FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شادؔ عارفی کے قطعات و رباعیات

               ترتیب: ڈاکٹر مظفر حنفی

 

٭

 ’’ شادؔ  کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنز ہی نہیں ہے ، محبت اور نفسیاتِ انسانی کی سچّی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ شاعری اور بول چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں انھیں شادؔ کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شادؔ نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کو جس طرح اُجاگر کیا اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ’  حقیقی نفسیات ‘کو زبان دی ہے اُسے جدید اردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ‘‘

 آل احمد سرورؔ

 

 

٭٭

وقت کے تیور سمجھ لے گی جو قوم

خاک چھانے گی تو ہیرے پائے گی

جب ہوا کے رُخ چلے گا کارواں

کارواں سے گرد آگے جائے گی

٭٭

وہ ایک ہستی ، جو قسمتوں کوسپید کر دے، سیاہ کر دے

جو دن کو خوابوں کے ساتھ کھیلے جو رات صرفِ گناہ کر دے

مگر وہ یہ تھا کہ جس نے انسانیت کے بدلے میں تاج مانگا

جو تو بھی انسانیت گنوا دے، خدا تجھے بادشاہ کر دے

٭٭

یوں سہارا دے رہے ہیں عام لوگوں کو خواص

روشنی دیتا ہے جیسے ٹوٹ کر تارا کبھی

ڈوبنے والے کو ساحل سے اگر آواز دیں

ڈوبنے سے بچ نہیں سکتا وہ بے چارہ کبھی

٭٭

غیر شفاف ہیں اجسامِ حسیں

میں نے اصنام نگاری کی ہے

جگمگاتے ہوئے چہروں پہ نہ جا

چاند کی پشت پہ تاریکی ہے

٭٭

موم بتّی کے اگر دونوں سِرے روشن کریں

یا کسی کشتی کو اس کے عرض کے رُخ پر بہائیں

آپ اس دانش وری پر مسکرادیں گے مگر

ناظمانِ قوم سُن پائیں توچھکّے چھوٹ جائیں

٭٭

مسجد کے کلَس پہ ایک پیپل

اس عزم کے ساتھ جم رہا ہے

 جیسے جانا ہو کہکشاں تک

منزل کی غرض سے تھم رہا ہے

٭٭

کنکری جُوتے میں پڑ جائے اگر

راہرو دو گام چل سکتا نہیں

روح زندہ ہو تو حق تلفی کا بوجھ

آدمی کے جی سے ٹل سکتا نہیں

٭٭

جھوٹوں میں پتے کی بات کہنے والے

کہلاتے ہیں ’’واہیات‘‘ کہنے والے

مسکراتے تھے حضرتِ موسیٰ ؑ پر

فرعون کو ربِّ کائنات کہنے والے

٭٭

حُسن رنگیں قبا جو کہلاتا ہے

صدمۂ عشق کو کہاں پاتا ہے

ہاتھ کی انگلیوں پہ، چھو لینے سے

تتلی کے پروں کا رنگ آ جاتا ہے

٭٭

عزم محکم نہیں تو کم ہی چلو

تم مرے ساتھ دو قدم ہی چلو

عشرتیں بانٹ دو رقیبوں کو

میرے حصّے میں رنج و غم ہی چلو

٭٭

رہروِ گم کردۂ منزل کو جیسے خضرِ راہ

وہ مشیّت جس کو دلچسپی ہے میری ذات میں

مرحبا! تار یک مستقبل کے ٹوٹے آسرو

دُور تک جگنو چمکتے ہیں اندھیری رات میں

٭٭

شادؔ! جو چیز فطرتاً عالی ہے

عفّتِ حُسن کی وہ رکھوالی ہے

جلوے ہیں گرفتِ ما سوا سے باہر

سایہ پھولوں کے رنگ سے خالی ہے

٭٭

معصیت کو نجات کہنے والے

توہین کو ذاتیات کہنے والے

شادؔ! آئینۂ حلب کی صورت

ڈرتے نہیں مُنہ پہ بات کہنے والے

٭٭

ظلم سے دھاک بٹھانے کا نتیجہ معلوم

کم اساسوں کو ستانے کا نتیجہ معلوم

کیا کہا جائے، جہاں عقل پہ پتھر پڑ جائیں

تیل سے آگ بجھانے کا نتیجہ معلوم

٭٭

یہ تخیّل یہ تصوّر کے خدا کچھ بھی نہیں

ناؤ میں دھول اُڑانے کے سواکچھ بھی نہیں

ہر دعا میں شہِ کونینؐ کو شامل کر لیں

وہ جو کہتے ہیں کہ تاثیرِ دعا کچھ بھی نہیں

٭٭

خون کا جن سے تعلق ہے، اگر دشمن ہیں آج

اُن کے اس طرزِ عمل کاکس لیے شاکی ہے تو

تجربہ شاہد کہ ’’ ہر گولی غلط پڑنے کے بعد‘‘

رہبری کرتا ہے ’’زخمی شیر تک‘‘ اُس کا لہو!

٭٭

چاند کو صرفِ خوش خیالی کر دو

آسمانوں کی پائمالی کر دو

تم فضا میں محل بناؤ مگر

اب ہماری زمین خالی  کر دو

٭٭

یہ تغزل کے پرستار پرانے شاعر

زلف کو عارضِ گلنار پہ دیتے ہیں شرف

اس کا مطلب ہے جوانوں کو وہ اپنے ہمراہ

روشنی سے لیے جاتے ہیں اندھیروں کی طرف

٭٭

آئے ہیں جو ٹھوکریں کھانے کے بعد

سندھ میں ، لاہور میں ، ملتان میں

کہتے ہیں افلاس و عورت کے سوا

اور کیا رکھا ہے پاکستان میں

٭٭

جس کی فطرت ہو بے تابی

ایسی قوم کہیں تھمتی ہے

اے آسائش کے متوالو

موج پہ کائی کب جمتی ہے

٭٭

کسی شہکار کی تخلیق کے بعد

کاٹ لیتے تھے جو معمار کے ہاتھ

اب وہ سفّاک نہیں ہیں پھر بھی

غیر محفوظ ہیں فنکار کے ہاتھ

٭٭

وہ تجھے سوہزار مل جائیں گے

سوجھتا ہے جنھیں چمکتا پہلو

رُخِ تاریک پر نظر ہے دشوار

دائیں سے عزیز تر ہے ’’بایاں بازو‘‘

٭٭

فکرِ شادابیِ وطن ہے در پیش

افراطِ خرد بھی ہے بڑی نادانی

کھیت سوکھے پڑے ہوئے ہیں لیکن

ہم سمندر کو دے رہے ہیں پانی

٭٭

غمِ ایّام سے مضطر نہ ہو دم لے اے دوست

سطحی ہوتے ہیں آغاز کے حملے اے دوست

عیش کے ساتھ ہے انجام زوال آمادہ

عیش و غم پیش کریں لوگ تو غم لے اے دوست

٭٭

مرغیاں ہی مرغیاں دیکھیں جو کل اک گاؤ ں میں

میں نے پوچھا مُرغ کیوں غائب ہیں یہ کیا گھات ہے؟

راز دارانہ طریقے پر یہ بولا میزبان

کیا کیا جائے یہ نیتاؤں کی شکمی بات ہے

٭٭

نفس جب عشرتوں میں کھو جاتا ہے

آدمی سست گام ہو جاتا ہے

سعیِ منزل طلب کو جاری رکھیے

نہ ہلائیں تو پاؤں سو جاتا ہے

٭٭

بستے بغلوں میں ہاتھ میں انٹے

راہ میں کھیلتے ہوئے لڑکے

ان کے تیور بتا رہے ہیں شادؔ

یہ بنیں گے وطن کے ایم۔ ایل۔ اے

٭٭

ایک شوفر نے کہا مجھ سے کہ احمق راہرو

اپنے بائیں پر نہ چلنے کی سزا پاتے ہیں آپ

بات کچھ معقول کچھ مجہول تھی اس واسطے

عرض کی میں نے کہ جن کھمبوں سے ٹکراتے ہیں آپ

٭٭

منحصر تھا وقف کی رقموں پہ عیشِ خانقاہ

ساقیانِ سیم ساق و مطربِ زہرہ نگاہ

لیکن اس عہدِ زوالِ خسرواں میں بالعموم

مقبروں کا مہتمم بنتا ہے ہر عالم پناہ

٭٭

ہم کو اپنا بھی کہتے ہیں ہم سے رشوت بھی کھاتے ہیں

رشوت ہضم نہیں ہو سکتی گھنٹوں توندیں سہلاتے ہیں

میں اصحاب الفیل کہوں گا آپ بھی ان کی بابت سوچیں

اپنی فوج کچلنے والے کون سے ہاتھی کہلاتے ہیں

٭٭

ستم جب مدحِ محفل کے لیے اصرار کرتا ہے

زباں اقرار کر لیتی ہے، دل انکار کرتا ہے

جو اپنی بات منواتا ہے طاقت سے وہ در پردہ

غریبوں کو بغاوت کے لیے تیار کرتا ہے

٭٭

کہیں کچھ مہوشاں لغو طینت بھیج دیتا ہے

کہیں کچھ کافرانِ علم  و حکمت بھیج دیتا ہے

جہاں شیطان کا قابو نہیں چلتا تو جھلّا کر

وہاں اپنی جگہ بد وضع عورت بھیج دیتا ہے

٭٭

اب نہ بت خانے سے مطلب ہے نہ کعبے سے لگاؤ

کفر سے بھی ہاتھ دھویا کھو دیا ایمان بھی

آشیاں ، بجلی، قفس، صیّاد، گلچیں ، الغرض

نذرِ آتش کر رہا ہوں تیسرا دیوان بھی

٭٭

دشمنِ زہد و ورع ہے نازِ بے باکِ مجاز

اتّقا ہر نازِ جاناں مُسکرا کر ٹال دے

سالکِ عرفاں کو بہکاتی ہے دنیا اس طرح

جیسے کوئی فاحشہ ، رہرو پہ پانی ڈال دے

٭٭

سامنے رکھا ہے اُلٹا آئینہ

عقلِ اربابِ مسائل ایک ہے

کس سے بد نظمی پہ کیجے گفتگو

یہ تو سب محفل کی محفل ایک ہے

٭٭

اجتماعیّت ہے معراجِ چمن

مختلف پھولوں کا حاصل ایک ہے

اک وطن ، سو فرقہ بازانِ وطن

 سینکڑوں قاتل ہیں بسمل ایک ہے

٭٭

ناخداؤں نے ڈبو یا ہے ہمیں

ورنہ کشتی ایک، ساحل ایک ہے

راہ زن کترا کے جائیں گے نکل

قافلے والو اگر دل ایک ہے

٭٭

جنھیں حقیقت بیان کرنا خلافِ آئین و مصلحت ہے

سمجھ رہے ہیں معاشرے سے الگ تغزّل کی مملکت ہے

جبھی تو ان شاعروں کو سُن کر گماں گزرتا ہے ایسے خط کا

لکھا ہو جس میں سوائے فاقہ وطن میں سب خیر و عافیت ہے

٭٭

بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی

غرور و عجز میں رشتہ؟ سماج بکتی ہے

کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ

نکاح عیب سمجھتی ہے بھاگ سکتی ہے

٭٭

سو روپے اک رات کے لیتا ہے مزدورِ ادب

اور کہتا ہے کہ ہوں سرکار اُردو کا غلام

رائے کا اظہار اور حالات کو سمجھے بغیر

چھپ نہیں سکتی’ دہانِ شیر‘ میں زرّیں لگام

٭٭

دھان کی کھیلوں کے بورے میں اگر فہم و شعور

آپ کومحسوس ہوتا ہے تو یہ کس کا قصور

جا نہیں سکتی جہاں کوتاہ بینوں کی نگاہ

سطح سے اس درجہ اونچا اُٹھ چکا ہے رام پور

٭٭

مشک میں بھر دی گئی ہو جیسے اک مُلّا کی روح

یا نمائش گاہ کے پھُکنوں کا انفاخِ شکم

مولوی کا فاتحہ سے ربط ہے ضرب المثل

اس لیے نیت کے مارے فاتحہ خواں تو کہ ہم

٭٭

پہنچ گیا ہوں وہاں میں کہ واقعات نویس

لکھے کہ طنز میں تھا منفرد شعور مرا

تو اے حکومتِ کج فہم و نا شناسِ ادب

شراب توڑ کے بیچوں تو کیا قصور مرا

٭٭

گھنی پاکھر کی بل کھائی ہوئی شاخ

ندی پر جھک گئی ہے، لچ گئی ہے

جنھیں ایثار سے نفرت ہے سوچیں

مسافت کوس بھر کی بچ گئی ہے

٭٭

نت نئی منصوبہ بند کے لیے مغموم ہیں

یعنی اربابِ حکومت پاک ہیں معصوم ہیں

ہر خرابی کے مگر مجرم ٹھہرتے ہیں عوام

بکریاں گویا ہیں ظالم، بھیڑیے مظلوم ہیں

٭٭

عقل ایمائے جرم پاتے پاتے

تھک جاتی ہے پیچ و تاب کھاتے کھاتے

اطلاعِ ضمیر ہر گُنہ سے پہلے

جیسے رہ جائے چھینک آتے آتے

٭٭

ہر تھپیڑے پہ مسکرانا بہتر

نہ  جھجکنا  نہ  خوف کھانا  بہتر

جس کنارے کی شرط ہو محکومی

اُس کنارے سے ڈوب جانا بہتر

٭٭

دے کے استعفیٰ مرے اک دوست نے

بے تکلف کھول دی لکڑی کی ٹال

اب جو آمد کا لگاتا ہوں حساب

اُس کے دو ہفتے تو میرا ایک سال

٭٭

سیٹھ بابو رام کہلاتا ہے آج

بیچتا تھا کل جو کابل کے چنے

اور دفتر کا یہ بوڑھا اردلی

عمر گزری اس کو چپراسی بنے

٭٭

شریکِ جشنِ آزادی میں دونوں

کوئی ننگا کسی کے سر دوشالا

نہیں دم مارتی گنگا کی وادی

بڑی حیرت سے تکتا ہے ہمالا

٭٭

وطن سما جائے جس میں ، بالفرض کوئی اتنا بڑا قفس ہو

فضا کے ہم رنگ تتلیاں ہوں ، اُفق کے مانند پیش و پس ہو

تو پھر دیا جائے ساکنانِ قفس کو آزادیوں کا مژدہ

یہ وہ فریبِ عظیم ہو گا کہ جس پہ شاید ہی دسترس ہو

٭٭

کسی مشین کے پُرزے اگر غلط ہو جائیں

تو فورمَین کی نالائقی کو کیا کہیے

یہاں یہ خو ہے کہ حق پر اُٹھائیے آواز

وہاں یہ ضد ہے کہ جو کچھ کہیں ، بجا کہیے

٭٭

اکثریّت جو فردِ تنہا بن جائے

خامشی بھی مفیدِ منشا بن جائے

دریا کو بکھیر دیں تو قطرے رہ جائیں

قطروں کوسمیٹ لیں تو دریا بن جائے

٭٭

لبوں پر بادۂ احمر نہ روشن سُرخ رخسارے

کہیں چھپتے بھی ہیں لوگوں سے ’’جلوے‘‘ ہجر کے مارے

ہمیں عبرت دلا سکتے ہیں ، فرحت لا نہیں سکتے

چمن میں صبح کو جھُلسے ہوئے پھولوں کے نظّارے

٭٭

جنگل میں جو ذکرِ شہر دہراتا ہے

وہ سیر کے واسطے ہی کیوں آتا ہے

سبزے پہ کسی فکر میں ٹہلنے والا

سبزے کی طراوتوں کو جھٹلاتا ہے

٭٭

دوپہر، گرمیوں کے طولانی دن

چلتے چلتے ہُوا ہے پنکھا روگی

رُخِ نجمہ پہ ہے پسینہ، لیکن

تم نے پھولوں پہ اوس دیکھی ہو گی

٭٭

اے شخص نمائش کو اگر جائے گا

انجام بتا دوں گا تو ڈر جائے گا

منزل پہ پہنچنا تو یقینی ہے مگر

دھڑ بیچ میں رہ جائے گا، سر جائے گا

٭٭

خوش لباسی ، مگر پریشاں حالی

ہر بلندی کی آڑ میں پامالی

مونڈھے کے اصول پر ترقی اے شادؔ

سر پہ جالی تو پیٹ بالکل خالی

٭٭

غمِ حالات سے جو واقف ہوتے

دولتِ اتّحاد ہی کیوں کھوتے

ہے ہمارے نفاق کی وہ مثال

جیسے پنجرے میں لڑ رہے ہوں توتے

٭٭

کوششِ نامراد فریادی ہے

اعتمادِ عمل کی بربادی ہے

ہم کو احساسِ پستی و محرومی

 ’’قید خانے میں ذکرِ آزادی ہے‘‘

٭٭

جن کی ذہنیتیں ہیں رہینِ کجی

جانتے ہیں مجھے ترقی نہ سجی

فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت لیکن

بھینس کے آگے بِین مجھ سے نہ بجی

٭٭

پاکبازی سے پیٹ بھرتے رہیے

عاقبت پر نگاہ کرتے رہیے

خوشنودیِ ربِّ دوجہاں کی خاطر

ہر مصیبت پہ شکر۔ مرتے رہیے

٭٭

بِندی ہو کہ خال ہو کہ مصنوعی تِل

مصرفِ تیرگی اگر آتا ہے

روئے شاداب و مہ جبیں پر اے دوست

ایک نقطہ بھی لطف دے جاتا ہے

٭٭

پھولوں کے چہرے اترے ہیں کلیاں رنگت سے خالی ہیں

کس کافر کو اس میں شک ہے آپ گلستاں کے مالی ہیں

آپ گلستاں کے مالک ہیں لیکن یہ ملحوظ بھی رکھیں

 رنگت سے خالی کلیاں بھی رخصت ہونے ہی والی ہیں

٭٭

اس کی محفل میں شکووں کا عادی کوئی کان نہیں

ہر فریادی چھوڑ رہا ہے تیر غلط اندازے پر

اس بُت سے ماحول کی اُلجھن کہنے سے کیا حاصل شادؔ

احمق ہی آوازیں دے گا قفل پڑے دروازے پر

٭٭

ایک تانتا بندھا ہے رندوں کا

بوتلوں کی صفیں ، ہجوم ایاغ

خشتِ خُم بار بار اٹھتی ہے

چوٹ پر چوٹ کھا رہا ہے دماغ

٭٭

صرف چالیس برس کا میں جواں شاعر ہوں

یہ تو نزلے کی عنایت سے ہیں کچھ بال سفید

نوجوانی کی ضمانت ہے کنوارا رہنا

لڑکیاں ورنہ زمانے میں نہیں ہیں ناپید

٭٭

کہیں نظم وطن میں جھول نہیں

کچھ اندھا دھند، کوئی پول نہیں

اے وہ مہنگی سہی، پہ مل جاتی ہے

شادؔ جس شے پہ کنٹرول نہیں

٭٭

بد ذاتوں کو فخرِ ذات کہنے والے

ہوتے ہیں گھُما کے بات کہنے والے

پا کے موقع مچا رہے ہیں اندھیر

اندھے نہیں دن کو رات کہنے والے

٭٭

غوغائے ’’منم‘‘ جہالتِ مطلق ہے

 ’’باز گشتِ صدائے گُنبد حق ہے‘‘

جوہری مجھ کو جانتا ہے ’’پتھر‘‘

میں سمجھتا ہوں جوہری ’’احمق‘‘ ہے

٭٭

داغ ہونے جب آدمی آتا ہے

یہ محکمہ دیکھتے ہی غُرّاتا ہے

اپنوں پہ تو ہے شیر یہ کتّا ہے لیکن

غیر ملکی سے دُم دبا جاتا ہے

٭٭

چاہتے ہیں ادب نوازی کرنا

سستے داموں بجا رہے ہیں ڈنکا

اس دو عملی کی لاج شاید رہ جائے

گھر کا بھیدی جو ڈھا رہا ہے لنکا

٭٭

رام گنگا پہ درختوں سے الجھتی چاندنی

مَل رہی ہے صندلیں غازہ رُخِ امواج پر

ٹھیک اسی صورت، اسی انداز سے ہر آدمی

عشرتِ امروز کے لمحوں سے جاتا ہے گزر

٭٭

اے ناقدِ شعر، اے سخن ساز

اوچھوں پہ کہاں یہ میکدہ باز

ہم سنتے ہیں تتلیوں کی رنگیں آہٹ

آتی ہے ہمیں نکہتوں کی دلکش آواز

٭٭

آج کل بزمِ سخن میں ہے ترانوں کا عمل

اب ہے تہذیب کا وہ حال کہ دل ہل جائے

درسِ اخلاق میں کوشاں ہے گویّا شاعر

دل میں یہ دھُن ہے  کہ ٹھمری سے غزل مل جائے

٭٭

شاملِ فکرِ سخن ہے شادؔ بیماری مری

منحنی ہوں میں تو کیا ہے، بات ہے بھاری مری

ماورائے ذوقِ نابینا ہیں میری شہرتیں

فن سے بے بہرہ کریں گے کیوں طرفداری مری

٭٭

نقشِ قدم کے بدلے آنسو بو جاؤں تو اچھّا ہے

جاتے جاتے درسِ عبرت ہو جاؤں تو اچھّا ہے

کھلنے والے پھولوں کی تعریفیں کرنا لا حاصل

گلشن کی ہنستی کلیوں پر رو جاؤں تو اچھّا ہے

٭٭

جیسے مینائے بلّوریں مئے سے گلابی ہو جاتی ہے

شمعوں کے پرتو سے جیسے سرخ حجابی ہو جاتی ہے

ممنونِ پس منظر پائے جاتے ہیں رنگین نظارے

پھولوں کے چہرے چھُونے سے اوس گلابی ہو جاتی ہے

٭٭

کیف و سر مستیِ شباب نہ پوچھ

ہر نظر حُسن خیز ہو جاتی ہے

پاس آتی ہے جب جوانی کوئی

دل کی رفتار تیز ہو جاتی ہے

٭٭

شادؔ! شعر و شاعری ہے اصل میں لفظوں کا کھیل

استعاروں اور تشبیہوں میں حد بھر تال میل

عہدِ پارینہ میں ہو گا، عہدِ نو میں چاہیے

کھوڑ چوپائے کو، طائر کو قفس، انساں کو جیل

٭٭

باوجودِ احترام و احتیاطِ آرزو

ضبط کا دامن بسا اوقات ہو جاتا ہے تنگ

چارہ گر الفت کی نفسیّات سے واقف نہیں

لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ

٭٭

رہنمایانِ قوم و ملّت پر

تا کجا نظمِ مختصر کہیے

وہ تو چکنے گھڑے ہیں ، ان کا کیا

آپ مجھ کو تو راہ بر کہیے

٭٭

برسات میں جس طرح چراغوں پہ پتنگے

آتے ہیں نمازوں میں کچھ اس طرح خیالات

ایمان کے چہرے کو چھپا لینے کی دھُن میں

ناکام گزرتی ہے خیالات کی برسات

٭٭

جیسے اب منھ مارتے ہیں ، جیسے اب بھر لیں گے ٹانگ

کیوں نہ ہو، سپلائی آفیسر کے دلّالوں میں ہیں

آج ہیں بدنام و رسوا، کل انھیں کہتے تھے ہم

آپ ایماں دار سودا بیچنے والوں میں ہیں

٭٭

سوئی، پیچک، رنگ، تھی جس کی بساط

وہ بساطی بڑھ کے سوداگر بنا

وہ جو ہیں نا واقفِ سوداگری

سوچتے ہیں کیوں بنا؟ کیوں کر بنا؟

٭٭

میں نے نزدیک سے دیکھا ہے اسے

وہ نہیں ہے کہ جو مشہور ہے وہ

شادؔ کے فن سے پچکنے والے

کہتے پھرتے ہیں کہ مغرور ہے وہ

٭٭

چاہتا ہے دل کہ مرہونِ سخن سنجی بنوں

جب کہ اُکسائے تقاضائے نمک خواری مجھے

 مقصدِ شادی کے تجزیّہ میں یوں الجھا کہ رات

فلسفے نے پیش کی تعلیمِ بیداری مجھے

٭٭

نشاطِ آرزو ہے دو دلوں کا ایک ہو جانا

کہو سنگم کہ بندھن شائق و مشتاق کی شادی

بہت کچھ سیکھنا ہے ہم کو آثار و قرائن سے

مبارک ہم کو مرشد زادۂ آفاق کی شادی

٭٭

اتنے سہرے کہہ چکا ہوں شاہزادے کے لیے

آج اپنے واسطے ندرت کوئی باقی نہیں

سوچیے اس انجمن کو جس کے اندر جامِ شعر

چل رہا ہے دوسروں کے نام سے، ساقی نہیں

٭٭

کل بلندی پر تھا یزیدی تارا

آج شبیریوں کا عالم سارا

طالبانِ امام پایندہ باد

جنگ جیتا یزید، مقصد ہارا

٭٭

حیاتِ تنگ دست سے نظامؔ رام پور کی

کبھی معاونت نہ کی نظام زر پرست نے

اب اس کے بعد میری شہرتوں کی روک تھام کو

ہزار ہا ستم کیے ہیں مجھ پہ تاج و تخت نے

٭٭

کسی تیوہار کے منانے میں

دوسروں کا لحاظ کھیل نہیں

کاش ان کی طرف بھی ہم دیکھیں

جن چراغوں میں آج تیل نہیں

٭٭

آگ پانی میں فرق کر سکتا ہوں

بچ کے ہر خار سے گزر سکتا ہوں

نیک و بد میں تمیز حاصل ہے مجھے

یعنی مختار ہوں ، سُدھر سکتا ہوں

٭٭

ساتھ ہے اُن کے مری ہمدردی

جن کو ماحول غلط ملتا ہے

طیش آتا ہے مجھے فطرت پر

پھول کانٹوں میں اگر کھلتا ہے

٭٭

تو نے بی۔ اے نہ کیا پاس اب تک

لڑکیوں پر تری دام اندازی!

یہ ترے عزم کے دو رُخ کیسے

کہیں ’’گھامڑ‘‘ تو کہیں ہے ’’تازی‘‘

٭٭

رُخِ جلوہ پہ ہے ملاحت طاری

مسکرانا بھی ہے نمک افشاری

شیرینی لب میں ہے پسینہ شامل

میٹھے بوسے بھی ہو گئے کھاری

٭٭

وقت کہتا ہے جھنجھوڑو ان کو

ہے مُصِر زُہد کہ توڑو ان کو

مجھ سے پوچھو تو بُتانِ دل کش

قابلِ رحم ہیں ، چھوڑو ان کو

٭٭

برہنگیِ تصوّر ابھی ہے ناممکن!

شبِ نشاط کو شامل ہے رقصِ جام ابھی

جمی ہوئی ہیں سرِ بزم بے حیا غزلیں

نہ پاس کے گا تسلّط نیا نظام ابھی

٭٭

جیسے قربانی کا دنبہ پرورش کرتے ہیں لوگ

پالتے ہیں سیٹھ کو مزدور اپنے خون سے

تاکہ جس دن بھینٹ مانگے آنے والا انقلاب

کام لیں اس وقت محنت کش اسی ملعون سے

٭٭

پہلے تخفیف پِھر ترقی شادؔ!

تیل آخر تِلوں سے نکلے گا

بھوک سے بلبلائیں گے بچّے!

اب جو ان کے دلوں سے نکلے گا

٭٭

دولت زادہ فکر و عمل میں

جیسے کتّا شیش محل میں

اَن داتا کچھ عرض کریں ہم

اُلٹے بیل جُڑے ہیں ہل میں

٭٭

کسی اوجھل میں چھپا پاؤ گے

اُٹھ کے سوّئر جو بہت تیز گیا

قصر سرمایہ کے اندر جھانکیں

جو سمجھتے ہیں کہ انگریز گیا

٭٭

غیر آباد نہیں آج کوئی چوراہا

کہیں راجہ کہیں سرکار نظر آتے ہیں

 ’’بانوئے خانہ‘‘ کے ہمراہ الیکشن والے

 ’’ناک چوٹی‘‘ میں گرفتار نظر آتے ہیں

٭٭

کمالِ فن کو چھپاتا ہوں جس طرح میں شادؔ

کرم کو اپنے جتاتا نہیں مرا ممدوح

مرے کلام کی باریکیوں کو سمجھیں آپ

اگر خیال میں آتا نہیں مرا ممدوح

٭٭

یہ مخبرانِ کم سواد و منکرانِ صبحِ نو

جو اُن کی زد میں آ گئے وہ دوجہاں سے کھو گئے

کسی بھی ’’مدح خوار‘‘ کو نہیں یہ آج تک خبر

 ’’یزید‘‘ کے خوشامدی یزید کو ڈبو گئے

٭٭

اس باب میں بے کار سخن سازیِ تاویل

ارژنگ ہے ارژنگ اناجیل اناجیل

مطرب کی طرح تان اڑاتے ہیں یہ شاعر

دشوار ہم آہنگیِ ایفاع و افاعیل

٭٭

شعر کے اندر غنائی کیفیت درکار ہے

اس کا یہ مطلب نہیں بزمِ ادب میں ’’گاؤ بھی‘‘

وہ غزل جس میں ترنّم ہو مگر معنیٰ نہ ہوں

نرخ ’’بالا‘‘ کر نہیں سکتی بتا کر ’’بھاؤ بھی‘‘

٭٭

مانتا ہوں میں کہ تو ہے شاعرِ رنگیں نوا

توڑتی ہے جان موسیقی تری آواز پر

کام لے ایجاز سے پیغامِ تحت اللفظ میں

گٹکری کے زور سے اشعار میں جادو نہ بھر

٭٭

جب ادھوروں نے دبا رکھی ہے جاگیرِ ادب

طلب جام پہ رندوں کو قلم دے ساقی

کم سے کم نثر نما گیت ہی لکھ لیں اے شادؔ

کچھ تو ایسے بھی کلاکار جنم دے ساقی

٭٭

جس کو ادب سے زائد دولت سے پیار ہو گا

باتوں سے گُل کھلانا اس کا شعار ہو گا

جو یہ کہے غریبی شاعر کو لازمی ہے

تحقیق جب کرو گے سرمایہ دار ہو گا

٭٭

ناقصوں نے شاعرانِ قوم کو

ناسزائے انجمن ٹھہرا دیا

جس نے اصلاحِ وطن کی بات کی

اُس کو غدّارِ وطن ٹھہرا دیا

٭٭

انصاف کی نظروں میں ہے قاتل کی سزاموت

بہتر ہے کہ تجزیۂ انصاف کیا جائے

یہ قتل عمَد سے بھی سوا ہے مرے نزدیک

انسان کی فطرت گلا گھونٹ دیا جائے

٭٭

نا اہلوں کے ہاتھ آیا ہے آزادی کا گھوڑا

عقلیں تو چلو خیر، بصارت بھی تلف ہے

مرکوز ہے دُمچی پہ لگاموں کا تصرّف

اندھوں سے کہے کون کہ مُنہ دم کی طرف ہے

٭٭

عاقل ہیں ہُشیار ہیں دونوں

چوکس ہیں بیدار ہیں دونوں

آخر کو ہم سایہ ہیں نا!

لڑنے پر تیّار ہیں دونوں

٭٭

عدمِ شعور وکم آگہی کے ثبوت ملتے ہیں روز مرّہ

کلی پہ گلشن عیاں نہیں ہے نہ دشت سے باخبر ہے ذرّہ

ہماری آزادیوں کا مفہوم اس سے کچھ مختلف نہیں ہے

 ’’رزرو فاریسٹ‘‘ کے چرندوں کو جیسے آزادیوں کا غرّہ

٭٭

کیاپولیس ہے پاسبانِ ساز و سامانِ وطن

یا کسی مجمع پہ لاٹھی چارج کرنے کے لیے

در حقیقت آپ نے مقصد پہ پردہ ڈال کر

فوج رکھّی ہے بجٹ کا پیٹ بھرنے کے لیے

٭٭

تھے جو رسم و رواج کے بندے

آج پورا سماج ہے اُن کا

نہیں سُنتے، مجاز ہے اُن کو

نہیں ملتے، مزاج ہے اُن کا

٭٭

ووٹ دینے کا مسئلہ اے دوست

ہم غریبوں کے حق میں سہل نہیں

آج کہتے ہیں جس کو موزوں ہے

کل یہ کہنا پڑے گا اہل نہیں

٭٭

حکّامِ وطن ہیں غیر ملکی سارے

بیٹھے ہیں وطن پرست ہمّت ہارے

کس طرح وہ انجمن پنَپ سکتی ہے

خود صدر جس انجمن کی گردن مارے

٭٭

ذرّۂ ریگ فطرۃً یہ تارے ہیں

خاک سمجھیں جو عقل کے مارے ہیں

اپنے دامن میں بھرنے والے اندھے

پھول سمجھاہے جن کو، انگارے ہیں

٭٭

جنتا کی زباں سلی ہوئی ہے

رشوت پہ دوِش ہلی ہوئی ہے

 ’’واردات و سراغ‘‘ ماشا ء اللہ

 ’’چوروں ‘‘ سے پولیس ملی ہوئی ہے

٭٭

ادب و احترام کر سکتا ہوں

سو رُکوعی سلام کر سکتا ہوں

توہینِ خودی نہیں گوارا ورنہ

معبودِ زمیں کو ’’رام‘‘ کر سکتا ہوں

٭٭

قانون پر عمل کی حفاظت ضرور ہے

انصاف یہ نہیں ہے کہ مظلوم ہار جائے

بنیے کو تم نے باٹ ترازو دیے مگر

اس کا رہے لحاظ کہ ڈنڈی نہ مار جائے

٭٭

با عشوۂ ساقی ہے یہاں جام بہ جام

شیطان کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اے دوست

میخانہ و دجّال کی جنّت ہے جہاں

حوریں نظر آتی ہیں چڑیلیں اے دوست

٭٭

 ’’عصمت‘‘ میں تامّل نہ کھٹکتی ہے شراب

عقبیٰ کا تصور ہے نہ پروائے عذاب

مایوسِ دف و چنگ ہے فریادِ ضمیر

ظالم کی حکومت کا زمانہ ہے شباب

٭٭

سُنا یہ تھا کہ آزادی کے شعلے

بُجھا سکتی ہے اشکوں کی روانی

کھُلا عقدہ کہ ہر جلتے توے پر

چھناکا دے کے اُڑ جاتا ہے پانی

٭٭

سیٹھ  جی سنتے ہیں بازاروں کے بھاؤ

خون پر پڑتا ہے بادی کا دباؤ

 ’’ ہے مری سرکار‘‘ گیہوں اور تیز

 ’’ ہر تجوری پر دِیے‘‘ گھی کے جلاؤ

٭٭

شہر و صحرا بنے ہوئے ہیں گِلخن

جھیل ایسے میں جا رہی ہے دھوبن

جب مسافر کے پاؤں روکے اوجھل

جب درختوں کی چھاؤں پکڑے دامن

٭٭

ہم پر بھی اک شباب غزل مہربان تھا

لیکن یہ عہد وہ تھا جب آتش جوان تھا

محفوظ تھے پیامِ ملاقات و خطِّ شوق

اس کا جو نامہ بر تھا وہی پاسبان تھا

٭٭

دل شناسائے حقیقت نہ سہی

ہم بصارت کو نہ زنجیر کریں

وہ جو ذرّوں پہ بناتے ہیں محل

ایک ذرّہ کبھی تعمیر کریں

٭٭

لُٹے ہوئے نظّارے چھُٹتے ہوئے فوّارے

سنکی ہوئی پُروائی، لہکا ہوا کاشانہ

برسات کی راتوں میں وہ رات نہ بھولیں گے

انگڑائی پہ انگڑائی پیمانے پہ پیمانہ

٭٭

 ’’چوڑیاں بند‘‘ خلوتِ بے غم ہے

احتیاطِ حجاب نا محرم ہے

ہے شب ماہ کیف پرور ہمدم

دوپہر گرمیوں کی کیا کچھ کم ہے

٭٭

کلیوں پر اب آئی تباہی

ہر بُلبُل نے اب پَر تولے

اب تانے مکڑی نے جالے

اب گلشن میں اُلّو بولے

٭٭

اعتمادِ ظلِّ سبحانی دلوں سے اُٹھ گیا

آج ان کا ہر گماں مرہونِ خمیازہ ہوا

شادؔ، اسلم خاں کی بیّن کامیابی کے سبب

ہم کو اپنے ووٹ کی قیمت کا اندازہ ہوا

٭٭

جب کہ ظلّ اللہ سے ذرّے کو ٹکرانا پڑا

کون کہتا ہے کہ اختر خاں ہوئے نا کامیاب

کھل گیا اہلِ وطن پر کج کلاہی کا بھرم

اب ہمارے حق میں ہو گا آنے والا انتخاب

٭٭

کہاں ہے ساقیِ مخمور و خوش خرام آئے

ہوا میں پھول اُچھالے تو بَن کے جام آئے

رُخِ عوام سے لے کر عقیدتوں کی دمک

سلام شوق پکارا ابوالکلام آئے

٭٭

 ’’ہر نوجوان جذبہ‘‘ ہر ’’جلوہ پاش رغبت‘‘

اب قرب و بعد ان میں حکمت کہوں کہ فطرت

الفت کے بعد شادی نفرت کا شاخسانہ

شادی کے بعد الفت، تکمیلِ آدمیت

٭٭

اگر غالبؔ کے مصرعے پر کوئی پوری غزل کہہ کر

کہیں اپنے ’’مثنیٰ سے گوائی‘‘ کون سُن لے گا

جو اخلاقاً کسی نے سُن بھی لی از راہ الغرضی

تو غالبؔ پر ’’تغزل کی بڑائی‘‘ کون سُن لے گا

٭٭

بوتلوں پر یہ نہ لکھّا دیکھ کر

یہ مسلماں ہے یہ ہندو خون ہے

آج ہر فرقہ یہ کہہ سکتا ہے شادؔ

اب تعصّب سے وطن مامون ہے

٭٭

اس نے تو صرف جِسم بیچا تھا

ایک فاقے کو ٹالنے کے لیے

لوگ ایمان بیچ دیتے ہیں

اپنا مطلب نکالنے کے لیے

٭٭

وطن کی نظروں میں شاد میں کیا ہوں اور میرا کلام کیا ہے

نظامؔ ہی کو نہیں نوازا تو اور کا احترام کیا ہے

ابھی نہیں اب سے کچھ دنوں بعد اہلِ فن فیصلہ کریں گے

کہاں ہے بزمِ ادب میں میری نشست، میرا مقام کیا ہے

٭٭

سحر آئینہ پیشانی ہے شب لیلائے خنداں ہے

شفق شمعِ ہدایت گلستاں تفسیرِ ایماں ہے

بہ ایں آیاتِ ربّانی بہ ایں تائیدِ عرفانی

خدا کی ذات پر انکار سے اقرار آساں ہے

٭٭

رحمۃ للعالمیں ہیں ، کون؟ آپ

ہر جگہ ہیں ہر کہیں ہیں۔ کون؟ آپ

آج تک اس خوف نے پینے نہ دی

خانۂ دل میں مکیں ہیں۔ کون؟ آپ

٭٭

دلوں کی قدر کیا چاہیے مسلمانو!

دلوں سے چل کے زبانوں پہ اس کا نام آیا

خدا نے بارِ محبت جو سونپنا چاہا

تو آدمی کو چُنا، آدمی ہی کام آیا

٭٭

آدمی فطرۃً خدا بھی نہیں

ہاں خدا سے مگر جُدا بھی نہیں

اسی ’’نقطے‘‘ کی روشنی میں شادؔ

 ’’نعت‘‘ کہیے تو انتہا بھی نہیں

٭٭

ایک ظاہر پہ مکلّف ہے مگر

ایک باطن کا قلق رکھتا ہے

صرف مُلّا کا اجارہ تو نہیں

’رند‘ بھی نعت پہ حق رکھتا ہے

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر ابن مظفر حنفی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید