FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سنن ابو داؤدؒ

 

 

جلد چہارم

 

(جمعہ اور علم)

 

                   امام ابو داؤدؒ

 

 

 

 

 

 

جمعہ کے احکام

 

قعنبی، مالک، یزید بن عبد اللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس دن سے یہ سورج روشن ہے اسی دن سے یہ جمعہ کا دن باقی تمام دنوں سے بہتر رہا ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور اسی دن آسمان سے زمین پر اتارے گئے اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اسی دن انھوں نے وفات پائی اور اسی دن قیامت برپا ہو گی اور کوئی جاندار ایسا نہیں جو اس دن قیامت کے ڈر سے، صبح سے لے کر آفتاب نکلنے تک کان نہ لگائے رہتا ہو بجز جنوں اور انسانوں اور اسی دن میں ایک گھڑی وہ بھی آتی ہے کہ نماز کی حالت میں اگر کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کو ضرور دیتا ہے کعب بن الاحبار نے کہا کہ یہ گھڑی ہر سال میں ایک مرتبہ آتی ہے میں نے کہا نہیں بلکہ ہر جمعہ کو آتی ہے پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں عبد اللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اپنی اور کعب کی گفتگو کا حال سنایا تو عبد اللہ بن سلام نے کہا میں جانتا ہوں کہ وہ گھڑی کب آتی ہے میں نے کہا مجھے بھی بتائیے انھوں نے کہا وہ جمعہ کے دن میں آخیر گھڑی ہے میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو یوں فرمایا ہے کہ جو مسلمان بندہ اس کو نماز پڑھتے ہوئے پائے اور اخیر ساعت میں کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی اس پر عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے وہ گویا نماز ہی میں ہے جب تک نماز شروع کرے میں نے کہا ہاں یہ تو ہے! تو انھوں نے کہا پھر یہی سمجھ لو۔

 

ہارون بن عبد اللہ، حسین بن علی، عبد الرحمن بن یزید بن جابر ابی اشعث، صنعانی، حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا! تمھارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کا انتقال ہوا اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے اس لیے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمھارا دردو میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دے دیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔

 

                   جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو، ابن حارث، جلاح، عبد العزیز، ابو سلمہ، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کا دن بارہ ساعت کا ہوتا ہے ان میں سے ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ اگر اس وقت کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیا جاتا ہے پس اس گھڑی کو عصر کے بعد آخر وقت میں تلاش کرو۔

 

احمدبن صالح، ابن وہب، مخرمہ، ابن بکیر، حضرت ابو موسیٰ اشعری کے بیٹے ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کیا تم نے اپنے والد (ابو موسیٰ اشعری) سے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے احادیث بیان کرتے تھے جمعہ کے دن کی قبولیت والی گھڑی کے متعلق کچھ سنا ہے؟ میں نے کہا ہاں! میں نے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جمعہ کی ساعت امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک ابو داؤد کہتے ہیں کہ جلوس سے مراد امام کا منبر پر بیٹھنا ہے۔

 

                   نماز جمعہ کی فضیلت

 

مسدد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر جمعہ کے لیے آئے اور خطبہ سنے اور خاموشی اختیار کرے تو اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے بلکہ تین دن زیادہ تک کے گناہ اور جس نے (خطبہ کے دوران) کنکر یاں ہٹائیں اس نے بیکار کام کیا۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، عبد الرحمن بن یزید، عیسیٰ، حضرت عطاء خراسانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی امِّ عثمان کے آزاد کردہ غلام سے سنا وہ کہتا تھا کہ میں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب جمعہ کا دن ہوتا تو شیاطین اپنے لشکر لے کر بازاروں میں نکل جاتے ہیں اور لوگوں کو کاموں میں لگا کر نماز جمعہ کی شرکت سے روک دیتے ہیں اور فرشتے جمعہ کے دن صبح ہی سے مسجدوں کے دروازے پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے متعلق لکھتے جاتے ہیں کہ یہ پہلی ساعت میں آیا یہ دوسرے ساعت میں آیا یہاں تک کہ امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے پھر جو آدمی ایسی جگہ بیٹھتا ہے جہاں سے وہ خطبہ بھی سن سکے اور امام کو بھی دیکھ سکے اور دوران خطبہ خاموشی اختیار کرے اور کوئی بیہودہ حرکت نہ کرے تو اس کو اجر کے دو حصے ملتے ہیں اور اگر ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے وہ خطبہ بھی سن سکتا ہے اور امام کو بھی دیکھ سکتا ہے مگر وہ لغو کام کرتا ہے اور خاموشی اختیار نہیں کرتا تو اس پر ایک گناہ کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور جس نے جمعہ کے دن (خطبہ کے دوران) اپنے ساتھی سے کہا چپ رہ تو اس نے بھی لغو کام کیا اور جس نے کوئی لغو کام کیا تو اسے جمعہ کا کچھ بھی ثواب نہ ملے گا یہ کہہ کر آخیر میں کہا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسا ہی سنا ہے ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ولید بن مسلم نے ابن جابر سے روایت کرتے ہوئے اسے بالربائث کہا ہے اور کہا مولیٰ امراتہ ام عثمان بن عطاء۔

 

                   نماز جمعہ کے ترک پر وعید

 

مسدد، یحییٰ، محمد بن عمرو، عبیدہ بن سفیان، صحابی رسول حضرت ابو الجعد ضمری صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کاہلی و سستی کی بناء پر متواتر تین جمعہ کی نمازیں چھوڑے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔

 

                   نماز جمعہ قضا ہو جانے کا کفارہ

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، ہمام، قتادہ، قدامہ بن برہ، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی عذر کے بغیر نماز جمعہ کو ترک کر دے تو اس کو چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اگر ایک دینار نہ دے سکتا ہو تو آدھا دینار صدقہ کرے ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اسی طرح خالد بن زید نے بھی روایت کیا ہے مگر سند میں اختلاف اور تین میں اتفاق کے ساتھ۔

 

محمد بن سلیمان، محمد بن یزید، اسحاق بن یوسف، ایوب، ابی علاء، قتادہ، حضرت قدامہ بن وبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلا عذر جمعہ قضاء کرے تو اس کو ایک درہم یا نصف درہم یا ایک صاع گیہوں یا نصف صاع گیہوں صدقہ کرنا چاہیے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو سعید بن بشیر نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے مگر ان کی روایت میں یہ ہے کہ ایک یا آدھا مد اور انھوں نے حضرت سمرہ سے روایت کیا ہے۔

 

                   جمعہ کن لوگوں پر واجب ہوتا ہے

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو، عبید اللہ بن ابی جعفر، زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتیں ہیں کہ لوگ نماز جمعہ میں شرکت کے لیے اپنے گھروں سے اور عوالی (مدینہ کے قرب و جوار کے دیہات) سے باری باری آتے تھے۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، قبیصہ، سفیان، محمد بن سعید، ابی سلمہ بن نبیہ، عبد اللہ بن ہارون، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جو اذان سنے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ایک جماعت نے سفیان سے روایت کیا ہے لیکن سب نے روایت کو عبد اللہ بن عمر پر موقوف کیا ہے صرف قبیصہ نے اس کو مرفوعاً ذکر کیا ہے۔

 

                   بارش کے دن جمعہ کو جانے کا بیان

 

محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ حضرت ابو ملیح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حنین کے دن بارش ہو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ یہ اعلان کر دیا جائے کہ نماز اپنے اپنے ٹھکانوں پر پڑھ لو۔

 

محمد بن مثنی، عبد الاعلی، سعید، حضرت ابو ملیح سے روایت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا

 

نصر بن علی، سفیان بن حبیب، خالد حذا، ابو قلابہ ابو ملیح سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے سنا وہ کہتے تھے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جمعہ کے دن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اسی دن بارش ہو رہی تھی مگر اتنی کم کہ لوگوں کے جوتوں کے تلے بھی نہ بھیگ سکے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم کیا کہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر پڑھ لو۔

 

                   سرد راتوں میں جماعت معاف ہونے کا بیان

 

محمد بن عبید، حماد بن یزید، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمرو ضجنان نامی ایک مقام پر اترے سرد رات میں انھوں نے ایک منادی کو حکم دیا پس اس نے اعلان کیا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں پر ایوب کہتے ہیں کہ نافع نے ابن عمر کے حوالہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سردی یا بارش کی راتوں میں منادی کو اعلان کرنے کا حکم فرماتے کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں پر

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر نے مقام ضجنان میں اذان دی پھر پکارا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں میں پھر حدیث بیان کی کہ سفر میں بارش یا سردی کی راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرماتے موذن کو پس وہ پہلے اذان دیتا پھر پکارتا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں پر ابو داؤد کہتے کہ اسے حماد بن سلمہ نے بواسطہ ایوب عبید اللہ روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ضجنان نامی ایک مقام پر سردی اور آندھی کی رات میں اذان کے آخر میں کہا لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو اس کے بعد کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوران سفر سردی یا بارش کی رات میں موذن کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرماتے کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو۔

 

قعنبی، مالک، حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سردی اور آندھی کی رات میں ابن عمر نے اذان دی اس کے بعد کہا اپنے اپنے ٹھکانے پر نماز پڑھ لو پھر کہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سردی یا بارش کی رات میں موذن کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرماتے کہ نماز پڑھ لو اپنے ٹھکانے پر

 

عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منادی نے مدینہ میں ایسی ہی ندا کی تھی بارش کی رات میں یا سردی کی صبح ابو داؤد فرماتے ہیں کہ اسے یحیٰ بن سعید انصاری نے بروایت قاسم، بواسطہ ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے فی السفر کہا ہے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، زہیر، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اتنے میں بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جس کا دل چاہے اپنے ٹھکانے پر نماز پڑھ لے،

 

مسدد، اسماعیل، عبد الحمید، عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بارش کے دن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے موذن سے کہا جب تو اذان میں اشہد ان محمد رسول اللہ کہے تو اس کے بعد حی علی الصلوٰۃ نہ کہہ بلکہ یوں کہ صلو فی بیو تکم یعنی نماز پڑھ لو اپنے گھروں میں لوگوں نے اس طریقہ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو کہا ایسا اس نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھا (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا جمعہ واجب ہے لیکن تمھارا بارش اور کیچڑ میں چلنا اور تکلیف اٹھانا مجھے اچھا نہیں لگا

 

                   عورت اور غلام پر جمعہ واجب نہیں

 

عباس بن عبد العظیم، اسحاق بن ابراہیم بن محمد بن منتشر، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے سوائے چار طرح کے لوگوں کے ایک غلام پر دوسرے عورت پر، تیسرے بچے پر، چوتھے بیمار پر ابو داؤد کہتے ہیں کہ طارق بن شہاب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ سنا نہیں۔

 

                   گاؤں میں جمعہ پڑھنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن عبد اللہ، وکیع، ابراہیم بن طہمان، ابو جمرہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسلام میں پہلا جمعہ جو پڑھا گیا اس جمعہ کے بعد جو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پڑھا گیا تھا وہ ہے جو بحرین کے ایک گاؤں جواثا میں پڑھا گیا (ابو داؤد کے شیخ) عثمان نے کہا کہ وہ گاؤں عبد قیس کے گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے۔

 

قتیبہ بن سعید، ابن ادریس، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابی امامہ بن سہل، حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک سے روایت ہے کہ ان کے والد جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ کے لیے دعا کرتے میں نے عرض کیا ابا جان آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ہمیں جمعہ پڑھایا ھزم البیت میں نقیع میں جس کو نقیع الحضمات کہا جاتا تھا اور ہزم البیت بنی بیاضہ کی زمینوں میں سے ہے میں نے پوچھا اس دن آپ کل کتنے لوگ تھے؟ فرمایا چالیس۔

 

                   جب جمعہ اور عید ایک دن پڑ جائیں

 

محمد بن کثیر، اسرائیل، عثمان بن مغیرہ، حضرت ایاس بن ابی رملہ شامی سے روایت ہے کہ میں معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ تھا جب انھوں نے زید بن ارقم سے سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عید اور جمعہ کا دن ایک ساتھ پایا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں! حضرت معاویہ نے پوچھا اس دن آپ نے کس طرح کیا؟ کہا کہ پہلے آپ نے عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کے سلسلہ میں لوگوں کو اختیار دیا فرمایا جس کا جی چاہے جمعہ کی نماز پڑھ لے۔

 

محمد بن طریف، اسباط، اعمش، حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیر نے ہم کو عید کی نماز جمعہ کے دن صبح سویرے پڑھائی پھر جب ہم جمعہ پڑھنے کے لیے گئے تو وہ نہیں نکلے پس ہم نے تنہا ظہر کی نماز پڑھ لی۔ اس زمانہ میں ابن عباس طائف میں تھے جب وہ طائف سے آئے تو ہم نے ان سے یہ قصہ بیان کیا انھوں نے فرمایا عبد اللہ بن زبیر نے سنت کے موافق کیا۔

 

یحیٰ بن خلف، ابو عاصم، ابن جریج سے روایت ہے کہ عطاء بن رباح نے کہا کہ عبد اللہ بن زبیر کے زمانہ میں عید اور جمعہ ایک دن جمعہ ہو گئے انھوں نے کہا آج دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں انھوں نے دونوں کو ملا کر پڑھا صبح کے وقت دو رکعتیں اور ان پر زیادہ نہ کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز پڑھی۔

 

محمد بن مصفی، عمر بن حفص، بقیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں پس جو شخص چاہے عید کی نماز جمعہ کے بدلہ میں کافی ہو گی لیکن ہم تو پڑھیں گے (اور عمر نے کہا عن شعبہ)

 

                   جمعہ کے دن صبح کی نماز میں کون سی سورت پڑھے

 

مسدد، ابو عوانہ، محول، بن راشد، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ الم تَنْزِیلُ السجدہ اور ہَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ حِینٌ مِنْ الدَّہْرِ پڑھا کرتے تھے۔

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، مخول، مخول اپنی سابقہ سند اور مفہوم کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ جمعہ اور سورۃ منافقون پڑھا کرتے تھے۔

 

                   جمعہ کے کپڑوں کا بیان

 

قعنبی، مالک، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی کپڑا بکتا ہوا دیکھا انھوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کاش، یہ کپڑا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وفود آئیں تب پہن لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کپڑے کو تو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہو گا پھر اسی طرح کے کچھ کپڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ایک کپڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیتے ہیں حالانکہ اس سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عطارو کے کپڑوں کے سلسلہ میں کلام فرما چکے ہیں (عطارد کپڑا بیچنے والے کا نام تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تجھے اس لیے نہیں دیا کہ تو اس کو پہنے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کپڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، عمرو بن حارث، ابن شہاب، سلام، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک ریشمی کپڑا بکتا ہوا دیکھا وہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے آئے اور فرمائش کی کہ اس کو خرید لیجئے اور عید پر زیب تن فرمائیے یا جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا کریں تب پھر راوی نے حدیث آخر تک بیان کی اور پہلی حدیث مکمل ہے۔

 

احمد بن صالح، بن وہب، یونس، عمرو، یحیٰ بن سعید، محمد بن یحیٰ حیان نے روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کو کیا ہو جائے گا؟ اگر تم کپڑا پاؤ اور جمعہ کے واسطے دو کپڑے مزید بنوا لو سوائے کام کاج کے کپڑوں کے اور عمر نے کہا کہ ابن ابی حبیب نے بواسطہ موسیٰ بن سعد، ابن حیان ابن سلام بیان کیا کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا تھا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسے وہب بن جریر نے اپنے والد یحیٰ بن ایوب یزید بن ابی حبیب موسیٰ بن سعد یوسف بن عبد اللہ بن سلام نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے۔

 

                   نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنا

 

مسدد، یحییٰ، ابن عجلان، عمرو بن شعیب ان کے والد ان کے دادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے اور اس میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنے سے اور اس میں شعر و شاعری کرنے سے منع فرمایا ہے اور نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ہے۔

 

                   منبر بنانے کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد اللہ بن عبد ا لقاری، ابو حازم بن دینار سے روایت ہے کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی کے پاس آئے یہ لوگ منبر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا بنا ہوا تھا انھوں نے سہل سے پوچھا انھوں نے کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا بنا ہوا تھا اور میں نے اس کو پہلے ہی دن دیکھا تھا جب وہ رکھا گیا تھا اور جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سہل نامی عورت کے پاس کہلا بھیجا کہ تو اپنے لڑکے کو جو بڑھئی ہے حکم کر کہ وہ میرے لیے چند ایسی لکڑیاں بنا دے جس پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دے سکوں اس عورت نے لڑکے کو حکم دیا اس کے لڑکے نے ان لکڑیوں کو مقام غابہ کے ایک درخت سے بنایا جس کو طرفاء کہتے ہیں پھر وہ بنا کر عورت کے پاس لایا اس عورت نے وہ منبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر نماز پڑھی، تکبیر کہی، رکوع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی پر رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اترے پیٹھ موڑے ہوئے اور نیچے اتر کر منبر کی جڑ میں سجدہ کیا پھر اوپر چلے گئے جب نماز سے فارغ ہوئے تولوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے لوگو! میں نے یہ اس واسطے کیا ہے تاکہ میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنا سیکھ لو۔

 

حسن بن علی، ابو عاصم، ابن ابی رواد، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بدن بھاری ہو گیا تو تمیم داری نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک منبر تیار کر دوں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بوجھ برداشت کر لیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں! پس انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے دو سیڑھیوں والا ایک منبر بنا دیا۔

 

                   منبر رکھنے کی جگہ کا بیان

 

مخلد بن خالد، ابو عاصم، یزید بن ابی عبید، سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منبر اور مسجد کی دیوار کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ بکری کا بچہ اس میں سے گزر سکتا تھا۔

 

                   زوال سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھنا

 

محمد بن عیسیٰ، حسان بن ابراہیم، لیث، مجاہد، ابو خلیل، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے علاوہ دوپہر کو نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نیز یہ بھی فرمایا کہ جمعہ کے علاوہ ہر دن دوزخ دہکائی جاتی ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے مجاہد ابو الخلیل سے بڑے ہیں اور ابو الخلیل نے ابو قتادہ سے حدیث نہیں سنی۔

 

                   جمعہ کے وقت کا بیان

 

حسن بن علی، زید بن حباب، فلیح بن سلیمان عثمان بن عبد الرحمن، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کی نماز آفتاب ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔

 

احمد بن یونس، یعلی بن حارث، ایاس بن حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا۔

 

محمد بن کثیر، سفیان ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد رکھتے تھے۔

 

                   جمعہ کی اذان کا بیان

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، یونس، ابن شہاب، حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت کا دور آیا اور لوگ بہت ہو گئے تب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیسری اذان کا حکم دیا پس وہ تیسری اذان پہلی مرتبہ مقام زوراء پر دی گئی پھر اسی پر عمل ہونے لگا۔

 

نفیلی، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، زہری حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر بیٹھ جاتے تھے یہ اذان مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے پھر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے (بھی اسی طرح ہوتی رہی) اس کے بعد راوی نے حدیث یونس یعنی پہلی والی حدیث کی طرح بیان کیا۔

 

ہناد بن سری، عبد ہ، محمد بن اسحاق ، زہری حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موذن سرف حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے پھر راوی نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابو صالح، ابن شہاب، حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا صرف ایک موذن تھا پھر راوی نے یہ حدیث آخر تک بیان کی مگر یہ حدیث پوری نہیں ہے۔

                   امام خطبہ کے دوران گفتگو کر سکتا ہے

 

یعقوب بن کعب، مخلد بن یزید، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر بیٹھے تو لوگوں سے فرمایا بیٹھ جاؤ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان سنا تو مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے (کیونکہ اس وقت وہ مسجد کے دروازے پر تھے) اتنے میں ان پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ پڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عبد اللہ بن مسعود! ادھر آؤ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ لوگوں نے اسے بروایت عطاء نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے اور مخلد شیخ ہیں

 

                   امام کا منبر پر بیٹھنا

 

محمد بن سلیمان، عبد الوہاب، ابن عطاء، عمری نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو خطبے پڑھتے تھے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر جا کر بیٹھتے یہاں تک کہ موذن اذان سے فارغ ہو جاتا پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے اور گفتگو نہ فرماتے اس کے بعد پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے۔

 

                   کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے کا بیان

 

نفیلی عبد اللہ بن محمد، زہیر، سماک، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے پس جو کوئی تجھ سے یہ بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر خطبہ پڑھتے تھے وہ جھوٹا ہے قسم خدا کی میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ دو ہزار سے زائد نمازیں پڑھی ہیں (جن میں پچاس جمعے بھی ہوں گے)۔

 

ابراہیم بن موسی، عثمان بن ابی شیبہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو خطبے پڑھتے تھے اور ان کے درمیان بیٹھتے تھے اور ان خطبوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے۔

 

ابو کامل، ابو عوانہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاتے اور کسی سے گفتگو نہ فرماتے۔

 

                   کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا

 

سعید بن منصور، شہاب بن خراش حضرت شعیب بن زریق طابقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حکم بن حزن نامی ایک شخص کے پاس بیٹھا جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت میں رہ چکا تھا وہ ہم سے حدیث بیان کرنے لگا اس نے کہا ایک مرتبہ میں سات آدمیوں کے وفد کے ہمراہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا (یا یہ کہا کہ نو آدمیوں کے ہمراہ) پس جب ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں پس ہمارے لیے دعائے خیر فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے لیے کچھ کھجوریں دینے کا حکم فرمایا۔ ان دنوں مسلمانوں کی مالی حالت بہت خراب تھی پھر ہم چند روز مدینہ میں رہے۔ ان دنوں میں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جمعہ بھی پڑھا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک عصا یا کمان پر سہارا لگا کر کھڑے ہوئے اور چند کلمات سے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی۔ وہ کلمات ہلکے پھلکے نہایت پاکیزہ اور مبارک تھے پھر فرمایا اے لوگو! تم تمام احکامات نہ بجا لا سکو گے لیکن کوشش میں لگے رہو اور خوشخبری سناؤ ابو علی نے پوچھا کیا تو نے ابو داؤد سے سنا ہے؟ اس نے کہا میرے بعض دوستوں نے مجھے کچھ کلمات بتائے تو تھے لیکن وہ لکھنے سے رہ گئے۔

 

محمد بن بشار، ابو عاصم، عمران، قتادہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب خطبہ پڑھتے یہ کہتے الْحَمْدُ لِلَّہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا مِنْ یَہْدِہِ اللَّہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ أَرْسَلَہُ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا بَیْنَ یَدَیْ السَّاعَۃِ مَنْ یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ یَعْصِہِمَا فَإِنَّہُ لَا یَضُرُّ إِلَّا نَفْسَہُ وَلَا یَضُرُّ اللَّہَ شَیْئًا ۔

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس سے روایت ہے کہ انھوں نے ابن شہاب سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطبہ جمعہ کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے سابقہ حدیث کی طرح روایت کیا بس یہ اضافہ کیا وَمَنْ یَعْصِہِمَا فَقَدْ غَوَی وَنَسْأَلُ اللَّہَ رَبَّنَا أَنْ یَجْعَلَنَا مِمَّنْ یُطِیعُہُ وَیُطِیعُ رَسُولَہُ وَیَتَّبِعُ رِضْوَانَہُ وَیَجْتَنِبُ سَخَطَہُ فَإِنَّمَا نَحْنُ بِہِ وَلَہُ۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان بن سعید، عبد العزیز، بن رفیع، حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے خطبہ پڑھا اور یوں کہا مَنْ یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ یَعْصِہِمَا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چل یہاں سے تو برا خطیب ہے۔

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حبیب، عبد اللہ بن محمد، بن بنت حارث بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سورۃ ق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی سن کر ہی یاد کی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھتے تھے بنت حارث کہتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک ہی تنور تھا ابو داؤد فرماتے ہیں کہ روح بن عبادہ شعبہ سے روایت کرتے ہوئے بنت حارثہ بن نعمان کہا ہے اور ابن اسحاق نے ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان کہا ہے۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، سماک، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانہ درجہ کے ہوتے تھے خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کی چند آیتیں پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔

 

محمود بن خالد، مروان، سلیمان بن بلال، یحیٰ بن سعید، حضرت عمرہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورہ قاف رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے سن کر ہی یاد کی ہے یہ سورۃ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر جمعہ میں پڑھتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو یحیٰ بن ایوب اور ابن ابی الرجال نے بروایت یحیٰ بن سعید بواسطہ عمرہ، ام ہشام بنت حارثہ بن نعمال اسی طرح روایت کیا ہے۔

 

ابن سرح، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، یحیٰ بن سعید، عمرہ کی بہن بنت عبد الرحمن سے بھی اسی طرح مروی ہے یہ عمرہ سے عمر میں بڑی تھیں۔

 

                   دوران خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھانا بُرا ہے

 

احمد بن یونس، زائدہ، حصین بن عبد الرحمن عمارہ، بشر، بن مروان حصین بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو دیکھا جو جمعہ کے دن دوران خطبہ ہاتھ اٹھا رہے تھے یہ دیکھ کر عمارہ نے کہا اللہ ان دونوں ہاتھوں کو برا کرے میں نے منبر پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف انگشت شہادت سے اشارہ کرتے تھے۔

 

مسدد، بشر، بن مفضل، عبد الرحمن ابن اسحاق ، عبد الرحمن بن معاویہ حضرت سہل سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے نہیں دیکھا نہ منبر پر اور نہ غیر منبر پر بلکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے (یہ کہہ کر) بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنایا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا کہ یوں۔

 

                   مختصر خطبہ دینے کا بیان

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علاء بن صالح، حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں مختصر خطبہ دینے کی تاکید فرمائی۔

 

محمود بن خالد، ولید شیبان، ابو معاویہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن خطبہ کو طول نہ دیتے تھے بلکہ وہ چند مختصر سے کلمات ہوتے تھے۔

 

                   خطبہ کے وقت امام کے قریب بیٹھنا

 

علی بن عبد اللہ معاذ بن ہشام، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خطبہ میں حاضر ہوا اور امام کے قریب بیٹھو اس لیے کہ آدمی ہمیشہ دور رہتے رہتے جنت میں جاتے وقت بھی دور رہے گا اگرچہ وہ جنت میں آخر کار داخل ہو گا۔

 

                   اگر کوئی واقعہ پیش آ جائے تو امام خطبہ موقوف کر سکتا ہے

 

محمد بن علاء، زید بن حباب، حسین بن واقد، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہ گرتے پڑتے ادھر آ نکلے اس وقت وہ سرخ دھاری والا کرتہ پہنے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو دیکھ کر منبر سے اترے اور ان کو گود میں اٹھا لیا اور پھر منبر پر چڑھ گئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے کہ تمھارے مال و اولاد آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر خطبہ فرما دیا۔

 

                   خطبہ کے دوران گو ٹھ مار کر بیٹھنا

 

محمد بن عوف، سعید بن ابی ایوب، حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے دن خطبہ کے دوران گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

 

داؤد بن رشید، خالد بن حیان، سلیمان بن عبد اللہ بن زبری علی بن شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں معاویہ کے ساتھ بیت المقدس میں آیا پس انھوں نے ہمیں جمعہ پڑھایا میں نے دیکھا مسجد میں اکثر اصحاب رسول میں سے تھے میں نے ان کو خطبہ کے دوران گوٹھ مار کر بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ خطبہ کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح بیٹھتے تھے اور انس بن مالک، شریح، صعصعہ بن صوحان، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، مکحول، اسماعیل بن محمد بن سعد اور نعیم بن سلامہ نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ابو داؤد کہتے ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ عبادہ بن نسی کے علاوہ کسی نے اسے مکروہ جانا ہو۔

 

                   خطبہ کے وقت گفتگو ممنوع ہے

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو اور تو کسی کو یہ کہہ دے کہ چپ رہ تو تُو نے لغو کام کیا۔

 

مسدد، ابو کامل، یزید بن حبیب، عمرو بن شیعب، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے جمعہ میں تین طرح کے آدمی آتے ہیں ایک تو وہ جو وہاں آ کر بیہودہ بات کرے اس کا حصہ یہی ہے یعنی اس کو کچھ ثواب نہ ملے گا دوسرا وہ ہے جو وہاں آ کر اللہ تعالی سے دعا کرے۔ اگر اللہ چاہے گا تو اس کی دعا قبول کرے گا اور چاہے گا تو نہیں کرے گا تیسرا وہ ہے جو وہاں آ کر خاموشی سے بیٹھ جائے نہ لوگوں کی گردن پھاند کر آگے بڑھے اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائے تو اس کا یہ عمل اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک بلکہ مزید تین دن تک کے گناہ کے لیے کفارہ بن جائے گا کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا ثواب ملے گا۔

 

                   مقتدی اپنا وضو ٹوٹنے کی اطلاع امام کو کس طرح دے

 

ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر نماز کے دوران تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر چلا جائے ابو داؤد کہتے ہیں اس کو حماد اور ابو اسامہ نے بطریق ہشام بواسطہ عروہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ذکر نہیں کیا۔

 

                   اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران مسجد میں آئے تو وہ تحیۃ المسجد کی نماز پڑھے یا نہیں؟

 

سلیمان بن حرب، حماد، عمرو، ابن دینار، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن (مسجد میں) آیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے کہا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چل اٹھ اور پڑھ۔

 

محمد بن محبوب، اسماعیل، بن ابراہیم، حفص بن غیاث، اعمش، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلیک غطفانی مسجد میں آئے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا تو نے نماز پڑھی؟ انھوں نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو مختصر رکعتیں پڑھ لے۔

 

احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، سعید، ولید، ابی بشر، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے حدیث سنی پھر سابقہ حدیث کی مانند ذکر کیا بس اتنا اضافہ کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جب تم میں سے کوئی اس حال میں مسجد میں آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ دو مختصر رکعتیں پڑھ لے۔

 

                   جمعہ کے دن لوگوں کی گردن نہ پھاندے

 

ہارون بن معروف، بشر بن سری، معاویہ بن صالح، حضرت ابو الزاہر یہ سے روایت ہے کہ ہم صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عبد اللہ بن بسر کے ساتھ تھے جمعہ کے دن اتنے میں ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا آیا۔ عبد اللہ بن بُسر نے کہا ایک مرتبہ جمعہ کے دن اسی طرح ایک شخص گردنیں پھاندتا ہوا آیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیٹھ جا تو نے لوگوں کو تکلیف دی۔

 

                   خطبہ کے دوران کسی کو اونگھ آنا

 

ہناد بن سری، عبد ہ، ابن اسحاق ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو مسجد میں اونگھ آنے لگے تو وہاں سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ جا کر بیٹھ جائے

 

                   امام منبر سے اتر نے کے بعد گفتگو کر سکتا ہے

 

مسلم بن ابراہیم، جریر، ابن حازم، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (خطبہ پڑھ کر) منبر سے اترتے پھر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنی کوئی غرض بیان کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر اس سے گفتگو کرتے یہاں تک کہ اس کی غرض پوری ہو جاتی اس کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں اور اس میں جریر بن حازم منفرد ہے۔

 

                   جمعہ کی ایک رکعت پا لینے کا بیان

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے وہ نماز پالی۔

 

                   نماز جمعہ میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں

 

قتیبہ بن سعید، ابو عوانہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے اور جب جمعہ اور عید ایک ہی دن آتے تو انہی دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے۔

 

قعنبی، مالک، ضمرہ بن سعید، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نعمان بن بشیر سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن سورہ جمعہ پڑھ کر پھر کون سی سورت پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا وہ ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے۔

 

قعنبی، سلیمان بن بلال، جعفر، ابن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو سورہ جمعہ پڑھی اور دوسری سورت میں إِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ ابن ابی رافع کہتے ہیں کہ میں نماز سے فراغت کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا تو کہا آپ نے وہ دو سورتیں پڑھیں جو کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

 

مسدد، یحیٰ بن سعید، شعبہ، معبد بن خالد، زید بن عقبہ، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز میں سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے۔

 

                   اگر مقتدی اور امام کے بیچ میں دیوار حائل ہو تو اقتداء درست ہے

 

زہیر بن حرب، ہشیم، یحیٰ بن سعید، عمرو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حجرہ میں نماز پڑھی اور لوگوں نے حجرہ کے پیچھے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء کی۔

 

                   جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان

 

محمد بن عبید، سلیمان بن داؤد، حماد بن زید، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر جمعہ سے ایک شخص کو جمعہ کے دن اسی جگہ دو رکعتیں پڑھتے ہوے دیکھا انھوں نے اس شخص کو دھکا دیا اور کہا کہ تو جمعہ کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ نافع کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن عمر جمعہ کے دن دو رکعتیں پڑھتے تھے اپنے گھر جا کر اور کہتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا کیا کرتے تھے۔

 

مسدد، اسماعیل، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر جمعہ سے پہلے بہت دیر تک نماز پڑھتے تھے اور جمعہ کے بعد گھر جا کر دو رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کرتے تھے۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، ابن جریج، عمرو بن عطاء، بن ابی خوار نافع، ابن جبیر حضرت عمرو بن عطار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نافع بن جبیر نے ان کو ایک بات پوچھنے کی غرض سے سائب بن یزید کے پاس بھیجا جو انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان کو دوران نماز کرتے دیکھا تھا حضرت سائب نے کہا میں نے حضرت معاویہ کے ساتھ مسجد کے محراب میں نماز پڑھی جب میں نے سلام پھیرا تو اٹھ کر اسی جگہ نماز پڑھنے لگا جب وہ گھر میں آئے تو ایک شخص کو میرے پاس بھیجا اور کہلایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ جب تو جمعہ کی نماز پڑھ چکے تو اس کے ساتھ دوسری نماز نہ پڑھ جب تک کہ تو کوئی بات نہ کرے یا وہاں نکل نہ جائے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا اس بات کا کہ کوئی نماز دوسری نماز کے ساتھ نہ ملائی جائے جب تک کہ تو بات چیت نہ کر لے یا وہاں سے نکل نہ جائے۔

 

محمد بن عبد العزیز، بن ابی رزمہ، فضل بن موسی، عبد الحمید بن جعفر، یزید بن ابی حبیب، حضرت عطاء حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ میں ہوتے تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد آگے بڑھ جاتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کر اپنے گھر چلے جاتے اور گھر میں دو رکعتیں پڑھتے مسجد میں نہ پڑھتے لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرما یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

 

احمد بن یونس، زہیر، محمد بن صباح، بزار، اسماعیل، بن زکریا، سہیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے تو چار رکعتیں پڑھے (یہ ابن صباح کی روایت تھی ابن یونس کی روایت یہ ہے کہ) جب تم جمعہ پڑھ چکو تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھو (سہیل) کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے کہا بیٹا! اگر تو مسجد میں پڑھے تو دو رکعتیں پڑھ اور پھر گھر آ کر مزید دو رکعتیں پڑھ۔

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن دینار نے ابن عمر سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

 

ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، حضرت ابن جریج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے عطاء نے خبر دی کہ انھوں نے ابن عمر کو دیکھا کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر اس جگہ سے تھوڑا سا سرک جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے پھر تھوڑا سا مزید سرک جاتے اور چار رکعتیں پڑھتے ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ آپ نے ابن عمر کو ایسا کرتے ہوئے کتنی بار دیکھا ہے فرمایا متعدد بار ابو داؤد کہتے کہ اسے عبد الملک بن سلیمان نے غیر مکمل طریقہ پر روایت کیا ہے۔

 

                   عیدین کی نماز

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ہجرت کے بعد) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے (اہل مدینہ نے) دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے ان دنوں کے بدلہ میں تمہیں ان دنوں سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ایک یوم الاضحی اور دوسرا یوم الفطر۔

 

                   عید کی نماز کا وقت

 

احمد بن حنبل، ابو مغیرہ، صفوان یزید بن خمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عبد اللہ بن بسر عیدالفطر (یا عیدالاضحی) کے دن لوگوں کے ساتھ تھے انھوں نے نماز عید کے لیے نکلنے میں تاخیر پر امام کی تکبیر کی اور کہا کہ (عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو) ہم لوگ اس وقت تک نماز سے فارغ ہو جاتے تھے یعنی اشراق کے وقت تک۔

 

                   عورتوں کا نماز عیدین کے لیے جانا

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ایوب، یونس، حبیب، یحیٰ بن عتیق، ہشام ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم فرمایا عید کے دن (نماز عید کے لیے) عورتوں کو لے چلنے کا ۔ کسی نے پوچھا کیا حائضہ عورتوں کو بھی ساتھ لے چلیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو بھی بہتری کی جگہ میں آنا چاہیے اور مسلمانوں کے ساتھ دعاء میں شریک ہونا چاہیے ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی عورت کے پاس کپڑا نہ ہو (یعنی باہر نکلنے کے لیے بڑی چادر یا برقعہ نہ ہو) تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اس کی کوئی سہیلی یا ساتھن اس پر ایک کپڑا ڈال دے۔

 

محمد بن عبید، حماد، ایوب، محمد، ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح روایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حائضہ عورتیں عیدگاہ سے دور رہیں کپڑے کے متعلق ذکر نہیں کیا۔ (ایوب نے) بواسطہ ایک عورت کا قصہ پہلی حدیث کی مانند ذکر کیا۔

 

نفیلی، زہیر، عاصم، احول، حفصہ بنت سیرین، (ایک دوسری سند کے ساتھ) ام عطیہ سے روایت ہے کہ حائضہ عورتیں مردوں کے پیچھے رہتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہتی تھیں۔

 

ابو ولید، مسلم، اسحاق بن عثمان، اسماعیل، بن عبد الرحمن بن عطیہ (ایک اور سند کے ساتھ) ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا اور حضرت عمر کو ان کے پاس بھیجا انھوں نے دروازہ پر کھڑے ہو کر عورتوں کو سلام کیا عورتوں نے سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد بن کر تمھارے پاس آیا ہوں (ام عطیہ کہتی ہیں کہ) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بواسطہ عمر) ہمیں حکم فرمایا کہ ہم عیدین میں حائضہ عورتوں اور کنواری لڑکیوں کو لے جائیں مگر ہم پر جمعہ میں شرکت ضروری نہیں ہے اور ہم کو جنازوں کے ساتھ جانے کی بھی ممانعت فرما دی۔

 

                   عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان

 

محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، اسماعیل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اے مروان! تو نے خلاف سنت کام کیا کہ تو نے عید کے دن منبر نکالا (حالانکہ زمانہ رسالت و عہد خلفاء راشدین میں، یہ عید کے دن) نہیں نکالا جاتا تھا اور تو نے خطبہ نماز سے پہلے دیا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ فلاں ابن فلاں ہے (یعنی اس کا نام معہ ولدیت بتایا) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا اس شخص نے (مروان کو خلاف سنت کام پر تنبیہ کر کے) اپنا حق پورا کر دیا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم میں سے جو شخص بھی کسی منکر (خلاف حق) کو دیکھے اور طاقت رکھتا ہو تو اس کو طاقت کے بل پر ختم کر دے اور اگر طاقت کے ذریعہ ممکن نہ ہو تو زبان کے ذریعہ (فہمائش کر کے) روک دے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو (کم از کم) اس کو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، محمد بن بکر، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عیدالفطر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی خطبہ سے پہلے پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فارغ ہو گئے تو منبر سے اتر کر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو نصیحت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سہارا لگائے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈالتی تھیں کوئی اپنا چھلہ ڈالتی تھی اور کوئی کچھ اور۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابن کثیر، شعبہ، ایوب، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے دن نماز عید کے لیے روانہ ہوئے عیدگاہ پہنچ کر عید کی نماز پڑھائی اس کے بعد خطبہ دیا پھر حضرت بلال کو ساتھ لیے ہوئے عورتوں کی طرف تشریف لے گئے ابن کثیر نے کہا کہ شعبہ کا گمان غالب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کی تو وہ اپنے زیورات ڈالنے لگیں۔

 

مسدد، ابو معمر، عبد اللہ بن عمر، عبد الوارث، ایوب، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے (ایک دوسری سند کے ساتھ) بھی ایسا ہی مروی ہے جس میں یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ خیال گزرا کہ خطبہ عورتیں نہیں سن سکیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی طرف تشریف لے گئے اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نصیحت کی اور صدقہ کا حکم دیا پس بلال رضی اللہ عنہ کی جھولی میں کوئی اپنی بالی ڈالتی تھی اور کوئی انگوٹھی۔

 

محمد بن عبید حماد بن زید ایوب، عطاء ابن عباس، اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی عورت بالی دینے لگی تو کوئی انگوٹھی اور بلال رضی اللہ عنہ ان کو اپنی چادر میں ڈالتے گئے پھر وہ تمام مال رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نادار مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا۔

 

                   کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینا

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، ابن عیینہ، ابو خباب، یزید ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید کے دن کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کمان دی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر ٹیک لگا کر خطبہ دیا۔

 

                   عید کی نماز کے لیے اذان نہیں ہے

 

محمد بن کثیر سفیان بن حضرت عبد الرحمن بن عابس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن عباس سے پوچھا کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس عید کی نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا ہاں اگر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ میں میری قدرو منزلت نہ ہوتی تو میں اپنی کم عمری کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب کھڑا نہیں ہو سکتا تھاپس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔ (مگر ابن عباس نے) اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنے گلوں اور کانوں سے زیورات اتارنے لگیں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کیا اور وہ صدقہ لینے عورتوں کے پاس آئے اور صدقہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لوٹ گئے۔

 

مسدد، یحییٰ، ابن جریج، حسن بن مسلم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کی نماز بغیر اذان و اقامت کے پڑھی اور پھر اسی طرح ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ نے بھی پڑھی (یعنی اپنے دور خلافت میں) یحیٰ کو شک ہوا اس بات میں کہ عمر کہا یا عثمان۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ہناد، ابو احوص، سماک ابن حرب، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عید کی نماز بلا اذان و اقامت کے ایک دو مرتبہ ہی نہیں پڑھی (بلکہ متعدد مرتبہ پڑھی ہے)

 

                                  عیدین کی تکبیرات کا بیان

 

قتیبہ، ابن لہیعہ، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید الفطر میں اور عید الاضحی میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں۔

 

ابن سرح، ابن وہب ابن لہیعہ، خالد بن یزید، ابن شہاب اپنی سند سے اسی کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے) علاوہ رکوع کی دو تکبیروں کے۔

 

مسدد، معتمر، عبد اللہ بن عبد الرحمن طائفی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عید الفطر میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں اور قرأت دونوں رکعتوں میں تکبیروں کے بعد ہے۔

 

ابو توبہ، ربیع بن نافع، سلیمان بن احیان، ابو یعلی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے اور اس کے بعد پھر تکبیر کہتے پھر کھڑے ہوتے اور چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے۔ اس کے بعد رکوع کرتے، ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس وکیع اور ابن المبارک نے روایت کرتے ہوئے پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔

 

محمد بن علاء، ابن ابی زیاد، زید ابن حباب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک دوست، ابو عائشہ سے روایت ہے کہ سعید بن العاص نے ابو موسیٰ اشعری اور حذیفہ بن سیمان سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عید الاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ ابو موسیٰ نے کہا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے، نماز جنازہ کی مانند۔ ابو حذیفہ نے کہا ابو موسیٰ نے صحیح کہا ابو موسیٰ نے مزید کہا جب میں بصرہ والوں پر حاکم بنایا گیا تو میں وہاں بھی اتنی ہی تکبیریں کہتا تھا ابو عائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔

 

                   عیدین کی نماز میں کون سی سورتیں پڑھی جائیں

 

قعنبی، مالک، ضمرہ بن سعید، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالاضحی اور عیدالفطر میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ اور اقْتَرَبَتْ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ پڑھتے تھے۔

 

                   خطبہ سننے کے لیے لوگوں کا بیٹھے رہنا

 

محمد بن صباح، بزار، فضل بن موسی، ابن جریج، عطاء، حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عید میں آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم خطبہ پڑھیں گے جس کا خطبہ سننے کو دل چاہے وہ بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔

 

                   عید گاہ کی آمدورفت کے لیے الگ الگ راستے اختیار کرنا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ جانے کے لیے ایک راستے کو اور اس سے واپسی کے لئے دوسرے کو اختیار فرماتے تھے۔

 

                   اگر امام کسی عذر کی بناء پر عید کے دن نماز نہ پڑھا سکے تو دوسرے دن پڑھائے

 

حفص بن عمر، شعبہ، جعفر، بن ابی وحشیہ، ابو عمیر نے اپنے چچاؤں سے سنا جو کہ اصحاب رسول میں سے تھے کہ چند سوار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شہادت دی کہ ہم نے چاند دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان کی شہادت تسلیم کر کے) لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور کل صبح کو عیدگاہ چلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

 

حمزہ، بن نصیر، ابن ابی مریم، ابراہیم بن سوید، انیس بن ابی یحییٰ، اسحاق بن سالم، نوفل، بن عدی، بکر بن مبشر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں اصحاب رسول کے ساتھ عید کے دن صبح کے وقت عیدگاہ جاتا۔ ہم بطن بطحا سے ہو کر جاتے ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر بطن بطحا سے ہو کر ہی اپنے گھروں کو واپس آ جاتے۔

 

                   عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے

 

حفص بن عمر، شعبہ، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر کے دن نماز عید کے لیے نکلے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں پہنچ کر دو رکعتیں پڑھیں نہ اس سے پہلے کوئی نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتوں کی طرف تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت بلال بھی تھے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو صدقہ کا حکم فرمایا۔ (یہ حکم سن کر) کسی عورت نے اپنی کان کی بالیاں پیش کیں اور کسی نے گلے کا ہار۔

 

                   بارش کے دن عید کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے

 

ہشام بن عمار، ولید، ربیع بن سلیمان، عبد اللہ بن یوسف، ولید بن مسلم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کی نماز (بجائے عید گاہ کے) مسجد میں پڑھائی۔

 

                   صلٰوۃ استسقاء کے احکام

 

احمد بن محمد بن ثابت، عبد الرزاق، معمر، عباد بن تمیم، حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش کی دعا کرنے کی غرض سے لوگوں کو لے کر بستی سے باہر نکلے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور اس میں جہراً قرأت کی اور چادر کو پلٹا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر بارش کی دعا کی۔

 

ابن سرح، ابن ابی ذئب، یونس، ابن شہاب، عباد بن تبسم سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے چچا (عبد اللہ بن زید) سے سنا جو کہ اصحاب رسول میں سے تھے کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش کی دعا کرنے کے لیے (عیدگاہ کی طرف) نکلے اور لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے دعا کرتے رہے۔ سلیمان بن داؤد کی روایت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور اپنی چادر کو پلٹا پھر دو رکعتیں پڑھیں ابن ابی ذئب نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں رکعتوں میں قرأت کی۔ ابن سرح نے یہ صراحت کی کہ قرأت جہراً کی۔

 

محمد بن عوف، عمرو بن حارث، عبد اللہ بن سالم، زبیدی، محمد بن مسلم نے اپنی سند کے ساتھ یہی حدیث ذکر کی ہے مگر اس نے نماز کا ذکر نہیں ہے اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر پلٹی تو اس کا داہنا کنارہ اپنے بائیں کندھے پر ڈال لیا اور بایاں کنارہ داہنے کندھے پر۔ اس کے بعد اللہ تعالی سے دعا کی۔

 

قتیبہ بن سعید، عبد العزیز، عمار بن غزیہ عباد بن تمیم، حضرت عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارش کے لیے دعا کی اس حال میں کہ آپ نے چاہا کہ چادر کو نیچے سے پکڑ کر الٹ لیں مگر ایسا کرنا دشوار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اپنے کاندھوں پر پلٹ لیا (یعنی چادر کا داہنا کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر)

 

عبد اللہ بن مسلمہ، سلیمان، یحییٰ، ابی بکر بن محمد، عباد بن تمیم، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز استسقاء پڑھنے کے لیے عید گاہ تشریف لے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا مانگنے کا ارادہ کیا تو قبلہ کے طرف رخ کیا اس کے بعد چادر کو پلٹا۔

 

قعنبی، مالک، عبد اللہ بن ابی بکر، عباد بن تمیم، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارش کی دعا کی اور چادر پلٹی جب قبلہ کی طرف رخ کیا۔

 

نفیلی، عثمان بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل، ہشام بن اسحاق بن عبد اللہ بن کنانہ نے اپنے والد ( اسحاق بن عبد اللہ) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو ولید بن عتبہ نے (جن کو عثمان نے ولید بن عقبہ کہا ہے) جو مدینہ کے امیر تھے حضرت ابن عباس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صلٰوۃ استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا ابن عباس نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معمولی لباس میں عاجزی و زاری کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ میں تشریف لائے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور جیسے تم خطبہ پڑھتے ہو ایسا خطبہ نہیں پڑھا بلکہ دعا گریہ و زاری اور تکبیر میں مشغول رہے پھر دو رکعتیں پڑھیں جیسے عید میں پڑھی جاتی ہیں ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ الفاظ نفیلی کے ہیں اور صحیح ابن عتبہ ہے۔

 

                   نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، حیوۃ، عمرو بن مالک، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، عمیر، ابو اللحم کے آزاد کردہ غلام حضرت عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زوراء کے قریب مقام احجارالزیت کے پاس کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کرتے دیکھا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ سر سے اونچے نہ تھے۔

 

ابن ابی خلف، محمد بن عبید، مسعر، یزید، فقیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (بارش نہ ہونے کے سبب) لوگ روتے پیٹتے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیثًا مَرِیئًا مَرِیعًا نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَیْرَ آجِلٍ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ یہ کہتے ہی ان پر بادل چھا گیا۔

 

نصر بن علی، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دعا میں ہاتھوں کو اس قدر اونچا نہ اٹھاتے تھے جس قدر کہ دعا استسقاء میں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دعا میں اس قدر اونچا ہاتھ اٹھاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔

 

حسن بن محمد، عفان، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم استسقاء میں اس طرح دعا مانگتے تھے کہ دونوں ہاتھ پھیلاتے ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف رکھتے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بغلوں کی سفیدی دیکھی ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، عبد ربہ بن سعید، حضرت محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ حجار الزیت کے پاس دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کر رہے تھے (یعنی دعا استسقاء)

 

ہارون بن سعید، خالد بن نزار، قاسم بن مبرور، یونس، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پانی نہ برسنے کی شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منبر رکھنے کا حکم کیا چنانچہ عیدگاہ میں منبر رکھ دیا گیا اور ایک دن مقرر کر کے لوگوں سے اس دن نکلنے کو فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مقررہ دن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نکلے جب آفتاب کا اوپر کا کنارہ نکل آیا اور منبر پر تشریف فرما ہوئے تکبیر کہی اور حق تعالی کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا تم نے خشک سالی اور وقت پر بارش نہ ہونے کی شکایت کی حالانکہ اللہ تعالی نے تم کو (ایسے موقع پر) دعا کا حکم دیا ہے اور دعا قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ پڑھا الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ الخ یعنی سب تعریف اللہ کے لیے جو ساری کائنات کا رب ہے کوئی معبود برحق نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اے اللہ تو ہی خدا ہے تیرے سواء کوئی معبود برحق نہیں تو بے نیاز ہے اور ہم سب تیرے محتاج ہیں ہم پر بارش برسا اور جو بارش تو برسائے اس سے ہمیں قوت دے اور مدت دراز تک فائدہ عطا فرما۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی پھر لوگوں کی طرف پشت کی اور اپنی چادر کو الٹ لیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اس کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے اتر کر دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر اللہ تعالی نے ایک بادل بھیجا جو گرجنے اور کڑکنے لگا اور بحکم خدا بارش بھی برسنے لگی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدگاہ سے مسجد تک واپس بھی نہ آئے تھے کہ نالے بہہ نکلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب لوگوں کو بارش سے بچاؤ کرتے بھاگتے ہوئے دیکھا تو ہنسی آ گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کچلیاں کھل گئیں اور فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند عمدہ ہے اور اہل مدینہ مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ پڑھتے ہیں یہ حدیث ان کے لیے حجت ہے۔

 

مسدد، حماد بن زید، عبد العزیز بن صہیب، انس بن مال سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں قحط میں مبتلا ہوئے اسی زمانہ میں ایک جمعہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے مر گئے بکریاں مر گئیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی ہم پر بارش برسائے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا اتنے میں ہوا چلی اور بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا پھر پھیل گیا اور اس کے بعد تو آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا ہم نماز پڑھ کر نکلے تو اپنے گھروں تک بارش میں بھیگتے ہوئے گئے اور وہ بارش اگلے جمعہ تک مسلسل ہوتی رہی پھر وہی شخص (یا کوئی دوسرا شخص) کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! مکانات گر گئے اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش رک جائے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ اے اللہ! یہ پانی ہمارے آس پاس برسا ہم پر نہ برسا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بادل کو دیکھا کہ مدینہ پر پھٹ گیا گویا اکیل ہو گیا ہو۔

 

عیسی بن حماد، لیث سعید، شریک بن عبد اللہ بن ابی نمیر، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث ایک دوسری سند سے مروی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ کے سامنے کر کے اٹھائے اور فرمایا اے اللہ! ہمیں پانی ملا پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، یحییٰ، بن سعید، عمرو بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش کے لیے دعا کرتے تو یوں فرماتے اے اللہ ! پانی پلا اپنے بندوں کو اور اپنے جانوروں کو اور پھیلا دے اپنی رحمت اور زندہ کر دے مردہ شہر کو (یہ الفاظ حدیث مالک کے ہیں)

 

                   نماز کسوف کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ابن جریج، حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے ایک ایسی ہستی نے خبر دی جس کو میں سچا سمجھتا ہوں عطاء کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے عبید بن عمیر کی اس سے مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی ذات گرامی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت طویل قیام کیا پھر رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور قرأت کی پھر رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے (اور قرأت کی) اس کے بعد پھر رکوع کیا پس اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں یعنی ہر رکعت میں تین رکوع کیے اور تیسرے رکوع کے بعد سجدہ کیا یہاں تک کہ اس طویل قیام کی وجہ سے بعض لوگوں پر غشی طاری ہو گئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالنے پڑے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہتے (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ہی میں مشغول رہے) یہاں تک کہ سورج روشن ہو گیا نماز سے فراغت کے بعد فرمایا سورج اور چاند کسی کی زندگی یا موت کی بنا پر نہیں گہن ہوتے بلکہ یہ دونوں اللہ کی بہت سی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کے ذریعہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو (عذاب سے) ڈراتا ہے لہذا جب سورج یا چاند کو گہن لگے تو نماز کی طرف دوڑو۔

 

                   نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبد الملک، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگا اور یہی وہ دن تھا جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لختِ جگر حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تھی پس لوگ کہنے لگے کہ یہ سورج کو گہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو (دو رکعت) نماز پڑھائی چھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ (یعنی ہر رکعت میں تین رکوع اور دو سجدے کیے) اس طرح پر کہ پہلے تکبیر کہی پھر لمبی قرأت کی پھر قیام ہی کے بقدر طویل رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور تیسری مرتبہ کی قرأت سے قدرے کم تھی اس کے بعد تیسرا رکوع کیا جو تقریباً تیسری مرتبہ کے قیام کے مساوی تھا پھر اس رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ کے لیے جھک گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کیے اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے اور سجدہ سے پہلے تین رکوع کیے جس میں ہر پہلا رکوع دوسرے والے رکوع سے زیادہ لمبا تھا مگر وہ رکوع اپنے قیام کے برابر تھا جابر کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نماز کی جگہ سے ہٹ آئے اور باقی لوگ بھی آپ کے ساتھ ساتھ پیچھے ہٹ آئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھے اور باقی لوگ بھی آگے بڑھ آئے پس نماز پوری ہو گئی اس حال میں کہ سورج نکل چکا تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا لوگو! یہ چاند اور سورج اللہ کی اور بہت سی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو گہن کسی انسان کی موت سے نہیں لگتا پس جب تم ایسی کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ سورج روشن ہو جائے اس کے بعد امام احمد بن حنبل نے باقی حدیث بیان کی۔

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، ہشام، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں شدید گرمی کے ایک دن سورج کو گہن لگا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قیام کیا یہاں تک کہ لوگ (طویل قیام کی بناء پر) گرنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل رکوع کیا پھر رکوع کے بعد دیر تک کھڑے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کیے اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے اور اس دوسری رکعت میں بھی تقریباً ویسا ہی کیا جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا پس اس طرح کل چار رکوع اور چار سجدے ہوئے حضرت جابر نے باقی حدیث بیان کی۔

 

ابن سرح، ابن وہب، محمد بن سلمہ، ابن شہاب، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو پہلے تکبیر کہی اور باقی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف بنالی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قرأت کی اور اللہ اکبر کہہ کر ایک لمبا رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو کہا سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پھر کھڑے ہو کر طویل قرأت کی مگر یہ قرأت پہلی قرأت سے کم تھی پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیا جو لمبا تھا مگر پہلے رکوع سے کم پھر (رکوع سے اٹھتے ہوئے) کہا سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ۔ اس کے بعد دوسری رکعت میں بھی پہلی رکعت کی طرح کیا اس طرح کل ملا کر چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور سورج روشن ہو گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (نماز سے) فراغت سے پہلے۔

 

احمد بن صالح، عنبسہ، یونس، ابن شہاب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مانند روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گہن میں دو رکعتیں پڑھیں اور ہر رکعت میں دو رکوع کیے

 

احمد بن فرات، بن خالد، مسعود، محمد بن عبد اللہ بن ابی جعفر، ابو داؤد، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو اس میں ایک لمبی سورت پڑھی اور پہلی رکعت میں پانچ رکوع کیے اور دو سجدے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے اس میں بھی ایک لمبی سورت پڑھی اور پانچ رکوع کیے اور دو سجدے پھر قبلہ رخ ہو کر بیٹھے ہوئے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گہن ختم ہو گیا۔

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گہن ہونے میں نماز پڑھی تو قرأت کی پھر رکوع کیا (رکوع کے بعد) پھر قرأت کی پھر رکوع کیا پھر (رکوع کے بعد) قرأت کی پھر رکوع کیا پھر (رکوع کے بعد) قرأت اور رکوع کیا اس کے بعد سجدہ کیا اور دوسری رکعت میں بھی پہلی رکعت کی طرح کیا۔ (یعنی ہر رکعت میں چار مرتبہ رکوع کیا اور چار مرتبہ قرأت )

 

احمد بن یونس، زہیر، اسود بن قیس، حضرت ثعلبہ بن عباد عبد ی سے روایت ہے کہ جو کہ بصرہ کے رہنے والے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب کے خطبہ میں شریک ہوئے جس میں انھوں نے کہا میں اور ایک انصاری لڑکا تیرے سے نشانہ بازی کر رہے تھے جب سورج مشرقی افق سے ابھر کر دو یا تین نیزہ کی بلندی پر آ گیا تو اچانک وہ سیاہ پڑ گیا گویا کہ وہ تنومہ بن گیا ہو (تنومہ ایک سیاہی مائل گھاس ہے) یہ دیکھ کر ہم نے ایک دوسرے سے کہا کہ آؤ مسجد چلتے ہیں ہو نہ ہو سورج کی یہ کیفیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت پر ضرور کوئی افتاد لائے گی ہم ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے چلے ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں نمودار ہوئے اور امامت کے لیے آگے بڑھے اور ہمیں اتنی لمبی نماز پڑھائی جتنی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھائی تھی لیکن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کی آواز نہیں سنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل رکوع کیا اس قدر طویل کہ پہلے کسی نماز میں نہیں کیا تھا اور اس میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تسبیح کی آواز نہیں سنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل سجدہ کیا اتنا طویل کہ اس سے پہلے کسی نماز میں نہیں کیا تھا اور اس میں بھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہیں سنی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح ادا فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسری رکعت پڑھ کر بیٹھے تو سورج روشن ہو چکا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا پھر کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کی اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر احمد بن یونس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا باقی خطبہ بیان کیا

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ایوب ابو قلابہ، قبیصہ ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گہن لگا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھبرا کر چادر کھینچتے ہوئے باہر تشریف لائے اس دن مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں جن میں طویل قیام کیا پھر نماز سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہو گیا (نماز سے فراغت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اللہ کی نشانیاں ہیں اللہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس جب تم یہ دیکھو تو نماز پڑھو اس نماز جیسی جو تم نے ابھی تازہ فرض نماز پڑھی (یعنی فجر)

 

احمد بن ابراہیم، ریحان بن سعید، عباد بن منصور، ایوب، ابو قلابہ، ہلال بن عامر نے قبصیہ سے ایسا ہی نقل کیا ہے اس میں یہ ہے کہ سورج کو گہن لگا یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے

 

                   صلٰوۃ کسوف میں قرأت کا بیان

 

عبید اللہ بن سعد، محمد بن اسحاق ، ہشام بن عروہ، عبد اللہ بن ابی سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے تو میں نے حالت قیام کی قرأت کا اندازہ لگایا پس میں نے سمجھا سورہ بقرہ پڑھی ہو گی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کیے اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے تو اس میں بھی طویل قرأت کی میں نے اس دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کا اندازہ لگایا تو وہ سورہ اٰل عمران کے برابر معلوم ہوئی

 

عباس بن ولید بن مزید، اوزاعی، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صلوٰۃ کسوف میں جہراً قرأت کی

 

قعنبی، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سورج گہن ہوا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ صلٰوۃ کسوف پڑھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قیام کیا اتنا طویل جتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع ادا کیا (اور راوی نے اس حدیث کو آخر تک بیان کیا)

 

                   صلوٰۃ کسوف میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دینا

 

عمرو بن عثمان، ولید، عبد الرحمن بن نمیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سورج گہن ہوا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو حکم دیا پس اس نے آواز لگائی کہ نماز جماعت سے ہو گی

 

                   سورج گہن ہو تو صدقہ دیا جائے

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورج یا چاند میں کسی کے جینے یا مرنے سے گہن نہیں لگتا جب ایسا ہو تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو اور صدقہ دو

 

                   گہن لگنے پر غلام آزاد کرنا

 

زہیر بن حرب، معاویہ، بن عمرو، زائدہ، ہشام، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گہن کے وقت صلٰوۃ  کسوف کے ساتھ غلام آزاد کرنے کا بھی حکم دیتے تھے

 

                   حالت کسوف میں دو رکعت پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ابی شعیب، حارث، بن عمیر، ایوب، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک مرتبہ سورج گہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے بارے میں دریافت فرماتے جاتے یہاں تک وہ صاف ہو گیا

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، عطاء بن سائب، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں کھڑے ہوئے اور سکی طرح رکوع نہ کرتے پھر رکوع کیا تو کسی طرح رکوع سے سر نہ اٹھاتے پھر سر اٹھایا تو کسی طرح سجدہ نہ کرتے، پھر سجدہ کیا تو کسی طرح سجدہ سے سر نہ اٹھاتے پھر سجدہ سے سر اٹھایا تو کسی طرح دوسرا سجدہ نہ کرتے، پھر دوسرا سجدہ کیا تو کسی طرح سر نہ اٹھاتے پھر سر اٹھایا اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا اور سجدہ کے آخر میں ایسی آواز نکلتی جیسے کوئی اف اف کر رہا ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (سجدہ میں) یہ پڑھا اے اللہ کیا تو نے وعدہ نہیں کر رکھا ہے کہ میں ان کو عذاب نہ دوں گا جب تو ان میں رہے گا کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں فرمایا تھا کہ میں ان کو عذاب میں مبتلاء نہ کروں گا جب تک وہ توبہ استغفار کرتے رہیں گے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور سورج بھی صاف ہو گیا

 

مسدد، بشر بن مفضل، جریری، حیان بن عمیر، حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات مبارکہ میں، میں تیر اندازی کر رہا تھا اچانک سورج گہن میں آ گیا میں نے تیروں کو پھینک دیا اور کہا کہ دیکھوں آج رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا نیا کام کرتے ہیں؟ جب میں آیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھائے تسبیح، تحمید، تہلیل میں مشغول ہیں اور دعٍا فرما رہے ہیں یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس دن اس نماز میں) دو رکعت میں دو سورتیں پڑھی تھیں

 

                   تاریکی وغیرہ کے موقع پر نماز پڑھنا

 

محمد بن عمرو بن جبلہ بن ابی رواد، حرمی بن عمارہ، عبید اللہ بن نضر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (آندھی یا کالی گھٹا کے سبب) اندھیرا چھا گیا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان سے دریافت کیا کہ اے ابو حمزہ (یہ حضرت انس کی کنیت ہے) کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بھی تم پر اس جیسا شدید اندھیرا ہوتا تھا؟ بولے معاذ اللہ (جب تو یہ حال تھا کہ) ذرا ہوا زور کی چلی اور ہم قیامت کے خوف سے مسجد کی طرف چلے

 

                   کوئی بڑا حادثہ رونما ہونے پر سجدہ کرنا

محمد بن عثمان بن ابی صفوان، یحیٰ بن کثیر، مسلم بن جعفر، حکم بن ابان، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فلاں بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے (یہ سن کر) وہ سجدہ میں گر پڑے پوچھا گیا کہ کیا آپ ایسے وقت میں بھی سجدہ کرتے ہیں؟ فرمایا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ کرو اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کے انتقال سے بڑھ کر اور نشانی کونسی ہو گی؟

 

                   مسافر کی نماز

 

قعنبی، مالک، صالح بن کیسان، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابتداء میں حضرو سفر میں دو دو رکعتیں ہی فرض ہوئی تھیں مگر بعد میں سفر کی نماز تو اپنے حال پر ہی رہی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا

 

احمد بن حنبل، مسدد، خشیش، ابن اصرم، عبد الرزاق، ابن جریج، حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ لوگ اب بھی نماز میں قصر کیے چلے جا رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر تم کو کافروں کی طرف سے فتنہ میں پڑ جانے کا خوف ہو تو قصر کرو اور اب وہ خوف کے ایام گذر چکے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جو اشکال تمہیں پیش آ رہا ہے وہ مجھے بھی پیش آ چکا ہے اس کا اظہار میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالی نے تم پر کیا ہے پس اس صدقہ کو قبول کرو

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، محمد بن بکر، ابن جریج، عبد اللہ بن ابی عمار، ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی عمارہ سے سنا وہ حدیث بیان کرتے تھے پھر اسی طرح ذکر کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو عاصم اور حماد بن مسعدہ نے اس روایت کو اسی طرح روایت کیا ہے جیسا کہ ابن بکر نے۔

 

                   قصر کی مسافت

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یحیٰ بن یزید ہنانی نے کہا کہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مسافت قصر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے تو (رباعی نمازوں میں) دو رکعت پڑھتے (میل یا فرسخ میں شک شعبہ کا ہے)

 

زہیر بن حرب، ابن عیینہ، محمد بن منکدر، ابراہیم بن میسرہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ پہنچ کر عصر کی دو رکعت پڑھی

 

                   سفر میں اذان دینے کا بیان

 

ہارون بن معروف، ابن وہب عمرو بن حارث، ابو عشانہ، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تمہارا رب اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رہ کر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، اس پر اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میرے اس بندے کو جو اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے سنو میں نے اپنے اس بندہ کے گناہ معاف کر دیئے اور میں اس کو جنت میں داخل کروں گا

 

                   مسافر کو شک کہ نماز کا وقت ہوا یا نہیں پھر نماز پڑھے تو درست ہے

 

مسدد، ابو معاویہ، مسحاج بن موسیٰ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو سنا تھا وہ ہم سے بیان فرمایئے، انہوں نے کہا جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں ہوتے تو ہم کہا کرتے تھے کہ سورج ڈھلا یا نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر کی نماز پڑھ کر سفر پر روانہ ہو جاتے

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، حمزہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی منزل پر اترتے تو سفر پر آگے روانہ نہ ہوتے جب تک ظہر کی نماز نہ پڑھ لیتے ایک شخص بولا اگرچہ دوپہر نہ ہوا ہو؟ انہوں نے کہا اگرچہ دوپہر ہو

 

                   دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان

 

قعنبی، مالک، ابو زبیر، ابی طفیل، عمر بن واثلہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کو اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھتے تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھنے میں تاخیر کی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا پھر خیمہ میں داخل ہوئے اور اس کے بعد باہر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا

 

سلیمان بن داؤد، حماد، ایوب، نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکہ میں یہ اطلاع ملی کہ (ان کی اہلیہ) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ہے تو وہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے نظر آنے لگے فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سفر میں کسی کام میں جلدی ہوتی تو ان دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لیتے پس ابن عمر رضی اللہ عنہ چلے یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی پھر آپ ایک مقام پر اترے اور پھر دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں

 

یزید بن خالد بن یزید بن عبد اللہ بن موہب، مفضل، معاذ، ابو زبیر، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک میں تھے اگر روانگی سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھ لیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج ڈھلنے سے پہلے روانہ ہو جاتے تو ظہر میں دیر کرتے یہاں تک کہ عصر کے لیے اترتے (تب ظہر بھی پڑھتے) اور مغرب میں بھی ایسا ہی کرتے اگر روانگی سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے روانگی ہوتی تو مغرب میں دیر کرتے جب عشاء کی نماز کے واسطے اترتے تو اس وقت مغرب بھی پڑھ لیتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ہشام بن عروہ نے بواسطہ حسین بن عبد اللہ بسند کریب، بروایت ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے جیسا کہ مفضل اور لیث نے روایت کیا ہے

 

قتیبہ، عبد اللہ بن نافع، ابو مودود، سلیمان ابو یحییٰ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر میں کبھی مغرب و عشاء کو ایک مرتبہ کے علاوہ جمع نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث بروایت ایوب بواسطہ نافع حضرت ابن عمر سے موقوفاً مروی ہے انہوں نے سفر میں جمع بین الصلوٰتین نہیں کیا مگر صرف ایک مرتبہ، اس رات میں جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کی خبر آئی تھی، اور نافع سے مکحول کی روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک یا دو مرتبہ جمع کرتے دیکھا ہے

 

قعنبی، مالک، ابو زبیر، سعید بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا بغیر خوف اور سفر کے امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ بارش کے وقت ہو گا، ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ابو الزبیر سے حماد بن سلمہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور قرہ بن خالہ نے ابو الزببیر سے نقل کیا ہے کہ یہ تبوک کے سفر میں تھا

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، حبیب، بن ابی ثابت سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی نماز اسی طرح مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی بغیر خوف اور بغیر بارش کے ابن عباس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟ کہا آپ کا مقصد یہ تھا کہ امت تنگی میں مبتلا نہ ہو۔

 

محمد بن عبید محمد بن فضیل، نافع، حضرت عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مؤذن نے کہا کہ نماز کا وقت آ گیا انہوں نے کہا کوئی بات نہیں تم چلو، پھر غروب شفق سے پہلے اترے اور مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی پھر عشاء کی نماز پڑھی، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جلدی ہوتی کسی کام کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کرتے جیسا میں نے کیا پھر اس دن اور رات میں تین دن کی راہ چلے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو نافع سے ابن جابر نے بھی اسی طرح اور اسی اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ ابن جابر رضی اللہ تعالی سے اسی کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو عبد اللہ بن علاء نے نافع سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب شفق غائب ہونے کو ہوئی تو اترے اور دونوں نمازوں کو جمع کیا۔

 

سلیمان بن حرب، مسدد، حماد بن زید، عمرو بن عون، حماد بن زید، عمرو بن دینار، جابر بن زید، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو مدینہ میں نماز پڑھائی۔ آٹھ رکعتیں ظہر و عصر کی اور سات رکعتیں مغرب و عشاء کی (ایک ساتھ) اور سلیمان و مسدد نے لفظ، بنا، ذکر نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو تومہ کے آزاد کردہ غلام صالح نے ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے کہا، بارش کے عذر کے بغیر

 

احمد بن صالح، یحیٰ بن محمد، عبد العزیز، بن محمد مالک، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب و عشاء کی نماز سرف میں جا کر پڑھی۔

 

محمد بن ہشام، احمد بن حنبل، جعفر، بن عون، ہشام بن سعد کہتے ہیں کہ مکہ اور سرف کے بیچ میں دس میل کا فاصلہ ہے۔

 

عبد الملک بن شعیب، ابن وہب، لیث، حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ سورج غروب ہو گیا اور میں عبد اللہ بن عمر کے ساتھ تھا۔ پس ہم روانہ ہوئے اور جب ہم نے دیکھا کہ رات ہو گئی تو ان سے نماز کے لیے کہا مگر وہ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی اور تارے چمکنے لگے تب آپ اترے اور دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جلدی چلنا ہوتا تو اسی طرح نماز پڑھتے یعنی دونوں نمازوں کو رات میں جمع کرتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو عا صم بن محمد نے بواسطہ اپنے بھائی (عمرو بن محمد) بروایت سالم روایت کیا ہے اور ابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبد الرحمن بن ذویب سے روایت کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی نے شفق غائب ہونے کے بعد دونوں نمازیں جمع کیں۔

 

قتیبہ بن موہب، مفضل، عقیل، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج ڈھلنے سے پہلے سفر پر روانہ ہوتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک موخر کرتے پھر اتر کر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ادا فرماتے اور اگر روانگی سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر پڑھ کر سوار ہوتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ مفضل بن فضالہ مصر کے قاضی تھے اور مستجاب الدعوات تھے۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، جابر بن اسماعیل، عقیل، جابر بن اسماعیل نے اس حدیث کو عقیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کو غروب شفق تک موخر کرتے پھر دونوں نمازیں یعنی مغرب اور عشاء ملا کر پڑھتے۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابی الطفیل، عامر بن واثلہ، حضرت معاذ بن رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب سورج ڈھلنے سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر میں عصر تک تاخیر فرماتے پھر ظہر کو عصر کے ساتھ ملا کر پڑھتے اور جب سورج ڈھلنے کے بعد روانہ ہوتے تو ظہر و عصر پڑھ کر چلتے۔ اور اگر مغرب سے پہلے روانگی ہوتی تو مغرب میں تاخیر کرتے اور عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر مغرب کے بعد چلتے تو عشاء کو مغرب کے ساتھ پڑھ کر چلتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو قتیبہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔

 

                   سفر میں نماز کی قرأت میں اختصار کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، عدی، ثابت، حضرت براء بن عازب انصاری رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو عشاء کی نماز پڑھائی تو اس کی ایک رکعت میں، وِالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ، پڑھی۔

 

                   سفر میں نفل نماز پڑھنے کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، لیث، صفوان بن سلیم، ابو بسرہ، حضرت براء بن عازب انصاری رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں رہا لیکن میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زوال کے بعد اور ظہر سے پہلے دو رکعات ترک کرتے نہ دیکھا۔

 

قعنبی، عیسیٰ بن حفص بن عاصم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں عبد اللہ بن عمر کے ساتھ تھا انھوں نے دو رکعتیں پڑھائیں انھوں نے لوگوں کی طرف توجہ کی تو دیکھا کہ لوگ نماز میں مشغول ہیں پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا نوافل پڑھ رہے ہیں اس پر عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ اگر مجھے نفل ہی پڑھنا ہوتے تو میں اپنی نماز پوری کرتا (یعنی قصر نہ کرتا) اے بھتیجے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں رہا ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پا گئے پھر میں ابو بکر رضی اللہ تعالی کے ساتھ رہا انھوں نے بھی دو رکعت پر اضافہ نہیں کیا یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی۔ پھر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے ساتھ رہا انھوں نے بھی دو رکعت پر زیادتی نہیں کی یہاں تک کہ وہ بھی وفات پا گئے۔ پھر میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی کے ساتھ رہا انھوں نے بھی دو رکعات میں اضافہ نہیں کیا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال کر گئے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ تمھارے لیے رسول خدا کو طریقہ میں بہترین نمونہ ہے۔

 

                   اونٹ پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سا لم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر نفل پڑھتے تھے خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو اور اس پر وتر بھی پڑھتے تھے، بس فرض نماز نہیں پڑھتے تھے۔

مسدد، ربعی، عبد اللہ بن جارود، عمرو بن ابی حجاج، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر میں ہوتے اور نفل پڑھنا چاہتے تو اپنے اونٹ کا رخ قبلہ کی طرف کر کے تکبیر کہہ لیتے پھر نماز پڑھتے اب وہ جدھر چاہے جاتا۔

 

قعنبی، مالک، عمرو، یحییٰ، ابو حباب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور اس کا رخ خیبر کی طرف تھا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک کام سے بھیجا جب میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر بیٹھے ہوئے اور مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور سجدہ رکوع سے ذرا نیچا ہے۔

 

                   عذر کی بنا پر اونٹ پر بیٹھ کر فرض نماز پڑھنا

 

محمود بن خالد، محمد بن شعیب، نعمان بن منذر، عطاء بن ابو رباح، حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ کیا عورتوں کو سواری پر نماز پڑھنا درست ہے؟ انھوں نے کہا نہیں کسی وقت میں بھی درست نہیں، وقت پریشانی کا ہو یا اطمینان کا، محمد بن شعیب کہتے ہیں کہ اس سے مراد فرض نماز ہے

 

                   مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابراہیم بن موسی، ابن علیہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ متعدد جہاد میں شرکت کی فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اٹھارہ راتیں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دوران دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ اور فرماتے تھے، اے مکہ والوں، تم چار پڑھو کیونکہ ہم مسافر ہیں۔

 

محمد بن علاء، عثمان بن ابی شیبہ، حفص عاصم، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سترہ راتوں تک مکہ میں قیام پذیر رہے اور قصر نماز پڑھتے رہے ابن عباس رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ جو شخص کسی مقام پر سترہ دن تک ٹھہرے وہ قصر کرے اور جو اس سے زیادہ ٹھہرے وہ پوری نماز پڑھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ عباد بن منصور نے بواسطہ عکرمہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انیس دن تک مکہ میں ٹھہرے رہے

 

نفیلی، محمد بن سلمہ بن اسحاق ، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے سال مکہ میں پندرہ دن مقیم رہے اور نماز قصر کرتے رہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بواسطہ ابن اسحاق، عبد ہ بن سلیمان احمد بن خالد و ہبی اور سلمہ بن فضل نے روایت کیا ہے لیکن ان حضرات نے اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ تعالی کا ذکر نہیں کیا۔

 

نصربن علی، ابی، شریک، اصبہانی، عکرمۃ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں سترہ دن تک رہے اور دو رکعتیں پڑھتے رہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، مسلم بن ابراہیم، وہیب یحیٰ بن ابی اسحاق ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور جب تک ہم مدینہ واپس نہ آ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے (یحیٰ بن ابی اسحاق) کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت انس رضی اللہ تعالی سے سوال کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں کچھ دن ٹھہرے تھے؟ انھوں نے کہا ہاں دس دن ٹھہرے تھے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابن مثنی، ابو اسامہ، عبد اللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب، حضرت عمر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی سفر کرتے غروب آفتاب کے بعد تو اندھیرے کے قریب اترتے اور نماز پڑھتے۔ پھر کھانا منگا کر کھاتے اس کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے اور روانہ ہو جاتے اور فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ عثمان نے کہا کہ عبد اللہ بن محمد بن عمر بن علی نے امام ابو داؤد کو یہ کہتے ہوے سنا کہ اسامہ بن زید نے حفص بن عبید اللہ سے روایت کیا ہے کہ انس جمع کرتے تھے مغرب اور عشاء کو جب شفق ڈوب جاتی اور کہتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایسا ہی کرتے تھے اور زہری کی روایت بواسطہ انس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح ہے۔

 

                   جب دشمن کے ملک میں ٹھہرا ہوا ہو تو قصر ہی کرتا رہے

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، معمر، یحیٰ بن ابی کثیر، محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان جابر بن عبد اللہ، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تبوک میں بیس دن تک رہے اور نماز قصر کرتے رہے۔ ابو داؤد نے کہا کہ معمر کے علاوہ کسی نے اس روایت کو مسند نہیں کیا۔

 

                   صلٰوۃ خوف (حالت جنگ میں پڑھی جانے والی نماز)

 

سعید بن منصور، جریر بن عبد الحمید، منصور، مجاہد، ابو عیاش، حضرت ابو عیاش زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے عسفان میں اور ان دنوں خالد بن ولید مشرکوں کے سردار تھے پس جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکین نے کہا کہ ہم سے چوک ہو گئی ہم سے بھول ہو گئی اگر ہم ان پر نماز کی حالت میں حملہ کرتے تو بہتر تھا پس ظہر و عصر کے درمیان آیت قصر نازل ہوئی، جب عصر کا وقت آیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوئے اور مشرکین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے ایک صف کھڑی ہوئی اور اس کے پیچھے ایک اور صف کھڑی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور سب لوگوں نے رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور اگلی صف والوں نے سجدہ کیا اور پچھلی صف والے نگہبانی کرتے ہوئے کھڑے رہے جب اگلی صف والے سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوئے تو پچھلی صف والوں نے سجدہ کیا، اس کے بعد اگلی صف والے پیچھے آ گئے اور پچھلی صف والے آگے بڑھ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور ان لوگوں نے جو پہلی رکعت میں پچھلی صف میں تھے سجدہ کیا اور پچھلی صف والے جو پہلی رکعت میں اگلی صف میں تھے نگہبانی کرتے ہوئے کھڑے رہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدوں سے فارغ ہو کر بیٹھے اور اگلی صف والے بھی بیٹھے تو پچھلی صف والوں نے سجدہ کیا پھر سب بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب پر سلام پھیرا اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عسفان اور بنی سلیم میں نماز پڑھی، ابو داؤد کہتے ہیں کہ ایوب و ہشام نے بروایت ابو الزبیر بواسطہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے ہم معنی روایت کیا ہے اور اسی طرح اس حدیث کو داؤد بن حصین نے بواسطہ عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور اسی طرح عبد الملک نے بواسطہ عطاء حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسی طرح قتادہ نے بروایت حسن بواسطہ حطان ابو موسیٰ سے ان کا فعل روایت کیا ہے اور اسی طرح عکرمہ بن خالد نے بواسطہ مجاہد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور ہشام بن عروہ نے بواسطہ والد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے اور امام ثوری کا بھی یہی قول ہے

 

                   دوسری صورت

 

یہ ہے کہ ایک صف امام کے ساتھ قائم ہو اور دوسری صف دشمن کے مقابلہ میں ہو پس امام اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائے اور امام کھڑا رہے یہاں تک کہ یہ سب لوگ دوسری رکعت پڑھ لیں پھر یہ دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیں اور دوسری جماعت آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور امام بیٹھا رہے یہاں تک کہ جماعت ثانیہ پہلی رکعت پوری کرے اس کے بعد امام سب کے ساتھ سلام پھیرے

 

عبید اللہ بن معاذ، شعیبہ، عبد الرحمن بن قاسم، صالح، بن خوات، حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کو نماز خوف پڑھائی تو ان کی دو صفیں کیں پس پہلے اگلی صف والوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے رہے اور پچھلے لوگ ایک رکعت پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور آگے والے پیچھے چلے گئے اب جو آگے بڑھ گئے تھے ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے رہے یہاں تک کہ جو جو لوگ پیچھے چلے گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا

 

                   تیسری صورت

 

بعضوں نے کہا کہ امام جب ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے تو امام کھڑا رہے اور باقی لوگ تنہا مزید ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر فارغ ہو کر دشمن کے سامنے چلے جائیں اور سلام میں اختلاف ہے

 

قعنبی، مالک، یزید بن رومان، صالح، بن خوات، حضرت صالح بن خوات نے ایک ایسے شخص کے حوالہ سے روایت کی ہے جس نے غزوہ ذات الرقاع میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے کہ ایک گروہ نے امام کے ساتھ صف باندھی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہا پس پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گروہ کو ایک رکعت پڑھائی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے رہے اور اس گروہ نے اپنی نماز تنہا تنہا پوری کی اور نماز سے فراغت کے بعد یہ لوگ دشمن کے سامنے پہنچ گئے۔ پھر دوسرا گروہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ اپنی بقیہ نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے رہے اور اس گروہ کے لوگوں نے اپنی اپنی ایک رکعت پڑھ کر نماز پوری کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا۔ امام مالک نے کہا کہ صلوۃ خوف کے سلسلہ میں جتنی روایات میں نے سنی ہیں ان میں یہ یزید بن رومان والی حدیث مجھے سب سے زیادہ پسند ہے

 

قعنبی، مالک، یحیٰ بن سعید، قاسم بن محمد، صالح بن خوات، حضرت سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ نماز خوف اس طرح ہے کہ امام کھڑا ہو اور ایک گروہ اس کے ساتھ کھڑا ہو اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہے پہلے امام ایک رکعت پڑھے اور اپنے مقتدیوں کے ساتھ سجدہ کرے اور جب سجدہ سے کھڑا ہو تو کھڑا ہی رہے اور مقتدی تنہا تنہا ایک اور رکعت پڑھ کر اپنی نماز پوری کر لیں اور پھر سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلے جائیں اور امام اسی طرح کھڑا رہے پھر دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آئے اور امام کے پیچھے تکبیر کہے پھر امام ان کے ساتھ رکوع و سجدہ کر کے سلام پھیر دے اور مقتدی کھڑے ہو کر ایک رکعت جو باقی رہ گئی تھی پوری کریں اور سلام پھیر دے ابو داؤد کہتے ہیں کہ قاسم سے یحیٰ بن سعید کی روایت یزید بن رومان کی روایت کی طرح ہے مگر سلام کا فرق ہے اور عبید اللہ کی روایت یحیٰ بن سعید کی روایت کے مثل ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدھے کھڑے رہے۔

 

                   چو تھی صورت

 

بعضوں نے کہا کہ سب لوگ ایک ساتھ تکبیر تحریمہ کہہ لیں اگرچہ پشت قبلہ کی طرف ہو پھیر ایک گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور وہ دشمن کے سامنے چلا جائے پس دوسرا گروہ آ کر پہلے تنہا ایک رکعت پڑھے اور امام کے ساتھ شریک ہو جائے پھیر امام ان کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے اور اس کے بعد وہ گروہ آئے جو پہلے ایک رکعت پڑھ چکا تھا اور باقی ماندہ ایک رکعت ادا کرے امام بیٹھا رہے پھیر سب کے ساتھ اکٹھا سلام پھیرے

 

حسن بن علی، ابو عبد الرحمن حیوہ بن لہیعہ، حضرت مروان بن حکم رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے جواب دیا۔ ہاں، حضرت مروان نے پوچھا، ، کب، ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی نے فرمایا جس سال نجد کا جہاد ہوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک گروہ کھڑا ہوا اور ایک گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا اور ان کی پشت قبلہ کی طرف تھی پہلے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی پھر ان سب نے تکبیر کہی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور انھوں نے بھی جو دشمن کے سامنے تھے پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا اور جو گروہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا اس نے بھی رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا اور اس گروہ نے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا اور دوسرا گروہ اسی طرح دشمن کے سامنے کھڑا رہا پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور جو گروہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھا وہ دشمن کے سامنے چلا گیا اور جو گروہ دشمن کے سامنے تھا وہ آیا اور اس نے رکوع و سجدہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح کھڑے رہے جب وہ رکوع و سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی۔ انھوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا پھر وہ گروہ جو بعد میں دشمن کے سامنے گیا تھا اور اس نے رکوع و سجود کیے۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب ساتھی بیٹھے رہے جب وہ فارغ ہوئے تو سلام ہوا یعنی پہلے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا پس اس طرح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو رکعتیں ہوئیں اور ہر ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھی۔

 

محمد بن عمرو سلمہ، محمد بن اسحاق بن جعفر بن سلمہ بن اسحاق ، محمد بن جعفر، بن زبیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نجد کو نکلے۔ جب ذات الرقاع پہنچے تو غطفان کے کچھ لوگ ملے پھیر اسی طرح بیان کیا جیسے اوپر حدیث میں گزرا مگر اس میں یہ زیادہ ہے کہ جب پہلا گروہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ساتھ ایک رکعت پڑھ کر فارغ ہوا تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور دشمن کے سامنے آ کھڑا ہوا مگر اس روایت میں قبلہ کی طرف پشت کرنے کا ذکر نہیں ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبید اللہ بن سعد کا بیان ہے کہ مجھ سے میرے چچا نے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے ابن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن جعفر بن زبیر سے ان سے بیان کیا کہ ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی نے یہ قصہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی اور جو گروہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا اس نے بھی تکبیر کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا اور انھوں نے بھی رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا اور انھوں نے بھی سجدہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انھوں نے بھی اٹھایا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ تنہا کر کے کھڑے ہو گئے اور الٹے پاؤں لوٹ گئے اور ان کے پیچھے جا کر کھڑے ہو گئے۔ اب دوسرا گروہ آیا اور اس نے کھڑے ہو کر تکبیر کہی اور رکوع کیا تنہا۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا انھوں نے بھی ساتھ ہی سجدہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور ان لوگوں نے دوسرا سجدہ کیا تنہا پھر دونوں جماعتیں کھڑی ہوئیں ایک ساتھ اور ان سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو انھوں نے بھی رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا اور انھوں بھی سجدہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرا سجدہ کیا تو انھوں نے بھی بہت جلدی سے دوسرا سجدہ کیا اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا اور کھڑے ہو گئے پس اس طرح سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پوری نماز میں شرکت کر لی۔

 

                   چاشت کی نماز

 

احمد بن صالح، احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عیاض بن عبد اللہ مخرمہ بن سلیمان کریب، ابو طالب کی بیٹی حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہّ کے دن نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھیں ہر دو رکعت پر سلام کے ساتھ۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ احمد بن صالح کا کہنا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ ّ کے دن چاشت کی نماز پڑھی پر اسی جیسا بیان کیا۔ ابن سرح نے کہا کہ حضرت امّ ھانی کا کہنا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے مگر راوی نے اس روایت میں چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا۔

 

حفص بن عمر شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ام ہانی کے علاوہ کسی نے بھی ہم کو یہ نہیں بتایا کہ اس نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہّ کے دن ان کے گھر پر غسل کیا اور (نماز چاشت کی) آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ لیکن کسی نے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

 

مسدد، یزید بن زریع، جریر، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عبد اللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا نہیں مگر جب سفر سے آتے تو نماز پڑھتے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کئی کئی سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ کہا مفصلات میں سے پڑھتے تھے۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب عروہ بن زبیر، زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کام کو اس خوف کی بنا پر بھی چھوڑ دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔ حالانکہ وہ عمل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک پسندیدہ ہوتا تھا۔

 

ابن نفیل، احمد بن یونس، زہیر، سماک، جابر بن سمرہ، حضرت سّماک رضی اللہ عنہ سے میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے انھوں نے کہا ہاں اکثر اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس جگہ فجر کی نماز پڑھتے تھے وہاں سے نہ اٹھتے تھے جب تک کہ سورج نہ نکل آتا اور جب سورج نکل آتا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (نماز چاشت کے لیے) کھڑے ہوتے۔

 

                   دن کی نماز

 

عمر بن مرزوق شعبہ، یعلی بن عطاء علی بن عبد اللہ ابن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔

 

ابن مثنی، معاز بن معاذ، شعبہ، عبد ربہ بن سعید، انس بن ابی انس عبد اللہ بن نافع، عبد اللہ بن حارث، مطلب، حضرت مطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز دو دو رکعتیں ہیں یعنی ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے پر عاجزی و مسکینی ظاہر کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہے یا اللہ! یا اللہ۔۔ اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کی نماز ناقص ہے۔ امام ابو داؤد سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے؟ کہا اس کا مطلب یہ ہے چاہے تو دو دو رکعت پڑھے یا چار چار رکعت پڑھے۔

 

                   صلوٰۃالتسبیح کا بیان

 

عبدالرحمن بن بشر بن حکم، موسیٰ بن عبد العزیز، حکم بن ابان، عکرمہ، ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عباس بن عبد المطلب سے کہا چچا جان کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں، کیا میں آپ کو ہدیہ نہ دوں۔ کیا میں آپ کو نہ بتاؤں ایسی دس باتیں کہ اگر آپ ان پر عمل کریں تو اللہ تعالی آپ کے اگلے اور پچھلے، نئے اور پرانے، ارادہ سے کئے ہوئے یا بلا ارادہ کیے ہوئے، چھوٹے اور بڑے، کھلے اور چھپے سب گناہ بخش دے؟ اور وہ دس باتیں یہ ہیں۔ کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں اس طرح پر کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھیں اور جب قرأت سے فارغ ہو جائیں پہلی رکعت میں تو کھڑے کھڑے پندرہ مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ پڑھیں پھر دس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدہ میں دس مرتبہ پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ پھر دوسرے سجدہ میں جا کر دس مرتبہ پھر دوسرے سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ یہی پڑھیں اس طرح ہر رکعت میں پچھتر مرتبہ یہ کلمات دہرائے جائیں گے پھر اسی طرح چاروں رکعتوں میں کریں۔ اگر ہو سکے تو یہ صلوٰۃ التسبیح روزانہ ایک مرتبہ پڑھ لیا کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہر جمعہ کو۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ہر مہینے۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اتنا بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ لو۔

 

محمد بن سفیان، حبان بن ہلال، ابو حبیب، مہدی بن میمون، عمرو بن مالک، حضرت ابو الجوزاء سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک صحابی نے جو غالبا حضرت عبد اللہ بن عمرو ہیں حدیث بیان کی کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا تو کل میرے پاس آنا۔ میں تجھے دوں گا، میں عنایت کروں گا، مرحمت کروں گا۔ یہاں تک کہ میں سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے کچھ مال دیں گے۔ (جب میں اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہچا تو) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب دن ڈھل جائے تو کھڑا ہو اور چار رکعتیں پڑھ پھر اسی کے مثل ذکر کیا۔ اور اس میں یہ بھی کہا کہ جب تو دوسرے سجدے سے سر اٹھائے تو سیدھا بیٹھا رہ اور کھڑا مت ہو یہاں تک کہ دس دس بار تسبیح، تحمید، تکبیر اور تہلیل کہ لے پھر چار رکعتوں میں ایسا ہی کر۔ اگر تو روئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے زیادہ گناہ گار ہو تب بھی اس نماز کے سبب بخش دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت میں نہ پڑھ سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات دن میں کسی بھی وقت پڑھ لے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ حبان بن ہلال۔ ہلال الراوی کے ماموں ہیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو مستمر بن ریان نے بطریق ابو الجوزاء حضرت عبد اللہ بن عمرو سے موقوفاً روایت کیا ہے اور روح بن المسیب اور جعفر بن سلیمان نے بطریق عمرو بن مالک نکری بواسطہ ابو الجوزاء حضرت ابن عباس سے ان کا قول روایت کیا ہے۔ لیکن روح کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں

 

ابو توبہ، ربیع، بن نافع، محمد بن مہاجر، عروہ بن رویم، حضرت عروہ بن رویم انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا کہ باقی روایت کے الفاظ وہی ہیں۔ جو مہدی بن میمون نے نقل کیے۔ البتہ اس میں یہ جملہ زائد ہے۔

 

                   مغرب کے بعد دو رکعت کہاں پڑھنا چاہیے

 

ابو بکر بن ابی اسود، ابو مطرف، محمد بن ابو وزیر، محمد بن موسی، فطری، سعد بن اسحاق بن کعب، بن عجزہ، حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنی عبد الاشہل کی مسجد میں آئے اور وہاں آ کر مغرب کی نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ لوگ نفل پڑھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تو گھروں کی نماز ہے۔

 

حسین بن عبد الرحمن طلق بن غنام، یعقوب بن عبد اللہ جعفر بن ابی مغیرہ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کی دو رکعت سنت میں قرأت کو طویل کرتے تھے یہاں تک کہ مسجد والے متفرق ہو جاتے۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو نصر مجدر نے یعقوب سے اسی طرح مسند روایت کیا

 

احمد بن یونس، سلیمان بن داؤد، یعقوب، جعفر، سعید بن جبیر، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے ہم معنیٰ مرسل روایت کی ہے۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے بواسطہ محمد بن حمید یعقوب سے سنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جو روایت تم کو بطریق جعفر بواسطہ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سناؤں وہ بواسطہ ابن عباس بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہو گی

 

                   عشاء کی سنتوں کا بیان

 

محمد بن رافع، زید بن حباب، مالک بن مغول، مقاتل بن بشیر، حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت نمازوں کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز پڑھ کر میرے پاس کبھی اس طرح نہیں آئے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار یا چھ رکعتیں نہ پڑھی ہوں ایک مرتبہ رات کو بارش ہوئی تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے زمین پر چمڑا بچھا دیا گویا میں اب دیکھ رہی ہوں اس میں ایک سوراخ ہے جس میں سے پانی بہہ رہا ہے اور میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مٹی سے کپڑے بچاتے ہوئے نہیں دیکھا

 

                   تہجد کی فرضیت کا منسوخ ہونا اور اس میں سہولت کا بیان

 

احمد بن محمد، ابن شبویہ، علی بن حسین، یزید، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ مزمل میں فرمایا ہے قُمْ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیلًا نِصْفَہُ(المزمل:2) یعنی کھڑا رہ رات میں بجز تھوڑی رات کے اس آیت کو منسوخ کیا (ۭعَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْكُمْ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ) 73۔ المزمل:22) کی آیت نے جو اسی سورہ مزمل کے آخر میں ہے (آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جانا کہ تم اس پر عمل نہ کر سکو گے پس اس نے تم کو معاف کیا پس اب قرآن کا جتنا حصہ تمہیں آسان لگے وہ پڑھ لو) اور یہ جو فرمایا ہے اِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ اس سورت کے آغاز میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اول شب میں نماز پڑھنا سخت روندتا ہے یعنی زیادہ مناسب ہے اس غرض کے لیے تم پورا کرو اس کو جو تم پر فرض ہوا رات میں اٹھنا اور نماز پڑھنا، اس لیے کہ اول شب میں انسان جاگتا رہتا ہے اور فرض کی ادائے گی اس کے لیے آسان ہے اور اقوم قیلا سے مراد یہ ہے کہ رات کا وقت بہت اچھا ہے قرآن کو سمجھنے کے لیے اور یہ جو کہا إِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیلًا الخ اس کے معنی یہ ہیں کہ دن میں تجھ کو فراغت ہوتی ہے

 

احمد بن محمد، وکیع، مسعر، سماک، ابن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سورہ مزمل کا ابتدائی حصہ نازل ہوا تو رات کو اتنا ہی قیام کرتے جتنا رمضان میں ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا آخری حصہ نازل ہوا۔ اور اس کے ابتدائی و آخری حصہ کے نزول میں ایک سال کا فصل ہے

 

                   تہجد کا بیان

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر بات جما دیتا ہے کہ ابھی رات باقی ہے سوتا رہ۔ پس اگر وہ جاگ جاتا ہے اور اللہ کا نام لیتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر اگر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ نماز میں مشغول ہو جاتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے پس جب صبح ہوتی ہے تو وہ پاک نفس اور چاک و چوبند ہوتا ہے ورنہ خبیث النفس اور کاہل پڑا رہتا ہے

 

محمد بن بشار، ابو داؤد، شعبہ، حضرت عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رات کی نماز کو مت چھوڑو کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے اگر کبھی بیمار ہوتے یا کسل ہوتا تو بیٹھ کر پڑھتے

 

ابن بشار، یحییٰ، عجلان، قعقاع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ اس مرد پر رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرہ پر پانی کے چھینٹے دے (تا کہ اٹھ جائے) اور اللہ تعالی رحمت نازل فرماتے ہیں اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی چھڑک دے

 

ابن کثیر، سفیان، مسعر، ابن اقمرح، محمد بن حاتم بن بزیع عبید اللہ بن موسی، شیبان، اعمش، علی بن اقمر، اغر، حضرت ابو سعید و حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی شخص رات میں اپنی بیوی کو (نماز تہجد کے لیے) جگائے اور پھر وہ دونوں نماز پڑھیں تو اللہ تعالی ان کو ذاکرین اور ذاکرات میں لکھ دے گا۔ ابن کثیر نے اس روایت کو مرفوعا ً روایت نہیں کیا اور نہ ہی اس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے بلکہ ابو سعید کی طرف نسبت کی گئی ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو مہدی نے ابو سفیان سے نقل کیا ہے اور کہا کہ میرا خیال ہے اس میں ابو ہریرہ کا ذکر ہے نیز ابو داؤد نے کہا کہ سفیان کی حدیث موقوف ہے

 

                   نماز میں نیند آنے کا بیان

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند بھر جائے کیونکہ اگر اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھے گا تو ہو سکتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ استغفار کرنا چاہے اور لگے اپنے آپ کو گالیاں دینے

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رات میں نماز کے لیے کھڑا ہو اور قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے اور جو کہہ رہا ہے اس کی اس کو خبر نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سو جائے

 

زیاد بن ایوب، ہارون، بن عباد، اسماعیل، بن ابراہیم، عبد العزیز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے بیچ میں ایک رسی بندھی ہوئی ہے پوچھا یہ رسی کیوں ہے؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ رسی حمنہ بنت جحش کی ہے وہ جب نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیں تو اس رسی سے لٹک جاتی ہیں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز اتنی ہی پڑھنی چاہیے جتنی طاقت ہو پس جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، زیاد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ رسی زینب کی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں جب ان کو کسل ہوتا ہے یا وہ تھک جاتی ہیں تو اس کو تھام لیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو کھول دو تم میں سے ہر شخص اتنی ہی نماز پڑھے جس حد تک طبیعت میں آمادگی ہو جب اس کو سستی آئے یا وہ تھک جائے تو بیٹھ جائے

 

قتیبہ بن سعید، ابو صفوان، عبد اللہ بن سعید، بن عبد الملک بن مروان، سلیمان بن داؤد، محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس ابن شہاب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا وظیفہ یا ورد پڑھے بغیر سو جائے پھر صبح کو اٹھ کر فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے تو اس کا ثواب ایسا ہی لکھا جائے گا گویا اس نے رات کو پڑھا ہو

 

                   جس نے رات کو تہجد کے لیے اٹھنے کی نیت کی اور پھر نہ اٹھ سکا

 

قعنبی، مالک، محمد بن منکدر، سعید بن جبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتا ہو اور پھر رات اس پر نیند غالب آ جائے (اور وہ اٹھ نہ سکے) مگر اس کے واسطے ثواب لکھا جائے گا اور سونا اس کے لیے صدقہ ہو جائے گا

 

                   عبادت کے لیے رات کا کون سا حصہ افضل ہے

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب عرش سے آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں قبول کروں کون شخص مانگتا ہے مجھ سے کہ میں اس کو دوں، کون شخص معافی مانگتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کروں

 

                   رسول اللہؐ تہجد کے لیے رات میں کس وقت اٹھتے تھے

 

حسین بن یزید، حفص، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ تعالی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رات کو جگا دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح ہونے سے پہلے اپنے ورد سے فارغ ہو جاتے۔

 

ابراہیم بن موسی، ابو احوص، ہناد، ابراہیم، اشعث، حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس وقت نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا جس وقت مرغ کی بانگ سنتے تو کھڑے ہو کر نماز شروع کر دیتے۔

 

ابو توبہ، ابراہیم بن سعد، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میرے پاس ہوتے تو صبح کو سوتے ہوتے تھے

 

محمد بن عیسیٰ، یحیٰ بن زکریا، عکرمہ بن عمار، محمد بن عبد اللہ، عبد العزیز، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا تو نماز پڑھتے

 

ہشام بن عمار، ہقل بن زیاد، اوزاعی، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہا کرتا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو اور ضروریات کے لیے پانی لاتا تھا ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ سے مانگ کیا مانگتا ہے؟میں نے کہا کہ میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ مانگتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے علاوہ اور کچھ، میں نے کہا مجھے بس یہی چاہیے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اپنے لیے کثرت سے سجدے کر کے میری مدد کر

 

ابو کامل، یزید بن زریع، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ جو قرآن کی آیت ہے جس میں اللہ تعالی یوں فرماتا ہے کہ یہ میرے عبادت گذار بندے ایسے ہیں کہ ان کے پہلو ان کے بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے رب کو امید وبیم کے عالم میں پکارتے ہیں اور ہم نے ان کو جو نعمت دی اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مغرب و عشاء کے درمیان جاگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے مگر حسن کہتے ہیں کہ اس سے مراد تہجد کی نماز ہے

 

محمد بن مثنی، یحیٰ بن سعید، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے جو یہ فرمایا ہے کہ کَانُوا قَلِیلًا مِنْ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ ، یعنی وہ تھوڑی رات سوتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کے بیچ میں نماز پڑھتے ہیں اور یحیٰ کی روایت میں یہ ہے کہ تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ سے بھی یہی مراد ہے۔

 

                   رات کی نماز میں اولاً دو رکعت پڑھنے کا بیان

 

ربیع بن نافع، ابو توبہ، سلیمان بن حیان، ہشام بن عروہ، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رات کو پہلے اٹھے ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھے۔

 

مخلد بن خالد، ابراہیم، رباح بن زید، معمر، ایوب، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے ہم معنی روایت ہے کہ جس میں یہ جملہ زائد ہے ثم لیطول بعد ماشاء، یعنی اس کے بعد پھر جتنا چاہے طول کر دے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حماد بن سلمہ، زبیر بن معاویہ اور ایک جماعت نے ہشام سے بواسطہ ابن سیرین حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف کیا ہے اسی طرح اس کو ایوب اور ابن عون نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف کیا ہے اور ابن عون نے محمد سے روایت نقل کی اس میں یہ لفظ ہے فیہما تجوز

 

ابن حنبل، احمد حجاج، ابن جریج، عثمان بن ابی سلیمان، علی عبید بن عمیر، حضرت عبد اللہ بن حبشی المخشی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ فرمایا دیر تک نماز میں کھڑے رہنا۔

 

                   رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں

 

قعنبی، مالک، نافع، عبد اللہ بن دینار، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رات کی نماز (تہجد) کے متعلق سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں جب تم میں سے کسی کو خوف ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے تو وہ ایک ہی رکعت پڑھ لے وہ سب نماز کو طاق کر دے گی۔

 

                   رات کی نماز جہراً قرأت کرنا

 

محمد بن جعفر، ابن ابی زناد، عمرو بن ابی عمرو مطلب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرہ میں اس طرح قرأت کرتے تھے کہ باہر والے کو آواز سنائی دیتی تھی۔

 

محمد بن بکار بن ریان، عبد اللہ بن مبارک، عمران بن زئداہ، ابو خالد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو کبھی بلند آواز سے قرأت کرتے تھے اور کبھی پست آواز سے ابو داؤد نے کہا کہ ابو خالد والبی کا نام ہرمز ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد ثابت حسن بن صباح، یحیٰ بن اسحاق ، حماد بن سلمہ ثابت بنانی، عبد اللہ بن رباح، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رات کو نکلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ پست آواز سے قرأت کر رہے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بلند آواز سے قرأت کر رہے ہیں جب یہ دونوں حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس میں جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا اے ابو بکر میں جب تمھارے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ تم پست آواز سے قرأت کر رہے تھے (اس کی کیا وجہ ہے) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس کو سناتا تھا جو سرگوشی کو بھی سن لیتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عمر رضی اللہ عنہ جب میں تمھارے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ تم بلند آواز سے قرأت کر رہے ہو (بتاؤ اس کی کیا وجہ تھی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں سونے والے کو جگاتا تھا اور شیطان کو بھگاتا تھا حسن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو بکر تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے عمر تم اپنی آواز تھوڑی پست کرو۔

 

ابو حصین بن یحییٰ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی قصہ مذکور ہے مگر اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے آواز بلند کرنے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آواز پست کرنے کا حکم مذکور نہیں ہے بلکہ اس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے بلال میں نے تمھارے بارے میں سنا ہے کہ تم تھوڑا اس سورت میں سے پڑھتے ہو اور تھوڑا اس سورت میں سے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کلام سب کا سب پاکیزہ ہے اللہ ایک کو دوسرے سے ملاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سب نے ٹھیک کیا

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ہشام، بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کو اٹھا اور با آواز بلند قرآن پڑھا جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ اس پر رحمت نازل فرمائے اس نے رات کئی آیتیں مجھے یاد دلا دیں جو میں بھول چکا تھا ابو داؤد کہتے ہیں کہ ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے سورہ آل عمران کی یہ آیت نقل کی وَکَأَیٍّ مِنْ نَبِیٍّ

 

حسن بن علی، عبد الرزاق، معمر، اسماعیل بن امیہ، ابو سلمہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں اعتکاف کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے لہذا کوئی دوسرے کو ایذاء نہ دے اور نہ اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلہ میں بلند کرے یا یہ کہا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلہ میں بلند نہ کرے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن عیاش، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، کثیر بن مرہ، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زور سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا سب کے سامنے دیکھا کر صدقہ دینے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے خاموشی سے صدقہ دینے والا۔

 

 

                   تہجد کی رکعتوں کا بیان

 

ابن مثنی، ابن ابی عدی، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز میں دس رکعتیں پڑھتے تھے اور وتر کی ایک رکعت اور فجر کی دو سنتیں اس طرح کل ملا کر تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے جس میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے۔

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، نصربن عاصم، ولید، ابن ابی ذئب، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر صبح صادق تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر کی پڑھتے اور سجدہ میں اتنی دیر ٹھہرتے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں پڑھے جب مؤذن اذان سے فارغ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے اور دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے پھر داہنی کروٹ پر لیٹتے یہاں تک کہ مؤذن بلانے کے لیے آتا۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، ابن ابی ذئب، عمرو بن حارث، یونس بن یزید، ابن شہاب سے بھی سابقہ حدیث کی طرح روایت ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی دیر تک سجدہ کرتے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں پڑھے سر اٹھانے سے قبل، اور جب مؤذن فجر کی اذان سے فارغ ہوتا اور صبح ظاہر ہو جاتی تو باقی حدیث سابق ہے البتہ بعض کی روایت میں کچھ اضافہ ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں پانچ وتر کی ہوتی تھیں اور ان پانچ رکعتوں میں سے کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے سوائے آخری رکعت کے اور پھر سلام پھیرتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، مسلم بن ابراہیم، ابان، یحییٰ، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر کی پڑھتے اور وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے پھر رکوع کرتے اور فجر کی اذان و اقامت کے بیچ میں دو رکعتیں پڑھتے۔

 

قعنبی، مالک، سعید بن ابو سعید، ابو سلمہ، حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے زوجہ رسول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان میں نماز تہجد کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا آپ رمضان یا غیر رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار رکعت پڑھتے خوب اچھی طرح اور خوب لمبی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار رکعت اور پڑھتے خوب اچھی طرح اور خوب لمبی پھر تین رکعت پڑھتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر سے پہلے سو جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔

 

حفص بن عمر ہمام، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعد بن ہشام، حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر میں اپنی زمین بیچنے کے لیے جو کہ مدینہ میں تھی بصرہ سے مدینہ آیاتاکہ میں اس کے ذریعہ ہتھیار خرید سکوں اور جہاد میں شرکت کروں پس چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میری ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھ سے بیان کیا ایک مرتبہ ہم چھ افراد نے بھی ایسا ہی کر نے کا ارادہ کیا تھا لیکن بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا (یعنی جہاد میں شرکت کی غرض سے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی تاکہ وہ ان کی طرف سے بے فکر ہو کر پوری یکسوئی سے جہاد میں شریک ہوں) اور فرمایا کہ تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کار میں بہترین نمونہ عمل ہے۔ پھر میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آیا اور ان سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کا پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں تم کو اس ہستی کا پتہ دیتا ہوں جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر سے پوری طرح واقف ہے لہذا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا (کیونکہ وہی سب سے زیادہ واقف حال ہیں) پس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا اور حکیم بن افلح سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ انھوں نے انکار کیا لیکن میں نے ان کو چلنے کے لیے قسم دی تو وہ میرے ساتھ گئے۔ پھر ہم دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچے اور ان سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انھوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا حکیم بن افلح۔ پھر انھوں نے کہا پوچھا تیرے ساتھ دوسرا کون ہے؟ کہا سعد بن ہشام۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، کیا اس عامر کا بیٹا ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے؟ میں نے کہا، جی، انھوں نے کہا کہ عامر کیا ہی خوب آدمی تھے۔ میں نے عرض کیا، ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق کے متعلق بیان فرمایئے، انھوں نے فرمایا، کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے، میں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز تہجد کا حال بیان فرمایئے پوچھا، کیا تو نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور پڑھی ہے۔ فرمایا جب اس صورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونے لگے یہاں تک کہ (دیر دیر تک کھڑے رہنے کی بنا پر) ان کے پاؤں میں ورم آ گیا۔ اور اس سورۃ کی آخری آیتیں بارہ مہینے تک آسمان پر رکی رہیں۔ پھر اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رات میں تہجد پڑھنا فرض نہ رہا بلکہ نفل ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کا حال بیان فرمایئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے اور آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھے تھے درمیان میں نہ بیٹھتے تھے، پھر کھڑے ہوتے اور ایک رکعت مزید پڑھتے اور صرف آٹھویں اور نویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور سلام نہ پھیرتے مگر نویں رکعت کے بعد۔ اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں۔ اے بیٹے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ضعیف ہو گئے اور جسم بھاری ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے چھٹی رکعت کے بعد بیٹھتے بیچ میں نہ بیٹھتے پھر ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور سلام نہ پھیرتے مگر ساتویں رکعت کے بعد پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے کل ملا کر نو رکعتیں ہوئیں اے بیٹے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی رات کو پوری رات صبح تک نہیں کھڑے ہوئے اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رات میں قرآن ختم کیا اور نہ ہی کسی مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے سوائے ماہ رمضان کے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی نماز کو شروع کرتے تو ہمیشہ اس کو پڑھا کرتے اور اگر کسی دن رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نیند غالب ہوتی تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے (سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سن کر) میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا بخدا یہ ایسی حدیث ہے کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے میری بول چال ہوتی تو میں انہی کی زبان سے یہ حدیث سن لیتا میں نے کہا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تمھاری ان سے بات چیت نہیں ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث بیان نہ کرتا۔

 

محمد بن بشار، یحیٰ بن سعید، قتادہ، سعید بن عروبہ رضی اللہ عنہ نے بسند قتادہ سابقہ حدیث کی طرح روایت کیا ہے مگر اس روایت میں سعید نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے اور اس میں درمیان میں نہیں بیٹھتے تھے سوائے آٹھویں رکعت کے پس جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قعدہ میں بیٹھتے تو اللہ کا ذکر کرتے اور اس سے دعا مانگتے اور پھر ایسی آواز سے سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتی پھر سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھتے تھے اے بیٹے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم بھاری ہو گیا تو سات رکعت کے ذریعہ طاق کرنے لگے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے لگے (راوی نے حدیث آخر تک بیان کی)۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید سے، یحیٰ بن سعید کی طرح منقول ہے۔ اس میں یہ جملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سلام ہمیں سنائی دیتا تھا۔

 

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، سعید، سعید سے اسی طرح منقول ہے۔ ابن بشار نے بھی یحیٰ بن سعید کی طرح حدیث نقل کی لیکن یہ زائد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح سلام پھیر تے تھے جو ہمیں سنائی دیتا تھا۔

 

علی بن حسین، ابن ابی عدی، بہز بن حکیم، زرارہ بن اوفی، حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کا حال دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے پھر گھر آ کر چار رکعتیں پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر جا کر سو جاتے تھے اور وضو کا پانی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سرہانے ڈھکا رہتا تھا اور مسواک بھی رکھی رہتی تھی یہاں تک کہ رات میں جس وقت اللہ چاہتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اٹھا دیتا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسواک کرتے اور اچھی طرح وضو کرتے پھر نماز پڑھنے کی جگہ پر آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت جو اللہ کو منظور ہوتی پڑھتے اور کسی رکعت کے بعد نہ بیٹھتے جب آٹھویں رکعت پڑھ چکتے تو بیٹھتے لیکن سلام نہ پھیرتے بلکہ نویں رکعت کے لیے بیٹھتے اور دعا کرتے جہاں تک اللہ چاہتا اور اس سے سوال کرتے اور اس کی طرف متوجہ ہوتے پھر ایک سلام زور سے پھیرتے اتنی آواز سے کہ قریب ہوتا کہ گھر والے جاگ اٹھیں پھر بیٹھے بیٹھے سورہ فاتحہ پڑھتے اور بیٹھے بیٹھے رکوع کرتے پھر دوسری رکعت بھی بیٹھے بیٹھے ہی رکوع و سجود کرتے پھر دعا مانگتے جب تک اللہ چاہتا پھر سلام پھیرتے اور نماز سے فارغ ہو جاتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے جب آخر حیات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم بھاری ہو گیا نو رکعات میں سے دو رکعتیں کم کر دیں اور چھ سات رکعتیں کھڑے ہو کر اور دو بیٹھ کر پڑھنے لگے اور پھر اسی طریقہ پر پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی۔

 

ہارون بن عبد اللہ، یز ید بن ہارون نے بہز بن حکیم سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز پڑھتے پھر اپنے بستر پر آتے، اس روایت میں عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آٹھ رکعتیں پڑھتے اور اس میں قرأت ، رکوع اور سجدہ برابر کرتے اور صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اس کے بعد ایک رکعت پڑھ کر ان کو طاق کرتے اور بلند آواز سے سلام پھیرتے جس سے ہماری آنکھ کھل جاتی۔

 

عمر بن عثمان مروان، ابن معاویہ، بہز، زرارہ بن اوفی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق۔ تو فرمایا، کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھانے کے بعد گھر تشریف لاتے اور چار رکعت پڑھتے اس کے بعد اپنے بستر پر تشریف لے جاتے، باقی روایت حسب سابق ہے البتہ اس میں یہ جملہ ہے کہ، سلام اتنی زور سے پھیر تے کہ ہماری آنکھ کھل جاتی۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ابن سلمہ، بہز بن حکیم، زرارہ، سعد بن ہشام نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن حماد بن سلمہ کی روایت دوسروں کی روایت کے برابر نہیں۔

 

موسی، حماد ابن سلمہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے نو رکعتیں وتر کی (یا کچھ ایسا ہی کہا) اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اور دو رکعتیں فجر کی سنت پڑھتے اذان اور اقامت کے درمیان۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن عمرو، محمد بن ابراہیم، علقمہ بن وقاص، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کی نو رکعتیں پڑھتے تھے پھر (جب ضعیف ہو گئے تو) سات رکعتیں پڑھنے لگے اور رکعتیں وتر کے بعد پڑھتے جس میں بیٹھ کر قرأت کرتے اور پھر رکوع کرتے اور سجدہ کرتے امام ابو داؤد نے کہا کہ ان دونوں روایتوں کو خالد بن عبد اللہ واسطی نے نقل کیا ہے جس میں یہ ہے کہ علقمہ بن وقاص نے کہا اماں جان دو رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ پھر اسی کے ہم معنی روایت بیان کی

 

وہب بن بقیہ، خالد، ابن مثنی، عبد الاعلی، ہشام، حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں مدینہ میں آیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ مجھ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کا حال بیان کیجیئے انہوں نے فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور پھر اپنے بستر پر آ کر سو رہتے درمیان شب بیدار ہوتے تو پہلے قضائے حاجت کے لیے جاتے اور پانی لے کر وضو کرتے پھر مسجد میں جا کر آٹھ رکعتیں پڑھتے سب رکعتیں، قیام، رکوع سجود میں برابر ہوتیں پھر ایک رکعت وتر کی پڑھتے پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پھر لیٹ جاتے اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ آ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کے لیے ہشیار کرتے یہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور جسم بھاری ہو گیا پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فربہ ہو جانے کا حال بیان کیا

 

محمد بن عیسیٰ، ہشیم، حصین، حبیب بن ابی ثابت، عثمان بن ابی شیبہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سوئے تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جاگے اور مسواک کر کے وضو کیا اور یہ آیت پڑھی ان فی خلق السموٰت والارض الخ سورت کے ختم تک، اس کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور دو رکتیں پڑھیں جس میں قیام رکوع اور سجود میں طول کیا پھر آ کر سو رہے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے پھر ایسا ہی تین بار کیا اور چھ رکعت وتر پڑھے عثمان کی روایت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں پھر مؤذن بلانے کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے واسطے تشریف لے گئے ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وتر پڑھے بلال آئے اور نماز کے واسطے اطلاع کی جب صبح صادق ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی دو رکعتیں سنت پڑھیں پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا پڑھ رہے تھے اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَاجْعَلْ فِی لِسَانِی نُورًا وَاجْعَلْ فِی سَمْعِی نُورًا وَاجْعَلْ فِی بَصَرِی نُورًا وَاجْعَلْ خَلْفِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِی نُورًا وَمِنْ تَحْتِی نُورًا اللَّہُمَّ وَأَعْظِمْ لِی نُورًا

 

وہب بن بقیہ، خالد بن حصین، خالد نے حصین سے اسی طرح روایت کیا ہے اسم اعظم لی نورا کا جملہ ہے، امام ابو داؤد نے کہا کہ ابو خالد دلانی نے بواسطہ حبیب اور سلمہ بن کحیل نے بواسطہ ابی رشدین نے ابن عباس سے اسی طرح روایت کیا ہے

 

محمد بن بشار، ابو عاصم، زہیر بن محمد، شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، فضل بن عباس سے روایت ہے کہ میں ایک رات رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس رہاتا کہ دیکھوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تہجد کی نماز کس طرح پڑھتے ہیں؟ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھے وضو کیا اور دو رکعتیں پڑھی جس میں قیام رکوع کے برابر تھا اور رکوع سجدہ کے برابر، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو رہے پھر جاگے اور وضو کیا اور مسواک کی پھر سورہ آل عمران کی پانچ آیتیں پڑھی إِنَّ فِیخَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ الخ پھر ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ دس رکعتیں کیں پھر کھڑے ہوئے اور وتر کی ایک رکعت پڑھی تب ہی مؤذن نے اذان، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے جب مؤذن اذان دے چکا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو مختصر سی رکعتیں پڑھ کر بیٹھ رہے اس کی بعد صبح کی نماز پڑھی ابو داؤد نے کہا کہ ابن بشار کی حدیث کا بعض حصہ مجھ پر مخفی رہا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، محمد بن قیس، حکم بن عتیبہ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ کے پاس رہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شام کو گھر میں تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا لڑکے نے نماز پڑھ لی؟ گھر والوں نے کہا ہاں پڑھ لی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ گئے جب رات گزری جتنی کہ خدا کو منظور تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا پھر سات یا پانچ رکعتیں طاق کر کے پڑھیں اور سب کے آخر میں سلام پھیرا

 

ابن مثنی، ابن ابی عدی، شعبہ، حکم، سعد بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر رات میں رہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز پڑھ کر گھر آئے پھر چار رکعتیں پڑھیں اور سو رہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب آکھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے گھما کر اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا پس اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ رکعتیں پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی پھر (جاگے) اور کھڑے ہو کر دو رکعتیں فجر کی سنت پڑھیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی

 

قتیبہ، عبد العزیز، بن محمد عبد المجید، یحیٰ بن عباد، سعید بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے دو دو رکعتیں کر کے آٹھ رکعتیں پڑھیں پھر پانچ رکعتوں سے طاق کیا درمیان میں نہ بیٹھے

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر بن زبیر، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں سمیت تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے پہلے چھ رکعتیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھتے پھر پانچ رکعتیں بیٹھ کر طاق کرتے اور صرف آخر میں بیٹھتے تھے

 

قتیبہ، لیث، یزید بن ابی حبیب، عراک بن مالک، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو فجر کی سنتوں سمیت تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

نصر بن علی، جعفر، بن مسافر، عبد اللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، جعفر بن ربیعہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء کی نماز پڑھی پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں اور اذان و اقامت کے درمیان دو سنتیں پڑھیں اور ان دو رکعات کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی نہیں چھوڑا، جعفر بن مسافر کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی اذان و اقامت کے درمیان دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں

 

احمد بن صالح، محمد بن سلمہ، ابن وہب، معاویہ بن صالح، عبد اللہ بن ابی قیس، حضرت عبد اللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کتنی رکعات کو طاق کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کبھی سات پر، کبھی نو پر، کبھی گیارہ پر، اور کبھی تیرہ رکعات پر، عدد کو طاق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات رکعات سے کم کبھی نہیں پڑھیں اور نہ ہی تیرہ رکعات سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھیں اور فجر کی سنتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے احمد کی روایت میں نو رکعات کا ذکر نہیں ہے

 

مومل بن ہشام، اسماعیل بن ابراہیم منصور بن عبد الرحمن، حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کا دریافت کیا؟ انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو تیرہ رکعات پڑھتے تھے پھر دو رکعتیں کم کر دی اور گیارہ پڑھنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی اس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نو رکعتیں پڑھتے تھے اور سب سے آخر میں وتر پڑھتے تھے

 

عبدالملک بن شعیب بن لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابی ہلال، مخرمہ بن سلیمان، حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام کریب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ایک رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس رہا اس رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میمونہ کے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے جب تہائی یا آدھی رات گزری تو اٹھے اور ایک مشک کی طرف گئے جس میں پانی تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو میں نے بھی وضو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کو کھڑے ہوئے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا گویا میرے کان مل کر مجھے ہشیار کیا پھر دو رکعتیں ہلکی پھلکی پڑھیں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی اور سلام پھیر دیا اس کے بعد وتر سمیت گیارہ رکعتیں پڑھیں پھر سو رہے اس کے بعد بلال آئے اور کہا الصلوٰۃ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ پھر کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں اور اس کی بعد لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی

 

نوح بن حبیب، یحیٰ بن موسی، عبد الرزاق، معمر، ابن طاؤس، عکرمہ بن خالد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ کے پاس رہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو تیرہ رکعتیں پڑھیں جس میں دو رکعتیں فجر کی سنتوں کی پڑھیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قیام کا اندازہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قیام سورہ مزمل کے برابر تھا، نوح کی روایت میں فجر کی سنتوں کا ذکر نہیں ہے

 

قعنبی، مالک، عبد اللہ بن بکر، عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ، زید بن خالد، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دیکھوں گا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز کیونکر پڑھتے ہیں لہذا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازے (یا خیمہ کی چوکھٹ پر) سر رکھ سو رہا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں بہت ہی لمبی پڑھی پھر دو رکعتیں ان سے قدرے کم لمبی پڑھیں پھر دو رکعتیں اس سے کم اور پھر دو رکعتیں اس سے کم اس کے بعد وتر پڑھے، یہ سب کل تیرہ رکعتیں ہوئی

 

قعنبی، مالک، مخرمہ بن سلیمان کریب، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت میمونہ کے پاس ایک رات رہا پس میں تو تکیہ کے عرض میں لیٹا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے طول میں لیٹے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو رہے جب رات آدھی ہو گئی یا اس سے کچھ کم یا اس سے کسی قدر زیادہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ننید کا اثر دور کرنے کے لیے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگے پھر سورہ آل عمران کی آخر کی دس آیتیں پڑھیں پھر ایک مشک کی طرف گئے جو لٹکی ہوئی تھی پھر اس سے پانی لے کر اچھی طرح وضو کیا اس کے بعد نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تھا میں نے بھی کیا اور نماز پڑھنے کے لے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر آ کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر ملنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دو رکعتیں کر کے بارہ رکعتیں پڑھی پھر وتر پڑھے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نماز کے لیے بلانے کو آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں اس کے بعد باہر تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی

 

                   نماز میں میانہ روی اختیار کرے کا حکم

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، سعید، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اتنا یہ عمل کر جتنا کہ تم کر سکو کیونکہ اللہ تعالی (ثواب دیتے دیتے) نہیں تھکتا لیکن تم (عمل کرتے کرتے) تھک جاو گے اور اللہ تعالی کے نزدیک وہی کام پسندیدہ ہے جس پر ہمیشہ عمل کیا جائے اگرچہ وہ عمل تھوڑا ہی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی کام کو کرتے تو اس پر مداومت اختیار فرماتے

 

عبید اللہ بن سعد، ابن اسحاق ، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن مطعون کو بلایا اور فرمایا کیا تو میرے طریقہ کو ناپسند کرتا ہے؟وہ بولے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے طریقہ کو تلاش کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس اے عثمان تو اللہ سے ڈر تجھ پر تیری بیوی کا حق ہے تیرے مہمان کا حق ہے اور خود تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے پس کبھی کبھی روزہ بھی رکھ اور کبھی نہ رکھ، نماز بھی پڑھ اور سویا بھی کر اسلام میں عبادت و ریاضت وہی معتبر ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق ہو اس میں مبالغہ رہبانیت ہو گا جس کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے

 

                   آٹھویں صورت بعضوں نے کہا ہر گروہ کے ساتھ امام دو رکعتیں پڑھے

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آپ کس طرح عمل کرتے تھے؟ کیا آپ مخصوص ایام میں عمل کرتے تھے؟ فرمایا نہیں۔ آپ کا عمل ہمیشہ ہوتا تھا اور تم میں سے کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی کہ آپ رکھتے تھے۔

 

                   تراویح کا بیان

 

حسن بن علی، محمد بن متوکل، عبد الرزاق، معمر حسن، مالک بن انس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تراویح پڑھنے کی ترغیب دلاتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اصرار کے ساتھ حکم نہیں فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص ماہِ رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ تراویح پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی اور طریقہ یہی رہا پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور یہ سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک جاری رہا ابو داؤد کہتے ہیں کہ (جیسا معمر و مالک بن انس نے، زہری سے روایت کیا ہے) اسی طرح عقیل، یونس اور ابو اویس نے من قام رمضان روایت کیا ہے لیکن عقیل نے زہری ہی سے مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَہُ کے الفاظ روایت کیے ہیں

 

مخلد بن خالد، ابن ابی خلف، سفیان، زہری، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ شب قدر میں قیام اللیل (یعنی تراویح، تہجد) کیا اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسی طرح یحیٰ بن ابی کثیر اور محمد بن عمر نے بواسطہ ابو سلمہ نقل کیا ہے

 

قعنبی، مالک، بن انس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اور لوگوں نے بھی پڑھی پھر دوسری رات کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے جب تیسری رات لوگ جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرہ سے باہر تشریف نہ لائے صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے تمہارا حال معلوم تھا لیکن میں اس خیال سے نہ نکلا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہو جائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا تھا

 

ہناد، عبد ہ محمد بن عمرو، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، بن عبد الرحمن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رمضان میں لوگ مسجد میں (تراویح کی نماز) تنہا تنہا پڑھا کرتے تھے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حکم فرمایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک چٹائی بچھائی اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی اور پھر وہی قصہ بیان کیا (اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگو بخدا میں رات میں بفضل خدا غافل نہیں رہا اور نہ ہی تمہارا حال مجھ سے مخفی رہا

 

مسدد، یزید بن زریع، داؤد، بن ابی ہند، ولید بن عبد الرحمن، جبیر بن نفیر، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ماہِ رمضان میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ روزے رکھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں کسی رات کو بھی نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات راتیں باقی رہ گئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے ہمارے ساتھ تہائی رات تک پھر جب چھ راتیں باقی رہ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے نہیں ہوئے، پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے نصف شب تک، ہم نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاش آج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزید کھڑے رہتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فراغت پائے تو اس کو ساری رات کھڑے رہنے کا ثواب ملے گا، اور جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے نہیں ہوئے اور جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے تمام اہل خانہ کو اور لوگوں کو جمع فرمایا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہم کو خوف ہوا کہ فلاح نکل جائے گی راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ فلاح کیا چیز ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فلاح سے مراد سحری کھانا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاند رات تک کھڑے نہیں ہوئے

 

نصر بن علی، داؤد بن امیہ، سفیان، ابو یعفور، داؤد، ابن عبید بن نسطاس، ابو ضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا اخیر عشرہ آتا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم راتوں کو جاگتے اور تہبند مضبوط باندھتے (یعنی ازواج سے الگ رہتے) اور گھر والوں کو بھی نماز کے لیے جگاتے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو یعفور کا نام عبد الرحمن بن عبید الرحمن نسطاس ہے۔

 

احمد بن سعید، عبد اللہ بن وہب، مسلم بن خالد، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ رمضان کی راتوں میں کچھ لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن حفظ یاد نہیں ہے اس لیے یہ لوگ ابی بن کعب کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان لوگوں نے درست فیصلہ کیا اور اچھا کام کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اس کی سند میں مسلم بن خالد ضعیف ہیں

 

                   شب قدر کا بیان

 

سلیمان بن حرب، مسدد، حماد بن زید، عاصم، حضرت زر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے (یعنی یہ کب واقع ہوتی ہے) کیونکہ اس کے متعلق ہمارے صاحب (عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے فرمایا جو سال بھر ہر رات عبادت کرے گا وہ شب قدر کو پا لے گا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ عبد الرحمن پر رحمت کرے وہ اچھی طرح واقف ہیں کہ شب قدر رمضان میں ہے منذر نے یہ اضافہ کیا کہ انہوں نے چاہا کہ لوگ بھروسہ نہ کر لیں اور وہ بھروسہ کرنے کو برا سمجھتے تھے، خدا کی قسم شب قدر رمضان میں ہے ستائیسویں رات کو اس سے باہر نہیں ہے میں نے کہا کہ اے ابو منذر تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے کہا کہ اس کی علامت سے جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بتلائی عاصم کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ وہ علامت کیا ہے؟ انہوں نے کہا شب قدر کی صبح سورج طشت کی طرح نکلتا ہے جس میں اونچا ہونے تک شعاع نہیں ہوتی

 

احمد بن حفص بن عبد اللہ، ابراہیم بن طہمان، عباد بن اسحاق ، محمد بن مسلم، ضمرہ، حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس میں بیٹھا تھا اور میں ان سب میں چھوٹا تھا لوگوں نے کہا کہ شب قدر کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کون دریافت کرے گا؟ اس دن رمضان کی اکیسویں تاریخ تھی پس میں نکلا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا اندر چلو پس میں چلا گیا رات کا کھانا لایا گیا کھانا کم تھا اس لیے میں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا (یعنی کم کھایا) جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا میرے جوتے لاؤ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا تجھے کچھ کام ہے مجھ سے؟ میں نے کہا ہاں مجھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بنی سلمہ کے لوگوں نے شب قدر دریافت کرنے کے لیے بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا آج کون سی شب ہے؟ میں نے کہا بائیسویں شب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہی شب قدر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں بلکہ اگلی شب یعنی ستائیسویں شب

 

احمد بن یونس، زہیر، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، ابن عبد اللہ بن انیس، حضرت عبد اللہ بن جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا ایک جنگل ہے میں اسی میں رہتا ہوں اور وہیں بفضل خدا نماز پڑھتا ہوں مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے تاکہ میں اس رات میں آ کر اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھ سکوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ستائیسویں رات کو آنا (محمد بن ابراہیم) کہتے ہیں کہ میں نے (عبد اللہ بن انیس کے) بیٹے سے پوچھا کہ تمہارے والد کا کیا عمل رہا؟ انہوں نے کہا کہ وہ بائیسویں تاریخ کو مسجد میں آتے اور پھر فجر کی نماز تک کسی بھی ضرورت کے لیے مسجد سے باہر نہ جاتے جب نماز فجر سے فارغ ہوتے تو مسجد کے دروازے پر آ کر اپنی سواری کے جانور کو دیکھتے اور اس پر سوار ہو کر جنگل کی طرف چلے جاتے

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ایوب، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو بالخصوص جب کہ (مہینہ کے ختم ہونے میں) نو راتیں باقی رہ جائیں اور جب سات راتیں باقی رہ جائیں اور جب پانچ راتیں باقی رہ جائیں

 

                   شب قدر کا اکیسویں شب میں ہونا

 

قعنبی، مالک، یزید بن عبد اللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم بن حارث، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعتکاف کیا اکیسویں شب سے یعنی اس شب سے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعتکاف سے باہر آنے کی شب تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اخیر عشرہ میں بھی اعتکاف کریں، اور میں نے شب قدر کو دیکھا ہے مگر پھر وہ رات مجھے فراموش کر دی گئی لیکن میں نے اپنے آپکو شب قدر کی صبح میں کیچڑ اور پانی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے لہذا تم اس کو اخیر عشرہ میں تلاش کرو خاص طور پر طاق راتوں میں ابو سعید کہا کہ پھر اسی رات میں (یعنی اکیسویں شب میں) بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکی جو کہ درخت کی شاخوں کی بنی ہوئی تھی، ابو سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں شب کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا نشان تھا

 

محمد بن مثنی، عبد الاعلی، سعید، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو اور خاص طور پر نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں، ابو نضرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید سے کہا کہ تم ہم میں سب سے زیادہ شمار کو جاننے والے ہو کہا ہاں میں نے کہا ساتویں، نویں پانچویں سے کیا مراد ہے؟ بولے جب اکیسویں شب گزر جائے تو اس کے بعد کی رات نویں رات ہے اور جب تیسویں شب گزر جائے تو اس کے بعد کی رات ساتویں رات ہے اور جب پچیسویں شب گزر جائے تو اس کے بعد کی رات پانچویں رات ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کا کچھ حصہ مجھ پر مخفی رہ گیا یا نہیں (یعنی اس حدیث کا مضمون ثقات کی روایت بلکہ خود حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہے جس میں شب قدر کا طاق راتوں میں ہونا مذکور ہے)

 

                   شب قدر کا سترہویں شب میں ہونا

 

حکیم بن سیف، عبید اللہ بن عمرو، زید ابن ابی انیسہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی سترہویں شب میں تلاش کرو اور اکیسویں شب کو اور تیسویں شب کو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے

 

                   شب قدر کا اخیر کی سات راتوں میں ہونا

 

قعنبی، مالک، عبد اللہ بن دینار، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شب قدر کو (رمضان کی) اخیر کی سات راتوں میں ڈھونڈو۔

 

                   شب قدر کا ستائیسویں رات میں ہو نا

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، قتادہ، مطرف، معاویہ بن ابی سفیان، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، شب قدر ستائیسویں رات ہے۔

 

                   شب قدر کا سارے رمضان میں ہو نا

 

حمید بن زنجویہ سعید بن ابی مریم، جعفر، بن ابی کثیر، موسیٰ بن عقبہ، ابو اسحاق ، سعید بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، وہ سارے رمضان میں ہے، ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو سفیان اور شعبہ نے بواسطہ ابو اسحاق حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے موقوفاً روایت کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرفوعاً روایت نہیں کیا۔

 

                   قرآن پاک کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کرنا چاہیئے

 

مسلم بن ابراہیم، موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا، قرآن ایک مہینہ میں پورا کیا کرو، انھوں نے کہا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، تو پھر بیس دن میں پورا کر لیا کرو، انھوں نے کہا مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی قوت ہے تو فرمایا، تو پھر پندرہ دن میں ختم کر لیا کرو، انھوں نے کہا مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی قوت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اور اس پر اضافہ مت کرنا ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسلم کی حدیث اتم ہے۔

 

سلیمان بن حرب، حمادعطاء بن سائب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر مہینہ میں تین روزے رکھا کر اور مہینہ بھر میں ایک قرآن ختم کیا کر، پھر روزوں کی تعداد اور ختم قرآن کی مدت میں میرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اختلاف ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، اچھا تو پھر ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن چھوڑ دے، عطاء کہتے ہیں کہ میرے والد سے لوگوں نے روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے بعض نے ختم قرآن کی آخری مدت سات دن بتائی اور بعض نے پانچ دن۔

 

ابن مثنی، عبد الصمد، ہمام، قتادہ یزید بن عبد اللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ انھوں نے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میں کم سے کم کتنی مدت میں قرآن ختم کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک مہینہ میں۔ انھوں نے کہا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے (یعنی میں اس سے کم مدت میں ختم کر سکتا ہوں) پھر اسی طرح ردو بدل میں رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، سات دن میں ختم کر انھوں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھا اس نے اس کو نہیں سمجھا۔

 

محمد بن حفص، ابو عبد الرحمن قطان، عیسیٰ بن شاذان، ابو داؤد، حریش بن سلیم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک مہینہ میں قرآن پڑھا کر، انھوں نے کہا مجھ میں قوت ہے (زیادہ پڑھنے کی) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کر۔ ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے امام احمد ابن حنبل سے سنا وہ فرماتے تھے کہ عیسیٰ بن شاذان صاحب فراست ہے۔

 

                   قرآن کے حصے کرنا

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، ابن ابی مریم، یحیٰ بن ایوب، ابن الہادی کہتے ہیں کہ حضرت نافع بن جبیر بن مطم نے مجھ سے پوچھا کہ تم کتنے دنوں میں قرآن ختم کرتے ہو؟ میں نے کہا میں اس کے حصے نہیں کرتا ہوں۔ حضرت نافع نے کہا کہ ایسا مت کہو۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود کہا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھا ہے، ابن الہادی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نافع نے مغیرہ بن شعبہ سے نقل کیا ہے۔

 

مسدد، قران بن تمام، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن یعلی، عثمان بن عبد اللہ، حضرت اوس بن خد یفہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ ہم بنی ثقیف کے وفد میں شامل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن لوگوں سے عہد وپیمان ہوا تھا وہ تو مغیرہ بن شعبہ کے پاس اترے اور بنی مالک کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ایک قبہ میں اتارا (جو مسجد کے ایک گوشہ میں بنا ہوا تھا) مسدد کہتے ہیں کہ اوس بن حذیفہ ثقیف کے اس وفد میں شامل تھے جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا تھا ۔ اوس بن حذیفہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزانہ رات کو عشاء کے بعد ہمارے پاس تشریف لاتے اور کھڑے کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے کبھی ایک پاؤں پر زور ڈالتے اور کبھی دوسرے پاؤں پر اور اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ حالات بیان کرتے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی قوم، قریش کے ساتھ پیش آئے تھے پھر فرماتے ہم اور وہ مکہ میں برابر نہ تھے بلکہ ہم کمزور و ناتواں تھے اس کے بعد ہم مکہ سے مدینہ آ گئے تب سے ہماری اور ان کی لڑائی ہے کبھی ہم ان پر غالب آ جاتے ہیں اور کبھی وہ ہم پر۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقررہ وقت پر تشریف نہ لائے بلکہ تاخیر سے آئے۔ ہم نے کہا آج رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا قرآن سے ایک حصہ چھوٹ گیا تھا اور اس کو پورا کیے بغیر میرا یہاں تمھارے پاس آنا اچھا نہیں لگا (اس لیے تاخیر ہو گئی) حضرت اوس کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب سے پوچھا تم قرآن کے حصے کس طرح کرتے ہو؟ انھوں نے کہا، (پہلے دن میں) تین سورتیں (دوسرے دن میں) پانچ سورتیں (تیسرے دن میں) سات سورتیں (چوتھے دن میں) نو سورتیں (پانچویں دن میں) گیارہ سورتیں (چھٹے دن میں) تیرہ سورتیں (اور ساتویں دن میں) مفصل (یعنی سورہ ق سے سورہ الناس تک) ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو سعید کی حدیث مکمل ہے۔

 

محمد بن منہال، ضریر، یزید بن زریع، سعید قتادہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا وہ اس کے معانی کو نہیں سمجھ سکا۔

 

نوح بن حبیب، عبد الرزاق، معمر، سماک بن فضل، وہب بن منبہ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ قرآن کتنے دن میں ختم کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا’’، چالیس دن میں‘‘، پھر فرمایا، مہینہ بھر میں، پھر فرمایا، بیس دن میں، پھر فرمایا پندرہ دن میں، پھر فرمایا دس دن میں پھر فرمایا سات دن میں، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات دن سے کم نہ کیا

 

عباد بن موسی، اسماعیل بن جعفر، اسرائیل، ابو اسحاق ، حضرت علقمہ اور حضرت اسود رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کے پاس ایک شخص آیا اور بو لا، میں مفصل (کی پوری منزل) ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تو اس طرح پڑھ لیتا ہو گا جیسے شعر جلدی جلدی پڑھے جاتے ہیں یا سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں مگر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو باہم مساوی سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھتے تھے جیسا کہ ایک رکعت میں سورہ النجم اور الرحمن اور ایک رکعت میں وَاقْتَرَبَتْ اور الْحَاقَّۃَ اور ایک رکعت میں الطور اور الذاریات اور ایک رکعت میں اذاوقعت اور سورہ نون اور ایک رکعت میں سَأَلَ سَائِلٌ اور النازعات۔ اور ایک رکعت میں وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ اور عبس۔ اور ایک رکعت میں سورہ المدثر اور المزمل۔ اور ایک رکعت میں وَہَلْ أَتَی اور َلَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ اور ایک رکعت میں الدخان اور وَإِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ابو داؤد نے کہا کہ یہ ابن مسعود کی مصحف کی ترتیب ہے (جو مصحف عثمانی کی ترتیب کے خلاف ہے)

 

حفص بن عمر، شعبہ، بن منصور، ابراہیم، حضرت عبد الرحمن بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو مسعود سے سوال کیا جس وقت کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کو ایک رات میں پڑھے گا وہ اس کے لیے کافی ہوں گی (تہجد سے)

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو، ابو سویہ، ابن حجیرہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نماز میں کھڑے ہو کر دس آیتیں پڑھے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور نماز میں کھڑے ہو کر سو آیتیں پڑھے گا وہ فرمانبرداروں میں لکھا جائے گا اور جو ایک ہزار آیتیں پڑھے گا وہ بیحد ثواب پانے والوں میں لکھا جائے گا ابو داؤد نے کہا ابن جحیرہ سے مراد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جحیرہ مراد ہیں،

 

یحیٰ بن موسی، ہارون بن عبد اللہ، عبد اللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، عیاش، عیسیٰ بن ہلال، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور بولا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے قرآن پڑھایئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تین سورتیں پڑھ جن کے شروع میں الآمر (الف، لام، میم، رائ) ہے یعنی سورہ یونس، سورہ یوسف، سورہ ہود وغیرہ اس شخص نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عمر بہت ہو گئی ہے اور میرا دل سخت ہو گیا ہے (یعنی قوت حافظہ کم ہو گئی ہے اور بھول پیدا ہو گئی ہے) اور میری زبان موٹی ہو گئی ہے (اس لیے اتنی لمبی سورتیں پڑھ اور یاد نہیں کر سکتا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا تو پھر تین سورتیں، حآم والی سورتوں میں سے یاد کر لے اس نے پھر پہلے والا عذر پیش کیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو تو پھر تین سورتیں مسبحات میں سے یاد کر لے (یعنی جن کے شروع میں سبح یا سبح یسبح ہے) اس نے پھر پہلے والا عذر پیش کیا اور عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے ایک جامع سورۃ سیکھا دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو إِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ سکھائی یہاں تک کہ سکھانے سے فارغ ہو گئے پس وہ شخص بولا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں کبھی اس پر زیادہ نہیں کروں گا (یعنی اس کے معانی اور اس کی تعظیم پر پورا پورا عمل کرونگا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص نے نجات پائی۔ اس شخص نے مراد پائی۔

 

                   آیتوں کی گنتی

 

عمرو بن مرزوق، شعبہ، قتادہ عباس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قرآن میں تیس آیتوں والی ایک سورۃ ہے جو (روز حساب) اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کو بخش دیا جائے گا وہ سورت ہے تبارک الذی۔

 

                   سجدہ ہائے تلاوت اور ان کی تعداد کا بیان

 

محمد بن ابراہیم بن برقی، ابن ابی مریم، نافع بن یزید، حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو قرآن میں پندرہ سجدے بتائے جن میں سے تین مفصل ہیں اور دو سجدے سورہ حج میں ہیں۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدرداء سے مرفوعا گیارہ سجدے مروی ہیں مگر اس کی سند وہی ہے۔

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، ابن لہیعہ، مشرح بن ہاعان، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا سورہ حج میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس میں دو سجدے ہیں جو ان دو سجدوں کو نہ کرے تو وہ اس سورت کو بھی نہ پڑھے۔

 

                   مفصل میں سجدہ نہ ہونے کا بیان

 

محمد بن رافع، ازہر بن قاسم، محمد، ابو قدامہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ سے آئے سورہ مفصل میں سجدہ نہیں کیا یہ حدیث ضعیف ہے اور حضرت ابو ہریرہ کی صحیح حدیث کے معارض ہے جو آگے آ رہی ہے۔

 

ہناد بن سری، وکیع، ابن ابی ذئب، یزید بن عبد اللہ بن قسیط، عطاء بن یسار، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سورہ النجم پڑھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

 

ابن سرح، ابن وہب، ابو صخرہ، ابن قسیط، خارجہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (دوسری سند کے ساتھ) اسی طرح مروی ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ زید بن ثابت امام تھے اور انہوں نے سجدہ نہیں کیا۔

 

                   سورۂ نجم میں سجدہ کرنے کا بیان

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، اسود، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ نجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور کوئی شخص نہیں بچا جس نے سجدہ نہ کیا ہو لیکن ایک شخص نے تھوڑی سی مٹی یا ریت ہاتھ میں لی اور چہرہ تک اٹھائی اور بولا میرے لیے بجائے سجدہ کے یہ کافی ہے۔ عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا بعد میں وہ حالت کفر میں قتل ہوا۔

 

                   اذا السماء النشقت اور اقرا

 

مسدد، سفیان، ایوب بن موسی، عطاء بن میناء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سورہ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ اور ِاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ میں سجدہ کیا۔

 

مسدد، معتمر بکر، ابو رافع، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی میں نے کہا یہ سجدہ کیسا ہے انہوں نے کہا میں یہ سجدہ ابو القاسم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پیچھے کیا ہے اور میں ہمیشہ اس کو کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملوں۔

 

                   سورۂ صٓ میں سجدہ کرنے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، وہیب، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورہ صٓ کا سجدہ ضروری نہیں مگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

احمد بن صالح، ابن وہب، عمرو، ابن حارث، ابن ابی ہلال، عیاض بن عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منبر پر سورہ صٓ پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور باقی لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدہ کیا اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر یہی سورت پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیت سجدہ پر پہنچے تو لوگ سجدہ کے لیے تیار ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ سجدہ تو ایک نبی کی توبہ تھی لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے اترے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور تمام لوگوں نے سجدہ کیا۔

 

             سواری کی حالت میں آیت سجدہ سنے تو کیا کرے؟

 

محمد بن عثمان ابو جماہر، عبد العزیز، ابن نمیر، مصعب بن ثابت عبد اللہ بن زبیر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے سال آیت سجدہ پڑھی تو سب لوگوں نے زمین پر سجدہ کیا بعض سوار بھی تھے انہوں نے اپنے ہاتھ پر سجدہ کیا۔

 

احمد بن حنبل، یحیٰ بن سعید، احمد بن ابو شعیب، ابن نمیر، عبید اللہ بن نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو نماز کے علاوہ ایک سورت سناتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہم کبھی سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو تو زمین پر اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔

 

احمد بن فرات، ابو مسعود، عبد الرزاق، عبد اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو قرآن سنایا کرتے تھے جب آیت سجدہ پر پہنچتے تو تکبیر کہ کر سجدہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے عبد الرزاق نے کہا کہ (اس میں) سفیان ثوری کو یہ حدیث بہت پسند تھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری کی پسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں تکبیر کا بھی ذکر ہے۔

 

                   سجدہ تلاوت کی دعا

 

مسدد، اسماعیل، خالد، حذاء، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاوت کے سجدوں میں رات کو کئی مرتبہ یہ دعا پڑھتے تھے۔سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ۔

 

                   جو شخص صبح کی نماز کے بعد آیت سجدہ تلاوت کرے تو وہ سجدہ کب کرے؟

 

عبد اللہ بن صباح، ابو بحر، ثابت بن عمار، حضرت ابو تمیم ہجیمی سے روایت ہے کہ جب ہم رکب کے ساتھ مدینہ میں آئے تو میں فجر کی نماز کے بعد وعظ کہا کرتا تھا اور آیت سجدہ کی تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا تھا پس حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس سے تین مرتبہ روکا لیکن میں نہیں رکا آخر کار انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ابو بکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے لیکن کسی نے بھی (نماز کے بعد) سجدہ نہیں کیا جب تک کہ سورج نہ نکل آیا۔

 

                   وتر طاق پڑھنا سنت ہے

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ بن زکریا، ابو اسحاق ، عاصم بن علی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے قرآن والو وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالی بھی وتر کو پسند فرماتے ہیں

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو حفص ابار، اعمش، عمرو بن مرہ، ابو عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بھی اسی کے ہم معنی روایت منقول ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ ایک اعرابی بولا کیا کہتے ہو؟ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا یہ حکم تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے نہیں۔

 

ابو ولید، قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، عبد اللہ بن راشد، عبد اللہ بن ابی مرہ، خارجہ بن حذافہ، حضرت ابو الوالید عدوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالی نے تمہاری ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے جو تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے جس کا وقت عشاء کے بعد سے لیکر طلوع فجر تک ہے۔

 

                   تارک وتر کے بارے میں وعید

 

ابن مثنی، ابو اسحاق ، فضل بن موسی، عبید اللہ بن عبد اللہ بن بریدہ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وتر حق ہے پس جو وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں وتر حق ہے بس جو وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے،

قعنبی، مالک، یحیٰ بن سعید، محمد بن یحیٰ بن حبان، حضرت محیریز سے روایت ہے کہ بنی کنانہ کے مخدجی نامی ایک شخص نے ابو محمد نام کے ایک شخص سے شام میں سنا تھا کہ وتر واجب ہے مخدجی کا بیان ہے کہ میں یہ سن کر حضرت عبادہ بن صامت کے پاس گیا اور ان سے ابو محمد کا قول بیان کیا حضرت عبادہ نے فرمایا ابو محمد نے غلط کہا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر صرف پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو ان کو ادا کرے گا اور ان کو غیر اہم نہ سمجھے گا تو اللہ تعالی کا اس سے وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور جو ان نمازوں کو ادا نہیں کرے گا اور ان کو غیر اہم سمجھے گا تو اللہ تعالی کا اس سے کوئی وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور جو نمازوں کو ادا نہیں کرے گا تو اللہ تعالی کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو نافرمانی پر) عذاب دے گا اور چاہے گا تو اپنی رحمت خاص سے) اس کو جنت میں داخل فرمائے گا

 

                   وتر میں رکعات کی تعداد

 

إمحمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، عبد اللہ بن شقیق، ابن عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جو جنگل میں رہتا تھا رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے رات کی نماز کا حال دریافت کیا آپ نے ان دو انگلیوں سے اشارہ کیا یعنی دو دو رکعتیں اور وتر کی ایک رکعت اخیر رات میں۔

 

عبدالرحمن بن مبارک، قریش بن حیان، بکر بن وائل، عطاء بن یزید، حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وتر ہر مسلمان پر واجب ہے پس جو پانچ کے ذریعہ عدد کا طاق کرنا چاہے وہ پانچ رکعت پڑھے اور ایک ذریعہ طاق کرنا چاہے ایک رکعت پڑھے۔

 

                   وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو حفص، ابراہیم بن موسی، محمد بن انس، اعمش، حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور دوسری رکعت میں قُل یَا اَیُّھَا الکَافِرُون اور تیسری رکعت میں قُل ھُو اللہٗ اَحَد پڑھتے

 

احمد بن ابی شعیب، محمد بن سلمہ، حصیف، عبد العزیز بن جریج، حضرت عبد العزیز بن جریح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی کون کونسی سورتیں پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے بھی حدیث بالا کی طرح بیان کیا مگر یہ کہا کہ تیسری رکعت میں آپ قُل ھُو اللہٗ اَحَد معوذتین پڑھتے تھے

 

                   وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، احمد بن جواس، ابو احوص، حضرت حسین بن علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو چند کلمات سکھائے جن کو وتر میں پڑھا کرتا ہوں ابن جواّس نے کہا وتر کے قنوت میں وہ کلمات یہ ہیں۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، حضرت ابو اسحاق سے بھی سابقہ سند و مفہوم کے ساتھ روایت منقول ہے اس میں اقولن فی الوتر کے فی الوتر فی القنوت ہے ابو داؤد کہتے ہیں ابو لحوراء کا نام ربعیہ بن شیبان ہے

 

موسیٰ بن اسماعیل حماد، ہشام بن عمرو، عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سُخْطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ۔

 

احمد بن محمد بن حنبل، محمد بن بکر، ہشام، محمد، بعض اصحاب سے مروی ہے کہ ابی بن کعب جب رمضان میں امام ہوتے تو رمضان کے نصف اخیر میں قنوت پڑھتے تھے۔

 

شجاع بن مخلد، ہشیم، یونس، بن عبید حسن، حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے لوگوں کو نماز تروایح کے لیے حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کر دیا پس وہ لوگوں کو بیس راتوں تک نماز پڑھاتے تھے مگر قنوت صرف آخر کے نصف حصہ میں پڑھتے تھے جب اخیر کے دس دن باقی رہ جاتے تھے تو اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے جس پر لوگ کہتے تھے کہ ابی بھاگ گئے

 

                   وتر کے بعد کی دعا

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن ابی عیبدہ، اعمش، طلحہ، ذر، سعید بن عبد الرحمن بن ابزی، حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وتر پڑھ کر سلام پھیرتے تو پڑھتے تھے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ۔

 

محمد بن عوف، عثمان بن سعید، ابی غسان، محمد بن مطرف، زید بن اسلم، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا پڑھنا بھول جائے تو جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے

 

                   سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان

 

ابن مثنی، ابو داؤد، ابان بن یزید، قتادہ، ابو سعید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میرے دوست حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو تین باتوں کی وصیت فرمائی جن کو میں کھبی نہیں چھوڑتا ہوں نہ سفر میں اور نہ حضر میں (1) چاشت کی دو رکعتیں (2) ہر مہینہ کے تین دن کے روزے (3) وتر پڑھ کر سونا

 

عبدالوہاب بن نجدہ، ابو یمان، صفوان بن عمرو، ابو ادریس، جبیر بن نفیر، حضرت ابو الدرداء سے روایت ہے کہ میرے دوست حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو تین باتوں کی وصیت فرمائی جن میں کسی حال میں نہیں چھوڑتا ہوں وہ یہ ہیں (1) چاشت کی دو رکعتیں (2) ہر مہینہ کے تین دن کے روزے (3) وتر پڑھ کر سونا

 

محمد بن احمد، خلف، ابو زکریا، یحیٰ بن اسحاق ، حماد بن سلمہ، ثابت بن عبد اللہ بن رباح، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو بکر سے پوچھا تم وتر کب پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا شروع رات میں پھر حضرت عمر نے پوچھا تم وتر کب پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا اخیر رات میں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا تم نے احتیاط کا پہلو اختیار کیا اور حضرت عمر سے فرمایا تم نے عزیمت اختیار کی۔

 

                   وتر کا وقت

 

احمد بن یونس، ابو بکر بن عیاش، اعمش، مسلم، حضرت مسروق سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وتر کس وقت پڑھا کرتے تھے فرمایا کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اول شب میں پڑھتے کبھی وسط شب میں اور کبھی آخر شب میں لیکن آخر شب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کو فجر کے قریب پڑھا کرتے تھے۔

 

ہارون بن معروف، ابن ابی زائدہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جلدی پڑھو صبح ہو جانے سے پہلے

 

قتبیہ بن سعید، لیث بن سعد، معاویہ بن صالح، عبد اللہ بن ابی قیس، حضرت عبد اللہ بن ابی قیس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وتر کے متعلق دریافت کیا کہ کب پڑ تے تھے فرمایا کبھی اول شب میں اور کبھی آخر شب میں میں نے پوچھا کے اس میں قرأت کیسے کرتے تھے آہستہ یا بلند آواز میں فرمایا کے دونوں طرح کبھی آہستہ اور کبھی بلند آواز میں نیز کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل کر کے سو تے اور کبھی وضو کر کے سوتے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ قتیبہ کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے غسل مراد جنابت ہے۔

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات کے وقت نمازوں کو آخیر وقت میں پڑھا کرو۔

 

                   وتر دو مرتبہ نہیں پڑھے جا سکتے

 

مسدد، ملازم بن عمرو، عبد اللہ بن بدر، حضرت قیس بن طلق سے روایت ہے کہ ایک دن رمضان میں طلق بن علی ہمارے پاس آئے اور شام تک رہے اور روزہ افطار کیا اس کے بعد ہمیں اس رات تراویح اور وتر پڑھائے پھر اپنی مسجد میں جا کر لوگوں نماز پڑھائی جب وتر باقی رہ گئے تو ایک دوسرا شخص آگے بڑھا فرمایا کہ لوگوں کو وتر پڑھا کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ ایک رات دو وتر نہیں ہو سکتے۔

 

                   نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان

 

داؤد بن امیہ، معاذ، ابن ہشام، یحییٰ، بن ابی کثیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں کہا خدا کی قسم میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سی نماز پڑھاؤں ابو سلمہ کہتے ہیں ابو ہریرہ ظہر اور عشاء اور فجر کی آخری رکعت میں دعا قنوت پڑھتے مسلمانوں کے لیے دعا کرتے تھے اور کافروں پر لعنت کرتے

 

ابو ولید، مسلم بن ابراہیم، حفص بن عمر، ابن معاذ، حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور ابن معاذ کی روایت میں مغرب کا بھی ذکر ہے

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، ولید اوزاعی، یحیٰ بن کثیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ماہ تک عشاء کی نماز میں قنوت پڑھی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قنوت میں یہ پڑھتے تھے اللَّہُمَّ نَجِّ الْوَلِیدَ بْنَ الْوَلِیدِ ترجمہ اے اللہ ولید بن ولید کو نجات دے دے، یا اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات دے دے یہ لوگ کفار کی قید میں تھے یا اللہ کمزور مسلمانوں کو نجات دے دے یا اللہ مضر پر اپنا سخت عذاب نازل فرما اللہ ان پر قحط ڈال دے جیسا کہ تو نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ڈالا تھا ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کی لیکن ان لوگوں کے دعا نہیں کی اس بارے میں میں نے آپ سے استفسار کیا تو فرمایا کیا تو نہیں دیکھتا کہ ولید اور سلمہ کفار کی قید سے آ گئے ہیں۔

 

عبد اللہ بن معاویہ، ثابت بن یزید، ہلال بن خباب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لگاتار ایک مہینہ تک ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنی سلیم کی بستی میں سے ایک قبیلہ رعل ذکوان اور عصیبہ کے لیے بدعا فرماتے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے آمین کہتے تھے۔

 

سلیمان بن ایوب، حرب، مسدد، حماد، ایوب، محمد، حضرت محمد بن انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک سے سوال کیا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی ہے فرمایا ہاں پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے پڑھی ہے بعد میں فرمایا رکوع کے بعد مسدد کی روایت میں ہے کہ آپ کا یہ عمل تھوڑی ہی مدت رہا۔

 

ابو ولید، حماد بن سلمہ، انس بن سیرین، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی اور اس کے بعد چھوڑ دی

 

مسدد، بشر بن مفضل، یونس، بن عبید، محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا جس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی تھی کہ جب آپ نے دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سر اٹھایا تو تھوڑی دیر تک (قنوت پڑھنے کے لیے) کھڑے رہے۔

 

                   گھر میں نفل پڑھنے کی فضلیت

 

ہارون بن عبد اللہ بزاز، مکی بن ابراہیم، عبد اللہ، ابن سعید بن ابی ہند، ابو نضر، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں ایک حجرہ بنوایا جس میں آپ رات میں آ کر نماز پڑھتے تھے یہ دیکھ کر لوگوں نے آ کر آپ کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر دی ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے حجرے سے باہر تشریف نہ لائے تو لوگوں نے اس خیال میں کے شاید آپ سو گئے ہیں کھنکارنا، پکارنا اور دروازے پر کنکر مارنا شروع کر دیا پس آپ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ غصہ کی حالت میں تھے فرمایا لوگو تم ایسا ہی کیے جاتے ہو یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ تم پر کہیں واجب نہ ہو جائے لہذا نفل نماز تمہیں اپنے اپنے گھروں میں پڑھنی چاہیے کیونکہ فرض نماز کے علاوہ دیگر نمازیں گھر پر پڑھنا بہتر  ہےـ

 

مسدد، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ

 

احمد بن حنبل، حجاج، ابن جریج، عثمان بن ابی سلیمان، علی، عبید بن عمیر، حضرت عبد اللہ بن حبشی الخنثی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے آپ نے فرمایا نماز میں طویل قیام کرنا اس کے بعد پوچھا گیا کہ کونسا صدقہ افضل ہے فرمایا جو کم محنت والا محنت کر کے صدقہ کرے اس کے بعد سوال کیا گیا کونسی ہجرت افضل ہے آپ نے فرمایا جو اللہ کے حرام کردہ تمام کاموں کو چھوڑ دے اس کے بعد پوچھا گیا کونسا جہاد افضل ہے آپ نے فرمایا جو اپنے جان و مال کے ساتھ مشرکین کے ساتھ جہاد کرے پھر پوچھا کون سا قتل افضل ہے فرمایا جس کا راہ خدا میں خون بہا جائے اس کے گھوڑے کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں

 

                   شب بیداری اور تہجد کی فضلیت

 

محمد بن بشار، یحییٰ، ابن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس شخص پر رحمت نازل جو رات تہجد پڑھنے کے لیے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور دونوں تہجد پڑھیں اور اگر اس کی بیوی نہ اٹھ سکے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے دے تاکہ وہ جاگ جائے اور رحمت نازل فرمائے اللہ اس عورت پر جو رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے اور وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے دے

 

محمد بن حاتم بن بزیع، عبید اللہ بن موسی، شیبان، اعمش، علی بن اقمر، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو ان کا نام کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جائے گا

 

                   قرآن پڑھنے کا ثواب

 

حفص بن عمر، شعبہ، علقمہ، بن مرثد، سعد بن عبیدہ ابو عبد الرحمن، حضرت عثمان غنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، زبان بن فائد، سہل بن معاذ، حضرت معاذ جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیم پر عمل کیا تو اس کے ماں پاب کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہو گی پھر اس شخص کے مرتبہ کا کیا ٹھکانا ہو گا جس نے خود قرآن پر عمل کیا ہو گا۔

 

مسلم بن ابراہیم، ہشام، ہمام، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن کو مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور نبیوں کے ساتھ ہو گا جس کے لیے قرآن پڑھنا مشکل ہو اور پھر بھی محنت کرتا رہا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہو گا ایک قرآن پڑھنے کا دوسرا اس پر محنت کرنے کا

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد میں جمع ہو کر قرآن پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں تو اللہ تعالی ان پر سکینہ نازل فرماتا ہے اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اللہ تعالی اپنے پاس موجود فرشتوں سے ان کا ذکر فرماتا ہے

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، موسیٰ بن علی بن رباح، علی، حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم مسجد کے سائبان میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کون یہ چاہتا ہے بطحان یا عقیق تک جائے اور پھر دو اونٹ بڑی کوہان والے موٹے تازے بغیر کسی گناہ کے اور بغیر کسی قطع رحمی کے لے کر آئے لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے ہر شخص یہ چاہے گا فرمایا تم سے جو شخص ہر روز مسجد میں آ کر قرآن کی دو آیتیں سیکھے گا تو اس کے لیے یہ دو آیتیں سیکھنا دو اونٹوں کے برابر ہیں پس جتنی آیتیں قرآن کی سیکھے گا وہ اس کے حق میں اتنے ہی اونٹوں سے بہتر ہوں گی

 

                   سورۃ فاتحہ کی فضلیت کا بیان

 

احمد بن ابی شعیب، عیسیٰ بن یونس، ابن ابی ذئب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے

 

عبید اللہ بن معاذ، خالد، شعبہ، حبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو سعید بن معلی سے روایت کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اسی حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے قریب سے گزرے آپ نے مجھے آواز دی میں نماز پڑھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دریافت فرمایا تو نے مجھے کیوں جواب نہیں دیا میں نے عرض کیا میں نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کو جواب دو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تجھ کو قرآن کی عظمت والی سورت سکھا دوں جب آپ مسجد سے باہر نکلنے لگے میں نے آپ کو آپ کا قول یاد دلایا آپ نے فرمایا سورت الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ سبع مثانی قرآن عظیم ہے جو مجھے عطاء کی گئی

 

                   سورت فاتحہ کا لمبی سورتوں میں سے ہو نا

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سات مثانی آیتیں جو لمبی ہیں عطا کی گئی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کو چھ آیتیں عطاء کی گئی تھیں جب انہوں نے غصہ میں آ کر وہ تختیاں جن پر تورات لکھی ہوئی تھی پھینک دیں تو وہ آیتیں اٹھا لی گئیں اور چار باقی رہ گئیں۔

 

                   آیت الکرسی کی فضیلت

 

محمد بن مثنی، عبد الاعلی، سعید بن ایاس، ابو سلیل، عبد اللہ بن رباح حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے ابو منذر یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے قرآن کی کونسی آیت سب سے زیادہ بڑی ہے میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں پھر آپ نے استغفار فرمایا کون سی آیت کتاب اللہ میں سب سے بڑی ہے میں نے عرض کی (اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ) 2۔ البقرۃ:255) یہ سن کر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا فرمایا اے ابو منذر تجھے علم مبارک ہو

 

                   سورت اخلاص کی فضلیت کا بیان

 

قعنبی، مالک، عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کو بار بار قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَد پڑھتے ہوئے سنا جب صبح ہوئی اس نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ ذکر کیا کیونکہ وہ اس سورت کو اس کے اصل مرتبہ سے کم تصور کرتا تھا آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس سورت کا مرتبہ تہائی قرآن سے زیادہ ہے

 

                   قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کی فضلیت کا بیان

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، معاویہ، علاء بن حارث، قاسم، معاویہ، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں سفر میں رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے اونٹ کو کھینچا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے عقبہ کیا میں تجھ کو دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں پھر آپ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ و َقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ سکھائیں جب آپ نے محسوس کیا مجھے یہ سورتیں سیکھ کر زیادہ خوشی نہیں ہوئی تو آپ نے صبح کو اتر کر فجر کی نماز میں یہی دو سورتیں تلاوت کیں تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے عقبہ کیا اب بھی سمجھے تم ان سورتوں کا مرتبہ

 

عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، سعید بن ابی سعید، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حجفہ اور ابو اء (نامی دو مقاموں) کے درمیان چل رہا تھا اچانک تیز ہوا اور تاریکی نے ہم کو ڈھانپ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھنی شروع کر دی اور فرمایا اے عقبہ ان دونوں سورتوں کے ذریعہ دعا مانگا کرو کیونکہ کسی کو پناہ مانگنے والے نے اس جیسی پناہ نہیں مانگی حضرت عقبہ فرماتے ہیں ان سورتوں کو آپ سے نماز کی حالت میں سنا ہے۔

 

                   قرأت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، عاصم بن بہدلۃ، زر، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی قیامت کے دن صاحب قرآن سے فرمائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا کیونکہ تیرا مقام وہ ہے جہاں تو آخری آیت پڑھے گا۔

 

مسلم بن ابراہیم، جریر، حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا کے آپ ہر مد کو ادا فرماتے تھے

 

یزید بن خالد بن موہب، لیث، ابن ابی ملیکہ، حضرت یعلی بن مملک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت اور نماز کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہاں تمھاری نماز اور کہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا طریقہ یہ تھا کہ رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے اور پھر اتنی ہی دیر کے لیے سو جاتے جتنی دیر تک نماز پڑھی تھی پھر سونے کے بعد اتنی ہی دیر نماز میں مشغول رہتے جتنی دیر سوئے تھے اور یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کا حال بیان کیا تو کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کا ایک ایک حرف الگ الگ ہوتا تھا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کے ہر حرف کو اچھی طرح سنا جا سکتا تھا)

 

حفص بن عمر، شعبہ، معاویہ بن قرہ، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا اس دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر سوار ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ فتح پڑھ رہے ہیں اور ایک آیت کو کئی کئی مرتبہ پڑھ رہے ہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، طلحہ، عبد الرحمن بن عوسجہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنی آوازوں کے ذریعہ قرآن کو زینت بخشو۔

 

ابو ولید، قتیبہ بن سعید، یزید بن خالد، بن موہب، حضرت سعید بن ابی سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو، ابن ابی ملیکہ، عبید اللہ بن ابی نہیک، حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مانند روایت ہے۔

 

عبدالاعلی بن حماد، عبد الجبار رضی اللہ عنہ بن ورد سے روایت ہے کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ عبد اللہ بن ابی یزید کا کہنا ہے کہ ابو لبابہ ہمارے پاس سے گزرے ہم ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں گئے ان کے ساتھ ہم بھی گھر میں داخل ہوئے ہم نے دیکھا کہ ایک شخص پھٹے پرانے حال میں بیٹھا ہے میں نے اس سے سنا وہ کہتا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے عبد الجبار کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کی اے ابو محمد اگر کوئی شخص خوش آواز نہ ہوے تو کیا کرے؟ جہاں تک ممکن ہو اچھی آواز سے پڑھے۔

 

محمد بن سلیمان، وکیع، محمد بن سلیمان انباری کہتے ہیں کہ وکیع اور ابن عیینہ نے یستغنی بالقرآن نقل کیا ہے۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمر بن مالک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی کسی کلام کو اس طرح متوجہ ہو کر نہیں سنتا جتنا کہ کسی نبی کی خوش آوازی کے ساتھ قرأت قرآن کو یعنی بآواز بلند قرأت کو۔

 

                   قرآن حفظ کرنے کے بعد اس کو بھلا دینے پر وعید

 

محمد بن علاء، ابن ادریس، یزید بن ابی زیاد، عیسیٰ بن فائد، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن پڑھ کر بھلا دے وہ روز قیامت اللہ تعالی اسے خالی ہاتھ ہو کر ملے گا۔

 

                   قرآن مجید سات طرح پر نازل ہونے کا بیان

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم کو سورہ فرقان اس طریقہ کی خلاف پڑھتے سنا جس طریقہ سے میں پڑھتا تھا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس طرح پڑھائی تھی اس لیے قریب تھا کہ میں ان سے، غلط پڑھنے پر، الجھ پڑھوں اور ان کو روک دوں۔ مگر میں نے ان کو مہلت دی یہاں تک کہ وہ فارغ ہو گئے جب وہ فارغ ہو چکے تو میں نے ان کی گردن میں اپنی چادر ڈالی اور گھسیٹتا ہوا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے ان کو سورہ فرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھتے ہوئے سنا ہے جس طریقہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے سکھائی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا پڑھو پس انہوں نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں ان کو پڑھتے ہوئے سن چکا تھا سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ سورت اسی طریقہ پر نازل ہوئی ہے اس کے بعد مجھ سے فرمایا اب تم پڑھو پس میں نے پڑھا اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی فرمایا کہ یہ سورت اسی طریقہ پر نازل ہوئی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے پس جو طریقہ تمھارے لیے آسان ہو اس طریقہ پر پڑھو۔

 

محمد بن یحیٰ بن فارس، عبد الرزاق، حضرت معمر کہتے ہیں کہ زہری کا قول ہے کہ یہ قراتوں کا اختلاف لفظی ہے حلال و حرام میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 

ابو ولید، ہمام بن یحییٰ، قتادہ یحیٰ بن یعمر، سلیمان بن صرد، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابی مجھے قرآن پڑھایا گیا تو مجھ سے پوچھا گیا قرآن ایک حرف (لہجہ) پر پڑھنا چاہتے ہو یا دو حرفوں پر؟ تو اس وقت جو فرشتہ قرآن پڑھانے کے لیے میرے پاس تھا اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہہ دیجیے کہ دو حرفوں پر میں نے عرض کیا کہ دو حرفوں پر اس کے بعد مجھ سے پوچھا گیا کہ دو حرفوں پر قرآن پڑھنا پسند ہے یا تین حرفوں پر؟ پھر اسی فرشتہ نے جو میرے پاس تھا کہا کہہ دیجیے تین حرفوں پر پس میں نے عرض کیا تین حرفوں پر اور پھر یہ سوال جواب کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سات حرفوں پر پڑھنے اور اس کی اجازت پر یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان میں سے ہر حرف (یعنی ہر لہجہ اور طریقہ) شافی اور کافی ہے لہذا تو چاہے تو سمیعاً علیماً پڑھ اور چاہے تو عزیزاً حکیماً (اس حد تک تو درست ہے مگر یہ درست نہیں کہ تو) عذاب کی آیت کو رحمت پر ختم کرے اور رحمت کی آیت کو عذاب کی آیت پر۔

 

ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، مجاہد، ابن ابی لیلی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنی غفار کے ایک تالاب کے پاس تھے تبھی حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا اللہ تم کو حکم کرتا ہے کہ اپنی امت کو قرآن ایک حرف پر پڑھاؤ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس معاملہ میں میں اللہ سے معافی اور مغفرت کا خوست گار ہوں کیونکہ میری امت اس سختی کی متحمل نہیں ہو سکتی پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام تیسری مرتبہ تشریف لائے (اور دو حرفوں پر پڑھانے کا حکم لائے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اپنی امت کی کمزوری کو پیش کیا) یہاں تک کہ سات حرفوں پر پڑھنے کی اجازت ملی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا بیشک اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امت کو سات حرفوں تک قرآن سکھاؤ پس وہ جس حرف اور جس لہجہ پر بھی پڑھیں گے وہ صحیح ہو گا۔

 

علم کا بیان

 

                   علم کی فضیلت کا بیان

 

مسدد بن مسرہد، عبد اللہ بن داؤد، عاصم بن رجا بن حیوہ، داؤد بن جمیل، کثیر، بن قیس، فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے والد حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ تو اچانک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو لدرداء رضی اللہ تعالی عنہ میں آپ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شہر مدینہ طیبہ سے حاضر ہوا ہوں صرف ایک ایسی حدیث کے حاصل کرنے کیلئے جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور میں کسی ضرورت (دنیوی) کی وجہ سے نہیں آیا۔ حضرت ابو الدرداء نے فرمایا کہ بیشک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کے حصول کی راہ میں چلا اللہ تعالی اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتے ہیں اور بیشک ملائکہ اپنے پروں کو طالب علم کی خوشنودی کے لئے بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی تمام اشیاء مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور مچھلیاں پانی کے پیٹ میں۔ اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر اور بیشک علماء انبیا کے ورثاء ہیں اور انبیاء علم کو میراث بناتے ہیں پس جس نے اسے حاصل کر لیا تو اس نے پور حصہ حاصل کر لیا۔

 

محمد بن وزیر، ولید، شبیب بن شعبہ، عثمان بن ابی سودہ، نے حضور علیہ السلام سے یہی حدیث دوسری سند کے ساتھ روایت کی ہے۔

احمد بن یونس، زائدہ اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے کہ وہ علم کے حصول کے راستہ میں چلے مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے واسطے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جس نے عمل میں کاہلی و تاخیر کی تو اس کا نسب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔

 

                   اہل کتاب سے حدیث روایت کرنے کا بیان

 

احمد بن محمد بن ثابت، عبد الرزاق، معمر، زہری، ابن ابی نملۃ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک بار بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے قریب ہی ایک یہودی بھی بیٹھا ہوا تھا اسی اثناء میں ایک جنازہ وہاں سے گزرا تو وہ یہودی کہنے لگا کہ اے محمد۔ کیا یہ جنازہ کلام کرتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ واللہ اعلم۔ وہ یہودی کہنے لگے کہ یہ جنازہ بات کر سکتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ سے بیان کیا کہ اہل کتاب جو تم سے باتیں بیان کریں تم نہ ان کی تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب اور یہ کہا کرو کہ ہم تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پس اگر اس کی بات غلط ہو گی تو تم نے اس کی تصدیق ہی نہیں کی اور اگر وہ حق ہے تو تم نے اس کی تکذیب بھی نہیں کی ہے۔

 

احمد بن یونس، ابن ابی زناد، خارجہ بن زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ چنانچہ میں نے آپ کے لئے یہودیوں کی تحریر وغیرہ سیکھی۔ اور آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے یقین نہیں ہے کہ یہود میری تحریر کو درست لکھتے ہوں گے چنانچہ میں نے اسے سیکھا ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزارا تھا کہ میں اس میں ماہر ہو گیا چنانچہ میں ہی آپ کے لئے لکھا کرتا تھا جب آپ لکھواتے اور جب آپ کے پاس کہیں سے یہودیوں کی تحریر آتی تو میں ہی اسے پڑھا کرتا تھا۔

 

                   علم کی کتابت کا بیان

 

مسدد، ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ، عبید اللہ بن اخنس، ولید بن عبد اللہ یوسف، ماہل، عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔

 

نصر بن علی، ابو احمد کثیر بن زید، مطلب بن عبد اللہ حنطب فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے کسی حدیث کے بارے میں دریافت کیا حضرت معاویہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ اسے لکھ لے تو زید بن ثابت نے ان سے کہا کہ بیشک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ آپ کی حدیث میں سے کچھ نہ لکھا جائے چنانچہ لکھے ہوئے کو مٹا دیا گیا۔

 

                   حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھنے کی شدید وعید کا بیان

 

عمرو بن عون، مسدد، خالد بیان بن بشر، مسدد ابو بشر، وبرہ بن عبد الرحمن، عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ آپ کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حدیث روایت کرنے میں کیا مانع ہے؟جیسے کہ آپ کے ساتھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک خاص تقرب کا درجہ حاصل تھا لیکن میں نے آپ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

 

                   اللہ کی کتاب میں بغیر علم کے گفتگو کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن محمد بن یحییٰ، یعقوب بن اسحاق سہیل بن مہران، ابو عمران بن جندب سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے صحیح گفتگو بھی کی تو اس نے غلطی کی۔

 

                   ایک بات کو بار بار دہرانے کا بیان

 

عمرو بن مرزوق، شعبہ، ابی عقیل، ہاشم بن بلال، سابق بن ناجیہ، ابو سلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک خادم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کوئی حدیث بیان فرماتے تو اسے تین مرتبہ لوٹاتے، مراد یہ ہے کہ کوئی اہم حکم یا نصیحت ہوتی تو تین مرتبہ بیان فرماتے۔

 

                   تیز گفتگو کی صحیح نہیں

 

محمد بن منصور، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرہ برابر والے میں بیٹھے تھے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے اے حجرہ والی۔ میری بات سن۔ انہوں نے دو مرتبہ کہا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز مکمل کی لی تو کہنے لگے کہ تمہیں کیا تعجب نہیں ہوتا، اس پر اور اس کی گفتگو پر، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسی گفتگو فرماتے تھے کہ اگر شمار کرنے والا کرنا چاہتا تو ان کے الفاظ کو شمار کر سکتا ہے۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ زوجہ مطہرہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تعجب نہیں ہوتا وہ آئے اور میرے حجرہ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ اور حضور علیہ السلام سے حدیث بیان کرنے لگے مجھے سنانے کے لئے جبکہ میں تسبیح پڑھ رہی تھی وہ میری تسبیح پوری ہونے سے قبل ہی کھڑے ہو گئے اگر میں انہیں پا لیتی تو ان سے تردید کرتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہاری طرح گفتگو نہیں فرماتے تھے۔

 

                   فتاویٰ میں احتیاط سے کام لینے کا بیان

 

ابراہیم بن موسیٰ عیسیٰ، عبد اللہ بن سعد، معاویہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے مغالطات دینے سے۔

 

حسن بن علی، ابو عبد الرحمن، سعید ابن ابی ایوب بکر بن عمر، مسلم بن یسار، ابو عثمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جس شخص نے بغیر علم کے (غلط) فتوی دیا تو اس پر عمل کرنے والے کا گناہ بھی فتوی دینے والے پر ہو گا۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، بکر بن عمر، عمرو بن ابی نعیمہ، ابو عثمان، عبد الملک بن مروان سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے بغیر علم کے فتوی دیا تو اس کا گناہ بھی فتوی دینے والے پر ہو گا۔ سلیمان المہری نے اپنی روایات میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کو ایسے کام کا مشورہ دیا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ فائدہ اس کے غیر میں ہے تو اس نے خیانت کی۔

 

                   علم سے روکنے کی کراہت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد علی بن حکم، عطاء، ابو ہریرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان روایات کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جس شخص سے کسی علم کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس نے باوجود علم کے اسے چھپایا اللہ تعالی قیامت میں آگ کی لگام ڈالیں گے۔

 

                   علم کی نشر و اشاعت کی فضیلت

 

زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش عبد اللہ بن عبد اللہ سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے سنا کرتے ہو اور پھر تم سے سنا جائے گا اور ان لوگوں سے سنا جائے گا جو تم سے سنتے ہیں

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، عمر بن سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور سے یاد کیا یہاں تک کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا پس بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو اس کو زیادہ فقیہ لوگوں تک پہنچا دیں گے اور بہت سے فقہی مسائل کے واقف ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہیں۔

 

سعید بن منصور، عبد العزیز بن ابی حازم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم تیری رہنمائی سے اگر اللہ تعالی ایک آدمی کو ہدایت عطا فرمائیں تو یہ بات تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

 

                   بنی اسرائیل سے روایت کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن عمر ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے روایت کرو کوئی حرج نہیں۔

 

محمد بن مثنی، معاذ، قتادہ، ابو حسان عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں بنی اسرائیل سے بہت سی باتیں بتلاتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھتے نہ تھے۔ (اس مجلس سے) الا یہ کہ ایک عظیم نماز (تہجد) کے لیے۔

 

                   غیر اللہ کے لئے علم طلب کرنے کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سریح بن نعمان، فلیح، ابو طوالہ، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن معمر، سعید بن یسار سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے وہ علم کہ جس سے اللہ تبارک تعالی کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے اس لیے سیکھا کہ اس کے ذریعہ اسے دنیا کا کچھ مال و متاع مل جائے تو ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہیں پا سکے گا قیامت کے دن۔ یعنی جنت کی ہوا۔

 

                   قصے وغیرہ کا بیان

 

محمود بن خالد ابو مسہر، عباد بن عباد، خواص، یحیٰ بن ابی عمر، عمرو بن عبد اللہ، شیبانی عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قصے کہانیاں صرف امراء و حکام یا وہ لوگ جنہیں اس کا حکم دیا گیا یا مغرور و متکبر شخص۔

 

مسدد، جعفر بن سلیمان معلی بن زیاد، علاء بن بشیر، فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کمزور و غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا، اور (ان کی فقر و غربت کا یہ عالم تھا) ان میں سے کچھ لوگ دوسرے لوگوں سے بسبب برہنہ ہونے کے پردہ کر رہے تھے اور ایک قاری قرآن کی تلاوت ہم پر کر رہا تھا کہ اچانک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے تو وہ قاری خاموش ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے؟ ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیشک وہ شخص ہمارا قاری ہے اور ہم پر قرآن کی تلاوت کر رہا تھا، اور ہم اللہ کی کتاب سن رہے تھے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بنائے کہ جن کے ساتھ مجھے صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان میں بیٹھ گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ کو برابر رکھیں، ہمارے درمیان ہر طرف سے (کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھ سے دور ہیں) اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا اس طرح (حلقے بنا کر بیٹھنے کا) چنانچہ سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اس طرح کہ سب کے چہرے آپ کے سامنے آ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضور نے ان میں سے میرے علاوہ کسی کو نہ پہچانا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے فقراء مہاجرین کی جماعت! تمہیں قیامت کے دن ایک کامل نور کی بشارت ہو، تم لوگ مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور وہ آدھا دن پانچ سو سال کا ہو گا۔

 

محمد بن مثنی، عبد السلام، موسیٰ بن حلف، قتادہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ بات کہ میں اس قوم کے ساتھ جو اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہوں فجری نماز سے لے کر طلوع آفتاب بیٹھوں میرے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسماعیل کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کروں۔ اور یہ بات کہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو اللہ تعالی کا ذکر نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کرتے ہوں بیٹھوں مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں چار غلام آزاد کروں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اعمش، ابراہیم، عبیدہ، عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے سامنے تلاوت کروں، حالانکہ (یہ قرآن) تو آپ پر ہی نازل کیا گیا ہے؟ فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے سنوں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی یہاں تک میں نے اللہ کے قول،فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ ، والی آیت ختم کی اور اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

٭٭٭

نوٹ: کچھ متن اصل ایکسل فائل میں ہی نا مکمل ہے، اس کی معذرت۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

مائکرو سافٹ ایکسل  سے تبدیلی، باز تدوین ، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید