FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 صدیوں پرانی عورت کا فسانہ

 

 

                   میمونہ احمد

 

                   mamoonaahmad@live.com

 

 

 

 

میں وہی پودا ہوں جسے ایس نیر نے لگایا  تھا ۔ ۔

 

میں اپنے اس افسانوی مجموعے کو ایس نیر کے نام کرتی ہوں ۔ مجھے معلوم ہے میر ی پہلی  تحریر میرے بی جے (بابا جان) آپ نے پڑھی تھی ۔ میرے لفظوں میں آپ کی خوشبو بسی ہے ۔ مالی جب پودا لگاتا ہے تو اس پودے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر بڑا خوش ہوتا ہے لیکن اس کی چھاؤں میں بڑے مسافر بیٹھتے ہیں  دعائیں ساری مالی کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔

 

 

 

 

دستک ہوا کرتی ہے

 

 

یہ کیا ہوتی ہے دستک ۔ ۔ ۔ ؟

کون سے دروازے کھولتی ہے ۔ کیا دستک سے دروازے کھول جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ! اکثر تو کھول جاتے ہیں شاذ و نادر ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کے کوئی دروازہ نہ کھولتا ہو۔ ۔ لیکن یہ وہ دروازے ہیں جو گھروں کے ہوتے ہیں جو دستک دینے پر کھول جاتے ہیں  میں ایک اور دستک کی بات کر رہی ہوں ایک اور دستک جو نیند  سے جگاتی ہے ۔ ۔ جو روح کو بے چین رکھتی ہے ۔ ۔ اور بے چینی کو بیان کرنا بڑا مشکل ہوا کرتا ہے ۔ ۔ ! مجھے بھی آج اسی دستک کا سامنا ہے ۔ ۔ ۔ جو ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے ۔ ۔ جہاں آپ کی روح پر ہتھوڑوں سے وار ہوتے ہیں جن کی تکلیف انسان کو پاگل کر دیتی ہیں ۔ یہ جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہیں نا یہ اسی لیے تو  ہوتی ہے کہ انسان شعور  ادرک جیسے سمندرمیں کو د پڑتا ہے ۔ ۔ !

یہ دستک میری جان لے لی گی اے خدا ۔ ۔ ۔ ۔ ! یہ آخر ضمیر ہوتا ہی کیوں ہے ۔ ۔  میرا سر پٹھ رہا ہے ۔ ۔ اس کا بوجھ کتنا زیادہ ہوتا ہے ۔ ۔

ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ۔ ۔ اور پھر بار بار یہی دستک ۔ ۔ !!!!!

کیا پولیس والے کٹھ پتلی ہوتے ہیں ۔ ۔ کیا ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ درد محسو س نہیں کرتے ۔ ۔ کیا وہ یہ اصول نہیں جانتے کہ مجرم سے زیا دہ جرم سے نفر ت کرنی چاہیے ۔ ۔ !

اخبار کی سرخیوں میں ہر روز بتا دیا جا تا ہے آج پو لیس مقابلے میں اتنے مارے گئے آج اتنے مارے گیے ۔ ۔ ۔

میرا  بہت ہاتھ کانپتا ہے ۔ ۔ میں دل میں یہ دعا کرتا ہوں کا ش میری پستول کا نشانہ خطا ہو جا ہے ۔ ۔ کاش میری گولی کسی کی زندگی ختم نہ کرے ۔ ۔ ۔ ! کا ش ۔ ۔ ۔ حقیقت کچھ اور ہو جاتی ہے ۔ ۔

٭٭………………٭٭

 

اعجاز احمد ایک جوشیلا نوجوان ہوا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ دیکھنا ایک دن میں سارے جرم ختم کر دوں گا ۔ ۔ میں انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی ہر ممکن کو شش کروں گا ۔ ۔ ۔ میں بتاؤں گا کہ مجرم اور جرم میں کیا فاصلے ہوتے ہیں  ۔ ۔ پولیس کے محکمہ میں داخل ہوا تو ایک ایسے نظام کا سامنا تھا ۔ ۔ جو بر سوں سے پڑا تھا جس پر دھول مٹی جالوں کے انبار پڑے تھے، اس کو کیسے صاف کیا جائے  کیسے، کونسے عمل کو کہاں سے شروع کیا جائے کے ان جالوں دھول مٹی کو صاف کیا جا سکے  اور اس طرح صاف کیا جائے کے پھر دوبارہ کبھی یہ اپنی جگہ نہ بنا سکے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اندھیرے میں دیا جلانے کی کو شش کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن بھو ل گیا تھا کہ جب اندھیرے میں ایک دم روشنی کر دی جاتی ہے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہے اور  دیکھنے کی حس کچھ لمحات کے لیے ختم ہو جاتی ہیں ۔ ۔ اور اس محکمے میں اعجاز احمد کے ساتھ وہی کچھ ہونے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ روشنی بن گیا تھا اندھیری وادیوں  کے لوگوں کے لیے ۔ ۔ ۔ ! جو اس کو اس وادی سے باہر بھی پھینک سکتا تھا ۔ ۔ ۔ شائد اس کے ساتھ ایسا ہی ہو ا ۔ ۔ ۔ دن گزرتے گئے  ۔ ۔  وہ بنیا د رکھ رہا تھا انصاف کی ۔ ۔ بہادری اور شجاعت کی۔ شہروں میں جرم کی تعداد زیادہ تھی تو روز کوئی نہ کو ئی  چکر لگا رہتا تھا۔ ۔ کبھی کس بازار کبھی  کہاں چھا پہ ۔ ۔ بہت سارے مجرم پکڑے گئے ۔ لیکن سزا ملنے سے پہلے ہی چھوٹ جاتے ۔ ۔ اوپر سے حکم آتا کے چھوڑ دیا  جائے ۔ ۔

اوپر کون ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ سادہ لوگ اوپر سے خدا کو تشبیہ دیتے ہیں ۔ ۔ ! کیسا تقدس ہوتا جب کوئی سادہ انسان اوپر والے سے دعا کے ذریعے ہم کلام ہوتا ہے ۔ ۔ ! لیکن یہاں پر دنیا کے خدا ہوتے ہیں ۔ جو کبھی بھی رات کے کسی پہر کسی غریب کے گھر چھاپہ مار کے گھر کے سربراہ کو ساتھ لے جاتے ہیں بغیر کسی ثبوت کے ۔ ۔ ! بغیرکسی تحقیق کے ۔ ۔ شریف لوگوں کے چولہے بجھ جاتے ہیں اس دن پھر ! ڈر پھر دنیا کے خداؤں کا چل رہا ہو تا ہے لیکن وہ خدا جس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اپنا کام کر رہی ہوتی ہے ۔ ۔ !

٭٭………………٭٭

 

دن با دن اعجاز احمد کے دماغ  پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا وہ روز شام کو جب سونے کے لیے لیٹتا تو ہر چہر ہ اس کے سامنے آ جاتا ۔ ۔ ۔

صاحب بھو ک سارے کام کرواتی ہے ۔ ۔ ۔ سارے کام ۔ ۔ اب وہ بھو ک کسی بھی کسی قسم کی ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ایک مجرم کے الفا ظ گونج رہے تھے ۔ ۔  صبح پھر ایک نئی امید کے ساتھ وہ کھڑا ہوتا اور چل پڑتا ۔ ۔ اس کا تبادلہ دوسرے شہر کر دیا جا رہا تھا ۔ ۔ جہاں اکثر پولیس مقابلے ہوتے تھے جہاں زندگی کو ختم کیا جاتا ہے ۔ ۔ جہاں اپنے ہی  کارندوں کو ان کے آقا مارنے کا حکم جاری کر دیتے ہیں ۔ ۔ جہاں انسان اور جانور میں کوئی فر ق نہیں ہو تا ۔ ۔ یہ فرق انسان نے ہی تو ختم کیا ہے ۔ ۔ سوچے تو سارے معاملے حل ہو جائے نہ سوچے تو کچھ بھی ممکن نہیں ۔ ۔ ! صاحب چلیں ڈیرے پر چلنا ہے کو ئی ڈاکو  ہیں ادھر اوپر سے حکم آیا ہے کے ان کو مار دیا جائے ۔ ۔

مار دیا جائے ۔ ۔ یہ جب ان کی سیاست  کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتے تو  ہمارے کندھوں پر بوجھ ڈال دیا جا تا ہے جاو ختم کر دو ۔ ۔ ! کیا آسان ہوتا ہے یہ سب کرنا ۔ کو ئی جا کہ ان سے سوال کرئے عام سپاہی بھی تو انسان ہوتا ہے وردی کا مطلب تو تحفظ دینا ہوتا ہے نہ کے عدم تحفظ کا شکار کر نا ۔ وہ پہنچ گئے وہ گاڑی میں ہی بیٹھا رہا ۔ ۔ صاحب آپ نہیں آئے گے کیا ۔ ۔ نہیں شمشیر  خان میں نہیں آؤں گا میرا جی بھر گیا ۔ ۔ میں اس دستک کا سامنا نہیں کرسکتا جو میری روح کو بے چین کر دیتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے میں بد دعاؤں کے حصار میں ہوں اور جب انسان کو ایسا لگتا ہے تو زندگی کو جینا بڑا مشکل ہو جا تا ہے ۔ ۔ کیسا لگے گا جب آپ کے لیے بددعا کرنے والوں کی تعداد دعا دینے والوں سے زیادہ ہوں ۔ ۔ ! بہت مشکل اور کڑا لگتا ہے یہ ۔ ۔ ! بس کل سے میں نہیں جاؤں گا کسی بھی ڈیرے پر کہے دینا اپنی سیاستی سر کار کو جس نے انسانی زندگی کو کھیل بنا یا ہے ۔ ۔ جس نے اس خالق کی مخلوق کا تماشا عام کر دیا ہے ۔ ۔ جس نے اس کے خون کو بہایا ہے ۔ ۔ ۔ کہہ دینا ۔

اس کے بعد کیا ہو اعجا ز احمد ۔ ۔ ـ؟؟؟؟؟

٭٭………………٭٭

 

اس کے بعد کیا ہونا تھا بی بی صاحبہ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے محکمہ والوں نے مجھے نفسیاتی ہسپتال میں داخل کرا دیا ۔ ۔

کہ اعجاز احمد  کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ۔ ۔ !

جہاں کچھ بھی توازن میں نہ ہو وہاں میں کیسے توازن میں ہوسکتا تھا بھلا!!!؟

ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوے اپنے وارڈ میں چلا گیا ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

ماہیا تیرے ویکھن نوں

 

جب انسان کے رشتے وجود میں آتے ہیں نا تب سب سے پہلا احسا س جس سے انسان کو روشناس کرایا جاتا ہے ! وہ احساس ممتا کا ہوتا ہے جس کی چھاؤں میں انسان پلتا ہے ۔ یہی وہ احساس ہے جو جانوروں میں بھی موجود ہے لیکن اس احساس کی بھی حد موجود ہے ممتا ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے کیونکہ جس نے ممتا کی تخلیق کی ہے وہ اس احساس سے کئی گنا زیادہ احساس رکھتا ہے محبت کا ۔ ۔ ۔

اس ممتا کو عورت نے وہ مقامات عطا کیے ہیں جو شاید انسانی آنکھ یا انسانی سوچ  اس کا محاصرہ نہیں کرسکتی ۔ ۔ مرد کی ذات میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ۔ کم یا زیادہ  اس احساس کی تخلیق مرد کے اندر بھی رکھی گئی ہے ۔

یہی وجہ ہے ایک باپ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے وہ کیسے اس کو  ایسے شخص کے حوالے کر دے جو خالی ہاتھ ہو ۔ باپ کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں یہ شہزادیاں ۔ ۔ ۔ !

اسی لیے میں کہتا ہوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلا جاؤں تاکہ کچھ کما لاؤں ۔ ۔ خالی ہاتھ چچاسے تیرا ہاتھ کیسے مانگوں گا ؟  نیہا!

یہ کیا کہہ رہے ہو آکاش ؟ صحیح کہہ رہا ہوں نیہا! کو ئی باپ یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ جس کے سپرد اپنی بیٹی کو کرتا ہے وہ اسے بھو ک کی بھٹی میں پکا دے ۔ ۔ ۔

بھوک بہت بری شے ہے بہت بری شے !

اگلی صبح  بڑی اداس تھی شائد یہ پھر نیہا کا دل پریشان تھا وجہ تو وہ بخوبی جانتی تھی ۔ ۔ ابا  آپ چھوڑ آنا اڈے تک آکا ش کو ۔ ۔ ۔ ہاں دھیے جا رہا ہوں ۔ ۔ تو کواڑ موند لے ۔ ۔ !

ایک دن، ایک ہفتہ ایک مہینہ، ایک سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

انتظار، احساس وفا، یقین، یہ سب نیہا نے اپنی آنکھوں میں پال رکھا تھا وہ روز  اپنے اس یقین کو پانی دیتی رہتی ہے، اور اس یقین کو مرنے نہیں دیتی ۔ ۔ آکاش کی محبت کا بیج ایسے ہی نہیں ا ُگایا تھااس نے اپنے دل میں ۔ ۔ اسے یا د ہے ایک مرتبہ آکاش نے کہا تھا

ـــ محبت عزت بن جایا کرتی ہے اور جب عزت بن جاتی ہے تو دنیا میں اس عزت کے سوا باقی کو ئی چیز اہمیت کے حامل نہیں ہوتی ۔ وہ اس کی بہت عزت کرتا تھا ۔ ۔ ارے نیہا پتر کدھر گم ہے آ جا ۔ ۔ روٹی ڈال لے ۔ ۔ یہ تندور جل جل کر بجھ رہا ہے ۔ ۔ ۔

یہ تندور جل جل کر بجھ رہا ہے  ۔ ابا نے کیسی گہری بات کہہ دی ہے ۔ ۔ یا اللہ میرے یقین کو ڈگمگانے نا دینا ۔ ۔ ۔ اس یقین کے سہارے میں نے سارے آس کے دیے جلائے ہیں آس کا دیا اگر بجھ جائے تو زندگی کی رمق کم ہونے لگتی ہے ْ۔ ۔ سہیل احمد بخوبی جانتا تھا کہ اس کی بیٹی انتظار کی آگ میں جل رہی ہے ۔ ۔

یہ انتظار کی آگ بھی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے لو ہا آگ میں پک پک کر کندن بنتا جاتا ہے ۔ ۔ اس نیہا کا یقین بھی ویسے ہی پختہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔ لیکن اثر تو نظر آتا ہے جب لو ہا جلتا ہے ۔ ۔ اور وہ تو انتظار کی آگ ہے ۔ ۔ ۔

نیہا  اری او  نیہا۔ ۔ ۔ کدھر ہو آ جاؤ آج کھیتوں میں نہیں جانا ۔ ۔ ۔ دریا کے پا سے بھی جانا ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے چلو ۔ ۔ ابا سے اجازت لے کر نیہا اپنی دوست شمیم کے ساتھ چلی گئی ۔ ۔ کھیتوں کی ہریا لی ۔ ۔

بڑا ہی خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا ۔ ۔ تھوڑی ہی دور دریا بہہ رہا تھا ۔ ۔ یہ آسمان کی وسعت اور دریا کی گہرائی ۔ ۔ ۔

شمیم ۔ ۔ یہ دریا کیا سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے ۔ ۔ ؟ نیہا ! نہیں دریا  سمندر سے گہرا نہیں ہوتا ۔ ۔ یہ سمندر کو گہرا بناتا ہے ۔ ۔ وہ کیسے ؟

بالکل ویسے ہی جیسے قطر ہ قطرہ مل کر دریا بناتے ہیں اور دریا سمندر میں مل کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ۔ یعنی ایک پیمانہ ہو گیا یہ بھی ۔ ۔ ہاں کچھ ایسے ہی سمجھ لو ۔ ۔ ۔

شمیم : آکا ش کب آئے  گا ؟۔ ۔ ۔

جب اسے آنا ہو گا تب آئے گا ۔ ۔ ۔ نیہا نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا ۔ ۔

دوسرا سال گزر رہا ہے ۔ ۔ ۔ کہیں یقین میں کمی نہ آ جائے ۔ ۔ کہ اس کی وفا جو اب نہ دے جائے ۔ ۔ کہیں وہ اپنی آس کا دیا بجھا نہ دے ۔ ۔ آکا ش سوچ رہا تھا ۔ ۔

لیکن اس کو یقین تھا اس ذات پر جس کی تخلیق ہم سب ہے ۔ ۔ وہ محبتوں کو تخلیق کرتا ہے ان کو ان کے مقررہ جگہ پر پہنچا دیتا ہے ۔ ۔

بیٹا دوسرا سال گزر رہا ہے ۔ ۔ پتہ نہیں آکا ش کب آئے گا ۔

آ جائے گا ابا ۔ ۔ آنے والوں کو آنا ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

سردیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ ۔ دھوپ بھی کم ہی پڑتی ہے اب ۔ ۔ شام بھی جلدی آ جاتی ہے ۔ ۔ شا م کا احسا س بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی طر ح ۔ ۔ ۔

سارے پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ۔ ۔ ایک پنچھی  بچھڑ گیا تھا اپنے ساتھیوں سے ۔ ۔ کبھی کس منڈیر پر تو کبھی کس منڈیر پر ۔ ۔ ۔ آخر دور کہیں وہ دیکھ چکا تھا اپنے سرائے کو اپنے ساتھیوں کو ۔ ۔ ۔ شام کے گہرے سائے میں وہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ چکا تھا ۔ ۔ ۔

سارے پردیسی اپنے اپنے گھر لو ٹ جاتے ہیں خدایا ۔ ۔ اور میر ا پردیسی ۔ ۔ ۔

کچھ اشک، کچھ قطرے، کچھ موتی ۔ ۔ ۔ جو اس کی آنکھوں سے روانی سے جاری ہوئے جا رہے تھے ۔ ۔  کچھ کھو دینے کا ڈر، یقین سے شک کا سفر ۔ ۔ کسی کمی کا احسا س ۔

یہ سب وہ سہہ رہی تھی ۔ ۔

وے ماہیا تیرے ویکھن نوں

چک چرخہ گلی وچ ڈاہواں

وہ اپنے رب سے شکوے کیے جا رہی تھی ۔ ۔ لفظ نہیں تھے اس کی زبان پر ۔ ۔ پر آنسووں کے کلام کو پروردگار کے ہاں بڑا سنا جاتا ہے ۔ ۔ یہی وجہ ہے شائد آج نیہا کی سنوائی ہو گئی ہو ۔ ۔ ۔

وہ اپنی گلی میں پہنچی تو ۔ ۔ ۔ تو کافی چہل پہل تھی ۔ ۔ ۔ شائد پردیسی لوٹ آیا ہے ۔ ۔ شائد وہ پنچھی اپنوں تک آ گیا ہے ۔ ۔ ۔ دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ جان چکی تھی آکا ش کی وسعت بہت زیادہ ہے ۔ ۔ ۔ وہ وفا کرتا ہے اپنے پنچھیوں سے ۔ ۔ ۔ ۔

محبوب سامنے ہو اور عشق کرنے والا بے خود نہ ہو ۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

صدیوں پرانی عورت کا فسانہ

 

 

تذلیل ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ !!!

صدیوں پہلے جب اس کو ذلیل کیا گیا تو اس نے خاموشی اختیار کی، نظر انداز کر دیا ۔ ۔ تذلیل بہت آگے تک پہنچنے لگی اور برس گزرنے لگے پھر ایسا ہوا  اس کو قصوروار ٹھہرایا جانے لگا، اس کو بغیر عدالت لگائے سزاوار قرار دیا جانے لگا اور سز ا سرعام دی جانے لگی، وہ تب بھی خاموش تھی، اپنے اندر اُٹھنے والے کسی بھی طوفان کو باہر نہیں آنے دیا، اس کو تو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ اپنے اندر اُٹھنے والے ہر طوفان کو بخوبی اپنے اندر چھپا سکتی ہے ۔ ۔ اس نے یہی کیا ۔ ۔ لیکن وہ یہ بھو ل گئی کہ اس کو بھی ساتھ ساتھ مارا جا رہا ہے ۔ ۔ اور اس شدت سے مارا جا رہا ہے کہ وہ محسو س کرنا بھو ل گئی ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!

کیسی موت ہوتی ہے نا یہ جب کو ئی محسوس کرنا بھول جائے اس نے اپنے آپ کو وہی چھوڑ دیا تھا جہاں پہلی مرتبہ اس کی تذلیل کی گئی تھی، وہ وہی ہے آج تک !!! صدیاں گزرتی رہی اور اس کو تذلیل کرنے کا پیمانہ بھی بڑھتا رہا ۔ ۔ اسی دوران مذہب  آئے مذہب نے بھی اصول دئیے اس کو ذلیل ہونے سے بچانے کے لیے، لیکن شائد اب اس کے خمیر میں قربانی، محبت، ممتا  اس قدر سما چکا تھا کہ بہت ساری قدریں دم توڑ چکی تھی ۔ ۔ ۔ اس دنیا کی ساری تہذیب اس بات کی گواہ ہے کہ ایک وقت آیا اس کو سر عام بولی لگا کے بیچا گیا اس کو نام دیے گئے لیکن اس کو خریدنے والے کو معزز ہی کہا ۔ ۔ !!! یہ وہ ڈھونگ تھا جو بڑا رچا گیا ۔ ۔ لیکن پھر بھی وہ خاموش رہی ۔ ۔ ۔ !!!!!!

ایسی خاموشی موت کے بعد کی ہو تی ہے، طوفان کے ختم ہونے کے بعد بھی ہوتی ہے، جنگ کے بعد بھی ہو تی ہے ۔ ۔ ۔ !!!!لیکن ان سب کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے، لیکن وہ اپنے ہونے کے یقین سے محروم تھی، وقت گزرتا ہے، گزرتا جاتا ہے، اور پھر ایسا ہوتا ہے، کے اس اپنے قبیلے سے ہی خارج کر دیا جاتا ہے اس کا وجود صرف دوسروں پر انحصار کرتا ہے حالانکہ دوسرے ہمیشہ اس کی مدد چاہتے ہیں اس کے بغیر  کچھ مکمل نہیں ہوتا ۔ ۔ !لیکن چنگاری موجود تھی ۔ ۔ اس نے کب آگ بھڑکانا شروع کی یہ نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور ہو ا کہ سوچنا شروع کیا اس نے ۔ ۔ اپنے ذلیل ہونے کے احساس سے تھک چکی تھی ۔ ۔ وہ جو اس نے اپنی ہر ہم جنس کو سکھایا تھا ۔ ۔ اس سکھانے وہ انحراف  کی، انکار کی، مسترد کرنے کی چنگاری بھی ساتھ پہنچ گئی تھی ۔ ۔ ۔

اسے اپنے ہونے کا احساس ہونے لگا، اسے محسوس ہوا صدیوں پرانی عورت کا فسانہ ختم ہونا چاہیے، توازن ہونا چاہیے، ایک نظر ہونی چاہیے، ہتک اور تذلیل یہ خمیر سے نکلنا چاہیے، یہ صحیح ہے کہ قدرت نے اسے خالق بنایا ہے تو خالق کا رتبہ بھی برقرار ہونا چاہیے ۔ اب وقت بدل چکا ہے اب وہ تذلیل والی صدیاں بہت پیچھے رہ گئی ہیں اب اسے ہر مقام حاصل ہے یہ بھی کہ جب کوئی اس کو ذلیل کرئے تو اس میں اس کا منہ نو چ لینے کی ہمت ہے، وقت نے بڑے بڑے کھیل دکھائے ہیں، عورت نے اپنی ذات کے لیے آواز اُٹھانے میں صدیاں لگا دی، وہ غلام پیدا نہیں ہوئی لیکن ہر معاشرے نے اس کی گھٹی میں غلامی شامل کی تھی، لیکن انسان کے درجے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا، وہ اپنے وجود کی مالکہ ہے، سوچنے سمجھنے محسوس  کرنے والے سارے احساسات کے ساتھ ۔ ۔ !!!

عورت  ہی وہ مجرم ہے جس نے ذلیل کیا تھا،،، !!!

آج بھی شائد کچھ نہیں بدلا

کل اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا گیا ۔ ۔ !!!

نئی صدی کی نئی عورت

منہ چڑاتی ہے پرانی صدی کی عورت کا !!!

تذلیل ہوئی ہے لیکن آج وہ خاموش نہیں ہے آج اس نے سامنا کیا ہے ہر اس تماشے کا جس نے اس کی ذات کو انسانوں میں سے خارج کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ !!زمانہ کبھی اسے معاف نہیں کرتا جو خاموشی سے ظلم سہتا ہے اس کی آنے والی نسلیں جب اس دکھ سے گزرتی ہیں تو کو ستی ہے ۔ ۔ !!!!جیسے کل اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مارکیٹ میں قد م رکھا اور ہر ایک نے کہا یہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔ ۔ ۔ !!!برجستہ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اس صدیوں پرانی عورت کو سزا دینی چاہیے جس نے اس کے وجود کو ہی کھو دیا ۔ ۔ اور آج  ہر عورت کو اس کی کرنی بھگتنی پڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ !!!!

 

اور ہر ایک نے کہا یہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔ ۔ ۔ !!!برجستہ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اس صدیوں پرانی عورت کو سزا دینی چاہیے جس نے اس کے وجود کو ہی کھو دیا ۔ ۔ اور آج  ہر عورت کو اس کی کرنی بھگتنی پڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ !!!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

بالے مجھے دھتکارا نہیں گیا !

 

تذلیل اور دھتکار بڑی بر ی چیز ہے استاد انسان کے انسان ختم کر جاتی ہے ۔ بالے نے استاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ کیسے بالے ؟ دیکھو نا استاد اوپر والے نے تو سارے انسانوں کو برابر ہی بنایا ہے لیکن یہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو جب اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اور خود کو برتری کے درجے پر رکھتا ہے نا تو استاد جن کی یہ تذلیل کرتے ہیں اور جنھیں یہ دھتکارتے ہیں تو وہ اندر سے مر جاتے ہیں ۔ اور مرے ہوئے انسان زندگی کے کارخانوں میں کیسے اپنا حق اد ا کرسکتے ہیں ۔ لیکن اُستاد یہ دھتکار ان کی سوچوں پر ہتھوڑے کا کام دیتی ہے ۔ جو ایسی ضرب لگاتی ہے کہ تکلیف روح تک پہنچ جاتی ہے ۔ ۔

اوئے بالے تجھے بڑا تجربہ ہے تذلیل اور دھتکار کا ۔ ۔ ۔ ؟ استاد نے حیرانی والی نظروں سے بالے کو دیکھا۔ ۔ !

استاد اب تو ایسے تو نہ دیکھ بہت چھوٹا سا آیا تھا تیرے اس ہوٹل پر کام کرنے جب اماں نے کہا تھا میرے پتر کو اچھے سے کام سکھا دینا اور ہفتے کے ہفتے پیسہ دے دینا ۔ ۔ ! برتن مانجے ہیں میں نے تیرے اس ہوٹل پر ان کو کالے سے سفید نکالا ہے تو تجربہ تو تیرے اس ہو ٹل نے دیا ہے ۔ ۔ یہ سارا معاشرہ تو آتا ہے تیری دوکان پر جو کبھی تذلیل اور دھتکار آنکھوں میں لے کے آتے ہیں ۔ ۔ ۔ !

اُستا د کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا ۔ کہ یہ معاشرے کے نام نہاد با عزت لوگ ہمارے پیشوں کی عزت کرسکتے اور ان کی آنکھوں میں مان ہوتا عزت ہوتی ۔ تذلیل اور دھتکار کی جگہ ۔ ۔

بعض اوقات تجربے ایسی بات کہلواتے ہیں کہ تعلیم صرف مسکرا کر رہ جاتی ہے شفیق حسین عرف شیقہ جو کافی دیر سے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ ۔ ۔ بول پڑا ! یار بالا تو نے بات بڑی کی ہے لیکن بڑی بات ہضم نہیں ہوتی ہے ۔ ہم تو چھوٹے لو گ ہیں روز کی روز کماتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے ان با عزت لوگوں کی آنکھوں میں مان دیکھنے کی ۔ ۔ ۔ ! یار شیقہ جب ضرور ت نہیں ہے مان کی تو دھتکار بھی کیوں  تذلیل کیوں ؟ بالے تو محسوس نہ کیا کر ان کی سوچ کی پرورش نہیں ہو سکی وہ ابھی سوچنے کی طرف مائل نہیں ہے ۔ ۔ جب کبھی ان کی سوچ کی پرورش ہونے لگے گی نا تو مان اور عز ت خودبخود ان کی آنکھوں میں آ جائے گا ہمارے لیے ۔ ۔ ۔ !!!!(اس کا مطلب انتظار کرنا ہے ۔ آہ!)

اوئے بس کر جاؤ تم دونوں اُستاد جو کافی دیر سے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ ۔ تمھارے معاشرے کے جو یہ لوگ ہیں نا بڑے بے یقین ہے ۔ ۔ یقین کی دولت نہیں ہے ان کے پاس یہ جو بھی کرتے ہیں بغیر یقین کے کرتے ہیں ۔ لیکن ایک چیز بڑے یقین سے کرتے ہیں اور وہ ان کے زندہ رہنے کی سوچ ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہنے والے ہیں حالانکہ روز کوئی نہ کوئی خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے اس دنیا  سے ۔ ۔ ۔

شیقہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا اور سو چ رہا تھا کہ حسینہ بائی نے بھی ایک دن ایک بات کہی تھی تمھارا معاشرہ اگر میری سوچ کی عز ت کرئے تو کیا کمال نہ ہو جائے  وہ میرے جسم کو ہوس والی نظروں سے دیکھنے کے بجائے میری سوچ کی عزت کرئے مجھے بھی عورت سے پہلے ایک انسان سمجھے اور سوچنے کے حوالوں سے جانے تو کتنا اچھا ہو جائے ۔ ۔ ۔ ! بالے اور حسینہ بائی کی سو چ کتنی ملتی ہے ۔ ۔ ۔

یا پھر  تذلیل اور دھتکار  کا اثر  ہے ۔ ۔ ۔ جس کا رنگ ایک جیسا ہے ۔ ۔ ۔ مارتا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ !

اوئے شیقہ کیا سوچتے ہو !!!!؟

یار میں حسینہ بائی کے بارے میں سو چ رہا تھا  ۔ ۔ ۔ میں نے تو اس سے ایک مدت تک محبت کی تھی یار پتہ نہیں کہاں گئی ۔ ۔ ۔ ؟

یار شیقہ ایک بات بتا کیا  اس کے نہ ہونے سے تیری محبت ختم ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ ؟ نہیں ایسا نہیں ہے میری محبت تھی یا ر کوئی وقتی احساس نہیں تھا ۔ ۔ ۔ دل چاہتا ہے اس مکھڑے کو دیکھنے کے لیے ۔ ۔ جس کو دیکھنے کے لیے خدا سے بارہا  میں دعا مانگتا تھا ۔ ۔ ۔

مر ہی نہ جا وں یار میں ایک مرتبہ تو اس ایک صورت کو دیکھ لوں ۔ ۔ ۔ !

اوہ مستانے ! تو پریشان نا ہو مل جائے گی تجھے ۔ ۔ ۔ کسی نہ کسی راستے پر ۔ ۔ ۔

خدا کرے

٭…………٭

 

حسینہ بائی اکو اپنے آبائی گاؤں رہتے ہوئے تقریباً  تین سال ہو گئے تھے ۔ ۔ حویلی میں بہت سارے کمرے تھے  ایک کنواں بھی تھا جو آج تک قائم ہے بہت ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے اس کا یہی وجہ ہے کہ دادا ابا کی بھر پور فرمائش پر اس کو آج تک ٹوٹنے نہیں دیا گیا اور ہر سال تایا ا با اس کی مرمت کرواتے ہیں ۔ ۔ !

 

اوپر والی منزل پر تایا ابا کا خاندان رہتا تھا اور نیچے اس کے ابا اور ان کا خاندان  رہتا تھا ۔ ۔ ایک بھر پور خاندان تھا ۔  شام ہوتے ہی سارے  حویلی پہنچ جاتے , درختوں پر پرندوں کا شور  ہوتا اور نیچے حویلی کے مکینوں کا۔ ۔ ۔

رونق عروج پر ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ کبھی چائے کا دور چلتا تو کبھی مونگ پھلیاں کھا ئی جا رہی ہیں ۔ ۔ کبھی لڈو کھیلی جا رہی تو کبھی کر کٹ ۔ ۔ لیکن حسینہ بائی اپنے زرد چہرہ لیے کنویں ایک کونے پر بیٹھی تھی ۔ ۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ اس کے ارد گر کیا ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ چاند بھی آسمان پر نمودار ہو گیا تھا اپنی من مانیاں کرتا وہ آسمان کی تنہائی کا شراکت دار بن گیا تھا!

اس کی ماں نے اس سے پو چھا تھا  بتا ؤ تم شفیق سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی ۔ ۔ ؟ اچھا لڑکا ہے خوش رکھے گا تمھیں ۔ ۔ ۔

اماں مجھے سوچنے تو دو مجھ میں رشتوں کا بوجھ اُٹھانے کی سکت ہے یا نہیں ۔ ۔ آج سے تین سال پہلے جب وہ لاہور میں تھی تو اس نے اماں کو یہ جواب دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن آج شائد اس کے زرد چہرے میں ایک اور رنگ شامل ہوا تھا ۔ ۔

یقین کا رنگ ۔ ۔ فیصلے کا رنگ ۔ ۔ ۔ جس نے اسے اُٹھنے پر مجبور کر دیا ۔ ۔ وہ اماں کے کمرے میں گئی ۔ اماں لیٹی ہوئی تھی ۔ ۔ حسینہ بائی آپ آئیے ۔ آئیے ۔ ۔ ۔ !

اماں اس کے چہرے کو پڑھ چکی تھی ۔ ۔ کیا بات ہے حسینہ بائی ؟ اماں عورت محبت نہیں کرتی ہے ! محبت عورت کی سچائی نہیں ہے ۔ ۔ ۔

ممتا اس کی سچائی ہے ۔ ۔ ! ممتا اس کا رنگ ہے ۔ ۔ سچا اور کھرا رنگ ۔ ۔ جس میں سب کچھ سما جاتا ہے ۔ ۔ اس کی ممتا کو محبت کا نام دے دینا تو اس کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ ۔ ! کیا آپ کو نہیں لگتا ۔ ۔ ؟

حسینہ بائی آپ مشکل گفتگو کر رہی ہیں سیدھے بتائیے آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔ ۔ ؟

میں شفیق سے شادی کے لیے تیار ہوں ۔ ۔ ۔ !!!!

٭……٭

 

مجھے مان دیا گیا ہے عزت دی گئی ہے ۔ ۔

بالے مجھے دھتکارا نہیں گیا ۔ ۔ ۔

مجھے مارا نہیں گیا ۔ ۔ ۔ !

شیقہ  اونچی  اونچی آواز میں بالے اور استاد کو  خبر دے رہا تھا ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

اس نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا تھا!

 

 

انسانوں سے خو ف آتا ہے مجھ میں زیادہ دیر تک اس ہجوم کے اندر رہنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ ویسا ہی خوف آتا ہے جیسے پرندے کسی شکاری کو دیکھ اُڑ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ شور مچاتے ہیں !

دربار کی سیڑھیوں کے نیچے بیٹھا وہ اپنی سوچ میں گم تھا ۔ چادر کو اپنے ارد گر د لپیٹے سر کو جھکائے وہ ساری دنیا کے شورسے بے نیاز لگ رہا تھا (حالانکہ حقیقت میں سارے شور کو سن رہا تھا وہ اپنی لڑائی میں مگن تھا)

مجھے ہر شور سنا ئی دیتا ہے لیکن میں اُ ن آوازوں کو کیوں نہیں سن سک رہا ہوں جو لفظوں پر محیط نہیں ہوتی ہیں، جو تکلیف بے بسی کا شور ہوتا ہے جو تہذیبوں کے دفن ہونے کا دکھ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ! دنیا کا مشہور لکھاری جمال حسن جو اپنے وقت کا بہترین لکھاری تھا، جس کی فلاسفی، جس کے کردار آج بھی لوگوں کو یا د ہیں لو گ بھولتے نہیں ہیں اس کو لیکن اس نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا تھا ۔ ۔ سبحان احمد جو کہ ایک صحافی ہے، کتاب کی چند سطر پڑھنے کے بعد کتاب کو بند کر کے رکھ دیا ۔ ۔ وہ سوچنے میں مصروف تھا ۔ ۔ کیوں ایسے لکھاری کو خوف آیا جس کا تعلق اُمید کے جہاں سے تھا ۔ ۔ ؟ کیوں انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اسے خوف محسوس ہونے لگا ۔ اس کا جواب صر ف جمال حسن دے سکتا ہے ! اس نے اپنا بیگ قلم کاپی اُٹھایا اور جمال حسن کی تلا ش میں نکل کھڑا ہوا ۔ ۔ اس کے پرانے ایڈریس سے معلوم ہوا کہ وہ  تین یا چار سال پہلے گھر چھوڑ کر جا چکا ہے ۔ ایک پورا ہفتہ گزر گیا سبحان احمد کو جمال حسن کی تلاش کرتے ہوے۔ ۔ آخر کا ر کسی نے اسے بتایا کے دربار کی سیڑھیوں کے پاس بیٹھا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ! پتہ نہیں یہ خبر درست بھی ہے یہ نہیں ۔ ۔ ؟ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا !

اگلے دن اپنا ضروری سامان اٹھا کر وہ چل پڑا ۔ ۔ اپنی مقررہ جگہ پہنچ کر اس نے جگہ کا جائزہ لیا ۔ ۔ ارد گرد بہت سارے درخت تھے ۔ ۔ سوکھے پتے زمیں پر پڑے ہوئے  موسم کے بدلنے کا پتہ دے رہے تھے ۔ ۔ پرندوں کا خوب شور تھا ۔ ۔ شائد سب پرندے اپنے آشیانوں میں واپس آ چکے تھے ۔ ۔ !سبحان احمد سیڑھیوں کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ ۔ اس نے واقعی ایک شخص کو سر جھکائے بیٹھے ہوئے دیکھا جس کے جوتے بہت پرانے ہو چکے تھے ۔ ۔ شائد ان حال بد حال ہو چکا تھا ۔ ۔ ! کیا آپ جمال حسن صاحب ہیں ! اس وقت دربار کے اردگرد لوگ بہت کم ہوتے ہیں ۔ ۔ اس سوال نے اس بیٹھے ہوئے شخص کو  مجبور کر دیا ۔ ۔ !بہت عرصے بعد اپنے نام کو کسی کی زبان سے سنا تھا ۔ ۔ اپنی پہچان تو وہ کب کا بھول گیا تھا ۔ ۔ !!!

کیا آپ ہی جمال حسن ہیں ۔ ۔ ؟ جمال حسن تو کب کا مرگیا تھا۔ ۔ کیا تمہیں خبر نہیں پہنچی تھی ۔ سر آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟  میں جو کہہ رہا ہو نوجوان وہ تم بھی بخوبی سمجھ رہے ہو ۔ ۔ ۔ ! اس پیلی دھوپ نے میری موت کا مذاق بنایا تھا، پرندے اس دن میری موت کا ماتم کر رہے تھے ۔ کیا میری موت کی خبر تم تک نہیں پہنچی ۔ ۔ ۔ ! لیکن آپ تو زندہ ہیں سر! آہ۔ ۔ !!!! میں زندہ ہوں ۔ ۔ !  اس کو تو مردہ کہتے ہیں ۔ جب انسان انسان کو کاٹ ڈالے وہاں کے انسان مردہ ہو جاتے ہیں ۔ ۔ !لیکن سر آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ۔ ۔ ۔ !

میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ! آہ میں بند کمروں میں بیٹھ کر لکھتا تھا کبھی کسی دوشیزہ کی خوبصورتی  کو لکھ دیا کبھی بھو ک کا  مذاق اُڑایا ۔ کبھی اپنے لوگوں کے درمیان نہیں رہا تھا میں اپنے ہی فلسفے چلائے ہوئے تھے میں نے ۔ ۔ ٹی وی کیمرہ  کی روشنی نے میرے لوگوں کو میرے سے بہت دور کر دیا تھا ۔ ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں میں جب اپنے لوگوں کے اندر آیا تو میرے قلم نے میرا مذاق اُڑایا ۔ ۔ ۔ !تم جانتے ہو  قلم سے دوستی ہو جائے تو سکون مل جاتا ہے اور اگر لڑائی ہو جائے تو قلم بھی دکھ میں، سکون بھی دکھ میں، اور لفظ خلا میں گھومتے رہتے ہیں ۔ ۔ (بڑا عظیم ظلم ہوتا ہے یہ)

میں درد لکھ نہیں سکا تھا ۔ ۔ آنسوؤں کے سفر کو بیان نہیں کرسکا۔ ۔ میں اس انسانوں کے ہجوم کو نہیں بتا سکا کہ بھو ک سہی نہیں جاتی بلکہ کاٹی جاتی ہے ۔ میں نہیں بتا سکا کہ جب مالی کے لگائے ہوئے درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے ؟ میں یہ بھی نہیں لکھ سکا ایک لائبریرین کو کتنی تکلیف ہوتی ہے جب طالب علم اس کی ترتیب دی ہو ئی کتابوں کو بڑے بے حسی سے اُٹھا کر اس کتاب کی توہین کرتے ہیں ۔ ! میں یہ بھی نہیں لکھ سکا ایک ماں پر کیا گزرتی ہے جب اس کے بے قصور جگر کے ٹکڑے کو کوئی انجانی گولی چھلنی کر جاتی ہے ۔ ۔ میں اس قیامت کو بیان نہیں کرسکا جب ایک ننھی گڑیا کے چوزے کو چوہا کھا جاتا ہے اور ننھی گڑیا اپنے چوزے کو خون میں لت پت دیکھ کر چوہے کو بد دعا دے رہی ہوتی ہے ۔ ۔ ! میں نہیں لکھ سکا جب یہ چھوٹے چھوٹے درد ظلم بڑے ظلم کو جنم دیتے ہیں اس ظلم میں تہذیب کی موت ہو رہی ہوتی ہے ۔ ۔ ایسی موت جس کا احسا س اس انسانوں کے ہجوم کو نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ !

سبحان احمد بتاؤ اگر میں یہ لکھتا کیا اس ہجوم میں شور اُٹھتا۔ ۔ ! کیا ان کو کچھ کھو جانے کا احساس ہوتا۔ ۔ ۔ !جمال حسن چل پڑا تھا ۔ ۔ ! سبحان احمد اُٹھ کھڑا ہوا ۔ ۔ سر ایسا ضرور ہو گا ۔ ۔ اگلے دن کی صبح جب اخبار لوگوں کے ہاتھ میں آیا تو وہ سب پڑھ رہے تھے کہ جمال حسن نے کیوں لکھنا چھوڑ دیا تھا ۔ ۔ انسانوں کے ہجوم میں شور اُٹھا تھا ۔ ۔

آگہی کا شور ۔ ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

کچھ یادیں صحرا کی ستارہ کی

 

اس نے بہت سارے جگنو  پال رکھے ہیں جو اس کی آنکھوں میں گشت کرتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں یہی سرا پا ہے اس کا جب وہ ہنستی ہے تو کھلکھلا کے ہنستی ہے ۔ ۔ پھر یہ صحرا کی خاموشیاں اس کی ہنسی سے گونج اٹھتی ہے ۔ ۔ ۔ ہاں میر ی ستارہ لوگو! میری ستارہ ۔ ۔ ۔ !اوئے سانول تو کیا بات کر رہا ہے ۔ ۔

سانول  لندن کے ایک کیفے میں بیٹھا اپنے دوستوں کو کچھ ایسی یا دیں سنا رہا تھا جن یا دوں کا راز دان صرف وہ صحرا تھا جہاں بہت کم خاندان ایک بستی میں رہا کرتے تھے ۔ ۔ اس بستی کے ایک خاندان میں اس کی ستارہ بھی رہتی ہے ۔ ۔ سانول  پوری کہانی سنا  دے یا ر ۔ ۔ ۔ یہ کیا تو میری ستارہ  کہتا رہتا ہے ۔ ۔ !

میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ستارہ ۔ ۔ ! یہ باتیں تو صدیوں لوگوں نے بولی ہیں نا ۔ ۔ ۔ سانول ۔ ۔ ! ستارہ چپ ہو گئی تھی اس صحرا  کی خاموشی  کی طرح ہی خاموش ۔ ۔ وہ بہت گہری لڑکی ہے وہ دنیا کی اونچ نیچ کو سمجھتی ہے ۔ ۔ وہ میرے سے محبت نہیں کر سکے گی ۔ ۔ !

میری ستارہ کے جگنو اب میری آنکھوں میں گشت کر رہے تھے ۔ ۔ ! شائد وہ دن کبھی نہ آئے ۔ ۔ ۔ !

آئے گا ۔ ۔ ! جانے کہاں سے یہ الفا ظ سانول کو سننے کو ملنے لگے ۔ ۔ بہت عرصہ گزرا ۔ ۔ ۔ ستارہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی نا ۔ ۔ ۔ صرف اس وجہ سے کہ میں سانولا ہوں ۔ ۔ ۔ ؟ ستارہ  کافی دیر تک سانول کو دیکھتی ہی رہی ۔ ۔

جانے سانول نے یہ بات کیوں کی ۔ ۔ ! کیا رنگوں سے محبت ہوتی ہے ۔ ۔ سانول محبت کا تو اپنا رنگ ہوتا ہے ۔ ۔ ایسا پاکیزہ رنگ جو چہروں کو پر نو ر کر تا ہے ۔ ۔ کیسی گری ہو ئی بات کر دی تم نے سانول ۔ ۔ ۔ ! بعض اوقات اظہار کے لیے لفظوں کا سہارا  نہیں چاہیے ہوتا ہے ۔ ۔ یہ بات سانول کو معلوم ہو چکی تھی ۔ ۔

سانول سانو ل ۔ ۔   ! ستارہ اونچی آواز میں اس کا نا م پکارے سارے گھروں میں پھر رہی تھی ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ۔ ۔ چھوکری ۔ ۔ ! سانول کے ابا نے پوچھا ۔ ۔ چچا ۔ ۔ وہ سانول کو ابا نے بلایا ۔ ۔ خیر تے ہیں نا ۔ ۔ ہاں جی خیر ہے ۔ ۔ سانول جب آئے گا تو میں بھیج دوں گا ۔ ۔ ۔ کہاں گیا ہے ۔ ؟  وہ  دور  اونٹوں والے آئے ہیں پورا قافلہ ہے ان کا ۔ ۔ ۔ قافلے والوں نے مدد مانگی تھی تو وہاں گیا ہے ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ! سر ہلاتی ہوتی بھاگ کھڑی ہوئی قافلے کی طرف ۔ ۔ !

کتنے دن ہو گئے اس کا چہرہ دیکھے ہوئے ۔ ۔ جانے کہاں سے پھر سے جگنو اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگے ۔ ۔ ۔ !

سورج ڈھل رہا تھا ۔ ۔ سردیوں کی شامیں کتنی اُ داس ہوتی ہے ۔ ۔  پا گل کر دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ !ریت بھی اتنی گرم نہ تھی ۔ ۔ ۔ چلتے چلتے تھک گئی تھی وہ ۔ ۔ نیچے بیٹھ گئی ۔ ۔ ۔ !بے بسی اس کے چہرے پر پھیل گئی ۔ ۔ سورج ڈوبنے کے ساتھ ساتھ اس کا چہرہ بھی اسی احساس سے دوچار تھا ۔ ۔

سانول قریب پہنچ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ارے میری ستارہ ۔ ۔ ۔ زہے نصیب ۔ ۔ !

سانول ابا نے بلایا ہے ۔ ۔ ۔ چلو ۔ ۔ اچھا چلو۔ ۔ ۔ وہ دونوں چل رہے تھے ۔ ۔ ۔ شائد ایک دوسرے کو محسو س کرنے کا طریقہ ہے یہ بھی ۔ ۔ ۔

سانول ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ !

کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے ۔ ۔ ! میں تمھارے کندھوں پر سر رکھ کے سو جاؤں ۔ ۔ ۔ ! کبھی نہ اُٹھنے کے لیے ۔ ۔ ۔ !

پگلی ۔ ۔ ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔ ۔ ۔ ہاں نا ۔ ۔ ! خواہش تو خواہش ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ چاہے کیسی بھی ہو ۔ ۔ ! ہاں اور میں چاہتا ہوں  میرے کاندھے کبھی نہ سرک سکے پھر۔ ۔ ۔ !  ٹھنڈی ہوا ۔ ۔ ڈوبتا سور ج اور ہونے والی اللہ ہو اکبر کی صدا  گواہ بن رہی تھی ان خواہشوں کی ۔ ۔ ۔

نت خیر منگاں سوہنیا میں تیر ی دعا نہ کوئی ہور منگدی

تیرے پیراں چ اخیر ہوے میری دعا نہ کوئی ہور منگدی ۔ ۔ !

آ گیا پتر ۔ ۔ ۔ ! ہاں چچا ۔ ۔ خیر ہے ۔ ۔ ! پتر اس نلکے کو دیکھ ذرا پانی نہیں دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ! جا ستارہ  تیل لے آ  اندر  سے تیل ڈال دوں گا تو اندر سے اس کی خشکی چلی جائے گی ۔ ۔ ! پھر یہ ٹھیک سے کام کرئے گا ۔ ۔ !  سانول اس میں تیل کیوں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ؟  وہ ستارہ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ ۔  یہ مشینری ہے ستارہ ۔ ۔ تو اس کے پرزے ہمیشہ کے لیے تو کا م نہیں کرسکتے ۔ ۔ ۔ اس وجہ سے اس کو تیل دے رہا ہوں کے وہ خشک نہ رہے ۔ ۔ بلکہ تری لگ کے اپنا کام کرسکے ۔ ۔ ۔ !اچھا  ٹھیک ہے ۔ ۔ سمجھ آ گئی ۔ کائنات کا ہر کا م اسی طرح چل رہا ہے ۔ ۔ ہر ایک چیز دوسرے کے لیے ہے ۔ ۔ کائنات بنانے والے نے بڑی آسانیاں دی ہیں ۔ ۔ ۔ اس کائنات میں رہنے والوں کو ۔ ۔ ستارہ اپنے سادہ  لہجے میں بول رہی تھی ۔ ۔

ستارہ کے ابا اور اماں کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ستارہ کا رشتہ سانول کے ساتھ پکا کر دے ۔ ۔ ۔ اور اس کے لیے وہ کسی اچھے موقع کی تلاش میں تھے ۔ ۔ ۔

شائد صحرا میں ذات پات  مذہب   زبان کا فرق پہنچا نہ تھا ۔ ۔ ۔ اس وجہ سے سادگی ان لوگوں کے احساسات میں رم چکی تھی ۔ ۔ ۔

سانول بولتے بولتے چپ ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔

پھر کیا ہو ا ۔ ۔ کیفے ٹیریا میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ سب سانول کے چہرے پر پھیلے ہوئے کرب کو دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ایسی تکلیف جس کو وہ بیان کرنا نہیں چاہ رہا تھا ۔ ۔ اس کی آنکھیں پانیوں میں ڈوبی ہوئی لگ رہی تھی ۔ ۔ کیفے ٹیریا کے باہر تمام پیڑ  پودے سڑک برف سے ڈھکنے لگی تھی ۔ ۔ ۔ لیکن سانول کے اندر آگ لگی تھی ۔ ۔ ۔ ایسی آگ جس کی لپیٹ نے اس کی ستارہ کو اس سے صدیوں دور کر دیا تھا ۔ ۔

پھر کیا ہوا یا ر ۔ ۔ ؟

پھر ۔ ۔ ۔ اس کے ابا نے محلے میں کسی دانا سے بات کی ۔ ۔ ۔ جس کو اس دنیا کی اونچ نیچ  ذات پات  مذہب  زبان کے سب فرق کا پتہ تھا ۔ ۔ اس دانا نے  مجھ میں ایسی خامی بتا دی ۔ ۔ ۔ کہ میری ستارہ کے سارے جگنو اس سے روٹھ گئے ۔ ۔ ۔ وہ جگنو جو اس کی آنکھو میں کبھی گشت کرتے تھے اب اُداس ہو گئے تھے ۔ ۔

ابا کیا ہو ا ہے ۔ ۔ ؟ کیا کہا آپ مشورہ کرنا گئے تھے ۔ ۔ ۔ مولوی صاحب سے ۔ ۔ ۔ ! پتر مولوی صاحب کہتے ہیں تیری ستارہ کا بیا ہ سانول سے نہیں ہو سکتا ۔ ۔ , کیوں ابا ۔ ۔ ؟

وہ کہتا ہے ۔ ۔

سانول ہمارے مذہب کا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

 

کٹھ پتلیاں جب بولنے لگتی ہیں !

 

کٹھ پتلی اور اس کی باقی ساتھیوں یعنی کے باقی کٹھ پتلیوں نے اپنا اپنا خیال بیان کر دیا ہے!

انھوں نے اپنے تماشا دکھانے والوں کو انکار کر دیا ہے کہ وہ اب تماشا نہیں کریں گی ۔

مداری چپ چاپ کھڑا ہے او ر پتلیاں خاموش پڑی ہیں بے جان وہ کیسے بول سکتی ہیں  کیسے؟ وہ تو بے جان ہیں !تماشا دیکھنے والے سارے جا چکے ہیں ۔ خاموشی ہے سارے چوک میں ۔ دل دہلا دینے والی خاموشی جیسے ابھی کوئی طوفان آئے گا ۔ اور خاموشی کا خون کر دیا جائے گا ۔

بس ایک لڑکی کھڑی تھی ابھی تک جیسے کہیں سے بھا گ کر آ رہی ہو، اور پاؤں میں ایک جوتا بھی نہیں اسے کے نہ جانے کیا ہو ا ہے اس کو ؟ ایک کٹھ پتلی نے سرگوشی کی ۔

صیح کیا تم لوگوں نے جو تماشا نہیں دکھا یا جو مرضی کیا کرو تم لوگ !

یہی کرنا چاہیے تھا، یہی کرنا چاہیے تھا ! وہ بڑ بڑا رہی تھی ۔

اسے کے لمبے بال بالکل الجھے ہوئے تھے اور ایک طرف کو آ گئے تھے، اس کے دوپٹے کا پلو اس کے سر سے ڈھلک رہا تھا ۔ لیکن وہ آج بولے جا رہی تھی مسلسل ۔ ۔ ۔ ۔

یہ دیکھو میرے ہاتھ بالکل خالی ہیں کیا ملا مجھے ؟ خالی ہاتھ ہوں میں ! کتنے برس ہو گئے مجھے پرستش کر تے ہوئے ان بتوں کی ! دیکھ رہی ہو تم میرے ہاتھوں میں یہ زخم آج میں نے اپنے بنائے ہوئے بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا ہے ۔ اور جب کسی چیز کی اتنی پوجا کی جائے اور پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے توڑا جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ روح بیمار ہو جاتی ہے معلوم ہے نا تمہیں اوہ کٹھ پتلیوں صحیح کیا تم نے ۔ کیوں کرو تم تماشا ۔ !

دکھاؤ تو سہی یہ پتھر ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ پتھر کیسے ہیں جن کی تم نے برسابرس پرستش کی ہے اور آج خود اپنے ہاتھوں سے توڑ دیے ان بتوں کو !

نہیں نہیں ! تم نہ دیکھنا ان پتھروں کو ۔ یہ پتھر اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں سب کو، ان کا جادو بڑا کالا ہے ۔ ایسا کالا جادو جو زندگی کا ٹریک ہی اکھیڑ  دیتا ہے ۔ جو اپنے جادو کے حصار میں لے لیتا ہے ۔ ارے نہیں

ہم بھی کریں گے پرستش ان بتوں کی جو تمھارے بت ہیں جن کی تم نے پو جا کی ہے۔

فیروزی رنگ کے کپڑے پہنے وہ لڑکی تڑپ اُٹھی ! نہیں میں نے بتا یا نہ کالا جادو ہے یہ کالا جادو ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے ہاتھ میں پتھر کہاں ہیں ؟ کٹھ پتلی نے دوسری کٹھ پتلی سے پوچھا !

مجھے کیامعلوم میں بھی تو وہ ہی سن رہی ہوں جو تم سن رہی ہو ۔ دیکھ رہی ہو نا پتھروں کی بات کر رہی ہے یہ پتھر ایک بھی نہیں ہے اس کے ہاتھ میں ْ۔ اری او لڑکی پتھر کدھر ہیں ؟ ہمیں کیوں نظر نہیں آرہے ؟ ہمیں بے وقوف بنا رہی ہو کیا! نہیں ان پتھروں کے نا م بڑے ہیں یہ وہ خواہشات کا جال ہے جو میں نے کاتنا شروع کیا تھا کبھی ۔ جب غربت کے عذاب دیکھے تھے جب بھو ک کاٹی تھی ۔ جب سب پورا ہو گیا جب آج ہر آسائش میسر ہے تو روح بیمار ہے میری ۔

میں نے ہمیشہ اپنی خواہشوں کی پرستش کی اپنے خیالوں کا پرچار کیا ۔ اپنے ہی بت بنائے اور پوجا کی ۔ میں نے کبھی خود سے بات ہی نہیں کی خود کو وقت نہیں دیا ۔ کہتے ہیں اپنی ذات کو خود سے ضرور ملوانا چاہیے ۔ میں نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔ خامیاں خوبیاں اچھائیاں سب پالی جاتی ہیں میں نے کیا پالا خواہش  عذاب، نفرت، حسد، میری روح کو بیمار کر دیا میں نے خود نے !

آج دیکھو  یہ میرے خالی ہاتھ !

دیکھو!

خالی کا سئہ ہے میرے ہاتھ میں خالی رہ گیا ۔ میں ساری حیاتی لگا دی اس کو بھرنے میں ساری حیاتی ! یہ کہتے کہتے وہ بیٹھ گئی اپنا سر اس نے چبوترے کے کونے سے ٹکا دیا!

پتلیاں اپنی اپنی جگہ کھڑی تھی ۔ فیروزی رنگ والی پتلی بھی اپنی جگہ پر بیٹھی تھی ۔

ارے پگلی تم نے کہاں کھویا ہے ابھی کچھ اپنے بت خو د ہی تو توڑ دیے ہیں ۔ اپنا پیالہ بھر تولیا ہے ۔ !!!!

مدار ی نے سٹیج پر آخری جملہ بولا اور کٹھ پتلی کا تماشہ ختم کیا ۔

کاشف مداری نے حقیقت کے رنگ بھرے تھے اپنے اس تماشے میں اور وہ کامیاب رہا تھا ۔

٭٭٭

 

 

 

 

ساجن میرا ہرجائی !!

 

بس یار رخصتی ہو جانی چاہیے پلوشہ۔ ۔ ۔ ۔

بہروز عالم نے پلوشہ سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ امی نہیں مان رہی بہروز ۔ ۔ اور ابو بھی نہیں ہوتے آج کل گھر وہ بھی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ۔ ۔ ان کے بغیر امی اور بھا ئی میری رخصتی کیسے کرسکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اچھا ٹھیک ہے پلوشہ میں چلتا ہوں مجھے ذرا دوسرے شہر میں کام ہے میں تین یا چار دن تک آتا ہوں ۔ ۔ اچھا ٹھیک ہے میں بھی چلتی ہوں ۔ ۔ ۔ اور ہاں میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے میں تھوڑا مصروف رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ !!!

پلوشہ نے انگلش لٹریچر کو منتخب کیا اور وہ شائد اس کی شخصیت پر جچتا بھی تھا ۔ ۔ وہ کافی سلجھی ہو ئی دکھا ئی دیتی ہے ۔ یونیورسٹی میں لیکچرز شرو ع ہو گئے تھے اور پلوشہ کو بہت اچھی دوست مل گئی تھی مریم کی صورت میں ۔ مریم کا شوق اکنامکس میں تھا لیکن قسمت نے اسے انگلش لٹریچر میں ڈال پھینکا ۔ ۔ ۔ مریم اور پلوشہ دونوں کے مزاج تھوڑے مختلف تھے لیکن پھر بھی دونوں میں کوئی نہ کو ئی ایسی خاصیت تھی جو و ہ دونوں ایک دوسرے کی دوست بن گئی۔ ۔ ۔ ابھی پہلاسمسٹر ختم ہوا تھا ۔ کہ پلوشہ نے بتایا ۔ اس کی رخصتی ہونے والی ہے ۔ ۔ !!!!

بہروز عالم ساتھ والے گھر میں ہی تو رہتے تھے ۔ ۔ بہروز عالم یوں تو ایک اچھی خاصی شخصیت کے مالک ہیں ۔ اور سلجھے ہوئے بھی لیکن بہت سی باتیں تھیں جو پلوشہ ان سے کہنا چاہتی تھی ۔ ۔ نکاح ایک ایسے ہی حساس کا نام ہے جو دونوں انسانوں کو دلوں کے حوالے سے اور روح کے حوالے سے جوڑتا ہے ۔ ۔ یہی وجہ تھی پلوشہ نے ایک مرتبہ خواہش کی تھی بہروز عالم سے۔ ۔ ۔

ہاں میں آپ کی آنکھوں میں رہنا چاہتی ہوں ذرا سی دیر ہی کیوں نہ لیکن بس رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ !رخصتی کے بعد سسرال میں رہتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا ۔ ۔ ۔ لیکن پلوشہ کی زندگی میں حنا کے رنگ نہیں نظر آئے وہ بہت ساری باتیں گول کر جاتی بہت ساری باتیں اس کے ہونٹوں پر رہ جا تی ۔ ۔

بہت اچھی طالبہ بہت حساس ۔ ۔ خواہش کرنا ۔ ۔ ۔ اور اس کے لیے کوشش کرنا شائد پلوشہ کو بہت اچھا آتا تھا ۔ ۔ لیکن بہت کم ہو گیا تھا کچھ اس کی زندگی میں ۔ ۔ ۔

کچھ کھونے کا احساس ۔ ۔  نامکمل سے احساس ۔ ۔ ۔ یقین نہ ہو نے کا احساس ۔ ۔ ۔ باہر والے اس کے دل کا گھر توڑ گئے ۔ ۔ ۔ !

کیا ہوا ہے پلوشہ  مریم نے پو چھا ؟  کچھ بھی نہیں ۔ ۔ بس میرا اب بہروز سے بولنے کو دل نہیں کرتا ۔ ۔ وہ جب موجود ہوتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے میں کہیں بھا گ جاؤں وہ میرے قریب بھی نہ آئے !!!!

ایسا کیا کر دیا بہروز بھا ئی نے ۔ ۔ ۔ ؟ کچھ بھی نہیں پلوشہ نے بات کو پھر گھما دیا ۔ ۔ ۔ ! پتا نہیں یار ۔ ۔ میرا  دل بے چین رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ! میری شادی جس شخص سے ہوئی ہے اسے میری پرواہ ہی نہیں ہے ۔ ۔ میں ہوں، یا نہ ہوں، انہیں اس بات کا فرق ہی نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔ ۔ !!!لیکن مجھے ان کے ہونے یا نہ ہونے سے بہت فرق پڑتا ہے مریم ۔ ۔ ۔ ! یہ کہنے کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ ۔ ۔ وہ جو بہت مضبوط نظر آتی تھی ۔ ۔ ۔ آج جب بات دل پے آئی تو رو پڑی ۔ ۔ ۔ مریم اور ممتا ایک ہی چیز ہے ۔ ۔ اپنی دوست کو یوں ٹوٹتا دیکھا تو خود بھی اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ پائی ۔ ۔ ۔ !

یہ بات بلکل درست ہے اچھے دوست ہوں تو وقت بہت اچھا لگتا ہے ۔ ۔ ۔ آپ کتنا بڑا ہی رتبہ کیوں نہ حاصل کر لیں لیکن دوستوں میں وہی ہوتے ہیں جن کے سامنے آپ روسکتے ہیں بول سکتے ہیں ۔ ان کے گلے لگ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اپنے آپ کو بہت قیمتی محسوس کرسکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پلوشہ کو مریم ایسی ہی دوست ملی تھی ۔ ۔ ۔

مریم تم ٹھیک ہو ۔ ۔ مجھے چپ کرانے کے بجائے خود ندیاں بہا رہی ہو ۔ ۔ ! دونوں ہنس دی ۔ ۔ ۔ ! چل اچھا اللہ سب ٹھیک کرے گا ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ ۔ ۔ ۔ !چلو کچھ کھا لیتے ہیں ۔ ۔ صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا میں نے ۔ ۔ ! ٹھیک ہے چلو۔ ۔ اچھا وہ لینے آئیں گے مجھے میں ان کے ساتھ چلی جاؤں گی  لیکچر لینے کے بعد ۔ ۔ چل ٹھیک ہے ۔ ۔ !

آج میرے دوست کی شادی میں چلنا ہے ۔ ۔ شام کو تیار رہنا میں آ جاؤں گا لینے !

ٹھیک ہے بہروز ۔ ۔ ۔ لیکن مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ ۔

کیا بات کرنی ہے میں شام کو آتا ہوں تو آرام سے کر لینا ۔ ۔ ۔ ! پلوشہ نے بات سنی اور ایک او ر آواز سنی جو بارہا اس کا دل اس کو سنانا چاہ رہا تھا ۔ ۔ شائد عورت کے اندر قدرت نے یہ بات رکھ دی ہے ۔ جب اس سے اس کا گہرا رشتہ دور ہو رہا تو اسے معلوم ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ جس انسان کے ساتھ رہتے ہوئے آپ اسے غور سے دیکھتے ہوں محسوس کرتے ہوں ۔ ۔ جب اس کے انداز تبدیل ہونے لگے تو محسوس ہو جا تا ہے ۔ ۔ جب الفاظ کھوکھلے ہو جاتے ہیں ۔ ۔ احساس کرانے کے طریقوں میں سچا ئی کہیں کھو جاتی ہے ۔ ۔ ۔

یہی وہ سب کچھ تھا جو پلو شہ کو محسو س ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ اپنے سرتاج کو کھو دیا تھا اس نے ۔ ۔ یا کہیں کسی باہر والے نے نقب لگا لی اس کی خوشیوں کو ۔ ۔ ۔

شام ہو گئی تھی اور بہروز عالم آ پہنچا تھا ۔ ۔ چلیں ۔ ۔ ۔ !

ہاں چلو۔ ۔ ۔ !

شادی والے گھر میں بہت رونق تھی پلوشہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ ۔ سب نے اس کی تعریف کی ۔ بہروز عالم کے بہت سارے جاننے والے موجود تھے وہاں پر ۔ ۔

پلوشہ ایک عورت سے محو گفتگو تھی ۔ ۔ کہ سامنے سے ایک عورت آئی اور کہا کہ اچھا آپ کے شوہر نے آپ سے دوسری شادی کی ہے ۔ ۔ ۔ ! پلوشہ اس کی بات پر چونک گئی دوسری شادی کیا مطلب ۔ ۔ ۔ !

مطلب تو صاف ہے آپ کے شوہر نے ایک شادی آپ سے پہلے کی ہوئی ہے اور اس سے ان کے بچے بھی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ !

یقین تو سچ پے سے اُٹھا تھا ۔ ۔ ۔ آپ بتا دیتے کہ آپ نے شادی کی ہو ئی ہے ۔ ۔ پلوشہ شائد بکھر گئی تھی ۔ ۔ ۔ اسے جس بات کا احسا س کافی عرصے سے ہو رہا تھا آج سچ ہو گیا تھا ۔ ۔ بہروز عالم کا کہیں جلدی جانا ۔ ۔ کہیں کام کے سلسلوں میں باہر رہنا ۔ ۔ ۔ کچھ کم ہونے کا احساس  کچھ کھو جانے کا احساس ۔ ۔ ۔

جب ہم کسی کو دل کا بادشاہ بنا لیتے ہیں تو وہ کیسے فقیر بنا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ !!!!

پلوشہ نے مریم کو بتا دیا تھا سب کچھ ۔ ۔ ۔ !!!

پلوشہ تم نے یہ سب کچھ کیسے مان لیا ۔ ۔ ۔ آخر کیسے ۔ ۔ ۔ !!!  اور انھوں نے بتایا کیوں نہیں تھا شادی سے پہلے ۔ ۔ ۔ !!! بس اب کیا جا سکتا ہے مریم یہ کوئی دنیا میں نئی بات نہیں ہوئی اور نہ کچھ انوکھا ہوا ہے !!!

کیسے اتنی وسعت ہے پلوشہ ۔ ۔ ۔ مریم میں پڑھی لکھی لڑکی ہوں، رونے چلانے سے لڑائی سے کیا کچھ ٹھیک ہو ا ہے کبھی ۔ ۔ اور یہ کام تو جاہل کرتے ہیں ۔ ۔ !!!

یہ محبت کا شہر ہو تا ہے مریم جسے دنیا کے جہانوں میں لوگ دل کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اس میں اتنی وسعت اور اتنی برداشت کرنے کی ہمت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ !!!

٭٭٭

 

 

 

 

اُمید غریب نہیں ہوتی ہے !!!

 

ویسے تو مقبول خالد کو یونیورسٹی کا ہر طالب علم عزیز رکھتا ہے، ہاں کچھ طالب علم جو یونیورسٹی میں نئے ہوتے تھے انھیں مقبول خالد کو پہچانے میں تھوڑی دیر پیش آ جاتی ہے ۔ ۔

اوئے کامران آ گیا مقبول خالد بھاگو کلاس میں، سارے طالب علم اور طالبات کلاس روم میں پہنچ گئے، نئی کلاس نئے چہرے، لیکن مقبول خالد آج بھی ویسے ہی تھا جیسے پہلے دن تھا وہ کہتا تھا کہ میرا ہر دن نرالا ہے اور ہر دن کی مانگ مجھ سے الگ ہوتی ہے، میں ہر روز اپنے جو ش کو جمع کرتا ہوں اور اپنے بچوں کے سامنے پہنچ جاتا ہوں پڑھانے کے لیے ۔ ۔ ۔

تو بچو عموماً وہ اپنے شاگردوں کو بچو کہہ کر پکارا کرتے ۔ ۔ ! آج ہم زندگی پر بات کریں گے ۔ ۔ ہاں زندگی پر ۔ ۔ ۔ !

کلا س میں سے شعیب نے پوچھا ۔ ۔ سر کیا ہوتی ہے زندگی ؟  آہ کیا سوال کیا میرے بچے !  زندگی کیا ہے کیا ہے یہ ماجرا؟ ہاں تو زندگی سنو کیا ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ زندگی امید ہوتی ہے ۔ ۔ ! سجاول نے سوال کیا سر پھر امید کیا ہے؟، امید ایک احساس ہے میرے بچو ۔ ۔ ! اچھے نمبر لینے کی، ایک کسان کا وہ گا نا جو وہ اپنی زمین میں بیج ڈالتے ہوئے گا تا ہے، اچھی فصل کی امید لے کر، وہاں آپ کو زندگی ملتی ہے، ایک بس ڈرائیور کے لیے کسی مسافر کو دیکھ کر جب ایک چمک پید ا ہوتی ہے، ہاں ایک جوہری کے لیے جب وہ نایاب گوہر تلاش کر لیتا ہے، ہاں وہاں بھی ملتی ہے جہاں ہسپتال میں کو ئی اپنا شدید تکلیف میں ہو اور موت کی کشمکش کو ہرا دے زندگی کی طرف لوٹ آئے، اس کو امید کہتے ہیں، امید کے ہم زندہ ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں ۔ ۔ سر اُمید کو اُمید کیوں کہاں جاتا ہے ؟ وسیم نے سوال کیا ؟ بیٹا امید کو اس لیے امید کہا جاتا ہے کیوں کہ امید ہارتی نہیں ہے ۔ ۔ ہاں امید ہارتی نہیں ہے، زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں سب ہارنے والے !

کبھی آپ نے شام کو غور سے اس ڈوبتے سورج کو دیکھا ہے، جب وہ مشرق کو اللہ حافظ کہہ کر مغرب کی سرزمیں پر روشنی بکھیر رہا ہوتا ہے، وہ بیک وقت مشرق اور مغرب دونوں کو امید کی رسی سے باندھ رہا ہوتا ہے، ہاں صبح پھر آئے گا۔ ۔ اسی منظر کو دیکھتے رہیے، کچھ پنچھی جو مغرب کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہیں ان میں سے ایک پنچھی واپس مشرق کی طرف لوٹ کر آتا ہے اپنے بچھڑے ساتھیوں کو لینے ۔ ۔ آواز دیتا رہتا ہے فضا میں اپنے ہم جولیوں کو ۔ ۔ ۔ کہاں ہو آؤ لوٹ چلیں کہ وقت ہو گیا ہے ۔ گھونسلے آشیانے، انتظار کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایسے لگتا تھا پروفیسر مقبول خالد یہ باتیں کرتے کرتے اس منظر میں خو د بھی کھو گئے ہوں ۔ ۔ ۔

سر کیا اُمید غریب بھی ہوتی ہے ؟ لڑکیوں میں سے پہلی مرتبہ کسی نے سوال بلند کیا یہ رخسانہ تھی ہاں وہی رخسانہ جو اکژپروفیسر کے لیکچرز بہت توجہ سے سنتی تھی اس نے اچانک یہ سوال کیا کہ پروفیسر کو رکنا پڑا، غور کر نا پڑا، کہ سوال کیوں ایسا ہے ؟ یہ کیسا زاویہ اس بچی نے دکھایا، ایسا سوال؟ جو سوچوتو اتنا گہرا کہ انسان صد حیرت ہی کرتا رہ جائے،،، رخسانہ بیٹا  غور سے سننا بیٹا ! امید غریب نہیں ہوتی ۔ ۔ امید غریب نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ !!!! امید بہت ہی امیر ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جو چیز آپ کو آپ کی زندگی لوٹا دے وہ غریب کیسے ہوسکتی ہے ۔ ۔

پروفیسر صاحب ! کیا سب لو گ امید کی دولت رکھتے ہیں ؟سب لو گ امید رکھتے ہیں صرف لوگ، نہیں یہ محدود کر دیا ہے آپ نے، قدرت کی بنا ئی ہو ئی ہر مخلوق امید کی دولت سے مالامال ہے ۔ وہ اس امید کے سہارے بڑے بڑے پہاڑ سر کر لیتے، ہاں یہ دیکھو ذرا باہر کی طرف وہ چھوٹی سے چیونٹی ایک چاول صرف ایک چاول کا ٹکڑا اُٹھائے جا رہی ہے، کیا یہ امید نہیں ہے ۔ ۔ ۔ یہ تو امید ہے جب اس کے ساتھ محنت کے عمل مل جاتے ہیں، جب اس میں ایمان داری اور لگن کی چینی ڈال دی جاتی ہے تو امید فرقوں کو، نفرتوں کو، ذلتوں کو مٹا دیتی ہے، اگر یہ امید کسی کے ہاتھ سے پھسلنے لگے تو ۔ ۔ ۔ وہ بیمار ہو جاتا ہے ۔ ۔ ہاں بیمار جسے کچھ یا د نہیں رہتا ہے ۔ ۔ جسے یاد رہتا ہے تو دو ہزار کے بدلے انسانی زندگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔

رات کی سیاہ تاریکی میں کسی رکشا ڈرائیور کی گردن کاٹ دیتے ہیں صرف دو سو روپوں کی خاطر ۔ ۔

ایسا کیوں ہوتا ہے  پروفیسر خالد صاحب ِ؟قیصر نے پوچھا ؟ ایسا ہوتا ہے میرے بچوں ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے ۔ ۔ جہاں قومیں بیمار ہو جائیں جہاں ان کا یقین کھو جائے جہاں مایوسی مسلسل ہو ۔ ۔ وہاں انسان اخلاقی بیمار ہو جاتا ہے ۔ ۔ اور ایسے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں کہ تاریخ کانپ اُٹھتی ہے ۔ ۔ ۔ ستارہ کچھ سوچ رہی تھی  پھر اچانک سوال کر بیٹھی پروفیسر صاحب ؟ کیا ایسی قوموں کی امید مر جاتی ہے کیا ان کے لکھنے والوں کو قلم بھی مر جاتا ہے ۔ تربیت کرنے والے مر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ قومیں بیمار ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔   ؟ یہ لڑکیاں سوچنے لگ جائے تو شاید سمندر بھی کہہ اُٹھے گا بس کر جاؤ بیٹی ۔ ۔ تیری باتیں تو میری گہرائی سے بھی گہری ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔

گہری بھی کیوں نہ ہو جب اتنی گہری نظر ہو ۔ ۔ اپنے معاشرے کو ۔ ۔ ۔ ہاں بیٹا ایک بات تو طے ہے جب قلم سے لکھنے والے لوگ اپنے لوگ کے درمیان رہنا چھوڑ دیں گے اور ایک بند کمرے میں چند لوگوں کے انٹرویو  لے کر قلم چلاتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو یہی انجام ہوتا ہے ۔ ۔ کہ ان کے لفظ مر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور تربیت کرنے والے بھی شکار ہو جاتے ہیں اس بیماری کا ۔ ۔ بچوں بیماریاں تو بہت ساری پھیلی چکی ہیں ہمیں خو د امید کی ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے ۔ ۔ امید صبح ہم خو د ہیں میں ہوں آپ سب ہو ۔ ۔ وہ دیکھو ہوا چلنے لگی ہے ۔ ۔ ۔ سارے درخت کیسے جھوم اُٹھے ہیں ۔ ۔ آپ سب کی تربیت ہمارے ہاتھوں ہو رہی ہے ۔ ۔ اور ہمارے پاس بھول کا کوئی موقعہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔

سرخالد کے الفاظ کمرے میں گونج رہے تھے ۔ ۔ ۔ حالانکہ انھیں گئے ہوئے پو رے پندر ہ منٹ ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔

ستارہ اپنی ہتھیلی دیکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ! کیا دیکھ رہی ہو ستارہ ۔

میں دیکھ رہی ہوں  رخسانہ پروفیسر خالد نے ہم سب کی ہتھیلیوں پر امید کے دئیے رکھ دیے ہیں ۔ ۔ ۔ اس دئیے کو جلا نا اب ہمارا نصب العین ہے ۔ ۔ بہت بیمار رہ لیے ۔ ۔ ۔ بہت ہماری امید مر چکی ۔ ۔ بہت لو گ ضمیر کی موت مر گئے ۔ ۔ بہت لوگوں نے ہنسنا چھوڑ دیا ۔ ۔ لانا ہے یہ سب کچھ دوبارہ ۔ ۔ آئے گا سب کچھ دوبارہ ۔ ۔ قلم زندہ ہو گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

احساس زندہ ہوں گے

امید ہی امید ہو گی

زندگی ہی زندگی ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ (قوموں میں مایوسی پھیلانے والے کو قوموں کی تاریخ معاف نہیں کرتی)

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ آنکھیں ساکن ہوں گی !

 

بھو ک سے مر جائے کوئی تو کیا فرق پڑتا ہے  کہیں ؟کہیں کوئی نظام ہلتا ہے کیا ؟ کیا کہیں کوئی حکومت  نظر ثانی کرتی ہے ؟ کہیں پے تو شائد ایسا ثبوت موجود ہوتا ہے کہ فلاح حکومت نے بھو ک سے مرتے لوگوں کو بچا لیا ہے  ان کو بنیا دی ضرورتیں فراہم کی ہوں ۔ ۔ کا ش ہوتا ایسے کہیں جہاں حکومتوں نے ایسے قدم اُٹھائے ہو تے ۔ ۔ ۔ !بڑی شدت ہوتی ہے بھو ک میں ۔ ۔ ۔ دم نکلنا چاہتا ہے آہستہ آہستہ پر نکلتا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ چہرے بھوک سے اٹے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ !

خوبصورتی کہاں کی ۔ ۔ وہاں ہڈیاں ہوتی ہیں ۔ ۔ ستے ہوئے چہرے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ بلبلاتے ۔ ۔ ۔ چہرے ۔ ۔ ایک ہوک اُٹھتی ہے ۔ ۔  کہیں کو ئی چیخ  سنائی نہیں دیتی ۔ ۔ کہیں رونے کی آواز نہیں ہوتی  بس موت کی آہٹ پہنچتی ہے ۔ ۔ موت کی آہٹ۔ ۔ !!!!

ریز ہ ریزہ ہو جاتے وہ سارے بڑے بڑے فلسفے جو انسان کو بچانے کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ انسان تو مررہا ہے ۔ ۔ ۔ اور بڑی بے دردی سے  بڑی بے قدری سے ۔ ۔ ۔ گھر سے دوسرے گھر تک ۔ ۔ صوبے سے دوسرے صوبے تک ، ملک سے دوسرے ملکوں تک ۔ ۔ براعظم سے دوسرے براعظم تک کہیں فرق نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔

کتنی ساری تنظیمیں  بنی ہیں ۔ ۔ کمیشن  بنتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن کہاں ہوتے ہیں  کب ہوتے ہیں پتا نہیں چلتا ۔ ۔ ۔ ایسی قوموں میں زندہ سوچ  کیسے جنم لے سکتی ہے ۔ ۔ کیسے نئے خیالات جنم لے سکتے ہیں ۔ ۔

ہم بھی انہی قوموں میں سے  جناب ۔ ۔ ۔ !!!

اس سیمنار کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایسے سنجیدہ عنوانات پر روشنی ڈالی جائے اور معاشرے میں ایسی  سوچ کو بیدار کیا جائے جو بھو ک سے بچائے ۔ ۔ ۔ بھو ک غربت افلاس یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشروں میں گھٹی ہوئی سوچ کو جنم دیتی ہے ۔ ۔ ۔

مسٹر شیخ عنایت  نے اپنی تقریر میں بھو ک پر کافی بولا وہ انسانی حقوق کے علمداروں میں سے ایک ہیں اور دنیا  کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جہاں انسان بھو ک سے مر رہے ہوں ۔ ۔ ۔ یہ بات درست ہے کہ وہ عالمی طور پر آواز بلند کرتے ہیں اور ایسی جگہوں کو روشناس کراتے ہیں جہاں لوگوں کو مرتے ہوئے  کوئی نہیں دیکھ پاتا ۔ ۔ ۔

مزید انھوں نے کہا کے ہم امن کے لیے دوسروں کی آزادی کو ختم کرتے ہیں  زندگی چھینتے ہیں ۔  یہ کہنے کے بعد چپ ہو گئے شیخ عنایت ۔ ۔ !

حاضرین میں سے سوالات کا سلسلہ شرو ع ہوا  بات بہت دور تک گئی  دور جانے کے بعد پھر اپنی ذات تک آ پہنچی ۔ ۔ ۔ کہ ہماری ذات اس میں کس حد تک کمی کرسکتی ہے ۔ کیا  بھو ک جرم ہے جو مجرم پیدا کرتی ہے ۔ یا پھر ہر جرم کی بنیاد ہی یہی بھو ک ہے ۔ ۔ !!!کیا یہ دنیا کا ہر سفاک جرم کرا سکتی ہے کیا اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ بالکل شدت ہوتی ہے ۔ ۔  شیخ عنایت اس کا جواب دینے لگے ۔ ۔ لیکن ہم لوگ بذات خود اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں اس کو ہرا سکتے ہیں ۔ ۔ ہم اس کی  شد ت کو بڑھنے نہیں دے سکتے  کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا معاشرہ بیمار ہو جائے اور اس کی بنیا دی وجہ بھو ک ہو گی ۔ ۔ وہاں کیسے کوئی ترقی کرتی ہوئی سوچ جنم لے سکتی ہے جہاں لوگ صرف اپنے پیٹ کا سامان کرنے میں لگے ہوں جہاں ان کے پا س یقین کی دولت نہ ہو ۔ ۔ مجھے اپنے محترم اُستاد ممتاز کلیانی کے وہ الفاظ نہیں بھولتے ہم لوگ شک و شبہات  میں رہنے والے لوگ ہیں جہاں یقین کو حاصل کرنے کے لیے وقت لگ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ !

کھڑا ہوا شخص بہت حیرانی سے اپنا جواب سن رہا تھا ۔ ۔ اور اس کا ذہن  یہ بتا رہا تھا کہ جو بات شیخ عنایت کر رہا ہے وہ کتنی درست ہیں !!!!

اتنے میں انتظامیہ نے کھانے کے وقفے کا کہ دیا  اور سب حاضرین کھانے کی طرف دوڑ پڑے اس ہی بے یقینی کے ساتھ جس کا ذکر ابھی تھوڑی دیر پہلے شیخ عنایت نے کیا تھا ۔ ۔ شیخ عنایت نے صرف چائے کا کپ لیا اور باہر کی طر ف چل دیا وہ باہر آسمان کو دیکھنے میں مصروف تھا اور شائد بہت دور پہنچ گیا  تھا ۔ ۔ جہاں زرد چہرے جن کی ہڈیاں باہر کو نکلی ہو ئی تھی وہاں پہنچ گیا تھا ۔ ۔ ۔ اس کی آنکھیں دھند سے بھرنے لگی تھی ۔ ۔ ۔

آہ میرے خد ا یہ کیسے درد کے موسم ہیں جن کا مجھے سامنا ہے ۔ ۔ ۔ !!!

تقریباً ایک گھنٹے بعد سب سیمنار ہال میں دوبارہ جمع ہو چکے تھے لیکن شیح عنایت ابھی اندر داخل نہیں ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ شیخ عنایت سیمنار ہال میں داخل ہوئے ۔ ۔ اور پھر سے سوالات کا سلسلہ شروع ہو ا ۔ ۔ ۔

یہ وہی شیخ عنایت ہیں جو دنیا میں  اہم نکتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں ۔ ۔ جو ظلم اور بربریت کے سبق کے بجا ے امن اور احساس کا پیغام ساری دنیا میں دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ ۔

سب اس کی طرف تو جہ سے دیکھ رہے تو ۔ ۔ حاضر ین میں سے ایک لڑکی نے سوال پوچھا ۔ ۔ !

محترم شیخ عنایت صاحب ۔ ۔ ۔ ! بھو ک اور شیخ عنایت کو آپ کیسے بیان کرنا چاہے گے ۔ ۔ ۔ ؟

شیخ عنایت سوچنے لگا اس کی آنکھوں میں کئی رنگ آنے لگے جو بے بسی کے رنگ تھے جو ۔ ۔ ۔ شائد محرومی کے رنگ تھے ۔ ۔ یہ جواب تو مجھے ضرور دینا پڑے گا بہت دفعہ مجھ سے یہ سوال پوچھے گئے ہیں ۔ ۔ آپ کو ایک بات ساتھ ساتھ بتاتا چلوں کہ یہ جو شہر ہوتے ہیں نا جہاں ایک گھر کی دیوار دوسرے گھر سے یوں جڑی ہوتی ہے جیسے کوئی گہر ا رشتہ ہوتا ہے ۔ یہاں بہت سارے لوگ رہتے ہیں  بہت سارے کام کرتے ہیں بلند و بالا عمارات میں ان کا آنا اور جانا لگا رہتا ہے لیکن یہ صرف اس کی اوپر سے نظر آنے والی صورت حال ہے کیونکہ حقیقت میں یہ لوگ ایک دوسرے سے بہت  دور ہوتے ہیں ویسا ہی فاصلہ ہو تا ہے جیسے ایک براعظم کا دوسرے براعظم کا ہوتا ہے  ۔ دیواریں تو آپس میں ملی ہیں لیکن ایک دوسرے کو جانتے نہیں ہیں ۔ ۔ دوسرے گھر میں کوئی زندہ ہے یا مر رہا ہے اس بات کا پتہ چلنا نا ممکن ہے ۔ ۔ ۔ جب دکھ کا وقت گز ر جاتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ کتنی تکلیف کا وقت لوگ اندھیروں میں گزار گئے ہیں ۔ ۔ ۔ !

بہت برس پہلے ایک ایسی ہی خبر آپ کے سب ٹی وی چینلز کی زینت بنی تھی  اور اخبارات میں بھی سرخیوں کی صورت نظر آتی تھی  شائد آپ لوگوں کو بھو ل گئی ہو گی اور شائد کیا  یقینا بھو ل گئی ہو گی یہ تو ان لوگوں کو ہی پتا ہوتا ہے جن پر بیتی ہوتی ہے ۔ ۔

شہر کے مصروف ترین علاقے میں جہاں لوگوں کی آمدورفت ہر وقت جاری رہتی تھی وہاں ایک گھر سے لاش ملی تھی ۔ ۔ ڈاکٹرز کی رپورٹ سے معلوم ہوا وہ شخص کافی دنوں سے بھو کا تھا ۔ ۔ ۔ !!!!

اور آپ لوگ  جانتے ہیں وہ شخص کون تھا ۔ ۔ ۔ !

وہ شخص شیخ عنایت کا والد تھا ۔ ۔ ۔ !!!!!!

٭……٭

آو تھام لو ہاتھ میر !

میں تمھیں لے جا وں اس دنیا میں

جہاں بھو ک کاٹی جاتی ہے

جہاں بے بسی کا ایک کثیر عالم بستا ہے ۔ ۔

آ ؤ ہمت ہے تو !!

تھام لو ہاتھ میرا

کہ میں بھی اس بھو ک، افلاس کا باسی ہوں ۔ ۔ !

آہ نہیں ہو سکے گا  ۔ ۔ !

مجھے میرا جہاں پیار ا ہے

مجھے یہ درد یہ بھوک  اچھی لگتی ہیں ۔ ۔

کبھی کاٹ کے دیکھنا  یہ فاقے یہ افلاس

کبھی نہ لوٹ کے آنا کہ وہ آنکھیں

ساکن ہوں گی ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید