فہرست مضامین
- سلسلۂ روز و شب
- حصہ سوم
- تخلیقی تجربوں کا عہد
- ___’تضاد‘ آغا محمد سعید
- اردو ہندی اخبارات کی دنیا اور تقسیم کا منظرنامہ
- ہندی کہانیوں کا نیا منظرنامہ
- دوزخی
- ٹیگور میری نظر میں
- قومی یکجہتی اور اردو صحافت
- اظہار الاسلام: عہد جدید کا باغی افسانہ نگار
- اردو تنقید کے دس برس
- نئی صدی، ڈش اینٹینا کی یلغار اور ادب
- کیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کا متبادل ہے؟
- میڈیا کے ’کندھوں ‘ سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں!
- ہم جنگ نہیں چاہتے
- عالمی گاؤں … اور اردو اپنے دیش میں
- ڈائری
- فکشن /نظریہ/اختلاف/حمایت
- ادبی ڈائری
- نئی صدی اور اردو شاعری
- نئی صدی میں اردو ڈرامہ
- نئی صدی میں نثری شاعری
سلسلۂ روز و شب
مشرف عالم ذوقی
حصہ سوم
ذوقی کی کتاب سلسلۂ روز و شب کا تیسرا حصہ
مضامین
یہاں اعتبار کی بجھتی ہوئی قندیل ہے — انسان یا انسانیت کو زندہ دیکھنے کی ایک موہوم سی امید ہے — خدا کی ذات سے منکر ہونے کی کیفیت ہے — اور یہ تمام کیفیتیں اس نئے بحران سے پیدا ہوئی ہیں، جو ہمارے سامنے ہے — جہاں راستے گم ہیں — اور زندگی اپنے معنی و مفہوم گم کر چکی ہے —
ایک بھیانک دنیا — کچھ عجیب سے سچ — اور تماشا دیکھنے والے ہم — سماجی آئین سے الگ ایک نئی اخلاقیات سامنے آ چکی ہے — آسٹریلیا کے حوالے سے ایک خبر آئی کہ ایک شیرنی، ایک چھوٹی سی بلی کی محافظ بن گئی — انگلینڈ کے ایک جنگل میں کتے اور بھالو ساتھ ساتھ کھیلتے پائے گئے — دنیا کے سب سے چھوٹے ماں باپ ۱۵ سال کے بچے ہیں — نئی تکنالوجی سائبر ورلڈ، ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور پگھلتے ہوئے گلیشیرس — نیوزی لینڈ کی عورت نے اپنے گھر سے دو بھوت پکڑے — ایک بوتل میں بند کیا اور آن لائن خریدار مل گئے — ہم ایک ایسے عہد میں ہیں جہاں کچھ بھی فروخت ہوسکتا ہے — در اصل ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر حیوان بنانے کی تیاری چل رہی ہے — نئی قدریں تشکیل پا رہی ہیں۔ سپر مارکیٹ، انڈیا شائننگ اور 2050 تک انڈیا کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیشن گوئی کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ اس پؤر انڈیا کو کہاں لے آئے ہیں — کمرشیل ٹی وی شوز سیکس کی آزادی کا پیغام لے کر آ رہے ہیں اور تہذیب بلاسٹ کر چکی ہے — اور دوسری طرف ڈی ان اے، جینوم، کرومو سوم اور جین کے اس عہد میں تہذیب و تمدن کی نئے سرے سے شناخت ہو رہی ہے کہ سب سے قدیم انڈین کون تھے — دراوڑ یا انڈمان جزائر میں رہنے والے — یا پھر منگولیائی — جہاں ایک طرف کینسر‘ ایڈز، ڈائبٹیز اور ہارٹ اٹیک پر فتح پانے کے لیے میڈیکل سائنس کے نئے دروازے کھل رہے ہیں — اور یہیں کامن ویلتھ گیمس کے لیے ایک بڑی آبادی بھوکوں مار دی جاتی ہے — یہاں آئی پی ایل کے بلّے چمکتے ہیں — اور نندی گرام میں کسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے —
یہ وہ موضوعات ہیں، جس نے ہمارے تخلیقی فنکار کو بے چین کر دیا ہے۔ آج کی کہانیاں کنفیوژن، ڈپریشن کے ساتھ تضاد کا بھی شکار ہیں اور یہ بھی اس عہد کی دین ہے —
٭٭٭
تخلیقی تجربوں کا عہد
’’شہناز دیر ہو رہی ہے، جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ اسی وقت یہ ہوٹل چھوڑنا ہے۔ سیمینار کے منتظمین کو انتظار ہو گا۔ انہیں یہ اطلاع نہیں ہے کہ میں اور تم کس ٹرین سے آرہے ہیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوتی ہوں۔‘‘ وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ وہ باتھ روم کے دروازے پر اچانک رکی اور مڑ کر بو لی۔ ’’ایک بات بتاؤ۔ وہ جو تمہارے کانوں میں پریشان کن آوازیں آیا کرتی تھیں، ان کا کیا ہوا۔؟‘‘
’’وہ آوازیں … وہ آوازیں اب نہیں آتیں۔ وہ مجھ سے شکست کھا کر ختم ہو چکی ہیں۔ دیکھو نا۔ میں پورے وجود کے ساتھ تمہارے سامنے سالم و ہٹا کٹا کھڑا ہوں۔‘‘ اس کی آواز میں بے چینی تھی۔
’’ڈھونگی تمہارے اندر سڑاند پیدا ہو چکی ہے۔ بو سے ناک پھٹی جاتی ہے۔ یہ تم کسے دھوکہ دے رہے ہو؟‘‘
یہ اسرار گاندھی کی کہانی ہے۔’شاور کا شور‘۔ اکیسویں صدی کے بارہ تیرہ برسوں کا جائزہ لیجئے تو ہندستان سے پاکستان تک کہانی کا منظرنامہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ فرد اور معاشرہ، بازار، یہاں تک کہ انسانی رشتوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں حساس فنکار ان تبدیلیوں سے خود کو آزاد کر کے لکھنے کا جرم نہیں کرسکتا۔ اسرار گاندھی کی کہانی شاور کا شور میں آزاد خیال ہیرو کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب اس کانوں کے پاس کچھ آوازیں لہراتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب یہ آوازیں نہ صرف اسے پریشان کرتی ہیں بلکہ اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہیں۔ اور کہانی کے آخر میں شہناز کو یہ جملہ ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے … کہ دراصل تم سڑ چکے ہوں … تم اتنے بدبو دار ہو چکے ہو کہ یہ آوازیں اب مطلق تمہیں سنائی نہیں دیں گی۔
اس ترقی یافتہ صدی میں تہذیب کے پرزے اڑ چکے ہیں۔ بازار اور خرید و فروخت نے انسانی زندگی کے معیار کو تبدیل کر دیا۔ نئی صدی کے تیرہ برسوں میں اب یہ دنیا بہت حد تک بدل چکی ہے۔ اس لیے شائستہ فاخری ہوں، ترنم ریاض، تبسم فاطمہ ہوں، غزال ضیغم، نگار عظیم، یہاں بھی نئی کہانی عہد جدید کے انسان کی نئی تعبیرات کو لے کر سامنے ہے۔ یا اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ سماجی صورت حال نے کنفیوژن اور ڈپریشن کی جو فضا پیدا کی ہے، اس سے ہمارا فنکار بھی جنگ لڑتا ہوا نظر آتا ہے — ترقی پسندی اور حقیقت نگاری کے فلسفہ کو کنفیوژن اور ڈپریشن کے اژدہے نگل چکے ہیں۔ کوری ترقی پسندی اب کہانیوں کا معیار ہے اور نہ ہی جدیدیت کی دھند کے ساتھ آزادیِ اظہار کو آواز دی جا سکتی ہے۔ اس کنفیوژن کو دیکھنا ہو تو شائستہ فاخری کے افسانوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اداس لمحوں کی خود کلامی کی دنیا اور ہے اور انہی کی کہانی عالم خاک و باد و آب کی دنیا مختلف۔ اداس لمحوں کی خود کلامی عصمت چغتائی کے لحاف سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر ایک جوان لڑکی کے احساسات و ارتعاشات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے تو عالم باد و خاک و آب تصوف کی طرف مراجعت کی کوشش ہے۔
’’آپ ابھی تک کھلونے سے کھیلتی ہیں ؟‘‘
’’نہیں میں پنک پینتھر سے کھیلتی نہیں، اس کے ساتھ سوتی ہوں۔‘‘
اچانک زینی کی نگاہ ہاسٹل کے باہر دائیں طرف رکھے بڑے سے سرکاری ڈسٹ بین پر گئی۔ جس میں کئی پینتھر کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے تھے۔
’’ارے، انہیں یہاں کس نے پھینکا۔‘‘
’’زینی جی، دکھانے کے لیے تو روبینہ علی کی موت کا بہت ماتم منایا گیا مگر سچائی یہ ہے کہ روبینہ علی کی موت سے مومنہ ادارے کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ اس لیے مومناؤں پر سختی بہت بڑھا دی گئی ہے۔ ہر لڑکی پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی ہے۔ ہفتے میں ایک دن کمرے کی تلاش لی جاتی ہے۔ تلاشی کے دوران زیادہ تر لڑکیوں کے کمرے سے یہ پینتھر نکلے۔ وارڈن کے حکم سے ان کو باہر پھینک دیا گیا ہے۔‘‘
زینی نے ٹارچ کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ بے دردی سے انہیں چیرا پھاڑا گیا تھا۔ کسی پینتھر کے چہرے پھٹے تھے، کسی کی گردن دھڑ سے الگ کر دی گئی تھی۔ بہت سے پینتھر ایسے تھے جن کی دونوں ٹانگیں بے رحمی سے چیر دی گئی تھیں۔ ‘‘
یہ بدلتے ہوئے وقت کا ڈپریشن ہے کہ گرلس ہوسٹل میں پنک پینتھر آ جاتے ہیں۔ اور لڑکیاں پنک پینتھر میں زندگی کا سرور یا سواد و ذائقہ نہیں تلاش کرتیں بلکہ اس کی معرفت اپنے اس عہد تک رسائی حاصل کرتی ہیں جو زندگی سے رشتے کاٹ کر ایک اندھیری سرنگ میں اتر گیا ہے۔ اور اسی لیے شائستہ فاخری اپنی دوسری کہانی عالم خاک و باد و آب میں انسانی جبلت، سانحات، مصنوعی رجائیت، ان سب سے گھبرا کر تصوف کی آغوش میں پناہ لیتی ہیں۔ ایک ایسا مقام جہاں بندہ و خدا، عشق و عبادت، پیرو شاگرد کا رشتہ گم ہے۔ اور غور کیجئے تو اکیسویں صدی کے برہنہ جسم سے اردو افسانہ زندگی کے پر پیچ راستوں سے تصوف کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تبسم فاطمہ کی کہانی حجاب ایک باغی عورت کی کہانی ہے۔ جس نے زندگی ایک فرسودہ ماحول میں گزاری اور اسی ماحول سے وہ بغاوت کے اثرات کو لے کر بڑی ہوئی۔ لیکن زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے جب اپنے نوجوان بیٹے کے مکالمے سے وہ عورت خود کو بغاوت کی جگہ حجاب کی قید میں محسوس کرتی ہے۔
’’نیٹ پر چلتے ہاتھ رک گئے ہیں … عظمیٰ نے یہ سوال کیوں کیا؟ کیا وہ اس کے جواب سے دکھی ہے؟ دکھی ہے تو کیوں ؟
میں واپس اس جگہ کو دیکھتی ہوں، جہاں کچھ دیر پہلے عظمیٰ موجود تھا۔ اب وہاں کوئی نہیں ہے … لیکن اس کے لفظ مجھے ڈرا رہے ہیں …
اندر ایک ہلچل سی ہے۔ سائن آؤٹ کرتی ہوئی میں خاموشی سے ٹھہر جاتی ہوں — ایسا لگا جیسے برسوں بعد ایک بار پھر میرے بیٹے نے مجھے حجاب پہنا دیا ہو۔‘‘
ترنم ریاض کی کہانی ’ساحلوں کے اس طرف‘ کی شیری اس نئی دنیا میں سانس لیتی ہے جہاں ’دامنیاں ‘ حادثوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس مہذب دور میں ایسے واقعات ہماری طرح شیری کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ لیکن شیری اپنی سطح پر اس دنیا کے بارے میں الگ ہی خیال رکھتی ہے۔
’’کیا معلوم ایسا ہوا ہو کبھی … آخر کروڑوں برس بوڑھی یہ دنیا کون جانے کس کی خطے میں کتنی کتنی بار اجڑی اور بسی ہے۔ ایسا ہو تو سکتا تھا نا … یا میں کچھ صدی بعد دنیا میں آئی ہوتی … یا آنے والی دقتوں میں کبھی ایسا ہونا ہوتا … میں بہت بعد میں جنم لیت اور ۔ پھر … کبھی اپنے پاپا کی بیٹی میں … اس وقت صرف ماما کی رہ گئی ہوتی … اور پھر دوبارہ ایک نئی طرح کی یعنی اصل میں پرانی طرح کی دنیا بساتی … اور مجھے اس کے صلے میں … اتنی بڑی کامیابی کے بدلے … میری ان بانہوں کو ٹیٹو کیا جاتا اور میرا اچیومنٹ ان پر درج ہوتا ہے اور … اور … پھر … اور میرے فوسلز کسی گلیشئر میں جیوں کے تیوں حالت میں صدیوں بعد پائے جاتے … یعنی ماما کی بیٹی اور نانی کی نواسی … اور پرنانی کی … (اب جو بھی تھا) کسی مہم کے دوران اگر کسی گلیشئر میں دب جاتی … پھر پتہ چلتا … کہ میں نے اتنا بڑا کارنامہ کیا تھا۔ ‘‘
نئی دنیا اور فیمنزم کے موضوع پر اس سے بلند اور خوبصورت کہانی شاید ہی کہیں کسی اور زبان میں نظر آئے۔ ساحلوں کے اس طرف میں عورتوں کی کئی دنیائیں شامل ہیں اور کتنی ہی نسائی تحریکیں بھی اس کہانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ مگر ایک موڑ ایسا آتا ہے جب شیری کو اپنا لہجہ تلخ کرنا پڑتا ہے۔
’’ہوسکتا ہے اس سے پہلے مردوں نے سہا ہو … یا اس کے بعد سہنے والے ہوں … خواہ مخواہ … ‘‘
’’فضول کی بحث مت کرو … تم جانتی ہی نہیں ہماری حیثیت کیا تھی۔ ترقی اور تہذیب پر فخر کرنے کے باوجود ہمیں کس کس طرح محروم رکھا گیا … شروعات میں ووٹ تک کا حق لینے میں ہمیں صدی بھر کا وقت لگا تھا۔ سب سے پہلے اٹھنے والی تانیثی آوازوں کو یورپ اور امریکہ جیسی جگہ میں دہائیوں چرچ سے ریکویسٹ کرنا پڑی تھی … پھر ساری دنیا میں پھیلا ہمارا مومنٹ … یا ساتھ ساتھ اپنے انداز میں دنیا بھر میں چلتا رہا … چل رہا ہے … یا چل رہا ہو گا۔‘‘
’’اوکے … بٹ پاپا … ‘‘
’’یوئر پاپا … مائی فٹ … وہ بھی ویسا ہی نکلا تمہارا باپ … انسکیور … اے ٹیپکل میل شاوینسٹ … ‘‘
’’اوکے … اب ماما … آپ لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کر لیے نا … آپ اپنی ہر مانگ قانوناً پوری کرا سکتی ہیں … اب میں … ‘‘
شیری نے لمحے بھر کے لیے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ پھر اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلی گئی۔
’’تو پھر مجھے بھی ماما … ایک موومنٹ شروع کرنا پڑے گی … اینٹی فیمنسٹ موومنٹ … آئی لو بوتھ آف یو … ‘‘
اس نے چوکھٹ کے قریب لگی تصویر کے کانچ پر اپنی نرم نرم انگلیوں سے پاپا اور ماما کے چہروں کو چھوا اور پلٹ کر ماں کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔‘‘
ممتاز شیریں سے خدیجہ مستور، مسز عبدالقادر سے ہیجان انگیز کہانیوں والی حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر سے واجدہ تبسم اور جیلانی بانو، رفیعہ منظورالامین، شمیم صادقہ، ذکیہ مشہدی سے نئی خواتین افسانہ نگاروں تک، جو بغاوت کے تخم سفر میں کل موجود تھے، وہی آج بھی بدلی ہوئی صورتوں میں موجود ہیں۔ ممتاز شیریں جلتے ہوئے انگارے کی بارش کرتی ہے، تو خدیجہ آنگن کے بٹوارے پر سو سو آنسو بہاتی ہے۔ مسز عبدالقادر سنجیدگی سے عورت کے وجود، بدلتے وقت اور بدلتے تیوروں کی بات کرتی ہے، تو حجاب امتیاز علی ہیجان انگیز وادی میں پُراسرار واقعات کو یکجا کر کے خوش ہو جاتی ہے۔ یعنی ایک ڈراؤنے اور خوفناک ماحول میں یہ دنیا ایک ایسی علامت بن جاتی ہے، جہاں روحوں کا بسیرا ہے اور انسان صرف بھوت پریت … جو ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا کر اپنا الّو سیدھا کر رہا ہے۔
عصمت کا ’لحاف‘ والا واقعہ دوسرا تھا۔ عصمت نے ’لحاف‘ میں خوفزدہ پاگل ہاتھی دیکھ لیا تھا۔ پتہ نہیں یہ ان کے گھریلو ماحول کا اثر تھا یا مجبوری، یا سماج کی ستم ظریفی کا دباؤ۔ ’چوتھی کا جوڑا سے ’چاچا چا بڑے‘ تک عصمت عورت سے متعلق کہانیاں تلاش کرتی رہیں اور اس لئے ’لحاف‘ کے اندر سے دیواروں پر رینگتے پاگل ہاتھی سے زیادہ کچھ بھی دیکھ پانے میں کامیاب نہیں رہیں۔
حقیقت میں یہ عصمت کی کہانیوں کا قصور نہیں تھا، بلکہ عصمت کی ’عورت‘ بغاوت کی جگہ خودسپردگی پر زور دے رہی تھی۔ قرۃ العین حیدر کی دنیا اِس تعلق سے تھوڑا الگ تھی۔ یعنی وہ عورت کے متعلق بہت حد تک الجھن بھری تھیں، یعنی ان کی آپ بیتیوں میں عورت کے لئے ان کا جلا کٹا رُخ ایسا تھا، جیسے کوئی گھمنڈی راجکماری اپنی داشتاؤں کو نفرت بھری نظر سے دیکھ رہی ہے … چاہے ان میں فلم ایکٹریس نرگس ہوں یا ثریا — قرۃ العین حیدر نے کبھی عورت کے مسائل کی پرواہ نہیں کی۔ان کے پاس ماضی کا ایک جھروکا تھا۔ لکھنے کی ایک میز تھی اور اپنی تعریف کا جذبہ تھا۔ جس کے آگے پیچھے ان کی آنکھیں کچھ بھی دیکھ سکنے کی حالت میں نہیں تھیں۔
واجدہ تبسم کا قلم ’ہور اوپر، ہور اوپر‘ سے آگے کبھی نہیں بڑھا، یعنی جس حد تک عورت کے ’ہور اوپر ہور اوپر‘ کے تصور کو وہ چٹخارے دار الفاظ میں پیش کرسکیں، یعنی ’عورت‘ کی حصولی ان کے نزدیک ’چٹخارے‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔
اس کے برعکس دیکھیں، تو جیلانی بانو، رفیعہ منظورالامین، شمیم صادقہ اور ذکیہ مشہدی کی کہانیوں کی فضا الگ تھی۔ ایک طرف جیلانی بانو جہاں انسانی مسائل کے درد، زمین کی زبان میں سنانے کی کوشش کر رہی تھی، شکیلہ اختر عورت کو ڈائن بنانے والی وجہوں پر غور کر رہی تھیں۔ شمیم صادقہ قابلیت کے سہارے عورت کی سائکی کی جانچ کر رہی تھی۔
انگلینڈ، امریکہ وغیرہ میں بھی مسلمان خواتین افسانہ نگاروں کی کمی نہیں ہے، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ آج ’مغربی‘ ہواؤں میں سانس لینے کے باوجود وہ ڈری سہمی مشرقی یا روایتی لڑکی سامنے آ جاتی ہے۔ باہر کے کھلے پن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار وہی کالے کالے برقعہ بن جاتے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک خود کو ڈھکے ہوئے، لالی چودھری سے لے کر بانو اختر، پروین لاشری، حمیدہ معین رضوی، سعیدہ سلیم عالم، عطیہ خاں، صفیہ صدیقی وغیرہ اپنی کہانیوں میں اسی عورت کو زندہ کرنے میں ترجیح دیتی ہیں، جو مذہبی پابندیوں میں اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری میں زندگی بسر کرنے کو ہی شرعی راستہ جانتی ہوں۔
باہر کے رنگیں اور کھلم کھلا ماحول میں ذرا سی آزادی چرانے والی عورت کتنی محتاط ہو جاتی ہے، اس کا حوالہ آغا سعید (یہاں ایک مرد افسانہ نگار کی کہانی کا حوالہ جان بوجھ کر دے رہا ہوں )کی ایک چھوٹی سی کہانی ’تضاد‘ میں دیکھئے۔ لڑکی غیر ملکی ہے۔ کسی مرد نے اسے پھولوں کی ٹوکری بھیجی ہے۔
’’میں کہتی ہوں کہ اِن پھولوں کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی اور تم نے یہ پھولوں کی ٹوکری اور یہ گلابی کارڈ مجھے کیوں بھیجا؟ یہ تو خیریت ہوئی کہ میرے شوہر گھر نہیں تھے، ورنہ قیامت برپا ہو جاتی۔ میں کہتی ہوں کہ تم میرے کون ہو، جو تم نے ایسا کیا؟‘‘ یہ مس ’ت‘ کی آواز تھی۔
’’نہیں، میں آپ سے کوئی چیز قبول نہیں کرسکتی۔ وہ بات محفلوں اور مشاعروں تک ہی ہے۔ میرے شوہر اِس کو پسند نہیں کرتے اور نہ میں پسند کرتی ہوں۔ مجھ سے غلطی ہوئی جو آپ کو بیماری کا بتایا۔ پھر آپ کوئی چیز بھیجنے کی تکلیف نہ کریں اور نہ ہی مجھے فون کریں۔‘‘
___’تضاد‘ آغا محمد سعید
یہ بے باکی کا موضوع نہیں ہے کہ باہر کی خونخوار آزادی اچانک اِن عورتوں کو اپنے ہی بنائے گئے پنجرے میں رہنے پر مجبور کیوں کر دیتی ہے؟ جبکہ ایشیائی ممالک میں رہنے والیاں اسی پنجرے کو توڑنے میں اپنی تمام صلاحیت خرچ کر دیتی ہیں۔ کیا یہ ’بکنی چولی‘ کا ڈر ہے، یا تہذیب کے خاتمے کا اثر ہے؟ جیسا کہ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا میں اس کا ایک مستری دوست کہتا ہے___
’’میری ماں برقعہ اوڑھتی تھی، مگر میری بیٹی بکنی پہنتی ہے۔‘‘
کنڈوم تہذیب سے گھبرائے لوگ سیدھے سیدھے اپنی تہذیب یا مذہب کے سائے میں لوٹ آتے ہیں، دیکھا جائے، تو بدلا کچھ بھی نہیں ہے، ہاں، تبدیلی کی آگ کچھ دیر کے لئے بغاوت کی ایک ’چنگاری‘ کو جنم دے کر پھر سے بجھ جاتی ہے۔ 1903 میں رقیہ سخاوت حسین، ’سلطانہ کا سپنا لکھتی ہیں، تو ساری بغاوت، مردوں سے لیا جانے والا مورچہ صرف خواب کی حد تک ہوتا ہے۔ عورت مرد سے بغاوت بھی کرتی ہے، تو خواب میں ___ رقیہ سخاوت حسین سے آگے بڑھیں اور آج کی کہانیوں کا جائزہ لیں تو فیمنسٹ موومنٹ سے لے کر بغاوت اور نئی نسائی فکر کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔
عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے عورتوں کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ سچ پوچھئے تو تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے___ یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک ردّ کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبر و ظلم کے بعد آج/ اگر عورت کا نیا چہرہ آپ کے سامنے آیا ہے تو یقیناً آپ کو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت آپ اور آپ کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے___ اور اب آپ اسے روک نہیں سکتے۔
سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو آج کی عورت کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا___ عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں ___ کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ کو لے کر لکھی تھی۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ___ ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ سچ پوچھئے تو میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کرسکا۔ بادشاہوں یا راجے مہاراجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کرسکیں ___ کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔خواہ انہوں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
ترنم ریاض، شائستہ فاخری کی کہانیاں دیکھیں تو یہاں نئے سماج اور معاشرے کی بدلی ہوئی عورتیں ملیں گی — یہاں رشتوں کا تعلق بھی نئے سوالات و مباحث کو سامنے لاتا ہے۔ مرد تخلیق کاروں کی کہانیوں میں شاید یہ عورت آج بھی وہیں موجود ہے۔ اس لیے یہ تبصرہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے کہ مرد اپنے جنون اپنی وحشت میں عورت کو نئی تبدیلیوں کی سطح پر آج بھی دیکھنے کو تیار نہیں۔ واجدہ تبسم کی ہور اوپر اور اترن سے یہ عورت آگے بڑھ کر بغاوت کے نئے راستوں کو تلاش کر رہی ہے اور ہمارا مرد افسانہ نگار ابھی اسے گھر چوکھٹ کی دہلیز سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔ بہر کیف، دس بارہ برسوں کی کہانیوں میں تخلیقی تجربے کی سطح پر عورت کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔
نئی صدی میں مرد عورت کے مابین فرق کی لکیر کو میں جائز قرار نہیں دیتا۔ لیکن میری دلچسپی اس بات میں بھی تھی کہ اردو فکشن میں مرد افسانہ نگاروں کی تحریروں میں عورت کا بدلا ہوا چہرہ نظر کیوں نہیں آرہا۔ بہر کیف اس بحث و مباحث سے آگے نکلتے ہیں۔ اردو میں خواتین افسانہ نگار کم ہیں۔ اس لیے میں نے اپنی گفتگو کو بہت حد تک عورتوں کے مسائل کو پر مرکوز کرنے کی سعی کی۔ عبدالصمد، غضنفر، حسین الحق، شوکت حیات، احمد صغیر، نور الحسنین کی کہانیاں بھی ان بارہ تیرہ برسوں میں بہت حد تک تبدیل ہوئی ہیں۔ مسیحا میں احمد صغیر دہشت اور خوف کی فضا میں نئے مکالموں کو جنم دیتے ہیں۔ غضنفر نے اندنوں حکایتوں اور داستانوں سے دوستی کر لی ہے۔ رحمان عباس کی کہانیاں مہذب دنیا اور خدا کے وجود سے مکالمہ کرتی نظر آتی ہیں۔
۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کی رات اچانک پرانا دور ختم ہو گیا یا نئے عہد کی شروعات ہو گئی —
کہتے ہیں کہ جنگوں کے بطن سے نئی تہذیبیں جنم لیتی ہیں۔
ایک درخت بوڑھا ہوتا ہے، مر جاتا ہے۔ نئی شاخیں، نئی کونپلیں جنم لیتی ہیں —
ہم والٹیر کے شہرہ آفاق کردار استاد پانگلوس کی طرح سوچتے ہیں۔ جو ہو گا اچھا ہو گا، یا جو سامنے آئے گا بہتر ہو گا — ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی کی کہانیاں اب ان نئے بچوں کو یاد نہیں ہیں۔ اہل دانش و بصیرت بھلے ہی جنگ عظیم کی تاریخوں سے آج کی صورتحال کا جائزہ لیں مگر یہ نئی نسل آج جس دنیا سے گزر رہی ہے وہ زیادہ خوفناک ہے۔ نئی کہانی تخلیقی تجربوں میں خوف و تشکیک کے ان پہلوؤں پر بھی غور کر رہی ہے۔
سن ۲۰۱۳ء آتے آتے اردو دنیا کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ وہ دنیا میں جس کے بارے میں حد سے زیادہ مایوس ہو چکا تھا، یکایک مجھے زندگی کی رمق دکھائی دینے لگی — اذکار، اثبات، تحریر نو، تحریک ادب ایک ساتھ کئی ادبی رسائل کی یلغار ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو تین برسوں میں نئے لکھنے والوں کا ایک قافلہ آ گیا — اچھی بات یہ تھی کہ اردو کہانی ابھی بھی اپنے محدود کینواس میں مقید نہیں تھی، بلکہ اس کی نظر عالمی مسائل پر بھی تھی۔ اس لیے یحییٰ نشاط سے نسیم ساکیتی تک ایسے لوگ بھی سامنے آ رہے تھے جو کوپن ہیگن میں ماحولیات کی ناکامی پر بھی افسانہ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جو فضا میں پھیلتے کاربن منو آکسائیڈ کی تشویش ناک صورتحال کو بھی دیکھ کر افسانے لکھ رہے تھے اور ساتھ ہی بھوک، دہشت گردی، نکسل واد کے مسائل کو عالمی افق پر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے — اسی عالمی نقشہ پر پانی بھی مسئلہ ہے اور دیکھئے رضوان الحق نے کس خوبصورتی سے اس مسئلہ کو اپنے افسانہ، تعاقب، میں پیش کیا ہے —
’’گلوب کے تعلق سے اس کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب وہ شدید ذہنی انتشار میں ہوتا ہے تو اس گلوب کو بہت تیزی سے گھمانے لگتا ہے۔ پھر کوئی ملک اپنی سرحد کے ساتھ نظر نہیں آتا ہے، تمام سرحدیں مٹ جاتی ہیں اور صرف عالمی جغرافیہ رہ جاتا ہے، اس جغرافیہ میں پہاڑ، جنگل، جھیلیں، چرند پرند، آسمان، آسمان پر اڑتے ہوئے بادل اور دور تک پھیلا ہوا سمندر، سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ یہ گلوب ہمیشہ اسی رفتار سے گھومتا رہے اور تمام سرحدیں ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں۔ صرف عالمی جغرافیہ بچے۔ گلوب دیکھتے ہوئے ایک سوال اسے بہت پریشان کرتا ہے کہ دنیا کا تقریباً دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر بھی دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زندگی کرنے کے لیے ضروری پانی سے کیوں محروم ہے؟
در اصل بے حد خاموشی سے فنکار عالمی مسائل کو اپنے مسائل سے جوڑ کر ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے آج اردو کہانی میں پہلے سے کہیں زیادہ انسانیت، امن و آشتی اور دہشت گردی پر مبنی تجزیاتی کہانیوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ شائستہ فاخری، ترنم ریاض، رحمن عباس، اسرار گاندھی اور صدیق عالم کی کہانیوں میں ایسے مسائل کی تڑپ دیکھی جا سکتی ہے۔
’’اس وقت صرف انسان زندہ رہ گیا تھا، باقی سب کچھ مر گیا تھا۔ آج صرف انسان مر گیا ہے باقی سب کچھ زندہ ہے۔ کیا ہو گیا ہے اس شہر کو؟ پہلے ایسے حادثات تو کبھی نہ ہوئی تھے، سنو، میری بھی رائے یہی ہے کہ شام کو جب تھوڑی دیر کے لیے پہرے ہٹیں تم کسی محفوظ جگہ چلے جاؤ۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔‘‘
اسرار گاندھی (راستے بند ہیں )
’’میں کسی فرشتے میں یقین نہیں رکھتا۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے کہتا ہے۔ ’’کیونکہ میں جاتنا ہوں اب ہم انسان ایسی چیز نہیں رہے کہ اس کے لیے کوئی فرشتہ خدا کی طرف سے پیغام لے کر اترے۔ شاید ہمیں اب اس کے بغیر ہی کام چلانا ہو گا۔ یوں بھی جب اتنی ساری کھائیاں ہمارے چاروں طرف بن چکی ہوں تو انہیں لانگھنا تو پڑتا ہی ہے، چاہے اس کوشش میں ہم اس کی نذر ہی کیوں نہ ہو جائیں۔‘‘ (صدیق عالم- الزورا)
یہاں اعتبار کی بجھتی ہوئی قندیل ہے — انسان یا انسانیت کو زندہ دیکھنے کی ایک موہوم سی امید ہے — خدا کی ذات سے منکر ہونے کی کیفیت ہے — اور یہ تمام کیفیتیں اس نئے بحران سے پیدا ہوئی ہیں، جو ہمارے سامنے ہے — جہاں راستے گم ہیں — اور زندگی اپنے معنی و مفہوم گم کر چکی ہے —
ایک بھیانک دنیا — کچھ عجیب سے سچ — اور تماشا دیکھنے والے ہم — سماجی آئین سے الگ ایک نئی اخلاقیات سامنے آ چکی ہے — آسٹریلیا کے حوالے سے ایک خبر آئی کہ ایک شیرنی، ایک چھوٹی سی بلی کی محافظ بن گئی — انگلینڈ کے ایک جنگل میں کتے اور بھالو ساتھ ساتھ کھیلتے پائے گئے — دنیا کے سب سے چھوٹے ماں باپ ۱۵ سال کے بچے ہیں — نئی تکنالوجی سائبر ورلڈ، ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور پگھلتے ہوئے گلیشیرس — نیوزی لینڈ کی عورت نے اپنے گھر سے دو بھوت پکڑے — ایک بوتل میں بند کیا اور آن لائن خریدار مل گئے — ہم ایک ایسے عہد میں ہیں جہاں کچھ بھی فروخت ہوسکتا ہے — در اصل ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر حیوان بنانے کی تیاری چل رہی ہے — نئی قدریں تشکیل پا رہی ہیں۔ سپر مارکیٹ، انڈیا شائننگ اور 2050 تک انڈیا کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیشن گوئی کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ اس پؤر انڈیا کو کہاں لے آئے ہیں — کمرشیل ٹی وی شوز سیکس کی آزادی کا پیغام لے کر آ رہے ہیں اور تہذیب بلاسٹ کر چکی ہے — اور دوسری طرف ڈی ان اے، جینوم، کرومو سوم اور جین کے اس عہد میں تہذیب و تمدن کی نئے سرے سے شناخت ہو رہی ہے کہ سب سے قدیم انڈین کون تھے — دراوڑ یا انڈمان جزائر میں رہنے والے — یا پھر منگولیائی — جہاں ایک طرف کینسر‘ ایڈز، ڈائبٹیز اور ہارٹ اٹیک پر فتح پانے کے لیے میڈیکل سائنس کے نئے دروازے کھل رہے ہیں — اور یہیں کامن ویلتھ گیمس کے لیے ایک بڑی آبادی بھوکوں مار دی جاتی ہے — یہاں آئی پی ایل کے بلّے چمکتے ہیں — اور نندی گرام میں کسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے —
یہ وہ موضوعات ہیں، جس نے ہمارے تخلیقی فنکار کو بے چین کر دیا ہے۔ آج کی کہانیاں کنفیوژن، ڈپریشن کے ساتھ تضاد کا بھی شکار ہیں اور یہ بھی اس عہد کی دین ہے —
پاکستان کے مشہور افسانہ نگار اور ناقد مبین مرزا نے اکیسویں صدی میں جدید اردو افسانے کے تخلیق نقوش میں گہرائی و گیرائی سے موجود افسانوی منظرنامہ کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر لیے ہیں۔
’’چنانچہ ان آخری سطور میں اس احساس کا اظہار بے جا نہ ہو گا کہ اکیسویں صدی کے اردو افسانے کے مطالعے کے زمرے میں کچھ دوسرے پہلو اور زاویے ایسے ہیں یا ہوسکتے ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے۔ یا یہ کہ آئندہ کی جائے گی۔جان راک ویل نے ادب کے قاری کو مشورہ دیا تھا کہ کسی دور یا کلچر کی اقدار کو ادب کے ذریعہ سمجھنا مقصود ہو تو ادیب کے مقصد و منشا کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے نزدیک ایک عہد کی تنقید اپنے فکری، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تناظر میں اسی کوشش سے عبارت ہوتی ہے۔
اس مطالعے کے نتیجے کے طور پر یہ بات نہایت وثوق اور پوری دیانت داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس عہد کا افسانہ اپنے سماج اور تہذیب کے حقائق سے ہر گزر رو گردان نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ فرد اور سماج کے باہمی رشتے اور اس پر اثر انداز ہونے والے سیاسی، اخلاقی، نظریاتی، ثقافتی اور مذہبی مظاہر کے شعور سے بہرہ مند ہے۔ افسانے میں اس شعور کا اظہار انسانی جذبہ و احساس سے معمور اور زندہ تجربات کے ساتھ ہوا ہے۔ کسی عہد کے ادب کے اثبات کے لیے یہ جواز اور سند کافی ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ آج ادب اور خصوصاً افسانے کے باب میں زوال کی نشانیاں ڈھونڈنے والے کم علم اور سادہ نظر نقاد اصل میں احمقوں کے جہنم میں جیتے ہیں اور اپنے کسی ذاتی اور جذباتی ہیجان کو افسانے کی نفی یا نا کردہ کاری کے غلغلے سے آسودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
دراصل یہ عہد سادہ نظر تخلیق کار یا نقاد کا ہے ہی نہیں۔ مبین مرزا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آج کی کہانیاں محض سپاٹ بیانیہ یا محض کرداروں کے سہارے یا محض جدیدیت کی دھند کے ساتھ سفر نہیں کرسکتیں۔ غصہ، ارتعاش، کنفیوژن اور ڈپریشن کے اس عہد کو نئی کہانیوں کی سوغات چاہئے اور مبین مرزا کی بات مانیں تو فکشن کے لیے اب ایک ساتھ کئی مصالحے چاہئیں۔ مغرب میں بھی فکشن تذبذب اور فکری تضاد کا شکار ہے اور یہی بیماری بر صغیر کو بھی لگ چکی ہے۔ اور شاید اسی لیے تخلیقی تجربوں کی سطح پر ایک وسیع دنیا ہمارا انتظار کر رہی ہے جہاں لاسمتی ہے، وحشت ہے۔ سائبر کیفے ہے۔ انٹرنیٹ ہے۔ وائرس ہے۔ ایڈز اور کینسر ہے۔ بڑی مچھلیاں اور چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ دہشت گردی ہے۔ سماج وسیاست کا نیا نظام ہے۔ اور ایک خوفناک گلیشیر ہے جو بہتا ہوا ہماری طرف لپک رہا ہے۔ اور ہم اسی نئی صورتحال سے نئی کہانیاں تخلیق کرنے پر مجبور ہیں۔
٭٭٭
اردو ہندی اخبارات کی دنیا اور تقسیم کا منظرنامہ
ایک زمانہ تھا جب فرنگیوں نے ہندو اور مسلمانوں کو دو حصوں کو تقسیم کر دیا تھا۔ یہ فرنگی سیاست تھی جس کی بنیاد ہی تقسیم کر و اور حکومت کرو کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ اور آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ آزادی اپنے ساتھ لہو لہان تقسیم کے الیہ کو ساتھ لے کر آئی تھی۔ مگر غور کیجئے تو آزادی کی جنگ میں ہندستان سے نکلنے والے تمام اخبارات ایک سر میں انگریزوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ اردو، ہندی کے علاوہ علاقائی زبانوں سے نکلنے والے اخبارات کا لہجہ اور مقصد ایک ہی تھا۔ سب آزادی کی جنگ میں یکساں طور پر شریک تھے۔ اور مخالفت کے گیت گارہے تھے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اردو اور غیر اردو اخبارات کی دنیا نہ صرف بدل چکی ہے — بلکہ غور کیا جائے تو یہ الگ الگ دنیائیں تقسیم سے زیادہ خوفناک ماحول کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست نے اس المیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، اردو اخبارات کا مطالعہ کیجئے تو ایسا لگتا ہے مسلمانوں سے زیادہ مظلوم قوم اس دنیا میں کوئی نہیں۔ ہندی اخبارات کو پڑھیے تو اصل فساد کی جڑ مسلمان نظر آتا ہے — غور کیجئے تو ہندی ہی نہیں، زیادہ تر غیر اردو اخبارات کا مزاج اس مودی راج میں بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ کیا ہم ایک بار پھر لاشعوری طور پر تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں — یہ سچ نہیں ہو تب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو اور غیر اردو اخبارات کی الگ الگ فضا نے تقسیم جیسا ماحول تو پیدا کر ہی دیا ہے — ایک عام سا سوال ہے کہ کیا ہندی اخبارات کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کی خبریں ان اخباروں میں سرخیاں تب ہی بنتی ہیں، جب کوئی مسلمان انہیں شک کے گھیرے میں نظر آتا ہے — جسٹس کاٹجو بھی میڈیا سے بار بار یہ درخواست کر چکے ہیں کہ جب تک سچائی سامنے نہ آئے آپ فرضی تحریکوں اور نام کا سہارانہ لیں لیکن ایسا لگتا ہے غیر اردو اخبارات اور میڈیا ایماندارانہ صحافت کا راستہ بھول کر مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہوں۔
اردو صحافت کا چہرہ
اردو صحافت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ۲۰۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے اردو اخبارات نکلتے رہے۔ زیادہ تر اردو اخبارات نے اپنا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ تقسیم ملک کے بعد، آزادی کے ۶۶۔۶۵ برسوں میں مسلمانوں پر جو گزری، اسے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ اب اس بات کو آزادی کے ۶۵ برس بعد بار بار بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ اردو اخبارات اور قومی یکجہتی کا کیا رشتہ رہا ہے — ہندستان کی تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں اور خدمات سے اچھی طرح واقف ہے — لیکن ہم مسلسل آزادی کے بعد ۶۵ برسوں میں اس تاریخ کو دہراتے ہوئے کہیں نہ کہیں اپنے عہد سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اور شاید اسی لیے مسلمانوں پر مین اسٹریم سے الگ ہونے کا الزام بھی عاید ہوتا رہا۔ زیادہ تر اردو اخبارات اردو اخبارات کا فوکس مسلم مسائل پر ہوتا ہے۔ یہ بری بات نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اردو اخبارات بھی مسلم مسائل کو ترجیح نہ دیں تو کون دے گا — غیر اردو اخبارات کا مسخ شدہ چہرہ تو پہلے ہی سامنے آ چکا ہے — لیکن اس رویے نے نہ صرف اردو اخبارات کے سیکولر ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگائے بلکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ پید کیا، جو احساس کمتری کا شکار ہے۔ آزمائشیں ہیں لیکن مسلمانوں کی قیادت کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک میں ان کی آبادی ۳۰کروڑ سے کم نہیں ہے۔ اور اب تو بھاجپا جیسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ۲۵ کروڑ بتانے لگی ہیں۔ یہ بھاجپا جیسی پارٹیوں کی سازش تھی کہ بہانا کوئی بھی ہو، مسلمانوں کو سیکولر کردار سے الگ رکھا جائے اور ہندستانی مسلمانوں کا مذہبی اور غیر سیکولر چہرہ ہی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے — ہم کل بھی کردار کے غازی تھے اور آج بھی ہیں۔ ہم کل بھی سیکولر تھے اور آج بھی ہیں۔ اور جو مذہب اس بات کا درس دیتا ہو کہ کھانے سے پہلے ۴۰ گھر دیکھ لو کہ کوئی بھوکا تو نہیں۔ اس مذہب کے ماننے والوں کو اپنے سیکولر کردار کے لیے کسی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اردو اخبارات اس پس پردہ سازش کو نہیں سمجھ سکے۔ زیادہ تر اخبارات مسلمانوں کے مسائل کے درپردہ جذباتیت کا شکار ہوتے رہے۔ اور صحافت کو جذباتیت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری جنگ اسی لیے کمزور ہوئی کہ ہم روتے اور گڑگڑاتے رہے۔ اور ایوان سیاست میں خاموشی رہی۔ ہم خود کے اقلیت ہونے پر خوش تھے اور اخباروں میں ہم مسلمانوں کا خوفزدہ چہرہ دکھا کر مطمئن ہو جاتے تھے۔
تقسیم جیسا ماحول
ہم اس بات سے واقف ہیں کہ فسادات اور دہشت گردی کے پس پردہ ہندستانی میڈیا کہیں نہ کہیں عام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہا ہے۔ فرضی انکاؤنٹرس کے واقعات پر غیر اردو اخبارات اور میڈیا کی خاموشی ہمیں پاگل کرتی ہے۔ ابھی حال میں انڈیا ٹوڈے نے ایک سروے میں بتایا کہ ہندستانی مسلمان گھروں میں کم اور جیلوں میں زیادہ ہیں۔ اتر پردیش میں پچھلے دنوں مسلسل فسادات میں مسلمانوں کا خون ہوتا رہا۔ لیکن غیر اردو اخبارات خاموش رہے۔ حکومت بے قصور مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لیے جانے کے باوجود اپنی گھناؤنی سیاست میں مصروف رہی — صرف اردو اخبارات تھے جو ان خبروں کو نمایاں طور پر شائع کر رہے تھے۔ لیکن اگر ان آوازوں کی گونج ایوان سیاست میں نہیں ہوئی تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس کے بارے میں غور بھی کرنا ہے۔
غیر اردو اخبارات اور میڈیا کا رول شروع سے مسلم مخالفت کا رہا ہے۔ بنجارہ کے فرضی انکاؤنٹر پر یہ میڈیا چیختا ہے مگر جب بنجارہ قصور وار ثابت ہوتا ہے تو یہ میڈیا خاموش ہو جاتا ہے۔ گجرات سے وابستہ خبریں جو مسلمانوں کے حق میں جاتی ہوں، ایسی خبروں سے ہندی اخبارات کو کوئی واسطہ نہیں ہے۔ خالد مجاہد کے قتل پر اردو پریس چیختا رہا اور ہندی میڈیا میں یہ خبریں دو دن بھی زینت نہ بن سکیں۔ انڈین مجاہدین کے فرضی کردار میں بھی میڈیا خاموش رہا۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ میڈیا گنہگاروں کو بے قصور اور بے قصور کو گنہگار ثابت کرنے کا کام فراخدلی سے کر رہا ہے۔
ہندستان کے اس نئے منظر نامے میں میڈیا اور غیر اردو پریس نے ایک بار پھر تقسیم جیسی صورتحال پیش کر دی ہے۔ کیا اس کے انجام کی حکومت کو فکر ہے؟
٭٭٭
ہندی کہانیوں کا نیا منظرنامہ
ہندی کہانیوں پر گفتگو کی شروعات ہو تو کچھ لوگ ہندی کہانیوں کا موازنہ اردو کہانیوں سے کرنے لگتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو تسلیم کرتے ہیں کہ اردو کہانیاں، ہندی کہانیوں سے بہت پیچھے ہیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ کبھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اردو کہانیاں ہندی کہانیوں کے مقابلے کمزور ہیں۔ میں ایک مدت سے نہ صرف دونوں زبانوں میں لکھتا رہا ہوں بلکہ دونوں زبانوں کی کہانیاں میرے مطالعے کا حصہ رہی ہیں — اور یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دونوں زبانوں کے اسلوب، آہنگ اور سمت جدا جدا ہیں۔ اس لیے دونوں زبانوں کے تقابلی جائزے میں ایک زبان کو ادب کی سطح پر آگے بڑھا دینا کوئی جائز فعل نہیں ہے۔ اردو کہانیوں نے آغاز سے ہی جدیدیت کی شمع روشن کی۔ یہ وہ عہد تھا جب گالزوردی، چیخوف، موپاساں، اوہنری اور ایڈگرایلن پو کا جادو اردو والوں کے سرکر چڑھ بول رہا تھا۔ اس لیے شروعاتی دور میں ہی سجاد حیدر یلدرم اور سلطان حیدر جوش نے اپنا افسانوی سفر شروع کیا تو ان کہانیوں میں پوکا رنگ اور اثر غالب تھا۔ میں نے جدیدیت کا ذکر اس لیے کیا کہ ان کہانیوں کو توجہ سے پڑھیے تو یہاں آپ کو روایتی رنگ و آہنگ نظر نہیں آئے گا۔ مثال کے لیے سجاد حیدر یلدرم کی ایک کہانی دوست کا خط میں ایک دوست اپنے دوسرے ساتھی کی اچھی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اس فکر میں غلطاں ہے کہ اسے ۱۰۰ میں کتنے نمبر دیئے جانے چاہئیں۔ آپ غور کریں تو کم و بیش یہی رنگ ایڈگرایلن پو کا رنگ ہے۔ سجاد حیدر یلدرم نے کہانی کی بنت میں فنکارانہ طور پر جدیدیت کے رنگ کو بھی شامل کر لیا۔ اس لیے شروعاتی دور کے فنکاروں میں مجھے سجاد حیدر یلدرم اس لیے بھی پسند ہیں کہ یلدرم کی آنکھیں دور تک دیکھتی تھیں۔ دور تک نشانہ سادھتی تھیں — جیسے یلدرم کی ایک کہانی ہے۔ چڑیا چڑے کی کہانی — سن اشاعت ۰۵-۱۹۰۳ء کے آس پاس۔ اسے بھی اردو کے شروعاتی افسانوں میں سے ایک تصور کرنا چاہئے۔ کیسی پیاری کہانی ہے۔ چڑیے چڑیوں کا سنسار ہے، گھونسلہ ہے۔ انہی کی باتیں ہیں اور ہماری زندگی — اور حیران ہوئیے کہ یہ اردو کی شروعاتی کہانیوں میں سے ایک ہے — اور ایک صدی گزار کر ہمارے انتظار حسین جب ’ہم نوالہ‘ لکھتے ہیں تو بالکل چڑیے چڑیوں کے انداز میں اڑ کر یلدرم کے گھونسلے تک جا پہنچتے ہیں۔ وہی انسان کی درد مندی — یہ کتھا، یلدرم کے خزانے میں ہے اور انتظار کے قصے میں بھی — دونوں طرف انسانیت کو چھو لینے کی خواہش ایک جیسی اور فرق صدیوں کا —
اس لیے یہ سمجھا جانا صحیح ہے کہ اردو افسانہ آغاز میں ہی مغرب کی پیروی کرتا ہوا اپنے نئے آسمانوں کی تلاش میں نکل گیا تھا۔
پریم چندر کی بات کریں تو پریم چند اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے امام ٹھہرے۔ لیکن ان کی ارد و اور ہندی کہانیوں میں لہجہ زبان اور ڈکشن کے فرق کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی بارہ تیرہ برسوں میں نہ صرف یہ دنیا بدلی ہے بلکہ موضوعات کے لحاظ سے اردو فکشن کی دنیا بھی متاثر ہوئی ہے۔ شروعات میں ہندی ادب پر اردو کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے ہندی میں کملیشور، یشپال، راجندر یادو، منوہر شیام جوشی، کرشنا سوبتی، مارکنڈے جیسے تخلیق کار زیادہ کامیاب رہے جو اسلوبیات اور فکری سطح پر بھی اردو کے قریب تھے۔ ۱۹۸۰ کے بعد یہ دنیا تبدیل ہوئی۔ یہاں ایک بات اور بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو ادب کو جہاں ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسی تحریکوں نے آگے بڑھایا، وہیں ہندی ادب میں اب تک کی تاریخ میں صرف ایک تحریک حاوی رہی ہے۔ جن وادی تحریک۔ یعنی ۱۰۰ برسوں کے ہندی ادب کا جائزہ لیا جائے تو ہندی ادب جن وادی ادب سے آگے نہیں بڑھا۔ اس لیے سنجیو ہوں یا شیور مورتی، زیادہ تر فنکار صحافتی ادب کے شکار رہے یا ادب کو ترقی پسندی کے فارمولے یا پروپینگنڈہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ اور کم وبیش آج کا ہندی ادب بھی اسی جن واد کے راستہ پر چل رہا ہے۔ ہندی فکشن میں نمایاں تبدیلیوں کو جگہ تب ملی جب راجندر یادو نے ہنس پتریکا کی دوبارہ اشاعت شروع کی۔ ہنس کے بانی پریم چند تھے اور پریم چند نے اس زمانے میں، ہنس میں ہندی کے تمام بڑے فنکاروں کو یکجا کر دیا تھا۔ راجندر یادو نے ہنس کی نئی اشاعت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا کہ نئے فنکاروں کی ایک بڑی دنیا آباد کی جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندی فکشن بہت برے دور سے گزر رہا تھا۔ ساریکا اور دھرم یگ جیسے مشہور ہندی رسائل بند ہو چکے تھے۔ ہندی ادیب خود کو حاشیے پر محسوس کر رہے تھے۔ راجندر یادو نے ہنس کی اشاعت کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو ایک بڑا پلیٹ فارم دے دیا۔
ادئے پرکاش، سنجیو، پنکج بشٹ، للت کارتیکے، اکھیلیش جیسے بڑے نام اسی رسالہ کے ذریعہ چمکے۔ ادئے پرکاش کا جھکاؤ فنٹاسی اور طلسمی حقیقت نگاری کی طرف زیادہ تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہندی کہانیوں نے کبھی بھی علامتی، تجریدی کہانیوں کی طرف رجوع نہیں کیا۔ اردو میں جدیدیت کے ہنگامے سے ہندی میں ’ آکہانی‘ کا رواج تو شروع ہوا لیکن ان کہانیوں کو خاطر خواہ مقبولیت کبھی نہیں ملی۔ اور یہ تحریک دم توڑ گئی۔ ۸۰ کے بعد ادئے پرکاش جیسے دو چند لوگوں کی کہانیوں پر جدیدیت کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ ۱۹۶۰ سے ۱۹۸۰ کے درمیان اردو کہانیوں کا افق روشن تھا۔ اکرام باگ، قمر احسن جیسے ادیبوں سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس ۲۵۔۲۰برس کے عرصے میں اظہار و تخلیق کی اعلی سطحوں پر کئی ایسی کہانیاں سامنے آئیں جو بلا شک و شبہ اردو فکشن کے وقار میں اضافہ کرتی ہیں۔ بلراج مینرا، انتظار حسین، منشا یاد، فردوس حیدر، اقبال مجید (پیشاب گھر آگے ہے، جنگل کٹ رہے ہیں ) سریندر پرکاش نے نئی دنیاؤں کے تعاقب سے، زندگی کی لایعنیت کے فلسفے کو سامنے رکھا۔ قمر احسن نے اسپ کشت مات جیسی ناقابل فراموش کہانی لکھی — یہ وہی دور تھا جب سلام بن رزاق، علی امام نقوی، حسین الحق، شوکت حیات، عبد الصمد جیسے بڑے نام نئی کہانی اور نئے موضوعات کا احاطہ کر رہے تھے۔ اگر غور کیجئے تو ۸۰ کے بعد ہندی تخلیق کاروں میں ادئے پرکاش جیسے لوگوں کے یہاں جو کہانیوں کی نئی فضا تھی، وہ اردو کہانیوں سے مستعار تھی۔ اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی ہندی کہانی اردو کہانی کے مقابلہ کم و بیش ۲۰ سال پیچھے چل رہی تھی — ایک اہم بات اور بھی ہے کہ ہندی میں تجربے کم ہوئے ہیں۔ ادئے پرکاش سے نئے تخلیق کاروں تک کا جائزہ لیجئے تو تجربے کے میدان میں اردو کہانیاں ان سے آگے رہی ہیں۔ یہاں دونوں زبانوں کی کہانیوں کا تقابلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ دراصل یہ باتیں اس لیے زیر تحریر آئیں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہندی کہانیاں اردو کہانیوں کے مقابلہ بہت آگے ہیں اور اردو کہانی جس کے روشن مستقبل کی داستان منٹو، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر نے تحریر کی تھی وہ زبان کہانیوں کے حوالہ سے کہیں پیچھے رہ گئی ہے — اردو میں لکھنے والے کم ہیں لیکن گلو بلائزیشن اور بدلتی دنیا کے اثرات کو اردو کہانیوں میں آج بھی اسلوب، جدت اور فکری سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈکشن اور فکر کی سطح پر ہندی کہانی کی ایک وسیع ترقی پسند دنیا ہے۔ سیاست، استحصال اور حقیقت نگاری کی بہتر مثالیں آپ کو ہندی کہانیوں میں نظر آئیں گی۔
کرشنا سوبتی،منوہر شیام جوشی اور نرمل ورما جیسے تخلیق کاروں نے ہندی افسانے کے افق کو روشن کیا۔ ادئے پرکاش نے انہی تخلیق کاروں کے درمیان سے اپنا راستہ بنایا۔ نرمل ورما کی کہانیوں میں فنتاسی اور طلسمی حقیقت نگاری کی چمک محسوس کی جا سکتی ہے۔ ۱۹۸۰ تک کئی ایسے نام سامنے آئے جنہوں نے ہندی کہانیوں کو اعتبار بخشا — سنجیو، شیو مورتی، پرینود، الکا سراوگی — یہ فہرست کافی لمبی ہے۔ ۱۹۸۰ کے آتے آتے تقسیم اور غلامی کی کہانیاں سو گئی تھیں۔ ایک ہندستان سامنے تھا۔ آزادی کو ۳۳ سال گزر چکے تھے۔ اس درمیان فرقہ واریت کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا تھا۔ ملک خانہ جنگی کا شکار تھا۔ رتھ یاترائیں نفرت کو فروغ دے رہی تھیں۔ رام جنم بھومی اور بابری مسجد کو لے کر ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ادھر کشمیر اور پاکستان کا معاملہ بھی گرم تھا — ۸۰ کے بعد کئی لہو لہان کہانیاں بھی ہندستان کے مقدر میں لکھ دی گئیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل، ہندو سکھ فسادات۔ اڈوانی کی رتھ یاتراؤں سے بدتر ہوتا ہوا ماحول اور ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کا المیہ، واقعات و حادثات کی ان نئی دستکوں نے اردو کہانیوں کو بھی جدیدیت سے بغاوت کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا — اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۸۰ کے بعد اردو میں بیانیہ کی واپسی ہوئی — (جس کا کچھ لوگ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ بیانیہ نہ ہوا پرندہ ہوا۔ کہاں گیا تھا بھائی، واپس کیسے آیا) — اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کا طلسم اس لیے ٹوٹا کہ مسلسل نئے نئے حادثوں نے اردو کہانیوں کو زخمی کر دیا تھا۔ افسانہ نویسوں کے لیے اب اشاروں کنایوں اور علامتوں میں باتیں کرنا گوارہ نہ تھا۔ اس لیے بھی انہیں بیانیہ کا سہارا لینا پڑا۔ ہندی افسانہ بھی ان سردو گرم حالات سے نئے موضوعات تک آنے کا راستہ تلاش کر رہا تھا۔ اسی زمانے میں سنجیو نے اپرادھ جیسی ناقابل فراموش کہانی لکھی۔ ہندی میں اس کہانی کی دھوم مچ گئی۔
اپرادھ میں سماج اور سیاست کا خوفناک چہرہ پہلی بار سامنے آیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کہانی پر گفتگو اور مکالموں کے دروازے کھل گئے۔ اور اس کہانی کا ناقابل فراموش اختتام ایک عرصہ تک لوگوں کی زبان پر رہا۔
’’سنگھ مترا کو مارا گیا۔ اس کے گپتانگ میں رول گھسا کر۔ متھ کر مارا گیا۔‘‘
ہندی کہانی میں اب اسٹیبلشمنٹ یا انتظامیہ کو لے کر ایک بڑی جنگ کی شروعات ہو گئی تھی۔ شیو مورتی نے قصائی واڑہ لکھا۔ اسی زمانے میں ساریکا میں ادئے پرکاش کی کہانی ٹیپچو شائع ہوئی۔ ٹیپچو، ترچھ اور باون تولے کا کمر بند جیسی کہانیوں نے امکانات کے نئے دروازے کھولے۔ نقاد متوجہ ہوئے اور نئی کہانی کے حوالے سے گفتگو میں تیزی آ گئی۔ ارون پرکاش نے پنجاب کے سلگتے موضوع کو لے کر بھیا ایکسپریس لکھی اور ہندی کہانی کا ایک اہم نام بن گئے۔ شیو مورتی کی تریاچر تر اور سرنجے کی اور کامریڈ کے کوٹ نے قارئین کو متوجہ کیا۔ اکھیلیش نے نوجوان نسل کی بے روزگاری کو لے کر چٹھی لکھی اور اس کہانی کے ساتھ اکھیلیش بھی ہندی کے اہم کہانی کاروں کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ سوئم پرکاش نے پارٹیشن لکھ کر تقسیم کے دنوں کی یاد تازہ کرا دی۔
’’بات بس اتنی بچی ہے کہ اس دن دوپہر میں جب آزاد چوک سے گزر رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں۔ قربان بھائی کی دکان کے سامنے لطیف بھائی کھڑے ہیں۔ قربان بھائی تالہ لگا رہے ہیں انہوں نے ٹوپی پہن رکھی ہے۔‘‘
اشتراکی نظریے کے حامی قربان بھائی کا ٹوپی پہننا اس خطرے کی علامت ہے جس سے اس وقت یہ ملک دوچار تھا۔ فرقہ وارانہ دنگوں کی آگ روشن تھی۔ اور ترقی پسند نوجوانوں کے لیے قربان بھائی کی دکان ایک ایسا ٹھکانہ تھی جہاں نکسل مومنٹ سے لے کر کمیونسٹ مینی فیسٹو تک کی باتیں ہوتی تھیں لیکن نا مساعد حالات میں قربان بھائی بھی بدل گئے — ان کہانیوں کے علاوہ کچھ اور کہانیوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ہنسو ہیما ہنسو، ڈیلٹا (رمیش اپادھیائے)، یہ دیہ کس کی ہے (گری راج کشور) کرونچ ودھ (رتا شکل) اہنسا (شیلیش مٹیانی) سوکھا (نرمل ورما) نورنگی بیمار ہے (شیکھر جوشی) —
سن ۲۰۱۳ تک ہندی کہانی میں نئی نسل کا دھماکہ ہوا اور ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد سامنے آئی، جس کی گنتی نا ممکن تھی۔ ہندی کے بڑے بڑے پبلشرز نے اعلان کے ساتھ نئی نسل کے فنکاروں کو خوش آمدید کہا۔ گیان پیٹھ اور ہندی رسالہ پری کتھا نے ۵۔۴ برس کے اندر ہندی کی نئی نسل کو لے کر دس سے زیادہ خصوصی نمبر شائع کیے۔ جیوتی کماری کی کتاب دستخط ہندی کی بیسٹ سیلر بک میں شامل ہوئی۔ اور نئی نسل کو بڑا پلیٹ فارم دینے کے لیے پبلشر اور مدیر حضرات دونوں مل کر کام کرنے لگے — آج کی تاریخ میں ہندی زبان میں بڑی بھاری تعداد میں نئی نسل سامنے آ چکی ہے اور اردو کا المیہ یہ ہے کہ دور دور تک نئی نسل کے نام پر خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ اردو میں فکر کا مقام یہ ہے کہ سلام بن رزاق سے صدیق عالم تک کی نسل کھو گئی تو اردو ادب کے مستقبل کا کیا ہو گا — ؟ اور ہندی زبان میں یہ عالم کہ آپ کس کو پڑھیں اور کس کو خارج کریں۔ وانی پرکاش، راجکمل، گیان پیٹھ اور پنگوئن تک نے ۲۰ سے ۳۰ سال کی نسل کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ اور اس عمر کے فنکار اردو میں تلاش کرنے پر بھی نظر نہیں آتے۔ المیہ یہ ہے کہ نئی نسل کی سطح پر ایک طرف جہاں اردو میں سناٹا ہے، وہیں ہندی کا مستقبل روشن — ایک زبان روزگار سے الگ ہونے کے بعد زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری زبان نئی نسل کی آمد سے پر امید کہ ہندی ادب کا مستقبل تابناک ہے۔
ہندی فکشن اور نئی نسل
’’ان میں جوش ہے، امنگ ہے/
ان کا مطالعہ وسیع ہے/
اور وہ فتح کے ارادے سے نکلے ہیں … /
ہندی ادب آج نوجوانوں کے ہاتھ ہے۔ فکشن کی دنیا ہو یا کویتاؤں کی دنیا۔ اور یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ ایک دنیا انہیں تسلیم کر چکی ہے۔ وہ لکھنے کی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کا ادب پڑھ رکھا ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ وہ نقاد بھی ہیں۔ کہانیوں میں ان کا کوئی آئیڈیل نہیں۔ وہ اپنے آئیڈیل خود ہیں۔ لکھنے سے قبل وہ ہوم ورک کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور ان میں ایسے بھی ہیں جو نوجوان ہوتے ہوئے خود کو نوجوان کہلانا پسند نہیں کرتے۔ ان کی تخلیقات میں شمشیر کی دھار اور کاٹ ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کنال سے لے کر چندن سنگھ اور پنکھڑی سنہا، سونالی تک نئی دنیاؤں کا تعاقب جاری ہے۔ یہاں فنٹاسی بھی ہے۔ طلسمی حقیقت نگاری پر گرفت بھی۔ یہ اردو سے بھی محبت کرتے ہیں۔ مثال کے لیے سونالی سنگھ قرۃ العین حیدر کی بہت بڑی فین ہیں۔ اور ان کی بیشتر کہانیوں میں قرۃ العین حیدر کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔ ہندی ادب میں اس سے قبل نئی نسل کی یہ ’سونامی‘ نہیں آئی تھی۔ ان میں زیادہ تر ایسے نوجوان ہیں جن کے پاس زبان بھی ہے اور کہنے کے لیے مضبوط لہجہ بھی۔ اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جو بلا مبالغہ نئی کہانیوں کے موجد کہے جا سکتے ہیں۔ ان کی اپنی دنیائیں آباد ہیں اور ان دنیاؤں کی اپنی فنٹاسی ہے اور کبھی کبھی حقیقت اور فنٹاسی کے میل سے جو کولاژ بنتا ہے، وہ اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ آپ خوف کے شکار ہو جاتے ہیں۔
’باہر جو کچھ ہو رہا ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ سب کچھ نیند میں ہو رہا ہے۔‘
چھاؤنی میں بے گھر (الپنا مصر)
یہ الپنا مصر کی کہانی ہے۔ یہ ان فوجیوں اور فوج کی سیاست کی کہانی ہے جہاں چھاؤنی میں رہتے ہوئے بھی کبھی کبھی فوجی بے گھر ہو جاتے ہیں — پھر ایک لمبی گہری نیند ہوتی ہے۔ اور سب کچھ اندھیرے میں ڈوبا ہوا۔ سونالی سنگھ اپنی کہانی کٹھ پتلی میں عشق اور سماج کے تعلق سے ایک ایسا موضوع اٹھاتی ہیں جہاں انسان کی فطری، شاعری کھو گئی ہے اور کٹھ پتلی کی دنیا جاگ اٹھی ہے۔ اکانشا پارے کی کہانی نجات میں دو محبت کرنے والوں کو شہر خموشاں کی تنہائی سکون دیتی ہے۔ اور اس سے بہتر جگہ انہیں میسر نہیں آتی۔ ۲۰۱۳ تک آتے آتے اطلاعاتی نظام نے اس دنیا کو بدل ڈالا ہے۔ ہرمن ہیسے کے الفاظ میں کہا جائے تو پرانی دنیا کا زوال آ چکا ہے اور نئی دنیا سامنے آ رہی ہے — گلوبل گاؤں میں زندگی اور محبت کی تصویریں بدل چکی ہیں۔ شرمیلا بہرا جالان کی کہانی ’کا رن سوپ‘ رشید جہاں کی کہانی دلی کی سیر کی یاد تازہ کراتی ہے۔ رشتے بدل چکے ہیں۔ یہاں سب اپنی اپنی شناخت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ۲۵ برس کی شلپی کی کہانیاں زندگی اور فنتاسی کے میل سے حقیقت نگاری کی طرف جست لگاتی ہیں۔ ان کی ایک مشہور کہانی ہے۔ جہاز دیکھا کیا؟ جہاز کہانی کی ہیروئن کے لیے فنتاسی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے پاپا چیختے ہیں۔
’جو جہاز نہیں دیکھتے، کیا وہ نہیں جیتے۔ سمجھاؤ اسے کہ لڑکیاں جہاز نہیں، زمین دیکھتی ہوئی اچھی لگتی ہیں۔‘
اور ایک دن وہ لڑکی بھی گم ہو جاتی ہے۔ جہاز بھی۔ بس ایک ڈائری رہ جاتی ہے۔
’یہ ڈائری بھی عجیب ہے۔ اس میں جو کچھ تحریر ہے، اس سے کہیں زیادہ اہم وہ ہے، جو نہیں لکھا گیا۔‘
اور شلپی کی یہ کہانی اس نئے موڑ پر ختم ہوتی ہے۔
’وہ دیکھیے۔ میرا محبوب … وہ جہاز … آسمان میں لکیریں کھینچتا، اڑتا ہوا … یہ آج بھی مجھ سے پہلے نکل گیا — اب نئی شروعات کا وقت ہے۔‘
دراصل یہ نوجوان نسل اپنے آپ کو نئے انداز اور نئے اسلوب میں ڈسکور کر رہی ہے۔ نئی صدی کے ۱۳ برسوں میں یہ ہندی کہانی کا پہلا چہرہ ہے جو نئی تبدیلی کی داستان سنارہا ہے۔ ادئے پرکاش، الکا سراوگی سے نیلا کشی، کنال، سونالی سنگھ، سونی سنگھ تک آتے آتے کہانی اور محاوروں کی دنیا تک تبدیل ہو چکی ہے۔ سونی سنگھ اپنا کمرہ میں ورجیناولف سے الگ اپنی تنہائیوں سے مکالمہ کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ ساری دنیا اس نسل کے لیے ایک کہانی ہے، یہاں جو کچھ وقوع ہو رہا ہے، وہ اسے سمجھنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ سماج اور سیاست کے ہر شعبے پر ان کی نظر ہے۔ ان کی دنیا اور خیالوں کی زمین وسیع ہے۔ ان کا جھکاؤ نئے الفاظ اور نئی کہانیوں کی طرف ہے۔ یہ نئی نسل پوری طرح سے پریم چند، کملیشور اور راجندر یادو کی کہانیوں کی دنیا کو پلٹ کر اپنے نئے تیور اور انداز کو ایجاد کر رہی ہے۔ اور ان کا احتجاج یہ ہے کہ آپ انہیں نئی نسل کیوں کہتے ہیں، آپ انہیں ادیب کہیے۔ وہ اس بات پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تیرہ برسوں میں ہندی کہانی کی مکمل دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ اور یہ دنیا اس نئی نسل کے پاس ہے۔ یہ نسل نہ تعریف سے خوش ہوتی ہے نہ تنقید سے خائف۔ یہ نسل ہر بار نیا اور بہتر لکھنے کے راستہ پر چل پڑی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اردو میں ان تیرہ برسوں میں ایسی کوئی نسل پیدا نہ ہو سکی۔ اردو میں اچھا لکھنے والے آج بھی موجود ہیں لیکن ان میں زیادہ تر ایسے فنکار ہیں جو ایک بڑی عمر ادب میں گزار چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے …
٭٭٭
دوزخی
’آپ سیدھے جہنم میں جائیں گے‘
’تمہاری جنت میں تو جانے سے رہا۔‘
’لیکن ڈر ہے۔ آپ جہنم سے بھی نکال دیئے جائیں گے‘
’پھر تمہاری دنیا میں واپس آ جاؤں گا۔‘
۳۰؍اکتوبر صبح کے ۵ بجے۔ پرانی عادت ہے۔ فریش ہونے کے بعد کچھ دیر تک ٹی وی پر خبریں سنتا ہوں۔ پھر اخبار کے آنے کا انتظار کرتا ہوں۔ اس وقت ٹی وی پر ایک چہرہ روشن ہے۔ مگر میری آنکھیں دھند میں اتر چکی ہیں۔ یادوں کی ہزار پرچھائیاں ہیں جو اس وقت میری آنکھوں کے آگے رقص کر رہی ہیں …
۳۰؍ اکتوبر … شام ۳ بجے۔ لودھی روڈ کا شمسان گھاٹ۔ یہاں میڈیا اور راجندر یادو سے محبت کرنے والوں کی ایک بھیڑ جمع ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔ بھیڑ میں منوبھنڈاری بھی ہیں۔ یادو جی کی شریک حیات۔ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ تو رہا مگر منوجی نے یادو جی کی زندہ دلی، آزاد زندگی سے گھبرا کر اپنی الگ دنیا آباد کر لی۔ یہ دنیا اخباروں ؍ رسائل میں نظر آتی تھی۔ منوجی کی آپ بیتی میں اکثر یادو جی کی خبر لی جاتی تھی۔ مگر مجھے یاد ہے … شاید ہی یادو جی نے کبھی منوجی کے خلاف کوئی لفظ بولا ہو۔ یہ رشتوں کے احترام کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ تھا جسے وہ کبھی توڑ نہیں پائے۔ میں نے پلٹ کر منوجی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں گزری ہوئی یادوں کا سیلاب آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔
شمسان گھاٹ میں ایک چبوترہ ہے۔ چبوترے پر سفید کپڑوں میں ایک سرد جسم کو آخری سفر پر بھیجنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پجاری شلوک پڑھ رہا ہے۔رچنا (یادو جی کی بیٹی) کے ہاتھوں میں ایک گھڑا ہے اور رچنا کے ساتھ، یادو جی کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا وہ نیپالی لڑکا کشن بھی ہے، اس وقت وہ بیٹے کا فرض انجام دے رہا ہے۔ عام طور پر آخری رسوم میں بیٹیوں کو شریک نہیں کیا جاتا — میں ارچنا کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ گھڑے کو لے کر چبوترے کے چاروں طرف گھوم رہی ہے۔ پجاری شلوک کا پاٹھ کر رہے ہیں۔ ارچنا رکتی ہے۔ اور گھڑے کو چبوترے پر توڑ دیتی ہے۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے آچاریہ سارتھی کہتے ہیں۔ گھڑے کو توڑے جانے کا مطلب ہے، اب یہ دنیا وی رشتہ اس لمحہ سے ختم ہو گیا۔
میں دیر تک شمسان میں رہا۔ چتا سے آگ کے شعلوں کے تیز ہونے تک … وہاں موجود ہر کوئی رو رہا تھا۔ان میں وہ لوگ بھی تھے جو زندگی بھر یادو جی کے معترض رہے مگر یہ یادو جی کی شخصیت کا ہی ایک پہلو تھا کہ میں نے انہیں کبھی کسی کے خلاف بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔
وہ سب کے دوست تھے اور یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ سب سے زیادہ کس کے قریب ہیں۔ کوئی بھی ان سے آسانی سے مل سکتا تھا۔ وہ کسی کو بھی اجنبی نہیں سمجھتے تھے۔ ہنس کے دفتر میں آنے والا اجنبی بھی ان کا دوست ہی ہوتا تھا۔ وہ زور سے ٹھہاکا لگا کر ہنستے تھے اور ایسا بہت کم ہوتا جب ان کے چہرے پر تشویش یا الجھن کے بادل ہوتے تھے۔ کم از کم میں نے دلی آنے کے بعد (۸۵ سے ۲۰۱۳) تک کسی بھی ملاقات میں ان کے چہرے پر ایک شکن تک محسوس نہیں کی۔ وہ مجھے پیار سے کبھی شیطان کبھی جن کہتے تھے۔ میں ایک ہفتہ بھی نہیں ملتا تو ان کا فون آ جاتا۔ فون اٹھاتے ہی پہلا جملہ ہوتا۔ کہاں ہو شیطان۔ پھر دوسرا جملہ ہوتا۔ آ جاؤ — دلی کی اب تک کی زندگی میں اس زندہ دل چہرے کو دیکھتے ہوئے بس ایک ہی آواز اندر سے اٹھتی تھی — عشق نے شرح عشق کو بلندیوں سے ہمکنار کیا — یہ ان کی گفتگو کا کمال تھا کہ چھوٹی عمر سے بڑی عمر کی عورتوں تک سب ان سے عشق میں مبتلا تھیں اور ہر عشق ایک نئی کہانی کے دروازے کھول دیتا۔ پھر اخبار کے اخبار رنگ جاتے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سرخیاں۔ اور یہ کہنا مشکل تھا کہ ان خبروں کا مزہ کون لے رہا ہے۔ اخبار والے یا خود یادوجی۔ سونی سنگھ سے لے کر جیوتی کماری تک جو بھی ان سے ملا، کہانیوں کے آسمان روشن ہو گئے۔ ہندی کی خواتین افسانہ نگاروں میں وہ کشن کنہیا کی طرح مقبول تھے۔ اور یادوجی کی خوبی یہ تھی کہ وہ کچھ بھی چھپا کر رکھنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کہانیاں تھیں جوان کے ذکر کے ساتھ بنتی چلی جاتی تھیں۔ وہ ان کہانیوں پر دل کھول کر ہنسا کرتے اور مزے لیا کرتے۔ یادو جی اپنا جنم دن دھوم دھام سے منایا کرتے تھے۔ اس دن سب سے دلچسپ ہوتا تھا انہیں قریب سے دیکھنا۔ وہ گوپیوں کے درمیان ہوتے تھے۔ ان کے چاروں طرف رادھا اور گوپیاں ہوتی تھیں۔ انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ہوتی تھی کہ کون ان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ وہ جینا جانتے تھے۔ اور زندگی کو اپنی شرطوں پر جیتے تھے۔ شاید اسی لیے منوجی سے شادی کے بعد وہ اس بندھن کو زیادہ دنوں تک نبھا نہیں سکے۔ یہ محبت کی شادی تھی۔ آگرہ کا دل پھینک شاہزادہ اور ادب میں بلندیوں کے نئے آسمان کو چھونے والی منو بھنڈاری۔ اور یہ وہ دور تھا جب کملیشور، راجندر یادو اور موہن راکیش کی تکڑی، مشہور تھی۔ ان میں موہن راکیش پہلے چلے گئے۔ پھر کملیشور بھی چلے گئے۔ لیکن راجندر یادو اپنی بیباک طبیعت اور زندہ دل قہقہوں کے ساتھ ہندی ادب کی نہ صرف رہنمائی کرتے رہے بلکہ ایک ساتھ پانچ نسلوں کی رہبری کا سفر بھی ان کے نام ہی منسوب رہا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ہندی کہانی دھند میں کھو چکی تھی۔ ۸۰ کے آس پاس بڑے نام خاموش ہو گئے تھے۔ یہ راجندر یادو ہی تھے جنہوں نے پریم چند کے ہنس کو زندہ کیا۔ اور ہنس کی اشاعت نے نہ صرف اس خاموشی اور خلاء کو پر کیا بلکہ نئے افسانہ نگاروں کی ایک ایسی فوج تیار کی کہ اس کے بعد ہندی فکشن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور نئی نسل کے بے شمار ناموں تک یہ راجندر یادو اور ہنس کا ہی کرشمہ تھا کہ اس نے سوئے ہوئے ہندی ادب میں جان پھونکنے کا کام کیا تھا۔ ہنس کے ساتھ اکچھرپرکاشن کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ کچھ کتابیں شائع کی گئیں مگر جلد ہی یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی ہنس کو ایک ٹرسٹ کی شکل دے دی تھی۔ وہ ہنس کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ادئے پرکاش، شیومورتی، سنجیو، اکھیلیش، ہندی کہانی کے افق پر جگمگاتے ان ستاروں کی تلاش میں راجند ر یادو کا ہی حصہ تھا۔ ادب کا ایسا کمٹمنٹ ایسا جنون شاید آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ انہوں نے زندگی کا سکھ چین کھویا۔ رشتوں کی پراوہ نہیں کی۔ گھر ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی بے گھر رہے۔ منوجی شریک حیات تھیں اور ساتھ ہی ہندی فکشن کا ایک معتبر نام بھی۔ یہ رشتہ کسی طرح ۱۹۹۵ تک نبھایا گیا۔ پھر منوجی اپنی بیٹی کے ساتھ الگ ہو گئیں۔ یادو جی زندگی میں کبھی بھی ان رشتوں کے لیے جذباتی نہیں ہوئے مگر مجھے یاد ہے … دوسال قبل ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر پائے۔ مگر یہی بیٹی، ارچنا یادو آخری سفر میں ایک بیٹے کا فریضہ انجام دے رہی تھی اور بقول ارچنا یادو، میرے ڈیڈی میرے آئیڈیل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک زندگی ان رشتوں کو سمجھنے کے لیے کم ہوتی ہے — آخری کچھ برسوں میں یادو جی منوجی کے قریب آ گئے تھے۔ رشتوں کا احساس زندہ ہو گیا تھا۔ مگر یادو جی کے ساتھ چلنے والی رومانی کہانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ بیٹی کی شادی کے موقع پر ہندوؤں میں کنیا دان کی رسم ہوتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ سماج کے زور دیئے جانے کے باوجود راجندر یادو اس رسم میں اس لیے شریک نہ ہوئے کہ ان کا کہنا تھا، کہ کنیا کا دان نہیں کیا جاتا۔ بیٹی تو آنکھوں کا تارہ ہوتی ہے۔ اور اسی کا دوسرا پہلو دیکھئے کہ یہی کنیا (رچنا یادو) آخری سفر میں بیٹے کا رول نبھاتی ہوئی اشکبار آنکھوں سے اپنے باپ کو الوداع کہہ رہی تھی۔
۸۴ سال کی کی زندگی ملی تھی راجندر یادو کو۔ اس لمبی زندگی میں جس طرح انہوں نے ادب کی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دلی آنے کے بعد میرا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے اردو اور مسلمانوں کے لیے ان کے اندر کے درد اور جذبے کو قریب سے محسوس کیا ہے۔ راجندر یادو نے باضابطہ اردو زبان کی تعلیم لی تھی اور انتقال سے قبل تک انہیں اردو پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی تھی۔ ان کے رسالہ ہنس میں اردو کو خصوصی طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔ وہ ساری زندگی اردو سے قریب رہے۔ جب نامور جی نے اردو کی مخالفت میں ’باسی بھات میں خدا کا ساجھامضمون ہنس میں لکھا تو اردو کی حمایت میں اس وقت کے تمام بڑے لکھاڑی ایک منچ پر آ گئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اردو اور پاکستانی تحریروں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پھر کہتے تھے، فلاں تحریر میرے رسالہ میں دے دو۔ ہنس میں میری تحریروں کو بھی وہ مسلسل شائع کرتے رہے۔ بلکہ جب راجندر یادو نے ایک خصوصی شمارہ اصغر وجاہت کے ساتھ مسلمانوں پر شائع کیا تو اس میں ایک بڑی ذمہ داری مجھے بھی سونپی گئی۔ بعد میں وہ حصہ کتابی شکل میں راجکمل پرکاشن سے شائع ہوا۔ وہ فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے۔ مجھے یاد ہے، جب نفرتیں ملک کی تقدیر بن گئی تھیں۔ انتخاب ہونے والا تھا، تو پریشانیوں کے باوجود وہ مسلسل میٹنگس کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہندی کے مشہور نقاد نامور جی اور ہندی کے تمام بڑے ادیب بھی شامل ہوتے۔ میں بھی ان محفلوں میں شریک رہا۔ مجھے اس وقت کا انکا چہرہ اب تک یاد ہے۔ وہ کہا کرتے کہ فرقہ واریت کو روکنا ہے۔ یہ ہندستان میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہے۔ جس زمانے میں اسامہ بن لادین نے دہشت گردی کی نئی مثال قائم کی، انہوں نے ہنس میں ایک خطرناک اداریہ لکھا۔ اگر اسامہ دہشت گرد ہے تو پہلا دہشت گرد ہنومان جی تھے۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ نے اپنے کام کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔ ہنومان جی نے بھی لنکا میں آگ اسی ارادے سے لگائی۔ اسامہ امریکہ گیا تو ہنومان جی نے لنکا کا انتخاب کیا۔ دہشت گردی کی شروعات ہنومان جی سے ہوئی۔ اس اداریہ کا شائع ہونا تھا کہ ہندی ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے ان پر دنیا بھر کے مقدمے کر دیئے۔ ہنس کے دفتر میں ان پر حملہ بھی ہوا۔ مجھے یاد ہے۔ شاید دن کے بارہ بج رہے تھے۔ ان کا فون آیا۔ ذوقی، کہاں ہو۔ جہاں بھی ہو جلدی آ جاؤ۔ میں ہنس کے دفتر گیا تو چاروں طرف پولس ہی پولس تھی۔ لیکن اس پولس چھاؤنی میں بھی ایک آزاد بادشاہ اپنے قہقہے بکھیر رہا تھا۔
ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہوئی ہزاروں کہانیاں روشن ہیں۔ میں انہیں لکھنا بھی چاہتا ہوں مگر دل بوجھل اور الفاظ گم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے … تم مجھے نہیں لکھ پاؤ گے ذوقی … اور میں محسوس کرتا ہوں، راجندر یادو کی شخصیت کو الفاظ میں قید کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ خود کو کبھی کسی زنجیر، کسی قید میں نہیں دیکھ سکے — وہ زندگی میں ہر طرح کی زنجیر اور قیود سے آزاد تھے۔ وہ سچ بولتے تھے اور یہ سچ سماج اور معاشرے کے لیے ایک چیلنج بن جاتا تھا۔ انہوں نے عورتوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو ہنس کے صفحات استری و مرش، کے نام پر جگمگا اٹھے۔ انہوں نے دلت و مرش کے نام پر دلت لیکھکوں کی ٹیم بنائی۔ ہنس کی طرف سے زندگی بھر وہ مسلمانوں کی جنگ لڑتے رہے۔ اور مسلمانوں پر ہنس کا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا۔ اس شمارہ میں اصغر وجاہت کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ وہ فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف تھے۔ ان کے کئی چہرے نہیں تھے، ان کا ایک ہی چہرہ تھا، جو بیباک بھی تھا اور سچ بولنے سے گھبرا تا نہیں تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ تنہا تھے۔ ہنس کی اشاعت کے بعد وہ زیادہ تر میور وہار، ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ میں رہے۔ دوبرس قبل ان کی بیٹی رچنا نے انہیں ایک فلیٹ خرید کر تحفہ میں دیا تھا۔ یہ بھی ایک بیٹی کی محبت تھی، اس بیٹی کی جو اپنے باپ کو اپنا آئیڈیل سمجھتی تھی۔
میوروہار کا ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ … یہاں میں ہزاروں بار یادو جی سے ملا ہوں۔ چلتے چلتے … میں وہ چہرہ دکھانا چاہتا ہوں، وہ چہرہ جو ایک لی جینڈ، ایک عہد ساز شخصیت کا تھا، لیکن وہ چہرہ کتنا تنہا تھا … کتنا اکیلا … ماضی کی ریل میری آنکھوں کے آگے دوڑ رہی ہے۔
کالج کے دنوں میں عصمت چغتائی کا تحریر کردہ ایک خاکہ پڑھا تھا۔ دوزخی۔ عصمت نے یہ خاکہ اپنے بھائی کی یاد میں لکھا تھا۔ میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔ کیا سچ مچ دوزخی اتنے خوش قسمت ہوتے ہیں — ؟ اتنی بڑی تقدیر والے کہ انہیں عصمت جیسی بہن مل جاتی ہے — ۱۹۸۵،دلی آنے سے قبل سوچتا تھا، یہ دوزخی کیسے ہوتے ہوں گے … کیا دلی کی بھیڑ بھاڑ والی زندگی میں ایسے دوزخیوں سے ملاقات ممکن ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دلی آنے کے بعد سب سے پہلے جس شخصیت سے ملنے کی آرزو تھی، وہ تھے راجندر یادو — آرہ جیسے چھوٹے سے شہر میں ان لوگوں کو لے کر کتنی کتنی باتیں ہوا کرتی تھیں، کملیشور، یشپال، اگے، موہن راکیش، نامور جی، اور راجندر یادو — راجندر یادو کا نام آتے ہی احترام کے ساتھ ایک سے بڑھ ایک واقعات کے دروازے اس لیے بھی کھل جاتے کہ ان کی شخصیت شروع سے ہی ہمہ جہت اور متنازعہ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ نیند اور خواب میں بھی یہ چہرہ طلسم ہوشربا کی کہانیوں کی طرح مجھے چونکا دیا کرتا تھا۔ اور اس نام کے ساتھ چپکے سے ایک نام جڑ جاتا … دوزخی کہیں کا …
دلی آنے کے بعد ماہنامہ ہنس نکلنے کے ایک سال بعد یادو جی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یاد ہے تب بھی ان کو گھیرے ہوئے کافی لوگ بیٹھے تھے۔ میں ہندی کے لیے ابھی تک اجنبی تھا۔ لیکن اردو میں میری شناخت بن چکی تھی۔ پہلی ملاقات میں کچھ رسمی مکالمہ کے علاوہ میں زیادہ تر خاموش ہی رہا۔ میری آنکھیں بغور ان کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ گورا چٹا، رعب دار کافی بڑا چہرہ۔ چوڑی، چمکتی پیشانی سے ذہانت کی کرنیں نکلتی ہوئی — آنکھوں پر کالا چشمہ — باتوں میں بیباکی اور ذہانت۔ چہرے پر جلال۔ درمیان میں چبھتی ہوئی باتیں اور ٹھہاکوں پر ٹھہاکا — یہاں اجنبیت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پہلی ملاقات کا جادو میرے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
یہ آدمی …
یہ آدمی دوزخی نہیں ہو سکتا۔ ایسی چمک، ایسی ذہانت تو مجھے کارل مارکس کے چہرے پر بھی نظر نہیں آئی تھی۔ وہاں تو ’فلسفی داڑھیوں ‘ کا ایک جنگل آباد تھا، اور یہاں سفید چمکتے چہرے میں مجھے مردولا گرگ کے بے شمار چتکوبرے دکھائی دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کیوں ؟
آہستہ آہستہ ہنس اور یادو جی سے ملاقاتوں کے سلسلے طویل ہونے لگے۔ مجھے کبھی کبھی وہ دوزخی نہیں، جنتی دکھائی دیتے تھے۔جنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں حوریں ملیں گی، یعنی انتہائی حسین عورتیں۔ لیکن ہمارے یادو جی کی جنت کا انداز ہی مختلف تھا، وہ عورتوں کے پاس نہیں جاتے، مینکائیں خود ان کے پاس آتی تھیں۔ وہ شری کرشن کی مرلی کی طرح اپنا بسنتی راگ چھیڑتے اور مدھوبن کی رادھاؤں میں ہلچل مچ جاتی — استری ومرش(نسائی ادب) شروع سے ہی ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ عورت یعنی اس کائنات کی سب سے حسین مخلوق۔ وہ دوسرے تخلیق کاروں یا نقادوں کی طرح ترچھی نظر سے چوری چوری عورتوں کو دیکھنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ عورت میں زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے لیے انہیں سارتر یا سیمون د بووار کی ضرورت نہیں تھی۔ چاہے منوجی کا تنازعہ رہا ہو یا سولہ سال کی لڑکی کو بھابھی کہنے کا معاملہ۔ یا پھر صرف لڑکی ہونے کے نام پر تخلیقات شائع کرنے کا الزام ہو — میتری پشپا کو ادبی دنیا میں چمکانے کا الزام ہو یا پھر اپنی کہانی ’حاصل‘ میں دفتر میں آئی ہوئی لڑکی سے فلسفۂ عشق تک رسائی کا الزام ہو — وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو کبھی نہیں گھبرائے — جو اپنی ذلت، بدنامی اور رسوائی کو بھی اپنے ’ہونے، سونے اور کھونے‘ کا ایک عام راستہ مانتے تھے۔ اس معاملے میں وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح تھے۔ ہم ہیں، اس لیے یہ ہو گا — بلے سے بال لگے گی تو کھڑکی کا شیشہ ٹوٹے گا — مرد ہیں تو عورت میں ہی دلچسپی ہو گی — شرافت کے بیجا ڈھونگ سے انہیں نفرت تھی۔ اور تنازعات میں گھرے رہنا ان کی سب سے بڑی مضبوطی۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ کا راز۔
اصل میں کبھی کبھی خود مجھے ان سے جلن ہوتی تھی۔ وہ ہر بار مجھے جوانوں سے بڑھ کر جوان لگتے۔ چہرے پر تھکان نام کو نہیں۔ شاید اس لیے وہ الفاظ کے تیر پر تیر چھوڑے جاتے۔ اور الزامات کی پرواہ نہیں کرتے۔ میں نے انہیں ایک ایسے جہادی کی شکل میں دیکھا اور محسوس کیا ہے جسے پرواہ نہیں ہے کہ سامنے کون ہے — ہنومان جی کو پہلا دہشت گرد بنانے کا معاملہ ہو یا اردو رسم الخط بدلنے کا معاملہ ہو۔ وہ اپنے سخت رویے سے کبھی پریشان نہیں ہوتے تھے۔
ہزاروں واقعات کی شمعیں روشن ہیں۔ ایک ملاقات میں، میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ میں آپ پر لکھنا چاہتا ہوں۔‘
تیز ٹھہاکا گونجا — ’تم مجھ پر نہیں لکھ سکتے ذوقی‘
پوچھا۔ ’کیوں ؟‘
جواب ملا۔ ’کتنا جانتے ہو مجھے؟ جتنا جانتے ہو وہ مجھے جاننے کا ایک حصہ بھی نہیں ہے۔
میں چاہتا تو اس پر بہت کچھ بول سکتا تھا۔ لیکن سچائی یہی تھی کہ میں کتنا جانتا تھا۔ تنازعہ سے الگ کا بھی ایک چہرہ رہا ہو گا۔ میں اس چہرے کو کتنا پہچانتا تھا۔ اپنے پروگرام ’کتابوں کے رنگ‘ کے پہلے ہی اے پی سوڈ میں منو جی کی کتاب ’نایک، کھلنایک، ودوشک‘ پر بولتے ہوئے وہ زور سے ہنس پڑے تھے — یہ تینوں میں ہی ہوں۔ نایک(ہیرو) بھی، کھلنایک(ولین) اور ودوشک (مسخرہ) بھی۔ پہلے میں نایک تھا۔ ایک سوپن نایک(خیالی ہیرو)۔ پھر کھلنایک بنا اور پھر ودوشک۔ یہ زمانہ تو ودوشک کا ہی ہے۔ آپ کو بار بار الگ الگ ڈھونگ بھرنا ہے۔ گھر سے باہر اور سیاست سے سماج تک۔ جو جتنا بڑا ودوشک ہو گا وہ اتنا ہی بڑا نایک ہو گا۔ عام زندگی سے سیاست تک ان ودوشکوں کی ہی حکومت ہے۔ مگر ہوتا کیا ہے۔ ادب کے ودوشک اگر سوانگ بھرتے ہیں تو صورت حال مشکل ہو جاتی ہے — مشکلیں یہاں بھی پیدا ہوئیں۔ ہندی ادب میں ہونے والا کوئی بھی حادثہ سیدھے یادو جی سے وابستہ کر دیا جاتا۔ استری ومرش — ذمہ دار یادو جی — دلت ومرش — ذمہ دار یادو جی — حاشیے پر مسلمان — ذمہ دار یادو جی۔ ہندی ادب زوال کی طرف کیوں ؟ یادو جی سے پوچھئے جیسے ادب پر قدرتی آفات تک سب میں یادو جی کا ہی ہاتھ ہے۔ زلزلہ کیوں ہوا۔ بارش کیوں ہوئی، فساد کی وجہ کیا ہے؟ کون سی حکومت بنے گی۔ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،سماج کدھر جائے گا۔یادو جی کی زندگی تک جیسے ہر واقعہ یا حادثہ کے پیچھے صرف اور صرف یادو جی تھے۔
برسوں کی ان ملاقاتوں میں کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جنہیں ابھی کھولنا نہیں چاہتا۔ ابھی لکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن لکھنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ ہاں۔ اگر کبھی کبھی کوئی ایک بات چپکے سے ڈس جاتی ہے تو بس وہی۔
’ذوقی تم مجھ پر نہیں لکھ سکتے۔ کتنا جانتے ہو مجھے؟‘
لیکن شاید میں نے دوسروں سے کہیں زیادہ یادو جی کے اندر کے آدمی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آدمی بے نیاز ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر اندر سے بے حد جذباتی ہے۔ مارخیز کے ناول ’اداسی کے سو سال‘ کی طرح میں اس لمحے کو فراموش نہیں کرسکتا — جہاں میں نے راجندر یادو کی شخصیت کا وہ پہلو دیکھا تھا جسے بیان نہ کروں تو شاید یہ مضمون ہی مکمل نہ ہو — ایک دفعہ شاید پہلی بار یادو جی سے ملنے ان کے ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ گیا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کی ایک ترچھی کرسی پر صبح نو بجے بریڈ میں آملیٹ لگاتے ہوئے وہ موجود تھے۔ یکایک مجھے روسی ناول نگارگوگول کے ’ڈیڈ سول‘ کی یاد آ گئی۔ گھپ اندھیرا، صبح کے آنچل میں سمٹی ہوئی ویرانی۔ سو سال کی اداسی اور ویرانی سمٹ کر صرف ایک چہرے میں مقید ہو گئی تھی۔
میں نے ناشتہ میں ساتھ دیا۔ پھر آواز آئی۔
’اب یہاں کوئی نہیں ہو گا۔ پانی دینے والا بھی نہیں۔ اب میں ایک گھنٹہ آرام کروں گا۔ تمہارا کیا پروگرام ہے ذوقی؟‘
میں نے آہستہ سے کہا۔ ’میں آپ کا انتظار کروں گا۔‘
یہ میرے لیے زندگی کے ناقابل فراموش لمحات میں سے ایک لمحہ تھا۔ بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی ’طلسم ہوشربا — قہقہہ لگانے والی آواز کی طرف دیکھنے والی شخصیت پتھر کی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں ہنس کون رہا تھا — ؟ یہاں تو تین کمروں کے فلیٹ کے ایک اداس بستر پر ایک شخص سو رہا تھا۔ایک عام انسان نہیں، ایک ایسا شخص جس کے ہر لفظ سے تنازعہ پھوٹ پڑتا تھا۔ جو اپنے عہد کاعظیم کھلنایک((ولین) تھا۔ وہ ایک گھنٹہ کے لیے سو گیا تھا۔ بے فکری کی نیند۔ مجھے یکایک ہی ان کے لفظ ایک بار پھر سے یاد آئے۔ لیکن شاید، یہاں اس ایک لمحہ میں میں نے تنازعات کا اصلی چہرہ دیکھ لیا تھا۔ یہ چہرہ کسی کھلنایک کا نہیں تھا۔ ایک معصوم اور بے حد کمزور بچے کا تھا۔ جسے اس کے اپنے گھر والے چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے باہر چلے گئے ہوں۔
میں نے اس ایک لمحے کو اپنے دل کے فریم میں فریز کر لیا ہے۔ یقیناً وہ میری بات پر ابھی بھی ہنسیں گے۔
’تو سونے سے کیا ہوتا ہے‘
اپنی منطق پر ٹھہاکا لگائیں گے۔ لیکن کاش! میں اپنے احساس اور جذبات سے اس ایک لمحے کی تصویر بنا سکتا۔ شاید اسی اداسی کو، وہ باہر کے ہنگاموں اور تنازعات سے دور کرتے تھے۔ ایسا شخص جنت کی اداسی کہاں تسلیم کرے گا۔ اسے تو ’باہر‘ کا جہنم چاہئے۔
دوزخی کہیں کا۔
ان کا سچ یہی تھا کہ وہ ساری زندگی تنہا رہے۔ اور اسی لیے اپنی ذات میں ایک بڑی دنیا کو آباد کر رکھا تھا۔ اس دنیا میں ہنگامے تھے، الزامات تھے، تنازعات تھے، مگر ان سے الگ اداسی کا ایک پیکر تھا۔ اور وہ تا عمر اسی پیکر کا حصہ رہے۔
٭٭٭
ٹیگور میری نظر میں
رابندر ناتھ ٹیگور کی زندگی اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر گفتگو کے دروازے نہ کھلے ہوں۔ میرے لیے مشکل یہ تھی کہ ان پر لکھتے ہوئے کس گوشہ کا انتخاب کروں۔ وہ اپنی زندگی میں ہی ان بلندیوں پر پہنچ چکے تھے، جہاں حسین سے حسین خواب بھی معمولی اور چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ہشت پہلو شخصیت سے ان درجات کو طے کر گئے تھے، جہاں تمنا کا دوسرا قدم بھی کم معلوم ہوتا ہے۔ وہ اول تا آخرہندستانی تھے اور ان کی تحریر میں عشق و محبت اور صداقت پاروں کا ایک ایسا سنگم تھا جہاں تصوف اور روحانیت کی لہریں بھی ہیں اور ایک سچے انسان کے بلند اخلاقی کردار کی نمائندگی بھی۔ مجھے افسوس تب ہوتا ہے جب ہمارے کچھ دانشور ٹیگور کی گیتانجلی کو مذہبی نظموں کا مجموعہ کہنے کی حماقت کرتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ T.S. iliot کے کو بائبل اور اقبال کے مرد مومن کو اسلام سے وابستہ کرتے ہوئے ان کے قد کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں مذہب شاعرانہ وجدان کی ایک معمولی سی سطح ہے۔ یہاں فطرت سے عشق کی داستان ہے اور انسانی عظمت کے گیت گائے گئے ہیں۔ ٹیگور اپنے موقف کا خود بھی اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’میں مختلف طریقے سے ظاہر ہونے والی آواز ہوں۔ میں اس لا محدود کی آواز ہوں، جس کے بے شمار پہلو ہیں اور یہ پہلو مختلف نوعیت کے ہیں۔ میں اس کبھی نہ ختم ہونے والی مسرت کی آواز ہوں، جو تمام چیزوں میں جاری و ساری ہے۔ مسرت میرے تخلیق کا بنیادی نقطہ ہے اور میری زندگی کا مقصد بھی۔‘
گیتانجلی کی شروعات میں بھی اس کے اشارے مل جاتے ہیں۔
مسرت اس بات میں ہے کہ
میں خوشبو بن کر چہار جانب پھیل جاؤں /
اور اصل مسرت یہ ہے
کہ میں کہسار، وادیوں میں گونجوں
ہمیشہ قائم رہنے والی موسیقی کے ساتھ/
انسانی زندگی کے آغاز و ارتقاء سے اب تک الہامی کتابوں میں، ویدوں میں، اپنشدوں میں، کبیر اور تلسی داس کے دوہوں میں، ازل و ابد کے تصورات میں، انا الحق کی صداؤں میں، نروان اور روحانی فلسفوں میں اس لفظ مسرت کے ہزار پہلوؤں کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ فطرت کی صناعی اور کارخانے میں، سورج کی اترتی ہوئی پہلی کرن کے ساتھ، وادی اور کہساروں کے نغمے میں مسرت ہی وہ چشمہ ہے، جو تخلیق کے لیے عشق، سرمستی اور فنا فی اللہ بن جاتا ہے۔ اور مسرت کی یہی وہ تلاش و کیفیت ہے جس کی ایک منزل گیتانجلی ہے اور یہی وہ منزل ہے، جہاں کہانیوں اور ناولوں کے دفتر بھی کھلے — جہاں ٹیگور نے موسیقی کے ساتھ سروں کی آواز سنی — جہاں مصوری کے ہزار رنگوں میں پناہ تلاش کرتے ہوئے انسان دوست کی شکل میں خود کو برآمد کیا — اور ان نئی بلندیوں کو دریافت کیا جہاں فلسفوں کے نورانی چشموں سے زندگی کا حقیقی گیت ابھرتا ہے اور اس گیت کے جشن میں ایک دنیا شامل ہو جاتی ہے — ٹیگور کے ادب کا مطالعہ کریں تو حیرت انگیز طور پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں ملک ہندستان غلام اخلاقیات کے بوجھ تلے سسک رہا تھا، ٹیگور ہندستانی سرزمین کے ابتدائی نقوش اور جڑوں سے سیاسی، سماجی بیداری کے ایسے صنم تراش رہے تھے، جہاں ہزاروں برسوں کی تاریخ اور تہذیبی روایات غلامی کی سیاہ راہ پر بھاری تھی — اور کمال یہ کہ روح کی گہرائی سے نکلے ہوئے نغموں کا شور تب بھی جاری تھا جب جارج پنج کی بارگاہ میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ اور یہاں بھی ٹیگور نے بھارت بھاگیہ ودھاتا کے نعرے کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار کر دیا کہ ہندستان کی قسمت کا فیصلہ نہ جارج ششم کرسکتا ہے اور نہ ہی جارج پنجم، بلکہ صدیوں قرنوں سے زمینوں اور آسمانوں کے نگہبان کے ہاتھوں میں سرزمین ہندستان کی تقدیر ہے اور فیصلہ کرنے کا حق بھی اسے ہی ہے۔ قومی ترانہ کو لے کر اس زمانہ میں کافی ہنگامے ہوئے۔ لیکن ٹیگور سے محبت اور عقیدت کا اظہار رکھنے والے اس حقیقت سے واقف تھے کہ اس فرشتہ صفت مضبوط انسان کو نہ فرنگی بیڑیاں خوفزدہ کرسکتی ہیں اور نہ ہی ٹیگور کے روحانی سرچشمہ پر بندش ہی لگائی جا سکتی تھی۔ بعد میں اس ترانہ کو قومی ترانہ کی سند دی گئی اور اس وقت تک ٹیگور کی آواز گیتانجلی بن کر ساری دنیا میں حکومت کر چکی تھی۔ ان دیکھا خدا، فطرت کا طلسم اور ایکلا چلورے کی کیفیات میں اس شعری و تخلیقی بصیرت اور الفاظ کے کرشموں کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں، جو بھی ٹیگور کے فلسفوں کے قریب آیا، وہ قوموں، نسلوں، تہذیبوں اور عقیدوں کو بھول کر ٹیگور کا ہو گیا۔ اور اسے یوں کہنا بہتر ہے کہ ہندستان کا ہو گیا۔ ٹیگور نے کبیر اور کالیداس کی طرح اپنے لیے اسی زمین کا انتخاب کیا، جہاں وطنیت اور قومیت کے لازوال تصورات کے ساتھ خالق کائنات کا تصور بھی ابھرتا ہے۔ اور یہیں سے کیف وسرور اور وجدان کے آبشار بھی پھوٹتے ہیں۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ ٹیگور نے اپنی زندگی اور اپنے ادب کو محض قومیت تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی فلسفیانہ بصیرت سے دیار ہند میں جس نشاۃ ثانیہ کی شروعات ہوئی اس نے ملکوں اور سرحدوں کے فاصلے مٹا دیے۔ وہاں ایک ہی موسیقی تھی اور ایک محبت کرنے والا خدا — اور کمال دیکھیے کہ شانتی نکیتن کے قیام میں بھی اسی فکر اور فلسفے کا دخل رہا۔ ایک طرف نہ ختم ہونے والی انسانیت کا عکس کا بلی والا سے دیگر کہانیوں تک، گورا سے گیتانجلی تک محسوس کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف وشو بھارتی اور عالمی بھائی چارگی کا خواب بھی تھا، جسے وہ ساتھ لیے چل رہے تھے۔
’’ہندستان کو دنیا سے سچے اور صحیح رشتوں کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ انسانیت تمام سچائیوں سے بڑی حقیقت ہے۔ ہندو، بدھ، جینی، سکھ، عیسائی اور مسلمان ہر نسل مذہب اپنے اپنے مذہبوں کی عظیم روایات رکھتے ہیں اور یہ سب الگ الگ دھارے آگے بڑھتے ہوئے ایک دھارے میں بدل جاتے ہیں … سب لوگوں کو حق ہے کہ وہ سچائی کی تلاش میں جس میں انسان مصروف ہے، شامل ہو جائیں۔ مشرق و مغرب میں کوئی فرق نہ ہو۔ وشوا بھارتی ہی ایک ایسی جگہ ہو گی جہاں حق کی یہ جستجو ہندستان کو دنیا کے بقیہ حصوں کے ساتھ منسلک کر دے گی۔‘‘
یہ وہی فلسفہ تھا جو آغاز سے ہی ان کی تخلیقی محرکات کا حصہ رہا۔ اور یہی محرکات گیتانجلی بن کر ابھرے تو دنیا ایک نئی شاعری، ایک نئی آواز سے آشنا ہوئی۔یہ شاعری کا وہ رنگ تھا جواب تک ہندستانی ادب میں ناپید تھا اور اسی لیے گیتانجلی کے شائع ہوتے ہی مغرب میں زلزلہ آ گیا۔ ٹیگور نے اپنی شخصیت اور شاعری کو ایک دوسرے میں منتقل کر دیا تھا۔ اس لیے گیتانجلی کے انگریزی زبان میں ترجمے ہوتے ہی ان کی روحانی شاعری کا اعتراف کیا جانے لگا۔ یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا ایک نئے انقلاب کو سلام کہہ رہی تھی۔ یوروپ کو فلسفہ انسانیت کے فروغ کے لیے مخصوص عقائد کے ساتھ جنگ کرنی پڑ رہی تھی اور ٹیگور اپنی شاعری کے ذریعہ اس وسیع انسانیت کی آواز اٹھا رہے تھے جسے امیر و غریب، بستیوں اور سرحدوں سے باہر نکالا جا سکے۔ اور اسی کے ساتھ ہندستانی سرزمین سے وحدت کے تاروں کو جوڑتی ہوئی ایک مضبوط آواز اٹھی۔
ایکلا چلو رے …
اگر تمہاری آواز پر کوئی ساتھ نہ دے …
تب بھی … ایکلا چلورے …
اگر تمہاری سنوائی نہ ہو … تب بھی …
ایکلا چلورے …
اگر کوئی تم سے ناراض ہو یا تم سے منہ موڑے تب بھی …
ایکلا چلورے …
یاد رکھو اپنا فرض …
اور یاد رکھو اپنی روح کے پیغام کو …
ایکلا چلو رے …
ایکلا چلورے اس بچے کے سفر کی کہانی تھی جو کبھی ننھے منے کھلونوں سے کھیلتا تھا۔ کھلونوں سے تھک جاتا تو خود ہی اپنے لیے نئے نئے کھیل دریافت کر لیتا …
اور یہ کھیل ہی تھے جہاں ہمیشہ قائم رہنے والی مسرت اسے آواز دے رہی تھی۔ اور یہیں سے تخلیقی فکر کے سوتے بھی پھوٹ رہے تھے۔ شعور کی آنکھیں وا ہوئیں تو اس خالق حقیقی کے آگے سرجھکایا جو سارے مذاہب کا نگہبان تھا۔ شاعری کی روحانی موجوں کو آواز دی تو عشق الہی سے معمور گیتوں میں پریشان زندگی کے لیے سریوں اور تسکین کے سامان موجود تھے۔ اور حق کے ایسے چراغ روشن تھے جو انسانوں کو محبت کا پیغام دے رہے تھے۔
’’ادیبوں کو انسانوں سے مل جل کر انہیں پہچاننا ہے۔ میری طرح گوشہ نشیں رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔ زمانہ دراز تک سماج سے الگ رہ کر میں نے جو غلطی کی ہے اب سمجھ گیا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہ نصیحت کر رہا ہوں۔ میرے شعور کا تقاضا ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہئے۔ اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا۔‘‘
اس لیے گیتانجلی کو شری بھگوت گیتا اور ایک مخصوص دھرم تک محدود کر دینا ٹیگور جیسے بلند اقدار اور انسانیت کی توسیع کے لیے کام کرنے والے شاعر کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ جیسے اقبال اور اقبال کے فلسفہ مرد مومن کو اسلام کے ساتھ وابستہ کر دینا بھی حماقت ہے۔ یہاں مذہب ایک بلیغ استعارہ ہے جہاں آزادی اور روشنی کی تلاش ہے۔
’’وہ مسرت جو مرکز تخلیق ہے، میری دلی آرزو ہے۔ میری زندگی کا مقصد بھی یہی رہا ہے کہ اسے اپنے دل میں جذب کروں اور ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار کروں۔ لوگوں کو ان کی زندگی کی منزل تک پہنچانا میرا کام ہے۔ میرے سفر کی مسرت ہی کافی ہے — ہم شام کو اپنے آم کے باغ میں جو گھروندا بناتے تھے، اسے صبح ہونے تک تند ہوا ڈھا دیتی تھی۔ اگلی صبح ہمیں نیا گھروندا بنانا پڑتا تھا۔ اگر میں نے دنیا کے کھیل گھر کے لیے کچھ کھلونے بنائے ہیں تو انہیں محفوظ رکھنے یا دوام بخشنے کا میں بالکل آرزو مند نہیں۔ اگر میں ان وقتی کھلونوں میں روح ڈال سکا ہوں اور ان سے کچھ دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ ی ہے تو میں اسی سے مطمئن ہوں۔ اس سے زیادہ کی مجھے کوئی آرزو نہیں۔ ‘‘
بچپن کے چھوٹے چھوٹے واقعات، کھیل، گھروندوں والی عمر میں ہی ٹیگور نے انسانیت اور مسرتوں کا سبق پڑھ لیا تھا۔ گیتانجلی کی اشاعت اور شانتی نکیتن کی وادیوں میں بھی ٹیگور اسی فلسفہ انسانیت اور مسرت کو فروغ دیتے رہے۔
اور اسی لیے ہمارے شاعر کو کہنا پڑتا ہے۔
جہاں علم رکاوٹ نہ ہو
جہاں سر بلند کیا جا سکے
جہاں ذہن میں خوف نہ ہو
جہاں دنیا کی تقسیم نہ ہو …
جہاں عقل و دانش کی موجوں میں
صحرا میں کھو جانے کا خطرہ نہ ہو
بیدار کر میرے ملک کو …
آزادی کی بہشت میں، میرے مالک
(گیتانجلی)
آزادی کی بہشت میں سانس لینے والا شاعر اس سلسلے کو آگے بڑھاتا ہوا لکھتا ہے۔
’ایک نہ ختم ہونے والی تلاش میرے دل میں ہے …
اندھیری رات میں جگمگاتے ستاروں کو دیکھو
وہ سب جگہ ہے …
وہ میری آنکھوں کی روشنی میں ہے
یہ اس کا پیغام ہے
جو میرا نغمہ، میری موسیقی کے سروں کو آواز دیتا ہے …
اور پھر ایک مقام پر آ کر یہ کہنا —
’’میری آخری پناہ گاہ انسانیت ہے۔ ہیروں کی قیمت پر میں کانچ ہر گز نہیں خریدوں گا۔ اور جب تک میری جان میں جان ہے۔ انساں پرستی پر وطن پرستی کو قربان نہ ہونے دوں گا۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ ٹیگور کے پیغام مسرت اور ان کے وسیع تر انسانی نظریات کو نہ بنگال کی سرحدوں سے باندھا جا سکتا ہے اور نہ ہندستان کی حد تک محدود — اور اسی لیے مسیحیت سے قرب کی یہ روحانی صدا گونجی تو مشرق و مغرب کا فرق بھی مٹ گیا۔ ایک بڑے ادیب کو نہ ذات کے خول میں بند کیا جا سکتا ہے اور نہ سرحدوں میں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی شخصیت، اپنی شاعری کو سونپ دی تھی یا اپنی تخلیق میں اپنے روشن اور فرشتہ صفت چہرے کو تحلیل کر دیا تھا۔ اور جذبات عالیہ سے روحانیت کی روشنائی لے کر صفحۂ قرطاس پر مصوری کے جو رنگ بکھیرے، ایک دنیا آج بھی اس رنگ سے آزادی، محبت اور نروان کے مارگ تلاش رہی ہے۔ جنگ کے بادل آج بھی چھائے ہیں۔ یہاں وقت ساکت و جامد ہے اور لامحدود کی آواز میں مسرت کی تلاش آج بھی زندگی کا مقصد بنی ہوئی ہے۔
٭٭٭
قومی یکجہتی اور اردو صحافت
پرانے قصوں اور داستانوں میں اکثر اس وزیر کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو دربار میں حاضر ہو کر شہنشاہ سے محو کلام ہوتا کہ اے شہنشاہ، آپ کے لیے دو خبریں ہیں۔ ایک خبر اچھی ہے اور دوسری بری۔ اور یہ آپ بتائیں گے کہ پہلے کون سی خبر سنائی جائے — آج کی صحافت کے بارے میں غور کرتا ہوں تو یہی دو خبریں میرا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اچھی خبر کا تعلق اس شیریں زبان سے ہے جس نے آغاز سے ہی جمہوری نظام میں مختلف تہذیبوں اور فرقوں کے اختلاط سے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیا۔ جس کی نزاکت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک عالم اس پر فدا تھا، اور غلامی کے پس منظر میں یہی زبان تھی جو ہندستانیوں کے حق کی جنگ میں سامنے تھی، اور حقیقتاً ملک کی تعمیر میں جو رول اردو کا رہا وہ کسی اور زبان کا نہیں رہا — قومی یکجہتی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ مولوی باقر نے اردو صحافت کے لیے جام شہادت نوش کیا اور دیکھیے تو یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857سے تقسیم ہند تک یہ اردو اخبارات ہی تھے جسکا ہر لفظ انگریزوں کے لیے بغاوت تھا اور پھر تاریخ کی کتابوں میں وہ دن روشن ہوا، جو آزادی سے منسوب ہے اور غور کیجئے تو اس کے پیچھے اردو صحافت کے ناقابل فراموش رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اردو صحافت اور قومی یکجہتی کے پس منظر میں ایک نہیں ہزار تحریریں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان میں وہ تحریریں بھی شامل ہیں جن کا تعلق تحقیق سے ہے، اور جام جہاں نما سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا اردو اخبار رہا ہو، قومی یکجہتی کے سلسلے میں جس کی مثال پیش نہ گئی ہو — اس لیے ایک ہی بات کو بار بار لکھنا میرے لیے مناسب نہیں — خوشخبری ہو گئی۔ اس لیے میں دوسری بری خبر کی طرف آتا ہوں اور اس کے لیے ملک کے ۶۷۔۶۶ برسوں کا تجزیہ ضروری ہے۔ محبت اور حسن و عشق کا قصہ بیان کرنے والی زبان آزادی کے بعد مسلسل زخمی ہوتی رہی۔ آزادی کے بعد بھی تقسیم اور پاکستان کا زخم تازہ ہی رہا۔ فساد ملک کا چوتھا موسم بن گیا۔ پاکستان میں اردو بولنے والا مہاجر تھا اور یہاں اردو گمنامی کے غار سے خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اردو ادب کا معاملہ اور تھا لیکن اردو صحافت سن ۲۰۱۳ تک قومی یکجہتی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے جھک گئی تھی — اور حقیقتاً غور کریں تو آج بھی یہ شیریں زبان جگر کی آواز بن کر محبت کی آبیاری ہی کر رہی ہے۔
’اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔‘
مگر اس بری خبر پر غور کیجئے کہ صحافت اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف اردو صحافت ہے، اردو اخبارات ہیں اور دوسری طرف غیر اردو میڈیا، یا غیر اردو اخبارات — آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھائیے — سرخیوں پر نظر ڈالیے تو یہ فرق آپ کو نمایاں طور پر نظر آ جائے گا۔ اردو اخبارات کی سرخیاں دردو غم کا بوجھ اٹھائے سماج میں پھیلے تعصب، نفرت، فرقہ پرستی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی ملیں گی تو باقی میڈیا ان سے الگ جھوٹی اور گمراہ کن خبریں پھیلانے میں مصروف نظر آئیں گے۔ قومی یکجہتی کی ایک ٹانگ یوں بھی ٹوٹی کہ اردو اخبارات مسلم مسائل کو سامنے لانے میں اپنا رول ادا کرنے لگے اور باقی میڈیا اخباروں کے لیے مسلمان کوئی خبر ہی نہیں تھے۔ یا خبر تب بنتے تھے جب فرضی انکاؤنٹرس، اعظم گڑھ اور بٹلہ ہاؤس سے وابستہ خوفناک کہانیاں سامنے آتی تھیں۔ لیکن جب فرضی انکاؤنٹر میں ملوث بنجارہ، سادھوی پرگیہ جیسے لوگوں کے الزام ثابت ہو جاتے تھے تو غیر اردو میڈیا ان خبروں کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ یہ نفسیاتی تجزیہ ضروری ہے کہ آج اردو اخبارات کمرشیل اور خود غرض میڈیا سے الگ مسلمانوں کے مسائل کو لے کر کیوں سامنے آئے تو یہ تصویر آسانی سے تقسیم کے بعد کے ماحول کا تجزیہ کرنے سے صاف ہو جاتی ہے — یہ اردو اخبارات سامنے نہیں آتے تو پھر کون سامنے آتا؟ یہ اردو اخبارات اگر اردو اور مسلمانوں سے وابستہ خبروں کو اہمیت نہ دیتے تو پھر کون ان خبروں کو اہمیت دیتا — اور اردو صحافت کے اس معصوم چہرے کو دیکھیے کہ جب بھی ٹی ان سیشن، بر کھادت، راج دیپ سرد یسائی، راجیو بٹ یا کاٹجو صاحب جیسا کوئی بھی زخموں کو سہلانے والا ملتا ہے تو ہم اس کے ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس کے بیانات شہہ سرخیوں میں جگہ پانے لگتے ہیں — یہاں ۶۷ برسوں میں دبی ہوئی اس آگ کو محسوس کیجئے، جو حق و انصاف کے لیے دیگر میڈیا اور نئے اطلاعاتی انقلاب کی طرف ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ کب تک ہمیں مورد الزام ٹھہراؤ گے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ دکھانا ضروری ہے کہ ایسا صرف اخباروں کے ساتھ ہے — ہندی اور دیگر رسائل کی دنیا مختلف ہے۔ ہندی کی بات کریں تو یہاں اردو اور مسلمانوں کے لیے جو جذبہ دیکھا جاتا ہے، اس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے — لیکن یہی بات ٹی وی چینلس اور غیر اردو اخباروں کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔ میری اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہ کیجئے کہ میں ایک زبان کو ایک مخصوص قوم سے وابستہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن اردو اخبارات پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سرخیاں پڑھنے کے بعد ہی اخبار نکالنے والے کے مذہب کا پتہ چل جاتا ہے۔ آخر وہ کیسی نفسیات ہے، جس نے ایک زبان کا رشتہ اس جمہوری نظام میں مذہب کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے؟ یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ دو سو برس کی تاریخ میں اسی شیریں زبان نے ملک گیر پیمانے پر قومی اتحاد کے سہارے انگریزوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑی تھی — جبکہ اس وقت کے زیادہ تر انگریزی اخبارات انگریزوں سے وفاداری کا دم بھر رہے تھے اور علاقائی زبانوں سے نکلنے والے اخبارات کا دائرہ بہت حد تک محدود تھا — اور یہ قومی یکجہتی ہی تھی کہ منشی پریم چند اور منشی نولکشور جیسے لوگوں نے آگے بڑھ کر حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد چھیڑ دیا — منشی نولکشور کے اودھ اخبار کے ایک مضمون میں انگریزی اخباروں کو ہندستان کی آستین میں سانپ تک کہا گیا۔ مکند لال، ایودھیا پرشاد، پنڈت کشن چند موہن، منشی گوپی ناتھ امن، صوفی انبا پرساد جیسے لوگ تھے جو مسلسل اخبارات کے ذریعہ انگریزوں سے لڑتے رہے تھے اور دوسری طرف عبد الرزاق ملیح آبادی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، مولوی احمد حسن شوکت، منشی محبوب علی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد اسمعیل علی گڑھی، مولوی جمیل الدین جیسی شخصیات بھی تھیں، جنہیں آزادی کی حمایت کے لیے انگریزی سرکار کا ظلم سہنا پڑ رہا تھا۔ قومی یکجہتی کی ایک زبان کو لے کر اس سے بڑی مثالیں اور کیا ہوسکتی ہیں۔ اور اس ملک کے لیے جہاں صوفی سنتوں کی صداؤں نے وحدت کے گیت گائے ہوں، جس سرزمین کو خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء، قطب الدین بختیار کاکی، حضرت امیر خسرو نے اپنے لہو سے سینچا ہو، جہاں ایک زبان نے دلوں میں گونجنے والی شاعری سے بلا تفریق مذہب و ملت محبت کا درس دیا ہو، اور اس سے دو قدم آگے، یہ زبان تو محبت اور اتحاد سے پیدا ہوئی اور ہندستانی تہذیب و تمدن کے آنگن میں پروان چڑھی — اسی زبان نے ۱۸۵۷ میں انگریزوں کا لوہا لیا۔ ۱۹۳۰ تک مسلسل انگریزوں کے خلاف بغاوت کا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک انگریزوں کے قدم نہ اکھڑ گئے۔ پھر آزادی کے ۶۷ برسوں میں آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ شیریں زبان، صحافت کی روشنی میں ایک مذہب تک سمٹ گئی۔ اور اس کا تجزیہ اس لیے مشکل نہیں ہے کہ آزادی کے بعد کے واقعات و حادثات میں ا س مکمل منظر نامہ اور اس المیہ کو سمجھاجا سکتا ہے۔ اور اسی لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی یکجہتی کے لیے ہر بار اردو صحافت کو ہی مثال کیوں پیش کرنی پڑتی ہے۔ یہ بھی قومی یکجہتی کی علامت ہے کہ اردو صحافت پر جب جب سے می نار ہوتا ہے ایک بڑا موضوع قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کے تعلق سے بھی ہوتا ہے — جب کہ دیگر زبانوں میں راشٹریہ سوہادر یا نیشنل انٹر یگریشن کو لے کر میں نے ایسے کسی سے می نار کا تذکرہ نہیں سنا۔ ایک آزاد دنیا کا مسافر اور آزاد صحافی ہونے کی حیثیت سے میں مذہبی تعصب، نفرت اور تنگ نظری کا قائل نہیں اور اسی لیے اس زبان کو آج بھی اسی بلندی پر دیکھنا چاہتا ہوں، جہاں یہ زبان پہلے تھی یا ہمیشہ سے تھی۔ میں تنگ نظری اور کسی بھی طرح کے تعصب کی وکالت نہیں کروں گا مگر یہ خواہش ہوتی ہے کہ صحافت کی جو تقسیم اس دور میں ہوئی ہے، وہ نہ ہوتی تو اچھا ہوتا۔ جب انڈیا ٹو ڈے، ٹائمس آف انڈیا، ہندستان ٹائمس جیسے اخبارات یہ خبر سرخیوں میں شائع کرتے ہیں کہ سنیل ترپاٹھی نام کے ایک معصوم، بے قصور نوجوان کو بوسٹن دھماکوں میں بے وجہ پھنسایا گیا تو ہماری آنکھیں بھی نم ہوتی ہیں۔ ہم اردو اخبارات سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایسی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کریں مگر انگریزی اور غیر اردو اخباروں سے، میڈیا چینل سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جب معصوم مسلمان بے گناہ ثابت ہو جائے تو وہ انہیں بھی اپنی سرخیوں میں جگہ دیں — جب پاکستان سرحد پر قبضہ کے ارادے سے ہمارے نوجوان کی گردنیں کاٹ ڈالتا ہے تو ہمیں بھی غصہ آتا ہے اور ایسی خبروں کو انقلاب،راشٹریہ سہارا سے سیاست اور اعتماد تک جلی سرخیوں میں شائع کیا ہے۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ اردو اخبارات اگر ایسی خبروں کو شائع کرتے ہیں تو اپنا فرض ادا کرتے ہیں — مگر جب شک کے دائرے میں کوئی مسلمان آتا ہے، فرضی انکاؤنٹرس کی مثالیں سامنے آتی ہیں تو ان کی ترجمانی کرنے کے لیے یا انصاف کے لیے صرف اردو اخبارات ہی سامنے کیوں آتے ہیں۔ انگریزی اور ہندی اخبارات کا سیکولرزم ایسے موقع پر کہاں کھو جاتا ہے۔ ابھی حال میں انڈیا ٹو ڈے نے ایک خبر کی شائع کی تھی کہ ہندستانی مسلمان گھروں میں کم جیلوں میں زیادہ ہیں، یہ ایک ضروری خبر تھی لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس جمہوری نظام میں ۲۵ کروڑ کی مسلم آبادی کو ووٹ بینک یا دہشت گردی کی خبر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اور ہماری جنگ اسی سوچ کے خلاف ہے — آج سے ۲۵ سال قبل انڈیا ٹو ڈے کو اردو زبان میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایک ڈمی کا پی بھی تیار کی گئی لیکن یہ سلسلہ ناکام ثابت ہوا۔ آج دینک جاگرن گروپ اور چوتھی دنیا گروپ کی پذیرائی کرنی ہو گی کہ وہ انقلاب اور چوتھی دنیا کے ذریعہ اردو صحافت کے وقار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایسے گروپ کو آنا بھی چاہئے، کیونکہ اردو کسی قوم کی یا مذہب کی زبان نہیں ہے۔ صدیوں پرانی تاریخ میں یہ زبان اسی خاک سے برآمد ہوئی جہاں تہذیب کے خیمے نصب تھے اور یہ زبان ملت و اتحاد اور قومی یکجہتی کی زبان تھی — مگر آج اگر صحافت کے پردے میں، اس زبان نے ایک خاص فرقہ یا مذہب کا لباس پہن لیا ہے تو اس پر بھی غور کرنا ہو گا — یہ بھی سوچنا ہو گا کہ جہاں ہم عید بقر عید کے موقع پر مبارکباد دیتے ہوئے، ضمیمہ تک شائع کرتے ہیں، وہیں ہولی، دسہرہ، دیوالی کے موقع پر ہماری یکجہتی کہاں گم ہو جاتی ہے — تعصب کی گرد صاف کرنی ہے۔ روشنی کے نئے دریچے کھولنے ہیں — جو غلط کر رہے ہیں، ہم انہیں سمجھا نہیں سکتے، لیکن ہم اپنا محاسبہ اور تجزیہ تو کر ہی سکتے ہیں۔ہم اپنے عمل سے اس تہذیبی وراثت کو دھندلا ہونے نہ دیں جسے ہندستانی کہتے ہیں۔ اردو اخبارات جس طرح ۲۰۰ برس سے ملت و اتحاد کی پرورش کرتے رہے، آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔
میں نا امید نہیں ہوں۔ کہہ سکتا ہوں، اردو والوں کے یہاں قومی یکجہتی کھوئی نہیں ہے، بس، ذرا کچھ دیر کے لیے سو گئی ہے — جبکہ باقی جگہوں پر اس خوبصورت چراغ کی لو کو گل ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اور یہ کوئی خوشخبری نہیں ہے کہ یہ دنیا جو بائیس ویں صدی کی دہلیز پر دستک دے چکی ہے۔ جہاں سائنس کے بلند بانگ دعوے موت کو زیر کرنے اور دماغ پر کنٹرول رکھنے کی ساری حدود کو پار کر چکے ہیں، جہاں نئی تکنالوجی کے آئینہ میں اس دنیا سے زیادہ مہذب دنیا کا کوئی تصور باقی نہیں بچا ہے، اور اسی دنیا میں لفظ کی حرمت اس مقام تک آ گئی ہے کہ یہ لفظ فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ پیڈ نیوز کا زمانہ ہے۔ زیادہ تر انگریزی اخبارات، اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ یہاں بازار یا کنزیومر کلچر کے زیر اثر ایک قاتل کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور اس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم زرد صحافت سے کوسوں دور تک ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اردو اخبارات میں بہت کمیاں ہیں، لیکن ان کمیوں کے باوجود یہ ان دیگر زبانوں کے اخبارات سے بہتر ہیں جہاں ضمیر نامی کی چڑیا کا سودا ہو چکا ہے۔ اردو اخبارات ابھی بڑی ریس کا حصہ نہیں بنے ہیں جہاں امریکی مشنریاں الفاظ کی حرمت خریدنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ قومی یکجہتی ہو یا ملت و اتحاد کا درس، یہ ابھی بھی صرف اردو اخبارات کا حصہ ہے۔ اور آج بھی اردو صحافت اسے فروغ دینے کا کام کر رہی ہے۔
٭٭٭
اظہار الاسلام: عہد جدید کا باغی افسانہ نگار
— اچانک اظہار الاسلام کا قلم خاموش ہو گیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ہم لوگ انہیں بھول بھی گئے۔ ایک مدت بعد جب شکیل الزماں اور برادر عزیز محمد کاظم نے انکا تذکرہ کیا تو پہلے آنکھوں میں کچھ پرچھائیاں سی لہرائیں پھر سوال کیا — ’اظہار الاسلام کون … ؟‘
لیکن ان لمحات میں وہ کہانیاں جاگ چکی تھیں جن کے بارے میں سوچتا تھا — ’یار، ایسی کہانیاں اب کیوں نہیں لکھی جا رہی ہیں … ‘
دوست کہتے — ’ لکھی جا رہی ہیں … ‘
’کہاں — ؟ آسیب زدہ کہانیاں — ؟ گھوڑوں کی پشت پر کھڑا بیمار آدمی — بیمار آدمی کی ایک بیمار بیوی — ہذیان کا گوں گا سفر جہاں کم بخت فلسفے بھی پوری کھڑکی نہیں کھولتے — ‘
یاد آیا۔ اس وقت سب تھے — ایک سے بڑھ کر ایک لکھاڑی۔ قمر حسن، اکرام باگ، حمید سہروردی اور جواز، نشانات، شب خون کا زمانہ تھا۔ اور اچانک کلکتہ کے نام پر آ کر نگاہیں ٹھہر گئی تھیں — اظہار الاسلام …
’کون ہیں بھائی یہ … اظہار الاسلام … ؟‘
تب کالج کے دنوں میں پہلے پہلے عشق کی کھڑکی کھلی تھی اور بڑی بڑی آنکھوں والی ایک ساحرہ نے میرا دل جیت لیا تھا۔ اور یہی کلکتہ یا کولکتہ تھا، جس سے مجھے سب سے زیادہ پیار تھا۔ بلکہ یوں کہیے، اپنے شہر آرہ سے بھی زیادہ پیار اس کولکتہ کے حصے میں آیا تھا۔ اظہارالاسلام کی کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ یہاں محبت کو بھی جگہ دی گئی تھی جسے جدیدیوں نے آؤٹ آف ٹچ، قرار دیا تھا — یا جس کی جدید ادب میں سرے سے کوئی جگہ تھی ہی نہیں۔ سور، گھوڑوں، جانوروں کے لیے جگہ تھی۔ لیکن محبت کی کوئی جگہ نہیں — لیکن محبتوں کے اس شہر کے قلندر نے جدیدیت کے جدید فارمولے پر ہی حملہ کر دیا — آؤ پیار کریں۔ زندگی سے — روشنی سے — اور انسانوں سے —
تو بھائی، یہ وہ زمانہ تھا جب اظہار الاسلام کی دل سے نکلی ہوئی کہانیوں نے میرے دل میں خاص جگہ بنا لی تھی۔ اور اس کی وجہ بہت صاف تھی۔
یہاں خوبصورت بیانیہ تھا۔ زندگی کے نئے فلسفے تھے۔ سسپنس کا ماحول تھا۔ اعلی فکر تھی۔ زندگی اور حقیقت نگاری کے مابین چلتی ہوئی ایسی کہانیاں تھیں، ممکن ہی نہیں کہ آپ ان کہانیوں کے ساتھ نہ بہہ جائیں — غضب کی فنکاری، کہ آج سوچتا ہوں، اس دور میں اظہار الاسلام نے یہ سب کیسے لکھا ہو گا — ؟ اس عہد کے زیادہ تر لکھنے والوں میں اس مشق کا فقدان تھا، جو جادو اظہار الاسلام کی کہانیوں میں سرچڑھ کر بولتا تھا — گھریلو ماحول سے سیاست اور کلکتہ کی مصروف ترین زندگی کی جو ترجمانی اظہار الاسلام کے افسانوں میں ہوئی ہے، وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔یہاں اظہار الاسلام کی کسی ایک کہانی کا ذکر کرنا فضول ہے کہ ان کہ ہر کہانی زندگی کے کسی نہ کسی بڑے یاحسین ترین گوشے کو لے کر آپ کو حیرت زدہ کر جاتی ہے …
کبھی کبھی وہ اپنے دور کی جدیدیت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو بس یہ ہوتا ہے کہ عنوانات ذرا جدید قسم کے ہو جاتے ہیں۔ مثال کے لیے، ڈیڑھ منزلہ سورج، خشک ناریل میں دو نلکیاں، آخری شب کا کرب — مگر واضح طور پر ان کہانیوں میں بھی آپ زندگی کی اس خوبصورت حرارت سے آشنا ہوں گے، اس دور کی کہانیوں میں جسے تلاش کرنا بھی محال تھا۔
آج بھی اچھی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ بنگال کی ہی بات کریں تو ف۔س اعجاز، شبیر احمد، صدیق عالم ایک سے بڑھ کر ایک نام جو اردو افسانے کی آبیاری کر رہے ہیں مگر کہانی کی بنت کا جو سلیقہ،شعور اور فنکاری اظہار الاسلام کے یہاں تھی، اس سے ابھی بھی سبق لینے کی ضرورت ہے — اہم بات یہ ہے کہ اظہار الاسلام کی کہانیاں انتہائی سادگی سے شروع ہوتی تھیں، پھر ایک دھند سے پرسسپنس آپ کو پریشان کر دیتا تھا اور جب کہانیاں خوبصورت بیانیہ اور برجستہ مکالموں کی فضا کے ساتھ اختتام کو پہنچتیں تو قاری چونک پڑتا۔ اس لیے چونک پڑتا کہ کہانی ختم ہو کر بھی دراصل ختم نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ یہاں سے بڑے اور زندہ فلسفے سر نکالتے تھے — میں اس عہد جدید کے تانا شاہ رویوں پر ناراض ہوں کہ اس نے ایک بڑے افسانہ نگار کے قلم کو خاموش کر دیا۔ میں عمر کو نہیں مانتا۔ صدیوں کی خاموشی ایک لمحے میں ٹوٹ سکتی ہے — ہم اظہار الاسلام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم انہیں بھولے نہیں ہیں۔ وہ واپس لوٹیں اور ایک بار پھر ایسے شاہکار کو سامنے لائیں جسے اردو دنیا بھول نہ سکے — آپ کے قلم کی ایک جنبش کا انتظار رہے بس …
٭٭٭
اردو تنقید کے دس برس
نئی صدی کے دس برس اور ان دس برسوں میں ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے اور یہ دنیا روز بروز اپنے دائرے وسیع کرتی جا رہی ہے۔ سائنس کی ترقی نے چمتکار اور معجزہ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب سائنس کی ہر اڑان ایک معجزہ ہے۔ اس لیے عام زندگی سے فلموں اور ادب کی دنیا میں بھی نئی نئی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ ایسے لوگ جو نئی صدی کے جشن میں ادب کی موت کا ماتم منانے کی تیاریاں کر رہے تھے،وہ ادب کے بڑھتے پھیلتے گراف سے پریشان ہیں، کیوں کہ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ادب کی یکتائی اور انفرادیت کو یہ مہذب دنیا بھی سلام کرنے پر مجبور ہے۔
2000کی شروعات سے قبل یہ سوچا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں اردو شاید چند دنوں کی مہمان رہ گئی ہے، کیوں کہ نئی نسل غائب تھی اور یہ بھی زور شور سے تسلیم کیا جا رہا تھا کہ نئی نسل اردو نہیں جانتی، لیکن نئی صدی کے ان دس برسوں نے بھی ان غلط فہمیوں کے پر کتر دیے۔ اردو شان سے زندہ رہی۔ نئے ادبی رسائل سامنے آئے۔ اذکار، اثبات، تحریر نو، چوتھی دنیا، تحریک ادب۔ نئی فکر سامنے آئی۔ عصری شعور کے ساتھ اپنے عہد کی روز افزوں ترقی، اقتصادیات، عمرانیات، سیاست اور سماجی علوم کا گہرا مشاہدہ رکھنے والے نوجوان ادیب سامنے آئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
لیکن یہیں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تنقید کہاں ہے؟ ان دس برسوں کے طویل سفر میں نظریاتی آویزش سے گزرتی ہماری تنقید اب کہاں ہے؟ کس سمت ہے؟ مغرب کی نقالی کا دم بھرتے بھرتے اردو تنقید نے اپنے تنقیدی افق کو کتنا کشادہ کیا ہے یا وہ آج بھی اکتثافی، اشتراکی، امتزاجی، عمرانی، وجودی تنقید کی بھول بھلیوں میں الجھی ہوئی اپنے غلام نظریہ سے کبھی باہر ہی نہیں نکل سکی؟
ان دس برسوں میں تنقید کی ہزار کتابیں منظر عام پر آئی ہوں گی۔ ان کتابوں کا تبصرہ یا تجزیہ یہاں مقصود نہیں ہے۔ دراصل مجھے یہ دیکھنا ہے کہ ان دس برسوں میں اردو تنقید کی آزادی کا کیسا گراف سامنے آیا ہے۔
ان دس برسوں میں تنقید کی دنیا میں دو بڑے حادثے سامنے آئے۔ اول، گیان چند جین کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ کو لے کر جم کر ہنگامہ ہوا۔ دوم، گوپی چند نارنگ کی مابعد جدیدیت کو ادب کا سرقہ ٹھہرایا گیا، لیکن ایک تیسرا حادثہ بھی تھا۔’کئی چاند تھے سر آسماں ‘ کو شاہکار ناول قرار دینے کا معاملہ۔ یہ معاملہ ان دونوں معاملوں سے زیادہ سنجیدہ اس لیے تھا کہ ایک مدت تک اردو تنقید کو تھکے ہوئے گھوڑوں کی طرح ہانکنے والا کو چوان خود ہی اپنے ناول کو ہندوستان کا شاہکار قرار دے رہا تھا، بلکہ اگر بس چلتا تو عالمی ادب کا شاہکار قرار دیے جانے کے لیے سارے سیاسی حربے استعمال کرتا، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ عام قاری اب ان ادب کی سیاسی چالوں سے واقف ہو چکا ہے۔ گیان چند جین کی تحریروں پر فرقہ واریت کا الزام لگانے والے خود ہی اس الزام کے دائرے میں آ گئے۔ اسے ادب کا المیہ ہی کہا جائے گا۔ اس ہنگامے کے دوران ہی گیان چند جین کا انتقال بھی ہو گیا۔ ان پر الزام کی بارش کرنے والوں نے یہ ذرا بھی خیال نہ کیا کہ آخر کے چند برسوں میں ساری زندگی اردو پر نچھاور کرنے والے اس محب اردو کو کیا دیا؟ اور اگر آخر کے چند برسوں میں اردو والوں کی مکاری و عیاری سے بیزار ایک بزرگ نقاد کی، اس نوعیت کی کتاب سامنے آتی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس نفسیاتی تجزیے سے قطع نظر ان کے قتل تک کے ادبی فتوے سنادیے گئے۔ اسی طرح مابعد جدیدیت پر سرقہ کا الزام لگانے والے یہ بھول گئے کہ جدیدیت کا رجحان بھی مغرب کی ہی دین ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے ایک نئی فکری آزادی کو جنم دیا تھا۔ فرد کی تنہائی اور وجودیت کے مسئلہ پر از سر نو بحث کی شروعات ہو چکی تھی۔ فاروقی مغرب کی جیب سے اس نظریہ کو لے کر آ گئے اور شب خون کی صورت میں اس نظریہ کو اردو دنیا کے سامنے رکھ کر ایک غریب زبان، ایک نحیف سلطنت پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے 20ویں صدی ختم ہو گئی، لیکن تخلیق کار جاگ چکا تھا۔ وہ ہر طرح کے گروپ ازم سے باخبر تھا۔ وہ کسی بھی ناقد کی گود میں بیٹھنے کو تیار نہ تھا۔ وہ گلوبل ہوتی دنیا میں اپنی آزادی کے ساتھ سانس لینا چاہتا تھا اور شاید اس لیے نئی صدی میں یہ بھی ہوا کہ ان دس برسوں میں تخلیق کار آگے بڑھ کر تخلیق کے ساتھ تنقید کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہو گیا۔ فکشن کی تنقید ہو تو حسنین الحق، بیگ احساس، طارق چھتاری، شوکت حیات، شموئل احمد، احمد صغیر، رحمن عباس تک بزرگ ناقدوں سے زیادہ سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے سامنے آئے۔ اسی طرح شاعری میں جمال اویسی، نعمان شوق، کوثر مظہری، ف۔س۔ اعجاز، عبدالاحد ساز تنقید کی نئی شمع کو روشن کرتے ہوئے نظر آئے۔ یہاں زندگی کے نئے تجربات و حقائق تھے۔ صدیوں کی دھول میں چھپا ہوا ماضی تھا۔ اپنے عہد میں رونما ہونے والی ان آویزشوں کو یہ تخلیقی نقاد نئے تصوراتی نظریے کی زمین فراہم کر رہے تھے اور ایسا اس لیے تھا کہ ادب کی افادیت اور جمالیات کو یہ نام نہاد بزرگ نقادوں سے زیادہ سمجھتے اور جانتے تھے۔
سائنسی علوم کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے اور اسی لیے ان دس برسوں میں ادب پارے کی سچائی کا احترام کرنے کے لیے روشن خیال تخلیق کار اور تنقید نگاروں کی ایک فوج سامنے آئی ہے۔ ایک متوازن رویہ ادب میں داخل ہو رہا ہے۔ یہاں علم کا ڈھول نہیں پیٹا جاتا۔ یہاں مغرب کی نقالی سے آگے نکلنے کا زور ہے۔ یہاں تنقید کے لیے صرف ایک کسوٹی ہے۔ صحت مند تنقید۔ ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے شور تھمنے لگے ہیں۔ نئی صدی کے بطن سے ایک نیا انسان جنم لے رہا ہے۔ اس لیے تخلیق کار جہاں ایک طرف فکری ہم آہنگی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پیش آنے والے خطرات کو لے کر چوکنا ہے، وہیں نئے انسان اور مستقبل کی نشان دہی کو بھی اپنے ادبی سرمائے کا موضوع بنا رہا ہے۔ یہاں گلوبلائزیشن بھی ایک موضوع ہے۔ گلوبل وارمنگ اور تہذیبوں کی جنگ بھی۔ نئے ناقد وسیع افقی تناظر کے دروازے کھول رہے ہیں۔ ہاں ! کچھ لوگ ابھی بھی تنقید کی اس پرانی روش کا حصہ ہیں، مگر نقد کی دنیا میں آنے والے نئے دستخط کشادہ قلب ہیں اور مصلحتوں سے بے نیاز بھی۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، منظر اعجاز، غضنفر اقبال، ڈاکٹر احمد امتیاز، صغیر افراہیم، سرورالہدیٰ، آفتاب عالم صدیقی، ہمایوں اشرف، مشتاق احمد نوری، مبین صدیقی، مظہر جلالی، شہزاد انجم، ارمان نجمی، عالم خورشید، ابرار رحمانی، شفیع ایوب، ابوبکر عباد، یوسف عارفی جیسے بے شمار ناموں نے تنقید کی کمانیں سنبھال رکھی ہیں۔ میر و غالب پر گفتگو کے دروازے آج بھی کھل رہے ہیں، لیکن معاصر افسانے، شاعری پر بھی کھل کر بحث و مباحثہ کو دعوت دی جا رہی ہے۔ ان میں ایک اہم نام شوکت حیات کا بھی ہے جو افسانے کے ساتھ مستقل افسانے کی تنقید بھی لکھتے رہے۔اناجبتسے نئے افسانے تک شوکت حیات نے ہمیشہ، ہر دور میں متحرک اور فعال ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مشتاق احمد نوری نے افسانوں پر تجزیہ کا مسلسل سلسلہ شروع کیا۔ ادب کے مینار کے عنوان سے اختر واصف نے ہم عصر افسانہ نگاروں پر مضامین لکھے۔ مبین صدیقی، جمال اویسی کے یہاں عصری حسیت کچھ زیادہ ہی نظر آئی۔ صغیر افراہیم، شہاب ظفر اعظمی، شافع قدوائی کی کتابوں نے فکشن اور ناول پر گفتگو کے نئے دروازے کھولے۔ آفتاب عالم صدیقی(شموگہ) نے اردو فکشن پر بیباکی سے تبصرے کیے۔ اس طرح ابرار رحمانی نے آج کل میں اردو فکشن سے متعلق نئی بحث کی شروعات کی۔ اس میں ایک بحث یہ بھی تھی کہ کیا 1980 کے بعد کوئی اچھا اردو افسانہ لکھا ہی نہیں گیا؟ اسی طرح اردو شاعری پر کوثر مظہری سے عالم خورشید تک مسلسل نئی گفتگو ہمارے سامنے آتی رہی اور ان گفتگوؤں کا حاصل یہ تھا کہ اردو شاعری اب ہر طرح کے ازم سے آزاد ہو چکی ہے۔ کرناٹک اردو اکادمی نے فکشن بالخصوص تنقید کے حوالے سے کئی اہم کتابیں ہمیں تحفہ میں دیں۔ اثبات نے مردہ جدیدیت میں جان پھونکنے کی ناکام کوشش کی تو تحریر نو نے نئے فکشن، نئی شاعری اور نئی تنقید کو ایک بڑا پلیٹ فارم دیا۔ بیگ احساس نے سب رس میں فکشن سے متعلق مباحث کے نئے دریچے وا کیے۔ احمد صغیر اور غضنفر اقبال نے 1980کے بعد کے افسانوں کا بھر پور جائزہ اپنی کتابوں میں پیش کیا۔ نسائی ادب کو لے کر ترنم ریاض نے اپنی تنقیدی کتاب کے حوالے سے اس بحث کو نئے سرے سے شروع کیا۔ دلت ادب بھی موضوع بحث بنا۔ مباحثہ میں وہاب اشرفی نے زیادہ تر نئے ناقدین کو سامنے لانے کا کام کیا۔ نئے عہد کی سائنسی شناخت کے لیے ڈاکٹر عبیدالرحمن کے سائنسی مضامین نے خاص جگہ بنائی۔ عبید سائنسداں بھی ہیں اور اچھے شاعر بھی۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کی ادبی فضا سائنس کے بغیر ادھوری ہے۔ سماجی ادراک و شعور کے لیے سائنس کی معلومات ضروری ہے۔ ڈاکٹر مولا بخش اور مشتاق صدف نے بھی فکشن اور شاعری میں نئے موضوعات کو جگہ دی۔ اردو ادب بالخصوص اردو فکشن کو لے کر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے نہ صرف سیمنار کیے بلکہ فکشن پر مضامین بھی لکھے اور ان مضامین کے مجموعے بھی شائع کیے۔
ڈاکٹر شرجیل احمد خاں نے سنجیدگی سے مختلف موضوعات پر کتابی سلسلے کا آغاز کیا اور سنجیدہ ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ سیما صغیر نے اردو اور ہندی کے فاصلوں کو کم کرنے پر زور دیا اور اس سلسلے میں ان کی کئی اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔
یہاں مصنف یا کتابوں کا نام گنوانا منشا نہیں ہے۔ ایک صدی گاتی بجاتی ہمارے درمیان سے رخصت ہو چکی ہے۔ ایک نئی صدی اپنے دس سال پورے کر چکی ہے اور ان دس برسوں میں ہماری اردو تنقید مغرب کے سرقہ سے باہر نکلنے کی سعی کر رہی ہے۔ یہاں اب ادب میں تیس مار خاں بننے کا چلن نہیں ہے۔ گلوبلائزیشن نے ایسے تمام لوگوں کو بے نقاب کر دیا ہے جو مغربی تھیوری کے سہارے اپنی ذات کی ’پرورش‘ کا دم بھر رہے تھے۔ نوجوان ناقد ادب میں متوازن اور صحت مند رویوں کی تلاش میں نکلا ہوا ایک ایماندار سپاہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو ادب کے صد سالہ سفر میں تنقید کے فرائض انجام دینے والوں پر میں کوئی الزام لگانے کی کوشش کر رہا ہوں :
’ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے‘
حالی سے کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، مجنوں گورکھ پوری، ظ انصاری، آل احمد سرور تک خاموشی سے کام کرنے والوں کا ایک سلسلہ تو رہا، مگر غور کیجیے تو تنقید کی کسوٹی پر مغرب کا رنگ آغاز سے ہی حاوی تھا۔ ذرا اور غور کیجیے تو ان دس برسوں میں جو تازہ دم قافلہ ابھر کر سامنے آیا ہے، اس کی کسوٹی میں مغرب کی پیروی نہ کے برابر ہے اور خوشی کی بات یہ کہ یہاں تخلیق کار ہی تنقید کی ترویج میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ شب خونی میزائلوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے۔ اعلیٰ تخلیق کی طرح اعلیٰ تنقید بھی وقت کی ایک ضرورت ہے۔ دس برسوں میں آنے والی ان خوشگوار تبدیلیوں کا استقبال کرنا چاہیے۔
٭٭٭
نئی صدی، ڈش اینٹینا کی یلغار اور ادب
ڈش اینٹینا سے اٹھنے والے سوالات اور ادب کو درپیش خطرات
الیکٹرانک میڈیا یا چینلز کے حملے سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی بات بے بنیاد ہے۔ ہمارے ملک میں چینلز کی آمد یا حملہ اب جا کر ہوا ہے، جبکہ چوتھی دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں یہ انقلاب پہلے ہی آ چکا تھا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ان کے حملے سے ہماری زندگی متاثر ہو گی یا ہمارے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جائیں گے یا برسوں پرانی تہذیب کو عریانیت یا ولگیریٹی کے ڈائنو سار نگل جائیں گے۔ یہ سوال اس لیے بھی بے بنیاد اور بے معنی لگتے ہیں کہ چوتھی دنیا میں چینلز کے حملے کے بعد یہ پیش گوئی تو ہو چکی تھی کہ دیر یا سویر ہمارے یہاں بھی اس میڈیا کے پاؤں پھیل جائیں گے۔
چینلز کے حملے کو ببر شیر کے آبادی والے علاقے میں نکل آنے کا خطرہ بتانا کم ہمتی کی علامت ہے۔ چینلز کا بڑھتا دائرہ، کمپٹیشن، نئی نئی مشینریوں کی آمد دراصل کسی بھی ملک کے لیے ترقی کی وہ مثالیں ہیں، جن سے نظر چرانے کے کام کو کم عقلی تصور کیا جائے گا۔ چھوٹی سی مثال کل اور آج کے بچے کو سامنے رکھ لیجئے۔ کل کسی بچے کو سیاروں کے نام وغیرہ یاد نہیں تھے، وہ دنیا کے بارے میں، خبروں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے ہچک سکتا تھا۔ ممکن ہے ماں باپ یا استاد کے ذریعے اس کے مطالعے میں جو بات ڈالی گئی ہو، وہ اسے بھول گیا ہو مگر وہی بچہ اگر وہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہو تو یہ واقعہ یا کہانی اس طرح اس کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے کہ وہ بھول نہیں سکتا۔ یہ رہی چھوٹی سی بات۔ زیادہ تر لوگوں کے ڈر یا اندیشے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کی اکثریت کو اندیشہ اس بات کا ہے کہ چینلز کے ذریعہ جو پروگرام سامنے آرہے ہیں، کہیں وہ ان کی تہذیب کو ختم نہ کر دیں۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کے سائے میں مظلوم ماں باپ کے چہرے روہانسے دکھتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والی نسل کا کیا ہو گا؟
اس خطرے کو نمایاں کر کے بتاتے ہیں … جیسے جین ٹی، وی کے سیکس پر مبنی پروگرام … زی ٹی وی کے وہ پروگرام جو گلاسنوست یا کھلے پن، کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اسکرٹس سے جھانکتے پاؤں، شہوانیت کو اکساتے، سینے کے کٹاؤ اور برانگیختہ کرنے والے مکالمے … وی۔ چینل یا میوزک چینک کے پاپ سانگز، جنہیں خاندان کے لوگ مل کر دیکھتے ہوئے ڈرتے ہیں … اسٹار پلس کے bay watch یا بیور لے ہلس جیسے سیریلز، جہاں بکنی چولی میں ساحل کے کنارے لڑکے لڑکیوں کے قدرتی مناظر ہوتے ہیں … صاف لفظوں میں کہیں تو عیاشیاں ہوتی ہیں۔ اسٹار پلس صبح دس بجے سے پہلے پہلے ایسے سوپ اپیرا ضرور پیش کرتا ہے، جن میں نابالغ یادس بارہ سال کے بچوں کے اندر کے وحشی جذبات کو ہوا دی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے اندر بیدار سیکس کو ہم طرح طرح کے فریم میں دیکھتے ہیں اور ہمیں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اچانک اپنی عمر سے بہت بڑی دکھائی دینے لگتی ہیں، یعنی صحت مند اور جوان۔
فلموں میں سیکسی سیکسی اور چولی جیسے گیتوں کی آمد، ذو معنی مکالمات، سیریلز کے جارحانہ رویے … آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی حالت دیکھیے … آپ ایک نہیں درجنوں مثالیں دکھا سکتے ہیں۔ مثالیں میں بھی دکھا رہا ہوں۔ باپ اور بیٹی جیسے مقدس رشتے کے درمیان ناجائز تعلقات کی کہانیاں ہر دن کے اخبار کی سرخی بننے لگی ہیں۔ کچھ ایسے ذہنی اور جسمانی مریض بھی ہیں کہ پانچ ماہ کی بچی کے ساتھ ریپ کیا۔ ایک سال کی، دو سال کی … دس سال تو بہت ہوتے ہیں۔ نہ ایسے عبرتناک واقعات کی کمی ہے، نہ ایسے سفاک اور بے شرم انسانوں کی … گنتی کم پڑ سکتی ہے مگر مثالیں کم نہیں پڑیں گی۔
تو کیا اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہماری تہذیب بس دو چار دن کی مہمان ہے … اور غیرت، شرم و حیا کے زیور اتر چکے ہیں … ہم کسی اندھی گپھا میں داخل ہو گئے ہیں، بھٹک گئے ہیں … یا چینلز کے حملے اور الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد جنسی بے راہروی کا جو طوفان آئے گا وہ رشتے ناطوں کی ساری عمارت کو مسمار کر دے گا؟
مثال کے لیے آپ بیرون ممالک یا یورپی ممالک کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ وہاں کی تہذیب کی دہائیاں دے سکتے ہیں وہاں نہ عورت کے بدن پر کپڑا ہے نہ زبان پر بندش ہے۔ مثال کے لیے آپ لیسبئن کلچر، گے کلچر اور سیکس کے اندھے، بہرے طوفان کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔
آپ کے پاس مثال ہی مثال ہے، یہ کہنے کے لیے کہ نئی نسل یا آپ کے بچوں کا کیا ہو گا، آپ کی تہذیب پر جو خطرہ لاحق ہے اسے کیسے دور کیا جائے؟
ان تمام مثالوں سے الگ … میری رائے میں یہ کوئی نئی یا ایسی حقیقت نہیں ہے کہ دنیا اپنے محور پر گھومتے گھومتے پہلی بار یہ سفر پورا کر رہی ہو۔ ہابیل اور قابیل سے لے کر پیغمبروں تک کے عہد دیکھ لیجئے۔ حضرت صالح کے گھر جب فرشتے سفید براق کپڑوں میں آیا کرتے تھے تو مدین والے ان فرشتوں پر بری نظر رکھا کرتے اور کہتے۔ ’’اے صالح! انہیں ہماری خدمت میں پیش کرو۔‘‘ حضور ؐ کے وقت ظلمت کی جو تاریکی قائم تھی، یہ آج کی دنیا اس سے کہیں زیادہ بری نہیں ہے۔ تہذیب کے کل پرزے تب بھی بچے رہے۔ ایسا ہر دور ہر عہد میں ہوتا رہا۔ تہذیبیں ختم نہیں ہوئیں، صرف رنگ بدلتی رہیں۔ ہاں، ان پر چوٹ پڑی۔ زخمی ہوئیں۔ مگر ختم نہیں ہوئیں۔
اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ چینلز سے خطرہ بڑھ گیا ہے تو کیا الیکٹرانک میڈیا کا پھیلاؤ نہیں ہونا چاہئے؟ اسے ہمیں کسی طوفان، خطرے یا آندھی سے بھی تعبیر نہیں کرنا چاہئے۔ یہ اس پھیلتی صدی کا ایک سچ ہے۔ اس طوفان کو آنا تھا اور یہ آ چکا ہے۔ تو کیا اس سے یا خطرے سے بچنے کی صورت حال پر غور کرنا چاہئے؟ جیسے ہم بچوں کو ٹی وی نہ دیکھنے دیں، گندے پروگرام کے آتے ہی ٹی وی بند کر دیں۔ جیسے انہیں سخت تنبیہ کریں، ڈانٹیں، پھٹکاریں، یا ماریں پیٹیں۔ اس بات سے نظر نہیں چرانی چاہئے کہ انسانی فطرت کی ازل سے یہ کمزوری رہی ہے کہ آپ جس بات کی ممانعت کریں وہ وہی دیکھنا یا سننا چاہتا ہے، پھر ایسے میں آپ اپنے بچے کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اس پر چوبیس گھنٹے نظر رکھیں گے؟ اس بات کو بھولیے نہیں کہ چند برسوں میں اسکولوں میں بھی سیکس کی تعلیم عام ہو جائے گی اور اسکولی بچوں کو ایڈز کے خطرے اور کنڈوم کے بارے میں بھی پڑھایا جائے گا۔ یقین نہ ہو تو ایڈز سوسائٹی کی جانب سے تیار کیے گئے اشتہارات یا تعلیم کی بک دیکھ لیجئے۔
آپ جس بات سے ڈر رہے ہیں، وہ ڈر، خوف، یا خطرہ قدرت کی پیداوار ہے۔ یعنی ایسا قدرتی عمل کہ آپ اپنے بچے کو نہ روک سکتے ہیں، نہ سمجھا سکتے ہیں۔ مذہب، سیاست اور دیگر چیزوں پر تو آپ، اس کے ذہن پر قابو پا سکتے ہیں۔ مگر سیکس ایک ایسا حملہ ہے کہ آپ اپنے صالح نظریے کو کسی بھی بچے پر تھوپ نہیں سکتے۔ وہ مذہب یا آپ کے اصولوں پر چل سکتا ہے، مگر جہاں تک سیکس کی بات ہے وہ اپنے طور پر سوچتا ہے۔ یہ احساس وہ قدرتی فعل ہے، جس پر ہمارا یا آپ کا بس نہیں چل سکتا۔ وہ بغیر دیکھے بھی بغیر Visuals کے بھی اپنے جسمانی ترنگوں کے مطابق ذہن میں کئی حرکت و حرارت دینے والے Visuals تیار کرسکتا ہے اور اس پر ہمارا اور آپ کا معاشرہ قابو نہیں رکھ سکتا۔
واقعات و حادثات کی یورش میں، سنگینوں اور بموں کی فضا میں، میزائلس، راکٹ لانچرز اور جدید ہتھیاروں، اسلحوں کی طرف تیزی سے بڑھتی دنیا میں، بے رحم سے بے رحم بنتی دنیا میں، سفاکیت، بربریت اور ظلم کی انتہا کے پیچھے، غیر انسانی فعل کے پیچھے آنے والی تباہی کا جو خوفناک چہرہ ہمیں دکھایا جاتا ہے دراصل وہ ہماری ہی پیداوار ہے۔ جیسے پہلے بنکر تھے اور اب ملیں ہیں۔ فیکٹریاں ہیں۔ جیسے پہلے پتھروں پر گھس کر ایک ہتھیار کو شکل دی جاتی تھی اور اب جدید اسلحوں کی بہتات ہے۔ ارتقاء کی ہر ریس میں یہی کہانی چلتی رہتی ہے، یہی کہانی شکلیں بدل کر سامنے آتی ہیں۔ ممکن ہے، آج سے دس سال بعد کی صورت حال اس سے بھی زیادہ غیر ہو … اس سے دس سال بعد کی اور ۔ مگر دھیان سے دیکھیں تو شکل وہی رہتی ہے۔ ہاں۔ ارتقاء کی ریس کے گھوڑے بدلتے رہتے ہیں۔
ہماری سنسکرتی، ہماری تہذیب، یہ سب ڈھول پیٹنے والی باتیں ہیں۔ یورپی ممالک میں باپ عقیدت کے ساتھ بیٹی کی پیشانی پر بوسہ لیتا ہے تو یہ بھی ایک تہذیب ہے۔ در اصل ہم نے ڈھول زیادہ پیٹے، قدیم تہذیب کا نعرہ تو ضرور بلند کیا، مگر کبھی جسمانی جغرافیائی حقیقت کے مطالعے سے دو چار نہیں ہوئے۔ پانچوں انگلیوں جیسی مثالیں یہاں بھی ہیں۔ ضبط نفس والے بھی اور نفس کو کھلا چھوڑ دینے والی بھی رہے۔ عذاب سے ڈرنے والے بھی رہے اور عذاب کا منہ چڑھانے والے بھی۔ بے قابو ہو کر مقدس رشتے کے چیتھڑے، اڑانے والے بھی ہر دور میں رہے اور وہ بھی رہے جو قدرتی قوانین سے منکر نہیں ہوئے، جنہوں نے ایک دائرے یا حصار میں رہ کر زندگی گزاری، یعنی وہی پانچوں انگلیوں کی مثال اور دنیا کسی ریس کورس کی طرح … گھوڑے وہی رہے، ریس کورس کی عمارت تبدیل ہوتی رہی۔
کچھ دیر کے لیے یہ بھول جائیے کہ چینلز کے حملے سے آپ کی تہذیب غارت ہو رہی ہے یا کچھ دیر کے لیے صرف اس کے فوائد پر غور کریں اور یہ کہ آپ لکھنے والے ہیں، خالق ہیں تو اس میڈیا میں آپ کا رول کیا ہوسکتا ہے؟
تو صاحبو! اس بارے میں ایک طویل فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے۔ نقصان وہ حصہ ہے، جسے چینلز کی غیر موجودگی میں بھی آپ نہیں روک سکتے تھے یا جس پر قابو پا سکتے تھے، فوائد وہ حصے ہیں جو آپ کے وژن کو نئے نئے زاویے دے سکتے ہیں۔
کچھ دیر کے لیے مان لیجئے کہ آپ اسی میڈیا سے جڑے ہوئے ایک آدمی ہیں، تو؟ آپ کا تعلق ادب سے ہے، جہاں آپ موجودہ مسائل کو محسوس کرنے کے بعد اپنے مخصوص وژن کو دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ مت بھولیے کہ پہلے جو میڈیاز آپ کے سامنے تھے، وہ انتہائی محدود تھے۔ وہ آپ کی بات، آپ کے نظریے کو ایک بڑے طبقے تک پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام تھے اور اب جو میڈیا آپ کے سامنے ہے، اس میں اتنی وسعت ہے کہ آپ اپنی بات بآسانی کروڑوں (بلکہ اربوں ) لوگوں تک سٹیلائٹ نظام کے ذریعہ پہنچا سکتے ہیں۔
جہاں آپ گلی گلی، کوچے کوچے کاروبار ہوتے ہیں۔ جہاں آپ کو قدم قدم پر ایماندار رائٹر، پروڈیوسر کے ذہن و نظریے پر بکنے والا نظر آتا ہے، وہیں کچھ مثالیں اور بھی تو ہیں … پتن سنہا، گودند نہلانی، شیام بینگل … کیا ایک ڈاکٹر کی موت، دروہ کال جیسی فلمیں اپنا Message عام لوگوں تک نہیں پہنچا پا رہی ہیں۔
فلم ’’ممبئی‘‘ ریلیز ہوئی اور اقلیتی طبقے کو ناراض کر گئی۔ اس کے اختلافی پہلو کو چھوڑیے تو فساد کے بعد ایک عبرتناک منظر ضرور سامنے آتا ہے۔ جب مسلم لڑکی اور ہندو لڑکے کے باپ فساد کی خبر سن کر اپنے بچوں کے پاس آتے ہیں، اور مذہب کا فرق صرف ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے، یعنی یہاں یہ بات خصوصیت کے ساتھ فلمائی گئی کہ کٹر پن دراصل ہمارے سماج یا معاشرے کا وہ کوڑھ ہے جس کی پرورش بھی ہم ہی کرتے ہیں، ورنہ وہ دونوں کٹر باپ ایسے موقع پر مذہبی فرق کو بھول کر اپنے بچوں کو گلے نہیں لگاتے۔
سوال اگر روٹی کے دو ٹکڑے پر بکنے کا ہے تو یہ بکنے والے پتھروں کے عہد میں رہے ہوں گے،ایسے لوگ ہر عہد میں ہوتے ہیں۔ اس کا کیا علاج۔؟
الیکٹرانک میڈیا ایک مشکل میڈیا ہے۔ کیمرے کی زبان چلتی ہے۔ ہر کہانی لکھنے والا Visuals اور فریم کی سمجھ بھی رکھے، یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ کہانی اور اسکرین پلے کے بیچ ایک لمبا فاصلہ ہے۔ اس فرق کو ہم تبھی پاٹ سکتے ہیں جب ہم اپنے وژن کو بھی وسعت دیں۔ ادب اور فلم دونوں ہی ترسیل یا اظہار بیان کے Powerful medias ہیں۔ ان میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بیچ ایک لمبی دیوار حائل ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے، وہاں کردار نگاری، موضوع کے ساتھ انصاف، جزئیات نگاری ان سب کے ساتھ ساتھ احساس کی وہ زیریں لہریں بھی چلتی رہتی ہیں، جن کا براہ راست تعلق ادیب کی اپنی Ideology سے ہوتا ہے۔ یعنی یہ آئیڈیالوجی کبھی کسی کردار کے سہارے، تو کبھی ماحول کی عکاسی میں رنگ بھرنے کے ساتھ، تو کبھی اس کی فلسفیانہ اساس کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہے۔ یعنی یہ احساس کا سرمایہ ہی دراصل وہ ہتھیار ہے جس کی عکاسی کے لیے قلم کار ہاتھوں میں قلم اٹھاتا ہے۔ ادب برائے ادب کے قائل حضرات کے سامنے بھی کوئی نہ کوئی ایسامقصد تو ہوتا ہی ہے کہ جس کے سہارے قلم ان کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ احساس کی انہیں زیریں لہروں کو فلمانا، کیمرے میں اتارنا فلم کار کے لیے سب سے مشکل ہوتا ہے۔ فلم، لائٹس، شیڈ اور ساؤنڈ پر منحصر میڈیا ہے۔ اچھے ہدایت کار یا فلم کار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انہیں احساسات کو Visuals کی زبان دینا ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کی وضاحت کروں، بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلم اور ادب کے سلسلے میں جو بد گمانیاں ہیں یا الزامات ہیں، پہلے انہیں سامنے رکھوں۔ جیسے۔
(۱) نئی تہذیب کی بنیاد انسانی زندگی کے آدرشوں پر نہیں، سوپ اپیراؤں پر رکھی جائے گی، جو ان کے اسپانسر زیا پروڈیوسرز کے ذہن کی ترجمانی کریں گی۔ اس میں قلم کار کا رول برائے نام ہو گا، اس لیے کہ ان کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہو گی، جس کا سرا اسپانسرز یا پووڈیوسر، دائریکٹر کے پاس ہو گا۔
(۲)چینلس کی چمک اگر کسی لکھنے والے کو کمزور کرتی ہے تو اس کی آئیڈیالوجی متاثر ہوتی ہے، یعنی وہ اس میڈیا کی حد بندیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان الزامات کو دلیل کے سہارے پیش کرنے کے لیے منٹو، عصمت، پریم چند وغیرہ کی مثال بھی دی جاتی ہے، جو اس میڈیا سے ناکام گزرے۔ ان الزامات کے نتائج کے طور پر لکھنے والوں کے سامنے کھل کر جو باتیں آئی ہیں، ان کا اشارہ ہندی کے افسانہ نگار پنکج بشٹ نے اپنے مضمون میں کچھ اس طرح کیا ہے:
’’فلموں میں ادبی تخلیقات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ کسی تخلیق کار کو اپنی تخلیقی فلم بنانے کے لیے نہیں دینی چاہئے۔‘‘
ان الزامات کو یوں بھی درست دیکھتے ہیں کہ برنارڈ شا جیسے ادیب نے تخلیق کو سلولائڈ پر اتارنے کی مخالفت کی تھی۔ وہ اپنی تخلیق فلم والوں سے بیچنے کے خلاف تھے۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ فلم والے لاکھ چاہیں، لیکن وہ ان احساسات کی، سلولائڈ پر ترجمانی نہیں کرسکتے۔ برنارڈشا کے علاوہ بھی، ان کے عہد میں یا آج کے عہد میں، فلم میڈیا کا یہ احساس برقرار ہے۔
اس سے پہلے ایک بات اور واضح کردوں۔ فلم اور ٹیلی ویژن کی تکنیک میں بھی کافی فرق ہے۔ فلم کی اپنی زبان ہے، جو ڈھائی یا تین گھنٹے پر محیط ہے۔ فلم کا بجٹ کروڑوں کا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے فنانسرز کی ایک لمبی فوج بھی ہوتی ہے۔ فلم ایک ایسا میڈیا ہے، جہاں دیکھنے والوں کو اپنے وقت کے حساب سے ٹکٹ کٹا کر ہال میں جانا پڑتا ہے، (گو اب یہ آسانیاں کیبل آپریٹرز نے پوری کر دی ہیں، تاہم ۳۶ ایم ایم کی فلم کو پردے پر دیکھنے میں ہی لطف ہے) ٹی وی کی فلم آدھے گھنٹے یا ایک گھنٹے کی ہوتی ہے اور اس کے لیے بس دور درشن کے آن کرنے کی زحمت گوارا کرنی پڑتی ہے۔ یہ باتیں سب کو پتہ ہیں، لیکن یہاں یہ بتانے کا سبب یہ ہے کہ فلم اور دور درشن کے لیے بنائے جانے والے سیریل یا فلم میں جو فرق ہے، وہ آپ کے سامنے رہے۔ فلم کا جو پروسیس ہے، وہاں سین، گانوں، کلائمکس، ہنسی مذاق، ان ساری چھوٹی چھوٹی باتوں کو ریلیز کے حساب سے طے کرنا ہوتا ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو فلمیں اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ پروڈیوسر یا سرمایہ کاروں کا پیسہ فائدے سمیت واپس مل سکے، یعنی سودا منافع بخش رہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو فلم بھی ایک ایسا میڈیا ہے، جو ادیب کے اندر آگ یا نظریے کو ہزاروں، کروڑوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے، مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ …
(۱)اسپانسرز یا پروڈیوسر، ڈائریکٹر کا حکم نہ چلے (یعنی جیسا وہ چاہتے ہیں … فلم کو ہٹ بنانے لیے)۔
(۲) کہانی کو توڑ مروڑ کے ساتھ پیش نہ کیا جائے۔
در اصل فلموں کے ساتھ زیادہ یہی ہوا ہے۔ کھل کر کہیں تو ادب کا استحصال ہوا ہے — لیکن استحصال ادیبوں کا بھی ہوا ہے، جو جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر اس کمرشل میڈیا میں آئے ہیں … یعنی ایسی فلمیں منور نجن یا تفریحی فلموں کی صف میں رکھی جا سکتی ہیں، لیکن سچ یہی نہیں ہے … گورودت، ستیہ جیت رے، رتوک گھٹک سے لے کر کئی لوگ ہیں جو فلم کی زبان کو موڈرن طریقے سے سمجھنے میں کامیاب رہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ Lightes, shades او ر ماحول کی باریکیاں دکھاتے ہوئے Sound effects کے ذریعہ کبھی کیمرے کی زبان سے صرف ا حساس کی وہ زیریں لہریں نہیں آ گئیں، بلکہ کہیں کہیں تو Visuals کی زبان سے بڑھ گئیں۔ مانتا ہوں، ایسا کم ہوا ہے، لیکن ایسا ہوا ہے، اس سے انکار نہیں۔
اس میں بحث کی گنجائش اس لیے بھی نہیں ہے کہ ادب کے میدا میں بھی Popular literature کو خاص جگہ حاصل رہی ہے۔ جس طرح پاپولر لٹریچر پر بحث کی گنجائش نہیں ہے، اس لے اس نوع کی فلمیں یا ایسی فلمیں لکھنے والوں پر بھی تبصرہ نہیں ہونا چاہئے۔ جو لوگ فلم یا visuals کی زبان سمجھتے ہیں وہ اس میڈیا میں کامیاب ہوسکتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان زیریں لہروں کی عکاسی بھی کرسکتے ہیں۔ (یہاں بزنس پوائنٹ کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ آرٹ فلموں کے انقلاب اور پھر زوال، پھر آرٹ کم کمرشل مووی کی شروعات، سماج بدلنے والے خطرناک رجحانات، انتہا پسندی، خوفناک مکالمے … اسی اتھل پتھل اور بدلتے ہوئے عہد کی دین ہیں )
الیکٹرانک میڈیا کے اچانک حملے کے بعد ادب کا دائرہ محدود ضرور ہو گیا ہے۔ اردو اور ہندی کے رسائل بند ہو گئے، مگر یہ نئی چیز نہیں ہے۔ اسے کسی انقلاب سے تعبیر کرنا بھی عقلمندی نہیں ہے۔ ایسے انقلاب امریکہ وغیرہ میں بہت پہلے آ چکے ہیں۔ کچھ برس یا دس سال کا وقفہ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز کے لیے ایک کشش تو رہتی ہے، لیکن ادب لکھنے یا پڑھنے کے رجحان میں وہاں فرق نہیں آیا۔ انقلاب اپنی جھلک دکھا کر رخصت ہو گیا۔ اب ہندستان کے سماج کا جائزہ لیں۔ ٹی وی پر جب ہفتے میں ایک بار اتوار کے روز فلم دکھانے کا رواج شروع ہوا تو شام کو سڑکیں سنسان ہونے لگیں۔ دانشوروں کے بیان جاری ہوئے کہ سماج اب علاحدہ علاحدہ اکائیوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس موضوع پر کچھ کہانیاں بھی لکھی گئیں۔ ہنگامے ہوئے۔ پھر سنیچر کو بھی فلم دکھانے کا رواج شروع ہوا۔ پھر کیبل آ گیا اور فلم ہی فلم کا دور شروع ہوا۔ نتیجے کے طور پر وہی لوگ جو دور درشن سیٹ کے آگے مستقل بیٹھے ہوتے تھے، اپنی اپنی دنیاؤں میں پھر سے واپس ہو گئے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ چینلز کے حملے سے ہمارے دوچار برس تو ضرور متاثر ہوں گے، مگر یہ وقفہ زیادہ لمبا نہیں ہو گا۔ بہر حال ادب کی دنیا میں لوگ واپس لوٹیں گے۔ پہلے جیسا سلسلہ نہ سہی، کم و بیش ویسا ہی سلسلہ ضرور شروع ہو جائے گا،نئی تبدیلیاں سامنے آئیں گی۔ لکھنے والوں کی کمی ہو گی، نہ پڑھنے والوں کی۔
بشٹ جی کے الزامات کو ٹی وی کے آئینے میں دیکھنا ضروری ہے۔ فلموں میں ادبی تخلیقات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے یا کسی تخلیق کار کو اپنی تخلیق فلم بنانے کے لیے نہیں دینی چاہئے۔
ٹی وی (یہاں وہ تمام چینلز بھی آتے ہیں ) کا لکھنے والا فلموں میں لکھنے والے کے بہ نسبت زیادہ آزاد ہے۔ فلم میں شاٹ ڈویژن کرتے وقت، فلم کی لمبائی چوڑائی دیکھتے ہوئے اور ایسی کئی مجبوریوں کے پیش نظر اسکرپٹ کتربیونت کا شکار ہوسکتی ہے۔ ٹی وی کے لیے لکھنے والوں کو ایسی دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہاں اس کی ذات کو بھی دخل ہے کہ وہ کس قدر اپنی بات منوا سکتا ہے یا دلیل دے کر پروڈیوسر کو حاضر جواب کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے، ابھی ہم الیکٹرانک میڈیا میں آئے انقلاب سے گزر رہے ہی، گو یہ انقلاب دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائے گا اور وہی عام زندگی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت اظہار بیان کے لیے سب سے طاقت ور میڈیا یہی ہے (یہ الگ بات ہے کہ سوپ اپیراؤں کا دور شروع ہو چکا ہے اور اچھی خاصی کہانی اپنی طوالت کے سبب گمراہ ہو جاتی ہے)
ایک سوال سامنے آتا ہے کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔ آپس میں سننے سنانے کے لیے خوش ہونے کے لیے یا اپنی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے؟ اگر آپ اسے مانتے ہیں تو فلموں میں ادبی تخلیقات کے استعمال سے پرہیز نہیں ہونا چاہئے اور نہ ادیب، فلم والوں کو اپنی تخلیق دیتے ہوئے خوف کا احساس ہونا چاہئے۔
جیسا میں نے عرض کیا ہے کہ کیمرے اور آواز کی شکل میں جو میڈیا ہمارے پاس ہے، وہ احساس کی زیریں لہروں کو بھی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادیب کب تک اس میڈیا سے کٹتا رہے گا یا خوف کا شکار رہے گا یا کب تک اسے اس بات کا احساس رہے گا کہ فلموں میں تو اس کی تخلیقات کا دم گھٹ جائے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر اس نے درمیان کا کوئی راستہ نہیں نہیں نکالا تو انقلاب کی اس کروٹ میں وہ بس چند لوگوں تک ہی اپنی بات، اپنا نظریہ پہنچا سکے گا۔
اب اس خوف سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ Visuals یا کیمرے کی زبان اور اس کی باریکیوں کو سمجھا جائے۔ ادب ادب ہے۔ ادب فلم پر ہمیشہ سے حاوی ہے۔ فلم کا میڈیا ادب پر حاوی نہیں ہوسکتا، مگر کروڑوں عوام تک ہماری بات کی ترسیل ممکن ہو تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر ادیب (جینوئن ادیب) نقصان اور خطرات کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہیں تو ظاہر ہے وہ اسپانسرز یا پروڈیوسرز جو اپنی آئیڈیا لوجی آپ پر تھوپنا چاہتے ہیں، وہی سامنے آئیں گے اور نتیجے کے طور پر ہمارے سماج یا معاشرے کا جو حال ہو گا، وہ منظر مضمون کے شروع میں، میں آپ کو دکھا isusچکا ہوں، اس لیے میں پھر کہتا ہوں، آپ لکھتے ہیں، آپ ادب سے جڑے ہیں تو آپ سامنے آئیے۔ چینلز کے حملے سے منہ مت موڑیے۔خوش آمدید کہیے۔
میں ادب میں ایک حد تک ابہام کو ضروری تصور کرتا ہوں۔ یعنی ابہام آپ کے ادب کو نئے نئے معنی تو پہناتا ہی ہے، ساتھ ہی اسے عالمگیری حسن اور آفاقیت بھی عطا کرتا ہے، مگر ہم اگر پہلے سے ہی یہ سوچ بیٹھے ہوں کہ ہمیں ایسا ادب تخلیق کرنا ہو، جسے Serialise کرنا مشکل اور دشوار ہو تو یہ بیکار سی بات ہے۔ ایسے لوگ اپنے فن کے تئیں ایماندار نہیں ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ علامتیں خود بخود بیانیہ کے ساتھ شامل ہو کر اسے نئے نئے معنی سے آراستہ کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ کفکا، سارترے، ہیمنگ وے، رچرڈبا، گبریل گارشیامار کوئز جیسی کتنی ہی مثالیں سامنے ہیں جنہوں نے اپنے ما فی الضمیر کی کامیاب ترسیل کی ہے۔
— (۱۹۹۸)
٭٭٭
کیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کا متبادل ہے؟
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر باتیں کرتے ہوئے مجھے بار بار جارج آرویل کے مشہور زمانہ ناول ’۱۹۸۴‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اسٹالن اور ہٹلر کے معاہدہ سے خوف زدہ آرویل کو ’بدترین کے خلاف بدتر‘کا نعرہ بلند کرنے پر مجبور ہونا پڑا … دوسری جنگ عظیم کے خوف ناک ماحول نے Animal – farm اور ۱۹۸۴ کی بنیاد رکھی … یوں تو ۱۹۸۴ کے مطالعہ کو ایک مدت گزر چکی ہے لیکن سناٹے میں ابھرتے ہوئے آرویل کے لفظ آج بھی میرے ارد گرد ایک خوفناک حصار کھینچ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ Big brother is watching you قدم قدم پر آپ کا جائزہ لیتی ہوئی Thought Police — ہوشیار خبردار کہیں آپ کے چہرے پر شکن تو نہیں …
کہیں آپ غور وفکر کے پل صراط سے تو نہیں گزر رہے ہیں۔؟
اور یقیناً Thought Police آپ کی گرفتاری کا وارنٹ لیے قدم قدم پر موجود ہے۔
سوچتا ہوں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر گفتگو اور آرویل کے درمیان کیسا ربط ہے۔
مجھے احساس ہے کہ تواریخ اپنے کو دہراتی ہے۔ Big brother is watching you کا خوفناک ماحول کل بھی تھا۔ اور آج بھی ہے … جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد بھی تباہ کاریوں کے نئے نئے اور خوفناک سلسلے جاری رہے … جاتے جاتے بیسویں صدی ایک طرف جہاں انسان کی آنکھوں میں ارتقاء کے نت نئے خواب رکھتی گئی وہیں عالمی انسانی برادری سے متعلق سوال کھڑا کرتی گئی … انسانی ارتقاء کی حیرت انگیز تواریخ ایک طرف دنیا کو ایک چھوٹے سے عالمی گاؤں میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی۔ دوسری جانب اسی عالمی گاؤں کے رہنے والے بیمار اندیشوں اور وسوسوں کی کہانیاں لکھ رہے تھے …
ترقی کی اس ریس کے بعد … ای کامرس، ای میل، ای ایجوکیشن کے بعد … انٹرنیٹ کے وسیع ہوتے ہوئے دائرے کے بعد …
کلوننگ کے بعد، انسان کے تجربے کے بعد … آسمان پر کمند پھینکنے کے بعد … ٹرانسپلانٹیشن کے معجزہ سے گزرنے کے بعد …
سوالات کی اس لمبی، لا متناہی قطار میں، بس دوچار برس بعد مستقبل کے کچھ ایسے بچوں کے دھندلے چہرے بھی نظر آرہے تھے، جو پوچھ رہے تھے …
’اچھا پایا … ‘ آپ استاد سے پڑھتے تھے ہمیں تو کمپیوٹر پڑھاتا ہے۔
پھر شاید کمپیوٹر بھی نہیں … نئی نئی ٹیکنالوجی انقلابات بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ ایسے انتظامات کہ ابھی عقل وفہم جن کا احاطہ نہیں کرسکتے …
انہی سوالوں میں، آرویل کے ناول کی دہشت ناک فضا کی طرح ایک سوال بار بار ذہن کے پردے سے ٹکراتا ہے …
الیکٹرانک میڈیا کی یلغار کے بعد کیا پرنٹ میڈیا ختم ہو جائے گا … ؟
پرنٹ میڈیا کا مستقبل کیا ہے؟
چینلز کی یلغار، انٹرنیٹ کے جسم سے برآمد گوشت پوست کی عورتیں اور ان سے چپکی نوجوان نسل، پرسنل کمپیوٹرس پر جھکے ہوئے دماغ … اور ایک طرف وہی پرانی مشینیں وہی کاغذوں کے انبار … اور وہی سلگتے جاگتے لفظ، وہی لفظ کمزور اور بونے لفظ وہی سیاسی لفظ … وہی لفظ جو جلی سرخیوں میں بھی آپ کو چونکاتے تھے، مشتعل کرتے تھے، بے چین کرتے تھے، آپ کو جذباتی بناتے تھے، انہی لفظوں نے یکایک پیرہن بدل لیا … مشینیں پرانی ہو گئیں۔ وہ لفظ قلم اور سیاہی سے کودے اور Visuals بن گئے … وہ کیفیتیں مکالمے، فوٹو گرافی، اداکاری اور ایڈیٹنگ کے تکنیک میں سما گئیں …
تو کیا سارے لفظوں نے پرنٹ میڈیا سے دوستی ختم کر لی … برسوں سے یکسانیت اور بورڈم کے شکار لفظوں نے Visual media سے دوستی کر لی۔ تمدن کے پرانے چراغ گل ہو گئے، پرانی روایتیں پامال ہو گئیں … وہ چائے کی چسکیاں وہ صبح کی ٹھنڈی ہوا اور اخبار … باغوں میں پڑے ہوئے جھولے اور کتابیں اور آنکھوں میں قید ایک عجیب سی رومانی دنیا … بیڈروم پر تکیے کے نیچے پڑے ہوئے مڑے تڑے رسائل، میز پر ادھر ادھر رکھی ہوئی کتابیں … گھر کی لائبریری میں پر جھولتا ہوا ایک بوڑھا وجود … میز پر پڑی ہوئی عینک اور ریک پر، ایک قطار میں سجی کتابیں …
تو کیا وقت بوڑھا ہو گیا …
پرانی کہانیاں وقت کی زنبیل میں کھو گئیں یا دفن ہو گئیں …
ابھی کچھ برسوں پہلے کی Reading – habit ماضی کا قصہ پارینہ بن گئی … ہم ریموٹ کلچر کے لوگوں نے ہاتھوں میں ریموٹ تھام لیا …
سونی کا پروگرام پسند نہیں آیا تو Zee لگا دیا Zee پسند نہیں آیا تو MTVلگا دیا MTV پسند نہیں آیا تو کسی پاپ گانے کے انتظار میں آنکھیں تیرنے لگیں۔
اس سے بھی جی گھبرا گیا تو انٹر نیٹ سے دو دو ہاتھ کر لیے۔
دوردرشن پسند نہ آیا تو، Zee پسند نہ آیا تو، بیوی پسند نہ آئی تو، بچے پسند نہ آئے تو … وہی ریموٹ اور ایک نیا ریموٹ کلچر …
لفظ، کیفیت اور زبان:
جب کچھ بھی نہیں تھا تب بھی لفظ تھے … صفحہ ہستی پر موجود بے نام اشیاء کی صورت میں یہ لفظ موجودات کی دنیا میں اپنی اہمیت ثابت کرنا چاہتے تھے … پھر یہ لفظ زور زور سے چیخے … ادھر صدیوں کے نئے نئے برس بدلنے کا ڈرامہ شروع ہوا، ادھر تہذیب اور سماجی زندگی میں تعمیرات کا دور شروع ہوا … لیکن کیا بدلا تھا؟ کتنا کچھ بدلا تھا؟ کچھ بھی نہیں بدلا تھا …
وقت اپنی لمبی عمر کی جھریاں سی رہا تھا مگر … بدلا کچھ بھی نہیں تھا …
ہاں، ریس کے گھوڑے بدلے تھے … اور ہر آنے والی نسل ہرمن ہیسے کے ڈیمیان کی طرح اپنے نئے نئے گھوڑے بدل بدل کے صفحہ ہستی پر اپنی موجودگی ثابت کر رہی تھی …
ایک جرمن شاعر کہتا ہے …
آہ! بدلتا کچھ بھی نہیں، تم نے غور نہیں کیا اپنے دادا میں بھی تم تھے اور باپ میں بھی، صدیوں پہلے، تمہارے پروجوں میں، سب سے پہلے جس آدمی نے تمہارے خاندان کی پہلی انگلی تھامی تھی، یقین کرو گے وہ بھی تم تھے۔ تو طے ہوا، بدلتا کچھ بھی نہیں ہے … موسم وہی انسان وہی، انسان کی فطرت وہی … وہی جبلت، خوں ریزی، کبھی لچک کبھی عیاری مکاری … صرف صدیوں کے اندھڑ، ذرا دیر اپنی خوفناکی اور تباہی کی کہانیاں دہراتے ہوئے گزر جاتے ہیں … بندر انسان بن جاتے ہیں … ڈائنوسار کی جگہ دوسرے جنگلی جانور لے لیتے ہیں اور انسان … اپنی عادتیں اپنی فطرت لباس کی طرح بدلتا رہتا ہے … اور ارتقاء کے ریس میں اپنے ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے … کوئی ایک شہر ندی کے اٹھتے شعلوں کی نذر ہو جاتا ہے … پھر کوئی نیا ہیرو شیما، نیانا گاساکی … نئی بلندیاں اور نئے انسان …
کبھی لفظ جاگتے ہیں … کبھی لفظ سیاسی نعرے بن جاتے ہیں۔ کبھی خوب صورت رومانی مکالمے، کبھی پرنٹ ہو کر آپ کی عادت آپ کی زندگی کی ضرورتوں سے اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ روز مرہ کی روٹین بن جاتے ہیں اور کبھی … لمحے صدیوں کے فاصلے طے کرتے ہیں تو کہیں لفظ نئے مواصلاتی نظام میں ڈھل کر کبھی ریڈیو، ٹی وی، نئے نئے چینلز، کمپیوٹر، ڈیجیٹل اور ملٹی میڈیا کی نئی نئی دریافت بن جاتے ہیں … لیکن ٹھہریے … آہ! کہیں ایک حادثہ آپ کا انتظار کر رہا ہے اور حقیقت ہے کہ وقت نے صدیوں کی انگلی تھامی، اڑن طشتری میں بیٹھا اور یوں … اڑن چھو ہو گیا …
مگر کہاں … ؟
آہ! مکالمے نہیں رہے … پرنٹ میڈیا سے آگے نکل کر خود کو الیکٹرانک میڈیا کے حوالے کرتے ہوئے خو د اپنی آن بان شان کھوتے چلے گئے … اور پھر لفظ منہ سے ہونے والی ادائیگی بھول کر پرسنل کمپیوٹر س پر دماغ میں چلنے والی کشمکش اور تھرکتی ہوئی ہاتھوں کی انگلیاں بن گئے۔
انگلیوں کا رقص جاری رہا۔ لفظ غائب ہوتے رہے۔ مکالمے سناٹے میں ڈوب گئے۔ ایک کیفے ہے … انٹرنیٹ کی دکان سجی ہے … کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے لوگ خاموشی سے اسکرین کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں … دنیا ایک چھوٹے سے گلوبل گاؤں میں تو تبدیل ہو گئی ہے مگر آہ! وہی حادثہ …
یہ گلوبل گاؤں انسانی لمس سے قطعی نا آشنا ہے۔ یہ گلوبل گاؤں اپنی تنہائی کی دنیا تو سجا لیتا ہے مگر مکالموں اور خلوص و محبت کی دنیاؤں سے دور نکل آتا ہے۔
اور در اصل الیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے اتنا کیا کہ ہمیں ترقی کے اس مقام پر پہنچا دیا، جس کے بعد کوئی ترقی نہیں۔ جس کے بعد کوئی ریس کا گھوڑا نہیں۔ جس کے بعد دنیا کا نام و نشان نہیں۔ بس ایک دھماکہ … اور آئن اسٹائن کی باتیں کہیں سیسے کی طرح کانوں میں اتر جاتی ہیں … میں نہیں جانتا تیسری جنگ عظیم کیسے کیسے اسلحوں سے لڑی جائے گی۔ مگر یقیناً چوتھی جنگ عظیم کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ایک بار پھر سے تیر اور بھالوں کا استعمال شروع ہو جائے گا۔
اس سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر H.G. Wells ایک خوفناک منظر ہمیں دکھاتا ہے … ایک سائنسداں جس نے انسانوں جیسا روبوٹ بنا لیا ہے۔ نین نقشہ سب کچھ انسانوں جیسا۔ انسان بیکار ہونے لگے ہیں۔ کمپیوٹر اور روبوٹ ان کے سارے کام انجام دینے لگے ہیں۔ پھر ایک دن کمپیوٹر اور روبوٹ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ نکما انسان تو برسوں سے ان کا استحصال کر رہا ہے اور ایک صبح وہی سائنسداں روبوٹ کو دیکھتا ہے۔ روبوٹ سب سے پہلے اس سائنسداں کو قتل کر دیتا ہے۔
در اصل گلوبلائزیشن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی برق رفتاری کو لے کر احتجاج درج کرانا نہیں چاہتا۔ لیکن سوپر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اس عہد میں جس طرح انسان آہستہ آہستہ Digital ہوتا جا رہا ہے اس سے ایک افسوسناک فضا قائم ہوتی ہے۔ ترقی اچھی چیز ہے لیکن اس عہد میں جب موت آپ کی مٹھیوں میں بند ہے۔ انسان کی دسترس میں ہے، جب ٹرانسپلانٹیشن کے تجربوں میں آپ بندر کے اعضا کا استعمال کرسکتے ہیں، جب الیکٹرانک میڈیا کی یلغار آپ کو نکما اور انسانی اخلاقیات سے پرے کا انسان بنا دیتی ہے، تو سوچنا پڑتا ہے کہ اس ختم ہوتی تہذیب کے اس Explosion Point پر ہمارے بچے کیا دیکھیں گے … مہانگر کے کالونی کلچر میں ان بچوں کے لیے نہ دودھیا آسمان ہے نہ آکاش میں پھیلے چاند ستارے۔ نہ کشادہ چھت ہے اور نہ چھت پر نکلی ہوئی پلنگڑیاں، جہاں باتیں جاگتی تھیں۔ جہاں محبت میں ڈوبے مکالمے ہوتے تھے، جن سے ایک زندگی کی مسرت کے سلسلے شروع ہوتے تھے۔اب بند کمرے ہیں۔ کالونی کلچر ہے۔ پرسنل کمپیوٹر ہے سوتے ہوئے لفظ ہیں۔
کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابات نے ہم سے سکھ پر خوش ہونا اور دکھ سے رونا چھین لیا ہے جو شاید مستقبل میں بالکل ہی عنقا ہو جائے اور کسی پرانے یگ کی گپھا سے کبھی بھی برآمد نہ ہو۔
باتیں پرنٹ میڈیا کی خوف الیکٹرانک میڈیا کا:
اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کی یلغار سے پرنٹ میڈیا متاثر ہو رہا ہے۔لیکن یہ خوف بے معنی ہے کہ پرنٹ میڈیا کی شناخت یا وجود ہی ختم ہو جائے گی۔ کسی بھی ملک میں الیکٹرانک چینل کی یلغار سے کچھ برس تو متاثر ہوتے ہی ہیں۔ یہ وقفہ کبھی کبھی دس پندرہ برسوں سے زائد بھی ہوسکتا ہے۔ گزشتہ کئی برس قبل امریکہ میں جب ٹی وی فوبیا نے امریکہ باسیوں کو ۲۴ گھنٹے کے لیے جکڑ لیا تو عام سوالات یہ پیدا ہو رہے تھے کہ اب … اخباری صحافت کا کیا ہو گا؟ کیا ادب ختم ہو جائے گا … ؟ اس کے قارئین کسی میوزیم میں رکھ دیئے جائیں گے؟ اخلاقیات پر اس تبدیلی کا کیا اثر ہو گا؟ مگر کچھ ہی برس گزرنے کے بعد عام زندگی اپنی روش پر لوٹ آئی تھی۔ وہی اخبارات، وہی ادب وہی ضخیم کتابوں کا چلن۔ بیسٹ سیلرز سے لے کر ادب کی کتابیں تک آہستہ آہستہ لوگ بورڈم کا شکار ہونے لگے اور اپنی پرانی دنیا میں واپس آ گئے۔
ہندستان میں الیکٹرانک میڈیا کی سرگرمیوں کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ وہ دن بھی یاد ہے جب بنیاد اور دوسرے مقبول سیریل کے وقت سڑکیں صاف ہو جاتی تھیں۔ آج سے شاید دس برس قبل پہلی بار دوردرشن نے اتوار کے روز شام ۶ بجے کے آس پاس فلم دکھانے کا چلن شروع کیا تھا۔ اخلاقیات سے جڑا ہوا یہ ایک ایسا حادثہ تھا کہ اخبار کے اخبار رنگ دیئے گئے۔ لیکن کیا ہوا۔ وقت گزرا۔ کیبل آپریٹرس کے علاوہ چینلوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ نتیجہ ۲۴ گھنٹے سیریل چوبیس گھنٹے فلم — عام ہندستانی دوبارہ اپنے معمولات کے بندھے ٹکے اصولوں میں واپس لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش میں کچھ برس لگ سکتے ہیں لیکن اس سے اخبارات کی دنیا یا ادب پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ یہاں الیکٹرانک ذرائع ترسیل کے پھیلاؤ نے وقتی طور پر صحافتی دنیا میں ایک ہنگامہ تو برپا کر ہی رہا ہے۔
اردو کا جائزہ لیں تو بڑے بڑے اخبارات بند ہو گئے۔ شمع جیسے رسالہ کا قاری کم ہو گیا۔ بلٹز بند ہو گیا … ہندی میں اسی طرح کی بہت سی میگزین نکل رہی تھیں لیکن الیکٹرانک چینل کی یلغار نے رن رسائل کے قاری بھی چھین لیے جیسے دھرم یگ، ساپتاہک ہندستان ساریکا، اور ابھی حال میں نند پرکاش نے اپنی چند مشہور میگزین بند کرنے کے اعلان سے ہندی صحافت میں ایک ہنگامہ تو برپا کر ہی دیا ہے۔ یعنی منورما، منوہر کہانیاں اور مایا جیسے مشہور رسائل بھی الیکٹرانک میڈیا کی بھینٹ چڑھ گئے۔
تو کیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کا متبادل ہے۔ یعنی ادب اور میگزین کی جگہ ریڈیو اور انٹرنیٹ عام انسان کی خوراک بن گیا ہے۔ پریم چند اور منٹو جیسے افسانہ نگاروں کے افسانوں کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹ مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ اور یہاں تک کہ ابھی حال ہی میں ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق کمپیوٹر واقعی شاعری کرنے لگا۔ اخباری خبروں کی جگہ چینلز کے نیوز آئٹم نے لے لی ہے۔ خبریں بھی تبصرہ بھی تجزیہ بھی۔ بچوں کی پڑھائی کا مسئلہ بھی طے یعنی فاصلاتی نظام تعلیم کے بعد اب ای ایجوکیشن۔ انفارمیشن انقلاب کے دھماکہ سے ایک نئی تہذیب وجود مین آنے کے لیے ابھی سے ہاتھ پاؤں پسارنے لگی ہے۔ غیرملکوں میں متعدد انٹرنیٹ اسکول کھل گئے ہیں جو اپنے ویب سائٹ پر ہی بچوں کا نہ صرف رجسٹریشن کر لیتے ہیں۔ بلکہ انہیں گھر بیٹھے ہی پڑھاتے ہیں۔ امتحان لیتے ہیں اور نتیجہ سونپتے ہیں۔ بچوں کو اپنا ہوم ورک کر کے ای میل سے ہی اپنے اسکول کے ویب سائٹ پر بھیجنا ہوتا ہے۔ ای ایجوکیشن کا یہ سلسلہ کچھ دنوں میں ہمارے یہاں بھی عام ہو جائے گا۔ آن لائن ایجوکیشن کے لیے بہت ساری یونیورسیٹیاں کوششیں بھی کرنے لگی ہیں۔ یوجی سی، این سی ای آر ٹی اور اگنو وغیرہ کے لیے گیان درشن چینل بھی سامنے آ چکا ہے اور حقیقتاً اب اس سوال سے بہت زیادہ دور بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ کیا پرنٹ میڈیا کا دور ختم ہو گیا اور الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ کا خوبصورت متبادل ثابت ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں شاید نہیں۔ کبھی نہیں۔ پرنٹ میڈیا کا دبدبہ وقار اور اہمیت چھوٹی سی انسانی زندگی سے کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ابھی بھی انسانی کیفیات کے سمندر سے کافی آگے نکل گئی فلم فوٹو گرافی نے ایک قطرہ سے بھی زیادہ نہیں لیا ہے۔ جدید تر قلم ٹیکنالوجی کچھ بھی فلمانے کا حوصلہ تو رکھتی ہے لیکن ابھی بھی محبت کی نازک ترین سطح تک اس کی پہنچ نہیں ہوئی ہے۔ بہت ساری کیفیات Feelings انسانی جذبات واحساسات ایسے ہیں جنہیں کیمرے کی آنکھ فلمانے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ فلمیں آتی جاتی لہریں ہیں۔ Visuals اس لمحے کا سچ ہے جس لمحے کہ ہماری آنکھیں اسکرین سے چپکی ہوئی ہیں۔ پرنٹ میڈیا کو اس معاملے میں ابدیت حاصل ہے۔ اس کا ہر لفظ بولتا ہے۔ برسوں بولتا اور چیختا رہتا ہے اور یہ چیخ ایک Sensible آدمی کسی سی ڈی یا آڈیو یا ویڈیو کیسٹ میں محفوظ رہ سکتا۔ لفظ امر ہیں۔ انسانی زندگی مکالموں سے الگ کسی اندھی پاشان گپھا میں پناہ نہیں لے سکتی۔ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ کلوننگ پروسس سے گزرتے ہوئے بھی اپنے جیسے انسان کو بنا لینے کے تجربے کے بعد بھی کہیں ایک پرانی تہذیب کا درد باقی رہ جاتا ہے اور یہی درد پرنٹ میڈیا کے جلی حروف کی حفاظت اور دفاع میں سامنے آئے گا اور یقیناً اس یلغار کے تھمتے ہی ایک بار پھر یہ جلی حروف اور اپنی اہمیت اور افادیت ثابت کرنے کے لیے پھر ہمارے سامنے ہوں گے۔
انتہائی کمزور آدمی! افضل کون انسان یا جونا تھن سونفٹ کا گھوڑا:
جوناتھن سونفٹ کا مشہور ناول ہے۔ ’’گولیورس ٹریول‘‘ — گولیور جب گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو عالیشان خوبصورت قدرت کا شاہکار گھوڑا انسان کے ڈیل ڈول کو ذلت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ تمہارے دبلے پتلے پاؤں اور یہ ہماری ٹانگیں دیکھو۔ جو ناتھن نے گھوڑے اور انسان کے موازنہ میں وہ مذاق یا انشائیہ نما تر نگیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مطالعہ کے بعد ایک بار کم از کم اپنے سراپا پر نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ …
لیکن در حقیقت جسمانی طور پر کمزور اس جانور نے اپنے آرام و آرائش کے لیے آسمانوں پر کمندیں تو ڈال دی ہیں لیکن اب یہی ترقی اس کے زوال کا سبب بھی بنتی جا رہی ہے۔ سوپر کمپیوٹر اور سائبر اسپیس پر چھا جانے کا عمل ہی اسے بار بار خوفزدہ کر رہا ہے۔ ابھی حال میں ۲۰۰۰ کے مئی ماہ میں Love وائرس نے یکایک ساری دنیا میں دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا کمپیوٹر وائرس تھا جس نے دنیا بھر کے ہزاروں کمپیوٹروں کو متاثر کیا تھا۔ اس طرح کے وائرس کوئی نئے نہیں ہیں۔ ایک خبر کے مطابق Love سے بھی بھیانک وائرس ’کاک دورم‘ کا انٹرنیٹ پلیگ کبھی بھی پھیل سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ارتقاء کے اس اندھے ریس میں آگے بھی اسی طرح کا خطرہ عام انسان کے لیے بنا رہے گا — اس لیے الیکٹرانک ذرائع ترسیل کے پھیلاؤ کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اپنی اہمیت باقی رہے گی۔
لفظ امر ہے …
لفظوں کی ترسیل مطبوعہ صفحات پر ہی اچھی لگتی ہے اور انہی مطبوعہ صفحات میں تہذیب کے برسوں پرانے ڈائنا سور ابھی بھی زندہ ہیں اور نہ صرف زندہ ہیں بلکہ سانس بھی لے رہے ہیں۔
٭٭٭
میڈیا کے ’کندھوں ‘ سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں!
بچپن میں ایک کھیل کھیلتے تھے۔ چھپن چھپیا۔ آپ اسے آئیس بائیس یا آنکھ مچولی کا کھیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ گھر کیا تھا، بیس بائیس کمروں کی حویلی یا کوٹھی، کوئی بچہ چھپ جاتا تو پھر ملنے کا نام نہیں لیتا۔
ہم دیر تک ڈھونڈتے رہتے تھے۔ نام لے لے کر چلاتے تھے۔ لیکن بچہ چھپن چھپیا کے کھیل میں گم ہو جاتا تھا لیکن وہ بعد میں مل جاتا تھا۔
سوچتا ہوں اس بار کون گم ہو گیا ہے … ؟ کھیل کیسا تھا اور کھلاڑی کون تھا؟
مسلمان … ؟ کیسے مسلمان! گودھرہ سے گجرات اور احمد آباد کی گلیوں میں آپ کیا تلاش کر رہے تھے۔ مسلمان چھپن چھپائی کے کھیل میں، اپنے ہی گھر کے مقبروں میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ ہندی کوی کنور نارائن کی کویتا یاد آتی ہے۔
کنور، سوچتا ہوں چچا غالب کی آڑ لے کر تم مسلمانوں سے نفرت کیوں نہیں کرسکتے؟ شیکسپیئر کی آڑ لے کر تم کسی عیسائی سے نفرت کیوں نہیں کرسکتے۔ ایسا ہوتا ہے اپنا ادب … دلوں پر حکومت کرنے والا۔ نفرت کے سارے زخم بھر دینے والا … لیکن گجرات کے یہ گھاؤ کیسے بھریں گے … ؟
کنور نارائن یاد ہے تم نے لکھا تھا …
’’ایک عجیب سی مشکل میں ہوں ان دنوں /
بھر پور نفرت کرنے کی میری طاقت
دنوں دن کمزور پڑی جا رہی ہے/
انگریزوں سے نفرت کرنا چاہتا ہوں
(جنہوں نے دو صدی تک مجھ پر حکومت کیا)
تو شیکسپیئر آڑے آ جاتے ہیں /
جن کے مجھ پر کتنے احسان ہیں
مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا
تو سامنے غالب آ کر کھڑے ہو جاتے
اب آپ ہی بتائیے
کسی کی کچھ چلتی ہے/ ان کے سامنے‘‘
ڈیئر کنور نارائن، اس کویتا میں کچھ باتیں اور جوڑتے ہیں …
’’میں ہندوؤں سے نفرت کرنے چلا لیکن ہر بار کبیر تلسی، رحیم سے ہوتے ہوئے راجندر یادو، کنور نارائن، بھاگوت راوت، ادے پرکاش، نامور سنگھ، کملیشور وغیرہ ایک دو نہیں ہزاروں نام سامنے آ جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے بڑی بڑی باتیں بھلا کر ابھی بہت چھوٹی چھوٹی نفرت کی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرنی ہے … لیکن کیسے؟
کویتا سے … کہانی سے نہیں … ارندھتی رائے سے لے کر برکھادت اور راج دیپ سردیسائی کی طرح شکریہ ادا کرنے کے لیے ہزاروں نام ہیں۔ مگر شکریہ، کس بات کا شکریہ۔ پچیس کروڑ عوام کے بارے میں بولنے کا شکریہ … پیدا ہوتے ہی ہم شک کے دائرے میں تھے۔ بڑے ہوتے گئے۔ دائرہ بڑھتا گیا۔ دائرہ بڑھتا گیا اور تنگ ہوتا گیا۔ اور یہ بھی عجیب المیہ رہا کہ اپنے ہی ملک میں اپنے ملک کو اپنا کہنے کے لیے گواہ یا شہادت کی ضرورت پڑتی رہی۔ تسلیاں ملتی رہیں۔ رہو نا یار، تمہارا ملک ہے … تسلیاں ایسے ملتی تھیں جیسے قرض بھری تسلیاں ہوں، بوجھ بھرا احسان ہو۔ بچپن سے بار بار اسکولوں اور کالجوں میں اکبر کو سچا اور ہندستانی … بابر اور اور نگ زیب کو گالیاں دیتے ہوئے بڑے ہوئے۔ سب کچھ طے شدہ تھا اتنی زمین ہے اتنا ہی کمبل۔ زیادہ پاؤں نکلا تو غدار کہہ دیے جائیں گے۔ پیدا ہوتے ہی پاکستانی کہلاؤ گے۔ اسکول سے کالج تک پتا نہیں دوستوں کے سامنے کتنی کتنی بار ایک پڑوسی ملک کے نام پر رسوائی کا زخم جھیلنا پڑا۔
ہم نے اتہاس ضرور پڑھا ہے لیکن ہمیں بچپن سے بتایا گیا ہے اتہاس بھولنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے سنیتالیس کے دنگوں میں وہی سب کچھ یاد رکھا جو نصاب کی کتابوں میں رٹوایا گیا۔ وہ سب کچھ بھلا دیا جو باپ داداؤں سے سنا۔ بھگت سنگھ سے سبھاش چندر بوس تک یاد رکھنے کی رسم ادا کی لیکن وہ اس داستان کو بھلا دیا جو جنگ آزادی میں کام آنے والے مسلمان مجاہدوں سے جڑی تھی۔ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ چون برسوں میں مسلمانوں نے اپنی زمین کیوں کھوئی … ؟ کہاں کھوئی ہے کہ … اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ آزادی کے بعد جیسے ادب جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے نئے نئے رویوں میں گم ہونے لگا تھا۔ ویسے ہی اخلاقیات بھی جدید اخلاقیات اور ما بعد جدید اخلاقیات کے نئے آنگن میں سانس لے رہا تھا۔ چونکیے مت، مثال مت ڈھونڈیے … بی جے پی کا حکومت کرنا، بی جے پی میں مسلمانوں کی شمولیت، بی جے پی کی اسلام دشمنی کو بھول جانا … اسی طرح یہ بھی بھول جانا کہ کبھی بہو جن سماج پارٹی نے مسلمانوں کو اس ملک کا کینسر کہا تھا۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کے بل پر بی ایس پی کا الیکشن جیتنا پھر بی جے پی کے ساتھ معاملہ جوڑ کر بر سراقتدار آ جانا۔ یہی نئی اخلاقیات ہیں۔ جدید اور ما بعد جدید اخلاقیات۔
ان باتوں کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ کہتے ہیں زوال آمادہ قومیں سب سے پہلے اپنی اخلاقیات تباہ کرتی ہیں۔ ہم نے منصب، اونچے عہدے، اونچا رتبہ اور جینے کے نام پر قدم قدم پر اتنے سمجھوتے کیے ہیں کہ ہمارا اخلاقی معیار تباہ ہوتا گیا۔ ہر بار ہم نے دوسروں کے کندھوں پر سفر کیا۔ چون برسوں میں اس ملک کو اپنا ملک کہنے کے لیے ہمیں کسی ارندھتی یا برکھادت کی ضرورت رہی۔ ہر بار ہم دوسروں کا سہارا تلاش کرتے تھے۔ ہم کبھی نہیں سوچتے تھے کہ اگر سہارے چھن گئے تو؟ یا یہ سہارے بھی چلے گئے تو … ؟
گجرات سانحہ کے بعد اردو والوں کی بے حسی دیکھئے۔ بڑے بڑے جلسوں میں بھیڑ لگانے والے گجرات کے نام پر ہونے والے جلسوں میں کہیں نہیں تھے۔ جب ہم سے پوچھا جاتا تھا ہم جواب دیتے تھے کہ بھائی اردو والے کیسے آئیں گے … آپ یہ سمجھئے کہ ہمارے گھر میں لاش رکھی ہے، پرسہ دینے تو آپ آئیں گے نا … ؟ اس جواب سے لوگوں کی تسلی ہو جاتی تھی۔
سوال تسلیوں کا نہیں ہے۔ سوال جلسوں میں شمولیت یا عدم شمولیت کا نہیں ہے … بہت سے سوالوں کے بیچ ایک سوال یہ بھی ہے کہ چون برس گزر جانے کے بعد اگر یہ ملک ہمارا اپنا نہیں ہے تو ہمارا پنا ملک کب ہو گا؟
چون برسوں میں ہمیں کتنی کتنی بار وفاداری ثابت کرنے کے لیے شہادت کی صلیب پر چڑھنا پڑا ہے۔ ابھی اور کتنی وفاداریاں ثابت کرنی ہے ہمیں ؟
ابھی میڈیا کے نام پر ہزاروں دوست یا کندھے مل گئے ہیں … لیکن کیوں ملے ہیں ؟ اس بات کو سمجھئے کہ سہارے ہمیشہ سے کمزور کرتے رہے ہیں۔ اپنے گھرکو اپنا گھر کہنے کے لیے کسی پڑوسی یا گواہ کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ سہاروں کے نام پر بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان صرف اور صرف ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی آئینہ کی روشنی میں حکومت سے عام آدمی تک جو بھی ہندستانی مسلمانوں کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ایسے غداروں کو معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔ گجرات کے بعد اب ہمیں ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام کون کرے گا۔ شاہی پیش امام، شہاب الدین؟ بی جے پی اور بی ایس پی کے ٹکڑوں پر بکنے والے مسلمان … یا میڈیا کے کندھے سے وقتی طور پر خوش ہو جانے والے … ؟
یاد رکھیے کندھے ہمیشہ لاشوں کو ملا کرتے ہیں اور ہمیں ابھی لاش نہیں بننا ہے … ؟
٭٭٭
ہم جنگ نہیں چاہتے
مشہور ناول نگار جوناتھن سوئفٹ کی شہرہ آفاق کتاب گولیورس ٹریول کے آخر میں جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا موازنہ کرتے ہوئے گولیور کا مذاق اڑاتے ہیں کہ’’ کہاں تم اور کہاں ہم — ذرا اپنے پاؤں، قد، کا ٹھی کا جائزہ لو اور ہمیں دیکھو — ‘‘
گھوڑوں کے دیس میں گولیور نے کیا محسوس کیا، اس پر بحث کا وقت نہیں ہے۔ لیکن گھوڑے سے کم ترین یہ بیحد پر اسرار انسان جنگوں کے سائے میں، لہو کی کھیتیاں کرتا ہوا آج کہاں پہنچ گیا ہے، یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کاش کہ آج سوئفٹ زندہ ہوتے تو وہ گھوڑے جیسے باضمیر جانور سے اس ذلیل انسان کا موازنہ نہیں کر رہے ہوتے — انسان لہو پی پی کر اس آدم خور انسان نے آج اپنے لیے یہ جو راستہ چنا ہے، اسے دیکھتے ہوئے تاریخ کے اوراق بھی شرمندہ ہیں —
دو عالمی جنگیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں — ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے بھی لہو کا ایک ابال آیا تھا — انگریزوں کے جاتے جاتے فرنگی آتش بازیاں اپنا کام کر گئی تھیں۔ خون، ہندو اور مسلمان بن گئے تھے۔ خون بے دردی سے بہہ رہا تھا۔ گلیوں میں سڑکوں پر اور چوراہوں پر — آنکھوں میں نفرت اگ رہی تھی اور انسان دوسرے انسان کے لہو کا پیاسا بن گیا تھا —
آزادی کے ۵۴ برسوں میں کبھی مندر مسجد کبھی کشمیر کی آزادی کو لے کر دنگے کی کھیتیاں ہوتی رہیں۔ کبھی فرقہ واریت کے رتھ، کبھی بابری مسجد اور کبھی بھاگلپور کے انسانی لہو سے بھرے کنویں، جلیاں والا باغ کی یاد دلا رہے ہوتے۔ آنکھوں میں محبت آتے آتے ٹھہر جاتی — خوشبو دور دور تک قافلوں کے ساتھ سفر کرتی ہوئی ادا س ہو جاتی۔ محبت کے نغمے دو دلوں کو پاس پاس لانے تک ٹھہر جاتے۔ اور دوستی کی بس چلتے چلتے اچانک باد خزاں کا پیغام سن کر رک جاتی —
کر گل کا زخم بھرا نہیں کہ ہم نے اندر کی نفرتیں جوڑ کر جنگوں کی میزائلیں ایک دوسرے کی جانب تان دیں — سرحدیں بارود اگلنے لگیں — نفرتوں کے تار کھنچ گئے۔ لیکن، کیا سچ مچ ہندستان یا پاکستان کے لوگ جنگ چاہتے ہیں ؟
جنگ کسی کو قبول نہیں۔ پچھلے سال لاہور یونیورسٹی کے تاریخ پڑھنے والے بچے جب ہندستان آئے تو ان کے چہرے جوش اور ولولوں سے چمک رہے تھے۔ ایسے کچھ بچوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو وہ دوستی اور محبت کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
ہندستان کیسا لگا؟ میں نے ایک بچی سے پوچھا۔
جواب تھا۔ ’تاج محل کی طرح حسین۔‘
’اور جو، یہ دونوں ملکوں کے درمیان نفرتیں پل رہی ہیں ؟‘
بچی کا لہجہ فکر میں ڈوبا تھا۔ ہم آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ فاصلے کم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن کیوں نہیں ہے۔ لیکن اب یہ دباؤ ہمیں بڑھانا ہو گا۔ عوام کو۔ تم جو تاریخ کی طالب علم ہو اور میں، جو کہانیاں لکھتا ہوں۔‘
’کیا یہ ممکن ہے؟‘
اس معصوم سی پاکستانی لڑکی کا چہرہ اب بھی میری آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔ مجھے زیادہ تر چینلس پر دکھایا جانے والا، ارسٹو کریٹ (شراب) کا اشتہار یاد آتا ہے۔ سرحد ہے۔ تار کے باڑ کھینچے ہوئے ہیں۔ اس طرف ہندستان کا ایک سپاہی اور اس طرف پاکستان کا۔ رات کے آٹھ بجے ہیں۔ میزائلیں جھکا دی گئی ہیں۔ یہ شراب کا وقت ہے — ہندستانی افسر ارسٹو کریٹ کی بوتل کھولتا ہوا پاکستانی افسر کی طرف دیکھتا ہے۔ پاکستانی افسر پہلے ’نا میں گرد ہلاتا ہے۔ پھر اثبات کے طور پر، مسکراتا ہوا اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ سرحدیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ شراب کی جھاگ مسکراہٹوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور محبت، سرحد کے تار، نفرتوں کی باڑ، سب کچھ بھلا کر ایک ناقابل فراموش جذبہ بن جاتی ہے۔
کیا یہ صرف ایک اشتہار ہے؟
کیا یہ اشتہار دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے دیکھا ہے؟
امن مشن پر پاکستان سے آئے ہوئے ادیبوں، دوستوں دانشوروں سے آئے دن ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ میں نے ان سب کی آنکھوں میں بس ایک ہی پیغام پڑھا ہے۔ محبت کا پیغام ! نواز شریف جب دوسری بار جیت کر آئے تھے تو اس کامیابی میں ایک بڑا ہاتھ اس وعدے کا بھی تھا جہاں پاکستانی عوام سے یہ کہا گیا تھا کہ ہم ہندستان سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں گے — اور ہندستان سے محبت اور دوستی کی خواہشمند جنتا نے اپنے محبوب کو کامیابی سے نواز دیا تھا —
کیا پاکستانی عوام کے دل بدل گئے ہیں ؟
کیا ہندستان کے لیے وہاں محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے؟
ابھی حال میں پاکستان سے مشہور مصور ال حسین ہندستان تشریف لائے۔ رفیع مارگ، آرٹ گیلری میں ان کی بنائی گئی تصویروں کی نمائش ہوئی۔ اس موقع پر دلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے بھی شرکت فرمائی۔ حسین پاکستان لوٹنے سے قبل تصویر کا ایک تحفہ مجھے بھی دے گئے۔ یہ تصویر ابھی بھی میرے ڈرائنگ روم میں لگی ہے اور اس خوبصورت بامعنی پینٹنگ میں جوناتھن سوئفٹ کے دو گھوڑے ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں۔
’یہ گھوڑے کون ہیں ؟‘ میں نے حسین سے جاننا چاہا۔
’ضمیر اور امن کی علامت‘ حسین کے لہجہ میں درد تھا۔
’یہ گھوڑے کہاں کے ہیں ؟‘
حسین کی بڑی بڑی آنکھیں میری آنکھوں میں پیوست ہو گئیں۔ ان میں ایک ہندستان ہے اور دوسرا پاکستان۔‘
’اور تعجب یہ ہے کہ دونوں گلے مل رہے ہیں۔‘
’حسین نے میرے اندر کا درد محسوس کر لیا تھا۔‘
میں نے پھر کہا تھا۔ کتنی عجیب بات ہے حسین بھائی۔ ذرا سوچیے۔ بٹوارہ صرف ملک کا نہیں ہوا۔ محبت اور مغل اعظم، کا بھی ہوا۔ اکبر۔ آگرہ میں رہ گیا۔ انار کلی کو آپ لاہور لے گئے۔ غالب ہم نے رکھ لیا۔ اقبال آپ کا ہو گیا۔
’لیکن اب یہ گھوڑے گلے مل رہے ہیں۔
میں نے دیکھا حسین کی آنکھوں میں آنسو جھل مل، کر رہے تھے۔
حسین واپس پاکستان چلے گئے۔
ڈرائنگ روم میں وہ دونوں گھوڑے اب بھی ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم لکھنے والوں کا مذہب، ملک اور سرحدوں سے بڑا ہوتا ہے — پاکستان سے ہمارا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ ہماری کتابیں، ہماری کہانیاں وہاں چھپتی ہیں اور وہاں کے پڑھنے والے ہمیں عزیز رکھتے ہیں — جنگوں کی دھول میں ہمارے جذبے بھی کھو جاتے ہیں۔ ہمیں ان جذبوں کی گمشدگی گوارہ نہیں —
ہم محبت میں خونی سرحدوں کے قائل نہیں۔
اور وہ وقت آ گیا ہے، جب ہم چیخ چیخ کر دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم — جنگ نہیں چاہتے —
معاملہ کتنا بھی آگے بڑھ جائے، مسئلہ کے حل کی کنجی ہمیشہ یہی رہتی ہے۔ آگے بڑھ کر صرف اس کنجی کو تلاش کرنا ہوتا ہے —
آئیے، سب مل کر مسئلہ کی اس کنجی کو تلاش کر لیں۔
اور سرحد پر محبت کی خوشبو بکھیر دیں۔
٭٭٭
عالمی گاؤں … اور اردو اپنے دیش میں
کیا آپ اردو میں لکھتے ہیں ؟
عام طور پر ہندی میں لکھنے والوں کا خیال ہے کہ اردو میں کہانیاں لکھی ہی نہیں جا رہی ہیں جبکہ یہ اور بات ہے کہ وہ انتظار حسین، منشا یاد سے قرۃ العین حیدر تک کو گلے لگانے کو تیار ہیں۔ مگر موجودہ اردو کہانیوں کے نام پر وہ یہ سننے کو قطعی تیار نہیں کہ اردو میں بھی اچھی تخلیق کا چلن ہوسکتا ہے۔
یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں، یہ عام ہندی سماج کی رائے ہے۔ اور شاید ایسا نتیجہ اخذ کرنے میں انہیں اتنا ہی وقت لگا ہے، جتنی مدت سے ہندی میں ادئے پرکاش نے لکھنا شروع کیا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں حیدر جعفری، ہندی سے اردو اور اردو سے ہندی میں برابر ترجمہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار مجھ سے ملنے آئے تو کہنے لگے۔
’’ہندی سے اردو کرتے ہوئے مزہ ملتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لکھنے والوں کو لوگ جانتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا کہ یار، یہ کون ہے، کیا لکھتا ہے، کتنا معتبر نام ہے؟ مگر اردو کے معتبر نام بھی آپ ترجمہ کر کے بھیجئے تو لوگ شائع کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
میں اسی تعصب کی بات کر رہا تھا اور اس تعصب کے شکار ہندی کے زیادہ تر رسائل ہیں، جو اردو کی چیزیں شائع کرنا نہیں چاہتے۔ جبکہ اردو رسائل میں یہ عام رجحان ہے کہ ۴۰۔۴۰ صفحات کے ادبی رسائل تک ہندی والوں کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں۔
مجھے اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ یہ کوئی لکھنے کا موضوع نہیں ہے کہ ہندی کی کہانیاں بڑی ہیں یا اردو کہانیاں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ ہندی کہانی کا قاری آج بھی اردو کی کہانیاں نہ صرف محبت سے پڑھتا ہے بلکہ اسے ہندی سے زیادہ پسند کرنے پر بھی مجبور ہے۔ ہاں، ہندی کے ادبی گلیاروں میں اردو کہانیوں کی ’’مضحکہ خیز صورتحال‘‘ کو لے کر بحث چلتی رہتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر پاکستان کے ایک افسانہ نگار کو اپنی مداخلت درج کرانی پڑتی ہے۔
معاملہ کچھ یوں تھا کہ ہندی کے ایک افسانہ نگار سویم پرکاش نے اردو افسانوں سے متعلق کسی رسالہ میں بہکی بہکی سی گفتگو کی تھی، جو پاکستان کے اس افسانہ نگار کو ناگوار گزری تھی اور موصوف نے ہنس کے اپریل شمارہ کے خطوط کے کالم میں اپنی ناراضگی درج کرائی تھی۔ بات صرف سوئم پرکاش یا ادے پرکاش کی نہیں ہے۔ ہم اردو والوں نے ہمیشہ ہی اپنے اخلاق اور ظرف کو اس قدر اور کشادہ رکھا ہے کہ اس میں ایک جہاں کی سمائی ہوسکتی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس محبت، خلوص اور ظرف کی کھلم کھلا نمائش کو اس انداز سے لیا جاتا ہے کہ ہم اردو والے انتہائی بچھڑے ہوئے لوگ ہیں جو ہندی کی اچھی تخلیقات سے اپنے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں کسی اکا دکا مثال سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ اس تنگ نظری سے وہ لوگ بخوبی واقف ہوں گے جو دس پندرہ برسوں سے ہندی کے مکمل منظرنامہ پر آنکھیں گڑائے بیٹھے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال تو حسن جمال کا انتہائی معیاری اردو رسالہ’ شیش‘ ہے۔ جسے وہ دیوناگری لپی میں نکالتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اردو مزاج کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ نہ صرف اسے ان دیکھا کرتا رہا ہے بلکہ اس کی مخالفت بھی کرتا رہا ہے۔
ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ہندی میں لکھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ عام طور پر خوش فہمی کے مرض میں مبتلا ہے۔ ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ وہی آزادی ہے اور تقسیم کے بعد کا قافلہ ہے جسے اردو کا ایک اکچھر نہیں آتا اور بغیر اردو کہانیوں کو ہضم کئے ہوئے ایسے لوگ اپنے Comments کے لیے آزاد نظر آتے ہیں۔ہم انہیں بتاتے ہیں کہ اردو کا معمولی سے معمولی قاری اور عام لکھنے والا تک ہندی جانتا اور سمجھتا ہے، اور اگر وہ ہندی کہانیوں پر اپنی رائے ظاہر کرتا تو یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔
آزادی کے کافی بعد تک ہندستانی ادب میں اردو کسی درخشاں ستارہ کی طرح روشن تھی۔ پریم چند نے بھی اردو کو گلے لگایا۔ وہ چاہے جس وجہ سے ہندی کے آنگن میں چلے گئے ہوں لیکن ان کے اظہار خیال کا وسیلہ ہمیشہ سے اردو ہی رہا۔ کرشن چند، عصمت، بیدی، غلام عباس، ممتاز مفتی، منٹو، یہاں تک کہ گرتی دیواریں والے اپندر ناتھ اشک بھی اردو میں ہی لکھتے رہے۔ یہی نہیں تقسیم کے المیہ کا سب سے زیادہ شکار تو ہماری اردو ہی رہی کہ آدھے بہت اچھے لکھنے والے اس پار رہے تو آدھے سرحد کے اس پار چلے گئے اور اس پار سے آج بھی بانو قدسیہ، انتظار حسین، منشا یاد، احمد ندیم قاسمی، کس کس کا ذکر کیا جائے۔ ایک بہت بڑا قافلہ آج بھی اردو فکشن کے میدان میں متحرک ہے۔
ایک خط: لندن سے جتندر بلو کا
اور یہ بھی سچ ہے کہ اردو صرف ہندستان کی زبان نہیں ہے۔ تقسیم کے بعد اس پار والوں نے جس زبان کو مہاجر قرار دیا، اس پار والوں کے لیے وہی زبان تقسیم کا باعث ٹھہرائی گئی لیکن خوشی کی بات تھی کہ یہ زبان ہندو پاک کی سرحدوں سے بلند ہو کر بھی اپنے دعوے پیش کر رہی تھی، زندہ تھی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے عالمی گاؤں میں پھیلتی جا رہی تھی۔ ابھی حال میں ہی مجھے ایک دلچسپ خط ملا ہے۔ یہ خط لندن سے مشہور افسانہ نگار جیتندر بلو نے لکھا ہے، لکھتے ہیں :
’’گزشتہ دنوں میں نے آپ کے دو مضامین نئی صدی میں اردو شاعری اور اردو فکشن: تیس برس‘‘ پڑھے، دلی مبارک دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔
جیتندر بلو کے یہ دو سوال غور طلب ہیں اور میں اسے قارئین کے بھی سامنے رکھنا چاہوں گا۔ اس لیے کہ اس مضمون کا محرک بھی یہی خط ثابت ہوا ہے … جیتندر بلو تشویش بھرے لہجے میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔
(۱) کیا اردو افسانہ محض ہندستان اور پاکستان میں ہی لکھا جا رہا ہے؟
جواب ہے۔ قطعی نہیں اردو کی عالمی بستی، دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہے۔ امریکہ ہو، چین ہو، آسٹریلیا ہو، کینیا ہو، نہ صرف اردو کے لکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ اچھی خاصی تعداد میں رسائل و جرائد بھی نکل رہے ہیں۔
میں پہلے سوال پر ابھی کچھ اور دیر قیام کرنا چاہوں گا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ مغربی ممالک سے اس طرح کی فکر، شتر مرغ کی طرح ریت سے اپنا سر نکال رہی ہے؟ وجہ صاف ہے۔ پاکستان کا کوئی نقاد اگر افسانے یا شاعری پر باتیں کرتا ہے تو پاکستان کے علاوہ ہندستان کا ذکر بھی بمشکل آ پاتا ہے۔ لندن اور دیگر ملکوں کے رہنے والوں کی بات تو جانے دیجئے۔
ہندستان کا کوئی نقاد بھی اگر اس طرح کا کوئی مضمون قلم بند کرتا ہے تو اس میں پاکستانی افسانہ نگاروں تک کا ذکر نہیں ہوتا۔ بہت بہت دو ایک نام انتظار حسین، منشا یاد تک آ کر معاملہ ٹھہر جاتا ہے۔ لیکن اس کے باہر، بنگلہ دیش، لندن اور امریکہ وغیرہ ملکوں میں رہنے والے قطعی طور پر مضمون میں جگہ پانے سے رہ جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
آخر ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے؟
کیا یہ جواب تسلی بخش ہے کہ اردو آبادی حقیقتاً اس قدر بڑی ہے کہ ایک مختصر سے مضمون میں جگ کی سمائی نہیں ہوسکتی۔ اتنا بڑا قافلہ — ہندستانی نقاد اگر لکھنے بیٹھتا ہے تو ہندستانی لکھنے والوں کا نام گنواتے گنواتے تھک جاتا ہے۔ باہر کے لوگوں کی باری نہیں آپاتی۔
دیکھا جائے تو یقیناً معاملہ کچھ ایسا ہی ہے … لیکن اگر معاملہ ایسا ہے تب بھی ہم اتفاق نہیں کریں گے۔ کم از کم فکشن یا کہانیوں کا جب ذکر ہو گا تو جیتندر بلو جیسے اہم افسانہ نگاروں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہئے۔
ہاں، یاروں نے بستیاں اتنی دور دور جا کر بسائی ہیں کہ ہم اپنی ہی تقسیم میں الجھ کر رہ گئے ہیں …
بہر کیف۔ سرحدوں سے باہر نکل کر بھی اردو ادب کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور کہنا چاہئے بھی یہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ کسی حد تک ماہنامہ شاعر یہ کام انجام دے رہا ہے۔ لیکن اس قافلے میں اور لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہئے۔
جیتندر بلو کا دوسرا سوال انتہائی سخت ہے۔ وہ لکھتے ہیں …
کیا مغربی دنیا میں آباد اردو افسانہ نگار Out cast ہے۔ اور کیا ان کا Main stream میں داخلہ یا ذکر ممنوع ہے؟ وہ آگے لکھتے ہیں۔
’’بندر بانٹ فنکار کی ذات (SELF) کو برباد کر ڈالتی ہے۔ ادب میں سچ سے چشم پوشی کرنا بھی گناہ ہے۔ لیکن آج کے دور میں ان کے معنی بدل چکے ہیں۔‘‘
یہ انتہائی اہم سوال ہیں اور ان کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ مغربی دنیا میں آباد اردو افسانہ نگار قطعی Out cast نہیں ہے۔
اپنا ملک ہندستان: سمٹتا ادب، سرحدوں کے فاصلے اور امید گلوبل گاؤں سے
پچھلے دنوں اپنے ایک مضمون میں میں نے نئی نسل کو لے کر اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ فکشن نگاروں کی ایک نسل، جسے ہم پچھلے بیس تیس برسوں سے جوان قلمکار لکھتے آئے ہیں کب کی بوڑھی ہو چکی ہے۔ ان میں کئی ایسے بھی نوجوان قلمکار شامل ہیں جن کے لکھنے کا کاروبار لگ بھگ بند ہو چکا ہے۔ یا جلد ہی وہ اپنی ادبی دوکان میں تالہ بندی کرنے والے ہیں۔ نوجوان قلمکار بار بار لکھے جانے کی ایک وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ نئی نسل کا کوئی بھی ادبی سپہ سالار سامنے نہیں آ رہا ہے اور اس مایوسی، تاریک لمحے کو سمجھنے یا ان پر غور کرنے کے بجائے ہمارے نقاد اس ’’ساٹھ سالہ نوجوان فنکار‘‘ سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے۔ بہر کیف۔
کہا جا سکتا ہے کہ میں دو متضاد باتیں پیش کر رہا ہوں …
ہندستانی اردو ادب سمٹ گیا ہے۔ نئی نسل میں سے کوئی بھی ابھرتا ہوا قلمکار نہیں نظر آ رہا ہے۔
میں اردو کے عالمی گاؤں کی بات کر رہا ہوں۔
حقیقتاً یہ دونوں باتیں ایک Confusion پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن غور کیا جائے تو دونوں باتیں اپنی جگہ اپنی جگہ درست ہیں۔ میری نظر میں کم از کم شاعر اور انشاء دو ایسے جرائد ہیں جن میں مغربی ملکوں میں رہنے والے اردو ادیب چھائے رہتے ہیں۔ یہی حال پاکستانی رسائل کا ہے۔ یعنی ایک بڑے، اور کہا جائے تو عالمی نقشے پر اردو کچھ اس طرح ابھی چھائی ہوئی ہے کہ اس کے ختم ہونے یا مٹنے کے اندیشے کو خام خیال ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے ملک میں اردو کا جغرافیہ سکڑ تا جا رہا ہے۔ یہ دونوں ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں ادب کے سائنس دانوں کو غور کرنا چاہئے۔
آج سائبر اسپیس اور گلوبلائزیشن کے اس عہد میں دنیا سکڑ کر، سمٹ کر ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ای کامرس، اور انٹرنیٹ کے اس پھیلتے دائرے کا استعمال اردو والوں کو بھی کرنا چاہئے۔ جب اس چھوٹے سے انٹرنیٹ گاؤں پر ہم قبضہ جمائیں گے تو پھر مستقبل کے یہ خطرے بھی کم سے کم ہوتے جائیں گے کہ ایک شخص لندن میں بیٹھا لکھ رہا ہے اور ہم اسے مستقل اگنور کرتے جا رہے ہیں۔ حقیقتاً جب ہم ایک چھوٹے سے گاؤں کی تہذیب میں خود کو ڈھال لیتے ہیں تو نئے سسٹم خود بہ خود خوبصورتی سے رواں دواں لہروں کی طرح اپنا راستہ بناتے جاتے ہیں۔
میرا مدعا محض اتنا ہے کہ جب ہم اردو کی بات کریں تو اشارہ محض ہندستان یا پاکستان نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ جہاں کہیں بھی اردو ہے اس عالمی گاؤں کا ذکر ضرور ہونا چاہئے۔
اپنی خوش فہمیوں کے قطب مینار پر کھڑے ہوئے ہندی والوں کو عالمی گاؤں کا یہ منظر دکھانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ دو مختلف زبانوں میں لکھے جانے والوں کا موازنہ ایک بیوقوفی بھرا عمل ہے۔ ملک ہندستان میں اردو کے سمٹتے جغرافیہ کو دکھانے کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ ایک طرف دوسرے ملکوں میں جہاں اردو کا چراغ روشن ہوا جا رہا ہے، وہاں تقسیم کے بعد ہندستان میں اگر اردو کا گراف گرا ہے تو یہ قابل فکر اور قابل غور امر ہے، جس پر ہم سب کو مل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی طرح ہندی والے بھی وسیع النظر ہونے کا ثبوت پیش کریں اور اردو کو اسی طرح گلے سے لگانے کو تیار ہوں جس طرح اردو نے ہمیشہ ہی ہندی کے لیے اپنی بانہیں پھیلائے رکھی ہیں۔
کیا یہ آواز نامور سنگھ، راجندر یادو، کملیشور، میجر پانڈے سن سکیں گے؟
٭٭٭
ڈائری
تخلیق کے حوالے سے کچھ باتیں
قصہ۱:
روایت یوں ہے: ایک دادی اماں تھیں، بہت سے بچے تھے اور نہیں ختم ہونے والا قصہ تھا۔
رات ہوتی، دادی اماں، بچوں کو گھیر کر بیٹھ جاتی اور قصہ شروع ہو جاتا۔ وہی نہیں ختم ہونے والا قصہ۔
روایت یوں ہے: وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔ وہی دادی اماں تھیں، وہی بچے تھے وہی قصہ تھا۔
لیکن … اب بچے دادی اماں کا ساتھ چھوڑنا چاہتے تھے۔ وہ انٹرنیٹ، گیم شو، کامکس، ڈبلیوڈبلیو ایف یا کوئی دلچسپ فائٹ سیکوئنس دیکھنا چاہتے تھے …
دادی اماں اپنے اس شغل، کو جاری رکھنا چاہتی تھیں۔ انہیں خوف تھا، وہ بالکل اکیلی اور تنہا ہو چکی ہیں … یہ شغل بھی ہاتھ سے گیا تو ان کی اہمیت ہی کیا رہ جائے گی۔قصے کہانیوں میں اور گھر میں ؟
اور قصہ : برسوں سے بار بار ایک ہی سر میں سنائے جانے والے قصے کو اب نیند بھی آنے لگی۔
روایت یوں ہے:
دادی اماں نے کہانی شروع کی۔
بچوں نے بوجھل پن کا مظاہر کیا۔
اور قصہ … اچانک — وہ اچھل کر دادی اماں کے ہونٹوں سے نکل کر، پھدکتا ہوا دادی اماں اور بچوں کے سامنے آ گیا۔
’’سنو میں جا رہا ہوں۔‘‘
لیکن کہاں جا رہے ہو؟ دادی اماں بوکھلا کر چیخیں۔
’’تم سب سے دور۔ تمہیں اب میری ضرورت نہیں رہی — قصہ جاتے جاتے رکا — سنو، میں اب کبھی واپس نہیں آؤں گا۔‘‘
دادی اماں مغموم ہو گئیں۔
دادی اماں اس دن سے کسی بھی گھر میں نہیں پائی جاتیں۔
روایت یوں ہے کہ اس دن سے قصہ کبھی گھر میں دیکھا نہیں گیا۔
اور روایت یہ بھی ہے کہ اسکول کے موٹے موٹے وزنی بستے اٹھانے والے بچوں کو اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی تھی۔
قصہ ۲:
اصل (نئی) کہانی وہی ہے جس میں قصے کہانی کا فقدان ہو۔
(ایک جدیدیے کا بیان)
قصہ۳:
اگر دنیا میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں ؍
جو سچ مچ جینا چاہتے ہیں
تو سب سے پہلے انہیں بولنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
ہنسنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
چیخنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
غصہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
گالی دینے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
لڑنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
اور
اس ظالم دنیا اور اس ظالم عہد کو
ختم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا؍
— لوشن
صدی کے آخر میں ایک کویتا۔
صدی کے آخر میں سپنا۔
صدی کے آخر میں مکالمہ۔
ان موضوعات پر لکھنے والوں کی کمی نہیں۔ لوگ ہمیشہ لکھتے رہتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ لکھنے والے سوچنے پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن لکھنے والوں سے زیادہ ’’لکھنے والوں پر‘‘ لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ کبھی افسانے کی حمایت کی جاتی ہے۔ کبھی نئی Ideology اچانک کودتی پھاندتی ادب کے بحر ذخار میں مع لاؤ لشکر چلی آتی ہے۔ مزہ تب آتا ہے جب چھیننے جھپٹنے کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ’’یہ اصطلاح میری ہے۔ یہ آئیڈلوجی میری وضع کی ہوئی ہے۔‘‘ کوئی جدیدیت کا امام بنا بیٹھا ہے توکسی نے ترقی پسندیت، کی تلوار اٹھا رکھی ہے۔ غور سے دیکھیے تو یہ سارا کھیل ’’لکھنے والوں پر‘‘ لکھنے والوں کا ہے۔ اور یہ ’’لکھنے والوں پر‘‘ لکھنے والے مداری کی طرح نئے نئے کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔
اس مضمون کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی کہ ’’لکھنے والوں پر‘‘ لکھنے والے یعنی نقاد حضرات نے گوگول کی طرح اصل گیند اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال دی۔
اصل ہم ہیں۔
بہتر ہم ہیں۔
یعنی پروڈکٹ اہم نہیں رہا — تخلیق اہم نہیں رہی۔ تھیوری اہم نہیں رہی۔ فلسفہ اہم نہیں رہا۔ ادب پر کام کرنے والے، تخلیق سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرنے والے نقاد اچانک چند برسوں میں سب سے اہم ہو گئے۔
’’حاصل کلام یہ کہ تنقید میں بھی ہم نقادوں کا ہی حق ادا کرتے ہیں، فنکاروں کا نہیں۔ اس سے تو یہی بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا دور تنقید کا ہے، تخلیق کا نہیں۔‘‘
… لکھنے گئے رقعہ لکھا گئے دفتر (وارث علوی)
اپنے اس طویل خط میں وارث علوی نے ایک اور نتیجہ اخذ کیا ہے۔
’’جن فنکاروں کی نقاد تعریف کرتا ہے، وہ تو مقبول نہیں ہو پائے البتہ ان فنکاروں میں نقاد مقبول ہو جاتا ہے۔ بالکل چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنا والا معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں نقاد کے چوبارہ ہیں۔‘‘
… (وارث علوی)
نتیجہ: کل ملا کر نتیجہ یہی نکلا کہ اب نقادوں کو اس پر زیادہ غور نہیں کرنا ہے کیونکہ بقول وارث علوی، ان کے تو چوبارہ ہیں۔ سوچنا بیچارے خالق، یا تخلیق کار کو ہے۔
اور تخلیق کار کو سوچنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ان کے مال (تخلیق) کو بے مول لے اڑنے والا نقاد ان سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں رکھتا۔ بلکہ علوی کے ہی لفظوں میں کہیں تو آج کا نقاد ایک ’گھاگھ‘ قسم کا تاجر ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھ کر ہی سودا کرتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں نقصان ہونے کی امید ہو وہاں وہ ہاتھ تک ڈالنا پسند نہیں کرتا۔
اس لیے آج کے اس Consumer-World میں اگر نقاد، ادب کے اس میدان میں ایسے لوگوں سے اپنا ناطہ جوڑتا ہے یا جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
۱۔ جو آئی پی ایس ہوں (جیسا بھی لکھتے ہیں )
۲۔ آئی اے ایس افسر ہوں
۳۔ کسی بڑے فرم میں ہوں
۴۔ کالج؍یونیورسٹی میں ہوں
۵۔ جہاں جہاں سے مالی منفعت کے راستے کھل سکتے ہوں
ادب کے بازار میں آج یہی ہو رہا ہے۔ اور ایسی باتوں کو تجارتی اصول سمجھ کر آنکھیں موند لینا ہی عقلمندی ہے …
اس لیے نقاد کو سوچنے کی ضرورت نہیں — اس کے تو چوبارہ ہیں۔ ضرورت سوچنے کی تخلیق کار کو ہے،جو نقاد پر تکیہ کرتا ہے پھر نقاد کا غلام بن جاتا ہے اور نقاد مداری کی طرح اسے جیسے چاہے استعمال کرتا رہتا ہے یا گھماتا رہتا ہے۔
نقاد کہتا ہے۔ یہ کہانی معرکۃ الآرا ہے۔
نقاد کہتا ہے۔ یہاں تو پورا جنگل چھپا ہے۔ چرند پرند (کہانی پڑھنے تک کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور ایسی کہانیوں کے راتوں رات پر پرزے نکل آتے ہیں۔)
نقاد اس لیے کہتا ہے کہ اس کا واسطہ، صاحب واسطہ سے پڑتا ہے جن سے اس کی دکانداری کے چل نکلنے کی امید بندھی ہوتی ہے۔
المیہ:
جو وارث علوی نے کہا، وہی آج کے زیادہ تر نقادوں کا بھی کہنا ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس ’’جینوئن‘‘ لفظ نے ادب کو ہر دور میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
کہا نویت اور اصل قصہ:
جو تخلیق کار نہیں ہیں انہیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں بھی ان کا سارا تام جھام بے سوچے سمجھے ہی چل رہا ہے۔ وہ نقادوں کے لیے بھی جیتے ہیں۔ ادب میں بھی سربلند، انعامات و اعزازات سے بھی ان کے دامن بھرے جا رہے ہیں۔
سوچنا تخلیق کار کو ہے جو صرف لکھنا جانتا ہے۔ لکھنے کے علاوہ ایسا کوئی تام جھام نہیں جانتا۔ اس کا کوئی P.R.O بھی نہیں ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ تخلیق پر تنقید حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ لکھنے والے سے لکھنے والے پر لکھنے والا بڑا ہوتا جا رہا ہے۔
آپ چاہے اس کا نتیجہ جو بھی نکالیں لیکن اس المیہ کو صرف ایک جملے میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے یعنی — لکھنے والے کو اپنے لکھے پر اعتماد نہیں تھا۔
یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کے لیے وہ نقاد کا سہارا لینے پر مجبور ہوا۔ لیکن ذرا سوچیے یہ اعتماد کی کمی اس کے اندر کیوں آئی؟ یہ جو اب تفصیل طلب ہے اور اس کے لیے ہر فنکار کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت پڑے گی۔
الف: وہ بہت کمزور تھے اور انہیں خود کو زندہ رکھنے کے لیے نقاد کی ضرورت تھی۔
ب: نثر پر انہیں عبور حاصل نہیں تھا اس لیے وہ جملہ بازی یا ادبی قلا بازیوں پر زیادہ یقین رکھتے تھے … وہ اپنی ہی کہانیوں کی تفہیم میں الجھ جاتے تھے۔ ظاہر ہے پھر سہولت کے لیے یہ کام وہ تنقید نگاروں کے سپرد کر دیتے تھے …
ج: تنقید نگار انہیں بتایا کرتے تھے کہ اس کہانی میں … ’’کیا‘ ہے۔ تنقید نگار اس ’’کیا‘ کو طرح طرح سے Explain کیا کرتے تھے۔ اور وہ اس کے تجزیے پرلوکاچ سے دریدا اور رولاں بارتھ تک کے بھاری بھرکم تذکرے کا وزن رکھ دیا کرتے تھے۔
د: نقاد چاہتے تھے ایسا تخلیق کار یعنی جو کم پڑھا لکھا ہو (یا افسر کلاس کا ہو) جس پر آسانی سے جدید ؍ترقی پسند یا مابعد جدید تھیوری کا وزن ڈال کر حاوی ہوا جا سکے۔
ہ: آج کا تخلیق کار … یعنی ایک بھوکا پیاسا، برسوں سے پانی کی ایک بوند کو ترستا ہوا، ایسا جانور جسے کوئی بھی کم پڑھا لکھا نقاد بھی اپنا لقمہ بنا سکتا تھا۔
وجہ … مطالعے کا فقدان
… مشاہدے کا فقدان
… سیاحت کا فقدان
… نقادوں کی تھوپی گئی تھیوری کو چاٹنے والا
… مدیران کے بنائے گئے پیمانے پر کہانیاں گڑھنے والا
… موقع پرست — جیسی تحریک، ویسابن جانے کا عمل
… کوئی آئیڈیالوجی نہیں۔
… کسی بھی نقاد کو امام ماننے والا اور اس کے پیچھے پیچھے نماز پڑھنے والا
وضاحت
تخلیق، تخلیق کار اور نقاد … اس تثلیث (Triangle) سے نقاد کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں الگ کرنے کا حوصلہ ہو، وہی جینوئن ہے۔ ورنہ آپ لاکھ ’’نئے افسانے کا معمار‘‘ کا اعلان کرتے رہیں۔ سمجھ دار قاری اب اس کی زد میں نہیں آنے والا۔
٭٭٭
فکشن /نظریہ/اختلاف/حمایت
۱۹۴۸ء میں ژاں پال سارتر کی ایک اہم کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ ادب کیا ہے۔ اس کتاب پر سارتر نے دلائل کے ذریعے اپنے موقف کا اظہار کیا تھا۔
سارتر کے مطابق عصری ادب کو جمالیات اور لفظوں کی قلابازی سے بچنا ہو گا۔ عصری ادب نئے سماجی نظام اور نئی سیاسی صورتحال سے گریز کر ہی نہیں سکتا۔
سارتر نے صاف طور پر کہا … ایک مصنف کے طور پر ہمارا کام اپنے عہد کی نمائندگی کرنا ہے۔ اور اپنے ہونے کی گواہی دینا بھی ہے۔
سارتر نے یہ بھی کہا کہ Poetry میں ہم زبان کے ساتھ کھلواڑ تو کرسکتے ہیں، تجربے بھی کرسکتے ہیں مگر فکشن کے لیے یہ تجربے خطرناک ہوں گے۔ سارتر کی نظر میں لکھنے والے کا کام ہتھیار کو ہتھیار کہنا ہے، یعنی جیسا کہ وہ ہتھیار ہے۔ اگر لفظ، مرض میں مبتلا ہیں تو پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس مرض (لفظ) کا علاج کریں۔
شاید اس لیے سارتر نے جدید ادب کو ایک اور نام دیا — لفظوں کا کینسر
حمایت: لفظوں کی اہمیت سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا — لفظ اہم ہیں۔ لیکن فکشن میں جس قدر لفظ اہم ہیں اس سے کہیں زیادہ اہم موضوع ہے۔ جدیدیت کے بیس برسوں کی مثال کافی ہے کہ الفاظ کی قلابازی اور بازیگری نے نہ صرف قاری کو جدا کیا بلکہ جن چند لکھنے والوں کے اندر تھوڑے بھی امکانات موجود تھے، انہیں فیشن کی ڈگر پر چلا کر ان کے اندر کے تمام تر امکانات کو بھی خارج کر دیا گیا۔
اختلاف:سیاسی وسماجی بصیرت کے ساتھ کہانویت کا ہونا لازمی … لفظ، ترسیل کے لیے صرف ایک Bridge کا کام کریں گے۔ مصنف سیاسی وسماجی ڈھانچوں کے پیش نظر موضوع کا انتخاب کریں گے۔ اچھا اور بہتر ادب وہی ہو گا جو سماجی اور سیاسی دونوں صورتحال سے ہو کر گزرے گا۔
— پچاس سو برس پرانے قصباتی نظام کو زندہ کرنے والے افسانے بھی خارج ہوں گے اور ان کے لکھنے والے بھی۔
الف:وہ لوگ جو صرف الفاظ سے کھیلتے رہے ہیں کیا حقیقت میں آپ کے نزدیک نئے ادب کے معمار ہیں۔
ب: ایسے لوگ جنہیں نقاد اور مدیران زبردستی آپ پر تھوپنا چاہتے ہیں، کیا سچ مچ نئے ادب کے معمار ہیں ؟
ج: ہزاروں برس پرانے ڈائنا سور ’’یگ سے تعلق رکھنے والی، فنٹاسی سنانے والے کیا سچ مچ نئے ادب کے معمار ہیں ؟‘‘
د: مسلسل برسوں پرانے معاشرے اور برسوں پرانے سماجی نظام کی کہانی دہرانے والے کیا آپ کے نزدیک نئے ادب کے معمار ہیں ؟
ہ: کیا جن لوگوں کو نئے ادب کا معمار کہاجا رہا ہے، انہوں نے عصری زندگی اور اس کے نئے Challenges کو قبول کیا ہے۔ اگر نہیں تو ایسے لوگ نئے ادب کے معمار کیسے بن گئے؟ سارتر کا یہ موقف صحیح ہے کہ نیا عصری ادب اپنے عہد کے سیاسی، سماجی ڈھانچے پر غور کیے بغیر تحریر ہوہی نہیں سکتا۔
پرانی صدی اور احتجاج
میری ادنیٰ سی رائے میں ادب اسی احتجاج کا نام ہے — آج کی فضا میں ہمارے ملک کے بیشتر لکھنے والوں کو قلمی اور عملی طور پر یہ رویہ اپنانا چاہیے تھا۔ مگر افسوس مشینی عہد میں احتجاج کا یہ جذبہ بھی سوچکا ہے۔ ہمارا یہ احتجاج آج کے بے سمت ادب کے لیے بھی ہے؍ مذہب کے لیے بھی؍ بے راہرو سیاست کے لیے بھی ؍ نیو کلیائی تجربوں کے لیے بھی ہے؍ اور سارے عالم میں اشانتی کے خلاف بھی :
ہم اداس ہوں گے؍
ایک بھی آدمی کے مرنے پر؍
کیونکہ ایک بھی آدمی مرتا ہے
تو ہماری عالمگیر برادری میں ایک انسان کی کمی آ جاتی ہے؍
مٹی کا ایک بھی ڈھیلہ بھی کم ہوتا ہے
تو ملک کم ہو جاتا ہے؍
آج جبکہ ساری دنیا میں تناؤ اور رسہ کشی کی فضا عام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اس احتجاج کو سنہری اور جلی حرفوں میں پڑھا جائے اور یہ احتجاج عالمی انسانیت کی کتاب میں د رج ہو۔
اور آخر میں …
سارتر کی ایک مشہور کہانی ہے — The wall … فلسفہ وجودیت پر مبنی ایک شاہکار تخلیق۔
’’وہ سب جیل کی دیواروں میں قید ہیں۔ آنے والی صبح ان کے لیے موت کا پیغام لانے والی ہیں۔ جیل کی دیوار سے، سوارخ سے تھوڑی سی روشنی آ رہی تھی … روشنی جو زندہ رہنے کی دلیل ہے۔ اور جیسا کہ اوٹیا کے باقی دوستوں کے ساتھ ہوا … موت کی سزا سنائی گئی۔ صبح ہوتے ہی گولی ماردی گئی۔
مگر اوٹیا کے حصے میں ایک سوال آیا … ریمن گریس کو جانتے ہو؟
اور اوٹیا نے موت کو ذرا سا ٹالتے ہوئے ایک خوبصورت سا بہانہ بنایا۔ وہ تو قبرستان میں ہے۔
ریمن گریس سچ مچ قبرستان میں تھا۔ اس لیے پکڑا گیا۔ فاشسٹوں نے اسے پکڑ لیا۔
اور اوٹیا … وجود کی اہمیت کی علامت بن گیا — ہمیں بہرحال خود کو زندہ رکھنا ہے۔ سب کچھ ہم تھوڑی سی خوشی کے لیے کرتے ہیں لیکن تھوڑی سی خوشی کو پانا کتنا مشکل کام ہو گیا ہے۔
یہ مضمون اس ناآسودگی کے نام بھی ایک احتجاج ہے — کاش کہ فکشن میں بھی اس گمشدہ محبت کی بازیافت ہوسکے۔حقیقی زندگی میں بھی۔
٭٭٭
ادبی ڈائری
آہ! کملیشور
2فروری 2007، صبح 10بجے پاکستان سے اردو کے مشہور نقاد صبا اکرام کا فون تھا۔ ’’اردو کہانی یتیم ہو گئی۔ کملیشور کے جانے کا جتنا دکھ آپ ہندستانیوں کو ہو گا، ممکن ہے شاید آپ اتفاق نہ کریں، ہمارے لیے بھی یہ کسی اپنے کو کھونے جیسا صدمہ ہے۔ جان لینے والا۔ صبا بولتے رہے لیکن میرے کانوں میں صرف ایک ہی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی — ’اردو کہانی یتیم ہو گئی‘ لیکن اردو کہانی کہاں ؟ کملیشور تو ہندی میں لکھتے تھے۔ کملیشور تو ہندی کے قلمکار تھے۔ ایک ایسا فن کار جو ہندی کے علاوہ اردو سے بھی محبت رکھتا تھا اور ایسی شدید محبت کہ اس محبت کا تذکرہ الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ کملیشور کو تو ہم لوگوں نے اردو میں ہی پڑھا تھا۔ اس وقت ہندستان سے ’شمع، روبی، بیسویں صدی‘ جیسے رسائل پوری اردو دنیا میں اپنی چمک بکھیر رہے تھے۔ ’شمع‘ اور ’روبی‘ کو بند ہوئے برسوں ہو گئے۔ لیکن ایک وقت تھا، جب ان تمام رسائل میں کملیشور کا جادو بولتا تھا۔ کملیشور کی ایک معصوم سی تصویر۔ انتہائی ذہین چمکتی آنکھیں۔ یہ چہرہ اس وقت کے تمام اردو گھرانوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکا تھا۔ کملیشور کی کہانیاں اور ان کہانیوں کی خوبصورت زبان سیدھے دل کی گہرائیوں میں اتر جانے کا فن جانتی تھی۔ بعد میں اردو میں لکھنا کم ضرور ہو گیا لیکن کملیشور کی اردو سے محبت باقی رہی —
صبا اکرام فون پر مجھ سے پوچھ رہے تھے، ’’آخری وقت میں کملیشور کو کیا ہو گیا تھا۔ گیان چند جین کی کتاب پر ان کے بیان کا پاکستان میں کافی چرچا ہے۔ آپ نے پڑھا ہے؟‘‘
اچانک مجھے احساس ہوا، سرحدوں کے درمیان … ایک غلط فہمی بھرے بیان سے کہیں فاصلے نہ پیدا ہو گئے ہوں۔ گیان چند جین کی یہ وہی متنازعہ کتاب تھی جس میں انہوں نے اردو اور مسلمانوں کو لے کر ناراضگی ظاہر کی تھی۔ اردو میں اس کتاب کو لے کر کٹّر پن کی حد تک خطرناک رویہ اپنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ شدت پسند اردو والوں (مشہور رسالہ ’شاعر‘ کے مدیر افتخار امام صدیقی) کی طرف سے انہیں جان سے مار دینے کے فتوے بھی مل گئے تھے۔ مجھے یاد آیا، میں نے اس سلسلے میں کملیشور کا مضمون شاید ’سہارا کے سنڈے ایڈیشن میں پڑھا تھا۔ مجھے امید تھی کہ کملیشور گیان چند جین کے سُر میں سر ضرور ملائیں گے۔ لیکن یہاں بھی ایک کٹّر اردو والا یا اردو دوست موجود تھا۔ اردو سے دشمنی بھلا کملیشور کو کیسے منظور ہوسکتی تھی … میں نے فوراً صبا اکرام کی غلط فہمی دور کی — ’نہیں ‘ صبا بھائی، کملیشور آخر تک اردو کے دوست ہی رہے۔ اگر پاکستان کی ادبی محفلوں میں کملیشور کو لے کر کسی بھی طرح کی غلط فہمی کا کہرہ چھایا ہے تو اس کہرے کو ہٹانا آپ کا بھی فرض ہے۔ کملیشور نے اردو میں تو لکھنا بند کیا تھا لیکن اردو سے محبت کے چشمے جاری تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’کتنے پاکستان‘‘ کے ہنڈی ایڈیشن سے زیادہ اردو ایڈیشن کو پسند کرتے تھے — اور وہ بھی خاص کر پاکستان میں ‘ اردو میں شایع ہوئی کتاب تو جیسے ان کی زندگی بن گئی تھی۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
میں اکثر سوچتا ہوں موت کی پیمائش عمر سے کیوں کی جاتی ہے۔ کملیشور 75کے تھے یا 25کے، اس سے کہاں فرق پڑتا ہے۔ وہ چاہے دو سال کا معصوم بچہ ہو یا اسّی سال کا بزرگ، لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو آپ کی دنیا، آپ کی بزم چھوڑ کر جا رہا ہے، وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ لیکن … کملیشور گئے ہی کہاں، کملیشور نے اپنی کہانیوں اور کرداروں کی جو دنیا آباد کی ہے اس کی گونج تو کبھی بند ہی نہیں ہو گی اور بڑا فن کار مرتا کہاں ہے۔ کملیشور سب کے دوست تھے — شاید ہر ملنے والا ان کے لیے ایک کردار کی مانند تھا، جس سے باتیں کرتے ہوئے وہ ان میں کہانیاں تلاش کر لیتے تھے۔
میں دہلی 85 میں آیا۔ دہلی میں دو لوگوں سے ملنے کی تمنا تھی ایک راجندر یادو، دوسرے کملیشور — یا دو جی کی قربتیں اور محبتیں مجھے دوست بنا گئیں — مگر کملیشور جی سے ملاقات کے ہر نئے موڑ پر میں ’’احترام و عقیدت کے پھول بھی لے کر حاضر رہتا۔ ایک بوڑھے سے قد کا معصوم سا وجود دیکھتے ہی دیکھتے دیو مالائی کہانیوں کے ہیرو میں تبدیل ہو جاتا۔ ہر بار گہری چمک اور حیران کرنے والی ان آنکھوں میں اردو کے لیے محبت کی ایسی خوشبو دیکھتا کہ جی چاہتا کملیشور جی سے پوچھوں … آپ نے اردو میں لکھنا بند کیوں کر دیا؟‘‘
ملاقاتوں کے کتنے ہی سلسلے تھے جو گھر سے لے کر سیمیناروں تک قائم رہے۔ شاید سال بھر پہلے کی بات تھی — انڈیا انٹرنیشنل کے باہر گیلری میں مجھے کرسی پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے کملیشور جی مل گئے۔ شاید کچھ دن پہلے ہی ممبئی سے لوٹے تھے۔ چہرہ ماضی اور درد کو سمیٹے ہوئے۔ وہ اکیلے تھے۔ میں نے آداب کیا اور پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ گفتگو شروع ہو گئی۔ اپنی اور بیوی کی بیماری کی باتیں ‘ ادب اور کہانی کی … اور پھر اردو کی باتیں۔
ان کا لہجہ اداس تھا — وہ لوگ چلے گئے، جو محبتیں لٹایا کرتے تھے … یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں … !
میرا جی چاہا کہ اس مکالمے کو آگے بڑھاؤں — لیکن ہر بار اس بستی میں نئے لوگ بھی آ جاتے ہیں۔ بستی تو ہر بار آباد رہتی ہے۔
’’آپ نے اردو میں لکھنا بند کر دیا۔ لیکن اردو والے آپ کو نہیں بھولے۔‘‘ آنکھوں کی جھیل میں مسکراہٹوں کے چراغ تیر گئے۔ بھیشم ساہنی کی کہانی ’سلمیٰ آپا کی طرح اس دن بھی میں یہ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکا کہ کیا اردو میں جو کہانیاں چھپتی رہیں وہ آپ خود ہی لکھ کر بھیجتے رہے یا وہ کہانیاں ترجمہ کے طور پر شایع ہوتی رہیں۔ بھیشم ساہنی کی کہانی سلمیٰ آپا ‘ کا رخ بھی یہی تھا — جب کہانی کے ہیرو نے پاکستان میں سلمیٰ آپا کا گھر تلاش کر لیا اور رات بھر وہاں مہمان نوازی کے نئے باب کو دیکھتا پڑھتا رہا۔ مگر لوٹتے ہوئے یہ بات اسے چبھتی رہی۔ کیا وہ سچ مچ سلمیٰ آپا تھیں … مجھے لگتا تھا، اگر کملیشور جی بھولے سے یہ بھی کہہ دیں گے کہ نہیں ذوقی یار دوستوں کی مہربانی، مجھے اردو کہاں آتی ہے … تو شاید مجھے ایک دھکّا سا لگے گا۔ جس آدمی کی کہانیاں اردو میں پڑھتے ہوئے میں نے لکھنا سیکھا، اسے اردو نہیں آتی۔ شاید اسی لیے اتنی بہت ساری ملاقاتوں کے باوجود میں کبھی یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکا کہ کملیشور جی، کیا سچ مچ وہ اردو میں لکھی گئی کہانیاں تھیں، یا ترجمہ تھیں۔
اپنی شہرہ آفاق تخلیقات کے لیے ہمیشہ یاد کیے جانے والے کملیشور اپنے آخری ایام میں ہندی اردو زبان اور ادب کا ملا جلا اتہاس تیار کرنا چاہتے تھے۔ اردو سے ان کی محبت اس سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی پہلو یا گوشہ پر ان کا اپنا نظریہ ہوا کرتا تھا۔ اس نظریے کو پرکھنے اور عملی جامہ پہنانے تک وہ کافی وقت لیا کرتے تھے۔ اپنے آخری انٹرویو میں (ششی کمار جھا) وہ رسم الخط کے بارے میں اپنا نظریہ صاف صاف ظاہر کرتے ہیں۔ بات رسم الخط کی آ گئی ہے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ جس وقت اردو کا رسم الخط بدلنے کی بات چل رہی تھی، کملیشور اور مدرا کچھس اردو کی پر زور حمایت میں سامنے آئے تھے۔ ایک زمانے میں رسم الخط بدلنے کی تائید خود اردو کی مشہور ادیبہ عصمت چغتائی نے بھی کی تھی اور اردو میں ان کے بیان کے خلاف زبردست آندولن ہوا تھا۔ نامور جی کے مضمون باسی بھات میں خدا کا ساجھا پر‘ بھی کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ لیکن آج کے نامور جی رسم الخط بدلنے کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔ یہ خوبی میں نے کملیشور جی کے علاوہ نامور جی میں بھی شدت سے محسوس کی کہ وہ اردو کے کتنے بڑے حمایتی ہیں۔ نامور جی اردو کی کسی بھی نئی جانکاری کے لیے فوراً قلم نکال کر ایک چھوٹے سے معصوم بچے میں بدل جاتے ہیں اور یہی ان کی عظمت کی پہچان ہے۔ بات کملیشور اور ہندی اردو کی ادھوری داستاں کی چل رہی تھی، اس لیے آخری انٹرویو سے یہاں ایک بیان نقل کرنا مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے۔
’’آخرکار، رسم الخط، زبان کے کردار‘ کو طے کرنے لگتا ہے۔ اس شکل میں مجھے لگتا ہے کہ یہ ہندی اردو کی زبان اور ادب کا ملا جلا اتہاس ہے۔ جو 1857سے بہت پہلے بننا شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے ہم دیکھیں کہ ہمارا عوامی اتہاس کیا ہے؟ راجا مہاراجا، جواڑوں کا اتہاس اپنی جگہ ہے۔ سن 1857کو اسی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور لگتا ہے کہ یکایک کچھ ایسا دھماکہ ہوا کہ ہندو اور آئے ہوئے مسلمان ساتھ ہو گئے۔ مجھے یہ طریقہ کار غلط لگتا ہے۔
ہماری تہذیبی وراثت، چاہے وہ چین سے لی گئی ہو، تبت سے، قندھار سے یا وسط ایشیا سے، اسے مٹانے کی کوشش بھی جاری رہی ہے۔ ہماری تہذیبی دنیا میں آج کل مذہب کے نام پر اور تہذیبوں کی جدو جہد کو لے کر آریہ تہذیب، دراوڑ تہذیب تک، آدیباسی تہذیب تک، سب ایک دوسرے سے کم و بیش ملتی جلتی رہی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذہب کی گھٹیا شکل کو لے کر تہذیبوں کی ٹکراہٹ کا سوال کیوں اٹھتا ہے۔ تہذیبیں صرف مل سکتی ہیں — ان میں ٹکراؤ نہیں ہوسکتا — جیسے پانی پانی میں ملتا ہے — جدو جہد یا سنگھرش کی سوچ مغربی ہے۔ چونکہ ان کا نظریہ نو آبادیات کا رہا ہے، اس لیے انہیں ہر جگہ جدو جہد کا سامنا کرنا پڑا۔
کملیشور فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے — کتنے پاکستان‘ کو لے کر پاکستان میں زبردست ردّ عمل ہوا۔ لیکن کملیشور اور فرقہ واریت در اصل دو مختلف سرے تھے جو کبھی نہیں مل سکتے تھے۔ بھاجپا کے چھ سالوں کی حکومت کے دوران میں نے ایک مضمون قلم بند کیا۔ مضمون میں مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی لکھنا پڑا تھا — اگر بھاجپا دوبارہ سرکار بنا لیتی ہے تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اردو ادیبوں کا پورا خیمہ بھاجپا میں شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن تب بھی راجندر یادو، نامور جی اور کملیشور جیسے پانچ فیصد لوگ ہوں گے جو پریشان کن وقت میں بھی فرقہ واریت سے لڑتے رہیں گے۔‘ گودھرا گجرات کے واقعات کو لے کر انہی دنوں میری ایک کتاب شائع ہوئی تھی ’ لیباریٹری‘ — کا نفلواینس انٹرنیشنل نے کتاب کا اجراء کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے کملیشور جی کو فون لگایا تو وہ بخوشی تیار ہو گئے۔ اجراء میں کی گئی ان کی تاریخی تقریر 21 ستمبر 2003 کو یو این آئی اردو نے ہندستان کے تمام اردو اخبارات کے لیے جاری کیا۔ یہ تقریر اتنی تیز رو، واضح اور دھماکے دار تھی، کہ بعد میں بہت دنوں تک اس پر لگاتار رد عمل آتے رہے۔ میں اس تاریخی تقریر کے کچھ مختصر حصے یہاں پیش کر رہا ہوں، تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ فرقہ واریت کے کتنے کٹّر مخالف تھے۔
’’آج کے ہندستان میں ہر زبان کے، ہر قلم کار پر فرض ہو گیا ہے کہ اب وہ کم از کم چند برسوں کے لیے ہی سہی اپنے ادبی ذائقہ اور آرٹس کے مظاہرے کے لیے نہ لکھے بلکہ اس وقت کی بربریت اور انسانی دشمنی کی دستاویز تیار کرے کہ آج کے ادب میں انسانی تکلیف کے اظہار بہت کم ہیں — لیکن انسان دوستی اور انسانی درد مندی آج کے ادب میں نمایاں ہو گئی ہے۔ کیونکہ آج کا تخلیق کار اپنی تاریخ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ایک خاص طبقہ تاریخ کا خاکہ بدلنے پر تلا ہے۔ نئے مورخ آج کے ہندستان کو ایک ہزار کی علامی کا جو احساس دلا رہے ہیں، وہ بالکل غلط ہے کیونکہ ملک کی 5000 سال کی پوری تہذیب کے جتنے معرکے، نظر سے گزرتے ہیں، وہ سب کے سب مذہب کے خلاف عوامی تحریک کی پیداوار ہیں۔
اس سلسلے میں بیداری کی تحریک سب سے نمایاں ہے، کیونکہ یہ شروع میں مذہبی تحریک نہیں، بلکہ انسان کے نجات کی تحریک تھی۔ مذہب کا زور پھر سے نمایاں ہے۔ کیونکہ یہ شروع میں مذہبی تحریک نہیں، بلکہ انسان کے نجات کی تحریک تھی۔ مذہب کا زور پھر سے نمایاں ہے۔ پھر ایک تحریک کی ضرورت ہے اور یہ تحریک قلم کار یا تخلیق کار ہی چلا سکتے ہیں کیونکہ تخلیق کار پتھروں کو توڑ کر راستے بنانے والی اس طاقتور اندرونی لہر کا استعارا ہیں جو ندی میں اوپر اوپر بہنے والی بہاؤ سے کوئی اثر لیے بغیر اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ آج اقلیت اکثریت، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کی پہچان اتنی ضروری نہیں ہے اور تاریخ ان دستاویزوں میں بھی محفوظ رہ سکتی ہے جسے ہم آج کی کہانی کہتے ہیں۔‘‘
کملیشور چلے گئے … لیکن ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں، انڈیا ہیبی ٹیٹ میں خاموش کرسی پر بیٹھا ہوا ایک لے جنڈ، میری طرف دیکھ رہا ہے — ’ یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں۔‘ دو زندہ، جاگتی آنکھیں جیسی میری آنکھوں میں اتر گئی ہوں — اب یاروں کی دور بسائی گئی بستیوں میں خاموشی سے اٹھ کر ایک اور شخص چلا گیا — خوفناک تنہائی ہے — اور اس تنہائی میں، کملیشور کی ڈائری میں کچھ لفظ بار بار میرے کانوں میں ڈوبتے اور ابھرتے ہیں۔
’’ادھر پھر دیکھ رہا ہوں … لوگ دنیا جہان کا سپنا لے کر آتے ہیں اور اپنا سپنا لے کر چلے جاتے ہیں … اسی لیے تو لوگوں کے سپنے، چھوٹے ہوتے جاتے ہیں … جئیں گے وہی جو صرف اور صرف اپنا سپنا لے کر آتے ہیں اور دنیا جہاں کو یہ سپنا دے کر چلے جاتے ہیں۔ رینو کی طرح، دشنیت کی طرح۔‘‘
میں تنہائی کی وادیوں تنہا میں بیٹھا ہوا کملیشور کے ان الفاظ میں صرف اتنا جوڑتا ہوں — رینو کی طرح، دشینت کی طرح، اور کملیشور کی طرح —
٭٭٭
نئی صدی اور اردو شاعری
بالآخر بیسویں صدی اپنی تمام تر ہنگامہ آرائی کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ سن 2000 کے ساتھ ہی ہم نے ایک نئے ملینیم میں، تمنا کا دوسرا قدم بھی رکھ دیا۔ صدی کے خاتمے تک شاعری کے مستقبل کو لے کر مایوسی اور تفکرات می ڈوبی ہوئی باتیں کی گئیں۔ ان بحث مباحثہ میں عصر حاضر کے وہ قد اور نقاد بھی شامل تھے، ایک زمانے میں جن کا نام افسانے کی حمایت میں کم اور شاعری کی حمایت میں زیادہ روشن تھا۔ کچھ ادبی رسائل نے خصوصی طور پر اس بحث کو ہوا دی کہ آنے والا عہد طعی طور پر شاعری کے لئے موزو ں نہیں ہے۔ بلکہ آنے والا عہد یا صدی یا نئی الفی فکشن یا افسانوی ادب کا تقاضہ کرتی ہے۔ عام مجموعی خیال یہ تھا کہ Stereotyped موضوعات اپنی انفرادی شعری اسلوب وضع کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ اس لئے اس عہد کو یا مشینی عہد ک شاعری کے نام وقف نہیں کیا جا سکتا یا مستقبل قریب میں آنے والی نت نئی تبدیلیوں سے ہمہ آہنگ ہونے کے لئے موجودہ شعری پس منظر کافی نہیں ہیں۔ نتیجہ، فیصلہ صادر ہو گیا، آنے والا عہد شاعری کا عہد نہیں ہے۔
بہ حیثیت فکشن رائٹر بھی، میں اس بارے میں مسلسل سوچتا رہا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ عرض کروں کہ اس سے زیادہ لغو بحث کسی بھی دوسری زبان کے ادب میں نظر نہیں آئے گی۔ میری سمجھ می کبھی نہی آیا کہ جب ترسیل اظہار کے لئے الگ الگ صنف سخن موجود ہیں اور ادیبوں کو کسی بھی صنف کو اپنانے کی آزادی حاصل ہے تو پھر موازنہ کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ کم از کم میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا کبھی اس طرح کی بحث شروع بھی ہوسکتی ہے یا نہی کہ تنقید بڑی ہے یا تخلیق۔ شاعری بڑی چیز ہے یا افسانہ۔
شاعری میرے نزدیک بلند مرتبے کی چیز ہے اور مجھے احساس ہے کہ کلیم الدین احمد کے نیم وحشی صنف سخن، ک کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک مغربی مفکر، اکسٹائن، کا قول تھا کہ آپ اپنے آپ کو سجا کر رکھنے کی کوش کرتے ہیں تو آپ ایک (مزاحیہ) کا مک کیر کٹر بن جاتے ہیں۔ صنف شاعری کی پابندیو نے اس کے دائرے کو مشکل اور نیم وحشی بنا رکھا ہے۔ یعنی اگر شاعر ان پابندیوں سے دامن نہیں بچا پایا اور وہ محض گنگنانے کی حد تک یا قافیہ پیمائی میں الجھا رہا تو ا کی شاعری بنے بنائے سانچے یا طے شدہ فارمولوں میں گھٹ کر رہ جائے گی اور دم توڑ دے گی۔
اور ہوا یہی۔ کلیم الدین احمد کے نیم وحشی صنف سخن کے ساتھ یہی سلوک دہرایا جاتا رہا۔
لیکن جیسے ہر کہانی ادب میں شمال نہیں ہوتی اور ویسے ہی، طے شدہ فارمولے یا بنائے گئے سانچے میں ڈھل جانے والے ہر شعر کو غزل کی جمالیات کے ساتھ بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔
اس لئے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شاعری اور افسانے دو الگ الگ صنف سخن ہیں اور ان کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔
پچھلے دس بیس برسوں میں کی جانے والی شاعری کی فضا مجھے کچھ زیادہ ہی راس آئی ہے جبکہ ان دس بیس برسوں میں انفرادی خیال کے نہ ہونے پر اعتراض زیادہ کئے گئے اور اس کے شکار ان دس بیس برسوں میں ابھرنے والے تمام شاعری ہوئے۔ دراصل ہمارا نقاد شاعر کو پیمبر یا فرشتے کے طور پر دیکھنے کا عادی رہا ہے اور اس کی ذہنیت پر مسلسل یہ خیال شب خون مارتا رہا ہے کہ جدیدیت اور ابہام سے الگ شاعری کی ہی نہیں جا سکتی۔اس لئے جہاں کہیں بھی اسے کوئی بات صاف صاف طریقے سے کہی گئی نظر آتی ہے وہ ایک خاص طرح کی جمالیات کے تحت اسے Reject کر دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انہی نقادوں نے شاعری میں بتی جانے والی ترقی پندی پر اعتراضات کئے تھے۔ شاعری کو نعرہ، انقلاب یا پروپیگنڈہ تک کہا تھا۔فرق یہ تھا کہ اس عہد سے جڑے شعراء کرام خود کو ترقی پسند کہتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ نئے شعراء خود کو ترقی پسندی، جدیدیت، پس جدیدیت سے بلند محسوس کرتے ہیں یا وہ خود کو کسی بھی خانے میں قید دیکھنا نہیں چاہتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کی شاعری نہ جدیدیت کی کوکھ سے جنمی ہے نہ تری پسندی کے نعرے یا پروپیگنڈے نے ان کی شعری کائنات کو جلاء بخشی ہے
اور اہم بات یہی ہے کہ شعرا کی نئی پود کسی مخصوص فکر، تحریک یا نظرئیے کی پابند نہیں ہے وہ اپنے تمام تر احساس کے ساتھ آزاد ہے اور یہی آزادی وہ اپنے صوتی آہنگ کو بھی سونپتا رہا ہے۔
’’ایک سچے فنکار کو اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ تازہ افکار و نظریات سے نابلد نہ رہے لیکن اپنے قلم کو کسی خاص نظریے کا تابع نہیں بنانا چاہئے کیوں کہ کوئی بھی نظریہ کتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو، ایک خاص وقت کے بعد معتوب و مردود قرار دے دیا جا ا ہے۔ تغیر و تبدل فطرت کا نظام ہے۔ اسی لئے کسی مخصوص نظریے کی تبلیغ کے مقصد سے لکھا گیا ادب بھی جلد ہی اپنی چمک دمک کھو بیٹھتا ہے اور اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
(نعمان شوق۔پیش لفظ ’اجنبی ساعتوں کے درمیان)
ایک اوراقتباس دیکھئے:
’’سماج خرابیوں اور بگاڑ کی آخری منزل پر ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدلی ہے۔ تہذیبیں، قدریں، عقیدے، اصول، رسمیں، پوشاک، ترجیحات سب نے اچانک اپنے معنی کھو دیے ہیں۔صحیح اور غلط کے بیچ کی لکیر تیزی سے مٹی ہے۔ ہمارے چاروں طرف جو بھی ہو رہا ہے ہماری پسند کے خلاف ہو رہا ہے۔ شاعری ناپسندیدگی اور احتجاج کے اسی اظہار کا نام ہے۔
مسجدوں ار مندروں سے جوتے چوری ہونے کی معمولی وارداتوں سے لے کر سیاست کے گلیاروں میں ہونے والی بڑی اور اوّل درجے کی بدعنوانیوں تک ایک لمبا سلسلہ ہے۔ برائیوں، خرابیوں اور ذلالتوں کا۔ ایسے میں قلم والوں کی ذمہ داریاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ کچا پکا آدمی تو قلم کی اس خدمت سے فوراً ریٹائر ہو کر بھیڑ میں شامل ہو جانے کو عقل مندی تصور کرنے لگتا ہے۔ بہت تھوڑے سے لوگ ہی جو بدعنوانیوں کی اس جہان کو قلم کی نوک سے کھرچنے کی کشش کرتے ہیں۔ ان کے لئے قلم کان کھجانے کا کوئی آلہ یا پاجامے میں ازاربند ڈالنے کی کوئی سلائی نہیں۔
ہمارے پاس کرکٹ ٹیمو ں کا گھیراؤ کرنے اور پچوں کو کھود کر برباد کرنے کا وقت ہے مگر ملک کے بنیادی مسائل کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں۔ کیا کبھی ملک کے صف اوّل کے شہریوں نے کرگل میں جا کر کیمپ لگانے اور فوجیوں کی مدد کے لئے کوئی قدم اٹھانے کی زحمت گوارہ کی۔ قلم والو ں کو یہ باتیں کچوٹتی ہیں۔ شاعر یا ادیب اس تکلیف سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ اسے اس معرکے میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ مستقل، بنا تھکے۔
___’’دھوپ تیز ہے‘‘ شکیل جامی
یہ اقتباس یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ عہد کے شاعر نے کس طرح مخصوص نظریے کی بلیع کو ادب کی موت کے بطور دیکھا ہے۔ مسلسل تغیر و تبدل سے گزرتی کائنات میں آج کوئی بھی مخصوص نظریہ وضع کیا جا سکتا۔ یہ نفی اور انکار کا عہد ہے۔ ہر قدم اصول و قانون کا ایک بت ٹوٹتا ہے اور دوسرا جنم لیتا ہے۔ شاعر نہ کسی آسمانی کہرے میں گھرا ہے نہ وہ محض چند مزدوروں یا دہقاں کے درمیان ہے اور ’’بھوکا ہے بنگال رے سا تھی، بھوکا ہے بنگال‘‘ کا ورد کئے جا رہا ہے۔ حقیقتاً آج کے شاعر نے اپنے بدن سے فرسودہ جمالیاتی، سیاسی سماجی، معاشی اور فکری امتزاج کی کینچلی اتار پھینکی ہے۔ وہ اپنے عہد کو لے کر سنجیدہ ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ؎
’’انسانی ارتقا کی تاریخ کے اس موڑ پر جہاں بیسویں صدی اپنا سفر ختم کر رہی ہے۔کلون، روبوٹ، انٹرنیٹ اور ایسے نہ جانے کتنے موضوعات ہماری روز کی گفتگو کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ وہ حسّی اور جذباتی نشیب و فراز سے پر زندگی جو ہمارے پیش روؤں کو ورثے میں ملی تھی، ہمارے لئے شاید قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ میری شاعری میرے حسی تجربات کی زائیدہ ہے جس کی نیرنگی اور بوقلمونی نے میرے اندر ایک پورا جہان آباد کر رکھا ہے۔‘‘
(نعمان شوق، پیش لفظ، اجنبی ساعتوں کے درمیان)
شاعر حسا ہی نہی بلکہ اپنے عہد سے آگاہ بھی ہے۔ کلون سے، روبوٹ سے، انٹرنیٹ سے اور عالمی سیاست سے___شاید اسی لئے، نئی صدی میں اس نے گھٹن اوڑھنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے اندر برسوں سے جمع کی گئی چیخ نکالنے کا وقت آ گیا ہے، وہ ایسا محسس کرتا ہے۔ اس لئے یہ کہنے میں اسے ذرا بھی قباحت نہیں ہے کہ ا کی شاعری اس کے حسی تجربات کی زائیدہ ہے۔ اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر وہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا ؎
’’میں اپنے پیش رو شعراء کی طرح اپنی ذات کے حصار میں مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔‘‘
پیش رو شعراء کی اندھی تقلید سے انکار نے ہی، آج کے شاعر کو، خود ک Reject کرنے کا فن سکھایا ہے۔ وہ اپنے عہد اور مسائل کے ا س قدر قریب ہے کہ اسے اس بات کا احساس بھی ہے کہ ممکن ہے، شاعری کا نقاد اس کے لکھے ہوئے سرمائے کو شاعری ہی تسلیم نہ کرے۔ جیسا کہ زیادہ تر ترقی پسند شاعروں کے ساتھ کیا گیا۔اسے خود کو Reject کرنے کی پرواہ اس لئے بھی ہے ؎
(1) شعری تنقید ابھی بھی مروجہ اصولوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
(2) زیادہ تر نقاد مغرب کی اندھادھن تقلید میں اندھے رہے ہیں۔ وہ مروجہ سانچے یا طے شدہ فارمولے سے آگے بڑھ کر شاعری کو پرکھنے میں یقین نہیں رکھتے۔
(3)کیا جوش کی انقلابات والی شاعری، ساحر اور وامق کی شاعری ایک عہد کی ضرورت نہیں تھی؟
(4)تغیر و تبدل سے آنکھیں موڑنے والے کو وہ سچا فنکار تسلیم نہیں کرسکتے۔
نتیجہ کے طور پر نصیر احمد ناصر تک یہ تسلیم کرنے سے گریز نہیں کرتے کہ اب شاعری کی نئی بوطیقا تخلیق کرنے کا وقت آ گیا ہے اور ایسے میں آج کے مسائل سے آنکھیں چار کرنے والے شاعری کی ذمہ داری میں ایک نقاد کی ذمہ داری بھی شامل ہو جاتی ہے۔
’’ان پر (نقادوں پر) یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی و ملکی ادبی تناظر میں اردو تنقید کے نئے سانچے وضع کریں اور جینوئن تخلیق کاروں کی نہ صرف نشان دہی کریں بلکہ انہیں ہجوم ناشناس میں گم ہونے سے بچائیں تاکہ اردو شعر و ادب عالمی اردو رویوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔‘‘
نصیر احمد ناصر، تسطیر،ستمبر1997
ادبی منظرنامہ کو عالمی رویوں سے ہم آہنگ کرنے کی بے چینی نے ہی، شاعر کو گلوبل ویلیج یا نئے سائبر سماج کا چہرہ دکھایا ہے۔ اسے مابعد جدید ہونے پر بھی اعتراض نہیں ہے، لیکن وہ ہجوم میں گم ہونا نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ کسی ازم میں، تحریک میں، فلسفے میں، پابندیوں میں اس کا دم گھٹتا ہے۔
نئی صدی کے شاعر کو اپنی آزادی پیاری ہے___ وہ فرد اور تنہائی کی باتیں نہیں کرتا۔ وہ فلسفہ وجودیت سے بہت دور نکل آیا ہے اس گلوبل، سائبر اور انٹرنیٹ سماج می اسے اپنی شناخت کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ وہ آئن اسٹائن کی طرح اندھیرے میں نہیں ہے کہ ’تیسری جنگ عظیم کس طرح لڑی جائے گی۔ جبکہ چوتھی جنگ کے طور پر تیر اور بھالوں کا استعمال شروع ہو جائے گا۔‘‘ وہ ایٹمی تجربات سے بھی واقف ہے اور جانتا ہے کہ سکنڈ سے بھی کم لمحہ میں ساری دنیا نیست و نابود ہوسکتی ہے۔ شاید اسی لئے ایک خاص طرح کے اٹوپیا میں سانسیں لیتے ہوئے وہ یہ نہیں کہہ سکتا ؎
چاند نے رات مجھ کو جگا کر کہا
ایک لڑکی تمہارا پتہ لے گئی
دراصل حساس فنکار سائبر سماج میں پیش آنے والی ہر ایک تبدیلیوں کا ایمانداری سے محاسبہ کرتا ہے اور اپنی وضع کی گئی شعری فضا کے لئے یہ کہنے میں اسے ذرا بھی دشواری نہی ہوتی کہ؎
’’گذشتہ س پندرہ سالوں میں ہماری زندگی میں سماجی، سیاسی، معاشی اور فکری شعور پر نمایا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے جینے کا ڈھنگ بدلا ہے۔ سوچنے کا انداز بدلا ہے۔ دروں کے پیمانے بدلے ہیں۔ مسائل کی شکلیں بدلی ہی۔ ذات پات، بنیاد پرستی، علاقائی عصبیت، اصول اور آدرش کا فقدان، دہشت گردی کا زور، ملٹی نیشنل کمپنیو ں کی آمد، صارفیت کا غلبہ اور کالے دھند کے فروغ سے آج کی زندگی اثر پذیر ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ الیکٹرونک میڈیا کی ترقی کے بعد آج کا فنکار قصباتی، شہری اور مکی حدود سے باہر نکل کر ساری دنیا سے جڑ گیا ہے۔ اس کے تجربے اور مشاہدے کے لئے ایک بڑا کینواس تیار ہو گیا ہے۔ فنکار چونکہ سماج کا سب سے حساس رکن ہے، اس لئے وہ ہر تبدیلی سے فوراً متاثر ہوتا ہے اور اس کا اثر ادب پر بھی براہ راست پڑتا ہے۔
عالم خورشید(پیش لفظ،زہر گل)
نعمان شوق ہوں، عالم خورشید، خورشید اکبر ہوں یا خالد عبادی یا شکیل جمالی ہوں، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ شعری سفر میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ غزل گوئی کی روایت کو گل و بلبل سے جوڑنے کا لامتناہی سلسلہ نہ صرف منقطع ہوا ہے بلکہ فنکاروں نے شعری حدود سے بہر نکل کر اپنی نثری تنقید صلاحیتوں کو بھی ہوا دی ہے۔ خود ک پرانی نسل سے علیحدہ کرنے کا یہ جنون اس بات کا غماز ہے کہ نئے ادبی مستقبل کے خطرات اور نئے سائبر سماج کی بنیادی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ان کا وژن بالکل صاف ہے اور نعمان شوق سے عالم خورشید تک خالد عبادی اور شکیل جمالی تک نئے کنفیشن کی فضا، اپنے اسلوب اپنے ڈھنگ کو طے شدہ فارمولوں سے الگ رکھنے پر بضد نظر آتی ہے اور صاف طور پر اعلان کرتی ہے کہ ؎
الف :سچا فنکار وہی ہے جو ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھے۔
ب:کسی مخصوص نظریے کا پابند نہیں ہو۔
ج:کلون روبوٹ، انٹرنیٹ، جیسے کتنے ہی موضوعات روزانہ کی زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔
د:میں اپنی ذات کے حصار میں مقید ہونا پسند نہیں کرتا
(یہ حوالے نعمان شوق کی کتاب کے پیش لفظ سے لئے گئے ہیں )
اب عالم خورشید کا کنفیشن دیکھئے___
الف: گذشتہ دس پندرہ برسوں میں قدروں کے پیمانے اور مسائل کی شکل بدلی ہے
ب: دہشت گردی کا زور
ج:اصول آدرش کا فقدان
د:ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمد
ح:صارفیت کا غلبہ
یہاں تک کہ
٭الکٹرانک میڈیا کی ترقی
٭کالے دھندوں کا فروغ
٭فنکار کا ان تبدیلیوں سے متاثر ہونا ضروری ہے۔
___(زہر گل کے دیباچے سے)
بیسوی صدی تک شعری منظرنامہ کو کوزے میں بند کرنے کی تنقیدی سازش ے اکیسویں صدی کا شاعر اب بہتر طور پر نکل آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعمان شوق سے عالم خورشید تک ازم اور پابندیوں کے خلاف، احتجاج کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے۔
اپنے پہلے مجموعے نئے موسم کی تلاش میں عالم خورشید نے صاف طور پر کہا تھا ؎
’’میں شعر و ادب میں کسی تحریک، رجحان یا نظریے کا قائل نہیں نہ ادب کو مکتبی، صوبائی یا ملکی دائروں میں قید کرنے کے حق میں ہوں۔ کیونکہ ادب تخلیق کرنا کوئی فائل ورک نہیں کہ دس بجے سے پانچ جے تک دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر گھسے پٹے لائن آف ایکشن کے سہارے مکھی پر مکھی چپکانے یا چراغ سے چراغ جلانے کا کام کیا جائے … ‘‘
وہ آگے لکھتے ہیں :
’’بدلتے ہوئے وقت اور زندگی کی رفتار کے ساتھ ادب کے رنگ وروپ میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ادب بہرحال وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا ہے … یہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تحت میں نے جو کچھ محسوس کیا، اسے کسی مصلحت کے بغیر اور کسی ازم کو اپنی راہ میں حائل کئے بغیر آزادانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
___(زہر گل، عالم خورشید)
یہاں قابل غور امر، ایک اور بھی ہے۔ جہاں پرانی روش، فرسودہ ازم سے باہر نکلنے کی بے چینی ہے، وہیں ایسا نہیں ہے کہ آنے والی نئی روشنیوں کے درمیان یہ کسی نئی تحریک، ازم، خیمے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ نئی نسل کسی بھی طرح کی پابندیوں کے خلاف ہے۔ روایتی شاعری کی قبا چاک کرنے، اپنے آپ کو ازم یا خیمے سے نجات دلانے کے بعد وہ پتھریلی سڑکوں پر چلنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری اکیسیویں صدی کے تخیلاتی منظر نامے سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی میں رونما ہونے والی سیاسی وسماجی تبدیلیوں پر بھی یکساں نظر رکھتی ہے۔ پہلے جہاں سیاسی پس منظر یا مذہب کے خلاف نئی شاعری میں ایک باغی جذبہ نظر آتا تھا، وہیں ہندوستان سے پاکستان تک آج اردو شاعری میں مذہب کی بھی واپسی ہونے لگی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس مذہب کو افیم، مذہبی فتور، سیاسی تنظیمیں کا آلہ کار تصور کیا جانے لگا تھا، اب شاعری میں نشاہ ثانیہ کے طور پر اس کی واپسی ہوئی ہے۔ شاید ایسا ہونا بھی تھا ؎
’’ … کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا پہلے کی ہی طرح ایک مذہبی دنیا ہے اور مذہب اس میں مرکزی ریفرنس ہے۔ جدید دنیا سے کسی طرح دوری مذہب سے مراد نہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت اور مذہب کے مابین جو رشتہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، وہ بے حد پیچیدہ بھی ہے۔‘‘
___(دی نیشنل انٹریسٹ۔ شمارہ 96-97)
آنے والے وقت میں ہمارے لئے حیرت کا باعث کچھ بھی نہیں رہ جائے گا۔ ہم کسی بھی واقعہ کا تجزیہ یوں بھی کریں گے کہ یوں تو ہونا ہی تھا۔ یا اگر یہ یوں نہ ہو کر یوں ہو گیا، تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اکیسویں صدی میں حیرانیوں کی بارش کا یوں گم ہو جانا ممکن ہے کسی سانحہ سے کم تصور نہ کیا جائے، مگر شاعری کا اصل ماجرا ہے کہ ’’کچھ اور چاہئے وسعت مری بیان کے لے … ‘‘ ک اکیسویں صدی کا یہ ’’ڈھیلا ڈھالا‘ اردو شاعر بھی سمجھنے لگا ہے اور چونکہ سمجھنے لگا ہے، اس لئے وہ اپنے کل شعری سرمائے کے لئے کسی نام نہاد نقاد کا محتاج نہیں ہے۔ یوں بھی کچھ برس قبل شاعری کی حمایت میں ایک نقاد نے یہ اعلان تو کیا ہی تھا کہ بے چاری یہ نئی نسل نقاد سے محروم ہے۔ اس کے پاس کوئی اچھا نقاد نہیں جبکہ اہم بات یہ ہے اور برسبیل تذکرہ یہ بات سامنے آنی چاہئے کہ نئے شعراء کی بغاوت انہیں خود اپنی شاعری کا نقاد بننے پر مجبور کر رہی ہے۔ انہیں وارث علویوں، فاروقیوں کی ضرورت نہیں ہے۔بہت ممکن ہے وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ نئے شعری پس منظر میں ’’علویوں ‘‘ کی تنقیدی فکر بیسویں صدی تک جا کر ٹھہر جاتی ہے وہ اس سے آگے کا سفر طے نہیں کرتی۔ اس لئے تخلیقیقت کے ساتھ وہ تنقید کا میدان بھی آئیں، یہ ان کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔
حقیقتاً نئی صدی میں شعراء ہوں یا افسانہ نگار پیش آمدہ تبدیلیوں سے نظریں چرانے کا کام نہیں کرسکتے۔ سائنس، تکنالوجی، گلوبل ویلیج یا ائبر اسپیس کی بات ہو، جس قدر ممکن ہوسکے گا وہ اپنے ادب کے ساتھ شیئر کریں گے اور اب تو احمد فراز تک نے نئی تبدیلیوں کو شعر کائنات می سمونے کابیباکا نہ اعلان کر دیا ہے۔
’’نئی معلومات ہر عہد می جب آتی ہیں تو ان کا ذکر ناول اور افسانوں میں تو آتا ہے لیکن شاعری میں براہ راست ان کا ذکر کم آتا ہے۔ پھر یہ کہ سائنسی معلومات کی ٹرمینالوجی تو آ رہی ہے ادب میں لیکن بذات خود وہ ادب کا موضوع نہیں تھا۔ خاص طور پر مشرقی مزاج ابھی تک اس کا ذوق پیدا نہیں کرسکا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اردو ادب میں بھی بالآخر ایسا ہو گا___ کیونکہ نئی باتیں تو آئیں گی، نئی باتیں اور تبدیلیوں کا ذکر جب عشق پر بھی پڑتا ہے تو ادب پر بھی پڑے گا۔ کلنٹن اور مونیکا کا جو سلسلہ ہوا وہ بھی ادب کا موضوع بن گیا … ‘‘
___احمد فراز
(انٹرویو، سالنامہ آثار، پاکستان
تیزی ے بدلتے ہوئے عہد کی یہ شاعری زیادہ عمدہ ہو گی، پائیدار ہو گی، آفاقی ہو گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر نئی صدی کی یہ شاعری اپنے زمانہ، عہد اور مسائل کے بہت قریب ہو گی۔ زبان کا بحران، شخصیت اور شناخت کا بحران۔ نئی شاعری کے لئے یہ سب مسئلے پرانے پڑ چکے ہوں گے۔ نئی شاعری نئے جادوئی رابطوں کو جنم دے گی اور نئی شعری وحدت خلق کرے گی۔
کم از کم میری نظر میں مستقبل میں کی جانے والی شاعری کا مستقبل زیادہ تابناک ہے۔
٭٭٭
نئی صدی میں اردو ڈرامہ
’’یہ مت کہنا
کہ مجھے موضوع چاہئے
یہ کہنا،
کہ مجھے آنکھیں چاہئیں
___رسول حمزہ توف
(میراداغستان سے)
مدّتیں گزریں، اردو ڈرامے سے اس کی آنکھیں گم ہو گئی تھیں ___
سب سے پہلے میں اردو ڈرامہ کو فروغ دینے کے لئے، اکادمیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا___ یہ اردو ’اکادمیاں ‘ ہر سال ڈرامے کا فیسٹیول تو کرتی رہتی ہیں مگر ان کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ اردو ڈرامہ کے نام پر بے چارے چچا غالب اور میاں بیوی کے لطائف پر مبنی ڈراموں سے آگے نکلنے کی کوئی بھی کوشش ان کے یہاں نظر نہیں آتی ہے___ حقیقتاً، جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی، والا معاملہ اردو ڈراموں کے ساتھ شروع سے چلتا رہا ہے۔یعنی جو سامنے کے ڈرامے نظر آئے، اکادمیاں دراصل انہی فرسودہ ڈراموں کو ’فروغ‘ دینے کا کام کرتی رہی ہیں ___ نتیجہ کے طور پر اردو میں نہ نئے ڈرامہ نگار سامنے آتے ہیں اور نہ ہی یہ اکادمیاں کوئی بڑا اردو ڈرامہ گروپ پیدا کر پاتی ہیں ___
اس پر غور کرنا چاہئے کہ آج اردو میں ڈرامہ (اچھا ڈرامہ تو بہت دور کی چیز ہے) کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے___ یہ تسلیم کر لیجئے کہ تنقیدی قلابازیاں تو زندہ ہیں، لیکن کہانیاں، قصّے، ناول اور ڈرامے سب گذرے دنوں کی داستان بن گئے ہیں ___ نئی صدی کے ادب کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تخلیق کا ر بھی کھو گئے اور تخلیق بھی___ نئی نسل کا آنا بند ہو گیا۔ افسانے، ڈرامے اور ناول کے نام پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ اس قدر عبرتناک ہے، کہ اب ان موضوعات پر گفتگو کرنے کو دل نہیں چاہتا___
لکھنے والے دو چند، انگلیوں پر گنے جانے والے رہ گئے ہیں ___ اور مقامِ حیرت یہ ہے کہ تنقیدی بازیگروں کی فوج انہی گھسے پٹے لوگوں کو سر پر اٹھانے کے لئے تیار بیٹھی ہے___ سوال اہم ہے کہ اچھے نقاّد کہاں گئے؟ تحریریں کہاں ہیں ؟ اور جب تخلیق ہے ہی نہیں، تو ہم اپنی زبان کو لے کر، کس بات پر خوش ہو رہے ہیں ___
تو اہم بات یہ ہے کہ وہی موہن جوداڑو ہے۔ وہی ہڑپّا ہے۔ وہی آثارِ قدیمہ ہے۔ وہی ادب ہے اور وہی نقّاد___
نئی صدی میں نیا کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا ہے___
اور ’ہرمن ہیسے‘ جرمن ادیب کا ’ڈیمیان‘ میں کفِ افسوس ملنا واجب ہے___ کہ چڑیائیں تو پرانی دنیا میں قید رہیں گی___
تو اردو میں کچھ بھی نیا برآمد نہیں ہو رہا ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں ڈرامہ نہیں لکھا جا رہا ہے___ ڈرامہ نثر کی ایک مشکل ترین صنف ہے۔ ڈرامہ لکھنا جہاں ایک مشکل ترین آرٹ ہے، وہیں اردو ادیب کے لئے ایک دشوار کُن مرحلہ اور بھی ہے___ عوام میں شامل ہونے کا احساس۔ عوام کے جذبات کی عکاّسی۔ منچ اور روشنی کے تقاضے___ کردار سازی و کردار نگاری پر قدرت کاملہ کا ہونا___ مکالموں کی برجستگی___ اور ان سب سے زیادہ، اپنے زمانہ، اپنے عہد کا ترجمان ہونا___ کسی نے درست کہا ہے:
” Only truly vital theatre can good provoke and agitate its audience.”
شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ ڈرامہ احتجاج کی زبان اور دکھی دلوں کی پکار کا نام بھی ہے___ ڈرامہ ابتدا میں بھی، عوامی احتجاج کے طور پر اسٹیج ہوا___ اور ارتقاء کی اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی، وہ اسی عوامی احتجاج کے پل صراط سے گزرتا آیا ہے___
اردو ادیب کی بے بسی اور لاچاری کا عالم یہ ہے کہ اس نے بہت کم اپنی زمین سے جڑنے کی کوششیں کی ہیں ___ تقسیم کے آس پاس بہت عمدہ قسم کی، حقیقت نگاری کی مثالیں تو سامنے آئیں لیکن آزادی کی ایک دو دہائیاں گزرتے ہی یہ ’زمین‘ ہمارے زیادہ تر فکشن رائٹر کے پاس سے گم ہو گئیں یا دانستہ طور پر گُم کر دی گئی___ ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف واپسی کسی طرح کا ادبی manipulationنہیں تھا___ اس واپسی میں ایک خاص طرح کی بے حسی اور اداسی کو بھی دخل تھا جو آزادی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی___ اس المیہ کو اردو نے کچھ زیادہ اس لئے بھی محسوس کیا کہ پاکستان بننے کی سازش میں، غریب زبان اردو بھی موردِ الزام ٹھہرائی گئی۔ یہ حادثۂ جانکاہ ابھی تازہ ہی تھا کہ گھر گھر بولی جانے والی اردو سے اس کی حیثیت چھین لی گئی___ تقسیم کا زخم، ہندومسلم فسادات، ماحول میں خوف کے اثرات___ یہ نفسیاتی جائزہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یقیناً اردو بولنے والا مسلمان ادیب ان کا شکار ہوا___ اس لئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اظہارِ بیان پر پابندی کے خوف سے اس نے جدید یا تجریدی کہانیوں کے درمیان پناہ لی ہو گی یا___ جیساکہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں کہا ہے، ایک خاص طرح کی بے حسی یا ’جابرانہ‘ بے بسی اس پر یوں مسلط ہونے لگی کہ اس کے پاس سے لفظ غائب ہو گئے___ وہ لاشعوری طور پر یکا یک جدیدیت کے خیمہ میں پٹخ دیا گیا تھا___
نئی نئی آزادی کے دس بیس برسوں کا متاثر ہونا یا ایسی صورتحال کا پیدا ہونا ایک شعوری عمل ہے۔ ہمارے درمیان سے ’بیانیہ‘ کی بیساکھی کیا گری، کہانیاں غائب گئیں ___ ہوا میں لکھی آیتوں میں مکالمے نہیں تھے___ اور ڈرامہ بغیر مکالموں کے نہیں کھیلا جا سکتا___ اِسے یوں سمجھئے کہ تقسیم کے وقت عام دانشوروں کا بھی یہی خیال تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام کو تقسیم کے حادثہ سے جانبر ہونے میں دس بیس برس کا عرصہ تو لگ ہی جائے گا___ اور حقیقتاً انسانی قدروں کے ابلاغ کے اس مؤثر ذریعہ، یعنی اردو ڈرامہ کو پھلنے پھولنے کے وہ مواقع سامنے نہیں آئے جو مراٹھی یا بنگلہ تھیٹر کو ملے۔ کیونکہ ماضی اور خوف کے ملے جلے اثرات نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو انتہائی کم یا مردہ ثابت کر دیا تھا___
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں تو تھیٹر زندہ تھا۔ ڈرامے تو مستقل کھیلے جا رہے تھے___ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ڈرامے کے زرّیں عہد کا خاتمہ 1935ء یعنی آغا حشر کشمیری کی وفات کے آس پاس ہو چکا تھا۔ اردو ڈرامہ کے اس مردِ مجاہد کے انتقال کے ساتھ ہی اردو تھیٹر کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ڈرامہ اور تھیٹر کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں اردو میں ڈرامہ صرف اور صرف ایک چھپنے والی صنف بن کر رہ گئی تھی___ اور واقعہ یہ ہے کہ ڈرامہ کا براہ راست تعلق اسٹیج اور عوام سے ہے لیکن اردو میں آزادی کے بعد سے صنف ڈرامہ کا تعلق صرف رسائل و جرائد سے رہ گیا تھا___
جیسا کہ آپ نے مندرجہ بالا سطور میں دیکھا، واقعہ یہ ہے کہ جدیدیت کوئی تحریک تھی ہی نہیں ___ جدیدیت تو ملک کی تقسیم، فرقہ وارانہ فساد سے پیدا شدہ ماحول، خوف کے اثرات، شناخت کا المیہ، نئی نئی آزادی میں مسلسل خود کو اس ملک کا شہری ثابت کرنے کے عمل سے وجود میں آئی تھی___ یعنی ایک ایسے گھنے کہرے سے پیدا ہوئی، جہاں ڈر تھا کہ لفظوں کو زبان مل گئی تو اپنی آزادی کے لئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے___ لبرلزم اور سیکولرزم کے نئے کلچر میں ہم نے آہستہ آہستہ ڈھلنا شروع کیا___ ممکن ہے آپ اتفاق نہیں کریں، لیکن واقعہ ہے کہ ازسرِ نو ہمارا ’اسلامی کرن‘ ہو رہا تھا___ یعنی ہم نئی آزادی کی فضا میں ایک نیا سیکولر اسلام اپنے وجود میں پیوست کر رہے تھے___ یہ اسلام پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں سے جُدا تھا___ نئے ماحول میں مسلمان ہونے کے معنیٰ بھی بدلے تھے___ اور نئی آب و ہوا میں سیکولرزم کی یہ لہر اتنی تیزی سے آئی کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا___ تب تک نئی آزادی میں پرورش پانے والی نئی تہذیب کے بطن سے خوفزدہ علامتیں جنم لے چکی تھیں ___ مشترکہ کلچر کے اچانک دباؤ سے ایک نیا میلان پیدا ہو چکا تھا___ نئی ہوا نئے لفظوں کو شکل دے رہی تھی___ کسی بغاوت کے بغیر، اردو والوں کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا تھا۔ اس لئے شب خونی کلچر کا وجود میں آنا محض اتفاق یا حادثہ نہیں ہے___ یہ ان خموشی بھرے لمحوں کی ضرورت بھی تھی جہاں خود کو سیکولر بھی ثابت کرنا تھا اور قلم کو زنگ لگنے سے محفوظ بھی رکھنا تھا___ قوتِ گویائی سے محروم ہونٹوں نے انہی فضا میں علامتوں کو لبیک کہا ہو گا___ اس لئے جدیدیت کو کسی تحریک سے وابستہ کرنا میرے نزدیک کوئی واجبی بات نہیں ہے۔
حقیقتاً، ہم ابھی بھی شب خونی قلا بازیوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ ایک شخص ہوا میں زبان، زبان نام کا تیر چھوڑتا ہے۔ دو چار چاپلوسوں کے کندھے مل جاتے ہیں۔ اس صدی کے اس شاطر جوکر کی شناخت کیجئے جو آپ سے آپ کی زمین چھین رہا ہے___ ہوا میں معلق کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں، ڈرامہ نہیں ___ اس نے نہ صرف آپ سے کہانی کی زمین چھینی، بلکہ اچھا ادب اور اچھا ڈرامہ سب کچھ چھین لیا___
نئی الفی کے اِن چار برسوں کا المیہ ہے کہ اردو کا کوئی مستقبل دور دور تک نظر نہیں آتا___ تھوڑے سے ادبی رسائل رہ گئے ہیں۔ بس___ نئی نسل میں نہ افسانہ نگار ہیں، نہ نقاّد اور نہ ڈرامہ نگار___ انیس اعظمی سے ظہیر انور اور ممبئی والے اقبال نیازی تک بس گنتی کے چند نام رہ گئے ہیں۔ لیکن ان کے بعد___؟
ڈرامہ ایک ایسا میڈیا تھا جس کا تعلق براہِ راست عوام سے تھا۔ اس لئے اس کے موضوعات بھی ہنگامی نوعیت کے تھے___ مثلاً جبرواستحصال، ملکی و غیر ملکی سیاسی صورتحال پر عوامی ردّ عمل کا اظہار، ریزرویشن، ایمرجنسی، پنجاب یا کشمیر میں پیش آنے والے واقعات اور فسادات___ ڈرامہ، فکشن کی طرح صرف ایک خوبصورت پورٹریٹ نہیں ہوسکتا۔ اس میں اتنی گنجائش ہے کہ مسائل کے ساتھ مسائل کے حل کو بھی کرداروں اور مکالموں کے ذریعہ دکھایا یا بتایا جا سکتا ہے۔ اس لئے آنے والے وقت یا آنے والی صدی میں اس موثر میڈیا کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ مگر___
کس سے گلہ کیجئے۔ کس سے شکوہ کیجئے___
انیس اعظمی اور شاہد انور جیسے کتنے لوگ ہیں ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو ناٹک کی دنیا کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن عمر کے پاؤں پاؤں چل کر، بڑھاپے کی ایک ایسی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں،جہاں وہ آنے والے وقت کے بارے میں صرف کفِ افسوس مل سکتے ہیں ___
(یہ کتاب میرے کرم فرما ڈاکٹر محمد حسن، اور دلّی اردو اکادمی کے پیارے دوستوں راغب صاحب، شمیم صاحب اور انیس اعظمی کی محبتوں کا بھی نتیجہ ہے، جنہوں نے مجھ سے بار بار اِن ڈراموں کو منظر عام پر لانے کے لئے زور دیا۔)
ہم ہاریں گے نہیں
تلاش کریں گے،
اندھیرے میں بھی اپنے ہونے کا احساس
اور اسی پر خوش ہو لیں گے
کہ ہم ہیں
اور ہم کامیاب ہو رہے ہیں
ہم، اسی پر خوش ہولیں گے
کہ ہم راستہ تلاش کر رہے ہیں
اور بڑھ رہے ہیں۔
ہم …
اسی امید پر،
اسی موہوم سی امید پر
ناٹک کریں گے
اپنے زندہ ہونے کا___
اور
خوش ہولیں گے
ہمیشہ کی طرح___ !!
٭٭٭
نئی صدی میں نثری شاعری
نثری شاعری کی اہمیت میرے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ اس کا ایک جواز تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے خیالات کو پیش کرنے کی ج آزادی یہاں میسر ہے وہ غزلیہ شاعری میں نہیں۔ ممکن ہے شعراء یا شعر پر تنقید کرنے والے اسی آزادی ک نثری شاعری کا عیب تصور کریں، یہ حق ان کو حاصل ہے اور اس کا استعمال پچھلی دو ایک دہائیوں سے کیا بھی جا رہا ہے۔
ہرجا نثری شاعری پر نہ صرف شروع سے ہی اعتراضات ہوتے رہے ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اعتراضات کرنے والوں کی قطار بھی بڑھتی رہی ہے۔ ان میں آج بھی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو نہ صرف نرگسیت اور محبوبیت کے درمیان جھولتے ہوئے الفا کی چاشنی، ریاکاری اور مکاری میں ڈوبے رہے ہیں۔ بلکہ بقول شخصے، صحرا میں اذاں کی طرح شاعری کی تخیلی اڑان اور الہامی طبیعت ک لے کر طرح طرح کی خوش فہمیوں کا شکار بھی رہے ہیں۔ گویا شاعری نہیں ہوئی کوئی آسمانی صحیفہ یا غیبی صد ہو گئی اور شاعری سے الہام کا رشتہ تو روز ازل سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک فکری افق کو چھونے اور نئے جہان کی بازیافت کا سوال ہے اس غیبی صدا یا آسمان سے صحیفہ کی صرت اتر ہوئی شئے یعنی غزل نے نہ صرف تنگ دامانی کے فضا قائم کی ہے بلکہ باور کرایا ہے کہ صحیفہ، صحیفہ ہوتا ہے، مشینی رویے، مشینی رویے ہوتے ہیں۔کسی صحیفہ کو مشینی رویوں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
اردو کی شاعرانہ طبیعت میں روز اوّل سے ہی یہ بات ڈال دی گئی کہ شاعر تو نا موجود کی تخلیق کرتا ہے۔ نتیجہ ___ناموجود کی تخلیق میں، ایک بڑے طبقے نے اپنی عمریں وقف کر دیں۔ یہی نہیں ___ ناموجود کی کیفیتوں کا خمارا بھی بھی باقی ہے۔ ناموجود کی تخلیق کے سوتے ابھی بھی سکھے نہیں ہیں، پوری شدت سے جاری وساری ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا اردو کا شاعر ت ناموجود چھوڑ کر موجود چیزوں کی بحث میں پڑتا ہی نہیں ___ تخلیق کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے۔
غزلیہ شاعری جہاں ناموجود کے احسا کے بطن سے جنم لیتی ہے، وہیں نثری شاعری کا مزاج جداگانہ ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں، نثری شاعری بلاواسطہ یا بالواسطہ موجود سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ وہ بھولے بھٹکے بھی ناموجود پناہ گاہوں، میں پناہ نہیں لے سکتی۔ نثری شاعری کو، تنقیدی شعور رکھنے والوں کے عذاب سے بھی اسی لئے گزرنا پڑا کہ نہ وہ ابہام کے تقاضوں کو تسلیم کرتی ہے، نہ وہ مہم قسم کی جدیدیت یا تجریدیت کے مابین کوئی راستہ نکالتی ہے۔ وہ آوارہ ندی جیسی ہے۔ کبھی خیالوں کے باندھ کو توڑا، کبھی کسی کہ سے جا ٹکرائی … پتھروں میں شگاف کیا، نیز رواں دواں لہروں نے راستہ بنایا۔ ندی کبھی گرجی، کبھی چیخی، کبھی خاموش ہوئی۔ کبھی اس طرح چنگھاڑی کہ سرکش لہروں سے ایک جہاں میں اضطراب یا ہلچل پیدا ہو گئی۔
نثری شاعری کی انہی خوبیوں نے مجھے اس کا معترف و مداح بنایا ہے۔ کیا کیجئے کہ مجھے آوارگی کی اس شدت میں لطف آتا ہے۔ مجھے اس کا بانکپن پسند ہے۔ اس کی سرکشی اور باغیانہ فطرت میں مجھے اپنا اور اپنے عہد کا چہرہ نظر آتا ہے۔ میں ان سرکش آوارہ لہروں کی آغوش میں سکون محسس کرتا ہوں اور ایک خاص طرح کی طمانیت کا احساس ہتا ہے۔
نثری شاعری کے مخالفین کا سب سے سخت ردّ عمل یہ ہے، کہ آپ اسے صنف شاعری میں کیوں شامل کرنا چاہتے ہیں ؟ ’’نیم شاعر مرثیہ گو‘‘ کے طرز پر جنہیں شاعری میں اپنے خیالات پیش کرنے کا سلیقہ نہیں آتا، وہی اسے معتبر ٹھہرانے کی صف میں پیش پیش رہے ہیں۔
احمد فراز نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔
’’ … لیکن ایک خرابی جو در آئی ہے۔ وہ ہے … نثری نظم___ جو سہل نگاری کا نتیجہ ہے۔ پہلے آپ پابند شاعری میں اپنے آپ کو منوائیں، اس میں تنگ دامانی کا احسا ہو تو نثری شاعری کا تجربہ کریں ورنہ یہاں تو ماجرا یہ ہے کہ جو بھی اٹھتا ہے، نثری شاعری کر لیتا ہے۔ اب تو ایسی نثری شاعری ہو رہی ہے جس میں کوئی Contentہی نہیں ہے۔‘‘
فراز نے جو بات نثری شاعری کرنے والوں کے لئے کہی ہے، کچھ دنوں پہلے تک وہی بات کیڑے مکوڑوں کی طرح پیدا ہونے والے شاعروں کے بارے میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی نثری شاعری کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں نظر نہیں آئے، جتنی بڑی تعداد میں شاعری دکھائی دے جاتے ہیں اور آپ مذاق مذاق میں کہہ دیتے ہیں۔ ’بس تھر چلا کر دیکھئے، جس گھر میں گرے گا وہاں دو چار شاعر ضرور ہوں گے اور جہاں تک Contentکی ناموجودگی کا سوال ہے، نثری شاعری کرنے والوں کے یہاں تو پھر بھی یہ مل جائے گا اور شاعری تو بغیر Content کے مستقل ہی جنم لیتی رہی ہے۔
نعمان شوق سے احمد فراز تک نثری شاعری کے بارے میں جو رائے بنی ہے، وہ کم و بیش یہی ہے۔ پاکستان سے نکلنے والے ایک خوبصورت رسالہ آثار(مدیر:فیصل عجمی، ثمینہ راجہ) کے سالنامہ میں شہزاد منظر کا ایک مضمون شائع ہا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ چند لمحے۔
میں شہزاد منظر اور مس حیدر کے درمیان مکالمے کا ایک دلچسپ حصہ مندرجہ ذیل سطور میں نقل کر رہا ہوں۔
عینی : ’’ … فساد برابر ہو رہے ہیں، لوگ لکھتے نہیں ہیں اتنے بے حس ہو گئے ہی۔ لیکن میں لکھ رہی ہو۔ اس کے بارے میں برابر۔ ابھی بھی میں نے لکھا تھا اس بارے میں۔ عالم آشوب لکھا تھا، جسے آپ نے پڑھا ہو گا۔ اس کا عنوان تھا۔ قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے۔‘‘
شہزاد: اس افسانے کے بارے میں تھوڑی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔
عینی: وہ افسانہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو عالم آشوب ہے۔
شہزاد: عالم آشوب تو ہے لیکن آپ اسے کس صنف میں رکھیں گے؟
عینی: میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ یہ عالم آشوب ہے۔ بعض اوقات مصنف جو کچھ لکھتا ہے، اس کا کوئی فارم نہیں ہوتا۔ مصنف کو کچھ کہنا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مخصوص صنف میں ہی کہے۔‘‘
قرۃ العین حیدر کی یہ رائے قابل غور ہی نہیں، بلکہ اس رائے کو نثری نظم کی حمایت میں پی کیا جا سکتا ہے۔ تخلیقیت کا مسئلہ بھی عجیب ہے۔ کوئی کوئی موضوع ایا ہوتا ہے کہ مصنف الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ اسے کس طرح برتا جائے۔
بہت ممکن ہے کہ اسی تخلیقی کنفیوژن سے آزاد غزل بھی معرض وجود میں آئی ہو۔ گو آزاد غزل کا چلن ان دنو ں کچھ کم ہوا ہے مگر آزاد نظم، نثری نظم کی طرح آزاد غزل کی اہمیت سے بھی انکار نہی کیا جا سکتا۔ اس لئے بھی کہ شاعری آج فقط ناموجود، کا حصہ نہیں ہے۔ وہ پورے ’’وجود‘‘ کے ساتھ عہد حاضر کے مسائل کی دیواروں پر دھوپ کی طرح پھیل جانا چاہتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پھیل چکی ہے___ شدت سے پھیلتی جا رہی ہے۔
نثری نظم کو آپ ایک خوبصورت احساس Feelingsسے تعبیر کرسکتے ہیں۔ لیکن اس احساس کی جڑیں دور دور تک پیلی ہوئی ہیں یہ احاس کسی ایک نقطہ یا لمحے سے شروع ہو کر مکمل کائنات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ عام طور پر نظم کا شاعر،نثری نظم کی تخلیق کے دوران اپنے احساس کو آوارہ لہروں کی طرح چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح ایک لہر سے کتنی کتنی لہریں بنتی چلی جاتی ہیں اور شاعر لہروں کی ان لڑیوں سے اپنے خیالات کا تانا بانا بنتا چلا جاتا ہے۔ صنف غزل ہو یا آزاد نظم، وہاں یہ لہریں اتنی آوازہ یا آزاد نہیں رہ سکتیں۔ غزل ایک خاص طرح کی بندش یا ڈسپلن کا نام بھی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غزل کے الگ الگ اشعار ان آوارہ لہروں یا کیفیات کو سمیٹنے کا ہنر جانتے ہیں، تو اس صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن الگ الگ رنگوں سے ’کیفیات‘ کی فضا مکدر بھی ہوسکتی ہے جبکہ نثری نظم اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ان آوارہ لہرو ں کو قبول کر لیتی ہے پھر اس سے انحراف یا انکار کیوں ؟
مثال کے طور پر میں کچھ نظمیں پیش کرنا چاہوں گا۔
تکمیل
بس آنکھیں چاہئیں
مجھے آنسوؤں کی پرورش کرنا ہے
انتظار کا بیج بونا ہے
آنکھیں چاہئیں تاکہ میرے بے آواز
آنسوؤں کو
کوئی راہ مل سکے۔
آنکھیں چاہئیں تاکہ میں سوختہ خوابوں کو
اکٹھا کرسکوں
کہی سے مجھے ڈھونڈھ کر
آنکھیں لادو
بس۔ ایک جسم کی ضرورت ہے
دکھوں کو پروان چڑھانا ہے
جسم چاہئے
تاکہ دنیا کی نگاہوں سے
دکھ چھپ جائیں
دکھوں کو اپنے لئے گھر چاہئے
جسم چاہئے
کہی سے مجھے ڈھونڈھ کر لادو
بس ایک روح چاہئے
آگہی سے لبریز
جنوں سے پرچاہئے
زیاں کی خواہش رکھنے والی ایک روح چاہئے
فکر فردا جس کی ہمرکاب ہو
محبت کی جسے خواہش ہو
اور اس کی خاطر سرگرداں ایک روح چاہئے
کہیں سے مجھے یہ ڈھونڈھ کر لادو
مجھے آنسوؤں کا تقاضا کرنے والی آنکھیں
دکھوں کو پروان چڑھانے کے لئے جسم
اور آگہی کی روح چاہئے
مجھے انسان بننا ہے
___ناجیہ احمد
یہ ایک خوبصورت نظم ہے۔ انسان کی تکمیل میں کن عناصر کی ضرورت پڑتی ہے۔ آنکھیں، دکھوں کو پروان چڑھانے کے لئے ایک جسم، دکھ کو چھپانے کے لئے ایک گھر، آگہی سے لبریز روح، آنسوؤں کی پرورش کرنے اور آنکھوں میں رکھنے کے لئے انتظار۔ اس نثری نظم میں بیک وقت کئی کیفیات ہیں۔ سکھ دکھ کے سارے سارے ’’انسانی موسم‘‘ ہم آہنگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے۔ انسان کی تکمیل کا یہ خیال جس طرح نثری نظم کے ذریعہ ابھر کر سامنے آیا ہے، ممکن ہے ناجیہ اس صوتی آہنگ کو کسی بھی دوسری صنف میں برتنے میں شاید اتنی کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اب ایک اور نظم ملاحظہ کیجئے۔
شرعی سرکس
کل تک
ضرور مجھے یقین تھا کہ
بہرحال قاضی کی مدد سے
ایک شرعی
اور انتہائی محفوظ ترین لو اسٹوری
شروع کی جا سکتی ہے
اور میرے ا یقین نے آخر مجھے
میری زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر سے
دوچار کر دیا
اور آج
ایک خطرناک رسی پر
نٹنی کی طرح چلتے چلتے
میں گا رہی ہوں
یارب، یہ شرعی عشق تو سچ مچ
ایک سرکس کی طرح ہے
جس میں دو جسم چاہے ان چاہے
نام نہاد وفا کی رسی پر
سرکسانہ مشاقی سے چلتے آرہے ہیں
صدیوں سے
اور اب خوابوں میں بھی ہنسنے کے سب رستے
ایک قاضی بند کرسکے چلا گیا ہے
___عذرا پروین
محسوس کیجئے تو عذرا کی اس نظم میں تلخیاں ہی تلخیاں پیوست ہیں۔ یہ نظم ازدواجی زندگی کے بحران سے گزرتی ہے اور کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔ قاضی کی مدد سے شرعی اور انتہائی محفوظ ترین لو اسٹوری شروع کرنے کا مطلب سیدھا اور صاف ہے۔ یعنی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو جانا۔ عذرا اسے ایک خطرناک ایڈونچر سے تعبیر کرتی ہیں، جیسے کوئی نٹنی رسی پر چل رہی ہو۔ یعنی ذرا سا بھی توازن میں فرق آیا اور کھیل بگڑا۔ عذرا اسے شرعی سرکس سے تعبیر کرتی ہیں کہ صدیوں سے ایک قاضی کے کہے پر یہ سرکس مسلسل اپنا تماشہ دکھائے جا رہا ہے۔ ا Irony of thought کا مستحق میرے نزدیک صرف اور صرف نثری نظم ہی ہوسکتی ہے۔ عذرا کی دوسری بہت ساری نظموں کے بیچ، یہ نثری نظم اس لئے بھی اپنی خاص چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہے کہ رشتۂ ازدواج کو سرکس کی جزئیات کے ساتھ جوڑ کر عذرا نے نشۂ تخیل کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں بڑی تعداد میں نثری نظمیں لکھی جا رہی ہیں۔ کچھ نثری نظموں کے نمونے ملاحظہ کیجئے۔ لیکن اس سے قبل نصیر احمد ناصر کا تذکرہ ضروری ہے۔ان کی نثری نظمیں نہ صرف قبولیت کے دور سے گزر چکی ہیں بلکہ ابھی بھی ان نظموں پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔
احمد ہمیش نے نصیر احمد ناصر کی نظموں کے بارے میں لکھا۔
’’نصیر احمد ناصر کے خواب مسلسل کو معمولی استعارہ سمجھ لینا اس عہد کی سبسے بڑی شعری نارسائی اور ادبی بد دیانتی ہو گی۔ ناصر کے خواب کی تعبیر و تفہیم کے لئے محض اس خاکی کرے پر ارتقائے حیات ہی کا نہیں، بساط کائنات کی لامتناہیت میں وجود آدم کی بے بساطی کا شعور ولاشعور رکھنا بھی ضروری ہے۔ درون ذات کے قدیم آب زاروں اور فرد کے انتہائی گہرے داخلی منطقوں سے پھوٹتا ہوا ناصری خواب، ازل و ابد کی حدوں سے ماور اء الوہی نیند تک پھیلا ہوا ہے۔‘‘
___تشکیل (احمد ہمیش)
حقیقتاً نصیر کی خواب سلسلے کی نظمیں ادب میں گرانقدر اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور خواب کے یہ Shadesجس تسلسل کے ساتھ فرد کی ذات سے نکل کر بساط کائنات پر پھیلتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے لئے موزوں ترین صنف صرف اور صرف نثری شاعری ہے۔ ان خواب زدہ نظموں میں تمام تر شعری کیفیات اس خوبصورتی سے سموئی گئی ہیں کہ ان نظموں سے گزرتے ہوئے خوابوں کے ناآفریدہ گوشے بھی خود بخود آپ کے سامنے کھیلتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نظم دیکھئے۔ ’’خواب اور محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔‘‘
’ہمارے درمیان بے خبری کی دھند پھیلی ہوئی ہے
تلاش کے راستے پر چلتے ہوئے
ہمارے قدم اپنی منزل نہیں دیکھ پاتے
تمہارا اندر، میری نظموں سے زیادہ خوبصورت اور اجلا ہے
مگر میری عینک کے شیشے روز بروز دبیر ہوتے جا رہے ہیں
پتہ ہے ہمیں لکھتے ہوئے
نظمیں اور کہانیاں بے لفظ کیوں ہو جاتی ہیں
وہ ہماری جائے پیدائش، تاریخ اور عمر جاننا چاہتے ہیں
انہیں کیا معلوم
خواب نہ پیدا ہوتے ہیں نہ مرتے ہیں
ان کا اندراج کسی رجسٹر میں نہیں ہوتا
میں نہیں جانتا
تم نے کب خواب کی انگلی تھامے ہوئے
نیند میں چلنا سیکھا
لیکن میں وہ خواب ہوں
جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا
میں تو اس روز ہی مر گیا تھا
جس روز باپ نے ماں کے حاملہ پیٹ پر ٹھوکر لگائی تھی
مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوتا گیا
اتنا بڑا کہ ماں مجھے سر جھکائے بغیر دیکھ سکتی
ایک بار کسی کی تصویر کھینچتے ہوئے
کیمرہ میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا
تب مجھے پتہ چلا
کہ خواب روشنی میں سیہ کیوں ہو جاتے ہیں
انہیں ایکسپوز کرنے کے لئے اندھیرے کا محلول کیوں ضروری ہے
روشنی تاریکی میں ہی نظر آتی ہے
بہتے پانی کی کوئی شکل نہیں ہوتی
شکلیں ہماری آنکھ میں ہوتی ہیں
خواب دیکھنے کے لئے
نیندوں کی نہیں، آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے
Protozoan سے منش تک
کئی ہزار ملین سالوں کی ارتقائی نیند
محض آنکھیں کھولنے کا عرصہ ہے
موت اور زندگی میں محبت کا فاصلہ ہے
جسے ناپنے کے لئے ہم عمر کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں
اور جینے کا ڈھونگ رچاتے ہیں
لیکن محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی
یہ تو ایک نامعلوم انت ہے
جو دوسرے نامعلوم انت تک موجود ہے
ہم جہاں اسے دریافت کرتے ہیں
وہیں پر اپنی اپنی حد مقرر کر لیتے ہیں
اور اسے ناموں اور رشتے میں تقسیم کر دینے میں
اداسی ہمارے علم اور تجربے سے کہیں زیاد ہے
اسے پھیلنے دو
رنگوں، پھولوں اور تتلیوں کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا
پرندوں، پودوں اور اچھے لوگوں سے باتیں کرنے کے لئے
خاموشی سے بہتر کوئی اظہار نہیں
کوئی بات اپنی عمر سے بڑی نہیں ہوتی
کیا خبر ہم کسی عظیم خواب کی بیداری میں ہیں
اور کوئی ہمیں کائناتی آنکھ سے دیکھ رہا ہو
پرم آتما کو خواب دیکھتے ہوئے ڈسٹرب مت کرو
___نصیر احمد ناصر
میں نے جان بوجھ کر یہاں ایک طویل نظم کا انتخاب کیا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں خاص بات کیا ہے۔ آپ خواب اور نیند پر ہزاروں عمدہ اشعار سنا سکتے ہیں۔ آپ میر اور غالب کے حوالے سے، خواب، نیند، مندگی اور موت کے فلسفے پر باتیں کرتے ہوئے بڑے آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کیفیت دو مصرعے کے ایک شعر میں سموئی جا سکتی ہے، اس کے لئے اس قدر بھٹکی ہوئی نظم لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ شاعر کے ’’ذہانت‘‘ سے لبریز دو مصرعے کسی بھی کیفیت کی عکاسی کے لئے بہت ہیں۔ ممکن ہے آپ قلم لے کر نظم کی خامیاں نکالنا شروع کر دیں کہ یہ نظم یہاں بھی ختم ہوسکتی تھی یہاں بھی اور یہ بھی کہ ا نظم کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ Compact نہیں ہے۔
شعور کی رو (Stream of Consciousness) کا خوشگوار ہوا کی طرح مستقل بہتے جانا ہی اس نظم کی اور نثری نظم کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ یہاں آزاد نظم کی طرح ہم ’’خیال‘‘ کو یک موضوعی دھارے میں نہیں بہنے دیتے۔ ہم اسے مختلف Variationsیا Shades سے گزارتے ہیں۔ ہم خوابوں کی باتی کرتے ہیں تو جاگتی آنکھوں، بند آنکھوں اور نیند ے گزرتے ہیں۔ نیند سے گزرتے ہیں تو ہمیں فوٹو گرافی کا عمل یاد آ جاتا ہے۔
’’تب مجھے پتہ لا کہ خواب روشنی میں سیہ کیوں ہو جاتے ہیں۔
انہیں ایکسپوز کرنے کے لیء اندھیرے کا محلول کیوں ضروری ہے۔‘‘
خواب یاترا سے مسلسل گزرتے ہوئے ہم پر ایک خاص طرح کی اداسی مسلط ہونے لگتی ہے۔ انتراتما سے پرماتما تک کا یہ سفرہمیں نہ صرف ذہنی اور روحانی کربناکی سے گزارتا ہے بلکہ ایک طرح سے اندر اندر ہمیں نچوڑ بھی لیتا ہے۔ پھر جیسے یکایک ہم کیس وجدانی کیفیت سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ نقادوں کی شعری نارسائی ہی کہی جائے گی کہ اسے اب تک سندوقبولیت کا درجہ نہیں ملا ہے۔
کچھ نمونے اور ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان کے علی محمد فرشی سے لے کر، مستقل نثری نظم سے اختلاف رائے رکھنے والے نعمان شوق تک، نثری نظم لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نثری نظم کے شاعر کا کینواس اور وژن کافی بڑا ہوتا ہے یہ سچ ہے کہ نثری نظم کے لئے اب تک کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے، یہی اس کا سب سے بڑا وصف یا عیب ہو، مگر موضوع کے لحاظ سے جتنے ڈالمنشن شاعر اس Prose Poetry میں تلاش کرسکتا ہے، کسی دوسری شعری صنف میں نہیں ___
کچھ نثری نظمیں ملاحظہ کیجئے۔
کل رات میرے خواب میں دو مکان تھے
ایک بڑا گھر تھا
جس کا نام وقت تھا
ایک اور گھر تھا جو بڑے گھر سے چھوٹا تھا
نام اس کا بھی وقت تھا
ہم دونوں ان دونوں گھروں کی طرف جا رہے تھے
ہنستے، کھیلتے
میرے ساتھ ایک دبلی سی شوخ و شنگ لڑکی تھی
جو عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی
مگر جب وہ میری طرف دیکھتی تھی تو مجھے
میری عمر سے بڑی لگتی تھی
پھر بھی ہم دنوں نوخیز ہم عمروں کی طرح
ہنستے کھیلتے جا رہے تھے
بڑے گھر کی طرف یا چھوٹے گھر کی طرف
___منیر نیازی
آنکھیں Safety Valves ہیں
میں اپنی ذات کے پریشر ککر میں پکتی ہوں
اور جب اندر ہی اندر
بھاپ زیادہ ہو جاتی ہے تو
آنکھوں سے بہہ نکلتی ہوں۔
___فوزیہ چودھری
بن مانس لڑکی
اس کے چہرے پر جنگل اگ رہے تھے
اس کی ٹانگوں پر جنگل اگا ہوا تھا
ا کی ابھرتی ہوئی چھاتیاں
رین فارسٹ بن رہی تھیں
ایک خوبصورت لڑکا اسے دیکھ کر
بے ہوش ہو گیا
وہ اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آئی
لڑکے کے جسم پر کوئی بال نہیں تھا
انہوں نے آپس میں شادی کر لی
___افتخار نسیم
اسے زندگی کا راز معلوم ہو گیا تھا
چمڑہ پوش دو پائے
بوڑھے باپ کو تیروں سے دھکیلتے ہوئے
دریا کے عظیم کے مقدس پانیوں سے بہت دور لے گئے
دمکتے ہوئے صحرا میں زندگی دیر تک اس کی منتیں کرتی رہی
لیکن اس نے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی
اس کے ساتھ بڑے گناہوں میں
پہلا گناہ یہ تھا
کہ اس نے مقدس مٹی میں
سوم رس وئی کاشت کرنے سے انکار کیا
اس نے زمین کی ہری کوکھ سے
کپاس کا اجلا پھول اگایا
مقدس ریشے سے اس نے ستر بنایا
اور جسم کے رام چھپا لیے
اس نے تیر کے بجائے قلم
اور ڈھال کے بجائے تختی بنائی
وہ زبان کو بولنے
اور انگلیوں کو لکھنے کے لئے استعمال کرتا تھا
اس نے انسانوں کی پشت پر
تیر برسانے والوں کو خدا کا دشمن
اور چمڑہ پوش فاتحین کے تلوے چاٹنے والوں کو
کتوں کا آخری جنم قرار دیا
اس کا ایمان تھا کہ موت اسے نہیں مارسکتی
کیونکہ اس نے لکھنے کا راز ایک اپاہج بیٹے کو بتا دیا تھا
اسی لئے آ میں
یہ نظم لکھتے ہوئے ادا نہیں ہوں
___علی محمد فرشی
ان میں کئی نظمیں انتہائی فلیٹ ہی اور کہی کہی ان کا کھردرا پن یا سپاٹ بیانیہ ذہن و دماغ پر کچوکے بھی لگتا ہے لیکنContentکی معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔جس طرح بہت سے شاعری، اچھی شاعری نہیں کر پا رہے ہیں، اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی نثری نظم کہنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو نثری شاعری کے فن سے ابھی آگاہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی نصیر، فرشی وغیرہ کی نظمی اپنے بین السطور اور معنی آفرینی کی وجہ سے سیدھے دلوں میں اتر جاتی ہی۔
نعمان شوق غزل کے شاعر ہیں۔ نئی نسل کے شاعروں میں نعمان کا قد اور رنگ دوسروں سے مختلف اور انفرادی ہے۔نعمان کی زندگی کے ساتھ ایک ناقابل فراموش سانحہ بھی جڑا ہوا ہے۔ نعمان نے جب ان یادو ں کو لکھنا چاہا، تو اس کے لئے ان کے پاس موزوں ترین ہتھیار سوائے نثری شاعری کے کوئی اور نہیں تھا۔ یعنی نثری شاعری سے انحراف کا رویہ اپناتے ہوئے بھی، وہ اس کے قائل نظر آئے۔
نعمان شوق کی یہ نظم (نثری) ملاحظہ کیجئے۔
عنوان ہے۔
24؍جنوری1990
تم نے اندھیری رات چنی
اور رسی چنی اپنے لئے
اور میرے لئے بند کریئے
عذاب ماہ وسال سے
بچ نکلنے کے تمام راستے
میں نے ماں کو ماں کہا/تم سے پہلے
رو کر اور چیخ کر
میں نے توڑی خاموشی کی برفیلی چٹان
اور اپنی ہستی کا اعلان کیا
تم سے پہلے
جلتی سیخوں میں
داغا گیا میرا احساس
تم سے پہلے
آتی جاتی سانسوں نے
آگ بھری میری ہڈیو ں میں
گہری کالی رات نے
بسیرا کر لیا تھا مجھ میں
تم سے پہلے
میں نے بھی
چن رکھی تھی___ ایک رات
بھیانک، منحوس اور کالی رات
اپنے لئے
میں نے بھی
ایک رسی چن رکھی تھی
اس تنگ و تاریک گھاٹی میں اترنے کے لئے
جس میں تم اتر گئے
مجھ سے پہلے
تم میرے جیسے تھے نا!
ایک ہی مامتا کی مہربان شاخ پر
جھولے ڈالے تھے
میں نے اور تم نے
ایک سے تھے میرے اور تمہارے دکھ
میری اور تمہاری آنکھو سے بہنے والے آنسو
اور ان آنسوؤں میں بھیگ کر
ایک سا لگتا تھا ___میرا اور تمہارا چہرہ
تم میرے جیسے تھا نا!
شاید اسی لئے کسی نے آج پھر
پکار لیا ہے مجھے___ تمہارے نام سے
اور اچانک
خواب سے چونک پڑا ہوں میں
یا پھر کہیں ایسا تو نہیں
اپنے ہونے کے بھرم میں
تمہارے نہ ہونے پر اصرار کرتا رہا ہوں میں
تو کیا سچ مچ یہ میں نہی
یہ میرے ہاتھ پاؤں، آنکھیں
سب تم ہی تم ہو
تو کیا وہ میں تھا
جس نے تھوک دیا تھا اس رات
دنیا کے کریہ چہرے پر
تو کیا وہ میں تھا
جس نے رسی کے ایک ٹکڑے سے
ناپ لی تھی اپنی بچی کھچ عمر
تو کیا تم ہو
جو اتنی رات گئے، نظم لکھ رہے ہو، میرے لئے
___نعمان شوق
گو اردو میں اس جدید ترین Story-Poem یا Prose-Poem کی ارتقائی پیش رفت کا ثبوت فراہم کرنے کیل ئے یہ نظمیں کافی ہیں۔ کلیشے سے پاک متنوع موضوعات پر لکھی گئی یہ نظمی نہ صرف زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں، بلکہ ایک طرف جہاں خوبصورت امیجز ابھر کر سامنے آتے ہیں، وہیں بین السطور کی گہری معنویت بھی، غور و فکر کے لئے آپ کا راستہ روک کر کھری ہو جاتی ہے۔
ہم فکشن میں شاعری نہیں کرسکتے ہیں۔ زیادہ جذبات نگاری کو بھی کچھ نقادوں نے اچھے فکشن کا عیب بتایا ہے۔ اس لئے Jane Austinسے امریتا پریتم تک، ان کی شاہکار تخلیقات پر بھی بے جا جذبات نگاری کا الزام لگتا رہا ہے۔ خود جوائس کا قول تھا، کہ آپ کسی کو بری طرح رلا دیتے ہیں یا چونکا دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ کام تو ایک معمولی شرارتی بچہ بھی کرسکتا ہے۔ جس طرح فکشن میں آپ کو جذبات سے دامن بچانا ہوتا ہے، اسی طرح شاعری میں آپ کہانی Prose یا Storyکی فضا پیدا نہیں کرسکتے۔ یعنی شاعری کو سخت پتھریلی، ناہموار راہوں سے گزارنے کا خیال بھی، شاعری کی تمام تر جمالیات کو رد کر کے ہی آسکتا ہے۔ نتیجہ جو کام آپ شاعری سے نہیں لے سکتے، فکشن میں جس جذبات نگاری کو آپ فروغ نہیں دے سکتے، یہاں نثری شاعری، یا Story-Poemمیں یہ سارے دروازے آپ کے لئے کھلے رکھے گئے ہیں۔ یعنی آپ موضوع سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ نہ یہاں قافیہ ردیف کی پابندی ہے نہ ایک مخصوص Frame-work آپ کی کرافٹ مین شپ کو متاثر کرتا ہے۔ آپ آزاد ہیں اور بجا طور پر آپ اپنی آزادی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی ادبی کشش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
نصیر احمد ناصر تسطیر کے اداریہ میں لکھتے ہیں۔
’’ساٹھ کی دہائی میں کاشت کئے جانے والا یہ پودا (نثری نظم) ارتقائی تبدیلیوں اور نئی نئی پیوند کاریوں کے بعد اپنے دور ثانی میں عمدہ ثمر داری کا اہل ہو گیا ہے اور اب نئی نثری نظم کا ذائقہ پہلے کی طرح تلخ و ترش نہیں رہا۔ لیکن ہمارے کئی ادیبوں اور نقادوں کی سوئی ابھی تک ساٹھ کی دہائی پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ آج بھی اسے چکھے اور محسوس کئے بغیر کڑواہٹ سے منہ بگاڑ لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔‘‘
___تسطیر،ستمبر77ء
نثری نظم کے بارے می عام غلط فہمیاں ابھی بھی قام ہیں۔ جیسے آسانی سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کسی بھی کہانی کا کوئی اقتباس اٹھائیے، اسے نثری نظم کے فارم میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے سجالیجئے۔ لیجئے آپ کی نظم تیار ہے۔ دراصل ایسے نقادوں نے کبھی نثری نظم کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ میری طویل نظم لیپروسی کیمپ، کے دیباچے میں برادرم نعمان شوق نے مجموعی طور پر یہی اعتراضات دہرائے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میری کہانیو ں سے نثری نظم کے جو ٹکڑے نقل کئے ہیں، حقیقتاً وہ میری پرانی نثری نظمیں ہی ہیں میں نے شروعاتی دور میں بھی اپنی کئی کہانیو میں ان نثری نظموں کے لئے جگہ نکالی ہے۔ دراصل کہانیو ں کے درمیان ان نثری نظموں کے ذریعہ میں ایک خاص طرح کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور بقول نصیر احمد ناصر، شاید انسان کی ازلی و ابدی تنہائی کسی ایسے شعری نظام اور لسانی آہنگ کی متقاضی ہے، شاید ابھی تک جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکا۔ شاید نثری نظم اظہار کی اسی بے بسی کا غیر مرئی تخلیقی جواز ہے۔
مجھے لگتا ہے، ہی بات کبھی کبھی فکشن پر بھی صادق آتی ہے فکشن کی تخلیق کے دوران بھی کبھی کبھی یہی بے بسی راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور کہانیوں کے درمیان بھی کبھی کبھی نثری نظم کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔ مگر حیرت تب ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے۔ کسی بھی کہانی کے اقتباس کی کئی حصوں میں تقسیم کر ڈالیے اور آپ کی نثری نظم تیار ہے۔
چلئے۔ یہ قدم بھی اٹھا کر دیکھتے ہیں۔
میری ایک کہانی ہے۔ غلام بخش۔ میرے افسانوی مجموعہ ’’غلام بخش اور دیگر کہانیاں ‘‘ کی یہ پہلی کہانی ہے۔ غور کیجئے۔
’’لیکن صاحبان۔ذرا ٹھہرئے۔ اس داستان کو شروع کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بتا دوں۔ ہوا یوں کہ جیسا میں نے شروع میں بتایا ہے کہ جب بھی میں نوین پبلشنگ ہاؤس جاتا کوشش کرتا کہ نظریں بچا کر زیادہ سے زیادہ غلام بخش کا جائزہ لیتا رہوں۔‘‘
اب اسی اقتباس کو نثری نظم فارم میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔
’’لیکن صاحبان
ٹھہریے ذرا
اس داستان کو
شروع کرنے سے پہلے
میں بتا دوں ایک چھوٹا سا واقعہ
ہوا یوں
کہ جیسا میں نے بتایا ہے شروع میں
کہ جیسے بھی میں جاتا تھا،
نوین پبلشنگ ہاؤس
کوشش کرتا
کہ بچا کر نظریں
زیادہ سے زیادہ
جائزہ لیتا رہوں
غلام بخش کا‘
ممکن ہے، آپ یہ کہیں کہ میں نے جان بوجھ کر کہانی کا ایسا اقتباس اٹھایا ہے جسے نثری نظم فارم میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے اور میرا سارا زور محض اسی بات پر ہے کہ کہانی کے کسی بھی اقتباس یا ٹکڑے کو نثری نظم نہی کہا جا سکتا۔ نثری نظم کا اپنے Content اور Content میں تحلیل ہوئی Feelings کے ساتھ نزول ہوتا ہے۔ آپ غور کریں تو اس کے نثری مواد میں بھی ایک خاص طرح کا شعری آہنگ چھپا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج ہیئت کا یہ تجربہ نہ صرف کامیاب ہو چکا ہے بلکہ ’’بالعموم روایت کا ایک حصہ بھی بن چکا ہے۔‘‘
وزیر آغا نے کیا ٹھیک کہا ہے___
اصلاً اصناف ادب انسانی سائیکی کے مختلف مقامات کو منکشف کرنے کے لئے ناگزیر ہیں اور اسی لئے یہ وجود میں آتی ہیں۔
___نثری نظم کا تخلیقی جواز
اردو میں نثری نظم کے موجد احمد ہمیش کی یہ رائے بھی خاصہ اہمیت رکھتی ہے۔
’’خیال رہے کہ ٹیگور کی گیتانجلی میں سنسکرت ناٹک کے مکالموں کے زیر اثر نثری شاعری کا آہنگ برتا گیا ہے۔ ٹیگور کی گیتانجلی کے توسط سے ہی انگریزی شاعروں کے یہاں نثری شاعری آئی۔ اب بدقسمتی کو کیا کہا جائے کہ علامہ نیاز فتح پوری کی زیر ادارت ایک عرصہ تک ماہنامہ نگار میں ٹیگور کی شاعری کے جو تراجم نثر لطیف اور انشاء لطیف کی اصطلاح سے شائع ہوتے رہے، وہ رات بنگلہ سے نہیں بلکہ انگریزی سے اردو میں کئے گئے۔ جبکہ علامہ نیاز فتح پوری بنگلہ نہیں جانتے تھے۔ اسی لئے نثر لطیف اور انشاء لطیف ناقص اردو تراجم کے سب سنسکرت نژاد بنگلہ نثری شاعری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ اس پس منظر سے آگاہ نہیں جو اردو شاعری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انشاء لطیف سے ملاتے ہیں۔‘‘
یہی نہیں، نثری نظم پر بے جا اعتراض کرنے والو کے لئے احمد ہمیش نے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کچھ اس ڈھنگ سے کیا ہے۔
(1)’’اسی طرح جو لوگ سجاد ظہیر کے شعری مجموعہ پگھلا نیلم (مطبوعہ 1964) میں شامل کچھ (Prosaic) منظوم کی گئی سطروں کو نثری شاعری سمجھتے ہیں،وہ نثری شاعری کے آہنگ اور اس میں پائی جانے والی اصل شاعری کی تفہیم نہیں رکھتے۔‘‘
میری طویل نثری نظم ’’لیپروسی کیمپ‘‘ پر عام اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس کا لب و لہجہ ہندی ہے یا ہندی کے زیر اثر یہ وجود میں آئی ہے۔ یہاں مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ ہندی کے اثرات ک ہم یوں بھی زائل نہیں کرسکتے کہ اردو میں ہ صنف ہندی کے وسیلے سے پہنچی ہے۔ ہندی نثری شاعری کے مخصوص آہنگ کی شرکت یا شمولیت اس زبان میں قصداً نہیں بلکہ ضرورتاً بھی ہوئی ہے۔
(2)’’میں نے ہندی نثری شاعری کے زیر اثر ہی پہلی بار اردو میں 1960ء کے دوران نثری نظمیں لکھیں۔‘‘
___احمد ہمیش
اس لئے This is not poetry کا ورد کرنے والوں کو اب سنجیدگی سے اس صنف کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس میں زیادہ امکانات ہیں۔ بات کہنے کی زیادہ گنجائش ہے۔ نثری نظم سے ’’کھلواڑ‘‘ کی کوششیں بھی بہت ہو چکیں، اب اس کے مقام کا تعین ہو جانا بہت ضروری ہے۔ ادب میں جب کبھی بھی کوئی تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ اس میں اچھے اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ چند شوقین حضرات کو کو د پڑنا بھی جاری رہا ہے۔ اس لئے نثری نظم پر سنجیدہ باتیں کرتے ہوئے ایسے غیر اہم نکات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا ضروری ہے۔
اسی لئے اپنی نئی کتاب، طویل نثری نظم ’لیپروسی کیمپ‘ کے پیش لفظ میں میں نے لکھا:
’’میرے لئے اپنی ان Feelingsیا احساسات کو کہانیو میں اتارنا دشوار تھا۔ سو میں نے نثری نظم کا انتخاب کیا۔ نثری نظم کے توسط سے مجھے اپنی بات کہنے میں زیادہ آسانی ہو رہی تھی۔ میں اس نظم میں کچھ کرداروں کو بھی شامل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ خطرہ بھی بدستور بنا ہوا تھا کہ پھر یار لوگ کہیں گے۔ ’’یہ نظم رہی کہاں۔ دوسروں کی طرح تم بھی کہیں نثری نظم لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی سازش میں تو شامل نہیں ہو گئے۔
مثلاً تمہیں انہیں کہانی کہنے میں کیا اعتراض ہے؟
جملے ذرا سیدھا کر لو تو یہ کہانی ہے۔ پھر تم اسے نثری نظم کہنے پر بضد کیو ں ہو؟
دوستوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو غزل نہیں کہہ سکتے، وہی لوگ ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
نثری نظم کے تعلق سے میں نے اپنے شاعر دوستوں کی آنکھوں میں جو جھلاّہٹ یا نفرت دیکھی ہے، اس کا اظہار ممکن نہیں ہے۔
(یہاں میں ان کے عقیدے کو رد کرنا نہیں چاہتا)
میں سوچتا ہوں، فکری سطح پر بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن کا اظہار غزلوں میں نہیں ہوسکتا۔ کسی کسی کیفیت کو نظم یا آزاد نظم میں نہیں سمویا جا سکتا۔
کچھ کیفیتیں اتنی بے ہنگم اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ آپ ان کے لئے صنف ڈرامہ کو بھی موزوں نہیں ٹھہرا سکتے۔ کچھ خیالات اتنے پر پیچ ہوتے ہیں کہ ان کو لے کر کہانیاں نہیں لکھی جا سکتیں۔ یا ناول کا موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔
زندگی مجموعۂ سوالات ہے۔ ذہن میں آوارہ خیالوں کے Shades چلتے رہتے ہیں لیکن یہ سارے Shadesایسے نہیں ہوتے کہ ہم انہیں لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ ذہن پر جب کوئی خیال نازل ہوتا ہے تو وہ اپنے پورے تام جھام، تکنیک، اسلوب کے ساتھ جنم لیتا ہے اور لاشعور میں ہی یہ طے ہو چکا ہوتا ہے کہ ___
الف:اسے نظم کے طور پر لکھنا ہے
ب:اس کے لئے کہانی موزوں ترین چیز ہے
ج: یہ خیال نظم میں در آئے تو بہتر ہے
لیکن حقیقتاً کچھ چیزیں سیال کی صورت میں Prose-Poemکی شکل میں ہی ڈھل کر سامنے آتی ہیں۔ پھر نثری نظم سے انکار کیوں ؟‘‘
___’’لیپروسی کیمپ‘‘(پیس لفظ سے)
نئی الفی یا نئی صدی میں قدم رکھتے ہوئے آج یہ مقولہ ہر جگہ زیر بحث ہے کہ سائنس کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ہر قدم ایک نیا تجربہ، ہر قدم ایک نیا انکشاف، کوئی ایسی صورت اگر ادب میں بھی نظر آئے تو حیرت واستعجاب کے چشمہ کو اتار کر چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ سوچ کر بھی ایمان لے آئیں کہ انسانی سائیکی کے مختلف مقام کو منکشف کرنے کے لئے ممکن ہے اس صنف نو کی ضرورت پیش آ گئی ہو اور اب نئی صدی میں، جبکہ نثری نظم، تکنیک اور ہیئت کے تجزیوں سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ ہماری روایت کا ایک حصہ بھی بننے لگی ہے، اس کے ادبی مقام کا تعین کیا جانا ضروری ہے۔
اور اب، محض اس سے آنکھیں چرانے سے کام نہیں چلے گا۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید