FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

شاد عارفی حیات و جہات

 

جلد دوم

 

                مرتبہ: فیروز مظفر

 

 

نوٹ

 

اس کتاب میں سے تین طویل مضامین کو علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے

۱۔ ایک اور گنجا فرشتہ ۔۔۔  اکبر علی خاں عرشی زادہ

۲۔ شاد عارفی: ایک تعارف ۔۔  سلطان اشرف

۳۔ شاد عارفی: فن اور شخصیت ۔۔ عروج زیدی

 

 

 

 

                کوثر چاند پوری

 

شادؔ عارفی :ایک منفرد طنز نگار

 

شادؔ عارفی بہت عام سا نام ہے، تخلص میں بھی کوئی جدت نہیں اور نسبت بھی ندرت سے بالکل خالی ہے، اس تخلص کے نہ جانے کتنے شاعر گزر چکے ہیں لیکن شادؔ عارفی جس شخص کا نام یا تخلص ہے اس کی شخصیت عام نہیں۔ اس کی شاعری میں بھی عمومیت نہیں، زبردست انفرادیت ہے۔ بسا اوقات ایک ہی شعر سے پورا ’’ شادؔ عارفی‘‘ سامنے آ جاتا ہے۔ فن اور شخصیت کے روابط نہایت گہرے اور مستحکم ہیں، اس کے باوجود ایسے فنکار کم ملیں گے جن کے پاس ’’شخصیت‘‘ ہے، ان کا کلام کٹے ہوئے پتنگ کی حیثیت رکھتا ہے جو ہوا کے رخ پر ذرا دیر اڑتا رہتا ہے لیکن اس کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ شاد عارفی ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔ میں یہاں فعال (Active) کا لفظ شخصیت کے ساتھ دانستہ استعمال نہیں کر رہا ہوں۔ شادؔ کا اسلوب اُن کی شخصیت کا تابع ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا ایک مخصوص لہجہ اور سب سے الگ ایک انداز ہے، وہ شفقؔ رام پوری اور جلیلؔ مانکپوری کے شاگرد رہے ہیں لیکن اُن کی لَے اور آہنگ کو استادی شاگردی کا یہ رشتہ بہت زیادہ متاثر نہیں کر سکا۔ ممکن ہے ’’ جنونِ لب و رخسار‘‘والی ریشمیں شاعری اس تعلق کا نتیجہ ہو لیکن اصل رجحان ’’ فطرت‘‘ کی تہوں سے ابھرتا ہے اور ان کی فطرت یا شخصیت ایک خاص طنز نگار کا مزاج رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک منفرد طنز نگار کہنا کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں۔ تخلص کا رواج اردو شاعری سے بھی زیادہ قدیم ہے اور بہت سی خصوصیات کے ساتھ فارسی سے اردو میں آیا ہے، تخلص کو اس لیے ضروری سمجھا گیا ہو گا کہ تعارف ہو جاتا ہے۔ عام طور پر شاعر تخلص ہی سے پہچانا جاتا ہے کلام سے نہیں، اسی تخلص کو اس کی شخصیت کہہ لینا چاہے۔ شادؔ عارفی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ اپنے کلام سے پہچان لیے جاتے ہیں، ان کی شخصیت تخلص تک محدود نہیں، وہ ایک تیز و تند موج کی طرح ا، ان کے کلام میں دوڑتی نظر آتی ہے، انھیں تخلص کی ضرورت نہ تھی، میری رائے میں شادؔ عارفی کی سب سے بڑی کمزوری جو ان کی شخصیت میں خود تنقیدی کے فقدان کا اظہار کرتی ہے یہی ہے کہ انھوں نے عام رواج کے مطابق تخلص کو ضروری سمجھا ورنہ اُن کا ہر شعر بغیر تخلص کا مقطع ہے جو اُن کے نام، وطنیت اور نسبت کو پورے طور پر ظاہر کر دیتا ہے اس لفظ ’’ شاد‘‘ کو روایت پرستی کہیے یا احساس کمتری یا جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے خود تنقیدی کا فقدان، یہ سب کچھ اس لیے کہ شاید شاد کو اپنی انفرادیت کا یقین اور اعتماد نہ ہو حالانکہ فن کی عظمت کا احساس انھیں ضرور ہے :

کہا کس نے ہماری ہر غزل شادؔ

متاعِ عہد مستقبل نہ ہو گی

ہر چند میں شاعری یا کسی اور صنف ادب کو ’’ متاعِ عہد مستقبل‘‘ نہیں سمجھتا بلکہ حال کا سرمایہ خیال کرتا ہوں۔ شاد کی شاعری مزاحیہ نہیں طنزیہ ہے۔ وہ مزاح اور طنز کے درمیان آپ ہی ایسی لائن کھینچ دیتی ہے جو دونوں اصناف کو الگ الگ کر دیتی ہے۔ مزاح میں ذکاوت اور لطافت کا حسن ہوتا ہے اور طنز میں دل آزاری کا پہلو نمایاں ہوتا ہے، نا ممکنات کی دنیا اس لیے مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ ہم اُن حالات سے دل بہلاتے ہیں یا تفریح کرتے ہیں جو واقعیت سے خارج ہیں اور جس کی کوئی اصل موجود نہیں، طعن و طنز میں اُن لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو حقیقی انسان ہیں اس لیے ناک بھوں چڑھانا یا ترش کلام ہونا دماغ کے متوازن ہونے کا نشان نہیں۔ اس سے خود اپنی ذات میں کسی کمی، تعصب اور غیر معتدل مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ مزاح اپنی لطیف اور دلچسپ ترین شکل میں یہی نہیں بتاتا کہ ہمارے گرد و پیش کی چیزوں میں کون سی چیز بے تکی غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہے بلکہ خود ہمیں اپنی دماغی حالت کا صحیح موقع دیتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنی دماغی صلاحیتوں کی جانچ کر لیتے ہیں اس لیے جو شخص آپ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر ہنس سکتا ہے یعنی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس میں بعض چیزوں کی کمی ہے اُسے کبھی دماغی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اور جو شخص مزاح سے متاثر نہیں ہوتا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں معقول و نامعقول کے امتیاز کی صلاحیت نہیں۔ بہرحال حقیقی مزاح ظرافت، لطیفہ گوئی اور طعن و طنز، اعتراض و نکتہ چینی میں نمایاں فرق ہے۔ مزاح غیر متوازن چیزوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب ہم ایسی چیزوں پر ہنستے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غیر متوازن حالات کو مضحکہ انگیز سمجھ کر ہم اپنے دماغی توازن کو درست کر رہے ہیں۔ اسی متوازن دماغ اور غیر متوازن اشیاء کے مقابلے کا نام مزاح ہے۔

مزاح نگار میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ طنز نگار کو اپنے کرداروں سے عام طور پر کوئی ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی زہر ناکی آ جاتی ہے، اس کے فن کی بنیاد ہمدردی پر نہیں نفرت پر ہوتی ہے۔ وہ تاریک گوشوں کا جائزہ لیتا ہے اور منفی قدریں تلاش کرتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ بعض اوقات طنز ذہنی صداقت اور اخلاقی عظمت کا نشان ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے اور نظام سے نفرت کرنا جس میں ظلم اور نا انصافی عام ہو اور انسانی قدریں پامال ہو رہی ہوں بہت زیادہ قابل قدر ہے۔

شادؔ کے مزاج میں کس قدر تعصب اور عدم توازن ہے، اور ہے بھی یا نہیں نیز اُن کی نفرت کو اخلاقی بیماری کہا جائے یا بلندی، ان باتوں کا جواب اُن کے کلام سے مل جاتا ہے۔ کہیں کہیں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اپنی ذات میں کسی کمی کا احساس بھی ہے، یہی احساس نفرت کے جذبے میں تبدیل ہو کر طنز کی بنیاد بنتا ہے اور اسی سے طنز کی تحریک ہوتی ہے، اس کو نا انصافی اور نا برابری کا نتیجہ ہی کہنا چاہیے۔ شادؔ کو اپنے دور اور سماج کی مسرتوں سے کوئی حصہ نہیں ملتا، وہ دوسروں کو بھی اپنی طرح کڑھتا اور جلتا دیکھتے ہیں اور نظام سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ نفرت کی شدت میں بھی وہ تہذیب اور ادبیت کا دامن نہیں چھوڑتے، زہر ناکی سے ان کا طنز خالی نہیں، شادؔ کے یہاں افراد اور ان کے اعمال و افعال سے بھی نفرت ملتی ہے، سماج، نظام اور سوسائٹی کی خرابیوں سے بھی، فرد پر طنز کی مثال ذیل کا شعر ہے جس کے لفظ ’’ چراؤ‘‘ پر نشان لگا کر انھوں نے حاشیہ پر نام بھی لکھ دیا ہے :

ندرتِ فن کے واسطے اے شادؔ

میرے مضمون، میرے شعر چراؤ

حاشیہ پر شاعر کا نام نہ لکھا جاتا تو اس میں کسی نہ کسی طرح عوامی شان پیدا کی جا سکتی تھی ایسا انفرادی طنز مشکل ہی سے ادب کی تعریف میں آسکتا ہے۔ لیکن یہ شادؔ کا عام رجحان نہیں، ان کے اصل رجحان میں خلوص ضرور ہے۔ اُن کا طنز ہر طنز نگار کی طرح نفرت سے ابھرتا ہے لیکن اصل میں صورت وہ ہوتی ہے جیسے گندگی سے ’’ لالہ و گل‘‘ کے پیدا ہونے کی ہوا کرتی ہے جو نہ صرف ماحول میں خوشبو پھیلاتے ہیں بلکہ اس گندگی پر بھی زبان حال سے طنز کرتے ہیں جو ان کی بنیاد ہے۔

ایک طنز نگار کی حیثیت سے شادؔ عیب جوئی اور نکتہ چینی سے بھی نہیں چوکتے، وہ عیوب سے پردہ اٹھا کر اپنے کرداروں کو بالکل عریاں کر دینے کی جرأت رکھتے ہیں، ان کی متعدد نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں۔ ’’ رنگیلے راجہ کی موت‘‘ میں انھوں نے انقلاب کے آنے اور سرمایہ داری نیز جبر و تعدی کے عبرت خیز انجام کی فنکارانہ اور محاکاتی انداز میں عکاسی کی ہے۔ ’’ ساس‘‘ میں اعتراض اور نکتہ چینی کی فضا موجود ہے۔

نمک سالن میں اتنا تیز توبہ

مزعفر ڈالڈا آمیز۔ توبہ

بہو اور ساس رُستاخیز۔ توبہ

کسے پیٹوں، کسے ڈالوں کٹاون

کہاں غائب ہے پن کٹی کی ہاون

اری مُردار یہ ٹسوؤں کا ساون

ڈراتی ہے مجھے جھڑیاں لگا کر

گرا دے چلمنیں چڑیاں اُڑا کر

………

یہی اسکول میں سیکھا ہے تو نے

بڑے بیباک مغرب کے نمونے

پڑھایا ہے پڑوسن کی بہو نے

سماجی حقائق کی ترجمانی سے نظم کو اجتماعی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور یہی شادؔ عارفی کے فن کی بلندی ہے، در حقیقت جو چیز انھیں عام طنز نگاروں سے بلند کرتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ فرسودہ اور غیر صحت مند معاشرے سے نفرت کرتے ہیں اور دوسروں کے دلوں میں بھی نفرت کا یہی جذبہ بھر دینا چاہتے ہیں۔ بُری چیزوں سے نفرت شاد کے یہاں عام طور پر ملتی ہے۔ اچھی چیزوں سے محبت کی مثالیں ڈھونڈنی پڑیں گی کیونکہ وہی ان کے مثبت نقطۂ نظر کی دلیل سمجھی جا سکتی ہیں۔ ہر چند بُری چیزوں سے تنفر ہی اچھی چیزوں سے محبت کی علامت ہے۔ ایک شخص بدصورتی کی بُرائی کر کے حسن اور خوبصورتی سے اپنا لگاؤ ثابت کرتا ہے۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ’’ جبر و قدر‘‘ اس کی اچھی مثال ہے۔ اس میں ظالموں سے نفرت کے ساتھ ہی مظلوموں سے ہمدردی اور محبت کا احساس بھی ملتا ہے۔ ایک ٹکڑا دیکھئے :

ہم سے آگے جا رہا تھا گاؤں کا وہ نوجواں

جس کی سرگرمی پہ برساتا ہے اولے آسماں

جس کا خرمن پھونکتی ہے فطرت نا مہرباں

دودھ جس کی گائے کا جاتا ہے پٹواری کے ہاں

جس کے بیلوں کو کبھی مہلت نہیں بیگار سے

جس کو چھٹکارا نہیں شیطان کی پھٹکار سے

………

عاملِ دیہات دور ے پر اسی کا میہماں

مرغ ومسکہ نوش گرداور اسی کا میہماں

شحنۂ بے رزق و بے بستر اسی کا میہماں

شہر کا ہر ہیٹ ہر موٹر اسی کا میہماں

ہر وبال ضلع اس کے مال اُس کی جان پر

صادق و الحق طویلے کی بلا بندر کے سر

………

دھوپ چمکی تھی کہ ہم نے تیتروں کو جا لیا

پے بہ پے اتنے ہوئے فائر کہ جنگل گونج اٹھا

جان دی اُس نے زمیں پر وہ ہوا میں چل بسا

ایک بیچارے کے بازو یہ گرے دھڑ وہ گرا

ظالموں کی دل لگی تکمیل پاتی ہے یونہی

بے ضرر مخلوق کو دنیا ستاتی ہے یونہی

نظم مختلف مناظر کی تصویر کشی کرتی ہے شادؔ نے اس میں ظالم اور مظلوم کے رشتے کو بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے، مقامیت کی جھلک بھی ہے۔ ان کے وطن میں تیتروں اور بٹیروں کے شکار کا یہی نقشہ ہوتا ہے۔ کجلی بن بھی رامپور سے قریب ہے جہاں ہاتھیوں اور شیروں کا شکار کیا جاتا ہے لیکن اس میں ظالم کا مقابلہ ظالم ہی سے ہوتا ہے مظلوم سے نہیں۔

شادؔ زندگی کے شاعر ہیں۔ وہ اس فن سے قطعاً مایوس نظر آتے ہیں جس میں زندگی اور کٹیلی تلخ حقیقتوں کا ساتھ دینے کی صلاحیت نہیں و چنانچہ وہ غزل کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ایسی غزل کو جو ریشمیں شاعری کی تعریف میں آتی ہے۔ ایسی غزل کی عمر اُن کے نزدیک بہت تھوڑ ی ہے۔

دسنہ و غازہ کی یہ شوقین بڑھیا تا بہ کَے

فرض کر لیجے غزل میں بانکپن باقی بھی ہے

………

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزمِ عیش میں

اس غزل کا شادؔ کیا ماحول بھی قائل نہیں

شاد اس منزل سے خود بھی گزر چکے ہیں لیکن بہت دور تک رنگین جادوں پر نہیں چلے۔ جلدی ہی راستہ بدل لیا اور غزل کی اس مصنوعی فضا سے نکل آئے جس میں چشم و ابرو اور خال و رخسار کی باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا:

دس پانچ برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شاؔد

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

………

شادؔ ہجر و وصل تک محدود تھی میری نظر، اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستہ حالات ہے، سوچنے کی بات ہے

یہ تغیر، شعور میں پختگی آنے اور وقت کے مطالبات کا اندازہ کرنے کے بعد ہوا، پھر وہ غزل سے بھی نظم کا کام لینے لگے۔ انھوں نے غزل سے قطع تعلق نہیں کیا بلکہ اس کے مواد کو زمانے کے مطابق بنایا اور اسے زندگی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس کی:

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی

لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے

یہاں شادؔ عارفی بالکل ’’ اسد اللہ خاں، ، معلوم ہو رہے ہیں جو پورے ایک مصرعہ میں سماجاتے ہیں :

مارا زمانے نے اسداللہ خاں مجھے

وقت کے ان تقاضوں کو انھوں نے غور سے سنا ہے جو ’’ رنگینیِ گفتار‘‘ کی تاب محض اس لیے نہیں لا سکتے کہ ماحول میں تلخیاں ہی تلخیاں بھری ہوئی ہیں اور وہ چیخنے اور واویلا کرنے ہی کا مطالبہ کرتی ہے :

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ گفتار رہا ہے

شاد،ؔ  غزل کو نظم کے طور پر استعمال کرتے ہیں، انھیں فخر ہے کہ وہ محبوب سے بات کرنے کی جگہ غزل میں زلفِ دوراں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں :

اے شادؔ غزل کا ہر دشمن ہٹ دھرمی چھوڑے غور کرے

نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں

دراصل شادؔ غزل کے دشمن نہیں وہ اس طرزِ غزل سرائی کے مخالف ہیں جس نے غزل کو غمِ محبوب ہی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ انھوں نے غزل پر جو طنز کیے ہیں ان کا نشانہ اسی قسم کی غزل ہے، صنفِ غزل نہیں۔ شادؔ اس قسم کے شاعروں اور مشاعروں دونوں ہی کو نا پسند کرتے ہیں۔

قفس میں شاعر غزل سرا ہیں چمن میں ہلّڑ مچا ہوا ہے

ادب برائے ادب کی پہلی شتابدی پر مشاعرہ ہے

………

ان ماہرانِ شعر و ادب نے جناب شادؔ

عریانیِ غزل کا کبھی جائزہ لیا۔ ۔ ۔ ؟

مبالغہ اردو شاعری کی پرانی خصوصیت ہے، شاد اس کی تمام اقسام کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور بڑے لطیف انداز میں طنز کرتے ہیں :

مبالغہ کی تمام قسمیں جو شادؔ میں نے گلوں پہ چھڑکیں

پکار اٹھے باغباں کے پٹھو کہ واہ کیا شعر کہہ دیا ہے

شاد کے طنز کی دنیا محدود نہیں، وہ زندگی کی طرح بیکراں ہے۔ انھوں نے شیخ پر بھی توجہ کی ہے اور ناصح پر بھی، لیکن ہر موقع پر اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے، وہ نام لیے بغیر ناصح پر طنز کرتے ہیں :

وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے

جیسے اندھے سے کہا جائے کہ بائیں ہاتھ کو

شیخ پر طنز کی چند مثالیں دیکھیے :

میکدے میں چور دروازے بھی ہیں

آ تو جائیں شیخ کی منزل میں ہم

………

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

………

جنابِ شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بتان دہر کو پروردگار کہتے ہیں

شادؔ محبوب اور رقیب دونوں کو طنز کا شکار بناتے ہیں :

یہ انتخاب غیر مبارک رہے مگر

ہیرا سمجھ کے آپ نے پتھر اُٹھا لیا

محبوب کے ساتھ تھوڑی سی رعایت کی ہے اور شعر میں دلدہی کا ایک پہلو بھی رکھا ہے :

یہ تو بد نام کر رہے ہیں لوگ

قاتلوں میں ترا شمار کہاں ؟

بعض مقامات پر شاد کے انداز بیان کی ندرت میں بڑی کشش پیدا ہو جاتی ہے، ارتکاب جرم سے قبل ضمیر کی ناکام تنبیہ کو انھوں نے ایک قطعہ میں بڑے انوکھے اسلوب سے ظاہر کیا ہے :

عقل ایمائے جُرم پاتے پاتے

تھک جاتی ہے پیچ و تاب کھاتے کھاتے

اطلاعِ ضمیر ہر گنہ سے پہلے

جیسے رہ جائے چھینک آتے آتے

طنز شادؔ کی نظم و غزل دونوں پر چھایا ہوا ہے، یہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کی تصویر دیکھتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ایک مجسم طنز ہیں، ان کے نقوش سے ظاہر ہے کہ وہ اندر سے باہر تک رستی ہوئی ایک جراحت اور شب و روز جلتی ہوئی ایک شمع ہیں، ان کا ہر غم اور ہر زخم چہرے سے عیاں ہے :

شاید میرے دل کا قصہ میرے چہرہ پر لکھا ہے

میں نے جس سے کہا نہیں وہ بھی کہتا ہے سُنا ہوا ہے

انھوں نے جس سماج میں زندگی بسر کی اس کی اکثر چیزوں سے وہ گہری نفرت کرتے ہیں اور یہی نفرت طنز کے روپ میں شعلہ بن کر ابھرتی ہے بالکل اس طرح جیسے رات کی تاریکی میں فاسفورس سے شعاعیں نکلا کرتی ہیں، شادؔ کو روشنی میں زندگی بسر کرنے کا موقعہ نہیں ملا، ورنہ شعاعیں نکلنا بند ہو جاتیں۔ آزادی سے قبل وہ ایک دیسی ریاست کی تاریکیوں میں گھرے رہے، آزادی کے بعد جس معاشرے سے دوچار ہوئے اس میں رشوت خوری، چور بازاری، نا برابری، اقربا نوازی اور ایسی ہی بہت سی خرابیاں تھیں وہ ذاتی طور پر ان میں سے بعض کا شکار ہوئے۔ ان کی زندگی مفلسی، غربت اور مصائب و مشکلات کے بھنور میں اُلجھ کر رہ گئی۔ مسرت اور اطمینان کی ایک کرن جو بیوی کی شکل میں گھر کی اندھیری سے لڑ رہی تھی وہ بھی اس طوفان کی زد میں آ کر بجھ گئی، یہ سوالات تھے جن کی بنا پر شاد اپنے ماحول سے بیزار ہو چکے تھے۔ ان کے مزاج میں برہمی کے ساتھ بے حد تیکھا پن آ گیا تھا، اُس نے کہیں کہیں ان کی طبیعت کو غیر متوازن بنا دیا ہے، ان کے طنز سے سماج کی تعمیر اور اصلاح تو نہ ہو سکی، وہ اپنی آگ میں آپ ہی جل کر رہ گئے، ہر چند انھوں نے وقت کے آگے سپر نہیں ڈالی، وہ ہنستے رہے، روئے نہیں، لیکن یہ ہنسی اُن شعلوں کو نہیں بجھا سکی جو ہر وقت انھیں گھیرے رہتے تھے۔

ہر مصیبت پہ مسکراتا ہوں

شاد رونا مرا شعار نہیں

رونے اور جلنے میں فرق ہے، وہ روئے نہیں جلتے اور کُڑھتے رہے، لیکن حق گوئی سے باز نہیں آئے :

سچ اور کھری بات چھپائی نہیں جاتی

ہاں ہم سے غلط بات پہ جی ہاں نہیں ہوتا

شادؔ عربی، فارسی اور انگریزی سے واقف تھے، ان کا علمی پس منظر تنگ نہ تھا۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ سماج‘‘ کے نام سے چھپا تھا لیکن مصلحت پرستوں نے اسے نذر آتش کر دیا۔ اس معاشرے میں اس کا یہی حشر ہونا چاہیے تھا غنیمت ہوا کہ مجموعہ کے ساتھ خود شادؔ کو آگ میں نہ جھونک دیا گیا تاہم وہ مرتے دم تک ایسی آگ میں جلتے رہے جو سماج کی لگائی ہوئی تھی۔

ایک شاعر کا بہت بڑا وصف یہ ہے کہ اسے زبان و بیان اور الفاظ کے استعمال پر پوری قدرت ہو، شادؔ میں یہ وصف نمایاں ہے۔ الفاظ کے غلط استعمال کی مثالیں ان کے یہاں خال خال ہی ملتی ہیں۔ مثلاً شادؔ نے ان دو شعروں میں لفظ معتبر کا استعمال صحیح نہیں کیا:

بد مزاجی کو معتبر نہ بناؤ

بزم سے ہم کو مسکراکے اٹھاؤ

………

جس قدر عام اور مشتہر ہو گئی

آرزو اتنی ہی معتبر ہو گئی

معتبر اعتبار کا اسم مفعول ہے اس کے معنی غور کرنے اور سوچنے کے ہیں، لیکن انسان کے ساتھ اس کو منسوب کر دیا جائے گا تو معنی بدل جائیں گے اور عزت کرنے کے ہو جائیں گے عبرت حاصل کرنے کے معنی میں بھی لفظ معتبر استعمال ہوتا ہے، اوپر کے دونوں اشعار میں معتبر سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ اگرچہ اردو میں یہ احتیاط نہیں کی جا رہی لیکن شادؔ اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔ ایک اور شعر ہے :

سچ اور کھری کھری بات چھپائی نہیں جاتی

ہاں ہم سے غلط بات پہ جی ہاں نہیں ہوتا

ایسی مثالیں بہت کم ہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ شادؔ کو الفاظ کے استعمال پر زبردست قدرت حاصل ہے کہ اکثر الفاظ کو وہ ایسے انفرادی انداز سے استعمال کرتے ہیں کہ ان پر شادؔ صاحب کا حق مسلم ہو جاتا ہے، ایک جگہ پہنچ لوں ‘‘ انھوں نے اس طرح نظم کیا ہے :

آج اس طرح دبے پاؤں پہنچ لوں کہ اُسے

شانہ رکھے نہ بنے زلف بنائے نہ بنے

یہاں ’’ پہنچ لوں ‘‘ میں جو سبک روی اور برق خرامی کا پہلو ہے وہ ’’ پہنچ جاؤں ‘‘ وغیرہ میں نہیں۔ ایک اور شعر میں انھوں نے لفظ ’’ بابت‘‘ کا استعمال کر کے اسے ادبی حیثیت دے دی ہے :

ذہن خود صاف نہیں جس بابت

چاہتے ہو کہ ہمیں سمجھا دو

نظموں میں بھی الفاظ کے قادرانہ استعمال کی مثالیں ملتی ہیں۔ انجمن ترقی اردو نے ۶۴صفحات پر کلام شادؔ کا انتخاب شائع کیا ہے جو بہت صاف ستھرا ہے، اس میں متعدد نظمیں سماجی، معاشی، اقتصادی اور ذاتی قسم کے طنزیات کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان میں شادؔ کی شخصیت ہر جگہ جھلکتی ہے، بعض جگہ شادؔ نے شعر کی معنویت پر پورا غور نہیں کیا اور معنوی اعتبار سے ان میں تضاد پیدا ہو گیا ہے، ایک شعر ہے :

میری مسکراہٹ ہے بر بنائے مایوسی

پھول کے تبسم کا رنگ لا شعوری ہے

پھول کا تبسم ضرور لا شعوری ہوتا ہے لیکن عالم مجبوری میں ہنسنا لا شعوری نہیں، اُسے لاشعوری جان لیا جائے تو وہ شاعر کی شخصیت مجروح ہو جائے گی جو اپنے ناسازگار حالات میں ہنسنے اور مسکرانے کا حوصلہ دیتی ہے اس کے علاوہ پھول کا تبسم خوشی، مسرت اور انبساط کا سمبل ہے اسے مایوسی کی مسکراہٹ سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔

شادؔ مر گئے، خدا ان پر رحمت کرے، ان کی تخلیقات، ہمیشہ زندہ اور ہمارے درمیان موجود رہیں گی، جب بھی ان کی تخلیقات کو پڑھا جائے گا، ان کے طنز کی عظمت اور خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ طنزیہ شاعری دوسرے درجے کی شاعری سہی مگر شادؔ کا طنز دوسرے درجہ کا نہیں اسے ادب میں بلند درجہ دینا ہی پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                 گیان چند جین

 

 

شادؔ عارفی : عہد حاضر کا نقّاد

 

عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا

شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا

یہ ہیں شادؔ عارفی جن کے لیے شاعری محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں بلکہ زمانے کی اونچ نیچ کو ہموار کرنے کا آلہ ہے۔ وہ شاعری کا مواد روایت کے تاریک دفینوں سے نہیں لیتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے واقعات سے لیتے ہیں اور ان کے بارے میں دیدہ دلیری بلکہ دریدہ دہنی سے اپنی رائے پیش کر دیتے ہیں :

پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا منھ پر بھی

فکر فردا نے صداقت سے مکرنے نہ دیا

………

یہی ہے شاد میں سب سے بڑا عیب

وہی لکھتا ہے جو کچھ دیکھتا ہے

جب یہ کہا جاتا ہے کہ ادب زندگی کی تنقید ہے تو عروسِ شبستانِ شاعری یعنی غزل، دنیا و مافیہا کو بھلا دینے والی مشامِ جان میں لپٹ کر سامنے آتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھ سے آنکھیں ملاؤ۔ کیا میں ادب نہیں ؟ اور تب ہم زندگی کی تنقید کا خبط چھوڑ کر آنکھیں نیم بند کر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن شادؔ کے یہاں آ کر غزل اپنے ماحول سے تغافل نہیں برتتی اور اس کے باوجود اکثر اپنی نوک پلک سلامت رکھتی ہے :

اے شاد میں اکثر غزلوں میں اے شاد میں اکثر نظموں میں

مجھ پر بھی صادق آتی ہے ایسی جگ بیتی کہتا ہوں

اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ شاد کی دکان شعر میں غزلوں ہی کی متاع ہے نظمیں بہت کم ہیں۔ جدید غزل نظم کے حصار پر چھاپہ مارتی ہے اور اس کی اچھی مثال شادؔ کی غزل ہے :

تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں

نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں

شادؔ کے فن کا فلسفہ دو لفظوں میں خلاصہ کرنا چاہیں تو’ تنقید عہد حاضر‘ کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہے کہ عوام کے دلوں کی مشترک دھڑکن ہے جس سے ہر قاری اور سامع اتفاق کر سکتا ہے :

میری تنقید عہد حاضر سے

ہو اگر متفق تو ہاتھ اٹھاؤ

غزل کے شبنمیں پردے میں نیم پوشیدہ کر کے سیاسی مطالب کو پیش کرنا نئی غزل کی ایسی خصوصیت ہے جس کی جھلک حالیؔ تک کے یہاں مل جاتی ہے :

روسی ہوں یا تتاری ہم کو ستائیں گے کیا

دیکھا ہے ہم نے برسوں لطف و کرم تمھارا

(حالیؔ)

فیضؔ اور مجروحؔ سلطان پوری کی یہ مرغوب روش ہے۔ انھیں کی طرح شادؔ عارفی نے بھی غزل میں بہ کثرت سیاسی و سماجی تنقید و تبصرہ کے نشتر بھر دیے ہیں۔ وہ عہدِ حاضر کی ناہمواری، گندم نمائی و جَو فروشی سے اس قدر بیزار ہیں کہ بعض اوقات ان کا طنز ایمائیت کا لبادہ پھینک کر کھلم کھلا سامنے آ جاتا ہے۔

چونکہ سیاسی آزادی عوام کے لیے معاشی آزادی نہیں لائی اس لیے دوسرے شعراء کی  طرح شادؔ بھی آزادی سے نا آسودہ ہیں :

برابر ہیں فغان درد و نغمہ

یہ آزادی نہیں تو اور کیا ہے

………

آزادیوں کے بعد وطن کی ترقیاں

آنسو جلا کے دیکھ ستارے بجھا کے دیکھ

دوسرے شعر کے مصرع اولیٰ میں عروض کے جبر نے آزادی اور ترقی بصیغۂ واحد کو بہ صیغۂ جمع باندھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس دخل در معقولات سے قطع نظر مجھے یہ کہنا ہے کہ غزل کا تلون بعض اوقات شادؔ کو اسی آزادی کا حامی بنا دیتا ہے۔ انتہا پسند سیاست باز جمہوری ہندوستان کو آزاد ماننا نہیں چاہتے لیکن سورج کی روشنی سے انکار بھی ناممکن نہیں۔ وہ یہی اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ اس آزادی سے ابنائے وطن کو کیا ملا۔ شادؔ ایسوں کی خبر لیتے ہیں :

سحر کو شام سمجھنا جو بس کی بات نہیں

یہی سوال اٹھاؤ کہ روشنی کم ہے

کل تھا لیکن آج نہیں ہے

طاقتور کا ٹھینگا سر پر

ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ وہ اہلِ سیاست کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے غزل میں بار بار لیڈر کو جلی کٹی سناتے ہیں۔ اشارۃً بھی اور صریحاً بھی۔ وہ رہبر کی نس نس سے واقف ہیں اور اس پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈال کر اس کی کجی نمایاں کرتے ہیں۔ تغزل کا حق اس وقت ادا ہوتا ہے جب ایسے اشعار میں معنی کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ مجازی اور لغوی۔ لغوی معنی وہ ہیں جو غزل کے روایتی موضوعات کے چوکھٹے میں بیٹھ سکیں مثلاً:

آپ کو کِتنی اذیت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

………

ہم نے نزدیک سے دیکھا ہے اسے

وہ نہیں ہے کہ جو مشہور ہے وہ

ان اشعار میں محبوب کا بھی ذکر ہو سکتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ برجستہ یہ کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا ذکر خیر ہے۔ دوسرے شعر میں تو کسی ایسی ہستی کے پردے سے نقاب اٹھایا ہے جسے عام طور سے دیانت و تقدس کی پوٹ سمجھا جاتا ہے۔

تمام پنج سالہ منصوبوں کے باوجود ملک کی معاشی حالت پست سے پست تر ہوتی جاتی ہے۔ تاویل چینی حملہ۔ ملک میں غذا کی پیداوار کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔ ترجیہ خشک سالی۔ ارباب حل و عقد انھیں طفل تسلیوں سے بہلتے ہیں اور دوسروں کو بہلانا چاہتے ہیں۔ اس غیر شاعرانہ اقتصادی موضوع کو شادؔ گل و بلبل کی اصطلاح میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔

مالی کے اترے چہرے پر کچھ رونق سی آ جاتی ہے

جب پھولوں کے مرجھانے کو موسم کی خرابی کہتا ہوں

لیکن افسوس یہ رنگین دھوکا ہر جگہ برقرار نہیں رکھ پاتے اور کبھی کبھی کھلے الفاظ میں کھری کھری سنانے لگتے ہیں :

آپ کا رتبہ سلامت آپ من مانی کریں

دوسروں کو درسِ عبرت ہو وہ نادانی کریں

………

ہیں یہی آباد کارانِ وطن تو ایک دن

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

………

محفل کی افراتفری میں وہ اور اضافہ کرتے ہیں

جتنا بھی افراتفری کو میں غیر آئینی کہتا ہوں

………

اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

………

تمھیں رہبر سمجھنا پڑ گیا ہے

ہماری بے کسی کی انتہا ہے

تیسرے شعر میں وہ ملک کے آئین کا سہارا لینے لگتے ہیں جو غزل کی محفل کا نہیں عدالت عالیہ کا موضوع ہے۔ ایک جگہ وزرا کو چھوڑ کر وہ اسمبلیوں یا میونسپلٹیوں کے ممبروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں :

جیسے بھر لی ہوں گھنگھنیاں منھ میں

یہ نمائندگی نہیں ہے، شرماؤ

شادؔ کا عقیدہ ہے کہ حاکموں کا برتاؤ خواہ کسی قدر غیر ہمدردانہ ہو لیکن ہندوستان اپنا وطن ہے اور ہندو اپنے ہم وطن۔ ان کو اپنا جاننا اور ماننا ہے لیکن کیا کیا جائے اُن نادان یا شریر لیڈروں کا جو ہندو مسلم اختلافات ہی پر پنپتے ہیں :

گلستاں میری جنم بھومی ہے

باغبانوں کے ستم بھول بھی جاؤں

اہلِ گلشن بھی پرائے تو نہیں

اہلِ گلشن سے بہر طور نبھاؤں

………

سلجھانے کی بات بنا کر

داڑھی چوٹی سے الجھا دی

حیرت ہوتی ہے کہ شادؔ بعض اوقات غزل کی عمومی اصطلاحات میں بعض مخصوص سیاسی واقعات کی طرف اشارہ کرنے پر قادر ہیں مثلاً

آزادی کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادہوئے۔ اہل شر نے اقلیتوں کے گھر لوٹ لیے۔ اہل اقتدار سے فریاد کی گئی تو انھیں ماننے میں تامل ہوا۔ کیا شادؔ نے یہ شعر اسی موقع کے لیے نہیں کہا:

اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گنا دیں

بہار میں جن کے آشیانے لٹے ہیں وہ اپنا ہاتھ اٹھا دیں

عمومی حیثیت سے گھروں کے جلنے کا تیکھا بیان:

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

آشیانوں کے جل رہے ہیں الاؤ

کوئی فرقہ وارانہ مناقشہ ہو تو اخلاقی جرأت سے بیگانہ، حکومت کا کاسہ لیس اقلیتی لیڈر اپنے بیان میں اپنے ہی فرقہ پر برسے گا۔ اس پر شادؔ اسے داد دیتے ہیں :

جب چلی اپنوں کی گردن پہ چلی

چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا

اور اکثریت کے رہنما کو یقین دہانی کرتے ہیں :

اختلاف رائے کے اندر زیاں کوئی نہیں

آپ کا دشمن نصیب دشمناں کوئی نہیں

ذیل کا شعر کیا محض اس موقع کے لیے نہیں کہا گیا جب ہند و پاک کے رہنما ایک دوسرے سے دوستی اور خیر سگالی کا ادّعا کرتے ہیں :

زک پہونچانے کی تاک میں ہیں ہم دونوں لیکن کہنے کو

وہ مجھ کو پڑوسی کہتے ہیں میں ان کو پڑوسی کہتا ہوں

شادؔ عارفی دور حاضر کی سیاست سے بیزار ہیں یہی دورِ حاضر جس میں ہر ہاتھ یا تو بھیک مانگنے کے لیے دراز ہے یا لبادے کے اندر خنجر پکڑے ہوئے ہے۔ یہ روشنی کا دور نہیں اس میں تو تاروں کی چھاؤں بھی غائب ہے :

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

………

بھاؤ انعام دعا بھیک گریباں خنجر

آج ہر ہاتھ کسی کام سے وابستہ ہے

………

عہدِ حاضر کی روشنی پہ نہ جاؤ

جب ستارے بجھیں چراغ جلاؤ

لیڈر اور سیاست سے بیزاری کے بعد شادؔ کا سب سے پسندیدہ موضوع معاشی عدم مساوات پر جی کڑھانا ہے۔ اس موضوع پر کبھی طنز سے گفتگو کرتے ہیں تو کبھی بے دلانہ شکست خوردگی سے :

لاکھوں ہیں ہم سب بیچارے

اے شہزادو تم سب کَے ہو

………

مضطرب ہیں آپ اپنے گلستانوں کے لیے

دیکھیے ہم کو ہمارا آشیاں کوئی نہیں

ہم بیچارے کس گنتی میں نیچی چولی نیچی بات

اونچے شملے والے ہم پر وار کریں اوچھا تو کیا

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شادؔ

دال بٹتی ہے جیل خانے میں

ذیل کے شعر میں یاس کا کتنا گہرا گمبھیر سمندر سمایا ہوا ہے۔ میں اسے پڑھتا ہوں تو دل کئی اندیشہ ہائے درد دراز میں کھو جاتا ہے :

اسے جس حال میں سجدہ کیا

اسے اللہ بہتر جانتا ہے

ذیل کا شعر شادؔ کے نام سے سننے میں آیا ہے۔ اس کے تیور بھی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شادؔ ہی کا فرزند معنوی ہے۔ طنز و مزاح کے ساتھ کیسی دلچسپ لیکن ٹھوس حقیقت کا اظہار کر گئے ہیں :

ہے تو احمق۔ چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

اور غمِ دوراں سے بہک کر غمِ جاناں پر آئیے تو شادؔ یہاں بھی خوب سے خوب تر ہیں۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

مانگ لائیں گے اجالا نوچ لائیں گے کنول

آپ ہم سے وعدۂ تشریف ارزانی کریں

………

ابھی ہیں امتحانِ شوق کے دن

ابھی جھوٹی قسم کھانے کے دن ہیں

………

آپ کو ہر الفت راس آئی، آئی ہو گی لیکن سنیے

میں نے تو جب پھول چنے ہیں کانٹوں میں دامن الجھا ہے

………

نیچی نظریں بکھری زلفیں، لٹکے آنچل شانے عریاں

حد بھر دلکش اتنے سارے انداز تمھارے کیا کم ہیں

………

اک بھینی بے نام سی خوشبو

شامل ہے ہونٹوں کے رس میں

اور یہ دلنشیں تجربہ کس کو نہ ہو گا:

جب نظر بچی اس کی میں نے اس کو دیکھا ہے

میرے اس طریقہ سے وہ بھی لطف لیتا ہے

شادؔ کی خصوصیت ہے جدّت، انوکھی چونکانے والی بات کہنا، حسن و عشق کے معاملوں میں بھی اس جدّت طرازی کے شرارے جہاں تہاں جگمگاتے دکھا دیتے ہیں :

ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اک دن

پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی یہ خط کس کا ہے

………

اس سے اس سے میری بابت روزانہ سر گوشی یعنی

بنتے کیوں ہو میری حالت تم کو بھی معلوم رہی ہے

………

مشورہ ضروری ہے ہر طرح مگر یارو

عشق کی بزرگوں سے کون رائے لیتا ہے

کون یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ رومان پرست شاعر عورت کو محبوبہ کے علاوہ کسی اور نظر سے بھی دیکھ سکتا ہے۔ ہمارے سماج میں عورت صنفِ نازک ہی نہیں صنفِ مجبور بھی ہے جو صنفِ قوی کی چیرہ دستیوں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ عورت کے ضبط کے نیچے گھٹی ہوئی موجِ غم شاعر کی ژرف نگاہوں سے اوجھل نہیں :

صنفِ مجبور نے پاکیزگی غم کے لیے

شبنم چشم کو عارض پہ بکھرنے نہ دیا

سماجی حقیقت نگاری کے نمونے ان کی طنز و مضحکہ سے بھرپور نظموں، ساس، عورت کا دل کتنا، اور التوا سے اجرا تک میں ملتے ہیں۔ میں اعتراف کر لوں کہ آخری دو نظموں میں جو انھوں نے کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا جمع کیا ہے میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔ نئی شاعری کی علامتی نظموں کی طرح ان میں ابہام ہے کیونکہ بعض ایسی کڑیاں حذف ہو گئی ہیں جن کی عدم موجودگی میں مختلف اجزا مل کر ایک سلسلہ نہیں بن پاتے۔ غزلوں میں بھی کہیں کہیں ایسے شعر آ جاتے ہیں جن میں فنی سقم رہ گیا ہے مثلاً

اس کا آنچل اور آویزے، میرا ما تھا چوم رہی ہے

پھر بھی چشم بد طینت پر الفت لا معلوم رہی ہے

’’ میرا ما تھا چوم رہی ہے ‘‘ کا فاعل چشم بد طینت کو قرار دیا جائے تو پہلا مصرع بے معنی ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے ’’ چوم رہی ہے ‘‘ کا فاعل آنچل اور آویزے ہیں۔ پھر ’’ چوم رہے ہیں ‘‘ کی جگہ ’’ چوم رہی ہے ‘‘

شاید میرے دل کا قصہ تیرے چہرے پر لکھا ہے

میں نے جس سے کہا نہیں ہے وہ کہتا ہے سُنا ہوا ہے

اس شعر کی تقطیع خواہ بحر متقارب میں کی جائے خواہ متدارک میں اس میں مفاعلن کی سمائی نہیں اس لیے دوسرے مصرع ’ کہا نہیں ‘ اور ’ سنا نہیں ‘ کے مقام پر سکتہ ہو جاتا ہے۔ اس وزن میں یہ لغزش بڑی عام ہے۔ اردو میں بڑے بڑے شعراء کا دامن اس سے داغدار ہے۔

راستی قد خوباں پہ نہ جاؤں

فائدہ مند نہیں سرو کی چھاؤں

اس غزل کے قافیے میں واؤ معروف ہے لیکن چھاؤں میں واؤ مجہول آ گیا ہے۔

میں یہ سب لکھ تو گیا ہوں لیکن ڈرتا ہوں شادؔ کی اس ڈانٹ سے :

ہم پر تیری تنقیدیں کیا

شیشے کا حملہ پتھر پر

غالبؔ کے شعر نام سے میرے سُنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ناقدِ فن آزما کے دیکھ

ان چند تسامحات سے قطع نظر میں یہ کیونکر بھول سکتا ہوں کہ شاد نے غزل کو نظم کی آفاقیت دی۔ انھوں نے اس کے معنی ہی میں وسعت نہیں دی۔ ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ کیا۔ ان میں رام پوریوں کی سی جرأت ہے۔ بڑے بے دھڑک انداز میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جنھیں باندھتے ہوئے دوسروں کی ہمت ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔

لا اے ساقی تیری جَے ہو

کوئی بھی پینے کی شَے ہو

………

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شادؔ

دال بٹتی ہے جیل خانے میں

ان کے تیور یاس یگانہ کی یاد دلاتے ہیں لیکن ان کا دامن یگانہ سے زیادہ وسیع ہے گو غزل کی پختگی اور رچاؤ میں وہ یاس سے کم رہ جاتے ہیں۔ شاد کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے غزل سے دور حاضر پر بھرپور طنز کا کام لیا۔ ان کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ

بقدر ذوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

اسی محدود حصار کے اندر وہ گوناگوں اور نو بہ نو گلکاریاں کرتے ہیں کہ حیرانی چونک کر رہ جاتی ہے :

صحرا کو گلستاں کہتا ہوں بجلی کو تجلی کہتا ہوں

سومعنے پیدا ہوتے ہیں اتنی بے معنی کہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

                ظؔ انصاری

 

 

شادؔ عارفی کی شاعری اور شخصیت پر

 

شاد عارفی( مرحوم)کا کلام کوئی تیس برس سے اردو کے اچھے رسالوں میں چھپتا رہا ہے لیکن ان کی زندگی اور شاعری پر اہلِ نظر کے مضامین نظر سے نہیں گزرے۔ اتنے بھی نہیں جتنے اُن کے ’ کم سخن‘ ہم عصروں پر نکل چکے ہیں۔ غالباً اسی لیے شادؔ عارفی کی شخصیت پر ہلکا سا نقاب پڑا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قناعت پیشگی کو انھوں نے زندگی کے اس پہلو پر بھی مسلط کر لیا تھا۔

بہت عرصہ سے میں ان کا کلام توجہ سے پڑھتا ہوں، فن اور فنکار کے باطن میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ اس کلام سے مرحوم کی دھندلی سی تصویر بھی میرے تصور میں ضرور ابھری۔ یہ تصویر کچھ ایسی ہے جیسے دریا اور پہاڑ دونوں سے ہٹ کر، ذرا فاصلے پر ایک سوکھا، ٹیڑھا میڑھا درخت کھڑا ہے، جس میں نمو کی قوت تو تھی لیکن لو کے جھونکے سب برگ و بار اڑا لے گئے۔ وہ ریگستان کے مسافروں کو گھنی چھاؤں تو نہیں دینے پاتا لیکن اپنے اجڑے ہوئے ٹہنوں سے اُن کی خیمہ گاہ بن جاتا ہے۔

جس طرح رشید احمد صدیقی کی نثر کو علی گڑھ کی خوش باش زندگی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، عین اسی طرح شادؔ عارفی کی شاعری ہے جو یوپی کی چھوٹی سی ریاست رام پور کے ماحول سے بیزار بھی ہے اور اس کا آئینہ بھی۔ رام پور میں کم و بیش ان کی ساٹھ برس کی زندگی کیسے گزری ہو گی اس کا صحیح اندازہ اُن کے کلام سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑی صفت ہے کسی شاعر کی۔ خاص کر ایسے زمانے میں جب گول مول استعاروں، مبہم اشاروں، ایک سی ترکیبوں کے رنگین کاغذوں اور شوخ پتیوں سے لوگ بھری پُری پھلواری لٹا جاتے ہیں۔

………

اردو شاعری کی تجربہ گاہ میں شاد عارفی اور یگانہ ( چنگیزی) کا خمیر ایک ہی اجزاسے تیار ہوا ہے۔ یگانہؔ پہلے یاسؔ عظیم آبادی تھے، پھر یاسؔ یگانہ لکھنوی ہو گئے، بالآخر یگانہؔ چنگیزی پر پہنچ کر دم لیا۔ اُن کی چنگیزیت خود انہی پر حملہ آور ہوئی اور جو انجام ان کی شاعری اور شخصیت کا ہوا، وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ شادؔ نے ساری عمر ناشاد بسر کی (ٹھنڈی ہوا کا ایک آدھ جھونکا تو خیر سبھی کو مقدر ہوا ہے ) اور ہر ایک کراہ کو انھوں نے طنز کا تیر بنا لیا۔

بعض اوقات حقیقتوں کو کسی نسبت سے دیکھا جاتا ہے۔ شاد عارفی کو انھیں کے ہم عصر یگانہ چنگیزی کی نسبت سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ دونوں کا رُخ ایک جانب ہے۔ اپنے ارد گرد کی زندگی، اس کی تلخیوں، ناکامیوں، نامرادیوں اور وہم پرستیوں پر طنز کرنا، سطح کو کھرچنا، خود دیکھنا، دوسروں کو دکھانا۔ چٹکی کاٹنے میں دونوں استاد ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ماحول کے حساب سے نہایت سرکش ہیں۔ دونوں اپنے برتاؤ اور فن میں Non-conformistرہنا چاہتے ہیں۔ پہلے تو پکے پھوڑوں کو کھرونچتے ہیں، پھر اپنے لہو سے ایک ایک بوند کا تاوان ادا کرتے ہیں۔ وہی بات کہ :

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب

خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

( اس شعر میں مژگانِ یار کا مفہوم کس قدر وسیع ہو گیا ہے !) یگانہؔ اور شادؔ دونوں زندگی کے نقاد شاعر ہیں لیکن یگانہؔ کو جو مقام اہلِ نظر نے دیا وہ شادؔ کو اُنکے جیتے جی نہیں مل سکا۔ وجہ اس کی محض اتفاق وقت نہیں، بلکہ مطالعۂ کائنات کا فرق ہے۔ شادؔ کے ہاں مطالعۂ کائنات کا زاویہ وہی ہے جو یگانہ کا ہے، حدِّ نظر کی وسعت البتہ وہ نہیں ہے۔

کائنات کے مطالعے کا ایک رمز یہ ہے کہ الگ الگ مظاہرہ یاPhenomenon کسی ایک بڑی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ اجزا تحلیل ہو کر ایک گل میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور پھر

’’ آئے ہے جُز میں نظر کُل کا تماشا ہم کو‘‘

یہ ’’ جزو‘‘ میں ’’ کل کا تماشا‘‘ کرنا مختلف طریقوں سے نصیب ہوا ہے۔ بھگتوں نے دھیان گیان کی راہ میں اسے پایا، صوفیا کو کثرت میں وحدت کے عرفان سے یہ درجہ ملا، سیاحوں کو وحدت میں کثرت کا جلوہ دیکھ کر، علما کو کثرتِ مطالعہ کے ذریعے، مفکروں کو کثرتِ مشاہدہ سے، مدبّروں کو بین اقوامی تاریخ کی کھوج سے، کارل مارکس کو مغربی فلسفے اور سائنس کی ترقیوں کی تہہ میں اترنے سے نگاہ کی یہ وسعت اور گہرائی نصیب ہوئی۔ یہاں پہنچ کر فنکار آتشِ جوالہ بن جاتا ہے اور اپنی سے اگلی صدی کی آمد کا پُر شکوہ اعلان کرتا ہے۔ جو واقعات چھوٹے ذہنوں کے لیے ہنگامہ خیز اور ہیجان انگیز ہوتے ہیں، وہ اس کی نگاہ میں دریائے بے کراں کی صد ہزار موجوں کے اندر پانی کے ایک بلبلے کی سی نمود رکھتے ہیں۔

اردو شاعروں کی صفیں کی صفیں مطالعۂ کائنات کے اس مقام سے محروم ہیں۔ شادؔ عارفی تو بیچارے پس ماندہ یو پی کی ایک پسماندہ ریاست کے پسماندہ ماحول میں عمر بھر سانس لیتے رہے اور جزو میں جزو کا تماشا کرتے رہے جس سے نگاہ پار ہ پارہ ہو جاتی ہے۔ ہم انھیں کیا الزام دے سکتے ہیں ! ان کی شاعری میں جو چومکھی لڑنے کا انداز ہے، {کوما (،) اِن ورٹڈ کوما  (’’   ‘‘) کی سان پر وہ جو اپنے تیروں کے پیکان تیز کرتے رہتے ہیں }اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی موجوں کو طوفان بلا خیز سمجھ کر انہی کا مقابلہ کرتے رہے۔ افسوس کہ انھیں اپنی شاعری میں ( اور غالباً زندگی میں بھی) جن سے دست و گریباں ہونا پڑا وہ تو ایسے قدامت پسند اور خشک مغز ادارے تھے جو ہاری ہوئی لڑائی میں ’ غنیم‘ کی اہمیت تک کھو چکے ہیں یا پھر ایسی ’بے حیثیت ہستیاں ‘ جن میں سے کوئی بھی شاد عارفی کے درجے کی نہ تھی، چنانچہ ان کی طنز یہ شاعری ناخن چبھونے کی حد سے اگر آگے بڑھتی بھی ہے تو آس پاس کے بام و در پر غلیل کا نشانہ تاک لیتی ہے۔ اور آپ جانیے، غلیل سے پرندے شکار ہوتے ہیں، درندے نہیں۔ ۱؎

شادؔ عارفی کی شاعری میں جو تیکھا پن ہے وہ اسی وجہ سے معرکۂ صفات کے بجائے معرکۂ ذلت بن کر رہ گیا ہے۔

یگانہؔ کی طرح جو قدرت کلام اُن کو میسر تھی۔ پینترے بدلنے اور داؤ کرنے میں جو استادی وہ رکھتے ہیں و ہ ہماری نسل کے اردو شاعروں میں شاید ہی کسی اور کو آتی ہے۔ قابل غور اور داد طلب بات یہ ہے کہ انھوں نے اس قدرت کلام کو پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے نہیں اپنایا بلکہ سکھایا اور چوب خشک کو تراش تراش کر اپنا ترکش بھر لیا، حالات اور نگاہ کی مجبوری سے اُن تیروں کی رسائی دور تک نہیں ہے اور ہر ایک عہد میں فنکار کی شاعری اور شخصیت کو اسی ایک  صفت سے ناپا جاتا ہے۔

۱؎ کئی برس پہلے شاد عارفی نے ظؔ انصاری کے خلاف بھی طنزیہ مضمون لکھا تھا

فردوسی اپنے شاہنامے کی عظمت کے باوجود غالباً ناکامی کی موت مرتا اگر چند اشعار کی وہ ہجو اس میں شامل نہ ہوتی جو ہمیں ایک اور ہی افسانہ سناتی ہے اور اس کرب اور کشمکش سے آگاہ کرتی ہے جس میں جی کر شاہنامے کے مصنف نے وہ دور مار توپ تیار کی جو بالآخر شکست خوردو ایرانی قوم کا سر اونچا کر گئی۔

…………

شاد عارفی کھلی آنکھوں کے شاعر ہیں۔ اپنے زمانے کی سیاسی، ادبی، علمی اور مجلسی زندگی پر، اس کی قدامت اور جدّت کے پہلوؤں پر ان کی نظر جاتی ہے۔  ۱؎ خیالات لے کر پلٹتی ہے اور خیالات بے رحم ہوتے ہیں۔ ان کی فطرت کپڑوں کی سی نہیں ہے جو آدمی کی کھال کے اوپر دھرے رہتے ہیں کہ جب میلے ہوئے دھلوا لیے اور جب پہننے کے قابل نہ ہوئے بدل ڈالے۔ یہ ظالم کھال کے اندر اتر جاتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ ( کھال سے مراد یہاں حساس آدمی کی نرم کھال سے ہے، موٹی چمڑی سے نہیں کہ خیالات اس کے اوپر صرف منڈھے رہیں ) جو خیالات شادؔ عارفی کی شاعری سے ظاہر ہوتے ہیں، وہ زندگی کے بیوہار میں اور شاعری کے چلن میں اپنے ماحول کے پروردہ نہیں ہیں، کچھ اور وسعت کے طلبگار ہیں۔ اس لحاظ سے وہ عہد حاضر کے نوجوان کا برہم مزاج رکھتے ہیں، لیکن مزاج کو ’ حس‘ بھی چاہیے۔ شکست و ریخت کی انتھک قوت اور پرِ پرواز بھی درکار ہے اور پھر اس کا بل چکانا پڑتا ہے،

۱؎ ہمارے ہاں کی سیاست کا حال نہ پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

شادؔ ہجر و وصل تک محدود تھی میری نظر، اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے، سوچنے کی بات ہے

ہم وفا شعاروں کی تا کجا دلآزاری، طنز تلخ ناداری، طعنۂ سبکساری

چاہیے رواداری، اے بتانِ سنگیں دل، آبرو نہیں بیچی ہم نے آرزو کی ہے

کیا تعجب ہے کہ تیشوں کی طرف بڑھ جائیں

لوگ ہاتھوں کو سوالوں سے جو مہلت دیں گے

سستائے جو رہرو تو نہ دیجے اُسے طعنہ

یہ دیکھیے ہمت تو نہیں ہار رہا ہے

خیالات کے یکسر تبدیل کرنے میں اس سے زیادہ ذہنی اور جسمانی درد سہنا پڑتا ہے جتنا زندہ کھال کھُرچوانے میں۔ یہ درد انھوں نے سہا لیکن اتنا لہو بہہ گیا کہ اونچی پرواز کی طاقت ہی جواب دے گئی۔

شاد عارفی ایسے آدمی تھے جن کی شاعری ’’ روشنیِ طبع‘‘ کی آمیزش سے اُن کے لیے بلا ہو گئی اور زندگی نے انھیں اتنی راحت بھی نہ دی جو ان کا حق تھی اگر وہ شاعر نہ ہوتے۔

انھیں کا شعر ہے :

پھول کھلنا تھے کہ خوشبو اڑ گئی

موج بہہ نکلی کنارا رہ گیا

جن خوبیوں سے ان کے ہاں نئے پن کا احساس ہوتا ہے، وہ صرف خیالات کی تازگی نہیں، بلکہ الفاظ اور تراکیب سے ان کا جمہوری برتاؤ ہے۔ وہ لفظوں کی ’ ذات بندی‘‘ سے گھبراتے نہیں بلکہ نظم تو نظم، غزل کی وضعدارانہ محفل میں بھی ہر برادری، ہر ایک گوت، اور ہر ایک فیشن کے لفظ کو پاس بٹھا لیتے ہیں۔ نہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں، و نہ ذات برادری پوچھتے ہیں۔ کتنے ایسے غزل گو ہیں جو شادؔ عارفی کی طرح دعویٰ کرسکیں کہ ان کی غزل جدید نظم کے لب و لہجے سے اس قدر قریب ہے ؟ شادؔ کی غزل ہمارے ’’ تازہ واردانِ بساط‘ ‘ کو جرأت دلاتی ہے اور لفظوں کے انتخاب میں رواداری نہیں، بے باکی کا سبق دیتی ہے۔

ظاہر ہے یہ معاملہ صرف انتخابِ الفاظ تک محدود نہیں رہتا، اس سے آگے جاتا ہے، مثلاً یہ کہ سیاسی حالات کے بیان میں غزل کا دائرہ اور غزل گو کا بیان کس حد تک واضح یا مبہم ہو سکتا ہے ؟ مجلسی زندگی کے واقعات میں کیا کچھ کہا جا سکتا ہے ؟ کس طرح کہا جا سکتا ہے ؟ مقامیت اور غیر مقامی تاثر کا شاعری میں کیا تناسب ہے ؟ شاعر کی شخصی زندگی اور حالات کو اس کی شاعری کی فضا سے کیا نسبت ہے ؟ کچھ لوگ اس ڈر سے کہ ان کی شاعری کہیں مقامی، محدود یا جواں مرگ نہ ہو جائے، بہت دون کی لیتے ہیں، آفاقی، ابدی اور کائناتی مسائل کو غزل کے شعر میں ’’ سمیٹتے ‘‘ ہیں۔ بعضوں کے ہاں یہ جرأت اس قدر مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جیسے اس پود نے کا تصور جو اپنے گھونسلے میں پاؤں اوپر کر لیتا ہے تاکہ آسمان ٹوٹ کر گرے تو اس کے سر پر نہ گرنے پائے۔ تخلیقِ آدم، موت و حیات کا رمز، قوت نمو، فوق البشر، وجود کائنات، جدلیاتِ حیات پر ایسے ایسے با کمالوں کی ( نا تمام) طویل نظمیں اور غزل کے اشعار نظر آتے ہیں جنھیں پڑوسی کے چولھے سے اٹھنے والے دھوئیں کی حقیقت نہیں معلوم۔

شادؔ عارفی نے انتخابِ الفاظ میں جس وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے، وہ موضوعات کے انتخاب میں بھی اسی طرح قائم ہے۔ وہ اس طرح کے شعر کہنے سے کبھی نہیں شرماتے :

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج

کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج؟

یہ پژاؤں پہ گھومنے والے

ہم سے کرتے ہیں دعویٰ معراج!

آپ کی نگاہوں نے موٹروں کے شیشے سے مختصر سے وقفے میں نوجوان دیکھے ہیں

کاش غور فرماتے عمر کی رعایت سے اُن کے قلب کے اندر بوند بھی لہو کی ہے

یہ بڑی خوبی ہے لیکن اس میں ایک اندیشہ بھی رہتا ہے۔ عام استعمال کے سادہ، کھردرے، دو ٹوک اور پڑے پھرتے لفظوں یا ناموں کو شعر میں ٹانک لینے کے بعد شاعر کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کیوں کہ پڑھنے یا سننے والے کا ذہن ان خاص چیزوں یا کیفیتوں کی کھونٹی پر ٹنگ جاتا ہے اور شعر کے مفہوم کے ساتھ اس کی نغمگی بھی اٹکنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں چابک دست اور صاحب نظر شاعر کا فرض ہے کہ وہ ذہن کو اس کھونٹی سے اتار کر کھلی ہوا میں لہرائے اور استعارہ یہاں کام آتا ہے۔ نازک، حسین، خوش آواز اور رنگا رنگ مفہوم کا استعارہ۔ استعارہ ہے جو مفہوم کو گھٹی ہوئی چار دیواری سے نکالتا ہے، خیال کو پرواز کی جانب مائل کرتا ہے، بدلتے ہوئے حالات کے باوجود شعر کو تازہ رکھتا ہے، اور ہلکی سی جالی دار نقاب میں حسن کی نشان دہی اور دلآویزی کاسامان کرتا ہے۔

اب یہ شاعر کے بل بوتے پر ہے کہ اس نے اسماء اور صفات کو ٹھوس اور مقامی شکل دیتے وقت خود کن کن فضاؤں میں پرواز کی اور کس قسم کے استعاروں سے کام لیا۔

شادؔ عارفی کے یہاں ایسے مقامات پر تنگ دامانی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وہ استعاروں کے ذریعے اپنے شعر کے لیے نہ تو وسیع امکانات کھول پاتے ہیں نہ ذہن کو دور تک لے جاتے ہیں :

اُن کے مداح اس زمانے میں

جیسے کتے قصائی خانے میں

جن کے پینے میں ہوں نہ کھانے میں

منہمک ہیں مجھے ستانے میں

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شادؔ

دال بنٹتی ہے جیل خانے میں

………

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

جب چلی اپنوں کی گردن پہ چلی

چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا

بعض احمق تک رہے ہیں آج تک

آسرا گرتی ہوئی دیوار کا

ان اشعار سے جس خاص صورتِ حال کا تصور ہوتا ہے، وہ روز مرہ کی بات معلوم ہوتی ہے مگر نہ تو ہمیں کچھ سوچنے پر مائل کرتی ہے نہ فکر کو غذا عطا کرتی ہے، نہ شعر کے مفہوم کو وسیع کرتی ہے، نہ شعر کی نغمگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتی ہے۔

جو لوگ اس غزل کو شادؔ عارفی کے مطبوعہ کلام میں دیکھیں گے، ممکن ہے انھیں خیال گزرے کہ اس کا سب سے اچھا شعر میں نے عمداً اڑا دیا ہے اور یہ ہے :

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا!

صنفِ غزل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے ( اور اس کی طرف ہمارے ناقدوں نے دھیان ہی نہیں دیا) کہ یوں بہ ظاہر غزل کا ہر شعر اکائی(Unit) ہے۔ لازم نہیں کہ اسے اگلے پچھلے شعر سے خیال یا فضا کا کوئی تعلق ہو۔ وہ اپنی جگہ مکمل نہ ہوا تو قطعہ بند ہو کر مکمل ہو جائے گا۔ لیکن چونکہ غزل کی ایک خاص فارم ہے۔ ردیف نہ ہو تب بھی ہر شعر کا ایک بحر میں ایک قافیے پر تمام ہونا لازم ہے۔ اس لیے غزل کی غنائیت میں جو ایک ان کہی کیفیت خود شاعر اور اس کے مخاطب کو مشترک طور پر محسوس ہوتی ہے کہ وہ اول سے آخر تک ایک خاص جھنکار کے لیے ذہن کو آمادہ رکھتی ہے۔ اس کیفیت کا نتیجہ ہے غزل کا اچھا شعر بھی اگر مفہوم کی گہرائی، وسعت اور رنگا رنگی نہ رکھتا ہو تو محض اسی غزل میں اسی مقام پر لطف دیتا ہے اور اسی مخصوص بحر، قافیے ردیف کی لڑی میں پرویا ہوا اچھا لگتا ہے، اس سے الگ ہو کر دو ٹکے کا رہ جاتا ہے۔

اس نکتے کی دو ایک کلاسیکی مثالیں لیجیے : صوفی شاعروں نے شریعت کی پیچیدگیوں سے دامن چھڑایا اور طریقت کی نیک اعمالی اور سادگی پر زور دیا۔ یہ ایک پرانا موضوع ہے۔ حافظ شیرازی سے بھی پرانا۔ حافظ اسے یوں کہتا ہے :

حدیث از مطرب دمے گو، درازِ دہر کمتر جو

کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت این معماّ را

{موت و حیات کے راز تلاش کرنے میں کیوں پڑتے ہو اس معمے کو کسی نے آج تک فلسفے سے نہ کھولا ہے نہ کھلے گا۔ خیریت اسی میں ہے کہ لذّتِ دنیا کی باتیں کرو۔ شراب و سرود کا لطف لو۔ ( دردیِ سر سے نجات پاؤ)}

بحث و جدل بجائے ماں، میکدہ جوئے کاندراں

کس نفس از جمل نزد، کس سخن از فدک نخواست

( مذہبی قصوں قضیوں کو انھیں کی جگہ پڑا رہنے دو۔ تم تو میکدے کی راہ لو کیونکہ یہ وہ ٹھکانہ ہے جہاں سنّی شیعہ ایک دوسرے سے نہیں الجھتے۔ یہاں نہ جنگ جمل کی بحث ہے، نہ باغ فدک کا مطالبہ ہے )

ان دونوں اشعار میں جو آزادانہ طرز عمل ہے وہ تو ہے ہی، لیکن جس صفت نے انھیں زندہ رکھا، وہ ان غزلوں کے درمیان واقع ہوتا ہے، جن کی نغمگی آریائی نسلوں کی موسیقی سے میل کھاتی ہے۔ نغمے کی لذت سے بے نیاز ہو کر ان اشعار سے لطف اندوز ہونا مشکل ہے۔ ۱؎ اپنی ’’ محفوظ نشستوں ‘‘ سے اٹھنے کے بعد ان دونوں اشعار کے رتبے میں فرق آ جاتا ہے۔ حافظ نے اس کمی کو حدیث، حکمت، کمتر جو، کشود و کشاید سے پورا کرنے کی کوشش کی( شعوری یا غیر شعوری) اور غالبؔ نے جدل، جمل، نفس، سخن، فدک کے ہم وزن الفاظ سے، جو شوخی کے ساتھ ذہن کو چھیڑتے ہیں۔

شاد کی ایک مزے دار غزل ہے اور وہاں قطعی اسی مفہوم کا شعر آ گیا ہے :

کسی بھی در پر علاج آوزش یقیں و گماں نہ ہو گا

ادھر چلا آ کہ میکدے میں اگر نہیں ہے، مگر نہیں ہے

یہ شعر اس غزل میں اپنی ’’ محفوظ نشست‘‘ سے اٹھ کر عام اور سرسری معلوم ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں کسی گہرے اشارے یا استعارے کے ذریعے شعر کی معنوی وسعت اور لفظی حسن کو بہت کچھ بڑھایا جا سکتا تھا۔ لیکن شاعر نے اسی پر قناعت کر لی کہ ’’ اگر نہیں ہے، مگر نہیں ہے ‘‘ کی ترکیب اس غزل میں ذرا انوکھی اور دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔

شادؔ کے ہاں بھی اردو غزل کی یہ ایک غیر شاعرانہ روایت اکثر جگہ باقی رہ گئی ہے، اور

۱؎  میں اپنے اس بیان کی تفصیل کسی اور مضمون میں پیش کروں گا۔ ظ۔ ا

اس نے ان کے کلام کے ایک خاص حصے کو روزناموں سے قریب کر دیا ہے۔ ۱؎   شعر کا عام فہم ہونا ایک بات ہے اور عام پسند ہونا دوسری بات۔ وہ جو اس نکتے سے خداوندِ خدا کی طرح آگاہ  تھا، کیا پتے کی بات کہہ گیا ہے :

شعر میرا ہے گو خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

یگانہ کے بعد شادؔ عارفی دوسرے شاعر ہیں جنھیں لہجے کا شاعر کہنا چاہیے۔ کیا غزل اور کیا نظم، ان کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جنھیں خاص لہجہ اختیار کیے بغیر پڑھا نہیں جا سکتا۔ اور نہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ۲؎

۱ ؎   ہمارے شاعر غلط بیانی سے آج بھی کام لے رہے ہیں

وہ کون محبوب ہے کہ جس کے کمر نہیں ہے دہن نہیں ہے

میرے نغمے نہ سمجھنے والے

سب سمجھتے ہیں مگر بنتے ہیں

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں شرماؤ

بہ امتیاز لباس یہ شیخِ وقت ہے اور وہ برہمن

بہ اعتبارِ مزاج و طینت اسے اٹھا دیں اسے بٹھا دیں

۲؎

اب اربابِ طریقت جانیں

میں نے میخانے سے لادی

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

………

آپ کے تیور بتاتے ہیں، بُرا مت مانیے

آپ سے کوئی اصولی کام ہونے سے رہا

………

جن مسائل میں وطن الجھا ہے

ہاتھ لکھتا ہوں اگر سکجھا دو

………

راستیِ قدِ خوباں پہ نہ جاؤں

فائدہ مند نہیں سرو کی چھاؤں

آپ کو کتنی اذیت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

یہ لوگ جو اپنے شعر میں تیکھے لہجے پر بڑا زور دیتے ہیں، نرالی وضع کے لوگ ہوتے ہیں ! یہ زمین پر سیدھے نہیں چلتے اور آسمان پر ٹیڑھے اڑتے ہیں۔ اکھڑ مگر نرم دل ہوتے ہیں اور ریا کارانہ انکساری سے پاک۔ ان کی بات میں ایک بات ہوتی ہے، اہلِ اقتدار سے سیدھے منھ بات نہیں کرتے اور بے اقتداروں کی سی وضع نہیں رکھتے۔ ان کی ایک آواز کو ہزار آوازوں کے ہڑبونگ میں الگ سنا جاتا ہے۔ یہ اپنے زخموں کو قلمدان کی طرح سنبھالنے، شاداب رکھنے  والے لوگ ہوتے ہیں کہ اس سے اُن کا فن اظہار پاتا ہے۔ ان میں ہر درجے اور ہر لہجے کے لوگ ہوتے ہیں۔ مادّی آسائش نصیب ہو یا نہ ہو، تاریخ ادب نے انھیں جب دیکھا، ناشاد ہی دیکھا اور یوں نہ ہوتا تو ایسے شعر کیوں کر ڈھلتے :

زندگی پر دلیر ہیں وہ لوگ

مقبروں سے جو لے رہے ہیں خراج

………

وقت کیا شے ہے پتہ آپ کو چل جائے گا

ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھیں گے تو جل جائے گا

………

رنگ کو دھوپ کھا گئی، بو کو ہوا اڑا گئی

کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی؟

………

یاد ہیں جس شخص کو صحرا نوردی کے مزے

دوسرے کے پاؤں میں کانٹے چبھونے سے رہا

………

آج کل راتیں بڑی ہیں اس لیے دن گھٹ گیا

تھے کبھی ہم لوگ بھی شایانِ شان کوئے دوست

………

یہ بتان مرمرینِ بُت کدہ

جیسے اب انگڑائی لی، اب بات کی

………

عہد حاضر کی روشنی پہ نہ جاؤ

جب ستارے بجھیں چراغ جلاؤ

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ

………

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

                راہی معصوم رضا

 

ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں

 

 

شادؔ صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اس لیے اب اس کڑوے کسیلے شاعر کے بارے میں اظہار خیال کرنا جان جوکھم کا کام نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں نے انھیں قابلِ اعتنا نہیں سمجھا تھا وہ انھیں بھول چکے ہوں گے۔ شادؔ کی گمنامی جگر کی شہرت سے زیادہ بڑا اور ہولناک ادبی حادثہ ہے۔ آواز پر جان دینے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ شاد عارفی کی آواز میں کس بلا کا بانکپن ہے۔ یاس عظیم آبادی نے نہ معلوم کس عالم میں یہ شعر کہا تھا:

الٹی تھی مت زمانۂ مردہ پرست کی

میں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیا

شاد عارفی نے بھی خود ہی اپنی قبر کھودی اور اس میں زندہ گڑ گئے۔ اس قبر کا نام رام پور ہے۔ رام پور کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ شاد عارفی کی شاعری آغاز سے انجام تک رامپوری ہے۔ مقامی تلمیحوں اور استعاروں کے جنگل میں شاعر کو تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ان کی شخصیت اور شاعری کا محور رام پور ہے لیکن ان کی بڑائی یہ ہے کہ وہ رام پور کو ہندستان بنا لیتے ہیں جیسے میر نے دل کو دلّی بنا لیا تھا۔ ان دونوں ہی شاعروں کا مرکز نگاہ ایک شہر تھا لیکن مزاجوں کے فرق نے ایک کو میر اور دوسرے کو شاد بنا دیا لیکن —اس میں کچھ شائبہ، خوبیِ تقدیر بھی تھا…… کہ ایک کے حصے میں دلّی آئی اوردوسرے کے حصے میں رام پور۔ ایک کے پیچھے اکبر و جہاں گیر و شاہجہاں کی روایات تھیں اور دوسرے کے سامنے نواب حامد علی خاں اور نواب رضا علی خاں کی نوابی! لیکن ان دونوں کے دل کا درد ایک ہی ہے۔ اگر میر تقی کو بھی شاد عارفی کا رام پور ملا ہوتا تو وہ بھی یہی کہتے جو شاد نے کہا مگر میر کو ’’روتے روتے سوجانے ‘‘ کی فرصت مل گئی جبکہ جہاں شاد ہیں وہاں سونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا کیوں کہ وہاں تو :

دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں کون ہے کس حال میں

سوچتی رہتی ہے دنیا، کس کو رسوا کیجیے

جہاں شاد ہیں وہاں بڑے نام دار اپنے آپ کو اپنے دادا کی اولاد بتاتے ہیں، جہاں کہاروں کے محلے میں پیدا ہونے والے باپ کی شکل پا جانے کی وجہ سے محل میں بلا لیے جاتے ہیں اور جہاں کا عالم یہ ہے کہ:

بھیگی رات سیاسی کھوسٹ غداروں نے تانتا باندھا

غم خوارانِ قوم و وطن کی ہر کوشش کو فتنہ باندھا

اس بیکس پر تہمت رکھی، اس ذرہ کو صحرا باندھا

لیکن چغلی خور سدا قطرہ پاتا، دریا کھوتا ہے

اس نے تسلیماتیں داغیں، اس نے جھوٹ کی لنکا ڈھائی

رائی کو پربت ٹھہرایا، پربت کو ٹھہرایا رائی

کچھ ایسے جیسے بھینسوں کو بین سنائیں یا شہنائی

ایک قصیدہ ’’چھتیاتا‘‘ ہے ایک خوشامد ’’برموتا ‘‘ ہے

یعنی گزر بس اس کا ہے جو ایک قصیدہ چھتیائے نظر آئے کیونکہ:

منہ کے پنجروں سے چھٹتی ہیں بے پر کی نوابی ڈینگیں

شیخی کم ظرفوں کی عادت کج فہموں کی ’’ہابی‘‘ ڈینگیں

اس دربار کے پاس کوئی مثبت قدر ہی نہیں کیونکہ یہ بعد از وقت ہے۔ یہ نواب ’’سنگل بیرل شیر دہان‘‘ سے ’’دو جنگلی ہاتھی ٹپکاتا ہے۔ ‘‘ اور نشانے کا یہ عالم جس کو تاکیں وہ بچ جائے۔ ‘‘

شاد نے اونچے محلوں کی یہ کہانی بڑی بے دردی سے سنائی ہے۔ وہ ایک بے مروت سرجن ہیں۔ آپریشن کرتے وقت ان کا ہاتھ نہیں کانپتا اور تشخیص کرنے میں وہ لفظ نہیں چباتے :

’’علیا خاتونیں ‘‘ گدرائیں، ہوش سنبھالا، دنیا دیکھی

غیرت کو کجلاتے دیکھا، عفت محو تماشا دیکھی

کنوارا جھلا، کنواری سیپی میں جھوٹے موتی بوتا ہے

چنانچہ علیا خاتونوں کے ہوش سنبھالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ:

کھاتا ہے پیر اک بھی پائیں باغ کی موتی جھیل میں غوطے

الفت کی تکمیل میں اُچھو، لذت کی تحصیل میں غوطے

خواہش کے ارشاد میں ڈبکی، حکموں کی تعمیل میں غوطے

چہرے پر کالک ملتا ہے، دامن کے دھبّے دھوتا ہے !

اس بند میں بعض لفظ اہم ہیں، خواہش نے ’’ارشاد‘‘ کیا ہے اور پیراک نے حکموں کی ’’تعمیل‘‘ کی ہے۔ مجھے اس قصہ کے کرداروں کے نام معلوم ہیں لیکن دراصل نام اہم نہیں ہیں۔ قصہ اور کردار دونوں ہی سچے ہیں۔ لیکن شاد کا موضوع سخن بن کر کرداروں کی واقعیت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، خود قصہ بھی اہم نہیں رہ جاتا، نتیجہ اہم بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہی ’’علیا خاتون‘‘ بھیس بدل کر جب ہمیں ’’شوفر‘‘ میں ملتی ہے تو اپنے عہد کا ایک کلیہ بن جاتا ہے :

جاتی ہوں، گھبراتے کیوں ہو یہ یکجائی ’’بور‘‘ ہے کیا

دو دل راضی کے بارے میں قاضی کا کچھ زور ہے کیا

لو یہ دس کا نوٹ تمھاری اجرت ہے انعام نہیں

شاد نے نتیجہ یہ نکالا:

کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ

نکاح عیب سمجھتی ہے، بھاگ سکتی ہے

شاد کی یہ ’’علیا خاتونیں ‘‘ اور ’’صبیحائیں ‘‘ اس معاشرے کی علامت ہیں جس سے شاد کو گھن آتی ہے۔ انھیں زیادہ گھن اس لیے آتی ہے کہ وہ کانوں سنی نہیں سناتے بلکہ آنکھوں دیکھی بیان کرتے ہیں۔ ان کے کرداروں کی جیتے جاگتے لوگوں سے مطابقت اتفاقی نہیں ہے۔ وہ خود کہتے ہیں :

’’بعض حالتوں میں مغرب زدہ خاندانوں کے برہنہ اطوار کی مذمت میں برہنہ تلوار بھی بن جاتا ہوں، یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ میری ایسی کوئی نظم ’’ہوائی‘‘ نہیں ہے۔ ہر نظم کا ماڈل میرے سامنے رہا ہے، شاعرانہ بناوٹ ضرور ہے مگر یہ کہ نظم بے سروپا ہو، یہ تصور غلط ہو گا۔ ‘‘

(سلطان اشرف۔ ’’سفینہ چاہیے ‘‘ صفحہ ۱۵)

اس عبارت سے شاد کے رویہ کا پتا چلتا ہے۔ وہ مغرب زدگی کے خلاف ہیں لیکن استاد شعرا کی طرح کوئی بات بے سند نہیں کہتے۔ بے سند کوئی بات نہ کہنا ہی شاد کی شخصیت ہے۔ لیکن انھیں باتوں کو عمومیت کار نگ دے دینے کا فن آتا ہے۔ مثلاً رام پور میں ایک دلچسپ مقدمہ بازی ہوئی، شاد عارفی نے اس مقدمہ کی روداد لکھ دی:

قاضی صاحب درشن دیتے ہیں ہنگام طلاق ارزانی

پاتا ہے سونے کے سکّے، جرم جواز عقد ثانی

نافرمانی پر تاویلیں، تاویلیں کیا، آنا کانی

سنتے آئے تھے یہ قاضی ابن الوقت کا پڑ پوتا ہے

یہ ’’ابن الوقت‘‘ شاد عارفی کے مخصوص واوین میں ہے۔

یہ بات اہم نہیں ہے کہ طلاق بغیر عقد ثانی ہو گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ چونکہ معاملہ دولت مندوں کا تھا اس لیے عقد ثانی کا جواز نکل آیا اور دنیا نے اسے قبول کر لیا مگر شاد عارفی دنیا نہیں تھے شاد عارفی تھے اور ان سے مذہبی اور سماجی اقدار کی یہ بے حرمتی نہیں دیکھی گئی۔ شاد کا المیہ یہی تھا کہ ان سے بے ایمانی دیکھی ہی نہیں جاتی تھی چنانچہ وہ زندگی بھر بے موقع باتیں کہتے رہے، انھوں نے ناگفتنی کو گفتنی بنا لینے کو اپنا شعار قرار دے لیا تھا چنانچہ انھوں نے زندگی کو اور زندگی نے انھیں خوب ہی خوب بھگتا! وہ بھی ایک قصیدہ چھتیا کر دربار میں جا سکتے تھے لیکن انھوں نے ’’رنگیلے راجا کی موت‘‘ اور ’’ان اونچے محلوں میں …‘‘ لکھنے کا منصب قبول کیا اور یگانہ ہی کی طرح کلاہ کج کیے گزر گئے۔ یگانہ نے کس بانکپن سے کہا تھا:

ہاں کیوں نہ پار اتر چلوں خمیازہ جھیل کر

ڈوبے مری بلا عرق انفعال میں

شاد نے بھی خمیازہ ہی جھیلنا گوارہ کیا اور یہ کہتے نظر آئے :

جس کنارے کی شرط ہے محکومی

اس کنارے سے ڈوب جانا بہتر

شاد کے مطالعہ کا آغاز یہیں سے ہو گا کہ انھوں نے رام پور میں زندگی گزار دی لیکن رام پور کو قبول نہیں کیا۔

لیکن رام پور میں رہنے کی وجہ سے انھیں زبان ملی اور ایک ریاستی شہر میں رہ کر ’’سرکار‘‘ کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نے ان کے خیالات کو اپنے آنویں میں اتنا پکایا کہ جھانویں جیسی کیفیت پیدا ہو گئی۔ یہاں میں پھر شاد عارفی ہی کو گواہ کی حیثیت سے پیش کرنا چاہتا ہوں :

’’میرا پختہ یقین ہے کہ مرزا سودا میں مرزا ہونے کے باوجود کوئی افغانی رگ ضرور تھی جو ہر خلاف مزاج بات پر پھڑک اٹھتی تھی اور پھر ظاہر ہے کہ وہ کیا کیا ’’گل افشانیِ گفتار‘‘ کا مظاہرہ کرتے اور ادبی حدود کو پھلانگ جاتے۔ سو میں بھی کبھی کبھی مزاج کے خلاف کسی واقعہ سے متاثر ہو کر جو منہ میں آئے وہ کہنے سے نہیں چوکتا مگر ادب کا دامن تھامے رہتا ہوں … ابتدا میں میں نے رنگین غزلیں نظمیں بھی کہی ہیں جو میرے دو عشقوں کی یادگار ہیں لیکن اس دور کے بعض عزیزوں کی لوٹ کھسوٹ، دوستوں کی بے وفائی اور ’’درپردہ دشمنی‘‘ ملازمت کے سلسلے میں خوشامدیوں کی ترقی اور بدنیتوں کی گردن میں طوق زریں دیکھ کر ’’رنگین شاعری‘‘ سے طنز کی طرف آتا چلا گیا…‘‘

(سفینہ چاہیے۔ صفحہ ۱۵۔ ۱۶)

جن لوگوں کے حافظوں میں شاد صاحب کے بے ساختہ، بچکانہ قہقہوں کی آواز محظوظ ہو گی وہی مندرجہ بالا عبارت کی ’’مرثیت‘‘ کو بھانپ سکتے ہیں۔ شاد صاحب کا المیہ دراصل اس دور کے ہر شریف اور صاف گو انسان کا المیہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام لوگ شاد صاحب کے طنز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کا خود بھی یہی خیال تھا لکھتے ہیں :

’’یہی وجہ ہے کہ وہ جو دوست ہیں نہ دشمن، نہ ناقد ہیں نہ تبصرہ نگار، میرے گہرے طنزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ‘‘         (سفینہ چاہیے۔ صفحہ ۱۵)

اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب شعر ملتا ہے :

جہاں جہاں غم دوراں پہ گفتگو نہ ہوئی

وہاں وہاں مرے شعروں کی آبرو نہ ہوئی

لیکن چونکہ اپنے آپ پر اور اپنے خوابوں پر اس قدر اعتماد ہے کہ:

لوٹ آئیں گے نشیمن، ٹوٹ جائیں گے قفس

ہم سے جس دن بھی ہوا کا رخ بدلوایا گیا

اس لیے :

عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا

شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا

مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاد تخلص ہی کچھ منحوس ہوتا ہے۔

ایک عظیم آباد کا شاد تھا تو اسے یہ کہنا پڑا:

ڈھونڈھو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

اور ایک رام پور کے شاد عارفی تھے تو انھیں یہ کہنا پڑا کہ:

شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں

ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

واقعی یہی ایک شہر میں قاتل رہا تھا۔ شاد صاحب کے بعد ایسے لوگوں کا خاتمہ ہو گیا۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ تخلص دھپل میں رکھ لیا جاتا ہے۔ ایک ہی زمانہ میں فراق، حسرت، یاس، فانی، اصغر، سائل، نوح، سیماب، جوش اور شاد جیسے تخلصوں کا ملنا کوئی اتفاق نہیں ہے۔ زمانہ ایک ہی، حوصلوں کی بات ہے یاس بولے :

داورِ حشر ہوشیار، دونوں میں امتیاز رکھ

بندۂ نا امید اور بندۂ بے نیاز میں

اور شاد نے کہا:

ہم وفا شعاروں کی تا کجا دلآزاری، طنز تلخ ناداری، طعنہ سبکساری

چاہیے رواداری، اے بتان سنگیں دل، آبرو نہیں بیچی، ہم نے آرزو کی ہے

یاس اور شاد کے نام ساتھ ساتھ یاد آ جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں تخلص ایک ہی تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔ یہ وہ منزل ہے جہاں اقبال اپنی خودی، اور تمام اسرار خودی اور رموزِ بیخودی کے ساتھ بونے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اشعار تجربات کے جہنم میں برسوں جلنے کے بعد ہی لکھے جا سکتے ہیں اور اسی لیے میں یاسؔ اور شادؔ کی پرستش کرتا ہوں۔

شاد اور یاس دونوں ہی نے شعر کی زبان بدلی۔ شاد کے سامنے بھی غزل کی تنگ دامانی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے کہ اس ہیئت کے سہارے دریا کو ساحل باندھنا ناممکن ہے لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں شاد سند اور دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کہتے تھے اس لیے انھوں نے پہلے غزل پر سامنے سے وار کیا۔ غالب تو ’’تنگنائے غزل‘‘ کا شکوہ کر کے آگے بڑھ گئے تھے مگر شاد کا زمانہ اور تھا اور اس زمانے کے تقاضے مختلف تھے۔ چنانچہ شاد تلواریں لے کر چل پڑے اور انھوں نے پہلے یہ تمہید باندھی:

شراب و شاہد کے تذکرے ان سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جِن کی جادو بیانیاں ہیں

— — — — — —

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ گفتار رہا ہے

— — — — — —

دوسروں کی داستانِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

— — — — — —

شاعر جو غلط بین و طرب کار رہا ہے

آنکھوں سے ’’ترپ‘‘ ذہن سے نادار رہا ہے

ان غم کی گھٹاؤں میں پپیہے کی صدا پر

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جھک مار رہا ہے

— — — — — —

وہ شاعران فرار و رجعت حیات نو کا پیام کیا دیں

جو شہر آشوب کے محل پر حسین و نازک غزل سنادیں

— — — — — —

جنھیں حقیقت بیان کرنا خلاف آئین و مصلحت ہے

سمجھ رہے ہیں معاشرے سے الگ تغزل کی مملکت ہے

جبھی تو ان شاعروں کو سن کر گمان ہوتا ہے ایسے خط کا

لکھا ہے جس میں سوائے فاقہ وطن میں سب خیر و عافیت ہے

یہ ہیں وہ شعرا جو شاد عارفی کے گرد اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے اور انھیں گھسے ہوئے سکّوں جیسی علامتوں کو سر بازار بھناتے پھر رہے تھے۔ شاد عارفی کے لیے ان کی ا س دیدہ دلیری پر جھلاّ جانا ضروری تھا چنانچہ انھوں نے غزل کے صیاد کو مخاطب کیا اور اسے ایک نہایت ہی دلچسپ اور کارآمد مشورہ دیا:

انھیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنا لینا

ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں

دو انڈوں کے اس ذکر نے شاعران گردو پیش کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ وہ جس بلبل کا ذکر کرتے ہیں وہ کوئی فنی علامت نہیں ہے بلکہ بلبل ہے یعنی شاد عارفی نے گردو پیش کی شاعری کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض یہ تشخیص کیا کہ یہ غزل، استعاروں کی منزل سے گر کر لفظی بازی گری کے طلسم میں پھنس گئی ہے یعنی رام پور اسکول لکھنؤ کی کھرچن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ شاد نے اشعار کے اس ڈھیر بلکہ گھورے کو غزل ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک تو:

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شاد عارفی

لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے

لطافت بیان کو پھر دیکھ لیں گے کیونکہ یہ منزل واقعہ کے بعد آتی ہے تو آئیے واقعہ کو تلاش کریں، واقعات تو یہ ہیں :

آپ کی نگاہوں نے موٹروں کے شیشوں سے مختصر سے وقفوں میں، نوجوان دیکھے ہیں

کاش غور فرماتے، عمر کی رعایت سے، ان کے قلب کے اندر، بوند بھی لہو کی ہے

— — — — — —

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلان ضرورت دیں گے

— — — — — —

رفتار وہی، ٹھاٹ بھی، تیور بھی وہی ہیں

یہ شخص کسی عہد میں سرکار رہا ہے

بعض احمق تک رہے ہیں آج تک

آسرا گرتی ہوئی دیوار کا

— — — — — —

جناب شیخ ہی اب رہ گئے ہیں لے دے کر

وہ دن گئے کہ کسی برہمن پر چوٹ کروں

…………

اپنے ارشادات پر اے شاد وہ شرمائیں کیا

ریزہ چیں ملتے ہیں مکھن جن کے ارشادات کو

جو دشمنوں کے اشاروں پہ رقص فرمائیں

انھیں کو اصل میں ذی اختیار کہتے ہیں

— — — — — —

عقل ہی ٹخنوں میں آ جائے تو مجبوری کی بات

ورنہ کوئی وقت کے زانو پہ سونے سے رہا

— — — — — —

ہے تو احمق چونکہ عالیشان کا شانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

— — — — — —

سنبھل سنبھل کر قدم بڑھاتے ہیں اس طرح مصلحت کے مارے

کہ جیسے سکّے کی طرح رستے میں کامیابی پڑی ملے گی

— — — — — —

میکدے میں اور سب کچھ ہے مگر

صرف ساقی کا سلوک اچھا نہیں

— — — — — —

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

آپ کی منصوبہ بندی کی طرح سرکار کو

ہم بھی کاغذ پر دکھا سکتے ہیں تعمیریں بہت

— — — — — —

جشن آزادیِ جمہور پہ لاتا ہے دلیل

کو بکو شہر میں چندے سے چراغاں ہونا

— — — — — —

یہ مدرس ہیں کسی اسکول کے

ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

— — — — — —

غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ناقدِ فن آزما کے دیکھ

— — — — — —

وہی روشِ بتانِ کو بکو سے دوستی کی ہے

کٹی ہوئی پتنگ جو بھی لوٹ لے اسی کی ہے

— — — — — —

اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گنا دیں

بہار میں جن کے آشیانے لُٹے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھا دیں

— — — — — —

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

— — — — — —

دیکھنے کی چیز ہو جاتا ہے اس سائل کا دل

جس سے کہہ دے صاحب خانہ یہاں کوئی نہیں

— — — — — —

بُتان عدوئے چمن آج تک بھی

وطن کی زمینیں دبائے کھڑے ہیں

— — — — — —

چاپلوسی داخلِ آداب محفل دیکھ کر

پردۂ تعریف میں ان کو بُرا کہنا پڑا

— — — — — —

کارواں کے کندھوں پر رہروی سے حاصل کیا

سنگ میل گن گن کر قطع راہ منزل کیا

آپ نے سیاحت کی پاؤں میں کوئی کانٹا

پاؤں میں کوئی چھالا؟ خاک جستجو کی ہے

خیال عرض حال تھا، مگر یہ سوچتا رہا

ہزار بار کی گئی گزارشوں کا کیا رہا

اور آخر میں سب سے دردناک واقعہ دیکھیے۔ ادارۂ نیا خواب نے ’یوم شاد، پر جو کتابچہ شائع کیا تھا اس میں شادؔ صاحب رام پور کی حکومت کی نا انصافی کا ذکر کرتے کرتے لکھتے ہیں :

’’اس دوران میں میرے سامنے کانگریسی وقار تھا اور سوچتا تھا کہ ریاستیں ختم ہوں گی تو کانگریسی دور حکومت عوام کے لیے بہت سازگار ہو گا مگر انجام کار اپنے تصور پر آج تک پشیمان ہوں اس لیے کہ جس کانگریس کے لیے میں نے فاقے تک کیے وہ مجھے خوشامدی نہ ہونے کی وجہ سے لائق اعتنا نہ سمجھی۔ یہی نہیں بلکہ مجھے ملازمت سے بھی علاحدہ کر دیا اور آج آٹھ سال ہونے کو آئے، پراویڈنٹ فنڈ تک کی رقم نہیں ملی۔ یقین مانیے مبلغ تیس روپے کی رجسٹریاں کیں مگر جواب نہ ملا۔ ‘‘           (شاد، ص ۲۶)

یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ یاسؔ عظیم آبادی کو بھی قومی حکومت نے یو ں ہی بد دل کیا تھا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ ہے ہم لوگ ’’لطافتِ بیان واقعہ‘‘ کی دنیا میں تھے۔ میں نے اس قدر مثالیں نہ دی ہوتیں لیکن ایک کتاب پر ظ۔ انصاری کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک جملہ دیکھ چکا ہوں اور اسی لیے نے جھٹ پٹ مثالیں دینے کو مناسب جانا۔ ظ۔ انصاری کا خیال ہے کہ:

’’ان کی (شاد عارفی کی) توپ دور مار نہیں۔ لفظ استعارہ بن کر بھی ذہن کو دور تک نہیں لے جاتا نہ وسیع امکانات کھولتا ہے۔ ‘‘

مجھے اس رائے سے سخت اختلاف ہے۔ ’’توپ دور مار‘‘ اس لیے نہیں معلوم ہوتی کہ ہم نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ ہم کسی شاعر کی پوری شاعری کو اکائی نہیں مانتے ہم الگ الگ نظموں اور غزلوں کے اکاّ دُکاّ شعروں کی بنیاد پر رائے قائم کر لیتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ شاعر کی شاعری کو اکائی مان کر مطالعہ کیا جائے اور نتیجے اخذ کیے جائیں۔ ظ۔ انصاری نے دھوکا اسی لیے کھایا کہ انھوں نے ’’رنگیلے راجا کی موت‘‘ اور ’’ان اونچے اونچے محلوں میں ‘‘ جیسی نظموں کو اپنی جگہ مکمل مان لیا اور شاد عارفی کی ’’مقامیت سے ہار مان گئے۔ ‘‘ مگر ’’ان اونچے اونچے محلوں …‘‘ ہی کا سلسلہ ’’نوکرانی‘‘، ’’مہترانی‘‘ اور ’’شوفر‘‘ تک پھیلا ہوا ہے میں نے اسی لیے اتنی ساری مثالیں دی ہیں کہ یہ دیکھا جا سکے کہ شاد عارفی کی توپ بہت دور مار ہے، مثلاً جب یہ وہ کہتے ہیں کہ:

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

تو کیا اس توپ کا گولہ خاص باغ سے آگے نہیں جاتا ’ہمارے یہاں ‘سمٹ کر رام پور ہے پھیل کر ہندستان ہے اور پھیلے تو دنیا بھی ہے ! میرے خیال میں تو شاد کی توپ بہت ہی دور مار ہے کیونکہ انھوں نے بیانِ واقعہ کو اپنا فن بنایا ہے اور اگر واقعات کا یہ رنگ ہے تو اس غزل کی گنجایش کہاں رہ جاتی ہے جو ان کے گردو پیش ہو رہی تھی — اور جو ہمارے گردو پیش ہو رہی ہے ! چنانچہ اس کے باوجود کہ:

دس پانچ برس حضرت حالی کی طرح شاد

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

شاد نے رنگین شاعری کو ترک کیا اور ترک کیوں نہ کرتے۔ جس کی مثال دے رہے ہیں وہ خود قوم پر مسدّس چست کر چکا تھا۔

’’جب کیا قوم پر مسدّس چُست‘‘

چنانچہ حالیؔ نے تو مقدمہ شعر و شاعری کی دھار آزمائی اور شادؔ اپنی تیز بیانی اور نوکدار ترکیبوں کا ترکش لے کر ٹوٹ پڑے :

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزم عیش میں

اس غزل کا شاد کیا، ماحول بھی قائل نہیں

— — — — — —

وسمہ و غازہ کی یہ شوقین بڑھیا تا بہ کَے

فرض کر لیجے غزل میں بانکپن باقی بھی ہے

— — — — — —

الفت کے آکاش پہ جھلمل جھلمل کا نظارہ کیجے

تقریباً دس لاکھ مقدر، مدھم کوئی، روشن کوئی

حالیؔ نے بھی یہی کہا تھا کہ:

یا تو عمارت میں ترمیم ہو گی یا پھر خود عمارت ہی نہ رہے گی

شاد بھی اسی نتیجے پر پہنچے۔ چنانچہ یہ بولے :

شادؔ! ہجر وصل تک محدود تھی میری نظر، اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے، سوچنے کی ہے

’’لطافت بیان واقعہ‘‘ کے ساتھ ’’وابستۂ حالات‘‘ کی ترکیب کو جوڑ لیجیے۔ نتیجہ دعوت فکر ہی دے سکتا ہے اور شاد کی غزلیں دعوتِ فکر ہی دیتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بڑی بھل منسیّت سے ایک شعر کہا:

شباب و  صفوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے

غزل برائے حیات لکھیے۔ غزل برائے غزل نہ کہیے

اس شعر میں ایک اور دلچسپ اشارہ بھی ہے۔ وہ ’’غزل برائے حیات کہیے۔ ‘‘ نہیں کہتے۔ برائے حیات تو شعور ی طور پر لکھنا ہو گا۔

شادؔ نے اپنی غزل کو تلوار بنا لیا اور پھر کیا تھا:

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ شادؔ کی شاعری میں نرم گوشے ہی نہیں ہیں بہت سے نرم گوشے ہیں :

گئے وہ دن جو تمھیں دل سے پیار کرتا تھا

بس اب تو پہلی محبت نبھا رہا ہو ں میں

— — — — — —

اسے نسیمِ چمن کہہ رہا ہوں میں لیکن

کہیں نسیم چمن مڑ کے دیکھتی بھی ہے

— — — — — —

بڑھا رہا ہوں یہ کہہ کہہ کے تاب و طاقتِ دل

بجھا دیے ہیں ہوا نے چراغ منزل کے

— — — — — —

یاد ہیں جس شخص کو صحرا نوردی کے مزے

دوسروں کے پاؤں میں کانٹے چبھونے سے رہا

— — — — — —

کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اشعار اسی شاد عارفی کے ہیں جس نے صیاد کو یہ اطلاع دی تھی کہ نشیمن میں دو انڈے بھی رکھے ہیں ! یہ شاد کی اپنی آواز ہے۔ ان کا طنز تو ’’قطع بند اپیل‘‘ ہے۔ وہ ’’رنگیلے راجاؤں ‘‘ کی دنیا کو ڈھا کر ایک بہتر دنیا بنانا چاہتے ہیں جہاں ’’گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل‘‘ کا طلسم ٹوٹ جائے۔ یہ دنیا بھلا رہنے کے قابل ہے جہاں:

ہوں تو بی۔ اے۔،  نام ایم۔ اے خان ہو

جہاں سلامتی کی دعا دی جائے تو شاعر کے ذہن میں یہ تشبیہ کلبلائے کہ:

ہیبتِ آواز، امریکہ کے انجن کی طرح

جہاں لوگ لڑکیوں سے محبت نہ کرتے ہوں بلکہ لڑکیوں پہ کام کرتے ہوں :

کر رہا ہوں تین ہفتوں سے میں جس لڑکی پہ کام

چند شعر ایسے کہ طے پا جائیں پیغام و سلام

جہاں لوگ شاعروں سے عقیقہ اور رنڈوے چچا کی شادی کے موقع پر شعر لکھواتے ہوں، جہاں شاعر کا کام یہ ہے کہ:

میرے گھر لڑکا ہوا ہے اُس کا ایک اچھا سا نام

یا

میری بیوی (داشتہ شاید!) کی تاریخ وفات

جہاں افسر ’’مفت کا عیاش ہو‘‘ اور:

خود ہی کرتا ہو معطل، خود ہی کرتا ہو اپیل

جہاں شادیاں ہوں تو اس مسئلے پر غور کیا جائے کہ:

مہر چاہیے اتنا، جو ادا نہ ہو پائے

روز خانہ جنگی ہو، فیصلہ نہ ہو پائے

جہاں فلاں بیگموں، بیٹیوں، بہوؤں سے ’’اجتماعی استفادے ‘‘ کا خیال ہے۔ جہاں رت جگے ہوں تو  عورتیں یہ باتیں کرتی ہیں :

خدا کے گھر میں پہنچ کر نقاب اٹھا لیں گے

عشاء کے بعد نمازی گھروں کو جا لیں گے

اگر ہوئے بھی تو شرعاً نظر جھکا لیں گے

جو چار چھ نے تکا بھی تو کیا چھڑا لیں گے

………

شادؔ نے ایک حقیقی شاعر کی طرح اس دنیا کو رد کیا تاکہ وہ محبت کے گیت گا سکیں اور یقین کیجیے کہ محبت کے یہ گیت اتنے مقدس اور گھریلو ہیں کہ حسرتؔ موہانی کے علاوہ کوئی اور شاعر عشق کی اس سادگی اور پاکیزگی کی منزل پر نظر ہی نہیں آتا!

راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے

تکیوں سے اب تو اس کے پسینے کی بو نہ آئے

اس کی خوشبو سے شاد کا بستر بسا ہوا ہے :

ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے  میرے بستر سے

یہ عشق کی وہ منزل ہے جہاں کرائے کے معاشقوں سے کام چلانے والے شعرا نہیں پہنچ سکتے اور یہ عشق کسی تاریک گلی یا کسی ویران مسجد میں نہیں ہوتا بھرے پُرے گھر میں ہوتا ہے !

بھرے گھر کو مرے جوش جنوں سے خوف رسوائی

مجھے افشائے رازِ عشق کا کھٹکا بھرے گھر سے

مجھے شادؔ عارفی کی داستانِ عشق معلوم نہیں، لیکن یہ شعر ان کی داستانِ عشق کی تلخیص ہے۔ اس گھریلو ماحول میں وہ قاصد نہیں ہوسکتا جسے غالب نے سلام کہلوایا تھا یہاں تو یہ عالم ہے کہ:

مرا قاصد تقاضے پر تقاضہ کر رہا ہو گا

وہی لیکن جوابِ شوق لکھتے ڈر رہا ہو گا

اس معشوق کو شاد نے قریب سے دیکھا ہے۔ اسی لیے وہ مبالغہ سے کام نہیں لیتے بلکہ ان لوگوں پر گہرا طنز کرتے ہیں جو محبوب کے سراپا کے بیان میں بڑا زور باندھتے ہیں :

میں نے نزدیک سے دیکھا ہے اسے

وہ نہیں ہے کہ جو مشہور ہے وہ

سانولا رنگ، کشیدہ قیامت

نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ

لیکن ایک ایسی دنیا کی تخلیق آسان نہیں جس میں معصوم اور گھریلو محبت پروان چڑھ سکے۔ پھر بھی شاد نے ہمت نہ ہاری جب کسی بہت ہی سخت دیوار سے ٹکراتے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا تو وہ اپنے کو سمجھاتے :

بجھا دیے ہیں ہوا نے چراغ منزل کے

اور شادؔ کو ان لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں جو اس سڑی گلی دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں :

وقت کیا شے ہے پتہ آپ کو چل جائے گا

ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھیے گا تو جل جائے گا

نئی دنیا کی تعمیر کی آرزو ہی نے انھیں ترقی پسندوں کے نزدیک پہنچا دیا لیکن ترقی پسندی کے کچھ تقاضے انھیں ناگوار بھی ہوئے۔ شاد چُپ رہ جانے والوں میں تو تھے نہیں، انھوں نے تڑ سے ایک شعر چست کر دیا۔

وہ بدلتے ہوئے ماحول کا سانچہ ہی سہی

کوئی سکّہ تو نہیں ذہن کہ ڈھل جائے گا

اور شاید یہی وجہ ہے کہ پرانی دنیا نے انھیں رد کیا اور نئی دنیا نے انھیں پوری طرح قبول نہیں کیا لیکن جدید اردو شاعری کی کہانی شاد عارفی کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اس لیے اپنی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں شادؔ عارفی کو دریافت کرنا ہی پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                شمس الرحمن فاروقی

 

شادؔ عارفی کے بارے میں

 

۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۴۷ء میں ترقی پسند نظریہ ادب پر اس درجہ حاوی تھا کہ تقسیم کے وقت تمام بڑے ہندوستانی غزل گو کسی نہ کسی طرح اور ایک نہ ایک حد تک ترقی پسند بوطیقا پر کار بند تھے یا کم سے کم اسے زبانی خراج دیتے تھے۔ حسرتؔ، فراقؔ، شادؔ عارفی کو ترقی پسند نظریہ کا Approval حاصل تھا۔ یگانہؔ ترقی پسند ادب کے مخالف تھے لیکن مجنوں گورکھپوری نے ان میں صحت مند جدلیت، انقلاب انگیزی، دعوتِ عمل اور حوصلہ جد و جہد دریافت کر لیا تھا لیکن یہ صورت حال بہت دن نہ چل سکی۔ حسرتؔ کی شاعری کا آفتاب ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد لبِ بام آ گیا۔ وہ زیادہ دن زندہ بھی نہ رہے۔ شادؔ اور فراق نے ( یگانہؔ بھی بہت دن زندہ رہے لیکن ان کی شاعری میں مسلسل زندگی اور حرارت رہی)اپنی اپنی انفرادیت کو زیادہ استقلال بخشا۔ یگانہؔ اور شادؔ کی غزل ہر اعتبار سے سودا کے اسلوب کی اسیر تھی لیکن انھوں نے غزل کے سرمائے سے ایسے الفاظ کم کرنے کی کوشش کی جو اردو غزل کی دونوں روایتوں ( سوداؔ اور میرؔ کے اسلوب) میں مشترک تھے جنھیں ترقی پسندوں نے بھی مسترد نہیں کیا تھا، لیکن جو اپنی معنویت کھو چکے تھے۔ فراقؔ کی غزل اپنی اولین منازل میں سوداؔ اور مومنؔ کی رہینِ منت تھی لیکن انھوں نے کچھ شعوری اور کچھ غیر شعوری کوشش کے بعد میرؔ کے اسلوب کی طرف قدم بڑھایا ( فراقؔ نے ذوقؔ، داغؔ، ناسخؔ، مصحفیؔ، مومنؔ  اور حسرت کے مفصل تنقیدی جائزے لکھے ہیں، اس سے ان کی افتاد مزاج کا پتہ چلتا ہے )

ہندوستان میں نئی غزل کی تاریخ ان تینوں سے شروع ہوتی ہے۔ ان شعرا کا مزاج نیا نہ تھا، کیونکہ مسلسل استفسار و تجسس، جو نئے مزاج کا خاصہ ہے، ان کی شاعری میں بہت کم ملتا ہے جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں۔ شادؔ اور یگانہؔ نے غیر ضروری الفاظ کے اخراج کی کوشش کی لیکن وہ نئے الفاظ غزل میں نہ داخل کر پائے۔ چنانچہ ان کی دنیا سکڑی ہوئی اور بے رنگ معلوم ہوتی ہے۔ یگانہؔ کی شوریدگی اور شادؔ کا گہرا طنز یہ مگر بے تکلف انداز گفتگو یقیناً نئے شاعروں کے مزاج سے قریب تر ہے۔ یگانہؔ میں جھنجھلاہٹ، تنگ نظری، اکڑ فوں، غصہ، خشک مزاجی تو نظر آتی ہے لیکن نابالغ عشقیہ جذبات کی میٹھی گولیوں سے ان کا کلام یکسر عاری ہے۔ یگانہؔ غزل کے تقریباً پہلے شاعر ہیں جن کا مزاج عشقیہ نہیں ہے۔ عشقیہ مرکز کی اس غیر موجودگی نے اگرچہ ان کے کلام سے خوشگواری چھین لی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ خود ترحمی اور ڈھیلے ڈھیلے نیم گرم آنسوؤں کے فقدان، ہجر و وصال کے زنانہ چونچلوں اور محبوب کو اپنے برابر کا اپنی طرح کا انسان سمجھنے کے علاوہ سب کچھ سمجھنے کے رجحان سے ان کے کلام کی پاکی، انھیں یقیناً ہمارے عہد کے لیے حسرتؔ، اصغرؔ، عزیزؔ، صفیؔ بلکہ فانیؔ اور جگرؔ سے بھی زیادہ قابل مطالعہ بناتی ہے۔ شادؔ اور یگانہؔ دونوں کے یہاں اس چکراتے ہوئے تحیر کی بھی کمی ہے جو مظاہر ہستی کو عریاں دیکھنے کے نتیجے میں نئے شاعر کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ طنز کا پہلو نمایاں تر ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں اپنا ہمدرد نہیں بنا سکتے۔ ہمیں ان سے محبت نہیں ہوتی، نئے مزاج میں انسانی غم کو خالص انسانی سطح پر دیکھنے اور برتنے کا جو خاصہ ہے وہ ان دونوں میں نہیں ہے۔ یہ ان ترقی پسند ادیبوں کی طرح ہیں جو مزدور کے حالِ زبوں پر روتے ہیں۔ لیکن خود مزدور نہیں ہیں۔ نئے شاعر کا مزاج اس طبیب کا سا نہیں ہے جو خود مریض نہیں ہوتا لیکن مرض کی ہلاکت انگیزیوں سے واقف ہوتا ہے۔ ترقی پسند شاعروں کا مزاج یہی تھا۔ یگانہؔ اور شادؔ کا مزاج بھی یہی تھا۔ ۔ ۔ ۔

کیا تعجب ہے کہ تیشوں کی طرف بڑھ جائیں

لوگ ہاتھوں کو سوالوں سے جو مہلت دیں گے

پھول کھلنا تھے کہ خوشبو اڑ گئی

موج بہہ نکلی کنارہ رہ گیا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا

آپ کو کتنی اذیت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

مشورہ ضروری ہے ہر طرح مگر یارو

عشق میں بزرگوں سے کون رائے لیتا ہے

یہ اشعار شادؔ کے ہیں ان کا تیور نئے مزاج کی فریب شکستگی سے زیادہ قریب تر ہے لیکن یہ شاعری بھی لفظی توازن کے بل بوتے پر قائم ہے۔ یہ نئی غزل کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن خود نئی نہیں ہے۔

یگانہؔ اور شادؔ کا اثر نئی غزل پر منفی زیادہ پڑا، مثبت کم۔ اس معنی میں کہ انھوں نے انحراف، اخراج اور تنسیخ کی راہیں بنائیں۔ انھوں نے شاعرانہ موضوعات کی کچی عمارت ڈھا دی اور یہ دکھایا کہ خلاقانہ ذہن کے لیے ہر موضوع شعر کا موضوع بن سکتا ہے۔ جدید اینٹی غزل اپنی تمام غیر سنجیدہ قلا بازیوں کے باوجود جس طرح غزل کے سڑے گلے الفاظ اور بندھے بندھائے سودوں کو اکھاڑ پچھاڑ کر رہی ہے وہ زیادہ تر شادؔ عارفی اور ایک حد تک یگانہؔ کی دین ہے۔ اس طرح نئی غزل میں کیا نہ ہو؟ کا جواب ان کی شاعری میں مل جاتا ہے لیکن نئی غزل میں کیا ہو؟ کے جواب میں ان کے یہاں صرف دو چیزیں ملتی ہیں۔ طنز اور غیر جذباتیت ( یگانہؔ) اور طنز اور بے تکلف گفتگو کا لہجہ ( شادؔ) ظاہر ہے کہ نئی غزل جیسی آج ہمارے سامنے ہے، صرف انھیں عناصر سے عبارت نہیں ہے۔

( فنون، لاہور، جدید غزل نمبر)

٭٭

 

شادؔ عارفی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے مرتب کی گئی آٹھ سو پچاس صفحے کی کتاب ’ایک تھا شاعر‘ کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ خدا شاد عارفی جیسا استاد اور مظفرؔ حنفی جیسا شاگرد سب کو نصیب کرے۔ استادی اور شاگردی کا دور ختم ہو جانے سے جہاں ہزاروں فائدے ہوئے وہاں کچھ نقصانات بھی ہوئے۔ شادؔ عارفی چالیس برس تک اردو ادب کو مالا مال کرتے رہے، لیکن ان پر ڈھنگ کی کوئی کتاب یا مضمون لکھا جانا تو کیا، ان کا کوئی باقاعدہ مجموعہ بھی مرتب نہ ہو سکا۔ اگر مظفر حنفی کو حق استادی ادا کرنے کا اتنا خیال نہ ہوتا تو اردو دنیا شاد عارفی کے نام سے تو واقف رہتی لیکن اس سے زیادہ وہ کیا تھے، کم لوگوں کو معلوم ہوتا۔

مظفر حنفی، شادؔ عارفی کے آخری عمر کے شاگردوں میں تھے۔ جس طرح بڑھاپے کی اولاد سب کو عزیز ہوتی ہے، اس طرح مظفر حنفی بھی شاد صاحب کو بہت زیادہ عزیز تھے۔ ( بقول اکبر علی خاں ) مظفر حنفی وہ واحد شخص ہیں جن سے شادؔ صاحب کا جھگڑا نہیں ہوا۔ غالباًاس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں کی کبھی ذاتی ملاقات نہیں رہی، سارے تعلقات خط و کتابت کی بنیاد پر قائم تھے۔ شاگرد بنانے کی داستان بھی دل چسپ ہے۔ شاعری ہی شادؔ صاحب کا ذریعہ معاش تھی، اس لیے وہ شاگردی کے درخواست دہندہ کو ’’ انجمن ارباب ادب‘‘ کا رکن بننے کی شرط پیش کرتے تھے، جس کی شرائط رکنیت کی رو سے تھوڑی سی رقم سالانہ اور کچھ فیس داخلہ پیش کرنا ہوتی تھی۔ شادؔ عارفی کی مالی حالت ان دنوں کچھ زیادہ ہی خراب تھی، لیکن مظفر حنفی نے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ اگر شاد صاحب ( بوجہ عدم ادائیگی فیس داخلہ وغیرہ) انھیں شاگردی میں قبول نہ کریں گے تو وہ  نوحؔ ناروی یا ابراؔ حسنی گنوری کے شاگرد ہو جائیں گے اور اس حقیقت کی تشہیر بھی کریں گے۔ شادؔ صاحب بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے، لیکن انھوں نے اپنے جواب میں اس تہدید کا کوئی ذکر نہ کیا بلکہ انتہائی محبت سے مظفر حنفی کو شاگرد بنانا قبول کیا اور ساری رقمیں معاف کر دیں۔

شادؔ صاحب میں تنگ نظری، کم علمی، احساس کمتری، چڑچڑا پن، انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخ دلی اور فیاضی، جرات مندی، اخلاص، اعلیٰ ذہانت اور جودت طبع جیسی خصوصیات ایک ساتھ پائی جاتی تھیں۔ وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دوسروں کے کلام نثر و نظم ( بہ شمول نیازؔ فتح پوری و جوشؔ ملیح آبادی) پر سخت بلکہ کبھی کبھی نازیبا لہجہ میں اعتراض کرتے تھے۔ اعتراضات اکثر صحیح ہوتے تھے لیکن خود ان کا کلام بھی فاحش غلطیوں سے پاک نہیں تھا۔

جگرؔ کے بارے میں انھوں نے لکھا ’’ جگرؔ کے ہاں فنی خامیوں کی بھر مار ہے، اسی لیے وہ بے چارہ کسی بھی مشاعرے میں مجھ سے آنکھ چار نہ کر سکا، بلکہ ہمیشہ میری تواضع میں لگا رہا، اس سے ذرا پہلے لکھا ہے : روشؔ صدیقی اور عدمؔ تو ٹھیک ہیں، مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کافی غلط گو ہیں، ان کے اندازِ کلام سے بچو، شکیل اچھا کہتا ہے، مجروح بھی اس کو نہیں پہنچتا‘‘  یہ بات تو ظاہر ہے کہ جگرؔ صاحب بڑے، بلکہ بہت بڑے شاعر تھے، اور شکیلؔ، مجروحؔ کی خاک پا کو نہیں پہنچتے۔ لیکن شادؔ عارفی صاحب نے شکیلؔ کو مجروحؔ سے بڑھا دیا۔ اس طرح کی خام تنقیدی رائیں  ان کی ادبی فہم و فراست کو مشکوک بناتی ہیں۔ زبان پر ان کو جو مہارت حاصل تھی وہ وہبی تھی۔ اکتسابی نہیں، لیکن احساس کمتری کی وجہ سے انھوں نے ہمیشہ خود کو بڑا عربی فارسی اور اردو داں کہا۔

شادؔ عارفی صاحب بہر حال، ایک عہد ساز شاعر تھے، ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علی الخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدر نہیں کی۔ اس کتاب میں بھی کمزور ترین حصہ تنقیدی آراء کا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے سرسری لکھا ہے، اور جو بڑے بڑے نام فہرست میں شامل ہیں ان کے مضامین کتاب میں نہیں ہیں بلکہ ادھر ادھر کے مضامین سے مختصر اقتباسات ہیں۔ اردو شاعر کی یہ بد نصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ شادؔ صاحب کو دونوں طرح کی محرومیاں ملیں، نہ گھر کے فارغ البال اور خوش و خرم اور نہ ادبی دنیا میں باقاعدہ اور حسب مرتبہ قدر و منزلت، لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ان کی شاعری میں بھی یہ دم حم یہ تیور اور یہ اکھڑ پن نہ ہوتا۔

’’ ایک تھا شاعر‘‘ شاد عارفی کے ظاہر و باطن کی عبرت ناک، ادبی حیثیت سے قابل قدر اور تاریخی حیثیت سے اہم دستاویز ہے۔ ان کی شخصیت پر لکھے ہوئے مضامین میں خلیل الرحمن اعظمی کا مضمون سب سے بہتر ہے، کیونکہ اس میں ان کی شاعری پر بھی تنقیدی اشارے مل جاتے ہیں۔ مسعودؔ اشعر کا مضمون بھی قابلِ ذکر ہے۔ منظومات میں مظفر حنفی کی نظم ’’ وصیت‘‘ اردو کے اہم مرثیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ طنز اور افسردگی کا ایسا امتزاج کم دیکھنے میں آتا ہے۔ شاد عارفی شاید خود اپنا مرثیہ اس سے بہتر نہ کہہ سکتے۔

شادؔ عارفی کو کم از کم خراجِ عقیدت جو پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس کتاب کو خریدے اور پڑھے۔

(شب خون۔ الٰہ آباد)

٭٭

 

مظفر حنفی اور کچھ نہیں تو محض اس لیے لائقِ مبارک باد ہیں کہ شادؔ عارفی کی مطبوعہ وغیرہ مطبوعہ تحریریں کونے کھتوں سے نکال کر ہمارے سامنے لا رہے ہیں ’’ ایک تھا شاعر‘‘ پر مفصل تبصرہ کرنے کے بعد ’’ نثر و غزل دستہ‘‘ پر جو شادؔ عارفی کی نظم و نثر کا مجموعہ ہے، زیادہ کہنے کی گنجائش (بہ طور تبصرہ) نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور کہنا ہے کہ اس کتاب میں شامل نثری تحریروں کا آہنگ ان خطوط کے آہنگ سے تقریباً بالکل مختلف ہے جو ’’ ایک تھا شاعر‘‘ میں شامل تھے۔ ذاتی خطوط میں شادؔ عارفی کی نثر سے کام چلاؤ، بے رنگ اظہار مطلب پر قادر مگر غیر ممتاز نظر آتی ہے۔ صرف ان خطوں اور تحریروں میں جن میں انھوں نے مخالفین یا نا محبوب لوگوں کے لتّے لیے ہیں، ان کارواں دواں، پان چباتے ہوئے گفتگو کرتے جانے اور بر سبیل تذکرہ بڑے بڑے دعوے کرنے، دوسروں پر سخت، نرم، ذاتی، غیر ذاتی، زیبا، نازیبا حملے کرنے کا اسلوب ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس بات کی بھی وافر شہادت ملتی ہے کہ شاد عارفی کو زبان کا صحیح اور سچا شعور تھا، لیکن عروض و بیان میں وہ تقریباً کورے تھے لیکن اس کے باوجود وہ عام طور پر گرفت صحیح کرتے تھے لیکن ان کا تنقیدی ذوق یگانہؔ کی طرح صحیح اور پختہ نہ تھا۔ چنانچہ جس طرح وہ شکیلؔ کو مجروحؔ پر ترجیح دیتے تھے اور نریش کمار شادؔ کو اچھا شاعر سمجھتے تھے، اسی طرح شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظمیں ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں، مگر بلراج کومل کی ان سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور نازک نظمیں وہ سمجھ لیتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ عارف عباسی اور نذیرؔ بنارسی کو پسند کرتے تھے اور فراق گورکھ پوری کو بھی، غرض عجیب طلسم تھا۔ اگر ایک طرف شادؔ صاحب کی نثر کی قینچی چلتی ہوئی دیکھنا اور سننا اچھا معلوم ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کے ذاتی حملے اور بے ضرورت جارحانہ پن سے طبیعت منغض بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہر صورت میں ایک ایسی شخصیت کا تاثر پیدا ہوتا ہے جو آخری وقت تک ذہنی حیثیت سے چاق و چوبند اور مستعد رہی جس پر کبھی عمر کا زنگ نہ لگا۔

شادؔ صاحب کی زیادہ تر شاعری یک سطحی اور یک طرفہ ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری معمولی ہے، ان کی طنزیہ شاعری کے محور بس ایک ہی دو ہیں۔ اس لیے زیادہ تفصیلی مطالعہ قاری کو تھکا دیتا ہے اس کے بر خلاف ایسے اشعار جو نہ طنز یہ ہیں نہ عشقیہ، بلکہ ایک خفیف تفکر کا شائبہ رکھتے ہیں، متوجہ کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ شادؔ صاحب کی طنزیہ غزل ہی نے جدید غزل کی راہ ہموار کی۔ لیکن اس بات کی اہمیت تاریخی زیادہ ہے، ادبی کم۔ نظموں میں چند ایسی ہیں مثلاً ’’ جبل پور جل رہا ہے ‘‘، ’’ نمائش‘‘ وغیرہ جن میں طنز کا زور اور الفاظ کا بے دھڑک  استعمال انھیں آج بھی قابلِ ذکر بناتا ہے۔                   ( شب خون۔ الٰہ آباد)

٭٭٭

 

 

 

 

 

                مسیحا نظامی

 

شادؔ عارفی کی ہندی شاعری

 

شاد عارفی کون تھے ؟کیا تھے ؟کب تھے ؟کیسے تھے ؟یہ سب کچھ آپ کو دیگر مضامین میں ملے گا اور صحیح ہی ملے گا مجھ سے تو یہ اچنبھے کی اور نئی بات سنیے کہ وہ ہندی کے شاعر بھی تھے یعنی ایک کوی تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہا کوی۔

دفاتر، درس گاہوں اور مطبوعات میں ہندی کا زور شور دیکھ کر عوام اور خصوصاً ہمارے ہندو بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے دور حاضر سے متاثر ہو کر ہندی کی طرف توجہ کی ہے لیکن میرے خیال میں زیادہ صحیح یوں ہو گا کہ مسلمانوں نے نہیں ہندو صاحبان نے بیشک دور حاضر سے متاثر ہو کر ہی اسے زیادہ شدّ و مد سے اپنانا شروع کیا ہے ورنہ مسلمان تو پہلے بھی اسے ایک اہم زبان سمجھتے اور حاصل کرتے رہے ہیں۔ میں صدیوں پرانی حضرت امیر خسرو یا عبدالرحیم خانخاناں کی بات نہیں کرتا بالکل حالیہ اور  ۴۷ء سے قبل کی کہتا ہوں مثلاً خود میرے دادا حضرت سنسکرت کے فاضل تھے۔ میرے تایا مغفورؒ اور والد قبلہؒ بچپن کے ہندی پڑھے ہوئے تھے خود میں نے نہ صرف طالب علمی کے زمانہ میں (۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۵ء تک) ہی ہندی پڑھی بلکہ ۱۹۴۰ء کے مشہور ہندی شاعر اور ادیب کلیان کمار جی ششی سے اور ۱۹۴۲ء میں ناگپور کے پنڈت کشوری لال جی سے اور ۱۹۴۴ء میں بنارس کے مشہور پنڈت تارا چند جی سے ٹیوشن پر سنسکرت کی تکمیل کی۔ رام پور میں بے شمار مسلم خاندان اپنے بچوں کو ہندی تعلیم دلاتے رہے ہیں۔ شادؔ عارفی نے بھی باوجود ایک مولوی( عارف اللہ خاں صاحب) کی اولاد ہونے کے، ابتدائی تعلیم کے ساتھ ہی ہندی پڑھی تھی اس کے بعد انھوں نے ہندی کا مطالعہ جاری رکھا اور ہندی ادب کو بھی پڑھا اور چند ہندو خاندانوں میں کئی سال تک اکثر لڑکوں اور لڑکیوں کو جہاں ماسٹر کی حیثیت سے دوسرے مضامین پڑھاتے وہاں ہندی بھی پڑھائی۔ مجھے یاد آتا ہے ایک معزز ہندو خاندان کا لڑکا شاید دسویں درجہ کا طالب علم بھی اُن سے ٹیوشن لیتا تھا اور شاید ہندی بھی پڑھتا تھا اور اگر میرا حاطہ دغا نہیں دیتا تو اُس کا نام کیرتی سرن تھا اور اُس نے اپنا تخلص ماہؔ رکھا تھا۔ بھولی بسری باتیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ حاصل کلام یہ کہ شادؔ عارفی مرحوم ہندی کے حروف شناس نہیں آج کل کے اعتبار سے فاضل تھے اور ہندی کے بہت سے الفاظ کے لوچ اور نرمی کے قائل تھے۔ انھوں نے بہت سی نظمیں اور قطعات ہندی میں کہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم وہ ذخیرہ کہاں اور کس کے پاس محفوظ ہے یا خرد بُرد ہو گیا۔ میرے کلام کی تائید میں شادؔ صاحب کی بہت سی اُردو کی نظمیں مثلاً ’’ ہولی‘‘، ’’ دیوالی‘‘ ’’ عورت‘‘ وغیرہ ہندی کے پیارے پیارے الفاظ کو اپنی آغوش میں لیے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ میرے حافظہ میں اور میرے رسالہ ’’ مسیحا‘‘ اور اخبار ’’ اقبال‘‘ کے فائلوں میں جو کچھ محفوظ ہے اس میں سے ’’ مشتے نمونہ از خروارے ‘‘ کے طور پر ہدیہ ناظرین کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے انھیں اندازہ ہو گا کہ ان کے محبوب شاعر نے اس دیس کی دوسری پیاری زبان ہندی کے لیے بھی کیا کچھ کیا ہے اور ان کی طبیعت کی فطری ’’ اُپج‘‘ اور ’’ جولانی‘‘ اس میدان میں بھی کہاں تک زبان و محاورات پر چھائی ہوئی ہے۔

۱۹۳۸ء میں میرا ہفت روزہ اور بعد ازاں سہ روزہ اخبار ’’ اقبال‘‘ شائع ہوتا تھا اس میں شادؔ صاحب نے ’’اُپدیش‘‘ کے مستقل عنوان سے ہندی زبان میں قطعات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اٹھائیس سال کی طولانی مدت نہ اُن سب کو حافظہ میں محفوظ رکھ سکی نہ اُن سب کا فائل محفوظ رہا مجھے اس وقت اس سلسلہ کے صرف ۳ قطعات مل سکے ہیں، قومی برتری و کم تری کے سلسلے میں اُپدیش دیتے ہوئے کہا ہے :

ورنون کا وشواس ہے ’’ مورکھ من کی‘‘ بھول

پھلواری کا روپ ہیں رنگ رنگ کے پھول

شودر، ویش اور چھتری رکھتے ہیں کیوں بیر

بن میں تو لڑتے نہیں پیپل سرس ببول

زبان کا لوچ، روانی، سلاست اور تمثیل کا ٹھوس، قدرتی اور زندگی سے قریب ہونے کا اندازکس درجہ موثر اور دل نشین ہے۔ اسی طرح غربت و امارت کے فرق کو مٹانے کے لیے ’’اُپدیش‘‘ تھا۔

ہٹ دھرمی کا پھل کڑوا ہے کر لے گیانی سوچ وچار

ہم، تم، تو کے بھنور میں پھنس کر کبھی نہ ہو گا بیڑا پار

سیدھا رستہ چھوڑ کے پگڈنڈی پر چلنا ٹھیک نہیں

گنگا کی شاخیں اچھی ہوتی ہیں یا گنگا کی دھار

ذرا ہندی کے پیارے پن کو دیکھیے اور مقابلہ کیجیے اُس سنگلاخ ہندی سے جسے استعمال کر کے آج کے ہندی ادیب زبان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہندومسلم اتحاد پر پچھلے بیس برسوں میں جو کچھ بھی لکھا جا چکا ہے اسے سامنے رکھ کر ذرا شادؔ صاحب کا یہ موثر انداز اور دل میں اُتر جانے والا تمثیلی اُپدیش ملاحظہ کیجیے۔

ایکے سے کترانے والا ایشور شکتی کیسے پائے

تھم تھم کر آکاش سے برسے ’’ بوند بوند‘‘ دھرتی پی جائے

بکھرے اور بِن بیدھے موتی، موتی ہوتے ہیں، کِنتو

موتی بدھ کر دھاگے میں پو جائے سو مالا کہلائے

اِن مفید عام اُپدیشوں کا سلسلہ عرصہ تک جاری رہا تھا اور اُس زمانہ میں ان کو جو مقبولیت حاصل ہوئی تھی اب میں کیا بتاؤں دیکھنے والے کچھ قدرت نے خاموش کر دیے کچھ خود خاموش ہیں۔ اخبارات و رسائل کے فائل میرے پاس محفوظ نہیں رہے۔ میں، اگر باور کیا جا سکے تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا اخبار ان اُپدیشوں کی وجہ سے ہندو عوام میں بے حد مقبول ہو گیا تھا، اس کی اشاعت بڑھ گئی تھی اور ہاکروں کے پاس پرچے زیادہ نکلنے لگے تھے۔

ایک بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ مجھے پچھلے دس پندرہ سال سے صحافت و ادب نے اپنے میں سے اُچھالا تو آبائی پیشہ طبابت نے اپنے دامن میں کچھ اس طرح سمو لیا کہ جان و تن کا ہوش نہیں رہا اور اس عظیم مصروفیت نے نہ صرف بہت سے احباب سے دور کر دیا بلکہ بہت سی معلومات و اخبار سے بھی بیگانہ کر دیا اس لیے مجھے کچھ نہیں معلوم کہ شادؔ صاحب کے ہندی کلام کا ذخیرہ کیا تعداد و مقدار رکھتا تھا اور کہیں محفوظ ہے یا نہیں اور مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ اس سے پہلے کہیں شائع بھی ہو چکا ہے یا نہیں ہاں خیال یہ ہے کہ ان دونوں مجموعوں ’’سماج‘‘ اور سفینہ چاہیے ‘‘میں تو ہے نہیں۔ کام کرنے کا ہے اور وقت چاہتا ہے ان کے دیرینہ احباب اور اولو العزم شاگردوں سے اشتراک عمل بھی چاہتا ہے کریدا جائے گا تو کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا ممکن ہے میرے حافظہ کی راکھ میں سے ہی کچھ اور ملے یا اس زمانے کے دوسرے جرائد کے صفحات امداد کریں یا شادؔ صاحب کے سامان میں چھوڑی  ہوئی تصویر بتاں یا حسینوں کے خطوط کی پشت و حاشیہ پر کچھ نوٹ کیا ہوا مل جائے۔ مجھے ان کی دو نظمیں ’’ اقبال‘‘ ہی کے شکستہ دریدہ پرچوں سے اور ملی ہیں یہ بھی ہندی کی ہیں ایک اُس ہندی کی جو عام طور پر ہندی کہی جاتی ہے وہ ہے ’’ ساون بیت چکا ہے !!کنِتو؟‘‘ اور دوسری اس ہندی کی جسے ہندی کہا جانا چاہیے وہ ہے ’’برسات کی شروعات‘‘ پہلی ملاحظہ کیجیے :

ساون بیت چکا ہے کنتو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

( شائع شدہ در اخبار ’’ اقبال‘‘ رامپور ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء)

کالی رات میں اُڑتے اُڑتے گاتے ہیں چنڈول ابھی

نیارے نیارے شبد سبھی ہیں اور پیارے پیارے بول ابھی

تال تلیوں میں من کو ہر لینے والے کنول وہی

جیون میں ایشور شکتی بھر دینے والے کنول وہی

وہی گھٹائیں بندرا بن پر اب بھی چکّر کھاتی ہیں

دھرتی کے چرنوں کو چھو کر گھر گھر ہُن برساتی ہیں

ہریل، مور، پپیہا، شاما میٹھے راگ سُناتے ہیں

بھولے کو یاد دلاتے ہیں ہردے میں آگ لگاتے ہیں

گھنے گھنے پیڑوں میں پکشی مل کر مالا جپتے ہیں

لالے کے پھولوں سے لپٹ کر بھونرے لوبھی تپتے ہیں

نرم لچیلے پودوں کو آ آ کے پون لچکاتی ہے

جھولا جھول رہی ہیں کلیاں ڈال جھکولے کھاتی ہے

پکڑت ہے نینن کے آنچل ہر پھلواری اُسی سمان

پھولوں سے بھرپور ہے اب بھی کیاری کیاری اُسی سمان

ہری ہری بانات بچھی ہے سگرا جنگل لہکا ہے

ساون بیت چکا ہے کِنتو وایو  منڈل مہکا ہے

اب دوسری ملاحظہ کیجیے۔ یہ اُس ہندی میں ہے جو حقیقتاً ہماری پیاری زبان دیسی زبان اور اپنی زبان ہندی ہے اور کاش اس دیش کے رہنے والے ہم سب اسی پرکار کی ہندی لکھیں پڑھیں اور بولیں۔

’’ برسات کی شروعات‘‘

(شائع شدہ در اخبار ’’ اقبال ‘‘ ۹ جون۳۹ء)

جب پُورب پچھم سے اُٹھ کر گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں

کچھ لیتی ہیں کچھ دیتی ہیں، کچھ آتی ہیں کچھ جاتی ہیں

کچھ ہٹتی ہیں کچھ کٹتی ہیں کچھ رُک کر مینھ برساتی ہیں

جب جھلسی دھوپ پہ جل داتا کچھ امرت رس برساتے ہیں

جب مکّا کے چھوٹے پودوں پر ہیرے سے ٹک جاتے ہیں

جب چٹیل میدانوں کے سبزے مخمل کو شرماتے ہیں

جب کھیتوں سے بہہ بہہ کر پانی جھیلوں میں مل جاتا ہے

جب پُروائی کے جھونکوں سے ہر ایک کنول کھل جاتا ہے

نیچر کے پریم پجاری کا دل سینے میں ہل جاتا ہے

جب ہریاول پر بیر بہوٹی اپنا رنگ جماتی ہے

جب خرگوشوں کی قسمت پھرتی، ہرنوں کی بن آتی ہے

جب گھنے رتالُو کے پتوں میں آنکھ شانتی پاتی ہے

جب ہلکے ہلکے بادل سے سورج کی کرنیں لڑتی ہیں

آکاش پہ جب اوپر نیچے دو سندر دھنکیں پڑتی ہیں

جب آنکھوں میں کھُب جاتی ہیں جب دل کے اندر گڑتی ہیں

جب جھولے ڈالے جاتے ہیں پیڑوں کی آڑی ڈالوں میں

جب پینگ بڑھائے جاتے ہیں ساون کے دھیمے جھالوں میں

جب گیتوں کے چرچے ہوتے ہیں ساون کے متوالوں میں

جب پچھلی رات کو آبی چادر تان کے تارے سوتے ہیں

جب کل سنسار میں بسنے والے نیند کے ماتے ہوتے ہیں

کچھ بپتا جن پر آ پڑتی ہے، چپکے چپکے روتے ہیں

ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ ایک مرتبہ اسے میرے کہنے سے اور پڑھیے۔ اور وہ حضرات جو اُردو ہندی کے قضیوں سے دلچسپی رکھتے ہیں ذرا اور توجہ سے پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ اُردو کے اس عظیم شاعر نے اپنے دیس کو اس نظم کی اوٹ سے کیا چیز دینے کی کوشش کی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے کون سی شاہراہ عمل مرتب کی ہے۔

میں سمجھتا ہوں جس طرح اُردو کو فارسی کے دقیق، مُغلق اور موٹے موٹے الفاظ سے بچا کر زندہ رکھنے اور زندۂ جاوید بنا دینے کی بر وقت جرأت حضرت خواجہ حسن نظامی نے اپنی عام فہم سیدھی سادی اور ہلکی پھلکی نثر نگاری سے کی تھی اسی طرح شادؔ عارفی نے ہندی کو زیادہ سے زیادہ مقبول و ہر دلعزیز، عام فہم اور عام پسند بنانے کے لیے نظم میں یہ پہل کی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ خواجہ حسن نظامی کی اُردو کو زمانے نے اپنایا اور اس طرح اس کو ایک مخصوص طبقے اور چند مخصوص کتابوں تک محدود ہو جانے کے مستقبل سے بچا لیا۔ کاش اسی طرح دُنیا (ہماری اپنی دنیا ہمارا پیارا وطن ہندوستان ) ہندی کو بھی مقبول سے مقبول تر بنانے کے لیے اُن خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کرے جو شادؔ عارفی مرحوم نے اپنے ہندی کلام میں پیش کیے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                عبد القوی دسنوی

 

 

خطوطِ شادؔ عارفی

 

شاد عارفی کے خطوط کا مجموعہ الگ کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آیا ہے، البتہ ان کے قدر داں اور لائق شاگرد، ڈاکٹر مظفر حنفی نے ان کے بہت سے خطوط جو انھوں نے اپنے شاگردوں، ہمعصروں اور رسائل کے اڈیٹروں کے نام لکھے تھے، بڑی محنت سے حاصل کر کے اپنی مرتبہ کتاب ’’ایک تھا شاعر — شاد عارفی۔ فن اور شخصیت‘‘ ۱؎   میں شائع کر دیے ہیں۔ یہ کام انھوں نے ہر اعتبار سے اچھا اور مفید کیا ہے۔ ان خطوط کی مدد سے شاد عارفی کو سمجھنے، جاننے، پہچاننے اور ادب میں ان کے درجہ کے تعین میں بڑی آسانی ہو گی۔ اگرچہ شاد عارفی کے یہ خطوط ان کی زندگی کے آخری دس سال کے ہیں۔ یعنی ان کا سب سے پرانا خط جو اس کتاب میں شائع ہوا ہے۔ و ہ یکم اپریل ۱۹۵۴ء کا لکھا ہوا ہے اور آخری خط ۲۷؍ جنوری ۱۹۶۴ء کا ہے۔ اس لیے ان کے خطوط جمع کرنے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ مظفر حنفی  صاحب کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں تلاش و جستجو جاری رکھیں تاکہ شاد کی زندگی کے مختلف زمانوں کے خطوط جمع ہو جائیں خاص طور سے وہ خطوط بھی یکجا ہو جائیں جو انھوں نے بے تکلف دوستوں، مخلص ساتھیوں اور کرم فرماؤں کو لکھے ہیں۔ دراصل ان تمام خطوط کی مدد سے ان کی زندگی کا زیادہ سے زیادہ حصہ شائقین ادب کے سامنے پیش کرنے میں بڑی آسانی ہو گی اور ان کے سوانح نگاروں، ان سے دلچسپی رکھنے والوں کو ان کی حیات اور ان کی شخصیت کو سمجھنے اور پرکھنے میں دشواریوں کا سامنا نہیں رہے گا اور اس طرح پورے شاد عارفی ہمارے سامنے آسکیں گے۔

اس وقت جتنے خطوط بھی شائع ہو کر سامنے آئے ہیں ان کے مطالعہ سے ہمیں نہ صرف شاد عارفی کی خط نگاری کے فن سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ ان کی طبیعت کی سادگی، بے ریائی، بیباکی، نرمی، گرمی، سختی کا علم ہوتا ہے اور ان کی فطرت، مزاج، میلان، رجحان، دلچسپی، شغل سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی دھوپ چھاؤں سے ہی آگاہی نہیں ہوتی بلکہ بعض ایسی حقیقتیں بھی روشن ہو جاتی ہیں جن کا علم عام طور سے نہیں ہوسکتا تھا، یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وطن عزیز یعنی ہندوستان سے کس قدر محبت کرتے تھے، لیکن اہل وطن نے ان کی قدر نہیں کی، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے کس قسم کے تعلقات رکھتے تھے۔ رسائل کے ایڈیٹروں سے ان کے کیسے مراسم تھے، ہم عصروں سے متعلق ان کی کیا رائیں تھیں۔ اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ شاعری سے متعلق کیا سوچتے تھے، ان کا تنقیدی شعور کیسا تھا، ان کی فکری صلاحیتیں کیا تھیں اور ان کے لہجے میں تلخی اور کھردرا پن کیوں تھا۔

اگرچہ یہ خطوط ان کی زندگی کے آخری دس سال کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں لیکن ان کے مطالعہ سے ان کی زندگی کے مختلف دور کے واقعات، حادثات، خاندان، پیدائش، تعلیم، ملازمت، معاشقہ، شادی، مفارقت، سفر، حضر، بیماری، صحت یابی، پنشن وغیرہ سے بھی آگاہی ہوتی ہے جن کی وجہ سے بھی یہ خطوط بہت زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔

شاد عارفی کے یہ مطبوعہ خطوط مختصر بھی ہیں طویل بھی۔ ساختہ بھی ہیں، بے ساختہ بھی، شگفتہ بھی ہیں اور خشک بھی۔ دلچسپ بھی ہیں اور روکھے بھی — عام طور سے تقریباً تمام خطوط میں انداز تخاطب ایجاز کے ساتھ برجستہ ہے۔ اختتام بھی سادگی کے ساتھ مختصر ہے۔ زبان میں گفتگو کی سادگی اور روانی ہے اور مکتوب الیہ کی شخصیت کے اعتبار سے لہجے میں نرمی، گرمی کا اتار، چڑھاؤ نظر آتا ہے، لیکن کہیں بھی ان کی اپنی شکل و صورت اور شخصیت مٹتی، مسخ ہوتی یا دھندلی ہوتی معلوم نہیں ہوتی بلکہ ہر جگہ ایک خاص آن بان، شان اور تیور کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ ایک جگہ وہ اپنا تعارف اختصار سے اس طرح کراتے ہیں :

’’میں واقعی رام پور کے بیشتر جاہل پٹھانوں کی طرح کٹّر حنفی ہوں۔ ‘‘۲؎

پروفیسر آل احمد سرور صاحب سے اپنا تعارف تفصیل کے ساتھ اس طرح کراتے ہیں :

یہ فن طنز، مرے حق میں در حقیقت شاد

’’بہت بڑا المیہ‘‘ ہے اختصار کے ساتھ

’’یعنی اس مقطع میں میری تمام زندگی اور اس کی الجھنوں کا تجزیہ ہے، ریاست کے زمانے میں مجھے میرے تنقیدی جائزوں سے تنگ آ کر نواب رام پور اور ان کے ارباب حل و عقد‘‘ نے تو ’’ففتھ کالومسٹ‘‘، اشتراکی، کمیونسٹ، کافر اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرایا اس لیے کبھی سرکاری ملازمت مل ہی نہ سکی، کارخانوں میں کہیں اکاؤنٹنٹ، کہیں سپروائزر، کہیں سائٹ انچارج، کہیں دے مین کی خدمات انجام دیتا رہا اور ٹیوشنیں بھی جاری رکھیں، حکامان رام پور کو جب معلوم ہوتا کہ میں فلاں جگہ ٹیوشن کرتا ہوں تو وہاں کہہ کر جواب دلوایا جاتا رہا۔ ملازمتیں ختم کرائی جاتی رہیں، جس کے نتیجے میں میرا طنز اور تیز ہوتا گیا، فولاد لچتا نہیں ٹوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ میں نہ لچنا تھا نہ لچا۔ آخر میں جب ریاست مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر ’’آئینی حکومت‘‘ کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس برسراقتدار آ کر ان تاجداروں اور ’’ظل الٰہیوں ‘‘ کو ان کی تنخواہیں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو، عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔ اسی زمانہ میں ریاست کے اندر ’’بطور حفظِ ما تقدم‘‘ مجلس قانون ساز بنی۔ کچھ عوام میں سے نمائندے چن کر ڈھکوسلا قسم کی جمہوریت قائم کی گئی، کونسل بنی… اس کونسل کے سکریٹری مرزا ناصر مسعود دہلوی مقرر ہوئے۔ وہ اور ان کی بیوی مجھے رسائل کے ذریعہ ادبی حیثیت سے پہچانتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے آتے ہی ایک ہفت روزہ اخبار ’’اقبال‘‘ نیم سرکاری برائے نام (مگر درپردہ کل سرکاری) جاری کیا۔ اور مجھے میرے غریب خانے پر آ کر اس کا ایڈیٹر مقرر فرمادیا(ان کی انسانیت اور شرافت کی تعریف نہیں کرسکتا) اور مجھ پر حد بھر مہربان رہے چونکہ ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار کا تھا اس لیے تنخواہ مبلغ پچاس روپیہ بہت قلیل تھی کہ اسی دوران اسٹیٹ پریس میں نئی اسکیم کے تحت ایک انگلش ہندی اور ایک اُردو پروف ریڈر کی دو اسامیاں نکلیں۔ موصوف نے مجھے کرنل عطاء الرحمن صاحب (پنجاب کے مشہور مضمون نگار جو یہاں ان کے پرائیویٹ سکریٹری اور انچارج پریس تھے ) سے کہہ کر انگلش ہندی پروف ریڈر اور سرکاری گزٹ کا مدیر مقرر کیا جہاں میں ریاست ’’مرج‘‘ ہونے تک رہا۔ اس کے بعد کانگریس حکومت نے اسٹیٹ سے زیادہ خطرناک تصور کر کے مجھے نکالنا چاہا (دیکھا آپ نے اس خدمت کا صلہ جو میں نے کانگریس کے لیے انجام دی تھیں کہ مجھے ملازمت سے برخواست کرنے کی کوشش میں میرے لیے جب انگریزی میں ایگزمٹ اور ہندی میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا تو پھر آپ جانتے ہیں ؟ مجھے رام پور کے سائیبریا۳؎   یعنی اس کی تحصیل سوار میں ناظر بنا کر ڈگریڈ کر کے بھیج دیا) جہاں میں جاتے ہی ملیریا میں مبتلا ہوا اور آٹھ مہینے ایڑیاں رگڑتا رہا۔ بدلی کی درخواست پر کلکٹر کے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ نے ۳۰۰ روپے رشوت طلب کیے جو ادا نہ کرسکا۔ ‘‘ ۴؎

جون ایلیا کو بھی اپنی زندگی کی چند حقیقتوں سے اس طرح روشناس کراتے ہیں جنھیں پڑھ کر شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بھی ترقی کی اس منزل سے ابھی بہت دور ہے جہاں پہنچ کر اس ملک کے عوام یکساں طور پر آزادی کی نعمتوں سے فیض یاب ہوں گے۔

’’اس وقت میری عمر ۶۲ سال ہے ۱۹۰۰ میری پیدایش ہے اس لیے سنہ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں، بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں، مگر اس مدت میں میرا پراویڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا ہے بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الٰہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمھارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے اس لیے تمھارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے۔ اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازیِ عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکار نے بلا سبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی۔ متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔ میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔ ‘‘  ۵؎

شاد صاحب کو اپنی والدہ سے بے انتہا محبت تھی ان کی تکلیف سے وہ بے چین ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ان کی پنشن کے بند ہونے کا انھیں بے حد رنج تھا۔ اس کے بند ہونے کا ذکر انھوں نے مختلف لوگوں کے خطوط میں کیا ہے۔ ایک خط میں وہ اس کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں :

’’والدہ کی پنشن جو لوہارو اسٹیٹ سے تھی اور بھارت کی حکومت نے بھی دو سال تک جاری رکھی، بلاوجہ بند کر دی خوشامد خو شعرا کو وظائف مل رہے ہیں کیونکہ وہ روغن قاز ملتے رہتے ہیں اور میں اس لیے مطعون ہوں کہ حکومتوں کے عیب گناتا ہوں۔ ‘‘  ۶؎

غالباً ان پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شاد صاحب کے پاکستانی دوستوں اور چاہنے والوں نے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن شاد صاحب کا مزاج اور اندازِ فکر بالکل دوسرا تھا، وہ اپنے وطن میں رہ کر ہر قسم کی تکلیف، اذیت اور پریشانی برداشت کرنا پسند کرتے تھے لیکن اسے کسی طرح چھوڑنا انھیں گوارا نہیں تھا چنانچہ انھوں نے صاف صاف جواب دیا:

’’چونکہ بحر بے کراں کے لیے بقول غالب ’’سفینہ چاہیے ‘‘ اس لیے غالب ہی کے بقول بادبان بھی اٹھتے ہی لنگر  —یعنی میرے پاکستانی دوست مجھے پے در پے بلا رہے ہیں کہ ’’آؤ ‘‘ ادھر تمھارے حق میں راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ مگر اس عیش کے مقابلہ میں یہاں کی تکلیف اور زحمت کو آخر دم تک برداشت کرنا پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ بھارت جیل میں مروں تاکہ میرے کلام کے طنزیہ حصوں  پر مہر تصدیق ثبت ہو جائے۔ چنانچہ عرض کرتا ہوں (یہ عرض مشاعرے کے انداز پر ہے کیونکہ اور لوگ بھی سن رہے ہوں گے۔ )

منتظر ہے پاکستان اور میں نہ جاؤں گا

برہمن کے مصرعہ پر طبع آزماؤں گا

چاہتا ہوں بھارت کا نام اور اونچا ہو

سوچتا ہوں مسجد سے جوتیاں چراؤں گا

— — — — — —

زاہد کہتا ہے جنت میں بے ایمان نہیں جائے گا

لیکن شادؔ مسلماں ہو کر پاکستان نہیں جائے گا

اب رہے بھارت کے وہ وظیفے جو ادیبوں کو ملتے ہیں تو انھیں حاصل کرنے کے لیے فن کی نہیں بلکہ مکھن بازی میں مہارت کی ضرورت ہے اور قصیدہ خوانیاں بھی جس سے کمترین محروم رہا ہے اور خدا محروم ہی رکھے۔ ‘‘ ۷؎

ایک اور جگہ اپنے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں جس سے وطن سے ان کے بے انتہا محبت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کا بھی پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے ہندستان چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا انھیں وہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے :

’’پاکستان میں میری بڑی مانگ ہے۔ مگر میں اپنا وطن (جوش ملیح آبادی کی طرح) ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔  یہیں فاقے کر کے مر جانا پسند کرتا ہوں۔ ‘‘۸؎

وطن سے محبت کا یہ انداز بھی ملاحظہ کیجیے :

’’خوشامدی مزے کر رہے ہیں اور سچی بات کہنے والے، وطن سے محبت کرنے والے ترک وطن کرنے والوں پر چار حرف بھیجنے والوں کی کون سنتا ہے مگر کب تک۔ ایک دن آئے گا کہ ہم  Left Wing والوں کی قدر ہو گی۔ (ہم ہوں یا نہ ہوں ) جوش پاکستان گیا تو سب سے پہلے میں نے اسے لتاڑا، اب بھی اس کو معاف نہیں کر رہا ہوں، کم بخت، نمک حرام اور وطن دشمن تھا — دم دبا کر نکل گیا۔ اور اپنی ایک حالیہ رباعی میں کہتا ہے کہ کسی سے میرا بال بیکا نہ ہوا۔ بے وقوف کو یہ خبر نہیں دم اور ناک کٹ کر یہیں رہ گئی۔ میں یہاں فاقے کر رہا ہوں، تو کیا ہوا؟ کیا پاکستان میں میرے لیے ’’مرغ و ماہی‘‘ کے امکانات ہیں کہ جو میں ادھر جانے کا خیال کروں اگر ہوں تب بھی:  ع

کون جائے اے ظفر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

جہاں نال گڑی ہو وہاں سے دوسری جگہ جا کر آدمی کیسے مطمئن ہوسکتا ہے۔ ‘‘۔ ۹؎

وطن سے وفاداری کا اظہار ایک اور جگہ اس طرح کرتے ہیں :

’’تمھیں معلوم ہے کہ حکومت نے جن کو نوازا (مثلاً جوش اور نیاز فتح پوری) دونوں ہندستان سے فرار ہو گئے اور میں (جسے کوئی مراعات حاصل نہیں ) محض وطن کی محبت کے سلسلے میں فاقے اور بے گھری اور در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے پاکستان جانا نہیں چاہتا (اپنا وطن پھر اپنا وطن ہوتا ہے ) چاہتا ہوں یہیں کی خاک میں مل کر اپنی وفا داری اور حب الوطنی کا ثبوت دے جاؤں۔ ‘‘۱۰؎

شاد صاحب نے آخری زندگی نہایت تنگدستی اور عسرت میں گزاری، اس لیے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس کے سوال کوئی چارہ نہ تھا کہ مکان بیچ کر ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کریں، چنانچہ اس کے بعد ساری زندگی مکان کے لیے پریشانی میں مبتلا رہے اور در بہ در مارے پھرے اور اگر کسی طرح مکان کرایہ کا حاصل بھی کیا تو اس کا حال یہ تھا:

’’… انھوں نے اس گھر کی حالت خود دیکھ لی جس میں سر چھپایا جا سکتا ہے، وہ بھی دھوپ سے، بارش سے نہیں۔ چنانچہ میں نے اسی کے تحت مطلع کہا تھا:

باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے

آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے  ۱۱؎

ہمارے ملک میں اچھے شاعروں اور ادیبوں کی کیا کیا درگت بنتی ہے وہ کن کن مصائب سے دو چار ہوتے ہیں اور پھر ساری زندگی انھیں میں الجھے رہتے ہیں جیسے دلدل میں کوئی پھنس جائے، گرفتار ہو جائے۔ پھر ان پریشانیوں سے اس کا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ بلکہ پریشانیاں اس کی قسمت بن جاتی ہیں۔ شاد صاحب کی زبانی ان کی پریشانی کا حال سنیے :

’’بھارت کی حکومت کے لیے میں ریاست سے ٹکرا کر تباہ ہوا، وہ مجھے دشمن سمجھتی ہے دس سال سے ملازمت سے موقوف ہوں، پراویڈنٹ فنڈ حکومت نے بلا وجہ ضبط کر لیا والدہ صاحبہ کی پنشن بند کر دی تھی۔ وہ پانچ سال تک میرے ساتھ فاقہ کرتے کرتے مر گئیں۔ گھر بیچ کر ان کا کفن دفن کیا اور در در مارا مارا پھرتا ہوں، حد یہ ہے کہ یہ مکان جس کی چھت چھنی کی طرح ہے شہر کے اندر چودھواں مکان ہے دن میں دھوپ، رات کو اوس اور بارش اور گرمی سب سے پالا پڑتا ہے۔ زندگی ہے بھگت رہا ہوں۔ گھٹیا قسم کے خوشامدی شاعر گورنمنٹ سے وظیفے پاتے ہیں مگر میں معتوب بارگاہ ہوں کیونکہ حکومت کے بائیں بازو کی طرح ان کی غلطیوں پر انھیں مطلع کرتا ہوں۔ اس لیے معتوب ہوں اگر ان کی غلطیوں پر شاعرانہ داد دیتا تو پھر میرا ارادی عیش ہی لکھتا۔ ‘‘ ۱۲؎

ایک جگہ اور وہ بلبلا اٹھتے ہیں اور اپنے غموں اور دکھ درد کا اظہار کر کے دل کی بھڑاس اس طرح نکالتے ہیں :

’’… مجھ ایسے بھارتی شاعر جس کے پاس (روزہ کھول کر نہیں ) عام زندگی میں کھانے کو کچھ نہ ہو، جس کا پراویڈنٹ فنڈ حکومت نے ’’بطور ظلم و ستم‘‘ ضبط کر لیا ہو، جس کی والدہ کی پنشن جو لوہارو اسٹیٹ سے مقرر تھی بلا وجہ بند کر دی گئی، جس کو پریشان کر کے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، جس کو کانگریس کی خدمات اور حمایت میں ریاست سے ٹکر لینی پڑی جس کے نتیجے میں حد بھر پریشان کیا گیا، ٹیوشنیں چھڑوا دی گئیں۔ ففتھ کالو مسٹ کہا گیا، گمنا م خطوط کے ذریعہ جیل بھجوانے کی کوشش کی گئی۔ دو بار کوتوال شہر کے مشورے سے ایسی چوری کروائی گئی کہ گھر میں اوڑھنا بچھونا تک باقی نہ رہا۔ والدہ کے انتقال پر گھر بک گیا، اب مارا مارا پھر رہا ہوں۔ کرایہ دے نہیں سکتا۔ مفت ٹھہرنے کے لیے کوئی یتیم خانہ نہیں۔ ‘‘ ۱۳؎

حکومت کے ساتھ ساتھ اہل وطن کا سلوک بھی ان کے ساتھ ناروا رہا، انھوں نے شادؔ کو طرح طرح سے تکلیفیں دیں، پریشان کیا، ان کی حق تلفی کی اور ان کو نئی نئی مصیبتوں میں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ انھیں جیل بھجوانے کی سازش بھی کی گئی اور بہتوں نے مار آستین کا کردار بھی ادا کیا:

’’میرے ساتھ بھی وطن کا وہی سلوک رہا۔ میرے مقابلے میں نکموں کو سپورٹ دی گئی اور انھیں ابھارنے کی کوشش میں اپنی عزت نفس گنوا دی کم بختوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ شاد عارفی کی توہین ان کے منہ پر چپت ہے اور ان کی وطنیت پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ یہ تمھیں بہت کچھ معلوم ہے کہ مجھے کس کس طرح تباہ کیا گیا، کس کس طرح اذیتیں پہنچائی گئیں۔ جیل پہنچانے کی کون سی سعی نا مشکور نہ کی، وہ تو کہیے کہ میرا خدا میرے ساتھ رہا، اور ہے ورنہ زندہ در گور کر دیا گیا ہوتا۔ سیکڑوں مارا آستین میرے خلوص سے غلط فائدہ اٹھا کر مجھے ڈستے رہے۔ ‘‘ ۱۴؎

پھر وہ اپنی اس کمزوری کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں جو دراصل ایک شریف انسان کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے جس سے شاد صاحب کا احترام دلو ں میں بڑھ جاتا ہے اور ان کی شخصیت نظروں میں بلند ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’… میری سب سے بڑی کمزوری انسان دوستی رہی ہے۔ میں نے ہر آنے والے کو انسان سمجھا اور تین بار نقصان اٹھا کر شیطان جان کر ٹھکرا دیا میرے اس شریفانہ رویے کو لوگوں نے میرے ٹنی پن پر محمول کیا، حالانکہ بہ اعتبار فلسفہ اسلام کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہر آنے والے کو شیطان سمجھے اور رفتہ رفتہ انسان تصور کر لیا جائے۔ یہ خود غرضوں کا فلسفہ ہے۔ اسلام میں ہر آنے والا انسان نیک سمجھا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ اپنے آپ کو غلط نہ ثابت کرے چنانچہ میں اس فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے ہر آنے والے کو نیک سمجھتا ہوں اور جب وہ بد ثابت ہوتا ہے تو اسے رخصت کر دیتا ہوں۔ ‘‘ ۱۵؎

وہ ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کو بھی اپنی فطرت سے اس طرح آگاہ کرتے ہیں :

’’… میں بے تکلفی کے ساتھ اپنی فطرت کی کمزوری (اگر وہ ہو) بیان کر دوں کہ جہاں مجھے کسی شخص کے انداز سلوک اور طرز گفتگو میں کچھ مغائرت کی جھلک نظر آئی وہیں میں نے اس سے تعلقات منقطع کر لیے۔ اس سلسلے میں کئی اچھے دوست بلکہ پہلی محبت میں ناکامی خرید لی۔ ‘‘۱۶؎

شاد عارفی نے مختلف لوگوں کے خطوط میں اردو کے مختلف شعرا سے متعلق اپنے تاثرات پسند ناپسند، اچھائی، برائی کا اظہار کیا ہے۔ جن کے مطالعہ سے پتا لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے سوچنے پرکھنے اور اظہار خیال کا کیا انداز تھا اور ان کی نظر میں کتنی وسعت، گہرائی اور بلندی تھی۔ حالی کی تعریف کس دلچسپ انداز سے اور پُر اعتماد لہجے کے ساتھ کرتے ہیں کہ بات قلم سے نکلی اور دل میں اتری:

’’لوگ حالی کو مسدس سے اور ان کے مقدمے سے جانتے ہیں مگر میں ان کی عشقیہ شاعری میں بیان کی سادگی پر الجھا رہا ہوں، صرف ایک مقطع سنیے :

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

اس میں نہ تو مومن خاں جیسا کوئی معمّہ ہے نہ پہیلی۔ نہ غالب کا وہ انداز بیان جس کے لیے آگہی دام شنیدن بچھا کر بھی کامیاب نہ ہو پائے۔ سیدھی سی بات مگر اس سہل ممتنع کے لیے کتنی کاوشیں چاہیے، آپ خود سوچیں۔ ‘‘ ۱۷؎

نیاز فتح پوری کو پسند نہیں کرتے تھے ان کی تحریر کا اس طرح مذاق اڑاتے ہیں :

’’… آپ نے پھر اپج کے پیش نظر تحریر فرمایا ہے کہ انھیں شعرا کو سامنے رکھ کر راسخ نے مشق سخن شروع کی۔ شعرا کو سامنے رکھ کر، اے سبحان اللہ! مگر ٹھہریے میں غلطی پر ہوں، اور آپ درست ہیں یعنی وہ جو کہا ہے کسی نے کہ بت کو بٹھا کے سامنے یاد خدا کروں ‘  — —’سامنے رکھا ہے الٹا آئینہ۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ جملے جب اردو میں پائے جاتے ہیں تو کیا حرج ہے کہ کوئی شخص شعرا کے کلام کی جگہ ان شعرا کو سامنے رکھ کر مشق سخن کرے۔ سنا ہے کہ انیس آئینہ میں دیکھ کر مرثیہ پڑھنے کی مشق فرماتے تھے اس صورت میں اگر راسخ بے چارے نے آئینہ کی جگہ استادوں کو ٹانگ لیا تو کون سا گناہ ہو گیا لوگ ایکٹریسوں کے فوٹو سامنے رکھ کر میرؔ کے انداز پر ’’آئے ہے۔ جائے ہے۔ پائے ہے ‘ پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ‘‘۱۸؎

جوش اور جگر کے بارے میں وہ اس طرح کے خیالات رکھتے تھے :

’’… میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے جگر کے یہاں لفظی و معنوی سبھی جھول ملتے ہیں اور ایسے جھول کہ جن کا کوئی جواب ہی ممکن نہیں۔ جگر سے متعلق میری اس رائے کا مطلب ہے کہ تم اپنی جگہ مطمئن ہو جاؤ — آنے والا زمانہ خو د فیصلہ کر دے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ جوش کا حال کیا بنا۔ زندگی میں یہ بیچارہ تو تباہ ہو گیا آج اس کے ہوا خواہ ہی اسے برا کہہ رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی بات کو بڑھا چڑھا کر کہنے میں ’’تشبیہ و استعارے ‘‘ غلط طور پر استعمال کرتا رہا اور طرف دار داد دیتے رہے۔ چنانچہ ان خوشامدیوں نے اسے اس کی غلطیوں کے امتیاز سے باز رکھا — آج بے چارے کا دیوالہ ہو گیا۔ ‘‘ ۱۹؎

شاد کی زبانی مختلف شعرا مومن، رند، نظام رام پوری، حفیظ جالندھری اور اقبال کے متعلق رائیں سنیے، لہجہ اور انداز دونوں دلچسپ ہیں۔ اس سلسلے کے ایک اقتباس سے لطف اٹھائیے۔

’’میں نے ادھر اُدھر کی باتیں بنا کر آپ کو کافی پریشان کیا ہے اور ابھی اور امکان ہے کہ اپنے ساتھ لگائے چلوں مگر اب میں خود ہی بور ہو چکا ہوں۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے۔ طشت میں بھیگے ہوئے تیموریہ ‘‘ یعنی لنگڑے آم‘‘ دعوت طعام دے رہے ہیں۔ اس لیے مقطع عرض ہے۔ یعنی بیشتر مشہور شعرا کا ایک ایک شعر ان کی زندگی پر حاوی رہا ہے۔ اور وہ زندۂ جاوید ہو گئے ہیں۔ مثلاً مومن خاں، تو کہاں جائے گی۔ والا شعر، رند کا، ’’دکھایا کنج قفس مجھ کو آب و دانہ نے ‘‘ اور نظام رام پو ری کا انگڑائی والا شعر ان کی تاریخی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اسی طرح حفیظ جالندھری یہ سب کچھ نہ بھی کہتے جو ان سے منسوب ہے، ان کی ادبی حیثیت اور شاعرانہ وقار کسی تعارف کے محتاج نہ تھے۔ میرا خیال ہے کہ موصوف کا یہ شعر ان کی شخصیت کو اہرام مصر کی طرح ’’ٹھوس‘‘، لافانی بنائے رکھے گا۔ آپ تو بیتاب ہیں لیکن یہ بے تابی اچھی نہیں کیونکہ ڈاکٹر اقبال نے شاہین سے کہا تھا کہ کبوتر کے خون میں وہ مزا نہیں جو اس پر جھپٹنے میں ہے۔ اسی مضمون کو میں نے اپنے انداز بیان کے تحت یوں کہا ہے :

خواہش کی تکمیل میں عجلت کھوتی ہے تکمیل کا لطف

آنکھ ملائے جا ساقی سے ہاتھ بڑھا دے جام نہ لے

تو میرے نزدیک حفیظ صاحب کی عمر بھر کی شاعری کا لب و لباب یہ شعر ہے :

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اس شعر میں کیا کمی رہ گئی ہے۔ بتائیے کیا زندگی کا کوئی ایسا پہلو ہے جس کو اس نے احاطہ نہ کیا ہو۔ ‘‘ ۲۰؎

ماہر القادری کے کلام پر اس انداز سے تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں :

’’ … اس کے بعد حضرت ماہر القادری کی یہ غزل جو موصوف نے ’’جام نو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجی ہرگز ایسی نہ تھی کہ وہ اس قدر واضح طور پر شائع کی جاتی، ماہر القادری، نیاز فتح پوری کی طرح دوسروں کی آنکھ میں پھانس دیکھنا پسند نہیں کرتے مگر اپنے بانس بھی نظر انداز کر جاتے ہیں۔ چنانچہ مطلع میں :

بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتے ہوئے چلو

یہ ستم ہے کہ بھٹکے ہوئے اندھے نہیں ہوتے۔ انھیں رستہ نظر آتا ہے صرف تمیز ’’راہ منزل‘‘ ساقط ہو جاتی ہے۔ اس لیے بجائے ’’راہ دکھانے کے ‘‘ راہ پہ لاتے ہوئے چلو‘‘ یہاں مناسب تھا۔ ‘‘۲۱؎

چند شعر اسے متعلق نہایت ایجاز کے ساتھ ان کی رائے ملاحظہ کیجیے :

’’روش صدیقی اور عدم تو ٹھیک ہیں مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کافی غلط ہیں ان کے انداز کلام سے بچو۔ شکیل اچھا کہتا ہے مجروح بھی اس کو نہیں پہنچتا۔ ‘‘ ۲۲؎

ڈاکٹر سید عبداللہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’… ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا نام محل نظر رہا کیونکہ یہ بہت ریزہ چیں بلکہ عبادت بریلوی قسم کا ناقد ہے۔ ‘‘ ۳؎۲

ساغر نظامی سے متعلق وہ یہ رائے رکھتے تھے۔

’’یادش بخیر! حضرت ساغر نظامی بھی ہمارے ساتھی ہیں۔ فن کار بھی چابک دست بھی۔ جبھی تو ان کے ہاں ہر شعر میں کوئی نہ کوئی استادانہ ترکیب پائی جاتی ہے۔ مطلع ہی غضب کا ہے :

ہم وہی بات ان سے کہہ نہ سکے

بِن کہے بھی جو راز رہ نہ سکے

انھیں طوفان بھی نہ آیا راس

جو مخالف رخوں پہ بہہ نہ سکے

شعر یہ بھی سنیے :

لاکھ باتیں تھیں ان سے کہنے کی

اور اک بات ان سے کہہ نہ سکے ‘‘ ۲۴؎

ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کی نظم ’’سہاگ رات‘‘ کے ایک بند پر تبصرہ اس انداز سے کرتے ہیں :

’’خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری آج کل بڑی تیز ہے، بیچارے نے تخیلی پرواز پر ’’صبا‘‘ حیدر آباد میں ایک نظم ’’سہاگ رات‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ کہتا ہے :

ناز کر ناز کر اے جان کہ تیرے آگے

آج اِک شاعر خود کام کا سر جھکتا ہے

پیر و مسلکِ خیام کا سر جھکتا ہے

وہی ذہنی عیاشی اور یہ جان کا مصرف بھی عجیب مضحکہ ہو کر رہ گیا ہے ‘‘۲۵؎

شاد عارفی کو خط لکھنے سے کافی دلچسپی تھی، وہ خط میں ہر قسم کے مسائل پر روشنی ڈالتے تھے۔ ادبی، سیاسی، سماجی اور خانگی، مختلف موضوعات پر ان کے مکاتیب میں کچھ نہ کچھ باتیں مل جائیں گی۔ شعرا پر، شعرا کے کلام پر تنقید کرتے نظر آئیں گے۔ حکومت کی بے راہ روی پر بھی تبصرہ کرتے ملیں گے لیکن حق بات یہ ہے کہ ان کی یہ تحریریں ہر حال میں خط ہی کہلانے کی مستحق ہیں۔ خط کی نرم زبان، خط کا نرم لہجہ، خط کا گفتگو کا انداز، خط کے موضوعات کا تنوع، یہ ساری چیزیں ان کے خطوط میں کم و بیش پائی جاتی ہیں، سردی کا موسم ہے اور خط لکھنے بیٹھتے ہیں تو انداز کس قدر دلچسپ اختیار کرتے ہیں :

’’…غرض کہ آج ۹؍ فروری کو اشٹ گرہ کے کافی بعد بسنت ابر ے نیچے آ گیا ہے چائے پی کر لحاف میں بیٹھا خط لکھ رہا ہوں۔ لحاف کی نرم آنچ ’’دراز تر گفتم‘‘ پر اکسار ہی ہے۔ ‘‘ ۲۶؎

آگے اسی خط میں لکھتے ہیں :

’’…تو میں موسم کی بات کر رہا تھا کہ آج بھی خنک ہے اور سورج آنکھ مچولی کھیل رہا ہے میری رباعی کے اس مصرع کی طرح :

جیسے بکھری ہوئی زلفوں میں کسی کا چہرہ

جیسے دروازے کی اولٹ میں کوئی پیشانی‘‘

مندرجہ ذیل اقتباس بھی قابل مطالعہ ہے۔ شگفتگی، بے باکی، برجستگی سبھی کچھ تو اس میں موجود ہے :

’’آج کاغذات سنبھال رہا تھا تو ایک لفافہ آپ کا پتہ لکھا ہوا مل گیا، موسم اچھا ہے، ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے، چائے پی کر بیٹھا ہوں، توے کا حقہ خوشبو دے رہا ہے اور میں یہ دو غزلیں نوٹ کر کے یہ خط لکھ رہا ہوں یہ عبارت ہی صاف ظاہر کرتی ہے کہ اس وقت موڈ میں ہوں، حالانکہ رات انٹروینس کا انجکشن لیا ہے تو خیر یہ دو غزلیں ’’رومان‘‘ کے لیے حاضر ہیں۔ ‘‘۲۷؎

بے تکلفی کا یہ انداز بھی ملاحظہ کیجیے :

’’لفافہ ملا، خیریت معلوم ہوئی، میں بالکل اچھا تو نہیں ہوں، مگر زیادہ بیمار بھی نہیں ہوں موسم بڑا خراب تھا، لوئیں چل رہی تھیں۔ کل سے کچھ بارش کے آثار ہیں۔ ہوا میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے۔ اب صبح کے وقت چائے پی کر بیٹھا ہوں اور تمھیں یہ خط رہا ہوں۔ ‘‘ ۲۸؎

دوستوں اور اپنوں کے ساتھ وہ بے تکلفی پسند کرتے تھے، چنانچہ بے تکلفی کے سلسلے میں اپنی اہلیہ کا واقعہ نہایت دلچسپ انداز سے اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’عزیزم حماد۔ دعائیں

(القاب میں اس بے تکلفی کا سبب آئے گا)

میں نے ۳۸ سال کی عمر میں شادی کی تھی تمھیں معلوم ہو گا۔ اگر نہیں تو اب سہی۔ یہ شادی کی زندگی ڈیڑھ سال چلی اور پھر وہ جس پر میں نے ’’نصف بہتر‘‘ نظم کہی تھی، اسقاط حمل کے سلسلے میں وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ یقین کرو کہ شادی سے قبل جس کو میں آزادی کی زندگی سمجھتا تھا — وہ سراسر غلط فہمی ثابت ہوئی۔ ڈیڑھ سال میں وہ طمانیت و سکون حاصل رہا جو دو معاشقوں کی زندگی پر گہرا طنز تھا — بہرحال اس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں۔ اب تو صرف یہ کہنا تھا کہ میری بیوی جس کا نام پری بیگم تھا جو تحصیل شاہ آباد رام پور کے خالص پٹھان منور شیر کی لڑکی تھی اور معمولی پڑھی لکھی، بہشتی زیور اور نور نامہ تک۔ شادی سے کچھ دنوں بعد میں نے اسے ’’پریا‘‘ کہہ کر مخاطب بنانا شروع کیا۔ پہلے پہلے تو وہ شوہر کی خوشنودی میں بیوی — جنت کے تصور سے متاثر ہو کر کچھ نہ بولی لیکن ایک دن مجھے موڈ میں دیکھ کر کہنے لگی کہ میری بہن کے شوہر تو ان کا نام بڑے ادب سے لیتے ہیں مگر آپ شاعر ہو کر میرا نام اس طرح لیتے ہیں جیسے کوئی ملازمہ ہوں۔ یہ بات ہے … میں نے کہا۔ اچھا آج سے ’’پریا بیگم‘‘ کہا کروں گا — — وہ خوش ہو گئی — لیکن ہوا یہ کہ شام تک تنگ آ گئی  — میں نے کہنا شروع کیا ’’محترمہ پریا بیگم صاحبہ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو یہاں تشریف لا کر مجھے تھوڑا پانی پلا دیجیے۔ اسی طرح جب چھ سات مرتبہ کہا تو وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی اور کہا میں اس ادب سے باز آئی آپ اسی طرح پکارا کریں۔ تب میں نے بتایا کہ خلوص اور بناوٹ میں یہی فرق ہے  — اس تشبیہ کا یہ محل ہے تو لازماً غلط — مگر حقیقت یہی ہے کہ تمھارے القاب میں بے تکلفی اسی لیے اختیار کر رہا ہوں کہ خلوص کا خون نہ ہو۔ ‘‘  ۲۹؎

اس طرح وہ کہیں کہیں قصے اور واقعات بیان کر کے خطوط کو دلچسپ بنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہیں کہیں خطوط میں مزاح سے بھی کام لیتے ہیں :

’’کل ۲۳ دسمبرکی شام کو تمھارا ۱۵ دسمبر کا لکھا ہوا کارڈ ملا۔ اگر یہ کارڈ سہس پور سے پیدل بھی آتا تو بہت سے بہت چار دن میں آ جاتا مگر معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پیٹ کے بل رینگتا ہوا مجھ تک پہنچا۔ وہ بھی سیدھا نہیں جگہ جگہ سنیما دیکھتا، طوائفوں کے کمروں پر ٹھہرتا، ہر پڑاؤ پر حقہ اور کہیں کہیں سلفہ پیتا ہوا۔ خیریت یہی گزری کہ پہنچ گیا۔ اگر نہ پہنچتا تو تم کیا بنا لیتے۔ تم نے سنا ہو گا کہ ایک ریاست کا فائر بریگیڈ دوسال بعد آگ بجھانے پہنچا تھا۔ یہ کارڈاس سے تیز رہا۔ ‘‘  ۳۰؎

کبھی کبھی شعر بھی سناتے ہیں :

’’صفحہ سادہ ہی جا رہا تھا اس لیے کچھ قطعے ہی لکھ دوں۔ ‘‘

بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی

غرور و عجز میں رشتہ، سماج بکتی ہے

کسی رئیس کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ

نکاح عیب سمجھتی ہے۔ بھاگ سکتی ہے

— — — — — — — — —

بستے بغلوں میں ہاتھ میں انٹے

راہ میں کھیلتے ہوئے لڑکے

ان کے تیور بتا رہے ہیں شادؔ

یہ بنیں گے وطن کے ایم ایل اے

— — — — — — — — —

مرغیاں ہی مرغیاں دیکھیں جو کل اک گاؤ ں میں

میں نے پوچھا مرغ کیوں غائب ہیں یہ کیا گھات ہے

راز دارانہ طریقہ پر یہ بولا میزباں

کیا کیا جائے یہ نیتاؤں کی شکمی بات ہے ‘‘۳۱؎

اپنی محبت کا ذکر بھی چھیڑ دیتے ہیں :

’’…چونکہ تم مجھ پر مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتے ہو اس لیے اب میں تفصیل بیان کروں گا کہ میں نے اس عمر میں شادی کیوں کی تھی؟ اس سے پہلے کیوں نہ کی؟ بات یہ ہوئی تھی کہ مجھے اپنے دور کے خاندان میں سے (جہاں ہماری بیاہ شادی ممنوع تھی، بہ اعتبار ’’قومیت‘‘ وہ گھٹیا قوم کی لڑکی تھی، ہم لوگ خالص افغانی۔ رزڑ۔ ڈوڈال اور آفریدی)  — ایک لڑکی سے ’’نام نہیں بتاؤں گا۔ ‘‘ بچپن ہی میں محبت ہو گئی جو ساتھ کھیلنے کا نتیجہ تھا۔ اسی پر میں نے ایک غزل کا مقطع یوں کہا تھا:

ساتھ کھیلے گی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شاد میں قائل نہیں

نتیجہ تو وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی وہی جو میری نظم ’’فسانہ ناتمام‘‘ سے ظاہر ہے۔ ۳۲؎

شاد عارفی کی سب سے بڑی خوبی ان کی بے باکی اور صاف گوئی ہے۔ وہ سیدھے سادے قسم کے انسان تھے اور مختلف قسم کی ایچ پیچ کی باتوں سے بالاتر تھے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتے تھے وہی کہتے تھے یا جو کچھ کہتے تھے وہی ان کے دل میں ہوتا تھا۔ مصلحت اور تقاضائے وقت وغیرہ سے ان کا واسطہ نہ تھا۔ ’’ساز‘‘ کا نیا شمارہ پا کر اپنے تاثرات کا اظہار کس قدر صاف گوئی سے کرتے ہیں :

’’کل ’’ساز‘‘ کا نیا شمارہ ملا تھا، پہلی نظر میں کتابت اور چھپائی دونوں نے نگاہوں کو زخمی کر دیا۔ کسی بھی تصنیف کے لیے یہ دونوں چیزیں جتنی اہم ہیں ’’ساز‘‘ میں ان کی اتنی ہی کمی ہے۔ ‘‘  ۳۳؎

’’نئے چراغ‘‘ کا شمارہ پا کر کس سادگی اور سچائی سے اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں :

’’کل ۶؍ اپریل کو ’’نئے چراغ‘‘ کا شمارہ ملا۔ شکریہ اور اطلاع حاضر ہے اس مرتبہ کتابت میں غلطیاں آٹے میں نمک کی جگہ ’’نمک میں آٹے ‘‘ کی مانند ہیں۔ بعض اشعار اور نثر کی سطریں کچھ اس طرح بے ربط ہیں جیسے سیلاب نے جگہ جگہ سے ریل کی پٹریاں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں اب بیٹھے حل کرتے رہیے۔ ‘‘  ۳۴؎

اپنے متعلق ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’میری سب سے بڑی کمزوری (جس کو میں اپنی دانست میں خوبی سمجھتا ہوں ) یہ ہے کہ انتہائی ضرورت کے وقت بھی ’’دھوکہ اور فریب‘‘ نہیں کرتا نہ جھوٹ بول کر فائدہ اٹھا سکتا ہوں۔ ‘‘  ۳۵؎

بہرحال اس طرح جتنے خطوط بھی شاد عارفی کے منظر عام پر آئے ہیں ان کے مطالعہ سے ان کا ظاہر، ان کا باطن، ان کی طبیعت، ان کا مزاج، ان کا ماحول، ان کے احباب، ان کے عزیزو اقارب، ان کی ماں سے محبت، بیوی سے وارفتگی، اپنوں سے خلوص، بے گانوں سے بے نیازی وغیرہ سے ہم آگاہ ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان سے ان کا ہنسنا، ان کا بولنا، ان کا غصہ کرنا، ان کی خفگی، ان کی ناراضگی، ان کی مایوسیاں اور ان کی مجبوریاں بھی ظاہر ہوتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نثر کا لہجہ، خط نگاری کا سلیقہ اور دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات پیش کرنے کا انداز کیا تھا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کی مدد سے جہاں تک ہماری نگاہیں پہنچنے سے قاصر تھیں ان خطوط نے وہاں تک پہنچنے میں بڑی مدد کی ہے اور آج ہم بلا شبہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی شاعری کے ساتھ ان کے خطوط بھی اہمیت رکھتے ہیں جو اردو خطوط کے خزانے میں اپنی پہچان ہمیشہ برقرار رکھیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

                ماجد الباقری

 

شادؔ عارفی کی نظمیں

 

شادؔ عارفی چونکہ اردو زبان کے شاعر تھے اس لیے یہ بات واضح کر دینا بے محل نہیں ہے کہ وہ لوہارو اسٹیٹ ( پنجاب) میں پیدا ہوئے تھے اور جوانی سے بڑھاپے تک یو۔ پی کی معروف ریاست رامپور میں رہے۔ اس حقیقت کے با وصف کہ ان کا بچپن پانچ دریاؤں کے سرسبز میدانوں میں گزرا، وہ اپنی نظموں میں بڑے صاحبِ زبان معلوم ہوتے ہیں۔ میرے اس مضمون کا تعلق چونکہ مرحوم کی صرف نظموں سے ہے اس لیے میں ان کی غزل گوئی کی طرف نہ تو کوئی اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی ان کی مجموعی شاعری پر اظہار کا کوئی دروازہ کھولوں گا۔ اس طرح میری ہر بات کا تعلق ان کی نظموں ہی سے رہے گا۔

شادؔ عارفی کو اردو زبان پر ایسی قدرت حاصل ہے کہ بڑے بڑے اہلِ زبان اُن کے سامنے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اتنا اچھا روز مرہ استعمال کرتے ہیں جو کتابوں کے مطالعے سے یا لغات کی ورق گردانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ ایسا روز مرہ مختلف طبقات کے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر سیکھا جاتا ہے اور پھر تحقیق اور وجدان کی سان پر رکھ کر اس کا فالتو حصہ گھسنا پڑتا ہے تب کہیں وہ ادبی تحریروں میں استعمال کے قابل ہوتا ہے۔ ان کے یہاں ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جنھیں ہم شرفاء کی زبان نہ سمجھ کر صرفِ محلِ استعمال سے عدم واقفیت کی بنا پر ٹکسال باہر سمجھتے ہیں۔ شادؔ نے ادائے مطلب کے لیے جو زبان استعمال کی ہے اس کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو معروف ادباء اور شعراء سے حاصل نہیں کیا گیا بلکہ براہِ راست عوام سے حاصل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اردو زبان کو انفرادی ٹکسال کے بے شمار الفاظ مل گئے ہیں اور اس میں بھی نکتہ یہ ہے کہ عورتوں کی گھریلو زبان کی اکتساب میں انھوں نے کوئی گوشہ بے توجہی کا شکار نہیں ہونے دیا۔

ہمارے ناقدین کرام شادؔ کو صرف ایک طنز نگار کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں وہ اس امر کی وضاحت نہیں کرتے کہ طنز ان کے مزاج کا صرف ایک حصہ ہے۔ ان کا مکمل شعری مزاج نہیں ہے اور طنز بھی ایسا کہ صحیح طریقے پر نہ برتا جائے تو شاعری صحافت بن جاتی ہے۔ مگر شادؔ کا  مُنتہا یہ ہے کہ انھوں نے طنز کو اس خلوص کے ساتھ برتا ہے کہ شعروں کا تاثر ہنگامی ہونے کے بجائے دائمی ہو گیا ہے۔ فنکاری کا ایک پرتو یہ بھی ہے کہ شادؔ کی انفرادیت نے اسے شعری سمت نُما میں بو دیا ہے جس کے مطالعے سے نئے نئے بوٹے پھوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور نئی نئی جہتیں متعین ہوتی ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’ نمائش‘‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجیے :

ذرا غور کیجے یہ بزمِ سخن ہے

ادب سے یہاں فائدے کی لگن ہے

جو ’’ لونڈا‘‘ ہے وہ ماہرِ علم و فن ہے

نہ جانے حکومت کا کیا یہ چلن ہے

نہ پوچھے کسی سے نہ خود جانتی ہے

خوشامد کو ’’ روحِ سخن‘‘ مانتی ہے

بند کے تینوں اشعار میں ایسی کئی باتیں یکجا ہو گئی ہیں جن سے شادؔ مرحوم کے فن اور شخصیت پر ایسی روشنی پڑتی ہے جو میری تحریر کی بے ربطی میں بھی ایک خاص قسم کا ربط ظاہر کرتی ہے۔ انھیں فنِ ادب ( جس میں عروض بھی شامل ہے ) پر پورا پورا عبور حاصل تھا۔ ان کی نظموں کے طنطنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنے اگلے پچھلوں سے ذرہ برابر بھی متاثر نہیں ہیں اور اپنے اسلوب کے خود ہی موجد ہیں۔ تخیل کا بے پایاں پھیلاؤ، جمالیاتی حِس کی ہمہ وقت بیداری اور پھر ذخیرۂ الفاظ کی فراوانی کچھ اس طرح شیر و شکر ہو کر شعری قالب میں ڈھل جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کے رنگ میں کامیابی سے شعر کہہ ہی نہیں سکتا۔ بے جان چیزوں اور جذبوں کو تشخص عطا کرنے میں انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔

ان کی نظموں کی ہیئت سے جدید نظم کو کچھ نہیں مل سکتا کہ وہ خود شادؔ کی اپنی پسند تھی۔ لیکن ان کے زمانے میں بھی اس فارم میں بھرپور شاعری کرنا امر محال تھا۔ بولتی ہوئی تشبیہوں، زندہ استعاروں کے بر محل استعمال، ایمائیت اور رمزیت کے علاوہ لفظ کے اکہرے معنی سے اجتناب کا رجحان ان کے ہاں اس خوبصورتی کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ جدید سے جدید اور نیا قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ مسلسل اور مربوط نظموں میں سے کسی تمہید کے بغیر اگر ایک بند پڑھ دیا جائے تو وہ پورے معنی نہیں دیتا۔ میں یہاں شاد کی نظموں میں سے کسی تمہید کے بغیر مختلف نظموں سے ایک ایک شعر پیش کرتا ہوں جن سے شادؔ کے اس رویے کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جو صرف غزل کے لیے مخصوص ہے :

ابھی شوروم جس نے چھوڑا ہے

’’ شعر‘‘ ہے بہترین جوڑا ہے

ضرورت سے زائد جو شرما رہی ہے

تصور میں ننگی نظر آ رہی ہے

’’ سایۂ تاک‘‘ میں نیت پہ بھروسہ کس کو

……

گود میں آ کے گرے جب ’’ شجرِ ممنوعہ‘‘

……

گھورتے اعضاء کی ہر جھلکی ’’ تعاون ماجرا‘‘

عشوہ عشوہ اشتراک آمادہ لیکن ہاں نہ ہوں

اب مری پندار میں تھی اک درندے کی جھلک

……

جس کو بو دیتا ہے دلدل میں پھنسی چیتل کا خوں

……

ہے اچھوتی پہ طربناک اشارہ ڈھونڈے

ظلمتِ گوشۂ تنہا کا سہارا ڈھونڈے

مختلف آنچل ہوا کے رُخ پہ بل کھانے لگے

روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے

’’ بد نما جلد‘‘ میں بھلے اشعار

کیوں سمجھتے ہو ’’ قسمتِ عطار‘‘

آنکھوں سے نیند سیر کی عادت نے چھین لی

بستر چبھا سمٹ کے اٹھانے کے واسطے

سر ڈھک لیے گئے تو ہوئیں باڈیاں درست

سینے پہ اور وجہِ نمائش لباسِ چُست

یہ پتھر کے چشمے یہ رجعت پسند

مکانات پنجرے تجلی پرند

دق کی ماری آبادی سے دور ’’ سول لائن کا روپ‘‘

جیسے ’’ کالی کسبی‘‘ کے منہ پر پوڈر کی ڈھلتی دھوپ

اس کو پسلی، اس کو آنکھیں اس کو جاڑا اس کو دست

شہری اپنے حال پہ گریاں اور بدیسی جوڑے مست

گھونٹ دوں گھنٹے کی بے ہنگام ٹک ٹک کا گلا

کرسیاں اوٹوں میں الجھا کر حجابی نوچ لوں

’’ اشاروں کی قسمت ‘‘ چمکتی رہے گی کنایوں کا پیغام اچھا رہے گا

جواں سال آوارہ صبحوں کے جمگھٹ کا پیچھا سرِ شام اچھا رہے گا

شادؔ  اپنی نظموں میں ایک ماہر غواص کی طرح مشاہدے اور جذبات کی اوپری سطح پر تھوڑی دیر فکری پیراکی کے کرتب دکھانے کے بعد سمندر کی تہہ تک سیدھے چلے جاتے ہیں۔ جب اور جہاں وہ طوفان کے زیر آب ریلے سے ٹکراتے ہیں صاف صاف دکھائی دیتے ہیں اور اس وقت تک واپس نہیں آتے جب تک سمندر کی تہہ سے کوئی بے بہا موتی ان کی مٹھی میں نہیں آ جاتا۔ یہ دُرّ نایاب در اصل ان کی نظموں کے ڈرامے کا نقطۂ عروج ہوتا ہے جو انتہائی چابک دستی سے ایک ہی جست میں ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم ’’ نمائش‘‘ کے ہر بند میں جو تین مصرعوں کا ہے، چودھویں بند تک اپنے مخصوص انداز میں نمائش سے متعلق جزئیات کا ذکر کرتے آئے ہیں اور خاتمے کے بند میں یوں اظہار کرتے ہیں :

ابھی دو بجے ہیں ابھی سے یہ ’’ سائے ‘‘ یہ شلوار برقعے دوپٹے گھروں کو؟

یہ دو چار، دس پانچ، ان کا تعاقب مبارک رہے ’’ کم نظر‘‘ سر دھروں کو

مگر ہم تو فنکار و شاعر ہیں یعنی  پرکھتے ہیں نظروں سے کھوٹوں کھروں کو

آخری مصرعے پر نظم کو کس خوشگوار جھٹکے کے ساتھ ختم کیا ہے طبیعت لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی مہارت وہ تمام نظموں میں دکھاتے ہیں۔ شادؔ کی بیشتر نظموں میں جنسِ لطیف کا روپ رس رچا بسا ہوتا ہے۔ پھر وہ معاشرے کی دکھتی ہوئی رگوں پر باری باری تیکھے طنز کے نشتر لگاتے ہیں۔ ان کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ ایک زمینی مصرعے سے آسمان کی طرف ایسے اڑ جاتے ہیں کہ رفتار اور فاصلے کا احساس تک نہیں ہونے دیتے اور اگلے ہی لمحے پھراس فضا میں آ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے مگر اس طرح کہ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہیں اور اشتیاق میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

شادؔ کی شاعری میں عدم تنقید کی شعوری کوشش ایک کامیاب نفسیاتی نکتہ ہے۔ وہ  اپنے دیگر ہم عصروں کی طرح معاشرے کی خرابیوں پر اپنے فیصلے صادر نہیں کرتے بلکہ انھیں صاف ستھرے انداز میں بیان کر دینے کے بعد فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے بلند مقام سے عوام کی سطح پر نہیں اترتے بلکہ عوام کو اپنی سطح پرلے آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک تماشائی کی طرح سب کے ساتھ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بے تکلف گفتگو کا لہجہ، ڈرامائی ترتیب کا خیال، دلیری اور بے باکی، نفسیاتی ژرف بینی، جنسی غوامض سے مکمل آگہی کے علاوہ مشاہدات اور تجربات کی انفرادیت، ان کے کلام کے خاصّے ہیں۔ اونچے سماج سے نفرت اور ذہنی و فکری انفرادی آزادی کی تبلیغ ان کا مطمحِ نظر ہے۔ وہ ہر تخلیقی شاعر کی طرح اپنے دور کے عدل و انصاف، انسانی قوانین اور نفسیاتی ضروریات کے مابین تفاوت کے گِلہ گزار ہیں، یہاں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ کیجیے :

بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی

غرور و عجز میں رشتہ سماج بکتی ہے

کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ

نکاح عیب سمجھتی ہے بھاگ سکتی ہے

موضوعات کے انتخاب میں وہ سعادت حسن منٹو سے بہت قریب ہیں۔ عمروں کے تفاوت اور جغرافیائی فاصلوں کے باوجود شادؔ اور منٹو میں ایسا موضوعاتی اشتراک ہے کہ جن موضوعات کو منٹو نے اپنے افسانوں میں چھیڑا ہے وہی شادؔ کی نظموں میں ابھرے ہیں یا جو موضوعات شادؔ کی نظموں کا محور تھے، منٹو کی کہانیاں بھی ان ہی کے گرد گھومتی ہیں۔ ایک جگہ شادؔ نے منٹو کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

بہت سمجھ بوجھ کر گناہوں کا فیضِ جاری کہا ہے میں نے

جنھیں ’’ شکاری‘‘ کہا ہے منٹو نے ’’ کار و باری‘‘ کہا ہے میں نے

’’ ڈھکے چھپے کسبِ زر کو‘‘ اونچی دکانداری کہا ہے میں نے

شادؔ کی نظموں میں علاقائیت کی فضا کچھ اس طرح بھرپور ہے کہ اگر دنیا کی دیگر زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا جائے تو ہر زبان کا ناقد بخوبی اندازہ لگا لے گا کہ اس نظم کا علاقہ اردو ہے۔ اور یہ کہ شادؔ اردو زبان کے شاعر ہیں۔ شاد کی مشاقی کا عالم یہ ہے کہ ایک ایک مصرعے میں بڑی بڑی حکایتیں نظم کر دیتے ہیں۔  اردو کا شعری عجائب گھر ایسے مثلثوں، مخمسوں اور مسدسوں سے بھرا پڑا ہے جن کے ہر بند میں دو چار مصرعے بھرتی کے ضرور ہوتے ہیں اور نظم کے تسلسل میں بند کے بند قلانچیں بھرتے ہوئے حشو و زوائد کے تہہ خانوں میں ترتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن شادؔ ایک مصرعہ بھی بھرتی کا نہیں کہتے۔ مضمون آفرینی کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ڈراموں اور افسانوں کے پلاٹ کے پلاٹ مصرعوں میں سموتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی چند نظموں کا ہر بند ایک فلمی کہانی کی تلخیص معلوم ہوتا ہے۔ شادؔ جب جزئیات نگاری کی طرف آتے ہیں تو بال جیسی باریک شے کو موئے قلم سے لمبائی میں چیرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اپنا ما فی الضمیر خیالی پیکروں کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ میں اپنے مضمون کو اب زیادہ طویل نہیں کرنا چاہتا اس لیے لمبی لمبی نظموں میں سے چند اشعار اور بند بطور نمونہ پیش کر کے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے :

جالے لگے ہوئے ہیں ابھی آستین پر

رفتار سست سست نگاہیں زمین پر

ہر آہٹ پر جھجک کر جھانک لیتی ہے دریچے سے

وہ میری بلکہ اپنی بھی نگہباں ہے جہاں میں ہوں

کھٹ کھٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبیحہ! کیسے ؟ یونہی کوئی کام نہیں

پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ ہوا، انجام نہیں

میرا ذمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بھگتوں گی، تم پر تو الزام نہیں

(’’ شوفر‘‘ کا پہلا بند)

کچھ ہرنوں پر لرزہ طاری ’’ ٹھہرے سائے ‘‘ ’’ چلتی ساری‘‘

کچھ شلواریں ہاری ہاری ’’ کچھ پورے دن کچھ تیاری‘‘

پھاٹک سے ہٹ کر اندھیاری ’’ اک نوکر ہے اک دلداری‘‘

افّوہ کھلی بوسہ باری، شاباش ’’ نمائش کی ماری‘‘

(’’ نمائش ‘‘نمبر ۱ خاتمے کا بند)

طمنچے سے ہرانا چاہتے ہو تم، تو میں ہاری

ہوس کے سامنے انسان کی جاتی ہے مت ماری

تمھیں کچھ سوچنا بھی ہے ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرا جمپر، مری ساری

(’’ مہترانی‘‘ کا آخری بند)

سڑک پڑے گی تو برقے بدن چھپا لیں گے

خدا کے گھر میں پہنچ کر نقاب اٹھا لیں گے

عشاء کے بعد نمازی گھروں کو جا لیں گے

اگر ہوئے بھی تو شرعاً نظر بچا لیں گے

جو چار چھ نے تکا بھی تو کیا چھڑا لیں گے

( ’’ رت جگا‘‘ کا تیسرا بند)

زہے غمزۂ برقِ موقع شناس

ذرا ہٹ کے پھاٹک سے اوجھل کے پاس

’’تغزل‘‘ میں ’’مشغول‘‘ اونچے لباس

لباسوں میں ہلکی سی ردّ و بدل

زحافات و ادغام کا سا عمل

مصور تھی القصہ عریاں غزل

(مال روڈ‘‘ خاتمے سے پہلے کے دو بند)

٭٭٭

 

 

 

 

                عمیق حنفی

 

 

ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

 

ایک کے بعد ایک وہ پل ٹوٹتے جا رہے ہیں جو حال کی تیز خرام تند خو  ندی پر ماضی کو مستقبل سے ملائے ہوئے تھے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے حسرت موہانی گئے، مرزا یگانہ گئے اور اب شاد عارفی بھی جاتے رہے۔ یوں تو بقول جواہر لال نہرو (اورستم یہ کہ اب انھیں بھی آنجہانی لکھنا پڑتا ہے ) ہندوستان میں آج بھی ہر زمانے کا آدمی پایا جاتا ہے۔ آج بھی ذہنوں میں کہیں پتھروں کا زمانہ دھاتوں کے زمانے سے کہیں ویدوں کا زمانہ بدھ اور جین زمانے سے کہیں زمینداری کا عہد سرمایہ داری کے زمانے سے کہیں دلی کا دور آتشؔ و ناسخؔ کے زمانے سے باہم دست و گریبان نظر آتا ہے۔ آج بھی ایسے شعر کہے جا رہے ہیں کہ اگر ان کی تاریخ نزول نہ بتائی جائے تو انھیں میرؔ کے تذکرے سے نظر انداز کیے ہوئے کسی شاعر کا شعر تسلیم کرنے میں کسی کو تامل نہ ہو گا۔ شاد عارفی نہ اس معنی میں پرانے شاعر ہیں اور نہ اس معنی میں نئے، جس معنی میں بلراج کومل یا محمد علوی نئے شاعر ہیں۔ وہ ذہنی اور تخلیقی عوامل کے لحاظ سے عبوری شاعر تھے یعنی نسبتاً اور اضافی اعتبار سے پرانے اور نئے کو جوڑنے والے ہیں۔ ( میرا دل شادؔ عارفی کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کرنا گوارا نہیں کرتا) شاد عارفی کی ۶۳۔ ۶۴ سالہ زندگی کا ختم ہونا ماضی اور مستقبل کو متعلق کرنے والی ایک نہایت اہم کڑی کا ٹوٹنا ہے۔

تارے جو آسماں سے گرے خاک ہو گئے

ذرے اٹھے تو برقِ غضب ناک ہو گئے

خود شادؔ عارفی رامپور کی روایت پسند مٹی سے برق غضب ناک بن کر اٹھے اور آسمانِ سخن کے دامن کو بجلیوں سے بھر گئے۔ میں نے جب اردو شاعری کا مطالعہ سنجیدگی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ شروع کیا تو یگانہؔ اور شادؔ عارفی ہی نے مجھے اردو شاعری بالخصوص غزل کی شاعری میں جدّت بغاوت تجربے اور ندرت کے امکانات کا قائل کیا اور وہ غزل جو کوٹھوں اور خانقاہوں، درباروں اور بازاروں کی رونق تھی پہلی بار ایک گھریلو مگر سوشل، زندہ دل، حاضر دماغ، حاضر جواب، ذی فہم، ذی علم، ذہین اور با شعور خاتون نظر آئی۔ یگانہؔ اور شادؔ عارفی کی شاعری کا تیکھا پن، تیور، لہجہ، ان کی حق گوئی اور بے باکی، سماجی شعور، بات سے بات پیدا کرنے کا شوخ انداز اور حقائق سے پردہ اٹھانے کی شاعرانہ ادا مجھے بہت مزے دار معلوم ہوتی تھی اور جتنا غور کرتا تھا لطف بڑھتا جاتا تھا۔ جدّت کی راہ پر لگانے میں پہلا دھکا انھیں دو شاعروں کی شاعری نے مجھے دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس راہ سے ہٹ کر اسی کی ایک اور شاخ پر نکل آیا ہوں۔ لیکن ان دونوں کی کج ادائی پر اب بھی رشک آتا ہے۔

شادؔ عارفی ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۷ء سے شعر کہنا شروع کیا۔ لیکن ان کی شاعری ان کے دور کی شاعری سے آگے ہی رہی۔ چند برس پیشتر تک میں ان کی شاعری سے ان کی عمر کا اندازہ لگانے میں دھوکا ہی کھاتا رہا۔ جب ان کی تصویر دیکھی اور ان کا سنہ ولادت معلوم ہوا تو ششدر رہ گیا۔

شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں

ایسے لوگ کہاں ہوتے تھے ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

اے وہ اُردوئے معلی نہ سہی

شاد کے شعر سنو استادو

سویرا لاہور کا شمارہ ۱۷۔ ۱۸ (۱۹۵۵ء) میں روایت اور انفرادی صلاحیت پر شادؔ عارفی کا ایک تنقیدی نوٹ انشائیہ کی طرز میں نظر سے گزرا تھا۔ قدیم سنسکرت کے نقادوں نے شاعر کی پہچان یا آزمائش کا ایک نسخہ یہ بھی تجویز کیا ہے کہ اس سے نثر میں کچھ لکھوا کر دیکھا جائے اس نوٹ میں ان کا مزاج، ان کی فطرت، ان کے عقائد اور مفروضات بالکل اسی طرح ظہور پذیر ہوئے ہیں جس طرح ان کی شاعری میں ہوا کرتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی جا رہی ہے اور بات بنتی جا رہی ہے۔ در اصل یہ نوٹ کا نوٹ اور مدیر کے خط کا جواب بھی ہے :

’’ شعر کوئی قطب نما نہیں ہوتا کہ اس کی سوئی قطب ستارے کی طرف ہی رہتی ہو۔ ‘‘

’’ پٹھانوں کے ساتھ خونخواری اور خونریزی کا تصور روایتی ہے چنانچہ میرے اندر بھی یہ روایت ذرا انفرادی رنگ میں پائی جاتی ہے اور میں شاعری کے ساتھ شکار کو اپنا محبوب مشغلہ سمجھتا ہوں۔ ‘‘

’’ میں جب پہلے پہل شاگرد ہونے پر مجبور ہوا تو مولانا محمود علی خان صاحب شفقؔ  رامپوری کا شاگرد ہوا۔ چونکہ فضا اور ماحول وہی ’’ تکملۂ شعر‘‘ کا راگ الاپ رہا تھا اس لیے میں نے بھی ’’ وہ‘‘ کے ساتھ ’’ جو‘‘ گل کے ساتھ خار، بلبل کے ساتھ قفس، بجلی کے ساتھ خرمن کے ذکر کی کافی کوشش کی مگر طبعی انفرادیت نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ ‘‘

’’ یہاں سے فصاحت جنگ حضرت جلیل مانک پوری کی شاگردی کا دور شروع ہوا جو قطعی روایتی تھا جس کو میں نے اپنے رنگ میں لانے کی کوشش کی کیونکہ لکیر کا فقیر ہونا مجھے بہت کھل رہا تھا چنانچہ آخری اور آٹھویں غزل کے ساتھ نظام حیدر آباد نے اعلان کیا کہ ہمارے استاد بہت ضعیف ہو گئے ہیں اس لیے ان کے شاگرد ان سے اصلاح لینی ترک کر دیں۔ ضعیفی کا تو صرف بہانہ تھا، بات در اصل یہ تھی کہ شاگردوں میں الجھ کر ان کے دیوان تیار کرنے میں حرج واقع ہو رہا تھا۔ فصاحت جنگ حضرت جلیل نے بھی میری انفرادیت کی داد دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم نے جس ندرت کو اختیار کیا ہے وہ تمھارا اپنا رنگ ہے۔ خصوصاً اس شعر کو بہت پسند فرمایا تھا کہ تمھیں اصلاح کی ضرورت نہیں رہی۔ جس طرح چاہو کہو:

گیسو بدوش، محوِ تماشائے آئینہ

اس کی نگاہ روزنِ دیوار پر نہیں ‘‘

اس نوٹ کے اقتباسات سے شادؔ عارفی کے مزاج، جدّت پسندی، زندہ دلی اور خود داری پر روشنی پڑتی ہے۔ استادی اور شاگردی کی رسم کے پابند ہوتے ہوئے بھی وہ آزاد ہی رہے۔ ان کی افغانی انا نے حالات سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نوابین اور مصاحبین کے آگے دستِ طلب دراز کرنے کے بجائے ان لوگوں سے ہمیشہ دراز دستی کرتے رہے۔ اپنی سیمابی فطرت کے باعث بہت جلد ناراض ہو جانا اور پھر اتنی ہی جلد من جانا ان کی وہ ادا تھی جس پر اب ان کے متعلقین آنسو بہاتے ہیں۔ اپنے ذاتی حالات، پریشان حالی، فلاکت زدگی اور فقر و فاقہ کی وجہ سے ان کی شاعری میں وہ دھار آ گئی تھی جس سے کم از کم غزل کی شاعری محروم ہی رہی ہے۔ ان کے طنز کے نشتر پڑھنے والوں کی رگوں میں تیر جاتے ہیں اور ان رنگین پردوں کو چاک کر دیتے ہیں جن کے پیچھے چھپ کر ظلم، استبداد، سفاکی اور نا انصافی کے وحشی دیو، فریبی اصلاحات کی پریوں کو نچا کر تماشہ بینوں کو اپنا شکار بناتے ہیں :

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا

موج کو آپ کنارا سمجھیں

ہم کو اس باب میں ہارا سمجھیں

اصطلاحاً برے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

جنابِ شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بُتانِ دیر کو پروردگار کہتے ہیں

در آئے بزمِ سیاست میں کچھ بڑے چہرے

ذرا قریب تو لاؤ کہ روشنی کم ہے

شادؔ عارفی نے پرانے لفظوں کو نئی فضا اور نئی معنویت ہی نہیں دی، ان الفاظ کو بھی غزل کی دنیا میں آباد کیا جنھیں اب تک اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ ان کی غزل کی زبان انسانوں کی زبان سے علیحدہ نہیں ہے۔ ان کے لیے غزل کی زبان کوئی ملکوتی زبان نہیں ہے۔

ہم ان کے وعدوں پہ ٹوپیاں کیوں اچھال دیں جو پئے سیاست

ہوا کے جھونکے قدم کی آہٹ پہ رُخ بدلتے ہیں گفتگو کا

ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے

آنکھوں سے ’’ تُرپ ‘‘ ذہن سے نادار رہا ہے

غزل کا لفظ نہیں ’ انقلاب ‘ یوں کہیے

بدل رہا ہے زمانہ مزاج یار کے ساتھ

یہ شاعر وہ ہے جو ہر لمحے سے Re-act کرتا ہے۔ کوئی موضوع، کوئی کردار، کوئی واقعہ، کوئی کیفیت اس کے لیے دائرۂ شاعری سے خارج نہیں ہوتی۔ شادؔ عارفی نے مہترانی، مالن، نوکرانی، ساس، بیوہ، غدّار، پرانے کوٹ پر بھی نظمیں لکھیں۔ فساداتِ جبلپور پر بھی خون کے آنسو بہائے۔ رسمی قید خانے، ہمارے نوجوان، گیہوں نے کہا، آپ کی تعریف میں، جبر و قدر، بیٹے کی شادی، نمائش، دیوالی، ہولی، گاؤں وغیرہ عنوانات پر ان کی نظمیں مشہور و مقبول ہوئیں۔ اس فہرست کو دیکھ کر نظیرؔ  اکبرآبادی یاد آ جاتے ہیں اور گمان گزرتا ہے کہ انھیں کی روایت کو زندہ کیا گیا ہو گا لیکن یہ گمان پوری طرح ٹھیک نہیں ہے۔ شاد عارفی نے محض عکاسی نہیں کی ہے، صرف لطف نہیں اُٹھایا ہے اپنے موضوعات کو احساس اور ادراک کا لمس بھی دیا ہے۔ طنز کے نشتروں سے حقائق کو ابھارا ہے، مزاح کی چاشنی سے انھیں مزے دار بنایا ہے اور اپنی سماجی فکر کی آنچ پر انھیں تپایا ہے۔ ہر چند کہ نظموں کے فارم کے ضمن میں شادؔ عارفی نے کوئی تجربہ نہیں کیا۔ مروجہ بحروں اور التزام مصاریع و قوافی پر اکتفا کیا ہے۔ پھر بھی ہیئت عروض اور بندشوں کی روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمعصر فکر، ادراک اور احساس کی ترجمانی انھوں نے کی ہے۔ ’’ آپ کی تعریف‘‘ میں بگلا بھگت اور بہروپیا کرداروں کو ان کی اصل صورت میں پیش کیا ہے۔ ’’ نمائش‘‘ میں ظاہر داری اور ریڈی میڈ جلووں کی قلعی کھولی ہے۔ دکان کی دلفریب آرائش کو طوائف کی چولی پر سلما ستارے کا کام قرار دیا ہے۔ عربی قصیدے کی بحر اور طرز میں ’’ شکار‘‘ پر ان کی تجرباتی نظم میں مقامی اصطلاحات، محاورے اور مناظر نے عجیب فضا پیدا کر دی ہے اور انداز بیان کی ایک نئی راہ کھول دی ہے۔ عام بول چال کی زبان سے شاعری کی لفظیات اخذ کرنے پر انھیں انوکھی اور نرالی دستگاہ حاصل ہے۔

شادؔ  عارفی ہمارے اتنے قریب ہیں اور ان کی موت کا زخم اس قدر تازہ ہے کہ ان کے مقام کا صحیح تعین اور ان کے کام کی صحیح تخمین کرنا فی الوقت تقریباً ناممکن ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی، اکبرؔ الٰہ آبادی، مرزا یگانہؔ، جلیلؔ مانکپوری اور غیر نعریاتی اور غیر فارمولائی ترقی پسند شاعری کا بیک وقت لطف اٹھانا ہو تو شادؔ عارفی کا کلام اٹھا لو۔ روایات کے ان تمام عناصر نے یک جان ہو کر ان کی شاعری میں ایک نیا روپ اختیار کر لیا ہے اور وہ ان عناصر کا تکملہ بن گئے ہیں، بھان متی کا پٹارا نہیں۔ ان کی اپنی انفرادیت اور شخصیت ہے جو ان کی شاعری کی صورت میں ہمارے ادب میں ایک ناقابلِ فراموش تہذیبی سرمایہ بنی رہے گی اور نئی شاعری کو نت نئی راہیں سمجھاتی رہے گی۔ روایات کے دائرے میں رہ کر انفرادیت اور جدّت اختیار کرنے کے ان کے تجربات زندانِ ظلم کے قیدی کی آزادی پر لکھی ہوئی کتاب کی طرح سر چشمۂ عرفان بنے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                مظہر امام

 

 

شادؔ عارفی کی شاعری کا انفرادی پہلو

 

زید نے بڑی شان سے اپنے سر کو جھٹکا دیتے ہوئے بکرسے پوچھا: ’’بتاؤ، کالے رنگ کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے ؟‘‘

بکر نے کالے رنگ کی خصوصیات کا کبھی تجزیہ نہیں کیا تھا۔ اس نے بکری کی طرح منمناتے ہوئے جواب دیا:’’ بھئی، مجھے تو نہیں معلوم، چلو ہار مان لی، تم بتا دو نا، پلیز۔ ‘‘

زید نے فخر کے ساتھ ایک بار پھر اپنے سر کو جھٹکا دیا اور عالمانہ انداز سے بولا:۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ’’کہ سفید نہیں ہے !‘‘

اب یہ لطیفہ ہے تو لطیفہ سہی، لیکن اگر آپ اپنی محبوب زبان کے محبوب ناقدین کی تحریریں پڑھیں تو ان کے تنقیدی تجزیوں کو اسی سیاہ و سفید کے دائرے میں محصور پائیں گے اور شاید یہی سبب ہے کہ شادؔ  عارفی کو ہمارے عزیز تنقید نویسوں کے یہاں وہ درجۂ اعتبار نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ شادؔ عارفی کی شاعری کو نہ تو رنگوں کی مناسبت سے سمجھا جا سکتا ہے اور نہ انھیں کسی خانے میں اٹکل پچّو فٹ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے مروجہ اور پسندیدہ اسلوب سے روگردانی کر کے اپنی آواز کو ایک نئی شان عطا کرنے کی کوشش کی:

شادؔ مجھے یہ دھُن رہتی ہے

اپنا نغمہ، اپنی لَے ہو

ایسا نہیں ہے کہ یہ توفیق ان کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہ ہوئی ہو، لیکن شادؔ عارفی نے کئی اور بڑے جُرم کیے۔ وہ اس ڈکشن کے پیچھے نہیں دوڑے جس نے اس دور کے کئی شاعروں کو خلعت پسندیدگی عطا کی۔ انھوں نے کئی کمزور لیکن مقبول شعراء کی طرح اپنی شاعری کے زرد چہرے پر تشبیہات و استعارات کا غازہ نہیں ملا۔ وہ نہ کسی تحریک سے براہ راست اور با ضابطہ وابستہ ہوئے، اور نہ انھوں نے مشاعروں میں نغمہ گری یا اداکاری کے جوہر دکھائے۔ شاعری ان کے لیے نہ شہرت اندوزی کا ذریعہ تھی اور نہ تسکین انا کا بہانہ۔ ان کے سوچنے اور کہنے کا ڈھنگ، خاص ڈھنگ تھا اور انھوں نے وہی کہا اور اسی ڈھنگ سے کہا جو انھوں نے بہتر سمجھا۔ مفتیانِ ادب کی تعریف و تنقیدسے بے نیاز۔ وہ اپنے ماحول کی داخلی اور خارجی کیفیات کے مزاج داں تھے۔ انھوں نے فکر و احساس کی روشنی میں سماجی عوامل کی تصویریں بنائیں۔ اپنے ملک کے سیاسی اور معاشرتی نظام کی افراط و تفریط نے ان کے حساس دل پر گہرے زخم لگائے اور انھوں نے تلملا کر اس طنز اور ہجو کا حربہ استعمال کیا جس نے شعری پیکروں کو تیز نشتروں میں تبدیل کر دیا۔ ان کے یہاں نہ تو جوشؔ کی سی بلند آہنگی ہے اور نہ فیضؔ کی سی دھیمے سروں میں الاپ۔ شادؔ عارفی نے رسمی طور پر نہ بغاوت کے نعرے لگائے نہ انقلاب کے نغمے گائے، بلکہ اس جذبے کو خلوص کی آگ میں تپایا۔ ’آنچل کو پرچم بنانے ‘‘ کی تلقین کے پس پردہ وہ نسوانی جسم کے حسین نشیب و فراز کے دیدار کا شوق نہیں رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک پرچم ایک ایسے دائمی انقلاب کی علامت تھا جو انسان کی خوش حالی، مساوات اور اخلاقی سر بلندی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ انھوں نے انقلاب کی دستک اس نظام کے چور دروازے پر سُن لی تھی:

یقیں کیجیے، انقلابات ہستی

محلات کے سائے سائے کھڑے ہیں

اور اس لیے وہ ارباب سیاست کو متنبہ کرتے تھے :

جھپٹ پڑیں نہ کہیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سُجھاؤ کہ روشنی کم ہے

شاد عارفی کے طنز کا خاص نشانہ موجودہ سیاست اور سیاست سے متعلق افراد ہیں :

ہر غلط بات پر بھی ہات اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں ہے، شرماؤ

………

کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے

آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے

جنابِ شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بُتانِ دیر کو پروردگار کہتے ہیں

شادؔ کے یہاں اس دور کے عام استعاروں، شمع، سحر، رہبر، رہزن وغیرہ کا استعمال بہ حدِ وافر ہوا ہے، لیکن ان استعاروں کی معنوی تہیں ان کے یہاں عام شاعروں کی بہ نسبت زیادہ ہیں اور یہی وہ وصف ہے جس نے ان استعاروں کو علامتوں کا درجہ دے دیا ہے :

باغباں کو اعتماد گلستاں حاصل بھی ہے

آپ یہ تحقیق فرمائیں گے، اتنا دل بھی ہے

………

وہاں بہاروں کی باغبانوں سے سازشیں بار ور نہ ہوں گی

جہاں خزاں نے اُٹھا دیا ہو سوال کانٹوں کی آبرو کا

………

صحنِ گلشن پہ قفس ایجادو!

’’ راستہ بند ہے ‘‘۔ یہ لکھوا دو

………

مطلع کہا ہے، نظم وطن کا گلہ نہیں

’’ پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں ‘‘

شادؔ عارفی کے یہاں عشق و محبت کی والہانہ کیفیات کا اظہار شاذ و نادر ہی ملے گا۔ انھوں نے اپنی کئی نظموں میں عشق کے جنسی پہلو کی طرف اشارے کیے ہیں اور کہیں کہیں جذبۂ عشق پر طنز کے تیر بھی چلائے ہیں۔ افلاطونی محبت کا دخل تو خیر شادؔ جیسے حقیقت پسند کے یہاں کیا ہوتا لیکن عشق کے Sublimeشستہ اور مہذب احساسات کی نقش گری بھی شاد کے یہاں نہیں تھی۔ عشق کی تپش و خلش اور سوزو گداز سے ان کا کلام نا آشنا ہے۔ کوچۂ محبوب میں انھیں آبلہ پائی کا موقع نہیں ملا یا شاید ان کی افتادِ طبع نے ہی کسی کا فر ادا کی بار گاہ میں سر تسلیم خم کرنے کی اجازت نہ دی۔ وہ کوچہ عشق سے گزرے ضرور ہیں، جیسا کہ خود کہتے ہیں :

دو چار برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

لیکن شاید ان کی تشنگی روح کو وصال کی چھلکتی ہوئی گلابی نصیب نہیں ہوئی۔ حُسن ان کی دسترس سے دور ہی رہا۔ ہو سکتا ہے ان کے لہجے کی تلخی اس محرومی کی پیدا کردہ ہو۔ اپنی مشہور نظم ’’بسنت‘‘میں وہ کہتے ہیں :

وہ چمپئی لباس ہر طرف کہ دیکھ اور ترس

یہ ساریوں پہ رنگ و روپ جس پہ کس کو دسترس

یہ ’’دسترس‘‘ کی بات صرف قافیہ سجا گئی

نہیں یہ قافیہ نہیں برائے بیتِ بے اثر

سُنیں جو نوحہ خواں رہے ہیں اعتبارِ حسن پر

یہ کہہ تو دوں کہ میں بھی ان کا ہم خیال ہوں مگر

وہ پھول توڑتے ہوئے مرے قریب آ گئی

شادؔ عارفی کی دلچسپی حُسن کے وجود سے اتنی نہیں جتنی چمپئی لباس اور ساریوں سے ہے اور نظم کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ حسن پر ان کی دسترس نہ ہونے کی بات ہی حقیقی ہے اور صرف قافیہ نہیں سجاتی۔ کسی کا پھول توڑتے ہوئے شادؔ کے قریب آ جانا محض ایک لمحاتی سانحہ ہے ورنہ وہ بھی انھیں کے ہم خیال ہیں جو اعتبارِ حسن پر نوحہ خواں رہے ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا، شادؔ حسن و عشق کے شاعر نہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں نا مرادیاں اور حقائق کی تلخیاں اس حد تک سرایت کر گئی ہیں کہ خالی خولی رومان کے لیے زیادہ جگہ باقی نہیں رہ گئی۔ شادؔ کو بدلے ہوئے حالات کی گراں باری کا عرفان ہے اور وہ اسی گراں باری کے شاعر ہیں :

شاد! حسن و عشق پر بھی تھی کبھی میری نظر     اک  زمانہ  تھا  مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے   سوچنے کی بات ہے !

جی ہاں، ’’ سوچنے کی بات ہے !‘‘ یہ مستزاد بھرتی کا نہیں ہے۔ جنون لب و رخسار ایک خاص دور میں سب کو ہوتا ہے۔ شادؔ کی نظر بھی کبھی حسن و عشق پر تھی۔ اب غمِ دوراں نے انھیں اس نگاہ سے محروم کر دیا۔ اب وہ ’’ وابستۂ حالات‘‘ ہیں۔ لیکن گزرے ہوئے دوچار ’’ برس‘‘ کی لطیف یادیں ذہن کے کسی تاریک نہاں خانے میں کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح بال فشاں ہوتی ہیں اور انھیں تصورات کی خواب افروز دنیا میں لے جاتی ہیں :

آتے ہی اپنے بستر پر

میں ہوتا ہوں اس کے گھر پر

مجھے تو یہ شعر مومن کے مشہور زمانہ شعر سے کسی طرح کمتر نظر نہیں آتا۔ بلکہ شاید اس میں معنوی پیچیدگی زیادہ ہے جو روح کو نئے امتزاج سے لذت آشنا کرتی ہے اور پھر عاشق کا محبوب کے گھر جانا، بہ نسبت اس کے کہ محبوب عاشق کے گھر آئے، ہمارے ماحول میں زیادہ قرین قیاس اور حقیقی معلوم ہوتا ہے۔

شادؔ عارفی نے غزلیں اور نظمیں دونوں ہی کامیابی کے ساتھ لکھی ہیں۔ دونوں اصناف سخن میں ان کا رنگ منفرد اور کئی معنوں میں اکثر شعرا سے ممتاز نظر آتا ہے۔ ان کے لہجے میں انوکھا پن اور ان کی طرز ادا میں ندرت ہے۔ انھوں نے غزل کو نرم و نازک، دھیمے اور سریلے لہجے کے بجائے بے باک، کھرا اور واضح لہجہ دیا ہے۔ وہ غزل کی اہمیت کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں غزل کی اشاریت سے بھی گہری بات کے ابلاغ کا کام لیا جا سکتا ہے۔ وہ حیات و کائنات کے حقائق و معارف کو زمانے کی ستم انگیزیوں اور نظام حکومت کی چیرہ دستیوں کو غزل میں چابکدستی کے ساتھ سمونے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس کا دعویٰ بھی کرتے ہیں :

تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں

نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں

وہ غزل میں صداقت کی تلخیوں کو بیان کی لطافت کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں :

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی

لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے

ہو سکتا ہے، غزل کے لیے لطافتِ بیان کو وہ لا بدی قرار دیتے ہوں، لیکن خود شادؔ عارفی کے یہاں لطافت کم، البتہ ندرت کم و بیش ہر جگہ ہے۔ ان کی غزل گوئی تقلیدی نہیں جس پر طنز کرتے ہوئے جوشؔ ملیح آبادی نے کہا ہے :

یہ فقط رسمی مقلد وامق و فرہاد کے

مر رہے ہیں آج تک معشوق پر اجداد کے

آج تک غالب ہے ان پر وہ رقیب روسیاہ

کر چکا ہے زندگی جو میر و مومن کی تباہ

پائی ہے ترکے میں ان لوگوں نے ہر لَے ہر صدا

ان کے لب پر بھی وہی ہے جو ولیؔ کے لب پہ تھا

شادؔ اس غزل کے قائل نہیں و جس میں حُسن و عشق کے سطحی اور پست جذبات کا اظہار ہو اور جس کا مقصد محض تفریح یا تفنن طبع ہو:

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہیں بزم عیش میں

اس غزل کا شادؔ کیا، ماحول بھی قائل نہیں

آپ شادؔ عارفی کی کوئی غزل کہیں سے اٹھا لیں۔ آپ کو لہجے میں جدّت اور نیا پن ملے گا۔ ان کے موضوعات میں خواہ بہت چونکا نے والی بات نہ ہو، لیکن ان کے لہجے میں ہمیشہ ایک چونکانے والی کیفیت ملے گی۔ وہ جادۂ عام پر چلنا بھی اسی طرح کسرِ شان سمجھتے ہیں جس طرح آستانِ خواص پر جبہ سائی کو۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی

آپ کے بس میں علاجِ غمِ دوراں ہے کوئی

اپنی مرضی سے تو اگتے نہیں خود رو پودے

ہم غریبوں کا بہر حال نگہباں ہے کوئی

زرد چہروں نے تبسم کو کیا ہے رسوا

ورنہ ظاہر بھی نہ ہوتا کہ پریشاں ہے کوئی

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

شادؔ بھاری بھرکم الفاظ کا سہارا نہیں لیتے، لیکن ان کے اشعار کی معنوی سطح شاید ہی کبھی پست ہوتی ہو۔ وہ سیدھے سادے عام فہم الفاظ میں اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کے قائل ہیں۔ اس سے ان کی غیر معمولی ابلاغی صلاحیت کا ثبوت ملتا ہے۔ رمزیت اور اشاریت ان کی غزلوں کا خاص وصف ہے، لیکن ان میں کہیں ایہام یا پیچیدگی نہیں۔ ایک اور غزل کے اشعار دیکھیے، کتنے سادہ، لیکن کتنے بلیغ!

چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں

سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں

سحر کو شمع جلانے کی بات کرتا ہوں

یہ غافلوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں

روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے

چمن سے لطف اٹھانے کی بات کرتا ہوں

’’ وہ باغبان جو پودوں سے بیر رکھتا ہے ‘‘

یہ آپ ہی کے زمانے کی بات کرتا ہوں

شرابِ سرخ کی موجوں سے مدعا ہو گا

اگر میں خوں میں نہانے کی بات کرتا ہوں

وہ صرف اپنے لیے جام کر رہے ہیں طلب

میں ہر کسی کو پلانے کی بات کرتا ہوں

یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے

کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

نقابِ روئے زمانہ نہ اُٹھ سکے گی کہ میں

گلوں سے اوس اٹھانے کی بات کرتا ہوں

گھسے ہوؤں کو نئی فکر دے رہا ہوں شادؔ

منجھے ہوؤں کو سکھانے کی بات کرتا ہوں

لگے ہاتھوں اس غزل پر قبلہ کلیم الدین احمد کی ’’ عملی تنقید‘‘ بھی دیکھ لیجیے :

’’ بات کرتا ہوں ……بات کیجیے، اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ کوئی نئی بات ہے یا کوئی آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکتا ہے۔ ’’ سمجھ سکو‘‘، نئی فکر دے رہا ہوں ‘‘، ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے اس قسم کی چیزوں کی زیادہ وقعت نہیں :

وہ صرف اپنے لیے جام کر رہے ہیں طلب

میں ہر کسی کو پلانے کی بات کرتا ہوں

ہر کسی کو پلانے کی بات کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بھی بہت سے لوگ یہ بات کرتے ہیں۔ سکنڈ ہینڈ باتوں کو اس شان سے کہنا مذاقِ صحیح و لطیف کی کمی کی غمازی کرتا ہے۔ ‘‘

آپ کو بھی ’’ مزہ ‘‘ تو آیا ہو گا۔ صرف ایک شعر کی بنیاد پر ’’ مذاقِ صحیح و لطیف کی کمی‘‘ کا فتویٰ دے دینا کلیم  صاحب جیسے مفتی کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔ ویسے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’ہر کسی کو پلانے ‘‘ والا شعر اپنے اندر کوئی ندرت نہیں رکھتا۔ ’’ سمجھ سکو‘‘ اپنے منہ میاں مٹھو کی قسم کی چیز نہیں اگر صرف یہ کہا جائے :

چمن میں آگ لگانے کی بات کرتا ہوں

تو عام آدمی ہی نہیں خود کلیم صاحب بھی اسے دماغی خلل پر محمول کریں گے اور شاعر کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ یہ ٹھکانے کی بات ہے۔ غالباً ’’ عملی تنقید‘‘ شادؔ عارفی کی نظر سے نہیں گزری، ورنہ ممکن تھا وہ اس طرح کا کوئی شعر کہہ ڈالتے :

کبھی تو بات کرو تُک کی، جب لکھو تنقید

مرے کلیمؔ! ٹھکانے کی بات کرتا ہوں

شادؔ عارفی سر تا پا، اول تا آخر شاعر تھے۔ انھیں اپنے منصب شعری کی آبرو کا لحاظ تھا۔ کئی گرم و سرد آندھیاں چلیں، بڑے بڑوں نے حالات کے آگے جبینِ نیاز جھکا دی، لیکن شادؔ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ انھوں نے حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھا ہی نہ تھا۔ انھیں اس تلخ حقیقت کا شدید احساس تھا کہ موجودہ دور شعر و ادب کے لیے ناسازگار بنتا جا رہا ہے اور صرف تخلیق فن کے سہارے زندہ رہنا محال ہو گیا ہے۔ انھیں اس امر کا بھی ادراک تھا کہ شاعری جو کبھی ذہنی انقلاب کا سر چشمہ تھی، اب اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے۔ وہ طنزاً دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں :

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

غزل چپکانے سے کیا ہوتا ہے۔ روئی کے گالوں کی طرح نرم و نازک شاعری سے ظلم کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جبر و استبداد سے نبرد آزما ہونے کے لیے شاعر کو اپنے کلام میں تلوار کی تیزی اور تیر کی چبھن پیدا کرنی پڑتی ہے۔ شاد عارفی زندگی بھر یہی کوشش کرتے رہے۔

شادؔ کی شخصیت اور شاعری میں کوئی بعد نہ تھا۔ وہ اوپر سے کچھ اور، اندر سے کچھ اور نہ تھے۔ دنیاوی جاہ و جلال، آرام و آسائش، عزت و منصب، روس و امریکا کا سفر ان کے آدرش نہ تھے۔ اور نہ انھیں محفل خوباں ہی میں سرخرو ہونے کی ہوس تھی۔ وہ اپنے ماحول اور حالات زمانہ کے نبض شناس تھے، اور ایک بہتر، پر سکون، خوش حال زندگی کے نقیب۔ انھیں انسانیت کے ناسوروں کا علم تھا جن کا علاج وہ مرہم سے نہیں، نشتر سے کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان ناسوروں میں بھرے ہوئے فاسد مادے کو خارج کرنا ان کے نزدیک ضرور ی تھا۔ وہ بھی فیضؔ کی طرح سوچتے تھے کہ:

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا

لیکن فیضؔ نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا کہ:

اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں

… … … … … … … … …

ہاں، مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا

شادؔ عارفی غیر ذمہ دار نہیں۔ وہ حالات کا جائزہ صبر و استقلال سے لیتے ہیں اور حقائق سے نظر نہیں چراتے۔ وہ ایک ماہر جراح کی طرح زخموں پر نشتر زنی کرتے ہیں۔ بظاہر بے رحمی کے ساتھ، لیکن ساری کائنات کا درد اپنے سینۂ مجروح میں چھپائے ہوئے :

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے مجھ کو گھور کے دیکھا میں نے اس کو ہنس کر دیکھا

ظاہر ہے کہ یہ ہنسی بڑی تحقیر آمیز ہنسی ہے۔ بیحد دل شکن، زہر کی طرح رگ و پے میں سرایت کر جانے والی۔ تحقیر آمیز طنز کی تلخی غالبؔ کے یہاں بھی ملتی ہے، لیکن جس حد تک شادؔ عارفی کے یہاں ہے، غالباً اردو کے کسی اور شاعر کے یہاں نہیں۔ اس طنز میں وہ نشتریت ہے جو روح کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے :

اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

شادؔ عارفی کے لہجے میں ایک طرح کا اکھڑ پن(Roughness) ہے، جو بے تکلف بات کہنے (Outspokenness) سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کے لہجے میں وہ رسمی تہذیب و شائستگی نہیں ملے گی جس کے ڈانڈے ریا کاری سے ملتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، برملا۔ کسی سے خوف کھاتے ہیں، نہ کسی سے نرمی برتتے ہیں :

ہم سے اس قسم کی امید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

پئے تحسین وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

شادؔ کے انداز بیان میں جو تیکھا پن ہے، اس کی مثال موجودہ اردو شاعری میں کم ہی ملے گی۔ ان کے کلام میں صداقت اور بر جستگی کے ساتھ خلوص بھی ہے اور جذبہ کی گرمی بھی اور اسی لیے وہ بڑی بے باکی سے ڈٹ کر کہتے ہیں :

میں دنیا پر طنز کروں گا

دنیا میرے کیوں درپے ہو

مجھے منصب پیغمبری کی ہوس نہیں، لیکن ادب میں پیشین گوئی کو کچھ اتنا معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل نے جس طرح راندۂ درگاہِ سخن یگانہؔ کو پھر سے کرسیِ منزلت پیش کی، اسی طرح وہ شادؔ عارفی کو بھی مسندِ عظمت پر لا بٹھائے گی۔ شادؔ عارفی کا فن جدید نسل کے احساس اور طرز احساس سے زیادہ قریب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                سید حرمت الاکرام

 

 

شادؔ عارفی کی غزل گوئی

 

شادؔ عارفی اردو کے اُن چند شعراء میں ہیں جن کے لہجہ کی انفرادیت نمایاں تر ہے اور اس میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش نہیں۔ ان کی سخنوری کا دورِ اول غزل و نظم دونوں اصناف کا علمبردار ہے، ’’ وہ فن برائے حیات‘‘ کے پرستار ہیں اور ماحول و حالات کی تلون انگیزیوں کو اپنی شاعری کے آغوش میں سمیٹ لینے کے خواستگار۔ وقت گزرتا رہا اور شادؔ کے ذہن کا لاوا پکتا اور کھولتا رہا۔ یہ لاوا نظموں میں بھی بکھر سکتا تھا مگر ذہن کے ارتکاز نے اسے جوالا مکھی بنانے کے لیے غزل کے قالب کو ترجیح دی اور شادؔ بتدریج نظم کے میدان سے غزل کی وادی کی جانب آتے گئے اور آخر کار غزل ہی ان کی اصل پونجی ٹھہری۔

شادؔ نے اپنی شاعری کے متعلق ضمناً یہ بھی لکھا ہے : ’’ میرا اپنا ایک زاویۂ فکر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ’’ندرت ادا‘‘ میرے نزدیک شعر کی جان ہے، اس لیے میں کسی بھی رنگ میں ندرت ادا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ‘‘ اور بلا شبہ ندرت ادا ہی شادؔ کی شاعری کی جان ہے۔ شادؔ نے انسانی معاشرہ، سیاسی رہنماؤں، سرمایہ داروں، مذہب کے اجارہ داروں نیز ہر اُس فرد، جماعت اور ادارہ کو اپنے طنز کا ہدف بنایا ہے جسے گمرہی میں مبتلا پایا لیکن یہ بات اس سے زیادہ تلخ ہے کہ خود ان کی زندگی ان کے تخلص پر تا دم آخر طنز کرتی رہی اور یہ کیفیت نفسیاتی عوامل کے پیچ و خم سے گزر کر ان کے فن پر سان رکھتی نیز سید عروج زیدی کے الفاظ میں اسے ’’ بال سے باریک اور تیغ سے تیز تر‘‘ بناتی رہی۔ شادؔ کے فن کی کاٹ بڑی گہری اور بھرپور ہے، ان کا نشانہ کم ہی خطا کرتا ہے اور یہی ان کی غزل گوئی کا حاصل ہے، وہ محاذ پر کئی رخ سے لڑنے اور تیر برسانے کے قائل ہیں اور انھوں نے نظم پر غزل کو اس لیے بھی ترجیح دی کہ غزل کی کمان سے بیک وقت کئی کئی تیر پرے جوڑ کر چلتے ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی نشانہ تک لازماً پہنچتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شکار تعداد میں تیروں سے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ ہر تیر ایک ساتھ کئی کئی شکار کرتا ہے۔ شادؔ کی شاعری کاسن جس قدر بڑھتا گیا، ان کے فن کی اس ’ندرتِ ادا‘ کا دائرہ کار بھی اتنا ہی وسیع اور پُرکار ہوتا گیا۔

شاد کا فن اس قدر نازک ہے کہ ان کی لغزش کسی اور کے لیے نقصان رساں ہو یا نہ ہو لیکن خود ان کے لیے خطرہ و ضرر کا موجب یقیناً ہو سکتی ہے۔ طنز نگار کو خواہ وہ شاعر ہو یا ادیب، ہر گام پر نئی مشکلات سے دوچار ہونا اور گزرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی رہگزر کے ایک جانب گہری خندقوں اور دوسری طرف آگ کے دریاؤں کا سلسلہ ہوتا ہے مگر شادؔ نے اپنا سفر بڑی پامردی، تندہی اور سلامت روی سے طے کیا ہے۔ ان کی غزل پورے روایتی آداب و لوازم کی پابند نہیں اور نہ کلیۃً ان عناصر کی حامل ہے جو غزل کے لیے مخصوص کر دیے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں صناعی اور حسن کاری کی کمی ہے لیکن انھوں نے غزل کو وسعت، حرارت اور صلابت دے کر نیز اس کے موضوعات کو زندگی کی بکھری ہوئی نیرنگیوں سے آشنا کر کے تلافی کی بڑی مخلصانہ سعی کی ہے۔ ان کے طنز میں گاہ گاہ مزاح کی چاشنی بھی آ جاتی ہے اور ان پر اکبر کے اتباع کا گمان گزرنے لگتا ہے لیکن در اصل ایسا نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی آواز کی تشکیل و تعمیر میں بڑی مستقل مزاجی سے کام لیا ہے البتہ اس میں تنقیدی کرختگی یقیناً ہے جس سے اجتناب کی کوئی صورت نہیں کیونکہ تنقید اندرونی طور پر بھی ایک نوع کی تلخی رکھتی ہے جس پر الفاظ کی شکر لاکھ چڑھائی جائے لیکن اس کا اصل ذائقہ تبدیل نہیں ہو سکتا اور شادؔ کے یہاں تو غالباً کہیں بھی شکر کی کوئی تہہ ملتی ہی نہیں۔ ان کے شیوۂ حق گوئی نے ’’ چناں و چنیں ‘‘ سے مفاہمت کی ہی نہیں۔ شادؔ کی غزل میں ’’راست ابلاغ‘‘ کی جو انوکھی کیفیت ملتی ہے وہ طنز کے نثری نمونوں میں بھی عموماً مفقود ہے کیونکہ شادؔ اپنے اسلوب کے پس پشت اپنی ضرب کو زیادہ کاری اور شدید بنانے کا مقصد رکھتے ہیں۔

شادؔ نے غزل سے نظم کا بھی کام لیا ہے۔ اس کی نزاکتوں کو ٹھیس لگائی ہے لیکن اس کو جلالت اور توانائی بھی بخشی ہے اور اس کی حنا بستہ انگلیوں کو لپکتی ہوئی تلوار سے بھی مزین کر دیا ہے۔ آج سے کم و بیش پچیس سال قبل کی غزل کو جس کی زلفیں سنوارنے والوں میں یگانہؔ، فانیؔ، فراقؔ، جگرؔ، سیمابؔ، حسرتؔ وغیرہ شامل تھے اور اس کو نیا آب و رنگ دینے کے ساتھ ساتھ دیرینہ روایات کی دلداری بھی پوری احتیاط سے کر رہے تھے، اس کی مخصوص خلوتوں سے اٹھا کر سیاست و معاشرت کے عرصۂ کارزار میں پہنچا دینا ایک ایسا کام تھا جس کی تکمیل شاد ہی جیسے ’’سرفروش‘‘ سے ممکن تھی۔ انھیں میں سرفروش ہی کہوں گا کیونکہ تا حیات ان کے سر پر تلوار لٹکتی رہی لیکن انھوں نے جس اطمینان آمیز بے خوفی کا مظاہرہ کیا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یا تو انھیں اپنی جان عزیز نہیں تھی یا اس کیفیت کا علم و احساس نہ تھا، اگرچہ دونوں میں سے کوئی بات درست نہیں۔ انھیں اپنی جان بھی عزیز تھی اور اس خطرہ کا علم بھی بخوبی تھا لیکن انھوں نے اپنی آن میں کوئی فرق نہیں آنے دیا نہ اپنے رویہ میں لچک پیدا کرنے کے بارے میں کچھ سوچا۔

شادؔ افغانی الاصل ہیں، انھوں نے ایسے ماحول میں پرورش نہیں پائی جس کا شعر و ادب سے کوئی تعلق ہو، ان کے والدین اپنے مذہبی رجحانات میں بڑے سخت گیر اور راسخ العمل تھے چنانچہ رسم زمانہ کے تحت شادؔ کو فارسی اور عربی کی تعلیم دلا کر ’’ مولوی‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن شادؔ کی افتادِ طبع نے روایات کی محکومی قبول نہیں کی اور وہ اپنے دور کے جلو میں آگے بڑھنے لگے۔ انھوں نے انگریزی پڑھنے کی کوشش کی، اگرچہ ہائی اسکول بھی پاس نہیں کر سکے۔ اس اثناء میں شعر گوئی شروع ہو چکی تھی جو برابر پروان چڑھتی گئی۔ ان کی طبیعت میں ضد بلا کی تھی جو ایک صورت میں استقلال پسندی کو فروغ دیتی ہے لیکن اپنا ایک تاریک پہلو بھی رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ ضرور ہے کہ شادؔ اپنی دھن میں اس راہ پر بڑی ثابت قدمی اور سبک رفتاری سے آگے بڑھتے رہے اور نئے میلانات کی تابناکیوں سے ذہن کو جلا دیتے رہے۔ لیکن بقول شخصے شادؔ، شاعر بعد میں ہیں اور پٹھان پہلے جس کی غمازی ان کی پوری شاعری اور پوری زندگی کرتی ہے۔ وقت اور ماحول سے ان کی کبھی نہیں بنی اور نہ سمجھوتے کی کوئی سبیل نکل سکی۔ زندگی کی تلخیاں تیزی سے بڑھتی رہیں اور ان میں گہری تیزابیت آتی گئی۔ ایسی تیزابیت جس نے شادؔ کے پورے وجود کو  جھلسا اور جلا کر رکھ دیا۔

شادؔ کی شاعری میں ان کی زندگی ہر پہلو سے گھلی ہوئی ہے اور زندگی نے ان پر ہر رخ سے یلغار کی ہے، ہر زاویے سے شبخون مارا ہے۔ ان کی حوصلہ مندی، سخت جانی اور عالی ہمتی میں کوئی شبہ نہیں لیکن صبر کا پھل ان کے لیے کبھی میٹھا نہ ہو سکا اور عمر کے ساتھ حالت کی جان گدازیاں نیز ان کے ذہن کی پیچیدگیاں اضافہ پذیر ہوتی گئیں۔ اگر یہ درست ہے کہ محبت میں ناکامی کے شدید تر عمل نے ان کی انتہا پسندی کو ’’ شادی نہ کرنے ‘‘ کے عہد تک پہنچایا تو ان کی شاعری اور ان کے لہجے کی تیزابیت کا بھید پا لینا دشوار نہیں۔ جہاں ان کی زندگی میں کتنی  ہی دوسری تلخیاں تھیں، ایک اس قدر شدید زہر ناکی اور حل ہو گئی جس کے موثرات دور رس ہوتے ہیں اور ہونے ہی چاہئیں۔ شادؔ کو چالیس سال کی عمر میں عہد شکنی ضرور کرنی پڑی اور انھوں نے ماں کے مجبور کن اصرار پر ’’ گھر بسا لیا‘‘ لیکن بعض موقعوں پر ڈوبنے والوں کو دریا کی پایابی کا بھی شکوہ کرنا پڑتا ہے۔ ’’ شریک حیات‘‘ ڈیڑھ سال سے زیادہ ان کا ساتھ نہ دے سکی اور موت کے بے درد ہاتھوں نے ان کے سینہ میں ایک اور گہرا نشتر توڑ دیا۔ تلخ ناکامیوں اور درد انجامیوں نے جس طرح فانیؔ کو اجل سے لو لگانے کی منزل تک پہنچایا تھا، اسی طرح شادؔ کو طنز نگاری کی مد میں لا کر ڈال دیا۔ فانیؔ اور شادؔ کے حالات نیز ان کی نوعیت میں بڑا فرق ہے لیکن یہاں میری مراد محض آلام و حوادث کے تواتر اور ان کی جانگسل شدتوں سے ہے جن میں بڑی حد تک یکسانیت ہے۔ بایں ہمہ شادؔ نے ہتھیار نہیں ڈالے، یلغاروں اور شب خونوں کے مقابل پوری قوت سے صف آرا رہے اور:

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

کے مورچے پر نہ صرف جمے رہے بلکہ اپنے انداز میں حملوں کا جواب بھی دیتے رہے۔ ان کی پوری زندگی تیر کھانے اور غزل کی انی چمکانے میں گزری۔ یہ بالکل درست ہے کہ انھوں نے طنز کی راہ بخوشی اختیار نہیں کی بلکہ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی حمیت آزما نا رسائیوں اور ناخن شکن گتھیوں نے انھیں ’’ غزل چپکانے ‘‘ کا فن اختیار کرنے پر مجبور کیا اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس فن کو ان کے لہو سے جلا ملی۔ لہو جو ماہ و سال کی بھٹیوں میں تپ تپ کر شعلہ بن چکا تھا۔ شادؔ نے اپنے قلب کی تمامتر حرارتیں اس میں سمو دیں ورنہ غزل جیسی صنف جو کبھی کبھی ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے کی مصداق بن جاتی ہے۔ شادؔ کے مذاق سخت کی پذیرائی نہ کر پاتی لیکن غزل نے ان کے بانکپن کو گلے لگایا اور اس کی پیشانی پر کوئی شکن آئی بھی تو اس کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ یہ شادؔ کے ذہنی رچاؤ کا کرشمہ ہے کہ شاعری، ان کی طنز نگاری سے نباہ کر سکی اور اپنے ساتھ شادؔ کو بھی سرخرو ہونے کا موقع دیا۔ شادؔ کی فکر کو ان مراحل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عہد بہ عہد شعلوں اور کانٹوں بھری کتنی راہوں سے گزرنا پڑا ہو گا، اس کا صحیح اندازہ مشکل ہے۔ انھوں نے سوداؔ، نظیرؔ، جرأتؔ، انشاء اور اکبرؔ سے کسی نہ کسی معنی میں اثر ضرور قبول کیا جس کی نشان دہی مختلف شکلوں سے ہوتی ہے لیکن ان کا صل اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان اثرات کو یکجان کر کے نئے سانچے میں ڈھالا اور اپنے لیے وہ بانکپن تلاش کیا جو ان کا اپنا سرمایہ ہے۔

شادؔ کی شاعری میں ان کے مطالعۂ حیات کا عمق بڑی کامیابی کے ساتھ شامل ہے جو ان کے دیدہ و دل کی بیداری کی ضمانت ہے۔ ان کی نکتہ رسی، گرد و پیش کا جائزہ بڑی جابکدستی سے لیتی ہے اور اس کو دو آتشہ بنا کر غزل کے جام میں ڈھال دیتی ہے۔ ان کے یہاں تبصرہ اور بیان دونوں ہیں لیکن ہر مقام پر کوئی نہ کوئی تیکھا پن ضرور پایا جاتا ہے اور یہ تیکھا پن ان کے اور ان کی شاعری کے مزاج میں پورے طور پر رچا ہوا ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاد کی غزل میں اس فضا کا فقدان ہے جسے تغزل کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی تردید کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ حدیثِ کا کل و رخسار اور داستان ہجر و وصال کے شاعر ہیں بھی نہیں، اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے دل پر کوئی چوٹ نہیں کھائی اور لذتِ آزار سے ان کا کوئی واسطہ نہیں پڑا۔ ان کی ابتدائی شاعری میں مومنؔ اور حسرت کی رنگین بیانیوں کی جھلکیاں بڑی نمایاں ہیں جنھیں تقلیدی یا رسمی قرار دے کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

لائے ہیں تشریف تکلیوں پر دلائی ڈال کر

حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

………

جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

………

اٹھ رہی ہیں انگلیاں ہم پر تو کوئی غم نہیں

یہ نتیجہ تھا ہمارا آپ کا سوچا ہوا

………

چھپ چھپ کے جو مصروف دعا میرے لیے ہے

شاید وہ بُتِ ہوشربا میرے لیے ہے

………

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

اک قدم پھولوں پہ اک تلوار پر

کیا لکھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

………

کام کی شے ہیں ’’کروٹن‘‘ کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے، میں اس کا نظارہ کر لوں

………

دل کو دل سے راہ کی بابت میں ایمان سے کہہ سکتا ہوں

اس کوچے سے میں جب گزرا، اس کو دروازے پر دیکھا

………

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں

مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

………

خود بینی کا حق ہے لیکن ہٹ دھرمی سے کام نہ لے

اے کترا کر جانے والے ! کوئی دامن تھام نہ لے

………

کہتے ہیں پوچھا گیا جب چھپ کے رونے کا سبب

درد دل کا کام اس نے دردِ سر سے لے لیا

یہ اشعار شادؔ کی شاعری سے ایک پردہ  سر کاتے ہوئے ملتے ہیں اور یہ سوچنے کا موقع دیتے ہیں کہ ’’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ‘‘، خواہ شادؔ کے الفاظ میں ساتھ کھیلے کی محبت ہی نے آگے بڑھ کر کوئی اور رنگ اختیار کر لیا ہو۔ ان کی شاعری میں احساس کی جتنی شدت ہے اتنی ہی محسوسات کی صداقت بھی ہے۔ چنانچہ کوئی شعروں کے انتخاب سے رسوا ہو سکتا ہے تو شادؔ اپنا راز شعر کہہ کر افشا کر دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے عشقیہ اشعار میں بھی وہی تیکھا پن اور لہجہ کی وہی کھردراہٹ ہے جسے ان کی شاعری کا خاصہ قرار دیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک دبی دبی کسک اور تڑپ بھی پائی جاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ شادؔ نے قیسؔ اور رانجھے کی طرح نہ سہی لیکن بیسویں صدی کے ایک فرد کی مانند محبت کا تجربہ ضرور کیا ہے جس میں بڑی سوزناکی اور گداختگی ہے۔ جس طرح دوسرے معاملات میں ان کی شاعری، زندگی سے قریب رہی ہے، اسی طرح ان کی عشقیہ شاعری میں بھی بڑی با وقار اور توانا ’’ ارضیت‘‘ ہے، خواہ یہ شاعری کسی دَور سے تعلق رکھتی ہو اور بعد میں یہ نقوش کتنے ہی دھندلے کیوں نہ پڑ گئے ہوں۔

ایک دور میں غالب نے بھی عشق کو خلل دماغ سے تعبیر کیا تھا لیکن خود ان کی شاعری حسن و عشق کے تجربات اور ان کی گوناگوں کیفیات سے لبریز ہے۔ اس طرح شادؔ کی عشقیہ شاعری میں بھی وہ تمام عناصر بایں انداز جلوہ گر ملتے ہیں جو کسی ’’ خیالی محبوب‘‘ کے تصور سے ممکن نہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شاعر، الفاظ کا جادو گر ہوتا ہے اور اس کی تخیل آفرینی عجیب تر کرشمے دکھاتی ہے لیکن حقیقت اور تخیل کا فرق ایک ایسی کیفیت رکھتا ہے جو ’’ چھپائے نہ بنے ‘‘ کے ضمن میں آتی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ شادؔ اپنی محبت کے چراغ کو طوفانِ حوادث کے پر زور جھونکوں میں تہِ داماں رکھنے کی رسم کہاں تک ادا کر سکتے تھے۔ چنانچہ غم روزگار کی شدتوں میں اضافہ کے تناسب سے غمِ یار میں کمی آتی گئی، زخم دل کا اندمال تو خیر کیا ہوتا لیکن سینے پر اتنے زخم پڑ چکے تھے کہ اس ایک زخم کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی، البتہ اس امکان کی نفی نہیں کی جا سکتی کہ شادؔ کو زندگی کی دوسری آسودگیاں اور آسائشیں میسر آ جاتیں تو محبت کا یہ پودا بالیدگی و نمو کی منزلیں طے کر کے گھنا اور تناور درخت ہو سکتا تھا۔

گزشتہ ربع صدی کے دوران خود ہمارے ملک نیز کرۂ ارض کے مختلف خطوں میں انقلاب آفریں ہنگامہ آرائیوں اور ہیجان انگیزیوں نے ایک خطرناک تسلسل کے ساتھ سر ابھارا ہے، قدیم تہذیبی و ثقافتی اقدار کی دھوپ ڈھلنے اور جاگیر دارانہ قوتوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی مگر اس عمل نے افراط و تفریط کی جن کیفیات کو جنم دیا ہے ان میں ہمواری و استواری کے آثار تا حال نظر نہیں آتے۔ ہر تبدیلی لائقِ استقبال نہیں ہوتی لیکن انسان فطرتاً تنوع پسند واقع ہوا ہے، چنانچہ ایک وقفہ گزرنے کے بعد رسوم و ضوابط اپنے طویل تواتر کی بنا پر نا خوشگوار معلوم ہونے لگتے ہیں اور ان میں ترمیم کی خواہش غیر شعوری انداز سے انگڑائیاں لینے لگتی ہے، نتیجتاً نئے مسائل سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور انسانی ذہن و فکر کو چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ دور حاضرہ نے اس قسم کے چیلنجوں کو قبول کرنے والوں کی فہرست میں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کو بھی شامل کر دیا ہے اور اس طرح ان کی ذمہ داریاں اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی ہیں۔ شادؔ کی شاعری یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے بھی اس چیلنج کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے لیکن اسی کے دوش بدوش وہ خود بھی چند نئے سوالات پیش کرتے ہیں جن کا جواب غالباً وقت اور تاریخ کے علاوہ اور کوئی نہیں دے سکتا۔

کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شادؔ نوع انسان کے مستقبل کے ساتھ خود اپنے مستقبل سے بھی مایوس ہیں اور زندگی سے بیزار لیکن یہ کیفیات عارضی ہوتی ہیں ورنہ ان کی شاعری کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے اور ان کے یہاں رجائیت کے بجائے یاس پرستی، بلند عزمی کے بجائے پست حوصلگی اور ضبط و استحکام کے بجائے فرار پسندی کی شدت ہوتی، نئی سحر کی آرزو اور اجالوں سے پیار کے بجائے تاریکیوں کی گود میں جی لینے پر قناعت کرنے اور سچائی کی پرستاری کے بجائے کذب آفریں ماحول سے نباہ کر لینے کی بات ہوتی جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انھیں طنز کے میدان میں آنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی لیکن شادؔ کے دل کی گہرائیوں میں بسنے والا انسان تا دم آخر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ سانسیں لیتا رہا، وہ کسی برائی سے مصالحت کر ہی نہیں سکتا تھا، اس کی طبیعت میں کوئی لچک تھی ہی نہیں، وہ ایسے درخت کی مانند تھا جو طوفان میں ٹوٹ تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا اور اسی لیے شادؔ کا راستہ بھی دوسروں سے جدا گانہ رہا، شادؔ کا فن کیا ہے ؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے ضمناً ان کے چند نمائندہ اشعار کا مطالعہ ناگزیر ہے :

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا

………

التماس حال پر کچھ اور تڑپایا گیا

یعنی کم ظرفوں کا طرزِ فکر اپنایا گیا

………

دم گھٹنے کی بات الگ ہے

طوق گلو کو زیور کہیے

………

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

………

جس نے گھور کے مجھ کو دیکھا میں اس کو ہنس کر دیکھا

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

’’ چور کی داڑھی میں تنکے ‘‘ کا منظر اکثر اکثر دیکھا

میرے ’’ رہزن‘‘ کے فقرہ پر راہنما نے مڑ کر دیکھا

شہرِ طرب کی روشنی محلوں کو جگمگا گئی

گھر جو سیاہ پوش تھے ان سے نظر بچا گئی

دولت انبساط دل تیرا بھی اعتبار کیا

اس کو فریب دے گئی اس سے فریب کھا گئی

ساقی باخبر کو بھی شاد مری خبر نہ تھی

میری نگاہِ التجا میرا پتہ بتا گئی

………

میں تو غزلیں کہہ کر دل بہلا لیتا ہوں لیکن وہ؟

شہر سخن میں بد نامی سے بے پروا ہوں، لیکن وہ؟

جاڑے کی وہ بھیگی راتیں گرمی کے یہ جلتے دن

یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں، لیکن وہ؟

منھ پر کوئی رسالہ ڈھک کر سو جانے کا دھار کے روپ

ہمسائے میں اس کی باتیں میں سنتا ہوں، لیکن وہ؟

………

اصطلاحاً برے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

اس میں میرے سکھانے کی کیا بات ہے

جس نے برتا تمھیں بے وفا کہہ دیا

اس کو اندازۂ بے نیازی نہیں

جس نے خمیازہ التجا کہہ دیا

اب وہاں ہوں رواداریوں کی قسم

جو کہا سن لیا، جو سنا کہہ دیا

………

رہبروں میں کچھ اور ہوں کہ نہ ہوں

آدمی ہوں بڑے گھرانوں کے

………

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلان ضرورت دیں گے

………

اوج دینے کے لیے تلخیِ معروضات کو

سوئے افسانہ گھما دیتا ہوں سیدھی بات کو

دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھا دینے کے بعد

آدمی تکلیف پہنچاتا ہے اپنی ذات کو

………

بے کسی میں سابقہ پڑنے سے اندازہ ہوا

آپ کو میں دوست سمجھا تھا بڑا دھوکا ہوا

………

غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ

پھر اعتراض ناقد فن آزما کے دیکھ

………

کسی کے حسن سماعت پہ چوٹ ہے یہ بھی

کہ ہم فسانۂ غم بار بار کہتے ہیں

………

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

………

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ اشعار رہا ہے !

………

فن برائے فن کا رجحانِ کہن میری طرف

شال کے اندر بڑھاتا ہے کفن میری طرف

………

پہنچی ہیں مرے طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر

یہ کیا کہ فقط آپ برا مان رہے ہیں

………

زمانہ ساز کے ہونٹوں کو کیوں برا کہہ دوں

مرا مزاج تو یہ ہے کہ برملا کہہ دوں

شادؔ کی شاعری میں جو خامیاں اور بے اصولیاں ہیں، فن اور زبان کی روایات سے جو انحراف ہے، دیرینہ ضوابط کو توڑنے کا جو عمل ہے، اس کی تاویل سعیِ رائیگاں سے زیادہ اور کچھ نہیں کیونکہ ان کی طبیعت میں بغاوت کا جو جذبہ پایا جاتا ہے یہ اس کے لازمی نتائج ہیں۔ چنانچہ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان کی شاعری کا رخ طنز کی جانب نہ مڑا ہوتا اور وہ غزل کے بجائے نظم کو اپناتے تو ایک باغی اور انقلابی شاعر ہوتے۔ شادؔ سے بندشوں اور پابندیوں میں گھر کر رہنے اور لگے بندھے قاعدوں پر چلنے کی توقع کی ہی نہیں جا سکتی۔ ان کا فن اور مزاج دونوں ایک ایسی ندی کی حیثیت رکھتے ہیں جو صرف میدانوں کی نرم مٹی ہی کو نہیں کاٹتی بلکہ اپنے بہاؤ میں مائل ہونے والی دیو پیکر چٹانوں کو بھی بے دردی سے مسل کر راہ بنا لیتی ہے۔ شادؔ نے غزل کی دنیا میں جس طرح اپنے لیے ایک علیحدہ ڈگر بنائی، اسی طرح اپنی شاعری کے لیے ایک ’’ زبان‘‘ بھی وضع کی، ترکیبوں اور محاوروں کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق نیا پیرہن دیا، استعاروں، تلمیحوں اور کنایوں کو نئے معانی دِیے، نہ یہ ممکن ہے نہ ضروری کہ ان کے اجتہادات سے تمام ادبی حلقے متفق ہوں لیکن ان کی غزل گوئی اردو شاعری کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ایسے کسی موڑ کی اہمیت کا اعتراف نہ کرنا آئین انصاف کے منافی ہے۔ ہمارے قافلوں کو اس موڑ پر رکنا اور رک کر بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                احمد جمال پاشاؔ

 

 

 

شادؔ عارفی

 

شاد عارفی کی موت ایک عہد کی موت ہے، اس عہد کی موت جس میں یہ پیر طناز وقتی مصالح سے بے نیاز ہو کر نہ صرف بڑی بے باکی کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر ادا کرنا تھا بلکہ فکر پر طنز کے تازیانے لگانے کے لیے اکثر جارحانہ تنقید کی حدود سے بھی گزر جاتا تھا۔ اس شاعرِ زہر خند کی شاعری کا عرصہ ہماری معاشرتی زندگی کی نصف صدی کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔

شادؔ عارفی کا کارنامہ ہے کہ انھوں نے درباری ماحول میں آنکھ ضرور کھولی مگر نظیر اکبرآبادی کی طرح اس گھٹے ہوئے ماحول میں سانس نہ لی، بلکہ اپنی دنیا الگ بنائی اور زندگی بھر خونِ جگر سے اُس کی لالہ کاری میں مصروف رہے، ایک محتاط انداز کے مطابق مزاج کے اعتبار سے معاصرین میں اُن کے حریف صرف یگانہؔ چنگیزی سمجھے جاتے ہیں مگر سماجی اقدار، تہذیب اور معاشرت کے تاریک گوشوں تک پہنچنے اور سماجی عدم توازن کو ہدفِ ملامت بنانے میں شادؔ عارفی ان سے کہیں زیادہ بلند و بالا نظر آتے ہیں۔

شادؔ عارفی کا نام احمد علی خاں اور عرفیت لڈن تھی، ۱۹۰۰ء میں لوہارو میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد تھانے دار تھے۔ شادؔ عارفی کا دادیہال افغانستان اور نانہال رامپور تھا۔ ابتدائی تعلیم لوہارو میں ہوئی۔ ۱۵ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھنے کے بعد رام پور آ گئے اور ٹیوشن کر کے کسی نہ کسی طرح پڑھائی جاری رکھی۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ شروع میں شفقؔ رام پوری اور جلیلؔ مانکپوری سے اصلاح لی۔ ان کی پہلی نظم ’’ اضطرار‘‘ ہمایوں (لاہور) میں چھپی تھی۔ نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ سماج‘‘ ۱۹۴۶ء میں علی گڑھ سے چھپا۔ ۱۹۵۶ء میں انجمن ترقی اردو نے شعرا کے انتخابی سلسلہ میں ان کا کلام چھاپا۔ اس کے بعد ’’ جشن شادؔ عارفی‘‘ کے موقع پر صولت لائبریری رام پور نے ان کا انتخاب کتابی صورت میں پیش کیا اور ایک طویل علالت کے بعد ۸؍ فروری ۱۹۶۴میں وہ اپنے وطن رام پور میں انتقال کر گئے۔

شادؔ عارفی نے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتیں بھی کیں، ۴۰ سال کی عمر میں شادی بھی کی مگر ڈیڑھ سال بعد اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔

’’ شاد عارفی کی شاعری اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے اس مخصوص مزاج کو سمجھنا ضروری ہے جس میں افغانستان کا خمیر، رام پور کی ہوا اور پنجاب کا پانی ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی زندگی کے علاوہ کلام میں بھی ایک جھلّاہٹ آ گئی تھی۔ زندگی کی ناکامیوں، اعزا اور احباب کی بے وفائی، زمانہ کی سرد مہری اور ناسازگار حالات نے اس پر جِلا کر دی۔ شادؔ عارفی پرانے ’’ نیشنلسٹ‘‘ اور ایک زمانے میں کانگریسی تھے، مگر بعد میں اُن کے سیاسی خیالات تبدیل ہو گئے تھے۔

اُن کی صحت کی مسلسل خرابی، طبیعت کا کھرا پن، خود داری، مسلسل افلاس اور آزمائش نے جہاں اُن کو ایک مخصوص مزاج عطا کیا وہاں اُن کی شاعری میں اس سے جلا بھی پیدا ہوئی۔ تخلیق کی لگن اور فنکار کے اندر کی آگ نے اُن کو ہر چیز سے بے نیازکر کے اُن میں نوجوانوں سے زیادہ زندگی کا حوصلہ اور خوش آئند زندگی کی آرزو اور فانیؔ کی قنوطیت کی جگہ ایک عجیب انداز کی رجائیت پیدا کر دی۔ اپنے آپ کو غرق شراب ناب کرنے یا حکایت گل و بلبل کا سوز خواں بننے کے بجائے انھوں نے نظام اخلاق اور سماج کی کہنہ روایات، فرسودہ خیالات اور معاشرتی خامیوں کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا، اس طرح اپنی ذات کے غم کو شہر آشوب زمانہ بنا کر اور زندگی کی تلخیوں کو طنز کے تیر و نشتر میں سمو کر ان نشتروں سے سماج کی خامیوں پر ایک ماہر سرجن کی طرح جراحی کا عمل کیا۔ انھوں نے سیاسی اور سماجی خامیوں پر بڑے جارحانہ انداز میں طنز کیے ہیں مگر اس طنز میں انسان دوستی اور ہمدردی کے عناصر بہت نمایاں ہیں ان کی نظر میں انسانیت کے اعلیٰ آدرش ہیں جن پر پورا نہ اُترنے والے حالات اور کیفیات ان کے طنز کی زد پر آتی ہیں۔ ان کے یہاں طنز خالص شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے جس میں جھلاہٹ اور کڑوے پن کے ساتھ ایک تیکھا پن ضرور ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو اُن کے دوسرے معاصرین سے ان کو ممتاز کرتی ہے۔ ان کو دکھتی رگیں پکڑنے اور سنگی لگانے کا فن آتا ہے یہاں اُن کا قلم پٹھان کا نیزا بن کر جگر کے پار ہو جاتا ہے۔ اُن کے یہاں خیر و شر کی کشمکش میں ہمیشہ بدی کا منہ کالا ہوتا ہے اور اصلاح کا پہلو اُجاگر ہو جاتا ہے۔ اسی رنگ کی وجہ سے طنز یہ شاعری پر ٹھپہ سب سے الگ اور نمایاں ہے۔ اپنی شاعری کے بارے میں خود لکھتے ہیں۔ ’’ میرا اپنا ایک مخصوص زاویۂ نظر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ندرت میرے نزدیک شعر کی جان ہے۔ ‘‘ اس طنز کا نشانہ انھوں نے سماج سے لے کر ارباب حل و عقد تک سب کو بنایا۔ ان کے کلام میں زہر کی تلخی ضرور ہے مگر تصنع اور بناوٹ سے اُسے کوئی لگاؤ نہیں۔ قدم قدم پر وہ کھوکھلے انسانوں، نمائشی لیڈروں، وقتی مصالح، مادہ پرستی اور معاشرے کی جملہ خامیوں پر فکر کے تازیانے لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں شاعری اُن کے لیے لذت کے بجائے عبادت معلوم ہوتی ہے جس میں وہ گدگداتے نہیں بلکہ طمانچے لگاتے ہیں۔ تنقید کا یہ جارحانہ انداز خالص فطری ہے۔ اس شاعری میں سماجی حقیقت نگاری اور حب الوطنی کے بڑے اچھے مرقعے ملتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں ہمارے معاشرے کے منفی پہلوؤں کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ شاد عارفی نے ایک ہزار مثالی کردار نظم کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کے بعض کردار بلاشبہ ہمارے طنزیہ شعری ادب میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں۔ تو دیکھیے یہ شعر بھی شادؔ عارفی کا ہے :

چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

شادؔ عارفی کے آرٹ کا کمال اُن کی نظموں ’’ اندھیر نگری‘‘، ’’نوکرانی‘‘، ’’ رنگیلے راجا کی موت‘‘، ’’ جبر و قدر‘‘، ’’ بیٹے کی شادی‘‘، ’’ مشورہ‘‘، ’’ ساس‘‘، ’’مہترانی‘‘، ’’ ان اونچے اونچے محلوں میں، ’’ پرڈیوسر‘‘، ’’ شوفر‘‘، ’’ فلمی محبت‘‘ اور ’’ آپ سے ملیے ‘‘ میں اپنے فن کی معراج پر ہے جس میں جاگیر دارانہ نظام کی لعنتوں، پرانے گورکھ دھندوں، ظالم و مظلوم کی کشمکش، فرسودہ رسم و رواج، جہیز، فضول خرچی، چھوت چھات، عدم مساوات، فلمی دنیا کے نشیب و فراز، خوشامد اور چھوٹے چھوٹے سماجی مسائل کو بڑے حسن و خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

’’آپ کی تعریف‘‘ آپ بھی سنیے :

لگ چکا ہے ان کی داڑھی کو کلف

یہ غلامانِ سیاست اقتدار

قوم کے کاندھوں پہ رہتے ہیں سوار

دیکھنے میں ہستیِ معقول بھی

’’ پردہ دار عیب‘‘ زریں جھول بھی

چغلیاں کھاتے ہیں کردار و عمل

عقل کو لاحق ہے ’’ کرسی کا ظل‘‘

دیکھنا تالی پٹے گی ہر طرف

لگ چکا ہے ان کی داڑھی کو کلف

شادؔ عارفی کے طنزیہ کلام میں اُن کی نظموں کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اُن کے قطعات کی ہے۔ اُن کے کلام کے کچھ نمونے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے :

بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی

غرور و عجز میں رشتہ؟ سماج بکتی ہے

کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ

نکاح عیب سمجھتی ہے، بھاگ سکتی ہے

………

ہیں یہی آباد کارانِ وطن تو ایک دن

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

………

رامو سو پر دو لیتا ہے

گیہوں بو کر جو کاٹے گا

منہ سے خون تو لگ جانے دو

دو بوئے گا سو کاٹے گا

………

منحصر تھا وقف کی رقموں پہ عیشِ خانقاہ

ساقیانِ سیم ساق و مطرب زہرہ نگاہ

لیکن اس عہدِ زوال خسروی  میں بالعموم

مقبروں کے مہتمم ہیں حضرت عالم پناہ

………

جوان شاعر تو شادؔ اس لغویت سے دامن چھڑا چکے ہیں

مگر ضعیفوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانیِ رفو کا

………

ہمارے شاعر غلط بیانی سے آج بھی کام لے رہے ہیں

وہ کون محبوب ہے کہ جس کے دہن نہیں ہے، کمر نہیں ہے

………

سوال اس میں نہیں حسینوں کو بُت نہ کہیے۔ ضرور کہیے

مگر بعید از قیاس ہو جائے گا کہ پتھر بھی بولتا ہے

………

شراب و شاہد کے تذکرے ان سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

………

اُن کی خدمت میں مرا ہر طنز شادؔ

بے محابا، فی البدیہہ و برمحل

………

ستمگر کو میں چارہ گر کہہ رہا ہوں

غلط کہہ رہا ہوں مگر کہہ رہا ہوں

مجھے آج کانٹوں کا منھ چومنے دو

بہاروں کا رخ دیکھ کر کہہ رہا ہوں

………

اور تو کیا یہ نمک خوارِ سیاست دیں گے

ذہنِ سرکار کو تعریف کی رشوت دیں گے

آپ کے دوست اگر آپ اجازت دیں گے

پاس بیٹھے ہوئے ترغیبِ حماقت دیں گے

………

گھری باتیں باندازۂ سخن کہہ دوں تو کیا ہو گا

عدوئے جان و تن کو جانِ من کہہ دوں کیا ہو گا

اندھیرے کو اندھیرا ہی کہیں گے دیکھنے والے

سوادِ شام کو صبح وطن کہہ دوں تو کیا ہو گا

…………

چاہتا ہوں فائدہ سرکار کا

جائزہ لیجے مری گفتار کا

میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا

کیا بگڑتا ہے مگر میخوار کا

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابر گوہر بار کا

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں مُنہ آپ کی تلوار کا

بعض احمق تک رہے ہیں آج تک

آسرا گرتی ہوئی دیوار کا

جب سے پی ہے پی رہا ہے آج تک

شیخ بھی ہے آدمی کردار کا

………

روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے

چمن سے لطف اُٹھانے کی بات کرتا ہوں

………

جنابِ شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بتانِ دیر کو پروردگار کہتے ہیں

………

فسانۂ ستم بڑے ہُنر سے کہہ رہا ہوں میں

چناں چنیں کے ساتھ اگر مگر سے کہہ رہا ہوں

………

وقت کیا شے ہے پتہ آپ کو چل جائے گا

ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھیں گے تو جل جائے گا

کہیں فطرت کے تقاضے بھی بدل سکتے ہیں

گھاس پر شیر جو پالو گے تو پل جائے گا؟

………

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

………

کیا کسی نوازش کی پول کھول دی میں نے

آنکھ جھینپتی کیوں ہے کیوں زباں بہکتی ہے

………

یاد ہیں جس شخص کو صحرا نوردی کے مزے

دوسروں کے پاؤں میں کانٹے چبھونے سے رہا

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید