FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

پاک سرزمین پر

 

 

 

 

                صفی الرحمٰن مبارکپوری

 

ماخوذ از ’مولانا صفی الرحمٰن کی سنہری تحریریں‘ مرتبہ ساجد اسید ندوی

 

 

 

 

 

عرصہ سے خیال ہو رہا تھا کہ پاکستان کا سفر کروں، دوستوں، عزیزوں اور واقف کاروں کا بھی یہی مشورہ تھا۔ بالآخر خیال نے ارادے اور عزم کا جامہ پہنا، اور عید الاضحی سے ذرا پہلے دہلی جانا پڑا توپاکستانی سفارت خانے کو ویزا کی درخواست دے دی۔ یہ درخواست کئی پر پیچ مراحل سے گزر کر بقر عید بعد منظور ہوئی اور اس کی اطلاع مجھے اس وقت ملی جب جامعہ میں تعطیل عید الاضحی کے بعد تعلیم کاسلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ تعلیم کوسفر کی نذر کرنا گوارا نہ ہوا۔ لہٰذا ششماہی امتحان کی آمد کا منتظر رہا، امتحان کی تیاری کے لئے طلبہ کے اسباق بند ہوئے تو مؤناتھ بھنجن کی ’’ائمۂ مسجد کانفرنس‘‘منعقد ہو رہی تھی، اس سے فارغ ہوتے ہی روانگی کا ارادہ تھا۔ مگر ’’محدث‘‘ کے عملہ کی نوازشوں سے دامن چھڑاتے چھڑاتے ششماہی امتحان بھی خاتمے کو جا پہونچا۔ صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا کہ ۲۷/نومبر کو رخت سفر باندھا۔ ۲۸/ نومبر کی صبح دہلی پہونچتے ہی ضابطہ کی کارروائیوں اور ضروری ملاقاتوں میں مصروف ہو گیا۔ اور شام تک ان سے سے فارغ ہو کر سوا آٹھ بجے رات کی ٹرین سے امرتسر روانہ ہوا۔ میرے کیبن میں تین مسافر اور تھے انھیں باتوں باتوں میں معلوم ہو گیا کہ میری آخری منزل پاکستان ہے۔ ایک صاحب نے جو چہرے بشرے سے آفیسر معلوم ہو رہے تھے از راہ افرازش فرمایا کہ اگر کوئی مشکل درپیش ہو تو مجھے بتائیں۔ میں نے ضابطہ کی بعض پیچیدگیوں کا ذکر کیا تو انھوں نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا اگر سرحد پر کوئی پیچیدگی پیش آئے تو سپرنٹنڈنٹ آفیسر کو میرا حوالہ دے دیں، چند منٹ میں سارا کام ہو جائے گا۔ یا پھر آپ میرا انتظار کریں میں بھی کوئی گیارہ بجے سر حد آ رہا ہوں، مزید گفتگو سے معلوم ہوا کہ موصوف سرحدی امورسے متعلق کسی اہم منصب پر فائز ہیں۔ میں نے موقع غنیمت جان کر ان سے تعارفی کارڈ مانگ لیا اور انھوں نے علی الصباح عنایت کر دیا۔

ساڑھے چھ بجے امرتسر اتر کر کچھ دیر بعد ایک مخدوش بس کے ذریعہ سرحد کی طرف روانگی ہوئی۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد ہم اٹاری میں ہندوستان کی آخری حدود پر نازل ہوئے۔ جہاں سے پاکستان کا پرچم ’’ستارۂ و ہلال‘‘ دکھائی پڑ رہا تھا۔ ابھی امیگریشن حکام تشریف نہیں لائے تھے۔ صرف چند مسافرتھے۔ اور ہسٹنڈے مسٹنڈے قلیوں کا غول دھما چوکڑی مچاتا ہوا پھر رہا تھا، پھر لمحہ بہ لمحہ عازمین پاکستان آتے چلے گئے۔ سڑک کے دائیں کنارے زمین پر ایک بنچ بچھی تھی۔ اور اس کے سامنے کاؤنٹر پر لکھا تھا ’’یہاں پاکستانی روپئے تبدیل کئے جاتے ہیں ‘‘اس سرکاری ’’ایکسیچنج پر ‘‘چند خوش پوش نمودار ہوئے جو براجمان ہونے کے بجائے بائیں کنارے پرموجودمسافروں کے درمیان آ کر تحکمانہ لہجے میں گویا ہوئے۔ پاسپورٹ دکھاؤ، روپئے بدلو عام مسافروں نے اسے سرکاری کاروائی کا پہلا مرحلہ سمجھ کر، جھٹ پاسپورٹ اور روپئے نکال دئیے۔ اور انھوں نے ایک سو ہندوستانی روپئے کے بدلے صرف ایک سو روپئے پاکستانی دئیے۔ سرکاری ’’سیہ کاروں ‘‘کا یہ گروپ میرے پاس پہنچا تو میں نے بے نیازی کے ساتھ انھیں بے نیل و مرام رخصت کر دیا۔

امیگریشن کا باب وا ہونے سے پہلے ڈاک خانہ مکمل کھل چکا تھا، جہاں سے دو فولیو لفافے حاصل کر کے میں اپنی خیریت تحریر کر رہا تھا کہ امیگریشن کا دروازہ بھی کھل گیا۔ چند با وردی ملازمین یا حکام اندر جانے والوں کے پاسپورٹ چیک کر رہے تھے۔ اور ایک پرچی دے کر دس روپئے بھی وصول کر رہے تھے۔ مجھے یہاں بھی ’’سیہ کاروں ‘‘کا شک گزرا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذرا غور کیا تو پتہ لگا کہ واقعی یہ ’’سیاہ کاری ‘‘ہے۔ چند منٹ بعد میں بھی داخل ہوا، مگر خرامے بے نیازی کے ساتھ۔ اب کی بار پاسپورٹ چیک کرنے والے نے میرا پاسپورٹ لے کر ذرا غور سے دیکھا، اور اپنے ساتھی سے سرگوشی کے انداز میں کہا، یار!سروس کرتا ہے، جانے دو، میں دو قدم آگے کھڑاسرگوشی سن رہا تھا۔ پاسپورٹ لے کر آگے بڑھا تو پہلے کاؤنٹر کے قریب ایک وردی پوش ملا۔ میں نے اس سے کہا ’’سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملنا ہے۔ ‘‘اس نے مجھے قدر افزائی کے ساتھ ملانے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک نمایاں جگہ بٹھا دیا۔ اور میرا پاسپورٹ اندراج کے لئے کاؤنٹر پر دے دیا۔ ایک بار میں نے کاؤنٹر کے قریب جانا چاہا تو اس نے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’آپ بیٹھیں ‘‘ہم خود ہی پاسپورٹ لادیں گے۔ میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرے ایک اور عزیز آ پہنچے، اور میری سہولیات میں وہ بھی شامل ہو گئے۔ اسی دوران امیگریشن کے دوسرے شیڈ میں چند وردی پوش نمودار ہوئے۔ جو شخص میراپاسپورٹ درج کرانے کے لئے لے گیا تھا، اس نے بتایا کہ یہ لوگ آپ کو سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملائیں گے۔ میں نے ان کے پاس پہنچ کر عرض مدعا کیا تو ان کے چہروں پر فکر مندی کے آثار نمایاں ہوئے تاہم انھوں نے وعدہ کیا کہ موصوف کے آتے ہی ہم آپ کو ان سے ملا دیں گے۔ میں پھر اپنی سابقہ جگہ آ بیٹھا۔

یہاں میرے پاس ایک نوجوان آیا جو امیکریشن کے شیڈسے باہر بھی ایک بار مل چکا تھا، باہر اس نے بڑے اضطراب کے ساتھ بتایا تھا کہ قلی اس سے سواسوروپئے مانگ رہے ہیں۔ میں نے اس سے بتاکید کہا تھا کہ ایک قلی کی اجرت دس روپئے سرکا ری طور پر مقرر ہے۔ اس سے زیادہ نہ دینا۔ جب وہ اندر ملا تو اس کا اضطراب اتنا افزوں تھا کہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل پھوٹ پڑنا چاہتا تھا کہنے لگا میں تو لوٹ لیا گیا۔ سواسو روپئے قلی نے لے لئے اور ڈیڑھ سو روپئے پاسپورٹ پر اندراج کرنے والے نے۔ میں سخت بیچ و تاب کھانے کے باوجود کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کیوں کہ یہ بیچارہ رقم پہلے ہی دے چکا تھا، تاہم میں نے اس کی ہمت بندھائی، اور سنبھلے رہنے کی تاکید کی۔ مگر معلوم نہیں آگے اس غریب پر کیا بیتی۔ کیوں کہ ابھی کسٹم کا اصل مرحلہ تو باقی ہی تھا۔ کچھ اور حضرات کو بھی دیکھا کہ وہ کاؤنٹر پر خوشامدانہ گفتگو کر رہے ہیں اور صاحب کو منانے کی کوشش میں ہیں۔ جس سے لوٹ کھسوٹ کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔

پاسپورٹ کا اندراج ہو گیا تو ہم گیٹ پاس لینے گئے۔ یہاں بھی کسی جواز کے بغیر پانچ روپئے فی پاسپورٹ وصول کئے جا رہے تھے۔ ہم سے بھی مطالبہ ہوا۔ میں نے ٹرین والے صاحب کا تعارفی کارڈ دکھایا تو یہ رقم نہیں لی گئی۔ اتنے میں اطلاع دی گئی کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب آ چکے ہیں۔ ہم نے تعارفی کارڈ بھیجا تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ آداب وتسلیم کے بعد مختصر تعارفی گفتگو ہوئی۔ اور اتنے میں کسٹم شیڈ کا ایک بوڑھا سفید ریش سکھ آفیسر ہمارا پاسپورٹ لے کر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا، اور پھر ان کے اشارے پر کسٹم شیڈ میں واپس لے گیا۔ ہم صاحب کے پاس سے واپس ہوئے تو دروازے پر وہی شخص ملاجس نے ملاقات کے لئے بلایا تھا، اس کی آواز اور چہرے پر لرزش تھی۔ بڑے احترام سے تعارف حاصل کیا، اور یگانگت آمیز باتیں کیں۔ کسٹم آفیسر کے پاس آئے تو اس نے جھٹ ساری کاروائی انجام دے دی۔ اب ہم شیڈسے نکل کر پاکستان کی طرف بڑھے۔ ذرا آگے سڑک کے دائیں کنارے ایک وردی پوش سکھ میز لگائے کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے ہمیں بلا کر پاسپورٹ اور ویزا فارم چیک کیا، اور ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا۔ یہاں تاریخ کیوں نہیں ہے ؟۔ بیس روپئے لاؤ۔ میں نے روپئے کے بجائے وہی تعارفی کارڈ دکھلایا۔ فوراً ہی وہ شخص لہجہ بدل کر بولا۔ ’’اچھا صاحب !لیجئے ہم خود ہی بنائے دیتے ہیں۔ جائیے !‘‘ہم مزید چند قدم آگے بڑھے تو سڑک پر موٹے حرفوں میں اسٹاپ، stop۔ لکھا ہوا تھا۔ اور وہیں سڑک کے کنارے ترنگا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ آگے تیر کا ایک نشان تھا، پھر لکیر تھی اور پھر ادھر کے رخ پر تیر کا دوسرانشان تھا۔ اور اس کے آگے بھی اسٹاپ لکھا تھا، اور وہیں سڑک کے کنارے پرچم ستارہ و ہلال لہرا رہا تھا۔ تیروں اور لکیروں کہ شکل یہ تھی۔ …<۱>… یہی درمیانی لکیر دونوں ملکوں کی سرحد ہے اور اسے پار کرتے ہی محسوس ہوا کہ ہم ہندوستان سے مختلف ایک جداگانہ ماحول میں ہیں۔ گھٹنوں تک بلکہ اس سے بھی نیچی قمیص اور شلوار میں ملبوس متعدد افراد سڑک کے بائیں کنارے بے نیازی سے کھڑے تھے۔ جن کے قد لانبے تھے اور چہرے کسی قدر ستواں۔ بورڈ بھی سب کے سب اردو میں تھے، یا پھر انگریزی میں۔ کوئی نصف فرلانگ پر ہمیں بائیں جانب مڑنے کا اشارہ کیا گیا۔ ادھر پاکستان امیگریشن کی باقاعدہ عمارت ہے۔ ایک کھڑکی پر پاسپورٹ اندراج کے لئے دے دیا گیا۔ ضابطہ ہے کہ ۴۵/ڈالر ساتھ لئے بغیر پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اور میں ڈالر لئے بغیر ہی چلا گیا تھا۔ اس لئے پیچیدگی پیدا ہو جانا چاہتی تھی۔ مگر پاس ہی ٹہلتے ہوئے آفیسر نے ضابطہ سمجھا کر آگے جانے کی اجازت دے دی۔ سامان کی پرچی جو گیٹ پاس کا کام دیتی ہے، حاصل کر کے ہم نے سامان دکھا دیا۔ جسے برائے نام دیکھا گیا۔ پرچی لکھنے والے ایک باریش نوجوان تھے، وہ کرسی سے کھڑے ہو گئے، اور مجھ سے اسلام، عالم اسلام اور امت مسلمہ کے احوال پر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ میں لاہو رمیں جمعہ پڑھنے کے لئے عجلت میں تھا، اور وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ مگر جب مزید مسافر آ گئے تو میں نے اجازت چاہ لی۔ اور ہم عمارت کے پیچھے سے اس کے مغربی کنارے پہنچے، وہاں سے راستہ دائیں جانب مڑ جاتا ہے اور عمارت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا لاہور جانے والی سڑک پر جا پہنچتا ہے۔ سڑک سے متصل ایک گیٹ ہے، جس پر لکھا ہے ’’داخلہ ممنوع ہے ‘‘اس گیٹ پر دو پہرے دار بیٹھے تھے ایک نے پاسپورٹ اور گیٹ پاس چیک کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کتنے سامان ہیں ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’تین‘‘اس نے کہا تیس روپئے دیجئے !میں نے کہا ’’اس کی رسید دو گے ؟‘‘اس نے گیٹ پاس کی طرف اشارہ کیا کہ ’’یہ رسید ہے ‘‘میں نے کہا ’’اس پر تیس روپئے کہاں لکھے ہیں، اس پر تو صرف سامان کی تعداد لکھی ہے۔ اور اگر یہ رسید ہی ہے تو جس نے رسید دی ہے، اس کو روپئے ملنے چاہئیں آپ کو کیوں دوں ؟‘‘اس پر وہ کچھ مبہوت سا ہو گیا۔ مگر پاکستان میں ہمارے داخلہ کا فارم دیکھا تو اس کے تاریخ کے خانے میں مہینہ ۱۱/کی جگہ ۱۲لکھ کر پھر دو کو ایک بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا یہ تاریخ کیوں کاٹی گئی ہے ؟ ’’تیس روپئے لاؤ۔ ‘‘میں نے کہا آپ میرے بجائے اپنے آفیسر یا کلرک سے پوچھئے کہ انھوں نے اسے کیوں کاٹا ہے، ؟کیوں کہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کے جوابدہ وہی ہیں، میں نہیں ہوں، اس پر اسے مزید پریشانی ہوئی۔ اس نے پوچھا ’’آپ کیا کرتے ہیں ؟ ‘‘ میں نے بتایا کہ ’’میں ایک جامعہ میں استادہوں ‘‘اس پر اس کے ساتھی نے سرگوشی کی ’’ابے معزز لوگ ہیں، جانے دے۔ ‘‘اور اس نے بے بسی کے ساتھ پاسپورٹ اور کاغذ ہمارے ہاتھ میں تھما دئیے۔

سڑک پر ایک کالا اور موٹا شخص بیٹھا نعرہ لگا رہا تھا : ’’لاہور ساڑھے تین روپئے میں ‘‘ گیٹ سے باہر آتے ہی اس نے سامان جھپٹ لیا، اور ایک خوبصورت ٹیکسی پرلے گیا۔ مگر وہاں پہنچ اس نے کرایہ ساڑھے تین سوروپئے کہا۔ ہم نے بیٹھنے سے انکار کر دیا اتنے میں ایک گورا اور دبلا شخص دومسافروں کولے کر اپنی ٹیکسی پر پہنچ گیا۔ مگر اس پر دونوں ٹیکسی والوں میں جھگڑے کا ٹورنامنٹ شروع ہو گیا۔ ہم نے ہر چند کوشش کی کہ سامان لے کر کسی بس سے نکل جائیں، مگر اس نے کامیاب نہ ہونے دیا، اور کرایہ فی کس بیس روپئے تک اتر آیا۔ بالآخر وہی چاروں مسافروں کو لے کر اپنی خوبیوں کے گن گا تا لاہور چلا، اور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کرتیس تیس روپئے وصول کئے، توجہ دلانے پر بولا، ’’کرایہ واقعی تیس تیس روپئے ہے، لیکن جھگڑے کے سبب اگر وہ پانچ روپئے کہتا تومیں دوہی روپیہ کہتا۔ ‘‘بہرحال اب ہم نے آٹو رکشا کیا، اور شیش محل روڈ کو چلے۔ نووارد تھے لہذا آٹو والے کو تاکید کر دی تھی کہ شیش محل روڈ شروع ہوتے ہی ہمیں اطلاع کر دے، تاہم ہماری نظریں کنارے کے بورڈوں پر تھیں۔ ایک جگہ فٹ پاتھ پر ایک شخص دو طوطے اور کارڈ لئے بیٹھا تھا چھوٹاسابورڈ بھی کھڑا تھا، جس پر دو طوطوں کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا ’’اسلامی فالنامہ‘‘ میں جھٹ اپنے عزیز کو متوجہ کیا کہ وہ دیکھو ’’اسلامی فالنامہ‘‘ اتنے میں رکشا آگے بڑھ چکا تھا، مگر ہمارے عزیز نے بتایا کہ بورڈ پر نیچے اس فالنامے کی مشروعیت اور فوائد کے متعلق کسی بڑے مفتی صاحب کا فتویٰ اور ارشاد بھی درج تھا۔ ‘‘یاللعجب !

شیش محل روڈ شروع ہوتے ہی ڈرائیور نے اطلاع دی، ذرا آگے دائیں کنارے مکتبہ سلفیہ کا بورڈ دکھائی پڑا۔ ہم نے بائیں کنارے اتر کر ایک دوکان والے سے کہا، ہم حافظ احمد شاکر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘اس نے ایک بچے کو بلا کر کچھ کہا۔ اور چند لمحہ بعد جوانی کی حدود کو چھوتے ہوئے ایک دوسرے بچے نے آ کر ہمارا سامان تھامتے ہوئے کہا۔ ‘‘آپ فلاں صاحب ہیں، آپ نے بہت انتظار کرایا۔ تشریف لائیے ! اور وہیں سے اندر مڑ کر دو تین مکان کے بعد ایک مکان کی دوسری منزل کے ایک متواضع کمرے میں پہنچایا۔ جہاں ایک اٹھتے ہوئے قامت کے نحیف الجثہ بزرگ تشریف فرما تھے۔ یہ تھے مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف بھوحیانی حفظہ اللہ جن کی علمی عظمت و جلالت کا اعتراف عجم ہی کو نہیں بلکہ عرب کو بھی ہے۔ اور جن کے ذوق تحقیق و تصنیف نے اہل علم کو نہایت گرانقدر سرمایہ فراہم کیا ہے۔ ساتھ لے جانے والا بچہ مولانا ہی کا پوتا عبادسلمہ تھا۔ جس کے اطوار و گفتار سے سلیقہ مندی اور حسن ادب نمایاں تھا۔ چند لمحہ بعد ایک سنجیدہ، قدرے پستہ قد اور با وقار عالم تشریف لائے۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ آپ حافظ صلاح الدین یوسف ہیں۔ موصوف ایک بلند پایہ عالم، اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے ایڈیٹر ہیں اور آپ کی عالمانہ تحقیقات سے قارئین محدث بھی واقف ہیں۔ اگر چہ مسلسل سفر کے بعد میں غسل کر لینا چاہتا تھا۔ مگر وقت کی تنگی کے سبب وضو ہی پر اکتفا کرنے کی ٹھہری۔ مولانا کے صاحبزادے حافظ احمد شاکر صاحب بھی تشریف لا چکے تھے۔ موصوف سے ۱۹۸۰ ء میں حرم کے اندر ملاقات ہو چکی تھی بڑے تپاک سے ملے۔ اور چند ہی لمحوں بعد جمعہ کے لئے روانگی ہو گئی۔

آج کا دن لاہور کے لئے ایک خاص اہمیت کا دن تھا۔ امام حرم فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل حفظہ اللہ کی آمد آمد تھی۔ وہ چوتھی سیرت کانفرس منعقدہ اسلام آباد سے فارغ ہو کر واپس تشریف لا رہے تھے، اور شاہی مسجد پہنچے تو مہمانان گرامی کے تعارف اور استقبالیہ تقریر کا پر جوش سلسلہ جاری تھا۔ تقریر کے دوران جب بھی پاکستان کے تحفظ و بقا کی دعا کی جاتی، مسجد آمین کی آوازسے گونج جاتی، اور اندازہ ہوتا کہ باشندگان پاکستان، ملک کی سالمیت اور تحفظ کے سلسلے میں کتنے حساس ہیں استقبالیہ تقریر کے بعد مہمانان گرامی نے یکے بعد دیگرے تقریر یں کیں۔ ان کا خلاصہ اردو زبان میں بیان کر دیا جاتا تھا۔ پھر اذان ہوئی لوگوں نے نظمیں پڑھیں۔ اور اس کے بعد امام حرم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ جامع بغداد کے موذن نے بڑے پرسوزوپرکشش لہجے میں اذان جمعہ کہی۔ پھر حرم کا نغمۂ لاہوتی سنائی پڑا۔ امام حرم اپنے معروف وقار میں دریا کی روانی لئے، توحید اور تمسک بالکتاب والسنۃ پر نہایت پر مغز اور جامع تقریر فرما رہے تھے۔ آپ نے پاکستان اور عالم اسلام کے لئے دعائیں کیں۔ پھر نماز پڑھا کر قبلہ ہی کی جانب سے اپنی قیام گاہ تشریف لے گئے۔ کثرت ازدحام کے سبب ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔ اس لئے آرزوئے ملاقات کے باوجودواپسی کی راہ لی گئی۔ مشرقی دروازے پر کافی انتظار کے بعد باہر آنے کی گنجائش مل سکی۔

شاہی مسجد ہندوستان میں مغل دور حکمرانی کی ایک ممتاز اور نادر ۂ روزگار یادگار ہے اسے مشہور مسلم حکمراں عالمگیر نے تعمیر کرایا تھا۔ شکل و شباہت میں دہلی جامع مسجد سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ اسی کی طرح فرش اور بیرونی دیواروں کے پتھر سرخ، اور اندرونی سفید ہیں، در و بام اور قبہ و محراب سے تعمیری عظمت و جلال نمایاں ہے۔ ۱۹۷۲ ء میں عالم اسلام کی دوسری چوٹی کا نفرنس، اسی مسجد میں منعقد ہوئی تھی۔ اسی کے محراب امامت کے نیچے مصلی پر بیٹھ کر شاہ فیصل مرحوم نے عالم اسلام کی سلامتی و بہبودی اور خودمختاری و ترقی کے لئے رو رو کر دعائیں کی تھیں۔ یہیں سے ان کا تاریخی خطاب صادر ہوا تھا، اور اسی مسجد میں انھوں نے عالم اسلام کے سربراہوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ اب فرش مسجد کے کناروں کی دیواروں کے پتھر کہنگی کا شکار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ مگر حکومت پاکستان نے اس کے بدل کے طور پر پتھر چھیل کر مزائک لگوانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے دیواروں کا تحفظ بھی ہو جائے گا اور رونق بھی دوچند ہو جائے گی۔ مسجد کے باہر چہار جانب کھلا ہوا وسیع رقبۂ زمین ہے، اور مشرق میں اسے پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے مسجد کے حسن میں مزید نکھار آ گیا ہے اگر بقیہ اطراف میں بھی پارک بنا دیئے جائیں تو یہ حسن اور دو بالا ہو جائے گا۔ احاطۂ مسجد سے متصل شمال میں کشادہ سڑک ہے، جس کے کنارے ایک نہایت لمبا اور خاصا اونچا بورڈ ہے۔ رنگ سیاہی مائل ہرا ہے، اور اس پر نہایت جلی اور خوبصورت حرفوں میں تحریر ہے : ’’پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ، محمدرسول اللہ۔ ‘‘ پہلے سوالیہ جملے کا رسم الخط اردو ہے اور کلمہ کا رسم الخط عربی۔ سڑک کے دوسرے کنارے یادگار پاکستان ہے جو بالکل سفید رنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ اصل منارہ تو نیچے سے اوپر تک یکساں گولائی لئے ہوئے ہے، لیکن اس کے گردا گرد منارہ کے جزوی طور پر نیچے سے مخروطی بلکہ نیم کمان کی شکل میں پائے اٹھائے گئے ہیں جو کچھ اوپر جا کر اوسط گولائی کے ساتھ آخری مرحلے کے قریب تک چلے گئے ہیں مگر خاتمے کے قریب انھیں پھر نیم کمان کی شکل میں سمیٹ کر ختم کر دیا گیا ہے۔ درمیان میں خاص تناسب کے ساتھ تقاطع بھی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ منارہ ایک ممتاز اور منفرد شکل اختیار کر گیا ہے نیچے منارے کی اصل گول دیوار اور کھمبوں کی کمان کے درمیان خاصی جگہ بن گئی ہے۔ جسے برآمدہ کہنا بیجا نہ ہو گا۔ گول دیوار پر نہایت نفیس اردو خط میں ایک جگہ قراردادپاکستان نقش ہے۔ ایک جگہ ترانہ نیز یکے بعد دیگرے پاکستان کے سلسلے میں تاریخی بیانات کے اقتباسات درج ہیں۔ ایک جگہ بنگلہ زبان میں اور ایک جگہ انگریزی زبان میں قراردادپاکستان اور قرارداد دہلی کا اندراج ہے۔ سب کچھ نہایت نفیس اور پرکشش ہے۔ اس پارک میں انسانوں کی بڑی چہل پہل اور رونق رہتی ہے۔

ہم جمعہ سے فارغ ہو کر ٹہلتے ہوئے دارالدعوۃ السلفیۃ پہنچے تو عصر کا وقت قریب تھا۔ آج لاہور میں ایک اور تاریخی کام انجام پا رہا تھا صوبہ پنجاب کی جماعت اہلحدیث حرمین شریفین کا نفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ حافظ احمد شاکر بھی اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ انتظامات میں منہمک تھے اسی لئے وہ ہمارے ساتھ نہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب کے بڑے صاحبزادے حمادسلمہ نے (جو ایک ہوشیار، چاک و چوبند اور زیرک نوجواں ہیں اور المکتبہ السلفیہ لاہور کوبڑی ہنر مندی سے چلا رہے ہیں ہمیں بھی وہیں بھیج دیا۔ تانگہ والے نے ہمیں ایک چوک پر اتار دیا، جہاں خاصی بھیڑ تھی، اور اندر کہیں سے ہونے والی تقریر کی آوازسنائی دے رہی تھی۔ یہ لاہور کا مشہور اور مصروف ترین مقام، چوک دالگراں تھا۔ چند لمحوں بعد گجر انوالہ سے محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب دکھائی پڑ ے۔ بڑی گرمجوشی سے مصافحہ و معانقہ ہوا، موصوف ۱۹۸۳ ء میں بنارس تشریف لا چکے ہیں۔ کتابوں کے مطالعہ جمع اور طباعت کا بڑا پاکیزہ اور لطیف ذوق رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر قیمت پر تاریخی نوادرات سمیٹنے کے قائل ہیں۔ اپنے خرچ پر نہایت عمدہ اور گرانمایہ کتابیں چھپوا کر مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اس مقصد سے آپ نے ندوۃ المحدثین کے نام سے گجرانوالہ میں ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ موصوف سے مل کر روحانی مسرت حاصل ہوئی۔ پھر مزید چند رفقاء بھی آ گئے کھانے کے لئے ایک ہوٹل کا رخ کیا گیا۔ اس وقت ٹی وی پر پاکستان اور غالباً نیوزی لینڈ کے درمیان کرکٹ میچ دکھا یا جا رہا تھا۔ کچھ دیر میں پاکستان کی فتح کے ساتھ کھیل ختم ہو گیا۔ اور پرکشش نسوانی ترنم ابھرا کہ ’’ چلو چلو چلو منزل بلا رہی ہے ‘‘اتفاقاً نظر اٹھی تو دیکھا کہ اسلامی حسن بے حجاب مصروف سرودہے۔

ہوٹل سے چوک دالگراں واپس آئے تو اچانک تین چار افرادسے ملاقات ہو گئی، جن کی پوشاکیں پاکستانی پوشاک سے قدرے مختلف تھیں۔ چہرے پر نور، ایک صاحب کی داڑھی کھچڑی بقیہ دو صاحبان کی بالکل سیاہ، ایک کے ہاتھ میں مشین گن تھی، وہ بالکل نوجوان تھا۔ گرمجوش مصافحے اور معانقے کے بعد تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ صاحبان نورستان سے تشریف لائے ہیں، جہاں دولت اسلامی انقلابی افغانستان کے نام سے اہلحدیثوں کی حکومت قائم ہے، اور یہ اس حکومت کے نمائندے ہیں۔ جن کی داڑھی کھچڑی تھی، وہ محترم مولانا عبداللہ ابن الفضل تھے جو اس حکومت کے قاضی القضاۃ اور وسطی نورستان کے امیر ہیں، دوسرے بزرگ جن کی داڑھی سیاہ مگر عمر قدرے متجاوز تھی، وہ مولانا محمد ابراہیم تھے، جواس حکومت کے وزیر خارجہ ہیں، اور آخرالذکر رائفل بردار نوجوان ان کا نام عبدالعزیز ہے، اور وہ سعودی عرب میں اس حکومت کی وزارت خارجہ کے نمائندے ہیں۔ اس دنیائے خواب و خیال کے مقتدر نمائندوں کو اچانک اپنے سامنے پا کر جو بے پایاں مسرت ہوئی، اس کا اندازہ ہرحساس آدمی لگا سکتا ہے۔ آرزو مچلی کہ ان کے ساتھ ایک مجلس گفتگو منعقد کی جائے مگر مجھ سے پہلے خود محترم وزیر خارجہ نے اسی آرزو کا اظہار فرمایا۔ اور دوسرے دن پہلے پہر ملاقات طے ہوئی۔

ان حضرات سے رخصت ہو کر ہم سامنے ہی ایک چوڑی گلی کے اندر گھسے۔ کچھ آگے جا کر کتابوں کے اسٹال نظر آئے انہی میں ایک اسٹال المکتبہ السلفیہ کا بھی تھا۔ مزید آگے جا کر ایک احاطے کے دروازے میں گھسے، اسے عبور کر چکے تو ایک وسیع و عریض اسٹیج نظر آیا یہ مسجد مبارک کا احاطہ تھا۔ غالباً اسٹیج کے جنوب میں مسجد تھی، جسے بھیڑ کے سبب دیکھا نہ جا سکا۔ مغرب بعد میری خواہش ہوئی کہ ذرا کمر ٹیک لوں کیوں کہ سفر مسلسل اور تگ و تاز پیہم میں آج تیسرا دن گزر چکا تھا، اور ابھی رات میں تقریر بھی کرنے کا نوٹس مل چکا تھا۔ کمر ٹیکنے کے لئے دارالدعوۃ السلفیہ آنا پڑا پھر کوئی ساڑھے دس بجے ہم دوبارہ چوک دالگراں پہنچے، اور قدرے توقف کے بعد مسجد مبارک کا رخ کیا، گلی کھچا کھچ بھری تھی۔ احاطے کے دروازے میں قدم رکھا تو آگے بڑھنا دشوار نظر آیا۔ مگر ہمارے میزبان ہمیں کسی قدر آسانی سے پہلا مرحلہ پار کرالے گئے۔ البتہ دوسرامرحلہ جس کے وسط میں اسٹیج تھا، مجھے پار کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ مگر ہمارے میزبان لوگوں کو ہٹاتے کھسکاتے اسٹیج تک اور کئی منٹ بعد اسٹیج پر پہنچانے میں کامیاب ہوہی گئے۔ اسٹیج پر گوشے گوشے سے آئے ہوئے علماء اور اعیان جماعت کا ہجوم تھا۔ ہمارا راستہ اسٹیج کے دائیں سے تھا، سامنے کتنا اور کہاں تک ہجوم تھا، اس کا پتہ لگانا مشکل تھا۔

اسٹیج والے احاطے میں قدم رکھتے ہی دیکھا کہ ایک شخص شلوار اور قمیص پہنے، آستین چڑھائے، انگلی ڈیڑھ انگل چوڑی خشخشی ڈاڑھی کی پٹی سجائے، ننگے سر لاؤڈاسپیکر پر گرج رہا ہے بریلویوں سے اپنا اور اپنی جماعت کا تقابل کرتے ہوئے انھیں للکار رہا ہے، تڑپ رہا ہے اور دھاڑ رہا ہے۔ اچانک اس کی گرج اور تڑپ نے آندھی اور طوفان کا خروش پکڑا اور اس نے ایک فقرے کے آخری اجزاء ذرا کھینچ کر ادا کیے۔ اتنے میں اسٹیج کے بائیں کونے سے ایک شخص نے گولا پھینکنے کے انداز میں ہاتھ جھٹکا، اور نعرہ لگایا۔ ’’مسلک اہلحدیث‘‘ جواب میں شور بلند ہوا زندہ باد پھر نعروں پہ نعرے لگتے گئے۔ مسلک اہلحدیث !زندہ باد ’’کتاب وسنت !زندہ باد‘‘ ’’علامہ احسان الہی ظہیر !زندہ باد‘‘اس وقفے میں مقرر نے اچھی طرح دم لے لیا تو پھر لاؤڈاسپیکر کا رخ کیا اور پھر وہی گرج تڑپ، للکار، چیلنج اور نعرے۔ ہمارے پہنچنے کے کوئی نصف گھنٹہ بعد تقریر ختم ہو گئی۔ مقرر نے ٹوپی لگائی، صدری پہنی، اور بیٹھ گیا۔ مگر اس سے پہلے کہ کسی کواسٹیج پر مدعو کیا جاتا، پھر اٹھ گیا، اور بولا۔ ’’اگر جماعتی اتحاد کے لئے میری قربانی کی ضرورت ہے تو میں اپنے تمام جماعتی عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس اعلان سے اسٹیج اور سامعین میں تھوڑی جنبش ہوئی۔ میاں فضل حق صاحب کو آوازیں دی گئیں …انھوں نے بڑھ کر کچھ کہا۔ اس دوران جنبش، ہلچل میں بدل چکی تھی۔ سامعین سے استعفاء اور قیام اتحاد کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسٹیج سے جو کچھ کہا جاتا تھا اس پر نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ میاں صاحب کے بعد مولانا معین الدین لکھنوی، مولانا عبداللہ، مولانا عبدالقادر روپڑی مولانا عطاء اللہ ثاقب غرض متعدد افراد تشریف لائے، مگر ’’شورش‘‘ نہ رکی، ایک صاحب نے آ کر کچھ مخصوص انداز میں خطبہ اور سورۂ فیل کی تلاوت کی، مگر انھیں تقریر کئے بغیر ہی بیٹھ جانا پڑا۔ بالآخر ایک صاحب نے بڑی سنجیدگی سے قانونی پیچیدگیوں کا سہارالے کر سمجھایا کہ ہم درحقیقت دل سے استعفاء دے چکے ہیں۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ہم نے ایک دوسرے سے سلام اور مصافحہ کیا، گلے ملے، اور ایک ساتھ ہی ایک لائن میں بیٹھے ہیں آپ اطمینان رکھیں کہ ایک متحدہ جمعیۃ کا ڈھانچہ تیار کر کے بقیہ جمعیتیں تحلیل کر دی جائیں گی، یہ ہمارا قطعی فیصلہ ہے اور ہم آپ سے اس کا پورا عہد کرتے ہیں۔ اس پر عوام نے مطالبہ کیا کہ اس کام کے لئے مدت کی تعیین کر دی جائے چنانچہ بڑی رد و قدح کے بعد ایک ماہ یا پندرہ دن کی مدت طے ہوئی، اور اس پر شورش فرد ہوئی۔

اب پھر وہی صاحب تشریف لائے، جنھوں نے سورۂ فیل کی تلاوت کی تھی۔ اب بھی انداز وہی تھا۔ خطبہ کے بعد پنجابی زبان میں تقریر شروع ہوئی۔ رنگ و آہنگ، للکار و پھٹکار اور چیلنج کا وہی عالم تھا، جو پچھلی تقریر کا تھا۔ احمد رضا خاں کی تحریروں کے حوالے سے ثابت کیا جا رہا تھا کہ اس مذہب کی بنیاد، خدا کی توہین، رسول کے ساتھ گستاخی، قرآن کے انکار، صحابہ کی بے ادبی اور مسلمانوں کی تکفیر پر ہے۔ یعنی بریلوی مذہب کے یہی پانچ ارکان ہیں۔ تقریر مدلل تھی۔ ہر بات حوالے کے ساتھ کہی گئی تھی، مگر کھال کھینچنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تھی۔ اچانک میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے سراونچا کیا اور باڑھ ماری : ’’مولانا حبیب الرحمن یزدانی ‘‘! اور جواب میں شور بلند ہوا ’’زندہ باد‘‘ پھر اسی ردیف اور قافیہ پر کئی نعرے بلند ہوتے چلے گئے۔ شور ختم ہوا تومیں نے پاس والے صاحب سے عرض کی کہ ابھی دو خصوصی قافیے باقی رہ گئے ہیں۔ ’’ایک جوش ایمانی اور دوسرا نعرۂ طوفانی ‘‘وہ کچھ سٹپٹاسے گئے۔

مولانا کی تقریر میں عجیب لطیفے تھے، بلکہ خود ان کا سر اپا بھی لطیفہ ہی تھا۔ وہ کبھی سمٹ کر دونوں مونڈھے یوں اچکا لیتے جیسے اڑتا ہوا کبوتر پر سمیٹ کر اتر رہا ہو۔ عبدالستار نیازی صاحب کا ذکر خیر آیا تو نام لینے کے بجائے یوں تعارف کرایا کہ صاحب جن کا طرہ منارہ پاکستان بنا رہتا ہے اور ساتھ ہی چھڑی کا دستہ اپنی گردن سے چپکا کر اس کا سرا اوپر کی طرف کھڑا کر دیا۔ اس دلچسپ منظر کشی پر کوئی شخص اپنی ہنسی کیوں ضبط کر سکتا تھا ؟موصوف کی شاید ایسی ہی کچھ جارحیت تھی کہ جس کے نتیجے میں ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اور وہ بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ کیوں کہ ’’جارحیت ‘‘ تو خالص بریلوی حضرات کا ’’حق‘‘ ہے۔ وہی ایمان و یقین کے اجارہ دار، جنت و جہنم کے ٹھیکیدار اور روئے زمین پر اللہ اور اس کے رسول کے واحد فوجدار ہیں، پھر یہ بات کیوں کر برداشت کی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص ان کے اس حق جارحیت میں جواباً ہی سہی حصہ دار بننے کی جرأت کرے، مگر مولانا اپنی اس آپ بیتی سے عبرت پکڑنے کے بجائے لمبے علاج کے بعد شفا یاب ہو کر پھر میدان میں اتر پڑے ہیں۔ خدا محفوظ رکھے۔

اس تقریر سے مجھے علم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل بریلوی حضرات نے ’’حجازکانفرنس ‘‘کے نام سے یادگار پاکستان کے میدان میں ایک بڑی زبردست اور اہلحدیثوں کے خلاف حد درجہ جارحانہ کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر اس مید ان میں منعقد نہ کر سکے، بلکہ اس سے بہت دور اپنی کسی مسجد میں منعقد کیا، اور وہاں بھی خدا جانے کیا گڑبڑی ہوئی کہ نا کام وخستہ حال واپس ہوئے، ان کی اسی کیفیت پر یزدانی صاحب نے سورۂ فیل تلاوت کر کے اصحاب فیل کا یہ واقعہ منطبق کیا کہ ابرہہ خانۂ کعبہ تک نہ پہونچ سکا، بلکہ وادی محشر میں چڑیوں کی کنکر باری کا شکار ہو کر واپس بھاگا۔ اور تباہ ہوا۔

اخیر میں شیخ الحدیث مولانا محمدحسین صاحب شیخوپوری مدعو کئے گئے، دراز قامت، توانا تن و توش، گورے چٹے، پر وقار اور بڑھاپے کی دہلیز پر قدم جمائے ہوئے۔ آپ کی تقریر اتنی ٹھیٹھ پنجابی میں تھی کہ میں بہت سی باتیں نہ سمجھ سکا۔ بیان میں زور بھی تھا اور وقار بھی، لطائف بھی تھے اور حقائق بھی۔ تلاوت کا انداز ایسا تھا کہ خاتمۂ آیات پر پہنچتے تو سامعین کی زبان سے بے ساختہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ کے الفاظ نکل جاتے۔

اسٹیج پر خاموشی کے ساتھ اعیان جماعت اور اکابر علماء سے میری ملاقات کا اور تعارف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ میاں فضل حق، مولانا عبدالرحمن مدنی، مولانا عبید اللہ عفیف، مولانا محمدسلیمان انصاری، چودھری محمد یعقوب اور یاد نہیں کن کن بزرگان اور اکابر سے نیاز حاصل ہوا۔ خاتمۂ اجلاس کے بعد ہم کوئی ڈھائی بجے اپنی قیام گاہ واپس آئے۔

دوسرے دن (۳۔ /نومبر ۱۹۸۵ ء سنیچر )صبح کوئی نو بجے عبادسلمہ تشریف لائے کہ ناشتے کے لئے تشریف لے چلیں۔ ہم دارالدعوۃ السلفیہ سے نکل کر موصوف کے مکان کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے آتی ہوئی ایک خوبصورت ماڈل کی سرخ کار ہمارے سامنے رکی۔ دیکھا تو نورستانی وفد جلوہ افروز تھا۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ لوگ دارالدعوۃ السلفیہ میں ہمارا انتظار کریں اور ہم ناشتے سے فارغ ہولیں۔ وفد نے بھی اس پر صاد کیا۔ مگر مجھے گوارا نہ ہوا کہ ایک سلفی حکومت کے وزیر خارجہ اور قاضی القضاۃ کے اوقات کو اپنے ناشتے پر قربان کروں۔ اس لئے چند ہی قدم بعد میں پلٹ آیا، اور پھر سبھی لوگ پلٹ آئے۔ غزنوی خاندان کا قائم کردہ مدرسہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام یہیں ہے۔ طے ہوا کہ اسی کے ہال میں بیٹھ کر گفتگو ہو کہ یہی پرسکون جگہ ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تھی کہ ایک طالب علم نے آ کر کہا کہ مولانا اسحاق صاحب آپ سب حضرات کو اپنے پاس بلا رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ یہیں آ کر گفتگو کریں۔ موصوف ضعیف العمر ہیں۔ علوم و فنون خصوصاً حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس مدرسہ کے شیخ الحدیث ہیں۔ موصوف نے بڑی خاطر و تواضع کی، ناشتے کا بدل بلکہ نعم البدل بھی پورا کر دیا ان کے پاس کھلی فضا اور نرم گرم دھوپ میں بیٹھ کر گفتگو کا بھر پور لطف آیا۔ تفصیل اسی شمارے کے عالم اسلام میں ملاحظہ فرمائیں۔

 

(اگلا مضمون اس گفتگو کی تفصیل پر مشتمل ہے، یہ مولانا کے اداریوں کا حصہ تو نہیں لیکن چوں کہ مولانا کے سفرپاکستان کی روئداد کا جز ء ہے اور مولانا نے اپنے اداریہ میں اس کی طرف اشارہ بھی فرمایا ہے اس لئے راقم نے اسے سفر پاکستان سے متعلق اداریوں کے بیچ درج کر دیا ہے، آئندہ دو ماہ کے اداریے بھی سفر پاکستان سے متعلق ہیں۔   محمد ساجد اسید ندویؔ)

 

چھ سال قبل روسی استبدادنے افغانستان پر گہرائی کے ساتھ پنجے گاڑ کر عالم اسلام کو جس درد مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے اس کی ٹیس ہمارے ملک کے مسلمان بھی برابر محسوس کر رہے ہیں۔ قتل و غارت، تباہی و بربادی، وحشت و بربریت، ظلم و درندگی، سفاکی و خون آشامی کا وہ کون سا نادر فن ہے جو اس سرزمین پر آزمایا نہ گیا ہو لیکن اللہ کے ان شیروں نے جس بے جگری و بے باکی سے اس ناپاک حملے کا مقابلہ کیا ہے اور اب تک کر رہے ہیں اور جس مؤمنانہ جرأت و پامردی سے پہاڑوں اور وادیوں، بیابانوں اور آبادیوں، جنگلوں اور دریاؤں اور میدانوں اور سرنگوں میں انہیں زک پہنچا رہے ہیں وہ بھی تاریخ انسانی کا ایک عجوبہ اور تاریخ اسلام کا ایک تابناک باب ہے۔

ان شیران خدا کے ان ہی کمالات ایمانی کی وجہ سے میری آرزو تھی کہ مجھے بھی کبھی ان کا روئے زیبا دیکھنا نصیب ہو، اور میں بھی کبھی ان وادیوں اور بیابانوں کی سیر کروں۔ ممکن ہے اللہ کی راہ میں کچھ کرنے کی سعادت سے بہرور ہو جاؤں۔ اگر چہ یہ آخر الذکر تمنا پوری نہ ہو سکی مگر پچھلے دنوں جب میں نے پاکستان کا سفر کیا تو بے شان و گمان اس قافلے کے چند مخلص ترین قافلہ ساروں سے میری ملاقات ہو گئی یہ تھے وادیِ نورستان میں قائم سلفی حکومت۔ ’’دولت اسلامی انقلابی افغانستان ‘‘کے مقتدر وزیر خارجہ مولانا محمد ابراہیم صاحب، وسطی نورستان کے امیر اور پوری حکومت کے رئیس القضاۃ (چیف جسٹس)مولانا عبداللہ بن الفضل صاحب اور سعودی عرب میں اس حکومت کی وزارت خارجہ کے نمائندوں کے جواں عزم و جواں سال صدر الحاج عبد العزیز صاحب حفظہم اللہ تعالیٰ وادامہم فی کنفہ ورعایتہہٖ۔

دین و عقیدہ کے رشتے اعلاء کلمۃ اللہ کے مشترک جذبے اور اخوت اسلامی کی تپش نے بالکل ابتدائی ملاقات میں بھی اجنبیت کا احساس ابھرنے نہ دیا۔ ایسامحسوس ہوا کہ ہم مدتوں کے ساتھی ہیں۔ ۳۔ /نومبر روزسنیچر کی صبح اسی احساس اخوت کے ساتھ مدرسہ تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں ہماری مجلس منعقد ہوئی۔ اور مولانا محمد ابراہیم صاحب نے داستان نورستان کے اوراق الٹنے شروع کئے۔ خاموش طبع مولانا عبداللہ بن الفضل پاس ہی بیٹھے تھے جن کے لبوں پر رہ رہ کر ابھرنے والی ہلکی ہلکی مسکراہٹ خوش آمدید کا پیام کہہ رہی تھی۔ انھیں کے متصل مجاہدین کی وردی میں ملبوس الحاج عبدالعزیز بھی تھے جن کے ہاتھ میں تیس گولیوں سے بھری ہوئی مشین گن ان کے مجاہدانہ عزائم کا پتہ دے رہی تھی۔ وہ رہ رہ کر پیٹی الگ کرتے اور گولیوں سے کھیلنے لگتے۔ جواس بات کی علامت تھی کہ دشمن سے محاذ آرائی اس قوم کے لئے بازیچۂ اطفال کی حیثیت رکھتی ہے۔

میری آنکھیں اللہ کے ان شیروں کو دیکھ رہی تھیں جنہیں دیکھنا یقیناً ایمانی سعادت کا ایک حصہ تھا کیونکہ انہوں نے اس روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی طاقت کو پسپا کر کے اللہ کے بندوں پر خاص اللہ کا قانون جاری وساری کر رکھا ہے۔

کان مولانا ابراہیم کے ارشادات پر لگے ہوئے مولانا موصوف نے بتایا کہ دسمبر ۱۹۷۹ ء میں روسی افواج کی یلغار کے بعد سب سے پہلے جس خطہ سے ان کے خلاف جد و جہد کا آغاز ہوا وہ ہمارا خطہ نورستان ہے ہم نے سب سے پہلے ہتھیار اٹھایا۔ اور زبردست معرکے آرائیوں کے بعد اپنے علاقہ کو روسی افواج سے پاک کر دیا اور ایک بار یہاں سے حملہ آوروں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھا لیا تو دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی جرأت نہیں کی نورستان صوبہ کز اور نعمان کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہے اور قدرتی طور پر تین حصوں پر بٹا ہوا ہے۔ (۱)شرقی(۲)وسطی(۳)اور غربی ہر ایک حصہ کو دوسرے حصہ سے پہاڑوں کا قدرتی سلسلہ جدا کرتا ہے۔ اس کے مشرق میں چترال اور دیر کے پاکستانی علاقے ہیں شمال میں بدخشان کا صوبہ ہے مغرب میں پنجشیر کی وادی اور جنوب میں کز اور نعمان کے کچھ خطے ہیں۔

موصوف نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں تین طرح کے علاقے ہیں۔

(۱)۔ ایک وہ جو مکمل طور پر مجاہدین کے قبضے میں ہیں۔ اور مجاہدین کی مختلف جماعتوں نے مختلف جگہ ان کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔

(۲)۔ دوسرے وہ جو مکمل طور پر روسیوں کے قبضے میں ہیں۔ اور وہاں مجاہدین اپنی کاروائیوں کے لئے چھپ چھپا کر اور بچ بچا کر جاتے ہیں۔ یہ علاقے زیادہ تر بڑے شہروں، ہوائی اڈوں، فوجی پارکوں، چھاؤنیوں اور چوکیوں سے عبارت ہیں۔

(۳)۔ تیسرے وہ علاقے جو عموماً میدان کارزار بنتے ہیں۔ وہ میدانی علاقے اور دیہات وغیرہ ہیں جہاں کسی کا مکمل کنٹرول نہیں۔ جب روسی فوجیں مجاہدین کے زیر اہتمام مقامات کی طرف بڑھتی ہیں تو مجاہدین آگے بڑھ کر انہیں علاقوں میں ان کا ’’استقبال‘‘کرتے ہیں اسی طرح روسی فوجیوں کے قافلے بھی جب اپنے کسی ایک ’’محفوظ‘‘ اڈے سے نکل دوسرے ’’محفوظ‘‘ اڈے کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو عموماً انہیں علاقوں میں ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ نورستان تک تو روسیوں کی رسائی نہیں ہوپا تی۔ البتہ جب وادی پنجشیر پر حملہ ہوتا ہے تو ہمارے مجاہدین آگے بڑھ کر جنگ میں حصہ لیتے ہیں۔

مولانا محمد ابراہیم صاحب نے بتایا کہ نورستان کی حکومت خالص اہلحدیث حکومت ہے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی مکمل پابندی کرتی ہے۔ یہاں کسی شخص کو اسلام کے خلاف کچھ کرنے کی نہ اجازت ہے نہ جرأت، اس حکومت کی انتظامی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پورے دائرہ حکومت میں ایک شخص بھی ایسانہیں جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ یاجس کے چہرے پر بھرپور ڈاڑھی کا مسلمہ اسلامی شعار نہ ہو، انہوں نے بتایا کہ ہمارے دائرۂ حکومت میں ڈاڑھی ترشوانا ہی نہیں بلکہ چھوٹی کرانا بھی جرم ہے۔ اسی طرح صرف نشہ آور چیز ہی کا نہیں بلکہ سگریٹ اور بیڑی کا استعمال بھی جرم ہے۔ اور ہر ایک کی باقاعدہ سزامقررہے، جو پوری پابندی کے ساتھ نافذ کی جاتی ہے۔

اس موقع پر محترم رئیس القضاۃ مولانا عبداللہ بن الفضل نے بھی گفتگو میں شرکت کی آپ نے بتایا کہ نسوار کے استعمال پر چالیس کوڑے حد جاری کی جاتی ہے۔ یہ نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کی کم از کم حد ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی مقدارسزاکا ثبوت ہے، سگریٹ کے استعمال پر بطور تعزیردس کوڑے لگائے جاتے ہیں، زنا اور تہمت زنا کی شرعی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اب تک مختلف اوقات میں زنا کے جرم میں ایک مرد اور دو عورتوں کو رجم کیا جا چکا ہے اور خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے از خود عدالت میں آ کر اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اور یہ خواہش ظاہر کی کہ اس بدکاری کی سزادنیا ہی میں بھگت لیں۔ تاکہ پاک صاف ہو کر اپنے رب کے حضور پہنچیں۔ آہ کس قدر پاکیزہ تھا یہ ایمان کہ خدا کے حضور پاک صاف ہو کر جانے کے لئے اپنی خوشی سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ اور ماعزاسلمی صحابی کی سنت زندہ کر دی جنہوں نے بشری تقاضے کے سبب اس لغزش سے دوچار ہونے پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اہل ایمان کے لئے کردار و عمل کی مشعل روشن کر دی۔

قاضی صاحب نے مزید بتایا کہ زنا کی تہمت لگانے کے جرم میں اب تک چالیس آدمیوں پر حد قذف جاری کی جاچکی ہے۔ حد قذف اسی کوڑے ہے، جو اس صورت میں زنا کی تہمت لگانے والے پر جاری کی جاتی ہے جبکہ وہ اس تہمت کا شرعی ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ قتل کی سزا یعنی دیت اور قصاص بھی نافذ ہے۔

مولانا محمد ابراہیم صاحب نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنے دوسرے تمام افغانی بھائیوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارا عزم مصمم ہے کہ ہم اللہ کی مدد اور توفیق سے انشاء اللہ روسی فوجوں کو افغانستان سے نکال کر رہیں گے۔ البتہ ہمیں اس کام کے لئے ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے۔ خصوصاً طیارہ شکن توپوں، میزائلوں اور ٹینک شکن راکٹ لانچروں کی سخت کمی ہے بھاری اسلحے ہمارے پاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاوہ ازیں ہم اقتصادی طور پر بھی تباہ حال ہیں۔ اس لئے ہمیں مختلف اشیاء کے کارخانے قائم کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لئے بھی آلات اور وسائل کی ضرورت ہے اور خاص نورستان کا یہ المیہ ہے کہ افغان مہاجرین اور مجاہدین کوجو امداد دی جاتی ہے۔ نورستانی اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔

گفتگو کے اخیر میں مولانا ابراہیم نے مجھے تین کتابچے اور چند مطبوعہ اوراق عطا فرمائے دو کتابچے اردو میں تھے (۱)آئینہ نورستان(۲)اور دولت اسلامی انقلابی افغانستان۔ تیسرا کتابچہ آئینۂ نورستان کا عربی ترجمہ تھا۔ مذکورہ دونوں اردو کتابچے محدث ماہ جون جولائی ۱۹۸۴ ء کے مشترکہ شمارے میں شائع کئے جا چکے ہیں صرف بعض مختصر اجزاء کو ساقط کیا گیا ہے۔ لہذا قارئین اس شمارے میں اس کی تفصیلات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

مطبوعہ اوراق میں حکومت نورستان سے متعلق جریدہ فریدہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے دو مضامین کی فوٹو کاپیاں تھیں ان کے علاوہ ’’دولت اسلامی انقلابی افغانستان‘‘کے لیٹر پیڈ پر ٹائپ شدہ دو خطوط بلکہ اعلام نامے تھے۔ ایک سربراہ حکومت مولانا محمد افضل کا جاری کردہ، اور دوسرا مولانا محمد ابراہیم کا جاری کردہ …آخر الذکر اعلام نامہ دو ورقہ ہے۔ مگر افسوس کہ پہلا ورق معلوم نہیں کس کے تسامح سے میرے پاس نہیں ہے۔ ذیل میں یہ چاروں تحریریں ترتیب وار ہدیہ قارئین ہیں۔ ؎۱

 

شنبہ ۳۔ /نومبر ۱۹۸۵ ء کو نمائندگان نورستان سے گفتگو ختم ہو چکی تو ایک صاحب نے فیصل آباد چلنے کی دعوت دی۔ یہاں کا ارادہ تو پہلے ہی سے تھا، مگر میری مشکل یہ تھی کہ ابھی لاہور میں میری آمد درج نہیں کرائی گئی تھی۔ اور ان کی مشکل یہ تھی کہ وہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں جاری امتحان کی دوپہر کی نشست میں نگرانی کے لئے فی الفور جانا چاہتے تھے۔ بالآخر طے ہوا کہ دوپہر بعد روانگی عمل میں آئے اس کے بعد میں محترم حافظ احمد شاکر صاحب کی رہنمائی میں سول لائن گیا موصوف اندر اندراج کر رہے تھے اور میں باہر کی دنیا دیکھ رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس جرائم کش ’’مرکز‘‘ کے عین سامنے سڑک کے اس پار اسلامیہ کالج کے گیٹ کی پیشانی پر ایک سیاہ بینر کی پٹی لگی ہوئی ہے، اور اس پر لکھا ہوا ہے کہ ’’اسلامی جمعیۃ الطلبہ کے کارکن شاہنواز کے قاتل کو پھانسی دو ‘‘ جرائم کی روک تھام میں ناکامی اور حصول انصاف میں دشواری و نامرادی کا یہ ’’سیاہ اعلان‘‘ کتنا واضح ثبوت ہے اس کا کہ انسانوں کے لئے ایک روزحساب اور یوم جزا کی شدید ضرورت ہے جہاں عدل و انصاف کے تقاضے ٹھیک ٹھیک طور سے پورے کئے جا سکیں۔ لتجزی کل نفس بماتسعی۔ ؎۱

کوئی چار بجے ہم نے رخت سفر باندھا۔ لاہور میں نوع بہ نوع سواریاں بہت نظر آتی ہیں۔ تانگوں کی تو گویا وہاں فصل بہار ہے۔ مگر رکشے کا کہیں وجود نہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پورے پاکستان میں کہیں رکشا نہیں چلایا جاتا۔ پاکستان نے اپنے شہریوں کی گردن اس ذلت سے آزاد کر دی ہے۔ کاروں، بسوں اور نیم بسوں کا ہجوم رہتا ہے۔ دور دراز کے لئے فلائنگ کوچ کا بڑا معقول انتظام ہے۔ اس کا ہیولیٰ قدرے سبک ہوتا ہے۔ ماڈل خوبصورت، رفتار انتہائی تیز، اندرسردوگرم رکھنے کا سسٹم، سیٹیں ہوائی جہازجیسی۔ ایک اور بس بڑی دلچسپ ہوتی ہے، دائیں بائیں سے اس کی بڑی قدرے پھیلی ہوئی کمان کی شکل میں اس طرح (نیم گولائی لئے ہوئے ہوتی ہے۔ کھڑکی کا شیشہ بھی اس طرح گول ہوتا ہے۔ )کونوں پر ٹین یا کسی سفید دھات کی چادر چڑھی ہوتی ہے، اور اس پر دہلی کے المونیم کے برتنوں پر بنے ہوئے نقش و نگار کی طرح بیل بوٹے منقش ہوتے ہیں۔ بعض بعض بسوں پر مینا کاری اور پچی کاری بھی کی ہوتی ہے، جسے دیکھ کر نوابوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پیچھے کے شیشے پر عموماً مالک یا کمپنی کے نام کے ساتھ اس بس کو طیارہ بھی لکھا جاتا ہے، مثلاً ’’ باجوہ طیارہ ‘‘ ’’بلوچ طیارہ‘‘ دیکھنے میں تو یہ بس کھلونا معلوم ہوتی ہے، مگر رفتار بے حد تیز، سنا ہے اب یہ ماڈل رخصت ہو رہا ہے۔ ہمارا سفر ایسی ہی ایک بس سے ہوا۔

فیصل آباد میں ہم محلہ ساجی آباد اتر کر جامعہ سلفیہ پہنچے تو وہاں عشاء کی نماز ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ضیافت کا انتظام ہو گیا، اور پھر ہم خواب گاہ پہنچے۔ مگر وہاں سونے کے بجائے لاہور سے ساتھ آنے والے میزبان کے ساتھ ڈھائی بجے رات تک گفتگو ہوتی رہی۔ موصوف کا اسم گرامی مولانا اشرف جاوید ہے۔ نئے اہلحدیث ہیں، سرگرم جوان ہیں۔ اپنے خاندان اور گاؤں میں مسلک کی کامیاب نشر و اشاعت بھی کر رہے ہیں۔ جامعہ سلفیہ کے مدرس اور لائبریرین ہیں۔ تاریخ اہلحدیث، خصوصاً تاریخ مجاہدین سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اس تحریک کے بعض بقیۃ السلف سے مل کر بہت کچھ معلومات بھی جمع کر چکے ہیں، اور اسی سلسلے میں ہندوستان آ کر بنگال کے مراکز تحریک دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔

فجر بعد( یکم دسمبر ۱۹۸۵ ء یوم یکشنبہ )مولانا عبدالحمید نشاطی کو اپنی آمد سے مطلع کیا گیا موصوف مدینہ یونیورسٹی کے فضلاء میں سے ہیں اور کتابوں کی نشر و اشاعت کا بڑا پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں۔ دور طالب علمی میں ایک بار بنارس بھی تشریف لا چکے ہیں۔ مدینہ میں ان سے بار بار کی ملاقات رہی ہے۔ وہ اطلاع ملتے ہی جامعہ سلفیہ تشریف لائے، اور ہم سب کو اپنے گھر لے گئے۔ جو محلہ نشاط آباد میں واقع ہے۔ یہاں نشاط مل کی بلند و بالا چمنی ہر آنے والے کے استقبال کے لئے ہمہ وقت مستعدرہتی ہے اور نشان راہ کا کام بھی دیتی ہے۔ یہ کپڑے کی بہت بڑی مل ہے اور فیصل آباد میں اس طرح کی بہت سی ملیں ہیں۔ یہ شہر درحقیقت ایک بہت اہم صنعتی مرکز ہے، جس نے پاکستان کو مختلف مصنوعات کے اندر خود کفیل بنانے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ یہاں بنے ہوئے کمبل اور نوع بہ نوع کپڑے دنیا کے اچھے اچھے صنعتی ممالک کی مصنوعات کے ہم پلہ ہیں، اور پاکستان کے اندر نہایت ارزاں ہیں۔ اس لئے باشندگان پاکستان اس شہر پر ناز کرتے ہیں اور اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم نشاط آباد کی ایک گلی میں مڑے تو بالکل مؤ ناتھ بھنجن کا سماں تھا۔ ہر طرف سے پاور لوم کی آوازیں آ رہی تھیں۔

مولانا عبدالحمید صاحب کے مکان پہنچے تو ان کے برادر عزیز مولانا عبید اللہ بھی آ گئے، جو حسن اتفاق سے ان دنوں سعودیہ سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ میری ان سے اس وقت اچانک ملاقات ہوئی تھی جب میں رابطہ کے تقسیم انعامات سیرت کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہلی بارسعودی عرب گیا تھا، پھر مکہ میں وہ مسلسل ساتھ رہے۔ اب پاکستان میں اچانک ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی، پر تکلف ناشتے کے بعد قدیم شہر کا رخ کیا گیا۔ اس شہرکا اصل نام اپنے آباد کار کے نام کی مناسبت سے لائل پور تھا۔ اور اس کی عیسائیت پرستی کا حال یہ تھا کہ بیچ شہر میں گھنٹہ گھر قائم کر کے مختلف زاویوں سے اس طرح سڑکیں نکالیں کہ یونین جیک کا نقشہ بن گیا۔ مگر شاہ فیصلؒ کے سانحۂ شہادت کے بعد اس کا نام فیصل آباد رکھ دیا گیا۔ میں نے لاہور میں پہلے دن اپنے عزیزسے پوچھا تھا کہ شہر لاہور کی کوئی خصوصیت ہندوستان کے بڑے شہروں سے مختلف نظر آتی ہے ؟تواس نے فوراً کہا تھا کہ یہاں کی سڑکیں بہت کشادہ ہیں، اور واقعی سڑکیں اتنی کشادہ تھیں کہ میدان معلوم ہوتی تھیں۔ مگر میں نے دوسری خصوصیت پوچھی تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ بالآخر میں نے ہی کہا کہ یہاں کی عمارتیں کشادہ جگہ لے کر بنائی گئی ہیں اور بلند ہونے کے بجائے عموماً ایک منزلہ اور دو منزلہ ہیں، جس سے شہر چپٹا معلوم ہوتا ہے۔ یہ دونوں خصوصیتیں فیصل آباد میں بھی نظر آئیں۔

ہم نشاط آباد سے روانہ ہو کر گھنٹہ گھر کے قریب اترے، اور بائیں ہاتھ ایک گلی میں چل پڑے، جو اتنی کشادہ تھی کہ اسے سڑک کہنا چاہئے۔ دائیں بائیں گاڑیوں پر مختلف مصنوعات کے ڈھیر لد رہے تھے۔ ہمارے یہاں شہروں میں غلہ لادنے کے لئے ایک بیل گاڑی ہوتی ہے۔ جس میں پہیوں کے اوپر ترتیب سے پیڑے جمائے رہتے ہیں اور وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف سے بالکل کھلی رہتی ہے۔ یہاں بالکل ایسی ہی گاڑیاں تھیں، مگر سائزاور اونچائی کچھ کم اور ان میں بیل کی جگہ گدھے جتے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس گاڑی کو یہاں کی زبان میں ریڑا کہتے ہیں۔ ان میں جتے ہوئے گدھے اتنے بلند قامت تھے کہ پوچھنا ہی پڑا کہ یہ گدھے ہی ہیں یا کسی خاص قسم کے خچر اور گھوڑے ؟بتایا گیا کہ یہ گدھے ہی ہیں۔ اور یہاں ان کا قد و قامت یہی ہوتا ہے لاہور کے دراز قامت گھوڑوں کے مشاہدہ کے بعد اس جدید مشاہدہ پر کتنا تعجب کرتا۔

چند گلیوں (یعنی سڑکوں )سے گزر کر ہمارے میزبان ایک گھرکی سیڑھی پر بلا اجازت چڑھنے لگے۔ ہم نے بھی اقتدا کی۔ ایک ہی مرحلہ کے بعد ایک متوسط حجرے میں ایک جواں عمر عالم تشریف فرما تھے۔ تابناک چہرے پر سیاہ ڈاڑھی نور ٹپک رہا تھا۔ بڑے تپاک سے ملے، معلوم ہوا، مولانا ارشاد الحق اثری ہیں، اور یہ ادارہ علوم اثریہ کا ایک گوشہ ہے، جہاں موصوف حدیث اور علوم حدیث کی کتابوں کی تحقیق کا نہایت گرانمایہ کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ چہرے کی نورانیت غالباً اسی پر خلوص خدمت کا نتیجہ ہے۔ کثراللہ فینا امثالہ۔ موصوف سے غائبانہ واقفیت تھی، مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ ہم دیر تک یہیں بیٹھے رہے، اور مختلف موضوعات کا گویا صحیفہ کھلا رہا۔ دوران گفتگو مولانا اثری نے مسندحمیدی کی ایک حدیث میں ’’مولانا ابو المآثر حبیب الرحمن الاعظمی ‘‘کی خیانت دکھلائی۔ اس کا علم راقم کو کئی سال پہلے ہو چکا تھا۔ لیکن مولانا اثری نے ثبوت کے لئے مجھے مکتبۂ ظاہریہ کے اس مخطوطے کا فوٹو بھی دکھلایا جس سے مولانا حبیب الرحمن نے مسند حمیدی کا متن لیا ہے اس سے تقابل کیجئے تو حضرت ’’علامہ‘‘ کی خیانت بالکل آشکارا ہو جاتی ہے۔ میری خواہش پر مولانا اثری نے اس کی ایک فوٹوکاپی مجھے عنایت فرما دی۔ تفصیلات اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

اثنائے گفتگو ایک اور بزرگ تشریف لائے۔ چہرہ عمر کے ساتھ ساتھ کردار و عمل کی پختگی اور تجربات کی وسعت کا پتہ دے رہا تھا معلوم ہوا مولانا محمداسحاق صاحب چیمہ ہیں جو کبھی جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے نظم ونسق کے ذمہ دار رہ چکے ہیں۔ مولانا بھی شریک محفل ہو گئے مجھ سے مقاصد سفر دریافت فرمایا تو میں نے عرض کی کہ بس یہی جماعتی اداروں کا عموماً اور رزم گاہ بالاکوٹ کا خصوصاً مشاہدہ کرنا، جماعتی شخصیات سے ملنا ملانا، فرمایا، قریب ہی ماموں کانجن میں ایک ادارہ جامعہ تعلیم الاسلام ہے، اسے دیکھ لیں۔ یہ بھی بالاکوٹ ہی کی ایک کڑی ہے اسے دیکھے بغیر بالاکوٹ کا سفر ادھورا رہے گا۔ اس اطلاع نے سمندشوق کے لئے مہمیز کا کام دیا، اور وقت کی تنگ دامانی کے باوجود اگلے دن وہاں چلنے کا پروگرام میں نے قبول کر لیا۔

نیچے سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی، اور ہم ظہر کی نماز کے لئے تیار ہو گئے۔ فرض کے بعد مجھے کچھ اپنے دیار کے احوال سنانے کا حکم دیا گیا۔ تعمیل میں میں نے چند جملے عرض کئے۔ اور اس کے بعد ہم نے شہر کے بعض دوسرے مقامات سے گزر کر واپسی کی راہ لی۔ نشاط آباد پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ نماز پڑھ کر پر تکلف کھانا تناول کیا گیا۔ اور اس کے بعد ہم اگلے پروگرام کے لئے تیار ہو گئے۔ میری خواہش تھی کہ مولانا عبدالغفار حسن صاحب رحمانی مدظلہ اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب سے ملوں۔ اور جامعہ تعلیمات اسلامیہ کا مشاہدہ کر لوں۔ میزبان فیصل آباد زرعی کالج یا یونیورسٹی بھی دکھلانا چاہتے تھے۔ مگر ہماری روانگی میں قدرے تاخیر ہو گئی۔ مغرب کی نماز جامعہ سلفیہ ہی میں پڑھی گئی۔ اس کے بعد ہماری پہلی منزل مولانا عبدالغفار حسن صاحب رحمانی مدظلہ کا دولت کدہ تھا، مگر وہی آخری منزل بھی ثابت ہوا۔ مولانا بڑے تپاک سے ملے اور احوال پاکستان اور یاد ماضی کا دفتر کھول دیا۔

مولانا نے پاکستان میں قوانین کے ’’اسلامیزیشن ‘‘کے عمل کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بڑے نپے تلے الفاظ میں مسلم جماعتوں کے خیالات اور کردار و عمل کا نقشہ کھینچا :فرمایا کہ اس وقت ہمارے یہاں تین طرح کی باتیں پائی جا رہی ہیں (۱)غالیانہ شدت (۲)ملحدانہ جدت(۳)مجرمانہ غفلت، پھر ہر ایک کی تشریح کی۔ فرمایا کہ غالیانہ شدت دیوبندی اور بریلوی حضرات میں پائی جا رہی ہے۔ ان کا نہایت شدت سے اصرار ہے کہ پاکستان میں خالص فقہ حنفی نافذ کی جائے اور حرف بہ حرف نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں مولانا نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں قسامت کے قانون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ (قسامت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان کسی جگہ مقتول پایا جائے، لیکن قاتل کا پتہ نہ ہو۔ تاہم مختلف ذرائع سے بعض افراد کا ملوث ہونا بالکل ظاہر ہو۔ ایسی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مقتول کے اولیا ء اور متعلقین میں سے پچاس آدمی ایسے شخص کے متعلق قاتل ہونے کی قسم کھالیں تواس سے مقتول کا خونبہا لینے کے حقدار ہو جائیں گے، لیکن اگر وہ قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوں تو جس شخص پر قاتل ہونے کی تہمت ہے، اس کے پچاس آدمی قسم کھائیں گے کہ نہ ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا علم ہے، اور وہ قتل کے الزام سے بری ہو جائیں گے۔ اور بری ہونے کے معنی ظاہر ہیں کہ ان سے خون بہا نہیں لیا جا سکتا۔ ) لیکن معلوم نہیں کس بنیاد پر علماء احناف کا اصرار تھا کہ اس کیس میں اگر قتل کے ملزم کے پچاس آدمی قسم کھالیں تب بھی ان سے خون بہا لیا جائے گا، مولانا نے بتلایا کہ اس معاملہ پر ان لوگوں نے فضا کو سخت جذباتی بنا دیا تھا، اور اس تجویز کو قبول نہ کرنے کے معنی وہ یہ قرار دے رہے تھے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سمیت تمام فقہاء احناف کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود قانون دانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس تجویز کو اپنی حلق سے اتار نہیں پا رہا تھا، اور فضا جذباتی ہوتی جا رہی تھی۔

مولانا نے بتلایا کہ عام کتب احادیث کو لئے لئے تو سفرکیا نہیں جا سکتا، اس لئے میں بلوغ المرام رکھ لیا کرتا ہوں کہ اختصار کے باوجود وہ بہت جامع کتاب ہے۔ میں نے اس کتاب کے حوالہ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ پیش کیا، جس کا الزام یہود پر تھا، مگر ان کے قربتدار قسم کھانے پر آمادہ نہ تھے (کیوں کہ انھوں نے کسی یہودی کو قتل کرتے دیکھا نہیں تھا)اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکومت کی طرف سے اس کی دیت ادا کر دی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں نے اس حدیث کو پیش کر کے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ یہی ہے، اور آپﷺ کا فیصلہ قبول کرنے میں کسی کی توہین نہیں۔ قانون داں طبقے نے اس بات کو بڑے انشراح صدر کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ یہ بات جواس حدیث سے ثابت ہوتی ہے یہ البتہ قانونی ضابطوں اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ نظریاتی کونسل کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوا۔

ملحدانہ جدت کی توضیح کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ اسلامی قانون سازی کے عمل میں ایک ایسا طبقہ پوری قوت کے ساتھ دخیل ہونے کے لئے کوشاں ہے جو مغرب کے تمام الحادات کو اسلامی جامہ پہنا کر اسلامی قانون کا نام دے رہا ہے۔ یہ طبقہ قرآن و حدیث میں حیرت انگیزقسم کی تراش خراش سے کام لے رہا ہے۔ اس نے اپنے گھڑے گھڑائے ضابطوں سے حدیث کا بڑا حصہ تویوں ہی ناقابل حجت قرار دے رکھا ہے۔ تھوڑا سا حصہ جواس کے نقطۂ نظر سے احتجاج واستدلال کے دائرے میں آ سکا ہے، اس کی ساری حیثیت پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق چودہ برس پہلے کے عرب کے خالص صحرائی ماحول سے تھا، یہ وقتی حکم تھا اور زمانہ کے تغیر اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ اس کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی۔ مولانا نے بتلایا کہ اس اصول کی بنیاد پر صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن کے صریح اور منصوص احکام و قوانین تک کو بدلنے کی بات کہی جا رہی ہے۔

مولانا نے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ اس انداز فکر کی ساخت پرداخت میں مولانا امین احسن اصلاحی کے غیر متوازن فکری رجحانات کا بڑا دخل ہے۔ اور آجکل ان ہی کا ایک نہایت تیز، طرار، ذہین، ہوشیار اور چالاک شاگرد اس کج فکری کی قیادت کر رہا ہے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے بعض افراد کا بھی یہی رجحان ہے۔ کراچی کے بعض اکابر دیوبند کے صاحبزادگان بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ اور ڈاکٹر اسراراحمدکی دعوت بھی فکری،ا تھل پتھل کا شکار ہے۔ اندیشہ ہے کہ وہ بھی غلط ڈگر پرنہ چل پڑے۔

مولانا نے کہا کہ یہ لوگ غیر مقلد تو ہو گئے مگر اہلحدیث نہ ہو سکے۔ غیر مقلدیت اور اہلحدیث میں عموم خصوص مطلق ہے۔ غیر مقلد عام ہے۔ یعنی غیر مقلد تو ہر وہ شخص ہو جاتا ہے جو تقلید ترک کر دے، مگر اہلحدیث اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ محدثین کے مکتب فکر کو اپنا لے۔ اور عقیدہ و عمل سے لے کر قوانین و ضوابط تک ہر چیز کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھے۔ اسی لئے مولانا امین احسن اصلاحی …کسی حد تک مولانا مودودی …ڈاکٹر اسراراحمد، مولانا حنیف ندوی وغیرہ یہ لوگ غیر مقلد تو ہیں مگر اہلحدیث نہیں۔

مولانا نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں اس طبقہ کی طرف سے جو فکری انارکی یا ملحدانہ جدت ابھر رہی ہے، اور علماء احناف کی طرف سے جس غالیانہ شدت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس کا جواب صرف اور صرف جماعت اہلحدیث کے پاس ہے۔ اسی کے پاس ایسا مضبوط، ٹھوس اور پائدار اصول ہے کہ ایک طرف وہ اس الحاد کا بھی قلع قمع کر سکتی ہے اور دوسری طرف اس شدت اور جمود کو بھی توڑسکتی ہے۔ ادھر جو طبقہ اسلام کو نافذ کرنے اٹھا ہے،اس نے اہلحدیث کے اصول کو یعنی کتاب وسنت کو ماخذ قانون بنایا ہے، اور وہ کسی جانبداری اور عصبیت میں مبتلا ہونے کے بجائے خالی الذہن ہو کرسنجیدگی کے ساتھ کتاب وسنت کی باتیں سننے اور ماننے کو تیار ہے۔ بلکہ ان کی فکری ساخت اسی کا تقاضا کر رہی ہے، جیسا کہ قسامت اور دیگر قوانین کے تعلق سے واضح ہو چکا ہے۔ مگر یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس وقت جماعت اہلحدیث اس فیصلہ کن رول کو ادا کرنے کے بجائے مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ اور اس جماعت کے علماء حکمراں، قانون ساز اور قانون داں طبقے کی اس فکری ہمواری سے فائدہ اٹھا کران کے اندر اس صحیح مکتب فکر کو فروغ دینے اور اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے بجائے قصے کہانیوں پر مشتمل وعظ گوئی اور غیر معقول کشمکش اور کشاکش میں مبتلا ہیں، اور اصل میدان کار سے الگ تھلگ ایک بالکل ہی دوسرے کام میں اپنی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔

اس کے بعد مولانا نے بنارس کا تذکرہ کیا۔ موصوف عرصہ ہوا، جامعہ رحمانیہ میں چھ سال تک درس وتدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے دور کے ایک ایک شخص کی خیریت دریافت کی۔ اپنی رہائش کی جگہوں اور گلی کوچوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ یا دداشتوں کی گویا بیاض کھول دی۔ اور ماضی کے اوراق پارینہ الٹتے رہے۔ خاصی دیر بعد ہم واپس ہونے لگے تو گاڑی نے چلنے سے انکار کر دیا، ہر چند کوشش کی گئی مگر بے سود۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مولانا نے ہماری شام کی ضیافت کر دی، جس کے لئے وہ دیر سے مصر تھے۔ اس دوران نشاط آباد سے گاڑی کے اصل ڈرائیور بلائے گئے گاڑی کو تیار ہونے میں وقت نہ لگا۔ رات ڈھل رہی تھی اور ہم حکیم اشرف صاحب سے ملے بغیر اور جامعہ تعلیمات اسلامیہ نیز زرعی یونیورسٹی دیکھے بغیر ہی واپس ہو گئے جسے اس سفر میں دیکھنا نصیب نہ ہو سکا۔

(۲دسمبر دو شنبہ )طلوع آفتاب کے ذرا دیر بعد مولانا محمداسحاق صاحب چیمہ ایک خوبصورت کار لے کر محلہ نشاط آباد پہنچ گئے ناشتہ کیا گیا اور ماموں کا نجن کی راہ لی گئی۔ چوں کہ اب ہمارا سفر دن کی روشنی میں ہو رہا تھا اس لئے نگاہیں گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔ دیکھا گیا کہ دیہاتوں میں بھی بیشتر مکانات پختہ ہیں۔ کچے اور سفالہ پوش مکانات اکا دکا ہی ہیں۔ مولانا اسحاق مدظلہ نے راستے کے متعدد مقامات کے متعلق بتایا کہ آزادی کے وقت تک وہاں خاصے گھنے جنگلات تھے، بعد میں انھیں آباد اور قابل کاشت بنایا گیا۔ اسی ضمن میں انھوں نے ماموں کانجن کے ادارے کی بھی تفصیلات بتائیں، انھوں نے بتایا کہ اس ادارے کو صوفی محمد عبداللہ صاحب نے قائم کیا ہے۔ ان کے تقویٰ، بزرگی، خداترسی، اخلاص اور للہیت کا اثر یہ تھا کہ لوگوں کو جب علم ہوا کہ موصوف ایک مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو متعدد جگہوں سے پیش کش کی گئی، مگر انھوں نے ہر پیش کش مسترد کر کے ایک ویران، سنسان، الگ تھلگ جنگلی علاقے کو اس کے لئے منتخب کیا۔ کیوں کہ وہی ان کے لئے موزوں ترین جگہ تھی۔

مولانا نے صوفی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت کے مجاہدین کی جو تنظیم سرحد میں انگریزوں کے خلاف سرگرم جہاد تھی۔ صوفی صاحب اسی کے ایک رکن رکین تھے، ان کی تربیت مولانا فضل الہی وزیر آبادی نے فرمائی تھی مدرسہ قائم کرنے سے ان کا اصل مقصود یہ تھا کہ اس علاقہ میں مجاہدین کی تیاری اور ان کے لئے رقم کی فراہمی کا ایک محفوظ مرکز وجود میں آ جائے اور اسی لئے انھیں زیادہ سے زیادہ گمنام اور دورافتادہ جگہ کی تلاش تھی بعد میں مولانا نے مزید بتایا کہ صوفی صاحب نے خواب میں مدرسہ کا محل وقوع بھی دیکھا تھا کہ اس کے ایک طرف ریلوے اسٹیشن ہے اور دوسری طرف سڑک اور آج واقعۃ ً مدرسہ ٹھیک اسی پوزیشن میں ہے آپ نے یہ بھی بتایا کہ صوفی صاحب شاہ اسماعیل شہیدؒ کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے تھے۔ عموماً یہ فقرہ کہتے کہ دہلی میں ایک مولوی تھا نام تھا اس کا اسماعیل، اور اس کے بعد زار و قطار روتے، صوفی صاحب کا تعارف اسی شمارے میں دوسری جگہ ملاحظہ فرمائیے !

ہم جامعہ تعلیم الاسلام پہنچے تو کوئی چاشت کا وقت تھا، در و بام پر بہار بکھری ہوئی تھی، سلیقہ سے بنی ہوئی صاف ستھری عمارتیں موزوں مقامات پرمتوسط سائزکے درخت، مختلف حصوں میں تقسیم شدہ صحن، اور ان میں سبزے کی رعنائی، دلکشی اور جاذبیت کے ان اسباب کے علاوہ فضا میں دلبستگی اور جذب و کشش کی ایک ایسی ان دیکھی پر تاثیر قوت بھی تھی، جسے قلب و نظر کی دنیا تو محسوس کر رہی تھی مگر اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا نے ہمیں جامعہ کے مختلف تعلیمی اور رہائشی شعبے دکھلائے۔ دوسری منزل پر ایک وسیع ہال دکھلایا، جس میں افغان طلبہ رہائش پذیر تھے۔ بتایا کہ ان کی ایک معقول تعداد یہاں زیر تعلیم ہے۔ اور ان کے رہائشی طور طریق چوں کہ پاکستانی طلبہ سے مختلف ہیں، اس لئے ان کا انتظام انہی کے مزاج کے مطابق، اور پاکستانی طلبہ سے الگ کیا گیا ہے۔ وہاں سے گزر کر کتب خانہ کی طرف چلے تو مولانا نے عمارت کے انداز تعمیر پر توجہ دلائی، اور فرمایا کہ اسے اوپر سے دیکھئے ! عمارت کا مجموعہ لفظ ’’اللہ ‘‘کی شکل میں نظر آئے گا …جامعہ کے ہال کے اوپر کتب خانہ کی وسیع عمارت ہے، اور کتابوں کا وافر ذخیرہ بڑے قرینے سے سجایا ہوا ہے۔ یہاں کی ’’سیر‘‘کے بعد نیچے آئے تو ہال میں خطاب کا انتظام ہو رہا تھا۔ ہم لان کی کھلی اور خوشگوار فضا میں بیٹھ گئے۔ سری لنکا کے بعض طلبہ نے یہاں پر زیر تعلیم اپنے ملک کے طلبہ کی طرف سے شائع کردہ ایک رسالہ اور بعض کتابچے پیش کئے۔ اساتذہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ مجاہدین میں سے ایک صاحب یہاں موجود ہیں اور وہ یہیں جامعہ کا حساب و کتاب لکھنے کا کام کرتے ہیں۔ میری خواہش پر انھیں بلایا گیا، وہ چھریرے بدن، ستواں چہرے، اٹھتے ہوئے قد و قامت اور ادھیڑ عمر کے تھے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف کا نام عبد الرب ہے۔ اور ضلع مظفر پور بہار ان کا اصل وطن ہے۔ انھوں نے اپنے گاؤں کا کوئی عجیب غریب سا نام بتایا، جہاں بیراگنیاں اسٹیشن سے اتر کر پہنچا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان کے بقیہ افراد یہیں ہیں۔ مگر اب ان سے کوئی ربط نہیں۔ غالباً ایک بار وہ وطن آئے تھے، اور ایک بار انھوں نے اپنی خیریت کا خط لکھ دیاتو ان کے اعزہ مصیبت میں پھنس گئے۔

میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ …غالباً…۱۹۳۴ ء میں جب وہ جوان عزم وج واں سال تھے۔ صوبہ سرحد تشریف لائے، اور مجاہدین چمر قند میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ اسمست کا مرکز خاندان سمیت رہنے والوں کے لئے تھا اور چمرقند میں مجاہدین کی تربیت ہوتی تھی۔ موصوف نے افغانستان کے تعلق سے مجاہدین کے مختلف کارناموں اور افغان حکمرانوں کی نظر میں مجاہدین کی قدر و عزت کی مختلف تفصیلات بتائیں۔ انگریزوں کے حملہ کے وقت قلعۂ غزنی میں تین سو مجاہدین کی شہادت پھر مختلف محاذ پر انگریزوں کے خلاف افغان مزاحمت میں مجاہدین کی شرکت، انگریزوں کی تباہی کی داستان، مجاہدین کے ساتھ نادر شاہ درانی کے تعلقات، نادر شاہ کے قتل، ظاہر شاہ کی تخت نشینی اور اس زمانہ میں مجاہدین کی کوششیں، یہ سب موصوف کو زبانی ازبر ہیں۔

میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے بھی کسی جنگ میں شرکت کی ؟اور تقسیم کے بعد کشمیر کی جنگ میں مجاہدین کا رول کیا رہا ؟تو انھوں نے بتایا کہ مجاہدین اپنے ساتھ پٹھانوں کو شامل کر کے تین محاذوں پر جنگ لڑی۔ ایک بارہمولہ اور سری نگر کا محاذ اس محاذ پر ہمارے امیر بہ نفس نفیس شریک جنگ تھے، اور ہم نے اتنی پیش قدمی کر لی تھی کہ سری نگر ہم سے چند میل کے فاصلے پر رہ گیا تھا، مگر اسی دوران یہ افواہ اڑی کہ ہندوستانی فوج ٹینک اور ہوائی جہاز لے کر آ پہنچی ہے، اس کے نتیجہ میں پٹھانوں نے واپسی کی راہ لی۔ انھیں روکنے کی ہرچند کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ ان کا مستقل وطیرہ یہی ہے وہ جدھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ خواہ پیش قدمی کا، خواہ بھاگنے کا روکے نہیں رکتے۔ اس کے نتیجہ میں ہمارے بہت سے مفتوحہ علاقے ہاتھ سے نکل گئے۔

دوسرا محاذ پونچھ کا تھا۔ موصوف نے بتایا کہ اس میں میں بہ نفس نفیس شریک تھا۔ ایک لڑائی میں ہم نے حکمت عملی سے کام لے کر ایک بھی گولی چلائے بغیر سات سو ڈوگرہ فوجیوں کو قید کر لیا تھا۔

تیسرامحاذ میر پور کا تھا۔ یہاں بھی متعدد معرکے ہوئے تھے۔ اس وقت کا عالم یہ تھا کہ نہ کشمیر یوں کے پاس قاعدے کے اسلحہ تھے، نہ پاکستانی رضاکاروں اور فوج کے پاس۔ اس معاملے میں سب سے اچھی پوزیشن مجاہدین کی تھی۔ اور انھوں نے باقی لوگوں کو اسلحے فراہم کیے تھے۔

ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ خطاب کے انتظامات مکمل ہو گئے، اور ہمیں وہاں بلا لیا گیا طلبہ اور مدرسین جمع ہو چکے تھے۔ تلاوت کے بعد خیر مقدمی تقریر ہوئی، اور ’’مہمانوں ‘‘کا تعارف کرایا گیا۔ پھر میزبانوں کی خواہش پر اس ’’مہمان‘‘ نے کچھ عرض کیا۔ جس میں مسلمانوں کے مقصد وجود پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی کیفیت کا جائزہ پیش کیا گیا، اور اس کے تئیں علماء کی عظیم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نیز جماعت اہلحدیث ہند اور جامعہ سلفیہ بنارس کے موجو دہ حالات و کوائف بتائے گئے۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد اسی لان پر پر تکلف کھانوں کا دسترخوان چنا گیا اور ناؤ نوش کے بعد واپسی کی راہ لی گئی۔ اساتذہ کرام میں سے مولانا عبدالقادر ندوی اور مولانا قاضی اسلم سیف صاحب نے خصوصاً دوبارہ آمد کی دعوت دیتے ہوئے اس کی تعمیل پر اصرا ر فرمایا دیکھئے اللہ نے کیا مقدر فرمایا ہے۔

فیصل آباد اور اس کے نواح میں جماعت کے اعیان وسربراہان سے ملتے ہوئے جامعہ سلفیہ پہنچے تو مولانا اشرف جاوید منتظر تھے عصر بعد کا وقت تھا، اور جامعہ سلفیہ کی مجلس منتظمہ کی میٹنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ سارے ذمہ داران سے یکجا ئی ملاقات ہو گئی۔ اور طرفین کو بڑی مسرت ہوئی وہیں میاں فضل حق صاحب اور مولانا حبیب الرحمن شاہ صاحب (راولپنڈی )کے ساتھ طے ہوا کہ ہم جمعرات کو صبح دس بجے روالپنڈی پہنچ جائیں اور وہاں سے میاں صاحب کی معیت میں بالاکوٹ کا اس طرح سفر ہو گا کہ بالاکوٹ ہی میں جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔

آج کی رات پھر جامعہ سلفیہ میں گزاری، رات ہی میں میں نے جامعہ کی لائبریری دیکھی۔ صبح سویرے (۳دسمبر/منگل )لاہور واپسی کا پروگرام تھا۔ مگر مولانا عبدالحمید نشاطی کے یہاں کوئی مہمان آ گئے تھے۔ اس لئے ہم ان کے انتظار میں کوئی دس بجے تک رکے رہے۔ اس دوران میں نے جامعہ میں ہر طرف گھوم گھوم کر اس کے در و بام دیکھے۔ جامعہ کے ایک استاد مولانا عبداللہ سے ملاقات ہوئی، جو مالدیپ کے رہنے والے ہیں اور ٹھیٹھ عربی لب و لہجہ میں نماز پڑھاتے ہیں۔ عربی میں گفتگو ہوتی رہی، میں سمجھتا تھا وہ اردو نہیں جانتے مگر انھوں نے اچانک اردو میں گفتگو شروع کر دی۔ معلوم ہوا موصوف جامعہ دارالسلام عمرآباد کے فارغ ہیں، اور اردو وہیں سیکھی ہے۔

جامعہ کے ہال کے کمرے کے سامنے ایک برآمدہ نماسائبان بنا ہے۔ جس کی چھت کے عین بیچ کا اور دونوں کناروں کا حصہ اونچا ہے بیچ اور دونوں کناروں کے درمیان میں سفالہ پوش چھت کی طرح نیچا ہے۔ شکل یوں ہے YYمیں نے سمجھا یہ محض ڈیزائن ہے مگر مولانا اشرف جاوید نے بتایا کہ یہ نشان جامعہ ہے چھت کی بناوٹ ایسی ہے کہ گویا کھمبوں پر دو کتابیں کھول کر رکھی ہیں داہنی کتاب کی جلد کا بایاں کنارہ بائیں کتاب کی جلد کے دائیں کنارہ پر چڑھا ہوا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ ہم دوہی کتابوں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے قائل ہیں اور کتاب اللہ کا مرتبہ بلند ہے۔ میں نے غور کیا تو واقعی یہ چھت دو کھلی ہوئی کتابیں تھیں۔ نیچے جلد کا رنگ ہر بنایا گیا تھا، اور کونوں اور پشت پر چرمی جلد والا چاکلیٹی رنگ لگا ہوا تھا۔

کوئی دس بجے تک انتظار کے بعد نشاطی صاحب سے ملے بغیر ہی ہم نے لاہور کی راہ لی، ہمارے ساتھ کتابوں کا ایک بڑا بنڈل تھا، جسے ساتھ رکھنا ہماری ذمہ داری تھی، مگر کنڈکٹر نے باہر ہی سے تھام کر اپنے پاس رکھ لیا، اور راستے بھر سنبھالتارہا۔ اور جب سنبھالنے میں خلل پڑتا نظر آیا تو اسے ایک نوجوان کے حوالہ کر دیا اور وہ اپنے اوپر رکھ کر لے آیا، اور لاہور پہنچ کر ہمارے حوالہ کیا راستے میں جب کسی بس اڈے پر بس رکتی تو سامان خورد و نوش بیچنے والے بچے اور نوجوان کھڑکیوں کے پاس سامان لئے شور مچاتے پھرتے مگر ان کے پاس گرم چنوں اور مونگ پھلیوں کے بجائے چھیلے ہوئے گنوں کی چھوٹی چھوٹی تراشی ہوئی خوشنما گنڈیریاں اور خشک میووں کی چھوٹی چھوٹی پیکٹیں ہوتیں، یا پھلوں کے خوانچے ہوتے۔

ظہر کے وقت ہم لاہور دارالدعوۃ السلفیہ پہنچے تو شیخ الحدیث مولانا محمدحسین صاحب شیخوپوری حفظہ اللہ کے صاحبزادے فاضل نوجوان، مولانا عطاء الرحمن صاحب حفظہ اللہ تشریف فرما تھے۔ وہ ہمیں اپنے ادارہ میں مدعو کرنے آئے تھے۔ اگلا دن طے ہوا۔ اہل لاہور اور خصوصاً اپنے میزبانوں سے گفتگو کے مواقع شکوہ کی حد تک کم مل سکے تھے۔ لہذا آج دفتر الاعتصام میں کچھ اوقات صرف کئے گئے، اور سرشام تفریح کا پروگرام بن گیا۔ مکتبہ سلفیہ میں مولانا عطاء اللہ ثاقب تشریف فرما تھے، اور انھیں کی اقتداء میں ریس کورس پارک دیکھا گیا، جو بڑے خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا۔ گیٹ سے داخل ہونے کے بعد بائیں جانب فواروں کی ایک لمبی قطار استقبال کرتی ہے، جس میں فواروں کی ہیئت اور رنگت ہر ایک منٹ میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کبھی وہ سروکادرخت بن جاتے ہیں تو کبھی کمانوں کی جالی اور کبھی کچھ اور آگے دور پہاڑی نما اونچائی دکھائی دے رہی تھی، اور اس کے کنارے سے نیلی بتیاں قریب پہنچے تو مصنوعی جھیل تھی۔ میزبانوں کی خواہش پراسٹیمرسے جھیل کا بھی تین چار طواف کیا گیا۔ واپسی پر مزید تفریح کی گنجائش نہ تھی البتہ رات دیر تک مولانا عطاء اللہ حنیف مدظلہ کی خدمت میں بیٹھ کر جماعت کی علمی تاریخ کتابوں کی تالیف و اشاعت اور مختلف علمی موضوعات پر معلوماتی داستانیں سنتارہا۔

۴/دسمبر ۱۹۸۵ ء بدھ کی صبح عزیزم حماد سلمہ کے ہمراہ ٹہلنے کے ارادے سے نکلا تو فیصلہ ہوا کہ علی ہجویری کی قبر عرف ’’مزار حضرت داتا گنج بخش ‘‘دیکھ لیں جو شیش محل روڈ کے بازو ہی میں واقع ہے چند گلیوں سے گزرکرسنگ مرمرسے بنے ہوئے ‘ احاطہ کے ایک فرش پر پہنچے تو دیکھا کہ بیچ میں کھمبوں پرسنگ مرمر کا ایک مختصر ساسائبان ہے اور کھمبوں کی نصف اونچائی تک ہر چہار جانب سے جالیاں لگی ہوئی ہیں، پختہ قبر صاف دکھائی دیتی ہے۔ گرداگرد بیٹھے ہوئے لوگ تسبیح و تلاوت اور دعا و مناجات میں مصروف ہیں، اور کئی ایک جالی سے چمٹے ہوئے مدہوش و بے قرار ہیں۔ بعض قدرے دور بیٹھے ہیں۔ قبر اور اس کا ہر چہار جانب کا صحن خالص سنگ مرمر ہے۔ آگے مسجد ہے جو بالکل جدید ڈیزائن پر نہایت خوبصورت اور چمکتی ہوئی سفید ہے، اور ہنوز زیر تعمیر ہے۔ مسجد کی پچھلی یعنی پوربی دیوار کے صحن مزار اور مسجد کے درمیان حد فاصل ہے۔ محل وقوع ایسا ہے کہ مسجد میں جہاں بھی کھڑے ہوں قبر اور اس کا صحن مکمل طور پر مصلی کے پیچھے اور مسجد سے باہر پڑے گا۔ بتایا گیا کہ منتظمین مزارمسجد کو اس طرح بنوانا چاہتے تھے کہ مزار بیچ مسجد میں پڑے اور آنے جانے والے شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا طواف کر ڈالیں۔ مگر محکمۂ اوقاف نے وہ صورت اختیار کی جو اوپر مذکور ہوئی۔

قبرپرستی کا مکروہ منظر دیکھ کر ہم دکھنی دروازے سے سڑک پر اترے تو اس کے دوہی قدم بعد احاطہ مزار کا ایک اور دروازہ ملا، جو مقفل تھا، مگرسلاخوں سے اندرونی منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اندر سیڑھی تھی جس کے خاتمے پر پھر دروازہ تھا۔ یہ خوبصورت لکڑی کا تھا، اور اس پر پہلے پتر چڑھے ہوئے تھے اس پر مینا کاری کی ہوئی تھی بتایا گیا کہ یہ پتر سونے کے ہیں اور اسے پاکستان کے مصلوب حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے بنوایا تھا۔ میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ حماد سلمہ نے کہا ’’نیچے دیکھئے ‘‘ادھر نظر کی تو دیکھا کہ اس قدر روپئے پڑے ہوئے ہیں گویا موسم خزاں میں جھڑے ہوئے پتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ شام تک یہ حصہ نوٹوں سے بھر جاتا ہے، واپسی کے لیے بڑھے تو گلی کوچوں میں پھول اور ریوڑی بتاشے وغیرہ اس کثرت سے بکتے نظر آئے کہ ہمارے شہر بنارس کی سب سے بڑی مندر کے گرداگرد گلی کوچوں میں بکنے والے پھول وغیرہ اس کے سانے ہیچ ہیں۔ بتایا گیا کہ جمعرات کو یہاں عورتوں کا بیحد ہجوم رہتا ہے اور پہلے یہ حرام کاری اور عصمت دری کا بہت بڑا اڈہ بھی تھا مگر اب ضیاء حکومت کی پیہم کوششوں سے اس پر کنٹرول ہو رہا ہے۔

ہم مزار کا تماشہ دیکھ کر واپس ہوئے تو میں مولانا عطاء اللہ حنیف مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں حکیم نسیم سوہدروی تشریف فرما تھے، بڑے تپاک سے ملے، سیرت کی تالیف و ترجمہ پر بار بار مبارکباد دیتے رہے چونکہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں اور مدتوں یوپی میں رہ چکے ہیں، اس لئے اپنی زندگی کے اور اق پارینہ بڑی دلبستگی و دلآویزی کے ساتھ الٹتے رہے موصوف نے مولانا ظفر علی خاں مرحوم پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے۔ جس میں ان کے پر آشوب عہد، تقریباً تمام اہم تاریخی واقعات مع پس منظر و پیش منظر آ گئے ہیں، اس لئے مجھے ان سے مل کر بڑی مسرت ہوئی میں نے انھیں ان کے اس کارنامہ پر صمیم قلب سے خراج تحسین پیش کیا۔ موصوف عجلت میں تھے اس لئے جمعہ کے دن ملنے کا وعدہ کر کے تشریف لے گئے۔

دوپہرسے کچھ پہلے حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا محمدسلیمان انصاری حفظہما اللہ کی معیت میں میزبان کی قیادت میں شیخوپورہ کے لئے روانگی عمل میں آئی۔ مدرسہ پہنچے تو ظہر کی نماز ختم ہو رہی تھی نماز پڑھ کر پر تکلف کھانا کھایا گیا، کچھ اعیان جماعت بھی تشریف فرما تھے، جن میں ایک چودھری صاحب جن کا نام یاد نہیں رہ گیا وزارت میں بھی رہ چکے ہیں جماعتی اور غیر جماعتی موضوعات پر عصر تک گفتگو ہوتی رہی، عصر بعد مجھے طلبہ سے خطاب کا حکم ملا اور میں نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے میزبانوں کے تئیں اپنے احساسات، جماعتی فرائض اور ہندوستان میں جامعہ سلفیہ، جمعیۃ اہلحدیث اور دیگر نمایاں جماعتی اداروں کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ بہت سی معلومات صرف طلبہ ہی بلکہ اکابرین جماعت تک کے لیے نئی تھیں جن پر انھوں نے بے اختیار صدائے تحسین بلند کی، اس کے بعد ہمارے میزبان خاص شیخ الحدیث مولانامحمدحسین صاحب شیخوپوری کسی اجلاس کے لیے تشریف لے گئے اور ہم نے لاہور کی راہ لی۔

آج شام نماز مغرب کے بعد مکتبہ سلفیہ میں بیٹھے تھے کہ سیاہ شیروانی زیب تن کئے ہوئے چھریرے بدن اور قدرے لانبے قد کے ایک بے ریش جواں عمر صاحب تشریف لائے اور ایک زبان زد روایت تخلقوا باخلاق اللہ۔ کا حوالہ پوچھا۔ میں نے یہ سمجھ کر کہ غالباً کسی حجت بازی کا شوق پورا کرنے لئے یہ حوالہ مطلوب ہے۔ یہ بتلایا کہ یہ حدیث صوفیوں کی کسی کتاب میں موجود ہو گی اور اتنے ہی پر ٹالنا چاہا۔ مگر انھوں نے یہ کہہ کر میری توجہ کتاب سے اپنی طرف کھینچ لی کہ میں مشکوٰۃ اور صحاح ستہ کو دیکھ چکا ہوں اور اس میں یہ حدیث نہیں ہے، پھر انھوں نے کہا کہ مجھے اس شکل میں دیکھ کر لوگ یونہی ٹال دیتے ہیں کہ کوئی لغو آدمی ہو گا، حالانکہ میں نے اس سے پہلے ایک حدیث کی تلاش میں چھ مہینے گذار دئیے اور کئی سوکتابیں کھنگال کر بالآخر وہ حدیث ڈھونڈ نکالی۔ میری کوشش ایسی ہی ہوتی ہے پھر موصوف کے تعارفی کلمات سے معلوم ہوا کہ آپ کا نام محمد منیر مغل ہے اور آپ لاہور عدالت میں جج ہیں اور انصاف حق، پسندی اور علم دوستی کے لئے معروف کہنے لگے ایک کیس میں ایک بزرگ نے سفارش کی۔ کہا بچے ہیں بچکانہ حرکت کر گئے ہیں اور ساتھ ہی راز داری برتنے کو بھی کہا، میں نے کہا ایک میں ہوا ایک آپ، دو میرے کراماً کاتبین، اور دو آپ کے، تین مجرمین ہیں، اور ایک اوپر والا(اللہ تعالیٰ) کل دس جاننے والے ہوئے پھر راز داری کیسی؟اور جنھیں آپ بچہ کہتے ہیں وہ توسیانوں سے بھی بڑھ کر نکلے اس پر وہ مایوس واپس ہو گئے، موصوف نے ایک قادیانی کا کیس سنایاجس میں وہ اپنے آپ کو بحیثیت مسلمان پیش کر رہا تھا، اور اس پر اعتراض ہوا تو کہنے لگا کہ ہم بھی اسلام کے ماننے والے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر تم اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ قرار دو گے تومیں خود تمھیں مرتد کی سزا کے طور پر چھری سے ذبح کر دوں گا۔

اس اثنا میں ہم نے مکتبہ سلفیہ کی بہت سی کتابیں دیکھ ڈالیں۔ مگر حدیث نہ ملی تومیں نے حماد سلمہ سے کہا کہ دادا جان(مولانا عطاء اللہ حنیف) سے حوالہ پوچھ آؤ، جسٹس صاحب کہنے لگے نہیں نہیں، ہم خود چلتے ہیں اور اس کے بعد ہم مولانا کے مکان پر منتقل ہو گئے۔ سلام و مصافحہ اور صحت پرسی کے بعدجسٹس صاحب نے حرف مدعا پوچھنے کے بجائے بچوں کی طرح مولانا کا جسم دبانا شروع کر دیا اور دیر تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ مزاج پوچھتے اور دعائیں بھی دیتے جاتے تھے ایک جدید تعلیم یافتہ جسٹس سے علم اور علماء کا یہ احترام دیکھ کر نہایت خوشگوار حیرت ہوئی، اخیر میں موصوف نے مطلوبہ حوالہ دریافت کیا۔ مولانا کا جواب بھی وہی تھا کہ تصوف کی کسی کتاب میں یہ روایت ملے گی۔

صبح (۵/دسمبر ۱۹۸۵ء بروز جمعرات)کو مولانا کی خدمت میں آمدورفت ہوئی۔ لاہور کو انگریزی دور ہی سے ایشیا کا لندن کہا جاتا ہے مجھے معلوم نہیں کہ شہر کے اور حصوں میں عورتوں کی بے پردگی اور آمدورفت کا کیا حال لیکن اپنی قیامت گاہ کے علاقہ میں اب تک میں نے دیکھا کہ بے پردہ اور باپردہ دونوں طرح کی خواتین کی آمدورفت بہت ہی کم ہے۔ مگر آج جمعرات کو دیکھا کہ بے پر دہ اور باپردہ مسلم خواتین، بچوں سمیت اور بغیر بچوں کے بھی ہجوم در ہجوم شیش محل روڈ عبور کر کر کے ’’داتا دربار‘‘ کی طرف چلی جا رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ واعاذکل المسلمین من براثن ھٰولآء المضلین۔ وھداھم الی صراط المستقیم۔

کوئی نودس بجے مولانا عبدالرحمٰن صاحب مدنی دارالدعوۃ السلفیہ تشریف لائے اور اپنے ہمراہ ماڈل ٹاؤن لے گئے، یہ جدید لاہور کا ماڈرن ایریا ہے۔ یہاں پہنچنے سے قبل ہم راستے میں متعدد قابل ذکر مقامات سے گزرے۔ خصوصاً مال روڈ جس کا نام اب شاہراہ قائد اعظم ہے۔ اور جس کے داہنے کنارے پر لاہور جمخانہ ہے جواب قومی لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ پورا علاقہ نہایت شاداب خوبصورت اور قابل دید ہے۔ سڑکوں کی عمدگی، کشادگی، صفائی اور درختوں کی پر کیف روش، قابل رشک ہے ماڈل ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن، ایک دوسرے سے لگے ہوئے ہیں اور ابھی زیر تعمیر ہیں۔ ہماری گاڑی جس عمارت کے سامنے رکی اس پر ’’المعھد العالی للشریعۃ والقضاء‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ یہ لاہور کے ایک اہم ادارہ کا ایک حصہ ہے، اسی عمارت میں مجلس التحقیق الا سلامی کا دفتر بھی ہے جس کی نگرانی میں عرصہ سے ماہنامہ محدث لاہور شائع ہوتا آ رہا ہے۔

مولانا مدنی نے تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے ہمارے یہاں مکتب کی ابتدائی تعلیم اور حفظ اور عربی کی تعلیم ہوتی تھی ادھر جب سے پاکستانی میں اسلامی دستور کے نفاذ کا مرحلہ پیش آیا ہے، تجددپسند طبقہ کمیونزم کے اصولوں یا مغرب کے افکار و نظریات کو اسلام کے نام پر پیش کرنے اور اسے اسلامی قانون بنوانے پر تلا ہوا ہے، یہ طبقہ خاص خاص اسلامی قوانین و احکام میں طرح طرح کی تشکیک بھی پیدا کرتا ہے اور غیر اسلامی افکار و قوانین کو اسلامی ثابت کرنے کے لیے اسلامی قوانین کے مآخذ و مصادر میں طرح طرح کی تحریف و تاویل بھی کرتا ہے، اور انھیں مشکوک نیز معتبر اور وقتی بھی بتاتا ہے، لیکن حنفی علماء ان سب سے آنکھ بند کر کے فقہ حنفی کی تنقید کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، (یعنی جو کچھ مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے فرمایا الفاظ اور جملوں کے فرق کے ساتھ مولانا مدنی مدظلہ نے بھی وہی بات دہرائی اور فرمایا) ان حالات کے پیش نظر ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں عربی مدارس کے فضلاء اور کالج اور یونیور سیٹیوں کے تعلیم یافتہ غرض دونوں طبقوں کو اسلامی قوانین کی تعلیم دی جائے …بین الاقوامی قوانین سے تقابل کر کے اسلامی قوانین کی برتری بھی ثابت کی جائے، اس کے بغیر اس طوفان بلا خیز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اسی مقصد کے لئے ہم نے المعہد العالی للشریعۃ والقضاء قائم کیا، اور فیصلہ کیا کہ دونوں طبقے سے برابر برابر طلبہ کو داخل کیا جائے گا۔ الحمدللہ یہ بروقت اقدام اس قدر مقبول اور قابل توجہ ثابت ہوا کہ ہم نے داخلہ کا اعلان کیا تو ہمارے اندازے اور بساط سے کوئی سات آٹھ گنا زیادہ درخواستیں آ گئیں، اور ہر چند چھٹائی کی گئی پھر بھی اپنے مقررہ اندازے سے کوئی تین گنا زیادہ طلبہ کو داخل کرنا پڑا۔

مولانا نے مکتبہ اور عمارت کے دوسرے حصص کو دکھلاتے ہوئے بتایا کہ ہر طالب علم کو اسلامی قوانین سے متعلق کسی خاص موضوع پر ایک اہم مقالہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بغیر اسے کامیاب نہیں قرار دیا جا سکتا، پھر آپ نے مجھے ایک الماری دکھلائی جو طلبہ کی طرف سے اس قسم کے پیش کئے گئے، مقالات سے بھری ہوئی تھی، آپ نے کئی اہم مقالات بھی دکھائے جو اسلامی قوانین کے تعلق سے نہایت اہم تھے اور واقعی محنت و جانفشانی، نکتہ رسی، تحقیق، اور بحث کا حق ادا کر دیا گیا تھا، ان میں سے بعض بعض تو پاکستان کے موجودہ مرحلہ کے لئے نہایت اہم اور فیصلہ کن تھے۔ چنانچہ مولانا مدنی مدظلہ نے بتایا کہ ان خاص مقالات کو حکومت پاکستان نے خود شائع کرنے کے لئے ہم سے طلب کیا ہے، بہرحال یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ کتب حدیث و فقہ کے وہ ابواب جو ہمارے ہندوستانی مدارس میں عام طور پر متروک ہوتے جا رہے ہیں، مثلاً بیوع، قضا، امارت، خراج، معاملات، وغیرہ وغیرہ۔ اب پاکستان میں ان پر پورا زور صرف کیا جا رہا ہے اور خوب خوب داد تحقیق دی جا رہی ہے اور مولانا مدنی مدظلہ خصوصاً قابل مبارکباد اور لائق تحسین و آفرین ہیں کہ اس فکری الحاد کے سامنے بندہ باندھنے کے لئے موصوف نے ایک ٹھوس اور پائدار قدم اٹھایا ہے جس کے اثرات ان شاء اللہ دوررس اور مفید ہوں گے۔

یہاں سے مولانا مدنی ہمیں مدرسہ رحمانیہ لے گئے، جو تھوڑے ہی فاصلہ پر ہےس کی عمارت ایک احاطہ کے اندر نہایت خوشنما انداز سے بنائی گئی۔ اور اسی میں ایک مسجد بھی ہے۔ عمارت اور مسجد دونوں ہی فنی خوبیوں کے لحاظ سے جدید انجینئرنگ کی حسن کاری کا نمونہ ہیں وہیں ظہر کی نماز پڑھی گئی اور پوری عمارت کا مشاہدہ کیا گیا۔ ایک گوشے میں مطبخ بھی تھا، جہاں معروف طرز کے عمارتی گیس چولھے تو تھے ہی، ایک جگہ ایک بڑے تنور میں الاؤ جل رہا تھا۔ مولانا نے بتایا کہ یہ الاؤ گیس کے ذریعہ جل رہا ہے، پھر ایک پائپ لائن دکھلائی جو بالکل ہمارے یہاں کی پانی کی پائپ لائن کی طرح تھی، بتایا کہ اس پائپ سے براہ راست چولہے اور تنور میں گیس پہونچتی ہے، ایک گوشے میں اس کے میٹر اور بٹن وغیرہ دکھلائے۔ واقعی قدرت کے اس عطیہ نے پاکستان میں ایندھن کا مسئلہ خاصا حل کر دیا ہے، مکانوں، ہوٹلوں اور چائے خانوں وغیرہ میں اس کا استعمال اس قدر عام ہے، اور ہر جگہ پائپ لائن کے ذریعہ مسلسل چوبیس گھنٹے اس طرح اس کی سپلائی ہوتی ہے کہ آدمی اس کے انتظام کی فکر سے بے نیاز ہو چکا ہے۔

مولانا مدنی نے بتایا کہ اس وقت ہم تین ادارے چلا رہے ہیں (۱) مدرسہ محمدیہ نیچے کی تعلیم اور حفظ قرآن کے لیے (۲) رحمانیہ دینی تعلیم کے لیے (۳)المعہد العالی للشریعہ والقضاء علوم شرعیہ اور قوانین اسلامیہ کے ماہرین کی تیاری کے لیے۔ اس کے علاوہ مجلس التحقیق العلمی کے تحت بحث و تحقیق کا کام ہوتا ہے اور ماہنامہ محدث نکلتا ہے۔ ان سب کے مجموعہ کو ہم نے جامعۃ لاہور الاسلامیہ کے نام سے موسوم کیا ہے، موصوف نے بتایا کہ اس پورے ادارے کا سالانہ خرچ دس لاکھ روپئے ہے اور یہ پورا خرچ ہمارا خاندان برداشت کرتا ہے۔ ہم کسی سے چندہ نہیں لیتے رحمانیہ کی عمارت کوئی ۳۷/لاکھ روپئے میں تیار ہوئی ہے اور اس میں امارات کے حاکم کی ایک جزوی امداد کے سوا کسی سے کوئی رقم نہیں لی گئی۔

حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ، مولانا عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ان کے بھتیجے ہیں۔ کل چار بھائی ہیں تین بھائی صنعت اور تجارت کو سنبھالے ہوئے ہیں اور مولانا مدنی حفظہ اللہ کو مذکورہ اداروں کا انتظام سونپ دیا ہے، ان لوگوں کا اصل کام پائپ سازی کی صنعت ہے اور اس سلسلے میں اتنی پیش رفت کر چکے ہیں کہ اب بے جوڑ کا پائپ بنانے کا اقدام کرنے جا رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے بتایا کہ یہ پورے عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا پہلا کارخانہ ہو گا۔ اس کے لئے فرانس سمیت یورپ کے متعدد ممالک سے گفتگو کی گئی۔ یہ لوگ مشینیں اور ماہرین دینے پر تو آمادہ ہو جاتے تھے مگر ٹیکنالوجی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ چین ٹیکنالوجی بھی دینے پر تیار ہو گیا ہے، اس لئے اس سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ مولانا اسی سلسلہ میں پاکستانی بینک سے تیس پینتیس کروڑ روپئے قرض لینے کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ غیر سودی قرض کی جو صورتیں بینک نے پیش کیں شرعی نقطۂ نظر سے ان میں سے کسی بھی صورت سے ہم مطمئن نہیں تھے، اس لئے ہم نے قرض نہ لیا۔

مولانا نے تمام صورتوں کی تفصیلات بتائیں تو ان میں سے بعض صورتوں میں مجھے کوئی قباحت نہ محسوس ہوئی تاہم میں ان حضرات کے کمال احتیاط اور تقویٰ سے بے حد متاثر ہوا کہ ان کی اتنی بڑی صنعتی فرم ہے جس کا تجارتی اور غیر تجارتی لین دین بین الاقوامی پیمانے کا ہے، اس کے باوجود انھوں نے سودی معاملات سے دوری اور دامن کشی کے لئے جس احتیاطی روش کو اپنایا ہے وہ یقیناً اس دور میں اسوہ و نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے، اللہ برکت دے اور اس قسم کے اصحابِ عزیمت مسلمانوں کی کثرت کرے۔

دوپہر کا کھانا مولانا مدنی مدظلہ کے یہاں کھایا گیا، اور عصر کے بعد موصوف کی رہنمائی میں بین الاقوامی شہرت کی حامل مغل یادگار شالامار باغ کی تفریح کی گئی، اس کے در و دیوار سے کہنگی کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں ایک تختے پراس کی تعمیر، ابتداء ً لگائے گئے درختوں کی نوعیت اور تعداد اور بہت سی دیگر تفصیلات درج ہیں۔ ایسا ہی اندراج شاہی مسجد کے گیٹ والے حجرے میں رکھے ہوئے تبرکات کے سلسلے میں بھی دیکھا گیا تھا۔ آج ہمارے رفقاء میں مولانا عزیز زبیدی حفظہ اللہ بھی تھے، بڑھاپے میں قدم رکھتی ہوئی عمر، چہرے مہرے سے سلامت طبع کا نمونہ اور وضع قطع ایسی سادہ کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کا گوہر بار قلم نوع بہ نوع مسائل کے نوک پلک سنوارنے میں اس قدر پختہ ہے کہ موصوف کے مضامین رسالوں کی بلندی معیار کی ضمانت ہیں افسوس! مولانا کے ساتھ بہت مختصر ملاقات رہی اور ایسی مشغول کہ تفصیلی تبادلۂ خیال نہ ہو سکا، مولانا نے صحیح بخاری کا ایک حاشیہ بھی مولانا عطاء اللہ حنیف حفظہ اللہ کی حسب فرمائش رقم فرمایا ہے جو مکمل ہو چکا ہے۔

شالامار باغ سے واپس آ کر مغرب کی نماز لاہور زرعی کالج کی مسجد میں پڑھی گئی یہ مسجد بھی جدید انجینئرنگ کی سادگی اور پرکاری کا نمونہ ہے۔ یہاں سے پروفیسر سعید صاحب بہ اصرار اپنے دولت کدہ پر لے گئے جو زرعی کالج ہی کے گراؤنڈ میں واقع ہے۔ موصوف اس کالج میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں اور آپ ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ اس کالج میں اسلامیات کے جتنے استاذ ہیں سب کے سب اہلحدیث ہیں، پروفیسر سعید صاحب سے میری ملاقات پہلے پہل مدینہ میں ہوئی تھی جہاں وہ زیر تعلیم تھے۔ آپ ہی کا یہ کارنامہ تھا کہ پاکستان کی جماعت اہلحدیث کے مخالف گروپوں کی دن رات کی جہد پیہم کے بعد حرمین شریفین کا نفرنس میں ایک اسٹیج اور ایک دوسرے سے مصالحت اور تعاون پر آمادہ کیا تھا۔ اللہ اس جوان صالح کی عمر میں برکت دے اور مزید اعمال خیر کی توفیق سے نوازے۔ آمین

پروفیسر صاحب نے سردوگرم سے بڑی خاطر مدارات کی۔ پھر ہم عشاء کے وقت دھرم پورہ آ گئے، آج برادر محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ یہاں ہمارے علاوہ اور بھی متعدد حضرات تشریف لائے جس سے اچھی خاصی محفل علم تیار ہو گئی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے علاوہ بڑے بڑے علمی لطائف کا بھی انکشاف ہوا۔ مولانا محمداسحاق بھٹی جنھوں نے فقہاء ہند پر کئی جلدیں سپرد قلم کی ہیں، لاہور کے ایک مشہور دیوبندی ادارے کے مفتی صاحب کے متعلق فرمانے لگے کہ ایک اخبار میں موصوف دینی سوالات کے جوابات لکھتے ہیں، میں انھیں سنبھال کر رکھتا ہوں اور جب طبیعت ناہموار ہوتی ہے تو ان کا مطالعہ کرتا ہوں، ایسی چیزیں مل جاتی ہیں کہ ناہمواری رفع ہو جاتی ہے، مثلاً ایک بار ایک صاحب نے سوال کیا تھا کہ میں مقروض ہوں، قرض کی ادائیگی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، کوئی دعا یا طریقہ بتلائیں، اس کے جواب میں موصوف نے حضرت علیؓ کے پاس ایک مکاتب کے آنے اور معاوضۂ مکاتبت کی ادائیگی کے لئے ایک دعا کے سیکھنے کا ذکر کیا۔ مکاتب کی تشریح یوں کہ اس نے کسی آدمی سے کوئی تحریر کتابت کرائی تھی اور کتابت کی اجرت دینے کے لئے اس کے پاس رقم نہ تھی بھلا اس پر لوگ ہنسے بغیر کیسے رہ سکتے تھے، (واضح رہے کہ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے مالک سے یہ طے کر لیا ہو کہ میں آپ کو فلاں مقدار میں رقم ادا کر دوں گا تو آزاد ہو جاؤں گا اور مالک نے اسے منظور کر لیا ہو)۔

مولانا بھٹی نے ان ہی مفتی صاحب کا ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک بار میں لاہور ریڈیو اسٹیشن پر نشریہ کے لئے کچھ ٹیپ کرانے گیا تو معلوم ہواپروڈیوسرصاحب اندر مفتی صاحب سے دینی سوالات کے جوابات ٹیپ کر رہے ہیں، میں بھی موصوف کے جوابات سننے لگا۔ ملتان سے ایک عورت نے سوال کیا تھا کہ میری حالت رہ رہ کر غیر ہو جایا کرتی ہے کسی کا خیال ہے کہ جادو کیا گیا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ جن کا اثر ہے، بتائیے میں کیا کروں ؟۔ مفتی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ ہمارے پاس آیات تھرمامیٹر ہیں، تم لاہور ہمارے فلاں ادارے میں آ جاؤ، ہم ان آیات تھرمامیٹر سے معلوم کر لیں گے کہ تمھیں کیا ہوا ہے ؟اور علاج کریں گے۔ اور جب تک آ نہیں سکتی ہو فلاں وظیفہ پڑھتی رہو۔ مولانا بھٹی کہنے لگے میں منتظر تھا کہ حضرت باہر تشریف لائیں تو دریافت کروں کہ یہ آیات تھرمامیٹر کیا ہوتی ہیں، مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ پروڈیوسرصاحب تنہا تشریف لا رہے ہیں۔ پوچھا مولانا کہاں ہے ؟بتایا کہ وہ تودوسری جانب سے نکل گئے۔ میں دوڑا کہ انھیں جالوں مگر وہ غائب ہو چکے تھے۔ اب پروڈیوسر صاحب سے پوچھا کہ یہ کیاسوالات و جوابات آپ نے ٹیپ کئے ہیں ؟کیا اب ریڈیو لاہور سے ایسی چیزیں بھی نشر ہوں گی؟ نیز انھوں نے ضمناً اپنے ادارہ اور دوکانداری کی پبلسٹی بھی کی ہے۔ کیا اگر میں اپنی تالیفات کے تعلق سے ایساہی جواب دوں تو آپ نشر کریں گے کہنے لگے بھئی کیا کریں، جواب دینا میرا نہیں بلکہ ان صاحب کا کام تھا اتنا کر سکتاہوں کہ ٹیپ کا یہ حصہ کاٹ دوں۔

آخر میں میزبان کی پر تکلف دعوت سے فارغ ہو کر فاذاطعمتم فانتشروا۔ پر عمل کرتے ہوئے دلچسپ مجلس برخاست ہو گئی۔

٭٭٭

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

تشکر: حافظ ساجد اسید ندوی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید