FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سنن نسائی

 

 

               امام ابو نسائی

 

 

جلد دہم

 

 

 

 

شرطوں سے متعلق احادیث

 

شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس باب میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں

محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، شعبۃ، حماد، ابراہیم، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جس وقت تم مزدوری کرانا چاہو کسی مزدور سے تو تم اس کی مزدوری ادا کر دو۔

 

شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس باب میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں

 

محمد، حبان، عبد اللہ، حماد بن سلمہ، یونس، حضرت حسن سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناگوار سمجھتے تھے کہ مزدور سے مزدوری مقرر کیے بغیر کام کرائیں۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ،جریر بن حازم، حضرت حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے کسی شخص نے مسئلہ دریافت کیا کہ کسی شخص نے اس شرط پر مزدور رکھا کہ وہ اس کے پاس کھانا کھا لیا کرے تو اس کو کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا مزدوری مقرر کیے بغیر مزدور نے رکھنا چاہیے۔

 

 

٭٭ محمد، حبان، عبد اللہ، معمر، حضرت حماد اور حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے ان دو آدمیوں سے کہ ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم سے مکہ مکرمہ تک کا کرایہ اس قدر قیمت مقرر کرتا ہوں بشرطیکہ میں ایک ماہ تک یا اتنے روز تک یا اتنے دن زیادہ رہا۔ غرض یہ کہ کرایہ مقرر کیا اور یہ بھی کہا کہ تم کو میں اس قدر کرایہ زیادہ دوں گا (اگر مقرر کردہ فاصلہ سے زیادہ دور گیا) راوی حماد اور قتادہ کہتے تھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ یہ بات مکروہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی کو کرایہ پر مقرر کرتا ہوں تم اس سے اس قدر قیمت کے بدلہ اگر میں نے ایک ماہ سے زیادہ زمانہ لگایا چلنے میں اس قدر کرایہ دوں گا۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، حضرت ابن جریح نے حضرت عطاء سے دریافت فرمایا کہ اگر میں ایک غلام کو ملازم رکھوں ایک سال تک کھانے کے عوض اور پھر اگلے سال اس قدر یا اتنا مال اس کے بدلہ میں اجرت دوں تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور میرا شرط رکھنا کافی ہے کہ اتنے دن تک کے لیے ملازم رکھوں گا اگر سال میں کچھ دن گزر گئے تو اس طریقہ سے کہہ دے کہ جو دن گزر چکے ہیں ان کا حساب نہیں ہے (یعنی وہ دن معاف ہیں )۔

 

 

٭٭

 

محمد بن ابراہیم، خالد بن حارث، ابو رافع، حضرت اسید بن ظہیر سے روایت ہے کہ وہ اپنی برادری کے لوگوں کے پاس آئے اور ان کو بتایا کہ اے قبیلہ بنو حارثہ کے لوگو! تم پر آفت نازل ہونے والی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کیسی آفت؟ اس پر حضرت اسید نے وہ آفت بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے کی ممانعت فرمائی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! اگر ہم لوگ زمین والوں کے عوض کرایہ پر دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ پھر کہا کہ ہم لوگ زمین کو انجیروں کے بدلے اجرت پر دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ! پھر فرمایا ہم اس کو کرایہ میں اس پیداوار کے بدلے دیتے تھے جو کہ مینڈھوں پر ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں اور فرمایا کہ تم کھیتی کرو (یعنی زمین میں خود کھیتی کرو) یا اپنے مسلمان بھائی پر مہربانی کرو اور اس کو تم بخشش کے طور سے دے دو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، یحیی بن آدم، مفضل بن مہلہل، منصور، مجاہد، حضرت اسید بن ظہیر فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت رافع بن خدیج تشریف لائے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم لوگوں کو حقل اور مزابنت سے منع فرمایا۔ حقل پیداوار بٹائی کر نے کو اور مزابنت درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو درخت سے اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدنے کو کہتے ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد،شعبۃ، منصور، مجاہد، حضرت اسید بن ظہیر سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور وہ فرمانے لگے ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ایسے کام سے جو کہ خود ہمارے ہی نفع کا تھا اور فرمایا کہ تم لوگوں کے واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرماں برداری بہتر ہے اور تم کو منع کیا حقل سے اور فرمایا کہ جس کسی شخص کے پاس زمین ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو بخشش کر دے یا چھوڑ دے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا مزابنت سے۔ راوی کہتے ہیں کہ مزابنت اس کو کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس دولت ہو اور کھجور کے باغات ہوں مختلف قسم کے اور کوئی آدمی اس کے پاس آئے اور وہ شخص اس باغ کو یہ کہہ کر لے لے کہ اس قدر وسق خشک کھجوروں کے میں تجھ کو دوں گا۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ،جریر، منصور، مجاہد، حضرت اسید بن ظہیر سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج ہم لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ پھر کہنے لگے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم لوگوں کو ایک کام سے منع فرمایا اور وہ کام تم لوگوں کے نفع کا تھا۔ لیکن تم لوگوں کے حق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرماں برداری بہتر ہے اس نفع سے اور تم لوگوں کو حقل سے منع کیا گیا اور حقل کہتے ہیں کہ کھیتی یا باغ کو تہائی یا چوتھائی پر مقرر کر کے کسی دوسرے شخص کو دینا۔ راوی نقل کرتے ہیں کہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اس قدر زمین ہو کہ اس کو کسی قسم کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس قسم کی زمین کو مسلمان بھائی کو دے دینا چاہیے یا یہ چھوڑ دینا بہتر ہے بٹائی پر دے دینے سے اور راوی نے نقل کیا کہ تم لوگوں کو مزابنت سے منع کیا گیا اور راوی نقل کرتے ہیں کہ مزابنت وہ ہے کہ کسی مال دار شخص کے پاس کافی کھجور کے درخت ہوں اور وہ شخص کہے کسی دوسرے کہ تم اس کو لے لو۔

 

 

٭٭ اسحاق ، بن یعقوب بن اسحاق بغدادی ابو محمد، عفان، عبدالواحد، سعید بن عبدالرحمن ، مجاہد اسید بن رافع بن خدیج، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ تم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح کے کام سے منع فرمایا جو کہ ہم لوگوں کے نفع کے واسطے تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمانبرداری زیادہ بہتر ہے ہم لوگوں کے واسطے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس کھیتی کی زمین ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص کھیتی کرے اگر اس سے کھیتی نے ہو سکے تو اپنے مسلمان بھائی کو دے دے تاکہ وہ اس میں کھیتی کرے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، عبید اللہ بن عمرو، عبدالکریم، مجاہد، طاؤس، ابن رافع، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا طاؤس نے اس کا انکار کیا اور انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ وہ اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

 

 

٭٭ قتیبہ ، ابو عوانۃ، ابو حصین، حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ وہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ ہم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ایک کام سے جو کہ ہمارے لیے مفید تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد مبارک ہماری سر آنکھوں پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو منع فرمایا کہ ہم لوگ وہ زمین قبول کریں اس کی تہائی اور چوتھائی پیداوار پر یعنی بٹائی پر۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، ابراہیم بن مہاجر، مجاہد، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص کی زمین کے نزدیک سے گزرے۔ وہ ایک انصاری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہو گیا کہ یہ شخص (انصاری ہے ) اور محتاج آدمی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ زمین کس کی ہے ؟ عرض کیا گیا کہ ایک لڑکے کی زمین ہے کہ جس نے مجھ کو یہ زمین اجرت پر دی ہے یعنی بٹائی پر دی ہے یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر مسلمان بھائی کسی دوسرے مسلمان بھائی کو اس طریقہ سے دے دیتا توبہتر تھا۔ یہ بات سن کر حضرت رافع انصار کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ تم لوگوں کو ایک کام سے کہ وہ کام (بظاہر) تم لوگوں کے فائدے ہی کہ واسطے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرماں برداری بہت نفع کی چیز ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی ومحمد بن بشار، محمد،شعبۃ، حکم، مجاہد، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیداوار کے عوض زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، خالد بن حارث،شعبۃ، عبدالملک، مجاہد، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں ایک ایسے کام سے منع کر دیا جو ہمارے لیے فائدہ مند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود زراعت کرے یا کسی دوسرے کو دے دے یا اسی طرح پڑا رہنے دے۔

 

 

٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، زکریا بن عدی، حماد بن زید، حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ حضرت طاؤس اس چیز کو برا سمجھتے تھے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو سونے چاندی کے عوض کرایہ پر دے (یا رقم کے عوض دے ) لیکن تہائی یا چوتھائی غلہ کی بتائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے حضرت مجاہد نے حضرت طاؤس سے کہا کہ تم حضرت رافع بن خدیج کے صاحبزادے کے پاس چلو اور تم ان سے حدیث سنو حضرت طاؤس نے فرمایا خدا کی قسم اگر میں سمجھتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے تو میں اس کام کو انجام نہ دیتا اور میں نے حدیث سنی ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور وہ بڑے عالم دین تھے انہوں نے نقل فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم لوگ اس طرح سے مسلمان کو بغیر اجرت اور بغیر کسی معاوضہ کے (زمین) دے دیا کرو کھیتی کرنے کے لیے اس لیے کہ تم لوگوں کے حق میں یہ چیز اجرت مقرر کرنے سے بہتر ہے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، عبدالملک، عطاء، حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس زمین ہو اسے اس میں خود زراعت کرنی چاہیے اگر وہ خود نہ کر سکتا ہو تو مسلمان بھائی کو دے دے لیکن اس سے زراعت نہ کروائے (یعنی اجرت نہ مانگنے لگ پڑے )۔

 

 

٭٭ اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی مانند منقول ہے۔

 

 

٭٭ ہشام بن عمار، یحیی بن حمزہ، اوزاعی، حضرت عطاء، حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں خود ہی کھیتی کرے یا اپنے مسلمان بھائی کو دے دے اور کسی دوسرے کو وہ اجرت پر نہ دے۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن محمد ابو عمیر بن نحاس، وعیسیٰ بن یونس فاخوری، ضمرۃ، ابن شوذب، حضرت مطر، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس زمین اس کی ضرورت سے زیادہ ہے تو اس شخص کو اس زمین میں خود ہی کھیتی کرنا چاہیے یا دوسرے سے کھیتی کرائے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ جملہ صرف اسی قدر فرمایا اور اس کے ہاتھ والا کے جملہ کا بھی اضافہ فرمایا یعنی کرایہ پر نہ دیا کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یونس، حماد، حضرت مطر، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔ مذکورہ روایت کے سلسلہ میں عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریح نے ممانعت کی حدیث میں ان کو موافقت فرمائی۔

 

 

٭٭ قتیبہ ، مفضل، ابن جریج، عطاء وابو زبیر، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرابنہ۔ محاقلہ کرنے سے بھی منع فرمایا اور ان پھلوں کے فروخت کرنے سے بھی منع فرمایا جو کہ ابھی کھانے کے لائق نہ بنے لیکن بیع مزابنہ کی عرایا کے واسطے اجازت ہے۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، یونس بن عبید، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی محاقلہ کرنے سے اور مزابنہ کرنے سے اور مغابرہ اور ثنیاء کر نے سے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن ادریس، ابو توبہ، معاویۃ بن سلام، یحیی بن ابی کثیر، حضرت یزید بن نعیم، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا بیع محاقلہ سے اور اسی کو مزابنہ بھی کہتے ہیں۔

 

 

٭٭ ثقۃ، حماد بن مسعدہ، ہشام بن ابی عبد اللہ، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع مزابنہ بیع مخاضرہ سے منع فرمایا اور مخاضرہ پھلوں یا غلہ کا ان کے پختہ ہونے سے قبل فروخت کرنا اور مخابرہ کے معنی ہیں انگور کا خشک انگور کے عوض فروخت کرنا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو عاصم، عثمان بن مرۃ، قاسم، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو عاصم، حضرت عثمان بن مرۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت قاسم سے دریافت کیا کہ زمین کو اجرت پر دینا کیسا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا کہ آنحضرت نے زمین اجرت پر دینے کی ممانعت فرمائی۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنیٰ، حضرت یحیی سے روایت ہے کہ حضرت ابو جعفر خطمی کہ جس کا نام عمیر بن یزید ہے وہ نقل فرماتے تھے کہ مجھ کو میرے چچا نے بھیجا اور میرے ساتھ ایک لڑکا بھی بھیجا۔ تاکہ وہ اور میں حضرت سعید بن مسیب سے مزارعت کا مسئلہ دریافت کر کے آئیں چنانچہ وہ لڑکا اور ہم دونوں حضرت سعید بن مسیب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ حضرت ابن عمر کھیتی کرنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے پھر ان کو حضرت رافع بن خدیج کی حدیث پہنچی پھر انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے ملاقات فرمائی۔ اس کے بعد حضرت رافع بن خدیج نے بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز قبیلہ بنی حارثہ کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک کھیت دیکھا اور فرمایا کیا عمدہ ظہیر کا کھیت ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یہ کھیت ظہیر کا نہیں ہے لیکن اس کھیت میں ظہیر نے کھیتی کی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہ کھیت ظہیر کا نہیں ہے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا ہاں ظہیر کا نہیں ہے لیکن اس نے کھیتی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات سن کر فرمایا تم لوگ اپنی کھیتی کو لے لو اور جو کچھ اس کا خرچہ ہوا ہے وہ اس کو دے دو۔ راوی کہتا ہے کہ ہم لوگوں نے اپنی کھیتی کو لے لیا اور جو کچھ ان کا خرچہ ہوا تھا وہ ہم نے ان کو ادا کر دیا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، حضرت طارق نے حضرت سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محاقلہ مزابنہ کی ممانعت ارشاد فرمائی اور فرمایا تین شخص ہی کھیتی کر سکتے ہیں نمبر1 وہ شخص جس کی زمین ہو یعنی زمین کا مالک ہو نمبر2 وہ شخص جس کو کہ احسان کے طور ہر کھیتی کا کہا جائے نمبر3 وہ شخص کہ جس نے زمین کو سونے یا چاندی کے عوض کرایہ یا اجرت پر لیا ہو۔ حضرت امام نسائی فرماتے ہیں کہ (راوی) اسرائیل نے اس روایت کو علیحدہ کیا طارق سے سن کر۔ مرسل کہا پہلے کلام کو اور آخری والے کلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ حضرت سعید بن مسیب کا ارشاد گرامی ہے اور یہ حدیث نہیں ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ بن موسی، حضرت اسرائیل نے حضرت طارق سے اور طارق نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محاقلہ سے منع فرمایا اسی طرح حضرت سعید بن مسیب نے نقل فرمایا۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن میمون، محمد، حضرت سفیان ثوری، حضرت طارق سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت طارق فرماتے تھے کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے سنا۔ وہ فرماتے تھے کہ تین آدمیوں کے علاوہ کسی دوسرے کے واسطے کھیتی کرنا مناسب نہیں ہے۔ (1) مالک کو (2) اس شخص کو جس کو زمین میں کھیتی کر نے کے واسطے بطور احسان وہ زمین بغیر کسی قیمت کے دی گئی ہو۔ تیسرے اس شخص کو کہ جس نے کوئی میدان کرایہ پر لیا ہو سونے چاندی کے عوض (یا رقم کے عوض) حضرت زہری نے پہلے کلام کو حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا اور حضرت حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے سنا اور انہوں نے مالک سے اور حضرت مالک نے ابن شہاب سے اور حضرت ابن شہاب نے حضرت سعید سے اور حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا اور اس کو روایت کیا محمد بن عبدالرحمن بن لبیبہ نے سعید بن مسیب سے۔ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا حضرت سعد بن ابی وقاص سے۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن قاسم، ابن شہاب، حضرت سعید بن مسیب نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ محمد بن عبدالرحمن لبیبہ اسے سعید بن مسیب سے سعد بن ابی وقاص کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، محمد بن عکرمۃ، محمد بن عبدالرحمن ، حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ کھیتی کرنے والے لوگ اپنے کھیتوں کو عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اجرت پر دیا کرتے تھے۔ اس اناج اور غلہ کے عوض جو کہ نالیوں کے کنارے پر نکلتا پھر وہ حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے اس زمین کے بعض مقدمات میں جھگڑا کیا تھا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجرت پر دینے سے منع کیا اور فرمایا تم یہ معاملہ نقد رقم کے عوض (یا نقد سونے چاندی کے عوض) کیا کرو۔ اس حدیث کو روایت کیا حضرت سلیمان نے حضرت رافع بن خدیج سے اور انہوں نے کسی دوسرے شخص سے جو کہ ان کے چچاؤں میں سے تھے۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ابن علیہ، ایوب یعلی بن حکیم، سلیمان بن یسار، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں کھیتی فروخت کیا کرتے تھے اور ہم لوگ تہائی یا چوتھائی کے عوض کرایہ اور اجرت پر دیا کرتے تھے یا مقررہ کھانے پر اجرت دیا کرتے تھے چنانچہ ایک دن میرے چچاؤں میں سے ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایسا کام سے منع فرمایا کہ جو کام ہم لوگوں کے نفع کا تھا اور ہمارے لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمانبرداری زیادہ نفع بخش ہے اور ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا حقل کرنے سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو تہائی چوتھائی بٹائی کرایہ دینے سے منع فرمایا اور مقرر کھانے پر بھی دینے سے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین والے کو حکم فرمایا کہ وہ خود کھیتی کرے یا دوسرے سے کھیتی کرائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بٹائی کر نے کو برا سمجھا اور جو اس کے علاوہ صورت ہوں ان سے بھی منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق میں گزر چکا۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، سعید، یعلی بن حکیم، حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ہم لوگ کھیتی کو اناج اور غلہ کے عوض فروخت کر دیا کرتے تھے تو ایک روز ہمارے چچاؤں میں سے ایک چچا میرے پاس آیا اور وہ کہنے لگا کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفع بحش کام کرنے سے منع فرمایا ہے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمانبرداری بہت زیادہ نفع بخش ہے ہم لوگوں کے واسطے حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا وہ کون سی شے ہے تو اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس زمین ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اس کا مسلمان بھائی تہائی چوتھائی پر کھیتی کرے اور کرایہ اور اجرت نہ دیا کرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلہ لے کر کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، حجین بن مثنیٰ، لیث ربیعۃ بن ابی عبدالرحمن، حنظلہ بن قیس، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ مجھ کو میرے چچا نے حدیث نقل فرمائی اور کہا کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں زمین کو کرایہ اور اجرت پر دیا کرتے تھے۔ اس پیداوار کے بدلہ میں جو کہ نالیوں پر ہو جو کہ زمین والے کی ہوتی تھی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا زمین کو کرایہ پر دینے سے۔ حضرت رافع بن خدیج سے ان کے شاگرد نے دریافت کیا نقدی سے کرایہ پر لینا کیسا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے دینار اور درہم سے کرایہ پر دینے میں۔

 

 

٭٭ مغیرۃ بن عبدالرحمن، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ، حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج سے دریافت کیا کہ کیا زمین کو اجرت پر دینا دینار چاندی یا نقد رقم کے عوض جائز ہے ؟ اس پر حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو لوگ زمین کو اس پیداوار کے عوض دیا کرتے تھے جو کہ پانی کے بہنے کی جگہ کی جگہوں پر ہوتی تھی پھر کبھی وہاں پر پیداوار ہوتی اور کبھی وہ دوسری جگہ ہوتی اس جگہ نہ ہوتی لیکن لوگوں کا یہی حصہ تھا اس وجہ سے اس کی ممانعت ہوئی اور اگر کرایہ کے عوض کوئی چیز مقرر ہو کہ جس کا کوئی شخص ذمہ دار ہو تو اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، مالک، ربیعہ، حنظلہ بن قیس، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا حضرت رافع بن خدیج کے شاگرد نے دریافت کیا کہ زمین کو سونے چاندی کے ساتھ کرایہ پر دینے سے متعلق کیا حکم ہے ؟ حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا جو اشیاء زمین سے پیدا ہوتی ہیں ان کو کرایہ کے عوض دینا منع ہے اور سونے چاندی کے ساتھ دینا اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، سفیان، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ، حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج سے سونے چاندی کے بدلہ میں زمین کو (جو کہ صاف) میدان کی شکل میں ہو اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا یہ حلال اور درست ہے چاندی یا سونے کے ساتھ کرایہ پر دینا وہ زمین جو صاف میدان ہو اس کو کرایہ پر دینا درست ہے جو کہ زمین کا حق اور حصہ ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، یحیی بن سعید، حنظلہ بن قیس، حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو کرایہ اور اجرت پر دینے سے منع فرمایا اور اس زمانہ میں لوگوں کے پاس سونا چاندی نہیں تھا اور اس زمانہ میں کوئی شخص اپنی زمین اجرت پر لیا کرتا تھا کہ جس زمین میں کھیتی بوئی جایا کرتی تھی نہروں اور نالیوں پر جو اناج پیدا ہو اس کے عوض اور اشیاء تھیں۔ پھر حدیث آخر تک بیان و نقل فرمائی۔

 

 

٭٭ ترجمہ حدیث سابق میں گزر چکا۔

 

 

٭٭ عبدالملک بن شعیب بن لیث بن سعد، ان کے والد، ان کے دادا، عقیل بن خالد، ابن شہاب، حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنی زمین کرایہ پر دیا کرتے تھے تو ان کو یہ اطلاع ملی کہ حضرت رافع بن خدیج زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرماتے ہیں چنانچہ عبداللہ بن عمر نے ان سے ملاقات فرمائی اور ان سے کہا کہ وہ کون سی حدیث ہے کہ جس کو تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہو زمین کو اجرت پر دینے کے سلسلہ میں۔ تو حضرت رافع بن خدیج نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا میں نے اپنے چچاؤں سے سنا اور وہ دونوں غزوہ بدر میں شریک رہ چکے ہیں وہ بیان اور نقل کرتے تھے حدیث اپنے گھر والوں کے سامنے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر یہ بات سن کر فرمانے لگے میں اچھی طرح سے واقف ہوں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں زمین کرایہ اور اجرت پر دی جایا کرتی تھی پھر عبداللہ بن عمر ڈرے اس بات سے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سلسلہ میں جو فرمایا ہے میں اس سے واقف نہیں ہوں اس وجہ سے زمین کو کرایہ اور اجرت پر دینا چھوڑ دیا۔

 

 

٭٭ ترجمہ حدیث سابق میں گزر چکا۔

 

 

٭٭ احمد بن محمد بن مغیرہ، عثمان بن سعید، شعیب، حضرت زہری سے روایت ہے کہ ان کو حضرت رافع بن خدیج سے یہ روایت پہنچی کہ جس کو انہوں نے اپنے چچاؤں سے نقل کیا اور ان ہی کا قول ہے کہ وہ دونوں چچا ان کے بدری تھے۔ ان دونوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، ابو خزیمۃ عبداللہ بن طریف، حضرت عبدالکریم بن حارث سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا حضرت ابن شہاب فرماتے تھے کہ کسی نے حضرت رافع بن خدیج سے دریافت کیا کہ اس کے بعد کس طریقہ سے لوگ زمین کی اجرت دیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مقررہ غلہ کے ساتھ اور نہ مقرر کرتے تھے جو کہتے تھے چاہے وہ نہروں پر ہو یا اس میں نالیاں جو آتی ہیں اس میں سے اپنا حصہ لیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، فضیل، حضرت موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ حضرت نافع فرماتے تھے کہ حضرت رافع بن خدیج نے نقل فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے اپنے چچاؤں کی روایت بیان کی وہ حضرات (یعنی ان کے چچا) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے (یعنی چچاؤں نے ) نقل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے کرایہ پر دینے سے کھیتوں کو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا ہم لوگ خوب واقف ہیں کہ کرایہ اور اجرت پر دیا کرتے تھے کھیتی کو یعنی کھیتی والے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھیت کو کرایہ پر دیا کرتے تھے اس شرط پر کہ کھیت والے کا حصہ اس کھیتی میں ہو گا جو کہ نہروں کے کنارے پر واقع ہے اور اس نہر سے اس زمین کو پانی پہنچتا ہے اور تھوڑی گھاس کے عوض کرایہ دیا کرتے تھے نہ معلوم اس کی مقدار کہ کس قدر گھاس لیتے تھے (یعنی گھاس کی مقدار کا علم نہیں ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حضرت ابن عون، حضرت نافع سے نقل فرماتے ہیں حضرت ابن عمر زمین کا کرایہ وصول فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت رافع بن خدیج کی کچھ بات سنی۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے میرا ہاتھ پکڑا اور وہ حضرت رافع بن خدیج کے پاس چلے (مسئلہ کی تحقیق کرنے کے واسطے ) میں بھی ساتھ تھا چنانچہ حضرت رافع بن خدیج نے اپنے چچا کے نام سے حدیث شریف بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کا کرایہ اور اس کی اجرت لینے کی ممانعت فرمائی تھی چنانچہ اس دن سے حضرت عبداللہ بن عمر نے کرایہ لینا چھوڑ دیا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید بن زریع، ایوب، حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عمر زمین کا کرایہ وصول کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ابن عمر کو معاویہ کی اخیر خلافت میں اطلاع ملی کہ حضرت رافع بن خدیج اس کرایہ وصول کرنے کے سلسلہ میں ممانعت کی حدیث نقل فرماتے ہیں پھر ابن عمر ان کے یہاں تشریف لائے اور اس وقت ان کے ساتھ تھا۔ حضرت ابن عمر نے ان سے دریافت فرمایا انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے زمین کو اجرت پر دینے سے پھر اس کے بعد حضرت ابن عمر نے کرایہ وصول کرنا چھوڑ دیا اور حضرت ابن عمر سے جو شخص مسئلہ دریافت کرتا تو وہ فرماتے تھے کہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھیتوں کا کرایہ لینے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم بن اعین،شعیب بن لیث، لیث، کثیر بن فرقد، حضرت نافع، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کھیت کی زمین کو کرایہ اور اجرت پر دیا کرتے تھے حضرت عبداللہ بن عمر کے سامنے حضرت رافع بن خدیج کا تذکرہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کام سے منع فرمایا ہے حضرت نافع بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ان کی جانب چلے مقام بلاط میں اور میں ان کے ہمراہ تھا تو حضرت رافع بن خدیج سے حضرت ابن عمر نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھیتوں کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، عبید اللہ بن عمر، حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر کو اطلاع دی کہ حضرت رافع بن خدیج ایک روایت بیان فرماتے ہیں زمین کے کرایہ پر دینے سے متعلق۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اور وہ شخص دونوں حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ حضرت رافع بن خدیج کے پاس جانے کے لیے روانہ ہوئے حضرت رافع بن خدیج نے حضرت عبداللہ بن عمر کو یہ اطلاع سنائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تھا زمین کو اجرت پر دینے سے چنانچہ اس روز سے حضرت عبداللہ بن عمر نے زمین کو اجرت پر دینا چھوڑ دیا۔

 

 

٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے۔

 

 

٭٭ ہشام بن عمار، یحیی بن حمزہ، اوزاعی، حفص بن غیاث، حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر اپنی زمین کو اس غلہ کے عوض اجرت پر دیا کرتے تھے کہ جو غلہ اس زمین سے پیدا ہو پس حضرت عبداللہ بن عمر کو یہ اطلاع ملی حضرت رافع بن خدیج سے کہ کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے اور وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ اس پر حضرت عمر فرمانے لگے کہ ہم لوگ زمین کو کرایہ پر چلاتے تھے جب کہ ہم لوگ حضرت رافع بن خدیج کو نہیں پہچانتے تھے پھر جب کچھ خیال آیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ دیا چنانچہ میں نے حضرت رافع بن خدیج تک ان کو پہنچایا۔ حضرت رافع سے عبداللہ بن عمر نے دریافت کیا کہ کیا تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا ہے ؟ تو حضرت رافع نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ زمین کو کسی شے کے بدلہ اجرت پر نہ دیا کرو۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، سفیان، حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ہم لوگ مخابرۃ کرتے تھے اور ہم اس میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں محسوس کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت رافع نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن خالد، حضرت حجاج سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں گواہ ہوں لیکن میں نے حضرت ابن عمر سے سنا کہ جس وقت ان سے کوئی شخص مخابرہ سے متعلق مسئلہ دریافت کرتا تھا تو وہ فرماتے تھے کہ میری رائے میں تو مخابرہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہم کو شروع سال میں یہ اطلاع ملی کہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ وہ مخابرہ کرنے سے منع فرماتے تھے یعنی زمین کو اجرت اور بٹائی پر دینے سے منع فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں گواہ ہوں لیکن میں نے حضرت ابن عمر سے سنا کہ جس وقت ان سے کوئی شخص مخابرہ سے متعلق مسئلہ دریافت کرتا تھا تو وہ فرماتے تھے کہ میری رائے میں تو مخابرہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہم کو شروع سال میں یہ اطلاع ملی کہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ وہ مخابرہ کرنے سے منع فرماتے تھے یعنی زمین کو اجرت اور بٹائی پر دینے سے منع فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ حرمی بن یونس، عارم، حماد بن زید، عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مخابرہ سے منع فرمایا محمد بن مسلم طائفی نے بھی اسی کی مثل روایت نقل کی ہے

 

 

٭٭ محمد بن عامر، سریج، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، جابر فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مخابرہ محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا سفیان بن عیینہ نے ابن عمر اور جابر دونوں کو ایک روایت میں اکٹھا کیا ہے

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن ، سفیان بن عیینہ، حضرت عمرو بن دینار، حضرت ابن عمر اور حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھلوں کو اس وقت تک فروخت کرنے سے منع فرمایا کہ جس وقت تک کہ وہ اپنے مقصد کو نہ پہنچ جائیں (یعنی جب تک وہ پک نہ جائیں ) اور کھانے کے قابل نہ ہو جائیں اور آپ نے (زمین کو) اجرت پر دینے سے منع فرمایا اور کرایہ پر زمین کو دینے سے منع فرمایا یعنی زمین کو تہائی یا چوتھائی پر دینے سے منع فرمایا

 

 

٭٭ابو بکر محمد بن اسماعیل طبرانی، عبدالرحمن بن یحیی، مبارک بن سعید، یحیی بن ابی کثیر، حضرت ابو نجاشی سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت رافع بن خدیج نے حدیث نقل فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے رافع تم لوگ کھیتوں کو اجرت پر دیا کرتے ہو؟ حضرت رافع بن خدیج نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ کھیتوں کو چوتھائی پر دیتے ہیں یا کسی سے وسق (وزن کا نام ہے ) جو لے لیا کرتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ایسا کام نہ کرو بلکہ خود ہی کھیتی کیا کرو یا کسی کو زمین مانگے ہوئے پر یعنی عاریت پر دے دیا کرو اگر تم ایسا نہ کرو تو اپنی زمین کو بغیر کھیتی کے اس طرح رکھ لو (لیکن مستقلاً) ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زمین کو اسی طریقہ سے بغیر کھیتی کرے ہی (بیکار) ڈال دو۔

 

 

٭٭ہشام بن عمار، یحیی بن حمزہ، اوزاعی، ابو نجاشی، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ ہمارے یہاں ایک روز حضرت ظہیر بن رافع تشریف لائے اور وہ بیان فرمانے لگے کہ ہم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نفع بخش کام کرنے سے منع فرمایا ہے اس پر ہم لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ یعنی کس چیز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے ؟ وہ جواب میں کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک برحق ہے بہر حال مجھ سے یہ دریافت کیا کہ تم لوگ اپنے کھیتوں کے معاملہ میں کس طریقہ سے کیا کرتے ہو؟ حضرت ظہیر بن رافع فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا چوتھائی حصہ پر دے دیتے ہیں اور کبھی چند وسق کھجوروں اور جو پر بھی اجرت مقرر کر کے معاملہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اس طریقہ سے نہ کیا کرو کہ دوسرے کو دے دو یا خالی رکھ چھوڑو۔

 

 

٭٭محمد بن حاتم، حبان، عبداللہ بن مبارک، لیث، بکیر بن عبداللہ بن اشج، حضرت اسید بن رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ حضرت رافع کے بھائی نے اپنی برادری سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چیز سے منع فرمایا کہ وہ چیز تم لوگوں کے نفع کی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم اور فرمانبرداری بہتر ہے تمام فائدوں سے اور جس چیز سے منع فرمایا وہ حقل ہے۔

 

 

٭٭ربیع بن سلیمان،شعیب بن لیث، لیث،جعفر بن ربیعہ، حضرت عبدالرحمن بن ہرمز سے روایت ہے کہ میں نے حضرت اسید بن رافع بن خدیج انصاری سے سنا وہ نقل فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو محاقلہ سے ممانعت ہوئی اور محاقلہ اس کو کہتے ہیں کہ زمین میں کھیتی کرنے کے لیے کھیتی پر دیں اور اس کی پیداوار میں سے ایک حصہ زمین کے عوض مقرر کر لیں۔

 

 

٭٭محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، سعید بن یزید ابو شجاع، حضرت عیسیٰ بن سہل بن رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ میں یتیم تھا اور میں اپنے دادا حضرت رافع بن خدیج کی گود میں پرورش پاتا تھا جس وقت میں جوان ہوا اور ان کے ساتھ حج کیا تو میرا بھائی عمران بن سہل بن رافع آیا اور کہنے لگا کہ اے باپ (یعنی دادا سے کہا) کہ ہم نے فلاں زمین دو سو درہم کے عوض اجرت پر دی ہے انہوں نے کہا بیٹا تم اس معاملہ کو چھوڑ دو۔ خداوند قدوس تم کو دوسرے راستہ سے رزق عطا فرمائے گا۔ اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کو اجرت پر دینے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭حسین بن محمد، اسماعیل بن ابراہیم، عبدالرحمن بن اسحاق ، ابو عبیدہ بن محمد، ولید بن ابی ولید، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت نے فرمایا کہ خداوند قدوس حضرت رافع بن خدیج کی مغفرت فرمائے میں ان سے زیادہ اس حدیث شریف سے بخوبی واقف ہوں اصل واقعہ یہ ہے کہ دو اشخاص نے آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم لوگوں کی یہی حالت ہے تو تم لوگ کھیتوں کو کرایہ اور اجرت پر نہ دیا کرو۔

 

ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں

 

عمرو بن زرارہ، اسماعیل، حضرت ابن عون سے روایت ہے کہ حضرت محمد بن سیرین فرماتے تھے کہ زمین کی حالت ایسی ہے کہ جس طریقہ سے مضاربت کا مال تو جو بات مضاربت کے مال میں درست ہے تو وہ زمین کے سلسلہ میں بھی جائز ہے اور مضاربت کے سلسلہ میں جو بات درست نہیں تو وہ بات زمین میں بھی درست نہیں ہے اور وہ فرماتے تھے کہ میری رائے میں کسی قسم کی برائی نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی تمام زمین کاشت کار کے حوالے کرے اس شرط کے ساتھ کہ وہ خود اور اس کے اہل و عیال اور متعلقین محنت کریں گے لیکن خرچہ اس کے ذمہ لازم نہیں وہ تمام کا تمام زمین کے مالک کاہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، محمد بن عبدالرحمن ، نافع، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کو وہاں کے درخت سپرد کر دیئے اور ان کو زمین بھی دے دی کہ تم محنت کرو اپنے خرچہ سے اور جو کچھ اس میں سے پیدا ہو آدھا ہمارا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبد الحکم،شعیب بن لیث، محمد بن عبدالرحمن، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کو وہاں کے درخت سپرد کر دیئے اور ان کو زمین بھی دے دی کہ تم محنت کرو اپنے خرچہ سے اور جو کچھ اس میں سے پیدا ہو آدھا ہمارا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم،شعیب بن لیث، لیث، محمد بن عبدالرحمن ، حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں پیداوار جو منڈیر (پانی کی نالیوں ) پر ہو اور کچھ گھاس کے جس کی مقدار کا علم نہیں ہے زمین کے مالک کو ملے گا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق ، حضرت عبدالرحمن بن اسود سے روایت ہے کہ میرے دونوں چچا تہائی اور چوتھائی پر بٹائی کرتے تھے اور میں ان کا شریک اور حصہ دار تھا اور حضرت علقمہ اور حضرت اسود کو اس بات کا علم تھا لیکن وہ حضرات کچھ نہیں فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، معمر، عبدالکریم جزری، حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا بہتر ہے کہ جو لوگ (عمل) کرتے ہو کہ اپنی زمین کو سونے یا چاندی کے عوض کرایہ اور اجرت پر دیتے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ،جریر، منصور، حضرت ابراہیم، حضرت سعید بن جبیر بنجر زمین کو کرایہ اور اجرت پر دینے کو برا نہیں خیال فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن زرارہ، اسماعیل، ایوب، حضرت محمد نے کہا کہ حضرت شریح (جو کہ کوفہ کے قاضی تھے ) وہ مضاربت کرنے والے کے سلسلہ میں دو طرح سے حکم فرمایا کرتے تھے کبھی تو وہ مضارب کو فرماتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لا کہ تم جس کی وجہ سے معذور ہو اور ضمان ادا نہ کرنا پڑے اور کبھی مال والے سے کہتے کہ تم اس بات پر گواہ لا کہ مضارب نے کسی قسم کی کوئی خیانت نہیں کی تم اس سے حلف لے لو اس نے خداوند قدوس کی کوئی کسی قسم کی خیانت نہیں کی۔

 

شرکت الا بدان (یعنی شرکت ضائع) سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سفیان، ابو اسحاق ، ابو عبیدہ، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر کے دن میں حضرت عمار اور حضرت سعد شریک ہوئے کہ جو بھی ہم لوگ کمائیں گے (یعنی مشرکین اور کفار کا مال یا ان کے قیدی وغیرہ سب کو) ہم آپس میں تقسیم کر لیں گے تو حضرت سعد دو قیدیوں کو پکڑ کر لائے اور مجھ کو اور حضرت عمار کو کچھ نہیں ملا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، ابن مبارک، یونس، حضرت زہری نے بیان کیا کہ دو غلام شریک ہوں وہ شرکت مفاوضہ کے طور سے شریک ہوں پھر ان میں سے ایک شخص بدل کتابت کرے تو یہ جائز ہے اور ان میں سے ایک دوسرے کی جانب سے ادا کرے گا۔

 

خون کی حرمت

 

ہارون بن محمد، بن بکار، بن بلال، محمد بن عیسیٰ بن سمیع، حمید طویل، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو مشرکین اور کفار سے جنگ کرنے کے واسطے حکم ہوا ہے کہ میں مشرکین سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ کوئی سچا پروردگار نہیں علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بلاشبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے ہیں اور نماز پڑھیں ہماری نماز کی طرح اور ہمارے قبلہ کی جانب منہ کریں نماز میں اور ہمارے ذبح کیے ہوئے جانور کھائیں جس وقت یہ تمام باتیں کرنے لگیں (یعنی یہ سب کام انجام دینے لگیں ) تو ہم پر حرام ہو گئے ان کے خون اور مال لیکن کسی حق کے عوض۔

 

 

٭٭ ترجمہ حسب سابق ہے۔ اس روایت کا مضمون مذکورہ بالا حدیث کے مطابق ہے صرف اس قدر اضافہ ہے کہ ان کے واسطے مسلمانوں کے واسطے ہے اور ان پر ہے جو مسلمانوں پر ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن عبد اللہ، حمید، حضرت میمون بن سیاہ نے حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا کہ ابو حمزہ مسلمان کے واسطے خون اور مال کو کیا شے حرام کرتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا جو شخص شہادت دے اس بات کی کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کوئی عبادت کے قابل نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس کے بھیجے ہوئے ہیں اور ہمارے قبلہ کی جانب چہرہ کرے اور جانور کھائے (یعنی ہمارا ذبح حلال سمجھے ) تو وہ شخص مسلمان ہے اور اس کے واسطے وہ تمام حقوق ہیں جو کہ مسلمان پر ہیں (یعنی جس طریقہ سے دوسرے مسلمانوں کے حقوق واجب ہیں اسی طریقہ سے اس کا حق بھی ہم پر واجب ہو گیا)

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عمرو بن عاصم، عمران، ابو عوام، معمر، زہری، انس بن مالک سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی تو عرب کے بعض لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے۔ حضرت عمر نے فرمایا اے ابو بکر تم اہل عرب سے کس طریقہ سے جہاد کرو گے ؟ (حالانکہ وہ لوگ کلمہ توحید کے ماننے والے ہیں ) حضرت ابو بکر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے جہاد کرنے کا جس وقت تک کہ وہ شہادت دیں اس بات کی کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے علاوہ خداوند قدوس کے اور میں خداوند قدوس کے بھیجا ہوا ہوں اور نماز ادا کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ خدا کی قسم اگر وہ ایک بکری کا بچہ نہیں دیں گے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ (زکوٰۃ میں ) دیتے تھے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا جس وقت میں نے حضرت ابو بکر کی (مذکورہ) رائے صاف ستھری (یعنی مضبوط) دیکھی تو میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے (یعنی اس قدر صفائی اور استقلال حق بات میں ہی ہو سکتا ہے )

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی اور حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ مقرر ہوئے اور عرب کے کچھ لوگ کافر ہو گئے تو حضرت عمر نے حضرت ابو بکر سے فرمایا تم کس طریقہ سے جہاد کرو گے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے جہاد کرنے کا۔ جس وقت تک کہ وہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ نہ کہہ لیں پھر میں نے کلمہ تو حید لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہا (اس کلمے کے کہنے کی وجہ سے ) اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان کو محفوظ کر لیا لیکن کسی حق کی وجہ سے جس طریقہ سے کہ حد یا قصاص میں ) اور اس کا حساب خداوند قدوس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ سچے دل سے کہتا ہے یا صرف (زبان سے ) حضرت ابو بکر نے فرمایا خدا کی قسم میں تو اس شخص سے جہاد کروں گا کہ جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کرے (مثلا نماز ادا کرے اور زکوٰۃ دے اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے فرائض میں سے کسی ایک فرض کا اگر منکر ہو تو وہ شخص کافر ہے ) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے خدا کی قسم اگر رسی وہ لوگ (زکوٰۃ میں ) نہیں دیں گے جو کہ وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان لوگوں سے جہاد کروں گا رسی جہاد میں نہ دینے کی وجہ سے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر نے فرمایا خدا کی قسم کچھ نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کا سینہ کھول دیا جہاد کرنے کے واسطے پس اس وقت مجھ کو علم ہوا کہ یہی (فیصلہ) حق ہے۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، محمد بن یزید، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے جہاد کرنے کا یہاں تک کہ وہ لوگ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہیں پھر جس وقت یہ کہا تو مجھ سے اپنی جانوں کو اور اپنی دولت کو محفوظ کر لیا کہ کسی حق کی وجہ سے اور حساب ان کا خداوند قدوس کے پاس ہو گا جس وقت اہل عرب دین سے منحرف ہو گئے یعنی مرتد بن گئے تو حضرت عمر نے حضرت ابو بکر سے فرمایا کیا تم ان لوگوں سے لڑتے ہو اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس طریقہ سے سنا ہے وہ فرمانے لگے کہ خدا کی قسم! میں نماز اور زکوٰۃ میں کسی قسم کا فرق نہیں کروں گا اور جہاد کروں گا ان لوگوں سے جو کہ ان دونوں کے درمیان فرق کریں گے۔ پھر حضرت ابو بکر کی طرف متوجہ ہوئے اور ہم نے یہی فیصلہ اور معاملہ درست پایا تو گویا کہ اس پر اجماع صحابہ ہو گیا۔ حضرت امام نسائی (مصنف کتاب) نے فرمایا یہ روایت قوی نہیں ہے اس لیے اس کو حضرت زہری سے حضرت سفیان بن حسین نے روایت کیا ہے اور وہ قوی (راوی) نہیں ہیں۔

 

 

٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم ہوا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ کلمہ توحید لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیں پھر جس شخص نے لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہہ لیا تو اس نے مال وجان کو محفوظ کر لیا لیکن کسی حق کے عوض اور اس کا حساب خداوند قدوس کے پر ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، ابو ہریرہ، ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس روایت میں لفظ عقالا کے بجائے عناقا ہے یعنی ایک بکری کا بچہ۔

 

 

٭٭ احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان، شعیب، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ، ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس روایت میں لفظ عقالا کے بجائے عناقا ہے یعنی ایک بکری کا بچہ۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، مؤمل بن فضل، ولید،شعیب بن ابی حمزہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ، ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس روایت میں لفظ عقالا کے بجائے عناقا ہے یعنی ایک بکری کا بچہ۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو معاویہ، احمد بن حرب، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ، ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس روایت میں لفظ عقالا کے بجائے عناقا ہے یعنی ایک بکری کا بچہ۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، یعلی بن عبید، اعمش، ابو سفیان،جابر، ابو صالح، ابو ہریرہ، ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس روایت میں لفظ عقالا کے بجائے عناقا ہے یعنی ایک بکری کا بچہ۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، عبید اللہ بن موسی، شیبان، عاصم، زیاد بن قیس، ابو ہریرہ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم لوگوں نے جہاد کریں گے یہاں تک کہ وہ کلمہ توحید کہہ لیں۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، اسود بن عامر، اسرائیل، سماک، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے خاموشی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس شخص نے کہا جی ہاں لیکن وہ یہ بات اپنی شناخت کرنے کے واسطے کہتا ہے (ور نہ اس کو دل میں بالکل یقین نہیں ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو قتل نہ کرو اس لیے کہ مجھ کو لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم ہوا ہے یہاں تک کہ وہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہہ لیں پھر جس وقت وہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہہ لیں تو انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں کو بچا لیا لیکن کسی حق کی وجہ سے اور ان کا حساب خداوند قدوس کے ذمہ ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ، اسرائیل، سماک، نعمان بن سالم، ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ اس وقت مدینہ منورہ کی مسجد میں ایک قبے کے اندر تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ پر وحی آتی ہے کہ میں (کافر) لوگوں سے جہاد کروں تاکہ وہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہیں (ہم نے اس جگہ لفظ قتال کا ترجمہ جہاد سے اس وجہ سے کیا ہے کہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کفار سے جنگ کرنا جہاد تھا) باقی روایت مندرجہ بالا مضمون جیسی ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، حسن بن محمد بن اعین، زہیر، سماک، نعمان بن سالم، اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ ایک قبہ کے اندر تھے پھر اوپر کی روایت کے مطابق حدیث نقل کی۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، نعمان بن سالم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت اوس سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا قبیلہ ثقیف کے لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا ایک قبہ میں تمام لوگ سو گئے صرف میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جاگتے تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور وہ شخص خاموشی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا تم اس کو قتل کر ڈالو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا وہ شخص اس بات کی شہادت نہیں دیتا کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور میں خداوند قدوس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہوں۔ اس شخص نے کہا کیوں نہیں ! میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو چھوڑ دو۔ پھر فرمایا مجھ کو لوگوں سے جنگ (یعنی جہاد) کرنے کا حکم ہوا ہے یہاں تک کہ وہ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ کہہ لیں۔ جس وقت انہوں نے یہ کہا تو ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہو گئے لیکن کسی حق کے عوض۔ محمد نے کہا کہ میں نے حضرت شعبہ سے دریافت کیا کہ یہ حدیث شریف میں نہیں ہے اگر وہ لوگ کلمہ پڑھ لیں تو ان کے جان و مال مجھ پر حرام ہو گئے۔ مگر کسی حق کے بدلہ میں۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، عبداللہ بن بکر، حاتم بن ابو صغیرۃ، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے جنگ کرنے کا یہاں تک کہ وہ شہادت دیں اس بات کی کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے علاوہ خداوند قدوس کے پھر حرام ہو جائیں گے ان خون اور مال لیکن کسی حق کے عوض۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، صفوان بن عیسی، ثور، ابو عون، ابو ادریس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ سے سنا وہ خطبہ دے رہے تھے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت کم احادیث روایت کی ہیں وہ فرماتے تھے کہ میں نے سنا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ میں فرماتے تھے ہر ایک گناہ خداوند قدوس معاف فرمائے گا (یعنی مغفرت کی توقع ہے ) یا جو شخص کفر کی حالت میں مرے تو اس کی بخشش کی توقع نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، الاعمش، عبداللہ بن مرۃ، مسروق، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ظلم کی وجہ سے کوئی خون نہیں ہوتا (یعنی کوئی شخص قتل نہیں ہوتا) مگر حضرت آدم کے پہلے لڑکے (قابیل کی گردن) پر اس کے خون کا گناہ کا ایک حصہ ڈال دیا جاتا ہے اس لیے کہ میں اس نے پہلے خون کرنا ایجاد کیا اور اس نے اپنے بھائی (ہابیل) کو قتل کیا اس طریقہ سے جو شخص بری بات (یا گناہ کا کام) ایجاد کرے تو اس کا وبال اس پر ہوتا رہے گا۔

 

قتل گناہ شدید

 

محمد بن معاویۃ بن مالج، محمد بن سلمہ حرانی، ابن اسحاق، ابراہیم بن مہاجر، اسماعیل، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ مسلمان کا قتل کرنا خداوند قدوس کے نزدیک تمام دنیا کے تباہ ہونے سے زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن حکیم بصری، ابن ابو عدی، شعبہ، یعلی بن عطاء، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دنیا کا تباہ اور برباد ہو جانا خداوند قدوس کے نزدیک حقیر ہے کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنے سے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، یعلی، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ مسلمان کا قتل کرنا خداو ندقدوس کے نزدیک شدید ہے دنیا کے تباہ ہونے سے۔

 

 

٭٭ عمرو بن ہشام، مخلد بن یزید، سفیان، منصور، یعلی، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ مسلمان کا قتل کرنا خداوند قدوس کے نزدیک شدید ہے دنیا کے تباہ ہونے سے۔

 

 

٭٭ حسن بن اسحاق مروزی، خالد بن خداش، حاتم بن اسماعیل، بشر بن مہاجر، عبداللہ بن بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مومن کو قتل کرنا خداوند قدوس کے نزدیک شدید ہے دنیا کے تباہ ہونے سے۔

 

٭٭ سریع بن عبداللہ واسطی، اسحاق بن یوسف الازرق، شریک، عاصم، ابو وائل، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز کا سب سے پہلے بندہ سے (قیامت کے دن) حساب ہو گا اور سب سے پہلے لوگوں کے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلیمان، ابو وائل، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز سب سے پہلے جو لوگوں کا فیصلہ کیا جائے گا تو خون کے مقدمات کا فیصلہ ہو گا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن مستمر، عمرو بن عاصم، معتمر، وہ اپنے والد سے ، الاعمش، شقیق بن سلمہ، عمرو بن شرجیل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن ایک آدمی دوسرے شخص کا ہاتھ پکڑ کر لائے گا اور کہے گا کہ اے پروردگار! اس نے مجھ کو قتل کر دیا تھا خداوند قدوس ارشاد فرمائے گا کہ تو نے کس وجہ سے اس کو قتل کیا تھا وہ شخص کہے گا کہ میں نے اس کو تیرے واسطے (یعنی خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی وجہ سے ) قتل کیا تھا تاکہ تجھ کو عزت حاصل ہو اور میں تیرا نام اونچاکرنے کی وجہ سے اس شخص کو قتل کیا تھا (یعنی جہاد میں ) اس پر خداوند قدوس فرمائے گا کہ بلاشبہ عزت میرے واسطے ہے اور قیامت کے دن ایک آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر لائے گا اس خداوند قدوس سے عرض کرے گا کہ اس شخص نے مجھ کو قتل کیا تھا تو پروردگار فرمائے گا کہ کس وجہ سے تو نے اس کو قتل کیا تھا؟ تو وہ شخص کہے گا کہ فلاں آدمی کو عزت دینے کے واسطے قتل کیا تھا (یعنی کسی حاکم وقت یا بادشاہ کی حکومت مضبوط کرنے یا کسی دنیاوی مقصد کے واسطے قتل کیا تھا اس پر خداوند قدوس فرمائے گا کہ فلاں شخص کے واسطے عزت نہیں ہے پھر وہ اس کا گناہ (اپنی طرف) سمیٹ لے گا۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن تمیم، حجاج، شعبہ، ابو عمران جونی، جندب سے روایت ہے کہ فلاں آدمی نے مجھ کو قتل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مقتول شخص اپنے قاتل کو (پکڑ کر) لائے گا اور کہے گا کہ اے میرے پروردگار اس سے پوچھ لے کہ اس نے مجھ کو کس وجہ سے قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا کہ میں نے اس کو قتل کیا تھا فلاں آدمی کی حکو مت میں (یعنی فلاں حاکم یا فلاں فرمانروا کے تعاون کے واسطے ) حضرت جندب نے کہا پھر تم اس سے بچو (کیونکہ یہ گناہ معاف نہیں ہو گا )

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عمار دہنی، سالم بن ابی جعد سے روایت ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ جس کسی نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا پھر توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے اور وہ شخص ہدایت کے راستے پر آیا تو اس کے واسطے توبہ کہاں قبول ہے ؟ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مقتول قاتل کو پکڑے ہوئے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہتا ہوا ہو گا اور وہ کہے گا اے میرے پروردگار! اس نے مجھ کو کس وجہ سے گناہ میں قتل کیا تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا خداوند قدوس نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا) 4۔ النساء:93) پھر اس کو منسوخ نہیں فرمایا۔

 

 

٭٭ ازہر بن جمیل بصری، خالد بن حارث، شعبہ، مغیرۃ بن نعمان، سعید بن جبیر نے فرمایا اہل کوفہ نے اس آیت کریمہ میں اختلاف فرمایا ہے وہ آیت ہے (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا) 4۔ النساء:93) یہ آیت کریمہ منسوخ ہے یا نہیں ؟ تو میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ آخر میں نازل ہوئی اس کو کسی نے منسوخ نہیں کیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، قاسم بن ابو بزۃ، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے دریافت کیا جو شخص کسی مسلمان کو قتل کرے اس کی توبہ قبول ہے یا نہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں۔ میں نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی جو کہ سورہ فرقان میں مذکور ہے اور وہ آیت کریمہ (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا) 4۔ النساء:93) ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اور اس کو ایک دوسری آیت کریمہ جو کہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے اس نے منسوخ کر دیا اور وہ مدنی آیت ہے (وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ۔ الخ) 4۔ النساء:93)

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، منصور، سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت عبدالرحمن بن ابی لیل نے حکم فرمایا کہ میں ابن عباس سے دونوں آیات کے متعلق دریافت کروں میں نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا اس کو کسی آیت کریمہ نے منسوخ نہیں کیا پھر اس آیت کریمہ کو (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا) 25۔ الفرقان:68) بیان کر کے انہوں نے کہا یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔

 

 

٭٭ حاجب بن سلیمان منبجی، ابن ابو رواد، ابن جریج، عبدالاعلی ثعلبی، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ عرب کی ایک قوم تھی کہ جس نے بہت خون کیے تھے (یعنی کافی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا تھا) اور بہت زنا کیے تھے اور بہت زیادہ حرام کام کا ارتکاب کیا تھا وہ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم جو کہتے ہو اور تم جس طرف بلاتے ہو وہ اچھا ہے لیکن یہ بات کہو کہ ہم نے جو کام انجام دئیے ہیں ان کا کچھ کفارہ بھی ہے (یعنی معاف ہو سکتے ہیں ) اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًااٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا) 25۔ الفرقان:68) تک یعنی خداوند قدوس تبدیل فرما دے گا اگر وہ لوگ ایمان قبول کر لیں اور توبہ کر لیں ان کے شرک کو ایمان سے اور ان کے زنا کو پاکی سے اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اے میرے بندو! جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے (یعنی گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں )۔

 

 

٭٭ حسن بن محمد زعفرانی، حجاج بن محمد، ابن جریج، یعلی، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ کچھ لوگ مشرکین میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کچھ فرماتے ہیں اور جس جانب دعوت دیتے ہیں وہ اچھا اور بہتر ہے آخر آیت کریمہ تک سابقہ آیت جیسی۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، شبابۃ بن سوار، ورقاء، عمرو، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز مقتول شخص قاتل کو (پکڑ کر) لائے گا اور اس کی پیشانی اور اس کا سر اس کے ہاتھ میں ہو گا (یعنی مقتول کے ) اور اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! اس نے مجھ کو قتل کر دیا یہاں تک کہ عرش کے پاس لے جائے گا۔ راوی نے نقل کیا پھر لوگوں نے حضرت ابن عباس سے توبہ کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا) 4۔ النساء:93) اور فرمایا جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہوئی اور اس کی توبہ کہاں قبول ہے ؟

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، انصاری، محمد بن عمرو، ابو زناد، خارجۃ بن زید، زید بن ثابت نے فرمایا یہ آیت کریمہ سورہ فرقان کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے لیکن اس میں چھ ماہ کی بجائے آٹھ ماہ ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، مسلم بن ابراہیم، حماد بن سلمہ، عبدالرحمن بن اسحاق، ابو زناد، مجالد بن عوف، خارجۃ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔ الخ) 4۔ النساء:93) تو ہم لوگ خوفزدہ ہو گئے کہ مسلمان کے قاتل کے واسطے ہمیشہ دوزخ ہے پھر یہ آیت کریمہ (والذین لا یدعون۔۔ الخ) نازل ہوئی اور یہ آیت کریمہ (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ) 25۔ الفرقان:68) (یعنی سورہ فرقان کی آیت کریمہ) تو ہم لوگوں کا خوف کم ہوا کیونکہ اس آیت کریمہ سے قاتل کی توبہ قبول ہونا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ روایت اگلی روایت کے خلاف ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے (وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا) 4۔ النساء:93) بعد میں نازل ہوئی۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، بقیۃ، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، ابو رہم سمی، ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خداوند قدوس کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ وہ کسی کو شریک نہیں قرار دیتا اور وہ نماز پڑھتا ہے اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں سے بچتا ہے تو اس کے واسطے جنت ہے لوگوں نے دریافت کیا بڑے بڑے گناہ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا اور مسلمان مرد یا عورت کو قتل کرنا اور کفار مشرکین کے مقابلہ میں فرار اختیار کرنا (یعنی میدان جہاد سے بھاگنا)۔

 

کبیرہ گناہوں سے متعلق احادیث

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبید اللہ بن ابو بکر، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں (1) خداوند قدوس کے ساتھ شریک قرار دینا (2) والدین کی (جائز کاموں میں ) نافرمانی کرنا (3) مسلمان کو ناحق قتل کرنا اور (4) جھوٹ بولنا۔

 

 

٭٭ عبدۃ بن عبدالرحیم، ابن شمیل، شعبہ، فراس، شعبی، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کبیرہ گناہ یہ ہیں (1) خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا (2) والدین کی نافرمانی کرنا (3) ناحق کسی کا خون کرنا (4) اور مقابلہ والے دن کفار سے قتال سے بھاگنا۔ اس جگہ یہ روایت مختصرا بیان کی گئی ہے۔

 

 

٭٭ عباس بن عبدالعظیم، معاذ بن ہانی، حرب بن شداد، یحیی بن ابو کثیر، عبدالحمید بن سنان، عبید بن عمیر سے ان کے والد نے نقل کیا اور وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے تھے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کبائر کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے بڑے سات گناہ ہیں (1) خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (2) ناحق خون بہانا (3) اور مقابلہ کے کفار کے سامنے سے فرار ہونا۔ (خلاصہ حدیث)۔

 

 

بڑا گناہ کون سا ہے ؟ اور اس حدیث مبارکہ میں یحیی اور عبدالرحمن کا سفیان پر اختلاف کا بیان

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، واصل، ابو وائل، عمرو بن شرجیل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کونسا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو برابر قرار دے حالانکہ خداوند قدوس نے تجھ کو پیدا کیا ہے پھر میں نے عرض کیا کونسا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اپنی اولاد کو قتل کر دے اس اندیشہ سے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہوں گے۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، واصل، ابو وائل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کونسا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو برابر قرار دے حالانکہ خداوند قدوس نے تجھ کو پیدا کیا ہے پھر میں نے عرض کیا کونسا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اپنی اولاد کو قتل کر دے اس اندیشہ سے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہوں گے۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔

 

 

٭٭ عبدہ، یزید، شعبہ، عاصم، ابو وائل، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شرک کرنا یعنی خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا اور دوسرے کو اس کے برابر کرنا اور پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا اور اپنی اولاد کو غربت اور تنگدستی کے اندیشہ سے قتل کرنا اس اندیشہ سے کہ وہ (بچے ) ساتھ کھائیں گے۔ پھر حضرت عبداللہ نے اس آیت کریمہ (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ) 25۔ الفرقان:68) کی تلاوت فرمائی حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت غلط ہے اور صحیح روایت پہلی ہے اور یزید نے اس میں بجائے (راوی) واصل کے راوی عاصم کا نام غلطی سے لیا ہے۔

 

کن باتوں کی وجہ سے مسلمان کا خون حلال ہو جاتا ہے ؟

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، الاعمش، عبداللہ بن مرۃ، مسروق، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے مسلمان کا خون کرنا درست نہیں ہے جو (مسلمان) کہ اس کی گواہی دیتا ہو کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں لیکن تین شخصوں کا ایک تو وہ جو مسلمان اسلام چھوڑ کر (یعنی مرتد ہو جائے ) مسلمان کی جماعت سے علیحدہ ہو جائے اور دوسرے نکاح ہونے کے بعد زنا کرنے والا اور تیسرا جان کے بدلے جان (یعنی قصاص میں ) حضرت اعمش جو کہ اس حدیث شریف کے راوی ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابراہیم سے بیان کی تو انہوں نے حضرت اسود سے انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، ابو اسحاق ، عمرو بن غالب سے روایت ہے کہ عائشہ صدیقہ نے کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں لیکن اس شخص کا جو محصن (شادی شدہ) ہو کر زنا کا مرتکب ہو یا مسلمان ہونے کے بعد کافر مشرک بن جائے یا دوسرے کا (ناحق) قتل کرے۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء، حسین، زہیر، ابو اسحاق ، عمرو بن غالب، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمار سے فرمایا تم واقف ہو کہ کسی انسان کا (ناحق) خون کرنا درست اور حلال نہیں ہے لیکن تین آدمیوں کا یا تو جان کے بدلہ جان لینے والے کا (قاتل قصاص لینا) یا جو شخص محصن ہونے کے بعد زنا کا مرتکب ہو اور حدیث (مکمل) بیان کی۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، محمد بن عیسی، حماد بن زید، یحیی بن سعید، ابو امامۃ بن سہل و عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عثمان کے ساتھ تھے جس وقت وہ کھڑے ہوئے تھے (یعنی جب ان کو غداروں اور باغیوں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا) اور جس وقت ہم لوگ کسی جگہ سے اندر کی جانب گھستے تو ہم لوگ بلاط کے لوگوں کی باتیں سنتے۔ ایک دن حضرت عثمان غنی اندر داخل ہوئے پھر باہر نکلے اور فرمایا جو لوگ مجھ کو قتل کرنے کے واسطے کہتے ہیں ہم نے کہا ان کے لیے خداوند قدوس کافی ہے یعنی ان کو سزا دینے کے واسطے ) حضرت عثمان نے پوچھا کس وجہ سے وہ لوگ مجھ کو قتل کرنے کے درپے ہیں ؟ (پھر فرمایا کہ) میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے مسلمان کا خون کرنا درست نہیں لیکن تین وجہ سے ایک تو جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو جائے یا احصان کے بعد زنا کا مرتکب ہو یا کسی کی (ناحق) جان لے تو خداوند قدوس کی قسم کہ میں نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد اور نہ میں نے تمنا کی کہ میں دین کو تبدیل کروں جس وقت سے خداوند قدوس نے مجھ کو ہدایت فرمائی پھر وہ لوگ مجھ کو کس وجہ سے قتل کرنا چاہتے ہیں ؟

 

جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو جائے اس کو قتل کرنا

 

احمد بن یحیی صوفی، ابو نعیم، یزید بن مردانبۃ، زیاد بن علاقۃ، عرفجۃ بن شریح الاشجعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد نئی نئی باتیں ہوں گی (یا فتنہ فساد کا زمانہ آئے گا) تو تم لوگ جس کو دیکھو کہ اس نے جماعت کو چھوڑ دیا یعنی مسلمانوں کے گروہ سے وہ شخص علیحدہ ہو گا اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت میں پھوٹ ڈالی اور تفرقہ پیدا کیا تو جو شخص ہو تو تم اس کو قتل کر ڈالو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے (یعنی جو جماعت اتفاق و اتحاد پر قائم ہے تو وہ خداوند قدوس کی حفاظت میں ہے ) اور شیطان اس کے ساتھ ہے جو کہ جماعت سے علیحدہ ہو وہ اس کو لات مار کر ہنکاتا ہے۔

 

 

٭٭ ابو علی محمد بن یحیی مروزی، عبداللہ بن عثمان، ابو حمزۃ، زیاد بن علاقۃ، عرفجۃ بن شریح سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد (فتنہ و) فساد ہوں گے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور فرمایا جس کو تم لوگ دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں تفریق پیدا کرنا چاہ رہا ہے تو جب وہ تفریق ڈالے اور اس کو قتل کر ڈالو چاہے وہ کوئی ہو۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، زید بن عطاء بن سائب، زیاد بن علاقۃ، اسامۃ بن شریک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میری امت میں پھوٹ ڈالنے کے واسطے نکلے تو تم اس کی گردن اڑا دو۔

 

اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کر دیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے

 

اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، حجاج صواف، ابو رجاء، ابو قلابۃ، ابو قلابۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ کچھ لوگ (یعنی قبیلہ عکل کی ایک جماعت) خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی ان لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تھی اور وہ لوگ بیمار پڑ گئے ان لوگوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی۔ تم لوگ ہمارے چروا ہے کے ساتھ جاگے۔ اونٹوں میں (یعنی تم لوگ تازہ ہوا کھانے کے واسطے باہر چلے جا اور) اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (جو کہ تم لوگوں کے مرض کا علاج ہے ) ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں ! (ٹھیک ہے ) چنانچہ وہ لوگ گئے اور انہوں نے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب کیا اور وہ صحت یاب ہو گئے جس وقت وہ لوگ تندرست اور شفا یاب ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چروا ہے کو انہوں نے قتل کر ڈالا (اور اونٹوں کو لے کر فرار ہو گئے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے پیچھے لوگوں کو روانہ کیا اور وہ ان کو پکڑ کر لائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو الٹا کر کے کٹوا دیا اور ان لوگوں کو آنکھوں کی گرم سلائی سے اندھا کیا اور پھر ان کو دھوپ میں ڈلوا دیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ مر گئے۔

 

اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کر دیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے

 

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ولید، اوزاعی، یحیی، ابو قلابۃ، انس سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے تو ان کو مدینہ منورہ میں رہنا سہنا ناگوار اور گراں محسوس ہوا (کیونکہ ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تھی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو صدقہ کے اونٹ دیئے جانے کا حکم فرمایا اور ان کا دودھ اور پیشاب پی لینے کا (اس کی وجہ سابق میں گزر چکی ہے ) چنانچہ ان لوگوں نے اسی طرح سے کیا اور انہوں نے چروا ہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو بھگا کر لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو گرفتار کرنے کے واسطے لوگوں کو بھیجا چنانچہ وہ لوگ گرفتار کر کے لائے گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے پھر ان کی آنکھیں گرم سلائی سے گرم کر کے اندھی کی گئیں اور ان کے زخم کو (خون بند کرنے کے واسطے ) تلا (داغا) نہیں بلکہ ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ لوگ مر گئے۔ اس پر خداوند قدوس نے آیت کریمہ نازل فرمائی۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، محمد بن بشر، سفیان، ایوب، ابو قلابۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں قبیلہ عکل یا قبیلہ عرینہ کے لوگ آئے (ان لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تھی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان کے علاج کی غرض سے ) ان کو اونٹوں کا یا دودھ والی اونٹنی کے دودھ اور پیشاب پینے کا حکم فرمایا پھر ان لوگوں نے چروا ہے کو قتل کر ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو گرفتار کر کے حاضر کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کٹوائے اور ان کی آنکھیں اندھی کی گئیں۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عبداللہ بن عمر ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ وہ لوگ کہ جن کا سابقہ روایت میں تذکرہ ہے وہ قبیلہ عرینہ کے لوگ تھے جس وقت وہ لوگ تندرست ہو گئے تو وہ اسلام سے منحرف ہو گئے اور اپنے چروا ہے کو جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دیا تھا (اور وہ مسلمان تھا) اس کو قتل کر دیا اور یہ بھی اسی روایت میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر آنکھیں پھوڑ کر ان کو پھانسی پر لٹکایا۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں سولی کا تذکرہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ لوگ لڑتے ہوئے گئے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر ان لوگوں کو چھوڑ دیا حرہ (جو کہ مدینہ منورہ کے نزدیک ایک پتھریلی زمین ہے ) وہاں پر چھوڑا یہاں تک کہ وہ لوگ مر گئے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ کچھ لوگ قبیلہ عکل کے یا قبیلہ عرینہ کے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم لوگ تھن والے تھے (یعنی ہم لوگ جانور رکھتے تھے ) اور ہم ان کا دودھ پیا کرتے تھے اور ہم لوگ زمین والے یا کھیتی والے نہ تھے تو ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی آخر تک۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ کچھ لوگ قبیلہ عکل کے یا قبیلہ عرینہ کے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم لوگ تھن والے تھے (یعنی ہم لوگ جانور رکھتے تھے ) اور ہم ان کا دودھ پیا کرتے تھے اور ہم لوگ زمین والے یا کھیتی والے نہ تھے تو ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی آخر تک۔

 

ترجمہ سابق کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت انس نے فرمایا میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا جو کہ اپنے منہ کو زمین سے رگڑ رہا تھا پیاس کی شدت کی وجہ سے یہاں تک کہ وہ مر گئے۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ

 

محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید بن ابو انیسۃ، طلحہ بن مصرف، یحیی بن سعید، انس بن مالک ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ جو کہ گنوار تھے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا پھر ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی یہاں تک کہ ان کے چہرے زرد پڑ گئے اور ان کے پیٹ پھول گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دودھ والی اونٹنی کے پاس ان کو بھیجا آخر روایت تک۔ حضرت عبدالملک نے حضرت انس سے یہ حدیث نقل کرتے وقت دریافت فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سزا ان لوگوں کو ان کے جرم کی وجہ سے دی یا ان کے کفر کی وجہ سے ؟ تو انہوں نے فرمایا کفر کی وجہ سے۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یحیی بن ایوب و معاویۃ بن صالح، یحیی بن سعید، سعید بن مسیب سے مرسلا روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے۔ پھر وہ لوگ بیمار پڑ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دودھ والی اونٹنیوں میں بھیجا تاکہ وہ ان کا دودھ پئیں چنانچہ وہ لوگ اسی جگہ رہے اور چروا ہے سے متعلق ان کی نیت خراب ہو گئی وہ چرواہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غلام تھا۔ ان لوگوں نے اس چروا ہے کو قتل کر ڈالا اور انٹنیوں کو بھگا کر لے گئے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع سن کر ارشاد فرمایا اے خدا اس شخص کو پیاسا رکھ کہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کو (واضح رہے کہ اس جگہ غلام اور چروا ہے کے واسطے آل کا لفظ ارشاد فرمایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غلام بھی آل میں داخل ہے ) تمام رات پیاسا رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو تلاش کرنے کے واسطے لوگوں کو بھیجا چنانچہ وہ لوگ گرفتار کر کے لے گئے پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے گئے اور ان کی آنکھوں کو گرم سلائی سے اندھا کیا گیا (کیونکہ انہوں نے چروا ہے کو بھی اسی طرح سے مار ڈالا تھا) اس حدیث شریف کے سلسلہ میں بعض راوی دوسرے راوی سے زیادہ روایت نقل فرماتے ہیں لیکن حضرت معاویہ نے اس حدیث کے سلسلہ میں یہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ ان اونٹنیوں کو مشرکین کے ملک میں بھگا کر لے گئے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ خلنجی، مالک بن سعیر، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو پکڑا۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھیں (گرم سلائیوں سے ) اندھی کر دی گئیں۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، ہشام سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عروہ سے روایت نقل کی کہ ایک قوم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ لوٹ لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کو اندھا کرایا (یعنی ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں )۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یحیی بن عبداللہ بن سالم و سعید بن عبدالرحمن، ہشام بن عروۃ، عروۃ بن زبیر سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دودھ والی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور ان کو ہنکا کر لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلام کو قتل کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو ان کے پکڑنے کے واسطے بھیجا وہ لوگ پکڑے گئے اور گرفتار کر لئے گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے اور ان کی آنکھ میں گرم سلائی پھیری گئی۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابو ہلال، ابو زناد، عبداللہ بن عبید اللہ، عبداللہ بن عمر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طریقہ سے روایت کیا ہے اور فرمایا ان ہی لوگوں سے متعلق آیت محاربہ یعنی نازل ہوئی۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، لیث، ابن عجلان، ابو زناد سے روایت ہے کہ ان لوگوں کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت ہاتھ پاؤں کاٹے یعنی ان لوگوں کے کہ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنیاں چوری کی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی آنکھوں کو آگ کے شعلوں سے اندھا کر دیا تھا تو خداوند قدوس نے عتاب نازل فرمایا (کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان لوگوں کو اس قدر اذیت دینا لازم نہ تھا) آیت کریمہ نازل فرمائی۔

 

 

٭٭ فضل بن سہل الاعرج، یحیی بن غیلان، یزید بن زریع، سلیمان تیمی، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اندھا کر دیا کیونکہ انہوں نے بھی چرواہوں کو اندھا کر دیا تھا (قصاصا ان باغیوں کو اندھا کیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اسی طریقہ سے کیا۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح و حارث بن مسکین، ابن وہب، محمد بن عمرو، ابن جریج، ایوب، ابو قلابۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک یہودی شخص نے قبیلہ انصار کی ایک لڑکی کو قتل کر ڈالا زیور حاصل کرنے کی لالچ میں آ کر اور اس لڑکی کو انہوں نے کنویں میں ڈال دیا اور اس لڑکی کا ان لوگوں نے ایک پتھر سے سر توڑ ڈالا پھر وہ شخص گرفتار کر لیا گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس کو پتھروں سے ہلاک کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جائے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، وہ اپنے والد سے ، یزید نحوی، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ خداوند قدوس نے اس فرمان مبارک میں کہ (اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ) 25۔ المائدہ:33) آخر تک یہ آیت مشرکین کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے جو ان لوگوں میں سے توبہ کرے گرفتار کیے جانے سے قبل تو اس کو سزا نہیں ہو گی اور یہ آیت مسلمان کے واسطے نہیں ہے اگر مسلمان قتل کرے یا ملک میں فساد برپا کرے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرے پھر وہ کفار کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کے ذمہ وہ حد ساقط نہیں ہو گی (اور جس وقت وہ شخص اہل اسلام کے ہاتھ آئے گا تو اس کو سزا ملے گی)۔

 

مثلہ کرنے کی ممانعت

 

محمد بن مثنی، عبدالصمد، ہشام، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ میں صدقہ خیرات کرنے کی رغبت دلاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مثلہ کرنے سے منع فرماتے (یعنی ہاتھ پاؤں کاٹنے سے )۔

 

پھانسی دینا

 

عباس بن محمد دوری، ابو عامر عقدی، ابراہیم بن طہمان، عبدالعزیز بن رفیع، عبید بن عمیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کا خون درست نہیں ہے لیکن تین صورتوں میں ایک تو اس صورت میں جبکہ کوئی شخص محصن (شادی شدہ) ہو کر زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو پتھروں سے مار ڈالا جائے اور دوسرے وہ شخص جو کسی کو جان بوجھ کر قتل کرے (تو اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا )ْتیسرے وہ شخص جو کہ مرتد ہو جائے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرے تو وہ شخص قتل کیا جائے یا اس کو سولی دی جائے یا قید میں ڈال دیا جائے۔

 

مسلمان کا غلام اگر کفار کے علاقہ میں بھاگ جائے اور جریر کی حدیث میں شعبی پر اختلاف

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، منصور، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کسی کا غلام بھاگ جائے (یعنی فرار ہو جائے ) تو اس کی نماز (یعنی کسی قسم کی کوئی عبادت) مقبول نہیں ہو گی جب تک کہ وہ غلام اپنے مالکوں کے پاس واپس نہ آ جائے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، مغیرۃ، شعبی سے روایت ہے کہ حضرت جریر سے روایت نقل کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز (وغیرہ) قبول نہیں ہو گی اور اگر وہ (اسی حالت میں ) مر گیا تو کافر مرے گا چنانچہ حضرت جریر کا ایک غلام بھاگ گیا تھا تو انہوں نے اس کو پکڑوا لیا اور اس کی گردن اڑا دی (کیونکہ وہ غلام مرتد ہو کر مشرکین و کفار کے ساتھ شامل ہو گیا تھا)۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، مغیرۃ، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے تو اس کا ذمہ نہیں ہے (یعنی اپنے نفع و نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہے )۔

 

راوی ابو اسحٰق سے اختلاف سے متعلق

 

قتیبہ، حمید بن عبدالرحمن، وہ اپنے والد سے ، ابو اسحاق ، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے تو اس کا خون حلال ہو گا

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

مسلمان سے جنگ کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ابو اسحاق ، عمرو بن سعد، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے لڑنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق یعنی بدترین گناہ (اور گناہ کبیرہ) ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن ،شعبہ، ابو اسحاق سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے لڑنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق یعنی بدترین گناہ (اور گناہ کبیرہ) ہے۔

 

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، عبدالرحمن بن مہدی،شعبہ، ابو اسحاق، ابو الاحوص، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے لڑنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق یعنی بدترین گناہ (اور گناہ کبیرہ) ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابو زعراء، ابو الاحوص، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے لڑنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق یعنی بدترین گناہ (اور گناہ کبیرہ) ہے۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، عبدالملک بن عمیر، عبدالرحمن بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کو برا کہنا فسق ہے (یعنی اس حرکت سے انسان فاسق و فاجر بن جاتا ہے ) اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حماد سے کہا کہ میں نے حضرت منصور اور حضرت سلیمان اور حضرت زبیر سے وہ سب حضرات نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کو برا کہنا فسوق (شدید درجہ گناہ) ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ تم کس پر تہمت لگا رہے ہو منصور پر یا زبیدہ پر یا سلیمان پر انہوں نے فرمایا نہیں لیکن میں تہمت لگاتا ہوں حضرت ابو وائل پر کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عبداللہ سے سنی۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔ حضرت زبیدہ نے کہا کہ میں نے حضرت ابو وائل سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حضرت عبداللہ سے سنا؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

جو شخص گمراہی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کرے ؟

 

بشر بن ہلال صواف، عبدالوارث، ایوب، غیلان بن جریر، زیاد بن ریاح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص فرماں برداری سے خارج ہو جائے اور وہ جماعت سے نکل جائے الگ ہو جائے پھر وہ شخص مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور جو کوئی میری امت پر نکلے نیک اور برے تمام کو قتل کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے اقرار ہو وہ اقرار نہ کرے تو وہ شخص مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور جو گمراہی کے جھنڈے کے نیچے لڑائی کرے یا لوگوں کو عصبیت کی طرف بلائے یا اس کا غصہ تعصب کی وجہ سے ہو (نہ کہ خداوند قدوس کے واسطے ) پھر قتل کیا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی جیسی ہو گی۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، عمران قطان، قتادۃ، ابو مجلز، جندب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بے راہ جھنڈے کے نیچے (یعنی اندھا دھند بغیر سوچے سمجھے غیر شرعی جنگ کے لیے ) لڑے اپنی قوم کے تعصب سے وہ غصہ کرے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت کی اسناد میں عمران جو کہ کوئی قوی راوی نہیں ہے۔ (عمران سے مراد عمران قطان راوی ہے )

 

مسلمان کا خون حرام ہونا

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، منصور، ربیع، ابو بکر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر ہتھیار اٹھائے اور دوسرا بھی ساتھ ہی ہاتھ اٹھائے تو دونوں کے دونوں دوزخ کے کنارے پر ہیں پھر جس وقت قتل کیا تو دوزخ میں گر جائیں گے (واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جس وقت وہ دونوں کے دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے ہتھیار اٹھائیں ) اور اگر ایک نے ہتھیار اٹھایا اور دوسرے شخص نے ہتھیار نہیں اٹھایا اور ایک نے دوسرے کا دفاع کیا تو ہتھیار اٹھانے والا (یعنی لڑائی میں پہل کرنے والا) دوزخ میں جائے گا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یعلی، سفیان، منصور، ربیعی، ابو بکر نے فرمایا جس وقت دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھائیں تو دونوں دوزخ کے کنارے پر ہیں پھر جس وقت ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا تو دونوں دوزخ میں ہوں گے (قتل کرنے والا شخص تو دوزخ میں اس وجہ سے داخل ہو گا کہ اس نے ایک مسلمان کا قتل کیا اور مقتول اس وجہ سے دوزخ میں داخل ہو گا کہ اس کی نیت بھی مسلمان کو قتل کرنے کی تھی لیکن اتفاق سے مقتول کا دانہ چلا اور قاتل کا وار کارگر ہو گیا)۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، سلیمان تیمی، حسن، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت دو مسلمان تلواریں (یا آج کے دور کے کوئی بھی ہتھیار بندوق پستول چاقو وغیرہ) لے کر ایک دوسرے کے برسر پیکار ہو جائیں تو دونوں کے دونوں دوزخ میں داخل ہوں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! قتل کرنے والا شخص تو دوزخ میں داخل ہو گا (یہ تو سمجھ میں آتا ہے ) لیکن جو شخص قتل ہوا ہے تو وہ کس وجہ سے دوزخ میں داخل ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی نیت اپنے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی (واضح رہے کہ اس کے بعد آنے والی روایت میں ہے کہ وہ شخص اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا یعنی کہ وہ جلدی سے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا (خود ہی قتل ہو گیا)

 

 

٭٭ ترجمہ سابق روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی مصیصی، خلف، زائدۃ، ہشام، حسن، ابو بکر سے اسی طریقہ سے روایت ہے کہ اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں (لیکن ایک قتل ہو گیا اور دوسرا یعنی قاتل بچ گیا)۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی مصیصی، خلف، زائدۃ، ہشام، حسن، ابو بکر سے اسی طریقہ سے روایت ہے کہ اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں (لیکن ایک قتل ہو گیا اور دوسرا یعنی قاتل بچ گیا)۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی مصیصی، خلف، زائدۃ، ہشام، حسن، ابو بکر سے اسی طریقہ سے روایت ہے کہ اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں (لیکن ایک قتل ہو گیا اور دوسرا یعنی قاتل بچ گیا)۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی مصیصی، خلف، زائدۃ، ہشام، حسن، ابو بکر سے اسی طریقہ سے روایت ہے کہ اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں (لیکن ایک قتل ہو گیا اور دوسرا یعنی قاتل بچ گیا)۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی مصیصی، خلف، زائدۃ، ہشام، حسن، ابو بکر سے اسی طریقہ سے روایت ہے کہ اس میں اس قدر اضافہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں (لیکن ایک قتل ہو گیا اور دوسرا یعنی قاتل بچ گیا)۔

 

 

٭٭ احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، واقد بن محمد بن زید، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی گردن مارے (یعنی ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرے )

 

 

٭٭ محمد بن رافع، ابو احمد زبیدی، شریک، الاعمش، ابو ضحی، مسروق، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارو (یعنی ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا اور ایک دوسرے کو قتل کرو) اور کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے جرم کے بدلہ (یعنی دوسرے جرم کی پاداش میں ) نہیں ماخوذ ہو گا (بلکہ ہر ایک شخص اپنے جرم اور گناہ کی خود سزا پائے گا) حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت خطاء ہے اور صیح مرسلا ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، احمد بن یونس، ابو بکر بن عیاش، الاعمش، مسلم، مسروق، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میری وفات کے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارو (یعنی ناحق ایک دوسرے کا قتل کرو) اور (قیامت کے دن) کوئی اپنے باپ بھائی کے جرم کے بدلہ ماخوذ نہ ہو گا (بلکہ ہر شخص سے اس کے عمل کے مطابق گرفت ہو گی (تشریح سابقہ روایت میں گزر چکی)

 

 

٭٭ محمد بن العلاء، ابو معاویۃ، الاعمش، مسلم، مسروق سے مرسلا روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تم لوگوں کو اس طریقہ سے نہ پاؤں کہ تم لوگ میرے بعد کافر ہو جاؤ آخر تک حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت ٹھیک ہے (یعنی قابل عمل ہے )

 

 

٭٭ محمد بن العلاء، ابو معاویۃ، الاعمش، مسلم، مسروق سے مرسلا روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تم لوگوں کو اس طریقہ سے نے پاؤں کہ تم لوگ میرے بعد کافر ہو جاؤ آخر تک حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت ٹھیک ہے (یعنی قابل عمل ہے )

 

 

٭٭ عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، محمد بن سیرین، ابو بکر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارو (یعنی ایک دوسرے کا ناحق قتل کرو)۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد و عبدالرحمن، شعبہ، علی بن مدرک، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، جریر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃالوداع میں لوگوں کو خاموش فرمایا پھر ارشاد فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارو (یعنی باہمی قتل و قتال کرو)۔

 

 

٭٭ ابو عبیدۃ بن ابی سفر، عبداللہ بن نمیر، اسماعیل، قیس، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ سے لوگوں کو خاموش کرا لو پھر فرمایا دیکھ لو میں تم لوگوں کو نہ پاؤں اس کے بعد (مراد قیامت کا دن ہے ) کہ تم لوگ میرے بعد کافر ہو جاؤ اور ایک دوسرے کی گردن مارو۔

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، عثمان بن عمر، یونس بن یزید، زہری، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری (نامی شخص جو کہ خوارج کا سردار تھا) جس وقت وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے فتنہ میں نکلا تو حضرت ابن عباس کے پاس اس نے کہلوایا کہ ذوی القری کا حصہ کن لوگوں کو ملنا چاہیے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا وہ حصہ ہمارا ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رشتہ داری رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ان ہی لوگوں میں تقسیم فرما دیا (یعنی قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو مطلب میں ) اور حضرت عمر نے ہم کو یہ دینا چاہا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے حق سے کم دیتے تھے تو ہم نے وہ نہیں لیا انہوں نے کہا تھا کہ ہم رشتہ داری کرنے والے کی مد د کریں گے اور ان میں جو شخص مقروض ہو گا اس کا قرضہ ادا کریں گے اور جو غریب اور نادار ہو گا ہم اس کو دیں گے اور اس سے زیادہ دینے سے ان لوگوں نے انکار کر دیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یزید، ابن ہارون، محمد بن اسحاق ، زہری و محمد بن علی، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری (نامی شخص) نے حضرت ابن عباس کی خدمت میں خط تحریر کیا کہ (مال غنیمت اور مال فء میں ) حصہ کس کو ملنا چاہیے ؟) میں نے حضرت ابن عباس کی طرف سے جواب لکھا کہ وہ حصہ ہم کو ملنا چاہیے جو کہ اہل بیعت میں سے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور حضرت عمر نے ہم سے کہا تھا کہ میں اس حصہ میں نکاح کر دوں گا کہ جس کا نکاح نہیں ہوا اور جو شخص مقروض ہو تو اس کا قرض ادا کر دوں گا ہم نے کہا نہیں ہمارا حصہ ہم کو دے دو۔ انہوں نے نہیں مانا تو ہم نے ان پر ہی چھوڑ دیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی، محبوب، ابن موسی، ابو اسحاق ، فزاری، اوزاعی سے روایت ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے (جو کہ خلیفہ عادل تھے قبیلہ بنی اسید میں سے ) عمر بن ولید کو خط لکھا کہ تمہارے والد ولید بن عبدالملک بن مروان کی تقسیم کے مطابق تو کل پانچواں حصہ تمہارا ہے لیکن درحقیت تمہارے والد کا حصہ ایک مسلمان کے برابر تھا اور پانچویں حصہ میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ہر ذوی القربی اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کا حق تھا تو تمہارے والد پر دعوی کرنے والے قیامت کے دن کتنے لوگ ہوں گے اور ایسے آدمی کی کس طریقہ سے نجات ہو گی کہ جس کے اس قدر تعداد میں دعوی دار ہوں اور تم نے جو باجے اور ستار نکالے ہیں وہ سب کے سب بدعت ہیں اور میں نے سوچا تھا کہ تمہارے پاس ایک ایسے شخص کو بھیجوں جو کہ تمہارے لمبے لمبے (بال) پکڑ کر کھینچے تاکہ تم ذلیل اور رسوا ہو جاؤ اور گمراہی سے باز رہو۔ (یہ جملے تنبیہ کہ طور پر فرمائے تھے )۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب بن یحیی، نافع بن یزید، یونس بن یزید، ابن شہاب، سعید بن مسیب، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت عثمان خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور اس سلسلہ میں عرض کیا غزوہ حنین میں جو مال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تقسیم فرمایا تھا قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو عبدالمطلب کو تقسیم کیا تھا (اس پر انہوں نے کہا) جو مال قبیلہ بنی مطلب کو دیا جو کہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم کو کچھ نہیں عطاء فرمایا حالانکہ ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ ہی رشتہ داری رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو مطلب کو ایک سمجھتا ہوں کیونکہ یہ دونوں کے دونوں الگ الگ نہیں ہوئے اور اسلام اور دور جاہلیت میں ایک ساتھ شامل رہے حضرت جبیر بن معطم نے کہا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنو عبد شمس اور قبیلہ بنو نوفل کو پانچویں حصہ میں سے کچھ عطاء نہیں فرمایا جیسے کہ بنوہاشم اور نبی عبدالمطلب کو دیا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، زہری، سعید بن مسیب، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذوی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور نبی عبدالمطلب کو تقسیم کیا تو میں اور حضرت عثمان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! قبیلہ بنوہاشم کی فضیلت کا تو ہم لوگ انکار نہیں کر سکتے اس لیے کہ خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان میں سے بنایا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنو عبدالمطلب کو تو عطاء فرمایا اور ہم کو نہیں دیا اور جب کہ ہم اور وہ لوگ برابر ہیں ایک درجہ کے اعتبار سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبیلہ بنو عبدالمطلب مجھ سے الگ نہیں ہوئے نہ تو دور جاہلیت میں نہ ہی دور اسلام میں اور بنوہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلیاں ایک ہاتھ کی دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندر کیں یعنی اس طریقہ سے ملے ہوئے جس طریقہ سے کہ یہ انگلیاں (ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں )

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبو ب، ابن موسی، ابو اسحاق و فزاری، عبدالرحمن بن عیاش، سلیمان بن موسی، مکحول، ابو سلام، ابو امامۃ باہلی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ حنین والے دن اونٹ کا ایک بال لے لیا اور فرمایا اے لوگو! میرے واسطے درست نہیں اس مال میں سے (کچھ لے لینا) جو کہ خداوند قدوس نے تم کو عطاء فرمایا اس بال کے برابر لیکن پانچواں حصہ اور وہ پانچواں حصہ بھی تم ہی لوگوں کو واپس کر دیا جاتا ہے اس لیے کہ اس میں یتامی مساکین اور مسافروں کی پرورش ہوتی ہے اور جو کام تمام اہل اسلام کے نفع کے واسطے ہوتے ہیں اس میں خرچ ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یزید، ابن ابو عدی، حماد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان میں سے ایک بال اپنی دو انگلیوں کے درمیان میں پکڑا پھر فرمایا میرے لیے فء میں سے اس قدر بھی نہیں ہے اور نہ مگر پانچواں حصہ وہ بھی تم کو ہی (واپس) دے دیا جاتا ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، سفیان، عمرو یعنی ابن دینار، زہری، مالک بن اوس بن حدثان، عمر سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو نضیر کے مال خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو فء کے طور سے دے دئیے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں سے ایک سال کا خرچہ حاصل فرماتے اور باقی گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچہ فرماتے سامان جہاد میں سے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب یعنی ابن موسی، ابو اسحاق ، فزاری، شعیب بن ابو حمزۃ، زہری، عروۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کے واسطے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ کا اور خیبر کے مال کا پانچواں حصہ چھوڑا تھا۔ حضرت ابو بکر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمارے ترکہ کا کوئی وارث نہیں ہے بلکہ ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور اسی حدیث کے بموجب حضرت ابو بکر نے اپنی لڑکی حضرت عائشہ صدیقہ کا ترکہ بھی نہیں دیا بلکہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیویوں اور کنبہ کے لوگوں کو دیا کرتے تھے اسی طریقہ سے دیتے رہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی، محبو ب، ابو اسحاق ، زائدۃ، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء سے روایت ہے کہ جو کچھ خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا تم جو مال غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ذوی القربی کا تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک ہی حصہ تھا یعنی اللہ کے واسطے الگ کوئی حصہ نہیں تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حصہ میں سے لوگوں کو سواریاں دیتے نقد دیتے اور جس جگہ چاہے صرف اور خرچہ فرماتے اور جو دل چاہتا خرچ فرماتے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، یعنی ابن موسی، ابو اسحاق ، فزاری، سفیان، قیس بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسن بن محمد سے اس آیت کریمہ سے متعلق دریافت کیا (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ) 8۔ الانفال:41) تو انہوں نے فرمایا یہ تو خداوند قدوس کے کلام کا آغاز ہے جس طریقہ سے کہتے ہیں دنیا اور آخرت خداوند قدوس کے واسطے ہے لیکن اختلاف ہے لوگوں نے دو حصوں میں ایک تو رسول کے حصہ میں اور دوسرے ذوی القربی کے حصہ میں۔ بعض حضرات نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلیفہ کو ملنا چاہیے اور بعض حضرات نے فرمایا ذوی القربی کا حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہیے (جس طریقہ سے کہ پہلے ملا کرتا تھا) اور بعض حضرات نے فرمایا نہیں اب خلیفہ کے رشتہ داروں کو وہ حصہ ملنا چاہیے پھر آخر کار تمام حضرات کی رائے اس بات پر طے ہو گئی کہ ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور سامان جہاد میں خرچ کرنا چاہیے وہ اسی طریقہ سے خرچ ہوتا رہا۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق کے دور میں۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابو اسحاق، موسیٰ بن ابی عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت یحیی بن جزا سے دریافت کیا آیت کریمہ (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ) 8۔ الانفال:41) بارے میں تو میں نے عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کس قدر حصہ تھا انہوں نے کہا پانچواں حصہ کا یعنی کل مال کا بیسواں حصہ۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابو اسحاق ، مطرف سے روایت ہے کہ حضرت شعبہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حصہ کے متعلق دریافت کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صفی سے متعلق دریافت کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حصہ تو ایک مومن کے حصہ کے بقدر ہی تھا اور صفی کے واسطے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار تھا کہ جو چیز پسند آئے وہ حاصل فرما لیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی، محبو ب، ابو اسحاق ، سعید جریری، یزید بن شخیر سے روایت ہے کہ میں (مقام مربد سے ) حضرت مطرف کے ساتھ تھا کہ اس دوران ایک شخص چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یہ ٹکڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے واسطے لکھ دیا ہے (اور مجھ کو دے دیا ہے ) تم میں سے کوئی شخص اس تحریر کو پڑھ سکتا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یہ تحریر میں پڑھ سکتا ہوں اس میں تحریر تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیغمبر کی جانب سے قبیلہ بنو زہیر بن اقیس کے لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ گواہی دیں گے اس بات کی کہ خدا کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور وہ اقرار کریں گے مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اور پیغمبر کے حصہ اور صفی دینے کا تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ لوگ حفاظت میں رہیں گے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابو اسحاق ، شریک، خصیف، مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا قرآن کریم میں جو خمس اللہ اور رسول دونوں کے واسطے مذکور ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رشتہ داروں کے واسطے مذکور ہے کیونکہ ان کو صدقہ میں سے کچھ لے لینا درست نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدقہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے وہ قبیلہ بنوہاشم کے واسطے مناسب نہیں ہے اور اس کے شایان شان نہیں ہے (کیونکہ بنی ہاشم سب سے افضل اور اعلی خاندان ہے ) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پانچواں حصہ میں سے پانچواں حصہ لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رشتہ دار پانچواں حصہ لیتے اور یتیم اسی قدر لیتے تھے مسافر بھی اسی مقدار میں لے لیتے تھے اور مساکین بھی اسی مقدار میں لے لیتے تھے۔ جن کے پاس سواری نہ ہوتی یا راستہ کا خرچہ نہ ہوتا حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ جو اللہ نے شروع فرمایا اپنے نام سے (فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ۔ الخ) یہ ابتداء کلام ہے اس وجہ سے کہ تمام چیزیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور فء اور خمس میں اللہ نے اپنے نام پر شروع کیا اس لیے کہ یہ دونوں عمدہ آمدن ہیں اور صدقہ میں اپنے نام سے شروع نہیں فرمایا بلکہ اس طریقہ سے فرمایا (اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلفُقَرَآءِ) آخر تک کیونکہ صدقہ لوگوں کا میل کچیل ہے اور بعض نے کہا کہ مال غنیمت میں سے کچھ لے کر خانہ کعبہ میں رکھ دیتے ہیں اور وہ ہی حصہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حصہ امام کو ملے گا وہ اس میں گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا اور جس کو مناسب سمجھے گا دے دے گا جس سے مسلمانوں کو نفع ہو اور حضرات اہل حدیث اور اہل علم اور فقہاء کرام اور قرآن کریم کے قاریوں کو دے گا اور رشتہ داروں کا حصہ قبیلہ نبی ہاشم اور بنی مطلب کو ملے گا چاہے وہ مال دار ہوں چاہے محتاج ہوں بعض نے کہا کہ جو ان میں محتاج ہوں ان کو ملے گا اور یہ قول زیادہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے لیکن چھوٹے اور بڑے اور مرد و عورت تمام کے تمام حصہ میں برابر ہیں (یعنی مال غنیمت میں عورت اور مرد اور بالغ نابالغ کی قید نہیں ہے سب کا سب برابر ہے )۔ کیونکہ اللہ عز و جل نے یہ مال ان کو دلایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو تقسیم فرمایا اور حدیث شریف میں یہ نہیں ہے کہ حضرت نے بعض حضرات کو زیادہ دلایا ہو اور بعض کو کم اور ہم اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف نہیں سمجھتے کہ اگر کسی شخص نے اپنے تہائی مال کی وصیت کی کسی کی اولاد کے واسطے تو وہ تمام اولاد کو برابر برابر ملے گا چاہے مرد ہوں چاہے عورت جب ان کا شمار ہو سکے اس طرح جو چیز کسی کی اولاد کو دلائی جائے تو اس میں تمام کے تمام برابر ہوں گے لیکن جس صورت میں دلانے والا واضح کر دے فلاں کو اس قدر اور فلاں کو اس قدر مال ملے گا تو اس کے کہنے کے مطابق دیا جائے گا اور یتامی کا حصہ ان یتامی کو دلایا جائے گا جو کہ مسلمان ہیں اسی طریقہ سے جو مسکین اور مسافر مسلمان ہیں اور کسی کو دو حصہ نہ دیئے جائیں گے یعنی مسکین اور مسافر دونوں کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ مسکین کا حصہ لیں یا مسافر کا اب باقی چار خمس مال غنیمت میں سے تو وہ امام تقسیم کرے گا ان مسلمانوں کو جو کہ بالغ ہیں اور جہاد میں شریک ہوئے تھے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل یعنی ابن ابراہیم، ایوب، عکرمۃ بن خالد، مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی دونوں حضرات جھگڑا کرتے ہوئے (یعنی اختلاف کرتے ہوئے آئے ) اس مال کے سلسلہ میں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تھا جیسے کہ فدک اور قبیلہ بنو نضیر اور غزوہ خیبر کا خمس کہ جس کو حضرت عمر نے اپنی خلافت میں اب دونوں حضرات کو سپرد کر دیا تھا۔ حضرت ابن عباس نے کہا کہ میرا اور ان کا فیصلہ فرما دیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میں کبھی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اس مال کو میں تقسیم نہیں کروں گا) اس لیے کہ دونوں کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا اور ہم لوگ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مال کے متولی رہے اور اس میں سے اپنے گھر کے خرچ کے مطابق لے لیتے اور باقی راہ خدا میں خرچ کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت ابو بکر اس کے متولی رہے پھر حضرت ابو بکر کے بعد میں اس کا متولی رہا۔ میں نے بھی اسی طریقہ سے کیا کہ جس طریقہ سے حضرت ابو بکر کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے لوگوں کو خرچہ کے مطابق دے دیا کرتے تھے اور باقی بیت المال میں جمع فرماتے پھر یہ دونوں (یعنی حضرت عباس اور حضرت علی) میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ وہ مال ہمارے حوالے فرما دیں ہم اس میں سے اسی طریقہ سے عمل کریں گے کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (اور حضرت ابو بکر صدیق) عمل فرماتے تھے اور جس طریقہ سے تم عمل کرتے رہے میں نے وہ مال دونوں کے سپرد کر دیا اور دونوں سے اقرار لے لیا اب یہ دونوں پھر واپس آ گئے ہیں ایک کہتا ہے میرا حصہ میرے بھتیجے سے واپس دلا (یعنی حضرت عباس سے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا تھے ) اور دوسرا شخص کہتا ہے کہ میرا حصہ میری اہلیہ کی جانب سے دلا (یعنی حضرت علی کیونکہ وہ شوہر تھے حضرت فاطمہ کے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محترم صاحب زادی تھیں ) اگر ان کو منظور ہو تو وہ مال میں ان کے سپرد کرتا ہوں اس شرط پر کہ اس طرح سے عمل فرمائیں کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمل فرماتے تھے اور ان کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا ہے اور ان کے بعد میں نے یہ کیا ہے اور جو ان کو منظور نہ ہو تو وہ اپنے گھر بیٹھ جائیں (اور جو مال ہے وہ ہمارے پاس ہی رہے گا) پھر حضرت عمر نے فرمایا قرآن کریم میں دیکھو کہ خداوند قدوس مال غنیمت سے متعلق فرماتا ہے کہ اس میں سے خمس خداوند قدوس اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور رشتہ داروں اور یتامی مساکین اور عاملین اور مسافروں کاہے اور صدقات کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ فقراء اور مساکین اور عاملین اور مؤلفۃ قلوب اور غلاموں اور قرض داروں اور مجاہدین کے واسطے ہیں اور اس مال کو بھی حضرت نے صدقہ و خیرات فرمایا تو اس میں بھی فقراء و مساکین اور تمام اہل اسلام کا حق ہو گا اور اس میں کچھ مال غنیمت ہے اس میں بھی اس سب کا حق ہے پھر ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو مال عطاء فرمایا اور (تم نے اس کے حاصل کرنے میں ) اپنے گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں (یعنی جنگ اور قتل و قتال کے بغیر جو مال ہاتھ آ گیا) راوی زہری نے نقل فرمایا البتہ یہ مال خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے اور وہ چند گاؤں عربیہ یا عرینہ کے اور فدک اور فلاں اور فلاں مگر اس مال کے حق میں بھی خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت فرمایا گاؤں والوں سے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے اور رشتہ داروں کا اور یتامی اور مساکین کا اور مسافروں کاہے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان فقراء کا بھی اس میں حق ہے جو کہ اپنے مکان چھوڑ کر آئے اور اپنے مکانات سے نکال دئیے گئے اور اپنے مالوں سے محروم کر دیئے گئے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ ان سے پہلے دارالسلام میں آ چکے تھے اور ایمان لا چکے تھے پھر ارشاد ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ جو کہ ان لوگوں کے بعد مسلمان ہو کر آئے تو اس آیت کریمہ نے تمام مسلمانوں کو احاطہ کر لیا اب کوئی مسلمان باقی نہیں رہا ہے کہ جس کا حق اس مال میں نہ ہو یا اس کا کچھ حصہ نہ ہوالبتہ تم لوگوں کے بعض اور باندی ہی رہ گئے ان کا حصہ اس مال میں نہیں ہے (وہ محروم ہیں ) اور میں زندہ رہوں گا تو البتہ خدا چاہے توہر ایک مسلمان کو اس میں سے کچھ نہ کچھ حق یا حصہ ملے گا۔

 

 

 

بیعت سے متعلق احادیث مبارکہ

 

تابعداری کرنے سے بیعت

 

ابو عبدالرحمن نسائی، قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی بن سعید، عبادۃ بن ولید بن عبادۃ بن صامت، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی سننے اور ماننے پر (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم اس کو سنیں گے اور اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے لیے امیر سردار بنایا جائے گا اس سے نہ جھگڑنے پر یعنی جس کو ہمارے اوپر حاکم قرار دیں گے ہم لوگ اس کی فرماں برداری کریں گے اور ہم لوگ ہمیشہ حق کے ماتحت رہیں گے چاہے ہم جس جگہ پر بھی ہوں اور ہم کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔

 

 

٭٭ ابو عبدالرحمن نسائی، قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی بن سعید، عبادۃ بن ولید بن عبادۃ بن صامت، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی سننے اور ماننے پر (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم اس کو سنیں گے اور اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے لیے امیر سردار بنایا جائے گا اس سے نہ جھگڑنے پر یعنی جس کو ہمارے اوپر حاکم قرار دیں گے ہم لوگ اس کی فرماں برداری کریں گے اور ہم لوگ ہمیشہ حق کے ماتحت رہیں گے چاہے ہم جس جگہ پر بھی ہوں اور ہم کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔

 

اس پر بیعت کرنا کہ جو بھی ہمارا امیر مقرر ہو گا ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، عبادۃ بن ولید بن عبادۃ، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور ماننے یعنی سماعت و اطاعت پر بیعت کی (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے اوپر امیر مقرر ہو گا اس سے نہ جھگڑنے پر اور ہمیشہ لوگ حق کے پابند رہیں گے جس جگہ ہوں ہم لوگ کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔

 

سچ کہنے پر بیعت کرنا

 

محمد بن یحییٰ بن ایوب، عبداللہ بن ادریس، ابن اسحاق، یحیی بن سعید، عبادۃ بن ولید بن عبادۃ، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور ماننے یعنی سماعت و اطاعت پر بیعت کی (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے اوپر امیر مقرر ہو گا اس سے نہ جھگڑنے پر اور ہمیشہ لوگ حق کے پابند رہیں گے جس جگہ ہوں ہم لوگ کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔ ہم نے بیعت کی اس پر (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کو ہم سے زیادہ عطاء فرمائیں گے تو ہم لوگ جھگڑا نہیں کریں گے اور جس جگہ ہوں گے سچ کہیں گے۔

 

انصاف کی بات کہنے پر بیعت کر نے سے متعلق

 

ہارون بن عبداللہ، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، عبادۃ بن ولید ، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور ماننے یعنی سماعت و اطاعت پر بیعت کی (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے اوپر امیر مقرر ہو گا اس سے نہ جھگڑنے پر اور ہمیشہ لوگ حق کے پابند رہیں گے جس جگہ ہوں ہم لوگ کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔ ہم نے بیعت کی اس پر (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کو ہم سے زیادہ عطاء فرمائیں گے تو ہم لوگ جھگڑا نہیں کریں گے اور جس جگہ ہوں گے سچ کہیں گے۔ ہم نے انصاف کی بات کہنے پر بیعت کی کہ ہم جس جگہ ہوں اور ہم خوفزدہ ہوں گے۔ اللہ کے کام میں کسی برا کہنے والے کے برا کہنے سے۔

 

کسی کی فضیلت پر صبر کر نے پر بیعت کرنا

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، عبادۃ بن ولید بن عبادۃ، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور ماننے یعنی سماعت و اطاعت پر بیعت کی (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو حکم صادر فرمائیں گے ہم لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے ) آسانی اور دشواری اور خوشی اور رنج ہر ایک حالت میں اور جو شخص ہمارے اوپر امیر مقرر ہو گا اس سے نہ جھگڑنے پر اور ہمیشہ لوگ حق کے پابند رہیں گے جس جگہ ہوں ہم لوگ کسی برا کہنے والی کی برائی سے نہیں ڈریں گے۔ ہم نے بیعت کی اس پر (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کو ہم سے زیادہ عطاء فرمائیں گے تو ہم لوگ جھگڑا نہیں کریں گے اور جس جگہ ہوں گے سچ کہیں گے۔ ہم نے انصاف کی بات کہنے پر بیعت کی کہ ہم جس جگہ ہوں اور ہم خوفزدہ ہوں گے۔ اللہ کے کام میں کسی برا کہنے والے کے برا کہنے سے۔ ہم نے انصاف کی بات کہنے پر بیعت کی کہ ہم جس جگہ ہوں اور ہم خوفزدہ ہوں گے۔ اللہ کے کام میں کسی برا کہنے والے کے برا کہنے سے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یعقوب، ابو حازم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے ذمہ فرمانبرداری کرنا لازم ہے (یعنی امیر المومنین کی فرمانبرداری کرنا لازم ہے ) چاہے تم خوش ہو یا غمگین ہو چاہے سختی ہو یا آسانی۔ اگرچہ تمہارے اوپر دوسرے کا مقام بڑھایا جائے (اور وہ تم سے زیادہ حقدار نہ ہو) جب بھی فرمانبرداری کرنا لازم ہے یہاں تک کہ خلاف شرح نہ ہو اور جو شریعت کے خلاف ہو تو اس میں کسی کی فرمانبرداری لازم نہیں ہے۔

 

اس بات پر بیعت کرنا کہ ہر ایک مسلمان کی بھلائی چاہیں گے

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، زیاد بن علاقۃ، جریر نے کہا کہ میں نے بیعت کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہر مسلمان کی بھلائی چاہنے پر (یعنی ہر ایک مسلمان کے ساتھ خلوص رکھیں گے صاف دل رہیں گے ایسا نہیں ہے کہ سامنے تو تعریف ہو اور پس پشت برائی ہو جیسا کہ اہل نفاق کی عادت ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، یونس، عمرو بن سعید، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، جریر نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حکم ماننے اور فرمانبرداری کرنے اور ہر ایک مسلمان کے خیر خواہ رہنے پر بیعت کی۔

 

جنگ سے نہ بھا گنے پر بیعت کرنا

 

قتیبہ، سفیان، ابو زبیر، جابر نے کہا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت نہیں کی لیکن اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاد سے فرار نہیں ہوں گے۔

 

مرنے پر بیعت کر نے سے متعلق

 

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابو عبید سے روایت ہے کہ میں نے سلمہ بن اکوع سے کہا کہ تم نے حدیبیہ والے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مرنے پر (مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جس وقت تک میدان فتح کر لیں یا مر جائیں )۔

 

جہاد پر بیعت کر نے سے متعلق

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عمرو بن عبدالرحمن بن امیۃ ابن اخی یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ میں حضرت امیہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اس روز کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والد سے ہجرت پر بیعت فرما لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب ہجرت کہاں باقی ہے لیکن میں بیعت کرتا ہوں اس سے جہاد پر۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، ابو ادریس خولانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں طرف حضرات صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے فرما رہے تھے کہ تم لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دو گے اور چوری اور زنا کا ارتکاب نہیں کرو گے اپنی اولاد کو نہیں مارو گے اور کوئی بھی تم میں سے بہتان تراشی نہیں کرے گا اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان (یا زبان) سے اور تم شریعت کے کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے اور جو شخص پورا کرے اپنی بیعت کو (یعنی جن کاموں سے منع کیا گیا ہے اس سے باز آ جائے تو) پھر دنیا میں اس کی سزا اس کو مل جائے گی (جیسے کہ زنا کی حد قائم ہو جائے یا چوری کرنے کی وجہ سے ہاتھ کاٹا جائے تو اس کے گناہ کا کفارہ ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سعید، یعقوب، وہ اپنے والد سے ، صالح بن کیسان، حارث بن فضیل، ابن شہاب، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ مجھ سے ان باتوں پر بیعت نہیں کرتے کہ جن باتوں پر خواتین نے بیعت کی ہے یعنی تم خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے اور چوری اور زنا کا ارتکاب نہ کرو اور اپنی اولاد کو تم قتل نہ کرو اور تم بہتان نہ اٹھاؤ۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان سے اور تم شریعت کے کام میں میری نافرمانی نہ کرو اس پر لوگوں نے عرض کیا کس وجہ سے نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی ان امور پر کہ ہمارے میں سے جو شخص کسی بات کا اب ارتکاب کرے پھر دنیا میں وہ اس کی سزا پائے تو اس کا کفارہ ہو گیا اور جو شخص یہ نہ پائے تو اس کو چاہے خداوند قدوس مغفرت فرما دے یا اس کو دل چاہے عذاب میں مبتلا فرما دے۔

 

ہجرت پر بیعت کر نے سے متعلق

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، عطاء بن سائب، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہجرت پر بیعت کرتا ہوں اور میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چلے جا اور تم ان کو رضامند کرو جیسے کہ تم نے ان کو رونے پر مجبور کیا ہے۔

 

ہجرت ایک دشوار کام ہے

 

حسین بن حریث، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، عطاء بن یزید لیثی، ابو سعید سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہجرت سے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہجرت تو بہت مشکل کام ہے تو کہا تمہارے پاس اونٹ موجود ہیں ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم جا اور بستیوں کے پیچھے جا کر عمل کرو کیونکہ اللہ تمہارے کسی عمل کو ضائع نہیں فرمائے گا۔

 

 

بادیہ نشین کی ہجرت سے متعلق

 

احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عبداللہ بن حارث، ابو کثیر، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کونسی افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چھوڑ دو جو کہ خداوند قدوس کے نزدیک برا ہے اور فرمایا ہجرت دو قسم کی ہیں ایک ہجرت وہ ہے جو حاضر ہے (اس جگہ کہ جہاں پر ہجرت کی ہے ) دوسری ہجرت گاؤں والے کی جو کہ اپنے گاؤں میں رہے لیکن ضرورت وقت وہ جس وقت بلایا جائے تو وہ چلا آئے اور جب کوئی حکم دیا جائے تو اس کو مان لے اور جو حاضر ہے تو اس کے واسطے بہت ثواب ہے۔

 

ہجرت کا مفہوم

 

حسین بن منصور، مبشر بن عبد اللہ، سفیان بن حسین، یعلی بن مسلم، جابر بن زید سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر مہاجرین میں تھے کیونکہ (اس وقت) مدینہ منورہ مشرکین کا ملک تھا پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے تھے (عقبہ ایک جگہ کا نام ہے جو کہ منی کے نزدیک ہے ) مذکورہ حدیث میں گاؤں والے سے مراد جنگل وغیرہ میں رہنے والا ہے )

 

ہجرت کی ترغیب سے متعلق

 

ہارون بن محمد بن بکار بن بلال، محمد، ابن عیسیٰ بن سمیع، زید بن واقد، کثیر بن مرۃ، ابو فاطمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ کو کوئی ایسا کام بتا دیں کہ میں جس پر قائم رہ سکوں اور اس کو (پابندی سے ) انجام دیتا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ہجرت پر قائم رہو اس کے برابر کوئی کام نہیں ہے (یعنی وہ سب سے زیادہ نیک کام ہے )

 

ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث

 

عبدالملک بن شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا سے ، عقیل، ابن شہاب، عمرو بن عبدالرحمن بن امیۃ، یعلی سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوئی اور میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے والد سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت پر بیعت لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس سے بیعت لیتا ہوں جہاد پر کیونکہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن داؤد، معلی بن اسد، وہیب بن خالد، عبداللہ بن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، صفوان بن امیۃ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں داخل نہ ہو گا مگر وہ شخص کہ جس نے ہجرت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت سے مکہ مکرمہ فتح ہوا تو ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد باقی ہے اور نیک نیت باقی ہے تو جس وقت تم سے جہاد میں شرکت کر نے کے لیے کہا جائے تو تم لوگ جہاد کے واسطے نکل پڑو۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، یحیی بن سعید، سفیان، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس روز فتح مکہ ہوا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، شعبہ، یحیی بن ہانی، نعیم بن دجاجۃ، عمر بن خطاب نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد اب ہجرت (کا حکم باقی) نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن مساور، ولید، عبداللہ بن العلاء بن زبر، بسر بن عبید اللہ، ابو ادریس خولانی، عبداللہ بن واقد سعدی سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوے اور ہمارے میں سے ہر ایک کچھ مطلب رکھتا تھا میں سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے مطلب پورے فرما دئیے پھر سب سے آخر میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا کیا مطلب ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہجرت کب ختم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ کبھی ختم نہ ہو گی جس وقت تک کہ کفار و مشرکین سے جنگ جاری رہے گی۔

 

 

٭٭ اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی مانند منقول ہے۔

 

ہر ایک حکم پر بیعت کرنا چاہے وہ حکم پسند ہوں یا ناپسند

 

محمد بن قدامۃ، جریر، مغیرۃ، ابو وائل شعبی، جریر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور ہر ایک حکم کی فرمانبرداری کرنے پر بیعت کرتا ہوں وہ حکم مجھ کو پسند ہوں یا نا پسند ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جریر تم اس کی طاقت رکھتے ہو تم اس طریقہ سے کہو کہ مجھ سے جہاں تک ہو سکے گا میں فرمانبرداری کروں گا پھر تم بیعت کرو اس بات پر کہ میں ہر ایک مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا

 

 

کسی کافر و مشرک سے علیحدہ ہونے پر بیعت سے متعلق

 

بشر بن خالد، غندر، شعبہ، سلیمان، ابو وائل، جریر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی نماز پڑھنے پر اور زکوٰۃ ادا کرنے پر اور ہر ایک مسلمان کی خیر خواہی پر اور مشرک سے علیحدہ ہونے پر چاہے وہ مشرک میرا رشتہ دار اور دوست ہی ہو۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ابو وائل، ابو نخیلۃ جبلی، جریر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا ہاتھ بڑھائیں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کروں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اچھی طرح سے واقف ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شرط فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم سے ان شرائط پر بیعت کرتا ہوں کہ تم خداوند قدوس کی عبادت کرو گے نماز ادا کرو گے زکوٰۃ دو گے مسلمانوں کے خیر خواہ رہو گے اور مشرکین سے علیحدہ رہو گے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، غندر، معمر، ابن شہاب، ابو ادریس خولانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی حضرات کی موجودگی میں بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم سے بیعت کرتا ہوں اس بات پر کہ خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دو گے چوری نہیں کرو گے زنا نہیں کرو گے اپنی اولاد کو نہیں مارو گے۔ بہتان نہیں قائم کرو گے۔ ہاتھ اور پاؤں کے درمیان سے میری نافرمانی نہیں کرو گے (یعنی شرم گاہ کی حفاظت کرو گے ) اور شریعت کے کام میں نافرمانی نہیں کرو گے پھر تمہارے میں سے جب کوئی شخص اپنی بیعت کو مکمل کرے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کوئی حرکت کر لے تو دنیا میں بھی اس کو سزا مل جائے گی تو وہ شخص پاک ہو گیا اور جو خداوند قدوس اس کے جرم کو چھپائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے چاہے وہ اس کو عذاب دے چاہے معاف فرما دے۔

 

خواتین کو بیعت کرنا

 

محمد بن منصور، سفیان، ایوب، محمد، ام عطیہ سے روایت ہے کہ میں جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کرنے لگی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دور جاہلیت میں تو ایک خاتون نے میری مد د کی تھی نوحہ میں تو اس کا بدلہ (اور حق) اتارنے کے واسطے مجھ کو بھی اس کے نوحہ میں شرکت کرنا ہے میں جا رہی ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کرتی ہوں (کیونکہ بیعت کے بعد پھر گناہ کرنا اور زیادہ برا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا اور شریک ہو۔ حضرت ام عطیہ نے عرض کیا میں (اس نوحہ میں شرکت کے لیے ) گئی اور نوحہ میں شرکت کر کے واپس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی۔

 

 

٭٭ حسن بن احمد، ابو ربیع، حماد، ایوب، محمد، ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے بیعت لی تھی اس پر کہ ہم نوحہ (میں شرکت) نہیں کریں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، محمد بن منکدر، امیمۃ بنت رقیقۃ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی انصاری خواتین کے ساتھ اور ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کرتے ہیں اس بات پر کہ خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور چوری نہیں کریں گے اور زنا نہیں کریں گے اور بہتان نہیں اٹھائیں گے دونوں ہاتھ اور پاؤں میں سے اور نافرمانی نہیں کریں گے شریعت کے کام کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بھی کہو کہ ہم سے جہاں تک ممکن ہو گا۔ حضرت امیمہ نے عرض کیا ہم نے کہا کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم پر بہت رحم ہے کہ ہماری طاقت کے مطابق ہم سے بیعت کرنا چاہتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئیں اور ہم سے ہاتھ ملائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں خواتین سے ہاتھ نہیں ملاتا میرا ایک خاتون سے کہہ لینا (یعنی ایک خاتون کی معرفت کوئی پیغام دے دینا) ایسا ہے کہ جیسے متعدد خوا تین سے کہنا۔ (اس وجہ سے میں چند مخصوص خواتین سے گفتگو کرنا غیر ضروری سمجھتا ہوں اور کسی ایک ہی خاتون سے کہہ دینے کو کافی سمجھتا ہوں )۔

 

کسی میں کوئی بیماری ہو تو اس کو بیعت کس طریقہ سے کرے ؟

 

زیاد بن ایوب، ہشیم، یعلی بن عطاء، ایک شخص سے روایت ہے کہ جو شرید کی اولاد میں سے تھا اور اس کا نام عمر تھا اس نے اپنے والد سے کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں میں سے ایک شخص کوڑھی تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے کہلوایا کہ جا تم جا میں نے تم سے بیعت کر لی (یعنی تم کو اپنے ہاتھ پر بیعت کر لیا) اور ان سے ہاتھ نہ ملایا کیونکہ کوڑھی سے ہاتھ ملانے میں کراہت معلوم ہوتی ہے۔

 

نا بالغ لڑکے کو کس طریقہ سے بیعت کرے ؟

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، عمر بن یونس، عکرمۃ بن عمار، ہرماس بن زیاد سے روایت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب بیعت کرنے کو اور میں ایک نابالغ لڑکا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ہاتھ نہیں ملایا۔

 

غلاموں کو بیعت کر نا

 

قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک غلام حاضر ہوا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہجرت پر بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو علم نہ تھا کہ یہ غلام ہے پھر اس کا مالک اس کو لینے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو کالے غلام دے کر اس کو خرید لیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کو بیعت نہ کرتے جس وقت تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود دریافت نہ فرما لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے۔

 

بیعت فسخ کرنے سے متعلق

 

قتیبہ، مالک، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی باشندہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی اسلام پر پھر اس کو مدینہ منورہ میں بخار آ گیا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انکار کیا۔ وہ دوبارہ حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میری بیعت فسخ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انکار کیا آخر کار وہ نکل کر چلا گیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مدینہ منورہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو کہ (انسان کے ) میل کچیل کو نکال دیتا ہے اور صاف شفاف (یعنی موتی کی طرح) رکھتا ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طریقہ سے بھٹی میں سونا گرم کرنے سے سونے کا میل کچیل صاف ہو جاتا ہے اور سونا اسی طرح محفوظ رہتا ہے اس طریقہ سے مدینہ منورہ خراب آدمی کو رہنے نہیں دیتا اور اچھے انسان کو وہاں سے نکلنے نہیں دیتا)۔

 

 

ہجرت کے بعد پھر دوبارہ اپنے دیہات میں آ کر رہنا

 

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابو عبید، سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ حجاج کی خدمت میں گئے تو حجاج نے کہا کہ اکوع کا لڑکا تو مرتد ہو گیا جب تم نے مدینہ منورہ کی رہائش چھوڑ دی اور کچھ کہا کہ جس کا مطلب یہ تھا کہ تم تو جنگل میں رہتے ہو۔ سلمہ نے کہا نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اجازت عطا فرمائی جنگل میں رہائش اختیار کرنے کی۔

 

اپنی قوت کے مطابق بیعت کر نے سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، عبداللہ بن دینار، علی بن حجر، اسماعیل، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور فرمانبرداری کرنے پر بیعت کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ جس جگہ تک تم کو قوت ہے (وہاں تک عمل کی کوشش کرو) یہ ارشاد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شفقت و محبت کی وجہ سے فرمایا۔

 

 

٭٭ حسن بن محمد، حجاج، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سننے اور فرمانبرداری کرنے پر بیعت کرتے تھے کہ جہاں تک تم کو قوت ہے تم لوگ وہاں تک کوشش کرو۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، سیار، شعبی، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہر حکم سننے اور حکم ماننے پر بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو سکھلا دیا اس قدر کہ جہاں تک مجھ میں قوت ہے میں ہر ایک مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، محمد بن منکدر، امیمۃ بنت رقیقۃ سے روایت ہے کہ ہم نے چند خواتین کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا تم سے جہاں تک ہو سکتا ہے اور تم میں جہاں تک قوت ہے۔

 

جو شخص کسی امام کی بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دے تو اس پر کیا واجب ہے ؟

 

ہناد بن سری، ابو معاویۃ، الاعمش، زید بن وہب، عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما ہیں اور ان کے پاس لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ میں نے ان سے سنا وہ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے تو ہم لوگ ایک منزل پر اترے ہمارے میں سے کوئی تو اپنا خیمہ کھڑا کرتا اور کوئی تیر چلاتا تھا کوئی جانوروں کو گھاس کھلا رہا تھا کہ اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منادی کرنے کے واسطے آواز دی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ چنانچہ ہم سب کے سب جمع ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو خطبہ سنایا اور فرمایا مجھ سے قبل جو نبی گزرے ہیں ان پر لازم تھا کہ جس کام میں برائی دیکھے اس سے ڈرائے اور تمہاری یہ امت اس کی بھلائی شریعت میں ہے اور اس کے آخر میں بلا ہے اور قسم قسم کی باتیں ہیں جو کہ بری ہیں ایک فساد ہو گا پھر وہ ٹلنے نہیں پائے گا کہ دوسرا اٹھ کھڑا ہو گا۔ جس وقت ایک فساد ہو گا تو مومن کہے گا کہ میں اب ہلاک ہوتا ہوں پھر وہ ختم ہو جائے گا اس وجہ سے تم میں سے جو چاہے دوزخ سے بچنا اور جنت میں جانا وہ میرے اللہ پر اور قیامت پر یقین کر کے اور لوگوں سے اس طریقہ سے پیش آئے جس طرح سے وہ چاہتا ہے کہ مجھ سے لوگ پیش آئے اور جو شخص بیعت کرے کسی امام سے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے اور دل سے اس کے ساتھ اقرار کرے تو پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے کہ جہاں تک ہو سکے اب اگر کوئی شخص اٹھ کھڑا ہو جو اس امام سے جھگڑا کرے تو اس کی گردن مار دو۔ عبدالرحمن نے کہا کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے نزدیک آ گیا اور میں نے ان سے دریافت کیا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔

 

امام کی فرماں برداری کا حکم

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، یحیی بن حصین سے روایت ہے کہ میں اپنے دادا سے سنا وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اگر تم پر ایک حبشی غلام حکمران ہو لیکن اللہ کی کتاب کے مطابق وہ حکم کرے تو اس کے حکم کو سنو اور اس کی فرمانبرداری کرو۔

 

امام کی فرماں برداری کرنے کی فضیلت سے متعلق حدیث

 

یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، زیاد بن سعد، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی نے میری فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے حاکم کی فرمانبرداری کی تو اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے نافرمانی کی میرے مقرر کردہ حاکم کی اس نے میری نافرمانی کی۔

 

تم لوگ اللہ اور اس کے رسول اور حاکم کی فرماں برداری کرو

 

حسن بن محمد، حجاج، ابن جریج، یعلی بن مسلم، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ اے ایمان والو فرمانبرداری کرو اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اور اولو الامر کی (حاکم کی)۔ یہ آیت حضرت عبداللہ بن حزافہ کے حق میں نازل ہوئی جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ایک ٹکڑے کا سردار بنا کر روانہ فرمایا (یعنی چھوٹے لشکر کا)۔

 

امام کی نافرمانی کی مذمت سے متعلق

 

عمرو بن عثمان بن سعید، بقیۃ بن ولید، بحیر، خالد بن معدان، ابو بحریۃ، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جہاد دو قسم کاہے ایک تو وہ شخص جو کہ خالص خداوند قدوس کی رضامندی کے واسطے جہاد کرے اور امام کی فرمانبرداری کرے اور مال دولت راہ خدا میں خرچ کرنے اس کا سونا اور جاگنا تمام کا تمام عبادت ہے اور دوسرے وہ شخص جو کہ لوگوں کو دکھلائے یعنی ریاکاری کے واسطے جہاد کرے اپنے امام (اور حاکم) کی نافرمانی کرے اور ملک میں فساد پھیلائے (اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام پر ظلم و ستم کرے خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرے غرباء کو ایذاء پہنچائے ) تو وہ برابر بھی نہ لوٹے گا بلکہ اس کو عذاب ہو گا۔

 

امام کے واسطے کیا باتیں لازم ہیں ؟

 

عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا امام ایک ڈھال کی مانند ہے کہ جس کی آڑ میں (یعنی جس کے نظم و انتظام میں ) لوگ لڑائی کرتے ہیں اس وجہ سے لوگ آفات سے بچے رہتے ہیں پھر اگر امام اللہ سے ڈر کر حکم کرے انصاف کے مطابق تو اس کو ثواب ہو گا اور جو شخص اس کے خلاف حکم کرے تو اس کو وبال ہو گا۔

 

امام سے اخلاص قائم رکھنا

 

محمد بن منصور، سفیان، سہیل بن ابو صالح، عمرو، قعقاع، ابیک، وہ اپنے والد سے ، رجل، عطاء بن یزید، تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دین کیا ہے خلوص یعنی سچائی۔ لوگوں نے عرض کیا کس کے ساتھ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ (یہ کہ اس کی عبادت کرے سچے دل سے اس سے خوف رکھے سچ دل سے نہ کہ ریاکاری کے واسطے ) اور اس کی کتاب کے ساتھ یقین رکھے (یعنی اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرے ) اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ یقین رکھے اور تمام مسلمانوں اور امام کے ساتھ (اخلاص قائم رکھے )

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، سفیان، سہیل بن ابو صالح، عطاء بن یزید، تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ دین نصیحت خلوص (اور سچائی ہے ) صحابہ کرام نے عرض کیا کس کے ہاتھ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تمام مسلمانوں کے امام کے ساتھ تمام مسلمانوں کے ساتھ۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، لیث، ابن عجلان، زید بن اسلم، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دین نصیحت ہے دین نصیحت ہے۔ تحقیق دین نصیحت ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کس کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے اور مسلمانوں کے عوام وخواص (دونوں کے لیے بلاشبہ دین نصیحت ہے)۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

امام کی طاقت کا بیان

 

محمد بن یحیی بن عبد اللہ، معمر بن یعمر، معاویۃ بن سلام، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی حاکم نہیں ہے لیکن اس میں دو بطانے (یعنی دو طاقت) ہیں ایک تو وہ طاقت جو کہ اس کو بھلائی کے کام کا حکم دیتی ہے (یعنی نیکی کرنے کی تلقین کرتی ہے ) اور برے کام سے روکتی ہے دوسری طاقت وہ ہے جو کہ بگاڑنے میں کمی نہیں کرتی (یعنی برائی کا حکم دیتی ہے اور گناہ کی بات کی تلقین کرتی ہے ) پھر جو شخص اس کی برائی سے بچ گیا تو وہ تو بچ گیا اور یہی طاقت اکثر و بیشتر غالب ہو جاتی ہے (یعنی برے کام کی جانب بلانے والی ہے )۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے نہ تو کسی نبی کو بھیجا اور نہ ہی کسی خلیفہ کو (یعنی امیر یا حکمران کو) لیکن اس میں دو طاقتیں رکھ دیں ایک تو وہ جو کہ نیکی اور بھلائی کے کام کا حکم کرتی ہیں اور دوسری جو کہ برائی کی جانب بلاتی ہیں لیکن اللہ عز و جل کی اس طاقت کو مغلوب کر دیتا ہے اور وہ نیک طاقت کی پابند اور ماتحت رہتی ہے جس طریقہ سے کہ دوسری حدیث شریف میں ہے کہ ہر ایک انسان کے واسطے ایک شیطان ہے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ لیکن خداوند قدوس نے اس کو میرے تابع اور ماتحت فرما دیا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن حکم، شعیب، لیث، عبید اللہ بن ابی جعفر، صفوان، ابو سلمہ، ابو ایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے دنیا میں نہ تو کوئی پیغمبر بھیجا گیا اور نہ ہی کوئی خلیفہ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس میں دو خصلیتں نہ ہوں ایک تو وہ جو کہ بھلائی کا حکم کرتی ہے اور برے کام سے روکتی ہے اور دوسری وہ قوت جو کہ بگاڑنے میں کوتاہی اور کمی نہیں کرتی پھر جو شخص بری عادت سے محفوظ رہا تو وہ بچ گیا۔

 

وزیر کی صفات

 

عمرو بن عثمان، بقیۃ، ابن مبارک، ابن ابو حسین، قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی سے سنا یعنی حضرت عائشہ صدیقہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص تمہارے میں سے حکمران ہو پھر خدا اس کی بھلائی چاہے تو اس کو نیک وزیر عطاء فرمائے گا (صاحب بصیرت عقل مند اور منصف مزاج معاملہ فہم) اور اگر حکمران کوئی بات بھول جائے گا تو وہ اس کو یاد دلائے گا اور جو شخص یاد رکھے گا تو اس کی مد د کرے گا۔

 

اگر کسی شخص کو حکم ہو گناہ کے کام کرنے کا اور وہ شخص گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کی کیا سزا ہے ؟

 

محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبہ، زبید الایامی، سعد بن عبیدۃ، ابو عبدالرحمن، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر ایک آدمی کو سردار مقرر کیا (حضرت عبداللہ بن حذافہ کو) انہوں نے آگ جلائی اور حکم کیا لوگوں کو اس کے اندر (امتحان کے لیے ) گھس جانے کا۔ (یہ امتحان اس لیے تھا کہ یہ لوگ میری فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں ) تو بعض نے ارادہ کیا اس میں گھسنے کا اور بعض لوگ بھاگ کر فرار ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان لوگوں کو جو گھسنا چاہتے تھے اگر تم گھس جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے (یعنی آگ کے عذاب میں مبتلا رہتے ) اور جو لوگ نہیں گھسے ان کو اچھا کہا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے واسطے کسی کی فرمانبرداری نہیں چاہیے اور فرمانبرداری نیک کام میں کرنی چاہیے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، عبید اللہ بن ابو جعفر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان پر (بادشاہ یا) حکمران کا حکم ماننا اور فرمانبرداری کرنا لازم ہے چاہے اس کو پسند ہو یا نہ ہو جس وقت گناہ کا حکم ہو تو اس کو سن لے اور فرمانبرداری نہ کرے۔

 

جو کوئی کسی حاکم کی ظلم کر نے میں امداد کرے اس سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان، ابو حصین، شعبی، عاصم عدوی، کعب بن عجزۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہم نو شخص تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دیکھو میرے بعد حکمران ہوں گے جو شخص ان کی جھوٹی بات کو سچ کہے (خوشامد اور چاپلوسی کی وجہ سے اور حق کو باطل قرار دے ) اور ظلم و زیادتی کرنے میں اس کی مد د کرے تو وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا نہ میں ان سے کچھ تعلق رکھتا ہوں وہ قیامت کے دن میری حوض (یعنی حوض کوثر) پر بھی نہ آئے گا اور جو شخص ان کے جھوٹ کو سچ کہے (بلکہ اس طرح کہے جھوٹ ہے یا خاموش رہے اور ظلم کرنے میں اس کی مد د نہ کرے تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے حوض پر آئے گا۔

 

 

جو شخص حاکم کی مد د نہ کرے ظلم و زیادتی کرنے میں اس کا اجر و ثواب

 

ہارون بن اسحاق ، محمد یعنی ابن عبدالوہاب، مسعر، ابو حصین، شعبی، عاصم عدوی، کعب بن عجزۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے سامنے نکلے اور ہم نو آدمی تھے۔ پانچ ایک قسم کے اور چار ایک قسم کے تھے یعنی عربی اور عجمی (عرب کے علاوہ دوسرے ملک کے باشندے اب تک معلوم نہیں کہ ان میں سے پانچ کون تھے اور چار کون؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں نے سنا میرے بعد حکمران ہوں گے جو شخص ان کے پاس جائے پھر ان کے جھوٹ کو سچ کرے اور ظلم پر ان کی مد د کرے وہ میرا نہیں اور میں اس کا نہیں ہوں نہ وہ میرے حوض پر آئے گا اور جو ان کے پاس نہ جائے نہ ان کے جھوٹ کو سچ کہے اور نہ ظلم پر ان کی مد د کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا۔ وہ حوض (کوثر) پر آئے گا۔

 

جو شخص ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہے اس کی فضیلت

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، علقمۃ بن مرثد، طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا پاؤں رکاب میں رکھ چکے تھے کہ کونسا جہاد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حق بات کہنا ظالم حکمران کے سامنے۔

 

جو کوئی اپنی بیعت کو مکمل کرے اس کا اجر

 

قتیبہ، سفیان، زہری، ابو ادریس خولانی، عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک مجلس میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دو گے زنا نہیں کرو گے آخر آیت تک (جو کہ مندرجہ بالا عبارت میں مذکور ہے ) پھر جو شخص تمہارے میں سے اپنی بیعت کو پورا کرے تو اس کا اجر و ثواب خداوند قدوس پر ہے اور جو شخص اس کام میں سے کسی کام کا ارتکاب کرے پھر خداوند قدوس اس کو چھوڑ دے (یعنی اس کی دنیا میں کوئی سزا نہ مل سکے ) تو خداوند تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ چاہے اس کو عذاب میں مبتلا کرے اور چاہے اس کی مغفرت فرما دے۔

 

حکومت کی بری خواہش سے متعلق

 

محمد بن آدم بن سلیمان، ابن مبارک، ابن ابو ذئب، سعید مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ حکومت کا لالچ کرتے ہو حالانکہ حکومت (اور اقتدار کا) انجام آخر کار ندامت اور حسرت ہے اس لیے کہ جب کسی کو حکومت یا اقتدار حاصل ہوتی ہے تو بہت عمدہ کام محسوس ہوتا ہے اور جب حکومت یا اقتدار کا زوال ہوتا ہے تم غم اور صدمہ ہوتا ہے۔

 

 

 

 

عقیقہ سے متعلق احادیث مبارکہ

 

عقیقہ کے آداب و احکام

 

احمد بن سلیمان، ابو نعیم، داؤد بن قیس، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نافرمانی کو پسند نہیں فرماتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کو ناگوار خیال فرمایا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کر رہے ہیں اس عقیقہ سے متعلق جو کہ بچہ کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا دل چاہے اپنے بچہ کی جانب سے قربانی کرنا تو کرے اور لڑکے کی طرف سے (عقیقہ میں ) دو بکریاں برابر والی اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری۔ راوی داؤد نے نقل کیا کہ میں نے حضرت زید بن اسلم سے دریافت کیا برابر والی سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ملتی جلتی صورت میں دونوں ساتھ ہی ذبح کی جائیں۔

 

عقیقہ کے آداب و احکام

حسین بن حریث، فضل، حسین بن واقد، عبداللہ بن بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین کی جانب سے عقیقہ کیا۔

 

 

لڑکے کی جانب سے عقیقہ

 

محمد بن مثنی، عفان، حماد بن سلمہ، ایوب و حبیب و یونس و قتادۃ، محمد بن سیرین، سلمان بن عامر ضبی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کا عقیقہ کرنا چاہے تو قربانی کرو اس کی جانب سے اور تم اس کے بالوں کو دور کرو۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عفان، حماد، قیس بن سعد، عطاء و طاؤس و مجاہد، ام کرز سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کی جانب سے عقیقہ کے واسطے دو بکریاں ہیں برابر والی اور لڑکی کے واسطے ایک بکری۔

 

لڑکی کی جانب سے عقیقہ کرنا

 

عبید اللہ بن سعید، سفیان، عمرو، عطاء، حبیبہ بنت میسرۃ، ام کرز سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کے عقیقہ کے واسطے دو بکریاں ہیں برابر والی اور لڑکی کے واسطے ایک بکری ہے۔

 

لڑکی کی جانب سے کس قدر بکریاں ہونا چاہئیں ؟

 

قتیبہ، سفیان، عبید اللہ، ابن ابو یزید، سباع بن ثابت، ام کرز سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کا دریافت کرنے کے واسطے حاضر ہوئی میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ لڑکے پر دو بکریاں ہیں (یعنی عقیقہ میں ) اور لڑکی پر ایک بکری مذکر ہوں یا مونث اس میں کوئی حرج نہیں ہے (یعنی جائز دونوں ہیں اختلاف افضل اور غیر افضل کاہے کہ لڑکے کے واسطے دو بکریاں اور لڑکی کے واسطے ایک بکری)۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عبید اللہ، ابن ابو یزید، سباع بن ثابت، ام کرز سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کا دریافت کرنے کے واسطے حاضر ہوئی میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ لڑکے پر دو بکریاں ہیں (یعنی عقیقہ میں ) اور لڑکی پر ایک بکری مذکر ہوں یا مونث اس میں کوئی حرج نہیں ہے (یعنی جائز دونوں ہیں اختلاف افضل اور غیر افضل کاہے کہ لڑکے کے واسطے دو بکریاں اور لڑکی کے واسطے ایک بکری)۔

 

 

٭٭ احمد بن حفص بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، ابن طہمان، حجاج بن حجاج، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین کا دو مینڈھوں سے عقیقہ فرمایا (یعنی دو مینڈھے عقیقہ میں ذبح فرمائے )۔

 

عقیقہ کون سے دن کرنا چاہیے ؟

 

عمرو بن علی و محمد بن عبدالاعلی، یزید، ابن زریع، سعید، قتادۃ، حسن، سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک لڑکا اپنے عقیقہ پر گروی ہے اور قربانی کی جائے (یعنی عقیقہ کیا جائے ) اس کی جانب سے ساتویں دن اور اس کا سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، قریش بن انس، حبیب بن شہید نے کہا کہ مجھ سے حضرت ابن سیرین نے فرمایا تم حسن سے دریافت کرو عقیقہ کی حدیث تو انہوں نے کسی سے سنی میں نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سمرہ سے سنی ہے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن سے حضرت سمرہ کو دیکھا ہے اور ان سے سنا ہے )۔

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرع اور عتیرہ کچھ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابو داؤد، شعبہ، ابو اسحاق ، معمرو سفیان، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا ہے۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن زرارۃ، معاذ، ابن معاذ، ابن عون، ابو رملۃ، مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عرفات میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگوں ہر ایک گھر کے لوگوں پر ہر سال قربانی ہے (یعنی دس ذی الحجہ سے ذی الحجہ تک) اور ان کے ذمہ ایک عتیرہ ہے حضرت عطاء نے فرمایا کہ ابی عون عتیرہ کرتے تھے ماہ رجب میں یہ بات میں نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق ، عبید اللہ بن عبدالمجید ابو علی حنفی، داؤد بن قیس، عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو، وہ اپنے والد سے ، وہ اپنے والد سے و زید بن اسلم سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرع کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حق ہے (یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے واسطے کیا جائے نہ کہ بتوں کی رضامندی کے لیے جیسا کہ مشرکین کرتے تھے ) پھر اگر تم (یا کوئی شخص) فرع کے جانور کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم راہ خدا میں اس کو دے دو (یعنی راہ خدا میں لگا دو) یا کسی غریب مسکین بیوہ کو دے دو تو بہتر ہے اس کے کاٹنے سے۔ ماں کے جسم کا گوشت پوست لگ جائے گا (یعنی غم کی وجہ سے اس کی ماں سوکھ جائے گی) پھر تم دودھ کے برتن کو الٹ کر رکھ دو گے (یعنی غم کی وجہ سے اس کی ماں کا دودھ خشک ہو جائے گا اور وہ دودھ دینا بند کر دے گی اور (صدمہ کی وجہ سے ) وہ ماں پاگل ہو جائے گی۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عتیرہ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ بھی حق ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، یحیی، ابن زرارۃ بن کریم بن حارث بن عمرو باہلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجۃالوداع میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹنی پر سوار تھے جو کہ عضباء تھی میں ایک طرف کو چلا گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے واسطے دعائے مغفرت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس تم سب کی مغفرت فرمائے۔ پھر میں دوسری جانب چلا گیا اس خیال سے کہ شاید ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص میرے واسطے دعا فرمائیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے واسطے دعاء مغفرت فرمائیں۔ پھر ایک آدمی نے عرض کیا عتیرہ اور فرع میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرق فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا دل چاہے وہ نہ کرے بکریوں میں صرف قربانی (ا سے لے کر ذی الحجہ تک) لازم ہے اور یہ حدیث شریف بیان فرماتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام انگلیاں بند فرما لیں علاوہ ایک انگلی کے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، یحیی، ابن زرارۃ بن کریم بن حارث بن عمرو باہلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجۃالوداع میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹنی پر سوار تھے جو کہ عضباء تھی میں ایک طرف کو چلا گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے واسطے دعائے مغفرت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس تم سب کی مغفرت فرمائے۔ پھر میں دوسری جانب چلا گیا اس خیال سے کہ شاید ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص میرے واسطے دعافرمائیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے واسطے دعاء مغفرت فرمائیں۔ پھر ایک آدمی نے عرض کیا عتیرہ اور فرع میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرق فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا دل چاہے وہ نہ کرے بکریوں میں صرف قربانی (اسے لے کر ذی الحجہ تک) لازم ہے اور یہ حدیث شریف بیان فرماتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام انگلیاں بند فرما لیں علاوہ ایک انگلی کے۔

 

 

 

 

 

فرع اور عتیرہ سے متعلق احادیث مبارکہ

 

عتیرہ سے متعلق احادیث

 

محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، ابن عون، جمیل، ابو ملیح، نبیشۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ دور جاہلیت میں عتیرہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس ماہ میں تمہارا دل چاہے تم خداوند قدوس کے نام پر ذبح کرو اور تم نیک کام کرو اور تم خداوند قدوس کے خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غرباء ومساکین کو کھلا (یعنی صدقہ خیرات دو اور راہ خدا میں خرچ کرو)۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، بشر، ابن مفضل، خالد، ابو ملیح، ابو قلابۃ، نبیشۃ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے منی میں آواز دی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ دور جاہلیت میں رجب میں عتیرہ کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ذبح کرو جس ماہ میں تمہارا دل چاہے اور تم لوگ خداوند قدوس کے واسطے نیکی کرو اور تم (غرباء کو) کھانا کھلاؤ۔ یہ سن کر اس نے کہا کہ ہم لوگ فرع کیا کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام گھاس کھانے والوں میں یعنی چرنے والے جانوروں میں فرع ہے لیکن تم اس کی ماں کو کھلانے دو (یعنی جانور کی مادہ کو دودھ پلانے دو اور گھاس کھانے دو) اور جب وہ جانور بڑا ہو جائے اور وزن اٹھانے یعنی وزن لادنے کے لائق ہو جائے تو تم اس جانور کو ذبح کرو اور اس کا گوشت تقسیم کرو۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، غندر، شعبہ، خالد، ابو قلابۃ، ابو ملیح، نبیشۃ سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ ہذیل کا فرد تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو منع کیا تھا قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے تاکہ تم لوگوں کو وہ گوشت کافی ہو جائے یعنی اس وقت لوگ محتاج تھے تو میں نے منع کر دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین روز سے زیادہ نہ جمع کرو۔ بلکہ اس کو کھالو یا صدقہ کر دو تاکہ تمام محتاجوں کو مل جائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہ جائے۔ لیکن تم لوگوں کو خداوند قدوس نے دولت مند بنا دیا تو تم لوگ کھاؤ اور خیرات دو اور اس کو رکھ لو اور چھوڑو اور یہ دن ا ذی الحجہ ہیں کھانے اور پینے کے اور یاد الٰہی میں مشغول رہنے کے۔ یہ بات سن کر ایک شخص نے عرض کیا ہم لوگ تو ماہ رجب میں دور جاہلیت میں عتیرہ کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ذبح کرو خداوند قدوس کے واسطے اور جس ماہ تمہارا دل چاہے اور تم نیک کام کرو رضا الٰہی کے لیے اور کھانا کھلاؤ مساکین کو۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ دور جاہلیت میں فرع کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بکریوں میں فرع ہے لیکن کھلانے دے اس کی والدہ کو جس وقت وہ تیار ہو جائے تو کاٹ دو اور تم صدقہ دو گوشت کا مسافروں کو یہ بہتر ہے۔

 

فرع کے متعلق احادیث

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، غندر، شعبہ، خالد، ابو قلابۃ، ابو ملیح، نبیشۃ سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ ہذیل کا فرد تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو منع کیا تھا قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے تاکہ تم لوگوں کو وہ گوشت کافی ہو جائے یعنی اس وقت لوگ محتاج تھے تو میں نے منع کر دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین روز سے زیادہ نہ جمع کرو۔ بلکہ اس کو کھالو یا صدقہ کر دو تاکہ تمام محتاجوں کو مل جائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہ جائے۔ لیکن تم لوگوں کو خداوند قدوس نے دولت مند بنا دیا تو تم لوگ کھاؤ اور خیرات دو اور اس کو رکھ لو اور چھوڑو اور یہ دن 10۔11۔12۔ ذی الحجہ ہیں کھانے اور پینے کے اور یاد الٰہی میں مشغول رہنے کے۔ یہ بات سن کر ایک شخص نے عرض کیا ہم لوگ تو ماہ رجب میں دور جاہلیت میں عتیرہ کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ذبح کرو خداوند قدوس کے واسطے اور جس ماہ تمہارا دل چاہے اور تم نیک کام کرو رضا الٰہی کے لیے اور کھانا کھلاؤ مساکین کو۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ دور جاہلیت میں فرع کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بکریوں میں فرع ہے لیکن کھلانے دے اس کی والدہ کو جس وقت وہ تیار ہو جائے تو کاٹ دو اور تم صدقہ دو گوشت کا مسافروں کو یہ بہتر ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، خالد، ابو قلابۃ، ابو ملیح، نبیشۃ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ دور جاہلیت میں عتیرہ کرتے تھے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ذبح کرو خداوند قدوس کے واسطے۔ جس مہینہ میں پس جس قدر ہو سکے تم لوگ نیکی کرو خداوند قدوس کے واسطے اور کھانا کھلاؤ۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، ابو عوانۃ، یعلی بن عطاء، وکیع بن عدس، ابو رزین لقیط بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماہ رجب میں ہم لوگ دور جاہلیت میں جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ پھر ہم لوگ وہ جانور کھا لیا کرتے تھے اور جو کوئی ہمارے پاس آیا تھا ہم لوگ اس کو کھلاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے حضرت وکیع نے بیان کیا کہ جو اس حدیث کا راوی ہے کہ میں اس کو نہیں چھوڑتا ہوں (یعنی ماہ رجب کی قربانی کو)۔

 

مردار کی کھال سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مردہ بکری دیکھی جو کہ پڑی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بکری کس کی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا حضرت میمونہ کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں تھا کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس بکری کی کھال سے نفع حاصل کرتیں۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ بکری مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے صرف مردار کا کھانا حرام فرمایا ہے (نہ اس کی کھال یا بال یا سینگوں سے نفع حاصل کرنا)۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ کی آزاد کی ہوئی باندی کو عطاء فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کس وجہ سے نفع نہیں اٹھایا اس کی کھال سے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ تو مردار ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صرف مردار کا کھانا حرام ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ کی آزاد کی ہوئی باندی کو عطاء فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کس وجہ سے نفع نہیں اٹھایا اس کی کھال سے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ تو مردار ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صرف مردار کا کھانا حرام ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ہی اچھا ہوتا اس کی کھال نکال لیتے اور اس سے نفع حاصل کرتے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن خالد قطان، حجاج، ابن جریج، عمرو بن دینار، عطاء، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ ایک بکری مر گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے اس کی کھال پر کس وجہ سے دباغت نہیں دی اور اس کھال سے نفع کیوں نہیں اٹھایا؟

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو، عطاء، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے جو کہ حضرت میمونہ کی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے اس کی کھال کس وجہ سے دباغت کر کے استعمال نہیں کی (یعنی اس طریقہ سے وہ کھال ضائع ہونے سے بچ جاتی)۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، مغیرۃ، شعبی، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے اس کی کھال سے کس وجہ سے نفع نہیں حاصل کیا؟

 

 

٭٭ محمد بن عبدالعزیز بن ابی رزمۃ، فضل بن موسی، اسماعیل بن ابی خالد، شعبی، عکرمۃ، ابن عباس، سودۃ سے روایت ہے کہ ایک بکری مر گئی تو ہم لوگوں نے اس کی کھال کو دباغت کیا پھر ہمیشہ ہم لوگ اس میں نبیذ بناتے تھے یہاں تک کہ وہ بکری پرانی ہو گئی۔

 

 

٭٭ قتیبہ و علی بن حجر، سفیان، زید بن اسلم، ابن وعلۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کی کھال پر دباغت ہو گئی تو وہ کھال پاک ہو گئی۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد، اسحاق بن بکر، ابن مضر، وہ اپنے والد سے ، جعفر بن ربیعۃ، ابو خیر، ابن وعلۃ سے ابن عباس نے دریافت کیا کہ ہم لوگ جہاد کے واسطے مغربی ممالک جاتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرستی میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس پانی اور دودھ کی مشکیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے (جوابا) کہا جس چمڑے میں دباغت ہو جائے تو وہ پاک ہے۔ میں نے کہا یہ تم اپنی عقل و فہم سے کہہ رہے ہو یا تم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے جوابا کہا نہیں ! نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، حسن، جون بن قتادۃ، سلمہ بن محبق سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خاتون کے ہاتھ سے پانی منگایا۔ اس نے عرض کیا میرے پاس تو وہ پانی مرے ہوئے جانور کی مشک میں ہے۔ (یعنی میرے خیال میں وہ پانی پاک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے دباغت کی تھی؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر تو وہ کھال دباغت سے پاک ہو گئی۔

 

 

٭٭ حسین بن منصور بن جعفر نیسابو ری، حسین بن محمد، شریک، الاعمش، عمارۃ بن عمیر، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے مردار کی کھال کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دباغت کرنے سے وہ کھال پاک ہو جاتی ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، شریک، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص نے مردار کی کھال کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دباغت دینے سے وہ (کھال) پاک ہو جاتی ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، شریک، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص نے مردار کی کھال کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دباغت دینے سے وہ (کھال) پاک ہو جاتی ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، مالک بن اسماعیل، اسرائیل، الاعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مردار کی پاکی اس کی (کھال) دباغت کرنا ہے۔

 

مردار کی کھال کس چیز سے دباغت دی جائے ؟

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث ولیث بن سعد، کثیر بن فرقد، عبداللہ بن مالک بن حذافۃ، عالیۃ بنت سبیع، میمونہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قبیلہ قریش کے کچھ لوگ ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹتے ہوئے نکلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم اس کی کھال نکال لیتے۔ انہوں نے عرض کیا یہ تو مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو پاک کر دیتا پانی اور قرظ(نامی گھاس یا چھال وغیرہ کہ جس سے چمڑا صاف کیا جاتا ہے )۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، بشر یعنی ابن مفضل، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلی، عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو تحریر فرمایا تھا وہ میرے سامنے پڑھا گیا میں ایک جوان لڑکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ نے فائدہ حاصل کرو مردے کی کھال یا پھٹے سے (یعنی کھال کی دباغت سے قبل نفع نہ اٹھا کیونکہ بغیر دباغت کے خون اور رطوبت وغیرہ ہاتھ میں لگ جائیں گی کہ آج کل نمک مسالے اور کیمیکل وغیرہ سے دباغت دی جاتی ہے وہ بھی درست ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو تحریر فرمایا تم لوگ نہ نفع اٹھا مردار کی کھال یا پھٹے سے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، شریک، ہلال وزان، عبداللہ بن عکیم نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ جہینہ کے حضرات کو تحریر فرمایا کہ تم لوگ مردہ کی کھال یا پھٹے سے نفع نہ حاصل کرو۔

 

مردار کی کھال سے دباغت کے بعد نفع حاصل کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، بشر بن عمر، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یزید بن عبداللہ بن قسیط، محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان، امہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مردار کی کھال سے نفع حاصل کرنے کا حکم فرمایا کہ جس وقت اس پر دباغت ہو جائے۔

 

درندوں کی کھالوں سے نفع حاصل کرنے کی ممانعت

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی، ابن ابو عروبۃ، قتادۃ، ابو ملیح سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درندوں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع فرمایا

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیۃ، بحیر، خالد بن معدان، مقدام بن معد یکرب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریشم اور سونے اور چیتے کے چار جاموں (بچھونا بنانے ) سے یعنی چیتے کی کھال کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیۃ، بحیر، خالد سے روایت ہے کہ حضرت مقدام بن معد یکرب حضرت معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں تم کو قسم دیتا ہوں خداوند قدوس کی تم کو علم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درندوں کی کھالیں پہننے اور ان پر سواری کر نے سے منع فرمایا ہے انہوں نے فرمایا جی ہاں (معلوم ہے )۔

 

مردار کی چربی سے نفع حاصل کرنے کی ممانعت

 

قتیبہ، لیث، یزید بن ابی حبیب، عطاء بن ابی رباح، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انہوں نے سنا کہ جس سال مکہ مکرمہ فتح ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے (کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) خداوند قدوس نے حرام فرمایا ہے شراب مردار سور اور بتوں کو فروخت کرنے اور خریدنے سے۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مردار کی چربی تو استعمال ہوتی ہے اور اس کو کشتیوں پر لگاتے ہیں اور کھالوں پر ملتے ہیں اور رات میں روشنی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں وہ حرام ہے پھر ارشاد فرمایا خداوند قدوس یہود کو تباہ اور برباد کر دے جس وقت خداوند قدوس نے ان پر چربی حرام فرما دی تو اس کو (پہلے تو) گلایا پھر اس کو فروخت کیا اور اس کی قیمت لگائی۔

 

 

حرام شے سے فائدہ حاصل کرنے کی ممانعت سے متعلق حدیث

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، عمرو، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر کو اطلاع ملی کہ حضرت سمرہ نے شراب کی فروخت کی انہوں نے فرمایا خداوند قدوس سمرہ کو تباہ کر دے ان کو معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس یہودیوں کو تباہ کر دے جس وقت ان پر چربی حرام ہوئی تو (پہلے ) اس کو گلایا (اور اس کا تیل فروخت کیا)۔

 

اگر چوہا گھی میں گر جائے تو کیا کرنا ضروری ہے ؟

 

قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ چوہے کو (گھی کے اندر سے ) نکال دو اور باقی گھی کھالو۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم،دورقی، محمد بن یحییٰ بن عبداللہ، نیسابو ری، عبدالرحمن ، مالک، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ چوہے کو (گھی کے اندر سے ) نکال دو اور باقی گھی کھالو۔ کہ گھی جما ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چوہا اور جو اس کے چاروں طرف گھی ہے اس کو نکال کر پھینک دو۔

 

 

٭٭ خشیش بن اصرم، عبدالرزاق، عبدالرحمن بن بوذویہ، معمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر گھی جما ہوا ہے تو چوہا اور اس کے پاس کا گھی نکال کر پھینک دو اور اگر وہ گھی پتلا ہے تو اس کے نزدیک مت جا (یعنی تمام گھی خراب ہو گیا)۔

 

 

٭٭ سلمہ بن احمد بن سلیم بن عثمان فوزی، جدی الخطاب، محمد بن حمیر، ثابت بن عجلان، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک مردار بکری کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کاش اس بکری کے مالک اس کی کھال اتار لیتے پھر اس سے نفع حاصل کرتے (یعنی اس کی کھال کو دباغت دے کر نفع اٹھاتے )۔

 

اگر مکھی برتن میں گر جائے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، ابن ابو ذئب، سعید بن خالد، ابو سلمہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اس کو اچھی طرح سے اس میں غرق کر دے (کیونکہ مکھی کہ ایک بازو میں شفا ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے )۔

 

 

 

شکار اور ذبیحوں سے متعلق

 

شکار اور ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ کہنا

 

امام ابو عبدالرحمن نسائی، سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، عاصم، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکار سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس وقت تم اپنے کتے کو شکار پر چھوڑ دو تو بسْمِ اللَّہِ کہو پھر اگر تم اس شکار کو زندہ پاؤ تو تم اس کو ذبح کر دوبسْمِ اللَّہِ کہہ کر اور اگر شکار کو کتا مار دے لیکن اس میں نہ کھائے تو تم اس کو کھالو اس لیے کہ اس نے پکڑا تمہارے واسطے اگر وہ کتا اس میں سے کھا لے تو تم مت کھاؤ کیونکہ اس نے اپنے واسطے پکڑا ہے (اور جب تم اس میں سے کھاؤ گئے ) اور دوسرے یہ کہ وہ کتا معلوم ہوا کہ سدھایا ہوا نہیں ہے پھر اس کا شکار کس طرح سے درست ہو گا اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ وہ کتے بھی شریک ہو گئے (جن کو ان کے مالکوں نے بسْمِ اللَّہِ کہہ کر نہیں چھوڑا مثلاً مشرکین و کفار کے کتے تھے ) تو شکار میں سے نہ کھاؤ کیونکہ اس کا علم نہیں ہے کہ کون سے کتے نے اس کو مارا؟

 

جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس چیز کو کھانے کی ممانعت

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، زکریا، شعبی، عدی بن حاتم نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ معراض کے شکار سے متعلق تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر جانور پر وہ لگ جائے تو تم اس کو کھالو اور اگر آڑی لکڑی پڑی ہے تو وہ موقوذہ ہے (جس کو قرآن کریم میں حرام قرار دیا گیا ہے ) پھر میں نے کتے کے شکار سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم اپنا کتا چھوڑ دو اور وہ شکار کو پکڑ لے لیکن اس میں سے وہ نہ کھائے تو تم اس کو کھالو کیونکہ اس کا پکڑ لینا وہ ہی گویا شکار کا ذبح کرنا ہے اور جو تمہارے کتے کے ساتھ اور کتے ہوں پھر تم کو ڈر ہو کہ شاید وہ دوسرے کتے نے بھی پکڑ لیا ہو تو تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسْمِ اللَّہِ پڑھی تھی نہ کہ دوسرے کتوں پر۔

 

سدھے ہوئے کتے سے شکار

 

اسماعیل بن مسعود، ابو عبدالصمد، عبدالعزیز بن عبدالصمد، منصور، ابراہیم، ہمام بن حارث، عدی بن حاتم نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ میں شکاری کتا چھوڑتا ہوں پھر وہ جانور پکڑ لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم شکاری کتا (سدھایا ہوا) اللہ کا نام لے کر چھوڑو پھر وہ جانور اس کو پکڑ لے تو تم اس کو کھا لو۔ میں نے عرض کیا اگرچہ وہ شکار مار ڈالے۔ فرمایا ہاں ! میں نے عرض کیا میں معراض (بغیر پر کا تیر) پھینکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم جب جانور چھوڑ دو اور اس کے تمہارے تیر کی نوک لگ جائے تو تم وہ شکار کھالو اور اگر وہ تیر آڑا لگے تو نہ کھا۔

 

جو کتا شکاری نہیں ہے اس کے شکار سے متعلق

 

محمد بن عبید بن محمد کوفی محاربی، عبداللہ بن مبارک، حیوۃ بن شریح، ربیعۃ بن یزید، ابو ادریس، ثعلبہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس ملک میں ہوں کہ جس جگہ شکار بہت ملتا ہے تو میں تیر کمان سے شکار کرتا ہوں اور شکاری کتے سے اور اس کتے سے بھی جو شکاری نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تیر سے مارے تو وہ اللہ کا نام لے تو وہ بھی کھا اور جو اس کتے سے پکڑے جو شکاری نہیں ہے پھر زندہ ہاتھ آئے اور ذبح کر لو تو تم کھاؤ (اور اگر وہ جانور مردہ حالت میں ملے تو وہ حرام ہے )۔

 

اگر کتا شکار کو قتل کر دے ؟

 

محمد بن زنبور ابو صالح مکی، فضیل بن عیاض، منصور، ابراہیم، ہمام بن حارث، عدی بن حاتم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سدھائے ہوئے کتوں کو اپنے شکار پر چھوڑتا ہوں پھر وہ کتے شکار پکڑ لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم شکاری کتوں کو چھوڑ دو پھر وہ شکار پکڑ لیں تو تم وہ کھا لو۔ میں نے عرض کیا اگر وہ اس جانور کو مار ڈالیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ مار ڈالیں لیکن یہ لازم ہے کہ اور کوئی کتا ان کے ساتھ شریک نہ ہو گیا ہو۔ میں نے عرض کیا میں معراض (جس کی تشریح گزر چکی ہے ) پھر وہ (نوک سے ) گھس جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر گھس جائے تو وہ شکار کھالو اور اگر وہ شکار ایسا ہو کہ جس پر معراض ترچھا پڑے تو تم وہ شکار نہ کھاؤ (وہ حلال نہ ہو گا )۔

 

اگر اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا شامل ہو جائے جو بسم اللہ کہہ کر چھوڑا گیا ہو

 

عمرو بن یحیی بن حارث، احمد بن ابو شعیب، موسیٰ بن اعین، معمر، عاصم بن سلیمان، عامر الشعبی، عدی بن حاتم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکار کے متعلق دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم (شکار پر) اپنا کتا چھوڑو پھر اس کے ساتھ دوسرے کتے شامل ہوں جائیں جو کہ بسم اللہ کہہ کر نہیں چھوڑے گئے تھے تو تم وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ معلوم نہیں کہ کس کتے نے اس کو مارا۔

 

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ

 

عمرو بن علی، یحیی، زکریا، ابن ابو زائد ۃ، عامر، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کتے کے شکار سے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم اپنا کتابسم اللہ کہہ کر چھوڑو تو تم (وہ شکار کھاؤ) اور اگر تم دوسرا کتا اپنے کتے کے ساتھ پاؤ تو تم وہ شکار چھوڑ دو کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ کہی تھی نہ کہ دوسرے کتے پر۔

 

 

٭٭ احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد، ابن جعفر، شعبہ، سعید بن مسروق، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ حضرت شعبی نے بیان کیا کہ وہ ہمارا پڑوسی تھا اور ہم لوگوں کے پاس آتا جاتا تھا اور اس نے دنیا کو نہرین نامی شہر میں چھوڑ (ترک دنیا کر) رکھا تھا۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں پھر اس کے ساتھ دوسرا کتا پاتا ہوں مجھ کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس نے شکار کو پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو نہ کھاؤ اس لیے کہ تم نے تو بسم اللہ کہی تھی اپنے کتے پر نہ کہ دوسرے کتے پر۔

 

 

٭٭ حضرت عدی سے روایت ہے جو کہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ سلیمان بن عبید اللہ بن عمرو غیلانی بصری، بہز، شعبہ، عبداللہ بن ابی سفر، عامر شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم اپنا کتا چھوڑو بسْمِ اللَّہِ پڑھ کر تو تم اس کے شکار کو کھالو اور اگر جو کتا اس شکار میں سے کچھ کھا لے تو تم اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ اس نے وہ شکار اپنے (کھانے کے ) واسطے پکڑا ہے (نہ کہ تمہارے کھانے کے لیے ورنہ کتا تمہارا شکار کیوں کھاتا) اور جس وقت تم اپنا کتا چھوڑو پھر تم اس کے ساتھ دوسرا کتا پاؤ تو تم وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسْمِ اللَّہِ پڑھی تھی نہ کہ دوسرے کتے پر)۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو داؤد، شعبہ، ابن ابو سفر، شعبی و حکم، شعبی و سعید بن مسروق، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ میں (شکار کی طرف) اپنا کتا چھوڑتا ہوں پھر میں اس کے ساتھ دوسرا کتا پاتا ہوں (یعنی میرے سدھے ہوئے کتے کے ساتھ ساتھ دوسرا کتابھی شکار کی طرف لگ جاتا ہے ) یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے شکار پکڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسْمِ اللَّہِ پڑھی تھی نہ کہ دوسرے کے کتے پر

 

اگر کتا شکار میں سے کچھ کھا لے تو کیا حکم ہے ؟

 

احمد بن سلیمان، یزید، ابن ہارون، زکریا و عاصم، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معراض کے شکار سے متعلق عرض کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر (وہ تیر) کی نوک کی طرف سے مارے تو تم وہ شکار کھالو اور اگر ترچھا پڑے تو وہ موقوذہ ہے (یعنی اس کا شکار کھانا حرام ہے ) پھر میں نے شکاری کتے سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم اپنا کتا خدا کا نام لے کر چھوڑ دو تو تم وہ شکار کھا لو۔ میں نے عرض کیا اگر وہ شکار کو مار دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ مار دے البتہ اگر اس میں سے وہ شکار کھا لے تو تم نہ کھاؤ اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا پاؤ اور (اس دوسرے کتے ) نے شکار مار دیا ہو تو تم وہ شکار نہ کھاؤ (اور اگر زندہ ہو تو اس شکار کو باقاعدہ ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا درست ہے ) کیونکہ تم نے اللہ کا نام دوسرے کتے پر لیا تھا نہ کہ دوسرے کتے پر۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، احمد بن ابی شعیب، موسیٰ بن اعین، معمر، عاصم بن سلیمان، شعبی، عدی بن حاتم طائی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکار کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم اپنا کتا اللہ کا نام لے کر چھوڑ دو پھر وہ شکار کو مار ڈالے لیکن اس میں سے شکار نہ کھائے تو تم وہ شکار کھاؤ اور اگر کتا وہ شکار کھا لے (یا منہ مارے ) تو تم وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ اس نے وہ شکار اپنے واسطے پکڑا نہ کہ تمہارے واسطے۔

 

 

کتوں کو مارنے کا حکم

 

کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، ابن سباق، میمونہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت جبرائیل امین نے عرض کیا ہم (ملائکہ رحمت) اس کمرہ میں داخل نہیں ہوتے کہ جس جگہ کتا یا تصویر ہو۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو ہلاک کیے جانے کا حکم فرمایا یہاں تک کہ چھوٹے کتے کو بھی مارنے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا لیکن وہ کتے جن کو اس حکم سے مستثنیٰ فرمایا گیا وہ شکار کے کتے کھیت (کی حفاظت کے کتے ) اور جانوروں کی حفاظت کے کتے اور حفاظت اور پہرا دینے والے کتے تھے۔

 

 

٭٭ وہب بن بیان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونچی آواز سے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرما رہے تھے پھر وہ کتے ہلاک کیے جا رہے تھے لیکن شکاری یا جانوروں (یا کھیتی) کی حفاظت کرنے والے کتے نہ مارے جائیں۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس طرح کے کتے کو ہلاک کرنے کا حکم فرمایا؟

 

عمران بن موسی، یزید بن زریع، یونس، حسن، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کتے ایک ہی قسم کے نہ ہوتے جس طریقہ سے کہ جانوروں کی قسمیں ہوتی ہیں تو میں ان کے مار ڈالنے کا حکم دیتا تو تم لوگ ان کتوں میں سے ایک کالے سیاہ رنگ کے کتے کو مار ڈالو (یعنی بالکل سیاہ فام کتے کو مار ڈالو کیونکہ وہ عام طریقہ سے ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اور جن لوگوں نے کتا پالا نہ تو وہ کتا کھیت کی حفاظت کے لیے ہو نہ ہی جانوروں کی حفاظت کے لیے تو ان کے ثواب میں سے ہر دن ایک قیراط کم ہو گا (یعنی کتا پالنے والے کا روزانہ ثواب کم ہوتا رہے گا

 

جس مکان میں کتا موجود ہو وہاں پر فرشتوں کا داخل نہ ہو نا

 

محمد بن بشار، محمد و یحیی بن سعید، شعبہ، علی بن مدرک، ابو زرعۃ، عبداللہ بن نجی، وہ اپنے والد سے ، علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (رحمت کے فرشتے ) اس مکان (یا دکان وغیرہ) میں داخل نہیں ہوتے کہ جہاں پر کتا ہو یا تصویر ہو یا کوئی جنبی شخص ہو۔

 

 

٭٭ قتیبہ و اسحاق بن منصور، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، طلحہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس مکان میں فرشتے داخل نہیں ہوتے کہ جس جگہ کتا ہو یا تصویر ہو

 

 

٭٭ محمد بن خالد بن خلی، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، زہری، ابن سباق، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز فجر کے وقت غمگین اور مایوس حالت میں بیدار ہوئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آج فجر کی نماز سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ اترا ہوا محسوس کر رہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ سے حضرت جبرائیل امین نے آج رات ملاقات کا وعدہ فرمایا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں ملے اور خدا کی قسم انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی پھر تمام دن وہ اسی طریقہ سے رہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خیال ہوا کہ ایک کتے کا پلا ہمارے تخت کے نیچے تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا وہ باہر نکالا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی لے کر اس جگہ چھڑک دیا۔ شام کے وقت حضرت جبرائیل امین تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے تو گزشتہ رات آنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا جی ہاں لیکن ہم لوگ اس مکان میں داخل نہیں ہوتے کہ جس جگہ کتا ہو یا تصویر ہو چنانچہ اس صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کے قتل کیے جانے کا حکم فرمایا۔

 

جانوروں کے گلے کی حفاظت کی خاطر کتا پالنے کی اجازت
سوید بن نصر بن سوید، عبد اللہ، ابن مبارک، حنظلۃ، سالم، ابن عمر سے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کتا پالے تو روزانہ اس کے اجر و ثواب میں سے دو قیراط کم ہوں گے لیکن شکاری کتا یا ریوڑ کا کتا جو کہ بکریوں کے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے اس کا پالنا درست ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرج بن خالد سعدی، اسماعیل، ابن جعفر، یزید، ابن خصیفۃ، سائب بن یزید، سفیان بن ابی زہیر شنائی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ کھیت کی حفاظت کے لیے اور نہ ہی جانوروں کی حفاظت کے لیے (بلکہ شوقیہ) کتا پالے تو اس شخص کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط (عمل) کم ہو گا۔ سائب بن یزید نے حضرت سفیان سے عرض کیا کیا تم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! قسم اس مسجد کے پروردگار کی! (میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے )۔

 

 

شکار کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت سے متعلق

 

علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرج بن خالد سعدی، اسماعیل، ابن جعفر، یزید، ابن خصیفۃ، سائب بن یزید، سفیان بن ابی زہیر شنائی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ کھیت کی حفاظت کے لیے اور نہ ہی جانوروں کی حفاظت کے لیے (بلکہ شوقیہ) کتا پالے تو اس شخص کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط (عمل) کم ہو گا۔ سائب بن یزید نے حضرت سفیان سے عرض کیا کیا تم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! قسم اس مسجد کے پروردگار کی! (میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے )۔

 

 

٭٭ علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرج بن خالد سعدی، اسماعیل، ابن جعفر، یزید، ابن خصیفۃ، سائب بن یزید، سفیان بن ابی زہیر شنائی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ کھیت کی حفاظت کے لیے اور نہ ہی جانوروں کی حفاظت کے لیے (بلکہ شوقیہ) کتا پالے تو اس شخص کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط (عمل) کم ہو گا۔ سائب بن یزید نے حضرت سفیان سے عرض کیا کیا تم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! قسم اس مسجد کے پروردگار کی! (میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے )۔

 

کھیت کی حفاظت کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت

 

محمد بن بشار، یحیی و ابن ابی عدی و محمد بن جعفر، عوف، حسن، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کتا پالے علاوہ (بکریوں وغیرہ کی حفاظت کے ) غلے کے یا کھیت یا شکار کے لیے تو اس کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا رہے گا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرج بن خالد سعدی، اسماعیل، ابن جعفر، یزید، ابن خصیفۃ، سائب بن یزید، سفیان بن ابی زہیر شنائی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ کھیت کی حفاظت کے لیے اور نہ ہی جانوروں کی حفاظت کے لیے (بلکہ شوقیہ) کتا پالے تو اس شخص کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط (عمل) کم ہو گا۔ سائب بن یزید نے حضرت سفیان سے عرض کیا کیا تم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! قسم اس مسجد کے پروردگار کی! (میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے )۔

 

 

٭٭ وہب بن بیان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کتا پالے لیکن ریوڑ کا کتا یا کھیت کی (حفاظت کے علاوہ) کے لیے کتا پالے تو اس شخص کے عمل میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، محمد بن ابی حرملۃ، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کتا پالے لیکن ریوڑ کا کتا یا شکار کا کتا (یعنی ان دو قسم کے کتے کے علاوہ کتا پالے ) تو اس شخص کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو گا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا یا کھیت کا کتا وہ بھی معاف ہے (یعنی باغ باغیچہ اور کھیت کی حفاظت کر نے والا کتا اگر کسی نے پال لیا تو وہ شخص گناہ گار نہیں ہو گا )۔

 

 

کتے کی قیمت لینے کی ممانعت

 

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، ابی بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو مسعود، عقبہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کتے کی قیمت لینے سے اور طوائف کی اجرت اور نجومی کی اجرت لینے (دینے ) سے۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، معروف بن سوید جذامی، علی بن رباح خمی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حلال اور جائز نہیں ہے کتے کی قیمت اور مزدوری اور اجرت نجومی کی اور طوائف کی۔

 

 

٭٭ شعیب بن یوسف، یحیی، محمد بن یوسف، سائب بن یزید، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بری اور گندی آمدنی ہے طوائف کی کتے کی قیمت اور اجرت اور مزدوری پچھنے لگانے والے کی (یعنی سینگی لگانے کی)۔

 

شکاری کتے کی قیمت لینا جائز ہے اس سے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

ابراہیم بن حسن مقسمی، حجاج بن محمد، حماد بن سلمہ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی بلی اور کتے کی قیمت لینے سے لیکن شکاری کتے کی (یعنی شکاری کتے کی قیمت درست ہے )۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابن سواء، سعید، ابو مالک، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میرے پاس شکاری کتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کا حکم فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شکار تمہارے کتے پکڑیں پھر اس میں سے نہ کھائیں تو تم اس کو کھاؤ۔ اس نے عرض کیا اگرچہ مار ڈالیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ مار ڈالیں پھر اس نے عرض کیا اب تیر کمان کا حکم شرح ارشاد فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شکار تمہارا تیر مارے اس کو کھالو۔ اس نے پھر عرض کیا اگر شکار تیر کھا کر غائب ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ غائب ہو جائے بشرطیکہ اس میں اور کسی تیر کا نشان نہ ہو اور اس میں بدبو نہ پیدا ہو یعنی وہ جانور اتنے دنوں کے بعد مل جائے کہ وہ سڑ گیا ہو اور اس میں سے بدبو آ رہی ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے (اس لیے کہ سڑا ہوا گوشت امراض پیدا کرتا ہے )۔

 

اگر پالتو جانور وحشی ہو جائے ؟

 

احمد بن سلیمان، حسین بن علی، زائدۃ، سعید بن مسروق، عبایۃ بن رفاعۃ بن رافع، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ذوالحلیفہ میں جو کہ تھامہ میں ہے رفاف عرق نامی جگہ کے پاس لوگوں نے اونٹ اور بکریاں حاصل کیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے پیچھے رہتے تھے (تا کہ سب کے حالات سے باخبر رہیں اور جو شخص تھک جائے اس کو سوار کر لیں ) تو جو حضرات آگے تھے تو انہوں نے مال غنیمت کی تقسیم میں جلدی کی اور مال غنیمت تقسیم ہونے سے قبل جانوروں کو ذبح کیا اور انہوں نے دیگیں چڑھا دیں۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو وہ دیگیں الٹ دی گئیں۔ پھر جانوروں کو تقسیم کیا تو دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر مقرر و متعین کیں اتنے میں ایک اونٹ بھاگ نکلا اور لوگوں کے پاس گھوڑے بھی کم تعداد میں تھے (ور نہ لوگ اس بھاگے ہوئے اور بگڑے ہوئے اونٹ کو پکڑنے کی کوشش کرتے ) اور وہ لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کے واسطے دوڑے لیکن وہ ہاتھ نہیں آیا یہاں تک کہ اس نے سب کو تھکا دیا۔ آخرکار اس کے ایک آدمی نے ایک تیر مارا تو اللہ نے اس اونٹ کو روک دیا (یعنی تیر کھانے کے بعد اسی جگہ ٹھہر گیا) اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ جانور (جو کہ ایک طریقہ سے پالتو جانور ہیں جیسے اونٹ گائے بیل بکری دنبہ وغیرہ) بھی وحشی ہو جاتے ہیں جیسے کہ جنگلی جانور تو جو تم لوگوں کے ہاتھ نہ آئے تو تم اس کے ساتھ اس طریقہ سے کرو (یعنی تم اس کے تیر مارو پھر اگر وہ جانور مر جائے تو تم اس کو کھالو اس لیے کہ اگر اپنے اختیار سے کسی وجہ سے باقاعدہ جانور ذبح نہ کر سکو تو مذکورہ طریقہ سے بسْمِ اللَّہِ پڑھ کر تیر مارنے سے بھی وہ جانور حلال ہو جاتا ہے اس آخری صورت کو شریعت کی اصطلاح میں زکوٰۃ اضطراری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

اگر کوئی شکار کو تیر مارے پھر وہ تیر کھا کر پانی میں گر جائے ؟

 

احمد بن منیع، عبداللہ بن مبارک، عاصم الاحول، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکار کے متعلق دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس وقت تم خداوند قدوس کا نام لے کرتیر مارو پھر اگر وہ جانور مرا ہوا یعنی مردہ حالت میں ملے تو تم اس کو کھالو لیکن جس وقت وہ پانی میں گر جائے اور علم نہ ہو کہ پانی میں گرنے سے یا تیر کے زخم سے مرا تو تم اس کو نہ کھاؤ۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، احمد بن ابو شعیب، موسیٰ بن اعین، معمر، عاصم بن سلیمان، عامر شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکار کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم تیر مارو یا اللہ کا نام لے کر کتا چھوڑو پھر تمہارے تیر سے شکار مر جائے تو تم اس کو کھالو۔ عدی نے عرض کیا اگر وہ ایک رات کے بعد ہاتھ آئے (یعنی ایک رات گزر نے پر وہ پکڑا جائے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارے تیر کا علاوہ اور کسی صدمہ (چوٹ) کا اس میں نشان نہ پاؤ تو تم اس کو کھالو اور اگر پانی میں گرا ہوا ہو تو اس کو نہ کھاؤ۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، عدی بن حاتم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ شکاری لوگ ہیں اور ہمارے میں سے کوئی شخص تیر مارتا ہے پھر شکار غائب ہو جاتا ہے ایک رات اور دو رات (تک وہ غائب رہتا ہے یعنی جنگل وغیرہ میں چھپ جاتا ہے ) یہاں تک کہ وہ مردہ حالت میں پایا جاتا ہے اور اس کے جسم میں تیر پیوست ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تیر اس کے اندر موجود ہو اور کسی دوسرے درندے (کے کھانے کا یعنی شیر اور بھڑیئے وغیرہ کسی دوسرے جانور کے ) کھانے کا اس میں کوئی نشان نہ ہو اور تم کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ جانور تمہارے ہی تیر سے مرا ہے تو تم اس کو کھا لو۔

 

اگر شکار تیر کھا کر غائب ہو جائے تو کیا حکم ہے ؟

 

محمد بن عبدالاعلی و اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ابو بشر، سعید بن جبیر، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم اپنا تیر جانور میں پاؤ اور اس کے علاوہ اور کوئی نشان نہ پاؤ اور تم کو یقین ہو کہ وہ جانور تمہارے تیر سے مرا ہے تو تم اس کو کھا لو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبدالملک بن میسرۃ، سعید بن جبیر، عدی بن حاتم سے روایت ہے یا رسول اللہ! میں شکار کے تیر مارتا ہوں پھر اس میں اس کا نشان ایک رات گزرنے کے بعد تلاش کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم اپنا تیر اس کے اندر پاؤ اور اس کو کسی دوسرے درندے نے نہ کھایا ہو تو تم وہ شکار کھالو (یعنی وہ شکار حلال ہے )۔

 

 

جس وقت شکار کے جانور سے بدبو آنے لگ جائے ؟

 

احمد بن خالد خلال، معن، معاویۃ، ابن صالح، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، وہ اپنے والد سے ، ابو ثعلبۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی اپنا شکار تین دن کے بعد پائے تو اس کو تم کھالو لیکن جب اس میں بدبو پیدا ہو جائے (تو تم وہ شکار نہ کھاؤ)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سماک، مری بن قطری، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کتا چھوڑتا ہوں پھر وہ شکار پکڑ لیتا ہے لیکن میرے پاس ذبح کرنے کے واسطے کچھ نہیں ہوتا تو میں پتھر یا لکڑی سے (جو کہ دھار دار ہوتی ہے ) شکار ذبح کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس چیز سے دل چاہے تم اللہ کا نام لے کر جانور کا خون بہا دو۔ (مطلب یہ ہے کہ شکار حلال ہونے کے واسطے دو شرط ہیں ایک تو اللہ کا نام لینا اور دوسرے خون بہانا)۔

 

معراض کے شکار سے متعلق

 

محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ابراہیم، ہمام، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سدھے ہوئے کتے کو چھوڑتا ہوں پھر وہ شکار پکڑتے ہیں تو اس کو کھاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم سکھلائے اور سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑو اور وہ پھر شکار پکڑ لیں تو تم اس کو کھا لو۔ میں نے عرض کیا اگر وہ شکار کو مار ڈالیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ مار ڈالیں جس وقت تک کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شریک نہ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا معراض پھینکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم معراض پھینکو اللہ کا نام لے کر اور وہ (اندر) گھس جائے (یعنی نوک کی جانب سے اندر داخل ہو) تو تم کھالو اور اگر آڑا پڑے تو تم اس کو مت کھاؤ۔

 

جس جانور پر آڑا معراض پڑے

 

عمرو بن علی، محمد بن یعقوب، شعبہ، عبداللہ بن ابی سفر، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معراض سے متعلق عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت دھار کی جانب وہ لگے تو تم اس کو کھالو اور جب وہ آڑا ہو کر شکار کے لگے تو تم اس کو نہ کھاؤ (کیونکہ وہ موقوذہ ہے اور حرام اور ناجائز ہے )

 

معراض کے نوک سے جو شکار مارا جائے اس سے متعلق حدیث

 

حسین بن محمد ذراع، ابو محصن، حصین، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معراض کے شکار سے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت اس کے نوک لگ جائے تو تم اس کو کھالو اور جب وہ آڑا پڑے تو تم اس کو نہ کھاؤ(کیونکہ وہ موقوذہ ہے جو کہ حرام ہے )۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، عیسیٰ بن یونس، زکریا، شعبی، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معراض کے شکار سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت وہ معراض نوک (اور دھار) کی جانب سے لگے تو تم اس کو کھالو اور اگر آڑا لگے تو تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ وہ موقوذہ ہے۔

 

شکار کے پیچھے جانا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرحمن، سفیان، ابو موسی، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابو موسی، وہب بن منبہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی جنگل میں رہائش اختیار کرے تو وہ شخص سخت (دل) ہو جائے گا اور جو کوئی شکار کے مشغلہ میں لگا رہا تو وہ دوسری باتوں سے غافل ہو جائے گا اور جو کوئی بادشاہ کے ساتھ رہے گا وہ آفت میں مبتلا ہو گا (چاہے دین کے اعتبار سے یا دنیا کے اعتبار سے )۔

 

خرگوش سے متعلق

 

محمد بن معمر بحرانی، حبان، ابن ہلال، ابو عوانۃ، عبدالملک بن عمیر، موسیٰ بن طلحہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک گاؤں کا باشندہ (خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور وہ) ایک خرگوش بھون کر لایا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے وہ خرگوش پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ روک لیا اور وہ خرگوش نہیں کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (وہ خرگوش دوسرے حضرات کے سامنے رکھ دیا اور) دوسروں کو کھانے کا حکم فرمایا اس دیہاتی شخص نے بھی وہ خرگوش نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کس وجہ سے نہیں کھا رہے ہو؟ اس نے عرض کیا میں تو ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تو ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھتا ہے تو چاندنی راتوں میں روزہ رکھا کرو (یعنی 13ویں 14ویں اور 15ویں رات میں )۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، حکیم بن جبیر و عمرو بن عثمان و محمد بن عبدالرحمن، موسیٰ بن طلحہ، ابن حوتکیۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ کون آدمی ہم لوگوں کے ساتھ تھا قاحہ والے دن (قاحہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جگہ ہے ) حضرت ابو ذر نے فرمایا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا کہ ایک خرگوش آیا اور جو شخص اس کو لے کر حاضر ہوا تھا اس نے عرض کیا میں نے دیکھا کہ اس کو حیض آ رہا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نہیں کھایا اور لوگوں سے فرمایا کہ اس کو کھا لو۔ ایک شخص نے عرض کیا میں روزہ دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا 13ویں 14ویں اور15ویں تاریخ چاندنی راتوں میں تم نے کیوں روزے نہیں رکھے ؟

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ہشام، ابن زید، انس سے روایت ہے کہ مرالظہران نامی جگہ جو کہ مکہ مکرمہ سے ایک منزل پر واقع ہے۔ میں نے ایک خرگوش کو چھوڑا پھر اس کو پکڑ لیا اور حضرت ابو طلحہ کے پاس خرگوش لایا اور حضرت ابو طلحہ کے پاس لے کر حاضر ہوا تو انہوں نے اس کو ذبح کیا اور اس کی رانیں اور سرین میرے ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، جعفر، عاصم و داؤد، شعبی، ابن صفوان نے عرض کیا میں نے دو خرگوش پکڑے پھر ان کو ذبح کرنے کے لیے کچھ نہیں پایا تو ان کو پتھر سے ذبح کیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کو کھا لو۔

 

گوہ سے متعلق حدیث

 

قتیبہ، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا گوہ سے متعلق۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، نافع و عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گوہ کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ میں اس کو کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔

 

 

٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، ابو امامۃ بن سہل، عبداللہ بن عباس، خالد بن ولید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھنا ہوا گوہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا جو حضرات موجود تھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ گوہ کا گوشت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا گوہ حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن میری قوم کی بستی میں گوہ نہیں ہوتا تو مجھ کو اس سے نفرت محسوس ہوتی ہے پھر حضرت خالد نے ہاتھ بڑھایا اور وہ کھایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رہے تھے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، ابو امامۃ بن سہل ابن عباس، خالد بن ولید سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ان کی خالہ حضرت میمونہ بنت حارث کی خدمت میں حاضر ہوئے وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوہ کا گوشت پیش کیا گیا ٰ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوئی بھی چیز تناول نہیں فرماتے جس وقت تک کہ تحقیق نہ فرما لیتے کہ کیا ہے۔ بعض خواتین نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلا دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کھائیں گے۔ پھر انہوں نے کہہ دیا کہ یہ گوشت گوہ کاہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ چھوڑ دیا اور تناول نہیں فرمایا حضرت خالد نے عرض کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن یہ گوشت میرے ملک میں نہیں ملتا تو مجھ کو اس میں کراہت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت خالد نے عرض کیا یہ بات سن کر میں نے وہ گوشت اپنی جانب کھینچ لیا اور اس کو کھا لیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب کچھ ملاحظہ فرما رہے تھے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ میری خالہ محترمہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں پنیر گھی اور گوہ (ایک جانور ہے ) کا حصہ بھیجا (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پنیر اور گھی تناول فرما لیا لیکن گوہ نہیں کھائی اگر وہ حرام ہوتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دستر خوان مبارک پر کس طریقہ سے کھائی جاتی؟ (یہ جملے راوی کے خیالات ہیں ) اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو کھانے کا حکم فرماتے۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ گوہ کا کھانا کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا حضرت ام حضید نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھی اور پنیر اور گوہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھی اور پنیر کھا لیا اور گوہ کو نفرت کی وجہ سے اور کراہت کی وجہ سے اسی طرح چھوڑ دیا۔ اگر گوہ حرام ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دسترخوان پر کس طرح سے کھایا جاتا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسروں کو کھانے کا کس وجہ سے حکم فرماتے ؟

 

 

٭٭ سلیمان بن منصور بلخی، ابو احوص، سلام بن سلیم، حصین، زید بن وہب، ثابت بن یزید انصاری سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ ہم لوگ ایک منزل پر ٹھہر گئے اس جگہ لوگوں نے ایک گوہ پکڑ رکھی تھی میں نے ایک گوہ لے کر بھون لی اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں وہ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لکڑی سے اس کی انگلیاں شمار کرنا شروع فرما دیں اور فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قوم میں خداوند قدوس نے کچھ لوگوں کی صورت مسخ فرما دی (یعنی ان کے چہرے بگاڑ کر بندر اور خنزیر بنا دیئے ) اور وہ لوگ زمین کے جانور بن گئے لیکن میں واقف ہوں کہ وہ کون سے جانور ہیں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ تو اس کو کھا گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو اس کو کھانے کا حکم فرمایا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا

 

 

٭٭ عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبہ، عدی بن ثابت، زید بن وہب، ثابت بن ودیعۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک گوہ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو پلٹ کر دیکھنے لگے اور فرمایا کہ ایک امت ہے جو کہ مسخ ہو گئی تھی نہ معلوم اس نہ کیا کیا تھا۔ میں واقف نہیں ہوں شاید ہو سکتا ہے کہ یہ اسی امت میں سے ہو۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، شعبہ، حکم، زید بن وہب، براء بن عازب، ثابت سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گوہ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو پلٹ کر دیکھنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک امت ہے جو کہ مسخ ہو گئی تھی اور خداوند قدوس اچھی طرح سے واقف ہے (وہ جانور گوہ ہو گا یا کوئی اور دوسرا جانور ہو گا )۔

 

بجو سے متعلق حدیث

 

محمد بن منصور، سفیان، ابن جریج، عبداللہ بن عبید بن عمیر، ابن ابی عمار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا وہ شکار ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا تم نے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔

 

درندوں کی حرمت سے متعلق

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، اسماعیل بن ابی حکیم، عبیدۃ بن سفیان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک دانت والے درندے کا کھانا حرام ہے (یعنی جو کہ دانتوں نے شکار کرتا ہے جیسے کہ شیر بھیڑیا بلی وغیرہ)۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور و محمد بن مثنی، سفیان، زہری، ابو ادریس، ابو ثعلبۃ خشنی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہر ایک دانت والے درندے کے کھانے سے۔

 

دریائی مرے ہوئے جانور

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، صفوان بن سلیم، سعید بن سلمہ، مغیرۃ بن ابی بردۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم، عبدۃ، ہشام، وہب بن کیسان، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم تین سو افراد کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہاد کے واسطے روانہ فرمایا اور ہمارا سامان سفری ہماری گردنوں پر تھا (یعنی سفر میں کھانے پینے وغیرہ کھانے کا سامان ناکافی تھا) پھر وہ بھی ختم ہو گیا۔ یہاں تک کہ ہم میں سے ہر ایک شخص کو روزانہ ایک کھجور ملتی۔ لوگوں نے عرض کیا اے عبد اللہ! ایک کھجور میں انسان کا کیا ہو گا ؟ حضرت جابر نے فرمایا کہ جس وقت وہ بھی نہیں ملی تو ہم کو معلوم ہوا کہ ایک کھجور سے (بھی) کس قدر طاقت رہتی تھی۔ پھر ہم لوگ سمندر کے پاس آئے تو وہاں پر ایک مچھلی پائی جس کو کہ دریا نے پھینک دیا تھا اس میں سے ہم لوگ اٹھارہ دن تک کھاتے رہے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو، جابر سے روایت ہے ہم لوگ تین سو سواروں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روانہ فرمایا اور حضرت ابو عبیدہ کو امیر قافلہ بنا کر قریش کے قبیلہ کو لوٹنے کو (اس جگہ لفظ خبط سے معنی درخت کے پتے چبانے کے ہیں ) تو ہم لوگ سمندر کے کنارے پر پڑھے رہے قافلہ کے انتظار میں۔ ایسی بھوک لگی کہ آخر کار ہم لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے پتے چبانے لگے۔ پھر سمندر نے ایک جانور پھینکا جسے عنبر کہتے ہیں۔ اس کو ہم لوگوں نے آدھے مہینے تک کھایا اور اس کی چربی تیل کی جگہ استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ ہم لوگوں کے جسم پھر موٹے تازے اور فربہ ہو گئے (جو کہ بھوک کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے ) حضرت ابو عبیدہ نے اس کی ایک پسلی لے لی اور سب سے لمبا اونٹ لیا اور سب سے پہلے شخص کو اس پر سوار کیا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا پھر لوگوں کو بھوک لگی تو ایک آدمی نے تین اونٹ کاٹ ڈالے پھر بھوک ہوئی تو تین دوسرے ذبح کیے پھر بھوک لگی تو تین اور ذبح کیے۔ اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے منع فرمایا کہ زیادہ جانور ذبح کرنے کی وجہ سے سواری کے جانور نہیں رہیں گے۔ حضرت سفیان نے فرمایا کہ جو اس حدیث شریف کے روایت کرنے والے ہیں حضرت ابو زبیر نے حضرت جابر سے سنا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں کے پاس اس کا گوشت باقی ہے ؟ حضرت جابر نے فرمایا ہم نے اس کی آنکھوں سے چربی کا ایک ڈھیر نکالا اور اس کی آنکھوں کے حلقوں میں چار آدمی اتر گئے۔ حضرت ابو عبیدہ کے پاس اس وقت کھجور کا ایک تھیلا تھا وہ ہم کو ایک مٹھی دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور دینے لگ گئے ہم جس وقت وہ بھی نہیں ملی تو ہم کو معلوم ہوا کہ اس کا نہ ملنا (یعنی اس کے نہ ملنے کی وجہ سے جس قدر تکلیف ہوئی وہ ناقابل بیان ہے ) کیونکہ ایک ہی کھجور اگر کم از کم روزانہ ملتی رہتی تو کچھ تسلی ہوتی۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ ایک (چھوٹے ) لشکر میں بھیجا ہم لوگوں کی سفر کی تمام خوراک وغیرہ ختم ہو گئی تو ہم کو ایک مچھلی ملی جس کو کہ دریا کے کنارے پر ڈال دیا تھا۔ ہم لوگوں نے ارادہ کیا اس میں سے کچھ کھانے کا۔ حضرت ابو عبیدہ نے منع فرمایا پھر کہا ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھیجے ہوئے ہیں اور اس کے راستہ میں نکلے ہیں تم لوگ کھاؤ تو کتنے روز تک اس میں کھاتے رہے جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس میں سے کچھ باقی ہو تو وہ تم ہمارے پاس بھیج دو۔

 

 

٭٭ محمد بن عمر بن علی بن مقدم مقدمی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو حضرت ابو عبیدہ کے ہمراہ بھیجا اور ہم لوگ تین سو دس اور چند لوگ تھے (یعنی ہماری تعداد تین سو دس سے زائد تھی) اور ہمارے ہاتھ کھجور کا ایک تھیلا کر دیا (اس لیے کہ جلد ہی واپسی کی امید تھی) حضرت ابو عبیدہ نے اس میں سے ایک مٹھی ہم کو دے دی جس وقت وہ پوری ہونے لگیں تو ایک ایک کھجور تقسیم فرمائی ہم لوگ اس کو اس طریقہ سے چوس رہے تھے کہ جیسے کوئی لڑکا چوسا کرتا ہے اور ہم لوگ اوپر سے پانی پی لیتے تھے جس وقت وہ بھی نہ ملی تو ہم کو اس قدر کی معلوم ہوئی آخر کار یہاں تک نوبت آ گئی کہ ہم لوگ اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑ رہے تھے پھر ان کو پھانک کر ہم لوگ اس کے اوپر پانی پی لیتے۔ اسی وجہ سے لشکر کا نام حبیش خبط (یعنی پتوں کا لشکر) ہو گیا جس وقت ہم لوگ سمندر کے کنارہ پر پہنچے تو وہاں پر ایک جانور پایا۔ جو کہ ایک ٹیلہ کی طرح سے تھا جس کو کہ عنبر کہتے ہیں حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ یہ مردار ہے اس کو نہ کھا پھر کہنے لگے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لشکر ہے اور راہ خدا میں نکلا ہے اور ہم لوگ بھوک کی وجہ سے بے چین ہیں (کیونکہ سخت اضطراری حالت میں تو مردار بھی حلال اور جائز ہے ) اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھا (ایسے وقت میں تو مردار کی بھی حلال ہے ) اور اس کے بعد ہم لوگوں نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت اس کا پکانے کے بعد خشک کیا (تا کہ راستہ میں وہ کھا سکیں ) اور اس کی آنکھوں کے حلقہ میں تیرہ آدمی آ گئے یعنی داخل ہو گئے ہم لوگ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا تم نے کس وجہ سے تاخیر کی؟ ہم نے عرض کیا قریش کے قافلوں کو تلاش کرتے تھے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس جانور کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ خداوند قدوس کا رزق تھا جو کہ اس نے تم کو عطاء فرمایا۔ کیا تم لوگوں کے پاس کچھ باقی ہے ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں۔

 

مینڈک سے متعلق احادیث

 

قتیبہ، ابن ابی فدیک، ابن ابی ذئب، سعید بن خالد، سعید بن مسیب، عبدالرحمن بن عثمان سے روایت ہے کہ ایک حکیم (یعنی دوا و علاج کرنے والے ) نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مینڈک کو دوا میں استعمال کر نے سے متعلق دریافت کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو مارنے سے منع فرمایا۔

 

ٹڈی سے متعلق حدیث شریف

 

حمید بن مسعدۃ، سفیان، ابن حبیب، شعبہ، ابو یعفور سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے ٹڈی کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چھ غزوات میں شریک تھے اور ہم ان غزوات (اور جہاد) میں ٹڈیاں کھاتے تھے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

چیونٹی مارنے سے متعلق حدیث

 

وہب بن بیان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید و ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک چیونٹی نے ایک پیغمبر کے کاٹ لیا تو انہوں نے حکم فرمایا کہ ان چیونٹیوں کے تمام بل (یعنی ان کے رہنے کی تمام جگہیں اور سوراخ) جلا دیئے جائیں تو خداوند قدوس نے ان کی جانب وحی بھیجی کہ تمہارے ایک چیونٹی نے کاٹا اور تم نے ایک امت کو قتل کر دیا جو کہ پاکی بیان کرتی تھی اپنے پروردگار کی۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر، ابن شمیل، اشعث، حسن سے روایت ہے کہ ایک پیغمبر درخت کے نیچے اترے ان کے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے حکم فرمایا تو چیونٹیوں کا بل جلا دیا گیا۔ جب خداوند قدوس نے ان کو وحی بھیجی کہ تم نے اس چیونٹی کو کس وجہ سے نہیں جلایا کہ جس نے تمہارے کاٹا تھا۔

 

 

٭٭ حضرت ابو ہریرہ سے موقوفا اسی مضمون کی روایت مذکور ہیں۔

 

 

٭٭ سلیمان بن سلم بلخی، نضر، ابن شمیل، شعبہ، مالک بن انس، ابن مسلم، سعید بن مسیب، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص عید الاضحی کا چاند (یعنی ذی الحجہ کے مہینہ کا چاند) دیکھے پھر وہ قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال اور ناخن نہ لے (یعنی نہ کاٹے ) جس وقت تک کہ قربانی کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد بن یزید، ابن ابی ہلال، عمرو بن مسلم، ابن مسیب، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قربانی کرنا چاہے وہ اپنے ناخن نہ کترائے اور بال نہ منڈائے ماہ ذی الحجہ کی 10 ویں تاریخ تک (یعنی دسویں ذی الحجہ کو قربانی کے بعد حجامت بنوائے )۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، شریک، عثمان الاحلافی، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ جو شخص قربانی کرنا چاہے پھر ذی الحجہ کے روز آ جائیں تو بال اور ناخن نہ لے حضرت عثمان نے کہا کہ میں نے حضرت عکرمہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اور خواتین سے الگ رہے اور خوشبو نہ لگائے۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، عبدالرحمن بن حمید بن عبدالرحمن بن عوف، سعید بن مسیب، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی جب ماہ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ ہو جائے ) تو پھر تمہارے میں سے کسی کا ارادہ قربانی کر نے کا ہو جائے تو اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ چھوئے (یعنی نہ کتروائے )۔

 

 

 

 

قربانی سے متعلق احادیث مبارکہ

 

جس شخص میں قربانی کر نے کی طاقت نہ ہو؟

 

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، سعید بن ابی ایوب، عیاش بن عباس قتبانی، عیسیٰ بن ہلال صدفی، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا مجھ کو ماہ ذی الحجہ دس تاریخ میں بقر عید کرنے کا حکم ہوا ہے خداوند قدوس نے اس روز کو اس امت کے واسطے عید بنایا۔ اس نے عرض کیا اگر میرے پاس کچھ بھی موجود نہ ہو (یعنی قربانی کے مطابق نصاب موجود نہ ہو) لیکن ایک ہی بکری یا اونٹنی کیا میں اس کو قربانی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں (اس لیے کہ ایک ہی جانور موجود ہے کہ جس کی قربانی کر نے سے دشواری ہو گی) لیکن تم اپنے بال اور ناخن کتروا لو اور مونچھ کے بال مونڈ لو بس یہی تمہاری قربانی ہے خداوند قدوس کے نزدیک۔

 

امام کا عید گاہ میں قربانی کرنے کا بیان

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، کثیر بن فرقد، نافع، عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ علی بن عثمان نفلی، سعید بن عیسی، مفضل بن فضالۃ، عبداللہ بن سلیمان، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ میں نحر کیا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نحر نہیں کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ میں ذبح فرماتے تھے۔

 

لوگوں کا عیدگاہ میں قربانی کر نا

 

ہناد بن سری، ابو الاحوص، اسود بن قیس، جندب بن سفیان سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بقر عید میں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو نماز عید پڑھائی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بکریوں کو دیکھا وہ بکریاں ذبح ہو چکی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کسی نے نماز سے قبل ذبح کیا وہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس شخص نے ذبح نہیں کیا تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح (قربانی) کر لے۔

 

جن جانوروں کی قربانی ممنوع ہے جیسے کہ کانے جانور کی قربانی

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، سلیمان بن عبدالرحمن، بنی اسد، ابو ضحاک سے روایت ہے کہ جس کا نام عبید بن فیروز تھا اور وہ بنی شیبان کا مولی (غلام) تھا کہ میں نے حضرت براء بن عازب سے کہا کہ تم مجھ سے ان قربانیوں کے حال بیان کرو کہ جن سے منع کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے (اور اس طرح سے اشارہ فرمایا حضرت براء نے اشارہ کر کے بتلایا اور کہا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں ہیں ایک تو کانا جانور کہ جس کا کانا پن صاف معلوم ہو اور دوسرا بیمار کہ جس کی بیماری صاف اور خوب روشن ہو۔ تیسرا لنگڑا کہ جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو چکا ہو چوتھے دبلا اور کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو میں نے کہا کہ مجھ کو تو وہ جانور بھی برا معلوم ہوتا ہے (قربانی کے واسطے ) کہ جس کے سینگ ٹوٹ چکے ہوں یا جس قربانی کے جانور کے دانت ٹوٹ چکے ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو جانور تم کو برا معلوم ہو تم اس کو چھوڑ دو اور جو پسند ہو تم اس کی قربانی کرو لیکن دوسرے کو منع نہ کرو۔

 

لنگڑے جانور سے متعلق

 

اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ حضرت براء نے فرمایا مجھ کو وہ جانور بھی برا لگتا ہے کہ جس کے سینگ یا کان میں کوئی کمی ہو۔

 

قربانی کے لیے دبلی گائے وغیرہ

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث ولیث بن سعد، سلیمان بن عبدالرحمن، عبید بن فیروز، براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگلیوں سے بتلایا اور میری انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قربانی کے جانور میں چار عیب درست نہیں ہیں اس کے بعد وہ ہی چار عیب بیان فرمائے جو کہ اوپر مذکور ہیں۔

 

وہ جانور جس کے سامنے سے کان کٹا ہوا ہو اس کا حکم

 

محمد بن آدم، عبدالرحیم، ابن سلیمان، زکریا بن ابی زائدۃ، ابو اسحاق ، شریح بن نعمان، علی سے روایت ہے کہ ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنکھ اور کان دیکھنے کا حکم فرمایا (یعنی قربانی کے جانور میں مذکور اشیاء دیکھنے کا حکم فرمایا کہ یہ دونوں اعضاء بالکل درست ہیں یا نہیں ؟ اور ہم کو مقابلہ سے منع فرمایا کہ (جس کا کان سامنے سے کٹا ہوا ہو) اور مدابرہ سے منع کیا اور بتراء سے منع فرمایا اور خرقاء سے منع فرمایا۔

 

مدابرہ (پیچھے سے کان کٹا جانور) سے متعلق

 

محمد بن آدم، عبدالرحیم، ابن سلیمان، زکریا بن ابی زائدۃ، ابو اسحاق ، شریح بن نعمان، علی سے روایت ہے کہ ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنکھ اور کان دیکھنے کا حکم فرمایا (یعنی قربانی کے جانور میں مذکور اشیاء دیکھنے کا حکم فرمایا کہ یہ دونوں اعضاء بالکل درست ہیں یا نہیں ؟ اور ہم کو مقابلہ سے منع فرمایا کہ (جس کا کان سامنے سے کٹا ہوا ہو) اور مدابرہ سے منع کیا اور بتراء سے منع فرمایا اور خرقاء سے منع فرمایا۔

 

خرقاء(جس کے کان میں سوراخ ہو) سے متعلق

 

احمد بن ناصح، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، شریح بن نعمان، علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو منع فرمایا مقابلہ مدابرہ شرقاء اور جدعا (کہ جس جانور کے کان کٹے ہوں ) اس کی قربانی کرنے سے منع فرمایا۔

 

جس جانور کے کان چرے ہوئے ہوں اس کا حکم

 

ہارون بن عبد اللہ، شجاع بن ولید، زیاد بن خیثمۃ، ابو اسحاق ، شریح بن نعمان، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ قربانی کی جائے مقابلہ اور مدابرہ اور شرقاء اور خرقاء اور عوراء کی۔

 

 

٭٭ ترجمہ حدیث سابق جیسا ہے۔

 

قربانی میں عضباء (یعنی سینگ ٹوٹی ہوئی) سے متعلق

 

حمید بن مسعدۃ، سفیان، ابن حبیب، شعبہ، قتادۃ، جری بن کلیب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی سے سنا فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا کہ جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو پھر میں نے حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا جی ہاں۔ جس وقت آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹ گیا ہو تو درست نہیں ہے (لیکن اگر آدھا یا آدھے سے کم سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو قربانی درست ہے )۔

 

قربانی میں مسنہ اور جذعہ سے متعلق

 

ابو داؤد سلیمان بن سیف، حسن، ابن اعین و ابو جعفر، زہیر، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ قربانی نہ کرو مسنہ کی لیکن جس وقت تم پر مسنہ کی قربانی کرنا مشکل ہو جائے تو تم بھیڑ میں سے جذعہ کر لو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو خیر، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بکریاں حضرات صحابہ کرام کو تقسیم کرنے کے واسطے دیں پھر ایک بکری بچ گئی ایک سال کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کی قربانی کر لو۔

 

 

٭٭ یحیی بن درست، ابو اسماعیل، قناد، یحیی، بعجۃ بن عبد اللہ، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کو قربانیاں تقسیم فرمائیں میرے حصہ میں ایک جذعہ آیا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے حصہ میں تو ایک جذعہ آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کی قربانی کرو۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، بعجۃ بن عبداللہ جہنی، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام کو قربانی تقسیم فرمائیں میرے حصہ میں ایک جذعہ آیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے حصہ میں ایک جذعہ آیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی کر لو۔

 

 

٭٭ سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو، بکیر بن الاشج، معاذ بن عبداللہ بن خبیب، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ ہم نے قربانی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بھیڑ کے ایک جذعہ سے (اس کی تشریح گزر چکی ہے )۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، عاصم بن کلیب نے سنا اپنے والد سے کہ ہم سفر میں تھے کہ بقر عید کے دن آ گئے تو ہمارے میں سے کوئی تو دو یا تین جذعہ دے کر ایک مسنہ خریدنے لگا قربانی کے لیے ایک آدمی کھڑا ہوا (قبیلہ) مزینہ سے اس نے عرض کیا ہم لوگ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے تو یہی دن آ گیا پھر ہمارے میں سے کوئی شخص دو یا تین جذعہ دے کر مسنہ لینے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جذعہ بھی اسی کام میں آ سکتا ہے جس کام پر ثنی (مسنہ) آ سکتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عاصم بن کلیب ایک آدمی سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے تو بقر عید سے دو روز قبل ہم لوگ دو جذعہ دے کر ایک مسنہ لینے لگ گئے (قربانی کر نے کے واسطے ) اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جہاں پر مثنی کافی ہے وہاں پر جذعہ بھی کافی ہے۔

 

مینڈھے سے متعلق احادیث

 

اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل، عبدالعزیز، ابن صہیب، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو مینڈھوں کی قربانی فرماتے تھے (یعنی بھیڑوں کے مذکر کی) اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، خالد، حمید، ثابت، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو املح مینڈھوں کی قربانی فرمائی اور ان کو ذبح فرمایا اپنے ہاتھ سے اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور اللہ اکبر پڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا پاؤں مبارک ان کے پہلو پر رکھا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی فرمائی دو املح مینڈھوں کی اور ان کو ذبح فرمایا اپنے ہاتھ سے اور اللہ کا نام لیا اور تکبیر پڑھی اور اپنا پاؤں ان کے پہلو پر رکھا۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، حاتم بن وردان، ایوب، محمد بن سیرین، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن ہم لوگوں کو خطبہ سنایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو مینڈھوں کی جانب جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ذبح فرمایا۔ (خلاصہ)۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، یزید بن زریع، ابن عون، محمد، عبدالرحمن بن ابی بکرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن (یعنی یوم نحر میں ) دو مینڈھوں کو ذبح فرمایا۔ پھر ایک بکریوں کے جھنڈ کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو ہم لوگوں میں تقسیم فرمایا۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید ابو سعید الاشج، حفص بن غیاث، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مینڈھے کی قربانی فرمائی جو کہ سینگ والا تھا اور موٹا تازہ عمدہ چلتا تھا اور وہ سیاہی میں کھاتا تھا اور سیاہی میں دیکھتا تھا یعنی اس کے چاروں پاؤں اور پیٹ اور آنکھوں کے حلقے کالے رنگ کے تھے اور باقی سفید تھے۔

 

اونٹ میں کتنے افراد کی جانب سے قربانی کافی ہے ؟

 

احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، سفیان ثوری، وہ اپنے والد سے ، عبایۃ بن رفاعۃ بن رافع، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مال غنیمت تقسیم فرماتے وقت ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں کو رکھتے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالعزیز بن غزوان، فضل بن موسی، حسین یعنی ابن واقد، علبا بن احمر، عکرمۃ، ابن عباس نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ اس دوران عید الاضحی کا دن آ گیا تو اونٹ میں دس آدمی شریک ہو گئے اور گائے میں سات آدمی۔

 

گائے کی قربانی کس قدر افراد کی جانب سے کافی ہے ؟

 

محمد بن مثنی، یحیی، عبدالملک، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج تمتع کرتے تھے تو ہم گائے میں سات افراد کی جانب سے ذبح کرتے تھے اور اس میں شرکت کرتے تھے۔

 

امام سے قبل قربانی کرنا

 

ہناد بن سری، ابن ابو زائدۃ، وہ اپنے والد سے ، فراس، عامر، براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالاضحی کے روز کھڑے ہو گئے تو فرمایا کہ جو شخص ہم لوگوں کے قبلہ کی جانب چہرہ کرتا ہے اور ہم لوگوں جیسی نماز ادا کرتا ہے اور ہم لوگوں جیسی قربانی کرتا ہے تو وہ شخص قربانی نہ کرے جس وقت تک کہ نماز نہ پڑھ لے یہ بات سن کر میرے ماموں (حضرت ابو براء بن دینار) کھڑے ہو گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے تو جلدی سے قربانی کر لی ہے اپنے گھر کے لوگوں اور پڑوسیوں کو کھلانے کے واسطے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم دوسری قربانی کرو (اس لیے کہ وہ قربانی درست نہیں ہوئی) حضرت ابو براء نے فرمایا میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے (جو کہ ابھی تک ایک سال کا نہیں ہوا ہے اور وہ بکری کا بچہ میرے نزدیک بہتر ہے بکریوں کے گوشت سے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسی کو ذبح کر دو یہ بہتر ہے تمہاری دو قربانیوں میں اور پھر کسی کو تمہارے بعد جذعہ (قربانی کرنا) درست نہیں ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، منصور، شعبی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو بقر عید کے دن نماز کے بعد خطبہ (عیدالاضحی) سنایا تو فرمایا جس شخص نے ہماری جیسی نماز پڑھی پھر ہمارے جیسی قربانی کی (نماز کے بعد) تو اس نے قربانی کی اور جس کسی نے نماز سے قبل قربانی کی۔ تو وہ گوشت کی بکری ہے اس پر حضرت ابو براء نے فرمایا یا رسول اللہ! خدا کی قسم میں نے تو نماز سے قبل قربانی کی۔ میں سمجھا کہ یہ دن کھانے پینے کاہے تو میں نے جلدی کی میں نے خود بھی کھایا اور اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کو کھلایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تو گوشت کی بکری ہے۔ حضرت ابو بردہ نے فرمایا میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جذعہ۔ وہ میرے نزدیک گوشت کی دو بکریوں کے بہتر ہے کیا قربانی میں وہ درست ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں ! لیکن تمہارے علاوہ دوسرے کسی کے واسطے درست نہ ہو گا۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، ایوب، محمد، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقر عید کے دن ارشاد فرمایا جس شخص نے نماز سے قبل ذبح کیا وہ پھر ذبح کرے ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہر ایک کو گوشت کھانے کی خواہش اور رغبت ہوتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کی محتاجی کی حالت بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو سچا سمجھا پھر وہ شخص بولا کہ میرے پاس ایک جذعہ ہے جو کہ گوشت کی بکریوں سے مجھ کو زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی (یعنی قربانی کے واسطے ذبح کرنے کی) میں واقف نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے واسطے بھی تھی یا نہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو مینڈھوں کی جانب گئے اور ان کو ذبح کیا۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، یحیی و عمرو بن علی، یحیی، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار، ابو بردۃ بن دینار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل ذبح کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دوبارہ ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے فرمایا میرے پاس ایک بکری کا جذعہ ہے جو میرے خیال میں دو مسنوں سے بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسی کو ذبح کرو۔ حضرت عبید اللہ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بردہ نے فرمایا میرے پاس تو اب کچھ نہیں ہے علاوہ ایک جذعہ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسی کو ذبح کرو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، اسود بن قیس، جندب بن سفیان سے روایت ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ بقر عید سے کی۔ لوگوں نے اپنی قربانیاں کاٹ ڈالیں نماز بقر عید سے قبل۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت ان کو نماز سے قبل دیکھا تو انہوں نے قربانیوں کو ذبح کر دیا کہ جس نے کہ نماز سے قبل ذبح کیا وہ دوسری قربانی کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ شخص ذبح کرے خداوند قدوس کے نام پر۔

 

دھار دار پتھر سے ذبح کرنا

 

محمد بن مثنی، یزید بن ہارون، داؤد، عامر سے روایت ہے کہ حضرت محمد بن صفوان نے دو خرگوش پکڑے اور ذبح کرنے کے واسطے ان کو چھری نہیں مل سکی تو انہوں نے ایک تیز (یعنی دھار دار) پتھر سے ذبح کیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے دو خرگوش پکڑے ہیں لیکن جب مجھ کو چھری نہیں ملی تو میں نے تیز پتھر سے ہی کاٹ لیا میں ان کو کھاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کھا لو۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حاضر بن مہاجر باہلی، سلیمان بن یسار، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیے نے بکری کے دانت مارا (تو وہ مرنے لگی) پھر اس کو تیز (اور دھار دار) پتھر سے ذبح کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے کھانے کی اجازت دے دی۔

 

تیز لکڑی سے ذبح کرنا

 

محمد بن عبدالاعلی و اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، سماک، مری بن قطری، عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں (شکار کی طرف) کتا چھورتا ہوں پھر وہ شکار پکڑتا ہے اور مجھ کو ذبح کرنے کے واسطے (چاقو وغیرہ) نہیں ملتا تو میں ذبح کرتا ہوں تیز پتھر اور لکڑی سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم خون بہا دو کہ جس سے دل چاہے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر۔

 

 

٭٭ محمد بن معمر، حبان بن ہلال، جریر بن حازم، ایوب، زید بن اسلم، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری نے فرمایا ایک انصاری شخص کی اونٹنی (گھاس) چرا کرتی تھی احد پہاڑ کی جانب پھر اس کو عارضہ ہو گیا (یعنی وہ علیل ہو گئی) تو اس شخص نے اس اونٹنی کو ایک کھونٹی سے نحر کر دیا حضرت ایوب نے کہا کہ میں نے حضرت زید بن اسلم سے دریافت کیا کھونٹی لکڑی تھی یا لوہے کی؟ تو انہوں نے کہا لکڑی کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے کھانے کی اجازت عطاء فرمائی۔

 

ناخن سے ذبح کر نے کی ممانعت

 

محمد بن منصور، سفیان، عمر بن سعید، وہ اپنے والد سے ، عبایۃ بن رفاعۃ، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز خون بہائے اور اللہ کا نام لیا جائے تو تم اس کو کھاؤ لیکن دانت اور ناخن کے علاوہ (یعنی ناخن سے ذبح کرنا درست نہیں ہے )۔

 

 

دانت سے ذبح کرنے کی ممانعت

 

ہناد بن سری، ابو الاحوص، سعید بن مسروق، عبایۃ بن رفاعۃ، وہ اپنے والد سے ، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ کل دشمن سے ملیں گے (اور ہم کو وہاں پر جانور بھی ملیں گے ) ہم لوگوں کے ساتھ چھری نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام لیا جائے تو تم اس کو کھاؤ۔ جس وقت تک کہ دانت یا ناخن نہ ہو اور میں اس کی وجہ بیان کرتا ہوں دانت تو ایک ہڈی ہے جانور کی تو اس سے ذبح کرنا کس طرح سے درست ہو گا اور ناخن چھری ہے حبشیوں کی۔

 

چاقو چھری تیز کرنے سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، خالد، ابو قلابۃ، ابو اشعث، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دو باتیں سن کر یاد کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے سب پر احسان فرض قرار دیا ہے تو جس وقت تم لوگ قتل کرو تو تم اچھی طرح سے قتل کرو (یعنی اس طریقہ سے قتل کرو کہ مقتول کو کسی طریقہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ایسا نہ ہو کہ اس کو تکلیف دے دے کر قتل کرو) اور جس وقت تم (جانور) ذبح کرو تو تم اچھی طرح سے ذبح کرو اور اپنی چھری تیز کرو اور جانور کو آرام دو۔

 

 

اگر اونٹ کو بجائے نحر کے ذبح کریں اور دوسرے جانوروں کو بجائے ذبح کے نحر کریں تو حرج نہیں

 

عیسیٰ بن احمد عسقلانی، ابن وہب، سفیان، ہشام بن عروۃ، فاطمۃ بنت منذر، اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ہم نے ایک گھوڑے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں نحر کیا پھر اس کو کھایا۔

 

جس جانور میں درندہ دانت مارے اس کا ذبح کرنا

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حاضر بن مہاجر باہلی، سلیمان بن یسار، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیے نے ایک بکری میں دانت مارا تو لوگوں نے اس کو پتھر سے ذبح کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے کھانے کی اجازت عطاء فرما دی۔

 

اگر جانور کنوئیں میں گر جائے اور وہ مر نے کے قریب ہو جائے تو اس کو کس طرح حلال کریں ؟

 

یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، حماد بن سلمہ، ابو عشراء سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا اس نے نقل کیا یا رسول اللہ! کیا ذبح کرنا حلق اور سینہ میں لازم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر جانور کی ران میں تیر مار دیا جائے تو کافی ہے۔

 

بے قابو ہو جانے والے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، سعید بن مسروق، عبایۃ بن رافع، رافع سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ کل دشمن سے ملنے والے ہیں (یعنی دشمن سے کل ہمارا مقابلہ ہونے والا ہے ) اور ہم لوگوں کے پاس چھری (چاقو) نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس سے خون بہہ جائے اور خداوند قدوس کا نام لیا جائے تو تم کھاؤ اس کو لیکن ناخن اور دانت (سے ذبح نہ کرو) حضرت رافع نے کہا کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لوٹ ملی اس میں سے (یعنی مال غنیمت ملا) اس میں ایک اونٹ بگڑ گیا ایک آدمی نے اس کے تیر مارا وہ کھڑا رہ گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان جانوروں میں یا اونٹوں میں بھی وحشی ہوتے ہیں جیسے کہ جنگل کے جانور تو جو تم کو تھکا دے (یعنی تمہارے ہاتھ نہ آئے تو تم اس کے ساتھ اسی طرح سے کرو)۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سفیان، وہ اپنے والد سے ، عبایۃ بن رفاعۃ، رافع بن خدیج ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس کی وجہ بیان کرتا ہوں (یعنی دانت اور ناخن سے ذبح کرنا درست ہو گا) دانت تو ایک ہڈی ہے اور ناخن حبشی لوگوں کی چھری ہے (اور چاقو کی طرح ہے ) اور وہ لوگ ناخن سے ذبح کرتے ہیں ان کی مشابہت کی وجہ سے ناخن سے ذبح کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، منصور، خالد، ابو قلابۃ، ابو اسماء الرجی، ابو اشعث، شداد بن اوس سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس نے ہر شے پر احسان لازم فرمایا ہے (مطلب یہ ہے کہ سب لوگوں پر رحم کرنا چاہیے ) تو جس وقت تم لوگ قتل کرو تو تم اچھی طرح سے قتل کرو اور جس وقت تم ذبح کرو تو تم بالکل اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم اپنی چھری چاقو جب ذبح کرو تو اس کو تیز کر لو اور تم جانور کو آرام دو۔

 

عمدہ طریقہ سے ذبح کرنا

 

حسین بن حریث ابو عمار، جریر، منصور، خالد، ابو قلابۃ، ابو اشعث صنعانی، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس نے ہر ایک چیز پر احسان لازم فرمایا ہے تو تم عمدہ طریقہ سے ذبح کرو اور تم اپنی چھری چاقو تیز کر لو جب ذبح کرنے لگو اور تم جانور کو راحت پہنچاؤ(یعنی آرام سے اور تیز چاقو چھری سے ذبح کرو)۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ایوب، ابو قلابۃ، ابو اشعث، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس نے ہر ایک شے پر احسان لازم فرمایا ہے (یعنی تمام لوگوں پر رحم و کرنا چاہیے ) تو جس وقت تم ذبح کرو تو تم اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم اپنی چھری تیز کر لو اور جس وقت ذبح کرنے لگو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم جانور کو آرام پہنچا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، ابن زریع، خالد، عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن، غندر، شعبہ، خالد، ابو قلابۃ، ابو اشعث، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس نے ہر ایک شے پر احسان لازم فرمایا ہے (یعنی تمام مخلوق کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنا چاہیے ) تو جس وقت تم قتل کرو تو تم اچھی طرح قتل کرو (یعنی مقتول کو تکلیف پہنچاکر قتل نہ کرو) اور جس وقت تم ذبح کرو تو تم اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم جب ذبح کر نے لگو تو تم اپنی چھری چاقو تیز کر لو اور جانور کو تم آرام پہنچاؤ۔

 

قربانی کا جانور ذبح کرنے کے وقت اس کے پہلو پر پاؤں رکھنا

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی جو کہ کالے اور سفید تھے سینگ والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذبح کرتے وقت تکبیر اور بسم اللہ پڑھی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے تھے اور اپنا پاؤں مبارک ان جانوروں کے پہلو پر رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ دریافت کیا کہ تم نے یہ روایت حضرت انس سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا جی ہاں۔

 

قربانی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ناصح، ہشیم، شعبہ، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی جو کہ کالے سفید اور سینگ دار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذبح کرتے وقت بسم اللہ اور تکبیر کہی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ذبح فرماتے تھے اپنے ہاتھ سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا پاؤں مبارک ان کے پہلو پر رکھے ہوئے تھے۔

 

قربانی ذبح کرنے کے وقت اللہ اکبر کہنے سے متعلق

 

قاسم بن زکریا بن دینار، مصعب بن مقدام، حسن یعنی ابن صالح، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے دو مینڈھوں کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا جو کہ کالے اور سفید تھے سینگ دار اور بسمِ اللہ پڑھی (یعنی بسمِ اللہِ اَللہُ اَکبَر پڑھا) اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذبح فرماتے تھے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ان کے پہلو پر رکھے ہوئے۔

 

اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے سے متعلق

 

قاسم بن زکریا بن دینار، مصعب بن مقدام، حسن یعنی ابن صالح، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے دو مینڈھوں کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا جو کہ کالے اور سفید تھے سینگ دار اور بسم اللہ پڑھی (یعنی بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا) اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذبح فرماتے تھے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ان کے پہلو پر رکھے ہوئے۔

 

ایک شخص دوسرے کی قربانی ذبح کر سکتا ہے

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کچھ اونٹوں کو اپنے ہاتھ سے نحر فرمایا اور باقی اونٹوں کو کسی دوسرے نے نحر کیا (یعنی حضرت علی نے )۔

 

جس جانور کو ذبح کرنا چاہے تو اس کو نحر کرے تو درست ہے

 

قتیبہ، و محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ہشام بن عروۃ، فاطمۃ، اسماء بنت ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم نے نحر کیا ایک گھوڑے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں پھر ہم نے اس کو کھا لیا اس کے خلاف حضرت عبدبی سلمان نے روایت کیا وہ روایت یہ ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم، عبدۃ، ہشام بن عروۃ، فاطمۃ، اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک گھوڑے کو ذبح کیا پھر اس کو کھایا۔

 

جو شخص ذبح کرے علاوہ خداوند قدوس کے کسی دوسرے کے واسطے

 

قتیبہ، یحیی، ابن زکریا بن ابو زائدۃ، ابن حیان یعنی منصور، عامر بن واثلۃ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ پوشیدہ باتیں بتلاتے تھے جو کہ دوسرے حضرات سے نہیں بتلاتے تھے یہ بات سن کر حضرت علی کو غصہ آیا یہاں تک کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا (کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ شان نہیں کہ ایک سے کچھ کہے اور دوسرے سے کچھ) اور کہا مجھ کو کوئی بات پوشیدہ نہیں بتلاتے تھے جو لوگوں سے نہ فرماتے ہوں لیکن ایک مرتبہ میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکان میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار باتیں فرمائیں ایک بات تو یہ کہ خداوند قدوس لعنت بھیجے ایسے شخص پر جو کہ اپنے والد پر لعنت بھیجے دوسرے یہ کہ خداوند قدوس اس شخص پر لعنت بھیجے جو کہ ذبح کرے خداوند قدوس کے علاوہ کے واسطے اور تیسری بات یہ ہے کہ خداوند قدوس لعنت بھیجے اس شخص پر جو کہ کسی بدعتی شخص کو پناہ دے اور چوتھی یہ ہے کہ خداوند قدوس اس پر لعنت بھیجے جو کہ زمین کی نشانی کو مٹائے۔

 

تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا اور رکھ چھوڑنا ممنوع ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا (یعنی قربانی کا گوشت تقسیم کر دینا چاہیے )۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، غندر، معمر، زہری، ابو عبیدہ سے روایت ہے کہ جو ابن عوف کے غلام تھے کہ میں نے علی کے ساتھ عید کی تو انہوں نے خطبہ سے قبل بغیر اذان اور اقامت کے نماز ادا کی پھر بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے کہ قربانی کے گوشت کو تین روز سے زیادہ رکھا جائے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، یعقوب، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، ابو عبید، علی بن ابی طالب نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تم لوگوں کو قربانیوں کا گوشت کھانے سے تین روز سے زیادہ (یعنی تین دن سے زائد قربانی کا گوشت نہ رکھو)۔

 

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنا اور اس کو کھانا

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ (اس کے بعد کھانے ) سے منع فرمایا پھر ارشاد فرمایا کھاؤ اور سفر کا توشہ کرو اور رکھ چھوڑو۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن حماد زغبۃ، لیث، یحیی بن سعید، قاسم بن محمد، ابن خباب، عبداللہ بن خباب سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید ایک مرتبہ سفر سے واپس تشریف لائے تو ان کے گھر کے لوگوں نے ان کے سامنے قربانی کا گوشت رکھ دیا (وہ گوشت خشک کر کے رکھا گیا تھا) انہوں نے کہا کہ میں اس گوشت کو نہیں کھاؤں گا۔ پھر وہ اپنے ماں شریک بھائی کے پاس پہنچے کہ جن کا نام حضرت قتادہ بن نعمان تھا اور وہ غزوہ بدر میں موجود تھے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تمہارے بعد نیا حکم صادر ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ حکم کہ تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ کھانے کا منسوخ ہو گیا۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، سعد بن اسحاق ، زینب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا گوشت تین روز سے زیادہ رکھنے کی ممانعت فرمائی تھی۔ حضرت قتادہ بن نعمان جو کہ ماں شریک بھائی تھے سفر سے آئے اور وہ غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے تھے ان کے سامنے لوگوں نے قربانی کا گوشت رکھا تو انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع نہیں فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید نے فرمایا اس باب میں ایک تازہ حکم ہوا ہے کہ پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو منع فرمایا تھا قربانی کا گوشت تین روز کے بعد کھانے سے پھر اجازت عطاء فرمائی کھانے کی اور رکھ چھوڑنے کی۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، سعد بن اسحاق ، زینب، ابو سعید خدری اور زیارت (قبور) کر کے اپنے نیک اعمال میں اضافہ کرو اور دوسرے قربانیوں کا گوشت تین روز سے زیادہ کھانے سے اب تم کھاؤ اور رکھو جس وقت تک چاہو (وہ گوشت رکھو) تیسرے نبیذ بنانے سے بعض برتن میں اب جس برتن میں دل چاہے پیو لیکن شراب نہ پیو جو کہ نشہ پیدا کرے۔

 

 

٭٭ عباس بن عبدالعظیم عنبری، الاحوص بن جوّاب، عمار بن رزیق، ابو اسحاق ، زبیر بن عدی، ابن بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم لوگوں کو تین روز کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اور برتنوں میں علاوہ مشکیزہ کے اور زیارت قبور سے لیکن اب تم قربانیوں کا گوشت کھاؤ جب تک دل چاہے اور تم لوگ سفر کے واسطے توشہ جمع کرو اور رکھ چھوڑو اور جس شخص کا دل چاہے قبور کی زیارت کا تو وہ قبروں کی زیارت کرے کیونکہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے اور تم لوگ ہر ایک قسم کے برتن میں پیو لیکن تم لوگ ہر ایک نشہ آور چیز سے بچو۔

 

 

قربانیوں کے گوشت کو ذخیرہ بنانا

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عیدالاضحی کے دن غرباء و محتاجوں کا ایک مجمع مدینہ منورہ پہنچا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ تین روز تک قربانی کا گوشت کھاؤ اور اس کو رکھ لو پھر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگ اپنی قربانیوں سے نفع حاصل کرتے تھے اور اس کی چربی اٹھا کر رکھ لیتے تھے اور اس کی کھالوں سے مشکیں بنایا کرتے تھے پھر اب کیا بات پیش آ گئی؟ لوگوں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرما دیا قربانی کا گوشت رکھ چھوڑنے سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ان غرباء اور محتاجوں کے اندیشہ کی وجہ سے ممانعت کی تھی جو مجمع کہ آ کر جمع ہو گیا تھا پس اب تم لوگ کھاؤ اور اس کو رکھ لو اور صدقہ کرو۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، سفیان، عبدالرحمن بن عابس سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا۔ انہوں نے نقل کیا کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی کا گوشت تین روز سے زیادہ رکھنے کی ممانعت فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ لوگ محتاج اور ضرورت مند تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواہش ظاہر فرمائی کہ جو کوئی مال دار ہو تو وہ غریب کو کھلائے پھر کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل اولاد کو دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر والوں کو دیکھا) وہ حضرات پندرہ روز کے بعد بکری کے پائے کھایا کرتے تھے تو میں نے عرض کیا ایسی تکلیف کس وجہ سے تھی؟ تو ان کو ہنسی آ گئی اور انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل نے تین روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔

 

 

٭٭ یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، یزید، ابن زیاد بن ابو جعد، عبدالرحمن بن عابس نے نقل کیا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے قربانی کے گوشت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ہم لوگ ایک مہینہ تک رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے پائے اٹھا کر رکھا کرتے تھے (یعنی ایک ماہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بکری کے پائے کھایا کرتے تھے )۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ابن عون، ابن سیرین، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا تم لوگ کھاؤ اور کھلاؤ (جس وقت تک دل چاہے )۔

 

یہود کے ذبح کئے ہوئے جانور

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید ، سلیمان بن مغیرہ ، حمید بن ہلال ، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ خیبر والے دن ایک مشک چربی کی ہم کو ہاتھ لگی میں اس مشک سے چمٹ گیا اور میں نے کہا کہ میں یہ مشک کسی کو نہیں دوں گا پھر میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرا رہے تھے میرے اس کہنے کی وجہ سے

 

وہ جانور جس کا علم نہ ہو کہ بوقت ذبح اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں ؟

 

اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ ہم لوگوں کے پاس گوشت لاتے تھے اور ہم کو علم نہیں تھا کہ ان لوگوں نے بوقت ذبح اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کھاتے وقت خدا کا نام لے لو اور کھا لو۔

 

آیت کی تفسیر و تشریح

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان، ہارون بن ابی وکیع، ہارون بن عنترۃ، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس نے فرمایا آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی کہ جس وقت مشرکین نے مسلمانوں سے بحث کی کہ خداوند قدوس پر ذبح کرے (یعنی خدا کے نام پر جو جانور ذبح ہو) یعنی خدا جس جانور کو موت دے دے تو تم لوگ اس کو تو نہیں کھاتے ہو اور جس کو تم خود ذبح کرتے ہو اس کو کھاتے ہو؟

 

مجثمہ (جانور کو نشانہ بنا کر) مارنے کا ممنوع ہونا

 

عمرو بن عثمان، بقیۃ، بحیر، خالد، جبیر بن نفیر، ابو ثعلبہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجثمہ (جانور) درست نہیں ہے (یعنی وہ جانور کہ جس کو کہ گولیوں کا نشانہ لگانے کے واسطے کھڑا کیا جائے پھر وہ جانور مر جائے )۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ہشام بن زید نے نقل کیا کہ میں حضرت انس کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں پر لوگ حاکم کے مکان میں ایک مرغی کا نشانہ لگا رہے تھے۔ حضرت انس نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانوروں کو اس طریقہ سے مارنے سے منع فرمایا ہے

 

 

٭٭ محمد بن زنبور مکی، ابن ابو حازم، یزید، ابن ہاد، معاویۃ بن عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن جعفر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ ایک مینڈھے کو تیروں سے مار رہے تھے (اس کو باندھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حرکت کو برا خیال کیا اور ارشاد فرمایا تم لوگ جانوروں کو مثلہ نہ کرو۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عمر سے نقل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت بھیجی اس پر جو کہ جان دار کو نشانہ بنائے (یعنی تیر یا گولی وغیرہ سے )

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، منہال بن عمرو، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس کی لعنت ہے اس شخص پر جو کہ جانور کو مثلہ کرے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ نہ بناؤ جان دار کو نشانہ (یعنی اس کو باندھ کر یا کسی بھی طرح اس سے نشانہ بازی نہ کرو)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید الکوفی، علی بن ہاشم، العلاء بن صالح، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کسی جاندار کو نشانہ نہ بنا۔

 

جو کوئی بلاوجہ کسی چڑیا کو ہلاک کرے ؟

 

قتیبہ بن سعید، سفیان، عمرو، صہیب، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک چڑیا یا اس سے بڑے جانور کو ناحق مارے تو قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کا کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا حق یہ ہے کہ اس کو ذبح کرے اور پھر اس کو کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے۔

 

 

٭٭ محمد بن داؤد مصیصی، احمد بن حنبل، ابو عبیدۃ، عبدالواحد بن واصل، خلف یعنی ان مہران، عامر الاحول، صالح بن دینار، عمرو بن ثرید، ثرید سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص کسی چڑیا کو بے مقصد اور بے وجہ مار ڈالے تو وہ قیامت کے روز خداوند قدوس کے سامنے چیخ چیخ کر کہے گی کہ اے میرے پروردگار! فلاں شخص نے مجھ کو بلا فائدہ قتل کیا ٰ۔

 

جلالہ کے گوشت کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

عثمان بن عبد اللہ، سہل بن بکار، وہیب بن خالد، ابن طاؤس، عمرو بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، محمد بن عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر والے دن منع فرمایا بستی کے گدھوں کے گوشت سے اور جلالہ سے یعنی اس کا گوشت کھانے سے اور اس پر سوار ہونے سے (ایسا نہ ہو کہ ناپاک پسینہ جسم کو لگ جائے )۔

 

جلالہ کا دودھ پینے کی ممانعت

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا مجثمہ سے اور جلالہ (جانور) کے دودھ پینے سے اور مشک میں منہ لگا کر پانی پینے سے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید