FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

سُرمئی دستخط

 

 

 

               خالد ملک ساحلؔؔ

 

 

 

  عقیدت

 

دو  دریاؤں کے بیچ وقت کی خوب صورت ترین شخصیت

حضرت چودھری سلطان علی ذیلدار

(کھوکھر غربی)

کی نذر

جو خوش قسمتی سے ہمارے دادا تھے

 

 

 

 

عاجزی

 

وہ لکھتا ہے ، کیا لکھتا ہے ، اُسے خود سمجھ نہیں آتی اور جب سمجھ نہیں آتی تو باتیں کرنے لگتا ہے ، کبھی زیرِ لب کبھی با آوازِ بلند، مگر اُس کو اِن باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی کیوں کہ وہ اپنے آپ سے کِسی ایسی زُبان میں باتیں کرتا ہے جو اُسے خود نہیں آتی۔

وہ اُٹھ کر ٹہلنے لگتا ہے ، پھِر سوچتا ہے کہ کیوں، کیوں ٹہل رہا ہُوں تو ٹھہر جاتا ہے ، کیوں کہ وہ کوئی کام بھی سوچے بغیر نہیں کرتا، اِس لیے وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ پھِر لکھنے لگتا ہے ، بہت خاص، بہت ہی خاص لوگوں کے لیے ، مگر عام کر دیتا ہے اور عام ہوتے ہی خام ہو جاتا ہے ، جسے خیرخواہ  خواہ مخواہ کہتے ہیں۔ وہ سوچ کر لکھتا ہے کیوں کہ وہ بغیر سوچے کچھ نہیں کرتا، مگر سوچ سوچ میں سوچ غائب اور مٹھی بھر لفظ رہ جاتے ہیں، جن پر خود ہی مٹھی بھر مٹّی ڈال دیتا ہے۔

گھر والوں نے خالد نام رکھا، گھر والوں کی مناسبت سے مَلِک ہُوا اور ساحلؔ خود جوڑ لیا۔ کہیں سے پڑھ لیا کہ خالد، خُلد سے ہے اور خُلد کا ایک مطلب ہمیشہ رہنے والا بھی ہے تو سوچنے لگا کہ یہ نام تو اُس کے لیے بہت مناسب ہے ، اِسی سوچ میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے لکھنے لگا۔ اُس کے لیے سمُندر ایک ناقابلِ تسخیر طاقت کا استعارہ ہے ، اِس لیے ساحل ؔ تخلّص کِیا کہ ساحل، سمُندر کو بھی اُس کی حد میں رکھتا ہے۔

عُمر کا پختہ ہو گیا مگر سوچ آج بھی کچّی، سوچتا ہے کہ وقت کی بھٹّی میں ڈالا جائے گا تو کُندن ہو جائے گا، مگر۔۔۔مگر سوچ سوچ میں بھُول جاتا ہے کہ کُندن ہونے کے لیے سونا ضروری ہے۔۔۔ ورنہ راکھ۔۔۔ اور اُسے عادت رتجگوں کی ہے ، کیوں کہ اُس کے خیال میں بڑے لوگ راتیں جاگ جاگ کر سوچتے تھے اور۔۔۔ مگر وہ رات رات بھر جاگ کر کیا سوچتے تھے ، وہ بہت سوچتا ہے اور ہار جاتا ہے کیوں کہ اب بڑے لوگ ہوتے ہی نہیں۔ ایسے سوچوں سے تھک کر شعر کہتا ہے ، اور اُس کے شعر پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ  بغیر سوچے شعر کہتا ہے۔

خالد ملک ساحلؔ

۔ ٭۔

 

 

 

ساحلِ بے کنار۔۔۔

 

جب تک ہر ایک موج میں ساحل نظر نہ آنے لگ جائے ، خالد ملک ساحلؔ کے بیشتر اشعار کا پورا لطف اُٹھانا مشکل ہے۔ قطرے میں دجلہ اور ہر موج میں ساحل دیکھنے والی نظریں دیکھتی چلی آئی ہیں، مگر خالد ملک ساحلؔ کا انداز جداگانہ ہے۔ وہ ایسا ساحل ہے جو موجِ دریا کا نہیں بل کہ گردابوں کا شہ، سوار ہے۔ ذرا سنیں !کیا فرماتے ہیں:

پھِر سفر ہے نصیب میں ساحلؔ

مَیں نے گرداب، خواب میں دیکھا

علامہ اقبال ؔ اِن موضوعات سے بہت خوبصورت انداز میں گذرے ہیں مگر اُن کا مخاطب جداگانہ تھا، جو وہ فرما گئے :

کانپتا ہے دِل ترا اندیشۂ  طوفاں سے کیا

ناخدا تُو، بحر تُو، کشتی بھی تُو ساحل بھی تُو

خالد ملک ساحلؔ کی غزلوں کے اشعار قوسِ قزح کی طرح اُن کے بے کنار تصوُّرات کی جولانیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ دیکھیے !کِس قدر جامع اور وسیع خیال کا حامل ہے یہ شعر:

اُس نے سمُندروں کو بھی قطرہ بنا دیا

انسان جو حباب تھا میرے حساب سے

اب آپ ہی بتائیں کہ ہر موجِ دریا، ہر بھنور اور گرداب پر سوار ساحلؔ، کِسی مٹّی یا چٹان کا بنا ہُوا کنارہ نہیں ہو سکتا جس پر ڈوب جانے کے خوف سے لوگ لہروں کی اُٹھان اور سمُندر کی بے کرانیوں کا تماشا کرتے رہ جاتے ہیں۔

شاعری ! اپنے خیالوں کی گٹھڑی کو دوش پر اُٹھائے ہوئے کِسی مسافر کے وادی وادی آوارگی کرتے پھرنے کا نام نہیں ہے۔۔۔یا کھُلی آنکھوں سے ایسے خواب دیکھتے رہنا، جن کی تعبیر نہ تو ممکن ہو اور نہ ہی وہ خود اُس کا عملی مظاہرہ کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔۔۔بل کہ شاعری تو ممکنات کے جہان کی سیر کرنے والے زیرک لوگوں کا، کسی مُنڈیر پر بیٹھے کوّے کی طرح خبر دینا ہے۔۔۔ اور ساتھ ہی حقائقِ حیات کے گہرے سمُندر میں غوطہ زن ہو کر نکالے ہوئے موتیوں کو مفت لُٹاتے پھرنا ہے۔ اِس سے بے نیاز ہو کر کہ اُن کی کوئی قدر کرے یا نہ کرے۔۔۔ لیکن اگر کِسی شاعر کو کِسی ایک شعر پر بھی داد مِل جائے تو سو سو فرشی سلام پیش کر دیتا ہے۔۔۔ وہ عزت بھری نظروں کا خریدار اپنا بیاض بغل میں دبائے کُوچہ کُوچہ بستی بستی گھومتا ہے۔۔۔ اُس کا عشق مجازی ہو یا حقیقی وہ ہر دم اپنی دھُن میں مگن رہتا ہے۔ اور اگر کوئی اُن سے پوچھے کہ بھائی تُم نے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے ؟ تو بڑی معصومیت سے کہ، دے گا:

زِندگی تیرے لیے ، اور بھلا کیا کرتا

عشق کرنا تھا، کِیا ! اور مَیں کیا کیا کرتا !

ایسے ہی با وقار انداز میں اپنی پگڑی کو سنبھالے ہوئے وہ اگر وصیّت بھی کرے گا تو اِسی انداز سے کہ:

میری عزت ہی میری دولت ہے

میرے بچّے ! سنبھال کر رکھنا !!

مَیں اپنے ذاتی حوالوں سے چشم دید گواہ ہُوں کہ خالد ملک ساحلؔ صاحب کی عزت محض شاعری کی وَجہ، سے نہیں، بل کہ جس عزت کے آج وہ وارث ہیں اُسے اُن کے بزرگوں نے صدیوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔

خالد ملک ساحلؔ کے قلب و خیال میں انسانی ہمدردی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے جو کہ اُن کی غزلوں اور نظموں میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ مثال کے لیے اُن کی نظموں کے صِرف ایک دو ٹکڑے  مُلاحظہ فرمائیں ؛

’’چہرہ چہرہ خوف ہے طاری

دِل بھی حلق میں کانپ رہا ہے

دِل کی گواہی جھُوٹ نہیں ہے

تازہ لہو کے چھینٹے ڈھُونڈو

کوئی کہیں تو قتل ہُوا ہے ‘‘

دیس بہ دیس انسانی خون اِسی طرح ارزاں ہو چُکا ہے کہ کوئی پُرسانِ حال نظر نہیں آتا۔ طاقت ور ظالم قوموں کو اپنے دیس میں ایسا کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ہو، مگر وہ پوری دنیا کے لیے اپنی دولت اور قُوّت کی بنیاد پر جھُوٹ، مکر اور فریب کے فرعون اور یزید بنے ہوئے ہیں۔ یہی شُعُور خالد ملک ساحلؔ کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے :

مجھے عیسیٰ ؑ موسیٰؑ قبول ہیں

مجھے سارے مولیٰ قبول ہیں

مجھے اب تو کوئی اناج دو !!!

مشاہدات کے سفر میں وہ تین کتابیں جن کی بنیاد پر انسان کے عِلم میں ازلی ابدی حقائق کے چراغ روشن ہوتے ہیں وہ (۱) کتابِ آفاق(۲) کتابِ نفس(۳) کتابِ وحی، ہیں، جن کا عمیق مُطالَعہ خالدؔ کے اشعار میں رچا بسا ہے۔۔۔جبھی وہ اپنی نظم ’’نقّاش سے ‘‘ میں ایسی عالمگیر سچائیوں کو بے نقاب کر سکے ہیں، جس کا صِرف پہلا شعر یہاں پیش کر رہا ہُوں۔ باقی اشعار مجھے یقین ہے آپ خود اُن کے مجموعۂ  کلام میں دیکھ لیں گے :

سفر کی شام ستاروں سے پوچھ کر چلنا

اندھیرے رستے گواہی نہیں دیا کرتے

میرا قلبی شُعُور یہ گواہی دے رہا ہے کہ سفرِ حیات میں ہر قدم پر مندرجہ بالا تین کتابوں کے مشاہداتی مدارج طے کرتے کرتے عزیزم خالد ملک ساحلؔ، شعرو ادب کی خدا داد صلاحیت کو ان شاء اللہ ایسے ہی پُر خُلُوص  انداز میں سر انجام دیتے رہیں گے۔۔۔اور دنیائے ادب میں روشن ترین ستارہ بن کر چمکیں گے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں نورِ بصیرت سے نوازتا رہے۔ آمین!

سیّد افتخار حیدر

ٹورانٹو(کینیڈا)

۔ ٭۔

 

 

سُرمئی دستخط: ایک حیرت آمیز خوش گوار شعری تجربہ

 

اِس کتاب میں اپنے ’’سُرمئی دستخط‘‘ ثبت کرنے والا شاعر ساحلؔ، میرے دوست خالد ملک سے ایک بہت مختلف شخص ہے۔ خالد جتنا سادہ اور ہمیشہ مسکراتے رہنے والا سماجی انسان ہے۔ ساحلؔ اُتنے ہی پیچیدہ باطنی عوامل کا حامل اور کھُردرے و بے نیاز لہجے کا خوش فکر شاعر ہے۔ لہجے کے کھُردرے پن کے ساتھ خوش فکری اور بے نیازی کا ذِکر مَیں نے اِس لیے کِیا، کیوں کہ اِن تینوں کے امتزاج نے اُس کی شاعری کو وہ جاذبیت بخشی ہے ، جو اُسے ایک منفرد لہجے کا شاعر ثابت کرتی ہے۔ ذرا یہ شعر دیکھیے اور شاعر کی سہل ممتنع میں خلاّقی کی داد دیجیے :

تُو نے رکھا نہیں کہیں کا مگر

زِندگی تجھ کو بھی معاف کِیا

ساحل کے ذِہن و باطن کی پیچیدگی عام شاعروں جیسی نہیں۔ وہ اپنے قاری سے توجُّہ، اور ارتکاز چاہتا ہے۔ اِسی لیے ایسے شعر کہتا ہے جو اُردُو ادب کے اچھے شعروں میں شمار ہو سکتے ہیں:

آنکھوں میں سُرخ آندھیاں اب تک نہیں تھمیں

اب تک کِسی درخت کے پتّے نہیں ہلے

مَیں اُسے جدید عہد کے اُن شُعرا میں شمار کرتا ہُوں جو عام رٹے رٹائے فارمولے اور پیش پا اُفتادہ مضامین کا شکار ہونے سے گریزاں رہ کر عصری حسیّت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب مضامین کے نئے پہلو تراشنے میں اپنی آنکھیں اور دِل لہو کرتے ہیں، تب ایسا شعر جنم لیتا ہے :

مَیں عاشقوں کے تماشے میں رُک گیا تھا یونہی

کہا ہے کِس نے مری جاں مجھے محبت ہے

اِس شاعر کے یہاں کہیں کہیں قولِ  محال کی صورت اِس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شاعر اشیا ء اور کیفیت کے تضاد کو دِکھانے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اور ایسی قدرت ایک طویل فنی ریاضت کے بغیر جلوہ گر نہیں ہوتی:

رات کا انتظام کرتے ہوئے

مر گیا دِن ہی شام ڈھلتے ہوئے

جانے کِس کِس کی نوکری کی ہے

ایک لمحہ غلام کرتے ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھٹے پُرانے اُجالے سے اک کِرن لے کر

ہمیں نے چادرِ شب جاگ کر رفو کی ہے

ساحل کی ’’مَیں ‘‘وہ ’’مَیں ‘‘ہے جو آفاقی سطح پر اُس کی شاعری کا رِشتہ سب سے جوڑ دیتی ہے :

مَیں کِس یقین سے لکھا گیا ہُوں مٹّی پر

وہ کون ہے جو مرے سلسلے کی ڈھال بنا

ہمارے اجتماعی رویّے بھی ساحل کی نظروں سے اوجھل نہیں، اُس کا عمیق مشاہدہ جب اُس کے شعری باطن سے ہم کِنار ہوتا ہے ، تو ایسے اشعار تازہ ہَوَا کے جھونکوں کی طرح قاری کو سرشار کر دیتے ہیں:

اُلجھ گئے ہیں قیام و سجود میں ساحل

نمازِ عشق ادا ہم نے بے وضو کی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے دوست! اعتبار کی منزل بھی ہے کہیں؟

تیرے لیے تو جان سے گذرا ہُوں بارہا

اور دیکھیے لفظ ’’کافر‘‘ کا ایسا خوب صورت استعمال کلاسیکل اساتذہ کے بعد آج تک کم از کم میری نظر سے نہیں گذرا:

مُدّت سے انتظار تھا جس رات کا مجھے

کافر کے انتظار میں وہ رات بھی گئی

ساحلؔ کے مذکورہ اشعار ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارا واسطہ عصرِ حاضر کے ایک ایسے معتبر اور حسّاس شاعر سے ہے ، جسے زُبان و بیان پر مُکمَّل دسترس حاصل ہے۔ اور جو، صبحِ نو، اور عہد نامۂ  جدید، جیسی نظمیں لکھنے پر بھی قادر ہے۔ اِس کتاب میں ایسے کئی اشعار اور غزلیں ہی اِس کتاب کی اشاعت کو جواز اور شاعر کے سرمئی دستخطوں کو اعتبار بخشتی ہیں۔ ساحلؔ کو پڑھنا ایک حیرت آمیز خوش گوار تجربے سے گذرنے کا دُوسرا نام ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ خالد ملک ساحلؔ ادب سے ایسا سنجیدہ معاملہ کرنے کی بِنا پر اپنی نسل کے سر برآوردہ  شُعرا میں شمولیت کا مُکمَّل استحقاق رکھتا ہے۔

جمیل الرحمن

(برطانیہ)

۔ ٭۔

 

 

حمد

 

دُنیا میں نہیں شور مچانا ترے آگے

مقصود ہے بس ذات مٹانا ترے آگے

 

تُو چاہے تو ہر خواب کو پتھّر سا بنا دے

مٹّی کا کھِلونا ہے زمانہ ترے آگے

 

مالک ہے تُو الفاظ کا، حکمت کا، بیاں کا

کیا خاک کہوں گا مَیں فسانہ ترے آگے

 

کرتا ہُوں مَیں ہر روز نیا عہد خُدایا

کرتا ہُوں مگر روز بہانہ ترے آگے

 

یہ عشق ہے اور عشق یہ میرا ہے خُدایا

ہاتھوں کو مرا روز اُٹھانا ترے آگے

 

تقدیر کو تدبیر کی لونڈی مَیں بنا دُوں

آ جائے اگر بات بنانا ترے آگے

 

آکاش کی وسعت میں ٹھکانا مرے مالک !

آکاش کی وسعت کا خزانہ ترے آگے

 

منزل کی تڑپ کِس کو نہیں آج زمیں پر

منزل ہے یہ پر ایک فسانہ ترے آگے

 

آغاز سے انجام کی ترتیب ہے تیری

اک کھیل ہے دنیا کا بنانا ترے آگے

۔ ٭۔

 

 

نعت نبی

 

مٹّی کے تمسّک میں ابھیمان عجب ہے

اے کوچۂ  انوار تری شان عجب ہے

 

مَیں خواب کے پہلُو سے اُٹھوں تیری زمیں پر

پھِر دیکھوں کہ ہر خواب کا عنوان عجب ہے

 

اے قیصر و کِسریٰ کے درو بام سُنو تم

اِس شہر کا نادار بھی دھنوان عجب ہے

 

اک عشق ہے اور عشق مسلسل ہے خُدا کا

اک سوچ ہے اور سوچ کا فرقان عجب ہے

 

جس کے لیے دنیا کو سنوارا ہے خُدا نے

سوتا ہے زمیں پر کہ وہ مہمان عجب ہے

 

آتے ہیں فلک چھوڑ کے اُس شہر کی جانب

جبریلؑ کے سینے میں بھی ارمان عجب ہے

 

ہے آج بھی انساں پہ وہؐ رحمت کا وسیلہ

وہ آج بھی محسن ہے یہ فیضان عجب ہے

 

اللہ نگہبان محمدؐ کی دُعا کا

اِس شخص کا انسان پہ احسان عجب ہے

 

مَیں خاک ہُوں اور خاک مدینے کی گلی کی

اِس عاشقِ بے نام کی پہچان عجب ہے

۔ ٭۔

 

 

 

اچھا تھا یا خراب تھا میرے حساب میں

پانی بھی جب شراب تھا میرے حساب میں

 

میری طلب کے ہاتھ میں لمبی لکیر تھی

سب کچھ ہی بے حساب تھا میرے حساب میں

 

تعبیر گر ہُوا ہے تو کیوں کر وہی ہُوا

اک خواب جو عذاب تھا میرے حساب میں

 

وہ رات میری رات تھی جاگا تمام رات

جس دِن کا اِضطراب تھا میرے حساب میں

 

پاکیزگی کا پھُول تھا خوشبو کا لمس تھا

وہ شخص ایک خواب تھا میرے حساب میں

 

جس کے لیے زمیں پہ زمانے بدل گئے

وہ شخص آفتاب تھا میرے حساب میں

 

اُس نے سمُندروں کو بھی قطرہ بنا دیا

انسان جو حباب تھا میرے حساب میں

 

ساحلؔ ! زمیں کا درد زمیں سے نہ پوچھیے

یہ کُرہ آفتاب تھا میرے حساب میں

۔ ٭۔

 

 

وہ بھی کرتا ہے شب و روز دُعا اپنی جگہ

جس کو مِلتا نہیں دنیا میں خُدا اپنی جگہ

 

مَیں ہُوں غیور قبیلے سے محبت کی قسم

دوستی اپنی جگہ اور وفا اپنی جگہ

 

جس کے سینے میں محبت ہے اُسے ملنا ہے

مَیں بھی کرتا ہُوں مرے یار گِلہ اپنی جگہ

 

اپنی ترتیب سے بے گانہ پڑی ہے دُنیا

کوئی پتھّر نہ کِسی گھر میں لگا اپنی جگہ

 

آئینہ رکھ کے وہ پتھّر کے مُقابل بولا

دِلکشی اپنی جگہ اور ادا اپنی جگہ

 

رات کی رات تھا ہنگامۂ  ہستی ساحلؔ

کوئی منظر نہ مگر دِل میں رہا اپنی جگہ

۔ ٭۔

 

 

 

تجھے اُس جہاں کی بندش، مجھے اِس جہاں کی بندش

مرے آسمان والے ! مجھے خاکداں کی بندش

 

ہے کبھی مکاں کی بندش کبھی لامکاں کی بندش

مَیں جہاں جہاں سے گذرا مجھے اُس جہاں کی بندش

 

مَیں زمانے گِن رہا ہُوں مَیں فسانے  چن رہا ہُوں

مرے لیکھ لکھنے والے مجھے امتحاں کی بندش

 

مَیں کہاں کہاں گِرا ہُوں، مَیں کہاں کہاں مرا ہُوں

کہیں دوستوں کی عزّت، کہیں رفتگاں کی بندش

 

مرا سِلسِلہ کہاں تک، مرا راستہ کہاں تک

مری سرحدوں کے مالک ! کبھی کھول جاں کی بندش

 

مجھے بخش میرا چہرہ مجھے بخش دے سراپا

مَیں کہانیوں کا باسی مجھے داستاں کی بندش

۔ ٭۔

تُو نے کچھ تو کہا تھا بھُول گیا

کوئی حرفِ دُعا تھا بھُول گیا

 

چاند تھا یا کوئی ستارہ تھا

طاق میں کچھ پڑا تھا بھُول گیا

 

اک عجب ذائقہ ہے ہونٹوں پر

ہاں کوئی چٹکلا تھا بھُول گیا

 

تُو نے جھانکا تھا بالکونی سے

مَیں غزل لکھ رہا تھا بھُول گیا

 

آئینہ دیکھ کر اُداس ہُوا

کوئی وعدہ کِیا تھا بھُول گیا

 

ایک تالا مری زُبان پہ تھا

ایک در پر لگا تھا بھُول گیا

 

ایک عرصے کی آشنائی تھی

مَیں کوئی حادثہ تھا بھُول گیا

 

مَیں تعلُّق بچا بھی سکتا تھا

ایک رستہ کھُلا تھا بھُول گیا

 

کون آیا ہے سوچ میں ساحلؔ

کِس کی جانب چلا تھا بھُول گیا

۔ ٭۔

 

 

یہاں وہاں سے گذرنا تو میری عادت ہے

مگر یہ سبز علاقہ تری امانت ہے

 

سُنا ہے درد کی دولت کو عام کرتے ہو

یہ عشق ہے تو یہی عشق سے خیانت ہے

 

مَیں اپنے سوچ کے تعویذ میں پڑا ہُوں ابھی

نمازِ عشق، محبت ہے یا عقیدت ہے

 

مَیں گردشوں کے تسلسُل سے بھی ہراساں ہُوں

پہ جانتا ہُوں کہ یہ کارِ دستِ قدرت ہے

 

اے میری شاخِ تمنّا پہ کھِلنے والے گُلاب

تُو جانتا ہے کہ دِل کی بھی سُرخ رنگت ہے

 

مَیں عاشقوں کے تماشے میں رُک گیا تھا یونہی

کہا ہے کِس نے مری جاں مجھے محبت ہے

 

جو اپنے ساتھ بدن میں سمیٹ لایا ہُوں

مرا وہ سجدۂ  روزِ ازل قیامت ہے

 

کہاں مَیں وقت کی گردش سنبھالتا ساحلؔ

یہ صبح و شام کا دربار ہی غنیمت ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

بے مزہ تھی جو بد مزا کر دی

زِندگی آپ نے سزا کر دی

 

ایک پردہ تھا، دوستی کیا تھی

باتوں باتوں میں ناروا کر دی

 

تُو نے وعدہ کِیا تھا جس دِن کا

دِل نے اُس شام اِنتہا کر دی

 

تیرے حصّے کا انتظار کِیا

پھِر نمازِ وفا ادا کر دی

 

دیکھ کر بھی مجھے نہیں دیکھا

گویا رِشتے کی اِبتدا کر دی

 

تیرے وعدے تری امانت ہیں

پر وہ تصویر جو چھُپا کر دی

 

آج بھی شوق ہے جلانے کا

تُو نے تحریر بھی جلا کر دی

۔ ٭۔

 

 

 

کچھ دِل کا تعلُّق تو نبھاؤ کہ چلا مَیں

یا ٹوٹ کے آواز لگاؤ کہ چلا مَیں

 

درپیش مسافت ہے کِسی خواب نگر کی

اک دِیپ مرے پاس جلاؤ کہ چلا مَیں

 

اِس شہر کے لوگوں پہ بھروسا نہیں کرنا

زنجیر کوئی در پہ لگاؤ کہ چلا مَیں

 

تا دِل میں تمھارے بھی نہ احساسِ وفا ہو

جی بھر کے مجھے آج ستاؤ کہ چلا مَیں

 

مشتاق نگاہوں سے سحر ٹوٹ رہا ہے

چہرے پہ کوئی رنگ سجاؤ کہ چلا مَیں

 

اِس شہرِ مراسم میں تو سنگسار ہُوا ہُوں

پتھّر ہی سرِ راہ سجاؤ کہ چلا مَیں

 

اِس تشنہ لبی پر مجھے اعزاز تو بخشو

اے بادہ کشو جام اُٹھاؤ کہ چلا مَیں

 

اِس درجہ تغافُل کی نہیں تاب جگر کو

تم اور بہانے نہ بناؤ کہ چلا مَیں

 

اک خواب ہے وہ خواب تو پورا کرو ساحلؔ

اک شعر مرا مجھ کو سُناؤ کہ چلا مَیں

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

جس کو نایاب خواب میں دیکھا

اُس کو بے تاب خواب میں دیکھا

 

تا سَحَر آنسُوؤں میں ڈُوبا رہا

کِس کو غرقاب خواب میں دیکھا

 

نیند کا سارا لُطف جاتا رہا

تجھ کو بے خواب خواب میں دیکھا

 

تیرے دِل پر مری حُکُومت ہو

اک یہی خواب خواب میں دیکھا

 

گھر کے آنگن میں بے قراری تھی

دِل کو بے تاب خواب میں دیکھا

 

میری توقیر تو فقیری تھی

کیوں یہ سرخاب خواب میں دیکھا

 

پھِر سفر ہے نصیب میں ساحلؔ

مَیں نے گرداب خواب میں دیکھا

۔ ٭۔

 

 

 

 نقّاش کے لیے

 

اچھے لمحے سنبھال کر رکھنا

سارے رِشتے سنبھال کر رکھنا

 

دِل کی دنیا عجیب دنیا ہے

دِل کو دِل سے سنبھال کر رکھنا

 

راحتِ جسم و جاں سے بہتر ہے

سچّے سجدے سنبھال کر رکھنا

 

ہاتھ کے ہاتھ رِزق چلتا ہے

سب کے حصّے سنبھال کر رکھنا

 

منزلوں پر یقین مت کرنا

اپنے رستے سنبھال کر رکھنا

 

آسماں کی زُبان سادہ ہے

اپنے لہجے سنبھال کر رکھنا

 

میری عزت ہی میری دولت ہے

میرے بچّے ! سنبھال کر رکھنا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

ہجراں میں اب وہ ہجر کی لذّت نہیں رہی

گویا محبتوں میں وہ شِدّت نہیں رہی

 

خانہ بدوش آ گئے شہروں کے درمیاں

مجنوں کو بھی مکان سے وحشت نہیں رہی

 

خود کو اُٹھا کے راہ میں رکھّا ہے کھول کر

دیکھو تو میری ذات میں غُربت نہیں رہی

 

مَیں نے بڑے وقار سے دُنیا کو تج دِیا

کِس نے کہا تھا عشق میں عزت نہیں رہی

 

اِک عالمِ خیال میں بسنے لگا ہُوں مَیں

اب عالمِ وُجُود سے نسبت نہیں رہی

 

جی بھر کے اِس جہان میں زندہ رہا ہُوں مَیں

اب دِل کو سرکشی کی بھی حسرت نہیں رہی

 

اِس  کنجِ بے نشان میں ساحلؔ  سُکُوں تو ہے

لیکن یہ مسئلہ ہے کہ شہرت نہیں رہی

۔ ٭۔

 

 

 

 

حادثے پیار میں ایسے بھی تو ہو جاتے ہیں

رتجگے خیمۂ  تسکین میں سو جاتے ہیں

 

بعض اوقات ترا نام بدل جاتا ہے

بعض اوقات ترے نقش بھی کھو جاتے ہیں

 

چلتے چلتے کِسی رستے کے کِنارے پہ کہیں

یاد کے پھُول مسافت میں پرو جاتے ہیں

 

تجھ کو دیکھا ہے تو آثار نظر آئے ہیں

تجھ کو دیکھا ہے تو ماضی کو بھی رو جاتے ہیں

 

ہم چلے جاتے ہیں اِس شہر کے جنگل سے کہیں

تم ہمیں درد کی خیرات تو دو ! جاتے ہیں

۔ ٭۔

 

 

 

ہم پریشانیِ حالات کے مارے ہوئے لوگ

خود سے ہارے ہوئے دنیا سے بھی ہارے ہوئے لوگ

 

ہم تو یوں خاک بسر ہو کے بھی کچھ خاک نہیں

وائے قسمت کہ زمانے میں سِتارے ہوئے لوگ

 

بن سنور کر جو مَیں نکلا تو گھٹائیں برسیں

یوں بِکھر جاتے ہیں دنیا میں سنوارے ہوئے لوگ

 

مجھ سے کرتے تھے وہ سب عہدو وفا کی باتیں

بیچ منجدھار سے دیکھا تو کنارے ہوئے لوگ

 

یوں تو بھُولا نہیں کوئی بھی تمھارے چرچے

جانے کِس شوق میں پھِر آج تمھارے ہوئے لوگ

 

تم تو اک لمحے کو دِل سے ہی لگا بیٹھے ہو

بھُول جاتے ہیں زمانے بھی گزارے ہوئے لوگ

 

بھُولے بِسرے ہوئے لوگوں کی کہانی نکلے

ہم چمن زارِ حقیقت میں اُتارے ہوئے لوگ

 

آگ تھے ہم بھی کبھی سرد رُتوں میں ساحلؔ

آج ہم برف ہوئے ہیں تو شرارے ہوئے لوگ

۔ ٭۔

 

 

 

زِندگی ! ہم نے زِندگی کی ہے

گھر سے باہر بھی روشنی کی ہے

 

بات دِل کی ہے ، بے خودی کی ہے

گر نہ سمجھو تو دِل لگی کی ہے

 

دوستی کی نہ دُشمنی کی ہے

تم نے کیسی یہ بندگی کی ہے

 

یہ محبت نہیں کہ تم بھی کرو

ہم نے اے دوست ! عاشقی کی ہے

 

چاند اُترا تھا جھیل میں لیکن

کِس ستارے نے مخبری کی ہے

 

وہ خُدا بن گیا ہے دُنیا کا

ہم نے جس کِس کی چاکری کی ہے

 

یہ نہ سمجھو کہ مان جائیں گے

یہ مُلاقات آخری کی ہے

 

ایک مصرع نہیں ہُوا ساحلؔ

ہم نے ہر روز خُودکُشی کی ہے

۔ ٭۔

 

 

کِسی بھی راہ پہ رُکنا نہ فیصلہ کر کے

بچھڑ رہے ہو مری جان حوصلہ کر کے

 

مَیں انتظار کی حالت میں رہ نہیں سکتا

وہ انتہا بھی کرے آج ابتدا کر کے

 

تری جُدائی کا منظر بیاں نہیں ہو گا

مَیں اپنا سایہ بھی رکھوں اگر جُدا کر کے

 

مجھے تو بحرِ بَلا خیز کی ضرورت تھی

سِمٹ گیا ہُوں مَیں دُنیا کو راستہ کر کے

 

کِسی خیال کا کوئی وُجُود ہو شاید

بدل رہا ہُوں مَیں خوابوں کو تجربہ کر کے

 

کبھی نہ فیصلہ جلدی میں کیجیے ساحلؔ

بدل بھی سکتا ہے کافر وہ بد دُعا کر کے

۔ ٭۔

 

 

 

پھِر مرے فکر کی بے رحم فضا ہے مجھ میں

اِس کا مطلب ہے کہ کچھ اور جگہ ہے مجھ میں

 

مَیں کہ رنگوں کو بھی ترتیب دیا کرتا تھا

اب یہ حالت ہے کہ بے کیف دُعا ہے مجھ میں

 

اپنی تعمیر میں اپنی بھی حفاظت نہ ہوئی

ایک ویران سا گھر آن مِلا ہے مجھ میں

 

گونج اے وقت! مرے سوچ کے سنّاٹے میں

درد کا پھیلا ہُوا ایک خلا ہے مجھ میں

 

سوچ ! اُجڑے ہوئے لمحوں کی مسافت کیا ہے

دیکھ ! اِس آبلہ پائی کا گِلہ ہے مجھ میں

 

ٹُوٹ کر بھی جو نہ بکھری وہ صفت میری تھی

اب کہ ٹُوٹا ہُوں تو اک غار بنا ہے مجھ میں

 

چین سے گھر میں جو رہنے نہیں دیتی مجھ کو

مجھ سے پوشیدہ کوئی ایسی بَلا ہے مجھ میں

 

اپنی مٹّی سے بچھڑنے کا تو غم ہے ساحلؔ

اپنی دھرتی کی مگر آ ب وہَوَا ہے مجھ میں

۔ ٭۔

 

 

 

جنابِ مضطر عارفی کی نذر

 

لاکھوں ہیں زِندگی کے حوالے پڑے ہوئے

لیکن ہر ایک خواب پہ تالے پڑے ہوئے

 

اک عُمر تیری یاد میں رویا نہیں ہُوں مَیں

آنکھوں میں ہیں غُبار کے چھالے پڑے ہوئے

 

مَیں بھی تو ایک خواب تھا سُقراط کی طرح

میرے بھی آس پاس ہیں پیالے پڑے ہوئے

 

لشکر ہے خواہشات کا میری تلاش میں

اچھا ہُوا کہ در پہ ہیں جالے پڑے ہوئے

 

پہلو بدل رہے ہیں مسلسل عذاب کا

میرے وُجُود میں ہیں جو نالے پڑے ہوئے

 

دیوارو در میں کوئی خرابی نہیں مگر

اِن میں ہیں بے کلی کے مسالے پڑے ہوئے

 

راہِ وفا میں عشق کے دریا نکالیے

جب تک ہیں راستے میں ہمالے پڑے ہوئے

 

مضطرؔ کے شعر، عِلم و ہُنر کا جہان ہیں

موتی ہیں آگہی کے ، اُٹھا لے پڑے ہوئے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

پہلے تو آب و تاب سِتارے میں پھینک دی

پھِر خاکِ جان درد کے کُوزے میں پھینک دی

 

یہ کائنات خالقِ واحد کا عشق ہے

کِس نے سیاہی کُفر کی نقشے میں پھینک دی

 

تُو وہ حسین شام ہے جس کے فریب میں

قدرت نے روشنی بھی اندھیرے میں پھینک دی

 

حیران ہُوں مَیں آج بھی اپنے نصاب سے

کِس نے کتاب عشق کی بستے میں پھینک دی

 

خواہش تو بے کنار تھی لیکن مری حُدُود

مَیں نے فقیری یار کے رستے میں پھینک دی

 

کیا بادِ بے حجاب چلی اب کے شہر میں

شوخی کھِلے گُلاب کی غنچے میں پھینک دی

 

پہلے اَنا کو ذات کا حصّہ کِیا مگر

پھِر یہ چٹان توڑ کے سجدے میں پھینک دی

۔ ٭۔

 

 

 

سوال یہ نہیں قاتل کے ہات میں کیا ہے

سوال یہ ہے کہ منصف کی ذات میں کیا ہے

 

سوال یہ نہیں سُقراط مر گیا کیونکر

سوال یہ ہے کہ آبِ حیات میں کیا ہے

 

سوال یہ نہیں تاریکیاں کہاں تک ہیں

سوال یہ ہے کہ تلخی کی رات میں کیا ہے

 

سوال یہ نہیں غیروں نے زخم کیسے دِیے

سوال یہ ہے کہ اپنوں کی بات میں کیا ہے

 

سوال یہ نہیں بخشے گئے ہیں کیوں ساحلؔ

سوال یہ ہے کہ ایسی نجات میں کیا ہے

۔ ٭۔

 

 

 

دُنیاداری کا تجربہ بھی نہیں

اور لفظوں کا آسرا بھی نہیں

 

جھُوٹ بولوں تو جھُوٹ لگتا ہے

مجھ کو ولیوں کی بد دُعا بھی نہیں

 

مجھ کو دریا کے پار جانا ہے

اور ہاتھوں میں معجزہ بھی نہیں

 

نقش تازہ ہے ریت پر لیکن

دُور تک کوئی قافلہ بھی نہیں

 

کیوں مسلسل سفر ہے قسمت میں

مُڑ کے دیکھا نہیں، رُکا بھی نہیں

 

کچھ بھی حاصل نہیں جنوں سے مجھے

میرے پیروں میں آبلہ بھی نہیں

 

اُس شجر کو شجر نہیں کہتے

جس پہ چڑیوں کا گھونسلا بھی نہیں

 

آگ بجھنے لگی ہے دُشمن کی

ہاتھ میرا ابھی جلا بھی نہیں

 

کوئی حد بھی نہیں کہیں ساحلؔ

اور رستہ کہیں کھُلا بھی نہیں

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

اک تری یاد کے سہارے پر

زِندگی کٹ گئی کنارے پر

 

کون رستے بدل رہا ہے وہاں

کون رہتا ہے اُس ستارے پر

 

روشنی کی اگر علامت ہے

راکھ اُڑتی ہے کیوں شرارے پر

 

امتحاں کی خبر نہیں لیکن

رو رہا ہُوں ابھی خسارے پر

 

جب نظر کو نظر نہیں آیا

زِندگی رُک گئی نظارے پر

 

میرے اِصرار پر نہیں آیا

جس کو اصِرار تھا اِشارے پر

 

خود نُمائی کا جال تھا ساحلؔ

مَیں نے بھی فکر کے سنوارے پر

۔ ٭۔

 

 

 

میرے بھی کچھ  گلے تھے مگر رات ہو گئی

کچھ تم بھی کہ، رہے تھے مگر رات ہو گئی

 

دُنیا سے دُور اپنے برابر کھڑے رہے

خوابوں میں جاگتے تھے مگر رات ہو گئی

 

اعصاب سُن رہے تھے تھکاوٹ کی گفتگو

اُلجھن تھی، مسئلے تھے ، مگر رات ہو گئی

 

آنکھوں کی روشنی میں اندھیرے بکھر گئے

خیمے سے کچھ جلے تھے مگر رات ہو گئی

 

اے دل! اے میرے دِل یہ سُنا ہے کہ شام کو

گھر سے وہ چل پڑے تھے مگر رات ہو گئی

 

ایسی بھی کیا وفا کی کہانی تھی رو پڑے

کچھ سلسلے چلے تھے مگر رات ہو گئی

 

کچھ زِینے اختیار کے چڑھنے لگا تھا مَیں

کچھ وہ اُتر رہے تھے مگر رات ہو گئی

 

دُشمن کی دوستی نے مسافت سمیٹ لی

قدموں میں راستے تھے مگر رات ہو گئی

 

ساحلؔ فریبِ فِکر ہے دُنیا کی داستاں

کچھ راز کھُل چلے تھے مگر رات ہو گئی

۔ ٭۔

 

 

 

دِل چاہتا ہے آج مرے پاس تم رہو

میرے بدن کا، رُوح کا احساس تم رہو

 

مَیں زِندگی سے ساری محبت نچوڑ لوں

میری خوشی ہے میرا غمو یاس تم رہو

 

ہر خواب قتل کر کے تمھیں سوچتا رہوں

مَیں ہُوں وُجُودِ عشق مرا ماس تم رہو

 

یہ مانتا ہُوں دِل سے کہ کچھ بھی نہیں ہُوں مَیں

ہو کر مرا یقین، مرا راس تم رہو

 

لفظوں میں ڈھل رہی ہے محبت کی واردات

مَیں ذات لکھ رہا ہُوں تو قرطاس تم رہو

 

ایسا نہیں کہ کھیل کا کوئی ہُنر نہیں

مَیں ہارنے لگوں تو مری آس تم رہو

 

بنتے سنورتے وہ رہیں شیشے کے سامنے

لیکن ادائے حُسن کے عکّاس تم رہو

 

ساحلؔ تو اشکِ زِیست ہے شاید وہ گِر پڑے

لیکن جہانِ خاص میں الماس تم رہو

۔ ٭۔

 

 

گئے دِنوں کے تعاقب میں جب نکلتے ہیں

اندھیرے ہاتھ میں رستے پکڑ کے چلتے ہیں

 

نجانے لیکھ میں کیا کیا سفر ہیں لکھے ہوئے

ہمارے پانو ہماری زمیں پہ جلتے ہیں

 

نہیں ہے میری نفی میں شکستِ ذات کہیں

چراغ اپنی شہادت میں آپ جلتے ہیں

 

مرا خمیر ہے مٹّی میں آپ مٹّی ہُوں

مرے حریف مری داستاں بدلتے ہیں

 

قدم یہ سوچ کے رکھو ! یہ میری دنیا ہے

یہ وہ جگہ ہے جہاں حادثے سنبھلتے ہیں

 

مرا تو عجز مرا مرتبہ ہُوا ساحلؔ

مگر یہ لوگ مرے سامنے اُچھلتے ہیں

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

رہِ وفا میں جو دُنیا نثار کرتے ہیں

سِتارے بن کے فلک پر وہی نکھرتے ہیں

 

شکست مان لی مَیں نے بھی جیتنے کے لیے

مقامِ شکر پہ بے موت لوگ مرتے ہیں

 

نہیں تراشنی کوئی بھی اب دلیل مجھے

مکرنے والے تو سُورج سے بھی مکرتے ہیں

 

مرا یہ دِل وہ مقدّس مقام ہے جس پر

فرشتے اپنی محبت بیان کرتے ہیں

 

مَیں اپنی ذات سے مایوس تو نہیں لیکن

مرے یقین مجھے بد گُمان کرتے ہیں

 

مِلی جو آنکھ تو آیا ہے یہ خیال مجھے

کہاں سے چلتے ہیں دھارے ، کہاں نکھرتے ہیں

 

بصارتوں میں بصیرت نہیں رہی ساحلؔ !

جلاؤ دِیپ، اندھیرے میں خواب ڈرتے ہیں

۔ ٭۔

 

 

اُس کی ہُنروری تھی جو فن کار کر گیا

میرے ذرا سے خواب کو شہکار کر گیا

 

کتنا وہ کم نصیب تھا جو مار کر گیا

مجھ کو بھی داستان کا کِردار کر گیا

 

زِینہ لگا تھا سوچ کا، طاقت بھی تھی مگر

اک وہم آسمان کو دیوار کر گیا

 

کیسا مسیحا شہرِ مراسم میں آ بسا

بس حال پوچھ کر مجھے بیمار کر گیا

 

اشکوں کی شاخ ٹُوٹ کے مٹّی میں جا مِلی

میرا خُلُوص خاک کو گلنار کر گیا

 

کِس نے کہا تھا آئینہ خانے کی سیر کر

اے شخص! تُو تو عشق کا انکار کر گیا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

کچھ تو کہتے ہیں وہ گِلہ ہی سہی

یہ تعلُّق بھی ناروا ہی سہی

 

سبز پتّوں کے سُرخ موسم میں

تیرا مِلنا بھی حادثہ ہی سہی

 

دِل کو طاقت نہیں ہے سہنے کی

سر پٹخنے کا حوصلہ ہی سہی

 

اپنی توہین اب نہیں ہوتی

بے وفا ہُوں تو بے وفا ہی سہی

 

سوچ کِس کا ہُنر زیادہ ہے

مَیں ہُوں مٹّی تُو کیمیا ہی سہی

 

دُشمنی میں تو جان جاتی ہے

دوستی میں یہ تجربہ ہی سہی

 

زِندگی کر رہا ہُوں مَیں ساحلؔ

میرے حصّے میں راستہ ہی سہی

۔ ٭۔

 

 

اندھیری رات تھی بادل نے بھی ڈرایا تھا

مگر مَیں سارے زمانے سے لڑ کے آیا تھا

 

مجھے تو پیاس نے روکا تھا  خشک چشمے پر

تُو کِس خیال میں صحرا کے بیچ آیا تھا

 

پھِر اُس کے بعد تو احساسِ بندگی نہ رہا

بس ایک شام ترے نام نے ستایا تھا

 

نہیں تھا ایک بھی پتّا شجر کے ہاتھوں میں

مگر زمین پہ اُس کا بھی سبز سایا تھا

 

وہ اپنے گھر سے بہت دُور لے گیا ہے مجھے

گھروں سے دُور جو خوابوں کا گھر بنایا تھا

 

ہم ایک صف میں تھے لیکن یہ کیا ہُوا ساحلؔ

مَیں رزم گاہ سے دُشمن بچا کے لایا تھا

۔ ٭۔

 

 

مزاجِ شوقِ ستم گر جو مَیں نے دیکھا تھا

مِلا ہے مجھ کو وہ پتھّر جو مَیں نے دیکھا تھا

 

مرے تو وہم کی دنیا عجیب دنیا تھی

تری بھی آنکھ میں ہے ڈر جو مَیں نے دیکھا تھا

 

مرے ہی سامنے ذرّے سے بھی حقیر ہُوا

وہ آسماں کے برابر جو مَیں نے دیکھا تھا

 

مرے مکان کی جانب ہے گامزن یارو

گلی کے پار وہ لشکر جو مَیں نے دیکھا تھا

 

کِسی کا حُسن تھا جادو تھا یا قیامت تھی

کہ زندہ شخص تھا پتھّر جو مَیں نے دیکھا تھا

 

گلی گلی مرا بازار بن گیا ساحلؔ

وہ اِک تماشہ سا گھر گھر جو مَیں نے دیکھا تھا

۔ ٭۔

 

 

 

اُس شہ سوارِ عشق کا کچھ تو ملال کر

رستے میں رہ گیا ہے جو رستہ نکال کر

 

دونوں طرف ہے درد کی تصویر جانِ غم

دیکھا ہے مَیں نے سوچ کا سِکّہ اُچھال کر

 

مجھ کو اگرچہ وقتِ ضرورت نہیں ملے

رکھے ہیں پھِر بھی ہاتھ میں رِشتے سنبھال کر

 

رستے نہیں یقین کی منزل بھی بخش دُوں

اک بار اِس فقیر کے در پر سوال کر

 

رنگوں میں رنگ ایک ہے جس کی نہیں مثال

دیکھا ہے مَیں نے دُودھ بھی پانی میں ڈال کر

۔ ٭۔

 

 

مَیں اپنی آنکھ بھی خوابوں سے دھو نہیں پایا

مَیں کیسے دُوں گا زمانے کو جو نہیں پایا

 

شبِ فراق تھی موسم عجیب تھا دِل کا

مَیں اپنے سامنے بیٹھا تھا رو نہیں پایا

 

مری خطا ہے کہ مَیں خواہشوں کے جنگل میں

کوئی سِتارہ کوئی چاند بو نہیں پایا

 

حسین پھولوں سے دیوارو در سجائے تھے

بس ایک برگِ دل آسا پرو نہیں پایا

 

چمک رہے تھے اندھیرے میں سوچ کے   جگنو

مَیں اپنی یاد کے خیمے میں سو نہیں پایا

 

نہیں ہے حرفِ تسلّی مگر کہوں ساحلؔ

نہیں جو پایا کہیں یار تو نہیں پایا

۔ ٭۔

 

 

 

جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو

میں رو پڑوں گا بہانہ تو ہاتھ آنے دو

 

مَیں اپنی ذات کے روشن کروں گا ویرانے

قبولیت کا زمانہ تو ہاتھ آنے دو

 

مَیں رُوپ اور سنواروں گا داستانوں کے

اب ایک دشتِ دِوانہ تو ہاتھ آنے دو

 

مری نظر میں زمانے کی کج ادائی ہے

نشاں بہت ہیں نشانہ تو ہاتھ آنے دو

 

خرید لوں گا مَیں دُنیا ضمیر کی ساحلؔ

ذرا رُکو ! یہ خزانہ تو ہاتھ آنے دو

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

یہ تو صدیوں کا فاصلہ ہے میاں

یہ فقیروں کا راستہ ہے میاں

 

موت نشّے کی اِنتہا ہے میاں

نیند میں اُس کا ذائقہ ہے میاں

 

کِس میں طاقت ہے درد  سہنے کی

یہ تو مٹّی کا حوصلہ ہے میاں

 

ہر قدم پر ہے آسمان کوئی

یہ زمیں کوئی کربلا ہے میاں

 

ہر خوشی پر اگر مَیں روتا ہُوں

میرے دِل کا معاملہ ہے میاں

 

مَیں خلا ہُوں نہ مَیں خلا میں ہُوں

میرے چاروں طرف خُدا ہے میاں

 

شعر لمحے کی واردات نہیں

ایک لمبا یہ سِلسِلہ ہے میاں

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

تُو مرا کب سے راز داں ہے میاں

میرا سینہ تو آسماں ہے میاں

 

وہ زمانہ تو داستاں ہے میاں

یہ زمانہ بھی راے گاں ہے میاں

 

منتشر ہے وہ ذرّے ذرّے میں

میرا حصّہ کہاں کہاں ہے میاں

 

میرے سر پر ہے بوجھ صدیوں کا

میرے ماتھے پہ بھی نشاں ہے میاں

 

اک دِیا تیرگی میں رکھّا تھا

آج رستے میں کہکشاں ہے میاں

 

ہم فقیروں کا بھیس بدلے ہوئے

آسمانوں کا آسماں ہے میاں

 

جھُوٹ بولوں تو اپنے مولا سے

جس کے قبضے میں میری جاں ہے میاں

 

تیری آنکھوں میں تو چمک سی تھی

تُو بھی اپنوں سے بدگماں ہے میاں !

 

آ! محبت کا وِرد جاں سے کریں

یہ ہماری نئی زُباں ہے میاں

۔ ٭۔

 

 

 

مَیں بھی حُضُورِ یار بہت دیر تک رہا

آنکھوں میں پھِر خُمار بہت دیر تک رہا

 

کل شام میرے قتل کی تاریخ تھی مگر

دُشمن کا انتظار بہت دیر تک رہا

 

اب لے چلا ہے دشت میں میرا جنوں مجھے

اِس جن پہ اختیار بہت دیر تک رہا

 

وہ انکشافِ ذات کا لمحہ تھا کھُل گیا

شاید درونِ غار بہت دیر تک رہا

 

اب دیکھتے ہو کوئی سہارا ملے تمھیں

مَیں بھی تو اشکبار بہت دیر تک رہا

 

تم مصلحت کہو یا منافق کہو مجھے

دِل میں مگر غبار بہت دیر تک رہا

 

مَیں خاک آسماں کی بلندی کو دیکھتا

اپنوں پہ اعتبار بہت دیر تک رہا

 

الزامِ خودسری بھی تو ثابت کِیا گیا

مَیں جب کہ خاکسار بہت دیر تک رہا

 

ساحلؔ مری بَلا سے مرا حشر ہو گا کیا

دنیا میں با وقار بہت دیر تک رہا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

اُس کی طلب تھی زِندگی، مَیں نے کہا جہان بھی

کِس کو خبر تھی بے خبر مانگے گا آسمان بھی

 

ساری دُعائیں بھُول کر مَیں نے شکست مان لی

گھر تو بنا نہیں مگر، خالی نہ ہو مکان بھی

 

جل کر جو راکھ ہو گئے ، اُن کو ہَوَا نہ لے اُڑے

اپنے وُجُود کا کہیں کچھ تو رہے نشان بھی

 

کوئی نہیں ہے با وفا، کوئی نہیں ہے با صفا

غیروں سے کیا گِلہ کریں، اچھّا ہے خاندان بھی

 

حرصو ہَوَس نے چھین لی سارے جہاں کی روشنی

کوئی نہیں ہے ذائقہ خالی ہے پاندان بھی

 

مَیں نے دُعائے خیر میں اُس کو بھی ساتھ لے لیا

دیکھا تو اُس کے ہاتھ میں، تھا تیر بھی کمان بھی

 

خالد ملک جو آگ تھا، ساحلؔ ہُوا تو خاک ہے

شعرو سخن نے چھین لی اُس کے بدن سے جان بھی

۔ ٭۔

 

 

 

ہم نے یادوں کو بھی سزا دی ہے

ایک تصویر تھی جلا دی ہے

 

غیر تو غیر تھے جلاتے تھے

تم نے تو راکھ بھی اُڑا دی ہے

 

خواب کا ذائقہ بدل جاؤ

رتجگے کی اگر دُعا دی ہے

 

آنکھ کے بے مزہ سے پانی نے

دِل کی تحریر بھی مِٹا دی ہے

 

آپ کہتے ہیں ! ٹھیک کہتے ہیں

ہم نے اپنوں کو بھی دغا دی ہے

 

دیکھیے کون سر طلب کر لے

مَیں نے زنجیر تو ہِلا دی ہے

 

مَیں تجسُّس کے اُس جہان میں ہُوں

جس نے دیوار سی اُٹھا دی ہے

 

میری سچائی کھو گئی ساحلؔ

کون ہے کِس نے بد دُعا دی ہے

۔ ٭۔

 

 

 

گھر سے باہر تھی، گھر نہیں آئی

آرزُو تھی، مگر نہیں آئی

 

راستے میں ہی مر گئی ہو گی

زِندگی تو اِدھر نہیں آئی

 

روشنی ہے خلا کے اندر بھی

میرے گھر تک مگر نہیں آئی

 

سُن رہا تھا مَیں ساری دنیا کو

اپنی کوئی خبر نہیں آئی

 

دِیدنی تھا وہ خواب کا منظر

نیند پھِر رات بھر نہیں آئی

 

جان دے دُوں گا میرا وعدہ ہے

آج بھی تُو اگر نہیں آئی

 

غرق ہو کیسے کارِ دنیا میں

کوئی طاقت نظر نہیں آئی

 

میرؔ و غالبؔ کو پڑھ لیا ساحلؔ

بات کرنی مگر نہیں آئی

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

جس قدر دیکھ سکا اُس کے سِوا کچھ بھی نہیں

مجھ کو تسلیم کی عادت ہے رضا کچھ بھی نہیں

 

بے حُضُوری کے زمانے کی طلب ہے دُنیا

ایک چُلُّو کے سِوا دستِ دُعا کچھ بھی نہیں

 

دشتِ ہجراں میں بہت دُور نکل آیا ہُوں

مجھ کو ویران سی وحشت کے سِوا کچھ بھی نہیں

 

آئینہ خانے بدلتے ہیں مرے نقش مگر

مجھ کو بے شکل زمانے سے گِلہ کچھ بھی نہیں

 

کتنا رنگین ترنُّم تھا مگر جانے دے

تُو نے دیکھا نہیں اور مَیں نے سُنا کچھ بھی نہیں

 

دل نے پہلو میں بہت دھوم مچائی، سو عبث

کہ جنوں خیزیِِ صحرا سے ملا کچھ بھی نہیں

 

ایسے بے صَرفہ کِیا خرچ زمانہ ساحلؔ

ہاتھ میں اب کے لکیروں کے سِوا کچھ بھی نہیں

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

راکھ ہونے سے یوں بچاؤ مجھے

آگ ہُوں آگ سے  بجھاؤ مجھے

 

زِندگی زِندگی کا حصّہ ہے

تم کوئی حادثہ بناؤ مجھے

 

ہاں  زمانے سے ہار مانی ہے

تم بھی دیوار سے لگاؤ مجھے

 

یہ فقیروں کا راستہ ہے میاں !

اِس گلی سے نہ یوں اُٹھاؤ مجھے

 

پھِر سے دیوانگی کی بات کرو

کوئی دیوانہ پھِر بناؤ مجھے

 

اب زمانہ بھی یاد آنے لگا

مَیں تو کہتا تھا  ہار جاؤ مجھے

 

مَیں مُکمَّل یقین ہُوں ساحلؔ

بدگماں ہو تو آزماؤ مجھے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

تقدیر کے دربار میں القاب پڑے تھے

ہم لوگ مگر خواب میں بے خواب پڑے تھے

 

یخ بستہ ہَوَاؤں میں تھی خاموش حقیقت

ہم سوچ کی دہلیز پہ بے تاب پڑے تھے

 

تصویر تھی احساس کی، تحریر ہَوَا کی

صحرا میں ترے عکس کے گرداب پڑے تھے

 

کل رات مَیں جس راہ سے گھر لوٹ کے آیا

اُس راہ میں بِکھرے ہوئے کچھ خواب پڑے تھے

 

وہ پھُول جنھیں آپ نے دیکھا تھا ادا سے

اُجڑے ہوئے موسم میں بھی شاداب پڑے تھے

 

پچیس برس بعد اُسے دیکھ کے سوچا

اک قطرۂ  کم ذات میں غرقاب پڑے تھے

 

ہم لوگ تو اخلاق بھی رد آئے ہیں ساحلؔ

ردّی کے اُسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

اک بات تھی جنون کی وہ بات بھی گئی

اپنی تو ذات پات بھی اوقات بھی گئی

 

مُدّت سے اِنتظار تھا جس رات کا مجھے

کافر کے انتظار میں وہ رات بھی گئی

 

میری تو عُمر بھر کی ریاضت تھی جانِ من

کہتے ہیں آپ ! رات گئی بات بھی گئی

 

ایسا کھُلا وہ عشق میں حیران کر گیا

ایسی کھُلی پھِر آنکھ کہ برسات بھی گئی

 

کِس چشمِ بے لحاظ نے بیدار کر دیا

ہوتی تھی جو صبا سے مُلاقات بھی گئی

 

اے بے قرار جسم ! تری بے قراریاں

مِلتی تھی جو مِلاپ کی سوغات بھی گئی

 

ساحلؔ تمام رات اندھیرے میں کاٹ دی

اُس حال ہی میں صبحِ مُناجات بھی گئی

۔ ٭۔

 

 

مر گئے شوق ترے واسطے مہکانے کے

اب تو زِندہ ہیں فقط نقش ترے جانے کے

 

مُیں ہُوں یُوسُف مجھے رِشتوں کی ضرورت ہے بہت

چار حصّے کرو ساقی مرے پیمانے کے

 

روشنی مَیں نے سمیٹی تو اندھیرے مہکے

سایے لہرانے لگے شام سے ویرانے کے

 

رات بجھنے لگی اب شمع کے دروازے پر

پر، جلے پر بھی نہیں ہیں ترے پروانے کے

 

تو نے آنکھوں سے کوئی بات نہیں کی اب تک

کچھ تو آداب ہیں ساقی ترے مَے خانے کے

 

ہاتھ میں اپنی حقیقت بھی نہیں ہے ساحلؔ

خواب ہی خواب ہیں اور خواب ہیں دیوانے کے

۔ ٭۔

 

 

رُوح میں دُور تک اُداسی ہے

شام ہے یا چُڑیل پیاسی ہے

 

ہر گھڑی ایک بدحواسی ہے

زِندگی اَن سُنی دُعا سی ہے

 

عُمر بھر کی وفا کے بعد کھُلا

ہر تعلُّق یہاں سیاسی ہے

 

ہر کِسی سے نباہ کرتا ہُوں

یہ ادا مجھ میں بھی خُدا سی ہے

 

حشر کِس کِس کا حشر میں ہو گا

یہ حُکُومت تو بس ذرا سی ہے

 

عشق اور اِس زمین سے ساحلؔ!

ہر خریدار کی جو داسی ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

گلی کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں  مکاں اندھیرے میں سو رہے تھے

وفا کے رِشتے نہ واسطے تھے ، گھروں کے اندر بھی فاصلے تھے

 

بس ایک رستہ کھُلا تھا لیکن، ہزاروں لاکھوں کے مشورے تھے

یہ خاکساری کی اِنتہا تھی فلک سے آگے بھی گھر بنے تھے

 

مَیں اپنی رسموں سے کٹ گیا ہُوں، ہزار لہجوں میں بٹ گیا ہُوں

کھڑا ہُوں اب تک شکست خوردہ کہ میرے قدموں میں حوصلے تھے

 

وہ کون ہے جو مرے دُکھوں سے سزا کے پردے اُٹھا رہا ہے

مری قیامت کے حادثے تو مرے بدن میں سنور چکے تھے

 

مَیں اپنی حالت سے ماورا تھا، کِسی خلا میں پڑا ہُوا تھا

زمیں کے محور میں آتے آتے مجھے زمانے کئی لگے تھے

 

وہ خاندانوں کے سچّے جذبے  وہ سچّے لوگوں کے میٹھے جذبے

مرے بدن کا چراغ تھے وہ، مرے بدن کے وہ ذائقے تھے

 

مَیں آج اپنی بجھارتوں میں سوال بن کر پڑا ہُوا ہُوں

خُدایا ! میرے یہ مسئلے تو مرے مقدّر کے سلسلے تھے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

آج تم حشر اُٹھاتے ہو  غضب ہووے گا

کل کوئی اور قیامت کا سبب ہووے گا

 

یار کے خواب سلامت ہیں مری آنکھوں میں

میرے آنگن میں تو غیروں کا ادب ہووے گا

 

تُو نے لفظوں کو محبت کی زُباں بخشی ہے

تیرا عاشق بھی کبھی  مہر بہ لب ہووے گا

 

تجھ کو دیکھوں گا ترے سوچ سے باہر جس دم

حال اُس وقت مرے دِل کا عجب ہووے گا

 

اُس کو طاقت نہیں دُنیا کے بکھیڑے ہیں بہت

دِل کی آغوش میں آرام طلب ہووے گا

 

روزِ اوّل سے ہے تقویمِ جہاں میں ساحلؔ

مکتبِ فکر میں بس ایک رجب ہووے گا

 

مرتبہ پوچھ لیا عشق میں جس نے ساحلؔ

تیرے آگے وہی بے نامو نسب ہووے گا

۔ ٭۔

 

 

 

وہ جو روشنی کا نصاب ہے وہی تیرگی کا نصاب ہے

یہاں بندی خانوں میں دوستو ! نئی بندگی کا نصاب ہے

 

صفِ نارساں میں کھڑا رہوں تری داستاں میں پڑا رہوں

مری جان یہ تو عذاب ہے یہ تو بے بسی کا نصاب ہے

 

دِلا! کِس طرف ہُوں مَیں گامزن  جہاں لاشے بکھرے ہیں بے کفن

جہاں دوستی میں ہے دُشمنی جہاں خود کشُی کا نصاب ہے

 

کوئی غم گسار سے پوچھ لے کوئی راز دار کو دیکھ لے

کہاں غم گساری فریب ہے کہاں مخبری کا نصاب ہے

 

مَیں نے دیکھا سوچ کُرید کر  مَیں نے دیکھا خواب کا ہر سفر

جہاں دوستی میں ثواب ہے وہاں دُشمنی کا نصاب ہے

 

مرے ہاتھ میں وہ سکت نہیں جو کہ دستکوں کی پُکار ہو

مرے عاشقی کے سکول میں ابھی دِل لگی کا نصاب ہے

 

مرے رخت میں مرے بخت میں کوئی چاند ہے نہ زمین ہے

مری زِندگی کا حساب ہی مری شاعری کا نصاب ہے

 

چلو آگ لینے پہاڑ سے چلو برف کھوجنے دشت میں

یہی کاوشوں کا مزاج ہے یہی عاشقی کا نصاب ہے

 

مجھے مِل تو موجِ سخن میں مِل  مجھے دیکھ سوچ کی آگ میں

مرے سرد لہجے کو بھُول جا یہ تو زِندگی کا نصاب ہے

 

یوں تو راستوں میں کمی نہ تھی کہیں زِندگی بھی تھمی نہ تھی

رہے پھِر بھی ساحلِ درد پر کہ یہی خوشی کا نصاب ہے

۔ ٭۔

 

 

 

کھُلنے کو کچھ نہیں ہے تو پھِر آسماں کھُلے

لیکن فلک کا بھید سرِ خاکداں کھُلے

 

اک آئینہ ہے اور حقیقت نہیں کوئی

اِس کائناتِ فکر میں کیسے گماں کھُلے

 

اک لمحہ اختیار کا وہ بھی نہیں مِلا

ہم اِس جہان پر جو کھُلے ناگہاں کھُلے

 

ابرِ سیاہ، چاند یہ کھِڑکی، یہ آسماں

گیسُو کھُلے جو یار کے ، دیکھو کہاں کھُلے !

 

اک آہ وہ بھی سانس کی مُٹھی میں دَب گئی

حیرت کی واردات کوئی کیسے یاں کھُلے

 

اک راستہ فرار کا دیکھا تو تھا مگر

کچھ آشنا قریب تھے کچھ راز داں کھُلے

 

چلنے لگیں ہَوَائیں شمال و جنوب سے

مشرق  بجھا تو درد کے پھِر بادباں کھُلے

 

شام و سَحَر کے پھیر میں کچھ بھی نہیں ہے یار

رکھے ہیں ہم نے ہاتھ میں سود و زیاں کھُلے

۔ ٭۔

 

 

 

تُو تشنگی کی اذیّت کبھی فرات سے پوچھ

اندھیری رات کی حسرت اندھیری رات سے پوچھ

 

گذر رہی ہے جو دِل پر وہی حقیقت ہے

غمِ جہاں کا فسانہ غمِ حیات سے پوچھ

 

مَیں اپنے آپ میں بیٹھا ہُوں بے خبر تو نہیں

نہیں ہے کوئی تعلُّق تو اپنی ذات سے پوچھ

 

دُکھی ہے شہر کے لوگوں سے بدمزاج بہت

جو پوچھنا ہے محبت سے احتیاط سے پوچھ

 

تُو اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لے ساحلؔ

زمیں کا بھید کِسی روز کائنات سے پوچھ

۔ ٭۔

 

 

ذرّے ذرّے میں  مینا کاری ہے

یہ زمیں آسماں سے بھاری ہے

 

اُس کا انجام خود کُشی ہو گا

جو لڑائی ازل سے جاری ہے

 

کاسنی درد نے سمیٹ لیا

ارغوانی سی نیند طاری ہے

 

رات کاٹے نہیں کٹی لیکن

زِندگی شام تک گزاری ہے

 

پھِر تکلُّف کا بوجھ لے آئے

سر سے پگڑی ابھی اُتاری ہے

 

زرد پتّوں کی اوٹ سے ساحلؔ

سبز موسم نے آنکھ ماری ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

مَیں اِس زمین سے خوش ہُوں نہ آسمان سے خوش

مَیں ایک لمحۂ  ماعود لامکان سے خوش

 

کہا تھا کِس نے کہ دُنیا سے دوستی کر لو

گذر رہے ہو میاں روزِ امتحان سے ، خوش

 

نہیں خبر تجھے کِس کِس کا بوجھ ڈھونا ہے

تُو مطمئن ہے زمانے سے بدگمان سے خوش

 

مجھے تو میرے مقدّر نے اشتہار کِیا

مَیں اِس جہان کا خاکی تھا خاکدان سے خوش

 

کہانی کار سے کِردار بن گیا ساحلؔ

مَیں اپنے سوچ سے خوش ہُوں وہ داستان سے خوش

۔ ٭۔

 

 

 

کیمیا گر جو خام نکلے گا

خاک مٹّی کا دام نکلے گا

 

مَیں بھی ناراض ہُوں زمانے سے

دیکھنا ! میرا نام نکلے گا

 

میری بیعت تو ہو چُکی کب سے

میرے سینے سے رام نکلے گا

 

چل محبت کا احترام کریں

کچھ نہ کچھ تو حرام نکلے گا

 

کیسے مکتوب کھولئے دِل کا

غیر کا بھی سلام نکلے گا

 

چاند ہے وہ بھی اپنی دُنیا کا

وہ کِسی اور شام نکلے گا

 

تشنہ لب کو یقین ہے شاید

خشک چشمے سے جام نکلے گا

 

کج روی کو سلام ہے ساحلؔ

کام نکلا تو کام نکلے گا

۔ ٭۔

 

 

 

زِندگی تیرے لیے اور بھلا کیا کرتا

عشق کرنا تھا کِیا اور میں کیا کیا کرتا

 

خود پسندی نے کِسی اور کو سوچا ہی نہیں

آپ سے آپ کی باتوں کے سِوا کیا کرتا

 

آسمانوں کا سِتارہ تھا مَیں ذرّہ بھی نہیں

آپ کے واسطے مَیں اور خطا کیا کرتا

 

مجھ کو احساس تھا احسان فراموشی کا

اہلِ دُنیا سے مَیں دُنیا کا گِلہ کیا کرتا

 

مجھ سے آگے تھا مرے بھید کا کھُل کر جانا

مَیں تو مجبور تھا پھِر مجھ کو خُدا کیا کرتا

 

میری وحشت نے درو بام کو دیوار کِیا

چند سانسوں کے لیے تازہ ہَوَا کیا کرتا

 

مَیں ہی انجان تھا پہچانے ہوئے لوگوں میں

مجھ سے واقف تھے مرے یار دغا کیا کرتا

 

مجھ کو معلوم تھا تکلیف ہے دِل میں ساحلؔ

پھِر ترے واسطے تجویز دوا کیا کرتا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

آس کی دُنیا  بجھنے لگی ہے

آنکھ سیاہی ڈھُونڈ رہی ہے

 

درد کی سنگت، خوف کی رنگت

دھِیرے دھِیرے پھیل رہی ہے

 

چاند فضا میں گھُلنے لگا ہے

سُورج پر بھی گَرد جمی ہے

 

مست بگولے ناچ رہے ہیں

تازہ ہَوَا کی پھِر سے کمی ہے

 

اپنی کھوج میں بھُول گیا تھا

میرے آگے اندھی گلی ہے

 

جھُوٹ کا لشکر جیت نہ جائے

در پر میرے فوج کھڑی ہے

 

چُپ کی چادر اُوڑھ کے بیٹھوں

میرا قاتل دِل کا سخی ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

بڑے جتن سے بڑے سوچ سے اُتارا گیا

مرا ستارا سرِ خاک بھی سنوارا گیا

 

مری وفا نے جنوں کا حساب دینا تھا

سو آج مجھ کو بیابان سے پُکارا گیا

 

بس ایک خوف تھا زندہ تری جُدائی کا

مرا وہ آخری دُشمن بھی آج مارا گیا

 

مجھے یقین تھا اِس تجربے سے پہلے بھی

سُنا ہے غیر سے جلوہ نہیں سہارا گیا

 

سجا دیا ہے تصوُّر نے دھُوپ کا منظر

اگرچہ برف کی تصویر سے گزارا گیا

 

مِلا ہے خاک سے نسبت کا پھر صلہ مجھ کو

مرا ہی نام ہے گردُوں سے جو پُکارا گیا

 

مَیں دیکھتا رہا دُنیا کو دُور سے ساحلؔ

مرے مکان سے آگے تلک کنارا گیا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

سُنّتِ عشق پر چلا ہُوں مَیں

تیری آواز سے بنا ہُوں مَیں

 

ایک اک خواب چُن رہا ہُوں مَیں

تیری دُنیا کا ذائقہ ہُوں مَیں

 

میرا کچھ بھی نہیں رہا مجھ میں

صِرف ! تیرا کہا سُنا ہُوں مَیں

 

یار پتھّر میں ڈھال دے مجھ کو

تیرے در پر پڑا ہُوا ہُوں مَیں

 

دیکھ ایسے نہ بدتمیزی کر

دیکھ ! تجھ سے تو کچھ بڑا ہُوں مَیں

 

دیکھ اُلجھے ہوئے زمانے میں

اچھے لوگوں کا سلسلہ ہُوں مَیں

 

مجھ کو درپیش تھا سفر ساحلؔ

اپنی جانب ہی چل پڑا ہُوں مَیں

۔ ٭۔

 

 

قدغنِ یار سے گِرا ہُوں مَیں

اپنی تلوار سے گِرا ہُوں مَیں

 

ایسی دہشت نہیں کہ مر جاؤں

وقت کی مار سے گِرا ہُوں مَیں

 

ہاں تعلُّق تھا غیر سے لیکن

اپنے انکار سے گِرا ہُوں مَیں

 

داستاں گو تجھے مبارک ہو

تیرے اظہار سے گِرا ہُوں مَیں

 

میرا دُشمن بھی میرے جیسا تھا

آخری وار سے گِرا ہُوں مَیں

 

مجھ پہ دیوار گِر گئی ساحلؔ

یا کہ دیوار سے گِرا ہُوں مَیں

۔ ٭۔

 

 

مَیں تیرے امتحان سے گذرا ہُوں بارہا

یعنی مَیں اِس جہان سے گذرا ہُوں بارہا

 

مَیں کم نصیب تیری محبت کے کھوج میں

ہر کوچۂ  گمان سے گذرا ہُوں بارہا

 

کچھ سال میری عُمر کے ملتے نہیں مجھے

شاید مَیں لامکان سے گذرا ہُوں بارہا

 

اِس ہاتھ کی لکیر نے سُورج  بجھا دِیا

ورنہ مَیں آسمان سے گذرا ہُوں بارہا

 

میرے لیے تو مجھ سے زیادہ نہیں کوئی

لوگوں کے درمیان سے گذرا ہُوں بارہا

 

اے دوست! اعتبار کی منزل بھی ہے کہیں

تیرے لیے تو جان سے گذرا ہُوں بارہا

۔ ٭۔

 

 

اب تک ہمارے سوچ کے  غنچے نہیں کھِلے

یا پھِر تمھارے کھوج کے رستے نہیں ملے

 

آنکھوں میں سُرخ آندھیاں اب تک نہیں تھمیں

اب تک کِسی درخت کے پتّے نہیں ہلے

 

اپنی غرض تھی اپنی ضرورت کے ساتھ ساتھ

جو پانو اِس زمین پہ رکھّے نہیں اُٹھے

 

اِک سلسلۂ  خواب ہمارے ہُنر میں تھا

جو لفظ ماپ تول کے لکھّے نہیں لکھے

 

اکثر تمھاری یاد میں راتیں ٹھہر گئیں

اکثر تمھارے وعدے بھی سچّے نہیں لگے

 

سوچوں کی کھِڑکیوں میں بہت دیر بیٹھ کر

سوچا تو اپنے سوچ کے چہرے نہیں ملے

۔ ٭۔

 

 

 

اب تک تو آسماں سے اُتارا نہیں گیا

برزخ کو اِس جہاں سے گزارا نہیں گیا

 

جو عشق تیرے حُسن کا صدقہ نہ بن سکا

وہ عشق عاشقوں سے نتھارا نہیں گیا

 

بے چین و بے قرار مرے آس پاس تھا

کوشش کے باوُجُود پُکارا نہیں گیا

 

اُس کا تو غیر سے بھی تعلُّق تھا پیار کا

وہ شخص خاندان سے مارا نہیں گیا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

تمھاری بات تمھارے ہی رُوبرُو کی ہے

جو کُو بہ کُو ہوئی وہ گفتگو عُدُو کی ہے

 

بنی نہیں کبھی تصویر بھی خیالوں کی

کبھی کبھی تو اندھیروں نے گفتگو کی ہے

 

بہت دِنوں سے کوئی زخم تھا نہ وحشت تھی

چلو کِسی نے ہماری بھی آرزُو کی ہے

 

ہماری رسم نبھائی ہے ایک سُورج نے

تمھاری نقل سِتاروں نے ہُو بہ ہُو کی ہے

 

پھٹے پُرانے اُجالے سے اک کِرن لے کر

ہمیں نے چادرِ شب جاگ کر رفو کی ہے

 

عجیب تیز سا اک ذائقہ ہے لہجے میں

یہ کِس نے خواب کی بستی لہُو لہُو کی ہے

 

اُلجھ گئے ہیں قیام و سُجُود میں ساحلؔ

نمازِ عشق ادا ہم نے بے وضو کی ہے ؟

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

دیدہ و دِل میں برہمی ہوئی ہے

کوئی تو بات لازمی ہوئی ہے

 

خوب صورت ہے وہ بہت لیکن

میرے چھُونے سے ریشمی ہوئی ہے

 

مَیں ثمر بار ہونے والا ہُوں

میری مٹّی میں کچھ نمی ہوئی ہے

 

کِس نے دیکھا ہے میلی آنکھوں سے

گَرد چہرے پہ بھی جمی ہوئی ہے

 

رات کو رات میں گذرنا تھا

سال ہا سال سے تھمی ہوئی ہے

 

ایک سجدے کے بعد خاک ہوئے

گویا تکریمِ آدمی ہوئی ہے

 

شب فقیروں میں بیٹھ کر ساحلؔ

میری پہچان میں کمی ہوئی ہے

۔ ٭۔

 

 

زمین اپنی فضا سے مکرنے والی ہے

بساطِ شامو سَحَر بھی اُلٹنے والی ہے

 

جلا رہی ہے شبِ ماہتاب سُورج کو

بجھے سِتارے کی اب راکھ اُڑنے والی ہے

 

کوئی کھڑا ہے تماشے کی آنکھ کھولے ہوئے

کِسی کی صبح اندھیرے میں گِرنے والی ہے

 

اُٹھا رہا تھا مَیں سینے سے درد کا پتھّر

مجھے لگا کہ نئی چوٹ لگنے والی ہے

 

بدن سے رُوح کا رِشتہ اگر نہیں تو نہیں

مری بَلا سے بَلا جو اُترنے والی ہے

 

نجانے کب سے مُقدّر بکھر چُکا ساحلؔ

اب اُس کی لاش خلاؤں میں جلنے والی ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

دشتِ بدمزاج کا راستہ کھُلا رہا

اِس جہاں میں قیس کا سلسلہ بنا رہا

 

بازگشت کے سِوا گشت میں ہے سلسلہ

مَیں گیا تو کیا ہُوا تُو رہا تو کیا رہا

 

دو طرح کے آئینے ایک عکس پر کھُلے

ایک چیخ کر اُٹھا ایک بے صدا رہا

 

شب گزیدہ خواب کی آنکھ کھُل گئی تو کیا

لطف بے مزہ ہُوا ذائقہ بچا رہا

 

مَیں نے اپنی یاد کی پوٹلی سمیٹ لی

رہزنوں کی فوج میں رہنما بنا رہا

 

دوستوں کی چال سے لغزشیں نہیں گریں

میرے اک نشان پر دائرہ لگا رہا

 

میری ذات میں نہیں کیمیا گری مگر

جس کو مَیں نے چھُو لیا وہ خُدا بنا رہا

۔ ٭۔

 

 

 

رات کا انتظام کرتے ہوئے

مر گیا دِن ہی شام ڈھلتے ہوئے

 

جانے کِس کِس کی نوکری کی ہے

ایک لمحہ غلام کرتے ہوئے

 

اپنی ہستی نچوڑ دی مَیں نے

بے قراری سے جام بھرتے ہوئے

 

کِس زمانے میں آ گیا ہُوں مَیں

یوں ہی دوچار گام چلتے ہوئے

 

گفتگو تیرگی سے ہونے لگی

زِندگی سے کلام کرتے ہوئے

 

اہلِ ایماں سے خوف آتا ہے

کر لیا ہے سلام ڈرتے ہوئے

 

ہجر کیسے لپٹ گیا مجھ سے

آخری اہتمام کرتے ہوئے

 

زِندگی خرچ ہو گئی ساحلؔ

چند سانسوں کا دام بھرتے ہوئے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

اپنی عادت کے برخلاف کِیا

آج دُشمن سے انحراف کِیا

 

بدگمانی کا اعتراف کِیا

در میں  دیوار میں شگاف کِیا

 

تُو نے رکھّا نہیں کہیں کا مگر

زِندگی تجھ کو بھی مُعاف کِیا

 

کتنی میلی ہے یہ زمیں دِل کی

کتنی مشکل سے خود کو صاف کِیا

 

شیوۂ  عشق تھا نبھا کے چلے

کب کِسی سے بھی اختلاف کِیا

 

چاند کے سامنے گُلاب رکھا

اپنے احساس کو غلاف کِیا

 

زخم بھرنے لگے تو ہم ساحلؔ

کُوئے قاتل کا پھِر طواف کِیا

۔ ٭۔

 

 

شہرت کے لیے کوئی بھی تدبیر نہیں کی

یاں تک کہ ضرورت میں بھی تشہیر نہیں کی

 

دُنیا نے مرے سوچ کو سمجھا ہی نہیں ہے

دُنیا نے مرے لفظ کی تفسیر نہیں کی

 

دُنیا نے کئی ریت کے کُہسار اُٹھائے

مَیں نے تو کِسی شخص کی تقصیر نہیں کی

 

آ جاؤں تری فوج میں تلوار اُٹھا کر

مجبور سہی عقل تو زنجیر نہیں کی

 

ہر شب ترے دربار میں آیا ہے پلٹ کر

دِل نے تو کِسی شام بھی تاخیر نہیں کی

 

شعروں میں ترے حُسن کو تصویر مَیں کرتا

مَیں نے تری آواز بھی تحریر نہیں کی

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

جواب جس کا نہیں کوئی وہ سوال بنا

مَیں خواب میں اُسے دیکھوں کوئی خیال بنا

 

مَیں اعتراف کے موسم میں چپ نہیں رہتا

مرے خُدا مری ہستی کے خدّوخال بنا

 

وہ کون ہے جو مری ہجرتوں سے ٹوٹ گیا

وہ کون شخص ہے جو آئینہ مثال بنا

 

وہ کِس کے دھیان میں آیا تھا موسموں کی طرح

وہ کون ہے جو مرے سوچ کا خیال بنا

 

مَیں کِس یقین سے لکھا گیا ہُوں مٹّی پر

وہ کون ہے جو مرے سلسلے کی ڈھال بنا

 

تُو اضطراب کے رنگوں سے آشنا ہی نہیں

بس ایک تِل کے لیے زائچے میں گال بنا

 

مَیں کھو گیا ہُوں؟ وقت کے  ّتحیر میں

مرے خُدا ! مرے دِن رات ماہ و سال بنا

۔ ٭۔

 

 

یوں چلی رات کہ بس رات ہوئی جاتی ہے

مَیں ہُوں خاموش مگر بات ہوئی جاتی ہے

 

اُس نے کچھ وقت مرے ساتھ گزارا تو سہی

اب وہ کمبخت مری ذات ہوئی جاتی ہے

 

ایک لمحے نے مری عُمر چُرا لی مجھ سے

میری تدبیر مری مات ہوئی جاتی ہے

 

کِس نے گھولا ہے مرے شوق میں وحشت کا جنوں

کون میرے لیے سوغات ہوئی جاتی ہے

 

مَیں نے آغاز سے انجام پہ رکھّی تھی نظر

راہ میں ڈر سے ملاقات ہوئی جاتی ہے

 

کیسا امکان ہُوا سبز رُتوں کا ساحلؔ

چشمِ ویران میں برسات ہوئی جاتی ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

اپنے آنسُو ہیں تمھارے نہیں رو سکتا مَیں

آج آنکھوں سے ستارے نہیں رو سکتا مَیں

 

ایک تکلیف کا دریا ہے بدن میں لیکن

بیٹھ کر اِس کے کنارے نہیں رو سکتا مَیں

 

مَیں ہُوں مجذوب مرے دِل کی حقیقت ہے الگ

لاکھ ہوتے ہوں خسارے نہیں رو سکتا مَیں

 

جسم ہے رُوح کی حدّت میں پگھلنے والا

ہُوں شرابور، شرارے نہیں رو سکتا مَیں

 

مَیں تماشا ہُوں  تماشائی ہیں چاروں جانب

شرم ہے شرم کے مارے نہیں رو سکتا مَیں

 

بدگماں ہونے لگا ہے یہ تیقُّن کا جہاں

مجھ کو افسوس ہے پیارے نہیں رو سکتا مَیں

 

ذرّے ذرّے میں قیامت کا سماں ہے ساحلؔ

ایک ہی دِل کے سہارے نہیں رو سکتا مَیں

۔ ٭۔

 

 

محبتوں میں عجب حادثے ہیں وحشت کے

کہ ہر قدم پہ کئی راستے ہیں وحشت کے

 

ترے فراق میں وہ سلسلے ہیں وحشت کے

کہ دائرے میں کئی دائرے ہیں وحشت کے

 

مَیں اپنے آپ سے بچھڑا تو ہار جاؤں گا

کہ میری ذات میں کچھ معرکے ہیں وحشت کے

 

اُداس چاند ہے سہما ہُوا ہے پانی بھی

مری نگاہ میں دو آئینے ہیں وحشت کے

 

مزاج اور ہے عاشق مزاج لوگوں کا

یہاں تو عشق میں بس تجربے ہیں وحشت کے

 

نظر مِلائی تو احوال یہ کھُلا ساحلؔ

غریقِ عشق سہی فائدے ہیں وحشت کے

۔ ٭۔

 

 

یوں دِل و جان کی توقیر میں مصروف تھا مَیں

جیسے اجداد کی جاگیر میں مصروف تھا مَیں

 

تیشۂ  وقت نے بنیاد ہِلا دی ورنہ

ہر گھڑی ذات کی تعمیر میں مصروف تھا مَیں

 

خواب دیکھا تھا محبت کا، محبت کی قسم

پھِر اُسی خواب کی تعبیر میں مصروف تھا مَیں

 

لفظ رنگوں میں نہائے ہوئے گھر میں آئے

تیری آواز کی تصویر میں مصروف تھا مَیں

 

ایک اِک پَل مری پلکوں میں سمٹ آیا ہے

عہدِ گم گشتہ کی تحریر میں مصروف تھا مَیں

 

اب ترے واسطے آباد کروں گا دُنیا

ایک عرصہ تری تقدیر میں مصروف تھا مَیں

۔ ٭۔

 

 

 

گھر کے دالان میں رِشتے ہی الگ ہوتے ہیں

دِل بِگڑ جائیں تو حصّے ہی الگ ہوتے ہیں

 

ایک اک نقش کا ممنون ہے نقشہ دیکھو

قوم گر ایک ہے نقشے ہی الگ ہوتے ہیں

 

دھُوپ میں سایے کا پیوند لگانے والو !

ایسے موسم میں تو پتّے ہی الگ ہوتے ہیں

 

خون آلودہ صحیفوں کی قسم ہے مجھ کو

بادشاہوں کے کلیجے ہی الگ ہوتے ہیں

 

خواہشِ زیست نہ مرنے کا ہُنر ہے ساحلؔ

اِن خرابوں کے تقاضے ہی الگ ہوتے ہیں

۔ ٭۔

 

 

 

دِل بھی آنا تھا درمیان میں کیا !

یہ بھی لکھا تھا امتحان میں کیا !

 

پھِر وہ لکنت پڑی زُبان میں کیوں

آ گیا پھِر سے کوئی دھیان میں کیا !

 

مَیں کھِلونا تو بن گیا لیکن

مجھ کو رکھو گے اب دُکان میں کیا !

 

ایک احسان کب تلک جھیلوں

زِندگی لو گے اب لگان میں کیا  !

 

جھُک گئے ہو جو غیر کے آگے

ایک تم ہی تھے خاندان میں کیا !

 

پوچھنا ہے یہ کیمیا گر سے

خاک ہُوں مَیں بھی خاکدان میں کیا  !

 

تنگو تاریک سی گزار آئے

کوئی کھِڑکی نہ تھی مکان میں کیا  !

 

مجھ کو منصف سے بات کرنی ہے

وہ بھی رہتا ہے آسمان میں کیا !

 

گالیاں دے رہے ہو تم ساحلؔ

تیر کوئی نہیں کمان میں کیا !

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

مرتبے کا چراغ رکھّا ہے

سلسلے کا چراغ رکھّا ہے

 

بے اماں زِندگی کے پہلُو میں

حوصلے کا چراغ رکھّا ہے

 

زِندگی کے تمام رستوں میں

مشورے کا چراغ رکھّا ہے

 

اپنے گھر میں بڑی محبت سے

راستے کا چراغ رکھّا ہے

 

بھُولنے والے میری کھِڑکی میں

رابطے کا چراغ رکھّا ہے

 

کون کِس کا نصیب روئے گا

دِل جلے کا چراغ رکھّا ہے

 

آؤ مِل کر دُعا کریں ساحلؔ

واسطے کا چراغ رکھّا ہے

۔ ٭۔

 

 

 

اُداسیوں کا سمُندر تھا میرے حصّے میں

مَیں چھِپ گیا ہُوں تری یاد کے جزیرے میں

 

وہ سنگِ میل ہُوا وقت کے تغیر سے

جو سر جھُکائے کھڑا رہ گیا تھا رستے میں

 

ہَوَا کے آخری جھونکے نے وہ بھی لُوٹ لیا

شجر کا سارا اثاثہ تھا ایک پتّے میں

 

یہ کِس شریر سے بچّے کے ہاتھ میں ہے قلم

کہ اُلٹی سیدھی لکیریں ہیں میرے نقشے میں

 

مجھے سکول کے رستے تو یاد ہیں ساحلؔ

مگر ! جو عِلم کی منزل تھی میرے بستے میں؟

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

مَیں بے وُجُود ہُوں میرا نشان رکھّے گا

مری زمیں کو مرا آسمان رکھّے گا

 

مرا خُدا ہی بچائے گا ٹُوٹنے سے مجھے

تلاشِ اَمن سے پہلے امان رکھّے گا

 

خموشیوں کے سمُندر میں بھی جزیرے ہیں

مری زُباں پہ وہ اپنا بیان رکھّے گا

 

مَیں اپنی مٹّی کا باغی نہیں مہاجر ہُوں

مرے لیے تو وہ سارا جہان رکھّے گا

 

مرے چراغ سے دُنیا میں روشنی ہو گی

ہَوَائے خیر کو وہ پاسبان رکھّے گا

 

مرے خُدا مرے بچّے کو زِندگی دینا

وہ اگلی نسل میں مجھ کو جوان رکھّے گا

 

مجھے یقین ہے اُس کے وُجُود پر ساحلؔ

ورق ورق پہ مری داستان رکھّے گا

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

زمیں کو اَمن کی تصویر کرنا چاہوں گا

مَیں اپنے خواب کو تعبیر کرنا چاہوں گا

 

تری تلاش کے موسم گذر گئے سارے

مَیں کائنات کو تسخیر کرنا چاہوں گا

 

جو اعتبارِ حقیقت کے درمیاں ہے کہیں

مَیں اُس خلا کو بھی زنجیر کرنا چاہوں گا

 

بہت دِنوں سے جہاں خامشی کے تالے ہیں

مَیں ایک دِن وہاں تقریر کرنا چاہوں گا

 

مرے خُدا مری بستی کے لوگ اندھے ہیں

مرے خُدا وَہیں تنویر کرنا چاہوں گا

 

بس ایک لمحۂ  تقدیر ہو عطا مالک !

وہ ایک لمحہ جو تدبیر کرنا چاہوں گا

 

مرے خُدا ! مرے اندر بھی روشنی کر دے

مَیں اپنے آپ کو تحریر کرنا چاہوں گا

۔ ٭۔

 

 

 

وہ دِل سے بولے نہ بولے ، پُکارے لب سے کہیں

بچھڑ گیا ہُوں مہ و سال، روز و شب سے کہیں

 

مرے حُضُور مری حیرتوں کا سودا کر

اُٹھا دیا ہے ترے شوق نے ادب سے کہیں

 

مرا قبیلہ مری آگ میں نہ جلتا رہے

بڑے یقین سے نکلا ہُوں مَیں غضب سے کہیں

 

لگا رہا ہُوں مَیں پیوند اپنی دُنیا میں

چھِپا رہا ہُوں مَیں ہستی کو دُور، سب سے کہیں

 

زمانہ مجھ کو فراموش کر چُکا ساحلؔ

مَیں دَب گیا ہُوں کہانی میں اپنے رَب سے کہیں

۔ ٭۔

 

 

مَیں بھی تنہائی میں کِردار بناؤں اپنا

آئینے توڑ کے پھِر ڈھیر لگاؤں اپنا

 

قیس کو در پہ کھڑا کر کے تسلّی ہو گی

ہجر کے شہر میں دربار لگاؤں اپنا

 

مَیں نے اک قبر کے سینے میں چھِپا رکھا ہے

آ کِسی روز تجھے خواب دِکھاؤں اپنا

 

بدگمانی نہیں، مصروف زمانہ ہے بہت

اپنے مرقد پہ دِیا آپ جلاؤں اپنا

 

وہ سخاوت سے مُکرنے کی قسم کھائیں گے

مَیں فقیروں سا اگر بھیس بناؤں اپنا

 

سوچ کر اپنی حقیقت سے نہ جاؤں ساحلؔ

مَیں خُدا ہُوں جو کبھی بھید نہ پاؤں اپنا

۔ ٭۔

 

 

 

 

مِل رہا ہے سُراغ دُنیا کا

پھِر نہ جائے دماغ دُنیا کا

 

دیکھ تو آسمان کی رونق

کتنا ویراں ہے باغ دُنیا کا

 

گھر میں مٹّی کا اک دِیا رکھنا

بجھ رہا ہے چراغ دُنیا کا

 

کم نصیبی کے اشک دھو نہ سکے

میرے سینے سے داغ دُنیا کا

۔ ٭۔

 

 

 

چاند چہرے پہ چاندنی کی کمی

اور لہجے میں تازگی کی کمی

 

ساری دُنیا پہ خوف طاری ہے

ساری دُنیا میں ہے خوشی کی کمی

 

تیرگی سی ہے سوچ رستوں میں

روشنی میں ہے روشنی کی کمی

 

مجھ کو محسوس ہو رہی ہے کیوں

تیری دُنیا میں پھِر نبی کی کمی

 

درد دِل میں چھِپائے پھرتا ہُوں

دوستوں میں ہے دوستی کی کمی

 

زِندگی تو گذر ہی جاتی ہے

پوری ہوتی نہیں کِسی کی کمی

 

دِل میں اب تک سماج کا ڈر ہے

دِل میں اب تک ہے عاشقی کی کمی

 

تم تو دِل کے امیر تھے ساحلؔ

تم کو کِس غم کی ہے کمی کی کمی

۔ ٭۔

 

 

 

 خواب

 

 

بہت دِنوں سے اُداس ہے دِل

بہت دِنوں سے مَیں رو رہا ہُوں

مرا اثاثہ تو خواب تھے پر

مَیں گہری نیندوں میں سو رہا ہُوں

مَیں ایک کِردار بن گیا ہُوں

مَیں داستانوں میں کھو رہا ہُوں

یہ کیسا موسم ہے میرے دِل میں

گُلوں میں کانٹے پرو رہا ہُوں

مَیں صاف سُتھرا لباس لے کر

گلی کے پانی سے دھو رہا ہُوں

مَیں اپنی حیرت کی کھوج میں تھا

مَیں گہری نیندوں میں سو رہا ہُوں

بہت دِنوں سے اُداس ہے دِل

بہت دِنوں سے مَیں رو رہا ہُوں

کوئی تو زرخیز خواب مالک!

مَیں  خشک لفظوں کو بو رہا ہُوں

۔ ٭۔

 

 

 

  خیانت ، امانت

 

پیار کی حرارت میں، دِلبری کی چاہت میں

ہم نے جو ریاضت کی

جب کبھی عبادت کی

تجھ سے تیری باتیں کیں

اپنی ساری باتیں کیں

اپنی ساری باتوں میں

بات وہ محبّت کی، جو تری امانت تھی

جس کی سب ریاضت تھی

جو بہت ضروری تھی

آج تک ادھُوری ہے

ہم نے اِس  محبّت میں، زِندگی کی دولت میں

بات ہے دیانت کی

بس یہی خیانت کی

۔ ٭۔

 

 

 

 

دِن: رات

 

جاگتے خیالوں کو، سوچتے سوالوں کو

رتجگے کی عادت ہے

(عاشقی کی فطرت ہے )

تجھ کو نیند پیاری ہے

تجھ پہ رات بھاری ہے

نیند موت ہوتی ہے ، خواب کی، خیالوں کی

زِندگی کے سالوں کی

تجھ کو ہو خبر جاناں !

میری رات جلنے سے

میرے سوچ کھُلنے سے

تیرا دِن نکلتا ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 وہم:یقین

 

میرے گھر کے ہر کمرے میں

ایک ہی چہرہ جھانک رہا ہے

دیواروں پر عکس ہے اُس کا

دروازوں پر لمس ہے اُس کا

ہر آہٹ میں اُس کی آہٹ

ہر لمحے موجود ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن

پھِر بھی تیقُّن سوچ رہا ہے

کون ہے میرے وہم کے گھر میں

کون اندھیرے کھول رہا ہے ، کون خموشی بول رہا ہے

کِس نے میرے درد کے دِل کو

ہاتھ کا مرہم بخش دیا ہے

کِس نے میری تنہائی میں

اپنا چہرہ چھوڑ دیا ہے

۔ ٭۔

 

 

 

 اُمید / اُلجھن

 

دُور، آنکھوں سے بہت دُور، کہیں

اک تصوُّر ہے ، جو بے زار کیے رکھتا ہے

وہ کوئی خواب ہے یا خواب کا اندیشہ ہے

جو مرے سوچ کو مسمار کیے رکھتا ہے

دُور، قسمت کی لکیروں سے بہت دُور، کہیں

ایک چہرہ ہے ، ترے چہرے سے مِلتا جُلتا

جو مجھے نیند میں بیدار کیے رکھتا ہے

دُور سے ، اور بہت دُور کی آوازوں سے

ایک آواز بُلاتی ہے سرِ شام مجھے

جانتا ہوں میں محبت کی حقیقت لیکن

پھِر بھی آغوشِ تمنّا میں، تڑپ اُٹھتا ہُوں

چہرے چہرے پہ بکھرتی ہو ئی، آوازوں میں

تیری آواز سے آواز کہاں ملتی ہے

ایک قندیل خیالوں کی مگر جلتی ہے

تُو مرے پاس، بہت پاس، کہیں رہتی ہے

دُور ہے دُور، بہت دُور، مگر پھِر بھی، مجھے

ایک اُمید سرِ شام سجا رکھتی ہے

ایک اُلجھن مجھے راتوں کو جگا رکھتی ہے

٭٭٭

 صبحِ نو

چاند کی آخری ہچکی سے ذرا سا پہلے

صبحِ نو، درد کی دہلیز پہ آ جاتی ہے

میرے دروازے سے گھر دُور نکل جاتا ہے

اک نیا زخم، نئے سوچ میں ڈھل جاتا ہے

کتنے کِردار نگاہوں میں اُتر آتے ہیں

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے لپٹ جاتے ہیں

اِس کہانی کے سسکتے ہوئے کِرداروں میں

ایک مضبوط تخیّل کی طرح ہُوں، لیکن

مَیں کہانی کے کِسی لفظ سے گِر جاتا ہُوں

شام تک اپنی انا جیب میں رکھ لیتا ہُوں

زخمی ہاتھوں میں مُقدّر کو لیے پھرتا ہُوں

اور پھِر روز نیا  چاند  نکل آتا ہے

۔ ٭۔

 

 

 چہرہ۔ بے چہرہ

 

روشنی کے آنگن میں

تیرگی کے سایے ہیں

ٹُوٹے پھُوٹے چہرے ہیں

ٹُوٹے پھُوٹے روں پر عکس اپنا تکتا ہُوں

بے وُجُود جسموں پر

ناز کرتی آنکھیں ہیں

ناز کرتی آنکھوں میں

بے شمار باتیں ہیں

بے شمار باتوں میں

ایک بات میری ہے

ٹُوٹے پھُوٹے چہروں میں

ایک چہرہ میرا ہے

بے وُجُود   جسموں میں

ایک جسم میرا ہے

روشنی کے آنگن میں، تیرگی کا سُورج ہے

تیرگی کے پردے میں

خواب کی ہلاکت ہے

ٹھنڈی حیرت

۔ ٭  ۔

 سوچ کے کانٹے چنُتے چنُتے

 

درد کی وادی کھوج رہا ہُوں

عقل کی کھِڑکی ٹُوٹ چُکی ہے

جسم کی حیرت ناپ رہا ہُوں

سرد ٹھٹھرتی تنہائی میں

اپنی یادیں تاپ رہا ہُوں

مَیں نے اپنا ایک اک لمحہ

خواب اندھیروں کے آنگن میں

پیڑ کے نیچے دفن کِیا تھا

میری نشانی پیڑ تھا۔۔۔لیکن

پیڑ کِسی نے کاٹ دیا ہے

مجھ میں مجھ کو بانٹ دیا ہے

کچھ بھی میرے ہاتھ نہیں ہے

ٹُوٹی پھُوٹی عقل کی کھِڑکی

درد کی وادی، ننگا سُورج

اور بدن کی ٹھنڈی حیرت              ۔ ٭۔

 

 

 

 محبّت: سمجھوتا

 

 

بدلتے لہجوں کی گفتگو میں

گئی رُتوں کی نہ بات چھیڑو

بدل  چکے روز و شب ہمارے

رہے زمانے بھی کب ہمارے

ہمارے چہروں پہ زِندگی کے تمام لہجے لکھے ہوئے ہیں

کہیں نگاہیں بجھی ہوئی ہیں

کہیں تصوُّر مٹے ہوئے ہیں

کوئی بھی لمحہ نہ اب جگاؤ

کہ  ہجرتوں کے طویل موسم کِسی کی عادت نہیں رہے اب

ہم ایک دُوجے کے راز داں ہیں

ہم ایک لہجے کی داستاں ہیں

مرے بدن کا لباس ہو تم

مری زُباں میری گفتگو ہو

گمان ہے میری آرزو ہو

ہو میری چاہت مری ضرورت

تمھی ہو شاید مری محبّت

۔ ٭۔

 

 

 پیش گوئی: سچّائی

 

 

جہاں دفن کرنے پہ قتل ہوں

جہاں قتل کرنا بھی کھیل ہو

جہاں کھیل کھیل میں قتل ہوں

وہاں مٹّی اپنی عنایتیں، کبھی بھُول جائے تو کیا عجب!

جہاں خیمہ زن ہوں قیامتیں

جہاں پہرہ زن ہوں مصیبتیں

وہاں آسماں سے ہلاکتیں

جو برس پڑیں تو غضب۔۔۔ نہیں

۔ ٭۔

 

 

 

 زمینِ کربلا کی نذر

 

ہم اہلِ کوفہ یزیدیت کی صَفوں میں شامل

تری ہلاکت کے منتظر ہیں

ہماری آنکھوں میں اپنے گھر ہیں

ہمارے دِل میں ہمارے ڈر ہیں

ہم اہلِ کُوفہ، ہزار سالوں سے بے بسی کا نصاب لے کر

چمکتے سُورج کا خواب لے کر

دیارِ دِل میں چھِپے ہوئے ہیں

ہم اپنی دھڑکن سے ڈرنے والے

کھِلونے لے کر بہلنے والے

ترے کفن پر سِتارے چُن کر

تری بقا کے ترانے سُن کر

تجھے لحد میں اُتار دیں گے

۔ ٭۔

 

 

 نقّاش سے

 

سفر کی شام سِتاروں سے پُوچھ کر چلنا

اندھیرے رستے گواہی نہیں دِیا کرتے

نشانِ قتل سپاہی نہیں دِیا کرتے

شہادتوں کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے

چمکتے دِن کو سیاہی نہیں دِیا کرتے

بجھا چراغ !امانت ہے عِلم و حکمت کی

اندھیری رات میں   جگنو کی اپنی طاقت ہے

زمیں کی کوکھ میں ذرّہ حقیر ہے لیکن

اِسی حقیر سے ذرّے میں ایک دُنیا ہے

یہی خُدائے حقیقت کا  معجزہ بھی ہے

یہی زمین کے باسی کا تجربہ بھی ہے

یہ معجزے ہیں جو ایمان کا اثاثہ ہیں

یہ تجربے ہی تو زینہ ہیں آسمانوں کا

یوں معجزوں کے سمُندر میں تجربے کرنا

سفر کی شام سِتاروں سے پُوچھ کر چلنا

۔ ٭۔

 

 

 

چلو مُسافر

 

 

چلو مُسافر، اُداس شاموں کی رہ گذر میں

سِتارے ڈھُونڈیں

چھلکتی آنکھوں میں زِندگی کے جو بچ گئے ہیں وہ خواب ڈھُونڈیں

بھٹکتی گلیوں میں آبلوں کے گُلاب دیکھیں

پہاڑ سوچوں میں سبز رنگوں کے خواب دیکھیں

چلو مُسافر

نشانِ منزل جو خواب سا ہے ، جو آرزوؤں کا حادثہ ہے

اُسی کے رستے میں کہکشائیں بکھیر دیں ہم

بقا کے رستے میں خیمہ زن ہیں، خطا کے لشکر، فنا کے لشکر

چلو مُسافر فنا کے گھر سے

بقا کی منزل اُٹھا کے لائیں

حکایتوں میں حقیقتوں کا مزاج بھر دیں

کِسی کے گھر میں

اندھیرے گھر میں

چراغ رکھ دیں

چھلکتی آنکھوں میں خواب رکھ دیں

۔ ٭۔

 

 

جدید عہد نامہ

 

مرے رُوم رُوم میں بھُوک ہے ، مرے جسم میں نہیں خون تک

مرا سوچ دانۂ  خاک ہے

مرا خواب قطرۂ  آب ہے

مجھے بھُوک ہے

مجھے پیاس ہے

مجھے زِندگی کی تلاش ہے

مجھے نظرِیہ1؎  نہیں چاہیے

مجھے نظرِیے 1؎ سے ملے گا کیا؟

مری روح میں جو خُدا نہیں

مجھے بھُوک ہے ، مجھے پیاس ہے

مجھے زِندگی کی تلاش ہے

چلو بھُوکی آنکھیں خرید لو

مری رُکتی سانسیں خرید لو

مجھے نظرِیے 1؎ میں لپیٹ دو

مجھے بُت پرستی قبول ہے

مجھے زرتُشتی بھی قُبُول ہے

مجھے عیسیٰؑ، موسیٰ ؑ قُبُول ہیں

مجھے سارے مولیٰ قُبُول ہیں

مجھے اب تو کوئی اناج دو

۔ ٭۔

 

__________________________________________________________

1:۔ ’’نظریہ ‘‘اہلِ عروض سے معذرت کے ساتھ

 

 

 حماقت

 

تری یادوں کے بستر پر

کوئی سلوٹ نہیں آئی

کوئی سپنا نہیں دیکھا

کوئی کروٹ نہیں بدلی

۔ ٭۔

 

 

یقین

تازہ لہُو کے چھینٹے ڈھُونڈو

کوئی کہیں تو قتل ہُوا ہے

آج شفق کا رنگ ہے گہرا

آنکھوں میں بھی دھُول اُڑی ہے

درد رگوں میں دوڑ رہا ہے

کلیاں شاخ سے جھڑنے لگی ہیں

سانس ہَوَا کی رُکنے لگی ہے

چہرہ چہرہ خوف ہے طاری

دِل بھی حلق میں کانپ رہا ہے

دِل کی گواہی جھُوٹ نہیں ہے

تازہ لہُو کے چھینٹے ڈھُونڈو

کوئی کہیں تو قتل ہُوا ہے

۔ ٭۔

 

 

پاگل /ہوش

 

جب درد کی لہریں ڈُوب گئیں

جب آنکھیں چہرہ بھُول گئیں

تم سوچ کے آنگن میں کیسے

پھِر یاد کے گھنگرو لے آئے

مَیں کیسی مہک سے پاگل ہُوں

پھِر رقصِ جنوں میں شامل ہُوں

پھِر چہرہ چہرہ ترا چہرہ

پھِر آنکھ میں تیری آنکھوں کا

پُر کیف نظارہ جھُوم اُٹھا

پھِر سارا زمانہ جھُوم اُٹھا

کب رات گئی کب دِن جاگا

کچھ ہوش نہیں، کچھ ہوش نہیں !

۔ ٭۔

 

 

 

 

 

مکافات

 

 

جہاں شامِ وَغا، صبحِ وفا تحریر ہوتی ہو

جہاں غفلت شعاری بیَن کرتی ہو مقدّر پر

جہاں سچّائی جھُوٹے برتنوں میں پرورش پائے

جہاں مُردہ پرستی خانقاہوں کی تجارت ہو

جہاں مُہرِ رسالت آدمی کی دسترس میں ہو

جہاں رازق کی قیمت رِزق سے بھی کم مقرر ہو

وہاں دلّال ہوتے ہیں !

جہاں دلّال ہوتے ہیں

وہاں مائیں نہیں ہوتیں،

وہاں بہنیں نہیں ہوتیں،

جہاں رِشتے نہیں ہوتے ، کرشمے بھی نہیں ہوتے

وہاں بارش نہیں ہوتی،

وہاں دریا کا پانی آگ بن کر ہی برستا ہے

وہاں فصلیں نہیں اُگتیں

وہاں صحرا نکلتے ہیں

۔ ٭۔

 

تشکر: خالد ملک ساحلؔ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید