FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شاعراتِ ارضِ پاک

        (حصہ چہارم)

(تنقیدی مضامین و منتخب کلام)

               شبیر ناقِدؔ




زیب النساء زیبیؔ کے بیتِ حزن

غم ایک لازوال اور فطری جذبہ ہے حزنیہ افکار کم و بیش ہر شاعر اور شاعرہ کے شعری شعور کا حصہ ہوتے ہیں غم و الم سے عبارت کلام ہر عہد اور ہر رت میں ہر دلعزیز اور مقبول رہتا ہے حزن و ملال سے منسوب شاعری تا دیر زندہ رہتی ہے اور اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں جس طرح ہر تخلیق کار اپنے سماج کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے اس کے تخلیق کردہ ادب میں بھی ایک سماجی کرب پنہاں ہوتا ہے اسی طرح ایک شاعرہ بھی اپنی معاشرت کی عکاس ہوتی ہے۔ معاشرے کے دکھ درد کا بیان اس کی قوتِ متخیلہ کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک شاعرہ صنف نازک ہونے کی وجہ سے زیادہ حساس ہوتی ہے اس لیے اس کے سخن میں اس کے ذاتی مصائب و آلام کے ساتھ ایک سماجی کرب بھی شامل ہوتا ہے زیب النساء زیبیؔ کے کلام میں بھی حزنیہ جذبات و احساسات وفور سے پائے جاتے ہیں جن میں کچھ حوالے ذاتی نوعیت کے ہیں تو کچھ اجتماعی۔ ذات سے لے کر کائنات تک ایک طویل مسافت ہے غم کے کئی روپ ہیں جن میں غمِ جاناں ، غمِ دوراں اور غمِ ذات شامل ہیں اس شذرے میں ہم ان کے حزنیہ تخیلات کی نسبت سے رقم طراز ہیں ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’دل میں ہیں آپ‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ ہیں۔

جب طبیعت غموں کی اسیر ہو جاتی ہے۔ جب مزاج پر الم کی حکمرانی ہو تو خوشیاں بھی حزن و ملال کا پیش خیمہ معلوم ہوتی ہیں پھر انسان یاسیت و قنوطیت پسند ہو جاتا ہے پھر ہر سو مصائب و آلام کے مناظر مہیب لگتے ہیں جب ہر جانب نفسا نفسی کا دور دورہ ہو تو پھر زندگی کرنا مشکل ہو جاتا ہے ایسی صورت احوال میں انسان کا شہنازِ مرگ کو خوش آمدید کہنے کو جی کرتا ہے اسی حوالے سے ان کی ایک غزل کے دو اشعار غمازی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں   ؎

آج پھر خوب مسکرائے ہم

ایک خبر غم کی کوئی آنی ہے

دیکھ کر کیا کہیں زمانے کو؟

اب تو مرنے کی ہم نے ٹھانی ہے

غم کے ذاتی حوالوں کی نسبت ان کے ہاں اجتماعی حوالے وفور سے پائے جاتے ہیں وہ اپنی ذات کی نمائندگی کی بجائے اپنے سماج کی ترجمانی کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں ان کے ہاں ایک عصری کرب ہے جو نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے جس میں ہر غم کی کہانی ہے غمِ معاش کی بپتا بھی ہے اور احساسِ تنہائی بھی شدید نوعیت کا ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں   ؎

ہر قلب میں غموں کا سمندر ہے موجزن

اپنے ہی غم میں ہر کوئی ڈوبا دکھائی دے

فکرِ معاش کا وہ بھیانک عذاب ہے

ہر شخص خودکشی کا سراپا دکھائی دے

کہنے کو ہر طرف ہے بھرے شہر کا سماں

دل ہے کہ اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے

ان کی حزنیہ طرز فکر کی حامل ایک غزل بدونِ تبصرہ زیبِ قرطاس ہے   ؎

فکر کیا آ گئی اگر باری؟

کر چکے ہم بھی اپنی تیاری

ان کے لفظوں کی تھی گراں باری

جس کا رد عمل ہے بیزاری

اور دیتے ہیں زخمِ دل کو ہوا

غم گساری بھی اک ہے مکاری

اپنے غیروں کی طرح ملتے ہیں

اب کہاں باہمی روا داری؟

سامنے آ کے اس نے وار کیا

وہ بھلا بیٹھا رسم وفا داری

سچ بھی اک جرم ہے کہ اپنے بھی

اب نہیں آفادۂ دل آزاری

وہ رہا ساتھ اجنبی کی طرح

عمر تنہا گزر گئی ساری

ساتھ دونوں ہیں بے ضرورت کیوں ؟

ساتھ دینا بھی ہو گیا بھاری

دوستی نام ہے خسارے کا

اب کہاں جذبۂ وفا داری؟

کیوں گماں ہو تری محبت کا؟

یہ محبت ہے یا ہے فنکاری

دوست عنقا ہیں زیبیؔ دنیا میں

کوئی کرتا نہیں ہے غم خواری

ان کے ہاں صرف ذات کا ادراک ہی نہیں وہ اپنے ارد گرد کے مصائب و آلام کو بھی موضوعِ سخن بناتی ہیں جہاں کی بے چینی اور اضطراب ان کے مشاہدات کا حصہ ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کا مطلع لائق توجہ ہے   ؎

بے رنگ سے جو چہرے ہیں کو بہ کو

تلخی کوئی سماج میں ابھری ہے چار سو

ان کا کرب و سوز سماجی روئیوں کی غمازی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ان کا درد و غم عمومیت کا مظہر بھی ہے اور سماج کے دوسرے معائب کی بھی عکاسی کرتا ہے انہیں جب خلوص و وفا کا قحط نظر آتا ہے تو پھر وہ مجبورِ نوا ہو جاتی ہیں   ؎

یہ بھولی بھالی جو صورتیں ہیں

دلوں میں پنہاں عداوتیں ہیں

کسے کہیں اپنا کس کو چاہیں ؟

کہ دل میں سب کے کدورتیں ہیں

زیب النساء زیبیؔ کے تخیلات سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حزن و ملال کا سرمایہ وافر ہے یہی غم و الم ان کے شعری شعور کو مزید تحریک دیتا ہے۔

٭٭٭

 

               زیب النساء زیبیؔ

امیرِ شہر نے تانی ہیں اپنی شمشیریں

کہ اہلِ فن کے لیے بن رہی ہیں زنجیریں

ہمارے پاس نہ سرمایہ اور نہ جاگیریں

ہمارے پاس ہیں ، خوابوں کی صرف تعبیریں

ہوا کے رخ پہ جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں

کبھی بدلتی نہیں اہلِ حق کی تقدیریں

ہمارے بچے ہی سچائی کی علامت ہیں

کہاں ملیں گی یہ معصومیت کی تصویریں ؟

جو اہلِ فن ہیں انہیں دوستو! سلام کرو

ہیں ان کے پاس ہنر مندوں کی جاگیریں

یزیدِ وقت کی بیعت بھی کیوں کریں زیبیؔ

ہمیں قبول ہیں ظلم و ستم کی زنجیریں

وہ خواب دیکھیے زیبیؔ کہ جن کا حاصل ہوں

سدا بہار خلوصِ وفا کی تعبیریں

٭٭٭

 

کبھی جو تم سے ملاقات ہو گئی ہوتی

تو تیز دھوپ میں برسات ہو گئی ہوتی

جو ساتھ ان کے مری ذات ہو گئی ہوتی

نگاہِ شوق بھی سوغات ہو گئی ہوتی

شکست و ریخت سے میں بھی اگر گزر جاتی

تو کامیاب مری ذات ہو گئی ہوتی

غموں سے دل بھی اگر میرا بھر گیا ہوتا

تو آنسوؤں کی بھی برسات ہو گئی ہوتی

ذرا سی دیر بھی زیبیؔ جو ان سے مل سکتے

خوشی ہی زیست کی سوغات ہو گئی ہوتی

٭٭٭

 

سیمیںؔ  برلاس اور عصری رویے

کسی بھی سخنور کی کامیابی کا راز اس امر میں مضمر ہوتا ہے کہ اُس کے سخن میں اپنے عہد کی ترجمانی کسی حد تک پائی جاتی ہے اور اس کے ہاں عصری روئیوں کا اظہار کس قدر ہے عصرِ حاضر میں جہاں بہت سی شاعرات اپنی شعری صلاحیتوں کو چند روایتی رومانوی تخیلات کی نذر کر رہی ہیں وہاں معدودے چند شاعرات ایسی بھی ہیں جن کے ہاں زمانی تقاضوں اور عصری روئیوں کا بھرپور اہتمام ملتا ہے جو ایک مستحسن قدر ہے ایسی معتبر ہستیوں میں ایک نام سیمیںؔ  برلاس کا ہے جن کا اصل نام نور الصباح برلاس ہے ان کے والد معظم برلاس پیشہ کے اعتبار سے بینکر ہیں تبادلوں کے باعث انہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں اقامت پذیر ہونا پڑا سیمیںؔ  برلاس کو بھی اپنے تعلیمی مراحل کوئٹہ، حیدرآباد، راولپنڈی اور کراچی میں مکمل کرنا پڑے انہوں نے میڈیکل کے شعبے میں فزیو تھراپی کے شعبے کو منتخب کیا اور مختلف ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں جنوری 1982ء میں ابوظہبی آرمڈ فورسز ہسپتال نے ان کی خدمات مستعار لیں تا دم تحریر وہیں مصروفِ خدمت ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’ندا‘‘ مطبوعہ فروری 1983ء کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں کتابِ ہٰذا کے حوالے سے درخشاں برلاس کیف بنارسی، محسن بھوپالی اور جون ایلیا جیسی جلیل القدر شخصیات کی گراں قدر آراء ثبت ہیں مجموعہ ہٰذا میں غزلیات، پابند اور آزاد نظمیات شامل ہیں۔

عصری بے مروّتی کا مذکور اُن کے ہاں بھرپور انداز میں ملتا ہے جس کے باعث وہ عمرانی روئیوں کو ہدف تنقید بناتی ہیں خلوص و مروّت امن و آشتی کا آدرش اُن کے فکری کینوس سے جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ نفسا نفسی کے اس پر آشوب عہد میں محبتوں کی امین ہیں یہی امر اُن کے لیے فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے جس کے باعث ان کی حیات کٹھنائیوں سے عبارت ہو گئی اور اہل جہاں مائل بہ احتراز نظر آئے بقول ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ   ؎

ہم پڑھاتے رہے ہیں کتابِ وفا

ہر جفا کار ہم سے خفا رہ گیا

بقول راقم الحروف   ؎

اے خدا کس دیس میں ہم آ گئے؟

پیار عنقا ہے جہاں نفرت فزوں

اسی احساسِ فکر کی ترجمانی سیمیںؔ  برلاس کی ایک غزل کے مطلع میں ملاحظہ کریں   ؎

بھنور میں چھوڑ گئے ساتھ سب سہارے بھی

کنارہ کرنے لگے ہم سے یہ کنارے بھی

عصری چیرہ دستیوں کے شواہد شدت وحدت کے ساتھ اُن کے مشاہدات کا حصہ ہیں اس لیے اُن کے افکار میں حزن و ملال اور یاسیت و قنوطیت کا رنگ پایا جاتا ہے جس کی شدت قاری کو اپنے حصار میں لینے لگتی ہے اُن کے لیے چارہ جو یا چارہ گر یا مسیحا نفس کی بازیافت محالات کا حصہ ہے شومیِ قسمت کے باوجود بھی فریبِ قلب جینے کی ایک نئی شکتی دیتا ہے مگر چاہتوں اور الفتوں کی جگہ انا کا براجمان ہونا اعلیٰ اخلاقی اقدار کی زبوں حالی کا شاخسانہ ہے اُن کے ہاں جہاں بے ثباتیِ حیات ایک لمحۂ فکریہ ہے وہاں ایک رجا کا پیغام بھی ہے مصائب و آلام سے رستگاری کی نوید بھی ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

سر پہ ہے دھوپ اور کہیں سائباں نہیں

رستہ کٹھن ہے اور کوئی مہرباں نہیں

گو بار ہا نصیب نے دھوکہ دیا ہمیں

خوش فہم دل ہے ایسا بھی بد گماں نہیں

خود داریاں بڑھیں تو بڑھے اور فاصلے

اب سلسلہ سلام کا بھی درمیاں نہیں

پل بھر قیام کر کے مسافر چلے گئے

اب گردِ کارواں ہے مگر کارواں نہیں

اجتماعی احساسِ جرم نے وہ مہیب صورت اختیار کی ہے کہ احساسِ فوقیت جاتا رہا اور انسان کو عدالتِ دروں میں عقوبت خیز زیست بسر کرنی پڑی جب چار سو جرم کی گہما گہمی ہو ہر طرف ظلم کی حکمرانی ہو پھر معاملہ سپاٹ سا ہو کر رہ جاتا ہے پھر ایسے میں فقط فردِ واحد لائقِ سزا نہیں رہتا بھرا پورا سماج سزاوارِ عقوبت ہو جاتا ہے اسی کشاکش کا مظہر ان کی غزل کا یہ شعر لائقِ التفات ہے   ؎

یہاں تو سارے مجرم ہیں کسے سنگسار کرنا ہے؟

اُٹھا کر ہاتھ میں سب لوگ پتھر بھول جاتے ہیں

میکانی طرزِ حیات نے جہاں حیاتِ انسانی کو بہت سی میکانی سہولیات و تعیشات سے نوازا ہے وہاں اخلاقی اقدار کی پامالی کا سبب بھی بنی ہیں جس سے بہت سے نفسیاتی مسائل اجاگر ہوئے ہیں اخلاق و مروّت سے عاری ہو کر انسان مشین کا ایک بے جان پرزہ بن کر رہ گیا جو اپنی ذات میں آزاد نہیں بلکہ اجتماعی میکانی عمل کے نتیجے میں متحرک ہوتا ہے جس کے باعث عصرِ حاضر کا جدید انسان شدید قسم کے احساس تنہائی میں مبتلا ہے اور یہ ابتلا کسی سماجی سانحے سے کم نہیں اس لیے انسان زیست اور مشیت سے شاکی اور نالاں نظر آتا ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کے دو اشعار اقلیمِ قلب و خرد پر دق الباب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں   ؎

اب پاس نہیں کوئی شناسا کوئی ہمدم

اک زخم شناسائی کی تقدیر ہوا ہے

دل ہے کہ یہ پہلو میں کوئی پھانس چبھی ہے

ہر سانس کہ چلتی ہوئی شمشیر ہوا ہے

حزنیہ شعری طبع جہاں اُن کے فکری کینوس پر چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہاں اُن کے ہاں رجائی حوالے زندگی کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں اُن کے شعری مخزن میں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں ہے جن میں آس کی شمعیں جگمگا رہی ہیں اور زندہ رہنے کی جسارتیں مصمم عزائم کے ساتھ جلوہ ریز ہو رہی ہیں ایسے تخیلات عصری مقتضیات کا حصہ ہیں اُن کے آدرش میں ایک دعوتِ غور و خوض اور فکر و عمل ہے جس کے باعث نبضِ حیات تپش آمادہ رہتی ہے اُن کے اس قبیل کے اشعار ذیل کی تمثیلات میں دیدنی ہیں   ؎

میرا وجود مٹانے سے مٹ نہیں سکتا

مٹائے لاکھ زمانہ مجھے مٹانے کو

فلک کبھی میری قسمت بدل نہیں سکتا

میرا عمل ہے مری زندگی بنانے کو

کلفتوں سے ڈر کے ہمت ہارنا کیا چیز ہے؟

زندگی ہے بڑھ کے ہر طوفاں سے ٹکرانے کا نام

غور کیجیے تو یگانہ ہے نہ بیگانہ کوئی

پیار ہے سارے جہاں کے درد اپنانے کا نام

متذکرہ تصریحات شاہد ہیں کہ سیمیںؔ  برلاس کے کلام میں زمانی رجحانات، امکانی مقتضیات، ادراکِ زیست اور عصری روئیوں کا عمیق و بسیط شعور کار فرما ہے یہ امر انتہائی خوش آئیند ہے کہ دیگر ہم عصر سخنوروں کی طرح انہوں نے عمومی احساسات کو جادۂ منزل نہیں بنایا بلکہ فرسودہ تخیلات کی تردید کی ہے مزید شعری ریاضت اُن کے فکر و فن کو فزوں تر جاذبیت سے ہم آغوش کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

٭٭٭

 

               سیمیںؔ  برلاس

کچھ منتشر سی سوچیں کچھ خواب ٹوٹے پھوٹے

اپنے سفر میں راہی تارے بھی نکلے جھوٹے

آنکھیں اُداس ہیں پر چہرے پہ ہے تبسم

اے چاند تو نے دیکھا سکھ ہم نے کتنے لوٹے؟

خاموش ہوں تو کیسے شکوہ کریں تو کیوں کر؟

خوشیوں کے سب خزانے اپنوں نے ہم سے لوٹے

اک آس کے سہارے جی تو لیے ہیں ورنہ

ہم جانتے تو تھے ہی سپنے ہیں سارے جھوٹے

یوں تو یہاں ہیں سیمیںؔ  ہمدرد سب ہی لیکن

لفظوں میں ہے بناوٹ وعدے ہیں ان کے جھوٹے

٭٭٭

 

پھول کھلے نہ بادل برسے

ساون کے دن آئے عبث

زخم جگر تو بھر گئے کب کے؟

مرہم تم اب لائے عبث

پتھر لوگ ہیں کانچ کے گھر میں

ایسے شہر بسائے عبث

اندھی نگری چوپٹ راج

اس جگ میں ہم آئے عبث

جو بے حس ہیں سیمیںؔ  ان کو

آئینہ تو دکھلائے عبث

٭٭٭

 

سحرؔعلی کی شانِ معاملہ بندی

اقلیمِ شعر و سخن کے حوالے سے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے شعری مخزن میں صنائع بدائع اور رموز و وقائع معدوم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ متقدمین و متوسطین انہیں فنِ شاعری کا جھومر گردانتے تھے اس لیے کلاسیکی اور نیم کلاسیکی شعراء کے ہاں ان کا اہتمام باضابطہ طور پر نظر آتا ہے اس لیے ان کی شعری مقبولیت اور پسندگی میں ان اسباب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے انہیں صنائع بدائع میں ایک صنعتِ معاملہ بندی بھی ہے معاملہ بندی سے مراد محبوب کے حوالے سے بات چیت اور چھیڑ چھاڑ کے پہلو بہ پہلو اُسے زچ کرنے کے امور بھی شامل ہیں علاوہ ازیں صاف گوئی کو بروئے کار لاتے ہوئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دینا بھی اس کا خاصہ ہے گویا محبوب سے بلا تکلف مکالمہ بھی معاملہ بندی کی ذیل میں آتا ہے رومان نگاری کی نسبت سے معاملہ بندی کی اہمیت مسلمہ ہے اس لیے جب رومانوی تحریک زوروں پر تھی تو اُس عہد کے شعراء کے ہاں معاملہ بندی کی تمثیلات نادر النظیر اور پورے کر و فر سے ملتی ہیں حکیم مومن خان مومنؔ کا شعری کینوس بھی معاملہ بندی سے مملو ہے اس حوالے سے ان کا یہ شعر بے حد مقبول ہے    ؎

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

مذکورہ شعر کے حوالے سے روایت مشہور ہے داد دیتے ہوئے مرزا غالبؔ نے کہا تھا ’’میاں میرا پورا دیوان لے لو اور یہ شعر دے دو‘‘ گویا خراجِ تحسین کا یہ ایک بھرپور انداز تھا اس طویل تمہید کا مقصد معاملہ بندی کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم سحرؔ علی کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کے کلام میں معاملہ بندی کا التزام پایا جاتا ہے اور یہ رمز ان کی شعوری کوشش نہیں ہے بلکہ ان کے سخن کا فطری لازمہ ہے جس میں محاورہ اور معاملہ بندی کے عناصر نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں یہ کیفیت اس قدر کثرت سے کیسے در آئی اُن کے سوانحی حالات سے بخوبی روشنی پڑتی ہے واقعہ یوں ہے کہ اُن کے شوہرِ مالوف شادی کے بعد جلد انہیں داغِ مفارقت دے گئے تھے جس کی وجہ سے اُن کا کلام مکالمے کا حاملِ نظر آتا ہے سحرؔ علی کا تعلق کراچی سے ہے ہم ان کے پہلے شعری مجموعہ مطبوعہ 2001ء ’’تمہارے غم کے موسم میں ‘‘ کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار شامل تجزیہ کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کا نام بھی فطری معاملہ بندی کا آئینہ دار ہے کتاب ہٰذا کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی، سرشار صدیقی، خالد علیگ اور ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کی آراء ثبت ہیں۔

اُن کے گنجِ شعر میں محبوب کی ستمگری، بے وفائی، کج ادائی اور بیم و رجا کے عمیق حوالے ملتے ہیں اور بڑے لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا حزن بھی مسرت آمیز، لطف انگیز اور نگہت بیز ہے اس سے معاملہ بندی کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے چار اشعار دیدنی ہیں    ؎

نہ باتیں یاد رہتی ہیں نہ وعدے یاد رہتے ہیں

وہ سب کچھ بھول جاتا ہے نظر جس دم بدلتا ہے

تری فرقت کے یہ آنسو کسی دن رنگ لائیں گے

خزاں کو فصلِ گل میں گریۂ شبنم بدلتا ہے

تری آمد پہ لوٹ آتی ہیں جو ڈوبی ہوئی نبضیں

سرودِ سر خوشی میں نوحۂ ماتم بدلتا ہے

لبوں پہ اُس کے لہراتی ہے جب اک مسکراہٹ سی

سحرؔ مجھ میں ہجومِ یاس کا موسم بدلتا ہے

معاملہ بندی کے پہلو بہ پہلو اُن کے ہاں ایک زبردست قسم کی رومان نگاری ہے رومانوی حوالے سے اُن کے تخیلات عمومی اور روایتی نوعیت کے ہیں بلکہ ایک ندرت فکر ہے جو آشکار ہو رہی ہے جس میں وفا شعاری بھی ہے اور جاں سپاری بھی ہے اسی نسبت سے اُن کی ایک غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں   ؎

وہ تو سمتوں میں بٹ گیا ہے مگر

میں کہ اب تک ہوں اُس کے محور میں

مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ بھی اُن کے بے شمار اشعار ہیں جو معاملہ بندی کی حسیں پاسداری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں   ؎

شب تری جدائی پر

رو پڑا ہے موسم بھی

مہرباں بھی وہ مجھ پر

اور مجھ سے برہم بھی

مجھ کو ہر سوال اس کا

صاف بھی ہے مبہم بھی

٭

سحرؔ لگتا ہے کیوں اچھا؟

مجھے اس کا ستم سہنا

سحرؔ علی نے زیادہ تر مفرد بحور میں طبع آزمائی کی ہے عروضی تلازمات کا اہتمام بخوبی ملتا ہے متذکرہ استخراجات اس امر کی شاہدِ عادل ہیں کہ ان کا کلام اپنے اندر ایک شانِ معاملہ بندی سموئے ہوئے ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر اپنے فنِ شعر میں دیگر صنائع بدائع کی فضا قائم رہے تو فکری و فنی اعتبار سے اُن کا کلام مزید حسن کا حامل ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

               سحرؔ علی

محبت کی نشانی میں نہیں ہوں

میں خود اپنی کہانی میں نہیں ہوں

دیا روشن ہے دل کے غم کدے کا

ہواؤں کی روانی میں نہیں ہوں

مجھے پہچان ہے اپنے عدو کی

خمارِ بدگمانی میں نہیں ہوں

بڑے آرام سے دن کٹ رہے ہیں

تمہاری مہربانی میں نہیں ہوں

یہ تنہا زندگی میری سلامت

کسی کی زندگانی میں نہیں ہوں

مری مٹی عبارت ہے دکھوں سے

خوشی کی ترجمانی میں نہیں ہوں

قیامت ہیں اندھیرے زندگی کے

سحرؔ کی ضو فشانی میں نہیں ہوں

٭٭٭

 

عاشقی میں کیا بدلا میرے آشنا کا رنگ؟

زندگی کے آنچل سے اڑ گیا وفا کا رنگ

راستہ بدل ڈالا میں نے اپنے خوابوں کا

دوستی کی آنکھوں میں دیکھ کر جفا کا رنگ

جانے کب بدل جائے ناگہاں مزاج اس کا؟

جس طرح بدلا ہے دفعتاً ہوا کا رنگ

کانچ کا بدن لے کر سنگ سے الجھنا کیا؟

تم نے کیا نہیں دیکھا عشق میں سزا کا رنگ؟

شب کی سیج پر جونہی لی سحرؔ نے انگڑائی

خواب کی ہتھیلی سے مٹ گیا حنا کا رنگ

٭٭٭

 

شاہدؔہ لطیف، لطیف جذبات کی شاعرہ

ایسے تمام جذبے جو مسرور کن، پر کیف، خوشگوار رجائیت آمیز اور لطافت سے لبریز ہوں لطیف جذبے کہلاتے ہیں عصرِ حاضر میں حیاتِ انسانی مسائل کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے اور زندگی کرنا جوئے شیر لانے کا مثیل ہے جس کی بدولت اجتماعی ذہنی تناؤ نمو پاش ہوا ہے ایسی صورت احوال کے باوجود بھی جو لوگ احساسِ طرب اور رجائی امکانات رکھتے ہیں وہ یقیناً قابلِ قدر ہیں ایسے درخشاں ستاروں میں ایک نام شاہدؔہ لطیف کا بھی ہے جن کی زیست ہمت و حوصلے کی ایک ولولہ انگیز داستان ہے ان کا تعلق اسلام آباد سے ہے ’’اورسیز انٹرنیشنل‘‘ نامی جریدے کی ادارت بھی کر رہی ہیں انہوں نے انتہائی سرعت کے ساتھ اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی اور نسائی شعری ادب میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں آج ہم اُن کے اولین شعری مجموعہ ’’معجزہ‘‘ مطبوعہ 1999ء میں سے منتخب غزلیہ اشعار شامل تجزیہ کرتے ہیں تنقیدی اکائی کے طور پر کتابِ ہٰذا کا ربع اول شاملِ شذرہ کرتے ہیں اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

عصرِ حاضر پر آشوب زدگی اس قدر محیط ہے حال کے غم کے ساتھ ساتھ فکرِ فردا مہیب صورت اختیار کر گئی ہے جس سے خزینہ شعری ادب کو فروغ میسر آیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں طربیہ ادب اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گا اس لیے ایسے شعراء و شاعرات کا دم غنیمت ہے جن کے ہاں لطیف انداز میں رجائی تاثرات ملتے ہیں انہیں احبابِ تگ و تاز میں شاہدؔہ لطیف بھی شامل ہیں جنہوں نے تلخ حقائق کو مسلمہ گردانتے ہوئے بھی نگہت بیز شاعری کی ہے اس تناظر میں ان کی ایک پوری غزل زیبِ قرطاس ہے   ؎

وحشت ہے کہ حسرت ہے خدا خیر کرے گا

دنیا کی جو حالت ہے خدا خیر کرے گا

آنکھیں میری دیکھیں گی تماشا یہ کہاں تک؟

ہر سمت میں نفرت ہے خدا خیر کرے گا

ہنگامہ سا رہتا ہے یہاں شام سویرے

ہر شخص بہ عجلت ہے خدا خیر کرے گا

میں شاہدؔہ دنیا کو جنت سا بنا دوں

میری تو یہ نیت ہے خدا خیر کرے گا

حالات کی آشوب زدگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی بہتر توقعات رکھتی ہیں یہ لطیف احساس عمیق رجائیت کا حامل ہے وہ دنیا کے ہر نظریاتی فرد کی طرح سنسار کو مثالی بہشت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں جو ہر سچے اور کھرے تخلیق کار کی پہچان ہے۔

رومانوی حوالے سے بھی اُن کے ہاں لطیف احساسات وفور سے ملتے ہیں جیسے خیالات کا ایک حسیں جشنِ طرب سجا ہوا ہو ان کا قاری زندگی کی بیزاری سے بہت دور رہتا ہے ان کے ہاں ایک نئی امید اور نیا ولولہ ملتا ہے لمس کی لذت سے وہ موسم کا نکھار مشاہدہ کرتی ہیں اس طرح آنکھوں کے رستے سے دل تک کی مسافت طے ہوتی ہے محبوب کا تقرب مشامِ جاں کو معطر کرتا ہے اور روح کو سرشاری سے نوازتا ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

تھاما جو اُس نے ہاتھ موسم نکھر گیا

آنکھوں کے رستے میرے دل میں اُتر گیا

میں اُس کے ساتھ ساتھ بڑی دور تک رہی

وہ اجنبی تو روح میں خوشبو سی بھر گیا

اُن کی قوتِ متخیلہ لطیف احساسات کی کھوج میں رہتی ہے اس لیے کہیں وہ فضا میں آنچل لہرانے کی بات کرتی ہیں تو کہیں انہیں موسمِ گل شرماتا ہوا دکھائی دیتا ہے زیست کی قوس قزح کے رنگوں میں چاہت کا رنگ ہی انہیں مرغوب ہے بقول راقم الحروف   ؎

زندگی کی بھیڑ میں اب کھو گئیں رعنائیاں

رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں سب محبت کے سوا

ان کے ہاں ایک خود اعتمادی کی فضا خارزارِ ہستی میں وہ اپنے کردار سے بخوبی واقف ہیں اس لیے وہ محبتوں کی بات کرتی ہیں   ؎

میرا انچل فضا میں لہرایا

موسمِ گل تمام شرما گیا

سب دھنک اوڑھ کر سوالی ہیں

رنگ چاہت کا ایک ہی بھایا

وہ پر کیف انداز میں امیدوں اور تمناؤں کا درس دیتی ہیں ان کے شعری مخزن میں بے پناہ جسارتیں ہیں عزم و حوصلے کی داستان ہے جو سدا بہار اور پل پل جوان ہے اس لیے ان کا قاری یاسیت و قنوطیت سے مبرا و ماورا رہتا ہے   ؎

حوصلے ہوں بلند راہوں میں

منزلوں کے نشاں بھی ملتے ہیں

اُن کی رودادِ حیات رجائیت سے لبریز ہے ان کی فکر نشاط انگیز ہے جہاں کی ظلمتیں انہیں خوفزدہ نہیں کرسکتیں کسی بھی صنفِ نازک کے ہاں ایسے خیالات کا ہونا لطف آمیز ہے اور خوش آئند ہے   ؎

نہیں ہے تیرگی کا خوف ہر گز

ہمیں روشن ستارا مل گیا ہے

رواں ہے شاہدؔہ اپنا سفینہ

اسے دریا کا دھارا مل گیا ہے

الغرض شاہدہ لطیف نسائی شعری ادب میں ایک لطیف آواز ہے جس کی گونج شعری تاریخ کے ہر عہد میں ترو تازہ رہے گی۔

٭٭٭

 

               شاہدؔہ لطیف

خواب گلاب ستارے کیسے؟

دریا موج کنارے کیسے؟

نظریں دھوکہ کھا جاتی ہیں

بدلیں رنگ نظارے کیسے؟

ہم ہوں گے یا سورج ہو گا

سورج رات اُتارے کیسے؟

پھولوں کی خوشبو کے بدلے

ملتے ہیں انگارے کیسے؟

دنیا خود تخلیق ہے اپنی

ہمدم کون سہارے کیسے؟

٭٭٭

 

دل میں اک ارمان ابھی تک زندہ ہے

تجھ سے وہ پیمان ابھی تک زندہ ہے

قائم دائم ہے یہ دنیا آج تلک

چاہت سے انسان ابھی تک زندہ ہے

میری سوچ خیالوں میں ہے وہ اب تک

یادوں کا طوفان ابھی تک زندہ ہے

اپنا اپنا سا لگتا ہے جانے کیوں

وہ جو تھا انجان ابھی تک زندہ ہے

جانے کیسا گیت فضا میں گونجا تھا؟

اس کی لے اور تان ابھی تک زندہ ہے

٭٭٭

 

شاہینہ عندلیبؔ روایتی طرزِ فکر کی شاعرہ

عصری ادب کا ایک سنگین المیہ ہے کہ روایتی طرزِ فکر کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ روایت ہر ادب کے قصر کی خشتِ اول ہوتی ہے جس پر اس کی پوری عمارت استوار ہوئی ہے ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ ہر اچھے ادب کی بنیاد روایت ہوتی ہے لیکن یارانِ جہاں اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں خواہ مخواہ کا جدت کا زعم پروان چڑھ رہا ہے اور بہت سی تخلیقات اس کی بھینٹ چڑھ کر اپنا سوادِ اعظم کھو چکی ہیں ہم جدت کے منکر نہیں جدت کے تقاضے نبھانا ہر کہ و مِہ کا کام نہیں ہے معدودے چند شعرا و شاعرات کے ہاں جدت کے شواہد ملتے ہیں جدت کے جنون میں کئی شعراء و شاعرات کے کلام کی لطافتیں مسخ ہو جاتی ہیں الفاظ اور خیالات کا گورکھ دھندہ یا چوں چوں کا مربع بنانا قطعاً جدت نہیں ہے بلکہ کلام کی جمالیاتی حسیات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے زعمِ جدت کے اس عہد میں ایسے جی داروں کی چنداں کمی نہیں ہے جنہوں نے گیسوئے روایت سنوارنے میں شب و روز صرف کیے ان کی محنتِ شاقہ اور شبانہ روز کاوشوں کے علی الرغم روایت بصد افتخار سر اُٹھانے کے قابل ہے ایسے اصحابِ تگ و تاز میں شاہینہ عندلیبؔ کا اسمِ گرامی لائقِ صد احترام ہے جن کے ہاں روایت کی پاسداری پورے کروفر سے ملتی ہے جن کا اسلوبیاتی اور فکری طرزِ اظہار روایت کا حسین شاہکار ہے جن کے ہاں تخیلات فطری عمومی اور نجی سطح کے حامل ہیں جنہوں نے اپنی عرق ریزیوں کی بدولت روایت کے حسن کو دوچند کرنے کی حتی المقدور سعیِ جمیل کی ہے شاہینہ عندلیبؔ چند سال قبل شعری افق پر نمودار ہوئیں ان کا پیدائشی نام شاہینہ کوثر ہے والد کا نام سید محمد ارشاد  ہے ان کا تعلق ایک سید خانوادے سے ہے یکم جنوری 1963ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں مارچ 1989ء میں سید الیاس نقوی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور ڈیرہ غازی خان میں اقامت اختیار کی اولاً معاشرتی موضوعاتی نوعیت کی پیروڈیاں لکھیں رفتہ رفتہ نظم کی دیگر اصناف کی طرف قدم بڑھایا طاہرہ سوزؔ (مرحومہ) وحید تابش  اور جاوید احسن کے اسمائے گرامی راہنمائی کرنے والوں میں شامل ہیں۔

2012ء میں بعنوانِ ’’سفیرِ شب‘‘ ان کا اولین شعری مجموعہ منصہ شہود پر آیا جاوید احسن، ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اور ثمینہ ناز کی جلیل القدر آرا، کتابِ ہٰذا کا حصہ ہیں مجموعہ ہٰذا میں غزلیات و نظمیات و قطعات اور ہائیکو شامل ہیں ان کے ہاں انگریزی الفاظ کا چلن بھی کہیں کہیں ملتا ہے جو ان کی جہاں انگریزی زبان دانی کا غماز ہے وہاں تنقیدی و ادبی حوالے سے کوئی اچھا شگون نہیں ہے مجموعی طور پر ان کا اسلوب سہل نگاری کی روایت کا حامل ہے مگر کہیں کہیں دقیقہ سنجی کے خفیف مظاہر بھی ملتے ہیں جو شوکتِ الفاظ کے باعث اسلوب کی شان بڑھا رہے ہیں آزاد نظمیں بھی ہیں اور پابند نظمیں بھی مگر کہیں کہیں مروجہ ہیئتوں سے انحراف کے پہلو بھی ملتے ہیں آج ہم مذکورہ موضوع کے تناظر میں ان کے مذکورہ شعری مجموعہ سے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

ان کے ہاں رومانوی نقطہ نگاہ سے کلاسیکی شعری رویے بہ اندازِ کثرت پائے جاتے ہیں عمومی اور سطحی تخیلات خالص فطری صورت میں ملتے ہیں جن میں ایک معصومیت کارگر نظر آتی ہے رومان کے جذبے ان کے ہاں خالص روایتی طور پر موجود ہیں اسی تناظر میں ان کی غزل کے تین اشعار ملاحظہ کریں   ؎

آتے نہیں نہ آؤ مگر ہم تو آئیں گے

چاہے نہ تم بلاؤ مگر ہم تو آئیں گے

ہم کو وفا کا پاس ہے ہم بے وفا نہیں

کتنا ہمیں ستاؤ مگر ہم تو آئیں گے؟

دیکھیں گے خواب میں بھی ہم صورت جناب کی

دل سے ہمیں بھلاؤ مگر ہم تو آئیں گے

اُن کے شعری مخزن میں محبت کی کار ستانیاں بھی ہیں ستم کے تذکرے بھی ہیں وفا کے قحط کا مذکور بھی ہے شب و روز کی آزمائشوں کا احوال بھی ہے غم و الم کے شواہد ہیں جو ان کی حزنیہ شعری طبع کی عکاسی کر رہے ہیں یہ سب روایتی شعری رویے ہیں جو پوری آن بان سے جلوہ ریز ہو رہے ہیں ان کی ایک غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں   ؎

اس کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

یہ ستم بھی اُٹھا کے دیکھ لیا

بے ربط زندگی میں وفا کا ذکر نہیں

روز و شب آزما کے دیکھ لیا

وہ زیست کے مصائب و آلام کو بھرپور انداز میں بیان کرتی ہیں مگر فکری و فنی اعتبار سے روایت کی پاسداری بدستور رہتی ہے حیات کی ہولناکیاں ، عصری بے حسی، تلخ حقائق کا بیان اور نالہ و شیون کے پہلو پورے طور پر اُن کے ہاں مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

زندگی جام ہے کہ پیالہ ہے

ہر گھڑی زہر کا نوالہ ہے

غم کہیں کس سے جا کے ہم اپنا؟

کیا کوئی درد کا ازالہ ہے؟

زندگی کے تجربات و مشاہدات کا عکسِ جمیل بھی ان کے فکری کینوس میں قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی کا وسیع تر ادراک رکھتی ہیں اس لیے ان کے آدرش میں ایک ہمہ گیری جلوہ ریز ہوئی ہے ایک آموزگاری ہے جو ہمہ پہلو نوعیت کی ہے کہیں خود آموزی کے انداز میں تو کہیں اجتماعی حوالے سے بہر حال وہ اپنے قاری کو جانکاری سے آشنا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں وہ اسے حقیقتوں کے شناور کے طور دیکھنا چاہتی ہیں عصری حقائق ان کے ہاں پورے طور پر نمو پاش ہوتے ہیں جا بجا ان کے اشعار میں عصری رجحانات و میلانات پائے جاتے ہیں وہ اپنے عصری مزاج کی عکاسی میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑتی اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

کسی کا کوئی نہیں جہاں میں

خود آپ اپنا خیال رکھنا

وفا کے موتی بکھر نہ جائیں

ہمیشہ ان کو سنبھال رکھنا

الغرض شاہینہ عندلیبؔ کے شعری ارتقا کا سفر انتہائی سست روی سے جاری و ساری ہے ان کا شوق ان کی شعری سوتیں خشک نہیں ہونے دیتا بلکہ انہیں مہمیز دیتا رہتا ہے ابھی انہیں اقلیمِ شعر کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں عمیق فکری و فنی ریاضت مطلوب ہے خلوص، محنت اور لگن کی بدولت یہ زینے بہ آسانی سر کیے جا سکتے ہیں جس کے لیے انہیں ہر گام پر ایک معتبر راہنمائی کی ضرورت رہے گی۔

٭٭٭

 

               شاہینہ عندلیبؔ

ہر گز نہ تیرے در پہ اب آئیں گے دیکھنا

ہم قصۂ الم نہ سنائیں گے دیکھنا

جتنا ستانا تھا ہمیں تم نے ستا لیا

اب ہم بھی کیسا تم کو ستائیں گے دیکھنا؟

آنکھوں سے تیری یاد میں جاری رہے جو اشک

سیلاب تیرے شہر میں لائیں گے دیکھنا

اکثر وفا کے وعدے نبھاتے ہیں اہل درد

مر جائیں گے نہ حال بتائیں گے دیکھنا

تا عمر ہم کسی پر کریں گے نہ اعتبار

اس دھن میں اپنی جان گنوائیں گے دیکھنا

کیسے گناہوں کی یہ سزا مل گئی اے عندلیبؔ

تم کو بھی اپنے ساتھ جلائیں گے دیکھنا

٭٭٭

 

شاید قریب آئے ہیں شہرِ نگار کے

جھونکے سے آ رہے ہیں نسیمِ بہار کے

اب تک نہ جانے کیسے خیالوں میں گم رہی؟

دن تو کبھی کے آ گئے فصلِ بہار کے

شاید وہ تجھ سے چال نئی کوئی چل گیا

تو گن رہی ہے بیٹھ کے دن انتظار کے

دامن جھٹک دے تو بھی اب امید و بیم کا

باقی نہیں ہیں آدمی اب اعتبار کے

آنکھوں کو پونچھ ڈھل گئے داغِ شبِ فراق

احسان ہیں یہ گردشِ لیل و نہار کے

جائے گا کس طرح سے وہ بستی کو چھوڑ کر؟

جس نے مزے لیے ترے قرب و جوار کے

گلشن میں پھول کھلنے کا موسم گزر گیا

اے عندلیبؔ چل کہ چلے دن بہار کے

٭٭٭

 

شائستہ سحرؔ کربِ ذات کی شاعرہ

سوانحی کرب تخلیقی اظہار میں داخلی احساسات کو فروغ بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے فن پارے میں تخلیق کار کی ذات کی پرچھائیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں یہی ماجرا شائستہ سحر کے کلام سے اظہر من الشمس ہوتا ہے مشیت کی طرف سے انہیں کٹھن جیون ودیعت ہوا جس کی وجہ سے ان کی سخن سنجی میں ذاتی حوالے سے کرب کا پہلو اجاگر ہوا ہے ان کا اصل نام شائستہ پروین ہے اور ادبی نام شائستہ سحر ہے 23 ستمبر 1975ء میں میرپور خاص میں پیدا ہوئیں میٹرک کا امتحان 1989ء میں میرپور خاص سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا 1997ء میں سندھ یونیورسٹی جام شورو میں اُردو ادبیات میں ایم اے کیا اسی سال شکیل احمد سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اسی سال ہی ان کا اولین شعری مجموعہ ’’عذابِ آگہی‘‘ منصہ شہود پر آیا۔ مجموعہ ہٰذا کا نام بھی ان کی حزنیہ شعری طبع کا غماز ہے اور جدت کا مظہر بھی بقول راقم الحروف   ؎

زمانہ جسے آگہی جانتا ہے

ہماری نظر میں وہ ہے اک اذیت

جہاں میں میں اعلیٰ سے ادنیٰ بنا ہوں

صلے یہ ملے ہیں مجھے آگہی کے

موصوفہ کا تعلق نوید سروش کے حلقۂ تلمذ سے ہے جو ایک طویل عرصے سے شعری ریاضت میں منہمک ہیں شائستہ سحر نے 2005ء میں پبلک سروس کمیشن میں کامیابی حاصل کی تادم تحریر ابنِ رُشد گورنمنٹ گرلز کالج میرپور خاص میں اردو ادب کی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کے منتخب غزلیہ اشعار کربِ ذات کے تناظر شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

اُن کے تمام تر شعری مجموعہ میں اُن کی حزنیہ شعری طبع نمایاں طور پر سامنے آئی ہے ان کے افکار میں سماجی کرب کی ایک گونج سنائی دیتی ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی حوالے ہیں انہوں نے اپنی معاشرت کے مسائل کو واضح کرنے کی سعیِ جمیل کی ہے سماجی اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا ایک درد پایا جاتا ہے نفسا نفسی اور خود غرضی کے روئیوں کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے تلخ حقائق کا ادراک، زیست کی کٹھنائیوں سے موانست و مصالحت کا شعور ان کے شعری مخزن کا حصہ ہے ان کے تخیلات میں ہمت و حوصلے کے پہلو وافر انداز میں ملتے ہیں وہ مصائب و آلام کا سامنا کرنے کا فن جانتی ہیں جسے وہ انسان کی عظمت کی دلیل گردانتی ہیں۔

رومانوی حوالے سے بھی ان کے افکار میں غم و الم نمایاں ہے عالمِ ہجراں کا دکھ درد بھرپور انداز میں ملتا ہے ہجر کا سوز و گداز محب کی شخصیت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے اس حوالے سے ان کے ہاں ایک گہری جانکاری ملتی ہے   ؎

بعد تیرے میرے چہرے کے سبھی رنگ اُڑے

آئینہ دیکھوں تو حیرت نہیں دیکھی جاتی

 کلاسیکی اردو شاعری میں مقدر سے شکایت کے حوالے بکثرت ملتے ہیں کہیں گردوں کو ہدفِ تنقید بنایا تو کہیں فلک لائقِ طنز ٹھہرا تو کہیں مشیت موردِ الزام ٹھہری خوشگوار ماحول میں بھی یاسیت کے عوامل مشاہدہ کیے گئے بقول راقم الحروف   ؎

سو میرے مقدر کا عالم تو دیکھو

ملی دھوپ مجھ کو جوارِ شجر میں

اسی نوع کا عالم شائستہ سحر کے ہاں مشاہدہ کرتے ہیں   ؎

سایۂ گل بھی دھوپ برسائے

ہم نے ایسا نصیب پایا ہے

اُن کی ہاں زیست کی بے ثباتی کی روداد پورے کروفر سے ملتی ہے ان کے نزدیک حیات ایک نہ قابلِ بھروسہ حقیقت ہے اس لیے ان کے تخیلات میں زندگی سے بیزاری نمایاں طور پر واضح ہوتی ہے جب سانسیں قابلِ اعتبار نہیں ہیں تو پھر بے ثباتی ناقابل الفت ہے   ؎

دھڑکن پہ اعتبار کون کرے؟

بے ثباتی سے پیار کون کرے؟

مشیت سے نالہ و شیون کے پہلو بھی ان کے ہاں دلچسپ انداز میں ملتے ہیں کہیں کہیں سپاس گزاری کے پہلو بہ پہلو شکوہ و شکایت کی روایت بھی جلوہ ریز ہوتی ہے جس سے ان کے فکری بانکپن کی دلیل ملتی ہے   ؎

کرم کی بارشیں ہوتی ہیں عاصیوں پر مگر

کتابِ غم میں قہر خدا کی باتیں ہیں

مشمولہ شواہد شاہد ہیں کہ شائستہ سحر کے ہاں کربِ ذات کی داستاں بھرپور انداز میں موجود ہے اگرچہ کہیں کہیں فنی تناقص نظر آتے ہیں لیکن یہ ان کی اولین کاوش ہے جوں جوں اُن کی شعری ریاضت بڑھے گی تو فکری و فنی امور میں مزید نکھار آئے گا   ؎

نقشِ اوّل دیکھ آئے نقشِ ثانی دیکھنا

٭٭٭

 

               شائستہ سحرؔ

خزاں نژاد تلاشِ بہار کرتے رہے

بصد خلوص ترا انتظار کرتے رہے

بٹا ہوا کئی حصوں میں تھا وجود مگر

خیالِ یار فقط تجھ سے پیار کرتے رہے

تمام شب ترے آنے کی آس جلتی رہی

تمام شب ہی ستارے شمار کرتے رہے

تمام عمر دریچے کھلے رہے دل کے

تمام عمر ترا انتظار کرتے رہے

دل و نگہ کو بچانے میں عمر بیت گئی

عجیب دوست تھے مجھ ہی پہ وار کرتے رہے

تو چاندنی ہی کو الزامِ آشنائی نہ دے

ستارے بھی تو سحرؔ بے قرار کرتے رہے

٭٭٭

 

پریتم من کی آنکھیں کھول

بول پپیہے تو بھی بول

زہر بھری رت بیت گئی

اب تو کان میں امرت گھول

پی لے جام محبت کا

آ میری بانہوں میں ڈول

روح میں بھر دیں اُجیارا

تیرے میٹھے میٹھے بول

آخر کو ہم آن ملے

یہ دنیا یہ دھرتی گول

کب تک من میں ٹھہرے گا؟

اے میرے پردیسی ڈھول

دور کھڑی تیری جوگن

لے کر اپنا دل کشکول

٭٭٭

 

عابدہؔ کرامت کی فکری جہتیں

فکری اعتبار سے عصری شاعری رفعتِ تخیل سے محروم ہوتی جا رہی ہے افکار میں وہ وسعت و جاذبیت اور ندرت نہیں رہی جو متقدمین کے کلام کا خاصہ رہی ہے سخنور کا شعری کینوس بہت محدود ہوتا جا رہا ہے صرف مکھی پر مکھی مارنے کو سخن سازی کا عمل قرار دیا جا رہا ہے تخیلات کا تانا بانا صرف چند نجی اور عمومی موضوعات میں ہی سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ شعری مقتضیات یہ ہیں کہ دامنِ شعر کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے اس سلسلے میں موضوعات کو محدودیت کے دائرے سے نکال کر لا محدودیت کے زاویوں میں لانا ہو گا اس سلسلے میں معدودے چند شعراء و شاعرات کے ہاں یہ مساعی نظر آئی ہیں انہیں بالیدہ فکر شخصیات میں ایک نام عابدہؔ کرامت کا ہے جن کا سخن ہمہ جہتی طرزِ اظہار کا حامل ہے آج ہمارا موضوعِ بیان اُن کی سخن سنجی مذکورہ موضوع کے تناظر میں ہے ہم اُن کے منتخب غزلیہ کلام کی چند استشہادات برائے تجزیہ شامل کرتے ہیں عابدہؔ کرامت کا تعلق کراچی سے ہے 2000ء میں ان کا شعری مجموعہ ’’دوپٹے میں کہاں تک جذب کرتی‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ کتابِ ہٰذا کا نام نسائی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے متذکرہ مجموعہ کے خمس اول کو شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

مشیت پر یقین رکھنا انسانی توکل اور غنا کی دلیل ہے اسی دولتِ احساس کی بدولت پندارِ انا قائم و دائم رہتا ہے قدرتِ ایزدی پر بھروسہ تمام دنیاوی سہاروں کے بطلان کا مثیل ہے جب تمام مصائب و آلام حسرتیں اور راحتیں ذاتِ خداوندی کی طرف سے ہیں تو پھر جہاں کے عارضی سہارے چہ معنی دارد جب اپنے رب سے اس پیکرِ خاکی کا ربط و ضبط مضبوط بنیادوں پر استوار ہو تو پھر سنسار کی کٹھنائیاں کچھ معنی نہیں رکھتیں خوشی اور غم میں حد فاصل ختم ہو جاتی ہے پر حزیں شعری طبع گلشن حزن کی آبیاری کرتی رہتی ہیں جس سے آلام کو تقویت جولانی اور روانی ملتی ہے بقول راقم الحروف   ؎

مرے حزن کو استقامت ملے

غزل میرؔ کی اک سنا دیجیے

انہیں احساسات کی ترجمانی عابدہ کرامت کے ہاں اُن کی ایک غزل کے دو اشعار میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

کس لیے اور کے پھر رحم و کرم پر جینا؟

جب مری لوح کو وہ دست کرم لکھتا ہے

خوش قلم، خوشیوں کو تحریر کرتا ہے

جتنے چہرے پر مرے حرف ستم لکھتا ہے

حواسِ خمسہ میں سمعی و بصری صلاحیتوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اس لیے دنیائے محبت میں ان کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے جس میں سماعت و بصارت صرف محب پر مرکوز ہو جاتی ہے اس مجذوبانہ عمل میں ذات کا ادراک ختم ہو جاتا ہے اسی تناظر میں اُن کی ایک غزل کا مطلع لائقِ توجہ ہے   ؎

گوش بن کے سمجھا ہے چشم کر کے دیکھا ہے

اُن کو اپنی ہستی بھی ختم کر کے دیکھا ہے

حیاتِ انسانی صبر و تحمل اور دولتِ ضبط کی متقاضی ہے مصلحت اندیشی زیست کے عمیق ادراک سے عبارت ہے معاملہ دنیائے جنوں و خرد کا ہو یا زندگی کا بردباری کی اہمیت سے کسی صورت میں انکار ممکن نہیں ہے دولتِ ضبط کی بازیافت ہی جیون کی بہت بڑی کامیابی ہے اسی نسبت سے اُن کی ایک اور غزل کا مطلع درِ التفات پہ دق الباب کر رہا ہے۔

لب سیے ہر زخم اپنا مسترد کرتی رہی

کتنی خاموشی سے میں تیری مدد کرتی رہی؟

عالمِ فردا کا پیشگی شعور انسان کی بسیط فراست و متانت کا غماز ہوتا ہے ایسے تخیلات شعری تاریخ کے ہر عہد میں زندہ و تابندہ رہتے ہیں یہ افکار زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوسکتے ہیں لیکن دنیائے سخن میں سماجیات کی اہمیت مسلمہ ہے کسی بھی سخنور کے سخن کا جائزہ عمرانی نقطۂ نگاہ سے انتہائی ناگزیر ہے عابدہؔ کرامت اپنی معاشرت کی عمیق جانکاری رکھتی ہیں اس لیے آمدہ نسل کے حوالے سے اُن کے ہاں ایک فکرِ فردا کار فرما ہے جس سے انسان دوستی کے شواہد آشکار ہوتے ہیں اُن کی غزل کا ایک شعر نذرِ قارئین ہے   ؎

ہے میرے سامنے میری جو نسلِ آئیندہ

سو اب کی بار میں اُن کے خواب دیکھوں گی

اُن کے شعری اوصافِ حمیدہ میں اس خصوصیت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کہ ان کے ہاں تضاد خیالی اور پہلو داری ایک حسنِ التزام کے ساتھ کار فرما ہے جو اُن کے ہمہ جہت افکار کی مثیل و دلیل ہے مگر اس امر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اشعار میں ایک گنگا جمنی اور گومگو کیفیات پائی جاتی ہیں ایک غزل کے تین اشعار جو ذیل میں دئیے جا رہے اس حوالے سے قابل ذکر ہیں   ؎

ہمیں دنیا بہت پیاری نہیں ہے

سو اب تک زندگی واری نہیں ہے

مری آنکھوں میں کتنے رتجگے ہیں

مری آنکھ میں بیداری نہیں ہے

عابدہ کرامت کا شعری اسلوب اور افکار بے تکان نوعیت کے ہیں جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مضبوط شخصیت کی مالک ہیں یہی سبب ہے کہ وہ اعتماد کے ساتھ گلشنِ شعر کی آبیاری کر رہی ہیں ان کے مذکورہ مجموعہ میں تاثرات و آراء معدوم ہیں ان کے ہاں ایک عصری کرب ہے جو ان کے اشعار میں جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کے باعث اُن کی حزنیہ شعری طبع مجبورِ نوا ہو جاتی ہے لیکن اُن کے ہاں تلخ حقائق کو تسلیم کرنے کا وصف موجود ہے مگر اُن کے شعری مخزن میں حیرت و استعجاب کا ایک جہان آباد ہے ایک تجسس کی فضا ہے جو قاری کو اپنی اور کھینچے چلی جاتی ہے اُن کی غزل کے دو اشعار دنیائے شعر کے متوالوں کی ضیافتِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہیں   ؎

کیوں آنے والی نسل میں در آئیں وحشتیں ؟

اپنے ہی بچے ہم کو ڈرانے بہت لگے

کیا واقعی نوشتۂ دیوار ہم ہوئے؟

اربابِ اختیار مٹانے بہت لگے

فکری و فنی بالیدگی اُن کے سخن کا طرۂ امتیاز ہے عروضی محاسن کا اہتمام بخوبی ملتا ہے انہوں نے زیادہ تر مرکب بحور میں احسن طریقے سے سخن سنجی کی ہے مذکورہ توضیحات اس امر کی غماز ہیں کہ اُن کے افکار ہمہ جہت نوعیت کے ہیں مصرع در مصرع شعر در شعر غزل در غزل بین السطور ایک پہلو داری اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے جس سے ایک تازہ کاری کا احساس نمو پاتا ہے تواتر سے شعری ریاضت عابدہ کرامت کے ادبی مقام و مرتبے کو مزید اُجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔

٭٭٭

 

               عابدہؔ کرامت

ہزار راہ ہو مشکل سفر تو ہوتا ہے

رفاقتوں میں یہ مد و جزر تو ہوتا ہے

کِھلا بہار میں یا خزاں میں اُجڑا ہو

بریدہ شاخ سہی وہ شجر تو ہوتا ہے

حروفِ طنز کا یا تند و تیز لہجوں کا

ذرا سی دیر سہی کچھ اثر تو ہوتا ہے

ہو صحن کچا کہ ٹوٹی ہوئی ہوں دیواریں

نصیب سایہ اگر ہے تو گھر تو ہوتا ہے

بہت بڑی ہے یہی ایک حق کی سچائی

ہو تلخ کتنا ہی پر معتبر تو ہوتا ہے

چراغ اپنا بچاؤں نہ کیوں ہواؤں سے؟

کہ طاقِ شب میں جلا رات بھر تو ہوتا ہے

٭٭٭

 

اس زمیں سے نہ زماں سے خالی

میں ہوں سرمایۂ جاں سے خالی

اب کوئی درد نہ زخموں کی چُبھن

روح ہے سوزِ نہاں سے خالی

یہ تو اک خواب ہے تعبیر نہیں

پاؤں زنجیرِ گراں سے خالی

اُس کی باتوں کا یقیں کیسے ہو؟

کام لیتا ہے زباں سے خالی

حرف و آواز میں الفاظ کہاں ؟

کام چلتا ہے بیاں سے خالی

زندگی کیوں نہیں ہونے دیتی؟

جسم کو سود و زیاں سے خالی

سارے اسباب اُسے دے آئے

ہم نکل آئے مکاں سے خالی

٭٭٭

 

عنبریں حسیب عنبرؔ کی عمیق حسیات کی حامل شاعری

شاعری حسیات کے توسط سے شعور و آگہی کی بازیافت سے موسوم ہے یہ امر دیدنی ہوتا ہے کہ اس حوالے سے لاشعور اور شعور کس حد تک ممد و معاون ثابت ہوتا ہے اگر فطری و غیر فطری عوامل کی مکمل کرم فرمائی شاملِ حال ہو تو سخن ور کے ہاں عمیق حسیات کا ورود ہوتا ہے جس شاعر کے افکار کا تعین عام قاری کی ذہنی سطح سے بالاتر ہو تو اُس کا کلام عمیق حسیات کے اوصاف کا حامل ہوتا ہے فنِ شاعری کا یہ وصفِ حمیدہ مشتے از خور وارے کے مصداق معدودے چند شعراء و شاعرات کے ہاں ضو پاش ہوتا ہے انہیں بالیدہ فکر ہستیوں میں ایک نام عنبریں حسیب عنبرؔ کا بھی ہے جنہیں فکر و فن اور ذوق و شوق کی دھن ورثہ میں ملی جنہوں نے ایک علمی و ادبی خانوادے میں چشم کھولی ان کے والد گرامی سحرؔ انصاری دنیائے ادب کی ایک معروف شخصیت ہیں اور اس پر طرہ سید حسیب احمد جیسے ادب دوست آدمی ان کے شریک حیات ہیں گویا انہیں بھرپور نوعیت کی ادبی فضا میسر ہے کراچی کے ادبی حلقوں میں انہیں بے پناہ مقبولیت و پذیرائی حاصل ہے علاوہ ازیں ’’اسالیب‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی جریدہ بھی کراچی سے ان کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے شعری مجموعہ مطبوعہ 2012ء ’’دل کے افق پر‘‘ کے نصف اول کے منتخب غزلیات کے منتخب اشعار عمیق حسیاتی تناظر میں شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

عنبریں حسیب عنبرؔ کے افکار میں توکل و استغنا سے مملو جذبے فرطِ تسلسل کے ساتھ پائے جاتے ہیں جن سے جذبوں کی شدت وحدت کی غمازی بھی ہوتی ہے انہوں نے اپنے سخن میں صنعتِ تلمیح کو بھی بکثرت برتا ہے جس سے ان کے بسیط تاریخی و تہذیبی شعور کی عکاسی ہوتی ہے ان کے اشعار کے پردے میں زندہ دلی کے مظاہر بھی ضو پاشیاں کر رہے ہیں مصرع در مصرع، شعر در شعر، غزل در غزل بین السطور ایک عمیق حسیاتی فروغ کار فرما ہے اسی حوالے سے اُن کی ایک غزل کے پانچ اشعار درِالتفات پر دق الباب کرتے دکھائی دیتے ہیں    ؎

اک کلی کی خوشبو سے رسم و راہ کافی ہے

لاکھ جبرِ موسم ہو یہ پناہ کافی ہے

نیتِ زلیخا کی کھوج میں رہے دنیا

اپنی بے گناہی کو دل گواہ کافی ہے

عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت

خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے

آسماں پہ جا بیٹھے یہ خبر نہیں تم کو

عرش کے ہلانے کو ایک آہ کافی ہے

چار دن کی ہستی میں ہنس کے جی لیے عنبرؔ

بے نشاط دنیا سے یہ نباہ کافی ہے

سخنِ عنبر کا یہ وصفِ عالیہ ہے کہ مشکل و نادر النظیر ردیفیں اور قوافی کا استعمال چابکدستی سے ملتا ہے عمدہ تراکیب کا برتاؤ بیان کی دلکشی بڑھا رہا ہے رفعتِ تخیل کی وجہ سے ایک فکری دقیقہ سنجی مشاہدہ کی جا سکتی ہے اسلوبیاتی حوالے سے بھی اُن کا کلام لطف آمیزی کی کیفیت رکھتا ہے لسانی اعتبار سے ایک قرینہ کاری کا ہنر آشکار ہوتا ہے من حیث المجموع معاملات میں ان کا عمیق حسیاتی شعور کارفرما نظر آتا ہے۔

سنجیدگی کے پیرائے میں اُن کے ہاں بذلہ سنجی کے شواہد بھی جلوہ ریز ہوئے ہیں جن میں ایک فلسفیانہ فکر کی جلوہ آرائی اور قوتِ متخیلہ کی معرکہ آرائی نمو پاشیاں کر رہی ہے رومانوی حوالے سے اُن کے اشعار میں ایک معاملہ بندی کا حسن پایا جاتا ہے اسی نسبت سے اُن کی ایک اور غزل کے دو اشعار اقلیمِ سخن کے متوالوں کے ذوقِ طبع کی نذر ہیں   ؎

اک عمر کے عذاب کا حاصل وہی بہشت

دوچار دن جہاں پہ گزارا نہیں کیا

اب ہنس کے تیرے ناز اُٹھائیں تو کس لیے؟

تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا

اُن کے مصرعوں کے فکری ربط و ضبط میں ایک کرشمہ کاری کا اعجاز نظر آتا ہے جس کی چمک دمک سے قاری دنیائے حیرت و استعجاب میں چلا جاتا ہے اُن کے تخیلات نجی، عامیانہ اور روایتی نوعیت کے نہیں ہیں اس لیے اُن کے سوچنے کا رنگ ڈھنگ جداگانہ اور منفرد ہے ذیل میں ایک غزل کے چار اشعار میں اُن کی ندرت آمیزی دیدنی ہے   ؎

چاندنی سے تصور کا در وا ہوا

تم سے ہوتی رہی گفتگو دیر تک

جاگ اُٹھے تھے قربت کے موسم تمام

پھر سجی محفل رنگ و بو دیر تک

دفعتاً اُٹھ گئی ہیں نگاہیں مِری

آج بیٹھے رہو رو برو دیر تک

تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا؟

کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک

عنبرین حسیب عنبرؔ کے شعری کینوس میں آموز گاریِ حیات کے رموز بھی انتہائی عمیق اور فکر انگیز انداز میں ملتے ہیں اُن کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں    ؎

یہ دوڑ بھی عجیب سی ہے فیصلہ عجیب تر

ہے فاتحِ حیات وہ جو گر کے پھر سنبھل گیا

عنبریں حسیب عنبرؔ کے کلام کے غائرانہ مطالعہ و مشاہدہ سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ فنِ شعر کے حوالے سے اُن کی حسیاتی صلاحیتوں نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا مگر انہیں اپنے معیار کو برقرار رکھنے اور آگے لے جانے کے لیے مزید معتبر اور طویل المیعاد راہنمائی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے اسرار و رموز اُن کے لیے آغوش کشا نظر آئیں اور شعری حوالے سے کچھ بنیادی مسائل سے رستگاری پائیں۔

٭٭٭

 

               عنبریں حسیب عنبرؔ

ہے مسلسل جو تضادِ خیر و شر دیکھے گا کون؟

آج بھی نوکِ سناں پر ہیں جو سر دیکھے گا کون؟

میں نے تزئینِ چمن کی جستجو کی ہے سدا

یہ کبھی سوچا نہیں برگ و ثمر دیکھے گا کون؟

بے حسی کی دھند یوں چھائی ہوئی ہے چار سو

زندگی کی سمت اب بارِ دگر دیکھے گا کون؟

کل کے سورج سے تو ساری خلق ہے سہمی ہوئی

دیکھنا یہ ہے کہ اب خوابِ سحر دیکھے گا کون؟

غیر کی دیوار گرنے کے تماشائی ہیں سب

اب یہاں اپنے شکستہ بام و در دیکھے گا کون؟

٭٭٭

 

تمہارے ساتھ گئی جو خوشی نہیں آئی

پھر اس کے بعد لبوں پر ہنسی نہیں آئی

بچھڑتے وقت بہت زعم تھا اُسے خود پر

مری بھی آنکھ میں بالکل نمی نہیں آئی

تمہاری چشمِ تغافل نے کہہ بھی دی مجھ سے

جو بات لب پہ تمہارے ابھی نہیں آئی

تھی اپنے آپ سے ملنے کی آرزو جس میں

تمام عمر وہی اک گھڑی نہیں آئی

مرا یہ دل ہی جہاں ساتھ دے نہیں سکتا

میں اُس مقام پر عنبرؔ کبھی نہیں آئی

٭٭٭

 

ڈاکٹر فاطمہؔ حسن کے فکری زاویے

کسی بھی سخن داں کی تخلیقی وسعت کو اس کے فکری زاویے متعین کرتے ہیں اس کے افکار کی رنگارنگی اور بو قلمونی اس کے فکری کینوس کی غمازی کرتی ہے اگر تخیلات عمومی اور فطری نوعیت کے ہیں تو اس سے یہ عکاسی ہوتی ہے کہ اس کے فکری ارتقا کا عمل جامد و ساکت ہے اگر اس میں تغیراتی شواہد بکثرت ہیں تو اس کے فکری زاویے نہ صرف عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں بلکہ لائقِ التفات و صد تحسین و صد ستائش ہیں اسی نوع کے فکری تغیرات اور زاویے طبقۂ اناث کی شاعری میں بھی خال خال نمو پاش ہوئے ہیں مذکورہ تاثرات فاطمہ حسن کے شعری مطالعہ سے اقلیمِ خرد پر جلوہ ریز ہوئے ہیں فاطمہؔ حسن کا تعلق دبستان کراچی سے ہے اب تک ان کے متعدد شعری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں جو علمی و ادبی حلقوں سے پذیرائی اور شہرت سے ہم آغوش ہو چکے ہیں شخصی اعتبار سے ان کے مزاج میں ایک وضع داری اورطنطنہ پایا جاتا ہے جو ایک اعتماد کی فضا کی ترجمانی ہے مگر کہیں کہیں انہیں انتہائی بے تکلفی مرغوب ہوتی ہے آج ہم ان کے تیسرے شعری مجموعہ ’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں ‘‘ کے تقریباً نصف اول کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کا نام بیک وقت عمومیت اور ندرت کا مظہر ہے روایتی سوچ اور طرفہ طرزِ فکر کا غماز بھی ہے کتاب ہٰذا میں ’’جنگل کا شور‘‘ اور ’’چھتری‘‘ کے نام سے فہمیدہؔ ریاض اور ثمینہؔ راجہ کی آرا ثبت ہیں اس کتاب میں جہاں حمد و نعت اور سلام کے جواہر ہیں وہاں غزل، آزاد نظم اور ہائیکو کے حسیں رنگ نگہت بیزیاں کر رہے ہیں ان کی غزل تغزل کی دولت سے مالا مال ہے۔

فاطمہؔ حسن کی شعری اپج کا وصفِ جمیل یہ ہے وہ روایت و جدت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہیں ان کے ہاں افراط و تفریط نہیں کسی ایک سمت فکری جھکاؤ دیکھنے میں نہیں آتا جس سے اُن کی متوازن فکری شخصیت نمو پاش ہوتی ہے بنی نوع انسان کی آفرینش سے ہی حالات نامساعد رہے ہیں گویا اس میں ایک ہمہ گیری کا پہلو کارفرما ہے اس پر آشوب سنسار میں انسان نے ہر عہد میں شدید نوعیت کے احساسِ اجنبیت کو محسوس کیا ہے یہی سبب ہے کہ انسان ہر دور میں شدید قسم کے احساسِ تنہائی سے دوچار رہا ہے اسی فکر کی پرچھائیاں فاطمہؔ حسن کے افکار میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں اور ایک مستقل نوع کے ہمسفر کی انتہائی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے بقول راقم الحروف   ؎

رتجگوں کا مجھے ہمسفر چاہیے

چارہ جو چاہیے چارہ گر چاہیے

جو مرا ساتھ دے میرے ہر حال میں

ایسا کوئی حبیبِ نظر چاہیے

ان کی غزل کے ایک شعر میں جس میں احساسِ خلوت نمایاں ہے زیبِ قرطاس ہے   ؎

دیکھ مجھ سے باتیں کرتے رہنا تم

تم سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

زیست کی بے ثباتی کا مذکور بنی نوع انسان کا ایک کلاسیکی رویہ ہے جسے ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے بقول کسے   ؎

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

یہی فکر فاطمہؔ حسن کے ہاں خود آموزی کے انداز میں جلوہ ریز رہی ہے   ؎

کیوں سوچ رہی ہوں کل کی باتیں ؟

کیا کوئی ابد تلک جیا ہے؟

جمالیاتی اقدار یا احساسات حسنِ زیست کو فروغ سے ہمکنار کرتے ہیں جن کی بدولت نبضِ حیات تپش آمادہ رہتی ہے ایسے جذبے ہستیِ نا پائیدار کو تگ و تاز سے مرصع کرتے ہیں یہ تخیلات ہر عہد میں اعتبارِ ذوق ہوا کرتے ہیں جن کی بدولت زندگی کی چکا چوند برقرار رہتی ہے ایسے جذبوں کے کئی حوالے ہیں جن کو معرفت و مجاز کے کلیدی تلازمات میں منقسم کیا جاتا ہے معرفت کا حوالہ تصوف کی دلیل گردانا جاتا ہے اس کی ایک عمدہ تمثیل فاطمہؔ حسن کے ہاں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

یہ ہنر بھی اس کا کمال ہے یہ اس کا عکسِ جمال ہے

مرا آئینہ جو وہ بن گیا مرے خدوخال سنور گئے

حیاتِ انسانی کچھ قربانیوں کی متقاضی ہوتی ہیں اور جو کوئی اس نوع کے اوصافِ حمیدہ سے مسجع ہو وہ انسان دوستی کا آئینہ دار اور علمبردار ہوتا ہے ان خصوصیات سے متصف ہونے کے لیے پربت کا جگر چاہیے اور چٹانوں کا حوصلہ بھی۔ اگر اولوالعزمی دمساز ہو تو تمام معرکے باآسانی سر ہوتے ہیں جب انسان اپنے ماحول میں محبتیں اور مروتیں بکھیرتا ہے تو معاشرت میں خلوص و موانست کی فضا پیدا ہوتی ہے اور دنیا بہشت کی مثیل نظر آتی ہے اصل مطمحِ نظر تو یہ ہے کہ زندگی کے تقاضے پورے ہوں بلا غرضیکہ کیا کھویا کیا پایا۔ حیاتِ پرخطر کے کٹھن سفر میں جہاں ہجرتوں کا کرب بھی مہیب صورت کا حامل ہوتا ہے اس اذیت کو جھیلتے جھیلتے انسان بھیڑ میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے یہ عوامل ان کے شعری کینوس میں بدرجہ اتم نظر آتے ہیں   ؎

اپنے پیاروں کو بچایا درد کی ہر موج سے

آنکھ میں سیلاب روکا دل کو دریا کر دیا

پھول، پودے، پیڑ بچے اور تم

خواہشوں کے نام پر ان سب کو یکجا کر دیا

ہجر سے ہجرت تلک ہر دکھ سے سمجھوتا کیا

بھیڑ میں رہ کر بھی میں نے خود کو تنہا کر دیا

مرورِ ایام نے جو انسانی معاشرت پر بھیانک اور انمٹ اثرات مرتب کیے ہیں وہ اخلاقی اقدار کا نوحہ پیش کرتے ہیں حالات کی واژ گونی باعثِ بے سکونی ہے یہی تغیرات ناگفتہ بہ صورتِ احوال کا نقشہ پیش کرتے ہیں ایک گہری حساسیت رکھنے والا فرد بِلبلا اُٹھتا ہے یہی احساسات فاطمہؔ حسن کی حسیات کا حصہ ہیں   ؎

جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستہ بدل دیا

آندھی نے میرے شہر کا نقشہ بدل دیا

سماجی روایات جب روبہ زوال ہوتی ہیں عمرانی ادراکات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو پھر حیاتِ انسانی میں ایک بیزاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے زیست کی رونقیں اور رعنائیاں اپنی بساط لپیٹ لیتی ہیں احساسِ تجمل کو گزند پہنچتا ہے پھر انتشارِ ذات، تحلیل نفسی، فکری خلفشار، زیست کی بے رغبتی اور بے ضابطگی انسان کو اپنے احاطۂ قدرت میں لے لیتی ہے اسی حوالے سے ان کے کار زارِ خیال کا رنگ دیکھتے ہیں   ؎

نہیں ربط اب کسی بات میں

عجب انتشار ہے ذات میں

القصہ مختصر فاطمہؔ حسن کے فکری و فنی گوشوں کی سیر ہو کر سیر کرنے کے بعد یہ انکشاف انتہائی قوی ہے کہ ان کے شعری مخزن میں بے پناہ فکری زاویے ہیں جو اپنے قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتے ہیں اور اُسے قابل تسکینِ اور قابلِ اطمینان امکانات بہم پہنچاتے ہیں۔

٭٭٭

 

               ڈاکٹر فاطمہؔ حسن

اک چکور اُڑتا ہے چاندنی کے گھیرے میں

کس قدر اُجالا ہے رات کے اندھیرے میں ؟

جھیل پر اترتے ہیں جھنڈ کچھ پرندوں کے

سردیاں گزاریں گے عارضی بسیرے میں

پھول بھیگے بھیگے ہیں پات نکھرے نکھرے ہیں

لوٹ کر وہ آیا ہے شبنمی سویرے  میں

جرم ہے جنوں ہے عشق، اعتراف کرتی ہوں

قید خود کو رکھا ہے وحشتوں کے گھیرے میں

کوئی جا کے دیکھے تو کون منتظر ہے اب؟

اک چراغ جلتا ہے دور ایک ڈیرے میں

٭٭٭

 

روشنی بار تھی جو پلکوں پر

سو گئی ہاتھ رکھ کے آنکھوں پر

ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہے

لفظ کوئی نہیں ہے ہونٹوں پر

آئینے میں بھی عکس ان کا ہے

اس کی نظریں ہیں اپنے بچوں پر

اور مفہوم ان کو دے دیں گے

رکھنا قابو ہمیشہ لفظوں پر

دیکھنا پھول کھل اُٹھے شاید

ایک تتلی اُڑی ہے پیڑوں پر

یہ مسافر کہیں تو ٹھہریں گے

کون چلتا رہے گا رستوں پر؟

شعر تو مضطرب پرندہ ہے

کب ٹھہرتا ہے اپنے معنوں پر؟

٭٭٭

 

فاخرہ بتولؔ کی فکری عمومیت

ہر شاعر یا ادیب کے تخلیقی اظہار کی آفرینش عمومیت کے پہلو میں ہوتی ہے جس سے عمومیت اور روایت کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے کچھ تخلیق کاروں کے ہاں شعوری یا لاشعوری طور پر جدت کے مظاہر نمو پاش ہوتے ہیں لیکن جو قلم کار شعوری یا کسبی طور پر ندرت کی بازیافت کے لیے کوشاں نہیں رہتے ان کا طرزِ اظہار عمومی نوعیت کا حامل ہوتا ہے آج ہمارا موضوعِ شذرہ فاخرہ بتولؔ کی فکری عمومیت ہے ان کا اٹھواں شعری مجموعہ ’’گلاب خوشبو بنا گیا ہے‘‘ مطبوعہ ستمبر 2004ء ہمارے پیش نظر ہے مذکورہ مجموعہ کے نصف اول کے منتخب غزلیہ اشعار متذکرہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ ہیں فاخرہ بتولؔ کا تعلق راولپنڈی شہر سے ہے وہ عرصۂ دراز سے یہیں مقیم ہیں۔

فاخرہ بتولؔ کے افکار کی بہت بڑی خصوصیت اور عمدگی یہ ہے کہ ان کی فکری عمومیت عامیانہ پن سے مبرا و ماورا ہے سطحی اور نجی خیالات کا اظہار بھی دلچسپی کے پیرائے میں ہوتا ہے جس سے تخیلات پر نادر النظیر ہونے کا گماں گزرتا ہے روایت سے ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اس لیے عہدِ ماضی کی ساعتوں کی بازیافت ان کے ہاں بھرپور انداز میں ملتی ہے خلوص و محبت اور اتفاق کا بلیغ آدرش اُن کے ہاں پورے کروفر سے پایا جاتا ہے اخلاقی اقدار کا نوحہ پرسوز اور جاں گداز کیفیت میں ان کے اشعار سے مترشح ہو رہا ہے انہوں نے اپنے شعری اظہار کے لیے مفرد و مرکب اور رواں دواں بحور کا انتخاب کیا ہے ان کا اسلوب سہلِ ممتنع کی خصوصیت رکھتا ہے اور لسانی اعتبار سے جاذبیت سے مرصع ہے ان کی ایک غزل کا ایک شعر درِ دل پر دق الباب کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے   ؎

گھر کو بنانے والا تو مٹی میں سو گیا

حصے جو بٹ گئے تو کوئی یاد آ گیا

فکری عمومیت کی آئینہ دار اُن کی ایک پوری غزل بدونِ تبصرہ زیبِ قرطاس ہے   ؎

تم سے بچھڑ کے کام یہ کرنا پڑا ہمیں

پھر آج اپنے آپ سے لڑنا پڑا ہمیں

کچھ مانگنے کے واسطے آیا تھا اک فقیر

کاسے کو آج اشکوں سے بھرنا پڑا ہمیں

پہلے تو اک جہاں کے مقابل میں ڈٹ گئے

آخر میں اپنے سائے سے ڈرنا پڑا ہمیں

چاہت کا حادثہ ہی کہیں سانحہ نہ ہو

بے کار اس خیال میں پڑنا پڑا ہمیں

اک خواب کھوجنے کے لیے بارہا بتولؔ

ان نیند وادیوں سے گزرنا پڑا ہمیں

طبعی اور فکری اعتبار سے وہ بلند حوصلگی کی حامل ہیں وہ ہر طرح کے حالات میں شاکرو قانع رہتی ہیں نالہ و شیون حرفِ شکایت اور آہ و فغاں اُن کے لیے کار ہائے زیبا نہیں مشیت نے انہیں بے پناہ دولتِ ضبط ودیعت کی ہے ان کے ہاں قاتل و جابر اور ستمگر کے لیے بھی لبوں پر حرف دعا مچلتا ہے اسی فکر کی غمازی ان کی ایک غزل کے ایک شعر میں یوں برپائی گئی ہے   ؎

ذرا بھی نادم نہیں ہیں اس پر

جو شہرِ ہستی مٹا گیا ہے

فاخرہ بتولؔ کے کلام میں داخلی اظہار کے بے انت شواہد ضو پاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں انھیں داخلی احساسات کے پردہ میں ان کے بے پناہ ذاتی حوالے پنہاں ہیں گویا داخلیت بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ ان کے ہاں جلوہ گر ہے اس حوالے سے ان کی ایک غزل کا ایک شعر دیدنی ہے   ؎

یہ کائنات تو پیچھے ہی رہ گئی تھی کہیں

ہجومِ ذات سے تو راستہ نہ ملا

اُن کی فکری عمومیت طرفگی آمیز ہے ان کا آدرش انتہائی بلیغ اور وسعتوں کا حامل ہے ان کا اسلوب ان کے تخیل کو ندرت آمیز کرنے پر قادر ہے وہ عمومی فکر کو ایک خاص انداز میں زیبِ قرطاس کرتی ہیں   ؎

پوچھا تمام خواب کے منظر بھلا دئیے

آیا جواب قید سے پنچھی اُڑا دئیے

پوچھا وہ ساحلوں کی کہانی کا کیا بنا؟

بتلایا سارے نقش ہوا نے مٹا دئیے

الغرض فاخرہ بتولؔ کے فکری و فنی گوشوں کی سیر حاصل سیر کے بعد یہ انکشاف حدِ تیقن کو پہنچتا ہے کہ ان کی فکر ایک زبردست نوع کی عمومیت رکھتی ہے جو براہِ راست قاری کی اقلیمِ خرد پر اپنے نقوش ثبت کرتی ہے مزید شعری ریاضت ان کے لیے فزوں تر معیارات کی ضمانت ثابت ہوسکتی ہے۔

٭٭٭

 

               فاخرہ بتولؔ

جو سوا نیزے پہ سورج کے نکلتا ہو گا

اُس کا سایہ بھی کڑی دھوپ میں جلتا ہو گا

یونہی تو پلکوں پہ یاقوت نہیں آویزاں

کچھ تو ہے جو مرے سینے میں پگھلتا ہو گا

نت نئے رنگ کے پھولوں میں جو آتا ہے نظر

وہ تو موسم بھی نہیں کیسے بدلتا ہو گا؟

درد ہے دل کا مکیں اس کو نکالے بھی تو کون؟

یہ بھی موتی کی طرح سیپ میں پلتا ہو گا

نت نئی آگ میں ہر روز جلاتا ہے جو شخص

ہاتھ اُس کا بھی تو اس کھیل میں جلتا ہو گا

٭٭٭

 

دیکھا تو سب خیال کے منظر بدل گئے

یعنی ہمیں نکال کے منظر بدل گئے

تیرہ شبوں کے زہر میں لپٹے ہوئے سے خواب

جھولی مری میں ڈال کے منظر بدل گئے

جس پل فراق خون کا سرطان بن گیا

وہ لمحے وہ وصال کے منظر بدل گئے

اقرار کے مقام پہ وہ جب مکر گیا

افکار کو سنبھال کے منظر بدل گئے

مٹھی میں خواب یادوں کی کچھ راکھ سی بتولؔ

میری طرف اُچھال کے منظر بدل گئے

٭٭٭

 

فرحؔ اقبال کا کلام اور جوابی رویے

حیاتِ انسانی پر عصری مقتضیات اور عصری مزاج گہرے نقوش ثبت کرتا ہے جن سے روحِ عصر کی ترجمانی ہوتی ہے اس حوالے سے عصری رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ردِ عمل کے طور پر جو رویے نمو پاش ہوتے ہیں انہیں جوابی روئیوں سے موسوم کیا جاتا ہے جس سخنور کے ہاں یہ رویے خطیر انداز میں پائے جائیں اس کے کلام میں مزاحمت کے شواہد بھی آشکار ہوتے ہیں جرأت و جسارت بھی جلوہ ریزیاں کرتی دکھائی دیتی ہے طبقۂ اناث کی سخن گستری سے یہ عوامل بہت کم ہی ہویدا ہوتے ہیں شذرہ ہٰذا میں آج ہمارا موضوعِ بحث فرحؔ اقبال کے کلام میں موجود جوابی رویے ہیں ان کے مجموعۂ کلام ’’دل کے موسم‘‘ مطبوعہ 2007ء کے ثلث اول کے منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

فرحؔ اقبال کا بنیادی تعلق پنجاب سے ہے اُن کی نسبت ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے علم و ادب کا ذوق ان کو ورثہ میں ملا ان کے والدِ گرامی محمد نعیم تاج متعدد کتب کے مصنف تھے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ کی حیثیت سے حکومتِ پنجاب سے ریٹائر ہوئے فرحؔ اقبال نے دورانِ تعلیم پاکستان کی قومی ائیر لائن میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں جس کے باعث انہیں دنیا کی سیر و سیاحت کے مواقع بھی میسر آئے اور ان کے مشاہدات و تجربات میں بے پناہ اضافہ ہوا تا دمِ تحریر ہیوسٹن امریکہ میں مقیم ہیں ان کی ایک پہچان مصوری بھی ہے ہیوسٹن کی اُردو برادری کی علمی و ادبی و سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں انہیں نمایاں طور پر شرکت کرنے کا شرف حاصل ہے وہ پاکستان ایسوسی ایشن آف گرینڈ ہیوسٹن کی تعلیمی کمیٹی کی صدر ہیں اور پاکستان سینئر ہیوسٹن میں ایک لائبریری قائم کرنے کا ایک خواب بھی رکھتی ہیں ’’بھولی بسری یادیں ‘‘ کے نام سے ہیوسٹن میں ایک ریڈیو پروگرام بھی کرتی ہیں جسے وہاں کی معاشرت میں مقبولیت و پذیرائی حاصل ہے پرائے دیس میں اقامت پذیر ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی پاک دھرتی سے اپنا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار رکھا اس لیے وہ اپنی تعطیلات گزارنے کے لیے پاکستان آ کر رہتی ہیں کراچی کی ادبی و سماجی زندگی خصوصاً آرٹس کونسل کراچی کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں اپنی شرکت یقینی بناتی رہتی ہیں یہ ان کے سوانحی کوائف کی چند جھلکیاں تھیں جن کے لیے مذکورہ مجموعہ سے استفادہ کیا گیا۔

جب زیست میں رونقیں اور رعنائیاں معدوم ہو جائیں اور ان کی جگہ مصائب و آلام لے لیں پھر تمام مسرتیں اور خوشگواریاں اپنی بساط لپیٹ لیتی ہیں پھر انسان زندگی سے مفر کی راہیں تلاش کرتا ہے جوابی رویے کے طور پر اسے اپنی ذات سے دلچسپی ختم ہو جاتی ہے کا کِل ہستی مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

 بقول راقم الحروف    ؎

مجھے خود سے ملنے کی فرصت نہیں ہے

حقیقت میں خود سے محبت نہیں ہے

حیاتِ گریزاں سے کترا رہا ہوں

مجھے اور جینے سے رغبت نہیں ہے

جب انسان کے اندر اپنی ذات کا احترام ختم ہو جاتا ہے تو پھر زندگی کا پر اذیت دور شروع ہو جاتا ہے مگر جب انسان عقلِ سلیم سے بہرہ ور ہو تو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی جسارت رکھتا ہے تنقیدی روئیوں کو فروغ ملتا ہے انہیں جوابی روئیوں کی حامل احساسات سے مرصع فرحؔ اقبال کی ایک غزل کے تین اشعار دیکھتے ہیں   ؎

زندگی بھی کچھ گریزاں ہم سے ہے

اور ہم کو بھی بہانہ چاہیے

جو سمجھتے ہیں حسیں خود کو بہت

آئینہ اُن کو دکھانا چاہیے

راہزن ہی قافلہ سالار ہے

قافلے کو یہ بتانا چاہیے

قدرتِ ایزدی نے اس پیکرِ خاکی کو ایسا طبعی نظام ودیعت کیا ہے جو اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی فطرت کے عین مطابق کام کرتا ہے یعنی انسانی ارادے کچھ بھی ہوں لیکن ایک فطری عمل جاری و ساری رہتا ہے انسانی اعضا کا یہ جوابی عمل جوابی روئیوں کا مثیل ہے جس کی عمدہ تمثیل یہ ہے کہ بسا اوقات انسان جھوٹ کو چھپاتا اور دبانا چاہتا ہے لیکن اس کے چہرے کے تاثرات جو خدوخال سے ہویدا ہوتے ہیں اور خصوصاً آنکھیں انسان کا اس تکذیب کے عمل میں ساتھ نہیں دے پاتیں انہوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں اس منفرد حقیقت کو یوں طشت از بام کیا ہے   ؎

آپ جھٹلا دیں ہر اک بات لبوں سے لیکن

آنکھیں سچائی کا اعلان ہوا کرتی ہیں

اُن کے شعوری مخزن میں بنی نوع انسان کے لیے آموز گاری کے بے انت مظاہر ہیں بے حد و بے حساب جانکاری ہے اور انسانی سدھار کے لیے حقیقی زندگی کا عمیق شعور ملتا ہے ان کی ایک غزل کا ایک مطلع ملاحظہ کریں   ؎

بابِ حیات کو نیا عنوان چاہیے

اگلے سفر کے واسطے سامان چاہیے

عصری آشوب زدگیوں ، ستم ظریفیوں اور چیرہ دستیوں کے سبب خواہشوں کا ناپید ہو جانا، رتجگوں کا معدوم ہو جانا اور حسرتوں کا ماتم خیز ہونا ایک فطری امر ہے جسے ردِ عمل سے موسوم کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب خواہشیں پوری نہ ہوں تو پھر وہ حسرتوں کا روپ دھار لیتی ہیں اسی نوع کا داخلی اظہار فرحؔ اقبال کی ایک غزل کے ایک شعر میں کچھ یوں ملتا ہے   ؎

نہ ہیں خواہشوں کے موسم نہ ہیں رتجگوں کے موسم

مری آنکھ سے جھلکتی کسی خواب کی نمی ہے

اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو فرحؔ اقبال کے ہاں عروضی تلازمات کا اہتمام بخوبی پایا جاتا ہے زیادہ تر انہوں نے مرکب بحور میں سخن گُستری کی ہے ان کا اسلوب سہلِ ممتنع کی ردا اوڑھے جاذبیت کے رنگ کا حامل ہے جس کے باعث فطری اظہار کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

مذکورہ توضیحات اس امر کی عکاس ہیں کہ فرح اقبال کے کلام میں جوابی رویے بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں عکسِ دوراں جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے روحِ عصر کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے اگر ان کی مشاطگیِ عروسِ سخن جاری رہی تو وہ کچھ مزید فکری و فنی معیارات کا اہتمام کر پائیں گی جس کی بدولت وہ دنیائے غزل میں اپنی انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

               فرحؔ اقبال

بیتا ہوا کل جیسے کہ خوابوں کی طرح تھا

اس عمر کے صحرا میں سرابوں کی طرح تھا

وہ سایۂ گل تھا کہ بہاروں کی تمنا

تب چہرہ میرا جیسے گلابوں کی طرح تھا

اس بابِ دلِ شوق کے عنوان نہ دیکھے

وہ میرے لیے بند کتابوں کی طرح تھا

پگھلا ہے لہو آنکھ سے ہر لحظہ ہر اک پل

یہ ہجر بھی جیسے کہ عذابوں کی طرح تھا

جلتی ہوئی آنکھوں میں بھڑکتا تھا مرا عکس

وہ ایک نشہ کتنی شرابوں کی طرح تھا

٭٭٭

 

ٹھہرے ہوئے ہیں کچھ پل اک اجنبی جہاں میں

ملتے رہے تھے ہم تم کسی اور کہکشاں میں

جھیلا ہے موسموں کو گزرے ہوئے دنوں میں

سہمے ہوئے ہیں پتے اس بار کی خزاں میں

ہوتے ہی شام جیسے اُڑتے ہیں سب پرندے

اڑ جائیں گے کسی دن ایسے ہی آسماں میں

ہیں تیر وہ چلاتے ہر بار دل پہ ایسے

کوئی روندتا ہو جیسے پھولوں کو گلستاں میں

وہ کر رہے تھے دعویٰ ہم سے محبتوں کا

پر وصل بھی نہ پایا اس ہجر کے گماں میں

٭٭٭

 

کشورؔ ناہید کے شعری رجحانات

شاعری لاتعداد رجحانات و میلانات سے عبارت ہے کسی بھی معتبر شاعر کے ہاں اس کے بے شمار فکری زاویے مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں جس سخن داں کے مشاہدات و تجربات عمیق ہوں گے اس کے افکار بھی اس قدر وسیع و بسیط ہوں گے عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر شعراء و شاعرات کے رجحانات عمومی موضوعات کے گرد گھومتے رہتے ہیں نسائی شعری ادب میں معدودے چند شاعرات ایسی ہیں جن کے ہاں فکری رجحانات کی بہتات ہے انہی معتبر ہستیوں میں ایک نام کشورؔ ناہید کا بھی ہے جن کا کلام فکری وفنی پختگی کا غماز ہے زبان و بیان کا معیار اعلیٰ و ارفع ہے موضوعات میں وسعت اور تنوع ہے ان کا تعلق دبستانِ لاہور سے ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے شعری مجموعہ، ’’لبِ گویا‘‘ مطبوعہ 1991ء کے خمس اول کے منتخب غزلیہ اشعار کے رجحانات کو زیر بحث لاتے ہیں۔

خلوص و مروت کے فقدان کا مسئلہ ہر عہد میں در پیش رہا ہے اور ہر دور کے شعری ادب میں بھرپور انداز میں بیان ہوا ہے شومیِ قسمت سے یہ المیہ گھمبیر اور ہمہ گیر ہے تاریخ کے ہر حصے میں اس  کی بازگشت سنائی دیتی ہے حقیقت یہ ہے کہ ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار میکانزم کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں جن پر مادی دور کا انسان قابو پانے سے قاصر ہے اسی حوالے سے ان کے ہاں نالہ و شیون کے خطیر و پہلو ملتے ہیں کبھی عمومی تجربے کی صورت میں تو کبھی مشیت سے شکوہ و شکایت کے انداز میں ہیں اس لیے ان کی شاعری حرفِ شکایت کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ہے یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں تنقیدی رویے وفور سے ملتے ہیں ان کی غزل کے دو اشعار اسی پسِ منظر میں لائق توجہ ہیں   ؎

نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے

ملیں گے اب تو خلاصے یہی محبت کے

زمامِ کار جہاں کس کے ہاتھ ہے یا رب؟

بدل گئے ہیں تقاضے بھی آدمیت کے

ان کا طرزِ اظہار غیر معمولی اور غیر روایتی نوعیت کا ہے نادر النظیر ترکیبات و تشبیہات کا ایک جہاں آباد ہے ان کی تمثیلات قرینہ کاری کا مظہر ہیں افکار رفعتوں کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں فکری و فنی اور لسانی بالیدگی کے مظاہر آغوش کشا نظر آتے ہیں ان کے داخلی احساسات خارجی اظہار کی راہیں ہموار کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں آموز گاری کے شواہد کا انبار ہے جو جا بجا کارگر دکھائی دیتے ہیں کہیں کہیں بین السطور حیرت و استعجاب کی کیفیات جلوہ ریز ہو رہی ہیں ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیدنی ہیں   ؎

آنکھوں کے آئینوں کا تو پانی اُتر گیا

اب جسم چوبِ خشک ہے یہ سانحہ بھی دیکھ

ہوتی ہے زندگی کی حرارت رگوں میں سرد

سوکھے ہوئے بدن پہ چمڑا کسا بھی دیکھ

بے تابیوں کو سینے کے اندر سمیٹ لے

فتنے کو اپنی حد سے مسلسل بڑھا بھی دیکھ

ہر ذرہ عبرتوں کے سمندر کی شکل ہے

صحرا نورد شوق کبھی نقشِ پا بھی دیکھ

اُن کے تخیلات میں داخلی اظہار کے وسیع تر شواہد ملتے ہیں اور وہ داخلیت میں یدِ طولیٰ رکھتی ہیں ان کی شعری تمثیلات انتہا درجے کی خوبصورت اور حدِ کمال کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں عصری روئیوں کی عکاسی بھی ان کے ہاں قابلِ دید ہے ان کی ایک غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

آنکھوں میں سوئی خواہشیں جاگیں تو جسم بھی

ساکت سمندروں پہ کھلا بادباں لگا

وہ شخص جس کی آنکھ بے رنگ بے طلب

پہلے پہل ملا تو بہت مہرباں لگا

کشورؔ ناہید کے شعری ادراکات عمیق و بسیط ہیں جن میں عمرانی شعور جھانکتا ہوا نظر آتا ہے وہ حقیقی زندگی کی حقیقتوں کی شناور ہیں ان کے کلام سے قاری کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے تخیل کی اڑان بہت بلند ہے ان کی ایک غزل کا ایک شعر قابلِ غور ہے   ؎

لرزو نہ پانیوں میں پڑے عکس کی طرح

پیچھے ہٹو نہ سطوتِ آزار دیکھ کر

مذکورہ استشہادات مشتے از خور وارے کے مصداق ہیں ان کا تمام تر کلام سراپا انتخاب ہے ان کے ہاں بے پناہ شعری رجحانات ہیں ان گنت موضوعات ہیں خوبصورت استعارات و ترکیبات و تشبیہات ہیں مزید شعری ریاضت ان کے لیے فزوں تر معیارات کی ضامن بن سکتی ہے۔

٭٭٭

 

               کشورؔ ناہید

ایک ہی آواز پر واپس پلٹ آئیں گے لوگ

تجھ کو پھر اپنے گھروں میں ڈھونڈنے جائیں گے لوگ

ڈوبتے سورج کی صورت میرا چہرہ دیکھ لو

پھر کہاں بابِ معانی ڈھونڈنے جائیں گے لوگ؟

مت کہو قسمت ہے اپنی بے دلی، ناگفتنی

پھر سحر ہو گی درخشاں پھر بھلے آئیں گے لوگ

پل جھپکنے تک ہے یہ ہنگامۂ وارفتگی

جب نظر سے دور ہو گے بھولتے جائیں گے لوگ

پھر نئی خواہش کے ذروں سے بنائیں گے نگر

پھر نئی رسمِ طلب رسمِ وفا لائیں گے لوگ

منحصر رنگوں کی آتش پر نہیں ہے دلکشی

میلے کپڑوں میں بھی تجھ کو دیکھنے آئیں گے لوگ

٭٭٭

 

شاعروں کے جو پاس رہتے ہیں

وہی اکثر اُداس رہتے ہیں

غم بہر طور اور بہر عالم

زندگی کا لباس رہتے ہیں

داغِ دل کے کبھی محبت میں

بن کے سینے میں آس رہتے ہیں

دل کی دھڑکن بھی اب نہیں میری

آپ کیوں اتنے پاس رہتے ہیں ؟

دل بہت ڈھونڈتا ہے تنہائی

ہم بہت اُن کے پاس رہتے ہیں

٭٭٭

 

گل زیب زیباؔ کا کلام اور عصری آشوب

تخلیق کار یا سخنور کا کام حالات و واقعات کو حقیقی انداز میں بیان کرنا اور زیست کے مصائب و آلام کا مداوا تلاش کرنا ہے عموماً چونکہ حالات نامساعد رہتے ہیں اس لیے عہد کی آشوب زدگیوں کا مذکور عصری آشوب کہلاتا ہے جن سخن گُستروں کا کلام ان کیفیات و واردات سے عبارت ہوتا ہے اُن کے ہاں عکسِ دوراں واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اسی لیے اُن کے سخن کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم گل زیب زیباؔ کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کی شاعری مذکورہ خصوصیات سے متصف ہے اُن کے شعری مجموعہ مطبوعہ 1998ء ’’گلِ ریگزار‘‘ کے نصف اول کی منتخب غزلیات شاملِ تجزیہ کرتے ہیں گل زیب زیباؔ کا تعلق دبستانِ کراچی سے اور ان کے شوہر نثار احمد نظامانی ضلع سانگھڑ کے ایک زمیندار ہیں زیباؔ جی کے ہاں ذوق و شوق پوری فراوانی سے موجود ہے کتابِ ہٰذا کے پیش لفظ ’’میں اور میری شاعری‘‘ میں لکھتی ہیں : ’’پروفیسر آفاق صدیقی کو بمع اہلیہ اپنے گھر اُٹھا لائی اور اس مجموعے پر جبری اصلاح لی پھر محسن بھوپالی کو زحمت دی اور اُن سے کلام کے انتخاب میں مشورہ لیا۔ ‘‘

انسانی طبائع میں وہ انقلاب آیا کہ خلوص و مروت نے اپنی بساط لپیٹ لی جس کے لازمی نتیجے کے طور پر غرور و تکبر نے فروغ پایا اور پندارِ خدائی کے باعث ہر شخص کی گردن اکڑ رہ گئی ایک لایعنی انا کا بول بالا ہوا ہے جب انسانی رویے ناہموار ہوں کج روی عروج پر ہو تو ایک حساس دل انسان محوِ فریاد اور مصروفِ فغاں ہو جاتا ہے جس کے ناخوشگوار اثرات ماحول پر بھی مرتب ہوتے ہیں تو پھر ہوائیں روٹھ جاتی ہیں حبس زدہ موسم میں حیاتِ انسانی کی سانسیں گھٹ کر رہ جاتی ہیں پھر زیست ایک عقوبت ناک منظر پیش کرتی ہے حقیقی انا کا خون ہو جاتا ہے ہر سو ظلمت و دہشت ایک مہیب منظر پیش کرتی ہے جب ہر ہاتھ میں خنجر اور ہر آستیں پر خون ہو تو پھر سماج قاتل و ستمگر کا روپ دھار لیتا ہے سنسار دوزخ سماں بن جاتا ہے جیسا کہ آج کل کراچی کے حالات ہیں اسی طرزِ فکر کے حامل ان کی غزل کے چار اشعار دیدنی ہیں   ؎

بکھری ہوئی ہے تیری انا تیرے شہر میں

ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں

دیتی رہی ہوں روز صدا تیرے شہر میں

کترا رہی ہے مجھ سے ہوا تیرے شہر میں

جینا بھی ہو گیا ہے سزا تیرے شہر میں

خنجر ہر ایک ہاتھ میں ہر آستیں پر خوں

زیباؔ کو کس نے قتل کیا تیرے شہر میں ؟

حالات کے بگڑنے اور مسائل کے الجھنے کے اسباب جب بے چگونی کیفیت اختیار کر جاتے ہیں تو پھر گومگو کا وہ عالم ہوتا ہے کہ انسان سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جان پاتا اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا ایک حساس انسان تا حیات وفاؤں کی پالنا کرتا رہتا ہے اور مروتوں کا خوگر رہتا ہے اس سعیِ جمیل میں اپنا سب کچھ وار دیتا ہے قدرتِ ایزدی انسان کو زندگی کرتے کا حوصلہ دیتی ہے اور وہ حیات کی کٹھنائیوں کے آگے سینہ سپر ہو جاتا ہے گل زیب زیباؔ کے ہاں فنی چابکدستی کا یہ عالم ہے کہ وہ مشکل ردیفوں ، قوافی اور سنگلاخ زمینوں میں زبردست مضمون آفرینی کے جوہر دکھلاتی ہیں اور اُن کے تخیل کی جولانی اور روانی پوری آب و تاب سے کار فرما ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کے چار اشعار دیکھیں   ؎

کس نے کیا ہے خون جگر کچھ نہ پوچھیے؟

ہم خود بھی جانتے ہیں مگر کچھ نہ پوچھیے

راہِ وفا میں ایسے بھی کچھ مرحلے رہے

ہم نے جلایا اپنا ہی گھر کچھ نہ پوچھیے

وہ کون سی طلب تھی کہ ہم تنہا ہو رہے؟

دنیا کے آگے سینہ سپر کچھ نہ پوچھیے

عہدِ وفا کا ہم نے بھرم اس طرح رکھا

خود کو کیا ہے خاک بسر کچھ نہ پوچھیے

محبت کا فقدان انسان کو وحشت کی ہولناکیوں سے ہم آغوش کر دیتا ہے عالمِ ہجراں میں دامن چاک اور گریباں تار تار ہو جاتا ہے پھر کوئی رفوگر میسر نہیں آتا یہ صورت حال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ دلِ دریدہ کو الفت نہیں ملی اسی حوالے سے اُن کا ایک قطعہ لائقِ توجہ ہے   ؎

آنکھوں کو اشک چہرے کو وحشت نہیں ملی

شاید تمہیں کسی کی محبت نہیں ملی

دامن ہی چاک ہے نہ گریبان تار تار

کیا یارِ دل نواز کی صحبت نہیں ملی؟

جب دروں کی دنیا میں حزن و الم کے لاوے اُبلتے ہیں تو پھر کتھارس کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور داخلی اظہار کو فروغ ملتا ہے اگر زبان اظہار سے قاصر رہے تو داخلی دنیا غم و یاس کی آماجگاہ بن جاتی ہے اس لیے کتھارس کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کا یہ شعر لائق التفات ہے   ؎

وہ دل کا مرے ناسور بنی

جو بات زباں نہ کہہ پائی

حالات کی واژ گونی اس قدر پر ہول صورت اختیار کر گئی ہے کہ انسان کو کہیں بھی جائے اماں میسر نہیں ہے جب دہشتوں کا دور دورہ ہو تو جان بچانا بہت بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے اس عصری آشوب کی غمازی اُن کی غزل کے اس شعر میں قابلِ غور ہے   ؎

یہ بہت ہے کہ شر کے میلے میں

جان اپنی بچا کے گھر لاؤں

مشمولہ استشہادات اس امر کی شاہد دل ہیں کہ گل زیب زیباؔ کے فکری کینوس میں عصری حالات کی واژ گونی کا بھرپور اظہار موجود ہے جس کا واضح سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہد سے اثر قبول کیا اور اپنے عصر کو متاثر کرنے میں بھی خاطر خواہ حد تک کامیاب ہوئی ہیں اگر تواتر سے اُن کا ریاضِ شعر جاری و ساری رہا تو اُن کے سخن سے اُن کے دور کی سنگینی مزید اُجاگر ہو کر سامنے آئے گی۔

٭٭٭

 

               گل زیب زیباؔ

جو چاہتوں کے سراب ٹوٹے

تو میری راہوں کے خواب ٹوٹے

کل آئینے میں جو خود کو دیکھا

عجب طرح کے عذاب ٹوٹے

سکوت کتنا ہے زندگی میں ؟

وہ آئیں تو کچھ عتاب ٹوٹے

وہ حال پوچھا کیے جو ہم سے

لبوں پر آ کے جواب ٹوٹے

مثالِ برگِ خزاں ہیں اب تو

نہ جانے کب یہ حباب ٹوٹے؟

٭٭٭

 

بن ترے شب گزار لی میں نے

کیا قیامت سہار لی میں نے؟

دیکھ اے جانِ جاں تری صورت

لوحِ دل پر اُتار لی میں نے

تیری آنکھیں یہ تیرے لب جن سے

زندگانی اُدھار لی میں نے

آہ اک عمر گروی رکھی تب

دو دنوں کی بہار لی میں نے

٭٭٭

 

موناؔ شہاب اور نئے شعری امکانات

مشیت نے جسے زر خیز قوتِ متخیلہ ودیعت کی ہو تو وہ پھر افکار کی نئی دنیا کا متلاشی ہوتا ہے وہ شعراء و شاعرات جن کے لیے شاعری کبھی مسئلہ نہیں رہی انہوں نے تخیلات کی نئی تخم ریزی کی ہے وہ فکر کی عمومی ڈگر پر چلنا نہیں چاہتے وہ خیالات کی ایک نئی دنیا بساتے ہیں ان کی سوچ کا تانا بانا روایتی احساسات کے گرد نہیں گھومتا۔ اُردو کے ادبی مراکز سے دوری کے باوجود دنیائے شعر و سخن کے دیوانے دنیائے شعر کی ایک نرالی جوت جگاتے ہیں ایسی ہی معتبر شخصیات میں موناؔ شہاب کا نام بھی شامل ہے جن کا بنیادی تعلق کراچی سے ہے لیکن بسلسلہ درس و تدریس شمالی امریکہ میں مقیم ہیں وہاں ذہنی معذور بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں ان کے ہاں نئے شعری امکانات کی ایک قوسِ قزح ہے جو اپنے رنگ بکھیر رہی ہے ان کے شعری مجموعہ ’’صدا جب لوٹ کے آئی‘‘ مطبوعہ 2003ء کے منتخب اشعار بطور استشہادات شاملِ شذرہ ہیں یہ ان کا اولین مجموعہ کلام ہے جو مونا شہاب کے حوالے سے معروف شاعر اپنے تاثرات میں یوں رقمطراز ہیں۔

’’امریکہ میں چند شاعرات ایسی ہیں جو اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں موناؔ شہاب ان ہی میں سے ایک ہیں مونا اپنے موضوعات کے اعتبار سے بھی منفرد ہیں یہی سبب ہے کہ اپنے عہد کی با شعور شاعرات میں سب سے نمایاں ہیں اور سب سے مختلف نظر آتی ہیں۔ ‘‘

موناؔ شہاب کی شاعری میں ایک بھرپور نوعیت کا نسائی احساس بھی جلوہ ریزیاں کرتا دکھائی دیتا ہے امیدوں اور امنگوں کی ایک نئی دنیا آباد ہے ان کا تخیل وسعتوں سے ہمکنار نظر آتا ہے محبت اور وفا کے رنگ بھی ہیں خوشبوؤں کا احساس ہے لہجے کی شیرینی ہے وطن سے دوری کے باعث کہیں کہیں جذبۂ حب الوطنی جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے انہیں افکار سے منسوب ان کی ایک پوری غزل پیشِ خدمت ہے    ؎

میں پرواز کرنا چاہتی ہوں

دھنک پر پاؤں دھرنا چاہتی ہوں

زمیں پر دل مرا لگتا نہیں ہے

فضاؤں میں بکھرنا چاہتی ہوں

محبت کی ادھوری داستاں میں

وفا کا رنگ بھرنا چاہتی ہوں

کسی کی راہ کا کانٹا نہیں ہوں

میں خوشبو ہوں بکھرنا چاہتی ہوں

میں اپنی خوش کلامی سے دلوں میں

خوشی بن کر اُترنا چاہتی ہوں

مری یہ جاں امانت ہے وطن کی

سو اس کے نام کرنا چاہتی ہوں

اُن کے ہاں لطیف اور خوشگوار احساسات اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں رجائی امکانات ہیں جو ایک شانِ دل آویزی لیے ہوئے ہیں نئی آسیں ، امیدیں اور امنگیں جلوہ ریز ہو رہی ہیں اس عہدِ پر آشوب میں اس نوع کے جذبات یقیناً خوش آئند ہیں ان کی غزل کا مطلع پیشِ خدمت ہے   ؎

مجھ کو وہ خواب دیکھنا ہے ابھی

جس کو گھر گھر میں بانٹنا ہے ابھی

وہ مشرقی تہذیب و تمدن کی پروردہ ہیں مشرقی اقدار کی پاسداری ان کے شعری مخزن میں بدرجہ اتم ملتی ہے امریکی معاشرت میں رہتے ہوئے بھی وہاں کی چکا چوند انہیں مرغوب نہیں کرسکی وہ اپنی تہذیب پر فاخر و نازاں دکھائی دیتی ہیں اور انہیں اہلِ زبان ہونے پر ناز ہے وہ الفاظ کی حرمت اور تقدس کی قائل ہیں ان کی ایک غزل کا مطلع زیب قرطاس ہے   ؎

مجھے عزیز ہے پُرکھوں کی آن بھی تو کیا؟

جو میں ہوں وارث اہلِ زبان بھی تو کیا؟

اُن کے کلام میں رومانوی تخیلات اپنی خالص صورت میں ملتے ہیں محبوب کی آمد پر انہیں ہوا مشکبار اور مزاجِ موسم خوشگوار دکھائی دیتا ہے مجازی حوالے توانا انداز میں پائے جاتے ہیں خیالات فطری ہیں کہیں کہیں طرب کے خوبصورت رنگ جلوہ ریز ہو رہے ہیں مظاہر فطرت کا مذکور بھی ان کے شعری خصائص کا حصہ ہے ان کی غزل کے دو اشعار لائقِ توجہ ہیں   ؎

آیا ہے کون کیوں یہ ہوا مشکبار ہے؟

موسم کا بھی مزاج بہت خوشگوار ہے

شبنم نے فرطِ شوق میں موتی لٹائے ہیں

لبریز گل کے ہاتھ میں جامِ بہار ہے

مصرع در مصرعہ، شعر در شعر، غزل در غزل بین السطور ایک نادرہ کاری اور پُرکاری ہے جو قاری کو متوجہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ان کا پیرایۂ اظہار غیر معمولی اور غیر روایتی اہمیت کا حامل ہے خیالات کا ایک تلاطم خیز سمندرہے جو ہر آن ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس سے ان کے شعری تموّج کی غمازی ہوتی ہے ہر جگہ ایک تہذیبی پرمپرا ایک نئی آن بان میں ملتی ہے تنقیدی رویے عصری روئیوں کے روپ میں جلوہ ریزیاں کر رہے ہیں ان کی غزل کے چند اشعار دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نذر ہیں   ؎

ساحل پہ آئے موج سمندر کے ساتھ ساتھ

کشتی جلا کے چھوڑ دی لنگر کے ساتھ ساتھ

ماں ہو کے ماں کا دکھ نہ سمجھ پائی وہ کبھی

یہ سانحہ ہے قوم کی دختر کے ساتھ ساتھ

بستی میں ایک ہے خوب حفاظت کا انتظام

کھینچے گئے ہیں خار ہر اک گھر کے ساتھ ساتھ

دل کا بُرا نہیں میرے آنگن میں اس نے آج

پھینکے ہیں چند پھول پتھر کے ساتھ ساتھ

مجھ کو یقیں ہے پھر مری تہذیب کے نقیب

کرنوں کی رَتھ پر آئیں گے خاور کے ساتھ ساتھ

اُن کی ایک اور غزل کے چند اشعار بدونِ تبصرہ ملاحظہ کریں    ؎

وہ دور شام کا سورج جو ڈھلنے والا ہے

بتا رہا ہے نیا دن نکلنے والا ہے

ہوائیں اس کو بجھائیں گی کس طرح سوچو؟

کہ یہ چراغ تو سینے میں جلنے والا ہے

شجر سے گرے ہیں تو یہ گماں ہے ہمیں

مرے مزاج کا موسم بدلنے والا ہے

وہ مجھ سے پیار سے بولے تو دل میں خوف آئے

کہ کیا وہ اور کوئی چال چلنے والا ہے؟

جو سر اٹھائے کھڑا تھا ہزار صدیوں سے

روایتوں کا دروازہ کھلنے والا ہے

مذکورہ چند استشہادات مشتے از خور وارے کے مصداق ہیں ان کے علاوہ بھی ان کے متعدد اشعار ہیں جو حوالے کا استحقاق رکھتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ موناؔ شہاب کے کلام میں بے پناہ نئے امکانات ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کی نوید ہیں مزید شعری ریاضت اُن کے سخن کو چار چاند لگا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

               موناؔ شہاب

کل جو بچ کے آ گیا تھا تیر سے تلوار سے

آج زخمی ہو گیا ہے وہ زباں کے وار سے

دھوپ سر پر ظلمتوں کی کیا پتہ کب تک رہے؟

تم بھی لگ کے بیٹھ جاؤ سایۂ دیوار سے

بیچ دی غیروں کے ہاتھوں کیوں حمیت آپ نے؟

بس یہی شکوہ ہے مجھ کو آج کی سرکار سے

اب کہاں ہم میں کوئی سالار باقی رہ گیا؟

جو دکھائے معجزہ ٹوٹی ہوئی تلوار سے

اس نے میری ہمتوں کا خون سارا پی لیا

مجھ کو ویرانہ ہے بہتر ایسے لالہ زار سے

٭٭٭

 

سوکھی شاخوں کے تن کو گلوں کا حسیں پیرہن دے گئی

جاتے جاتے صبا ہم کو پیغامِ دار و رسن دے گئی

سکھ کے گاؤں میں آ کے جو ٹھہرے کبھی درد کے قافلے

زندگی اپنے ہاتھوں سے خود بام و در کو کفن دے گئی

آج ترکِ محبت کا مجھ کو بھی اتنا ہوا فائدہ

کہ تری بے نیازی مری خامشی کو سخن دے گئی

جب فضاؤں میں بارود اُڑنے لگا سانس گھٹنے لگی

میرے سینے کو بوجھل ہوا اک عجب سی چبھن دے گئی

٭٭٭

 

نجمہؔ عثمان کی شعری حسیات

حیاتِ انسانی میں حواسِ خمسہ کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے فنونِ لطیفہ میں ان کا کردار کلیدی و مرکزی نوعیت کا حامل ہے فنِ شعر گوئی میں سخن گُستر کی فکری و فنی حساسیت خصوصی اہمیت رکھتی ہے اگر اس کا استعمال گہرائی و گیرائی کے ساتھ ہو تو رفعت و ندرت آشکار ہوتی ہے اگر عمومی انداز میں ہو تو فطری اظہار کو فروغ نصیب ہوتا ہے سخن داں کی ذاتی حسیات اگر نادر النظیر ہوں تو ایک انفرادیت افکار سے جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے بہت ہی کم شعراء و شاعرات کے ہاں عمیق حساسیت کی تمثیلات ملتی ہیں ان معدودے چند ناموں میں ایک نام نجمہ عثمان کا بھی ہے جن کی فکر بسیط حساسیت کی غماز ہے شذرہ ہٰذا میں ہم نجمہ عثمان کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں ان کے شعری مجموعہ، ’’کڑے موسموں کی زد پر‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کا نام بھی عصری بے حسی کا غماز ہے جس سے ان کا عصری روئیوں کے حوالے سے ایک فطری شعور جلوہ نما دکھائی دیتا ہے مذکورہ مجموعہ کی اشاعت اپریل 1999ء میں عمل میں آئی جس پر شاہدہ حسن اور احمد حمدانی کی آراء ثبت ہیں۔

تخلیق کار کا رشتہ اپنی دھرتی، اپنے دیس اور اپنی جنم بھومی سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے جس کی یادیں ایک سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں اجنبی دیسوں کے سفر میں انسان کو یہ یادیں پل پل ستاتی ہیں اور انسان ایک جاں گداز اور جاں سوز عمل سے گزرتا ہے نجمہؔ عثمان کا اگرچہ بنیادی طور پر تعلق تو کراچی سے ہے مگر اس وقت وہ یو کے میں مقیم ہیں ان کے افکار انہیں احساسات سے مرصع ہیں ان کے کلام میں ایک گھریلو زندگی کا شعور جلوہ گر نظر آتا ہے صنفِ نازک ہونے کی حیثیت سے بنتِ حوا کے مصائب و آلام کا مذکور بھی ان کے خیالات کا ایک نمایاں وصف ہے کنوارے پن کی حسیں یادیں اور میکے کے حسیں تصورات بھی ان کے اشعار کے پردے میں جھانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں انہیں تخیلات کی ترجمانی نجمہ عثمان کی زبانی ان کی ایک غزل کے دو اشعار میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

گھر کی مٹی مری نظر میں رہی

اور میں اجنبی سفر میں رہی

بیٹیوں کی ہری بھری سی ہنسی

اپنے میکے کے بام و در میں رہی

بسا اوقات انتہائی سادہ اور شستہ انداز میں گہری رمز کی باتیں ان کے ہاں ملتی ہیں جن میں ایک عمیق فلسفہ پنہاں ہوتا ہے ان کے ہاں روحِ عصر کی بھرپور عکاسی ملتی ہے تنقیدی اور جوابی رویے بھی ان کے افکار کا حصہ ہیں اسی پسِ منظر میں ان کی ایک غزل کا مطلع لائقِ توجہ ہے   ؎

دائرہ روشنی کا مدھم ہے

تیل شاید چراغ میں کم ہے

اُن کے ہاں نسائی احساسات کا فروغ بھی ہے جس کے باعث عورت شناسی کا شعور ملتا ہے جس میں عورت کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹے چھوٹے غم پنہاں ہیں بچپن کی حسیں یادوں کا اظہار دلکش پیرائے میں ملتا ہے اسی نسبت سے ان کی ایک غزل کے چار اشعار دیدنی ہیں   ؎

ہاتھ میں جب حنا رچی ہو گی

جانے کیا کچھ وہ سوچتی ہو گی؟

میرے بچپن کی ننھی منی بیل

کس کے آنگن میں پھیلتی ہو گی؟

اب جو ہر رنج جھیلے جاتی ہے

کبھی نازک سی اک پری ہو گی

ننگے پاؤں چلی وہ مٹی پر

یاد بچپن کی آ گئی ہو گی

ایک سچے اور کھرے تخلیق کار کی طرح ان کے ہاں صداقتوں کا فروغ ہے وہ زیست کی ظلمتوں سے برسرِپیکار نظر آتی ہیں وہ شبِ تیرہ کی تیرگی کے خلاف معرکہ آرا دکھائی دیتی ہیں وہ ظلمت کے اندھیروں میں صداقت کے اجالوں کی تخم ریزی کر رہی ہیں ان کے افکار میں صداقتوں کی پیوند کاری ایک مستحسن اقدام ہے اسی حوالے سے ان کی ایک غزل کا ایک شعر زینتِ قرطاس ہے   ؎

سنو میں زندگی کی ظلمتوں میں

صداقت کے اجالے بو رہی ہوں

وہ اپنی قوتِ متخیلہ کے بل بوتے پر داخلی اظہار کی راہیں ہموار کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کی دروں بینی ان کی داخلیت کی عکاس ہے خلوتوں میں بھی جلوتوں کا سماں نظر آتا ہے کیونکہ وہ اپنے دروں میں محفل سجائے رکھتی ہیں اور اپنے اندر کی باز گشت کو بغور سنتی ہیں ان کے احساسات ان کی بھرپور داخلیت کی غمازی ہوتی ہے   ؎

کسی تنہائیوں میں بیٹھی ہوں

اپنے اندر کا شور سنتی ہوں

اُن کے افکار میں حزن و طرب کے یکساں پہلو دکھائی دیتے ہیں غم و الم سے ایک موانست کا جذبہ ہے جو انتہائی دلچسپ انداز میں ملتا ہے جہاں مصائب و آلام انہیں حسیں صورت میں نظر آتے ہیں ان کی متلوّن مزاجی طبیعت کی خوشگواری کے بہانے ڈھونڈتی ہے بچپن کا معتبر اور مستقل حوالہ ہے ان کی غزل کے دو اشعار دا منِ دل تھام رہے ہیں   ؎

یاسیت کے رنگ آنکھوں کو مری بھانے لگے

صحن اپنا زرد پھولوں سے سجا اچھا لگا

یاد آئیں اپنے بچپن کی کئی یادیں مجھے

ایک بچہ بے تکلف بولتا اچھا لگا

متذکرہ توضیحات و تصریحات اس امر کی غماز ہیں کہ نجمہؔ عثمان کی شعری حساسیت عمیق و بسیط ہے جس کی بدولت اُن کے فکری و فنی خدوخال اُجاگر ہوئے ہیں مزید معیارات کی بازیافت کے لیے انہیں اپنی شعری ریاضت تسلسل سے جاری رکھنی ہو گی۔

٭٭٭

 

               نجمہؔ عثمان

مسافروں کی رات کیا جہاں رکے گزر گئی؟

مسافتوں کے باب میں اک اور دن گزر گیا

میں آنسوؤں میں ڈوب کے سراپا ناز بن گئی

وہ چند مسکراہٹیں جو میرے نام کر گیا

میں پور پور زخم تھی مگر ہری بھری رہی

وہ پھول پھول شاخ سے جدا ہوا تو مر گیا

کچھ ایسا تلخ بھی نہ تھا مرا فسانۂ الم

مگر قلم کی نوک میں یہ کون زہر بھر گیا

مکاں پر رنگ تھا نیا پرانے چہرے خاک تھے

وہ مدتوں کے بعد جب پلٹ کے اپنے گھر گیا

٭٭٭

 

عذاب کتنے اُٹھائے ہیں اک خوشی کے لیے؟

چھلک پڑا ہے لہو آنکھ سے ہنسی کے لیے

میں ایک عمر سے ہوں اس طرح چراغ بدست

کہ انگلیاں بھی جلالی ہیں روشنی کے لیے

مجھے تو رشتۂ جور و ستم بھی ہے منظور

تمہیں بھی کاش سلیقہ ہو دشمنی کے لیے

چھپے تھے چاند ستارے گزشتہ رات کہاں ؟

بہت اُداس دریچے تھے چاندنی کے لیے

اُداس اُداس گزارو گی زندگی کب تک؟

بس اک خوشی سے جیئے جاؤ زندگی کے لیے

٭٭٭

 

نسیمؔ آراء کی اضطرابیہ شاعری

فطری طور پر بنی نوع انسان کو دیگر مخلوقات کی نسبت عمیق حسیات ودیعت کی گئی ہیں قدرت نے جسے تخلیقی اظہار کے وصف سے نوازا ہو اُس میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے طبعی اضطراب گہری حساسیت کا غماز ہوتا ہے یہ وہ وصفِ عجیب ہے جس کے باعث داخلی اظہار کو فروغ ملتا ہے جو لوگ داخلیت میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ان کے ہاں اضطرابی کیفیات مشاہدہ کی جا سکتی ہیں اضطراب اگرچہ ایک داخلی کیفیت ہے لیکن یہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے جو شاعر کو مقبولیت و پذیرائی کی دوامی خصوصیت عطا کرتا ہے اس کی جھلک تمام شعراء و شاعرات کے ہاں کم و بیش پائی جاتی ہے آج ہم کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ نسیم آرا کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کا کلام اضطرابی کیفیات سے مملو ہے جنہوں نے اردو اور پنجابی زبان میں طبع آزمائی کی ہے ان کے شعری مجموعہ ’’اضطراب‘‘ کے چند غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں کتابِ ہٰذا کی طباعت 2009ء میں عمل میں آئی مجموعہ ہٰذا کے حوالے سے محسن احسان، عقیل احمد، فضا اعظمی، جمال نقوی، انوار الحق صدیقی اور پروفیسر سحر انصاری کی آراء ثبت ہیں اس سلسلے میں انوار الحق صدیقی گویا ہیں ’’محترمہ نسیم آرا، امید و بیم، منفی سے مثبت تکلیف سے راحت کا سفر اپنی غزل میں پہلو در پہلو اضطرابِ روح کو حسنِ معنی سے بہرہ ور کرتی ہیں یہ اضطراب ان کی نظموں میں تسلسل اختیار کر لیتا ہے اور اس طرح کی گہرائی میں ایک ہمہ جہت تاثر پیدا کر دیتا ہے۔

نسیمؔ آرا کے ہاں حب الوطنی کے شواہد بکثرت ملتے ہیں وہ وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار ہیں جس کی جھلک ان کے افکار میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے وطن اور ہم وطنوں کا دکھ درد ان کے اشعار میں بھرپور انداز میں ملتا ہے اس سلسلے میں ان کی ایک مسلسل غزل ملاحظہ کریں   ؎

اس سرزمینِ پاک کی وحدت کو کیا ہوا؟

دو لخت ہو گئی جو اخوت کو کیا ہوا؟

اُجڑا ہوا چمن در و بام منہدم

میرے تصورات کی جنت کو کیا ہوا؟

خوں دے کے بابِ ظلم کو سمجھے تھے بند ہوا

پھر بہہ رہا ہے خون کی ضرورت کو کیا ہوا؟

وہ بزم جس میں اپنی اخوت کی دھوم تھی

اس انجمنِ ناز کی زینت کو کیا ہوا؟

بکھرے ہوئے خیال و سہما ہوا کلام

اب کیا کہے نسیمؔ طبیعت کو کیا ہوا؟

اُن کا اضطراب انفرادی اور اجتماعی ہر حوالے سے ممتاز و ممیز ہے ان کے ہاں انفرادی حوالوں کی نسبت اجتماعی حوالے بکثرت ملتے ہیں کلام میں عصری آشوب جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری اور عصری بے حسی کے شواہد ساتھ ساتھ چلتے ہیں   ؎

جذبوں کی صداقت کا ہم کتنا بھرم رکھتے؟

آئین وفا نے تو مظلوم تراشے ہیں

زیست کی سانسیں اور شب و روز کے تسلسل کو وہ حزن و الم سے مربوط گردانتی ہیں فطری طور پر انہیں غم سے مفر مطلوب ہے اور اس سے رستگاری کی خواہاں ہیں جس کے باعث اُن کے تخیلات میں یاسیت کے پہلو بھی اُجاگر ہوئے ہیں   ؎

یہ زندگی کے جھمیلے ہیں کم نہیں ہوں گے

فضا وہ ہو گی کہاں جس میں غم نہیں ہوں گے؟

وہ زندگی کے اسرار و رموز سے پردہ اُٹھانا چاہتی ہیں اور اس حقیقت کی متلاشی ہیں اس لیے ان کے ہاں زندگی غم کے روپ میں جلوہ ریز ہوئی ہے یہی سبب ہے کہ وہ سراپا سوال دکھائی دیتی ہیں   ؎

زندگی جانے کہاں ہے زندگی؟

کون جانے کیوں گراں ہے زندگی؟

حیات کے پر پیچ سفر میں وہ اس کی کٹھنائیوں کی داستاں رقم کر رہی ہیں اسی حوالے سے وہ کسی قسم کی قربانی سے گریز نہیں کرتیں کیونکہ زندگی کا عکسِ جمیل دیکھنا چاہتی ہیں جہاں خوشی کو زوال نہ ہو اور غم کو حاصل کمال نہ ہو بسا اوقات ان کا پیرایۂ اظہار انقلابی صورت اختیار کر جاتا ہے اسی حوالے سے ان کی غزل کے دو اشعار دق الباب کرتے دکھائی دیتے ہیں   ؎

رنگینیِ حیات کے ارمان دیکھیے

اپنے لہو میں آپ نہاتے ہوئے گئے

ہو دور کچھ تو راہِ حوادث کی تیرگی

ہم آپ اپنے گھر کو جلاتے ہوئے گئے

ان کے ہاں غم کی رفاقت کا ایک تسلسل ہے خوشیوں کے جھمیلوں میں بھی وہ اداس دکھائی دیتی ہیں ان کا حزن و اضطراب لازوال نوعیت کا حامل ہے   ؎

جب خوشی آس پاس ہوتی ہے

کیوں طبیعت اُداس ہوتی ہے

کلام میں اسلوب کی چاشنی ہے مضمون آفرینی ہے اور اضطراب عالمِ شباب کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ان کا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا حامل ہے جس میں قاری کے لیے دلچسپی کے بے پناہ اثار موجود ہیں ان کا کلام نسائی شعری ادب کی ایک منفرد آواز ہے مسلسل ریاضت کی بدولت ان کا فکر و فن رفعتوں سے ہمکنار ہو گا۔

٭٭٭

 

               نسیمؔ آرا

آئی ہے آئے موت احتراز کیوں کریں ؟

اس بے ثبات دنیا پہ ہم ناز کیوں کریں ؟

اپنی خوشی سے اُڑ نہ سکے ایک دن بھی ہم

صیاد کہہ رہا ہے تو پرواز کیوں کریں ؟

سمجھی ہوں تیری بات بہت خوب مگر دوست

انجام ہے معلوم تو آغاز کیوں کریں ؟

خود ہی چھپ کے رکھ نہیں سکتے جو اپنا راز

ہم کو قسم دلا کے وہ ہمراز کیوں کریں ؟

دنیا سے کیوں کہیں بھلا ہم اپنے دل کی بات؟

اور اختیار غم زدہ انداز کیوں کریں ؟

چپ چاپ چلے جاتے ہیں سوئے عدم نسیمؔ

چونکائیں کیوں کسی کو ہم آواز کیوں کریں ؟

٭٭٭

 

مجھ پہ قسمت کی یہ کیا بیداد ہے؟

اے خداوندا مرے فریاد ہے

روح میں کانٹے چھپے جاتے ہیں کیوں ؟

دل پہ کیسی آ پڑی افتاد ہے

نوچ ڈالے پر مرے صیاد نے

اب یہ کہتا ہے کہ تو آزاد ہے

جو فنا ہی ہو گیا بدلے گا کیا؟

مجھ کو اب تیرے سوا کیا یاد ہے؟

میرے دل کی دھڑکنوں سے پوچھ لو

کون ان میں ہر گھڑی آباد ہے؟

کس طرح گزریں گے دن باہم نسیمؔ؟

ساتھ یہ مجموعۂ اضداد ہے

٭٭٭

 

شبیر ناقدؔ کے سوانحی اور فنی کوائف کا اجمالی تعارف

               شاعر علی شاعرؔ

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقدؔ ہے۔ یکم فروری 1976ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطے ڈیرہ غازی خاں کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیرو شرقی میں پیدائش ہوئی۔ عہدِ طفولیت میں ہی طبیعت لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوئی۔ گویا فطری طور پر علم و ادب کا ذوق مشیت سے ودیعت ہوا۔ عام بچوں کی طرح کھیل کود کے مشاغل میں اُن کی دل چسپی انتہائی کم رہی۔ لیل و نہار کا بیشتر حصہ حصولِ علم میں صرف ہوا۔ میٹرک کا امتحان 1992ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ہیرو شرقی سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ 1994ء کو گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے ڈی کام کیا۔ شاعری کا بے ضابطہ آغاز تو نویں جماعت سے ہی ہو گیا تھا۔ اوّلاً انگریزی، اُردو اور سرائیکی زبان میں طبع آزمائی کی۔ Beauty،ٹیپو سلطان اور حرّیت اُس دور کی معرکۃُ الآراء نظمیں ہیں ، لیکن سخن سازی کا باضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ادبی فیض ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ سے پایا۔ شبیر ناقدؔ کا شمار پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے اُن تلامذہ میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے استادِ گرامی سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اُن کی بسیار گوئی بھی اپنے اُستادِ محترم سے کچھ نہ کچھ حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ اُن کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ اُن کے ابھی تک تین شعری مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں ، لیکن اُن کے غیر مطبوعہ کلام سے ایک درجن شعری مجموعے باآسانی ترتیب پا سکتے ہیں۔ زبان و ادب کی خدمت کو روح کی ریاضت گردانتے ہیں۔ اِس لیے بلا امتیاز شام و سحر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری میں منہمک رہتے ہیں۔ ادب اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اُن کے معمولات ادبی خدمات سے عبارت ہیں۔ اگر کوئی تلمیذِ ادب راہ نمائی کا خواست گار ہو توبہ صد خلوص اُس کی حاجت کشائی کرتے ہیں۔ اُن کے شب و روز اُن کی ادب سے وابستگی کے جنون کی حد تک غماز ہیں۔ گویا شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے اَن تھک راہی ہیں جو خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں ، اِس سلسلے میں وہ اپنے آرام اور صحت کی بھی پروا نہیں کرتے۔

جولائی 1999ء میں اُنہوں نے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ تا دمِ تحریر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 2001ء کو بی اے کا امتحان بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی،ملتان سے نجی طور پر پاس کیا۔ 2003ء کو جامعہ ہذا سے اُردو ادبیات میں ایم اے کیا اور 2007ء کو مذکورہ یونیورسٹی سے پنجابی ادبیات میں ایم اے کیا۔

دسمبر 2007ء میں اُن کا اوّلین اُردو شعری مجموعہ ’’صلیبِ شعور‘‘ جو غزلیات و نظمیات پر مشتمل تھا، منصہ شہود پر آیا۔ اپریل 2010ء میں اُن کا سرائیکی مجموعۂ کلام ’’من دی مسجد‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا، جس میں غزلیں ، نظمیں ، گیت، قطعات اور دوہڑے شامل تھے۔ اپریل 2011ء میں اُن کا دوسرا اُردو شعری مجموعہ ’’آہنگِ خاطر‘‘ منظرِ عام پر آیا، جس میں نظم کی اکثر و بیشتر ہیئتوں اور غزل پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ نظم کے پہلو بہ پہلو نثر میں ریاضت بھی تواتر سے جاری و ساری ہے۔ اُن کی شعری و نثری تخلیقات ملک بھر کے ادبی جرائد اور اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جون 2013ء میں اُن کی ایک نثری اور تنقیدی تصنیف ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ سے معنون زیورِ طباعت سے ہم آغوش ہوئی، جس میں اُنہوں نے اپنے اُستادِ گرامی ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شخصیت اور اُن کے ایک درجن سے زائد شعری مجموعوں کی مشمولہ غزلیات کا انتہائی منطقی اور استدلالی انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے، جس میں اُن کے نقدِ فن کا جوہر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جون 2013ء میں ہی ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ (حصہ اوّل) سے موسوم تنقیدی مضامین و منتخب کلام کا مجموعہ شائع ہوا، جس میں دو درجن شاعرات کے حوالے سے تنقیدی شذرات شامل ہیں ، جس میں سکہ بند نقادِ موصوف نے اپنی تنقیدات کے جوہر دکھائے ہیں۔ اُن کی من حیث المجموع تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں بہت ہی قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت و پذیرائی میسر آئی، جو اُن کی شبانہ روز محنتِ شاقہ کا ثمرہ ہے۔ نیٹ کے قارئین ’’اُردو سخن ڈاٹ کام‘‘ پر اُن کی تصانیف سے استفادہ اور اکتسابِ فیض کرسکتے ہیں۔

آج کل شبیر ناقدپاکستان کی شاعرات پر تنقیدی و تحقیقی نوعیت کا کام کر رہے ہیں ، اُن کے مضامین میں تحقیق کی نسبت تنقید کا عنصر غالب رہتا ہے۔ گویا ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شبیر ناقدؔ اسم بامسمّٰی ہیں۔ وہ ایک فطری نقاد ہیں۔ مشیت نے اُنہیں طبیعت ہی تنقیدی نوعیت کی ودیعت کی ہے۔ حتیٰ کہ اُن کے کلام اور گفتگو میں بھی تنقیدی رویے وفور سے ملتے ہیں۔ کتابِ ہٰذا ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ (حصہ سوم) کے سلسلے کی تیسری کڑی ہے، جس کے مطالعہ کے بعد قارئین اور اربابِ دانش، مصنف، موصوف کی عرق ریزی کا اندازہ بہ خوبی لگا پائیں گے۔ اُن کی تنقیدی حوالے سے درج ذیل کتب زیرِ طبع ہیں۔

۱۔        شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ چہارم ) تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۲۔       ابو البیان ظہور احمد فاتح کا منشورِ نظم (نظمیات کا تجزیہ)

۳۔      نقدِ فن                          (تنقیدی مضامین)

۴۔      تجزیات                               (تنقیدی مضامین)

۵۔      توضیحات                   (تنقیدی مضامین)

۶۔       زاویے                      (تنقیدی مضامین)

۷۔      تنقیدات                             (تنقیدی مضامین)

۸۔       زیبِ ادب،زیب النساء زیبی    (شخصیت اور فن ایک مطالعہ)

علاوہ ازیں بچوں کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں۔ اُن کا کلام ملک بھر کے بچوں کے رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے۔ شبیر ناقدؔ نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی ہے۔ تخلیق اور تنقید دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ طبعاً سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں ، مگر بے تکلفی اُنہیں بہت پسند ہے۔ اُنہیں یہ اعزاز و افتخار حاصل ہے کہ اُن کی حیاتِ پُر سعی علمی و ادبی اور عسکری خدمات میں صرف ہو رہی ہے۔ قارئین کرام اُن کے کلام کی وزٹ ’’اُردو پوائنٹ‘‘ اور’’ یوٹیوب ‘‘پر بھی کرسکتے ہیں۔

الغرض شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے ایک اَن تھک مسافر ہیں ، جو خلوص، محبت اور لگن پر یقین رکھتے ہیں۔ ریاضت جس کا کلیدی تلازمہ ہے۔ ربِ ادب سے استدعا ہے کہ اُن کے فکر و فن کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید