FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سوچ کی سیڑھی

 

 

 

 

                شبیر بن رحیم

 

 

 

 

 

 

"ہمیں اللہ نے غریب کیوں پیدا کیا ہے ؟ کیا ہم ہی غربت کی چکی میں پسنے کے لئے رہ گئے ہیں؟ پیٹ بھرنے کے لئے ہمیں کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں جبکہ ہماری طرح کے ہی دوسرے انسان کس قدر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا اللہ کو ہمیں سے دشمنی ہے جس نے غربت کو ہماری جڑواں بہن قرار دے دیا ہے؟ جو ہماری جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی؟ ایساں (عائشہ)باجی میں تو اب یہ سوچتی ہوں کہ یہ غربت ہمیں قبر تک پہنچا کر ہی دم لے گی !”

عائشہ نے اپنی چھوٹی بہن امینہ کی باتیں سنیں تو اسے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگی: "نہیں میناں (امینہ) ایسے نہیں کہتے۔ اللہ ناراض ہو جاتا ہے۔   تو ایسی باتیں نہ کیا کر۔ ایسی باتیں کرنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے۔”

بڑی بہن کی بات سن کر امینہ غمزدہ حالت میں کہنے لگی ” تو بتاؤ میں غربت کی ذلت کا رونا کس سے روؤں؟ کیا ایسے ہی کڑھتی رہوں اور جو کچھ سوچتی ہوں اسے زبان پر نہ لاؤں کہ کہیں اللہ ناراض نہ ہو جائے؟ اگر اس نے ناراض ہی ہونا ہے تو  ہو جائے ، موت دے دے گا اور کیا کر سکتا ہے !  غربت سے اور بڑی موت کیا ہو گی؟ وہ تو ہم سے پہلے ہی ناراض ہے اب اور ناراض کیا ہو گا!  جس نے مجھے بنایا ہے، وہ مجھے غربت کی چکی میں دھکیل سکتا ہے تو میں اس کا گلہ بھی نہیں کر سکتی!! یہ کیسا خدا ہے جو  گلے شکوے پر ناراض ہو جائے ؟   اب تو ہی بتا، کیا میں سوچنا چھوڑ دوں؟ ایساں باجی!  میں اپنی سوچ کو دبانے میں ناکام رہی ہوں۔ طرح طرح کی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ میں یہ باتیں کس سے کروں۔  کسی اور سے کروں گی تو  وہ کافر قرار دے کر مار ہی ڈالے گا۔ میں تو یہ باتیں اس لئے کرتی ہوں کہ بالآخر اللہ نے  ہمیں غریب کیوں بنا یا ہے۔ اس کی کوئی وجہ تو ہو گی؟ میری باتیں سن لیا کر۔ نہیں تو میں ایک دن اندر ہی اندر کڑھ کر مر جاؤں گی اور پھرتو  میری موت پر آنسو بہائے گی اور حسرت کا اظہار کرے گی کہ کاش میں اپنی بہن کی باتیں سن لیا کرتی ۔”

امینہ کی بھرائی ہوئی آواز نے عائشہ کے ضبط کے بندھن توڑ دیئے عائشہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور امینہ کو گلے لگا کر انتہائی  شفقت بھرے انداز میں کہنے لگی۔

” میری پیاری بہن ایک وعدہ کر۔ میں اپنی بہن کی تمام باتیں سنوں گی۔ لیکن تو ان باتوں کا ذکر کسی اور سے نہیں کرے گی اس لئے کہ جس طرح کی تو باتیں کرتی ہے اگر گاؤں والوں کو پتہ چل گیا تو صرف تجھے نہیں، امی ابو اور ہم دونو ں کو  کافر کہہ کر گاؤں سے نکال دیں گے۔ ابھی تو سر چھپانے کے لئے ایک کچا کوٹھا نصیب ہے، اگر ہم اس گاؤں سے نکال دیئے گئے تو  ہمیں کہیں سر چھپانے کو بھی جگہ نہیں ملے گی۔

دیکھ میناں تم نے کل چوہدری کی بیٹی نازو سے  کہا کہ تو اس خدا کو نہیں مانتی جو  نازو کو امیر اور تمہیں غریب پیدا کرے۔ دیکھ میناں اللہ جو بھی کرے، ہمیں ہر حال میں اسے ماننا ہے۔ ہماری مسجد کے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کے بارے میں زیادہ بات کرنے سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے۔ بس اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ لیکن تجھے تو جیسے اللہ سے ڈر ہی نہیں لگتا!  اگر یہ بات مولوی صاحب کو پتہ چل گئی تو  بہت برا ہو گا۔ ایسی کوئی بات کبھی زبان پر نہ لانا نہیں تو کافر ہو جاؤ گی، اور اگر تو چوہدری کی بیٹی کے کام نہیں کر سکتی تو نہ کر،  امی کہہ رہی تھی کہ ہمارے لئے کھیتوں میں محنت مزدوری ہی کافی ہے۔ چوہدری کے گھر میں کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی وہ دیتے کیا ہیں، کبھی کبھار بچا ہوا کھانا دے دیتے ہیں،  اور مجھے تو یہ بھی خطرہ ہے کہ کہیں تو نازو سے لڑ ہی نہ پڑے۔ دیکھ میناں! نازو اور تجھ میں بہت فرق ہے۔ وہ امیر چوہدری کی بیٹی ہے اور تو ایک معمولی مزدور کی بیٹی۔ جس کے گھر میں اکثر فاقے رہتے ہیں اور تو یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں بلکہ تو نے تو نازو کو یہ بھی کہا ہے کہ تو نازو سے امیر ہے ۔

میری بہن !یہ بات تو بڑی سادہ ہے کہ  نازو ہم سے امیر ہے۔ ہم اس جیسی نہیں ہیں۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تمہیں کیا ہو گیا ہے جو اس بات پر  کسی کی ماننے کو تیار نہیں۔ دیکھ تو میری چھوٹی بہن ہے،  میں تیری ہر بات سنوں گی۔ لیکن تو اپنی بات ہر کسی سے نہیں کرے گی، صرف مجھ سے کرے گی۔  اور اب  تو پڑھنے پڑھانے کی بات ذہن سے نکال ہی دے تو اچھا ہے ۔ اس عمر میں ہم کیا پڑھیں گی!  ویسے بھی امی ابا کہہ رہے تھے کہ اس دفعہ دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد ہم دونوں کی شادی کر دیں گے ۔”

امینہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ بڑے غور سے عائشہ کی باتیں سن رہی تھی۔ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے  کہا:

"باجی ایک وعدہ آپ بھی مجھ سے کریں کہ آپ میری باتوں پر سوچیں گی۔ صرف مجبوری سمجھ کر میری باتیں نہیں سنیں گی۔ اس لئے کہ سوچنے سے مجھے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔  نہیں معلوم ،مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے اندر کوئی موجود ہو جو میری رہنمائی کرتا رہتا ہے، جو مجھے سمجھاتا رہتا ہے اور جب بھی مجھے کسی سوال کا جواب ملتا ہے تو مجھے بہت سکون ملتا ہے۔ ایساں باجی!  نہیں معلوم یہ کون ہے جو میرے اندر گھسا بیٹھا ہے ۔میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اپنی ایسی باتیں  یا تو اللہ سے کروں گی یا پھر آپ سے ۔

میں نے نازو سے جو یہ کہا تھا کہ میں تجھ سے امیر ہوں تو یہ بھی میرے اندر گھس بیٹھے  ہی کی آواز تھی۔  میں جب نازو کے گھر میں اس کے کام کاج کرتی اور وہ میرے اوپر حکم چلاتی تو میں یہ سوچتی کہ اس میں اور مجھ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ یہ بھی ان پڑھ ہے اور میں بھی۔ لیکن یہ امیر ہے اور میں غریب ہوں۔ یہ کیسا خدا ہے جس نے ایک کو غریب تو دوسری کو امیر بنایا ہے۔  میرے اندر سے آواز آئی کہ نہیں غریب تو نہیں،  نازو ہے۔  لیکن میں کیسے امیر ہوں اس کا مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا میں نے آج آپ سے اسی لئے غربت کے بارے میں بات کی تھی کہ شاید آپ کو میری امیری کے بارے میں پتہ ہو، لیکن آپ نے بھی مجھے اللہ سے ڈرانا شروع کر دیا ! میرے باطن سے آواز آتی ہے کہ میں امیر ہوں اور نازو غریب ہے لیکن کیسے ؟  اس بارے کچھ معلوم نہیں۔”

اب عائشہ اپنی چھوٹی بہن کو ڈانٹنے کی بجائے اس کی باتوں پر ہنس رہی تھی امینہ نے کہا  "باجی میں نے کوئی لطیفہ تو نہیں سنایا جو آپ ہنس رہی ہیں”  عائشہ کہنے لگی "او میری پگلی بہن! ہر غریب کی آنکھوں میں امیر بننے کے سپنے ہوتے ہیں۔ گو تو بھی سپنے دیکھ رہی ہے۔ اب بھلا اس بات میں کوئی شک ہے کہ  نازو امیر ہے اور تم غریب۔ اس دفعہ دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد ہماری بھی شادی ہونی ہے اور نازو کی بھی۔ ہمارے منگیتروں کے بارے میں تو جانتی ہی ہے جورا(منظور)اور غفورا(غفور)ہماری طرح ہی اکثر فاقوں کا شکار رہتے ہیں۔ مزدوری مل گئی تو پورا دن مشقت کے بعد کھانا نصیب ہو گیا، نہیں تو فاقے ۔ اور نازو کا منگیتر مربع زمین کا مالک ہے۔ جس کا باپ اپنے گاؤں کا چوہدری ہے۔  جس کے پاس ہمارے جورے اورغفورے جیسے بیسیوں ملازم ہیں۔  نازو کی شادی کی تیاریاں ابھی سے ہو رہی ہیں اور ہم شادی تک کھیتوں میں محنت مزدوری کریں گی۔ نازو کی شادی دھوم دھام سے جبکہ ہم چپکے سے  جورے اور منظورے کے گھر چلی جائیں گی۔ نازو کے لئے ابھی سے کپڑوں پہ کپڑے خریدے جا رہے ہیں۔ ہم نے انہی میلے کچیلے کپڑوں میں پیا گھر سدھارنا ہے۔ اب تو ہی بتا تو امیر ہے یا نازو؟”

امینہ نے عائشہ کی باتوں پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ” باجی اسی لئے تو میں کہتی ہوں کہ اللہ نے ہمیں ہی کیوں غریب بنایا؟کیا ہم اس سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے ؟”

یہ کہہ کر امینہ گہری سوچ میں گم ہو گئی تھی۔ اسی اثنا ء میں امینہ اور عائشہ کے والدین گھر میں داخل ہوئے۔ عائشہ نے اپنی ماں کی طرف کچھ سمجھانے کے انداز میں دیکھا دراصل وہ اپنی ماں کو بتانا چاہتی تھی کہ میں نے امینہ کو سمجھا دیا ہے۔ اس لئے اب اس حوالے سے اس سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  آج امینہ اور عائشہ کے والدین حد سے زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔ عائشہ ان کی خوشی کی وجہ کچھ کچھ سمجھ رہی تھی۔ ان کے والد نے اپنی بیٹیوں کے سر پر انتہائی شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر رونے لگ گیا۔ باپ کو روتا دیکھ کر امینہ اور عائشہ بے تاب ہو کر پوچھنے لگیں "بابا کیا ہوا ؟خیر تو ہے نا ؟” ان کا والد کہنے لگا "ارے پگلیو !یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ میں اور تمہاری ماں آج تمہارے پھوپھا سے  تم دونوں کی بات پکی کر آئے ہیں۔ بیٹیاں تو  پنچھی ہوتی ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اڑنا ہی ہوتا ہے۔”  یہ خوشی کے آنسو تھے یا بے بسی کے امینہ اور عائشہ کے لئے سمجھنا مشکل نہیں تھا ۔

ان کا والد پرنم آنکھوں سے کہنے لگا "میری شہزادیو! میں تمہیں وہ کچھ نہیں دے سکا جس کی تم اہل تھیں۔ لیکن میری پوری زندگی گواہ ہے کہ میں نے  ہمیشہ محنت پر بھروسہ کیا ہے ،بھوکا رہنا گوارا کیا ہے، لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ تمہیں بھی میں نے محنت کی تلقین کی ہے اور آئندہ کے لئے بھی کہتا ہوں کہ اپنے خاوندوں کا ہاتھ بٹانا!”

عائشہ اور امینہ کی ماں یہ سب سن رہی تھی اور دونوں کو پیار کرتی جا رہی تھی۔ جب یہ باتیں ختم ہوئیں تو سب نے مل کر کھانا کھایا اور سو گئے۔ لیکن امینہ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ مسلسل سوچوں میں گم تھی۔ وہ کبھی اپنی غربت اور بے بسی کے بارے میں سوچتی تو کبھی اپنی اور چوہدری کی بیٹی نازو کی بیٹی کی شادی کا موازنہ کرنے لگ جاتی۔ بے خبری میں آنسو اس کی آنکھوں سے جاری تھے۔ لیکن جب وہ منظور کے بارے میں سوچتی تو اسے عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا۔ منظور اس کی پھوپھی کا بیٹا تھا اور وہ امینہ کو بہت بھاتا تھا سوچتے سوچتے نجانے کب امینہ نیند کی گہری وادی میں چلی گئی۔

صبح عائشہ نے اسے جگایا اور امینہ کو منظور کے حوالے سے چھیڑنے لگی۔ "تمہیں بہت اچھا لگتا ہے نا وہ!” امینہ منظور کا نام سن کر شرما سی جاتی۔ آج دونوں بہنیں بہت خوش تھیں۔ عائشہ اپنی شادی کے بارے میں سہیلیوں کو بتانے کے لئے چلی گئی۔ لیکن امینہ کے اندر ہمیشہ کی طرح سوچوں کا ایک طوفان بپا تھا۔  اس کے ذہن میں بہت سے سوال چل رہے تھے۔ مسجد سے اذان کی آواز آئی تو  امینہ نے ٹھنڈی آہ بھر کر” اللہ”  کہا تو جیسے پوری دنیا کی تمام طاقت اس میں آ گئی ہو۔ اسے قلبی سکون ملا تو اللہ اللہ کی صدااس کی دل کی گہرائیوں سے اٹھنے لگی۔ اسی کیفیت میں امینہ چاہتی تھی کہ رو رو کر اپنے اللہ سے باتیں کرے۔ وہ خود کو اللہ سے بہت قریب محسوس کر رہی تھی اس کے اندر سے یہ آواز آ رہی تھی ہاں میں غریب نہیں ہوں، میں امیر ہوں۔ میں رزق حلال کے لئے جان لگا کر کا م کرتی ہوں۔  کبھی کپاس چنتی ہوں تو کبھی کڑکتی دھوپ میں زمین میں دھان کے پودے گاڑتی ہوں۔ لیکن کیا میری اجرت مجھے پوری ملتی ہے ؟نہیں! میرا استحصال کیا جاتا ہے۔ میرے ایسے خون پسینہ بہا کر کام کرنے والوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہاں ،میرے اللہ نے مجھے غریب نہیں بنایا۔ مجھے غاصبوں کی بے انصافی نے غریب کیا ہے۔ اللہ نے  مجھے بھی ایسا ہی بنایا ہے جیسا کہ دوسروں کو۔ مجھے بھی وہی اعضا دیئے ہیں جو دوسروں کو۔ تو پھر اللہ ان غاصبوں کو روکتا کیوں نہیں ہے ؟ جو ہم جیسے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایک اور سوال نے امینہ کو پریشان کیا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی پسینے میں شرابور   باطنی قوت سے اس سوال کا جواب لینے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ عائشہ نے باہر سے آتے ہوئے اسے آواز دی "امینہ عشا ء کی اذان ہو گئی ہے، جلدی سو جا۔ کل سے ہم نے کھیتوں میں دھان کاشت کرنے جانا ہے ۔امی نے بتایا ہے کہ ایک ایکڑ دھان کے پودے لگانے کے پورے سات سو روپے ملیں گے ۔”

پچھلے سال پانچ سو روپے تھے اس دفعہ دو سو زیادہ مل رہے ہیں۔  امینہ نے اثبات میں سر ہلایا تو عائشہ کہنے لگی "اگر میری بہن نے کوئی بات کرنی ہے تو بتائے میں اپنے وعدے پر قائم ہوں” امینہ مسکرادی۔ اور کہا ” ہاں باجی،  باتیں بہت ہیں  کل راستے میں کروں گی۔” امینہ روکھا سوکھا کھا کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن  نیند امینہ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ مسلسل سوچے جا رہی تھی اور بہت کچھ اپنے اللہ سے شیئر کر چکی تھی۔  اسے اللہ کے بارے میں کی گئی اپنی کچھ باتوں پر دکھ ہو رہا تھا۔ یہ دکھ اس میں مزید عاجزی پیدا کر رہا تھا۔ اس نے کبھی اللہ کو سجدہ کر کے نہیں دیکھا تھا۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ چکی تھی، لیکن بچپن سے لے کر اب تک غم روزگار سے اسے فرصت ہی نہیں ملی تھی کہ سجدے کی لذت سے آشنا ہو سکتی۔  وہ اپنی کچھ بے وقوفانہ باتوں پر  ہنسی بھی ۔بعض مخصوص لوگوں کا مشغلہ سمجھتی تھی۔

اس وقت امینہ کی حالت ایسی تھی جس طرح ایک ماں سے بچھڑے ہوئے شیر خوار بچے کی ہوتی ہے۔  امینہ سوچ کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر معرفت کے زینوں پر پہنچ چکی تھی۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے امیر لڑکی سمجھ رہی تھی جو اپنے پروردگار سے رات کے پچھلے پہر مخاطب تھ۔ی جو اپنے پروردگار کو اپنے پاس محسوس کر رہی تھی۔ اس میں نئی امنگیں اور نئی طاقتیں جنم لے رہی تھیں۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی ہاں میں اپنے بابا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے محنت کروں گی۔ اور کسی کو استحصال کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔

دفعتاً وہ محروم اور اپنے ایسے لوگوں کے بارے میں سوچ کر چونکی۔ امینہ کی حالت متغیر ہونے لگی  اسے پھر سے نئے سوال درپیش تھے۔  وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس جیسے محروم لوگ اپنا استحصال کرنے والوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟اور اسے بالترتیب ہر سوال کا جواب مل رہا تھا۔ اس لئے کہ امینہ اب معرفت کی ابتدائی وادیوں میں جھانک سکتی تھی۔ بہت سی چیزیں اس پر واضح اور عیاں ہو چکی تھیں۔ وہ سجدے کی لذت سے آشنا ہو چکی تھی۔ اسے چوہدری کی مغرور بیٹی نازو پر بہت ترس آ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ پر نازاں تھی لیکن وہ یہ سوچ کر پھر پریشان ہو جاتی کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ کیفیت وقتی ہو۔ اسی کیفیت میں وہ دعا کی لذت سے بھی آشنا ہوئی۔ اب وہ اشکبار آنکھوں سے اپنے پروردگار سے نازو سمیت سب کے لئے دعا کر رہی تھی۔ دعا کرتے کرتے اس کی ہچکی بند ھ گئی تھی۔ وہ جہالت کے خاتمے کے لئے دعا کر رہی تھی ۔وہ کہہ رہی تھی” اے میرے پروردگار  سب کو  علم و معرفت کی نعمتوں سے سرفراز فرما” امینہ گویا سب کچھ پا چکی تھی۔ وہ اپنے لئے  مال نہیں مانگ رہی تھی وہ صرف معرفت کی بلندی کی خواہاں تھی۔ اور اس معرفت کے نور کو پورے گاؤں میں پھیلانے کی خواہاں تھی۔ وہ موانع کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جاتی تو پھر سے اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا شروع کر دیتی۔ اسے استحصال کا خوف بھی برابر تھا لیکن وہ استحصال کے خلاف  آواز اٹھانے کا مصمم ارادہ کر چکی تھی۔ وہ معرفت کی وادیوں میں جھانک رہی تھی اس لئے اس سے موت کا خوف بھی ختم ہو گیا تھا۔ وہ موت کو غاصبوں کا روز سزا قرار دے رہی تھی۔ امینہ کی پوری رات اسی کیفیت میں بسر ہوئی ۔

صبح صادق عائشہ نے اسے جگایا اور کھیتوں میں جانے کی تیاری کرنے کا کہا۔ لسی کے ساتھ سوکھی روٹی کا ناشتہ کر کے امینہ اپنی بڑی بہن  عائشہ کے ساتھ کھیتوں کی طرف چل نکلی۔  عائشہ نے امینہ سے کہا  "ہاں کہو  کیا بات ہے؟”  امینہ نے رات کی ساری کیفیت بیان کی تو اس کا عائشہ پر بہت اثر ہوا۔ عائشہ اشکبار آنکھوں کے ساتھ بڑی توجہ سے امینہ کی باتیں سن رہی تھی۔   دونوں بہنیں باتیں کرتی کرتی کھیتوں تک پہنچ گئیں۔ ان کی والدہ اور والد دھان کے ننھے ننھے پودے زمین میں گاڑنے میں مصروف تھے۔ دونوں بہنیں اپنے والدین کے ساتھ دھان کے پودے زمین میں گاڑنے میں مصروف ہو گئیں۔ عائشہ اپنی چھوٹی بہن کی بتائی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اپنے آپ ہی میں امینہ کی باتوں کی تائید کر رہی تھی۔ کبھی وہ کھڑی ہوتی تو اپنا سر ہلاتی اور کبھی کام کرتے کرتے "ہوں "کرتی ایک دو دفعہ جب اس کی والدہ نے اس کی "ہوں” کی آوازسنی تو سمجھی کہ شاید عائشہ تھک گئی ہے۔ اس لئے اسے سستانے اور آرام کرنے کا کہا۔ عائشہ سوچ میں اس قدر گم تھی کہ اسے اپنے اردگرد کی خبر نہ رہی۔ اس نے اپنی ماں سے کہا نہیں امی میں تھکی نہیں ہوں ۔

دن گزرتے جا رہے تھے۔ دونوں بہنیں اپنے ماں باپ کے ساتھ روزانہ بڑے جذبے کے ساتھ کھیتوں میں آتیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کرتیں۔ انہیں دھان کی فصل تیار ہونے پر کٹائی بھی کرنی تھی اور اس کے بعد پیا گھر سدھار جانا تھا۔ اس لئے وہ کام میں کافی جوش و خروش سے کام لے رہی تھیں۔ اس کے علاوہ دونوں بہنیں فکری غربت سے نکل کر  فکری امارت کی شہزادیاں بھی بن گئی تھیں اور اب کام ان کے لئے کسی عبادت سے کم نہیں تھا۔ ان کا پہلا محبوب ان کا پروردگار تھا جس سے وہ رات کے آخری پہر گفتگو کرتیں اور اپنی تمام باتیں اس سے شئیر کرتیں۔  محبوبِ حقیقی کے بعد ان کا محبوب اپنا اپنا شوہر تھا۔

ایک دن جب دونوں بہنیں کھیتوں میں مزدوری کر کے گھر پہنچ کر کھانے کی تیاری کر رہی تھیں کہ گاؤں کی مسجد سے مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے  اور کل پہلا روزہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولوی صاحب نے چندے کی اپیل کرنا شروع کر دی اور وعظ شروع کر دیا۔ امینہ نے عائشہ کو ماہ رمضان کی آمد کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا "عائشہ باجی مولوی صاحب کی بہت سی باتوں کی کوئی بنیاد نہیں، پتہ نہیں یہ سوچتے کیوں نہیں؟”

عائشہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا "ہاں میناں تو جو کچھ سوچتی تھی اس کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرتی تو میں بھی گاؤ ں والے دوسرے لوگوں کی طرح مولوی صاحب کی تمام باتیں آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتی۔ مولوی صاحب کہتے ہیں اللہ کو مانتے جاؤ اور اس کے بارے میں کوئی بات نہ کرو۔ جب ہم اس کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کریں گے تو اس کو پہچا ن کیسے سکیں گے ؟”امینہ نے عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "باجی ان کے لئے دعا کریں۔ ہر چند جاہل ہیں لیکن لوگوں کو لاؤڈزاسپیکر سے اللہ کی طرف تو بلا رہے ہیں۔”

دن بدن دونوں بہنوں کا اپنے پروردگار سے راز و نیاز بڑھ رہا تھا۔ ان کے والدین بھی اپنی بچیوں میں غیر معمولی جوش و جذبہ دیکھ رہے تھے۔ عائشہ اور امینہ کے والدین یہی سمجھ رہے تھے کہ بچیاں شادی کی خوشی میں پر جوش ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ان کی بچیاں سوچ کی سیڑھی پر قدم رکھ کر معرفت کا  زینے پر زینہ طے کر رہی تھیں۔ یہ سیڑھی انہیں بلندیوں کی طرف لے کر جا رہی تھی، یہ بلندیاں کہاں پر ختم ہوتی تھیں اس کی خبر عائشہ اور امینہ کو بھی نہیں تھی۔ سخت گرمی میں تپتے پانی میں کھڑے ہو کر زمین کے سینے میں دھان کے ننھے ننھے پودوں کو سجانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن دونوں بہنیں محنت کو عظمت اور عزت سمجھتے ہوئے ہر روز یہ سخت مشقت کر رہی تھیں۔

ایک دن جب رات کو امینہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز میں مصروف تھی تو عائشہ کو محسوس ہوا جیسے امینہ جاگ رہی ہے۔ آج عائشہ امینہ سے اپنی کسی خواہش کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔ بوڑھے والدین تھکے ہارے دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہے تھے۔  عائشہ امینہ کے پاس آئی اور کہا "امینہ میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے” امینہ غیر معمولی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی "پیاری باجی آپ جو سوچ رہی ہیں مجھ سے کہہ سکتی ہیں میں آپ کی بات سنوں گی۔ سن کر اس پر غور و فکر کروں گی اس کے بعد اس پر اپنی کوئی رائے دوں گی۔”  امینہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اس کی بڑی بہن کو بھی اس کی طرح کوئی سوچ تنگ کر رہی ہے، جو وہ اس سے شئیر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔

عائشہ نے کہا  "امینہ!میں اپنے پروردگار کے لئے روزہ رکھنا چاہتی ہوں” امینہ نے کہا "باجی بس یہی بات تھی! عائشہ باجی اللہ جانتا ہے جب روز سحری کے وقت مولوی صاحب لوگوں کو روزہ رکھنے کے لئے جگا رہے ہوتے ہیں تو میرا بہت دل چاہتا ہے کہ روزہ رکھوں۔ لیکن ہمارے کام کی نوعیت کا آپ کو علم ہے۔ اوپر سے گرمی بہت زیادہ ہے۔ لیکن آپ نے کہا ہے تو ہم دونوں بہنیں آج روزہ رکھ لیتی ہیں۔”

عائشہ اور امینہ مسلسل معرفت کی وادیوں کی سیر کرتی جا رہی تھیں۔ دونوں بہنوں نے سوکھی روٹیاں کھا کر روزہ رکھا اور دن چڑھتے ہی کھیتوں کی طرف چلی گئیں۔ دونوں بہنوں نے بڑے شوق سے والدین کو بتایا کہ آج ہم نے روزہ رکھا ہے۔ جس پر  انہوں نے کہا کہ بیٹا آج گرمی بہت ہے، اس لئے زیادہ کام نہ کرو۔ لیکن عائشہ اور امینہ بغیر کسی تھکن کے کام کرتی جا رہی تھیں۔  ان کے والدین انہیں آرام کے لئے کہتے، لیکن کچھ نہ کچھ کہہ کر دوبارہ کام میں مصروف ہو جاتیں۔

تقریباً 12 بجے کے قریب امینہ کی حالت خراب ہوئی۔ وہ آرام کرنے کے لئے درخت کے سائے کی جانب بڑھنا چاہتی تھی کہ گرم پانی میں گر پڑی۔ امینہ کی ماں ہائے میری بیٹی کہہ کر اس کی طرف بڑھی  ہی  تھی کہ  عائشہ بھی پیاس کی دشت سے دھڑام سے  پانی میں گر گئی۔ دونوں بہنوں کے بے ہوش ہو جانے پر بوڑھے والدین نے واویلہ مچانا شروع کیا،  تو آس پاس کے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ مدد کے لئے دوڑے۔  عائشہ اور امینہ کو ایک درخت کے سائے تلے لایا گیا۔ امینہ کی خشک زبان سے پانی پانی کے مبہم الفاظ نکل رہے تھے۔ مدد کے لئے آنے والوں میں سے ایک شخص کو گاؤں کی طرف دوڑایا گیا تا کہ وہ مولوی صاحب کو بلا کر لائے اور ان سے مسئلہ پوچھا جا سکے کہ اس حالت میں لڑکیوں کو پانی پلایا جائے۔ یا مرنے دیا جائے  جلد ہی مولوی صاحب پہنچ گئے اور فتوی صادر فرما دیا کہ عائشہ اور امینہ کو ہر حال میں روزہ پورا کرنا ہو گا ۔

زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا عائشہ اور امینہ خود کو جہالت کی بھینٹ چڑھتا دیکھ رہی تھیں۔ لیکن انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ ان کی سوچ اور معرفت کا سفر لقاء اللہ کی منزل پر پہنچنے والا تھا۔ لیکن عائشہ زیر لب امینہ سے کہہ رہی تھی ہم نے تو معرفت کے نور کو پھیلانا تھا لیکن ہمیں جہالت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔  امینہ عائشہ کی طرف رخ کر اشارے ہی اشارے میں کہہ رہی تھی لقاء اللہ کی منزل سے بڑھ کر ہمارے لئے کیا ہو گا امینہ نے جس سفر کا آغاز سوچ کی سیڑھی پر رکھ کر کیا تھا، آج وہ سفر پورا ہو رہا تھا ۔ساتھ ہی وہ زبان حال سے کہہ رہی تھی "عائشہ باجی فکر نہ کر معرفت کا نور ضرور پھیلے گا۔ اسی مٹی سے جنم لینے والے معرفت کا نور ضرور پھیلائیں گے۔دونوں نے ایک دوسری کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔امینہ اور عائشہ کی معرفت کا سفر مکمل ہو چکا تھا ۔

عائشہ اور امینہ اللہ کو پیاری ہو گئیں تو گاؤں کے لوگوں نے مولو ی صاحب کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ لیکن ان کے اس عمل سے اب عائشہ اور امینہ واپس آنے والی نہیں تھیں۔ ان کا سفر اور مشن پورا ہو چکا تھا۔ دونوں معرفت کا نور پھیلانے کا مشن اپنی مٹی کو سونپ کر  خالق حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ چکی تھیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید