ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
سوار
شمس الرحمن فاروقی
He would not stay for me; and who can wonder?
He would not stay for me to stand and gaze.
I shook his hand and tore my heart asunder
And went with half my life about my ways.
E. Housman
چراغ کی روشنی مدھم تھی، یا یوں کہیں کہ زرد اور دودی تھی۔ اس لفظ کو لکھ کر میں ذرا مسکرایا ہوں۔ یہ مصطلحات طب میں سے ہے اور مجھے اس کے معنی جانے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے۔ اشرف الاطبا حکیم شریف خاں صاحب مدظلکم العالی کبھی کبھی ہمارے مدرسے میں درس دینے قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ گزشتہ یوم الاحد کو آپ نے نباضی کے فن پر بڑی جامع تقریر فرمائی تھی۔ تقریر کیا تھی، پڑھنے اور پڑھانے کا مثالی سبق تھا۔ ایک بڑی عمر کا طالب علم شیخ الرئیس کی کتاب سے ایک جملہ پڑھتا، اگر پڑھنے میں اس سے غلطی ہوتی، یا خود کتاب کے نسخے ہی میں کوئی غلطی ہوتی تو قبلہ حکیم صاحب اس کی تصحیح کرتے۔ پھر وہ عربی عبارت کا فارسی میں ترجمہ کرتے لیکن عبارت کے نکات وہ عربی ہی میں سمجھاتے۔ اس کے بعد ہر طالب علم کو حکم ہوتا کہ اپنے ساتھی کی نبض دیکھ کر ان خواص کی روشنی میں اس پر تبصرہ کرو جن کا بیان شیخ الرئیس کے سبق میں ہے۔ (تبصرہ کرنے کے لیے فارسی بلکہ ہندی بھی بولنے کی اجازت تھی۔ ) بعض اوقات کوئی جھجکتا، کہ نبض پہچاننے میں غلطی نہ کر جاؤں یا کسی ایسے مرض کا ذکر نہ کر بیٹھوں جسے وہ طالب علم چھپانا چاہتا ہو۔
ایسی صورت میں حکیم صاحب جھجکنے والے طالب علم ہی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نبض کو مختلف طرح سے دباتے، کہ ہر بار اس کا سر گم بدل جاتا اور حکیم صاحب طالب علم سے کہتے کہ اپنی گردن میں دائیں طرف، شاہ رگ کے پاس انگلی رکھو اور وہاں پر نبض کے بدلتے سرگم کو محسوس کر کے اس پر تبصرہ کرو۔ یہ اور بھی مشکل کام تھا مگر خالی از لطف نہ تھا۔ اسی سبق میں دودی نبض کا بیان تھا، یعنی ایسی نبض جو بالکل بے طاقت اور مرتعش ہو، جیسے بجھتے چراغ سے اٹھتی دھویں کی ہلکی لکیر۔ ایک رائے یہ بھی تھی کہ دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں اور دودی نبض وہ ہے جو کیڑے کی طرح بہت دھیمی چلے۔ لیکن ہم لوگوں کو چراغ کے دھوئیں والی توجیہ ہی خوش لگتی تھی۔
بس وہی حال میرے چراغ کا تھا۔ گرمی اس پر مستزاد۔ اگر پنکھا جھلوں تو کتاب کے اوراق اڑیں اور اس سے بدتر یہ کہ چراغ کی لو اور بھی جھلملا جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا، پسینہ آنکھوں اور منھ میں آنے لگتا تو آستین سے پونچھ کر پھر اپنے سبق کے اوراق پر نظر گاڑ دیتا۔ تفتازانی کی ’مطول‘ کا وہ نکتہ مجھ پر واضح ہی نہ ہوتا تھا۔ علامہ کا ارشاد تھا کہ کلام کے معنی منحصر ہوتے ہیں قائل کے عندیے پر اور مخاطب کے اپنے ذہنی کیفیات پر۔ انہوں نے مثالیں بھی دی تھیں۔ میرا سبق یہ تھا کہ ان کے بیان کردہ اصول کو اپنی مثالوں کی روشنی میں ثابت کروں، یا علامہ کے قول پر کوئی اعتراض لاؤں۔ آج پنج شنبہ کی رات تھی، سبق ختم کر لیتا گو گھر جانے کی چھٹی تھی۔ لیکن علامہ کا اصول ہی ٹھیک سے سمجھ میں نہ آتا تھا، اپنی مثالیں کہاں سے وضع کرتا، یا علامہ پر اعتراض کہاں سے لاتا؟
میں مسجد فتح پوری کے ذرا پیچھے حضرت مولانا سید نا و سندنا شاہ عبدالرحیم صاحب فاروقی علیہ الرحمۃ والغفران کی خانقاہ میں انہیں کے قائم کردہ مدرسۂ رحیمیہ کا طالب علم تھا۔ حضرت بڑے شاہ صاحب قبلہ تو ماہ صفر ۱۱۳۱ھ (مطابق جنوری ۱۹۱۹ء۔ مرتب) میں ہی رحلت فرما چکے تھے۔ ان کے بعد مدرسے کی سربراہی ان کے صاحب زادے احکم الحکماء، اعلم العلماء، قدوۃ الواصلین، زبدۃ العارفین، معیار السالکین، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کے مبارک ہاتھوں میں آئی۔ مجھ ناکارہ کو ان کے اسباق میں شریک ہونے کی سعادت کوئی دو برس تک نصیب رہی۔ ماتم و صد ماتم کا مقام ہے کہ چند مہینے پہلے ۲۹محرم الحرام ۱۱۷۶ء سن ہجرت حضرت رسالت مآبﷺ (مطابق ۱۹ اگست ۱۷۶۲ء۔ مرتب) ہمارے قبلہ و حضرت شاہ ولی اللہ صاحب بھی حق پیوست ہوئے۔ دلی کے تمام حلقوں میں اب تک ان کا سوگ منایا جا رہا ہے۔ مدرسے کی زمام کار اب غزالی وقت، محدث زماں، ارسطوئے دوراں، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دام اللہ افضالہم و مدت فیوضہم کے دست مبارک میں ہے۔
اس وقت میری اٹھتی عمر تھی، یہی کوئی پندرہ برس کا رہا ہوں گا۔ مسیں بھیگ رہی تھیں، ہاتھ پاؤں اپنے والد مبر ورو مغفور کی طرح اچھے نکالے تھے۔ میرے والد، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، اعلیٰ حضرت شاہ عالم ثانی کے ساتھ بہار کے ایک چھوٹے سے معرکے میں شہید ہوئے تھے۔ اس وقت آپ خدیو ہندوستاں، دارائے زماں، مملکت ہند اور مملکت علم دونوں کے حکمراں، ابو المظفر جلال الدین محمد شاہ عالم ثانی خلد اللہ ملکہم و سلطانہم کے اسم مبارک کے ساتھ سریر آرائے سلطنت نہ تھے۔ ان دنوں آں صاحب کی شہزادگی کے مبارک و مسعود ایام تھے اور آپ کا لقب صاحب عالم اور اسم مبارک شاہزادہ عالی گہر تھا۔
میری عمر کوئی تین سال کی رہی ہو گی اور میری بہن ابھی پیدا ہی پیدا ہوئی تھی۔ ہم دونوں کے نام، خیر الدین اور ستی بیگم، انہیں کے رکھے ہوئے ہیں۔ قبلہ و صاحب عالم شاہزادہ عالی گہر نے از راہ وفادار پروری و غریب نوازی میری والدہ کے لیے چھوٹی سی تنخواہ مقرر کر دی تھی۔ وہ نیک بندی اسی میں اپنا اور ہماری دو جانوں کا پیٹ پالتی تھی۔ جب میں دس سال کا ہوا تو انہوں نے مجھے مدرسۂ رحیمیہ میں ڈال دیا کہ مجھے مولوی بننے کا شوق تھا۔ اب تو مجھے یہاں پانچ سال ہونے کو آ رہے تھے۔
میرے پاس اپنا حجرہ تھا۔ کوئی ساڑھے تین گز لمبا، تین گز چوڑا، کھردرے فرش پر چٹائی بچھی ہوئی، ایک لمبی نیچی سی چوکی پر کتابیں بکھری ہوئیں، کاغذ پھیلے ہوئے۔ ضرورت پڑنے پر انہیں کھسکا کر اسی چوکی پر کھانا کھا لیتا تھا۔ سونے کے لیے چارپائی کی اجازت نہ تھی۔ ایک ہلکی اور کچھ ملگجی سی اکبر آبادی دری، ہو سکا تو اس پر چھوٹی سی جاجم یا چاندنی۔ تکیے کی ضرورت تھی ہی نہیں، کسی موٹے دفتر کو سر کے تلے رکھ لیتا تھا۔ کھانا کبھی کبھی باہر سے آ جاتا، ورنہ سوا روپیہ مہینہ جو مدرسہ ہر طالب علم کو دیتا تھا، مہینہ بھر کے کھانے کے لیے وافر تھا۔ سوا، یا حد سے حد ڈیڑھ دام میں عمدہ قسم کا سالن مل جاتا تھا۔ روٹیاں مفت تھیں، جتنی چاہو کھاؤ۔ کبھی کبھی کوئی ترکاری بھی روٹی پر رکھ دی جاتی تھی۔
ماہانہ رسم سے اتنا بچ جاتا تھا کہ اماں جی میرے لیے سال میں ایک دو سادہ جوڑے بنوا دیتی تھیں۔ کسی کسی سردی میں کوئی اللہ کا بندہ جڑاول کے نام پر شال دوشالہ یا اونی کپڑے کے پاجامے دے جاتا۔ کبھی کبھی کچھ میرے حصے میں بھی پڑتا۔ کتابیں مدرسے سے ملتی تھیں۔ زندگی گزرتی جاتی تھی، فکر فردا نہ تھی۔ لیکن اب وہ فکر بھی لاحق ہونے والی تھی۔ مدرسے میں یہ میرا آخری برس تھا۔ اب مجھے تلاش معاش اور بہن کی شادی، دونوں مسائل سے معاملہ کرتا تھا اور جلد کرنا تھا۔
بات کہیں سے پہنچ گئی۔ مجھے جلدی تھی کہ ’مطول‘ کی عبارت ٹھیک سے ازبر اور مستحضر کر لوں، اپنی مثالیں تیار کر لوں اور گھر جاؤں۔ جمعہ چھٹی کا دن ہوتا تھا، اس کی خوشی میں تمام طالب علموں کو اپنے اپنے گھر، یا مقامی مربی کے یہاں جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ میں نے ذہن کو دوبارہ ’مطول‘ کی طرف مائل کرنا چاہا۔ مخاطب کے ذہنی کیفیات۔۔ ۔ یعنی چہ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مخاطب یا سامع اپنے ذہنی کیفیات کے اعتبار سے مطلب نکالتا ہے؟ ہاں، کیوں نہیں؟ کسی مسجد میں ہم کہیں کہ ’’امام صاحب آئے تھے‘‘ اور ہم نے لفظ ’’امام‘‘ سے حجۃ الاسلام حضرت امام ابو حامد ابن محمد ابن محمد الطوسی الغزالی کا نام نامی مراد لیا ہو، لیکن سامع تو یہی سمجھے گا کہ ہم امام مسجد کا ذکر کرتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مطلب سامع کو مطلب قائل پر فوقیت ہو سکتی ہے؟ نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو احادیث و آیات الٰہی کا کیا ہو گا؟
مجھے سوچتے سوچتے جھپکی سی آ گئی۔ چند لمحے (یا خدا معلوم ایک گھڑی) بعد چونک کر اٹھا تو محسوس ہوا کسی نے ذہن پر جالا تان دیا ہے، کچھ روزن بھی نہیں کہ روشنی اندر آئے۔ میں نے آنکھیں مل کر ہوش قائم کرنے کی کوشش کی۔ اتنے میں فتح پوری مسجد سے عشا کی اذان سنائی دی۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا تھا کہ مسجد کی جائے ضرور میں استنجا کر کے حوض وضو میں فریضۂ وضو انجام دوں اور بعد نماز گھر کی راہ لوں۔ شاید راستے میں علامہ اپنے تصرف سے میری گتھی سلجھا دیں، یہاں تو اب کچھ ہونا ہوانا تھا نہیں۔
میں ’مطول‘ کا دفتر سنبھال کر رکھ رہا تھا کہ میرے ذہن میں یہ مصرع خدا جانے کہاں سے در آیا،
سوار دولت جاوید برگزار آمد
میں شاعر نہیں، فارسی کا کوئی خاص مطالعہ بھی نہیں۔ اتنی ہی فارسی پڑھی ہے جتنی اپنے اسباق کے لیے ضروری ہو۔ رہی غزل، تو وہ کوئی پڑھنے کی چیز نہیں، یوں ہی کوچہ و بازار کی ہوائیں میرزا بیدل، شیخ علی حزیں، محمد افضل سرخوش، اچل داس، آنند رام مخلص، میرزا مظہر، خان آرزو اور بیسیوں دیگر شعرا کے کلام کو شہر بہ شہر اڑائے پھرتی تھیں۔ غزل کی اس مقبولیت کے باوجود میں نے کبھی ایک مصرع بھی نہ کہا تھا۔ اگر آئندہ کبھی کہنے کا خیال کرتا بھی تو ریختہ کہتا، کہ ان دنوں اچھے اور نئے شعرا ریختہ کی طرف جا رہے تھے۔ ریختہ میں ایک شوخی اور رنگینی تھی اور وہ اب فارسی والوں کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھی۔ پھر یہ مصرع میں نے تو کہا نہ ہو گا؟ مگر کیا برجستہ، ذرا پراسرار سا مصرع تھا، سوار دولت جاوید برگزار آمد۔ کاش میں نے ہی کہا ہوتا۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟
کیا امام سکا کی یا علامہ تفتازانی کی پاک روحیں یہ مصرع القا کر کے مجھے بتانا چاہتی تھیں کہ کلام کو بامعنی بنانا منحصر ہے سامع پر؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر تو حق اور حقیقت کا معیار ہی ساقط ہو جائے گا۔ نہ سہی۔ لیکن یہ مصرع اگر میں نے کہا ہے اور میں اس کے معنی سمجھ نہیں سکتا تو گویا یہ مصرع میں نے کہا ہی نہیں۔ کیا جانے یہ سوار دولت جاوید کون ہے اور کس رہگزار پر اس کے ورود کی خبر دی جا رہی ہے؟ دوسرا مصرع لگاؤں خاک جب مجھے پتا ہی نہیں کہ مصرع اولیٰ میں کہا کیا گیا ہے۔
میں تو سمجھتا تھا کہ شاعر لوگ فکر سخن کرتے ہیں، سوچتے ساچتے ہیں، لفظ کاٹتے بڑھاتے ہیں، تب کہیں مصرع بنتا ہے اور اچھا شعر کہنے کے لیے تو خدا معلوم کتنا خون جگر جلانا پڑتا ہو، کتنے دن رات ایک کرنے پڑتے ہوں، یا اور اللہ جانے کتنے اور کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں۔ اسی لیے تو نعمت خان عالی نے کہا،
ارباب سخن راز سخن نام بلند است
از مصرع برجستہ خلف تر پسرے نیست
لیکن میاں جان، میں کون سا ارباب سخن ہوں؟ مجھے تو بس یہ تمنا ہے کہ کسی اچھے مدرسے میں مدرس ہو جاؤں، جو کچھ بڑے بوڑھوں سے سنا اور سیکھا ہے اسے اوروں تک پہنچاؤں۔ شاعر بننا میرے گوشوارۂ عمل میں شامل ہی نہ تھا۔ مگر ہائے کیا خوب مصرع ہے، سوار دولت جاوید برگزار آمد۔ میں بے ساختہ گنگنانے لگا۔ مجھے موسیقی کا ذوق نہیں، لیکن میرے ساتھی کہتے ہیں میرا گلا اچھا ہے۔ میں مصرع دھیمے سر میں گنگناتا ہوا مسجد تک پہنچ گیا۔
پتا نہیں نماز میں کیا پڑھا کیا سنا۔ میرے دل دماغ میں تو وہی مصرع گونج رہا تھا۔ جیسے تیسے نماز پڑھ کر میں نے گھر کی راہ لی۔ گرمی کچھ کم ہو گئی تھی، دن بھر کی پچھوا مدھم پڑ کر رک گئی تھی۔ سعادت خاں کی نہر کے دور ویہ روشنی اور پھولدار پیڑوں کی چھاؤں کے اطراف میں ہلکی ہلکی ہوا ٹھنڈی تھی۔
ہمارا گھر پھاٹک تیلیان کے بس ذرا اندر تھا۔ وہاں تک کا سیدھا رستہ تو یہ تھا کہ میں نہر سعادت خاں کے کنارے کنارے چلتا چاندنی چوک کی آدھی راہ طے کر کے سیدھے ہاتھ کو کناری بازار میں مڑ جاؤں۔ پھر جامع مسجد کو الٹے ہاتھ پر چھوڑتے ہوئے چاوڑی بازار میں داخل ہو جاؤں، لیکن چاوڑی بازار کی پوری لمبائی طے کرنے کے بجائے آدھے راستے پر دائیں ہاتھ کو سوئی والان میں مڑ جاؤں۔ اس کے بعد گلیوں کا جال ہی جال تھا، لیکن آسانی اس میں تھی کہ میں پھر سیدھے ہاتھ گھوم کر بازار سیتا رام پہنچوں اور بلبلی خانہ، ترکمان دروازہ ہوتے ہوئے پھاٹک تیلیان پہنچوں۔ ذرا تیز تیز چلیں تو اس پورے سفر میں سوا ڈیڑھ گھڑی لگتی تھی۔ لیکن ایک راستہ اور تھا۔ یہ ذرا لمبا تھا، لیکن میں اسے کبھی کبھی اختیار کر لیتا تھا۔ اس میں فائدہ یہ تھا کہ اثنائے راہ میں مالی واڑہ یا بازار گل فروشاں کی سیر ہو جاتی تھی۔
وہ راستہ یوں تھا کہ فتح پوری سے ذرا آگے جا کر سیدھے ہاتھ کو بلی ماراں میں گھوم جائیں، پھر گلی قاسم جان کو چھوڑتے ہوئے الٹے ہاتھ کو مالی واڑے میں داخل ہو جائیں۔ پھر وہی راہ آپ کو چاوڑی بازار لے جاتی ہوئی پرانے راستے پر واپس لے آئے گی۔ بازار گل فروشاں والے مجھے پہچاننے لگے تھے اور کبھی کبھی مجھ سے اپنی نذر نیاز کے موقعے پر فاتحہ دلواتے۔ پھر ہدیے کے طور پر مجھے کبھی ایرانی یاسمن کا بڑا سا گچھا، کبھی منگلور کے سرخ گلابوں کا گلدستہ، کبھی بنارس یا جونپور کے موگروں کے ہار، کبھی چمپا کی کلیاں، یعنی مناسب موسم کچھ پیش کرتے۔ اماں جی کے لیے یہ پھول بہترین تحفہ ثابت ہوتے۔ میری ماں کم عمری میں بیوہ ہوئی تھیں اور اب بھی ان کے چہرے پر وہ صباحت تھی کہ اگر کبھی ہم لوگوں کے مجبور کرنے پر ذرا اچھا لباس پہن لیتیں تو محفل میں اچھی اچھی دولت مند شریف زادیوں کو ان پر غبط ہوتا تھا۔
مالی واڑے میں ہمیشہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور شور غل اس پر مزید سماں باندھ دیتا تھا۔ گل فروشوں کی صدائیں، گلہائے بوقلموں کی خوشبوئیں اور رنگینی، شائقین کا ہجوم، جن میں کبھی کبھی رجواڑے کی گلی والیوں کے ہوادار بھی ہوتے تھے، وہ رونق ہوتی تھی کہ پوچھیے نہیں۔
’’اے میاں یہ حور ایرانی آپ کی منتظر ہے۔‘‘
’’سنو جی صاحب زادے، اس حیدرآبادی تلنگن سے تو دو دو بات کر لو۔‘‘
’’اجی مولانا، تسبیحوں کے لیے ان سے بہتر کلیاں کہاں۔‘‘
’’لے لو بھئی یہ مہرولی کے گلاب ہیں، شبنم اور شہد کی ملواں مئے ناب ہیں۔‘‘
’’صاحب یہ شاہجہانی دستنبو ہیں، گلیاں ان سے مشکبو ہیں۔‘‘
’’بیائید میاں صاحب، ہر گلے رارنگ و بوے دیگراست۔‘‘
’’اے گل بتوخر سند تو بوے کسے داری۔‘‘
ایک سے ایک ہار اور گجرے۔ ڈھائی تین سیر کا گجرا اور پانچ سات سیر کا سہرا تو معمولی بات تھی۔ لوگ گلدستے، دستنبو، ہار، گجرے، بدھیاں وغیرہ قیمت جمع کر کے پہلے سے بنوا رکھتے تھے اور بھاری گجرے یا سہرے کے لیے تو دو دو تین تین دن پہلے کہنا پڑتا تھا۔ لیکن جو بھی اپنا مال لینے آتا فوراً وہاں سے چلا نہ جاتا۔ گل فروشوں کی سجاوٹیں اور صدائیں اور خوشبوئیں دیر تک دلوں کو باندھے اور قدموں کو روکے رکھتیں۔
دور نزدیک سے آنے والے یہ ازہار متنوع اللون خدا جانے کس طرح اتنی دیر دیر تک محفوظ رکھے جاتے تھے۔ کئی کئی دن تک ان کی رونقیں کم نہ ہوتیں اور جب تک پچھلے پھولوں کو گاہک لے جائیں، نئے پھول آ جاتے لیکن اپنی شاخ سے ٹوٹ کر بچارے غریب الوطن بھلا کب تک زندگی کرتے؟ ان کی تازگی بہر حال چند ہی دنوں کی مہمان ہوتی۔ میرزا رضی دانش کا کیا عمدہ شعر ہے،
گل بدست گل فروشاں رنگ بیماراں گرفت
آب غربت ناز پرور دگلستاں رانہ ساخت
گل فروشوں کا کمال یہ تھا کہ خود ان کی دکانوں پر کوئی گل زرد رو دیکھنے میں نہ آتا تھا۔ خدا جانے کس وقت اپنے پژمردہ اور افسردہ مہمانوں کو رخصت کر دیتے تھے۔ دکانیں تو ان کی علی الصباح کھل جاتیں اور رات گئے تک کھلی رہتیں۔ جب تک چاوڑی اور رجواڑے کا آخری تماش بین اور رؤسا و اہل ثروت کی صحبت شبینہ کا آخری مہمان نہ رخصت ہوتا، گل فروش بھی اپنی دکان سجائے رہتے۔
اس دن مجھے جونپور کے موگرے تحفے میں ملے۔ اس قدر بڑے بڑے جیسے سفید گلاب کے پھول اور اس قدر خوشبو کہ اکثر تو تین چار دن تک یوں ہی بستر پر پڑے رہنے کے باوجود مہکتے رہتے۔ میں بلاد مشرق میں بھی نہیں گیا، وہاں رہنے کا تو خیر کوئی امکان بھی نہ تھا۔ لیکن مجھے ان مشرقی پھولوں سے بے حد محبت تھی، شاید اس لیے کہ میرے والد مرحوم کی آخری آرام گاہ مشرق میں بنی۔
آج بازار سے کھانا لے کر نہ کھایا تھا، کہ اماں جی کے ہاتھ کی نعمتیں نصیب ہونی تھیں۔ اپنی بہن کے لیے تازہ رس گلوں بھرا ایک کوزہ لے کر گھر پہنچا تو لگا جیسے پھاٹک تیلیان کی ساری عمارت میری اماں جی کی پکائی ہوئی شیر مالوں کی خوشبو سے گمک رہی ہے۔ ستی بی بی دروازے کی آڑ میں کھڑی تھی اور ابھی میں ٹھیک سے اندر بھی نہ آنے پایا تھا کہ وہ بولی، ’’بھائی جان، بھائی جان، آپ نے کچھ سنا؟‘‘
’’کیا سنا؟ میری بنو نے گھر بیٹھے کچھ سن لیا ہو تو سن لیا ہو، بازار میں تو آج کوئی خبر نہیں۔‘‘
’’ہٹیے آپ تو میری ہر بات مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ کل کوئی خنگ سوار نکلیں گے۔۔ ۔‘‘
’’لے تو یہ رس گلے کھا، خنگ سوار وغیرہ کوئی تیری طرح بھوکے تھوڑی ہیں جو یوں بازاروں میں گھومتے پھریں۔‘‘
’’اور لو، تو کیا میں بازاروں میں گھومتی پھرتی ہوں؟ سن لیجیے، برائے خدا سن لیجیے اور اللہ ہمیں بھی انہیں دکھا دیجیے گا۔‘‘
’’بی بی ترا دماغ تو نہیں چل گیا؟ ذری کنے تو آ، تیری نبض ٹٹولوں۔ لے بھئی، تو باہر سانڈ کی جوں اینڈتے مشٹنڈے خنگ سوار کو دیکھے گی؟‘‘
’’وہ کوئی بقول آپ کے مشٹنڈے نہیں ہیں۔ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ کل صبح سیاہ قیطاس پر سوار وہ دو گھڑی دن رہے اچانک نمودار ہوں گے۔ یہیں ترکمان دروازے کے پاس۔ پھر وہ بلبلی خانے کی طرح سے بازار سیتا رام، حوض قاضی، چاوڑی بازار ہوتے ہوئے جامع مسجد کے شمالی دروازے کی سمت آئیں گے۔‘‘ اس خوف سے کہ میں پھر اسے نہ ٹوک دوں، وہ جلد جلد کہتی گئی، ’’شمالی دروازے کی سمت سے وہ کناری بازار ہو کر چاندنی چوک پر نکلیں گے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ میں نے جھوٹی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’پھر کیا، وہ جس طرح اچانک ظاہر ہوئے تھے، اسی طرح غائب ہو جائیں گے۔ لیکن بھائی جان۔۔ ۔‘‘
مجھے ایسا لگا کہ اب جو بات کہنی ہے اسے کہنے کی ہمت اس میں نہیں ہے۔ ’’کہو کہو۔‘‘ میں نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور اس کے ڈھلکے ہوئے دوپٹے کو ٹھیک سے اڑھاتے ہوئے کہا۔
’’جی، وہ۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔‘‘ پھر اچانک وہ ہمت مجتمع کر کے بڑے جوش سے بولی، ’’کوئی ان کا راستہ روک لے تو پھر وہ ان سے کچھ بھی مانگ لے۔۔ ۔ سب کچھ ملے گا۔ بس راستہ روکنے کی دیر ہے۔‘‘
’’لڑکی غیبانی ہوئی ہے؟‘‘ اماں جی تھکے ہوئے انداز میں بڑبڑائیں، ’’آج صبح سے یہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ آخر تو ان سے مانگے بھی تو کیا مانگے گی؟‘‘
’’میں اپنے بھین کے لیے چاند سی دلھن مانگوں گی۔‘‘
’’توبہ ہے۔ اتنی محنت اور ہمت کا کام اور تمنا اتنی حقیر۔۔ ۔ اے لو، میرے خیرو کو کیا ہو گیا؟‘‘ اماں جی گھبرا کر بولیں۔ میں اپنی ماں بہن کی گفتگو سے بیگانہ سا، بالکل سن، ایک ٹک تاک رہا تھا۔ میرے دل میں خدا جانے کہاں سے یہ مصرع امڈا آ رہا تھا،
عنان او نہ گرفتند از گزار برفت
یہ تو پورا شعر ہی ہو گیا، میں نے تقریباً مجنونانہ انداز میں زیر لب کہا،
سوار دولت جاوید بر گذار آمد
عنان او نہ گرفتند از گزار برفت
تو کیا یہ شعر میں نے کہا۔ نہیں، مجھ سے کہلایا گیا ہے؟ کیا واقعی کوئی بزرگ کل یہاں سے گزریں گے؟ اور کیا سچ میں اگر کوئی ان کی راہ روک لے۔۔ ۔ لیکن میرا مصرع تو کہتا ہے کہ ان کی راہ کوئی بھی نہ روکے گا، حالانکہ شاید وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی بڑھ کر روک لے؟ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا میں اپنی پیاری بہن ستی کے لیے ان سے کچھ مانگ لوں؟ شعر تو شعر ہی ہے، میں نے کہا بھی تو کیا ہوا کہ کسی نے ان کی لگام نہ تھامی اور وہ چلے گئے۔ شعر اور ہے، حقیقت اور ہے۔
میں سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ اماں جی سارے گھر میں گھبرائی گھبرائی خمیرہ گاؤ زباں ڈھونڈ رہی تھیں۔ بچاری ستی بیگم پنکھے کی ہوا کر رہی تھی اور درود پڑھ کر دم کر رہی تھی۔ میں نے جلد جلد اپنے حواس درست کیے۔ ’’کچھ نہیں کچھ نہیں، گرمی بہت ہے۔ ذرا چکر سا آ گیا تھا۔ اماں جی، آپ پریشان نہ ہوں اور ستی بیگم، کوئی اور بستی نہیں، یہ دلی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہی سیاہ پوش، سبز پوش، سانڈنی سوار، وغیرہ کی افواہیں اڑتی رہتی ہیں۔ یہ تو دلی والوں کے کھانے کی چٹنی ہیں۔ لو بھئی کھانے کے نام پر بھوک لگ آئی۔ اماں جی آپ کی شیرمالوں نے تو سارا بازار مہکا دیا ہے۔‘‘
کھانے کے دوران کوئی بات نہ ہوئی۔ ستی اور میں اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے۔ مجھے یاد آیا کہ بابا قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں اسی دلی میں ایک بزرگ آئے تھے۔ وہ یوں ہی سڑکوں پر سوار پھرتے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جو انہیں دیکھ لے وہ جنتی ہو۔ ایک عالم ان کی زیارت کو گیا۔ نہ گئے تو بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نہ گئے۔ حضرت بابا بختیار صاحب نے فرمایا، ’’میاں فرید، تم ان بزرگ کو دیکھنے گئے تھے؟‘‘
’’جی پیر و مرشد، میں تو نہ گیا۔‘‘
’’کیوں؟ کیا تمہیں جنت میں جانے کی تمنا نہیں؟‘‘
’’جی اعلیٰ حضرت، ہے تو سہی۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’جان کی امان پاؤں۔‘‘ بابا فرید نے کچھ جھجکتے ہوئے فرمایا۔
’’کہو، بے خوف کہو۔ میرے سامنے تمہیں نفس مطمئنہ حاصل ہے۔‘‘ حضرت بابا بختیار نے ارشاد فرمایا۔
’’حضرت اقدس بھی تو تشریف نہیں لے گئے اور آنجناب کے بارے میں نص صحیح کی بشارت تو کوئی ہے نہیں کہ حضور کو جنت ہی ملے گی۔ میں اگر جان کران بزرگ کی زیارت کر کے جنت کا مستحق بن بھی گیا تو کیا؟ اعلیٰ حضرت نے تو انہیں دیکھا نہیں۔ لہٰذا معلوم نہیں کہ جنت آپ کے قدوم با برکات کو بوسہ دے گی کہ نہیں۔ تو ایسی جنت میں جا کر کیا کروں جس میں میرے حضرت و قبلہ، میرے محبوب روحانی، میرے پیر و مرشد نہ ہوں۔‘‘ حضرت بابا بختیار کو یہ ارادت و الفت اور تعلق مع الشیخ کی قوت، اتنی پسند آ گئی کہ آپ نے جوش میں آ کر نعرہ کیا اور فرمایا، ’’فرید الدین، ان بزرگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جو انہیں دیکھ لے وہ جنتی ہو۔ میں حق سبحانہٗ تعالیٰ العزیز کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ جو تمہاری قبر دیکھ لے وہ جنتی ہو۔‘‘
(سچ ہے،
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
تو کیا یہ ممکن نہیں کہ آج ایسے کوئی بزرگ ہوں جن کو روک کر انسان جو چاہے مانگ لے اور جو مانگے اسے پا بھی لے؟ نہ سہی، لیکن میری ننھی سی بہن کو تو اعتقاد تھا۔ اسے مایوس کیوں کروں۔ )
’’ستی بی بی کیا وہ بزرگ جناب امیر حمزہ ہیں؟‘‘ میں نے کھانا ختم کرتے کرتے پوچھا۔
’’پتا نہیں، کیوں؟‘‘
’’تو نے کہا کہ وہ سیاہ قیطاس پر سوار ہوں گے۔ تو یہ نام تو داستان امیر حمزہ میں جناب امیر حمزہ کے مرکب کا ہے۔‘‘
’’پتا نہیں، اس کی پیشانی پر تفکر کی ہلکی سی شکن تھی۔ ’’میں نے داستان امیر حمزہ کبھی سنی نہیں۔ مجھ سے تو کہنے والی نے یہی کہا تھا۔‘‘
’’تو وہ کہنے والی تجھے بے وقوف بنا رہی تھی۔ لیکن چل، کوئی بات نہیں۔ تیری ضد میں ضرور پوری کروں گا۔ استاد خیر اللہ مہندس کا پوتا میرا دوست ہے۔ ان لوگوں کی ڈیوڑھی بہت بڑی ہے، پردے کا بھی معقول انتظام ہے۔ میں کل شام تجھے انہیں کے یہاں لے چلوں گا۔‘‘ میں مسکرایا، ’’اور تیرے طفیل میں بھی ان بزرگ کی زیارت کر لوں گا۔‘‘
’’اے ہے لڑکے تیری تو مت ماری گئی ہے۔ جوان لڑکی کو باہر لے جائے گا؟ خدا معلوم کون ہیں وہ بزرگ یہ بی بی جن کو دیکھنے کے لیے دیوانی ہو رہی ہیں۔ کہیں کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘ اماں جی گھبرا کے بولیں۔
’’نہیں اماں جی، سوار وغیرہ کوئی کچھ بھی نہیں۔ میں جانتا ہوں نہ کوئی بزرگ ہیں نہ پیر نہ پیمبر۔ بس ان بنو کی ضد پوری کرنے کے لیے بقاء اللہ کی حویلی تک لیے چلا جاؤں گا۔‘‘
’’اب تم جانو، کوئی اونچ نیچ نہ ہو۔ زمانہ خراب ہے۔‘‘
’’اماں جی، آپ کو پتا بھی نہ لگے گا کہ ہم کب گئے کب آئے۔‘‘ ستی نے کہا، ’’آپ ہر گز اپنا دل برا نہ کریں۔‘‘
اس رات مجھے ٹھیک سے نیند نہ آئی۔ گرمی بھی بہت تھی اور پراگندہ خیالی بھی۔ اگر میں سچ مچ ان بزرگ کو روک لوں تو کیا مانگوں گا؟ ستی بیگم کے لیے اچھا سا دولہا؟ اپنے لیے ڈھیر سارا علم اور شہرت؟ اماں جی کے لیے صحت اور فارغ البالی؟ اور کہیں الٹا نہ ہو جائے؟ سنتے ہیں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسی انوکھی صورتوں میں مراد مانگی جائے تو وہ پوری تو ہوتی ہے، لیکن اس کے بدلے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ یہ خطرہ کون مول لے گا؟
مجھے بار بار جھپکی آتی اور کسی پریشاں خوابی کی بنا پر نیند بار بار اچٹ جاتی۔ میری ماں بہن ذرا بہتر نیند سوئیں۔ دن بھر گھر کی مشقت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ خاص طور پر مہربان ہوتا ہے۔ مگر ستی بیگم کی شادی تو کرنی ہی تھی اور جلد کرنی تھی۔ بادشاہ سلامت تو ابھی دیار پورب میں ہی تھے۔ ان تک عریضہ کون پہنچائے اور کس طرح پہنچائے اور کیا اب وہ اس مختصر درما ہے کے اوپر بیٹی کی شادی کے لیے کچھ اور ارزانی فرمانا پسند کریں گے؟ میرزا سلیمان شکوہ بہادر دام اقبالہم، جو بادشاہ سلامت کی غیر موجودگی میں کاروبار سلطنت سنبھالے ہوئے ہیں، ان سے رجوع کروں؟ حضرت شاہ صاحب کی معرفت کوئی درخواست بھیجوں؟
ادھر یہ بھی تھا کہ ننھی سی بہن کو بیاہ کر گھر سے گویا باہر کر دینا مجھے بے حد شاق بھی لگتا تھا۔ صورت شکل، سبھاؤ، ہنر مندی، سب میں وہ میری ماں کی طرح تھی بلکہ اور بھی نازک اور طبیعت کی اور لطیف و نظیف۔ ایک دن کے کپڑے دوسرے دن نہ پہن سکتی تھی۔ رات کا رکھا ہوا کھانا، خواہ کتنا ہی لذیذ ہو، اسے گوارا نہ تھا۔ بلکہ گھر میں ایک وقت جو کچھ کھانا بچتا وہ دوسرے وقت کا انتظار کیے بغیر کسی سائل کو دے دیا جاتا، اماں شکایت کرتی رہتیں کہ ان بیگما کے لیے دونوں وقت تازہ روٹی کون پکائے۔ لیکن وہ ہمیشہ کہتی کہ اماں روٹی پکانے کے لیے میں ہوں، دن میں دس وقت پکا دوں اور شاکی نہ ہوں۔ پکانے ریندھنے، سینے کاڑھنے میں تو وہ طاق تھی ہی، قرآن اس نے کئی بار ختم کیا تھا۔ آمد نامہ اسے پورا زبانی یاد تھا۔ فارسی کی سادہ عبارت سمجھ لیتی تھی۔ لیکن ایسی بیٹی کے لیے بر کہاں سے آتا؟ اور اسے با عزت رخصت کرنے کے سازو برگ کدھر سے پیدا ہوتے کہ میری بہن خوشی خوشی اپنا نیا گھر آباد کر سکتی۔
آج رات سونا شاید مقدر میں تھا ہی نہیں۔ وہ شعر کم بخت بھی ذہن میں شہد کی مکھی کی طرح بھنبھنا رہا تھا۔ خدا معلوم کب آنکھ لگی لیکن اچانک محسوس ہوا کہ اماں تہجد کے لیے اٹھی ہیں۔ پھر میں سویا ہی نہیں، چپ چاپ لیٹا فجر کی اذان کا انتظار کرتا رہا۔
گرمیوں کی شام دیر سے ہوتی ہے لیکن اس دن ایسا لگتا تھا شام ہو کر ہی نہ دے گی۔
میں سر شام ہی استاد خیر اللہ مہندس کی اس حویلی پر آ گیا تھا جو بلبلی خانے سے ذرا ورے تھی۔ حویلی سر راہ تو تھی ہی اور سیاہ قیطاس سوار کا مبینہ راستہ بھی بالکل متصل تھا۔ دیکھا کہ وہاں پردے کا خاص اہتمام ہے۔ میری طرح اور بھی لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کو زیارت کرانے لائے تھے۔ تھوڑی بہت چہل پہل تھی لیکن عام طور پر لوگ چپ چاپ تھے۔
ابھی کم سے کم تین گھڑی دن رہا ہو گا کہ سارا ماحول قرق ہو گیا۔ سڑکوں، گلیوں، دکانوں کے اندر ایک متنفس نہ تھا۔ لگتا تھا سارا شہر دروازوں اور دکانوں کے تختوں پر یا راستے میں کسی اچھی جگہ کو تاک کر وہیں جم گیا ہے۔ کیا فقیر، کیا چھابڑی والے، کیا دکان دار، کوئی بھی بازاری صدا سنائی نہ دیتی تھی۔ گرمیوں کی شام تھی لیکن نہ کٹورا بجتا تھا، نہ برف والے پکارتے تھے، نہ گجرے والے خریدار کو متوجہ کرتے تھے۔ ایک بار میرے بچپن میں مکمل کسوف الشمس واقع ہوا تھا۔ اس وقت کا سماں اور آج کی شام کا منظر، دونوں بالکل ایک سے تھے۔ کسوف ہونے کو تو دن کو اور دوسرے پہر میں ہوا تھا، لیکن سورج دھیرے دھیرے کر کے سارا چھپ گیا تھا اور ہر چیز پر شام کا سا رنگ آ گیا تھا۔ سب طیور درختوں میں منقار زیر پر تھے۔ بازار کے کتے چپ لیٹ گئے تھے۔ انہوں نے ہانپنا بھی بند کر دیا تھا۔ پیڑوں پر پتیاں اور شاخیں سیاہی مائل ہو گئی تھیں۔ سب لوگ گھروں میں چھپے بیٹھے یا محو دعا تھے یا سیاہ کپڑا آنکھ پر رکھ کر گرہن کو دیکھ رہے تھے۔ یہ شام کسوف کی شام نہ تھی لیکن منظر سب وہی تھا، بجز اس کے کہ آج لوگ گھروں کے اندر نہیں بلکہ باہر تھے۔
دفعتاً ترکمان دروازے کی طرف سے ہلکا سا، عجیب سا شور اٹھا اور پھر خاموشی۔ میرے پاس کھڑے کچھ لوگوں نے زیر لب درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ مدھم سا شور پھر اٹھا اور اس بار کچھ دیر تک رہا۔ بعض لوگ گردن بڑھا بڑھا کر ترکمان دروازے والے راستے کو دیکھنے کی کوشش کرتے تو بعض اور لوگ انہیں سختی سے لیکن اشاروں ہی اشاروں میں منع کرتے۔ معلوم نہیں خوف کے باعث، یا اس لیے کہ گردن نکالنے والے ان کے نظارے میں حائل ہونے کا امکان پیدا کر رہے تھے۔ یہ شور کیسا تھا؟ کیا سب لوگ وہاں پر بلند آواز میں درود یا کوئی دعا پڑھ رہے تھے؟ کوئی نمودار ہوا بھی تھا کہ نہیں؟
گرمی کچھ بڑھ گئی تھی، حالانکہ زوال کے بعد دلی میں موسم ہمیشہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ پسینے کی ایک بوند میری آنکھ سے پھسلتی ہوئی ناک میں چلی گئی۔ لیکن میں ناک کو کھجلانے یا ملنے کی ہمت نہ کر سکا، کہ کہیں اتنی ہی دیر میں منظر بدل نہ جائے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے گرد کے لوگ کچھ بے چین ہو رہے ہیں۔ ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ میں نے اپنے دوست کے کان میں کہا۔ ’’پتا نہیں۔‘‘ وہ اسی سرگوشی کے لہجے میں بولا، ’’دل گھبرا رہا ہے۔ جیسے کوئی آفت آنے والی ہو۔‘‘
ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ گلی کے موڑ پر ہماری نگاہوں سے اوجھل، صدائے گریہ بلند ہوئی۔ گریہ میں درود کے الفاظ بھی پیوست تھے، جیسے رونے والا غم سے نہیں، جذبات عقیدت سے مغلوب ہو کر رو رہا ہو۔ جلد ہی وہ آوازیں ہلکی پڑ گئیں اور میرے سارے بدن میں لرزہ طاری ہو گیا۔ پاس کے کچھ لوگوں نے آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔ کچھ لوگوں نے بہ آواز بلند رونا اور درود پڑھنا آغاز کیا۔
بالکل سیاہ رنگ کا مرکب، نہایت بلند و بالا، عراقی مرکبوں سے بھی زیادہ تنو مند۔ ایک نظر میں تو لگا ہی نہیں کہ فرس ہے۔ مرصع ساز و یراق سے آراستہ، رکاب میں شہسوار کی جوتی ہیرے کی طرح جگمگاتی ہوئی، سنہری روپہلی کسی ہوئی لجام۔ فرس کی یال میں موتی پروئے ہوئے، اس کے سرپر سفید سرخ نیلگوں پروں کی کلگی۔۔ ۔ سیاہ عمامہ برسر اور چار قب جیسا مخملی لباس دربر، لیکن زیور شاید کچھ نہیں۔ ایک لمحے کے لیے آنکھ اس کی رکاب پر دوبارہ پڑی تو پتا لگا کہ سوار کی جوتی ہی نہیں، اس کی رکاب بھی الماس نگار ہے۔ گردن اونچی اٹھی ہوئی، ناک کی سیدھ میں دیکھتا ہوا، نگاہ بالکل روبرو، گویا بھرے پرے شہر سے نہیں کسی لق و دق صحرا سے گزر رہا ہو۔
چہرے پر شادابی لیکن احساس برتری اور جذبہ نخوت کی وجہ سے ایک طرح کی ہلکی سی رونق اور چمک، جسے دیکھ کر آنکھیں روشن بھی ہوں اور خوف بھی آئے۔ اس قدر پر رعب کہ نگاہ ٹھہرتی نہ تھی۔ ایک ہاتھ میں قد آدم سے طویل نیزہ، بجلی کی طرح روشن۔ بدن قطعی ساکت لیکن تحرک اور شور کے تاثر سے لبالب، جیسے استاد منصور یا منوہر کے مرقعے کی کوئی تصویر ہو۔ یہ سمجھ میں آنہ سکا کہ سوار کا چہرہ مہرہ قد و قامت، یہ سب کیسا ہے۔ چاروں طرف، ہر طرف، ایک روشنی کا احساس ہوتا تھا۔
مرکب بہت ہلکی دلکی چل رہا تھا، لیکن کہیں سے گھنٹیوں کی بہت خفیف آواز سنائی دیتی تھی، جیسے سیاہ قیطاس کے پاؤں میں گھونگھرو ہوں، نظر کچھ نہ آتا تھا۔ میں نے کنکھیوں سے چاروں طرف دیکھا، کہ آیا ہم میں سے کوئی جیالا اس شہسوار کو روک کر عرض مدعا کرنے کے لیے بڑھتا ہے۔ میرے تو پاؤں میں دم ہی نہ رہ گیا تھا۔ سارا بدن پسینے سے شرابور تھا۔ رونے اور درود پڑھنے کی آوازیں اب بند تھیں۔ ہر شخص اپنی جگہ پر بے حس و حرکت تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے لوگ اب چاہتے ہیں کہ سوار جلد از جلد گزر جائے۔ اس کا وجود ہمارے سامنے دو ہی چار دقیقہ بھر رہا ہو گا، لیکن مجھے اور شاید سب کو، محسوس ہو رہا تھا کہ بڑی مدت گزر چکی ہے اور اب ہم میں مزید یہ تاب نہیں کہ اسے اپنے سامنے دیکھ سکیں۔
پھر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ گریہ و بکا کی صدائیں ایک بار پھر ہر طرف سے بلند ہوئیں اور ٹھہر گئیں۔ لوگ آہستہ آہستہ بکھرنے لگے۔ شہر کے معمولات کو دوبارہ شروع ہوتے بہت دیر لگی۔ لگتا تھا سارے شہر کو ہلکا سا فالج مار گیا تھا اور اب وہ بہت آہستہ آہستہ رو بہ صحت ہو رہا تھا۔ ادھر میری بہن رستے بھر گم سم رہی۔ گھر پہنچ کر میں نے پوچھا، ’’دیکھ لیا اپنے خنگ سوار کو؟‘‘
’’کیا دیکھتی۔‘‘ وہ تقریباً روہانسی ہو کر بولی، ’’وہ تو کوئی نقاب پوش خاتون تھیں۔ سارا چہرہ اور بدن کا بڑا حصہ چادر میں چھپا ہوا تھا۔ ہاں، ان بی بی کے سفید راہوار کی زیارت ضرور کر لی۔ ان کو روکنے اور کوئی مراد کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔‘‘ وہ آنسو خشک کرتی ہوئی بولی۔
’’یہ کیا فضول یا وہ گوئی ہے!‘‘ میں نے تیز آواز میں کہا، ’’وہ تو کوئی مرد تھا۔ سیاہ مرکب پر سوار اور تو اسے سفید مرکب والی کوئی نقاب پوش رجّی سجی بی بی (سلطان التمش کی بیٹی، سلطان رضیہ بیگم۔ مرتب) بتا رہی ہے۔ لڑکی ہوش کے ناخن لے۔ میں تجھے بیکار ہی اتنی دور لے گیا۔ تیری آنکھیں تو نہیں دکھنے آ گئیں؟‘‘
’’بھائی جان ان باتوں میں مذاق نہیں کرتے۔ پاک ذاتوں کا معاملہ ہے۔ کہیں وہ برا نہ مان جائیں اور اللہ تعالیٰ تو ضرور ہی ناراض ہو گا۔ آپ اللہ کی برگزیدہ ایک بندی کے رہوار کو سفید کی جگہ سیاہ کہہ رہے ہیں اور خود انہیں عورت سے مرد بنائے دے رہے ہیں۔ توبہ کیجیے توبہ۔ آپ کو ہو کیا گیا ہے؟‘‘
’’ارے احمق، مجھے کچھ نہیں ہوا، تو ہی کسی بہت بڑے دھوکے۔۔۔‘‘
ابھی میرا جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ پڑوس کی حجّن بی ہانپتی کانپتی پہنچیں اور میری اماں جی سے مخاطب ہو کر بولیں، ’’اے ہے بی بی تم نے رضیہ سلطان کو نہیں دیکھا؟ کیا حسین اصیل مرکب تھا۔۔ ۔‘‘
’’اے لو حجن بی بی، تم کو بھی یہی وہم ہے! اچھے خاصے مرد شہسوار کو عورت بنائے دے رہی ہو۔‘‘
’’وہم؟ وہم مجھے کیوں ہونے لگا میاں صاحب۔ میں اب بھی عینک نہیں لگاتی۔ اللہ نے میری آنکھیں ابھی جوانوں کی ہی سی رکھی ہیں۔‘‘ وہ بھنا کر بولیں۔ میں نے چپکے سے ستی کی طرف دیکھا۔ میری بات غلط ثابت ہو جانے پر وہ خوش نہیں بلکہ گھبرائی ہوئی سی اور الجھن میں مبتلا نظر آتی تھی۔ یہ بات تو صاف تھی کہ میں وہی بیان کر رہا تھا جو میں نے دیکھا تھا اور وہ دونوں بھی وہی بتا رہی تھیں جو انہوں نے دیکھا تھا۔ میرے دل میں اچانک بڑے زور کی خفقانی کیفیت پیدا ہوئی، جیسے کلیجا گھبرا کر سینے کے باہر نکل آئے گا۔ اٹھ کر میں نے ایک کٹورا ٹھنڈا پانی جھجر سے لے کر پیا، لیکن دل ٹھہرا نہیں۔ میں چپ چاپ دالان پار کر کے پرلی طرف کے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ وہاں گرمی بہت تھی، لیکن مجھ سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔
وہ تینوں آہستہ لہجے میں کچھ باتیں کرتی رہیں۔ ستی بیگم یا اماں جی کو اندازہ نہ ہو سکا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ عشا کی اذان ہوئی تو میں کالی مسجد میں نماز کے لیے چلا گیا۔ مسجد میں لوگ نماز سے زیادہ باتوں کی طرف مشغول تھے۔ ایک بڑے مقطع اور متین سے بزرگ فرما رہے تھے، ’’میاں میں نے ان آنکھوں سے دیکھا۔ سانڈنی سوار تھا۔ سرخ رنگ کا ناقہ، اس پر بلند قامت شہ سوار، سوار کے سر پر اسی رنگ کا عمامہ، بلند لہراتا ہوا۔‘‘
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں مجھے معلوم ہو گیا کہ ہر شخص نے سوار دولت جاوید کو اپنے طور پر دیکھا ہے۔ لیکن میں اسے ’’سوار دولت جاوید‘‘ کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ خطاب اسے کس نے دیا؟ مجھے پھر گھبراہٹ ہونے لگی۔ جوں توں کر کے میں نے نماز ختم کی۔ گھر آ کر تھوڑا بہت کھانا زہر مار کیا اور لیٹ رہا۔ صبح مجھے فجر بعد ہی مدرسے پہنچنا تھا لیکن نیند بالکل نہ آئی۔ میری ننھی بہن بھی اس واقعے سے کچھ ہراساں اور چپ چاپ تھی۔ اماں جی نے ہم دونوں پر درود شریف کئی گھڑی تک دم کیا۔
دوسرے دن سے وہی مدرسے کے لیل و نہار تھے۔ پڑھائی کا شور تھا اور امتحانوں کی فکر۔ حالانکہ ابھی کئی مہینے باقی تھے لیکن طالب علم بیچاروں کی طبیعت میں وحشت بھی تو بہت ہوتی ہے۔ اچانک ایک بڑی اچھی بات ہوئی۔ خدا معلوم ان شہسوار کی برکت تھی یا محض اتفاق کہ بارشوں کے دن شروع ہونے کے کچھ پہلے استاد خیر اللہ مہندس کے یہاں سے ستی بی بی کا رشتہ آیا، اسی میرے دوست بقاء اللہ کے لیے، جو استاد خیر اللہ کی حویلی میں اس دن ہمارے ساتھ تھا۔ اس کے گھر کی عورتوں نے ستی کو پسند کر لیا تھا اور ہر طرح چھان بین کرنے کے بعد رشتہ بھیجا تھا۔ اماں جی نے اور میں نے سوچ سمجھ کر یہ رشتہ منظور کر لیا۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ ستی کا بھی عندیہ لے لوں لیکن ہمت نہ پڑی۔ لڑکیوں کو ویسے سب خبر ہو جاتی ہے، خدا جانے کیسے۔ لیکن کوئی بات معلوم ہونا اور اس پر راضی ہونا الگ الگ باتیں ہیں۔ میں دل ہی دل میں دعا کرتا رہا کہ میری بہن نے بھی اس رشتے کو پسند کیا ہو۔
میرے دوست بقاء اللہ کے گھر میں کھانے پہننے کو اللہ کا دیا بہت تھا۔ خاندانی وجاہت بھی تھی۔ لیکن بقاء اللہ اور اس کے والد، اپنے اجداد کے برعکس، نہ مہندس تھے نہ ریاضی داں، نہ ماہر ہیئت، نہ معمار۔ حتی کہ شاعر بھی نہ تھے۔ بقاء اللہ کے دادا استاد خیر اللہ مہندس ماشاء اللہ ابھی حیات تھے۔ ہندسہ اور ہیئت کے علاوہ انہیں شعر و لغت میں اس درجہ مہارت تھی کہ ان کے شاگرد ٹیک چند بہار انہیں ’خیر المدققین‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ خود ٹیک چند بہار نے اپنے زبردست لغت ’بہار عجم‘ کی ساتویں تبییض ابھی حال میں مکمل کی تھی اور اس میں جگہ جگہ خان آرزو کو ’سراج المحققین‘ اور استاد خیر اللہ کو ’خیرالمدققین‘ کہہ کر ان کا ذکر کیا تھا۔ استاد خیر اللہ نے جے پور کے راجا سوائی جے سنگھ کے لیے ایک بہت بڑا رصد خانہ شہر دہلی کے کچھ باہر تعمیر کیا تھا۔ رصد خانہ کیا تھا، علم نجوم اور ہیئت کی عظیم الشان درس گاہ اور معمل تھا۔ ماوراء النہر تک کے حکما اس میں اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے اب بھی آتے ہیں۔
بقاء اللہ کے والد مولانا صفی اللہ کا میلان تصوف اور رجوع الی اللہ کی طرف تھا۔ لہٰذا انہوں نے کسب ہنر دنیا کے بجائے اپنے تایا، دلی کے بے تاج بادشاہ، شیخ وقت، قطب دوراں، سیدنا و مولانا حضرت شاہ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی کے مزار پر انوار پر معتکف رہنا پسند کیا تھا۔ بقاء اللہ کا رجحان رمل اور جفر کی طرف تھا اور اسے اس نوجوانی میں ہی شہر کے اچھے رمال اور جفار اپنا ہم پلہ مانتے تھے۔ مجھے پوری امید تھی کہ اس کے ساتھ منسوب ہو کر میری بہن کو دین و دنیا دونوں سے بہرۂ وافر ملے گا۔
طے پایا کہ میری دستار بندی کے بعد ستی بی بی کے ہاتھ پیلے کر دیے جائیں۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ موسم اس وقت تک نرم ہو جائے گا اور شاید میں بھی کہیں برسر کار ہو جاؤں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اللہ کے کرم سے دلی کے حالات اس وقت علم و تعلیم کے لیے سازگار تھے۔ حضرت سیدہ بندہ نواز گیسو دراز کی اولاد امجاد سے ایک صاحب شاہ نظام الدین اورنگ آبادی نے دلی آ کر شیخ وقت حضرت شاہ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ ان کے صاحب زادے حضرت شاہ فخر الدین صاحب قبلہ، جن کی پیدائش ۱۱۲۶ھ (مطابق ۱۷۱۴ء۔ مرتب) کی ہے، اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ ۱۱۴۳ھ (مطابق ۱۷۲۹ء۔ مرتب) میں حضرت شاہ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی واصل بحق ہوئے۔ پھر شاہ نظام الدین صاحب بھی ملاء اعلیٰ سے جا ملے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت شاہ فخر الدین صاحب قبلہ نے دہلی کو اپنا مستقر قرار دیا۔ یہاں وہ ۱۱۶۰ھ (مطابق ۱۷۴۷ء،۔ مرتب) میں تشریف لائے اور جلد ہی انہوں نے مدرسۂ غازی الدین فیروز جنگ میں درس دینا شروع کیا۔
چند برسوں میں آپ کے کلام اور درس کی برکت سے یہ مدرسہ پڑھنے پڑھانے والوں سے بھر گیا۔ اکثر نئے معلموں کی ضرورت پڑتی۔ کچھ تو مدرسۂ غازی الدین فیروز جنگ ہی کے فارغ التحصیل وہاں برسر کار ہو جاتے اور مجھ جیسے خوش نصیب کچھ دوسرے مدارس سے بھی لے لیے جاتے۔ اس طرح خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ۱۱۷۸ھ کی ربیع الثانی کی پانچ تاریخ (مطابق ۵اکتوبر ۱۷۶۴ء۔ مرتب) کو مجھے مدرسۂ غازی الدین فیروز جنگ میں مدرس درجۂ چہارم مقرر کر دیا گیا۔ گیارہ روپے در ماہہ مقرر ہوا۔ اس کے علاوہ متمول طلاب کے یہاں سے کبھی موسمی تحفے یا تیج تیوہار کے موقعے پر عیدیاں آ جاتیں۔ اس طرح مجموعی یافت ساڑھے چودہ یا پندرہ روپئے ماہانہ تک پہنچ جاتی۔ اجلے خرچ اور تھوڑا بہت پس انداز کرنے کے لیے یہ کافی تھا۔
شوال ۱۱۷۸ھ (مطابق اپریل ۱۷۶۴ء۔ مرتب) کو ماں اور ماں جائے کی دلاری میری بہن اپنے گھر کو سدھاری۔ نکاح کی تقریب سادہ لیکن پرکار تھی۔ حضرت قبلہ شاہ عبدالعزیز صاحب دام اللہ فیوضہم و مدت برکاتہم اور شاہزادہ صاحب عالم مرزا سلیمان شکوہ بہادر دام اقبالہم و خلد اللہ ملکہم کی طرف سے نکاحی جوڑے آئے اور سلامی کے طور پر شاہ عالمی اشرفیوں کی ایک ایک تھیلی بھی۔ ہمارے شاہ صاحب قبلہ خود رونق افزائے محفل نکاح تھے۔
یہ سب تو ہوا۔ جہاں تک میں سمجھتا تھا، میری بہن اپنے گھر خوش بھی تھی۔ لیکن میرے دل پر ایک عجب سا بوجھ، ایک مبہم سا خوف، ہمہ وقت رہتا تھا، جیسے کوئی بہت ضروری کام کرنا تھا، لیکن میں بھول گیا ہوں کہ کام کیا تھا اور مجھ سے اس باب میں مواخذہ بہت جلد ہونے والا ہے۔ ایک افسوس ناک خبر یہ تھی کہ بنگالے کے نواب سراج الدولہ شہید کے دست راست اور معتمد خاص راجا رام نرائن موزوں کو کسی الزام میں ماخوذ کر کے عظیم آباد میں دریائے گنگ میں غرق کر دیا گیا۔ یہ واقعہ اواخر ربیع الاول ۱۱۷۷ھ (مطابق اکتوبر ۱۷۶۳ء۔ مرتب) کا تھا۔ یہاں خبر ذرا تاخیر سے آئی، لیکن شہر کے تمام حلقوں میں دیر تک ان کا ماتم ہوا۔ اکثر لوگوں نے راجا رام نرائن موزوں کو فرنگیوں کی سازش کا شکار قرار دیا۔ را جائے موصوف عمدہ فارسی گوتھے، ریختہ بھی کہتے تھے۔ بیان کیا گیا کہ ہنگام غرقابی ان کی زبان پر یہ شعر تھا،
محروم رفت بے تو لب تشنۂ حسین
اے آب خاک شو کہ ترا آبرونہ ماند
اس شعر کی خوبصورتی اور موت کے سامنے راجائے مشار الیہ کا تحمل اور تمکین، دونوں کا چرچا شہر میں مدت تک رہا۔ لیکن مجھے اس واقعے میں اپنے لیے کچھ اشارہ بھی ملتا محسوس ہوتا تھا، کہ انجام کی خوبی اس میں نہیں کہ انسان محل یا قلعے میں تجمل و خدم و حشم کے ساتھ مرے۔ انجام کی خوبی یہ ہے کہ اپنے جوہر کو نہ ترک کرے۔ پھر میرا جوہر کیا تھا؟ سوار دولت جاوید کے بارے میں مجھ سے شعر کہوانا اور یہ ثابت کرنا کہ اس کا وجود ہے؟ لیکن میں اس کی عنان کو پکڑ کر اسے روکنا کیسا، اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہ کر سکا۔ لیکن کیا ضرور کہ وہ شہسوار کوئی برگزیدہ بندے ہی رہے ہوں؟ بظاہر تو وہ اہل اللہ کی جگہ نعوذ باللہ کوئی ساحر یا شعبدہ ساز لگ رہے تھے۔ ورنہ مختلف لوگ انہیں یک لخت مختلف روپ (بہروپ؟ مرتب) میں کیوں دیکھتے؟
لیکن پھر مجھ سے وہ شعر کیوں کہلایا گیا اور وہ بھی ایسے موقعے پر؟ لیکن یہ کیا ضرور ہے کہ وہ میرا ہی شعر رہا ہو۔ ہو سکتا ہے میں نے اسے پہلے کہیں سنا، یا پڑھا ہو اور وہ میرے ذہن کے کسی نامعلوم گوشے میں محفوظ ہو گیا ہو اور پھر اس وقت اچانک ذہن کی تاریک بھول بھلیاں سے چھوٹ کر سامنے آ گیا ہو؟ ایسا ہوتا تو بہرحال ہے، ورنہ توارد اور کسے کہتے ہیں؟ لوگوں نے پوری پوری غزلیں اپنی دانست میں خود تصنیف کی ہیں، لیکن تھیں در اصل وہ کسی اور کی۔ پھر کس سے پوچھوں کہ وہ شعر ہے کس کا؟ میر شمس الدین فقیر، یا ٹیک چند بہار سے؟ لیکن ان سے پوچھنے کی ہمت کسے؟ خود ہمارے شاہ صاحب قبلہ اور ان کے بھائی حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سلمہا اللہ تعالیٰ فارسی کا اچھا ذوق رکھتے تھے، لیکن ان سے بھی پوچھنا آسان نہ تھا۔ دونوں بزرگان، حفظہما اللہ، شفقت اور نرم خوئی کا مجسمہ تھے لیکن اس طرح کی بات تو پوچھے وہ جوان کی خدمت میں گستاخ، یا کم از کم بے تکلف ہو۔ میری مجال کہاں؟ خان آرزو سے میں البتہ پوچھ لیتا، وہ میرے دادا مرحوم کے ملنے والے تھے۔ لیکن خان مبرور تو کب کے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔
لیکن وہ شعر کسی کا بھی ہو، اس سے کیا؟ دل کو لگنے والی بات تو یہ تھی کہ وہ شعر دو علیحدہ مصرعوں کے روپ میں از خود میری فکر میں آیا اور ایسے موقعے پر، جب اس کی ایک مخصوص معنویت ہویدا ہونے والی تھی۔ جن حالات میں وہ شعر مجھ پر القا ہوا یا مجھے یاد آیا، ان میں تو اسے ایک طرح کی پیشین گوئی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس پیشین گوئی میں میرے لیے اشارہ کیا تھا؟
اچھا یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ سب معاملہ مثالی اور تشبیہی رہا ہو۔ خنگ سوار کے مرکب کا نام ’سیاہ قیطاس‘ تو کچھ اسی رمز کی طرف انگشت نمائی کرتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک عالم جانتا ہے کہ داستان امیر حمزہ ایک قصۂ موضوعی ہے، اس کی کچھ بھی اصل نہیں۔ اس میں جناب امیر حمزہ کے فرس کا نام سیاہ قیطاس بتایا گیا ہے۔ تو کیا یہ قرین قیاس نہیں کہ کسی بہت ہی ڈھیٹ قسم کے بہروپیے نے ایک سوانگ رچا ہو اور اس نام کے ذریعے کنایتاً کہا ہو کہ یہ شہسوار حقیقی نہیں، عملی ہے۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ شہسوار کوئی واقعی بزرگ رہے ہوں اور انہوں نے واقعی اپنے فرس کا نام قیطاس رکھ لیا ہو؟ سوال صرف یہ ہے کہ اس واقعے میں میرے لیے کیا رمز پنہاں ہے؟
یہ خلش تو مجھے سالتی ہی رہتی کہ ان شہسوار کا ان حالات میں نمودار ہونا میرے لیے کوئی امتحان تو نہیں تھا؟ اور اگر تھا تو میں یقیناً اس میں ناکام رہا۔ لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ وہ امتحان تھا کیا اور مجھ سے کیا عمل یا قول متوقع تھا، میں اکثر تقریباً روہانسا ہو کر اپنے آپ سے پوچھتا۔ دوسری طرف یہ کہ بہن کی جدائی کا غم مجھے اب بھی تھا۔ مانا کہ اس کا گھر میرے گھر سے دو گھڑی سے کم کی مسافت پر تھا لیکن یہ فاصلہ میرزا صائب کے مصرعے ’چوں فاصلۂ بیت بود فاصلۂ ما‘ کے مصداق لگتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ روز اسے دیکھنے جایا کروں، لیکن خوف تھا کہ بقاء اللہ ہزار میرا دوست سہی، اس کے گھر والے شک کر سکتے اور برا مان سکتے ہیں کہ میں اپنی بہن کے سسرال والوں کی ٹوہ میں وہاں بار بار جاتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میری بہن وہاں بہت خوش ہے اور آرام سے ہے۔ لیکن بلاوجہ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا سا معلوم ہوتا کہ ستی بی بی سوچے گی، بھائی جان نے تو آنا ہی چھوڑ دیا۔
لیکن سچی بات شاید یہ تھی کہ میں اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہ ہو سکا تھا کہ میری ننھی سی بہن اب بڑی ہو گئی ہے، گھر بار سنبھالنے کے لائق ہو گئی ہے، اپنی گرہستی کی مالک ہو گئی ہے۔ وہ اب اپنی ماں کے گھر کی مہتمم نہیں رہ گئی۔ کوئی غیر اس کی اپنی ہستی پر متصرف ہے اور اپنی گرہستی کی ملکیت حاصل کرنے کی یہ قیمت سب ہی لڑکیاں جلد یا بدیر، طوعاً یا کرہاً، ادا کرتی ہیں۔ مجھے امید تھی کہ میری بہن کے لیے یہ سودا طوعاً تھا، نہ کہ کرہاً اور وہ اپنی تقدیر پر مطمئن تھی۔ لیکن میں تو اسی ستی بی بی کو ڈھونڈتا تھا جو مجھ سے ہر رات کہانی سنتی تھی اور ہر دن اپنی توتلی زبان میں مجھ سے جھگڑتی تھی۔
اماں جی کبھی کبھی کنایتاً میری بھی شادی کا ذکر چھیڑتیں لیکن میں صاف کنی کاٹ جاتا۔ چند مہینے اور نکل گئے، میں اس میش گم کردہ راہ کی طرح زندگی گزار رہا تھا جو قوت لایموت کے لیے ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ گرگ درندہ کے آ لینے سے پہلے اسے گھر کا راستہ بھی مل جائے گا۔ ۱۱۷۹ھ کا سال تھا اور ماہ صفر اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا (مطابق اگست ۱۷۶۵ء۔ مرتب) کہ خبر آئی ہمارے بادشاہ جمجاہ نے اپنے اسم سامی ابو المظفر جلال الدین کی مناسبت سے صفر المظفر کی ۲۴ کو بنگال اور بہار کی دیوانی کمپنی بہادر کے حوالے کر دی۔ بکسر کی جنگ میں شکست کا اہل دہلی کو اتنا غم نہ ہوا تھا جتنا اس سانحے پر ہوا۔ جنگوں میں شکست و فتح تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ آخر ابدالی نے مراٹھا کو چند ہی برس پہلے یہیں دہلی کے پاس پانی پت کے میدان پر شکست فاش دی تھی۔ (جنوری ۱۷۶۱ء۔ مرتب) ابھی اس واقعے کو ایک دہائی بھی نہ گزرنے پائی ہے کہ مراٹھا گردی دوبارہ اپنے شباب پر نظر آتی ہے۔ لیکن اختیارات ملکی و مالی ایک بار ہاتھ سے نکل گئے تو نکل گئے۔ مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ بادشاہ جمجاہ، ظل الہ، الٰہ آباد ہی میں فرنگیوں کے زیر سایہ عمر کاٹ دیں گے، لال قلعے کو دوبارہ دلہن بننا اب نصیب نہ ہو گا۔
جب حالات ایسے ہوں تو پڑھنے پڑھانے سے میرا دل اچاٹ ہو جانا تعجب کا موجب نہ ہونا چاہیے۔ لیکن فرائض منصبی تو ادا ہی کرنے تھے۔ شومی قسمت سے مجھے منطق پڑھانے کو کہہ دیا گیا اور کتاب تھی مدرسۂ رحیمیہ کے متبرک بانی حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب قدس سرہ العزیز کے بھی استاد میر زاہد ہروی مرحوم کی شرح ملا جلال، جو ’میر زاہد ملا جلال‘ کے نام سے علمی حلقوں میں معروف تھی۔ مدرسے کا نسخہ مجھے پڑھانے کے لیے دیا گیا۔ سوئے اتفاق سے وہ کئی جگہ کرم خوردہ اور مغشوش نکلا۔ میں نے طے کیا کہ یوم الخمیس کو جامع مسجد پر کتابوں، نقشوں اور نوادر کا بازار لگتا ہے، وہاں جا کر ڈھونڈوں گا۔
روز مقر رہ پر میں صبح صبح جامع مسجد پہنچا۔ آج کچھ بھیڑ زیادہ تھی۔ معلوم ہوا فیضی، غنی کاشمیری، ابو البرکات منیر لاہوری وغیرہ کے دوادین کے کئی اچھے نسخے کوئی قندھاری کتب فروش آج لے آیا ہے۔ میری مطلوبہ کتاب سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے دکان داروں کے یہاں نہ ملی تو میں نے اردو بازار کے اندر کا رخ کیا ہی تھا کہ بالکل گلی کے نکڑ پر ایک معمر لیکن تنو مند پہاڑی سائیس کو ایک نہایت خوبصورت ابلق کی راس تھامے ہوئے دیکھا۔ اس قدر تیاری کا راہوار یا تو آج دیکھا تھا یا پھر سوار دولت جاوید کے زیر ران۔ میں ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک گیا۔ اللہ خیر کرے، سوار دولت جاوید کا خیال میرے لیے اکثر ’سرود بہ مستاں یا دوہانیدن‘ کے مصداق ہو جاتا تھا۔ پھر میں پہروں نہیں تو گھڑیوں اسی کے تصور میں کھویا رہتا۔ لیکن معاً میری نگاہ سواری سے ہٹ کر سوار پر پڑی۔ کیا گھبرو جوان تھا، دل خواہ مخواہ اس کی طرف کھنچتا تھا۔ میں بے ارادہ اس کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
میرا قد کوئی نو وجب (تقریباً چھ فٹ۔ مرتب) ہے اور اس لحاظ سے میں اپنے ہم چشموں میں خاصا ممتاز تھا۔ لیکن یہ جوان مجھ سے بھی ایک دو انگل نکلتا ہوا تھا۔ کوئی بائیس چوبیس کی عمر، کھلتا ہوا گورا رنگ۔ ترکی یا مغل وضع کی خوب صورت ترشی ہوئی نوک دار داڑھی، بلند پیشانی، نیلگونی مائل سبز آنکھیں، پکھراج کی طرح جگمگاتی ہوئی۔ سرپر ریشمی زرد ہرا چیرۂ بلدار۔ لمبی بلند گردن میں زبرجد کی مالا، کانوں میں گوہریں مرکیاں۔ بدن پر بہت ہلکے جامہ وار کی ہلکے سبز رنگ کی نیمہ آستین، یا خفتان، جس کا سینہ آج کی جدید وضع کے موافق بائیں طرف کھلا ہوا۔ اس کے نیچے باریک کپڑے کا انگرکھا، اتنا باریک کہ اس کے نیچے کرتا نہ ہونے کی وجہ سے چھاتی کے شیرانہ پٹھے صاف جھلکتے تھے۔ انگرکھے کی آستین خوب تنگ اور چنی ہوئی۔ کسے ہوئے ڈنڈ، چوڑی کلائیاں۔
ایک دکان پر کھڑا وہ کوئی کتاب دیکھ رہا تھا۔ میں نے نزدیک جا کر دیکھا۔ غنی کاشمیری کے دیوان کا مطلا نسخہ تھا۔ حسن اتفاق سے کتاب فروش میرا شناسا نکلا۔ وہ کسی اور گاہک کی طرف متوجہ تھا لیکن مجھے اشارے سے سلام کر کے اس نے ایک کتاب اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے دیکھا تو یہ اسی ’میر زاہد ملا جلال‘ کا ایک عمدہ نسخہ تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔ میرا یہاں آنا تو تائید غیبی معلوم ہو رہا ہے، میں نے اپنے دل سے کہا۔ دکان دار جوں ہی پچھلے گاہک سے فارغ ہوا، میں نے اپنی کتاب کے دام پوچھے۔ ذرا سی رد و قدح کے بعد سوا روپئے میں سودا پٹ گیا۔ اجنبی چابک سوار نے ’دیوان غنی‘ کی منھ مانگی قیمت، شاید ساڑھے آٹھ روپئے، دے دی اور رخصت ہونے کے لیے مڑا۔
میری سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ تعارف کے بغیر اس کو مخاطب کرنا بد اخلاقی تھی اور ادھر وہ شخص تھا کہ اپنے فرش پر سوار ہو کر چلا ہی جانے والا تھا۔ وہ تو خدا بھلا کرے میرے شناسا کتاب فروش کا، کہ اس نے مشکل آسان کی۔ سوار کی طرف اشارہ کر کر وہ بولا، ’’مولوی صاحب، آپ انہیں نہیں جانتے؟ یہ بڑی خوبیوں۔۔ ۔‘‘ ادھر وہ خنگ سوار بھی شاید مجھ سے معروفی کا متمنی تھا۔ میری طرف مڑا اور بات کاٹ کر بولا، ’’مولوی صاحب، بندگی عرض کرتا ہوں۔ خاکسار کو بدھ سنگھ قلندر کہتے ہیں۔‘‘
میرا چہرہ آپ سے آپ کھل اٹھا۔ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے میں نے کہا، ’’اور کمترین کا نام خیر الدین ہے۔ افسوس کہ میں آپ کی طرح شاعر نہیں ہوں۔‘‘
’’شاعر تو میں بھی نہیں ہوں، یوں ہی ریختہ میں کچھ بک لیتا ہوں۔‘‘
’’شاگردی کس کی اختیار فرمائی؟‘‘
’’باقاعدہ شاگرد تو کسی کا نہیں ہوں، لیکن گاہے ما ہے قبلہ میرزا صاحب از راہ تبرک ایک آدھ غزل پر نقطہ لگا دیتے ہیں۔ اس وقت میں انہیں کی خدمت بابرکت میں حاضر ہونے والا تھا۔‘‘
’’سبحان اللہ، بڑے پائے کے بزرگ ہیں۔ ایک جہان ان کا مرید ہے اور شاعری میں کیا ریختہ کیا فارسی، سعدی وقت ہیں۔‘‘
’’ہاں، لیکن افسوس کہ شاعری کی طرف آں جناب کی توجہ اب نہیں رہ گئی۔ ریختہ میں جو ارشاد ہوا ہے وہ جمع بھی نہیں کیا۔ یہ بھی فلک کی ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے کتنوں کو ریختہ کا استاد بنا دیا، اس کا ہی دیوان ریختہ مرتب نہ ہوا اور فارسی کا بھی دیوان بمشکل دو ڈھائی جزو کا ہو گا۔‘‘
ہم لوگ باتیں کرتے چلے، گھوڑے کی لجام سائیس ہی کے پاس رہی۔ فارسی کے شعر مجھے بہت یاد تھے، اس وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں بے تکلفی ہو گئی۔ آپس کے حالات پوچھے گئے۔ معلوم ہوا قلندر اپنے والدین کی واحد اولاد ہیں۔ لاہور کے ایک ذی علم اور ذی حیثیت کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہیں تعلیم پائی۔ والدین کی بہت ساری جائداد یہاں بھی ہے، اسی کے نظم و نسق میں لگے رہتے ہیں۔ طبیعت شعر گوئی کے ساتھ تصوف اور جوگ کی طرف مائل ہے۔ حضرت میرزا صاحب قبلہ کے دربار سے دونوں طرح کی تشنگی بخوبی بجھتی تھی۔ شادی ابھی نہیں ہوئی ہے۔
باتوں باتوں میں ہم کالی مسجد کے پاس پہنچ گئے۔ اس کے پاس ہی رجی سجی کی قبر ہے اور پیچھے ذرا دور چل کر میرزا صاحب و قبلہ کی خانقاہ۔ میں نے گھبرا کر کہا، ’’ارے، ہم تو خانقاہ مظہری کے بالکل پاس آ گئے! میں تو نرا خالی ہاتھ ہوں، میرزا صاحب کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوں اور کچھ نذر یا ہدیہ پیش نہ کروں، یہ تو بڑی بد تہذیبی ہو گی۔ اچھا اب اجازت مرحمت فرمائیں، کفش خانہ قریب ہی ہے، میں گھر چلا جاؤں گا۔ انشاء اللہ پھر کبھی ملاقات ہو گی۔‘‘
’’نہیں یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ چشمۂ حیواں تک آ کر پیاسا واپس جانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ حضرت میرزا صاحب کے یہاں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ جس کا جی چاہے کچھ لائے، جس کا جی نہ چاہے، کچھ نہ لائے۔‘‘
’’جی چاہنے نہ چاہنے والی بات تو یہاں ہے ہی نہیں۔ حضرت میں تو بخوشی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نذر پیش کروں، لیکن اس وقت تیاری جو نہیں ہے۔‘‘
’’چلے تو چلیے، یقین فرمائیے قبلہ مرزا صاحب کچھ خیال نہ فرمائیں گے۔ میرا ذمہ۔‘‘ میں نے ذرا تیز لہجے میں کہا، ’’لیکن میری اماں جی تو خیال فرمائیں گی۔ میرا ضمیر تو ناخوش رہے گا۔‘‘
’’معافی کا خواستگار ہوں، بات کو ذرا دیر میں سمجھا۔ اچھا تو لیجیے۔ یہ ’دیوان غنی‘ میں نے اپنے لیے خریدا تھا، اسے حضرت کی نذر کر دیتے ہیں۔‘‘
’’معاذ اللہ! اتنا قیمتی تحفہ میں آپ سے لے لوں۔ اس کی قیمت میں تو میں پورا مہینہ روٹی کھا سکتا ہوں۔ نا صاحب، یہ مجھ سے نہ ہو گا۔‘‘
’’اچھا اسے میری طرف سے قرض بے میعاد سمجھیے، یا کسی وقت اس کے بدلے مجھے تھوڑی سی عربی پڑھا دیجیے گا۔ میں عربی میں ابھی ذرا کچا ہوں۔‘‘
مجھ سے بھی زیادہ بحث کرتے نہ بنی۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ زیادہ انکار کروں گا تو تصنع معلوم ہو گا۔ ’’چلیے ہماری آپ کی طے رہی، جمعہ کے جمعہ مجھ سے عربی پڑھ لیا کیجیے گا۔‘‘
میرزا صاحب کی خانقاہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ کوئی دربان بھی نہ تھا۔ ہم بے کھٹکے اندر داخل ہوئے۔ صدر دروازے کے دونوں طرف ایک ایک کوٹھری، اس کے بعد بڑا سا آنگن، چاروں طرف دالان۔ آنگن کے بیچوں بیچ نہر بہہ رہی تھی، اس کے دونوں طرف پھولدار درخت جن پر دو تین چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ خدا معلوم پالتو تھیں یا یوں ہی اڑتی پھرتی چلی آئی تھیں۔ آنگن کے اس پار سامنے دالان در دالان تھا۔ اندرونی دالان میں، ایک ذرا اونچی جگہ پر، میرزا صاحب رونق افروز تھے۔ ساری محفل اس قدر مہذب و مذہب، بھری پری اور نفاست مآب معلوم ہوتی تھی کہ مجھے کہیں رک کر بیٹھنے کی ہمت نہ تھی، گویا اس کی پاکیزگی کو میرا وجود اس طرح ساقط کر دے گا جس طرح سفید چادر پر سیاہی کا دھبہ۔ ہم آہستہ چلتے بیرونی دالان پر ذرا ٹھٹھکے، تو خدا معلوم اپنے آپ سے، یا خدا جانے میرزا صاحب کی آنکھ کا ہلکا اشارہ پا کر، جسے ہم لوگوں نے محسوس نہ کیا، ایک صاحب نے فرمایا، ’’تشریف لائیے، ادھر جگہ ہے۔‘‘
ہم لوگ نظر جھکائے، پھونک پھونک کر قدم رکھتے، آگے کو چلے آئے۔ بدھ سنگھ صاحب نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور ذرا خم ہو کر تعظیم دی، منھ سے بہت دھیمی آواز میں کہا، ’’قبلہ و کعبہ، تسلیم بجا لاتا ہوں۔ سرکار کا مزاج کیسا ہے؟‘‘ میرزا صاحب ذرا سا مسکرائے، پھر نہایت سریلی، دل نشیں آواز میں فرمایا، ’’جیتے رہو، دولت و اقبال زیادت باد۔‘‘ پھر میری طرف ذرا سی نگاہ کے اشارے سے دیکھا، گویا پوچھ رہے ہوں یہ کون شخص ہے۔ میں نے دوبارہ جھک کر سلام کیا، نگاہیں نیچی رکھیں اور ہاتھ باندھ کر بولا، ’’بندے کو خیر الدین کہتے ہیں۔ قلندر صاحب نے ہمت دلائی تو دیدار اور کفش بوسی کے لیے حاضر ہو گیا ہوں۔‘‘
انہوں نے اسی نیم تبسم سے فرمایا، ’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید۔ تشریف رکھیں۔‘‘
فوراً تو میری سمجھ میں نہ آیا کہ میرزا صاحب نے قلندر والی بات کیوں فرمائی، لیکن گھر پہنچ کر سب واقعات کو پھر ذہن میں ترتیب دیتے ہوئے اور جو کچھ دیکھا سنا تھا اسے حافظے میں گویا زندہ کرنے کے دوران، مجھے خیال آیا کہ یہ ان کا کشف تھا۔ مجھے حاضری میں تامل تھا اور اس تامل کو بدھ سنگھ قلندر نے یہ کہہ کر زائل کرنا چاہا تھا کہ میرزا صاحب کے یہاں نذر و فتوح پیش کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔ میرزا صاحب نے کشف سے یہ بات معلوم کر لی تھی اور گویا اس کی تصدیق فرما رہے تھے۔
میں نے ’دیوان غنی‘ کا نسخہ دونوں ہاتھوں پر رکھ کر پیش کیا۔ میرزا صاحب نے ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا، ’’مولوی صاحب، ’دیوان غنی‘ خوب لائے۔ ماشاء اللہ۔‘‘ یہ دوسرا کشف تھا، کیوں کہ کتاب کی جلد سادہ تھی، اس پر کوئی نام نہ تھا۔ پھر شاید کوئی اشارہ ہوا جسے میں محسوس نہ کر سکا۔ وہی صاحب، جنہوں نے ہم لوگوں کو آگے آنے کی ہدایت کی تھی، اپنی جگہ سے بڑھے، میرزا صاحب قبلہ اس دوران کتاب میرے ہاتھ سے لے چکے تھے۔ انہوں نے ایک دو ورق پلٹے، فرمایا، ’’ہمارے ڈھب کا شاعر تھا۔‘‘ وہ صاحب اب تک میرزا صاحب کے بالکل قریب آ چکے تھے۔ میرزا صاحب نے کتاب ان کے ہاتھ میں دے دی اور غنی کا شعر عجب کیفیت کے ساتھ پڑھا۔ ان کے پڑھنے کا انداز سارے جہاں سے نرالا تھا، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا،
عشق رادامے ست درپست و بلند روزگار
کوہ کن درہیستوں مجنوں بہ صحرا بند شد
میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں کہ انہوں نے خود کو سنبھالا۔ ہم دونوں اب تک یوں ہی دست بستہ کھڑے تھے۔ آپ نے دوبارہ فرمایا، ’’تشریف رکھیں۔‘‘ میری بھی جان میں جان آئی، ہم وہیں دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور رنگ محفل کو ذرا سنبھل کر دیکھا۔
حضرت میرزا صاحب کی پشت پر ایک صاحب نہایت نستعلیق صورت، دبلے پتلے، ہلکے پستئی رنگ کی عبا اور اس کے نیچے بند گلے کا سفید انگرکھا پہنے ہوئے، سر پر سادہ دو پلی ٹوپی، چہرے پر غضب کی نرمی، مورچھل ہلا رہے تھے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کا نام غلام علی ہے، حضرت کے خلفائے خاص میں ہیں، لیکن بالکل خدمت گاروں کی طرح مرشد کے سارے کام کرتے ہیں۔ جو صاحب آپ کی پیشی میں تھے، ان کا نام معلوم ہوا کہ نعیم اللہ بھڑائچی ہے، بلاد مشرق میں حضرت کے خلیفہ ہیں، لیکن سال کا بڑا حصہ مرشد کے قدموں میں گزارتے ہیں۔ اب میں نے ذرا آنکھ اونچی کی تو حضرت والا کو کچھ ٹھیک سے دیکھا۔
بہت گورا رنگ، دبلا ڈیل، کشیدہ قامت، سفید ڈاڑھی کچھ نوک دار، نفاست سے ترشی ہوئی۔ لبیں کتری ہوئی لیکن بہت ہلکی نہیں۔ بہت لطیف، سبز، ڈھاکے کی ململ کے انگرکھے کے نیچے سفید براق شبنم کا کرتا، اتنا سفید کہ ململ کی سبزی معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ انگرکھے پر کوئی عبایا چغہ نہ تھا، لیکن پاس ہی نہایت سلیقے سے تہہ کی ہوئی کاغذی جامہ دار کی عبا، خفیف سبز و زرد دھاریوں والا مشروع کا ڈھیلا پاجامہ۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں، جن میں شب بیداری کی کچھ کچھ سرخی۔ سر پر چو گوشیہ کڑھی ہوئی ٹوپی جس کے نیچے سے سفید بالوں کی ایک لٹ کان کے پاس کا کل کی صورت ایک منظم انداز بے پروائی سے جھانک رہی تھی۔ میں نے اس قدر خوبصورت اور اس قدر پر رعب شخص کبھی نہ دیکھا تھا اور میں کیا، شاید اس ساری محفل نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ سب اس طرح مؤدب تھے گویا کوئی دربار ہو۔ اگر شخصیت کے داب و دبدبہ کے لحاظ سے وہ حضرت محی الدین اورنگ زیب عالم گیر برد اللہ مضجعہ لگتے تھے تو دلنوازی کے لحاظ سے قطب دوراں حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب قدس سرہٗ و نور اللہ مرقدہٗ کی یاد دلاتے تھے۔
اب میں نے یہ بھی دیکھا کہ باہری اور اندرونی دالانوں کے درمیان وسطی در میں ایک مولوی صاحب دست بستہ کھڑے تھے، گالوں پر سے پسینہ بہہ کر ڈاڑھی میں جذب ہو رہا تھا۔ پھر میرے خیال میں آیا کہ نہیں، پسینہ نہیں وہ تو آنسو تھے۔ مولوی صاحب بھرائی ہوئی آواز میں بولے، ’’سرکار کے الطاف خسروانہ کا واسطہ دے کر ملتجی ہوں کہ اس عاصی ناکارہ و ناہنجار کی تقصیر معاف ہو اور اب یہ حقیر بندگان آستانہ کے قدوم میمنت لزوم میں بیٹھنے کا مجاز قرار دے دیا جائے۔‘‘
میری سمجھ میں نہ آیا کہ قصہ کیا ہے اور یہ مولوی صاحب کب سے اور کس لیے اس طرح گریان و بریان تھے۔ جب ہم لوگ داخل ہوئے تو بھی وہ موجود رہے ہوں گے، ممکن ہے قلندر صاحب نے انہیں دیکھا بھی ہو۔ لیکن لکل داخل دہشتہ کے مصداق داب درویشانہ کے باعث مجھے تو کچھ سجھائی دیا نہ تھا۔ میں نے ہمت کر کے نعیم اللہ صاحب بھڑائچی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے میری مشکل آسان کی، بولے، ’’آپ کرنال سے تشریف لائے ہیں۔ سرکار عالی مقدار سے بیعت کے خواست گار ہیں۔‘‘
ان مولوی صاحب کو اس جملے سے شاید کچھ تقویت ملی۔ نعیم اللہ صاحب کی طرف رخ کر کے لیکن روئے سخن حضرت میرزا صاحب ہی کی طرف رکھتے ہوئے، روہانسی آواز میں کہنے لگے، ’’سرکار والا تبار کے ارشاد پر عمل کر لیا ہے۔۔ ۔‘‘
’’لیکن دیر میں۔‘‘ میں نے پہلی بار شاہ غلام علی صاحب کو بولتے دیکھا، ورنہ اب تک تو وہ اس درجہ مؤدب تھے جیسے طیور علیٰ رؤسہم کی تفسیر ہوں۔ ان کا لہجہ تو بہت سخت و سنجیدہ تھا لیکن چہرے پر ذرا سی مسکراہٹ کی شفق بھی تھی، گویا وہ صورت حال سے لطف بھی لے رہے ہوں۔ ’’سرکار والا تبار نے آپ سے دو بار ارشاد فرمایا کہ ڈاڑھی موچھیں ترشوا کر آدمی کی شکل بنا کر آئیے تو مرید کریں گے۔ لیکن آپ تو اپنی ہی شرع شریف پر اڑے رہے، کیوں؟‘‘
’’مگر سرکار یہ بھی تو ملاحظہ فرما لیتے کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔۔۔‘‘
’’ہاں، مگر جب آپ کو خواب میں تہدید ہوئی کہ فلاح چاہتے ہو تو ہمارے میرزا صاحب کے ہی دامن پاک سے منسلک ہو جاؤ۔‘‘ وہ اب پوری طرح متبسم تھے۔ ’’لیکن یہاں اعلیٰ حضرت سے تمہاری سفارش کیا میاں قلندر کریں گے؟‘‘
’’قلندر، کون قلندر؟‘‘ مولوی صاحب گھبرا کر بولے۔
اتنے میں مرزا صاحب قبلہ نے سر اٹھایا اور فرمایا، ’’اچھا انہیں آئندہ کو کان ہو گئے۔ کل جمعے کو بیعت کر لیں گے۔‘‘ لگتا تھا وہ بھی اس معاملے سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب نے بے ساختہ آگے بڑھ کر حضرت کے دامن کو بوسہ دیا اور ان کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر آنسو خشک کرنے لگے۔ ساتھ ساتھ کہتے بھی جاتے تھے، ’’سرکار کا کرم ہے، بڑا کرم ہے۔‘‘ مرزا صاحب قبلہ یوں ہی سر جھکائے رہے۔ شاید وہ کچھ مزید ارشاد فرماتے کہ اچانک صدر دروازے کی بغل سے جو چھوٹی سی گلی غالباً زنان خانے کے دروازے کو جاتی تھی، اس کے نکڑ سے ایک شور بلند ہوا۔ بڑی سخت جاٹنوں والی آواز تھی، لیکن شین قاف درست تھا، ’’ارے کہاں ہے وہ بھڑوا مرزا، کہیں مر گیا کیا۔ بڑا پیر اولیا بنا پھرتا ہے۔ تانبے کے پیسے رکھ کر اس کی بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلاؤں۔ اس سے کہو کسی اور کو اپنے ناز دکھلائے۔ یہاں تیسرا پہر ہونے کو آیا، میں دروازے پر کھڑی کھڑی سوکھتی ہوں، اب تک میرے محافے کے ساتھ چلنے والے نفر نہیں آئے۔ اے لوگو بتاؤ میں اکیلی کس طرح ہرے بھرے صاحب کی درگاہ پر جاؤں۔ میں نہ جاؤں گی تو کیا وہ اپنی ماں بہنوں کو بھیجے گا؟ کون اس کی صحت اور سلامتی کی دعا کرے گا، کون اس کے نخرے اٹھانے والے مریدوں کو جمع کرنے کا انتظام کرے گا؟‘‘
میں تو سناٹے میں آ گیا۔ یہ دربارِ دُربار، شائقین اور عقیدت مندوں کا یہ ہجوم اور یہ بے ادبیاں۔ ہرچند کہ میں نے ان کے بارے میں سن رکھا تھا، لیکن یہاں تو پانی سر سے کئی ہاتھی ڈباؤ اونچا تھا۔ معاذ اللہ کیا ان محترمہ کو آتش جہنم کا خوف نہیں؟ میری تو سر اٹھانے کی بھی ہمت نہ پڑتی تھی، چہ جائے کہ اٹھ کر سلام بجا لاؤں اور رخصت چاہوں۔ لیکن میں نے محسوس کیا اور پھر کنکھیوں سے دیکھ کر اس تاثر کی تصدیق بھی کی، کہ حضار محفل میں کسی تشویش یا اعلیٰ حضرت کے روئے مبارک پر کسی تر جبینی کے آثار نہ تھے۔ سب یوں ہی بیٹھے تھے، گویا باہر کی آواز سے سراسر لاتعلق ہوں۔ حتی کہ وہ کرنال کے مولوی صاحب بھی حضرت میرزا صاحب کی صندلی کے پائے سے یوں ہی لپٹے پڑے رہے۔ اتنے شاہ غلام علی صاحب نے کوئی اشارہ کیا تو میں نے دیکھا کہ دہ شخص جو نفروں سا لباس پہنے، اہل محفل کو جوتیوں کے پاس بیٹھے تھے، اٹھے اور جھک کر کورنش بجا لاتے ہوئے الٹے قدم باہر نکل گئے۔ اندر سے ایک خادم نکلا، اس نے آہستہ آہستہ حضرت سے کچھ عرض کی تو وہ ذرا شگفتہ سے ہو گئے۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ نفر بے چارے ذرا وقت سے پہلے آ گئے تھے اور پیرانی صاحبہ کی ڈانٹ مار کھا کر میرزا صاحب کی مجلس میں دبکے بیٹھے بلاوے کے انتظار میں تھے۔ حضرت کو ذرا شگفتہ دیکھ کر ایک صاحب نے، جو صورت اور لباس سے بخارا یا سمرقند کے معلوم ہوتے تھے، ہاتھ باندھ کر فارسی میں عرض کی، ’’امروز درس پاک تفسیر مظہری مقرر بودہ شداست۔ اگر آں جناب امر فرمایند، از جزودان برمی آرند و خواندن آں را بسم اللہ کنند۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی جو حضرت والا کے اجل خلفا ہیں، ان دنوں تفسیر مظہری کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔ ان صاحب کو جواب دینے سے پہلے آں جناب نے ہماری طرف دیکھا، گویا کنایتاً فرما رہے ہوں کہ جانا چاہیں تو ہمیں رخصت ہے۔ ہم دونوں ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور دوبارہ حاضر ہونے کی اجازت چاہ کر باہر آئے۔
اجازت رخصت مرحمت ہونے کے بعد جب میں جھک کر مرزا صاحب کے دست مبارک کو بوسہ دے رہا تھا تو آپ نے فرمایا، ’’مولوی صاحب، سرور کائناتؐ کا ارشاد ہمیشہ ذہن میں رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث پاک اپنی زبان حقیقت بیان سے ادا فرمائی، افلا اکون عبداً شکوراً۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ قبلہ حضرت اس بات کو اپنے لیے بڑی نعمت قرار دیتے ہیں کہ انہیں ایسی بیوی نصیب ہیں جو ہمہ وقت ان کے نفس اور کبر کو پامال کرتی رہتی ہیں اور یہ بڑے شکر کا مقام ہے۔
قلندر صاحب کا سائیس سامنے ہی منتظر تھا۔ لیکن وہ فوراً سوار نہ ہوئے، مجھے ساتھ لیے چلتے گئے۔ وہ چپ سے تھے۔ شاید ان کی سمجھ میں آ رہا تھا نہ میری کہ اب بات کیا کریں۔ لیکن ان کے بارے میں میرا خیال غلط نکلا۔ وہ کچھ کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے تھے۔ رجی سجی کی قبر کے پاس آ کر وہ رکے اور کہنے لگے، ’’حضرت بایزید بسطامی کے دولت کدے پر ایک طالب بڑی دور کی مسافت طے کر کے پہنچا۔ وہ شیخ کے اخفائے حال کے دن تھے۔ طالبین کا وہ ہجوم نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ آواز دی تو اندر سے کسی نے ڈانٹ کر کہا، ’جا جا۔ بڑا آیا اس موئے نکھٹو کے ٹٹو شیخ کو پکارنے والا! وہ ڈھونگی کہیں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے بہانے کسی سایہ دار شجر کے نیچے خراٹے لیتا ہو گا۔ چل بھاگ نہیں تو ساری پیری مریدی نکال دوں گا۔‘‘ قلندر ذرا مسکرائے، ’’اس بچارے نے بھلا یہ میٹھے بول کا ہے کو کہیں اور سنے ہوں گے۔ سراسیمہ ہوکے جو بھاگا ہے تو پھر شہر سے نکل جنگل ہی کی راہ پکڑی۔ جنگل میں داخل ہی ہوا تھا کہ سامنے شیخ کے دیدار ہو گئے۔ وہ ایک تنومند شیر پر سوار چلے آ رہے تھے۔ طالب یہ دنیا اوپر منظر دیکھ کر ڈرا تو شیخ نے فرمایا، ’ڈرو نہیں۔ میں اُس کی سنتا ہوں تو یہ میری سنتا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’مشفق من، نقل تو آپ نے خوب سنائی اور حسب حال سنائی۔ میں نے تو یہ بھی سن رکھا تھا کہ حد سے بڑھی ہوئی نازک مزاجی اور حسن پرستی کے پیش نظر اعلیٰ حضرت کو کہیں سے حکم ملا تھا کہ فلاں سے عقد نکاح قائم کرو۔ لیکن میں تو قول باری تعالیٰ کو سامنے رکھتا ہوں اور اسی کا ورد رکھتا ہوں۔ قبلہ حضرت کو اللہ کریم نے جتنا بڑا بوجھ دیا ہے، اسے اٹھانے کی اتنی طاقت بھی دی ہے۔ میری تو یہی دعا ہے ربنا ولا تحملنا مالا طاقتہ لنا بہ۔ مجھ پر ایسی پڑتی تو میں بیٹھ ہی جاتا۔‘‘ قلندر مسکرائے، ’’بے شک، لیکن لا یکلف اللہ نفساً الاوسعہا بھی تو ہے، ورنہ ہم جیسوں کی چارپائیاں اٹھ گئی ہوتیں۔‘‘
میں نے دل میں کہا، خدا رکھے کیا غضب کا طباع اور معنی یاب شخص ہے۔ میر محمد تقی نے اپنے تذکرے میں ٹیک چند صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ خدا ہدایتش کند واسلام نصیب۔ بھلا بات تو صحیح ہے، لیکن اللہ ہی جانے ہے کس کو کس کے ہاتھ پر فلاح نصیب ہو گی۔ میں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے، ’’بارے آئندہ یوم الجمعہ کو مدرسے میں اول وقت جناب کا منتظر رہوں گا۔ خدا حافظ۔‘‘
’’انشاء اللہ۔‘‘ قلند ر نے کہا۔ ادھر انھوں نے سوار ہو کر اپنی راہ لی، ادھر میں اپنے خیالوں میں گم اپنی پیاری بہن کے گھر کی طرف مڑ گیا۔ جانا تو مجھے اپنے گھر تھا لیکن شاید میرزا صاحب قبلہ کے یہاں رنگ درون خانہ کی ایک جھلک نے میرے ذہن میں تاہل اور تزویج کے مسائل کی بات ڈال دی۔ اللہ رکھے میری بہن ایسی خوش مزاج اور شیریں زبان تھی کہ بس سنتے رہو۔ میں نے دل ہی دل میں میاں بقاء اللہ کو ان کی خوش نصیبی پر داد دی۔ ورنہ ایک ہمارے حضرت میرزا صاحب بھی تو ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے، زندہ شہید کا درجہ پا چکے ہیں۔
میں ’میر زاہد ملا جلال‘ کو پڑھنے پڑھانے میں ایسا گتھا کہ اور کسی چیز کی سدھ نہ رہی۔ کبھی کبھی شہسوار کا خیال ضرور آتا لیکن خواب میں دیکھی ہوئی کسی صورت یا منظر کی طرح۔ ایک مدھم سی خلش، پرانی چوٹ کے کبھی کبھی تازہ ہو جانے کی سی کسک ضرور تھی۔ مگر وہ سوالیہ نشان نہ تھا جو شروع کے دنوں میں میری روح میں نیش زنبور سا کھٹکتا تھا۔ ہاں ایک بار جاگتے کے خواب میں انہیں میں نے ضرور دیکھا۔ ایسا لگا کہ مدرسے کے صدر دروازے پر اپنا رہوار سائیس کے ہاتھ میں دے کر اندر آ رہے ہیں۔ صدر دروازہ میری نشست سے بہت دور تھا اور آڑ میں تھا۔ اس لیے عام حالات میں مجھے اپنی نشست سے دکھائی بھی نہ دیتا۔ لیکن اس وقت بالکل آئینہ سا میرے سامنے تھا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا، کتاب جو میرے ہاتھ میں تھی، ایک طرف گری اور چادر جو میں لپیٹے ہوئے تھا، کھل کر پاؤں میں آ رہی۔ اتنی ہی دیر میں وہ منظر غائب ہو گیا اور اشیا اپنی معمولی صورت پر آ گئیں۔
میں نے اس کا ذکر کسی سے نہ کیا، بدھ سنگھ سے بھی نہیں۔ میرا کسی سے ایسا ملنا جلنا بھی نہ تھا۔ بدھ سنگھ البتہ ہر جمعہ کو آ جاتے تھے۔ عربی کا درس تو کم ہوتا، شعر و شاعری کا چرچا زیادہ۔ وہ اپنے شعر بمشکل ہی سناتے۔ لیکن ایک دن انہوں نے اچانک عربی کا سبق بند کر دیا اور بے فرمائش ہی اپنے شعر سنانے لگے،
جی کو سر زندگی نہیں ہے
کیا جی کے کرو کہ جی نہیں ہے
یہ شعر انہوں نے کچھ اس درد کے ساتھ پڑھا کہ میں تھوڑا مشوش ہوا۔ شاعر لوگ مضمون باندھتے ہیں، کوئی مرے یا جیے ان کی بلا سے۔ لیکن اس شعر کی ادائگی میں عجب کسک تھی، گویا احوال واقعی کہہ رہے ہوں۔ مجھے حضرت میرزا صاحب کا ایک شعر یاد آیا کہ ان دنوں اکثر لوگوں کی زبان پر تھا،
نالہ موزوں کی کند عمریست اما پیش یار
نیست مظہر در شمار شاعراں گویا ہنوز
تو شاعر صاحبان کبھی اپنے دل کا حال بھی شاید سنا جاتے ہیں، میں نے اپنے دل سے کہا۔ لیکن قلندر صاحب سے کچھ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ویسے بھی وہ اپنے شعر میں کچھ اتنے محو تھے کہ شاید میری بات سنتے بھی نہ۔ پھر انہوں نے زیب مطلع پڑھا،
تھمتے ہی تھمیں گے اشک ناصح
رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے
دوسرے مصرعے کی بندش ایسی غضب کی تھی کہ پڑھے جائیے اور لطف لیے جائیے۔ مگر انہیں داد یا بیداد سننے کا دماغ کہاں؟ آنکھیں بند کیے خود جھوم رہے تھے اور بار بار یہی مصرع پڑھے جا رہے تھے، ’رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے ‘۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز بھرانے لگی ہے۔ میں اٹھنے والا تھا کہ کٹورے میں پانی بھرکر انہیں دوں، کہ انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ بڑی تمکین سے مجھے د یکھا اور یہ رباعی پڑھی،
جی میں جو قلندر کے کبھی آوے گا
دل اپنے کو چھین تجھ سے لے جاوے گا
یہ روز کا تیرا چیں بر ابرو رہنا
سب طاق پر دھرا ہی رہ جاوے گا
یہ رباعی پڑھتے پڑھتے وہ اٹھ کھڑے ہوئے، مجھ سے خلاف معمول معانقہ کیا اور بولے، ’’اچھا مولوی صاحب بندہ، ہم تو چلے۔ میں مر چکا ہوں، مولوی صاحب سنتے ہو،
میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے
حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں‘‘
یہ شعر انہوں نے پڑھا اور اپنے اشعار کا پرچہ، عربی کی درسی کتاب، سب وہیں پھینک کر یہ جا وہ جا۔ جب تک میں دوڑ کر صدر دروازے تک پہنچوں پہنچوں، وہ فتح پور کی بھیڑ میں گم ہو چکے تھے۔ آج شاید ساز و یراق بھی ساتھ نہ تھا۔
میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ کوئی بزرگ بھی گھر میں نہ تھا جس سے مشورہ کروں۔ کیا میرے قلندر صاحب کو جنون ہو گیا ہے؟ کیا وہ بیمار ہیں؟ کیا انہیں کسی سے عشق ہو گیا ہے؟ لیکن عشق والے تو اکثر ہنستے کھیلتے نکل جاتے ہیں۔ ان کا تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اعلیٰ حضرت مرزا صاحب سے استمداد کروں؟ لیکن ان سے کہوں تو کیا، پوچھوں تو کیا؟ اور میں قلندر صاحب کا لگتا بھی کون تھا اور حضرت میرزا صاحب کے یہاں کا آنے جانے والا بھی نہ تھا کہ ان کے یہاں کے آداب سے واقف ہوں۔ نہ معلوم ایسی باتیں ان کے روبرو ہوتی بھی ہیں کہ نہیں۔ کہیں میرا جانا گستاخی پر محمول نہ ہو۔
ایک بدھ سنگھ قلندر کی ہستی میں مجھے بڑا بھائی، باپ اور دوست تینوں یکجا نظر آتے تھے۔ اب تک میں ان تینوں نعمتوں سے محروم رہا تھا۔ قلندر صاحب سے ابھی بے تکلف ہونے کا موقع نہ آیا تھا، لیکن مجھے لگتا تھا کہ اگر مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہو اور میں ان سے ذکر اس کا کروں تو وہ توجہ سے سنیں گے اور بے غرض مشورہ دیں گے۔ لیکن اب تو ان کا ہی حال کچھ دگرگوں ہوتا لگتا تھا۔ کاش میں ان کے کچھ کام آ سکتا۔
اسی الجھن میں سارا دن نکل گیا، رات بھی گزر گئی۔ مجھ سے نہ ٹھیک سے کھانا کھایا گیا نہ سویا گیا۔ اماں جی پوچھتی ہی رہیں کہ آج جی کیسا ہے، نہ کھا رہے ہو نہ ٹھیک سے سو رہے ہو۔ لیکن میں نے انہیں بالا بتا دیا کہ مدرسے میں کام کے ہجوم کے باعث سر میں درد سا ہو گیا ہے۔ رات کٹتے کٹتے کٹی تو اچانک مجھے خیال آیا کہ بقاء اللہ سے کیوں نہ پوچھوں۔ وہ اتنا بڑا رمال اور جفار بنا پھرتا ہے، کچھ میرے بھی تو کام آئے۔
صبح اشراق پڑھتے ہی میں بقاء اللہ کے یہاں پہنچا۔ وہ دیوان خانے میں بیٹھ چکا تھا، ایک دو صاحبان غرض بھی آ گئے تھے۔ ابھی بھیڑ شروع نہ ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے اٹھ کر سلام کیا۔
’’بھائی جان صاحب قبلہ۔ تشریف لائیے، خوب آئے،
بیابیا کہ تراتنگ درکنار کشیم
کہیے کیا خدمت کروں۔ قلندر صاحب کا حال پوچھیے گا؟‘‘
میں چکرا گیا۔ بقاء اللہ کو میں نے اپنی اور قلندر کی دوستی کے بارے میں کبھی بتایا نہ تھا۔ شاید میری بہن نے تذکرہ کر دیا ہو۔ لیکن اسے یہ کیسے معلوم ہوا کہ میں انہیں کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں؟ میں نے کچھ مبہم سا جواب دیا تو وہ بولا، ’’آئیے زنان خانے میں چلتے ہیں۔‘‘ پھر اس نے باہر کے مستفسرین سے کہا، ’’آپ حضرات چندے غم کھالیں۔ بندہ بات کی بات میں حاضر ہوتا ہے۔‘‘
وہ مجھے خاص اپنے حجرے میں لے گیا، جہاں کسی کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ میں ابھی مسند سے ٹیک بھی نہ لگانے پایا تھا کہ اس نے کہنا شروع کیا، ’’بھائی جان، اب وہ کسی اور منزل کے مسافر ہیں۔ وہ صبا ر فتار شہسوار ہیں۔ آپ کے ہاتھ نہیں آنے کے۔‘‘
’’میاں کچھ صاف صاف تو کہو۔ پہیلیاں کیوں بجھاتے ہو۔‘‘
’’صاف صاف آپ خود دیکھ لیں گے۔ انہیں کسی کی لو لگی ہے اور اب وہ لو کا ہوئی جاتی ہے۔ وہ بہت دن ہمارے آپ کے درمیان نہ رہیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب؟ کیا وہ خدا نہ خواستہ بیمار ہیں؟‘‘
’’آپ بھی کیا بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں بھائی جان۔ ان کی آنکھ کہیں لڑی تھی۔ لیکن بات بنی نہیں، یا شاید انہوں نے خود بنانی نہ چاہی۔ اس سلسلے میں میں نے کوئی تفحص نہیں کیا ہے۔ آپ چاہیں گے تو وہ بھی معلوم کر دوں گا۔ لیکن۔۔ ۔‘‘
’’لیکن کیا؟ کیا ہم لوگ کچھ مدد نہیں کر سکتے؟‘‘
وہ ہنسا، ’’اجی صاحب، وہ مدد چاہیں تب تو۔ میں نے کہا نہ اب وہ کسی اور منزل کے راہی ہیں۔ پہلے تو اتنا ہی معاملہ تھا،
دل راز سینہ ام بت سرکش گرفت و رفت
در خانۂ من آمد و آتش گرفت و رفت
لیکن اب وہ آگ ان کے خرمن ہوش کو خاک کر چکی۔ آپ جانتے ہی ہیں العشق نار بحرق ماسوا المطلوب، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب ان کا مطلوب بھی وہ مطلوب نہیں۔ ایک ہی جست میں انہوں نے مجاز سے حقیقت کو جا لیا۔‘‘
’’تو اب میں کیا کروں؟ ان کے والدین کو خبر کروں؟‘‘
’’اس سے کچھ نہ ہو گا۔ ویسے ان کو خبر ہو ہی جائے گی۔‘‘
’’تمہیں یہ سب کیسے معلوم؟‘‘
’’مجھے آپ کا خیال رہتا ہے۔ کل رات میں نے نقشہ کھینچا تو میں اس میں یہ ہدایت ملی کہ مولوی خیر الدین کے لیے بدھ سنگھ قلندر کا حال معلوم کرو۔ عام طور پر ہم لوگ اسی وقت کچھ معلوم کر سکتے ہیں جب کوئی سائل سوال کرے۔ لیکن بعض حالات میں سائل ممکن یا سائل غائب کے حوالے سے بھی تحقیق کر لیتے ہیں۔ قلندر صاحب کا حال دگرگوں ہے بھائی جان۔‘‘
’’میں ابھی ان کے یہاں جاتا ہوں۔‘‘
’’آپ جائیں یا نہ جائیں۔ وہ تو جا چکے۔‘‘
’’کیا مطلب، کیا وہ اللہ نہ کرے چل بسے؟‘‘
’’نہیں مگر وہ ہم آپ کے لیے مر چکے ہیں۔‘‘
میں نے جوں توں کر کے مدرسہ ختم کیا۔ عصر پڑھ کر میں بدھ سنگھ قلندر کی حویلی کو چلا۔ جو گی واڑہ کے ذرا پرے تراہا بیرم خاں پر ان کی سر بفلک حویلی تھی۔ ابھی ان کی گلی تک پہنچا بھی نہ تھا کہ کثرت سے لوگ آتے جاتے دکھائی دیے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی سامان تھا۔ بڑا سامان تھا تو وہ اسے سر پر اٹھائے یا اٹھوائے ہوئے تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے بدھ سنگھ قلندر نے باپ دادا کا برسوں میں بٹورا ہوا روپیہ دن بھر میں لٹا دیا۔ اب حویلی لٹ رہی ہے، وہ بھی اب خالی ہوا چاہتی ہے۔
کسی کے سر پر بھاری بخارائی یا ایرانی قالین، کسی کے ہاتھ میں رومی گلدان، کسی کے ہاتھوں میں حلب کا آئینہ تصویر نما، کہ کم و بیش بدن نما بھی تھا اور بدقت ہی اس سے سنبھل رہا تھا۔ کسی کے کاندھے پر کاشانی مخمل کا گٹھر۔ کسی کے ہاتھ میں شیرازی کبوتروں کا جوڑا، کبوتر بلند قامت، سفید اور سرمئی، گردن اٹھا کر راہ گیروں کو دیکھتے، غٹرغوں کرتے ہوئے۔ کسی کے ساتھ ڈوریا، تازی کتوں کی زنجیریں تھامے۔ پھر دیکھا کہ پانچ سات شخص بمشکل ایک بے حد بھاری پلنگ سرپر اٹھائے ہوئے، اٹھائے کیا، بہزار خرابی سر اور ہاتھوں پر اٹکائے ہوئے۔ پلنگ کے پائے ٹھوس چاندی کے، پیٹیاں آبنوسی، پلنگ پوش مرزا پوری ہلکے ریشمی قالین کا۔ نیلی ساٹھن کے تکیے، جن پر ریشم کا کشمیری کام بنا ہوا، دو ریشمی بنارسی زر نگار گل تکیے لیکن نہایت نرم۔
اوڑھنے کے لیے جے پوری دلائیاں ایسی لطیف اور نازک جیسے گلاب کی پتیاں۔ کسی کے ہاتھ میں چاندی کی سیلابچی، اتنی بھاری کہ اٹھائے نہ اٹھتی تھی۔ دو شخصوں کے ہاتھ میں تانبے کا پاندان، کوئی بیس شاہجہانی سیر کا۔ ایک کتب فروش کو دیکھا کہ دو مزدوروں کے سر پر کتابوں کے بستے اٹھوائے چلا جاتا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ نادر گردی ہے کہ ابدالی لوٹ ہے، یا کیا ہے اور ان دونوں کی تاخت و تاراج نے بھی اتنا چھوڑا تھا کہ دن بھر سے اٹھ ہی رہا تھا اور اختتام کو نہ آتا تھا؟
میں آگے بڑھتا گیا، ساتھ ہی ہجوم بھی بڑھتا گیا۔ حویلی کے صدر دروازے پر ٹکنے تک کی جگہ نہ تھی۔ بدھ سنگھ قلندر کا کہیں پتا نہ تھا۔ میں کچھ دیر کسی نہ کسی طرح رکا رہا کہ حویلی سے کوئی گماشتہ یا داروغہ نکلے تو اس سے پوچھوں۔ مگر شاید اب وہاں کوئی نہ رہ گیا تھا۔ دور سے میں نے سائیس کی جھلک دیکھی تو اس کی طرف بڑھا۔ لیکن جب تک میں پہنچوں پہنچوں وہ بھی کسی طرف نکل لیا تھا۔ کیا شان دار گھوڑا تھا، میں نے اپنے دل میں کہا، نہ معلوم کس کے ہاتھ لگا۔ خدا کرے کوئی قدر داں ہی لے گیا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی ٹھیلے میں جوت کر اس کی کمر توڑ ڈالے۔
واپسی میں ایک جگہ راستہ رکا ہوا تھا۔ میں بدتمیزی سے کہنیاں مارتا آگے نکلا کہ دیکھوں بدھ سنگھ قلندر نہ ہوں۔ وہی تھے۔ واللہ وہی تھے۔ بالکل سادہ گیروا لباس پہنے ہوئے، ننگے پاؤں۔ لیکن خدا کا شکر کہ گھوڑا زیر ران تھا۔ کمر میں خنجر، گردن اونچی کیے ہوئے، گلے میں فیروزے کا تعویذ، ہونٹوں پر ذرا سی مسکراہٹ، گویا اس جم غفیر کو اپنی بارات سمجھ رہے ہوں۔ لوگ تھے کہ ٹوٹے پڑتے تھے۔ کوئی اولاد مانگ رہا تھا، کوئی تندرستی۔ کوئی سفر سے اپنے بیٹے کی بسلامت واپسی چاہتا تھا۔ ایک بیوہ دکھیا موت مانگ رہی تھی، کہ اب جدائی نہیں سہی جاتی۔ لیکن وہ جیسے سنی ان سنی کیے وہیں رکے ہوئے تھے۔ راستہ نہ تھا اور نہ ہی وہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں راستہ دو۔ یا شاید انہیں کسی کا انتظار تھا؟
ایک لمحے کے لیے میں نے بدھ سنگھ قلندر سے آنکھیں چار کیں۔ مجھے ان کی آنکھوں میں بھی ایک تبسم نظر آیا۔ گویا کہہ رہے ہوں، کیوں کیسی رہی؟ پھر انہوں نے سر سے خفیف سا اشارہ کیا، گویا مجھے پاس بلا رہے ہوں۔ میں ایک قدم بڑھا، پھر میں نے اپنے دل میں کہا، ادھر جا کر کیا کرو گے؟ تم بدھ سنگھ قلندر تو ہو نہیں، ایک معمولی معلم ہو۔ جوں ہی میں رکا، بدھ سنگھ قلندر نے اپنا داہنا ہاتھ سینے پر رکھا، گویا کہہ رہے ہوں، جو فیصلہ تم نے کیا، مجھے بسر و چشم منظور ہے۔ اتنے میں اچانک بھیڑ چھٹ گئی اور قلندر بڑے وقار و تمکین سے مرکب کو پویاں پویاں لیے چلے گئے۔ پھر جیسے کسی نے میرے کان میں بالکل صاف صاف کہا،
عنان او نہ گرفتند از گزار برفت
مجھے کپکپی سی آ گئی، جیسے مرطوب ہوا کی تپ چڑھنے والی ہو۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا۔ یہ کیا احمقانہ بیان ہے؟ میں نے اپنے دل سے کہا۔ بدھ سنگھ قلندر کے پاس تو لٹانے کے لیے آبائی دولت تھی، حویلی تھی، مال تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دل تھا۔ تم مدرسے کے مولوی، تمہارے پاس کیا ہے؟ جس کے دل ہو وہ دلداری کرے، دل بازی کرے، جان کھپائے۔ کسی شاعر نے کہہ دیا ہو گا،
بغیر دل ہمہ نقش و نگار بے معنیست
ہمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا ایں جاست
لیکن تم کہاں کے دل والے ہو؟ ابھی تو تم نے دماغ کی تربیت کی ہے اور وہ بھی معمولی سی۔ تمہاری پرواز ان فضاؤں میں نہیں ہو سکتی۔ تمہارا دل تو ابھی خالی صفحے سے بھی کم تر ہے۔ وہ ورق جو آتش بے وجود میں جل کر خاک سیاہ ہوتے ہیں، میر زاہد اور ملا عبدالحکیم کی کتابوں میں نہیں اور قلندر کے باپ ماں تمہاری ماں کی طرح بیوہ اور بے سہارا نہیں، وہ جھیل جائیں گے۔ تمہاری بے زبان ماں کا کیا ہو گا؟
میں خود کو سمجھاتا بجھاتا، دل کو عقل سکھاتا، گھر کو چلا۔ سوار دولت جاوید کیا بلا ہے؟ تم نے کہیں سے ایک مصرع سن لیا تھا، وہ حسب اتفاق ایک اور مصرعے کے ساتھ تمہارے خیالوں میں گونج اٹھا۔ ایسے کہیں تقدیریں بنتی بگڑتی ہیں؟ اور وہ سوار، جسے تم سب نے سر شام دیکھا تھا، یقیناً کوئی نظربندی کا ماہر شعبدہ باز رہا ہو گا۔ ورنہ وہ ہر کسی کو اس کی ہی تخئیل کے مطابق کیوں دکھائی دیتا؟ حسن بن صباح، ابن المقفع، حکیم قسطاس الحکمت، نہ جانے کتنے ہی شعبدہ باز دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ اگر سب لوگ تمہاری طرح سے ان کو متبرک اور مستند جان لیتے تو آج یہ کارخانۂ عالم خدائی کارخانہ نہیں بلکہ شیطانوں کی آماجگاہ ہوتا۔
معاذاللہ تو کیا میں انہیں شیطان سمجھوں؟ نہیں، کچھ بھی سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ اس جہان کون و فساد میں بہت کچھ ایسا ہے اور ہوتا رہتا ہے، جس کی وجہ یا جس کا نا بھی عام لوگوں سے مخفی رہتا ہے۔ جن چیزوں سے تمہیں مطلب نہیں ان کی فکر کیا اور کیوں کرو۔ تمہیں پرائی کیا پڑی ہے اپنی نبیڑو۔ لیکن وہ مصرع مجھ ہی پر کیوں نازل ہوا؟ اول تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ مصرع تمہارا ہی ہو، یا وہ شعر تمہارا ہو۔ لیکن بالفرض اگر ایسا ہے بھی تو کیا لوگوں کی تقدیریں مصرعوں اور اشعار پر بنتی بگڑتی ہیں؟
اسی ادھیڑ بن میں گھر آ گیا۔ آج بھی مجھ سے کھانا نہ کھایا گیا۔ اماں ہزار پوچھتی رہیں لیکن میں ان سے کیا بتاتا؟ بدھ سنگھ قلندر کے یوں نکل جانے کا رنج تو تھا ہی، لیکن انہیں میری اور قلندر کی گہری دوستی کا کچھ اندازہ نہ تھا اور اگر ہوتا بھی تو ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں کر آتی کہ شاید قلندر بھی سوار۔۔ ۔ نہیں ان باتوں کو سوچنا بھی حماقت ہے۔ میں نے حال حال اپنے دل میں کہا۔
لیکن ایک بات تو تھی ہی جو دل میں لگی رہ گئی تھی اور کبھی کبھی قلندر مجھے راہ چلتے دکھائی جاتے تو وہ بات تازہ ہو جاتی۔ لوگوں میں وہ بہت جلد پہنچے ہوئے فقیر مشہور ہو گئے تھے اور ان کی راہ میں عقیدت مندوں کا ہجوم بڑھنے لگا تھا۔ لیکن کسی نے انہیں بولتے نہ دیکھا تھا۔ وہ تھوڑے بہت مبہم اشاروں میں کلام کرتے۔ کلام کیا کرتے، کچھ انگلیوں کی سی زبان میں گفتگو کرتے اور عقیدت مند لوگ انہیں کو معنی پہنا لیتے۔ اپنی حویلی انہوں نے چھوڑی نہیں تھی، لیکن اب وہ صدر دروازے پر بنی ہوئی دربان کی کوٹھری میں رہتے تھے۔ ان کے والدین ان کی دیکھ بھال کے لیے لاہور سے آ رہے تھے، لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ تھک ہار کر ان کے باپ واپس لاہور چلے گئے، ان کی والدہ بیٹے کی نگہداشت اور خدمت کے لیے ٹھہر گئی تھیں۔ وہ قلندر کے لیے ان کے دل پسند کھانے پکواتیں۔ لیکن زیادہ تر سارا کھانا محلے کے غریبوں میں تقسیم ہوتا کیوں کہ قلندر نے کھانا بہت کم کر دیا تھا۔ اکثر تو وہ ہفتہ ہفتہ بھر کھانا نہ کھاتے، لیکن ان کا چہرہ ایسا ترو تازہ رہتا جیسے ابھی سیر ہو کر اٹھے ہوں۔
قلندر سے میری بات چیت تو کیا، اس دن کے بعد سے آنکھ بھی نہ ملی تھی۔ لیکن ہم دونوں کو ایک دوسرے کے وجود کا احساس شاید تھا۔ میں ہفتے عشرے میں ان کی حویلی کے سامنے سے یا پاس سے گزر لیتا، اگرچہ اس کی وجہ میں نہ تب سمجھ سکا نہ اب۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اپنے وجود کا احساس یوں ہی دلاتے ہوں گے کہ اس راہ پر اور اس چوکھٹ کے سامنے میرے قدم ضرور مجھے لے جاتے جن پر بدھ سنگھ کا بھی پاؤں پڑتا تھا۔ والدہ کے مقیم ہونے کے باعث حویلی میں نوکر چاکر، دربان، کہار سبھی آباد تھے۔ لیکن عام طور پر وہاں سناٹا سا رہتا تھا۔ یا شاید وہ میرے دل کا سناٹا ہو۔ ایک بار جب وہاں سے ہو کر نکلا تو کسی کو کہتے سنا کہ بدھ سنگھ اب تک تو اپنی والدہ سے دو چار حرف بول لیتے تھے، لیکن اب وہ بالکل خاموش رہنے لگے ہیں۔
پھر ایک دن سنا کہ بدھ سنگھ قلندر نے دلی چھوڑ دی اور بریلی چلے گئے ہیں۔ کیوں، یہ کسی کو نہ معلوم تھا۔ یوں تو ان کے ماننے والے سہارن پور، مراد آباد اور آگرہ تک موجود تھے، لیکن بریلی میں ان کے کسی خاص معتقد کی اطلاع نہ تھی۔ میں حسب معمول ان کی حویلی پر سے گزرتا رہا، اگرچہ اب ان کی والدہ بھی اسے چھوڑ چکی تھیں۔ شاید لاہور واپس چلی گئی تھیں۔ یا کیا معلوم آتما کی آنچ سے بے قرار ہو کر بیٹے کو ڈھونڈنے بریلی چلی گئی ہوں۔ بس ایک کہن سال بہشتی حویلی کے اندر جاتا آتا کبھی دکھائی پڑ جاتا۔ معلوم ہوا کہ وہ صحن میں لگے مولسری اور انار اور تلسی کے پیڑوں کو پانی اور قلندر کی والدہ کے پیارے ہیرا من طوطے کو دانہ پانی دینے کا فرض انجام دیتا ہے۔ تراہا بیرم خاں کا مشالچی شام کی شام صدر دروازے کی چوکھٹ پر ایک چراغ جلا جاتا۔ مجھے کسی کا شعر یاد آیا،
روشن ہے اس نمط دل ویراں میں داغ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
دن مہینوں میں بدلتے گئے۔ میری اداسی کبھی زیادہ ہوتی کبھی کم۔ ایک آدھ بار سوچا بقاء اللہ سے بات کروں، دل کا حال کہوں۔ پوچھوں میرے لیے کیا بہتر ہے۔ لیکن ایک تو یہ کہ ہمت نہ پڑتی اور دوسرے یہ کہ پوچھتا بھی تو کیا پوچھتا۔ بظاہر تو میری زندگی میں کوئی کمی نہ تھی۔ مدرسوں کی دنیا میں کچھ لوگ اب میرا نام بھی جان گئے تھے، مجھے عام طور پر ہونہار اور محنتی استاد کہا جاتا تھا۔ عام لوگوں کی نظر میں تو میں خوش نصیب ہی تھا۔ اللہ کا دیا ضرورت کے لیے گھر میں سب کچھ تھا۔ شادی کوئی ایسی ضروری نہ تھی، نہ اس کی کوئی جلدی تھی۔ میری عمر کے لوگ عموماً شادی شدہ اور ایک دو اولادوں کے باپ بن جاتے تھے۔ لیکن بعض لوگ شادی دیر میں کرتے اور بعض تو کرتے ہی نہ تھے۔ لہٰذا میرا نا متاہل رہنا کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ اماں جی نے بھی شادی کے لیے مجھ سے کہنا سننا چھوڑ دیا تھا۔ میں عمر کے بائیس برس پورے کر کے تیئیسویں میں تھا۔ ہاتھ پاؤں اب بھی کسرتی تھے، قد بھی ایک آدھ انگل اور بڑھ گیا تھا۔ ڈاڑھی خوب بھر کر نکلی تھی۔ لیکن لبیں میں نے باریک نہ کرائی تھیں، سپاہیانہ وضع میں ذرا چڑھی ہوئی اور گھنی موچھیں رکھتا تھا۔
سال ۱۱۸۲ھ (۱۷۶۸ء /۱۷۶۹ء۔ مرتب) کی بسنت کے دن تھے۔ آفتاب برج حمل میں آیا ہی آیا تھا۔ موسم بدل رہا تھا، آتی گرمیاں تھیں۔ مدرسے میں چھٹی تھی۔ سارا شہر ہلکے پستئی زرد رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ کیا ہندو کیا مسلمان، بسنت کا ذوق سب کو تھا۔ سلطان جی کی بارگاہ پر بسنتی کپڑے پہنے عورتوں مردوں کے جھنڈ شام و سحر نظر آتے تھے۔ پہلے مسلمانوں کو اس موسم اور اس کے میلوں سے رغبت نہ تھی۔ لیکن حضرت سلطان جی اور امیر خسرو کا تعلق بسنت کے تیوہار سے قائم ہوا تو چیت کے مہینے کا وسط ہوتے ہوتے دلی کے سارے مسلمان بسنتی رنگ میں رنگ جاتے تھے۔ چاند رات ہی سے بسنت چڑھانے کی تقاریب کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ سب سے پہلے، اللہ میاں کی بسنت بھو جلہ کی پہاڑی پر جامع مسجد کے نیچے، چاند رات کو چڑھتی۔ پھر دن نکلنے پر قدم شریف پر بسنت چڑھاتے۔ دوسرے دن حضرت قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی صاحب کی بارگاہ میں بسنت پیش ہوتی اور تیسرے دن قوال لوگ حضرت سلطان الاولیا کی خانقاہ پر بسنت لے جاتے۔ اس طرح دلی کے بائیسوں خواجگان کی درگاہوں پر بسنت چڑھتی اور ہر بسنت کے ساتھ قوالوں، نغمہ سرایوں، صاحبان حسن و جمال، ہاتھوں میں عطر پھول پان لیے ہوئے زائرین کا جم غفیر رہتا۔
اس دن میں بھی بسنت کی سیر کو نکلا تھا۔ چیت کی بارہ تاریخ تھی، شیخ وقت حضرت کلیم اللہ صاحب جہان آبادی کی بسنت اٹھی تھی۔ قوالوں کی ایک ٹولی شاہ مبارک صاحب مرحوم کی غزل گاتی جا رہی تھی،
بیٹھے ہیں زرد پوش جھلک سیس منا بسنت
چاروں طرف سے آج اٹھی جگ میں گا بسنت
مارا ہے جوش رنگ خزاں نے بہار کا
لائی ہے حسن و عشق کو باہم ملا بسنت
کیوں ہو رہے ہیں عشق کے مارے تمام زرد
رکھتی ہے کس کے حسن کی دل میں ہوا بسنت
ٹیسو کے پھول نئیں یہ دہکتے ہیں کوئلے
آئی جنوں میں آگ برہ کی لگا بسنت
میں خود تو زرد پوش نہ تھا، آخر مولویت کی کچھ شرم رکھنی تھی۔ لیکن اس وقت واقعی سارا عالم بسنتی کپڑوں والوں کی آتش رخسار سے پڑا دہک رہا تھا۔ کلام میں وہ اثر تھا کہ واقعی جی چاہتا تھا کوئی ایسا ہوتا جس کی یاد میں میرا بھی رنگ زرد ہوتا۔ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی کی درگاہ کے بالکل سامنے ایک فقیر، خوش لباس و خوش صورت، سنائی غزنوی کی مثنوی کے اشعار پڑھ رہا تھا۔ کیا شعر تھے اور کیا آواز تھی۔ اللہ رے اس درویش کی محویت، ماحول سے بے خبری۔ اس کا پورا بدن انہماک کی تصویر تھا۔ پیشانی پر ایک پر وقار، بلکہ حاکمانہ سی شکن۔ میں وہیں رک کر رہ گیا،
پیش منما جمال جاں افروز
چوں نمودی برو سپند بسوز
آں جمال تو چیست مستی تو
آں سپند تو چیست ہستی تو
میں نے اپنے دل میں کہا، کوئی ہو بھی تو اس کو کوئی اپنی مستی جمال دکھلائے اور پھر اس پر اپنی ہی ہستی کو خاک کر ڈالے کہ اب میں نہیں آپ ہی آپ ہیں۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے ذرا متعجب ہو کر نگاہ اٹھائی، کہ یہاں مجھے جاننے والا کون ہو گا۔ میرے بالکل قریب ہی چار کہاروں کا ایک ہوادار رکا ہوا تھا۔ اس میں ایک بسنتی پوش۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری نگاہ اٹھی تو اٹھی ہی رہ گئی۔
کھلتا ہوا سانولا رنگ، بڑی بڑی سیاہ روشن دلچسپ آنکھیں، گھنی بھوؤں کے نیچے سے مجھے دیکھتی ہوئی۔ لمبے سیاہ بالوں کی کھجوری چوٹی سینے پر پڑی، موباف کے بغیر ہی اتنی بھاری کہ گات کو دبائے دیتی تھی۔ ہلکے کبریتی کام کی زرد ململ کا گھیر دار جامہ، جس کے دامن پر ذرا بھاری کشمیری کام بنا ہوا تھا۔ جامہ کمر پر بے حد تنگ، یا شاید کمر ہی موئے میاں کی طرح باریک تھی۔ اوپری بدن پر تنگ کرتی، جس کے نیچے مخملی پیٹ جھلکتا ہوا۔ کرتی کے نیچے پڑاقے کی انگیا کسی ہوئی۔ لمبی گردن میں سرمئی سچے موتیوں کا ہار۔ گات کے بیچوں بیچ، گردن سے ذرا نیچے نیلم کی دھکدھکی جس کے چاروں طرف ہیرے جڑے ہوئے۔ کانوں میں مٹر کے دانے کے برا بر بالکل یک رنگ زمرد کے گوشوارے جن پر جے پوری مینا کا کام، ناک میں چنے کی دال کے برابر یاقوت کی کیل۔ کلائیوں میں سبز کریلیاں، ان کے ساتھ ٹھوس سونے کے شیر دہاں۔
پاؤں میں سنہری جگمگ کرتی جوتیاں، اتنی نیچی دیوار اور مختصر دوڑ کی، کہ بمشکل پنجوں اور ایڑی کو ڈھانکتی تھیں۔ باقی پیر پر نگار کے نقوش پیچاں صاف نظر آتے تھے۔ ہاتھوں کی محض ایک ایک انگلی میں الماس کی انگوٹھی، ناخنوں پر کچھ گلابی رنگ کا چمکیلا روغن، کف دست پر بھی پیچ دار نگار نمایاں۔ داہنی کلائی پر سرخ چمڑے کی پٹی پر ایک شاہیں بچہ۔ جامے کا دامن تھوڑا اٹھا ہوا کہ نازک نازک ٹخنے اور سڈول پنڈلیوں کی بناوٹ نظر آتی تھی۔ پاؤں میں سنبھل پوری پازیبیں، گلبدن کا پائجامہ اس قدر کسا ہوا کہ لگتا تھا بدن پر پہنا نہیں مڑھا گیا ہو گا۔ لیکن اگر کپڑا تھا تو پائجامے میں ہلکی سہی، کہیں شکن تو ہوتی۔ یہاں تو تھوڑا بہت جو کچھ نظر آتا تھا، بے شکن اور ریشم سا ڈھلواں تھا۔ مجھے نواب درگاہ قلی خان کی مذکورہ ادبیگم یاد آئیں اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ادبیگم پائجامہ نہیں پہنتی تھیں بلکہ بقول نواب درگاہ قلی خان، ’بدن اسفل رابہ رنگ آمیزی ہاے خامۂ نقاش بہ اسلوب قطع پائجامہ‘ رنگین کرتی تھیں اور کیا مجال کہ کپڑے کے انداز سے سر مو تفاوت واقع ہو جاتا۔ تو کیا یہ بیگم بھی۔۔ ۔؟
اس وقت تو اس گل حدیقۂ محبوبی کو میں نے سرسری ہی نظر سے دیکھا تھا۔ یہ تفصیلات آنکھوں کے پردے پر از خود مرتسم ہو گئی تھیں اور میں نے بعد میں ان کی ساری جزئیات کو دوبارہ اپنے دل میں زندہ کیا اور ادبیگم کا خیال آتے ہی تو میرا کاٹو تو لہو نہیں بدن میں کا سا حال ہو گیا تھا۔ نگاہ اوپر اٹھانے کی تاب نہ تھی اور اگر نیچی رکھتا تو کیا جانے بڑے گھیر کا جامہ کب ہوا کی اٹکھیلی سے، یا اس کے پہلو بدلنے میں، ذرا اور بالا زد ہو جاتا۔ پھر تو میرے لیے نہ جائے ماندن ہوتی نہ پاے رفتن اور میں وہاں سے نگاہ ہٹانا بھی نہ چاہتا تھا، بھلا خود ہٹ جانے کا سوال کہاں تھا۔
بہت آہستہ آہستہ میں نے گردن اٹھائی، جیسے حاکم انصاف کے سامنے مجرم سر اٹھاتا ہے۔ وہ آنکھیں مجھ پر اسی طرح تھیں، محویت یا شدت کے ساتھ نہیں، لیکن بے ارادہ بھی نہیں۔ گویا آنکھ کسی منظر پر آ کر از خود ٹھہر گئی ہو۔ میں عجب مخمصے میں تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ ان کو سلام کروں؟ لیکن میری جان نہ پہچان اور پھر یہ بھی کہ اگرچہ ان کے چہرے بشرے پر شاہزادیوں والی تمکینی کیفیت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ یوں بے پردہ کھلے ہوادار میں چلنے والی کوئی شریف زادی نہ ہو سکتی تھی۔ ایسوں کے تو نام ہی سے مجھے بھاگنا سکھایا گیا تھا چہ جائے کہ ان سے کوئی ربط رکھنا۔ لیکن اس طرح ہونق کی طرح کھڑا کب تک انہیں تکتا رہوں؟ منھ پھیر لینے کی نہ ہمت تھی اور نہ دل ہی مانتا تھا۔ بے اختیارانہ میرا ہاتھ سلام کو اٹھ گیا۔
ادھر میرا ہاتھ اٹھا، ادھر تبسم کی روشنی کی چھوٹ جو ابھی صرف آنکھوں تک تھی، ان کے لبوں تک آ گئی۔ اب میں نے دیکھا کہ ہونٹوں پر کوئی مصنوعی سرخی، حتی کہ پان کی بھی لالی نہ تھی۔ وہ ہونٹ اپنے رنگ ہی میں گلابی تھے۔ لیکن وہ تبسم بس اتنا تھا کہ گہر دنداں کی خفیف جھمک مجھ تک پہنچی۔ اب یہ یاد نہیں کہ ادھر سے صرف سر ہی خم ہوا یا ہاتھ بھی اٹھا،
سر ازیں تیغ بردن آساں نیست
آہ مظہر خم سلام کسے
میں اب اس پریشانی میں تھا کہ آگے بڑھ کر کچھ بات کروں یا نہ اور بات کیا کروں۔ اتنے میں ایک نوعمر قبول صورت خادمہ، تنگ پاجامہ، لمبا کرتا پہنے، کان میں کرکیاں، بالوں کی مینڈھیاں گندھی ہوئی، سینے پر بھاری رنگین دوپٹہ، دونے میں کچھ لے کر آئی۔ شاید تبرک تھا۔ ایک نگاہ غلط انداز مجھ پر ڈال کر وہ ہوادار میں ان حسینہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھتے ہی کہاروں نے ہوادار اٹھایا اور مٹیا محل کی طرف چل پڑے۔ میں ادھر دیکھتا ہی رہا۔ مجھے موہوم سی امید تھی کہ جانے والے مڑ کر دیکھیں گے، لیکن وہ اپنی باندی سے کچھ بات میں مصروف تھیں۔ میں نے بے ساختہ ایک قدم بڑھایا کہ ہوادار کے پیچھے پیچھے جاؤں لیکن غیرت آڑے آ گئی۔ میں اور ایسے سوار کے پیچھے کسی نفر کی طرح دوڑوں، یہ کیوں کر ممکن تھا۔
لیکن میں پھر انہیں پاؤں گا کہاں؟ میں نے اپنے دل میں کہا اور فوراً جھجک گیا۔ پانے نہ پانے کا یہاں کیا مذکور ہے؟ میری دنیا اور میری عقبیٰ اور، میرے افسانے اور، میرے حقائق اور ارباب نازو نشاط کا اور میرا کیا جوڑ؟ میں خیر الدین، ہوش کے ناخن لو، سمجھ کر بات کرو اور سمجھ کی بات کرو۔ مگر یہ جان لینے میں حرج ہی کیا ہے کہ وہ کون ہیں؟ انہیں میری طرف کوئی میلان تو ہو گا نہیں اور نہ خدا نہ کردہ مجھے ہے۔ لیکن یہ دلی ہے، یاں ایسے ہلکے پھلکے معاملات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ میں تو تماش بین بھی نہیں ہوں، صرف راہ گیر ہوں۔ میری نگاہ اسی ہوادار پر تھی جو رفتہ رفتہ انبوہ میں گم ہوا چاہتا تھا۔
’’السلام علیکم مولوی صاحب۔‘‘ اچانک میرے کان میں آواز آئی۔ میں نے خود کو چور سا محسوس کیا، لیکن سلام کا جواب دیے ہی بنی۔ وہ ہمارے محلے کا بہشتی تھا۔
’’وعلیکم السلام میاں لال محمد، آج اس طرف کیسے؟‘‘
’’کچھ نہیں میاں، یہ جو عصمت جہاں ابھی گئی ہیں، میں ان کے ہی اطراف کا ہوں۔ ان کا حکم تھا کہ آج حضرت شاہ جی کلیم اللہ صاحب کی درگاہ پر سقائی کر یو۔ اسی لیے حاضر ہوا تھا۔‘‘
’’کون عصمت جہاں؟‘‘ میں نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا۔
’’وہی جن کا ہوادار بھی جناب کے کنے سے گذرا ہے۔ رجواڑوں میں ان کا بالا خانہ مشہور ہے۔ نواب اشرف الدولہ افراسیاب خاں بہادر، جو منھ بولے بیٹے ہیں ذوالفقار الدولہ نجف خاں بہادر کے، وہ ان کے یہاں بہت آتے جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کچھ مناسب جواب اور انعام دے کر اسے رخصت کیا۔ دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی، سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں۔ مدرسہ بند تھا، گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ستی بی بی کے پاس جا کر کچھ دیر بیٹھ سکتا تھا کہ اسے کئی دن سے دیکھا نہ تھا۔ لیکن ممکن ہے آج وہ بھی بسنت کے میلے میں کہیں گئی ہو۔ سچی بات یہ تھی کہ میں کہیں جانا چاہتا نہ تھا، طرح طرح کے بہانے تراش رہا تھا۔
میں یوں ہی بے مدعا قدم اٹھاتا جمنا کے کنارے پہنچ گیا۔ وہاں کی چہل پہل ایک آنکھ نہ بھائی۔ لیکن ایک خفیف سی امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ شاید شام ہوتے ہوتے عصمت جہاں ادھر بجروں کا تماشا اور روشنی دیکھنے آویں تو میں بھی انہیں دیکھ لوں گا۔ لیکن میں انہیں دیکھنے کا متمنی کیوں ہوں؟ یہ کیا خام خیالی ہے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ ساری خاندانی شرافت، بزرگان دین و علم کا تقرب، اہل اللہ کی صحبت، معلمی کی عزت، کیا یہ سب اسی لیے تھی کہ اسے دل کی ہوا میں یوں اڑا دیا جائے؟ مگر لسان الغیب تو کہہ گئے ہیں،
رندی وہوس ناکی در عہد شباب اولیٰ
لاحول ولاقوۃ، تو کیا میں رندی اور ہوس ناکی اختیار کر لوں اور عصمت جہاں کو دوبارہ دیکھنے کی معصوم ناکردہ کار سی خواہش کیا رندی اور ہوس ناکی کا حکم رکھتی تھی؟ میں نے اپنے دل میں پوچھا۔ نہیں، کسی نے جواب دیا، لیکن وہ راہ ادھر ہی کو جاتی ہے،
ترسم نہ رسی بہ مکہ تو اے زاہد
کیں رہ کہ تومی روی بہ ترکسان است
شادی کر لوں؟ ابھی تو نام و نشان بھی نہیں پوچھا گیا ہے اور تم اتنے اونچے اڑنے لگے۔ ایسوں ہی کو عورتیں کہتی ہیں کہ چینی میں پیشاب کر کے منھ تو دیکھا ہوتا۔ تم کیا، تمہاری اوقات کیا! وہ اشرف الدولہ کی منظور نظر، ہزاروں دلوں اور لاکھوں اشرفیوں سے کھیلنے والی اور تم ایک قریب قریب مفلس مولوی اور یہ بھی تو سوچ لیتے کہ ابھی روز اول بھی نہیں، نہ معلوم کیا معاملے پیش آئیں۔ باریابی کے بعد بھی بلکہ اختلاط و آمیزش کے بعد بھی، سینکڑوں پیچ پڑ سکتے ہیں۔ ابھی تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ارادے کیا ہیں۔ ان لوگوں کو جان و دل سے کھیلنا خوب آتا ہے۔ لوگ جان و دل پر کھیل کر ان سے ملتے ہیں اور ایمان و امن، عزت و سطوت بھی کھو کر لوٹتے ہیں۔ مجھے مجسطی و مفتاح سے کام ہے کہ گلستان کے باب پنجم اور خسرو شیریں سے۔
جمنا کے کنارے ہجوم بڑھ رہا تھا اور میری پریشاں خیالیاں بھی اسی اعتبار سے دم بدم افزوں تھیں۔ بجرے والوں کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ ہندو عورتوں نے منت اور دعا کے چراغ بھی ترانا شروع کر دیے تھے۔ کیا پتا ان میں کچھ مسلمان بھی ہوں۔ تو ہم پرستی تو مسلمانوں میں بھی زور پر ہے۔ تو کیا ہوا؟ کیا تم بھی منت کا دیا تراؤ گے؟ لاحول ولاقوۃ۔ اللہ مجھے شیطانی وساوس سے بچائے۔ میں اب گھر جاؤں گا۔ بہت ہو گیا۔
لیکن نہ معلوم کیا بات ہوئی کہ میں بہت دیر میں گھر پہنچا۔ اماں انتظار کرتے کرتے روہانسی ہو گئی تھیں۔ میں نے کوئی بے معنی سی معذرت کی اور مزید کچھ کہے بغیر دو لقمے کھا کے سو رہا۔ اماں جی البتہ دیر تک مصلے پر بیٹھی رہیں، پھر شاید دوہی تین گھڑی سوئی ہوں کہ تہجد کے لیے اٹھ گئیں۔ صبح ناشتے کے بعد انہوں نے میری شادی کی بات چھیڑی۔ ادھر ایک مدت سے وہ اس موضوع کو ہاتھ نہ لگاتی تھیں، میں چڑتا جو تھا۔ آج معلوم نہیں کیوں انہوں نے بڑی منت سے کہا، ’’بیٹا اب خالی گھر نہیں سہا جاتا۔ آنگن میں چاند روشن ہو تو میرا جی بہلے۔‘‘
مجھ سے نہ چپ رہتے بنتی تھی، نہ انکار کرتے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ اس بار مجھے اس مذکور پر کوئی الجھن یا جھنجھلاہٹ نہ ہوئی۔ میں سر جھکائے بیٹھا رہا تو اماں کی ہمت بڑھی۔
’’میں نے ایک بڑا اچھا گھر دیکھا ہے، لڑکی چندے آفتاب چندے ماہتاب، گھرانہ شریفوں کا ہے۔ تمہارے والد مرحوم کے جاننے والے ہیں اور انہیں کی طرح سپہ گری پیشہ ہیں۔ میرے تو جی میں آئی رقعہ پہلے بھجوا دوں، تم سے بعد میں بتاؤں، لیکن اللہ رکھے تم شادی کے ذکر اذکار پر نہ جانے کیوں چیں بہ جبیں ہوتے ہو، اس لیے ہمت نہ پڑی۔‘‘
’’اماں جی، میں کوئی بے زبان بیٹی تو ہوں نہیں کہ آپ جہاں چاہیں جس کے دامن سے چاہیں باندھ دیں۔‘‘
’’اے لو، دیکھو خفا ہو گئے نہ۔ تو میں کب کہہ رہی ہوں کہ میں نے بات شروع بھی کی، پکی کرنا تو دور رہا۔ میری تو صرف ایک تجویز تھی۔ اب مجھ سے کام بھی زیادہ نہیں ہوتا، سینے میں رہ رہ کر درد اٹھتا ہے۔ لگتا ہے اب بہت دن مجھے رہنا نہیں ہے۔۔ ۔‘‘
’’سینے میں درد؟‘‘ میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’یہ کیسا درد ہے۔ کب سے ہے؟ آپ نے پہلے تو کبھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تو اب کیا میں اپنی ہر چھوٹی بڑی بیماری تجھ سے کہوں گی بیٹا؟ بڑھاپے میں اس طرح کے آزار لگتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی جوڑوں میں درد، کبھی پیٹھ میں درد، کبھی سینے میں درد۔‘‘
’’نہیں۔ سینے کی درد کی بات اور ہے۔ پورا حال بتائیے، میں ابھی حکیم صاحب کے پاس جاتا ہوں۔ درد بائیں طرف ہوتا ہے کہ دائیں جانب؟ شانے یا بازو تک تو نہیں جاتا؟‘‘
مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ کچھ پچھتا سی گئیں، ’’اے لو، کیسا درد اور کہاں کا درد بیٹا۔ ابھی جاتی سردیاں ہیں، فصلیں بدلتی ہیں تو ہم بوڑھوں کو کھانسی، سینے میں، جوڑوں میں، درد تو ہو ہی جاتا ہے۔ اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔ نہیں تو حکیم رکن الدین صاحب کے روغن کی مالش کرا لوں گی۔ ابھی پرسوں ہی تمہاری دائی کھلائی آئی تھی، کہہ رہی تھی بی بی جی کوئی کام ہو تو یاد کر لینا۔‘‘
’’دیکھیے آپ کو میرے سر کی سوں اگلی بار درد ہو تو مجھے فوراً بتائیے گا، پوشیدہ نہ رکھیے گا۔‘‘
’’اچھا بابا، تیری ہی سہی، لیکن اس تجویز کے بارے میں تو کچھ بول۔‘‘
میں کچھ دیر چپ رہا، جھوٹ بولنا چاہتا نہ تھا اور سچ بولنے کو کچھ تھا نہیں، ’’اماں جی دو تین دن کا وقت دیجیے، میں پرسوں سوچ ساچ کر جواب دوں گا۔ شادی تو مجھے اب کرتے ہی بنے۔‘‘
وہ کھل اٹھیں۔ پہلی بار انہیں مجھ سے اتنا امید افزا جواب ملا تھا۔ ’’ٹھیک ہے، تو خوب سوچ سمجھ لے بیٹا۔ مجھے کوئی ایسی جلدی تھوڑی ہے۔ میرا بچہ راضی ہو جائے تو بہتیری دلہنیں ہیں۔‘‘
میں نے تھوڑی بہت جو طب پڑھی تھی اس کی روشنی میں مجھے اماں کے درد کی مزید تفتیش کرنی چاہیے تھی۔ وہ دھان پان سی تھیں اور ان کی کوئی بہت عمر بھی نہ ہوئی تھی۔ میں شادی کے کئی برس بعد پیدا ہوا تھا، پھر بھی وہ اس وقت بہت ہوں گی تو بیالیس پینتالیس کی ہوں گی۔ نہ ان کا ڈیل ڈول وجع مفاصل والوں جیسا تھا اور نہ عمر۔ وجع صدر اور اس کی اصل وجہ کی طرف میرا دھیان جانا چاہیے تھا، لیکن میں اپنی غرض مندیوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا، میرا ذہن اپنی ہی الجھنوں کو بہت بڑی کر کے دیکھ کر کے دیکھ رہا تھا۔ اگر میرے حالات معتدل ہوتے تو میں شاید اماں کے مرض کی اہمیت کا اندازہ کر سکتا۔
اس دن جب میں گھر سے نکلا تو یہ طے کر کے نکلا کہ رجواڑوں کی گلی میں آج وہ گھر دیکھ کر ہی آؤں گا۔ لیکن کچھ دور چل کر میری ہمت جواب دینے لگی۔ میں ادھر سے ادھر گرد باد سا چکر لگاتا رہا۔ قلعہ معلی کے دروازۂ غربی کے روبرو چوک سعد اللہ خان پر آج عجب بہار تھی۔ یوں تو وہ جگہ روز ہی اپنی دل فریبی اور گہما گہمی کے لیے رشک اصفہان و روم ہوتی ہے لیکن بسنت کے دنوں میں اس کی رونق وہ چند ہو جاتی ہے۔ ہر چیز کی فراوانی، ہر طرح کے لوگوں کا مجمع۔ داستان گو، مولوی، واعظ، رقاص لونڈے، کنچنیاں، نجومی اور رمال، شعبدہ باز، حکیم اور بید، خصوصاً وہ جو امراض نہانی کا علاج کرتے ہیں اور مبی اشیا و ادویہ کا کاروبار کرتے اور خلقت کو لوٹتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس، اسلحہ فروش، طیور فروش، شکاری جانوروں اور کتوں کے بیوپاری، قفس ساز، آئینہ ساز، اس طرح کے دکان دار تو روز ہی ہوتے ہیں۔ بسنت کے دنوں میں عطر فروشوں، گل فروشوں، اقمشہ کے بیوپاریوں اور ارباب طرب کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ مجھے اس چوک میں سیر کرتے کرتے تیسرا پہر آ گیا۔
میں نے چوک سعد اللہ خاں سے نکل کر سامنے ہی چاندنی چوک کے قہوہ خانوں میں ایک دو گھڑیاں گزاریں۔ ایک قہوہ خانے میں حضرت خواجہ میر درد کا ایک نوعمر معتقد ان کی فارسی رباعیاں لحن سے سنا رہا تھا۔ کئی شعرا بھی موجود تھے۔ میں نے میاں نور العین واقف کو پہچانا اور حیرت کی۔ عام حالات میں وہ اپنا تکیہ نہ چھوڑتے تھے۔ شاید بسنت کی کشش انہیں بھی کھینچ لائی تھی۔ میرے جی میں آئی کہ دیر تک سنوں، لیکن ایک ہی رباعی نے ایسا تڑپایا کہ ٹھہرنا محال ہوا،
یک عمرز دور می شنیدم اورا
دربر بہ خیال می کشیدم اورا
اکنوں کہ چو آئینہ رسیدم پیشش
خود را او دید من نہ دیدم اورا
میری آنکھ نم ہو گئی اور میں چپکے سے باہر نکل آیا۔
عام حالات میں مجھے تو چاہیے تھا کہ میں نہر کے دور یہ تماشوں اور دکانوں کی سیر کرتا پورا چاندنی چوک پار کر کے فتح پوری کو چلا جاتا۔ لیکن اب حالات کسی طرح بھی عام نہ رہ گئے تھے۔ کٹڑہ نیل پہنچتے پہنچتے میرے قدم سڑک کے اس پار کی اس تنگ گلی میں خود بہ خود مڑ گئے جو چاوڑی کو جانے والی گلی سے ملتی تھی۔ کچھ دیر بعد میں چونکا تو معلوم ہوا میں رجواڑوں کے پاس آ گیا ہوں۔ مجھے اپنے اوپر تھوڑی سی ہنسی آئی اور کچھ ڈر بھی لگا۔ یہ بھی تشویش ہوئی کہ اس گھر کا پتا کس سے پوچھوں گا اور کیا کہہ کر پوچھوں گا۔ اس کی توقع نہ تھی کہ یہاں کوئی میرا صورت آشنا ہو گا لیکن چور تو میرے دل میں تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ ہر شخص مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ میں سر جھکائے چلتا جا رہا تھا اور مجھے یہ بھی خیال تھا کہ سر اٹھاؤں گا نہیں تو گھر کا پتا کیسے پوچھوں گا۔ کس سے پوچھوں، وہ تو بعد کی بات تھی۔
لال محمد نے کہا تھا کہ ان کا بالا خانہ بہت نمایاں اور مشہور ہے۔ اتنا پتا بہرحال کافی نہ تھا۔ لیکن اس دن قسمت میری اچھی تھی، میری مشکل آپ سے آپ حل ہو گئی۔ ان کی وہی خادمہ مجھے سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی جو اس دن ہوادار میں تھی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس نے مجھے پہچان کر سلام کیا۔ میں پھر گڑبڑایا کہ سلام کے جواب میں کیا کہوں، لیکن اس نے موقع نہ دیا، خود ہی مسکرا کر بولی، ’’مولوی صاحب، آپ اچھے آئے۔ بی بی جی بس ابھی کہیں جانے ہی والی ہیں۔ میں ان کے استاد صاحب کو کہنے گئی تھی کہ آج تعلیم نہ ہو گی۔‘‘
جانے ہی والی ہیں، میں نے دل میں کچھ افسوس اور کچھ اطمینان سے کہا۔ چلو جان بچی، زیادہ دیر بیٹھنا نہیں پڑے گا۔ لیکن اتنی دور آنا بے کار ہی گیا۔ وہ خادمہ تیز قدم چلتی ہوئی ایک عالی شان حویلی کے صدر دروازے پر رکی۔ ایک بگی، جس کے پہیوں اور دروازے پر پیتل کا کام تھا اور جس میں دو کاٹھیاواڑی چلبلے گھنی یال والے ناگن جتے ہوئے تھے، دروازے پر کھڑی تھی۔ میں جب تک دروازے پر پہنچوں پہنچوں، صدر دروازے پر بیٹھے دونوں کابلی دربان اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں پہنچا تو عصمت جہاں دروازے پر آ چکی تھیں۔
ابھی انہوں نے مجھے ٹھیک سے د یکھا اور پہچانا نہ تھا۔ اسی خادمہ کی طرف دیکھ کر ذرا تیز لہجے میں بولیں، ’’صغیر النساء اتنی دیر کہاں لگا دی؟‘‘ ابھی وہ جواب میں کچھ کہنے نہ پائی تھی کہ ان کی نظر مجھ پر پڑی، ’’اللہ مولوی صاحب۔‘‘ ان کے منھ سے نکلا۔ لہجے میں کچھ تحیر اور شاید کچھ مسرت تھی۔ پھر ذرا ٹھہرے ہوئے لہجے میں، ’’آپ کے سر کی قسم، مجھے پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔ دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔‘‘
واللہ ایسی نرم و شیریں اور سڈول نور کے سانچے میں ڈھلی ہوئی بھلا حوروں کی بھی بولی کیا ہو گی۔ مجھ سے کچھ کہا نہ گیا، نہ آنکھیں چار کی گئیں۔ بس خدا جانے کہاں سے عرفی کا مصرع دل سے زبان پر آ رہا،
فتاد سامعہ در موج کوثر و تسنیم
’’چلیے بنائیے نہیں، میں آپ کی طرح عالم فاضل نہیں کہ ہر موقعے پر عرفی کا شعر پڑھ دوں۔ اچھا اب مجھے اجازت مرحمت ہو۔ دیکھیے کل ضرور آئیے گا، اسی وقت۔‘‘
وہ بگی میں سوار ہو کر چلی گئیں اور میرے دل میں حسد اور رنج کے سینکڑوں تلاطم برپا کر گئیں۔ کس کے یہاں جانا تھا، کیوں جانا تھا؟ کیا وہ کسی کی ملازم ہیں؟ پھر مجھ سے کس طرح کا تعلق بنائیں گی؟ دل نے کہا، ارے احمق، ابھی سے تعلق کی باتیں کرتا ہے۔ ابھی تو اس آستانے کی خاک بھی نصیب نہیں ہوئی۔ مجھے خیالوں میں گم دیکھ کر صغیر النسا بولی، ’’مولوی صاحب، کیا مزاج ماندہ ہو گیا ہے؟ اندر تشریف رکھیں، شربت نوش فرمائیں، کچھ آرام فر ما لیں۔‘‘
لیکن اب وہاں ٹھہرنے کا یا را کسے تھا۔ میں اسے بندگی کہہ کر رخصت ہوا۔ راستے بھر دل میں وہی ہلچل رہی۔ ہائے کیا حسن ہے کیا مطلوبیت اور محبوبیت ہے۔ لیکن وہ اس کا چاہنے والا کون ہے؟ اور اگر چاہنے والا نہیں تو وہ کس کے دامن سے متوسل ہے؟ میں ایسے کو معشوق (یہ لفظ پہلی بار میری زبان پر آیا تھا) بنا کر کیا کروں جو میرا نہ ہو سکے؟ مجھے حکیم سنائی کے وہ شعر پھر یاد آئے جو شاہ کلیم اللہ صاحب کی درگاہ کے پاس سنے تھے۔ عشق میں اپنے وجود کو تھوڑا ہی دکھاتے ہیں اور دکھاتے بھی ہیں تو پھر اپنی ہستی کو اپنی ہی آگ میں بھسم کر دیتے ہیں۔ ’بھکھ گیا عشق کا اژدر ترے غم خواروں کو۔ ‘ مجھے میر تقی کا مصرع یاد آیا۔ لیکن عصمت جہاں تو خود ہی ایک خوبصورت سانپ ہے۔ اس سے کھیلو گے تو ڈسے جاؤ گے۔ اس کے کاٹے کا منتر نہیں۔
مجھے چند برس پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا کہ روہیلوں کے نواب علی محمد خاں کے بیٹے نواب عبداللہ خاں کو سانپ پالنے اور کھلانے کا شوق تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ تسخیر مار کا افسوں جانتے ہیں اور سانپ ان کے ہاتھ میں آ کر بے جان رسی ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ سانپ ہی کے کاٹے سے مرے۔ ایک زہریلا سانپ ان کے سامنے لایا گیا اور انہوں نے منتر پڑھ کر اسے ہاتھ میں لے لیا۔ سانپ نے پلٹ کر انہیں ایسا کاٹا کہ وہ چار گھڑی میں واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اور مجھے تو کوئی عمل تسخیر بھی نہ آتا تھا۔ اگر میں نے اس دیوانگی سے توبہ نہ کی تو میرا حشر اور بھی برا ہونا تھا۔
لیکن کیا انسان صرف فائدے نقصان کے لیے جیتا ہے؟ کیا اور کوئی بلند تر مقصد و منظر نہیں جس کے لیے سعی کی جائے؟ یہ گھر گرہستی، یہ نام نہاد با عزت زندگی، یہ تعلیم و تعلم، یہ محفلیں اور مجلسیں، اسی وقت تک بامعنی ہیں جب انسان کے پاس بہتر لائحہ نہ ہو۔ یہ آہوان حرم کی طرح محفوظ جینا کوئی جینا ہے؟ زندگی میں پہلی بار مجھے جینے کا ایک نیا ذائقہ نصیب ہوا تھا اور اس کے آگے ساری گزشتہ عمر بالکل پھیکی سیٹھی بیماروں کا کھانا لگ رہی تھی۔ میں جوان اور تندرست تھا، ایسا کھانا کیوں کھاؤں؟ اور یہ گھر کیا اور روزی کمانے کے کم ارز طریقے کیا؟ آخر بدھ سنگھ بھی تو تھے۔ ان کے پاس کیا نہ تھا، لیکن انہوں نے سب ترک کر دیا، حتی کہ کھانا بھی۔ انہوں نے سنائی کی اس نصیحت پر عمل کر کے دکھلا دیا،
دشت و کہسار گیر ہم چو و حوش
خانماں را بماں بہ گربہ و موش
خانہ را گر براے قوت کنند
مور و زنبور و عنکبوت کنند
آج بدھ سنگھ قلندر سے بڑھ کر خوش نصیب کون ہو گا۔ گھر لٹا کر وہ کسی طرح گھاٹے میں نہیں اور میں گھر کب لٹا رہا ہوں؟ میں تو صرف اپنی نام نہاد، جھوٹی عزت لٹا رہا ہوں۔ جب تک میری اماں زندہ ہیں میں گھر چھوڑ کر نہیں جانے والا۔ میں عصمت جہاں کو بیاہ لاؤں گا۔ نہیں تو اس کی گلی کے طواف کو ذریعۂ نجات جانوں گا۔ میں کل اسی وقت عصمت کے یہاں ضرور جاؤں گا۔ میں اماں کو سب کچھ بتا دوں گا۔
لیکن اگلے دن ہی کیا، میں عصمت جہاں کے گھر پر کبھی نہ گیا۔ اس رات کی صبح ہوتے ہوتے مجھ پر صحرائے ظلمات جیسی کئی راتیں گزر چکی تھیں۔ فجر کی اذان ہوئی تو میں نے چین کا سانس لیا کہ مجھے معلوم تھا ایسی رات مجھ پر آئندہ نہ گزرے گی۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عصمت جہاں کے ساتھ کوئی کھیل میرے کھیلنے کا نہیں ہے۔ بچپن میں ہم لوگ گھر گھر کا کھیل کھیلتے تھے۔ ایک گھر والے دوسرے کے گھر ملاقات کو جاتے، عطر پان سے ان کی خاطر تواضع ہوتی، دوستیاں اور رشتے استوار ہوتے۔ بیماری اور صحت کی باتیں ہوتیں۔ ہم جانتے تھے کہ یہ سب محض کھیل ہے، سوانگ ہے، لیکن ہماری محویت اور جزئیات کے لیے ہمارا ذوق اس سے کم نہ ہوتا تھا۔ عصمت جہاں کے ساتھ اس طرح کا بھی کھیل میرے لیے نہ تھا اور ان کی یا کسی کی بھی راہ میں خاک ہو جانا میرا منصب نہ تھا۔
مجھ پر وحشت طاری رہنے لگی۔ لیکن اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی اور اماں کی خدمتوں میں انہماک میں نے اور بڑھا دیا۔ وحشت کی اصل گھڑیاں تب ہوتیں جب میں اکیلا ہوتا۔ ایک آدھ بار راستوں میں عصمت جہاں اپنے ہوادار پر دکھائی دیں اور ہر بار مجھے لگتا کہ ان کی آنکھوں میں استفسار بھی ہے اور نوید بھی۔ لیکن میں نے ایک بار کے بعد انہیں کبھی آنکھ بھر کر نہ دیکھا۔ اس بار میں نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ جواباً ان کے لب کھلے، لیکن انہوں نے کیا کہا، میں نے سنا نہیں۔
اماں نے جس رشتے کا ذکر کیا تھا، اس کے لیے میں نے ہاں کر دی تھی۔ لیکن چند دنوں بعد اماں جی ہی نہ رہیں۔ ایک صبح میں فجر کے لیے اٹھا تو دیکھا تہجد کے مصلے پر وہ بے حس و حرکت پڑی ہیں۔ وہ بے ہوش تھیں اور پھر بھی ان کے چہرے پر درد کی سرمئی پرچھائیں تھی۔ میں نے جلدی سے پڑوس کی عورتوں کو پکارا اور ستی بیگم کے گھر پر آواز دیتا ہوا حکیموں والی گلی میں اشرف الاطبا حکیم شریف صاحب کی حویلی پر دوڑتا ہوا پہنچا۔ وہ فرشتہ سیرت بزرگ فوراً میرے ساتھ سوار ہو کر ہمارے گھر تک آئے۔ لیکن تب تک وہ اللہ کے گھر جا چکی تھیں۔ ستی بی بی رو رو کر غش کھاتی اور جب ہوش میں آتی تو پھر روتی۔ ظہر کے بعد میں انہیں مہندیوں کے متبرک قبرستان میں سپرد خاک کر آیا۔ چہلم تک ستی بی بی آبائی گھر میں رہی، اماں کو کئی قرآن پڑھ کر بخشے، غریب غربا کو بہت داد و دہش کرتی رہی۔ آخر چالیس دن پورے کر کے آنسو پونچھتی گھر کو سدھاری۔
اماں کے چہلم کے بعد میرا مزاج اور بھی سوداوی ہو گیا۔ آخر مدرسہ چھوڑ چھاڑ گھر میں پڑ رہا۔ ستی بیگم نے ہزار کہا کہ بھیا شادی کر لو لیکن میں نے ایک نہ سنی اور ایک دن اسے اس بری طرح جھڑک دیا کہ وہ روتی اپنے گھر چلی گئی۔
شہر میں پھر کوئی سوار نہ آیا۔ میں نے عصمت تخلص رکھ کر شعر کہنا شروع کر دیا۔ دو چار شاگردوں سے کچھ فتوح آ جاتی ہے، گذارے کے لیے بہت ہے۔ راتوں کو بہت کم سوتا ہوں۔ روز امید کرتا ہوں کہ آج سوؤں گا اور خواب دیکھوں گا، لیکن ٹھیک سے کبھی نہیں سوتا اور خواب دیکھے تو مدت ہو گئی۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں