FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سنن ابو داؤدؒ

 

 

جلد پنجم

 

(دیگر موضوعات)

 

امام ابو داؤدؒ

 

 

 

 

 

 

 

 

پینے کا بیان

 

 

شراب کی حرمت کا بیان

 

احمد بن حنبل، اسماعیل بن ابراہیم، ابو حیان، شعبی، ابن عمر فرماتے ہیں کہ جس دن شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ قسم کی شراب کے بارے میں تھی، انگور کی شراب، کھجور کی شراب، شہد کی شراب، گہیوں کی شراب، اور جو کی شراب، اور شراب وہ ہے جس سے عقل زائل ہو جائے، اور تین چیزیں ایسی تھیں جن کے بارے میں میں چاہتا تھا کہ حضواکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے جدا نہ ہو جائیں جب تک کہ ہمیں ان کے بارے میں بتلا نہ دیں، ایک تو میراث میں دادا کا حصہ، دوسرے کلالہ کا حکم، تیسرے سود کے چند ابو اب و مسائل۔

 

عباد بن موسی، اسماعیل، ابن جعفر، اسرائیل، ابو اسحاق عمرو سے روایت ہے کہ جب حرمت شراب نازل ہوئی تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے اللہ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی و کافی بیان نازل فرمائیے، چنانچہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جو سورۃ بقرہ میں ہے یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ‘ کہ یہ لوگ شراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں، الخ۔ تو (اس آیت کے نزول کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا گیا اور ان کے سامنے یہ آیت پڑھی تو انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ہمارے واسطے شراب کے بارے میں شافی و کافی بیان فرمائیے، پھر سورۃ نساء کی آیت۔( یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى) 4۔ النساء:43) نازل ہوئی، چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو پکارتے تھے کہ خبردار! نشہ کی حالت والے نماز کے قریب مت آئیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا اے اللہ شراب کے بارے میں ہمیں واضح بیان عطا فرمائیے۔ چنانچہ پھر (سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہوئی) (یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ) 5۔ المائدہ:90) سے آخر تک۔ اے ایمان والو بیشک شراب جوا اور پانسہ وغیرہ یہ شیطانی کام ہیں سو ان سے اجتناب کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ۔ بیشک شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی و بغض کو ڈال دے شراب اور جوئے کے بارے میں تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ سو کیا تم باز آنے والے ہو، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اِنتَھَینَا۔ ہم باز آئے۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، عطاء بن سائب، ابو عبد الرحمن، سلمی، علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے انہیں اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دعوت پر بلایا اور ان دونوں کو شراب پلائی کہ شراب کی حرمت ابھی نازل نہیں ہوئی تھی، حضرت علی نے ان کی نماز مغرب میں امامت کروائی، اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ پڑھی اور اس میں خلط کر دیا (کچھ گڑبڑ کی) چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی، ( یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى) 4۔ النساء:43)، نماز کے قریب مت جاؤ نشے کی حالت میں۔

 

احمد بن محمد، علی بن حسین، یزید، عکرمہ، ابن عباس فرماتے ہیں کہ (یَسْئلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ ۭ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ) 2۔ البقرۃ:219) اور سورۃ نساء کی آیت ( یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى) 4۔ النساء:43)، یہ دونوں سورۃ مائدہ کی آیت ( اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ) 5۔ المائدہ:90) نے منسوخ کر دیا۔

 

سلیمان بن حرب، حماد، ثابت انس فرماتے ہیں کہ جب حرمت شراب کی آیات نازل ہوئیں تو اس وقت حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ انصاری کے مکان میں قوم کو شراب پلا رہا تھا، اور اس روز ہماری شراب فضیخ کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی کہ اچانک ایک شخص ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شراب کو حرام کر دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منادی نے بھی آواز لگائی تو ہم نے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منادی ہے۔

 

 

انگور کا رس شراب کے لئے نکالنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، عبد العزیز بن عمر ابو علقمہ، عبد الرحمن بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی شراب پر اور اس کے لئے رس نکالنے والے اور رس نکلوانے والے پر اور اسے اٹھانے والے اور اسے اٹھوانے والے پر لعنت فرماتے ہیں۔

 

شراب کا سرکہ بنانا جائز نہیں

 

زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، سدی، ابو ہریرہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ انصاری نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان یتیموں کے بارے میں سوال کیا جنہیں میراث میں شراب ملی تھی، آپ نے فرمایا کہ اسے بہا دو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اسے سرکہ نہ بنا لوں۔ فرمایا کہ نہیں۔

 

شراب کس سے بنتی ہے

 

حسن بن علی، یحیٰ بن آدم، اسرائیل، ابراہیم بن مہاجر شعبی، نعمان، بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ شراب انگور کی ہوتی ہے کھجور کی ہوتی ہے، شہد کی بھی ہوتی ہے، اور گیہوں کی بھی ہوتی ہے اور جو کی بھی ہوتی ہے۔

 

مالک بن عبد الواحد، معتمر فضیل بن میسرہ، ابو حریز، عامر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شراب وہ انگور کے رس کی، کشمش کی، کھجور کی، گندم کی، جو کی اور مکئی کی ہوتی ہے اور میں تمہیں ہر نشہ آور سے منع کرتا ہوں۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان یحییٰ، ابو کثیر ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خمر، ان دو درختوں کھجور اور انگور سے بنتی ہے۔

 

نشہ کا بیان

 

سلیمان بن داؤد، محمد بن عیسیٰ، حماد، ابن زید ایوب بن بشیر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور شراب ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے اس حالت میں مرا کہ شراب نوشی کا عادی تھا تو آخرت میں (جنت کی شراب) نہ پی سکے گا۔

 

محمد بن رافع، ابراہیم بن عمر، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز (جس سے حواس معطل ہو جائیں) شراب ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے اور جس شخص نے شراب پی لی تو اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جائیں گی، اور پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول فرما لیں گے، پھر اگر وہ چوتھی مرتبہ پیے تو اللہ تعالی کا اس پر حق ہے کہ اللہ اس کو طینۃ الخبال پلائیں، پوچھا گیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ اہل جہنم کی پیپ۔ اور فرمایا کہ جس نے کسی نابالغ لڑ کے کو جسے حلال و حرام کی تمیز و شعور نہ ہو یہ شراب پلائی تو اللہ تعالی پر اس کا حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال پلائیں۔

 

قتیبہ، اسماعیل، داؤد بن بکر بن ابی فرات، محمد بن منکدر جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو چیز کثیر نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ بتع کے بارے میں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر وہ شراب جو نشہ آور ہو حرام ہے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث یزید بن عبد ربہ الجر جسی کے سامنے پڑھی ان سے اس حدیث کو محمد بن حرب نے زبیدی عن الزہری کے طریق سے اپنی سند کو بیان کیا۔ راوی فرماتے ہیں کہ بتع شہد کی نبیذ کو کہتے ہیں اہل یمن سے پیا کرتے تھے، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام احمد بن حنبل کو یزید جرجسی کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ کس قدر متقی اور ثقہ شخص تھے اور اہل حمص میں کوئی ان جیس انہیں تھا۔

 

ہناد، عبد ہ محمد، ابن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم ٹھنڈی زمین کے رہنے والے ہیں اور اس میں سخت محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں اور ہم اس گندم کی شراب بناتے ہیں جس سے ہمیں اپنے کاموں میں تقویت ملتی ہے اور ہمارے ملک کی سردی بھی دافع ہو جاتی ہے آپ نے فرمایا کہ کیا نشہ آور ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ فرمایا کہ پھر اس سے اجتناب کرو میں نے عرض کیا کہ بیشک لوگ اسے نہیں چھوڑے گے فرمایا کہ اگر وہ اسے ترک نہ کریں تو ان سے قتال کر۔

 

وہب بن بقیہ، خالد، عاصم بن کلیب، ابو بردہ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شہد کی شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو بتع ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جو اور جوار سے بھی نبیذ بن جاتی ہے فرمایا کہ وہ مزر ہے پھر آپ نے فرمایا کہ اپنی قوم کو خبردار کر دو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے (خواہ وہ بتع ہے جو مزر ہو)

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد محمد بن اسحاق یزید بن ابی حبیب، ولید بن عبد ہ، عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شراب جوئے، باجے اور جوار سے منع فرمایا ہے، اور فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

 

سعید بن منصور، ابو شہاب، عبد ربہ بن نافع، حسن بن عمرو حکم بن عتیبہ، شہر بن حوشب، ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز اور ہر عقل میں فتور کرنے والی چیز سے۔

 

مسدد، موسیٰ بن اسماعیل، مہدی، ابن میمون، ابو عثمان ابو موسی، عمرو بن سالم سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس چیز سے فرق (ایک پیمانہ کا نام ہے) بھر کر پینے سے نشہ آئے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔

 

داذی کی حرمت کا بیان

 

احمد بن حنبل، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، حاتم بن حریث، مالک بن ابی مریم، فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک مرتبہ عبد الرحمن بن غنم تشریف لائے تو ہم نے آپس میں طلاء (انگور کی شراب کی ایک خاص قسم ہے جسے آگ پر پکایا جاتا ہے) کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے ابو مالک رضی اللہ تعالی عنہ اشعری نے بیان کیا ہے کہ انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ ضرور شراب پئیں گے (لیکن اس طرح کہ) اس کا نام کوئی دوسرا رکھ لیں گے۔

 

شراب کے برتنوں کا بیان

 

مسدد، عبد الواحد بن زیاد، منصور، بن حبان سعید بن جبیر، ابن عمرو، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ دونوں فرماتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، دباء، حنتم، مزفت، اور نقیر سے منع فرمایا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، مسلم بن ابراہیم، جریر یعلی، بن حکیم سعید بن جبیر عبد اللہ بن عمر (مشہور تابعی ہیں) کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور اکرم نے مٹکہ کی نبیذ کو حرام کر دیا ہے، میں (سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ) ان کے اس قول کہ حضور اکرم نے مٹکہ کی نبیذ کو حرام فرمایا ہے گھبرا کر باہر نکلا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوا پس میں نے کہا کہ کیا آپ نہیں سنتے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کیا کہتے ہیں وہ کہنے لگے کہ انہوں نے کیا کہا؟ میں نے کہا وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹکہ کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سچ کہا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹکہ کی نبیذ کو حرام فرمایا ہے میں نے کہا کہ، مٹکہ سے کیا مراد ہے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو گارے سے بنائی جائے۔

 

سلیمان بن حرب، محمد بن عبید حماد، مسدد، عباد بن عباد، ابی حمزہ، فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ جبکہ مسدد (جو دوسرے طریق سے روایت کرتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس سے روایت ہے جبکہ یہ روایت سلیمان بن حرب کے الفاظ میں ہے (مسدد کے الفاظ نہیں) کہ عبد القیس کا وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں اور بیشک ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار حائل ہو گئے ہیں اور ہم آپ کے پاس سوائے اشہر حرام کے نہیں پہنچ سکتے پس آپ ہمیں ان باتوں کا حکم دیں جنہیں آپ ہم آپ سے حاصل کر کے اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان کی طرف بلائیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کو حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ (جن چیزوں کو حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں) اللہ تعالی پر ایمان کا اور اس بات کی گواہی کا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے ایک کا اشارہ فرمایا جبکہ مسدد کی روایت میں اسی طرح ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان کا حکم دیا گیا پھر اس کی تفسیر ان کے لیے بیان کی کہ (ایمان ہے) گواہی دینا اس بات کی کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکواۃ ادا کرنا، یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس ادا کرو) اور میں تمہیں چار چیزوں سے روکتا ہوں (وہ یہ کہ) دباء (کے استعمال) سے۔ حنتم۔ مزفت سے۔ مقیر سے۔ جبکہ ابن عبید نے اپنی روایت میں نقیر کا لفظ استعمال کیا مقیر دونوں کو ذکر کیا ہے اور انہوں نے مزفت کا تذکرہ نہیں کیا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ابو حمزہ کا نام نصر بن عمران الضبعی تھا۔

 

وہب بن بقیہ، نوح بن قیس، عبد اللہ بن عون، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفد عبد القیس سے فرمایا کہ میں تمہیں نقیر (لکڑی کا برتن) مقیر (روغنی برتن) حنتم اور دباء سے منع کرتا ہوں اور ایسے مشکیزہ سے جس کے نیچے بند نہ ہو۔ لیکن تم اپنے اس مشک میں پیا کرو اور اس کا منہ بند کر دیا کرو۔

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ، عکرمہ، سعید بن مسیب، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے وفد عبد القیس کے واقعہ میں مروی ہے کہ وفد عبد القیس کے لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ہم کن برتنوں میں پانی وغیرہ پیا کریں۔؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، چمڑے کے ان برتنوں میں جن کے مونہوں پر بند باندھا جاتا ہے۔ (مراد مشکیزے ہیں)

 

وہب بن بقیہ، خالد، عوف، ابی قموص، زید بن علی فرماتے ہیں کہ قبیلہ عبد القیس کے جو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وفد کی صورت میں گئے تھے ان میں ایک آدمی نے بیان کیا مجھ کو کہ عوف (راوی) کا خیال ہے کہ ان کا نام قیس بن النعمان تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ نقیر، مزفت، دباء، اور حنتم میں نہ پیا کرو۔ اور چمڑے کے برتن (مشکیزہ) میں پیا کرو اور اگر اس میں سے کچھ جوش وغیرہ پیدا ہو جائے تو اسے (جوش) کو مزید پانی کے ذریعے کم کرو لیکن اگر پھر بھی شدت غالب رہے تو اسے بہا دو۔

 

محمد بن بشار، ابو احمد، سفیان، علی بن بذیمہ، قیس بن جنتر، ابن عباس سے روایت ہے کہ عبد القیس کے وفد نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کس میں پیا کریں؟ فرمایا کہ تم لوگ دباء میں نہ پیا کرو، اور نہ ہی مزفت میں، اور نہ ہی نقیر میں، اور نبیذ بنایا کرو مشکیزوں میں، وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر مشکیزہ میں اس نبیذ کے اندر شدت اور جوش پیدا ہو جائے تو؟ فرمایا کہ اس میں پانی ڈال دو۔ وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (دو تین مرتبہ مندرجہ بالا بات کہی) تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا اسے بہا دو پھر فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی باجا وغیرہ اور فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے سفیان کہتے ہیں کہ میں نے علی بن بذیمہ سے کو بہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ باجے کو کہتے ہیں۔

 

مسدد، عبد الواحد، اسماعیل، بن سمیع، مالک بن عمرو علی سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں منع فرمایا کہ دباء، حنتم، نقیر، اور جو سے کشید کی ہوئی شراب سے۔

 

احمد بن یونس معرف بن واصل، محارب بن دثار، ابن بریدہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہیں تین باتوں سے منع فرمایا اور میں ہی تمہیں تین باتوں کے کرنے کا حکم دے رہا ہوں۔ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو ان کی زیارت میں نصیحت و عبرت ہے۔ اور میں نے تمہیں مشروبات کے بارے میں منع کیا تھا سوائے چمڑے کے برتنوں کے کسی اور برتن میں نہ پینا۔ پس اب ہر برتن میں پیا کرو سوائے اس کے نشہ آور کوئی مشروب نہ پئیو۔ میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو تین دن سے زائد کھانے سے منع کیا پس اب تین دن سے زائد بھی کھاؤ اور اپنے سفروں میں اس سے نفع اٹھاؤ۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، منصور، سالم بن ابی جعد، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض برتنوں میں پینے سے منع فرمایا تو انصار کے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو ان میں پئیے بغیر چارہ نہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پس اگر ایسا ہے تو نہیں۔ (یعنی یہ نہی تمہارے لیے نہیں تمہیں اس سے استثناء ہے)۔

 

محمد بن جعفر بن زیاد، شریک، زیاد بن فیاض، ابی عیاض عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتنوں کو تذکرہ کیا (کہ ان برتنوں میں کھانا پینا ناجائز ہے) دباء، حنتم، مزفت اور نقیر سے۔ ایک دیہاتی کہنے لگا ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسرے برتن نہیں ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حلال اشیاء ان برتنوں میں پی سکتے ہیں۔

 

حسن یعنی ابن علی، یحیٰ بن آدم، شریک سے ان کی سند سے یہی حدیث منقول ہے اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور سے بچو۔

 

عبد اللہ بن محمدالنفیلی، زہیر، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک مشکیزہ میں نبیذ بنائی جاتی تھی اور اگر ان لوگوں کو مشکیزہ نہ ملتا تو پھر ایک پتھر کے برتن میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔

 

دو چیزوں کو ملا کر شراب بنانے کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، لیث، عطاء، بن ابی رباح، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ منقّیٰ (یا کشمش) اور کھجور کو ملا کر نبیذ بنائی جائے اور منع فرمایا اس بات سے کہ خشک کھجور، چھوہارے، تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنائی جائے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، عبد اللہ بن ابی قتادہ، اپنے والد حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں منع کیا گیا کشمش اور کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے اور خشک کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے اور خشک رنگین کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے اور فرمایا کہ ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بنا لیا کرو۔ اور راوی کہتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بھی حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے واسطے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کی ہے۔

 

سلیمان بن حرب، حفص بن عمر، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلی، ایک آدمی سے اور حفص (راوی ہیں) کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچی کھجور اور پکی کھجور کو ملا کر اور کشمش و کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، ثابت بن عمار، فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ سے سوال کیا ان چیزوں کے بارے میں جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا تھا اس بات سے کہ ہم کھجور کو اتنا پکائیں کہ اس کی گٹھلی بھی پک کر ختم ہو جائے۔ اور اس بات سے کہ کشمش و کھجور کو ملا کر نبیذ بنائیں۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، مسعد، موسی، بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے نبیذ بنائی جاتی تھی کشمش کی، پھر اس میں کھجور بھی ڈال دی جاتی تھی یا کھجور کی نبیذ بنائی جاتی تھی تو اس میں کشمش بھی ڈال دی جاتی تھی۔

 

زیاد بن یحییٰ، ابو بحر، عتاب بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ مجھ سے صفیہ بنت عطیہ نے بیان کیا کہ میں بنی عبد القیس کی کچھ عورتوں کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئی۔ ہم ان سے کھجور اور کشمش کی نبیذ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں ایک مٹھی کھجور لیتی ہوں اور ایک مٹھی کشمش لیتی ہوں اور اسے ایک برتن میں ڈال دیتی ہوں پھر انہیں مسل دیتی ہوں پھر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پلاتی ہوں۔

 

خشک کھجور کی نبیذ کا بیان

 

محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت جابر بن زید اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ (بن ابی جہل) دونوں صرف خشک کھجور کی نبیذ کو ناپسند کرتے تھے اور اس بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے صحت لیتے تھے، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ خشک (کھجور کی نبیذ) مزا نہ ہو جس سے عبد القیس کے وفد کو منع کیا گیا تھا (ہشام کہتے ہیں) میں نے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ مزا کیا ہے؟ فرمایا کہ حنتم اور مزفت میں بنی ہوئی نبیذ۔

 

نبیذ کی کیفیت کا بیان

 

عیسی بن محمد، ناضمرہ، عبد اللہ بن دیلمی، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور کہاں کے ہیں اور کس کے پاس آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف آئے ہو پھر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے انگور (کے باغات ہیں) ہم انگور سے کیا بنائیں، آپ نے فرمایا کہ انگور (کو خشک) منقّیٰ بنا لو ہم نے عرض کیا کہ منقّیٰ سے کیا بنائیں؟ فرمایا کہ اپنے ناشتہ پر اس سے نبیذ بنایا کرو اور اپنے رات کے کھانے کے وقت اسے پی لیا کرو اور نبیذ بنایا کرو مشکیزوں میں اور مٹکوں میں نبیذ مت بنایا کرو۔ اس لیے کہ اگر مٹکے میں زیادہ مدت گزر گئی تو وہ سرکہ بن جائے گا۔

 

محمد بن مثنی، عبد الوہاب بن عبد المجید، یونس بن عبید، حسن سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک ایسے مشکیزہ میں نبیذ بنائی جاتی جس کے منہ پر بند باندھا گیا ہوتا تھا اور آپ کے پاس ایک ایسا مشکیزہ بھی ہوتا جو دو منہ والا تھا۔ جس میں صبح کو نبیذ بنائی جاتی اور پھر اسے آپ رات کے کھانے کے وقت پی لیا کرتے تھے اور رات کو بنائی جاتی تو صبح کو پی لیا کرتے تھے۔

 

مسدد، معتمر، شبیب بن عبد الملک، مقاتل، بن حیان، اپنی پھوپھی حضرت عمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے وہ صبح کو نبیذ بنایا کرتی تھی پھر جب رات کا وقت ہوتا تو آپ رات کا کھانا تناول فرماتے اور کھانے پر اس نبیذ کو پی لیا کرتے تھے پھر اگر کچھ نبیذ بچ جاتی تو اسے بہا دیتی تھیں یا اسے پی کر پورا کر لیتی تھیں۔ پھر رات کو نبیذ بنایا کرتی تھیں جب آپ صبح کو ناشتہ کرتے تو اسے پی لیا کرتے تھے ناشتہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں کہ ہم مشکیزہ صبح شام دھویا کرتے تھے عمرہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ کیا دن میں دو مرتبہ؟ فرمایا کہ ہاں۔

 

مخلد بن خالد، ابو معاویہ، اعمش، ابی عمر، یحییٰ، ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے منقی کی نبیذ بنائی جاتی تھی (بغیر نشہ والی) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی دن پیا کرتے تھے، اس سے اگلے دن بھی پیا کرتے تھے، اور تیسرے دن کی شام تک پیا کرتے تھے پھر خدام کو حکم دیتے تو اسے خدام پی لیا کرتے ورنہ بہا دی جاتی۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ خدام کو پلانے کا مطلب یہ ہے کہ قبل از خراب ہونے کے پلائی جاتی تھی۔

 

شہد

 

احمد بن محمد بن حنبل، حجاج، بن محمد، ابن جریج بن عطاء، عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا انہوں نے بتلایا کہ حضور ایک مرتبہ (اپنی زوجہ مطہرہ) حضرت بنت جحش کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، آپ نے ان کے پاس شہد پیا تو میں نے اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپس میں طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائیں تو وہ کہے گی کہ آپ کے منہ سے مغافیر (یہ ایک بدبو دار چیز کا نام ہے) کی بو آ رہی ہے (کیونکہ حضور کو بدبو سے انتہائی نفرت تھی) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں سے ایک پاس آئے تو اس نے آپ سے وہی کہا تو آپ نے فرمایا کہ بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے۔ زینب بنت جحش کے پاس۔ اور آئندہ دوبارہ ہرگز نہیں پیوں گا۔ (یہ واقعہ ہوا) تو قرآن کریم کی آیت، لم تحرم ما احل اللہ۔ نازل ہوئی۔ آگے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ و حفصہ کو حکم ہوا کہ دونوں اللہ سے توبہ کریں اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے چھپا کر ایک بات کہی ( اور یہ آیت اس لیے لائے کہ) حضور نے فرمایا تھا کہ بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے۔

حسن بن علی، ابو اسامہ، ہشام سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند فرماتے تھے آگے مذکورہ بالا حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا اور یہ کہ حضور کو یہ بات بڑی ہی ناگوار گزرتی کہ آپ سے بدبو آئے۔ اور اسی حدیث میں یہ ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بلکہ آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے۔ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے پلا دیا تو میں نے کہا کہ اس شہد کی مکھی نے (جس سے یہ شہد نکلا ہے) عرفط ایک گھاس ہوتی ہے جسے شہد کی مکھی چوستی ہے کو چاٹ لیا ہو گا۔ (اسی بناء پر آپ کے منہ سے بدبو آ رہی ہے)۔

 

نبیذ میں اگر جوش پیدا ہو جائے تو کیا حکم ہے

 

ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، زید بن واقد، خالد بن عبد اللہ بن حسین، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عموماً روزہ رکھا کرتے تھے لہذا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے افطار کے وقت آپ کے لیے نبیذ لے کر گیا جسے میں نے دباء میں بنایا تھا پھر میں اسے آپ کے پاس لے کر گیا تو وہ اس وقت جوش مار رہا تھا آپ نے فرمایا کہ اسے دیوار پر دے مارو اس لیے کہ اس آدمی کی شراب ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔

 

کھڑے کھڑے پانی

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، انس حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ آدمی کھڑے کھڑے پیے (پانی یا کوئی مشروب وغیرہ)

 

مسدد، یحییٰ، مسعر بن کدام، عبد الملک، بن میسرہ، نزال بن سبرہ، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے پانی منگوایا اور اسے کھڑے کھڑے پی لیا پھر فرمایا کہ بعض لوگوں میں سے کوئی اس طرح کرنے کو مکروہ سمجھتا ہے اور بیشک میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے اسی طرح جیسا کہ تم لوگوں نے مجھے دیکھا ہے۔

 

مشکیزہ سے منہ لگا کر پانی

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، قتادہ، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ مشکیزہ کے منہ سے پانی پینے سے اور گندگی کھانے والے جانور پر سواری کرنے سے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں جلالۃ وہ جانور ہے جو نجاست کھاتا ہے۔

 

مشکیزہ کا منہ موڑنے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشکیزہ کا منہ پھیر (کر پانی پینے سے) منع فرمایا ہے۔

 

نصر بن علی، عبد الاعلی، عبید اللہ بن عمر، عیسیٰ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ احد کے دن ایک برتن (مشکیزہ) منگوایا پھر فرمایا کہ اس مشکیزہ کا منہ موڑ دو پھر آپ نے اس سے منہ لگا کر پانی پیا۔ (چنانچہ دوسرا کوئی برتن نہیں ہو گا اس لیے میدان جنگ میں اور منہ اس لئے موڑا۔ ورنہ نہی جو ہے وہ تنزیہہ پر محمول ہے۔

 

پیالہ کے سوراخ سے پینا

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، قرہ بن عبد الرحمن، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتییہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ اس بات سے کہ پیالہ کے سوراخ یا اس کے ٹوٹے ہوئے حصہ سے پیا جائے اور اس بات سے کہ پانی دیا یا مشروب میں پھونکا جائے۔ (یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے)۔

 

سونے چاندی کے برتن میں پینا

 

حفص بن عمر، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلی، فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بن یمان مدائن میں تھے انہوں نے پانی طلب کیا تو ایک کسان ان کے پاس چاندی کے ایک برتن میں لایا۔ انہوں نے اسے پرے پھینکا اور فرمایا کہ بیشک اسے نہ پھینکتا لیکن میں نے اس کسان کو پہلے بھی منع کیا تھا اس سے لیکن وہ باز نہ آیا۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریشم، دیباج، (ایک قیمتی کپڑا) اور سونے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے فرمایا کہ یہ چیزیں کفار کے لیے ہیں دنیا میں اور تمہارے لیے ہیں آخرت میں۔

 

کسی برتن میں منہ ڈال کر پانی پینا

 

عثمان بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، فلیح، سعید بن حارث، جابر بن عبد اللہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی کے ساتھ ایک انصاری شخص کے (باغ میں گئے) وہ انصاری اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس مشکیزے میں آج رات کا پانی ہے (تو ہمیں دو) ورنہ ہم (تالاب وغیرہ سے) منہ لگا کر پی لیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں میرے پاس مشکیزے میں پانی موجود ہے۔

 

ساقی (پلانے والا) خود کب پیے

إ

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، ابو مختار، عبد اللہ بن ابی اوفی، فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قوم کو (پانی یا مشروب) پلانے والا سب سے آخر میں پیے۔

 

قعنبی، عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابن شہاب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پانی ملا ہوا دودھ لایا گیا آپ کے دائیں طرف ایک دیہاتی بیٹھا تھا جبکہ بائیں طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ، تشریف فرما تھے، آپ نے اس دودھ کو خود پیا پھر اعرابی کو دیا اور فرمایا کہ دائیں پھر دائیں۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، ابی عصام، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب پانی پیا کرتے تھے تو تین مرتبہ سانس لیتے (یعنی تین سانس میں پیتے) اور آپ نے فرمایا کہ ایسا کرنا زیادہ پیاس بجھاتا ہے اور کھانا بھی خوب ہضم ہوتا ہے اور زیادہ صحت کا ضامن ہے۔

 

 

 

لڑائی اور جنگ و جدل کا بیان

 

 

حبشہ کے بیان میں

 

مسدد، ہناد، مسدد، ابو احوص، فرات فزاز، عامر بن واثلہ، ہناد، ابو طیفل، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجرہ مبارک کے سایہ میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے تو ہم نے قیامت کا ذکر کیا بس ہماری آوازیں بلند ہو گئیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہرگز قیامت نہیں ہو گی یا فرمایا قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس سے پہلے دس علامات ظاہر ہوں گی۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ دابۃ الارض کا نکلنا۔ یاجوج و ماجوج کا نکلنا۔ عیسیٰ بن مریم کا نزول۔ دھواں۔ تین جگہ زمین کا دھنسنا۔ ایک مغرب میں۔ ایک مشرق میں۔ ایک جزیرہ عرب میں۔ اور ان کے سب کے آخر میں یمن میں عدن کی گہرائی سے۔ ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہان کے گی۔

 

احمد بن ابو شعیب حرانی، محمد بن فضیل، عمارہ، ابو زعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہو گی اس وقت تک جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے پس جب وہ (مغرب سے) طلوع ہو جائے گا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو زمین پر رہنے والے اس پر ایمان لائیں گے۔ وہ ایسا وقت ہو گا کہ کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو کہ پہلے سے ایمان نہ لایا تھا اس نے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی۔

 

دریائے فرات کے خزانہ کا بیان

 

عبد اللہ بن سعید کندی، عقبہ بن خالد شکونی، عبید اللہ، خبیب بن عبد الرحمن، خفص بن عاصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کے خزانوں سے بھر جائے پس جو وہاں حاضر ہو وہ اس خزانہ میں سے کچھ نہ لے۔

 

عبد اللہ بن سعید کندی، عقبہ ابن خالد، عبید اللہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ فرات سونے کے پہاڑ سے بھر جائے گا۔

 

دجال کے نکلنے کا بیان

 

حسن بن عمرو، جریر، منصور، حضرت ربعی رضی اللہ تعالی عنہ بن حراش کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ دونوں کہیں اکٹھے ہو گئے تو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں دجال کے ساتھی کو اس سے زیادہ جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ دریا ہو گا پانی کا اور ایک آگ کی نہر ہو گی۔ پس جس کو تم دیکھو گے کہ وہ آگ ہے اسے عنقریب پانی پاؤ گے ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح سنا ہے۔

 

ابو ولیدطیالسی، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی نبی نہیں مبعوث نہیں کیا گیا مگر یہ کہ اس نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا جو کہ کانا ہے اور جھوٹا ہے خبردار بے شک وہ کانا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اور بیشک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ دجال کی آنکھوں کے درمیان، ک، ف، ر، لکھا ہو گا۔

 

مسدد، عبد الوارث، شعیب بن حبحاب، حضرت انس بن مالک سے اس سند سے بھی سابقہ حدیث منقول ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اسے (کفر کو) ہر مسلمان پڑھ سکے گا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، جریر، حمید بن ہلال، ابو دہماء، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو شخص بھی دجال کی آواز سنے تو اسے چاہیے اس سے دور ہو جائے تو خدا کی قسم بیشک ایک آدمی اس کے (دجال کے) پاس آئے گا اور وہ یہ گمان کرے گا کہ وہ مومن ہے تو اس کی اتباع کرے گا اس وجہ سے کہ اس کے پاس شبہات پھیلانے والی چیزیں ہوں گی فرمایا کہ اس وجہ سے کہ وہ شبھات پھیلائے گا۔

 

حیوۃ بن شریح، بقیہ، بحیر، خالد بن معدان، عمرو بن اسود، جنازہ بن ابو امیہ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بیشک میں تمہیں دجال کے بارے میں خبر دے چکا ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں تم یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ مسیح دجال کئی لوگ ہیں وہ تو پست قد، گھنگریالے بال والا کانا ہے جس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہے نہ تو بہت اونچی اور نہ بالکل اندر گھسی ہے پھر بھی اگر تمہیں (اس کو پہچاننے میں) اشتباہ ہو جائے تو یہ جان رکھو کہ بیشک تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے۔ امام ابو داؤد کہتے ہیں کہ عمرو بن الاسود والی قضاء تھے۔

 

صفوان بن صالح دمشقی مؤذن، ولید ابن جابر، یحیٰ بن جابر طائی، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، ، حضرت نواس بن سمعان الکلانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ نکلا تو پھر میں اس کا حجت کرنے والا ہوں گا تمہارے علاوہ (تمہاری طرف سے) اور اگر میرے بعد نکلا تو ہر شخص خود ہی اس کا حجت کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالی ہر مسلمان کے اوپر میرے خلیفہ ہیں پس تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے اوپر سورۃ کہف کی ابتدائی آیات پڑھیں اس لیے کہ وہ آیات دجال کے فتنہ سے تمہاری پناہ گاہ ہیں ہم نے عرض کیا کہ وہ زمین پر کب تک رہے گا؟ فرمایا کہ چالیس دن تک ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا کہ اور ایک دن ایک ماہ کے برابر اور ایک دن جمعہ (پورے ہفتہ) کے برابر اور بقیہ تمام دن تمہارے ایام کی طرح ہوں گے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ جو ایک سال کا ایک دن ہو گا کیا اس میں ہمارے لیے ایک ہی دن رات کی نمازیں کافی ہوں گی فرمایا کہ نہیں بلکہ اس دن کے اعتبار سے اندازہ کر لینا پھر عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے جامع مسجد دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اور وہ اسے (دجال کو) باب لد کے قریب پائیں گے تو اسے قتل کر دیں گے۔

 

عیسی بن محمد، ضمرہ، شیبانی، عمر بن عبد اللہ، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی طرح مروی ہے اور نمازوں کا ذکر بھی اسی طرح ہے۔

 

حفص بن عمر، ہمام، قتادہ، سالم بن ابو جعد، معدان، حضرت ابو الدرداء کی حدیث سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کیں تو وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ کر دیا جائے گا امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہشام الدستوائی نے قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے سوائے انہوں نے کہا کہ جس نے سورۃ کہف کی آخری آیات یاد کیں جبکہ شعبہ نے اپنی روایت میں سورۃ کہف کے آخر کا ذکر کیا ہے۔

 

ہدبہ بن خالد، ہمام بن یحییٰ، قتادہ، عبد الرحمن بن آدم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہو گا اور بیشک وہ اتریں گے پس جب تم انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو کہ وہ سرخ و سفید رنگ کے درمیانی رنگ کے مرد ہیں درمیانے قد و قامت کے ہیں گویا کہ ان کا سر ٹپک رہا ہو گا پانی سے اگرچہ وہ تر نہیں ہو گا پس وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے اور اللہ تعالی ان کے زمانہ میں تمام اقوام مذاہب کو ہلاک کر دیں گے سوائے اسلام ( اور مسلمانوں) کے اور مسیح دجال کو بھی ہلاک کر دیں گے پھر دنیا میں چالیس برس تک رہیں گے پھر انتقال کر جائیں گے اور مسلمان ان پر نماز جنازہ پڑھیں گے۔

 

جساسہ کے بیان میں

 

نفیلی، عثمان بن عبد الرحمن، ابو ذئب، زہری، ابو سلمہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ بنت قیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رات عشاء کی نماز تاخیر کی پھر گھر سے باہر نکلے تو فرمایا کہ مجھے ایک بات نے جو تمیم داری ایک شخص کے بارے میں مجھ سے کر رہے تھے روک لیا۔ وہ شخص سمندروں کے جزیروں میں سے کسی جزیرہ میں تھا وہ کہتا ہے کہ اچانک میں ایک عورت کے سامنے گیا جو اپنے بال گھسیٹ رہی تھی وہ کہنے لگا کہ تو کون ہے؟ اس عورت نے کہا میں جساسہ (دجال کی جاسوس ہوں) تو اس محل کی جانب چل پس میں وہاں آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی اپنے بال کھینچ رہا ہے اور زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے زمین و آسمان کے درمیان اچھل کود رہا ہے میں نے کہا کہ تو کون ہے؟وہ کہنے لگا کہ میں دجال ہوں کیا امیوں کے نبی ظاہر ہو گئے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں تو کہنے لگا کہ انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی کی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ اس کی اطاعت کی ہے کہنے لگا کہ وہی ان کے لیے بہتر ہے۔

 

حجاج بن یعقوب، عبد الصمد، حسین معلم، عبد اللہ بن بریدہ، عامر بن شرحبیل، حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منادی کی آواز سنی کہ پکارتا تھا کہ نماز جمع کرنے والی ہے (جب جماعت کا وقت ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ دور میں ایک منادی یہ آواز لگاتا کہ الصلواۃ جامعۃ۔ تاکہ سب اکٹھے ہو جائیں چنانچہ میں نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیساتھ نماز پڑھی پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پوری کر لی تو ہنستے ہوئے منبر پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہر شخص اپنی جائے نماز کو لازم پکڑ لے (وہیں بیٹھا رہے) پھر فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بیشک میں تمہیں (دوزخ سے) ڈرانے کیلئے یا (جنت کی نعمتوں کی) ترغیب دلانے کے لیے جمع نہیں کیا لیکن میں نے تمہیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری ایک نصرانی شخص تھے وہ آئے اور بیعت کی اور اسلام لے آئے اور مجھ سے ایک بات بیان کی کہ وہ کسی سمندری کشتی میں سوار تھے تیس لخمی و جذامی افراد کے ساتھ۔ سمندر کی موجیں ان سے ایک مہینہ تک اٹکھیلیاں کرتی رہیں پھر وہ ایک دن سورج غروب ہوتے وقت ایک جزیرہ پر جا لگے پھر وہاں سے چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہو گئے تو وہاں انہیں ایک جانور گھوڑے جیسے بھاری دم اور لمبے بالوں والا ملا تو انہوں نے کہا کہ تیرے لیے ہلاکت ہو تو کون ہے؟وہ کہنے لگی کہ میں جساسہ (جاسوس) ہوں تم سب اس آدمی کے پاس اس دیر (وہ جگہ جہاں راہب رہا کرتے ہیں) میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبروں کے بارے میں جاننے کا بڑا شائق ہے تمیم داری کہتے ہیں کہ جب اس نے ہم سے اس آدمی کا نام لیا تو ہمیں خوف ہوا اس عورت نما جانور سے کہ کہیں شیطان نہ ہو پس ہم تیزی سے دوڑے یہاں تک کہ دیر میں داخل ہو گئے تو اچانک اس میں ایک بہت بڑا آدمی دیکھا ہم نے مخلوق میں اس جیسا اور اس سے سخت کبھی کوئی نہیں دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر بندھے ہوئے تھے آگے پوری حدیث بیان کی (کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احوال دریافت کیے) اس نے ان سے بیسان (جو ایک جگہ ہے) اور عین زغر (ایک مقام ہے) کی کھجوروں کے بارے میں پوچھا اور نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں سوال کیا۔ کہنے لگا کہ بیشک میں مسیح دجال ہوں اور قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بیشک وہ شام کے سمندروں میں ہے یا یمن کے سمندر میں ہے نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے ہے نہیں نہیں دو مرتبہ فرمایا اور اپنے ہاتھ مشرق کی طرف اشارہ بھی فرمایا دو مرتبہ۔ فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے یہ ساری حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یاد کر لی اور آگے پوری حدیث بیان کی۔

محمد بن صدران، معتمر، اسماعیل بن ابو خالد، مجاہد بن معید، عامر کہتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت قیس نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا کی پھر منبر پر چڑھے پھر اس سے پہلے یہی قصہ بیان کیا امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ محمد بن صدران بصری ہیں اپنے بیٹے مسور کیساتھ سمندر میں غرق ہو گئے تھے ان میں سے سوائے ان کے کوئی اسلام نہیں لایا تھا۔

واصل بن عبد العلی، ابن فضیل، ولید بن عبد اللہ بن جمیع، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، جابر، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز منبر پر چڑھ کر فرمایا۔ چند افراد تھے جو سمندر میں سفر کر رہے تھے ان کا کھانا ختم ہو گیا تو انہیں جزیرہ نمایاں نظر آیا تو وہ اس میں روٹی کی تلاش میں نکل گئے تو وہاں انہیں جساسہ ملی ولید کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ جساسہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ایک عورت تھی جو اپنی کھال کے بال کھینچ رہی تھی اور اپنے سر کے کہنے لگی کہ اس محل میں پھر آگے حدیث ذکر کی تو اس نے دجال نے بیسان اور عین عزر کی کھجوروں کے بارے میں دریافت کیا کہنے لگا کہ وہ مسیح (دجال) ہے۔ ولید کہتے ہیں کہ ابو سلمہ کے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ اس حدیث میں کچھ اور بھی باتیں تھیں جنہیں میں یاد نہ کرسکا۔ جابر نے گواہی دی تھی کہ وہ ابن صائد ہے میں نے کہا کہ وہ تو مر چکا ہے؟ کہنے لگے کہ اگرچہ مر چکا ہو میں نے کہا کہ وہ تو اسلام لا چکا تھا؟ کہنے لگے کہ خواہ اسلام بھی لا چکا ہوں میں نے کہا وہ تو مدینہ میں بھی داخل ہو گیا تھا کہنے لگا کہ خواہ وہ مدینہ میں بھی داخل ہو گیا ہو۔

 

ابن صیاد کا بیان

 

ابو عاصم، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے اور وہ لڑکوں کے ساتھ بنی مغالہ کے پتھر کے قلعہ کے پاس کھیل رہا تھا اسے احساس نہیں ہوا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا پھر فرمایا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ ابن صیاد نے ایک نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امیوں کے رسول ہیں پھر ابن صیاد نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکا ہوں پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا کہ تیرے پاس کیا چیز آتی ہے کہنے لگا کہ میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تیرے اوپر معاملہ مشتبہ ہو گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ میں نے تیرے لیے کہ ایک چیز چھپا رکھی ہے اور آپ نے اپنے دل میں قرآن کریم کی آیت، ( یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ ) 44۔ الدخان:10) چھپا لی ابن صیاد نے کہا کہ وہ چھپی ہوئی چیز دخ ہے۔ (دخان نہ کہہ سکا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پرے ہٹ تو ہرگز اپنے اندازہ سے تجاوز نہیں کر سکے گا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ دجال ہے تو تمہیں اس کے اوپر مسلط نہیں کیا گیا۔ (کہ اس کے لیے تو حضرت عیسیٰ ہے) اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں تو اس کے قتل کرنے میں کوئی خیر نہیں۔

 

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبد الرحمن، موسی، عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم مجھے کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال یہی ابن صیاد ہے۔

 

ابن معاذ، معاذ، شعبہ، سعد بن ابراہیم، محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم کھا رہے تھے اس بات پر کہ ابن صیاد ہی دجال ہے پس میں نے کہا کہ آپ (اس بات پر) اللہ کی قسم کھا رہے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا کہ بے شک میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ کی قسم کھاتے ہوئے دیکھا اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔

 

 

 

سزاؤں کا بیان

 

حد کے ساقط ہونے کے لیے حاکم کی تلقین

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، اسحاق عبد اللہ، ابن ابو طلحہ، منذر، مولی ابو ذر، حضرت ابو امیہ رضی اللہ تعالی عنہ مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف بھی کیا لیکن اس کے پاس کچھ سامان برآمد نہیں ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تجھ سے یہ گمان نہیں کرتا کہ تو نے چوری کی ہو گی کہنے لگا کہ کیوں نہیں (میں نے چوری کی ہے) اس نے دو مرتبہ یا تین مرتبہ اپنی بات کا اعادہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سے استغفار کر اور توبہ کر اس نے کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی عمرو بن عاصم نے ہمام سے اور انہوں نے اسحاق بن عبد اللہ سے اور انہوں نے حضرت ابو امیہ انصاری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے۔

 

کوئی حد کا اعتراف کرے لیکن اس کا نام نہ بتائے

 

محمود بن خالد، عمر بن عبد الواحد خراعی، ابو عمار، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک حد شرعی مجھ پر لاحق ہو چکی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حد کو مجھ پر جاری فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تو سامنے سے آیا تھا تو نے وضو کیا تھا فرمایا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا ہمارے ساتھ نماز پڑھی جب ہم نے نماز پڑھی کہا کہ جی ہاں۔ فرمایا کہ جا چلے جاؤ بیشک اللہ نے (وضو اور نماز کے طفیل) تیرے گناہ معاف فرما دیے۔

 

تفتیش کی غرض سے مجرم کو مارنا پیٹنا

 

عبد الوہاب نجدی، بقیہ، صفوان، حضرت ازہر بن عبد اللہ الحراری کہتے ہیں کہ کلاع قبیلہ کے کچھ لوگوں نے جن کا کچھ سامان چرا لیا گیا تھا چند جولاہوں پر (چوری کی) تہمت لگائی اور حضرت نعمان بن بشیر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ہیں کے پاس آئے تو انہوں نے ان جولاہوں کو گرفتار کر لیا چند دن کے لیے (پھر جب انہوں نے اقرار نہیں کیا) تو ان کا راستہ چھوڑ دیا تو کلاع کے لوگ حضرت نعمان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا بغیر مارے پیٹے اور بغیر امتحان لیے؟ تو نعمان بن بشیر نے فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میں ان کو ماروں تو اس شرط کے ساتھ کہ ان کے پاس سے تمہارا سامان نکلے تب تو ٹھیک ہے ورنہ میں تمہاری پشتوں کو بھی لے لوں گا انہوں نے کہا کہ کیا یہ تمہارا فیصلہ ہے فرمایا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔

 

کتنے مال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا

 

احمد بن محمد بن حنبل، سفیان، زہری، عمر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دینار کے چوتھائی حصہ یا اس سے زائد کی چوری میں ہاتھ کاٹا کرتے تھے۔

 

احمد بن صالح، وہب بن بیان، ابن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ، عمرۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ ایک دینار کے چوتھائی حصہ یا اس سے زائد کی چوری پر کاٹا جائے گا۔ احمد بن صالح کہتے ہیں کہ چوتھائی دینار یا اس سے زائد پر ہی کاٹا جائے گا۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ بن مالک، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا ہے جس کی قیمت تین درہم تھی۔

 

احمد بن حنبل عبد الرزاق، ابن جریح، اسماعیل بن امیہ، حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ جو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے انہوں نے بیان کیا کہ ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹا جس نے ایک ڈھال چوری کی تھی صفۃ النساء کوئی جگہ ہے سے اس کی قیمت تین درہم تھی۔

 

عثمان بن ابو شیبہ، محمد بن ابو سری عسقلانی، ابن نمیر، محمد بن اسحاق، ایوب بن موسی، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا ڈھال کی چوری کرنے کی وجہ سے جس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی (یہ حدیث دلیل ہے حضرت امام ابو حنیفہ کی امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو محمد بن سلمہ اور سعدان بن یحیٰ نے ابن اسحاق سے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔

 

جن اشیاء کے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک بن انس، یحییٰ، سعید، محمد بن یحیٰ بن حبان کہتے ہیں کہ ایک غلام نے ایک آدمی کے باغ میں سے کھجور کا پودا چرا لیا اور اسے اپنے آقا کے باغ میں بو دیا اور وہ باغ والا اپنے پودے کو تلاش کرتا ہوا نکلا تو اسے اس کے باغ میں پایا۔ اس نے مروان بن حکم جو مدینہ کے امیر تھے سے اس معاملہ میں مدد چاہی تو مروان نے غلام کو قید کر لیا اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا تو غلام کا مالک حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس چلا گیا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اسے بتلایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ کسی پھل یا پھول کے خوشہ کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا تو اس آدمی نے کہا کہ مروان نے میرے غلام کو گرفتار کر لیا ہے اور وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مروان کے پاس چلیں اور اسے بتلائیں کہ جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے تو حضرت رافع بن خدیج اس کے ساتھ چلے گئے یہاں تک کہ مروان کے پاس آ گئے اور اس سے رافع رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ کسی پھل یا پھلوں کے گچھے کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ تو مروان نے غلام کے بارے میں حکم دیا تو اسے چھوڑ دیا گیا امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ کثر کے معنی ہیں خوشہ کے۔

 

محمد بن عبید، حماد، یحییٰ، محمد بن یحیٰ بن حبان نے یہی حدیث روایت کی ہے اور اس میں کہا ہے کہ مروان نے غلام کو چند کوڑے لگائے اور اسے چھوڑ دیا

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان عمر بن شعیب، ، جدہ، عبد اللہ ابن عمرو حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اور وہ ان کے دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (درخت پر) لٹکے ہوئے پھل کے متعلق سوال کیا گیا (کہ اسے توڑا جا سکتا ہے کہ نہیں بغیر اجازت کے) تو فرمایا کہ جس حاجت مند نے اسے (توڑ کر) کھا لیا اور دامن میں انہیں جمع نہیں کیا تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ اور جو (باغ میں سے) کچھ پھل وغیرہ (جمع کر کے) لے نکلے تو اس کے اوپر اتنے پھلوں کا دگنا ہے اور سزا الگ ہو گئی اور جس نے پھلوں کو اس جگہ سے جہاں انہیں جمع کیا جاتا ہے (سکھانے وغیرہ کے لیے) چوری کر لیا اور اس کی مقدار ڈھال کی قیمت کے برابر ہو گئی تو اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔

 

کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیان

 

نصر بن علی، محمد بن بکر، ابن جریریح، ابو زیبر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مال لوٹنے (علانیہ زبردستی مال چھیننے یا اچکنے پر) ہاتھ نہیں کٹے گا اور جس شخص نے دھڑلے سے کوئی چیز چھینی وہ ہم میں سے نہیں اور اسی سند سے یہ بھی مروی ہے کہ خیانت کرنے والے پر قطع نہیں ہے کیونکہ اس پر چوری کی تعریف نہیں صادق آتی لیکن ہاتھ نہ کٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کچھ سزا بھی نہیں ملے گی یا یہ جرم نہیں ہے ایسا بلکہ بدترین جرم ہے ایک آدمی نے آپ پر اعتماد کیا اور اپنا مال آپ کے پاس رکھوایا اور آپ نے اس کے مال کو ہضم کر لیا اس پر مختلف تعزیر دی جا سکتی ہے۔

 

نصربن علی، عیسیٰ بن یونس، ابن جریح، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی طرح ہی مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ اچکے کا ہاتھ بھی نہیں کٹے گا امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ دونوں احادیث ابن جریح رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو الزبیر سے نہیں سنیں اور مجھے امام احمد بن حنبل سے یہ بات پہنچی ہے کہ ابن جریح نے ان دونوں حدیثوں کو یاسین الزیات سے سنا ہے امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ان احادیث کو مغیرہ بن مسلم نے بھی ابو الزبیر عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روایت کیا ہے۔

 

جو شخص کسی محفوظ مقام سے چوری کرے

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، عمرو، طلحہ، اسباط، سماک، حرب، حمید بن اخت، حضرت صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں اپنی تیس درہم کی مالیت والی چادر پر سورہا تھا کہ ایک شخص آیا اور اسے اچک کر لے گیا مجھ سے۔ وہ آدمی پکڑا گیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صفوان کہتے ہیں کہ پس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا ہاتھ تیس درہم کی وجہ سے کاٹتے ہیں میں اس چادر کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور اس کی قیمت تاخیر سے لے لوں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پھر یہ میرے پاس لانے سے قبل ہی کیا ہوتا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو زائدہ نے سماک عن جعید بن حجیر سے روایت کیا ہے۔ اس میں فرمایا کہ صفوان سو گئے اور اسے صفوان وطاؤس نے روایت کیا کہ صفوان سور ہے تھے کہ ایک چور آیا اور اس نے ان کے سر کے نیچے سے چادر چرا لی۔ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ اس چور نے ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی تو صفوان بن عبد اللہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ صفوان مسجد میں سو گئے اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا پس ایک چور آیا اور اس نے چادر کو چرا لیا پھر چور پکڑ گیا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا گیا۔

 

عاریتاً چیز لے کر مکر جانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم

 

حسن بن علی مخلد بن خالد معنی، عبد الرزاق، معمر، مخلد، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عورت سامان عاریتاً لیا کرتی تھی اور پھر اس سے مکر جاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹا گیا امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو جریہ نے نافع عن ابن عمر یا صفیہ بنت ابو عبیدہ سے روایت کیا ہے اس میں یہ اضافہ کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ کیا کوئی عورت جو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف توبہ کرے؟ تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا اور وہ عورت وہاں موجود تھی لیکن وہ نہیں کھڑی ہوئی اور نہ ہی بات کی۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن غنج نے نافع سے اور انہوں نے صفیہ بنت ابو عبید سے روایت کیا ہے اس میں فرمایا کہ اس عورت پر گواہی دی۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، ابو صالح، یونس، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ ایک غیر معروف عورت نے چند مشہور و معروف اور معتبر لوگوں کے ذریعہ کچھ زیور مستعار لیا اور اسے فروخت کر ڈالا۔ اس عورت کو پکڑ لایا گیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے سفارش کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا جو فرمایا (کہ پچھلی امتوں کو اسی وجہ سے ہلاک کیا گیا کہ وہ امراء کو چھوڑ دیتے تھے اور کمزوروں کر پکڑ لیا کرتے تھے)۔

 

عباس بن عبد العظیم، محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت سامان مستعار کر لیا کرتی تھی اور پھر اس سے مکر جاتی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اس کے بعد قتیبہ عن اللیث عن ابن شہاب کی حدیث کی طرح ہی روایت کیا ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کاٹ دیا۔

 

مجنوں چوری کر لے یا کوئی حد والا چوری کر لے

 

عثمان بن ابو شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، حماد، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔

 

عثمان ابو شیبہ، جریر، اعمش، ابو ظبیان، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک دیوانی عورت کو لایا گیا جس نے زنا کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے۔ اس عورت کے پاس سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ گزرے تو فرمایا کہ اس عورت کا کیا معاملہ ہے لوگوں نے کہا کہ یہ عورت پاگل ہے اس نے زنا کیا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا سنگسار کرنے کا ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اسے واپس لے چلو پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے امیر المومنین کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تین قسم کے افراد پر سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کیوں نہیں پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا پھر تیرا کیا خیال ہے اس عورت کے بارے میں اسے سنگسار کر دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کچھ نہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ پھر اسے چھوڑ دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے چھوڑ دیا اور تکبیر کہنے لگے (خوشی میں کہ ایک بڑی غلطی سے اللہ نے بچا لیا)۔

 

یوسف بن موسیٰ وکیع، حضرت اعمش سے اس طرح حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے کہا کہ بچہ جب عقل مند ہو جائے اور پاگل کو افاقہ ہو جائے اور کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تکبیر کہنا شروع کر دی۔

 

ابن سرح، ابن وہب، جریر بن حازم، سلیمان بن مہران، ابو ظبیان، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ گزرے پوری وہی حدیث بیان کی جو عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کی تھی۔ (حدیث نمبر 993 اس میں یہ فرق ہے کہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ آپ نے سچ کہا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر اس عورت کا راستہ چھوڑ دیا۔

 

ہناد، ابو احوص، عثمان بن ابو شیبہ، جریرمعنی، عطاء بن سایئب، حضرت ابو ظبیان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک بدکاری کرنے والی عورت لائی گئی تو انہوں نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کرم اللہ وجہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے اسے پکڑا اور چھوڑ دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو میرے پاس لاؤ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تشریف لائے اور کہا کہ اے امیر المومنین آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔ اور بیشک یہ عورت تو پاگل ہے فلاں قبیلہ کی جس نے اس سے بدکاری کی شاید وہ اس کے پاگل پنے کے وقت کیا ہو گا (اسے پتہ ہی نہ چل سکا) راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اور مجھے بھی نہیں معلوم۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہب، خالد، ابو ضحی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (مکلف ہونے کا) قلم تین آدمیوں پر سے اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن جریح نے قاسم بن یزید سے اور انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ اتنے بوڑھے شخص سے مغلوب الحواس و العقل شخص سے بھی۔

 

نابالغ لڑکا اگر حد لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟

 

محمد بن کثیر، سفیان، عبد المالک بن عمیر، حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کر دیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔

 

مسدد، ابو عوانہ، عبد المالک بن عمیر سے یہی حدیث اس فرق کے ساتھ مروی ہے کہ عطیہ قرظی نے فرمایا کہ انہوں نے میرا ستر کھولا تو اسے پایا ان کی طرح جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے قیدیوں میں کر دیا۔

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے غزوہ احد کے روز انہیں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کیا گیا اور آپ کی عمر چودہ سال تھی تو آپ نے انہیں جنگ میں حصہ لینے کے لیے قبول نہیں کیا اور پھر غزوہ خندق کے موقع پر انہیں پیش کیا گیا اور ان کی عمر 15 برس تھی تو انہیں اجازت دے دی۔

 

عثمان بن ابو شیبہ، ادریس، عمر بن عبد العزیز، نافع کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بن عبد العزیز سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے۔

 

 

 

ادب کا بیان

 

 

گانے اور موسیقی کی ممانعت

 

احمد بن عبید اللہ عدانی، ولید بن مسلم، سعید بن عبد العزیز، سلیمان بن موسی، نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار کہیں موسیقی کی آواز سنی تو آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں اور اس راستہ سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا کہ اے نافع کیا تجھے کچھ سنائی دیتا ہے؟میں نے کہا نہیں۔ نافع کہتے ہیں کہ پھر آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے ہٹا لیں اور کہا کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا تو آپ نے ایسی ہی آواز سنی تو آپ نے یہی عمل کیا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔

 

ہیجڑوں کا بیان

 

ہارون بن عبد اللہ، محمد بن علاء، ابو اسامہ، فضل بن یونس، اوزاعی، یسارقرشی، ابو ہاشم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک ہیجڑا لایا گیا جس نے اپنے دونوں ہاتھوں اور پاؤں کو رنگا ہوا تھا مہندی سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو کیا ہوا؟ کہا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ عورت کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو آپ نے حکم دیا تو اسے نقیع کی طرف شہر بدر کر دیا گیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔ ابو اسامہ کہتے ہیں کہ نقیع مدینہ کے اطراف میں ایک جگہ ہے اور یہ بقیع نہیں ہے۔

 

ابو بکر بن ابو شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، زینب بنت حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بار ان کے پاس داخل ہوئے تو ان کے پاس ایک مخنث بیٹھا ہوا تھا اور ان کے بھائی عبد اللہ سے کہہ رہا تھا کہ اگر کل کو اللہ طائف کو فتح فرما دے گا تو میں تجھے ایک ایسی عورت بتلاؤں گا جب سامنے آتی ہے تو چار تہوں کے ساتھ اور واپس جاتی ہے تو آٹھ تہوں کے ساتھ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحییٰ، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان مردوں پر جو مخنث ہیں اور ان عورتوں پر جو مردانہ رنگ ڈھنگ اختیار کریں لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔

 

گڑیوں سے کھیلنے کا بیان

 

مسدد، حماد، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس آتے اور میرے پاس لڑکیاں بیٹھی ہوتی تھیں جب آپ داخل ہوتے تو وہ لڑکیاں نکل جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ داخل ہو جاتیں۔

 

محمد بن عوف، سعید بن ابو مریم، یحیٰ بن ایوب، عمارغزیہ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک یا غزوہ خیبر سے واپس تشریف لائے تو طاقچہ میں ایک پردہ پڑا تھا جب ہوا چلی تو پردہ کا ایک کنارہ کھل گیا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کھیلنے کی گڑیاں نظر آنے لگیں تو آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری گڑیاں ہیں اور آپ نے ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا دو بازو والا دیکھا کترنوں کا بنا ہوا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں ان کے درمیان کیا دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ گھوڑا ہے آپ نے فرمایا کہ اس کے اوپر کیا ہے؟میں نے کہا کہ دو پر ہیں آپ نے فرمایا کہ گھوڑے کے پر ہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پاس ایسا گھوڑا تھا جس کے پر تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ سن کر کھل کھلا کر ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کے نواجذ (ڈاڑھیں) دیکھ لیں

 

جھولا جھولنے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل حماد، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو چند عورتیں میرے پاس آئیں میں اس وقت جھولا جھول رہی تھی، بال میرے چھوٹے چھوٹے سے تھے وہ مجھے لے گئیں مجھے تیار کیا اور بنایا سنوارا اور مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں آپ نے میرے ساتھ شب بستری فرمائی میں اس وقت نو برس کی لڑکی تھی۔

 

بشر بن خالد، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ اس سند سے بھی سابقہ حدیث منقول ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں جھولے پر تھی اور میری سہیلیاں میرے ساتھ تھیں وہ مجھے گھر میں لے گئیں تو چند انصار کی عورتیں وہاں تھیں انہوں نے کہا بہتری ہو مبارک ہو۔

 

عبید اللہ بن معاذ، محمد یعنی ابن عمر، یحیٰ بن عبد الرحمن حاطب، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن الخزرج کے قبیلہ میں پڑاؤ کیا۔ فرماتی ہیں کہ پس تو میری والدہ میرے پاس آئیں اور مجھے جھولے سے اتارا اور میری سر کے بال چھوٹے چھوٹے تھے۔ آگے سابقہ حدیث بیان کی۔

 

چوسر کھیلنے کی ممانعت

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، موسیٰ بن مسیرہ، سعید بن ابو ہند، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص چوسر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص چوسر کھیلے تو گویا کہ اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔

 

کبوتر بازی کرنا

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ کبوتر کے پیچھے پیچھے دوڑا چلا جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان شیطانہ کے پیچھے چلا جا رہا ہے۔

 

رحمت و ہمدردی کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ معنی، سفیان عمرو، ابو قابو س، حضرت عبد اللہ بن عمرو کے آزاد کردہ غلام ابو قابو س روایت کرتے ہیں کہ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ مسدد نے اپنی روایت میں مولی عبد اللہ بن عمرو کا لفظ نہیں کہا۔

 

حفص بن عمر، ابن کثیر، شعبہ، منصور، ابن کثیر، منصور، کثیر، منصور، ابو عثمان مولی مغیرہ بن شعبہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم صادق المصدوق اس حجرے میں رہنے والے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ مہربانی اور رحم دلی سوائے بدبخت کے کسی سے نہیں چھینی جا سکتی۔

 

ابو بکر بن ابو شیبہ، ابن سرح، سفیان، ابن ابو نجیح، ابن عامر، حضرت عبد اللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں۔

 

نصیحت کا بیان

 

احمد بن یونس، زہیر، سہل بن ابو صالح، عطاء بن یزید، حضرت تمیم داری سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بیشک دین (سراسر) خیرخواہی کا نام ہے بیشک دین خیرخواہی کا نام ہے صحابہ نے عرض کیا کس کیساتھ خیرخواہی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ، اس کے رسول کے ساتھ، مسلمانوں کے امراء وحکام (مخلصین) کے ساتھ اور عام مسلمانوں کے ساتھ۔ ائمۃ المومنین فرمایا ، یا ائمۃ المسلمین۔

 

عمربن عون، خالد، مونس، عمرو بن سعید، حضرت ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ بن عمر بن جریر، حضرت جریر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی بات سننے اور اطاعت شعاری پر اور اس بات پر کہ ہر مسلمان سے خیرخواہی کروں گا، ابو زرعہ کہتے ہیں کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ جب کوئی چیز بیچتے یا خریدتے تو اس سے کہتے کہ دیکھو بھائی ہم جو چیز تم سے لے رہے ہیں کہ وہ ہمیں زیادہ پسند ہے اس چیز سے جو ہم تمہیں دے رہے ہیں لہذا جو چاہو اختیار کر لو۔

 

مسلمان کی مدد کا بیان

 

ابو بکر، عثمان ابو شیبہ معنی، ابو معاویہ، عثمان، جریر رازی، واثل بن اسباط، اعمش، ابو صالح، واصل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیا کی کسی تکلیف کو دور کیا اللہ اس پر قیامت کے دن کی تکالیف میں سے ایک تکلیف اٹھا دیں گے، جس نے کسی تنگدست سے آسانی کا معاملہ کیا اللہ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کا معاملہ فرمائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کریں گے اور اللہ تعالی اس وقت تک بندہ کی مدد میں لگے رہتے ہیں کہ جب کہ وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ امام ابو داؤ فرماتے ہیں کہ عثمان نے ابو معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا حدیث میں تنگدست کا ذکر نہیں کیا۔

 

محمد بن کثیر، سفیان ابو مالک اشجعی، ربعی، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہارے نبی نے فرمایا کہ ہرنیکی صدقہ ہے۔

 

ناموں کو بدلنے کا بیان

 

عمروبن عون مسدد، ہشیم، داؤد بن عمرو، عبد اللہ بن ابو زکریا، حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بیشک تم قیامت کے روز اپنے اور آباء اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔

 

ابراہیم بن زیاد، عباد بن عباد، عبد اللہ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبد اللہ و عبد الرحمن ہیں

 

پینے کے پانی میں پھونک مارنا

 

عبد اللہ بن محمد، ابن عیینہ، عبد الکریم، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، یزید بن خمیر، عبد اللہ بن بسر، جن کا تعلق بنو سلیم سے تھا فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد کے پاس تشریف لائے اور ان کے گھر پر مہمان ہوئے، میرے والد نے آپ کو کھانا پیش کیا اور حیس (ایک خاص قسم کا کھانا) کا ذکر کیا اور اسے لائے پھر کوئی مشروب لے کر آئے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیا اور پھر اسے اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص کو دے دیا اور کھجوریں کھائیں اور ان کی گٹھلیوں کو درمیان کی انگلی اور شہادت کی انگلی پر رکھتے گئے جب حضور علیہ السلام (واپسی کے لیے) کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی کھڑے ہو گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری کی لگام پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میرے لئے اللہ سے دعا فرمائیے، حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ ان کے مال میں جو آپ نے انہیں دیا ہے برکت فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔

 

دودھ پینے کے بعد کیا کہے

 

مسدد، حماد ابن زید، موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابن سلمہ، علی بن زید، عمر بن حرملہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں تھا سو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ وہاں تشریف لائے۔ وہ لوگ (ام المومنین کے گھر)، بھنی ہوئی گوہ، لکڑیوں پر رکھ لائے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تھوک دیا نفرت سے تو حضرت خالد نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ناپسند سمجھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ نے فرمایا کہ ہاں پھر حضور کے پاس دودھ لایا گیا تو آپ نے اسے پیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو کہے تو اے اللہ ہمیں اس کھانے میں برکت عطا فرمائیں۔ اور ہمیں اس سے بہتر کھانا کھلائیے اور جب کوئی دودھ پئے تو کہے اے اللہ ہمیں اس دودھ سے برکت عطا فرمایے۔ اور اس میں ہمیں زیادتی عطا فرما اس لیے کہ کھانے پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جو دونوں کی کفایت کرے سوائے دودھ کے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ مسدد (راوی) کے ہیں۔

 

برتن ڈھانکنے کا بیان

 

احمدبن حنبل، یحییٰ، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے دروازہ کو بند رکھو اے اللہ کے ذکر کے ساتھ اس لیے کہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا۔ اور اپنے چراغ کو بجھاؤ اللہ کے ذکر کے ساتھ، اور اپنے برتن کو ڈھانک دو خواہ کسی لکڑی ہی کو اس کے اوپر ڈال دو، اور اپنے مشکیزہ کا منہ بھی بند باندھ کر رکھو اللہ کے ذکر کے ساتھ۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں لیکن نامکمل۔ فرمایا کہ اس لیے کہ شیطان بند دروازہ کو نہیں کھول سکتا اور نہ کسی منہ بند برتن کے اندر جا سکتا ہے، اور نہ ہی کسی ڈھانکنے گئے برتن کو کھول سکتا ہے اور بیشک چوہیا لوگوں کے گھر کو یا گھروں کو آگ لگا دیتی ہے۔

 

مسدد، فضیل، بن عبد الوہاب، حماد، کثیر، بن شنظیر، عطاء، جابر بن عبد اللہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو عشاء کے وقت سے روک کر رکھو (گھروں میں) جبکہ مسدد کی روایت ہے کہ شام کو روکے رکھو اس لیے کہ جنات کے پھیلنے اور اچک لینے کا وقت ہوتا ہے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی طلب کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہم آپ کو نبیذ نہ پلائیں۔ فرمایا کہ کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ شخص دوڑتا ہوا باہر نکل گیا اور ایک پیالہ جس میں نبیذ تھی لے کر آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ تو نے اسے ڈھان کا کیوں نہیں؟ خواہ اس پر لکڑی ہی رکھ دیتا، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اصمعی نے فرمایا کہ، تعرضہ، علیہ۔ (یہ الفاظ کا فرق بیان کیا)۔

 

سعید بن منصور، عبد اللہ بن محمد، قتیبہ بن سعید، عبد العزیز ابن محمد ہشام سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے سقیا کے گھروں سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا، قتیبہ بن سعید کہتے ہیں کہ سقیا ایک چشمہ ہے جو مدینہ منورہ سے دو دن کی مسافت کے فاصلہ پر واقع ہے۔

 

 

 

کھانے پینے کا بیان

 

 

دعوت قبول کرنے کا بیان

 

قعنبی، مالک، نافع، عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے دعوت ولیمہ پر ضرور جانا چاہیے۔

 

مخلد بن خالد، ابو اسامہ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا کہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے اور اگر روزہ دار ہو تو چھوڑ دے۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضواکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ شادی کی دعوت ہو یا اس کے مثل کوئی اور دعوت ہو۔

 

ابن مصفی، بقیہ، زبیدی، نافع، ایوب کی سند سے نافع نے یہی حدیث نقل کی ہے۔

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جسے دعوت دی جائے اسے چاہیے کہ قبول کرے، پھر اگر چاہے تو کھانا کھائے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ (لیکن حاضر ضرور ہو)۔

 

مسدد، درست بن زیاد، ابان بن طارق، نافع، عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کو دعوت دی جائے اور اس نے دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ اور جو شخص بغیر دعوت کے دعوت میں حاضر ہوا تو وہ چور بن کر داخل ہوا اور لوٹ مار کر نکل گیا۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقراء مساکین کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جو دعوت میں (بلانے کے باوجود) حاضر نہ ہوا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

 

نکاح کے بعد ولیمہ کرنا مستحب ہے

 

مسدد، قتیبہ بن سعید، حماد، ثابت سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ بنت جحش (ام المومنین) کے نکاح کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضور اکرم نے اپنی ازواج میں سے کسی کا ایسا ولیمہ کیا ہو جیسا حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کے بعد کیا تھا۔ آپ نے ایک بکری سے ولیمہ کیا تھا۔

 

حامد بن یحییٰ، سفیان، وائل بن داؤد، بکر بن وائل، زہری، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ (سے نکاح کے بعد) ستو اور کھجور سے ولیمہ کیا۔

 

سفر سے واپسی پر کھانا کھلانا

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایک اونٹ یا گائے ذبح فرمائی۔

 

مہمانداری کا بیان

 

قعنبی، مالک، سعید، ابو شریح سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خوب تکریم کرے اور مہمان کا انعام و اعزاز ایک دن، ایک رات، اور اس کی مہمان داری تین دن تین رات اور جو اس کے بعد ہو وہ میزبان کے لیے صدقہ ہے، اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہیں میزبان کے پاس ٹھہر جائے اتنا کہ میزبان کو تنگی میں ڈال دے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، محمد بن محبوب، حماد، عاصم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مہمان داری تین دن ہے اور اس کے بعد (جو میزبانی کرے) وہ صدقہ ہے امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ حارث بن مسکین کے سامنے یہ حدیث میری موجودگی میں پڑھی گئی کہ آپ کو اشہب نے بتلایا۔ اور فرمایا کہ اس کا اکرام کرے اور سے تحفہ وغیرہ دے اور ایک دن رات تک اس کی حفاظت و دیکھ بھال کرے اور تین دن تک مہمان داری کرے۔

 

کتنے ایام تک ولیمہ کرنا مستحب ہے

 

محمد بن مثنی، عفان بن مسلم، ہمام، قتادہ، حسن، عبد اللہ بن عثمان، ایک کانے شخص سے جو قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتا تھا اور جسے معروف کہا جاتا تھا یعنی لوگ اس کی اچھائی کے ساتھ تعریف کرتے تھے اور اگر اس کا نام زہیر بن عثمان نہیں تھا تو پھر مجھے علم نہیں کہ اس کا کیا نام تھا، روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ولیمہ پہلے دن (نکاح کے بعد)) کرنا یہ حق ہے لوگوں کا ۔ دوسرے دن بھی کرنا نیکی ہے اور تیسرے دن کرنا ریاکاری اور شہرت کے لیے ہے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ حضرت سعید بن المسیب کو پہلے دن دعوت ولیمہ پر بلایا گیا تو آپ قبول فرمایا ، دوسرے دن بلایا گیا تو بھی قبول فرمایا اور تیسرے دن بلایا گیا تو قبول نہیں فرمایا اور کہا کہ یہ لوگ نام و نمودار اور ریاکاری والے ہیں۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، سعید بن مسیب سے یہی واقعہ نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ تیسرے دن بلایا گیا تو انہوں نے قبول نہیں کیا اور قاصد کو کنکریاں ماریں۔

 

ضیافت سے متعلق

 

مسدد، خلف بن ہشام، ابو عوانہ، منصور، عامر ابو کریمہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مہمان کی ایک رات مہمانی کرنا اس کا حق ہے ہر مسلمان پر جو شخص کسی کے صحن میں اترے تو اسے پورا کر دے اور چاہے تو چھوڑ دے۔

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، ابو جردی، سعید بن ابی مہاجر، مقدام، ابو کریمہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی کسی کے ہاں رات کو مہمان ہو جائے اور پھر وہ صبح تک مہمان داری سے محروم رہے بیشک ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا اس کا حق ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اس کی مہمانداری نہ کرے وہ مہمان اس قوم کی کھیتی اور مال میں سے (جو اس کی رات کی ضرورت کے مطابق ہو) لے سکتا ہے۔ (یہ ابتداء اسلام کا حکم ہے اب نہیں لیکن میزبانی کرنا بہر حال اب بھی ضروری ہے۔ )

 

قتیبہ بن سعید، لیث یزید، بن ابی حبیب، ابو خیر، عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ ہمیں (مختلف مہمات میں) بھیجتے ہیں پس ہم کسی قوم کے (علاقہ میں) میں اترتے ہیں اور وہ ہماری میزبانی نہیں کرتے تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ پس حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا اگر تم کسی قوم میں جاؤ سو وہ تمہارے واسطے اس چیز کا حکم دیں جو ایک مہمان کے لیے مناسب ہوتی ہے تو اسے قبول کر لو۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے لیا کرو مہمان کا حق جو ان کے لیے مناسب ہے (کہ مہمانی کرتے اس کے مطابق)۔

 

دوسرے کے مال میں سے نہ کھانے میں جو حرج تھا اس کے منسوخ ہونے کا بیان

 

احمد بن محمد، علی بن حسین، بن واقد، یزید، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ قرآن کریم کی آیت (لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ) 4۔ النساء:29) کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے امول کو ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔ الا یہ کہ تجارت کے ذریعہ ہو، آپس میں ایک دوسرے کی رضا مندی کے ساتھ۔ اس کے نزول کے بعد آدمی کسی دوسرے کے ہاں کھانا کھانے کو بھی گناہ سمجھتا تھا تو اس حکم کو سورۃ نور کی آیت نے منسوخ کر دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھروں سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر کے یا اپنی بہنوں کے گھر سے یا اپنے چچاؤں کے گھر سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالاؤں کے گھر سے یا جس گھر کی چابیاں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے، تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ اس آیت کے نزول سے قبل لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ اس مالدار دعوت کرتا اپنے گھر والوں کی کھانے کی تو وہ مدعو کہتا کہ مجھے گناہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مال سے کھاویں۔ اور وہ یہ کہتا کہ اس کھانے کے زیادہ حقدار مسکین و فقیر لوگ ہیں، تو اس مذکورہ سورۃ نور کی آیت میں یہ حلال ہو گیا کہ وہ کھائیں ہر وہ چیز جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور اہل کتاب کا کھانا بھی حلال کیا گیا ہے۔

 

ریاکاری اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کھانے کھلانے والوں کے کھانے کا حکم

 

ہارون بن زید بن ابی زرقاء، جریر بن حازم، زبیر، بن خریت، عکرمہ، فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ، فخر و دکھلاوے کے لیے کھلانے والوں کے کھانے کہ ان کا کھانا کھایا جائے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جریر سے روایت کرنے والوں میں سے اکثر نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر نہیں کیا جبکہ ہارون نحوی نے ابن عباس کا بھی ذکر کیا ہے اور حماد نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ نہیں کیا۔

 

دعوت دینے والوں کے ہاں کوئی ناجائز کام ہو تو کیا حکم ہے

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سعید بن جمہان، سفینہ، ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت علی کی دعوت کی اور آپ کے واسطے کھانا بنایا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی بلاتے اور آپ ہمارے ساتھ کھانا کھاتے چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو آپ نے اپنا دست مبارک دروازہ کی چوکھٹ پر رکھا تو گھر کے ایک کونے میں تصویروں والا پردہ دیکھا، یہ دیکھ کر آپ واپس لوٹ گئے، حضرت فاطمہ نے حضرت علی سے فرمایا کہ جائیے اور دیکھیں کے حضور کو کس چیز نے واپس لوٹا دیا۔ (حضرت علی کہتے ہیں) کہ میں حضور کے پیچھے چلا اور میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس چیز نے آپ کو لوٹا دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک میرے لیے یا کسی اور نبی کے لیے صحیح نہیں کہ کسی ایسے گھر میں داخل ہوں جہاں تصویروں والے نقش و نگار ہوں۔

 

جب دو داعی جمع ہو جائیں تو کون زیادہ حقدار ہے؟

 

ہناد بن سری، عبد السلام بن حرب، ابو خالد، ابو علاء، حمید بن عبد الرحمن، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب دو آدمی اکٹھے دعوت دیں تو ان میں سے جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو کیونکہ جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے وہ پڑوس کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جائے (دعوت دینے میں) تو جو پہلے دعوت دے اس کی دعوت کو قبول کرو۔

 

جب رات کا کھانا اور نماز عشاء دونوں تیار ہوں تو کیا کیا جائے

 

احمد بن حنبل، مسدد، احمد، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا رات کا کھانا (اس کے سامنے) رکھ دیا جائے اور نماز (عشاء) بھی کھڑی ہو جائے تو کھانے سے فراغت تک نہ اٹھے (نماز کے لیے) مسدد نے (جو ایک راوی ہیں اس حدیث کے) اتنا اضافہ کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا معمول بھی یہی تھا، کہ جب ان کے لیے رات کا کھانا رکھ دیا جاتا تھا یا ان کے سامنے لے آیا جاتا تھا تو اس سے فراغت تک اٹھتے نہیں تھے اگرچہ وہ اقامت سن لیتے تھے اور باوجودیکہ وہ امام کی قرأت بھی سن لیتے تھے۔

 

محمد بن حاتم بن بزیع، معلی، ابن منصور، محمد بن میمون، جعفر، بن محمد، جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز کھانے یا کسی دوسرے کام کے واسطے مؤخر نہ کیا جائے۔

 

علی بن مسلم، ابو بکر، ضحاک بن عثمان عبد اللہ بن عبید بن عمیر، فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ حکومت میں اپنے والد عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا، تو حضرت عبادہ بن عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ (حضور کے زمانہ میں) رات کا کھانا نماز سے پہلے ہوتا تھا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تم پر افسوس ہے ان کا رات کا کھانا کیا تھا، کیا تمہارا خیال ہے کہ ان کا رات کا کھانا تمہارے باپ عبد اللہ بن زبیر کے کھانے کی طرح ہوتا تھا؟ مراد یہ ہے کہ ان حضرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کھانا تو بہت معمولی قوت بدعوت ہوتا تھا تمہارے والد کے کھانوں کی طرح پر تکلف نہیں ہوتا تھا ، اس لیے کہ ان کے یہاں کھانے میں دیر نہیں لگتی تھی۔

 

کھانے کے وقت دونوں ہاتھ دھونے کا بیان

 

مسدد، اسماعیل، ایوب، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بار بیت الخلاء سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کے لیے وضو کا پانی نہ لے آئیں؟ آپ نے فرمایا کہ بیشک مجھے وضو کا حکم دیا گیا نماز کے وقت.

 

موسیٰ بن اسماعیل، قیس، ابو ہاشم، زادان، سلمان فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے کی برکت یہ ہے کہ اس سے قبل وضو کیا جائے میں نے اس کا تذکرہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس سے قبل اور اس کے بعد وضو کرنے میں ہے۔ حضرت سفیان ثوری کھانے سے قبل وضو کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے۔

 

جلدی میں کھانے کے وقت ہاتھ دھونے کا بیان

 

احمد بن ابی مریم، سعید بن حکم، لیث بن سعید، خالد بن یزید، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہاڑوں کی کسی گھاٹی کی جانب سے قضاء حاجت سے فارغ ہو کر سامنے تشریف لائے اور ہمارے سامنے ڈھال پر یا پیالہ پر کھجوریں رکھی ہوئی تھیں ہم نے آپ کو دعوت دی تو آپ نے ہمارے ساتھ کھجوریں کھائیں اور پانی کو چھوا تک نہیں۔

 

کھانے کی برائی کرنا مکروہ ہے

 

محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابو ہازہ، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا، اگر اشتہا ہوتی تو اسے کھا لیتے اور اگر ناپسند ہوتا تو چھوڑ دیتے۔

 

کھانے پر اجتماع کرنے کا بیان

 

ابراہیم بن موسی، ولید بن مسلم، وحشی بن حرب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے آپ نے فرمایا کہ شاید تم الگ الگ کھاتے ہو، انہوں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کہ اپنے کھانے پر جمع ہو جایا کرو اور کھانے کے وقت اللہ کا نام لیا کرو اللہ تعالی تمہارے کھانے میں برکت ڈال دے گا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی دعوت ولیمہ میں مدعو ہو اور تمہارے سامنے رات کا کھانا بھی رکھ دیا جائے تو جب تک صاحب مکان (میزبان) اجازت نہ دے کھانا مت کھاؤ۔

 

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

 

یحیٰ بن خلف، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اپنے کھانے سے قبل اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے) کہتا ہے کہ یہاں تمہارے لیے رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے۔ اور نہ رات کا کھانا ہے اور جب کوئی گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے تم نے رات گزارنے کی جگہ پالی اور جب وہ کھانے کے وقت بھی ذکر نہیں کیا تم نے رات گزارنے کی جگہ بھی حاصل کر لی اور کھانا بھی پا لیا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، خیثمہ، ابو خذیفہ، فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کسی کھانے کی دعوت میں حاضر ہوتے تو جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانا شروع نہ فرما دیتے ہم میں سے کوئی کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ ایک مرتبہ ہم آپ کے ساتھ کھانے میں حاضر ہوئے تو ایک بدو آیا گویا کہ پیچھے سے دھکیلا جا رہا ہو اس نے کھانے میں ہاتھ ڈالنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر ایک لڑکی اس طرح آئی کہ گویا اسے پیچھے سے دھکیلا جا رہا ہو وہ بھی کھانے میں ہاتھ ڈالنے کو بڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور فرمایا کہ بیشک شیطان اس کھانے کو حلال کر لیتا ہے جس پر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے اور وہی شیطان اس بدو کو لے کر آیا تاکہ اس کے ذریعے کھانے کو حلال کر سکے تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھوں کے سامنے میرے ہاتھ میں ہے۔

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، ہشام، ابن ابی عبد اللہ، بدیل، عبد اللہ بن عبید سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا ذکر کرے پس اگر بھول جائے ذکر اللہ کرنا اس کے شروع میں تو یہ کہے بِسْمِ اللَّہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ۔

 

مومل بن فضل، عیسیٰ، ابن یونس، جابر بن صبع، مثنی بن عبد الرحمن، اپنے چچا حضرت امیہ بن مخشی سے جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور ایک آدمی کھا کھا رہا تھا، پس اس نے اللہ کا نام نہیں لیا یہاں تک کہ اس کے کھانے میں سے سوائے ایک لقمہ کے کچھ نہ بچا جب اس نے اس لقمہ کو اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو کہنے لگا، بسم اللہ اولہ وآخرہ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنس پڑے اور فرمایا کہ شیطان مسلسل اس کے ساتھ کھانے میں مشغول رہا، پس جب اس نے اللہ کا نام لیا تو اس نے جو کچھ پیٹ میں تھا اسے قے کر دیا۔

 

ٹیک لگا کر کھانے کا بیان

 

محمد بن کثیر، سفیان، علی بن اقمر، فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔

 

ابراہیم بن موسی، وکیع، مصعب بن سلیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہیں بھیجا جب میں واپس آپ کی طرف لوٹا تو آپ کھجوریں کھا رہے تھے اور اکڑوں بیٹھے تھے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، شعیب بن عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی ٹیک لگا کر کھاتے نہیں دیکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ دو آدمی آپ کے پیچھے چل رہے ہوں۔

 

پلیٹ کے درمیان سے کھانے کا بیان

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو پلیٹ کے درمیان سے نہ کھائے بلکہ اپنی جانب سے کھائے اس لیے کہ برکت پلیٹ کے درمیان ہوتی ہے۔

 

عمرو بن عثمان، محمد بن عبد الرحمن بن عرق، عبد اللہ بن بسر حضرت عبد اللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک بڑا پیالہ تھا جسے چار آدمی مل کر اٹھاتے تھے اور اسے غرا کہا جاتا تھا۔ پس جب چاشت کی نماز کا وقت ہوا اور لوگوں نے چاشت کی نماز پڑھی تو وہ پیالہ لایا گیا جس میں ثرید بنا ہوا تھا، سب لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے جب لوگوں کا ازدحام ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ایک اعرابی کہنے لگا یہ بیٹھنے کا کون سا طریقہ ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے کریم بندہ بنایا ہے اور مجھے زبردست اور تند خو نہیں بنایا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے اردگرد سے کھاؤ اور اس کے درمیان سے چھوڑ دو تمہارے واسطے اس میں برکت کی جاوے گی۔

 

ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جس پر حرام اشیاء بھی ہوں

 

عثمان بن ابی شیبہ، کثیر، بن ہشام، جعفر، بن برقا، زہری، سالم اپنے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ دو کھانوں سے۔ ایک ایسے دسترخوان پر جس پر شراب پی جا رہی ہو، دوسرے اوندھے منہ، یعنی منہ کے بل لیٹ کر کھانے سے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو جعفر بن برقان نے زہری سے نہیں سنا ہے۔

 

ہارون بن زید بن ابی روقاء، جعفر سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔

 

دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان

 

احمد بن حنبل، سفیان، زہری، ابو بکر بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب کوئی (پانی) پیے تو دائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔

 

محمد بن سلیمان، سلیمان بن بلال، ابو وجزہ، فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے بیٹے نزدیک ہو جاؤ اور اللہ کا نام لے اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھا اور اپنے سامنے سے کھا۔

 

گوشت کھانے کا بیان

 

سعید بن منصور، ابو معشر، ہشام بن عروہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چھرے سے کاٹ کر نہ کھاؤ اس لیے کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے اور اسے دانتوں سے نوچ کر کھاؤ اس لیے کہ یہ طریقہ زیادہ لذت والا اور جلدی ہضم کرنے والا ہے۔

 

محمد بن عیسیٰ، ابن علیہ، عبد الرحمن بن اسحاق ، عبد الرحمن بن معاویہ عثمان بن ابی شیبہ، صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور گوشت لے رہا تھا ہڈی میں سے۔ آپ نے فرمایا کہ ہڈی کو اپنے منہ کے قریب کرو (منہ سے نوچ کر کھاؤ) اس لیے کہ یہ طریقہ زیادہ لذت والا زرد ہضم ہے۔

 

ہارون بن عبد اللہ، ابو داؤد، زہیر، ابو اسحاق ، سعد بن عیاض، عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سب سے زیادہ پسند بکری کے گوشت والی ہڈی تھی۔

 

محمد بن بشار، ابو داؤد، اسی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ آپ کو دست کے گوشت میں ہی زہر دیا گیا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خیال تھا کہ یہودیوں نے آپ کو زہر دیا۔

 

لوکی کھانے کا بیان

 

قعنبی، مالک، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک درزی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانے کی دعوت دی، حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھانے میں گیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب جو کی روٹی لائی گئی اور پڑا ہوا شوربہ لایا گیا اور خشک گوشت کا ٹکڑا لایا گیا حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ رکابی کے اردگرد لوکی (کے ٹکڑے) تلاش کر رہے تھے پس اس کے بعد سے میں ہمیشہ لوکی کو پسند کرتا ہوں۔

 

ثرید کا بیان

 

محمد بن حسان، مبارک بن سعید، عمر بن سعید، اہل بصرہ کا ایک آدمی حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانوں میں سب سے زیادہ روٹی کا ثرید پسند تھا اور حیس کا ثرید بڑا پسند تھا۔

 

کھانے کو گندا کہنا

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب، اپنے والد ہلب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سنا کہ ایک آدمی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا کوئی کھانا ایسا ہے جس سے میں احتراز کروں؟ فرمایا کہ نہیں، تیرے دل کو کوئی ایسی چیز خلجان اور کھٹک میں نہ ڈالے جس میں نصرانیت کا شائبہ ہو۔ (مراد یہ ہے کہ نصرانی لوگ بلا وجہ مختلف حلال چیزوں میں شک و شبہ کرتے رہتے ہیں تو تمہیں ان جیسا کوئی عمل پسند نہیں ہونا چاہیے اور اس کی وجہ سے تمہیں اپنے دل میں کوئی خلجان محسوس نہ کرنا چاہیے۔ )

 

عثمان بن ابی شیبہ، عبد ہ، محمد بن اسحاق ، ابن ابی نجیح، مجاہد، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گندگی اور نجاست کھانے والے جانور کے کھانے اور اس کے دودھ سے منع فرمایا ہے۔

 

ابن مثنی، ابو عامر، ہشام، قتادہ، عکرمہ، ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاست خور جانور کے دودھ سے منع فرمایا ہے۔

 

احمد بن ابی سریح، عبد اللہ بن جہم، عمرو بن ابی قیس، ایوب، نافع سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاست خوار اونٹنی پر سواری کرنے اور اس کے دودھ کو پینے سے منع فرمایا ہے۔

 

گھوڑے کے گوشت کھانے کا حکم

 

سلیمان بن حرب، حماد، عمرو بن دینار، محمد بن علی، جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ خیبر کے دن گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور ہمیں گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں اجازت دے دی۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے غزوہ خیبر کے دن گھوڑے سے، خچر اور گدھے ذبح کیے، پس منع فرما دیا جبکہ گھوڑوں کے بارے میں ہمیں منع نہیں فرمایا۔

 

سعید بن شبیب، حیوۃ بن شریح، بقیہ، ثور بن یزید، صالح بن یحیٰ بن مقدام، بن معدیکرب سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے گھوڑے، خچر، گدھوں کے گوشت کے کھانے سے۔ حیوۃ (جو راوی ہیں اس حدیث کے) انہوں نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ اس درندے کے گوشت سے جو دانتوں والا ہو (یعنی چیر پھاڑ کرنے والا ہو)۔

 

خرگوش کھانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ہشام بن زید، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب میں ایک مضبوط جسم کا لڑکا تھا تو میں نے ایک خرگوش شکار کیا اور اسے بھونا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا پچھلا دم والا حصہ میرے ہاتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیجا، میں اسے لے کر آپ پاس آیا تو آپ نے اسے قبول فرما لیا۔

 

یحیٰ بن خلف، روح بن عبادہ، محمد بن خالد، کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد خالد بن الحویرث سے سنا کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ صفاح کے مقام پر تھے، محمد کہتے ہیں کہ صفاح مکہ مکرمہ میں ایک جگہ ہے کہ ایک شخص نے خرگوش کا شکار کر کے لیا اور کہنے لگا اے عبد اللہ بن عمر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ خرگوش ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھی لایا گیا تو آپ نے اسے تناول نہیں فرمایا لیکن اس کے باوجود اس کے کھانے سے منع بھی نہیں فرمایا اور آپ کا خیال تھا کہ اسے حیض آتا ہے۔ (ائمہ کرام اس کے حلال ہونے پر متفق ہیں کہ عمل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے حلال ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر یہ ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کو بھی اس کے کھانے سے منع فرماتے۔ )

 

گوہ کھانے کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان کی خالہ نے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کچھ گھی، پنیر، اور گوہ بھیجی۔ پس حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گہی اور پنیر میں سے تناول کیا اور گوہ کو چھوڑ دیا گھن آنے کی وجہ سے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دستر خوان پر گوہ کو کھایا گیا اور اگر وہ حرام ہوتی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابو امامہ بن سہل بن حنیف، عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے آپ کے سامنے ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو بعض عورتیں جو وہاں پر موجود تھیں انہوں نے کہا کہ حضور کو بتلاؤ (کہ یہ کیا ہے) کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کھانا چاہتے ہیں پس لوگوں نے کہا یہ گوہ ہے چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دست مبارک اٹھا لیا۔ خالد بن ولید کہتے ہیں میں نے عرض کیا کیا یہ گوہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چوں کہ یہ میری قوم کی سر زمین میں نہیں ہوتی اس واسطے مجھے اس سے اپنے دل میں نفرت محسوس ہوئی۔ حضرت خالد کہتے ہیں کہ پس میں نے اسے اپنی طرف گھسیٹا اور اسے کھایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رہے تھے۔

 

عمرو بن عون، خالد بن حصین، زید بن وہب، ثابت بن ودیعہ، فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک لشکر میں تھے کہ ہم نے چند گوہ حاصل کیے کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک گوہ کو بھونا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے گیا اور اسے میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا پس آپ نے ایک لکڑی سے اپنی انگلیوں کو گنا اس سے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ کو مسخ کر کے جانور بنا کر زمین میں چھوڑ دیا گیا تھا اور مجھے علم نہیں کہ وہ کون سے جانور ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اسے نہ کھایا اور نہ ہی منع فرمایا۔

 

محمد بن عوف، حکم بن نافع، ابن عیاش، ضمضم بن زرعہ، شریض بن عبید ابو راشد سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گوہ کھانے سے منع فرمایا ہے۔

 

حباری کھانے کے بیان میں

 

فضل بن سہل، ابراہیم، بن عبد الرحمن بن مہدی، برید، بن عمر بن سفینہ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا۔

 

حشرات الارض کے کھانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، غالب بن حجرہ، ملقام بن تلب، اپنے والد تلب سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (کافی عرصہ) رہا لیکن میں نے حشرات الارض کے بارے میں حرمت کا حکم نہیں سنا۔

ابو ثور ابراہیم بن خالد، سعید بن منصور، عبد العزیز بن محمد عیسیٰ بن نمیلہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا تو آپ سے قنفذ کے بارے میں پوچھا گیا تو ابن عمر نے قرآن کریم کی آیت( قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا) 6۔ الانعام:145)، پڑھی راوی کہتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا ہے حضور کے سامنے اس کا تذکرہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ناپاک جانور ہے گندے اور ناپاک جانوروں میں سے۔ تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا فرمایا ہے تو بس پھر ایسا ہی ہے جیسا آپ نے فرمایا (یعنی ناجائز) جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔

 

بجو کھانے کا بیان

 

محمد بن عبد اللہ، جریر بن حازم، عبد اللہ بن عبید، عبد الرحمن بن ابی عمارہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بجو کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ شکار اور اگر محرم (حرام کی حالت والا شخص) اسے شکار کرے تو ایک دنبہ (دم) میں دیا جائے گا۔

 

درندوں کے کھانے کا بیان

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابو ادریس، ابو ثعلبہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے ہر دانتوں والے (چیر پھاڑ کرنے والے) درندوں کے کھانے سے۔

 

مسدد، ابو عوانہ، ابو بشر، میمون بن مہران، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہر دانتوں والے درندوں کے کھانے سے اور پرندوں میں ہر پنجہ (سے شکار کرنے والے) کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

 

محمد بن مصفی، محمد بن حرب، مروان، بن روبہ، عبد الرحمن بن ابی عوف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا آگاہ رہو درندوں میں سے دانتوں (سے چیر پھاڑ کرنے) والے جانور حلال نہیں ہیں اور نہ ہی شہری گدھا جائز ہے اور نہ ہی کسی ذمی کافر کا راستہ میں پڑا ہو مال جائز ہے الا یہ اس نے اسے بیکار سمجھ کر اس سے لاپرواہی کر دی ہو۔ اور جو بھی شخص کسی قوم کا مہمان ہوا اور پھر وہ قوم اس کی مہمانداری نہ کرے تو بے شک اس کے لیے جائز ہے کہ زبردستی ان سے اپنی مہمانداری کے بقدر وصول کرے (یہ ابتداء اسلام میں حکم تھا اب منسوخ ہو گیا)۔

 

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، ابی عروبہ، علی بن حکم، میمون بن مہران، سعید بن جبیر، ابن عباس سے مذکورہ بالا حدیث ہی مروی ہے۔

 

محمد بن بشار، ابن ابی عروبہ، حکم، میمون بن مہران، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ خیبر کے دن ہر دانت والے درندے کے کھانے سے اور پنجہ سے شکار کرنے والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

 

عمرو بن عثمان، محمد بن حرب، ابو سلمہ، سلیمان بن سلیم، صالح بن یحیٰ بن مقدام سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد میں شریک تھا خیبر کے موقع پر۔ آپ کے پاس خیبر کے یہود آئے اور شکایت کی کہ لوگوں نے ان کے جانوروں کے باڑے جلدی میں لوٹ لیے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خبردار! ذمی کافروں کے اموال ناحق لینا جائز نہیں اور تم پر آبادی کے گدھے، گھوڑے اور خچر کھانا حرام ہے۔ اور ہر دانت سے شکار کرنے والا درندہ اور ہر پنجہ سے شکار کرنے والا پرندہ ناجائز ہے۔

 

احمد بن حنبل، محمد بن عبد الملک، عبد الرزاق، عمرو بن زید سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلی کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔ محمد بن عبد الملک (ایک راوی ہیں اس حدیث کے) فرمایا کہ بلی کے کھانے سے اور اس کی قیمت کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

 

آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان

 

عبد اللہ بن ابی زیاد، عبید اللہ، اسرائیل، منصور، عبید بن ابی حسن، عبد الرحمن، غالب، بن ابجر، فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک مرتبہ قحط لاحق ہو گیا تو میرے پاس اپنے گھر والوں کو کھلانے کے لیے سوائے چند گدھوں کے اور کچھ نہ تھا اور اس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما چکے تھے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں قحط لاحق ہو گیا ہے اور میرے مال میں (گھر والوں کو کھلانے کے لیے سوائے چند فربہ گدھوں کے کچھ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ اپنے موٹے گدھوں میں سے۔ اس لیے کہ میں نے بیشک اس لیے انہیں حرام کیا تھا کہ یہ بستی میں عموماً گھومتے رہتے ہیں۔

 

ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ہم گدھوں کا گوشت کھائیں، اور ہمیں حکم دیا کہ گھوڑوں کا گوشت کھائیں، عمر بن دینا فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابو الشعشاء کو بتلائی تو انہوں نے فرمایا کہ حکم غفاری بھی یہی فرماتے تھے لیکن اس بحر علم (حضرت ابن عباس) نے اس کا انکار فرمایا ہے (کہ گھوڑے حلال ہیں)

 

سہل بن بکار، وہیب، ابن طاؤس، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے اور نجاست خور جانور پر سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے منع فرمایا ہے۔

 

ٹڈی کھانے کا بیان

 

محمد بن فرج، ابن زبر، سلیمان، ابو عثمان سلمان سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ٹڈی کے بارے میں سوال کیا گیا فرمایا کہ اللہ تعالی کے بہت سے لشکر ایسے ہیں کہ میں نہ انہیں کھاتا ہوں اور نہ ہی انہیں حرام قرار دیتا ہوں۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو معتمر نے اپنے والد سے ابو عثمان النہدی عن النبی کے طریق سے روایت کیا ہے اور سلمان فارسی کا ذکر نہیں کیا۔

 

نصر بن علی، علی بن عبد اللہ، زکریا بن یحیٰ بن عمارہ، ابو عوام، ابو عثمان سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ٹڈی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ایسا ہی فرمایا کہ گزشتہ حدیث کے مثل۔ لیکن جنود کے بجائے جند اللہ فرمایا۔ علی بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ابو العوام الجزار کا نام فائد تھا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے ابو العوام سے ابو عثمان نہدی عن النبی کے طریق سے بیان کیا ہے اور سلمان کا ذکر نہیں کیا۔

 

پانی پر تیرتی ہوئی مردہ حالت میں مچھلی کا حکم

 

احمد بن عبد ہ، یحیٰ بن سلیم، اسماعیل، بن امیہ، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سمندر جو کچھ از خود ڈال دے یا اس کا پانی کم ہو جائے تو اسے کھا لیا کرو اور جو اس میں مر جائے اور پانی کے اوپر آ جائے تو اسے مت کھاؤ، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالی عنہ، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ پر اسے موقوف کیا ہے اور اس حدیث کا ایک طریق ابن ابی ذئب عن ابی الزبیر عن جابر عند النبی والا ہے اسے سنداً بھی روایت کیا گیا ہے لیکن وہ من وجہ ضعیف ہے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو یعفور، ابن ابی اوفی، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے سنا میں نے ان سے ٹڈی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چھ یا سات غزوات میں شرکت کی پس ہم آپ کے ساتھ اسے کھایا کرتے تھے۔

 

جو مردار کھانے پر مجبور ہو جائے

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ حرہ میں آیا اس سے ایک آدمی کہنے لگا میری ایک اونٹنی گم ہو گئی ہے اگر تم اسے کہیں پاؤ تو اپنے پاس روک لینا، پس اس نے اونٹنی پالی لیکن اس کا مالک نہیں ملا۔ اس اثناء میں وہ اونٹنی بیمار ہو گئی تو اس کی بیوی نے کہا کہ اسے ذبح کر ڈالو۔ اس نے انکار کر دیا حتی کے وہ اونٹنی مر گئی پھر اس کی بیوی نے کہا کہ اس کی کھال اتارو تاکہ اندر سے اس کی چربی اور اس کے گوشت کو نکال کر ہم خشک کر لیں اور اسے کھائیں وہ کہنے لگا یہاں تک کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں سوال نہ کر لوں۔ پس وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی مستغنی کرنے والی چیز ہے جو تمہیں اس سے مستغنی کر دے اس نے کہا کہ نہیں فرمایا کہ پس اسے کھالو، راوی کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں اونٹنی کا مالک آ گیا تو اس سے سارا قصہ بیان کیا وہ کہنے لگا کہ تم نے اسے ذبح کیوں نہیں کیا وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ سے شرم کی وجہ سے اسے ذبح نہیں کیا۔

 

ہارون بن عبد اللہ، فضل بن دکین، عقبہ بن وہب بن عقبہ، فرماتے ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لے گئے اور عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے کیا مردار کا کھانا حلال کرتے ہو؟ فرمایا کہ تمہارا کھانا کیا؟ انہوں نے کہا کہ شام کو پیالہ بھر دودھ اور صبح کو پیالہ بھر دودھ۔ ابو نعیم فرماتے ہیں کہ عقبہ بن وہب نے اس کی تشریح میں مجھ سے بیان کیا صبح کو ایک پیالہ اور شام کو ایک پیالہ انہوں نے کہا کہ میرے باپ کی قسم میں بھوکا ہی رہتا ہوں۔ چنانچہ اس حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے لیے مردار کو حلال قرار دے دیا۔

 

دو طرح کے کھانے ایک وقت میں جمع کرنے کا بیان

 

محمد بن عبد العزیز بن ابی رزمہ، فضل بن موسی، حسین بن واقد، ایوب، نافع سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سفید روٹی گندم کے آٹے کی جو دودھ اور گھی میں چپڑی ہو مجھے پسند ہے کہ میرے پاس ہو، اس اثناء میں ایک آدمی لوگوں میں سے کھڑا ہوا اور ایسی روٹی بنا کر حضور کی خدمت میں لایا، آپ نے پوچھا کہ اس گھی کو کس چیز میں رکھا تھا وہ کہنے لگا کہ گوہ کی کھال کے مشکیزہ میں، فرمایا کہ اسے اٹھا لو۔ (اس کراہت کی وجہ سے جو آپ کو گوہ سے تھی)۔

 

پنیر کھانے کا بیان

 

یحیٰ بن موسی، ابراہیم بن عیینہ، عمرو بن منصور، شعبی، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تبوک میں پنیر لایا گیا آپ نے چھڑی منگوائی اور بسم اللہ پڑھ کر اسے کاٹا۔

 

سرکہ کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، سفیان، محارب، جابر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ بہترین سالن سرکہ ہے۔

 

ابو ولید، مسلم بن ابراہیم، مثنی بن سعید، طلحہ بن نافع، جابر اس سند سے بھی یہی حدیث منقول ہے۔

 

لہسن کھانے کا بیان

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عطاء، ابن ابی رباح، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے لہسن کھایا یا پیاز کھایا تو وہ ہم سے الگ ہو جائے یا ہماری مسجد سے نکل جائے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک برتن لایا جس میں مختلف سبزیوں کا ساگ بنا ہوا تھا، آپ نے اس میں پیاز وغیرہ کی بو محسوس کی تو اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتلایا گیا کہ اس میں کیا سبزیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے فلاں صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کے جو آپ کے ساتھ تھے قریب کر دیا جب آپ نے دیکھا کہ وہ صحابی اس کا کھانا پسند کر رہے ہیں تو فرمایا کہ اسے کھاؤ (میں اس لیے نہیں کھاتا) کہ ان سے سرگوشی کرتا ہوں جن سے تم نہیں کرتے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ابن وہب نے بدر کی تفسیر طباق سے کی۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو بکر بن سوادہ ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لہسن کا تذکرہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دونوں میں بھی زیادہ سخت لہسن ہے (بدبو کے اعتبار سے) کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حرام قرار دیتے ہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اسے کھایا کرو۔ تم میں سے جو اسے کھائے تو وہ ہماری اس مسجد کے قریب اس وقت تک نہ آئے جب تک اس کے منہ سے لہسن کی بدبو نہ چلی جائے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، عدی بن ثابت، زر بن حبیش، خذیفہ سے روایت ہے زر بن حبیش رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دنوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہو گا اور جو شخص اس گندی سبزی (لہسن یا پیاز) کو کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے تین دن تک۔

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، ابن عمر سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے اس درخت (لہسن یا پیاز میں سے کھایا) وہ مساجد کے قریب نہ آئے۔

 

شیبان بن فروخ، ابو ہلال، حمید، بن ہلال، ابو بروہ، مغیرہ بن شعبہ، رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ لہسن کھا لیا پھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد آ گیا اور میں ایک رکعت کا مسبوق بن گیا تھا (ایک رکعت نکل گئی تھی) جب میں مسجد میں داخل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لہسن کی بو محسوس کر لی، جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جس شخص نے یہ درخت (لہسن سے) کھایا وہ اس کی بو ختم ہونے تک ہمارے قریب نہ آئے جب میں نے اپنی نماز پوری کی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کی قسم اپنا دست مبارک عطا فرمائیے (یعنی اپنا ہاتھ بڑھائیے) پس میں نے آپ کا دست مبارک اپنی قمیص کی آستین میں داخل کر دیا سینے تک تو میرا سینہ بندھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تیرے لیے عذر ہے۔

 

عباس بن عبد العظیم، ابو عامر، عبد الملک بن عمر، خالد بن میسرہ، عطاء بن معاویہ بن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں درختوں (لہسن و پیاز) سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے جو انہیں کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب ہرگز نہ آئے اور فرمایا کہ اگر تمہیں اسے ضرور ہی کھانا ہو تو اسے پکا کر انہیں مادو (یعنی ان کی بدبو کو پکا کر زائل کر کے پھر کھاؤ) یعنی پیاز اور لہسن۔

 

مسدد، جراح، ابو وکیع، ابو اسحاق ، شریک، علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ منع کیا گیا لہسن کے کھانے سے الا یہ کہ پکایا ہوا ہو، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شریک بن حنبل ہیں۔ (جن کی روایت یہ ہے)۔

 

ابراہیم بن موسی، حیوہ بن شریح، بقیہ، بحیر، خالد، ابی زیاد، خیار بن سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پیاز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا بیشک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو آخری کھانا تناول فرمایا اس کھانے میں پیاز تھی۔

 

کھجور کا بیان

 

ہارون بن عبد اللہ بن عمر بن حفص، محمد بن ابی یحییٰ، یزید، یوسف بن عبد اللہ بن سلام حضرت یوسف بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ نے جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور کو رکھا اور فرمایا کہ یہ (کھجور) سالن ہے اس (روٹی) کا ۔

ولید بن عتبہ، مروان بن محمد، سلیمان بن بلال، ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ گھر جس میں کھجور نہ ہو اس کے رہنے والے بھوکے ہیں

 

کھجور کھاتے وقت اسے دیکھ کر کھانا چاہیے

 

محمد بن عمرو بن حیلہ، سلم بن قتیبہ، ہمام، اسحاق ، بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پرانی کھجور لائی گئی تو آپ نے اسے اچھی طرح دیکھا اور اس میں سسریاں نکالنا شروع کر دیا۔

محمد بن کثیر، ہمام، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کیڑوں والی کھجوریں لائی جاتی تھیں، آگے پھر سابقہ حدیث ہی کے مانند بیان کیا۔

 

ایک دفعہ میں کئی کئی کھجوریں ملا کر کھانا

 

واصل بن عبد الاعلی، ابن فضیل، ابو اسحاق ، جبلہ بن سحیم، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی کئی کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ تم اپنے ساتھ کھانے والوں سے اجازت لے لو۔

 

دو طرح کے کھانوں کو ملا کر کھانے کا بیان

 

حفص بن عمر، ابراہیم بن سعد، عبد اللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ککڑی کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے۔

 

سعید بن نصیر، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تربوز کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کھجور کی گرمی سے توڑتے ہیں

 

محمد بن وزیر، ولید بن مزید، فرماتے ہیں کہ مجھ سے سلیم رضی اللہ تعالی عنہ بن عامر نے بسر کے دو بیٹوں جو سلمی تھے سے بیان کیا، وہ دونوں کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے مکھن اور کھجور آپ کو پیش کیا اور آپ کھجور اور مکھن بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔

 

اہل کتاب کے برتن استعمال کرنے کا حکم

 

عثمان بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، اسماعیل، برد بن سنان، عطاء، جابر فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ساتھ غزوات کیا کرتے تو مشرکین کے برتن اور شراب برتن وغیرہ ہمیں ملا کرتے تھے پس ہم ان سے فائدہ اٹھاتے تو حضور نے کبھی اس عیب نہیں لگایا۔ (کہ یہ کرنا جائز نہیں ہے ایسا کبھی نہیں فرمایا )۔

 

نصر بن عاصم، محمد بن شعیب، عبد اللہ بن علاء بن زبر، ابو عبید اللہ مسلم بن مشکم، ابو ثعلبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرتے ہوئے فرمایا ہم اہل کتاب کے پڑوسی ہیں اور وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر کا گوشت پکاتے ہیں۔ اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں (اگر ہم ان کے برتن استعمال کریں تو کیا حکم ہے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں ان کے برتنوں کے علاوہ دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں پانی سے اچھی طرح دھو لو اور (ان میں) کھاؤ پیو۔

 

سمندری جانوروں کے کھانے کا بیان

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، ابو زبیر، جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بھیجا اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ بن الجراح کو ہمارا امیر بنایا قریش کے ایک قافلہ کے تعاقب کے لیے ہم نے کھجوروں کا ایک تھیلا اپنے زاد راہ کے طور پر لیا اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہ تھا، پس حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ ہمیں (روزانہ) ایک کھجور دیا کرتے اور ہم اسے چوستے رہتے اس طرح جیسے بچہ چوستا ہے۔ (تا کہ جلدی ختم نہ ہو جائے اور منہ میں کسی کھانے کی چیز کا موجودگی کا احساس رہے) پھر ہم اس پر پانی لی لیتے تو یہ ہمارے لیے رات تک دن بھر کو کافی ہوتا اور اپنی لکڑیوں سے (جنگلی درختوں کے) پتے مار گراتے اور انہیں پانی میں گیلا کر کے کھایا کرتے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم سمندر کے ساحل پر چلے جا رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے ایک ریت کا ٹیلہ سا بلند ہوا ہم اس کے قریب آئے تو (معلوم ہوا کہ) وہ ایک سمندری جانور تھا جسے عنبرہ کہا جاتا تھا۔ یہ ایک خاص قسم کی مچھلی تھی)۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ یہ مردار ہے اور پیغمبر ہیں اور اللہ کے راستے اور اللہ کے راستے میں ہیں اور بیشک تم مجبور و مضطر ہو گئے ہو لہذا اسے کھاؤ۔ چنانچہ ہم نے وہاں ایک ماہ قیام کیا اور ہم تقریباً افراد تھے (اور ہم نے اسے اتنا کھایا کہ) موٹے ہو گئے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس واپس آئے تو اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ رزق تھا جو اللہ نے تمہارے واسطے نکالا تھا کیا اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تمہارے پاس کہ اس میں سے ہمیں کھلاؤ تو ہم نے اس کا گوشت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا۔

 

چوہا اگر گھی میں گر جائے تو کیا حکم ہے

 

مسدد، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گر گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا گیا تو فرمایا کہ اس کے اردگرد کو پھینک ڈالو اور اسے کھالو۔

 

احمد بن صالح، حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر گھی میں چوہا گر جائے تو اگر وہ گھی جما ہوا ہے تو اسے یعنی چوہے کو اور اس کے اردگرد کو الٹ دو اور اگر پگھلا ہوا تو اس کے قریب مت جاؤ۔ حسن بن علی کہتے ہیں کہ عبد الرزاق نے کہا کہ بعض اوقات معمر نے زہری عن عبد اللہ بن عبد اللہ، عن ابن عباس عن النبی کے طریق سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔

 

احمد بن صالح، عبد الرزاق، عبد الرحمن بن بوذویہ، معمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس سند سے بھی سابقہ حدیث منقول ہے۔

 

مکھی کھانے میں گر جائے تو کیا حکم ہے؟

 

احمد بن حنبل، بشر، ابن مفضل، ابن عجلان سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں گر جائے تو اسے ڈبو دو۔ (کھانے میں) اس لیے کہ اس کے دونوں پروں میں سے ایک میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء ہے اور بیشک وہ اپنا بیماری والا پر ڈالتی ہے لہذا چاہیے کہ اسے پورا غوطہ دے دے۔

 

جو نوالہ گر جائے اس کا کیا حکم ہے؟

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کھانا تناول فرماتے تھے تو اپنی تین انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے تھے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اس سے گرد مٹی دور کر دے اور کھا لے اور اسے شیطان کے واسطے نہ چھوڑے۔ اور ہمیں حکم دیا کہ ہم پلیٹ کو پورا صاف کریں اور فرمایا کہ تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کھانے کے کون سے حصہ میں اس کے لیے برکت رکھی گئی ہے۔

 

نوکر کو اپنے ساتھ کھلانا چاہیے

 

قعنبی، داؤد بن قیس، موسیٰ بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا بنائے اور پھر اسے لے آئے اس حال میں کہ وہ اس کھانے کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے تو مالک کو چاہیے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھائے اور کھلائے اور اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ میں ایک یا دو نوالے ہی رکھ دے۔

 

کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرنا

 

مسدد، یحییٰ، ابن جریج، عطاء، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنے ہاتھ کو ہرگز رومال سے صاف نہ کرے یہاں تک کہ انگلیوں کو چاٹ نہ لے یا چٹوا دے۔

 

نفیل، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، عبد الرحمن بن سعد، ابن کعب بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے ہیں اور اپنا ہاتھ اس وقت تک صاف نہ فرماتے جب تک کہ اسے چاٹ نہ لیتے۔

 

کھانے کے بعد کیا کہے

 

مسدد، یحییٰ، ثور، خالد بن معدان، ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول تھا کہ جب ان کے سامنے دسترخوان اٹھا لیا جاتا تو فرماتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں بہت زیادہ، پاکیزہ بابرکت کھانے کی جو نہ کفایت کرے اور نہ چھوڑا جائے اور اے ہمارے پروردگار ہم اس سے بے پرواہ نہیں ہیں۔

 

محمد بن علاع، وکیع، سفیان، ابو ہاشم، اسماعیل بن رباح سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تو فرماتے، تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، سعید بن ابی ایوب، ابی عقیل، ابو عبد الرحمن، حبلی، ابو ایوب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کھاتے یا پیتے تو فرماتے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے کھلایا پلایا اور اسے جسم میں پیوست کیا اور اس کے نکلنے کی راہ بنائی۔

 

کھانے سے فارغ ہو کر ہاتھ دھونا

 

احمد بن یونس، زہیر، سہیل سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص چکنے ہاتھ لے کر بغیر دھوئے سو جائے پھر اسے کوئی نقصان لاحق ہو جائے تو سوائے اپنے نفس کو ملامت کرنے کے کسی کو ملامت نہ کرے۔

 

دعوت کرنے والے کے لیے دعا کرنا

 

محمد بن بشار، ابو احمد، سفیان، یزید بن ابی خالد، جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ابو الہیثم رضی اللہ تعالی عنہ بن التیہان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھانا بنایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت دی جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو فرمایا کہ اپنے بھائی کو اس کھانے کا بدلہ دو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا بدلہ کیا ہے؟ فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی کے گھر میں جائے اور اس کا کھانا کھائے اس کا پانی پیے اور اس کے واسطے دعا کرے یہی اس کا بدلہ ہے۔

 

مخلد بن خالد، عبد الرزاق، معمر، ثابت بن انس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ کے سامنے روٹی اور زیتون کا تیل لائے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھایا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے پاس روزہ دار افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور فرشتے تم پر رحمت بھیجیں۔

 

جن جانوروں کی حرمت کا ذکر قرآن میں آیا

 

محمد بن داؤد بن صبیح ، فضل بن دکین ، محمد بن شریک مکی ، عمرو بن دینار ، ابو الشعثاء ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جاہلیت کے لوگ کچھ چیزیں کھالیا کرتے تھے اور کچھ چھوڑ دیا کرتے تھے انہیں گندا اور ناپاک سمجھ کر پس اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا اور اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کے حلال کو حلال بتلایا اور اس کے حرام کو حرام قرار دیا پس جو حلال کیا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی حلال کیا اور آپ نے حرام قرار دے دیا وہ قیامت تک حرام رہے گا اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہے اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی آپ کہہ دیجئے جو احکام بذریعہ وحی میرے اوپر نازل کئے گئے ہیں ان میں سے کسی کھانے والے پر میں کوئی چیز حرام نہیں پاتا وہ اسے کھائے سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو ۔ آخر آیت تک ۔

 

مسدد، یحییٰ، زکریا، عامر، خارجہ بن صلت، اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور اسلام لائے پھر جب آپ کے پاس سے واپس لوٹے تو ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کے درمیان ایک پاگل آدمی زنجیروں سے بندھا پڑا تھا۔ اس پاگل کے والیوں نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک خیر (دین) لے کر آئے پس کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے ہم اس کا علاج کریں میں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا تو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور انہیں بتلایا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا تھا، جبکہ مسدد نے اپنی روایت میں ایک دوسری جگہ پر کہا کہ کیا تو نے اس کے علاوہ کچھ کہا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا کہ اسے لے لو۔ قسم ہے میری عمر کی لوگ باطل طریقہ سے دم درود کر کے کھا لیتے ہیں تم نے تو حق طریقہ سے تعویذ وغیرہ کر کے کھایا

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، عبد اللہ بن ابی سفر، شعبی، خارجہ بن صلت اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مجنون آدمی پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر تین مرتبہ دم کیا صبح شام۔ جب بھی اسے ختم کرتے تو اپنا تھوک جمع کر کے اس پر تھتکار دیتے تو گویا وہ گرہوں سے آزاد ہو گیا تو اس آدمی کے ورثاء نے انہیں بکریاں دیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے پھر آخر تک مسدد کی روایت کے مطابق اس حدیث کو بیان کیا۔

 

 

 

 

طب کا بیان

 

 

علاج معالجہ کرنے والے آدمی کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، زیاد بن علاقہ، اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ صحابہ کرام اس طرح خاموش بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں پس میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا اچانک ادھر ادھر سے دیہاتی آنا شروع ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا ہم علاج معالجہ کیا کریں؟ فرمایا کہ علاج معالجہ کیا کرو اس لیے کہ اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں رکھی مگر یہ کہ اس کا علاج بھی رکھا ہے سوائے ایک بیماری کے (یعنی بڑھاپا) جس کا کوئی علاج نہیں۔

 

پرہیز کا بیان

 

ہارون بن عبد اللہ، ابو داؤد، ابو عامر، فلیح بن سلیمان، ایوب بن عبد الرحمن بن صعصعہ، یعقوب بن ابی یعقوب فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت علی کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے، حضرت علی ابھی بیماری سے اٹھے تھے (جس کی وجہ سے ان میں کم زوری تھی) اور ہمارے پاس کھجور کے چند خوشے لٹکے رہے تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر اس میں سے کھانا شروع کر دیا حضرت علی بھی کھانے کے لیے کھڑے ہو گئے تو حضور نے حضرت علی کو کہنا شروع کیا کہ ٹھہر جاؤ تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو، کمزور ہو، یہاں تک کہ حضرت علی رک گئے ام المنذر فرماتی ہیں کہ میں نے جو اور انڈے بنائے تھے وہ لے آئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی اس میں کھاؤ اس لیے کہ اس میں تمہارے لیے زیادہ فائدہ ہے۔

 

پچھنے لگانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو ان میں سے اگر کسی میں خیر ہے تو وہ پچھنے لگانا ہے۔

 

محمد بن وزیر، یحییٰ، عبد الرحمن بن ابی موال، اپنے مولا سے اور وہ اپنی دادی حضرت سلمی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خادمہ تھیں سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کوئی بھی اپنے سر میں درد کی شکایت نہ کرتا الا یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے یہی فرماتے کہ پچھنے لگواؤ اور دونوں ٹانگوں میں درد کی شکایت نہ لاتا مگر یہ کہ اسے فرماتے کہ مہندی لگاؤ۔

 

پچھنے کی جگہ کا بیان

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، کثیر بن عبید، ولید بن ابن ثوبان، ابی کبشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم اپنی مانگ میں پچھنے لگواتے تھے اور اپنے کندھوں کے درمیان لگواتے تھے اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس نے ان خونوں کو نکلوایا تو اسے کسی بیماری کے لیے دوا نہ کرنا نقصان نہیں پہنچائے گا۔

 

مسلم بن ابراہیم، جریر، قتادہ، انس فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے گردن کے پٹھوں کے درمیان اور گردن کے قریب تین مرتبہ پچھنے لگوائے۔ معمر کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ پچھنے لگوائے تو میرے حواس مختل ہو گئے حتی کہ مجھے نماز میں سورۃ فاتحہ بتلائی گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مانگ میں پچھنے لگاتے تھے۔

 

پچھنے لگوانا کب مستحب ہے

 

ابو توبہ، ربیع بن نافع، سعید بن عبد الرحمن، سہیل، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے تاریخوں میں پچھنے لگوائے تو اس کے لیے ہر بیماری سے شفا ہے۔

موسیٰ بن اسماعیل، ابو بکر بکار بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ مجھے میری پھوپھی کیسہ بنت ابو بکرہ نے بتلایا کہ ان کے والد نے اپنے گھر والوں کو منع کیا تھا پچھنے لگوانے سے منگل کے روز، اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے تھے کہ منگل کا دن خونی دن ہے اور اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں خون نکلنے سے انسان تندرست نہیں ہوتا۔

 

رگ کاٹنے اور پچھنے لگانے کی جگہ کا بیان

 

محمد بن سلیمان، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان، جابر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس طبیب کو بھیجا جس نے ان کی رگ کاٹی (فاسد خون نکالنے کے لیے)۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکلیف کی وجہ سے سے اپنے کولھے میں پچھنے لگوائے۔

 

داغ لگانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، مطرف، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے داغ لگانے سے (زخم کو بند کرنے لیے) منع فرمایا ہم نے داغ لگایا تو نہ ہی ہمیں فائدہ ہوا اور نہ ہی ہم کامیاب ہوئے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابی زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سعد بن معاذ کو ان کے تیر کے زخم کی وجہ سے داغ لگایا

 

ناک میں دوا ڈالنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، احمد بن اسحاق ، وہیب، عبید اللہ بن طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ناک میں دوا ڈالی۔

 

نشرہ کی ممانعت

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، عقیل بن معقل، وہب بن منبہ، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نشرہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ شیطانی عمل ہے۔

 

زہر کی سمیت کو دور کرنے کا بیان

 

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، عبد اللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، شرحبیل بن یزید، عبد الرحمن بن رافع، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں جو میں کرتا ہوں اس بات سے کہ اگر میں تریاق پی لوں یا (خلاف شرع) تعویذ وغیرہ (گلے میں) لٹکا لوں یا اپنی جانب سے شعار کہوں۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خاص تھا اور آپ نے ایک قوم کو تریاق پینے کی اجازت دی۔

 

مکروہ ادویہ کا سامان

 

محمد بن عبادہ، یزید بن ہارون، اسماعیل بن عیاش، ثعلبہ بن مسلم، ابو عمران فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں نازل فرمائے ہیں اور ہر بیماری کی دوا بھی رکھی ہے لہذا (بیماری میں) علاج کیا کرو اور حرام طریقہ سے علاج نہ کیا کرو۔

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابن ابی ذئب، سعید بن خالد، سعید بن مسیب، عبد الرحمن بن عثمان سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مینڈک کو دوا میں ڈالنے کے متعلق دریافت کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طبیب کو مینڈک کے قتل سے منع فرمایا۔

 

ہارون بن عبد اللہ، محمد بن بشر، یونس بن ابی اسحاق، مجاہد، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ناپاک دوا کے استعمال سے منع فرمایا ہے

 

احمد بن حنبل، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص (دانستہ) زہر پیے گا تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور اسے پئے گا وہ جہنم کی آگ میں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، سمال، علقمہ بن وائل، اپنے والد وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ طارق بن سوید نے یا سوید بن طارق نے (راوی کو شک ہے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے انہیں منع فرما دیا۔ انہوں نے پھر سوال کیا تو آپ نے پھر منع فرما دیا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی وہ تو دوا ہے فرمایا کہ نہیں وہ تو بیماری ہے۔

 

عجوہ کھجور کا بیان

 

اسحاق بن اسماعیل، سفیان، ابن ابی نجیح، مجاہد، سعد، فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میری چھاتیوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے قلب میں محسوس کی پھر آپ نے فرمایا کہ تم دل کے مریض ہو حارث کلیدہ کے پاس جاؤ جو بنی ثقیف کا بھائی ہے وہ علاج کرنے والا آدمی ہے پس اسے چاہیے کہ وہ مدینہ منورہ کی عجوہ کھجوریں لے کر اور انہیں ان کی گٹھلیوں سمیت پیس لے اور ان کا مالیدہ سا بنا کر تمہارے منہ میں ڈالے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہاشم بن ہاشم، عامر بن ابی وقاص، اپنے والد حضرت ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے صبح کے وقت سات دانے عجوہ کھجور کے کھا لیے اسے اس دن کوئی زہر اور کوئی سحر نقصان نہیں پہنچائے گا۔

 

بچوں کے حلق کو دبانے کا بیان

 

مسدد، حامد بن یحییٰ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ام قیس بنت محصن، فرماتی ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئی اپنے بیٹے کو لے کر جس کا میں نے حلق دبایا تھا عذرہ بیماری کی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ تم اپنی اولادوں کے حلق کو اس طرح کیوں دباتی ہوں تمہارے لیے ضروری ہے کہ عود ہندی لیا کرو اس لیے کہ اس میں سات طرح کی شفا ہے ان میں سے ایک ذات الجنب ہے عذرہ بیماری میں اسے ناک میں ڈالا جائے، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ عود سے مراد قسط (ہندی) ہے۔

 

سرمہ لگانے کا بیان

 

احمد بن یونس، زہیر، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنے کپڑوں میں سفید پہنا کرو کیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہتر ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو اور بیشک تمہارے سرموں میں سب سے بہتر سرمہ اثمد ہے جو نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔

 

نظر لگنے کا بیان

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے براہ راست بیان کی کہ آپ نے فرمایا کہ نظر لگنا حق ہے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ (حضور کے زمانہ میں) نظر لگانے والے کو حکم دیا جاتا وہ وضو کرتا اور پھر اس مستعمل پانی سے نظر جسے لگی ہے اسے غسل دیا جاتا ہے۔

 

مدت رضاعت میں جماع کرنے کا بیان

 

ربیع بن نافع، ابو توبہ، محمد بن مہاجر، اسماء بنت یزید بن سکن فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل مت کیا کرو اس لیے کہ مدت رضاعت میں جماع کرنا شہسوار کو اس کے گھوڑے سے پھسلا دیتا ہے۔

 

قعنبی، مالک، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عروہ بن زبیرحضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ جدامہ اسدیہ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں مدت رضاعت میں جماع سے منع کروں یہاں تک کہ میرے سامنے تذکرہ کیا گیا اہل روم و فارس کا اسی طرح کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچتا ہے، مالک فرماتے ہیں کہ، غیلہ، یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے حالت رضاعت میں جماع کرے۔

 

تعویذ گنڈے گلے میں لٹکانے کا بیان

 

محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، عمر بن مرہ، یحیٰ بن جزار، ابن اخی زینب، عبد اللہ بن زینب، عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک تعویذ، گنڈے وغیرہ سب شرک ہیں، حضرت زینب کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا تم کہتے ہو، خدا کی قسم میری آنکھ درد کی شدت سے باہر نکلنے کو تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی وہ مجھے تعویذ دیتا تھا، جب اس نے مجھے تعویذ دیا تو مجھے سکون ہو گیا۔ تو حضرت عبد اللہ کہنے لگے یہ تو شیطانی عمل ہے جبکہ وہ اپنے ہاتھ سے اسے دبایا کرتا تھا جب اس یہودی نے اس پر دم کیا تو وہ شیطان اس عمل سے رک گیا۔ اور بیشک تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ تم اس طرح کہہ دیا کرو جیسے کہ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تکلیف کو دور فرما اے لوگوں کے پروردگار شفا عطا فرما آپ ہی شفا دینے والے ہیں اور آپ کی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا جو کسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، مالک بن مغول، حصین، شعبی، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تعویذ نہیں ہے سوائے نظر بد کے یا زہر کے۔

 

تعویذ وغیرہ کا بیان

 

احمد بن صالح، ابن سرح، احمد، ابن وہب، ابن سرح، ابن وہب، داؤد بن عبد الرحمن، عمرو بن یحییٰ، یوسف بن محمد ابن صالح، محمد بن یوسف بن ثابت بن قیس اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا ثابت بن قیس بن شماس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ثابت بن قیس کے پاس تشریف لے گئے احمد کہتے ہیں کہ وہ بیمار تھے تو فرمایا کہ اے لوگو! پروردگار تکلیف کو دور فرما ثابت بن قیس شماس سے۔ پھر آپ نے وادی بطحان کی مٹی اٹھائی اور سے ایک پیالہ میں ڈال دیا پھر اس پر پانی پڑھ کر پھونکا اور اسے ان پر بہا دیا۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، معاویہ، عبد الرحمن بن جبیر، عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں تعویذ وغیرہ کیا کرتے تھے پس ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا تعویذ وغیرہ کے بارے میں کیا بیان ہے؟ حضور نے فرمایا کہ اپنے تعویذ وغیرہ میرے سامنے پیش کرو جب تک تعویذ میں شرکیہ کلمات نہ ہوں اس میں کوئی حرج نہیں۔

 

ابراہیم بن مہدی، مصیصی، علی بن مسہر، عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز، صالح بن کیسان، ابو بکر بن سلیمان بن ابی حثمہ، شفاء بنت عبد اللہ فرماتی ہیں کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے میں اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی آپ نے مجھ سے فرمایا کیا تم اسے (حفصہ) کو نملہ کا تعویذ نہیں سکھاتی جیسے کہ تم نے اسے کتابت سکھائی۔

 

مسدد، عبد الواحد بن زیاد، عثمان بن حکیم، حضرت سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ندی سے گزرا تو اس میں داخل ہو گیا اور اس میں غسل کیا جب باہر نکلا تو بخار زدہ تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع کی گئی تو فرمایا کہ ابو ثابت کو حکم دو کہ وہ تعویذ پڑھے (شیطان سے پناہ مانگے) میں نے عرض کیا کہ اے میرے سردار دوسرے اچھے تعویذ بھی ہیں (شرک سے پاک) آپ نے فرمایا کہ تعویذ تین بیماروں کے واسطے ہے۔ ایک نظر بد کے لیے، دوسرے زہر کے لیے، تیسرے کسی جانور کے ڈس لینے کی صورت میں، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ زہر سانپ کے ڈسنے سے یا بچھو وغیرہ کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

 

سلیمان بن داؤد، شریک، عباس، یزید بن ہارون، شریک، عباس بن زریع، شعبی، عباس، انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تعویذ نہیں ہے سوائے نظر بد کے یا زہریلے جانور کے کاٹنے کی وجہ سے یا خون بہنے سے، عباس بن زریع نے اپنی روایت میں نظر بد کا تذکرہ نہیں کیا۔ مذکورہ بالا الفاظ سلیمان بن داؤد کے ہیں۔

 

تعویذ کیسے کیے جائیں

 

مسدد، عبد الوارث، عبد العزیز بن صہیب، نے ثابت سے کہا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعویذ نہ بتلاؤں جس سے حضور تعویذ کیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا کہ یہ کہو کہ اے اللہ لوگوں کے پروردگار، تکلیف کو دور کرنے والے، شفا عطا فرمائیے بیشک آپ ہی شفا دینے والے ہیں اور آپ کے علاوہ کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا جو بیماری کو بالکل چھوڑ دے۔

 

عبد اللہ، قعنبی، مالک، یزید بن خصیفہ، عمرو بن عبد اللہ بن کعب، نافع بن جبیر، عثمان بن ابی عاص سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے عثمان کہتے ہیں کہ مجھے اتنی تکلیف تھی کہ قریب تھا کہ میں ہلاک ہو جاتا فرمایا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا درد کی جگہ پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرو سات مرتبہ اور کہو میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی عزت کی اور اس کی قدرت کی اس شر سے جو میں محسوس کرتا ہوں، عثمان کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو اللہ نے میری تکلیف دور کر دی پس اس کے بعد سے میں ہمیشہ اپنے اہل و عیال کو اور غیروں کو اس کا حکم دیتا ہوں۔

 

یزید بن خالد بن موہب، لیث، زیاد بن محمد، محمد بن کعب، فضالہ بن عبید، ابو درداء فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جس کو کسی تکلیف کی شکایت ہو یا اس سے اس کا کوئی بھائی شکایت کرے تو اسے چاہیے کہ کہے اے ہمارے پروردگار جو آسمان میں ہے آپ کا نام پاک ہے زمین و آسمان پر آپ ہی کا حکم چلتا ہے جیسے آسمان پر آپ نے رحمت کی پس ایسے ہی زمین پر اپنی رحمت نازل فرما ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری خطاؤں کو درگزر فرما اور اپنی شفا میں سے شفا نازل فرمائیے اس تکلیف پر، تو وہ درد ختم ہو جائے گا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھبراہٹ کے لیے انہیں یہ کلمات سکھاتے تھے، میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالی کے تمام کلمات کی اس کے غضب سے اور اس کے برے بندوں سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ معمول تھا کہ ان کے بیٹوں میں سے جو عقل مند (بالغ ہوتا) تو اسے یہ کلمات سکھلاتے اور جو نادان (نابالغ) ہوتا تو ان کلمات کو لکھ کر اس کے اوپر گلے میں لٹکا دیتے۔

 

احمد بن ابی سریج، یزید بن ابی عبید حضرت یزید بن ابی عبید فرماتے ہیں کہ میں نے سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پنڈلی میں چوٹ کا نشان دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ غزوہ خیبر کے دن یہ زخم مجھے لگا تھا لوگوں نے کہا کہ سلمہ کو زخم لگا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے مجھ پر تین مرتبہ پھونکا اس کے بعد سے لے کر آج تک مجھے اس میں کوئی شکایت نہیں ہوئی۔

 

زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبد ربہ، ابن سعید، عمرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جب کوئی انسان کسی تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا تھوک لے کر اس میں مٹی ملاتے اور فرماتے ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کے تھوک کے ساتھ تاکہ ہمارے بیمار کو شفا ہو جائے ہمارے پروردگار کے حکم دے۔

 

مسدد، یحییٰ، زکریا، عامر، خارجہ بن صلت رضی اللہ تعالی عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اسلام لائے اور وہاں سے واپس لوٹے ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کے درمیان ایک پاگل آدمی زنجیروں سے بندھا پڑا تھا۔ اس پاگل کے والیوں نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک خیر (دین) لے کر آئے پس کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے ہم اس کا علاج کریں میں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا تو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور انہیں بتلایا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا تھا، جبکہ مسدد نے اپنی روایت میں ایک دوسری جگہ پر کہا کہ کیا تو نے اس کے علاوہ کچھ کہا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا کہ اسے لے لو۔ قسم ہے میری عمر کی لوگ باطل طریقہ سے دم درود کر کے کھا لیتے ہیں تم نے تو حق طریقہ سے تعویذ وغیرہ کر کے کھایا۔

 

احمد بن یونس، زہیر، سہیل بن ابی صالح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے بنی اسلم کے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص آپ کے صحابہ میں سے تشریف لائے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج رات میں ڈس لیا گیا ہوں جس کی وجہ سے صبح تک نہ سو سکا، حضور نے فرمایا کہ کس چیز نے ڈسا؟ کہنے لگے بچھو نے۔ حضور نے فرمایا کہ خبردار کاش تو شام کو یہ کلمات کہتا۔ میں اللہ کے تمام کلمات کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی تو تجھے انشاء اللہ کچھ نقصان نہ پہنچتا۔

 

حیوۃ بن شریح، طارق، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جسے بچھو نے ڈس لیا تھا فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ کاش کہ تو یہ کہتا میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالی کے پورے کلمات کی اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی، تو تجھے ڈسا نہ جاتا یا یہ فرمایا کہ تجھے نقصان نہ پہنچتا

 

مسدد، ابو عوانہ، ابی بشر، ابو متوکل، ابو سعید حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام کی ایک جماعت کسی سفر میں چل رہی تھی تو وہ عرب قبائل میں سے کسی قبیلہ میں اترے ان کے بعض افراد نے کہا کہ ہمارے سردار کو ڈس لیا گیا ہے تو کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے ایسی جو ہمارے ساتھی کو فائدہ دے تو جماعت صحابہ کرام میں سے ایک آدمی نے فرمایا کہ ہاں خدا کی قسم میں تعویذ کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے مہمان داری چاہی تو تم نے انکار کر دیا اس بات سے کہ ہماری مہمانی کرو۔ لہذا میں اس وقت تک تعویذ کرنے والا نہیں یہاں تک کہ تم میرے لیے اجرت مقرر نہ کر دو انہوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ بطور اجرت مقرر کیا۔ تو وہ ان کے سردار کے پاس گئے اور اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر تھتکار دیا (یہ عمل مسلسل کرتے رہے) یہاں تک کہ وہ شفا یاب ہو گیا گویا کہ وہ گرہوں سے آزاد کر دیا گیا ہو۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے اپنی اجرت پوری دے دی جس پر انہوں نے مصالحت کی تھی صحابہ کرام کہنے لگے اسے تقسیم کر لو، (آپس میں) جنہوں نے دم کیا تھا وہ کہنے لگے نہیں یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کے پاس حاضر نہ ہو جائیں تو ان سے اس کا حکم معلوم کر لیں، چنانچہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے اور ان سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، تمہیں کہاں سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کوئی تعویذ ہے تم نے اچھا کیا کہ اسے تقسیم کرو اور میرا بھی حصہ اس میں مقرر کر دو۔

 

عبید اللہ بن معاذ، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عبد اللہ بن ابی سفر، شعبی، خارجہ بن صلت، اس سند سے حدیث نمبر حضرت خارجہ بن ابی الصلت کے چچا والی روایت ہی بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ منقول ہے۔

 

عبید اللہ بن معاذ، ابن بشار، ابن جعفر، شعبہ، عبد اللہ بن ابی سفر، شعبی، خارجہ بن صلت، اس سند سے سابقہ حدیث کے بعض اجزاء بعض الفاظ کے فرق سے منقول ہیں۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، عروہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آپ پر اپنے دل میں معوذات (قُل اَعُوذُ بِرَبِ النَّاس، قُل اَعُوذُ بِرَبِ الفَلَق) پڑھ کر پھونک دیا کرتے جب درد کی شدت میں اضافہ ہو گیا تو پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اوپر پڑھ کر آپ کے جسم پر آپ ہی کے ہاتھ پھیرتی ان کی برکت کی امید میں۔

 

موٹا کرنے کا بیان

 

محمد بن یحییٰ، نوح بن یزید بن سیار، ابراہیم بن سعد، محمد بن اسحاق ، ہشام بن عروہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میری والدہ نے چاہا کہ وہ مجھے موٹا کر دیں کیونکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جایا کرتی تھیں وہ فرماتی ہیں کہ وہ جو کچھ چاہتی تھیں ان کی کسی چیز سے مجھے فائدہ نہیں ہوا یہاں تک کہ انہوں نے مجھے ککڑی تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھلائی تو میں پھر اچھی خاصی موٹی ہو گئی۔

 

کاہنوں کے پاس جانے کی ممانعت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، مسدد، یحییٰ، حماد بن سلمہ، حکیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کاہنوں کے پاس (آئندہ کی باتیں پوچھنے کے لیے) جائے، موسیٰ بن اسماعیل نے اپنی روایت میں فرماتے ہیں کہ اور ان کے کہے کی تصدیق بھی کرے یا کسی عورت سے جماع کرے، جبکہ مسدد اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کرے یا اپنی بیوی سے اس کی دبر میں جماع کرے تو بیشک وہ اس چیز سے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کی گئی ہے بری ہے۔ (یعنی قرآن پاک کے خلاف اس کے یہ اعمال ہیں)

 

علم نجوم کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، مسدد، یحییٰ، عبید اللہ بن اخنس، ولید بن عبد اللہ، یوسف بن ماہک، ابن عباس حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا (جو حرام ہے) اور وہ جتنا زیادہ (علم نجوم) سیکھا اتنا ہی زیادہ (سحر) سیکھا۔

 

قعنبی، مالک، صالح بن کیسان، عبید اللہ بن عبید اللہ زید بن خالد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی آسمان کے اثرات میں جو رات سے تھا (رات سے بارش ہوئی تھی اس کے اثرات تھے) جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا کہ اللہ نے فرمایا میرے بندوں میں سے کچھ نے مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کی حالت میں صبح کی پس جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہیں جس شخص نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ بارش برسائی گئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔

 

علم رمل اور پرندوں سے ڈانٹ کر فال لینے کا بیان

 

مسدد، یحییٰ، عوف، حیان، مسدد، ابن علاء، قطن بن قبیصہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا شگون (نیک وبد) لینے کے لیے پرندے کو اڑانا، اور فال نکالنا اور زمین پر پتھر سے لکیر لگانا (فال وغیرہ کے لیے) بت پرستی (کے اعمال میں) سے ہے۔ طرق کہتے ہیں کہ پرندے کو ڈانٹ کر اڑانا اور عیافہ لکیر لگانے کو کہتے ہیں۔

 

ابن بشار، محمد بن جعفر، عوف کہتے ہیں کہ عوف نے فرمایا کہ عیافہ کہتے ہیں کہ پرندے کو ڈانٹ کر اڑانے کو جبکہ طرق کے معنی ہیں زمین پر لکیریں لگانا (جسے اردو میں رمل کہا جاتا ہے)۔

 

شگون لینے اور رمل کرنے کا بیان

 

محمد بن کثیر، سفیان، سلمہ بن کہیل، عیسیٰ بن عاصم، زر بن حبیش، عبد اللہ بن مسعود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ، شگون لینا شرک ہے تین مرتبہ یہ فرمایا ، اور فرمایا کہ ہم میں سے کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ اسے وہم پیش آتا ہے لیکن اللہ تعالی اسے توکل کی وجہ سے دور کر دیتے ہیں (ہر انسان کو وہم ہو جاتا ہے)۔ لیکن اللہ تعالی اسے توکل کی وجہ سے دور کر دیتے ہیں۔

 

مسدد، یحییٰ، حجاج، یحیٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں چند افراد ہیں جو رمل کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ انبیاء میں ایک نبی گزرے جو علم رمل کرتے تھے اگر کسی کا خط ان کے موافق ہو جائے تو ٹھیک ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان کا طریقہ رمل کیا تھا لہذا رمل صحیح نہیں ہے۔

 

محمد بن متوکل، حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عدوی کچھ نہیں ہے نہ صفر کچھ ہے اور نہ ہامہ کچھ ہے پس ایک اعرابی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ پھر ان اونٹوں کو کیا ہوا جو صحرا میں ہرنوں کے مثل پھرتے ہیں پس ان میں اچانک کوئی خارش زدہ اونٹ مل جاتا ہے اور دوسرے اونٹوں کو بھی خارش زدہ کر دیتا ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پھر پہلے کو یہ مرض کس نے لگایا تھا؟ معمر کہتے ہیں کہ زہری نے فرمایا کہ مجھ سے ایک شخص نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ کسی مریض اونٹ اور کسی تندرست اونٹ کو ایک گھاٹ پر پانی نہ پلایا جائے ۔ وہ شخص حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لوٹا اور کہا کہ کیا آپ نے یہ حدیث نہیں بیان کی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عدوی، صفر اور ہامہ کچھ نہیں ہے (اسلام میں ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے تو یہ حدیث تم سے بیان نہیں کی۔ ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حالانکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ حدیث بیان کی تھی اور میں نے نہیں سنا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کبھی کسی حدیث کو بھول گئے ہوں (سوائے اس حدیث کے)۔

 

قعنبی، عبد العزیز، ابن محمد، علاء سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عدوی، ہامہ، نؤ اور صفر وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ (ان کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔)

 

محمد بن عبد الرحیم، سعید بن حکم، یحییٰ، ایوب، ابن عجلان، قعقاع بن حکیم، عبید اللہ بن مقسم، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بھوت پریت کچھ نہیں ہے، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ میری موجودگی میں حارث بن مسکین پر یہ حدیث پڑھی گئی کہ اشہب نے خبر دی فرمایا کہ امام مالک نے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول لا صفر، صفر کچھ نہیں ہے کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ اہل جاہلیت صفر کو ایک سال حلال کر لیتے تھے ( اور ایک سال حرام کر دیتے تھے) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (صفر اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہے۔ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا اہل جاہلیت صفر کو ایک سال حلال قرار دیتے تھے اور ایک سال حرام کر دیتے تھے (محرم اشہر حرم میں داخل تھا اور ان مہینوں کا احترام کفار بھی کرتے تھے ان میں لڑائی وغیرہ سے بچتے تھے اب اگر کسی جنگ کے دوران محرم آ گیا تو کہتے تھے کہ اس سال محرم حلال ہے اور صفر حرام ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مرض کے متعدی ہونے کا عقیدہ اور بدفالی و بد شگونی کچھ نہیں ہے (غلط ہے) مجھے نیک فال پسند ہے اور نیک فال اچھا کلمہ ہے۔

 

محمد بن مصفی، بقیہ، محمد بن راشد، فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن راشد سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول، ہامہ کچھ نہیں ہے کے بارے میں دریافت تو فرمایا دور جاہلیت میں اہل عرب کہا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی شخص مر جاتا ہے اور اسے دفن کیا جاتا ہے تو اس کی کھوپڑی قبر سے نکل جاتی ہے میں نے کہا کہ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول صفر کچھ نہیں ہے کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا کہ جاہلیت کے لوگ صفر کے مہینہ سے بد شگونی و بد فالی کیا کرتے تھے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ صفر کچھ نہیں ہے یعنی اپنی ذات میں کچھ بھی موثر نہیں ہے) محمد بن راشد کہتے کہ میں نے ان لوگوں کو بھی سنا جو کہتے ہیں کہ صفر ایک پیٹ کے درد کا نام ہے اور وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ متعدی ہوتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ صفر کی کوئی حقیقت نہیں۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک کلمہ سنا تو آپ کو پسند آیا پس فرمایا کہ ہم نے تمہاری فال تمہارے منہ سے لے لی۔ (تمہارے اس اچھے کلمہ کا انجام بھی انشاء اللہ اچھا ہی ہو گا)۔

 

یحیٰ بن خلف، ابو عاصم، ابن جریج، عطاء، فرماتے ہیں کہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ صفر پیٹ کے درد کو کہتے ہیں میں نے کہا کہ پھر ہامہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہامہ جو چیخا کرتا ہے وہ انسانی روح ہے حالانکہ وہ انسانی روح نہیں ہے بلکہ ایک جانور ہے۔

 

احمد بن حنبل، ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، حبیب، ابو ثابت، عروہ بن عامر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے شگون لینے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ اس کی بہترین صورت (نیک) فال ہے اور وہ (شگون) کسی مسلمان کو باز نہ رکھے (کسی کام کے کرنے سے) پس جب تم میں سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہے اے اللہ حسنات آپ کے علاوہ کوئی نہیں لاتا اور نہ ہی برائیوں کو روکتا ہے آپ کے علاوہ کوئی، کوئی طاقت و قوت آپ کے علاوہ نہیں ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، عبد اللہ بن بریدہ، اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی چیز سے بھی شگون نہیں لیا کرتے تھے، اور آپ جب کسی گورنر کو کہیں (گورنر بنا کر) بھیجتے تو اس کا نام دریافت فرما لیتے اور اگر اس کا نام آپ کو پسند آ جاتا تو اس سے خوش ہوتے اور اس کی بشاشت و خوشی آپ کے چہرے مبارک پر دکھائی دیتی، اور اگر اس کا نام برا محسوس ہوتا تو اس کی ناراضگی بھی آپ کے چہرے پر سے محسوس ہو جاتی، اور آپ جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام دریافت کرتے اگر اس کا نام پسند آ جاتا تو اس سے خوش ہوتے جس کی وجہ سے آپ کے چہرے مبارک سے خوشی نظر آ جاتی، اگر برا ہوتا تو ناراضگی فرماتے اور اس کا اظہار بھی آپ کے چہرے مبارک سے ہو جاتا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، سعید بن مسیب، حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ ہامہ کچھ نہیں ہے، عدوی کچھ نہیں ہے، شگون لینا کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور اگر کسی چیز میں بد شگونی ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، حمزہ، سالم بن عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نحوست، گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ہے، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ میری موجودگی میں حارث بن مسکین کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی کہ تجھے ابن القاسم نے بتلایا کہ امام مالک سے سوال کیا گیا کہ گھوڑے اور مکان کی نحوست کے بارے میں تو فرمایا کہ کتنے ہی گھر ایسے ہیں جس میں کوئی قوم جا کر رہی ہے تو وہ ہلاک ہو گئے پھر دوسرے لوگ آ کر بسے وہ بھی ہلاک ہو گئے اور ہمارے خیال میں یہی اس کی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم

 

مخلد بن خالد، عباس، عبد الرزاق، معمر، یحیٰ بن عبد اللہ بن بحیر سے ایک شخص نے سن کر یحیٰ بن عبد اللہ بن بحیر کو بتلایا فروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری ایک زمین ہے جسے، ابین، کہا جاتا ہے اور وہ ہماری زراعت کی زمین ہے اور ہمارے اناج و غلہ وغیرہ رکھنے کی جگہ ہے اس میں ہمیشہ وباء رہتی ہے یا یہ فرمایا کہ وبا بڑی سخت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس زمین کو اپنے سے جدا کر دو۔ اس لیے کہ مسلسل وبا رہنے سے ہلاکت ہو جاتی ہے۔

 

حسن بن یحییٰ، بشر بن عمر، عکرمہ، عمار، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم ایک مکان میں رہتے ہیں جس میں ہماری تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال و دولت بی زیادہ تھا، ہم وہاں سے نقل مکانی کر کے دوسرے مکان میں چلے گئے تو (وہاں جا کر) ہماری تعداد بھی کم ہو گئی اور اس میں ہمارے اموال بھی کم پڑ گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس مکان کو بری حالت میں چھوڑ دو۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، مفضل بن فضالہ حبیب، محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مجذوم (جذام کے مریض) کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ پیالہ میں رکھ دیا اور فرمایا اللہ تعالی بھروسہ اور اس پر توکل کرتے ہوئے (کھاتے ہیں)۔

 

غلام آزاد کرنے کا بیان

 

 

مکاتب کچھ بدل کتابت دے چکا اور مزید دینے پر وقار نہ ہو یا مر جائے تو کیا حکم ہے

 

 

ہارون بن عبد اللہ، ابو بدر، ابو عتبہ، اسماعیل بن عیاش، سلیمان بن سلیم، عمرو بن شعیب، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مکاتب اس وقت تک غلام ہی ہے جب تک کہ اس کے بدل کتابت میں سے ایک درہم بھی باقی ہے۔

 

محمد بن مثنی، عبد الصمد، ہمام، عباس، عمرو بن شعیب، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو بھی غلام جس نے عہد کتابت کیا سو اوقیہ چاندی پر اس نے اسے ادا کر دیا سوائے دس اوقیہ چاندی کے تو وہ غلام ہی ہے، اور جس غلام نے عہد کتابت سو دینار پر اور پھر سوائے دس دینار کے سب ادا کر دئیے تب بھی غلام ہی ہے۔

 

مسدد بن مسرہد، سفیان، زہری، نبہان، سلمہ جو ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکاتب تھے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا کوئی مکاتب ہو اس مکاتب کے پاس بدل کتابت کا مقررہ مال موجود ہو تو اسے چاہیے کہ اس مکاتب سے پردہ کرے۔

 

جب معاہدہ کتابت منسوخ ہو جائے تو غلام کی فروخت کا کیا حکم ہے

 

قتیبہ بن سعید، عبد اللہ بن مسلمہ، لیث، ابن شہاب، عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بتلایا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہ (جو باندی تھیں) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنے بدل کتابت میں مدد طلب کرنے کے لیے آئی اور ابھی انہوں نے اپنے بدل کتابت میں سے کچھ ادا نہیں کیا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنے مالکان کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہارا سارا بدل کتابت ادا کر دوں اور تمہاری ولا میری ہو تو میں یہ کر لوں، حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مالکان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے انکار دیا، اور کہنے لگے کہ اگر وہ اللہ فی اللہ ایسا کرنا چاہیں تو کریں لیکن تمہاری ولا ہماری ہی ہو گی انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ تم اسے خرید لو اور آزاد کر دو، پس بیشک ولا اسی کی ہے جو آزاد کرے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرائط نہیں کہ جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے جس شخص نے ایسی شرط لگائی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے تو وہ اگرچہ سو مرتبہ شرط لگائے لیکن اللہ تعالی کی شرط زیادہ صحیح اور مضبوط ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ہشام عروہ، اپنے والد حضرت زبیر سے اور وہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس اپنے بدل کتابت میں سے تعاون کے سلسلہ میں آئیں اور فرمایا کہ میں نے اپنے مالک سے اوقیہ چاندی پر معاہدہ کتابت کر لیا ہے بایں طور کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی دوں گی پس آپ میری مدد کریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک یہ پسند کریں کہ میں اس کو ایک ہی مرتبہ میں شمار کر لوں۔ اور تمہیں آزاد کر دوں کہ تمہاری ولا میرے لیے ہو گی تو میں کر لوں گی وہ اپنے مالک کے پاس گئیں، آگے سابقہ حدیث زہری کی طرح ہی بیان کی ہے البتہ اس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کلام میں اضافہ ہے آپ نے فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ان میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ اے فلاں آزاد کر دے اور ولا ہمارے لیے ہو بیشک ولا تو آزاد کرنے والے کی ہو گی۔

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، ابن اسحاق، محمد بن جعفر بن زبیر، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جویریہ بن حارث بن المصطلق (جنگ میں پکڑنے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں) حضرت ثابت بن قیس بن شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں انہوں نے اپنے نفس (کو آزاد کرانے پر) بدل کتابت دینے کا معاہدہ کر لیا اور وہ ایک خوبصورت ملاحت والی عورت تھیں جن پر نظریں پڑتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بدل کتابت کے بارے میں سوال کرتی ہوئی آئیں، جب وہ دروازہ میں کھڑی ہو گئیں تو میں نے انہیں دیکھا اور ان کے کھڑے ہونے کو ناپسند کیا میں نے۔ اور مجھے معلوم تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے وہی اعضاء دیکھیں گے جو میں نے دیکھے ہیں (چہرہ، قد و قامت وغیرہ اور مجھے خیال ہوا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دل میں بھی ان سے نکاح رغبت نہ ہو جائے) جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ بنت الحارث ہوں اور جو میرا پہلے حال تھا، وہ آپ پر مخفی نہیں ہے اور میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں جا پڑی اور میں نے اسے اپنے نفس (کی آزادی پر) معاہدہ کتابت کر لیا ہے پس میں آپ کے پاس اپنے بدل کتابت کے بارے میں سوال کرنے آئی ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہے؟وہ کہنے لگیں کہ وہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کہ میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دوں اور تم سے نکاح کر لوں۔ وہ کہنے لگی میں نے بیشک کر لیا (یعنی میں بخوشی راضی ہوں) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جویریہ سے نکاح کر لیا تو انہوں نے وہ تمام قیدی (بنی مصطلق کے) جو ان کے قبضہ میں تھے، انہیں چھوڑ دیا اور انہیں آزاد کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سسرال والے ہیں ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی اپنی قوم پر جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ کہ ان کے سبب سے سو قیدی بنی المصطلق کے آزاد ہو گئے، امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ قصہ حجت ہے اس بات پر کہ ولی اپنے آپ کا نکاح کر سکتا ہے۔

 

مشروط آزادی کا بیان

 

مسدد بن مسرہد، عبد الوارث، سعید بن جمہان، سفینہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کا غلام تھا انہوں نے فرمایا کہ میں تجھے آزاد کرتی ہوں اس شرط پر کہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زندگی بھر جدا نہ ہو گا پس انہوں نے مجھے آزاد کر دیا اور مجھ پر مذکورہ شرط لگائی۔

 

غلام کے کسی حصہ کو آزاد کرنے کا بیان

 

ابو ولید، ہمام، محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، ابن ملیح، نے اپنے والد سے روایت کیا کہ ایک شخص نے اپنے غلام کا کچھ حصہ آزاد کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ذکر کیا تو فرمایا کہ اللہ تعالی کے لیے کوئی شریک نہیں (مقصد یہ کہ اپنا پورا غلام آزاد کرتا) ابن کثیر نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے عتق کا جائز قرار دے دیا۔

 

مشترک غلام میں سے کوئی اپنا حصہ آزاد کرے تو کیا حکم ہے؟

 

محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ نضر بن انس، بشیر بن نہیک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غلام (مشترک) میں سے اپنے حصے کو آزاد کر دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے آزاد کرنے کو جائز قرار دیا اور باقی غلام کی قیمت بطور تاوان مالک کو دلوائی (کیونکہ آدھا آزاد ہو آدھا غلام) یہ ناممکن ہے لہذا عتق تو جائز ہے البتہ آزاد کرنے والا اپنے شریک کے حصہ کی قیمت اپنے شریک کو ادا کرے گا۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، احمد بن علی بن سوید، روح، شعبہ، قتادہ، اپنی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام (میں سے اپنا حصہ) کو آزاد کر دیا تو اس پر اس کا چھڑانا بھی ہے۔ (یعنی دوسرے شریک کا جو حصہ ہے اس کی قیمت ادا کرے مکمل آزاد کرنا ضروری ہے اور عتق اس کا معتبر ہے)۔

 

ابن مثنی، معاذ بن ہشام، احمد بن علی بن سوید، روح ہشام بن ابی عبد اللہ قتادہ، نے اپنی سند سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا جس شخص نے کسی (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو وہ اس کے مال سے آزاد ہو جائے گا اگر اس کے پاس مال ہو، ابن المثنی نے نضر بن انس کا تذکرہ نہیں کیا اور یہ الفاظ حدیث سوید کے بیان کردہ ہیں۔

 

جن لوگوں نے اس حدیث میں سعایہ کا بھی ذکر کیا ہے

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ، نضر بن انس بشیر بن نہیل، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا حصہ (مشترک) غلام میں سے آزاد کر دیا تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے پورا آزاد کرے اگر اس کے پاس مال ہو (اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے بقیہ) اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے محنت کروائی جائے گی بغیر مشقت ڈالے۔

 

نصر بن علی، یزید ابن زریع، علی بن عبد اللہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ نضر بن انس بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غلام (مشترک) میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دیا تو اسے چھڑانا اس کے مال میں ہے اگر اس کے پاس مال ہو اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام کی درمیانی قیمت لگائی جائے گی اور دوسرے حصہ کے شرکاء کے حصوں کی قیمت کے برابر غلام سے مزدوری کرائی جائے گی بغیر اس پر مشقت ڈالے ہوئے امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ پھر غلام سے محنت مزدوری کروائی گئی بغیر مشقت ڈالے ہوئے اس پر۔

 

محمد بن بشار، یحیٰ بن ابی عدی، سعید، داؤد، روح بن عبادہ نے اپنی سند سے یہی حدیث نقل کی ہے امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اسے روح بن عبادہ نے سعید بن ابی عروبہ سے جو روایت کیا ہے اس میں سعایہ کا ذکر نہیں کیا اور اسی حدیث کو جریر بن زریع کی سند سے اسی کے ہم معنی بیان کی ہے اور اس میں سعایہ کا ذکر کیا ہے۔

 

ان لوگوں کا بیان جو مال نہ ہونے کی صورت میں عدم استسعا کے قائل ہیں

 

قعنبی، مالک، نافع، عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غلام (مشترک) میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اس کے غلام کی مناسب قیمت لگائی جائے گی اور اس کے بقیہ شرکاء کو ادائے گی کی جائے گی، ان کے حصول کے بقدر اور غلام اس پر آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا حصہ اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی آزاد رہے گا۔

 

مومل، اسماعیل، ایوب، نافع، ابن عمر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی حدیث کے مثل روایت کرتے ہیں کہ اور ایوب کہتے ہیں کہ نافع نے بسا اوقات عتق منہ ماعتق کے الفاظ کہے اور بعض اوقات نہیں کہے۔

 

سلیمان بن داؤد، حماد، ایوب، نافع، ابن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں ایوب کہتے ہیں کہ، وَإِلَّا عَتَقَ مِنْہُ مَا عَتَقَ، ، کے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے یا یہ کہ وہ نافع نے کہے ہیں۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اس کے ذمہ پورے غلام کو آزاد کرنا ضروری ہے اگر وہ اتنا مالدار ہو جو غلام کی بقیہ قیمت کے برابر ہو اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو اس کا حصہ آزاد ہو جائے گا۔

 

مخلد بن خالد، یزید بن ہارون، یحیٰ بن سعید، نافع، ابن عمر اس سند سے بھی سابقہ حدیث ابراہیم بن موسیٰ ہی کے مانند منقول ہے۔

 

عبد اللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، نافع، ابن عمر سے اس سند سے حدیث مالک ہی منقول ہے اور اس میں وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْہُ کا ذکر نہیں ہے اور یہ حدیث وَأُعْتِقَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ پر ختم ہو گئی ہے۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، زہری، سالم، ابن عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس شخص نے عبد مشترک میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کا بقیہ حصہ بھی آزاد ہو جائے گا اس کے مال میں اگر اس کے پاس اس کی قیمت کے مبلغ مال ہو۔

 

احمد بن حنبل، سفیان، عمرو، سالم، اپنے والد سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو پس ان میں سے ایک نے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر آزاد کرنے والا خوشحال ہے تو غلام کی قیمت لگائی جائے گی ایسی قیمت جو بہت گھٹا کر نہ لگائی جائے اور نہ بہت بڑھا کر پھر اسے آزاد کر دیا جائے گا (آزاد کرنے والے کے مال کے ذریعہ سے)۔

 

احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، شعبہ، خالد، ابو بشر، ابن ثلب، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے شریک کو بقیہ حصہ کا ضمان نہیں دلوایا۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ابن الثلب یہ ثلب نہیں ہے بلکہ تلب، تا کے ساتھ ہے اور حضرت شعبہ جو راوی ہیں اس حدیث کے وہ ذرا توتلے تھے تو تاء واضح نہیں کر سکتے تھے ثاء سے۔ (تاء بولتے تھے تو ثاء محسوس ہوتا۔ )

 

کوئی شخص ذی محرم کا مالک ہو تو کیا حکم ہے

 

مسلم بن ابراہیم، موسیٰ بن اسماعیل، حماد بن سلمہ، قتادہ، حسن، سمرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص ذی رحم محرم کا مالک ہو جائے تو وہ (مملوک) آزاد ہو جائے گا۔

 

محمد بن سلیمان، عبد الوہاب، قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص کسی قرابت داری ذی رحم محرم کا مالک ہو وہ مملوک آزاد ہے۔

 

محمد بن سلیمان، عبد الوہاب، سعید، قتادہ، حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جو ذی رحم محرم کا مالک ہو جائے تو وہ مملوک آزاد ہے۔

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، سعید، قتادہ، جابر بن زید، حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بن زید سے یہی حدیث منقول ہے۔

 

ام ولد (باندی) کی آزادی کا بیان

 

عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، خطاب بن صالح، جو خارجہ قیس غیلان کے قبیلہ کی عورت تھی کہتی ہیں کہ میرا چچا مجھے زمانہ جاہلیت میں لے کر آیا اور حباب بن عمرو جو ابو الیسر بن عمرو کا بھائی تھا، کے ہاتھ مجھے فروخت کر دیا، میں نے اس کے لیے عبد الرحمن بن الحباب کو جنم دیا، پھر حباب مر گیا تو اس کی بیوی کہنے لگی کہ خدا کی قسم، تجھے حباب کے قرضہ (کی ادائے گی) کے لیے فروخت کیا جائے گا سو میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں بنی خارجہ قیس غیلان کی عورت ہوں اور مجھے میرا چچا مدینہ لے کر آیا تھا زمانہ جاہلیت میں، پس اس نے مجھے حباب بن عمرو، ابو الیسر بن عمرو کے بھائی کے ہاتھ فروخت کر دیا پس میں نے اس کے واسطے عبد الرحمن بن حباب کو جنم دیا، اب حباب کی بیوی کہتی ہے کہ حباب کے قرضہ میں تجھے فروخت کیا جائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا حباب کا والی وارث کون ہے؟ کہا گیا کہ اس کا بھائی ابو الیسر بن عمرو، حضور نے اس کے پاس نامہ بھیجا اور فرمایا کہ اسے (سلامہ) کو آزاد کرو اور جب تم یہ سنو کہ میرے پاس غنیمت میں غلام وغیرہ آئے ہیں تو میرے پاس آنا میں تمہیں اس کا عوض دوں گا، سلامہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مجھے آزاد کر دیا حضور کے پاس غلام آئے تو انہیں میرے بدلہ میں غلام دیا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، قیس، عطاء، جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ام ولد باندی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر کے زمانہ میں فروخت کیا پس جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ تھا تو انہوں نے ہمیں منع کر دیا پس ہم رک گئے۔

 

جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کر دے تو کیا حکم ہے؟

 

احمد بن حنبل، ہشیم، عبد الملک بن ابی سلیمان، عطاء، اسماعیل بن ابی خالد، سلمہ، بن کہیل، عطاء بن جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے ایک غلام کو اپنے پیچھے آزاد کر دیا تھا لیکن اس غلام کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا مال وغیرہ نہیں تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے فروخت کرنے کا حکم فرمایا تو وہ غلام سات سو یا نو سو میں فروخت ہوا۔

 

جعفر بن مسافر، بشر بن بکر، عطاء بن ابی رباح، جابر بن عبد اللہ سے یہی حدیث مروی ہے اس اضافہ کے ساتھ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس غلام کی قیمت کا تو زیادہ مستحق ہے (کہ تیرے پاس مال و دولت نہیں) اور اللہ تعالی اس سے بے پرواہ ہیں۔ (یعنی اللہ تعالی کو تو اس کی ضرورت نہیں بلاوجہ تیرے ہی اوپر تکلیف بڑھے گی)

 

احمد بن حنبل، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابو زبیر، جابر فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص جس کا نام ابو مذکور تھا، نے اپنے ایک غلام کو آزاد کر دیا، یعقوب کہتے ہیں کہ مدبر بنایا تھا، اور اس کے پاس غلام کے علاوہ کوئی مال بھی نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غلام کو بلوایا اور فرمایا کہ اسے کون خریدے گا؟ نعیم بن عبد اللہ بن النحام نے آٹھ سو درہم میں اسے خرید لیا اور وہ درہم آپ نے انصاری کو دے دئیے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی فقیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے نفس سے شروع کرے (یعنی اگر کچھ راہ خدا میں دینا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دے) پس اگر اس میں سے کچھ بچ جائے تو اپنے عیال پر خرچ کرے پس اگر اس میں بھی زیادتی ہو جائے تو اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرے یا فرمایا کہ ذی رحم محرم اقارب پر خرچ کرے پس اگر اس میں بھی زیادتی ہو جائے تو اِدھر ادھر خرچ کرے۔

 

سلیمان بن حرب، حماد، ایوب، ابی قلابہ، ابی مہلب، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا جن کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہیں تھا، اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی تو اس کے آزاد کرنے والے کے بارے میں سخت الفاظ فرمائے، پھر ان غلاموں کو بلوایا اور ان کے چھ حصے کیے، اور ان کے درمیان قرعہ اندازی کی پس ان میں سے دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام رکھا۔

 

ابو کامل، عبد العزیز، خالد، ابی قلابہ، نے اپنی سند سے یہی حدیث بیان کی ہے لیکن اس میں یہ نہیں فرمایا کہ حضور نے اس کے بارے میں سخت الفاظ فرمائے۔

 

وہب بن بقیہ، خالد، ابی قلابہ، ابو زید سے یہ یہی حدیث روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں موجود ہوتا اس کی تدفین سے قبل تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دفنایا جاتا (یہ سخت الفاظ فرمائے حضور نے)۔

 

مسدد، حماد بن زید، یحیٰ بن عتیق، ایوب، محمد بن سیرین، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا جن کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہیں تھا، اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی آپ نے ان غلاموں کو بلوایا اور ان کے چھ حصے کیے، اور ان کے درمیان قرعہ اندازی کی پس ان میں سے دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام رکھا

 

مالدار غلام کو آزاد کرنے کا بیان

 

احمد بن صالح، ابن وہب، ابن لہیعہ، لیث بن سعد، عبید اللہ بن ابی جعفر، بکیر بن اشج، نافع، عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے مالدار غلام کو آزاد کر دیا تو غلام کا مال آقا کی ملکیت میں آ جائے گا الا یہ کہ مالک شرط لگا دے۔

 

زنا کی اولاد کا بیان

 

ابراہیم بن موسی، جریر، سہیل بن ابی صالح سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ زنا (کے نتیجہ میں) پیدا ہونے والا بچہ تینوں میں (ماں، باپ، بچہ) سب سے زیادہ برا ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کوڑا دے کر فائدہ اٹھانا میرے نزدیک ولد الزنا کو آزاد کرنے سے بہتر ہے۔

 

غلام آزاد کرنے کا ثواب

 

عیسی بن محمد، ضمرہ، ، ابن ابی عیلہ، عریف، دیلمی فرماتے ہیں کہ حضرت واثلہ بن الاسقع ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ ہم سے حدیث بیان کیجیے کہ اس میں نہ زیادتی ہو نہ کمی ہو تو حضرت واثلہ رضی اللہ تعالی عنہ غصہ ہو گئے اور فرمایا کہ تم میں ایک آدمی قرآن کریم پڑھتا ہے اور قرآن کریم اس کے گھر میں لٹکا ہوا ہوتا ہے تو اس کے باوجود وہ کمی یا زیادتی کرتا ہے۔ (سہوا) ہم نے کہا کہ ہمارا ارادہ تو حدیث سننا تھا جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ایک ایسے آدمی کے معاملہ میں جس کے اوپر قتل (ناحق) کی وجہ سے جہنم واجب ہو چکی تھی تشریف لائے اور فرمایا کہ اس کی طرف سے (غلام آزاد کرو اللہ تعالی اس کے ہر ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کر دے گا۔

 

کون سا غلام زیادہ افضل ہے آزاد کرنے میں

 

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، سالم بن ابی جعد، معدان بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قصر طائف کا گھیراؤ اور محاصرہ کیا معاذ بن ہشام (جواس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ قصر طائف کا یا طائف کے قلعہ کا، یا دونوں ہی کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے جس شخص نے اللہ کی راہ میں ایک تیر مارا تو اسے ایک درجہ ملے گا اور آگے حدیث کو بیان کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو کوئی مسلمان مرد ایک مسلمان مرد کو آزاد کرے تو بیشک اللہ تعالی آزاد کردہ شخص کی ہڈیوں میں سے ہر ہڈی کے لیے (اس عمل کو) آگ سے ڈھال بنا دے گا اور جو کوئی مسلمان عورت ایک مسلمان عورت کو آزاد کرے تو بیشک اللہ تعالی آزاد کردہ عورت کہ ہر ہر ہڈی کو آزاد کرنے والی عورت کی ہر ہڈی کے بدلے میں ڈھال بنا دے گا آگ سے قیامت کے دن۔

 

عبدالوہاب بن نجدہ، صفوان بن عمر، سلیم بن عامر، شرحبیل بن سمط سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے براہ راست سنی ہو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کوئی مسلمان گردن (غلام یا باندی) آزاد کی تو وہ آگ سے اس کے لیے آزادی کا سبب بن جائے گی۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، عمرو بن مرہ، سالم بن ابی جعد بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت کعب بن مرہ یا مرہ بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ ہم سے ایسی حدیث بیان کیجیے جو آپ نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہو پس انہوں نے معاذ بن ہشام کی روایت کے مثل بیان کیا یہاں تک کہ حضور نے فرمایا کہ جو کوئی مسلمان کو آزاد کرے یا جو کوئی عورت مسلمان عورت کو آزاد کرے اور اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے فرمایا جو کوئی مرد و مسلمان عورتیں آزاد کرے الا یہ کہ وہ دونوں اس کے لیے جہنم کی آگ سے آزادی دلائیں گی اور ان دونوں عورتوں کی ہڈیاں آزاد کرنے والے کی ہڈیوں کے قائم مقام ہوں گی۔

 

حالت صحت میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابی اسحاق ، ابی حبیبہ، ابو درادء سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس آدمی کی مثال اس شخص کی مثال جو موت کے وقت غلام آزاد کرے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنا پیٹ بھر نے کے بعد ہدیہ کرے۔

٭٭٭

نوٹ: کچھ متن اصل ایکسل فائل میں ہی نا مکمل ہے، اس کی معذرت۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

مائکرو سافٹ ایکسل  سے تبدیلی، باز تدوین ، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید