FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی سنہری تحریریں

حصہ اول

 

                مرتبہ: ساجد اسید ندوی

 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

…{حرف مدعا}…

 

مشاہیر اہل علم و اصحاب قلم اور ادباء و محققین کی تحریروں، ان کے مضامین و مقالات اور خطوط ورسائل کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کرنا عصر حاضر کی علمی و ادبی دنیا کی مشہور و معروف بات ہے، اس سے جہاں ایک ادیب و محقق اور قلمکار کی شخصیت اور اس کی علمی و ادبی اور دینی و علمی خدمات کا تعارف ہوتا ہے اور اس کے فکری رجحانات، اس کے جذبات واحساسات، اس کے خیالات کی گہرائی و گیرائی، اس کے علم و فضل کی وسعت، زبان و بیان پر اس کی قدرت، اس کی تحریری زندگی کے نشیب و فراز اور تدریج و ترقی، سماج و معاشرہ اور ملک و ملت کے تئیں اس کی بیدار مغزی اور وقت کے حالات و حوادث اور ضروریات و مقتضیات سے اس کی باخبری جیسی اہم باتوں پر ر وشنی پڑتی ہے، وہیں نسل نو کیلئے اس کی علمی و ادبی تخلیقات اور تحقیقی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے اور سلیقۂ تحریر اور طریقۂ تعبیر وغیرہ سے استفادہ کرنے کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں، علاوہ ازیں ایک ادیب و محقق اور اہل قلم کی کوئی بھی تحریر وقت کے تقاضوں کی ترجمان ہوتی ہے، ایک صاحب قلم بسا اوقات کسی موضوع پر کسی وقتی تقاضے اور کسی علمی وسماجی ضرورت کے تحت ہی قلم اٹھاتا ہے اس لئے اس قسم کے مجموعے وقت کے اعتقادی و فکری رجحانات، عملی تقاضوں، سماجی و معاشرتی مسائل اور ملی و قومی ضرورتوں سے آگاہی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

اپنے مشاہیر، بزرگوں اور اکابر اہل علم و قلم کے تئیں جماعت اہل حدیث کی سرد مہری، بے اعتنائی اور نا قدر دانی کی بات عالم آشکارا ہے، مورخ دوراں علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’نقوش عظمت رفتگاں ص ۱۸۱‘‘میں شیخ الحدیث محمد اسماعیل گوجرنوالہ کے تذکرہ کے ضمن میں اس بات کا رونا روتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’یہ جماعت اہل حدیث کے اصحاب علم کی خصوصیت ہے کہ جو مرگیابس مرگیا اس کا نام لینے یا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں، یہاں اتنی مصروفیات ہیں کہ اللہ کے رسول کا نام لینا مشکل ہو رہا ہے، ان امتیوں کا نام کون لے ‘‘چنانچہ دیگر حلقوں میں اگر اپنے علماء و اکابر کی تحریروں اور خطوط ورسائل حتیٰ کہ ان کی درسی تقریروں اور مجلسی گفتگوؤں (ملفوظات و مواعظ)تک کے جمع کرنے کا خوب اہتمام پایا جاتا ہے اور یہی اہتمام ہی دراصل نسل نو میں ان میں سے بہتوں کے تعارف اور پہچان کا ذریعہ بھی ہے تو جماعت اہل حدیث کی سرد مہری، اکابر فراموشی اور نا قدر دانی کے نتیجے میں اکابر اہل علم و فضل کی علم و عرفان اور بحث و تحقیق کے گوہروں سے معمور اور ادب و حکمت اور بصیرت و موعظت کے جواہر پاروں سے لبریز نہ جانے کتنی قیمتی، نادر اور بے مثال تحریریں دیمکوں کی غذا کے طور پر کام آ گئیں، نسل نو تو ان سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہی رہی ان کی شخصیت کے نام و نشان بھی ان تحریروں کے ساتھ مٹ کر رہ گئے اور آج دنیا نہ ان کے کام سے واقف ہے اور نہ نام سے۔

گذشتہ تین چار دہائیوں میں جماعت کے جو اہل علم اور اصحاب قلم علم و ادب اور بحث و نظر کی دنیا میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکتے اور پنے علم و ادب سے دنیا کو روشن و منور کرتے رہے ان میں مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سر فہرست ہے، بلکہ عوام و خواص کے حلقے میں جو شہرت و عظمت اور مقبولیت و محبوبیت ان کو نصیب ہوئی وہ ان کے معاصر علماء میں سے شاید ہی کچھ کے حصہ میں آئی ہو، مولانا مبارکپوریؒ جامع کمالات اور بوقلموں اور گوناگوں خوبیوں کی حامل شخصیت کے مالک بزرگ تھے، اللہ نے ان کی ذات والا صفات میں ایسے بہت سے کمالات اور خوبیوں کو یکجا کر دیا تھا جو بیک وقت ایک شخص میں بہت کم جمع ہو پاتی ہیں، وہ میدان تدریس و افتاء کے ماہر شہ سوار بھی تھے اور تحریر و تصنیف کی دنیا کے عظیم سالار بھی، با وقار مفسرومحدث اور ممتاز و مایہ ناز محقق وسیرت نگار بھی، ایک کامیاب مناظر و مقرر بھی اور بقول مولانا عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ شعر و شاعری کی دنیا کے رمز آشنا بھی۔

مولانا نے یوپی کے ضلع اعظم گڑھ کے مشہور علمی و صنعتی اور مردم خیزو عالمگیر شہرت یافتہ قصبہ مبارکپور کے شمال میں ایک چھوٹی سی بستی حسین آباد میں ۱۹۴۲ء میں آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم اپنے دادا محمد اکبر اور چچا مولانا عبدالصمد سے حاصل کی، پھر مدرسہ دار التعلیم میں پرائمری درجات کی تکمیل کے بعد مدرسہ احیاء العلوم مبارکپور میں داخل ہوئے، وہاں دوسال تک زیر تعلیم رہ کر بعد ازاں جماعت اہل حدیث کی مشہور و قدیم درسگاہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن چلے گئے اور ۱۹۶۱ء میں فراغت کے بعد وہیں مدرس مقرر کئے گئے، دو یا تین سال کے بعد جامعہ اثریہ مؤ منتقل ہو گئے۔ اور ۱۹۶۶ء تک وہاں رہے، پھر مدرسہ فیض العلوم سیونی، مدھیہ پردیش چلے گئے اور ۱۹۷۲ ء تک بحیثیت پرنسپل اور استاد کام کرتے رہے، اس کے بعد اہل وطن کی گزارش پر مادر علمی دار التعلیم تشریف لے آئے اور صدر مدرس بنائے گئے، ۱۹۷۴ء میں آپ کو جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے دعوت ملی، آپ نے یہاں بحیثیت استاد، محقق اور اڈیٹر کے گرانقدر خدمات انجام دیں، یہ سلسلہ ۱۹۸۸ء تک چلتا رہا، اس دوران آپ نے کئی اہم کتابیں تصنیف کیں، جامعہ سلفیہ میں قیام کے دوران ہی آپ بجرڈیہہ کے مشہور مناظرہ میں شریک ہوئے اور بریلوی عالم ضیاء المصطفیٰ قادری سے مناظرہ کیا، اس موقع پر آپ کے دلائل سے متاثر ہو کر متعدد افراد نے مسلک اہل حدیث قبول کیا، مناظرہ بجرڈیہہ کی روئداد ’’رزم حق و باطل‘‘ کے نام سے شائع ہوئی، اس کا حالیہ اڈیشن مکتبہ الفہیم نے شائع کیا ہے۔

مارچ ۱۹۷۶ء کی بات ہے، عالم اسلام کی پہلی سیرت کانفرنس میں جو کراچی میں منعقد ہوئی تھی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے سیرت کے موضوع پر مقالہ نگاری کے عالمی مقابلہ کا اعلان کیا، یہ مقالہ دنیا کی کسی بھی زندہ زبان میں لکھنا تھا، احباب کے اصرار پر مولانا نے بھی اس میں حصہ لیا اور ’’الرحیق المختوم‘‘ کے نام سے عربی زبان میں ایک وقیع مقالہ پیش کیا، جسے ۱۷۱/ منتخب مقالات میں اول انعام کامستحق قرار دیا گیا اور پھر آپ کو ۱۲/ربیع الاول ۱۳۹۹ھ کو مکہ مکرمہ میں ایک با وقار تقریب میں مکہ مکرمہ کے نائب گورنر امیر سعود بن عبدالمحسن بن عبدالعزیز کے ہاتھوں انعام سے نوازا گیا جو پچاس ہزار ریال پر مشتمل تھا، مقابلہ میں کامیابی نے آپ کو عظمت و شہرت کی بلند چوٹی پر پہونچا دیا، الرحیق المختوم کی اشاعت کے بعد مدینہ یونیورسٹی نے انہیں ہندوستان سے مدینہ بلوا لیا، ۱۹۹۷ء تک وہ وہیں ’’مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ النبویۃ‘‘ میں بطور ریسرچ فیلو کام کرتے رہے، اس دوران انھوں نے فارغ اوقات میں کئی بیش قیمت کتابوں کی تالیف و ترجمہ کا کام انجام دیا، صحیح مسلم کی شرح ’’منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم‘‘کے نام سے لکھی، میٹرک تک کے طلباء کیلئے عربی میں ’’روضۃ الانوار فی سیرۃ النبی المختار‘‘ نامی کتاب لکھی، یہ مختصر حجم میں سیرت پر اپنے انداز کی منفرد کتاب ہے، کتاب شائع ہوئی تو سعودی عرب کے متعدد تعلیمی اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، لوگوں نے اسے مفت تقسیم کیا اور کتنے ہی عربی اسکولوں نے اسے اپنے نصاب میں شامل کیا، اس کا اردو ترجمہ خود مولانا ہی نے ’’تجلیات نبوت‘‘ کے نام سے کیا، دیگر کئی زبانوں میں بھی اس کی اشاعت کی گئی۔

مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ النبویۃ سے سبکدوشی کے بعد دارالسلام ریاض نے آپ کو اپنی ’’مجلس علمی‘‘کا سربراہ مقرر کیا، دارالسلام سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے کئی کتابوں پر مراجعہ فرمایا ان میں ’’موسوعۃ الحدیث النبوی الشریف‘‘(کتب ستہ ایک جلد میں )تفسیر ابن کثیر کے اختصار اور تفسیر احسن البیان۔ از۔ صلاح الدین یوسف پر مراجعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے، دارالسلام سے ان کی وابستگی کم و بیش ۸/ سال تک رہی، انتقال سے چند سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوا اور آخر میں کچھ مہینے اپنے وطن مبارکپور میں صاحب فراش رہنے کے بعد عالم اسلام کا یہ مقبول سیرت نگار، ممتاز محقق و مناظر اور صاحب قلم یکم دسمبر ۲۰۰۶ء کو جمعۃ المبارک کے دن تقریباً تین بجے اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

(جریدہ ترجمان ۱۶/تا ۳۱/دسمبر۲۔ ۔ ۶ء کے مختلف مضامین سے مستفاد)

اللہ نے مولانا مبارکپوریؒ کو ذہانت و فطانت سے حصۂ وافر عطا فرمایا تھا، ان کی ذہانت و فطانت بچپن ہی سے نمایاں اور عیاں تھی۔ انھوں نے سبھی امتحانات نمایاں نمبرات سے پاس کئے تھے، تحریر میں انھیں ایک خاص اسلوب و انداز اور زبردست قوت تعبیر سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ۱۹۸۲ء میں جامعہ سلفیہ بنارس سے ماہنامہ ’’محدث‘‘ کا اجراء ہوا، اس سے قبل مولانا ادریس آزاد رحمانیؒ کی ادارت میں ’’صوت الجامعہ‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکلتا تھا، مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوریؒ ’’محدث‘‘ کے اڈیٹر بنائے گئے۔ ’’محدث ‘‘میں ان کے قلم سے بہت دلچسپ کالم ہوتے تھے، اداریہ، آیات و انوار(درس قرآن) منھاج نبوت (درس حدیث) سوالات کے جوابات اور کتابوں پر تبصرے وغیرہ یہ ساری چیزیں علمی اور دینی حلقوں میں خاصی مقبول رہیں لیکن ان میں ان کے اداریوں کو (جو نشان منزل اور پھر نقش راہ کے مستقل عنوان سے شائع ہوتے تھے )ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اداریوں کی عظمت و مقبولیت کا اندازہ داد وتحسین پر مشتمل ان مراسلوں سے ہوتا ہے جو دانشوروں کی طرف سے ان کے نام بھیجے گئے ہیں، زیر نظر کتاب انھیں مقبول و دل پسند اداریوں کی مرتب اور مجموعی شکل ہے، راقم نے مکتبہ الفہیم کے ایماء پر انھیں اس لئے یکجا اور مرتب کر دیا ہے کہ یہ صحافت کے حوالہ سے مولانا مبارکپوریؒ کے تعارف کا ذریعہ بھی بنے اور نوخیز علماء اور طلباء کیلئے، علمی اور دعوتی زندگی میں ’’مشعل راہ‘‘ کا کام بھی دے، ’’وھذا تاویل رویای من قبل قد جعلھا ربی حقا‘‘

مولنا مبارکپوریؒ فروری ۱۹۸۲ء سے لے کر ستمبر ۱۹۸۸ء تک ’’محدث‘‘ کے اڈیٹر رہے، اس مدت میں ان کے قلم سے کم و بیش ۶۱، ۶۲ / ادارئیے نکلے، اس مجموعہ میں سوائے چند کے سارے ادارئیے آ گئے ہیں، ان اداریوں کی ترتیب و جمع میں ماہ وسال کی ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ مرور ایام کے ساتھ مولانا کے قلم میں جو پختگی، ترقی اور تبدیلی رونما ہوئی ہو اس سے فائدہ اٹھانے والے فائدہ اٹھا سکیں۔

یہ ادارئیے مختلف اوقات میں حالات اور تقاضے کے پیش نظر مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں اس لئے ان میں سے ( معمولی تبدیلی کے ساتھ مولانا ہی سے مستعار الفاظ میں ) کسی کا رخ عقائد کی طرف ہے توکسی کا ا حکام ومسائل کی طرف، کسی میں قرآن و حدیث کے مطلوبہ ایمان کی و توضیح ہے تو کہیں علمی کمزوریوں کے نتائج کی نشاندہی کسی میں مسلمانوں کے تمدنی اور اجتماعی مسائل کا تحلیل و تجزیہ ہے تو کسی میں عالم اسلام کی سیاست کے نشیب و فراز کا تذکرہ ہے، کسی میں اسلام میں پیوند کاری پر نکیر ہے تو کوئی اسلام کے اساسی مصادر و مآخذ سے بغاوت و بے نیازی پر گرفت پر مشتمل، کہیں حق پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ ہے تو کہیں باطل کی زنجیریں توڑ کر میدان رستخیز میں اترنے کا ولولہ، کسی میں شخصیت پرستی کے غلو پر نکیر ہے توکسی میں عظمت اسلام کے مناروں کا تذکرہ‘‘ وعلی ہذا القیاس۔ موضوعات کے اس تنوع ووسعت کے با وصف زبان و بیان کی چاشنی کہیں ساتھ نہیں چھوڑتی ہے، اداریہ کوئی بھی ہو اور موضوع جیسابھی ہو، الفاظ کی شستگی وشائستگی، لہجہ کی متانت وسنجیدگی، اور ادب و بلاغت کی خوبیاں و باریکیاں ہر جگہ موجود ہیں۔

یہ مجموعہ سراپا دعوت حرکت و عمل ہے، یہ بتلائے گا کہ ایک آدمی اگر عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھے اور جوش و ولولہ کے ساتھ کام کرے تو بیک وقت کئی میدانوں کو اپنی جولان گاہ بنا کر بھی ہر میدان میں اپنی اہلیت و قابلیت ثابت کر سکتا ہے۔ نیز یہ کہ ایک ادیب و قلمکار مختلف حالات میں، مختلف عنوانات پر کس طرح قلم اٹھا سکتا ہے اور کون سے اسلوب نگارش سے کام لے سکتا ہے، امید کی جاتی ہے کہ علمی و دینی حلقوں میں اس کوشش کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا اور نوخیز علماء و طلباء اپنی علمی، دعوتی اور تحریری زندگی میں اسے ’’نقوش راہ‘‘ بنائیں گے، مولانا مبارکپوریؒ کی تحریروں کے حوالہ سے یہ پہلی کوشش ہے جلد ہی اس سلسلے کی دوسری کڑیاں بھی سامنے آئیں گی جو مولانا کے ان مضامین و مقالات، دروس قرآن و حدیث اور تبصروں وغیرہ پر مشتمل ہوں گی جو مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں منتشر اور پھیلے ہوئے ہیں ساتھ ہی آئندہ مجموعے میں مولانا کے حالات و خدمات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی، ان شاء اللہ ۔

میں مکتبہ الفہیم کے ذمہ داران محترم شفیق الرحمٰن اور عزیز الرحمٰن صاحبان کا جن کی کوششوں کے نتیجے میں سینکڑوں علمی و دینی کتابیں اہل ذوق کے ہاتھوں تک پہونچ چکی ہیں تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس مجموعہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا، بلا شبہ یہ ان کی دین و علم اور جماعت کے ساتھ محبت و غیرت اور مولانا مبارکپوریؒ کی شخصیت سے عقیدت کا مظہر ہے، اللہ ان کے ادارے کودن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین

میں ان تمام لوگوں کا شکر ادا کرنا بھی ضروری سمجھتاہوں جنھوں نے اس مجموعہ کی تیاری کے سلسلہ میں میری کسی طرح کی رہنمائی و مدد کی، اس سلسلے میں جامعہ سلفیہ بنارس کی مرکزی لائبریری کے انچارج جناب حافظ محفوظ الرحمٰن سلفی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ’’محدث‘‘ کے شماروں کی فراہمی کے سلسلے میں میری قابل قدر رہنمائی فرمائی، اسی طرح برادرم خالد اشرف متعلم جامعہ سلفیہ بنارس اور برادر عزیز محمد طارق سلفی بھی مستحق شکر ہیں کہ اس سلسلے میں ان سے بھی تعاون حاصل رہا۔ فجزاھم اللہ خیراواحسن الجزاء۔ اللہ اس کوشش کو شرف قبول عطا کرے اور مرتب وناشر کے حق میں سعادت آخرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین

محمدساجد اسید ندوی

مدھوا پٹی، مدھوبنی

خادم پیام محمدﷺ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، بھدوہی

۲۳/دسمبر ۲۰۰۶ء

 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

افتتاحی خطبہ

 

بسم اللہ مجرھا ومرسٰھا ان ربی لغفورالر حیم

الحمدللہ نحمدہٗ ونسعینہٗ ونستغفرہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ وہ مبارک خطبۂ مسنونہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعہ اور دوسرے اہم مواقع پر ارشاد فرمایا ہے، الفاظ اور جملوں کے تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ یہ خطبہ صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن دارمی میں مروی ہے۔

محدث کے افتتاح کیلئے ہماری نگہ انتخاب اس خطبہ پر اس لئے پڑی کہ یہ تبرک بھی ہے اور دین اسلام کی اہم ترین بنیادوں کا بیان اور تعیین بھی۔ اس میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ دین کیا ہے اور کہاں سے لیا جا سکتا ہے اور اس کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے کہ دین کی حدیں کہاں پر ختم ہو جاتی ہیں اور گمراہی کی حدیں کہاں شروع ہوتی ہیں۔ اس میں صراط مستقیم کی تعیین جس جامعیت کے ساتھ کر دی گئی ہے اس پر کاربند ہو کر انسان ہر طرح کی گمراہی و کجروی اور ناکامی و نا مرادی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

۱…پہلی بات اس خطبہ میں حمد و ثنا، استغفار و تعوذ اور شہادت توحید ورسالت وغیرہ کے بعد یہ بتائی گئی ہے کہ سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے۔

درحقیقت اللہ کی کتاب ’’قرآن مجید‘‘انسانی ہدایت و رہنمائی کا اصل سر چشمہ ہے اس میں عقائد و عبادت اور زندگی کے پورے نظام کے سلسلے میں خاص خاص اور اہم اہم جزئیات کے علاوہ پوری تفصیل اور بھرپور صراحت و وضاحت کے ساتھ ایسے اصول و ضوابط، قواعد و کلیات اور مصادر و مراجع بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعہ ہر ہر قدم پر اسلامی شریعت کا منشاء و تقاضا اور موقف معلوم اور متعین کیا جا سکتا ہے اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کن کن دائروں میں اپنی صوابدید پر چلنے کیلئے آزاد و خود مختار ہے اور کن کن دائروں میں کس کس قسم کے اصولوں اور احکامات و ہدایات کا پابند ہے۔

یہ کتاب صرف اپنے الفاظ و عبارت کی خوبی و کمال، فصاحت و بلاغت اور لطافت وسلاست کے اعتبار سے معجزہ نہیں بلکہ یہ اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں سارے حقائق کی اتنی جامع اور صحیح نشاندہی کی گئی ہے، اور اس کے بتلائے ہوئے عقائد و احکام میں انسانی فطرت کے تقاضے اور اس کی ضروریات کے مخفی سے مخفی گوشوں تک کی اتنی باریکی کے ساتھ رعایت کی گئی ہے کہ اس کی نظیر نہ پہلے کوئی انسان لا سکتا تھا نہ اب لا سکتا ہے۔ دنیا کے سارے ماہرین و تجربہ کار مل کر بھی اس گہرائی و حقیقت بینی کے ساتھ سوچ نہیں سکتے جس پر اس کتاب کی بنیاد ہے۔ غرض یہ کتاب الٰہی سارے علوم کی شاہ کلید، ہدایت ربانی کا سر چشمہ اور اسلام کا بنیادی ماخذ ہے۔ ایک مسلمان مسلمان رہتے ہوئے اپنے کسی معاملہ میں اس کی رہنمائی سے بے نیاز ہو سکتا ہے اور نہ انحراف کر سکتا ہے۔

۲…دوسری بات اس خطبہ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ بہترین طور و طریقہ سیرت و کردار اور طرز عمل محمدﷺ کا طرز عمل ہے۔ آپ کا طرز عمل کیا تھا ؟اس کے متعلق ایک ضروری سوال کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے بتلایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ قرآن آپ کا کردار تھا۔ یعنی جو بات قرآن کے اندر الفاظ و کلمات اور معانی و مراد کی صورت میں موجود و مذکور ہے۔ وہی بات آپ کے اندر کردار و عمل کی صورت میں موجود تھی، گویا آپﷺ ہی اس مصرع کا صحیح مصداق ہیں ؎

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

در حقیقت آپ اپنے ہر قول و عمل اور گفتار و کردار میں بلکہ دوسروں کے کردار و گفتار پر خاموش رہ جانے اور ٹوک دینے تک میں رضائے الٰہی کے نمائندہ اور قرآن مجید کے شارح، معبر اور توضیح کنندہ تھے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا جو منصب اور مقام بیان فرمایا ہے اس کی رو سے آپ اس امت کے حاکم و فرماں روا بھی تھے اور قائد و رہنما بھی، معلم و مربی بھی تھے، پیشوا اور نمونۂ تقلید بھی، قاضی اور جج بھی تھے، شارع اور قانون سازبھی تھے بہت ساری چیزوں کو حلال اور حرام ٹھہرانے کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپی گئی تھی اور بہت سی جزئیات اور فروعات کی تعیین بھی۔

پھر چونکہ آپ اپنے ہر قدم میں رضائے الٰہی کے نمائندہ اور کلام الٰہی کے شارح و معبر تھے اور اسی کی رہ نمائی اور وحی کی روشنی میں یہ ساراکام انجام دیتے تھے اس لئے آپ سے انحراف کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی، آپ کے فیصلوں پر چوں چرا کرنا تو در کنار دل میں تنگی محسوس کرنا بھی ایمان کے خلاف قرار دیا گیا، آپ کی اطاعت کو عین اطاعت الٰہی ٹھہرا یا گیا، اور آپ کے بغیر ہدایت کے سارے دروازے بند کر دئے گئے۔ آپ نے فرمایا ’’اگر موسیٰ بھی ہوتے تو انھیں میری پیروی کرنی پڑتی‘‘(دارمی)۔

اب جس شخص کو ہدایت سے جو کچھ مل سکتا ہے یہیں سے مل سکتا ہے اس کے خلاف جہاں سے جو کچھ حاصل کیا جائے وہ غلط اور گمراہ کن ہو گا۔

آپ کی اس حیثیت اور منصب و مقام کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی ایک ایک نقل و حرکت اور ایک ایک اسوہ و عمل قیامت تک کیلئے موجود و محفوظ ہو، اسے آسانی کے ساتھ پایا اور سمجھا جا سکتاہوتاکہ انسان اپنے کسی بھی دور وجود میں رہ نمائی کے اس سرچشمہ سے محروم نہ رہے، اللہ کا یہ فضل خاص ہے کہ اس نے اس امت کو اس حفاظت کی توفیق بخشی اور ذخیرۂ احادیث کی شکل میں آپ کا یہ اسوہ ہمارے درمیان مکمل طور پر اور محفوظ شکل میں موجود ہے۔

۳…تیسری بات اس خطبہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’ دین میں جو نئی چیز ایجاد کی جائے وہ سب سے بری چیز ہے ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ‘‘

خطبہ کے اس حصے میں محدثات کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ دین میں کسی قسم کے اضافہ پر بھی بولا گیا ہے اور کسی قسم کی ترمیم پر بھی، اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ جو بات دین میں نہیں ہے اسے ایجاد کر کے دین میں شامل کریں اور ترمیم کا مطلب یہ ہے کہ جو بات جس طرح دین میں بتائی گئی ہے اس میں کسی قسم کا رد و بدل کر دیں چونکہ کسی چیز کے محدث ہونے کی یہ دونوں ہی صورتیں ہیں اس لئے یہ دنوں صورتیں بدعت ہیں اور چونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اس لئے ترمیم و اضافہ کی یہ دونوں صورتیں گمراہی ہیں اور اسی لئے ان دونوں قسم کی بدعتوں کے مردود اور ناقابل قبول ہونے کا فیصلہ اسلام کا قطعی اور اٹل فیصلہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ’’مَنْ أحْدثَ فِیْ أمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رد‘‘(بخاری) جو شخص ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کرے جواس میں سے نہیں ہے تو وہ بات مردد ہو گی یعنی دین میں کسی طرح کا اضافہ مردود ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وَمَاکَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلاَ مُؤمِنَۃٍاِذَاقَضَی اللہ ُوَرَسُوْلُہٗ أمْراً أنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِھِمْ‘‘ یعنی جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں توکسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو اپنی طرف سیکچھ کر نے کا اختیار باقی نہیں رہ جاتا، یعنی اہل ایمان اس میں ترمیم نہیں کر سکتے۔

مشرکین نے اسلام قبول کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ سے قرآن مجید میں تھوڑی سی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا، حکم ہوا ’’قُلْ مَایَکُوْنُ لِیْ أنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ اِنْ أتَّبِعُ اِلآَ مَایُوْحیٰ اِلیَّ‘‘ (یونس:۱۔ )آپ کہہ دیں کہ مجھے اپنی طرف سے قرآن مجید میں ردوبدل کا کوئی اختیار نہیں۔ میں تو ایسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے، یعنی خود نبیﷺ کو بھی اللہ کے کلام اور احکام میں رد و بدل اور ترمیم کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ تابامتی چہ رسد(کسی امت بیچارے کا کیا شمار؟)

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے میرے پاس حوض کوثر پر کچھ لوگ آ رہے ہوں گے کہ انھیں روک دیا جائے گا میں کہوں گا، میرے ماننے والے ہیں، مجھ سے کہا جائے گا آپؐ کو معلوم نہیں انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا ایجاد کیا تھا میں کہوں گا ’’سحقا سحقا لمن غیر بعدی‘‘ میرے بعد جنھوں نے ترمیم کی ان پر ہلاکت اور بربادی ہو، یعنی دین میں ایجاد اور ترمیم کا عمل اتنا برا ہے کہ آ پ ُٓ بھی ایسے لوگوں کو دھتکار دیں گے اس لئے حاصل یہ ہوا کہ دین میں نہ کسی قسم کے اضافہ کی گنجائش ہے نہ ترمیم کی بلکہ یہ دونوں ہی حرکتیں مردود ناقابل قبول بدعت اور گمراہی ہیں۔

بدعت کو گمراہی قرار دینے کے اسباب بھی واضح ہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ پر دین کو مکمل کر کے آپؐ کی زندگی ہی میں اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ میں نے یہی دین تمہارے لئے پسند کر لیا ہے ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً‘‘ لیکن اس میں کسی بدعت کی اختراع یعنی کسی کام کے ایجاد و اضافہ یا ترمیم کے معنی یہ ہوں گے کہ ابھی یہ دین ناقص، خام اور ناپسندیدہ ہے مکمل اور پسندیدہ نہیں ہوا ہے، ظاہر ہے کہ یہ تصور قرآن کے بالکل خلاف، خدا تعالیٰ کے بالمقابل سنگین جرأت وجسارت اور سراسر گمراہی ہے اور چونکہ یہ تصور ہر بدعت کا لازمہ ہے خواہ بدعت کا موجد اسے محسوس کرتا ہویا نہ کرتا ہو، اس لئے ہر بدعت بھی بہر حال گمراہی ہو گی۔

یہ بات ایک اور پہلوسے بھی قابل غور ہے، یہ معلوم ہے کہ حکم دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے الا لہ الخلق والامر یعنی خالق اللہ ہی ہے، اس لئے حکم بھی اس کا چلے گا یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم اور اپنی مرضیات کی وحی کیلئے کسی امتی کا نہیں بلکہ نبیﷺ کا انتخاب کیا اور اس انتخاب کے بعد قرآن کی شکل میں اپنی وحی کا ایک بہت بڑا اور جامع ذخیرہ آپ پر اتار دیا۔ لیکن آپ کا کام یا آپ کی ذمہ داری یہیں سے ختم نہیں کر دی، بلکہ بہت سارے معاملات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم اور اپنی مرضی کی تعیین آپ کے ذمہ ڈال دی، اور عصمت و الہام کے ذریعہ غلطی سے حفاظت کا پورا پورا انتظام کر دیا، آپ کو شارع قرار دئیے جانے کا مفہوم یہی ہے اور یہ ایک ایسا پیغمبرانہ منصب و مقام ہے جو آپؐ کے ساتھ مخصوص تھا کسی امتی کیلئے اس میں شرکت کی گنجائش نہیں۔

اب غور کیجئے ! اگر امت کے کسی فرد نے دین میں کوئی بات ایجاد کی یا دین کے کسی حکم میں کوئی ترمیم کی تو کیا اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر اس قدرتی حق اور پیغمبرانہ منصب کو اپنے لئے استعمال کیا یا نہیں ؟ کیا یہ حکم دینے کا جو حق خدا کیلئے مخصوص تھا اور حکم کی تعیین کا جو منصب نبیﷺ کیلئے مخصوص تھا اس خدائی حق اور پیغمبرانہ منصب پر بدعت کا موجد خود براجمان ہو گیا ظاہر ہے کہ یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے اور چونکہ یہ ہر بدعت کا لازمی نتیجہ ہے اس لئے ہر بدعت بھی گمراہی ہے۔

اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ بدعت کو حسنہ اور سیۂ کے دو خانوں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں، بلکہ جو چیز شرعاً حسنہ ہے وہ بدعت نہیں اور جو چیز بدعت ہے وہ حسنہ نہیں، اس لئے صحیح یہی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ خواہ وہ اپنی ظاہری شکل و صورت اور اپنے مطلوبہ نتائج کے اعتبار سے کتنی ہے اچھی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو۔

یہ ہیں اس خطبے کے مضمرات جن کی روشنی میں دین کے اصل سر چشموں تک پہونچنا اور اسے باطل کی آمیزش سے پاک کر لینا نہایت آسان ہے۔      (فروری ۱۹۸۲ء )

٭٭

 

 

 

 

ترتیب الٹی یاسیدھی؟

 

اسلام پر ایک جامع نگاہ ڈالی جائے تو محسوس ہو گا کہ اس کی تعلیمات تین خانوں میں بٹی ہوئی ہیں : (۱) ایک عقائد(۲) دوسرے عبادات (۳) تیسرے نظام زندگی

(۱) عقائد کے اندر وہ باتیں آتی ہیں جن کا تعلق صرف ماننے اور یقین کرنے سے ہے یعنی جنہیں نماز روزے کی طرح ادا نہیں کیا جاتا بلکہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے، جیسے اللہ ، اس کے رسول اس کی کتابوں، اس کے فرشتوں، اس کی مقرر کی ہوئی بھلی بری تقدیر اور قیامت کے آنے والے دن کا یقین رکھنا۔

(۲) عبادات ان کاموں کا نام ہے جن کا اصل مقصود محض یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل ہو۔ یہ مقصود نہیں ہوتا ہے کہ اپنی کوئی دنیاوی غرض پوری ہو۔ عبادات کے ضمن میں بعض دفعہ دنیاوی مفاد حاصل ضرور ہو جاتا ہے لیکن اس کی حیثیت اصل مقصود کی نہیں ہوتی بلکہ عبادت کے جوہری ارکان و اجزاء اور مقاصد سے الگ تھلگ ایک ضمنی یا باہری چیز کی ہوتی ہے، عبادت کے اعمال میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، عمرہ، قربانی، نذر، طواف وغیرہ معروف ہیں۔

(۳) نظام زندگی میں زندگی کے تمام معاملات ومسائل آتے ہیں۔ اسلامی تعلیم کا یہ حصہ ذاتی اور شخصی مسائل سے لے کر حکومت وسلطنت تک کے تمام دائروں کو محیط ہے، اس میں لباس و خوراک، خرید و فروخت، صنعت و حرفت، نکاح و طلاق، وصیت و وراثت، حدود و تعزیرات، جنگ و صلح، وغیرہ وغیرہ سارے ہی معاملات کے متعلق واضح دو ٹوک اور جامع ہدایات موجود ہیں۔

ان تینوں دائروں کو ملا کر اسلام اتنا جامع اور مکمل ہے اور ایسی وسیع اور ہمہ گیر بنیادوں پر مکمل بنایا گیا ہے کہ اب اس میں نہ کسی قسم کی کمی کی گنجائش ہے نہ اضافے کی، نہ ترمیم کی نہ تنسیخ کی، اسلام کے اندر عقائد و عبادات اور زندگی کے غیر متبدل حالات و حقائق کے سلسلہ میں جزوی تفصیلات تک متعین کر دی گئی ہیں اور تغیر پذیر حالات و حقائق کے متعلق ایسے کلی اصول مقرر کئے گئے ہیں کہ ترقی و تغیر کا کوئی مرحلہ ان اصولوں کے دائرے اور حدود سے بالاتر اور ماوراء نہیں ہو سکتا نہ کسی مرحلے میں ان اصولوں سے بے نیازی برتی جا سکتی ہے اور نہ ان کی خلاف ورزی کر کے اور ان کے حدود سے باہر نکل کر کوئی مفید نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے ان اصولوں کے دائرہ میں انسان کو اپنی صوابدید پر عمل کرنے کی پوری پوری آزادی دی گئی ہے اور اس کی ترقی و پیش رفت کے امکانات پر کسی قسم کی قدغن لگانے کے بجائے اسے مزید روشن کیا گیا ہے اس کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

پھر اسلام کے یہ تینوں دائرے باہم اس طرح مربوط ہیں اور تینوں قسمیں ایک دوسرے سے مل کر اس طرح ایک جامع نظام کی تشکیل کرتی ہیں کہ اگر کسی ایک دائرے اور خانے میں کسی قسم کی خامی اور خلل واقع ہو تو بقیہ دو خانے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک آدمی حرام مال کھاتا ہے تو اس کی دعا قبول نہیں کی جاتی، نماز منہ پر ماردی جاتی ہے، جھوٹ بولتا ہے، خیانت کرتا ہے، فریب دیتا ہے اور لڑائی جھگڑوں میں گالی گلوج بکتا ہے، تو یہ اس کے منافق ہونے کی علامت ہے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔

اسلام کی یہ ساری تعلیمات ایک ہی دفعہ نازل نہیں کر دی گئی تھیں، نبیﷺ نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد تقریباً ۲۳ /برس تک اس دنیا میں موجود رہے، اور پوری مدت میں آپ پر وحی کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، اسلامی تعلیمات، قدم بہ قدم، منزل بہ منزل حالات کے تغیر و تبدل اور اسلامی دعوت کے عروج و ارتقاء اور رواج و قبول کے مطابق اپنی اس جامع ترین شکل میں مکمل ہو گئیں جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اس کے بعد دین کی تکمیل کا اعلان کر دیا گیا، وحی بند کر دی گئی اور نبی کریمﷺ کو رفیق اعلیٰ میں بلا لیا گیا۔

آپ نے رسالت سے سرفراز کئے جانے کے بعد لوگوں کو سب سے پہلے جس بات کی دعوت دی تھی وہ توحید کی دعوت تھی……توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات میں بھی ایک مانا جائے، صفات میں بھی اور عبادت کا مستحق ہونے میں بھی، اگر عمل، اقرار یا یقین ان تینوں میں سے کسی بھی ذریعہ سے اس کی خلاف ورزی کی گئی تو توحید کا خاتمہ ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ مدتوں صرف اس عقیدے کی تبلیغ کرتے رہے اور حلقہ بگوش ہونے والوں کو مختلف پہلوؤں سے اس بارے میں پختہ بلکہ پختہ تر بناتے رہے اس دوران صرف چند ہلکے پھلکے احکامات اور عمومی قسم کی اخلاقی ہدایتیں نازل ہوتی رہیں، پھر جیسے جیسے لوگ پختہ ہوتے گئے اسلامی معاشرہ بڑھتا اور مضبوط ہوتا گیا، اسلامی دعوت پنپتی اور پھیلتی گئی، اسلامی احکام اور تعلیمات بھی نازل ہوتی گئیں۔

٭٭

اسلام کی تبلیغ و دعوت کا یہ پیغمبرانہ طریقۂ کار محض اتفاقی نہ تھا، اس کے پیچھے عظیم حکمتیں اور مصلحتیں کار فرما تھیں۔ اولاً تو انسانی فطرت اور اس کا مزاج ہی کچھ اس ڈھنگ کا واقع ہوا ہے کہ اسے یک بیک بدلا یا الٹا نہیں جا سکتا۔ یہ کام تدریجاً ہی کیا جانا مناسب، مفید اور نتیجہ خیز ہے، ثانیاً ان تعلیمات کا باہمی تعلق بھی کچھ ایسا ہے کہ جب تک صحیح ڈھنگ سے عقیدہ ذہن نشین بلکہ دلنشین نہ ہو جائے دوسرے کام بے نتیجہ رہیں گے، اللہ کے نزدیک ان کا کوئی وزن اور کوئی حیثیت نہ ہو گی بلکہ اس کی حیثیت درخت کی اس شاخ کی سی ہو گی جسے قلم کر کے زمین میں گاڑنے کے بجائے فضا میں لٹکا دیا گیا ہو، ظاہر ہے کہ یہ شاخ بار آور نہیں ہو سکتی بلکہ خشک ہو کر چولہے کا ایندھن بن جائے گی، اسی طرح عقیدہ توحید کی درستگی کے بغیر عبادت و اخلاق کے جتنے بھی گوہر گرانمایہ، وجود میں آئیں گی سب بے قیمت خزف ریزے ہوں گے جنھیں کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیا جائے گا۔

٭٭

ہمارے ملک میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے متعدد مراکز سے کام ہو رہا ہے اگر چہ ہندوستان میں جس پیمانے پر دعوت و تبلیغ کی ضرورت ہے اس کے اعتبار سے یہ کام محدود ہے تاہم جو کچھ ہو رہا ہے ہے وہ بہت ہی غنیمت اور لائق قدر ہے ہمیں یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں لوگ دین بیزاری، بد عملی، بے عملی اور کوتاہ عملی کی راہ چھوڑ کر دین کی راہ پر لگ رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ سے رشتۂ قلب جڑ رہا ہے۔ مساجد کی طرف توجہ ہو رہی ہے اور زندگی کے مختلف دائروں میں تبدیلی آ رہی ہے، تاہم ایک بات ہم سمجھنے سے قاصر ہیں نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر ہمارے دعوتی مراکز عقیدے کی تبلیغ، توضیح اور تصحیح سے پہلو تہی کرتے ہیں اور اس حد تک پہلو تہی کرتے ہیں کہ عقیدے کی دعوت گویا ان کے دعوتی پروگرام سے خارج ہے ہم نے اس پہلو تہی کے بڑے سنگین نتائج دیکھے ہیں کتنے نا پختہ کار داعی ہیں جو اپنے سابقہ غلط عقائد پر برقرار ہیں اور دعوت و تبلیغ کی کسی تنظیم سے وابستہ ہو جانے کے بعد اس کے پلیٹ فارم سے اس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسے ایسے واقعات بیان کرجاتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جنہیں سن کر دم بخود رہ جانا پڑتا ہے اور سخت حیرت ہوتی ہے کہ اگر ہماری بے پایاں جدوجہد کا حاصل یہی کچھ ہے تو اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں۔ ؟

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اسلامی دعوت کا آغاز عقائد کی تصحیح سے ہوتا ہے، اس کے بغیر نہ لمبی لمبی نمازیں کام آ سکتی ہیں نہ نفلی روزوں کی کثرت مفید ہو سکتی ہے اور نہ معاشی، سماجی یاسیاسی انقلاب نتیجہ خیز ہو سکتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ جیسی مقدس اور پاکباز جماعت کو مخاطب کر کے خارجیوں کے متعلق فرمایا تھا: ’’یحقر احدکم صلوٰتہ عند صلوٰتھم وصیامہ عند صیامھم یمر قون من الدین کما یمرق من الرمیۃ‘‘ یعنی تم ان کی نماز کے مقابلے میں اپنی نماز کو اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپنے روزے کو حقیر سمجھوگے۔ لیکن وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے۔ یعنی ان کے خروج کے سبب ان کی لمبی چوڑی عبادتیں اور ان کا زہد و تقشف کچھ کارآمد نہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ عقیدے میں شرک کی آمیزش خارجیوں کے خروج سے بدرجہا سنگین اور خطرناک ہے اس لئے اس سے پہلو تہی کرنا، اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صحیح ہے نہ مفید۔

بادل گرج رہا ہے :

دنیا کی سطح پر قوموں اور سلطنتوں کے ابھرنے اور ڈوبنے کی داستان پڑھئے تو ایسالگتا ہے کہ یہ بچوں کے کھلونے ہیں جنھیں تھوڑی دیر اچھالنے اور گھمانے پھرانے کے بعد پٹخ کر چکنا چور کر دیا گیا ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے لئے کوڑے دان کی زینت بن کر رہ گئے ہیں یہاں جو بھی ابھرا ڈوب کر رہا اور جس نے بھی سر اٹھایا سرنگوں ہوا۔ کتنی ہی قوموں کا جاہ و جلال خاک میں ملا اور کتنے ہی خاک نشین اوج ثریا پر جا رہے، ابھی کل تک جن کی حکومت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا آج انھیں اپنے غلاموں سے بھی کم وقفہ کیلئے سورج کی روشنی نصیب ہوتی ہے، بظاہر تو یہ سب محض واقعات اور داستانیں ہیں مگر ان کی تہ میں اتریے تو اندازہ ہو گا کہ یہ سب ایک ایسے ہی فطری اور قدرتی قانون کا عمل مسلسل ہے جیسے فطری اور قدرتی قانون کے تحت پابندی کے ساتھ سورج نکلتا اور ڈوبتا ہے، چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور تارے حرکت کرتے ہیں۔

زوال اور شکست و ریخت کے سارے المیوں کے پیچھے دو طرح کے اسباب صاف طور پر دکھائی پڑتے ہیں۔ جو قوم کاہل وسست گام ہوئی، جفا کشی کے بجائے عیش و عشرت میں پڑی خودی اور عزت نفس سے خالی ہوئی، کردار میں نا پختہ ہوئی یا عدل و انصاف کے بجائے ظلم واستبداد کو اپنا شعار بنایا، خدا اور اس کے بندوں کے سامنے اکڑفوں دکھلائی، نوع انسانی کیلئے بدبختی کاسامان بنی، اللہ کی مخلوق کو حقارت کی نظرسے دیکھا وہ پٹ کر رہی، اسباب ہی کی طرح تباہی کے دو ذرائع بھی ان داستانوں کے پیچھے دکھائی پڑتے ہیں کچھ تو زمین وآسمان کے انتظامات کے ضمن میں جاری ہوا، پانی، آگ، جیسے ہزاروں قدرتی وسائل میں سے کسی کا رخ ان قوموں کی طرف پھیر کر انہیں اس طرح کچل دیا گیا کہ وہ دوبارہ نہ اٹھ سکیں۔ اور داستان پارینہ بن کر رہ گئیں اور کبھی ایسا ہوا کہ خود انسانوں کے کسی گروہ کے ہاتھوں ان کا صفایا ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے ’’قل ھوالقادر علیٰ ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم اویلبسکم شیعاویذیق بعضکم بأس بعض‘‘ یعنی آپ کہہ دیں ! اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے یا تمھارے پیروں کے نیچے سے یا تمھیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے آپس میں بھڑا دے اور تم میں سے بعض کو بعض کی سختی کا مزہ چکھا دے۔

کچھ عرصے سے دنیا کی سطح پر دو قوتیں ابھری ہوئی ہیں ایک امریکہ اور دوسرے روس، حدسے بڑھے ہوئے نشۂ اقتدار اور جوش سربلندی نے دونوں کوبدمست کر رکھا ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں دونوں نے ایسی دھماکہ چوکڑی اور اددھم مچا رکھی ہے اور پوری بنی نوع انسانی میں اپنی سازشوں، ہتھکنڈوں اور قہر و جبر، ظلم واستبداد، سفاکی وسنگدلی اور چیرہ دستی و درندگی کا ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ زمین کا ایک ایک ٹکڑا لرز رہا ہے۔

اور نوع انسانی زخموں سے چور، درد و الم سے کراہ رہی ہے۔ ساتھ ہی ان کی ہوس پرستی کے طفیل عیاشی و فحاشی کا وہ سیلاب بلا امنڈا ہوا ہے کہ اس کی نظیر ڈھونڈنی مشکل ہے۔ قانون قدرت کا تاریخی تسلسل بتلا رہا ہے کہ اب ان کا وقت قریب آ چکا ہے، زد پڑنے ہی والی ہے، اور کسی بھی لمحہ کسی گردش کا رخ ان کی طرف پلٹنے والا ہے۔

اس گردش کی نوعیت کیا ہو گی؟ اور کب آئے گی ؟اس کی تعیین کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ قوموں کی تاریخ میں اوقات کی گنتی مہینوں اور برسوں سے بنیں صدیوں اور قرنوں سے ہوا کرتی ہیں لیکن صورتحال بتلاتی ہے کہ رب العالمین دونوں کو باہم ٹکرا کر دنیا کو ان کے چنگل سے نجات دینے والے ہیں۔ برسوں کی آناکانی کے بعد اب دونوں طاقتیں راست ٹکراؤ کی طرف بڑھتی جا رہی ہیں۔ دونوں ملکوں سمیت یورپ کی وادی ایمن پر۔ جہاں دونوں بلاک کی سرحدیں ملتی ہیں اور جو شایان تجلی نہیں ہے۔ جوہری جنگ کے سیاہ گھنے بادل منڈلا رہے ہیں اور زور زور سے گرج رہے ہیں یورپ اس کی گرج سے کانپ رہا ہے اور اپنے خداؤں کے خلاف سراپا احتجاج بناہوا ہے۔ لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہ بادل برس کر رہیں گے۔ اور جلد ہی برسیں گے لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون۔ (الروم: ۴۱) تاکہ اللہ ان کے بعض کرتوتوں کا بدلہ چکھا دے، ممکن ہے یہ راہ راست کی طرف پلٹ آویں۔

(مارچ ۱۹۸۲)

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی خودی پہچان

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بعض ایسی امتیازی خصوصیات عطا ہوئی تھیں جو کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں دی گئی تھی ایک خصوصیت کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے نصرت بالرعب مسیرۃ شھر۔ (بخاری ومسلم) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری مدد کی گئی ہے کہ مجھ میں اور دشمن میں ایک مہینہ کا فاصلہ ہو تب ہی سے اس پر رعب طاری ہو جاتا ہے۔

آپ کے اس ارشادکی صداقت اسلامی تاریخ کے ہر دور میں نمایاں رہی اور آج بھی روئے زمین کے مختلف ٹکڑوں پر اس کے تابناک اور درخشاں نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ دنیا محسوس کر رہی ہے کہ پچھلے دو تین برس سے عالمی پیمانے پر اسلامی بیداری کی ایک لہر چلی ہوئی ہے۔ لیکن یہ لہر اچانک نہیں ابھری ہے۔ اس کا ایک مخصوص پس منظرہے۔ پچھلی چند صدیوں سے عالم اسلام پر استعماری طاقتوں کا غلبہ شروع ہوا۔ اور پچاس ساٹھ سال قبل استعمار کا یہ پنجۂ استبداد عالم اسلام کی رگ گردن تک پہونچ گیا۔ لیکن عین اسی حالت میں رحمت الٰہی کا ظہور ہوا۔ استعماری طاقتیں آپس میں ٹکرا کر اس درجہ کمزور ہو گئیں کہ چار و ناچار دامن سمیٹ کر اپنے اپنے ملکوں اور جزیروں میں واپس چلی گئیں اور مادی طور پر عالم اسلام آزاد ہو گیا۔ لیکن استعمار نے اپنے دور اقتدار میں جو نظام حیات برپا کیا تھا س کے سانچے میں ایک طبقہ پورے طور پر ڈھل چکا تھا۔ اور ملک کے سیاہ وسفید پراسی کا تصرف تھا اس لئے استعمار کے اثر دھلے نہ جا سکے۔ مسلمان اسلامی حکومت کی آرزو کے ساتھ آزاد ہو کر بھی پر فریب نعروں کے دلآویز پر دے میں چھپے ہوئے استعماری نظام کے خونیں پنجے میں جکڑے رہے اور اسلام کے نام لیوا زندگی کے میدان سے الگ تھلگ رہے یا رکھے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ملکی حکمرانوں کے خون آشام کردار کی حقیقت سامنے آتی گئی۔ واضح طور پر دیکھا گیا کہ حکمراں اور ان کے کارندے، فریب، دغا بازی، رشوت، جبر، ظلم، استبداد، کنبہ پروری، حرام کاری اور آوارگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ ان کے ہاتھوں جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں ہے۔ ان کے نظام میں غنڈے اور بدمعاش معزز ہیں اور پختہ کردار لوگ مجرم اور ذلیل ان کی عدالت مظلوموں کو جیل بھیجتی اور ظالموں کو نوازتی ہے۔ وہ خود کروڑوں روپئے غبن کرتے ہیں مگر ماچس اور سگریٹ پر دوچار پیسے زیادہ منافع لینے والوں کو جیل کی ہوا کھلاتے ہیں گویا مچھر چھانتے اور ہاتھی نگلتے ہیں ان کے یہاں عدل و انصاف کے سارے پیمانے بدلے ہوئے ہیں اور اخلاق و کردار کا سارامعیار الٹا ہے اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ استعمار کے وارث ملکی حکمرانوں اور ان کے نظام سے نفرت عام ہوتی گئی۔ اور مفاد پرست ٹولے کے سواکوئی بھی اس کا ہمدرد نہ رہا۔

مایوسیوں کی اس تاریکی میں اسلام کی طرف پلٹنے کا احساس تیز ہوا۔ اور استعمار کے چھوڑے ہوئے ظالمانہ نظام سے نفرت کا جذبہ جرأت رندانہ میں تبدیل ہوتا گیا۔ اس پر اسلامی مبلغین کی کوششوں نے مہمیز کا کام دیا، چونکہ وسائل کی ترقی کے سبب دنیا کے فاصلے سمٹ چکے ہیں اس لئے مسلمانوں کا یہ احساس ملکوں کے جغرافیائی حدود توڑ کر امت اسلامیہ کے دل کی دھڑکن بن گیا، ادھر انتظام اور حکمرانی کی بہترین صلاحیتیں رکھنے والا ایک خاصا بڑا طبقہ بھی اسی احساس کی گود میں پل کر جوان ہو چکا ہے۔ یہ طبقہ عالم اسلام کے سارے ممالک میں موجود ہے اور اپنے ملک کو آئینی ذرائع سے اسلام کی طرف لے جانے کی تگ و دو کر رہا ہے، عامۃ المسلمین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور ان کے اندر ایمان کی دبی ہوئی چنگاری، اسلام کی سربلندی کے دن دیکھنے کے شوق میں انھیں تڑپاتی رہتی ہے اس پس منظر سے یہ حقیقت اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ اسلامی بیداری کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں کیوں کہ اس کا تعلق براہ راست ایمان سے ہے۔ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء۔

اسلامی بیداری کی ا س لہر کو خدا بیزار طاقتیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں ان کی نیند حرام ہوتی جا رہی ہے اور وہ اسے دبانے اور کچلنے کے لئے انسانی تاریخ کے نہایت گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ عالم اسلام کے جن ممالک نے روس سے دوستی اور تعاون کا عہد استوار کر رکھا ہے وہ سرسے پاؤں تک خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور جن ممالک نے امریکہ کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے وہ ہلاکت خیز تحریکوں اور انسانیت سوز فتنہ وفساد کے سبب درد سے کراہ رہے ہیں نشانہ دونوں جگہ اسلام پسند طاقتیں ہیں۔ اور نشانہ بنانے والے خود ان ممالک کے حکمراں ہیں۔ ان حکمرانوں کے تصرفات اپنے آقاؤں کی ہدایت پر مبنی ہیں۔ اور منصوبہ سازی صہیونی دماغ نے کی ہے جو سوراور بندر بنائے جانے والے انسانوں کا وارث ہے سارے تصرفات اس بات کی کھلی علامت ہیں کہ اسلامی بیداری کے سبب ان طاقتوں کو اپنا یوم الحساب قریب نظر آ رہا ہے اور وہ ہیجان و اضطراب کے عالم میں اس لہر کے آگے بندھ باندھنے کے لئے مذبوحی حرکتیں کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گی؟ اس بارے میں اگرچہ حتمی طورسے کچھ کہانہیں جا سکتالیکن قانون قدرت کا تاریخی تسلسل بتلاتا ہے کہ اب اسلامی عمل کو ظہور و نمود سے روکنا سخت مشکل ہے ؎

تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا… مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

عالم اسلام کے گہوارے میں ایک صالح انقلاب مچل رہا ہے اور آج اس کی وہی کیفیت ہے جو قرآن کی ان آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعایستضعف طائفۃ منھم یذبح ابناء ھم ویستحیْ نسائھم انہ کان من المفسدین۔ ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم ائمۃ ونجعلھم الوارثین۔ ونمکن لھم فی الارض ونری فرعون وھامان وجنودھما منھم ماکانوا یحذرون۔ یعنی فرعون سرزمین مصر میں خود سر ہوا اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ کچل رہا تھا ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ وہ مفسدین میں سے تھے اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ زمین میں کچلے جا رہے رہیں ان پر احسان کریں انھیں سربراہ بنائیں اور انھیں کو وارث ٹھہرائیں۔ انھیں زمین پر فرماں روائی کی طاقت دیں۔ اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکر کو ان کمزوروں کی طرف سے وہ چیز دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا۔

عالم اسلام کی اس سے ملتی جلتی کیفیت سے یہ توقع بندھتی ہے کہ ایک صالح تبدیلی آ کر رہے گی لیکن یاد رہے کہ جب اس طرح کی تبدیلی آتی ہے توفاسد مادے کے ساتھ غافل عناصر بھی خس و خاشاک کی طرح اس کے جھونکوں سے دنیا کے دور دراز خطے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ہمیں اپنے کردار کی روشنی میں دیکھنا چاہئے کہ ہم مستقبل میں قدرت کی نوازشوں کا انتظار کرنے کے اہل ہیں یا عتاب کا؟نوازشیں دین کو مضبوط پکڑے بغیر حاصل کرنی مشکل ہے۔

(اپریل ۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

 

می خواستر ستخیز زعالم بر آورد

 

ہندوستان میں اسلام کی آمد کے سلسلے کے چھوٹے چھوٹے جزوی واقعات کا تتبع کیا جائے تواس کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے ملے گا۔ لیکن سیل رواں کی طرح بڑے پیمانے پراس کی آمد پہلی بار محمد بن قاسمؒ کے زیر قیادت پہلی صدی ہجری کے آخری عشرے میں ہوئی پھر کوئی تین صدیوں تک جمود طاری رہا۔ چوتھی صدی ہجری کے آخر میں محمود غزنوی کی شمشیر خارا شگاف چمکی۔ یہ اسلامی لشکر کا سیلاب ہندوستان کے قلب تک جا پہنچا۔ کو ئی ایک صدی بعد غوری اور اس کے نشینوں کی باری آئی۔ اور ساتوی صدی ہجری کے وسط تک انہوں نے رہی سہی کسربھی پوری کر دی۔

محمد بن قاسم کے ساتھ جو غازی آئے تھے وہ خالص اور ٹھیٹھ اسلام کے پابند تھے۔ وہ پہلے داعی ٔاسلام تھے پھر غازی اور فا تح۔ اس لئے ان سے جو اسلام پھیلا و ہ خالص اور بے داغ تھا۔ محمود غزنوی اگر چہ تمام فقہی گروہ بندیوں سے با لا تر ہو کر براہ راست کتا ب و سنت کا پابند تھا لیکن جس ددر میں اس کا ظہور ہوا اسلام طرح طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکا تھا۔ فقہی گروہ بندیاں اس درجہ شبا ب پر تھیں کہ ماوراء النہر کے فقہاء حنفیہ و شافعیہ با ہمی جنگ و جدال کی قوت باقی رکھنے کے لئے رمضان شریف کے فر ض روزے تک چھوڑ دیا کرتے تھے۔ (مر آۃا لجنان۔ میزان شعرانی وغیرہ) تصوف کے نام پر۔ تزکیۂ نفس کے بجا ئے مکر و فریب کی گرم با زاری تھی۔ ۔ غیر اسلا می فلسفوں کے ساتھ غیر معمولی شغف نے اسلامی عقائد میں تشکیک و تحریف کا دروازہ کھول دیا تھا۔ آل بیت کے مدعیان خلافت کی سیاہ کاریوں سے امت کراہ رہی تھی۔ دنیاپرستی کا رجحان عام تھا اس پر حکمرانوں کی ہوس ملک گیری مستزاد۔ محمود غزنوی اس سیلاب کے بندھ نہیں باندھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہندوستان میں جو اسلام آیا وہ ان بیماریوں کے اثرات سے محفوظ نہ تھا بلکہ ہندوستان کی توہم پرستانہ، صنم تراش اور چمتکار و کرامات پر ایمان لانے کی خوگر ذہنیت نے شعبدہ بازوں کو بڑی شاداب زمین فراہم کی، غوریوں اور ترکوں کے دور فتوحات میں اس کی حالت اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ مغلوں کا دور آیا تو رہی سہی کسر پوری ہو گئی جلال الدین اکبر نے ضلالت کبریٰ کا دروازہ کھولا اور دنیاپرست علمائے اسلام اس کے داعی بنے مغلوں کا زوال ہوا تو اجتماعی مصائب کا سنگین دور شروع ہوا۔ اور مسلمانوں کے لئے آبرو بچانی مشکل ہو گئی۔

اس پورے دور میں عام۔ علمائے اسلام کی مہم جنگ زر گری اور نان شبینہ کے حصول سے آگے نہ بڑھ سکی اور گر بڑھی بھی تو فقہی گروہ بندیوں کے خارزار میں اٹک کر رہ گئی جمود اس حد تک بڑھا کہ کتاب وسنت کی تعلیم کو جرم سمجھ لیا گیا، بے شک یہ دور ظلمات اہل حق سے کبھی خالی نہ رہا جنھوں نے چراغ سے چراغ روشن کئے اور حق کی جوت جگائے رکھی۔ لیکن فساد اس درجہ ہمہ گیر تھا کہ امت کی بالائی سطح پر وہی چھایا رہا اہل حق کے روشن کئے ہوئے چراغ تاریکی کی دبیز چادر چاک نہ کر سکے، صرف اپنے گرد و پیش کو روشن کر کے رہ گئے تاآنکہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ کا نمود ہوا۔ موصوف نے اپنے شاگردوں کی شکل میں اہل حق کا ایک زبردست گروہ پیدا کیا۔ فساد کے ایک ایک عنصر کی نشاندہی کی اور اس کا علاج بتایا لیکن ابھی یہ کام درس کے حجروں سے آگے نہ بڑھا تھا کہ ان کی حیات مستعارکے ایام پورے ہو گئے شاگردوں نے ان کے کاز کو آگے بڑھا یا شاہ اسماعیل شہید کی شخصیت نمودار ہوئی اور جو بات لوگ بند حجروں میں کہتے ہوئے ڈرتے تھے شاہ صاحب کی جرأت مومنانہ کی بدولت جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اس کا ہنگامہ مچ گیا انھوں نے تاریکی کا پردہ اس قوت سے چاک کیا کہ پورے ہندوستان میں تہلکہ برپ اہو گیا۔ ؎

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی … زمین ہند کی جس نے ساری ہلا دی

عین اسی زمانہ میں تکیہ رائے بریلی کے خانوادۂ شاہ علم اللہ کے آفتاب و ماہتاب سید احمد بریلوی تزکیۂ نفس اور اصلاح امت کی مہم کے ساتھ نمودار ہوئے، دونوں ایک ہی چشمۂ فیض کے فیض یافتہ تھے اور پائیدا ر روابط میں مربوط۔ دہلی میں ۱۳۳۳ھ ۱۸۱۸ء میں اصلاح خلق اور تطہیر ملک کا ایک جامع پروگرام بنا سید صاحب امیر قرار پائے اور مختلف خطوں کا دورہ شروع ہو گیا فوج در فوج انسانوں نے توبہ و انابت کی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پاک نفس اور است بازقدوسیاں کی ایک ایسی جماعت وجود میں آ گئی کہ صحابہ کرام کے بعد جن کی مثال چشم فلک نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو بقول سیدسلیمان ندوی مرحوم

’’سید صاحب کے خلفاء ہر صوبہ اور ولایت میں پہونچ گئے تھے اور اپنے اپنے دائرے میں تجدیدو اصلاح اور تنظیم کاکام انجام دے رہے تھے مشرکانہ رسوم مٹائے جا رہے تھے، بدعتیں چھوڑی جا رہی تھیں نام کے مسلمان کام کے مسلمان بن رہے تھے جو مسلمان نہ تھے وہ بھی اسلام کا کلمہ پڑھ رہے تھے شراب کی بوتلیں توڑی جا رہی تھیں، تاڑی اور سیندھی کے خم لنڈھائے جا رہے تھے بازاری فواحش کے بازار سرد ہو رہے تھے اور حق و صداقت کی بلندی کے لئے علماء حجروں سے اور امراء ایوانوں سے نکل نکل کر میدان میں آ رہے تھے اور ہر قسم کی لاچاری مفلسی اور غربت کے باوجود تمام ملک میں اس کی تحریک کے سپاہی پھیلے تھے اور مجاہد تبلیغ اور دعوت میں لگے تھے ‘‘۔

(مقدمہ سیرت سید احمد شہید)

سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید دونوں نے جماعت کے ایک بڑے حصے کے ساتھ شوال ۱۳۳۶ھ (جولائی ۱۸۲۱ء ) تا شعبان ۱۲۳۹ھ (اپریل ۱۸۲۶ء ) تک کا زمانہ سفر حج میں گزارا۔ اور واپس آتے ہی جہاد کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ ۷/ جمادی الآخرہ ۱۲۴۱ھ (۱۷/جنوری ۱۸۲۶ء ) کو راہ ہجرت میں قدم رکھا کوئی پونے دو ہزار میل کا پر مشقت ریگستانی اور پہاڑی سفر کر کے سرحد آزاد میں وارد ہوئے۔ اور ٹھیٹھ اسلامی جہاد کا آغاز کر دیا جس کا مقصد ہندوستان کی تطہیر تھی ساڑھے چار سال کے عرصے میں بیس سے زیادہ جنگیں لڑی گئیں، کئی عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں اور ایک باقاعدہ اسلامی سلطنت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ سکھ غارتگروں کا سیلاب رک گیا اور وہ دفاع پر مجبور ہو گئے۔

سرحد کے باشندے حرب و ضرب کی یقیناً بڑی صلاحیت رکھتے تھے لیکن جنگی نظم و ضبط سے قطعاً ً نا آشنا اور اس کی پابندیوں سے بالکل آزاد تھے۔ نا وقت ہلہ بول دینا اور قبل از وقت میدان چھوڑ دینا ان کے یہاں کوئی عیب نہ تھا۔ عام طور پر مقامی رؤسا اور خوانین اپنے قبائلی حدود، مقامی سیاست اور محلاتی سازشوں کے غول سے باہر نکل کر کسی بلند تر نصب العین کے لئے سوچ ہی نہ سکتے تھے۔ عوام کا یہ حال تھا کہ قبائلی وفاداری کے دائرے سے باہر قدم رکھنے کا ان کے یہاں تصور ہی نہیں پایا جاتا تھا۔ کتنوں کو عشر و زکوٰۃ کھل رہی تھی اور کتنے ہی پیشہ ور علماء تھے جو عشر و زکوٰۃ سے محرومی پر ماتم کناں تھے۔ کتنوں کو اپنی دینی عظمت یا دنیوی جاہ سے محرومی کا احساس تھا کیونکہ ائمہ دعوت کے علمی کمال اور مجاہدانہ جلال کے مقابلہ میں بڑی بڑی قد آور ہستیاں بونی نظر آتی تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ مجاہدین کی اس مٹھی بھر جماعت کو روز اول ہی سے طرح طرح کی مشکلات، دشواریوں، سازشوں اور غداریوں کاسامنا کرنا پڑا لیکن ان کی اولو العزمی میں کوئی فرق نہ آیا تاآنکہ دل جلے سرداروں، اسلامی احکام سے برگشتہ عوام اور بدعت پرست ملاؤں نے پس پردہ سازش کی اور مرکز جہاد سے دور مختلف مقامات پر موجود مجاہدین کی ایک خاصی بڑی تعداد کو راتوں رات شہید کر ڈالا خود مجاہدین کے مرکز پنجتارکاسردار فتح خاں جس نے بڑے استقلال کے ساتھ مجاہدین کا ساتھ دیا تھا اس کی بھی نقل و حرکت مشکوک نظر آ رہی تھی۔ غداری کے اس دلفگار حادثے کے بعد یہاں مقیم رہنے کے کوئی معنی نہ تھے، پھر ہجرت کی گئی، سکھوں کے ہاتھوں علاقہ پکھلی کے ستائے ہوئے مسلمانوں نے مجاہدین کو بڑے اصرار کے ساتھ علاقائی مرکز راج وداری میں ٹھہرایا۔ علاقے کے انتظامات درست کئے گئے، اہل کشمیر کا وفد پہنچا کہ کشمیر کوسکھوں کے پنجۂ استبداد سے نجات دلائیں، فیصلہ ہوا کہ پکھلی کے علاقہ سے مطمئن ہو کر کشمیر کا رخ کریں گے۔ بھوگڑ منگ بالا کوٹ اور مظفر آباد تگ و تاز کا مرکز تھے۔ سکھ بھی خطرے سے نمٹنے کی تدبیریں کر رہے تھے۔ ۲۴/ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ (۶/ مئی ۱۸۳۱) کو بالاکوٹ کے میدان میں ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور مجاہدین کی ایک بڑی طاقت کام آ گئی۔ باقی ماندہ غازی راج دواری کے اطراف میں واپس پلٹ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اور ان کے جانشینوں نے اگر چہ سواسو برس تک علم جہاد بلند کئے رکھا مگر حادثۂ بالاکوٹ کا جو اثر رفتار جہاد پر پڑا اور ہندوستان میں جو حالات رونما ہوتے گئے ان کی بناء پر منزل مقصود دور ہوتی گئی۔

بالاکوٹ کا دلفگار سانحہ چونکہ اس تحریک کا انتہائی خونچکاں باب ہے اس لئے ماہ مئی کی تاریخی مناسبت سے موجودہ شمارے میں اس سانحے کی تفصیلات مولانا غلام رسول مہر کی کتاب ’’سیداحمد شہید‘‘ سے ملخص کر کے پیش کی گئی ہیں۔

یہاں یہ توضیح بھی ضروری ہے کہ جہاد اس تحریک کا صرف ایک بازو تھا مکمل تحریک نہ تھی تحریک در حقیقت زندگی کے تمام شعبون میں ہمہ گیر اسلامی انقلاب کی بنیاد پر چل رہی تھی جو کاروبار جہاد میں اضمحلال آنے کے باوجود بقیہ شعبوں میں پوری قوت کے ساتھ جاری رہی آج ہندوستان میں کتاب وسنت کا غلغلہ اور بدعت و خرافات سے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کی دوری اور بیزاری اور سیکڑون غلط رسول کا خاتمہ اسی تحریک کا رہین منت ہے۔ ۔ ۔

(مئی ۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

 

حفاظت دین کے تین ذرائع

 

جو معرفت حق کی بنیاد بھی ہیں

 

پچھلے انبیاء محدود علاقے اور مخصوص قوم میں ارشاد و ہدایت کا کام انجام دینے کے لئے بھیجے جاتے تھے ان کا دور نبوت بھی محدود ہوا کرتا تھا۔ دنیاسے ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کے ارشادات و فرمودات تو درکنار-ان کے لائے ہوئے خدائی صحیفے بھی یا تو ناپید ہو جاتے تھے یا ایسے ذرائع سے موجود رہتے تھے جن پر وثوق و اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا پھر امتداد زمانہ کے ساتھ ان صحیفوں میں بہت کچھ رد و بدل ہو جاتا تھا اور جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح شکل میں موجو رہتا تھا اس پر بھی تاریکی کا دبیز پردہ پڑ جاتا تھا دنیاپرست علماء خود ساختہ عقائد اور احکام ان صحیفوں کی طرف منسوب کر کے اس قوت کے ساتھ رائج کر دیتے تھے کہ حقیقت کی تہ تک پہنچنا سخت مشکل ہو جاتا تھا ان ’’کارناموں ‘‘ کی بدولت ان علماء کی روزی روٹی، جاہ و آبرو اور عز و وقار محفوظ ہو جاتا اور اہل باطل سے دوستانہ روابط بر قرار واستوار رہتے۔ ان کا غلبہ اس قدر ہوتا کہ حقائق کی معرفت رکھنے والے اکا دکا حضرات جو باقی رہ جاتے تھے انہیں بند حجروں میں بھی اظہار حق کی تاب نہ ہوتی تھی بلکہ وہ اپنے افعال و کردار تک میں حق کو برتتے ہوئے محتاط رہتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں عام لوگوں کے لئے حق تک رسائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس مرحلے پر اللہ تعالیٰ پھر کوئی پیغمبر یا نبی بھیج دیتا جو پوری قوت کے ساتھ حق کی آواز بلند کرتا۔ قبول حق کی استعداد رکھنے والے رفتہ رفتہ اس کے ساتھ ہو جاتے، خداپرستوں کا ایک قافلہ بن جاتا اور جویائے حق کیلئے حق تک رسائی ممکن ہو جاتی۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کسی محدود علاقے، متعین قوم اور مخصوص زمانے کے لئے نہیں تھی۔ بلکہ آپ ساری دنیا کے لئے بھیجے گئے تھے۔ اور آپ کی رسالت قیامت تک کے زمانے کو محیط ہے اس لئے ضروری تھا کہ پچھلے انبیاء کی طرح آپ کے بعد آپ کا دین محرف اور ناپید نہ ہو، بلکہ اپنی اصلی اور صحیح شکل میں جیتا جاگتا ہوا قیامت تک موجو دو محفوظ رہے۔ ورنہ قیامت تک کے لئے آپ کی رسالت بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کا بڑا جامع انتظام فرمایا ہے جسے ہم افہام و تفہیم کی سہولت کے لئے تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(۱)… ایک یہ کہ اس دین کے جو اصل سرچشمے اور اساسی مآخذ ہیں یعنی قرآن مجید اور احادیث نبویہ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ناپید ہونے سے بھی محفوظ رکھا اور تحریف و تبدیلی کا شکار ہونے سے بھی۔ اب سے چودہ سوبرس پہلے قرآن مجید جس شکل میں آیا تھاکسی شوشے کی کمی اور زیادتی کے بغیر ٹھیک اسی شکل میں موجود و محفوظ ہے۔ شروع ہی سے قدرتی طور پر اس کا پھیلاؤ کچھ اس ڈھنگ سے ہوا کہ کسی بڑے سے بڑے بد طینت کے لئے کسی چھوٹی سے چھوٹی تحریف کا بھی یارانہ ہوا۔ قریب قریب یہی حال احادیث نبوی کا ہے کہ جو حدیثیں جس طرح مروی ہو کر کتب احادیث میں جمع ہوئیں آج بارہ تیرہ سوبرس گذر جانے پر بھی وہ اسی شکل میں محفوظ اور متداول ہیں۔ کسی حدیث کے کسی ایک لفظ کو بھی تبدیل کرنے کی کوئی کوشش آج تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ زمانے کی ترقی کی بدولت بعض ایسے صحیفوں کے فوٹو منظر عام پر آ گئے ہیں جو کتب احادیث کی باقاعدہ تدوین سے صدیوں پہلے لکھے گئے تھے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح حدیبیہ ( ۶ھ )سے واپس آ کر مختلف بادشاہوں کے نام جو خطوط ارسال کئے تھے ان کے فوٹو بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ آپ یقینامسرت سے سنیں گے کہ کتب احادیث میں ان صحیفوں اور خطوط کے جو الفاظ مروی ہیں اور اصل صحیفے اور خطوط میں جو الفاظ موجود ہیں ان میں کوئی فرق نہیں حالانکہ احادیث کے صرف معانی، وحی الٰہی تھے۔ الفاظ، وحی الٰہی نہ تھے بلکہ ہزارہا حدیثیں جن میں صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی عمل اور فعل کو بیان کیا ہے ان کے الفاظ کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ رہے ہوں۔ اس لئے کسی حدیث کو بیان کرنے کے لئے روایت باللفظ کی شرط نہ تھی۔ مفہوم کو ٹھیک ٹھیک ادا کر دینا کافی تھا لیکن اس کے باوجود حدیث کے الفاظ کی حفاظت کا یہ اہتمام اس بات کی علامت ہے کہ ذخیرۂ احادیث منقح اور محفوظ ہو کر امت کے ہاتھ میں موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے ان دونوں سرچشموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ امت کو انتے بڑے پیمانے پر اس کی اشاعت کی توفیق بخشی کی یہ دونوں سرچشمے ہر خاص و عام کی دسترس میں ہیں جو شخص ان کو خود ان کی اصل زبان میں نہیں سمجھ سکتا اس کیلئے سمجھانے والوں کی بڑی تعداد اور تراجم کی وافر مقدار موجود ہے اور اس پر بھی اس کی پیاس نہ بجھے تو وہ چند برس کی محنت سے ان کو خود سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔

(۲)… قرآن مجید اور احادیث شریف کے تحفظ سے اصل دین کتابوں کے اندر تو محفوظ ہو گیا لیکن انسانی فطرت پر نظر رکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ زندگی کے تمام گوشوں میں عملی طور پر دین کے جاری وساری ہونے کے لئے صرف کتابی حفاظت کافی نہیں کیونکہ نہ توہر آدمی ان کا علم حاصل کرنے کی اہلیت اور فرصت رکھتا ہے۔ اور نہ ہر آدمی میں اتنی جرأت ہے کہ حق کو پہچان لینے کے بعد اسے اپنانے کے لئے پورے ماحول سے بغاوت کر سکے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حفاظت دین کا دوسراذریعہ یہ مقدر کیا کہ گمراہی و ضلالت کی تاریکیاں خواہ جس قدر بھی پھیل جائیں، حق پرستوں کا ایک گروہ بہر حال موجود رہے گا۔ اور اسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہ سکے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے لایزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق، لایضرھم من خالفھم حتی یأتی امراللہ ۔ (بخاری ومسلم) یعنی میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو کھلم کھلا حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے انہیں نقصان نہیں پہونچا سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ(قیامت) آ جائے۔ اسی مفہوم کو ایک دوسرے موقع پر آپ نے اس طرح بیان کیا ہے ان اللہ لایجمع امتی علی ضلالۃ۔ (ترمذی)اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ یعنی کبھی ایسا نہیں ہو سکتاکہ پوری کی پوری امت گمراہ ہو جائے بلکہ گمراہی جتنی بھی ہمہ گیر ہو ایک طبقہ بہرحال حق پر قائم رہے گا۔

اور حق پرستوں کے ایک طبقہ کی دائمی اور سرعام موجودگی قیامت تک دین کے بقاء کا ایک اہم ذریعہ ہے اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ جویائے حق کو حق کی تلاش میں سرگردانی اور ناکامی سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ نہ راہ حق پر تنہا چلنے کا اندیشہ ہو جس کے تصورسے اچھے اچھوں کے حوصلے چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ یہاں اہل حق کا قافلہ حق قبول کرنے والے کو اپنی آغوش رفاقت میں لینے کے لئے ہمہ وقت موجود ملے گا۔

(۳)…حفاظت دین کا تیسرا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کیا گیا ہے کہ کتاب وسنت کا علم اور اہل حق کا طبقہ اپنے دائرے میں منجمد ہو کر نہ رہے۔ بلکہ یہ ہمیشہ دین کا داعی اور حق کا فدائی بن کر ابھرتا رہے اور باطل کی ہر آواز کے بالمقابل سینہ سپر ہو کر حق کو اس کی ٹھیک ٹھیک شکل میں امت کے سامنے پیش کرتا رہے یقیناً یہ بات بتائی گئی ہے کہ اس امت کے علماء اور جہلاء کا ایک زبردست گروہ ٹھیک یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلے گا اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ کتاب وسنت کے معانی و مطالب میں تحریف کی گرم بازاری سے ان کی اصل صورت مسخ کر کے رکھ دی گئی، اور حق بات کی رعنائی و زیبائی سلب کر کے اس کے رخ تاباں پر باطل کا مکروہ اور بدبو دار غازہ ملا گیا۔ مگر یہود و نصاریٰ کے دنیاپرست علماء کی طرح اس امت کے دنیاپرست علماء کو اتنا غلبہ وتسلط اور اتنی کامیابی حاصل نہ ہو سکی کہ حق کی آواز بالکل گھٹ کر رہ جائے اور حق پرست علماء بند حجروں میں بھی لب کشائی کی جرأت نہ کر سکیں۔ بلکہ یہ اللہ کا فضل خاص رہا کہ اس امت کے حق پرست علماء جرأت رندانہ کے ساتھ ببانگ دہل حق کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ اور دنیاپرستوں کی ایک ایک تحریف بے نقاب کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طبقے کی خصوصیات کا اظہار اس طرح فرمایا ہے۔ یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاھلین۔ (بیہقی فی المدخل، ابونعیم فی الحلیۃ وغیرہ)۔ یعنی اس علم (دین ) کو ہر آنے والی جماعت کے بلند پایہ لوگ حاصل کریں گے۔ اس سے غلو کرنے والوں کی تحریف کا باطل پرستوں کے جھوٹے دعوے اور غلط نسبت کا اور جاہلوں کی تاویل کا صفایا کریں گے۔

اسی طبقے کو آپ نے ایک بار غرباء کہا اور ان کی یہ خصوصیت بتلائی، وھم الذین یصلحون ما افسدالناس من بعدی من سنتی(ترمذی، الایمان) یعنی میرے بعد لوگوں نے میرے جن طریقوں کو بگاڑ رکھا ہو گا اس کی اصلاح کریں گے۔

احیائے حق اور اصلاح امت کا یہ کام معتاد طریقے پر جاری رہے گا لیکن جب امت کا جمود اس سے نہ ٹوٹ سکے گا یافساد اور بگاڑ سیلاب کی طرح بڑھے گا اور اصلاح کی معتاد کوشش اس کے آگے بندھ نہ باندھ سکے گی توایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ ایسے مضبوط اور راسخ عزم والے کسی ایک فرد یا چند افراد کو برپا کر دے گا جو فساد کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیں گے۔ اور باطل کے خلاف نہایت کامیاب اور اثر آفریں انقلاب برپا کر ڈالیں گے۔ اس طرح حق کے رخ تاباں کی جلوہ طرازیاں ساری دنیا کے سامنے آ جائیں گی۔ لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحی من حی عن بینۃ۔ تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو۔ اور جسے زندہ رہنا ہے وہ کھلی ہوئی دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔ ظاہر ہے کہ حق کی اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی غلطی پر اڑا رہنا چاہتا ہے تو وہ عند اللہ کوئی معذرت نہیں پیش کر سکتا۔ حق کی راہ میں اس طرح کا انقلاب لانے والے مصلحین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان میں مجدد کہا گیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے۔ ان اللہ عزوجل یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجد دلھا دینھا۔ (ابوداؤد) اللہ عزوجل اس امت کے لئے ہر سوسال کے سرے پر ایسا آدمی برپا کرے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

ان گذارشات کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی دین کو ٹھیک طور پر جاننے اور سمجھنے کے ذرائع اور ان پر عمل پیرا ہونے کی سہولیات حاصل ہیں کتاب وسنت اپنی اصلی اور بے داغ شکل میں موجود ہیں ان پر عمل پیرا گروہ بھی موجود ہے اور ان کی بے لوث ترجمانی بھی ہو رہی ہے پس حق کی تلاش میں حیران وسرگرداں ہونے کے کوئی معنی نہیں، خداپرستی مقصود ہے تو اٹھئے اور بڑھ کر حق کو اختیار کر لیجئے۔ یہ دعوت اس لئے دینی پڑ رہی ہے کہ حق خالص کے پہلو بہ پہلو حق کے نام پر باطل کا بھی ایک بڑا حصہ رائج کر دیا گیا۔ اور صدیوں کے رواج نے بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا کر دی ہے کہ وہی اصل حق ہے اور اس کا التزام کئے بغیر دین کے تقاضے اور مطالبے پورے نہ ہو سکیں گے حالانکہ دین جو کچھ ہے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے گفتار و کردار میں ہے

واللہ ولی التوفیق

(جون ۱۹۸۲)

٭٭٭

 

 

 

 

 

لعلکم تتقون

 

اللہ تعالیٰ نے انسان میں خیر اور شر دونوں طرح کی صلاحیت رکھی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں اپنے انداز فکر کے مطابق دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرتا ہے بلکہ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اکثر لوگوں میں خیر اور شر دونوں جمع ہوتے ہیں جو شخص خیر کی راہ اپناتا ہے اس سے بھی فطری تقاضوں اور بشری کمزوریوں کی بنا پر بہت سی غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہو جاتی ہیں اور جو شخص برائی کی راہ اختیار کرتا ہے وہ بھی بہت سے مواقع پر اچھے کام کر ڈالتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انسان کی دوایسی فطری ضرورتیں ہیں جن کی تہ سے بیشتر برائیاں پھوٹتی ہیں ایک پیٹ دوسرے شرمگاہ، پیٹ پالنے کا مسئلہ انسان کے لئے بڑا کٹھن ہے اور جب انسان اس ضرورت سے نمٹنے کے لئے صحیح غلط اور حلال و حرام کی تمیز اٹھا دیتا ہے توایسی گوناگوں برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے جن کا شمار مشکل ہے۔ اسی طرح جب وہ خواہش نفس کی تکمیل کے چکر میں جائز حدود کو توڑ دیتا ہے تو عیاشی اور فحاشی میں مبتلا ہو کر اس راہ کی ہزاروں لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیٹ اور شرمگاہ کی کمزوری عام انسان کے اندر پائی جانے والی تقریباً تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اگر انسان اپنی ان دونوں کمزوریوں پر قابو پا لے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کیلئے جائز اور حلال حدود سے قدم نہ بڑھائے تو پھر وہ کسی اہم گناہ میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ہو بھی جائے تو بہت جلد توبہ و انابت اور استغفار کے ذریعہ اپنے آپ کو پاک وصاف کر لے گا لیکن اگر دونوں کمزوریوں پر قابو نہیں پاتا تو گناہوں اور جرائم کی دلدل سے نکلنا اس کے لئے سخت مشکل ہو گا۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : من یضمن لی مابین لحییہ ومابین فخذیہ اضمن لہ الجنۃ۔ جو شخص مجھے اپنے دونوں داڑھ اور دونوں رانوں کے درمیان کی یعنی منہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی گارنٹی دے میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔

روزے کا یہ پہلو خاص طور پر قابل غور ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے سے مکمل طور پر پرہیز کرتا ہے یعنی روزے دار کے پاس حلال کمائی سے حاصل ہوئی حلال خوراک موجود ہوتی ہے جائز طریقے سے حاصل کیا ہوا پانی موجود ہوتا ہے۔ صحیح طریقے سے نکاح میں لائی بیوی موجود ہوتی ہے اور مقاربت کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ بھوک کے باوجود کھانا نہیں کھاتا، پیاس کے باوجود پانی نہیں پیتا اور خواہش کے باوجود بیوی کے پاس نہیں جاتا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ یہ پابندی نہ کسی مجبوری کی بنا ہر اختیار کرتا ہے نہ دنیوی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بلکہ اس پابندی کو اختیار کر کے اسے کچھ نہ کچھ دنیوی فائدے کی قربانی ہی دینی پڑتی ہے پھر وہ یہ پابندی کیوں اختیار کرتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ محض اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے۔ گویا وہ زبان حال سے اس بات کا اقرار اور عہد کرتا ہے اور عمل سے اس کا ثبوت بھی دیتا ہے کہ اگر اللہ کی رضا اس میں ہے کہ میں اپنی حلال کمائی بھی نہ کھاؤں پیوں اور اپنی جائز منکوحہ بیوی کے پاس بھی نہ جاؤں تومیں ایساہی کروں گا۔

یہ روزے کا وہ مقصد ہے جو بالکل بدیہی ہے اور جس کا شعور ہر روزے دار کو ہونا ہی چاہئے۔ اب غور کیجئے ! ایک شخص جو محض رضائے الٰہی کی طلب میں اس حد تک آگے جا سکتا ہے کہ اپنی حلال کمائی خوراک رکھ کر بھی اپنے اختیار سے بھوک پیاس کی سختیاں جھیلے، کیا وہ کسی دوسرے وقت اس سطح پر بھی اتر سکتا ہے کہ رضائے الٰہی سے بالکل بے نیاز ہو کر حرام کمائی کمائے اور حرام خوراک کھائے، اسی طرح کیا کوئی انسان جو محض رضائے الٰہی کی طلب میں خواہش اور موقع کے باوجود اپنی منکوحہ بیوی سے دور رہتا ہو کیا اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ دوسرے اوقات میں اپنی ہوس نفس کی تکمیل کیلئے حلال و حرام کی تمیز ختم کر دے گا۔

ظاہر بات ہے کہ کوئی انسان جو عقل و شعور رکھتا ہو اس سے ایسی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی ایسی متضاد حرکتیں تو وہی کر سکتا ہے جو بفحوائے حدیث جانور کے مثل ہو کا لبعیرلایری لم عقلہ أھلہ ثم ترکوہ۔ یعنی منافق اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے نہیں معلوم کہ اس کے مالک نے اسے کیوں باندھا اور کیوں کھول دیا؟…خلاصہ یہ کہ روزہ خالص عبادت الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی تربیت بھی ہے کہ انسان اپنے پیٹ کے تقاضوں اور اپنے نفس کی خواہشات کو اپنے قابو اور کنٹرول میں رکھے، اور اس کی تکمیل میں حدود الٰہی سے باہر قدم نہ رکھے۔ اب چوں کہ یہی دونوں چیزیں ساری برائیوں کی جڑ اور ساری خرابیوں کا سرچشمہ ہیں اور ان پر قابو حاصل کر لینے سے ساری برائیوں اور خرابیوں پر کنٹرول ہو جاتا ہے، اس لئے روزے کو تقویٰ کا ذریعہ قرار دیا گیا، کیوں کہ اصل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حلال و حرام میں تمیز کر کے حلال کو اختیار کر لے اور حرام سے کنارہ کش ہو جائے۔ اس تفصیل سے کسی قدر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی معنویت سمجھی جا سکتی ہے۔ یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔

(جولائی ۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

عید ۔قومی مزاج کا پیمانہ

 

یکم شوال اہل اسلام کی عید کا دن ہے اس دن ہر چھوٹا بڑا اور امیرو غریب مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر خوراک و پوشاک کا اہتمام کرتا ہے اور غریبوں اور ناداروں میں صدقۂ فطر تقسیم کر کے طلوع آفتاب کے تھوڑی دیر بعد حمد و تکبیر کے نغمے گنگناتا ہوا کھلے میدان کی طرف نکل پڑتا ہے جہاں مسلمانوں کا ایک انبوہ عظیم جمع ہوتا ہے پھر سب مل کر اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر وسپاس اور عجز و نیاز کے طور پر دو رکعت نماز عید ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے امام و خطیب کی زبانی خدائی احکام و پیغام سن کر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ واپسی میں بھی حمد و تکبیر کے نغمات جانفزا کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔

مسلمانوں کیلئے خوشی ومسرت کا یہ موقع خود اللہ رب العالمین نے مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ سال میں دو دن یعنی نو روز اور مہر جان ؎۱ کو عید مناتے ہیں۔

آپ کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ دونوں عید مناتے آ رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان دو دنوں سے بہتر دو دن عطا فرما دئیے ہیں یعنی عید الاضحی اور عید کے دو دن۔

مختلف قوموں کے تہوار منانے کا طریقہ ان کے قومی مزاج اور اجتماعی کردار کا مظہر ہوا کرتا ہے اگر کوئی قوم اپنے تہوار کے موقع پر رنگ رلیوں میں پڑتی ہے اور شراب و شباب کے تقاضوں اور مستیوں کا خیر مقدم اور اہتمام کرتی ہے، عیاشی وہوس رانی کیلئے بے لگام ہو جاتی ہے اور اس کے افراد سے فحش گفتاری و فحش کرداری کے مظاہرے ہوتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس قوم کو بد عملی کی چاٹ لگ چکی ہے اس کا کیرکٹر اندر ہی اندر کھوکھلا ہو چکا ہے اور تہوار کی مناسبت سے جو کچھ بے پردہ ہو کر منظر عام پر آ رہا ہے سال کے بقیہ ایام میں ایساہی کچھ پس پردہ ہوا کرتا ہے

لیکن اگر کوئی قوم اپنے تہوار کے موقع پر خداپرستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کا جوش عبودیت بڑھ جاتا ہے، غریبوں، تنگدستوں، مظلوموں، مجبوروں اور مقہوروں کی امداد و خیر خواہی اور داد و فریاد رسی کا اہتمام فزوں تر ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم ولباس اور در و بام سے صفائی و پاکیزگی اور شرف و وقار کا اظہار ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم خداپرستی، انسانیت نوازی اور عزت نفس کی راہ پر گامزن ہے۔

یہ رب العزت کا بے پایاں فضل ہے کہ ہمارے تہوار کا رنگ پہلا نہیں بلکہ دوسرا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے مزاج کی ساخت خداپرستی، عدل و انصاف اور شرف و عزت کے عناصر سے ہوئی ہے۔ نفس پرستی، ہوس رانی، ظلم واستبداد اور بد خواہی و خود غرضی کے عناصر سے نہیں۔ لیکن اس مرحلے پر پہنچ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مزاج پر قائم ہیں یا اس سے ہٹ چکے ہیں۔

اس کا جواب اور جواب کی بنیاد دونوں بالکل واضح ہیں۔ اگر ہمارا تہوار صدقۂ فطر کی تقسیم، حمد و تکبیر کی نغمہ خوانی دوگانۂ عیدگاہ کی ادائیگی، لباس و مکان کی صفائی، حلال و طیب خوراک کے اہتمام اور خوشی ومسرت اور تفریح وغیرہ کے دوسرے جائز اور مباح طریقوں کے اندر محدود ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے مزاج اور اپنی ساخت پر قائم ہیں۔ لیکن اگر یہ ساری چیزیں سماجی رسم بن چکی ہیں اور ہماری دلچسپیوں کا اصل مرکز سنیما اور سیر و تفریح کے ناجائز مقامات ہو چکے ہیں اور ہمارے گھومنے پھرنے کا اصل منشا یہ ہوا کرتا ہے کہ ہوس رانی کے ذرائع تلاش کئے جائیں تو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا مزاج مسخ ہو چکا ہے۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عیدگاہ میں عورتوں کی حاضری کے جواز و عدم جواز کے مسئلے پر تو بڑی دقیق اور لمبی موشگافیاں کی جاتی ہیں اور اس سنت رسول پر پابندی عائد کرنے کی فکر میں ہمارے علماء کا ایک گروہ دور حاضر کی فتنہ سامانیوں کا بڑا ہولناک نقشہ پیش کرتا ہے لیکن نماز عید کے بعد مسلم آبادیوں کی گلی کوچوں میں اور اطراف و اکناف کے راستوں پر مردوں اور عورتوں کی جو بے تحاشا بھیڑ بھاڑ اور دھکم دھکا ہوتی ہے، بسوں اور سواریوں پر مرد اور عورتیں جس طرح باہم ٹکراتے اور پستے ہیں، سنیما ہالوں میں برقعہ پوش عورتوں کا غول جس طرح بے محابہ گھستا ہے وہ ہمارے ان علماء کو نظر نہیں آتا۔ نہ ان بے حیائیوں اور بداعمالیوں کو روکنے کی کوئی کوشش ہوتی ہے اور نہ ان کے سلسلے میں کسی فتنہ سامانی کا حوالہ دیا جاتا ہے گویا برائی اور فتنے کے جو کچھ اندیشے اور خطرات ہیں وہ صرف سنت نبوی کی پیروی اور خدا کی عبادت و بندگی میں ہیں۔

یالیت قومی یعلمون۔

ہم حیران ہیں کہ نیچے سے اوپر تک اس بگاڑ وفساد اور مزاج و فکر کی اس کوتاہ اندیشی پر کیا عرض کریں ؟ خدایا ہمیں اپنی شریعت اور اپنے شعار کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے

یعنی ہم دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

اے خوشاں روز کہ آئی بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

(اگست ۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

 

 

دامن اور بند قبا

 

دینی مدارس کو اسلام کی تبلیغ اور اس کے تحفظ و بقاء کے وسائل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، یہیں سے وہ علمائے دین پیدا ہوتے ہیں جو منبر و محراب کی زینت بن کر انسانی معاشرے اور اسلامی اجتماعات کو حیات ابدی کا پیغام سناتے ہیں۔ امت کے مسائل کی گرہ کشائی کرتے ہیں، کفر و شرک اور ظلم و جور کی تاریکیوں میں دین حق اور عدل و انصاف کی قندیلیں روشن کرتے ہیں اور اپنا علم دین اپنے بعد آنے والی نسلوں کی طرف منتقل کر کے دین کے سلسلۂ بقا و دوام کی ایک اہم کڑی بنتے ہیں۔ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء۔ توتی اکلھا کل حین باذن ربھا۔ جیسے ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ گہرائی میں اتری ہوئی اور بر قرار ہو اور اس کی شاخ آسمان سے باتیں کر رہی ہو وہ ہر زمانے میں اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہو۔

دینی مدارس ہی وہ مقام ہیں جہاں کشاکش حق و باطل میں پامردی مومن کا ثبوت دینے والے جانباز تیار کئے جاتے ہیں اور جہاں سے اسلام پر ہونے والے ہر طرح کے تہذیبی اور فکری حملوں کا دفاع کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اہل نظر ان مدارس کو دین کا قلعہ کہتے ہیں۔

پچھلے چند برسوں سے ان مدارس کے حالات میں ایک خاص موڑ آیا ہے یعنی بعض خاص اسباب کے تحت دینی تعلیم کی طرف مسلمانوں کی توجہ بڑھ گئی ہے، چنانچہ عربی تعلیم کیلئے بہت سے نئے مدارس کھل گئے ہیں بہت سے پرائمری مدارس میں عربی شعبے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ابتدائی دو تین جماعتوں تک تعلیم دینے والے بہت سے مدارس نے آخری درجات تک تعلیم کا بندوبست کر لیا ہے۔ مدارس میں طلبہ کی تعداد کے اندر بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ چند برسوں پہلے تک جہاں چالیس پچاس طالب علم رہتے تھے وہاں اب سو، سواسو کی تعداد بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ بلکہ کہیں کہیں اضافے کا تناسب اس سے بھی دوچند ہے۔

دینی تعلیم کی طرف توجہ کی یہ لہر یقیناً استحسان کی نظر سے دیکھی جائے گی اور اس سے امیدیں اور توقعات وابستہ کرنا بھی بیجا نہ ہو گا۔ لیکن واقعات و حقائق کی روشنی میں ہمارے سامنے مدارس کا جو نقشہ ہے اس سے بڑی تشویش اور وحشت ہوتی ہے۔

شوال کے مہینہ سے عربی تعلیم کا نیاسال شروع ہوتا ہے اور چھوٹی بڑی اکثر درسگاہوں میں نئے داخلے کے لئے طلبہ کی بہت بڑی تعداد ملک کے اطراف و اکناف سے جمع ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں مرکزی دارالعلوم بنارس میں۔ اس کثرت سے داخلے کی درخواستیں آتی ہیں اور امیدوار طلبہ پہونچتے ہیں کہ اگر سب کو داخل کر لیا جائے تو مرکزی دارالعلوم کے احاطے میں کھلے آسمان کے نیچے بھی رہائش کا انتظام مشکل ہو گا۔ ظاہر ہے اگر یہ صورتحال نہ ہو تو بھی امیدوار طلبہ کو امتحان داخلہ کے بعد نتیجہ امتحان کی روشنی میں ایک محدود تعداد کے اندر منتخب کر کے ہی لیا جا سکتا ہے لیکن کثرت تعداد کی مذکورہ صورتحال میں ظاہر ہے کہ مقابلہ سخت ہو گا اور کامیاب طلبہ میں بھی صرف وہی منتخب ہو سکیں گے جن کی پوزیشن سب سے بہتر ہو۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے بہت سے طلبہ کے معلمین، متعلقین اور سرپرست حضرات ایسی ایسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربگریبان رہ جاتا ہے۔ اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ رہنمایان دین ہیں یا سیاسی بازیگر؟عدل و انصاف کے علمبردار اور اخلاق و کردار کے نمونے ہیں یا ان سے تہی دامن کچھ اور ؟ انھیں کسی بھی درجے میں یہ احساس ہے یا نہیں کہ ان کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں کتنے مستحق طلبہ اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے اور قوم و ملت کا کتنا بڑا اور قیمتی سرمایہ ان کی کنبہ نوازی کی نذر ہو جائے گا۔

مرکزی دارالعلوم نے پچھلے تجربات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا اور تمام درخواست دہندگان کو اس کی اطلاع بھیج دی کہ امتحان داخلہ میں صرف وہی طالب علم شریک ہو سکتا ہے جس نے اپنی سابقہ درس گاہ کے پچھلے امتحان میں اسی (۸۔ ) فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کئے ہوں۔ پھر کیا تھا جسے دیکھئے اسی فیصد سے زیادہ کے ثبوت کے کاغذات لئے کھڑا ہے، لیکن جب امتحان لیا گیا تو اس میں اکثر محض کاغذی ثبوت ثابت ہوئے، ایک معتد بہ تعداد ایسے طلبہ کی نکلی جنھوں نے ۵۔ ۹۔ ۱۶۔ ۲۔ اور اس کے لگ بھگ نمبرات سے زیادہ حاصل نہ کر سکے اور ایسے طلبہ کی تو بھر مار تھی جن کے نمبرات تیس اور چالیس کے لپیٹ میں تھے۔ مگر ایسے طلبہ خال خال ہی ملے جن کے نمبرات اطمینان بخش یا امتیازی کہے جا سکتے تھے۔

کتابیں جس مقدار میں پڑھائی جاتی ہیں اس کا حال زار بھی بڑا تشویشناک ہے۔ حدیث وتفسیر دین کے بنیادی علوم و فنون ہیں۔ تفسیر میں عموماً جلالین اور حدیث میں پہلے بلوغ المرام پھر مشکوٰۃ پڑھائی جاتی ہے۔ چند برس پہلے تک ایک برس میں پندرے پارے جلالین پڑھائی جاتی تھی۔ مگر اب یہ پندرے پارے دوسال میں تقسیم کر دئے گئے ہیں۔ پھر بھی ڈیڑھ دو پاروں کی تعلیم ہوتے ہوتے پوراسال گزر جاتا ہے۔ بلوغ المرام بھی چند برس پہلے تک پوری پڑھائی جاتی تھی۔ اب اس کا پر مغز حصہ نکال دیا گیا ہے۔ صرف آدھی سے کچھ زیادہ حصہ نصاب میں داخل ہے۔ مگر اس کی بھی تکمیل نہیں ہوتی مشکوٰۃ اب بھی پوری کی پوری داخل نصاب ہے۔ دونوں جلدوں میں سے ہر ایک کیلئے ایک ایک سال کی مدت معین ہے مگر حالت یہ ہے کہ جلد اول کے کل ۲۶۶/صفحات میں سے صرف پچاس ساٹھ صفحات میں پوراسال ختم ہو جاتا ہے کچھ لوگ زیادہ محنت کرتے ہیں تو ایک سو صفحات تک پہونچ جاتے ہیں۔ یہی حال دوسری جلد کا بھی ہے۔ چند برس پہلے تک ایک سال میں میزان منشعب اور پنج گنج ایک ساتھ، نحومیر اور شرح مأۃ عامل ایک ساتھ پڑھائی جاتی تھیں، اب صرف میزان منشعب اور صرف نحو میر میں پورا سال بیت جاتا ہے پھر بھی طلبہ کی حالت پہلے سے زبوں تر رہتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہے کہ ایک استاد کو جنتی محنت اور جانفشانی سے کام لینا چاہئے اب بمشکل اس کی ایک چوتھائی محنت کی جاتی ہے۔ یعنی بلفظ دیگر دینی مدارس کے جس قومی اور ملی ذمہ داری کو اپنے سرلے رکھا ہے بمشکل اس کا ایک چوتھائی حق ادا کیا جاتا ہے۔ کاش ان رہ نماؤں کو اس زیاں کاری کا احساس ہوتا۔

مذہبی اور اخلاقی تربیت بھی دینی تعلیم کا ایک اہم مقصد اور بنیادی جزو ہے، دینی تعلیم سے اس مقصد کی علیٰحدگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس پہلو سے بھی صورت حال بڑی نازک، سنگین اور ناگفتنی ہے میں ایک بار ایک اجلاس میں شرکت کیلئے ایک مدرسہ میں گیا ہوا تھا۔ اتفاقاً ایک طالب علم بھی میرے ہمراہ تھا وہیں کے ایک دوسرے مدرسہ میں اس طالب علم کے اطراف کے چند طلبہ زیر تعلیم تھے، انھوں نے اپنے اس مہمان کی دعوت کی، دعوت سے واپس آ کر اس طالب علم نے مجھے بتایا کہ کھانے کی تیاری کے دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ میں نماز کیلئے اٹھنے لگا تو میزبان طلبہ نے حیرت سے پوچھا کہ آپ سفر میں بھی نماز پڑھتے ہیں ؟

یہ ان طلبہ کا حال ہے جنھیں معتدل سمجھا جاتا ہے اور ایک ایسے مدرسے کا واقعہ ہے جہاں چند برس پہلے تک سختی سے نماز کی پابندی کرائی جاتی تھی۔ اس واقعے سے مدارس کی دینی تربیت اور اخلاقی کیفیت کا کچھ نہ کچھ انداز لگایا جا سکتا ہے اور اس آئینے میں دین کے مجاہدوں اور ملت کے سپاہیوں کے خد وخال دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ رنجیدہ بات یہ ہے کہ نیکو کار اور صالح کردار طلبہ مدارس کے ماحول میں عموماً معتوب رہتے ہیں اور غلط کاروں کو پذیرائی حاصل رہتی ہے حد یہ ہے کہ غریب، مجبور، یتیم، بیکس اور بدحال طلبہ اپنی ذہانت کے باوجود کسی بزرگ کی سفارش اور تائید حاصل کرنے میں بمشکل ہی کامیاب ہو پاتے ہیں جب کہ کمزور اور اخلاقی حیثیت سے مجروح طلبہ کئی کئی تقویٰ شعار صالحین اور تقدس مآب متقین کی سفارشیں پیش کر دیتے ہیں۔

ہماری ان گزارشات کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم ملت کے مستقبل سے مایوس ہیں۔ مایوسی تو کفر کی خصوصیت ہے، ہمیں یقین ہے کہ وہ خدائے حی و قیوم جو رات کے پردے سے دن کو نمودار کرتا ہے اور مردے سے زندہ کو وجود بخشتا ہے وہ حالات کی اس تیرہ و تار فضا کے اندر سے ایسے مردان کار کو وجود بخشے گا جو راہ حق کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہوں گے اور جن کی ضیا پاشیوں سے باطل کی تاریکیاں چھنٹتی جائیں گی۔ لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیٰ من حی عن بینۃ۔ البتہ ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ ہمارے بزرگان ملت گریبان میں منھ ڈال کر سوچیں اور یہ نہ بھولیں کہ ملت کی جس امانت کا بار ان کے کندھوں پر رکھا گیا ہے یا انھوں نے خود اٹھا رکھا ہے اس کی جوابدہی سے وہ سبکدوش ہیں۔ ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون، انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار۔

(ستمبر۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

 

قرآن مجید میں امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے، اور جہاں یہ بات کہی گئی ہے وہاں امت کو مخاطب کر کے اس کے تین خصوصی او صاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۱)ایک یہ کہ تم لو گ بھلائی کا حکم دیتے ہو (۲)دوسرے یہ کہ برا ئی کو روکتے ہو (۳)اور تیسرے یہ کہ اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت کسی مخصوص رنگ اور نسل کی بنا پر یا محض کسی نبی یا بزرگ کی طرف منسوب ہو نے کی بنا پر خیر امت نہیں ہو گئی ہے، بلکہ یہ اس بنا پر خیر امت ہے کہ بھلائی اور نیکی کے کا موں سے اسے اس درجہ گہر ا تعلق ہے کہ ان کاموں پر نہ صر ف یہ کہ خود عمل پیرا ہے بلکہ ساری دنیا کو اسی کی دعوت دے رہی ہے اور اس کی طرف بلا رہی ہے۔ اسی طرح برا ئی کے کاموں سے اسے اس درجہ نفرت اور پرہیز ہے کہ نہ صرف خود اس سے کنارہ کش ہے بلکہ ساری دنیا کو اس سے روکنے اور باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر اس ساری تگ و دو میں وہ اس قدر مخلص ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد، کوئی اپنی مصلحت اور کوئی دنیاوی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ وہ اپنے ایمان کے تقاضے کی بنا پر ایسا کرتی ہے اور محض اللہ کی رضا اور خوشنودی چاہتی ہے۔

امت مسلمہ کے اس منصب و مقام اور اس کے کردار و عمل کے اس قرآنی نقشے اور خاکے کو سامنے رکھ کر موجودہ حالات سے اس کا تقابل کیا جائے تو ایک عجیب طرح کا تضاد نظر آئے گا۔

آپ کسی شہر کے مسلمان محلے یا کسی علاقے کی مسلم بستی میں تشریف لے جائیں۔ بے فکری، الھڑ پن اور دیوانگی و آوارگی کے رنگ میں گھومتے ہوئے بہت سے جوانوں سے آپ کی ملاقات ہو جائے گی۔ گلی کوچوں میں نالیوں کے اندر اور باہر اور سڑک کے کنارے آپ کو جگہ جگہ پاخانے، پیشاب، گندگی اور کوڑے کرکٹ کے کریہہ منظر نظر آئیں گے۔ بلکہ آپ کسی شہر کے مسلم اور غیر مسلم محلوں سے واقف نہیں ہیں تو ان گندگیوں کا ڈھیر، گلیوں کی تنگی اور مکانوں کی خستگی دیکھ آپ کو سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمانوں کا محلہ ہے۔ دیہاتوں میں آپ دیکھیں گے کہ بچے اور بسا اوقات بڑے بھی اپنے کام و دہن کی لذت کیلئے اور کبھی کبھی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی روزی حاصل کرنے کیلئے کسی کے کھیت پر حملہ آور ہیں اور اگر اسی دوران کھیت کا مالک نمودار ہو جائے تو آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس کے منھ سے گالیوں کے فوارے ابل رہے ہیں اسی طرح اگر خدانخواستہ دو شخصوں میں جھگڑا اور تکرار ہو رہی ہو تو آپ بڑی آسانی سے گالیوں کے ٹورنامنٹ کا دلخراش منظر دیکھ سکتے ہیں۔

ٹرین میں اگر آپ کے گرد و پیش بیٹھے ہوئے چند بے فکرے نوجوان کسی لایعنی موضوع پر گپیں ہانک رہے ہوں اور دوران گفتگو کبھی اشاروں میں اور کبھی صراحۃً اپنی عیاشی و بدکاری کی داستانیں چھیڑ رہے ہوں تو آپ سمجھ لیجئے کہ یہ مسلمان ہیں۔

بزرگوں سے لے کر خردوں تک، اونچوں سے لے کر نیچوں تک اور دینداروں سے لے کر بے دینوں تک آپ کسی مجلس میں بیٹھ جائیے، چند ہی لمحوں میں کسی مسلم بھائی کے مردار گوشت کی خوراک آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گی۔ برائیوں اور عیوب کا دفتر کھل جائے گا اور ان پر تبصرے کے لئے زبان قینچی کی طرح رواں ہو گی۔

کسی بھی شہر میں سنیما ہال کی کھڑکیوں کے گرد و پیش جوانوں کی بھیڑ بھاڑ میں برقعہ پوش خواتین کی خاصی بڑی تعداد کو دھکے کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ اب تو جو بے پردہ خواتین نظر آئیں، ان کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ وہ غیر مسلم ہی ہیں۔

آپ کسی دوکان پر اس جذبے کے تحت سامان خریدنے جائیں کہ یہ بھی اپنے ایک بھائی کی اعانت اور مدد کا ذریعہ ہے تو کچھ عجب نہیں کہ آپ کودوسری دوکانوں کی بہ نسبت سامان کچھ مہنگا ہی ملے اور خدا اور قرآن کی قسم کھا کر یہ احسان بھی جتلا دیا جائے کہ آپ کو اپنا بھائی سمجھ کر آپ کے ساتھ خاص رعایت کی گئی ہے۔ چند پیسوں کے لئے جھوٹ بولنا اور ایمان بیچنا کتنا آسان ہے اس کا اندازہ آپ بہت سے مسلم دوکانداروں سے ایک ادنیٰ سے سامان کی خرید و فروخت کے دوران کر سکتے ہیں۔

آپ اگر مزدور، دست کار یا صنعت کار ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ آپ کے مالکوں اور ساہوکاروں نے آپ کی گاڑھی کمائی سے کچھ نہ کچھ نچوڑ کھانے کیلئے راستے بنا رکھے ہیں۔ اور آپ کا سامان خرید لینے کے بعد کس طرح مہینوں کی مہینوں آپ کے مال کی قیمت روکے رکھتے ہیں اور آپ کو دوڑاتے پھرتے ہیں۔

اور اگر خدانخواستہ آپ صاحب مال ہیں اور دست کاروں اور صنعت کاروں کے ہاتھ اپنا مال تیار کراتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کاریگر اور مزدور اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں کتنے کوتاہ اور غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیں اور آپ کا مال خرد برد کرنے میں انھیں کتنی مہارت حاصل ہے۔

آپ اگر عالم ہیں اور کسی بڑے مالدار آدمی کے ساتھ کچھ دیر کیلئے بیٹھنے کا اتفاق ہو گیا تو غالباً سود کا مسئلہ چھڑا ہو گا، اور سودی لین دین کی ضرورت اور اس معاملے میں مجبوریوں کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہو گا کہ گویا سود لئے دئے بغیر زندگی کے راستے مسدود اور ترقی کے تمام امکانات کے دروازے بند ہیں۔ میں نے کبھی کسی غریب یامتوسط طبقے کے آدمی کو نہیں سنا کہ سودی لین دین کی ضرورت کا اظہار کیا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے پاس بدہضمی کی حد تک دولت کا انبار ہو، ان کی گفتگو سے ایسالگتا تھا کہ وہ سود کے بغیر روزی کے سارے دروازے بند سمجھتے ہیں۔

غرض زندگی کے جس شعبے کا بھی جائزہ لیجئے ہمارا اجتماعی کردار حق و شرافت اور اخوت وانسانیت کے تقاضوں سے دور اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں سے بھر پور ملے گا… میں یہ نہیں کہتا کہ یہ امت بھلائیوں سے کلی طور پر تہی دامن ہو چکی ہے مگر یہ کہنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ اس پر شر غالب آ چکا ہے اور خیر مغلوب ہو چکا ہے۔

ظاہر ہے اس صورت میں تبدیلی اور انقلاب لانے کی کوشش کا اولین ذمہ دار اس امت کا وہ طبقہ ہے جسے انبیاء کا وارث کہا جاتا ہے مگر اس طبقے کی کوششوں کا جو رخ ہے وہ بڑامایوس کن ہے۔ ان وارثین انبیاء میں ایک بڑا گروہ ان لوگوں کا ہے جو عام مسلمانوں سے ربط تو ضرور رکھتے ہیں مگر ان کے تعلق کی بنیاد اصلاح و تبلیغ نہیں بلکہ اپنے جسم و جان اور تن ولباس کی ضرورتوں کی تکمیل ہے۔ یہ لوگ تبدیلی کا کوئی عملی قدم اٹھانے سے تو یکسر معذور ہیں، لیکن ان کی زبان سے نکلی ہوئی آواز کی جو نوعیت ہو سکتی ہے اور وہ جہاں تک پہونچ سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں، البتہ ان وارثین انبیاء کا ایک گروہ ایسا ضرور ہے جسے عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی آواز کان کے پردوں سے آگے جا سکتی ہے۔ مگر ان میں سے کھوکھلے کردار کے لوگوں کو چھانٹ دینے کے بعد بھی۔ مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ آسمان کی بلندیوں پر رہتے ہیں اور انھیں جن سے خطاب کرنا ہے وہ پستیوں کے مکین ہیں۔ ان کی تقریریں عربی میں ہوتی ہیں اور ان کے مخاطب معیاری اردو بھی نہیں سمجھتے۔ ان کا قیام عالمگیر پیمانے کے ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ اور ان سے استفادے کے محتاج لوگوں کو جھونپڑی بھی نصیب نہیں۔ یہ اسلام کے علمبردار مسلم حکمرانوں کے زیر سایہ چلنے والی یونیورسٹییوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کو خطاب کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اور اس اونچی سوسائٹی کے لوگوں سے شاعرانہ اداؤں کے ساتھ الداعیۃ الاسلامی الکبیر کے القاب و خطاب سے پکارے جانے یا نوازے جانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان ساحل نشینوں کے بجائے کاروبار زندگی کے طوفان سے ٹکرانے اور اس کے تھپیڑے کھانے والوں کو ان داعیان اسلام کی حکمت و دانائی کے جواہر پاروں کی ضرورت ہے غرض شکار کہیں ہے اور تیر کہیں اور چلایا جا رہا ہے اور اس کا جو نتیجہ ہے اور جو آئندہ ہو سکتا ہے وہ کسی تبصرے اور تجزیے کا محتاج نہیں۔ پس عرض ہے کہ

تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

(اکتوبر۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

 

 

کمی کیا ہے ؟

 

امت مسلمہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ہر طرح کے امکانات اور صلاحیتوں سے بھر پور امت ہے۔ یہ امت روئے زمین کے نہایت وسیع و عریض خطے پر پھیلی ہوئی اور حکمراں ہے۔ اس کے زیر نگیں ممالک دنیا کے تمام براعظموں کی کنجی ہیں۔ اس کے ساحل دنیا کے تمام سمندروں سے لگے ہوئے ہیں۔ اس کی زمینیں، معدنیات اور قدرتی ثروتوں اور ذخائر سے مالامال ہیں اس کا زیر کا شت حصہ دنیا کا شاداب و زر خیز ترین حصہ ہے۔ اس کے بیشتر ممالک میں بد ہضمی کی حد تک مال و دولت کی ریلا ریلی ہے۔ یعنی علامہ اقبال کو تو اپنے دور میں یہ شکوہ کرنا پڑا تھا کہ ؎

قہر تو یہ ہے کافر کو ملیں حور و قصور … اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

لیکن اگر وہ آج زندہ رہتے تو شاید حور و قصور کی فراوانی اور اس کے اثرات و نتائج دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے واپس لے لئے جانے کی دعا کرتے کہ ؎

رہا ہے نان شعیر ہی پہ مدار قوت حیدری

امت کی صلاحیتیں بھی ہمہ گیر ہیں دینی اور دنیاوی علوم، تکنیکی اور فنی مہارت، انجینئری، طب، سائنس، سیاست، نظم مملکت، صنعت و حرفت، غرض ایک معاشرے کو ابھرنے اور عروج و ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے مختلف شعبۂ حیات میں جس طرح کے ماہرین کا رندوں اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سے یہ امت پوری طرح مالامال ہے۔ کسی میدان میں خلا نہیں ہے۔

یہاں پہونچ کر لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ خامی کیا ہے جس کی وجہ سے یہ امت اپنے مطلوبہ مقام تک پہونچ نہیں رہی ہے۔ اس کا سادہ اور مختصر جواب یہ ہے کہ امت کی صلاحیتوں کا منظم اور صحیح استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اسی مختصر سی بات کو ہم تفصیل سے کہنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ خامی یہ نہیں ہے کہ صلاحیت مفقود ہے، بلکہ خامی یہ ہے کہ قومی و اجتماعی مفاد کیلئے کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے کاموں کو بھی اپنے ذاتی مفاد کے حصوں کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جو خاص قومی اور اجتماعی کام ہیں، ہم جب کسی کام کیلئے کارکنوں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو ان کی لیاقت اور جوہر دیکھنے کے بجائے سب سے پہلے ہماری نظر اس بات پر جاتی ہے کہ یہ شخص ہمارے رشتے، کنبے اور علاقے کا ہے یا نہیں ؟ورنہ کم از کم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے ذاتی مقاصد کیلے کس حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گھوڑوں سے بیل گاڑیاں کھینچوائی جاتی ہیں اور بیلوں کو بگھی اور ٹم ٹم میں جوتا جاتا ہے۔

ہماری ذہانت کا بڑا حصہ کسی مثبت کام کے بجائے دوسروں کو اکھاڑنے، پچھاڑنے، رسوا کرنے اور گرانے میں صرف ہوتا ہے۔ ہماری قانونی مہارت اپنے بھائیوں کے حقوق دلانے اور عزت و انصاف کی زندگی سے ہمکنار کرنے کے بجائے ان کے حقوق مارنے اور غصب کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ ہماری دولت ٹیکنیکل اور سائنٹفک ترقی کے پلانوں میں استعمال کئے جانے کے بجائے ناچ گانے کے سامان، فلم، ٹیلیویژن سیٹ، کھیل کود کے آلات اور تفریح کے فاجرانہ سامانوں کی خریداری اور در آمد پر صرف ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس دولت سے ہم دوسری قوموں کے ماہرین خریدسکیں خود ہمارے ماہرین اپنی ناقدری سے مایوس ہو کر دوسری قوموں کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ غرض امت میں صلاحیتوں اور امکانات کا فقدان نہیں ہے بلکہ ان کا استعمال بے محل اور بے ڈھنگے طور پر ہو رہا ہے۔ اور صلاحیتیں ادھر ادھر رائیگاں اور بیکار جا رہی ہیں اور جب تک یہ صورتحال بر قرار رہے گی تکلیف دہ نتائج سامنے آتے رہیں گے۔

فھل من مدکر۔

(دسمبر ۱۹۸۲ء )

٭٭٭

 

 

 

اتحاداسلامی کی بنیادیں

 

خانۂ کعبہ کو صرف اسلام ہی میں نہیں جاہلیت میں بھی تقدس و احترام کاسب سے بلند مقام حاصل تھا۔ اہل جاہلیت کو یقین تھا کہ اس پر کوئی باطل اور ظالم طاقت مسلط نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے جب ۸ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فتح کر لیا تو عام اہل عرب کو یقین آ گیا کہ آپ حق پر ہیں۔ چنانچہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے، چوں کہ ہر قبیلے کے ہر فرد کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین سیکھنا مشکل تھا۔ اس لئے قبائل نے اپنے سر برآوردہ اور ہوش مند افراد کو آپ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور اس طرح فتح مکہ کے بعد مدینہ میں وفود کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ اسی لئے تاریخ وسیر کی کتابوں میں ۹ھ کا نام ہی عام الوفود پڑ گیا۔ ان وفود میں بعض بعض ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے اور سیکھنے نہیں آئے تھے بلکہ وہ غلبۂ اسلام کی طوفانی لہر سے سراسیمہ ہو کر مدینہ کی ابھرتی ہوئی طاقت سے کوئی ایسامعاملہ طے کر لینا چاہتے تھے جس کے نتیجے میں ان کامستقبل محفوظ ہو جائے۔

یمن کے شمالی سرے پر نجران نام کا ایک شہر تھا جس کے ماتحت ۷۳/ بستیاں تھیں، یہاں کے باشندے عیسائی تھے جن میں ایک لاکھ مردان جنگ تھے علاقے کا انتظام انھیں کے ہاتھ میں تھا یمن کے دور دراز گوشوں تک اسلام کو پھیلتا دیکھ کر انھیں بھی فکر دامن گیر ہوئی اور ۹ھ میں ان کا ایک وفد خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ گفت و شنید ہوئی۔ سوال و جواب ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت قرآن نے جو نقطۂ نظر پیش کیا تھا اسے یہ وفد قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس لئے خوبصورت انداز میں قبول اسلام سے معذرت کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں مباہلہ کی دعوت دے دی۔ انھوں نے تنہائی میں مشورہ کیا اور یہ طے کیا کہ اپنا معاملہ آپ ہی کے سپرد کر دیں کیونکہ اگر آپ نبی ہیں اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اس طرح تباہ ہوں گے کہ ہمارا ایک بال اور ایک ناخن بھی نہ بچے گا۔ چنانچہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ ہم اسلام تو نہیں لائیں گے لیکن اس کے علاوہ آپ کے جو مطالب ہوں انھیں ہم تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ آپ نے جزیہ لینا قبول کر لیا، دو ہزار جوڑے اور دو ہزار اوقیہ چاندی بطور خراج مقرر ہوئی جسے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وصول کرنے کے لئے نجران تشریف لے گئے بعد میں یہ علاقہ اپنی مرضی سے مسلمان ہو گیا۔

قرآن میں سورۂ آل عمران کے اندر اس وفد کے تعلق سے خاصی تعدد میں آیات موجود ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک آیت یہ ہے۔

قل یا اھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃسواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا ارباباً من دون اللہ ۔ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون ( ۳: ۶۴)

یعنی آپ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ و ہمارے اور تمھارے درمیان برابر ہے کہ ہم خدا کے سواکسی کی عبادت نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم سے بعض بعض کو اللہ کے سوار ب نہ بنائے۔ اگر وہ لوگ گریز کریں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

اس آیت میں تین نکات پر اہل کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی دعوت دی گئی ہے، اور یہ تینوں نکات ایک ہی محور یعنی توحید سے تعلق رکھتے ہیں۔

(۱) پہلا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، یعنی عبادت کے سارے مراسم اور سارے کام اللہ کے ساتھ مخصوص کر دئیے جائیں۔ یہ اہل حق کے درمیان اتحاد کا بنیاد ی پتھر ہے حق کا اتحاد کسی ایسی طاقت اور جماعت کے ساتھ ہوہی نہیں سکتا جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کا حقدار سمجھتی ہو اور اپنی عبادت کا ایک حصہ ا س غیر اللہ کیلئے بھی انجام دیتی ہو۔

(۲) دوسرا نکتۂ اتحاد کا یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں یہ پہلے ہی نکتے کی ذرا زیادہ وسیع تعبیر ہے۔ کیونکہ شرکت یہ بھی ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت اور پوجا کی جائے اور شرک یہ بھی ہے کہ اللہ کے سواکسی اور ہستی کو اللہ کی ذات و صفات میں شریک سمجھاجائے۔ ذات میں شرک یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو اللہ مان لیں اور یہ بھی ہے کہ اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیاں مان لیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی قدرت و قوت اور خدائی کمال کے دائرے میں جو چیزیں آتی ہیں ان سے کسی اور کو بھی متصف مان لیں، مثلاً یہ مان لیں کہ اس کائنات میں اللہ کے علاوہ اور بھی کوئی ہستی خدائی تصرف کرتی ہے۔ مارتی اور جلاتی ہے۔ روزی اور اولاد دیتی ہے۔ حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتی ہے۔ غیب و شہادت سب کچھ کف دست کی طرح یا کھلی جگہ پر پڑی ہوئی انگوٹھی کی طرح پر عیاں ہے اور وہ بھی ہمارے خیالات اور اداروں تک کو جاننے والی( علیم بذات الصدور) ہے۔ وغیرہ وغیرہ

(۳) تیسرا نکتۂ اتحاد یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے، یہ نکتہ بظاہر تعبیر کے فرق کے ساتھ پچھلے دو نکات کی تکرار معلوم ہوتا ہے۔ مگر جس ماحول اور پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اس کے مد نظر اس آیت میں در حقیقت مذہبی غلطی کے ایک بہت بڑے اور مخصوص محور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کی توضیح ایک واقعے سے ہوتی ہے۔

حاتم طائی کے صاحبزادے حضرت عدی بن حاتمؓ مدینہ تشریف لائے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے سنا۔ اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ ۔ یعنی یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا۔

عدی بن حاتم پہلے خود بھی عیسائی تھے۔ انھوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! یہود و نصاریٰ تو اپنے علماء اور راہبوں کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا بجا کہتے ہو کہ وہ پوجا نہیں کرتے تھے۔ لیکن کیا ایسانہیں تھا کہ یہ علماء اور راہب جس چیز کو حلال ٹھہرا دیتے، اسے لوگ حلال مان لیتے اور جس چیز کو حرام ٹھہرا دیتے اسے حرام مان لیتے، حضرت عدی بن حاتم نے تسلیم کیا کہ ایسا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ علماء اور راہبوں کو رب بنا لینے کا مطلب یہی ہے۔

یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آل عمران کی محولہ بالا آیت کے اس تیسرے نکتے کا منشایہ ہے کہ احکام شریعت کے سلسلے میں کسی شخص کو یہ مرتبہ و مقام نہ دیا جائے کہ وہ جن کو حلال کہے آنکھ بند کر کے اسے حلال مان لیا جائے، اور جس چیز کو حرام کہے آنکھ بند کر کے اسے حرام مان لیا جائے، بلکہ ضروری ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی لائی ہوئی شریعت پر پیش کیا جائے، اور خلاف شریعت ہونے کی صورت میں اسے ہر گز تسلیم نہ کیا جائے بلفظ دیگر احکام شریعت اور امور دین کے سلسلے مین آنکھ بند کر کے کسی کی پیروی اور تقلید نہیں کی جا سکتی اور نہ نص شریعت کے خلاف کسی کے فتویٰ پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے، خواہ س کا علمی مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اور اس کے زہد وخداپرستی اور عبادت و ریاضت کا مقام کتنا ہی بالاتر کیوں نہ ہو اور اس کی سوجھ بوجھ، فہم وفراست، گہرائی و گیرائی ملکۂ اجتہاد واستنباط اور عقلی وسعت وفسحت اوج ثریا تک ہی کیوں نہ پہونچ چکی ہو۔ کیوں کہ وہ خدا یا پیغمبر خدا نہیں ہے، شارع اور معصوم نہیں ہے اور اس کے اقوال بذات خود حجت شرعی نہیں ہیں بلکہ حجت شرعی کی تائید کے محتاج ہیں۔

یہ تین نکتے ایسے اہم اور بنیادی نکتے ہیں اور اپنے اندر اتنی وسعت اور کشادگی رکھتے ہیں کہ انھیں نکات پر ایک غیر مسلم جماعت کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ اور واضح کیا گیا کہ ان نکات پر متفق ہو جانے کے بعد ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف باقی نہیں رہ جائے گا۔ اسی لئے اسے کلمۂ سواء…برابری کاکلمہ…کہا گیا۔

ان نکات پر دیگر اقوام، جماعتوں یا مذاہب کو دعوت اتحاد دینے کا مطلب لازمی طور پر یہ ہے کہ اسلام بذات خود شیرازہ بندی، جمعیت اور تنظیم کی ایسی بنیاد ہے اور تمام دائروں اور شعبوں کی اجتماعیت اپنے دامن میں اس طرح سمیٹے ہوئے ہے کہ اب وہ مزید کسی داخلی تنظیم اور جمعیت سازی کا محتاج نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اسلامی کاز کو آگے بڑھانے اور دین کو فروغ دینے کیلئے اگر کوئی مخصوص طریقۂ کار سوچا گیا۔ اور اس کے لئے کارندوں کی ایک ٹیم منظم کی گئی تو اسلام اس طرح کی کسی تنظیم پر قد غن نہیں لگاتا۔ لیکن جب ایسی کوئی بھی تنظیم فروغ اسلام کے دائرے سے آگے بڑھ کر تحزب اور امتیاز من و تو کا شکار ہو جائے تو پھر وہ ایک اسلامی تنظیم کے بجائے اسلام شکن تنظیم بن جاتی ہے اور امت کی صلاح و فلاح کے بجائے اس کے مصائب و آلام کی علامت بن کر نمودار ہوتی ہے۔ تجربہ بتلاتا ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات بلفظ دیگر کتاب وسنت کے بجائے کسی اور چیز کو تنظیم و جمعیت سازی کی بنیاد بنانے کا نتیجہ امت کے لئے ہمیشہ انتشار و تفرقے کی شکل میں نمودار ہوا ہے اور ایسی تنظیموں سے امت کو مزید چرکے ہی لگے ہیں۔

امت میں تفرقے کی ایک بنیاد تو بہت پرانی ہے اور یہ بنیاد وہ مدارس یا مکاتب فکر ہیں جنھیں اسلام کی واضح اور روشن تعلیمات چھوڑ کر بدعات و خرافات کی تاریک بنیادوں پر وجود میں لایا گیا ہے اور جو اپنے داعیوں کے بطن و فرج کے تقاضوں یاسیاسی مقاصد کی تکمیل کے ضامن ہیں ظاہر ہے ایسے فرقوں کے قائدین اور علماء جان بوجھ کر حق کو چھوڑے اور باطل کو اختیار کئے ہوئے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں سے اتحاد اسلامی کی توقع ہی فضول ہے جب تک کہ انھیں باطل سے توبہ کر کے حق کو اختیار کرنے کی توفیق نہ مل جائے۔

تفرقے کی ایک اور بنیاد وہ مکاتب فکر ہیں جن میں شخصیت پرستی کی جھلک بہت ہی نمایاں ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ ان کا وجود ہی شخصیت پرستی کا رہین منت ہے ان مکاتب فکر کا وطیرہ یہ ہے کہ یہ کسی واضح سے واضح ترین آیت قرآنی اور کسی مستند سے مستند حدیث نبوی کو بھی اس وقت تک قبول نہیں کر سکتے جب تک اس بات کا ثبوت نہ مل جائے کہ ان کی منتخب کردہ شخصیت یعنی ان کے پیشوا نے اس آیت یا حدیث کے موافق فتویٰ دیا ہے۔ یعنی ان حضرات نے پیمانہ بالکل الٹ دیا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ امت کے علماء اور پیشواؤں کے اقوال اور فتاوے کتاب وسنت کے معیار پر پرکھ کر قبول یا رد کئے جائیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ کتاب وسنت کو علماء اور پیشواؤں کے اقوال اور فتاویٰ پر پرکھا جاتا ہے اور موافق نہ ہونے کی صورت میں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کوکسی نہ کسی بہانے رد کر دیا جاتا ہے لیکن اپنے پیشوا کی بات کسی صورت رد نہیں ہونے دی جاتی۔ اس کوچۂ رقیب میں یہاں تک سر کے بل چلنے کی کوشش کی گئی کہ جہاں کوئی بات نہ بن سکی وہاں یہ فرض کر لیا گیا کہ ہمارے پیشوا کا جو قول حدیث نبوی یا آیت قرآنی کے خلاف ہے اس کے بارے میں ہمارے پیشوا کو کوئی مخصوص حدیث معلوم رہی ہو گی۔ گویا چودہ سو برس کے عرصہ میں صرف انھیں بزرگ پر وہ حدیث … شاید خلاء سے … ٹپک پڑی تھی اور حفاظت دین کے سارے خدائی وعدوں اور پیغمبرانہ بشارتوں کے باوجود ساری امت محروم تماشا اور تشنہ دیدار ہی رہی۔

خلاصہ یہ کہ یہ طبقہ علماء اور ائمہ کے اقوال اور فتاؤں کو کتاب وسنت کے گرد طواف کرانے کے بجائے خود کتاب وسنت کو اقوال الرجال کے گرد طواف کراتا ہے۔ اس نے امتی کو پیغمبر کا منصب دے دیا ہے اور پیغمبر کو امتی کے درجے تک اتار دیا ہے۔ خواہ جانتے بوجھتے ہوئے ایساکیاہو خواہ شخصیت کے ساتھ حسن ظن کے غلو کے سبب۔ لیکن بہر حال امر واقعہ یہی ہے۔

امت میں تفرقے کی ان مذکورہ بالا دونوں بنیادوں کے علاوہ آجکل طریقۂ کار کی بنیادوں پر تشکیل کی جانے والی تنظیمات بھی تفرقے اور گروہ بندی کی ایک اہم بنیاد بنی ہوئیں ہے۔ ان تنظیمات کا غلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے طے کردہ طریقۂ کار کو مقاصد کا درجہ دے رکھا ہے۔ بلکہ طریقۂ کار کی اہمیت مقاصد سے بھی بڑھا دی گئی ہے اور عملی طور پر مقاصد کو وسائل و ذرائع کا درجہ بھی حاصل نہیں رہ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تنظیمات کے نزدیک باہمی اخوت و ہمدردی، تعاون و تناصر اور اجتماعیت و شیرازہ بندی کے لئے اسلام و ایمان کا رشتہ الفاظ کی حد تک ممکن ہے کہ باقی ہو لیکن عملی دنیا میں لغو ہو کر رہ گیا ہے ان تنظیمات کا اصول اب عملاًٍ یہ بن گیا ہے کہ اسلامی عقائد و احکام اور تعلیمات کے متعلق ان کے اپنے سمجھے ہوئے معانی و مطالب سے تنظیم کے نام پر ان کے اپنے طے کردہ طریقۂ کار سے اور ان دونوں بنیادوں پر قائم ان کی گروہ بندی اور تفرقے سے جو شخص پورے طور پر متفق ہو وہ تو ان کا بھائی ہے اور ہر طرح کی ہمدردی و تعاون کا مستحق بھی۔ لیکن اگر کوئی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی نیک اور صالح کیوں نہ ہو ان کی اختراعات سے متفق ہونے اور ان کی گروپ بندی کا ممبر بننے پر آمادہ نہ ہو، خواہ وہ کتنے ہی معقول اسباب و وجوہ اور دلائل و براہین رکھتا ہو تو وہ مسلمان اپنی اسلامی بنیاد پر بہر حال کسی ہمدردی کا مستحق نہیں اور اس کا اسلام اس بات کیلئے کافی نہیں کہ اسے اپنا بھائی اور مستحق تعاون و تناصر سمجھاجائے۔ بلکہ ہماری بعض اسلامی تنظیمات کی اسلامی اجارہ داری کا طنطنہ تو اس مقام کو پہونچ چکا ہے کہ وہ اپنے علاوہ بقیہ ساری امت کو یہود کی طرح مغضوب و ملعون سمجھ رہی ہیں جن پر بقول ان کے عذاب الٰہی کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ نعوذ باللہ ۔

ملت اسلامیہ کے اس تفرقہ و انتشار کے عالم میں جب کبھی امت مسلمہ پر کوئی بڑی اور کڑی افتاد پڑتی ہے تو امت کے بیشتر فرقے اور تنظیمیں سر جوڑنے کے لئے اکٹھا ہو جاتی ہیں۔ مگر یہ ’’سر‘‘ اس حد تک کھردرے ہو چکے ہیں کہ انھیں جوڑنے کے لئے کوئی اونچے سے اونچے معیار کا لوشن بھی کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ ان اجتماعات میں ہر فرقہ اور ہر تنظیم گلا پھاڑ پھاڑ کر معدے کی تہ سے مسلمانوں کی ہمدردی کے نعرے لگاتی ہے۔ مگر ان نعروں کے پیچھے اصلاً جو جذبہ کار فرما ہوتا ہے وہ ہے مسلمانوں کی توجہ اور دولت کا استحصال، دینی خدمات کا کریڈٹ حاصل کرنے کا چکر اور اپنی تنظیم کی پختگی جسے بلفظ دیگر امت میں تفرقے کی بنیاد کی پختگی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کریڈٹ کے چکر نے تو قائدین امت اور صالحین ملت کا دماغ اس حد تک خراب کر دیا ہے کہ سیلاب اور فساد کے مارے ہوئے مجبوروں میں امدادی رقومات تقسیم کرنے والی دو تنظیمیں ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام پر جمع ہو جاتی ہیں تو انھیں یہ بات گورا نہیں ہوتی کہ باہمی تال میل اور متفقہ منصوبے کے ساتھ رقم تقسیم ہو۔ بلکہ دونوں الگ الگ تقسیم کرتی ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ایک تنظیم تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھاری امدادی رقم تقسیم کرنے کے باوجود خاموش رہتی ہے۔ لیکن دوسری تنظیم ایک حقیر سی رقم تقسیم کر کے اپنے کارنامے کے پروپیگنڈے کا وہ طومار باندھتی ہے کہ گویا ؎

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

بلکہ ہوس شہرت کی حد یہ ہے کہ ان تنظیموں کے گرگے گھوم گھوم کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں جماعت کچھ نہیں کر رہی ہے جو کچھ کر رہے ہیں ہم کر رہے ہیں۔ ان غریبوں کو دوسری جماعتوں کے نہ مدارس نظر آتے ہیں نہ مساجد، نہ جلسے نہ خطبے، نہ رسالے، نہ کتابیں، نہ مبلغین، نہ واعظین، نہ صالحین، نہ جد و جہد نہ جوش و عمل، نہ علم و فضل، نہ تحقیق و تنقیح، بس جو کچھ ہیں مابدولت ہی ہیں۔ دوسرے کچھ بھی نہیں۔

یہ ہے مختلف جماعتوں اور تنظیموں کی وہ تصویر جو امت مسلمہ کی ہمدردی اور ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے بلند آہنگ دعووں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری امت کے مصلحین و قائدین کے اندر جب تک یہ نفسیات کار فرما رہیں گی، کوئی خوبصورت سے خوبصورت ترین نعرہ بھی امت کے مصائب کا خاتمہ نہیں کر سکتا، اور امت قطعی طور پر حالات کے رحم و کرم پر ہو گی۔ افتراق و انتشار کے اس تیسرے سبب کا علاج اس کے سواکچھ نہیں کہ اکابرین امت دلوں کی تہ میں بیٹھے ہوئے زنگ کو کھرچ کر پھینک دیں، ایمان و یقین کی قندیلیں روشن کریں، بلا امتیاز سارے مسلمانوں کو اپنی ہمدردی و توجہ کا مستحق سمجھیں اور اپنے مقاصد کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں اور اس بات کا اچھی طرح یقین کر لیں کہ ان کی خود ساختہ تنظیمات خدائی دین کا درجہ ہر گز حاصل نہیں کر سکتیں، نہ اس کی بنیاد پر من و تو کا امتیاز قائم کر کے وہ کسی بھی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں، بلکہ یہ امتیاز دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہے۔

پچھلے صفحات میں ہم وہ بات پیش کر چکے ہیں جسے اسلام نے کلمہ سوائ… برابری کی بات… کہا ہے اور جس کی بنیاد پر غیروں کو بھی دعوت اتحاد دی ہے۔ اور اس یقین دہائی کے ساتھ دی ہے کہ اسے قبول کرنے سے کسی کے عز وقار کو ٹھیس نہیں لگے گی۔ کسی کی خودی زخمی نہیں ہو گی۔ اور کسی کی آبرو پر آنچ نہیں آئے گی کیونکہ اس میں مختلف ہستیوں کی پوجا کے بکھیڑے نہ ہوں گے کہ عقیدتوں کی لا مرکزیت کا طوفان کھڑا ہو۔ کسی کو کسی پر بالادستی نہ ہو گی کہ وہ صاحب ’’بت‘‘ ہو جائیں …اور ان کے آگے دوسروں کو جھکنا پڑے۔ یا ان کی اختراعات اور فہم کی پیروی کرنی پڑے۔ بلکہ یہ خدائی پیغام اور خدائی تعلیمات ہوں گی جو ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر ایک کیلئے یکساں ہوں گی اور یکساں حقو ق کی ضامن ہوں گی۔ انھیں اختیار کر کے بندہ بندوں کی بندی سے آزاد ہو جائے گا اور صرف خدا کا بندہ رہ جائے گا۔

کیا ہمارے برادران اسلام! قرآن کی اس آواز پر کان دھرنے کیلئے تیار ہیں ؟اور کیا ہمارے اجارہ داران دین، دین کی اس ہدایت کی سمت کسی طرح کی پیش رفت کے امکانات پر غور کریں گے ؟ اور کیا ہمارے تقدس مآب صالحین، صلاح و تقویٰ کے اس بنیادی عنصر کو در خور اعتناء سمجھیں گے ؟ ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین مالم یاذن بہ اللہ ۔

(فروری ۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

 

راستہ اور منزل

 

انسانی معاشرے کی سطح پر ابھرنے والی تحریکات اور تنظیموں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات ان تمام تحریکوں میں قدر مشترک کے طور پر ملے گی کہ یہ تحریکیں اپنے ابتدائی مرحلے میں بڑے جوش، ولولے اور قوت کے ساتھ ابھریں اور عموماً گرد و پیش کے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا جوش و ولولہ سرد پڑتا گیا یہاں تک کہ ایک وقت ایسابھی آیا جب ان کا صرف ڈھانچہ باقی رہ گیا اور بعض بعض تو اس طرح فنا ہوئیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ کسی نے اس صورتحال کا بہت ہی ٹھیک تجزیہ کیا ہے ؎

آگے تھے ابتدائے عشق میں ہم            ہو گئے خاک انتہا یہ ہے

انسانی سماج میں ابھرنے والی تحریکات کا یہ فطری مزاج ہے اور تاریخی تسلسل اس کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ اسلام جوانسان کا صحیح، جامع اور ہمہ گیر مذہب ہے وہ بھی اس زیر و بم اور نشیب و فراز سے پورے طور پر مستثنا نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے تک عموماً صورتحال یہ تھی کہ خرابیوں کی بھرمار کے وقت انسانوں کی اصلاح کے لئے ایک نبی یا پیغمبر مبعوث کر دئے جاتے اور وہ حالات میں بہت کچھ سدھار کر کے خداپرستی اور خیر پسندی کا ماحول پیدا کر دیتے۔ لیکن جوں ہی وہ دنیا سے تشریف لے جاتے ان کی تعلیمات اور اصلاحی کوششوں کے اثرات مدھم پڑنا شروع ہو جاتے۔ رفتہ رفتہ خداپرستی کی روح جاتی رہتی، محض ڈھانچہ باقی رہ جاتا۔ اکا دکا جو خداپرست رہ جاتے وہ گوشوں میں جا دبتے اور عام معاشرۂ انسانی پر خدائی احکام و مرضیات سے آزادی کا غلبہ ہو جاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی اور پیغمبر کو بھیج دیتا اور اس کے ذریعہ ایک نئی انقلابی روح کے ساتھ تبدیلی رونما ہوتی جو قوت وعروج کے دور سے گزر کر دھیرے دھیرے مدھم پڑ جاتی اور بعثت نبی کا عمل پھر دہرایا جاتا۔

چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو قیامت تک آنے والے سارے انسانوں کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا س لئے آپ کے ذریعہ جو تبدیلی ہوئی وہ سب سے زیادہ طاقتور، وسیع، ہمہ گیر اور دیر پاتھی اور اس کے عروج کا دور سب سے زیادہ طویل تھا۔ لیکن اضمحلال و زوال کی گردشوں سے اسے بھی بہر حال دوچار ہونا پڑا۔ نیز آپ چوں کہ آخری نبی تھے اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہ ہو گا، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اضمحلال و زوال کو عروج وسربلندی میں تبدیل کرنے کیلئے کسی نبی اور پیغمبر کو بھیجنے کے بجائے ایک دوسرا ہی انتظام کیا گیا، جس کا ہم بغور جائزہ لیں تو یہ تین حصوں پر مشتمل نظر آئے گا۔

(۱) پہلا اور بنیادی انتظام یہ کیا گیا کہ پیغمبر کی تعلمات …بلفظ دیگر دین کبھی ضائع نہ ہوں گی، اور نہ ان میں تبدیلی، تحریف اور کمی بیشی کی جا سکے گی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ ہم نے ’ذکر‘ کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

(۲) دوسرا انتظام یہ کیا گیا کہ اللہ کے بندوں کا ایک ایسا منتخب اور صاف ستھرا گروہ اللہ کی کتاب کا وارث ہو گیا کہ اس کے معانی و مطالب میں تحریف و تبدیلی کی جو کوششیں بھی دنیا پرست اور خود غرض دینی ٹھیکیداروں کی طرف سے کی جائیں گی، اللہ کے بندوں کا یہ منتخب گروہ اس کا پردہ چاک کر کے اس حقیقت کو منظر عام پرلا دے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کارنامے کی انجام دہی سے روک نہ سکے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا۔ پھر ہم نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو کتاب کا وارث بنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔ یحمل ھٰذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاھلین۔ (کتاب المدخل لبیہقی مشکوٰۃ)۔ یعنی اس علم کو ہر بعد کے گروہ میں سے بلند پایہ لوگ حاصل کریں گے اس سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کے جھوٹے دعوے اور جاہلوں کی تاویل کا خاتمہ اور صفایا کریں گے۔

حق پرستوں کا یہ گروہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں فنا اور ختم نہ ہو گا، البتہ یہ کبھی بہت زیادہ قوت و عروج پکڑے گا اور پورے ماحول پر اپنا رنگ اور اپنی چھاپ ڈال دے گا، اور کبھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی، اور ماحول کا بگاڑ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ حق پرستوں کا یہ گروہ اس ماحول میں اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ لیکن وہ بذات خود اس فساد کا شکار نہ ہو گا۔ بلکہ پوری مضبوطی کے ساتھ حق پر قائم رہے گا۔ ان باتوں کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حسب ذیل حدیث میں وار دہے :

لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین حتی یاتیھم آمر اللہ وھم ظاھرون۔

(بخاری، کتاب الاعتصام ومسلم وغیرہ فی مواضع مختلفہ بالفاظ مختلفہ)

ان الدین بداً غریبا و سیعود کما بدأ، فطوبی للغرباء وھم الذین یصلحون ما افسدالناس من بعدی من سنتی۔

(ترمذی، ابواب الایمان)

میری امت کا ایک گروہ برابر ظاہر رہے گا۔ ( حق پر قائم اور غالب رہے گا ان کی مخالفت کرنے والے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ) یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کا فیصلہ یعنی قیامت آ جائے گی اور وہ ظاہر غالب ہی رہیں گے۔

دین اجنبی بن کر شروع ہوا اور جس حالت میں شروع ہوا عنقریب اسی حالت پر پھر پلٹ کر چلا جائے گا پس اجنبی لوگوں کیلئے مبارکباد اور خوشخبری ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ لوگوں نے میرے بعد میری جس سنت کو فاسد کر دیا ہواس کی اصلاح کرتے ہیں

(۳) حفاظت و احیائے دین کا تیسرا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ جب ماحول کا بگاڑ اور فساد بہت زیادہ وسیع ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسی حق پرست گروہ کا طبقہ عموماًکسی عبقری انسان کی سربراہی میں ماحول کو بدلنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ اٹھ پڑتا ہے اور امت مسلمہ کے حالات بدل کر رکھ دیتا ہے یہی عبقری انسان مجدد کہلاتا ہے اور اس کی سربراہی میں اصلاح امت کا کام انجام دینے والے طبقے کو بھی مجدد کہا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔ ان اللہ یبعث علیٰ رأس کل مأۃ سنۃ من یجدد لھٰذہ الامۃ امردینھا۔ (ابوداؤد) اللہ تعالیٰ ہر سوسال کے سرے پر ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کے کام کی تجدید کرے گا۔ (اس موضوع پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ محدث ماہ جون ۸۲ء کے اداریہ میں لکھا جا چکا ہے۔ )

تجدید امت کے لئے ظاہر ہے کہ خطوط کار اور مقاصد وہی ہوں گے جس کا نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی تئیس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں چھوڑ گئے ہیں۔ آپ کے کارہائے نبوت کے خطوط و مقاصد دونوں کو سورہ جمعہ کی اس آیت میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ۔   (الجمعہ)

وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں (ناخواندہ عربوں )میں خود انھیں کے اندر سے ایک پیغمبر بھیجا جوان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، انھیں پاک صاف کرتے ہیں انھیں کتاب و حکمت سکھاتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسانوں کا تزکیہ کیا جائے یعنی انھیں عقیدہ و عمل کی برائیوں اور گندگیوں سے پاک کر کے خالص و مخلص خداپرست اور راست باز بنایا جائے، اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ کتاب اللہ کی تلاوت کر کے اس کے معانی و مطالب کو سمجھایا جائے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ترکیب اور حکمت بتائی جائے۔ پس یہی وہ مہم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد امت کے مصلحین و مجددین کو اصلاً انجام دینی ہے اور یہی وہ کٹھن کام ہے جس کی وراثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے علمائے کرام کو ملی ہے۔ یعنی کتاب ونست کی توضیح وبیان اور انسان کی تربیت و تزکیہ نفس کا کام ہی علماء اور مصلحین امت کے مشن کے لئے اصل اور مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ باقی چیزیں ذرائع ووسائل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب اگر اس اصل اور بنیادی مقصد کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے ذیلی وسائل و ذرائع پر ساری قوت اور سارا وقت صرف کیا گیا تو یہ بعینہٖ وہی بات ہو گی جسے علامہ اقبال نے اس طرح فرمایا۔ ؎

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہوملت …ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ

مجددین امت کے جو کارنامے تاریخ نے محفوظ کر رکھے ہیں ان کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھیک وہی کام انجام دیا تھا جس کی ذمہ داری ان کے سر عائد ہوتی تھی ایمانیات و عقائد سے لے کر اخلاق و معاملات تک جذبات واحساسات سے لے کر کردار و گفتار تک، احکام دین سے لے کر رسم و رواج تک، انسانی زندگی کے جن جن گوشوں میں خامیاں اور خرابیاں پیدا ہو چلی تھیں اور فساد اور بگاڑ گھس آیا تھا اس میں سے ہر ہر گوشے کو انھوں نے اپنی اصلاحی کوششوں کا محور بنایا کہ ان کا کام ہی یہ تھا۔ بفحوائے حدیث نبوی الذین یصلحون ما افسدالناس من بعدی من سنتی۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جن جن طریقوں میں لوگوں نے بگاڑ پیدا کر رکھا ہے اس کی اصلاح کریں اور انسانی زندگی کو عقیدہ و عمل کے فساد سے پاک وصاف کر کے انھیں خالص و مخلص خداپرست اور راست باز مسلمان بنا دیں۔ اس غرض و غایت کے حصول کے لئے انھوں نے ذریعہ بھی وہی اختیار کیا تھا جو سورہ جمعہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے مذکورہ ہے۔ یعنی کتاب وسنت کی تعلیم … انھوں نے اس کام کے لئے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو نہ کسی فلسفے کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی ضرورت محسوس کی نہ اسے ایمان و عقیدے کی پر تقدس سطح بلند سے اتار کر تحریف و نظریے کا دامن بریدہ لباس پہنایا ان کے یہاں آہ سحر گاہی سے لے کر رزم و پیکار تک سب کچھ موجود تھا لیکن انھوں نے وسائل و ذرائع کو مقاصد سے اور مقاصد کو وسائل و ذرائع سے بدلنے کی غلطی نہ کی۔ اسی لئے ان کی کوششوں کے ثمرات و نتائج بروقت اور صحیح طور پر حاصل ہوئے۔ توتی اکلھا کل حین باذن ربھا۔

ہمارے گرد و پیش بلکہ پورے عالم اسلام میں آج کل بھی اسلامی تحریکات چل رہی ہیں اور اس سلسلے میں اصلاحی اور اسلامی تنظیمات کا طوفان ابل پڑا ہے۔ مگر ان تحریکات پر بیرونی اور غیراسلامی فلسفوں اور نظریات کی چھاپ اور ان کے طور طریق کی نقالی کا اثر بہت نمایاں ہے۔ کہ ان تحریکات کے بانی ان غیر اسلامی فلسفوں سے حد درجہ متأثر تھے اور یہ فلسفہ ان کے احساسات و شعور پر اس طرح چھایا ہوا تھا کہ انھوں نے دانستہ یانادانستہ طور پر اسی سانچے میں اسلامی تعلیمات کو ڈھالنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تحریکات میں اسلام کا مطلوبہ توازن اور اس کی معروف خوبیاں باقی نہ رہیں۔ اسلام کی اس جدید تعبیر میں مقاصد کو ذرائع کا اور ذرائع کو مقاصد کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسری خالص عبادات حصول اقتدار وسلطنت کا ذریعہ قرار دے دی گئی ہیں۔ اور انھیں حکومت کی کرسی تک رسائی کے لئے محض ٹریننگ کورس تصور کر لیا گیا ہے۔ اور حکومت و اقتدار کو اصل گوہر مقصود سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلوٰہ وآتوالزکوٰہ وامروابالمعروف ونھوا عن المنکر۔

یعنی اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار دے دیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقتدار اصل مقصود نہیں بلکہ ذریعہ ہے۔ اصل مقصود وہ عبادتیں ہیں جنھیں قائم کرنے میں اقتدار سے مدد لی جا سکتی ہے۔

بہر حال سلطنت و اقتدار کو اصل گوہر مقصود قرار دینے کے بعد مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ کارل مارکسی اشتراکیت اور مغرب کی جمہوریت سے چند ہڈیاں مستعار لے کر ایک نیا اسلامی نظام سیاست مرتب کیا گیا اور اسلامی خلافت …خلافت راشدہ… کو بھی زبردستی اسی ’’مارکسی جمہوریت‘‘ کا ننگ انسانیت لباس پہنا دیا گیا۔ اس جدید فلسفۂ سیاست کافوری اثر تو ظاہر نہ ہوا لیکن جیسے جیسے یہ ذہنوں میں بیٹھتا گیا اور اس انداز فکر پر نوجوانوں کی تربیت ہوتی گئی اس کے غیر معمولی اثرات و نتائج بھی سامنے آتے گئے، چنانچہ اب حالت یہ ہے کہ اس فلسفے کی زد میں آئے ہوئے طبقے کے سیاسی جذبات اس درجہ بھڑک چکے ہیں کہ اسے اسلامی عبادات اور اسلامی آداب زندگی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ نہ نماز کی پابندی نہ روزے کی پروا، نہ زکوٰۃ کا اہتمام، نہ حج میں دلسوزی، بس حصول اقتدار کی تدبیروں میں غلطاں و پیچاں ہیں اور اس کی صبح موہوم کے انتظار میں ابھی سے اسلامی اخلاقیات کو تج کر مکر و فریب، دغا بازی و چالبازی، جوڑ توڑ، کاٹ پیچ، سازش ودسیسہ کاری، تفریق و انتشار اور پارٹی بندی وغیرہ کی ساری خو بو اپنا لی ہے جو موجودہ دور کے غیر اسلامی نظامہائے سیاست کا طرۂ امتیاز ہے۔

پچھلے مصلحین و مجددین نے اسلامی سیاست کو نظر انداز نہیں کیا تھا، لیکن انھوں نے اس توازن کو بگڑنے نہیں دیا تھا جو اسلامی عقائد و عبادات اور احکام وسیاست کے درمیان پایا جاتا ہے، ان کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے حالات کا تجزیہ کرنے اور اس کی روشنی میں مناسب قدم اٹھانے کے سلسلے میں زیادہ فراست اور دقت نظر سے کام لیا تھا۔ اسی لئے ان کی کوششوں کے نتائج قابل قدر بھی تھے اور متوازن اور مفید تھی۔

اسلامی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو دیکھنا چاہئے کہ امت مسلمہ کے اندر اسلامی نقطۂ نظر سے عقائد و عبادات اور احکام الٰہی کی پابندی و بجا آوری میں کہاں کہاں خلاء اور خلل ہے۔ پھر ایسی حکمتیں اور تدبیریں بروئے کار لانی چاہئیں کہ یہ خلا پر کیا جا سکے۔ اور یہ خلل اور خامی دور کی جا سکے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے مگر کرنے کا کام یہی ہے۔ وفی ذالک فلیتنا فس المتنافسون۔ ( مئی ۱۹۸۳)

 

مسلم نسل کشی

 

فسادات ہندوستانی زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ ان فسادات کو برپا کرنے کے لئے خواہ جو بھی عنوان اختیار کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل سبب مذہبی عصبیت اور فرقہ وارانہ منافرت ہے۔ اب یہ فساد نسل کشی کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لئے مسلمانوں کی نگاہیں مختلف سمت اٹھتی ہیں۔ کبھی وہ حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، کبھی اپنے قائدین سے آس لگاتے ہیں، کبھی بیرونی دنیا خصوصاً عالم اسلام کی طرف سے دباؤ کا انتظار کرتے ہیں اور کبھی خود اپنے ماحول کے اندر اس کا علاج ڈھونڈتے ہیں۔

جہاں تک حکومت اور انتظامیہ کا معاملہ ہے تو اس کی روش ایک کھلی کتاب ہے اور اس بارے میں کچھ عرض کرنا بے سود اور لغو ہے۔ مسلم قائدین کی حیثیت بھی نمایاں ہے، ان میں ایک طبقہ تو کھلے طور پر ایسا ہے جو اپنی لیڈری، شہرت، ناموری، اعزاز اور ہوس زر گری کے لئے مسلمانوں کے مصائب و مشکلات اور افتاد و آفات کا کھلم کھلا استحصال کرتا ہے۔ اس کے پاس پر فریب نعروں اور جھوٹے احتجاج کے سواکچھ ہے ہی نہیں۔ البتہ ایک دوسرا طبقہ ایسا ہے جو واقعی مخلص اور ہمدرد ہے لیکن وہ خود حیران وسرگرداں ہے کہ اس مصیبت کا علاج کیا کرے ؟ وہ تڑپتا اور چیختا ضرور ہے لیکن اس کا ناخن تدبیر ہماری مشکلات کی عقدہ کشائی کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے۔ اس کی لیڈرانہ ساخت اور سیاسی حد بندیاں بھی کچھ ایسی ہیں کہ وہ درحقیقت اس راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ خواہ یہ لیڈر اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔

بیرونی دنیاسے کسی دباؤ اور اس کے اثرات کا انتظار بھی فضول ہے۔ صرف ایک ہی صورت باقی رہتی ہے کہ تمام مسلم باشندے مقامی طور پر اپنے اپنے ماحول کی روشنی میں اپنے تحفظ کی تدبیروں پر عمل پیرا ہوں۔ ہمارے اندر دو بہت بڑی کمزوریاں ہیں جو تقریباً ملک گیر ہیں۔ اور یہی ہمارے لئے مشکلات کے دروازے کھولتی ہیں، ایک کمزوری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صحیح دائرے میں قائم نہیں رہ گیا ہے۔ ہمارے ذوق عبادت کو گھن لگ چکا ہے۔ آہ سحر گاہی ختم ہو چکی ہے، اللہ سے عرض و معروض اور دعاء و مناجات کو ہم نے اپنے دائرۂ تدبیر و عمل سے نکال دیا ہے۔ حالانکہ اصل مدد و حفاظت تو اللہ ہی کی ہے۔ ارشاد ہے : ان ینصرکم اللہ فلاغالب لکم، وان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ۔ اگر اللہ تمہاری مدد کر دے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور اگر وہی تمھاری مددسے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو پھر اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کر سکے گا؟

ہم میں دوسری بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم اپنی حفاظت کی تدابیر سے خود غافل ہو چکے ہیں۔ ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے گھر کی عورتوں اور بچیوں کی زیب و زینت کیلئے ہزار ہا ہزار کے زیورات خرید لیتے ہیں لیکن ان زیورات کو لوٹنے کے لئے جو ظالم اور خونخوار ہاتھ بڑھتا ہے اسے روکنے کیلئے چند روپیوں میں لکڑی یا لوہے کا ایک ٹکڑا نہیں خرید سکتے، حالانکہ حفاظتی انتظام اتنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کو بھی مستثنیٰ نہیں قرار دیا ہے۔ اور نہ صرف دعاء و مناجات کو کافی بتلایا ہے بلکہ خطرے کے وقت میں عین حالت نماز میں بھی ہتھیار سنبھالے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مقامی طور پرکسی اچانک اور غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہم قطعاً غیر منظم ہیں۔ باہمی کشاکش اور کشمکش ا س پر مستزاد۔ ایساضرورہوتا ہے کہ ہم پر جب کوئی افتاد پڑ جاتی ہے اور جب ہم کسی فساد کی لپیٹ میں پڑ جاتے ہیں تو ہمارا احساس بیدار ہوتا ہے اور لٹ پٹ چکنے کے بعد بچاؤ کے انتظامات شروع کرتے ہیں جسے تھوڑے ہی عرصہ بعد پھر چھوڑ دیتے ہیں یہ بالکل غیر دانشمندانہ روش ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’ مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید…برکلۂ خود باید زد۔ یعنی گھونسہ لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آئے تو اسے اپنے ہی کلہ پر مار لینا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہم جب تک حفاظتی انتظامات سے غافل اور پراگندہ رہیں گے اور اپنی قوت بازو سے اپنے پر مصائب حالات کا رخ موڑنے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری مشکلات کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے      ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت کا دامن بڑا وسیع ہے۔ وہ کائنات بے کراں کے جس حصے کا رخ جب چاہے کسی کی مدد اور کسی کے انتظام کی جانب موڑ سکتا ہے۔ لیکن اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرامؓ تک سے مدد کا جو وعدہ کیا تھا اسے دو شرطوں کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا ایک یہ کہ تقوی کی روش اپناؤ، اور دوسرے یہ کہ اپنی حفاظت کی تدبیریں کرو۔ اور وقت پر ڈٹ جاؤ۔ ارشاد ہے۔ یا ایھا الذین آمنوا خذو حذرکم۔ اے ایمان والو! اپنی حفاظت اور بچاؤ کا بندوبست کرو۔ نیز ارشاد۔ بلیٰ ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھٰذا یمددم ربکم بخمسۃ آلاف من الملٰئکۃ مسومین۔ کیوں نہیں !یقیناً اگر تم ڈٹے رہے اور تم نے تقویٰ اختیار کیا اور تمھارے دشمن اس جوش و غضب میں بڑھے چلے آئے تو تمھارا پروردگار پانچ ہزار نشان لگے ہوئے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم اللہ سے تعلق استوار کر کے اپنی حفاظت کا انتظام خود کر لیں تو ان شاء اللہ ہمارے اعزاز اور سربلندی کا ذریعہ ہو گی اور حیات جاوداں کا سبب۔ کہ آزمائش ہی میں راز حیات پنہاں ہے :

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیث سوز وساز زندگی کہہ دے

٭٭٭

 

 

 

 

جب کسی قوم کا مزاج بگڑ جاتا ہے

 

قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کا جو واقعہ مذکور ہے اسے معتبر کتب تفاسیر انجیل برباس وغیرہ کے بیانات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ اور حق گوئی و رہنمائی سے تنگ آ کر یہ فیصلہ کیا کہ ان کا کام تمام کر دیا جائے۔ اس مقصد کے تحت انھوں نے بیت المقدس کے حاکم سے ایسی شکایات کیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اور اس کی پولیس اس مکان میں جاگھسی جس میں حضرت عیسیٰ علی السلام رات گزار نے کیلئے آرام فرما رہے تھے۔ اس جگہ تک پولیس کی رہنمائی کرنے والا خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک شاگرد تھا جس کا نام یہودا الخریوطی تھا۔ اس نے تیس روپئے کے عوض یہ غداری کی تھی، عین اس وقت جب کہ پولیس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے مذکورہ مکان میں داخل ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک جھروکے سے آسمان پر اٹھا لیا۔ اور غدار شاگرد کی آواز اور شکل و صورت سب کچھ بعینہٖ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی کر دی۔ اس لئے پولیس نے اسی کو گرفتار کر لیا۔ اور اس کی چیخ پکار واویلا اور فریاد پر بالکل کان نہ دھرا۔ موافق و مخالف ہر دیکھنے والے نے حتی کہ حضرت عیسیٰ کے دوسرے شاگردوں نے بھی یہی سمجھاکہ عیسیٰؑ گرفتار ہوئے ہیں اور اسی لئے عیسائی آج تک عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی گرفتار ہوئے تھے اور انھیں کو سولی دی گی تھی۔

گرفتاری کایہ واقعہ یہود یوں کی عید کے موقع پر پیش آیا تھا۔ صبح حاکم بیت المقدس پیلاطس رومی کے دربار میں گرفت شدہ انسان کی پیشی ہوئی۔ وہاں یہودی علماء، ربیوں، کاہنوں ( سجادہ نشینوں ) اور عوام کی پوری بھیڑ جمع تھی۔ پیلاطس خود تو مشرک تھا لیکن وہ یہودیوں کی عید کے موقع پر ان کی خوشی کیلئے ان کا ایک قیدی آزاد کر دیا کرتا تھا۔ اس وقت پیلاطس کی قید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام …بعقیدۂ یہود و نصاریٰ کے علاوہ بر ابا نام کا ایک مشہور خونی ڈاکو بھی تھا۔ پیلاطس نے یہودیوں کے مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ تم کسے چاہتے ہو کہ میں تمھاری خاطر چھوڑ دوں۔ براباکویایسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے (انجیل متی : باب ۷)اس کے جواب میں یہودیوں نے جو کچھ کہا اور کیا وہ یہ تھا۔

سردار کاہنوں اور بزرگوں نے لوگوں کو ابھارا کہ برابا کو مانگ لیں اور یسوع کو ہلاک کرائیں۔ حاکم نے ان سے کہا: ان دونوں میں سے کس کو چاہتے ہو کہ تمھاری خاطر چھوڑ دوں ؟ وہ بولے، برابا کو۔ پیلاطس نے ان سے کہا پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں ؟سب نے کہا اس کو صلیب دی جائے ؟اس نے کہا کیوں اس میں کیا برائی ہے ؟مگر وہ اور بھی چلا چلا کر بولے کہ اس کو صلیب دی جائے۔ (دیکھئے انجیل متی باب ۲۷: ّایت ۲۳۱۵)

اس کے بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر گرفتار کئے گئے شخص کو پھانسی دے دی گئی تو یہود نے بڑے جو ش اور فخر کے ساتھ گویا خوشی سے سینہ ٹھونک ٹھونک کر کہا۔ انا قتلنا المسیح عیسی بن مریم رسول اللہ ۔ یعنی ہم نے اللہ کے رسول عیسی بن مریم مسیح کو قتل کر دیا۔

یہودیوں کا یہ قول قرآن مجید نے نقل کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ کسی غلط فہمی پر مبنی نہ تھی یعنی ایسانہیں تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیغمبرانہ حقیقت کو سمجھ نہ سکے تھے اور انھیں غلط ر و بدکار یا ہنگامہ خیز و فتنہ انگیز انسان سمجھتے تھے، اس لئے ان کے قتل کے درپے تھے، بلکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ جانتے تھے کہ یہ مسیح ہیں۔ یعنی اللہ کی طرف سے خلق خدا کی ہدایت و رہنمائی پر مامور ہیں۔ لیکن ان کا مزاج اس حد تک بگڑ چکا تھا کہ اپنی گمراہیوں برائیوں، غلط کاریوں اور بد اعمالیوں پر شرمندہ ہونا اور اس سے باز آنا تو درکنار انھیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی بھلا مانس آدمی انھیں ان کی برائیوں پر ٹوکے اور ان غلط کاریوں سے ہٹا کر انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ ان کی کج فکری اس مقام کو پہونچ چکی تھی کہ وہ اپنے سماج میں ایک خطرناک ڈاکو کو تو جگہ دینے کے لئے تیار تھے لیکن ایسے نیکو کار انسان کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھے جس کے متعلق انھیں خود یقین تھا کہ یہ اللہ کا رسول و پیغمبر ہے اور اس کی طرف سے ہدایت و رہنمائی کے کام پر مامور ہے۔ اور اس کی پیروی کر کے جنت کی نعیم ابدی سے سرفراز و بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے۔

یہ کسی کافر قوم کا حال نہیں بیان کیا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ اس قوم کا حال تھا جو اپنے وقت کی واحد مسلمان قوم تھی، جس کے پاس للہ کی کتاب توریت تھی، اور جو توحید ورسالت اور آخرت وغیرہ کی ساری باتوں پر ایمان رکھنے کی مدعی تھی۔ اس مسلمان قوم کے اس بگاڑ کا جو نتیجہ اور حشر ہوا وہ بھی معلوم و معروف ہے۔ اس واقعے کے صرف کوئی چالیس سال بعد ۷۔ ء میں رومیوں نے بیت المقدس پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کعبۂ یہود یعنی ہیکل سلیمانی کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر پھینک دی، پورا شہر مسمار کر دیا۔ ایک لاکھ ۳۳/ ہزار یہودیوں کا قتل عام کیا۔ ہزارہا افراد کو کھیل کود کے میدان میں تلواروں کا تختۂ مشق بنانے یا جنگلی جانوروں سےبھڑوانے کیلئے گرفتار کر لیا۔ ہزاروں کو جبری بے گار پر لگایا، ۶۷/ ہزار کو غلام بنایا اور باقی بچے کھچے یہودیوں کو پوری دنیا میں ذلت کی ٹھوکریں کھانے کے لئے تتر بتر کر دیا۔ اسے قرآن مجید (سورہ بنی اسرائیل) میں اللہ کا عذاب اور اس کا قہر بتلایا گیا۔

اس واقعے سے کئی صدی پہلے بھی اس قوم کو اسی طرح کے ایک خونیں قہر الٰہی سے گزرنا پڑ چکا تھا۔ ۵۵۷ قم میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیوں کے ملک کو تہ و بالا کر دیا تھا چھوٹے بڑے تمام شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، کعبۂ یہود یعنی ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو اس طرح مسمار کیا تھا کہ اس کی ایک اینٹ بھی باقی نہ بچی تھی۔ یہودیوں کا قتل عام تقریباً ویسے ہی حالات اور فساد و بگاڑ کے بعد پیش آیا تھا جس کا نمونہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ یہودیوں کی مشہور کتاب تلمود میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ہیکل سلیمانی کی سیر کی۔ ہیکل میں ٹھیک قربان گاہ کے سامنے اسے دیوار پر ایک جگہ تیر کا نشان دکھائی پڑا۔ اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسانشان ہے ؟یہود نے جواب دیا کہ ہم نے یہیں زکریا نبی کو قتل کیا تھا کہ وہ ہمیں ہماری برائیوں پر ٹوکتا اور ملامت کرتا تھا ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آ چکے تھے اس لئے ہم نے اسے قتل کر ڈالا۔ حضرت زکریا کے قتل کئے جانے کا یہ واقعہ اجمال و تفصیل کے فر ق کے ساتھ کتب بائبل میں سے تواریخ سلاطین اور بعض اناجیل میں بھی مذکورہ ہے۔

بہر حال اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلی تباہی اور قہر الٰہی کے موقع پر جب کہ بخت نصر کے ہاتھوں یہود پر عذاب کا کوڑا برسا تھا۔ یہود کا مزاج بگڑ کر فساد اور خرابی کے ٹھیک اسی مقام پر پہونچ گیا تھا جسم قام پر دوسری تباہی کے وقت پہونچا تھا جب کہ انھیں رومیوں کے ہاتھوں پامال کیا گیا یعنی غلط کاری پر ان کی جرأت وجسارت اس قدر بڑھ چکی تھی اور بدکاری و حرام کاری کے سلسلہ میں ان کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہو چکا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک کسی ناصح کی نصیحت اور ٹوکنے والے کی ملامت سننے اور برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ انجیل متی کی زبانی حضرت مسیح کے واقعے کی جو تفصیلات نقل کی گئی ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کردار و عمل کا یہ فساد اور بگاڑ صرف عوام اور جاہل طبقے تک محدود نہ تھا بلکہ اہل علم اور علمبردار دین میں بھی سرایت کر چکا تھا بلکہ اصل اور بڑے پیمانے کا فساد اور بگاڑ تو انھیں کے اندر تھا اور اپنے پیغمبر کو قتل کرانے کی کوششوں میں یہی پیش پیش رہتے ہوئے عوام کی رہنمائی و قیادت کر رہے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کے برے دن آتے ہیں تو اس کا ذمہ دار سربراہ اور دین کا اجازہ دار طبقہ کچھ زیادہ ہی بگڑ جاتا ہے وہ اپنے جسم ولباس، ظاہری ٹیپ ٹاپ، رکھ رکھاؤ اور سج دھج کے اعتبار سے تو بڑا خوش منظر، دیندار مقدس اور پارسا نظر آتا ہے لیکن شاطرانہ چالبازی، ہیرا پھیری، دھرت بازی، داؤں پیچ، جھوٹ، غلط بیانی، دنیا پرستی، محاسبۂ الٰہی سے بے نیازی، باہمی بغض وحسد اور کردار و عمل کی دوسری بیشمار کمزوریوں اور خرابیوں میں اس طرح جکڑ جاتا ہے کہ وہ اندر ہی اندر بالکل کھوکھلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کا ظاہر جتنا مقدس اور پاکیزہ نظر آتا ہے باطن اتنا ہی کریہہ اور مخدوش ہوتا ہے۔ وہی علماء یہود جنھوں نے بعد مین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختۂ دار تک پہنچانے کی کوشش کی… ان کے بارے میں ایک بار حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا۔

’’فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کروکیوں کہ وہ کہتے اور کرتے نہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جن کا اٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں لیکن آپ انھیں انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے وہ اپنے سب کام لوگوں کے دکھاوے کو کرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے تعویذ بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔ اور ضیافتوں میں صدر نشینی اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کرسیاں اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے ربی کہلانا پسند کرتے ہیں ‘‘۔

(انجیل متی ۲۳:۲، ۷)

پھر شاگردوں کو حسن عمل کی تلقین و وصیت کرنے کے بعد علماء یہود کو مخاطب کر کے فرمایا:

اے ریاکار فقیہو! اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ آسمان کی بادشاہت لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔

اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ ایک مرید کرنے کیلئے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔

اے اندھی راہ بتانے والو! تم پر افسوس ہے جو کہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہو گا۔ اے احمقو اور اندھو! کونسا بڑا ہے ؟ سونایامقدس جس نے سونے کو مقدس کیا۔ ؟…

اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ پودینے اور سونف اور زیرے پر دھیان دیتے ہو اور تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو! جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور نا پرہیز گاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کرتا کہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو۔       (انجیل متی ۲۳: ۱۳، ۲۸)

آج ملت اسلامیہ مصائب و آلام کی بھٹی میں سلگ رہی ہے وہ جہاں بھی ہے خواہ اقلیت میں ہو یا اس کا اپنا ملک اور اپنی حکومت ہو یا غیروں کا ملک اور غیروں کی حکومت۔ ہر جگہ اس کے خون ناحق کے چھینٹوں بلکہ دھاروں سے زمین لالہ زار ہے اس کے آہنی اور مضبوط قلعوں تک پر الحادی طاقتوں کی یورش و یلغار ہے جس کے نتیجے میں عزت و آبرو اور جان و مال سب کچھ پامال و برباد ہے۔ وہ مسلمان جو کبھی اس کائنات کی زینت تھا اور جس کے کردار و عمل کے حسن سے انسانیت کے خاکے میں رنگ بھرا جاتا تھا ایسامحسوس ہوتا ہے کہ آج وہ زمین پر بوجھ بن کر رہ گیا ہے اور زمین اس بوجھ کو اپنی پشت سے اتار پھینکنا چاہتی ہے۔ آخر ایساکیوں ہے ؟اس کا مختصر اور حقیقت پسندانہ جواب یہی ہے کہ آج قانون الٰہی کی اسی گرفت سے ہم بھی دوچار ہیں جس سے کبھی یہود کو سابقہ پڑا تھا۔ کیونکہ آج ہمارے کردار و عمل کی بھی تصویر وہی ہے جو کبھی ان کی تھی، عوام کو تو جانے دیجئے ہمارا وہ طبقہ جو ہدایت و رہنمائی کے منصب پر فائز اور منبر و محراب کی زینت ہے اپنی شکل و صورت اور پوشاک کے لحاظ سے تو یقیناً تقدس کا مجسمہ ہے لیکن اس پر دے کو ہٹا دیجئے تو نہاں خانۂ دل میں ہو اوہوس کے بت خانے آباد نظر آئیں گے کنبہ پروری، علاقہ پروری، علاقہ پرستی، نسلی غرور وغیرہ جیسی ساری جاہلی عصبیتیں اپنی تمام فتنہ سامانیاں سمیت جلوہ گر نظر آئیں گی۔ ایمان و دیانت، ایثار و قربانی، راست بازی وخداترسی اور حق پرستی و فکر آخرت کا سارا دائرہ سکڑ سکڑکر منبر کے زینوں تک محدود ہو گیا ہے جس کی تلقین صرف سامعین کو کی جاتی ہے، ہماری کشت گاہ عمل صدق و صفا اور محبت و خلوص کے خوشنما پھولوں کا گلشن ہونے کے بجائے خود غرضی و فریب کاری اور کج روی و غلط کاری کے بھنگ دھتوروں کا جنگل بنی ہوئی ہے غرض کردار اور عمل کے فساد کا ایک سیلاب ہے جس میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ ان کے آگے آگے خواص و اعیان بھی خس و خاشاک کی طرح بہے جا رہے ہیں۔ الا من رحم ربک۔

طاہر ہے کہ کردار و عمل کا یہ فساد اگر کل قہر الٰہی کے بھڑکنے کا سبب بنا تھا تو آج اس کی رحمت و انعام کا سبب نہیں بن سکتا۔ خدا کا قانون ساری قوموں اور ملکوں کے لئے ایک اور یکساں رہا ہے اور رہے گا۔ مایبدل القول لدی۔ (میرے نزدیک بات نہیں بدلی جاتی)پس ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہمیں جن آلام و آفات نے گھیر رکھا ہے ہمارے موجود کردار کو دیکھتے ہوئے وہ درحقیقت قہر الٰہی اور انذار و تنبیہ ہے۔ ہمیں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اب بھی سنبھل جاؤ ورنہ اس طرح کچل دئے جاؤ گے کہ دوبارہ اٹھ نہ سکوگے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے جس رحمت الٰہی کے تم مستحق تھے اس سے کسی اور کو نواز دیا جائے گا۔

غفلت و بے حسی کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ ہماری قوم کے عقلاء الرجال انذار و تنبیہ الٰہی کے ان واقعات کو محض طبعی اسباب و علل کا نتیجہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر ان کا محض طبعی علاج ڈھونڈتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسباب و علل کاسارا نظام بھی تو تدبیر الٰہی ہی کا ایک حصہ اور کلی طور پر اسی کے تابع فرمان ہے پھر ان اسباب کے ترتیب پانے اور موثر ہونے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کیوں نظر نہیں آتی؟ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ کل تک جو قومیں ہماری دریوزہ گر تھیں اور آج ہمارے قتل عام کے درپے ہیں۔ اسی طرح کل تک جو بعض قومیں ہمارے قتل کے درپے تھیں اور آج ہم سے الفت و محبت کا رشتہ استوار کرنا چاہتی ہیں تو آخر ان کے ان رجحانات و میلانات کی تبدیلی کے پیچھے کس طاقت کا خفیہ ہاتھ کار فرما ہے۔ القلوب بین اصبعین من اصابع الرحمان یقلبھا کیف شاء۔ (الحدیث) سارے دل رحمان (حق تعالیٰ) کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا ہے انھیں الٹتا پلٹتا ہے۔

پس یقین کرنا چاہئے کہ سارے اسباب ومسببات، سارے رجحانات و میلانات اور سارے واقعات و حادثات اللہ کے حکم اس کی مرضی اور اس کے مقررہ نظام کے تحت واقع ہوتے ہیں اور سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اگر ہم ایمان و عمل کی صحیح شاہراہ پر گامزن ہوں تو ان کی حیثیت امتحان و آزمائش اور اضافہ ثواب و رفع درجات کی ہے۔ ورنہ یہ قہر الٰہی اور انداز و تنبیہ کا درجہ رکھتے ہیں اللہ اپنے بندوں کی تنبیہ عموماآسمان سے لشکر اتار کر نہیں بلکہ طبعی اسباب و عوامل کے ذریعہ برپا ہونے والے حادثات کا رخ بندوں کی طرف پھیر کر ہی کرتا ہے اور ارشاد ہے :

وکاین من قریۃ عتت عن امر ربھا ورسلہ فحاسبناھا حساباً شدیداً وعذبناھا عذاباً نکرا۔ فذاقت وبال امرھا وکان عاقبۃ امرھا خسرا۔

اللہ الذی خلق سبع سمٰوٰت ومن الارض مثلھن یتنزل الامر بینھن لتعلموا ان اللہ علیٰ کل شیِ قدیر وان اللہ قدا حاط بکل شیِ علماً۔   (طلاق: ۸، ۱۳)

کتنی ہی آبادیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے پیغمبروں کے حکم سے سرکشی کی توہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور بری سزادی۔ چنانچہ اس نے اپنے کرتوت کی سزا چکھ لی اور اس کا انجام گھاٹے ہی کا رہا…

اللہ کی ہستی وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انھیں کے مثم زمین پیدا کی ان کے درمیان اسی کا حکم اترتا ہے تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اور اللہ نے ہر چیز کا علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف بستیوں اور آبادیوں کے مبتلائے قہر و عذاب کئے جانے کا ذکر کرنے کے بعد آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کے درمیان اپنے حکم کے جاری ہونے کا تذکرہ کر کے گویا یہ بتلانا چاہتا ہے کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کی مٹھی میں ہے۔ اس لئے اگر وہ کسی قوم پر ضرب لگانا چاہے تو اسے الگ سے اس کے لئے تیاری کی ضرورت نہیں ہے وہ اس کائنات کے جاری وساری نظام کے کسی بھی حصے کا رخ اس قوم کی طرف کر کے اسے کچل سکتا ہے۔

پس خلاصۂ گفتگو یہ ہے کہ ہم جن حالات و واقعات سے گزر رہے ہیں ان کا شدید مطالبہ ہے کہ ہم اپنے کردار پر نظر ثانی کریں۔ خداسے صحیح طور پر اپنا تعلق استوار کریں اور اسی سے مدد و اعانت طلب کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کی جد و جہد کریں کہ یہی فلاح و کامیابی کی راہ ہے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔

(جون، جولائی ۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گرو ہے کہ نہیں

 

دور نبوت کے اخیر میں جب اسلامی فتوحات کا دائرہ جزیرۃ العرب کے دور دراز گوشوں تک وسیع ہو چلا تھا ایک بار حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے محاصل وصول کر کے مدینہ تشریف لائے اس موقع پر مدینہ منورہ میں ان کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ مال آ چکا ہے چنانچہ نماز فجر کے بعد کچھ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اشاروں کنایوں میں کچھ گفتگو کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا مقصد سمجھ رہے تھے چنانچہ آپ نے حسب معمول مسکراتے ہوئے بشارت دی کہ کوئی مال صحابہ کرامؓ سے روک کر ذخیرہ نہیں کیا جائے گا پھر آپ نے وہ مال تقسیم کر دیا۔ اس موقع پر آپ نے امت کے حق میں ایک مژدۂ بشارت کا اعلان فرماتے ہوئے ایک گہری تشویش کا بھی اظہار فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا۔ فواللہ لا الفقر اخشی علیکم ولکن اخشی علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتلھیکم کما الھتھم…یا…فتھلککم کما اھلکتھم۔ (مسلم اور دیگر کتب حدیث میں الفاظ کے معمولی سے فرق کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ) قسم بخدا مجھے تمھارے فقر و فاقہ کا خوف نہیں ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ تم پر دنیا اسی طرح پھیلا دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر پھیلا دی گئی تھی اور پھر وہ تمھیں اسی طرح غفلت اور لہو و لعب میں ڈال دے جس طرح انھیں ڈال دیا تھا یا تمھیں یہ دنیا اسی طرح ہلاک و برباد کر دے جس طرح انھیں ہلاک و برباد کر دیا تھا۔

اس ارشاد کا منشا یہ نہیں کہ امت مسلمہ کبھی فقر و فاقے سے دوچار نہ ہو گی۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ اہل ایمان کے ایمان و دیانت اور خدا ترسی وخداپرستی کے لئے فقر و فاقہ اتنا خطرناک نہیں ہے جتنی خطرناک دنیا کی وسعت و خوشحالی ہے۔ فقر کی حالت میں ایمان و دیانت کی راہ سے پھسلنے کا خطرہ کم اور خوشحالی و فارغ البالی کی حالت میں زیادہ ہے۔

امت کی چودہ سوسالہ تاریخ کی کسوٹی پر اس روایت کو پرکھئے تو اسے ایک تاریخی حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔ امت کا جزوی یا مجموعی زوال عموماً خوشحالی اور دولت و ثروت کی فراوانی کے بعد ہوا ہے اور امت کی ترقی اور قوت وسربلندی نے عموماً فقر و فاقے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبرانہ تشویش ایک واقعاتی حقیقت ہے۔

٭٭

راقم الحروف کوئی آٹھ دس ماہ کے عرصے اور مسلسل مشغولیات کے بعد جامعہ کی تعطیل کا کچھ عرصہ جامعہ سے الگ تھلگ دیہات کی پرسکون فضا میں گذارنے کی نیت سے اپنے وطن گیا۔ ظاہر ہے کہ وطن انسان کے لئے کوئی نئی اور اجنبی جگہ نہیں بلکہ مسلسل مشاہدے میں آئی ہوئی معروف و مالوف جگہ ہوتی ہے۔ انسان وہاں کی آب و ہوا سے لے کر لوگوں کے مزاج و خیالات تک ہر چیز سے متعارف اور مانوس ہوتا ہے مگر اب انسانی اقدار میں جس تیز رفتاری سے تبدیلی آ رہی ہے اس کے نتیجے میں صرف سال بھرکے عرصے کے بعد یہاں آیا تو کایا پلٹ نظر آئی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی کوئی خوش آئند اور قابل قدر نہیں بلکہ ہر درجہ کریہہ اور ناپسندیدہ ہے۔

انسان فطری طور پر فرج و بطن اور جسم و جان کی بہت سی ضروریات اور تقاضوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے اپنی ساخت کے نتیجے میں ان تقاضوں کی تکمیل کیلئے مسلسل جد و جہد اور تگ و دو کے لئے مجبور ہے۔ فطری تقاضے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تگ و دو دونوں ہی چیزیں انسانی زندگی میں بڑی نازک حیثیت رکھتی ہیں، بسا اوقات انسان اپنے مقصد تک رسائی کیلئے غلط راہ پر قدم رکھ دیتا ہے لیکن اس کا وجدان و ضمیر ملامت کر کے اسے پھر صحیح راہ پر لگا دیتا ہے۔ مگر کبھی کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ انسان کو غلط راہ پر چلنے کا چسکا پڑ جاتا ہے پھر اس کے لئے جائز حدود پر قناعت کرنا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔

اکا دکا انسان جب اس طرح کی راہ اپنا تے ہیں تو حساس اور با ضمیر معاشرہ اس پر سخت نکیر کرتا ہے اور بسا اوقات معاشرے کی طرف سے کی جانے والی یہ نکیر ہی اسے سلامت روی پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن اب جو صورت حال بر پا ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی احساس و زندہ ضمیری کی دولت سے محروم ہو چکا ہے۔ ہوس کی ایک ایسی تند لہر چلی ہوئی ہے جس کی لپٹ سے اگر خدانخواستہ کوئی شخص محروم رہ گیا ہے تو وہ معاشرے کا معزز فرد قرار پانے کے بجائے مجرم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ نماز، روزہ قربانی و حج کا سلسلہ یقیناً جاری ہے مگر ان عبادت کے پہلو بہ پہلو حرام خوری، خیانت اور لوٹ گھسوٹ کا سلسلہ بھی شباب پر ہے۔ سرکاری اور نجی زمینوں پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے قبضہ کرنے کے لئے ہر شخص بے چین نظر آتا ہے اور جس کے پنجے جہاں گڑ سکتے ہیں بے تامل گاڑ دیتا ہے، دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کے لئے زور وزبردستی، جبرو قہر، رشوت، مقدمے بازی اور ہیرا پھیری کا کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جس کا دروازہ کھٹکھٹایا نہ جاتا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ باہمی عداوت، دشمنی، حسد، کشاکش، پارٹ بندی، رہزنی، چھینا جھپٹی، امر پیٹ اور ایذا رسانی کی ایسی فضا بنی ہوئی ہے جس سے پورا معاشرہ جہنم کدہ بن گیا ہے۔ اگر صبح کا وقت نماز و تلاوت میں گزر رہا ہے تو شام اپنے بھائی کا گلا کاٹنے کی تدبیروں میں بسر ہو رہی ہے اگر شام دعا و مناجات میں کٹ رہی ہے تو صبح کسی نئے ہنگامہ ناخدا ترسی کا ظہور و نمود ہے۔ غرض یصبح الرجل فیھا مؤمنا ویمسی کافرا ویمسی مؤمنا ویصبح کافرا۔ کا ہیبت ناک منظر ہے۔

ہوس زر گری اور آرزوئے دنیا پرستی کے اس طوفان کی زد میں کوئی ایک ہی طبقہ و فرقہ یا ایک ہی مذہب و دین کے ماننے والے نہیں ہیں بلکہ یہ بحر بے پایاں کی نہایت بے رحم اور بے قابو موجیں ہیں جنھوں نے ہر طبقۂ خیال کے ایمان و دیانت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ غیر مسلم ہویا مسلمان شیعہ ہویاسنی وہابی ہو یا بدعتی آج کوئی طبقہ ایسا نظر نہیں آتا جو مجموعی طور پر یا کم از کم بڑے پیمانے پر اس بلائے بے درماں سے محفوظ ہو۔

ہوس و خیانت کے مناظر پہلے بھی دیکھنے میں آتے تھے مگر محسوس ہوتا تھا کہ معاشرے پر خیر کا غلبہ ہے شر مغلوب ہے اور اس کی مقدار قلیل ہے اہل شر دبے ہوئے ہیں۔ اور معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے مگر اب معاملہ اس کے بر عکس نظر آتا ہے۔

حالات کی یہ نوعیت کسی ایک مقام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ملک کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی زبانی جو تفصیلات ملتی رہتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ معمولی سے فرق کے ساتھ ملک بھر کے عام حالات یہی ہیں۔

ان حالات کو قلمبند کرنے کا مقصود یہ نہیں ہے کہ ہم معاشرتی برائیوں یا معاشرے کے زوال کا رونا رونے بیٹھ جائیں، یا شرعی نقطۂ نظر سے ان پر تبصرہ کر کے قرآن و حدیث سے ان کی حرمت کا ثبوت مہیا کریں پھر اس حرمت کے اسباب و علل کی فلسفیانہ توجیہات پیش کر کے داد علم دینے کی کوشش کریں۔ بلکہ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ آج ہر دینی جماعت و تنظیم، اسلامی دعوت اور اصلاح معاشرہ کی نہ صرف داعی ہے بلکہ اس میدان میں اپنی کامیابیوں اور تکمیلات کی بڑی بڑی فہرستیں آویزاں کئے ہوئے ہے اور بقلم خود نہایت سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں مصروف تگ و تاز ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تنظیمات کو یہ حالات نظر آ رہے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر نظر آ رہے ہیں تو کیا وہ اس کے لئے بھی کچھ کرنے پر آمادہ ہیں یا نہیں ؟اور مسلمانوں کے اندر آنے والے اس خوفناک فساد ایمان و دیانت کا کوئی علاج اس کے پاس ہے بھی یا نہیں ؟

تعجب اور حیرت ہے کہ کام کا جو اصل میدان اور اصلاح کی جو اصل جولانگاہ ہے وہاں کسی داعی اسلام کا رخ زیبا دکھائی نہیں پڑتا۔ اگر دکھائی پڑتا ہے توایسے ایسے کاموں میں جن کی حیثیت ’’لا یسمن ولایغنی من جوع‘‘ کی ہے معلوم نہیں اصل نشانہ چھوڑ کر خلاء میں اس تیر اندازی کا کیا حاصل ہے اللہ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے۔ آمین

(اگست ۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

 

ہندوستانی حاجیوں کی میقات یلملم یا جدہ؟

 

جدہ جو آج دنیا کی عظیم ترین اور شہرۂ آفاق بندرگاہوں میں سے ایک ہے چند صدی پہلے وہ بالکل معمولی حیثیت کی ایک بندرگاہ تھی۔ ہندوستان سے جانے والے حجاج عموماً یمن کی کسی بندرگاہ پر اتر جاتے تھے اور وہاں سے خشکی کے راستے مکہ تشریف لے جاتے تھے جوراستہ انھیں مکہ پہونچا تا تھا وہ یلملم سے ہو کر گزرتا تھا۔ یلملم چوں کہ ان پانچ مقامات میں سے ایک ہے جنھیں میقات کہا جاتا ہے اور جہاں سے احرام باندھے بغیر حج و عمرہ کرنے والوں کو آگے بڑھنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ اس لئے ہندوستانی حجاج یلملم سے احرام باندھتے تھے اور یہیں سے اہل ہند میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ ان کی میقات یلملم ہے۔

زمانہ بدلتا گیا، رفتہ رفتہ جدہ کی اہمیت بڑھتی گئی اور ہندوستان کے جہاز یہیں لنگر انداز ہونے لگے جدہ جانے والوں کے راستے میں کہیں یلملم نہیں پڑتا۔ اس لئے سمندر سے گزرتے ہوئے یہ تخمینہ لگا کر کہ اب یلملم کے سیدھ سے گزر رہے ہیں، احرام باندھ لیا جانے لگا، اور اب تک یہی طریقہ جاری ہے لیکن اگر گہرائی اور دقت پسندی سے مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تواس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ یہ ایک غیر ضروری تکلف ہے بحری راستے سے ہندوستان سے جانے والے حاجی جدہ اتر کر اطمینان سے احرام باندھ سکتے ہیں۔ ذیل میں اسی مسئلے پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔

مکہ مکرمہ اور اس کے گرد و پیش چند میل کا علاقہ حرم کہلاتا ہے، حرم میں کئی ایسے کاموں کی ممانعت ہے جنھیں حرم سے باہر کرنے کی اجازت ہے۔ مثلاً حرم کی گھاس اور درخت کاٹے نہیں جا سکتے اور یہاں کے جانوروں کا شکار نہیں کیا جا سکتا۔ مکہ کے اطراف میں حدیبیہ، جعرانہ، عرفات، تنعیم، یمن اور طائف کے راستوں پر حد حرم کی علامت کے طور پر کھمبے لگے ہوئے ہیں۔ اگر ان کھمبوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے لکیر کھینچیں تو مکہ مکرمہ کے گردگردمخمس شکل کا ایک گھیرا تیار ہو جائے گا۔ جس کی مقدار کوئی ۳۷/ میل ہو گی۔ درحقیقت اسی گھیرے کے اندر واقع علاقہ حرم ہے اور اس سے باہر حل ہے۔ حل میں شکار وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے لیکن حل کے سارے حصوں یا بلفظ دیگر حرم کے باہر کی ساری دنیا اور تمام علاقوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ بلکہ حرم سے پچاسوں اور سینکڑوں میل کے فاصلے پر پانچ مقامات (جنھیں میقات کہا جاتا ہے ) ایسے ہیں جہاں سے احرام باندھے بغیر حج یا عمرہ کرنے والا آدمی آگے نہیں بڑھ سکتا اور احرام باندھ لینے کے بعد احرام سے تعلق رکھنے والی ساری پابندیاں شروع ہو جاتی ہیں، گویا بعض حالات میں میقات اور حرم کے درمیانی حصے میں بھی لازماً ویسی ہی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں جیسی حرم کے اندر ہیں اس لئے ان میقاتوں سے لے کر حرم تک کے علاقے کو حل صغیر کہتے ہیں اور اس سے باہر کی دنیا کو حل کبیر یا آفاق سے تعبیر کرتے ہیں۔ پانچوں میقاتوں کی مختصر سی توسیع یہ ہے۔

(۱) اہل مدینہ اور ان کی راہ سے آنے والوں کی میقات ذوالحلیفہ ہے، جو مدینہ سے صرف دس یا بارہ کلومیٹر اور مکہ سے ۴۳۔ /کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مکہ سے اس میقات کا فاصلہ سب سے زیادہ ہے۔

(۲) اہل شام اور ان کی راہ سے آنے والوں کی میقات جحفہ ہے جو مکہ کے شمال میں کوئی ۲۔ ۔ / کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ساحل بحر احمر سے کوئی دس کیلو میٹر اندر ہے اب یہ ویران ہے اور اسی کے قریب رابغ ہے جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے۔

(۳) اہل نجد و طائف اور ان کی راہ سے آنے والوں کی میقات، قرن منازل ہے جو مکہ کے مشرق میں ۸۔ /کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

(۴) ایران و عراق اور ان کی راہ سے آنے والوں کی میقات ذات عرق ہے یہ بھی مکہ کے مشرق میں ۸۔ /کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی قرن منازل اور ذات عرق دونوں مکہ کے مشرق میں یکساں فاصلے پر واقع ہیں۔ قرن منازل جنوب کی طرف اور ذات عرق شمال کی طرف۔

(۵) یمن اور ان کی راہ سے گزرنے والوں کی میقات یلملم ہے جو مکہ سے ۵۶/ کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ مکہ سے اس میقات کا فاصلہ سب سے کم ہے۔

ان پانچوں میقاتوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے اگر لکیر کھینچیں تو ایک ایسی لمبوتری پتی کی شکل وجود میں آئے گی جس کے بعض بعض کنارے قینچی سے چھانٹ دئے گئے ہوں درحقیقت اس پٹی نما گھیرے کی شکل کا جو نقشہ تیار ہوا ہے وہی حل صغیر ہے اور اس سے باہر کی دنیا آفاق کہلاتی ہے۔

اس پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ حج و عمرہ کے لئے آنے والے جب تک آفاق میں ہیں اور میقات تک نہیں پہونچے ہیں اس وقت تک انھیں احرام باندھنے کا حکم نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص کسی ایسے راستے سے مکہ جا رہا ہو جس راستے میں سرے سے کوئی میقات پڑتی ہی نہیں ہے تو اس پر احرام باندھنے کا حکم کہاں سے لاگو ہو گا؟اس بارے میں بھی علماء کا متفقہ فتویٰ ہے کہ جب وہ کسی میقات کی محاذاۃ (یعنی سیدھ) میں پہونچے تو اسے لازماً احرام باندھنا ہو گا۔

اس توضیح کے بعد صرف ایک نکتہ باقی رہ جاتا ہے کہ محاذات کسے کہتے ہیں ؟ یعنی عازم حج آفاق میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جا رہا ہو، تب بھی بعض اوقات میقات کی سیدھ سے اس کا گزر ہو گا، اور آفاق سے مکہ کی طرف جا رہا ہو تب بھی حل صغیر کی سرحد پر پہونچ کر (یعنی اس لکیر پر پہونچ کر جو ایک میقات کو دوسری میقات سے ملاتی ہے )اس کا گزر میقات کی سیدھ سے ہو گا؟…اب سوال یہ ہے کہ کیا احرام کے سلسلے میں ان دونوں قسم کے تقابل اور محاذات کا اعتبار ہو گا، یا صرف دوسری قسم کا؟ ہمیں ایک حدیث نبوی اور عہد خلافت راشدہ کا ایک واقعہ ایساملتا ہے جس سے متعین ہو جاتا ہے کہ صرف دوسری ہی قسم کا اعتبار ہو گا۔ پھر امت کے تعامل سے بھی اسی کی تعیین ہوتی ہے۔

حدیث نبوی کی توضیح کے لئے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دور قدیم سے مدینہ سے مکہ جانے کے دوراستے ہیں، ایک راستہ ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتا ہے اور دوسرا راستہ ذوالحلیفہ کو چند میل کے فاصلے پر بائیں ہاتھ چھوڑتاہواساحل بحر احمر(نیبوع) کی طرف نکل جاتا ہے۔ مدینہ سے ساحل بحر احمر کی طرف جانے کے لئے جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا بہر حال ذوالحلیفہ بائیں ہاتھ کی سیدھ پر چند میل کی دوری پر پڑے گا۔ یہ تو واضح ہے کہ جو شخص مدینہ سے ذوالحلیفہ ہوتا ہوا حج یا عمرے کے لئے جائے گا اسے ذوالحلیفہ میں احرام باندھنا ہو گا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو شخص دوسرے راستے سے جائے کیا اسے ذوالحلیفہ کی سیدھ میں پہونچ کر احرام باندھنے کا حکم ہے ؟ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فیصلہ کن ارشادموجودہے۔ مھل اھل المدینۃ من ذی الحلیفۃ ومن الطریق الآخر الجحفہ…(صحیح مسلم)یعنی اہل مدینہ کی میقات ذوالحلیفہ ہے اور دوسرے راستے سے جحفہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ سے ساحل کی طرف نکلتے وقت ذوالحلیفہ کی جو محاذات حاصل ہوتی ہیں اسی طرح ساحل پر پہونچ کر جنوب کی طرف جاتے ہوئے جو محاذات حاصل ہوتی ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ کیوں کہ یہ پورا علاقہ حل صغیر سے باہر یعنی آفاق میں واقع ہے۔

خلافت راشدہ کا واقعہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل عراق کے لئے اگر چہ ذات عرق کو میقات مقرر کر دیا تھا لیکن عام طور پر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہو سکا تھا۔ کوفہ بصرہ وغیرہ کے مقامات فتح ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ مسئلہ درپیش آیا کہ اگر اہل عراق کی میقات قرن منازل قرار دی جائے تو انھیں مکہ آنے کے لئے خوامخواہ اپنا مختصر راستہ چھوڑ کر لمبا چکر کاٹنا پڑے گا اور اگر اپنے مختصر راستے ہی سے مکہ آئیں تو ان کے راستے میں کوئی میقات نہیں پڑتی پھر وہ احرام کہاں سے باندھیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ذات عرق کی تعیین کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے فرمایا فانظرو حذوھا من طریقکم فحدلھم ذات عرق۔ (صحیح بخاری)دیکھو ! تمھارے راستے میں قرن منازل کے سیدھ میں کون سی جگہ پڑتی ہے چنانچہ آپ نے ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔

جیساکہ ذکر کیا گیا ہے، مکہ سے ذات عرق اور قرن منازل کا فاصلہ یکساں ہے، یعنی کوئی شخص مکہ جاتے ہوئے قرن منازل پہونچے تو ٹھیک اس کے داہنے ہاتھ کے سیدھ کوئی چالیس میل کے فاصلے پر ذات عرق کا مقام پڑے گا ایسے ہی کوئی شخص مکہ جاتے ہوئے ذات عرق پہونچے تو ٹھی اس کے بائیں ہاتھ قرن منازل پڑے گا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے اور مذکورہ بالا حدیث دونوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حج و عمرہ کے احرام کے سلسلہ میں محاذات کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی مکہ کی طرف جاتے ہوئے کسی ایسے مقام پر پہونچے کہ وہاں سے ٹھیک اس کے داہنے یا بائیں ہاتھ کے سیدھ پر کوئی میقات واقع ہو تواس میقات سے اس کی محاذات ہو گئی اور اب اسے احرام باندھنا ہو گا، لیکن اگر اس کا رخ مکہ کی طرف نہیں ہے بلکہ وہ مواقیت کے گھیرے سے باہر کہیں سے کہیں جا رہا ہے تو دائیں یا بائیں ہاتھ میقات پڑنے پر احرام کا حکم لاگو نہیں ہو گا۔

اس توضیح کے بعد اب ہم یلملم اور جدہ کے معاملے کو لیتے ہیں، یہ معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مقرر کی ہوئی پانچوں میقاتیں خشکی پرہیں کوئی بھی سمندر میں نہیں ہے۔ ان پانچ میقاتوں کو اگر لکیر کے ذریعہ ملایا جائے تو یہ پوری لکیر خشکی سے گذرے گی۔ اس کا کوئی حصہ سمندر سے نہیں گزرے گا۔ اس لئے حاجی جب تک سمندرمیں سفر کر رہا ہے حل صغیر سے باہر آفاقی علاقے میں ہے۔ لہٰذا سمندر میں رہتے ہوئے اگر کوئی میقات دائیں یا بائیں پڑ رہی ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، جس طرح مدینہ سے ینبوع کے راستے مکہ جانے والے کے بائیں ہاتھ ذوالحلیفہ کی میقات واقع ہے مگر اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

اب جدہ کے مسئلے کی توضیح یہ ہے کہ سمندر کے راستے شمالی سے جدہ آنے والے جحفہ کی سیدھ سے گزر کر جدہ پہونچیں گے اور جنوب سے آنے والے یلملم کی سیدھ سے ہو کر، یلملم ساحل سمندر سے کوئی چالیس کلو میٹر اندر ہے اور جحفہ دس کلومیٹر جدہ عین ساحل سمندر پر واقع ہے۔ اس طرح جو لکیر یلملم کو جحفہ سے ملاتی ہے جدہ اس لکیر سے باہر پڑتا ہے یعنی جدہ کا وقوع حل صغیر کے اندر نہیں، بلکہ اس سے باہر آفاق میں ہے، پس بحر احمر میں شمال یا جنوب سے آنے والا جب تک جدہ اتر نہیں جاتا اس کا سفر آفاق میں ایک طرف سے دوسری طرف ہو رہا ہے۔ البتہ جب جدہ اتر کر مکہ کی طرف روانہ ہو تو جدہ سے کچھ ہی آگے جا کر وہ اس مقام پر پہونچ جاتا ہے جہاں سے ٹھیک اس کے داہنے ہاتھ پر کم و بیش پچاس کلو میٹر دور یلملم واقع ہے۔ اسی مقام پر پہونچ کر اس کی محاذات میقات سے ہوتی ہے اور یہیں سے وہ حل صغیر کے حدود میں قدم رکھتا ہے اس لئے یہیں پہونچ کر احرام باندھنا واجب ہو گا مگر چوں کہ یہ جگہ جدہ کے بہت قریب ہے اور یہاں نہ کوئی نشان ہے نہ گاڑیاں رکتی ہیں اس لئے جدہ سے احرام باندھ لینا چاہئے البتہ جدہ سے پہلے احرام باندھنا محض تکلف ہے۔

سمندر میں احرام باندھنے کا معاملہ بعض اور پہلوؤں سے بھی قابل غور ہیں۔ میں نے ۱۴۔ ۔ ھ میں بحری سفر کے دوران جہاز رانوں سے دریافت کیا تھا کہ آپ لوگ جس وقت یلملم کے سیدھ میں پہونچنے کا اعلان کرتے ہیں جہازساحل سمندرسے کتنی دور ہوتا ہے ؟ انھوں نے بتایا کہ کوئی سواسو ڈیڑھ سومیل۔ ان کی اس بات کی صحت کی علامت یہ بھی ہے۔ یلملم کے سیدھ میں واقع ساحل سے جدہ کا فاصلہ صرف کوئی تیس پینتیس میل ہے۔ لیکن اس اعلان کے کوئی چودہ پندرہ گھنٹے بعد جدہ کے حدود میں پہونچے تھے جبکہ جہاز روزانہ چوبیس گھنٹے میں تین سوسے ساڑھے تین سومیل کاراستہ طے کرتا تھا ظاہر ہے کہ یہ ٹائم جہاز کو بیچ سمندر سے موڑکرساحل کی طرف لانے میں لگتا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہلملم کی محاذات کے نام پر جس جگہ سمندر میں احرام باندھا جاتا ہے وہ یلملم سے باہر مغرب کی طرف کوئی ڈھائی سوکیلو میٹر دور واقع ہے (یاد رہے کہ مکہ یلملم سے مشرق میں تھوڑا شمالی رخ لئے ہوئے واقع ہے۔ ) اب قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میقات کے باہر (یعنی مکہ کے برعکس سمت میں )دوچار میل بھی دور ہو تو اسے احرام باندھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا جب تک کہ وہ میقات پر نہ پہونچ جائے پھر یہاں میقات سے سینکڑوں میل دور رہتے ہوئے احرام کا پابند کیوں بنایا جا رہا ہے۔

اسے مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ سمندر میں جس جگہ احرام باندھا جاتا ہے اگر وہیں سے جہاز کا رخ مشرق کی طرف یعنی مکہ کی جہت میں موڑ دیا جائے، اور یلملم کے سامنے ساحل سمندر پر اترا جائے تو کوئی بھی شخص اس کا قائل نہیں کہ اس صورت میں جہاز کے اندر یاساحل پر اتر کر احرام باندھنا ہو گا۔ بلکہ ساحل سے مزید چالیس کلومیٹر اندر جا کر جب یلملم پر پہونچیں گے تب احرام باندھنا ہو گا اب سوال یہ ہے کہ جس جگہ سے مکہ کے رخ پر چلنے کے باوجود ڈھائی سوکلومیٹر تک احرام باندھنے کی جگہ نہیں آتی اس جگہ سے مکہ کے بجائے دوسری سمت میں جانا ہو تو اس جگہ کیوں کر احرام باندھنا ہو گا۔ اس صورت میں تو بدرجہ اولیٰ احرام کا حکم لا گو نہیں ہونا چاہئے۔

توقع ہے کہ ہماری یہ گزارشات اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے کافی ہوں گی، اہل علم کو اس موضوع پر اظہار خیال کی دعوت عام ہے۔

(ستمبر ۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

 

قربانی تحریف کی زد میں

 

قربانی دین اسلام کی ایک معروف اور متواتر سنت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے ان کا واقعہ اس قدر معروف ہے کہ محتاج بیان نہیں۔ اسی وقت سے ان کے ماننے والے سارے ہی مذاہب کے لوگ اس سنت پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں، خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ یا مشرکین عرب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو آپ نے بھی اس سنت کو بر قرار رکھا اور امت مسلمہ اس پر کاربند ہو گئی۔

ادھر تقریباً ایک صدی سے ہمارے ملک میں دین اسلام کی تعلیمات کے خلاف بعض مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے طرح طرح کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں عموماً اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن جو اسلامی طور طریقے مسلمانوں میں قطعی طور پر ایک اسلامی حکم کی حیثیت سے معلوم و معروف اور زیر عمل ہیں وہ بھی ان کی زد سے محفوظ نہیں، ان میں بھی شک و شبہ پیدا کرنے اور ان کی اصل شکل کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ قربانی جیسامعروف اسلامی حکم بھی عرصہ سے اسی تشکیک کا نشانہ بنا ہوا ہے اس کے متعلق بڑے سوز و درد کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی معیشت کمزور ہے اور وہ اس کی متحمل نہیں کہ اتنی بڑی رقم یوں ہی رائیگاں اور فضول خرچ کر دی جائے۔ اس کے بجائے اگر یہی رقم غریبوں کو بطور صدقہ دے دی جائے تو ان کی ضروریات کی اچھی خاصی کفالت ہو جائے گی۔ اس شاطرانہ سوز دروں کو ایسی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ حق خداوندی اور منصب رسالت کی نزاکتوں سے نا آشنا بہت سے سیدھے سادے مسلمان بھی اس کو ایک سنجیدہ حقیقت سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ حکمت و مصلحت جو کچھ ہے وہ وحی الٰہی اور سنت رسول کی پیروی میں ہے، اس کی خلاف ورزی میں نہیں ہے اور نہ امت کے کسی فرد کو اس میں تبدیلی کا کوئی حق حاصل ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس معاملہ کا جائزہ اس پہلو سے بھی لے لینا چاہئے جس پہلو سے شک و شبہ پیدا کیا جاتا ہے۔

ہندوستان کی مسلم آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۶۔ ۷/ کروڑ کو پہونچ رہی ہے۔ عام اندازہ یہ ہے کہ مسلمان دس بارہ کروڑ سے کم نہیں اور بعض مبالغہ آمیز لیڈر پندرہ سے بیس کروڑ بتلاتے ہیں ہم دس کروڑ کی تعداد کو ایک متوازن اندازہ تسلیم کر کے اسی پر حساب کی بنیاد رکھتے ہیں ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹے بڑے پیمانے پرجس طرح قربانی کی جاتی ہے ا س سے اندازہ ہے کہ دس کروڑ افراد ایک کروڑ جانور قربان کئے جاتے ہیں ان جانوروں کی اوسط قیمت تین سوروپئے کے لگ بھگ پڑنی چاہئے۔ اس طرح کوئی تین ارب روپئے کے جانور قربانی کئے جاتے ہیں ان جانوروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جسے قربانی کرنے والے خود نہیں پالتے، بلکہ خریدتے ہیں اندازہ یہ ہے کہ کم از کم تین چوتھائی تعداد خریدی جاتی ہے۔ صرف ایک چوتھائی گھر پر پلتی ہے بیچنے والے عموماً غریب اور حاجتمند لوگ ہوتے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کا جانور اس موقع پر اچھے داموں فروخت ہو کر زیادہ فائدہ دے جائے گا۔ اس طرح غریب افراد اس موقع پر اپنا جانور بیچ کر کوئی سوادو ارب روپئے کما لیتے ہیں۔ قربانی کرنے والے اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھاتے ہیں دوست و احباب کو بھی کھلاتے ہیں اور غرباء، فقراء اور مساکین کو بھی دے دیتے ہیں۔ غریبوں پر ہونے والی یہ نوازش بعض جگہ خاصی مقدار میں ہوتی ہے اور بعض جگہ بخل سے کام لیا جاتا ہے اگر مجموعی طور پر اسے ہم کل مقدارکادسواں یا بارہواں حصہ مان لیں تواس کی رقم پچیس تیس کروڑ ہو جاتی ہے۔ قربانی کی کھال کا مصرف بھی وہی ہے جو صدقے اور خیرات کا ہے، کھال کے دام میں بڑا نشیب و فراز آتا رہتا ہے۔ آجکل چھوٹے جانور کی کھال پندرہ روپئے کے لگ بھگ ہے لہٰذا قربانی کے چھوٹے بڑے جانوروں کی کل کھال کی قیمت پندرہ بیس کروڑ روپئے ہو جائے گی۔ پندرہ بیس کروڑ روپئے کی یہ رقم بھی غریبوں کی مد میں جاتی ہے، شہروں میں عموماً قصاب یا مزدور پیشہ حضرات جانور کی کھال اتارتے اور اس کے ٹکڑے کرتے ہیں اور اس کی انھیں علیٰحدہ سے خاصی مزدوری مل جاتی ہے اس کا حساب بھی کروڑوں تک جا پہونچتا ہے۔ غرض تین ارب روپئے کے جانوروں کی قربانی ہوتی ہے تو کم و بیش ارب روپئے نقد غریبوں کے ہاتھ لگتے ہیں اور تین چار روز چھوٹے جانور کا عمدہ اور لذیذ گوشت جی بھر کر کھانے کے لئے الگ سے ملتا ہے۔

ادھر قربانی کی کھال گوداموں میں پہونچتے ہی غریبوں کی روزی کا ذریعہ بن جاتی ہے گوداموں میں ان کھالوں کی صفائی غریب اور مزدور پیشہ افراد ہی کرتے ہیں۔ دباغت کے بعد جب وہاں سے ان کھالوں کا ’’قدم‘‘ آگے بڑھ کر صنعتی کارخانوں میں پہونچتا ہے تو پھر اس کی غریب نوازی سامنے آتی ہے، چمڑے کی مصنوعات کے کاریگر بیچارے بھی تو آخر غریب اور مزدور پیشہ ہی افراد ہیں ؟پھر یہ مصنوعات مارکیٹ میں آ کر استعمال کرنے والوں کے ہاتھ تک پہونچتے پہونچتے عموماً تجارت کے دو تین مراحل طے کرتی ہے اور اس تجارت سے تاجروں کے دو تین طبقے اور قلیوں اور بوجھ ڈھونے والوں کے بھی دو تین طبقے فیض یاب ہوتے ہیں۔

اب اگر قربانی یکلخت بند کر کے لوگوں کو اس کی رقم صدقہ کرنے کی ترغیب دی جائے تواس کے کیا اثرات خود غریبوں پر مرتب ہوں گے اسے بھی ایک بار ملاحظہ کر لینا چاہئے۔

عام انسان اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے اس قسم کے ہیں کہ صدقات کی ادائیگی میں واجبی حدسے بمشکل ہی آگے جا سکتے ہیں بلکہ واجبی حد کی ادائیگی بھی گراں گذرتی ہے اس لئے انھیں قربانی کی جگہ صدقے کا حکم دیا جائے تو یقیناً سب سے کم قیمت کے جانور کا حساب لگائیں گے۔ بڑے جانوروں کے حصے کے لحاظ سے یہ قیمت آج بھی ایک سوروپئے نہیں آتی۔ اس طرح ایک کروڑ جانوروں کے تخمینے پر جو تین ارب روپئے کا حساب بنتا تھا وہ ایک ارب بھی نہیں رہ جائے گا۔ پھر جو قربانیاں نفلی طور پرکی جاتی ہیں اسی طرح جو لوگ نصاب کی شرط کے ساتھ قربانی کے وجوب یامسنونیت کے قائل ہیں اس شرط کے نہ ہوتے ہوئے بھی بڑی تعداد میں قربانی کرتے ہیں ان دونوں قسم کی قربانی کی رقم چھانٹ دیجئے تو یہ رقم آدھے ارب بھی نہیں رہ جائے گی۔

الغرض قربانی کی صورت میں ڈھائی پونے تین ارب روپئے کی جو رقم غریبوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ صدقہ کی صورت میں ا س کے بجائے بمشکل آدھے ارب روپئے انھیں مل سکیں گے اور کئی روز تک گوشت کی وافر مقدار جو کھانے کو ملتی ہے اس سے مکمل محرومی ہو گی۔ بلکہ اس کے لئے انھیں مجموعی طور پر کئی کروڑ روپئے خرچ کرنے ہوں گے پھر بھی غریب بیچارہ نہ چھوٹا گوشت خریدنے کی ہمت کر سکے گا نہ بڑا گوشت ہی اتنی وافر مقدار میں خرید سکے گا جتنا اسے بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے۔ اس طرح سال بھرمیں ایک بار اسے جو آسودگی ملتی ہے اس سے بھی بڑی حد تک محروم ہی رہے گا۔ باقی رہی چمڑے اور اس کی مصنوعات کے تعلق سے مزدوری کاریگری اور تجارت کی شکلوں میں آمدنی تو یہ پورے طور پر غائب ہو جائے گی۔

(اکتوبر۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

 

سنگین خسارہ

 

قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رب حقیقی کی معرفت و دریافت کے لئے اپنے رہوار فکر کو مہمیز لگائی تو پہلے پہل ان کی نگاہیں ان عظیم مظاہر فطرت کی طرف گئیں جنھیں ان کی قوم پوج رہی تھی۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے، ستارے، چاند اور سورج پر نگاہ ڈالی، ان کی نقل و حرکت دیکھی۔ چمکنے دمکنے پھر بجھنے اور ڈوبنے کا منظر دیکھا اور سمجھ گئے کہ یہ چیزیں ا لہٰ اور معبود بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ بلکہ اس کا حقدار صرف اور صرف وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس نے ان ساری چیزوں کو پیدا کر کے ایک مخصوص تکوینی قانون کا پابند بنا دیا ہے جس کے مطابق یہ ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔ اس نتیجے پر پہونچنے کے بعد انھوں نے اپنی قوم کے سامنے جس کلمۂ حق کا اعلان و اظہار فرمایا تھا وہ اتنا جامع اور مکمل تھا کہ قرآن نے اسے بڑی مدح و توصیف کے پیرائے میں بیان کیا ہے اور اسی کلمۂ حق کو امت مسلمہ کا اصل الاصول قرار دے دیا۔ ان کا اعلان یہ تھا۔

یقوم انی بریِ مما تشرکون انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت والارض حنیفا وما انا من المشرکین۔

ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہرب العالمین لاشریک لہٗ وبذالک امرت وانا اول المسلمین۔

اے قوم تم اللہ کے ساتھ جو کچھ شریک ٹھہراتے ہو میں اس سے بری ہوں۔ میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔

یقیناً میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلم(اطاعت گزار) ہوں۔

اس بیان میں ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ان ساری طاقتوں، قوتوں، جھوٹے خداؤں، معبودوں اور مظاہر فطرت کی عبادت سے اپنی علیحدگی اور کنارہ کشی کا اعلان کر رہے ہیں جن کی عبادت اور پوجا پاٹ اس وقت نوع انسان کیلئے عین سعادت سمجھی جاتی تھی۔

دوسری طرف وہ اپنے مقصد وجود کو دو لفظوں میں بوضاحت بیان کر دیتے ہیں کہ ہر طرح کی عبادت کے سارے مظاہر مثلاً میری نماز اور قربانی (یعنی جسمانی و مالی عبادت) اور میری زندگی اور موت سب کچھ اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے۔ یعنی اب نہ اللہ کی عبادت ورضاسے ہٹ کر کسی اور راہ پر چلتے ہوئے جینا ہے اور نہ اس کے بجائے کسی اور راہ پر چلتے ہوئے مرنا ہے۔ اب جئیں گے بھی تو اسی کے لئے اور مریں گے بھی تو اسی کیلئے۔ مجھے رب العالمین کی طرف سے اسی کا حکم ہے اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے کا ہی نام مسلمان ہے۔

یہ ہے وہ دو ٹوک اور فیصلہ کن عہد و اقرار جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا اور جسے مسلمان بار بار دہراتا ہے۔ اس اخلاق و اظہار اور عہد و قرار نے ہماری پوری زندگی کی راہ اور ہماری موت کی منزل بالکل ٹھیک ٹھیک متعین کر دی ہے۔ اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم پوری مستعدی کے ساتھ اس روشن اور جگمگاتی ہوئی راہ پر گامزن رہیں اور کامیابی و کامرانی کے ثمرات سے دامن مراد بھر کر اپنی منزل مقصود پر پہونچ جائیں۔

یہ کام یقیناً بڑا کٹھن اور صبر آزما ہے۔ ماحول کی بیرونی کشش اور دباؤ اور نفسانی ہواوہوس کی اندرونی جذب و طلب کی وجہ سے قدم قدم پر لغزش کے خطرات ہیں۔ لیکن بہر حال ہمارا راستہ اور منزل یہی ہے۔ لغزشوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ کوتاہیوں کے گرد جھاڑے جا سکتے ہیں اور تیز دوڑ لگا کر ضائع شدہ اوقات کی تلافی کی جا سکتی ہے اور اگر ان میں سے کچھ نہ کیا جا سکے تو کم از کم تسکین وتسلی کی اتنی گنجائش تو موجود رہتی ہے جس راستے پر زندگی نے دم توڑا ہے وہ راستہ غلط نہیں۔ البتہ اگراس راستے اور منزل سے انحراف اور بر گشتگی کی صورت پیش آئی اور ہم نے دانستہ یانا دانستہ ایک ایسا راستہ پکڑ لیا جو اس کے بالکل الٹے یا داہنے بائیں جاتا ہے تو یہ سخت خسارے کی بات ہو گی۔ اور ایسی راہ پر چلنے والی زندگی اور آنے والی موت دونوں ہی ہمارے لئے مکمل اور حسرتناک تباہی کی علامت ہو گی۔ وذالک ھوالخسران المبین۔ (اور یہی کھلا ہوا گھاٹا ہے )

ہماری اس گفتگو کا مقصود مسلمانوں کی مجموعی صورتحال کے ایک نہایت کربناک پہلو کی طرف اشارہ کرنا ہے کلمہ کے اقرار کے باوجود اسلام کے احکام سے ہماری دوری و بیگانگی بلکہ برگشتگی کاجو حال ہے محتاج بیان نہیں۔ نماز ہو یا زکوٰۃ، روزہ ہو یا حج، جنسی حرامکاری ہو یا اخلاقی پامالی، لین دین میں حلال و حرام سے بے نیازی ہویا کھانے پینے میں شرعی پابندیوں سے آزادی۔ ہر معاملے میں ہمارا تعلق اسلام سے جس قدر کمزور ہو چکا ہے وہ تو اپنی جگہ پر ہے ہی۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمارے اندر اسلامی حمیت و غیرت کی چنگاری اور اعلاء کلمۃ اللہ کے جوش و جذبہ کی جو تھوڑی بہت مقدار خال خال لوگوں میں رہ گئی ہے اور وقت آنے پر جس سے عام مسلمانوں کے نہاں خانۂ دل میں حمیت و غیرت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں ہم اس کا بھی استعمال نہایت غلط اور بے محل کرتے ہیں۔ ہمارا یہ جوش و جذبۂ اسلام کے نام پر بالکل غیر اسلامی چیزوں کی حمایت میں صرف ہو جاتا ہے۔ اور اعلاء کلمۃ اللہ کے جوش میں ہم نہایت غلط مواقع پر موت کا استقبال کرتے ہیں اس طرح عام حالات میں تو ہماری زندگی اور موت غیر اسلامی ڈگر پر چلتے ہوئے آتی ہی ہے۔ خاص اسلام کی حمایت اور سربلندی کے جذبے کے تحت جو موت آتی ہے وہ بھی اللہ رب العالمین کے لئے نہیں ہوتی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ابھی محرم کے موقع پر ہمارے بعض اطراف میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور خاصا اتلاف جان ہوا۔ فسادات کا سب سے یہ تھا کہ شیعوں کی طرح یہاں کے سنی حضرات بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ تعزیے نکالتے ہیں بلکہ محرم کی ساری رونق اور چہل پہل انہی کی مرہون منت ہوتی ہے، ادھر دسہرے کی مناسبت سے جگہ جگہ مورتیاں بھی سجی ہوئی تھی۔ اگر چہ مورتیاں تعزیوں کاراستہ نہیں روکے ہوئے تھیں لیکن اسلام کے غیرت مندسپوتوں نے محسوس کیا کہ اگر مورتیوں پر پردہ ڈلوائے بغیر تعزیہ گزار دیا گیا تو اس سے اسلام کی سخت توہین ہو گی لہٰذا مورتیوں پر پردے ڈلوا دیئے گئے۔ یہ خرافات تین دن تک جاری رہنی تھی۔ لیکن پہلے یادوسرے دن فریقین میں پردہ ڈالنے نہ ڈالنے پر اڑا اڑی ہو گئی۔ بالآخر پر دہ اگر چہ ڈالا گیا۔ لیکن یہی معاملہ فساد کا سبب بن گیا اور فریقین کا خاصا جانی و مالی نقصان ہوا۔

جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر قابل قدر تھا یہ جذبۂ غیرت و حمیت اور شوق شہادت و جان سپاری لیکن کس قدر غلط اور افسوسناک تھا اس کا محل استعمال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر بدعت کو گمراہی کہا ہے اور جاننے والے جانتے ین کہ بعض بدعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی بھی جزو اپنی انفرادی حیثیت میں بذات خود ناجائز اور خلاف شریعت نہیں ہوتا۔ تاہم وہ بدعتیں ناجائز اور گمراہی ہوتی ہیں، مثلاً نماز اپنے تمام اجزاء سمیت صرف یہی نہیں کہ جائز ہے بلکہ عبادت ہے لین اگر کوئی شخص فرض نمازوں میں اپنی طرف سے چند رکعات کا اضافہ کر دے۔ مثلاً فجر کی نماز فرض دو کے بجائے چار رکعت پڑھے تو یہ یقیناً بلا شبہہ اور بالاتفاق ناجائز اور گمراہی ہے۔ باوجودیکہ اس کے اندر کیا جانے والا کوئی بھی عمل بذات خود ناجائز نہیں ہے، اس کے بر خلاف بعض بدعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے مختلف اجزاء اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بھی ناجائز اور خلاف شریعت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی بدعتیں پہلی قسم کی بدعتوں کے مقابل میں کہیں بڑھ چڑھ کر گمراہی و ضلالت ہیں۔ اب جو شریعت کے احکام سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ تعزیہ سرسے پاؤں تک اسی قسم کی بدعت ہے یہ اولاً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزار کی نقل ہے اور معلوم ہے کہ قبروں پر عمارت کی تعمیر شرعاً قطعی طور پر منع ہے۔ پس یہ ایک ممنوع اور ناجائز چیز کی نقل ہے لہٰذا ہر حکم میں اصل کے مطابق ہے۔ ثانیاً تعزیہ کو متبرک سمجھ کر احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تبرک کے لئے چھوا اور چوما جاتا ہے یہ حرکت بھی جب اصل قبر کے ساتھ ناجائز ہے تو اس کی نقل کے ساتھ کیونکر جائز ہو سکتی ہے۔ ثالثاً بیشتر افراد کا یہ عقیدہ ہے کہ ان نمائشی قبروں یعنی تعزیوں میں حضرت حسینؓ کی روح حاضر ہوتی ہے یہ اسلامی نقطۂ نظر سے قطعاً غلط اور گمراہی پر مبنی عقیدہ ہے، رابعاً اس عقیدے کی بنیاد پر بہت سے افراد ان تعزیوں پر حلوہ، مالیدہ، وغیرہ بطور نذرانہ چڑھاتے ہیں اور یہ کام صرف یہی نہیں کہ گمراہی ہے بلکہ شرک بھی ہے، خامساً یہ سارا ہنگامہ ایک شرعی اور اسلامی تہوار غم و الم کی حیثیت سے منایا جاتا ہے اور اپنی طرف سے کسی چیز کو اسلامی شعار بنا دینا سخت مجرمانہ حرکت ہے۔ سادساً عاشورہ محرم کو اسلام نے خوشی اور شکر یے کا دن قرار دے کر اس میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے مگر تعزیے کی رسم کے سبب اس کی مکمل مخالفت کی جاتی ے اور اسے بھی اور حسرت کا دن سمجھا جاتا ہے۔ سابعاً اس میں سینہ کوبی، نوحہ خوانی، اور جسم وجان کی ایذارسانی کے جو مظاہرے کئے جاتے ہیں کسی کی وفات پر ایسا کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ غرض یہ رسم اپنے دامن میں جتنے اجزائے سمیٹے ہوئے ہے سب کے سب غلط، ناجائز، حرام، ممنوع، خلاف شریعت اور عذاب الٰہی کا ذریعہ ہیں ْاس لئے یہ حد درجہ سنگین گمراہی ہے۔ مگر یہ کتنی افسوسناک حقیقت ہے کہ سیدھے سادے کلمہ گو مسلم عوام کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ یہ عین اسلام ہے اور اس کی سربلندی عین اسلام کی سربلندی اور اس کی توہین عین اسلام کی توہین ہے۔ اس یقین دہانی کے بعد تحفظ ناموس اسلام کے نام پر ان بیچاروں کے مومنانہ جذبۂ غیرت و حمیت کو بھڑکا کر اور مرتبۂ شہادت اور حصول جنت کی بشارت سنا کر اس خرافات کے لئے ان کو گولیوں کی باڑھ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور وہ بڑی سعادت مندی کے ساتھ جان جان آفریں کے حوالہ کر دیتے ہیں۔

کاش یہی قوت یہی جذبہ اور یہی غیرت و حمیت اسلامی کا ز کو آگے بڑھانے اسلام پر عمل پیرائی عام کرنے اور مسلمانوں کی واقعی اور حقیقی مشکلات اور آزمائشوں کا دفاع کرنے کیلئے بیدار کیا جاتا، اور مومنانہ بصیرت کے ساتھ ا س کو صحیح محل پر استعمال کیا جاتا، تو آج ہماری کتنی ہی مشکلات حل ہو جاتیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری بصیرت وفراست کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں … فقدان بصیرت کا یہ عالم ہے کہ ایک بار میں وسط ہند کے ایک شہر میں غالباً عاشورہ کے روز ایک جامع مسجد میں گیا۔ ایک شاہ صاحب کالی کفنی پہنے تشریف فرما تھے، مجھے دیکھ کر رنج آلود انداز سے شکوہ کے لہجے میں بولے کہ صاحب ! دیکھئے اب تک تعزیہ نہیں اٹھا۔ لوگوں نے وقت مقررہ کی پابندی نہیں کی پھرکسی قدر جوش کے ساتھ بولے کہ صاحب ! اسی لئے تواسلام ترقی نہیں کر رہا ہے بلکہ رو بہ تنزل ہے۔

میں ہکا بکا رہ گیا اس غریب نے جو مسلمانوں کی رہ نمائی کے منصب پر بیٹھا ہے، اسلام اور اس کے اسباب عروج و زوال کے بارے میں کیسا عجیب و غریب نکتہ دریافت کیا ہے کہ جو چیز عین زوال و بربادی ہے اسی کو اس نے زینۂ عروج و ترقی سمجھا ہے سچ فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ما احدث قوم بدعۃ الارفع مثلھا من السنۃ۔ ؎۱ (مسند احمد) یعنی کسی قوم نے کوئی بدعت ایجاد کی تو لازماً اس کے مثل سنت اٹھا لی گئی۔

اسی سنت الٰہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری قوم بدعتوں کے اندر جتنی زیادہ غرق ہے اسلام کے حقیقی احکامات سے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے صحابہ کرام کے طور طریق سے اتنی ہی زیادہ دور اور الگ تھلگ ہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے مسلمہ احکام و فرائض کی جانب نہ کوئی توجہ ہے نہ ترغیب اور ان بدعتوں کا اتنا سخت اور زبردست اہتمام ہے کہ ان کے لئے دل کی تہوں میں جذبۂ جاں نثاری و فدا کاری کروٹیں لیتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جذبے کے تحت جو زندگی گزر رہی ہے اور اس راہ میں جو موت آ رہی ہے نہ وہ زندگی اللہ رب العالمین کے لئے ہے نہ وہ موت۔ بلکہ دونوں ہی شیطان کے لئے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب سے سنگین خسارہ ہے۔ پس کیا ہماری ملت کے با شعور وحساس مسلمان اس صورتحال سے عبرت پکڑیں گے اور اس میں تبدیلی لا کر مسلمانوں کو صحیح راہ پر گامزن کرنے کیلئے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں گے۔ ؟ خدا توفیق دے۔

(دسمبر ۱۹۸۳ء )

٭٭٭

 

 

 

نقش راہ

 

اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکروسپاس ہے کہ محض اس کے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے محدث کی دو جلدیں مرحلۂ تکمیل کو پہنچ گئیں اور اب موجودہ شمارہ سے اس کی تیسری جلد کا آغاز ہو رہا ہے اس موقع پر ایک بار پھر ہم اپنے قارئین کو ان بنیادی امور کی طرف ملتفت کر دینا چاہتے ہیں جن کو مد نظر رکھ کر اس رسالے کا اجراء کیا گیا ہے۔

ایک شخص قرآن و حدیث کی ہدایتوں اور رہنمائیوں پر ٹھیک ٹھیک نظر ڈالنے کے بعد امت مسلمہ کے کردار و عمل رسم و رواج اور ظروف و احوال کا جائزہ لے تو دونوں میں بڑا تفاوت بلکہ بہت سے امور میں صراحۃً ٹکراؤ اور تضاد پائے گا۔

عقائد اور اس کے تقاضے سے وجود میں آنے والے اعمال پر نظر ڈالئے تو ایسا محسوس ہو گا کہ اسلامی عقائد اور اسلامی شریعت کے متوازی بالکل ایک دوسرا ہی باب عقائد اور ایک دوسری ہی شریعت ایجاد کر لی گئی ہے اور جن باتوں کو اسلام نے گمراہی اور اسباب ہلاکت قرار دیا تھا ٹھیک انہیں کو ہدایت اور ذریعہ فوز و فلاح تصور کر لیا۔

شخصیت پرستی کے جادو نے فہم و شعور کے قُویٰ کو اس طرح مسحور کر رکھا ہے کہ اس خول سے باہر نکل کر کوئی بڑے سے بڑا عالم سوچنے سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے، دنیا کی مادی ترقیات اور سہولتوں نے آج خالص اسلامی تحقیقات کے سینکڑوں بند دروازے کھول دئیے ہیں تفسیر و حدیث اور ان سے متعلقہ فنون پر ہزار ہا ہزار قیمتی اور نادر مخطوطے جو دنیا کے مختلف کتب خانوں بکھرے پڑے تھے اور جن کا صرف پتہ لگانا ہی بڑی مشکل مہم تھی اور پتہ لگانے کے بعد ان تک رسائی کے امکانات انتہائی محدود تھے اور رسائی کے بعد استفادے کی اس کے سواکوئی شکل نہ تھی کہ اسے ایک طویل وقت صرف کر کے نقل کیا جائے اب موجودہ ترقیات نے یہ ساری مہمیں سرکر کے ان سے استفادہ بالکل آسان کر دیا۔ اب صرف یہی نہیں کہ بیشتر نوادرات کی فہرست دستیاب ہے بلکہ فوٹو اور مائیکرو فلم سے فیضیاب ہونے کی کوشش کریں تو شریعت کے کتنے اختلافی مسائل ہیں جن کے بارے میں صاحب شریعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم اور منشا علم الیقین کی حد تک معلوم ہو سکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کتب تفسیر و حدیث میں سے آج جو کچھ مطبوعہ شکل میں ہمارے درمیان متداول ہے وہی ساری مشکلات حل کرنے کیلئے کافی وافی ہے مگر قرآن و حدیث کی صریح اور دو ٹوک نصوص قبول کرنے کیلئے بھی دل میں گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔

علماء کی اس تنگ نظری اور اسلامی شریعت کے بارے میں اس ناہموار انداز فکر نے امت کے مختلف طبقوں میں بڑی وسیع خلیج پیدا کر رکھی ہے، علماء اور عوام دونوں مختلف خانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں جن پر اسلامی اخوت اور باہمی تعارف و تناصر کے بجائے باہمی کشاکش اور ضرر رسانی اور ایذارسانی کے جذبات غالب ہیں اور مختلف مصائب و مشکلات کی شکل میں آئے دن ان کا نمود و ظہور ہوتا رہتا ہے۔

’’اسلام‘‘کی تبلیغ و اشاعت بلکہ ’’احیاء و تجدید‘‘ کیلئے غیر ’’فرقہ وارانہ‘‘ بنیادوں پر مختلف اسلامی تنظیمیں اور جمعیتیں بھی وجود میں آئی ہیں مگر انھوں نے اپنے طرز فکر اور طریق کا ر کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کا مکمل اجارہ دار سمجھ لیا ہے اس لئے دوسری تنظیمات اور جمعیتوں کے ساتھ ربط و تعلق اور تعاون و تناصر کے بجائے انھیں اندھیرے اجالے ڈنک مارنا اور زک پہنچانا ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت تصور کر لی گئی ہے۔

مفادپرستوں کے کئی ٹولے ایسے ہیں جنھوں نے اسلام کی بنیاد ڈھانے کی گویا قسم کھا رکھی ہے وہ اپنے آپ کو مسلم بتا کر اور اسلام کے بنیادی مآخذ کا حوالہ دے کر پورے اسلام ہی کو دریا برد کر دینے کی سازش میں لگے ہوئیے ہیں، محدود افراد کا محدود ساتعلق رہ گیا ہے اور اس کے بجائے ساری دلچسپیاں اور اصل تعلق خاطر ان رسم و رواج سے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔

عالمی پیمانے پر امت کے خلاف خارجی حملوں کا بھی سلسلہ قائم ہے، مشرق و مغرب کی ساری دنیا اپنی مسلسل سازشوں کے ذریعہ اس امت کو تباہ و برباد بلکہ نیست و نابود کرنے کیلئے کوشاں ہے حق و انصاف کے پردے میں بدترین ظلم وستم اور جبر واستبداد کاسلسلہ چل رہا ہے اور انسانی حقوق کے قیام اور انسانی ’’آدرشوں ‘‘کی بحالی کے نام پر ہر طرح کی وحشت و بربریت اور درندگی روا رکھی گئی ہے۔

غرض امت داخلی اور خارجی دونوں طرف سے پیچ در پیچ مشکلات و مصائب کا شکار ہے اندرونی کل پرزے بھی ڈھیلے پڑ چکے بلکہ جگہ جگہ سے ٹوٹ چکے ہیں اور بیرونی قباء بھی تار تار ہے، قلب و نظر کی وسعت بھی معدوم ہے اور زمین کی پہنائی بھی تنگ، نیر تاباں بھی افق سے پرے ہے اور ستارے تنک تاب، تاہم ہمیں مایوسی نہیں ہے، رہروان حق کا ایک قافلہ ہے جو اس بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا رہا ہے اور ستاروں کی تنک تابی کو ’’صبح روشن‘‘ کی دلیل سمجھ کر امت کی شب دیجور کی قبائے تیرہ و تار کو چاک کرنے کیلئے اپنی صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہیں۔

محدث کا مقصد وجود یہی ہے کہ وہ اس کاروان حق میں شامل ہو کر دامن تار تار کی رفوگری میں لگ جائے اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے کسی ورق کا رخ عقائد کی طرف ہے توکسی کا احکام ومسائل کی طرف کہیں قرآن و حدیث کے مطلوبہ ایمان کی توضیح ہے تو کہیں عملی کمزوریوں کے نتائج کی نشاندہی کسی صفحے میں مسلمانوں کے تمدنی اور اجتماعی مسائل کا تحلیل و تجزیہ ہے توکسی صفحے میں عالم اسلام کی سیاست کے نشیب و فراز کا تذکرہ، کہیں اسلام میں پیوند کا ری پر نکیر ہے تو کہیں اسلام کے اساسی مصادر و مآخذ سے بغاوت و بے نیازی پر گرفت، کہیں حق پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ ہے، تو کہیں باطل کی زنجیر یں توڑ کر میدان رستخیز میں اترنے کا ولولہ، کہیں شخصیت پرستی کے غلو پر نکیر ہے تو کہیں عظمت اسلام کے مناروں کا تذکرہ، غرض یہ ہیں وہ مقاصدجس کے لئے اس رسالے کا اجراء ہوا ہے اور اب تک حسب توفیق قدم اٹھایا گیا ہے۔

واللہ ولی التوفیق

(جنوری ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

 

تنظیمات کا المیہ

 

موجودہ دور کو اسلامی تاریخ میں تنظیمات کے موسم بہار کا دور کہا جا سکتا ہے جس طرف دیکھئے اسلام کی جزوی یا جامع خدمات کے لئے کوئی نہ کوئی تنظیم بنی ہوئی ہے اور خود رو جنگلی پودوں کی طرح ان کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے، تنظیم بنانے والے اور اس سے متاثر ہونے والے یہ سمجھ کر خوشی خوشی جان و مال کھپاتے ہیں کہ اسی بہانے اسلام کی کچھ خدمت کر دی جائے۔ مگر یہ کیسی عبرت انگیز اور المناک حقیقت ہے کہ اسلام اپنے ان خادموں کے جھرمٹ میں رہتے ہوئے بھی آج اس طرح پنپ اور پھل پھول نہیں رہا ہے جس طرح وہ ان ادوار میں پنپا اور پھلا پھولا تھا جب امت اسلامیہ اس طرح کی تنظیمات سے سرے سے آشنا ہی نہ تھی، مسلمان اپنے دور زوال اور دور غلامی میں بھی اپنا جو عملی اور اخلاقی وزن رکھتے تھے آج وہ انھیں حاصل نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے دائرے کے اندر داخل ہونے والوں کو ایک ایسی مضبوط اور ناقابل شکست اخوت اور معنویت کی لڑی میں پرو دیتا ہے کہ یہ اسلامی تعلق دیگر تمام تنظیمی تعلقات کی معنویت سے حد درجہ بالاتر ہے۔ اسلامی تعلق کے مقابلے میں کسی بھی تنظیمی تعلق کی حیثیت بر گدکے مقابل میں ایک چھوٹے سے جنگلی پودے سے زیادہ نہیں اسلام نے عقیدہ و عمل سے لے کر نتیجہ و اثر تک ہر مرحلے میں ہم آہنگی و یکجہتی، اتحاد و یگانگت اور تعاون و تناصر کی ایسی جامع ہدایات عطا فرمائی ہیں کہ کوئی مضبوط سے مضبوط تنظیم بھی اپنے افراد میں تعلقات و تعاون کا ایسا جامع خاکہ تیار نہیں کر سکتی، پھر اس کے لئے جان و مال کی فدا کاری کا جیسا جذبہ اسلام نے پیدا کر دیا ہے ویساجذبہ پیدا کرنا توکسی تنظیم کے بس کی بات ہی نہیں ہے، اس لئے اسلامی تعلق و اخوت نے مسلمانوں کو دوسرے تمام طرح کے تعلقات سے بے نیاز کر دیا ہے کہ اعلیٰ کے رہتے ہوئے ادنیٰ کی حاجت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے۔

لاحلف فی الاسلام وماکان من حلف فی الجاھلیۃ فلا یزیدہ الاسلام الاشدۃ۔

اسلام میں کوئی حلف (یعنی دوستی اور تعاون کا معاہدہ نہیں )اور جاہلیت میں جو حلف تھا اسلام اسے مزید پختہ ہی کرتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ دوانسانوں یا دو قبیلوں اور دو قوموں کا محض مسلمان ہونا ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی دل و جان سے معاونت اور مدد کریں، اس کے لئے علیحدہ سے کسی معاہدے کی ضرورت نہیں، البتہ اگر دور جاہلیت میں دو قوموں اور دو قبیلوں کے درمیان دوستی و تعاون کا کوئی معاہدہ ہوا تھا، پھر دونوں مسلمان ہو گئے تو یہ معاہدہ مزید پختہ اور واجب الاحترام ہو گیا۔

اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ امت اسلامیہ کے سارے افراد اور تمام قومیں اور قبیلے ایک منظم وحدت ہیں اور باہمی اعتماد اور تعاون و تناصر کے لئے محض ان کا مسلمان ہونا ہی کافی ہے، مزیدکسی تنظیمی رکنیت کا ان سے مطالبہ کرنا اسلامی وحدت پر قناعت نہ کرنے کے ہم معنی ہے۔

ہم اگر گہری نظر سے اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ تنظیم اندر تنظیم کی شکل میں اسلامی وحدت کے دائرے کے اندر سب سے پہلے جس داخلی تنظیم کا وجود ہوا وہ منافقین کی تنظیم تھی، یہ بظاہر تو امت مسلمہ کے جسد واحد کا ایک حصہ تھے، لیکن اپنے دیرینہ خبیث مقاصد کے لئے انھوں نے درپردہ ایک باقاعدہ تنظیم قائم کر رکھی تھی جس کے اراکین خلوتوں میں جمع ہو کر طرح طرح کے اسلام دشمن پروگرام بنایا کرتے تھے اور اسی مقصد کے لئے انھوں نے اپنا ایک مرکز قائم کیا تھا جو تاریخ میں مسجد ضرار کے نام سے معروف ہے اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم خداوندی سے ڈھا دیا تھا، کبار صحابہ اور ان کے بعد کے ادوار میں بھی امت مسلمہ کے دائرے کے اندر کوئی تنظیم وجود میں آئی تووہ انھیں اعدائے اسلام کی تنظیم تھی جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نیست و نابود کرنے کی تدبیروں اور عملی حکمتوں کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں وقف کئے ہوئے باقی رہے مسلمان تو انھوں نے اسلام تعلق سے آگے بڑھ کر مزید کسی داخلی تنظیم کی ضرورت محسوس نہیں کی، ان کا اسلامی رشتۂ اخوت ہی ہر طرح کے فتنوں اور شورشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی تھا، کیونکہ یہی امت گیر تنظیم کی وحدت متماسکہ تھا۔

لیکن جس طرح مختلف اسباب و عوامل کے تحت امت میں طرح طرح کے فرقے وجود میں آئے آج اسی طرح مختلف اسباب و عوامل کے تحت قسم قسم کی تنظیمات اور جمعیتیں وجود میں آئی ہیں، بظاہر تو یہ خدمت اسلام کے لئے بنی ہیں مگر عقائد اور فقہی فرقوں کی طرح ان تنظیمات اور جمعیتوں کی بھرمار نے بھی امت کی وحدت اور اس کے اسلامی جذبہ تعاون و تناصر کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ سب سے پہلے تو ان تنظیمات نے اپنے اور غیر کا امتیاز پیدا کیا، پھر یہ امتیاز رفتہ رفتہ تعصب میں تبدیل ہوتا گیا، پھر اس امتیاز و تعصب کو جیسے جیسے ترقی ملتی گئی، تنظیمی دائرے سے باہر کے مسلمانوں کے ساتھ رشتۂ اخوت کمزور پڑتا گیا بلکہ کٹتا گیا۔ پھر نوبت یہاں تک پہونچی کہ اسلامی جذبۂ اخوت کی جگہ حسد و رقابت نے لے لی اور پس پردہ یا کھلم کھلا اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی اب تعاون و تناصر کی جگہ تحارب و تناصر کی نوبت آئی۔ اور ایمانی غیرت و حرارت اس مقام کو پہنچی کہ اسلام کی سرعام نافرمانی بلکہ مخالفت تو گوارہ ہے، اسلام پر تنقید اور قرآن ورسول کی توہین پر تو رگ حمیت کچھ زیادہ نہیں پھڑکتی، مگر اپنی تنظیم کے قائد و رہنما پر یا اراکین و متعلقین پر یا اصول و ضوابط پر ہلکی سی تنقید بھی ہو جائے تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔

بعض تنظیمات کو تشکیل دینے والوں کے غرور علم اور پندار ہمہ دانی نے اور مصیبت کھڑی کر رکھی ہے ایک صاحب کو اپنی فلسفیانہ اسلامی تھیوری پر اسی درجہ غرور تھا کہ انھوں نے اپنی تنظیم کو تشکیل دینے کے جلد ہی بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس خوشخبری کو پامال کرتے ہوئے کہ امت کا ایک طبقہ قیامت تک مسلسل حق پر قائم رہے گا یہ اعلان کر دیا کہ خلافت راشدہ کے بعد اب تک امت مسلمہ حق و باطل کے آمیزے کی دلدل میں پھنسی ہوئی تھی۔ ہم نے حق خالص پیش کر دیا ہے جو اسے مسترد کرے گا، یہود کے درجہ کو پہونچ جائے گا۔ اسی پندار ہمہ دانی کا نتیجہ تھا کہ یہ صاحب اپنی تنظیم میں داخل ہونے والوں سے پھر سے کلمۂ لا الٰہ الا اللہ پڑھواتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان صاحب کی برپا کی ہوئی تنظیم اپنے آپ کو اسلام کا اجارہ دار اور دوسرے مسلمانوں کو یہود کی طرح راندۂ درگاہ سمجھتی ہے اور انہیں کبھی سرکاری مسلمان، کبھی دوسرے درجے کا مسلمان اور کبھی درج رجسٹر مسلمان کہتی ہے اور ایک سازشی ٹولے کی طرح مسلمانوں کے خلاف حسد و بغض اور سازش و عداوت وغیرہ کی ان لعنتوں میں خود گرفتار ہو گئی ہے جو یہود کا خاصہ ہیں، خلق خدا کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے والوں کا یہی انجام ہے۔

ایک اور صاحب پندار ہمہ دانی اور غرور علم کی جہالت میں گرفتار دہلی کی ایک عمارت کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضہ جمائے ملحدوں اور رسالت کے منکروں کی روٹی پر پیٹ پالتے ہوئے اعلان کر رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام کو میں نے سمجھا ہے یا میرے بیٹے نے، کسی تیسرے نے نہیں۔ پھر یہ صاحب اس ڈھیٹ پن کے ساتھ اہل اسلام کا استحصال کرتے ہوئے ایک تنظیم کی تشکیل فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام کے ایسے اجارہ داروں سے بھنگ دھتوروں کے جنگل کے سوا اسلام کی کھیتی میں اور کیا اگ سکتا ہے۔

یہ بات طویل بھی ہے اور المناک بھی، ہم زخم کو گہرائی تک کریدنے کے بجائے صرف اس کی ظاہری پپٹریوں کو دکھا کر عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ صحت کی علامت نہیں بلکہ فساد و خون کی علامت ہے لہٰذا مخلصین امت کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس فساد کا سرچشمہ کہاں ہے اور اسے کیونکر بند کیا جا سکتا ہے ؟ اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو اور عجز و نیاز مندی اور جذبۂ بندگی کے ساتھ اپنے دین متین پر چلنے اور اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(فروری ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

ایمان کی ایک علامت

 

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی صحبت ایمان کی تازگی اور خداشناسی کا ذریعہ ہوتی ہے اور ان سے عقیدۂ و عمل کی دنیا کو جذبے اور ولولے نصیب ہوتے ہیں اس وقت ہماری رسائی کے دائرے میں صوفی نذیر احمد صاحب کاشمیری کی شخصیت ایسی ہی ہے۔ موصوف جامعہ ملیہ اسلامیہ (جس پر غیر اسلامیت کی چھاپ نمایاں ہے )کے شمال مغربی گوشے کے آخری کمرے میں قیام پذیر ہیں اسی لئے جب کبھی دہلی جانا ہوتا ہے تو موصوف کی خدمت میں حاضری کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔

۳۱/جنوری ۱۹۸۴ء کی سہ پہر ایسے ہی ایک موقع سے راقم الحروف مولانا عبدالمعید، مولانا اشفاق احمد اور مولانا عبدالواحد (فاضلان مدینہ یونیورسٹی) کے ہمراہ صوفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کئی گھنٹے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی جسے ترتیب دیا جائے تو ایک اچھا خاصا انٹرویو تیار ہو جائے گا لیکن فی الحال اس محفل کی صرف دو تین جھلکیاں ہدیہ قارئین کرنی مقصود ہیں۔

صوفی صاحب کچھ ہی دنوں پہلے پاکستان کے سفر سے واپس تشریف لائے تھے ناگزیر تھا کہ اس خصوص میں متعدد سوالات کئے جاتے صوفی صاحب کے جواب سے واضح تھا کہ اصلاح خلق، اتحاد امت اور اعلاء کلمۃ اللہ کا جو مقصد موصوف کے وجود کا جز ولا ینفک بن چکا ہے اس کی کامیابی کیلئے وہاں کی فضا بڑی سازگار تھی اور مختلف سطح کے لوگ صوفی صاحب کو روک بھی رہے تھے ہم نے کہا پھر آپ رک کیوں نہیں گئے ؟ فرمانے لگے میں نے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہندوستان کو کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھاؤں گا یا اس سرزمین پر شہادت حاصل کروں گا، صوفی صاحب کی اس مومنانہ عزیمت نے ہمارے سست رو وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

باتوں باتوں میں مولانا سیالکوٹی اور مولانا امرتسری کا ذکر آ گیا۔ صوفی صاحب نے اس دور کا ایک واقعہ سنایاجب متحدہ ہندستان کی تقسیم کے لئے کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی کشمکش شباب پر تھی۔ فرمانے لگے میں امرتسر مولوی ثناء اللہ کے پاس پہونچا۔ دور سے آتا دیکھ کرکسی قدر ظریفانہ انداز میں کہنے لگے، آہا، خضر جماعت آ رہے ہیں۔ قریب پہونچا تو کہنے لگے کدھر سے آ رہے ہیں ؟کہاں جا رہے ہیں ؟مقصد کیا ہے ؟ میں نے مغرب کی طرف اشارہ کر کے کہا، ادھر سے آ رہا ہوں اور مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہا ادھر جا رہا ہوں، منزل مقصود آپ کا قبلہ و کعبہ وردھا ہے۔ دریافت کیا مقصد کیا ہے ؟کہا کلمہ پڑھانے جا رہا ہوں، کہنے لگے :طاقت ہے ؟میں قدرے درشت لہجے میں کہا لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ یہ طاقت نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ مولانا امرتسری کو جیسے زور کا جھٹکا لگا۔ ظرافت ایکدم کا فور ہو گئی سارا وجود سنبھل اور سکڑ گیا۔ کہنے لگے : صوفی صاحب ہم لوگوں میں ایسی طاقت کہاں ؟ہم لوگ تو منطق اور فلسفے کی عقلیات میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

اس کے بعد صوفی صاحب نے اسی دور کا ایک اور واقعہ سنایا فرمایا کہ دہلی مفتی کفایت اللہ صاحب کے پاس پہونچا، انھوں نے قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر منطق فلسفے کے زور سے کانگریس کی حمایت کو شرعاً بر حق ثابت کرنے کیلئے نان اسٹاپ تقریر شروع کر دی۔ خاصی طول بیانی ہو چکی تومیں نے کہا دو منٹ چاہتا ہوں، وقت دیا گیا تو میں نے کہا کہ اگر یہ سارے دلائل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ کہہ کر آپ کے منھ پر مار دے کہ جس بات کا تمھیں خود یقین نہیں تھا اس کا یقین دوسروں کو دلانے کی کوشش کیوں کر رہے تھے ؟ تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟پس میری یہ بات سننی تھی کہ موصوف کی ساری تقریر یکلخت بند ہو گئی۔ پیچھے سے پگڑی کا شملہ پکڑ کر آنکھ پر رکھا اور زار زار رونے لگے۔

ان واقعات سے صوفی صاحب کے جذبۂ ایمانی کا اظہار مقصود نہیں کہ وہ تو عیاں ہے ہی۔ مقصود ایمان کی اس علامت کی نشاندہی ہے جوان دو بزرگوں کے مذکورہ واقعات سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما المومنون الذین اذاذکراللہ وجلت قلوبھم واذاتلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناوعلیٰ ربھم یتوکلون۔ (مومن توبس وہی لوگ ہیں کہ جب ان سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں اور جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو اور بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں ) آج ہماری کشت عمل کو اسی آب حیات کی ضرورت ہے کہ پند الٰہی سن کر ضد اور ہٹ دھرمی کی جگہ جذبۂ اطاعت و خشوع کروٹیں لینے لگے اور عزت نفس کی تاریکی کی جگہ قبول حق کا نور اپنی ضیا پاشیاں کرنے لگے۔

واللہ ولی التوفیق

(مارچ ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

اسلامی نظام حکومت میں متعدد پارٹیاں

 

مغرب کے جمہوری نظام حکومت میں جو ہمارے ملک میں بھی رائج ہے لازماً ایک سے زیادہ پارٹیاں ہوتی ہیں ایک حزب اقتدار کہلاتی ہے جس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہوتی ہے اور دوسری حزب اختلاف جس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے پروگراموں اور پالیسیوں پر نکتہ چینی کرے اور برسر اقتدار پارٹی کو شکست دے کر خود اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کرے۔

اس وقت پاکستان کو فوجی حکومت کے دائرے سے نکال کر جمہوریت کے دائرے میں لانے کا پروگرام چل رہا ہے اور اس سلسلہ میں یہ سوال کھڑا ہوا ہے کہ الیکشن شخصی بنیادوں پر کرایا جائے یا پارٹیوں کی بنیاد پر؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں سیاسی پارٹیوں کا تصور نہیں اس لئے الیکشن شخصی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ مگر ان کے بر عکس سیاسی پارٹیوں کے ناخداؤں کا کہنا ہے کہ جو شخص ایسی بات کہتا ہے وہ اسلامی سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں، پارٹی سسٹم کی بنیاد پر الیکشن اسلامی نظام حکومت کے عین مطابق ہے۔

یہ مسئلہ اگر چہ پاکستان میں اٹھا ہے لیکن چوں کہ بحث اسلامی نظام حکومت کے متعلق ہو رہی ہے اس لئے ہم بھی ’’دخل در معقولات‘‘ کا ’’ حق ‘‘رکھتے ہیں اور چونکہ اسلامی مسائل کا حل کتاب وسنت اور قرن اول کے سلف صالحین کے طرز عمل کی روشنی میں ہونا چاہئے اس لئے ہم اس معاملے میں اسی طرف رجوع کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے قرآنی ارشادات:

ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاًلست منھم فی شئیِ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بماکانوا یعملون۔ (۶: ۱۶)

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور مختلف جماعتوں میں بٹ گئے (اے نبی)آپ کو ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ تو بس اللہ کے حوالے ہے، پھر اللہ انھیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے تھے

ولاتکونوا من المشرکین۔ من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا۔ کل حزب بما لدیھم فرحون۔ (۳۔ : ۳۱، ۳۲)

اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، ان میں سے نہ ہو جاؤ جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور خود گروہوں میں بٹ گئے۔ (اب) ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ خوش ہے۔

واعتصموابحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا۔ (۳: ۱۔ ۳)

تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں نہ بٹو۔

ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات واولٰئک لھم عذاب عظیم۔ (۳: ۱۔ ۵)

اور تم ان کی طرح نہ ہونا جو گروہوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آ جانے کے بعد اختلاف کیا اور ایسے لوگوں کیلئے زبردست عذاب ہے۔

یہ آیتیں نہایت صراحت کے ساتھ مختلف گروہوں میں بٹنے اور تقسیم ہونے سے روک رہی ہیں اور دین میں اختلاف اور گروہ بندی کو قابل عذاب جرم قرار دے رہی ہیں اسلامی نظام سیاست اپنے طریقہ کارسے لے کر مقصد تک ایک دینی معاملہ ہے لہٰذا اس میں اختلاف اور گروہ بندی بھی درحقیقت دین میں اختلاف اور گروہ بندی ہے۔ اسلام نے حبل اللہ کو صرف پکڑنے کا حکم نہیں دیا ہے کہ اسے مختلف پارٹیاں الگ الگ اپنے طور پر پکڑ لیں بلکہ اختلاف اور گروہ بندیوں سے الگ ہو کر اجتماعی اور یکجا ئی طورسے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔

پھر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب سارے ہی لوگ اسلامی نظام حکومت چاہتے ہیں اور یہ نظام حکومت اپنے طریقہ کار سے لے کر مقاصد و اغراض تک ایک ہی ہے تو پارٹی بندی کی بنیاد کیا رہ جاتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ے کہ جولوگ نقطۂ نظر طریقۂ کار اور مقاصد ہر چیز میں پورے خلوص کے ساتھ متفق ہوں وہی ایک دوسرے کو اکھاڑنے، پچھاڑنے اور گرانے کھسیٹنے کیلئے باہم دست و گریباں بھی رہیں ظاہر ہے کہ ہر چیز میں یکساں نقطۂ نظر کے باوجود اس طرح کی رسہ کشی کی صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے جسے خود غرضی اور مطلب پرستی کہا جاتا ہے اور جس کے بطن سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ چند مخصوص افراد یا طبقے کو اقتدار کی مسند سے گھسیٹ کر خود براجمان ہو جائیں۔ اس لئے آئیے دیکھیں اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے۔

ولا تنازعوا فتفشلوا تزھب ریحکم۔ (۸: ۴۶)

آپس میں رسہ کشی نہ کرو ورنہ پست ہمت ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

اور اب احادیث نبوی: سب سے پہلے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد سنئے کہ کوئی شخص اقتدار کا خواہشمند ہو تواسے بر سر اقتدار آنے دیا جائے یا نہیں، آپ کا ارشاد:

أنا واللہ لانولی علی ھذالعمل احداسألہ ولا احدا حرص علیہ وفی روایۃ قال لا نستعمل علی عملنا من ارادہ۔

(متفق علیہ)

ہم بخدا کسی ایسے آدمی کو اس عمل کا والی نہیں بناتے جو اسے مانگے یا ا سکی حرص رکھے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ہم حکومت کا کام ایسے آدمی کو نہیں سونپتے جو اسے چاہتا ہو۔

خدارا سوچئے کہ اس حدیث کی روشنی میں اسلامی نظام حکومت کے اندر ’’حزب اختلاف‘‘ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے جس کا مقصد وجود ہی یہ ہوتا ہے کہ چھین جھپٹ کر اقتدار پر قابض ہو جائے، مزید سنئے۔ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے

انہ سیکون ھنات وھنات فمن اراد ان یفرق امر ھذا الامۃ وھی جمیع فاضربوا بالسیف کا ئنا من کا ن۔ (صحیح مسلم)

دیکھو! کچھ گر بڑ اور اتھل پتھل ہو گی تو جو شخص اس امت کے معاملہ کو متفرق کرنا چاہے اور وہ یکجا ہو تو اس شخص کو تلوار سے اڑا دو چاہے وہ جو بھی ہو۔

من أتاکم وامرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم اویفرق جماعتکم فا اقتلوا۔ ( ایضا)

جو شخص تمھارے پاس آئے اور تمھارا نظام کسی ایک آدمی پر جما ہوا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ تمھارا ڈنڈا پھاڑ دے یا تمھاری جماعت کو ٹولیوں میں بانٹ دے تو تم لوگ اسے قتل کر دو۔

من بایع اماما فاعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ فلیطعہ ان استطاع فان جاء آخر ینازعہ فاضربوا عنق الآخر۔ (ایضاً)

جو شخص کسی حکمراں سے بیعت کرے اسے اپنے ہاتھ کا صفقہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے اب اگر کوئی دوسرا شخص آ کر اس سے اقتدار کیلئے نزاع کرے تو اس دوسرے کی گردن ماردو۔

اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا لآخر منھما۔ (ایضاً)

جب دو حکمرانوں کیلئے بیعت کی جائے تو اس میں دوسرے کو قتل کر دو۔

ان روایات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب ایک بار ایک شخص کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور آ جائے تو پھر اس سے اقتدار چھیننے کیلئے نزاع کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہاں اگر وہ ایسے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے کہ اسے معزول کیا جانا ضروری ہے تو یہ ایک الگ اور استثنائی مسئلہ ہے اور اس کے لئے کسی الیکشن اور حزب اختلاف کی ضرورت نہیں بلکہ یہ شوریٰ کی ذمہ داری ہے۔

کتاب وسنت کے ان واضح ارشادات کے بعد ذرا اسلامی تاریخ کا بھی جائزہ لیں کہ یہاں پارٹیوں یا حزب اختلاف کا وجود تھا یا نہیں۔

(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پورے دس سالہ مدنی دور میں صرف ایک حزب اختلاف کا وجود ملتا ہے یعنی عبداللہ بن ابی (راس المنافقین) اور اس کے رفقاء(منافقین) کی پارٹی، باقی سارے مسلمان مختلف قبیلوں میں تقسیم ہونے کے باوجود باہم شیر و شکر تھے۔

(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے انعقاد سے پہلے کے جس وقفے میں عالم سلام کا کوئی سر براہ نہ تھا اس وقفے میں سربراہی کے منصب کیلئے سر کردہ صحابہ کرام میں رجحانات ابھرے جن کی حیثیت اصحاب شوری کے تبادلۂ خیال سے زیادہ نہ تھی۔

حضرت صدیق کی خلافت کیلئے نہ کوئی الیکشن ہوا نہ امیدواروں کے درمیان مقابلہ آرائی ہوئی۔ نہ الیکشنی تگ و دو ہوئی نہ رائے دہندگان کے ووٹ گنے گئے، بس اس معاملے کی شرعی اور معقول نوعیت سامنے آئی اور سب نے صاد کر دیا، حضرت سعد بن عبادہ کو اس سے اختلاف ہوا تو خود ان کے قبیلے نے ان کے بارے میں وہ روش اختیار کی کہ وہ ملک شام جا رہے، اور تاریخی روایات کے مطابق وہیں کسی مسلمان جن کے ہاتھوں اپنی اس روش کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے بعض آل ہاشم نے کچھ کھسر پھسر کی تو حضرت عمر نے انھیں سخت دھمکی دی، حضرت علیؓ نے قدرے ملول ہو کر بیعت نہ کی تو رفتہ رفتہ ان سے لوگوں کے چہرے پھر گئے اور بالآخر معذرت کے ساتھ بیعت کی۔ ان دونوں بزرگوار سے یہ نہ ہوا کہ لاؤ حزب اختلاف کی سند سنبھال کر مسجد نبوی میں اپنی الگ کرسی لگا دیں۔ ایسا کرتے تو شاید انھیں اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا۔

(۳) حضرت عمرؓ کی خلافت کسی الیکشن بلکہ مشورے کے بغیر نامزدگی کے ذریعہ عمل میں آئی اور ان کے پورے دور خلافت میں کسی حزب اختلاف کا پتہ نہیں چلتا۔

(۴) حضرت عمر کے بعد خلافت کا فیصلہ چھ صحابہ کی نامزدگی کمیٹی کے ذمہ تھا اور حکم تھا کہ چار افراد کسی ایک پر متفق ہوں اور باقی دو اختلاف کریں تو ان کی گردن ماردی جائے اور تین تین میں بٹ جائیں تو عبداللہ بن عمر یا عبدالرحمٰن بن عوف کی تائید سے فیصلہ ہو اور باقی تین نہ مانیں تو گردن ماردو، اس کی اجازت نہیں تھی کہ انھیں حزب اختلاف کی مسند پر بیٹھا دیا جائے۔

اس چھ رکنی کمیٹی کے فیصلے کی روسے حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو ان کے پورے دور خلافت میں صرف ایک حزب اختلاف کا پتہ چلتا ہے جس کی قیادت عبداللہ بن سباکے ہاتھ میں تھی۔ اس حزب اختلاف کی حشر سامانیوں سے خلیفۂ وقت کی شہادت سمیت عالم اسلام پر جو کچھ بیتی میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص ہوش وحواس رکھتے ہوئے اپنے ملک میں اس کا اعادہ گوارا کر سکتا ہے۔

(۵) حضرت علیؓ کا دور خلافت حزب اختلاف کی کثرت اور ’’برکت‘‘ سے مالامال ہے، ایک تو حضرت عثمان کے دور اخیر کی وہی حزب اختلاف جس کا دامن خون ناحق کے چھینٹوں سے داغدار ہی نہیں بلکہ تر بتر تھا اب حضرت علی پر مسلط تھی دوسرے امیر معاویہ اور اہل شام تھے جنھوں نے ’’بے اختیار خلیفہ‘‘ کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت عثمان کے خون ناحق کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے جو کسی بھی خلیفہ کا اولین شرعی فرض تھا اور جو اس وقت با اختیار خلیفہ ہونے کی بنیادی نشانی بھی تھی۔ تیسری طرف ام المومنین حواری رسول اور اہل بصرہ تھے جو قصاص کے معاملے میں مداخلت پر بپھرے ہوئے تھے، ان اختلافات نے بصرہ اور صفین کی میدانوں میں جس ’’برکت‘ کی بارش برسائی اس کے نتیجے میں امت کا جوہر ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ششدر تھی کہ حضرت علی جو بصرہ و شام کی اتنی بڑی افواج کو سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ مقتولین کی تعداد پون لاکھ سے ایک لاکھ تک پہنچ جائے ان کے یہ آہنی ہاتھ آخر قاتلوں کی صرف دو ہزار نفری کے مقابل شل کیوں ہیں ؟ اور اس بنا پر وہ اس پورے فتنے سے دامن کش تھی۔

بعد از خرابی بسیار اس آگ کو بجھانے کیلئے تحکیم کی منزل آئی تو ایک نئی حزب اختلاف نے جنم لیا جس کی برکت سے سب سے پہلے نہروان کی زمین لالہ زار ہوئی اور جس نے صدیوں تک کلمہ گو مسلمانوں کے خون سے اپنی تلوار رنگین رکھی اور بوڑھوں اور عورتوں تک میں امتیاز گوارا نہ کیا خود حضرت علی بھی اسی حزب اختلاف کا لقمہ بنے۔

(۶) حضرت معاویہ کے دور میں ’’حزب اختلاف‘‘ کا آتشدان ٹھنڈا رہا اگرچہ زمین پر چنگاریاں موجود تھیں۔

(۷) یزید کے دور میں سب سے پہلے کوفہ نے ’’حزب اختلاف‘‘ کا رول ادا کیا اور حضرت حسین کی شخصیت کاسہارا لیا لیکن معاملے کی پوری نوعیت پر نظر ڈالنے کے بعد حضرت حسین نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کیلئے دمشق کا رخ کیا تو کوفہ کی اسی حزب اختلاف کے لیڈروں نے منھ اندھیرے ان کا سر قلم کر کے عبداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کر دیا۔

ایک اور ’’حزب اختلاف‘‘ نے مدینہ سے سر اٹھایا تو حرم کا سنگین واقعہ پیش آیا اور حرم نبوی کی بے حرمتی ہوئی ایک تیسرے حزب اختلاف نے مکہ میں قدم جمایا تو حرم کعبہ کی بے حرمتی تک نوبت پہونچی۔

اور اس کے بعد سے رہ رہ کر ’’حزب اختلاف‘‘ کی برکت سے جو فتنے ابلتے رہے انھیں کہاں تک نامزد کریں تاریخ کے صفحات میں انھیں دیکھا جا سکتا ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں پارٹی یا پارٹیوں کی گنجائش کتنی ہے اور یہ امت مسلمہ کیلئے اپنے دامن میں کیسے کیسے ثمرات رکھتی ہے۔

واللہ الموفق۔

(اپریل ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

زہر خرمنے خوشہ یافتم

 

کہا جاتا ہے کہ ’’سفر وسیلۂ ظفر ہے ‘‘۔ اس کہاوت کی سچائی یا جھوٹ کا عملی تجربہ ان لوگوں کو بار بار ہوتا ہے جو بار بار اس جہان رنگ و بو اور اس دنیائے کاخ و کو کا چکر لگاتے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی ماضی قریب میں ایک ایسا ہی مختصر سا سفر کیا۔ میری اصل منزل مقصود تو دہلی تھی لیکن ۲۔ / مارچ کی شب ضلع ایٹہ کے ایک قصبہ جلیسرمیں ایک جلسے کے لئے گزارنی تھی ارادہ تھا کہ جلسے سے فارغ ہو کر ۲۱ مارچ کی صبح پھر دہلی لوٹ جاؤں گا۔ مگر یہاں کی دنیا خاصی نرم خرام تھی۔ بمشکل ساڑھے دس بجے علی گڑھ پہنچ سکا، اور اس وقت مقصد کے لحاظ سے قدم آگے بڑھانا فضول تھا۔ اس لئے خیال ہوا کہ یہیں احباب اور بزرگوں کی مجلس میں چند گھنٹے گزار لوں اور سرشام دہلی چلا جاؤں گا مگر قدرت کی طرف سے رات بھی یہیں گزارنی مقدر تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دنیا میرے لئے برسوں سے مانوس ہے یہاں میں نے اگر چہ نہ تعلیم حاصل کی ہے نہ لمبا قیام کیا ہے لیکن کئی زیر و بم دیکھے ہیں جن کے نقوش لوح حیات پر اب بھی ثبت ہیں اور کشاں کشاں اپنی کوچہ گردی پر مجبور کر دیتے ہیں شہر کی ہماہمی سے نکل کر یونیورسٹی کے حدود میں قدم رکھا تو حسب معمول ایسا محسوس ہواکہ زندگی کے سارے ہنگامے تھم گئے ہیں اور ’’فراغتے وکتابے وگوشۂ چمنے ‘‘کا سماں ہے۔ پہلی منزل، ادارہ تحقیقات اسلامی تھی مولانا جلال الدین انصر عمری حفظہ اللہ سے کوئی پانچ برس قبل ایک بار غالباً لالٹین کی روشنی میں مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ اب اتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی تو پہلی نظر میں پہچان نہ سکا، پھر وہیں عزیز گرامی محمد سعود عالم قاسمی اور مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحبان سے بھی ملاقات ہوئی، یہاں سے فرصت پا کر مولانا محمد تقی امینی (ناظم سنی دینیات علی گڑھ یونیورسٹی) کی خدمت میں جانے کا ارادہ تھا اور یقین تھا کہ اس وقت وہ اپنے دفتر میں ملیں گے۔ مگر چند ہی لمحوں بعد صحن میں ان کی مانوس آواز سنائی پڑی۔ میں نے نکل کر سلام کیا تو بے ساختہ ملاقات کا ہنگامہ مسرت مچ گیا، پھر کیا تھا، مولانا عمری صاحب کے پاس دلچسپ محفل جمی بعد میں مولانا امینی صاحب کے ساتھ ان کے دولت کدے پر دوپہر کا کھانا کھا کر دیر تک تبادلۂ خیالات کرتا رہا۔ دو بجے ہم دونوں نے اپنی اپنی منزل ی راہ لی مولانا اپنے دفتر تشریف لے گئے اور میں اپنے دیرینہ رفیق جناب عبد المنان صاحب کے پاس سمن زار جامعہ اردو روڈ پہونچا۔ رات یہیں بسرکرنے کی نوبت آئی۔ ایم ایم ہال (محسن الملک مہدی علی خان ہال) کی مسجد سے نماز عشاء پڑھ کر نکلتے ہوئے محترم ڈاکٹر محمد معین صاحب فاروقی سے ملاقات ہو گئی موصوف سائنسی علوم میں اپنی مہارت کے لئے خاصا شہرہ رکھتے ہیں اور مسلکاً اہلحدیث ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد(پاکستان)میں سائنس اور اسلام کے موضوع پر جو بین الاقوامی اجتماع ہوا تھا اور جس میں عالم اسلام کو سائنسی حیثیت سے بقیہ دینا کے ہم پلہ بنانے کے لئے نہایت وسیع مربوط اور طویل المیعاد منصوبے اور خاکے سوچے اور تیار کئے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف صرف یہی نہیں کہ اس میں تشریف لے گئے تھے۔ بلکہ قرآن اور سائنس کے موضوع پر اتنا وقیع مقالہ پیش کیا تھا کہ وہاں پر تبصرہ کرنے والے نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان سائنسی علوم کے میدان میں پاکستان سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ موصوف سے کچھ ’’اجالے ‘‘ اور کچھ ’’اندھیرے ‘‘ میں دیر تک اظہار خیال ہوتا رہا اور کئی موضوع زیر گفتگو آئے۔ ان سطور کا مقصود روداد سفر نہیں بلکہ ان ہی گفتگوؤں کے بعض حصے ہیں۔

 

                ’’ تنظیمات کا المیہ‘‘ پر گفتگو

 

یاد ہو گا کہ محدث فروری ۱۹۸۴ء کے شمارے میں ہم نے جو اداریہ سپرد قلم کیا تھا اس کا عنوان تھا ’’تنظیمات کا المیہ‘‘ اس ادارئیے میں مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت اور ہیئت کے متعلق اسلام کے جو احکامات ہیں اور تنظیمات اور جمعیتوں کی رقیبانہ کشاکش نے اس کی بجائے باہمی تعلقات کی جو ناگوار صورت برپا کر رکھی ہے ہم نے ان دونوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مخلصین امت سے گزارش کی تھی کہ اس کے علاج کی تدبیر سوچیں۔ مولانا امینی نے اس اداریے پر کھل کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ انھوں نے شاید حوصلہ افزائی کے لئے۔ اس حد تک سراہاکہ ندامت سی محسوس ہونے لگی، دوسرے رفقاء کی ملاقاتوں سے بھی اندازہ ہوا کہ انھوں نے اس آواز کو وقت کی اہم اور ضروری آواز سمجھا ہے۔ اور عام مسلمانوں کے علاوہ اسلام پسند مفکرین اور دانشوروں نے بھی اسے بروقت آواز قرار دیا ہے۔

یہ بات اگرچہ ہمارے لئے بڑی اطمینان بخش ہے کہ جومسلمان امت کی وحدت اور فلاح کی باتیں سوچتے ہیں انہوں نے اس کلمۂ حق کوبڑی فراخدلی کے ساتھ اپنے ذہن بلکہ دل میں جگہ دی۔ تاہم کچھ دوسرے مقامات اور افراد کی جانب سے ایک دوسرا ہی رد عمل سامنے آیا۔ جو افسوسناک اگرچہ ہے لیکن حیرت ناک نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے جو کچھ کہا تھا ٹھیک اسی کی تصدیق ہے کہ اسلام پر تنقید اور قرآن ورسول کی توہین پر رگ حمیت کچھ زیادہ نہیں پھڑکتی مگر اپنی تنظیم کے قائد و رہنما پر یا اراکین و متعلقین پریا اصول و ضوابط پر ہلکی سی تنقید بھی ہو جائے تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس پر بڑی سخت لے دے مچائی۔ بعض مجالس میں زبانی کشتیاں ہوئیں اور بعض حضرات نے نہایت بھونڈے انداز میں طنز و تعریض کے تیر و نشتر استعمال کئے اور دل کھول کر ناوک فگنی کی۔ البتہ سنجیدہ اور معقول اندازسے کسی نے اس کی تردید کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ان حضرات سے ہماری گزارش ہے کہ ایک مرتبہ آپ پھر ان آیات و احادیث پر نظر ڈالئے جس میں اسلامی رشتۂ اخوت کی پختگی اور اہمیت مختلف انداز سے سمجھائی گئی ہے اور غور فرمائیے کہ ان اسلامی احکام و ہدایات کے سلسلہ میں آپ کس جگہ کھڑے ہیں اور کیا آپ کا طرز عمل اس حقیقت کا شاہد عدل نہیں ہے کہ آپ نے تنظیمی حد بندیوں کے سبب بہت سی ایسی باتیں اپنے لئے روا رکھی ہیں بلکہ لازم کر لی ہیں جسکا جواز اسلامی ہدایات کے اندر کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر اسے تنظیمات کا المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ جو تنظیمات خدمت اسلام کے مقصد سے – یا کم از کم اسی مقصد کا اظہار کر کے وجود میں لائی گئی تھیں یہی تنظیمات عین اس مقصد کے بر عکس نتیجہ دے رہی ہیں اور اسلام کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کی مرمت بھی کر رہی ہیں۔

مجھے اس بات کا قطعی اعتراف ہے کہ امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے ان کے پیش نظر کسی فقہی فرقے یا تنظیمی جمعیت کا محض وجود قابل ملامت نہیں گردانا جا سکتا، مگر اگر یہ وجود کتاب وسنت کی خدمت کے بجائے امت کے افتراق و انتشار اور انارکی و ابتری کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونکنے کا ذریعہ بن جائے تو بتائیے کہ اسے کیونکرپسندیدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں نے جو کچھ عرض کیا تھا اس کا منشاء یہی تھا کہ ہمیں موجودہ انتشار کی آگ پر تیل ڈالنے کے بجائے پانی ڈالنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔   واللہ ولی التوفیق۔

 

                اسلام، سائنس اور مسائل جدیدہ

 

محترم ڈاکٹر معین فاروقی صاحب سے گفتگو کا موضوع زیادہ تر ان کا اپنا فن تھا یعنی موجودہ سائنسی تحقیقات و اکتشافات نے قرآن و حدیث کے بہت سے بیانات کی جس طرح تصدیق کی ہے بلکہ اس کے خدائی اور الہامی احکامات اور فقروں کے اندر پوشیدہ دنیائے اسرار و رموز کو سائنس نے جس طرح واشگاف کیا ہے وہ ہمارے مطالعے کی خاص مستحق ہے۔ اس سے صرف یہی نہیں کہ ایمان و یقین کی دنیا میں تازگی و بالیدگی اور بہار آتی ہے اور عزائم کو غذا ملتی ہے بلکہ اسے غیر مسلم اہل فکر و تحقیق کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لئے ایک اہم بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں اصل مشکل کا اظہار بڑے لطیف انداز میں کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ابتدا ہی سے اس معاملے میں سب سے بڑی دشواری یہ رہی ہے کہ آپ لوگ (علماء) جو زبان بولتے ہیں اسے ہم نہیں سمجھتے اور ہم جو زبان بولتے ہیں اسے آپ نہیں سمجھتے۔ چاہئے یہ کہ علماء اور جدید علوم کے ماہرین میں تقارب اور تبادلۂ افکار و معلومات ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں شاہ عبدالقادر کے ترجمے کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچا جس میں ذکر ہے کہ اللہ خون اور گوبر کے درمیان سے دودھ نکالتا ہے تومیں رک گیا کہ اس میں تو ایک بڑی سائنسی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید بند کر دیا اور دوران خون، ہضم غذا اور دودھ کی پیدائش کے نظام کی جو تفصیلی تحقیقات سائنس نے کی ہیں ان کا مطالعہ شروع کر دیا ان دونوں کے تقابل سے جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ اس بات پر قناعت کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن قطعاً الہامی کتاب ہے یہ چودہ سو برس پرانے کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا کہ اس وقت کسی کی رسائی میں وہ حقائق تھے ہی نہیں جو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے حسرت کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس سائنس کی جو تفصیلات ہیں اس کی بابت ہمیں یہ علم نہیں کہ قرآن و احادیث میں کیا ہے۔ اور جنھیں قرآن و احادیث کا علم ہے انھیں اس کی خبر نہیں کہ سائنسی تحقیقات کیا ہیں۔ اگر دونوں فریق مل کر کام کریں تو ایک جامع خاکہ تیار ہو سکتا ہے۔

انھوں نے اس کے لئے بطور نمونہ فرانسیسی محقق موریس بکائی کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس کا حوالہ دیا اور اس کے مطالعے کی ترغیب دلائی۔ ہمیں خوشی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس میدان میں افادے کے لئے تیار ہیں اور ہم بھی حسب مقدور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے مستعد ہیں۔ خدا کرے ہماری یہ آرزو وجود کا جامہ پہن سکے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر اس بات پر بھی زور دیا کہ گروہ بندیوں سے الگ ہو کر بے لاگ تحقیق کے ساتھ اسلامی شریعت کے مسائل کا جواب خالص کتاب وسنت کی روشنی میں دیا جائے تو یہ اسلام کی صحیح خدمت ہونے کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ بہت ساری پیچیدگیوں کا نہایت صحیح حل بھی ہو گا۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے ایک اور محترم جناب عبد اللطیف صاحب اعظمی کا بھی ایک اہم گرامی نامہ دستیاب ہوا ہے۔ موصوف جامعہ ملیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہنامہ جامعہ اور سہ ماہی ’’اسلام اور عصر جدید‘‘ میں اپنی خصوصی حیثیت اور اپنے بہت سے اوصاف اور خوبیوں کی وجہ سے ہندوپاکستان کے علمی حلقوں میں اچھی طرح متعارف ہیں۔ خط و کتابت کی بنیاد ایک استفتاء تھا جس کا تعلق پوتے کی میراث سے تھا۔ موصوف نے اپنے موجودہ مکتوب میں مسلم پرسنل لا اور متبنیٰ بل کے سلسلے میں بعض اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ محدث جنوری ۱۹۸۴ء کا حوالہ دیتے ہوئے رقم فرمایا کہ۔

مجھے آپ کا یہ اصول یا موقف پسند آیا کہ : امت مسلمہ کی گروہ بندیوں سے علیٰحدہ اور بالاتر ہو کر خالص اسلامی تعلیم پیش کرے اور اسلام کے اصل سرچشموں یعنی کتاب وسنت سے عقائد و احکام کے سلسلے میں جو کچھ ثابت ہے اسے وضاحت اور ثبوت کے ساتھ کسی فرقہ جماعت یا فرقے کی جانبداری کے بغیر پیش کر دے۔     (ص ۱۸)

اس کے بعد موصوف رقمطراز ہیں :

’’مجھے معلوم نہیں آپ مسلمانوں کے جدید مسائل کے بارے میں اسلام کی روشنی میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام پر اسلام کے نام پر جو مواد پیش کیا جا رہا ہے اس سے جدید تعلیم یافتہ اور مسلمانوں کا با شعور طبقہ مطمئن نہیں ہے ضرورت ہے کہ موجودہ ضروریات اور حالات کے پیش نظر پوری غیر جانبداری کے ساتھ اسلام کے اصل سرچشموں کی مددسے ان مسائل پر روشنی ڈالی جائے اس میں شبہ نہیں کہ یہ کام خاصا مشکل ہے۔ لیکن اگر ماہنامہ محدث یہ کام انجام دینے کی کوشش کرے تو میرے خیال میں اسلام اور ہندوستانی مسلمان دونوں کی بڑی خدمت ہو گی۔ ‘‘

(اقتباس از مکتوب ۲۹/مارچ ۱۹۸۴ء)

جہاں تک اس تجویز کا تعلق ہے اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک مفید اور بابرکت تجویز ہے لیکن اس راہ میں اصل دشواری وہی ہے جس کا ذکر اوپر چکا ہے یعنی ماہرین شریعت اور موجود ہ مسائل کی پیچیدگیوں کے واقف کار ایک دوسرے کی زبان سے ناآشنا ہیں۔ اس لئے فریقین کے باہمی تبادلۂ افکار اور بحث و تنقیح کے بغیر اصل مقصد کے سلسلے میں کوئی مفید اور تسلی بخش پیش رفت مشکل ہے ہم دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے علماء اور دانشور مل کر یہ کار خیر انجام دیں۔ محدث کے صفحات اس کے لئے حاضر ہیں۔

(مئی ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

 

عبادت یا کھلواڑ

 

رمضان کا مہینہ آتا ہے تو اپنے دامن میں خیر و برکت اور سعادت و خوش نصیبی کے ذخیرے لاتا ہے، لوگوں کے برے جذبات و عزائم سردپڑ جاتے ہیں۔ جو لوگ سال بھر عبادت سے غافل رہتے ہیں وہ اس مہینے میں عبادت میں لگ جاتے ہیں اور جو ہمیشہ عبادت کرتے رہتے ہیں اس مہینے میں ان کا جذبۂ عبادت کچھ اور ہی تیز ہو جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں عبادتوں کا درجہ و مقام اور اجر و ثواب بھی بقیہ مہینوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے یہ مہینہ خیر و برکت سے مالامال ہونے کیلئے ایک بہت ہی غنیمت موقع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی برکتوں سے محرومی بڑی عبرتناک ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مہینے کے آخری دس دنوں کو مزید خصوصی اہمیت دی ہے آپ آخری عشرہ آتے ہی کمر کس کر تیار ہو جاتے، پوری پوری رات عبادت میں گزار تے اور اہل و عیال کو بھی بیدار رکھنے کا اہتمام فرماتے اسی آخری عشرے کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک سال تین روز رات کی نماز جماعت سے پڑھائی اور پھر اس اندیشے سے جماعت بند کر دی کہ کہیں یہ نماز فرض نہ کر دی جائے اور پھر یہ مسلمانوں پر ایک ناقابل برداشت بوجھ نہ بن جائے۔ اسی آخری عشرے کی ایک طاق رات لیلۃ القدر ہوا کرتی ہے جس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے افضل ہے اور جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ومن قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔  (متفق علیہ)

جو رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے (نماز تراویح پڑھے ) اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے (نماز تراویح پڑھے ) اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

اس ترغیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے رمضان میں عموماً اور لیلۃ القدر میں خصوصاً ہمیشہ تراویح اور عبادت کا خاص اہتمام کیا لیکن امت کا یہ بڑا دردناک المیہ ہے کہ جس طرح اور اسلامی کاموں کی روح نکل گئی رسم باقی رہی، مغز جاتا رہا اور چھلکا باقی رہا (جس کی تزئین و آرائش کا اتنا اہتمام کیا گیا کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہو جائیں ) اسی طرح رمضان کے آخری عشرے اور لیلۃ القدر کی عبادتوں کی روح بھی نکل گئی۔ اور جو کچھ باقی رہا وہ محض بے جان چھلکا ہے

سب لوگ جانتے ہیں کہ عبادت میں اور خصوصاً نماز میں بندے اور اللہ کے درمیان ایک خصوصی ربط ہوتا ہے، بندہ اپنی روح بلکہ پورے وجود کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات سے بالکل بے نیاز اور بے تعلق ہو کر اللہ سے سرگوشیاں کرتا ہے اور عجز و نیاز کے ساتھ اپنی دنیوی اور اخروی حاجات پیش کر کے دونوں جگہ کے خیر کا طالب ہوتا ہے یہ کیفیت صرف یہی نہیں کہ یکسوئی چاہتی ہے بلکہ ایسی تنہائی بھی چاہتی ہے کہ اس میں نہ کوئی مخل ہو سکے نہ کسی کو اس کا علم ہو سکے۔

اگر چہ بعض مصالح کے پیش نظر اس تنہائی کو شرعاً لازم نہیں قرار دیا گیا ہے تاہم پسندیدہ ضرور گردانا گیا ہے اور سارے علائق دنیاسے کٹ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں یکسوئی تو بہر حال لازمی قرار دی گئی ہے، اس یکسوئی میں خیالات اور وسوسوں ہی کے ذریعہ سہی جس قدر خلل ہو گا عبادت اتنی ہی ناقص ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ عبادت کو نمائش اور ریاکاری سے آلودہ کرنا سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ ایسی عبادت کو اللہ تعالیٰ رد کر دے گا۔

 

                یہ شبینے ؟

 

ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر ذرا اس دھوم دھام پر نظر ڈالئے جو ہرسال ماہ رمضان میں عبادت کے نام پر بہت سے شہروں میں کی جاتی ہے۔ آخری دس دنوں کی کسی ایک رات کو …عموماً ستائیسویں رات کو…پورا قرآن ختم کرنے کے لئے شبینہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اب بعض لوگ ایک رات کے بجائے دو رات میں ختم قرآن کا پروگرام رکھ کر اسے شبینہ کے ہم قافیہ ایک دوسرے نام ’’دودینہ‘‘ سے موسوم کرتے ہیں ان شبینوں اور دو دینوں میں جو پیچ در پیچ خرافات ہوتی ہیں وہ ہر سنجیدہ مسلمان کے لئے لائق عبرت ہیں۔

ان شبینوں کے لئے حفاظ کی ٹولیاں فراہم کی جاتی ہیں جو باری باری اپنے مقررہ حصۂ قرآن کے ساتھ تراویح پڑھاتے ہیں اور عموماً اس قدر تیز رفتاری سے قرآن پڑھتے ہیں کہ آیات کا درمیانی حصہ تو درکنار آخری الفاظ یعنی یعلمون تعلمون وغیرہ کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ایک تو ایک رات میں پورا قرآن پڑھنا ہی ناپسندیدہ ہے پھر اس کے لئے جو رفتار اختیار کی جاتی ہے وہ انتہائی ناپسندیدہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے آ کر کہا کہ میں ایک رکعت میں پورا مفصل پڑھ ڈالتا ہوں، انھوں نے کہا:

اھذا کھذالشعرونثراکنثرا الدقل(سنن ابی داؤد ص ۱۹۸)کیا شعر جیسی تیز رفتاری سے کھینچتے ہو اور اس طرح بھربھراتے ہو جیسے ردی کھجور (درخت ہلانے پر) بھربھرا کر گرتی ہے اس کے بعد آپ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کی مقدار اور رفتار کیا تھی۔

ان شبینوں میں یہ حال تو اماموں کا ہوتا ہے۔ مقتدیوں کی کیفیت یہ رہتی ہے کہ پورا ایک جھرمٹ جمع ہو جاتا ہے جن میں سے عموماً صرف چند افراد امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں بقیہ لوگ بیٹھے گپ ہانکتے رہتے ہیں کہیں چائے پک رہی ہوتی ہے اور کہیں بریانی کی دیگ چڑھی ہوتی ہے کہیں مسجد کے گوشے ہی میں یا اس سے متصل باہر حقے، سگریٹ اور بیڑی کا دور چل رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اکثریت کی ساری عبادت تو چائے بریانی اور حقے سگریٹ کے گرد سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ باقی چند افراد جو شریک نماز رہتے ہیں ان کی بھی ساری یکسوئی اور خشوع و خضوع درہم برہم رہتا ہے بس محض رسم کی پابندی اور رکھ رکھاؤ میں قیام و رکوع وسجود کی مشقت برداشت کرتے ہیں کہیں یہ لطیف کارستانی بھی ہوتی ہے کہ امام تنہا نماز پڑھتا اور قرأت کرتا ہے اس کے ساتھ طے رہتا ہے کہ جب صرف چند آیات باقی رہیں تو تیز رفتار دھیمی کر دے۔ مقتدی پیچھے بیٹھے رہتے ہیں رفتار دھیمی ہوتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب اسٹیشن قریب ہے لہٰذا نماز میں جا شامل ہوتے ہیں اور اتنے میں امام رکوع میں چلا جاتا ہے۔ پھر دوسری رکعت ہلکی پڑھی جاتی ہے اس طرح یہ شب بیدار عبادت گزار حضرات مشقت سے بچ جاتے ہیں۔

ان سب پر مستزاد یہ ہے کہ اب بے پناہ قمقموں اور بلب کا اہتمام کر کے مسجدوں کو چراغاں کیا جاتا ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی کرخت آواز پر قرآن کی تلاوت اس طرح کی جاتی ہے کہ دو دو تین تین میل تک سنائی پڑتی ہے رات بھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جو شخص چند لمحوں کے لئے سونا بھی چاہے سونہیں سکتا، جسے پاخانے پیشاب کی حاجت ہے وہ مجبور ہے کہ تلاوت سنتارہے اور حاجت پوری کرتا رہے جو بیمار ہے وہ زچ ہو کر کروٹیں بدلتا رہے اور تلملاتا رہے۔ غرض یہ تلاوت قرآن کو پرکشش بنانے کے بجائے گوناگوں اذیتوں کا سبب بن کر قرآن سے اکتاہٹ اور اس کی بے حرمتی کا سبب بنتی ہے پھر تلاوت کے لئے آواز کی یہ مقدار ان خرابیوں کے علاوہ سنت نبوی کے بھی خلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کا حال یوں بیان کرتے ہیں

کان قراء ۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم علی قدر مایسمعہ من فی الحجرۃ وھوفی البیت۔ (ابوداؤد)

( باب رفع الصوت بالقرأۃ ۱۳۲۷)

یعنی آپ کی قرأت کی مقدار اتنی ہوتی تھی کہ آپ گھر میں قرأت کر رہے ہوں تو بیٹھک میں موجود آدمی سن سکے۔

ولاتجھر بصلوٰتک ولاتخافت بھا وابتغ بین ذالک سبیلا۔

آپ اپنی نماز (یعنی قرأت) کے ساتھ آواز بہت بلند نہ کریں اور بالکل پست بھی نہ کریں اور ان دونوں کے درمیان راستہ تلاش کریں (یعنی درمیانی آواز سے قرأت کریں، نہ بہت بلند نہ بالکل دھیمی )

یہ کتنی المناک بات ہے کہ قرآن کی تلاوت میں خود قرآن کی ہدایت اور صاحب قرآن کے اسوہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے پھر بھی خوش فہمی یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اور اسلام کی سربلندی کا کام کیا جا رہا ہے یاد رہے کہ اسلام ایک بڑاسنجیدہ اور حقیقت پسند دین ہے اور عبادت خشوع و خضوع اور رب سے سرگوشی و مناجات کی کیفیت چاہتی ہے۔ دھوم دھام، ہاؤ ہو، کھانے پینے کے ہنگامے اور جشن کے رج گج کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ ہنگامے اور کھلواڑ اس رات میں آنے والی برکت سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لئے ان مبارک راتوں کو اس طرح ضائع نہ ہونے دیجئے۔

ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی بیجا نہ ہو گا کہ مسجدوں میں چراغاں کرنے کا رواج کوئی اسلامی رواج نہیں ہے بلکہ ی بڑی خطرناک اور اسلام دشمن سازش کی یادگار ہے اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ مجوسی النسل آتش پرست ایرانیوں نے اسلام کے سیل رواں کے آگے جب بے دست و پا ہو کر اسلام قبول کیا تو ان میں اونچے اور بڑے لوگوں کی ایک خاصی تعداد ایسی تھی جس نے اگرچہ بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا مگر وہ درپردہ اپنے اصل آبائی دین کی دلدادہ تھی۔ ان لوگوں نے اپنی چرب دستی اور چابک دماغی سے دربار خلافت میں اثر ورسوخ حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ آگ کی تعظیم اور اس کی پوجا کا کھلم کھلا مظاہرہ تو نہ کر سکتے تھے مگر اس مقصد کے لئے اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر یہ چور دروازہ پیدا کیا کہ شب قدر یا برأت میں خوب چراغاں کیا جائے۔ اس سے بظاہر شب قدر کی اہمیت کا اظہار مقصود تھا مگر درحقیقت یہ آگ کی تعظیم اور پوجا کا ایک پس پردہ حیلہ تھا۔ اسی لئے اصل حقیقت کھل جانے پریہ بھی فارسیوں کے زوال کا ایک سبب بنا۔ پس ہمیں اس میں ملوث ہونے کے بجائے اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔

(جون۔ جولائی ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ۔۔ پھر تمھارے دل سخت ہو گئے

 

بمبئی، بھیونڈی اور اس کے اطراف و نواح میں جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اس کے مختلف گوشوں پر اس قدر روشنی ڈالی جاچکی ہے کہ ہمیں کچھ کہنے اور لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہنگامہ وفساد کی اس خونیں لہر سے صرف اسی علاقے کے لوگ متأثر نہیں ہوئے بلکہ ہمارے علاقے مشرقی یوپی میں بھی بستی بستی کہرام مچا ہوا تھا، کیونکہ مہاراشٹر کے ان علاقوں میں ہمارے اس نواح کے بیشمار افراد رہ رہے تھے اور پے در پے تشویشناک خبریں چلی آ رہی تھیں۔

اس فساد…بلکہ سارے ہی فسادات… کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر مسلمان عموماً توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ توجہ کرنے کا اصل پہلو یہی ہے۔ ہمارا اور سارے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اس کائنات کا ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا جب تک کہ پروردگار عالم کی طر ف سے اسے ہلنے کا اذن اور حکم نہ مل جائے، اس لئے ہم پر جو افتاد پڑتی ہے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور قضا و قدر کے تحت پڑتی ہے۔ اس کا ارشاد ہے قل لن یصیبنا الاماکتب اللہ لنا۔ (اے پیغمبر) آپ کہہ دیں کہ ہم پر ہر گز کوئی آفت نہیں آ سکتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے … اور اللہ جو کچھ کرتا ہے اور جو فیصلہ صادر فرماتا ہے وہ عین عدل و انصاف ہوا کرتا ہے۔ اس میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خود فرماتا ہے وما انابظلام للعبید۔ (میں۔ اللہ ) بندوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔

اس اعتبار سے ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اگر چہ کرنے والوں کے تعلق سے ظلم ہے اور اس پر یقیناً اس سے مواخذہ اور باز پرس ہونی چاہئے لیکن قانون قدرت کے جامع اور وسیع دائرے میں اسے ظلم سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، پھر آخر کیا ہے ؟ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے فرما دی ہے جو لوگ واقعی ایمان و عمل صالح کی صفات سے آراستہ ہیں ان کے لئے یہ ایک آزمائش ہے جس سے اس بات کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ یہ لوگ واقعۃً اللہ کے بندے ہیں، ان کے ظاہری اطوار و آداب محض بناوٹ نہیں ہیں بلکہ عقیدے کی گہرائیوں سے پھوٹے ہیں۔ پھر اس آزمائش میں ثابت قدم رہنے کا صلہ انھیں اس طرح مل جائے گا کہ تلافی مافات ہی نہیں بلکہ اصل استحقاق سے بڑھ کر ہو گا۔ ارشاد ہے:

ولنبلونکم بشیِ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین۔

اور ہم یقیناً تمھاری آزمائش کریں گے کچھ خطرات اور بھوک سے اور جان و مال اور پھلوں کی کمی سے اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری سنادو۔

ان کے برعکس جو لوگ صاحب ایمان نہیں ہیں یا ضعیف الایمان ہیں اور عملاً فسق و فجور اور بد عملی و فحش کاری میں مبتلا ہیں اس طرح کے واقعات ان کے لئے ایک طرح کی غیبی تنبیہ ہیں ان کو اشارۃً یا خدائی زبان میں سمجھایاجا رہا ہے کہ سنبھل جاؤ، صحیح راستہ پر آ جاؤ اللہ کے تابعدار اور مخلص بندے بن جاؤ ورنہ ابھی جو کچھ تمھارے سامنے آیا ہے وہ بہت معمولی اور مختصر ہے آگے جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ اتنا سنگین ہے کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ارشاد ہے :

ولنذیقنھم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون۔ (حم سجدہ ۲۱)

ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذین عملوا لعلھم یرجعون۔ (الروم:۴۱)

اور ہم یقیناً فاسقوں کو عذاب اکبر کے بجائے معمولی یا قریب ترین عذاب چکھائیں گے تاکہ وہ باز آ جائیں۔

لوگوں کے ہاتھوں نے جو جو حرکتیں کی ان کی وجہ سے بحر و بر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اس کے کچھ نتائج اللہ تعالیٰ انھیں چکھا دے ہو سکتا ہے کہ وہ باز آ جائیں۔

یعنی فسق و فجور اور بد عملی کی حالت میں جو افتاد پڑتی ہے وہ خدائی گرفت ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ یہ تنبیہ مقصود ہوتی ہے کہ راست بازی اور سلامت روی کا راستہ پکڑ لو۔

اس وقت اسلامی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی جو عملی کیفیت ہے وہ محتاج بیان نہیں، مسلمان سماج میں یقیناً بہت سے امتیازی خوبیاں باقی ہیں جس میں کوئی دوسرا سماج ان کا شریک وسہیم نہیں لیکن یہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہیں، غلبہ اور کثرت فسق و فجور کو حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ہماری بہت سی خوبیاں دوسروں نے اپنا لیں اور ہم ان سے تہی دست ہو گئے۔ اور دوسروں کی بہت سی برائیاں ہم نے اپنا لیں اور ان سے آگے نکل گئے ان حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے قدرت کی طرف آزمائش کے بجائے تنبیہ ہی کہا جا سکتا ہے اس تنبیہ کا تقاضا یہ تھا کہ ہم سنبھل جاتے اور اپنے آپ کو درست کر لیتے لیکن یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ ہم نے اس افتاد پر آہ و بکا اور سینہ کوبی توکی، چیخ پکار تو مچائی لیکن وہ کام نہ کیا جو کرنے کا تھا۔ یعنی اللہ کی طرف نہیں جھکے، اس کے آستانے پر سر نہیں پٹکا، اس سے مدد نہیں مانگی، اس کے سامنے ظلم و بربریت کے خلاف فریادی نہیں بنے، اور جب تک یہ نہ کریں گے ہمارے مرض کا علاج نہیں ہو گا، اللہ نے اس علاج کے دو پہلو رکھے ہیں اور دونوں میں سے کسی سے بھی ہم غفلت برتیں گے تو ظلم و تشدد کا شکار بننے سے نہ بچ سکیں گے۔

ایک پہلو یہ ہے کہ ہم اللہ سے صحیح تعلق استوار کریں اور اس کے سچے اور نیک بندے بن کر رہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے دفاع اور بچاؤ کے لئے پوری طرح تیار رہیں اور اس میں کسی بھی وقت کسی بھی طرح کا خلل نہ آنے دیں اس کے بعد ان شا ء اللہ حالات مکمل طور پر ہمارے حق میں ہوں گے۔ ورنہ وہی ہو گا جس کی نظیریں ہم سے پہلے خود ہماری تاریخ کے پچھلے دور میں بھی گزر چکی ہیں۔

زیب عنوان آیت کا ٹکڑا بنواسرائیل کے اسی طرح کے حالات کا نتیجہ بیان کرتا ہے ان پر اللہ تعالیٰ نے احسان و انعام بھی کیا، انھیں معجزات و نشانات بھی دکھلائے، ظلم و تشدد کے پنجے سے آزادی بھی بخشی، پھر انھیں ان کی غلط حرکتوں پر تنبیہ کے لیئے مختلف حوادث سے دوچار بھی کیا لیکن ان کی عملی حالت یہ رہی کہ جس برائی میں ملوث ہوئے ملوث ہی رہے۔ اپنی اصلاح نہ کی، نہ خدائی انعامات کے نتیجے میں شکر کے جذبات پیدا ہوئے۔ نہ خدائی گرفت اور تنبیہ پر توبہ و انابت کا ظہور ہوا۔ دل کی یہی سختی اور بے حسی تھی جس کی طرف اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اور جس کی وجہ سے ان پر قیامت تک کے لئے ذلت ومسکنت کی مار پڑی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی وہیں کھڑے ہونا چاہتے ہیں جہاں بنو اسرائیل کھڑے تھے۔ ؟

(اگست ۱۹۸۴ء)

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید