FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ناول اور مکالمے

               مشرف عالم ذوقی

ذوقی کی کتاب ’سلسلۂ روز و شب کا دوسرا حصہ

ناول اور مکالمے

 آج کی دنیا بہت الجھی ہوئی دنیا ہے انسانی نفسیات کو سمجھنے کا پیمانہ بھی بہت حد تک تبدیل ہو چُکا ہے  —   اس سے زیادہ کسی مہذب دنیا کا تصور اب فکر کی سطح پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست کے ساتھ سماج اور مذہب تک نئے مکالمے سامنے آرہے ہیں  —   یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے جو کہانیوں سے زیادہ ناول کا تقاضہ کرتی ہے  —   آپ پاکستان میں دیکھیے تو خالد طور سے لے کر عاصم بٹ تک نئے موضوعات کو اپنا رہے ہیں۔ ہمارا اردو ادیب نئے موضوعات کو گم کر بیٹھا ہے۔ ہندستانی سطح پر ادب بھی کمزوریوں کا شکار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیر کے موضوعات پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جب لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتے۔ اس کا واحد جواب ہے، ادب کی سلطنت کو خوف سے جدا کرنا ہو گا۔

 

ناول اور ذوقی

                                          — سمیہ بشیر

سمیہ:۔ آپ کسی تحریک سے وابستہ ہیں ؟ یا تحریک سے الگ رہنا پسند کرتے ہیں ؟

ذوقی:۔  میرا تعلق کسی تحریک سے نہیں ہے  —   ادب کی سطح پر میں آزاد رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ لیکن میری شروعات ایک جدید ادیب یا افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ 1980ء کے آس پاس کا زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی افسانے تحریر ہو رہے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں بھی اس سیلاب میں بہہ گیا تھا  —   کچھ وقت گذارنے کے ساتھ جب میں نے لینن اور مارکس کے فلسفے کو پڑھنا شروع کیا تو میری شناخت ایک ترقی پسند افسانہ نگار کے طور پر بنتی چلی گئی  —   دس سے لے کر پندرہ برس تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہا۔لیکن اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ترقی پسند ادیب اپنے وقت میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں، ان میں ترقی پسند تحریک کا  پروپیگنڈا زیادہ شامل ہے  —   کہانی بڑے نظریہ کا احاطہ نہیں کر پا رہی ہے  —   ایسی کہانیاں تقسیم، فسادات، تہذیبی نا ستلجیا(Nostalgia) سے آگے کی فکر کا احاطہ کرنے میں ناکام تھیں۔ 1980ء کے بعد دنیا بہت حد تک بدل چکی تھی۔ نیا نظام سامنے تھا  — تقسیم کو ایک عرصہ گذر چکا تھا  —   نئی تحریکیں سامنے آ رہی تھیں  —   اور دنیا آہستہ آہستہ Globalisationکا شکار ہو گئی تھی۔ جاگیر دارانہ نظام ختم ہو چکا تھا۔ نئی دنیا نے نئے مسائل اٹھانے شروع کر دیئے تھے۔ جو مغرب میں لکھا جا رہا تھا ہم اس سے کافی پیچھے چل رہے تھے  —   قُراۃؔ العین حیدر تک، اقدار اور تہذیبی نا ستلجیا کے موضوعات کے موضوعات سے آگے نکلنے کو تیار نہیں تھیں  —   انتظارؔ حُسین اساطیری کہانیاں،دیومالائی داستانیں، قصے، حکایتوں کے اندر افسانے کو دریافت کر رہے تھے  —   لیکن نئی دنیا پر ان میں سے کسی بھی ادیب کی نظر نہیں تھی۔ ترقی پسند ی 1960ء کے آس پاس گم ہو چکی تھی۔1980ء کے آس پاس جدیدیت کا جنازہ اٹھ چکا تھا۔ اب ادب کا کام نئے راستوں کو تلاش کرنا تھا  —   2010ء تک دہشت گردی دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی  —   ادب کا کام ہر دور میں نئے سماجی، سیاسی شعور کے راستے اپنی جگہ بنانے کا ہوتا ہے  —   اسی لیے میں نے اپنے آپ کو آج کی فضا میں کسی تحریک سے وابستہ نہیں رکھا۔ میرا دب آزاد ہے  —   اپنے حساب سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں۔

سمیہ:۔ کن نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کہانی لکھتے ہیں ؟

ذوقی:۔ اس سوال کے جواب میں مجھے ایک حکایت یاد آ رہی ہے  —   ایک بادشاہ کے دربار میں بیک وقت دو فقیر آئے۔ پہلے فقیر نے صدا لگائی — ’’اے بادشاہ تو اچھا کرتا کہ تجھے اچھا انعام ملے۔ دوسرے  فقیر نے کہا "اے بادشاہ تو بُرا نہ کرتا کہ تجھے بُرا انعام نہ ملے۔ بادشاہ  نے پہلے فقیر کو 10دینار اور دوسرے کو 5 دینار دے کے رخصت کیا — جب فقیر چلے گئے تو وزیر نے کہا  —   اے انصاف پسند بادشاہ بات دونوں کی ایک تھی، پھر آپ نے یہ نا انصافی کیوں کی  —   بادشاہ مسکرا کر بولا  —   تم نے ایک بات غور نہیں کیا، دونوں فقیروں کی بات ایک ہی تھی  —   لیکن پہلے فقیر نے اسی بات کو اچھائی کا سہارا لے کر بیان کیا تھا  —   میرا ادب اسی نظریہ پر مبنی ہے  — میں Positive سوچتا ہوں اگر کوئی نظریہ میری کہانی یا ناول میں ہے تو وہ انسانی زاویہ یا نظریہ ہوسکتا ہے۔ اور اس سطح پر میں فرینچ ناول نگار Victor Hugoسے خود کو قریب محسوس کرتا ہوں  —   میری کہانیاں اسی انسانی زاوئیے کے ارد گرد گھومتی ہیں۔

سمیہ:۔  آپ کی دلچسپی ادب سے کس طرح ہوئی اور کیسے بڑھ گئی؟

ذوقی:۔  میرے گھر کا ماحول ادبی تھا  —   جہاں میں پیدا ہوا وہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا — وہاں اکثر مشاعرے ہو ا کرتے تھے  —   خاندان میں ایسے کئی لوگ تھے جو شاعری کرتے تھے  —   میرے والد محترم مشکور عالم بصیری خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ابا جان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قُرآن شریف ہو، حدیث، گیتا ہو، یا رامائین  —   انگریزی ادب ہو یا سائنس کا مطالعہ ہو  —   بچپن سے ہی ابا حضور ہم سب بھائی بہنوں کو لے کر بیٹھ جاتے اور ادب کی گفتگو شروع ہو جاتی  —   گھر کی لائبریری میں اردو اور انگریزی کی دنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں  —   اس کے علاوہ وقت ملتے ہی ابا حضور ہم بھائی بہنوں کو قصے اور داستانوں کی دنیا میں لے جا یا کرتے تھے۔ اسی لیے بچپن سے لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں پہلی کہانی بچوں کے لیے لکھی  — جو بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی  — اس کے بعد غنچہ، ٹاقی، کھلونا اور نور میں کہانیاں شائع ہوتی رہیں  —   اس لئے لکھنے کا شوق مجھے وراثت میں ملا۔

سمیہ:۔  آپ کو ناول اور افسانے میں کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور کیوں ؟

ذوقی:۔  کہانی ایک چھوٹے سے واقعہ پر مبنی ہوتی ہے  —   جب کہ ناول کا فن ایک مکمل زندگی کا احاطہ کرتا ہے  —   مجھے کہانیاں بھی پسند ہیں اور ناول بھی۔ لیکن ناول کی تخلیق آسان کام نہیں ہے  —   پچھلے 6برسوں میں،  میں نے ایک بھی کہانی نہیں لکھی  —   ان دنوں میں نئے نئے موضوعات کو لے کر صرف اور صرف ناول کی دنیا میں ہی رہنا چاہتا ہوں  —   آج کی دنیا بہت الجھی ہوئی دنیا ہے انسانی نفسیات کو سمجھنے کا پیمانہ بھی بہت حد تک تبدیل ہو چُکا ہے  —   اس سے زیادہ کسی مہذب دنیا کا تصور اب فکر کی سطح پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست کے ساتھ سماج اور مذہب تک نئے مکالمے سامنے آرہے ہیں  —   یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے جو کہانیوں سے زیادہ ناول کا تقاضہ کرتی ہے  —   آپ پاکستان میں دیکھیے تو خالد طور سے لے کر عاصم بٹ تک نئے موضوعات کو اپنا رہے ہیں۔ ہمارا اردو ادیب نئے موضوعات کو گم کر بیٹھا ہے۔ ہندستانی سطح پر ادب بھی کمزوریوں کا شکار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیر کے موضوعات پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جب لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتے۔ اس کا واحد جواب ہے، ادب کی سلطنت کو خوف سے جدا کرنا ہو گا۔ میں بہت جلد کشمیر کے موضوع پر ایک ضخیم ناول لکھنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ اور شاید اسی لیئے میں خود کو ناول کی دنیا سے زیادہ قریب محسوس کرتا ہوں۔

سمیہ:۔  میں نے پڑھا ہے کہ آپ نے پانچ سو سے زائد کہانیاں لکھی ہیں ؟ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر ہاں تو یہ کہانیاں کن کن رسائل میں شائع ہوئیں اور کیا آپ کے پاس وہ کہانیاں تحریری شکل میں موجود ہیں ؟

ذوقی:۔  گیارہ سال کی عمر سے میری وابستگی ادب کی دنیا سے ہو چکی تھی  —   میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے شاید سب سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں۔ تیرہ 13 سے بیس  20 سال کے عرصے تک میری کہانیاں اس وقت کے تمام مشہور جرائد، شمع،  روبی،  بیسویں صدی، محل، شادمان، فلمی ستارے،  باجی،  بانو میں شائع ہو چکی تھیں۔ اسی کے ساتھ اس وقت جو زیادہ تر ادبی رسائل نکل رہے تھے میری کہانیاں وہاں بھی جگہ پا رہی تھیں  —   بہت سی کہانیاں وقت کے ساتھ ضائع ہو گئیں۔ اس لئے ان کہانیوں کے نام کو بتانا میرے لئے آسان نہیں ہے  —   میری ایک بہت بڑی دنیا ہندی زبان کی بھی دنیا ہے  —   ایک دنیا پاکستان کی ہے۔ جہاں میری کہانیاں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ہندی میں میری کہانیوں کے ۱۹ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ادبی رسالہ ہو جہاں میری کہانی شائع نہیں ہوئی ہے  —   اس لئے اتنی ساری کہانیوں میں رسائل کا نام گنوانا اور کہانیوں کا نام گنوانا میرے لئے آسان نہیں ہے۔ یہ کام تحقیق کا ہے جن لوگوں کو میری کہانیوں میں دلچسپی ہو گی، آئندہ آنے والے وقت میں انشاء اﷲ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔

سمیہ:۔  آپ کے ناولوں میں آپ کو کون سا ناول سب سے زیادہ پسند ہے؟

ذوقی:۔ کسی بھی ادیب کے لئے اس کا جواب آسان نہیں ہے  — میرے لئے بھی اس کا جواب دینا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی” کو لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ سونامی ایک مشکل ناول تھا  —   اس ناول میں وقت ہیرو تھا  —   اور سونامی کی سطح پر میں محسوس کر رہا تھا کہ قدرت کا بھیجا ہوا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے  —   یہاں ہماری قدریں بھی بہہ رہی ہیں تعلیم سے لے کر سیاست، مذہب اور سماج تک ایک ایسی بیزار کن فضا پیدا ہو چکی ہے جس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے  —   میں نے سونامی میں ایک پوری دنیا کو قید کرنے کی کوشش کی تھی  —   مجھے لے سانس بھی آہستہ بھی پسند ہے  —   ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘صرف ہندوستانی تہذیب کا مرثیہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے globalسماج کا آئینہ بھی ہے  —   ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے بعد ’’آتش رفتہ کا سُراغ‘‘ منظر عام پر آیا  —   یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے  —   اور یہ ناول بھی مجھے بہت پسند ہے۔

سمیہ:۔  آپ نے موجودہ دور کے سلگتے ہوئے موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں ؟ ایک ادیب کے لئے اپنے سماج اور سیاست سے با شعور ہونا کتنا ضروری ہے؟

ذوقی:۔  سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر کہانی یا ناول کو تحریر کرنا آسان نہیں ہے  —   میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سیاست آج کے ادب کا بنیادی مسئلہ ہے  —   اگر سیاسی اور سماجی سطح پر ہمارا فنکار گہری فکر کے ساتھ اپنے موضوعات کو لے کر چلنے میں ناکام ہے تو بڑی تخلیق کر ہی نہیں سکتا  —   آج مغرب کے ادب کو دیکھئے  —   وہاں ایک سیاسی بیداری ملتی ہے  —   ہمارا ادیب اس سیاسی بیداری سے دور نظر آتا ہے  —   میں نے سلگتے ہوئے مسائل کا احاطہ اسی لئے کیا کہ اس کے بغیر کسی بھی تحریر کو لکھنا آسان نہیں تھا  —   عام طور پر میرے لیے موضوعات کا انتخاب مشکل کام ہے — ایک موضوع مسلمانوں کے ارد گرد گھومتا ہے  —   دوسری طرف ایک تیزی سے بدلتا ہوا سیاسی اور سماجی منظر نامہ بھی ہے  —   میں جسکا تعاقب کرتا ہوں  —   اور انہیں اپنی کہانی یا موضوع بناتے ہوئے مجھے ایک خاص طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔

سمیہ:۔  آپ نے ناول اور افسانے کی ابتداء کب اور کیسے کی؟ اور آپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے؟

ذوقی:۔  میں نے پہلا ناول 17 سال کی عمر میں لکھا۔ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ ’’ لمحۂ آئندہ‘‘ بھی مکمل کر چکا تھا۔ لمحہ آئندہ جدید طرز کا ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ ’’جلتے بجھتے دیب ‘‘تھا جو میں نے ریڈ یو کے لئے لکھا تھا  —   لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گذرا اس کا نام لمحہ رشتوں کی صلیب ہے  —   یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتداء بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ ایک گھر تھا جسکی خستہ ہوتی ہوئی دیواروں میں صدیاں قید تھیں  —   یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ہمیں کہیں بھی آنے جانے پر پابندی تھی  —   اس لئے بچپن سے ہی کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔

سمیہ:۔  آپ کے ناولوں کے مطالعوں سے ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ خاص طور پر آپ کی ناولیں نئی نسل کے مسائل پر مبنی ہوتی ہیں  —   اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل درپیش ہیں  —   جیسے عورتوں کے مسائل، بچوں کے مسائل، وغیرہ  —   کیا آپ نے اس پر بھی کبھی روشنی ڈالی ہے؟

ذوقی:۔  جہاں تک ناول کا سوال ہے، ناول کا فن ایک مکمل دنیا کا احاطہ کرتا ہے  — اس دنیا میں بچے بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:

                        ؎  وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

عورتوں کے وجود کے بغیر کسی تخلیق کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا  —   میرا پہلا ناول  ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ میں بھی ایک بچہ ہے  —   جو اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کے جبر اور استحصال کا جائزہ لے رہا ہے  —   پہلے ناول سے ہی میں نے ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی  —   جنہیں سماج تو بچہ سمجھتا ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ’’پوکے مان کی دُنیا‘ بھی ایک بارہ 12 سال کے بچے کی کہانی تھی اور اس ناول میں بھی میں نے بہت باریکی سے ان بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی  —   ایسے بچے جو جنک فوڈ کھاتے ہیں  —   سائبر اسپیس کی پیداوار ہیں  —   انٹرنٹ سے دوستی کرتے ہیں۔ ماں باپ کی نظریں بچا کر پورن سائٹس دیکھتے ہیں  —   اور ایک دن کسی بڑے جرم کا شکار ہو جاتے ہیں  —   اسی طرح میں نے کم و بیش اپنے تمام ناولوں میں عورتوں کے الگ الگ مسائل کو سامنے رکھا ہے  —   میں عورتوں کے کمزور وجود کو پسند نہیں کرتا — اس لئے میرے ناول کی عورتیں کمزور نہیں ہیں  —   وہ اپنی جنگ لڑتی ہیں  —   وہ اپنی شناخت چاہتی ہیں  —   وہ حکومت کرتی ہیں  —   وہ برابری کی خواہشمند ہیں  —   وہ خواب دیکھتی ہیں  —   اور مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی ہیں  —   بلکہ زندگی کی ریس میں ان سے بھی آگے نکلنا چاہتی ہیں  —   عورتوں کے مسائل اپنی جگہ لیکن کہانیوں میں بھی عورتوں کو کمزور کرنا، ان کا استحصال کرنا ان کی شناخت کو ختم کرنا مجھے کبھی منظور نہیں ہے  —   اسی لیئے میرے ناولوں میں ہر عورت اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ سامنے آتی ہے اور اپنی جنگ خود لڑتی ہے۔

سمیہ:۔  آپ نے کس مقصد کے تحت ’’نیلام گھر‘‘ لکھا؟ اور اس کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟

ذوقی:۔’’عقاب کی آنکھیں ـ‘‘ کے بعد ’’نیلام گھر‘‘ میرا دوسرا ناول تھا  —   نیلام گھر کو لکھنے سے پہلے میں ALBERT CAMUSکے ناول The Plagueسے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا  —   یہ 1980ء کے آس پاس کی بات ہے  —   آزادی کے 33-32سال گذر چکے تھے  —   فسادات ملک کا چوتھا موسم بن چکا تھا  —   میری عمر اس وقت 20 سال کی ہو گی  —   میں نے سیاسی اور سماجی سطح پر جب اس دنیا کو دیکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دینا مجھے نیلام گھر کی طرح نظر آئی  —   ایک ایسا نیلام گھر جہاں سب کچھ فروخت ہو رہا ہے  —   علم سے سیاست، مذہب اور سماج تک  —   جیسے ہر شے نیلام ہو رہی ہے  —   انسانی قدریں ختم ہو چکی ہیں  —   میں نے انجم کے کردار میں ایک ایسے بزرگ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی جس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ نیلام ہو رہا ہے  —   بدلتے ہوئے وقت سے رشتے بے معنی ہو چکے ہیں  —   قدریں ختم ہو چکی ہیں  —   مذہب صرف خوف کی علامت کے طور پر رہ گیا ہے۔ اور یہ فاتح انسان اپنی بربادیوں کا جشن منا رہا ہے   —   ’’نیلام گھر‘‘ کی شروعات کہانی کے مرکزی کردار انجم سے شروعات ہوتی ہے  جو اپنے کمرے سے تیز بدبو کو اٹھتا ہو محسوس کرتا ہے  —   یہ بدبو زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو جاتی ہے  — میں نے اس ناول میں آزادی کے 33-32برس کے بعد کے ہندوستان کو دیکھنے کی کوشش کی تھی  —   المیہ یہ تھا کہ نہ پاکستان کے لوگ پاکستان میں خوش تھے اور نہ ہندستان کے لوگ ہندوستان میں  —   جمہوری قدروں کا مذاق اڑایا جا رہا تھا  —   شاید اسی لئے تقسیم کے بعد کے ہندوستان کو لے کر بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں،میں نے اس ناول کو لکھنے کی شروعات کی تھی۔

سمیہ:۔ آپ کے ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت کس ناول کو حاصل ہے؟

ذوقی:۔  میرے شروعاتی ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت ’’بیان‘‘ کو ملی  —   بیان بابری مسجد کے المیہ پر مبنی ایک ایسا ناول تھا جس میں آپ اس وقت کے ہندوستان کی جھلک دیکھ سکتے تھے  —   اردو کے مشہور نقاد ڈاکٹر محمد حسن نے ’’بیان‘‘ کو آزادی کے بعد کا سب سے اہم ناول قرار دیا ہے  —   ’’بیان‘‘ ایک ایسا ناول تھا جس پر دنیا بھر کے مضامین لکھے گئے  —   ’’جہان اردو‘‘ نے ایک خصوصی شمارہ بیان کے نام منسوب کیا  —   ڈاکٹر مشتاق احمد نے بیان منظر پسِ منظر کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جن میں بیان پر تحریر کردہ مضامین شامل کئے گئے تھے  —   بیان کے بعد پو کے مان کی دنیا کو کئی ناقدوں نے اردو ناول کا turning pointکہا  —   ’’پوکے مان کی دنیا‘ کے بعد ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘شائع ہوئی  —   مجھے افسوس ہے کہ اس ناول پر شاید سب سے کم بات ہوئی  —   لیکن مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں اس ناول پر بھی گفتگو کے دروازے کھلیں گے  —   ’’بیان‘‘ کے بعد سب سے زیادہ شہرت ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘کو ملی  —   لے سانس آہستہ کے بعد ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ منظر عام پر آیا اور یہ ناول بھی اشاعت کے کچھ ہی مہینوں کے بعد قارئین اور نقادوں کے درمیان ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

سمیہ:۔  ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ میں ’’سونامی‘‘کا واقعہ اصل کہانی سے Match نہیں کرتا  —   اور قاری کو تقریباََ سو صفحات کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے___ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟

ذوقی:۔  Matchکرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ "سونامی”پر 100 صفحات سے زائد اسی لئے خرچ کئے گئے کہ یہاں "سونامیــ” ایک علامت ہے  —   ذرا  البیر کامو کی "پلیگ” دیکھئے___پلیگ پھیل رہا ہے ___ ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔Survival for Existance _ پورے ناول میں پلیگ کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الکزنڑر سو لنسٹین کا کینسر وارڈ اور گلار آرکیپلا گورا اٹھا لیجئے__ ’’ موبی ڈک‘‘ دیکھئے__ دی اولڈ مین اینڈ دی سی __زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لئے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے __ کینسر وارڈ کا ہر باب مختلف ہے___ پھر بھی یہ ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے ___ اسی لئے دنیا داری سے مذہب، سماج اور سیاست کے تعلق سے ہر پہلو کو پیش کرنے کے لیے مجھے "سونامی” لہروں کی ضرورت تھی۔ جو سب بہا کر لے گئی ہے  —   اور سونامی کے بعد موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک  —   اسی لئے پرفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے — ’’موسیو‘‘ موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے — سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو  —   سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں  — سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں  —   ذرا لہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے  —   زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج یاسن باتھ لیتے ہوئے — موسیو، مجھے تعجب اسی بات پر ہے کہ آپ موت کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا  —   موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں ‘‘۔

            ایک مثال اور دیکھئے۔

’’موسیوـ‘‘ وہ ساری پیشن گوئیاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں  —   مونگے کی چٹانیں غائب ہو سکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنا رُخ بد سکتی ہیں  —   دنیا کا ایک بڑا حصہ برف میں گم ہو سکتا ہے  —   اور ایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہر پل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کر سکتی ہے  —   انٹارکٹیکا میں گھاس اگ سکتی ہے  —   گلیشیر پگھلنے لگیں گے — چھوٹے چھوٹے ندی تلاب میں ان کا پانی بھرے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے  —   موسیو، ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے — ایک مرد اور ایک عورت جیسے — اس اطالوی فلم میں دکھایا گیا تھا — بس ایک مرد اور ایک عورت  —   ساری دنیا ختم ہو چکی ہے — لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے  —   کیونکہ ہم ہیں  —   گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے۔ مگر آہ،موسیو، ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ آگے نہیں ہونا چاہئے۔

            زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارئے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لئے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے  —   پروفیسر ایس پہلی بار انہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اس کا سابقہ یہی پڑتا ہے۔ پرویز سانیال اسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ اور الٹرا ہومین کا کینسپٹ بھی یہیں ٹوٹتا ہے۔

سمیہ:۔  آپ کے ناول ’’ذبح‘‘ کا عنوان جرمن شاعر اریش فریڈ کی ایک نظم سے لیا گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

ذوقی:۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی تخلیق کار یا ناول نگار کسی کہانی یا ناول کی تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اس موضوع سے وابستہ کوئی قول یا کوئی شعر اس کے ذہن میں آ جاتا ہے  —   ’’ذبح‘‘ کی تخلیق کے دوران بار بار اس جرمن شاعر کی نظم میرے ذہن میں گونجتی رہی تھی  —   مجھے اس بات کا احساس تھا کہ یہ system  ہر ایک کمزور انسان کو ’’ذبح‘‘ کر رہا ہے  —   ایک طرف مسلمان ہیں جن کا سیاسی اور سماجی سطح پر استحصال ہو رہا ہے  —   اور دوسری طرف دلت طبقہ بھی ہے  —   اس کی جنگ لڑنے والا کوئی بھی نہیں ہے  —   اردو میں اس وقت تک دلتوں کے مسائل کولے کر کوئی بھی ناول منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب جاگیر دارانہ نظام میں عبدل سقہ جیسے لوگ پرورش پاتے تھے  —   بلکہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ نسل در نسل ایسے لوگ یا خاندان اپنی خدمات انجام دیتے آئے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد ایسے لوگ حاشیے پر چلے گئے  —   اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے کچھ چیزیں کمزور اور بے کار ہو کر ماضی کا حصہ بن جاتی ہے  —   مثال کے لئے ایک زمانہ تھا جب اردو کتابیں اور رسائل کا تب اور کتابت کے بھروسے تھے  —   کتابت ختم ہو گئی اور کاتب بے کار ہو گئے  —   نئی ٹیکنالوجی (technology) آ گئی  —   اسی طرح یکہ اور تانگے کا دور چلا گیا  —   عبدل سقہ جیسے لوگ مشک سے پانی بھر کر روز گار حاصل کرتے تھے۔ ایسے لوگ بھی سڑکوں پر آ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ کہاں جائیں گے  —   ایسے لوگوں کا کیا ہو گا  —   ناول کا مرکزی نقطہ یہی وہ مقام ہے جہاں مجھے جر من شاعر کی نظم کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہونا پڑا  —   مجھے لگا، سڑے گلے اس نظام (system)میں ایسے لوگوں کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے  —   اور کوئی بھی خواہش کے باوجود بھی ان کی مدد اس لئے نہیں کر سکتا کہ Globalہوتی ہوئی دنیا میں ہر چیز پُرانی ہو رہی ہے  —   اس لئے ناول کے آخر میں عبدل سقہ کے بیٹے کو کہنا پڑتا ہے  —   اب ہم تیار نہیں ہیں بار بار ذبح ہونے کے لئے۔‘

سمیہ:۔ آپ نے اپنے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا عنوان میر ؔکے شعر سے مستعارلیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتا ہے؟

ذوقی:۔  اس ناول کے عنوان کے لیے میرؔ کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میرؔ کے شعر کے تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میرؔ نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگا لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرؔ کو یہ شعر لکھنا پڑا — آج کے ماحول میں دیکھے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جا سکتی۔

سمیہ:۔  آپ اکثر ناولوں کا عنوان کسی کی غزل یا نظم سے کیوں لینا پسند کرتے ہیں ؟

ذوقی:۔  ایسا میرے تمام ناولوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ’’شہر چپ ہے‘‘  ’’ذبح، نیلام گھر، عقاب کی آنکھیں، مسلمان، لمحۂ آئندہ، بیان،پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘کے عنوانات کسی شعر سے متاثر ہو کر نہیں رکھے گئے  —   ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا موضوع ایسا تھا کہ میرؔ کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آفاق کی شیشہ گری کا کام اتنا نازک ہے کہ سانس بھی لینے سے ایک دنیا کے منتشر ہو جانے کا خطرہ سامنے آ جاتا ہے  —   اس لئے جب عنوان کی بات آئی تو میں نے میرؔ کے شعر کا سہارا لیا  —   ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘کی کہانی آزادی کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ دراصل وہ آگ جو بجھ چکی ہے  —   وہ ماضی جو گم ہو چکا ہے، یہ ناول اسی ماضی کے تلاش کا حصہ ہے  —   اب اسی لئے میرے سامنے اقبال کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان نہیں تھا — آتش رفتہ کا سراغ کا دوسرا حصہ اردو کے نام سے منظر عام پر آ رہا ہے  —   اور میں نے اس کے لئے بھی کسی شعر کی مدد نہیں لی ہے۔

سمیہ:۔  کیا آپ شاعری سے دلچسپی رکھتے ہو؟

ذوقی:۔  ادب کی شروعات شاعری سے ہوئی  —   آج بھی اقبالؔ،  غالب ؔ،  مومن ؔ،  جگر، ؔ  فیض ؔ،  فراقؔ،  کی شاعری میرے مطالعے میں رہتی ہے  —   میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں  —   شروعات شاعری سے ہوئی  —   لیکن مجھے جلدی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں یا ادب کو دینا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے شاعری سے الگ کا میدان منتخب کرنا ہو گا  —   اس لیے میں فکشن یا ناول کی دنیا میں آ گیا  —   17سال کی عمر میں نے اپنا پہلا ناول لکھا  —   عقاب کی آنکھیں  —   اور 20سال کی عمر تک میں چار ناول تخلیق کر چُکا تھا۔ لیکن آج بھی میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں  —   خصوصی طور پر ن۔ م۔ راشد ؔاور فیض ؔکی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں۔

سمیہ:۔  صحافت اور ادب کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟

ذوقی:۔  صحافت اور ادب کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے  —   اردو نقاد آج بھی صحافت کو ادب کا حصہ تسلیم نہیں کرتے  —   وہ اس باریکی کو سمجھ نہیں پاتے کہ سیاسی اور صحافتی شعور کے بغیر اچھے ناول کو لکھنا ممکن ہی نہیں ہے  —   ایک صحافی، ایک اچھا صحافی سماج اور سیاست کے تعلق سے مدلل اپنے خیالات کو سامنے رکھتا ہے  —   ایک ادیب اسی سیاسی شعور کو تخلیقی امکانات سے گذارتے ہوئے ادب کا حصہ بنا لیتا ہے  —   ایک اچھا ادیب سیاست اور صحافت سے آنکھیں بند کر کے ادب کی تخلیق کر ہی نہیں سکتا۔

سمیہ:۔   آپ ادب میں کس شاعر یا ادیب سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ؟

ذوقی:۔  رُوسی ادیب دوستو فسکی میرا  ائیڈیل ہے  —   جب میں نے لکھنا شروع کیا، اس وقت روسی ادب کو پڑھنے کا موقع ملا  —   پشکن، ٹالسٹائے، گوگول جیسے ناول نگاروں کو پڑھنے کا موقع ملا  —   میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ناول لکھنے کا آرٹ روسی ناول نگاروں سے سیکھا۔ بیس برس کی عمر تک میں مغرب کا بڑا ادب کھنگال چکا تھا۔ میں victor hugo سے بھی متاثر تھا  —    Albert Camus میرا پسند یدہ ناول نگار تھا  —   اسطرح چیخوف اور مو پاسان کی کہانیاں بھی مجھے پسند آتی تھیں۔ گنتر گراس کے The Tin Drum نے مجھے متاثر کیا  —   میں نے دیکھا، گنترگراس اپنی کتابوں میں اپنے وطن ڈنزیگ کے قصے بیان کرتا ہے — جوائز اپنے شہر ڈبلن کے گیت گاتا ہے  —   روسی مصنفوں کے ناولوں میں ان کا شہر ہنستا مسکراتا ہے  —   مجھے گابرئیل گارسیا مارخیز کے ناول  one hundred years of Solitude   نے بھی متاثر کیا  —   اسی  طرحBoris Polo   کے ناول  The Story of a Real Man کا میں عاشق تھا  —   کہتے ہیں ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپ کا،مطالعہ آپ کا وژن Vision آپ کو دیتا ہے  —   اسی لئے میں مسلسل کتابوں کے مطالعے سے گذر رہا تھا۔دوستو فسکی، پشکن، نکولائی گوگول، میخائل شیلو خوف،ترگنیف،یہ سب مجھے متاثر کر رہے تھے  —   مجھے اردو داستانوں نے لکھنا سکھایا۔ ’’طلسم ہوش رُبا‘کا میں شیدائی تھا۔ منٹو اکثر مجھے پریشان کرتا تھا، کرشن چندرؔ کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی  —   شاعری میں اقبالؔ،  غالبؔ،  مومنؔ،  میرؔ  فیضؔ،  میراجیؔ  —   ن۔م۔ راشدؔ،  جگرؔ،  فراقؔ  کا میں دیوانہ تھا  —   اسی لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے مجھے سب سے زیادہ کس نے متاثر کیا۔ George Orwell کے 1984 اور Animal Farm سے میں نے سیاسی شعور کو ادب میں شامل کرنے کا فن سیکھ لیا تھا  —   میرے لئے شاعری بھی اہم تھی  —   اور کہانی اور ناول کی دنیا بھی  —   میں ان دونوں کے توازن سے اپنے ادب کو فروغ دے رہا تھا۔

سمیہ:۔  موجودہ دور کے لکھنے والوں میں آپ کے پسندیدہ قلم کار کون ہیں اور کیوں ؟

ذوقی:۔  موجودہ دور کے لکھنے والوں میں اگر اردو کی بات کریں تو مجھے مستنصر حسین تارڑ کا ناول خس و  طئ وم اتھ شتھ ہمار خاشاک زمانے بے حد پسند ہے  —   تارڑ کی تحریر میں ہم تقسیم کے بعد کی صورتحال کو نئے معنی اور نئے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں  — مجھے خالد طور کا ناول ” بالوں کا گچھا”بھی بے حد پسند ہے  —    قدرت اﷲ شہاب کے شہاب نامہ نے مجھے نیا افق دکھایا  —   ہندوستانی منظر نامے میں مجھے منٹو اور قُرۃ العین حیدر کی تحریریں بے حد پسند ہیں۔

سمیہ:۔   ادب کے موجودہ منظر نامے پر کچھ اظہار خیال کیجیے؟

ذوقی:۔ اردو ادب کا موجودہ منظر نامہ ناول کے لحاظ سے بہتر ہے  —   یہ خوشی کی بات ہے کہ اردو ناولوں کو لے کر مسلسل سیمنار اور مکالمے ہو رہے ہے۔ سن 2000ء تک اردو ادب کا منظر نامہ ایک طرح سے دھند میں ڈوب چکا تھا۔ 2000ء کے بعد اچانک یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا  —   نئے لوگ سامنے آنے لگے  —   رسائل کی تعداد بھی بڑھ گئی اور سب سے زیادہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان تک اردو ناولوں کی تعداد میں گراں قدر اضافہ ہوا  —   اچھے ناول سامنے آئے  —   پاکستان میں بہت ہی اچھا ادب لکھا گیا  —   اور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔

سمیہ:۔  اگر آپ چاہتے تو پروفیسر یا کسی اور سرکاری محکمے میں اعلیٰ آفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہوسکتے تھے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں ؟

ذوقی:۔  میں حکومت کے کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میرے اندر ایک ادیب چھپا بیٹھا تھا جو بار بار مجھ سے یہی کہتا تھا کہ اگر کالج میں گئے یا سرکاری نوکری قبول کی تو وہ سب نہیں لکھ پاؤ گے جو تم لکھنا چاہتے ہو۔ میں دلی آ گیا۔ فری لانسنگ شروع کی  —   کچھ اخبارات سے وابستہ ہوا اور اسطرح ایک نئی زندگی کی شروعات کی  —   تعلیم میرے لئے  بی۔اے  یا  ایم۔  اے  کی ڈگری نہیں۔ تعلیم میرے لئے پروفیسر بن جانا یا I.A.S   بن جانا نہیں ہے تعلیم میرے لئے ایک ایسا سمندر ہے جہاں ہم ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہی اردو کا رشتہ روزی روٹی سے منقطع کر دیا گیا  —   اسی لئے اگر اردو کا پروفیسر بن جاتا تو روز گار کے ذریعے کھل سکتے تھے لیکن میں اس محدود دنیا میں نہیں جانا چاہتا تھا  —   آرہ سے دلی کے سفر تک میں اپنا پروگرام ترتیب دے چکا تھا  —   میں نے سوچ لیا تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے قلم کے سہارے ہی کرنا ہے  —   دلی آنے کے بعد میں کچھ اخبارات سے منسلک ہوا۔ 1986 میں دلی آیا اور 1987 تک دور درشن اور Electronic Media  کے دروازے میرے لئے کھل چکے تھے  —   میں دو سال تک دلی کے کئی Production house  کے لئے فلم اسکرپٹ لکھی  —   اور 1989 سے میں نے اپنا پروگرام بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے —

٭٭٭

 

پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی کے بہانے

مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو

               رحمان شاہی

سوال:میرا پہلا سوال، آپ نے اب تک کتنے ناول لکھے؟

٭’ ’عقاب کی آنکھیں ‘‘ میرا پہلا ناول تھا، جو میں نے محض سترہ سال کی عمر میں لکھا۔ بیس سال کی عمر تک میں ’’لمحۂ آئندہ‘‘ اور ’’نیلام گھر‘‘ لکھ چکا تھا۔اس کے علاوہ ’’شہر چپ ہے‘‘، ’’ذبح‘‘، ’’بیان‘‘، ’’پوکے مان کی دنیا‘، ’’مسلمان‘‘، ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

سوال: سارے مطبوعہ ہیں ؟

٭ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ سن 2006 میں منظر عام پر آ جائے گا۔ ’’اردو‘‘ لکھ رہا ہوں۔ سب سازندے ابھی غیر مطبوعہ ناول کی فہرست میں ہے۔

سوال:آپ کا سب سے اچھا ناول آپ کی نظر میں ؟

٭’’سب سازندے‘‘ ___ یہ ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ ممکن ہے، میں ڈاکٹر محمد حسن کی اس بات کو سچ کر دکھاؤں کہ اردو میں اگر کوئی تالستائے ہے تو وہ آپ ہیں اور آپ ہی مسلمانوں کو لے کر ’’وار اینڈ پیس‘‘ جیسا شاہکار دے سکتے ہیں۔

سوال: قاری کی نظر میں ؟

٭قاری کی نظر میں جس ناول کو سب سے زیادہ مقبولیت ملی، وہ ’’بیان‘‘ ہے۔

سوال:کس ناول کا سب سے زیادہ Response  ملا؟

٭’’بیان‘‘، ’’پوکے مان کی دُنیا‘ کا ریسپانس سب سے زیادہ ملا۔

سوال:پروفیسر ایس کی عجیب داستان …  کی تخلیق کے پیچھے آپ کے تخلیقی محرکات کیا تھے؟

٭تخلیقی محرکات ___ سچ تو یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے سے اِس ناول پر غور کر رہا تھا، مگر مجھے ناول کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لینے کے لئے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ راستہ اچانک ملا۔ 26؍دسمبر2004 سونامی کے حملے نے جیسے ناول کا مکمل تانا بانا بُن لیا۔ دراصل بہت پہلے ہرمن ہیسسے کا ناول ’’ڈیمیان‘‘ پڑھتے ہوئے میں ’’سپرمین‘‘ سے انسپائر ہوا تھا۔ برنارڈشا کے یہاں بھی جا بہ بجا اس سوپرمین کے اشارے ملتے ہیں۔ ہرمن ہیسسے کا خیال تھا کہ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی اس راستے کی نمائندگی کرتی ہے جو خود اس کی طرف جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اپنے مکمل ہونے کا بھرم پال لیتا ہے۔ پھر اِس بھرم کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہیں سے میں نے Ultra-humanکا Concept  لیا ___ دراصل آج کا سب سے بڑا ہیرو موسم ہے۔ ہم سب خوفناک یا پھر کسی حد تک خوشگوار تبدیلیوں سے گھر گئے ہیں۔ میں ’موسم‘ کو ہیرو کی طرح پیش کرنا چاہتا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارا سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی عام آدمیوں کو کمزور اور بیکار کرتی جا رہی ہے۔ ایک معمولی روبوٹ عام انسان پر بھارتی پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ، سائبر کرائم سے لے کر جینوم اور کلوننگ پروسیس تک آنکھ کھول کر دیکھئے ___انسان اپنی ایجادوں کی روشنی میں اگر فاتح ہے تو وہیں وہ ہارا ہوا بھی ہے۔ وہ اپنے جیسے کلون بناتا ہے اور آئن اسٹائن سے لے کر اب تک کے سائنسداں اِس پر بھی مغز ماری کرتے ہیں کہ خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خدا کے کاموں میں دخل نہیں دیا جا سکتا۔ اسی لئے کلوننگ پروسیس کو ابھی تک انٹرنیشنل قانون نے عام انسانوں کے لئے Aprove نہیں کیا ہے۔ حال میں ہنگامہ ہوا کہ برین ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے، پچاس یا سو سال کے بعد کوئی بھی نہیں مرے گا۔ نئی دنیا کا ایک بھیانک تصور اِن سب سے الگ میزائل اور ایٹم بم بنا لینے کے راستوں سے بھی گزرتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک اس بات سے بھی ڈر رہے ہیں کہ آج چھوٹے چھوٹے ملکوں نے بھی نیوکلیائی، ایٹم بم اور دوسرے نیوکلیائی ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہتے ہیں آج عدم تحفظ کی فضا کو لے کر امریکی پریشان ہیں۔ ایک مثال اور دیکھئے غیر معمولی طور پر امریکہ اور یوروپ کے ملکو ں میں صوفیانہ کلام مشہور ہو رہا ہے۔ امریکہ میں مولانا روم کا صوفیانہ سنگیت اِس قدر مشہور ہو رہا ہے کہ امریکی اِس موسیقی پر ناچ رہے ہیں۔ دراصل خدا واپس آ گیا ہے۔ ایک بار پھر خدا کے خوف نے گرجا گھروں میں لوگوں کی آمدورفت بڑھا دی ہے۔

’سونامی‘ لکھتے ہوئے میں بار بار ان حادثوں سے گزرا کیونکہ نئی الفی یا نئے ہزارا کی سب سے بڑی دریافت ہے خدا۔ خدا، جو واپس آ چکا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جو سب کچھ فنا کرسکتا ہے۔ اس لئے ہزارہا ترقی کے باوجود ایک لہر سونامی آتی ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ ایک معمولی سا زلزلے کا جھٹکا آتا ہے اور پاکستان کا ایک شہر مظفر آباد دیکھتے ہی دیکھتے مردہ انسانوں کا قبرستان بن جاتا ہے ___ سونامی کے بعد بھی قدرتی تباہی کے دروازے بند نہیں ہوئے ___ ریٹا، کیٹرینا، ویلومی ___ چینئی میں بارش کا عذاب، ممبئی میں بارش کا قہر ___ ’پروفیسر ایس‘ لکھتے ہوئے میں بار بار اسی خیال سے گزر رہا تھا، کہ ہمارا مکمل سسٹم اگر کرپٹ ہو گیا ہے تو اس میں ہماری تیز رفتار ترقی کو بھی دخل ہے ___ اس لئے کہ سوپر نیچرل پاور سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ کرپشن زندگی کے ہر شعبے میں ہے ___ اسی لئے ابھی حال میں ایک امریکی صحافی نے صارفیت کے موضوع پر کتاب لکھتے ہوئے کہا کہ جدید دور کا خاتمہ ہو چکا ہے ___ ہم ایک بار پھر پرانے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس پرانے دور کا ہیرو، رئیل ہیرو ہو گا۔ خدا ___

قاعدے سے دیکھیں تو سونامی میں جابجا میری اِس فکر کے اشارے ملتے ہیں۔ ایک طرف ہمارا Cultural Pollution ہے تو دوسری طرف Literary Pollution۔ اور ان کے درمیان ہے۔ہمارا الٹرا ہیومین یعنی پروفیسر صدرالدین پرویز قریشی۔ جو جذبات اور احساس کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن وقت کے دھارے میں یہی چیز اس کو آہستہ آہستہ کھوکھلا اور کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ ایک بھیانک سائیکی کا شکار ہو جاتا ہے ___ غورسے دیکھیں تو اس ناول کا کینوس کافی بڑا ہے۔ ایک پوری دنیا میرے سامنے ننگی ہے۔ روس کا ٹوٹنا بکھرنا، مذہب کی طرف واپسی، زندگی کی جدوجہد، محبت، جنگ، بے وفائی اور مضبوطی کے تین مونولاگ۔ میں نے عصری شعور کے ساتھ اِس ناول کو آج کے عہد میں جینے کی کوشش کی ہے۔

سوال:آپ کے گذشتہ ناولوں کے برعکس اس ناول میں کوئی اہم سیاسی وسماجی مدا نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

٭تخلیقی محرکات پر ہونے والی گفتگو کے بعد اب آپ یہ نہیں کہیں گے کہ میں نے گذشتہ ناولوں کے برعکس اِس ناول میں کوئی اہم سیاسی اور سماجی مدّا نہیں اٹھایا ہے۔ ’’پوکے مان‘‘ کی اگلی کڑی کے طور پر میں نے اِس بھیانک سوچ کو ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘‘ میں پیش کیا ہے۔ ہاں ! اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ ناول بہت غور سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی چیز ہے کیونکہ قدم قدم پر میں نے اِس ناول کو اِس وقت کی سب سے بڑی فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر میں قلم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

سوال:اس ناول کے کرداروں کے نام بعض ادبی شخصیات کے نام کا چربہ لگتے ہیں۔ یہ ناول کسی ادبی تنازعہ کا Result تو نہیں ؟

٭میں جانتا تھا، اِس ناول کے تعلق سے یہ بات اٹھے گی کہ یہ ناول کسی ادبی تنازعہ کا نتیجہ تو نہیں۔ ذرا غور کیجئے ادبی تنازعے کو اِس ناول میں کتنے صفحے ملے ہیں۔ ادبی پولیوشن کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ جب ادب بھی پولیوٹیڈ ہو چکا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس لئے میں نے ادب کو بھی ’سونامی‘ کا شکار بنایا اور جب شکار بنایا تو ادب کے لٹیرے میری نظروں کے سامنے آ گئے۔ نام لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن برسوں سے ادب کی لوٹ جاری ہے۔ ادب ایک مافیا بن چکا ہے۔ ادیب اگر بڑے عہدے اور رتبے پر ہے تو زبان کا ناجائز استعمال کر رہا ہے۔ مجھے بتائیے،آخر اِس Pollutionکے خلاف مجھے آواز بلند کیوں نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میں نے ’سونامی‘ کا سہارا لیا اور پتھر اچھال دیا۔ یہ شروعات ہے۔ ’اردو‘ میں اور بھی کئی چہرے بے نقاب ہوں گے۔ انتظار کیجئے۔

سوال:اس ناول میں ’سونامی‘ کا واقعہ اصل کہانی سے Matchنہیں کرتا اور قاری کو تقریباً سوصفحات کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے___ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟

٭  Matchنہیں کرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ ’سونامی‘ پر 100صفحات سے زائد اسی لئے خرچ کئے گئے کہ یہاں ’سونامی‘ ایک علامت ہے۔ ذرا البیر کامو کی ’پلیگ‘ دیکھئے ___ پلیگ پھیل رہا ہے ___ ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔ Survival for Existence ___ پورے ناول میں پلیگ کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الکزنڈر سولنسٹین کا کینسروارڈ اور گلاگ آرکیپلاگو اٹھا لیجئے ___ ’موبی ڈک‘  ittدیکھئے ___ دی اولڈ مین اینڈ دی سی ___ زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لئے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے ___ کینسروارڈ کا ہر باب مختلف ہے ___ پھر بھی یہ ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے ___ اسی لئے دنیاداری سے مذہب، سماج اور سیاست کے تعلق سے ہر چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے مجھے ’سونامی‘ لہروں کی ضرورت تھی، جو سب کچھ بہا کر لے گئی ہے اور سونامی کے بعد ؟ موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک۔ اِسی لئے پروفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے ___

’’موسیو، موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے ___ سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو ___ سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں ___ بایواسنیوگرافی، فزیکل اسنیوگرافی، مرین کیمسٹری اور آگے بڑھئے موسیو ___ سمندری غذا،سمندری علاج، سمندری کھیل، موتیوں کی تجارت___ سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں ___ ذرا لہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے ___ زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج یاسن باتھ لیتے ہوئے ___ موسیو،مجھے تعجب اِسی بات پر ہے کہ آپ موت کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا ___ موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں۔‘‘

ایک مثال اور دیکھئے ___

’’موسیو، وہ ساری پیشن گوئیاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں ___ مونگے کی چٹانیں غائب ہوسکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنا رُخ بدل سکتی ہیں ___ دنیا کا ایک بڑا حصہ برف میں گم ہوسکتا ہے ___ اور ایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہر پل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کرسکتی ہے ___ انٹارکٹیکا میں گھاس اگ سکتی ہے ___ گلیشیرپگھلنے لگیں گے ___ چھوٹے چھوٹے ندی تالاب میں ان کا پانی بھر جائے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے ___ موسیو،ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے ___ ایک مرد اور ایک عورت جیسے ___ اس اطالوی فلم میں دکھایا گیا تھا ___ بس ایک مرد اور ایک عورت ___ ساری دنیا ختم ہو چکی ہے ___ لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے ___ کیونکہ ہم ہیں ___ گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے ___ مگر آہ، موسیو، ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ آگے نہیں ہونا چاہئے ___‘‘

زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارئیے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لئے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے ___ ’ہاں ‘یہاں آپ کو ٹھہرنا پڑے گا۔ کیونکہ پروفیسر ایس پہلی بار انہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اس کا سابقہ یہیں پڑتا ہے۔ اپنے کلون یعنی پرویز سانیال اِسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے اور الٹرا ہیومین کا کینسپٹ(Concept) بھی یہیں ٹوٹتا ہے۔

سوال:پروفیسر ایس، جو اس ناول کا بنیادی کردار ہے، حکومت کرنے کے لئے اپنا ایک کلون تیار کرنا چاہتا ہے یا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ ایک ایسا انسان تیار کنا چاہتا ہے جو جذبات سے عاری ہو یا شاید وہ انسان کو Dehumanise کرنا چاہتا ہے اور ہوتا ایسا ہے کہ جس نوجوان کو وہ Dehumanise کرنے کا سبق پڑھاتا ہے، وہی اس کا قتل کر دیتا ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پروفیسر ایس اپنے مشن میں کامیاب ہوا؟ یعنی یہ ممکن ہے کہ انسان کو Dehumanise کیا جا سکے؟

٭گابرئیل گارسیا مارکیز نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ ہم یہاں فطرت کو شکست دینے آئے ہیں لیکن آپ جانئے، اس کادوسرا پہلو ہے کہ آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتے۔ فطرت لگاتار آپ کو Dehumanise کر رہا ہے۔ آپ ترقی اور ایجادات کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں اور قدرت سکنڈ میں آپ کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ تعمیر کے ہر شعبے میں تخریب کی پیوندلگی ہے۔ Theory of deconstraction ___آپ ہتھیار بناتے ہیں، امن کے لئے، ملک کی سلامتی کے لئے اور ڈر جاتے ہیں کہ دوسرے ممالک نے بھی ایسے ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ پروفیسر ایس اپنے مشن میں کامیاب ہوہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کا کلون بغاوت پر آمادہ تھا۔ برسوں پہلے ایچ جی او پلس نے ایک ناول لکھا تھا۔ نام اِس وقت یاد نہیں آ رہا ہے۔ انسان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے بھی روبوٹ تیار کر لئے ہیں اور ایک دن یہ روبوٹ انسان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں ___ انسان بڑی بڑی مشینیں ایجاد کرتا جا رہا ہے اور ہر بڑی ایجاد کے ساتھ اس کا اپنا قد، مائیکرو ہوتا جا رہا ہے یقیناً ایک دن وہ یا تو مارا جائے گا یا پھر دھماکے اسے ہوا میں تحلیل کر دیں گے۔ یہی ہے اس کی ترقی کا آخری پڑاؤ ___ Dehumanisation  اِسی لئے ناول کے آخر میں پروفیسر ایس کو مرنا ہی تھا اور پروفیسر ایس مرا بھی کہاں۔ اس کی اپنی خطرناک سائیکی نے اس کی جان لے لی___ اردو کے مشہور ناول نگار جوگیندر پال نے ناول کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ___ پروفیسر کے کمرے کی کھڑکی ایک ایسا بلیغ اشارہ ہے جہاں ہم سب کی سانس پھول جاتی ہے۔ تم نے اتنا بھیانک منظر کیسے لکھا ___

یہ پال صاحب کی محبت ہے۔ مجھے لگتا ہے، قدرت کے ہاتھوں ہم سب کھلونا ہیں۔ حقیر کھلونا۔ شاید اسی لئے مجھے اپنے الٹرا ہیومین کو Dehumanise کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

سوال:گذشتہ برسوں میں اردو میں کئی ناول آئے ہیں۔ آپ ان میں سے کن ناولوں سے مطمئن ہیں ؟ اور کیوں ؟

٭وحید احمد کا ناول ’زینو‘ ایک شاہکار ناول ہے۔ کئی اعتبار سے یہ ناول آگ کے دریا سے بھی بڑا ہے۔ یہ ناول پاکستان میں ایک سال پہلے شائع ہوا۔ یہاں بھی وقت ہیرو ہے۔ ’زینو‘ ایک ایسا کردار ہے جو ہر عہد میں بدلے بدلے کرداروں کے ساتھ جنم لے رہا ہے۔ وہ گوتم بدھ بھی ہے، اسامہ بن لادن بھی ___ ناول میں ایک عجیب و غریب زبان استعمال ہوئی ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اردو میں اتنا بھرپور فکشن اِس سے پہلے نہیں پڑھا۔ اِس کے علاوہ اشرف شاد کا ’بے وطن‘، وزیر اعظم‘، عاصم بٹ کا ’دائرہ‘ اور مصطفی کریم کا ناول ’طوفان کی آہٹ‘ ممبئی سے رحمان عباس کا ایک چونکانے والا ناول آیا ہے۔یاروں نے اس ناول کو پورنو ناول کا درجہ دے دیا۔مجھے ایسی سوچ رکھنے والوں پر ترس آتا ہے۔ ناول لکھنے کے نتیجہ میں رحمان عباس کو نہ صرف اس اسکول سے نکالا گیا جہاں وہ پڑھایا کرتا تھا بلکہ ممبئی کے ایک اخبار ’’اردو ٹائمس‘‘ نے تو اسے ’کافر‘ بھی قرار دے دیا لیکن فکریہ اعتبار سے رحمان کا یہ ناول بھی متاثر کرتا ہے___ یہ سارے ناول بڑے ہیں۔ بڑے اس لئے ہیں کہ اِن میں بڑی فکر ہے۔ ایسی فکر جو ہمارے یہاں نہیں ہے۔ ہندستان میں عبدالصمد کا ’دھمک‘ اور ترنم ریاض کے ناولٹ ’مورتی‘ کو میں اچھے ناولوں میں شمار کرتا ہوں۔

سوال: کیا آپ کے پاس نئے ناول نگاروں کے لئے کوئی Messageہے؟

٭پیغام دینا میرا کام نہیں ہے۔

سوال:اردو میں ناولوں کی اشاعت ہو تو رہی ہے، لیکن تعداد کے لحاظ سے اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟

٭ناول لکھنا ایک مشکل کام ہے جو لوگ پانچ سال میں ایک ڈھنگ کی کہانی نہیں دے سکتے ان سے آپ ناول لکھنے کی امید کیوں کرتے ہیں ؟

سوال:اردو میں افسانہ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، لیکن بہت کم افسانہ نگاروں نے ناول کی طرف مراجعت کی ہے؟ کیا ناول لکھنا بہت دقت طلب ہے؟ کیا افسانہ نگار اتنی محنت نہیں کرنا چاہتے؟

٭آج کوئی بھی محنت کرنا نہیں چاہتا۔ پڑھنا نہیں چاہتا، اس لئے ناول کون لکھے گا۔ ہاں یہ اطمینان ہے کہ پاکستان میں اچھا ادب لکھا جا رہا ہے۔ ہندستان کا دامن اچھے ادب سے لگ بھگ خالی ہو چکا ہے۔ کوئی فعال نہیں ہے۔ بس گنتی کے چند لوگ عبدالصمد، شوکت حیات، ترنم ریاض ___ ممبئی میں سناٹا ہے۔ سلام بھائی اور علی امام نقوی کا بھی قلم خاموش ہے۔ اِس سناٹے سے ہول آتا ہے۔

٭٭٭

 

بیان اور ذوقی۔۔ ایک مکالمہ

                                  — ڈاکٹر مشتاق احمد

گفتگو بیان سے شروع ہوئی لیکن اردو ادب کے مختلف گوشوں تک پھیلتی چلی گئی___ اتنا غصہ، اتنی آگ؟ شاید اس مکالمہ سے قبل میں اس نئے ذوقی سے واقف ہی نہیں تھا۔ ذوقی نے بتایا، کالج کے دنوں میں جب وہ آرہ میں تھے، کہانی سوڑ باڑی پڑھ کر ڈاکٹر محمد حسن کا ایک خط ملا تھا۔ ’اپنے اندر کی چنگاری کو بجھنے مت دینا‘ ۴۳ سال کی عمر ہو جانے کے باوجود ذوقی نے یہ چنگاری اب تک بجھنے نہیں دی ہے۔ اس گفتگو میں ذوقی کھل کر بولے اور خوب بولے___  اور ان میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں، جس کا اظہار ذوقی نے شاید پہلی بار اس بات چیت میں کیا ہے۔

مشتاق احمد :  آپ کا تعارف یا آپ کی کتابوں کے بارے میں کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو کیوں نہ سیدھے، بات بیان سے ہی شروع کی جائے۔

ذوقی :  آپ بات کہیں سے بھی شروع کریں گے، ذوقی کی بات آئے گی تو ’’بیان‘‘ کا تذکرہ ہو گا ہی___

مشتاق احمد :  تو کیوں نہ ’’بیان‘‘ کے پس منظر کے بارے میں کچھ بات کر لی جائے___

ذوقی :  منظر اور پس منظر کے بارے میں، میں نہیں جانتا۔ آنکھیں کھولیں تو بہار میں دنگے بھڑک رہے تھے۔ اس زمانے میں دنگے ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ میں جین اسکول آرہ میں پڑھتا تھا۔ وہاں کے بچے، مسلمانوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے، اس سے تکلیف ہوتی تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں توجیسے صدیاں گزر گئیں معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے، آزادی کے بعد نفرت کا کہرا چھٹا نہیں ہے۔ وہ دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ بابری مسجد تو ۱۹۹۲ء میں شہید ہوئی۔ گجرات کا زخم تو حالیہ ہے___ لیکن آرہ شہر میں برسوں پہلے میں کیا دیکھ رہا تھا، جس نے بعد میں مجھ سے نہ جانے کتنی کہانیاں اور ’’مسلمان‘‘ جیسا ناول بھی لکھنے پر مجبور کیا۔ دوستی اور محبت کی رسم نبھاتے ہوئے بھی لگتا تھا، گھر اور باہر کی دنیا دو مختلف دنیائیں ہیں۔ آدمی ایک ہوتا ہے۔ لیکن گھر میں زبان مختلف اور باہر کی زبان مختلف ہوتی ہے۔ آدمی اتنا دوغلہ ہوتا ہے کیا___؟ باہر کا ترقی پسند گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی ہندو اور مسلمان بن جاتا تو خود پر رونا آتا۔ سچّائیاں کیوں نہیں لکھتے ہو تم؟ بولو___ جھوٹ لکھتے ہو۔ اس لیے کہ جھوٹ لکھنے پر مجبور ہو۔ اور تو اور جب نوکری کرنے لگ جاؤ گے تو سرکاری پابندیوں کی قید میں وہی لکھنے پر مجبور ہو گے جو حکومت چاہتی ہے۔ بچپن میں ہی طے کر لیا تھا___ سرکاری نوکری نہیں کرنی ہے مجھے ___ اتنا غصہ، اتنی آگ تھی کہ پریشان رہتا تھا۔ جھوٹ برداشت نہیں کرسکتا تھا___ نوجوانی کے زمانے میں منٹو، اقبال مجید کے بعد والی نسل کی کہانیاں پڑھتا تو رونا آتا تھا۔ وہ زمین کہاں ہے؟ جھوٹ لکھتے ہیں سب کے سب___ اس لیے کہ سچ لکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر ایسی کہانیاں لکھنے سے فائدہ___ بچپن میں طے کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ آنکھیں دیکھ رہی ہیں، اس سچ سے منہ چھپانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ مشتاق صاحب، اسی لیے میری شروعات کی کہانیاں دیکھ لیجئے، ان میں بہار کے دنگے ہیں۔ ہنگامے ہیں۔ دہشت ہے اور سماج اور سیاست کا ننگا سچ ہے___ آزادی کے ۱۵ برس بعد ۱۹۶۲ء میں، میرا جنم ہوا۔ کتابوں اور بڑے بزرگوار کے منہ سے غلامی کی جو کہانیاں سنیں اور پڑھیں، اس کا بھی اثر تھا۔ اور پھر آرہ کے گلی کوچوں، جین اسکول اور وہاں سے گھر کی چہار دیواری تک واپس آتے ہوئے میں جس سچ سے آپ گزر رہا تھا، اسے لکھنا میرے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ ایک خاص بات بتاؤں۔ ۱۹۸۳ء مظفر پور میں امی کا انتقال ہوا۔ میں اس زمانے میں کالج، شاید گریجویشن کے دوسرے سال میں تھا۔ امّی جیسی ہستی الوداع کی گھاٹیوں میں ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی تھیں اور میں ___ دنگے کی کہانی لکھ رہا تھا۔ مجھے تسلّی مل رہی تھی۔ امّی، اچھا کیا، جو تم یہ شہر، یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ رہنے والوں کی جگہ ہی نہیں ہے___ میں مانتا ہوں۔ یہ نفرت اس ملک کا سچ نہیں ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں ___ مگر بچپن سے جوانی تک واقعات کی لڑیوں نے مجھے اتنا توڑا، اتنا تقسیم کیا کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ’ فلک‘ محدود کر لیا۔ غلامی، ہجرت، تقسیم اور تقسیم کے بعد ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ دنگے۔ میری کہانیاں یہیں سے شروع اور یہیں پر ختم ہو جاتی تھیں۔ میں ذکی انور کی شہادت کو بھی نہیں بھول پایا۔ بھاگلپور، ملیانہ، بھیونڈی کے فسادات کو بھی نہیں۔ ۱۹۸۵ء میں، میں دلّی چلا آیا___ ۱۹۸۹ء میں پاکستان کو لے کر پراکسی وار، کی شروعات ہو چکی تھی۔ اڈوانی جی کی رتھ یاتراؤں نے نفرت کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اب لگتا ہے، گجرات ہو، یا پھر پروین توگڑیا جسے زہر میں ڈوبے ہوئے لوگ، یہ سب تو اڈوانی کی پیداوار ہیں۔ ان سب کا مجرم تو اڈوانی ہے۔ مودی تو اسی نقش پا کے پیچھے چلا، جہاں اڈوانی کھڑے تھے۔ اڈوانی کی خوبی یہ تھی کہ ایک سیکولر ملک میں جہاں جن سنگھ، جیسی فاشسٹ تنظیم یا پارٹی کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا، اس نے زہریلے دماغ دیئے۔ زہر کے بیج بوئے۔ اور جب یہ پودا تھوڑا بڑا ہوا تو اپنی نگرانی میں اس پودے کو سینچا۔ بڑا کیا___ یہ ملک کی خوش نصیبی ہے کہ بی جے پی چھ برسوں میں سمٹ گئی یا کھو گئی___ اور خدا نہ کرے یہ دوبارہ واپس آئے۔ کیونکہ اگر یہ دوبارہ واپس آتی ہے تو یہ اس بار یہ اپنا کھلا کھیل فرخ آبادی ‘ کھیلنے پر مجبور ہو گی۔ اور مسلمانوں کے لیے اس ملک میں چین سے جینا مشکل ہو جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ میں جب آج کے حالات پر غور کرتا ہوں تو ماضی میں تقسیم کے ہولناک واقعات میرا راستہ روک لیتے ہیں۔

اور سچ یہ ہے ملک کی تقسیم کی تاریخ کو، بعد کی نسلیں بھی فراموش کرنے میں ناکام رہیں۔ گویا یہ اپنے آپ میں ایسا زخم تھا جس کا ذکر آتے ہی مسلمانوں کے لئے ایک عجیب سی نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا___ جن سنگھ اور جن سنگھ سے پیدا ہوئی ہندوتو۔ شاکھاؤں نے اسی نفرت بھرے تصور کو پروان چڑھایا۔ اور لوگوں کو بھڑکایا …  دراصل یہ وہی فلسفہ تھا، جو خون آلودہ تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا …  شاید یہ سچ بھی جلد ہضم نہیں ہوسکا کہ بٹوارے سے پیدا ہوا ایک ملک تو اپنے کلچر اور تہذیب کو لے کر ’’ جمہوریت‘‘ اور سیکولرزم کا دعویٰ ٹھوکتا رہا___ وہیں دوسرے ملک نے جمہوریہ اسلام کا ’’ٹھپّہ‘‘ لگا کر رہی سہی وفاداری اور دوستی کی دیوار پر آخری کیل ٹھونک دی___ یہی نہیں جب اس جمہوریہ اسلام کہنے جانے والے ملک سے بنگلہ دیش الگ ہوا …  تب اس دوسرے ملک پر بھی اسلامی ملک کا ٹھپّہ برقرار رہا___

پچھلے 57 برسوں میں وشو ہندو پریشد، ہندو مہا سبھا، یا شیوسینا جیسی جماعتوں کے گلے سے اسلام کی ہڈّی نہیں نکلی ہے۔ آزادی کی بعد کی تاریخ میں پڑوسی ملک کے تعلق سے جب کبھی مذہبی آزادی کو لے کر کلنک‘ جیسا کوئی بھی حادثہ سامنے آیا ہے، اسے فوراً اسلام سے یا مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے …  نتیجے کے طور پہ نفرت کی آندھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ہے۔

آزادی کے بعد جن سنگھ کی مسلسل شکست نے مسلمانوں اور سیکولرازم کے خلاف نیا مورچہ کھولنا شروع کیا۔ جن سنگھ کے نئے اوتار بھاجپا نے جن سنگھ سے سبق لیتے ہوئے نئے طریقے سے کام کرنا شروع کر دیا۔ کام مشکل تھا، لیکن ٹھوس اور کامیاب نتیجہ دینے والا۔ اور جس رتھ کے مہارتھی اٹل بہاری، شری اڈانی اور مرلی جی جیسے دانشور ہوں، وہاں ’ صبر‘ انتظار اور راج کرو، کے نظریئے خود ہی کام کرنے لگتے ہیں۔ رتھ یاترا، بابری مسجد یا متنازعہ ڈھانچے کے گرائے جانے کے بعد سے ہی نئے ہندو سمی کرن، بننے شروع ہو گئے تھے …  انہیں سمی کرنوں ‘ سے کٹیار، توگڑیا اور مودی جیسے تیز دھار والے بے لگام شمشیروں کی تخلیق ہوئی تھی۔ اب یہ ایسے بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں، جن کی آواز اگر روکی نہیں گئی تو ملک کو ایک بار پھر سخت مصیبت سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کوشش کیجئے کہ یہ حکومت بنی رہے اور ہماری غلطیاں بی جے پی کی واپسی نہ کرا دیں۔

مشتاق احمد :  بیان پر جلد ہی ہم واپس لوٹیں گے۔ ظاہر ہے اس گھناؤنی سیاست نے ہندستان کے تمام مسلمانوں کا دل دکھایا ہے۔ تقسیم کے بعد بابری مسجد شہادت کی داستان یا پھر گودھرا  کانڈ کے بعد ہونے والے فسادات کو ہی دیکھ لیجئے۔

ذوقی:  تقسیم ایک پڑاؤ تھا …  اب ایک اہم پڑاؤ گودھرا بن گیا ہے۔ مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑاؤ سے گزرے بغیر آگے نہیں جا سکتے …  مہیش مانجریکر کی حالیہ فلم ’’ پران جائے پر شان نہ جائے‘‘ میں ایک مسلم غریب کردار ایک ہندو کے منہ سے بار بار پاکستانی کہے جانے پر چیختا ہے …  ’ سالے  …  ورلڈ ٹریڈ ٹاور میں ہوائی جہاز گھستا ہے تب بھی یہاں آ کر ہم سے پوچھتے ہو جیسے ہم نے ہی گھسایا ہے۔‘‘

اصلیت یہی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کراب تک میں نے پتہ نہیں اپنے کتنے مضامین میں اس لفظ اقلیت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ مجھے شروع سے ہی اقلیتی کمیشن جیسے اداروں سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ میری اپنی منطق تھی کہ ہندستان میں مسلمان کی آبادی ۲۰ کروڑ سے کم نہیں اور اتنی بڑی آبادی اقلیت نہیں ہوسکتی۔ اسے دوسری بڑی اکثریت کا نام دینا چاہئے۔ مجھے احساس تھا کہ محض دوسری بڑی اکثریت کے اعلان کے انجکشن سے ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن شاید میں غلطی پر تھا۔

گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئیں۔ مودی کا ہندوتو چمکا …  گجرات ہندوتو کی پہلی لیبارٹری بنا …  وی ایچ پی، بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کی نفرتیں کھل کر سامنے آئیں …  توگڑیاکا ترشول گھر گھر پہنچا …  ملک میں ا س سے پہلے بھی فساد ہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہوا تھا …  کیا تاریخ خود کو دھرا رہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھیں …  نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا …  طاقتور ہونا___ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول، قاعدے قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے___ طاقتوروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں چشم دید گواہوں کے باوجود مودی یا توگڑیا پر کوئی پوٹا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ لیکن اب حالات بدلے ہیں۔ کتنوں دنوں تک بدلے رہیں گے۔ کوئی نہیں جانتا___ لیکن ایک بات ہے مشتاق صاحب کبھی کبھی لگتا ہے___ بی جے پی کو تھوڑے دنوں تک اور رہنا چاہئے تھا۔

مشاق احمد :  کیوں ؟

ذوقی:  اردو والوں کے چہروں کا ماسک اترتا۔ پہلے بھی اتر چکا تھا۔ قاضی عبید الرحمن ہاشمی سے علی احمد فاطمی تک___ میں زور دے کر کہتا ہوں اگر بی جے پی دوبارہ برسر اقتدار آ گئی ہو تی تو شاید اردو والے سارے ہی سینگ کٹا کر بی جے پی میں شامل ہو گئے ہوتے۔ مگر اس آندھی میں، یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، پانچ فیصدی ہندی والے ہی ہوتے جو اپنی جنگ بی جے پی کے خلاف جاری رکھتے۔

مشتاق احمد :  چلیے تسلیم___ غلامی، تقسیم اور دنگوں پر ڈھیر ساری کہانیاں لکھنے کے باوجود آخر آپ کو وہ درجہ کیوں نہیں دیا گیا، جو منٹو کو دیا گیا؟

ذوقی:  درجہ آسانی سے نہیں مل جاتا۔ منٹو اس معاملے میں خوش قسمت تھے۔ اس کی زندگی میں  …  خوش قسمتی کی لاٹری نکل چکی تھی۔ قصور ہمارے نقادوں کا ہے، جنہوں نے اپنی تساہل پسندانہ طبیعت کی وجہ سے منٹو سے آگے جھانکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ وہی چار بڑے۔ منٹو، عصمت، کرشن، بیدی___ لیکن ایک زمانہ آتا ہے جب اچانک تبدیلی اور خوشگوار انقلاب کے تھپیڑے چلتے ہیں۔ اور پھر اچانک آپ تک لوگوں کی نگاہ جاتی ہے___ مجھے لگتا ہے۔ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں، میرے مرنے کے بعد ہی سہی۔ کم سے کم یہ دن ضرور آئیں گے کہ منٹو کی کہانیوں سے الگ میری کہانیوں پر بھی توجہ کی جائے گی___ وہ کہانیاں جو غلام بخش سے شروع ہو کر احمد آباد ۳۰۲ میل تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔

مشتاق احمد :  لیکن بیان کے بعد آپ کے یہاں زبردست تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی۔ جیسے آپ ماڈرن سینسی بیلیٹی کی بات کرنے لگے۔ آپ کی کہانیوں میں دلت سے لے کر ایلٹ کلاس کے لوگ بھی جگہ بنانے لگے۔ کیا یہ بکھراؤ ہے یا کہانی کو نئے افق میں دیکھنے کی کوشش۔

ذوقی :  بیشک صحیح کہا آپ نے۔ مگر خدارا، دشمنوں کی زبان نہ بولیے۔ ذوقی کے یہاں جتنے یا ڈائمنشن ہیں۔ کس کے یہاں ہیں۔ میں عبد الصمد یا شوکت حیات کے بعد کی نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ اگر آرہ جیسی چھوٹی جگہ میں مجھے پبلشر مل گئے ہوتے تو سب سے پہلا ناول اس نسل میں، عبد الصمد سے پہلے میرا آ گیا ہوتا۔ ۱۹۸۰ء تک میں یہ ناول لکھ چکا تھا۔ لمحۂ آئندہ، شہر چپ ہے، نیلام گھر اور عقاب کی آنکھیں۔ میں ہمیشہ نئے موضوعات کی تلاش میں رہا۔ دلت سے ایلٹ کلاس تک__ آپ اسے ویرائیٹی کیوں نہیں کہتے کہ جتنی ویرائٹی ذوقی کے یہاں ہے۔ کسی میں نہیں۔ ناول کی بات کریں تو بیان کے بعد ذبح، پوکے مان کی دنیا اور اب ’ پروفیسر ایس کی کی عجیب داستان وایا سونامی‘ تک___ میں لفظوں کا غلام نہیں۔ زبان سے کھیلتا ہوں میں۔ لوگ جلتے ہیں اور میرے بارے میں زبان زبان کی افواہیں پھیلاتے ہیں یا پھر بسیار نویس کہہ کر میرے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حساب لگائیے تو سن ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء تک مشکل سے دس کہانیاں اور دو ناول یعنی ایک سال میں دو کہانیوں کا حساب بس۔ کیا یہ بسیار نویسی ہے___ کیا ذوقی اپنے آپ کو ریپیٹ کرتا ہے۔ پچھلے سال صرف دونئی کہانی لکھی۔ وارن ہسٹنگس کی ٹوپی اور ڈرا کیولا۔ اس سال ایک نئی کہانی شروع کی ہے۔ امام بخاری کی نیپکین۔ کہانی بھی ناول کی طرح کئی نشست میں لکھتا ہوں۔ ہاں، میرا افق اتنا بڑا ہے کہ فاطمیوں اور قاسمیوں کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ علی گڑھ کے نقاد، ہاں یہ نام زیادہ موزوں ہے (ہنسی)۔ علی گڑھ والے، شافع قدوائی کو چھوڑ دیجئے۔ کہاں پڑھتے ہیں۔ علی گڑھ کی سنتے رہیں ‘ علی گڑھ پر لکھتے ہیں۔ ہندستان میں اردو کی نمائندگی نہیں کرتے۔ صرف علی گڑھ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور پھر آپ کیوں سوچتے ہیں کہ ہر ایرہ  غیرہ آپ کا نام لیتا رہے۔ میرے لیے قارئین کی محبت سب سے زیادہ اہم ہے۔ اور وہ میرے حصے میں شروع سے رہی ہے۔

مشتاق احمد :  ابھی حال میں گجرات کے موضوع پر آپ کی کتاب ’’لیبارٹری‘‘ شائع ہوئی۔ مگر ہندی میں ___ اردو میں کیوں نہیں ؟ دیکھا تو جائے تو اس نوعیت کی کتابیں بیان کا ہی Extension لگتی ہیں۔

ذوقی:  بجا فرمایا۔ لیبارٹری کو ہندی میں پبلشر مل گئے۔ اردو میں نہیں ___ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ اردو کا مصنف صرف اپنی جیب سے پیسے لگاتار ہے اور لوگوں کو اپنے ڈاک خرچ پر کتابیں بھیجتا رہے۔ اتنا سرمایہ نہیں ہے میرے پاس۔ خواہش تھی کہ لیبارٹری بھی اردو میں شائع ہوسکے۔ نہیں ہوسکی۔ میں ٹھہر ٹھہر کر در اصل اسی موضوع پر، آ جاتا ہوں۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں بھلا فرقہ واریت سے الگ، کسی موضوع پر سوچا ہی کیسے جا سکتا تھا؟ اور جہاں گجرات، مودی کا ہندوتو، اور ترشول پورے بھارت میں چمک رہا ہو تو آپ بھلا ایک مصنف کی حیثیت سے ایسے Issues کو Ignore کیسے کرسکتے ہیں۔ جابر حسین نے گجرات پر نظمیں شائع کیں تو ان کی کتاب میں میری ۳۰ نظمیں گجرات پر ایک ساتھ شامل تھیں ___ یہ نظمیں پسند کی گئیں۔ اس لیے یہ طے کرنا مشکل نہیں ہے کہ اردو میں زیادہ کون جاگ رہا ہے___ باقی سوئے ہوئے لوگوں کو ہمارے عہد کے دانشور جتنا چاہیں، تاڑ پر چڑھانے کی کوشش کر لیں، کوئی فائدہ نہیں۔

سوال: بیان کو لے کر زبان کی بات چھڑی اور خوب چھڑی۔ آج بھی جب آپ پر بات ہوتی ہے تو زبان کا ذکر آ جاتا ہے۔

ذوقی :  میرے بھائی، جب آپ کو کچھ نہیں کہنے کے لیے ملے گا تو زبان کا ذکر ہی سہی۔ ان کے ترکش میں اس کے سوا کوئی تیر نہیں ہے اور سنیے آپ___ جب بیان منظر عام پر آیا تو مجھے گجراتی اور ہندی کے بڑے ادیب عابد سورتی کا خط ملا۔ تعجب کا اظہار تھا کہ اردو میں ایسی کہانیاں، ایسی جادوئی زبان بھی ملتی ہے۔ میرا موازنہ ہنری ملر سے کیا گیا___ بھوپال سے اقبال مسعود صاحب دلی شریف لائے فون پر بات ہوئی۔ ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا۔ بیان پڑھنے سے پہلے ڈرایا گیا کہ کس کو پڑھ رہے ہو‘ ڈراؤنی زبان لکھنے والے کو___ اب ناول پڑھ لیا ہے۔ تو کہہ سکتا ہوں یہ لہجہ، یہ رنگ یہ زبان کسی دوسرے کے پاس نہیں ___ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ اب وہ لوگ بھی جو زبان زبان چلاتے تھے۔ میری کہانیوں، کہانیوں میں در آئی فکر کے عاشق ہو چکے ہیں۔ کب تک زبان کی شکایت لے کر مجھے کنارے کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذوقی اپنی دنیا کا بادشاہ ہے۔ اسے کسی نقاد کی ضرورت نہیں۔ ذوقی کے لیے قارئین کی محبت کافی ہے۔ بیان کا ذکر آیا تو ایک خاص بات بتاتا چلوں۔ زبان کی بات بھی پہلی بار یہیں سے شروع ہوئی___ زندگی کا سب سے زیادہ دل دکھا دینے والا واقعہ__ میرے ایک دوست ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میرے دکھ سکھ کے حصے دار۔ میں شاید سب سے زیادہ بھروسہ ان پر کرتا تھا۔ بیان کے ریلیز فنکشن کی ذمہ داری ان پر سونپی گئی۔ انہوں نے نظامت کے لئے اپنے دوست سراج اجملی کا نام لیا۔ اور بیان فنکشن میں جو ہوا، وہ ایک نہ بھولنے والا حادثہ ہے۔ میری کتاب کا فنکشن تھا۔ مجھے سامعین کے بیچ بیٹھنا پڑا۔ ایسے لوگوں کو شروع میں بلوایا گیا۔ جنہوں نے بیان اور میرے خلاف بولنے کی تمام حدیں پار کرنی شروع کر دیں۔ تھیٹر کو مقبولیت دینے والے حبیب تنویر سے رہا نہیں گیا تو انہوں نے دریافت کیا، کیا یہ پروگرام بیان کی مخالفت میں کیا جا رہا ہے۔ پھر باری آئی مشہور شاعر شجاع خاور کی۔ جب وہ بھی خلاف بول کر جانے لگے تو آخر میں، میں ڈائس پر آیا۔ انہیں روکا کہ انہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ابھی ان کی بات ختم ہوئی ہے۔ میری بات ادھوری ہے۔ پھر میں خوب بولا۔ جی بھر کر بولا۔ اور اس کے ایک ہفتہ کے اندر ہی سننے کو ملا کہ موصوف کو پار الائسز ہو گیا ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ایک اچھے شاعر کے اندر کس قدر گمراہ کرنے والے خیالات تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب شجاع لگاتار پارٹیاں بدل رہے تھے۔ بی جے پی کی حمایت میں ان کا بولنا تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر دوستوں کی کرم فرمائی مجھے حیرت میں ڈال رہی تھی۔ اس کے بعد سنیے۔ قومی آواز میں کسی مظہر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا۔ غلط بیان۔ بیان کے بارے میں غلط فہمیاں یہیں سے شروع ہوئیں۔ تب میرے وہ دوست تاج انکلیو میں، میرے آمنے سامنے رہتے تھے۔ میں قومی آواز نہیں خریدتا تھا۔ وہ قومی آواز لے کر آئے۔ بولے ___ یار یہ مظہر کون ہے؟ میں صرف جے۔ ان یو والے مظہر کو جانتا تھا۔ اس کے دو دنوں بعد ہی معلوم ہوا۔ میرے دوست، سراج، سہیل وحید اور مظہر تو گہرے دوستوں میں ہیں۔ پھر ایک دن اپنے اسی دوست کے گھر مجھے اتفاق سے اپنی کتاب بیان بھی مل گئی۔ کتاب پر پنسل سے جہاں جہاں نشان لگایا گیا تھا۔ وہی باتیں کتاب میں تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ فکشن یا ناول پڑھنے کا یہ کون سا انداز ہے۔ ظاہر ہے یہ ساری سازش جان بوجھ کر رچی گئی تھی۔ پھر ایک دن اردو سرکاری رسالہ آجکل کے دفتر کی سیڑھیوں پر مجھے سہیل وحید ایک خاصے صحت مند آدمی کے ساتھ نظر آیا، جس نے مجھے دیکھ کر چھپنے کی کوشش کی۔ یہ آدمی مظہر تھا۔ میں نے سہیل اور اپنے دوست دونوں سے کہا۔ جو آدمی مجھے دیکھ کر آنکھیں ملاتے ہوئے گھبراتا ہو، وہ مجھ پر نہیں لکھسکتا۔ بتاؤ یہ شخص کتنے میں بکا ہے؟ تو صاحب، یہ دلّی ہے دلّی___ بیان کے سلسلے میں سازش تو انہوں نے کی مگر کیا ہوا___ بیان سے پہلے  ہندستان کی سیاست پر، خاص کر مسلمانوں کی سیاست پر اس انداز سے عملاً کس نے سوچا اور لکھا تھا___ ؟خوشی اس بات کی ہے کہ بیان کے خلاف جس قدر لکھا یا بولا گیا، بیان کی اس سے کہیں زیادہ تعریف ہوئی۔

مشتاق احمد:  میرے خیال میں یہ وہ باتیں ہیں، جو اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک جینوئن رائٹر ہیں ___ لیکن کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو جینوئن کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ ایسے میں، یہ کیسے سمجھا جائے کہ کون جینوئن ہے اور کون نہیں ؟

ذوقی :  یہ دلیل گمراہ کن ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جینوئن کون ہے؟ کون نہیں ہے؟ اچھے ادیب کو اس کا عرفان ہوتا رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے خلاف یا حق میں فیصلہ صادر کرنے والا وقت ہوتا ہے۔ میں نے کبھی خود کے لئے نہیں لکھا۔ نہ اپنی ذات یا روح کی تسکین کے لئے۔ میرے سامنے ہمیشہ میرا عہد رہا ہے۔ تغیرات رہے ہیں۔ ’’ باپ‘‘، ’’بیٹا ’’ دادا اور پوتا‘ ایک صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘، ’’بارش میں ایک لڑکی‘‘، ’’ نہیں آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔‘‘ ’’مرد‘‘، ’’کاتیائن بہنیں ‘‘ میں نئے نئے کردار کا خالق ہوں۔ نئی نئی دنیائیں آباد کرتا ہوں ___ اپنی کہانیوں میں۔ میں صرف لکھتا نہیں ہوں۔ کہانیوں کو اپنی فکر سے گزارتا ہوں۔ راستہ دیتا ہوں ___ کبھی خود راستہ بنتا ہوں۔ میں زندگی کو نئی صبح، نیا آسمان، نئی دنیا اور نئے خیال دینے آیا ہوں اور یہ سب میرے سامنے الفاظ کے چمکتے ستارے نہیں ہیں۔ میں براہ راست عوام سے مخاطب ہوتا ہوں اور اس کے لئے تنگ گلیاں، ٹیڑھے میڑھے راستہ چنتا ہوں ___ کبھی اجلی نورانی راتیں مجھ پر مہربان ہوتی ہیں اور کبھی میں سڑے گلے چہروں میں جیتا ہوں۔ میں ڈرائنگ روم میں بند ہو کر نہیں لکھ سکتا۔ مجھے محض جذباتی ہونے سے چڑ ہے۔ انسانوں کے لئے امڈی ہوئی ہمدردیاں مجھے پسند نہیں۔ جیسے مجھ میں صرف ایک ہندستان نہیں بستا __ ایک ملک سے بے پناہ محبت یا قربان ہو جانے کا خیال دوسرے ملک کے لئے نفرت یا دشمنی کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے میں محض کرۂ ارض کے ایک خطہ سے، ایک انسان سے محبت نہیں کرسکتا اور بقول ہیمنگ وے ’’ ساحل سے ایک ’ ڈھیلا بھی سمندر بہالے جاتا ہے تو دھرتی کم ہو جاتی ہے___ ایک بھی آدمی مرتا ہے تو انسانی برادری میں کمی آ جاتی ہے۔‘‘ میرے لیے یہ مکمل کائنات کسی صحیفہ یا آیت جیسی ہے جسے مجھے پڑھنے یا سمجھنے کا حق حاصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اچھا ادیب کشف سے گزرتا ہے، نئے خیال وضع کرتا ہے اور اپنی نئی دنیائیں اپنے پڑھنے والوں کو سونپ دیتا ہے۔ میں یہ نئی بستیاں، سو کروڑ کی آبادی والے اس ملک کے صرف پانچ سو، یا ہزار لوگوں تک پہنچا کر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ اور یقیناً وہ لوگ بھی مطمئن نہیں ہوسکتے جو اچھا ادب خلق کر رہے ہوں۔ اور جو اپنی بسائی ہوئی دنیائیں یا نئی بستیاں ایک زمانے کو دکھانے کا ارادہ کرچکے ہوں۔

شاید اسی لیے، میں نے اپنے لیے اردو کے علاوہ ایک دوسری زبان کا سہارا لیا۔ ہندی کا___ ہندی میں میری کہانیوں کے ترجمے نہیں چھپتے۔ مجھے ہندی میں اب اردو افسانہ نگار کے طور پر نہیں پہچانا جاتا___ میں ہندی میں ہندی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوں،اردو میں اردو افسانہ نگارکی حیثیت سے۔ ممکن ہے کہ میرے دوست اب اس بات کو بھی اٹھانے کی کوشش کریں کہ ارے ذوقی تو ہندی کا آدمی ہے۔ لیکن جو آدمی مسلسل بیسیوں برس سے اردو میں لکھتا رہا۔ اور آج بھی لکھ رہا ہے، کیا صرف ان کے کہنے سے میرے قارئین گمراہ ہو جائیں گے۔ قطعی نہیں۔ صرف ہندی نہیں۔ میں تو کہتا ہوں۔ جس میں صلاحیت ہے۔ اسے اپنی تخلیق کو اب انگریزی زبان میں لانے پر غور کرنا چاہئے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی کہانیوں کا دائرہ نہیں بڑھاتے ہیں۔ اردو کی مخصوص شناخت عالمی سطح پر طے  نہیں ہوسکتی۔

مشتاق احمد:  یوں تو آپ نے لکھنا ۸۰ء سے کافی پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ لیکن آپ کی شناخت ۸۰ کے کافی بعد سامنے آئی۔ کیا اپنی شروعاتی کہانیوں کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

ذوقی:  ۸۰ء کے آس پاس کا عہد مجھے الجھنوں میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا، کیونکہ میں جولکھنا چاہتا تھا، وہ اس عہد کے لئے موزوں نہیں تھا جو نہیں لکھنا چاہتا تھا، رسائل میں چھپنے کے لئے، وہ لکھنے پر مجبور تھا___ جدیدیت کی آندھی میں، سچ پوچھئے تو میں بھی بہتا چلا گیا تھا___

دابۃ الارض، فاختائیں، اعرف نفسک بنفسک، پیر تسمہ پا، اب قید ہے، اشغلاکی بند مٹھّیاں، پتھّریگ، فاصلے کے درمیان جلتی ہوئی ایک لالٹین، فاختاؤں کا شہر، وغیرہ___ افسانوی مجموعہ منڈی میں، میں نے ان میں کچھ کہانیاں شامل تو کیں، لیکن اس بات کا بھی اظہار کیا ہے   ؎

’’یہ وہ کہانیاں ہیں، جنہیں میں نے ردّ کیا‘

دلّی یعنی مہانگر___ چھوٹے سے قصباتی شہر میں رہ کر، اس شہر کا تصور کر پانا بھی مشکل تھا___ مجھے اس شہر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا سکھ کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو در در کی ٹھوکریں تھیں اور خالی ہاتھ تھے___ دلّی دل والوں کی دلّی نہیں تھی، تنگ دل لوگوں کی دلّی بن کر رہ گئی تھی بے شمار خطرات، ذہنی یا تنائیں، پریشانیاں ___ بہت ممکن ہے، میں ہار گیا ہوتا، مگر، میں نے جو کچھ پڑھا تھا، اب وہی میرے کام آرہا تھا___ کہتے ہیں، ایک زندگی وہ ہوتی ہے، جسے اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتے ہیں ___ ایک زندگی وہ ہوتی ہے، جو آپ کا مطالعہ، آپ کا Vision آپ کو سونپتا ہے___ الکزینڈر پشکن، نکولائی گوگول، فیودر دوستوفسکی، لیوتالستائے،میخائل شولو خوف، میکسم گورکی، ترگنیف___ روسی ادب کا میں مداح تھا۔ اور یہ لوگ میرے لئے مشعل راہ___ ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود تھی۔ خاص کر آرہ چھوڑنے سے قبل، ایک بہت بعد کے روسی مصنف کی کتاب میں نے پڑھی تھی۔ بورس پولو، کتاب کا نام تھا___ The story of a real man ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ اور جو اپنے ول پاور سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے___ مجھے ہیمنگ وے کے The old man and the sea سے محبت تھی___ ہیمنگ وے کی کہانیوں کے مرد آہن مجھ میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔ مجھے ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا___ وکٹر ہیوگو، کفکا، ورجیناؤلف، البیر کامو، یہ سارے میرے اپنے تھے۔ خاص کر Les-miserable کا پادری اور The Plague کا Dr. Riox میرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلانیکود، گور کی مدر کا پاویل ولا سوف اور ترگنیف کی the father and the son کے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب Deal Soul مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گبریل گارشیا مارکیز کا ادب مجھے ایک نئی دشا میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا___ عجیب بات یہ تھی کہ مجھے الیکزینڈر سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلاگ آرکیپلاگو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پریشان کر رہے تھے۔ نیتھنیئل ہینیٹیے کی The Scarlet Letter بھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal Farm اور ۱۹۸۴ء مجھے نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے___ میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا، ولیم گولڈنگ اور گراہم گرمین کو بھی___ اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں مجھے تصنع کی جھلک ملتی تھی۔ منٹو مجھے چونکاتا تھا، لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا۔ عصمت مجھے راس نہیں آئیں __ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار زیادہ سے زیادہ قربت کا احساس دلا رہی تھیں۔ اور کرشن کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی___ مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پنچ تنتر بھی پسند تھی اور The magic mountion بھی۔ طلسم ہوش ربا کا تو میں شیدائی تھا___ دلّی کی پاگل بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگ وے کا The old man تسمہ پا کی طرح مجھ پر سوار تھا___ دلّی کی پریشان حال زندگی اور لڑتے رہنے کا جذبہ، ۸۵ء سے ۹۵ء تک کے بیچ میری کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب رہا___ میں سوچتا تھا نثر، غریبی کے بدحال جسم کی طرح ہونی چاہئے۔ Glamour less نثر کو کی زبان عصمت کی کہانیوں کی طرح رواں دواں نہیں ہوسکتی۔ میں نے اپنا تجزیہ کیا اور ایک نئی روش اپنائی، نئی ڈگر پر چلا۔

میں ترقی پسندی کے راستے پر اسی لئے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچا کر نہیں گزر سکتا تھا۔ میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اور میں صرف شوقیہ ادیب نہیں بننا چاہتا تھا___ میں، کسی ایک قاتل لمحے سے بھی کہانی چرا سکتا تھا___

مشتاق احمد :  ذوقی صاحب، آپ کا بیحد شکریہ ___ اردو کہانی یا ناول کی تاریخ میں آپ آج ایک نا قابل فراموش ادیب کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہیں۔ یقیناً منٹو اور بیدی کے بعد کا ادبی سفرنامہ جب بھی لکھا جائے گا، ذوقی کی کتابوں کے دفتر کھلیں گے اور نئی نئی باتیں سامنے آئیں گی۔ آپ نے اپنی کہانیوں یا ناولوں کے کردار پر بھی بہت محنت کی ہے۔ خصوصاً پوکے مان کی دنیا کا سنیل کمار کے رائے اور بیان کا بالمکند شرما جوش۔ آخر میں ایک سوال۔ بالمکند شرما جوش، بیان کا یہ کردار کیا کوئی فرضی کردار ہے یا … ؟

ذوقی :  بالکل نہیں ___ آرہ کے چھوٹے سے شہر میں اس کردار کو میں نے دیونندن سہائے پارسا آروی اور جین صاحب کی شکل میں اتنی بار دیکھا ہے کہ جب بیان لکھنے کا وقت آیا تو یہ دونوں کردار مجھ پر حاوی ہو کر ایک زندہ کردار میں بول گئے۔ یعنی بالمکند شرما جوش___ کردار نگاری ایک مشکل فن ہے اور یہ ریاضت چاہتی ہے___ بہر کیف، آنے والے دنوں میں، میں آپ کو ایک اور نہ بھولنے والا کردار دینے والا ہوں۔ پروفیسر ایس ___میرے ناول ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ کا انتظار کیجئے۔

مشتاق احمد :  ذوقی بھائی آپ کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ!

٭٭٭

 

 جناب مشرف عالم ذوقی سے گفتگو

               (ذوقی کے تازہ ناول لے سانس بھی آہستہ کی روشنی میں )

                                             ٭  رضی احمد تنہا

                                             ٭  نعمان قیصر

رضی احمد تنہا:اپنے گاؤں کے بارے میں بتائیے؟چونکہ گاؤں کی پوری زندگی کام پر اثر انداز ہوتی  ہے۔ عموماً ادبی سفر کا آغاز لوگ شاعری سے کرتے ہیں،لیکن آپ نے افسانے سے کیا اور محض۱۷ سال کی عمر میں آپ نے ’عقاب کی آنکھیں ‘لکھا۔ ناول دراصل داستان کی جدید شکل ہے،یہ داستانی جراثیم آپ کے اندرکیسے آیا؟ ۔

ذوقی:تنہا صاحب، گاؤں کا میری زندگی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں۔ میں بہار کے ایک چھوٹے سے شہر آرہ میں پیدا ہوا۔ میرا ننیہال برہ بترا ہے۔ برہ بترا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ امی جان اکثر مجھے لے کر برہ بترا جایا کرتی تھیں۔ وہاں آم کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ہم عمر بچوں کے ساتھ ہاتھ میں غلیل لے کر میں آم توڑنے کے لیے نکل جاتا۔ وہاں ایک چھوٹی سی ندی ہے۔ ایک بار تیرنے کی کوشش میں، میں ڈوبنے لگا تھا — گاؤں کی کہانیاں لکھتے ہوئے میں اسی گاؤں کا سہارا لیتا ہوں۔ چھٹے کلاس سے کہانیاں لکھنے لگا تو یہ گاؤں الگ الگ شکلوں میں میری کہانیوں میں نمایاں ہونے لگا۔

تنہا صاحب، آپ کے اس ایک سوال میں کچھ اور سوال بھی چھپے ہوئے ہیں جن کا جواب دینا ضرور ی ہے۔ گھر میں ادب کا ماحول تھا۔ ابا حضور مشکور بصیری شاعری کا بلند ذوق و شوق رکھتے تھے۔ گھر میں مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ ابا بچپن سے میر و غالب کے اشعار سنایا کرتے۔ ان شاعروں میں ذوق سے مجھے کچھ زیادہ ہی محبت ہو گئی۔ مجھے یاد ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں والی سائیکل ہوا کرتی تھی۔ میں سائیکل چلاتا ہوا بلند آواز میں ذوق کے اشعار پڑھا کرتا …  کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا …  نہنگ و اژدہا ؤ شیر ونر مارا تو کیا مارا۔ایک دن ابا اتنے خوش ہوئے کہ مجھے گلے سے لگایا اور کہا …  یہ ذوقی ہے۔ اور اور لیجئے میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔ شاعری وراثت میں ملی۔ مگر چھوٹی عمر سے ہی افسانوں نے مجھے متوجہ کرنا شروع کیا۔ گھر میں جتنی بھی کتابیں تھیں، سب پڑھ ڈالیں۔ پھر ناول پڑھنا شروع کیا۔ رائیڈرس ہیگررڈ اور ڈیوما کے ناولوں نے کچھ اس حد تک متاثر کیا کہ ۱۷ سال کی عمر میں عقاب کی آنکھیں کے عنوان سے پہلا ناول لکھ ڈالا۔ داستانی جراثیم مجھ میں کیسے پیدا ہوا یہ بھی ایک خوبصورت اور لمبی کہانی ہے۔

نعمان قیصر: ہم یہ کہانی بھی آپ سے جاننا چاہیں گے۔

ذوقی: ضرور۔ گرمیوں کے موسم میں چھت پر چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں۔ آسمان پر تاروں کی بارات …  ٹھنڈی ٹھنڈی بہتی ہوئی ہوا۔ ہم بھائی بہن چھت پر ابا کے آنے کا انتظار کرتے۔ ابا کے آتے ہی ہم انہیں گھیر کر بیٹھ جاتے۔ ابا پھر داستانوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔ داستان امیر حمزہ۔ طلسم ہوشربا …  عمر و عیار کی ٹوپی۔ یہاں تک کہ سراج انور کے ناول بھی ابا سے ہی سننے کا موقع ملا۔ مطالعہ میں بعد میں کیا۔ابا کے سنانے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ ڈرامائی انداز میں ان کہانیوں کو بیان کیا کرتے۔ آج محفلوں میں کہانیاں سناتے ہوئے میں کسی حد تک اس انداز کو اپنا نے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ ہنر کہاں سے لاؤں جو ابا مرحوم کے پاس تھا۔ داستانی جراثیم میرے اندر یہیں سے پیدا ہوا۔ وہ چاندنی راتیں، چھت پر پانی کا چھڑکاؤ، ابا کا داستانی انداز  —   میں آج بھی کچھ نہیں بھولا۔ آپ نے داستانوں کا مطالعہ نہیں کیا تو آپ اچھا ادب لکھ بھی نہیں سکتے۔ نہ کہانی یا ناول کے کرافٹ سے واقف ہوسکتے ہیں۔

نعمان قیصر:گزشتہ دنوں ’ آج کل‘ میں ابرار رحمانی نے انکشاف کیا کہ اردو افسانے میں انبار ہے شاہکار نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

ذوقی:ابرار رحمانی میرے گہرے دوست ہیں، ان کی بات سر آنکھوں پر، وہ ایک سلجھے ہوئے ذہین انسان ہیں۔ میں نے ابرار کے بیشتر مضامین پڑھے ہیں۔ ابرار اکثر قارئین کے لیے کچھ ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جہاں سوالات ہوتے ہیں۔ آپ ابرار رحمانی کی جگہ ہوتے اور آجکل کی ڈاک میں روز آنے والی کہانیوں کا مطالعہ کرتے تو شاید آپ کا بھی یہی حال ہوتا قیصر صاحب۔ایسا نہیں ہے کہ کہانیاں نہیں لکھی جا رہی ہیں۔ ابرار صاحب کا یہ اداریہ میں نے بھی پڑھا تھا۔ میں نے ایک طویل خط بھی لکھا تھا اور آجکل کے ۴۔۳ شماروں میں اداریہ اور میرے خط کو لے کر نئی بحث کی شروعات ہوئی تھی۔ پھر اسی موضوع پر میں نے ایک مضمون لکھا جو تحریر نو میں شائع ہوا  —   کیا 1980کے بعد کہانیاں نہیں لکھی گئیں۔ یہ ہر دور میں ہوا ہے قیصر صاحب۔ شاہکار سامنے کم آتے ہیں۔ ابنار زیادہ لگتے ہیں۔ مگر نقاد پڑھتے کہاں ہیں۔ کسی سے بھی پوچھیے تو اپنے خیمے کے چند لوگوں کے سوا کوئی کہانی پڑھی ہی نہیں۔ میں یہ قطعی ماننے کو تیار نہیں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ انبار ہے۔ کیونکہ جب اس طرح کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس دائرے میں، میں بھی آتا ہوں۔ مجھ پر لگائے گئے بسیار نویس،زود حس فنکار کے الزامات پرانے ہو گئے۔ میں سال میں ایک یا دو کہانیاں ہی لکھتا ہوں۔ اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں شوقیہ، فیشن کے تحت یا زبردستی نہیں لکھتا۔ میں ہر بار اسلوب اور کہانی کی سطح پر نئے تجربے کرتا ہوں۔ یہ تو رہی میری بات۔ مگر ایک بات اور جان لیجئے کہ اردو صرف ہندستان میں نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت بہتر لکھا جا رہا ہے۔ طاہرہ اقبال نے تو کمال کی کہانیاں لکھی ہیں۔ ہندستان میں شائستہ فاخری، رخشندہ روحی، رحمن عباس، خورشید حیات تک بہت اچھی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ ابھی حال میں شائستہ فاخری کی ایک ایسی کہانی میں نے پڑھی جو مجھے لحاف سے عمدہ معلوم ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ آپ پڑھیں گے ہی نہیں تو جانیں گے کیسے کہ کیا لکھا جا رہا ہے اور کیا نہیں  —   اور میرا دعویٰ ہے۔ زیادہ تر لوگ نہیں پڑھتے۔ بغیر پڑھے ہی فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ منٹو اور عصمت چغتائی کے دور میں بھی کوئی بہت اچھا نہیں لکھا جا رہا تھا۔ اسے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ بہت کم لوگ تھے جو اچھا لکھ رہے تھے۔ اور یہ ہر عہد کا المیہ ہے۔ انبار زیادہ لگے شاہکار کم آئے۔

رضی احمد تنہا:کیا یہ ممکن ہے کہ ہر تخلیق شاہکار ہی ہو؟

ذوقی:ہر تخلیق شاہکار ہو یہ ضروری نہیں  —   میر و غالب کی غزلیں ہوں یا چنچوف،موپاساں کے افسانے  —   لیکن ایک بات توجہ طلب ہے۔ ایک اچھا ادیب اپنی طرف سے کبھی کسی کمزور موضوع کو لے کرافسانہ نہیں بناتا۔ ممکن ہے وہ افسانہ پہلی نظر میں آپ کو متاثر نہ کر پائے مگر یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ تخلیق کار نے اسے لکھنے کی ضرورت کو کیوں محسوس کیا ہے۔ ایک بستی خدا کی ہے۔ ایک بستی ہم جیسے لکھنے والوں کی۔ یہاں بھی ہم نئے نئے واقعات اور کرداروں سے کھیلتے ہیں۔ یوں تو ذہن و دماغ میں ہزاروں کہانیاں فلیش کرتی ہیں۔ مگر ان ہزاروں کہانیوں میں ہم اپنے نظریہ یا آئیڈیا لوجی کے مطابق کچھ، کا ہی انتخاب کرتے ہیں جنہیں لکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اور لکھنا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ، کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی وابستہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کہانی رہ گئی تو تخلیقی کائنات کی تکمیل میں کمی رہ جائے گی۔ کیوں کہ جیسا میں نے پہلے کہا، خدا کی بستی کی طرح ایک بستی ہم تخلیق کاروں کی بھی ہوتی ہے۔ اور ہم جتن سے محنت سے اس بستی میں ہزاروں لاکھوں کرداروں کو کھڑا کر دیتے ہیں  —   اس کے باوجود  —   ہر کہانی شاہکار کا درجہ رکھے یہ ممکن نہیں  —   لیکن شاہکار، کے ہونے کا فیصلہ کون کرے گا صاحب۔ تنہا صاحب آپ؟ نعمان قیصر صاحب آپ، نقاد یا قاری؟ پریم چند کو کفن پسند نہیں تھی لیکن کفن کو شاہکار کہانی کا درجہ مل گیا۔

رضی احمد تنہا:اگر تمام تخلیقات شاہکار ہی ہوں تو پھر کن معنوں میں شاہکار ممکن ہے۔ اب تک آپ کے کتنے ناول شائع ہو چکے ہیں۔غیر مطبوعہ ناول بھی ہے؟

ذوقی:شاہکار تو کوئی کوئی ہوتا ہے تنہا صاحب۔ مجھے اپنا ناول پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی کئی وجوہات کی بنا پر بیحد پسند ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ ناول پسند نہیں آیا۔ زیادہ تر لوگ سمجھ ہی نہیں سکے۔اسی طرح بیان کا مطالعہ آج کرتا ہوں تو مجھے بس ٹھیک ٹھیک لگتا ہے۔ لیکن پروفیسر محمد حسن کو یہ ناول آزادی کے بعد کے تمام نالوں میں سب سے بڑ الگا  —   ایک طرح سے دیکھیے تو بیان کا نام ہی میری شناخت بن گیا۔ بیان پر گوشہ نکلا۔ کتاب شائع ہو گئی۔ ناول پر تحریر کیا جانے والا کوئی بھی مضمون بیان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارا کام صرف لکھنا ہے — اچھا لکھنا  — شاہکار کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے اور اس میں ہزاروں لاکھوں قارئین کی آراء بھی شامل رہتی ہیں۔

عقاب کی آنکھیں میرا پہلا ناول تھا۔ لمحہ آئندہ دوسرا۔ اس کے بعد کئی ناول لکھے  —   نیلام گھر، شہر چپ ہے، مسلمان، ذبح، بیان، پو کے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی، لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ  —   آتش رفتہ کاسراغ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ ۷۰۴ صفحات پر مشتمل یہ ناول ممکن ہے آپ کا رسالہ آنے تک منظر عام پر آ جائے۔ یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے  —   آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مسلمانوں پر جو بھی گزری، اس کا مکمل تجزیہ ہے یہ ناول  —   ابھی اس ناول کے بارے میں، میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے بعد ایک اور ناول ہے جو ان دنوں زیر تحریر ہے۔ سرحدی جناح، یہ ناول میں نے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خاں کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا ہے۔

نعمان قیصر:اپنے معاصرین ناول نگاروں میں آپ کی نگاہ میں فعال  اور عہد حاضر پر گرفت رکھنے والے کون کون ہیں ؟۔

ذوقی:معاصرین میں کئی لوگ ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ پیغام نے مکان کے بعد پلیتہ لکھا۔ نورالحسنین نے اہنکار، غضنفر نے پانی اور مم۔ شفق اپنے عہد کی Triology قلمبند کرنے والے تھے مگر عمر نے موقع نہیں دیا۔ اب بادل پڑھیے۔کابوس پڑھیے تو بادل کے کردار ہی کابوس میں سامنے آتے ہیں۔ ۱۱؍۹ کا حادثہ۔ راشٹریہ سویم سوک سنگھ، مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سازش۔کابوس کے ذریعہ شفق گودھرہ حادثے تک پہنچے تھے۔ اور اس سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے تیسرا ناول قلمبند کرنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہ ہوسکا   —   اشرف، ترنم ریاض  —   سب قابل لوگ ہیں جو اپنی اپنی سطح پر نئی فکر سے گزر رہے ہیں۔ غضنفر نے پانی اور مم کے ذریعہ ماحولیات کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے رکھی۔ پاکستان میں حامد سراج اور طاہرہ اقبال نے عمدہ ناول لکھے — عبدالصمد اور حسین الحق کے ناولوں پر دفتر کے دفتر کھلے  —   ممبئی سے ہی رحمن عباس نے ایک ایسا ناول تحریر کیا، جسے میں ایک بیحد ضروری ناول قرار دیتا ہوں۔ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی  —   میں نے اس ناول کے بارے میں یہ اشاریہ دیا تھا کہ یہ ناول اردو کے بڑے ناولوں خصوصاً اشرف شاد کے ناول بے وطن، وزیر اعظم اور صدر اعلیٰ کی طرح اردو زبان میں ایک گرانقدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں رحمن کے اس ناول کی مکمل فضا کو کن کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتی ہے لیکن اصل میں یہ ناول آج حاشیہ پر پھیکے گئے مسلمانوں کی آپ بیتی بھی ہے۔ رحمن نے کوکن کے مسلمانوں کے بہانے آج کی سیاست کو بے نقاب کرنے کی جو ہمت دکھائی، وہ کم لوگوں میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فعال بھی ہیں اور عہد حاضر پر گرفت بھی رکھتے ہیں۔

رضی احمد تنہا:آپ کا تازہ ترین ناول ’لے سانس بھی آہستہ، ایسا نہیں لگتا کہ یہ آپ کے سابقہ ناولوں سے الگ ہے اور آپ جیسابا تدبر آدمی تقدیر کی گرفت میں کیسے آ گیا۔ اور انہونی اور ہونی جیسے اوہام کا شکار کیسے ہو گیا؟۔

ذوقی:مجھے خوشی ہے کہ آپ نے لے سانس بھی آہستہ کا ذکر شروع کیا۔ یہ ناول مجھے بے حد پسند ہے۔ لیکن یہ ناول ہونی انہونی یا تو ہم پرستی کا شکار نہیں ہے۔ میں طلسمی حقیقت نگاری کا شروع سے قائل ہوں  —   میرے بیشتر ناولوں میں طلسمی حقیقت نگاری کے نمونے آپ کو آسانی سے مل جائیں گے۔ میں محض کرداروں کے سہارے سپاٹ بیانیہ میں ناول تحریر نہیں کرسکتا۔ ناول میں ایسے مقام آتے ہیں جب ایک گھر، ایک خاندان کے کچھ لوگ اوہام پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دراصل جسے آپ اوہام کا شکار ہونا قرار دے رہے ہیں میں نے اسے ناول میں جادو نگری سے تعبیر کیا ہے  —   پدرم سلطان بود  —   تباہ ہوتی ہوئی حویلیاں  —   نکمے لوگ  —   نوآبادیات  —   دنیا کی ترقی  —   اور ایک قوم فقط ۷۰۰ برسوں کی اسلامی حکومت کا قصیدہ پڑھتی ہوئی  —   قوم کا جب برا وقت آتا ہے تو یہ قوم جادو اور اوہام کا شکار ہو جاتی ہے۔ بوڑھی ہوتی حویلی کی تقدیر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ عبدالرحمن کاردار آزادی کے بعد کا وہ منظر دیکھتے ہیں، جسے دیکھنے کے بعد کم عمری کے باوجود وہ سوچتے ہیں کہ یہ منظر دیکھا ہی کیوں۔ حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پرانے زمانے کے ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خاندانی قصیدہ پڑھتے ہوئے زندگی گزار دی۔ اور جب حویلی کے پاس کچھ نہیں رہا تو حویلی والوں کو گمشدہ خزانے کا خیال آتا ہے۔ جو قوم کچھ کرنا نہیں چاہتی صرف ماضی کے بھروسے رہتی ہے۔ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہذیبوں کا نوحہ لکھنے کے لیے میں نے ان کرداروں کا سہارا لیا۔یہاں میں عبدالرحمن کاردار ہوں جو پہلی بار مضبوط ہو کرسوچتا ہے کہ حویلی فروخت کر دینی چاہئے۔ اس زمانے میں مسلمان، مسلمان سے ہی سودے بازی کیا کرتے تھے  —   یہی تجارت کا اصول تھا۔ مگر ایک ہندستان میں رہتے ہوئے یہ اصول ٹوٹ رہے تھے۔ پرانے بت ٹوٹ رہے تھے اور پرانے متھ یا بت کی جگہ نئی قدریں لے رہی تھیں  —   میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا،مغرب میں بھی اس موضوع پر بحث چھڑ چکی ہے۔ ہٹنگن نے تہذیبوں کا تصادم لکھا۔ ابھی حال میں دی ہندو میں ایک کتاب کا ریویو پڑھا۔ دس برسوں میں بدلے بدلے ہوئے امریکہ کو لے کر ایک ناول ابھی حال میں آیا ہے۔ اس طرح اسامہ اور اس کی دہشت پسندی کو لے کر ڈامنک لیپٹر اور لاری کالنس نے بھی ایک ناول لکھا۔ میں بدلتی ہوئی قدروں اور تہذیبوں کو لے کر وسیع کینواس پر ایک ناول لکھنا چاہتا تھا  —   مگر محتاط ہو کر  —   میں تہذیبی ناستیلجیا کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔اور اس طرح کے ناول قلم زد نہیں کرنا چاہتا تھا، جیسے ناول ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر فاروقی تک نے تحریر کیے۔ میرے لیے اس ناول کو لکھتے ہوئے بہت سارے چیلنج تھے، جنہیں مجھے ہمت کے ساتھ عبور کرنا تھا —

نعمان قیصر: مثال کے لیے؟

ذوقی: جیسے ہماری تہذیب — یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری تہذیب سے بڑھ کر کوئی تہذیب نہیں۔ مثال کے لیے، رن صابن کا اشتہار لیجئے۔ میرا کپڑا ان کے کپڑے سے کم سفید کیوں۔ آنکھیں کھولتے ہی گنگا اور ہمالیہ کی عظمت کے سبق یاد کرائے جاتے ہیں اور اپنی تہذیب کی وکالت کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ مغربی تہذیب تو واہیات ہے۔ میں مسلسل ناول لکھتے ہوئے تہذیبوں کے تصادم سے دوچار رہا۔ سچ کیا ہے۔ جائز اور ناجائز کی تشریحات کیا ہیں۔ روسو سے ڈارون تک کے فلسفے  —   مذہب سے اخلاقیات تک کیا صرف سچ وہی ہے جو ہمارا ہے؟ یعنی ہمارا مذہب۔ ہمارالباس۔ ہماری تہذیب … ؟ مثال کے لیے ایک دشمن ملک کا ایک سپاہی ہمارے ملک میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ ہمارے ملک کے لیے کیا ہوا ؟ غدار  —   لیکن دوسرے ملک کے لیے؟ وفادار اور جانباز سپاہی  —   دو عورتیں ہیں۔ دونوں بچے پیدا کرتی ہیں۔ ایک کی شادی نہیں ہوئی تو بچہ ناجائز۔دوسری کی شادی ہوئی تو بچہ جائز  —   جائز اور ناجائز،صحیح اور غلط پر مسلسل غور و فکر کرتا ہوا تہذیبوں کی شکست و ریخت تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اور یہ سلسلہ اپنے ملک سے جوڑنا چاہتا تھا۔ اور مجھے حیرانی ہوئی، میری آنکھوں کے سامنے لے سانس بھی آہستہ کی کہانی پردے پر کسی فلم کی طرح چل پھر رہی تھی۔

رضی احمد تنہا: اسے اور واضح کیجئے ذوقی صاحب

ذوقی: سمجھاتا ہوں۔ میں ذرا سا پیچھے لوٹا تو تہذیبوں کے شکست و ریخت کی ایک کہانی یہاں بھی روشن تھی۔ حویلیوں کا زوال۔ نوآبادیات کامسئلہ۔ گھروں میں قید عورتوں نے پہلی بار گھرسے باہر نکلنا کب شروع کیا ہو گا؟ تب عموماً عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت کے ہرسامان گھر آ جاتے تھے۔ کپڑے لتے سے لے کر دودھ دہی تک  —   لے سانس بھی آہستہ میں ایک وہ موڑ آتا ہے جب عبدالرحمن کاردار کی ماں پہلی بار حویلی کا دستور توڑ کر تھانے جاتی ہے۔ کیونکہ گمشدہ خزانہ تو ملا نہیں، وسیع الرحمن کاردار کے گھر پہلی بار پولیس آئی تھی اور ایک مہذب آدمی ڈر گیا تھا — تب سے قدریں مسلسل بدلتی رہیں اور عبدالرحمن ان تیزی سے بدلتی ہوئی قدروں کا گواہ بنتا گیا۔ مجھے ارسطو کی یاد آئی جس نے پہلی بار اخلاقی فلسفے کا وہ تعارف پیش کیا جو اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔ آپ لے سانس بھی آہستہ میں دیکھیں تو Ethics اور تہذیب پر شروع ہوئی بحث صرف وہیں تک محدود نہیں رہتی وہ سن ۲۰۱۰ تک کا احاطہ کرتی ہے۔ اور اس ناول کے لیے اسی لیے میں نے تاریخ کو گواہ بنا کر پیش کیا ہے۔ یہاں بھی ایک نشاۃ الثانیہ کی کرن پھوٹی ہے۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں انقلابات آئے۔ تحقیق وجستجو نے اس بات کا احساس دلایا کہ اس سے زیادہ مہذب ترین عہد کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ مگر کیا ہو رہا ہے۔ کہیں مذہب جاگ رہا ہے، کہیں سیکس اور بچے کنزیومر ورلڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس لیے عبدالرحمن کاردار جب حویلی سے ہجرت کرتا ہے تو وہ ایک ساتھ ہزاروں نئے واقعات اور نئی تہذیب کا بھی گواہ بن جاتا ہے۔ اور یہیں اس کی ملاقات اس نور محمد سے ہوتی ہے جو محبت کی صحیح تعریف جانتا تھا مگر کیا ہوتا ہے۔ یہ سچی محبت، محبت میں قربانی کا جذبہ ایک دن ان قدروں کی پامالی کا سبب بن جاتا ہے، جسے نور محمد سمیٹنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اور ایک آئیڈیل محبوب ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان میں بھی وہی رہا۔ کیونکہ تہذیب کے جس شکست و ریخت کی کہانی نور محمد کی زندگی نے لکھی تھی، اس سے بھیانک کہانی ممکن بھی نہیں تھی —

رضی احمد تنہا:لے سانس بھی آہستہ،پڑھ کر کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ آدمی محض قدرت کے مشین کا ایک پرزہ ہے جس میں اس کے اپنے ارادے اور آدرشوں کے لیے کوئی مقام نہیں ہے؟۔

ذوقی:آپ نے بالکل کہا تنہا صاحب۔ دراصل یہ سوال ہی میرے ناول کا موضوع ہے۔ آدرش، آئیڈیل یہ ہم بناتے ہیں۔ ہم تنگ نظر اور غیر محفوظ لوگ ہیں۔ اس لیے آغاز سے ہی ہم بت بنانے کے عادی رہے ہیں۔مگر آپ کسے آئیڈیل مانیں گے؟ ناول کو ہی لیجئے  —   نور محمد کو یا عبدالرحمن کاردار کو؟ اور ان دونوں کی کڑیوں کو جوڑنے کے لیے میں نے پروفیسر نیلے کا کردار رکھا ہے  —   جو کہتا ہے، ہم تو کٹھ پتلیاں ہیں۔ تباہ و برباد اور آباد تو قدرت کرتی ہے۔ اس لیے جب گاؤں کے نئے اوتار میں عبدالرحمن،نور محمد  کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے  —   ماضی کو مت دیکھو  —   ممکن ہے، سچ وہی ہو جو تمہارا آج ہے۔ کیونکہ  —   ہرنفس نو می شود دنیا وما — ہر آن ایک دنیا تعمیر ہو رہی ہے۔ دراصل یہ ایک عام غلطی ہے کہ ہم لوگ شروع سے ہی ایک آدرش یاآئیڈیل کا مکھوٹا لگانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ سماج سے سیاست تک آدرش اور آئیڈیل کے متھ مسلسل ٹوٹتے رہے ہیں۔ اس ملک میں گاندھی کو ہی لیجئے۔ ۵۰ فی صد لوگ اگر گاندھی کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں تو ۵۰ فیصد گاندھی کی مخالفت میں۔ کہیں کسی کے لیے مذہب ایک آدرش ثابت ہوتا ہے تو کسی کے لیے سیکولرزم اور لبرزم۔ سیکولر کردار کے لوگ مذہب کو گالیاں دیتے ہیں اور مذہب کو ماننے والے سیکولرزم کو ایک سوکالڈڈرامہ، جس کی اس جمہوریت میں کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں نہ راہل گاندھی آدرش ہیں نہ انا ہزارے۔ اس لیے لے سانس بھی آہستہ میں آدرش سے سماج اور سیاست تک میں نے صرف سوال کھڑے نہیں کیے بلکہ نور محمد کوآئیڈیل کے طور پر پیش کر کے اس بت کو بھیانک اور خطرناک طریقے سے توڑتے یا لکھتے ہوئے مجھے بھی وحشت کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ بائیسویں صدی کی اس مہذب ترین دنیا کے لیے آدرش ایک مضحکہ خیز لفظ ہے جس کی بنیادیں سالم نہیں بچی ہیں۔

رضی احمد تنہا:زیر بحث ناول کا مرکزی کاردار رحمان بابو آزادی ہند کی رات کو ۱۲ بجنے سے ایک گھنٹہ قبل ہی کیوں پیدا ہوا، ایک گھنٹہ بعد کیوں نہیں ؟

ذوقی:بالکل درست۔ دراصل ایسا کرنے کی ایک خاص وجہ تھی۔ یہاں دو اخلاقیات سے عبدالرحمن کاردار کا واسطہ پڑتا ہے۔ آزادی سے آدھا گھنٹہ قبل یعنی ایک غلام ملک کی اخلاقیات۔اس اخلاقیات میں غلامی اور آدرش کے وہ چتھڑے شامل ہیں، ایک نسل جن کا  شکار ہوئی تھی۔ آزادی صرف آزادی نہیں تھی۔ ایک لہولہان آزادی تھی۔ ملک کے آزاد ہوتے ہی گاندھی جی تشدد کے واقعات سے گھبرا کر ان شن پر بیٹھ گئے۔ چاروں طرف مار کاٹ مچی تھی۔ اور اس خوں خرابے سے ایک نئی اخلاقیات یا ایک نئی تہذیب کا جنم ہو رہا تھا۔ عبدالرحمن کاردار یوں تو آزاد ہندستان میں پیدا ہوا لیکن اس کے باطن میں ایک غلام ہندستانی بھی موجود تھا  —   آزادی کے ۶۵ برسوں میں آزاد مسلمان اس غلامانہ ذہنیت سے باہر نہیں نکل سکے۔ میں خوف کے مسلسل انجکشن کو بھی اسی غلامانہ ذہنیت سے تعبیر کرتا ہوں۔ آج تک مسلمان اپنا ایک حق نہیں لے پائے۔ آزادی کے بعد کے ایک بھی بڑے فیصلے پران کے نام کی مہر نہیں لگی۔ سچر کمیشن صرف رپورٹ پیش کرتی ہے۔ میں ایک آدھے گھنٹے کے پروگرام کے لیے راجندر سچر سے ملا تو ان کے اس جواب سے مجھے مایوسی ہوئی کہ وہ تو ایک سرکاری رپورٹ تھی۔ مسلمان جس رپورٹ کو لے کر مستقبل کے آئنہ میں مضبوط ہونے کی کوشش کر رہے تھے، وہ سچر بابو کے لیے ایک معمولی رپورٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی  —   اس ملک میں اسی لیے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں محض ووٹ بینک کا ایک حصہ تصور کر لیا گیا ہے۔ سیاست اور سماج میں آج بھی ان کی حصہ داری نہیں کے برابر ہے۔ اور ظاہر ہے اس صورت میں عبدالرحمن کاردار کے کردار کو پیش کرنا آسان نہیں تھا۔ دراصل اس کردار کے آئنہ میں، میں نے اپنی صورت دیکھی ہے۔ ایک مہذب شرمیلا انسان، جو نادرہ کی محبت کو بھی سمجھ نہیں پاتا۔ اور ایک آسان زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں تک کہ نور محمد جب نگار سے اپنے تعلق کی داستان مجبور الفاظ کے سہارے بیان کرتا ہے تو عبدالرحمن کاردار یہاں سے ہجرت کر کے پہاڑوں کی زندگی کو اختیار کرتا ہے  —   اور یہ پہاڑ اپنی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انسان کو اس کی کمتری کا احساس دلاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گولیور جب گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا مذاق اڑاتے ہیں۔میرے لیے انسانی تہذیب کی اس جدید داستان کو قلمبند کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ ناول میں کئی ایسے بھیانک موڑ تھے جہاں الفاظ میرا ساتھ چھوڑنے لگے تھے۔

رضی احمد تنہا:زیر بحث ناول میں چار نسلیں ہیں  —   رحمان،بابو،ان کے والد ان کے لڑکے، ان کی لڑکیاں  —   ان چار نسلوں کے جینے کے اپنے آداب ہیں  —   کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ سارے کردار اپنے ہی طلسم کے اسیر ہیں ؟۔

ذوقی:نہیں۔ ایسانہیں ہے۔ سب سے پہلے کچھ باتیں اپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ میری کسی بھی کہانی یا ناول کی عمارت ہوا میں معلق نہیں ہے۔ اس ناول کو بھی میں نے مکمل پلاننگ اور اسٹریٹیجی کے ساتھ لکھا ہے۔ میں جب بھی کسی ناول کا پلاٹ بنتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے کرداروں پر جم کر کام کرتا ہوں۔ فٹ نوٹس لیتا ہوں۔ کتابیں پڑھتا ہوں۔ چھوٹی سے چھوٹی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر کردار کا ٹریٹمنٹ دوسرے کردار سے مختلف ہو۔ یہاں ایک بات اور بھی کہنا چاہوں گا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو کہانی میں کردار نہیں ہیں۔ وہ میری کہانیاں یا ناول پڑھ سکتے ہیں۔ بیان کا بالمکند شرما جوش، پوکے مان کی دنیا کا سنیل کمار رائے، لے سانس بھی آہستہ کا عبدالرحمن کاردار اور نور محمد  —   میرا دعویٰ ہے کہ ناول ختم کرنے کے بعد بھی یہ کردار دیر تک آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ اب آپ کی بات پر آتا ہوں  —   ناول میں چار نسلیں ہیں۔ اس لیے شروع میں، میں نے ان خاندانوں کا شجرہ بھی دیا ہے۔ ان چار نسلوں کے سماجی سیاسی حالات مختلف ہیں۔ ذہنیت مختلف ہے۔ ان کی فکر اور ان کی جنگ مختلف ہے۔ دراصل یہی ارتقاء کی ریس ہے، جسے میں نے پیش کرنا چاہا ہے۔ سب اپنی اپنی تہذیب کی جنگیں پیش کر رہے ہیں۔ شہر سے نکل کر نور محمد جب گاؤں میں بس جاتا ہے تو وہاں زندگی کی جنگ مختلف ہے اور یہ کہنا مشکل کہ کون سی تہذیب سب سے بہتر ہے۔

نعمان قیصر:تقسیم ہند اور تقسیم ہند کے بعد کے واقعات و حادثات پر اردو میں لامتناہی ذخیرہ موجود ہے اور ایسے میں آپ کا بھی اس موضوع پر قدر توسیع کے ساتھ لکھنا کیا اسے دوہرانا نہیں ہے؟۔

ذوقی:قیصر صاحب۔ آپ کی بات حق ہے مگر یہ ایسا موضوع ہے جس پر اگلے سوسال تک مسلسل لکھا جائے تب بھی کم ہو گا۔ ہم جب بھی آزاد ہندستان اور شائننگ انڈیا کے مستقبل،سیاسی اور سماجی حالات پر غور کریں گے، ماضی کی گھپاؤں سے تقسیم کا ناگ سر تو نکالے گا ہی  —   بابری مسجد،گودھرہ اور گودھرہ کے بعد کے واقعات یا ہندستان پر تجزیہ کرنا ہو تب بھی ۶۵برسوں کے ہندستان کا پوسٹ مارٹم تو کرنا ہی ہو گا  —   تقسیم ہند پر ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں لکھی گئیں  —   مگر آپ دیکھیے تو سب کی نوعیت اور فکر مختلف تھی۔ منٹو اپنے انداز میں سوچتا تھا۔عصمت اور عزیز احمد اپنے انداز میں۔ اپندر ناتھ اشک اور سہیل عظیم آبادی کا اپنا انداز تھا۔ اسی طرح خدیجہ مستور سے انتظار حسین تک تقسیم کے مختلف Shades تھے جو سامنے آرہے تھے۔ اسی طرح میرے ناولوں کی طرف آئیے تو بیان کی مختلف کہانی تھی اور لے سانس بھی آہستہ اسی ۶۵ برس کے ہندستان سے تہذیبوں کے تصادم کی ایک بالکل نئی کہانی لے کر سامنے آتا ہے۔ ہندی زبان میں تقسیم کو کم موضوع بنایا گیا۔ لیکن پنجابی اور اردو زبان میں آج بھی اس کے اثرات کو لے کر کہانیاں رقم ہو رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔

نعمان قیصر:اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر کے بعد معیار و مقبولیت کے لحاظ سے وہ کون ایسا ناول نگار ہے جس کا نام سرفہرست رکھا جا سکتا ہے؟۔

ذوقی:نعمان قیصر صاحب، اچھا کیا جو آپ نے یہ سوال پوچھ لیا۔ معیار و مقبولیت کا پیمانہ مختلف ہے۔ جو شہرت اور مقبولیت قرۃ العین کے حصے میں آئی، وہ کسی اور کے حصے میں آنی مشکل ہے۔ ناول سے الگ اگر ان کی ذات کا احاطہ کروں تو قرۃ العین کیا نہیں تھیں۔ مصور بھی تھیں۔ لندن تک ان کی پینٹنگس کی نمائش ہوئی۔ لکھنؤ اسکول سے موسیقی سیکھی۔ ڈاکومینٹری بنائی۔ امپرنٹ اور السٹریٹیڈ ویکلی کی ادارت سنبھالی۔ اپنے ناول آگ کا دریا کا انگریزی ترجمہ خود کیا۔ اور یہ بات سب نے تسلیم کیا ہے۔ قرۃ العین نے مخصوص اسلوب میں اپنے ناولوں میں تہذیب کے المیہ کو ہی قلمبند کیا ہے۔ اور اس کے لیے انہوں نے تاریخ کے حوالے سامنے رکھے۔ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ بدلتے ہوئے وقت کی رفتار کے ساتھ کہانی اور ناول کا مزاج بھی تبدیل ہوا ہے۔ قرۃ العین کے بعد کون؟ اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے۔ شاید آگے کے دس بیس برسوں میں بھی نہیں ہو گا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ نقاد قرۃ العین کے بعد کے ناولوں کو بھی ایمانداری کے ساتھ پڑھنا شروع کریں۔ کسی قدر ان کے بعد مقبولیت (معیار نہیں ) کے لحاظ سے انتظار حسین کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن نئی تہذیب اور نئے تقاضوں کے ساتھ کچھ اور بہتر ناول بھی سامنے آئے ہیں۔ جیسے مجھے آسٹریلیا میں مقیم اشرف شاد کے ناول بہت پسند ہیں۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ نئے ناولوں پر گفتگو کے دروازے کھلنے چاہئیں جواب تک نہیں کھلے ہیں۔

نعمان قیصر:اردو ناول میں مسلم تہذیب کی نوحہ خوانی کے علاوہ اور بھی کچھ ہے کیا؟

ذوقی:نعمان قیصر صاحب، آپ نے یہ اچھا سوال پوچھا ہے۔ اس لیے کہ یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہن میں ہے کہ اردو ناول تہذیب کی نوحہ خوانی سے آگے کا سفر طے نہیں کرتا ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ ہندستان سے پاکستان تک اچھے ناول مسلسل لکھے جا رہے ہیں۔ اشرف شاد نے اپنے ناولوں میں جن موضوعات کا احاطہ کیا، وہاں دہشت پسندی ہے۔ ہلاکت خیزی ہے اور بدلتا ہوا پاکستانی معاشرہ ہے۔ عاصم بٹ کے ناول دائرے کی فضا مختلف ہے۔ وہاں علاقوں سے کام لیا گیا ہے لیکن یہاں بھی پاکستانی مشنری اور حکومت پر گہرا طنز موجود ہے۔ رحمن عباس کے ناول میں کوکن کے مسلمانوں کے تعلق سے آج کے مسلمانوں کا المیہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرا ناول پوکے مان کی دنیا مختلف تھا۔ عبدالصمد کا مہاتما یا حسین الحق کے ناول بولو مت چپ رہو کے بارے میں بھی آپ یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ پیغام کا مکان اور پلیتہ دونوں نئے معاشرے کو سامنے رکھتے ہیں۔ سید محمد اشرف کا ہی ناول دیکھیے۔ ہاں، کچھ اور لوگ اب بھی ایسے ہیں جو ناول میں ان موضوعات سے آگے نہیں بڑھتے۔ نام لینا مناسب نہیں۔ ان کے قد اور نام سے ساری دنیا واقف ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ناول لکھنے کے لیے اس سے زیادہ آسانیاں کہیں اور ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے وہ سہولت کے حساب سے وہی لکھتے ہیں جو وہ لکھ سکتے ہیں۔ ناول کے لیے جو ایک تخیلی دنیا آباد کرنی پڑتی ہے،یہ ہنر سب کو نہیں آتا۔

رضی احمد تنہا:اردو ناول میں اطراف تقسیم ہند کے علاوہ عہد نو کے چیلنج کا سامنا کرنے کا مادہ اردو کے کن کن ناول نگار میں ہے۔ کچھ مثال دیں تو بہتر اور آپ نے عہد نو کے چیلنج کو کس طرح برتنے کی کوشش کی ہے؟۔

ذوقی:تنہا صاحب، نئے عہد میں نئے چیلنج تو ہونگے ہی۔ اور یہ چیلنج مختلف سطح پر ہوں گے۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، تعلیمی  —   یہ دنیا بدل چکی ہے  —   مکاری و عیاری کے معنیٰ بدل چکے ہیں  — سیاست اور سماج کا چہرہ تبدیل ہو چکا ہے  —   چھوٹے چھوٹے بچے ڈپریشن اور ہائپر ٹینشن جیسے مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماں باپ اور بچوں کی دنیا بدل چکی ہے  —   ایک طرف دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف کنڈوم کلچر۔ مسلمانوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ اس وقت عالمی نظام میں مسلمانوں کو دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان جو ہندستان میں ہے، پاکستان میں یا غیر ملکوں میں  —   وہ اردو میں لکھتا ہو یا دوسری زبانوں میں  — وہ کہیں نہ کہیں دہشت پسندی کے چیلنج کو بھی قبول کر رہا ہے۔ نجیب محفوظ کو پڑھ جائیے۔ اور ہان پا مک کو  —   خالد حسین کے ناول  —   سوال ہے، جب ٹارگیٹ آپ ہیں تو اس موضوع سے بچ کیسے سکتے ہیں ؟ افغانستان اور عراق کا المیہ سامنے ہے۔ ابھی حال میں لیبیا اور دوسرے اسلامی ممالک میں بغاوت کی جو آگ پھیلی ہے، اس کا بھی جائزہ لیجئے۔ ابھی حال میں ایک خبر آئی۔ امریکہ نے مودی کو ہندستان کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یہی امریکہ کچھ سال پہلے تک مودی کو ویزا دیئے جانے کے خلاف تھا  —   ۱۱؍۹ حادثے کے بعد امریکن کرنسی گریٹ ڈپریشن کا شکار ہو چکی ہے   —   بش ہوں یا ابامہ ان میں زیادہ فرق نہیں  —   ان کی ایک ہی منزل ہے، امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو حاشیے پر پھینکنا۔ آپ غور کریں تو عہد نو کے دوسرے چیلنج اسی چیلنج کی شاخیں ہیں جہاں مسلمان دہشت پسندی کے الزام سے الگ خود کو مضبوط کرتے ہوئے ارتقاء کی ریس میں آگے رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ موضوعات پاکستان سے ہندستان تک مسلسل ہمارے ناولوں کا ایک حصہ بن رہا ہے  —   پیغام آفاقی نے پلیتہ میں بڑے کنواس پراسی موضوع کو برتنے کی کوشش کی ہے۔ شفق کے بادل اور کابوس کا موضوع بھی یہی تھا  —   پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان اور لے سانس بھی آہستہ میں، میں نے عہد نو کے مسخ شدہ چہرے کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔

رضی احمد تنہا:میرا ماننا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے بعد والی نسل کے نمائندہ فکشن نگار آپ ہیں اور اس کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں  — میں آپ کے شکریے کا خواہش مند نہیں ہوں۔ آپ کو میرے اس خیال پر اعتراض تو نہیں ؟۔

ذوقی:یہ آپ کی محبت ہے  —   ابھی حال میں آفاق عالم صدیقی نے بھی کم و بیش یہی بات میرے فکشن کو لے کر کی تھی۔مشرف عالم ذوقی اپنے انداز کے سب سے توانا اور منفرد افسانہ نگار ہیں۔ تہذیب کی ہر نئی کروٹ اور تیز رفتار زندگی سے پیدا ہونے والے ہرمسئلہ پر عموماً ذوقی کی نظر سب سے پہلے پڑتی ہے۔ وہ آج کی زندگی کے ایسے سفاک افسانہ نگار ہیں جو تمام تر معنویت کو جھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ سنگین سے سنگین ترین مسائل اور پیچیدہ ترین صورتحال پر اتنی خوبصورتی سے افسانے کا محل کھڑا کر دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگا اری ہو یا ناول نگاری کا معاملہ ان کے تمام ہمعصر اور پیش رؤں سے مختلف ہے۔ ان کے کہانی کہنے کا ڈھنگ اور طریقہ بھی سب سے الگ ہے۔ انہیں اپنے ہمعصروں میں وہی انفرادیت حاصل ہے جو کبھی قرۃ العین حیدر کو حاصل تھی۔ یا جو انتظار حسین کو حاصل ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ منٹو، ابن صفی، اور یوسفی جو کچھ اور جس طرح لکھ سکتے ہیں ضرور ہی لکھ سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا یہی بات قرۃ العین حیدر، انتظار حسین،اور ذوقی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے — مجھ پر اعتراض کرنے والے یا ناک بھوں چڑھانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے پڑھا ہی نہیں یا جنہوں نے میری ۲۵ سال پہلے پڑھی ہوئی کسی کہانی کو پڑھ کر کوئی رائے قائم کی تو اس سے ہٹے نہیں۔ آج بھی اسی رائے پر قائم ہیں۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے میری نئی کہانیاں یا نئے ناول پڑھے ہیں اب ان کی رائے میرے بارے میں بہت حد تک بدل چکی ہے۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں محنت سے اور ایمانداری سے لکھتا ہوں۔ آپ کے خیال پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نعمان قیصر:موجودہ عہد میں مذہب اور سیکس میں زیادہ کون بکتا ہے؟

ذوقی:نعمان قیصر صاحب، سچ تو یہ ہے کہ دونوں بکتے ہیں۔دونوں میں کون زیادہ بکتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا لیکن دہشت پسندی اور فرقہ واریت نے مذہب کے بند دروازے کھول دیئے ہیں۔ یہاں ترشول اور بھگوا جھنڈے بھی بکتے ہیں۔ دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی بھی —

٭٭٭

 

پوکے مان کی دنیا اور میں

(1)

’’پرندے کو مار دو

نغمہ خاموش ہو جائے گا۔۔۔‘‘

30؍اپریل، 2004ء

پاکستان سے آصف فرّخی نے خوش خبری دی ___ہم ’’پوکے مان کی دُنیا‘ شائع کرنے جا رہے ہیں۔ آپ چند سطور لکھ ڈالیے۔

ایک لمحے کے لئے سوچ میں گرفتار ہو گیا۔ کیا لکھوں۔ آج تک جتنے بھی ناول منظر عام پر آئے، میں نے کسی میں بھی، کچھ بھی نہیں لکھا___اور ایک ناول لکھنے کے بعد، کچھ اور لکھنے کے لئے باقی ہی کیا رہ جاتا ہے۔ مگر پاکستانی ایڈیشن___ شاید، 47ء کی اسی ترقی پسندی نے مجھے ’’پیش لفظ‘‘ تحریر کرنے کا جواز فراہم کیا___ کیا یہی تبدیلیاں پاکستان میں بھی رونما ہوئی ہیں ___؟

یعنی___

’پرندے کو مار دو

نغمہ خاموش ہو جائے گا

تہذیب کا قتل کردو، تو___؟

انسان مر جائے گا یا … ؟

ایک زمانے میں نغمہ کی کیمیا گری تلاش کرنے کیلئے پرندوں کی چیر پھاڑ کیا کرتے تھے۔

’’  ہُما کے ٹکڑے کر دو

موسیقی گم ہو جائے گی‘‘

انسان کو خود مختار چھوڑ دو۔ جمہوریت کو بے لگام رہنے دو ___سماج سے سیاست تک آج اخلاقیات کی دُہائیاں دینے والوں کی کمی نہیں ___بڑے سیاسی گدھ، دہشت گردی کے ننگے رقص میں اخلاق کی روٹیاں سیکتے نظر آتے ہیں تو مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ کوئی ہٹلر، کوئی بُش جب اپنے خطرناک منصوبوں کو انجام دینے کے لئے کوئی دلیل، کوئی تعبیر پیش کرتا ہے تو شرم محسوس ہوتی ہے۔ ادب سے ثقافت، اوپیرا سے موسیقی، فن سے فنکار تک___ ہم ایک گہرے Pollution میں گھرتے جا رہے ہیں ___شاید  اسی لئے جب ایڈوورڈ سعید نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’اور ینٹلزم‘ میں مشرقی اقوام اور تمدن کی بحث چھیڑی تو مغرب کے دانشور چونک گئے___ اور ان کا چونکنا مہذب دنیا کے لئے ایک بڑے حادثے کی طرح تھا___

مجھے لگا، مجھے اس حادثے کا گواہ بننا چاہئے۔ ایک لکھنے والا وقت کی عینک اتار کر، دوررس نتائج سے باخبر ہو کر اپنی تحریر کو ایک ذمہ دار تحریر نہیں بنا سکتا۔ شاید اسی لئے دوسری زبانوں کے ادیب زیادہ کامیاب رہتے ہیں کہ ان کی آنکھیں نہ صرف جاگتی رہتی ہیں بلکہ چاروں جانب دیکھتی بھی رہتی ہیں۔ دور کیوں جائیے۔ ارندھتی رائے کی مثال کافی ہے۔

ہم مغرب کی بات نہیں کریں گے۔ لیکن ایک ’یوٹوپیائی پیرسترئیکاہے۔ ایک خیالی آزادی کا نگر___ اس نگر کی اندھی سچائیاں ہیں۔ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی نئی نسل بغیر سوچے سمجھے اڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس اندھی اڑان کا نتیجہ کیا ہو گا، اس بے رحم حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہم خاموش ہیں۔ شاید اس ناول کی تخلیق کا خیال یہیں سے پیدا ہوا___

آج ماحولیاتی فعالیت کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ پرندے اور جانوروں کو بچائے رکھنے کی کوششوں میں عالمی انسانی برادری کی بڑی بڑی انجمنیں سامنے آ رہی ہیں۔ ’تحفظ کرو۔ مدافعت کرو اور مزاحمت بند کرو۔ ہم اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ فلاں جانور کی نسل کو ہم نے ختم ہونے سے بچا لیا___ لیکن نسل آدم کو بچانے کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں ___ گلوبلائزیشن سے پیدا ہوئے چند بدترین خطروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود مختاری اور  بے راہ رو آزادی نے ہمیں ایک بڑے کارٹون شو یا جوکر میں تبدیل کر دیا ہے___ فرق صرف اتنا ہے کہ سرکس کے جوکر پر دوسرے ہنستے ہیں اور ذرائع ابلاغ کی معیت میں نہ ہمیں اپنے حال کی فکر ہے اور نہ ہم خود پر ڈھنگ سے رو سکتے ہیں ___

یہ ناول دراصل ایک جنگ ہے، یا جنگ کے لئے بجایا ہوا بگل۔ ایک نسل گم ہونے والی ہے۔ تہذیب کے ڈائناسور، جوراسک پارک سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ انسانی ارتقاء کی یہ ریس جاری رہے گی۔ ذرائع ابلاغ کے دائرے اور وسیع ہوں گے۔ تو کیا، اس ناول کے بہانے میں ہڑپاّ اور پتھروں کے یُگ میں واپسی کا خواہشمند ہوں۔ یا پھر دقیانوسی کے جھاگوں میں ڈوبا ایک ایسا کمزور شخص ہوں، جو سوپر کمپیوٹر کے عہد میں، تکنالوجی کے بڑے بڑے کھلونوں سے بچوں کو ڈرانا چاہتا ہے___

ایسا نہیں ہے۔ ترقی ہر بار اپنے ساتھ بربادیوں کے کچھ بھیانک قصّے لے کر آ جاتی ہے___ اور ہر بار اِسی سرد و گرم ہوا میں ہم اپنے جینے کا اہتمام کرتے ہیں ___ وقت نے سی گل (Sea-Gull) کی طرح اڑتے ہوئے، اچانک ہی ایک لمبی اڑان بھری ہے اور اس اچانک کی لمبی اڑان سے بے شمار خطرات اور بیماریوں کے دروازے کھل گئے ہیں۔ پہلے ہم ایک ایک قدم گن کر چلتے تھے اور اب یکایک اڑنے لگے___ تیز آندھی اور کمزور انسان وجود___

ہندستانی پس منظر پر دیکھیں تو آزادی کے 55-56 برسوں میں، ایک سوپر کمپیوٹر شہر کے شیشے نما کمرے میں ننھے بچے اڑتے ہوئے، اپنی عمر سے بہت دور نکل رہے تھے، اور خوفزدہ آنکھیں کفِ افسوس ملتی ہوئی انہیں صرف دیکھ سکتی تھیں ___

لیکن نہیں۔ کہیں نہ کہیں اخلاقیات کے اِس پری ہسٹارک ڈائناسور کی واپسی ہو رہی ہے۔ بُش، Lesbianism کے خلاف قانون بنانے کی بات کرتا ہے تو یہ بھی ایک دوررس خوف کی طرف اشارہ کرنا ہے___ ہپ ہاپ ریپر اور پروڈیوسر دانتے بیرے جسے موسیقی کی دنیا میں Mos Defکے نام سے جانا جاتا ہے، اپنے بیشتر شوز میں معاشرے کی گرفت اور اخلاقیات کو ہی اپنے نغموں میں بار بار پیش کرتا ہے، تو یہ بھی اسی خوف کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

’دنیا امیروں اور غریبوں کے درمیان بٹی ہوئی ہے،لیکن خدا کافی ہے ان معاملات کی بہتری کے لئے۔‘

Haus, Frauen, Sex  کی مصنفہ مارگیٹ شرائنر اپنے اس مشہور زمانہ ناول میں شوہر، بیوی اور بچے کی تثلیث کو لے کر اِسی اخلاقیات کا سبق دہراتی ہوئی نظر آتی ہیں ___’تباہی اور بربادی میں کیا فرق ہے۔ پتہ ہے تمہیں۔ آدمی تباہ کرتا ہے لیکن عورت برباد کرتی ہے۔ جو کچھ تباہ ہو جاتا ہے اسے پھر سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ گھر، آرٹ، تہذیب۔ لیکن جو برباد ہو گیا، سمجھو۔ ختم ہو گیا___‘

لیکن نہیں۔ سب کچھ ختم نہیں ہو گا۔ ہم آسانی سے سب کچھ ختم نہیں ہونے دیں گے۔ ایک چھوٹی سی کہانی کہیں پڑھی تھی۔ کچھ لوگ گفتگو کر رہے تھے۔ ایک چھوٹا سا بچہ شرارت پر شرارت کئے جا رہا تھا۔ باپ نے ایک رسالہ لیا۔ اس پر دنیا کا ایک نقشہ بنا ہوا تھا۔ باپ نے قینچی لی۔ دنیا کے نقشے کے کئی ٹکڑے کر دیئے اور بیٹے سے بولا۔ جاؤ۔ کمرے میں جا کر اس نقشے کو جوڑ لاؤ۔ باپ کو امید تھی۔ بیٹا ابھی کافی دیر تک اسی نئے کھیل میں گرفتار اور پریشان رہے گا۔ لیکن یہ کیا۔ دو ہی منٹ بعد بیٹے کی واپسی ہوئی۔ بیٹے نے دنیا کے نقشہ کو جوڑ دیا تھا۔ باپ نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کافی مشکل کام تھا۔ تم نے کیسے کر دکھایا۔

بیٹے کا جواب تھا۔ ویری سمپل ڈیڈ۔ دراصل اس کے پیچھے ایک آدمی کی تصویر بنی تھی۔ میں آدمی کو جوڑتا چلا گیا___

یہاں بھی وہی نقشہ ہے، وہی تصویر ہے___ اور اس کے پیچھے اسی آدمی کی تصویر ہے، جسے ہمیں انتہائی ہوشیاری اور فنکاری سے جوڑنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ نئی الفی کے دھماکے تیز ہیں ___ اور ان دھماکوں کی ضرب میں چھوٹے چھوٹے ممالک یقینی طور پر زخمی ہوئے ہیں ___ یہاں دنیا کا نقشہ ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بچے پر نہیں بلکہ ہم پر ہے___

بہت بڑے بڑے فلسفوں اور بہت بڑی بڑی آوازوں کے درمیان ہمیں اس حقیقت پر بھی نگاہ رکھنی ہے کہ کچھ ’گُم‘ ہو رہا ہے۔

اور جو گُم ہو رہا ہے۔ اسے بچانے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔

اور یہ ناول بھی اسی سمت اٹھایا گیا، ایک چھوٹا سا قدم ہے۔

(2)

دنیا تیزی سے بدلی ہے___

تیزی سے آگے بڑھتی دنیا میں، قدرے پچھڑے اور دقیانوسی لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ___ ایسے دقیانوسی لوگ اگر اپنی سوچ کی پتنگ ہزار کلو میٹرسے بھی آگے اڑائیں تب بھی فرق نہیں پڑے گا۔اس لئے کہ دنیا ان کی اڑان سے اربوں کلو میٹر آگے بڑھ چکی ہو گی___

یہاں جنگ برائے جنگ ہوتی ہے۔ آدمی کو بچانے کے لئے اربوں، کھربوں کے میزائل خرچ کر دیئے جاتے ہیں ___ اور لاکھوں آدمیوں کو مار کر لاکھوں آدمیوں کے بچنے کا جشن منایا جاتا ہے___

ایک انسانی ماڈل میکاؤف ’کلون‘ کے چیمبر میں تیار ہوتا ہے۔ ایک بھیڑ ’’ڈولی‘‘ ممیاتی ہوئی آپ کے سامنے آ جاتی ہے___ ایک ہوائی جہاز، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو چھیدتا ہوا گزر جاتا ہے___ اور چند شیوسینک 14؍فروری، ویلنٹائن ڈے  یعنی محبت کے دن پر پابندی لگانے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔

 الجھاوا ہی الجھاوا ہے___

انتہائی خطرناک ترقی، انتہائی  خطرناک پچھڑا پن___

سوپر ہائی وے___ اور دوسری طرف زوال یا ’پتن‘ کی کھائی___ ڈاکٹر ’جینوم‘ کے ذریعہ انسان کو مرنے سے روکنے کی تیاری کرتے ہیں اور ہم ’دلت وِمرش‘ کے نام پر اپنی ساری Energyصرف کر رہے ہوتے ہیں ___

To be and not to be, is the question

شیکسپیئر زندہ ہوتا تو کچھ اور کہتا ___اور شاید نہیں کہتا۔ ہونے اور نہیں ہونے کے بیچ یہ دنیا پھنس گئی ہے___ ہم مارس پر جا رہے ہیں اور دوسری طرف موہن جوداڑو کے ٹوٹے حصہ کو جوڑنے کے لئے مٹّیاں ڈھونڈھی جا رہی ہیں۔

ہم ایک بہت بڑے بازار میں الجھ کر بونے بن گئے ہیں۔ ایک بہت بڑا بازار جو ہماری سنسکرتی، ہماری جڑوں سے الگ ہے___ ہم اس بازار کا حصہ بننا چاہتے ہیں ___ مگر پری ہسٹارک ڈائنا سور بن کر___ پانچ کروڑ سال پیچھے جا کر ہم اس بازار میں اپنی گھس پیٹھ جمانا چاہتے ہیں۔

متھ ٹوٹ رہے ہیں ___ نئے اصول بن رہے ہیں ___ اور ہیلپ لائنس کی تعداد بڑھ رہی ہے___ ہمارے بچے میل اسٹریپرس بننے کی تیاری کر رہے ہیں ___ یعنی نیا ایڈونچر ___یہ دور دراصل ہمارے لئے نہیں سگمنڈفرائیڈ کے لئے تھا___ وہ دیکھتا کہ 40 پار، کے ایک باپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے___ ایک باپ جو اپنے بچو ں کے آئینے میں خود کو، ان کی اپنی آزادی کے ساتھ اتار تو لیتا ہے۔ مگر اس کا پچھڑا پن  برقرار رہتا ہے___ اور وہ وہی رہتا ہے اندر سے۔ پری ہسٹرورک ڈائنا سور___

شاید اسی لئے ہیلپ لائن کلچر ہمارے یہاں شروع ہوا___ آپ لیسبٹئن ہیں۔ Gay ہیں ہیلپ لائن___ طلاق چاہتے ہیں ___ ہیلپ لائن___ میوزک پسند ہے___ ہیلپ لائن۔ اکتا چکے ہیں ___ ہیلپ لائن___ ہیلتھ سے زندگی کے ہر نئے موڑ پر ہیلپ لائن آپ کا سواگت کرتا ہے۔

بدن کے ہامونس نے تیزی سے بدلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کسی کا قصور نہیں ہے۔ بچہ ماں کی کوکھ میں پل  رہا ہوتا ہے___ اور ہارمونس اسے ایک نئے نظام میں پھینکنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

نیا نظام ___کون سا___؟

نئی سیاست۔ کون سی___؟

نیا بازار۔ کون سا___؟

صدیوں کا سفر ہم منٹوں میں طئے کر رہے ہیں۔ ہم حیرت، میرا کل، چمتکار جیسے شبدوں سے آگے نکل آئے ہیں ___ بندر، انسان کا بچہ پیدا کر دے یا انسان بندر کا بچہ۔ کتا بولنے لگے۔ بلی دونوں پیروں پر کھڑی ہو کر چلنی لگے۔ چمگادڑ گیت گانے لگیں۔ خرگوش تیزی سے بھاگنے لگیں۔ چیتے شیر، معصوم بن جائیں۔ میمنا دہاڑنے لگے___ کچھ بھی عجیب نہیں لگے گا___ یعنی ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا۔ بدلتا ہوا ہارمونس___

انسان کا ارتقاء بھی شاید اسی طرح ہوا تھا___

پہلے پورا ’جمبوجیٹ‘ یعنی بندر___ جھکا ہوا۔ چار پاؤں سے چلتا ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ چار پاؤں کی جگہ دو پاؤں رہ گئے___ شکل بدل گئی۔ چہرہ بدل گیا___ اور بندر سے انسان بننے تک اس نے اپنے آپ کو ایک خطرناک لیبارٹری میں ڈال دیا___

اس اندھی، کانی اور بہری ریس میں گھپلے ہوں گے___ گھپلوں کی پرواہ مت کیجئے۔ چھوٹے شہر، چھوٹے لوگ، چھوٹی دنیائیں پسیں گی اور پسپا ہوں گی___ پرواہ مت کیجئے___ ایک Big پاور ہو گا___ جس کی حکومت بڑھتی جائے گی اور جیسا کہ ارندھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں کہا___ ہندستان، پاکستان زمینوں پر امریکی فوج گھوم رہی ہو گی۔ توگڑیا اور مودی اور اٹل،مشرف جیسے لوگ صدام کی طرح بڑھی ہوئی داڑھی میں، نظر بند ہوں گے___ یہ سب ہوں گے،کیونکہ___ زندہ رہنے اور فتح کے لئے کوئی دلیل نہیں ہو گی۔ ترقی اور اڑان کے لئے کوئی جرح، کوئی سوال نہیں ہوں گے۔ تیزی سے بڑھتی دنیا میں ہم لغات سے Noاور Impossible کو خارج کر دیں گے۔ رہ جائے گا۔ صرف Yes ہاں ___

بندر انسان پیدا کرے گا___ہاں !

ہوائی جہاز کی جگہ انسان اڑے گا___ ہاں !

 ہارمونس ڈس بیلنس نے دنیا کے، چھوٹی عمر کے کتنے ہی بچوں کو ایک بڑا بالغ بنا دیا ہے___ بڑا بالغ۔ چونکئے مت۔ وہ بڑے بالغ ہیں۔ ہمارے آپ سے زیادہ آگے دیکھنے والے___ جاننے والے___ اڑنے والے___ یہ بڑے بالغ ہائپرٹینشن اور بلڈرپریشر کے مریض بھی ہوسکتے ہیں۔ انہیں شوگر اور ڈائبیٹیز کا مرض بھی ہو رہا ہے___ اور یہ دل کی بیماریوں میں بھی گرفتار ہیں ___ اس گلوبل ویلیج میں، انتہائی چھوٹی عمر میں انہوں نے اپنے لئے دلیلیں گڑھ لی ہیں۔

وہ ہیں۔ اس لئے کر رہے ہیں ___

وہ ہیں۔ اس لئے کریں گے___

وہ ہیں۔ اس لئے جو کچھ کریں گے، وہ یہی بتائے گا کہ وہ انسان ہیں۔ اور انسان تو یہ سب کرتا ہی رہتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے تعریفیں بدل گئیں۔ سچ کی۔ جھوٹ کی۔ غلط کی۔ جائز کی ناجائز کی___ تعریفیں بدل گئیں۔ تفریحوں کے سامان بدل گئے___ چھوٹے کھلونے چلے گئے۔ ہتھیار آ گئے۔ بچوں نے میزائلس، راکٹ لانچرس اور بندوق پسند کر لئے___ بچوں کو w.w.f پسند آنے لگا___ بچے ایسی فائٹ دیکھنے لگے۔ جس میں اذیت تھی___ ایڈونچر تھا___ ایک خوبصورت موت تھی۔ بچوں کو ویپنس چاہئے___ ویپنس۔ بچوں کو Warچاہئے___

جنگ اور کھلونے___

کیا آپ نے کبھی بچوں کے ویڈیو گیمس دیکھے ہیں ___ زیادہ تر بچے کیا دیکھتے ہیں۔ویپنس اور ___war

داڑھی لگائے اسامہ پر امریکی گولہ باری ہو رہی ہے___ بچے تالیاں بجا رہے ہیں ___ ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنایا جا رہا ہے___ نئی سنسکرتی کچھ بھی کرسکتی ہے۔ نئی سنسکرتی نے بچوں کی آنکھوں سے میرا کل، چمتکار اور حیرت کی چمک چھین لی۔ ہتھیار دے دیئے اور ایک نیا کھلونا___

بچے کولا پیتے ہیں۔ جنک فوڈ کھاتے ہیں۔ بار بری ڈالس پر لٹو ہوتے ہیں ___ اور پوکے مان دیکھتے ہیں ___ ہمیں ایسے بچے تحفہ میں ملے ہیں جن کے پاس اپنا کچھ نہیں ___

دراصل ہم ایک مشکل ترین دنیا پر داخل ہو گئے ہیں ___ جہاں فیصلے آسان نہیں ہوں گے___ قانون کو اپنے اب تک بنے بنائے اصولوں اور ضابطوں کو توڑنے کے بارے میں سوچنا ہو گا___ آپ اب 2+2=4 پر بھروسہ نہیں کرسکتے___ الجبرا کے فارمولوں سے لے کر بدن کا الجبرا اور دماغ کا جغرافیہ سب کچھ بدلنے لگا ہے___جسم کی ہسٹری اور تیزی سے اندر پیدا ہوتی بھوک کی بائیالوجی کسی بھی طرح کے Test یا D.N.Aسے بالاتر ہے___

ایک طرف بھیانک Reality ہے، دوسری طرف Fantasy

صرف میٹروپولیٹن شہروں میں نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں قصبوں میں بھی پوکے مان کا جادو چل چکا ہے___ شہری بچوں سے گاؤں کے بچوں تک___ جاپان کے اس فرضی کارٹون چہروں نے اگر بچوں کے دلوں پر حکومت کی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی وجہ ضرور ہو گی___ میں نے اس وجہ کی تہہ تک جانا چاہا اور میں گیا___

صرف دس سال پہلے۔ جاپان کی ڈیزائنگ کمپنی نے عجیب و غریب نام اور شکلوں والے 150کارٹونوں کی تخلیق کی ہو گی تو سوچا بھی نہیں ہو گا کہ بچوں کے آج کے Behaviour سے یہ شکلیں اتنی matchکریں گی کہ بچے اب تک کے تمام کارٹون چہروں کو اس وقت تک بھول جائیں گے___ جب تک کہ دوسرے چہرے، اپنے نئے ہتھیار کے ساتھ، بچے کے نئے مزاج میں  گھس پیٹھ نہیں کریں گے___

جگلی پف سے لے کر آبرا کا ڈابرا تک، ان کرداروں کی مقبولیت یوں بڑھ گئی کہ بچے ان کے بارے میں گھنٹوں باتیں کرسکتے ہیں ___ ان کے نیچر، ہائٹ، بی ہیوئر۔ کون کیسے فائٹ کرتا ہے___ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کارٹون شو نے انقلاب تب برپا کیا، جب ان کے ’ہارس پاور ‘، تاش کے پتے نما کارڈ بازار میں آ گئے___ ایسے ہزاروں کارڈ میں نے روی کے پاس دیکھے۔ کتنے؟ پورے دو ہزار___ دو ہزار پوکے مان۔ جنون اور دیوانگی کی حد تک___ یہ کارڈ بچوں کے لئے اسٹیٹس سمبل بنتے جا رہے ہیں۔ کارڈ کی ادلا بدلی ہو رہی ہے___ بچے پیسے دے کر اپنے پسندیدہ پوکے مان کو دوسرے بچے سے خرید لیتے ہیں ___

یہ جاننا ضروری ہے کہ پوکے مان ہے کیا___ پوکے مان دراصل ان بچوں کے کارناموں کی کہانی ہے، جنہوں نے خرگوش، گلہری، یہاں تک کہ قینچی سے تعمیر کئے گئے ان کرداروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے۔ یہ سارے کردار پوکے مان کہلاتے ہیں ___ اور ان کے انسانی دوستوں کو پاکے مان ٹرینر کہا جاتا ہے___ بچے اپنے اس یقین پر خوش ہیں کہ پوکے مان کا وجود ہے___ وہ ہر جگہ ہے___ دوست اور دشمن کی شکل میں ___وہ لڑسکتا ہے۔فائٹ کرسکتا ہے۔ دھماکہ کرسکتا ہے۔ وہ برفیلے ملکوں میں رہتا ہے___ بچے پوکے مان بننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ڈیفنس ہے___ پیشنس ہے___ کنفیڈینس ہے___

اب ان پوکے مان کرداروں کو دیکھئے ___ایک پوکے مان پکا چوہے___ دکھائی خرگوش کی طرح دیتا ہے۔لیکن اس میں بجلی کا جھٹکا دینے کی طاقت ہے___

جگلی پف۔ جس کا گانا سن کر سب لوگ سوجاتے ہیں۔ پھر یہ مخلوق لوگوں کے چہرے پر اسکیچ پین سے تصویریں بنانے لگتا ہے۔

سائیڈک۔ دماغی پوکے مان۔ جس کا سب کچھ دماغ ہے۔ دماغ پر زور پڑتے ہی طاقتور بن جاتا ہے۔

کنگ سکھان___ بھاری بھرکم پوکے مان۔ اچھل کود کر اچھے اچھوں کی چھٹی کر دیتا ہے۔

اسکیٹی ___اڑنے والی پوکے مان___ جس کی پونچھ پر غبارہ (بیلون) بندھا ہے۔ کود کر حملہ کرتی ہے۔

گیسلی___ بال نما یہ مخلوق گیس کا حملہ کرتا ہے۔ زہر کا حملہ اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے___

ایسے کتنے ہی پوکے مان ہیں ___ سب کے ساتھ ایک بات کامن ہے۔ اپنے اپنے طریقے سے حملہ کرنے کی اسٹریٹجی۔ اپنے کو طاقتور ثابت کرنے کی مہم___اپنے کو الگ دیکھنے کی مہم___  اور اس مہم میں، ان انسانی بچوں نے اپنے کو شریک کر لیا ہے۔ پورے وجود کے ساتھ___ بچے مارکیٹ میں، پوکے مان کے نئے نئے کھلونے ڈھونڈھنے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا بازار اور ہمارے بچے___  باہر کی کمپنیوں کے لئے ہمارے بچے آج سب سے بڑا ٹارگیٹ ہیں ___ جن کی آڑ لے کر تمام بڑی کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ ہماری مارکیٹ میں اتارنا چاہتی ہیں۔ مگر کس قیمت پر ___ !

ہم اس پر بھی باتیں کریں گے۔ مگر آگے___  ابھی ہم پوکے مان پر اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔ کیوں کہ اس فیصلے کا بہت حد تک  تعلق اس پوکے مان سے بھی ہے۔ جو اسپائڈرمین، فینٹم اور ہیری پورٹر جیسے کرداروں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے___  پوکے مان کارڈس سے پوکے مان بریسلٹ تک___ جسے بچے کلائی پر باندھتے ہیں اور شکتی مان بن جاتے ہیں۔ آپ بچوں سے ان کے کارڈ حاصل کیجئے۔ وہاں ہر پوکے مان کا نمبر، وزن، لمبائی اور ہارس پاور موجود ہوتا ہے___  یہ کردار جاپانی لوک کتھاؤں سے نکلے ہیں اور بھارتیہ بچوں کے سرپرسوار ہیں ___

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مانیہ منتری مرلی منوہر جوشی جی کے شکچھا ایجنڈے میں جو بھی ہو، مگر وہ اپنی سنسکرتی کی رکچھا کیسے  کر پائیں گے___  کیونکہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھارتیہ بازار میں اتارنے کے پیچھے بھی ان کے گڈ فیل فیکٹر رہے  ہیں۔ منافع کماؤ___ اور عیش کرو___

تباہ کچھ نہیں ہوتا۔ مگر ہر صدی میں ہم روتے رہے ہیں۔ اس صدی میں ہم کچھ زیادہ رو رہے ہیں۔ کیونکہ انجانے طور پر اس گلوبلائزیشن نے ہمارے 12سال کے ایک بچے سے بلاتکار کی گھٹنا کرا دی ہے۔

مجھے اِن لفظوں کے لئے ایک بار پھر، کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ بچوں نے پوکے مان کیوں اپنایا___ ؟

اس لئے کہ بچے، آپ کے شکتی مان سے خوش نہیں ہوسکے۔ شکتی مان زیادہ دنوں تک بچوں کا رئیل ہیرو نہیں بن سکا۔ شکتی مان میں، بہت کچھ پھوہڑ تھا___ جسے آہستہ آہستہ بچے کے دماغ نے ریجکٹ کرنا شروع کر دیا۔ ایک خوبصورت آدرش واد___ حب الوطنی___ دوستی، بھائی چارگی، سیوڈوسیوکلرزم___

بچوں نے اپنے ننھے بھارتیہ کھلونے پھیک دئے___ باربری ڈالس پسند کر لیا۔

آہستہ آہستہ باہر کی کمپنیوں کا دباؤ بڑھتا گیا۔ بچے اپنے رئیل ہیروز کو بھول گئے۔ اپنی لوک کتھاؤں کو___  انتہائی خاموشی سے سوئیٹ پوائزن کی طرح بہوراشٹریہ کمپنیاں اپنی سازش میں  کامیاب ہو گئیں ___ باہر کا اسکول۔ باہر کی زبان۔ باہر کی لوک کتھائیں۔ باہر کی تہذیب___  اور غلطی یہ تھی کہ زمین ہماری تھی___ خون ہمارا تھا___ شہر ہمارا تھا___  نظارے ہمارے تھے___  سڑکیں اور گلیاں ہماری تھیں۔وہی رشتے، وہی دادا نانا۔ دادی نانی۔ وہی پرانے قصے۔ وہی پرانی کہانی۔ انجانے طور پر بچے ان کمپنیوں کی اندھی سرنگ میں بڑھتے چلے گئے___

We are like this only ہم تو ایسے ہی ہیں ___  اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے خاموشی سے پوکے مان دیکھتے بچوں کو، ماں باپ بھی نہیں پڑھ سکے۔ کہ ان کا بچپن کہاں جا رہا ہے___ ؟

مجھے معاف کیجئے گا۔ میں  کوئی تقریر یا تبلیغ کرنے نہیں پہنچا ہوں ___ میں کوئی Reformist نہیں ہوں۔ ہونا بھی نہیں چاہئے۔ یہ صرف ایک فیصلے تک پہنچنے کا چھوٹا سا راستہ ہے___  ایک رپورٹ جسے تیار کرتے ہوئے۔ مجھے کتنی تکلیف ہوئی ہے، میں ہی جانتا ہوں ___  مائیکروسوفٹ کے ڈائرکٹر بِل گیٹس نے کہا تھا___ بھارتیہ بچے سب سے اچھے، سب سے ہوشیار ہیں ___  انہوں نے آدھا سچ کہا تھا___  بھارتیہ بچے ان کی مارکیٹ ا اسٹریٹجی کا ایک بڑا سچ ہیں۔ جہاں وہ انجانے خطروں کو بھول گئے ہیں ___

رئیلیٹی اور فنتاسی___ چھوٹی سی نازک عمر میں یہیں ایک جنگ شروع ہوتی ہے___  پوکے مان نے بچوں کو فنتاسی کے وہ وہ کھیل دیئے ہیں کہ بچے انہیں حقیقت میں دُہرانا چاہتے ہیں ___  اور اسی درمیان،  تھوڑی سی بڑھتی عمر میں تیزی سے ایک چیز بچوں میں داخل ہو چکی ہوتی ہے___ Sex ___ بچے بس اس آخری فنتاسی کو کر گزرنا چاہتے ہیں ___  ’سائیڈک‘ کی طرح دماغ پر دھکاّ لگتے ہی وہ طاقتور بن جاتے ہیں ___

 میں ایک بار آپ کو جوراسک پارک کی دنیا میں لے جانا چاہوں گا___  سن 1983 میں اسٹیفن اسپیل برگ کو ایک دم سے یہ نادر خیال کیوں آیا___ آپ سب نے جو راسک پارک دیکھی ہو گی___ کروڑوں سال پہلے___ قد آور۔ عظیم الشان ڈائناسور۔ ان کی دہاڑ سے سارا عالم خوف سے تھرتھرا رہا ہے___ اتنے بھیانک کہ بچے اپنے آپ کو تھرلڈ محسوس کر رہے ہیں۔ اچانک ہی پتوں کے جھنڈ میں کھلبلی مچتی ہے۔ ایک آندھی مچتی ہے___ ایک ’سوروپوڈس‘ ہے___ جو اونچے پیڑوں کی پتیوں کو چبا رہا ہے۔ شاکاہاری___ ویجیٹرین___ پتوں کے درمیان سے آندھی میں اڑتا ہوا تین ٹن کا راجہ سورس نرمڈسینس اس پر جھپٹتا ہے___ ویسے ہی، جیسے جنگل میں ایک شیر دوسرے جانوروں پر___  اس کے مضبوط جبڑے شکار کی ہڈیوں تک کو چبا ڈالتے ہیں ___

یہاں کچھ دیر کے لئے ٹھہرئے___  اس فنتاسی اور رئیلیٹی کے میل نے کچھ یہی گھال میل کیا ہے___ جس کے نام پر کوئی سنسکرتی کا ڈھول پیٹ رہا ہے___ کوئی نصاب کی کتابیں بدلوا رہا ہے___  کوئی ویلنٹائن ڈے کو بند کرا کر، بھارت کی تہذیب کو بچانا چاہتا ہے۔

ڈائناسور، سوروپوڈس کا یہ کھیل چلتا رہے گا___ جو پہلے حملہ کرے گا، اور جو زیادہ طاقتور ہو گا۔ وہی جیتے گا___

شاید اسی لئے میں نے اپنے نئے ناول کے لئے پوکے مان کا انتخاب کیا___

میں آپ کو اپنے اس نئے ناول میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔

٭٭٭

 

آتشِ رفتہ کا سراغ: کچھ اس ناول کے بارے میں

               ’میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘

’لے سانس بھی آہستہ‘ کے فوراً بعد  —   ’آتشِ رفتہ کا سراغ‘

قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت پسندی کی مہر لگا دی گئی۔ سائنسی انقلابات نے ارتقاء کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی۔ان۔ اے اور جنیوم سے زیادہ شہرت اے کے ۴۷ اور اسلحوں کو ملی  —   ایک زمانے میں جہاں علوم و فنون کے لیے برٹنڈرسل جیسے دانشور بھی مسلمان سائنسدانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے، وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش، لشکر طیبہ، جواہری اور اسامہ بن لادین کے نام جپنے شروع کر دیئے  —   انحطاط اور ذلّت کی حد یہ ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑتی ہے۔

میں نے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا  —   مسلمان، بیان، ذبح  —   سن ۲۰۱۱ تک آتے آتے اس پر تصادم دنیا کے درمیان مسلمانوں کی عام حالت کسی کٹھ پتلی جیسی ہو چکی ہے۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک مصر میں بغاوت کا پرچم لہرایا جا چکا ہے۔ چین اور اس کے جیسے سہمے ہوئے کئی ملکوں نے فیس بک اور گوگل پر پابندی عائد کر دی ہے  —   ان واقعات کو بھی مسلمانوں کے اصل انحطاط اور محرومیوں و ناکامیوں سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے  —   ہندوستان کی بات کیجئے تو لبراہن کمیشن سے بابری مسجد فیصلے تک، جمہوریت کی ڈگ ڈگی بجا کر مسلمانوں کو خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔ ہزاروں فرضی انکاؤنٹرس کی داستانیں سامنے آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انکاؤنٹر کرنے والوں کو حکومتی اعزاز اور تمغے بھی مل جاتے ہیں۔

میں ایک بڑے ناول کی اسٹریٹجی تیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے جدید دور کے تقاضوں تک اپنا موقف سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن اس میں ایک خطرہ بھی تھا  —   اور ایک چیلنج بھی  —   عام نقاد ایسے ناولوں کو محض رپورٹنگ بتا کر قارئین کرام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ شروع میں میرے ناول بیان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا  —   یہ جاننا ضرور ی ہے کہ اس طرح کے ناول محض خلاء میں تحریر نہیں کیے جا سکتے  —   سماجی اور سیاسی شعور کے بغیر کوئی بڑا ناول قلم بند نہیں کیا جا سکتا  —   ایک خطرہ اور بھی تھا، اگر اس ناول میں بابری مسجد کا نام آتا ہے تو کیا میں بابری مسجد کی جگہ کوئی اور فرضی نام استعمال کروں ؟ یا جیش محمد، لشکر طیبہ کی جگہ کوئی فرضی تحریک، یا پھر ۳۰۔۲۰ برسوں کی سیاست میں جو سیاسی رہنما ہمیں ’تحفے‘ میں ملے کیا ان کے ناموں کو بھی تبدیل کر دیا جائے؟

میں کہہ سکتا ہوں، یہاں میں آزادی اظہار کا اعلان کرتے ہوئے ہر طرح کے تیر و کمان سے لیس تھا۔ میرے سامنے روسی ناول نگاروں کی مثالیں موجود تھیں، جنہوں نے اپنے عہد کی داستانوں کو قلم بند کرتے ہوئے، اس عہد کی سیاست اور سماجیات کو نئی معنویت کے ساتھ متعین کیا اور یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے  —   اس لیے مجھے ان ادبی فتووں کا ڈر نہیں کہ سیاسی شعور کو کچھ لوگ ابھی بھی رپورٹنگ کا درجہ دیتے ہیں۔

ناول کے آغاز سے قبل ایک مشکل اور بھی سامنے آ رہی تھی کہ اسے شروع کہاں سے کیا جائے  —   مسلمانوں کی آج کی سیاسی سماجی زندگی کی عکاسی کے لیے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے بہتر مثال میرے نزدیک کوئی دوسری نہیں تھی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو میں نے محض علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اصل بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا اس ناول سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ لباسوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں  —   کچھ نوجوان خاموشی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو کرائے کے گھر نہیں ملتے۔ کال سینٹر سے لے کر ہر جگہ ایک مسلمان نام کا ہونا شک کی وجہ بن جاتا ہے  —   پچھلے دس برسوں میں صرف انصاف کی موہوم سی امید کو لے کر مسلمانوں نے جینا تو جاری رکھا ہے مگر زندگی کے اس سفر میں شک، بندشیں نا انصافیوں اور محرومیوں کا ہی تحفہ ملا ہے  —   اب کچھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بارے میں  —   کہ اسی انکاؤنٹر سے۔ مجھے اس ناول کی تحریک ملی اور یہاں کسی قدر میں نے اپنے معنی و مفہوم کو سامنے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

سرسری اس جہان سے گزرے

’’میرا خواب ہے کہ ایک دن

جارجیا کے پرانے غلاموں /

اور پرانے زمیں داروں کے بیٹے/

بھائی چارے کے ساتھ ایک جگہ رہیں /

میرا خواب ہے کہ میرے بیٹے ایسے امریکہ میں سانس لیں

جہاں انہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں /

انہیں عملی نمونہ کے طور پر پرکھا جائے/‘‘

                          —    مارٹن لوتھر کنگ

براک اوباما کے امریکی صدر بنتے ہی مارٹن لوتھر کنگ کا خواب تو پورا ہو گیا اور شاید دنیا کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہو گیا  —   یہ بھی کہا گیا کہ اوباما لہر نے برلن سے بڑی دیوار توڑ دی  —   نفرت اور عصبیت کی وہ دیوار جو سینکڑوں برسوں سے کروڑوں لوگوں کے دکھ درد کا سبب بنی ہوئی تھی  —   لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی ایک دیوار ہندوستان میں بھی ہے اور دور دور تک اس دیوار کے ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ آج سے ۷ سال قبل (۱۳ مئی ۲۰۰۳) نیو یارک کے ریورسائڈ چرچ میں اروندھتی رائے نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا  —   ’ہم ایسے بے رحم دور سے گزر رہے ہیں جہاں تیزی سے، ہم سے ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے‘  —   جامعہ کے فرضی انکاؤنٹر سے ملک کی ۲۵ کروڑ مسلم آبادی (جسے ہندی انگریزی میڈیا صرف ۱۵ کروڑ ظاہر کرتی ہے اور اردو میڈیا ۲۵ کروڑ سے کم کے تخمینے پر راضی نہیں۔ کیا یہ بھی ایک طرح کی فرقہ واریت ہے؟) ایک بار پھر یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوئی ہے کہ وہ یہاں محفوظ نہیں ہیں۔

اس سوال کو خوف و ہراس اور بزدلی کا درجہ مت دیجئے۔ اس سوال کو برلن کی طرح مضبوط ہندوستان کی جمہوری دیوار کا راستہ مت دکھائیے۔ یہ سوال ہر بار بنا ہوا ہے۔ یہ سوال اکثر و بیشتر ایک تسلی، یقین یا امید کی کرن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر اچانک کسی غیر متوقع حادثہ کے احساس سے ایک بار پھر جاگ جاتا ہے  —   سن ۴۷، بارودی ڈھیر پر ایک خوفناک آزادی ہمارا انتظار کر ہی تھی۔ جنہیں یہاں تحفظ نظر نہیں آیا۔ وہ پاکستان چلے گئے  —   یہ مت بھولیے کہ پاکستان بننے کے پیچھے بھی شیخ عبد اللہ یا جناح جیسے قد آور رہنماؤں کی ایک منطق رہی تھی کہ جو قوم ان کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی، کیا وہ موجودہ حالت میں انہیں ان کا رتبہ دے سکتی ہے؟ اگرچہ اس دلیل کو کاٹنے کی صلاحیت ہے ہم میں، کہ دو بھائیوں کی طرح ہم آزاد ہندستان میں پلے، بڑھے اور نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے  —   عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں  —   اور وہ لوگ جو پاکستان چلے گئے، ان کے پاس بھی اپنے جواز تھے۔ چنانچہ اپنے لوگ — ، اپنی سرزمیں، اپنا پیارا ہندوستان  —   آخر اپنی مٹی کا کچھ تو جواز ہوتا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ سہما ہوا چہرہ بھی دیکھ لیجئے، جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کارروائی کے لیے ایک ساتھ ۲۵ کروڑ کی آبادی نشانے پر آ جاتی ہے۔ بہار شریف، بھاگلپور، جمشید پور، ملیانا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے الگ کی بھی ایک کہانی ہے جو مجھے چونکاتی ہے۔

گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے  —   مسلمان اپنے اپنے گھروں میں بند ہو جاتے ہیں۔ (کیوں کیسا خوف ہے یہ؟۔ اگر کسی مسلمان نے قتل کیا ہے تو؟)

برسوں بعد اندرا گاندھی کا قتل ہوتا ہے۔ مسلمان ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں میں بند  — (کیوں ؟)

راجیو گاندھی کا قتل ہوتا ہے، جب تک قاتلوں کی خبر نہیں آ جاتی، پورا مسلم معاشرہ دہشت اور خوف کے خیمے میں رہتا ہے کہ اب فسادشروع …  (کیوں  — ؟)

ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ یا ہندوتو کا ’ایشو‘ سیاسی گلیارے میں ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ لیکن بعد کی واردات نے بتا دیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ در اصل ہندوستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں، اتنی گہری ہیں کہ ۱۱۰ کروڑ کی جتنا سے لے کر سیاست اور سیاسی گلیارے تک ہمارے عہد کا تنہا فاتح یا ہیرو مذہب رہا ہے  —   اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئے ہزارہ یا نئی صدی کے سال پورا ہوتے ہوتے اسی مذہب کی آڑ لے کر ایک بار پھر سے اسلام کو پاکھنڈ، قرآن شریف کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار د ینے کی کارروائی اپنے آخری مرحلوں میں پہنچ چکی ہے۔ شاید چہرے بدل بدل کر آزاد ہندوستان میں ایک ہی پارٹی اس ملک میں حکومت کرتی رہی ہے  —   اور وہ ہے ’ہندوتو‘  —   کانگریس کا نرم ہندوتو اور بھاجپا کا گرم ہندوتو  —   مگر بھاجپا کے مقابلے کانگریس کا نیا ہندوتو خطرناک ہے۔ ووٹ بینک یا ووٹ کی سیاست میں در اصل کانگریس دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ہندوتو کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اس لیے ’سنگھ‘ اور پرگیہ معاملے میں اس کی چپّی خطرناک حد تک ملک کے لیے انتہاپسند لگتی ہے۔ وہیں وہ مسلمانوں کے ووٹ بینک کو بھی ہتھیائے رکھنے کے لیے اپنے چھٹ بھیے نیتاؤں کو بٹلہ ہاؤس بھیج کر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم تو لگانا چاہتی ہے، مگر پورے معاملے پر  انصاف اور جانچ کرانے کو تیار نہیں ہوتی کہ اس سے اکثریتی ووٹ کے کٹنے کا خطرہ اسے نظر آ جاتا ہے۔

بار بار جامعہ:

مودی کے سپہ سالار بنجارا اور اس کے انکاؤنٹرس کو لوگ بھولے نہیں ہیں  —   گجرات سے ممبئی تک میڈیا، انکاؤنٹرس کی خبروں کو ایسے اچھالتی تھی جیسے دیش کا ہر ایک مسلمان دہشت گرد ہے  —   کیونکہ بار بار دہشت گردی کی ہر کارروائی میں نشانہ کسی ایک عاطف یا سلیمان پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ میڈیا کے شور و غل میں ملک کے سارے نوجوان مسلمان نشانے پر ہوتے تھے۔ ہر بار دہشت گرد کی جیب میں اردو میں لکھی ایک پرچی ہوتی تھی۔ (آج کی نوجوان مسلم نسل اردو نہیں جانتی)  —   ہر بار کرتا۔ پاجامہ پہننے والا شخص، چشم دید گواہوں کے نشانے پر ہوتا تھا۔ (تاکہ جائے واردات پر وہ اپنے لباس سے آسانی سے پہچان لیا جائے)  —   کیا آج کے مسلم نوجوان نسل کرتا پائجامہ پہنتے ہیں ؟ کیا جینس کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوا شخص مسلمان نہیں ہو سکتا — ؟ اس کا جواب ہے، ہو سکتا ہے، لیکن پولیس انتظامیہ اور حکومت کی نظر میں جینس اور پینٹ شرٹ پہننے والا شخص ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔  میڈیا کو ایک فیکس یا میل حاصل ہو جاتا ہے  —   ہر بار کسی انڈین مجاہدین کی جانب سے یہ قبولنامہ بھی آ جاتا ہے کہ بھیا، یہ تو ہم نے کیا ہے۔ کیا کبھی حکومت نے ان فرضی فیکس یا میل کی تحقیق یا جانچنے کی کوشش کی؟ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ایسی ہر کارروائی ہندوستان میں پیدا ہونے والے ایک ایک مسلمان کے رنج و غم کا سبب بن جاتی ہے۔

جامعہ یا بٹلہ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں ہوا۔ شاید بہت سے لوگوں نے انکاؤنٹر کے بعد کا وہ چہرہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔ رمضان کے مہینے ہونے والی اس واردات نے علاقے کے تمام مسلمانوں کو جیسے کسی لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔ پولس کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر دھمک جاتی تھی۔ یہ کہنے پر کہ بھائی، ہم تو پڑے لکھے لوگ ہیں۔ پولس کا جواب ہوتا تھا ’تم جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کارروائی کرتے ہو۔‘‘ مالیگاؤں سے لے کر اعظم گڑھ تک کے تار دہشت گردوں سے جوڑ دیئے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ نوجوان پریشان تھے۔ وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ دہشت اور خوف کہ پولس کی کتوں جیسی آنکھیں کب ان کا شکار کر لیں، کہا نہیں جا سکتا۔ اسی ماحول میں عید جیسا دن بھی آیا۔ عید جسے خوشی کا دن کہتے ہیں۔ لیکن مسجدیں سنسان رہیں  —   میری جانکاری کے مطابق کئی مسلم نوجوان اس دن مارے ڈر کے مسجد نہیں گئے۔ اس تحریر کو لکھے جانے سے پہلے میں جامعہ اور بٹلہ ہاؤس کے بہت سے لوگوں سے ملا۔ ایک تکلیف دہ بات اور بھی سامنے آئی۔ کچھ مسلم بچے جنہیں نئی نئی اپنی پرائیوٹ نوکری کو جوائن کرنے کا پیغام ملا تھا، انہیں نوکری پر آنے سے منع کر دیا گیا  —   (شاید یہ بھیانک بات آپ کو معلوم ہو کہ آج بھی دلی سے ممبئی تک کسی مسلمان کا اپنے لیے کرائے کا مکان تلاش کرنا ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔ عام طور پر مکان مالک کرائے دار مسلمانوں کو اپنا گھر نہیں دینا چاہتے  —   جاوید اختر جیسے لوگوں کو بھی ممبئی میں اپنا گھر خریدنے پر خبر بننا پڑتا ہے  —   بھلے ہی ان باتوں کو فرقہ واریت سے جوڑا جائے لیکن یہی سچ ہے۔ جامعہ والی واردات کے بعد تو مسلمانوں کے لیے رہائشی مکانوں کو تلاش کرنا اور بھی مشکل کام ہو گیا ہے۔

اسی ملک میں وہ بھی ہوا،شاید جس کو کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لایا جا سکتا تھا  —   جو شاید بابری مسجد گرانے اور گودھرا کی واردات سے زیادہ شرمناک تھا۔ بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹرس کی واردات کے کچھ ہی روز بعد ایک پورے محلے پر پابندی لگا دی گئی  —    ہماری گلوبل تہذیب کو کہیں نہ کہیں انٹرنیٹ یا فاسٹ فوڈ کلچر سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ انکاؤنٹر کے بعد جو خبریں آئیں وہ دردناک تھیں۔ انٹر نیٹ ایجنسیوں نے نئے کنکشن دینے سے انکار کر دیا   —   یہاں تک کہ جنک فوڈ یا پزہ ڈلیور کرنے والوں نے کہا کہ ہم جامعہ میں ڈلیوری نہیں دیں گے۔ لیجئے نئی دنیا کے دروازے جامعہ کے لئے بند  —   وہ بھی ایک ایسے فرضی انکاؤنٹر کے لیے، حکومت جس کی مصنفانہ جانچ تک کرانا نہیں چاہتی تھی —

کیا ممبئی کے سیکڑوں انکاؤنٹرس فرضی نہیں پائے گئے؟ جس کے بارے میں میڈیا چیخ چیخ کر عام دنوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت اور ذہر بھرا کرتی تھی؟

کیا گجرات میں بنجارہ کے ذریعہ ہونے والے انکاؤنٹرس فرضی نہیں تھے؟ یہ مت بھولیے کہ جب سہراب اور اس کی بیوی  پر میڈیا دہشت گردی کے الزام طے کرتی ہوئے ۲۴۔۲۴ گھنٹے ہر ایک ہندوستانی کے دل میں مسلمانوں کی بری شبیہ پیش کر رہی تھی، ان واردات سے ملک کا ایک ایک مسلمان اپنے دامن پر ان داغوں کو لگا ہوا محسوس کر رہا تھا  —   لیکن کیا ہوا؟ سچائی سامنے آئی اور بنجارہ آج سلاخوں کے پیچھے ہیں  —   یہاں میں بڑی بڑی باتوں یا بڑے بڑے فلسفوں میں الجھنا نہیں چاہتا۔ بدلے بدلے سے ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دیکھئے۔

(الف)  جہاں چھوٹے چھوٹے مسلم معصوم بچوں کو اسکول میں ان کے دوست اسامہ یا دہشت گرد کہہ دیتے ہیں اور ان کے پاس یہ جواب نہیں ہوتا ’کہ دہشت گرد کسی مذہب کے نہیں ہوتے۔‘

(ب)  میری نیٹ فرینڈ سومیا بنرجی جس سے میرے رشتے دو سال پرانے تھے، اس نے  یہ آف لائنس مجھے بھیج کر چونکا دیا، کہ تم مسلمان ہو، میں اب تم سے رشتہ نہیں رکھ سکتی۔

شاید تقسیم کے بعد سے ہم مسلسل ایسی صورت حال کا شکار ہو رہے ہیں جہاں ہر کارروائی یا واردات میں شک کی سوئی اچانک ہماری طرف تن جاتی ہے  —   اور بار بار دوستووسکی کے ایڈیٹ کی طرح سامنے آ کر مسکراتے ہوئے ہمیں یہ جواب دینا پڑتا ہے  —   کہ بھائی اسامہ ہم نہیں ہیں  —   پاکستان سے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے  —   کہ بھائی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا  —   کہ بھائی فلاں کارروائی ہم نے نہیں کی۔

سن ۲۰۰۳ء، جلتے ہوئے گجرات پر میری کتاب ’لیبارٹری‘ شایع ہوئے تھی  —   جس کے اجراء میں نامور جی، راجندر یادو اور کملیشور جیسے بڑے نام بھی شامل تھے  —   اجراء کے ٹھیک دوسرے دن رات کے گیارہ بجے میرے گھر دو پولس والے آئے، مجھ سے کہا گیا، مجھے لودھی روڈ  تھانہ بلایا گیا ہے  —   میرا سارا خاندان پریشان ہو گیا۔ میں نے اس کی اطلاع راجندر یادو جی کو بھی دی۔ انہوں نے کہا۔ جاؤ دیکھو  —   گھبرانا مت  —   ٹھیک گیارہ بجے دن میں لودھی روڈ تھانہ میں موجود تھا۔ وہاں اپنی اہلیہ کی موجودگی میں راجویر (انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، جس کو قتل کیا گیا) سے جو پہلا جملہ میں نے کہا، یہ وہ تھا — ’اگر میں اس ملک کے لیے وفادار نہیں تو اس ملک کے لیے کوئی بھی وفادار نہیں ہوسکتا  —   وہاں میری پوری فائل کھلی ہوئی تھی۔ مجھ سے بیہودہ اور اس طرح کے شرمناک سوال پوچھے گئے …  جیسے ’کشمیر کے فلاں شخص کو میں جانتا ہوں ؟‘‘

’’پاکستان کا فلاں آدمی کبھی میرے گھر آیا؟‘‘

میں نے ان سوالوں کے جواب میں کہا ’’ہندوستان کی طرح میری کہانیاں پاکستانی اخباروں میں بھی شایع ہوتی ہیں  —    پاکستان سے کبھی کبھار میرے قلمکار دوست ہندوستان آتے ہیں تو وہ مجھ سے بھی ملنا چاہتے ہیں  —   لیکن میں ان سے نہیں ملتا۔ میں اسی خوف کی وجہ سے ان سے نہیں ملتا کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو آج پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ چار پانچ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ در اصل آپ کا نام دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں ہے۔ ہم آپ کو سکیورٹی دینا چاہتے پیں۔‘‘میرا سیدھا سا جواب تھا  —   ’مجھے سکیورٹی نہیں چاہئے  —   جاتے جاتے انہوں نے ایک توپ اور داغی  —   ’آپ کہانیاں لکھئے  —   مضامین مت لکھئے  —   میں نے پوچھا ’کیا میں اسے دھمکی سمجھوں ؟ مسکراتے ہوئے جواب ملا  —   ’دھمکی ہی سمجھئے  —   مضمون لکھنے سے باز آ جائیے۔‘

فرقہ واریت کے ان چہروں کو دکھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ اب بھی سمجھ جائیے کہ کوئی بھی حکومت آپ کی نہیں ہے  —   ہم ایک بار پھر تقسیم کے دروازے پر کھڑے ہیں  — ؟ بھاجپا کے دور اقتدار میں ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا جو کام میڈیا (منوج رگھو ونشی کے زہر بھرے پروگرام) اور حکومت نے شروع کیا تھا، کانگریس اسی کام کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ علاحدگی پسند کی ایک نئی تہذیب چپکے چپکے اس آزاد بھارت میں پیدا ہو رہی ہے  —   کیا کسی کو اس کا احساس ہے؟ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے کہاں گم ہو گئے۔ یہ کیسی تہذیب ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے  ایک الگ پاکستان تلاش کرنا پڑتا ہے  —    ایک ایسی بستی  جہاں صرف مسلمان رہتے ہوں  —   (میں جس کالونی میں رہتا ہوں اس کا نام تاج انکلیو ہے  —   یہاں 358 فلیٹ ہیں مسلمانوں کے۔ آزادی کے بعد کی فرقہ واریت، اڈوانی جی کی خطرناک رتھ یاتراؤں نے غیر محفوظ مسلمانوں کو اس کا احساس کرایا کہ انہیں ایک جگہ رہنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ احساس کس نے کرایا؟ کیا جامعہ جیسے فرضی انکاؤنٹرس کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایسا سوچنا ناجائز ہے؟

ہندی رسالہ پاکھی، نومبر ۲۰۰۸ کے شمارے کے اداریہ میں، اپورو جوشی نے لکھا۔ ’’اگر اس ملک کے مسلمان ایک لمحہ میں اسلام کے نام پر دھندا کر رہے دھوکہ بازوں کو چاہے وہ راج نیتا ہوں یا مذہبی نیتا، سے باز آنے کے لیے کہیں تو یقیناً  ہندوتو کے ٹھیکیداروں کی  زبان بھی بند ہو جائے گی  —   پھر کوئی مودی ہزاروں معصوموں کی بلی لے کر بھی اقتدار میں نہیں بیٹھا رہ سکے گا۔‘‘

ہنس (نومبر 2008) میں آشوتوش نے ’جامعہ انکاؤنٹر اور مسلم شناخت‘ کے بہانے صلاح دیتے ہوئے تحریر کیا۔

’اگر مسلمان، مودودی، اسامہ اور جواہری جیسی سوچ کا شکار ہو گئے تو اس مذہب کا کوئی مستقبل نہیں بچے گا  —   جو امن اور شانتی کا سبق پڑھاتا ہے  —   اس ماسٹر مائنڈ کی زبردست مخالفت کرنے کا وقت آ گیا ہے  —   اگر اب ایسا نہیں ہو گا تو، ام جے اکبر جیسے لوگ تاریخ میں ولین کی صورت میں دیکھے جائیں گے اور ہندو کٹّر پنتھی جیسی طاقتیں اس ملک پر راج کریں گی — ‘

ان سوالوں کا سیدھا سا جواب ہے، آخر کسی بھی دہشت گرد کارروائی کے لیے ملک میں پورے مسلمانوں کا سامنے آنا کیوں ضروری ہے؟ کیا پرگیہ معاملہ میں سارے ہندو آ کر یہ جواب دیں گے کہ اس کارروائی کے پیچھے وہ نہیں ہیں  —   یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کی حمایت میں ملک کا کوئی بھی مسلم نیتا کبھی سامنے نہیں آیا۔ چاہے وہ بخاری ہوں یا شہاب الدین۔ لیکن پرگیہ کے معاملے میں تو جیسے بھاجپا اور سنگھ پریوار کھل سامنے آ گیا تھا۔ اما بھارتی تو پرگیہ کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ تک دینا چاہتی تھیں۔ کیونکہ اپنے گھر کو اپنا گھر کہنے کے لیے بار بار مسلمانوں کو اس ملک کے آگے اپنی صفائی دینی ہو گی؟ کیسے حالات ہیں کہ وہ اپنے لیے الگ کالونی یا انکلیو کی مانگ کرتے ہیں۔ کیا یہ افسوسناک صورت حالت نہیں۔

انتظامیہ، فوج وغیرہ سبھی جگہوں پر سنگھ کے بڑے افسر خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو کیا عام میڈیا اس خبر سے آشنا نہیں  — ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے صرف سنگھ کا ماسٹر مائنڈ رہا ہے، جو اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہے کہ اتنے شکار کرو، کہ ہر ایک مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو۔

کیا سنگھ کی ان ناپاک سازشوں کا حالیہ سرکار کے پاس کوئی حل نہیں ؟ کیا واحد راستہ نوجوان مسلمانوں کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگانا ہی ہے  —   کیا سنگھ کے معاملے میں اپنی زبان کھول کر کانگریس ہندو ووٹوں سے اپنے ہاتھ دھو بیٹھے گی  —   ان سے بھی بڑا ایک سوال ہے  —   میڈیا اس آتنک وادی بازار سے کب اپنا پیچھا چھڑائے گی  —   جہاں ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں وہ مسلسل ملک کو ایک نئے خطرے کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔

سو سال پہلے امریکی آزادی کے حلف نامے پر دستخط کرنے والوں نے ایک خواب دیکھا تھا  —   کب ختم ہو گی نا انصافی؟ غلاموں کی زندگی میں کب آئے گی امید کی کرن   —   ۶۲ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی پھیلتی آگ بار بار ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں شاید اسی سوال کو اٹھاتی رہی ہے  —   کب ختم ہو گا، غیر محفوظ ہونے کا احساس — ؟ فی الحال تو راجستھان سے ممبئی اور عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر ان نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف  جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید