبت سے، اپنی شاعری سے، بجھانا چاہتے ہیں۔ کراچی کی بارود کی بو سے مہکی فضا، دھواں اگلتی گلیاں انھیں دکھ دیتی ہیں۔ ؎
یہ فضا جب بھی جلاتی ہے مجھے
یہ کہانی یاد آتی ہے مجھے
آج ہم اعتقادات کی جگہ معقولات کے قائل ہیں۔ معجزات کی جگہ عالم اسباب نے لے لی ہے لیکن ہم ان کی صداقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ صہبا اختر ’’ ایک پرندہ اور آتشِ نمرود‘‘ کو آج کے تناظر میں کس طرح پیش کرتے ہیں۔ ؎
شادماں تھے ہر طرف دوزخ شعار
آتش نمرود تھی جب شعلہ کار
اس سے پہلے نور ابراہیم بھی
آتش نمرود سے بن جائے ’’نار‘‘
چونچ میں پانی کے دو قطرے لیے
اک پرندہ آ گیا پروانہ وار
اور اس دوزخ پر برساتا رہا
وہ یوں ہی پانی کے قطرے بار بار
پھر کسی نے اس پرندے سے کہا دل،
تری اس سادگی پر ہو نثار
چند قطرے کیا بجھائیں گے وہ آگ
جو بجھا سکتے نہیں دریا ہزار
یہ سنا تو اس پرندے نے کہا
یہ مجھے معلوم ہے حکمت شعار
جانتا ہوں یہ میری سعیء حقیر
کیا کرے گی شعلگی کو لالہ زار
معجزہ کوئی مرے بس میں نہیں
صرف اک کوشش ہے حسبِ اختیار
میں تو بس یہ چاہتا ہوں جان لیں
آتش نمرود کے یہ شعلہ کار
آج جب ایمان ہے شعلہ گری
آگ بھڑ کانا نہیں میرا شعار
میں خدا کے حکم سے غافل نہیں
میں صفِ نمرود میں شامل نہیں
۱۹۷۱ء کا سانحہ ابھی تازہ تھا کہ ۱۹۷۲ء میں لسانی فسادات …اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، نے شہر کی فضا کو دھوئیں اور خون کی بو سے لبریز کر دیا۔ پھر وقتاً فوقتاً کراچی، حیدرآباد اور لطیف آباد وغیرہ میں بموں کے دھماکے، گولیاں اور ہڑتالیں ، شہر کے باسیوں کے لیے روز کا معمول بن گئیں۔ شہر کی خون آلود فضا کو درد مند پاکستانیوں نے بہت شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ تخریب کار عناصر، عوام کی بھوک اور زندگی سے بے نیاز، ہڑتال کے احکامات صادر کرتے رہے جبکہ یہاں کے باسی محنتی بھی ہیں اور علم کے شائق بھی۔ کراچی تو کبھی ہر فرد کا خواب ہوا کرتا تھا۔ مشہور تھا کہ کراچی میں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ کراچی عروس البلاد روشنیوں کا شہر، صہبا اختر اس کراچی کی شاموں کی سجاوٹ اور صبحوں کی مہک کو اپنے جسم وجاں میں بسائے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک کراچی صرف ایک شہر نہیں بلکہ جسم بھی ہے ؎
کراچی کی زلفوں میں خوشبوئے تازہ
کراچی کے مکھڑے پہ کرنوں کا غازہ
کراچی جو سراپا محبت ہے۔ یہاں کوئی پرایا نہیں ہے۔ کراچی کے دروازے سب پر کھلے ہیں۔ مہاجر، سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، سبھی کے لیے وہ چھتر چھاؤں ہے۔
ع کراچی مدینہ ہے، ہر ہجرتی کا۔
کراچی علم و ہنر، صنعت و حرفت، تجارت و معیشت سبھی شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں پیش رفت رکھنا ہے ؎
کراچی ہے سرمائے کی خوش نگاہی
کراچی ہے مزدوروں کی کج کلاہی
پھر کیا ہوا کہ امن و محبت کی فضا پر خوف ڈر و دہشت نے غلبہ پا لیا۔ وحشت، ظلم و تشدد اور بربریت کا بازار گرم ہوا۔ شہر کی فضا ماتمی اور ماحول افسردہ ہو گیا ؎
مگر اب کراچی، کراچی کہاں ہے
کہ یادش بخیر اب عجب ہی سماں ہے
عداوت ہے حاوی، اجل حکمران ہے
کراچی ہے یا مقتل خوں چکا ہے
کہیں خانقاہوں میں مردے گڑے ہیں
کہیں مسجدوں میں بھی لاشے پڑے ہیں
صہبا اس وحشت و بربریت کی دہکتی، خون اگلتی فضا سے ہر محب وطن پاکستان کی مانند، بیزار ہو چکے ہیں۔ صدا دیتے ہیں کہ کوئی ہے جو کار محبت سکھادے، وحشت کی آگ بجھا دے۔
سر راہ ظلمت ستارے بچھا دے
کراچی کو پھر شہرِ خوباں بنا دے
وہ کراچی کے باسیوں کو اس عفریت سے مقابلے کے لیے متحد کرتے ہیں کہ جس نے ان کے ذہنوں سے خیر و شر کی تمیز مٹا دی۔ قیامت کو آنے سے روکنے کے لیے سبھی کو متحد ہو کر، من و تو کے جھگڑے مٹا کر، نفرت کے جہنم کو سرد کر کے ایک دوسرے کو گلے سے لگانا ہو گا ؎
کہ پھر یہ سہاگن زمیں مسکرائے
کراچی مسرت سے پھر گنگنائے
’’حرفِ انتباہ‘‘ صہبا اختر یہ ظلم بھی اس بدنصیب کراچی کے نام معنون کرتے ہیں ،۔
’’جو مسلسل قتل و غارت گری کے باوجود، ماہ رمضان حتیٰ کہ عین عید کے دونوں میں بھی لہو میں غرق ہو گیا۔ اتنا ملال قاتلوں کی سفاکی کا نہیں جتنا کہ اہل کراچی کی بے حسی کا ہے۔ جسے میں خاکم بدہن ایک المناک اور تباہ کن انارکی کی طرف بڑھتے دیکھ رہا ہوں ، اور جو اپنی فریب ساماں غفلتوں میں ابھی تک نفسانفسی کے عالم میں اپنے انجام سے بے خبر ہے۔ بہر حال میری اس نظم کے مخاطب صرف کراچی اور اہل کراچی ہی نہیں بلکہ تمام دوستدارانِ وطن ہیں کہ پاکستان کا تحفظ سب کا یکساں فرض ہے۔ ‘‘ ۱۶؎
صہبا اختر بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ اب بھی سنبھلنے کا وقت ہے، ابھی بھی بہت کچھ بچایا جا سکتا ہے، اب غفلت برتی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو ؎
اور پھر وہ سکوت چھائے گا
جس کو روئے گا عالمِ اسباب
جز تباہی کوئی نہیں ہو گا
مرثیہ خوان قریۂ شاداب
اے کراچی، دیار نا پرساں
اے خراباتی جہاں خراب
سیف وقلم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان کے اہل سیف بلاشبہ تمام دنیا کے لیے قابل فخر ہیں۔ صاحبِ قلم مجاہدین میں صہبا اختر سر فہرست ہیں کہ جن کی مجاہدانہ جدوجہد، مساعی اور جوش و جذبے نے ناخوش گوار اور نا مساعد حالات سے پیدا ہونے والی مایوسی، تذبذب ولا یعنیت، بے یقینی، تنگ نظری، تنگ دلی، نا انصافی، معاشرتی ناہمواری، ذاتی مفاد پرستی، خود غرضی گروہی تعصب، صوبائی عصبیت، باہمی نفاق و ظلم و تشدد کے خلاف اپنے قلم کی سیاہی اور رگوں میں گردش کرنے والے لہو کا آخری قطرہ اور جسم میں موجود آخری سانس تک دلیری سے مقابلہ کیا۔ آج بھی نگاہیں منتظر ہیں کہ کوئی اس میرِ کارواں کے نقش پر چلتا نظر آئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ ادارہ کسی شخص کے چلے جانے سے ختم نہیں ہوا کرتا۔ اس کی جگہ دوسرے اسے سنبھالا دینے کے لیے آ موجود ہوتے ہیں تو پھر ہمیں وہ دوسرا اب تک نظر کیوں نہیں آیا، جو قوم کو سود زیاں کا احساس دلا کر محبت محبت محبت کرو کادرس دے کر نفرتوں کی زرد دلدل کو پار کر کے رفاقتوں کے گلاب کھلا دے۔
مثبت و تعمیری اقدار کے محافظ، قومی یکجہتی و ملی ہم آہنگی کے علمبردار، انسان دوستی و جب الوطنی کی علامت، اس عہد نا مہرباں کے عہد ساز قومی شاعر صہبا اختر اس جہاد زندگانی میں سرخر و رہے ہیں۔
٭٭٭
صہبا کی غزل گوئی
صہبا جمال پرست اور حسن نواز شاعر ہیں۔ کائنات کے خارجی مظاہرو مناظر سے گہری دلچسی کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت اور جذبات کا مطالعہ بھی ان کی شخصیت اور شاعری کا حصہ ہے۔ ادب میں فطرت چار مختلف زاویوں سے منعکس ہوتی ہے۔ ایک تو ’’صحیفۂ فطرت‘‘ ہے کہ جس کے تحت وہ دنیا جو تخلیق کار کے چہار جانب اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور مثبت و منفی خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ دوسرا پہلو ’’قوانینِ فطرت‘‘ ہے کہ جس کی تسخیر کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر جاندار یا بے جان اشیاء ’’طبعی خصوصیات‘‘ رکھتی ہے۔ ایک مفہوم فطرت کا انسانی طباع، جذبہ و احساس سے متعلق ہے۔ ۱؎
یوں صہبا کی شاعری موضوعیت اور معروضیت کا امتزاج ہے۔ وہ انسان کو اس کائنات کا بنیادی موضوع اور کردار قرار دیتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی خطِ فاصل نہیں کھینچتے۔ کائنات بھی اسرار و رموز سے پر ہے۔ اس کے خارجی مظاہر ومناظر بھی پس پردہ کئی کیفیات رکھتے ہیں۔ شرط صرف نظر غائر کی ہے جبکہ انسان سرسری اس جہان سے گزرتا جاتا ہے۔ اگر وہ کبھی گہری نگاہ سے دیکھے، غور وفکر سے کام لے تو ہر قدم پر بابِ حیرت وا پائے گا۔
صہا اختر نے بے حد مصروف زندگی گزاری ہے۔ وہ اپنے ایک ایک لمحہ کا حساب دے سکتے ہیں۔ عمر کے رائگاں جانے کا افسوس انھیں کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ خواہش موجود رہی کہ اس زندگی کو دیکھنے، سمجھنے، محسوس کرنے کو یہ عمر بہت تھوڑی تھی۔ ابھی تو انھوں نے وہ دیکھا ہی نہیں جو پردۂ کائنات میں مستور ہے۔ ابھی تو انھوں نے وہ کہا ہی نہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ ہرچند کہ وہ نغمے جو ابھی فضائے کائنات میں گونجے ہی نہیں ، وہ سننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ خواب بھی ان کی ملکیت ہیں جو ابھی منصۂ شہود یا تصورِ خیال پر بھی واضح نہیں ہوئے۔
سنتا ہوں وہ نغمے جو سنائی نہیں دیتے
وہ خواب ہیں میرے جو دکھائی نہیں دیتے
جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں
نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
ان حالات میں صہبا نگار خانۂ دنیا، نگار خانہ فطرت، نگار تجلی ساماں ، نگارِ خانۂ سخن کے ان مناظر کو بھی دیکھتے ہیں جن کو کسی دوسرے کی آنکھ اہمیت ہی نہیں دیتی۔ انسان بھی ایک ایسا ہی مظہر ہے۔
دراصل شاعر اپنے تجربے اور مشاہدے سے حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔ وہ اپنے گرد وپیش میں رہنے بسنے والے کرداروں کا، مختلف مثبت اور منفی واقعات کا شعور رکھتا ہے۔ زندگی کے ہر حسن و قبح پر نگاہ رکھتا ہے۔ قانونِ فطرت کے اصولوں کے تحت رونما ہونے والے جبر و اختیار کے تمام واقعات اس کے پیشِ نظر ہوتے ہیں ، یوں وہ کائنات اور اس کے مرکزی کردار انسان اور اس کی ابتداء و انتہا اور اس دوران ہونے والے تمام تجربات و مشاہدات کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔
مجھے گماں ہے ازل سے جلتے ہوئے ستارو
میں تمھارے ساتھ ہی تخلیق ہو گیا تھا
نگار خانۂ دنیا! کبھی نظر تو کر
نظر نواز نظاروں میں ، ایک میں بھی ہوں
ہزار چہرۂ تصاویر کو نگاہ میں رکھ
کہ رنگ رنگ سخن کا نگار خانہ رہے
فطرت ومظاہرِ فطرت، جنگل، بیابان، مرغزار، پہاڑ، کوہسار، وادی وسبزہ زار کا تذکرہ اس کثرت سے ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تمام عمر کاغذ پر سیاہ لکیروں کو ترتیب دیتے نہیں گزاری بلکہ وہ نسخہ کائنات کے غائر مطالعے میں مصروف رہے۔ باغ چمن گلزار پھول پتے خار و نکہت، جا بجا اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔
صہبا کے حواس خمسہ میں جہاں کسی پیکر، بصری پیکر، پیکرِ سامعہ، پیکرِ ذائقہ اہم ہیں وہیں پیکرِ شامہ نت نئی تصاویر بناتا ہے۔ صہبا کی شاعری میں خوشبو کا مہک کا بہت قوی احساس ہے۔
ادھ کھلی کلیوں کی خوشبو، مہکتی زلفوں کی گھنی چھاؤں ، پھول بن کی مہک، خوشبو کادان کیا جانا، سبک غنچوں سے نکہت کا اڑنا، زلفوں میں ، عنبر و عود و عطر و گلاب کابسے ہونا، نئی نکہتوں کے آنچل لہرانا، صہبا کی تیز حسِ شامہ کاپتا دیتے ہیں۔ فرانسیسی شاعر بودلیر خوشبو کا بے حد دلدادہ تھا اس کا اعتراف وہ خود کرتا ہے۔
’’میری روح خوشبو پر اس طرح منڈلاتی ہے، جس طرح لوگوں کی روح موسیقی کی لہروں پر۔ ‘‘ ۲؎
صہبا کی غزل ہی نہیں رباعیات بھی اسی مہک سے لبریز ہیں۔
انفاس میں کلیوں کی مہک لے آیا
احساس میں شیشوں کی کھنک لے آیا
کیا باتیں ہوئیں ان سے مجھے یاد نہیں
جو پھول گرے ان کی مہک لے آیا
اور پھر ان کی وہ غزل کہ جس کی ردیف ہی ’’مہکے‘‘ ہے۔
پھر کھلیں پھول، پھر پون مہکے
پھر زمیں کا کنوار پن مہکے
یہ فضا یہ سماں یہ خوشبو نئی
رات مہکی کہ پھول بن مہکے
ان کی شعری کائنات میں خوشبو کس کس انداز سے جلوہ گر ہوتی ہے۔
ان صحیفوں کی قسم، جن کی زباں خوشبو ہے
پردۂ لالہ و گل میں ہیں پیمبر موجود
موج، دریا، چشمہ، سمندر، بحر مختلف مفاہیم میں شاعر کے جذبہ واحساس کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ سمندر تحرک کی علامت ہے اور صہبا کی شاعری اور زندگی میں جمود وسکوت کا کوئی حصہ نہیں ؎
وہ آگہی کے سمندر کہاں ہیں جن کے لیے
تمام عمر یہ پیا سے سفر میں رہتے ہیں
رات کا سحر، خواہ وہ تاریک ہو یا منور ہر فرد کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے۔ صہبا کی شعری لغت میں جہاں فرشِ خاک سے پھوٹنے والے سبزہ و گل کا تذکرہ ہے وہیں عرش پہ ہویدا، چاند، ستارے اور کہکشاں اپنی چھب دکھلاتے ہیں۔ ہر صبح کا اپنا نکھار اور ہر شام کا اپنا حسن ہے۔ بدلتے موسم، زندگی کا حسن ہیں۔ گرمی سردی بہار خزاں اور بادوباراں کا موسم، یہ تمام موسم صہبا کی شاعری میں بے جان نہیں۔ وہ باتیں کرتے اور شاعر کو اپنی جانب متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر موسم کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبو ہے اور پھر مزاج کے موسموں کا ذکر ہی کیا ؎
دیکھ اے موسمِ نشاط انگیز
میں ترے رنج گنگناتا ہوں
صہبا کو فطرت کو قریب سے دیکھنے کا کتنا موقع ملا ہے۔ اس کا جواب خواہ کچھ بھی ہو ان کی شاعری اس بات کا اظہار ہے کہ وہ قدرت کے ان مناظر کے رمز آشنا ہیں۔ فطرت کا دل، انھیں اپنے جسم میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے، شدت ِاحساس اور تخیل کی رسائی ان سے وہ باتیں بھی کہلوا دیتی ہے، مادی سطح پر جن سے رابطہ نہیں ہوپاتا۔ زندگی کی ترجمانی میں اگر انسانی فطرت اپنا کریہہ چہرہ دکھاتی ہے تو صہبا اس سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ادب ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ محبت، خلوص و یگانگت ہی فطرت کے اہم مظاہر رہے ہیں۔ وہی نہ رہے تو زندگی سے انسانیت کی اعلیٰ اقدار فنا ہو جائیں گی۔
گر یونہی سُنتے رہے نقش و نگارِ زندگی
بھول جائیں گے کسی دن اپنی صورت آدمی
کب ہٹے گی دل کے آئینوں سے صہبا تیرگی
کب اٹھائیں گے حجابات کدورت آدمی
حسنِ فطرت اور حسنِ انساں ، کہ یہ بھی قدرت کے ہی حسن کا ایک پر تو ہے، یوں مدغم ہوئے ہیں کہ صہبا کے نزدیک دوئی کا فرق مٹ چکا ہے۔ صہا محبت سے کبھی کنارہ کش نہیں ہوئے۔ حسن فطرت ہو یا حسن محبوب سبھی سے متاثر ہوتے ہیں اور سبھی کو محبوب رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ سراپائے محبوب کی تصاویر کھینچتے ہیں ، وہاں فطرت اتنے دبے پاؤں اس منظر نامے میں قدم رکھتی ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، فارسی و اردو کی شعری روایت میں بھی گل، پھول پنکھڑی، حسن محبوب کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔ سرو کا درخت قد یار اور سنبل و ریحان محبوب کے گیسوؤں کا بدل رہے ہیں۔ صہبا کی شعری کائنات کی استعاراتی، تشبیہاتی و ایمائی فضا حسنِ فطرت سے سجی ہے۔ جہاں مظاہرِ فطرت کی مناسبت سے حسن محبوب کو نکھارا گیا ہے۔ حسن فطرت انسان سے مستعار ہے یا انسان حسن فطرت سے۔
کاجل آنکھیں ، کندنی چہرہ، گھنی برکھا سے بال
تو ہے ایسی خوب صورت جیسے شاعر کا خیال
اک عمر خود بھی نرگسِ شہلائے خواب نے
سیکھی ہیں چشمِ دوست سے جادو بیانیاں
پلکوں کے سائے سائے وہ رخسار لالہ گوں
ساون کی رات سوئی ہوئی پھول بن میں تھی
ترے جمال کے صدقے میں برگ وگل کو ملیں
ترے لیے جو قبائیں تراشتی ہے بہار
فطرت کا سب سے اہم مظہر موسم بہار اور صہبا کو بہار کی تمام تر علامتوں برگ و گل وسمن میں حسینوں ہی کے خد و خال نظر آتے ہیں ؎
چہروں میں دیکھتا ہوں صحیفے بہار کے
برگ و گل وسمن ہیں حسینوں کے خال و خد
بساط برگ وسمن تھی کہ نکہتوں کی کتاب
بہار تھی کہ کوئی خوبصورتی کا رسول
بہار کا موسم آتے ہی، بلبل کے زمزمے سنائی دینے لگتے ہیں۔ گل و بلبل کے روابط بہار ہی کے موسم میں پنپتے ہیں۔ بلبل کی نغمہ سرائی، اس چاہنے والے کی علامت ہے کہ جو محبت میں ناکامی کے بعد مضطرب و وحشت زدہ طوافِ محبوب میں مصروف ہے اور دردِ دل کی ہزار داستانیں سنا رہا ہے۔ یوں بلبل کی نغمہ سرائی اور شاعر کی غزل سرائی میں مماثلث پیدا ہو جاتی ہے۔ بہار کا یہ پہلو غزل میں خاصا جاندار ہے، پھر یہ موسم دیوانہ بنا دینے والا ہے۔ پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد وباراں ہے۔ موسم خوب صورت ہے لیکن محبوب تک رسائی ممکن نہیں۔ کبھی اسی موسم میں محبت چہار جانب رقصاں تھی، لیکن اب نہیں نتیجتاً اس موسم کی آمد سوئی ہوئی وحشت کو جگانے کا باعث ہوئی۔ عاشق چاک بہ گریباں ، عشق و جنوں کا شکار ہو کر جنگلوں صحراؤں میں جا نکلتا ہے یا پھر طوافِ کوئے یار میں دیوانہ وار مصروف ہے۔ ؎
خیال آتا ہے کنجِ بہار میں صہبا
صبا کا ہاتھ بنوں اور کھینچ لاؤں اسے
لیکن اس خیال کو عملی صورت دینا آسان نہیں۔ ہوشیار باش لوگ در زنداں وا کر دیتے ہیں۔ زبخیریں تھام کر تیار رہتے ہیں کہ کب کوئی گرفتار عشق، وحشت و جنوں کا شکار نظر آئے تو اسے پابند سلال کر کے شہر کے امن وسکون کو محفوظ کیا جائے۔ حالانکہ ہوش مند نہیں جانتے کہ یہ دیوانے مستی دبے خودی میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہشیار و دانا ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بہار میں وحشت و جنوں خیزی اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ عہد گزشتہ کی یادیں انسان کو چین لینے نہیں دیتیں۔ صہبا کا معاملہ تو کچھ اور ہی رخ دکھاتا ہے ؎
ان بہاروں کا تصور ہے مری آنکھوں میں
جن کے سائے کسی گلشن پہ نہیں لہرائے
جو شخص حسن فطرت سے متاثر ہو، بدلتے موسموں سے حظ اٹھا سکتا ہو، زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتا ہو، ایسا شخص کبھی قنوطی نہیں ہوسکتا لیکن شعری روایت پر نگاہ کی جائے تو شاعر کا خمیر قنوطیت، یاسیت اور غم و اندوہ سے اٹھا معلوم ہوتا ہے۔ صہبا اختر ان چند ایک شاعروں میں سے ہیں کہ جو رجائی نقطہ نگاہ رکھنے کے باعث زندگی کو صرف غم کی تصویر ہی نہیں ، خوشی و امید کا مرقع بھی جانتے ہیں۔ وہ انسان کو عظیم الشان قوتوں کا مالک دیکھتے ہیں۔ انسان چونکہ کائنات کا مرکز و محور ہے۔ کائنات کی تخلیق اس کے لیے ہی کی گئی ہے۔ دنیا کے مسائل ہوں یا غم و محن کے پہاڑ کوئی اسے سرنگوں نہیں کرسکتا۔ صہبا کی شاعری ان کے لیے جو دکھ، تکلیف، بیماری، موت اور تنہائی سے خوفزدہ ہیں ، امن و محبت، سکون و راحت کا پیغام دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تاریکی، تیرگی اور اندھیروں کے تذکرے کم کم ہیں ، رات کا ذکر ہے لیکن سحر اور دلکشی کے ساتھ۔ وہ خوف و جبر و تشدد کی علامت نہیں ؎
میری نظر میں دونوں یکساں ، کیسا دن اور کیسی رات
سب دھوپ اس چہرے کی ہے سب سائے اس آنچل کے ہیں
چنانچہ ان کی شعری کائنات میں رات کی موجودگی اس کی ہیبت ناکی کے باعث نہیں بلکہ چاند ستارے نجم کہکشاں اور چاندنی کے ساتھ ہے۔ مہتاب، کرنیں ، مشعل، جگنو، دیئے، چراغ، شعلے غرض کہ وہ تمام علامات کہ جن کا تعلق روشنی سے ہے اور روشنی زندگی امید اور رجائیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، ان کے اشعار میں مستعمل ہیں ؎
اس فضائے رنگ و بو میں تیرگی کا کیا گزر
اس شبستان میں بہ انداز سحر جاتی ہے رات
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
’’ابایاسیت کی شاعری بہت کم کیا کرتے تھے۔ ان کی نظموں سے روشنیوں کے اشارے ہوتے تھے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کھوئے ہوئے سفینے کو منزل کے راستے دکھاتے تھے۔ ‘‘ ۳؎
صہبا نے تمام عمر مشعل تھامے رکھی اور گھور اندھیروں میں بھٹکے ہوئے، حوصلہ ہارے ہوئے انسانوں کو راہ دکھاتے رہے۔ غم کی رات اگر طویل بھی ہو تو سحر کی اُمید اُسے مختصر کر دیتی ہے۔ ؎
شب نوردوں سے کہو، صہبا کہ جی ہاریں نہیں
سلطنت سورج کی ہو گی رات کی سرحد کے پار
صہبا اختر نے اپنی زندگی کے نامساعد حالات کا مقابلہ بھی ہمت و حوصلہ سے کیا۔ صبر و برداشت کی عادت اور مثبت نقطۂ نگاہ نے انھیں زندگی کی دشواریوں پر قابو پانا سکھا دیا۔ خزاں نے انھیں کبھی ہرساں نہ کیا اور بہار کی آمد سے پہلے ہی نوید بہار، تازگی و شگفتگی عطا کرتی رہی۔
ابھی چلا بھی نہیں تھا وہ کاروان بہار
کہ اس کا نامۂ خوشبو ہوا میں پڑھ آیا
انسان کی شدت پسندی کے دو رخ ہوسکتے ہیں۔ محبت، خیر، حسن، سچائی اور خلوص غرض اگر وہ مثبت اقدار کی طرف راغب ہے تو اپنا آپ پس پشت ڈال کر وہ ان میں اس طرح سرشار ہوتا ہے کہ یہ تمام خصوصیات اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس طرح اگر نفرت و کذب و ریا، فریب و حرص ہوا، زندگی کے منفی چلن اسے اپنے گھیرے میں لیے ہوں تو وہ اگر کبھی ضمیر کی خلش سے بے چین ہو کر اس حصار سے باہر نکلنا بھی چاہے تو نکل نہیں سکتا، لیکن ادب میں دو اور دو چار کاحساب ممکن نہیں۔ وہ جو ہمیشہ محبت کا شیدا رہا ہے کبھی کسی ناگہانی واقعہ کی بنا پر نفرت کی زرد دلدل میں دھنس سکتا ہے اور جو معاشرے کی نفرت کا جواب، اس سے بھی کہیں زیادہ شدید نفرت و کراہت کے ساتھ دیتا آیا ہے کوئی معمولی واقعہ یا غیر معمولی سانحہ اسے خود سے، انسانوں سے، فطرت سے، محبت کرنے پر مجبور کرسکتا ہے، پھر انسان کا مزاج بھی بدلتے موسموں کی طرح ہے۔ کبھی وہ خوش ہوتا ہے تو کبھی رنجیدہ، کبھی تر و تازہ تو کبھی پژمردہ، کبھی محبت سے لبریز تو کبھی نفرت سے پر لیکن چند ایک شخصیات ایسی ہیں کہ جنھوں نے زندگی کے ہر مثبت رُخ سے محبت کی۔ صہبا بھی انھی میں سے ایک ہیں کہ جن کا خمیر محبت سے اٹھا ہے۔ انھوں نے وطن سے محبت کی، فطرت سے محبت کی، اپنی ذات کو فطرت کا احسان و انعام جان کر اُس سے محبت کی اور حسنِ انساں سے محبت کی۔ صہبا کی غزل اسی حسنِ انساں سے محبت کی داستان سناتی ہے۔ صہبا شدت پسند شاعر ہیں۔ غزل کا ایک ایک شعر اس کا مظہر ہے۔ محبت کرتے ہیں تو ٹوٹ کر کر تے ہیں۔ حسنِ محبوب کو سراہتے ہیں ، تو جزئیات کے بیان کے باعث محبوب کو مجسمِ حسن بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اِن کی غزل محبوب کے سراپا، عادات و کردار، لباس و آرائش سبھی کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ یہ عشق دھیما اور خاموش نہیں ، بلکہ ان کی شاعری پُر شور عشق کا سراغ دیتی ہے۔ تصور محبوب واضح ہے۔ قاری کو اس سے متعارف کرواتے ہیں تو ستارے جگمگاتے نظر آئے۔ حسن کا سراپا مصور کرنے میں میر حسن، جرأت، ذوق و داغ کے قبیلے کے ہمسفر ہیں۔ خارجی حسن کی تصویر کشی وسراپا نگار میں شگفتہ مزاجی، رنگینی و رعنائی لیے صہبا کا تخیل بہت فعال ہے۔ ؎
کاجل آنکھیں ، کندنی چہرہ، گھنی برکھا سے بال
تو ہے ایسی خوب صورت جیسے شاعر کا خیال
پلکوں کے سائے سائے وہ رُخسارِلالہ گوں
ساون کی رات سوئی ہوئی پھول بن میں تھی
جھیل جیسی پرسکون آنکھوں سے صہبا کیا کہوں
موجزن رہتا ہے میرے دل میں کیا اضطراب
سراپا دشت ہوں لیکن سمندر جیسی آنکھوں میں
مجھے سودائے غرقابی جو پہلے تھا سو اب بھی ہے
سراپا محبوب میں زلفِ سیاہ کی چمک، درازی، خوب صورتی، اردو کی کلاسیکی شاعری میں بھی اہم رہی ہے۔ میر ہوں یا غالب سبھی اس پر متفق رہے ہیں … نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں جس کے شانوں پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں ، مشک بار زلفوں تک رسائی کے بعد بہشت کے قصے بے معنی معلوم ہونے لگتے ہیں ؎
رات بھیگے تو اس کی زلف کھلے
چاند نکلے تو انجمن مہکے
کہاں ہے تو تری زلفوں کا آبشار مجھے
ہزار خواب برستا دکھائی دے
سلگ رہی ہے تیرے گیسوؤں کی رات کدھر
برس رہا ہے ستاروں کا آبشار کہاں
یہ ترے گیسو نہیں تو ظلمتوں میں جان من
کون برساتا ہے مجھ پر روشنی کے آبشار
چشمِ قاتل، نگارِ سرمہ سا، نگاہِ یار، تیرِ نظر، نگہِ ناز، ناوک دزدیدۂ نظر، دزدیدہ نگاہی، شرمگیں نگاہیں ، ترچھی نگاہ، نگہ شوق، چشم نیم وا، چشم نرگس، خشمگیں نظر، چشم تر، چشم حیا، غرض چشم و نگاہ کا موضوع، حسن محبوب کے بیان میں ، سرفہرست رہا ہے۔ ایک نگاہ کا اشارہ، ایک ابرد کی جنبش، ہزار کلام پر بھاری ہے۔ آنکھیں جذبہ و احساس کی عکاسی یوں کرجاتی ہیں کہ لبوں کو جنبش دینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی، پھر آنکھیں سچ بولتی ہیں۔ حسنِ محبوب کا بیان ہو اور محبوب بھی وہ کہ بقول فیض۔
وہ تو وہ ہے تمھیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم میرا محبوب نظر تو دیکھو
ایسے میں صہبا کی بھرپور قوتِ متخیلہ، حسن کاری کی لفظی تصویریں اس طرح مصور کرتی ہے کہ سراپا سامنے آ جاتا ہے۔
مہکی مہکی، بھیگی، جیسے کوئی برکھا تھی
نیلی آنکھوں والی لڑکی خود بھی نیلا دریا تھی
نیلی آنکھیں ، بے وفائی کی علامت سمجھی جاتی ہیں لیکن صہبا خوبی ِ قسمت پر نازاں ہیں اور حیران بھی کہ نیلی آنکھوں کے سحر میں خود تو گرفتار ہوئے سو ہوئے، یہ نیلی آنکھیں بھی عشق کے وار سے محفوظ نہ رہ سکیں۔
صہبا کون شکاری تھے تم وحشت کیش غزالوں کے
متوالی آنکھوں کو تم نے آخر کیسے رام کیا
لمحہ بھر کے لیے بھی وہ آنکھیں دور ہوں تو احساسِ تشنگی دو چند ہو جاتا ہے۔
کوثر و تسنیم کی مالک وہ آنکھیں کہاں ہیں
پھر سرِ صحرائے دل ہے، تشنگی طاری بہت
صہبا جزئیات حسن کی مرقع نگاری میں اشاریت سے کام نہیں لیتے بلکہ واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ شوخ و شنگ چہرے کے خد و خال، فطری انداز میں نظم کرتے ہیں۔ حسن محبوب میں لبوں کی ناز کی، پنکھڑی سے بھی نازک تر ہے۔ عہد قدیم کی بات ہے کہ ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کہا جاتا تھا۔ اب اس کی جگہ پھول، کلیوں نے لے لی ہے۔ ؎
گاہے گلنار سے گالوں پہ بھنور رنگوں کے
گاہ اس شوخ کے ہونٹوں پہ چمک کلیوں کی
وہ ترے پھول سے ہونٹوں کے سوا اور کہاں
میں نے جس آگ میں دیکھی ہے لپک کلیوں کی
سائے سنہری زلفوں کے، ہونٹوں کے پھول
جو کچھ اس کے پاس تھا، ہونٹوں کے پھول
شدید جذبہ و احساس، صہبا کی غزل کو عشقیہ تجربات و نرم و نازک کیفیتوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ ان کے تخیل کی اساس ارضیت پر ہے۔ وہ ز مینی عشق کے قائل ہیں۔ ماورائیت و روحانیت کے اعلی معیار پر فائز ہونے کے بجائے وہ ایک ایسے انسان کا تصور پیش کرتے ہیں جو ان کیفیات میں ڈوبتا ابھر تا ہے۔ کبھی مدھم کومل جذبے سر اٹھاتے ہیں تو کبھی بپھرتے سمندروں کا شور سنائی دیتا ہے۔ وہ گوشت پوست کے اس محبوب کا تصور پیش کرتے ہیں جو تمام انسانی اوصاف سے متصف ہے۔ جس کا ملنا، روایتی محبوب کی مانند جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں۔ اس سے اکثر وبیشتر ملاقات رہتی ہے۔ سرسری ملاقات نہیں بلکہ بھرپور یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کسی محروم عاشق کا تصور پیش نہیں کرتے بلکہ وہ با مراد عاشق ہیں جو خارجیت کو داخلی تاثر سے مملو کر دیتے ہیں۔ محبوب کی عدم موجودگی میں بھی اس نشاط انگیز ملاقات کا خیال دل کو کیف وسرور بخشتا ہے۔ ؎
گر رہی تھی ہلکے ہلکے اس کی زلفوں کی پھوار
آج بھی آنکھوں میں ہے صہبا وہ منظر خواب سا
ان کی غزل دیومالائی عشق کی کتھا نہیں کہتی۔ محبت کے سہانے سپنے اسی خاک پر نمود پاتے ہیں۔ ؎
محبتوں کا زمانہ مختلف احساسات سمیٹے ہوئے ہے۔ عہد و پیمان ٹوٹتے ہیں تو کبھی جڑتے ہیں۔ مہربانی ونامہرانی مزاجِ یار کا وصف ہے۔ ؎
ترا مزاج بھی تھا بدلتی رتوں کے ساتھ
اک موسم بہار کبھی تھا کبھی نہ تھا
ہجر کے صدمے جھیلنے پڑتے ہیں تو کبھی وصل کے مہکتے لمحے پاس بلاتے ہیں۔ ؎
دہراؤں کیا فسانہ خواب و خیال کو
گزرے کئی فراق ترے وصال کو
عجب اک نور کا عالم تھا شامل وصل جب صہبا
شگفتِ گل پہ مائل تھا چمن آہستہ آہستہ
کبھی محبوب کا لہجہ متاثر کرتا ہے۔ ؎
دھیرے دھیرے برس رہی ہے پھوار
اس کے لہجے کی نرمیاں جیسے
اور کبھی اس کی ہنسی کیسے کیسے تصورات کو جنم دیتی ہے۔
جیسے ہوا سے بج اٹھیں چاند کی گھنٹیاں
ہنسنے کی وہ ادا میرے غنچہ دہن میں تھی
سرور انگیز، لذت بخش کیفیات و تجربات، زندگی کا حاصل ٹھہرتے ہیں۔ ؎
میرے شانوں پر تری زلف پریشاں کی طرح
بار ہا آتی ہے اور آ کر بکھر جاتی ہے رات
تو کبھی اس کے خلاف صورت حال شاعر کو جھنجھلا دیتی ہے۔ بد مزاجی دبے نیازی کی روایتی لہر محبت کے سمندر میں بھنور کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔
نہ جانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی
خدایا سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش
تری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے، لیکن اس معین دن کی خبر کسی کو نہیں۔ اس بات پر ایمان و یقین رکھنے، زندگی کی تلخیوں اور مسائل کے ازدحام سے گھبرائے رہنے کے باوجود، موت کی آرزو کرنے اور یہ تصور ہی کہ موت کا ایک دن معین ہے، انسان کی نیند اڑا دینے کے لیے بہت ہے۔ وہ اس زندگی سے جدا ہونا نہیں چاہتا۔ دُنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جہاں انسان رہتا بستا ہے، وہاں کے رہنے والوں سے، اس جگہ سے، وہاں کی جاندار بے جان اشیا سے محبت ہو جاتی ہے، پھر فرصت زندگی کم ہے اور کام بے شمار۔ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ کر کون جانا چاہتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکم ِسفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
لیکن موت در ذات پر دستک دینے سے کبھی باز نہ آئی۔ شاعر اذیت پسند ہے، اپنے حوصلے کو آزمانے کے لیے مصائب کو خود دعوت دیتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ تمام زندگی رنج و محن نے ڈیرے ڈالے رکھے۔ قوتِ برداشت جواب دے گئی تب تو اے مرگ تو نے تو جہ نہ کی، اب جبکہ ہم خود اپنی قوتِ برداشت کا امتحان لینا چاہتے ہیں ، جگر خون ہو رہا ہے لیکن ابھی وہ لمحہ نہیں آیا کہ آنکھ سے ٹپک سکے۔ جب تک یہ کام نہ ہو جائے۔ میرے عشق و جنون کی تکمیل نہ ہوسکے گی۔ اب کچھ مہلت دے تاکہ وہ کام جو انجام کو پہنچا چاہتے ہیں ، مکمل ہو جائیں ؎
خون ہوکے جگر، آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
انسان کی بے چارگی کی انتہا ہے کہ
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
(بہادر شاہ ظفر)
آج زندگی کی برق رفتاری کا گلہ سب کو ہے مشینی آلات نے زندگی کے کاموں کو آسان کر دیا ہے۔ وہی فاصلے جو مہینوں اور سالوں میں طے ہوتے تھے۔ اب گھنٹوں اور دنوں میں طے ہو جاتے ہیں ، لیکن وہ شکوہ جو صدیوں سے انسان کے لبوں پر تھا۔ آج بھی ہے بلکہ اور زیادہ شدت کے ساتھ۔
صہبا اختر کی تمام زندگی کی تخلیقات ان کے قادر الکلام ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انھوں نے بہت کہا اور بہت کہنا چاہتے ہیں۔ زندگی اور ادب محدود نہیں۔ اس کی وسعت کو سمیٹنے کے لیے چار روزہ زندگی کی مہلت بہت کم ہے۔ ؎
صرف ایک عمر کی مہلت نہیں کافی
مانگ مولا سے پئے کارِ ادب اور بھی کچھ
موت کا مسلسل خوف، زندگی کی برق رفتاری انسان کو تیز تر قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ کاموں کے ادھورے رہ جانے کا کیا شکوہ کرے۔ اُ سے تو تیزی سے گزرتے وقت نے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل ہی کرسکے۔
میں ادھورا ہوں ابھی تک اور میرے پروردگار
ختم ہوتی جا رہی ہیں زندگی کی دھائیاں
ذات کی عدم تکمیل، کاموں کا ادھورا رہ جانا، کہیں انسان کے اس حسن ذوق کی نشاندہی ہی تو نہیں کرتا کہ جب تک تصویر نا مکمل رہے۔ کام ادھورا ہے، اس کا حسن قائم رہتا ہے۔ کشش برقرار رہتی ہے۔ تجسس بڑھتا رہتا ہے اور جب سب کچھ مکمل صور ت میں سامنے آ جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ؎
نا تمامی سے حسن دنیا ہے
کارِ دُنیا تمام کیا کرتا ہے
وہ زندگی کہ جس کے لیے انسان تمام عمر تگ و دو کرتا ہے۔ اتنی شدید محنت کرتا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دینے کو تیار رہتا ہے۔ زندگی ہے کیا۔ ناپائدار عارضی، بے اعتبار، پھر زندگی پر اختیار بھی تو نہیں۔ مکمل زندگی تو بڑی بات ذرا سی خواہش کے پورا ہونے پر کوئی اختیار نہیں۔ زندگی کو سمجھنے کی خواہش البتہ تمام عمر انسان میں موجود رہتی ہے۔ ؎
مکتبہ ہستی میں مری عمر گزری اور میں
پڑھ رہا ہوں زندگی کو طفلِ مکتب کی طرح
حیات کا تسلسل ما بعد الموت بھی برقرار رہتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے۔ موت، حیات دوام کی نوید ہے یا فنا کی دلیل، موت، غم سے نجات پانے کی گھڑی ہے یا عمرِ ابدی کا تصور پیش کرتی ہے۔ انسان کا انجام موت ہے تو کیا وہ تمام تر عمر موت کے انتظار میں گزارتا ہے۔ زندگی و موت کے فلسفے نے انسانی ذہن کو الجھا کے رکھ رہا ہے لیکن جواب سے ہنوز محروم ہے۔ ؎
حیات و موت کے معنی سمجھ نہیں آئے
نہ جانے کیوں یہ تماشائے ہست و بود ہوا
میری فنا و بقا کا مدار تجھ پر ہے
یہ زندگی تو مری جاں ، گماں ہے نہ یقیں
اک فقیر عشق صہبا ہو گیا آخر خموش
کاسۂ دل میں سمیٹے زندگی بھر کے سوال
زندگی ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے۔ تضادات زمانہ زندگی کی حقیقت کو سمجھنے میں سدِ راہ ثابت ہوئے۔ زندگی غم کی دھوپ بھی ہے اور خوشیوں کی چھاؤں بھی، یہ الگ بات ہے کہ غم کی حکمرانی زیادہ قائم و دائم رہی، اتنی کہ انسان کو غمزدہ و رنجور رہنے کی عادت ہو گئی۔ خوشی کے لمحوں کو بھی وہ خوشی سے گزار نہ سکا۔ ؎
زندگی صرف رنج و غم سے نہیں
بے سبب بھی بہت ملول ہوئی
غم کے خزینے، زندگی کا تحفہ ہیں۔ ؎
ترے غم کی الگ ہے بات ورنہ
مجھے اس زندگی نے کیا دیا ہے
غمِ محبوب اس لیے عزیز ہے کہ وہ اس کا دیا ہوا ہے کہ جس کے انتظار میں قیامت بھی قبول ہے۔ ؎
جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
زندگی کی تاویلیں اور تعبیریں ہر ایک نے اپنے انداز سے پیش کی ہیں۔ صہبا کے نزدیک زندگی زلفِ پریشان کی شکن بھی ہے اور ایک نہ دیکھے جانے والا خوابِ پریشان بھی اور اگلی زندگی کا انتظار بھی کہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی زندگی ہی کہلاتی ہے۔ زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ؎
اے کاروانِ تیرہ شبی، روشنی بخیر
ہر گام ہے غنیمِ اجل زندگی بخیر
موت، جو گردو پیش سے کتنے ہی حسین چہروں کو ایسی وادی میں لے جاتی ہے کہ پھر ان کی یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ بچھڑ جانے والی ہستیوں کا غم، فنا کی گرفت کا احساس، زندہ لوگوں کو بھی موت کے قریب کر دیتا ہے اور اشرف المخلوقات کو احساس بے چارگی عطا کرتا ہے۔ ؎
کتنے خوش رنگ و خوب صورت لوگ
گردِ دامانِ ماہ و سال ہوئے
ستارے اندھیروں میں کھو جائیں گے
یہ چہرے فراموش ہو جائیں گے
تنہائی کا کرب انسان کی قسمت میں ازل ہی ہے رقم کر دیا گیا تھا۔ انسان اکلاپے کے دکھ سے کبھی نجات حاصل نہیں کر پایا۔ ہجر وفراق کی داستانوں نے ہی کلاسیکی اور لوک ادب کو، لازوال شہ پارے عطا کیے ہیں۔ تنہائی ہے کیا چیز۔ فرد دن رات ہجوم میں گھرا رہتا ہے اور اس لمحے کا منتظر کہ جب اس ہجوم سے نکل کر تنہائی میں سکھ کا سانس لے گا یعنی تنہائی، دُنیا کے ہنگاموں سے نجات دیتی ہے۔ فرد ان سے گھبرا کر تنہائی کی آغوش میں پناہ لینا چا ہتا ہے، پھر تنہائی کا اتنا خوف کیوں۔ کسی بھی چیز کی افراط و تفریط، مناسب نہیں۔ وہی انسان جو تنہائی کا ا س لیے خواہش مند ہے کہ وہ اس بھاگتے دوڑتے وقت میں چند لمحے صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے چُرا لے۔ جو وہ سوچنا چاہتا ہے، جو کرنا چاہتا ہے، سکون سے کر لے لیکن جب یہی لمحے طویل ہو جائیں۔ خوب صورت یا دیں بھی جب کرب و اذیت دینے لگیں تو پھر تنہائی اذیت بن جاتی ہے۔ ایسے میں وہ پھر اس پر شور ہجوم کی جانب قدم بڑھاتا ہے، لیکن کیا اس سے تنہائی دور ہو جاتی ہے۔ ؎
کون کرتا ہے کسی کی رُوح میں شرکت یہاں
زندگی تنہا ملی تھی، تنہا رہی
ابنوہِ کثیر میں اجنبیت کا احساس، تنہائی کی شدت میں اضافہ کرتا ہے ہر شخص اپنی اپنی ذات کے حصار میں مقید، زندگی کا سفر طے کر رہا ہے۔ ؎
جرس کیسا، کہاں رختِ سفر، کیا قافلے والے
سر صحرائے تنہائی میں راحل ہوں فقط اپنا
تنہائی کے اسباب کیا ہیں۔ وہ کیا وجوہ ہیں کہ جن کی بنا پر انسان خود کو دوسروں سے الگ سمجھتا ہے۔ شاید انسان کسی پر بھروسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اعتماد کی عدم موجودگی کے باعث وہ اپنے سارے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے۔ دلوں کی اُلجھنوں میں اضافہ کا باعث یہی روّیہ ہے کہ وہ باہم مشوروں کی حدود سے باہر نکل گیا ہے۔ سب اپنے اپنے جزیروں میں ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک ہوئے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ؎
زندگی تنہائی کا گہرا سمندر ہے جہاں
میں بھی اپنے ہی جزیرے میں رہا سب کی طرح
ہم دونوں کے بیچ میں حائل، ساگر تھا تنہائی کا
میں بھی ایک جزیرہ ہوں اور وہ بھی ایک جزیرہ تھی
انسانوں کا ازدحام اور مصروفیات کا انبار بھی فرد کی تنہائی کو کم نہ کرسکا۔ وہ خود کو بے انتہا مصروف رکھتا ہے۔ اس کام کے نتیجے میں اسے مالی آسودگی تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن ذہنی سکون سے محروم رہتا ہے۔ احساس تنہائی لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جاتا ہے۔ تنہائی، مایوسی اور نا آسودگی کے ان کے لمحوں میں جو پھیل کر صدیوں تک اورسمندروں پر محیط ہو جاتے ہیں۔ انسان انتظار کے کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ تذبذب تشکیک اور وہم اسے چین لینے نہیں دیتے۔ کون ہے جو اس کی تنہائیوں کا مداوا کرے۔ صرف ایک شخص اور وہی شخص شاید گھر کا رستہ بھول چکا ہے۔ ؎
آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں
شمعیں جہاں نہ جلتیں آنکھیں جلا چکا ہوں
دن تو کاموں اور ہنگاموں میں گزر ہی جاتی ہے لیکن رات کا کرنا صبح لانا، جوئے شیر کے برابر ہو جاتا ہے۔ ؎
ہم بھی جاگے ہیں بہت عالم تنہائی میں
خوب واقف ہے شبِ ہجر کا تارا ہم سے
تجھ بن فضائے خواب میں کب تک سہے گا دل
شبنم فروش رات کی شعلہ سامانیاں
چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو وہ ازل سے اپنے ساتھ لایا ہے لیکن اس کی یہ آرزو حسبِ منشا پوری ہوئی ہے، جو چاہنا وہ پالینا، ایسے نصیب کم ہی ہیں۔ یہاں تو ہر طرف وہ زہر ناک سناٹے ہیں کہ جوانسان کی روح کو کچل دیتے ہیں۔ جس کی تمنا ہو، وہ کہاں ملتا ہے۔ تمام زندگی ایثار و قربانی کے جذبے نبھاتے ہوئے بھی، وہ کسی دوسرے کے ساتھ، زندگی گزار دیتا ہے لیکن اس طرح کہ وہ خود بھی جدا رہتا ہے۔ ؎
میری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں
جسم و جاں کی آمیزش میں ، کب ممکن یکتائی ہے
تنہائی میں بھی تو حائل، احساسِ تنہائی ہے
تجربے و مشاہدے کی سچائی کو شعر میں منتقل کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ زندگی صرف حسن محبوب سے ہی عبارت نہیں۔ وسائل کی قلت اور مسائل کی کثرت فرد کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اس پراگندگی کو ایک ترتیب میں ، ایک شعر میں ڈھالتے ہوئے شاعر کتنی اذیت سے گزرتا ہے ؎
ہزار درد سمیٹے تو ایک شعر کہا
میں کس طرح کروں اپنے کرب کا اظہار
صہبا کی غزل اسی انفرادی و اجتماعی کرب کی ایک داستان کہتی نظر آتی ہے۔
٭٭٭
صہبا کا اسلوبِ شعر
ادب دو اور دو چار کا نام نہیں اِسی طرح اسلوبی سطح پر بھی کوئی سائنسی فارمولا کار آمد نہیں ہوسکتا۔ ایک ہی شخص، اپنے مزاج کے بدلتے موسموں کے ساتھ اپنے لہجے کی قطعیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہ رنج و الم سے چُور ہے تو اس کا لہجہ، اس کے الفاظ کا انتخاب، اس کے غم کو ظاہر کر دے گا۔ وہی شخص خوش ہے تو مسرت و جوش سے لبریز الفاظ خود بخود اس کے لبوں سے پھوٹیں گے، وہ غصہ میں آتا ہے۔ نفرت کرتا ہے۔ محبت سے سرشار ہوتا ہے۔ کسی کی ہمت بندھاتا ہے۔ کبھی خود ٹوٹ کے رہ جاتا ہے، ہر جذبے اور ہر کیفیت سے مناسبت رکھتے ہوئے الفاظ کے استعمال کا فن اسے معلوم ہے۔ وہی شخص کبھی ایک بات انتہائی سادگی سے کرتا ہے اور کہیں اس کے بیان میں رنگینی و رعنائی پر تصنع کا گمان ہوتا ہے۔ کبھی وہی شخص جو بیانیہ و خطابیہ لہجہ کے لیے مستند سمجھا جاتا تھا، روز مرہ محاورہ جس کی تخلیق کی خصوصیات تھیں ، وہی کسی سیاسی وسماجی ضرورت کے تحت یا اپنی ذات کے مطالبے پر علامت و تجرید سے کام لیتا ہے۔ کبھی بلند آہنگ تو کبھی نرم مدہم دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے۔ کبھی اس کے الفاظ گرجتے سنائی دیتے ہیں تو کبھی سرگوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ صہبا اختر کے شعری اسلوب میں یہ تمام آہنگ موجود ہیں۔ وہ محبت کے شاعر ہیں ، یہ محبت وطن سے ہو، مثبت اقدار سے یا محبوب سے ہو، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پھر ان کے شعر پڑھنے کا بلند آہنگ انداز ان کی انفرادیت کا باعث ہوا۔ یہ لہجہ چونکا تا بھی ہے متاثر بھی کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا محسوس ہوتا ہے کہ میری بہر صورت تائید کرو۔ میرا حکم مانو۔ محبت محبت محبت کرو، اور چونکہ محبت کے وجود سے کس کو انکار نہیں ا س لیے سننے والے شعوری طور پر متاثر و متفق ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے صرفِ نظر کرنا یا نظر انداز کرنا ممکن ہیں نہیں۔
’’صہبا اختر اس عہد کی ایک ایسی معتبر اور ثقہ آواز ہے جس کا اپنا ایک انوکھا اور منفرد تیکھا لہجہ ہے۔ اس میں گھن گرج کے ساتھ ساتھ وہ تڑپ ہے جو اس کے خلوص اور سچائی پر وزن دار دلیل ہے۔ اس آواز کی کاٹ گذشتہ چار دہائیوں سے جہاں ایک طرف اپنا لوہا منواتی آئی ہے۔ وہاں ساتھ ہی ساتھ سننے والوں کو خود احتسابی پر اکساتی رہی ہے۔ ایک سچے، فنکار کی سب سے بڑی نشانی اور علامت ہوتی ہے کہ وہ وقت اور زمانہ کے درد کو اپنے اوپر اس طرح محیط کر لیتا ہے کہ پھر اس کے تار نفس سے ابھرنے والی ہر آواز اس کی آواز نہیں رہتی۔ وقت کا نوحہ اور زمانے کا راگ بن جاتی ہے۔
صہا کا لحن ہمارے عہد کی درد مند آواز ہے۔ انھوں نے عصر کے مزاج کو اس درد مندی کے ساتھ سمجھا ہے کہ ان کا پورا لب و لہجہ ان کے عہد کی پکار بن گیا ہے۔ یہ درد آشوب مجھے اس عہد کی اردو شاعری میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ‘‘ ۱ ؎
’’ادب میں صہبا اختر کی حیثیت ایک نبض شناس دانشور کی ہے لیکن اس کی زندگی اور فن کا دوسرا ہم اور نمایاں پہلو اس کی ادائگی شعر ہے۔ اس ادائگی میں جوش، جذبہ اور ڈراما تینوں چیزیں یکجان ہو جاتی ہیں اور تاثیر کا طوفان برپا کر دیتی ہیں۔ ‘‘ ۲؎
صہبا اس فن سے آگاہ ہیں کہ کون سی بات کس انداز میں کس موقع پر کہی جائے تو اس کی تاثیر دیرپا ہو گی۔ صہبا نے وطن کے لیے، عوام کے لیے لکھا اور جہاں خاص اپنی ذات کو موضوع بنایا ہے وہاں بات سادہ لہجے میں کہنے کی کوشش کی ہے۔ بھاری بھر کم پرشکوہ الفاظ میں شاعری کو معتبر نہیں بناتے۔ معمولی الفاظ میں غیر معمولی تاثیر سمود ینا ہی ہنر مندی ہے۔ شاعر عام لفظوں کو وہ تخلیقی قوت عطا کرتا ہے کہ شعر تہ در تہ مفاہیم سمٹے ہوئے معلوم ہوتا ہے۔ سہلِ ممتنع، اردو شاعری کی ایک ایسی صنعت کہ شعر کے معنی و مفہوم کے لیے جستجو نہ کرنی پڑے بلکہ سنتے اور پڑھتے ہی ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اتنا آسان کہ اسے پڑھتے ہی قاری کہہ اٹھے کہ ایسا شعر تو میں بھی کہہ سکتا ہوں اور پھر کوشش کے باوجود اتنا آسان اور عام فہم شعر کہہ نہ پائے۔ اتنا سادہ کہ نثر معلوم ہونے لگے۔ اتنا آسان کی جس کی تشریح کرنا مشکل ہو جائے۔ صہبا کی غزل، خصوصاً مختصر بحر کی غزلوں میں سہلِ ممتنع کی مثالیں موجود ہیں۔ ؎
شعر کو زندگی سمجھتا ہوں
سانس رک جائے جو قلم ٹھہرے
’’صہبا اختر کا اسلوب تصنع اور تکلف سے مبرا ہے۔ ان کا اندازِ بیان سادہ اور روزمرہ کے قریب تر ہے۔ ایک کھرے شاعر کی حیثیت سے ان کے احساس جمال اور داخلی آہنگ کی لے اپنی ہم عصر آوازوں سے قدرے تیز اور پُر اثر ہے۔ ‘‘ ۳؎
’’صہبا اختر کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنے نغموں کے لیے ایسے الفاظ اور ایسی تراکیب کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو عوام اور خواص دونوں سے سند مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ ‘‘ ۴؎
شعر کی بنت، ساخت، رنگ ڈھنگ، الفاظ و کلمات کا اندرونی آہنگ اور مناسبت، ہنر مندی اور جگر کای کا تقاضا کرتے ہیں۔ دماغی محنت، تفکر اور لفظوں کا بار بار انتخاب، شعر کو بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی خواہش میں شاعر ہمہ وقت ذہنی طور پر مصروف رہتا ہے۔
کیا سمیٹے گا وہ شاعر گلشنِ ہستی کے رنگ
کھا گیا جس کے قلم کو سہل انگاری کا رنگ
جذبات و احساسات اور حقائق و واقعات کا بیان اس شاعر کے لیے کٹھن نہیں جو الفاظ کے صحیح استعمال سے واقف ہو اور جذبے یا واقعہ کی اصل روح سے متعارف بھی ہو۔ مفہوم و معنی کی تمام پرتیں اس پر واضح ہوں۔ شاعر اپنے جذبہ و احساس، واقعات و تجربات میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے شعر کہتا ہے۔ کبھی فی البدیہہ، کبھی کچھ عرصہ ٹھہر کر اور کبھی اس حادثے یا وارداتِ قلبی و دنیاوی کے بیان میں سالوں کا وقفہ درمیان آ جاتا ہے اور پھرا س کی تخلیق بہترین ماہیت میں صفحہ قرطاس کی زینت بنتی ہے۔
راکھ ہو جاتا ہے صہبا دل سرنجدِ خیال
یونہی لیلائے سخن کب ہاتھ آتی ہے میاں
صہبا کا شعری اسلوب اور ڈکشن کا انتخاب اکثر موضوعِ بحث رہے ہیں۔
قمر جمیل روزنامہ جنگ فورم کے تحت ہونے والے مذاکرے میں اس حوالے سے کیے گئے سوال کا جواب یوں دیتے ہیں :
’’فنی اعتبار سے تو انھوں نے بڑی بحروں میں خوبصورت شعر لکھے ہیں۔ کہیں وہ عام ڈکشن بھی استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جیسے چلے ساقیا دورِ ساغر چلے، میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ صہبا صاحب پر جوش ملیح آبادی کا اثر تو ضرور ہے لیکن وہ اپنا الگ رنگ نکالتے ہیں اور اس سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ نظموں اور غزلوں کا ڈکشن اپنے تصرف میں لاتے ہیں۔ عام طور پر نظموں کا جو ڈکشن رہا ہے، وہی صہبا اختر استعمال کرتے ہیں یہ ڈکشن وہی ہے جو اختر شیرانی اور احسان دانش وغیرہ نے اختیار کیا۔ یہ ڈکشن راشد اور میراجی والا نہیں ہے۔ صہبا کے ہاں منظر کشی کی بہتات ہے۔ ان کا تخیل بہت طاقتور ہے جو نئی نئی شکلوں میں آ جاتا ہے۔ عوام کے دکھ بھی ان کے یہاں ملتے ہیں۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے کیا شاعری بول چال کی زبان ہے یا پھر فارسی تراکیب پر مشتمل ہے۔ صہبا کا معاملہ بین بین ہے۔ یعنی عوامی بول چال سے قریب بھی ہیں اور فارسی تراکیب میں بہت زیادہ ڈوبتے بھی نہیں۔ ‘‘ ۵؎
صہبا متنوع اسالیب میں متنوع موضوعات رقم کرتے ہیں۔ پھر صہباپُرگو شاعر ہیں۔ ان میں صلاحیت ہے کہ وہ ایک مضمون کو سورنگ سے باندھنے کا ڈھنگ بخوبی جانتے ہیں۔ سرشار صدیقی ان کی اس صفت کے متعلق کہتے ہیں :
’’صہبا اختر کمال کا آدمی ہے کہ مطمئن نہیں ہوتا۔ طویل نظم لکھنے کے باوجود اسے کہا جائے نظم کو مزید بڑھا دو تو وہ اتنی ہی بڑی نظم کا اضافہ کر دے گا۔ دراصل وہ اس قدر بھرا ہوا ہے کہ مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پاس جذبے کی فراوانی ہے۔ الفاظ کی فراوانی ہے اور موضوع کے تمام گوشوں سے اس کی واقفیت اور جان پہچان ہے۔ ایسا آدمی جو موضوع کے اندر اور باہر دونوں سے اس قدر واقف ہو تو موضوع کو پھیلا کر بات کر سکتا ہے۔ یہ دسترس رکھنا بھی اسی طرح ایک فن ہے۔ جیسے اختصار نویسی یا کم گوئی فن ہوتا ہے۔ ‘‘ ۶؎
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، صہبا کے اسلوب اور ڈکشن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ جوش ملیح آبادی کے اسکول اور ان کے اسلوبِ فن سے قریب ہیں لیکن اپنا الگ راستہ بناتے ہیں۔ ان کی شاعری کو خطابت کہا گیا ہے تو اس میں خطابت میں ہے، سرگوشی بھی ہے۔ قومی شاعری حالی، اکبر اور اقبال نے بھی کی ہے اور اس کے بعد طویل خاموشی۔ صہبا کی ذات میں اور جو کچھ ان کے گرد و پیش میں ہو رہا ہے اس میں دوئی نہیں ، یکتائی ہے اس لیے اس کے کلام میں زور بھی ہے اور اثر آفرینی بھی… یہ وہ عناصر ہیں جو شاعری کو تا دیر زندہ رکھتے ہیں۔ ۷؎
صہبا کی شاعری میں روز مرہ اور محاورے کا لطف پایا جاتا ہے۔ روزمرہ کے استعمال سے شعر میں بے ساختگی اور بے تکلفی کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔ روزمرہ اپنے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کلام نظم و نثر میں روزمرہ کی پابندی کم ہو گی۔ وہ وضاحت سے اتنا ہی دور ہو جائے گا۔ اسی طرح محاورہ اپنے مجازی معنوں میں مستعمل ہے۔ نظم ہو یا نثر، روز مرہ کی پابندی تخلیق کار کے لیے لازم ہے جبکہ محاورہ تحریر کے حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ عبارت کے حسن کے لیے شرط اعتدال و توازن کی ہے۔ محاورے کا مناسب استعمال تحریر یا شعر کے حسن کو بڑھانے ہی ہیں بلکہ اس میں تاثیر پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ شاعر کا محاورہ نظم کرنے کا شوق بسا اوقات شعر کو لے ڈوبتا ہے۔ نظم و غزل کے اشعار میں محاورہ یوں در آئے کہ قاری کو بھی محسوس ہو کہ بات اس کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔ شعر کو بلند درجہ عطا کرتا ہے۔ روزمرہ محاورے کا استعمال اگر سلیقے اور ہنر مندی سے کیا جائے تو زندگی کی حالتوں اور کیفیتوں کی تصویر کشی سے شعر میں حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ محاورہ کا استعمال شعر کو بول چال کی زبان سے قریب کر دیتا ہے۔ لطیف احساسات کو کم الفاظ میں بیان کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یوں شعر میں محاکاتی خوبیاں واضح ہو جاتی ہیں۔ محاورے کے برجستہ استعمال سے ایجاز و اختصار کی صفت سامنے آتی ہے۔ یاد رہے کہ اختصار کا مطلب جامعیت ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ تخلیق کار جو کہنا چاہتا ہے۔ اس سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔ اگر صورتِ حال برعکس ہو تو بات سطحی ہو گی۔ ؎
کیا بجھائیں گے دل ناداں و ہ تری تشنگی
آگ پانی میں لگا دیں جو لبانِ شعلہ رنگ
جہاں کے نیک و بد کو دیکھتا ہوں چار سو لیکن
خود اپنے ہی گریبان میں نہ جھانکا جائے ہے مجھ سے
شعر مختلف لہجوں میں کہا جاتا ہے۔ نرم، ملائم، دھیما، شائستہ لہجہ اور کبھی سخت کرخت اور درشت لہجہ، اس کا تعلق شاعر کے بدلتے مزاج سے بھی ہے کہ کبھی اس کا دل محبت سے لبریز ہے تو کبھی نفرت سے، کبھی ندامت کا شکار ہے تو کبھی اذیت کا۔ کبھی خود ستائی کے رنگ میں رنگا ہے تو کبھی خود کو حقیر تصور کرتا ہے۔ یہ ساری کیفیات اس زندگی میں موجود ہیں۔ وہ مختلف لہجوں میں مختلف انداز میں ، اپنی بات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ کبھی وہ نامانوس اور اجنبی الفاظ استعمال کر کے زندگی کی بے معنویت اور لایعنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے تو کبھی مشکل اور پیچیدہ الفاظ کے استعمال سے زندگی کی پیچیدگی اور مسائل کے حل نہ ہونے والے انبار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کبھی اس کا لہجہ عام فہم ہوتا ہے۔ وہ ایک مخصوص طبقے کے لیے شعر نہیں کہتا بلکہ اس کے مخالف عوام ہیں۔ صہبا اختر ان شاعروں میں سے ہیں کہ جنھوں نے عوام کے لیے لکھا، عوام کے لیے ہی پڑھا۔ اور عوام نے انھیں پسند کیا۔ صہبا اختر کی خواہش صرف یہ رہی کہ قاری اچھے ہوں ، یعنی عوام کا ذوق بہتر سے بہتر ہو، یہ کام شاعر ہی کرسکتا ہے:
’’… غزل کا تاثر ایک اچھے قاری پر ہی قائم ہوتا ہے، جو زندگی کے اس تجربے یا ان تجربات سے گزارا جو غزل میں موجود ہوں۔ صرف وہی شخص غزل میں ان کہی باتوں سے محفوظ ہوسکتا ہے جو خود ان کیفیات سے گزرا ہو میں تو میرکی طرح عوام سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
؎ شعر مرے ہیں گو خواص پسند۔ پر مجھے گفتگو عوام سے ہے… اور طول کا کلام کا مسئلہ بھی وہی ہے، میر صاحب دالا کہ
؎ عیب ِطولِ کلام مت کر یو کیا کہوں میں سخن سے خوگر تھا۔ ‘‘ ۸؎
’’ میں شاعری میں ایک مردانہ آہنگ کا قائل ہوں۔ اوئی اللہ اور منہ بسورنے والی نسائی شاعری مجھے ناپسند ہے۔ میں لب ورخسار کی عظمت کا قائل ہوں لیکن غم روزگار کے بھی اپنے تقاضے علیحدہ رکھتا ہے۔ میں شاعری میں بے جا انکسار کا بھی قائل نہیں ہوں۔ اس کے علاوہ میں شاعری کو جذبے کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر لفظوں کا کھیل سمجھتا ہوں۔ جس کے پاس لفظ نہیں ہوں گے۔ وہ شاعر خواہ کتنے ہی اچھا خیال رکھتا ہو۔ ان کا اظہار پوری طرح نہیں کرسکتا۔ دُنیا کے کسی بھی شاعر کو دیکھ لیجیے۔ ہر عظیم شاعر جسے ہم Major Poet کہتے ہیں۔ آپ اسے ضخیم اور عظیم ذخیرہ ٔالفاظ کا مالک پائیں گے۔ اٹھارہ لفظوں کے شاعر کبھی بڑے شاعر نہیں بن سکتے، اس طرح اصناف سخن سے زیادہ ’’سخن‘‘ کا قائل ہوں۔ شاعری میں فارم یا ہئیت ثانوی درجہ رکھتی ہے۔ اصل اور بنیادی چیز شاعری ہے۔ تاہم ہر خیال اپنا پیرایۂ یہ اظہار بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے شاعری میں جملہ اضاف سخن سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ورنہ خیال اور اظہار میں جھول رہ جائے گا۔ ‘‘ ۹؎
صہبا اصناف سخن سے زیادہ سخن کے قائل ہیں کیونکہ وہ فارم یا ہیت کو ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ صہبا کی نظم میں لامحدود ڈکشن کا احساس ہوتا ہے، البتہ غزل کلاسکیت و روایت سے گہرا ربط ہونے کی بناء پر بیشتر انھی دائروں میں سفر کرتی ہے جو متقدمین ومتاخرین نے وضع کیے تھے۔ فیض کی شعری لغت بھی قدیم کلاسیکی الفاظ، استعارات و علامات سے تشکیل پاتی ہے چنانچہ زنجیر قفس صیاد، گلچیں ، باغباں ، دستِ صبا کو نئے مفاہیم عطا کیے۔ صہبا کی غزل میں بھی مے و میخانہ سے متعلق ساغر، خمار، سبو، جام، شراب، نشہ، گل و گلشن سے متعلق، خزاں ، کنجِ بہار، یاران گل نفس، گلشنِ چراغ کی علامات و تراکیب کو نئے انداز سے مستعمل ہیں۔ ؎
چھیڑے ہوئے بہار نے کچھ سلسلے تو ہیں
پھر کچھ پیام ان کے صبا سے ملے تو ہیں
تضاد، پہلی نظر میں یہ لفظ منفی اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اسی سے زندگی کا حسن اور دلچسپی قائم ہے کہ یکساں ماحول، یکساں حالات، ایک سا موسم اور ایک سا وقت انسان کو اکتاہٹ عطا کرتے ہیں۔ متلون مزاج انسان ہمہ وقت تنوع اور تبدیلی کا خواہش مند اور متلاشی رہتا ہے۔ اسے صبح ہی سے شام کا انتظار رہتا ہے۔ یہی کیفیت اور روّیے شاعری میں بھی نمایاں ہیں۔ صنعت ِتضاد سے شاعر زندگی کے مختلف رخوں کی عکاسی کرتا ہے۔
’’صنعتِ تضاد شعر میں ایسی چیزوں کا جمع کرنا جو ایک دوسرے کی ضد ہو، نہایت پراسرار صنعت ہے اور جہاں جہاں مختلف کیفیات کا بعد دکھانا مقصود ہوتا ہے یا مختلف واردات کے ابواب و فصل سے بحث ہوتی ہے۔ وہاں اس صنعت سے کام لیتے ہیں کہ ذہن خود پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اجتماع ضدین محال ہے اور اس کے بعدانسانی فطرت کی اس خصوصیات سے آگاہ ہوتا ہے کہ انہونی چیزیں ہو جاتی ہیں۔ اس صنعت کے استعمال سے تاثر کی جو شدت ہم تک منتقل ہوتی ہے۔ اس کی بے پناہی کا ٹھکانا نہیں۔ ‘‘ ۱۰؎
زندگی کے گزارتے روز و شب، اثبات و نفی، رنج ومسرت کی دھوپ چھاؤں۔ بہار و خزاں ، صبح و شام، کے استعاروں کو متضاد مفہوم میں استعمال کرتے ہوئے شاعر نے اپنے تجربات اور احساسات رقم کیے ہیں ؎
کہیں ستارے اڑاتی پھرتی ہے رات جہاں
اجاڑ دن لیے پھرتا ہے مٹھیوں میں دھول
ہیں خزاں بر دوش ہو کر بھی بہاروں کے سفیر
کیا خزانے بانٹتے ہیں کوچۂ فن کے فقیر
ایک ہی شعر میں کئی متضاد الفاظ کے استعمال سے زندگی کے حقائق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیک وقت کتنی کیفیات اور رویے اس جسم خاکی میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کی وضاحت بھی کی گئی۔
ہر روز اک وجود و عدم کا یہ سلسلہ
ہر صبح اک ازل ہے، ہر اک شام اک ابد
تضاد کے رنگوں سے صہبا نے اپنی طبعیت و مزاج کی کیفیات واضح کی ہیں۔ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ نیکی و بدی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ خود کو ہمیشہ مثبت خوبیوں کا حامل جانتا ہے اور منفی خصوصیات کا اعتراف نہیں کرتا۔ صہبا کے ہاں صورتِ حال برعکس ہے۔
میں اضطراب کا عادی ہوں اس قدر صہبا
سکون ہو تو طبعیت مری بحال نہ ہو
مجھ میں سکونِ خیر بھی، طوفانِ شر بھی ہے
صہبا میرے وجود کا حصہ ہیں نیک و بد
تشبیہہ واستعارے، علامت و اشاریت اور رمز و کنائے کا استعمال شعر کے حسن میں اضافے کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود اپنے جذبات کا بہتر اور منفرد ابلاغ بھی ہے۔ کلاسیکی شاعری سے وابستگی کے باعث صہبا کی تشبیہیی اور استعاراتی فضا، گل و بلبل اور بہار و خزاں کی روایت سے ہم آہنگی نظر آتی ہے، لیکن فرسودگی و پامالی کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ شاعر کے جذبے کی صداقت اس میں موجود ہے۔ صہبا نے شعر کے رنگ و آہنگ اور حسن و خو ب صورتی میں تشبیہ کا نادر استعمال اسے اضافہ کیا ہے ؎
ہنسی جب پھول سے بچوں کی اشرفیاں ہ لٹاتی ے
کہاں ہے ساری دنیا کا خزانہ بھول جاتا ہوں
کچھ ایسی جگمگاتی گفتگو کرتی ہیں وہ آنکھیں
ستاروں کی لغت کے لفظ و معنی بھول جاتا ہوں
شعر کے حسن بیان میں تلمیح کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ کسی تاریخی، سماجی، مذہبی، سیاسی واقعے، حادثے یا صورت حال کو چند ایک الفاظ میں بیان کر دینا، کہ پورے واقعے کی یاد تازہ ہو جائے اور موجودہ صورت حال سے مطابقت اور مماثلت کے باعث قاری زیادہ واضح انداز میں بات سمجھ جائے۔ گفتگو میں ، نثر میں یا شعر میں کسی بھی قرآنی یا دیگر الہامی کتب کے حوالے، حدیث نبویؐ، کسی اساطیری و دیومالائی قصے، تاریخی و تہذیبی وسماجی واقعہ یا کردار کی نشاندہی چند ایک الفاظ میں کر دینا، تلمیح ہے۔ تلمیح دور از کار نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق اجتماعی حافظے سے ہوتا ہے۔ بات آب حیات کی ہو یا طوفان نوح کی برادران یوسف کی ہو یا جوئے شیر کی۔ جہاں بھی انھیں استعمال کیا جائے گا۔ قاری موجود واقعے کو مد نظر رکھتے ہوئے فوراً جان جائے گا کہ تخلیق کار کیا کہنا چاہتا ہے۔ تلمیح قرآنی آیت سے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور اکابر کے قول سے منسلک بھی۔
حضرت علی کا مشہور قول ہے کہ ’’ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے۔ ‘‘
صہبا اختر اس انسانی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس میں آج انسان مبتلا ہے۔ شاید اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں ؎
رہا میں ظلم پہ خاموش تو کھلا صہبا
کہ ظالموں کی قطاروں میں ایک میں بھی ہوں
حضرت علی کی شجاعت اور ان کی دو دھاری تلوار ذوالفقار کا ذکر ایک نہیں مختلف حوالوں سے ہوا ہے۔ حضرت علی کی تلوار نے بے شمار کافروں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ حضرت علی کی شجاعت کے باعث خیبر کا ناقابل تسخیر قلعہ فتح ہوا۔ حضرت علی باب علم بھی کہلائے۔ صہبا اختر، حضرت علی مشکل کشاسے مدد کے طلب گار ہیں۔
تابش میرے علم میں نہیں ذوالفقار کی
خیبر ہے لفظ لفظ مجھے، یا علی مدد
واقعات کربلا سبھی کے ذہن میں تازہ ہیں۔ یزید کا حضرت امام حسین ؓ سے بیعت کے لیے اصرار۔ حضرت امام حسین ؓ کا انکار۔ چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کی صحیح صورت حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانگی۔ ان کا راہ ہموار دیکھ کر حضرت امام حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دینا۔ حضرت امام حسین ؓ کا سفر کوفہ۔ راستے میں عرب کے مشہور شاعر فرزوق سے ملاقات اور اس کی آپ کو تنبیہ۔ کوفے والوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں ، مگر ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں نہ اٹھیں گی۔ صہبا اختر اسی حوالے سے حق پر ثابت قدم رہنے کا یقین رکھتے ہیں۔
سو میرا دل بھی ہے، تلوار بھی حسین کے ساتھ
کہ میری رُوح کا رشتہ ہے حق پرستی سے
تلمیح کے چند ایک الفاظ قاری کے ذہن میں ایک مکمل سماجی سیاسی تہذیبی یا مذہبی واقعہ کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ یوں عصرِ موجود میں رہتے ہوئے وہ صدیوں پرانے عہد سے رابطہ برقرار رکھتا ہے۔ زمانہ تہذیبں مٹا سکتا ہے۔ تاریخ نہیں اور یہی تاریخ تلمیحات کی صورت میں زیادہ سہل اور دل کش انداز میں قاری کے ذہن میں اپنی یاد تازہ رکھتی ہے:
’’تلمیح کے استعمال سے جو ہمارے ذہن میں تصورات و افکار کا ایک وسیع سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہ امتداد زماں بعض الفاظ و کلمات میں ایسی دلالتیں پیدا ہو جاتی ہیں یا ان سے ایسی کیفیات واضح ہو جاتی ہیں کہ تلمیحی اشارے سے متعلقہ کوائف افکار کے تمام پہلو ہماری نظروں کے سامنے اُبھر آتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح رمز و ایما اور اختصار پیدا ہوتا ہے جو شعر کی اور بالخصوص غزل کی جان ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
ہر فرعونے را موسیٰ، ہر عہد میں ظالم و جابر حکمران بھی موجود رہے ہیں اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے بے باک نڈر شجاع انسان بھی۔ ظلم بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لیکن تابہ کے۔ ایک نہ ایک روز ظالم کا غرور پامال ہو کر رہتا ہے۔ اس پامالی میں صرف کسی ایک کا ہاتھ ہو یا حالات و واقعات کا، فنا اس کا مقدر ہے ؎
میں نہیں موسیٰ مگر یہ علم ہے مجھ کو ضرور
منتظر ہے ہر نئے فرعون کا سیلاب نیل
اور انھی کے ہاتھوں اس کا خاتمہ ہوا۔ حق و باطل کا ایک ایسا ہی معرکہ حقیقی باپ بیٹے کے درمیان ہوا۔ آزرِ بت تراش ابراہیم بت شکن۔ صہبا اختر تخلیق فن کے حوالے سے ان تلمیحات کو کس دلکشی سے اعتبار بخشا ہے۔
کس آزرانہ سحر کا مالک ہے دستِ فکر
جس حرف کو چھوا اُسے رشکِ صنم کیا
اس لیے دیوان میرا بن گیا گلزار عشق
میں سُخن کی آگ میں پھینکا گیا مثلِ خلیل
باطل کی کثرت ہمیشہ سے ہی حق کو محدود جان کر اسے فنا کرنے اور فتح یاب ہونے میں کوشاں رہی ہے لیکن بے خبر وہ نہیں جانتے کہ روشنی کی ایک کرن تاریکی کی گھنیری چادر کو لمحہ بھر میں چیر کر رکھ دیتی ہے پھر حق و صداقت کا ساتھ تو خود ربِ جلیل بھی مختلف معجزوں کی صورت میں دیتا رہا ہے۔ ؎
کعبہ حق و صداقت، ڈھا نہیں سکتا کبھی
ابرہہ زادانِ دُنیا، لشکر اصحابِ فیل
انسان کے خمیر میں یہ بات رچی بسی ہے کہ اُسے جس کام سے روکا جائے۔ اس کی کشش اس کے لیے بڑھتی ہی رہتی ہے۔ سودوزیاں سے بے نیاز وہ انھی کاموں کی تجدید چاہتا ہے جس سے گریز کرنے کو کہا گیا۔
جس کی ترغیب حسیں تھی باعث ترکِ بہشت
خاک پر بھی حاصلِ جنت وہی حوا رہی
بہشت سے ہوئے محروم جس کے عشق میں ہم
بہشت پھراس حوا کے نام لکھتے ہیں
انسان کی ذہانت کی پیمائش اس کے ذوقِ تجسس اور تلاش و جستجو کے عمل سے کی جاتی رہی ہے۔ انسان کے ذہن میں خالقِ کائنات، تخلیقِ کائنات، اشرف المخلوقات اور کائنات کے ان گنت اسرار و رموز سے متعلق مختلف سوالات پیدا ہوتے رہے ہیں ، جن کے جوابات کی تلاش کے لیے وہ ہمہ وقت متحرک و متجسس رہتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہرانسان کے ذہن میں اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق یہ سوالات اُٹھتے ہیں۔ وہ ان جوابات کی کھوج میں مصروف رہتا ہے۔ اسی سے اس کی ذہانت کی سطح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تخلیقی ذہن رکھنے والا انسان، سوالات کے ازدحام میں ہر دم گھرا رہتا ہے۔ میر ہوں یا غالب انسان کے شعور سے اُلجھتے ہوئے سوالوں سے نبردآزما رہے یہ سوالات مادی حوالوں سے بھی اُبھرتے ہیں اور ان کا تعلق ماورائی حقیقتوں سے بھی ہے۔ انسان ان سوالوں کی وضاحت چاہتا ہے ان سوالات کے لیے عقائد مذاہب، معاشرت، سیاست، تہذیب کی پابندی ضروری نہیں کسی بھی حوالے سے سوال سامنے آ سکتا ہے۔ فرد اس معاشرے سے منسلک ہے۔ گرد و پیش کی زندگی کے بارے میں ، موت، خدا اور کائنات کے حوالے سے بے شمار سوالات اس کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی شاعر کے کلام کا جائزہ لیجیے۔ فرد کہیں وہ سوالات اُٹھاتا ہے تو جوابات بھی خود ہی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن استدلال و براہین کے ساتھ بات کرتا ہے جو دعویٰ کرتا ہے اس کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے اور کہیں عام اور سادہ انداز میں سوال اُٹھاتا ہے۔
کون، کب، کیوں ، کیونکر، کیسے، کس نے، کیا، کدھر، کب تک، کس طرح، کہاں یہ تمام الفاظ استفسار کے لیے لائے جاتے ہیں۔ صہبا اختر کی غزل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بڑی تعداد میں ان اشعار کی جلوہ گری ہے کہ جن میں استفہامیہ کیفیت موجود ہے۔
کون کا لفظ ذی روح کے لیے مستعمل ہے۔ بطور ضمیر شخصی کلام میں برتا جاتا ہے۔ صہبا نے اپنی ذات کی تنہائی کے حوالے سے، سوال اُٹھایا ہے۔ ؎
کون کرتا ہے کس کی رُوح میں شرکت یہاں
زندگی تنہا ملی تھی، زندگی تنہا رہی
کون سنتا ہے مری آواز کو میرے سوا
پتھروں کے درمیاں رنج سماعت کیا کروں
میری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں
کیا، کا لفظ غیر ذی رُوح کے لیے برتا جاتا ہے۔ کائنات کے خارجی پہلوؤں اور ذات کے داخلی جذبوں ، سبھی کا احاطہ کرتا ہے۔ ؎
خواب کیا دیکھوں کہ صہبا جاگتے لمحوں کے ساتھ
میری آنکھوں نے سہی ہے خواب آزاری بہت
ترے غم کی الگ ہے بات ورنہ
مجھے اس زندگی نے کیا دیا ہے
جلائے گا کیا شعلہ دل انھیں
کسی دن ہم ہی خاک ہو جائیں گے
پھر کیا کا لفظ مایوسی و محرومی کے لیے مستعمل ہے اور طنز کے طور پر بھی برتا جاتا ہے۔ ؎
کیا جانیں سچ کی قیمت وہ کاذبانِ دُنیا
جو شب کی تیرگی میں سورج کو تولتے ہیں
صہبا ترے شعروں سے کیا زیست کی حالت بدلے گی
سب نے لہو روتے کاٹی ہے کیا غالب کیا میر یہاں
کب اور کب تک زمانے کا تعین کرتے ہیں۔ ظرفِ زماں کو ظاہر کرنے والے یہ الفاظ شاعر کی یاس و اُمید کی متضاد کیفیتوں کو عیاں کرتے ہیں۔ ؎
کب ادا ہو گی بتا، اے صرصر دشت خیال
تشنگی جو قرض تجھ پر صورت دریا رہی
اظہار اور سکوت میں کب تک یہ دُشمنی
سینے میں گھٹ گئے نغمے شنیدنی
یہ اندھیرے اپنی قسمت، وہ اُجالے ان کا حق
کب ادھر آتی ہیں صبحیں ، کب ادھر جاتی ہے رات
کہاں اور کدھر کے الفاظ مقام کے تعین کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ظرف مکاں کے طور پر برتے جانے والے یہ الفاظ ارض و سماں ، بحر و بر، کسی بھی مقام کے لیے مستعمل ہیں۔ کہاں کا استعمال صہبا نے وقت اور مقام دونوں کے باہم ارتباط سے کس خوبی سے کیا ہے۔ ؎
گزرے وقت کی صورت کہاں گزرنا تھا
ہمیں تو کوچۂ محبوب میں ٹھہرنا تھا
سلگ رہی ہے ترے گیسوؤں کی رات کدھر
برس رہا ہے ستاروں کا آبشار کہاں
کہاں کا لفظ شاعر کی خود فراموشی و بیگانگی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی برتا جاتا ہے۔ ؎
شب درد سے شب ماہ تک، دلِ شب گزار کو کیا خبر
کہاں تیرگی نے جگا دیا، کہاں چاندنی نے سلا دیا
ضروری نہیں کہ سوال انسان ہی سے کیا جائے خالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ سوال و جواب کے ذریعے بھی قائم کیا جاتا ہے۔
ہے نفس نفس میں بھی وقفہ اجل یا رب
کیوں وجود جاں میں ہے تو نے یہ عدم رکھا
کتنی، کیوں ، کس، کیونکر، کیسے، کس طرح، کس واسطے یہ سبھی استفہامیہ الفاظ شاعر کے متجسس ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔ ۱۲؎ ؎
کسے خبر کہ ستاروں پہ کیا گزر جائے
اگر زمین نے بھی قرب آسماں چاہا
حیات و موت کے معنی سمجھ نہیں آئے
نہ جانے کیوں یہ تماشائے ہست و بود ہوا
کس طرح چاکِ دل سیا جائے
وہ نہیں ہے تو کیا کیا جائے
یہ دعائیں کس لیے، کس کے لیے
سو گیا ہے جیسے مقدر سو رہو
استفہام سے کلام میں ایجاز و اختصار، تاثر اور دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ استفہامیہ انداز شاعر کی دلی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے۔
صہبا نے استفہامیہ انداز تجاہل عارفانہ کے لیے بھی اختیار کیا ہے۔ یعنی سبب کے معلوم ہونے کے باوجود بھی، یہ ظاہر کرنا کہ انھیں علم نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ موت کا بے رحم ہاتھ رفیقانِ دل و جان کو فرد سے دور کر کے رکھ دیتا ہے لیکن صہبا پھر بھی یہ سوال کر دیتے ہیں۔ ؎
صدائیں دیتا ہے صہبا، چراغِ لوح و قلم
کہاں گئے وہ رفیقانِ نیم شب میرے
شاعر حُسنِ محبوب کی کشش سے آگاہ ہے لیکن تجاہل برتتا ہے۔ ؎
کن حسین زلفوں کی خوشبو کھینچ لیتی ہے اسے
چاند کی محفل سے اُٹھ کر کس کے گھر جاتی ہے رات
بغیر کسی کلمہ، استفہام کے بھی صرف لب و لہجہ سے سوال قائم کیا جاتا ہے۔ کہیں صنعت سوال و جواب سے کام لیا گیا ہے۔ ؎
کیوں دل نے خیر مقدم برگ و سمن کیا
شاید بہار بھی تری آمد کا نام ہے
کتنی آوازوں کا سنگم ہے میری آواز میں
مجھ میں صہبا گونجتے ہیں جوش و اقبال و نظیر
کہیں فخر و انانیت اور تعلیٰ کے لیے حرف استفہام سے مدد لی جاتی ہے۔ ؎
کاش وہ دیکھ سکے آ کے سرشام غزل
کیا میرے فن کے چراغوں نے ہوا باندھی ہے
کسی سے رشتہ فکر و نظر نہیں ملتا
میں آدمی بھی عجب، شعر بھی عجب میرے
ان کو میرے علوئے سخن سے ہے کیوں حسد
ماچس کی تیلیوں کے برابر ہیں جن کے قد
کیا میرے انتخاب کو دنیا کرے گی رد
میں اپنی پختگی نظر سے ہوں مستند
کہیں طنزواستہزا کے لیے، کسی کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد ؎
دولت درد فقیروں کے لیے ہے مخصوص
کسی کم ظرف سے کیسے سنبھالی جائے
کہیں بے بسی و بے چارگی مجبوری و لاچاری کی کیفیت ظاہر کرنے کے لیے ؎
جلائے گا کیا شعلہ دل انھیں
کسی دن ہمیں خاک ہو جائیں گے
مجھے یہ غم ہے کہ کس پر بلائیں ٹوٹیں گی
رہِ حیات میں مجھ سے شکستہ حال کے بعد
صہبا کے کلام میں استفہامیہ انداز میں کہی گئی غزلوں کی بھی کمی نہیں۔
یہ غزلیں شاعر کے غور و فکر، استعجاب، بیم و رجا کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ سوال کہیں صرف سوال ہے۔ کہیں تعجب کا اظہار ہے تو کہیں باطل قوتوں اور شر کی نفی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ طویل بحر میں کہی گئی استفہامیہ ردیف کی غزل میں حیات و کائنات سے متعلق مختلف سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ ؎
صہبا کی کئی خوب صورت غزلیں استفہامیہ قافیہ و ردیف میں کہی گئی ہیں۔ ؎
ع جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
ع تیرے بغیر سمن ہائے مشک بار کہاں
ع غزال چشم نہ ہوں تو غزل شعار کہاں
ع کون ہے صہبا خریدار متاع فکر و فن
ع کم نظر دُنیا میں یہ خوابوں کی دولت کیا کروں
حیات بعد از حیات کی جستجو کرنے والا شاعر، جب زمان و مکان کے فلسفے اور کائنات کے مظاہر پر غور کرتا ہے تو اس پر منکشف ہوتا ہے۔
ازل سے شامِ ابد تک زمانہ کچھ بھی کہے
مجھے تو ایک ہی لمحہ دکھائی دیتا ہے
فاصلے دو جہاں کے کم ٹھہرے
اب کہاں فکر کا قدم ٹھہرے
زمانے کا تسلسل، مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ نیا زمانہ نئے جہان میں فرد کائنات میں ہونے والی بوالعجبیوں پر تحیّر و تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان جوابات کی تلاش میں وہ تشکیک، تذبذب، انبساط و مسرت، غم و رنج، احتجاج و جھنجلاہٹ، متنوع جذبات سے گزرتا ہے لیکن سوال کا واضح جواب حاصل نہیں کر پاتا۔ ؎
جو دُنیا بظاہر ہے صدیوں پرانی
اگر ہے تو کچھ ثانیوں کی کہانی
کیا جدید و قدیم ہیں صہبا
وہ جو دیروز تھا وہی امروز
ماضی و حال اہم سہی، بلکہ شاعر تو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کی خواہش کرتا ہے جبکہ صہبا:
شریکِ محفل آئندگان ہوں
میں اپنی عمر سے آگے رواں ہوں
صہبا امروز و فردا کے شاعر کی حیثیت سے، زندگی میں ہونے والے تجربات و مشاہدات کا بیان اشعار میں کرتے ہیں لیکن یہ تجربہ صرف ایک فرد کا تجربہ نہیں رہتا۔ اس لیے کہ اس تجربے سے علم و شعور حاصل ہوتا ہے۔ ان مسائل سے آگاہی ہی ہوتی ہے جس سے معاشرے کے ہر فرد کا واسطہ پڑتا ہے۔ ان مصائب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جس میں آج کا انسان مبتلا ہے۔ ان مسائل کا تعلق مادیت سے بھی ہو سکتا ہے اور روحانیت سے بھی۔ اگرچہ وہ صرف اپنی ہستی کے بارے نہیں سوچتا۔ تب بھی ہزار سوالات اسے اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ یہ وہی سوالات ہیں جو ہر ذہن میں اُٹھتے رہے ہیں۔ وجود و عدم وجود کیا ہے۔ ہستی محض وہم اور طلسم خیال ہے یا انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باعث کسی منفرد و ممتاز مقام کا مالک ہے۔ ہست و بود کے بارے میں عقلی و منطقی دلائل مرتب کرنا سہل نہیں۔ ان تمام سوالات کا رد عمل محرومی و بے چارگی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے لیکن صہبا کا ردِ عمل دیجیے۔
میں بے نمود تھا پر صاحبِ نمود ہوا
میرا عدم میرے افکار سے وجود ہوا
شاعر کے تجربات، دوسروں کے تجربات سے مختلف نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت، اپنی پہچان واضح رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے تمام اعضا ایک سے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی واضح شناخت رکھتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں ہونے والی شکست و ریخت، غم و خوش، محرومی و یاسیت، تنہائی و اُداسی پھر زندگی کی مادی سطح پر منہ کھولے مسائل کا ازدحام، انسان سبھی تجربوں اور جذبوں سے گزرتا ہے لیکن ہر شاعر انھیں بیان کرنے کا قرینہ اور سلیقہ جدا جدا رکھتا ہے۔ ہر ایک اپنے انداز میں دُنیا کو مصور کرتا ہے۔
میں نے دُنیا بھر کی اک تصویر بنا رکھی ہے
اب لوگ اسے وحشت سمجھیں یا دیوانے کا خواب کہیں
اس دُنیا کا مرکزی کردار انسان ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا تصور بھی بدلتا رہا ہے کہ طبقاتی صورت حال کے بدلنے پر تصور انسان میں تبدیلی تعجب خیز نہیں۔ کبھی انساں بطور ایک صوفی کے سامنے آتا ہے تو کبھی جاگیردار، سلطان، رئیس و امیر کے رُوپ میں۔ کبھی مزدور و کسان اور ایک عام آدمی اہمیت اختیار کر جاتا ہے تو کبھی ایک خاص انسان کا تصور پیدا ہوتا ہے جو دیدہ ور صاحب ادراک و صاحب نظر ہے۔ یہی فرد جو کبھی آدمی ہے اور کبھی انسان۔ کہیں بے چارگی کی علامت ہے اور کہیں اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے متصف۔ ؎
کیا کیا کرشمہ کار ہے انسان کا وجود
یا رب طلسم دہر کی افسوں گری بخیر
تمام تر بے چارگی مجبوری و مقہوری کے باوجود صہبا انسان کی تذلیل گوارا نہیں کرتے۔ انسان بہ حیثیت انسان کائنات کی سب سے معزز و محترم تخلیق ہے اور برتر سطح پر فائز ہے۔ مسجودِ ملائک کی مظلومیت پر نوحہ کناں ہونا انھیں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ انسان فاتح ہے مفتوح نہیں۔
گئے وہ دن کہ اسے خاکسار کہتے تھے
اب آدمی کو خلاؤں کا تاجدار کہو
مہ و نجوم بھی گو دسترس سے دور نہ تھے
سرشتِ آدمِ خاکی نے خاکداں چاہا
صہبا زندگی سے متنفر نہیں۔ اس کی تمام تر قبیح صورتوں کے باوجود کہ انھیں یقین ہے برائی کو کوشش سے اچھائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ویرانہ خیال میں پیار کی بستیاں بسانے والے ایک دن حقیقت میں بھی ان بستیوں کی تعمیر و تشکیل کر ڈالیں گے۔ تیرگی کے بعد اُجالا، انسان کا مقدر ہے۔
ہٹے اندھیروں کی دیوار تو نظارہ کروں
پکارتے ہیں کہیں چاندنی کے شہر مجھے
جب انسان کا روّیہ یہ ہو کہ خنجر کسی پہ چلے تڑپتے ہیں ہم امیر، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے تو پھر خود غرضی نفسانفسی اور حرص کا حملہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
جب کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے کہیں
کوئی شے میرے بھی دل میں ٹوٹ جاتی ہے
صہبا پُر گو شاعر تھے، میر کی طرح ان کے ہاں بھی پست و بلند کا معاملہ سر اٹھا سکتا ہے لیکن صہبا کا لہجہ درد مند، سوچ مثبت، شکست و ریخت کے بجائے تعمیر و تشکیل کا عمل ان کی شخصیت کے رجائی پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے انسان کا کرب بھی ان کی ذات میں موجود ہے اور فخر بھی۔ مصائب کے ہجوم میں گھرے انسان کی تصویر بھی ہے اور مسائل سے نکلنے کے راستے بھی، فرد کی تنہائی اور دکھ کا تذکرہ بھی ہے تو وہیں انسان سے، دھرتی سے اور فطرت سے محبت کا والہانہ اظہار بھی یوں صہبا کی غزل داخلیت کی نمائندگی کے باوجود حال اور حقائق کی تصویر کہیں مدھم اور کہیں شوخ رنگوں سے بناتی نظر آتی ہے۔
٭٭٭
انتخابِ کلام
اقراء
آرزو
جمالِ کتابِ خدا سامنے ہو
چراغ رُخِ مصطفیؐ سامنے ہو
خموشی ہو آہنگ سازِ تفکر
تو ہر نقش صورت و صدا سامنے ہو
قلم جب ہو مصروف نعت محمدؐ
تو دریائے آبِ بقا سامنے ہو
چراغ شبِ فکر جب جھلملائے
تو صبحوں کا پرچم کشا سامنے ہو
ملے وہ بلندی، خیال و نظر کو
سرِ فرش، عرش علیٰ سامنے ہو
ملے مستجابی، وہ حرف دعا کو
دعا جب بھی مانگو صلا سامنے ہو
نظر جب اٹھاؤں سوئے شہر معنی
وہ قبلہ وہ قبلہ نما سامنے ہو
خدا یا یہ توفیق مجھ کو عطا کر
کہ اقراء لکھوں تو حرا سامنے ہو
٭٭٭
وظیفہ کائنات
گریز و اجتناب ہے نہ بعد و فاصلہ ہے تُو
محبتوں کا سلسلہ، دِلوں کا رابطہ تُو
بلندیوں پہ جس کا ذکر ہے وہ مجتبیٰؐ ہے تُو
صفات کیوں نہ ہوں تُو تیرے نثار، مصطفیؐ ہے تُو
ابد ہے جس کا منتظر، ازل کی وہ دعا ہے تُو
کہ تاجدارِ ہر زمان و شان دوسَرا ہے تُو
مہ و بخوم و کہکشاں پہ بارش ضیا ہے تُو
فضا میں جس کا نور ہے وہ آسماں قبا ہے تُو
جہاں سحابِ نور کی طرح برس رہا تُو
وہیں اذان کی طرح دلوں میں گونجتا تُو
نوائے خاک ہے کبھی، ترانہ سما ہے تُو
مثال ساز زندگی، ہزار زمزمہ ہے تُو
جہانِ حَرف وصَوت کی صدائے حق رسا ہے تُو
زمین وآسمان کے درمیان مکالمہ ہے تُو
بنامِ کاروانِ وقت نغمۂ درا ہے تُو
طلوعِ بے غروب کی طرح سحر نما ہے تُو
سرِ بطونِ خاک مثلِ دھڑک رہا ہے تُو
تمام کائنات کا وظیفۂ بقا ہے تُو
٭٭٭
خیر مقدم کا گیت
وہ نغمہ ہے جسے بنی نجار کی لڑکیوں نے سرکارصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خیر مقدم کے طور پر اس وقت گایا تھا جب آپ پہلی بار مکے سے ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے تھے۔ میں نے اس کو کچھ قیاسی مصرعوں کے ساتھ نغمے کے طور پر ہی تحریر کیا ہے۔
آئے سرکارِؐ مدینہ
آئے انوارِ مدینہ
ہیں قدم بوسِ رسالت
گل و گلزارِ مدینہ
کندنی رنگ ہے گہرا
ہے لباس آج سنہرا
چاندنی رات نے پہنا
طلع البدرُ عَلینا
لوگو آواز دو سب کو
دیکھ لو قاصدِ ربّ کو
روشنی غارِ حرا کی
مل گئی پردۂ شب کو
بارشِ نجم و قمر ہے
آج سے حکمِ سحر ہے
رات کو رات نہ کہنا
طلع البَدرُ عَلینا
ہاشمیؐ، مطلبی ہیں !
فخرِاُمّی وابی ہیں !
آپ ہی حق کے نبیؐ ہیں
دافعِ تیرہ شبی ہیں
مژدہ ہو نوعِ بشر کو
اب تمنا سحر کو
کشتۂ شب نہیں رہنا
طلع الَبدرُ عَلینا
دِل نے پائی ہیں مرادیں
اُن کی راہوں کو سجادیں
گل بچھائے ہیں صبا نے
آؤ ہم آنکھیں بچھا دیں
چاند ابھرا ہے لیے تاج
من ثینات وداع آج
وَجَب الَشکر علینا
طلع الَبدرُ عَلینا
٭٭٭
مِشعل
یا رب مرے وطن کا پرچم بلند رکھنا
اپنے کرم کا یونہی، احسان مند رکھنا
O
سایہ پڑے نہ کوئی، اس کی تجلیوں پر
نازاں رہیں ستارے، اس کی بلندیوں پر
دنیا کی ظلمتوں کو، زیرِ کمند رکھنا
یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا
O
مشکل کی وادیوں میں ، راحت کی جستجو میں
تاریک راستوں پر، منزل کی آرزو میں
ملت کے قافلوں کو، شعلہ پسند رکھنا
یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا
O
مہکے رہیں اندھیرے ہنستے رہیں سویرے
آقا تجھے خبر ہے، ہم ہیں غلام تیرے
ہم کو جہاں کی قوموں میں ارجمند رکھنا
یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا
اپنے کرم کا یونہی، احسان مند رکھنا
O
٭٭٭
وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے
ہم اپنے ملک کا وقار، روز و شب بڑھائیں گے
O
چمک ہے ہر نگاہ میں ، دمک ہے ہر خیال میں
جو روشنی ہے پرچم ِستارہ و ہلال میں
اس کے نور سے ہر اک چراغ کو جلائیں گے
وطن کو ہم، عظیم سے عظیم تر بنائیں گے
O
مہ و نجوم کی صفیں قریب ہوں گی ایک دن
خلاؤں کی بلندیاں نصیب ہوں گی ایک دن
ہمارے راستے میں بھی ستارے جگمگائیں گے
وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے
O
محبتوں کی راہ میں ، بس اتحاد چاہیے
ہزار مشکلیں سہی، بس اعتماد چاہیے
ہماری ضرب ضرب سے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے
وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے
٭٭٭
O
ہم ارضِ پاکستان کی ہَوائی فَوج کے عُقاب ہیں
یقیں میں بے مثال ہیں ، وفا میں لا جواب ہیں
O
ہم اپنے آسمان پر، محبتوں کی کہکشاں
ہما کے شہپروں کے سائے میں ہمارے آشیاں
ہم اپنے شہر شہر میں
وفا کی لہر لہر میں
مثالِ نغمۂ اذاں … صدائے شُعلہ تاب ہیں
ہم ارضّ پاکستان کی ہَوائی فَوج کے عُقاب ہیں
گرج گرج کے جھومنا، جل کے گرد گھومنا
ہمارا فرض دشمنوں کے لشکروں پہ ٹوٹنا
عُدو سے جنگ جنگ میں
لَہوسے رنگ رنگ میں
کَڑَکتی بجلیوں کی طرح، آگ ہیں ، عذاب ہیں
ہم ارضِ پاک کی ہَوائی فَوج کے، عُقاب ہیں
O
وطن ہماری زندگی، وطن ہماری اَبرو
وطن نہیں تو کچھ نہیں ، نہ یہ جہاں ، نہ کَاخ و کُو
کہیں یہ سر نہ ہوں گے خم
ہر اک شہید کی قسم
ہم اپنے ہر شہید کے، کفن کی آب و تاب ہیں
O
ہم ارضّ پاک کی ہوائی فوج کے عقاب ہیں
یقین میں بے مثال ہیں ، وفا میں لا جواب ہیں
٭٭٭
ساقی نامہ
لیے سست آنکھوں میں کاجل چلے
وہ پنڈی سے خوشیوں کے بادل چلے
گھٹا سے گھٹا کو لپیٹے ہوئے
خوشی کے خزانے سمیٹے ہوئے
وہ برسے، تھمے، وہ برس کر چلے
چلے ساقیا دورِ ساغر چلے
…O…
ہے کوثر سے اتری شرابِ طہور
کرم چشمِ رحمت کا ہے یہ سرور
زبانوں پہ جھومے محمدؐ کا نام
یہ بزمِ تشکر ہے ہر دورِ جام
بنامِ خداوندِ اکبر چلے
چلے ساقیا دورِ ساغر چلے
…O…
سبودرسبو کِھل اٹھے ہیں کنول
گیا آتشِ ہے سے لوہا پگھل
محبت طلب ہے یہ ساعت یہ بل
بھلا دے انھیں ، آبگینوں پہ کل
رقیبوں کے گھر سے جو پتھر چلے
چلے ساقیا دورِ ساغر چلے
…O…
مبارک یہ آئینِ فتحِ عوام
وطن کو وقارِ وطن کا سلام
گئے ظلم کی شعلہ کاری کے دن
جو دہقان ہے اب رہے مطمئن
جو مزدور ہے سراٹھا کے چلے
چلے ساقیا دورِ ساغر چلے
…O…
یہ آئین خوشحال کا ساز ہے
بھٹائی کے نغموں کی آواز ہے
یہ آئین اقبال کا خواب ہے
اسی میں دل جوش بیتاب ہے
نہ کیوں طنطنا کر گرج کر چلے
چلے ساقیا دردِ ساغر چلے
…O…
ملے میری ملت کو عمرِ دراز
سلامت رہیں میرے آئین ساز
خدا ان کو بخشے بہارِ مراد
مجھے مصرعۂ میر آیا ہے یاد
’’میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے‘‘
چلے ساقیا، دردِ ساغر چلے
…O…
یہ آئین روح عدالت بھی ہے
یہ آئین، حق کی صداقت بھی ہے
یہ آئین صدیوں کا وہ قرض ہے
بہرحال جس سے وفا فرض ہے
رہے جان یا جان دے کر چلے
چلے ساقیا درد ساغر چلے
…O…
یہ افواج قومی کا سنگم بھی ہے
یہ افواج ملت کا پرچم بھی ہے
یہ غربت کے زخموں کا مرہم بھی ہے
یہ خوش حال زدا کا ہمدم بھی ہے
نہ کیوں رنجِ ماضی بھلا کر چلے
چلے ساقیا درد ساغر چلے
٭٭٭
میں خواب دیکھتا ہوں
(چودہ اگست کی ایک شام)
اے عید دلربائی، اے جشن کج کلاہی
آزادی وطن کی، انجم بکف گواہی
اے روحِ حکمرانی، اے جانِ پادشاہی
اے خواب شب زدہ کی، تعبیرِ خوش نگاہی
میں تیری طلعتوں کا ہر باب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
O
وہ خواب جو اجالے، دل میں اتارتے ہیں
جو غم کی ظلمتوں میں ، سورج تراشتے ہیں
سانسوں میں جھومتے ہیں ، آنکھوں میں ناچتے ہیں
مجھ کو جگاجگا کے، جو خود بھی جاگتے ہیں
کیا خواب ہیں کہ جن کو بے خواب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
O
میں دیکھتا ہوں میرے، صحرا جگر جگر ہیں
غنچے چمن چمن ہیں ، سائے شجر شجر ہیں
میری زمیں کے سارے دریا گہر گہر ہیں
تارے گلی گلی ہیں ، سورج نگر نگر ہیں
ہر گوشہ، وطن کو، منو تاب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
O
گردِ گماں نہ ہو گی، جب چہرۂ یقیں پر
خونِ سحر نہ ہو گا، سورج کی آستیں پر
اک رقصِ نور ہو گا، ہر عارضِ حسیں پر
ہر شب طلوع ہوتے، اس پاک سرزمیں پر
ان دیکھے آسماں کے مہتاب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
O
یہ ملک ہے ہمارے، اسلاف کی امانت
یہ ملک ہے سلامت، تو ہم بھی ہیں سلامت
اللہ اس کو رکھے، موجود تا قیامت
اس کی بقا کے نغمے، میرے لیے عبادت
ہر مصرعہ سخن کو محراب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
O
جانے مری زمیں پر، کتنے نجوم ٹوٹے
سورج ہزار ابھرے، سورج ہزار ڈوبے
کتنے ہی سال گزرے، یہ خواب ہیں ادھورے
کس چودھویں کو ہوں گے، مولا یہ خواب پورے
ہر چودھویں میں جن کو نایاب دیکھتا ہوں
میں خواب دیکھتا ہوں
٭٭٭
ترانہ
تو تو میری آن ہے، تو تو میری جان، تو میرا ایمان ہے
میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے
کہتی ہے یہ راہ عمل، آؤ ہم سب ساتھ چلیں
مشکل ہو یا آسانی، ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلیں
دھڑکن ہے پنجاب اگر، دل اپنا مہران ہے
میں پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے
گلشن ہوں یا پربت ہوں ، ہم سے کوئی دور نہیں
کس کس کی تعریف کرے، ہر گوشہ ہے آپ حسیں
سورج ہے سرحد کی زمین، چاند بلوچستان ہے
میں بھی پاکستان تو بھی پاکستان ہے
پاکستان عقیدہ بھی، پاکستان یقیں بھی ہے
پاکستان نظریہ بھی، پاکستان زمیں بھی ہے
رنگ برنگی دنیا میں ، اس کی یہ پہچان ہے
میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان
٭٭٭
لوری
(یہ نظم میں نے۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد تحریر کی تھی۔ یہ ایک ایسی بیوہ ماں کی لوری ہے جس کا مجاہد شوہر محاذ جنگ پر شہید ہو چکا ہے۔ وہ یہ لوری اپنے شیر خوار بچے کو سنارہی ہے۔ )
میری آنکھوں کی روشنی مت سو
میری خوابوں کی زندگی مت سو
چاند تاروں کی طرح تو بھی جاگ
میرے زخموں کی طرح تو بھی جاگ
میری لوری کے رس میں نیند کہاں
میری پلکوں پر آنسوؤں کا دُھواں
میرے دل میں الاؤ شعلوں کے
مری نس نس میں گھاؤ شعلوں کے
اک جہانِ سکوں ہے تیرے ساتھ
میرے سینے پہ رکھ یہ ٹھنڈے ہاتھ
اے مسیحا میں بستہ غم ہوں
میں تری ماں ہوں تیری مریم ہوں
روع عیسیٰ ؑ کی دلبری مت سو
میری آنکھوں کی روشنی مت سو
آدمیت کے اس ضمیر کو دیکھ
میرے سینے میں جوئے شیر کو دیکھ
جس کی موجیں ہیں مضطرب دن رات
جس کی ہر بوند ہے پیام حیات
جس میں رقصاں ہے پیار کی خوشبو
جس میں ہنستا ہے مامتا کا لہو
جس پہ ہر دم ربوبیت طاری
جس میں ہے نورِ امرِ رب جاری
جس میں تخلیق مسکراتی ہے
جس میں تقدیر گنگناتی ہے
آ، یہ آب حیات پی، مت سو
میری آنکھوں کی روشنی مت تو
ہر طرف خون خون کی للکار
ہر طرف، موت موت کی آواز
اس فضا میں بھی قوم کے وہ دلیر
نام سے جن کے کانپتے ہیں شیر
بن گئے غیرتِ وطن کی شان
ایک ناقابلِ شکست چٹان
جان نثاری کی خود ہی کھا کے قسم
اپنے سینوں سے باندھ باندھ کے بم
کھو گئے سر فروش دستو میں
بچھ گئے ٹینکوں کے رستوں میں
جس سے شعلوں کے تیز دھار مڑے
ٹینک ٹکڑے ہوئے، پہاڑ اُڑے
حوصلہ سرکشوں کا چھوٹ گیا
دشمنوں کا طلسم ٹوٹ گیا
ایسے ماؤں کے ہوں گے لال کہاں
ایسے شیروں کی ہے مثال کہاں
میرے معصوم، میرے ننھے شیر
ہے ترے جسم میں بھی خون دلیر
یاد رکھنے ہیں سب ستم تجھ کو
ماں کی ناموس کی قسم تجھ کو
جاگ اے خون کے افق کی لکیر
جاگ فردا کے خواب کی تعبیر
جاگ اے شعلۂ لب تقدیر
جاگ اے انتقام کی شمشیر
جاگ اے لوحِ عصر کی تحریر
جاگ، جس طرح جاگتا ہے ضمیر
میری آنکھوں کی روشنی مت سو
میرے خوابوں کی زندگی مت سو
٭٭٭
سقوط ڈھاکہ
یہ اس فی البدیہہ نظم کا عکس ہے جسے میں نے پی۔ ٹی۔ وی کراچی کے اس وقت کے جنرل منیجر۔ جناب اسلم اظہر کے اصرار پر ٹی۔ وی کے ایک کمرے میں بیٹھ کر اپنے خون جگر اور آہوں سے، ارتجالاً تحریر بھی کیا اور پاکستان کی تاریخ کی اُس منحوس ترین شام کو، اپنے وطن کو سنایا بھی۔ اس نظم کا تذکرہ مشعل کے دیپاچے میں بطور خاص موجود ہے۔
سنو میری بہنو، سنومیری ماؤ
نہ گریہ کرو اور نہ آنسو بہاؤ
تماشائے گلشن، بہار و خزاں ہے
کہ ہر ابتلائے وطن، امتحاں ہے
جو مختار ٹھہرے، وہ مجبور بھی ہے
یہی زندہ قوموں کا دستور بھی ہے
کہانی نشیب و فرازِ جہاں کی
ہمیشہ سے قسمت ہے ہر کارواں کی
کبھی اک ازل ہے، کبھی اک ابد ہے
سر بحرِ ہستی، عجب جزر و مد ہے
کبھی سر بلندی، کبھی روسیاہی
بہت کچھ دکھاتی ہے یہ کج کلاہی
کبھی خون پیتی ہیں شادابیاں بھی
کہ سر مانگتی ہیں ، سرافرازیاں بھی
تباہی تو صدقہ ہے آبادیوں کا
اسیری تبسم ہے آزادیوں کا
شکستیں بھی ہوتی ہیں جنگوں کا حاصل
نہ مقتول رہتے ہیں زندہ، نہ قاتل
عبث ہیں یہ آنسو، غلط ہے یہ ماتم
گواہی یہ دیتی ہے تاریخ عالم
جو جانیں وطن کے لیے وارتے ہیں
کبھی جنگ بھی وہ جری ہارتے ہیں
کہاں دشمنوں نے مٹایا ہے ہم کو
فقط سازشوں نے ہرایا ہے ہم کو
ڈُبویا محبت کے خوابوں نے کیا کیا
ڈسا آستینوں کے سانپوں نے کیا کیا
کہیں میر جعفر، کہیں کوئی صادق
جلایا ہے سینے کے داغوں نے ہم کو
ہمیشہ سے ہیں فتنہ و شر کے خالق
بجھایا ہے گھر کے چراغوں نے ہم کو
ہمارے دلوں میں خنجر ہیں اُترے
کہ جو خود ہمارے لہو سے ہیں اُبھرے
وہی آج خوش ہیں ، جو ننگِ چمن تھے
کہ قاتل وطن کے، مرے ہم وطن تھے
سنو میری بہنو، سنو میری ماؤ
ہر اک، اشک غم میں ، وہ شعلے جگاؤ
جو اس شام ماتم کو سورج بنا دیں
شکستِ وطن کو بھی طاقت بنا دیں
اگر دیدہ و دل میں ہمت ہے باقی
اگر حوصلوں کی تمازت ہے باقی
شکست اس تمازت سے ظلمت کو دیں گے
جو آج ہارے ہیں کل جیت لیں گے
سنو میری بہنو، سنو میری ماؤ
نہ گریہ کرو اور نہ آنسو بہاؤ
٭٭٭
اعتراف
عزیز ان وطن!میں ایک دنیا گھوم آیا ہوں
کہیں رویا، کہیں نوع بشر پرمسکریا ہوں
مجھے پھولوں کی خواہش تھی، مگر میں زخم لایا ہوں
مرا ہر زخم کہتا ہے، وطن والوں کو سمجھا دو
کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو
سرمغرب بہت انسانیت پر بولنے والے
کہاں انصاف کا در، غیر پر ہیں کھولنے والے
یہ رنگت کی ترازو میں بشر کو تولنے والے
تمھیں انصاف کیا دیں گے، بشر کے حق کے متوالو
کہ پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو
پرائے تو پرائے ہیں ، سوال اپنوں کے غم کا ہے
اگرچہ سب کو دعویٰ امتِ خیر الامم کا ہے
عرب اہل عرب کا ہے، عجم اہلِ عجم کا ہے
کہاں ہے ملتِ اسلامیہ، ملت کے دیوانو
کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو
یہ گلشن، یہ بہاروں کا سماں ، کوئی نہیں دے گا
یہ سورج یہ ستاروں کا جہاں ، کوئی نہیں دے گا
زمیں کھوئی تو تم کو بھی اماں ، کوئی نہیں دے گا
وطن پہ مٹ گیا تو تم بھی مٹ جاؤ گے نادانو
اسی کو زندگی سمجھو، اسی پر زندگی وارو
کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو
(خاکم بدہن)
٭٭٭
خزینہ
٭
جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ
نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی
نہ جانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی
خوشی بھی بانٹتا ہے حسبِ قسمت بانٹنے والا
کسی کے ہاتھ یہ حسب ضرورت کیوں نہیں آتی
کبھی ہمت ہوئی تو وضعداری سے یہ پوچھیں گے
جو دل میں ہے لبوں تک وہ شکایت کیوں نہیں آتی
خدایا سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش
تری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی
بہت محدود ہے رقصِ ہوائے گل بھی اے صہبا
یہ رقاصہ ضرورت بے ضرورت کیوں نہیں آتی
٭٭٭
٭
شریک محفل آئندگاں ہوں
میں اپنی عمر سے آگے رواں ہوں
میں اپنے ہاتھ بھی شاید نہ آؤں
کہ میں اک تیر جستہ از کماں ہوں
جسے فردا کا سورج سن ہی لے گا
میں اس صحرائے شب کی وہ اذاں ہوں
غبار خاک کا ذرہ ہوں لیکن
فلک سے پوچھتا ہوں میں کہاں ہوں
گریباں گیر تاریکی میں صہبا
ستاروں کے تعاقب میں رواں ہوں
٭٭٭
ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے
غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے
تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں
نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
کہاں ہے تو، تری زلفوں کا آبشار مجھے
ہزار خواب برستا دکھائی دیتا ہے
ازل سے اب تک زمانہ کچھ بھی کہے
مجھے تو ایک ہی لمحہ دکھائی دیتا ہے
صبا سے پھر ہوئیں باتیں جنابِ صہبا کی
پھر اس گلی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
حوالہ جات
سوانح
۱۔ عالم، آمنہ، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۲۔ کشفی، ابوالخیرسیدڈاکٹر، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۔ بلگرامی، پرویز، ، ہفت روزہ انس، دفاع پاکستان نمبر اسلام آباد
۴۔ عالم، آمنہ، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۵۔ ایضاً
۶۔ ایضاً
۷۔ ایضاً
۸۔ ایضاً
۹۔ اختر، صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۱۰۔ اختر، صہبا ۳۰اگست۱۹۸۱ء، کراچی، مشرق میگزین
۱۱۔ بلگرامی، ص۳۱
۱۲۔ صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۱۳۔ صہبا، دیباچہ، سرکشیدہ، ص ۴۹
۱۴۔ صہبا، راقمہ سے گفتگو، جولائی ۱۹۹۴ء
۱۵۔ بلگرامی، ص ۱۹
۱۶۔ صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۱۷۔ ایضاً
۱۸۔ کانپوری، زخمی، کراچی، روزنامہ جنگ
۱۹۔ بلگرامی، ص۳۳
۲۰۔ صہبا، دیباچہ سرکشیدہ، ص ۱۷
۲۱۔ بلگرامی ص۳۲
۲۲۔ ایضاً
۲۳۔ بیگم سعیدہ اختر، راقمہ کے لیے تحریر
۲۴۔ اختر، اعظم ایضاً
۲۵۔ اختر، ثمینہ ایضاً
۲۶۔ حسین، آغا مسعود، ۲۲ جنوری۱۹۹۶ء جنگ کراچی
۲۷۔ صہبا، سرکشیدہ، ص۲۸۔ ۲۹
۲۸۔ ایضاً صفحہ ۲۹
۲۹۔ صہبا، اقراء، ص ۹
۳۰۔ دنیائے ادب، شمارہ فروری۱۹۹۶ء کراچی
۳۱۔ اختر، عظیم، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۲۔ قاسمی، عطاء الحق، روزن دیوار سے، فروری ۱۹۹۶ء لاہور، نوائے وقت
۳۳۔ کشفی، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۴۔ صدیقی، سرشار، مجلہ خزینہ، صفحہ۱۳
۳۵۔ صدیقی، آفاق، غیرمطبوعہ، مخزدنہ اعظم اختر
۳۶۔ اختر، ڈاکٹر ثمینہ، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۷۔ کشفی، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۸۔ صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۹۔ صہبا، جنگ کراچی
۴۰۔ ایضاً
۴۱۔ صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۴۲۔ ایضاً
۴۳۔ ایضاً
۴۴۔ ایضاً
۴۵۔ قاسمی، احمد ندیم، مجلہ خزینہ
۴۶۔ صدیقی، آفاق، تاثرات غیر مطبوعہ، مخزدنہ ڈاکٹر عظیم اختر
۴۷۔ جمیل، قمر، مجلہ خزینہ، ص۱۴
۴۸۔ صدیقی، آفاق، تاثرات غیر مطبوعہ، مخزدنہ ڈاکٹر عظیم اختر
۴۹۔ ناہید، کشور، ’’صہبا اختر اور مشاعروں کے شاعر‘‘ ۲۹ فروری۱۹۹۶ء جنگ راولپنڈی
۵۰۔ صدیقی، آفاق، تاثرات غیر مطبوعہ، مخزدنہ ڈاکٹر عظیم اختر
۵۱۔ صہبا، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۵۲۔ بنارسی، کیف، مجلہ مشعل، صفحہ ۱۶
۵۳۔ عباسی، قمر علی، مجلہ مشعل، ص ۳۳
۵۴۔ حیدر، اقبال، ۶جون ۱۹۹۶ء اخبار جہاں ، کراچی
۵۵۔ ایضاً
۵۶۔ قاسمی، عطا الحق، روزن دیوارسے۔ فروری ۱۹۹۶ء لاہور، نوائے وقت
۵۷۔ انصاری، سحر، مجلہ خزینہ
۵۸۔ زیدی، سیدقمر، مجلہ مشعل، ص ۵۲
۵۹۔ بزمی، اعجاز، مجلہ خزینہ، ص ۱۱
۶۰۔ عالی، جمیل الدین، ۴مارچ۱۹۹۶ء راولپنڈی، جنگ
۶۱۔ قاسمی، ضیاء الحق، مجلہ خزینہ
۶۲۔ جنگ ۲۰ جون ۱۹۹۶ء
صہبا اختر، معاصرین کی نظر میں
۱۔ عبدالقدیر، ڈاکٹر خان، مجلہ مشعل ص۱۱
۲۔ جالبی، جمیل، ۲۰ فروری۱۹۹۴ء کراچی روزنامہ جنگ
۳۔ خواجہ، مشفق، ایضاً
۴۔ عارف، افتخار، مجلہ خزینہ، ص۱۰
۵۔ زمان، فخر، مجلہ مشعل، ص۹
۶۔ زمان، فخر، تعزیتی کتاب مخزدنہ عظیم اختر
۷۔ صدیقی، مسیح الدین احمد، مجلہ خزینہ، ص۸
۸۔ عظیم، اقبال، تعزیتی کتاب، مخزدنہ عظیم اختر
۹۔ غزنوی، خاطر، مجلہ مشعل، ص۳۴
۱۰۔ احسان، محسن، ایضاً، ص۳۵
۱۱۔ انصاری، سحر، مجلہ خزینہ، ص۵
۱۲۔ حسن، شاہدہ، تعزیتی کتاب مخزدنہ عظیم اختر
۱۳۔ عباسی، قمر علی، مجلہ مشعل ص۳۳
۱۴۔ مراد آبادی، راغب، مجلہ خزینہ، ص۳۲
۱۵۔ مراد آبادی، راغب ایضاً
۱۶۔ نظامی، امداد، تاثرات، مخزدنہ عظیم اختر
۱۷۔ بزمی، اعجاز، منظوم تاثرات، مخزدنہ عظیم اختر
۱۸۔ متھرادی، شمیم، قومی زبان فروری ۱۹۹۶ء صفحہ ۸۲
صہبا کی نعتیہ شاعری
۱۔ اختر، صہبا، دیباچہ، اقراء، صفحہ ۸۔ ۹
۲۔ اختر، ڈاکٹر ثمینہ، راقمہ کے لیے ایک تحریر
۳۔ ندوی، سید سلیمان، اسوۂ کامل، خطبات مدارس
۴۔ فگار، دلاور، مجلہ اقراء
۵۔ صدیقی، حفیظ، کشاف، تنقیدی اصطلاحات ص۳۳
۶۔ قاسمی، احمد ندیم، فلیپ، اقراء
۷۔ مسعود حسین، آغا، روزنامہ جنگ۲۵ فروری۱۹۹۶ء
۸۔ کشفی، راقمہ کے لیے لکھی گئی ایک تحریر
۹۔ خان، پروفیسر رفیع اللہ، حرف ِمنزہ، ص ۳۱۵
۱۰۔ شام، محمود، مجلہ اقراء
۱۱۔ زبیری، جمیل، مجلہ اقراء
۱۲۔ نوری، کرار، مجلہ اقراء
۱۳۔ کشفی، راقمہ کے لیے لکھی گئی ایک تحریر
۱۴۔ فاضلی، امید، مجلہ اقراء
۱۵۔ اکبرآبادی، صبا، مجلہ اقراء
نظم گوئی
۱؎ گنڈا پور، عنایت اللہ۔ مجلہ مشعل صفحہ۷۷
شاعرِ پاکستان
۱۔ صہبا، ۲۲ جولائی۱۹۹۴ء میرے سیاسی رجحانات، کراچی، روزنامہ جنگ
۲۔ صہبا، مشعل، ص۳۸
۳۔ ایضاًَ
۴۔ صدیقی، سرشار، مجلہ مشعل ص۲۵
۵۔ بلگرامی، پرویز ص۳۴
۶۔ ایضاً
۷۔ صہبا، ۲۲جولائی ۱۹۹۴ء، میرے سیاسی رجحانات، کراچی، روزنامہ جنگ
۸۔ عالم، آمنہ، مجلہ مشعل، صفحہ۱۸۔ ۲۸
۹۔ صہبا، دیباچہ مشعل، ص۳۹
۱۰۔ ایضاً، ص۴۰۔ ۴۴
۱۱۔ ایضاً، ص۴۴
۱۲۔ حسن، شاہدہ، صہبا اختر پر ایک غیر مطبوعہ تحریر
۱۳۔ جمیل، قمر، صہبا اختر پر ایک غیر مطبوعہ تحریر
۱۴۔ صہبا، دیباچہ مشعل، ص ۴۲۔ ۴۳
۱۵۔ بلگرامی، ص۳۶
۱۶۔ ایضاً
۱۷۔ صہبا، مشعل، ص۴۵۶
صہبا کی غزل گوئی
1۔ صدیقی، حفیظ، ۱۹۸۵”کشاف تنقیدی اصطلاحات”اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان
2۔ ڈاکٹر لئیق بابری، ۱۹۸۲”پیرس کا کرب”بودلیئر کی نثری نظمیں ، لاہور، مجلس ترقی ادب ص ۲۳
3۔ ڈاکٹر ثمینہ اختر، راقمہ کے لیے ایک تحریر
صہبا کا اسلوبِ شعر
۱۔ جمیل، قمر، ۳۰جون ۱۹۹۵ء کراچی، روزنامہ جنگ۔
۲۔ صدیقی، سرشار، ایضاً
۳۔ کشفی، ابو الخیر، ایضاً
۴۔ غوری، کرامت اللہ، مجلہ مشعل ص۱۲۔
۵۔ جمیل، قمر، ۳۰جون ۱۹۹۵ء کراچی، روزنامہ جنگ
۶۔ صدیقی، سرشار، ایضاً
۷۔ کشفی، ابوالخیر، ایضاً
۸۔ جاوید، سرور صہبا سے مکالمہ، جنگ ادبی ایڈیشن۔
۹۔ صہبا، دییاچہ سرکشیدہ ص۲۶۔ ۲۷
۱۰۔ سید عابد علی عابد مقالات عابد۔ انتقار شعر۔ ص۲۸۔ ۲۹
۱۱۔ سید عابد علی عابد مقالات عابد۔ انتقاد شعر۔ ص۲۳
۱۲۔ فتح پوری، فرمان، ۲۰۰۶ء ’’ غالب کے کلام میں استفہام‘‘ مشمولہ تحقیق و تنقید، لاہور، الوقار پبلی کیشنز ص ۱۷۔ ۱۵
٭٭٭
کتابیات
۱۔ آغا اشرف۱۹۸۷ء ’’ایک جنگ ایک المیہ‘‘، مکتبہ میری لائبریری۔
۲۔ اظہر پرویز۱۹۸۸ء ’’ادب کا مطالعہ‘‘ لاہور، دبستان ادب۔
۳۔ خالد، علا الدین (ناشر) ۶ستمبر۱۹۶۶ء ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، کراچی اردو اکیڈمی سندھ۔
۵۔ خان، نصر اللہ۱۹۸۴ء ’’کیا قافلہ جاتا ہے۔ ‘‘ کراچی، مکتبہ و تہذیب و فن۔
۵۔ خان، یوسف حسین۱۹۵۴ء ’’اردو غزل‘‘، علی گڑھ، انجمن ترقی اردو۔
۶۔ دلاور فگار۱۹۹۷ء ’’کہا سنا معاف کرنا‘‘، کراچی فرید پبلشرز۔
۷۔ راغب شکیب۱۹۸۸ء ’’سفر ہم سفر‘‘، کراچی، مکتبہ ہم زبان اگست۔
۹۔ سرور آل احمد ’’نئے اور پرانے چراغ‘‘، سندھ، کراچی۔
۱۰۔ سعید راشد سن ندارد ’’شاد باد منزل ِمراد‘‘، لاہور، مکتبہ میری لائبریری۔
۱۱۔ سلیم احمد۱۹۸۹ء ’’مشرق‘‘، کراچی مکتبہ نیا ادب۔
۱۲۔ سلیم احمد، ڈاکٹرسن ندارد ’’ادب اور کلچر‘‘ لاہور مکتبہ عالیہ۔
۱۳۔ سلیم اختر، ڈاکٹرسند ندارد ’’جوش کا نفسیاتی مطالعہ‘‘ لاہور، فیروز سنٹر۔
۱۴۔ سندیلوی سلام، ڈاکٹر ۱۹۶۴ء ’’ادب کا تنقیدی مطالعہ‘‘، لاہور، میری لائبریری۔
۱۴۔ سید مظفر علی سن ندارد ’’تنقید کی آزادی‘‘، لاہورمطبوعات دستاویز۔
۱۵۔ شاہد ماہلی (مرتب)۱۹۸۷ء ’’فیض احمد فیض‘‘، دہلی معیار پبلی کیشنز۔
۱۶۔ صہبا اختر۱۹۸۷ء ’’اقرائ‘‘، کراچی، مکتبہ ندیم
۱۷۔ صہبا اختر۱۹۸۱ء ’’خزینہ‘‘، کراچی، مکتبہ ندیم
۱۸۔ صہبا اختر۱۹۷۷ء ’’سمندر‘‘، کراچی، مکتبہ ندیم
۱۹۔ صہبا اختر۱۹۸۴ء ’’سمندر‘‘، کراچی، مکتبہ ذیشان۔
۲۰۔ صہبا اختر۱۹۹۵ء ’’مشعل‘‘، کراچی، مکتبہ ندیم۔
۲۱۔ عابد علی عابد، سید۱۹۸۹ء ’’مقالات عابد، انتقاد شعر‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز۔
۲۲۔ عبدا سلام، ڈاکٹر ’’تنقید اور اس کا فن‘‘۔
۲۳۔ عسکری، محمد حسن۱۹۸۱ء ’’جھلکیاں ‘‘، لاہور مکتبہ، الروایت۔
۲۴۔ قاسم محمود، سید(مرتب) ’’اسلامی انسائیکلوپیڈیا‘‘، لاہور مکتبہ شاہکار۔
۲۵۔ قیوم ملک، مرتب۱۹۷۵ء ’’قومی نظمیں ‘‘، نیشنل بک فاؤنڈیشن۔
۲۶۔ کامل قریشی، ڈاکٹر۱۹۸۴ء ’’اردو غزل‘‘، لاہور پروگریسو بکس۔
۲۷۔ محمود، راجہ رشید، سن ندارد ’’نعت خالم المرسیلن‘‘، لاہورم قبول اکیڈمی۔
۲۸۔ ملک، فتح محمد ۱۹۹۱ء ’’تعصبات‘‘، لاہور، سنگ میل۔
۲۹۔ حسین، ممتاز ۱۹۸۹ء ’’نقد حرف‘‘، کراچی مکتبہ اسلوب۔
۳۰۔ نیازی، منیر(مرتب)۱۹۷۲ء، ۱۹۷۹ء’’انتخاب اردو غزل‘‘، اسلام آباد (اکادمی ادبیات پاکستان)۔
۳۱۔ مہر، غلام رسول، سن ندارد ’’نوائے سرو‘‘ش، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز
۳۲۔ ندوی، سید سلیمان ’’اسوۂ کامل‘‘، خطبات مدارس۔
۳۳۔ صدیقی، نظیر۱۹۸۰ء ’’جدید اردو غزل‘‘، لاہور، گلوب پبلشرز۔
۳۴۔ نقوی، سید اقبال حسین۱۹۸۹ء ’’اردو نعت کا ارتقا‘‘، کراچی، ڈار پبلی کیشنز۔
رسائل
۱۔ اخبار جہاں ہفت روزہ ۲جون۱۹۹۶ء
۲۔ الشجاع ماہنامہ غالب نمبر۱۹۷۰ء
۳۔ ہفت انس روزہ دفاع پاکستان نمبر، اسلام آباد
۴۔ ماہنامہ تہذیب مارچ۱۹۹۶ء کراچی
۵۔ ماہنامہ دنیائے ادب فروری۱۹۹۷ء کراچی
۶۔ سچی کہانیاں اپریل۱۹۹۶ء کراچی
۷۔ سرسیدین ۱۹۸۱ء ادب پاکستان نمبر راولپنڈی
۸۔ فنو ن دسمبر۱۹۹۷ء لاہور
۹۔ قومی زبا ن فروری۱۹۹۷ء کراچی، انجمن ترقی ِ اردو
۱۰۔ ماہ نو ۱۹۸۷ء گولڈن جوبلی نمبر لاہور، ادارۂ مطبوعات ِ پاکستان
۱۱۔ نقوش ۱۹۴۸ء جشن آزادی نمبر، لاہور، مکتبہ فروغ اردو
۱۲۔ نقوش اپریل۔ جون۱۹۶۶ء شمارہ۱۰۵لاہور، فروغ اردو
۱۳۔ نقوش ستمبر۱۹۸۱ء ادبی معرکے نمبر لاہور فروغ اُردو
۱۴۔ مجلہ اقراء
۱۵۔ مجلہ خزینہ
۱۶۔ مجلہ مشعل
اخبارات
۱۔ احساس نو پندرہ روزہ، یکم ستمبرتا۱۵ستمبر۹۸ء
۲۔ احساس نو پندرہ روزہ۱۵ ستمبر تا یکم اکتوبر۹۸ء
۳۔ امن روزنامہ، ۲۰ فروری۱۹۹۶ء
۴۔ جنگ روزنامہ کراچی، ۲۲ جولائی۱۹۹۴ء
۵۔ جنگ روزنامہ کراچی، ۲۰ فروری۱۹۹۶ء
۶۔ جنگ روزنامہ راولپنڈی۲۹فروری۱۹۹۵ء
۷۔ جنگ کراچی یکم مارچ۱۹۹۶ء
۸۔ جنگ راولپنڈی۴مارچ۱۹۹۶ء
۹۔ مشرق ۳۰اگست۱۹۸۱ء
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید