FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا جریدہ

سہ ماہی

سَمت

شمارہ ۵۸، اپریل تا جون ۲۰۲۳ء

مدیر: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

جریدے کا نمونہ پڑھیں …..

اداریہ

مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

اس بار مجھے امید کم تھی کہ یہ شمارہ وقت پر نکل سکے گا، لیکن الحمد للہ، وقت کے خلاف اس دوڑ میں کامیابی حاصل ہوئی، اور یہ شمارہ وقت پر آپ کی نظروں میں پہنچ رہا ہے۔ اس کی وجہ تو ذاتی تھی، لیکن واقعی بہت اہم بلکہ عہد ساز۔ وہ یہ کہ مارچ کی ۱۳ تاریخ کو میں امریکہ ہجرت کر کے آ چکا ہوں۔ اگرچہ وطن سے تعلق تو کافی حد تک باقی ہے، لیکن وطن سے رخصتی اور وطنِ نو میں سیٹل ہو جانا، اور پھر رمضان کے مبارک ماہ کی آمد اور اس کے اپنے اوقات کار!! بہر حال۔

سَمت کی ایک انفرادیت اس کے ضخیم گوشے بھی درست طور پر مانے جاتے ہیں لیکن ایک عرصے سے یہ گوشے محض یاد رفتگاں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ زندہ ادیبوں پر گوشوں کا ارادہ کرتا بھی ہوں تو رفتگاں کی روحیں دامن پکڑ لیتی ہیں۔ خالد حیدر، مرتب ’امروز‘ علی گڑھ نے تازہ شمارے میں یہ شعر اپنے ادارئے میں لکھا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسی کو یہاں بھی آپ کے ساتھ ساجھا کروں:

کہانی ختم ہوئی، اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

تو یہ فریضہ اس بار بھی انجام دیا گیا ہے، اور نتیجے کے طور پر کچھ دائمی سلسلے روک دینے پڑے، جن کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ مثلاً قیصر نذیر خاور جو اپنے ترجموں کے لئے ہی جانے جاتے رہے ہیں، ان کے تین ترجمے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’گاہے گاہے باز خواں‘ کے تحت بھی اجمل کمال کا ایک ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لئے  ’مانگے کا اجالا‘ کے تحت ترجموں کے شمول کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یاد رفتگاں  کے تحت امجد اسلام امجدؔ کو یاد کیا گیا ہے جو بیک وقت اپنی شاعری، ڈراموں اور کالموں کے لئے مشہور تھے۔ (ان  کی نعت کو ’عقیدت‘ کے گوشے میں ہی شامل کیا گیا ہے) ہندوستان کے دو بڑے ہندوستانی افسانہ نگار شموئل احمد اور ابن کنول بھی داغ مفارقت دے گئے، ان کی بھی مختلف انواع کی تخلیقات شامل شمارہ ہیں۔ پاکستان کے قیصر نذیر خاور کے علاوہ آواز کی دنیا کے شاہ ضیاء محی الدین کی جدائی کا زخم بھی کاری ہے۔ ان کی آواز تو شمارے میں شامل نہیں کی جا سکتی، لیکن ان کا ایک مضمون ضرور مل سکا جسے ان کی یاد میں زینتِ شمارہ کیا گیا ہے۔

اردو صحافت کی دو صدیاں گزر چکی ہیں، اور دوسری صدی  کی  تقریبات منائی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں دو مضامین بھی شامل اشاعت ہیں۔

سرورق کی تصویر مریم تسلیم کیانی کی بنائی ہوئی ہے اور ان کے شکرئے کے ساتھ شامل کی گئی ہے۔

امید ہے کہ یہ شمارہ آپ کو پسند آئے گا۔ ا۔ ع۔

عقیدت

نعت ۔۔۔ امجد اسلام امجد

شہرِ نبیﷺ کے سامنے آہستہ بولیے

دھیرے سے بات کیجیے، آہستہ بولیے

اُن کی گلی میں دیکھ کر رکھیے ذرا قدم

خود کو بہت سنبھالیے، آہستہ بولیے

ان سے کبھی نہ کیجیے اپنی صدا بلند

پیشِ نبیﷺ جو آیئے، آہستہ بولیے

شہرِ نبیﷺ ہے شہرِ ادب کان دھر کے دیکھ

کہتے ہیں اس کے راستے، آہستہ بولیے

ہر اک سے کیجیے گا یہاں مسکرا کے بات

جس سے بھی بات کیجیے، آہستہ بولیے

آداب یہ ہی بزمِ شہِ دو جہاں کے ہیں

سر کو جھکا کے آئیے، آہستہ بولیے

امجدؔ وہ جان لیتے ہیں سائل کے دل کی بات

پھر بھی جو دل مچل اُٹھے، آہستہ بولیے

٭٭٭

گاہے گاہے باز  خواں

غزل ۔۔۔ رئیس فروغ

آنکھیں جس کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا

رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوتے رستوں میں

میں تم سے ایک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا

اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

مرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا

دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر میں

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا

ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا

فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا

یہ مرے پودے، یہ مرے پنچھی یہ مرے اچھے اچھے لوگ

مرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا

ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا

ترے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا

٭٭٭

اندھیرے میں چونکنا ۔۔۔ ریشارد کاپوشِنسکی / اجمل کمال

انگریزی سے ترجمہ

 

سویرا اور شام کا جھٹ پٹا افریقا کے دن کا بہترین وقت ہیں۔ دن میں شدید دھوپ ہوتی ہے، لیکن یہ دو وقت جینے کی مہلت دیتے ہیں۔

تفاخر کا اشارہ

ہم سابیتا آبشار کی طرف جا رہے ہیں جو ادیس ابابا سے پچیس کلومیٹر دور واقع ہے۔ ایتھیوپیا میں ڈرائیو کرتے ہوے آپ کو مسلسل سمجھوتے کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ سڑکیں پرانی اور تنگ ہیں اور گاڑیوں اور لوگوں سے بُری طرح بھری رہتی ہیں، اور ان سب گاڑیوں اور لوگوں کو کسی نہ کسی طرح جگہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ڈرائیور کو (یا گلّہ بان کو یا مسافر کو) ہر وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ، کوئی نہ کوئی رکاوٹ، کوئی نہ کوئی آزمائش درپیش رہتی ہے: سامنے سے آنے والی گاڑی کی زد سے کیوں کر بچا جائے؟ اپنے مویشی (بھیڑیں یا اونٹ) ہنکاتے ہوے ان بچوں یا معذور لوگوں کو کچلے جانے سے کیسے بچایا جائے جو ہر طرف رینگتے پھر رہے ہیں؟ کسی لاری کے پہیوں تلے آنے سے بچتے ہوے سڑک کس طرح پار کی جائے؟ اُس بیل کی ٹکر سے بچنے کے لیے کس لمحے راستے سے ہٹ جانا چاہیے؟ اور کیا اس عورت کو، جو سر پر بیس کلو وزنی بنڈل اٹھائے جا رہی ہے، واقعی اپنی گاڑی سے ٹکرانے سے بچایا جا سکے گا؟ اس کے باوجود نہ کوئی طیش میں آتا ہے نہ گالیاں دیتا ہے۔ چیخنے، کوسنے یا دھمکانے کی آوازیں بالکل سنائی نہیں دیتیں۔ ہر شخص خاموشی سے، صبر سے اپنے اپنے طور پر، مڑتا، بچتا، بچاتا، دائیں بائیں جھکولے کھاتا اور لہراتا چلتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ راستے میں ٹریفک اگر پھنس جائے تو اس کا حل دوستانہ انداز میں ایک ایک ملی میٹر آگے بڑھتے ہوے نکالا جاتا ہے۔

سابیتا آبشار سے گرنے والا دریا ایک کٹے پھٹے پتھریلے درّے میں سے بہہ کر آتا ہے۔ یہاں دریا کم گہرا اور چٹانوں اور تیز دھاروں سے بھرا ہوا ہے۔ پھر وہ نیچے کی طرف جھکنا شروع کرتا ہے، یہاں تک کہ آبشار کی تیز نوکیلی کگر پر پہنچ جاتا ہے۔ ٹھیک اس مقام پر ایک کم عمر، تقریباً آٹھ سالہ، ایتھیوپیائی لڑکا اپنی روزی پیدا کرتا ہے۔ وہ آبشار سے کچھ فاصلے پر دریا کے کنارے پہنچتا ہے۔ وہ وہاں جمع ہونے والے سیّاحوں کے سامنے کپڑے اتار کر دریا میں چھلانگ لگاتا ہے اور پلک جھپکتے میں پانی کے تیز دھارے کی زد میں آ کر دریا کی پتھریلی تہہ پر پھسلتا ہوا کگر کی طرف جانے لگتا ہے، اور اس آخری نقطے پر پہنچ کر ڈرامائی انداز سے رُک جاتا ہے۔ تماشائیوں کے منھ سے دہشت اور تسکین کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ پھر وہ اٹھتا ہے اور مڑ کر بہاؤ کے خلاف چلتا ہوا اوپر چڑھنے لگتا ہے، اس کا بے لباس پچھایا نمایاں طور پر تماشائیوں کے ملاحظے کے لیے اٹھا ہوتا ہے۔ کیا یہ تحقیر کا اشارہ ہے؟ یا ہتک کا؟ حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ نمائش دراصل فخر کا اظہار ہے (اور تماشائیوں کے لیے تسلّی کا باعث بھی بنتی ہے) __ اس کے کولھوں کی کھال دھوپ میں جل جل کر اتنی سیاہ اور پکّی ہو گئی ہے کہ دریا میں آبشار کی طرف پھسلتے ہوے چٹانوں کے نوکیلے سروں سے رگڑ کھانے سے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ یہ کھال سچ مچ اُن جوتوں کے تلوں جیسی سخت دکھائی دیتی ہے جو پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔

ایک عظیم فوج کی تباہی

اگلے دن ہم ادیس ابابا کے ایک قید خانے کے باہر کھڑے ہیں۔ پھاٹک کے باہر ٹین کی چھت کے نیچے لوگوں کی ایک قطار قید خانے کے کھلنے کی منتظر ہے۔ جیل کی دیوار سے لگ کر کھڑے ننگے پاؤں اور ادھ ننگے مرد قید خانے کے دربان ہیں۔ حکومت اس قدر غریب ہے کہ انھیں وردیاں مہیا نہیں کر سکتی۔ ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان دربانوں کے پاس ہمیں اندر جانے کی اجازت __ یا واپس لوٹ جانے کا حکم __ دینے کا اختیار ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر کے صبر سے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ آپس میں باتیں کرنے سے فارغ ہو لیں۔

قید خانہ خاصا پرانا ہے۔ اسے اطالویوں نے بنوایا تھا اور بعد میں ماسکو کی حمایت یافتہ مینجستو حکومت نے اسے اپنے مخالفوں کو قید کرنے اور اذیتیں دینے کے لیے استعمال کیا۔ پھاٹک کے اوپر بہت بڑا ستارہ بنا ہوا ہے اور ہتھوڑے اور درانتی کا جانا پہچانا نشان ہے۔ قید خانے کے احاطے میں ہمیں کارل مارکس کا سینے تک کا مجسمہ لگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آج ملک کی موجودہ حکومت نے یہاں مینجستو کے قریبی ساتھیوں __ سنٹرل کمیٹی کے سابق ممبروں، سابق وزیروں، سابق فوجی جرنیلوں اور سابق پولیس اہلکاروں __ کو قید کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں __ جب مینجستو کا تختہ الٹا گیا اور وہ ٹھیک آخری لمحے پر جان بچا کر زمبابوے بھاگ گیا __ اس کی حکومت کو سترھواں سال تھا۔ اس لمحے تک اس نے __ ماسکو میں بیٹھے اپنے دوستوں کی مدد سے __ صحارا کے جنوب کے علاقے کی طاقتور ترین فوج تیار کی تھی: چار لاکھ نفر پر مشتمل فوج، جس کے پاس دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ میزائل اور کیمیائی ہتھیار تھے، اور جس کا مقصد  شمالی پہاڑی علاقوں (اریٹریا اور ٹائیگر) اور جنوب کے علاقے (اوگادن) میں گوریلا فوجیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ گوریلا سپاہی ننگے پیر کسان تھے: ان میں بہت سے کم عمر بچے تھے، ان کے پاس ڈھنگ کے ہتھیار نہیں تھے، پیٹ خالی تھے اور بدن پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ لیکن ۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں انھوں نے اس طاقتور فوج کو ادیس ابابا کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کر دیا، اور یوروپی باشندے ایک دہشت ناک قتلِ عام کے اندیشے سے فرار ہو گئے۔ لیکن ایسا کوئی قتلِ عام نہیں ہوا۔ جو کچھ پیش آیا وہ کسی فلم کا ایک منظر ہو سکتا تھا، جس کا عنوان ہوتا: ’ایک عظیم فوج کی تباہی‘۔ مینجستو کی طاقت ور فوج اس کے ملک چھوڑنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر منتشر ہو گئی۔ فوجی اب نڈھال اور فاقہ کشی کا شکار ہو کر بھک منگے ہو گئے تھے اور کندھوں پر کلاشنکوفیں لٹکائے خوراک کی بھیک مانگتے پھرتے تھے۔ وہ اپنے ٹینک، راکٹ لانچر، لڑاکا طیارے، بکتر بند گاڑیاں اور توپیں چھوڑ کر (جن کا ایک بہت بڑا ڈھیر اب تک شہر کے مضافات میں پڑا ہے) چاروں سمتوں میں بکھر گئے۔ وہ پیدل، خچروں پر اور بسوں میں اپنے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ آج بھی ایتھیوپیا میں آپ کو صحت مند اور توانا جوان مرد اپنی دہلیز پر یا کسی مے خانے کے اسٹول پر بے کار بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مینجستو کی عظیم فوج کے سابق سپاہی ہیں، جو ایک وقت تھا کہ پورے افریقا کو فتح کرنے پر تلی بیٹھی تھی، اور جو ۱۹۹۱ کے موسمِ گرما میں صرف ایک دن میں مکمل طور پر تتربتر ہو گئی۔

ہم یہاں شیمیلِس مازنگیا سے ملنے آئے تھے۔ وہ مینجستو حکومت کے نظریہ سازوں میں شامل تھا اور پولٹ بیورو کا رکن ہونے کے علاوہ نظریاتی معاملات سے متعلق سنٹرل کمیٹی (گویا ایتھیوپیائی Suslov) کا سیکرٹری بھی تھا۔ مازنگیا کی عمر پینتالیس برس ہے۔ وہ ذہین ہے اور گفتگو کے دوران اپنے لفظوں کے چناؤ میں بہت محتاط رہتا ہے۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کا اسپورٹس کے انداز کا لباس پہن رکھا ہے۔ یہاں قیدیوں کو قید خانے کے محافظوں سے جدا شناخت نہیں کیا جا سکتا، حکومت کے پاس انھیں قیدیوں کی وردی مہیّا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ میں نے ایک محافظ سے پوچھا کہ کیا قیدیوں میں فرار ہونے کی ترغیب پیدا نہیں ہوتی، کیوں کہ وردیوں کی غیر موجودگی میں وہ آسانی سے عام شہریوں میں گم ہو سکتے ہیں۔ فرار؟ اس نے سچ مچ کی بے اعتباری سے میری طرف دیکھا۔ یہاں، وہ بولا، ان کو پیالہ بھر سُوپ مل جاتا ہے۔ باہر جا کر انھیں باقی سب کی طرح بھوکوں مرنا پڑے گا۔ یہ قیدی، اس نے زور دے کر کہا، ہمارے دشمن ضرور ہیں، لیکن احمق نہیں۔

مازنگیا کہتا ہے کہ مینجستو کے فرار نے اس سے وابستہ ہر شخص کو حیرت میں ڈال دیا۔ مینجستو تھکے بغیر، دن رات کام کرنے کا عادی تھا، اور بظاہر اسے مادّی اشیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ اسے اقتدار کا جنون تھا، مطلق اقتدار کا۔ وہ کسی بھی طرح کا سمجھوتا کرنے یا اپنی سوچ میں لچک پیدا کرنے سے معذور تھا۔ وہ قتلِ عام کو __ جسے ’سُرخ دہشت‘ کہا جاتا تھا اور جس نے ملک کی آبادی کے اچھے خاصے حصّے کو ٹھکانے لگا دیا تھا __ اقتدار کا ایک ضروری شاخسانہ خیال کرتا تھا۔ (مینجستو کو تیس ہزار ہلاکتوں کا ذمےدار قرار دیا جاتا ہے، بعض لوگ یہ تعداد تین لاکھ بتاتے ہیں۔) مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۰ کی دہائی میں صبح سویرے شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوے میں نے ’رات کی فصل‘، یعنی گزشتہ رات میں مارے جانے والوں کی لاشیں، دیکھی تھیں۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب مازنگیا بدنام اور معزول شدہ حکومت کے، جس کے خاتمے کے بعد بے چارگی اور موت ہر طرف پھیل گئی، اعلیٰ ترین عہدےدار کے طور پر خود اپنے کردار کو کس طرح دیکھتا ہے۔

مازنگیا میری باتوں کا جواب فلسفیانہ انداز سے دیتا ہے۔ تاریخ ایک پیچیدہ عمل کا نام ہے، وہ کہتا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ بچ کر نکلتی، راستہ ڈھونڈتی اور موڑ مڑتی رہتی ہے اور کبھی کبھی کسی اندھی گلی میں پھنس جاتی ہے۔ ماضی کا درست جائزہ لینے کے لیے آپ کے پاس مناسب وسائل ہونے چاہییں۔ اور یہ شرط صرف مستقبل ہی پوری کر سکتا ہے۔

چار سو چھ دوسرے افراد کے ساتھ، جو سب کے سب، ایتھیوپیائی اصطلاح میں، ’پرانی حکومت‘ سے وابستہ تھے، مازنگیا نے پچھلے تین سال قید خانے میں گزارے ہیں، یہ جانے بغیر کہ اس کا کیا انجام ہو گا۔ کیا اسے کسی اَور قید خانے میں بھیج دیا جائے گا؟ اس پر مقدمہ چلایا جائے گا؟ سزائے موت دے دی جائے گی؟ رہا کر دیا جائے گا؟ لگتا ہے حکومت کے ذہن میں بھی یہی سوال گردش کر رہا ہے: ان قیدیوں کا کیا کیا جائے؟

ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہیں، یہ کسی محافظ کا کمرہ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ہماری گفتگو پر کان لگائے ہوے نہیں ہے، نہ کوئی ہم سے بات چیت ختم کرنے کو کہتا ہے۔ لوگ متواتر آ جا رہے ہیں، افراتفری مچی ہوئی ہے۔ برابر کی میز پر فون کی گھنٹی بجتی ہے مگر کسی کو اس کی طرف متوجہ نہیں کیا جا سکتا۔

رخصت ہونے سے پہلے میں مازنگیا سے کہتا ہوں کہ مجھے وہ جگہ دکھائے جہاں اسے قید کیا گیا ہے۔ مجھے ایک احاطے میں لے جایا جاتا ہے جس کے دونوں طرف دو منزلہ گیلریاں ہیں۔ قیدیوں کی کوٹھریاں ان گیلریوں کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہیں، ان کے دروازے احاطے کی طرف کھلتے ہیں۔ یہ جگہ قیدیوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں ان کے چہروں کا جائزہ لیتا ہوں۔ یہ یونیورسٹی کے پروفیسروں، ان کے ماتحتوں اور شاگردوں کے چہرے ہیں۔ مینجستو حکومت کو ان لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو سوشلزم کی البانوی شکل کے، جسے البانیہ میں انور ہو جا نے نافذ کیا تھا، پُر جوش اور آدرش پسندانہ طور پر ماننے والے تھے۔ جب ترانہ (البانیہ) نے پیکنگ سے علیحدگی اختیار کی تو ادیس ابابا کی سڑکوں پر لوگ ہلاک کیے جانے لگے: ہو جا کے حامی ایتھیوپیائی باشندے عقیدے کے اس قدر پکے تھے کہ ماؤ کے ماننے والوں کو قتل کرنے لگے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ مہینے بھر چلتا رہا۔ لیکن مینجستو کے فرار، فوج کے انتشار اور سپاہیوں کی گھر واپسی کے بعد یونیورسٹی کے استاد اور شاگرد ہی شہر میں باقی بچے، کیوں کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ کہاں جائیں۔ سو ان کو آسانی سے گرفتار کر کے اس بُری طرح بھرے ہوے احاطے میں قید کر دیا گیا۔

افریقا سے دور

صومالیہ سے نکلنے والے سہ ماہی ’ہل ابُر‘ (صومالی ادب اور ثقافت کے جریدے) کے گرما ۱۹۹۳ کے شمارے پر نظر ڈالتے ہوے مجھے اندازہ ہوا کہ جن سترہ مصنفوں  __ معروف صومالی دانشوروں، سائنس دانوں اور ادیبوں __ کی تحریریں اس میں شامل ہیں ان میں سے پندرہ ملک سے باہر رہ رہے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے۔ بیشتر افریقی دانشور اس براعظم میں رہتے تک نہیں۔ اگر انھیں ملک میں صعوبتوں کا سامنا ہو تو وہ آس پاس کے کسی افریقی ملک میں پناہ نہیں لیتے۔ آپ انھیں بوسٹن، جنیوا، لندن، پیرس یا روم میں پائیں گے۔ پیچھے رہ جانے لوگوں میں __ سب سے نیچے __  جبر اور استحصال کے شکار ناخواندہ کسان ہیں اور __ سب سے اوپر __ انتہائی بدعنوان بیوروکریسی یا بد دماغ فوج کے اہلکار ہیں (جنھیں یوگنڈا کے مورخ علی ماذوری نے lumpen militariat  کا نام دیا ہے)۔ یہ براعظم اپنے مڈل کلاس دانشوروں سے محروم ہو کر کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟

شاید اُس وقت؟

میں ادیس ابابا یونیورسٹی کا دورہ کرتا ہوں جو ملک کی واحد یونیورسٹی ہے۔ میں اس کی لائبریری پر سرسری سی نگاہ ڈالتا ہوں، جو ملک کی واحد لائبریری ہے۔ اس کے شیلف خالی پڑے ہیں۔ نہ کتابیں ہیں اور نہ اخبار۔ بہت سے دوسرے افریقی ملکوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ کبھی کمپالا (یوگنڈا) میں ایک عمدہ لائبریری تھی (بلکہ تین لائبریریاں تھیں)۔ دار السلام (تنزانیہ) میں ایک اچھی لائبریری تھی۔ اب کچھ باقی نہیں ہے۔ ایتھیوپیا کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ فرانس، جرمنی اور پولینڈ اس میں سما سکتے ہیں۔ اس وقت اس کی آبادی پانچ کروڑ ہے۔ پیش گوئی کی جاتی ہے کہ چند برس میں یہ چھ کروڑ سے بڑھ جائے گی، چند اور برس گزریں گے تو یہ آٹھ کروڑ تک جا پہنچے گی۔

شاید اُس وقت؟

کم سے کم ایک؟

ادیس میں افریقی انجیل

جب مجھے وقت ملتا ہے، میں افریقا ہال کی طرف جا نکلتا ہوں جو شہر کی پہاڑیوں میں سے ایک پر واقع ایک بہت بڑی اور آراستہ عمارت ہے۔ مئی ۱۹۶۳ میں اس عمارت میں افریقی ملکوں کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ میں یہاں موجود تھا اور میں نے اپنے دور کے ان سب بڑے ناموں کو دیکھا تھا: ناصر، نکروما، ہیل سلاسی، بن بیلا، مودیبو کِیتا۔ وہ سب اسی ہال میں جمع تھے جہاں اگر وہ آج دیکھتے تو انھیں لڑکے پنگ پانگ کھیلتے اور ایک عورت چمڑے کی جیکٹیں بیچتی نظر آتی۔

ہر بار جب میں یہاں آتا ہوں، مجھے اس کے آس پاس ایک نئی عمارت بنتی دکھائی دیتی ہے، اور ہر عمارت پچھلی سے زیادہ با رعب اور پُر آسائش ہوتی ہے۔ اگرچہ افریقی معاشرے میں تبدیلی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اور تبدیلی کا یہ عمل اسے روزبروز غریب تر کر رہا ہے، لیکن حکومتوں کا کام بے قابو ہو کر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ افریقا ہال ہی کی مثال موجود ہے۔ اس پر کسی قاعدے یا ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کانفرنس روم اور دفتر ہی نہیں، راہ داریاں بھی چھتوں تک کاغذوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فائلنگ کیبنٹوں اور الماریوں میں کاغذ ٹھنسے ہوے ہیں۔ درازوں اور شیلفوں سے کاغذ اُبلے پڑ رہے ہیں۔ اور ہر طرف، ہر ڈیسک کے پیچھے، خوب صورت عورتیں، ایک دوسرے میں ممکن حد تک گھُسی ہوئی، بیٹھی ہیں۔

یہ سیکرٹریز ہیں۔

مجھے ایک کاغذ کی تلاش ہے جس کا عنوان ’افریقا کی معاشی ترقی کا لاگوس عملی منصوبہ (۱۹۸۰ تا ۲۰۰۰)‘ ہے۔ اس میں افریقی ملکوں کے سربراہوں کے اُس اجلاس کی تفصیلات ہیں جو ۱۹۸۰ میں لاگوس کے مقام پر افریقی بحرانوں پر غور کرنے کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں تیار کیے گئے منصوبے کو ایک انجیل، ایک امرت دھارا، افریقا کو ترقی دینے کی ایک عظیم حکمت عملی کے طور پر دیکھا گیا۔

میری تلاش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اکثر لوگوں نے تو اس کاغذ کا نام تک نہیں سنا۔ چند لوگ ایسے ہیں جنھوں نے سن رکّھا ہے لیکن انھیں اس کی کوئی تفصیل نہیں معلوم۔ اکا دکا ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے پڑھا تھا لیکن اس کی کوئی کاپی ان کے پاس نہیں۔ تاہم وہ مجھے اس اجلاس میں منظور کی گئی چند ایک قراردادوں کی تفصیل بتاتے ہیں: سینیگال میں مونگ پھلی کی پیداوار اور اس میں اضافے کی تجویزیں، تنزانیہ میں پائی جانے والی زے زے مکھی اور اس کے خاتمے کے طریقے، سودان میں خشک سالی اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کی تدبیریں۔ لیکن اس منصوبے نے اپنے بنیادی سوال __ افریقا کو کیسے بچایا جائے؟ __ کا کیا جواب دیا تھا، یہ کسی کو یاد نہیں ہے۔

ہماری دنیا کا ایک پیراڈوکس

افریقا ہال میں میری ملاقات نوعمر اور پھرتیلے بابا ساہولا چِنسمین سے ہوتی ہے جو اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کا ڈپٹی ڈائرکٹر ہے۔ وہ سیرالیون کا رہنے والا ہے اور ان معدودے چند افریقیوں میں سے ہے جو نئی ’گلوبل کلاس‘ کا حصہ ہیں۔ اس کے پاس ایک وِلا ادیس ابابا میں ہے (جو اس کی ملازمت کی مراعات میں شامل ہے)، ایک اور وِلا فری ٹاؤن میں ہے (جو اس نے جرمن سفارت خانے کو کرائے پر دے رکّھی ہے)، اور مین ہیٹن میں ایک نجی اپارٹمنٹ ہے (اسے ہوٹل میں ٹھہرنے سے نفرت ہے)۔ اس کے پاس ایک کار ہے، مع ڈرائیور کے، اور کئی نوکر ہیں۔ کل وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میڈرڈ جا رہا ہے، تین دن بعد وہ نیویارک میں ہو گا، اگلے ہفتے اسے پرواز کر کے سڈنی جانا ہے۔ اور ان میں سے ہر مقام پر گفتگو کا مرکز یہی ایک سوال ہو گا: افریقا کے بھوکوں مرتے ہوے لوگوں کی مدد کس طرح کی جائے؟

ہماری بات چیت دوستانہ اور دل چسپ ہے۔

چنسمین مجھے بتاتا ہے: ’’یہ سچ نہیں ہے کہ افریقا ایک جگہ پر ٹھہرا ہوا ہے۔ افریقا ترقی کر رہا ہے۔ یہ محض بھوک کا براعظم نہیں ہے، اصل مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر اور عالم گیر ہے، ایک سو پچاس کم ترقی یافتہ ملک پچیس ترقی یافتہ ملکوں کے دروازے پر کھڑے شور و غوغا کر رہے ہیں، اور یہ پچیس ترقی یافتہ ملک خود کساد بازاری کا شکار ہیں اور ان کی آبادی نہیں بڑھ رہی … اور اس اثنا میں افریقا اس رکاوٹ کو پار نہیں کر پا رہا جو اس کے نہایت غیر ترقی یافتہ انفرا اسٹرکچر نے کھڑی کر رکھی ہے: ناکافی ٹرانسپورٹ، خراب سڑکیں، بھاری سامان لے جانے والی گاڑیوں، بسوں اور کوچوں کی کمی، خراب مواصلاتی نظام۔

’’ہماری دنیا کے ایک اور پیراڈوکس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مثلاً سودان کے کسی کیمپ میں ایک پناہ گزیں تک خوراک پہنچانے پر __ جو عموماً مٹھی بھر مکئی کے دانوں پر مشتمل ہوتی ہے __ کتنا خرچ آتا ہے: اس مٹھی بھر مکئی کی نقل و حمل، اسے ذخیرہ کرنے اور اسے اس فاقہ کش پناہ گزیں تک پہنچانے کا خرچ پیرس کے کسی گراں ترین ریستوراں میں ڈنر کھانے کے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔

’’ہمیں تعلیم کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ پانے میں تیس سال لگے ہیں۔ جن معیشتوں میں کسان تعلیم یافتہ ہیں وہاں ان ملکوں کے مقابلے میں دس سے پندرہ گنا زیادہ پیداوار ہوتی ہے جن کے کسان تعلیم سے محروم ہیں۔ صرف تعلیم ہی مادّی فوائد ساتھ لے آتی ہے۔ کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘

میں تنزانیہ کے جان مینرُو سے بات کرتا ہوں: ’’افریقا کو سیاست دانوں کی ایک نئی نسل کی ضرورت ہے جو نئے انداز سے سوچ سکیں‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’موجودہ سیاست دانوں کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ لوگ ترقی کے بارے میں نہیں سوچتے، ان کا واحد مقصد اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے۔ ہمیں ایسے سیاست دانوں کی ضرورت ہے جن کا کوئی وژن ہو۔

’’ہمیں سب سے زیادہ خطرہ کس چیز سے ہے؟ نسلی بنیاد پرستی سے۔ یہ بڑھ کر اس نقطے تک پہنچ سکتی ہے جہاں نسلی پس منظر کو مذہبی رنگ حاصل ہو جاتا ہے، بلکہ یہ مذہب کا متبادل بن جاتا ہے۔‘‘

سودان کا صادق رشید، جو افریقی اقتصادی معاملات کے کمیشن کا ڈائرکٹر ہے، کہتا ہے: ’’افریقا کو جاگنا ہو گا! افریقی معاشروں کو ایک نیا، خود تنقیدی کا رویّہ اختیار کرنا ہو گا، ورنہ افریقا کا وجود ہمیشہ محض حاشیے تک محدود رہے گا۔‘‘

تنقید اور غرور

میں ایک بوڑھے انگریز سے بات کرتا ہوں جو یہاں آ کر بس گیا ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یوروپ اور یوروپی کلچر کی قوّت دراصل اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ تنقید کرنے، اور سب سے اہم بات یہ کہ خود پر تنقید کرنے، کا اہل ہے۔ یوروپی معاشرے تجزیے اور تجسس کے فن پر عمل پیرا ہیں۔ وہ بے قرار رہتے ہیں۔ یوروپی ذہن اپنی حدود کو تسلیم کرنے، اپنی خامیوں کو ماننے پر تیار رہتا ہے۔ یہ شک کرنے والا ذہن ہے۔ دوسری تہذیبوں میں تنقید کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ مغرور ہیں، سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ مکمل ترین ہے۔ وہ خود پر غیر تنقیدی انداز میں نظر ڈالتے ہیں، دوسروں کو __ شرپسند ایجنٹوں اور بیرونی طاقتوں کے غلبے کی مختلف شکلوں کو __ ہر چیز کے لیے قصوروار ٹھہرانے پر آمادہ رہتے ہیں۔ تنقید کو وہ خود پر حملہ اور اپنے خلاف بدترین تعصب کا اظہار سمجھتے ہیں۔ اسے ایک ذاتی توہین، ہتک کرنے کی دانستہ کوشش یا استرداد کا اظہار گردانا جاتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ شہر گندا ہے، تو اسے ذاتی حملہ سمجھا جائے گا۔ یوں جیسے آپ نے یہ کہا ہو کہ اس شہر کے باشندے اپنے منھ نہیں دھوتے، یا اپنی گردنیں اور ناخن غلیظ رکھتے ہیں۔ وہ ایسے تبصرے پر بُرا مانتے ہیں، جلتے اور کڑھتے ہیں، آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس رویے کے باعث وہ ترقی کرنے سے، خود میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا کرنے سے تہذیبی اور ساختیاتی طور پر معذور رہتے ہیں۔

کیا افریقی معاشرے __ اور ان کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی افریقی مذاہب کی __ واقعی تنقید سے ماورا اور اور رسائی سے باہر ہیں؟ آخر کیوں افریقا باقی تمام براعظموں سے مستقل پیچھے ہے؟ صادق رشید اور اس جیسے دوسرے افریقی باشندے اپنے لیے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پلاسٹک کی بالٹی کا انقلاب

ہم ایتھیوپیا میں دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔ سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصے میں (یوروپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوے بچوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچوں کے ہاتھ میں ہو۔

افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوے۔ اور گھر پر بھی بچے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منھ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنووں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنولوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔

پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے __ پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا __ اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں __ افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔ گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصے میں آتا تھا۔ بچے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔

پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دستیاب تھی۔ اور چند لٹر کی بالٹی چھوٹے بچے بھی اٹھا سکتے تھے۔

چناں چہ پانی لانا اب بچوں کی ذمے داری ہے۔ دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوشگوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔ قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔ آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔

ایک قلم کی فرمائش

اگر آپ کسی گاؤں یا چھوٹے قصبے میں رکیں، یا کسی فارم پر بھی، تو اچانک مٹی میں لتھڑے، پھٹی پرانی قمیصیں اور جانگیے پہنے بچوں کے غول میں خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں۔ ان کے پاس پانی سے آدھے بھرے تونبے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک کیلا یا روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا ان کے درمیان پلک جھپکتے میں غائب ہو جاتا ہے۔ بھوک ایک مستقل موجودگی ہے۔ اس کے باوجود وہ جو چیزیں مانگتے ہیں وہ روٹی، پھل یا پیسے نہیں ہے۔

وہ قلم کی فرمائش کرتے ہیں۔

ایک بال پوائنٹ قلم۔ قیمت: دس سینٹ۔

مگر یہ دس سینٹ وہ کہاں سے لائیں؟

وہ اسکول جانا چاہتے ہیں، ان میں سے ہر ایک تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ لوگ بھی جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اسکول ہے (جس کا مطلب کسی گاؤں میں آم کے پیڑ کے نیچے کوئی سایہ دار جگہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا) لکھنا نہیں سیکھ سکتے، ان کے پاس قلم نہیں ہے۔

جنوب کی سمت سفر

گوندار کے قریب (جو ایتھیوپیائی بادشاہوں اور فرماں رواؤں کا شہر ہے اور خلیج عدن سے جبوتی ہو کر العبید، ترساف، جمینا اور جھیل چاڈ کی طرف جاتے ہوے راستے میں پڑتا ہے) میری ملاقات ایک شخص سے ہوتی ہے جو پیدل شمال سے جنوب کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہنے کو میرے پاس یہی ایک بات ہے، یہی بات اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں ہے۔

اس کے پاؤں ننگے ہیں اور وہ ایک پیوند لگا جانگیا اور ایک ایسا کپڑا پہنے ہے جسے کبھی بہت پہلے قمیص کہا جا سکتا ہو گا۔ اس کا اسباب تین چیزوں پر مشتمل ہے: سہارے کے لیے ایک لاٹھی، ایک کپڑا جو صبح کو منھ پونچھنے، دن کے وقت دھوپ سے بچنے اور رات میں اوڑھ کر سونے کے کام آتا ہے، اور لکڑی کا ایک ڈھکنے والا پیالہ جو اس کے کاندھے پر پڑا رہتا ہے۔ پیسے اس کے پاس نہیں ہیں۔ اجنبیوں کی رحم دلی پر اس کا گزارا ہے۔ اگر اسے کھانے کو کچھ نہ ملے تو وہ بھوکا رہتا ہے۔ بھوکا تو وہ ہمیشہ سے رہا ہے۔

وہ جنوب کی طرف اس لیے جا رہا ہے کہ اس کے بھائی نے گھر سے روانہ ہو کر یہی سمت اختیار کی تھی۔ یہ کب ہوا تھا؟ میں پوچھتا ہوں۔ بہت دن پہلے۔ اس شخص کے پورے ماضی نے سمٹ کر اس فقرے کی صورت لے لی ہے: بہت دن پہلے۔ وہ اریٹریا کے پہاڑی علاقے سے، کیرن سے روانہ ہوا تھا۔ بہت دن پہلے۔

وہ جنوب کی سمت سفر کرنا جانتا ہے۔ ہر صبح وہ سورج کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ راستے میں ملنے والے ہر شخص سے اس کا ایک ہی سوال ہوتا ہے: کیا تم میرے بھائی سولومن کو جانتے ہو؟ اس قسم کے سوال پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ پورا افریقا سفر میں ہے۔ کچھ لوگ اپنے وطن میں ہونے والی جنگوں سے بھاگ رہے ہیں، کچھ خشک سالی سے، کچھ بھوک سے۔ اور وہ اکثر راہ کھو بیٹھتے ہیں۔ جنوب کی سمت سفر کرنے والا یہ آدمی بھی بہت سوں میں سے ایک ہے۔

میں اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے بھائی کو کیوں تلاش کر رہا ہے۔ وہ اپنے کندھے اچکاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ سوال خود ہی اپنا جواب ہے۔ اس کے کندھوں کی یہ جنبش اِس سوال کرنے والے شخص، اِس اجنبی پر ترس کھانے کا اشارہ ہے جو چاہے بڑا خوش پوش دکھائی دیتا ہو، مگر نہایت بنیادی طور پر ایک بہت سچی، قابلِ قدر شے سے محروم ہے۔

میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا اسے اندازہ ہے کہ وہ اریٹریا سے نکل کر ایتھیوپیا میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ جواب میں ایک ایسے شخص کی سی مسکراہٹ پیش کرتا ہے جو جانتا ہو۔ اس کے لیے یہ صرف ایک جلتی ہوئی زمین ہے جس پر ایک بھائی دوسرے بھائی کو تلاش کر رہا ہے۔

دیبر لیبانوس

اسی سڑک پر، لیکن ایک پہاڑی اتر کر اور پھر ایک گہری کھائی میں دیبر لیبانوس نامی ایک خانقاہ ہے۔ اندر گرجاگھر میں خوشگوار ٹھنڈک ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں مکمل اندھیرے میں آ گیا ہوں۔ کچھ دیر بعد میری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوتی ہیں اور مجھے دیواروں پر بنے ہوے فریسکو اور پیال سے ڈھکے فرش پر منھ کے بل لیٹے، سفید لباس پہنے ایتھیوپیائی زائر نظر آتے ہیں۔ کونے میں بیٹھا ایک بوڑھا راہب گیز (Gyz) زبان میں، جو اب مُردہ ہو چکی ہے، مناجات گا رہا ہے۔ اس کی خواب آلود آواز بہت مدّھم ہے __ جیسے کسی بھی لمحے مکمل طور پر غائب ہو جانے والی ہو۔ یہ خاموشی اور تصوف کا لمحہ ہے، ایک ایسا لمحہ جو لمحے سے بڑھ کر ہے، کسی ناپ تول سے، وجود سے، وقت سے ماورا۔

یہ راہب یہاں کب سے منھ کے بل پڑے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں گرجا گھر سے باہر نکلتا ہوں اور واپس آ جاتا ہوں۔ میں ایسا دن میں کئی بار کرتا ہوں۔ اور ہر بار یہ راہب اپنی جگہ پڑے ہوتے ہیں، بے حس و حرکت۔

ایک دن؟ ایک مہینہ؟ ایک سال؟ ایک ابدیت؟

٭٭

’آج‘۔ شمارہ ۲۷ سے، مدیر : اجمل کمال

٭٭٭

امجد اسلام امجد، جسے بھلایا نہ جا سکے گا! ۔۔۔ عطاء الحق قاسمی

آج صبح ناشتے کے دوران فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف عباس تابش تھے انہوں نے مجھے اچانک صدمے سے محفوظ رکھنے کے لئے کچھ تمہید کے بعد بتایا کہ امجد اسلام امجد انتقال کر گئے ہیں اور مجھے یوں لگا میری اور امجد کی نصف صدی سے کہیں زیادہ طویل دوستی نے آخری ہچکی لے لی ہے۔ اس کے بعد عزیر احمد اور دوسرے دوستوں کے فون آنے لگے پشاور سے ناصر علی سعید نے مجھے پُرسا دینے کے لئے کال کی اور میرا دل ڈوبتا چلا گیا۔ امجد میرا سب سے پرانا دوست تھا۔

امجد سے میری پہلی ملاقات اسلامیہ کالج لاہور کے شمع ثانیہ کے ہاں مشاعرے میں ہوئی اس وقت ہم دونوں کالج کے طالب علم تھے اور غالباً ہم دونوں کی زندگی کا یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں ہم بطور شاعر شریک ہوئے، ہم ایک دوسرے کے نام سے واقف تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ملاقات ’’برائے نام‘‘ سے دوستی اور پھر دوستی کی انتہا تک پہنچ گئی۔ پھر یوں ہوا کہ میں اور امجد اسلام ایم اے او کالج لاہور میں بطور لیکچرار کولیگ بھی ہو گئے گھر سے باہر زیادہ وقت ہم ایک ساتھ ہی گزارتے تھے، اندرون ملک اور بیرون ملک کے مشاعروں میں بھی ہم اکٹھے ہوتے تھے اس دور میں اندرون ملک مشاعروں میں ہمیں بسوں، ویگنوں اور ٹرین میں سفر کرنا پڑتا تھا ایک دفعہ اوکاڑہ والوں نے تو ہمارے سفر کے لئے جو ویگن بھیجی وہ اوکاڑے سے بکروں کی کھالیں لاہور ڈراپ کرنے آئی اور واپسی پر شاعروں کو اوکاڑہ ڈراپ کیا۔

ہم سب کی طرح امجد بھی سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ثابت کر دیا کہ اپنے کام سے لگن اور محنت انسان کو وہ مقام دیتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے چنانچہ امجد نے شاعری شروع کی تو برصغیر پاک و ہند میں اس کا نام گونجنے لگا، ڈرامے لکھے تو ہر طرف دھوم مچ گئی وہ اخبار میں کالم بھی لکھتا تھا، امجد بے حد زود نویس تھا لکھنے بیٹھتا تو ایک ہی ’’سانس‘‘ میں سب کچھ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا وہ انتہائی خوش خط بھی تھا اور اس کے برعکس میں ہر کام میں سست رو ہونے کے ساتھ ساتھ بدخط بھی تھا اور یوں میں گزشتہ تین چار برسوں سے اتنا فعال نہیں رہا جتنا کبھی ہوتا تھا گھٹنوں میں تکلیف کے بعد گزشتہ چند ماہ سے میں بیرون ملک اور اندرون ملک کے علاوہ اپنے شہر کی تقریبات میں بھی شرکت سے گریز کرتا ہوں کہ جہاں دو چار سیڑھیاں بھی ہوں وہ میرے لئے ایک امتحان ہوتی ہیں سیڑھیاں نہ بھی ہوں تو بھی اسٹیج پر تو چڑھنا ہی پڑتا ہے۔ میرے برعکس امجد آخری عمر میں بھی نہایت ناتواں ہونے کے باوجود دور دراز کے سفر اختیار کرتا اور رات بھر مشاعروں میں بیٹھا رہتا۔ چند ماہ پیشتر میں اور امجد ایک ٹی وی چینل میں مدعو تھے اس روز میں نے دیکھا کہ کار تک جانے کے لئے اسے ایک مداح کا سہارا لینا پڑا اس دوران اس نے آہستہ سے میرے کان میں کہا یار یہ ٹی وی چینلز والے بہت بڑے مفت برہیں ہمیں آئندہ ان کے پروگراموں میں شرکت کا معاوضہ طلب کرنا چاہئے۔ میں نے جواب میں ہنستے ہوئے کہا ’’بچے ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ بغیر معاوضہ ادا کئے ان کے پروگراموں میں شرکت کر لیتے ہیں کچھ چینلز پر کچھ لوگوں کو آنے کے لئے بڑے مہنگے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں‘‘ اس پر اس کی نحیف سی ہنسی سنائی دی۔

امجد کو اپنے اکلوتے بیٹے علی ذیشان سے شدید محبت تھی، دو بیٹیاں اور ان سے بھی وہ ٹوٹ کر محبت کرتا تھا ایک بیٹی روشین عہد حاضر کے سب سے بڑے مزاح گو شاعر انور مسعود کے بیٹے عاکف سے بیاہی گئی اور یوں انور مسعود کے ساتھ اس کی دیرینہ دوستی رشتہ داری میں بدل گئی ہماری بھابی اس کی چچا زاد ہیں امجد نے اسے مخاطب کرنا ہوتا تو اس کے نام سے نہیں پکارتا تھا بلکہ ’’دوست‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا اس تخاطب میں وہ یگانگت اور محبت ایک سراپا کی شکل اختیار کر لیتی تھی جو ان کے درمیان ساری عمر رہی، میں اور امجد نے تو ہمارا وقت شاید عزیز و اقربا کے ساتھ قدرے کم ہی گزارا ہو جتنا ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ گزارا، لوگ تصور نہیں کر پاتے تھے کہ میں اور امجد کسی محفل میں اور سفر و حضر میں اکٹھے نہ ہوں، ویسے بھی لوگ محفلوں میں ہمیں اتنا ہی دیکھنا چاہتے تھے کہ انہیں ہماری جملہ بازیوں کا چسکا پڑ گیا تھا ہم دونوں جہاں ہوتے وہاں سنجیدہ بات کی گنجائش ذرا کم ہی ہوتی بلکہ ایک بیرونی سفر میں حضرت ضمیر جعفری بھی ہمارے ساتھ تھے وہ چارپائی پر لیٹے اونگھ رہے تھے اور میں اور امجد ایک دوسرے پر جملے کس رہے تھے اس دوران ضمیر صاحب نے ہمیں نیم وا آنکھوں سے دیکھا اور کہا ’’آج پتہ چلا کہ جب تمہیں کوئی تیسرا نہ ملے تو تم ایک دوسرے کے ساتھ ’’نیٹ پریکٹس‘‘ کرتے ہو۔

احمد شاہ کے لاہور میں جاری ادبی میلے میں آج امجد اسلام کے ساتھ ایک خصوصی سیشن تھا مگر وہ وہاں نہیں ہو گا وہاں اس کی یاد ہو گی اور یہ وہ یاد ہے جو کبھی دلوں سے محو نہیں ہو گی میں تو بقیہ عمر کی باقی ماندہ گھڑیاں بس اس یاد کے ساتھ بسر کروں گا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

کنڈل فائل