FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

عمر سیدہ عائشہ پر ایک تحقیقی نظر

 

 

                   (حبیب الرحمٰن کاندھلوی)

 

 

 

 

مقدمہ

                   عمر عائشہ  پر ایک تحقیقی نظر

 

ہم طالب علمی کے دور سے آج تک سنتے اور پڑھتے آئے تھے  کہ رسول اللہ نے جب عائشہ بنت ابی بکر سے نکاح فرمایا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ام المومنین رخصت ہو کر آئیں تو ان کی عمر نو سال تھی۔ اتفاق سے یہ روایت تمام کتب احادیث میں پائی جاتی ہے۔ اور ہمارے علماء ہمیں اس کی تاویل سناتے رہے کہ عرب کا علاقہ گرم ہے  لہذا وہاں اس عمر میں لڑکیاں بالغ ہو جاتی ہیں۔

 

ہم زندگی کے ایک طویل عرصے تک اسی تخیل میں مبتلا رہے۔ حتیٰ کہ کراچی میں آ کر رہنا سہنا ہوا اور انگریزی تعلیم یافتہ حضرات سے جب بھی اور جہاں بھی ملاقات ہوتی  وہ اس داستان کو خلاف عقل قرار دیتے نظر آئے  اور ہم اس روایت کا دفاع کرتے کرتے تھک گئے۔

 

کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس روایت کے بل بوتے پر انگریزی معاشرہ کو اسلام پر فوقیت دیتے  ہیں ، کچھ اسلام کا مذاق اڑاتے اور کچھ اس روایت کے نام سے حدیث کا مذاق اڑاتے،  کچھ مزید علمی انداز میں فرماتے اصل تو تاریخ ہے ، یہ حدیث تو عجمی ملاؤں کا فراڈ ہے۔ بلکہ بعض ایسے افراد بھی سامنے آئے کہ جن کی پہنچ  اس حد تک ترقی کے زینے طے کر چکی تھی کہ صاحب اصل کام تو یہ ہے کہ گمراہی نے جو گمراہی پھیلائی ہے اس کا رد لکھا جائے۔  یہ ہیں وہ تصورات  جو انگریزی  تعلیم یافتہ ذہنوں میں پیدا کیے جاتے ہیں۔  اور ایک دوسرے تک پھیلتے رہتے ہیں۔  حتیٰ کہ ان میں سے بعض افراد یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے  کہ صاحب بو الہوسی کی حد ہوتی ہے نو سال کی لڑکی سے ہوس پوری کی جا رہی ہے۔ معاذاللہ اور ماشاءاللہ کہنے کو سب مسلمان ہیں۔  ہم یہ سب کچھ سنتے اور سوچتے کہ آخر اس کا علاج کیا ہے۔  اس علاج کی تلاش میں ہم نے تاریخ النساب ، جرح و تعدیل ،  علل ، رجال  اور شیعہ مذہب کا مطالعہ کیا اور تحقیق حال کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے  کہ تاریخ اسلامی کا سب سے بڑا فراڈ مذہب تشیع ہے۔ اور اس نے اس فراڈ کے لئے جو حربہ استعمال کیا ہے اس کا نہایت پیارا اور خوبصورت نام تاریخ ہے۔  جس کے فراڈ کا ثبوت ہم نے مذہبی  داستان میں پیش کیا ہے۔

 

اصول حدیث  ،  رجال ، علل اور موضوعات  کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ محدثین کرام نے اس سیلاب کے آگے بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔  افسوس اسی کا ہے کہ محدثین نے اس سیلاب کی رکاوٹ کے لئے جو بند باندھے  تھے انھیں خود سنی ہی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔  ورنہ ہمارے محدثین کرام  ایسے بے بہا اصول عنایت کر گئے ہیں کہ انھیں سامنے رکھ کر ہر کھرے کھوٹے کو جدا کیا جا سکتا ہے۔ اور امام بخاری نے تشیع کے سیلاب کے آگے بہت بند باندھا ہوا ہے۔ صحیح بخاری پر تنقید کرنے کا مقصد ہے تشیع کے ہاتھ مضبوط کرنا۔ لہذا ہمارا ایمان پر اور قوی تر ہو گیا۔  لیکن اس سلسلہ میں عوام دو مغالطوں کا شکار ہیں۔

 

(1) بخاری نے ایسے وقت میں جب کہ ہر جانب سے جھوٹ کا ایک سیلاب امڈتا آ رہا تھا  پوری لگن اور محنت کے ساتھ اس جھوٹ کو علیحدہ کرنے کی پوری کوشش کی  اور اس حد تک کی کہ آج تک  اس فن میں کوئی ان کا ثانی نظر نہیں آتا۔ لیکن بہر صورت وہ انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے غلطی اور خطا  ممکن ہے۔  اور غلطی قابل گردن زنی نہیں ہوتی۔  اسے ہرگز جرم نہیں کہا جا سکتا، جرم تو وہ ہوتا ہے جس کا جرم ہونا انسان کو معلوم ہو اور وہ غلطی عمداً اختیار کی جائے  تو  ماشاءاللہ امام بخاری پر  اس قسم کا کوئی الزام قائم نہیں کیا جا سکتا۔

 

(2) بخاری نے ہر حدیث راویوں کے ذریعے نقل کی ہے  اور وہ راوی معصوم نہیں  بلکہ بہت سے راوی ایسے ہیں جو بخاری کے نزدیک ثقہ ہیں لیکن دوسروں کے نزدیک ثقہ نہیں اور کسی کو ثقہ یا غیر ثقہ قرار دینا ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ اسے ہرگز گمراہی اور جرم نہیں کہا جا سکتا۔

 

ان حالات میں ہم نے اس روایت پر از سرنو غور شروع کیا۔ اور غور و فکر کے بعد جو امور سامنے آتے گئے  ، ہم وہ قارئین کے سامنے پیش کئے دیتے ہیں۔ اس مطالعہ میں کسی خاص فرد بشر یا کسی خاص گروہ کی تقلید نہیں کی۔

 

عمر عائشہ کے سلسلہ میں اب تک جن حضرات نے جو کچھ تحریر کیا ہے ان میں علمی لحاظ سے سب سے اہم کتاب حکیم نیاز احمد صاحب کی کتاب "عمر عائشہ” ہے۔ لیکن اس میں فنی مباحث کی بہتات ہےجس کے باعث ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

 

ہم اس سلسلے میں نہ کوئی کتاب تصنیف کرنا چاہتے ہیں نہ ہمارے پاس اتنا وقت ہے۔ ہم تو صرف ان تاثرات کو الفاظ کا جامہ  پہنانا چاہتے ہیں  جو مطالعہ کے دوران ہم پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

 

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوغ کی یہ حد  صرف ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ تک محدود تھی یا  تمام عرب میں ایسا  ہوتا آیا ہے۔کیونکہ اس قاعدہ کی رو سے تمام ان گرم ممالک میں جہاں کی آب و ہوا  عرب جیسی ہو یا اس کے قریب ہو جیسا کہ بیشتر ممالک افریقہ  ، لیبیا ، تیونس ، مراکش اور ایشیا کے وہ علاقے جو منطقہ حارہ پر ہیں  یا اس کے قریب واقع ہیں۔ ان تمام ممالک میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے  دس گیارہ سال کی عمر میں تمام  لڑکیوں کو بالغ ہو جانا چاہیے  اور پاکستان میں دو چار لاکھ نہ سہی  دو چار ہزار سہی  نو سالہ عمر کی مثالیں دستیاب ہونی چاہیے تھیں۔ اور جزیرۃ العرب میں ایسی لاتعداد تمثیلات پائی جانی چاہیے تھیں۔ اگر تاریخ نے اس قسم کے واقعات کو نظر انداز کر دیا تھا  اور انھیں قابل ذکر تصور نہیں سمجھا تھا  تو آج بھی جزیرۃ العرب اسی جگہ واقع ہے  اور آج بھی مکہ و مدینہ علیٰ حالہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ وہ اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹے۔ آج بھی جزیرۃ العرب کی آب ہوا وہی ہے جو آج سے پندرہ سو سال قبل تھی۔ آج بھی مکہ کی گرمی مشہور ہے  بلکہ ہم تو مارچ کے مہینہ میں وہاں کی گرمی کا مزا چکھ چکے ہیں اور آج اس دور کی نسبت ذرائع مواصلات  کافی تعداد میں میسر ہیں۔ بلکہ لاکھوں پاکستانی وہاں برسرروزگار ہیں اور بہت سوں کے  بیوی بچے  وہاں زندگی گزار رہے ہیں۔  لیکن آج تک کسی نے ہمارے سامنے یہ شگوفہ نہیں پیش کیا کہ  وہاں لڑکیاں اس عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں اور کسی پاکستانی نے ہم سے آج تک یہ بیان نہیں کیا  کہ صاحب میرے بیوی بچے سعودیہ میں میرے پاس   رہتے تھے  اور وہاں کی آب و ہوا کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ماشاءاللہ سب ہی نو سال کی عمر میں شادی کے قابل ہو گئے ہیں۔ صاحب اب ہمیں یقین آ گیا  کہ واقعی ام المومنین کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی ہو گی۔ اگرچہ یہ اشکال تب بھی قائم رہے گا  کہ اس زمانہ کی لڑکیوں  کی کیا صورتحال تھی  جو انشاء اللہ ہم آئندہ پیش کریں گے۔

 

یہاں ہم جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں یا لکھنا چاہتے ہیں اس مقصد بخاری و مسلم کی حدیث  کا رد نہیں بلکہ دشمنان اسلام رسول اللہ پر جو کیچڑ اچھالتے ہیں اس کا جواب دینا مقصود ہے۔

 

بہر صورت یہ امر اظہر سن الشمس ہے کہ رسول اللہ کی ذات اقدس  بخاری و مسلم  کے راویوں سے زیادہ معظم ہے۔ رسول اللہ کی عظمت کو تسلیم کئے بغیر ایمان و اسلام کا کوئی وجود نہیں۔  اور بخاری و مسلم کے راویوں پر ایمان لانا نہ ہم پر لازم ہے  اور نہ ان راویوں کی ذاتیات  کا ایمان سے کوئی تعلق ہے۔

 

ہم تو ایک مومنانہ اور طالب علمانہ  حیثیت سے صرف اتنی بات جانتے ہیں  کہ رسول اللہ کی ذات اقدس  تو بہت اعلیٰ و ارفع  بلکہ ہمارے تخیلات  سے بھی زیادہ بلند و بالا ہے۔ اگر کسی روایت سے کسی  نبی کی شان نبوت پر حرف آتا ہو تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ایسی داستان کو زمین پر دے مارنا چاہیے۔

 

معاف کیجیے یہ الفاظ بھی ہمارے نہیں ہیں۔ محدثین جگہ جگہ یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں  "ارم بعہ” (اس روایت کو پھینک مارو)۔ وہ تو معمولی سی خامی دیکھ کر یہ فرماتے ہیں۔ یہاں تو نبی اکرم کی ذات کو ابو الہوس بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ کی ذات کی خاطر لاکھوں ایسی روایات قربان کی جا سکتی ہیں۔ جو عن ہشام بن عروۃ کے ذریعے مروی ہوں۔  اس لئے کہ یہ تمام سندات  اور یہ تمام محدثین رسول اللہ کی ذات کا ہی کرشمہ ہیں۔ ہم انھیں آپ کی ذات پر قربان کرتے ہیں۔

 

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محدثین نے اس کی صراحت بھی کی ہے جو حدیث حسیات اور مشاہدے  کے خلاف ہو یقیناً وہ موضوع ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ابن جوزی یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو روایت عقل صریح کے خلاف ہو  یقیناً وہ موضوع ہو گی۔  بلکہ ایسی روایت کے راویوں  پر بحث بھی فضول ہے۔  اور محدثین کرام نے  اس اصول سے متعدد جگہ کام لیا ہے۔ اگر ہم نے اپنے اوپر پابندی عائد نہ کی ہوتی کہ ہم کوئی کتاب تحریر نہ کریں گے تو ہم اس اصول کی متعدد مثالیں قارئین کے سامنے پیش کر دیتے۔

 

ہم محدثین کرام کے اس فیصلے سے بھی با خبر ہیں کہ کسی راوی کی صداقت یا کذب کا فیصلہ ظنی امر ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جسے ہم سچا سمجھ رہے ہیں وہ دراصل سچا نہ ہو اور جسے ہم جھوٹا قرار دے رہے ہیں وہ فی الواقع جھوٹا نہ ہو۔  اور یہ بھی یقینی شئے ہے کہ ہر جھوٹا آدمی ہمیشہ جھوٹ ہی بولتا ہو اور سچا آدمی ہمیشہ سچ ہی بولتا ہو۔  کیونکہ کسی دوسرے نے  اس کا دل چیر کر نہیں دیکھا۔

 

محدثین کرام جب کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں  کہ وہ صادق ہے۔ ثقہ ہے۔ نیک آدمی ہے تو وہ اس راوی کے ظاہر کو دیکھ کر یا لوگوں سے سن کر فیصلہ کرتے ہیں ۔  یہ ان کا ایک ظن غالب ہوتا ہے۔  اور ہر صورت میں یہ امکان باقی رہتا ہے کہ فی الواقع وہ  راوی صادق نہ ہو بلکہ دھوکہ دہی کے ذریعہ سے لوگوں میں نیک اور پارسا بن گیا ہو۔ اور جسے وہ جھوٹا قرار دے رہے ہیں      تو ہو سکتا ہے  کہ اسے اس کے دشمنوں نے بدنام کر دیا ہو۔  اور وہ واقعتاً جھوٹا نہ ہو۔

 

یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات راوی کے بارے میں محدثین کے فیصلے مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر عبدالرزاق بن ہمام کو دیکھ لیجیے۔ متعدد محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ ثقہ ہے۔ یحیٰ بن معین کہتے ہیں وہ شیعہ ہے۔ میرے سامنے فلاں فلاں بات ہوئی۔ اعبد کہتے ہیں میں نے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ یزید بن زریع کہتے ہیں وہ تو رافضی ہے۔  اور اللہ کی قسم وہ تو واقدی سے زیادہ جھوٹا ہے۔

ہمارے لئے یہ تمام حضرات محدثین قابل احترام ہیں۔ ان کی آراء میں جو تعارض پیدا ہو رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہمیں ان حضرات کے فیصلوں میں سے ایک نہ ایک قبول کرنا ہے۔

 

ان حضرات محدثین کے پاس کوئی ایسا آلہ یا تھرما میٹر موجود نہ تھا  جس وہ راوی کی صداقت اور کذب بیانی کا پتہ چلائے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً ان حضرات میں ہرگز اختلاف واقع نہ ہوتا۔ اور ہمارے پاس بھی کوئی آلہ نہیں  اور نہ دنیا میں آج تک کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوا ہے کہ جو مرنے والوں کی صداقت اور کذب بیانی  کا پتہ چلا سکے۔

 

اس سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں روایت منکر ہے۔ تو وہ معلومات تخیل پیش کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ فی الواقع اس کی رائے درست بھی ہو۔ لیکن جس نے اپنی رائے اور اپنے علم سے یہ فیصلہ دیا ہے ، ہم اسے ہرگز جھوٹا نہیں کہہ سکتے اسلئے کہ وہ اپنی جانب سے جھوٹ نہیں بول رہا۔

 

ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ایک محدث کے پیش نظر امام احمد کا مشاہدہ ہو اور دوسرا جو اس راوی کی روایت کا انکار کر رہا ہے اس کے سامنے کسی اور محدث کا فیصلہ ہو۔اس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جب محدثین یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے  تو یہ ان کا اپنا ظن ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اسے قران کی طرح صحیح تصور کرنے لگے یا دوسرا اس محدث کی ذات پر اعتراض شروع کر دے تو  ہمارے نزدیک یہ دونوں اس لائق ہیں کہ ان کا دماغی علاج کرایا جائے کیونکہ "عشق جسے کہتے ہیں خلل ہے دماغ کا”  فرق صرف یہ ہے کہ کسی کو اس کے صحیح ماننے کا عشق ہے اور کسی کو اس کی تکذیب کا عشق ہے۔ کسی کو محدثین کی جا و بیجا بات کا عشق ہے اور کسی کو ان کی دشمنی کا عشق ہے۔ کوئی اکابر پرستی کا عاشق ہے اور کسی کو اس بات کا عشق ہے کہ جو اسلاف کا نام لے اس کا منہ نوچ لو۔ بہر صورت ہر دو عشق ہیں اور بقول امام العشاق

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

ہم یہ بھی جانتے ہیں اور دنیا اسلام کا  ہر فرد و بشر اس بات خوب جانتا اور اس پر ایمان رکھتا ہے کہ انبیاء کرام کے علاوہ کوئی معصوم نہیں۔ بلکہ وہ بھی سہو ونسیان  اور خطائے اجتہادی  سے پاک نہیں  تو یہ تصور کہ بخاری و مسلم یا کوئی اور ثقہ راوی سہو و نسیان یا خطا سے پاک ہے۔ یہ براہ راست انبیاء کرام کی ذات پر حملہ ہے۔ میں اس تصور کے سلسلے میں صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ سبائیوں نے صرف بارہ اماموں کو معصوم مانا تھا  لیکن ہمارے سنی بھائیوں نے اپنی جہالت اور حماقت کے سبب  لاکھوں معصومین کی فوج تیار کر دی۔ بلکہ عالم بالا میں یہ معصومین  اتنی تعداد میں جا بسے ہیں کہ "اڑتی خبر سی ہے زبانی طیور کی”  کہ وہاں ان کی مردم شماری ہونے والی ہے تاکہ ان کی باقاعدہ بستیوں کا انتظام کیا جا سکے۔

 

یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام ثقہ راویوں کی بعض روایات کو منکر قرار دیتے ہیں۔ کتب رجال میں اس کی لاتعداد مثالیں  دستیاب ہو سکتی ہیں۔ علی ابن المدینی نے امام مالک کی تین روایات کو منکر قرار دیا ہے۔ احمد بن حنبل نے سفیان بن عینیہ کی منکرات کی تعداد تیس سے زیادہ قرار دی ہیں۔ ابن حزم نے بخاری کی معراج والی روایت کو منکر قرار دیا ہے۔

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے  صحابہ کی مرویات پر تنقید فرمائی  اور فرمایا "میں یہ تو نہیں کہتی کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں لیکن کان سننے میں غلطی کر جاتے ہیں”  بخاری و مسلم میں اس  قسم کی متعدد تنقیدات موجود ہیں۔اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات راوی انتہائی  معتبر ہوتا ہے مگر اس کی بیان کردہ روایت تب بھی غلط ہوتی ہے۔

 

کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی  ہے کہ راوی نے ادھوری بات سنی ہوتی ہے۔ کبھی راوی مفہوم غلط سمجھ بیٹھتا ہے ، کبھی اس سے بھول واقع ہوتی ہے۔  ہم بھی بقول ام المومنین کے کہتے ہیں  کہ راوی سے سننے میں غلطی ہوئی۔ جملہ بولا گیا تھا تسع عشرہ (انیس) راوی نے صرف تسع (نو) کا لفظ سنا اور اس طرح اس داستان نے جنم لیا کہ بعض اوقات کان سننے میں غلطی کرتے ہیں۔

 

کیونکہ جب صحابہ کرام سے غلطی ہو سکتی ہے  اور جب سیدنا عمر ، ابو ہریرہ  اور ابن عمر وغیرہ غلطی کر سکتے ہیں  تو عروۃ الزبیر  اور ان کے صاحبزادے ہشام  سے یقیناً غلطی ہو سکتی ہے۔  اور غلطی پکڑنے کی وجہ سے آج تک کسی نے ام المومنین سیدہ عائشہ کو  منکر حدیث نہیں کہا  تو اگر ہم ہشام کی غلطی بیان کرتے ہیں تو ہم کس قانون کے تحت  منکر حدیث ہوئے۔ کیونکہ کسی حدیث کا انکار اور شے ہے  اور غلطی کی نشاندہی اور شے ہے۔ اللہ ان لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے  ، اسی طرح جھوٹ بولنا اور شے ہے  اور غلطی کا صدور اور شے ہے۔

 

عمر عائشہ کے سلسلے میں ہم اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ بخاری و مسلم  وغیرہ میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے نکاح کے سلسلے میں جو روایت عن ہشام بن عروہ کی سند سے مروی ہے وہ موضوع ہے اور اس کا فلاں راوی کذاب ہے۔ ہم نے ایسا دعویٰ ہرگز نہیں کیا بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ  اس روایت میں ہشام سے غلطی ہوئی  اور اس نے غلطی سے انیس (19) کو  نو (9) بنا دیا ، جس کی ہمارے پاس مختلف دلیلیں ہیں۔  اگر کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی ، اس روایت کو ہم منکر قرار دیتے  ، اسلیے کہ ہمیں اس روایت کے راویوں سے کہیں زیادہ  رسول اللہ کی عزت پیاری ہے۔

 

پہلی دلیل

 

یہ روایت تجربہ و مشاہدہ اور فطرت انسانی کے خلاف ہے  اور نبی اکرم سے اس کا صدور ممکن نہیں۔ اگر ایسا واقعہ پیش آتا تو اس دور کے مخالفین اسلام اور دشمنان رسول  آپ کی عزت سے کھیلنا شروع کر دیتے  اور جب مخالفین اسلام کی جانب سے کوئی اعتراض ظہور میں نہیں آیا تو  یہ ثابت ہوا کہ ایسا کوئی فعل سرزرد نہیں ہوا جو کسی دشمن کو انگشت نمائی کا موقعہ ملتا۔  لازماً اس  روایت میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔  اور کیونکہ اس روایت کو  ہشام سے متعدد  افراد نے نقل کیا ہے  اس لحاظ سے  تمام شبہات  ہشام پر جا کر  مرکوز ہو جاتے ہیں۔ اسلئے کہ وہ اس روایت کا مرکزی راوی ہے۔

 

دوسری دلیل

 

جو روایت عقل صریح کے خلاف ہو  وہ باطل ہو جاتی ہے۔ یہ اصول ابن جوزی نے بیان کیا ہے اور یہ روایت قطعاً عقل کے خلاف ہے۔ ہم جیسے بد عقل انسان کی عقل اسے قبول نہیں کرتی۔  عقل کا تو کیا مسئلہ ہے ، ہم نے آج تک جتنے عقلاء کو دیکھا  ، وہ یا تو اس کا انکار کرتے نظر آئے یا شک و شبہ  کرتے نظر آئے۔

 

تیسری دلیل

 

جزیرۃ العرب  اور دیگر گرم ممالک میں آج تک  اس کی کوئی دوسری مثال دستیاب نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا اور اس قسم کے واقعات گاہ بگاہ  رونما ہوتے رہتے تو آج تک اس کی ہزار ہا مثالیں تاریخ میں موجود ہوتیں بلکہ موجودہ دور میں نہ صرف اخبارات کی زینت بنتی بلکہ  دنیا کے اس گوشے سے اس گوشے تک ہر ملک کے ٹیلیویژن  اس کی تبلیغ میں مصروف ہو جاتے  اور ہر ترقی یافتہ ملک اپنے اپنے سائنس دانوں  اور ڈاکٹروں کی ایک جماعت اس کام پر لگا دیتا اور سالہا سال اس کی تحقیق ہوتی رہتی۔ حالانکہ اس قسم کا کوئی واقع آج تک دنیا کے سامنے نہیں آیا۔ بلکہ ہمارے ہاں کے اخبارات میں اس قسم کے حادثات ضرور سامنے آتے رہے کہ کسی جنونی نے نو دس سالہ لڑکی کے ساتھ منہ کالا کیا اور اس لڑکی کی موت واقع ہو گئی۔  اور اس قسم کی حرکت کرنے والے شخص کو لوگوں نے جنونی کے نام سے نوازا  اور آج تک ہمارے علماء اور محبان رسول میں سے کسی کو اتنی جرات نہیں ہوئی بلکہ اتنی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ اس سنت نبوی پہ عمل کرتے ہوئے اپنی نو سالہ لڑکی کو رخصت فرما دیتے  اور احیائے سنت کا سہرا اپنے سر باندھتے۔  ہم تو کند ذہن ایک گناہ گار انسان ہیں ، ہمارے علماء اس کی عملی مثال ہمارے سامنے پیش فرمائیں تاکہ ہم جیسے کند ذہن  آپ حضرات کی تقلید کر سکیں۔ یہ کہہ کر لوگوں سے بات نہیں منوائی جا سکتی  کہ ہم تاریخ کو نہیں مانتے ، آپ حضرات شاید یقین نہ فرمائیں کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے علماء اس بات پر مصر تھے  کہ سورج اور چاند زمین کے گرد گھومتے ہیں ، لیکن جب ان کے سامنے سائنسی تحقیقات پیس کیں جاتیں تو ارشاد ہوتا کہ ہم سائنس کو نہیں مانتے۔ عوام کی زبان میں اس کو یوں کہا جاتا ہے "میں تو نہ مانوں” چنانچہ اس معاملہ میں بھی عام طور پر یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔

 

جہاں تک تاریخ کا معاملہ ہے ، ایک جانب تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم تاریخ کو نہیں مانتے اور دوسرے ہی لمحے یہ حال ہوتا ہے کہ تاریخ کی جھوٹی کہانیوں کے بل بوتے پر  منبر سے یزید پلید کے نعرے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور کربلائی داستانیں ہمارا ملا جس طرح دہراتا ہے ، اتنی توفیق تو بےچارے مورخین کو بھی نہیں ہوئی تھی۔  اس لئے ہم تاریخ پر بعد میں گفتگو کریں گے  پہلے  ہم  حدیث ، اصول حدیث ،  رجال اور علل وغیرہ کی باتیں کر لیں۔ کیونکہ ان فنون کو ہمارے علماء تسلیم کرتے ہیں۔ ہم تو اس جانب ان کی توجہ منعطف کرنا چاہتے ہیں۔

 

چوتھی دلیل

 

ہم نے ہشام کی روایت کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کے لئے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی  ، ابن ماجہ ، داری ،  اور مسند حمیدی  کی سندات جمع کیں  تو انھیں جمع کرنے کے بعد  ایک نئے عقدے کا انکشاف ہوا۔ کچھ راوی تو اسے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کا قول بیان کر رہے ہیں اور کچھ نے اسے عروہ کا قول بیان کیا ہے۔ بہر حال یہ حدیث رسول تو ہرگز نہیں  ، یا یہ قول عائشہ ہے یا قول عروہ ہے جو تابعی ہے  اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کا بھانجہ ہے۔  اگر یہ عروہ کا قول ہے  تو اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں  اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی روایت کے متصل اور موقوف ہونے میں راویوں کا اختلاف ہوتا ہے  تو عام طور پر محدثین اسے موقوف قرار دیتے ہیں۔  اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے  یہ عروہ کا ایک تاریخی قول ہوا۔ جس کی حیثیت صرف ایک قول کی ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔  اور عروہ کے قول کو رد کرنا کوئی گناہ نہیں۔ ہمارے علماء اولاً اس کا متصل ہونا ثابت کریں  تاکہ ہم غور کر سکیں  ابھی تو ہم اسے قابل غور بھی نہیں سمجھتے۔

 

پانچویں دلیل

 

عروہ سے یہ روایت نقل کرنے والا ان کا بیٹا ہشام ہے۔ ہمارے نزدیک اس روایت میں یہ ساری گڑ بڑ اسی ہشام کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ علماء تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بخاری و مسلم کا راوی ہے لہذا معصوم من الخطاء ہے۔ لیکن ہم نے اپنی زندگی کے متعدد سال رجال کی چھان بین میں صرف کئے ہیں  اور اس نتیجہ میں ہم اس منزل پر پہنچے ہیں کہ ہشام کی زندگی کے دو دور ہیں۔ ایک مدنی دور اور ایک عراقی دور۔

مدنی دور 131 ہجری تک قائم رہا۔ اس دور میں اس کے سب سے اہم شاگرد امام مالک ہیں۔  انھوں نے اپنی موطاء میں متعدد روایات لی ہیں لیکن یہ نکاح والی روایت امام مالک کی کتاب میں دستیاب نہیں ہوتی۔امام ابو حنیفہ بھی اسی دور کے شاگرد ہیں لیکن امام ابو حنیفہ نے بھی  اس روایت کو کہیں نقل نہیں کیا۔

 

ہشام کا دوسرا دور  131 ہجری سے شروع ہوتا ہے۔ 131 ہجری تک ہشام ، سب کے نزدیک بلاشبہ ثقہ تھے  اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی احادیث کا ایک مرکزی کردار تھے۔ لیکن جب انھوں نے 131 ہجری میں اپنی بیٹی کی شادی پر ایک لاکھ اس امید پر  قرض لے کر خرچ  کر ڈالے کہ خلیفہ وقت  سے مدد لے لوں گا  اور قرض اتار دوں گا  ، لیکن ہوا یہ کہ بنو امیہ کی حکومت تبدیل ہو گئی اور بنو عباس برسر اقتدار آ گئے۔ یہ امیدوں کا محل سجائے بغداد پہنچے اور خلیفہ منصور کے سامنے دست سوال دراز کیا۔  اس نے اولاً تو ملامت کی کہ تم کو کس احمق نے یہ مشورہ دیا تھا۔ لیکن یہ بھی لیچڑ بن کر منصور جیسے کنجوس مکھی چوس سے چپٹ گئے۔  اور اس نے انھیں مجبور ہو کر دس ہزار تھما دیا۔ یہ ان کا پہلا دماغی جھٹکا تھا۔ جس کے نتیجہ میں انھوں نے روایات میں بہکنا شروع کر دیا۔ وہ روایات جو اپنے والد سے نہیں سنی تھیں  وہ بھی اپنے والد عروہ سے منسوب کر دیں۔

 

لیکن اس امید پر کہ کچھ دن بعد خلیفہ وقت سے کچھ اور وصول کر لوں گا مدینہ چلے گئے۔  کچھ روز قیام کے بعد کچھ نئی امیدوں کے سہارے پھر عازم بغداد ہوئے اور اب کی بار تھوڑا بہت مال وصول کر دالا اور پھر مدینہ پہنچ گئے۔ غالباً قرض خواہوں کا منہ بند کرنے کے لئے  لیکن کچھ عرصہ بعد پھر وارد بغداد ہوئے  اور پھر ہمیشہ کے لئے یہیں مقیم ہو گئے۔ اور یہیں بغداد میں 146 ہجری میں انتقال فرمایا۔  ان کی مرویات میں جتنی گڑ بڑ پیدا ہوئیں وہ سب سرزمین عراق  میں ہوئیں۔  عراق پہنچنے کے بعد ان کے حافظے میں تغیر پیدا ہو گیا تھا۔

 

یعقوب بن ابی شیبہ کا بیان ہے کہ ان کی کسی روایت کا انکار نہیں کیا گیا تھا۔ مگر جب یہ عراق گئے تو انھوں نے اپنے والد عروہ کے واسطے  سے بہت سی ایسی روایتیں بیان کیں جنھیں اہل مدینہ نے برا تصور کیا۔ مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام صرف وہی احادیث بیان کرتے جو انھوں نے اپنے والد سے سنیں تھیں۔ لیکن عراق پہنچنے کے بعد اپنے باپ سے منسوب کر کے وہ روایات  بھی مرسلاً بیان کرنا شروع کر دیں جو انھوں نے اوروں سے سنیں تھیں۔ اپنے والد سے نہیں سنیں تھیں۔ لہذا ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے نقل کریں  ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد 8 صفحہ 11)

 

اللہ رب العزت ابن حجر کو غریق رحمت کرے  انھوں نے یعقوب بن ابی شیبہ  کے حوالے سے کتنی عمدہ بات بیان فرمائی۔ انھوں نے تمام مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ کہ ہشام کی وہ روایات ناقابل اعتبار ہیں جو ان سے اہل عراق نقل کریں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ کی رخصتی نو سالہ اور نکاح چھ سالہ ہشام سے اہل عراق نے نقل کیا ہے۔ رسول اللہ پر جادو والی کہانی ہشام سے اہل عراق نے نقل کی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ کی گڑیوں سے کھیلنے والی کہانی اہل عراق نے ہشام سے نقل کی ہے۔ قربان جائیے یعقوب بن ابی شیبہ اور حافظ ابن حجر کے انھوں نے یہ بات کہہ کر کہ "ہشام سے جو روایات اہل عراق نقل کریں ان کا کوئی بھروسہ نہیں”  انھوں نے ہمارے لئے سوچ کی نئی راہیں کھول دیں ہیں۔ انھوں نے اپنے اس اصول سے بخاری و مسلم کو خارج نہیں کیا۔  لہذا ہم اب بخاری و مسلم سے وہ احادیث تلاش کریں گے جنھیں اہل عراق نے ہشام سے نقل کیا ہو ، اگر ہم ان سب کو ناقابل قبول قرار دے دیں تو بعد میں ہمارے علماء ناراض نہ ہوں۔ ہمیں یہ اصول اسلاف نے ہی دیا ہے۔ ہم تو ان حضرات کے لئے دعا  گو ہیں کہ ان حضرات نے یہ اصول پیش کر کے رسول اکرم کی ذات اقدس  کو عراقیوں کے ناجائز حملے محفوظ فرما دیا ہے۔

 

حافظ ذہبی ہشام کے حالات لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں ان کے حافظے میں تغیر پیدا ہو گیا تھا۔ اور ابو الحسن بن القطان کا دعویٰ ہے کہ آخری عمر میں احادیث اور ان کی سندات میں گڑ بڑ کرنے لگے تھے۔ بلکہ حافظ عقیلی نے تو یہاں تک کہہ دیا  "قد خرف آخر عمرہ” (اپنی آخری عمر میں سٹھیا گئے تھے)۔

 

ذہبی میزان میں تحریر فرماتے ہیں کہ جوانی میں ان کا حافظہ جیسا عمدہ تھا بڑھاپے میں باقی نہ رہا۔ اور عراق میں تو انھوں نے لوگوں کے سامنے بہت سی ایسی احادیث پیش کیں جنھیں یہ صحیح طور پر بیان نہ کر سکے۔ (میزان الاعتدال ، جلد 4 ترجمہ ہشام)

 

امام مالک جو ہشام کے شاگردوں میں داخل ہیں اور جنھوں نے موطاء میں ہشام کی متعدد روایات نقل کیں۔ ان کا ایک دور تو وہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں ہشام کے قول کو حرف آخر تصور کرتے تھے۔ لیکن عراق پہنچنے کے بعد ہشام نے کارہائے نمایاں  انجام دئیے تو امام مالک بھی ان سے خوش نہ رہے۔ حتیٰ کہ عبدالرحمن بن خراش کا بیان ہے کہ

"وکان مالک لا یرضاۃ و نقم  علیہ حدیثہ لاہل  العراق”

(امام مالک اسے پسند نہ کرتے تھے۔ انھوں نے ان پر اہل عراق کی احادیث کے باعث اعتراض کیے ہیں)۔

اور ابن حجر نے تو یہاں تک بیان کیا ہے کہ عراقی روایات  کے باعث تمام اہل مدینہ نے ان پر اعتراضات شروع کر دئیے۔

 

ابن ہشام کے ذہن میں یہ نو سال کچھ اس طرح بھوت بن کر سوار ہوئے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی نو سالہ بنا ڈالا۔ ذہبی نے واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ فاطمہ بن المنذر اپنے خاوند سے بڑی تھیں  اور حافظ ذہبی نے  ہشام کے اس ارشاد عالی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا  ہے کہ فاطمہ ہشام سے عمر میں تیرہ سال بڑی تھیں  یعنی جب وہ نو سال کی عمر میں ہشام کے گھر رخصت ہو کر آئیں تو جناب ہشام کو بھی تولد ہونے میں چار سال باقی تھے اور جناب ہشام نے اس وقت سے اپنی بیوی کا پلو بھی کسی کو دیکھنے  نہیں دیا۔ ہم نے آج تک اس سے بڑی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ بزرگوں کی ہر بات نرالی ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنا ہر ایک  کے بس کا کام نہیں۔ ذہبی نے بے ادبی سے کام لیتے ہوئے آگے یہ بھی بیان کر دیا کہ فاطمہ کی جب رخصتی عمل میں آئی تو اس کی عمر 28/29 سال تھی۔ یعنی ہشام نے صرف یہ کرامات   دکھائی کہ  29 میں سے "دو دہائی” گر کر نو بنا دیا۔  اسی طرح ام المومنین کے معاملے میں 19 کی دہائی کو گرا کر نو بنا دیا گیا۔ لہذا اب ہمارا  اس پر پختہ یقین ہو گیا ہے کہ ام المومنین نو سال کی عمر میں ہی رخصت ہو کر آئیں جس طرح فاطمہ بن المنذر نو سال کی عمر میں رخصت ہو آئی تھیں۔

 

حتیٰ کہ بقول ابن حجر یہ عقد ہشام نے خود ایک بار اپنی زبان سے ظاہر فرما دیا تھا کہ میری بیوی مجھ سے تیرہ سال بڑی ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی دادی حضرت اسماء سے احادیث سنی ہیں۔۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں آخر ، یہ بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ ہاں ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ عراق کی آب و ہوا  نے اچھوں اچھوں کا دماغ خراب کر دیا۔

 

چھٹی دلیل

 

ہمیں حیرت اس پر ہے کہ عمر عائشہ کی کہانی ہشام سے نقل کرنے والے تمام راوی کوفی ہیں یا بصری ہیں۔  اس روایت کو نہ کوئی مدنی نقل کرتا ہے نہ مکی ، نہ شامی اور نہ مصری ، بلکہ عراق کے علاوہ تمام ممالک اسلامیہ میں سے ایک راوی بھی نقل نہیں کرتا۔ کیونکہ ہشام سے یہ کہانی نقل کرنے والے حسب ذیل افراد ہیں

1. سفیان بن سعید الثوری الکوفی  2. سفیان بن عینیہ الکوفی3. علی بن مسہر الکوفی    4. ابو معاویہ الفرید الکوفی

5. وکیع بن الجراح الکوفی        6. یونس بن بکیر الکوفی   7. ابو سلمتہ  الکوفی               8. حماد بن زید الکوفی    9. سلیمان بن عبدۃ الکوفی۔ یہ نو افراد تو سرزمین کوفہ سے تعلق رکھتے ہیں

اہل بصرہ سے

1. حماد بن سلمۃ  البصری          2. جعفر بن سلیمان البصری      3. حماد بن سعید  بصری   4. وہب بن خالد بصری

 

یہ ہیں وہ حضرات جو اس کہانی کو ہشام سے نقل کر رہے ہیں اور ہشام جب 132 ہجری میں عراق پہنچے تو ان کی عمر 71 سال تھی۔ اور اکہتر سال کی عمر تک مدینہ میں ان کوئی ایسا شخص نہ ملا جو ان سے یہ داستان نقل کرتا۔

 

ایسی صورت میں یہ روایت دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو کوفیوں نے اس وضع کر کے ہشام سے منسوب کیا ہے یا واقعتاً ہشام پر عراق کی آب و ہوا نے اتنا گہرا اثر ڈالا کہ انھیں اپنے آپ کی بھی خبر نہ رہی کہ اپنی بیوی فاطمہ بنت المنذر کو نو سال کی عمر میں اپنی پیدائش سے چار سال قبل رخصت کر کے لے آئے۔ یہ ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے جسے آج تک روئے زمین پر کوئی اور شخص انجام نہ دے سکا تھا۔  عراق پہنچنے کے بعد جب عقل و شعور کا یہ عالم ہو گیا  تو قارئین خود ہی اندازہ فرما سکتے ہیں کہ نو سال کی عمر میں رخصت کی کیا حیثیت ہے۔

 

ہم خود ہشام کے بہت مداح ہیں اور ہمیں ہشام کا ایک قول آج تک حفظ ہے۔ انھوں نے اپنی مدنی زندگی میں فرمایا تھا۔ ہم نے اسے آج تک اپنی گرہ سے باندھ رکھا ہے۔ قارئین آپ بھی یاد فرما لیں کہ مثل مشہور ہے کہ داشتہ آید بکار۔۔ ان کا قول زندگی میں بہت کام دے گا۔

"جب تم سے کوئی عراقی ایک ہزار احادیث بیان کرے  تو 990 تو زمین پر دے مارو اور باقی  10 میں بھی شک کرتے رہو”

اگر ہم ان کے اس قول کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ محدثین  کا ایک اصول بھی پیش نظر رکھیے  جو بیہقی نے عبد الرحمن بن مہدی سے نقل کیا ہے۔

 

جب ہم حلال و حرام اور احکام کی احادیث روایت کرتے ہیں تو سندات کے معاملے میں شدت اختیار کرتے  اور رجال پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم فضائل اور ثواب  و عذاب  کی روایات  بیان کرتے ہیں تو اس میں نرمی اختیار کرتے  اور رجال کی طرف سے چشم پوشی  اختیار کر لیتے ہیں”(فتح الغیث  ص 140)

 

عبدالرحمن مہدی بخاری و مسلم کے استاد ہیں اور فن رجال کے ایک اہم ستون ہیں۔ وہ تمام محدثین کی جانب سے اس امر کا اعلان کر رہے ہیں کہ ہم سندات پر جو غور کرتے  اور ان پر جو جرح و تعدیل کرتے ہیں وہ صرف ان احادیث میں کرتے ہیں جن کا تعلق حلال و حرام  اور احکام سے ہوتا ہے۔  اور جن روایات کا تعلق ان امور سے نہیں ہوتا وہاں ہم راویوں کے معاملہ میں نرم روش اختیار کرتے  اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً فضائل سے متعلق روایات خواہ ا ن فضائل کا تعلق  کسی  شخص کی ذات سے ہو یا  اعمال سے  ، کسی بد عملی پر عذاب  کی روایت ہو یا  کوئی تاریخی واقعہ  ہو تو اس قسم کے معاملات میں محدثین چھان بین نہیں کرتے۔ غالباً یہی وجہ ہو گی کہ محدثین سیدہ عائشہ صدیقہ کی نو سالہ عمر والی روایت پر کوئی بحث کرنا  ضروری نہیں سمجھا۔  اور ممکن ہے کہ امام بخاری نے  اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اس قسم کی روایات  میں نرم روش اختیار کی ہو  جو آج فتنہ کا باعث بن گئی۔

 

ہم  "مذہبی  داستانیں اور ان کی حقیقت” حصہ دوم کے مقدمہ میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ  صحیح بخاری  کے چار نسخوں میں  سے فربری کے نسخہ میں تین سو روایات زیادہ ہیں۔  اگر آج وہ تین نسخے موجود ہوتے تو ہم ان میں سے ان روایات کو دیکھ لیتے  کیونکہ ہمارا گمان یہ ہے کہ یہ روایت یقیناً  فربری کے نسخہ میں زیادہ ہے۔

 

اصول حدیث کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جب کسی راوی کا آخر عمر میں حافظہ خراب ہو جائے تو  اس کی وہ روایات قبول نہیں کیں جاتیں  جو اس کے ان شاگردوں نے نقل کیں ہوں  جنھوں نے خرابی حافظہ کے بعد  روایات سنی ہوں۔ حافظ ابن حجر کا دعویٰ یہ ہے کہ  بخاری نے اپنی کتاب میں ایسے کسی راوی کی روایت نہیں لی۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عراق آنے کے بعد ہشام کا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اہل عراق نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں۔ وہ خرابی حافظہ کے بعد کی ہیں۔ امام بخاری کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ وہ ہشام کی وہ روایات نقل کرتے جو ان سے اہل عراق نقل کر رہے ہیں۔ اصول اپنی جگہ ہے ، یہ دوسری بات ہے کہ کسی فرد واحد یا طبقہ نے "امنت بالبخاری” کا کلمہ پڑھا ہو۔ ہاں ہم سے کوئی مطالبہ کرے کہ ہشام کے علاوہ کوئی اور مثال پیش کرو تو ہمارے پاس اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بخاری کے مخالف ہیں۔ حاشا و کلا ہم اصولی گفتگو کر رہے ہیں۔ قانون شخصیتوں سے تبدیل نہیں ہوتا۔

 

ساتویں دلیل

 

یہ تو روایت ہشام پر بحث تھی۔ اب آئیے بخاری کی ایک اور حدیث کی جانب جو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ام المومنین ارشاد فرماتی ہیں کہ جب مکہ یہ آیت نازل ہوئی "بل الساعتہ موعد ھم  و الساعتہ ادھی وامر ” (القمر)

تو میں اس وقت لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔ یہ سورہ القمر کی آیت ہے۔ سورہ القمر  شق القمر کے سلسلے میں نازل ہوئی  اور یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔  مفسرین کا بیان ہے کہ سورہ القمر سن 4 نبوی میں نازل ہوئی اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ لڑکی تھیں اور کھیلتی پھرتی تھیں۔

 

ہمارے نزدیک یہ روایت ہشام کی روایت کے قطعاً مخالف ہے۔  اسلئے کہ ہشام کی روایت رو سے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ام المومنین سن 5 نبوی میں پیدا ہوئیں۔ ہمارے تمام علماء اس کے قائل ہیں لیکن بخاری کی یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ ام المومنین نے اپنی پیدائش سے پہلے ہی یہ آیت یاد کر لی تھی اور اپنی پیدائش سے قبل ہی وہ مکہ  میں کھیلتی پھرا کرتی تھیں….فی ا للعجب

 

اس منزل پر پہنچ کر ہر شخص  دو فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گا۔

 

1۔ روایت ہشام درست ہے ، اور یہ روایت ناقابل قبول ہے

 

2۔ یہ روایت صحیح ہے اور روایت ہشام غلط ہے۔

 

علماء نے پہلا فیصلہ قبول کیا اور ہم نے  دوسری شق کو اختیار کیا ہے۔  اگر ہم منکر حدیث ہیں تو ماشاءاللہ ہم سب ایک منزل کے راہی ہیں ، اگر ہم بخاری کی حدیث سے منکر ہیں  تو ماشاءاللہ ہمارے علماء ہم سے ہرگز پیچھے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ انداز فکر ہم نے انھی سے حاصل کیا ہے۔

یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ ام المومنین سن 4 نبوی میں اتنی عمر کی ضرور تھیں کہ لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی پھرتی تھیں۔ اور اتنا حافظہ ضرور رکھتی تھیں کہ ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ قران کی آیت ہے اور اس وقت ان کے ذہن میں محفوظ بھی تھی۔  اگر ہم سن 4 نبوی میں ان کی عمر چھ سال بھی تسلیم کر لیں  تو یہ خود بخود ثابت ہو جائے گا کہ ام المومنین بعثت  رسول سےکم از کم 2 سال قبل پیدا ہوئی تھیں۔ اور اس حساب سے ان کی عمر 17 سال بنتی ہے۔ لہذا فیصلہ کی یہی صورت ہے کہ  ایک روایت کو قبول کرو اور دوسری کا انکار کرو۔ اور ہمارا جرم صرف اتنا ہے کہ ہم نے کتاب التفسیر کی روایت کو قبول کیا ہے۔ ہم ہرگز صحیح بخاری سے باہر نہیں گئے۔  وہ بےوقوف لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم حدیث کا انکار کرتے ہیں  حالانکہ وہ خود انکار حدیث کا شکار ہیں۔

 

آٹھویں دلیل

صحیح بخاری میں ہجرت کے سلسلہ میں ایک روایت ام المومنین سے مروی ہے جو ان سے عروہ نقل کر رہے ہیں۔ اور عروہ سے زہری ناقل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس روایت کو کسی عراقی نے نقل نہیں کیا۔ بلکہ اس کو نقل کرنے والے راویوں میں دو مصری ، ایک شامی اور دو مدنی ہیں۔  ام المومنین فرماتی ہیں کہ

 

"جب سے مجھے عقل آئی تو میں نے والدین کو دین اسلام پر پایا اور کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جب رسول اللہ صبح و شام ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔پھر جب مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابوبکر ہجرت کا ارادہ کر کے حبشہ کی جانب چل دئیے۔ حتیٰ کہ جب مقام برک الغماد پر پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار ابن الدغنہ راہ میں ملا۔ اس نے سوال کیا ! اے ابو بکر کدھر کے ارادے ہیں ؟ ابوبکر نے جواب دیا ! "میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے” ابن الدغنہ نے جواب دیا ! تم جیسا آدمی نہ نکلتا ہے اور نکالا جا سکتا ہے۔ تم ناداروں کی مدد کرتے ، صلہ رحمی کرتے، بیکسوں کی کفالت کرتے، مہمانوں کی ضیافت کرتے اور دوسروں کے لئے حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہو۔ میں تمھیں اپنی حمایت اور پناہ میں لیتا ہوں، واپس چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔

 

پس ابوبکر واپس لوٹ آئے اور ابن الدغنہ بھی ساتھ آیا۔ ابن الدغنہ شام کے وقت اشراف قریش کے پاس گیا  اور کہا "ابو بکر جیسا آدمی نہ خود مجبور ہو کر نکلتا ہے اور نہ اس جیسی ہستی کو نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکال رہے ہو  جو نادار کی مدد کرتا، رشتہ داروں کے ساتھ  سلوک کرتا ہے ، گرے ہوؤں کو اٹھاتا ، مہمان نوازی کرتا اور حق کی ضرورت میں اعانت کرتا ہے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی اس امان کو رد نہیں کیا۔ لیکن انھوں نے ابن الدغنہ سے کہا جاؤ  ابوبکر سے کہو کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرے اور اپنے گھر میں نماز پڑھے اور جو چاہے اپنے گھر میں پڑھے لیکن ہمیں تکلیف نہ دے اور اپنی نماز کا اعلان نہ کرے اور اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور قرات نہ کرے۔

 

یہ سوچتے ہوئے ابوبکر کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا ڈالیں۔ لہذا انھوں نے صحن خانہ میں مسجد بنا ڈالی اور اس میں نماز اور قران پڑھنے لگے ، مشرکین کے بچے اور عورتیں اس پر حیرت کا اظہار کرتیں اور اس عمل کو غور سے دیکھتیں اور ابو بکر ایسے شخص تھے کہ قران پڑھتے تو ان کے آنسو بہنے لگتے۔

 

اشراف قریش اس صورتحال سے گھبرا اٹھے اور ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ وہ ان کے پاس آیا تو انھوں نے شکایت کی کہ ہم نے تیری امان کے باعث ابوبکر کو پابند کیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں رب کی عبادت کرے۔ لیکن اس نے عہد سے تجاوز کرتے ہوئے گھر کے صحن میں مسجد بنا ڈالی اور نماز میں بلند آواز میں قرات کرنے لگا۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عورتیں او ر بچے  اس فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ لہذا اسے اس کام سے روکو۔  اگر ابوبکر کو یہ پسند ہے کہ وہ اپنے گھر میں عبادت کرتا  رہے تو ٹھیک ہے اگر وہ یہ کام اعلانیہ کرتا ہے تو تیری امان واپس کر دے ، ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ تیری امان توڑیں لیکن ہم ابوبکر کو اعلانیہ قران پڑھنے کی اجازت ہرگز نہ دیں گے۔

 

ام المومنین فرماتی ہیں کہ ابن الدغنہ ابوبکر کے پاس آیا اور کہا تمھیں معلوم ہے کہ قریش نے جس چیز پر تم سے عہد کیا تھا اگر تم اس عہد تک رہتے ہو تو  میرا ذمہ اور عہد باقی ہے ورنہ میری ذمہ داری مجھے واپس کرو۔  مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں کہ  عرب یہ بات سنیں کہ میں نے جس شخص کا ذمہ لیا تھا اس سے میں نے اپنا ذمہ واپس لے لیا۔  سیدنا ابوبکر نے فرمایا میں تیرا ذمہ واپس کرتا ہوں اور میں اللہ کی ذمہ داری پر راضی ہوں”  (بخاری جلد 1 ص 553)

 

اس حدیث میں ام المومنین  سیدہ عائشہ  ابتدائے نبوت سے ہجرت حبشہ تک کی صورتحال کو ان دو جملوں میں ادا فرماتی ہیں کہ جب سے مجھے عقل آئی تو میں نے اپنے والدین کو اسلام پر پایا اور یہ دیکھا کہ رسول اکرم  روزانہ صبح و شام ہمارے گھر تشریف لائے۔

 

اس حدیث کا ابتدائی حصہ جو ام المومنین نے  ان جملوں میں اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے کہ جب مجھے عقل و ہوش آیا تو میں نے یہ صورت حال دیکھی  اور اپنے عقل و ہوش  کا وہ دوسرا حصہ ہے ام المومنین مصائب کا دور فرما رہی ہیں۔ وہ ، وہ دور ہے کہ جس کے باعث سابقین اولین ہجرت حبشہ پر مجبور ہوئے۔ اور پھر اس میں  اپنے والد ابوبکر  کی ہجرت حبشہ کی پوری کیفیت اور اس کا انجام  بیان کیا ہے۔

 

اس حدیث کا تیسرا حصہ جو ہم نے پیش نہیں کیا ہے ہجرت مدینہ پر مشتمل ہے۔ اور جب رسول اللہ سیدنا ابوبکر کے گھر سے ہجرت فرما کر باہر نکل آئے تو ام المومنین کا انداز بیان قطعاً تبدیل ہو گیا۔ کسی حصے کے سلسلے میں فرماتی ہیں  کہ یہ مجھ سے عامر بن فہیرہ نے بیان کیا جو ابوبکر کے غلام ہیں اور ہجرت میں شریک کار ہیں۔ سراقہ کے واقعہ کا ذکر آیا تو فرماتی ہیں کہ مجھ سے سراقہ نے بیان کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت نبوی سے ہجرت مدینہ تک کی جو کیفیت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ ام المومنین اپنا مشاہدہ بیان کر رہی ہیں۔ یعنی جس وقت ام المومنین کو عقل آئی تو اس وقت ابوبکر  اور ام رومان صاحب اسلام تھے اور جب سے ہوش سنبھالا تھا تب سے یہ دیکھا تھا کہ رسول اللہ روزانہ صبح و شام ان کے گھر تشریف لاتے  وغیرہ وغیرہ۔

 

اس حدیث میں برملا یہ دعویٰ فرما رہی ہیں کہ بعثت نبوی کے وقت میں صاحب عقل و ہوش تھی اور یہ جو کچھ پیش آتا رہا میری نظروں کے سامنے ہوتا رہا۔ لیکن ہمارے علماء یہ فرماتے ہیں  کہ چونکہ ہشام کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ رخصتی کے وقت آپ  کی عمر نو سال تھی لہذا یہ واقعات ام المومنین نے کسی سے سن لئے ہوں گے۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا

 

بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو  پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

 

ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب سے مجھے عقل آئی میں نے یہ صورت حال دیکھی۔ ہمارے علماء فرماتے ہیں  کہ اس وقت تک وہ پیدا بھی نہیں ہوئیں تھیں۔ تو مختصر بات یہ ہے کہ ام المومنین کی کرامت ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیق سے پانچ سال قبل کے حالات مشاہدہ کر لئے۔ امام بخاری اس پر ایمان بھی لے آئے اور اسے پیش بھی کر دیا۔  پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم بخاری کی روایات کا انکار کرتے ہیں۔  آپ ہی حضرات یہ فیصلہ فرمائیں کہ بخاری کی روایت کا انکار کون کر رہا ہے  ؟ یہ فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

 

اس تمام گفتگو سے یہ امر ثابت ہوا کہ  بعثت نبوی کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ایک  صاحب عقل  اور با ہوش بچی تھیں۔ یعنی کم از کم پانچ چھ سال کی ، یعنی اتنی عمر کی بچی کہ یاد رکھ سکیں  ، ہمارے گھر کون آ جا رہا ہے اور والدین اہل مکہ کے برعکس کیا کر رہے ہیں اور یہ بچے کا وہ دور ہوتا ہے جس میں بچہ ہر بات کو سمجھنے اور کریدنے کی تمنا  پیدا ہوتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اور ویسا کیوں ہوتا ہے۔ اس گفتگو کا حاصل یہ کہ  اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ام المومنین بعثت کے وقت پانچ چھ سال کی ضرور تھیں۔ لہذا اس حساب سے رخصتی کے وقت ان کی عمر انیس بیس سال بنتی ہے اور ام المومنین اور سیدہ فاطمہ ہم عمر ثابت ہوتیں ہیں۔ لہذا اب یہ علماء پر موقوف ہے کہ  خواہ ہشام کی روایت کو قبول کرتے ہوئے بخاری کی ان دو حدیثوں کو تاویل نامی خراد پر چڑھائیں یا انھیں قبول کرتے ہوئے  ہشام کی غلطی تسلیم کریں۔

 

نویں دلیل

 

سیدہ عائشہ صدیقہ کا بیان ہے کہ  اسامہ دروازے کی چوکھٹ  پر سے پھسل گئے اور ان کے چہرے پر زخم آ گیا۔ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ  اسامہ سے گندگی دور کر دو۔ مجھے گھن آئی اسامہ تو خون چاٹنے لگے  اور اسے اپنے چہرے سے ہٹانے لگے۔

 

یہ ابن سعد کی روایت ہے لیکن اسی قسم کی ایک روایت ابن ماجہ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ اسامہ کی ناک بہنے لگی۔ رسول اکرم نے مجھے حکم دیا کہ میں اٹھ کر اسامہ کی ناک صاف کروں مجھے گھن آئی تو رسول اکرم نے خود اٹھ کر ناک صاف کی۔

 

ترمذی کی ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ نے اسامہ کی ناک صاف کرنے کا ارادہ کیا تو  ام المومنین نے  عرض کیا  مجھے اجازت دیجیے کہ میں ناک صاف کئے دیتی ہوں۔  آپ نے فرمایا اے عائشہ ! تو اسامہ سے محبت رکھ  ، کیونکہ میں بھی اسامہ   سےمحبت رکھتا ہوں۔ (ترمذی جلد 2 ص 246)

 

نیز بیہقی نے شعبی کے واسطے سے ام المومنین سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا  کہ اٹھو اور اٹھ کر اسامہ کا منہ دھو دو ، میں نے عرض کیا  میرے کوئی بچہ نہیں ہوا  ، میں نہیں جانتی  کہ بچوں کے منہ کیسے دھوئے جاتے ہیں۔ آپ اسے پکڑ کر خود اس کا منہ دھو دیں۔  آپ نے اسامہ کو پکڑ کر خود اس کا منہ دھو یا اور فرمایا  تو نے ہمارے لئے سہلوت پیدا کر دی کہ تو لڑکی نہ ہوا  اگر تو لڑکی ہوتا  تو میں تجھے زیور سے سجاتا  اور تجھ پر خوب مال خرچ کرتا۔

 

امام احمد نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے نقل کیا ہے کہ اسامہ دروازے کی چوکھٹ سے گر پڑے ، ان کے چہرے پر چوٹ آئی  ، رسول اللہ مل مل کر صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے۔ اے اسامہ اگر تو لڑکی ہوتا تو میں تجھے  کپڑے اور زیور پہناتا  اور تجھ پر خوب مال خرچ کرتا۔

 

ان روایات پر پھر نظر  ڈالیئے  اور غور کیجیے  تو آپ کو صاف محسوس  ہو گا کہ  حضرت اسامہ بن زید  ام المومنین کے سامنے ایک بچہ ہیں  ، جن کے کبھی چوٹ لگتی ہے  اور کبھی ناک بہنے لگتی ہے۔  کبھی ام المومنین اٹھ کر صاف کرتی ہیں کبھی رسول اللہ۔  کبھی ام المومنین کو گھن آتی ہے اور کبھی یہ کہہ کر عذر کرتی ہیں کہ میرے تو کوئی بچہ  تو ہوا نہیں  جو مجھے بچوں کے منہ دھلانے کا تجربہ ہو۔

 

اول تو یہ بات ایک نو دس سال کی بچی  کی زبان سے نکل نہیں سکتی  ، یہ بات ایک اچھی عمر کی وہ عورت ہی کہہ سکتی  جسے اولاد کی تمنا ہو۔دوئم اس امر سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے  حضرت اسامہ الم المومنین سے کافی چھوٹے تھے۔ اگر ام المومنین ان کی ہم عمر ہوتیں  یا ان سے چھوٹی ہوتیں  تو رسول اللہ ہرگز انھیں  خون اور ناک صاف کرنے کا حکم نہ دیتے۔ کیونکہ اس قسم کا حکم ہمیشہ  ایسے شخص کو دیا جاتا ہے  جو اس بچہ سے ہر صورت میں بڑا ہو۔ کبھی ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک دس سالہ بچے کی خدمت پر ایک آٹھ سالہ بچہ معمور کر دیا جائے اور جو ایسا کرے وہ خود دنیا کے سامنے مضحکہ بن جائے گا۔

 

ہمارے علماء فرماتے ہیں جیسا کہ ہشام کی روایت میں آ رہا ہے جب رسول اللہ کی وفات ہوئی تو سیدہ عائشہ صدیقہ کی عمر 18 سال تھی ، لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کی وفات کے وقت سیدنا اسامہ کی کیا عمر تھی۔

 

امام ذہبی نے "سیر اعلام النبلاء” میں تحریر کیا  ہے کہ  اسامہ کی عمر اس وقت  18 سال تھی۔ گویا یہ ایک تاریخی عجوبہ تھا کہ ایک لڑکی اپنے ہم لڑکے کی ناک صاف کر رہی ہے۔  اور ولی الدین  الخطیب مصنف مشکوۃ  اپنی کتاب  الاکمال  فی اسماء الرجال میں لکھتے ہیں کہ

 

"قبض النبی  صلی اللہ  علیہ وسلم  و ھوا بن عشرین "(مشکوۃ صفحہ 585)

رسول اللہ کی جب وفات ہوئی تو اسامہ کی عمر بیس سال تھی۔

 

یہ بھی محدثین و مورخین کے یہاں مسلمہ امر ہے  کہ رسول اللہ نے اپنے مرض الموت میں جو لشکر  روم کے مقابلے کے لئے ترتیب دیا تھا  اور جسے آپ نے شام پر حملہ کے لئے مامور فرمایا تھا کہ غزوہ موتہ کا انتقام لیا جائے اس لشکر کے سپہ سالار اسامہ تھے اور سیدنا عمر جیسے شخص ان کی ماتحتی میں دیئے گئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر بقول ولی الدین  الخطیب  بیس سال اور بقول حافظ ابن کثیر انیس سال تھی۔(البدایۃ و النھایۃ جلد 8  ص 67)

 

سیدنا ابو بکر نے بیعت کے بعد سب سے پہلا کام یہی سر انجام دیا تھا  کہ اس لشکر کو روانہ فرمایا جو  اللہ کے فضل سے کامیاب لوٹ کر آیا۔

 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیدنااسامہ سن 3 نبوی میں پیدا ہوئے اور یہ واقعہ کہ گھر کی دہلیز  سے گر کر زخمی ہو جائیں یا ان کی ناک بہہ رہی ہو یا رسول کریم ان کا چہرہ دھلائیں یا ام المومنین کو حکم دینا کہ ان کا چہرہ دھلا دو یا ان کا منہ صاف کر دو  وغیرہ۔ اس قسم کے تمام واقعات ان کے بچپن میں ہوئے ہوں گے اور ام المومنین کو یہ حکم اسی وقت دیا جا سکتا ہے کہ ام المومنین  کی عمر اسامہ سے زیادہ ہو۔ اور جب اسامہ ام المومنین سے چھوٹے ہوئے  اور رسول اللہ  کی وفات  کے وقت ان کی عمر انیس بیس سال ہوئی  تو ام المومنین  ان سے کم از کم پانچ سال بڑی ہوں گی تاکہ خون اور ناک صاف کرنے کے احکام درست ثابت ہو سکیں۔

 

دسویں دلیل

 

                   ام المومنین غزوہ بدر میں شریک تھیں

 

امام مسلم  نے اپنی صحیح میں عروۃ بن الزبیر کے واسطے سے  سیدہ عائشہ صدیقہ سے نقل کیا ہے کہ  وہ فرماتی ہیں  رسول اللہ نے بدر کی جانب کوچ کیا جب آپ حرۃ الغریر کے قریب پہنچے  تو ایک شخص آپ کے پاس آیا  جس کی جرات و بہادری مشہور تھی ، صحابہ کرام اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب وہ قریب آیا تو رسول اللہ سے کہا  میں آپ کے پاس اسلئے آیا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں  اور آپ کے ساتھ میں بھی یہ تکلیف برداشت کروں۔  آپ نے فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں۔  آپ نے فرمایا جاؤ واپس لوٹ جاؤ۔ میں کسی مشرک سے مدد کا طالب نہیں بنتا۔

 

ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب ہم شجرہ پہنچے تو وہی شخص پھر واپس آیا  آپ نے  پھر فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں۔  آپ نے فرمایا جاؤ واپس لوٹ جاؤ۔ میں کسی مشرک سے مدد کا طالب نہیں بنتا۔ لہذا وہ واپس لوٹ گیا۔ام المومنین فرماتی ہیں جب ہم مقام بیداء پر پہنچے  تو وہی شخص پھر لوٹ کر آیا۔  آپ نے پھر فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ؟ اس نے جواب دیا ہاں ! آپ نے فرمایا اچھا تو چلو۔  (صحیح مسلم جلد 2  ص 118)

 

ہمارے شارحین حدیث نے اگرچہ اس حدیث کی یہ تاویلات فرمائی ہے کہ ہو سکتا ہے ام المومنین کی "ہم” سے مراد صحابہ کرام ہوں  اور وہ خود اس "ہم” کی ضمیر میں داخل نہ ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ام المومنین بیدا تک رسول اللہ کو رخصت کرنے گئی ہوں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ تاویلات پڑھنے کے بعد ہمارا ہاضمہ خراب ہو گیا ہے۔ کھٹی کھٹی ڈکاریں  آنے لگی ہیں۔

 

ہم تو امام مسلم کی اس حدیث سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ام المومنین غزوہ بدر میں شریک تھیں اور عورتوں میں وہ تنہا ہستی ہیں جو بدریہ ہیں۔  اور جن مورخین  اور سیرت نگاروں نے یہ تحریر کیا ہے کہ ام المومنین کی رخصت شوال  سن 2 ہجری میں واقع ہوئی  یا تو جنت الحمقا کے باسی ہیں  یا ان کا ذہن سبائیت کے زیر اثر ہے۔  صحیح یہ ہے کہ  ام المومنین  کی رخصت شوال سن 1 ہجری میں ہوئی۔  اور مسلم کی یہ حدیث اپنی جگہ درست ہے۔

 

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ام المومنین جب غزوہ بدر میں شریک تھیں  اور ان کی رخصتی سن 1 ہجری میں واقع ہوئی تو انھوں نے رسول اللہ کی زوجیت میں پورے دس سال گزارے۔ مورخین نے جو نو سال کی مدت بیان کی ہے یا ہشام  کی روایت میں جو نو سال کی مدت بیان کی گئی غلط ہے۔

 

سیدنا عمر نے اپنے دور خلافت میں  صحابہ کے وظائف مقرر فرمائے تو بدرین کے وظائف غیر بدرین سے زیادہ مقرر فرمائے۔  اور ازواج مطہرات کے جو وظائف متعین ہوئے تو سیدہ عائشہ صدیقہ کا وظیفہ سب سے زیادہ متعین کیا۔ ہمارے مورخین عام طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کا زیادہ وظیفہ اس لئے مقرر کیا گیا  کہ رسول اللہ کی محبوبہ تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وجہ بھی ہو  لیکن ہمارے نزدیک  اصل وجہ یہ ہے کہ غزوہ بدر میں شریک تھیں۔  اور یہ شرف کسی زوجہ کو حاصل نہیں تھا۔ بلکہ روئے زمین پر کسی عورت کو یہ فخر حاصل نہیں۔

 

اللہ امام مسلم پر رحمتیں نازل فرمائے کہ اتنی اعلیٰ سند سے یہ روایت پیش کی  کہ کوئی تخریب کار کسی راوی پر انگشت نمائی نہیں کر سکتا۔  انھوں نے ایک واقعہ کے ذریعے یہ ثابت فرما دیا کہ ام المومنین بدر میں شریک تھیں۔ اور سن 1 ہجری میں زوجیت رسول میں آئیں اور دس سال تک آپ کی زوجیت میں رہیں۔ اور ہشام کی روایت میں جو زوجیت کے نو سال کا ذکر آ رہا ہے وہ درست نہیں۔

 

اللہ امام مسلم کو جنت افردوس میں جگہ عطا فرمائے جنھوں نے یہ واقعہ نقل کر کے عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے کہ ام المومنین کا کام گڑیوں سے کھیلنا نہیں تھا بلکہ ان کا محبوب مشغلہ تلواروں کا کھیل تھا بلکہ اسی سائے میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔  یہی ان کی فطرت تھی کیونکہ تلواروں کے کھیل دیکھنے والی کوئی لڑکی گڑیاں نہیں کھیلا کرتی۔ یہ گڑیاں کھیلنا عجمی مشغلہ ہے عربی نہیں۔ یہ عراقی راوی  اپنے علاقے کی عورتوں کی فطرت کو ام المومنین کے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔  اور غالباً پیش نظر یہ مقصد  ہے کہ یہ کہنے کے لئے راہ ہموار کی جائے کہ جس لڑکی نے گڑیاں کھیل کر اپنا وقت گزارا ہو وہ قران و سنت کے مفہوم کو کیا جانے۔

 

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ام المومنین نو سالہ لڑکی نہ تھیں اگر وہ نو سالہ لڑکی ہوتیں تو ان کا محاذ جنگ پر جانے کا کیا مقصد ؟ کیونکہ جو عورت بھی محاذ جنگ پر جاتی  ہے اس کے ذمہ جنگی اور فوجی خدمات ہوتی ہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں یہ بات سامنے آئے گی۔ غزوہ بدر کے سلسلے میں ایک مشہور عام واقعہ یہ ہے کہ اس روز جو علَم تیار کیا گیا وہ ام المومنین  عائشہ صدیقہ کی اوڑھنی سے تیار کیا گیا تھا۔ اگر یہ واقع سچ ہے تو یہ اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ ام المومنین کی رخصتی سن 1 ہجری میں ہو چکی تھی اور وہ غزوہ بدر میں شریک تھیں۔ کیونکہ یہ بات تو بعد از قیاس ہے کہ ایک ایسی لڑکی کی اوڑھنی لے کر جو ابھی  تک رخصت ہو کے نہ آئی ہو  آپ میدان جہاد میں پہنچے ہوں  ، یہ تصور بھی محال ہے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ نئی نویلی دلہن کی اوڑھنی اتار کر آپ اسے میدان بدر تک لے گئے ہوں  اور یہ بھی ممکن نہیں کہ آپ مقام بیداء تک  رسول اللہ کو رخصت کرنے گئیں اور اپنی اوڑھنی بھی وہیں چھوڑ آئیں یہ شیریں فرہاد کا قصہ نہیں۔ بلکہ صورتحال کچھ اس طرح پیش آئی ہو گی کہ اچانک جو جنگ سامنے آئی  تو اس کے لئے علَم تیار کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا ہو گا۔ لشکر گاہ میں شاید کوئی ایسا کپڑا موجود نہ ہو گا جس کا علم تیار ہو سکے تو ام المومنین نے اپنی اوڑھنی عنایت فرمائی ہو اور خود سر پر رومال باندھ کر فوجی خدمات کے لئے تیار ہوئی ہوں  اور عراقی راویوں نے اسے شیریں فرہاد کے قصے میں رنگ دیا۔

 

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اوڑھنی ہندی زبان کا لفظ ہے عربی زبان میں باقاعدہ کوئی لفظ اس  کے لئے نہیں پایا جاتا۔ ام المومنین نے اپنی چادر عنایت فرمائی ہو  گی جسے ہمارے مصنفین نے اوڑھنی میں تبدیل کر دیا ہو سکتا ہے کہ یہ مترجمین لال اوڑھنی کے چکر میں مبتلا ہوں۔

 

ہاں اتنی بات ضرور دھیان میں رکھیں کہ یہ جھنڈے مقام روجاء میں تیار کئے گئے  تھے جو مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ ایک جھنڈا نصار کے لئے تیار ہوا اور دوسرا مہاجرین کے لئے جو سیدنا معصب بن عمیر کو دیا گیا۔ اور واقدی  رافضی کا قول ہے کہ  سیدنا علی کو دیا گیا۔  جسے بعد کے سنی علماء نے جوہر روایت کو اپنانا ایک دینی فریضہ تصور کرتے ہیں  اس طرح فیصلہ دے دیا گیا  کہ ایک علَم سیدنا مصعب کو دیا گیا  اور ایک سیدنا علی کو  اور شیعہ مورخین نے سیدنا مصعب کا نام خارج کر کےسیدنا علی کو علمبردار کی حیثیت سے مشہور کر دیا۔

 

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

آج ہمارے ہاتھوں میں جو تاریخ ہےوہ مسخ شدہ تاریخ ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں سبائی بچے پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں جوڑنا اسی وقت ممکن ہے جب وہ ہمیں صحیح حالت میں دستیاب ہو جائیں۔ بہت سے لوگ تاریخ کی کھدائی میں مشغول ہیں۔ دیکھئے یہ اعضاء کب تک دستیاب ہوتے ہیں۔ اور اگر ظاہر ہو بھی جائیں تو اس امر کا کیا ثبوت کہ وہ مصنوعی اعضاء نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مصنوعی اعضاء یا مصنوعی جسم کی بدولت اس لولے لنگڑے جسم سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں۔

 

جیسا کہ بغداد میں اس صدی کی ابتدا میں سیدنا حذیفہ اور سیدنا جابر بن عبداللہ کی لاشیں دستیاب ہو گئیں۔ حالانکہ جابر تمام مورخین و محدثین کے نزدیک مدینہ منورہ میں بقیع میں دفن ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مصنوعی قبریں اور ان کے کتبے بنو بویہہ کے دور میں تیار کئے گئے ہوں یا ان حضرات نے مرنے کے بعد کوئی زیر زمین سرنگ نکالی ہو اور سفر کرتے کرتے بغداد پہنچ گئے ہوں  جیسے سیدنا حسین کی چار صاحبزادیاں لاہور پہنچ گئیں  اور آج تک  نیک بیبیوں  کے نام سے ان کے مزارات مشہور ہیں یا سیدنا علی بیک وقت نجف  اور بلوچستان میں کوہ مولا اور دکن کے کوہ مولا میں دفن ہو گئے ہوں۔ دراصل یہ سب باطنی راز ہیں  اور ہمارے پاس وہ نگاہ نہیں جو پس پردہ کی بات معلوم کر سکے اور ہمارے لئے تو ان رازوں کو سمجھنا اور بھی محال ہے۔

 

اسلئے کہ سب سے بڑی رکاوٹ  علم ہے کیونکہ العلم حجاب الاکبر رازوں کو معلوم کرنے کے لئے سب سے بڑا حجاب علم ہے۔ اور اگر ہم غزالی و رومی  اور جنید و شبلی  کی طرح کتابوں کو دریا برد بھی کر دیں  تو اصل قصور تو اس سر پھری کھوپڑی کا ہے اسے کہاں لے جائیں گے۔ اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہاں دجلہ و فرات بھی نہیں جن کی برکات سے ہم کھوپڑٰ کو دھو لیں اور جو کچھ پڑھا ہے وہ سب کچھ محو ہو جائے۔ ہمارا ذہن تو کہتا ہے کہ حسن بن صباح نے جنت کے بہانے جو لوگوں کو بھنگ پلائی تھی یہ اسی بھنگ کے نتائج تھے کہ ہزاروں کتابیں دریا برد کی گئیں اور دماغی پرواز باطن کی گہرائیوں تک پہنچ گئی۔  اور اگر ہم بھی ایسا کرتے تو کسی گدی پر بیٹھے لوگوں کی مشکل کشائی کرتے  اور اگر نہ کر پاتے تو قیامت کے دن لوگوں کا ہاتھ ہوتا اور ہمارا دامن ہوتا۔ لیکن افسوس یہ کہ ہم  اس کے چکر میں زندگی گنوا بیٹھے کہ روز محشر سب برہنہ اٹھیں گے  اور سب نفسی نفسی پکارتے ہوں گے نہ وہاں کسی کا دامن ہو گا اور نہ گریباں۔

 

گیارھویں دلیل

 

                   غزوہ احد

 

غزوہ احد ایک ایسا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق آپ کے پاس صرف  دو صحابہ رہ گئے تھے۔ ایک سیدنا سعد بن وقاص  اور دوسرے سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ، کچھ لوگ افراتفری میں مبتلا ہو کر دل چھوڑ بیٹھے تھے۔  کچھ لوگ تن تنہا  مصروف پیکار تھے اور انھیں ایک دوسرے کی کچھ خبر نہ تھی ، کچھ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گئے  تھے اور پورے لشکر میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسول اللہ شہید کر دئیے گئے۔

 

اس روز سیدنا ابو طلحہ انصاری جو  سیدنا انس کے سوتیلے والد ہیں رسول اللہ کا دفاع فرما رہے تھے۔ بار بار عرض کرتے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اپنی جگہ سے نہ اٹھئے  کہیں آپ کو کوئی تیر نہ لگ جائے۔

 

یہ حیات نبوی میں وہ واحد جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ستر صحابہ نے جام شہادت نوش کیا۔  اور شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو گا  جو زخموں سے چور نہ ہوا ہو۔  اس غزوہ میں چند عورتیں بھی شریک تھیں۔

 

اس سے قبل کہ ہم اس پر تبصرہ کریں کہ اس غزوہ میں کون کون سی عورتیں شریک تھیں  اور ان کی کیا کیا ذمہ داریاں تھیں۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ پیش آمدہ خطرات سے واقف تھے اسلئے آپ نے چودہ سالہ لڑکوں کو اس غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ ان کم عمر بچوں میں  سیدنا سمرۃ بن جندب ، براء بن عازب، انس بن مالک، زید بن ثابت اور سیدنا عبداللہ بن عمر  شامل ہیں  بلکہ سیدنا ابن عمر تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ مجھے غزوہ احد میں شامل نہیں کیا گیا  کیونکہ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی  اور سب سے پہلا غزوہ جس میں ، میں شریک ہوا غزوہ خندق ہے۔ لہذا جنگ میں شرکت کی حد کم از کم پندرہ سال ہے۔ بلکہ بعض ائمہ فقہا نے ابن عمر کی اسی روایت کی بنا پر بلوغ کی حد کم از کم پندرہ سال بیان کی ہے۔

 

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب رسول اللہ نے  اس غزوہ میں شرکت کے لئے کم از کم عمر کی حد پندرہ سال رکھی تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی کم عمر لڑکی کو اس غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی جائے۔

 

یہ بھی ذہن میں رہے کہ جنگ میں جو عورتیں  شریک ہوتی ہیں ان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھانا۔ ان کا علاج معالجہ ، زخمیوں اور مجاہدین کو پانی پلانا  بلکہ بوقت ضرورت انھیں اسلحہ سپلائی کرنا۔ ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں یہ امور انجام دینا ہر عورت کے بس کا کام نہیں  کجا کہ اس سلسلہ میں  نو دس سالہ  بچیوں سے کام لیا جائے۔

 

عورت اتنے اہم کام اسی وقت انجام دے سکتی ہے جب وہ کچھ نہ کچھ فنون حرب سے بھی واقفیت رکھتی ہو۔  اور ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع بھی کر سکتی ہو۔ بلکہ اتنا دل بھی رکھتی ہو کہ ضرورت پڑنے پر میدان کارزار میں اترنے کے لئے تیار ہو۔

 

ہم جب ان امور پر غور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کام کسی کمسن بچی کے سپرد نہیں کئے جا سکتے۔ اور جب کہ چودہ سالہ  بچوں کو بھی  اس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا اس جنگ میں جو عورتیں شریک ہوئی ہوں گی  وہ جوان العمر  اور تجربہ کار ہوں گی  اور تمام اونچ نیچ کو اچھی طرح سمجھتی ہوں گی۔

 

                   سیدہ ام عمارہ

 

اس غزوہ میں جو عورتیں شریک تھیں ان میں ام عمارہ  تھیں جو  رسول اللہ کی مدافعت میں شریک تھیں۔  ان کے جسم پر اس روز تیرہ زخم آئے۔  ان کی مرہم پٹی خود رسول اللہ نے اپنے آپ کھڑے ہو کروائی۔

 

انھوں نے ابن قمیہ کا مقابلہ کیا جس نے رسول اللہ کے پتھر مارا تھا یہ اس پر لاٹھی کا وار کر رہی تھیں اور وہ ان پر تلوار سے حملہ کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ ایک وار سے نیچے گر گیا  اور اس کا سر کھل گیا۔  اس پر رسول اللہ ہنسنے لگے۔ انھوں نے مسیلمہ کذاب  کے خلاف جنگ یمامہ میں بھی حصہ لیا۔  اور باقاعدہ جنگ کی  جس میں ان کے بارہ زخم آئے۔  حتیٰ کہ ان کے ہاتھ اس جنگ میں بیکار ہو گئے۔

 

جو عورتیں باقاعدہ جنگ میں شریک نہ ہوتیں وہ بھی مسلح ہوتیں۔

 

                   سیدہ ام سلیم

 

ابن سعد نے نقل کیا ہے احد کے روز  ام سلیم کے پاس خنجر موجود تھا۔  سیدنا انس کا بیان ہے کہ حنین کی جنگ میں ام سلیم ایک خنجر لئے ہوئے تھیں۔ سیدنا ابو طلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !  یہ ام سلیم ہیں ان کے پاس خنجر موجود ہے۔ ام سلیم نے سنا تو عرض کیا یا رسول اللہ!  میں یہ خنجر اپنے پاس اسلئے رکھتی ہوں کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں۔ (طبقات ابن سعد  جلد 8 صفحہ 425)

 

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ کسی غزوہ میں شرکت کسی بچی کا کام نہیں  اور پھر ام سلیم  جو انس کی والدہ ہیں ایک پختہ عمر کی تجربہ کار عورت ہیں۔ اور اکثر غزوات میں رسول اللہ کے ساتھ شریک ہوئیں۔

 

                   ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ

 

سیدنا انس فرماتے ہیں میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم کو دیکھا۔ وہ دونوں پائنچے چڑھائے ہوئے تھیں اور مجھے ان کی پنڈلیوں کے پچھلے حصے نظر آ رہے  تھے۔ یہ دونوں مشکیں اوپر اٹھائے ہوئے تھیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں۔  پھر جا کر انھیں بھر لاتیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 403)

 

یہ پانی پلانے کا عمل میدا ن جنگ میں جاری تھا۔ ظاہر ہے یہ عمل ایک مسلح اور تجربے کار عورت کا تو ہو سکتا ہے لیکن ایک دس سالہ کمسن اور نا تجربے کار بچی کا نہیں ہو سکتا۔  اس کے لئے مشک اٹھانا بھی دشوار عمل ہے۔ کجا کہ ام سلیم جیسی تجربہ کار  عورت کے ساتھ برابر کا شریک ہونا خود اس امر کا ثبوت ہے کہ ام المومنین ہرگز اس وقت کم عمر نہ تھیں۔ اور جب کہ یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ اس جنگ میں چودہ سالہ لڑکوں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں  دی گئی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ  ام المومنین دس سال کی عمر میں  اس کام پر مامور کر دی جاتیں۔  اور اگر انھوں نے یہ خدمت بلا اجازت  رسول انجام دی بھی  تو اس پر کیوں خاموشی اختیار کی گئی اور اگر تنبیہ کی گئی  تو ہر دو امور کے ثبوت درکار ہیں۔ قارئین کرام یہ تمام گفتگو حدیث کے نقطہ نگاہ  سے تھی اب کچھ تاریخی گفتگو بھی ہو جائے جس سے ان تمام مباحث کی تائید ہوتی ہے۔

 

بارہویں دلیل

 

تمام محدثین و مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ اپنی بڑٰی بہن سیدہ اسماء  سے دس سال چھوٹی تھیں۔  اور سیدہ اسماء کا انتقال  73 ہجری میں سو سال کی عمر میں ہوا ، اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں  تو حساب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  ہجرت مدینہ کے وقت سیدہ اسماء کی عمر ستائیس اٹھائیس برس تھی۔ ستائیس میں سے جب دس خارج کئے جاتے ہیں تو ام المومنین کی عمر ہجرت کے وقت سترہ اٹھارہ سال بنتی ہے۔ اور رخصتی کے وقت اگر وہ  1 سن ہجری میں ہوئی تو انیس سال اور 2 ہجری میں ہوئی تو بیس سال بنتی ہے۔

 

ولی الدین الخطیب اپنی کتاب ” الاکمال فی اسماء الرجال” میں رقم طراز ہیں۔

 

اسماء ، عبداللہ بن الزبیر  کی والدہ ہیں ۔ مکہ میں ابتداء میں ہی اسلام لائیں۔  کہا جاتا ہے کہ سترہ افراد کے بعد اسلام لائیں۔ وہ اپنی بہن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے دس سال بڑی تھیں۔ اپنے بیٹے کے قتل کے دس دن بعد وفات پائی۔ ایک قول یہ ہے کہ بیس دن بعد  جب ابن الزبیر  پھانسی سے اتار دئیے گئے۔ ان کی عمر سو سال ہوئی  اور یہ وقوعہ مکہ میں 73 ہجری میں پیش آیا۔ حافظ بن حجر "تقریب التحذیب” میں لکھتے ہیں

 

"اسماء سو سال زندہ رہیں 73 ہجری یا 74 ہجری میں انتقال کیا”(تقریب التحذیب صفحہ 565)

 

حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور تاریخ البدایتہ والنھایتہ میں فرماتے ہیں اسماء کی بہن عائشہ ہیں ان کے والد ابوبکر  ان کے دادا  قحافہ  ان کے بیٹے عبداللہ  اور ان کے شوہر زبیر ہیں اور یہ سب کے سب افراد صحابی ہیں۔ سیدہ اسماء اپنے بیٹے عبداللہ اور اپنے شوہر کے ساتھ معرکہ یرموک میں شریک تھیں  یہ اپنی بہن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے دس بڑی تھیں۔

 

اسی سال یعنی 73 ہجری  میں جیسا کہ ہم نے پہلے تحریر کیا  ہے انھیں اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کے قتل کا سانحہ  دیکھنا پڑا۔ اس واقعہ کے پانچ دن بعد ، بعض دس دن بعد ، بقول بعض کچھ اپر بیس دن بعد  اور بقول بعض سو دن بعد انھوں نے وفات پائی اور یہی مشہور ہے  وفات کے وقت ان کی عمر سو سال تھی نہ ان کا کوئی دانت ٹوٹا تھا  نہ ان کی عقل میں کچھ نقص پیدا ہوا تھا۔ (البدایۃ و النھایۃ صفحہ 364)

 

یہی کچھ حافظ ذہبی  نے اپنی کتاب "سیر اعلام النبلاء” میں تحریر کیا ہے وہ فرماتے ہیں۔

 

"اسماء بنت ابی بکر  سیدہ عائشہ سے دس سال کچھ اوپر بڑی تھیں” (سیر اعلام النبلاء جلد 2 ص 208)

 

"عبدالرحمن بن ابی الزناد کا بیان ہے کہ  اسماء ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے دس سال بڑی تھیں۔ عروہ کا بیان ہے کہ  اسماء کا انتقال سو سال کی عمر میں ہوا” (سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 213)

 

حافظ ذہبی ، حافظ ابن کثیر  اور ولی الدین الخطیب کا شمار محدثین میں ہوتا ہے۔ یہ حضرات صرف مورخ ہی نہیں بلکہ  محدث اور ماہر رجال بھی ہیں۔ یہ حضرات ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن سیدہ اسماء کی عمروں میں دس سال تفاوت بیان فرما رہے ہیں۔ اور اس حساب سے ام المومنین کی عمر نکاح کے وقت سولہ سال  اور رخصتی کے وقت انیس سال بنتی ہے۔ جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ ہشام کی روایت میں ان سے دہائی کا عدد چھوٹ گیا ہے۔ اور غلطی سے صرف اکائی نقل ہو گئی۔ اور انیس کا نو بن گیا۔ اب اگر ہشام والی روایت پر ہی ایمان لانا ہے اور ام المومنین کو جب تک نو سال کا ثابت نہ کیا جائے تو ہمارے علماء کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تو اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ سیدہ  اسماء  کی عمر دس سال گھٹا دی جائے۔ لیکن یہ کہنے سے ہرگز کام نہیں چلے گا  کہ ہم تاریخ کو نہیں مانتے  اسلئے ہم نے مورخین کی بجائے محدثین کے حوالے پیش کیے ہیں۔ اور اسی لئے ہم نے ابتدا میں تاریخ کی کوئی روایت پیش نہیں کی تھی کیونکہ اہل مدینہ جانتے تھے کہ ہشام پر عراق کی آب و ہوا اثر کر گئی ہے لہذا انھوں نے اس خلاف عقل روایت کو نقل ہی نہیں کیا۔

 

تیرھویں دلیل

 

مورخ محمد بن جریر  طبری سیدنا ابوبکر کے حالات میں رقمطراز ہیں

 

"ابو بکر نے زمانہ جاہلیت میں دو نکاح کئے۔ ایک قتیلہ سے  جن کے بطن سے عبداللہ  اور اسماء پیدا ہوئے اور دوسرا نکاح ام رومان سے کیا جن کے بطن سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور  عبدالرحمن پیدا ہوئے۔ پھر کہتے ہیں

 

فھو لاء الا ربعتہ من اولاد ہ ولدومن زوجیہ التیین سمیھتعا فی الجاہلیتہ”

 

یہ چاروں اولادیں ان دو بیویوں سے پیدا ہوئیں  ہیں جن کے نام ذکر کئے گئے ہیں ، یہ تمام اولاد زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئی۔  (تاریخ طبری جلد 4 صفحہ5)

 

اس پر غور فرمائیے  کہ فرقہ سبائیہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی عمر پیش کر کے ام المومنین کا مذاق اڑاتے ہیں  اور مورخ طبری خود خالص شیعہ ہے۔ لیکن وہ اس کا اقرار کر رہا ہے کہ ام المومنین زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئیں اور یہ بات تو غالباً ہر مسلمان جانتا ہے کہ بعثت رسول سے قبل زمانہ دور جاہلیت کہلاتا ہے۔ اب اگر ام المومنین بعثت سے چند ماہ قبل بھی پیدا ہوئی ہوں تو رخصتی کے وقت ان کی عمر مزید پندرہ سال بنتی ہے۔ اور ہم نے سطور بالا میں یہ ثابت کیا ہے کہ  ام المومنین بعثت سے کم از کم پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔  اس لحاظ سے اتنا تو یقینی ہے کہ  ام المومنین انیس سال کی عمر میں رخصت ہوئیں۔ ہاں یہ امکان ضرور ہے کہ  ان کی عمر اس سے کچھ زیادہ ہو  اس سے کم کا کوئی مسئلہ نہیں۔

 

ہمارا نظریہ ہے کہ یہ تمام کھیل کوفیوں کی ایجاد ہے۔ کیونکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ نبوت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ اور نکاح کے  وقت ان کی عمر نو سال تھی حتیٰ کہ تحفۃ  العوام میں جو ان کی اردو زبان میں فقہ کی کتاب ہے یہ تحریر ہے کہ جب لڑکی نو سال کی ہو جائے  تو اس کی شادی کر دی جائے۔ لہذا کوفیوں نے اپنی اس فریب کاری پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو نکو بنانے کی کوشش کی اور ام المومنین کی عمر کا ہوا کھڑا کر دیا۔ اور اس ہوے کی اشاعت سنی حضرات نے دل کھول کر کی اور ان کو یہ جواب نہ دے سکے  تم سیدہ فاطمہ کی عمر خود نو سال مانتے ہو۔ لیکن مشکل یہ درپیش رہی کہ  سنی حضرات نے فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ بات غلط ہے اور سیدہ فاطمہ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئی تھیں۔

 

اگر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدہ اسماء کی عمروں کے درمیان جو دس سال کی تفاوت ہے اس کو پیش نظر رکھا جائے تو بعثت نبوی کے وقت سیدہ اسماء کی عمر  چودہ سال بنتی ہے۔ اس لحاظ سے ام المومنین کو بعثت سے چار سال پہلے پیدا ہونا چاہیے۔ گویا سیدہ فاطمہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ تقریباً ہم عمر ہوئیں۔ اور ہر دو عمروں میں دس سال کا تفاوت پیدا کیا گیا  اور اس قسم کے کارنامے  اہل کوفہ ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔

 

چودھویں دلیل

 

مورخ  ابن ہشام نے اپنی سیرت میں رسول اللہ پر ایمان لانے والوں کا تذکرہ "السابقون  الاولون”  کے عنوان سے کیا ہے۔ ان المومنین سیدہ خدیجہ سے ابتدا کرتے ہوئے مردوں عورتوں اور بچوں کا تذکرہ ترتیب وار ایک فہرست میں پیش کیا ہے ، لکھتے ہیں۔

 

سیدہ خدیجہ کے بعد سیدنا ابوبکر  صدیق کی دعوت پر سیدنا عثمان ابن عفان ، زبیر بن العوام، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص،  اور سیدنا طلحہ بن  عبیداللہ (بشمول زید و علی و ابوبکر) یہ آٹھ آدمیوں کی جماعت ہے جو ابو بکر کے ہاتھ پر اسلام لائی اور جنھوں نے اسلام کی جانب سبقت کی۔ پھر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح  اسلام لائے  اور ابو سلمہ بن عبدالاسد اور ارقم بن ابی الارقم (انھی کے مکان میں  رسول اللہ قریش مکہ سے چھپے ہوئے تھے) آپ لوگوں کو خفیہ اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ ان کا مکان صفا پہاڑی پر واقع تھا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد  سیدنا عمر کے اسلام لانے پر 40 ہو گئی۔

 

جب مسلمان پورے چالیس ہو گئے تو یہ باہر نکل آئے  اور سیدنا عثمان بن مظعون اور ان کے بھائی قدامہ  اور عبداللہ  اور عبید ہ بن الحارث اور  سعید بن  زید  اور ان کی بیوی فاطمہ  یعنی  عمر بن الخطاب کی بہن  اور اسماء بنت ابی بکر  اور عائشہ بنت ابی بکر  (وہ ان دنوں چھوٹی تھیں)  اور خباب بن الارت۔ (ابن ہشام  جلد 1 صفحہ 65)

 

ابن ہشام کی تصریح کے مطابق یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ "السابقون الاولون” میں سیدہ خدیجہ کو شامل کر نے کے بعد سیدہ اسماء کا نمبر انیسواں اور ام المومنین سیدہ عائشہ کا نمبر بیسواں ہے۔ یعنی ام المومنین سیدہ عائشہ  سیدنا عمر کے اسلام لانے سے کافی قبل  سن 1 نبوت  میں مشرف با اسلام ہو چکیں تھیں۔ یعنی اگر ہشام کی روایت کو قبول کر لیا جائے تو ام المومنین اپنی تخلیق  سے چار سال قبل مشرف با اسلام ہو چکی تھیں۔ قربان جائے اس کرامت کے اتنی بڑی کرامت تو بڑے بڑے پیر صاحبان نہ دکھا سکے۔ آج تک ہم مادر زاد  ولی اور مادر زاد امام کی کہانیاں تو پڑھتے آئے ہیں  لیکن مادر زاد بیعت رسول کا یہ فسانہ  اپنا شاہکار آپ ہے۔

 

حافظ ابن کثیر رقم طراز ہیں کہ

 

"ابن اسحاق نے ترتیب وار ان صحابہ کے نام گنوائے ہیں  جو ابتدا میں  اسلام لائے پھر شروع کے نو افراد گنوانے کے بعد  اب اسحاق کہتے ہیں ، پھر سیدنا ابو عبیدہ  اسلام لائے  اور ابو سلمہ  اور ارقم بن ابی الارقم  اور عثمان بن مظعون  اور عبیدہ  بن الحارث  اور سعید بن  زید  اور ان کی زوجہ  فاطمہ بنت  الخطاب  اور اسماء بنت ابی بکر  اور عائشہ بنت ابی بکر ایمان لائیں۔  اور یہ اس وقت  کم عمر  تھیں۔” (السیرۃ نبویہ جلد 1 صفحہ  452)

 

اس جگہ ابن اسحاق  نے سیدنا عثمان بن مطعون کے دونوں بھائیوں قدامہ اور  عبداللہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے تو سیدہ اسماء و عائشہ صدیقہ کا نمبر  سترواں اٹھارواں بن گیا اور اگر دونوں صاحبان کے نام داخل کر لیے جائیں تو  ام المومنین کا نمبر وہی بیسواں آتا ہے۔

 

بعینہ یہی تفصیل محدث سہیلی نے بھی  اپنی مشہور کتاب الروض الانف  میں دی ہے۔

 

اس تمام امر سے یہ تو واضح ہو گیا کہ سیدہ عائشہ ام المومنین   سابقین  اولین میں داخل ہیں۔  اور نبوت کے پہلے سال ایمان لائیں۔  اگرچہ وہ اس وقت عمر میں کم تھیں لیکن اتنی عمر تو یقیناً ہو گی کہ وہ اسلام کے مفہوم کو سمجھ سکیں۔ لازماً وہ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں اور اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی۔

 

حیات سید العرب کا مصنف  سابقین اسلام کا ذکر کرتے ہوئے  لکھتا ہے کہ سب سے اول ورقہ بن نوفل  ایمان لائے۔  اس کی تائید حافظ بلقینی اور حافظ عراقی نے کی ہے۔ ابن مندہ ،  ابن حجر،  طبری ، بغوی ،  ابن قانع  اور ابن السکن  وغیرہ نے ورقہ کا شمار صحابہ میں کیا ہے۔

 

ورقہ کے بعد سب سے اول سیدہ خدیجہ ہیں۔ ان کے بعد مردوں میں سیدنا ابو بکر ، بچوں میں سیدنا علی ، موالی میں زید بن حارثہ۔ پھر ام یمن۔  پھر ام رومان زوجہ ابو بکر۔  پھر ام حیر والدہ ابی بکر۔  پھر اسماء بنت ابی بکر۔  اور یہ مورخین میں مسلمہ امر ہے کہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور  سیدہ اسماء ساتھ ایمان لائیں۔  اس طرح ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کا دسواں نمبر بنتا ہے۔

 

ابن سعد لکھتے ہیں سب سے اول جو عورت ایمان لائیں وہ ام المومنین سیدہ خدیجہ ہیں ان کے ام الفضل  ہیں جو سیدنا عباس کی زوجہ تھیں۔ پھر اسماء بنت ابی بکر اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ہیں۔  اور یہی قول ابن عباس کا ہے۔

 

لیکن افسوس وہ حضرات جو ہشام کی روایت کا شکار ہوئے  انھوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے  اس وقت تک تو ام المومنین پیدا بھی نہ ہوئیں تھیں۔ اور سب زیادہ حیرت تو شبلی مرحوم پر ہے جنھوں نے سیرت النبی جلد 1 میں سابقین اولین کی فہرست میں  ابوبکر کے  خاندان کے کسی فرد کا ذکر نہیں کیا اور اس طرح انھوں نے  ام رومان  ، ام الخیر ،  اسماء اور عائشہ  کے نام اس فہرست سے خارج کر دئیے۔ اور نہ صرف  یہ تاریخی کارنامہ انجام دیا  بلکہ سیدہ خدیجہ کے سوا  کسی عورت کا نام لینا گوارہ نہ کیا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ کی صاحبزادیوں کا بھی ذکر نہیں کیا۔ لیکن وہ سیدنا علی کو قطعاً نہ بھول سکے۔

 

حکیم عبد الرؤف دانا پوری نے چونکہ اپنی "اصح السیر”  شبلی کی "سیرت النبی” کے جواب میں تحریر کی ہے۔ لہذا انھوں نے  سابقین اسلام کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے۔ اس فہرست میں سولہویں نمبر پر سیدہ اسماء اور سترھویں نمبر پر سیدہ عائشہ ام المومنین  کا ذکر کیا ہے۔ لیکن چونکہ ہشام کی روایت ان کے ذہن سے چپکی ہوئی تھی اسلئے نیچے حاشیے میں تحریر فرمایا۔

 

"صحیحین کی روایت ہے  کہ ان سے حضور  نے عقد کیا تو چھ برس کی تھیں اور ایک روایت ہے کہ سات برس کی تھیں۔  اور جب زفاف ہوا تو  نو برس کی تھیں۔  ابن سعد لکھتے ہیں  کہ زفاف شوال  میں ہجرت کے پہلے سال ہوا۔”

 

ان کی پیدائش بعثت کے چار یا پانچ برس بعد ہوئی۔  باوجود اس کے کہ ان کا شمار  قدیم الاسلام لوگوں میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں گویا شروع ہی سے مسلمان تھیں۔ (اصح السیر  صفحہ 64)

 

حکیم صاحب کو اس امر کا ملال ہو رہا ہے کہ ام المومنین  کو قدیم الاسلام لوگوں میں کیسے شمار کر لیا گیا وہ تو اس وقت موجود بھی نہ تھیں۔  اسلئے کہ صحیحین کی روایت (ہشام) کے ذریعے ثابت ہوتا ہے کہ  نبوت کے چار پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔  گویا کہ ام المومنین خانہ زاد مسلم تھیں اور غالباً یہی سوچ کر حکیم صاحب نے رسول اللہ کی صاحبزادیوں  سیدہ زینب اور سیدہ رقیہ کے ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔  گویا آج تک جو بھی بہکا ہے  وہ اسی ہشام کی روایت کے باعث بہکا ہے۔ یہ روایت اس طرح دماغوں پر چھائی ہوئی ہے کہ  تمام روایات تمام احادیث اس کے مقابلے میں نظر انداز کر دی گئیں۔ ہشام کا تو آخری عمر میں عراق آ کر دماغ خراب ہوا  تھا لیکن اس نے اوروں کا جوانی میں ایسا دماغ خراب کیا کہ  انھیں سوائے پوری کتب احادیث  اور تاریخ  میں کچھ نظر نہ آیا  اور جس طرح طوطا خطرے کے وقت آنکھیں بند کر لیا ہے اسی طرح انھوں نے اپنی عافیت اسی میں تصور کی کہ  آنکھیں بند کر لی جائیں۔

 

پندرھویں دلیل

مورخین کا ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے  کہ ام المومنین کا نکاح جب  رسول اللہ سے ہوا  اس سے قبل ام المومنین کا رشتہ  جبیر بن مطعم  بن عدی  سے پکا ہو چکا تھا۔

 

ابن سعد نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے لئے ابوبکر کو پیغام دیا تو  انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ  میں مطعم بن عدی  بن نوفل کو اس کے بیٹے جبیر کے  لئے زبان دے چکا ہوں۔ آپ مجھے اتنی اجازت دیجئے کہ میں کسی طرح اس سے پیچھا چھڑا لوں۔  ابوبکر نے مطعم اور اس کے بیٹے سے پیچھا چھڑا لیا اور رسول اللہ سے ان کا نکاح فرما دیا۔

 

ابن سعد نے ایک اور روایت میں عبداللہ بن نمیر کے حوالے  عبداللہ بن ابی ملیکہ سے ان الفاظ میں نقل کی ہے۔

 

خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عائشہ الی ابی بکر  الصدیق  فقال یا رسول اللہ  انی کنت  اعطتیھا  لمطعم  بن عدی

لا بنفد غنی حتی اسلھا  منھم  فطلقھافتزو جھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 

"رسول اللہ نے عائشہ کے لئے ابوبکر کو پیغام دیا۔ ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ میں عائشہ کو مطعم بن عدی کے بیٹے کے لئے دے چکا ہوں مجھے اتنی مہلت دیجیے کہ میں اس سے چھٹکارا پا سکوں۔ جبیر نے انھیں طلاق دے دی۔ رسول اللہ  نے ان سے نکاح فرما لیا”  (طبقات ابن سعد ج8 صفحہ 58)

 

ہم نے یہ عربی عبارت اسلئے پیش کی ہے تاکہ ہر کوئی اپنی آنکھوں سےدیکھ لے کہ اس رشتے کی بات مطعم بن عدی سے ہوئی تھی اور اس نے اپنے بیٹے جبیر بن مطعم  بن عدی کے لئے ام المومنین کو مانگا تھا۔

 

لیکن اللہ بھلا کرے شبلی کا کہ انھوں نے نامعلوم کس رو میں یہ لکھ مارا کہ رسول اللہ سے پہلے جبیر بن مطعم  کے صاحبزادے سے منسوب تھیں۔ (سیرت النبی صفحہ 405)

 

حالانکہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ جبیر سے منسوب تھیں۔ ان کے بیٹے سے منسوب نہیں تھیں۔   اس وقت تک جبیر کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے  علامہ شبلی سے  غلطی واقع ہوئی ہو  پھر یہ غلطی بعد کے مصنفین کے لئے مایہ ناز بن گئی۔

 

سید سلیمان ندوی مرحوم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

 

لیکن اس سے پہلے  عائشہ جبیر بن  مطعم  کے بیٹے سے منسوب تھیں۔ اسلئے اس سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ (سیرت عائشہ  صفحہ 15)

 

نیاز فتح پوری صاحب لکھتے ہیں۔

 

سیدہ عائشہ  اس وقت تک  جبیر ابن مطعم  کے بیٹے سے منسوب ہو چکی تھیں۔ اسلئے  سیدنا ابوبکر نے  جبیر سے پوچھا (صحابیات صفحہ 36)

 

مولانا سعید اکبر آبادی  مرحوم موجودہ دور کے  ایک بہت بڑے محقق تھے رقمطراز ہیں کہ۔

 

وہ بولے ! میں جبیر کو زبان دے چکا ہوں۔ لیکن جب جبیر بن مطعم  سے اس معاملہ میں بات چیت کی گئی تو  اس نے انکار کر دیا۔

(سیرت الصدیق صفحہ نمبر 16)

 

آپ حضرات نے دیکھا  ان تمام حضرات نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ ام المومنین کی بات پہلے پکی ہو چکی تھی۔  لیکن ان تمام  حضرات کو خود یہ علم نہیں  کہ یہ بات کس سے پکی ہوئی تھی۔  بلکہ انھوں نے شبلی کا بیان دیکھ کر  مکھی پر مکھی ماری ہے اور بجائے جبیر  کے اس کے ایک فرضی  بیٹے سے منسوب کر دیا  جو تا حال وجود میں نہیں آیا تھا۔  اور کسی نے یہ بھی گوارہ نہ کیا  کہ ابن سعد کو اٹھا کر دیکھ لیں۔  ان کی غرض کتاب لکھنے سے تھی۔ اور جب انھیں سیرت نبوی  سے مواد دستیاب ہو گیا  تو کیا ضرورت تھی کہ بلاوجہ دماغ سوزی کرتے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ  ہر پہلے گزرنے والے شخص کو معصوم مان لو  اور اس بارے میں یہ تصور بھی نہ کرو  کہ اس سے غلطی ہو سکتی ہے۔  مردہ پرست قوم اس کے علاوہ اور سوچ بھی کیا سکتی ہے۔  ہم اگر اس قسم کی غلطیوں کو پکڑنا شروع کریں تو  ایک نئی ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی۔  میرے خیال میں اس کا نام  "اغلاط المصنفین” موزوں رہے گا۔

 

مورخ محمد بن جریر طبری نے اس واقعہ کو تفصیل سے کے ساتھ پیش کیا ہے  اور لکھا ہے۔

 

"جب ابوبکر صدیق کفار کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ گئے اور انھوں نے سن 5 نبوت میں حبشہ کی جانب ہجرت کا ارادہ کیا تو انھوں نے سوچا جانے سے پہلے اپنی بیٹی عائشہ کو سسرال کے حوالے کر جائیں اور بعد میں حبشہ کی جانب ہجرت کریں۔

 

لہذا ابوبکر مطعم کے پاس گئے۔ اس کی بیوی بھی وہاں موجود تھی مطعم نے اپنے بیٹے جبیر کے لئے عائشہ کو مانگا تھا۔ جب ابوبکر نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو  مطعم کی بیوی نے ابو بکر سے کہا۔ اگر ہم اپنے بیٹے کی شادی تمھاری بیٹی سے کر دیں تو تم اسے بھی بے دین (مسلمان) بنا لو گے اور جس مذہب کو تم نے اختیار کیا ہے اس میں میرے بیٹے کو بھی شامل کر لو گے۔

 

ابوبکر نے مطعم کی جانب متوجہ ہو کر کہا یہ تمھاری بیوی  کیا کہہ رہی ہے (یعنی کس طرح رشتے سے انکار کر رہی ہے)  مطعم نے جواب دیا بات تو ٹھیک کر رہی ہے۔  ہمیں تم سے اور تمھاری بیٹی سے یہی اندیشہ ہے۔ یہ سن کر ابوبکر وہاں سے چلے آئے۔” (طبری جلد 1 صفحہ493)

 

طبری  کی اس روایت سے متعدد امور سامنے آئے۔

 

1۔ یہ رشتہ جبیر سے ہوا تھا نہ کہ جبیر کے بیٹے سے۔

 

2۔ سیدنا ابوبکر نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ام المومنین یا جواب ہو چکی تھیں یا قریب البلوغ تھیں۔  جب ہی سیدنا ابوبکر  کو ہجرت سے قبل بیٹی  کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ہشام کی روایت کی رو سے تو اولاً  ام المومنین ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی ہوں گی اور اگر پیدا ہو بھی گئی تھیں تو  دو چار ماہ کی ہوں گی۔ تو کیا ہشام ام المومنین کو دو چار ماہ کی عمر میں رخصت کرنا چاہتے تھے ؟

 

فی ا للعجب !  یا اس قسم کا کوئی حادثہ پیش آیا تھا  کہ اے ابو بکر اگر اب تیرے کوئی لڑکی پیدا ہوئی تو  وہ میری بہو بنے گی۔

 

3۔ اس سے یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر کی طرح ان کی بیٹی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بھی تبلیغ  اسلام میں مشہور ہو گئی تھیں تب ہی تو مطعم کو خطرہ محسوس ہوا  کہ ابوبکر کی بیٹی  اس کے بیٹے کو گمراہ (وہابی) کر دے گی۔ لہذا ایسے رشتے سے دور ہی اچھے۔  تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سن 5 نبوت  میں ان کی عمر اتنی ہو گئی تھی کہ وہ کافی سمجھداری کی عمر کو پہنچ گئیں تھیں اور تبلیغ دین کر سکتی تھیں۔

 

4۔ اور یہ بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ کسی باپ کو بیٹی کی فکر اس وقت ہوتی ہے  جب وہ جوان ہو جائے  تو لازماً اس وقت ام المومنین کی عمر اس منزل پر پہنچ  گئی ہو گی  کہ سیدنا ابو بکر کو ان کی فکر لاحق ہوئی۔ ہم جب اس لحاظ سے سوچتے ہیں تو  ہماری سوچ  ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ  ام المومنین کی عمر اس وقت کم از کم پندرہ سال تو ضرور ہو گی۔ اس لحاظ سے جب اس حساب کو آگے بڑھاتے ہیں تو رخصتی کے وقت ان کی عمر 25 سال بنتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ عمریں کم کرنے کا اعلیٰ ریکارڈ ہے۔

 

سولھویں دلیل

 

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امہات المومنین سیدہ عائشہ  اور سیدہ  سودہ  کے سلسلے میں رسول اللہ کو ترغیب خولہ بنت حکیم نے دی تھی۔ جو عثمان بن مظعون کی زوجہ تھیں اور سیدنا عثمان آپ کے  رضاعی بھائی تھے اس لحاظ سے خولہ آپ کی بھاوج تھیں۔  خولہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نکاح کیوں نہیں فرما لیتے۔  یہ بات خولہ نے اس وقت فرمائی جب سیدہ خدیجہ انتقال کر چکی تھیں۔  آپ نے فرمایا کس سے نکاح کروں۔  خولہ نے فرمایا خواہ کنواری سے خواہ بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا کنواری کون ہے اور بیوہ کون  ہے؟

 

خولہ نے جواب دیا  کہ جو آپ کو مخلوق میں سب سے زیادہ عزیز ہے  کنواری اس کی بیٹی عائشہ ہے  اور بیوہ سودہ بنت زمعہ  ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں جگہ میرا تذکرہ کر کے دیکھو۔

 

یہ واقعہ ایک طویل تفصیل کے ساتھ حافظ ابن کثیر نے نقل کیا ہے اور اس واقع کو بیہقی  اور مسند کے حوالے سے پیش کیا ہے۔  مسند احمد اور بیہقی تاریخ کی کتابیں نہیں بلکہ حدیث کی کتابیں ہیں  اور ابن کثیر نے ان کی روایات پر کوئی جرح نہیں کی۔  اس لحاظ سے یہ دلیل  مورخانہ نہیں محدثانہ ہے۔

 

عربی زبان میں نابالغ لڑکی کے لئے جاریۃ اور اس لڑکی کے لئے جو بالغ ہو بکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جیسے ہماری اردو زبان میں کنواری کا لفظ بولا جاتا ہے۔یہ لفظ آٹھ نو سالہ بچی پر نہیں بولا جاتا۔ بلکہ بالغ لڑکی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسلئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا۔

 

"البکر تسناذن فی نفسھا  واذنھا  صعاتھا۔باکرہ سے اس کے نکاح کے سلسلے میں  اجازت لی جائے  اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے” (مسلم)

 

اور اسی لئے عربی زبان میں لفظ بکر ثیب کے مقابلے پر آتا ہے اور ثیب اس لڑکی کو کہتے ہیں  جس کی پہلے شادی ہو چکی ہو۔  پھر خواہ اس کا خاوند مر گیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو۔  جس کے لئے ہم اردو زبان میں عورت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔  اگر آپ کو یقین نہ آئے تو کسی کنواری لڑکی کو عورت کہہ کر تماشا دیکھ لیجئے اسی لئے اس حدیث کا دوسرا جملہ ہے۔

 

"والثیب احق  بنفسھا  من ولیھا۔اور ثیب ولی سے زیادہ  اپنی جان کی حق دار ہے” (مسلم)

 

یہ لفظ بکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔  مسند احمد اور بیہقی کی اس روایت میں بھی سیدہ خولہ نے  عرض کیا "بکر او ثیبا”  باکرہ بھی ہے اور ثیب بھی۔

 

یہ لفظ بکر (کنواری)  اس امر کا ثبوت ہے کہ جب سیدہ خولہ بنت  حکیم نے اس کا تذکرہ کیا تو  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بالغ اور جوان تھیں۔  ورنہ اگر وہ چھ سال کی بچی ہوتیں تو  خولہ یہ لفظ کہتیں "جاریتہ و ثیبا” (ایک کم عمر لڑکی اور ایک عورت موجود ہے)  اتنا بڑا صریح جھوٹ نہ بولتیں۔  وہ عجمی نہ تھیں جو عربی سے ناواقف ہوں۔  لہذا ان سے جملے میں غلطی واقع ہو گئی ہو  اس کا بھی امکان نہیں۔

 

رسول اللہ صبح و شام روزانہ  ابوبکر کے گھر تشریف لے جاتے تھے جیسا کہ سابقہ صفحات میں  بخاری کے حوالے سے ذکر ہو چکا ہے۔  ایسی صورت میں کیا  حضور کو اس امر کا بھی احساس نہ ہو سکا کہ خولہ جسے کنواری لڑکی بتا رہی ہیں وہ تو ایک چھ سالہ بچی ہے۔ رسول اللہ کو تو یہ فرمانا چاہیے تھا کہ اے بھابھی  (خولہ)!  آپ کا دماغی توازن بھی درست ہے کہ نہیں ،  آپ میرے سامنے ایک ایسی بچی کو کنواری بنا کر پیش کر رہی ہیں جسے میں صبح و شام دیکھتا ہوں ۔ اور ظاہر ہے ایسی کوئی بات پیش ہی نہیں آئی۔ بلکہ جب خولہ نے ابوبکر کو پیغام دیا  تو ابوبکر نے جواب دیا  میں تو عائشہ کے لئے مطعم کو زبان دے چکا ہوں۔ اچھا مجھے اتنی اجازت دو کہ میں اس معاملے کو خوش اسلوبی سے نبٹا دوں۔ حالانکہ ابوبکر کو یہ عذر پیش کرنا چاہیے تھا وہ تو ابھی بچی ہے۔ کہیں تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو۔

 

یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اس وقت بچی نہ تھیں۔ ورنہ ابوبکر و خولہ بنت حکیم  دونوں  کو احمق تسلیم کرنا ہو گا۔  اور رسول اللہ کی ذات پر جو رکیک حملہ ہو گا وہ الگ۔

 

لہذا خولہ بنت حکیم نے آپ کے سامنے جو بیان فرمایا تھا کہ ایک  کنواری موجود ہے۔ وہ صحیح فرمایا تھا۔ اس پر نہ رسول اللہ کو اعتراض ہوا نہ ابو بکر کو۔ اگر یہ نکاح اس وقت ہوا ہوتا جب  ام المومنین کی عمر چھ سال تھی تو رسول اللہ کا اتنا مذاق  اڑایا جاتا  جتنا دس سال میں بھی نہ اڑایا گیا۔ کیونکہ مشرکین کو ایک بہت عمدہ حیلہ ہاتھ آ جاتا۔  اور ہم ہرگز یہ تصور نہیں کر سکتے کہ رسول اللہ اور ابوبکر جیسے معاملہ فہم اشخاص اس قسم کی غلطی کا ارتکاب کر تے اور خود کو لوگوں کی نگاہوں اور زبانوں کا نشانہ بناتے۔

 

ہم بھی پہلے اس کے قائل تھے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اور ہم بھی ایک زمانے تک اسی سوچ کے حامی رہے کہ یہ بخاری و مسلم کی روایتیں ہیں۔  لیکن جب ہم نے خالی الذہن ہو کر کتب احادیث و رجال کا مطالعہ کیا تو  ہم اس نتیجہ پر پہنچے  کہ ہم اب تک مینڈک کی طرح کنوئیں میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔  لیکن اب ہم اس منزل تک پہنچ گئے ہیں  ہمارے لئے دجلہ و فرات  اور خلیج فارس بھی ہیچ ہیں۔  اب دعا صرف یہ ہے کہ ہمارے علماء بھی اس کنوئیں سے باہر نکل آئیں۔  اور دیکھیں کہ یہاں پاکستان میں کتنے دریا بہہ رہے ہیں۔

 

سترھویں دلیل

 

                   ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی رخصتی

 

ابن سعد نے طبقات میں عمرہ بنت عبدالرحمن سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ام المومنین سے دریافت کیا کہ  رسول نے آپ کو کب رخصت کیا۔ انھوں نے جواب دیا جب رسول اللہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو مجھے اور اپنی لڑکیوں کو پیچھے مکہ میں چھوڑ گئے۔  مدینہ آنے کے بعد آپ نے ہمیں لینے کے لئے زید بن حارثہ کو روانہ فرمایا اور ان کے ساتھ اپنے غلام ابن رافع کو بھجوایا اور انھیں دو اونٹ اور 500 درہم دیے۔  یہ درہم آپ نے ابوبکر سے لئے تھے۔ اور یہ درہم زید بن حارثہ کو اس لئے دئیے گئے تھے تاکہ وہ دونوں  اس سے ضرورت کا سامان  اور مزید سواری خرید سکیں۔

 

ابو بکر نے ان دونوں کے ساتھ عبداللہ بن  اریقیط  ویلمی کو دو یا تین  اونٹ دے کر بھیجا اور اپنے بیٹے عبداللہ کو لکھا کہ ان کے کنبے کو سوار کرا دے۔یعنی میری ماں ام رومان اور اسماء (زبیر کی بیوی) ہم سب ساتھ نکلے۔ جب ہم قدید پہنچے تو زید بن حارثہ  نے 500 درہم سے تین اونٹ خریدے اور ہم نے اکٹھے سفر شروع کیا۔ راہ میں طلحہ بن عبید اللہ ملے  وہ بھی ہجرت کے ارادے سے نکلے تھے اور ابوبکر کے گھر والوں کے ساتھ سفر کرنا چاہتے تھے (غالباً ہم خاندان ہونے کے باعث)۔

 

زید بن حارثہ ، ابو رافع ،  فاطمہ ،  ام کلثوم اور سودہ بنت زمعہ کو لے کر چلے۔ نیز زید بن حارثہ نے اپنی بیوی  ام ایمن اور اپنے بیٹے اسامہ کو ساتھ لے لیا۔  اور عبداللہ بن ابی بکر  ام رومان اور اپنی دونوں بہنوں کو ساتھ لے کر چلے اور طلحہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوئے۔ جب ہم بیض کے  مقام پر پہنچے جو منیٰ کے قریب ہے میرا اونٹ بدک کر دوڑ پڑا۔  اور میں محفہ میں تھی۔ میری ماں چلانے لگی ہائے میری بیٹی۔ ہائے میری دلہن۔  یہاں تک لوگوں نے ہمارے اونٹ کو پا لیا اور وہ ٹیلے سے نیچے اتر آیا۔  اللہ نے اسے محفوظ رکھا۔

 

جب ہم مدینہ پہنچے تو میں ابوبکر کے کنبے کے ساتھ اتری۔ اور رسول اللہ کا خاندان مسجد کے گھروں میں اترا۔ اور آپ اس وقت مسجد اور اس کے گرد حجرے بنوا رہے تھے۔  پس ہم کچھ دن ابوبکر کے گھر رہے۔

 

پھر سیدنا ابوبکر نے رسول اللہ سے دریافت کیا  آخر آپ کو کس بات کی رکاوٹ ہے جو آپ اپنی بیوی کو رخصت نہیں کراتے۔رسول اللہ نے جواب دیا کہ مہر رکاوٹ ہے۔  تو ابوبکر نے آپ کو بارہ اوقیہ اور کچھ نش عنایت فرمائے(یعنی پانچ سو درہم اور کچھ اوپر)۔  رسول اللہ نے بطور مہر وہی ہمارے پاس روانہ فرمائے۔ تو میری رخصتی اس گھر میں ہوئی جس میں، میں اب ہوں۔ یہی وہ گھر ہے جس میں رسول اللہ نے وفات پائی اور رسول اللہ نے مسجد میں دروازہ بنا لیا تھا جو میرے دروازے کے سامنے تھا۔ اور رسول اللہ نے سودہ کو بھی مسجد کے گھروں میں سے ایک گھر میں رخصت کیا جو میرے گھر کے پہلو میں ہے۔  رسول اللہ ان کے پاس رہتے تھے۔   (طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 68)

 

اگرچہ اس روایت کا راوی قداوی کذاب ہے۔ لیکن اول تو یہ ضروری نہیں کہ جسے ہم جھوٹا کہیں وہ ہر بات ہی جھوٹ بولتا ہو۔ کوئی نہ کوئی بات تو وہ سچ بھی کہتا ہو گا۔ اور پھر بعض شیخ الحدیث  صاحبان نے  شبلی کے رد کے شوق میں اسے ثقہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے تو اس کی یہ روایت اس لئے نقل کی ہے کہ ہم نے اوپر جو حوالہ جات پیش کیے ہیں ان سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔ کم از کم ایک جھوٹے کے منہ سے یہ ایک بات تو سچ نکلی۔

 

ہمارا مقصود تو بس اتنا ہے کہ ہجرت کے بعد اگر ام المومنین آٹھ نو سال کی بچی ہوتیں  تو ابوبکر رسول اللہ سے یہ نہ کہتے  کہ آپ اپنی بیوی کو رخصت کرا لیجئے۔ یعنی میں آخر کب تک بیٹی کو گھر بٹھائے رکھوں ، اور رسول اللہ ہرگز یہ جواب نہ دیتے کہ مہر رکاوٹ ہے بلکہ فرماتے کہ جلدی کیا ہے وہ ہنوز بچی ہے۔ لیکن اس کے برعکس آپ نے جواب دیا کہ  مہر کی کمی ہے۔ اور ابوبکر بھی نہ چاہتے تھے کہ جوان بیٹی  گھر بیٹھی رہے لہذا مہر کی رقم بھی خود بھیج دی اور پھر آپ نے ام المومنین کو رخصت کرا لیا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ واقعتاً ً مہر کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

 

اٹھارویں دلیل

 

ابن عباس نے رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔

 

"عورت ولی سے زیادہ اپنی جان کی حقدار ہے اور کنواری سے  اس کے معاملے مین اجازت لی جائے گی۔ اور اس کی خاموشی اجازت ہے” (مسلم جلد 1 صفحہ 405)

 

بلکہ بعض روایات میں تو  یہ الفاظ ہیں۔

 

"اور کنواری سے حکم طلب کیا جائے۔”

 

اور سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔

 

"عورت کی اس کے حکم کے بغیر شادی نہ کی جائے اور کنواری کی بغیر اجازت کے”  (مسلم جلد 1 صفحہ 455)

 

ان احادیث کی رو سے کنواری لڑکی کی رضا شرط ہے۔ اور اگر  لڑکی نابالغ  ہو تو اس کی رضا کا کوئی مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلئے کہ وہ نکاح کے مقصد سے واقف ہی نہیں ہوتی۔  اسلئے فقہا نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ کم عمر لڑکی کا نکاح اس کا ولی بھی کر سکتا ہے۔  اور اس کے جواز کے لئے ان حضرات فقہا نے ہشام کی اس کہانی کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اور اس مسئلہ میں  اس روایت ہشام کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں۔ اور جب یہ روایت ہی غلط ہے تو  اس کی بنیاد پر  جو نکاح صغیرہ  کی عمارت رکھی گئی ہے وہ بھی غلط ہے۔

 

انیسویں دلیل

 

کتب احادیث و  تاریخ سے ثابت ہے کہ مہاجرین جب  ہجرت کر کے مدینہ آئے تو  یہاں کی آب و ہوا انھیں راس نہ آئی۔ اکثر صحابہ بیمار ہو گئے اور ابوبکر صدیق بھی سخت بخار میں مبتلا ہو گئے۔ ام المومنین نے اپنے والد کی تیمار داری فرمائی۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 43)

 

معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کی آب و ہوا مہاجرین کو کافی دن تک راس نہ آ سکی۔ بار بار بیمار پڑتے یہاں تک کہ رسول اللہ نے دعا فرمائی۔ "اے اللہ ! ہمارے لئے مدینہ ایسا محبوب فرما جیسے مکہ ہمیں محبوب تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔  اس کی آب و ہوا کو درست فرما۔ اے اللہ ہمارے لئے مدینہ کے صاع  و مد میں برکت فرما۔ اور اس کا بخار حجفہ کی طرف منتقل فرما۔

(مسلم جلد 1 صفحہ 443) (بخاری جلد 2 صفحہ 844)

 

یہ روایت بھی سیدہ عائشہ صدیقہ سے مروی ہے جو ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطے سے نقل کی ہے۔ اور ہشام کی ایک اور روایت  جو امام مالک نے ہشام سے نقل کی ہے اور جو بخاری جلد 2 صفحہ 848 پر بیان کی ہے۔

 

"ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ مدینہ بیماریوں اور وباؤں کا گھر تھا۔ عام طور سے لوگ بخار میں مبتلا رہتے تھے۔  مہاجرین بھی بخار میں مبتلا ہوئے۔  سیدنا ابوبکر ان کے غلام عامر بن فہیرہ  اور بلال  ایک گھر میں علیحدہ بیمار  پڑے تھے۔  میں رسول اللہ سے اجازت لے کر ان کی عیادت کو گئی۔  اس وقت تک پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ شدت بخار سے یہ لوگ غفلت میں مبتلا تھے۔ میں ابو بکر کے پاس گئی اور ان سے دریافت کیا ابا کیا حال ہے  انھوں نے جواب دیا۔

 

(ہر آدمی اپنے اہل میں وقت گزارتا ہے  اور موت  اس کے جوتے  کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے)

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میرے والد کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ (گویا بخار دماغ کو چڑھا ہوا تھا) میں ان کے بعد عامر کے پاس گئی۔ ان سے پوچھا عامر کیا حال ہے۔ انھوں نے کہا۔

 

( میں نے موت سے قبل ہی موت کا مزا چکھ لیا ہے۔ کیونکہ بزدل ناک کے بل مرتا ہے۔ ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرتا ہے جیسے کپڑا انسان  کی جلد کو اس کی چمک سے بچاتا ہے)

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انھیں بھی کچھ پتا نہ تھا  کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بلال کی عادت تھی کہ جب بخار آتا تو وہ گھر کے صحن میں لیٹ جاتے اور زور زور سے چلایا کرتے۔ اس وقت وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔

 

( کاش مجھے معلوم ہو کہ میں ایک رات گزاروں گا  کہ میرے چاروں طرف اذخر گھاس  اور جلیل  ہوں گے۔  اور کیا میں اتروں گا  مجنہ کے پانیوں پر اور کیا ظاہر ہوں گے  میرے سامنے شامہ اور طفیل۔)

 

بخاری کی اس روایت میں عامر بن فہیرہ کا کوئی حال نہ تھا۔ لیکن امام احمد نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عروہ کے حوالے سے  عامر کا یہ حال نقل کیا ہے۔

 

اب ان ہر دو روایات پر غور کیجئے اور سوچئے گھر میں ام رومان ، اسماء موجود ہیں۔ تیمار داری کی ذمہ داری ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اٹھا رہی ہیں۔ کیا اتنی اہم ذمہ داری ایک آٹھ سالہ  بچی کے سپرد کی جا سکتی ہے جبکہ گھر میں بڑی عورتیں موجود ہوں۔ یہ تیمار داری اسی وقت ممکن ہے جب ام المومنین خود جوان ہوں اور ذمہ داریوں کا انھیں پوری طرح احساس ہو۔ ورنہ آٹھ نو سال کی عمر میں تیمار داری  کی خدمت انجام دینا  جیسا کہ ابن سعد کی  روایات میں آ رہا ہے بالکل خلاف عقل ہے۔

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کا بیان ہے کہ  میں اپنے والد، عامر بن فہیرہ اور سیدنا بلال  کی تمام صورت رسول اللہ کی خدمت میں مع اشعار پیش کی اور کہا۔  لوگ بہک رہے ہیں انھیں  تو بخار کی شدت کے باعث عقل بھی نہیں۔ اس تمام واقعہ پر یہ بات ثابت ہو رہی کہ  ام المومنین سن 1 ہجری میں اپنے گھر کی ہو چکی تھیں۔ گھر سے اجازت لے کر تیمار داری کے لئے گئی تھیں۔ پھر واپسی پر تمام اشعار ہو بہو نقل کئے اور بیان کیا کہ یہ اشعار  بخار کی شدت میں پڑھ رہے ہیں انھیں تو اپنا بھی ہوش نہیں۔

 

ان تمام باتوں کو سمجھنا ایک نو سالہ بچی کا کام نہیں۔ یہ پختہ عمری کی باتیں ہیں۔ اور یہ اشعار اور ان کو یاد رکھنا اور انھیں نقل کرنا اسی وقت ممکن ہے جب ام المومنین نے ایک عمر ایسے حالات میں گزاری ہو۔ حالانکہ اگر  یہ مان لیا جائے کہ ان کی رخصت نو سال کی عمر میں ہوئی  اورسن  5 نبوت  میں وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت تک گھر کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ اب وہاں شعر و شاعری کی بجائے قران پڑھا جاتا تھا۔  آخر یہ ماحول انھیں کہاں اور کب میسر آیا ؟  اور اس کا آسان جواب یہی ہے کہ  وہ نبوت سے قبل پیدا ہو چکی تھیں۔ اور دیگر اہل مکہ کی طرح  ادب میں ان کا ذہن پختہ ہو چکا تھا۔ یہ بات ہم آگے بھی پیش کریں گے۔

 

بیسویں دلیل

 

                   ادب و انساب اور تاریخ میں مہارت

 

ولی الدین الخطیب مصنف مشکوۃ میں تحریر کرتے ہیں۔

 

سیدہ عائشہ ام المومنین، فقیہیہ ، عالمہ ، فصیحہ اور فاضلہ تھیں۔ بکثرت احادیث  رسول اللہ نقل کرتیں۔ زمانہ جاہلیت کی جنگوں اور ان کے اشعار کی بہت ماہر تھیں۔

 

ام المومنین کے بھانجے عروہ کا بیان ہے کہ میں نے قران ، فرائض، حلال و حرام، فقہ ، شعر شاعری، مطب ، تاریخ عرب اور النساب میں سیدہ عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ (البدائیہ و النھائیہ جلد 8 صفحہ92)

 

ابی رباح کہتے ہیں۔ام المومنین  سب سے زیادہ فقیہہ ، سب سے زیادہ عالم اور سب سے اونچی فکر رکھتی تھیں۔  (ایضاً)۔

 

سیدنا ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ جب ہم صحابہ کو کسی  حدیث میں دشواری پیش آتی تو ہم یہ مشکل ام المومنین کے سامنے پیش کرتے اور ہمیں اس مشکل  کا آسان حل  ان کے پاس سے ملتا۔ (ترمذی۔ البدائیہ والنھائیہ)

 

ابو الزناد کا بیان ہے کہ میں نے شعر و شاعری میں عروہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے عروہ سے دریافت کیا کہ آپ کو شعر شاعری میں یہ کمال کیسے حاصل ہوا تو انھوں نے جواب دیا  اپنی خالہ عائشہ سے سیکھا۔ کوئی بھی واقعہ پیش آتا  ام المومنین اس بارے میں فوراً  شعر پڑھ دیتیں۔

 

موسیٰ بن طلحہ کا بیان کہ میں نے ام المومنین سے زیادہ فصیح البیان  کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار ام المومنین سے عرض کیا اے خالہ مجھے آپ کے فقہیہ ہونے پر تعجب نہیں۔ اسلئے کہ آپ رسول اللہ کی اہلیہ ہیں اور ابوبکر کی بیٹی ہیں۔ مجھے اس پر بھی حیرت نہیں کہ آپ اشعار کی حافظہ اور تاریخ میں کامل ہیں کیونکہ آپ ابوبکر کی بیٹی ہیں اور وہ اعلم الناس تھے۔ مگر مجھے آپ کے علم طب پر تعجب ہے کہ آپ نے یہ فن کہاں سے سیکھا۔

 

ام المومنین نے عروہ کے کندھے پر ہاتھ مارا  اے عروہ رسول اللہؐ  آخر عمر میں بیمار رہتے تھے  اور ہر طرف سے آپؐ کے پاس وفود آتے رہتے تھے تو وہ آپؐ کے لئے نسخے بتاتے  اور میں ان نسخوں سے آپؐ کا علاج کیا کرتی تھی۔

 

عربی ادب، شعر و شاعری،  انساب اور تاریخ عرب میں کمال حاصل کرنے کے لئے عمر کا ایک طویل اور ایسا حصہ درکار ہے جس میں سیکھنے والا  ایسی باتوں کو سمجھ سکے  اور یاد رکھ سکے۔ اور ویسے بھی انساب  اور تاریخ عرب ایک خشک مضمون ہے۔

 

کیونکہ ہشام کی روایت کی رو سے وہ ابھی آٹھ سال کی بچی تھیں کہ ہجرت کا وقوعہ پیش آ گیا۔ ابوبکر اپنے ابل بچے چھوڑ کر مدینہ آ گئے۔ جب کئی ماہ بعد بال بچوں کو مدینہ بلایا تو  چند روز بعد ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی رخصتی عمل میں آ گئی۔ اور گویا اس طرح  اپنے والد سے استفادہ کا موقع ہی نہ ملا۔

 

مدینہ میں رسول اللہ کے مشاغل مکہ کی زندگی سے بالکل مختلف تھے، یہاں قران ، صوم صلوۃ  کے مسائل اور ملکی مہمات پیش نظر رہتی تھیں۔ یہاں کا ماحول یہی تھا۔ اس ماحول کا انساب ، تاریخ  شعر و شاعری  سے کوئی  دور کا واسطہ نہ تھا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کو شعر فہمی اور انطباق اشعار کا کامل ذوق اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک طویل وقت شعر و شاعری  یا بیت بازی میں نہ گزارا جائے۔ عرب شعراء کا بہترین کلا م انھیں یاد تھا جو ہر موقعہ محل کے لحاظ سے فوراً زبان پر آ جاتا تھا۔۔۔ کا بہترین حصہ آپ کو ازبر تھا۔ ام۔۔۔ کی حدیث جو مسلم میں موجود ہے ان کے ادب کا شاہکار ہے۔

 

لہذا یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ام المومنین نکاح سے قبل عاقلہ و بالغہ تھیں۔انھوں نے یہ تمام فنون اپنے والد سے حاصل کئے۔ اور جس وقت آپ مدینہ آئیں اور آپ کی رخصتی عمل میں آئی تو پختہ عمر کی عورت تھیں۔  اور اپنی غیر معمولی قوت حافظہ  اور قوت فہم کے سبب  انساب عرب ، ذوق شعر و شاعری اور تاریخ میں کمال حاصل کر چکیں تھیں۔

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ اپنا جوتا درست فرما رہے تھے اور میں دیکھ رہی تھی۔  آپ کی نظر جو مجھ پر پڑی تو  سوال فرمایا کیا بات ہے بڑے غور سے دیکھ رہی ہو۔ میں نے عرض کیا ابوبکر الہذلی کے اشعار آپ پر صادق آتے دیکھ رہی ہوں۔ وہ خود زندہ ہوتا تو  اپنے اشعار کا مصداق آپ سے زیادہ کسی کو نہ پاتا۔ آپ دریافت فرمایا وہ کون سے اشعار ہیں۔

 

ام المومنین نے عرض کیا۔

 

"وہ محفوظ  ہے ہر نجاست  سے اور دودھ  پلانے والے کی خرابی سے اور ہر ہٹیلی بیماری سے۔ جب تو دیکھے اس کے چہرے کے خطوط کی  طرف  تو اس طرح روشن ہوتے ہیں  کہ روشن گال چمکتے ہیں”

 

رسول اللہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھے اور فرمایا تمھارے اس برمحل شعر کے منطبق کرنے سے مجھے بہت سرور حاصل ہوا۔ یعنی ام المومنین زاہد خشک نہ تھیں اور نہ ہی رسول اللہ زاہد خشک تھے۔

 

ان کے بھائی عبد الرحمن  کا انتقال ہو گیا۔ بے ساختہ زبان سے یہ اشعار نکلے۔

 

"ہم دونوں کی ایسی مثال تھی جیسے ضزیمہ بادشاہ کے  دو مصاحبوں کی کہ  عرصہ دراز تک  ان کے ربط  و اتحاد کا یہ حال رہا  کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا ان میں کبھی جدائی ممکن ہی نہیں۔

 

لیکن جب ہم میں جدائی ہوئی تو  باوجود اس کے کہ میں اور مالک طویل عرصے تک  یکجا رہے تھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک رات  بھی اکٹھے نہیں رہے۔”

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعر و ادب ، تاریخ اور انساب  سے متعلق ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ  کے جو اقوال کتب حدیث ، تاریخ اور کتب ادب میں بھرے پڑے ہیں اور جن کے بارے میں مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دور کی سب سے بڑی محدثہ ، سب سے بڑی فقیہہ،  اور سب سے بڑی مفسرہ ، سب سے بڑی ادیبہ ، سب سے بڑی خطیبہ، سب سے بڑی مورخہ اور سب سے بڑی ماہر انساب تھیں۔ ان کے اس علم و فن پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پرکاری دکھائی گئی کہ رخصتی کے وقت ان عجمی راویوں نے  ان کے ہاتھوں میں گڑیاں تھمائیں اور کچھ اس طرح تسلسل کے ساتھ تھمائیں کہ وہ ان کی زندگی کا ایک لازمہ بن گئیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو طاق میں  گڑیاں سجی ہوئیں تھیں۔ جب کہ انھیں رسول کی زوجیت میں آئے نو سال ہو چکے تھے۔ یعنی اہل بیت بننے کے باوجود انھوں نے گڑیاں کھیلنے کے علاوہ کوئی کام نہ کیا۔ یہ ہے ایک عجمی سازش  جو ہشام کے ہاتھوں  انجام کو پہنچی۔  حتیٰ کہ ام المومنین کے ہاتھوں میں پردار گھوڑا تھمایا گیا۔ تاکہ آگے چل کر ذوالجناح  کی تاریخ  مہیا کی جا سکے۔

 

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ  زوجیت رسول میں  آنے کے بعد  ام المومنین اس منزل پر پہنچیں کہ دنیا کے سامنے فقہی اور محدثانہ  اصولوں کی بنیاد رکھ گئیں بلکہ صحابہ کرام نے ان اصولوں کو تسلیم کیا۔

 

ام المومنین یہ فقہی اصول  پیش فرمایا کہ جو روایت خلاف قران ہو  وہ ہرگز قبول نہیں۔  یا اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کا رد کیا جائے گا۔

 

مثلاً غزوہ بدر میں جو کفار مارے گئے تھے رسول اللہ نے ان کی نعشوں کو ایک گڑھے میں ڈالا  اور گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا۔

 

"تم سے تمھارے پروردگار نے جو وعدہ کیا تھا  وہ تم نے  حق پا لیا ؟”

 

صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مردوں کو پکارتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سنتے  لیکن یہ جواب نہیں دیتے۔

یہ سن کر ام المومنین نے فرمایا۔ رسول اللہ نے یہ بات ہرگز نہیں فرمائی تھی بلکہ آپ نے فرمایا تھا۔

 

"انھوں نے  اب تو وہ حق  جان لی ہو گی جو میں  ان سے کہتا تھا”

 

اور آپ ایسی بات فرما بھی نہ سکتے تھے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے۔

 

"یقیناً  آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے” (بخاری جلد 1 صفحہ 183)

 

اسی طرح جب سیدنا عمر نے اپنی وفات کے وقت یہ حدیث بیان فرمائی۔

 

"یقیناً مردے کے رشتے داروں کے رونے کی وجہ سے  مردے کو عذاب دیا جاتا ہے” تو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے یہ سن کر فرمایا۔

 

"اللہ عمر پر رحم فرمائے۔ رسول اللہ نے یہ حدیث بیان نہیں فرمائی تھی کہ اللہ مومن کو اس کے گھر والوں کے رونے  کے باعث عذاب دیتا ہے۔ بلکہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا  اللہ کافر کے عذاب میں  اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب اضافہ فرماتا ہے۔  اور تمھارے لئے قران کافی ہے۔  اور ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا”

(بخاری جلد 1 صفحہ172)(مسلم جلد 1 صفحہ 303)

 

ایک اور روایت میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ایک یہودیہ مر گئی تھی، اس کے گھر والے  اس پر رو رہے تھے۔ رسول اللہ نے ان کی جانب اشارہ کر کے فرمایا.

 

"یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں حالانکہ  اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے” (بخاری جلد 1 صفحہ 172۔ مسلم جلد 1 صفحہ 303)

 

ان ہر دو واقعات پر ام المومنین نے جو تبصرہ فرمایا ہے اس سے فقہ اور حدیث کے جو اصول ہمارے سامنے آتے ہیں  وہ حسب ذیل ہیں۔

 

1۔ جب بھی کوئی حدیث خلاف قران ہو گی  خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ درجے کی صحیح کیوں نہ ہو تو یا تو اس روایت کا ایسا مفہوم لیا جائے گا  جو خلاف قران نہ ہو۔  ورنہ اس حدیث کا انکار کر دیا جائے گا۔  فقہ حنفیہ کا بھی یہی اصول ہے۔

 

2۔ اس حدیث کے روات  کتنا بھی اہم مقام رکھتے ہوں ان کی شخصیات کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے گا۔ کیونکہ بعد کی کوئی شخصیت بھی ہرگز سیدنا عمر اور عبداللہ بن عمر کے مقام کو نہیں پہنچ سکتی۔ جب ام المومنین نے ان حضرات کی شخصیات کو نظر انداز کر کے  اصول کو پیش نظر رکھا تو ایک اصول یہ بھی سامنے آیا کہ جب بھی کسی شخصیت کا تقابل اصول سے ہو گا شخصیت کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور اصول کو قبول کر لیا جائے گا۔  اور اسلام میں لاقانونیت نہ چلے گی ورنہ ہر شخصیت کے لئے  ایک نیا قانون وضع کرنا ہوگا۔ہماری ملکی سیاست میں اسی شخصیت پرستی کے سبب  لا قانونیت رائج ہے اور مذہبی طور پر بھی  اولیاء پرستی اور اکابر پرستی  کے نام سے یہی  شخصیت پرستی دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔  جس کے خلاف  سب سے اول علمبردار سیدہ عائشہ ام المومنین ہیں۔ گو آج  جو فتنہ عام مسلمانوں  کو گھیرے ہوئے ہے ام المومنین کی نگاہیں سیدنا عمر کے دور میں ہی اس کا ادراک کر چکیں تھیں۔میرے ماں باپ ام المومنین پر قربان کہ جن کے ہاتھوں میں ہمارے راویوں نے گڑیاں تھمائیں تھیں ان کی نظر کتنی گہری تھی۔  دنیا کتنی بھی تبدیل ہو جائے اور کتنے بھی فتنے پھیل جائیں  لیکن اگر کسی قوم کو  ان فتنوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو اسے ام المومنین کے اس اصول کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اور جو قوم ام المومنین کے اس اصول کو ترک کر ے گی وہ قوم ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گی۔

 

3۔ جب کوئی شخصیت اس بات کا دعویٰ کرے گی  جو خلاف قران یا خلاف اصول ہو گی  تو تصور کیا جائے گا کہ ان حضرات کو غلط فہمی  ہوئی یا واقعہ کو  صحیح طور پر محفوظ نہیں رکھ سکے یا واقع کی اصل حیثیت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

 

4۔ اصولی معاملات اور عقائد کے سلسلہ میں ہدایت کے لئے قران ہی کافی ہے۔ اس کے لئے روایات کے سہاروں کی کوئی ضرورت نہیں۔

 

5۔ جب سیدنا عمر کی شخصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قران کے خلاف کوئی شئے اختیار نہیں کی جا سکتی جب کہ حدیث بھی  ان کی تائید کر رہی تھی بالفاظ دیگر وہ اس بات کا دعویٰ کر رہے تھے جو ان کے خیال میں حدیث میں پائی جاتی تھی تو کسی ایسی شخصیت کی اندھی تقلید کیسے اختیار کی جا سکتی ہے جو سیدنا عمر سے کروڑ ہا درجے پست ہو۔ اور اگر اتفاق سے  روایت میں ضعف بھی پایا جاتا ہو تو پھر وہ روایات  پتھر پر دے مارنے کے قابل ہے۔

 

سیدنا عبداللہ ابن عمر نے جب یہ مذکورہ حدیث بیان کی تو ام المومنین نے فرمایا۔

 

"اللہ ابو عبدالرحمن کی مغفرت فرمائے وہ جھوٹ نہیں بولتے لیکن بھول گئے یا  انھوں نے غلطی کی” (مسلم جلد 1 صفحہ 303)

 

ام المومنین کے اس ارشاد سے ایک اور اصول سامنے آ گیا:

 

6۔ راوی خواہ کتنا بھی ثقہ اور معتبر ہو  حتیٰ کہ صحابہ کرام جو عادل ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے لیکن وہ غلطی ، بھول اور کم فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔  اور ہوتے ہیں ان سے کوئی پاک نہیں۔ لہذا یہ کوئی ضروری نہیں کہ  اگر راوی ثقہ  ہو اور سچا تو اس کی ہر روایت  صحیح ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی کوئی روایت غلطی  پر مبنی ہو یا  ہو سکتا ہے کہ  وہ بھول گیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس نے پوری بات نہ سنی ہو۔ جب صحابہ کے بارے میں یہ امکانات پائے جاتے ہیں تو ہشام کو ان امور سے پاک سمجھنا  ، اس سے جہاں عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے  وہاں صحابہ کرام کی عزت پر بھی حملہ ہوتا ہے۔ محدثین ایسی روایت کو منکر کہتے ہیں اسلئے محدثین میں منکرات میں عینیہ، منکرات حماد بن سلمہ اور منکرات شریک بن عبداللہ  المدنی مشہور ہیں۔

 

اسی باعث محدثین و فقہا اس امور پر متفق ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ بھول چوک اور خطاء لاحق ہے یہ بھی ممکن ہے کہ صحابی سے نقل الفاظ میں غلطی واقع ہوئی ہو۔ یا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو یا پورا واقع نہ دیکھا ہو اور اس سے غلط نتیجہ اخذ کر لیا ہو۔ یا ادھوری بات سنی ہو اور اس پر اپنی ایک رائے قائم کر لی ہو۔ یا واقعہ کا کچھ حصہ دیکھ کر اس پر مغالطہ کھایا ہو۔ یہ تمام احتمالات  جب صحابہ میں پائے جاتے ہیں  تو تمام راویوں میں سلسلہ بہ سلسلہ یہ احتمالات پائے جائیں گے۔  اور اگر راوی میں کسی قسم کی خامی بھی پائی جاتی ہے تو  ان احتمالات میں  مزید اضافہ ہو جائے گا۔ لہذا احادیث کتنی بھی اعلیٰ سند کے ساتھ مروی ہوں وہ سب ظنی کہلائیں گی کیونکہ اس نقل روایت میں ہر قدم پر  ظن ہے۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ کسی روایت میں ظن کم ہو گا  اور کسی میں زیادہ ہو گا۔ مثلاً متواتر  میں ظن  صرف برائے نام ظن رہ جاتا ہے۔ لیکن خبر واحد میں  ہر قدم پر ظن ہے جیسا کہ آپ ہشام کی روایت میں دیکھ چکے ہیں۔

 

اسی طرح  جس حدیث کی سند میں راویوں کی تعداد زیادہ ہو گی اتنے ہی ظن بڑھتے جائیں گے۔  اور جتنی راویوں کی تعداد کم ہو گی اتنا ظن بھی کم ہو گا۔  اسلئے محدثین کرام  اس حدیث کو  جس کی سند میں راوی  کم ہوں اسے عالی  اور جس میں زیادہ ہوں  اسے  سال (نچلے درجے کی) کہتے ہیں۔

 

مثلاً امام بخاری ایک روایت اس سند سے نقل کریں حدثنا  الحمیدی  وال حدثنا  سفیان عن الزھری  عن عروہ عن عائشہ۔ اس سند میں رسول اللہ اور بخاری کے درمیان پانچ راوی ہیں۔اس کے برعکس  دوسری روایت اس طرح پیش کریں  حدثنا  ابو عاصم  قال حدثنا الضحاک  عن سلمۃ  بن الاکوع۔ اس سند میں صرف تین راوی ہیں۔ اس میں پہلی کے مقابلے ظن کم ہیں۔

 

لہذا یہ روایت عالی اور پہلی روایت فاسل کہلائے گی۔ یہ بخاری کی ثلاثیات میں سے ہے اور بخاری ثلاثیات جن کی تعداد صرف 23 ہے باقی بخاری کی تمام روایتوں سے اعلیٰ ہیں۔  اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے بخاری کی جن احادیث کے راوی 4 ہوں گے وہ اس روایت کے مقابلے میں اعلیٰ ہو گی جس کی سند میں  پانچ راوی ہوں گے۔

 

قارئین جب آپ کے سامنے یہ اصول آ گیا تو  امام ابو حنیفہ اور امام مالک جب کسی روایت کو نقل کرتے ہیں تو ان کی روایت کی سند میں بعض اوقات دو راوی ، بعض اوقات تین راوی اور خاص طور پر امام ابو حنیفہ کی روایت  میں بعض اوقات صرف ایک راوی یعنی صحابی ہوتا ہے۔ اس طرح ان حضرات کی کل روایات بخاری  کے مقابلے میں عالی ہوں گی۔ بلکہ بخاری کی جو اعلیٰ روایت ہے وہ ان حضرات کی سافل ہے۔  یہ اور بات ہے کہ حضرات کی سند میں کوئی اور خامی پائی جاتی ہو۔ورنہ ان حضرات کی تمام مرویات ثلاثی ہیں اور یہ ان حضرات  سندات کا ادنیٰ درجہ ہے اور ثلاثی کی منزل تک پہنچا بخاری کا اعلیٰ درجہ ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ نے اس مختصر جملے میں جہاں ایک فقہی اصول وضع فرما دیا  وہاں حدیث کے سلسلے میں بھی ایک انتہائی اہم اصول بیان فرما دیا۔یہ ام المومنین کی ہی ذات گرامی ہے جو انھوں نے کتاب و سنت کے فرق کو واضح فرمایا اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ قطعی شے کی موجودگی میں  ظنیات پیش نہیں کی جا سکتیں۔ اور اسلام میں صرف کلام اللہ قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ کیونکہ وہ اشخاص کے ذریعے  مروی ہوتی ہے اور اشخاص میں فلاں فلاں مرض ان کا فطری خاصہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ  کوئی انسان ان خامیوں سے پاک ہو۔  لہذا ان اشخاص کی ذات پر  یقین کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور جو لوگ شخصیات  کو دیکھ کر اپنے دین و دنیا کی بنیادیں قائم کرتے ہیں۔  وہ کتاب اللہ کو پس پشت ڈالتے ہیں اور نتیجتاً  ایک نہ ایک روز کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ہم نے یہ سب کچھ تحریر کرنے کے بعد سید سلیمان ندوی کی سیرت عائشہ کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر  225 پر  مختصراً بات تحریر کی ہے۔  ہاں ہمیں یہ افسوس ضرور ہے کہ سید صاحب جیسے  محقق کے حلق سے  نو سالہ عمر کی کڑوی کسیلی گولی کیسے اتر گئی اور جس کے حلق سے یہ گولی اتر جائے تو پھر اس کا اثر ختم کرنے کے لئے بہت سے انجکشنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود ہم پر سے اس گولی کا اثر 50 سال بعد دور ہوا۔

 

اس کی ایک اور مثال فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے۔ جس میں انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ مطلقہ کو نہ رہائش کے لئے مکان ملے گا  اور نہ نفقہ ملے گا۔ جس کے رد کے لئے امر المومنین سیدنا عمر  نے یہ خطبہ دیا کہ ہم  ایک عورت کے کہنے پر  کتاب اللہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ واقعہ ہم نے تفصیل کے ساتھ اپنی قدیمی کتاب "اصول فقہ” اور جدید کتاب "ایصال ثواب  قران کی نظر میں” بیان کیا ہے۔ یہاں صرف ام المومنین کے الفاظ بیان کرنا مقصود ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے الفاظ یہ ہیں۔

 

"فاطمہ بنت قیس اگر یہ حدیث بیان کرتی ہے تو اس میں کوئی خیر نہیں” (بخاری جلد 1 صفحہ 485۔ جلد 2 صفحہ 803)

 

ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں۔

 

"بہر صورت اس کے لئے یہ روایت بیان کرنے میں کوئی خیر نہیں” (بخاری جلد 2 صفحہ 802 مسلم جلد 1 صفحہ 485)

 

قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ نے فاطمہ بنت قیس سے مخاطب ہو کر فرمایا۔”کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتی” (بخاری جلد 1  صفحہ 803)

 

اب اگر ہم وہ تمام روایات پیش کریں  جن پر ام المومنین نے کلام فرمایا ہے تو وہ خود ایک کتاب ہو جائے گی۔ لہذا اس کے لئے ہماری کتاب "سیرت عائشہ” کا انتظار فرمائیں۔ (علامہ محترم اپنی مسلسل بیماری کی وجہ سے وہ کتاب مکمل نہ کر سکے اسلئے یہ کتاب اشاعت پذیر نہ ہو سکی۔ افسوس)

 

ہمیں یہ قبول ہے کہ ہشام ثقہ ہیں بخاری کے راوی ہیں  بلکہ آسمان سے پلے پلائے نازل ہوئے تھے۔ لیکن ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ  جناب ہشام سند سے دہائی بھول گئے یا دماغی خرابی کے دور میں عجمیوں  نے ان کی زبان سے جو کہلوانا چاہا وہ کہتے چلے گئے اور سچی بات تو یہ ہے قول ہشام سچ نہیں۔ اور اس لئے بھی سچ نہیں کہ  ام المومنین کا یہ ادب، تاریخ، علم الانساب، محاورات عرب اور  خطابت جیسے اہم مضامین پر  نو سال کی عمر میں قدرت حاصل کر لینا بعید از عقل ہے۔ اتنی کم عمری میں یہ علوم  بطور تعویذ گھول کر پلا نہیں دئے گئے تھے۔  اور اگر ایسا ممکن  ہے تو ان کراماتی بزرگ کا اتا پتہ ہمیں بھی بتا دیا جائے۔ جو ایک نظر میں ہماری خواہش کے مطابق  ہماری کایا پلٹ سکے۔  اور ہمیں بیٹھے بیٹھائے ہی انگریزی پر عبور  حاصل ہو جائے  تاکہ اس  زبان میں اسلام کے خلاف جو زہر افشانیاں کی گئی ہیں اس کا ہم انگریزی میں جواب دے سکیں۔  ہے کوئی ایسا صاحب کرامت ولی۔ہم بھی کھوج میں مشغول ہیں  قارئین کرام بھی کھوج لگائیں۔

 

اکیسویں دلیل

 

ایک اصول یہ ہے کہ  جب عورت جوان ہو جاتی ہے تو شادی کے کچھ عرصہ بعد  اولاد کی تمنا شروع ہو جاتی ہے۔  یہ ایک ایسا فطری جذبہ ہے جس کا  کوئی شخص  انکار نہیں کر سکتا۔ اور یہ جذبہ جسے  اردو زبان میں مامتا کا جذبہ کہا جاتا ہے کبھی کسی کم سن لڑکی میں پیدا نہیں ہوتا۔ جیسے کسی کم عمر لڑکے کو باپ بننے کی تمنا پیدا نہیں ہوتی۔

 

عرب میں ایک دستور یہ تھا کہ جب کوئی مرد صاحب اولاد ہوتا تو  بیٹے کے نام پر اپنی کنیت رکھتا۔ اور عام طور پر یہ کنیت پہلی اولاد کے نام پر رکھی جاتی۔  جیسے ابو طالب کہ اس کا نام  عبد مناف تھا اور طالب اس بیٹا تھا۔  ابو القاسم  رسول اللہ کی کنیت ہے آپ کے پہلے صاحبزادے کا نام قاسم تھا۔ ابو الحسن  سیدنا علی کی کنیت ہے جو ان کے صاحبزادے سیدنا حسن کے نام  پر ہے۔

 

اسی طرح جب کسی عورت کی شادی کے بعد بچہ پیدا ہوتا تو اس کے نام پر اپنی کنیت رکھتیں اور اس سے متعارف ہوتیں۔  بلکہ کنیت سے ہر شخص کو پتہ چل جاتا  کہ یہ صاحب اولاد ہے۔ جیسے ام المومنین ام حبیبہ ،  ام المومنین ام سلمہ اور ام سلیم وغیرہ۔

 

کنیت سے آدمی کی حیثیت قائم ہو جاتی ہے جب اسے کنیت سے پکارا جاتا ہے تو اسے احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں باپ ہوں اور باپ ہونے کے ناطے سے مجھ پر یہ ذمہ داری عائد ہے۔  اور اسی طرح ماں کی کنیت پکاری جاتی ہے یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کی ماں  تو اس عورت کو اپنے ماں ہونے کا احساس ہوتا ہے اور اس کے جذبہ مامتا کو تسکین ملتی ہے۔

 

اور ہر شادی شدہ عورت کو چند ماہ بعد  یہ تمنا شروع ہو جاتی ہے کہ کاش وہ ماں ہوتی۔  اور یہ تمنا کسی کم سن بچی کو پیدا نہیں ہوتی۔ اور جب اس عورت کے خود اولاد نہیں ہوتی  تو وہ اپنی تمنا کی تسکین کے لئے دوسرے کے بچے گود لے لیتی ہے تاکہ وہ اسے ماں کہے اور اس طرح اس کے فطری جذبہ کی تکمیل ہو۔

 

سیدہ عائشہ کے خود کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ لیکن ایک روز فطری جذبہ سے مجبور ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ!  آپ کی تمام بیویوں نے اپنی بیٹیوں کے نام سے اپنی کنیتیں رکھ لیں ، میں کس طرح اپنی کنیت رکھوں۔ رسول اللہ  نے فرمایا "فاکتنی  بابنک  عبداللہ”  اپنے بیٹے عبداللہ کے نام پر  کنیت رکھ لو۔

 

عبداللہ  سے مراد عبداللہ بن زبیر ہیں۔ اسی لئے ام المومنین کی کنیت ام عبداللہ ہے۔

(ابو داؤد صفحہ 679) (ابن ماجہ مترجمہ جلد 2 صفحہ 416) (طبقات جلد 8 ذکر عائشہ)

 

سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں۔

 

عبد اللہ سے مقصود عبداللہ بن زبیر ہیں جو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے بھانجے اور سیدہ اسماء کے بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں۔ ہجرت کے بعد یہ اولین فرزند اسلام تھے ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے ان کو متبنی کیا تھا اور ان کو دل سے چاہتی تھیں۔ وہ بھی ماں سے زیادہ  ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کے علاوہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے اپنی آغوش تربیت میں  اور بھی بچوں کی تربیت کی۔ (موطا کتاب الزکوۃ) خود رسول اللہ کی حیات  میں ایک انصاریہ لڑکی کی پرورش اور  شادی کا ذکر  احادیث میں ہے۔

(مسند  احمد جلد 2 صفحہ 229)

 

مسروق بن الاجدع۔ (تذکرہ الحفاظ)۔ عمرہ بنت عائشہ، عائشہ بنت طلحہ،  عمرہ بنت عبدالرحمن انصاریہ، اسماء بن عبدالرحمن بن ابی بکر، عروۃ بن الزبیر، قاسم بن محمد اور ان کے بھائی اور عبداللہ بن یزید  وغیرہ  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے پروردہ تھے۔ محمد بن ابی بکر  کی لڑکیوں کو بھی خود پالا تھا۔ ان کے شادی بیاہ خود کیا کرتی تھیں۔ (سیرت عائشہ صفحہ 182)

 

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے اپنے بھانجے کو بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی باعث سیدہ اسماء نے اپنے بیٹے کے نام پر کنیت نہیں رکھی۔ اور چونکہ ام المومنین اول سے ہی عبداللہ کو بیٹا کہا کرتیں تھیں۔  اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا تو اپنے بیٹے کے نام پر کنیت رکھ لے۔ اس طرح آپ کے اس جذبہ مادریت کی تسکین ہو گئی جو ہر جوان عورت کی تمنا ہوتی ہے۔ جو خود اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس وقت جوان تھیں اور عبداللہ ، ہشام کی روایت کی رو سے ان سے صرف  آٹھ سال چھوٹے تھے ایسی صورت میں ان کو چھوٹا بھائی تو کہا جا سکتا تھا بیٹا ہرگز نہیں کہا جا سکتا تھا۔ یہ تمام صورتحال  اس امر کو ثابت کر رہی کہ وہ جوان العمر تھیں۔  اور ان کا فطری جذبہ  اولاد کا متمنی تھا۔ اسی لئے اپنے بھانجے کو بیٹا بنایا اور اولاد نہ ہونے کے باعث متعدد لڑکیوں کی پرورش کرتی رہیں۔

 

بائیسویں دلیل

 

بشر بن عقربہ سے روایت ہے کہ میرے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ میں بیٹھا رو رہا تھا اچانک رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا

 

"کیا تو اس پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ بنوں اور عائشہ تیری ماں بنے”

 

آپ غور فرمائیے کہ دس سالہ کمسن بچی کے بارے میں یہ فرمانا کہ وہ تیری ماں بنے  اور میں تیرا باپ۔ کیا رسول اللہ کی زبان سے یہ جملے نکلنا ممکن ہے ؟ نہیں تاوقتیکہ  لڑکی ام المومنین کی عمر زیادہ نہ ہو ورنہ بشر بھی چھ سات سال کے ضرو ر ہوں گے۔ یعنی دس سالہ لڑکی اور سات سالہ بچہ۔ یہ تاریخ کا ایک بد ترین مذاق ہو گا۔ ہمارے نظریہ کے لحاظ سے  ام المومنین کی عمر غزوہ احد کے موقع پر کم از کم اکیس سال تھی۔

 

تیئیسویں دلیل

 

                   کیا عرب میں کمسن لڑکیوں کی شادی کا رواج تھا ؟

 

یہاں  ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربوں میں اور علیٰ الخصوص  اس وقت میں بالغ لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا یا نہیں  ؟

 

جب ہم تاریخ عرب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  ہمیں تاریخ عرب میں قبل از اسلام اور بعد از اسلام اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ بلکہ خود رسول اللہ کی حیات میں جن کنواری لڑکیوں کی شادیاں ہوئیں وہ سب پختہ عمر کی لڑکیاں تھیں۔  اور کوئی بھی سمجھدار ماں لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کی شادی پر فوراً تیار نہ ہو گی۔ کیونکہ اگر لڑکی  خود کم عمر نہ سمجھ ہو گی  تو ایسی عمر میں  اس کے جو اولاد ہو گی وہ اسے کیسے سنبھالے گی۔ اور نتیجتاً یا تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی یا اولاد پر سے  جتنی توجہ دینی چاہیے وہ توجہ نہ دے سکے گی۔

 

ہر مہذب معاشرہ میں یہی رواج ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی ایسی عمر میں کی جائے کہ  ان میں احساس و شعور پیدا ہو گیا ہو۔ اور یہ شعور اٹھارہ سال کی عمر  سے شروع ہوتا ہے امام ابو حنیفہ یہاں تک فرماتے ہیں  کہ بلوغ کی حد اٹھارہ سال ہے۔ اور ہمارا تصور تو یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی جسمانی طور پر تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ  ہو جائے لیکن اٹھارہ سال سے قبل وہ ہرگز  بالغ العقل نہیں ہوتی۔ یعنی اس کا لڑکپن نہیں جاتا۔

 

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے اپنی صاحبزادیوں کی شادیاں پختہ عمری میں فرمائیں۔اور چونکہ ہجرت مدینہ سے قبل کے واقعات پورے طور پر تاریخ میں نہیں آتے۔ اسلئے ہم آپ کی ان صاحبزادیوں  کی عمر کے سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے جن کی شادی مکہ معظمہ میں ہوئی۔ لیکن ہجرت مدینہ کے بعد  آپ نے دو صاحبزادیوں کی شادیاں فرمائیں اور دونوں کی شادیاں پختہ عمری میں کی گئیں۔

 

                   سیدہ فاطمہ کا نکاح

 

سیدہ فاطمہ کا نکاح بقول مورخین   سن 2 شوال اور بقول بعض مورخین  محرم سن 3 ہجری میں ہوا۔ اس وقت ان کی کیا عمر تھی ؟ تو محدثین و مورخین اس پر متفق ہیں کہ سیدہ فاطمہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب کفار نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا۔اس وقت رسول اللہ کی عمر 35 سال تھی۔  یعنی نبوت سے پانچ سال قبل۔ اس طرح ہجرت کے وقت سیدہ کی عمر 18 سال اور شادی کے وقت اکیس سال بنتی ہے۔

 

یہاں ایک لطیفہ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔  حافظ ابن حجر لکھتے ہیں  کہ سیدہ فاطمہ ، سیدہ عائشہ ام المومنین سے پانچ سال بڑی تھیں۔ (الاصابہ  جلد 4 صفحہ 377)

 

دوسرے جانب حافظ صاحب اس کے زبردست حامی ہیں کہ  ام المومنین کی رخصتی  نو سال کی عمر میں ہوئی۔  لیکن اگر ان کی  اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ سیدہ عائشہ ام المومنین سیدہ فاطمہ سے پانچ سال چھوٹیں  تھیں اور سیدہ فاطمہ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں  تو ام المومنین  کی پیدائش اس سال ہوئی جس سال  آپ مبعوث ہوئے۔ اسطرح  ام المومنین کی عمر رخصتی کے وقت  پندرہ سال بنتی ہے۔ نو سال آخر کیسے بنے ؟

 

سبائی برادری اس امر کی دعویدار ہے کہ سیدہ فاطمہ نبوت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں اسطرح  ان کی عمر نکاح کے وقت آٹھ نو سال تھی۔ بلکہ اسی باعث ان کا فقہی نقطہ نگاہ  یہ ہے کہ جب لڑکی نو سال کی ہو جائے تو اس کی شادی کر دی جائے۔ ہمارا خیال یہ ہے  کہ  اپنی اس مفروضہ  داستان  پر پردہ ڈالنے  کے لئے ام المومنین  کی عمر کا شاخسانہ کھڑا کیا گیا۔  اور سنی حضرات جو ہمیشہ  ان کے تخیلات  پھیلانے میں پیش پیش رہے۔ اس روایت کی ترویج کا کام  انجام دیا۔ اور جب اہل سنت نے اس کو قبول کر لیا تو یہ کہہ کر مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ صاحب جس  لڑکی نے گڑیاں کھیل کر وقت گزارا ہو  وہ دین کو کیا سمجھے گی ؟

 

                   سیدہ ام کلثوم

 

سیدہ ام کلثوم کا نکاح  سیدہ رقیہ کے بعد  سیدنا عثمان سے ربیع الاول سن 3 ہجری میں ہوا۔ اگر سیدہ ام کلثوم سیدہ فاطمہ سے چھوٹی تھیں  جیسا کہ سیدہ فاطمہ کے بعد نکاح سے ثابت ہوتا ہے تو ان کی عمر انیس سال کے قریب بنتی ہے۔  اور اگر سیدہ ام کلثوم بڑی تھیں  جیسا کہ عام مورخین کہتے ہیں  تو ان کی عمر کسی حال میں تیس سال سے کم نہیں بنتی اور وہ اس وقت کنواری تھیں۔

 

حیرت ہے رسول اللہ نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادیاں اس وقت فرمائیں جب ان کی عمر بیس سے تجاوز ہو جائے جیسا کہ آج کل تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ لیکن جب آپ اپنی شادی فرمائیں تو  تو نو سالہ لڑکی سے کریں۔  آخر ان بیٹیوں کو  اسے ماں کہتے ہوئے کیا محسوس ہوتا ؟

 

                   سیدہ اسماء

 

سیدہ اسماء سیدہ عائشہ ام المومنین کی بڑی بہن ہیں اور ان سے دس  سال بڑی ہیں۔  ان کا نکاح سیدنا زبیر سے ہجرت سے چند ماہ قبل  ہوا۔ ہجرت کے وقت وہ حاملہ تھیں۔  ہجرت مدینہ کے وقت ان کی عمر ستائیس سال تھی اور نکاح کے وقت پچیس سال۔  یعنی ابوبکر نے اپنی بڑی بیٹی کو چھبیس سال بٹھائے رکھا اور چھوٹی بیٹی ان پر اتنی گراں تھی کہ اسے نو سال کی عمر میں رخصت کر دیا۔

 

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

یہی صورتحال ہمیں اس وقت پورے معاشرے میں نظر آتی ہے اور ہمیں کوئی ایسی لڑکی نظر نہیں آتی جس کی عمر شادی  کے وقت اٹھارہ سال سے کم ہو۔  بلکہ آج تک ہمیں اس کی نظیر نہیں ملی۔  یہ کہانی ام المومنین ہی کے لئے کیوں مخصوص کی گئی ؟ اس کے پس پردہ  کون سی سازش کارفرما ہے ؟ کاش کوئی اس کی نقاب کشائی کر سکے۔

 

ہم تو یہ سمجھتے ہیں  کہ ام المومنین کی  عداوت ملت سبائیت کی اساسی بنیاد ہے حتیٰ کہ جناب غائب کی آمد کا مقصد صرف تین اشخاص کی ذات ہے۔

 

ابو بکر و عمر و ام المومنین سیدہ عائشہ۔

 

چوبیسویں دلیل

 

                   اجماع عملی

 

ہشام کی اس نام نہاد روایت  کے خلاف امت مسلمہ کا عملی طور پر ہمیشہ  سے اجماع رہا ہے۔ آج تک کسی نے اس روایت پر عمل نہیں کیا۔  اور نہ کسی نے اپنی نو سالہ بیٹی کو اس کام کے لئے پیش کیا ہے۔  اور نہ آج تک اتنی عمر کی لڑکی کو زوجیت کے لئے قبول کیا گیا ہے۔

 

حاصل کلام یہ کہ زبانی طور پر  ہر فرد و بشر  کی زبان پر یہ روایت نظر آتی ہے۔ لیکن جب عمل کرنے کا معاملہ پیش آتا ہے تو  آج تک اس روایت پر کسی نے عمل نہیں کیا اور سب اس روایت سے منحرف نظر آئے ، یہ عجیب قسم کا ایمان ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ بالفاظ دیگر  یہ روایت کسی کو بلحاظ  عمل قبول نہیں  کیا لیکن لکیر پیٹنا ہماری عادت ثانیہ بن  گئی ہے۔ لہذا اس روایت پر زبانی طور پر  ایمان ہے اور عملی طور پر پوری امت اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آخر یہ دوغلی پالیسی کب ہمارا پیچھا چھوڑے گی۔ کب اس منافقت اور تقیہ بازی سے عہدہ براء ہوں گے۔ ؟

 

                   سیدہ  خدیجہ کی عمر

 

سیدہ خدیجہ ام المومنین کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ  رسول اللہ سے نکاح ہوا تو ان کی عمر چالیس سال تھی۔ یہ ایک تاریخی روایت تھی جس کا حقیقت پر مبنی ہونا کوئی ضروری نہ تھا  لیکن اس کا پراپگینڈا اس حد تک کیا گیا کہ اس نے مذہبی حیثیت اختیار کر لی۔ حتیٰ کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ رسول اللہ نے اپنا شباب ایک بوڑھی عورت کے ساتھ گزار دیا۔ اور اس بڑھاپے میں ان سے رسول اللہ کی چار صاحبزادیاں  ،سیدہ  زینب  ، رقیہ ، ام کلثوم  اور فاطمہ  اور تین صاحبزادے جن کا نام قاسم ، طیب اور طاہر پیدا ہوئے اور بقول بعض کے چار  صاحبزادے پیدا ہوئے جن میں سے ایک صاحبزادے کا نام عبداللہ تھا۔  اور بعض حضرات کا قول ہے کہ عبداللہ ہی کو طیب اور طاہر کہا جاتا ہے۔ سیدہ خدیجہ کے دو نکاح پہلے ہو چکے تھے۔ ایک ابو ہالہ ہند  بن بناش بن زرارہ تمیمی سے ہوا  ان سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئے لڑکے کا نام ہند اور لڑکی کا نام ہالہ تھا۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد  عتیق بن عائد مخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام بھی ہند تھا۔ اسی باعث سیدہ خدیجہ ام المومنین کی کنیت  ام ہند تھی۔ سیدہ خدیجہ کے لڑکے ہند نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان سے رسول اللہ کا حلیہ مبارک  شمائل ترمذی میں مروی ہے۔

(سیرت النبی جلد 2 صفحہ 402)

 

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ کے جوانی میں چار اولادیں ہوئیں اور بڑھاپے میں سات یا آٹھ بچے پیدا ہوئے جو خلاف عقل ہے۔  اس لئے ازروئے حکمت  عموماً 45 سال کے بعد عورت بچے جننے کے قابل نہیں رہتی۔کجا یہ کہ چالیس سال کی عمر کے بعد آٹھ بچے پیدا ہونا۔  مستشرقین اور اسلام دشمنو ں کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ صورت حال خلاف عقل ہے اور وہ اس واقعہ کو پیش کر کے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں  اور ہمارے علماء اسے اچھا خاصہ ایک معجزہ تصور کرتے ہیں۔  بلکہ اسے رسول اللہ کے فضائل میں شمار کرتے ہیں۔  کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے جوانی میں شادی فرمائی۔

 

دوسری جانب سبائی اس صورت حال کو پیش کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ  بڑھاپے میں  اتنی اولاد ہونا ممکن نہیں  لہذا  (زینب ، رقیہ اور ام کلثوم آپ کی صاحبزادیاں نہیں)۔ آپ کے صرف دو صاحبزادے اور ایک  صاحبزادی پیدا ہوئیں۔

 

ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدہ خدیجہ ام المومنین  کی عمر شادی کے وقت چالیس سال تھی اگرچہ وہ عمروں کا کھیل کھیلنے میں ماہر ہیں۔ لیکن غلطی سے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نبوت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ گویا جب سیدہ فاطمہ پیدا ہوئیں تو سیدہ خدیجہ ام المومنین کی عمر ساٹھ سال ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر  سیدہ زینب ، رقیہ اور ام کلثوم کا  سیدہ خدیجہ ام المومنین کی اولاد ہونا ممکن نہیں  تو سیدہ فاطمہ کا  ان کی اولاد ہونا قطعی محال ہوا۔ انھیں اولاً یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ساٹھ سال کی عمر میں اولاد ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا ثبوت بہم پہنچا دیں  تو پھر یہ ثابت کریں  کہ سیدہ فاطمہ سیدہ خدیجہ ام المومنین کی اولاد ہیں۔  ملت سبائیہ جب یہ دونوں امور ثابت کر دے گی  تو  ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ  یہ چاروں صاحبزادیاں  رسول اللہ کی سیدہ خدیجہ سے پیدا ہوئیں ہیں۔

 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیدہ خدیجہ کی عمر میں اختلاف ہے۔ اور اس معاملہ میں مورخین کے مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول ہے کہ چالیس سال کی عمر تھی ، ایک قول 35 سال کا ، ایک قول تیس سال کا،  ایک قول ستائیس سال کا اور ایک قول کہ صرف پچیس سال تھی۔ سبائی مورخین نے یہ کارنامہ  انجام دیا کہ  صرف چالیس سال کا قول نقل  کیا بقیہ اقوال نقل نہیں کئے چالیس سال کی عمر کے قول کی اس قدر تشہیر کی  کہ دیگر اقوال کالعدم ہو گئے۔ حتیٰ کہ ہمارے علماء  اور بعد کے تمام مورخین اس قول کو قطعی تصور کر بیٹھے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں۔

 

"بیہقی نے  حاکم سے نقل کیا  ہے کہ  جسب رسول اللہ نے سیدہ خدیجہ سے نکاح فرمایا تو آپ کی عمر 25 سال تھی۔ اور سیدہ کی عمر 35 سال تھی۔  اور ایک قول یہ ہے کہ پچیس سال تھی۔ (البدایتہ جلد 2 صفحہ 295)

 

یعنی بیہقی و حاکم  کا قول یہ ہے کہ سیدہ خدیجہ کی عمر شادی کے وقت 35 سال تھی ساتھ ساتھ یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک قول یہ ہے کہ 25 سال تھی۔

 

دوسرے مقام پر حافظ کثیر سیدہ خدیجہ  کی وفات کے وقت  کل عمر بیان  کرتے  ہوئے لکھتے ہیں۔

 

"سیدہ خدیجہ کی عمر 65 سال ہوئی۔ ایک قول ہے کہ 50 سال ہوئی اور یہی صحیح ہے” (البدایتہ جلد 2 صفحہ 294)

 

اس پر تمام محدثین  و مورخین کا اتفاق ہے کہ  سیدہ خدیجہ رسول اللہ کے نکاح میں 25 سال تک رہیں اور نبوت کے دسویں سال ان کا انتقال ہوا۔  حافظ ابن کثیر نے یہ کہہ کر کہ صحیح یہ ہے  کہ ان کی عمر  50 سال ہوئی  یہ ثابت کر دیا  کہ نکاح کے وقت سیدہ خدیجہ کی عمر 25 سال تھی۔ اور حافظ نے ایک لفظ میں یہ ثابت کر دیا کہ بقیہ اقوال غلط ہیں۔  اتنی صریح وضاحت  کے باوجود ہم ایک سنی سنائی گپ پر  ایمان لاتے رہے  اور اتفاق سے  اس مرض لا علاج میں ہم خود بھی مبتلا تھے لیکن جب حافظ  ابن کثیر  کی البدایہہ و النھایہہ کا مطالعہ کیا تو  اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اللہ معاف فرمائے کہ ہم کتنی بڑی غلط فہمی کا شکار تھے۔ اللہ ہم سب  کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

آمین یا رب العالمین

 

٭٭٭

ٹائپنگ: ظہیر اشرف (طالوت)، پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید