زین شکیل کا ایک اور نظموں کا مجموعہ
فہرست مضامین
- صندل تیری پریت
- زین شکیل
- انتساب
- صندل تیری پریت
- دل ہاتھوں مجبور
- تری اتنی پاک پریت
- تُو میرا سانول ڈھول
- تجھے لا کر دے دوں چاند
- میں تیرے بن بے حال
- آ جیون کو مہکائیں
- سچا تیرا پیار
- مرا تجھ سے بسے جہان
- کبھی میرا کہنا مان
- کبھی خود کو بھول کے آ
- یہ شہر بڑا بے درد
- ترے صندل میں قربان
- مجھے تیرا عشق قبول
- کہیں اور کریں ارداس
- ترا حسن پڑے نہ ماند
- ترا کاجل بکھرا صندلیں
- آ مجھ سے مل کر رو
- آ دفن کریں آلام
- چل صندل جائیں دور
- اب سن لے پاک خدا
- ترا مجھ پہ اٹل ایمان
- ہم پڑ گئے تیری راہ
- کبھی اکھیوں سے کچھ بول
- آ پل بھر روئیں صندلیں
- مَن کُنتُ مولا آکھ
- ہم تیرے باہج اداس
- ہمیں بس اک تُو درکار
- بس صندل تیرے نام
صندل تیری پریت
شاعر
زین شکیل
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
صندل تیری پریت
(نظمیں)
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
میرے جیون کی اُس صندل کے نام جس کی خوشبو سے میرا جیون بدستور مہکتا چلا جا رہا ہے اور سدا کے لیے مہکتا رہے گا
صندل تیری پریت
پھر میٹھے سُر میں چھیڑ دے
یہ سانس پریم کا گیت
سب جگ سے سُندر شے لگے
ہمیں صندل تیری پریت
یہ شہر عجیب ہے صندلیں!
یہاں گلیوں میں کہرام
یہاں درد کی فوجیں آ گئیں
یہاں چین برائے نام
اس بے کل عالم بیچ ہم
نہ ڈول سکے اک گام
اک تیری یاد سوا ہمیں
یہاں اور نہ کوئی کام
ہم کر بیٹھے ہیں صندلیں!
اب سانسیں تیرے نام!
٭٭
تُو دل بَن میں اک پیڑ ہے
تری ہر جانب خوشبو
ہم صندل صندل کُوکَتے
تجھے ڈھونڈیں ہر ہر سُو
ہمیں کچھ نہ جگ سے چاہئیے
درکار ہے بس اک تُو
٭٭
تو چھپ گئی کیسے پھول میں
یوں بدل کلی کا بھیس
تجھے آنا ہو گا صندلیں!
اب اپنے پی کے دیس
٭٭
اس عشق کا اپنا فلسفہ
اس عشق کی اپنی ریت
سب جگ سے سندر شے لگے
ہمیں صندل تیری پریت
٭٭٭
دل ہاتھوں مجبور
آ دیکھ ری صندل دیکھ نی
ہم دل ہاتھوں مجبور
ترےِ پریم میں ڈوب کے صندلیں
اب ہر لمحہ مغرور
تو چندا جیون رات کا
ترا دل کے اندر نور
مِری ہستی گھائل کر گئیں
تری دو آنکھیں مخمور
٭٭
چل چھوڑ نگر بے درد ہے
آ میرے دل میں بَس
تیری بانہیں چین کا محل ہیں
تِرے لب ہیں امرت رَس
٭٭
آ خوش بس میری بانھ میں
تجھے بھر بھر جھولے دوں
تِرے درد تمامی چھین لوں
تجھے جی بھر پیار کروں
٭٭
میں رو رو کاٹوں رین کو
ترا جب جب دکھے نہ مکھ
مجھے اور کہیں نہ چین ہے
مجھے تیری ذات سے سُکھ
آ صندل میرے پاس نی
آ بانٹوں تیرے دُکھ
٭٭
اس دل میں تیرا نور نی
ہم دل ہاتھوں مجبور
٭٭٭
تری اتنی پاک پریت
تُو جمنا پاک پریم کی
ترے لب پر صرف دعا
ترے پاس ہے دارو درد کا
تُو سر تا پیر شفا
تُو دولت میرے بخت کی
تُو رب کی خاص عطا
یہاں آ کر میرے کان میں
ترے گائے گیت ہوا
٭٭
ترا دل دریا سے صاف نی
تری سوچیں بھی شفاف
تُو عشق کی پاک کتاب ہے
تجھے رکھوں بیچ غلاف
٭٭
تُو قصہ میرے درد کا
تُو میٹھی سی رُوداد
تُو ٹپکے میری آنکھ سے
تُو ہونٹوں پر فریاد
٭٭
تجھے چھونے سے ہے ڈر مجھے
کہیں ٹوٹ نہ جائے کانچ
مرا تو ہی مان سمان نی
کبھی آئے نہ تجھ پر آنچ
٭٭
کبھی چاہت میں نہ کھوٹ ہو
کبھی ٹوٹے نہ یہ ریت
تری پاک پریت نی صندلیں!
تری اتنی پاک پریت
٭٭٭
تُو میرا سانول ڈھول
کبھی چھوڑ بھی چنتا وقت کی
کبھی بھر سانسوں میں سانس
ترے لیکھ میں میرا لیکھ ہو
یہی سینے اندر پھانس
٭٭
آ اک دوجے کے سامنے
ہم بیٹھیں، دیکھیں مُکھ
آ اتنا دیکھیں صندلیں
یہ نیناں پائیں سُکھ
٭٭
تری گود میں اپنا سر دھروں
اور دوں قصے کو طول
تجھے جانے دوں نہ رات بھر
رہے صرف یہی معمول
ترا مہکے ہر ہر انگ نی
تری مانگ میں بھر دوں پھول
٭٭
اے میرے دل کی چاشنی
ترے رنگ بڑے انمول
ترے لب بھی شیریں صندلیں
ترے میٹھے میٹھے بول
اب بول پریم کے بول نی
ان کانوں میں رس گھول
مرے جیون کا تُو چاند وے
تُو میرا سانول ڈھول
٭٭٭
تجھے لا کر دے دوں چاند
مجھے تیرا ہجر عذاب ہے
ترے ہر دم رہوں قریب
بنوں تِلک میں تیری مانگ کا
میری باتیں دیکھ عجیب
آ پاس مرے تُو صندلیں
مرا جاگے آج نصیب
٭٭
تُو سب سے سُندر صندلیں
ترے آگے سب کچھ ماند
کیا گجرے، کنگن، چوڑیاں
تجھے لا کر دے دوں چاند
٭٭
ہو پل وہ میرا آخری
کروں خود سے تجھے جدا
مجھے پیارے اپنی جان سے
ترے نخرے، ناز، ادا
جلے یاد تری کا دیپ نی
مرے سینے بیچ سدا
میرے جیون پر اب چھا گئی
تُو بن کے پریم گھٹا
کرے تیرے سُکھ کے واسطے
مری ہر ہر سانس دعا
اب آ بس پی کے دیس میں
تجھے رکھے شاد خدا
٭٭٭
میں تیرے بن بے حال
مرے لفظوں میں تو صندلیں
مرا لہجہ بہت اداس
تجھے جی بھر دیکھوں تو مٹے
ان دو نینن کی پیاس
مجھے اور کسی کی تانگ نہ
مری ہستی کو تُو راس
مجھے ماریں ہجر کے ناگ نی
مجھے تیرے ملن کی آس
٭٭
اک تجھ بن جیون راکھ ہے
تجھ سے جیون معمور
اب آ مل مجھ سے صندلیں
کہیں زخم نہ ہوں ناسور
مرے ہر ہر زخم کو صندلیں
تری ہستی ہی کافور
مت نظر بدلنا صندلیں
مت مجھ سے ہونا دور
٭٭
مجھے اور نہ کوئی درد نی
مجھے تیرے رنج ملال
ترے لال گلابی ہونٹ نی
اور ان پر صرف سوال
ترے دامن بکھروں صندلیں
رہوں ہر دم وہیں نڈھال
اب تیرے نام لگا دیے
یہ سب لمحے ، سب سال
اک تجھ بن میری صندلیں
مرا کوئی نہ پوچھے حال
میں تیرے بن بے حال نی
میں تیرے بن بے حال
٭٭٭
آ جیون کو مہکائیں
کبھی آ جا پریم کے باغ میں
مل ہنس ہنس درد بھلائیں
آ بیٹھیں سکھ کی چھاؤں میں
آ سوئے بھاگ جگائیں
آ رَل مل خوشیاں بانٹ لیں
آ جیون کو مہکائیں
آ چھوڑیں نفرت دیس کو
آ پیار کے دیپ جلائیں
آ صندل میرے پاس نی
آ جیون کو مہکائیں
کچھ اور دکھائی دے نہیں
یوں تجھ کو تکتے جائیں
کچھ اور سنائی دے نہیں
یوں تجھ کو سنتے جائیں
کچھ اور سجھائی دے نہیں
اک دوجے میں کھو جائیں
بس آنکھیں بولیں صندلیں
ہر دل کی بات بتائیں
یہ جیون مہکے صندلیں
یوں خود میں تجھے بسائیں
پھر بھول کے اپنے آپ کو
ترے نینن میں کھو جائیں
تجھے سینے ساتھ لگائیں نی صندل
سینے ساتھ لگائیں
٭٭٭
سچا تیرا پیار
یہ دل کی بستی صندلیں
یہ صحرا، دشت، اجاڑ
یہ اور کسی کا دیس نہ
یہاں صندل تیرا پیار
تو لے چل اپنے سنگ نی
مری تیرے ہاتھ مہار
اب لاگے تجھ بن صندلیں
مجھے سارا جگ بے کار
یہاں سارے قصے جھوٹ ہیں
یہاں جھوٹے سب کردار
یہاں دلوں کے اندر کھوٹ نی
یہاں سب روحیں بیمار
سب اپنے اپنے ڈھنگ سے
یہاں کرتے ہیں بیوپار
یہاں مکر فریب کی ریت نی
یہاں سب جھوٹے فنکار
میں ایک اکیلی جان نی
مجھے دور نہ رہ کر مار
میں ڈوب نہ جاؤں صندلیں
مجھے خود ہی پار اتار
یہاں سکھ کا اتنا کال ہے
یہ دکھ کا ایک دیار
اس کالے دیس کے بیچ نی
اک سچا تیرا پیار
بس سچا تیرا پیار نی صندل
سچا تیرا پیار
٭٭٭
مرا تجھ سے بسے جہان
دل روئے تڑپے صندلیں
تری کوئی کرے نہ بات
مرے دن بھی بہہ گئے آنکھ سے
مرے اندر اتری رات
تجھے کون بتائے صندلیں
یہ عشق نہ پوچھے ذات
یہاں صرف اسی کی جیت نی
جو کھاتا جاوے مات
مرا پیاس سے اندر خشک نی
یہ رو رو کہے فرات
٭٭
مری صندل میری زندگی
مری خاطر تُو آسان
مجھے ہر دم تیری فکر نی
مجھے تیرے وہم گمان
ترا پیار ریاضت صندلیں
مرا تجھ پہ اٹل ایمان
تری مانگ میں بھر دوں رنگ نی
ترے ہاتھ پہ رکھوں جان
تُو آس ہے میری صندلیں
بس تُو ہی میرا مان
مجھے اور کسی سے غرض نہ
مجھے تُو لینا پہچان
مجھے اور نہ کوئی راس نی
مرا تجھ سے بسے جہان
مرا تجھ سے بسے جہان نی صندل
تجھ سے بسے جہان
٭٭٭
کبھی میرا کہنا مان
مرے ہر سُو برسے صندلیں
بن بارش تیرا پیار
مرے من میں تیری مورتی
مرا تن تیرا گھر بار
کھو جاؤں لمبی بھیڑ میں
تجھے ڈھونڈوں بیچ بزار
تری پوجا میرا کاج نی
ترا سر پر عشق سوار
ترا دیوی! عشق بنا گیا
مجھے چاہت کا اوتار
٭٭
چل صندل میرے ساتھ نی
کبھی میرے ساتھ بھی چل
مجھے گرم ہوائیں لگ گئیں
مجھے کھانے آ گئے تھل
آ تھام لے میرا ہاتھ نی
کہیں عمر نہ جاوے ڈھل
مجھے اپنی راہ پہ ڈال نی
مرے رستوں میں دلدل
٭٭
ترے میٹھے میٹھے بول کو
مرے صندل ترسیں کان
ترے سنگ ہے دل میں تازگی
تجھ بن جذبے بے جان
آ بن جا ملکہ پریم کی
مجھے مان اپنا سلطان
کبھی صندل کہنا مان مرا
کبھی صندل کہنا مان
٭٭٭
کبھی خود کو بھول کے آ
یہ دریا دریا خصلتیں
یہ صحرا صحرا جوگ
یہ پربت پربت حوصلے
یہ آنسو آنسو روگ
یہ ہم معصوم طبیعتی
یہ ظالم ظالم لوگ
یہاں دل میں ہوس غلاظتیں
کب روحوں کے سنجوگ
٭٭
ہم بَن میں تڑپے صندلیں
پھر دریاؤں کے بیچ
سب صفتیں رب کی ذات کو
ہم سب عاجز، ہم نیچ
٭٭
ہم ہنس ہنس روئیں صندلیں
ہمیں سچی راہ دکھا
ہم حبس کے مارے صندلیں
ہمیں چُنری سنگ اُڑا
کبھی ہاتھ نہ چھوٹے صندلیں
ہمیں اپنے سنگ چلا
کبھی خود کو بھول کے آ نی صندل
خود کو بھول کے آ
٭٭٭
یہ شہر بڑا بے درد
اک طوطا آوے صندلیں
اسے کُوٹ کے چُوری دوں
اک حسرت دل کے بیچ نی
کبھی آئے ہمیں سکوں
کبھی تُو بھی سُن دل داستاں
کوئی تجھ سے بات کہوں
٭٭
ہم دکھ دردوں کی بھیڑ میں
یوں کھوئے رات ہوئی
ہم ترسے تیری دید کو
یہ گھائل ذات ہوئی
سب ہارے کھیل بھی جیت کر
ہمیں صندل، مات ہوئی
٭٭
اک پل کی حرارت واسطے
ہم صدیوں رہتے سرد
ہم لوگ مسافر صندلیں
پڑی ان آنکھوں میں گرد
یہاں کوئی نہ بانٹے درد نی
یہ شہر بڑا بے درد
٭٭٭
ترے صندل میں قربان
یہ قید انوکھی صندلیں
اک دکھ دردوں کی جیل
ہم مجرم پاک پریت کے
کب ہو روحوں کا میل
آ ہاتھ میں لے کر ہاتھ نی
ہم کھیلیں پیار کا کھیل
٭٭
کبھی دیکھی روحی درد کی
کبھی دیکھا شہر بھنبھور
کب سسی محل مزار نی
بس بے کفنی بے گور
مرے لب پر تیرا نام نی
کچھ نین نہ دیکھیں اور
مری خاموشی کے بیچ نی
تری خاموشی کا شور
٭٭
کبھی خوابوں اندر آ سہی
کبھی کر دے درشن دان
کبھی ایک جھلک دکھلا سہی
کبھی میرا کہنا مان
اک بار تُو ہنس کر مانگ لے
سو بار میں دے دوں جان
ترا دل میں اور مقام نی
تری اور ہی دل میں شان
ترے صندل میں قربان نی
ترے صندل میں قربان
٭٭٭
مجھے تیرا عشق قبول
ہمیں قسم تہاری صندلیں
ہمیں تجھ پر ٹھیٹھ یقین
ہمیں تیرے بن کب چین نی
بس تجھ سے جُڑی تسکین
ہم کب اتنے محبوب نی
ہم ایسے کون حسین
٭٭
جو سچی صدق زبان تھی
وہاں چپ کا پڑ گیا تال
جہاں خوشیاں تھیں بس صندلیں
وہاں رہ گیا صرف ملال
سکھ رُلتا رہ گیا ریت میں
اب اُدھڑی سُکھ کی کھال
اب اس دلدل سے صندلیں
کبھی آ کر ہمیں نکال
٭٭
چل چھوڑ دکھوں کی بات نی
آ من میں جُھولا جھول
چل اپنی زلفیں کھول نی
میں ٹانگوں ان میں پھول
اک تجھ بن سارا جگ لگے
مجھے بس قدموں کی دھول
مجھے تیرا عشق قبول نی صندل
تیرا عشق قبول
٭٭٭
کہیں اور کریں ارداس
پھر دُکھ کے ہاتھن آ گیا
مِرا کملا، پاگل دل
اک سُکھ کی خاطر صندلیں
مِری اور بڑھی مشکل
مجھے چین نہ لینے دے کہیں
ترا ہونٹ کے نیچے تِل
کبھی لوٹ مسیحا صِفت نی
کبھی بیماروں سے مل
٭٭
یہ جھوٹ فریب کا دور نی
یہاں گلیوں گلیوں خون
یہاں چھوٹا شخص بھی دیوتا
یہاں ہر دکھ افلاطون
کوئی بولے حق کی بات نی
اسے سمجھیں سب مجنون
یہاں کب انصاف روایتیں
یہاں کالا ہر قانون
٭٭
آ صندل جائیں دور نی
کہیں اور کریں ارداس
یہاں سچ کی بند دکان نی
یہاں جھوٹ ہی سب کو راس
آ سینے لگ کر رو پڑیں
کبھی نکلے سہی بھڑاس
یہ دنیا اوٹ پٹانگ نی
یہاں کوئی نہ درد شناس
٭٭٭
ترا حسن پڑے نہ ماند
یہاں اپنے اپنے حال میں
ہر شخص ہوا برباد
یہاں ہونٹوں پہ دکھ زاریاں
یہاں سب کے دل ناشاد
کبھی مانگ دعائیں صندلیں
کبھی رو رو، کر فریاد!
٭٭
یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر
دل ٹوٹے روز بروز
تجھے دیکھوں سامنے بیٹھ کے
تِرا چہرہ دل افروز
تری آنکھوں میں سُر ساز نی
تِری باتاں اندر سوز
٭٭
مرے اندر تیری روشنی
مری راتوں کا تُو چاند
میں دل سے کروں دعائیں نی
ترا حسن پڑے نہ ماند
٭٭٭
ترا کاجل بکھرا صندلیں
ترا کاجل بکھرا صندلیں
مری آنکھیں ہو گئیں راکھ
مجھے تیرے ہجر نے ماریا
ہوا تن جل جل کر راکھ
٭٭
ترے خوابوں اندر صندلیں
مرا کیونکر روز ملن
تو پاس نہ ہو تو صندلیں
مرا کہیں لگے نہ من
مری روح تو تیرے پاس نی
مرے پاس ہے مٹی تن
مرا کُل اثاثہ صندلیں
بس تُو ہی دولت، دھن
٭٭
یہ دل کو روگ عجیب سے
جو نت نئی کھیلیں چال
انہیں پڑ جائیں کیڑے صندلیں
انہیں آئے خوب زوال
مجھے اپنے دکھ کب صندلیں
مجھے تیرے رنج ملال
ترے سنگ ہی بیتے عمر بھی
ترے سنگ ہی گزریں سال
سب سرد غموں میں صندلیں
تجھے بھیجوں سُکھ کی شال
٭٭٭
آ مجھ سے مل کر رو
میں دل کے لہو سے صندلیں
تجھے لکھ بھیجوں سندیس
بن رانجھن جوگی صندلیں
تجھے ڈھونڈوں دیس بدیس
تری چاہت شاطر صندلیں
ملے بدل بدل کر بھیس
٭٭
کبھی بیٹھوں تیرے پاس نی
کبھی پاؤں خوب سکون
چند گھڑیاں مجھے نواز دے
ترا دل سے رہوں ممنون
تجھ بن میں ایسا صندلیں
چھت جیسے بنا ستون
٭٭
کیا تنہا رونا صندلیں
آ مجھ سے مل کر رو
تُو دل سے درد نکال کے
مرے دل کے بیچ سمو
یہ آنسو اپنے صندلیں
مری آنکھوں بیچ پرو
تُو جاگ سکوں سے صندلیں
تُو سکھ کی نیندیں سو
٭٭٭
آ دفن کریں آلام
ہم دل والوں پر صندلیں
کیوں ظلم کرے ہر شام
آ خوشیاں ڈھونڈیں صندلیں
آ دفن کریں آلام
٭٭
ترا ہجر بھی چھپ کر صندلیں
ہمیں مارے سو سو تیر
ترا ایک تغافل صندلیں
مرا دیوے سینا چیر
مجھ دکھیارے کے واسطے
تری صورت ہی دلگیر
مری سوہنی، سسی، صندلیں
مری تُو ہی رادھا، ہیر
٭٭
تری فرقت سہہ سہہ صندلیں
مرے دل پر لگ گئے داغ
اک دل اندر یہ آس ہے
کبھی تیرا ملے سراغ
تجھ بن سونا گھر بار نی
تجھ بن سونا ہر باغ
٭٭
آدفن کریں آلام نی صندل
دفن کریں آلام
٭٭٭
چل صندل جائیں دور
چل صندل جائیں دور نی
یہاں ذہن بہت محدود
یہاں کال ہے عجز نیاز کا
یہاں ہر انساں معبود
یہاں لاشیں ہر ہر موڑ پہ
یہاں گلیوں میں بارود
٭٭
چل جائیں صندل دور نی
جہاں ہو بس امن امان
جہاں پیاس بجھے نہ خون سے
جہاں وحشی لیں نہ جان
جہاں کبھی کوئی انسان بھی
کبھی بن نہ سکے حیوان
٭٭
چل صندل جائیں دور نی
جہاں جھرنے بہتے ہوں
پربت میں گونجے بنسیا
جہاں پریمی رہتے ہوں
جو دل کا حال بھی صندلیں
اکھیوں سے کہتے ہوں
٭٭
چل صندل جائیں دور نی
جہاں اشک نہ بہتے ہوں
جہاں سکھ رائج ہوں صندلیں
جہاں درد نہ رہتے ہوں
٭٭
آ صندل جائیں دور نی
اس نگری کریں قیام
جہاں پیار محبت کے سوا
ہمیں کوئی بھی ہو نہ کام
وہاں رگ رگ اندر چین ہو
وہاں روحوں کو آرام
وہاں ذات میں ہو تفریق نہ
وہاں صرف پریت کا نام
چل صندل جائیں دور نی
وہاں کر دیں عمر تمام
یہ ظالم دنیا صندلیں
یہاں کوئی نہ اپنا کام
٭٭٭
اب سن لے پاک خدا
اک لے آئے پیغام نی
ہر دریاؤں کی موج
مرے کمرے اندر صندلیں
بس تنہائی کی فوج
مری جان سے زیادہ صندلیں
مِرے ان کاندھوں پر بوجھ
٭٭
کوئی رمز خدایا کھول دے
ہمیں عشق کا ہو ادراک
ہم پانی سے شفاف ہوں
ہم کریں محبت پاک
جو یار ملاوے صندلیں
ہم اُس کے پیر کی خاک
٭٭
یہاں کریں لحاظ نہ صندلیں
یہاں دیتے ہیں دل توڑ
یہ لوگ وفا سے بے خبر
یہ دیتے وعدہ توڑ
یہ لوگ بخیل ہیں صندلیں
یہ ساتھ بھی دیں گے چھوڑ
٭٭
آ دونوں مل کر صندلیں
کریں رب سے ایک دعا
رکھ اپنے حفظ امان میں
ہمیں جگ سے آپ بچا
اب سن ہمری فریاد وے
اب سن لے پاک خدا
٭٭٭
ترا مجھ پہ اٹل ایمان
یہاں دکھ دردوں کے صندلیں
کچھ حملے بہت شدید
اب تم مت کھونا صندلیں
ہمیں تم سے آس امید
دکھ جھیلتے آئے صندلیں
اب ہمت نہیں مزید
٭٭
کب وقت وہ آئے صندلیں
جب چھٹے غموں کی دھوپ
ترے جی بھر نیناں دیکھ لوں
ترا دِکھے سنہری رُوپ
٭٭
میں کتنا بولوں صندلیں
کبھی تو بھی باتیں کر
مرے دل میں بیٹھا صندلیں
ترے کھو جانے کا ڈر
اب آ مل مجھ سے صندلیں
احساس نہ جائیں مر
کبھی خط لکھ صندل خیر کا
کبھی اپنی بھیج خبر
٭٭
ترے صدقے جاؤں صندلیں
مرا تُو جو رکھے مان
تو آج یہ بولی صندلیں
ترا مجھ پہ اٹل ایمان
بس میں تیرے قربان نی صندل
میں تیرے قربان
٭٭٭
ہم پڑ گئے تیری راہ
ترا پیار ہمیشہ صندلیں
مرے دل میں رہے آباد
میں ہو جاؤں سرشار نی
تری پل پل آوے یاد
میں یہی دعا دم دم کروں
تجھے مولا رکھیں شاد
٭٭
میں ظاہر سے ہوں شاہ پر
مرے اندر ایک فقیر
میں عشق کا قیدی صندلیں
مرے پیروں میں زنجیر
اور اس پر تیرے نین نی
آ مجھ پہ چلاویں تیر
٭٭
ترے ایک تبسم ناز نے
مرا چھین لیا ہے دل
مری جان نکالے صندلیں
ترا ہونٹ کے نیچے تل
مجھے جگ سے نفرت صندلیں
مجھے دور کہیں پر مل
٭٭
ہمیں بس اک تجھ سے پیار نی
ہمیں بس اک تیری چاہ
اب جیون چاہے ہار دیں
ہم پڑ گئے تیری راہ
ہمیں سینے سنگ لگا نی صندل
سینے سنگ لگا
٭٭٭
کبھی اکھیوں سے کچھ بول
ہم تیرے ہو گئے صندلیں
ہمیں شہر کا اب نہ ڈر
ہم کیسے ٹھہریں صندلیں
جب لیکھوں بیچ سفر
٭٭
چل چھوڑ دے چنتا شہر کی
مرے دے ہاتھوں میں ہاتھ
کبھی تنہائی کو مات دے
کبھی چل ناں میرے ساتھ
تجھے چاہوں ہر دم صندلیں
نا دن دیکھوں نا رات
میں تجھ سے جدا نہ صندلیں
تری میرے اندر ذات
٭٭
میں لوٹ آؤں گا صندلیں
یہ دنیا بھی ہے گول
کبھی میٹھی بولی بول ناں
کبھی رس کانوں میں گھول
تری کوئی نہ قیمت صندلیں
ترا کوئی نہ جگ میں مول
مرے بخت کی ذینت بن گیا
ترا پیار جو ہے انمول
کبھی اکھیوں سے کچھ بول نی صندل
اکھیوں سے کچھ بول
٭٭٭
آ پل بھر روئیں صندلیں
مجھے رستے آ کر صندلیں
کیوں دیتے رہے فریب
میں بد روحوں کی قید میں
مرے دل اندر آسیب
اس عالم میں اب صندلیں
مجھے عشق نہ دیوے زیب
٭٭
ہم دریا دیکھیں صندلیں
ہمیں کون اتارے پار
چند سکھ کے لمحوں واسطے
کیوں عمروں کے آزار
اور اس عالم میں صندلیں
سب تدبیریں بے کار
٭٭
آ پل بھر روئیں صندلیں
آ روئیں اور ہنسیں
اس نگر کو چھوڑیں صندلیں
آ جائیں دور بسیں
آ تنہا بیٹھ کے صندلیں
آ روئیں اور ہنسیں
٭٭٭
مَن کُنتُ مولا آکھ
کبھی آ روحانی صندلیں
آ مجھ کو "قول” سُنا
مَن کُنتُ مولا بول نی
مرے من سے بوجھ ہٹا
آ شہر نجف کی راہ میں
دیں اپنے نین بچھا
٭٭
ہم گندڑے مندڑے صندلیں
اور پاک ازل سے وہ
فریاد کی مالا صندلیں
ہم لائیں اشک پرو
مجھے درد کہیں یہ صندلیں
لے اب جی بھر کے رو
٭٭
چل صندل میرے ساتھ نی
اب آ کربل کو چل
مرے چہرے پر اے صندلیں
اب خاک شفا تو مل
ہو سینے اندر روشنی
مری مشکل جاوے ٹل
کہیں دکھ کی دھوپ میں صندلیں
مری ذات نہ جاوے جل
٭٭
کہیں جل نہ جاویں صندلیں
کہیں اُڑ نہ جاوے راکھ
مَن کُنتُ مولا آکھ نی
مَن کُنتُ مولا آکھ
٭٭٭
ہم تیرے باہج اداس
تجھ بن میں بہت اداس نی
تجھ بن ہر شے مغموم
تری خاطر تڑپے صندلیں
مری یہ دلڑی معصوم
ترا سنگ ملے گر صندلیں
مرا جاگ اٹھے مقسوم
پھر ہم خوشیوں سے صندلیں
کبھی ہو نہ سکیں محروم
٭٭
تم رکھنا خاص خیال نی
کہیں ہاتھ نہ جاوے چھوٹ
یہ بد بختی ہے صندلیں
گر پریتم جاوے روٹھ
گر دیکھیں صورت غیر کی
پھر جاویں اکھیاں پھوٹ
اک پریت ہے سچی صندلیں
سب باتیں باقی جھوٹ
٭٭
تب دکھ ہوتا ہے صندلیں
جب بچھڑیں من کے میت
تب ساز سماعت چھیل دیں
جِند گھائل کر دیں گیت
٭٭
ہم صندل کتنی دور سے
لے آگئے تیرے پاس
ہمیں ہر جانب اے صندلیں
بس آوے تیری باس
ہم تیرے باہج اداس نی صندل
تیرے باہج اداس
٭٭٭
ہمیں بس اک تُو درکار
تری محفل خاطر صندلیں
ہم بات کو دیویں طُول
ترے دم سے جگ کی رونقیں
تجھ بن ہر چیز ملول
تو سامنے ہو تو صندلیں
ہم دنیا جاویں بھول
ان بانہوں میں آ صندلیں
کبھی آ کر جھولا جھول
یہ جگ کی دولت صندلیں
ہو پیروں کی بس دھول
ہم منکر ریت رواج کے
ہمیں تیرا عشق قبول
٭٭
مرے سینے کان لگا کبھی
کبھی میری دھڑکن سُن
مری اس دھڑکن کے ساز پر
کبھی آ کر تُو سر دھن
میں بکھرا بکھرا صندلیں
کبھی میرے ٹکڑے چُن
مری خاطر میری صندلیں
کبھی تُو بھی سپنے بُن
اک پِیڑ ہجر کی صندلیں
گئی روح تلک میں پھیل
کچھ لوگ بنے ہمدرد بھی
تھی ان کے من میں میل
٭٭
تو پاس جو ہے پھر دور کیوں
یہ بھید تو ہم پر کھول
ہم ضبط کا دامن چھوڑ دیں
ہم کتنا روئیں بول
٭٭
مرے جیون اندر صندلیں
کچھ اور نہیں بس تُو
ترا ہر جانب احساس نی
تری ہر جانب خوشبو
٭٭
ہمیں روحی میں جا رول دے
ہمیں کھو دے بیچ بزار
ہمیں چاہے دکھ دے صندلیں
ہمیں لاکھوں دے آزار
اب کر دے تُو مصلوب نی
ہمیں چاہے جتنی بار
ہمیں پھر بھی تو درکار نی صندل
بس اک تُو درکار
٭٭٭
بس صندل تیرے نام
یہ جیون تیرے نام نی
یہ جیون تیرے نام
یہ صبحیں تیرے نام نی
یہ شامیں تیرے نام
٭٭
مری زیریں، زبریں صندلیں
مری شدّ و مَد اور پیش
مرا زُھد، فقیری صندلیں
مرے اندر کا درویش
٭٭
مری پوجا کا ہر ڈھنگ نی
مری ہر مقبول دعا
مرے جرم سزائیں صندلیں
مری تیرے نام جزا
٭٭
مرا جوہر، فن، فنکاریاں
مری جرات میرا ڈر
مری آنکھوں میں تُو صندلیں
مرے دل میں تیرا گھر
٭٭
میں دریا ایک پریم کا
تو پانی بھرنے آئے
تو صندل میری زیست کا
مرے جیون کو مہکائے
٭٭
مری ساری درد ریاضتیں
مری منزل ہر ہر گام
مرا اک اک پہر بھی صندلیں
مری ہر صبح ہر شام
مرا ہر اک خط بھی صندلیں
مرا اس میں ہر پیغام
مرا ہر آغاز بھی صندلیں
اور میرا ہر انجام
اک صندل تیرے نام نی
بس صندل تیرے نام
٭٭
تو دھڑکن کا سنگیت نی صندل
دھڑکن کا سنگیت
مجھے جگ سے سُندر شے لگے
اک صندل تیری پریت
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/sandal-teri-pareet.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں