FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

شکاریات

 

 

                پیشکش: انیس الرحمٰن

 

 

 

 

 

ہندوستانی ریاستوں میں سیر و شکار

 

                نواب حافظ سرمحمد احمد خاں

 

متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ ۱۹۲۶ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ” میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جا رہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تا زندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میں آرام و آسائش کی جملہ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ دوسری چیز والیانِ ریاست کی جانب سے کیا جانے والا شاہانہ استقبال اور ہمارے اعزاز میں دی جانے والی شاندار ضیافتیں جن میں شکار کی دلچسپ مہمات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ”

شکار چھوٹا اور بڑا دونوں قسموں کا ہوتا تھا۔ اور والیانِ ریاست جن میں راجے، مہاراجے اور نواب شامل تھے، کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ شکار کی یہ مہمات پوری پوری دلچسپی کی حامل ہوں تاکہ وائسرائے ہند اور دوسرے معزز مہمان ان سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکیں اور اُنہیں میزبانوں سے کسی قسم کا شکوہ شکایت نہ ہونے پائے۔

والیانِ ریاست کے مشاغل اپنی اپنی طبیعتوں کے لحاظ سے مختلف واقع ہوئے تھے، تاہم شکار واحد مشغلہ تھا جو ان سب صاحبان کا مشترکہ تھا۔ شکار کی دنیا سے ان سب کو گہری دلچسپی تھی اور وائسرائے ہند ہو یا کہ صوبے کا گورنر یا کوئی والیِ ریاست یا کوئی معزز مہمان وہ ان سب کو شکار کی مہمات میں شریک کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ شکار گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ بچپن ہی سے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور رائفلیں تھما دی جاتی تھیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مشاق ہو جاتے تھے۔ میں نے کئی مواقع پر دیکھا کہ چونی یا اٹھنّی کا سکہ فضا میں اُچھالا جاتا تھا اور جب وہ نیچے کی طرف آتا تو اس پر چھوٹے بور کی رائفل سے نشانہ لگایا جاتا جو اکثر و بیشتر کامیاب رہتا۔ ہم شکار کی مختلف نوعیتوں اور شکاری مہمات کے متعلق آگے چل کر کچھ تفصیلی گفتگو کریں گے۔ سردست شکار کے موضوع کے علاوہ والیانِ ریاست کی بعض دوسری دلچسپیوں کے متعلق بھی بات چیت ہو جائے۔ والیانِ ریاست میں سے بعض حضرات گھڑ دوڑ کے زبردست شوقین تھے۔ مہاراجہ صاحب راج پیپلا بھی ان میں ایک تھے، ان کے ہاں ایک ایسا گھوڑا بھی موجود تھا جو ڈربی (انگلستان) کی مشہورِ زمانہ گھڑ دوڑ میں جیتا ہوا تھا اور "ڈربی ونر” کہلاتا تھا۔ مہاراجہ صاحب بڑو دانے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے انگلستان سے خطیر رقمیں خرچ کر کے سال سال، دو دو سال کی عمر کے بہت سے بچھیرے خریدے ہوئے تھے اور ان کی اپنے اصطبل میں بڑے اہتمام کے ساتھ پرورش کر کے گھڑ دوڑ کے لیے تیار کرتے تھے۔ میں کبھی کبھی بمبئی کے مشہور ریس کورس کے میدان مہا لکشمی جاتا تو وہاں زعفرانی رنگ کی جھولوں سے مزین جو شاندار گھوڑے نظر آتے تھے، میں اُن کو فوراً پہچان لیتا کہ یہ گھوڑے مہاراجہ صاحبان کولھا پور، گوالیار اور کشمیر کے سوا اور کسی کے نہیں ہیں۔

یہ گھوڑے نہایت تیز طرار تھے اور "کنگ ایمپرز کپ” اور ایسی ہی دوسری با وقار ٹرافیوں کے حصول کی خاطر گھڑ دوڑ کے میدان میں اُترتے تھے۔

مہاراجہ صاحب نواں نگر نے جنہیں جام صاحب نواں نگر بھی کہتے تھے کرکٹ کے کھیل میں "رنجی” کے نام سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز دلیپ سنگھ اور نواب صاحب پاٹودی نے بھی کرکٹ میں بڑا نام پایا تھا۔ نواب صاحب نے کئی مرتبہ غیر ممالک میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں مہاراجہ صاحب پور بندر کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی ایک مرتبہ اپنی کپتانی میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم لے کر انگلستان گئے تھے۔ مہاراجہ بھوپندرا سنگھ آف پٹیالہ اور ان کے صاحبزادے مہاراجہ یا دواندرسنگھ بھی مسلسل دونسلوں تک کرکٹ کے میدانوں میں اندرون اور بیرونِ ملک ناموری حاصل کرتے رہے تھے۔

والیانِ ریاست میں مجھے فٹ بال اور ہاکی کا کوئی بھی کھلاڑی نظر نہیں آتا البتہ وہ ان کھیلوں کی پوری پوری سرپرستی کرتے تھے اور ممتاز کھلاڑیوں کو اپنا ایڈی کانگ تک رکھ لیتے تھے یا پھر محکمۂ پولیس اور فوج میں اعلیٰ عہدوں سے نوازتے تھے۔ جام صاحب نواں نگر کرکٹ کے علاوہ لان ٹینس کے بھی اچھے کھلاڑی تھے، جبکہ مہاراجہ صاحب اوڑچھا اور نواب صاحب جاورہ کا محبوب کھیل گولف تھا۔ ریاست بھوپال اور ریاست جودھپور میں صاف شفاف پانی سے لبریز بڑی بڑی جھیلیں تھیں جن میں موقع بہ موقع چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی دوڑیں ہوتی تھیں اور جیتنے والوں کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے بھی چاندی کا کپ ملتے ملتے رہ گیا لیکن وہ میرے سیکریٹری کے مقدر میں تھا اور وہ اسے لے اُڑا۔ ہوا یوں کہ بھوپال میں ایک دفعہ کشتیوں کی دوڑ کا ہفتہ منایا گیا۔ مقابلے میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا لیکن میں نے اپنی نا تجربہ کاری اور نا اہلیت کی بنا پر اس مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کر دیا البتہ میرے سکریٹری نے یہ دعوت نامہ قبول کر لیا اور مقابلے میں شریک ہو گیا سیکریٹری بھی اگرچہ میری طرح نا تجربہ کار اور اناڑی تھا جیسا کہ بعد ازاں معلوم ہوا۔ اُس کو کشتی چلانے سے کوئی سرورکار نہ تھا۔ کشتی چلانے والا تو ایک مقامی تجربہ کار ملاح تھا جس نے بڑی محنت سے کشتی دوڑائی اور مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ سکریٹری تو کشتی میں صرف بیٹھ جانے کا ذمہ دار تھا یا پھر سلور کیپ جیت لینے کا حق دار!بہرحال مجھے افسوس ضرور ہوا۔ ان جھیلوں پر مرغابیاں ہزاروں کی تعداد میں ملتی تھیں چنانچہ اُن کا شکار بھی اتنی کثیر تعداد میں کیا جاتا تھا کہ رکھنے کو جگہ نہ ملتی تھی اور اس طرح غریبوں اور ملازموں کے مزے ہو جاتے تھے۔ یہاں شکار کا لطف میں نے بھی بارہا اٹھایا۔ پولو کے کھیل کے تو والیانِ ریاست ہمیشہ ہی شیدائی رہے۔ انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اس کھیل کے لیے وسیع و عریض میدان تیار کرائے ہوئے تھے اور اعلیٰ درجوں کے گھوڑوں کا انتخاب کیا ہوا تھا۔ اگر چہ راجے، مہاراجے اور نواب صاحبان سب اپنی اپنی جگہ مہارت کی نمائش کرتے تھے تاہم اس کھیل کی تاریخ میں نواب صاحب بھوپال، مہاراجہ صاحب جے پور اور رتلام کے نام نامور کھلاڑیوں کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مہاراجہ رتلام تو ایک مرتبہ برٹش پولو ٹیم کے مشیر اعلیٰ بن کر اس ٹیم کے ہمراہ امریکہ بھی گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے کمالِ فن کا جوشان دار مظاہرہ کیا اُسے اس کھیل کے امریکی ماہرین نے بھی تحسین و آفرین کے کلمات سے نوازا تھا۔

اپنی ریڈینسی کے زیر اہتمام دوچار ریاستوں میں مجھے نیزہ بازی کے کمالات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر ریاست جودھپور کے سردار اس فن میں طاق دیکھے، لیکن جن صاحب کی مہارتِ فنّی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ مہاراجہ صاحب ریاست دیواس تھے۔ مہاراجہ صاحب انتہائی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھرتی اور صفائی کے ساتھ میخ نکال کر لے جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے خاص طور پر مدعو کرتے تھے اور میرے بیٹھنے کے لیے قریبی پہاڑی پر اہتمام کرتے تھے جہاں سے میں دوربین آنکھوں سے لگائے اُنہیں بے اختیار داد دیتا تھا۔

ایک مرتبہ والیِ بھوپال نواب سرحمید اللہ خاں کا قیام بہ سلسلۂ شکار اپنی ریاست کے بہترین جنگل میں تعمیر شدہ ایک بنگلے میں تھا۔ میں ایک روز اُن کی ریاست میں سے پچاس میل دور ایک دوسری ریاست کا دورہ کرنے کی غرض سے گزر رہا تھا۔ اُنہیں میرے پروگرام کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے ایک خصوصی پیغام بھیجا کہ میں اُن کے ساتھ لنچ کیے بغیر وہاں سے نہ گزروں۔ میرے پاس اگرچہ وقت بہت ہی محدود تھا لیکن میں نواب صاحب کی محبت سے متاثر ہو کر اُن کی شکارگاہ پہنچا۔ ہم ابھی لنچ کی میز پر ہی تھے کہ نواب صاحب کو قریب ہی ایک شیر کی موجودگی کی خبر ملی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی شکار کی اس مہم میں میرا ساتھ دیں۔ میں نے وقت کی قلت کے پیش نظر معذرت چاہی لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ وہ مجھے آدھ گھنٹے کے اندر اندر فارغ کر دیں گے۔ مجھے یقین تو نہ تھا۔ مجھے شکار کی سابقہ مہمات کا تجربہ تھا کہ وہاں وقت کس طرح آہستہ آہستہ گزرتا جاتا ہے۔ تاہم میں نے اُن کے بے حد اصرار پر سرجھکادیا۔ ہم ایک تیز رفتار موٹر کار میں د و چار منٹ میں ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے۔ ہم نے اس عرصے میں کوئی چار سو گز کا فاصلہ طے کیا ہو گا۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں ایک مضبوط مچان بندھی ہوئی تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی ہانکا شروع ہو گیا۔ نواب صاحب نے ایک رائفل مجھے بھی تھما دی اور کہا کہ پہل وہ کریں گے۔ ہانکا شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے لیکن شیر کا انتظار ہی رہا۔ مایوسی کے ساتھ مجھے وقت گزرنے کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ اس پریشانی میں اچانک نواب صاحب نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شیر ہمارے سامنے کی ایک سمت درختوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھیرتا اور دیکھتا اور سوچتا کہ کدھر جاؤں لیکن پھر چل پڑتا۔ اب فاصلہ تیس گز کے قریب رہ گیا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ نشانہ انتہائی کامیاب رہا۔ شیر کچھ دیر دھاڑتا رہا اور پھر دم توڑ گیا۔ ہم نے درندے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بڑی عمدہ کھال کا مالک ہے۔ ناپا تو ساڑھے نو فٹ نکلا جو بہت معقول تھا۔ کیمرہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تصویر کھنچوائی اور نواب صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہوئے۔ گھڑی دیکھی تو اس پوری مہم میں صرف اکتیس (۳۱) منٹ صرف ہوئے یعنی نواب صاحب کے مقرر کردہ وقت( تیس۳۰) منٹ سے صرف ایک منٹ زیادہ!

شکار کی ایک دوسری مہم میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ایک شیر دوسرے مردہ شیر کا گوشت بھی کھا لیتا ہے۔ ہوا یوں کہ کچھ عرصے پہلے ہم نے ایک کٹڑا باندھا جو مارا گیا۔ شیر نے اُس کا کچھ حصہ کھایا اور باقی کو گھاس میں چھپا کر چلا گیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے قریب ہی مچان بندھوائی اور اُس پر بیٹھ گئے۔ شیر مغرب سے کچھ پہلے آ گیا۔ ہمارے رفیقِ شکار نے گولی چلائی۔ نشانہ کامیاب رہا اور شیر گر گیا۔ ہم شیر کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح آئے تو دیکھا کہ یہ شیر بھی نر تھا اور نو فٹ دس انچ ناک سے دم تک تھا۔ وہاں دوسرے شیر کے پاؤں کے نشانات بھی تھے۔ یہ زندہ شیر رات کو مردہ شیر کو اُٹھا کر پرے لے گیا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ رات کو کسی وقت دوسرا شیر آیا تو اوّل بھوک میں مردہ شیر کا گوشت کھایا اور جو کچھ بچا اُسے لے کر چل دیا۔ انسان شیر سے ضرور ڈرتا ہے مگر شیر بھی انسان سے کچھ کم نہیں ڈرتا۔ چنانچہ قریب سے آمنا سامنا ہو جائے تو برابر اُس کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے پھر شیر کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن منہ موڑ کر بھاگنے سے اُسے ہمت ہو جاتی ہے کہ یہ ڈر گیا ہے، اور وہ حملہ کر بیٹھتا ہے۔ اس لیے اگر پیچھے ہٹ جانا ہی پڑ جائے تو ایک ایک قدم آہستہ آہستہ ہٹنا چاہیے لیکن نظر شیر پر رہے۔ اگر شیر حملہ آور ہو تو جو چیز آپ کے پاس ہو اُس کی جانب پھینک دینی چاہیے مثلاً کوٹ، ٹوپی، چادر وغیرہ، تو شیر کا حملہ پہلے اُس پر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بچانے یا گولی چلانے کے لیے موقع مل جاتا ہے۔ سوائے آدم خور شیر کے جم کاربٹ عام طور پر ہر شیر کو نہیں مارتے تھے البتہ سینماکے لیے تصویر ضرور لیتے رہتے تھے۔

اس سلسلے میں نواب صاحب نے کرنل جم کاربٹ کا ایک واقعہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ کمایوں میں ایک شیر مردم خور ہو گیا۔ یہ اُس کی تلاش میں نکلے لیکن باوجود کئی شیر مارے جانے کے یہ موذی بچ جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک روز وہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ایک خشک پہاڑی نالے سے اُتر رہے تھے۔

انہوں نے دیکھا کہ چند گز کے فاصلے پر ایک شیر داؤں کرتا ہوا آ رہا ہے۔ جوں ہی انہوں نے پلٹ کر دیکھا شیر رُک گیا۔ وہ اس بات کا منتظر تھا کہ اُن کی نگاہ کسی طرف کو پھرے اور وہ اُن پر جست کرے۔ کاربٹ صاحب نے آہستہ آہستہ بندوق کاندھے سے ہٹا کر نشانہ لگایا۔ نشانہ کامیاب رہا اور یہ شیر جس طرح کھڑا ہوا تھا وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ اُن کی خوش نصیبی تھی کہ وہ پلٹ پڑے اور شیر کے مقابل ہو گئے۔ اگر وہ دو تین سیکنڈ متوجہ نہ ہوتے تو شکاری خود شکار ہو جاتا۔

کرنل جم کاربٹ مردم خور شیروں کی کہانیاں نواب صاحب کو بہت سناتے تھے۔ اُن کا ایک تجربہ یہ بھی تھا کہ شیر اگرکسی جنگل میں ہو تو اس کا حملہ ہمیشہ اُس طرف سے ہو گا جدھر کو ہوا جا رہی ہو۔ اس کے برعکس حملہ کرنے کی صورت میں جنگلی جانور اُس کی بو سونگھ لیتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ شیر کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ حضرتِ انسان اپنے مصنوعی اور غیر فطری طرزِ زندگی کی بدولت سونگھنے کی اُس قوت کو کھو چکا ہے جو جانوروں میں ابھی تک موجود ہے۔ لہٰذا انسان پر حملہ کرتے وقت بھی وہ اسی اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ کرنل صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ اکثر زخمی شیر یا شیرنی مردم خور ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر پڑے پڑے کمزور ہو جاتے ہیں اور جانوروں کا شکار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا بھوک سے بے تاب ہو کر آدمی پر حملہ کر بیٹھتے ہیں اور جب اُنہیں یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ شکار اتنا آسان ہے تو پھر عادی ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست نے جنہوں نے کرنل جم کاربٹ کی کتاب”کماؤں کا آدم خور” پڑھی تھی اُن سے دریافت کیا کہ کیا واقعی کاربٹ صاحب نے شیر کو آواز سے بلاکر مار لیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ بات بالکل درست تھی۔ ایک روز ایسا ہوا کہ میں اور کاربٹ صاحب شکار کی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔ سورج غروب ہوا ہی تھا کہ پہاڑ کی طرف سے ایک شیر کے دھاڑنے کی آواز کچھ فاصلے سے آئی۔ جم کہنے لگے کہ یہ شیرنی ہے اور وہ اس جنگل کے شیروں کو اپنی آواز کے ساتھ پہاڑ کی طرف لیے جا رہی ہے۔ ہمارا شکار خراب ہو جائے گا لیکن میں اُسے واپس بلاتا ہوں۔ مجھے حیرت ہوئی مگر میں نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو بلائیے۔ انہوں نے میرے سامنے شیرنی کی طرف منہ کر کے اور دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کے گرد دائرہ بنا کر بالکل شیر کی سی آواز نکالی۔ شیرنی اس آواز کو سن کر بجائے آگے جانے کے ہم سے قریب آ کر بولی۔ جم نے پھر آواز دی تو اُس نے اور قریب آ کر جواب دیا۔ تیسری بار وہ ہم سے سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر آ کر بولی۔ اس کے بعد میں نے اُس کو یہ کہہ کر منع کر دیا کہ اب ختم کیجئے۔ اگر سڑک پر آ کر اس لیڈی نے دیکھا کہ ہم دونوں اس سے مذاق کر رہے ہیں تو یقیناً وہ ناخوش ہو گی، چپراسی کے ہاتھ میں صرف مرغ مارنے کا سامان ہے۔ مجھے یہ نظارہ دیکھ کر آج بھی حیرت ہے کہ ایک انسان کے گلے سے ایسی زبردست اور خوفناک آواز کیوں کر نکلی۔ میں جوانی میں اڑتے ہوئے پرندوں پر بھی نشانہ لگا لیتا تھا۔ بہت سے کارتوس ضائع کرنے کے بعد میں نے دو بار اُڑتے ہوئے کبوتر پر جو طاقتور پرندہ ہے، کامیاب نشانہ لگایا۔ اگر کاری چوٹ نہ لگی تو باوجود زخمی ہونے کے کبوتر اُڑ ہی جاتا ہے۔ تیسرے اکثر مرغابی فاصلے سے گزرتی ہے اور جب تک چھرّا اس تک پہنچے وہ اپنی رفتار کی وجہ سے کچھ آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ اکثر شکاریوں کی رائے ہے جس سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ اگر مرغابی چالیس گز کے فاصلے سے گزر رہی ہو اور اس کو گولی لگ جائے تو یہ نشانہ نہیں صرف اتفاق ہوتا ہے۔ ہرن کا شکار تو ایک واقعے کی وجہ سے ترک ہی کر دیا تھا۔ ایک بار میں مرغابی کے شکار کی غرض سے "پلاکستری” کی جھیل کو جا رہا تھا۔ اُس زمانے میں موٹروں کا اتنا رواج نہ تھا۔ چنانچہ جہاں تک پختہ سڑک تھی میں گاڑی میں گیا اور کچا راستہ بیلوں کے تانگے میں طے کیا۔ اس راستے میں ایک بڑا میدان پڑتا تھا جہاں تین ہرنیاں اور ایک کالا ہرن ہمارے تانگے کے سامنے سے گزرے۔ میں نے اُتر کر گولی چلائی جو کالے ہرن کے لگی اور وہ گر گیا۔ میں رائفل ہاتھ میں لیے اس کی طرف بھاگا، جب قریب پہنچا تو ہرن نے میری طرف گردن اُٹھا کر دیکھا۔ میں کیا کہوں ان خاموش نگاہوں نے مجھ سے کیا کہا۔ اُن میں مجھے خوف سے زیادہ ملامت محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی میرا ذہن کلام پاک کی اس آیت (ترجمہ: اُسے کس گناہ کے عوض قتل کیا گیا) کی طرف گیا۔ میں بے حد نادم تھا لیکن تلافی ناممکن تھی۔ ہرن کے زخم کاری لگا تھا اور اُس کا بچنا محال تھا۔ میں نے اپنا رُخ تانگے کی طرف کیا مگر دل میں عہد واثق کر لیا کہ اب کبھی ہرن پر بندوق نہیں چلاؤں گا۔

شیر کا شکار میں نے ضلع بجنور کے جنگلوں میں کھیلا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے رات کو شیروں کی گزر گاہوں پر بھینس کے بچے بندھوائے مگر صبح معلوم ہوا کہ شیر نے کوئی کٹڑا نہیں مارا۔ لنچ کے بعد ہم لوگ ہاتھیوں پر سوار ہو کر جنگل میں گھومنے نکلے۔ عصر کے وقت تک پھرتے رہے مگر کوئی جانور نظر نہ آیا۔ واپسی کے وقت برابر کے جنگل سے چیتل کے بولنے کی آواز آئی۔ چیتل جب شیر یا گلدار کو دیکھتی ہے تو جنگل کے جانوروں کو متنبہ کرنے کے لیے ایک خاص آواز نکالتی ہے۔

اسی طرح سانبھر، کاکڑا اور بندر بھی شیر یا گلدار کو دیکھ کر آواز دیتے ہیں۔ ہم نے ہاتھیوں کو اس طرف بڑھایا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک گلدار سور کے چند بچوں کی تاک میں گھوم رہا ہے لیکن بڑے سور اسے حملے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ہمارے آنے پر گلدار برابر کے گھاس کے جنگل میں چلا گیا۔ ہم نے ہاتھی اسی طرف کو بڑھا دئیے۔ اب آفتاب غروب ہو چکا تھا میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھی سے کوئی اسّی گز کے فاصلے پر گلدار جا رہا ہے۔ میں نے گولی چلائی تو وہ تیزی سے بھاگا۔ میرے ہاتھی پر میرے دوست عالمگیر خان بھی بیٹھے تھے، اُن کی گولی بھی چلی۔ میرا خیال ہے کہ اُن کی گولی لگی اور چند گز دوڑ کر گلدار  گر گیا۔

رات کو پھر ہم نے کٹڑے بندھوائے لیکن صبح یہی اطلاع ملی کہ شیر نے کوئی کٹڑا نہیں مارا۔ صبح ہمارا پروگرام یہ تھا کہ شیر گارا کر لے تو پھر اگلی رات کو قریب ہی مچان بندھوا کر اس کا شکار کیا جائے لیکن ہماری یہ توقع تو پوری ہی نہ ہوئی۔ بہرحال ہم گھومنے پھرنے کو صبح ہی چل دئیے۔ راستے میں شیر کے پاؤں کے تازہ نشانات ملے جو ایک گھاس کے جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ ہم نے ہاتھیوں کا رُخ اسی طرف کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھی سے تقریباً سوگز کے فاصلے پر ایک شیر جا رہا ہے۔ وہ رکا اور مڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے گولی چلائی اور اس کے دو سیکنڈ بعد عالمگیر خان کی گولی چلی۔ مجھے یقین ہے کہ میری گولی نے خطا کی کیونکہ شیر نے مطلق حرکت نہ کی لیکن جب عالمگیر خان کی گولی چلی تو شیر کے اعصاب میں کھنچاوٹ سی محسوس ہوئی اور اُس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بھاگ نہ سکا پھر وہ ہماری طرف پلٹا اور ہاتھی پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے پھر گولی چلائی۔ یہ گولی نشانے پر لگی۔ شیر زور سے دھاڑا اور گر کر تڑپنے لگا۔ یہ ایک نر شیر تھا اور میرا پہلا شکار تھا۔

ایک بار میں دہلی میں سرجرمی ریز مین (متحدہ ہندوستان کے مشہور انگریز فنانس ممبر) کے ہاں لنچ پر مدعو تھا۔ لیڈی ریز مین کہنے لگیں کہ انہوں نے جنگل میں کبھی شیر نہیں دیکھا۔ اس پر سرجرمی نے کہا کہ واقعی ہم اتنے عرصے ہندوستان میں رہے مگر اس کی حسرت ہی رہی کہ جنگل کے بادشاہ کو جنگل میں گھومتے پھرتے دیکھتے۔ سرجرمی ریز مین کافی عرصے ہندوستان کے فنانس ممبر رہے اور اب عنقریب ہی سبکدوش ہو کر پنشن پر جانے والے تھے۔ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ اس دسمبر میں د و چار روز کے لیے شکار کو آئیے، اگر تقدیر میں ہے تو یہ آرزو پوری ہو جائے گی۔ اس پر اُن کانو دس برس کا لڑکا کہنے لگا، "میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی شیر کو دیکھوں۔ ”

لیڈی ریزمین بولیں، "میں سنیما کا کیمرہ لے کر چلوں گی اور شیر کی تصویر لوں گی۔ ”

میں اخلاقاً ہاں ہاں کہتا رہا مگر دل میں یہ خیال تھا کہ یہ لوگ سرکس کے شیر اور شیر نیستاں کا فرق نہیں جانتے۔ اتنا سدھا ہوا شیر جنگل میں تو ملنا آسان نہیں جو ایک پورے خاندان کو اپنی زیارت بھی کرائے اور سنیما اسٹار بھی بنے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شیرنی کے بچے

 

                عبدالمجید قریشی

 

 

میں جب اُس گاؤں کے قریب سے گزرنے لگا تو اُس کے باشندوں نے یہ معلوم کر کے کہ میں شکاری ہوں، رو رو کر مجھ سے فریاد کی کہ میں سب سے پہلے اُن کو شیروں کے ایک جوڑے سے نجات دلاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ شیروں کا یہ جوڑا کوئی پانچ چھ مہینے پہلے نزدیکی جنگل میں دیکھنے میں آیا تھا۔ شیر اور شیرنی بڑے پُرامن طریقے سے رہ رہے تھے اور اُنہیں اُن سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ دونوں نہ تو آدم خور تھے اور نہ وہ ہمارے مویشیوں کو چھیڑتے تھے۔ وہ عام راستے پر بھی کبھی کبھار نظر آتے تھے اور مسافروں یا گاڑیوں کو آتا دیکھتے تو اِدھر اُدھر ٹل جاتے تھے۔ لیکن پچھلے پندرہ بیس دنوں سے نہ جانے کیا ہوا کہ نر شیر نہ صرف ہماری گایوں، بیلوں اور بھینسوں پر حملے کرنے لگا بلکہ بھیڑ اور بکریاں بھی اُس کے حملوں سے محفوظ نہ رہیں، حالانکہ اس جنگل میں سانبھروں، چیتلوں اور ہرنوں کی کوئی کمی نہیں۔ وہ پہلے بھی اُن کا شکار کر کے اپنا پیٹ پالتے آئے ہیں اور اب بھی اُن کا شکار کرنے میں آزاد ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نر شیر نہ صرف راتوں کو اُن کے گھروں سے مویشی نکال کر لے جاتا ہے بلکہ کھیتوں میں بھی اُس کے حملے بڑی دلیری سے جاری رہتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں لے جانا چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ خود بھی اُس کے خوف سے کھیتوں کا رُخ نہیں کرتے۔ اُن کی فصلیں تیار کھڑی ہیں اور وہ اُنہیں کاٹتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

میں در اصل شیر ہی کے شکار کی مہم پر نکلا تھا اور میرے ایک عزیز دوست جو خود بھی شکاری تھے، اس مہم میں میرے ہمراہ تھے۔ میں نے جب اِن مظلوم لوگوں کے حالات سنے، تو یہیں سے اپنے شکار کی مہم کو شروع کر دیا۔ میں نے سب سے پہلے اِن لوگوں کو اپنی فصلیں کاٹنے کا مشورہ دیا۔ میں نے اُنہیں ہدایت کی کہ وہ روزانہ ایسے چار چار کھیتوں کا انتخاب کریں جن میں سے دو ایک دوسرے کے برابر ہوں اور دو اُن کے آمنے سامنے ہوں۔ ان کھیتوں کے عین بیچ میں مَیں نے بانسوں اور لکڑیوں کی مدد سے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کرایا جس پر میں، میرے دوست اور دو نوجوان کسان بیٹھ گئے تاکہ ہم لوگ چاروں طرف سے شیر کو آتا دیکھ سکیں۔ میں نے پلیٹ فارم کے نیچے دو خالی کنستر بھی لٹکا دئیے تھے اور اُن کو خطرے کے وقت بجانے کے لیے چار پانچ لمبی لمبی رسیاں اُن سے باندھ کر کھیتوں میں ڈال دی تھیں۔ ہم نے فصلیں کاٹنے والے کسانوں کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی تاکید کی اور ہدایت کی کہ وہ شیر کی جھلک دیکھتے ہی رسی کھینچ کر کنستر بجا دیں۔

ہم لوگ مسلسل تین دن تک کھیتوں میں پہرا دیتے رہے لیکن افسوس کہ ان تین دنوں میں وہ مویشی خور شیر اس طرف نہ آیا۔ کسانوں نے اس عرصے میں بغیر کسی حادثے کے اپنی فصلیں کاٹ لیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ یہ مویشی خور شیر ان تین راتوں میں گاؤں کی طرف بھی نہ آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یہ علاقہ ہی چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ لیکن چوتھے روز جب ہم اُس سے مایوس ہو کر کیمپ میں آرام کر رہے تھے وہ یکایک پھر نمودار ہو گیا اور اُس نے دوپہر کو ایک کسان کے کھیتوں میں چرتے ہوئے مویشیوں میں سے ایک موٹی تازی گائے کو پکڑا اور اُسے اندر جنگل میں لے گیا۔ میں نے یہ واقعہ سُنا تو محسوس ہوا جیسے وہ کم بخت شیر پچھلے تین دنوں میں خود میری سرگرمیوں کا جائزہ لیتا رہا ہے، جیسے اُس کی چھٹی حِس نے اُسے خطرے سے خبردار کر دیا ہے۔

ہم نے گائے کی لاش کی تلاش شروع کر دی اور تھوڑی دور جنگل میں اُسے پا لیا۔ شیر نے ابھی اس کا تھوڑا سا حصہ کھایا تھا لیکن زیادہ حصہ ابھی تک ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس درخت کے قریب ایک دوسرے درخت پر ایک عمدہ سی مچان بندھوائی اور ایک دلیر نوجوان کو اُس پر بٹھا دیا تاکہ وہ گائے کی لاش کی حفاظت کر سکے اور شیر یا کسی دوسرے درندے کو اسے کھانے نہ دے۔ میرا منصوبہ شام کو اس مچان پر بیٹھ کر رات گئے تک شیر کا انتظار کرنے کا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر جیسا کہ اُس کی عادت ہوتی ہے، گائے کی لاش کھانے کے لیے ضرور آئے گا۔ اس لیے میں نے دن کو آرام کیا اور خاصی دیر سویا بھی۔ جب میری آنکھ کھلی تو سورج غروب ہونے میں ابھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اور میرے دوست نے غسل کیا اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر تر و تازہ اور چاق و چوبند ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں کھانا بھی تیار ہو گیا لیکن ہم نے کھانا کھایا نہیں بلکہ اپنے ہمراہ لے لیا۔ سورج اب غروب ہونے کو تھا اور ہماری خواہش تھی کہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے اپنی مچان پر پہنچ جائیں۔

ہم دونوں دوست مچان پر بیٹھ گئے۔ ہمارے پاس عمدہ رائفلیں تھیں اور دو اچھی قسم کے کیمرے بھی تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ شیر کے شکار سے پہلے اگر ہم اُس کی کچھ بے تکلفانہ تصویریں بھی کھینچ ڈالیں تو کتنا اچھا ہو۔ ہماری مچان کے بالکل سامنے ایک خاصا بڑا کھلا میدان تھا اور اس سے ذرا سا آگے ایک ندی بہہ رہی تھی جس کے کنارے پر دُور دُور تک لمبی لمبی گھاس اُگی ہوئی تھی۔

سورج غروب ہو چکا تھا اور جنگل کو شام کے اندھیرے نے ڈھانپ لیا تھا۔ لیکن ذرا دیر بعد ہی اُفق پر چودھویں رات کا چاند ابھرنے لگا اور اس کی چاندنی نے اندھیرے کو سمیٹ لیا۔ جنگل کا منظر خاصا خوب صورت ہو گیا تھا۔ ہمارے سامنے والے میدان میں چاندنی پوری طرح پھیلی ہوئی تھی اور اردگرد کے درختوں میں سے چھن چھن کر زمین پر بکھر رہی تھی جس میں گائے کی لاش بخوبی نظر آ رہی تھی۔ ادھر مچان کی بلندی سے بہتی ہوئی ندی میں پورے چاند کے عکس کا نظارہ بھی کچھ کم دلکش نہ تھا۔

ہم قدرت کے بخشے ہوئے اِن عناصر کا لطف اٹھا رہے تھے کہ ہمارے سامنے سے ذرا دائیں طرف ہٹ کر ندی کے کنارے اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ پھر یہ سرسراہٹ کچھ تیز ہو گئی اور گھاس ہلنے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گھاس میں کوئی جانور چل پھر رہا ہے۔ ہمارا خیال فوراً شیر کی طرف گیا کہ شاید وہ آ گیا ہے۔ جانور کی حرکت جاری تھی اور اب ہمارے بالکل سامنے کی گھاس بھی ہلنے لگی تھی۔ اچانک گھاس میں سے ایک شیر نکل کر ہمارے سامنے کھلے میدان میں آ گیا۔ لیکن نہیں، یہ شیر نہیں تھا، یہ تو ایک شیرنی تھی جس کے ہمراہ اس کے تین بچے بھی تھے۔ یہ شیرنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ہمارے سامنے میدان میں آ کر بیٹھ گئی۔ گائے کی لاش اگرچہ اس سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھی لیکن اس نے اس لاش پر کوئی دھیان نہ دیا۔ ممکن ہے شیرنی کا پیٹ بھرا ہوا ہو یا پھر ہوا شیرنی کی طرف سے لاش کی طرف جا رہی تھی اس لیے اُس نے اس کی بو محسوس نہ کی۔ بہرحال وہ ہمارے سامنے ایسے جم کر بیٹھ گئی گویا اس کا تصویر کھنچوانے کا پورا پورا ارادہ ہو۔

یہ شیرنی پوری جوان اور تندرست تھی اور اس کی خوب صورتی دیکھنے کے قابل تھی۔ ہمیں وہ بہت ہی بھلی لگی۔ اس کے تینوں بچے بھی جو قد و قامت میں بڑی بلی کے برابر تھے، بہت ہی پیارے تھے۔ ہمارے لیے اس شیرنی کو مارنا بالکل آسان تھا لیکن اس کو مارنا ہماری نظر میں ایک ماں کی مامتا کو قتل کرنا اور اس کے ننھے منے بچوں کو بے آسرا کر ڈالنا تھا، پھر اس نے کسی کا کوئی نقصان بھی نہیں کیا تھا بلکہ اس نے ہم لوگوں کو ایک ایسا شاندار موقع فراہم کیا تھا کہ ہم اس کی اور اس کے ننھے منے بچوں کی نادر و نایاب تصاویر اتار کر اپنے البم کی قدر و قیمت میں ایک عمدہ اضافہ کر سکیں۔

ہم نے اس شاندار موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شیرنی کی اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کیا۔ ہم نے اپنی رائفلیں رکھ دیں اور کیمرے سنبھال لیے۔ ہماری مچان کو چاروں طرف سے موٹے اور گہرے پتوں کی شاخوں سے اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ ہم اس میں بالکل چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ اس مچان میں تین جگہ سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ہم ان میں رائفل کی نال رکھ سکیں یا ان کے ذریعے اپنے کیمرے استعمال کر سکیں۔

اب شیرنی ہمارے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا منہ ہماری طرف تھا اور اس کے تینوں بچے اس کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نے فوراً ہی ان کی تصویریں لے ڈالیں۔ اب شیرنی کے بچے ایک دوسرے سے شوخیاں کرنے لگے۔ وہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے اور پھر چکر لگا کر اپنی ماں کے پاس آ جاتے۔ کبھی وہ اپنی ماں کے جسم پر سوار ہو جاتے اور پھر ایک دوسرے سے الجھنے لگتے، کبھی اپنی ماں کے منہ کو پیار سے چومنے لگتے اور کبھی شیرنی محبت اور شفقت سے اُن کو چاٹنے لگتی۔ ادھر ہمارے کیمرے چل رہے تھے اور ہم جلدی جلدی ان کی تصویریں بنا رہے تھے۔ شیرنی کبھی کبھی کیمروں کی کِلک کِلک کی آواز اور فلیش گن کی چکا چوند سے حیران سی ہو جاتی اور ہلکے ہلکے غرّانے لگتی، لیکن ہمیں نہ دیکھ پاتی۔

اب شیرنی آرام سے لیٹ گئی اور تینوں بچے اس کا دودھ پینے لگے۔ ہم نے اس منظر کو بھی اپنے کیمروں میں محفوظ کر لیا اور اس طرح شیرنی اور اس کے بچوں کی تصویروں کا ایک خوبصورت ذخیرہ ہمارے پاس جمع ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں شیرنی اٹھی اور اپنے بچوں کے ساتھ ندی کی طرف چلی گئی۔ ہم نے یہ موقع بھی غنیمت جانا اور جاتے جاتے اس خاندان کی ایک ایک تصویر اور لے ڈالی۔

ہمارا خیال تھا کہ شیرنی ندی سے پانی پی کر کسی اور طرف چلی جائے گی۔ مگر نہیں، وہ پھر ہماری ہی طرف چلی آئی۔ اس مرتبہ وہ ہمارے سامنے نہ ٹھیری بلکہ سیدھی گائے کی لاش کی طرف جانے لگی۔ شیرنی کا گائے کی لاش کی طرف جانا ہمیں مناسب نظر نہ آیا۔ ہم نے اپنی رائفلوں سے دو فائر کیے لیکن شیرنی پر نہیں بلکہ ہوا میں۔ فائروں کی دھائیں دھائیں سے جنگل گونج اٹھا۔ پرندے پھڑپھڑانے لگے اور شیرنی فرار ہو گئی۔ شیرنی کو تو ہم نے بھگا دیا لیکن شکار کے نقطۂ نگاہ سے یہ اچھا نہ ہوا۔ شیر نے خطرہ محسوس کر لیا اور اگر وہ اس طرف آتا تب بھی نہ آیا اور ہماری پوری رات اس کے انتظار میں گزر گئی۔ ہم اگلی رات پھر مچان پر بیٹھے رہے مگر مایوسی ہوئی۔ آخر ہم نے اس کو اس کی قسمت پر چھوڑنے کا ارادہ کر لیا اور اگلے دن وہاں سے آگے چل پڑے۔

ہم نے چڑیا گھروں سے ملحق بعض حیوانی عجائب گھروں میں شیرنی کے ایک دو دن کے پیدا ہوئے مُردہ بچوں کو شیشے کے مرتبانوں میں اسپرٹ میں محفوظ دیکھا ہے۔ یہ بچے پورے چوہے سے قدرے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن زندہ رہنے کی صورت میں آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں۔ شیرنی ان کو پانچ چھ ماہ کی عمر تک دودھ پلاتی ہے، اس کے بعد گوشت کی باری آتی ہے اور شیرنی مختلف جانوروں کے گوشت کو اپنے دانتوں سے کچل کر انہیں کھلاتی رہتی ہے۔ پھر بڑی بوٹیوں کی باری آتی ہے اور بعد ازاں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بچے خود ہی شکار کی جانب مائل ہو جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں مثلاً خرگوش، لومڑی، گیدڑ اور موروں وغیرہ کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ وہ اپنی ماں شیرنی سے سیکھتے ہیں۔ شیرنی کا اپنے بچوں کو شکار کھلانے کا طریقہ بھی خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ بچوں کے سامنے کسی چھوٹے جانور کا شکار کرتی ہے اور اُسے منہ میں ڈال کر چل پڑتی ہے۔ بچے اُس کے ساتھ دوڑتے ہیں لیکن وہ انہیں پرے ہٹاتی رہتی ہے۔ یوں بچوں میں شکار چھین لینے کا شوق بڑھتا جاتا ہے اور وہ بے تاب ہو کر لپکنے جھپٹنے لگتے ہیں۔ اس کشمکش کے بعد شیرنی جانور کی لاش کو ہوا میں اُچھال دیتی ہے اور بچے اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہیں اُس کی تکا بوٹی کر دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا جسم اور اُن کی طاقت بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ ہرن، چیتل، سانبھر اور نیل گائے جیسے بڑے بڑے جانوروں کو آسانی سے مار ڈالتے ہیں۔ بیل، گائے اور بھینسوں جیسے قد آور مویشی اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، مارتے ہیں اور میلوں کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی انسان کا خون اُن کے منہ لگ جائے تو پھر اُنہیں کوئی جانور بھی پسند نہیں آتا۔ بس انسان کے متلاشی رہتے ہیں۔ بعض دفعہ سینکڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں اور بڑی مشکل سے قابو میں آتے ہیں۔

ہم لوگ چلنے کو تو آگے چل پڑے تھے لیکن ہمیں بار بار اُس گاؤں کے لوگوں کی حالت زار کا خیال ستا رہا تھا جو اس مویشی خور شیر کے ہاتھوں پریشان تھے اور جن کے لیے میں کچھ نہ کر سکا تھا۔ بہرحال یہ مسئلہ جلدی حل ہو گیا۔ ہم لوگ چار پانچ روز کے بعد وہاں سے کوئی بیس پچیس میل دور اپنا کیمپ لگائے بیٹھے تھے کہ ایک دوسری شکار پارٹی ہم سے آن ملی۔ ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اسی جنگل میں سے ہو کر آ رہے ہیں اور اُنہوں نے اس مویشی خور کو ختم کر کے گاؤں والوں کو اس عذاب سے نجات دلا دی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

خونخوار درندوں سے دو دو ہاتھ

 

                الحاج خان بہادر حکیم الدین

 

 

حصولِ رزق کے سلسلے میں انسان جہاں کسی سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہاں یہ لازم نہیں کہ وہ ملازمت اس کے طبعی رجحانات سے بھی کوئی مناسبت یا مطابقت رکھتی ہو، ورنہ گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول بہرحال تمام عمر بجانا پڑتا ہے۔ تاہم انڈین فارسٹ سروس کے گُلِ سرسبد، برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مسلمان شکاری اور میرے مشفق الحاج خان بہادر حکیم الدین ریٹائرڈ ڈویژنل فارسٹ آفیسر (یو۔ پی) اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ جس سرکاری عہدے پر فائز ہوئے اُس کی ذمہ داریوں سے پوری طرح مطمئن تھے۔ چنانچہ فرماتے تھے کہ اگر ہندوؤں کا مسئلہ تنا سخ (آواگون) صحیح ہوتا تو میری خواہش یہی ہوتی کہ مجھے آئندہ زندگی میں بھی ڈویژنل فارسٹ آفیسر ہی کا عہدہ ملے۔

الحاج خان بہادر حکیم الدین ۱۸۸۶ء میں قصبہ سنگاہی ضلع کھیڑی لکھیم پور (یو۔ پی) میں پیدا ہوئے جو نیپال کی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔ اس خطے میں سالانہ بارش پچاس انچ کے قریب ہوتی ہے۔ جاڑوں میں سخت جاڑا پڑتا ہے لیکن گرمیوں میں ٹمپریچر ایک سو بارہ ڈگری تک پہنچتا ہے۔ لُو ہلکی اور چند ہی دن چلتی ہے۔ راتیں گرمیوں میں کافی ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ زمین ہموار ہے لیکن ندی، نالے اور جھیلیں بہ کثرت موجود ہیں۔ آب و ہوا مرطوب ہے اس لیے علاقے کا بیشتر حصہ سرسبزوشاداب اور گنجان جنگلوں پر مشتمل ہے جن میں ہر قسم کے پرندے اور جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں مرغابیاں، قاز اور کلنگ ہزاروں کی تعداد میں شمال کے انتہائی سردملکوں سے اُڑ کر اِدھر کا رُخ کرتے ہیں اور اکتوبر سے مارچ کے آخر تک ان جنگلات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے علاوہ مور، مرغ، تیتر اور بٹیر بھی ہر موسم میں ملتے ہیں۔ جنگلی جانوروں میں ہرن، چیتل، کانکڑا، پاڑھے، سانبھر، نیل گائے، سور، جنگلی کُتے، گھڑیال، ریچھ، گلدار اور شیر بھی کافی تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں۔ غرض اس علاقے میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار سال کے ہر موسم میں ملتا رہتا ہے اور شکاری کبھی بھی وہاں سے مایوس نہیں لوٹتا۔ اس لحاظ سے یہ خطّہ شکاری کی جنت تصور کیا جاتا ہے۔

دورِ حاضر میں انسانی آبادی میں گوناگوں اضافوں اور جنگلوں کو زرعی اراضی میں تبدیل کرنے کی مسلسل مہمات کی وجہ سے اب شکار کی وہ کثرت نہیں رہی وگرنہ ان کے بچپن کے زمانے میں ان جنگلوں میں سوسو، دو دوسواور تین تین سو ہرنوں کے غول کے غول ہر وقت منڈلاتے پھرتے تھے اور کسی ایسے شخص کے لیے جس کو بندوق چلانے پر ذرا بھی قدرت حاصل ہوتی دوچار ہرنوں کو مار کر لے آنا معمولی بات تھی۔

خان بہادر صاحب کو بچپن ہی سے شکار کا شوق تھا۔ وہ تیر کمان یا غلیل لے کر جنگل میں نکل جاتے اور وہاں چڑیوں اور اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندوں پر طبع آزمائی کرتے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اُن کا یہ شوقِ شکار بھی جوان ہوتا گیا۔ اُن کے والد صاحب کے پاس بندوق موجود تھی۔ انہوں نے جلد ہی اس کا استعمال بھی سیکھ لیا اور اب ہرن، چیتل اور پاڑھے اُن کی بندوق کا نشانہ بننے لگے۔ شکار سے اُن کی دلچسپی اس قدر بڑھی کہ جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو ملازمت کے لیے محکمۂ جنگلات کا انتخاب کیا اور مبلغ پچیس روپے ماہوار تنخواہ پر اس محکمے میں رینجر بھرتی ہو گئے۔

ملازمت اختیار کرنے کے بعد پہلا دن جو انہوں نے جنگل میں گزارا وہ اُن کے لیے بڑی مسرت اور انبساط کا دن تھا۔ وہ لکھتے ہیں "مجھے جنگلوں سے عشق تھا۔ میں نے کبھی ایسے لق و دق، گھنے اور شاداب جنگل اب سے پیشتر نہیں دیکھے تھے۔ اُن میں طرح طرح کے پرندے اور جانور موجود تھے۔ میں اُن کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پہلی ہی رات میں نے پرندوں کی بولیاں اور جنگلی جانوروں کی آوازیں سنیں جو پہلے کبھی سننے میں نہ آئی تھیں۔ میں روزبروز اُن کی معمولی اور خطرے کی آوازوں کا فرق سمجھنے لگا اور شیر، گلدار، ریچھ، جنگلی کتوں، سانبھر، اور بارہ سنگوں کے پیروں کے نشانات بھی سڑکوں اور ندی نالوں اور جھیلوں کے کناروں پر دیکھنے اور پہچاننے لگا۔ چھوٹے چھوٹے اہل کار عام طور پر جنگلوں میں تیز کلہاڑی یا ہلکا بھالا رکھتے ہیں۔ میں نے بھی ایک ہلکی سی تیز کلہاڑی خرید لی اور اُس کے بل پر تمام دن جنگلوں میں جہاں چاہتا گھومتا پھرتا اور جنگلوں کے مناظر اور پرندوں اور جانوروں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔

اس زمانے ۱۹۰۷ء میں سب چیزیں بے حد سستی تھیں۔ گیہوں روپے کے بیس سیر، چاول سولہ سیر، گھی دو سیر، گوشت ڈھائی آنے سیر، دودھ ایک آنے سیر، مرغی دو آنے کی اور انڈے تین درجن ملتے تھے جب کہ بکری ایک روپے کی، گائے پانچ روپے کی اور بھینس بیس روپے کی آتی تھی۔ مزدور دو آنے روزانہ مزدوری لیتا تھا۔ غرض زندگی بڑے عیش و آرام سے گزر رہی تھی۔ ”

اگلے تین چار مہینوں میں انہوں نے کفایت شعاری کر کے پچیس روپے بچالیے اور اُن سے انہوں نے ایک رائفل خرید لی۔ جی ہاں ! نہ صرف یہ نئی ولایتی رائفل تھی بلکہ اس کے ہمراہ پانچ سو کار توس بھی اُن کو صرف پچیس روپے میں ملے تھے۔ اللہ اللہ کیا مبارک زمانہ تھا جس میں عمدہ سے عمدہ چیزیں بھی کس قدر ارزاں سے ارزاں تھیں۔ اور یوں خان بہادر صاحب اب پورے شکاری بن گئے۔

خان بہادر صاحب کی شکاری زندگی پچاس برسوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس طویل دور میں انہوں نے ایک آدم خور شیر، ایک مست خونخوار ہاتھی، چار ریچھ، اکیس شیر اور پینسٹھ گلدار مارے۔ اُن کے دوست واحباب اُن سے از راہِ مذاق کہا کرتے تھے کہ اگر تم امین آباد پارک (لکھنؤ) میں بھی بکری اور مچان باندھ کر بیٹھو تو امید ہے کہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی شیر یا گلدار آ کودے گا چاہے وہ چڑیا گھر ہی کا کیوں نہ ہو۔

خان بہادر صاحب اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گولی لگنے پر اگر جانور فوراً نہ گرے تو آواز دے کر اپنی ناک کی سیدھ میں بھاگتا ہے۔ اُس وقت کوئی اُس کے سامنے آ جائے تو ضرور حملہ کرتا ہے۔ اگر ہلکی چوٹ لگی ہو تو میلوں دوڑتا چلا جاتا ہے لیکن زیادہ چوٹ لگی ہو تو نزدیکی گھاس یا جھاڑی میں چھپ جاتا ہے۔ شیر اور گلدار کے سریا گردن کی ہڈی میں اگر گولی لگے تو فوراً مر جاتا ہے۔ اگر دل میں لگے تو سو پچاس قدم کے اندر گر کر مر جاتا ہے۔ بغل میں لگتی ہے تب بھی جلد مر جاتا ہے۔ کمر ٹوٹ جاتی ہے تو بہت شور مچاتا ہے، تڑپتا ہے اور بہت دیر میں مرتا ہے۔ پھیپھڑوں میں گولی لگے تو میل دو میل جا کر گھنٹے دو گھنٹے میں مر جاتا ہے مگر پیٹ، ٹانگ وغیرہ میں گولی لگنے سے ہفتوں زندہ رہتا ہے اور اُس وقت اُس کے پاس جانا بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے، البتہ جب شیرنی بچوں کے ساتھ ہوتی ہے تو اُس وقت وہ بھی بہت خوں خوار ہوتی ہے۔

شیرجس وقت آدم خور ہو جاتا ہے تو انسان کا قدرتی خوف اُس کے دل سے نکل جاتا ہے ورنہ عام حالات میں وہ انسان سے اتنا ہی ڈرتا ہے جتنا انسان خود اُس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ آدم خور ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً بڑھاپا، کمزوری یا کچے شکاری جب ہاتھ، پاؤں یا دانت بے تکی گولی چلا کر توڑ ڈالتے ہیں تب وہ غصے یا بھوک کی حالت میں اچانک کسی آدمی کے گھاس یا لکڑیوں کی تلاش میں پاس آ جانے سے اُس کے اوپر حملہ کر دیتا ہے اور جب اُسے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی جس سے وہ اب تک اتنا ڈرتا تھا، کامارنا جانوروں کے مارنے سے کتنا آسان ہے تو اُس کی ہمت اور بڑھ جاتی ہے۔ میرا یہ بھی ذاتی تجربہ ہے کہ آدم خور شیر یا شیرنی کے بچوں میں دودھ اور خون کے ذریعے سے بھی یہ اثر ضرور آ جاتا ہے اور اُس کی نسل سے کوئی نہ کوئی آدم خور ضرور پیدا ہوتا ہے۔ شیر اور گلدار اپنے شکار کو دوڑ کر نہیں پکڑتے بلکہ وہ اپنے شکار کے قریب آہستہ آہستہ چھپ کر پہنچتے ہیں اور جب وہ دوچار قدم رہ جاتا ہے تو اچانک اُس کو دبوچ لیتے ہیں بالکل بلی کی طرح جب وہ چوہے کو پکڑتی ہے۔ اُن کی یہ بھی عادت ہے کہ جب وہ کہیں اپنے شکار کی گھات میں چھپے بیٹھے ہوں اور ان کو یہ خیال ہو جائے کہ اُن کو کسی نے نہیں دیکھا ہے تو وہ آدمیوں یا گاڑیوں کی بالکل پروا نہیں کرتے چاہے وہ اُن کے کتنے ہی قریب سے کیوں نہ گزر جائیں۔ نہ وہ حملہ کرتے ہیں اور نہ دوسرے جنگلی جانوروں کی طرح بھاگتے ہیں بلکہ دبکے ہوئے چھپے رہتے ہیں۔ شکاری کو جنگل کے مختلف جانوروں اور چڑیوں کی خطرے کی آوازوں کو جانتا بے حد ضروری ہے، اس سے اُس کو شکار کی تلاش میں بڑی مدد ملتی ہے۔ یہ آوازیں اُن کی روزمرہ کی آوازوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ اور اُن کے دشمنوں کا جو عموماً شیر، گلدار، ریچھ، لگڑبگڑ اور جنگلی کتّے ہوتے ہیں بخوبی پتہ لگ جاتا ہے۔ یہ آوازیں مختلف چڑیاں، کوّے، چیتل، سانبھر، کانکڑا، نیل گائے، بارہ سنگے اور بندر وغیرہ سب ہی جانور دیتے ہیں۔

شکاری کو شیر، گلدار، ریچھ وغیرہ پر گولی پچاس قدم یا اُس سے کم فاصلے سے چلانا چاہیے تاکہ نشانے پر ٹھیک لگے اور کارگر ثابت ہو، وگرنہ دوسرے حالات میں گولی کا نہ چلانا ہی بہتر ہے۔ گولی منہ میں، گردن میں یا کمر کی ہڈی پر مارنا چاہیے۔ باقی کسی اور جگہ گولی مارنا مصیبت مول لینے والی بات ہے۔ جانوروں کے زخمی ہونے کے بعد فوراً پیچھا کرنا یا تلاش کرنا جب اُن کا غصہ اور بدلہ لینے کا خیال تازہ ہو اور وہ کافی کمزور اور مجبور نہ ہو گئے ہوں، بہت بڑی غلطی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہوتا ہے کہ اُن کو بارہ گھنٹے بعد یا دوسرے دن تلاش کیا جائے جب وہ یا تو مرے ہوئے ملتے ہیں یا وہاں سے دور چلے جاتے ہیں اور خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

الحاج خان بہادر حکیم الدین صاحب کی شکاری مہمات کی داستانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کے متحمل یہ مختصر اوراق نہیں ہو سکتے تاہم قارئین کی تفریحِ طبع کے لیے مختصر طور پر چند ایک واقعات یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

خان بہادر صاحب رقم طراز ہیں کہ ایک روز ایک گوالا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری ایک گائے کو چیت سانپ نے پکڑ رکھا ہے، آپ چل کر اُس کو مار دیجئے۔ میں نے واقعہ دریافت کیا اور اُس کے ہمراہ چل پڑا۔ کوئی ڈیڑھ میل چلنے کے بعد وہ مجھے قریبی پہاڑ کی ڈھلوان پر لے گیا جہاں ایک جگہ کافی سبزگھاس اور تھوڑا سا پانی تھا جس میں گائیں اور بھینسیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ پاس ہی سفید رنگ کی ایک تندرست گائے کو چیت سانپ نے اس قدر زور سے جکڑا ہوا تھا کہ اُس کے پیٹ سے بچہ نکل پڑا تھا اور ناک کان اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اُس کے چاروں پاؤں اور پسلیاں، معلوم ہوتا تھا، کہ کسی نے توڑ کر رکھ دی ہیں۔

چروا ہے نے بتایا کہ میں وہاں سامنے ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا آرام کر رہا تھا اور گائیں یہاں چر رہی تھیں کہ یکایک میں نے ایک گائے کو بُری طرح ڈکراتے ہوئے سنا۔ میں دوڑ کر جب اُس کے نزدیک آیا تو دیکھا کہ گائے زمین پر پڑی ہوئی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور یہ چیت سانپ اُس کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پتھر مارے، شور مچایا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر میں دوڑ کر آپ کے پاس چلا آیا تاکہ آپ سے کچھ مدد حاصل کروں۔ میں نے کہا کہ اب تمہاری گائے تو مر ہی گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ چیت سانپ کے مارنے سے مصیبت آتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ آگ جلا کر جلتی ہوئی لکڑی سے اس کو داغ دیا جائے تاکہ وہ عمر بھر یاد رکھے اور پھر کسی کی گائے کو نہ مارے۔ چنانچہ ہم نے آگ جلائی اور جلتی ہوئی لکڑی سے اس کو کئی جگہ سے خوب داغا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سانپ نے گرفت ڈھیلی کر دی اور وہ گائے کو چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ سانپ کافی بڑا اور موٹا تھا۔ مگر اس گائے کو نگلنے کے قابل نہ تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کس لیے اس کم بخت نے اتنے بڑے جانور کو بلاوجہ مار ڈالا۔ چیت سانپ صرف نگلتا ہے جانور کو کاٹ کر نہیں کھاتا۔ لیکن گوالا کہنے لگا کہ وہ گائے کو ضرور نگل جاتا اور پھر اس جگہ پر ہفتوں بلکہ مہینے بھر اُسے ہضم کرنے کے لیے پڑا رہتا۔

ہمارا چمڑے کا ٹھیکیدار جو ہندو چمار تھا کئی روز سے اصرار کر رہا تھا کہ میں اُس کے لیے ایک سور ماردوں۔ چنانچہ ایک شام کو ہم دونوں پانچ سوبور دو نالی رائفل لے کر اپنے کیمپ کے جنوب میں گھاس کے رقبے میں گئے جس میں بے شمار بیروں کی جھاڑیاں لگی ہوئی تھیں اور وہاں صبح و شام درجنوں سور بیر کھانے کے لیے آتے رہتے تھے۔ ہم ایک میل کے قریب چل کر پکی سڑک پر آ گئے۔ ہم نے سڑک کے بائیں طرف بیروں کی گٹھلیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں سنیں۔ یہ سور تھے جو بیر کھانے کے شغل میں مصروف تھے۔ میں نے ٹھیکیدار کو وہیں کھڑا رہنے کے لیے کہا۔ میں خود پنجوں کے بل آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ سوروں کے غول سے چالیس قدم کے فاصلے پر پہنچ گیا۔ میں ایک جھاڑی کے پیچھے چھپا کھڑا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ کوئی موٹا تازہ نرسُور دکھائی دے تو فائر کروں لیکن پوزیشن ایسی تھی کہ میں دوچار کی پیٹھ کے سوا اور کچھ نہ دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ میں تھوڑا سا اور آگے بڑھا۔ میرا آگے بڑھنا تھا کہ اُن کو میری موجودگی کا شک ہو گیا۔ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اُن کی نظریں مجھ پر پڑیں۔ انہوں نے بیر کھانا چھوڑ دیا اور تیزی سے میری طرف بڑھنے لگے۔ گننے کا موقع کہاں تھا البتہ دس بارہ ضرور ہوں گے۔ یہ صورتِ حال سخت خطرناک تھی لیکن میں نے حوصلہ قائم رکھا اور ایک بڑے سُور کا نشانہ لے کر اُس پر فائر کر دیا۔ گولی لگتے ہی وہ گر پڑا اور باقی سُور اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ میں جھاڑی سے نکل کر کھلے میدان میں آ گیا اور ٹھیکیدار کو آواز دی۔ میری آواز سنتے ہی سور کھڑا ہو گیا اور مجھ پر حملہ کرنے کے لیے میری طرف دوڑا۔ میری رائفل کی دوسری نالی میں گولی تھی مگر گھبراہٹ میں فائر نہ کر سکا۔ میں نے کسی سے سُنا تھا کہ سور حملہ کرتے وقت مڑتا نہیں ہے بلکہ سیدھا دوڑتا ہے چنانچہ میں اِدھر اُدھر بھاگنے کی بجائے وہیں کھڑا ہو گیا اور جب تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو میں ایک طرف کو مُڑ گیا اور سُور سیدھا بھاگتا ہوا چلا گیا۔ بھاگتے ہوئے وہ اتفاقاً ٹھیکیدار کے پاس سے گزرا جس نے شور مچا دیا اور اپنا لمبا بانس زور زور سے زمین پر مارا۔ سُور تھوڑی دور جا کر گر پڑا اور مرگیا۔ میں نے جا کر دیکھا گولی اُس کی پسلیوں میں لگی تھی اور دوسری طرف بڑا سا سوراخ کر کے نکل گئی تھی اور اس جگہ جہاں وہ پہلے گرا تھا پھیپھڑے کے ٹکڑے نکل کر گھاس اور جھاڑی پر بکھرے ہوئے تھے۔ جنگلی سُور کی طاقت کا کیا ٹھکانہ، شیر کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تب ہی یہ سور اتنا کاری زخم کھانے کے باوجود اُٹھ کھڑا ہوا اور مجھ پر حملہ آور ہونے کے لیے تیزی سے دوڑا۔ تاہم یہ دوسری بات ہے کہ خدا نے ابھی میری زندگی رکھی ہوئی تھی اور وہ کامیاب نہ ہو سکا۔

لینسڈون فارسٹ ڈویژن میں جنگلی ہاتھیوں کا شمار اُس زمانے میں ڈیڑھ سو کے قریب کیا جاتا تھا اور وہ ہر دوار سے کوٹ دوار تک کوئی تین سو مربع میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ ہاتھی عموماً آبادیوں سے دور رہتے تھے لیکن اُن میں سے چند ایک ہاتھیوں کو آبادی کے نزدیک کھیتوں میں فصلیں اور چارہ کھانے کی عادت پڑ گئی تھی، یہی نہیں بلکہ وہ مستی میں آ کر جنگل کے ٹھیکیداروں اور گوجروں کے چھپر بھی گرا دیتے تھے اور اجناسِ خوردنی، گڑ اور نمک وغیرہ پرپل پڑتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اتنا طیش میں آتے کہ جانوروں اور آدمیوں کو بھی مار ڈالنے سے گریز نہ کرتے تھے۔

ایک روز میں نے سُنا کہ ہمارے کیمپ سے کوئی چار میل کے فاصلے پر ہاتھیوں کے ایک ایسے ہی ٹولے نے ایک گوجر کے چھپر توڑ ڈالے اور ایک عورت اور اس کے بچے کو مار ڈالا۔ چنانچہ دوسرے دن میں اپنے رینجر، فارسٹ گارڈ اور اردلی کو ہمراہ لے کر وہ جگہ دیکھنے کے لیے گیا جہاں یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ دو چھپر ٹوٹے پڑے ہیں اور تانبے اور مٹی کے برتن اور کچھ گھریلوسامان اِدھر اُدھر بکھرا ہوا پڑا ہے اور چند آدمی نئے سرے سے چھپر بنا رہے ہیں۔ واقعے کی تفصیل دریافت کرنے پر وہ لوگ رونے لگے۔ پھر وہ ہمیں ساتھ لے کر چھپروں سے چالیس پچاس قدم کے فاصلے پر برگد کا وہ درخت دکھانے لیے گئے جس کے پاس ہاتھیوں نے ایک عورت اور اُس کے ننھے سے بچے کو مارا تھا۔ وہاں اُن کا خون بھی ابھی تک جما ہوا تھا۔ یہ منظر بڑا درد ناک تھا اور اس لحاظ سے بے حد متاثر کن تھا کہ ماں کس حد تک اپنے بچے کے لیے اپنے آپ کو قربان کر سکتی ہے۔

ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ کل صبح ہمارے دو مرد اور دو عورتیں اپنے ایک بیمار رشتے دار کو جو یہاں سے تین میل کے فاصلے پر ایک گاؤں میں ہے، دیکھنے کے لیے چلے گئے اور باقی جانوروں کو چرانے کے لیے جنگل میں نکل گئے۔ یہاں صرف ایک عورت اور اُس کے دو بچے رہ گئے۔ عورت چھپر کے اندر کھانا پکانے کے لیے سامان ٹھیک کررہی تھی اور اُس کی نوبرس کی لڑکی اور تین برس کا لڑکا باہر چھپروں کے سامنے کھیل رہے تھے اور بھینسوں کے پانچ کٹے بھی کچھ فاصلے پر بندھے ہوئے تھے۔ یکایک انہوں نے کچھ ہاتھیوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا کہ ہاتھیوں نے بھینس کے پڈوں کو گھیر رکھا ہے چنانچہ وہ جلدی سے ایک ٹین لائی اور اس کو لکڑی سے بجانے اور شور کرنے لگی مگر ہاتھیوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ جب عورت نے دیکھا کہ ہاتھی پڈوں کو مار رہے ہیں تو اُس نے گھبراہٹ اور غصے میں خالی ٹین کو ایک طرف پھینک دیا۔ اس پر ایک ہاتھی عورت کی طرف دوڑا لیکن اُس نے تیزی سے بھاگ کر اُس برگد کے درخت کے اوپر چڑھ کر اپنی جان بچائی۔ ہاتھی لوٹ گیا تو عورت نے وہیں سے پکار کر بچوں سے کہا کہ وہ چھپر کے اندر کسی کونے میں چھپ جائیں۔ ہاتھیوں نے ایک ایک کر کے تمام پڈوں کو مار دیا اور پھر اُنہیں کچل ڈالا۔ پڈوں کو ختم کرنے کے بعد ہاتھیوں نے چھپروں کا رُخ کیا اور ایک چھپر کو گرا کر سامان توڑنا پھوڑنا اور اجناس خوردنی کو کھانا شروع کر دیا۔ ماں ڈرنے لگی کہ کہیں وہ دوسرے چھپّر کو بھی نہ گرا دیں جس میں اُس کے بچے چھپے ہوئے تھے۔ اُس کا خیال واقعی درست تھا۔ ہاتھیوں نے اب دوسرے چھپّر کی طرف رُخ کیا تو ماں نے بیٹی کو آواز دی کہ کونے میں ٹٹی کو پھاڑ کر چھپّر کے پیچھے سے بھائی کو لے کر جنگل میں بھاگ جاؤ اور کسی جھاڑی میں چھپ جاؤ۔ لڑکی نے بڑی مشکل سے ٹٹی کو پھاڑا اور بھائی کو لے کر جنگل کی طرف بھاگی مگر بدقسمتی کہ لڑکا روتا ہوا ماں کی طرف دوڑا اور برگد کے سامنے کھڑا ہو کر رونے لگا۔ بے کس ماں کا بچے کو خطرے میں دیکھ کر درخت سے اترنا تھا کہ ہاتھیوں نے اُسے آ لیا اور اُسے اور اُس کے بچے کو آنِ واحد میں کچل کر مار ڈالا۔ یہ دردناک واقعہ اُس معصوم لڑکی نے رو رو کر ہچکیاں لیتے ہوئے اس طرح بیان کیا کہ ہم سب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے لیکن سوائے تسلی اور تشفی کے اور کیا کر سکتے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہاتھیوں سے نمٹنا کوئی آسان کام نہ تھا۔

ایک روز میرے کیمپ کے قریب سے ایک عورت روتی ہوئی گزر رہی تھی۔ میں نے اردلی سے کہا "دیکھو یہ عورت کون ہے اور کیوں رو رہی ہے ؟”

اردلی باہر نکلا اور اُس عورت کو بلا کر میرے پاس لے آیا۔ یہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ مائی کیا معاملہ ہے تم کیوں رو رہی ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ میں ایک بیوہ ہوں اور اپنی گزر بسر کے لیے گاؤں والوں کی گائیں چراتی ہوں جن میں میری اپنی بھی تین گائیں شامل ہیں۔ میری ایک گائے تھوڑا سا دودھ دیتی تھی۔ آج اُسی گائے کو گلدار نے مار ڈالا ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں نے اُسے بمشکل چپ کرایا اور پوچھا کہ وہ جگہ یہاں سے کتنی دور ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ بالکل نزدیک ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے اردلی اور ایک خلاصی کو اُس عورت کے ہمراہ جائے واردات کی طرف روانہ کر دیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ قریبی درخت پر مچان باندھ دیں۔ میں اُن کی واپسی پر اُن کے ساتھ چلوں گا۔ جب اردلی لوٹ کر آیا تو شام کے چار بج چکے تھے اور میں چائے سے فارغ ہو کر اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ اردلی نے بتایا کہ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو گلدار موجود تھا اور گائے کی لاش کو کھا رہا تھا لیکن ہمارے پہنچتے ہی وہ قریبی سوکھے نالے میں اُتر گیا۔ نالے کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں تھیں۔ لیکن مچان باندھنے کے لیے وہاں کوئی مناسب درخت نہیں تھا۔ بہرحال میں اردلی کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ گیا۔ خلاصی نے مجھے بتایا کہ چیتا نالے میں موجود ہے اور اُس نے لاش کو ابھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا ہے اس لیے امید ہے کہ وہ گائے کی لاش پر ضرور آئے گا۔ چنانچہ میں نے سب آدمیوں کو وہاں سے دور ہٹا دیا اور گائے کی لاش سے کوئی پچیس قدم کے فاصلے پر کروندے کی ایک گھنی جھاڑی کا انتخاب کر کے اُس کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔ مجھے یہاں بیٹھے ہوئے کوئی بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ میں نے سوکھے ہوئے پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آہٹ سُنی۔ میں مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنی ۳۶۶بور مازر رائفل آنے والے جانور کی تواضع کے لیے سیدھی کر لی لیکن افسوس میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جب میں نے دیکھا کہ دو مریل سے خارش زدہ گیدڑ چوروں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دم لٹکائے میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ جب وہ چاروں طرف دیکھ رہے تھے تو میں جھاڑی میں دبک گیا تاکہ وہ مجھے دیکھ کر نہ بھاگیں اور کچھ پیٹ پوجا کر لیں کیونکہ دوسرے جانور کی لاش پر موجودگی سے اصل قاتل رشک اور غصے کی وجہ سے ایک دم اندھا ہو کر دوڑ پڑتا ہے۔ دوسرے اس کو لائن کلیر بھی مل جاتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے چنانچہ دونوں گیدڑ آگے بڑھ کر آزادی سے گائے کی لاش کو کھانے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی انہوں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک گیدڑ نے خطرہ محسوس کیا۔ اُس نے سر اُٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا اور پھر چیخ مار کر بھاگنے لگا دوسرے گیدڑ نے بھی وہاں ٹھیرنا مناسب نہ سمجھا اور وہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ میں نے سمجھا کہ گلدار کی آمد آمد ہے مگر بجائے گلدار کے ایک پورے قد کا لگڑبگڑ آتا دکھائی دیا۔ وہ گائے کی لاش سے قریب بیس قدم کے فاصلے پر ٹھیر گیا اور چاروں طرف دیکھتا اور ہوا کو اپنی چوڑی ناک سے سونگھتا رہا۔ پھر لاش کے پاس آ کر بجائے کھانے کے اُس نے فوراً گائے کی گردن پکڑی اور اُسے شمال کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ میں نے سیٹی بجائی، وہ ذرا رکا، چاروں طرف دیکھا اور گھسیٹنے لگا۔ میں نے جیب سے رو مال نکال کر ہلایا اور سیٹی بجائی۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور بھاگ گیا مگر تھوڑی دیر میں پھر آ گیا۔ دوسری دفعہ جب وہ آیا تو باوجود میرے سیٹی بجانے کے اور رو مال ہلانے کے وہ لاش کو میرے سامنے سے گھسیٹ کر لے گیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ لگڑبگڑ میں بھی اس قدر طاقت ہوتی ہے۔ میں آخرکار جھاڑی سے نکلا اور اپنے دونوں آدمیوں کو بلا لیا۔ ہم نے لگڑبگڑ کو ڈرا دھمکا کر دور بھگا دیا اور تینوں نے مل کر بڑی مشکل سے گائے کی لاش کو کھینچ کر اُسے اُس کی اصل جگہ پر ایک جھاڑی سے باندھ دیا۔ میں پھر جھاڑی میں بیٹھ گیا اور اپنے آدمیوں کو واپس کر دیا۔ اتنی گڑ بڑ اور شور شرابے کے بعد گلدار کے آنے کی اُمید بہت کم رہ گئی تھی لیکن میں نے شام تک بیٹھنے کا ارادہ کر لیا۔ سورج ڈوبنے کے قریب لگڑبگڑ پھر آ گیا اور گائے کو کھینچنے کے لیے جھٹکے دینے لگا مگر رسی کو نہ توڑ سکا۔ پھر چاروں طرف دیکھ کر بیٹھ گیا اور لاش کو کھانے لگا۔ اب اندھیرا ہونے لگا تھا اور میں مایوس ہو کر اُٹھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ یکایک لگڑبگڑ اُچھلا اور بھاگا۔ میں اس کے یکدم بھاگنے کی وجہ سے چاروں طرف دیکھنے لگا تھا کہ اُسی وقت نالے میں پتوں پر کھڑبڑ سنائی دی۔ میں نے غور سے دیکھا تو مجھے نالے کے کنارے کسی جانور کا سر، آنکھیں اور ناک کی طرح کچھ دکھائی دیا مگر صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا ہے۔ چنانچہ میں نے امیدو بیم کی حالت میں اللہ کا نام لے کر اُس سر کی طرح کی چیز پر نشانہ باندھ کر فائر کر دیا۔ فائر کے فوراً بعد ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی جانور لڑھک کر نالے میں گرا ہے۔ ساتھ ہی سوکھے پتوں پر اُس کے دم مارنے کی دوچار دفعہ آواز بھی آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ میں اُٹھا اور وہاں سے سیدھا کیمپ چلا آیا کہ صبح دیکھیں گے۔ جب میں کیمپ میں پہنچا تو بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی، اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے اُس کے دشمن کو مارڈالا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ کل صبح آؤ اُس وقت پتہ چلے گا۔ دوسرے دن صبح ہم بڑھیا کو ساتھ لے کر وہاں گئے تو دیکھا کہ گیڈر اور گدھ گائے کی لاش کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جناب لگڑبگڑ صاحب جنگل کے قانون "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” کے مطابق بے فکری سے گائے کی لاش کو کھا رہے تھے۔ ہم لوگوں کو آتے دیکھ کر سب ایک ایک کر کے غائب ہو گئے۔ میں نے نالے کے کنارے جہاں فائر کیا تھا جا کر دیکھا تو نیچے نالے میں ایک نہایت عمدہ تندرست نر گلدار مرا ہوا پڑا تھا اور اُس کی دونوں آنکھوں کے بیچوں بیچ میری ۳۶۶بور مازر رائفل کی گولی کا سوراخ تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑھیا اپنی گائے کو دیکھ کر آنسو بہا رہی تھی۔ میں نے اُس سے کہا "لو بڑی بی! اب خوش ہو جاؤ، تمہارا دشمن یہ پڑا ہوا ہے۔ ”

بڑھیا یہ سنتے ہی جھٹ نالے میں اُتر پڑی اور مرے ہوئے گلدار کو گالیاں دینے اور اپنی لکڑی سے پیٹنے لگی۔ اُس نے مردہ گلدار کو اتنا مارا کہ آخر کار اُس کی لکڑی ٹوٹ گئی۔ گلدار کو پھر ہم لوگ اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے اور جب اُسے ناپا گیا تو وہ پونے آٹھ فٹ نکلا۔ مجھے اتنے اچھے گلدار کے شکار سے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے اس خوشی میں پانچ روپے بڑھیا کی نذر کیے، جو مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بابو رام اور شیر

 

                انصاری آفاق احمد

 

 

آزادی سے قبل گرمیوں کی تعطیلات اپریل سے شروع ہوتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں بزرگ انڈے بچّے جمع کر کے شکار کے لیے نکل جاتے تھے۔ جتنی دور جائیں، شکار اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اور شکار جتنا اچھّا ہو پروگرام اتنا ہی طویل ہو جاتا تھا۔ ٹیم میں ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ جن میں شکاریوں اور مصاحبین کے علاوہ ڈاکٹر اور خانساماں بھی شامل ہوتے تھے۔ ڈاکٹروں کی ماہرانہ دیکھ بھال اور مشوروں کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جنگل میں طویل عرصہ رہنے اور ہر قسم کے جراثیم کا سامنا کرنے کے باوجود ہم صحیح سلامت واپس آ جاتے۔ کبھی کبھی تو شکار کی مہم ایک ماہ طویل ہو جاتی تھی۔ اور ٹیم کے ارکان کی تعداد پندرہ سے بیس تک پہنچ جاتی تھی۔

ایک بار ہم لوگ ہندوستان کے صوبہ سی۔ پی اور ایسٹرن اسٹیٹس کی سرحدوں کے پاس دریائے مہا ندی کی ایک شاخ کے کنارے شکار کے لئیے گئے۔ یہاں ایک مختصر سا گاؤں آباد تھا۔ جس کے پاس خالصتاً پوچر آباد تھے۔ یہ لوگ شہد جمع کرتے تھے۔ اور کچھ جانور بھی پال رکھے تھے۔ جنگل میں شکار کی بہتات تھی یہی وجہ تھی کہ جنگلی جانور پالتو جانوروں پر زیادہ توجّہ نہیں کرتے تھے۔ دریا نزدیک تھا، لہٰذا تھوڑی ہی گہرائی پر کنوئیں سے شفاف پانی مل جاتا تھا۔ یہ علاقہ جن ڈاکوؤں کی عمل داری میں تھا۔ ان سے ہمارا کاروباری قسم کا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ ہم نے ایک برگد کے درخت کے زیر سایہ اپنا کیمپ لگا لیا۔ اور شکار خوب زوروں پر رواں دواں ہو گیا۔ گاؤں والے بھی خوش تھے۔ ان کے لڑکے اور نوجوان ہمیں اجرتاً کنویں سے پانی اور جنگل سے جلانے کی خشک لکڑیاں لا دیتے تھے۔ دودھ اور شہد بھی ہمارے پاس فروخت کرتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ شکار پر بھی جایا کرتے تھے۔ علاوہ شکار کا گوشت ان کو تنخواہ بھی ملتی تھی۔ ان کے کھوجی بھی ہماری مدد کرتے تھے۔ غرض کسی کے ساتھ بھی ہماری چپقلش نہ تھی۔

جنگل کے باشندے جن تعلق دراوڑ نسل سے تھا، مہذب تہذیب سے بے نیاز تھے۔ رنگ سیاہ اور چہرا کریہہ لیکن آبادی سے کافی فاصلہ پر ہونے کے باوجود انتہائی صفائی پسند اور گٹھے ہوے ٹھوس جسموں کے مالک تھے۔ ناف کے اوپری حصّہ میں لباس خال خال ہی نظر آتا تھا۔ پوشاک ہونے نہ ہونے لمبائی، کوتاہی یا تنگی پر کوئی قدغن نہ تھی۔ لڑکیوں کو نسوانی محاسن کا شدّت سے احساس تھا۔ آزاد خیال تھے، اور جنسی میل ملاپ میں بہت پابندی نہ تھی۔ ہماری سوسائٹی کے بعض آزاد منش عناصر کی طرح جو اپنی ازدواج کو پیش پیش رکھتے ہیں، یہ لوگ بھی جورو پر مکمل مالکانہ حقوق پر بضد نہ تھے۔ بہت محدود سکّہ رائج الوقت، گوشت یا کھال کے عوض بھر پور تعاون کے لئیے تیار رہتے تھے۔ کنواری لڑکیوں کے بارے میں البتّہ بہت قدامت پرست اور سخت گیر تھے۔ اور ان کے آزادانہ میل ملاپ پر مکمل پابندی اور سخت نگرانی تھی۔ انتہائی امکانی کوشش یہی ہوتی تھی، کہ ان کو صحیح سلامت ان کے شوہروں کے حوالہ کیا جائے۔ تا ہم بیوہ ہر امتناع سے آزاد تھی۔ سیاح شکاری یا آنے جانے والے جانکار اس صورت حال کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔

ایسے پرسکون ماحول میں کباب میں ہڈّی صرف ایک ذات شریف تھے۔ جو خود کو بزعم خود مقامی محکمۂ شکار سے متعلق کہتے تھے، اور انھوں نے تمام گاؤں والوں کو ہراساں خوف زدہ کر رکھا تھا۔ اس کے لئیے ان لوگوں نے ایک کشادہ جھونپڑی بنا دی تھی۔ اور وہ گاؤں والوں سے ہر جائز و نا جائز کام مفت میں لیا کرتا تھا۔ نوجوان لڑکیوں پر نظر کرم کچھ زیادہ ہی رہتی تھی۔ نہ معلوم ڈاکو بھی اس سے کیوں پہلو تہی کرتے تھے۔ وہ ملی جلی نسل کا تقریباً تیس سال کا تھا۔ اور مقامی باشندوں سے یکسر مختلف تھا۔ ایک عدد بلا لائسنس ایک نالی چھّرہ دار بندوق کا مالک بھی تھا۔ ہمیشہ کارتوس مانگا کرتا یا غائب کر لیتا تھا۔ شکار اور معاملات شکار، جانوروں کی کھوج لگانے اور ان کی بولی بولنے میں ماہر تھا۔ کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے برآمد ہو جاتا تھا جہاں اسے ہرگز نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ تو جب ہم شکار پر فائر کرنے والے تھے۔ تو نزدیک سے اس کا فائر ہوا اور ہمارا شکار بدک گیا۔ مختصر یہ کہ وہ ہم سب میں (مقامی باشندوں اور شکاریوں میں ) کافی نا پسندیدہ اور غیر مقبول تھا۔ جب اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں بنی تو تنگ آ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے درمیانی جوڑ میں شامل کر لیا جائے۔ اس کا اصلی و صحیح نام تو کبھی معلوم نہ ہوا، لیکن اسے سب بابو رام کہتے تھے۔

ہمارے شکار کا آغاز علی الصبح سورج نکلنے سے کا فی پہلے ہو جاتا تھا۔ شکار کی ایک بڑی جوڑ تو بڑے شکار کی تلاش میں تڑکے ہی نکل جاتی تھی۔ بڑے شکار میں شیر گلدار، بھنیسا، گور اور ریچھ شامل تھا۔ جبکہ چھوٹی جوڑ جنگلی مرغی، ہریل، مور، خرگوش اور تیتر وغیرہ سے سروکار رکھتی تھی۔ درمیانی جوڑ کا کام، جس میں بڑی جوڑ اور کبھی چھوٹی جوڑ کے فالتو بندے شامل کر لیے جاتے تھے، کیمپ میں با افراط خوراک فراہم کرنے کے لئیے چیتل، سانبھر، پھارا، کالا ہرن، چنکارہ اور نیل گائے مارتا تھا۔ درمیانی جوڑ کو اگر کوئی خطرناک جانور اچانک مل جائے تو باشرط ہمّت اس پر وہ طبع آزمائی کر سکتے تھے۔ بشرط ہمّت یوں کہا کہ تمام کاروائی سطح زمین سے ہوتی تھی۔ اور اگر فائر کرنے میں احتیاط نہ کی یا گولی صحیح نہ لگی تو آپ کے اور جانور کے حق میں فیصلے کے امکانات ففٹی ففٹی رہ جاتے ہیں۔ یہ جوڑ سورج نکلنے سے قبل کیمپ چھوڑ دیتا تھا اور مقامی کھوجیوں کی رہنمائی میں شکار کرتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں جیپ یا پک اپ تو تھے نہیں لیکن شہر سے باہر ٹینری وغیرہ کاروبار کرنے والوں سے "ٹھیلا” مل جایا کرتا تھا جس پر وہ ہر روز شہر سے ٹینری لے جاتے تھے۔ ٹھیلا کھلی چھت کی پرانی فورڈ یا شیورلیٹ کار کو کہتے تھے جس کی اگلی سیٹ تو رہنے دی جاتی۔ لیکن پچھلا حصّہ کاٹ کر اس کا فریم لمبا کر کے سامان بردار یا بچّوں کو اسکول لے جانے والی سواری قسم کی چیز بنا لی جاتی تھی۔ اس پر شکار بھی ہوتا تھا۔ اگر شکار کا پروگرام طویل ہو تو اس کے ساتھ فوجی قسم کا ٹریلر بھی جوت دیا جاتا تھا۔

جس شکار کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں ہم دو عدد ٹھیلے اور دو ٹریلر لے گئے تھے۔ ان کے علاوہ تین چار بیل گاڑیاں بھی ہمارے استعمال میں تھیں۔ ہمارے کیمپ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ایک ندی بہتی تھی۔ پانی تو اسمیں کم تھا، لیکن پاٹ چوڑا ہونے کے سبب درمیان میں جھاڑیاں گھاس اور کہیں کہیں درخت بھی تھے۔ ندی کا کنارہ ندی کی سطح سے کچھ ہی بلند تھا۔ وہاں بھی جھاڑیاں اور درخت تھے۔ ایک روز بابو رام نے اس ندی پر جانے کا پروگرام بنایا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ ہم چار افراد کو ٹھیلا ندی کے کنارے چھوڑ گیا۔ ہم سب نے رائفلیں بندوقیں اور کھانے پینے کا سامان سنبھال کر مورچے پکڑ لیے۔ رائفلیں اور بندوقیں بھر لی گئیں۔ جنگل میں طلوع آفتاب کا سماں بہت سہانا ہوتا ہے۔ ہر طرف سکون سا طاری رہتا ہے۔ رات کے شکاری اپنا کاروبار ختم کر کے روشنی سے چھپنے کی غرض سے جنگل اور جھاڑیوں میں چلے جاتے ہیں۔ سبزی خور جانور بھی مکمل دن نکلنے سے قبل ناشتے کا آخری دور کر کے اندرون جنگل کھسک لیتے ہیں۔ سب کے سب حضرت انسان سے ڈرتے ہیں۔ جو اپنی تخریب کاری زیادہ تر دن میں ہی کرتا ہے۔ کیونکہ دیگر جانوروں اور پرندوں کے برعکس اسے مصنوعی روشنی کے بغیر تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ جنگل میں پرندے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو نظام قدرت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو جنگل کو اس فرض کے علاوہ اپنے اپنے رنگوں سے خوبصورتی یا اپنے دلفریب نغموں سے چاشنی بخشتے ہیں۔ چنانچہ جنگل کا کوئی لمحہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔

ابھی ہم قمریوں کی مسحور کن لحن، تیتروں کے سوال و جواب و دعوے، جنگلی مرغوں کے بانگ اور موروں کی تیز پیاؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہ کچھ دور دریا کے ریت اور میدان میں چیتلوں کا ایک چھوٹا سا غول چرتا ہوا نظر آیا۔ یہ غول ہماری ہی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہوا کا رخ بھی صحیح تھا یعنی ہوا ان کی جانب سے ہماری طرف چل رہی تھی ہم کچھ اور دبک گئے چیتلوں نے ہماری جانب آتے آتے ندی کا دوسرا کنارہ پکڑ لیا اور اسی سیدھ میں چلتے رہے۔ اس طرح جب وہ ہمارے سامنے پہنچے تو ہم سے ان کا فاصلہ کوئی سو گز رہا ہو گا شکار کی مہم پر روانہ ہونے سے قبل ہم ہر روز بذریعہ قرعہ اندازی یہ فیصلہ کر لیتے تھے کہ اوّل، دوئم، سوئم، نمبر پر کون فائر کرے گا۔ اس طرح شکار میں بد مزگی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ فائر کرنے والے بزرگ نے جب یہ اندازہ لگا لیا کہ چیتل اب زد میں ہیں تو انھوں نے بہت احتیاط سے رائفل سے نشانہ لیا اور فائر کر دیا، جس کی آواز ہر طرف گونجتی رہی، سامنے کی نیچی پہاڑی سے ٹکرا کر تو جیسے کئی مرتبہ واپس آئی، فائر کے ساتھ ایک چیتل تو اسی جگہ گر گیا لیکن ہم سے کافی قریب یعنی تقریباً چالیس گز کے فاصلہ پر ایک جھاڑی سے ایک شیر نکل کر ٹراٹ بھاگا۔ وہ بھی غالباً شکار کی مہم ہر آیا ہوا تھا۔ رائفل کے تڑاکے اور پھر اس کی گونج نے اسے اتنا بدحواس کر دیا کہ وہ ہم سے دور بھاگنے کی بجائے ہمارے سامنے متوازی دوڑنے لگا۔ ہماری ٹیم کے نمبر دو کھلاڑی نے جو پہلے ہی پیڈ باندھے تیار بیٹھے تھے۔ اس بھاگتے شیر پر اپنی رائفل سے فائر کیا۔ نشانہ ٹھیک تھا۔ شیر قلابازی کھا کر چھوئی موئی ہو گیا۔ اور زمین پر اس طرح پڑ گیا، جس صورت سے کوئی زندہ شیر اپنی جان کی گٹھری نہ بنائے گا۔ کہ ذرا بھی جنبش نہ تھی۔ اپنی جگہ ہم سب کھڑے ہو گئے۔ شیر کی ماری ہوئی ڈرل میں دوسرا ضروری کام یہ ہوتا ہے کہ ذاتی بیمہ کے طور پر ایک گولی اور مار دی جائے اور کھال کے خراب ہونے کے اندیشہ کو مانع نہ ہونے دیا جائے۔ چیتل کے فائر کے بعد تمام کاروائی اتنی جلدی ہوئی کہ ہم سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ جھاڑی سے شیر نکلا، اس پر فائر ہوا اور وہ لوٹ پوٹ ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس پر دوسرا فائر کرتا۔ بابو رام اپنی ایک نالی بندوق لے کر زمین پر گرے ہوئے شیر کی طرف بھاگا۔ وہ تمام راہ شیر کو گالیاں دیتا جاتا تھا۔ اب ہم میں سے کوئی بھی شیر پر فائر نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ درمیان میں بابو رام آ گیا تھا اپنی اپنی رائفلیں لے کر ہم بھی شیر کی طرف دوڑے۔ جب بابو رام شیر کے قریب پہنچا تو ہم اس سے دس گز کے فاصلے پر تھے۔ اس وقت اس نے شیر کو ایک انتہائی رکیک اور نا قابل اشاعت گالی دی اور اس کی دم کے نیچے ایک پر جوش لات رسید کی۔ اس کرہ ارض پر یہ بابو رام کا اختتامی کلام اور ٹھوکر مارنا اس کا آخری ارادی فعل تھا۔ اس کی لات پڑتے ہی شیر بجلی کی سرعت سے اٹھا، اگلے دونوں پنجے بابو رام کے دونوں کندھوں پر رکھے اور اس کے پیچھے لڑھکنے سے قبل ہی اس کا سر اپنے منھ میں لے لیا۔ کھوپڑی کی ہڈّیوں کے چکنا چور ہونے کی جان کاہ آواز صاف آئی اس کے بعد مردہ جسم کو شیر نے زور زور سے جھنجھوڑا اس دوران پنجوں سے جراحی بھی کرتا رہا اور پھر اس کو زمین پر گر جانے دیا۔ جب تک بابو رام شیر کے منہ میں رہا ہم میں سے کوئی بھی فائر نہ کر سکا۔ بابو رام سے فراغت پانے کے بعد شیر نے وہیں کھڑے کھڑے ہمیں خونی نگا ہوں سے گھورا، تھوڑا سا غرّایا اور پھر خود ہی زمین پر دھڑام ہو گیا۔ اس کا بھی یہ اختتامی فعل تھا۔ شیر کے گرنے کے بعد ہم سے ہر ایک نے اس کے جسم کے ہر حصّہ پر ایک یا دو فائر کیے۔ اس مرتبہ تو شیر واقعی مرگیا تھا۔ جب بابو رام کو ٹٹولا تو وہ بھی سورگ باس ہو چکا تھا۔ ایک شکاری فوراً کیمپ بھیجا گیا کہ وہاں ہر ایک کو اطلاع کرے۔ اور بابو رام اور مردہ شیر دونوں کو کیمپ لانے کے لیئے ٹھیلا لے آئے

ہمارے ساتھی کی پہلی گولی شیر کے انتہائی کاری لگی تھی، وہ ہمارے سامنے دائیں سے بائیں بھاگا جا رہا تھا شیر جب گیلپ جا رہا ہو تو اس کے اگلے دونوں پنجوں کے نشان زمین پر ایک ساتھ ملیں گے۔ اور پچھلے دونوں پیروں کے پنجوں کے نشانات اگلے پیروں کے نشانات سے آگے ملیں گی۔ ان دونوں نشانات کے درمیانی فاصلہ سے شیر کی رفتار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان دونوں نقش پا کے درمیان جتنا زیادہ فاصلہ ہو گا شیر کے بھاگنے کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہو گی۔ اس کے برعکس اگر شیر عام رفتار سے چل رہا ہو یا ٹراٹ جا رہا ہو۔ تو اس کے ایک طرف کے آگے اور پیچھے کے ہاتھ پیر ایک ساتھ آگے بڑھیں گے اور دوسری طرف کے ہاتھ پیر اس کے بعد اسی وجہ سے شیر کی چال میں ہوا میں تیرنے کا احساس ہوتا ہے۔ عام رفتار میں ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے۔ کہ پچھلا پیر اگلے ہاتھ کے نشانوں پر ہی پڑتا ہے اور شیر کے چار نقش پا کے بجائے دو ہی نظر آتے ہیں۔ اعشاریہ ۴۰۴ بور کی ۴۰۰ گرین کی نرم گولی نے اس کے جسم میں داخل ہو کر پہلے اس کے دل کا بالائی حصّہ تہ و بالا کر دیا پھر وہاں سے گذر کر ایک پسلی توڑی اور بھر دائیں مونڈھے کی کرسی کو ملیا میٹ کیا لیکن جسم سے باہر نہ نکلی۔ یہ گولی جان لیوا تھی اور اس نے دوران گیلپ شیر کو سر کے بل قلابازی کھلا دی۔ اب یہ بات شیر دوبارہ کیسے اٹھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے جنگلی جانوروں میں دوبارہ ابھرنے کی اتنی قوت بھر دی ہے کہ دل پھٹ جانے کے بعد بھی ان کے عضلات میں اتنی آکسیجن بچ جاتی ہے کہ ایک آدھ کو تو مار سکیں۔

شیخی میں بابو رام نے مسلّمہ شکاری اصولوں سے انحراف کیا، اس غلطی پر قدرت نے اسے نہیں بخشا اور وہیں انتہائی اندوہناک سزا دی۔ اس داستان کا صرف ایک ہی روشن پہلو ہے کہ شیر کے نرغے میں آتے ہی بابو رام فوراً سورگ باس ہو گیا اور اسے زیادہ وقت تک اذیت نہیں ہوئی۔ شیر کے اوپر نیچے کے دو دو انچ لمبے دانت بابو رام کی کھوپڑی سے اندر گذر کر آپس میں مل گئے تھے۔ شیروں کی طاقت ان کے جبڑے، گردن اور پنجوں میں زور کی داستانیں تو عام ہیں اس کے بعد بھی جب یہ چیز ذاتی مشاہدے میں آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://shikariyat.blogspot.in/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید