FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

شرک کو سمجھئے

 

 

 

محمد جاوید یوسف دیوان

 

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

تمہید

 

قرآن کریم نے جتنا زور توحید کے اثبات اور شریک کی تردید پر دیا ہے اتنا زور کسی دوسرے مسئلے پر نہیں دیا۔  اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:

ان الشرک لظلم عظیم (لقمان:  13)

ترجمہ:  یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

قرآن پاک بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا:  لا الٰہ الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی بھی الٰہ نہیں ہے۔

وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون (الانبیاء:  25)

ترجمہ:  اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو

اللہ تعالیٰ کے قانون میں شرک کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ اٹھارہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں:

ولو اشرکوا لحبط عنہم ما کانوا یعملون (الانعام: 88)

ترجمہ:  اور اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے

یعنی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات کے کسی کو شریک ٹھہرانا کس قدر ناپسند ہے کہ خود رسول اللہﷺ کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے:

ولقد اوحی الیک والى الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین (الزمر:  65)

ترجمہ:  اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے۔

گو کہ نبی سے شرک ہونا نا ممکن ہے لیکن امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔

انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ و ماوہ النار وما للظٰلمین من انصار (المائدہ:  72)

ترجمہ:  یقیناً جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان تجعل للہ ندا و ہو خلقک (صحیح البخاری)

کہ تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔

حضرت ابو ہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجہ قبولیت حاصل ہوتا ہے اور ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔  لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:

فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شیئا (صحیح مسلم)

ترجمہ:  تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کے شرک میں ملوث ہو جانے کا خطرہ ہے۔

حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں مجھے میرے محبوبﷺ نے یہ وصیت کی:

ان لاتشرک باللہ شیئا وان قطعت او حرقت (سنن ابن ماجہ)

ترجمہ:  کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تم ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا قتل کر دیے جاؤ۔

خلاصہ یہ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔  یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔  مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔  اس کے باوجود لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہو جاتے ہیں۔  نہ صرف یہ، بلکہ قلب کی گہرائیوں سے اپنے اعمال کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔  اس کا بنیادی سبب تو عام طور پر پھیلی ہوئی جہالت ہے۔  اس تمام تر گمراہی کی بنیادی وجہ ایک ہے وہ یہ کہ عام مسلمان سمجھتا ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔  اور ایسا وہ اس وجہ سے سمجھتا ہے کہ اسلام جن لوگوں میں آیا وہ بت پرست تھے۔  کیونکہ وہ بت پرست تھے اس لیے وہ تمام آیتیں اور حدیثیں جن میں شرک کی برائی آئی ہے ان سے بت پرستی والا شرک ہی مراد ہے۔  اس مضمون میں اس مغالطے کا جائزہ لے کر حقیقت بیان کی گئی ہے۔  سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین عرب کا خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔

 

مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں

 

کیا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے۔  یقیناً نہیں! مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری نہیں تھے۔  وہ نہ صرف اس کے ہونے کے قائل تھے بلکہ بہت ساری چیزوں کو وہ صرف اسی کی طرف منسوب کرتے تھے ]حاشیہ:  [1 مثلاً مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا خالق اور رازق، کائنات کے امور کو چلانے والا، اور ہر چیز کا اختیار رکھنے والا مانتے تھے۔  ملاحظہ کیجیے۔

 

مشرکین عرب کہتے تھے:  خالق اللہ

 

ولئن سالتہم من خلقہم لیقولن اللہ فانى یؤفکون (الزخرف:  87)

ترجمہ:  اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔  تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟

ولئن سالتہم من خلق السمٰوٰت والارض لیقولن اللہ (الزمر:  38)

ترجمہ:  اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے

 

مشرکین عرب کہتے تھے:  رزق دینے والا اللہ، مالک اللہ، زندگی دینے والا اللہ، موت دینے والا اللہ، دنیا کے امور چلانے والا اللہ

 

قل من یرزقکم من السماء والارض ام من یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر فسیقولون اللہ فقل افلا تتقون (یونس:  31)

ترجمہ:  (ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔  جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ۔  تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟

 

مشرکین عرب کہتے تھے:  زمین و آسمان کا مالک اللہ، ہر چیز کا مالک اللہ، بچانے والا اللہ، گھیرنے والا اللہ

 

قل لمن الارض ومن فیہا ان کنتم تعلمون () سیقولون للہ قل افلا تذکرون () قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظیم() سیقولون للہ قل افلا تتقون() قل من بیدہ ملکوت کل شیء وہو یجیر ولا یجار علیہ ان کنتم تعلمون() سیقولون للہ قل فانى تسحرون

(یونس:  84-89)

ترجمہ:  کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے سب کس کا ہے؟ جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔  کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ (ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟) بے ساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ بچاتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا، فوراً کہہ دیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو) اللہ ہی کی ہے، تو کہو پھر تم پر جادو کہاں سے پڑ جاتا ہے؟

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔  یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے۔  سوال یہ ہے کہ جب وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے تو پھر وہ بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے؟ در حقیقت بتوں کو وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔  ان کا ذہن کسی پیکر محسوس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا طلبگار تھا۔  اسی لیے وہ کہتے تھے:

والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدہم الا لیقربونا الى اللہ زلفى (الزمر: 3)

ترجمہ:  اور جن لوگوں نے اس کے (اللہ) سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔

ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرہم ولا ینفعہم ویقولون ہؤلاء شفعاؤنا عند اللہ (یونس:  18)

ترجمہ:  اور یہ (لوگ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔

 

مشرکین عرب کے نیک اعمال

 

مشرکین عرب نہ صرف یہ کہ اللہ کو مانتے تھے بلکہ وہ دین ابراہیمی کے بعض اعمال بھی پوری تندہی سے بجالاتے تھے۔  گو وہ بھی اپنی اصل حالت پر نہ تھے لیکن ان کا منبع شریعت ابراہیمی ہی تھا۔  آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کیا اعمال کرتے تھے۔

 

مشرکین عرب نماز پڑھتے تھے

 

رسول اللہﷺ نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔  اس کی وجہ آپﷺ نے یہ فرمائی:

ھی ساعۃ صلاۃ الکفار (سنن النسائی)

ترجمہ:  وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے

 

مشرکین عرب زکوٰۃ دیتے تھے

 

وجعلوا للہ مما ذرا من الحرث و الانعام نصیبا فقالوا ہذا للہ بزعمہم وہذا لشرکائنا (الانعام:  136)

ترجمہ:  اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) تو اللہ کا اور یہ ہمارے شریکوں کا

 

مشرکین عرب اعتکاف کرتے تھے

 

عن عمر قلت یا رسول اللہ انی کنت نذرت ان اعتکف لیلة فی المسجد الحرام فی الجاہلیة قال اوف بنذرک (صحیح البخاری)

ترجمہ:  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجدالحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔

 

مشرکین عرب خدمت حرم کرتے تھے

 

ء جعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن باللہ والیوم الآخر وجاہد فی سبیل اللہ لا یستوون عند اللہ واللہ لا یہدی القوم الظالمین۔  (التوبہ:  19)

ترجمہ:  کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔  یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔  اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے:

قال اللہ:  لا یستوون عند اللہ واللہ لا یہدی القوم الظالمین) یعنی:  الذین زعموا انہم اہل العمارة فسماہم اللہ ” ظالمین ” بشرکہم، فلم تغن عنہم العمارة شیئا .

ترجمہ:  اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔  اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔  یعنی وہ لوگ جو یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ اہل حرم ہیں اللہ نے ان کو ظالمین کا لقب دیا جس کا سبب ان کا شرک تھا جس کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

حرم کی تعمیر اور اس کی خدمت بہت بڑی نیکی تھی لیکن ان کے شرک کی وجہ سے یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں ٹھہری۔

 

مشرکین عرب حج کرتے تھے

 

حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب حج بھی کرتے تھے۔

عن عائشة رضی اللہ عنہا، قالت کان قریش ومن دان دینہا یقفون بالمزدلفة وکانوا یسمون الحمس (صحیح البخاری)

ترجمہ:  سیدۃ عائشہؓ بتاتی ہیں کہ قریش اور جو لوگ ان کے مذہب پر تھے وہ (حج کے دوران) مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور وہ (اپنے آپ کو) حمس (شجاع) کہتے تھے۔

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ لوگ اسلام سے قبل برہنہ (کعبہ) کا طواف کرتے تھے۔  صحیح مسلم میں سیدۃ عائشہؓ کی روایت ہے کہ انصار اسلام سے پہلے دو بتوں کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے جس کے بعد وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے۔

 

مشرکین عرب عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے

 

حدیث شریف میں آتا ہے:

عن عائشة قالت:  کان یوم عاشوراء تصومہ قریش فی الجاہلیة (صحیح البخاری)

ترجمہ:  عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔

 

مشرکین عرب غلام آزاد کیا کرتے تھے

 

عاص بن وائل جو اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہو گیا اس نے مرنے سے پہلے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی اس کے بیٹے صحابی رسولﷺ عمروؓ بن عاص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا عاص کو اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

لو کان مسلما فاعتقتم عنہ او تصدقتم عنہ او حججتم عنہ بلغہ ذلک (سنن ابی داؤد)

ترجمہ:  اگر (تمہارا باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے (غلام) آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا

یہ شرک کی نحوست ہے کہ مشرک کو کسی نیک عمل کا ثواب بھی نہیں پہنچ سکتا۔

ان تمام مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کے کفار مشرک اس لیے نہیں کہلائے کہ وہ نیک اعمال کا انکار کرتے تھے۔  ان کے کفر کا بنیادی سبب ان کا شرک تھا۔

 

مشرکین عرب کی آپﷺ کے بارے میں رائے

 

مشرکین عرب رسول اللہﷺ کی دعوت توحید قبول نہ کرنے کا سبب آپﷺ کی ذات نہ تھی بلکہ وہ آپﷺ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔  ایک بار ابو جہل نے آپﷺ سے کہا:

قد نعلم یا محمد انک تصل الرحم، وتصدق الحدیث، ولا نکذبک، ولکن نکذب الذی جئت بہ (سنن الترمذی)

ترجمہ:  ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور باتیں بھی سچی کرتے ہیں، ہم آپﷺ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو آپﷺ لے کر آئے ہیں۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کو رسول اللہﷺ کی ذات سے عناد نہ تھا اور وہ آپﷺ کے اعلی اخلاق کو مانتے تھے۔

جب رسول اللہﷺ نے تمام کفار مکہ کو قبول اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اپنے بارے میں رائے لی تو انہوں نے کہا:

ما جربنا علیک الا صدقا (صحیح البخاری)

ترجمہ:  ہم نے آپﷺ سے سچ ہی سنا ہے (یعنی آپ سچے ہیں)۔

لیکن جب رسول اللہﷺ نے لا الٰہ الا اللہ کی دعوت دی تو یہی لوگ آپﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانے لگا۔  ایک موقع پر جب رسول اللہﷺ نے اس کلمے کی دعوت یوں دی:

یا ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا (صحیح ابن حبان)

ترجمہ:  اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ کہو کامیاب ہو جاؤ گے

یہ سن کر ابو لہب کہتا تھا:

انہ صابی کاذب (مسند احمد)

ترجمہ:  یقیناً یہ بے دین جھوٹا ہے۔

 

مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟

 

اوپر بیان ہوا کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے تھے اور رسول اللہﷺ کو سچا جانتے تھے۔  تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز کا انکار کرتے تھے کہ اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک قرار دیے گئے؟ اس کا ایک ہی سبب تھا جس کو قرآن پاک نے اس طرح بیان کیا ہے:

اجعل الآلہة الہا واحدا ان ہذا لشی ء عجاب (ص:  5)

ترجمہ:  کیا اس نے اتنے اٰلہوں کی جگہ ایک ہی الٰہ بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا انکار صرف اللہ کو ایک الٰہ ماننے سے تھا۔

قرآن پاک نے اس کا جواب یوں دیا ہے:

لا تتخذوا الھین اثنین انما ہو الٰہ واحد (النحل:  51)

ترجمہ:  تم دو الٰہ مت بناؤ الٰہ تو صرف ایک ہی ہے

لو کان فیہما آلہة الا اللہ لفسدتا فسبحان اللہ رب العرش عما یصفون (الانبیاء: 22)

ترجمہ:  اگر(آسمان اور زمین) میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہو جاتے

یعنی ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کثرت الٰہ کے قائل تھے جب کہ لا الٰہ الا اللہ ایک الٰہ کا تقاضا کرتا ہے۔  چنانچہ ضروری ہوا کہ یہ سمجھا جائے کہ الٰہ سے کیا مراد ہے۔  لیکن اس سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔  اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہو کر بھی اپنے آپ کو توحید پر کاربند سمجھتے ہیں۔

 

کیا شرک صرف بت پرستی کا نام ہے؟

 

پیچھے جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب نہ اللہ کا انکار کرتے تھے، نہ وہ رسول اللہﷺ کی دعوت کا انکار انﷺ کی ذات کی وجہ سے کرتے تھے اور نہ ہی وہ اعمال سے بھاگتے تھے۔  مزید یہ کہ وہ صرف بے جان پتھروں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر اس سلسلے میں یہ تھی کہ یہ بت اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور واسطہ ہیں۔  آیئے ذرا اس چیز کو مزید سمجھتے ہیں کہ بت پرستی کیا ہے؟ بت پرست کس چیز کی عبادت کرتے ہیں؟ اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے تو یقیناً شرک کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آ جائے گی۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ در حقیقت مٹی کی مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔  اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ کرتے تھے۔ اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔  اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے تو در حقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے، بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔  اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔  اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الٰہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔  اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔  آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے کہ کس کس کو معبود بنایا گیا۔

 

حضرت عیسیؑ اور ان کی ماں کو معبود بنایا گیا

 

واذ قال اللہ یٰعیسى ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللہ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب (المائدۃ:  116)

ترجمہ:  اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو الٰہ مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہو گا تو تجھ کو معلوم ہو گا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہے

عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ در حقیقت حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے معجزات ہیں۔  اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان صفات کا حامل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔  حضرت عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود ہی میں اعلان کر دیا تھا:

انی عبد اللہ (مریم: 30)

ترجمہ:  میں اللہ کا بندہ ہوں!

لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔  یہی بے لگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔  ٹھیک یہی کام غلو کا شکار مسلمان بھی کرتے ہیں۔  وہ رسول اللہﷺ اور بزرگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔

 

علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا

 

اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ و المسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الہا واحدا لا الٰہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون۔

(التوبہ:  31)

ترجمہ:  انہوں (یہودی و نصاریٰ) نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک الٰہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔  اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔  اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔

جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عدیؓ بن حاتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، نے رسولﷺ سے دریافت کیا کہ ہم نے تو کبھی علما اور صوفیا کی عبادت نہیں کی تو قرآن پاک نے ایسا کیوں کہا؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ علما اور صوفیوں نے جو چیزیں ازخود حلال و حرام کر دی تھیں (یعنی محض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم اس کو حجت نہیں مانتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے کہا ضرور سمجھتے تھے۔  آپﷺ نے فرمایا:

فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)

ترجمہ:  یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے

چونکہ حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا اس کی عبادت کرنا ہے۔  اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں نے ان کو رب بنایا او مشرک ہوئے۔  حالانکہ علما و صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بت تھے۔  معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کی کسی صفت میں شریک کرنا ان کو الٰہ بنانا ہے جو شرک ہے۔

نوٹ:  یہاں احبار و رھبان سے مراد وہ علما و صوفیا ہیں جو محض اپنی رائے سے دین میں حلال و حرام قرار دیتے تھے۔  البتہ علمائے حق کسی مسئلے میں کوئی حکم بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکم فرماتے ہیں۔

 

حضرت نوحؑ کی اولاد کو معبود بنایا گیا

 

وقالوا لا تذرن آلہتکم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث ویعوق ونسرا (نوح:  23)

ترجمہ:  اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا

ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں کے نام تھے جن کی قوم نوح عبادت کرتی تھی۔  ان بتوں کی حقیقت کیا تھی اس کی خبر صحیح بخاری کی اس روایت سے ملتی ہے:

اسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا اوحى الشیطان الى قومہم:  ان انصبوا الى مجالسہم التی کانوا یجلسون انصابا وسموہا باسماۂم ففعلوا فلم تعبد حتى اذا ہلک اولئک ونسخ العلم عبدت

ترجمہ:  (یہ) نام قوم نوح کے نیک لوگوں کے تھے، جن کی وفات کے بعد شیطان نے (اس قوم کے) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) کے بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں کے انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان کی یاد آتی رہے)، لوگوں نے اسی طرح کیا لیکن ان مجسموں کی عبادت نہیں کی یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بت بنائے تھے مر گئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں کی عبادت کرنے لگے۔

ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔  اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔

 

نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا

 

افرایتم اللات والعزى (النجم:  19)

ترجمہ:  بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا

لات اس بت کا نام تھا جس کی مشرکین عرب عبادت کرتے تھے۔  اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں:

کان اللات رجلا یلت سویق الحاج (صحیح البخاری)

ترجمہ:  لات ایک آدمی کا نام تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا۔

جب اس کی وفات ہو گئی تو لوگوں نے اس کی قبر پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی عبادت ہونے لگی (ابن کثیر)۔  یہاں بھی وہی بات نظر آئے گی کہ بت پرستی اصل میں قبر پرستی ہے جس کی بنیاد شخصیت پرستی ہے۔  بت تو ایک ظاہری شکل ہوتا ہے۔  اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ہوتی ہے جس کی عظمت کم عقلوں کی عقلوں کو ماؤف کر دیتی ہے اور وہ اس عظمت کو اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اس کو اللہ کے کاموں میں دخل انداز سمجھنے لگتے ہیں۔

 

فرشتوں کو معبود بنایا گیا

 

ویوم یحشرہم جمیعا ثم یقول للملائکة اہؤلاء ایاکم کانوا یعبدون () قالوا سبحانک انت ولینا من دونہم بل کانوا یعبدون الجن اکثرہم بہم مؤمنون (سبا:  40-41)

ترجمہ:  اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔

مشرکین عرب نے فرشتوں کو معبود بنا لیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے۔

 

جنوں کو معبود بنایا گیا

 

عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس کی عبادت کی جاتی تھی۔  فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے کے لیے بھیجا۔  انہوں نے جب اس کے مبعد کو منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس کو حضرت خالدؓ نے قتل کر ڈالا۔

اہل عرب کے دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔  ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی ایک حبشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔  آپﷺ نے فرمایا:

تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)

ترجمہ:  یہ نائلہ ہے یہ اس سے نا امید ہو چکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔

یہ نائلہ بھی عزی کی طرح کوئی پری یا جنی تھی جس کے بت کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔

 

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی عبادت کی گئی

 

مشرکین عرب نے کعبۃ اللہ کے اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔  سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہﷺ نے کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حکم فرمایا:

فاخرج صورة ابراہیم واسمعیل

ترجمہ:  ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔

 

قبر کی عبادت کی گئی

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔  انہوں نے اس کا تذکرہ نبی کریمﷺ سے بھی کیا۔  آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔

(صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ)

اسی لیے رسول اللہﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:

اللھم لا تجعل قبری و ثنا یعبد (مؤطا امام مالک)

ترجمہ:  اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔

قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:

وقال فرعون یا ایہا الملا ما علمت لکم من الٰہ غیری (القصص:  38)

ترجمہ:  اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الٰہ نہیں جانتا

ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔  قرآن پاک میں آتا ہے:

واتخذوا من دون اللہ آلہة لعلہم ینصرون (یس: 74)

ترجمہ:  اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الٰہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں

واتخذوا من دون اللہ آلہة لیکونوا لہم عزا (مریم:  81)

ترجمہ:  اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الٰہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں

یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الٰہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔  پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ان اقوال کو غور سے پڑھیے:

ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہو جا۔  بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسا رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔  (الفتح الربانی مجلس ۳۴)

فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:

صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز و جل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔  بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔  (فتوح الغیب وعظ ۷)

خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کی اصل صاحب بت اور تصویروں کی اصل صاحب تصویر تھے۔  عقیدت پتھر کے بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔  مشرکین عرب بھی اصلا بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے پیچھے شخصیات تھیں جن کی عظمت کے آگے وہ جھکتے تھے جن کے متعلق یہ عقیدہ قائم کر لیا گیا تھا کہ یہ اللہ کے اس قدر قریب ہو گئے ہیں کہ ان کے واسطے سے ہم اپنی حاجتوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔  یہی سب کچھ آج بھی ہوتا ہے۔  یہ بات کس کی عقل میں آتی ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو کچھ حیثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب کچھ کر سکتا ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ شرک کی ابتدا فرد یا مکان کی عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہو جائے تو عبادت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

 

شرک کی حقیقت

 

الادب المفرد اور سنن النسائی میں روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا:

ما شاء اللہ وشئت

ترجمہ:  جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں

آپﷺ نے فرمایا:

جعلت للہ ندا

تو نے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا

ما شاء اللہ وحدہ

(بلکہ یوں کہو) جو اللہ چاہے

یہاں کہنے والے نے جو انداز اختیار کیا اس میں اس نے رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرح با اختیار بناڈالا کہ جو چاہے کریں جس کو رسول اللہﷺ نے شرک قرار دیا۔  اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرک صرف بتوں کی پوجا سے نہیں ہوتا بلکہ زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو کارخانہ الٰہی میں با اختیار سمجھنے سے بھی ہوتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو ایک خط لکھا جس میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

فانی ادعوکم الى عبادة اللہ من عبادة العباد وادعوکم الى ولایة اللہ من ولایة العباد (تفسیر ابن کثیر)

ترجمہ:  میں تمہیں بندوں کی عبادت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا ہوں، اور بندوں کے تسلط سے نکل کر اللہ کے تسلط میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ (یعنی بندوں کو کارساز سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کو کارساز سمجھو)۔

عیسائیوں نے حضرت عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور اپنی حاجتوں میں ان کو پکارتے تھے۔  اس بات کو رسول اللہﷺ نے بندوں کی عبادت قرار دیا۔

آپﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوا کہ بندوں کو اللہ کی طرح با اختیار سمجھنا شرک ہے۔

 

الٰہ کون ہوتا ہے؟

 

اب آئیے الٰہ کا مفہوم سمجھتے ہیں۔  ہمارا کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ایک انکار سے شروع ہوتا ہے اور ایک اقرار پر ختم ہوتا ہے۔  انکار اس بات کا کہ کوئی الٰہ نہیں اور اس انکار کے بعد اللہ کے ایک ہونے کا اقرار ہے۔  اس پورے کلمے میں جو چیز سمجھنے کی ہے وہ الٰہ کا صحیح مفہوم ہے۔  یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا صحیح مفہوم ہی توحید اور شرک کے صحیح مفہوم کو متعین کرتا ہے۔  عبادت کے صحیح مفہوم کا انحصار بھی الٰہ کے صحیح مفہوم سے وابستہ ہے۔  الٰہ کا صحیح مطلب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ قرآن پاک نے الٰہ کے کیا اوصاف بتائے ہیں۔  لیکن اس سے پہلے اس کلمے پر غور کر لیا جائے جس کی بنیاد پر ایک شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے یعنی لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔  اس کا ترجمہ ہے:  نہیں کوئی الٰہ سوائے اللہ کے۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔  اس ترجمے میں لفظ کوئی (کسی طرح کا) لانے کی وجہ اِلٰہَ کے آخر پر لگا ہوا زبر ہے۔  عربی زبان میں جب لا کے بعد کسی اسم پر زبر آ جائے تو اس اسم کی ہر قسم (چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی) کی نفی یا انکار ہو جاتا ہے (حاشیہ:  2)۔  انسان اپنی خواہشات نفس کو بھی اپنا الٰہ بنالیتا ہے۔  اور خواہشات نفس ایک باطنی چیزہے۔  اللہ رب العزت فرماتا ہے:

ءرایت من اتخذ الہہ ہواہ (الفرقان:  43)

ترجمہ:  کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے

بہرحال لاَ اِلٰہَ کہنے کا مطلب الٰہ کی ہر قسم کا انکار ہے۔  اس کامل انکار کے بعد ہی انسان الا اللہ کہنے کا حق ادا کر سکتا ہے۔  اب ذرا غور سے اس آیت کو پڑھیے:

ایاک نعبد و ایاک نستعین (الفاتحۃ)

ترجمہ:  ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

اسی کی عبادت اور اسی سے مدد یہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا تقاضا ہے۔  لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ اقرار ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین اس کا اظہار ہے!

قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین() لا شریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین

ترجمہ:  (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں

اگر ایسا نہیں تو پھر انسان کی حالت وہ ہوتی جو سورۃ یوسف میں یوں بیان کی گئی ہے:

وما یؤمن اکثرہم باللہ الا وہم مشرکون (یوسف:  106)

ترجمہ:  ان میں اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن نے الٰہ کے کیا اوصاف بتائے ہیں۔  ان اوصاف کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ انسان پورے شعور کے ساتھ لاَ اِلٰہَ (نہیں کوئی الہ) کا اعلان کرے جس کے بعد اِلَّا اللہ کی سعادت اسے حاصل ہو۔

 

ہر نبی کی ایک ہی دعوت اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں

 

وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون (الانبیاء:  25)

ترجمہ:  اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو

یعنی الٰہ اور عبادت میں بڑا گہرا تعلق ہے۔

 

الٰہ کون؟ آسمانوں اور زمین کا بادشاہ، زندگی اور موت دینے والا

 

قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السمٰوٰت والارض لا الٰہ الا ہو یحیی ویمیت (الاعراف:  158)

ترجمہ:  (اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔  (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔  اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔

 

الٰہ کون؟ جس پر توکل کیا جائے، توبہ قبول کرنے والا

 

قل ہو ربی لا الٰہ الا ہو علیہ توکلت والیہ متاب (الرعد:  30)

ترجمہ:  کہہ دو وہی تو میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔  میں اسی پر بھروسا رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں

 

الٰہ کون؟ علم والا

 

انما الٰہکم اللہ الذی لا الٰہ الا ہو وسع کل شیء علما (طہ:  98)

ترجمہ:  تمہارا اللہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے

 

الٰہ کون؟ رزق دینے والا

 

ہل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السماء والارض لا الٰہ الا ہو (فاطر:  3)

ترجمہ:  کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔  اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟

 

الٰہ کون؟ بادشاہی والا، عبادت کے لائق

 

ذٰلکم اللہ ربکم لہ الملک لا الٰہ الا ہو فانىٰ تصرفون (الزمر:  16)

ترجمہ:  یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی (ملکیت) ہے۔  اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

 

الٰہ کون؟ ہمیشہ زندہ، عبادت کے لائق، جس کو پکارا جائے

 

ہو الحی لا الٰہ الا ہو فادعوہ مخلصین لہ الدین (المؤمن: 65)

ترجمہ:  وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اس کی عبادت کو خالص کر کر اسی کو پکارو۔

 

الٰہ کون؟ زندگی اور موت دینے والا، پالنے والا

 

لا الٰہ الا ہو یحیی ویمیت ربکم ورب آبائکم الاولین (الدخان:  8)

ترجمہ:  اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں (وہی) جلاتا ہے اور (وہی) مارتا ہے۔  وہی تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا پروردگار ہے

 

الٰہ کون؟ عالم الغیب و الشھادۃ

 

ہو اللہ الذی لا الٰہ الا ہو عالم الغیب والشہادة (الحشر:  22)

ترجمہ:  وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے

 

الٰہ کون؟ مشرق و مغرب کا رب، کارساز

 

رب المشرق و المغرب لا الٰہ الا ہو فاتخذہ وکیلا (المزمل:  9)

ترجمہ:  مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ

 

الٰہ کون؟ عبادت کے لائق، جس کا ذکر کیا جائے

 

اننی انا اللہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی واقم الصلاة لذکری (طہ:  14)

ترجمہ:  بے شک میں ہی اللہ ہوں۔  میرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو

 

الٰہ کون؟ ہر چیز کا خالق

 

ذٰلکم اللہ ربکم خالق کل شیء لا الٰہ الا ہو فانىٰ تؤفکون (المؤمن:  62)

ترجمہ:  یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔  اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو؟

 

الٰہ کون؟ مشکل کشا

 

فنادىٰ فی الظلمات ان لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین (الانبیاء:  87)

ترجمہ:  آخر اندھیرے میں (اللہ کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں بے شک میں ہی ظالمین میں سے ہوں

مچھلی کے پیٹ سے نجات دینا والا ایک ہی الٰہ ہے اسی لیے یونس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا۔

 

مشرکوں سے چند سوالات

 

ام من خلق السمٰوٰت والارض وانزل لکم من السماء ماء فانبتنا بہ حدائق ذات بہجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرہا ء الٰہ مع اللہ بل ہم قوم یعدلون (النمل:  60)

ترجمہ:  بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔  (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے۔  تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے۔  تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟

یہاں الٰہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:

آسمانوں اور زمین کا بنانے والا

بارش برسانے والا

زمین سے چیزوں کا پیدا کرنے والا

ان تمام اوصاف پر غور کریں تو ایک بات واضح نظر آئے گی کہ مخلوق میں سے کسی میں یہ قدرت نہیں وہ آسمان اور زمین بنا سکے، بارش برسا سکے یا زمین سے کھیتی یا درخت اگا سکے۔  یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔  ان کو مافوق الاسباب امور کہتے ہیں۔  آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سوال کیا ہے: ء الٰہ مع اللہ کہ کیا تم لوگ اللہ کے علاوہ بھی کسی کو الٰہ مانتے ہو جو یہ سب کچھ کر سکے۔  بتایا جا رہا ہے کہ ایسا کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔

ام من جعل الارض قرارا وجعل خلالہا انہارا وجعل لہا رواسی وجعل بین البحرین حاجزا ء الٰہ مع اللہ بل اکثرہم لا یعلمون

(النمل:  61)

ترجمہ:  بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ اللہ نے بنایا) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے۔

اس آیت میں الٰہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:

زمیں کو پیدا کرنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے والا

زمین میں پانی جاری کرنے والا

اس پر پہاڑوں کا بوجھ ڈال کر اسے برقرار کرنے والا

دریاؤں اور سمندروں کو ملنے سے روکنے والا

یہاں بھی وہی بات ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو یہ سب کام انجام دے سکتی ہے۔  کسی اور کے لیے یہ ماننا اللہ کے ساتھ الٰہ ماننا ہے یعنی اللہ کا شریک ٹھہرانا ہے۔

امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الارض ءالٰہ مع اللہ قلیلا ما تذکرون (النمل:  62)

ترجمہ:  بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے۔  جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو

اس آیت میں الٰہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:

مشکل گھڑی میں جس کو پکارا جائے

پکارنے والی کی پکار سننے والا

مشکل کشا یعنی سختی اور پریشانی کو دور کرنے والا

زمین پر خلیفہ بنانے والا

بے قرار کی پکار کو سننا اور اس کی تکلیف کو دور کرنا، زمین میں خلیفہ بنانا یہ سب بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کرنے والی ہے۔  اس کے سوا کسی کے لیے ماننا اس کے ساتھ الٰہ ماننا ہے۔

امن یہدیکم فی ظلمات البر والبحر ومن یرسل الریاح نشرا بین یدی رحمتۂالہ مع اللہ تعالى اللہ عما یشرکون۔  (النمل:  63)

ترجمہ:  بھلا کون تم کو  جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بتاتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔  (یہ لوگ) جو شرک کرتے ہیں اللہ (کی شان) اس سے بلند ہے

اس آیت میں الٰہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:

دریاؤں اور خشکیوں میں رہنمائی کرنے والا

ہوا چلانے پر قادر

یہ صفات بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں ہیں۔  مخلوق میں سے کسی میں ان اوصاف کو ماننا اس کی صفتوں میں شریک ٹھہرانا ہے جس کو شرک فی الصفات کہتے ہیں اور عام طور پر لوگ اسی شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔  مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایک ہی مانتا ہے لیکن اس کی صفات میں وہ بہتوں کو شریک کرتا ہے۔

وللہ الاسماء الحسنى فادعوہ بہا وذروا الذین یلحدون فی اسماۂ سیجزون ما کانوا یعملون (سورۃ الاعراف:  180)

ترجمہ:  اور اللہ کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں، تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں (مستدرک حاکم)۔  وہ سارے نام اللہ کے صفاتی نام ہیں یعنی اس جل و علا کی صفات بیان کرتے ہیں۔

سورۃ نمل کی مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات بیان کرنے کے بعد کہا گیا:

تعالى اللہ عما یشرکون

ترجمہ:  (یہ لوگ) جو شرک کرتے ہیں اللہ (کی شان) اس سے بلند ہے

یعنی اوپر بیان کیے گئے تمام امور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ماننا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔  ان آیتوں کے بعد کی آیت یوں ہے:

امن یبدا الخلق ثم یعیدہ ومن یرزقکم من السماء والارض ءالٰہ مع اللہ قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین (النمل:  64)

ترجمہ:  بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔  پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو

اس آیت میں الٰہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:

تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا

موت کے بعد دوبار زندہ کرنے والا

رزق دینے والا

یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں ہیں۔

مذکورہ آیتوں میں جتنے امور بتائے گئے ہیں یہ سب اللہ کی قدرت کے مظہر ہیں جو کسی بھی مخلوق کی قدرت سے باہر ہیں۔  ان کو مافوق الاسباب امور یعنی اسباب سے بالاتر امور کہا جاتا ہے۔  اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں۔  انسان کو جو اسباب میسر ہیں ان کے ذریعے سے وہ ان میں سے ایک کام بھی انجام نہیں دے سکتا۔  بلکہ انسان اپنی معمولی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسباب کا محتاج ہے۔  اسباب کے دائرے میں اللہ تعالیٰ نے اس کو کچھ اختیار ضرور دیا ہے۔  آدمی پیاس بجھانے کے لیے پانی استعمال کرتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اسے پانی استعمال کرنے کا اختیار دیا ہے۔  وہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں کی مدد کا طالب ہوتا ہے۔  بیماری میں ڈاکٹر سے دوا کا طالب ہوتا ہے۔  لیکن یہ سب اسباب ہی کے دائرے میں ہوتا ہے۔  اسی لیے جب انسان اپنی ضرورتوں کے لیے کسی دوسرے کو پکارتا ہے تو اسے یہ بات معلوم ہے کہ وہ شخص بھی اسباب ہی ذریعے اس کو پورا کرے گا (حاشیہ:  3)۔  وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جس کو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پکار رہا ہے، وہ اس بات پر قادر ہے کہ ہر صورت میں اس کی ضرورت کو پورا کر دے گا۔

سورۃ نمل کی ان مذکورہ آیتوں میں الٰہ کی تفسیر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ (النمل:  65)

ترجمہ:  کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے

آیئے ذرا غور کرتے ہیں کہ مخلوق سے علم غیب کی نفی کیوں کی گئی؟

 

انسان کی دو خواہشیں

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

واذا اذقنا الناس رحمة فرحوا بہا وان تصبہم سیئة بما قدمت ایدیہم اذا ہم یقنطون (الروم:  36)

ترجمہ:  اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں کوئی تکلیف پہنچے تو نا امید ہو کر رہ جاتے ہیں

انسان بنیادی طور راحت طلب ہے۔  اس راحت طلبی کے دو پہلو ہیں۔  ایک پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے لیے منفعت یعنی فائدہ دینے والی چیز کا طالب ہوتا ہے۔  اس کا دوسرا پہلو یہ کہ وہ ہر مضرت یعنی نقصان دینے والی چیز سے بچنا چاہتا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ اسی عدم راحت میں اس کا امتحان پوشیدہ ہے جس میں کامیابی کے بعد اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین (البقرة: 155)

ترجمہ:  اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو

اس راحت کے کامل حصول کے لیے انسان دو باتیں چاہتا ہے۔  ایک یہ کہ وہ اپنے کام کے انجام سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تاکہ اگر اس کے کرنے میں فائدہ ہو تو اس کو انجام دے اور اگر اس کا انجام خیر نہیں تو اس سے دور ہٹ جائے۔  دوسرے لفظوں میں انسان کو غیب جاننے کی شدید خواہش ہے۔  علم غیب کی خواہش کے ساتھ وہ اپنے تمام امور پر کامل قدرت یا تصرف بھی چاہتا ہے تاکہ ان کا انجام اس کی مرضی کے مطابق ہو۔  کامل قدرت، کامل علم کا تقاضا کرتی ہے۔  کامل قدرت، کامل ملکیت کا بھی تقاضا کرتی ہے۔  اگر ملکیت ناقص ادھوری ہو گی، تو قدرت بھی ناقص ہو گی۔  اگر آپ غور کریں کامل قدرت ہی وہ وصف ہے جو زندہ اور فوت شدہ بزرگان دین میں ڈھونڈا جاتا ہے (حاشیہ:  4)۔  یہ دونوں امور یعنی غیب جاننے کی خواہش اور کامل تصرف، شرک کا پیش خیمہ ہیں۔  قرآن پاک نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ یہ دو امور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہیں۔  اسی لیے سورۃ نمل کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے بعد آخر میں یہ بھی بتا دیا کہ علم الغیب بھی کسی کو حاصل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے! سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کے ذریعے انسان کی انہی دو خواہشوں کا رد کیا ہے:

قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء (الاعراف:  188)

ترجمہ:  کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔

یعنی نفع پہچانا یا ضرر سے بچانا محض اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔  یہ بھی بتا دیا کہ علم الغیب ہوتا تو بہت سی خیر حاصل ہو سکتی ہے لیکن علم الغیب اللہ ہی کو حاصل ہے (حاشیہ:  5)۔

ان دو باتوں یعنی علم کامل اور تصرف کامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم عبادت کے مفہوم کو سمجھتے ہیں۔

 

عبادت کی حقیقت

 

لفظ الٰہ کا اردو زبان میں ترجمہ معبود سے کیا جاتا ہے۔  یعنی وہ جس کی عبادت کی جائے۔  الٰہ میں اور عبادت میں گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ لفظ الٰہ کی حقیقت سمجھنے کے لیے عبادت کی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہوا۔  عبادت کی حقیقت کسی ہستی کے لیے اپنی مرضی سے قولاً یا فعلاً اظہار ذلت (انکساری) و عاجزی کرنا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے دو باتیں جاننا بے حد ضروری ہے۔

 

پہلی بات

 

یہ بات یقینی ہے کہ انسان کسی ہستی سے، اپنے اختیار سے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری سے پیش نہیں آتا جب تک وہ اس کے کسی کمال اور عظمت کا قائل نہیں ہو جاتا۔  یہ عظمت اس کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتی ہے جو اس ہستی کی تعظیم کا محرک بنتی ہے۔  جب یہ دونوں باتیں یعنی اس ہستی کی عظمت و کمال کا اعتقاد اور اس کی محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں اس انسان سے اس ہستی کی عظمت اور تعظیم کے اظہار کے لیے کچھ اعمال وجود میں آتے ہیں جو قول و فعل دونوں صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں (حاشیہ:  6)۔  خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہستی کی عظمت کا اعتقاد پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس ہستی کی عظمت کے اظہار والے اقوال و اعمال وجود میں آتے ہیں۔

 

دوسری بات

 

اب یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ کسی ہستی کے اس درجے باکمال ہونے کا عقیدہ کس طرح پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس کی ایسی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے کہ اس کے سامنے اپنے آپ کو عاجز سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں:

اول علم کامل، خواہ ذاتی، خواہ عطائی۔

دوم قدرت کامل یعنی کامل تصرف مافوق الاسباب، یعنی ہر چیز کرنے یا کروانے کی کامل قدرت خواہ ذاتی خواہ عطائی۔

اب علم کامل اور قدرت کامل کو سمجھتے ہیں۔

 

علم کامل

 

یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں علم ہر مخلوق کو حاصل ہے۔  یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ مخلوق کا علم ظاہری و باطنی اسباب کے ماتحت ہے۔  مثلاً ہمیں اپنے پانچ حواسوں کے ذریعے بہت سی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔  یا کوئی انسان اپنی فکری قوتوں کے ذریعے بھی بہت کچھ جان لیتا ہے۔ لیکن کوئی شخص بھی اسباب کے ذریعے سے حاصل ہونے والے علم کی وجہ سے کسی ہستی کا ایسا گرویدہ اور اتنا مرعوب نہیں ہو جاتا کہ اس کے سامنے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری یعنی خدائی تعظیم کرنے لگے۔  ہاں جب وہ کسی ہستی کے متعلق یہ گمان کرے گا کہ اس کو اسباب سے بالا یعنی اسباب سے ہٹ کر یعنی علم مافوق الاسباب کچھ اور قوتیں حاصل ہیں جن کی وجہ سے وہ ایسے علوم کا حامل ہے کہ وہ ہر وقت میری ہر نقل و حرکت کو جان رہا ہے، میری ہر پکار اور ثنا کو سن رہا ہے۔  وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔  تب وہ اس ہستی کا گرویدہ ہو کر اس کے لیے خدائی تعظیم کرنے لگ جائے گا۔ کیونکہ وہ جانے گا کہ یہ کمالات مخلوق کے کمالات کی قسم سے نہیں ہے بلکہ خدائی کمال کی جنس سے ہے۔

 

قدرت کامل

 

قدرت کامل کے دو پہلو ہیں:

پہلا یہ کہ وہ ہستی ہر کام کرنے کی قدرت رکھتی ہے،

دوسرا یہ کہ وہ ہستی ہر کام کروانے کی قدرت رکھتی ہے (حاشیہ:  7)۔

ہر کام کرنے کی قدرت کا کیا مطلب ہے اس کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے آلات، ظاہری و باطنی، کے ذریعے عالم کی اشیا میں تصرف کر سکتا ہے یعنی ان کو اپنے تابع کر سکتا ہے۔  یہ تصرف اسباب کے ماتحت ہوتا ہے۔ مثلاً وہ ٹھنڈے پانی کو گرم کر سکتا ہے یا گرم پانی کو ٹھنڈا کر سکتا ہے۔  لیکن ایسا کرنے کے لیے وہ اسباب کا پابند ہے۔  چنانچہ ٹھنڈے پانی کو گرم کرنے کے لیے اس کو آگ کا انتظام کرنا پڑے گا۔  یا گرم پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے برف کا انتظام کرنا پڑے گا۔  انسانوں کے علاوہ بھی جاندار مخلوق میں اس طرح کے تصرف کی قوت کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔  کیونکہ ہرانسان سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح کے تصرفات وہ چاہے کتنے ہی حیران کن ہوں اسباب کے بغیر نہیں ہو سکتے۔  اس لیے کوئی انسان محض کسی کے ظاہری تصرفات کو دیکھ کر اس کا اتنا گرویدہ نہیں ہو جاتا کہ اس کی عبادت کرنے لگے۔  قدرت کامل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ہستی ایسی قدرت والی ہے کہ وہ جب اور جس وقت چاہے اپنی مرضی نافذ کر سکتی ہے۔  چنانچہ جب انسان کسی ہستی کے متعلق یہ مان لے کہ اس کو ایسی قدرت کامل حاصل ہے جو اسباب سے ہٹ کر یعنی مافوق الاسباب ہے تو پھر اس کی عقیدت اس درجے میں آ جاتی ہے کہ وہ اس کو معبود بنانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔  مثلاً اگر وہ ہستی مردہ کو زندہ کر دے تو ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ اسباب سے بالا بات ہے اس لیے وہ ایسی ہستی کو اپنا معبود بنانے کے لیے راضی ہو جاتا ہے اور اس سے نفع و نقصان کی امید لگاتا ہے۔  (حاشیہ:  8)۔  ان مذکورہ اوصاف یعنی علم کامل اور قدرت کامل والی ہستی جس کو انسان معبود بناتا ہے اور اس کو راضی کرنے والے اعمال کرتا ہے وہ ہستی مندرجہ ذیل چار حیثیتوں میں سے ایک حیثیت میں ہو سکتی ہے:

1) وہ معبود خود ہی علم کامل اور قدرت کامل والے اوصاف والا ہے۔  اس کو معبود حقیقی کہہ لیجیے۔

2) یا وہ معبودِ حقیقی کا شریک ہو،

مشرکین عرب جب طواف کرتے تو یہ تلبیہ پڑھتے:

لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک (صحیح مسلم)

ترجمہ:  ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک تیرا (ہی مقرر کردہ) ہے تو اس کا مالک ہے اور مالک نہیں (تیرا)۔

اس مشرکانہ تلبیے سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب یہ سمجھتے تھے اللہ کی ملکیت میں کچھ ہستیاں عطائی طور پر شریک تھیں (حاشیہ:  9)۔  یعنی اس نے خود کسی کو کا اپنا شریک بنا لیا ہے۔

3) یا وہ معبودِ حقیقی کا مددگار ہو کہ اس کو بھی خدائی امور میں عمل دخل حاصل ہو جائے،

4) یا اس کو معبود حقیقی کے یہاں ایسی پوزیشن حاصل ہو جس کے ذریعے سے وہ معبود حقیقی سے اپنی بات (طوعاً و کرہاً) منوا سکتا ہے۔

جب کوئی ہستی ان اوصاف سے خالی ہو تو ایسی ہستی سے کسی نفع کی امید لگانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یعنی اس کی عبادت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

ان چاروں میں سے دوسری، تیسری اور چوتھی شرک کی صورتیں ہیں اور قرآن پاک ان کا رد کرتا ہے۔  ان دو باتوں یعنی کامل علم اور کامل قدرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم قرآن پاک کی آیتوں پر غور کرتے ہیں۔

اللہ لا الٰہ الا ہو الحی القیوم لا تاخذہ سنة ولا نوم لہ ما فی السمٰوٰت وما فی الارض من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ یعلم ما بین ایدیہم وما خلفہم ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء (البقرۃ:  256)

ترجمہ:  اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے)

اس آیت میں جس کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعوی کیا ہے کہ عبادت کے لائق صرف میں ہوں۔  اس کے بعد اس کے دلائل بیان کیے ہیں۔

فرمایا: لہ ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض یعنی جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا مالک وہی ہے۔

پھر فرمایا:  من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ یعنی کسی کو اختیار نہیں کہ اس کی مرضی کے خلاف کچھ کرا سکے۔  یعنی کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔

پھر فرمایا:  یعلم ما بین ایدیہم وما خلفہم ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء ہر چیز کا علم اسی کو ہے، کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں، مخلوق اتنا ہی جانتی ہے جتنا وہ بتانا چاہتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے دونوں راستے یعنی علم کامل اور قدرت کامل دونوں کا رد کر دیا گیا۔

وربک یخلق ما یشاء ویختار ما کان لہم الخیرة سبحان اللہ وتعالى عما یشرکون () وربک یعلم ما تکن صدورہم وما یعلنون () وہو اللہ لا الٰہ الا ہو لہ الحمد فی الاولى والآخرة ولہ الحکم والیہ ترجعون۔  (القصص:  68-70)

ترجمہ:  اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کر لیتا ہے۔  ان کو اس کا اختیار نہیں ہے۔  یہ جو شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک و بالا تر ہے، اور ان کے سینے جو کچھ مخفی کرتے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس کو جانتا ہے، اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کا حکم اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

ان آیات میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ قدرت کامل صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔  اسی طرح علم الغیب بھی اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔

قرآن پاک نے بار بار ان دونوں باتوں یعنی علم الغیب اور تصرف کامل کا خاص اللہ کے لیے ہونا بیان کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ان اللہ لا یخفى علیہ شیء فی الارض ولا فی السماء ہو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء لا الٰہ الا ہو (آل عمران:  5-6)

ترجمہ:  اللہ (ایسا خبیر و بصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں

فرمایا:  ان اللہ لا یخفى علیہ شیء فی الارض ولا فی السماء زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس سے چھپی نہیں ہے یعنی علم کامل صرف اللہ کے لیے ہونے کا بیان ہے۔

پھر فرمایا:  ہو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء ماں کے پیٹ میں جو صورت بنانا چاہتا ہے بناتا ہے، وہ کامل قدرت والا ہے۔

ہو الذی خلقکم من طین ثم قضى اجلا واجل مسمى عندہ ثم انتم تمترون () وہو اللہ فی السموات وفی الارض یعلم سرکم وجہرکم ویعلم ما تکسبون (الانعام:  2-3)

ترجمہ:  وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو اللہ کے بارے میں) شک کرتے ہو، اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) اللہ ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔

مٹی سے پیدا کرنا مافوق الاسباب ہے، پھر اس کی عمر مقرر کرنا بھی مافوق الاسباب ہے۔  اسی لیے ان دونوں کاموں کا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص بتایا گیا۔

پھر فرمایا:  اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) اللہ ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔  یعنی علم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے کے لیے مخصوص ہے۔

اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ ان اللہ بکل شیء علیم (العنکبوت: 62)

ترجمہ:  اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔

روزی کی وسعت اور تنگی بھی اللہ ہی اختیار میں ہے۔  وہ جس کے لیے جتنی روزی چاہتا ہے مقرر کرتا ہے۔  ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

للہ ملک السموات والارض یخلق ما یشاء یہب لمن یشاء اناثا ویہب لمن یشاء الذکور او یزوجہم ذکرانا و اناثا ویجعل من یشاء عقیما انہ علیم قدیر (الشوری:  49-50)

ترجمہ:  (تمام) بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔  وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔  جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے، یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔  اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔  وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے

اولاد دینا بھی اسی کا اختیار ہے۔  یہ بھی اس کی قدرت کا اظہار ہے۔  قدرت والا بھی ہے اور علم والا بھی ہے۔

 

کس کو پکارا جائے؟

 

اوپر الٰہ کون ہوتا ہے؟ کے عنوان کے تحت واضح کیا گیا کہ الٰہ کے مفہوم میں کیا کچھ داخل ہے۔  اولا تو پیچھے جو کچھ بیان کیا گیا اس کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پکارے جانے کے قابل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔  لیکن وہ مسلمان جو اپنی حاجتوں کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں، یہاں قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے پکارنے کو شرک بتایا ہے۔  ان آیات میں اس کی وضاحت ہے کہ ایسا کرنا شرک کیوں ہے۔  لیکن اس سے پہلے یہ آیات پڑھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان بیان کی ہے۔

ولہ اسلم من فی السمٰوٰت والارض طوعا وکرہا و الیہ یرجعون (آل عمران:  83)

ترجمہ:  سب اہل آسمان و زمین خوشی یا ناخوشی سے اللہ کے فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں

وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ہو وان یردک بخیر فلا راد لفضلہ (یونس:  107)

ترجمہ:  اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔

اور مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے:

قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین () لا شریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین (الانعام: 162-163)

ترجمہ:  کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔

 

پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو با اختیار ہو، باخبر ہو، قدرت والا ہو، سمیع و بصیر ہو

 

والذین تدعون من دونہ ما یملکون من قطمیر ان تدعوہم لا یسمعوا دعاءکم ولو سمعوا ما استجابوا لکم ویوم القیامة یکفرون بشرککم ولا ینبئک مثل خبیر (فاطر:  13-14)

ترجمہ:  اور جن لوگوں کو تم اس (اللہ) کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور (اللہ) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔

یعنی اپنی حاجتوں کے لیے اسی کو پکارا جا سکتا ہے جس کو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت ہو۔  غیر اللہ تو کھجور کی گٹھلی پر جو باریک سی جھلی لگی ہوتی ہے اتنی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔  دوسری بات یہ بتائی کہ وہ زمان مکان سے ماورا ہر پکارنے والی کی پکار کو سنتا ہو۔  یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ وہ بیک وقت تمام مخلوقات کی دعاؤں کو سنتا ہے۔  ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قل ادعوا الذین زعمتم من دونہ فلا یملکون کشف الضر عنکم ولا تحویلا (بنی اسرائیل:  56)

ترجمہ:  کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔  وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے

 

پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہو

 

ومن اضل ممن یدعو من دون اللہ من لا یستجیب لہ الى یوم القیامة وہم عن دعاۂم غافلون (الاحقاف:  5)

ترجمہ:  اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔

وہم عن دعاۂم غافلون

ترجمہ:  ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔

جو سن نہیں سکتا وہ اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔

 

دعا عبادت ہے!

 

قرآن پاک میں دعا کا لفظ پکارنے اور عبادت کرنے کے معنوں میں آیا ہے۔  دعا اور پکارنا خود عبادت ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین (المومن:  60)

ترجمہ:  اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔  جو لوگ میری عبادت سے (ازراہ)تکبر (انکار) کرتے ہیں۔  عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے دعا نہ کرنے والوں کو اس کی عبادت سے انکار کہا ہے یعنی دعا کرنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔

1) رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

عن النعمان بن بشیر قال سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ یقول ان الدعاء ہو العبادة ثم قرا ادعونی استجب لکم (سنن الترمذی)

ترجمہ:  نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ’’دعا عبادت ہے۔‘‘ پھر آپﷺ نے آیت پڑھی ادعونی استجب لکم

2) حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

عن ابن عباسؓ افضل العبادة ہو الدعاء وقرا وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین.

(مستدرک حاکم)

ترجمہ:  بہترین عبادت دعا ہے اور اس کے بعد یہ آیت تلاوت کی وقال ربکم ادعونی استجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین

3) رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

عن ابی ہریرةؓ عن النبی صلى اللہ علیہ و سلم قال اشرف العبادة الدعاء (الادب المفرد، للبخاری)

ترجمہ:  دعا تمام عبادتوں میں اشرف (اعلی ترین) عبادت ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جلاء الخواطر کی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:

اے اللہ کے بندو! عقل سیکھو، اپنے معبود کو اپنی موت سے پہلے پہچاننے کی کوشش کرو، اپنی حاجات مانگو، تمہارا دن رات اس سے مانگنا اس کی عبادت ہے۔

 

غیر اللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟

 

یا ایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا لہ وان یسلبہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب و المطلوب (الحج:  73-74)

ترجمہ:  لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔  کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہو جائیں۔  اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔  طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں

اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔  مشرکین عرب کو خطاب کر کے بتایا گیا ہے کہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:

وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔  تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسان کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔

انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔  مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔

قل افرءیتم ما تدعون من دون اللہ ان ارادنی اللہ بضر ہل ہن کاشفات ضرہ او ارادنی برحمة ہل ہن ممسکات رحمۃ قل حسبی اللہ علیہ یتوکل المتوکلون (الزمر:  38)

ترجمہ:  کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔  اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔  بھروسا رکھنے والے اسی پر بھروسا رکھتے ہیں

اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کر کے بتایا گیا ہے کہ:

وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کر سکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہو سکتے۔  مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔

وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔

مشرک کا بھروسا غیر اللہ پر ہوتا ہے۔

مومن کا بھروسا صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا یہ قول پڑھیے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی مخلوق کی کیا حیثیت ہے ایک بہترین مثال سے اس کو سمجھا رہے ہیں۔

تیرے دل کا لگاؤ مخلوق میں سے کسی چیز سے نہ رہے۔  اور تمام مخلوق کو اس شخص کی طرح بے بس اور عاجز سمجھ جس کو ایک بڑی سلطنت والے ایک بڑے رعب و دبدبے والے، ایک بڑی شان و حکم والے بادشاہ نے گرفتار کرایا ہو، اس شخص کی گردن میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں اور اسے ایک درخت کے ساتھ پھانسی لٹکا دے اور وہ درخت ایک ایسے دریا کے کنارے اگا ہوا ہے جس کی موجیں تیز اور جس کا پھیلاؤ وسیع اور جس کی گہرائی بہت ہو۔  پھر بادشاہ ایسے تخت پر بیٹھا ہو جس تک پہنچنا بہت مشکل ہو۔ نیز اس بادشاہ نے اپنے پاس تیروں، نیزوں اور کمانوں کا ایک ایسا انبار لگا رکھا ہو جس کا اندازہ بادشاہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ بادشاہ اس پھانسی پر لٹکے ہوئے شخص پر جس ہتھیار کو چاہے پھینک رہا ہے پس کیا اس شخص کے لیے جو یہ سب ماجرا دیکھے ممکن ہے کہ ایسے بادشاہ کی طرف سے نظر ہٹا لے، اس سے خوف نہ رکھے امید نہ رکھے بلکہ پھانسی لگے ہوئے شخص سے ڈرے اس سے امید رکھے، جو کوئی ایسا کرے گا وہ، جہاں تک عقل و سمجھ کا تعلق ہے، دیوانہ، مجنون، حیوان مطلق اور خارج از انسانیت نہ ہو گا؟ پس اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو بصیرت کے بعد (حق سے) اندھا ہونے سے، وصولی بارگاہ قدس کے بعد قطع ہونے سے، قرب کے بعد دوری سے، ہدایت کے بعد گمراہی سے، اور ایمان کے بعد کفر سے۔  (فتوح الغیب وعظ 17)

صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابو سفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔  غور سے پڑھیے!

قال ابو سفیان اعل ہبل (صنمہم الذی یعبدونہ)

ترجمہ:  ابو سفیان نے کہا:  ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)

فقال النبیﷺ اجیبوہ قالوا ما نقول

ترجمہ:  اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:  ’’کیا کہیں؟‘‘

قال قولوا اللہ اعلى و اجل

ترجمہ:  رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘

قال ابو سفیان لنا العزى ولا عزى لکم

ترجمہ:  اس پر ابو سفیان بولا:  ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)

فقال النبیﷺ اجیبوہ قالوا ما نقول قال قولوا اللہ مولانا ولا مولى لکم

ترجمہ:  اس پر رسول اللہﷺ نے حکم فرمایا:  ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:  ’’کیا کہیں؟‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ:  10)

دعا کے ذیل میں حضرت شیخ ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:

تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔  تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔  تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔  آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے

ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین (الاعراف -55)

یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔

کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔  (ملفوظات شیخ)

 

دو تصویریں

 

مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الٰہوں کو اپنا سفارشی اور متصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔

 

مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، پہلی مثال

 

ارشاد ربانی ہے:

فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجاہم الى البر اذا ہم یشرکون (العنکبوت:  65)

ترجمہ:  پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔  لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں

فرمایا:  فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچا دینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔

سنن نسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:

حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔  کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:

اخلصوا فان آلہتکم لا تغنی عنکم شیئا ہاہنا (سنن النسائی)

ترجمہ:  پورے اخلاص والے ہو جاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الٰہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آ سکتے۔

غلو کو شکار کیا کہتا ہے:

جہاز تاجراں گرداب سے فوراً نکل آیا

وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یا غوث اعظم کا

 

مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے، دوسری مثال

 

قرآن پاک میں آتا ہے:

قل ارایتکم ان اتٰکم عذاب اللہ او اتتکم الساعة اغیر اللہ تدعون ان کنتم صادقین() بل ایاہ تدعون فیکشف ما تدعون الیہ ان شاء وتنسون ما تشرکون() (الانعام:  40-41)

ترجمہ:  کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ موجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو

عن عمران بن حصین:  قال قال النبی صلى اللہ علیہ و سلم لابی کم تعبد الیوم الہا فقال ستة فی الارض وواحدا فی السماء قال فایہم تعد لرغبتک ورہبتک قال الذی فی السماء (سنن الترمذی)

ترجمہ:  حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میرے باپ سے پوچھا:  ’’آج کل تم کتنے الٰہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا:  ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے (کی)۔‘‘ رسول اللہﷺ نے (مزید) پوچھا:  ’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الٰہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:  ’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘

یعنی تمام امور میں وہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔  اب پڑھیے توحید ناواقف کیا کہتا ہے:

المدد یا غوث اعظم المدد یا دستگیر تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر

انت شافی انت کافی فی مہمات الامور انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل

یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔  وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔ بہترین سازگار۔

 

مشرکین مکہ شفا اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے، تیسری مثال

 

مشرکین عرب نے رسول اللہﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کر دیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:

لو رایت ہذا الرجل لعل اللہ یشفیہ على یدی (صحیح مسلم)

ترجمہ:  اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔

یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔ لا الٰہ کی حقیقت سے ناشناس کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:

شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے عجب دار الشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا

خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔  اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیر اللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔

 

شفاعت کس کو کہتے ہیں؟

 

مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔  وہ کہتے تھے:

ہؤلاء شفعاؤنا عند اللہ (یونس:  18)

ترجمہ:  یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔

شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔  دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا اس کی تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا اس کی چاہت کے سبب۔

وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا با اختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔

چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت (چاہت) ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔ یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کر لی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔  وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔  سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ

ترجمہ:  کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔

لا یملکون مثقال ذرة فی السموت ولا فی الارض

ترجمہ:  وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں

یعنی وہ قطعی بے حیثیت ہیں۔

وما لہم فیہما من شرک

ترجمہ:  اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے

و ما لہ منہم من ظہیر ()

ترجمہ:  اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے

ولا تنفع الشفاعة عندہ الا لمن اذن لہ حتىٰ اذا فزع عن قلوبہم قالوا ماذا قال ربکم قالوا الحق وہو العلی الکبیر()

ترجمہ:  اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔  یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کر دیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔  (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے

البتہ یہ ضرور ہے کہ روز محشر اللہ اپنے بعض بندوں کو گناہ گاروں کی شفاعت کی اجازت دیں گے۔  یہ شفاعت اللہ کا اپنے بندوں پر کرم ہو گا، اپنے نیک بندوں کا اکرام ہو گا۔

 

کرامت کی حقیقت

 

شرک کی بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کے پاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے کے اختیارات ہیں۔  اس عقیدے کی بنیاد بزرگان دین کی کرامتیں بنتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کرامت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس کے تحت نظام کائنات چل رہا ہے۔ مثلاً آگ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون کو جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔ بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون کو توڑ دیتا ہے۔  اس کو خرق عادت کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔ یہ خرق عادت اگر انبیا کے لیے ہوئی تو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی کے واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔  اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں کو ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہو جائیں اور اس کا مقابلہ نہ کر سکیں۔

معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ کے معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔  قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اس طرح آتا ہے:

انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ و ابریِ الاکمہ و الابرص و احی الموتیٰ باذن اللٰہ() (آل عمران -49)

ترجمہ:  میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کی مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔

اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:

کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انیٰ لک ھٰذا قالت ہو من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآء بغیر حساب

(آل عمران- 37)

ترجمہ:  جب بھی زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے، انہوں نے پوچھا، اے مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں؟ انہوں نے کہا اللہ کے پاس سے، بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔

کرامت کو حق ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی کے واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔  نبی یا ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔  اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کر سکتا۔  قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:

و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآء فتاتیھم بایٰۃ() (الانعام آیت- 35)

ترجمہ:  اور (اے حبیبﷺ) اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ۔

نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ کام کرنے والی ذات وہی ہے۔  اگر یہ اہم اصول واضح نہ ہو تو نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہو گئے۔  حالانکہ وہ تو اللہ کے حکم سے تھا۔ فرمایا و ابریِ الاکمہ و الابرص و احی الموتیٰ باذن اللٰہ (میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں)۔

سورہ انفال میں جہاں رسول اکرمﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریوں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمیٰ() (الانفال-17)

ترجمہ:  اور (اے محمدﷺ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔

یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔

اسی طرح اولیا کرام کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔  جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہو جاتی ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:

’’جب تم اپنی مرضی مولا کی مرضی میں مٹا دو گے تو پھر تم بشری اوصاف سے پاک ہو جاؤ گے تمہارا باطن ارادہ الٰہی کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (کن فیکون، تصرفات) اور خرق عادت (کرامات) کی نسبت تمہاری طرف کر دی جائے گی۔  تو وہ فعل و تصرف ظاہر عقل و حکم کے اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا حالانکہ وہ تکوین اور خرق عادت حقیقت میں اللہ کے فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘

معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔ انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔  ان کا اصلی کام دلوں کو تبدیل کرنا ہے۔ معجزوں یا کرامتوں کی حیثیت بس ایک ذریعہ کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک و مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان کو توحید کی حدوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف محض اللہ رب العزت ہی کو حاصل ہے۔

 

 حواشی  Notes

 

[←1]

:  در حقیقت اس حوالے سے وہ کلمہ گو مشرک سے بہتر تھے۔  مشرکین عرب ہر اس ضرورت کے لیے جو اسباب سے بالا تر ہے اللہ ہی کو پکارتے تھے۔  اس کے برخلاف کلمہ گو مشرک ہر حال میں غیر اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔

[←2]

:  لاحولَ ولا قوۃَ الا باللہ میں بھی حول اور قوۃ پر زبر سے یہی مراد ہے کہ ہماری کوئی طاقت (کسی طرح کی طاقت) نہیں ساری طاقت و قوت اللہ ہی کو حاصل ہے۔

[←3]

:  آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ کوئی بیمار شخص کسی بزرگ کو یوں پکارے کہ ڈاکٹر نے مجھے یہ دوا تجویز کی ہے آپ عطا کر دیجیے۔  وہ بھی جان رہا ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔  اس دوا سے صحت یابی حاصل ہو جانا جو اسباب سے بالا ہے یعنی مافوق الاسباب ہے اسی کے لیے وہ کسی برزگ کو پکارتا ہے۔ مزارات پر چندے کے صندوق بھی اسباب ہی کے ماتحت ہیں۔

[←4]

:  بزرگوں کی کرامتوں کے تذکرے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

[←5]

:  علم الغیب اس علم کو کہتے ہیں جو اللہ کا ذاتی علم ہے یعنی بغیر کسی کی مدد کے، ہر چیز کو محیط ہے، ہمیشہ ہمیشہ سے ہے، یعنی یہ نہیں کہ کبھی نہیں تھا اور اب ہے۔  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی مخلوق کے لیے اس طرح کا عقیدہ رکھنا اس کی صفت میں شریک ٹھہرانا ہے، یعنی شرک ہے۔  انبیا علیہم السلام کے علم بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان خاص بندوں کو بے شمار علوم عطا کیے ہے جن کا احاطہ کرنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔  خاص طور پر خاتم الانبیاﷺ کے بحر علم کے کنارے تک پہنچنا دیگر انبیائے کرام کے لئے بھی ممکن نہیں۔  لیکن ان کا یہ خاص مقام اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، محض اس کی عطا ہے۔  حدوثا ہے یعنی پہلے نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہوا۔

[←6]

:  انسان جب کسی انسان سے اس کے کسی کمال کی وجہ سے انتہا درجے کی محبت کرنے لگتا ہے تو اس کے اظہار لیے بہت سے کام کرتا ہے۔  آج کل کی دنیا میں اداکاروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ جو معاملہ ان کے مداح کرتے ہیں اس سے بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔

[←7]

:  مشرکین کے عقیدہ شفاعت میں یہی خیال کارفرما ہوتا ہے کہ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کام کرا سکیں۔

[←8]

:  عیسائیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ان میں خدائی قوتیں کارفرما نظر آئیں۔  وہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تو نہ کہہ سکے اللہ بیٹا کہہ دیا۔  کلمہ گو مشرک رسول اللہﷺ کو اور ولیوں اور بزرگوں کو اللہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں نہ ہی عیسائیوں کی طرح اللہ کا بیٹا البتہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ان میں مانتے ہیں۔

[←9]

:  آج کل شرک کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے عطائی طور پر عالم الغیب ہیں۔  عطائی طور پر تصرف کا اختیار بھی ان کو حاصل ہے۔

[←10]

:  غور کریں اہل حق اور اہل ہوی کا یہ فرق آج بھی موجود ہے۔  ایک طرف اللہ ہی اللہ دوسری طرف غیر اللہ!

٭٭٭

ماخذ: توحید ڈاٹ کام

http://tohed.com/توحید۔و۔عقائد/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل