فہرست مضامین
سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد یازدہم
خرید و فروخت کے مسائل و احکام
خود کما کر کھانے کی ترغیب
عبید اللہ بن سعید ابو قدامۃ سرخسی، یحیی بن سعید، سفیان، منصور، ابراہیم، عمارۃ بن عمیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بہترین کمائی وہ ہے جو انسان (اپنے ہاتھ سے ) کمائے یعنی اپنی محنت (اور جدوجہد) سے حاصل کرے اور آدمی کا لڑکا بھی اس کی آمدنی میں (شامل) ہے پس لڑکے کا مال کھانا درست ہے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، الاعمش، ابراہیم، عمارۃ بن عمیر، عمۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اولاد تم لوگوں کی بہترین آمدنی ہے تو تم لوگ اپنی اولاد کی آمدن سے کھاؤ۔
٭٭ یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اولاد تم لوگوں کی عمدہ کمائی ہے تو تم لوگ اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ
محمد بن عبدالاعلی صنعانی، خالد، ابن حارث، ابن عون، شعبی، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے سنا اور میں اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی شخص کی بات نہیں سنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ حلال سے کھلا ہوا اور جس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے اور حرام کھلا ہوا ہے (جیسے زنا چوری شراب نوشی وغیرہ) اور ان دونوں کے درمیان میں بعض اس قسم کے کام ہیں کہ جن میں شبہ ہے یعنی حرام اور حلال دونوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں (اس سے مراد ایسے کام ہیں جن کے حلال اور حرام ہونے میں اختلاف ہے ) اور میں تم لوگوں سے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ خداوند قدوس نے ایک روش بنائی ہے اور خداوند قدوس کی روش حرام اشیاء ہیں اس میں داخل ہونے کا حکم نہیں ہے۔ (مراد یہ ہے کہ خداوند قدوس نے حرام اور حلال کی حدود اور لائن مقرر فرما دی ہیں ان ہی لائن اور حدود میں رہنا ضروری ہے اس سے باہر جانا ہرگز جائز نہیں ہے ) پس جو شخص خداوند قدوس کی قائم کی ہوئی روش کے اندر داخل ہو جائے (یعنی خداوند قدوس کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کر لے گا) اسی طریقہ سے جو شخص مشتبہ کاموں سے نہ بچے تو قریب ہے کہ وہ حرام کاموں سے بھی نہ بچے۔ قریب ہے کہ وہ شخص حرام اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جائے گا اور جو شخص مشکوک کاموں میں مبتلا ہو جائے گا تو قریب ہے کہ وہ شخص ہمت کرے یعنی جو کام حرام ہیں ان کو بھی کرنے لگ جائے۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، ابو داؤد حفری، سفیان، محمد بن عبدالرحمن، مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگوں ہر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس وقت کہ کوئی شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ دولت کس جگہ سے حاصل کی؟ حلال سے یا حرام سے ؟
٭٭ قتیبہ، ابن ابی عدی، داؤد بن ابی ہند، سعید بن ابو خیرۃ، حسن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب ایسا دور آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے اور جو شخص سود نہیں کھائے گا تو اس پر بھی سود کا غبار پڑ جائے گا یعنی سود اگر خود نہیں کھائے گا تو اس پر سود کا اثر تو پہنچ ہی جائے گا۔
تجارت سے متعلق احادیث
عمرو بن علی، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، یونس، حسن، عمرو بن تغلب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ دولت پھیل جائے گی اور اس کی زیادتی ہو جائے گی اور کاروبار و تجارت کھل جائے گی اور جہالت ظاہر ہو گی اور ایک آدمی (سامان) فروخت کرے گا پھر وہ کہے گا کہ نہیں جس وقت تک کہ میں فلاں تاجر سے مشورہ نہ کر لوں اور ایک بڑے محلے میں تلاش کریں گے لکھنے کو لیکن کوئی نہیں مل پائے گا۔
تاجروں کو خرید و فروخت میں کس ضابطہ پر عمل کرنا چاہیے ؟
عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، قتادہ، ابو خلیل، عبداللہ بن حارث، حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کرنے والے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار ہے کہ جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں اگر وہ سچ بات کہیں گے اور جو کچھ عیب ہو اس کو نقل کر دیں گے تو ان کے فروخت کرنے میں برکت ہو گی اور جو جھوٹ بولیں گے قیمت میں اور عیب پوشیدہ کریں گے تو ان کے فروخت کرنے کی برکت رخصت ہو جائے گی اور نفع کے بدلہ نقصان ہو گا۔
جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنا
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، علی بن مدرک، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، خرشۃ بن حر، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین شخصوں سے خداوند قدوس قیامت کے روز کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کی جانب دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا (یعنی گناہوں سے ) اور ان کو تکلیف دہ عذاب ہو گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی جب حضرت ابو ذر نے بیان فرمایا کہ وہ لوگ خراب اور برباد ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک اپنا تہہ بند لٹکانے والا تکبر اور غرور کی وجہ سے اور دوسرے اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرنے والا اور احسان کر کے احسان جتلانے والا (واضح رہے کہ یہ تمام گناہ گناہ کبیرہ ہیں )۔
٭٭ عمر بن علی، یحیی، سفیان، ، سلیمان، الاعمش، سلیمان بن مسہر، خرشۃ بن حر، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین شخصوں کی جانب خداوند قدوس نہیں دیکھے گا قیامت کے روز اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کو دردناک عذاب ہے ایک تو وہ جو کہ کچھ نہیں دیتا لیکن احسان رکھتا ہے یعنی جب کچھ دیتا ہے تو احسان جتلاتا ہے۔ دوسرے وہ شخص جو کہ ٹخنوں کے نیچے تہہ بند لٹکاتا ہے اور تیسرے وہ شخص جو کہ جھوٹ بول کر اپنا سامان فروخت کرتا ہے (یہ تمام گناہ کبیرہ گناہ ہیں )۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، ابو اسامہ، ولید یعنی ابن کثیر، معبد بن کعب بن مالک، ابو قتادۃ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم لوگ (خرید و فروخت میں ) بہت (یعنی بالکل) قسم کھانے سے بچو کیونکہ پہلے قسم سے مال فروخت ہوتا ہے پھر مال کی برکت ختم ہو جاتی ہے اور جس وقت لوگوں کو علم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ہر ایک بات میں قسم کھاتا ہے تو اس کی قسم کا بھی اعتبار نہیں ہوتا۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قسم سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے لیکن آمدنی مٹ جاتی ہے (یعنی برکت ختم ہو جاتی ہے )
دھوکہ دور کرنے کے واسطے قسم کھانے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، جریر، الاعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین شخصوں سے خداوند قدوس کلام نہیں فرمائے گا یعنی قیامت کے دن خداوند تعالیٰ نہ تو ان سے گفتگو فرمائے گا اور نہ ہی ان کی جانب نظر (رحمت) سے دیکھے گا اور ان کے واسطے دردناک عذاب ہے۔ ایک تو وہ شخص کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی راستہ میں (یعنی سفر میں ) موجود ہے اور وہ شخص مسافر کو پانی دینے سے منع کرے اور دوسرے وہ شخص جو کہ کسی امام سے بیعت کرے دنیا داری کے لیے اگر وہ اس کو دنیا دے دے تو وہ شخص بیعت مکمل کرے اور اگر نہ دے تو پوری نہ کرے اور تیسرے وہ آدمی جو کہ عصر کے بعد کسی شخص سے بھاؤ کرے پھر وہ یعنی (فروخت کرنے والا) یہ کہے کہ یہ چیز اس قدر قیمت میں خریدی گئی ہے اور اس پر وہ شخص قسم کھائے اور دوسرا شخص اس بات کو سچ سمجھے لیکن درحقیقت اس شخص نے اس قدر قیمت ادا نہیں کی تھی بلکہ خریدنے والے شخص سے زیادہ قیمت لینے کی وجہ سے کہہ دیا تھا۔
جو شخص فروخت کرنے میں سچی قسم کھائے تو اس کو صدقہ دینا
محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ابو وائل، قیس بن ابو غرزۃ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ کے بازاروں میں مال فروخت کرتے تھے اور ہم لوگ اپنا نام اور لوگ ہمارا نام سمسار رکھتے تھے (یعنی لوگ ہم کو دلال کہتے تھے ) چنانچہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہمارا نام اس سے عمدہ تجویز فرمایا جو نام کہ ہم نے رکھا تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارا نام تجار تجویز کیا اور ارشاد فرمایا اے تاجروں کی جماعت! تم لوگوں کے فروخت کرنے میں قسم آتی ہے اور بے ہودہ اور لغو باتیں بھی آتی ہیں (یعنی تم لوگ کاروبار میں فضول اور بیہودہ گفتگو کرتے ہو) تو تم اس کو صدقہ کے ساتھ شامل کر دو (یعنی کفارہ کے طور پر کچھ صدقہ خیرات دے دیا کرو)۔
جس وقت تک خریدنے اور فروخت کرنے والا شخص علیحدہ نہ ہو جائیں تو ان کو اختیار حاصل ہے
ابو اشعث، خالد، سعید، ابن ابو عروبۃ، قتادۃ، صالح ابو خلیل، عبداللہ بن حارث، حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سامان فروخت کر نے والا اور خریدنے والا دونوں کو اختیار ہے کہ جس وقت تک وہ الگ نہ ہوں اگر وہ عیب کو ظاہر کر دیں اور وہ سچ بات بولیں گے تو ان کے فروخت کرنے میں خیرو برکت ہو گی اور اگر جھوٹ بولیں گے اور (عیب) چھپائیں گے تو ان کے فروخت کرنے کی خیرو برکت رخصت ہو جائے گی۔
نافع کی روایت میں الفاظ حدیث میں راویوں کا اختلاف
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خریدنے والے اور فروخت کرنے والے دونوں کو اختیار حاصل ہے قیمت واپس لینے کا اور سا مان واپس دے دینے کا۔ اس طریقہ سے اگر نقصان کا علم ہو جس وقت تک دونوں الگ نہ ہوں لیکن جس بیع میں اختیار کی شرط لازم کر لی گئی ہے یعنی سامان کی واپسی کا اقرار کر لیا گیا ہو تو الگ ہونے کے بعد بھی اختیار حاصل ہے۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والا اور خریدار دونوں کو اختیار حاصل ہے جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں یا اختیار کی شرط ہو۔
٭٭ محمد بن مروزی، محرز بن وضاح، اسماعیل، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فروخت کر نے والے اور خریدار دونوں کو اختیار حاصل ہے جس وقت تک الگ نہ ہوں لیکن جس وقت بیع میں اختیار کی شرط ہو تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن (فسخ کا) اختیار حاصل رہتا ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والا اور خریدار دونوں کو اختیار ہے جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں یا بیع میں اختیار کی شرط ہے ایک دوسرے سے کہے تو اختیار کر لے۔ (مطلب یہ ہے کہ اپنے واسطے اختیار کی شرط کر لے اور دوسرا اس کو منظور اور قبول کر لے )۔
٭٭ قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت دو شخص معاملہ کریں سامان کے فروخت کر نے کا تو ان میں سے ہر ایک شخص کو اختیار حاصل ہے جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں اور ساتھ رہیں یا ہر ایک دوسرے شخص کو اختیار دے دے پس اگر اختیار دے دے تو بیع اس شرط پر ہو گی اور بیع مکمل ہو جائے گی (البتہ اختیار باقی رہے گا شرط کی وجہ سے ) اگر بیع کرنے کے بعد الگ ہوئے اور کسی شخص نے بیع کے معاملہ کو ختم نہیں کیا تو بیع لازم اور نافذ ہو گی)۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالوہاب، یحیی بن سعید، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والا اور خریدار دونوں کو اختیار ہے اپنی بیع میں جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں مگر یہ کہ بیع بالخیار ہو (یعنی اس میں شرط ہو اختیار کے استعمال کی تو الگ ہونے کے بعد یہی اختیار رہے گا) حضرت نافع نے نقل فرمایا حضرت عبداللہ جس وقت کوئی چیز اس قسم کی خریدتے جو ان کو پسند ہوتی تو اپنے ساتھی سے الگ ہو جاتے (خریدنے کے بعد تاکہ وہ فسخ نہ کر سکے )
٭٭ علی بن حجر، ہشیم، یحیی بن سعید، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والے اور خریدار کے درمیان بیع مکمل نہیں ہوتی جس وقت تک وہ علیحدہ نہ ہوں لیکن بیع بالخیار (وہ مکمل ہو جاتی ہے لیکن اختیار باقی رہتا ہے )
زیر نظر حدیث شریف کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن دینار سے متعلق راویوں کا اختلاف
علی بن حجر، اسماعیل، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والے اور خریدار کے درمیان بیع مکمل نہیں ہوتی جس وقت تک وہ علیحدہ نہ ہوں لیکن بیع بالخیار (وہ مکمل ہو جاتی ہے لیکن فسخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔)
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بائع اور خریدار دونوں کو اختیار ہے جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں یا ان کی بیع بالخیار ہے۔
٭٭ عمرو بن علی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والے اور خریدار دونوں کو اختیار ہے جس وقت تک علیحدہ نہ ہوں ہر ایک بیع کو اپنی مرضی کے مطابق مکمل کرے اور تین مرتبہ اختیار کر لیں۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
جس وقت تک فروخت کر نے والا اور خریدار دونوں علیحدہ نہ ہوں اس وقت تک ان کو اختیار حاصل ہے
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت کر نے والا اور خریدار دونوں کو اختیار ہے جس وقت تک وہ علیحدہ نہ ہوں لیکن یہ کہ بیع کا معاملہ خود اختیار کے ساتھ ہو تو اس میں اختیار حاصل رہے گا۔ علیحدہ ہونے کے بعد بھی اور جائز نہیں ہے ایک دوسرے سے الگ رہنا اس اندیشہ سے کہ وہ فسخ نہ کریں۔
بیع کے معاملہ میں دھوکہ ہو نا
قتیبہ بن سعید، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاملہ عرض کیا مجھ کو بیع کے معاملہ میں دھوکہ دیا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم کوئی شے فروخت کرو تو تم کہہ دو کہ یہ دھوکہ نہیں ہے (یعنی مجھ کو علم نہیں ) بیع میں تو مسلمان کے واسطے لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کا نقصان نہ کرے اور جس وقت کوئی شخص فروخت کرتا تو یہی کہتا تو لوگ اس شخص پر رحم کھاتے اور اس کا نقصان جائز خیال کرتے۔
٭٭ یوسف بن حماد، عبدالاعلی، سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ ایک شخص (دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ناقص العقل تھا) وہ خرید و فروخت کیا کرتا تھا اس کے متعلقین خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور اس شخص کی شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم فروخت کیا کرو تو کہا کرو کہ (میرے سامان میں ) دھوکہ نہیں ہے۔
کسی جانور کے سینہ میں دودھ اکھٹا کر کے فروخت کرنے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، یحیی بن ابی کثیر، ابو کثیر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص بکری یا اونٹنی فروخت کرے تو اس کے سینہ میں دودھ جمع نے کرے۔
مصراۃ بیچنے کی ممانعت یعنی کسی دودھ والے جانور کو بیچنے سے کچھ روز قبل اس کا دودھ نہ نکالنا تاکہ زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اس کی زیادہ بولی (قیمت) لگے
محمد بن منصور، سفیان، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ آگے جا کر قافلہ سے نہ ملو اور نہ بند کرو دودھ اونٹ اور بکری کا اور اگر کوئی اس قسم کا جانور خریدے (یعنی جس کا دودھ جمع کر لیا گیا ہے ) تو اس کو اختیار ہے اگر دل چاہے تو رکھ چھوڑے اور دل چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور دیدے اس دودھ کے عوض جو خریدار نے استعمال کیا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن حارث، داؤد بن قیس، ابن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی دودھ ٹھہرا ہوا جانور خریدے اگر اس کو پسند آئے تو اس کو رکھ لے ورنہ اس کو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور کا واپس کر دے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب، محمد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دودھ روکا ہوا جانور خریدے تو اس کو تین روز تک اختیار حاصل ہے اگر دل چاہے تو اس کو رکھ لے اور اگر دل چاہے تو اس کو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور کا واپس کرے نہ کہ گیہوں کا۔ (کیونکہ عرب میں گیہوں کی قیمت کھجور سے زیادہ ہے اس وجہ سے کھجور کی قیمت کے برابر واپس کرنے کا حکم فرمایا۔
فائدہ اسی کاہے جو کہ مال کا ذمہ دار ہو
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس و وکیع، ابن ابو ذنب، مخلد بن خفاف، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا نفع اور فائدہ ضمان کے ساتھ ہے۔
مقیم کا دیہاتی کے لیے مال فروخت کرنا ممنوع ہے
عبد اللہ بن محمد بن تمیم، حجاج، شعبہ، عدی بن ثابت، ابو حازم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تلقی سے اور مہاجر کو گاؤں کے باشندہ کا مال فروخت کرنے اور تصریہ اور بخشش سے اور اپنے بھائی کے بھا پر بھا کرنے سے اور عورت کا اپنی سوکن کے واسطے طلاق کہنے سے یعنی شوہر سے (عورت کے ) سوکن کی طلاق کے واسطے کہنے سے۔
کوئی شہری دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے
محمد بن بشار، محمد بن زبر، یونس بن عبید، حسن، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کسی شہری کو باہر والے شخص کا مال فروخت کرنے سے اگرچہ اس کا والد یا بھائی ہو۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی کسی باہر کے شخص کا مال و اسباب فروخت نہ کرے لوگوں کو (ان کے حال پر) چھوڑ دو کہ جس کا دل چاہے گا اور جس طرح سے لوگوں کا دل چاہے گا وہ مال واسباب فروخت کریں خداوند قدوس رزق عطاء فرماتا ہے ایک کو دوسرے سے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ (بستی سے ) آگے جا کر قافلہ سے ملاقات نہ کرو مال و اسباب خریدنے کے واسطے اور تم لوگوں میں سے کوئی شخص دوسرے کے مال پر مال فروخت نہ کرے اور نہ بخشش کرے کوئی شہری شخص کسی دیہات والے کے لیے (یعنی کوئی شہری کسی دیہاتی کا دلال یا ایجنٹ نہ بنے )۔
٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم بن اعین، شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، کثیر بن فرقد، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بخشش سے اور قافلہ سے آگے جا کر ملاقات کرنے سے اور کسی شہری (یعنی بستی کے شخص) کو دیہاتی کا مال فروخت کرنے سے۔
قافلہ سے آگے جا کر ملاقات کرنے کی ممانعت سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی تلقی سے یعنی آگے جا کر قافلہ کی ملاقات سے (اس کی تفسیر گزر چکی)
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، اسامۃ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی قافلہ سے آگے جا کر ملنے سے جس وقت تک کہ وہ (گاؤں کا فروخت کرنے والا) خود بازار میں نہ آ جائے اور خود بھاؤ نہ دیکھ لے (یعنی مارکیٹ میں اس سامان کی جو قیمت ہے وہ خود آ کر معلوم نہ کر لے )
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قافلوں کی ملاقات سے ممانعت فرمائی (بستی سے باہر جا کر) اور شہری کو دیہاتی شخص کے واسطے فروخت کرنے سے حضرت طاؤس نے نقل کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس سے دریافت کیا کہ اس سے کیا مراد ہے کہ شہری آدمی فروخت نہ کرے دیہات کے رہنے والے شخص کے واسطے تو انہوں نے کہا شہری آدمی دلال (یا ایجنٹ) نہ بنے باہر والے شخص کا۔
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، ابن جریج، ہشام بن حسان قردوسی، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مال لے کر آئے اس قافلہ سے نہ ملو (یعنی بستی اور آبادی کے باہر جا کر) اور اگر کوئی شخص قافلہ سے جا کر ملے اور مال خرید لے پھر مال والا شخص بازار میں آئے (اور مشاہدہ کرے کہ مجھ کو دھوکہ دیا گیا کہ مارکیٹ میں اس کی شے کی قیمت زیادہ ہے ) تو اس کو اختیار حاصل ہے اگر دل چاہے تو بیع فسخ کر لے اور اپنا مال واپس لے لے۔
اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ لگانے سے متعلق
مجاہد بن موسی، اسماعیل، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ فروخت کرے کوئی شہری شہر اور بستی سے باہر والے شخص کو اور تم لوگ نہ نجش کرو اور نہ بھاؤ لگائے کوئی شخص دوسرے مسلمان بھائی کے قیمت لگانے کے بعد جس وقت اس کی قیمت مقرر ہو چکی ہو اور فروخت کرنے والا فروخت کرنے کو مستعد ہو گیا اور نہ پیغام (نکاح) بھیجے اور نہ مطالبہ کرے کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا تاکہ پلٹ لے جو اس کے برتن میں آنا تھا اور نکاح کرے جو اس کی قسمت میں خداوند قدوس نے لکھا ہے اس کو ملے گا۔
اپنے (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرنے سے متعلق
قتیبہ بن سعید، مالک ولیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ فروخت کرے کوئی تمہارے میں سے اپنے بھائی کے فروخت کرنے پر۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ فروخت کرے کوئی اپنے بھائی کے فروخت کرنے پر جس وقت تک کہ دوسرے شخص سے بھاؤ ہو رہا ہو جب تک دخل اندازی نہ کرے۔
نجش کی ممانعت
قتیبہ، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجش سے منع فرمایا۔
٭٭ محمد بن یحیی، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، زہری، ابو سلمہ و سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے تمہارے میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے فروخت کرنے پر فروخت نہ کرے شہری اور دیہاتی کو اور تم لوگ (سامان فروخت کرنے میں ) نجش نہ کرو اور کوئی خاتون اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ الٹ لے جو اس کے برتن میں ہے۔
٭٭ اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی مانند منقول ہے۔
نیلام سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، معتمر و عیسیٰ بن یونس، الاخضر بن عجلان، ابو بکر حنفی، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک پیالہ اور ایک کمبل نیلام فرمایا۔
بیع ملامسہ سے متعلق احادیث
محمد بن سلمہ وحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، محمد بن یحیی بن حبان و ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے۔
مندرجہ بالا حدیث کی تفسیر
ابراہیم بن یعقوب، عبداللہ بن یوسف، لیث، عقیل، ابن شہاب، عامر بن سعد بن ابی وقاص، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی (بیع) ملامسہ سے وہ کپڑے کا چھونا ہے اور اس کو نہ دیکھنا (یعنی اندر کی جانب سے وہ کیسا ہے ؟) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا منابذہ سے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کی جانب پھینک دے نہ تو اس کو الٹا کرے اور نہ ہی اس کو دیکھے۔
بیع منابذہ سے متعلق حدیث
یونس بن عبدالاعلی و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عامر بن سعد، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
مذکورہ مضمون کی تفسیر
محمد بن مصفی بن بہلول، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بیع منابذہ سے اور بیع ملامسہ سے اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ دو شخص رات میں دو کپڑوں پر معاملہ کریں اور ہر ایک شخص دوسرے شخص کے کپڑے کو ہاتھ لگائے اور منابذہ یہ ہے کہ ایک آدمی اپنا کپڑا دوسرے کی جانب پھینک دے اور وہ اس کی جانب پھینکے اور اس پر بیع ہو۔
٭٭ ابو داؤد، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، عامر بن سعد، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بیع ملامسہ سے اور ملامسہ یہ ہے کہ (خریدار فروخت کرنے والے کے ) کپڑے کو ہاتھ لگائے اور اس کی جانب نہ دیکھے اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے شخص کی جانب پھینک دے اور وہ اس کو الٹ کر نہ دیکھے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عطاء بن یزید، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کے لباس کی ممانعت ارشاد فرمائی اور دو قسم کے فروخت کرنے سے منع فرمایا بیع ملامسہ اور بیع منابذہ میں اور بیع منابذہ یہ ہے کہ دوسرے شخص سے کہا جائے کہ جس وقت میں یہ کپڑا پھینک دوں تو بیع صحیح ہو گئی اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ کپڑے میں کوئی کسی قسم کا عیب یا نہیں یہ نہ دیکھے ) اور نہ کپڑا الٹ کر دیکھے جس وقت وہ کپڑا چھوئے یعنی کپڑے کو ہاتھ لگائے تو بیع لازم ہو گئی اور دو قسم کے لباس کو بیان نہیں فرمایا وہ یہ ہے کہ کپڑا ایک سونڈھے پر ہو اور دوسرا مونڈھا کھلا ہوا ہے دوسرے یہ کہ گوٹ مار کر بیٹھ جائے اور کپڑا اس طریقہ سے باندھے کہ ستر کھلی رہے۔
٭٭ ہارون بن زید بن ابی زرقاء، وہ اپنے والد سے ، جعفر بن برقان، زہری، سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کے لباس استعمال کرنے کی ممانعت فرمائی اور دو قسم کی بیع سے منع فرمایا۔ ایک تو بیع ملامسہ سے اور دوسری بیع منابذہ سے اور یہ دونوں بیع دور جاہلیت میں رائج تھیں۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، عبید اللہ، خبیب، حفص بن عاصم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کی بیوع کی ممانعت فرمائی ایک تو بیع منابذہ سے دوسرے بیع ملامسہ سے۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک مرد دوسرے سے کہے کہ یہ کپڑا تمہارے کپڑے کے عوض فروخت کرتا ہوں اور دونوں ایک دوسرے کے کپڑے کو نہ دیکھیں بلکہ صرف اس کو ہاتھ لگائیں اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ جو تمہارے پاس ہے اس کو پھینک دو اور دوسرا کہے کہ جو تمہارے پاس ہے تم اس کو پھینک دو لیکن کسی دوسرے کو اس کا علم نہ ہو کہ دوسرے شخص کے پاس کس قدر ہے جو اس کے مشابہ ہو۔
کنکری کی بیع سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کنکری کی بیع سے اور دھوکہ کی بیع سے۔
پھلوں کی فروخت ان کو پکنے دینے سے پہلے پہلے
قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ نہ فروخت کرو پھل کو درخت پر جس وقت تک کہ اس کے پھل نہ پک جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بائع کو ایسے پھل فروخت کرنے سے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پھل فروخت کرنے سے جس وقت تک کہ اس کے بہتر ہونے کی حالت کا علم نہ ہو (یعنی جس وقت تک پھل کے پک جانے کا علم ہو اس وقت ان کی فروخت کی جائے )۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید و ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ پھلوں کو فروخت نہ کرو جس وقت تک ان کی پختگی کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے (یعنی جب تک پھل نہ پک جائے تو اس وقت تک ان کو فروخت نہ کرو) اور نہ فروخت کرو پھلوں کے بدلے پھل یعنی درخت کا پھل اندازہ لگا کر اور اس کے برابر خشک پھلوں کے عوض میں پھل فروخت نہ کرو کیونکہ اس میں کمی بیشی کا اندیشہ ہے۔ حضرت ابن شہاب نے نقل کیا کہ مجھ سے حضرت سالم نے نقل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پھل کو اسی پھل کے عوض میں فروخت کرنے سے۔
٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد بن یزید، حنظلۃ، طاؤس عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا تم لوگ پھلوں کو فروخت نہ کرو جس وقت تک کہ ان کی بہتری کی حالت معلوم نہ ہو جائے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابن جریج، عطاء، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی (بیع) منابرہ مزابنہ اور محاقلہ سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھلوں کے فروخت کرنے سے منع فرمایا جس وقت تک کہ ان کی پختگی کا حال معلوم نہ ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پھلوں کے فروخت کرنے سے مگر روپیہ اور اشرفیوں کے عوض اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا میں رخصت عطاء فرمائی۔
٭٭ قتیبہ، مفضل، ابن جریج، عطاء و ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی مزابنہ اور محاقلہ سے اور پھلوں کے فروخت کرنے سے جس وقت تک کہ وہ کھانے کے لائق نہ ہو جائیں (یعنی پک نہ جائیں ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی عرایا میں۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور کے فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی جب تک کہ وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے۔
پھلوں کے پختہ ہونے سے قبل ان کا اس شرط پر خریدنا کہ پھل کاٹ لیے جائیں گے
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، حمید طویل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت بیان فرمائی پھلوں کے فروخت کرنے کی جس وقت تک کہ ان کے رنگ پر کشش نہ ہو جائیں۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! رنگ کے پر کشش ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ پھل سرخ ہو جائیں یعنی وہ پکنے کے قریب ہو جائیں اور اب کوئی مصیبت کا احتمال نہ رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دیکھو اگر خداوند قدوس پھلوں کو روک دے اور وہ نہ پکیں (یعنی پھل پختہ نہ ہوں ) تو تمہارے میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے عوض میں لے گا۔
پھلوں پر آفت آنا اور اس کی تلافی
ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اپنے بھائی کے ہاتھ کھجور فروخت کرو پھر اس پر مصیبت نازل ہو جائے تو تم کو اس کے مال میں سے کچھ لینا درست نہیں (آخر تم کس شے کے عوض اپنے بھائی کا مال لو گے ؟)
٭٭ ہشام بن عمار، یحیی بن حمزۃ، ثور بن یزید، ابن جریج، ابو زبیر مکی، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص پھل فروخت کرے پھر اس پر کسی قسم کی آفت نازل ہو جائے تو وہ اپنے بھائی کا مال نہ وصول کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ فرمایا اسی طرح سے یعنی آخر کار کس بات میں سے تم میں کوئی شخص دوسرے مسلمان بھائی کا مال کھائے ؟
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، حمید، الاعرج، سلیمان بن عتیق، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آفات کا نقصان ادا کرایا۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، بکیر، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ایک آدمی نے پھل کی خریداری کی ان پر آفت آنے سے قبل اور وہ شخص مقروض ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو صدقہ دے دو چنانچہ لوگوں نے صدقہ خیرات کیا۔ جس وقت اس شخص کا قرض پورا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا تم اب لے لو جو کچھ تم کو مل گیا وہ کافی ہے اور کچھ نہیں ملے گا (مطلب یہ ہے کہ جو کچھ مل رہا ہے اس پر قناعت کرو دراصل ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پھلوں پر قدرتی آفت آ جائے تو تم کو بالکل کچھ بھی نہ ملتا)۔
چند سال کے پھل فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، سفیان، حمید الاعرج، سلیمان بن عتیک، قتیبہ، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی چند سالوں کا پھل فروخت کر نے سے۔
درخت کے پھلوں کو خشک پھلوں کے بدلہ فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی درخت پر لگے ہوئے پھلوں کو فروخت کرنے سے اتری ہوئی کھجوروں کے عوض۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت زید بن ثابت نے بیان فرمایا۔
٭٭ زیاد بن ایوب، ابن علیۃ، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرما دی مزابنہ سے اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت کے اوپر کی کھجور ایک مقررہ ناپ کھجور کے عوض میں فروخت کی جائے اگر کھجور درخت کی زیادہ نکل آئے تو زیادہ خریدار کی ہے اور اگر کم نکل آئے تو اسی کا نقصان ہے۔
تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنے سے متعلق
قتیبہ، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزابنہ کی ممانعت فرمائی اور (بیع) مزابنہ درخت پر لگی ہوئی (تازہ) کھجور کو خشک کھجور (یعنی درخت سے اتار دی گئی کھجور) کے عوض فروخت کرنا ناپ کر اور تازہ انگور خشک انگور کے عوض فروخت کرنا ناپ کر۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، ابو الاحوص، طارق، سعید بن مسیب، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بیع) محاقلہ اور بیع مزابنہ کی ممانعت فرمائی۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، سالم، وہ اپنے والد سے ، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا میں رخصت عطاء فرمائی (اس مضمون کی تشریح سابق میں عرض کی جا چکی)
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، خارجۃ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا میں خشک اور تر کھجور کے دینے کی اجازت عطاء فرمائی (عرایا کی تشریح گزر چکی)۔
عرایا میں اندازہ کر کے خشک کھجور دینا
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبد اللہ، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عریہ کی بیع میں رخصت عطاء فرمائی خشک اور تر کھجور کو اندازہ کر کے دینے کی۔
٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، یحییٰ بن سعید، نافع، ابن عمر، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عریہ کی بیع میں رخصت عطاء فرمائی خشک اور تر کھجور کو اندازہ کر کے دینے کی۔
٭٭ ابو داؤد، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، سالم، عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا میں تر کھجور اور خشک کھجور دینے کی اجازت عطاء فرمائی اور اس کے علاوہ دوسری جگہ میں رخصت اور اجازت عطاء نہیں فرمائی۔
٭٭ اسحاق بن منصور ویعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، مالک، داؤد بن حصین، ابو سفیان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی عرایا میں اندازہ کر کے فروخت کرنے کی پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، یحیی، بشیر بن یسار، سہل بن ابی حثمۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پھلو کو فروخت کرنے کی جس وقت تک ان کی خرابی کا علم نہ ہو اور اجازت عطاء فرمائی عرایا میں اندازہ کر کے فروخت کرنے کی تاکہ اس کو لوگ فروخت کر کے تر کھجور کھا سکیں۔
٭٭ حسین بن عیسی، ابو اسامۃ، ولید بن کثیر، بشیر بن یسار، رافع بن خدیج و سہل بن ابو حثمۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی (بیع) مزابنہ سے یعنی درخت کے اوپر کے پھلوں کو خشک پھلوں کے عوض فروخت کرنے سے لیکن عرایا والوں کو اجازت دی اس لیے کہ وہ محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، بشیر بن یسار رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی عرایا کی بیع میں پھلوں کا اندازہ کر کے۔
تر کھجور کے عوض خشک کھجور
عمرو بن علی، یحیی، مالک، عبداللہ بن یزید، زید بن ابو عیاش، سعد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا خشک کھجور کو تر کھجور کے عوض فروخت کرنا کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو لوگ نزدیک بیٹھے ہوئے تھے ان سے دریافت کیا کہ تر کھجور تو خشک ہو کر گھٹ جاتی ہے۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
کھجور کا ڈھیر جس کی پیمائش کا علم نہ ہو کھجور کے عوض فروخت کرنا
ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور کا ایک ڈھیر فروخت کرنے سے کہ جس کی ناپ کا علم نہ ہو (یعنی جس ڈھیر کے وزن کا علم نہ ہو اس ڈھیر کے فروخت کرنے میں اندیشہ ہے کمی زیادتی کا)
اناج کا ایک انبار اناج کے انبار کے عوض فروخت کرنا
ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ فروخت کیا جائے غلہ ایک ڈھیر غلہ کے ڈھیر کے عوض اور نہ ہی وزن کیے ہوئے غلہ کے عوض۔
غلہ کے عوض غلہ فروخت کرنا
قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزابنہ سے ممانعت فرمائی۔ مزابنہ یہ ہے کہ اپنے باغ میں لگی ہوئی کھجور کو اتری ہوئی کھجور کے عوض فروخت کیا جائے اور اگر کھیت ہو تو اس کو غلہ کے عوض وزن کر کے فروخت کرے ان تمام کی ممانعت فرمائی۔
٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد بن یزید، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی مخابرہ مزابنہ اور محاقلہ سے اور پھلوں کے فروخت سے جس وقت تک وہ کھانے کے لائق نہ ہوں اور ممانعت فرمائی پھلوں کے فروخت کرنے سے لیکن روپیہ اور اشرفی کے عوض (بیع درست ہے )۔
بالی اس وقت تک فروخت نہ کرنا کہ جب تک وہ سفید نہ ہو جائیں
علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور کے فروخت کرنے سے جس وقت تک کہ وہ پر کشش رنگین نہ ہو جائیں اور (گیہوں کے ) بالی فروخت کرنے سے جس وقت تک کہ سفید نہ ہو اور آفت کا اندیشہ نکل جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی فروخت کرنے والے کو فروخت کرنے سے اور خریدار کو خریدنے سے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، ابو الاحوص، الاعمش حبیب بن ابی ثابت، ابو صالح نے ایک صحابی سے سنا اس نے کہا یا رسول! ہم لوگ (کھجور کی اقسام) صیحافی اور عذق کے عوض جس وقت تک کہ زیادہ نہ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھجور کو پہلے چاندی کے بدلہ فروخت کرو پھر اس کے عوض صیحافی اور عذق (کھجور کی اقسام) خرید لے۔
کھجور کو کھجور کے عوض کم زیادہ فروخت کرنا
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبدالمجید بن سہیل، سعید بن مسیب، ابو سعید خدری سے روایت ہے اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو خیبر کا عامل بنایا وہ ایک عمدہ قسم کی کھجوریں جس کو جنیب کہتے ہیں لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہیں ؟ اس نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم! ہم لوگ دو صاع کھجور دے کر ایک صاع یا تین صاع دے کر دو صاع وصول کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایسا نہ کرو بلکہ تمام کھجور کو پہلے روپیہ کے عوض فروخت کرو پھر روپیہ ادا کر کے جنیب خرید لیں۔
٭٭ نصر بن علی و اسماعیل بن مسعود، خالد، سعید، قتادۃ، سعید بن مسیب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں ریان (کھجور کی اعلی قسم کا نام ہے ) پیش کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کھجور میں بعل کھجور تھی جو کہ خشک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا کہ یہ درست نہیں ہے لیکن اپنی کھجوروں کو فروخت کرو (نقد رقم پر) پھر جو ضروری ہو تو اور خرید لے۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم کو دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ملواں کھجور ملا کرتی تھی ہم لوگ اس میں سے دو صاع دے کر ایک صاع خریدا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھجور کے دو صاع فروخت نہ کیے جائیں ایک صاع کے عوض اور نہ ہی دو صاع گیہوں کے بعوض ایک صاع کے اور نہ ایک درہم بدلہ میں دو درہم کے۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحیی، ابن حمزۃ، الاوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ ہم لوگ ملواں کھجور دو صاع ادا کر کے ایک صاع وصول کیا کرتے تھے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو صاع گیہوں کے نہ دو ایک صاع کے عوض اور نہ ہی دو صاع گیہوں کے بعوض ایک صاع کے اور نہ دو درہم بعوض ایک درہم کے۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحیی، ابن حمزۃ، الاوزاعی، یحیی، عقبہ بن عبدالغافر، ابو سعید سے روایت ہے کہ بلال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں برنی کھجور لے کر حاضر ہوئے (یہ کھجور کی ایک اعلی قسم ہوتی ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ حضرت بلال نے عرض کیا میں نے دو صاع ادا کر کے اس کا ایک صاع لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچ تو یہ تو بالکل سود ہے نزدیک نہ جا (ہرگز) اس کے قریب بھی نہ پھٹک۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، مالک بن اوس بن حدثان، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سونے چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے لیکن جب بالکل نقد معاملہ ہو اسی طریقہ سے سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوض اور کھجور کھجور کے عوض سود ہے لیکن نقد اور گیہوں گیہوں کے بدلہ ہے لیکن نقد در نقد اور جو جو کے عوض سود ہے لیکن بالکل نقد ہو (تو وہ سود میں داخل نہیں ہے )۔
٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، وہ اپنے والد سے ، ابو زرعہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کھجور کھجور کے عوض اور گیہوں گیہوں کے عوض اور جو جو کے عوض اور نمک نمک کے عوض بالکل ہی نقد۔ پس جس نے زیادہ کیا تو وہ سود ہو گیا۔ لیکن جب جنس بدل جائے (یعنی گیہوں یا چاول کھجور کے عوض ہو تو زیادہ اور کم لینا درست ہے )
گیہوں کے عوض گیہوں فروخت کرنا
محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، سلمہ، ابن علقمۃ، محمد بن سیرین، مسلم بن یسار و عبداللہ بن عتیک سے روایت ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان دونوں حضرات ایک ہی مکان میں جمع ہوئے۔ پس جس وقت حضرت عبادہ نے حدیث نقل فرمائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کو سونے کے عوض فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی اور چاندی کو چاندی کے عوض اور گیہوں کو گیہوں کے عوض فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی اور اسی طریقہ سے جو کو جو کے عوض اور کھجور کو کھجور کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا (واضح رہے کہ ایک راوی نے ان دونوں حضرات میں سے یعنی مسلم نے یا حضرت عبداللہ نے اس قدر اضافہ کیا کہ نمک نمک کے عوض اور دوسرے راوی نے اس کو نقل نہیں کیا۔ لیکن برابر برابر بالکل نقد اور ہم کو حکم ہوا سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنے کا اور چاندی کو سونے کے عوض اور گیہوں کو جو کے عوض اور جو کو گیہوں کے عوض جس طریقہ سے ہم چاہیں (یعنی کم زیادہ جس طرح سے دل چاہے ایک راوی نے اس قدر اضافہ کیا اور نقل کیا کہ جس کسی نے زیادہ دیا اور زیادہ وصول کیا تو اس نے درحقیقت سودی لین دین کیا۔)
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
جو کے عوض جو فروخت کرنا
ترجمہ گزشتہ کے مطابق ہے لیکن یہ اضافہ ہے کہ جس وقت حضرت معاویہ نے یہ حدیث سنی تو فرمایا لوگوں کی کیا حالت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات نقل کرتے ہیں جو کہ ہم نے نہیں سنی اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت میں رہے جب حضرت عبادہ نے یہ بات سنی تو وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے یہ روایت نقل کی اور فرمایا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو سنا ہے ہم اس کو نقل کریں گے اگرچہ حضرت معاویہ ناراض ہی کیوں نہ ہوں۔
٭٭ محمد بن آدم، عبدۃ، ابن ابو عروبۃ، قتادۃ، مسلم بن یسار، ابو اشعث صنعانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ (جو کہ غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے ) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک پر جنہوں نے بیعت کی تھی۔ اس بات پر کہ ہم لوگ خداوند قدوس کے کام میں نہیں ڈریں گہ کسی شخص سے برائی کرنے والے کی برائی سے یہ بات سن کر حضرت عبادہ بن صامت خطبہ دینے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اے لوگو! تم نے وہ بیوع نکالی کہ جن سے میں واقف ہوتا یاد رکھو کہ تم لوگ سونے کے عوض برابر برابر تول کر ڈلا ہو یا سکہ ہو اور تم لوگ چاندی کو فروخت کرو چاندی کے عوض وہ سکہ کی شکل میں ہو یا اور کچھ اس میں حرج نہیں ہے چاندی کو فروخت کرنا سونے کے عوض اور چاندی زیادہ ہو لیکن بالکل نقد لازم ہے اس میں میعاد درست نہیں (یعنی چاندی اگر سونے کے عوض فروخت کرے تو وزن میں برابر ہونا لازم نہیں ہے لیکن نقد نقد لازم ہے ایک اب دے اور ایک میعاد پر یہ لازم نہیں ہے سن لو! غور سے سن لو تم لوگ گیہوں کو گیہوں کے عوض فروخت کرو اور جو کو جو کے عوض برابر برابر ناپ کر اور اگر جو کو گیہوں کے عوض فروخت کرے تو زیادہ ادا کرنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے لیکن بالکل نقد لازم ہے اور ادھار کا معاملہ کرنا درست نہیں ہے تم لوگ غور سے سن لو مطلع ہو جاؤ جو کھجور کو کھجور کے عوض میں فروخت کرو برابر ناپ کر یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نمک کو بیان کیا۔ اس کو بھی برابر ناپ کر فروخت کرو کہ جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے (یعنی زیادہ کمی کا لین دین کرے ) تو اس نے سود کھایا اور سود کھلایا۔
٭٭ محمد بن مثنی و ابراہیم بن یعقوب، عمرو بن عاصم، ہمام، قتادۃ، ابو خلیل، مسلم مکی، ابو اشعث صنعانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سونا سونے کے عوض فروخت کرو اور سکہ برابر برابر چاندی چاندی کے عوض دو چاندی سکہ کی صورت میں ہو یا ڈھیلے کی شکل میں ہو برابر تول کر نمک کے عوض اور کھجور کھجور کے عوض اور گیہوں گیہوں کے عوض اور جو جو کے عوض برابر برابر۔ جس کسی نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا (یعنی کمی زیادتی کا لین دین کیا) وہ سود ہو گیا۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، سلیمان بن علی سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت ابو المتوکل بازار میں لوگوں کے پاس سے گزرے (ان کو دیکھ کر) بہت سے لوگ ان کی جانب بڑھے اور میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم تمہارے صرف کے بارے میں دریافت کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا میں نے حضرت ابو سعید خدری سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوض اور گیہوں گیہوں کے عوض اور جو جو کے عوض اور کھجور کھجور کے عوض برابر برابر فروخت کرو۔ جو آدمی زیادہ گفتگو کرے یا زیادہ دے تو اس نے سود دیا یا سود لیا۔ سود دینے والا اور لینے والا گناہ میں دونوں دونوں برابر ہیں۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، ابو اسامۃ، اسماعیل، حکیم بن جابر، یعقوب بن ابراہیم، یحیی، اسماعیل، حکیم بن جابر، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے سونا ایک پلڑا دوسرے پلڑے کے برابر یہ سن کر حضرت معاویہ نے فرمایا یہ قول کچھ نہیں کہتا۔ یعنی تمہاری یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ حضرت عبادہ نے فرمایا خدا کی قسم! مجھ کو کسی قسم کی کوئی پرواہ نہیں ہے اگر میں اس ملک میں نہ رہوں کہ جہاں پر حضرت معاویہ موجود ہوں میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں بلاشبہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے تھے۔
اشرفی کو اشرفی کے عوض فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، مالک، موسیٰ بن ابو تمیم، سعید بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اشرفی کو اشرفی کے عوض فروخت کرو اور روپیہ روپیہ کے عوض فروخت کرو برابر برابر وزن کر کے کم زیادہ نہ ہو (اور اگر ایک چاندی بہتر ہو یا ایک کا سونا گھرا ہو تو روپے کو اشرفی دے کر اور اشرفی کو روپیہ دے کر خرید لے )۔
روپیہ روپیہ کے عوض فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، مالک، حمید بن قیس مکی، مجاہد، عمر نے فرمایا تم لوگ اشرفی کو اشرفی کے عوض فروخت کرو اور روپیہ روپیہ کے عوض فروخت کرو۔ کمی زیادتی نہ ہو یہ ارشاد (حکم) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم لوگوں سے ہے۔
٭٭ واصل بن عبدالاعلی، محمد بن فضیل، وہ اپنے والد سے ، ابن ابو نعم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سونے کو سونے کے عوض فروخت کرو وزن کر کے برابر برابر اور چاندی کو چاندی کے عوض وزن کر کے برابر برابر پس جس کسی نے زیادہ دیا تو وہ سود ہو گیا۔
سونے کے بدلے سونا فروخت کرنا
قتیبہ، مالک، نافع، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ فروخت کرو سونے کو سونے کے عوض لیکن برابر برابر اور تم لوگ ایک کو دوسرے پر زیادہ نہ کرو اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو لیکن برابر برابر اور کسی کو ان میں سے جو ادھار ہو نقد کے عوض فروخت نہ کرو۔
٭٭ حمید بن مسعدۃ و اسماعیل بن مسعود، یزید، ابن زریع، ابن عون، نافع، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی سونے اور چاندی کو (ایک دوسرے کے عوض) فروخت کرنے سے لیکن برابر اور ہم وزن اور فرمایا تم لوگ نہ فروخت کرو ادھار کو نقد کے عوض اور نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اگرچہ کھوٹا ہو اور دوسرا کھرا ہو۔
٭٭ قتیبہ، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے ایک برتن پانی پینے کا سونے یا چاندی کا فروخت کیا اور اس کے ناپ سے زیادہ سونا چاندی لیا۔ حضرت ابو درداء نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممانعت فرماتے تھے اس قسم کی بیع سے لیکن برابر برابر۔
نگینہ اور سونے سے جڑے ہوئے ہار کی بیع
قتیبہ، لیث، ابو شجاع سعید بن یزید، خالد بن ابی عمران، حنش صنعانی، فضالۃ بن عبید سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک سونے کے ہار کی خریداری کی جس میں نگینے موجود تھے اور یہ بارہ بارہ اشرفیوں کا خریدا۔ جس وقت میں نے اس کا سونا علیحدہ کیا تو وہ بارہ اشرفیوں سے زیادہ نکلا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فروخت نہ کیا جائے جس وقت وہ سونا علیحدہ نہ کیا جائے (جب کہ سونے کے عوض فروخت کرنا منظور ہو)۔
٭٭ عمرو بن منصور، محمد بن محبوب، ہشیم، لیث بن سعد، خالد بن ابو عمران، حنش صنعانی، فضالۃ بن عبید سے روایت ہے کہ میں نے خیبر والے دن ایک ہار پایا (یعنی غزوہ خیبر کے روز راستہ میں مجھے ایک ہار ملا) جس میں سونا اور نگ تھے۔ میں نے اس کو فروخت کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس بات کا تذکرہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پہلے تم اس کو الگ کر لو (یعنی اس کا سونا تم الگ کر لو اور اس کے نگینے الگ کر لو پھر اس کو فروخت کرو)۔
چاندی کو سونے کے بدلہ ادھار فروخت
محمد بن منصور، سفیان، عمرو، ابو منہال سے روایت ہے کہ میرے ایک شریک نے (سونے کے عوض) ادھار چاندی فروخت کی پھر مجھ سے آ کر عرض کیا میں نے کہا کہ یہ بات جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں نے وہ چاندی (سونے کے عوض ادھار) سر عام فروخت کی ہے یہ بات سن کر کسی نے (بطور اعتراض) کہا کہ یہ غلط طریقہ ہے۔ اس کے بعد میں حضرت براء بن عازب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا انہوں نے بیان فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ہم لوگ یہ فروخت کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ معاملہ نقد کا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر یہ معاملہ قرض کا ہو تو یہ سود ہے پھر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت زید بن ارقم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی یہی بات فرمائی۔
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عمرو بن دینار و عامر بن مصعب، ابو منہال، براء بن عازب و زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ہم دونوں دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تجارت کیا کرتے تھے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (بیع) صرف کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر بالکل نقد معاملہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگرچہ یہ معاملہ ادھار کا ہو تو جائز نہیں ہے۔
٭٭ احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد، شعبہ، حبیب، ابو منہال سے روایت ہے کہ میں نے حضرت براء بن عازب سے بیع صرف کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم حضرت زید بن ارقم سے اس بارے میں دریافت کرو کیونکہ وہ میرے سے زیادہ بہتر ہیں اور وہ مجھ سے زیادہ واقف ہیں (یعنی زیادہ علم رکھتے ہیں ) پھر دونوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کو سونے کے عوض اور بطور قرض فروخت کرنے سے (منع فرمایا)۔
چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا
احمد بن منیع، عباد بن عوام، یحیی بن ابو اسحاق، عبدالرحمن بن ابی بکرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی چاندی کو چاندی کے عوض فروخت کرنے سے اور سونے کو سونے کے عوض جس طریقہ سے ہم زیادہ چاہیں یا کم چاہیں اور چاندی کے خریدنے کا سونے کے عوض جس طرح چاہے۔
٭٭ محمد بن یحیی بن محمد بن کثیر حرانی، ابو توبۃ، معاویہ، بن سلام، یحیی بن ابی کثیر، عبدالرحمن بن ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کو چاندی کے عوض فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی لیکن بالکل ہی نقد برابر اور سونے کو سونے کے عوض فروخت کرنے سے لیکن نقد برابر برابر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ سونے کو سونے کے عوض فروخت کرو جس طریقہ سے دل چاہے اور چاندی کو چاندی کے جس طریقہ سے دل چاہے۔
٭٭ عمرو بن علی، سفیان، عبید اللہ بن ابی یزید، ابن عباس، اسامۃ بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سود نہیں ہے لیکن ادھار میں۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، عمرو، ابو صالح، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا تم لوگ جو یہ باتیں کرتے ہو کیا تم نے ان کو قرآن کریم میں پایا ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تم نے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہ تو میں نہ قرآن کریم میں پایا ہے اور نہ ہی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے لیکن حضرت اسامہ بن زید نے مجھ سے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا سود نہیں ہے لیکن ادھار میں (اگرچہ اس کو برابر فروخت کرے )۔
٭٭ احمد بن یحیی، ابی نعیم، حماد بن سلمہ، سماک بن حرب، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں اونٹ فروخت کیا کرتا تھا بقیع میں تو میں اشرفیوں کے عوض فروخت کیا کرتا تھا اور میں روپیہ وصول کرتا تھا حضرت حفصہ کے گھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میں اونٹ فروخت کرتا ہوں منافعہ میں تو اشرفیوں کے عوض فروخت کر کے روپیہ وصول کرتا ہوں اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں ہے اگر تم ان کے بھاؤ سے لے لو جس وقت کہ تم دونوں علیحدہ نہ ہوں ایک کا دوسرے کے ذمہ باقی چھوڑ کر۔ (مطلب یہ ہے کہ اگر نقد ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے )۔
سونے کے عوض چاندی اور چاندی کے عوض سونا لینے سے متعلق
قتیبہ، ابو الاحوص، سماک، ابن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں سونا چاندی کے عوض اور چاندی سونے کے عوض فروخت کرتا تھا۔ میں ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم فروخت کرو تو تم اپنے ساتھی سے علیحدہ نہ ہو جس وقت تک وہ تمہارے اور اس کے درمیان رہے یعنی بالکل حساب صاف کر کے علیحدہ ہو۔
٭٭ محمد بن بشار، وکیع، موسیٰ بن نافع، سعید بن جبیر مکروہ خیال فرماتے تھے روپیہ مقرر کر کے اشرفیاں لینا اور اشرفیاں مقرر کر کے روپیہ لینے کو۔
٭٭ محمد بن بشار، مؤمل، سفیان، ابو ہاشم، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ برا خیال فرماتے تھے اشرفیاں مقرر کر کے روپیہ لینے سے اور روپیہ مقرر کر کے اشرفیاں لینے کو (یعنی جو چیز طے ہوتی وہ ہی چیز لینا لازمی سمجھتے تھے )۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، موسی، ابو شہاب، سعید بن جبیر، ابراہیم برا خیال کرتے تھے اشرفیاں لینا روپیہ کے عوض جس وقت قرض سے ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، موسی، ابو شہاب، سعید بن جبیر اس میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔
٭٭ مضمون سابق حدیث کے مطابق ہے۔
سونے کے عوض چاندی لینا
محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، حماد بن سلمہ، سماک بن حرب، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ٹھہر جائیں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میں بقیع (نامی جگہ) میں اونٹ فروخت کیا کرتا ہوں اشرفیوں کے عوض اور میں روپیہ لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت اور حرج نہیں ہے اگر تم اس دن کے بھاؤ سے لے لو جس وقت تک کہ علیحدہ نہ ہو ایک دوسرے پر بقایا چھوڑ کر۔
تولنے میں زیادہ دینے سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ترازو منگوائی اس میں وزن کر کے دیا اور زیادہ دیا میرے قرض سے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
تولتے وقت جھکتا دینا
یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، سفیان، سماک، سوید بن قیس سے روایت ہے اور ہجر (نامی جگہ) سے مخرفہ عیدی کپڑا لے کر آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ (مقام) منی میں تھے وہاں پر ایک وزن کرنے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک پائجامہ خریدا اور تولنے والے شخص سے فرمایا تم وزن کرو اور جھکتا ہوا وزن کر لو (یعنی جب تول کر دو تو زیادہ دو)۔
٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبہ، سماک بن حرب، ابو صفوان سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ ہجرت سے قبل میں نے ایک پائجامہ فروخت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جھکتا ہوا تول عطاء فرمایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو زیادہ وزن عنایت فرمایا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ملابی، سفیان، محمد بن ابراہیم، ابو نعیم، سفیان، حنظلۃ، طاؤس، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ناپ (اور پیمائش) مدینہ منورہ کے حضرات کی معتبر ہے اور وزن اہل مکہ کا۔
غلہ فروخت کرنے کی ممانعت جس وقت تک اس کو تول نہ لے یا نہ ناپ نہ کر لے
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی غلہ خریدے تو وہ اس کو فروخت نہ کرے جس وقت تک ناپ یا تول نہ دے۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اناج خریدے وہ اس کو فروخت نہ کرے جس وقت تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے۔
٭٭ احمد بن حرب، قاسم، سفیان، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی غلہ خریدے وہ اس کو فروخت نہ کرے جس وقت تک اس کو ناپ نہ دے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، عمرو، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا اس میں یہ ہے کہ جس وقت تک قبضہ نہ کر لے (جب تک بیع نہ کرے )۔
٭٭ قتیبہ، سفیان، ابن طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ جس شے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبضہ سے قبل فروخت کرنے سے منع فرمایا وہ غلہ ہے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی غلہ خریدے وہ اس کو نہ فروخت کرے جس وقت تک اس پر وہ قبضہ نہ کر لے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا میرا خیال ہے کہ ہر ایک شے غلہ کی مانند ہے (اس کو قبضہ سے قبل فروخت کرنا درست نہیں ہے )۔
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، ابن جریج، عطاء، صفوان بن موہب، عبداللہ بن محمد بن صیفی، حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم غلہ اس وقت تک فروخت نہ کرو جس وقت تک اس کو نہ خرید لو اور اس پر قبضہ نہ کر لو۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ سلیمان بن منصور، ابو الاحوص، عبدالعزیزبن رفیع، عطاء بن ابو رباح، حزام بن حکیم، حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ میں نے صدقہ کا غلہ خریدا اور قبضہ کرنے سے قبل اس سے نفع حاصل کیا (یعنی وہ غلہ فروخت کر کے ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو فروخت نہ کرو جس وقت تک کہ تم اس پر قبضہ نہ کر لو۔
جو شخص غلہ ناپ کر خریدے اس کا فروخت کرنا درست نہیں ہے جس وقت تک اس پر قبضہ نہ کر لے
سلیمان بن داؤد و حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، منذر بن عبید، قاسم بن محمد، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلہ فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی جس وقت تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے۔
جو شخص غلہ کا انبار بغیر ناپے ہوئے خرید لے اس کا اس جگہ سے اٹھانے سے قبل فروخت کرنا
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ہم لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں غلہ خریدہ کرتے تھے پھر ایک آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھیجتے جو کہ ہم کو اس کی جگہ سے اس کو اٹھانے کا حکم کرتا یعنی جس جگہ غلہ خریدا ہے (اور دوسری جگہ فروخت کرنے سے قبل لے جانے کا حکم کرتا)۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں بازار کی بلندی پر غلہ خریدا کرتے تھے انبار کے انبار (یعنی لوگ بہت زیادہ مقدار میں غلہ خریدتے تھے ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی ممانعت فرمائی یعنی اس کے فروخت کرنے سے منع فرمایا کہ جس وقت تک کہ اس کو اپنی جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پر نہ لے جائیں۔
٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، محمد بن عبدالرحمن، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سواروں سے غلہ خریدا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو (یعنی اس غلہ کو) اس جگہ فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی جس وقت تک کہ اس کو بازار میں نہ لے جائیں۔
٭٭ نصر بن علی، یزید، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لوگوں کو اس بات پر مار پڑ رہی ہے کہ وہ غلہ کا انبار (ڈھیر) خرید کر اسی جگہ فروخت کریں۔ جب تک کہ وہ اس کو گھر نہ لے آئیں۔
کوئی شخص ایک مدت تک کے لیے غلہ ادھار خریدے اور فروخت کرنے والا شخص قیمت کے اطمینان کے واسطے اس کی چیز رہن رکھے
محمد بن آدم، حفص بن غیاث، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک کے واسطے غلہ ادھار خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زمین اس یہودی کے پاس گروی رکھی۔
مکانات میں کوئی شے رہن رکھنا
اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جو کی روٹی اور بو والی چربی لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس مدینہ میں رہن رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مکان کے واسطے اس سے جو لے لیے۔
اس چیز کا فروخت کرنا جو کہ فروخت کرنے والے شخص کے پاس موجود نہ ہو
عمرو بن علی و حمید بن مسعدۃ، یزید، ایوب، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں جائز ہے بیع قرض اور بیع فسخ اور بیع میں دو شرط مقرر کرنا اور جائز نہیں ہے اس شے کو فروخت کرنا جو کہ تیرے پاس موجود نہیں ہے (یعنی جس پر تمہارا قبضہ نہیں )۔
٭٭ عثمان بن عبد اللہ، سعید بن سلیمان، عباد بن عوام، سعید بن ابو عروبۃ، ابو رجاء، عثمان، محمد بن سیف، مطر، وراق، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ بیع لازم نہیں ہوتی کہ جس کا انسان مالک نہ ہو (بلکہ اگر دوسرے کی ملک ہو تو اس کی اجازت پر موقوف رہے گی) اور جو کسی کی ملکیت میں نہ آئی ہو (مثلاً اڑنے والا پرندہ یا تیرتی ہوئی مچھلی کی بیع باطل ہے )۔
٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، ابو بشر، یوسف بن ماہک، حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک آدمی میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے وہ کوئی شے خریدتا ہے جو کہ میرے پاس نہیں ہوتی میں وہ شے بازار سے خرید کر اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس شے کو فروخت نہ کرو جو تمہارے پاس نہ ہو (یعنی تم جس چیز کے مالک نہ ہو اس کو فروخت نہ کرو)۔
غلہ میں بیع سلم کرنے سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، یحیی، شعبہ، عبداللہ بن ابی مجالد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے سلف سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سلف کیا کرتے تھے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے زمانہ میں بھی سلف کیا کرتے تھے گیہوں جو اور کھجور میں۔ ان لوگوں سے جن کے پاس علم نہ ہو یہ چیزیں ہوتی تھیں یا نہیں ؟
خشک انگور میں سلم کرنا
محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، ابن ابی مجالد سے روایت ہے کہ بیع سلم سے متعلق حضرت ابو بردہ اور حضرت عبداللہ بن شداد نے آپس میں بحث کی تو مجھ کو لوگوں نے حضرت ابن ابی اوفی کے پاس بھیجا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے زمانہ میں بیع سلم کیا کرتے تھے گیہوں جو اور خشک انگور میں ان لوگوں سے کہ جن کے پاس یہ اشیاء ہم نہیں دیکھتے تھے پھر میں نے حضرت ابن ابی ابزی کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بھی اسی طرح سے بیان کیا۔
پھلوں میں بیع سلف سے متعلق
قتیبہ بن سعید، سفیان، ابن ابو نجیح، عبداللہ بن کثیر، ابو منہال، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے اور (اس وقت) لوگ (بیع) سلف سے کرتے تھے۔ کھجور میں سال سال کی مدت پر۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت کی اور فرمایا جو شخص (بیع) سلف کرے تو وہ پیمائش مقرر کرے (زیادہ وزن مقرر کرے اور مدت مقرر کرے )۔
جانور میں سلف سے متعلق
عمرو بن علی، عبدالرحمن، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے سلم کی ایک نوجوان اونٹ میں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بچہ اونٹ کا جو کہ جوانی کے قریب ہو اس کو دینا کہا) پھر وہ شخص اپنے اونٹ کا تقاضا کرتے ہوئے آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا جا اور اس کے لیے ایک اونٹ کا جوان بچہ خریدو وہ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے تو ملا نہیں لیکن ایک رباعی اونٹ یعنی ساتویں سال میں لگا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو وہ ہی دے دو اور مسلمان بھی بہتر وہ ہی ہے جو کہ قرض اچھی طرح سے ادا کرے (مطلب یہ ہے کہ قرض خواہ کو جو ادا کرنا ہے اس سے زیادہ یا اعلی قسم کا مال دے )
٭٭ عمرو بن منصور ، ابو نعیم ، سفیان ، سلمہ بن کہیل ، ابو سلمہ ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذمہ ایک اونٹ تھا وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس (اونٹ کا) تقاضا کرنے کے لیے آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دے دو (یعنی وہ اونٹ ادا کر دو۔ لوگوں کو نہ ملا مگر زیادہ دانت کا اونٹ۔ اس (واجب) اونٹ سے (زیادہ بہتر) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اسی اونٹ کو دے دو۔ اس نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا حق ادا کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارے میں وہ لوگ بہتر ہیں جو کہ اچھی طرح سے ادا کرے (یعنی جیسا اونٹ دینا واجب تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے عمدہ اونٹ دلوا دیا۔)
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، سعید بن ہانی، عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اونٹ کا ایک جوان بچہ دیا تھا تو میں اس کا تقاضہ کرنے کے واسطے آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا میں تم کو ایک بختی اونٹ (یعنی ایک عمدہ قسم کا اونٹ ہے ) ادا کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ادا فرما دیا تو میرے مال سے عمدہ مال ادا کیا اور ایک دیہاتی شخص اونٹ کا تقاضہ کرنے کے واسطے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو اسی دانت کا اونٹ دے دو۔ لوگوں نے اس کو ایک بڑا اونٹ دے دیا۔ اس شخص نے کہا یہ تو میرے اونٹ سے بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں میں وہ شخص بہتر ہے جو کہ (قرض) اچھی طرح ادا کرے (یعنی جیسا اور جس قسم کا قرضہ لیا ہے اس سے اعلی قسم کا قرضہ ادا کرے )۔
جانور کے عوض ادھار فروخت کرنا
عمرو بن علی، یحیی بن سعید و یزید بن زریع و خالد بن حارث، شعبہ، احمد بن فضالۃ بن ابراہیم، عبید اللہ بن موسی، حسن بن صالح، ابن ابی عروبۃ، قتادۃ، حسن، سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی جانور کے عوض ادھار فروخت کرنے سے اور اگر نقد فروخت کرے تو وہ درست ہے۔
جانور کو جانور سے کے عوض کم یا زیادہ میں فروخت کرنا
قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک غلام حاضر ہوا اور اس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا علم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے پھر اس کا مالک اس کو تلاش کرتا ہوا آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سیاہ رنگ کے غلام کے عوض اس کو خرید لیا اس کے بعد کسی دوسرے سے بیعت نہیں کی جس وقت تک دریافت نہیں کر لیا کہ تو غلام ہے یا آزاد ہے۔ اگر آزاد ہوتا تو اس سے بیعت کر لیتے۔
پیٹ کے بچہ کے بچہ کو فروخت کرنا
یحیی بن حکیم، محمد بن جعفر، شعبہ، ایوب، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پیٹ کے بچہ کے بچہ میں سلم کرنا سود ہے (سلم سے مراد وبیع سلم ہے )۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پیٹ کے بچہ کے بچے کو فروخت کرنے سے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
مذکورہ مضمون کی تفسیر سے متعلق
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پیٹ کے بچہ کے بچے کو فروخت کرنے سے یہ ایک دور جاہلیت کی بیع تھی کہ ایک شخص ایک اونٹ خریدتا تھا اور وہ رقم دینے کا وعدہ کرتا جس وقت تک کہ اونٹی کے بچہ کی پیدائش ہو پھر اس بچہ کے بچہ پیدا ہو۔
چند سالوں کے واسطے پھل فروخت کرنا
محمد بن منصور، سفیان، زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چند سالوں کے لیے پھل فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی۔
٭٭ اسحاق بن منصور، سفیان، حمید الاعرج، سلیمان، ابن عتیق، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چند سالوں کے پھل فروخت کرنے کی ممانعت فرمائی۔
ایک مدت مقرر کر کے ادھار فروخت کرنے سے متعلق
عمرو بن علی، یزید بن زریع، عمارۃ بن ابی حفصۃ، عکرمۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دو چادریں تھیں قطر (نامی بستی) کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت بیٹھتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پسینہ آتا تو وہ کپڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھاری ہوتے۔ چنانچہ ایک یہودی کا کپڑا (ملک) شام سے آیا میں نے کہا کاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس کسی کو روانہ فرماتے اور آسانی کے وعدہ پر وہ دو کپڑے خریدتے (مطلب یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس روپیہ کے ادا کرنے کا انتظام ہو گا تو ادا کر دیں گے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے پاس کسی کو بھیج دیا اس شخص نے کہا میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطلب سمجھ گیا وہ چاہتے ہیں کہ میرا مال ہضم کر لیں یا میرے کپڑے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے جھوٹ بولا۔ وہ جانتا ہے میں تو سب سے زیادہ خداوند قدوس سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ امانت کو ادا کرنے والا ہوں (یہ تو صرف اس کا خبث باطن ہے جو اس کو باوجود حقیقت جاننے کے جھوٹ پر آمادہ کر رہا ہے )۔
سلف اور بیع ایک ساتھ کرنا جیسے کہ کوئی کسی کے ہاتھ ایک شے فروخت کرے اس شرط پر اس کے ہاتھ کسی مال میں سلم کرے اس سے متعلق حدیث
اسماعیل بن مسعود، خالد، حسین المعلم، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بیع اور سلف سے اور بیع میں دو شرط کرنے سے (جیسے کہ کسی نے ایک کپڑے کی خریداری کی اس شرط پر کہ اس کو تم دھلوا دینا اور اس کو تم سلوا دینا اور اس شے کے نفع سے کہ جس کا تاوان اپنے ذمہ نہ ہو۔
ایک بیع میں دو شرائط طے کرنا مثلاً اگر پیسے ایک ماہ میں ادا کرو تو اتنے اور دو ماہ میں اتنے (زائد)
زیاد بن ایوب، ابن علیۃ، ایوب، عمرو بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بیع اور سلف درست نہیں ہے اور نہ دو شرائط بیع میں اور نہ نفع اس شے کا جو کہ قبضہ میں نہیں آئے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ایوب، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی۔ سلف اور بیع سے اور ایک بیع میں دو شرائط کرنے سے اور جو شے اپنے پاس نہیں ہے اس کو فروخت کرنے سے اور جس شے کا نقصان اپنے ذمہ نہیں ہے اس کا نفع لینے سے۔
ایک بیع کے اندر دو بیع کرنا جیسے کہ اس طریقہ سے کہے کہ اگر تم نقد فروخت کرو تو سو روپیہ میں اور ادھار لو تو دو سو روپے میں
عمرو بن علی ویعقوب بن ابراہیم و محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمائی
فروخت کرتے وقت غیر معین چیز کو مستثنیٰ کرنے کی ممانعت
زیاد بن ایوب، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، یونس، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی۔ محاقلت مزابنت اور مخابرت سے (ان اصطلاحی الفاظ کی تشریح سابق میں گزر چکی ہے ) اور ممانعت فرمائی استثناء سے لیکن جس وقت اس کی مقدار معلوم ہو (یعنی تمام غلہ یا پھل وغیرہ جس کو فروخت کرتا ہے اس کا اندازہ معلوم ہو پھر جس قدر نکالنا ہے وہ بھی معلوم ہو)۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، زیاد بن ایوب، ابن علیۃ، ایوب، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی محاقلہ مزابنہ مخابرہ سے اور معاوہہ سے (اس آخری لفظ کا مطلب ہے چند سالوں کے لیے پھل فروخت کرنا) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی۔ ثنیا سے اور اجازت عطا فرمائی اس کی۔
کھجور کا درخت فروخت کرے تو پھل کس کے ہیں ؟
قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کوئی درخت کھجور کا فروخت کرے جس کو کہ وہ پیوند کر چکا ہو تو پھل اسی شخص کے ہیں مگر یہ کہ خریدار یہ شرط کرے کہ پھل میں وصول کروں گا اور فروخت کرنے والے رضامند ہو جائیں تو اسی کو ملیں گے۔
غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کھجور کا درخت خریدے اس کو پیوند کرنے کے بعد تو اس کے پھل فروخت کرنے والے کو ملیں گے لیکن جس وقت خریدار شرط مقرر کرے اسی طریقہ سے جو شخص غلام کو فروخت کرے اور اس کے پاس مال موجود ہو تو وہ مال فروخت کرنے والے شخص کاہے لیکن یہ کہ خریدنے والا شخص شرط مقرر کرے۔
٭٭ علی بن حجر، سعد بن یحیی، زکریا، عامر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھا کہ میرا اونٹ تھک گیا۔ میں نے چاہا کہ اس کو میں آزاد کر دوں کہ اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجھ سے ملاقات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس اونٹ کے لیے دعا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو مارا پھر اونٹ اس طرح چلا (یعنی دوڑا) کہ وہ کبھی ایسا نہیں چلا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو میرے ہاتھ تم فروخت کر دو ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم میں ) میں نے کہا میں تو فروخت نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو فروخت کر دو۔ چنانچہ میں نے اس کو ایک اوقیہ میں فروخت کر دیا اور مدینہ منورہ تک اس پر سوار ہونے کی شرط مقرر کر لی۔ ہم لوگ جس وقت مدینہ منورہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے اونٹ کی قیمت وصول نہیں کی (میں لوٹ کر جانے لگا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بلایا اور فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے اونٹ کی کم قیمت لگائی تھی کیونکہ تمہارا اونٹ لے لوں پس تم اپنا اونٹ لے لو اور روپیہ بھی لے لو۔
٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، محمد بن عیسیٰ بن طباع، ابو عوانۃ، مغیرہ، شعبی، جابر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پانی کے اونٹ پر جہاد کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث بیان فرمائی اس کے بعد بیان کیا کہ اونٹ تھک گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو ڈانٹا وہ اونٹ تیز ہو گیا یہاں تک کہ تمام لشکر سے آگے ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جابر! میں سمجھ رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ تیز ہو گیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی برکت سے میرا اونٹ تیز ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو اور تم اس پر چڑھ جا (یعنی اس پر سوار ہو جا) مدینہ منورہ تک پہنچنے تک میں نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اگرچہ مجھ کو اونٹ کی سخت ضرورت تھی لیکن مجھ کو شرم محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے ہیں فروخت کرنے کے واسطے اور میں اس کو نہ دوں ) جس وقت جہاد سے فراغت ہو گئی اور ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آگے جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا باکرہ لڑکی سے کیا ہے (یعنی کنواری لڑکی سے کیا ہے ) یا غیر کنواری سے میں نے عرض کیا غیر کنواری یعنی ثیبہ سے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے والد عبداللہ قتل کر دیئے گئے تھے اور وہ کنواری لڑکیاں چھوڑ گئے تھے۔ تو مجھ کو برا معلوم ہوا کہ ان کے پاس میں ایک کنواری لڑکی لاؤں۔ اس وجہ سے میں نے ثیبہ سے نکاح کر لیا کہ وہ ان کو تعلیم دے اور ادب سکھلائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی اور فرمایا اپنی اہلیہ کے پاس رات میں جائیں۔ میں جب گیا تو میں نے اپنے ماموں سے اونٹ فروخت کرنے کی حالت بیان کی۔ انہوں نے مجھ پر ملامت کی جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو میں صبح کے وقت اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ کی قیمت ادا فرمائی اور اونٹ بھی واپس فرما دیا اور ایک حصہ تمام لوگوں کے برابر عطاء فرمایا (مال غنیمت میں سے )۔
٭٭ محمد بن علاء، ابو معاویہ، الاعمش، سالم بن ابی جعد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھا اور ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ سب لوگوں کے آخر میں رہتے ہو یعنی تمام لوگوں کے پیچھے رہتے ہو۔ اس پر میں نے عرض کیا میرا اونٹ تھک چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی دم پکڑ لی اور اس کو ڈانٹ دیا۔ پھر وہ (اونٹ) ایسا ہو گیا کہ میں لوگوں کے آگے تھا۔ جس وقت ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اونٹ کو کیا ہوا؟ اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ میں نے کہا نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ ویسے ہی لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں تم اس کو فروخت کر دو۔ میں نے اس کو ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے عوض خرید لیا تو اس پر سوار ہو کر جس وقت مدینہ منورہ میں پہنچے تو تم اس کو ہمارے پاس لے کر آنا۔ چنانچہ جس وقت میں مدینہ منورہ میں آیا تو اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال سے فرمایا اے بلال! ایک اوقیہ چاندی تم ان کو وزن کر کے دے دو اور زیادہ دے دو۔ میں نے کہا کہ یہ وہ شے ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو زیادہ عطاء فرمائی ہے وہ کبھی مجھ سے الگ نہ ہو۔ میں نے اس کو ایک تھیلی میں رکھا وہ ہمیشہ میرے پاس رہا۔ یہاں تک کہ حرہ کے دن ملک شام کے لوگ آئے وہ لوگ ہم لوگ سے لے گئے جو لے گئے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو دیکھا میں ایک پانی بھرنے کے بیکار (برے ) اونٹ پر سوار تھا۔ میں نے کہا کہ ہمارے واسطے ہمیشہ ہی برا اونٹ رہتا ہے ہائے افسوس۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو فروخت کرتے ہو اے جابر! میں نے عرض کیا وہ ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی خداوند قدوس مغفرت فرمائے میں نے اس کو لے لیا اس قدر قیمت میں اور میں نے اس پر تم کو مدینہ منورہ تک چڑھ کر (یعنی سوار ہو کر) سفر کرنے کی اجازت دی۔ جس وقت مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں اس کو تیار کر کے لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال! تم اس کو قیمت دے دو میں جس وقت تک واپس آ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر بلایا میں نے خوف محسوس کیا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس نہ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ اونٹ بھی تمہارا ہے تم اس کو لے جا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، وہ اپنے والد سے ، ابو نضرۃ، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جا رہے تھے (یعنی سفر کر رہے تھے ) اور میں ایک اونٹ پر جو کہ پانی کا تھا سوار تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس قیمت میں کیا تم اس اونٹ کو فروخت کرو گے ؟ خداوند قدوس تجھ کو بخشش دے۔ میں نے کہا جی ہاں ! وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے یا نبی اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو اتنے میں فروخت کرو گے خدا تجھ کو بخشی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے یا رسول اللہ! راوی حضرت ابو نضرہ نے عرض کیا اس حدیث کا خدا بخشی ایک کلمہ ہے جس کو مسلمان کہتے تھے کہ تم اس طرح سے کرو اس طرح سے کرو۔
بیع میں اگر شرط خلاف ہو تو بیع صحیح ہو جائے اور شرط باطل ہو گی
قتیبہ بن سعید، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت بریرہ کو خریدا ان لوگوں نے یہ شرط مقرر کی کہ اس کا ترکہ ہم وصول کریں گے۔ میں نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو آزاد کر دو اس لیے کہ ترکہ اسی کو ملتا ہے جو روپیہ دے (یعنی خریدے ) پھر اس کو آزاد کر دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور اختیار عطا فرمایا شوہر کی جانب سے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت بریرہ کے خرید نے کا ارادہ فرمایا آزاد کرنے کے واسطے لیکن ان کے مالک نے شرط مقرر کر دی ولاء کی (یعنی اس کا ترکہ ہم لوگ وصول کریں گے ) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم خرید لو اور اس کو آزاد کر دو کیونکہ ولاء اس کو ملے گی جو آزاد کرے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گوشت حاضر کیا گیا لوگوں نے عرض کیا یہ گوشت صدقہ کاہے جو کہ حضرت بریرہ کو ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے واسطے وہ صدقہ کاہے اور ہمارے واسطے وہ تحفہ اور ہدیہ ہے (حضرت بریرہ کی جانب سے اور اختیار حاصل ہوا ان کو جس وقت وہ آزاد ہوئیں اپنے شوہر کے پاس رہنے سے )
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ارادہ فرمایا ایک باندی خریدنے کے واسطے آزاد کرنے کا اس کے لوگوں نے کہا کہ ہم تمہارے ہاتھ فروخت کرتے ہیں اس شرط کے ساتھ ولاء ہم کو ملے گی۔ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شرط تم کو خریدنے سے نہ روک دے اس لیے کہ ولاء اس کو ملے گی جو کہ آزاد کرے پس بیع درست ہے اور شرط ان کی باطل ہے۔
غنیمت کے مال کو فروخت کرنا تقسیم ہونے سے قبل
احمد بن حفص بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، یحیی بن سعید، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن ابی نجیح، مجاہد، ابن عباس سے روایت ہے کہ منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مال غنیمت فروخت کرنے سے جس وقت تک تقسیم نہ ہو اور حاملہ خواتین کے ساتھ (جو کہ جہاد میں گرفتار ہو کر آئیں ہم بستری کرنے سے جس وقت تک کہ ان کے بچہ کی پیدائش ہو اور ہر ایک دانت والے درندے کے گوشت سے منع فرمایا۔ (جیسا کہ شیر بھیڑیا چیتا وغیرہ)
مشترک مال فروخت کرنا
عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شفعہ ہر ایک مشترک شے میں ہے زمین ہو یا باغ ایک شریک کو درست نہیں کہ اپنا حصہ فروخت کرے کہ جس وقت تک کہ دوسرے شریک سے اجازت حاصل نہ کر لے اگر فروخت کرے تو دوسرا شریک اس کے لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے جس وقت تک اجازت نہ دے۔
کوئی چیز فروخت کرتے وقت گواہی ضروری نہیں
ہشیم بن مروان بن ہشیم بن عمران، محمد بن بکار، یحیی، ابن حمزۃ، زبیدی، زہری، عمارۃ بن خزیمۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا حضرت خزیمہ بن ثابت سے سنا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دیہاتی سے گھوڑا خریدا اور اس کو ساتھ لے گئے تاکہ وہ شخص گھوڑے کی قیمت وصول کر کے جلدی سے رخصت ہو جائے اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی کر کے روانہ ہوئے اور وہ دیہاتی شخص دیر سے روانہ ہوا اور لوگوں نے اس دیہاتی شخص سے معلوم کرنا شروع کر دیا اور وہ گھوڑا واپس کرنے لگ گئے ان کو علم نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس گھوڑے کو خرید چکے ہیں یہاں تک کہ بعض حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیمت خرید میں اضافہ کر دیا اس وقت اس دیہاتی شخص نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آواز دی اگر تم اس گھوڑے کو خریدتے ہو تو ٹھیک! نہیں تو میں (دوسرے شخص کے ہاتھ) فروخت کر دیتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی آواز سن کر کھڑے رہ گئے اور ارشاد فرمایا واہ کیا تم یہ گھوڑا مجھ کو فروخت نہیں کر چکے ہو اور میں یہ کیا تم سے نہیں خرید چکا؟ (یعنی میں تو خرید چکا ہوں اور معاملہ ہر طرح سے مکمل ہو چکا ہے ) یہ بات سن کر اس دیہاتی شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے تم کو نہیں فروخت کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تو تم سے خرید چکا ہوں۔ لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرف دار ہو گئے اور اس دیہاتی کی طرف بھی کچھ لوگ ہو گئے اور دونوں کے درمیان بحث و مباحثہ ہونے لگا اس دیہاتی نے مطالبہ کیا کہ تم گواہ لے کر آؤ اس بات پر کہ میں یہ گھوڑا تم کو فروخت کر چکا ہوں۔ حضرت خزیمہ بن ثابت نے فرمایا میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خزیمہ سے دریافت فرمایا تم کس وجہ سے شہادت دیتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ میں یہ بات جان چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سچے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خزیمہ کی شہادت دو گواہ کے برابر کی۔
فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت میں اختلاف سے متعلق
محمد بن ادریس، عمر بن حفص بن غیاث، وہ اپنے والد سے ، ابو عمیس، عبدالرحمن بن محمد بن اشعث، وہ اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا سے ، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس وقت فروخت کرنے والا اور خریدنے والا شخص دونوں قیمت کے متعلق ایک دوسرے سے اختلاف کریں کہ فروخت کرنے والا شخص زیادہ قیمت بتلائے اور خریدنے والا شخص کم قیمت بتلائے اور دونوں کے پاس گواہ (یا شرعی ثبوت) نہ ہوں تو فروخت کرنے والا جو ہے اس کا اعتبار ہو گا بشرطیکہ وہ قسم کھائے اور خریدنے والے کو اس قیمت پر لینا ہو گا یا اگر نہ وصول کرے تو وہ چھوڑ دے اس کا اختیار ہے۔
٭٭ ابراہیم بن حسن و یوسف بن سعید و عبدالرحمن بن خالد، حجاج، ابن جریج، اسماعیل بن امیۃ، عبدالملک بن عبید سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت ابو عبید بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے وہاں پر دو حضرات آگے کہ جنہوں نے سامان اتنی قیمت میں لیا ہے دوسرے نے کہا میں نے اس قدر قیمت میں سامان فروخت کیا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا حضرت ابن مسعود کے پاس اسی قسم کا مقدمہ آیا انہوں نے کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اسی قسم کا مقدمہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا فروخت کرنے والے کو حلف اٹھائے پھر اختیار خریدار کو عطا فرمایا چاہے اس قدر قیمت میں (جو کہ بائع نہ حلف سے بیان کیے ) سامان وصول کرے دل چاہے چھوڑ دے۔
یہود اور نصاریٰ سے خرید و فروخت کرنے سے متعلق
احمد بن حرب، ابو معاویہ، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زرہ گروی رکھ دی۔
٭٭ یوسف بن حماد، سفیان بن حبیب، ہشام، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو ایک یہودی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زرہ گروی تھی دو تہائی صاع پر جو کہ اپنے گھر والوں کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیے تھے۔
مدبر کی بیع سے متعلق
قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ (قبیلہ) بنی غدرہ کا تھا اس نے ایک غلام کو آزاد کر دیا یہ اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کچھ مال دولت موجود ہے ؟ اس نے عرض کیا جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور فرمایا کون شخص مجھ سے اس کو خریدتا ہے ؟ یہ بات سن کر حضرت نعیم بن عبداللہ نے اس کو خریدا آٹھ سو درہم میں اور وہ درہم لا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دئیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو عنایت فرما دئیے اور فرمایا پہلے تم اس کو اپنے اوپر خرچ کرو پھر اگر کچھ بچ جائے تو تم اپنے رشتہ داروں کو دے دو پھر اگر رشتہ داروں سے کچھ بچ جائے تو اسی طریقہ سے یعنی سامنے اور دائیں اور بائیں جانب اشارہ کیا (یعنی ہر ایک جانب سے غرباء فقراء کو صدقہ خیرات کرو)۔
٭٭ زیاد بن ایوب، اسماعیل، ایوب، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے کہ جس کا نام ابو مذکور تھا اپنے غلام کو کہ جس کا نام یعقوب تھا اپنی وفات کے بعد آزاد کر دیا (یعنی اس طریقہ سے کہہ دیا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے شریعت میں ایسے غلام کو مدبر بتانا کہا جاتا ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور فرمایا اس غلام کو کون شخص خریدتا ہے چنانچہ حضرت نعیم بن عبداللہ نے اس کو خرید لیا آٹھ سو درہم میں پس وہ آٹھ سو درہم انہوں نے ادا کر دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص محتاج ہو تو وہ پہلے اپنی ذات سے شروع کرے پھر اگر کچھ بچ جائے تو ادھر ادھر غرباء میں خرچ کرے۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان و ابن ابو خالد، سلمہ بن کہیل، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدبر غلام کو فروخت فرمایا۔
مکاتب کو فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اپنی کتابت میں مد د حاصل کرنے کے واسطے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا جا تم اپنے لوگوں سے کہو اگر ان کو منظور ہو تو میں تمہاری کتابت کی رقم ادا کر دوں (یعنی اس قدر رقم دے دوں تاکہ تم وہ رقم ادا کر کے آزاد ہو سکو) اور تمہارا ترکہ وصول کروں گی چنانچہ انہوں نے اپنے لوگوں سے بیان کیا انہوں نے انکار کر دیا اور کہا اگر حضرت عائشہ صدیقہ کو منظور ہو تو خدا کے لیے میرے ساتھ سلوک کریں اور تمہارا ترکہ ہم وصول کریں گے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا تم خرید لو اور آزاد کر دو ترکہ اس کو ملے گا جو کہ آزاد کرے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان لوگوں کی کیا حالت ہے جو کہ اس قسم کی شرائط طے کرتے ہیں جو کہ کتاب اللہ میں نہیں ہیں پس جو شخص اس قسم کی شرط کرے جو کہ کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ پوری نہیں ہو گی۔ اگر ایک سو شرائط مقرر کرے تو اللہ تعالیٰ کی شرط قبول اور منظور کرنے کے لائق ہے اور بھروسہ اور اعتماد کرنے کے لائق ہے۔
اگر مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں کچھ بھی نہ دیا ہو تو اس کا فروخت کرنا درست ہے
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، رجال، یونس ولیث، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ میرے پاس آئیں اور انہوں نے کہا اے عائشہ صدیقہ! میں نے اپنے لوگوں سے کتابت کی سات اوقیہ پر ہر سال ایک اوقیہ۔ تم میری مد د کرو اور اس نے اپنی کتابت میں سے کچھ معاوضہ ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی حضرت بریرہ کی جانب تو وجہ اور رغبت ہوئی انہوں نے بیان کیا کہ تم اپنے مالکوں کے پا جا اگر وہ چاہیں تو میں یہ تمام (یعنی ساتوں اوقیہ) ان کو ادا کر دوں گی۔ لیکن ولاء تمہاری میں وصول کروں گی چنانچہ حضرت بریرہ اپنے لوگوں (یعنی اپنے متعلقین) کی جانب گئیں اور ان سے بیان کیا انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ چاہیں تو اللہ کے لیے مجھ سلوک کریں لیکن ولاء ہم لیں گے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کے خاندان سے بریرہ کا لینا (حضرت بریرہ کا خریدنا) مت چھوڑنا تم ان کو خرید لو اور پھر آزاد کر دو۔ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا چنانچہ انہوں نے اسی طریقہ سے کیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی تعریف بیان کی پھر فرمایا لوگوں کی کیا حالت ہے کہ جو اس قسم کی شرائط مقرر کرتے ہیں جو کہ کتاب اللہ میں نہیں ہیں پس جو کوئی اس قسم کی شرط مقرر کرے جو کہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط باطل ہے اگرچہ وہ ایک سو ہی شرائط (مقرر کر دہ) کیوں نہ ہوں اور خداوند قدوس کا حکم قبول کرنے کے زیادہ شایان شان ہے اور خدا تعالیٰ کی شرط مضبوط ہے اور ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔
ولاء کا فروخت کرنا
اسماعیل بن مسعود، خالد، عبید اللہ، عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ولاء کے فروخت کرنے کی اور اس کی ہبہ کرنے کی ممانعت فرمائی۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ولاء کے فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
پانی کا فروخت کرنا
حسین بن حریث، فضل بن موسیٰ سینانی، حسین بن واقد، ایوب سختیانی، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی پانی کے فروخت کرنے سے۔
٭٭ قتیبہ و عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، عمرو بن دینار، ابو منہال، ایاس بن عمر، مرہ ابن عبد سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے پانی کے فروخت کرنے سے۔
ضرورت سے زائد پانی فروخت کرنا
قتیبہ بن سعید، داؤد، عمرو، ابو منہال، اس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بچے ہوئے پانی کے فروخت کرنے سے اور قیم نے بچا ہوا واھط کا پانی فروخت کیا تو حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس کو برا خیال کیا۔
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابو منہال، ایاس بن عبد صاحب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچا ہوا پانی فروخت نہ کرو۔ اس لئے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچے ہوئے پانی کی فروخت سے منع فرمایا ہے۔
شراب فروخت کرنا
قتیبہ بن مالک، زید بن اسلم، ابن وعلۃ مصری نے حضرت ابن عباس سے دریافت کیا انگور کے شیرہ کے بارے میں تو حضرت ابن عباس نے فرمایا ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شراب کی مشکیں تحفہ میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ خداوند قدوس نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے پھر اس نے آہستہ سے ایک آدمی کے کان میں کچھ کہا جس کو میں نہیں سمجھا کہ کیا کہا۔ میں نے ایک اور شخص سے جو کہ اس کے نزدیک بیٹھا تھا دریافت کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے کان میں کیا کہا؟ اس نے کہا میں نے اس سے کہا کہ تم اس کو فروخت کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اس کا پینا حرام فرمایا ہے اس نے اس کا فروخت کرنا بھی حرام فرمایا ہے اس پر اس نے دونوں مشک کا منہ کھول دیا اور اس میں جس قدر شراب تھی وہ سب بہہ گئی۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، منصور، ابو ضحی، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جس وقت سود کی آیات نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ آیات کریمہ پڑھ کر سنائیں پھر شراب کی تجارت کو حرام فرمایا۔
کتے کی فروخت سے متعلق
قتیبہ، لیث، ابن شہاب، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو مسعود، عقبہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کتے کی قیمت سے اور طوائف کی مزدوری اور نجومی شخص کی آمدنی سے۔
٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، سعید بن عیسی، مفضل بن فضالۃ، ابن جریج، عطاء بن ابی رباح، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی چیزوں کو حرام فرمایا اس میں کتے کی قیمت بھی حرام فرمائی۔
کون سا کتا فروخت کرنا درست ہے ؟
ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، حماد بن سلمہ، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کتے اور بلی کی قیمت سے لیکن شکاری کتے کی قیمت سے (امام نسائی نے فرمایا یہ حدیث منکر ہے )
خنزیر کا فروخت کرنا
قتیبہ، لیث، یزید بن ابی حبیب، عطاء بن ابی رباح، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ جس سال مکہ مکرمہ فتح ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مکہ مکرمہ میں بلاشبہ خدا کے رسول نے حرام قرار دیا ہے شراب اور مردار اور خنزیر کو اور بتوں کے فروخت کرنے کو۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مردہ کی چربی سے تو کشتیاں چکنی کی جاتی ہیں کھالیں چکنی کی جاتی ہیں اور لوگ اس کو جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں وہ حرام ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس یہود کو تباہ اور برباد کرے جس وقت خداوند قدوس نے ان پر چربی کو حرام قرار دیا تو ان لوگوں نے اس کو پگھلایا پھر فروخت کر کے اس کی قیمت کھائی۔
اونٹنی کی جفتی کو فروخت کرنا یعنی نر کو مادہ پر چڑھانے کی اجرت لینا
ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی مذکر کو (مادہ پر) چڑھانے کی اجرت لینے سے اور کھیتی کرنے کے واسطے زمین فروخت کرنے سے (یعنی کوئی شخص اپنی زمین اور پانی کسی دوسرے شخص کو فروخت کرے تاکہ وہ شخص اس میں کھیتی کرے اور حصہ بھی لے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان امور سے منع فرمایا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل بن ابراہیم، علی بن حکم، حمید بن مسعدۃ، عبدالوارث، علی بن حکم، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کسی مذکر (یعنی نر) کو مادہ پر (کو دوانے کی) یعنی نر کو مادہ سے جفتی کو ممنوع فرمایا۔
٭٭ عصمۃ بن فضل، یحیی بن آدم، ابراہیم بن حمید رواسی، ہشام بن عروۃ، محمد بن ابراہیم بن حارث، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی قبیلہ بنی صعق کا جو کہ قبیلہ بن کلاب کی ایک شاخ ہے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے مذکر (نر کو) مادہ پر کدوانے کی اجرت سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا۔ اس پر اس شخص نے کہا ہم لوگوں کو بطور ہدیہ تحفہ کچھ ملتا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، مغیرہ، ابن ابو نعم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا پچھنے لگانے (یعنی فصد لگانے ) والے شخص کی آمدنی سے اور نر کو کدوانے کی مزدوری سے۔
٭٭ محمد بن علی بن میمون، محمد، سفیان، ہشام، ابن ابو نعم، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نر کو کدوانے کی مزدوری سے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانور سے جفتی کرنے کی اجرت کو) ناجائز فرمایا۔
٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، الاعمش، ابو حازم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کتے کی قیمت سے اور نر کے کدوانے کی اجرت سے (یعنی مزدوری لینے سے )۔
ایک شخص ایک شے خریدے پھر اس کی قیمت دینے سے قبل مفلس ہو جائے اور وہ چیز اسی طرح موجود ہو اس سے متعلق
قتیبہ، لیث، یحیی، ابو بکر بن حزم، عمر بن عبدالعزیز، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مفلس ہو جائے پھر ایک آدمی اپنا بچا ہوا سامان بالکل اسی طرح اس کے پاس پائے تو اس کے واسطے وہ زیادہ حقدار ہے دوسرے لوگوں کی بنسبت۔
٭٭ عبدالرحمن بن خالد و ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابن ابو حسین، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمر بن عبدالعزیز، ابو بکر بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی آدمی نادار اور غریب ہو جائے اور اس کے پاس کسی شخص کی کوئی شے اس طرح مل جائے تو وہ شخص اس چیز کی شناخت کرے تو وہ شے اس شخص کی ہے کہ جس نے اس کو فروخت کیا تھا۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، لیث بن سعد و عمرو بن حارث، بکیر بن الاشج، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک آدمی پھلوں پر جو کہ اس نے خریدنے تھے آفت آ گئی عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اور وہ شخص بہت زیادہ مقروض ہو گیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اس شخص کو صدقہ خیرات دیا جب بھی اس شخص کے قرضہ کہ بقدر صدقہ جمع نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کے قرض خواہوں سے فرمایا تم اب لے لو جو کچھ موجود ہے (اس کے علاوہ) تم کو کچھ نہیں ملے گا۔
ایک شخص مال فروخت کرے پھر اس کا مالک کوئی دوسرا شخص نکل آئے ؟
ہارون بن عبد اللہ، حماد بن مسعدۃ، ابن جریج، عکرمۃ بن خالد، اسید بن حضیر بن سماک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا اگر کوئی شخص اپنی شے ایسے آدمی کے پاس پائے کہ جس پر چوری کا گمان نہ ہو تو اگر دل چاہے تو اس قدر قیمت دے دے کہ جس قدر قیمت میں اس شخص نے خریدا ہے اور دل چاہے تو چور کا تعاقب کرے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے یہی حکم فرمایا۔
٭٭ عمرو بن منصور، سعید بن ذویب، عبدالرزاق، ابن جریج، عکرمۃ بن خالد، اسید بن حضیر الانصاری سے روایت ہے کہ وہ یمامہ کے حکمران تھے (واضح رہے کہ یمامہ عرب کے مشرق میں واقع ہے ) چنانچہ مروان نے ان کو تحریر کیا کہ حضرت معاویہ نے مجھ کو لکھا ہے کہ جس کسی کی کوئی شے چوری ہو جائے تو وہ شخص اس کا زیادہ مستحق ہے کہ جس جگہ اس کو پائے۔ حضرت اسید نے کہا کہ مروان نے یہ مجھ کو لکھا کہ میں نے مروان کو تحریر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح سے فیصلہ فرمایا ہے جس وقت وہ شخص کہ جس نے اس شے کو چور سے خریدا ہے معتبر ہو (یعنی اس شخص پر چوری کا شبہ نہ ہو) تو چیز کے مالک کو اختیار ہے دل چاہے قیمت ادا کرے (یعنی چور سے جس قدر قیمت میں خریدا ہے ) وہ شے لے لے اور دل چاہے چور کا تعاقب کرے۔ پھر اس کے مطابق حضرت ابو بکر حضرت عمر اور حضرت عثمان نے فیصلہ فرمایا اور حضرت عثمان نے فیصلہ فرمایا مروان نے میرے خط کو حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا حضرت معاویہ نے مروان کو تحریر کیا تم اور حضرت اسید مجھ پر حکم نہیں چلا سکتے لیکن میں تم دونوں کو حکم دے سکتا ہوں۔ اس لیے کہ میں نے تم کو مقرر کیا تھا میرا حکم ہے تم اس کے مطابق عمل کرو۔ مروان نے حضرت معاویہ کا خط میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے کہا میں اس کے مطابق حکم کروں گا جو حضرت معاویہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت تک میں ان کی جانب سے حکمراں رہوں گا۔
٭٭ محمد بن داؤد، عمرو بن عون، ہشیم، موسیٰ بن سائب، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انسان اپنی شے کا حقدار ہے جس وقت وہ اس شے کو پائے اور جس شخص کے پاس وہ شے نکلے تو وہ شخص فروخت کرنے والے شخص کا تعاقب کرے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، غندر، شعبہ، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس خاتون کا نکاح دو ولی (الگ الگ) دو اشخاص سے کر دیں یعنی ایک شخص ایک سے اور دوسرا شخص دوسرے سے نکاح کر دے تو پہلے ولی کا نکاح معتبر ہو گا اور اس شخص نے دو اشخاص کے ہاتھ ایک شے کو فروخت کیا تو جس شخص کے ہاتھ دو شے فروخت کی تو اسی کو وہ شے ملے گی۔
قرض لینے سے متعلق حدیث
عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، اسماعیل بن ابراہیم بن عبداللہ بن ابو ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے چالیس ہزار درہم قرض لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس مال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرض ادا کر دیا اور فرمایا خداوند قدوس تمہارے مکان اور مال دولت میں برکت عطا فرمائے اور قرض کا بدلہ یہ ہے کہ انسان قرض دینے والے کو شکریہ کہے اور اس کو رقم بھی (وقت پر دے۔
قرض داری کی مذمت
علی بن حجر، اسماعیل، العلاء، ابو کثیر، محمد بن جحش، محمد بن جحش سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا سر آسمان کی جانب اٹھایا پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا اور فرمایا ! کس قدر شدت نازل ہوئی ہے چنانچہ ہم لوگ خاموش رہے اور گھبرا گئے جس وقت دوسرا روز ہوا تو میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! یہ سختی کیسی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایک آدمی راہ خدا میں قتل کر دیا جائے پھر وہ جلایا جائے پھر قتل کر دیا جائے پھر جلایا جائے پھر قتل کر دیا جائے اور اس شخص کے ذمہ قرض ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس وقت تک کہ وہ شخص اپنے قرض کو ادا نہ کرے۔
٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، ثوری، وہ اپنے والد سے ، شعبی، سمعان، سمرۃ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک جنازہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا اس مقام پر فلاں قبیلہ سے کوئی شخص موجود ہے ؟ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت ایک شخص کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے پہلے دو بار کس وجہ سے جواب نہیں دیا۔ میں نے تم کو نہیں پکارا لیکن بہتری سے فلاں آدمی مطلع ہوا ہے (جنت میں داخل ہونے سے یا اپنے احباب کی صحبت سے مقروض ہونے کی وجہ سے )۔
قرض داری میں آسانی اور سہولت سے متعلق حدیث شریف
محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، زیاد بن عمرو بن ہند، عمران بن حذیفہ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ لوگوں سے قرضہ لیا کرتی تھیں۔ لوگوں نے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور ان کو ملامت کی اور ان کو رنج پہنچایا۔ انہوں نے کہا میں قرض لینا نہیں چھوڑوں گی۔ میں نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو کوئی قرضہ لے اور خداوند قدوس واقف ہے وہ اس کے ادا کرنے کی فکر میں ہے تو خداوند قدوس دنیا میں بھی اس کا قرض ادا کرے گا۔
٭٭ محمد بن مثنی، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، الاعمش، حصین بن عبدالرحمن، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، میمونہ سے روایت ہے کہ وہ قرض لیا کرتی تھیں۔ لوگوں نے ان سے کہا اے مومنین کی ماں ! آپ (بہت قرضہ لیتی ہیں ) حالانکہ آپ کے پاس اس کے ادا کرنے کے واسطے جائیداد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص قرضہ لے اور وہ اس کے ادا کرنے کی نیت رکھے تو خداوند قدوس اس کی مد د کرے گا۔
دولت مند شخص قرض دینے میں تاخیر کرے اس سے متعلق
قتیبہ بن سعید، سفیان، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص اپنے قرض کا بار کسی مالدار شخص کی جانب کرے تو اس کو چاہیے کہ اس مالدار شخص کا تعاقب کرے اور دولت مند شخص کا قرضہ ادا نہ کرنا ظلم ہے۔
٭٭ محمد بن آدم، ابن مبارک، وبر بن ابو دلیۃ، محمد بن میمون، عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر دولت مند شخص قرضہ ادا کرنے میں تاخیر کرے تو اس کی عزت بگاڑنا درست ہے۔
٭٭ اس سند سے بھی سابقہ حدیث منقول ہے۔
قرضدار کو کسی دوسرے کی طرف محول کرنا جائز ہے
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مالدار شخص کا قرضہ ادا کرنے میں تاخیر کرنا ظلم ہے اور جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو حوالہ دیا جائے مالدار پر تو پیچھا کرے اس کا اور قرضہ دار کا پیچھا چھوڑ دے۔
قرض کی ضمانت
محمد بن عبدالاعلی، خالد، سعید، عثمان بن عبداللہ بن موہب، عبداللہ بن ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص کا جنازہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نماز جنازہ کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کے ذمہ تو قرضہ ہے۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس کا ضامن ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکمل قرضہ ادا کرو گے ؟ حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا مکمل قرضہ (ادا کروں گا)۔
قرض بہتر طریقہ سے ادا کرنے کے بارے میں
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، علی بن صالح، سلمہ بن کہیل، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے وہ لوگ بہتر ہیں جو کہ اچھی طرح سے قرضہ ادا کرتے ہیں۔
حسن معاملہ اور قرضہ کی وصولی میں نرمی کی فضیلت
عیسیٰ بن حماد، لیث، ابن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک آدمی نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا لیکن وہ شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا پھر وہ شخص اپنے آدمی سے کہتا کہ جس جگہ وہ شخص سہولت سے مل سکے وہاں پر وہ وصول کرے اور جس جگہ دشواری ہو مفلس ہو تو چھوڑ دے اور درگزر کرو اور ہو سکتا ہے کہ خداوند قدوس ہمارے قصور (اور گناہ) سے بھی درگزر فرمائے۔ جس وقت وہ شخص گیا تو خداوند قدوس نے فرمایا کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں لیکن میرا ایک غلام تھا میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جس وقت اس کو تقاضا کرنے کے واسطے بھیجتا تو کہہ دیتا کہ جو آسانی اور سہولت سے ملے وہ لے لے اور جس جگہ دشواری ہو تو چھوڑ دے اور معاف فرما دے۔ ممکن ہے خداوند قدوس ہم کو معاف فرما دے۔ خداوند قدوس نے فرمایا میں نے تجھ کو معاف کر دیا۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحیی، زبیدی، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک آدمی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور جس وقت کسی کو وہ شخص مفلس دیکھتا تو وہ شخص اپنے جوان سے کہتا کہ معاف کر اس کو ممکن ہے خداوند قدوس معاف فرما دے جس وقت وہ خداوند قدوس کے پاس گیا تو خداوند تعالیٰ نے اس کو معاف فرما دیا۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن اسحاق ، اسماعیل ابن علیۃ، یونس، عطاء بن فروخ، عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے ایک شخص کو جنت میں داخل فرما دیا جو کہ خریدتے اور فروخت کرتے وقت نرمی اختیار کرے اور ادا کرتے اور وصول کرتے وقت لوگوں سے نرمی کا معاملہ کرے۔
بغیر مال کے شرکت سے متعلق
عمرو بن علی، یحیی سفیان، ابو اسحاق ، ابو عبید ۃ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے میں اور حضرت عمار اور حضرت سعد غزوہ بدر میں شریک ہوئے تو حضرت سعد دو قیدی (پکڑ کر) لائے اور میں اور حضرت عمار کچھ نہیں لائے۔
٭٭ نوح بن حبیب، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے (مثلاً غلام میں دو شخص آدھے آدھے شریک ہوں ایک شریک (اپنا حصہ آزاد کرے ) تو دوسرے کو حصہ کو بھی (جو دوسرے شریک کا) مال دے کر آزاد کرے اگر اس کے پاس مال ہو۔
غلام باندی میں شرکت
عمرو بن علی، یزید، ابن زریع، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا حصہ غلام باندی میں آزاد کرے اور اس کے پاس اس قدر دولت ہو جو غلام کے دوسرے حصہ کی قیمت کو کافی ہو تو وہ آزاد ہو جائے گا اس کی دولت میں سے۔
درخت میں شرکت سے متعلق
قتیبہ، سفیان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے جس آدمی کے پاس زمین یا کھجور کا درخت ہو تو وہ ان کو فروخت نہ کرے جس وقت تک کہ وہ اپنے شریک سے دریافت نہ کر لے (اس لیے کہ اگر شریک وہ شے یا کھجور کا درخت وغیرہ خریدنا چاہے تو وہ زیادہ مستحق ہے بہ نسبت دوسروں کے۔)
زمین میں شرکت سے متعلق
محمد بن علاء، ابن ادریس، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا شفعہ کا ہر ایک مال مشترک میں جو کہ تقسیم نہ ہوا ہو زمین ہو یا باغ ایک شریک کو اپنا حصہ فروخت کرنا درست نہیں ہے جس وقت تک کہ دوسرے شریک سے اجازت حاصل نہ کرے اس شریک کو اختیار ہے چاہے لے لے اور دل چاہے نہ لے اور اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرے اور دوسرے شریک کو اس کی اطلاع نہ کرے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت۔
شفعہ سے متعلق احادیث
علی بن حجر، سفیان، ابراہیم بن میسرہ، عمرو بن شرید، ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پڑوسی پڑوسی کے حق کا زیادہ حقدار ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، حسین معلم، عمرو بن شعیب، عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری زمین ہے کہ جس میں کسی کی کوئی شرکت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا اس میں کوئی حصہ ہے لیکن اس میں حق پڑوس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑوسی زیادہ حقدار ہے اپنے پڑوس کا (دیگر احادیث میں بھی یہ مضمون مذکور ہے )۔
٭٭ ہلال بن بشر، صفوان بن عیسی، معمر، زہری، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حق شفعہ ہر ایک مال میں ہے جو کہ تقسیم نہ کیا جائے جس وقت حد بندی ہو جائے اور راستہ مقرر ہو جائے۔
٭٭ محمد بن عبدالعزیزبن ابو رزمۃ فضل بن موسی، حسین، ابن واقد، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شفعہ کا حکم فرمایا اور پڑوسی کے حق کا۔ (حکم فرمایا)
قسامت کے متعلق
دور جاہلیت کی قسامت سے متعلق
محمد بن یحیی ابو معمر، عبدالوارث، قطن ابو ہشیم، ابو یزید مدنی، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں جو پہلی قسامت جاری ہوئی (وہ یہ تھی کہ قبیلہ) بنی ہاشم میں سے ایک آدمی نے قریش کے ایک آدمی کی ملازمت کی یعنی قبیلہ قریش کی ایک شاخ میں سے وہ شخص تھا وہ اس کے ساتھ گیا اونٹوں میں وہاں پر ایک شخص ملا جو کہ قبیلہ بنی ہاشم میں سے تھا جس کے برتن کی رسی ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے کہا تم رسی سے میری مد د کرو تاکہ میں اپنے برتن کو باندھ لوں ایسا نہ ہو کہ اونٹ چلنے لگ جائے (اور برتن نیچے گر جائے ) چنانچہ اس قبیلہ بنی ہاشم کے شخص نے ایک رسی دے دی برتن باندھنے کے واسطے۔ جس وقت تمام لوگ نیچے اترے اور وہ اونٹ باندھنے لگے تو ایک اونٹ خالی رہا (اس کے باندھنے کے واسطے رسی نہیں تھی) جس نے ملازم رکھا تھا اس نے کہا کہ یہ کیسا اونٹ ہے یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا؟ نوکر نے کہا اس کی رسی نہیں ہے۔ اس نے کہا رسی کہاں چلی گئی ہے۔ نوکر نے کہا مجھے ایک شخص ملا قبیلہ بنی ہاشم میں سے کہ جس کے برتن کی رسی ٹوٹ گئی تھی اس شخص نے فریاد کی اور کہا کہ تم میری مد د کرو ایک رسی دو کہ جس سے میں اپنا برتن باندھ لوں۔ یہ بات پیش نہ آ جائے کہ اونٹ روانہ ہو جائے تو میں نے باندھنے کی رسی اس کو دے دی۔ یہ بات سنتے ہی اس نے ایک لاٹھی نوکر کے ماری جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ وہاں پر ایک شخص آیا یمن کے لوگوں میں سے تو اس شخص نے (یعنی اس ملازم نہ) اس سے دریافت کیا تم اس موسم میں مکہ مکرمہ جاؤ گے ؟ اس شخص نے کہا میں نہیں جاؤں گا اور ہو سکتا ہے کہ میں جاؤں۔ اس نوکر نے کہا میری جانب سے تم ایک پیغام پہنچا دو گے جس وقت کہ تم پہنچو۔ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ اس پر ملازم نے کہا جس وقت تم موسم میں جاؤ گے تو تم پکارو کہ اے اہل قریش! (موسم سے مراد حج کا موسم ہے ) جس وقت وہ جواب دیں تو تم پکارو اور آواز دو کہ اے ہاشم کی اولاد۔ جس وقت وہ جواب دیں تو تم ابو طالب پوچھو کہ پھر ان سے کہہ دو کہ فلاں نے (اس کا نام لیا کہ جس شخص نے اس کو ملازم رکھا تھا) مجھے ایک رسی کے واسطے مار ڈالا۔ پھر اس نوکر کا انتقال ہو گیا۔ جس وقت وہ شخص کہ جس نے کہ نوکر رکھا تھا مکہ مکرمہ میں آیا تو ابو طالب نے اس سے دریافت کیا ہم لوگوں کا آدمی کس جگہ گیا۔ اس نے کہا میں نے اس کی اچھی طرح سے خدمت کی پھر وہ شخص مر گیا تو میں راستہ میں اتر گیا اور اس کو دفن کیا۔ ابو طالب نے کہا اس کے لیے یہی شایان شان تھا (یعنی تم سے اسی بات کی امید تھی جو تم نے کیا یعنی خبر گیری کی اور اچھی طرح سے دفن کیا) پھر ابو طالب چند دن ٹھہرے کہ اس دوران وہ یمن کا باشندہ آ گیا کہ جس نے وصیت کی تھی پیغام پہنچانے کے واسطے اور عین موسم پر آیا۔ اس شخص نے آواز دی کہ اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا کہ یہ ہاشم کے صاحبزادے ہیں۔ اس نے کہا ابو طالب کہاں ہیں ؟ جب اس نے ابو طالب سے کہا فلاں آدمی نے میرے ہاتھ یہ پیغام بھیجا تھا کہ فلاں آدمی نے اس کو قتل کر ڈالا ایک رسی کے واسطے۔ یہ بات سن کر ابو طالب کے پاس پہنچے اور کہا تین باتوں میں سے ایک بات تم کرو اگر تمہارا دل چاہے تو ایک سو اونٹ دے دو دیت کے۔ کیونکہ تم نے ہمارے آدمی جو غلطی سے مار دیا (یعنی تمہارا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا) اور اگر تمہارا دل چاہے تو تمہاری قوم میں سے پچاس آدمی قسم کھائیں اس بات پر کہ تو نے اس کو نہیں مارا۔ اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرو تو ہم تجھ کو اس کے بدلے قتل کر دیں گے۔ اس نے اپنی قوم سے بیان کیا انہوں نے کہا ہم قسم کھائیں گے۔ پھر ایک عورت آئی ابو طالب کے پاس جس کی اس کی قوم میں شادی ہوئی تھی اور وہ بنی ہاشم میں سے اس کا ایک لڑکا تھا اس نے کہا اے ابو طالب میں چاہتی ہوں کہ تم اس لڑکے کو منظور کر لو۔ پچاس آدمیوں میں سے ایک کے عوض اور اس کی قسم نہ دلوا۔ ابو طالب نے منظور کیا پھر ایک شخص ان میں سے آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو طالب تم پچاس آدمیوں کی قسم دلانا چاہتے ہو ایک سو اونٹ کے عوض تو ہر ایک شخص کے حصہ میں دو دو اونٹ آ گئے تم دو اونٹ لے لو اور منظور کر لو میرے اوپر تم قسم نہ ڈالو (یعنی قسم مجھ پر لازم نہ کرو) تم جس وقت زبردستی قسمیں دو گے۔ ابو طالب نے یہ بات منظور کر لی اور اڑتالیس آدمی آئے انہوں نے قسم کھائی۔ حضرت ابن عباس نے کہا خدا کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ایک سال نہیں گزرا کہ ان اڑتالیس لوگوں میں سے ایک آنکھ بھی باقی نہیں رہی جو کہ (حالات) دیکھتی ہو (یعنی سب ہی مر چکے )۔
قسامت سے متعلق احادیث
احمد بن عمرو بن سرح و یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، احمد بن عمرو، ابو سلمہ و سلیمان بن یسار، ایک صحابی سے روایت ہے کہ جو انصار میں سے تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسامت کو باقی رکھا جیسے کہ دور جاہلیت میں تھی۔
٭٭ محمد بن ہاشم، ولید، الاوزاعی، ابن شہاب، ابو سلمہ و سلیمان بن یسار حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قسامت جاری تھی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ اس کو قائم رکھا اور قسامت کا حکم فرمایا انصار کے مقدمہ میں جس وقت ان میں سے کچھ لوگ دعوی کرتے تھے ایک خون کا خیبر کے یہود پر۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب سے روایت ہے کہ قسامت دور جاہلیت میں رائج تھی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو باقی رکھا اس انصاری کے مقدمہ میں کہ جس کی لاش یہود کے کنویں میں ملی تھی اور انصار نے کہا تھا کہ یہود نے ہمارے آدمی کو ہلاک کر ڈالا پہلے مقتول کے ورثہ کو قسم دینا قسامت میں۔
قسامت میں پہلے مقتول کے ورثاء کو قسم دی جائے گی
احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، مالک بن انس، ابو لیلی بن عبداللہ بن عبدالرحمن الانصاری، سہل بن ابو حثمۃ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محصیہ دونوں خیبر کی جانب چلے کچھ تکلیف کی وجہ سے جو کہ ان کو تھی پھر حضرت محیصہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عبداللہ بن سہل قتل کر دیئے گئے اور وہ ایک اندھے (یعنی ویران) کنویں میں یا چشمے میں ڈال دئیے گئے۔ یہ بات سن کر حضرت محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم تم نے اس کو مارا ہے انہوں نے کہا خدا کی قسم اس کو نہیں مارا۔ حضرت محیصہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا پھر حضرت محیصہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل مل کر آئے حضرت محیصہ نے پہلے گفتگو کرنا چاہی وہ ہی خیبر میں گئے تھے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بڑے کا لحاظ کرو بڑے کا لحاظ کرو (اس کو پہلے گفتگو کرنے کا موقع دو) آخر حضرت حویصہ نے گفتگو کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہود تمہارے ساتھی کی دیت نہ دیں تو ان سے کہہ دیا جائے لڑائی کرنے کے واسطے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سلسلہ میں یہود کو لکھا۔ یہود نے جواب میں تحریر کیا خدا کی قسم! اس کو ہم نے نہیں مارا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حویصہ اور محیصہ اور عبدالرحمن سے فرمایا اچھا تم قسم کھاؤ اور تم اپنے ساتھی کا خون ثابت کرو۔ انہوں نے کہا ہم قسم نہیں کھائیں گے (کیونکہ ہم لوگوں نے خود مارتے ہوئے نہیں دیکھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو یہود تمہارے واسطے قسم کھائیں گے (کہ ہم نے اس کو نہیں مارا اور نہ ہم کو علم ہے کہ کس نے مارا ہے ) انہوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ تو مسلمان نہیں ہیں (یعنی ان کے پاس تو ایمان نہیں ) بلکہ وہ تو مشرک ہیں اور وہ لوگ جھوٹی قسم بھی کھا لیں گے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے ان کو دیت ادا فرمائی اور ایک سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ ان کے مکان میں داخل ہو گئے۔ حضرت سہل نے فرمایا اس میں سے ایک اونٹنی نے جو کہ لال رنگ کی تھی میرے لات مار دی تھی۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ابو لیلی بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن سہل، سہل بن ابو حثمۃ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محصیہ دونوں خیبر کی جانب روانہ ہوئے کچھ تکلیف کی وجہ سے جو کہ ان کو لاحق تھی پھر حضرت محیصہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عبداللہ بن سہل قتل کر دیئے گئے اور وہ ایک اندھے (یعنی ویران) کنویں میں یا چشمے میں ڈال دئیے گئے۔ یہ بات سن کر حضرت محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم تم نے اس کو نہیں مارا۔ حضرت محیصہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا پھر حضرت محیصہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل مل کر آئے۔ حضرت محیصہ نے پہلے گفتگو فرمانا چاہی وہ ہی خیبر میں گئے تھے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم (اپنے سے ) بڑے کا لحاظ کرو بڑے کا لحاظ کرو تم ان کو پہلے گفتگو کرنے دو۔ آخر حضرت حویصہ نے گفتگو کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہود تمہارے ساتھی کی دیت نہ دیں تو ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سلسلہ میں یہود کو لکھا۔ یہود نے جواب میں لکھا ہم نے خدا کی قسم اس کو نہیں مارا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حویصہ اور حضرت محیصہ اور عبدالرحمن سے فرمایا اچھا تم قسم کھاؤ اور تم اپنے ساتھی کا قتل ثابت کرو۔ انہوں نے کہا ہم قسم نہیں کھائیں گے (کیونکہ ہم لوگوں نے خود مارتے ہوئے نہیں دیکھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہود تمہارے واسطے قسم کھائیں گے (ہم نے اس کو نہیں مارا اور نہ ہم واقف ہیں کہ کس نے قتل کیا) انہوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ تو مسلمان نہیں ہیں (مشرک ہیں جھوٹی قسم کھا لیں گے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے ان کو دیت ادا فرمائی اور ایک سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ ان کے مکان میں داخل ہو گئے۔ حضرت سہل نے فرمایا اس میں سے ایک اونٹنی نے جو کہ لال رنگ کی تھی میرے لات مار دی تھی۔
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
قتیبہ، لیث، یحیی، بشیر بن یسار، سہل بن ابو حثمۃ، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محصیہ بن مسعود ساتھ نکلے جس وقت خیبر میں پہنچے تو وہاں پر کسی جگہ پر علیحدہ ہو گئے۔ حضرت محیصہ نے حضرت عبداللہ بن سہل کو دیکھا کہ وہ قتل ہوئے پڑے ہیں۔ انہوں نے ان کو دفن کیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے وہ اور ان کے بھائی حضرت حویصہ اور حضرت عبدالرحمن بن سہل جو کہ سب لوگوں میں کم عمر تھے تو حضرت عبدالرحمن اپنے ساتھی سے پہلے گفتگو کرنے لگے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو حضرات عمر رسیدہ ہیں ان کی تم عظمت کرو اور ان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرو۔ اس پر وہ خاموش رہے اور ان کے دونوں ساتھیوں نے گفتگو کی پھر انہوں نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا جس جگہ حضرت عبداللہ بن سہل قتل ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاتے ہو اور تم لوگ اپنے ساتھی کا خون بہاتے ہو یا تم کو تمہارا قاتل مل گیا ہے ان لوگوں نے کہا ہم کس طریقہ سے قسم کھائیں حالانکہ ہم لوگ وہاں موجود نہیں تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا یہود پچاس قسمیں کھا کر تم کو علیحدہ کر دیں گے۔ انہوں نے کہا ہم کفار کی قسمیں کس طریقہ سے تسلیم کریں گے آخر جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حالت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے دیت ادا فرمائی۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار، سہل بن ابو حثمۃ و رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ حضرت محیصہ اور حضرت عبداللہ بن سہل خیبر میں آئے کسی کام کے لیے پھر کھجوروں کے درختوں میں الگ ہو گئے۔ اس روایت کو مندرجہ بالا روایت کی طرح آخر تک بیان فرمایا۔ حضرت سہل بن ابی حثمۃ والی مذکورہ روایت میں یہ ضرور اضافہ ہے۔ حضرت سہل نے بیان کیا کہ میں ان کے ایک تھان میں گیا تو ان ہی اونٹوں میں سے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت میں دیئے تھے ایک اونٹنی نے میرے لات مار دی۔
٭٭ عمرو بن علی، بشر، ابن مفضل، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار، سہل بن ابو حثمۃ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محصیہ بن مسعود خیبر میں داخل ہوئے اور ان دنوں وہاں پر صلح کا ماحول تھا پھر دونوں حضرات علیحدہ ہو گئے اپنے کاموں کے واسطے۔ اس کے بعد حضرت محیصہ حضرت عبداللہ بن سہل کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں پھر ان کو دفن کیا اور مدینہ میں آئے آخر تک۔
٭٭ سابقہ روایت کے مطابق ترجمہ ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، یحیی بن سعید، بشیربن یسار، سہل بن ابو حثمۃ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل قتل ہوئے تو ان کے بھائی اور دونوں چچا حویصہ اور محصیہ جو کہ عبداللہ بن سہل کے بھی چچا تھے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عبدالرحمن نے بات کرنی چاہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بڑے کا احترام و خیال کرو۔ ان دونوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم نے عبداللہ بن سہل کو مرا ہوا پایا۔ ان کو قتل کر کے یہودیوں کے ایک کنوئیں میں ڈال دیا گیا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کس پر گمان کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارا یہود پر گمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم پچاس قسمیں کھاتے ہو کہ یہود نے اس کو ہلاک کر ڈالا۔ انہوں نے کہا ہم کس وجہ سے قسم کھائیں میں اس بات پر جس کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو یہودی بری ہو جائیں گے پچاس قسمیں کھا کر ہم نے اس کو نہیں مارا۔ انہوں نے کہا ہم ان کی قسموں پر کس طریقہ سے رضامند ہوں گے وہ تو مشرک ہیں۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے دیت ادا فرمائی۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہل انصاری اور حضرت محیصہ بن مسعود دونوں خیبر کے لیے روانہ ہوئے اور اپنے اپنے کاموں کے واسطے الگ ہوئے حضرت عبداللہ بن سہل مارے اور قتل کر دیئے گئے۔ حضرت محیصہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عبدالرحمن نے گفتگو کرنا چاہی کیونکہ وہ (حقیقی) بھائی تھے حضرت عبداللہ بن سہل کے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے سے بڑے کا احترام کرو پھر حضرت حویصہ اور حضرت محیصہ نے گفتگو کی اور حضرت عبداللہ بن سہل کی حالت بیان کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم پچاس قسمیں کھاتے ہو اور تم اپنے صاحب یا قاتل کے خون کے مستحق معلوم ہو۔ حضرت امام مالک نے فرمایا کہ حضرت یحیی نے کہا حضرت بشیر بن یسار نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے دیت ادا فرمائی۔
٭٭ احمد بن سلیمان، ابو نعیم، سعید بن عبید الطائی، بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ ایک آدمی انصاری نے جس کا نام حضرت سہل بن ابی حثمہ تھا ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے کئی شخص خیبر میں گئے وہاں پر الگ الگ ہو گئے پھر ان میں سے ایک کو دیکھا کہ وہ قتل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ان لوگوں سے جو کہ وہاں پر رہتے تھے کہ جس جگہ وہ قتل کر دیا گیا ہے کہ تم لوگوں نے ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو نہیں مارا اور نہ ہی ہم اس کے قاتل سے واقف ہیں وہ لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم لوگ خیبر کی طرف گئے تھے ہم نے وہاں پر اپنے ساتھی کو پایا یا قتل کر دیا گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بڑائی کا خیال کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم گواہ لا سکتے ہو کہ کس نے تم کو قتل کیا؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس گواہ نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تو خلف کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہود کی قسم پر رضامند نہ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا محسوس ہوا کہ خون اس کا ضائع ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ کے اونٹ میں سے ایک سو اونٹ دیت کے ادا فرمائے۔
٭٭ محمد بن معمر، روح بن عبادۃ، عبید اللہ بن الاخنس، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ حضرت محیصہ کا چھوٹا بھائی قتل کر دیا گیا تھا خیبر کے دروازہ پر تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم دو گواہ قائم کرو اس شخص پر کہ جس نے قتل کیا مع اس کی رسی کے اس کو تم کو دوں گا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! میں دو گواہ کس جگہ سے لاؤں گا؟ وہ تو قتل ہو چکا ہے اور ان کے دروازہ پر قتل ہوا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا تو قسامت کی پچاس قسم کھاؤ گے۔ اس نے عرض کیا جس بات سے میں واقف نہیں ہوں میں اس پر کس طرح سے قسم کھاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو وہ لوگ قسامت کی پچاس قسم کھائیں گے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! ہم ان سے کس طریقہ سے قسم لیں وہ لوگ تو یہودی ہیں (یعنی مشرک اور کافر ہیں ان کا کیا اعتبار ہے ؟) آخر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت اپنے پاس سے ادا کر کے ان کی امداد کی۔
قصاص سے متعلق احادیث
بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبہ، سلیمان، عبداللہ بن مرۃ، مسروق، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان آدمی کا قتل کرنا درست نہیں ہے علاوہ تین صورتوں میں ایک جان کے عوض جان (یعنی کسی کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کے قصاص میں وہ شخص قتل کر دیا جائے ) دوسرے اگر اس کا نکاح ہو چکا اور پھر زنا کا ارتکاب کرے (تو اس کو پتھروں سے ہلاک کر دیا جائے ) تیسرے اگر اپنے دین یعنی اسلام سے وہ شخص منحرف ہو جائے (تو اس کے اشکالات دور کرنے کی کوشش کریں گے ) اگر وہ اسلام پھر قبول کر لیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
٭٭ محمد بن العلاء و احمد بن حرب، ابو معاویہ، الاعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک شخص کا قتل کیا تو اس قاتل کو پکڑ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کر دیا (تا کہ ورثہ اس کو قتل کر دیں ) قاتل نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اس شخص کو قتل کرنے کی نیت سے اس کو نہیں مارا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مقتول کے ورثاء کو دیکھو۔ اگر وہ سچا ہے پھر تو اس کو قتل کر دے گا تو وہ دوزخ میں جائے گا۔ اس کو چنانچہ اس نے چھوڑ دیا۔ وہ اس وقت ایک رسی میں بندھا ہوا تھا وہ اپنی رسی کھینچتا ہوا چلا۔ اسی دن سے اس کو رسی والا کہا جانے لگا۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، اسحاق ، عوف الاعرابی، علقمۃ بن وائل حضرمی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا وہ قاتل کہ جس نے قتل کیا تھا اس کو مقتول کا وارث حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم اس کو معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کا انتقام لو گے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ قتل کرو۔ جس وقت وہ چل دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس کو معاف کر دو گے تو وہ تمہارا گناہ سمیٹ لے گا اور تمہارے ساتھی کا گناہ (جو کہ قتل ہو گیا ہے ) اس کا گناہ سمیٹ لے گا اس کو چنانچہ اس نے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا پھر وہ شخص اپنی رسی کھینچتا ہوا چل دیا۔
حضرت علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کا اختلاف
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عوف بن ابو جمیلۃ، حمزۃ، ابو عمر عائذی، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت وائل بن حجر سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھا جس وقت مقتول کا وارث قاتل کو پکڑ کر کھینچتا ہوا لایا ایک رسی سے باندھ کر۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وارث سے فرمایا کیا تم معاف کر رہے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کی دیت لے رہے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم قتل کرتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا لے جا اس کو۔ جس وقت وہ اس کو لے چلا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور فرمایا کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم قتل کرتے ہو۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم قتل کرتے ہو۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خیر تم اس کو لے جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس کو معاف کرو گے تو وہ اپنا گناہ اور اپنے ساتھی (یعنی مقتول کا گناہ) بھی لے لے گا۔ اس نے اس کو معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ یعنی قاتل اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ عمرو بن منصور، حفص بن عمر، جامع بن مطر، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے روایت کی انہوں نے کہا میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اس کی گردن میں رسی پڑی ہوئی تھی (اس کو ایک دوسرا شخص لے کر حاضر ہوا) اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آدمی اور میرا بھائی دونوں کنواں کھود رہے تھے اس دوران اس نے کدال اٹھائی اور میرے بھائی کے سر پر ماری وہ مر گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اس کو معاف کر دے۔ اس نے انکار کر دیا اور کہا یا رسول اللہ! یہ شخص اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں میں تھے وہ کنواں کھود رہے تھے کہ اس دوران اس نے کدال اٹھائی اور میرے بھائی کے سر پر مار دی وہ مر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا تم اس کو معاف کر دو۔ اس شخص نے انکار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا تم اگر اس کو قتل کر دو گے تو تم بھی اسی جیسے ہو جاؤ گے یعنی تم کو ثواب بالکل نہیں ملے گا۔ بلکہ جس طریقہ سے اس شخص نے (ناحق) قتل کیا تھا تم بھی اس کو قتل کرو گے۔ اس کے برابر ہو جاؤ گے۔ چنانچہ وہ شخص اس کو لے گیا جس وقت دور نکل گیا تو ہم نے آواز دی کہ کیا تم نہیں سنتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے اگر تم اس کو قتل کرو گے تو اس کے برابر ہو جاؤ گے۔ انہوں نے کہا جی ہاں میں اس کو معاف کر دیتا ہوں پھر وہ قاتل اپنی رسی کھینچتا ہوا نکلا۔ یہاں تک وہ ہم لوگوں کی نگاہ سے غائب ہو گیا۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، حاتم، سماک، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران ایک شخص آیا۔ ایک دوسرے شخص کو کھینچتا ہوا رسی پکڑ کر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس کو قتل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر یہ اقرار نہ کرتا تو میں گواہ لاتا۔ اس دوران اس نے کہا میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس طریقہ سے مارا اور قتل کیا ہے۔ اس نے کہا میں اور اس کا بھائی دونوں لکڑیاں اکھٹا کر رہے تھے ایک درخت کے نیچے اس دوران اس نے مجھ کو گالی دی مجھ کو غصہ آیا میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری (وہ مر گیا) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے پاس مال ہے جو کہ تم اپنی جان کے عوض ادا کرے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تو کچھ نہیں ہے علاوہ اس کمبل اور کلہاڑی کے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو سمجھتا ہے کہ تمہاری قوم تجھ کو خرید کر لے گی۔ (یعنی دیت ادا کرے ) وہ کہنے لگا میں اپنی قوم کے نزدیک زیادہ ذلیل اور رسوا ہوں دولت سے (یعنی میری جان کی ان کو اس قدر پرواہ نہیں ہے کہ مال ادا کریں ) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسی اس شخص کی جانب (یعنی وارث کی جانب پھینک دی) اور فرمایا تم اس کو لے جا یعنی جو تمہارا دل چاہے وہ کرو۔ جس وقت وہ شخص پشت کر کے روانہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو یہ بھی اسی جیسا ہو گا لوگ جا کر اس سے ملے اور کہا تیری خرابی ہو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو تمہارا انجام اسی شخص جیسا ہو گا وہ شخص واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پھر حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں نے مجھ کو اس طریقہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو اسی جیسا ہوں گا اور میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے حکم سے اس کو لے کر گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارا اور تمہارے ساتھی (یعنی مقتول کا) گناہ جمع کر لے گا۔ اس نے کہا کس وجہ سے نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہی بات ہو گی۔ اس نے کہا پھر اسی طرح سے صحیح ہے (میں اس کو چھوڑتا ہوں )
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، حاتم، سماک، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران ایک شخص آیا۔ ایک دوسرے شخص کو کھینچتا ہوا رسی پکڑ کر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس کو قتل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر یہ اقرار نہ کرتا تو میں گواہ لاتا۔ اس دوران اس نے کہا میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس طریقہ سے مارا اور قتل کیا ہے۔ اس نے کہا میں اور اس کا بھائی دونوں لکڑیاں اکھٹی کر رہے تھے ایک درخت کے نیچے اس دوران اس نے مجھ کو گالی دی مجھ کو غصہ آیا میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری (وہ مر گیا) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے پاس مال ہے جو کہ تم اپنی جان کے عوض ادا کرے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تو کچھ نہیں ہے علاوہ اس کمبل اور کلہاڑی کے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو سمجھتا ہے کہ تمہاری قوم تجھ کو خرید کر لے گی۔ (یعنی دیت ادا کرے ) وہ کہنے لگا میں اپنی قوم کے نزدیک زیادہ ذلیل اور رسوا ہوں دولت سے (یعنی میری جان کی ان کو اس قدر پرواہ نہیں ہے کہ مال ادا کریں ) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسی اس شخص کی جانب (یعنی وارث کی جانب پھینک دی) اور فرمایا تم اس کو لے جا یعنی جو تمہارا دل چاہے وہ کرو۔ جس وقت وہ شخص پشت کر کے روانہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو یہ بھی اسی جیسا ہو گا لوگ جا کر اس سے ملے اور کہا تیری خرابی ہو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو تمہارا انجام اسی شخص جیسا ہو گا وہ شخص واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پھر حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں نے مجھ کو اس طریقہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو اسی جیسا ہوں گا اور میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے حکم سے اس کو لے کر گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارا اور تمہارے ساتھی (یعنی مقتول کا) گناہ جمع کر لے گا۔ اس نے کہا کس وجہ سے نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہی بات ہو گی۔ اس نے کہا پھر اسی طرح سے صحیح ہے (میں اس کو چھوڑتا ہوں )
٭٭ محمد بن معمر، یحیی بن حماد، ابو عوانۃ، اسماعیل بن سالم، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ ان کے والد نے روایت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر کیا گیا کہ جس نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مقتول کے ورثہ کو اس قاتل کو دے دیا۔ قتل کرنے کے واسطے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ورثاء کے ساتھیوں سے فرمایا کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے (قاتل تو اپنے قتل کرنے کے گناہ کی وجہ سے اور اس کا مقتول اپنے گناہوں کی وجہ سے کہ وہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے خلاف کرتا ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاف کر نے کا حکم دیا تھا) چنانچہ ایک آدمی گیا اور اس نے وارث کو اطلاع دی جس وقت اس کا علم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا فرما رہے ہیں تو اس نے قاتل کو چھوڑ دیا۔ وائل نے کہا کہ میں نے اس قاتل کو دیکھا کہ وہ اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔ جس وقت وارث نے اس کو چھوڑ دیا۔ اسماعیل نے نقل کیا کہ میں نے یہ روایت حبیب سے نقل کی ان سے سعید بن اشوع نے نقل کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاف فرمانے کا حکم فرمایا تھا۔
٭٭ عیسیٰ بن یونس، ضمرۃ، عبداللہ بن شوذب، ثابت بنانی، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی اپنے ایک رشتہ دار کے قاتل کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو معاف کر دو۔ اس شخص نے انکار کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم جاؤ اور اس کو قتل کر دو اور اس صورت میں تم بھی اس شخص کی طرح ہو جاؤ گے۔ چنانچہ وہ شخص گیا ایک آدمی نے اس سے مل کر کہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو قتل کر دو تم بھی اسی طرح ہو جاؤ گے (یعنی جیسا وہ شخص گناہگار ہے تم بھی ایسے ہی ہو جاؤ گے ) یہ بات سن کر اس شخص نے اس قاتل کو چھوڑ دیا اور وہ شخص (یعنی قاتل) میرے سامنے سے گزرا اپنی رسی کھینچتے ہوئے۔
٭٭ حسن بن اسحاق مروزی، خالد بن خداش، حاتم بن اسماعیل، بشیر بن مہاجر، عبداللہ ابن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے میرے بھائی کو قتل کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا تم اس کو قتل کر دو جس طریقہ سے اس نے تمہارے بھائی کو قتل کر دیا۔ ایک آدمی نے کہا تم خدا سے ڈرو اور تم اس کو معاف کر دو تم کو زیادہ ثواب ملے گا اور تمہارے واسطے بھی بہتر ہو گا اور قیامت کے دن تمہارے بھائی کے واسطے بھی بہتر ہو گا۔ یہ بات سن کر اس شخص نے اس قاتل کو چھوڑ دیا۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے دریافت فرمایا اس نے نقل کیا جو کہ اس نے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آزاد کر دیتا یہ تمہارے واسطے بہتر ہو گا اس کام سے جو کہ وہ تمہارے ساتھ کرنے والا تھا قیامت کے دن۔ وہ شخص کہے گا کہ اے میرے پروردگار اس سے معلوم کر کے اس شخص نے کس جرم کی وجہ سے مجھے قتل کر دیا تھا؟
اس آیت کریمہ کی تفسیر اور اس حدیث میں عکرمہ پر اختلاف سے متعلق
قاسم بن زکریا بن دینار، عبید اللہ بن موسی، علی، بن صالح، سماک، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ (قبیلہ) قریضہ اور بنو نضیر ان دونوں میں قبیلہ بنو نضیر کا مقام زیادہ تھا۔ جس وقت کوئی آدمی قبیلہ قریضہ میں سے بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تھا تو (قتل کرنے کی وجہ سے ) وہ قتل کر دیا جاتا اور جس وقت قبیلہ بنو نضیر کا کوئی شخص قبیلہ قریضہ کے کسی شخص کو قتل کرتا تو ایک سو وسق کھجور (بطور دیت) ادا کرنا پڑتی۔ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیغمبر ہو گئے تو قبیلہ بنو نضیر کے ایک شخص نے قبیلہ قریضہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا۔ اس پر قبیلہ قریضہ کے لوگوں نے کہا اس قاتل کو ہمارے سپرد کر دو ہم اس کو قتل کریں گے۔ قبیلہ بنو نضیر نے کہا ہمارے اور تمہارے درمیان اس مسئلہ کے متعلق بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فیصلہ فرمائیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (ۭوَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ )5۔ المائدہ:42) یعنی اگر کفار کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یعنی جان کے عوض جان لی جائے۔ اس کے بعد آیت نازل ہوئی ) (اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃ یَبْغُوْنَ) 5۔ المائدہ:50) ( کیا تم دور جاہلیت کے رواج پسند کرتے ہو؟
٭٭ عبید اللہ بن سعد، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، داؤد بن حصین، عکرمۃ، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیات کریمہ ( فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ) 5۔ المائدہ:50) اور (أَعْرِضْ عَنْہُمْ) سے لے کر (مقسطین) تک قبیلہ بنی نضیر اور قریظ کے متعلق نازل ہوئیں کیونکہ بنو نضیر کو برتری حاصل تھی جس وقت ان میں سے کوئی شخص قتل کر دیا جاتا تو پوری دیت لیتے اور اگر بنو قریظ میں سے کوئی قتل کر دیا جاتا تو وہ لوگ آدھی دیت پاتے پھر ان لوگوں نے رجوع کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب۔ اس پر حق تعالیٰ شانہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو راہ راست پر لائے اور دیت برابر فرما دی۔
آزاد اور غلام میں قصاص سے متعلق
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، سعید، قتادۃ، حسن، قیس بن عباد ے روایت ہے کہ میں اور حضرت اشتر حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی خاص بات ارشاد فرمائی ہے جو کہ دوسرے حضرات کو نہیں بتلائی۔ انہوں نے فرمایا نہیں۔ مگر جو میری اس کتاب میں ہے پھر ایککتاب نکالی اور اپنی تلوار کی نوک سے اس میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں (اس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے شریف اور کم ذات کا نہ آزاد کا نہ غلام کا) اور وہ ایک ہاتھ کی طرح ہیں غیر اقوام کے حق میں (یعنی تمام کے تمام مسلمان غیر اقوام کے خلاف مقفق ہیں جیسے کہ ایک ہاتھ کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہوتے ہیں ) اور اس میں معمولی درجہ کا مسلمان بھی سب کی جانب سے ذمہ لے سکتا ہے (یعنی اگر ایک مسلمان بھی کسی مشرک و کافر کو پناہ دے تو گویا تمام مسلمانوں نے پناہ دے دی۔ اب اس پر دست درازی نہیں ہو سکتی) باخبر ہو جاؤ کہ جو مسلمان کافر کے بدلہ نہ مارا جائے (چاہے وہ کافر ذمی ہو یا حزل اور نہ ذمی کو قتل کریں جس وقت تک وہ ذمی ہے اور جو شخص (دین میں ) نئی بات پیدا کرے تو اس کا گناہ اور وبال اس شخص پر ہے جو کہ نئی بات پیدا کرے اور جو شخص نئی بات نکالنے والے کو جگہ دے اس پر خداوند قدوس کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کے عوض قتل کیا جائے
محمود بن غیلان، مروزی، ابو داؤد طیالسی، ہشام، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے تو ہم اس کو قتل کریں گے اور جو شخص کسی کی ناک کاٹے یا جسم کا اور کوئی حصہ تو ہم بھی جسم کا حصہ کاٹیں گے اور جو شخص اپنے غلام کو خصی کرے تو ہم بھی اس کو خصی کریں گے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن ان دونوں روایات میں خصی کرنے کا تذکرہ نہیں ہے۔
عورت کو عورت کے عوض قتل کرنا
یوسف بن سعید، حجاج بن محمد، ابن جریج، عمرو بن دینار، طاؤس، ابن عباس، عمر، سمرہ سے روایت ہے کہ ان کو اس بات کی جستجو تھی کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سلسلہ میں کیا فیصلہ فرمایا ہے تو حضرت حمل بن مالک کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں دو خواتین کی کوٹھڑیوں کے درمیان رہتا تھا ایک خاتون نے دوسری خاتون کو خیمہ کی لکڑی سے مار دیا اور وہ مر گئی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بچہ کے عوض ایک غلام یا باندی دینے کا حکم فرمایا اور عورت کو عورت کے عوض قتل کر نے کا حکم فرمایا۔
مرد کو عورت کے عوض قتل کرنے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عبدۃ، سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ ایک یہودی شخص نے ایک لڑکی کو اس کے زیور کے لیے قتل کر ڈالا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس یہودی شخص کو قتل کرنے کا لڑکی کے قصاص میں۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، ابان بن یزید، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک خاتون کا چاندی کا زیور لے لیا پھر اس خاتون کا دو پتھر سے سر توڑ ڈالا۔ لوگوں نے اس خاتون کو پایا جب کہ اس میں کچھ جان تھی۔ وہ اس عورت کو لیے لیے پھرے لوگوں کو بلاتے ہوئے کہ کیا اس نے قتل کیا؟ کیا یہ ہے ؟ آخر اس نے ایک کو دیکھ کر کہا اس نے حملہ کیا ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس آدمی کا سر کچل دیا جائے دو پتھروں کے درمیان میں۔
٭٭ علی بن حجر، یزید بن ہارون، ہمام، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک لڑکی چاندی یا زیور پہن کر نکلی اس کو ایک یہودی نے پکڑ لیا اور اس کا سر (پتھر سے کچل دیا اور زیور اتار لیا۔ پھر لوگوں نے اس لڑکی کو دیکھا اس میں کچھ جان باقی رہ گئی تھی۔ چنانچہ اس کو لے کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تجھ کو کس نے مارا ہے ؟ کیا فلاں شخص نے تجھ کو مارا ہے ؟ اس نے کہا نہیں پھر کہا فلاں نے مارا ہے ؟ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس (مجرم) کا بھی نام لیا یعنی یہودی کا نام لیا۔ اس وقت اس نے سر ہلا کر بتلایا کہ ہاں وہ یہودی پکڑا گیا اس نے اقرار کر لیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا تو اس کا سر کچلا گیا دو پتھروں کے درمیان سے۔
کافر کے بدلہ مسلمان نہ قتل کیا جائے
احمد بن حفص بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، عبدالعزیز بن رفیع، عبید بن عمیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کا قتل کرنا جائز نہیں ہے لیکن تین صورت میں ایک تو یہ محض (یعنی اس کا نکاح ہو گیا ہو) اور وہ شخص زنا کا مرتکب ہو دوسرے کسی مسلمان کو وہ قصداً قتل کرے تیسرے وہ شخص جو کہ اسلام سے منحرف ہو جائے پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرے وہ شخص قتل کر دیا جائے یا اس کو سولی دے دی جائے یا گرفتار کر لیا جائے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، مطرف بن طریف، شعبی، ابو جحیفۃ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی تمہارے پاس کیا دوسری کوئی اور بات ہے علاوہ قرآن کریم کے۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم کہ جس نے کہ دانے کو (درمیان سے ) چیر کر جان کو پیدا کیا مگر یہ کہ خداوند قدوس کسی اپنے بندہ کو سمجھ بوجھ عطا فرمائے اپنی کتاب (یعنی قرآن کریم کی) یا جو اس کاغذ میں ہے۔ میں نے عرض کیا اس میں کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اس میں احکام دیت موجود ہیں اور قیدی کو رہا کرانے کا بیان ہے اور اس بات کا تذکرہ ہے کہ مسلمان کو کافر و مشرک کے عوض نہ قتل کیا جائے۔
٭٭ محمد بن بشار، حجاج بن منہال، ہمام، قتادۃ، ابو حسان سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اس طرح کی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی جو کہ لوگوں سے نا کہی ہو لیکن جو میری تلوار کی نیام میں ایک کتاب ہے۔ لوگوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نہ وہ کتاب نکالی اس میں تحریر تھا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں اور پناہ دے سکتا ہے معمولی مسلمان اور وہ ایک ہاتھ کی طرح ہیں غیروں پر اور مومنین کو کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی ذمی جس وقت تک اپنے اقرار پر وہ باقی رہے۔
٭٭ احمد بن حفص، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم بن طہمان، حجاج بن حجاج، قتادۃ، ابو حسان الاعرج، حضرت مالک بن حارث اشتر سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی سے کہا لوگوں کے درمیان شہرت ہو گئی ہے کہ اگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی خاص چیز تم کو بتلائی ہو تو وہ بیان اور نقل کرو۔ حضرت علی نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی خاص بات مجھ کو نہیں بتلائی جو اور دوسرے لوگوں کو نہ بتلائی ہو لیکن میری تلوار کے غلاف میں ایک کتاب ہے اس کو دیکھا گیا تو اس میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں اور معمولی مسلمان ذمہ داری لے سکتا ہے (کسی مشرک و کافر کی امان کی) اور مومن کافر کے عوض قتل نہیں کیا جائے گا نہ وہ کافر جس سے کہ اقرار ہوا جس وقت تک وہ اپنے اقرار پر قائم رہے۔
ذمی کافر کے قتل سے متعلق
اسماعیل بن مسعود، خالد، عیینہ، وہ اپنے والد سے ، ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کسی ذمی کو قتل کرے تو خداوند قدوس اس پر جنت کو حرام فرما دے گا۔
٭٭ حسین بن حریث، اسماعیل، یونس، حکم بن الاعرج، اشعث بن ثرملۃ، ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ذمی کو قتل کرے بغیر اس کے خون کے حلال ہونے کے تو حرام فرما دے گا خداوند قدوس اس پر جنت اور اس کی خوشبو۔
٭٭ محمود بن غیلان، نضر، شعبہ، ہلال بن یساف، قاسم بن مخیمرۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک صحابی سے سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کسی ذمی کو قتل کرے تو وہ شخص جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال تک کے فاصلہ سے محسوس ہوتی ہے۔
٭٭ عبدالرحمن بن ابراہیم دحیم، مروان، حسن، ابن عمرو، مجاہد، جنادۃ بن ابو امیۃ، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ذمی کو قتل کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ اس (جنت) کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے (بھی) محسوس ہو جاتی ہے۔
غلاموں میں قصاص نہ ہونا جب کہ خون سے کم جرم کا ارتکاب کریں
اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، ابو نضرۃ، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ مفلس لوگوں کا ایک غلام تھا اس نے مالداروں کے ایک غلام کا کان کاٹ دیا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو کچھ نہیں دلوایا، کیونکہ اس کا مالک مفلس تھا اور اگر وہ دولت مند ہوتا تو دیت ادا کرنا پڑتی)۔
دانت میں قصاص سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، ابو خالد سلیمان بن حیان، حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دانت میں قصاص کا حکم دیا اور فرمایا کتاب اللہ قصاص کا حکم فرماتی ہے
٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا تو ہم اس کو قتل کریں گے اور جو شخص غلام کا کوئی عضو یعنی جسم کا کوئی حصہ کاٹے گا تو ہم بھی اس کے جسم کا (وہ ہی) حصہ کاٹیں گے۔
٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، حسن، سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے غلام کو خصی کرائے (یعنی اس کے خصہ نکلوائے ) تو ہم اس کو خصی کریں گے اور جو شخص ناک کان یا کوئی عضو اپنے غلام کا کاٹے تو ہم بھی اس کا وہ ہی عضو کاٹیں گے۔
٭٭ احمد بن سلیمان، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ حضرت ربیع حضرت ام حارثہ کی بہن نے ایک شخص کو زخمی کر دیا پھر اس مسئلہ کا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں مقدمہ پیش ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا انتقام لیا جائے گا یہ بات سن کر حضرت ام ربیع نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا اس سے انتقام لیا جائے گا خدا کی قسم اس سے بالکل کبھی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ! اے ام ربیع کتاب اللہ اسی طریقہ سے حکم کرتی ہے بدلہ اور انتقام لینے کا اس نے کہا خدا کی قسم اس سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔ وہ خاتون یہی بات کہتی رہیں یہاں تک کہ ان لوگوں نے دیت لینا منظور کر لیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے بعض بندے اس طرح کے ہیں کہ اگر وہ خداوند قدوس کی قسم کھا لیں تو خداوند قدوس ان کو سچاکر دیتا ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدۃ و اسماعیل بن مسعود، بشر، حمید سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک نے فرمایا ان کی پھوپھی نے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس مقدمہ میں ) قصاص کا حکم فرمایا ان کے بھائی حضرت انس بن نضر (یعنی حضرت انس بن مالک کے چچا) نے کہا کہ فلاں خاتون (یعنی ان کی بہن) کا دانت نہیں توڑا جائے گا اس ذات کی قسم جس نے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچائی اور حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کا دانت کبھی نہیں توڑا جائے گا۔ پہلے ان لوگوں نے اس لڑکی کے ورثاء سے کہہ رکھا تھا کہ تم لوگ اس کو معاف کر دو یا اس سے دیت وصول کرو (لیکن وہ لوگ نہیں مانتے تھے ) جس وقت ان کے بھائی حضرت انس بن نضر نے (جو کہ حضرت انس بن مالک کے چچا تھے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوئے ) قسم کھائی کہ اس کے ورثاء معاف کرنے پر رضامند ہوئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بعض اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو خداوند قدوس ان کو سچا کر دے۔
٭٭ محمد بن مثنی، خالد، حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت ربیع نے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا تو اس کے ورثہ نے معافی چاہی لیکن لڑکی کے ورثاء نے انکار فرما دیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے قصاص لینے کا حکم فرما دیا۔ حضرت انس بن نضر نے کہا یا رسول اللہ! کیا حضرت ربیع کا دانت توڑا جائے گا اس ذات کی قسم کہ جس نے کہ آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے ان کا دانت کبھی نہیں توڑا جائے گا۔ آپ نے فرمایا اے انس! کتاب اللہ اسی طریقہ سے حکم کرتی ہے انتقام لینے کا۔ پھر وہ لوگ رضامند ہو گئے انہوں نے معاف فرما دیا اس پر آپ نے فرمایا خداوند قدوس کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اس کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو خداوند قدوس ان کو سچا کر دے۔
کاٹ کھانے میں قصاص سے متعلق حضرت عمران بن حصین کی روایت میں اختلاف سے متعلق
احمد بن عثمان، ابو جوزاء، قریش بن انس، ابن عون، ابن سیرین، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دانتوں سے دوسرے شخص کا ہاتھ پکڑا اس نے اپنا ہاتھ زور سے کھینچا اس کا ایک دانت ٹوٹ گیا یا اس کے کئی دانت ٹوٹ گئے اس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی فریاد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو مجھ سے کیا کہتا ہے ؟ کیا تو یہ کہتا ہے کہ میں اس کو حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں دے دے پھر اس کو تو دانت سے چبائے کہ جس طریقہ سے کہ جانور چباتا ہے اگر تو چاہے تو اس کو اپنا ہاتھ دے دے چبا نے کے واسطے پھر نکال لے اگر چاہے۔
٭٭ عمرو بن علی، یزید، سعید بن ابو عروبۃ، قتادۃ، زرارۃ بن اوفی، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے شخص کا بازو کاٹ لیا۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا اس کا دانت نکل گیا پھر یہ مقدمہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس شخص کا دانت اکھڑ گیا تھا اس کو کچھ نہیں دلوایا اور فرمایا تم چاہتے ہو کہ تم اپنے بھائی کا گوشت چبا لو جس طریقہ سے کہ جانور چباتا ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادۃ، زرارۃ، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت یعلی کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی پھر ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ ڈالا اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے گھسیٹ لیا (اس وجہ سے ) دوسرے کا دانت نکل گیا پھر دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے لڑتے ہوئے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے ایک شخص اپنے بھائی کو جانور کی طرح کاٹتا ہے (پھر وہ شخص دیت مانگتا ہے ) اس کو کبھی دیت نہیں ملے گی۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
ایک آدمی خود اپنے کو بچائے اور اس میں دوسرے شخص کا نقصان ہو تو بچانے والے پر ضمان نہیں ہے
مالک بن خلیل، ابن ابو عدی، شعبہ، حکم، مجاہد، یعلی ابن امیۃ کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی پھر ایک دوسرے شخص کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ اس نے اپنا ہاتھ منہ سے چھڑانا چاہا اسی (کشمکش) میں دوسرے شخص کا دانت اکھڑ گیا۔ پھر یہ معاملہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے ایک اپنے بھائی کے کاٹتا ہے جوان اونٹ کی طرح کاٹتا ہے اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت نہیں دلوائی۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبید بن عقیل، وہ اپنے دادا سے ، شعبہ، حکم، مجاہد، یعلی ابن امیہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ بنی تمیم میں سے دوسرے سے لڑائی کی آخر تک سابقہ روایت کے مطابق ہے۔
زیر نظر حدیث میں حضرت عطاء پر راویوں کا اختلاف
عمران بن بکار، احمد بن خالد، محمد، عطاء بن ابو رباح، صفوان بن عبد اللہ، عمیہ سلمی، یعلی بن امیۃ سے روایت ہے کہ ہم دونوں غزوہ تبوک میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے میں نے وہاں پر ایک ملازم رکھا اس کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا اور اس کا دانت نکل گیا۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں وہ شخص حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو باطل فرما دیا۔
٭٭ عبدالجبار بن العلاء بن عبدالجبار، سفیان، عمرو، عطاء، صفوان بن یعلی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا اس کا دانت نکل گیا پھر وہ ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو لغو فرما دیا (یعنی دیت نہیں دلوائی)۔
٭٭ عبدالجبار، سفیان، عمرو، عطاء، صفوان بن یعلی، یعلی و ابن جریج، عطاء، صفوان بن یعلی، یعلی سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو ملازم رکھا اس کی دوسرے شخص سے لڑائی ہوئی اور اس کا ہاتھ دانت سے کاٹ لیا اس کا دانت نکل گیا پھر وہ شخص فریاد لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا وہ اپنے ہاتھ چھوڑ دیتا کہ تو جانور کی طرح سے اس کو چبا ڈالتا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ابن جریج، عطاء، صفوان بن یعلی، حضرت یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ میں نے جہاد کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں وہاں پر میں نے ایک ملازم رکھا اس کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی۔ جس نے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا اور اس کا دانت نکل گیا اس پر وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو لغو فرما دیا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، ابن جریج، عطاء، صفوان بن یعلی، یعلی بن امیۃ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حبیش العسرت میں جہاد کیا اور یہ کام میرے واسطے سب سے زیادہ سخت تھا میرا ایک ملازم تھا اس کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی اس نے دوسرے کی انگلی کاٹی دوسرے نے اپنی انگلی کھینچی تو اس کا دانت نکل کر گر گیا وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا دانت لغو فرما دیا اور فرمایا کیا وہ اپنی انگلی تمہارے منہ میں رہنے دیتا اور تم اس کو چبا لیتے۔
٭٭ سوید بن نصر، حدیث عبداللہ بن مبارک، شعبہ، قتادۃ، عطاء، ابن یعلی یہ روایت بھی اسی طرح ہے اور اس روایت میں اس طریقہ سے مذکور ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (اس آدمی سے کہ جس کا دانت ٹوٹ گیا تھا) تجھ کو دیت نہیں ملے گی۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، بدیل بن میسرہ، عطاء، صفوان بن یعلی بن امیہ سے روایت کرتے ہیں حضرت یعلی بن امیہ کے ایک ملازم نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا اور اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا پھر یہ مقدمہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش ہوا اس لیے کہ کاٹنے والے شخص کا دانت گر گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو لغو اور باطل کر دیا اور فرمایا کیا تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا اور تم اس کو جانور کی طرح سے چبا ڈالتے۔
٭٭ ابو بکر بن اسحاق ، ابو جواب، عمار، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی، حکم، محمد بن مسلم، صفوان بن یعلی سے روایت ہے کہ ان کے والد نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں جہاد کیا اور ایک ملازم رکھا اس کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ کیا اس کے ہاتھ میں درد ہوا تو اس نے اس کا ہاتھ کھینچا جس سے دانت ٹوٹ گیا۔ پھر یہ معاملہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے ایک شخص اپنے بھائی کو کاٹتا ہے جانور کی طرح۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا دانت لغو کر دیا (یعنی دانت کی دیت نہیں دلائی)۔
کچو کا لگانے میں قصاص
وہب بن بیان، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن عبد اللہ، عبیدۃ بن مسافع، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لکڑی سے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں تھی کچو کا لگایا (یعنی لکڑی سے ہلکی سی ضرب لگائی)۔ (پھر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ آ جا! مجھ سے انتقام لے لو اس نے کہا نہیں ! میں نے معاف کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
٭٭ احمد بن سعید رباطی، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، یحیی، بکیر بن عبد اللہ، عبیدۃ بن مسافع، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھک گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لکڑی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی اس کو کچوکا دیا وہ شخص نکلا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آ جا! تم مجھ سے انتقام لے لو۔ اس نے عرض کیا نہیں ! میں نے تو معاف کر دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
طمانچہ مارنے کا انتقام
احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، عبدالاعلی، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اس کے دور جاہلیت کے کسی باپ دادا کو برا کہہ دیا۔ حضرت ابن عباس کو یہ برا لگا اور انہوں نے اس شخص کے طمانچہ مار دیا اس شخص کی برادری آ گئی اور کہنے لگی کہ وہ حضرت ابن عباس کے طمانچہ مارے گی جس طریقہ سے کہ انہوں نے طمانچہ مارا اور ہتھیار نکال لیے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگو! تم واقف ہو کہ زمین پر رہنے والوں میں سے خداوند قدوس کے نزدیک کس کی عزت زیادہ ہے ؟ لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عباس میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو برا نہ کہو تاکہ ہمارے زندہ لوگوں کو اس بات کا صدمہ نہ ہو۔ یہ بات سن کر وہ قوم آ گئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! ہم لوگ خداوند قدوس کی پناہ مانگتے ہیں خداوند قدوس کے غصہ سے دعا فرمائیں ہمارے واسطے بخشش کی۔
پکڑ کر کھینچنے کا قصاص
محمد بن علی بن میمون، قعنبی، محمد بن ہلال، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہوئے جس وقت مسجد کے درمیان میں پہنچے تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے پیچھے کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر کھینچ لی۔ وہ چادر سخت تھی اس کھینچنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گردن (مبارک) سرخ ہو گئی اس شخص نے کہا اے محمد! میرے ان دونوں اونٹ کو غلہ دے دیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مال میں سے نہیں دیتے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں استغفار کرتا ہوں خداوند قدوس سے کبھی میں تجھ کو نہیں دوں گا جس وقت تک کہ تو اس گردن کے کھینچنے کا انتقام نہ دے۔ اس دیہاتی شخص نے کہا خدا کی قسم میں کبھی اس کا انتقام نہیں دوں گا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ یہی جملے ارشاد فرمائے اور وہ دیہاتی شخص یہی بات کہتا رہا کہ میں کبھی اس کا انتقام نہیں دوں گا۔ جس وقت ہم نے دیہاتی شخص کی یہ بات سنی تو ہم لوگ دوڑ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں اس کو قسم دیتا ہوں جو میری بات سنے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ رخصت ہو جس وقت تک کہ میں اجازت نہ دے دوں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ تم اس شخص کے ایک اونٹ پر جو لاد دو اور ایک اونٹ کے اوپر کھجور لاد دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا اب روانہ ہو جاؤ۔
بادشاہوں سے قصاص لینا
مومل بن ہشام، اسماعیل بن ابراہیم، ابو مسعود سعید بن ایاس جریری، ابو نضرۃ، ابو فراس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ذات (مبارک) سے انتقام دلواتے تھے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو جہم بن خذیفہ کو صدقہ وصول کرنے کے واسطے بھیجا۔ ایک شخص نے ان سے لڑائی کی صدقہ دینے میں۔ حضرت ابو جہم نے اس شخص کو مارا وہ شخص (کہ جس کو ابو جہم نے مارا تھا) خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آیا اور اس کے متعلقین بھی آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کا قصاص دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس قدر اس قدر لے لو لیکن وہ لوگ اس بات پر رضامند نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا اب تم اس قدر لے لو۔ جب وہ لوگ رضامند ہوئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں خطبہ دوں گا لوگوں کے سامنے اور میں ان کو تمہارے رضامند ہونے کی اطلاع دوں گا۔ انہوں نے عرض کیا اچھا! جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا تو فرمایا یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے میں نے ان لوگوں سے اس قدر مال دینے کے واسطے کہا وہ رضامند ہو گئے اس پر ان لوگوں نے کہا ہم لوگ رضامند نہیں ہوئے چنانچہ مہاجرین نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ٹھہر جاؤ وہ لوگ ٹھہر گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو بلایا اور فرمایا تم رضامند نہیں ہوئے ؟ ان لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! راضی ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو خطبہ دیتا ہوں اور میں لوگوں کو تم لوگوں کی خوشنودی کی اطلاع دیتا ہوں انہوں نے کہا۔ اچھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ پڑھا اور ان سے دریافت کیا تم رضامند ہو گئے انہوں نے کہا جی ہاں۔
تلوار کے علاوہ دوسری چیز سے قصاص لینے کے بارے میں
اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ہشام بن زید، انس سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو دیکھا وہ کنگن پہنے ہوئے ہے اس نے اس لڑکی کو پتھر سے مار ڈالا (اور مرنے والی لڑکی کے کنگن اتار لیے ) پھر لوگ اس لڑکی کو خدمت نبوی میں لے کر حاضر ہوئے اور اس میں معمولی سی جان باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھ کو فلاں نے مارا ہے ؟ اس نے اشارہ سے عرض کیا نہیں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے کا نام لیا پھر اس نے اشارہ سے کہا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس (مذکورہ) یہودی شخص کا نام لیا تو اس نے اشارہ سے کہا جی ہاں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس یہودی شخص کو بلوایا اور حکم فرمایا تو وہ قتل کیا گیا دو پتھروں سے۔
٭٭ محمد بن العلاء، ابو خالد، اسماعیل، قیس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خشعم کی قوم کی جانب چھوٹا لشکر بھیجا وہ لوگ کفار کے ملک میں ٹھہرے انہوں نے (دشمنوں سے پناہ لی اور سجدہ کر کے (یعنی ان لوگوں نے خود کو کافر ظاہر کرنے کے واسطے سجدے کیے تاکہ وہ لوگ ان کو بھی کافر سمجھیں ) پس کفار نے ان کو قتل کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا ان کفار کو آدھی دیت دی جائے اس لیے کہ مسلمانوں کا بھی قصور تھا کہ وہ کس وجہ سے کفار کے ملک میں ٹھہرے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مسلمان مشرک کے ساتھ ہو تو میں اس مسلمان کا جوابدہ نہیں ہوں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دیکھو مسلمان اور کافر اس قدر دور رہیں کہ ایک دوسرے کی آگ دکھلائی نہ دے۔
آیت کریمہ کی تفسیر
حارث بن مسکین، سفیان، عمرو، مجاہد، ابن عباس سے روایت ہے کہ قوم بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا لیکن دیت دینے کے حکم نہیں تھا تب خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (ترجمہ) یعنی لازم کر دیا گیا تم پر ان لوگوں کا بدلہ جو کہ مارے جائیں آزاد شخص آزاد کے عوض اور غلام غلام کے عوض اور عورت عورت کے عوض پھر جس کو معاف ہو گیا اس کے بھائی کی جانب سے کچھ تو ایک معاف کرنے والے دستور پر چلے اور جس کو معاف ہوا تو وہ اچھی طرح سے دیت ادا کرے اور قاتل دیت اچھی طرح ادا کرے یہ تخفیف ہے تمہارے پروردگار کی جانب سے اور رحمت ہے کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے ان میں بدلہ ہی کا حکم تھا دیت کا حکم نہیں تھا۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، علی بن حفص، ورقاء، عمرو، مجاہد سے روایت ہے کہ خداوند قدوس نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم پر فرض قرار دیا گیا انتقام ان لوگوں کا جو کہ مارے گئے آخر تک اور نبی اسرائیل میں قصاص تو تھا لیکن دیت نہیں تھی خداوند قدوس نے دیت کا حکم نازل فرمایا اور اس امت کے واسطے تخفیف کی بنی اسرائیل سے۔
قصاص سے معاف کرنے کے حکم سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرحمن، عبد اللہ، ابن بکر بن عبداللہ مزنی، عطاء بن ابو میمونہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت قصاص کا ایک مقدمہ پیش ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا معاف کر دینے کا مگر یہ حکم وجوبی نہ تھا بلکہ ترغیب دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عفو کی۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی و بہز بن اسد و عفان بن مسلم، عبداللہ بن بکر مزنی، عطاء بن ابی میمونہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں جس وقت قصاص کا مقدمہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معافی کا حکم فرماتے (یعنی فضیلت بیان فرماتے اور مقتول کے ورثہ کو خون معاف کرنے کی ترغیب دیتے )
کیا قاتل سے دیت وصول کی جائے جس وقت مقتول کا وارث خون معاف کر دے ؟
محمد بن عبدالرحمن بن اشعث، ابو مسہر، اسماعیل، ابن عبداللہ بن سماعۃ، الاوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اس کے وارث کو اختیار ہے یا بدلہ اور انتقام یا ہدیہ وصول کرے۔
٭٭ حضرت ابو ہریرہ سے ایسی ہی دوسری روایت ہے۔
٭٭ حضرت ابو سلمہ سے مرسلاً ایسی ہی روایت ہے۔
خواتین کے خون معاف کرنا
اسحاق بن ابراہیم، ولید، الاوزاعی، حصن، ابو سلمہ، حسین بن حریث، ولید، الاوزاعی، حصن، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مقتول کے وارث کو معاف کرنا چاہیے ان وارثوں کو جو کہ نزدیک کا رشتہ رکھتے ہیں پھر جو ان سے نزدیک ہوں اگرچہ عورت ہی ہو۔
جو پتھر یا کوڑے سے مارا جائے
ہلال بن العلاء بن ہلال، سعید بن سلیمان، سلیمان بن کثیر، عمرو بن دینار، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ہنگامہ کے دوران قتل کر دیا جائے یا تیروں اور کوڑوں کی مار سے جو لوگوں کے درمیان ہونے لگے اس سے مارا جائے یا جو شخص لکڑی (کی چوٹ) سے مارا جائے تو اس کی دیت دلوائی جائے گی جس طریقہ سے کہ قتل خطاء میں دیت دلوائی جاتی ہے اور جو شخص قصداً قتل کیا جائے تو اس میں قصاص واجب ہے اب جو شخص قصاص کو روکے گا تو اس پر لعنت ہے خداوند قدوس کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی اس کا فرض اور نفل کچھ قبول نہیں ہو گا۔
٭٭ محمد بن معمر، محمد بن کثیر، سلیمان بن کثیر، عمرو بن دینار، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہنگامہ کے دوران مارا جائے یا تیروں اور کوڑوں کی یلغار سے مارا جائے جو لوگوں میں ہونے لگے اس سے ہلاک ہو یا لکڑی سے مارا جائے تو اس کی دیت دلائی جائے گی جیسے کہ قتل خطاء میں دیت لائی جاتی ہے اور جو قصداً مارا جائے تو اس میں قصاص لازم ہو گا اور جو شخص قصاص روکے تو اس پر لعنت ہے۔
شبہ عمد کی دیت کیا ہو گی؟
محمد بن بشار، عبدالرحمن، شعبہ، ایوب سختیانی، قاسم بن ربیعۃ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مارا جائے خطاء سے یعنی شبہ عمد کے طور سے کوڑے یا لکڑی سے تو اس کی دیت سو اونٹ ہیں چالیس ان میں سے گابھن (یعنی حاملہ) ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، شعبہ، ایوب سختیانی، قاسم بن ربیعۃ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مارا جائے خطاء سے یعنی شبہ عمد کے طور سے کوڑے یا لکڑی سے تو اس کی دیت سو اونٹ ہیں چالیس ان میں سے گابھن (یعنی حاملہ) ہوں۔
سابقہ حدیث میں خالد الخدا کے متعلق اختلاف
محمد بن بشار، عبدالرحمن، شعبہ، ایوب سختیانی، قاسم بن ربیعۃ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مارا جائے خطاء سے یعنی شبہ عمد کے طور سے کوڑے یا لکڑی سے تو اس کی دیت سو اونٹ ہیں چالیس ان میں سے گابھن (یعنی حاملہ) ہوں۔
٭٭ محمد بن کامل، ہشیم، خالد، قاسم بن ربیعۃ، عقبہ بن اوس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس روز مکہ مکرمہ فتح کیا اس روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگاہ اور باخبر ہو جاؤ جو کوئی خطاء عمد سے کوڑے لکڑی پتھر سے مارا جائے تو اس میں (دیت) ایک سو اونٹ ہیں چالیس اونٹ ان میں سے (عمر کے اعتبار سے ) ثنی ہوں اور تمام کے تمام (صحت کے اعتبار سے ) وزن اور بوجھ لادنے کے لائق ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، ابن ابو عدی، خالد، قاسم، عقبہ بن اوس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قتل خطاء میں ایک سو اونٹ ہیں دیت مغلظ چالیس ان میں سے حاملہ ہوں۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابن جدعان، قاسم بن ربیعۃ، ابن عمر سے روایت ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ کی سیڑھی پر کھڑے ہوئے اور خداوند قدوس کی حمد فرمائی اور اس کی ثناء بیان کی اور فرمایا اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے اپنا وعدہ سچا فرمایا اور اپنے بندوں کی مد د فرمائی اور فوجوں کی تنہا خود ہی بھگا دیا باخبر ہو جاؤ کہ جو شخص خطاء عمد سے مارا جائے کوڑے یا لکڑی (وغیرہ) سے جو قتل عمد کے مشابہ ہے اس میں سو اونٹ ہیں دیت مغلظ ہے چالیس ان میں سے حاملہ ہوں (مراد اونٹ سے اونٹنی ہیں )
٭٭ ترجمہ سابق حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ احمد بن سلیمان، یزید بن ہارون، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خطاء سے مارا جائے اس کی دیت ایک سو اونٹ ہیں تیس اونٹنیاں ہوں چار سال کی اور دس اونٹ ہوں تین تین سال کے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی قیمت لگاتے تھے گاؤں والوں پر چار سو دینار یا اتنی ہی قیمت چاندی اور قیمت لگاتے تھے اونٹ والوں پر جس وقت اونٹ گراں ہوتے تو قیمت بھی زیادہ ہوتی جس وقت سستے ہوتے تو قیمت بھی کم ہوتی جس طریقہ سے وقت ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ان اونٹوں کی قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک ہوئی یا اتنی ہی قیمت اور مالیت کی چاندی اور حکم فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گائے والوں پر دو سو گائے دینے کا اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں دینے کا اور حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت کا مال تقسیم کیا جائے گا مقتول کے ورثاء کے مطابق فرائض اللہ تعالیٰ کے جو ذوی الفروض سے بچے گا وہ عصبہ کو ملے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ عورت کی جانب سے وہ لوگ دیت ادا کریں جو کہ اس کے عصبات ہوں اور عورت کی دیت سے ان کو نہیں ملے گا لیکن جو اس کے ورثاء سے بچ جائے (یعنی ذوی الفروض سے ) اور عورت قتل کر دی جائے تو اس کی دیت اس کے ورثاء کو ملے گی اور یہی لوگ اس کے قاتل سے قصاص لیں (اگر ان کا دل چاہے )۔
قتل خطاء کی دیت سے متعلق
علی بن سعید بن مسروق، یحیی بن زکریا بن ابو زائدۃ، حجاج، زید بن جبیر، خشف بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا قتل خطاء کی دیت میں بیس اونٹنی ہیں دوسرے سال میں لگی ہوئی اور بیس اونٹ ہیں دوسرے سال میں لگے ہوئے اور بیس اونٹنیاں تیسرے سال میں لگی ہوئی اور بیس اونٹنیاں پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس اونٹنیاں چوتھے سال میں لگی ہوئی ادا کرنے کا۔
چاندی کی دیت سے متعلق
محمد بن مثنی، معاذ بن ہانی، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، ابو داؤد، معاذ بن ہانی، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک شخص کو دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں قتل کر ڈالا اس کی دیت بارہ ہزار مقرر فرمائی اور فرمایا خداوند قدوس اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو مال دار کر دیا ہے اپنے فضل سے دیت لینے میں۔
٭٭ محمد بن میمون، سفیان، عمرو، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارہ ہزار درہم کا دیت میں حکم فرمایا۔
عورت کی دیت سے متعلق
عیسیٰ بن یونس، ضمرۃ، اسماعیل بن عیاش، ابن جریج، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عورت کی دیت مرد کے برابر ہے ایک تہائی دیت تک پھر اس سے زیادہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے نصف ہے۔
کافر کی دیت سے متعلق حدیث
عمرو بن علی، عبدالرحمن، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کافر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہے۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، اسامۃ بن زید، عمرو بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کافر کی دیت مسلمان کے نصف ہے یعنی مسلمان سے آدھی ہے۔
مکاتب کی دیت سے متعلق
محمد بن مثنی، وکیع، علی بن مبارک، یحیی عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکاتب کو اگر قتل کر دیا جائے تو جس قدر حصہ وہ بدل کتابت کا ادا کر چکا ہے اس کی دیت آزاد شخص کے برابر ادا کرنا ہو گی۔
٭٭ محمد بن عبید اللہ بن یزید، عثمان بن عبدالرحمن طائفی، معاویہ، یحیی بن ابو کثیر، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مکاتب میں جس قدر وہ آزاد ہو گیا آزاد کے برابر دیت ادا کرنے کا۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یعلی، حجاج الصواف، یحیی، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا مکاتب میں کہ اس کی دیت دی جائے جس قدر وہ بدل کتابت میں ادا کر چکا ہے آزاد کے مطابق اور باقی میں غلام کے موافق۔
٭٭ محمد بن عیسیٰ بن نقاش، یزید یعنی ابن ہارون، حماد، قتادۃ، خلاس، علی و ایوب، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکاتب آزاد ہو گا کہ جس قدر اس نے ادا کیا اور اس پر حد قائم ہو گی جس قدر وہ آزاد ہو گا اور اس سے مال میں ورثہ کو ترکہ ملے گا جتنا کہ وہ آزاد ہوا۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، سعید بن عمرو الاشعثی، حماد بن زید، ایوب، عکرمۃ و یحیی بن ابو کثیر، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک مکاتب دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں قتل کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا جتنا وہ آزاد ہوا ہے اسی قدر دیت آزاد شخص کے برابر ادا کی جائے باقی اس کی دیت غلام کے مثل دی جائے۔
عورت کے پیٹ کے بچہ کی دیت
یعقوب بن ابراہیم و ابراہیم بن یونس بن محمد، عبید اللہ بن موسی، یوسف بن صہیب، عبداللہ بن بریدہ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مار دیا (وہ عورت حمل سے تھی اور) اس کا حمل گر گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں پچاس بکریاں دلوائیں اور اس روز سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پتھر مارنے سے منع فرمایا۔
٭٭ احمد بن یحیی، ابو نعیم، یوسف بن صہیب، عبداللہ بن بریرہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مارا اس کا حمل گر گیا پھر یہ مقدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بچہ کی دیت میں پانچ سو بکریاں دلوائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس روز سے پتھر مارنے کی ممانعت فرمائی۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ راوی کا وہم ہے اور صحیح سو بکریاں ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سو بکریاں دیت میں دلوائی۔
٭٭ احمد بن سلیمان، یزید، عبداللہ بن بریرہ، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا ایک شخص کو خذف کرتے ہوئے تو انہوں نے اس شخص کو منع فرمایا اور کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے منع فرماتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو برا سمجھتے تھے۔ خذف کیا ہے ؟ شریعت کی اصطلاح میں خذف انگلی سے پتھر یا کنکری مارنے کو کہتے ہیں یا خذف لکڑی میں پتھر مارنے کو کہتے ہیں۔
اگر آنکھ سے دکھلائی نہیں دیتا ہو لیکن وہ اپنی جگہ قائم ہو اس کو کوئی شخص اکھاڑ دے
احمد بن ابراہیم بن محمد، ابن عائذ، ہیثم بن حمید، العلاء، ابن حارث، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا جو آنکھ نابینا ہو لیکن اپنی جگہ قائم ہو پھر وہ نکالی جائے تو اس میں آنکھ کی دیت تہائی دینی ہو گی اسی طریقہ سے جو ہاتھ شل ہو گیا ہو اس کے کاٹنے میں ہاتھ کی تہائی دیت دینا ہو گی اسی طریقہ سے جو دانت سیاہ پڑ گیا ہو اس کے نکالنے میں تہائی دیت ادا کرنا ہو گی۔
دانتوں کی دیت کے متعلق
محمد بن معاویہ، عبد، حسین، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دانتوں میں پانچ اونٹ ہیں (یعنی ایک اونٹ کے عوض پانچ اونٹ دینا ضروری ہے )
٭٭ حسین بن منصور، حفص بن عبدالرحمن، سعید بن ابو عروبۃ، مطر، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام دانت برابر ہیں ہر ایک میں پانچ اونٹ ہیں۔
انگلیوں کی دیت سے متعلق
ابو اشعث، خالد، سعید، قتادۃ، مسروق بن اوس، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انگلیوں میں (دیت) دس دس اونٹ ہیں (یعنی ہر ایک انگلی میں دس اونٹ ادا کرنا ہوں گے جو کہ مکمل دیت کا دسواں جزو ہے )
٭٭ عمرو بن علی، یزید بن زریع، سعید، غالب تمار، مسروق بن اوس، ابو موسیٰ الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انگلیاں برابر ہیں ہر ایک میں دس اونٹ ہیں۔
٭٭ حسین بن منصور، حفص، ابن عبدالرحمن بلخی، سعید، غالب تمار، حمید بن ہلال، مسروق بن اوس، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا انگلیاں تمام برابر ہیں ہر ایک میں (دیت) دس دس اونٹ ہیں۔
٭٭ حسین بن منصور، عبداللہ بن نمیر، یحیی بن سعید، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو پایا جو کہ حضرت عمرو بن حزام کے پاس موجود تھی انہوں نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو لکھوایا تھا ان کے لیے اس میں لکھا تھا انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، شعبہ، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اور یہ برابر ہیں یعنی انگوٹھا اور چھنگلی انگلی۔
٭٭ نصر بن علی، یزید بن زریع، شعبہ، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ اور یہ برابر ہیں یعنی انگوٹھا اور چھنگلی انگلی۔
٭٭ عمرو بن علی، یزید بن زریع، سعید، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس نے فرمایا انگلیاں کاٹنے میں دس دس اونٹ ہیں۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، حسین معلم، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں۔
٭٭ عبد اللہ بن ہیثم، حجاج، ہمام، حسین معلم و ابن جریج، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی پشت مبارک خانہ کعبہ سے لگائے ہوئے تھے کہ انگلیاں برابر ہیں۔
ہڈی تک پہنچ جانے والا زخم
اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، حسین المعلم، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو خطبہ میں ارشاد فرمایا ہر ایک زخم جو ہڈی کھول دے اس میں پانچ اونٹ ہیں۔
عمرو بن حزم کی حدیث اور راویوں کا اختلاف
عمرو بن منصور، حکم بن موسی، یحیی بن حمزۃ، سلیمان بن داؤد، زہری، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک کتاب تحریر فرمائی اہل یمن کے واسطے اس میں فرض اور سنت اور دیت کی حالت تحریر تھی وہ تحریر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمرو بن حزم کے ہمراہ بھیجی وہ پڑھی گئی اہل یمن پر اس میں تحریر تھا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے جو کہ خداوند قدوس کے نبی ہیں رحمت نازل ہو خداوند قدوس کی ان پر اور سلام شرجیل بن عبد کلال اور نعیم بن عبدکلال اور حارث بن عبدکلال کو معلوم ہو جو کہ رئیس ہیں قبیلہ ذی رعین اور معافر اور ہمدان کے اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ جو شخص مسلمان کو بلا وجہ قتل کر دے اور گواہان سے اس پر خون ثابت ہو (یا وہ شخص اقرار کرے ) تو اس سے انتقام لیا جائے گا لیکن جس وقت مقتول کے ورثاء معاف کر دیں معلوم ہو کہ جان کی دیت سو اونٹ ہیں اور ناک جس وقت پوری کاٹی جائے پوری دیت ہے (یعنی سو اونٹ ہیں ) اس طریقہ سے زبان سے اور ہونٹوں اور فوطوں اور شرم گاہ اور پشت اور دو آنکھ کی پوری دیت ہے اور ایک پاؤں میں آدھی دیت واجب ہے لیکن دونوں پاؤں میں پوری دیت ہے اور جو زخم دماغ کے مغز تک پہنچ جائے اس میں آدھی دیت (اور ایک نسخہ میں ہے کہ تہائی دیت ہے ) اور جو زخم پیٹ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے اور جس زخم سے ہڈی ہٹ جائے اس میں پندرہ اونٹ ہیں اور ہر ایک انگلی میں ہاتھ یا پاؤں کی دس اونٹ ہیں اور دانت میں پانچ اونٹ دیت ہے اور جس زخم سے ہڈی کھل جائے اس میں پانچ اونٹ دیت ہے اور مرد کو قتل کیا جائے گا عورت کے عوض اور سونے والے لوگوں (یعنی سنار وغیرہ پر) ایک ہزار دینار دیت ہے۔
٭٭ ہیثم بن مروان بن ہیثم بن عمران عنسی، محمد بن بکار بن بلال، یحیی، سلیمان بن ارقم، زہری، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ترجمہ سابق کے مطابق ہے اور اس روایت میں اس طرح ہے کہ ایک آنکھ میں آدھی دیت ہے اور ایک ہاتھ میں آدھی دیت ہے اور ایک پاؤں میں آدھی دیت ہے۔ امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت صحیح کے زیادہ نزدیک ہے یعنی یہ روایت درست معلوم ہوتی ہے اور اس کی سند میں سلیمان بن ارقم راوی ہیں جو کہ متروک الحدیث ہے۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کتاب کو پڑھا (یعنی ان کی تحریر پڑھی) جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر بن حزم کے واسطے تحریر فرمائی تھی جس وقت ان کو مقرر فرمایا تھا نجران والوں پر۔ وہ کتاب حضرت ابو بکر بن حزم کے پاس تھا اس میں یہ تحریر تھا کہ یہ بیان ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے کہ اے اہل ایمان! تم لوگ اقرار کو مکمل کرو (یعنی معاہدہ کی پابندی کرو) اس کے بعد چند آیات تحریر فرمائی تک پھر تحریر فرمایا کہ یہ تحریر زخموں کی ہے (یعنی زخم کی دیت سے متعلق) اور جان میں ایک سو اونٹ ہیں جس طریقہ سے اوپر گزرا۔
٭٭ احمد بن عبدالواحد، مروان بن محمد، سعید، ابن عبدالعزیز، زہری سے روایت ہے کہ میرے پاس حضرت ابو بکر بن حزم ایک کتاب لے کر آئے جو کہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے تھی یہ ایک بیان ہے خدا اور اس کے رسول کی جانب سے اے اہل ایمان! تم لوگ اقرار کو پورا کرو (یعنی معاہدات کی پابندی کرو) پھر اس کے بعد چند آیات کریمہ تلاوت فرمائیں پھر فرمایا کہ جان میں ایک سو اونٹ ہیں اور آنکھ میں پچاس اونٹ ہیں اور زخم مغز تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے اور جو پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے اس میں ایک تہائی دیت ہے اور جس سے ہڈی جگہ سے ہل جائے اس میں پندرہ اونٹ ہیں اور انگلیوں میں (دیت) دس دس اونٹ ہیں اور دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ دیت ہے اور جس زخم سے ہڈی نظر آنے لگے اس میں دیت پانچ اونٹ ہیں (یعنی زخم ایسا سخت لگ جائے تو اس کی دیت پانچ اونٹ ہیں )
٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر بن حزم میرے پاس ایک تحریر لے کر آئے جو کہ چمڑے کی ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے یہ بیان ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے اے ایمان والو پورا کرو اقرار کو اس کے بعد چند آیات کریمہ تلاوت فرمائیں پھر فرمایا جان میں سو اونٹ ہیں اور آنکھ میں پچاس اونٹ ہیں اور ہاتھ میں پچاس اونٹ ہیں اور پاؤں میں پچاس اونٹ ہیں اور جو زخم مغز تک پہنچ جائے اس میں تہائی دیت ہے اور اگر (زخم) پیٹ کے اند تک پہنچ جائے تو اس میں تہائی دیت ہے اور (جس زخم یا چوٹ سے ) ہڈی جگہ سے ہل جائے اس میں دیت پندرہ اونٹ ہیں اور انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں اور دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ دیت ہے اور جس زخم سے ہڈی نظر آنے لگے اس میں پانچ اونٹ ہیں۔
٭٭ عمرو بن منصور، مسلم بن ابراہیم، ابان، یحیی، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازہ میں آنکھ لگا کر جھانکنے لگا جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو دیکھا (کہ وہ اس طرح سے بلا اجازت جھانک رہا ہے ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لکڑی یا لوہا لے کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالنے کا ارادہ فرما لیا جب اس نے یہ دیکھا تو اپنی آنکھ ہٹا لی اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تو اسی طرح سے اپنی آنکھ اسی جگہ لگائے رکھتا تو میں تیری آنکھ پھوڑ ڈالتا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازہ میں ایک آدمی نے سوراخ میں سے جھانکا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک لکڑی تھی کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر کھجایا کرتے تھے جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ تو مجھ کو دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھ میں ایک لکڑی گھسا دیتا۔ کان اسی ضرورت سے بنایا گیا ہے تاکہ آنکھ سے جھانکنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
جو کوئی اپنا انتقام لے لے اور وہ بادشاہ (یا شرعی حاکم) سے نہ کہے
محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلا اجازت کسی کے مکان میں جھانکے پھر گھر کا مالک اس کی آنکھ پھوڑ ڈالے تو جھانکنے والا نہ تو (اس سزا کی وجہ سے ) دیت وصول کر سکے گا اور نہ ہی انتقام لے سکے گا۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر ایک شخص تیری اجازت کے بغیر تجھ کو جھانکے اور تو اس کے پتھر مار دے اور اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کسی قسم کا حرج نہیں ہے یا تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن مصعب، محمد بن مبارک، عبدالعزیز بن محمد، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران مروان کا لڑکا ان کے سامنے سے نکلنے لگا انہوں نے منع فرمایا اس نے نہیں مانا حضرت ابو سعید نے اس کو مارا اور وہ روتا مروان کے پاس پہنچا۔ مروان نے حضرت ابو سعید سے کہا تم نے اپنے بھتیجے کو کس وجہ سے مارا؟ حضرت ابو سعید نے کہا میں نے اس کو نہیں مارا ہے بلکہ شیطان کا مارا ہے۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو اور اس کے سامنے سے کوئی شخص گزرنا چاہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کو روک دے اور منع کر دے اگر وہ نہ مانے تو اس سے جنگ کرے اس لیے کہ وہ شیطان ہے۔
ان احادیث کا تذکرہ جو کہ سنن کبری میں موجود نہیں ہیں لیکن مجتبی میں اضافہ کی گئی ہیں اس آیت کریمہ کی تفسیر سے متعلق
ابو عبدالرحمن، محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، منصور، سعید بن جبیر، عبدالرحمن، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت عبدالرحمن بن ابزی نے حکم فرمایا کہ تم حضرت ابن عباس سے ان آیات کریمہ کے بارے میں دریافت کرو ان میں سے ایک آیت کریمہ (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ ) 4۔ النساء:93)ہے۔ چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے اور دوسری آیت کریمہ (کہ جس کے بارے میں حضرت ابن عباس سے معلوم کرنے کے بارے میں حضرت عبدالرحمن بن ابزی نے حکم فرمایا تھا وہ ہے (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِاِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ) 25۔ الفرقان:68) تو اس پر انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
٭٭ ازہر بن جمیل، خالد بن حارث، شعبہ، مغیرۃ بن نعمان، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ اہل کوفہ نے آیت کریمہ (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ ) 4۔ النساء:93) کے متعلق اختلاف کیا ہے (یعنی یہ آیت کریمہ منسوخ ہے یا نہیں ؟) تو میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ تو آخر میں نازل ہوئی ہے اور اس کو کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، قاسم بن ابی بزۃ، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا جو شخص کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کی توبہ قبول ہے یا نہیں تو انہوں نے کہا نہیں اس پر میں نے سورہ فرقان آیت تلاوت کی (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ)25۔ الفرقان:68)
٭٭ قتیبہ، سفیان، عمار دہنی، سالم بن ابی جعد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے دریافت کیا کہ اگر ایک شخص مسلمان کو قصداً قتل کر دے تو پھر توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے کیا اس کی توبہ قبول ہو گی حضرت ابن عباس نے فرمایا اس کی توبہ کس طرح قبول ہو گی میں نے تمہارے نبی سے سنا خدا تعالیٰ ان پر رحمت اور سلام نازل فرمائے کہ (قیامت کے دن) مقتول شخص قاتل کو پکڑ کر لائے گا اور اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا (اے میرے پروردگار) اس نے مجھ کو قتل کیا ہے پھر حضرت ابن عباس نے فرمایا یہ حکم خداوند قدوس نے نازل فرمایا اور اس کو منسوخ نہیں فرمایا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، شعبہ، عبید اللہ بن ابو بکر، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ ناحق قتل کرنا۔ جھوٹ بولنا۔
٭٭ عبدۃ بن عبدالرحیم، ابن شمیل، شعبہ، فراس، شعبی، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں خداوند قدوس کے برابر دوسرے کو کرنا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ جھوٹی قسم کھانا۔
٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق ، فضیل بن غزوان، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بندہ زنا کا ارتکاب نہیں کرتا جس وقت وہ ایمان رکھتا ہو اور شراب نہیں پیتا جس وقت وہ ایمان رکھتا ہو اور چوری نہیں کرتا جس وقت وہ ایمان رکھتا ہے اور خون نہیں کرتا جس وقت وہ ایمان رکھتا ہو۔
چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ
چوری کس قدر سخت گناہ ہے ؟
ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، ابن عجلان، قعقاع، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت زانی زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے ساتھ ایمان نہیں رہتا اسی طرح سے جو چوری کا ارتکاب کرتا ہے تو ایمان اس کے ساتھ نہیں رہتا اور جس وقت (شرابی) شراب پیتا ہے تو اس وقت ایمان نہیں ہوتا اور جس وقت کوئی شخص لوٹ مار کرتا ہے کہ جس کی جانب لوگ دیکھیں تو وہ ایمان دار نہیں رہتا۔
٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، شعبہ، سلیمان، احمد بن سیار، عبداللہ بن عثمان، ابو حمزۃ، الاعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت زنا کرنے والا شخص زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے ساتھ ایمان نہیں رہتا اسی طریقہ سے چور چوری کرتا ہے تو ایمان اس کے ساتھ نہیں رہتا اور جو شراب پیتا ہے تو اس وقت ایمان ساتھ نہیں ہوتا۔
٭٭ محمد بن یحیی مروزی ابو علی، عبداللہ بن عثمان، ابو حمزۃ، یزید، ابن زیاد، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس وقت کوئی شخص زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ شخص مومن نہیں (باقی) رہتا اور چوتھی ایک بات یہ بیان فرمائی جس کے بارے میں راوی کا کہنا ہے کہ میں بھول گیا جس وقت یہ کام کہے تو اس نے اسلام کو اپنے اوپر سے اتار ڈالا (یعنی ایسے شخص سے اسلام کا ذمہ بری ہے ) لیکن اگر وہ توبہ کرے تو خداوند قدوس معاف فرما دے گا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، ابو معاویہ، الاعمش، احمد بن حرب، ابو معاویہ، الاعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس چور پر لعنت بھیجے وہ انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہ رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے (یعنی معمولی سے مال کے واسطے ہاتھ کا کٹ جانا قبول اور منظور کرتا ہے جو کہ خلاف عقل ہے )۔
چور سے چوری کا اقرار کرانے کے واسطے اس کے ساتھ مار پیٹ کرنا یا اس کو قید میں ڈالنا
اسحاق بن ابراہیم، بقیہ بن ولید، صفوان بن عمرو، ازہر بن عبداللہ حرازی، نعمان بن بشیر کے پاس ایک مرتبہ قبیلہ کلامی کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کپڑا بننے والوں نے ہمارا سامان چوری کر لیا ہے چنانچہ حضرت نعمان نے ان کپڑا بننے والوں کو کچھ دن تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا وہ قبیلہ کلاعی کے لوگ حضرت نعمان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم نے ان کپڑا بننے والوں کو چھوڑ دیا نہ تو تم نے ان کی جانچ کی نہ تم نے ان کو مارا۔ حضرت نعمان نے فرمایا تم کیا چاہتے ہو وہ کہہ لو تو میں ان کو ماروں لیکن اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکل آیا تو بہتر ہے ورنہ میں اسی مقدار میں تمہاری پشت پر ماروں گا۔ انہوں نے کہا یہ تمہارا حکم ہے۔ حضرت نعمان نے کہا یہ اللہ کا حکم ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ہے۔
٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، ابو اسامۃ، ابن مبارک، معمر، بہز بن حکیم نے اپنے والد سے روایت کی انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ لوگوں کو اپنے گمان پر قید کر دیا پھر ان کو چھوڑ دیا۔
٭٭ علی بن سعید بن مسروق، عبداللہ بن مبارک، معمر، بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو قید کر لیا اپنے گمان پر اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو چھوڑ دیا۔
چوری کرنے والے کو تعلیم دینا
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، حماد بن سلمہ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، ابو منذر، ابو ذر، ابو امیہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک چور حاضر ہوا جو کہ اقرار کرتا تھا لیکن اس کے پاس دولت نہیں ملی (یعنی چوری کا مال اس کے پاس موجود نہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہو گی۔ اس نے عرض کیا نہیں ! میں نے ہی چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو لے جا اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو پھر لے کر آنا۔ چنانچہ اس کو لوگ لے گئے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا پھر لے کر آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو کہ میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں توبہ کرتا ہوں اس نے کہا میں معافی چاہتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا مانگی کہ یا اللہ! اس کو معاف فرما دے۔
جس وقت چور حاکم تک پہنچ جائے پھر مال کا مالک اس کا جرم معاف کر دے اور اس حدیث میں اختلاف
ہلال بن العلاء، وہ اپنے والد سے ، یزید بن زریع، سعید، قتادۃ، عطاء، صفوان بن امیۃ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان کی چادر چوری کی۔ وہ چور کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ مضمون تحریر کرنے والے نے کہا یا رسول اللہ! میں نے اس کا جرم معاف کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو وہب! ہم لوگوں کے پاس آنے سے قبل کس وجہ سے تو نے اس کو معاف نہیں کر دیا تھا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس (چور) کا ہاتھ کٹوایا۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن حاتم بن نعیم، حبان، عبد اللہ، الاوزاعی، عطاء بن ابو رباح سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کپڑے کی چوری کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔ جس شخص کا کپڑا تھا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کپڑا میں نے اس کو دے دیا ہے (یعنی اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر چوری کی حد قائم نہ فرمائیں )۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے اس سے پہلے کس وجہ سے نہیں کہا؟
کونسی چیز محفوظ ہے اور کونسی غیر محفوظ (جسے چرانے پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا)
ہلال بن العلاء، حسین، زہیر، عبدالملک، ابن ابو بشیر، عکرمۃ، صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا پھر نماز ادا فرمائی پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھ لی اور سو گئے پھر چور آیا اور چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچ لی (اور وہ جاگ گئے ) انہوں نے چور کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر آئے اور کہا اس نے میری چادر چوری کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چور سے پوچھا تو نے چادر چوری کی ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو آدمیوں سے کہا کہ اس کو لے جا اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔ اس پر صفوان نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری یہ نیت نہیں تھی کہ ایک چادر کے عوض اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کام (سوچنا) پہلے کرنے کا تھا۔
٭٭ محمد بن ہشام، ابن ابو خیرۃ، فضل، ابن العلاء کوفی، اشعث، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت صفوان مسجد میں سو رہے تھے اور ان کے نیچے چادر تھی جو کہ کوئی چور لے گیا۔ حضرت صفوان جس وقت اٹھے تو چور جا چکا تھا لیکن وہ دوڑے اور انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا حضرت صفوان نے فرمایا یا رسول اللہ! میری چادر اس قابل نہیں کہ اس کے عوض ایک شخص کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ پہلے کس وجہ سے خیال نہیں کیا۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت کی سند میں راوی اشعث ضعیف راوی ہیں۔
٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم، عمرو، اسباط، سماک، حمید ابن اخت صفوان، صفوان بن امیۃ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں ایک چادر پر سو رہا تھا جو کہ تیس درہم مالیت کی تھی کہ ایک آدمی آیا اور وہ چادر (مجھ پر سے ) اچک کر لے گیا پھر وہ شخص پکڑا گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! تیس درہم کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص کا ہاتھ کاٹ رہے ہیں ؟ میں چادر اسی کو فروخت کر رہا ہوں اور اس کی قیمت اس شخص کے ذمہ ادھار کر رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر میرے پاس آنے سے قبل تم نے ایسا کس وجہ سے کیوں نہ کر لیا؟
٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم، اسد بن موسی، حماد بن سلمہ، عمرو بن دینار، طاؤس، صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ ان کی چادر ان کے سر کے نیچے سے چوری ہو گئی جس وقت وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سو رہے تھے۔ پھر وہ چور بھی پکڑا گیا۔ لوگ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ حضرت صفوان نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا ہاتھ کاٹ رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے میرے پاس لانے سے قبل اس کو کیوں نہیں چھوڑ دیا؟
٭٭ محمد بن ہاشم، ولید، ابن جریج، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم حدود کو معاف کر دو میرے پاس آنے سے قبل قبل پھر میرے پاس جو حد کا مقدمہ پیش ہوا تو اس میں تو حد لازم ہو گئی۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک عورت قبیلہ مخزوم کی لوگوں کا سامان مانگ کر لیا کرتی تھی بعد میں وہ انکار کر دیتی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ اس حدیث کا ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ عثمان بن عبد اللہ، حسن بن حماد، عمرو بن ہاشم جنبی، ابو مالک، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک عورت لوگوں سے زیور ادھار مانگا کرتی تھی پھر ان کو واپس نہ لوٹاتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو توبہ کرنا چاہیے اللہ اور رسول سے اور اس کو چاہیے کہ جو اس نے لوگوں سے لیا ہے وہ واپس کرے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اٹھو اے بلال! اور اس کو پکڑو اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔
٭٭ محمد بن خلیل، شعیب بن اسحاق ، عبید اللہ، نافع سے روایت ہے کہ ایک عورت دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں زیور مانگا کرتی تھی اس نے زیور مانگا اور اس کو رکھ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ عورت توبہ کرے اور جو کچھ اس کے پاس (دوسروں کی امانت ہے ) وہ لوگوں کو ادا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی مرتبہ اسی طرح سے ارشاد فرمایا لیکن اس عورت نے نہیں مانا آخر کار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ محمد بن معدان بن عیسی، حسن بن اعین، معقل، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ (قبیلہ) بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی۔ پھر وہ عورت ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس جا کر روپوش ہو گئی (تا کہ وہ سزا سے بچ جائے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایسا کرتی (یعنی خدانخواستہ وہ بھی چوری کا ارتکاب کرتیں ) تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالا جاتا آخر کار اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
٭٭ محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، سعید بن یزید، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے بعض آدمیوں کی زبان (معرفت) سے زیور مانگا لیکن بعد میں زیور سے انکار کر دیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
٭٭ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
زیر نظر حدیث مبارکہ میں راویوں کے اختلاف کا بیان
اسحاق بن ابراہیم، سفیان سے روایت ہے کہ (قبیلہ) بنو مخزوم کی ایک عورت سامان مانگا کرتی تھی پھر اس کا انکار کر دیا کرتی تھی۔ یہ مسئلہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش ہوا اور اس بارے میں گفتگو ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہ (بھی) ہوتیں تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا (یعنی ان کی بھی رعایت نہ ہوتی)۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب بن موسی، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے چوری کی اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر آئے لوگوں نے عرض کیا کون ایسا ہے کہ جو کہ اس کی سفارش کرے علاوہ حضرت اسامہ کے۔ آخر کار انہوں نے حضرت اسامہ سے کہا۔ حضرت اسامہ نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اسامہ قوم بنی اسرائیل اسی طریقہ سے تباہ ہوئی ان لوگوں میں جس وقت کوئی باعزت (یعنی بڑا آدمی) حد کا کام کرتا تو وہ لوگ اس کو چھوڑ دیتے اور حد نہ لگاتے۔ (یاد رکھو) اگر فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لڑکی بھی یہ کام کرتیں تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا۔
٭٭ رزق اللہ بن موسی، سفیان، ایوب بن موسی، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک چور لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ لوگوں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم کو یہ توقع نہیں تھی (یعنی کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہ بھی ہوتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کٹوا دیتا۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کون گفتگو کرے گا۔ علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لاڈلے حضرت اسامہ کے باقی روایت اوپر کی روایت جیسی ہے۔
٭٭ عمران بن بکار، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے بعض لوگوں کے ذریعہ کہ جن کو لوگ نہیں پہچانتے تھے لیکن اس عورت کو نہیں پہچانتے تھے زیور مانگا پھر اس عورت نے وہ زیور فروخت کر ڈالا اور اس کی قیمت لے لی (یعنی اپنے پاس رکھ لی) آخر کار وہ عورت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر کی گئی اس کے رشتہ داروں نے حضرت اسامہ بن زید سے سفارش کرانا چاہی حضرت اسامہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا (یعنی اس عورت کی حرکت سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سخت غصہ آ گیا) اور حضرت اسامہ گفتگو کر رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اسامہ کیا تم سفارش کرتے ہو؟ ایک حد کے سلسلہ میں حدود خداوند میں سے (یعنی تم حدود خداوندی میں دخل دیتے ہو)۔ یہ بات سن کر حضرت اسامہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے واسطے استغفار فرمائیں۔ پھر اسی شام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور خداوند قدوس کی تعریف فرمائی اس کی جیسی شان ہے پھر فرمایا حمد اور نعمت اور خداوند قدوس کی تعریف کے بعد معلوم ہو کہ تم سے پہلے لوگ تباہ ہو گئے اس وجہ سے کہ جس وقت ان لوگوں میں کوئی باعزت شخص چوری کا ارتکاب کرتا تو اس کو چھوڑ دیا کرتے اور جس وقت غریب شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دی جاتی۔ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان ہے اگر فاطمہ (دختر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چوری کرتیں تو میں ان کا ہاتھ کٹوا دیتا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ قبیلہ قریش کے لوگوں کو قبیلہ مخزوم کی عورت کی حرکت سے رنج ہوا (یعنی ان کو صدمہ اور افسوس اس وجہ سے ہوا کہ وہ عورت ان لوگوں کی برادری کی تھی) ان لوگوں نے کہا کہ اس مسئلہ میں کون شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کرے ؟ لوگوں نے (آپس میں ) کہا کہ کون شخص اس بات کی ہمت کر سکتا ہے ماسوا اسامہ کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (بے حد) لاڈلے ہیں آخر تک۔
٭٭ اس حدیث شریف کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے البتہ اس حدیث شریف میں یہ ہے کہ جس وقت حضرت اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو جھڑک دیا۔
٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں چوری کی جس وقت مکہ مکرمہ فتح ہوا تو اس عورت کو صحابہ کرام خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت اسامہ نے اس عورت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کی۔ جس وقت اسامہ نے گفتگو فرمائی تو (غصہ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم حدود خداوندی میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ اس پر حضرت اسامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے واسطے دعا فرمائیں جس وقت شام ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور باری تعالیٰ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ کیا کرتے تھے کہ جس وقت ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو تو سزا نہ دیتے پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دوں۔
٭٭ سوید، عبد اللہ، یونس، زہری، عروۃ بن زبیر سے روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا ایک عورت نے چوری کی دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں (غزوہ فتح ہونا حدیث میں فرمایا گیا ہے لیکن اس جگہ غزوہ سے مراد فتح مکہ ہے ) اس عورت کے لوگ (یعنی متعلیقن) حضرت اسامہ بن زید کے پاس سفارش کرانے کے لیے آئے آخر تک اسی طرح ہے لیکن اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور اس نے خوب توبہ کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا وہ عورت میرے پاس آتی تھی اور میں اس کے کام کو (فرمائش کو) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچا دیا کرتی تھی۔
حدود قائم کرنے کی ترغیب
سوید بن نصر، عبد اللہ، عیسیٰ بن یزید، جریر بن یزید، ابو زعۃ بن عمرو بن جریر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک حد کا جاری ہونا زمین والوں کے لیے بہتر ہے تیس روز تک بارش ہونے سے۔
٭٭ عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، یونس بن عبید جریر بن یزید، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نقل فرمایا حد قائم کرنا ایک ملک میں بہتر ہے اس ملک والوں کے واسطے چالیس رات تک بارش ہونے سے۔
کس قدر مالیت میں ہاتھ کاٹا جائے گا
عبدالحمید بن محمد، مخلد، حنظلۃ، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ڈھال کی جس کی مالیت پانچ درہم تھی اس کی چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی ابن وہب، حنظلۃ، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کی چوری کی وجہ سے کہ جس کی قیمت تین درہم تھی (حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت درست ہے )
٭٭ قتیبہ بن مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کی چوری میں جو کہ تین درہم کی مالیت کی تھی۔
٭٭ یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، اسماعیل بن امیۃ، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا کہ جس نے کہ ڈھال چوری کی تھی (صفۃ النساء نامی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک جگہ سے ) اور اس کی مالیت تین درہم تھی۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن صباح، ابو علی حنفی، ہشام، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ڈھال میں ہاتھ کاٹا حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت غلط ہے۔
٭٭ احمد بن نصر، عبداللہ بن ولید، سفیان، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے ایک ڈھال کہ جس کی مالیت پانچ درہم تھی اس کی چوری میں ہاتھ کاٹا ہے
٭٭ محمد بن مثنی، ابو داؤد، شعبہ، قتادۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں ایک شخص نے ڈھال کی چوری کی اس کی مالیت پانچ درہم لگائی گئی اور پھر ہاتھ کاٹا گیا (چور کا)۔
زہری پر راویوں کے اختلاف سے متعلق
قتیبہ، جعفر بن سلیمان، حفص بن حسان، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوتھائی دینار میں ہاتھ کاٹا ہے۔
٭٭ ہارون بن سعید، خالد بن بزار، قاسم بن مبرور، یونس، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن ڈھال کی قیمت میں یعنی تہائی دینار یا آدھا دینار یا زیادہ میں۔
٭٭ محمد بن حاتم، حبان بن موسی، عبد اللہ، یونس، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں کاٹا جائے۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروۃ و عمرۃ، عائشہ صدیقہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ، معمر، ابن شہاب، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ ، یحییٰ بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ محمدبن علاء، ابن ادریس، یحییٰ بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ قتیبہ، سفیان، یحییٰ بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ ترجمہ ان تمام احادیث کا ایک ہی ہے اور آخر حدیث میں (یہ اضافہ) ہے کہ عائشہ صدیقہ نے فرمایا بہت زمانہ نہیں گزرا (یعنی کچھ ہی عرصہ قبل) میں بھول گئی کہ چوتھائی دینار میں ہاتھ کاٹا جائے یا زیادہ میں۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن محمد بن ابو بکر، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبدالوہاب، سعید، معمر، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں یا زیادہ میں کاٹا جائے۔
٭٭ ابو بکر بن اسحاق ، قدامۃ بن محمد، مخرمۃ بن بکیر، وہ اپنے والد سے ، عثمان بن ابو ولید، عروۃ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے نہ کاٹا جائے ہاتھ لیکن ڈھال کی چوری میں یا اس کی مالیت کے برابر دوسری شے میں۔ حضرت عروہ نے کہا ڈھال چار درہم کی ہوتی ہے اور حضرت عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن چوتھائی دینار یا زیادہ میں۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، ہمام، قتادۃ، عبد اللہ، سلیمان بن یسار نے فرمایا نہ کاٹا جائے ہاتھ کا پنجہ لیکن پنجہ میں۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ چور کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا لیکن ڈھال کی چوری میں جو قیمت دار ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، عیسی، شعبی، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ درہم کی چوری میں (یعنی پانچ درہم کی مالیت میں ) ہاتھ کٹوایا۔
٭٭ محمود بن غیلان، معاویہ، سفیان، منصور، مجاہد، عطاء، ایمن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ نہیں کٹوایا چور کا لیکن ڈھال کی قیمت میں اور ڈھال کی قیمت ان دنوں ایک دینار تھی۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، اسود بن عامر، حسن بن حیی، منصور، حکم، عطاء و مجاہد، ایمن سے روایت ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ڈھال کی قیمت میں اور ڈھال کی قیمت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ایک دینار تھی یا دس درہم تھی۔
٭٭ علی بن حجر، شریک، منصور، عطاء و مجاہد، ایمن بن ام ایمن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن ڈھال کی قیمت میں اور ڈھال کی قیمت ان دنوں ایک دینار تھی۔
٭٭ قتیبہ، جریر، منصو ر، عطاء و مجاہد، ایمن سے روایت ہے کہ چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ڈھال سے کم مالیت میں۔
٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، عمرو بن شعیب، عطاء بن ابو رباح، عبداللہ بن عباس فرماتے تھے کہ ڈھال کی قیمت ان دنوں دس درہم تھی۔
٭٭ یحیی بن موسیٰ بلخی، ابن نمیر، محمد بن اسحاق ، ایوب بن موسی، ابن عباس سے اس مضمون کی روایت منقول ہے وہ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔
٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدۃ، سفیان، ابن حبیب، عرزمی، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء نے فرمایا کم سے کم جس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے ڈھال کی قیمت ہے اور وہ ان میں دس درہم تھی حضرت امام نسائی نے فرمایا ایمن جس سے ہم نے حدیث نقل کی ہے وہ صحابی نہیں لگتے اور ان سے ایک دوسری حدیث مروی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ صحابی نہیں ہے۔
٭٭ سوار بن عبداللہ بن سوار، خالد بن حارث، عبدالملک و عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق ، الازرق، عبدالملک، عطاء، ایمن سے روایت ہے کہ جو کہ ابن زبیر کے مولی تھے یا وہ زبیر کے مولی تھے اس نے سنا بیع سے اس نے حضرت کعب سے سنا انہوں نے نقل کیا کہ جو کوئی اچھی طرح سے وضو کرے پھر نماز ادا کرے ) پھر وہ اس کے بعد چار رکعات ادا کرے اور ان کو پورا کرے تو وہ رکعات ایسی ہوں گے کہ جیسے کہ شب قدر میں عبادت کی۔
٭٭ اس کا ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ خلاد بن اسلم، عبداللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ڈھال کی مالیت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں دس درہم تھی۔
اگر کوئی شخص درخت پر لگے ہوئے پھل کی چوری کر لے ؟
قتیبہ، ابو عوانۃ، عبید اللہ بن الاخنس، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کس قدر مالیت (کی چوری) میں ہاتھ کاٹا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاتھ نہ کاٹا جائے اس درخت میں جو کہ لٹکتا ہوا درخت ہو لیکن جس وقت وہ کھلیان میں رکھا جائے اور اس قدر کوئی شخص چوری کرے کہ جس کی مالیت ڈھال کی قیمت کے عوض ہو تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے اسی طریقہ سے جو جانور پہاڑ (یا میدان میں ) گھاس کھاتے ہوں ان میں ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن جس وقت وہ اپنے رہنے کی جگہ میں ہوں اور کوئی شخص ان کی چوری کرے اور ان کی مالیت ڈھال کی مالیت کے برابر ہو تو چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔
جس وقت پھل درخت سے توڑ کر کھلیان میں ہو اور کوئی شخص اس کی چوری کرے ؟
قتیبہ، لیث، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا درخت پر لٹکا ہوا پھل چوری کرنا کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ضرورت رکھتا ہو مثلاً بہت بھوکا ہو اور کچھ اس کو کھانے پینے کو ملے تو وہ ایسا پھل لے لے بشرطیکہ اس کو چھپا کر اپنے کپڑے میں نہ باندھے تو اس پر کسی قسم کی کوئی گرفت نہیں اور جو شخص اس قسم کا پھل لے کر نکل آئے تو وہ اس کا دوگنا ضمان دے دے اور اس کی سزا الگ ملے گی اور جو کوئی پھل ٹوٹنے کے بعد اس کی چوری کرے اور اس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر ڈھال کی مالیت سے کم چوری کرے تو دو گنا ضمان ادا کرے اور اس کو سزا الگ ہو گی۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث وہشام بن سعد، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک آدمی قبیلہ مزینہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہاڑ پر جو جانور چرتے ہوں ان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی شخص اس قسم کا جانور چوری کرے تو وہ شخص وہ جانور واپس کر دے اور اس جیسا ایک جانور دے اور سزا الگ پائے اور جانور کے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا لیکن جو باڑھ کے اندر ہو اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو اس میں ہاتھ کاٹا جائے اور اگر وہ ڈھال کی مالیت سے کم ہو تو وہ جانور اسی طرح سے دے اور سزا کے کوڑے کھائے (یعنی ایسا شخص کوڑے کی سزا کا مستحق ہے ) اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! درخت پر جو پھل لٹکے ہوئے ہوں اس میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسی مقدار میں پھل اور ادا کرے اور وہ بھی واپس کرے اور اس کی سزا برداشت کرے اور پھل کے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ لیکن جو کھلیان اس میں رکھا گیا ہو درخت سے توڑ کر اس کو اگر اس قدر چوری کرے کہ اس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو جائے تو ہاتھ کاٹا جائے اور اگر کم چوری کرے تو دو گنا ضمان دے اور سزا کے کوڑے کھائے۔
جن اشیاء کے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا؟
محمد بن خالد بن خلی، وہ اپنے والد سے ، سلمہ یعنی ابن عبدالملک عوصیی، حسن، ابن صالح، یحیی بن سعید، قاسم بن محمد بن ابو بکر، رافع سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ پھلوں کے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے اور اسی طریقہ سے کھجوروں کے خوشوں میں (جو کہ اندر سے سفید نکلتے ہیں )
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے
٭٭ ترجمہ اس حدیث کا بھی سابق کے مطابق ہے۔ حضرت جابر نے فرمایا خیانت کرنے والے شخص کا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ راوی اشعث بن سوار ضعیف راوی ہیں۔
ہاتھ کاٹنے کے بعد چور کا پاؤں کاٹنا کیسا ہے ؟
سلیمان بن سلم مصاحفی بلخی، نضر بن شمیل، حماد، یوسف، حارث بن حاطب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک چور پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو قتل کر دو (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بذریعہ وحی اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ یہ شخص ہاتھ کاٹنے سے چوری سے باز نہیں آئے گا) اس پر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو قتل کر دو۔ پھر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو (بہر حال اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا) پھر اس شخص نے حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں چوری کی یہاں تک کہ اس شخص کے چاروں ہاتھ پاؤں کٹ گئے (یعنی اس کو مثلہ کر دیا گیا) پر اس شخص نے پانچویں مرتبہ چوری کر لی۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی حالت سے خوب واقف تھے اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ اس کو قتل کر دو۔ پھر حضرت ابو بکر نے اس کو حوالہ کر دیا قریش کے جوان لوگوں کو قتل کرنے کے واسطے۔ ان لوگوں میں حضرت عبداللہ بن زبیر بھی تھے وہ سربراہی کی خواہش رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا باقی لوگوں سے تم مجھ کو اپنا سردار بنا لو انہوں نے ان کو سردار بنا لیا۔ پھر حضرت عبداللہ بن زبیر جس وقت اس کو مارتے تو تمام لوگ اس کو مارتے یہاں تک کہ اس کو مار ڈالا یعنی قتل کر دیا کیونکہ وہ اسی کا مستحق تھا۔
چور کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا بیان
محمد بن عبداللہ بن عبید بن عقیل، جدی، مصعب بن ثلبت، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک چور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (دایاں ) ہاتھ کاٹ دو۔ پھر وہ شخص دوسری مرتبہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش کیا گیا (اسی چوری کے جرم کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو مار ڈالو۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا (بایاں ہاتھ) کاٹ ڈالو۔ پھر اس شخص کو تیسری مرتبہ پیش کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو مار ڈالو۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا (بایاں پاؤں ) کاٹ دو۔ پھر وہ شخص چوتھی مرتبہ حاضر کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مار ڈالو اس کو۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (اس شخص کا دایاں پاؤں ) کاٹ دو۔ پھر وہ شخص پانچویں مرتبہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو مار دو۔ حضرت جابر نے فرمایا اس شخص کو (مقام مربد نعم کی جانب لے کر چل دیئے اور اس کو اٹھایا اور وہ شخص چت لیٹ گیا وہ شخص اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں اور پاؤں سے بھاگ کھڑا ہوا اس شخص کو اونٹ دیکھ کر بھڑک گئے پھر اس کو اٹھایا پھر اس نے اسی طریقہ سے کیا پھر اس کو اٹھایا پھر تیسری مرتبہ اس شخص کو حاضر کیا گیا آخر کار ہم لوگوں نے اس کو پتھروں سے مار ڈالا۔ پھر اس کو کنوئیں میں ڈال دیا اور اوپر سے پتھر مارے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ حدیث منکر ہے اور مصعب بن ثابت قوی راوی نہیں ہے۔
سفر میں ہاتھ کاٹنے سے متعلق
عمرو بن عثمان، بقیہ، نافع بن یزید، حیوہ بن شریح، عیاش بن عباس، جنادۃ بن ابو امیۃ، بسر بن ابو ارطاق سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ سفر میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں
٭٭ حسن بن مدرک، یحیی بن حماد، ابو عوانۃ، عمر، ابن ابو سلمہ، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت غلام چوری کرے اس کو فروخت کر دو چاہے بیس ہی درہم میں فروخت ہو امام نسائی نے فرمایا عمرو بن سلمہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔
مرد کے بالغ ہونے کی عمر اور مرد و عورت پر کس عمر میں حد لگائی جائے ؟
اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، عطیہ سے روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانا
سوید بن نصر، عبد اللہ، ابو بکر بن علی، حجاج، مکحول، ابن محیریز سے روایت ہے کہ میں نے حضرت فضالہ بن عبید سے سنا کہ چور کا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دینا کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا سنت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا اور (کاٹ کر) اس کے گلے میں لٹکا دیا۔
٭٭ محمد بن بشار، عمر بن علی مقدمی، حجاج، مکحول، عبدالرحمن بن محیریز سے روایت ہے کہ میں نے حضرت فضالہ بن عبید سے کہا کیا چور کا ہاتھ اس کے گلے میں لٹکانا سنت ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک چور کا معاملہ پیش ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹ لیا اور اس کے گلے میں لٹکا دیا۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ اس حدیث کی اسناد میں حجاج بن ارطات ہے جس کی حدیث حجت نہیں ہو سکتی۔
٭٭ عمرو بن منصور، حسان بن عبد اللہ، مفضل بن فضالۃ، یونس بن یزید، سعد بن ابراہیم، مسور بن ابراہیم، عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت چور پر حد لگائی جائے پھر چوری کے مال کا ضمان اس پر ضروری نہ ہو گا۔
کتاب ایمان اور اس کے ارکان
افضل اعمال
ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب، عمرو بن علی، عبدالرحمن، ابراہیم بن سعد، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کون ساعمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر یقین کرنا۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، حجاج، ابن جریج، عثمان بن ابو سلیمان، علی الازدی، عبید بن عمیر، عبداللہ بن حبشی خثمی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کون سا عمل افضل ہے ؟ انہوں نے فرمایا ایمان کہ جس میں شک نہ ہو اور جہاد کہ جس میں چوری نہ ہو اور حج مبرور۔
ایمان کا مزہ
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، طلق بن حبیب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص میں تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کا ذائقہ اور لطف حاصل کرے گا (1) یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھے (2) یہ کہ اللہ کے لیے دوستی کرے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے دشمنی کرے (یعنی نیک لوگوں سے دوستی کرے اور مشرکین و کفار سے دشمنی رکھے (3) اگر بڑی اور خوفناک آگ جلائی جائے تو اس میں گر جانا قبول کرے لیکن خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دے۔
ایمان کے ذائقہ سے متعلق
سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص میں تین چیزیں ہوں گی وہ شخص ایمان کے ذائقہ سے لطف اندوز ہو گا ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھے دوسرے یہ کہ وہ شخص آگ میں گر جانا منظور کرے لیکن کفار و مشرکین میں سے ہونا منظور نہ کرے جب خداوند قدوس نے اس کو کفر سے نجات عطا فرمائی۔
اسلام کی شیرینی
اس حدیث شریف کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
اسلام کی تعریف
اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، کہمس بن حسن، عبداللہ بن بریدہ، یحیی بن یعمر، عبداللہ بن عمر، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے اس کے بال بہت سیاہ رنگ کے تھے معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اور ہمارے میں سے کوئی شخص ان کو نہیں پہچانتا تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا اپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنوں سے لگا کر اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے (یعنی ادب سے بیٹھا جس طریقہ سے کہ کسی استاد کے سامنے کوئی شاگرد بیٹھتا ہے ) پھر وہ کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! بتلا کہ اسلام کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ عبادت کے کوئی لائق نہیں ہے علاوہ خداوند قدوس کے اور بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز پڑھنا زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا خانہ کعبہ کا حج کرنا اگر طاقت ہو (یعنی حج کے لیے آنے جانے اور دیگر شرائط شرعی حج کی پائی جائیں ) اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا۔ ہم کو حیرت ہوئی کہ خود ہی سوال کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا۔ پھر کہا بتلا ایمان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یقین کرنا خداوند قدوس پر یعنی اس کی ذات اور صفات میں اور اس کے فرشتوں پر (کہ وہ اس کے پاک بندے ہیں ) جیسا خداوند قدوس کا حکم ہوتا ہے بجا لاتے ہیں ان میں بڑی طاقت خدا نے دی ہے اور اس کی کتب پر (جیسے قرآن کریم تورات انجیل زبور پر اور اس کے صحیفہ پر) جو کہ خداوند قدوس نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائے وہ سب حق ہیں خداوند قدوس کی طرف سے ہیں خداوند قدوس کے کلام میں اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور تقدیر پر (کہ خیر اور شر سب کچھ خداوند قدوس کی جانب سے ہے یعنی اچھے اور برے سب کام پیدا کرنے والا خداوند قدوس ہے اس کو خوب معلوم تھا کہ یہ شخص برا ہو گا یہ اچھا ہو گا) اس کے حکم کے بغیر اور اس کے ارادے کے بغیر انجام نہیں پاتے لیکن وہ اچھے لوگوں سے خوش نصیب ہوتا ہے اور برے لوگوں سے ناراض ہوتا ہے اور اس نے ہم کو اختیار عطاء فرمایا ہے اور وہ برے لوگوں سے ناراض ہوتا ہے یہ سن کر اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے کہا کہ بتلا احسان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کی عبادت اس طریقہ سے کرنا کہ گویا کہ تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مقام حاصل نہ ہو تو (کم از کم یہ مقام حاصل ہو کہ) خداوند قدوس تم کو دیکھ رہا ہے پھر اس شخص نے کہا مجھ کو بتلا قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس سے تم دریافت کر رہے ہو وہ سوال کرنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا (یعنی خداوند قدوس کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہیں ہے ) اس شخص نے کہا کہ تم اس کی علامات بتلا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی ایک علامت تو یہ ہے کہ باندی اپنے مالک کو جنے گی دوسرے یہ کہ ننگے پاؤں جسم والے لوگ جو (ادھر ادھر) پھرتے ہیں مفلس بکریاں چرانے والے وہ بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تین روز تک ٹھہرا رہا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے عمر! تم واقف ہو کہ وہ سوال کرنے والا اور دریافت کرنے والا کون شخص تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہی علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ حضرت جبرائیل تھے جو کہ تم کو دین سکھلانے کے لیے تشریف لائے تھے۔
ایمان اور اسلام کی صفت
محمد بن قدامۃ، جریر، ابو فروۃ، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما ہوتے پھر جو کوئی نیا شخص آتا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچان نہ سکتا۔ جس وقت تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نہ پوچھتا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چاہا کہ بیٹھنے کے واسطے ایک جگہ بنائی جائے کہ نیا آدمی آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچان لے پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ایک اونچا چبوترہ مٹی سے بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر تشریف فرما ہوتے۔ ایک دن ہم تمام لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اپنی جگہ تشریف فرما تھے اس دوران ایک آدمی حاضر ہوا کہ جس کا منہ (یعنی چہرہ) تمام لوگوں سے اچھا تھا اور جس کے جسم کی خوشبو سب سے بہتر تھی اور اس کے کپڑوں (یعنی لباس) میں کچھ بھی میل نہیں تھا اس نے فرش کے کنارے سے سلام کیا اور اس نے کہا السلام علیک یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آ جا۔ وہ قرب آنے کی اجازت طلب کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنوں پر رکھ دئیے اور کہا اے محمد! مجھ کو بتلا کہ اسلام کس کو کہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور یہ کہ خداوند قدوس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کرو اور نماز ادا کرو زکوٰۃ دو اور حج کرو بیت اللہ شریف کا اور رمضان المبارک کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا جس وقت میں یہ تمام باتیں کر لوں تو مسلمان ہو جاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں ! اس شخص نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا جس وقت ہم نے یہ بات سنی کہ وہ شخص کہہ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا تو ہم کو اس کی یہ بات بری لگی کیونکہ قصداً کیوں معلوم کرتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! بتلا کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس پر یقین کرنا اور اس کے فرشتوں اور کتابو ں پر اور رسولوں پر اور یقین کرنا تقدیر پر۔ اس نے کہا کہ جس وقت میں ایسا کروں تو میں مومن ہو جاؤں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں۔ پھر اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا پھر اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! بتلا کہ احسان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم خداوند قدوس کی اس طریقہ سے عبادت کرو جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر اس طرح سے عبادت نہ کر سکو تو (کم از کم) اس طرح عبادت کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا پھر وہ شخص کہنے لگا اے محمد! مجھ کو بتلا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر (مبارک) جھکا لیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا اور سر اٹھایا پھر فرمایا جس سے تم دریافت کر رہے ہو وہ سوال کرنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔ لیکن قیامت کی علامت یہ ہیں جس وقت تو مجہول جانور چرانے والوں کو دیکھے کہ وہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں اور جو لوگ اب ننگے پاؤں اور ننگے جسم پھرتے ہیں ان کو زمین کا بادشاہ دیکھے اور عورت کو دیکھے وہ اپنے مالک کو جنتی ہے تم سمجھ لو کہ قیامت قریب ہے۔ پانچ اشیاء ہیں کہ جن کا کہ کسی کو کوئی علم نہیں ہے علاوہ خداوند قدوس کے۔ پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس نے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچا (نبی) بنا کر بھیجا ہے اور وہ کھانے والا اور خوش خبری دینے والا میں اس شخص کو تم سے زیادہ نہیں پہچانتا تھا اور بلاشبہ یہ حضرت جبرائیل تھے جو کہ دحیہ کلبی کی شکل میں تشریف لائے تھے۔
آیت کی تفسیر
محمد بن عبدالاعلی، محمد، ابن ثور، معمر، زہری، عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض لوگوں کو مال دیا اور بعض کو عطاء نہیں فرمایا حضرت سعد نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض فلاں کو عطاء فرمایا اور فلاں کو کچھ عطاء نہیں فرمایا حالانکہ وہ مومن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا وہ مسلم ہے ؟ حضرت سعد نے تین مرتبہ یہی کہا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مرتبہ یہی جواب دہراتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ حالانکہ جن کو میں دیتا ہوں ان سے مجھ کو زیادہ محبت ہے لیکن میں جن کو دیتا ہوں تو میں اس کو اس خوف سے دیتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شخص دوزخ میں الٹے منہ نہ گرائے جائیں۔
٭٭ عمرو بن منصور، ہشام بن عبدالملک، سلام بن ابی مطیع، معمر، زہری، عامر بن سعد، سعد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مال تقسیم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض حضرات کو عطاء فرمایا اور بعض حضرات کو عطاء نہیں فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فلاں فلاں لوگوں کو عطاء فرمایا ہے اور فلاں کو عطاء نہیں فرمایا وہ بھی تو صاحب ایمان ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مومن نہ کہو مسلمان کہو۔ حضرت ابن شہاب نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی یعنی دیہات والوں نے کہا کہ ہم لوگ ایمان لے آئے تم) کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ اسلام لائے۔
٭٭ قتیبہ، حماد، عمرو، نافع بن جبیر بن مطعم، بشیر بن سحیم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا ایام تشریق میں پکارنے کا کہ جنت میں داخل نہ ہو گا لیکن مومن اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں۔
مومن کی صفات سے متعلق
قتیبہ، لیث، ابن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، اسماعیل، عامر، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ شخص ہے جو کہ خداوند قدوس کی منع کی ہوئی باتوں کو چھوڑ دے۔
٭٭ حفص بن عمر، عبدالرحمن بن مہدی، منصور بن سعد، میمون بن سیاہ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ہم لوگوں جیسی نماز ادا کرے اور ہمارے قبلہ کی جانب چہرہ کرے نماز میں اور ہمارا کاٹا ہوا جانور (یعنی ہمارا ذبیحہ) کھائے تو وہ مسلمان ہے۔
کسی انسان کے اسلام کی خوبی
احمد بن معلی بن یزید، صفوان بن صالح، ولید، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی بندہ اچھی طرح سے مسلمان ہوتا ہے تو خداوند قدوس اس کے ہر ایک نیک عمل کو لکھ لیتے ہیں جو کہ اس نے کیا تھا (یعنی اسلام سے قبل) اور اس کا ہر ایک برا عمل ختم فرما دیتا ہے جو اس نے کیا تھا پھر اسلام کے بعد سے نیا حساب اس طریقہ سے شروع ہوتا ہے کہ ہر ایک نیک عمل کے عوض دس نیک اعمال سات سو نیک اعمال تک لکھ دئیے جاتے ہیں اور ہر ایک برائی کے عوض ایک برا عمل لکھا جاتا ہے لیکن خداوند قدوس اس کو معاف فرما دے تو وہ برائی (یعنی برا عمل بھی) نہیں لکھا جاتا۔
افضل اسلام کونسا ہے ؟
سعید بن یحیی بن سعید الاموی، وہ اپنے والد سے ، ابو بردۃ، برید بن عبداللہ بن ابو بردۃ، ابو بردۃ، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کونسا اسلام افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس سے (دوسرے ) مسلمان اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے بچیں (محفوظ رہیں )۔
کونسا اسلام بہترین ہے ؟
قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو خیر، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کونسا اسلام افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھانا کھلانا (غرباء اور محتاجوں کو) اور ہر ایک کو سلام کرنا چاہے اس کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
اسلام کی بنیاد کیا ہیں ؟
محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، ابن عمران، حنظلۃ بن ابو سفیان، عکرمۃ بن خالد، ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ تم جہاد نہیں کرتے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں (کہ جن پر اسلام قائم ہے ) پہلے گواہی دینا اس بات کی کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے دوسرے یہ کہ نماز ادا کرنا تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا چوتھے حج کرنا پانچویں روزے رکھنا ماہ رمضان کے۔
اسلام پر بیعت سے متعلق
قتیبہ، سفیان، زہری، ابو ادریس خولانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک مجلس میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نہ چوری کرو نہ زنا کرو۔ پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی جو شخص تمہارے میں سے اپنے اقرار کو مکمل کرے (یعنی ان کاموں کو نہ کرے ) تو اس کا ثواب خداوند قدوس کے پاس ملے گا اور جس سے ایسا کام سرزد ہو پھر خداوند قدوس دنیا میں اس کو چھپائے تو آخرت میں وہ خداوند قدوس کی مرضی پر ہے کہ چاہے وہ اس کو عذاب میں مبتلا کرے اور چاہے اس کی مغفرت فرما دے۔
لوگوں سے کس بات پر جنگ (قتال) کرنا چاہیے ؟
محمد بن حاتم بن نعیم، حبان، عبد اللہ، حمید طویل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم ہوا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ کوئی خداوند قدوس کے علاوہ سچا معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں جس وقت وہ یہ شہادت دیں اور ہمارے قبلہ کی جانب چہرہ کر کے (یعنی نماز خانہ کعبہ کی جانب) ادا کرے اور ہمارا کاٹا ہوا جانور کھائیں (یعنی ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھائیں ) تو ان کی جان و مال ہم پر حرام ہو گئے لیکن کسی حق کے عوض (مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کی جان لیں یا کسی کا مال لیں تو ان کی بھی جان اور مال لیں ) اور جو مسلمان کا حق ہے وہ ان کا بھی ہے اور جو اہل اسلام پر حق ہے وہ حق ان پر بھی ہے۔
ایمان کی شاخیں
محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو عامر، سلیمان، ابن بلال، عبداللہ بن دینار، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایمان کی ستر اور (مزید) چند شاخیں ہیں اور شرم و حیاء بھی ایمان کی شاخ ہے۔
٭٭ احمد بن سلیمان، ابو داؤد، سفیان، ابو نعیم، سفیان، سہیل، عبداللہ بن دینار، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی ستر اور (مزید) چند شاخیں ہیں سب سے افضل شاخ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہنا ہے اور سب سے کم شاخ (یعنی ایمان کا سب سے کم درجہ) راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اور شرم و حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ میں ہے۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، خالد یعنی ابن حارث، ابن عجلان، عبداللہ بن دینار، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اہل ایمان کا ایک دوسرے سے بڑھنا
اسحاق بن منصور و عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، الاعمش، ابو عمار، عمرو بن شرجیل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (حضرت) عمار نے ہڈیوں تک ایمان بھر لیا۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، ابو سعید سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے جو کوئی شخص بری بات دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ ہاتھ سے دور کرے اگر اس قدر قوت نہ ہو تو زبان سے (برائی کو) برا کہے اگر اس قدر بھی قوت نہ ہو تو (کم از کم) دل سے تو برا سمجھے۔
٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد، مالک بن معول، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم میں سے جو شخص کوئی بری بات (یعنی گناہ کا کام) دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روک دے تو وہ شخص ذمہ سے بری ہو گیا اگر اس قدر طاقت نہ ہو تو زبان سے برا کہے وہ بری ہو گیا اگر اس قدر طاقت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے وہ بھی بری ہو گیا اور یہ ایمان کا کم سے کم درجہ ہے۔
ایمان میں کمی بیشی سے متعلق
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کے ایک جھگڑے کا دنیا میں کسی حق کے واسطے اس سے زیادہ نہیں ہے کہ جو مسلمان جھگڑا کریں گے اپنے پروردگار سے ان بھائیوں کے واسطے جو کہ دوزخ میں داخل ہوئے ہوں گے یہ مسلمان کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نہ ہمارے ان بھائیوں کو جو کہ ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے تھے اور روزہ رکھا کرتے تھے اور حج کرتے تھے آگ میں داخل کر دیا۔ پروردگار فرمائے گا اچھا جا اور تم جن کو پہچان لیتے تھے ان کو دوزخ سے نکالو۔ چنانچہ وہ لوگ دوزخ میں ان کے پاس آئیں گے اور ان کی شکلیں دیکھ کر ان کو پہچان لیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو دوزخ کی آگ نے پکڑ لیا ہو گا پنڈلیوں کے آدھے تک اور بعضوں کو ٹخنوں تک پھر ان کو دوزخ سے نکالیں گے اور کہیں گے کہ اے پروردگار! جن کے نکالنے کا تو نے ہم کو حکم فرمایا ہم نے ان کو نکال دیا پھر پروردگار فرمائے گا کہ ان کو بھی نکالو کہ جن کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو پھر فرمائے گا کہ ان کو بھی (دوزخ سے ) نکال دو جس کسی کے دل میں ایک رتی (یعنی معمولی سے معمولی درجہ کا بھی) ایمان ہو (اس کو بھی دوزخ سے نکال دو) حضرت ابو سعید نے بیان فرمایا اب جس کسی کو یقین نہ ہو وہ یہ آیت کریمہ تلاوت کرے آخر تک۔ (جس کا ترجمہ یہ ہے ) خداوند قدوس مشرک کی مغفرت نہیں فرمائے گا اور اس سے کم گناہوں کو جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، وہ اپنے والد سے ، صالح بن کیسان، ابن شہاب، ابو امامۃ بن سہل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں (یعنی میرے سامنے وہ لوگ پیش ہوئے ) اور سب لوگ کرتے پہنے ہوئے ہیں کسی کا کرتہ سینہ تک ہے اگر کسی کا اس سے نیچا ہے اور میں نے (حضرت) عمر کو دیکھا کہ وہ اپنے کرتے کو سمیٹ رہے ہیں (یعنی ان کا کرتہ بہت نیچا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا کرتہ سمیٹ رہے ہیں ) لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دین! (اور ایمان سب سے زیادہ طاقتور ہے اس میں کسی عقل مند کو شبہ نہ ہو گا بشرطیکہ وہ تعصب نہ کرے کہ امیر المومنین حضرت عمر کی وجہ سے اسلام کو بہت زیادہ ترقی ہوئی)
٭٭ ابو داؤد، جعفر بن عون، ابو عمیس، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک شخص یہودیوں میں سے امیرالمومنین حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ تم لوگوں کے قرآن کریم میں ایک آیت (کریمہ) ہے جس کو تم لوگ پڑھتے ہو۔ اگر وہ آیت ہم یہود پر نازل ہوتی تو جس دن وہ آیت کریمہ نازل ہوتی تو ہم لوگ اس روز عید بنا لیتے۔ حضرت عمر نے فرمایا وہ کونسی آیت ہے ؟ اس نے کہا وہ یہ آیت ہے یعنی آج کے روز میں نے دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے واسطے اسلام کے دین ہونے کو پسند کر لیا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا مجھ کو اس جگہ کا علم ہے جس جگہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے اور جس روز نازل ہوئی ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جمعہ کے دن مقام عرفات میں نازل ہوئی۔
ایمان کی علامت
حمید بن مسعد ۃ، بشر، یعنی ابن مفضل، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جس وقت تک کہ اس کو میری محبت اپنی اولاد اور اپنے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔
٭٭ حسین بن حریث، اسماعیل، عبدالعزیز، عمران بن موسی، عبدالوارث، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوتا جس وقت تک کہ وہ مجھ کو اپنے گھر مال (اور جائیداد) اور لوگوں سے زیادہ نہ چاہے۔
٭٭ عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن بن ہرمز، ابو ہریرہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے بیان فرمایا تیری محبت نہیں رکھے گا لیکن مومن (یعنی مجھ سے صرف اور صرف مومن ہی محبت کرے گا) اور مجھ سے دشمنی نہیں رکھے گا لیکن منافق۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر، شعبہ، حمید بن مسعدۃ، بشر، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جس وقت تک کہ وہ اپنے بھائی (دوسرے مسلمان بھائی) کے واسطے وہ بات نہ چاہے جو کہ اپنے واسطے چاہتا ہے۔
٭٭ موسیٰ بن عبدالرحمن، ابو اسامۃ، حسین و معلم، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ (یعنی قبضہ) میں میری جان ہے کہ تم لوگوں میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جس وقت تک کہ اپنے واسطے بھلائی چاہے جس قدر بھلائی چاہتا ہے اسی قدر اپنے مسلمان بھائی کے واسطے۔
٭٭ یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، الاعمش، عدی، زربن حبیش سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے بیان فرمایا تھا کہ تم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے دشمنی نہیں رکھے گا لیکن منافق۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن حارث، شعبہ، عبداللہ بن عبداللہ بن جبر، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے دشمنی رکھنا نفاق کی علامت ہے۔
منافق کی علامات
بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبہ، سلیمان، عبداللہ بن مرۃ، مسروق، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار عادتیں ہیں جس کسی میں یہ چاروں عادات ہوں گی وہ شخص منافق ہے اور اگر اس میں ایک عادت ہے تو وہ ایک عادت نفاق کی ہے جس وقت تک کہ اس کو وہ نہیں چھوڑے گا (وہ شخص کامل درجہ کا مومن نہیں ہو گا عادات یہ ہیں ) (1) جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے (2) اور جس وقت وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (3) اور جس وقت اقرار کرے تو اس کو توڑ دے اور جب کسی سے لڑائی کرے تو گالیاں دینے لگے۔
٭٭ علی بن جعفر، اسماعیل، ابو سہیل، نافع بن مالک بن ابو عامر، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا منافق کی تین علامات ہیں ایک تو یہ کہ جس وقت وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے دوسرے یہ کہ جس وقت وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے تیسرے جس وقت اس کے پاس امانت رکھے تو اس میں خیانت کرے۔
٭٭ واصل بن عبدالاعلی، وکیع، الاعمش، عدی بن ثابت، زر بن حبیش، علی نے فرمایا جس وقت مجھ سے وعدہ فرمایا جو مومن ہو گا وہ تیری محبت رکھے گا اور جو شخص تجھ سے دشمنی رکھے گا وہ منافق ہو گا
٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، معافی، زہیر، منصور بن معتمر، ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تین چیزیں جس کسی میں پائی جائیں گی وہ تو منافق ہے (وہ باتیں یہ ہیں ) (1) جس وقت گفتگو کرے تو جھوٹ بو لے (2) جس وقت اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے (3) اور جس وقت وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جس شخص میں ان میں سے ایک عادت پائی جائے گی تو اس شخص میں نفاق کی ایک عادت رہے گی جب تک کہ وہ اس عادت کو چھوڑ دے۔
رمضان المبارک میں عبادت کرنے سے متعلق
قتیبہ، سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ماہ رمضان المبارک میں راتوں میں کھڑا ہو (یعنی راتوں میں عبادت کرے نماز تراویح میں مشغول رہے ) ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے اگلے (پچھلے ) تمام گناہ معاف فرما دیئے جائیں گے۔
٭٭ قتیبہ بن مالک، ابن شہاب و حارث بن مسکین، بن قاسم، مالک، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کے مہینہ میں راتوں کو کھڑا ہو یعنی راتوں میں تراویح کی نماز ادا کرے اور دیگر عبادات میں مشغول رہے ایمان کے ساتھ تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
٭٭ محمد بن اسماعیل، عبداللہ بن محمد بن اسماء، جویریۃ، مالک، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن و حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کے مہینہ میں راتوں کو کھڑا ہو (تراویح میں ) ایمان کے ساتھ ثواب کے واسطے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
شب قدر میں عبادت کرنا
ابو اشعث، خالد یعنی ابن حارث، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ماہ رمضان میں راتوں میں کھڑا ہو ایمان و احتساب کے ساتھ اجر و ثواب کے واسطے تو اس کے اگلے گناہ سب معاف کر دیئے جائیں گے اور جو کوئی شب قدر میں کھڑا ہو (یعنی شب قدر میں نماز تلاوت قرآن درود شریف کی کثرت وغیرہ عبادت میں مشغول رہے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
زکوٰۃ بھی ایمان میں داخل ہے
محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ابو سہیل، وہ اپنے والد سے ، طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اہل نجد میں سے حاضر ہوا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز میں گنگناہٹ سنی جاتی تھی لیکن اس کی گفتگو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب ہوا اس وقت علم ہوا کہ وہ شخص اسلام سے متعلق دریافت کر رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات اور دن میں پانچ نمازیں ہیں اس نے عرض کیا کیا اس کے علاوہ میرے ذمے اور کچھ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن تم (نماز) نفل ادا کرنا چاہو (تو تم کو اس کا اختیار ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو ماہ رمضان المبارک کے روزے ارشاد فرمائے۔ اس نے عرض کیا میرے ذمے اس کے علاوہ اور کوئی روزہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن نفل۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے زکوٰۃ کے متعلق بیان فرمایا۔ اس نے عرض کیا میرے ذمے اس کے علاوہ اور کچھ (عبادات وغیرہ) ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن یہ کہ تم راہ خدا میں خرچ کرنا چاہو نفل پھر وہ شخص پشت موڑ کر چل دیا اور وہ شخص یہ کہتا تھا کہ نہ تو اس سے زیادہ کروں گا نہ کم (یعنی اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کروں گا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر یہ شخص سچ بول رہا ہے تو اس نے نجات حاصل کر لی (یعنی اس کی نجات اور عذاب سے حفاظت کے لیے اس قدر کافی ہے )۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید