شمع محمدی
دو نعتیہ طویل نظمیں
پروفیسر ڈاکٹر ادیب رائے پوری
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
۱
مہکی ہوئی ہوا کا مجھے لمس جب ملا
میرے تصورات کا در مثل گل کھلا
افکار کے دریچوں سے آنے لگی صدا
کیا خوب حق نے تجھ کو یہ موقع عطا کیا
اٹھ، مدح خوان سید عالی مقام ہو
چل اے گناہ گار ذرا نیک نام ہو
الفاظ دست بستہ مرے سامنے ہیں سب
جانچا ہے میں نے خوب ہر اک لفظ کا نسب
تھرا رہا ہے پھر بھی قلم، کیا لکھوں لقب
میں پیش آفتاب مثال چراغ شب
کیسے بیاں ہو مرتبہ عالی وقار کا
لاؤں کہاں سے ڈھنگ میں پروردگار کا
لب وا کروں ثناء کے لیے کن کے باب میں
جبریل دست بستہ ہیں جن کی جناب میں
مداح خود قرآں ہے رسالت ماب میں
میرے خیال کی تگ و دو کس حساب میں
منظور شاعری ہے نہ حسن کلام
اے خامہ خیال، ادب کا مقام
سیر خیال و فکر کو بستان ہیں بہت
تفریح طبع ناز کے سامان ہیں بہت
تحریر حسن و عشق کے عنوان ہیں بہت
شعر و سخن کے واسطے میدان ہیں بہت
جن کے قدم سے رونق بزم حیات
تعریف اس نبی کی تقاضائے ذات
یہ مسئلہ تخیل و جذبات کا نہیں
واقف میں گرد و پیش کے حالات کا نہیں
اور علم یہ کہ علم بھی ہر بات کا نہیں
عرفان مجھ کو اپنی ہی خود ذات کا نہیں
پھر مجھ سے پوچھنا کہ محمد کی شان
گونگے کے منھ میں ہو بھی اگر تو زبان
قند و شہد نبات کو یک جا کریں اگر
گل کی ہر ایک ذات کو یک جا کریں اگر
رنگینی حیات کو یک جا کریں اگر
کل حسن کائنات کو یک جا کریں اگر
جتنا بھی رنگ و نور لیے کائنات ہے
یہ سب تبسم شہ دیں کی زکٰوۃ ہے
کہتے ہیں جس کو مدحت سلطان ذو المنن
مسند نشیں ہے نوک زباں پر وہ گلبدن
سرتا بپا ہے نکہت و رعنائی چمن
اس نور کے بدن پہ ہے خوشبو کا پیرہن
خوشبو سے اور نور سے جس کا خمیر ہے
زلفوں کی جس کے شان مشیت اثیر ہے
تمہید سے گریز کی جانب قدم قدم
پڑھتے ہوئے درود محمد مرا قلم
لے کر سرور عشق میں ڈوبا ہوا علم
ہو کر نیاز مند، کیا اس نے سر کو خم
خم ہو کے خط میم بنا تا چلا گیا
پردے وہ روز حق کے اٹھاتا چلا گیا
وہ میم جو کمال ہے اک آغوش کی طرح
محشر میں ایک سایہ گل پوش کی طرح
بندوں پہ، رب کی رحمت پر جوش کی طرح
خم اس کا فرق عاشق مے نوش کی طرح
جو درمیاں کمان کے آیا اماں میں ہے
باہر جو رہ گیا وہ شمار زیاں میں ہے
کھلنے لگے رموز، محبت کے سر بسر
ہونے لگا خیال پہ الہام کا اثر
افکار خوشبوؤں میں شرابور تر بہ تر
جنبش جو لب کو دی تو ٹپکنے لگے گہر
اس پر بھی ان کی شان کے شایاں نہ لکھ سکا
بندہ ہوں اس لیے کوئی قرآں نہ لکھ سکا
یوں کر رہے ہیں مدحت سر کار ذو المنن
کوثر سے دھوکے لائیں ہیں تعریف کا متن
پھرتے رہے بہار میں لے کر چمن چمن
پہنا دیا زبان کو عنبر کا پیرہن
سرمہ ہے کوہ طور کا، غازہ گلاب کا
آغاز نعت یوں ہے رسالت ماب کا
پہلے نبی کے عشق کی دولت خدا سے لی
دولت ملی تو فکر کی جرأت خدا سے لی
جرأت ملی تو حسنِ عقیدت خدا سے لی
طرزِ بیاں کے واسطے نُدرت خُدا سے لی
جرأت مِلی خیال ملا اور قلم ملا
یہ سب ملے تو نعت پہ اذن رقم ملا
توڑی ہے میں نے میکدہ عشق کی قیود
میرے جنون غم کی تعین نہیں حدود
ہوتا ہے ہر نفس مرا منت کش درود
پہلے درود پھر سخن نعت کا ورود
میں بھیجتا ہوں نذر صلوٰۃ و سلام کی
وہ بھیجتے ہیں مجھ کو اجازت کلام کی
تاباں اسی کے نور سے ہے چہرہ حیات
صدیوں کے جس نے آکے مٹائے تو ہمات
ایک جست جس کی نسخہ تسخیر کائنات
جس کے قدم کا نقش بنا علم مدنیات
کہنے کو وہ بشر ہے اگر قیل و قال میں
اپنی مثال بھی نہیں رکھتا مثال میں
یہ ماہتاب آپ کا چہرہ نہیں نہیں
یہ آفتاب آپ کا جلوہ نہیں نہیں
یہ بوئے مشک زلف کا حصہ نہیں نہیں
یہ کہکشاں ہے نقش کف پا نہیں نہیں
اس اوج تک نہ جائے گی پستی شعور کی
بالا ہے ہر خیال سے ہستی حضور کی
جلتی نہ اس جہاں میں جو شمع محمدی
دنیا کو حشر تک نظر آتی نہ روشنی
حاکم ہو یا غلام، گنہگار و متقی
ملتا نہ آدمی کو شعور خود آگہی!
ہوتی نہ کچھ تمیز سفید و سیاہ
جلوؤں کا اعتبار نہ ہوتا نگاہ
جس روز لب کشاد کسی کی نہیں مجال
دیکھیں گے آسمان و زمیں روئے ذوالجلال
ہو گا مقام دید رسول و نبی کا حال
دیکھیں گے ایک ایک کو مسکین کی مثال
ڈھونڈیں گے انبیاء اسی رحمت نوید
تڑپے گی ہر نگاہ محمد کی دید
ہے کون دے سکے گا جو اس دن کوئی حساب
توبہ بھی یاد آئی تو، توبہ کا بند باب
بھائی کو بھائی دے گا نہ فریاد کا جواب
شعلے زمین پہ ہوں گے تو نیزے پہ آفتاب
امت ہو، یا نبی ہو، غضب کی نگاہ میں
محشر میں ہوں گے سارے انہیں کی پناہ میں
نازاں ہوں گرچہ ہوں میں گنہگار دیکھنا
اس کملی پوش کا ہوں پرستار دیکھنا
انوار ذکر سید ابرار دیکھنا
مجھ سے گدا کے لب ہیں گہر یار دیکھنا
ہر دم ہے لب پہ تذکرہ بے نظیر بھی
راضی رسول پاک بھی رب قدیر بھی
نعت رسول پاک میں وہ آب و تاب ہو
ایک ایک لفظ مدح کا عزت ماب ہو
روشن مرے کلام کا یوں آفتاب ہو
مقبول بارگاہ رسالت ماب ہو
محشر میں جب بلائیں تو اس طرح دیں صدا
حاضر کر و کہاں ہے ثنا خوان مصطفٰے
ہر آئینہ دل کی جِلا ذکرِ محمد
اللہ کی بندون کو عطاء ذکرِ محمد
مخلوق سے خالق کی رضا ذکرِ محمد
لازم اسی مقصد سے ہو، ذکرِ محمد
ہر آرزوئے نطق کا انجام یہی ہے
دنیا کے لیے امن کا پیغام یہی ہے
ہو بزمِ سخنداں تو یہ پھولوں کا بیاں ہے
موجوں کا ترنّم ہے یہ بلبل کی زباں ہے
الفاظ کی عظمت ہے خطابت کی یہ شاں ہے
اس ذکر سے بندوں کو گناہوں سے اماں ہے
جذبات کو سیماب تخیّل کی جلا ہے
یہ خاص شَرَف ذکرِ محمد کو ملا ہے
قائم ہے مسلمان کا ایمان اِسی سے
اللہ کے طالب کو ہے عرفان اِسی سے
ہر عاشق صادق کی ہے پہچان اِسی سے
انسان کو ہے عظمتِ انسان اِسی سے
سرمایۂ ایمان و قرارِ دل و جاں ہے
قرآں کی تلاوت ہے یہ کعبہ کی اذاں ہے
نعتِ شہِ کونین کی سرو و سمنی دیکھ
لفظوں کی قبا میں یہ عجب گلْبدنی دیکھ
چہرہ کی دمک طور کے جلووں سے بنی دیکھ
زلفوں کی مہک نافۂ مشک ختنی دیکھ
نسبت اگر الفاظ کو دوں قوسِ قزح سے
سیراب ہوں شاید مئے معنیٰ کی قدح سے
اے طٰحہٰ و مزمِّل و یٰسین و مدثّر
اے سیّد و سردارِ اُمم طیّب و طاہر
کیا کہہ کے پکارے مرے آقا کو یہ شاعر
تصویر خداوند کے شہکار مصوّر
خم گردنِ تفسیر ہے شرمندہ صراحت
یا رب! مرے الفاظ کو دے نہجِ بلاغت
اے صِلِّ عَلیٰ نُور شہِ جنّ و بشر نور
لَب نور دہن نور سخن نور نظر نور
سر نور قدم نور شکم نور کمر نور
جس گھر میں تِرا ذِکر کریں لوگ، وہ گھر نُور
آں زینتِ کونین و زیبائے جہاں اَست
آں باعثِ حیرانی آئینہ گراں اَست
ہم کو بھی خبر ہے کہ گناہوں کی سزا ہے
لیکن وہ خطا پوش ہمارا بھی خدا ہے
زاہد کو اگر نازِ عبادت ہے بجا ہے
پلّہ میں ہمارے بھی محمد کی ثناء ہے
محشر میں جو نکلے گا یہی نام دہن سے
جھُک جائے گا پلّہ مِرا نیکی کے وزن سے
وہ ماہِ عرب، ماہِ مبیں، ماہِ لقا ہے ؟
تصویر ہے، تنویر ہے، تعبیر ہے، کیا ہے ؟
اِک نور کا پیکر ہے کہ پردہ میں خدا ہے
آفاق میں ایسا نہ تو ہو گا نہ ہوا ہے
عاشق کی صدا یہ ہے مرے دل میں نہاں ہے
جبریل سرِ عرش پکارے وہ یہاں ہے
یہ جنبش لب، تابِ سخن، اور یہ گفتار
افکار کی یورش ہے تو الفاظ کی یلغار
ہو جائے اگر وقف ثنائے شہِ ابرار
ہوتا ہے وہ حسان کی مانند گہر بار
رہتا ہے اسی دہن میں وہ شب ہو کہ سحر ہو
جس پر مرے سرکار کی اِک بار نظر ہو
٭٭٭
۲
نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعویٰ کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے
قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کاہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک
چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور و فکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں
زباں کھُلی کے پھریرا کھُلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز
جھُکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے باندھیں اسے عماموں میں
بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف
کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے
زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے
قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں
کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر
سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں
میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو، بلقیس فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت
ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں
یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف
زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید