فہرست مضامین
سائنس نگاری کیسے کی جائے؟
علیم احمد
ابتداء سے پہلے
اپنے مضمون کے نفسِ مضمون کی طرف آنے سے پہلے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کچھ اہم امور واضح کرتے چلیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس صحافت یا سائنسی صحافت کی کوئی باقاعدہ سند نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے پاس صحافت کا کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں۔ تاہم، جتنی سائنسی صحافت بھی ہم جانتے ہیں، اس کے لئے ہم اپنے بزرگوں اور اساتذۂ کرام کے مرہونِ احسان ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد، سب سے پہلے ہم پر اپنے والدین کا شکریہ واجب ہے کہ جنہوں نے ابتداء ہی سے گھر پر ایسا ماحول قائم کیا کہ جس سے ہمیں لسانی، ادبی اور علمی نشوونما میں بے اندازہ (لیکن غیر محسوس) مدد فراہم ہوئی۔ پہلی سے بارہویں جماعت تک ہم نے اردو میڈیم ہی میں تعلیم حاصل کی لیکن، مضبوط لسانی بنیادوں کی وجہ سے، جب جامعہ کراچی میں رائج انگریزی ذریعہ تعلیم سے ہمارا واسطہ پڑا تو وہاں ہمیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔
گھر کے ماحول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہماری عمر صرف دس سال کی تھی، اور ہم چوتھی جماعت میں پڑھ رہے تھے، تو اُردو کا اچھا خاصا کلاسیکی (نثری) ادب پڑھ چکے تھے۔ اس میں قصہ حاتم طائی، قصہ چہار درویش اور طوطا مینا کے علاوہ ’’طلسم ہو شربا‘‘ کا وہ تلخیص شدہ ضخیم ایڈیشن بھی شامل ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل غالباً ’’منشی نوِل کشور پریس‘‘ سے شائع ہوا تھا۔۔۔ اور ہمارے نانا مرحوم کے ذخیرۂ کتب سے چند ماہ کے لئے مستعار لیا گیا تھا۔
سائنس کے معاملے میں ہم (انٹرمیڈیٹ میں) اپنے ٹیوشن کے اُستاد، جناب سید حسین مرحوم، جامعہ کراچی میں شعبہ طبیعیات کے پروفیسر ڈاکٹر خورشید اطہر صدیقی، اور شعبہ ریاضی کے جناب شاہد قریشی کے بطورِ خاص شکر گزار ہیں۔ یہ انہی اساتذہ کی تربیت کا فیضان ہے کہ آج ہم ’’سائنس‘‘ اور ’’غیر سائنس‘‘ میں بخوبی فرق کرسکتے ہیں اور محض نام کی بنیاد پر کسی بھی چیز کو سائنس کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے۔
جہاں تک صحافت کا تعلق ہے، تو اس ضمن میں ہم آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے غیر منقسم ہندوستان کے اُس میٹرک پاس سے قلم پکڑنا سیکھا ہے جس کے اداریوں پر پی ایچ ڈی ہو چکا ہے۔ ہمارا اشارہ، استادِ گرامی جناب سید قاسم محمود کی طرف ہے۔ ہم نے جناب سید قاسم محمد کے ماہنامہ جریدے ’’طالب علم‘‘ المعروف ’’سائنس میگزین‘‘ ہی سے 1987ء میں اپنا قلمی سفر شروع کیا اور بعد ازاں، ستمبر 1989ء سے لے کر جنوری 1992ء تک، اسی جریدے سے (بالترتیب) بطور نائب مدیر اور مدیر وابستہ رہے۔
لیکن، استادِ گرامی جناب عظمت علی خاں ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے ہمیں سائنسی صحافت کے اسرار و رموز سمجھائے، ہمیں سائنسی ابلاغ کی باریکیوں سے روشناس کروایا، تحریر کے نازک پہلوؤں سے آشنا کیا، سائنسی صحافت کے عملی طریقہ کار سے آگاہ کیا۔۔۔ اور ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم خود کو صحیح معنوں میں سائنسی صحافی کہہ سکیں۔
برادرم احسان مسعود کا شکریہ ادا کئے بغیر یہ ابتدائیہ مکمل نہیں ہوسکے گا، کیونکہ یہ احسان مسعود ہی ہیں جن کی بدولت بین الاقوامی سائنسی صحافت سے ہماری براہِ راست واقفیت ہوئی، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے سائنسی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور عالمی سطح پر سائنسی قلم نگاری کرنے کا موقع میسر آیا۔ بہرکیف، اپنی بین الاقوامی شناخت کے لئے ہم جناب احسان مسعود ہی کے احسان مند ہیں۔
اس تمہیدی تشکر کے بعد، یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس مضمون میں جو کچھ بھی ہم بیان کرنے جارہے ہیں، وہ ہمارے اُنیس (19) سالہ تجربے کا خلاصہ ہے، ورنہ ذیل میں دیا گیا ہر نکتہ اپنی جگہ ایک تفصیلی مضمون کا، اور اس پورے مضمون کا موضوع ایک جامع کتاب کا، متقاضی ہے۔
سائنس نگاری یا سائنسی صحافت کا تعلق بلاشبہ سائنس ہی سے ہے کہ اس کے ذریعے دقیق سائنسی موضوعات کو عوام تک پہنچایا جاتا ہے لیکن، حیرت انگیز طور پر، سائنس نگاری/ سائنسی صحافت کی اپنی عمل پذیری میں سائنس سے زیادہ کچھ اور باتوں کا دخل ہے۔ وہی باتیں ہماری اس تحریر کا موضوع ہیں۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php#sthash.lvEE9RCF.dpuf
ابتداء
یقین مانئے کہ سائنسی صحافت کی بنیادی باتیں اتنی آسان ہیں کہ اگر آپ سائنس نگاری کا سنجیدہ شوق اور مناسب حد تک سائنسی رجحان رکھتے ہیں، تو صرف ایک گھنٹے میں ان تمام بنیادوں سے واقف ہوسکتے ہیں۔ البتہ، کامیاب سائنس نگاری کیلئے آپ کو سالہاسال کی مشق درکار ہوگی… جو عملاً ساری زندگی جاری رہے گی۔
سائنس کے ابلاغ کا معاملہ بالکل وہی ہے جو موسیقی کا ہے۔ پاکستان کے ایک مشہور موسیقار، ارشد محمود صاحب سے ایک انٹرویو میں کسی نے پوچھا کہ موسیقی میں کتنی سائنس اور کتنا فن (آرٹ) ہے، تو انہوں نے جواب دیا: ’’موسیقی کی سائنس صرف ایک گھنٹے کے لیکچر میں پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن موسیقی کا فن سیکھنے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔‘‘
لہٰذا، سائنسی ابلاغ کی بنیادوں سے واقف کرانا ہمارا کام ہے، لیکن اس کی مشق کرنا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا آپ کے ذمے ہے۔
ابلاغ کی کسی بھی دوسری قسم کی طرح، سائنسی ابلاغ کے بھی تین اہم شعبہ جات ہیں:
1۔ تحریر 2۔ ادارت 3۔ پیشکش
زیرِ نظر مضمون میں ہم صرف پہلے شعبے، یعنی تحریر پر تفصیل سے بات کریں گے۔
تحریر (Writing)
تحریر کا عمل بنیادی طور پر تین مرحلوں میں ہوتا ہے:
الف۔ تحریر سے قبل؛ ب۔ تحریر کے دوران؛ اور ج۔ تحریر کے بعد۔
ان تینوں مراحل کی جزئیات کو ہم اسی ترتیب سے بیان کریں گے۔
الف ۔ تحریر سے قبل (Pre-writing)
ظاہر ہے کہ تحریر ایک شعوری عمل ہے، لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ سوچے سمجھے بغیر کاغذ قلم اُٹھالیا، لکھتے چلے گئے اور ’’لاشعوری طور پر‘‘ کوئی شاہکار لکھ دیا۔ یعنی، ضروری ہے کہ لکھنے سے پہلے خاطر خواہ سوچ بچار (brainstorming) کرلی جائے۔
تحریر کے لئے سوچ بچار کرتے وقت تین باتوں کا مدِنظر رکھنا اشد ضروری ہے:
اوّل۔ کیا لکھا جائے؟ یعنی کس موضوع پر لکھا جائے؛
دوم۔ کس کے لئے لکھا جائے؟ یعنی جو کچھ آپ لکھنے جارہے ہیں وہ کس عمر، کس طبقے، کتنی تعلیمی قابلیت اور کس طرح کا مزاج /رجحان رکھنے والوں کے لئے ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، یہ طے کیجئے کہ آپ کے مخاطبین (target audience) کون ہیں؛ اور
سوم۔ کیسے لکھا جائے؟ یعنی آپ کا اندازِ تحریر کیسا ہوگا۔
اب ہم ان تینوں سوالوں کے جوابات قدرے تفصیل سے دینے کی کوشش کریں گے۔
کیا لکھا جائے؟
یہ سب سے اہم سوال ہے، جس کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر لمحے ہمارے ذہن میں ان گنت خیالات، تفکرات، خواہشات اور خدشات کے جھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر خیال کو ہم اپنی تحریر کا موضوع نہیں بناسکتے۔
ذاتی ڈائری لکھنے کی بات اور ہے۔ اس میں تو آپ ایسی ہر چیز لکھ سکتے ہیں جسے لکھنے کو آپ کا دل چاہ رہا ہو۔ لیکن عوامی ذرائع ابلاغ آپ کی پسند اور ناپسند کے محتاج نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہاں ہم تصور کررہے ہیں کہ آپ سائنس کے کسی موضوع پر لکھنا چاہ رہے ہیں، لہٰذا اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
فی الحال ہم اس بحث میں بھی نہیں پڑ رہے کہ آپ کوئی مختصر اور معلوماتی تحریر لکھنے جارہے ہیں یا کوئی تفصیلی مضمون۔ ہم تو صرف یہ غور کررہے ہیں کہ آپ کی ممکنہ تحریر کا متوقع موضوع کیا ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے دو باتیں لازماً طے کرلیجئے: پہلی یہ کہ تحریر کا موضوع کیا ہوگا، اور دوسری یہ کہ اُس کا مرکزی خیال کیا ہوگا۔
تحریر کے موضوع اور مرکزی خیال میں اتنا گہرا رشتہ ہے کہ بعض اوقات ان دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں فرق کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
فرض کیجئے آپ آئن اسٹائن کے موضوع پر کوئی مضمون لکھنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن آئن اسٹائن کے بارے میں کیا لکھیں گے؟ آپ اُس کے مذہبی عقائد پر روشنی ڈالیں گے، نظریہ اضافیت پر بحث کریں گے، کائناتی پھیلاؤ کے بارے میں اس کی غلطیوں پر بات کریں گے، ایک انسان کی حیثیت سے اس کے کردار کا جائزہ لیں، کوانٹم میکانیات کی بنیادیں رکھنے میں اس کی خدمات پر نظر ڈالیں گے یا کوانٹم میکانیات کے لئے آئن اسٹائن کی شدید مخالفت کو موضوعِ بحث بنائیں گے؟ مطلب یہ کہ آپ کے مضمون کا موضوع تو آئن اسٹائن ہی ہوگا، لیکن مرکزی خیال اس کی سائنسی خدمات یا شخصیت وغیرہ میں سے کچھ ہوگا۔
غرض یہ کہ تحریر کے موضوع اور مرکزی خیال کا تعین ہی آگے بڑھنے میں آپ کی راہ ہموار کرے گا۔ اب آپ اسی مطابقت میں اپنی سوچ اور ماخذات (کتب، رسائل اور ویب سائٹس وغیرہ سے حاصل شدہ معلومات) کو ترتیب دیں گے۔
ماخذات میں احتیاط
معلومات کے حصول میں ماخذات (Sources) کی جتنی زیادہ اہمیت ہے، یہ معاملہ اسی قدر احتیاط طلب بھی ہے۔ جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح خوبصورت اور پُرکشش نظر آنے والا ہر ذریعہ معلومات (ماخذ) بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتا۔
اس بارے میں ایک لطیفہ سنتے چلئے۔ تین چار سال پہلے کی بات ہے، ایک شاعرصاحب نے کلوننگ اور متعلقہ موضوعات کے حوالے سے ایک کتاب لکھ ماری جس میں دقیق اور مہارت طلب سائنسی تصورات کے بارے میں غلط فہمیوں کی بھرمار تھی۔ اُن صاحب نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے، ذرائع ابلاغ میں اس کتاب کی خاصی تشہیر بھی کر ڈالی۔ مگر ہم نے اس پر نہایت سخت تبصرہ شائع کیا جس میں ہمارے تبصرہ نگار نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں غلطیوں اور (مصنف کی) غلط فہمیوں کی اتنی بھرمار ہے کہ اسے بازار سے واپس اُٹھوالینا چاہئے۔۔۔ اور تمام اغلاط دور کرنے کے بعد ازسرِ نو شائع کرنا چاہئے۔
اس تبصرے کے جواب میں سب سے پہلے تو حضرتِ مصنف کا فون ہمارے پاس آگیا۔ فرمانے لگے: ’’آپ کیسے اس کتاب کو غلط کہہ سکتے ہیں، جبکہ اسے مرتب کرنے کے لئے ہم نے انٹرنیٹ (ویب سائٹس) سے مدد لی تھی۔‘‘ بڑی مشکل سے ہم انہیں یہ سمجھا سکے کہ ویب سائٹس پر معلومات موجود ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انٹرنیٹ سے ملنے والی ہر اطلاع پر بھروسہ کرلیا جائے۔
بہت سادہ اور آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہر کتاب، ہر رسالہ، ہر اخبار، ہر ویب سائٹ اور ہر خبر اس قابل نہیں ہوتی کہ اس میں دی گئی معلومات کو درست مان لیا جائے۔ ماخذات کو منتخب کرتے اور ترتیب دیتے وقت جائز حد تک شک پسندی (skepticism) اختیار کرنا ضروری ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ سائنس نگاری کے مبتدیوں کے لئے یہ معاملہ خاصا مشکل ہے۔ تاہم، دشواری سے بچنے کے لئے چند ویب سائٹس کے نام دے رہے ہیں جو سائنسی معلومات کی درستگی میں عالمی طور پر بلند مقام رکھتی ہیں:
www.nature.com
www.newscientist.com
www.sciam.com
www.eurikalert.org
www.sciencedaily.com
www.firstscience.com
www.howstuffworks.com
www.scidev.net
ان کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، انسائیکلوپیڈیا امیریکانا اور مک گراہلز انسائیکلوپیڈیا آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی حوالہ جاتی کتب بھی قابلِ بھروسہ ہیں۔ ماخذات کے انتخاب اور ترتیب کے ضمن میں متعدد ٹھوکریں کھانے کے بعد ہم نے کچھ اُصول اخذ کئے ہیں، جو یقیناًآپ کے لئے بھی کارآمد ہیں۔ کسی بھی ماخذ کو منتخب یا مسترد کرنے کے لئے اپنے آپ سے درج ذیل سوالات ضرور کیجئے:
1۔ اطلاع کا ذریعہ (وہ اخبار، کتاب، رسالہ یا ویب سائٹ جس سے آپ معلومات لے رہے ہیں) سنجیدہ اور قابلِ انحصار حیثیت سے کوئی شناخت رکھتا ہے یا نہیں؟
2۔ اطلاع / معلومات دینے والا فرد بھی کوئی سنجیدہ اور قابلِ انحصار شناخت رکھتا ہے یا نہیں؟
3۔ اطلاع/ معلومات دینے والے فرد (مصنف یا صحافی) نے اس موضوع پر کام کرنے والے (یعنی متعلقہ) ماہرین کی رائے پیش کی ہے یا نہیں؟
4۔ اگر وہ اطلاع کسی خبر کی صورت میں ہے تو کیا اسے پیش کرنے والے صحافی/ ذریعے نے کسی تازہ شائع شدہ تحقیقی مقالے یا کانفرنس/ سیمینار/ سمپوزیم کا حوالہ دیا ہے یا نہیں، کہ جس میں (اس خبر کی بنیاد بننے والی) تحقیق کے نتائج پیش کئے گئے ہوں؟
5۔ ایک قابلِ بھروسہ ذریعے (مثلاً کسی رسالے یا ویب سائٹ) سے ملنے والی معلومات کی تائید، دیگر قابلِ بھروسہ ذرائع سے بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ (مثلاً اگر ایک سائنسی خبر نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر بہت اہم بنا کر شائع کی گئی ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اُس خبر کے بارے میں نیوسائنٹسٹ اور نیچر کی ویب سائٹس پر بھی لازماً کچھ نہ کچھ موجود ہونا چاہئے۔) یہ نکتہ خاص طور پر ایسے ذرائع معلومات کے لئے اختیار کیا جاتا ہے جو عمومی اور غیر سائنسی معلومات فراہم کرنے میں تو سند کا درجہ رکھتے ہوں لیکن سائنسی خبروں کے میدان میں اُن کی کوئی نمایاں شناخت نہ ہو۔
6۔ کہیں اُس اطلاع/ معلومات میں کوئی ایسی بات یا کوئی ایسا غیرمعمولی دعویٰ تو نہیں جو تسلیم شدہ حقائق کے خلاف محسوس ہوتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو آنجہانی کارل ساگان کا یہ قول ہمیشہ کے لئے گرہ میں باندھ کر رکھئے:
’’غیر معمولی دعوؤں کو غیر معمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘
(extraordinary claims need extraordinary proofs)
یعنی اس بارے میں دیگر قابلِ بھروسہ ذرائع پر بھی لازماً بحث موجود ہونی چاہئے۔ البتہ، یہ ضروری نہیں کہ اُن دوسرے ذرائع پر اُس دعوے کو درست ہی تسلیم کیا گیا ہو۔ بلکہ، بہت ممکن ہے کہ وہاں اُس دعوے پر کڑی تنقید کی گئی ہو۔
کس کے لئے لکھا جائے؟
یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے، جو بالکل اُسی طرح ہے جیسے کوئی شکاری، فائر کرنے سے پہلے اپنے شکار پر نشانہ باندھتا ہے۔ اس کا دھیان رکھتے ہوئے آپ اپنی تحریر کی اثر پذیری میں زبردست اضافہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا:
الف۔ یہ طے کیجئے کہ جو کچھ بھی آپ لکھنے جارہے ہیں، وہ کسی مجمع کے سامنے تقریر کی شکل میں پیش ہوگا، کسی ریڈیو/ ٹی وی پروگرام کا اسکرپٹ بنے گا، یا پھر کسی روزنامے (اخبار) یا ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامہ یا سہ ماہی جریدے میں شائع ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کسی ویب سائٹ کے لئے لکھنے کا ارادہ کررہے ہوں۔
ب۔ یہ تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ سائنسدانوں اور ماہرین کے لئے لکھ رہے ہیں یا پھر نوجوان طالب علموں اور عام لوگوں کے لئے۔
کیسے لکھا جائے؟
’کس کے لئے‘ کا فیصلہ کرنے کے بعد یہ طے کیجئے کہ آپ ’کیسے‘ لکھیں گے، یعنی آپ کا اندازِ تحریر کیسا ہوگا؟ اس ضمن میں تحریر کے دو اجزاء پر توجہ دینا بہت ضروری ہے:
اوّل۔ آپ اپنا مضمون کیسے شروع کریں گے، کس انداز سے مرحلہ وار آگے بڑھائیں گے اور کس طرح اس کا اختتام کریں گے۔
دوم۔ اپنے مضمون کے مرکزی خیال پر توجہ مرکوز رکھئے، کیونکہ یہی وہ ’’پیغام‘‘ ہے جسے آپ اپنی تحریر کے ذریعے اپنے مخاطبین (قارئین، حاضرین، ناظرین یا سامعین) تک پہنچائیں گے۔
توجہ طلب نکتہ: ’’کس کے لئے‘‘ اور ’’کیسے‘‘ میں تعلق
چلتے چلتے ذرا اس پہلو پر بھی متوجہ ہوتے چلئے کہ ’’کس کے لئے‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً:
* اگر آپ سائنسدانوں/ ماہرین کے لئے لکھ رہے ہیں تو مروجہ اور معروف سائنسی نظریات، تکنیکی اصطلاحات اور فنیاتی طریقہ ہائے کار کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؛ کیونکہ آپ یہ تصور کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سائنسداں/ ماہرین اس بارے میں بخوبی واقف ہیں۔ تاہم اگر آپ کوئی نیا تصور (سائنسی نظریہ) یا کوئی نیا فنیاتی طریقہ کار (پروسیس) پیش کرنے جارہے ہیں تو اس کی وضاحت ضروری ہے۔
* اگر آپ کسی عمومی سائنسی جریدے (مثلاً گلوبل سائنس) کے لئے کچھ لکھ رہے ہیں تو آپ کو مشہور سائنسی اصطلاحات و الفاظ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ نئی اور قدرے غیر معروف سائنسی اصطلاحات کی مختصر اور آسان وضاحت ضروری ہے۔ (یہ کوئی لگا بندھا اُصول تو نہیں، لیکن پاکستان میں اردو زبان کے کسی عمومی سائنسی جریدے کے لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کے قارئین کم از کم مڈل (آٹھویں) پاس ہوں گے، جبکہ انہیں سائنس سے خاطر خواہ دلچسپی بھی ہوگی۔ یعنی وہ سائنس کی بنیادی باتوں سے واقفیت رکھتے ہی ہوں گے۔ لہٰذا اگر آپ مشہور سائنسی اصطلاحات / الفاظ کی وضاحت نہیں بھی کریں گے، تب بھی آپ کا کام چل جائے گا۔ البتہ، غیر معمولی طور پر طویل مضمون کے لئے احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر آپ نے پہلی ہی مرتبہ میں ایک بہت تفصیلی مضمون لکھ دیا تو شاید وہ اپنی اشاعت کے لئے مہینوں تک منتظر رہے۔)
* کسی اخبار یا غیر سائنسی جریدے کے لئے کوئی سائنسی مضمون لکھتے وقت خیال رکھئے کہ اس میں آپ بہت گہری اور دقیق معلومات نہیں دے سکتے۔ اس طرح کی مطبوعات کے لئے صرف سطحی معلومات ہی کافی ہوتی ہیں، اور ان کا ایک عام آدمی کے لئے دلچسپ ہونا اشد ضروری ہے۔ یہاں ’’عام آدمی‘‘ سے ہماری مراد ایک ایسا فرد ہے جو یا تو سائنس کے بارے میں بالکل نہیں جانتا یا پھر بہت کم جانتا ہے۔ علاوہ ازیں اسے سائنس کا مطالعہ کرنے سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اخبار/ غیر سائنسی جریدے کا کوئی قاری، عام آدمی نہ ہو لیکن پھر بھی، متوقع قارئین کا فیصلہ کرتے وقت آپ کو ایک عام آدمی کا تصور ہی ذہن میں رکھنا ہے۔
’’اگر کوئی سائنسدان کسی سائنسی نظریئے کو ایک بچے کے لئے آسان اور قابلِ فہم بناکر واضح نہیں کرسکتا، تو پھر دو باتیں ہی ممکن ہیں: یا تو وہ سائنسدان خود ہی اُس نظریئے کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا، یا اُس نظریئے ہی میں کوئی خرابی ہے۔‘‘
(میشیو کا کو۔ جاپانی نژاد امریکی ماہرِ طبیعیات)
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/3#sthash.SGkGnnbd.dpuf
ب۔ دورانِ تحریر (During the writing)
اب تک آپ یقیناًبور ہوچکے ہوں گے کہ اتنی دیر ہوگئی اور تحریر کا مرحلہ شروع ہی نہیں ہوا۔ آپ کی بوریت سر آنکھوں پر، لیکن تحریر سے پہلے کے مرحلے پر آپ جتنی اچھی تیاری کریں گے، اتنا ہی جاندار اور مؤثر مضمون قلم بند کرنے کے قابل ہوں گے۔
بہرکیف، اب آپ کی بوریت ختم کرتے ہیں اور ’’دورانِ تحریر‘‘ کے مرحلے پر پہنچتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں اچھی طرح جاننے اور مستند معلومات رکھنے کے باوجود، آپ اسے مناسب طور پر سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ بات تحریر اور تقریر، دونوں کے لئے درست ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ’’قدرتِ بیان‘‘ کا نہ ہونا۔ اسے ہم ’’ابلاغ کی قوت میں کمی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ مزید آسان الفاظ میں، یہ اُس مہارت میں کمی ہے جو کسی بات کو مؤثر انداز میں اپنے مخاطبین (audience) تک پہنچانے کے لئے لازمی ہے۔
آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ ابلاغ کی قوت میں کمی دور کرنے کے اُصول بہت آسان اور سادہ ہیں۔ یقین نہیں آیا؟ خود ہی دیکھ لیجئے:
غیر مبہم اور درست معلومات
لکھتے دوران یہ خیال رکھئے کہ جو کچھ بھی آپ لکھ رہے ہیں وہ نہ صرف واضح اور غیر مبہم جملوں کی شکل میں ہو، بلکہ ان جملوں میں معلومات بھی درست ہوں۔ یعنی آپ کی تحریر غیر مبہم (clear) اور درست (accurate) ہو۔ اس نکتے کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ ذیل میں ایک ہی طرح کے دو جملے دیئے گئے ہیں:
1۔ ایک امریکی سائنسدان نے غریب ممالک کے لئے نہایت کم خرچ کمپیوٹر بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
2۔ میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT)، امریکہ کی مشہور ’’میڈیا لیب‘‘ کے سابق سربراہ، نکولس نیگرو پونتے نے غریب ممالک کے لئے نہایت کم خرچ لیپ ٹاپ تیار کرنے کے ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بننے والے ہر لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی قیمت صرف 100 ڈالر (یعنی تقریباً 6,000 پاکستانی روپے) ہوگی۔
ملاحظہ فرمائیے کہ پہلا جملہ مختصر اور آسان ضرور ہے، لیکن مبہم ہے۔ اس کے برعکس، دوسرا جملہ طویل ہونے کے باوجود اپنا مفہوم پوری طرح سے واضح کررہا ہے۔ سائنسی یا غیر سائنسی، دونوں طرح کی صحافت میں اطلاع کا مفہوم مکمل طور پر واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی بات کو مزید بہتر انداز سے بیان کرنے کے لئے ایک سے زائد جملوں میں بھی توڑ سکتے ہیں۔
مثلاً : نکولس نیگرو پونتے نے غریب ممالک کے لئے نہایت کم خرچ لیپ ٹاپ کمپیوٹر تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بننے والے ہر لیپ ٹاپ کی قیمت صرف 100 ڈالر (یعنی تقریباً 6,000 پاکستانی روپے) جتنی ہوگی۔ یاد رہے کہ نکولس نیگرو پونتے ’’میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (MIT)، امریکہ کی مشہور ’’میڈیا لیب‘‘ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ذخیرۂ الفاظ اور مطالعۂ ادب
مناسب ذخیرۂ الفاظ کے بغیر مضمون لکھنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہے جیسے تالاب کے ساکن پانی میں بغیر انجن، بغیر بادبان اور بغیر چپوؤں کے کشتی چلانا۔ ظاہر ہے کہ صحافت (یا ابلاغِ عامہ) کا مقصد، دوسروں تک خبریں اور معلومات پہنچانا ہے۔ لہٰذا، مضمون لکھتے وقت ایسے الفاظ استعمال کیجئے جو آپ کا مطلوبہ مفہوم، موزوں ترین انداز میں بیان کرتے ہوں۔ یہ ایک ایسا اُصول ہے جو کسی بھی طرح کی تحریر میں آپ کے لئے کارآمد ہے، خواہ اس کا تعلق سائنس سے ہو یا نہ ہو۔
اب آپ پوچھیں گے کہ ذخیرۂ الفاظ کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ تو ا س کا جواب بہت ہی آسان ہے: ادب کا مطالعہ کرکے۔ ابتداء میں ہم کلاسیکی اُردو ادب کا کچھ حوالہ دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید اردو ادب کا مطالعہ بھی خاصا مفید رہے گا۔ مثلاً ابن انشاء کے سفر نامے اور مزاح، مشتاق احمد یوسفی کی چاروں تصانیف (خصوصاً آبِ گم)، شوکت صدیقی کا ’’جانگلوس‘‘، مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے جو انہوں نے 1990ء سے پہلے تک لکھے ہیں (خصوصاً اُندلس میں اجنبی)، قدرت اللہ شہاب کی تصانیف (خصوصاً ماں جی اور شہاب نامہ)، کرنل اشفاق کا مجموعہ کتب (جنٹل مین بسم اللہ لے کر جنٹل مین اللہ اللہ تک)، ممتاز مفتی کی تصانیف، بریگیڈیئر صدیق سالک (پریشر ککر اور میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا) اور رضا علی عابدی کی تصانیف (خصوصاً شیر دریا اور اُردو کا حال) وغیرہ۔
اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو زبان بہتر بنانے کے لئے عمران سیریز اور جاسوسی دنیا (فریدی سیریز) کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ ابنِ صفی مرحوم کی لکھی ہوئی ’’اصل والی‘‘ ہوں، موجودہ دور کے کسی ’’دو نمبر‘‘ ایم اے کی لکھی ہوئی نہ ہوں۔ اسی طرح آپ اشتیاق احمد کے وہ ناول بھی پڑھ سکتے ہیں جو انہوں نے 1978ء سے 1990ء کے درمیان لکھے ہیں۔ (ہمارا اشارہ انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی برادرز والے ناولوں کی طرف ہے۔)
گھبرائیے نہیں، ہمارا دماغ الحمدللہ اپنی جگہ پر ہے۔ جب تک آپ ان میں سے کچھ (یا تمام) تصانیف کا مطالعہ نہیں کریں گے، تب تک آپ کو ہمارے مشورے کی صداقت پر بھی یقین نہیں آئے گا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ غیر سائنسی ادب کا مطالعہ بھی سائنس نگاری میں ہماری بہت مدد کرتا ہے کیونکہ زبان و بیان کا سلیقہ، روزمرہ و محاورے پر عبور اور جملوں میں الفاظ کی موزوں نشست و برخاست کا ڈھنگ ہمیں اسی غیر سائنسی ادب سے سیکھنے کو ملتا ہے۔
البتہ سائنسی مضمون نگاری میں کچھ اور چیزوں کا دھیان بھی رکھنا پڑتا ہے۔ انہیں ہم ’’سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات‘‘ کہتے ہیں۔ ہر اصطلاح اپنی ذات میں لفظ (یا الفاظ کا مجموعہ) ہی ہوتی ہے لیکن ایک خاص تناظر میں، ایک مخصوص سیاق و سباق (context) کے ساتھ ایک الگ مفہوم دیتی ہے۔ مثلاً، ایک لفظ ’’فریکوئنسی‘‘ (تعدد) کو دیکھئے:
* طبیعیات میں اس کا مطلب کسی مقام سے ایک سیکنڈ میں گزرنے والی موجوں کی تعداد ہے۔
* طباعتی اور برقی ذرائع ابلاغ میں فریکوئنسی سے مراد کسی پروگرام یا مطبوعہ کی دو اشاعتوں (یا نشریات) کے درمیان وقفہ ہوتا ہے۔ یعنی اخبار کی فریکوئنسی ’’روزانہ‘‘ ہوگی، ہفتے میں ایک بار شائع ہونے والے کسی جریدے کی فریکوئنسی ’’ہفت روزہ‘‘ کہلائے گی، اور اسی طرح یہ سلسلہ ماہنامہ، سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ تک چلتا چلا جائے گا۔ کسی ٹی وی/ ریڈیو چینل سے نشر ہونے والے پروگراموں کے نشریاتی تسلسل پر بھی فریکوئنسی کے اسی مفہوم کا اطلاق ہوتا ہے۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/4#sthash.ReQlrN35.dpuf
چھوٹی سی اس مثال سے ظاہر ہے کہ سائنس نگاری کے لئے اصطلاحات اور ان کے علمی و تکنیکی پس منظر سے واقف ہونا اشد ضروری ہے۔ سچ پوچھئے تو اصطلاحات کے بغیر کوئی بھی سائنسی مضمون مکمل نہیں ہوسکتا۔ یعنی جو مضمون بھی آپ لکھ رہے ہیں، اس میں استعمال ہونے والی سائنسی اصطلاحات اور ان کے پس منظر سے بھی آپ کو واقف ہونا چاہئے۔ لیکن یہاں ہم ’’سائنس کے عوامی ابلاغ‘‘ کی بات کررہے ہیں، جس کے لئے مضمون کا آسان ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ پرانے سائنس نگار ہوں یا نئے، ہر صورت میں آپ کو اس مسئلے کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
اس کا آسان اور آزمودہ حل صرف اتنا ہے کہ مضمون میں جہاں کہیں بھی کوئی سائنسی / تکنیکی اصطلاح پہلی مرتبہ آئے، وہیں اُس کی مختصر اور آسان وضاحت کردی جائے۔ بین الاقوامی سائنسی صحافت میں یہی طریقہ پچھلے کئی سال سے استعمال ہورہا ہے۔ یہ کام آپ دو طرح سے کرسکتے ہیں:
اوّل۔ چلتے جملے کے دوران جہاں وہ نئی اور نامانوس اصطلاح پہلی بار وارد ہو، اسی کے ساتھ قوسین (بریکٹس) لگا کر اُن میں وضاحت لکھ دیجئے۔ یہاں آپ قوسین کی جگہ کوما (، ) اور طویل وقفہ یعنی ایم ڈیش (–) بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
دوم۔ جس جملے میں نئی / نامانوس اصطلاح آئی ہے، اُس کے فوراً بعد والے جملے میں اُس اصطلاح کی وضاحت کردیجئے۔
یہ دوسری ترکیب ہمیں ذاتی طور پر پسند ہے کیونکہ اس سے جملے کے تسلسل کو متاثر کئے بغیر ہی نئی اصطلاحات کی وضاحت کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ تاہم، یہ کوئی لگا بندھا اُصول نہیں لہٰذا آپ اپنی سہولت اور موقع کی مناسبت سے ان دونوں ترکیبوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
غرض یہ کہ ذخیرۂ الفاظ کی اس طولانی بحث کا لبِّ لباب یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ سائنس نگاری اختیار کرنے میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو اپنا ذخیرۂ الفاظ دو حوالوں سے مضبوط بنانا پڑے گا:
الف۔ روزمرہ (عام الفاظ) اور محاوروں کے حوالے سے تاکہ آپ موقع کی مناسبت سے درست الفاظ منتخب کرسکیں؛ اور
ب۔ سائنسی/ تکنیکی اصطلاحات کے حوالے سے تاکہ ہر اصطلاح سے وابستہ مفہوم اور علمی مباحث آپ کی گرفت میں رہیں۔
سلاست اور روانی
اپنی گفتگو کو سائنس کے میدان تک محدود رکھتے ہوئے، ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا کبھی آپ نے ایسی کوئی تحریر بھی پڑھی ہے جو پہلی بار کے مطالعے میں ’’سر سے گزر گئی‘‘ ہو، اور اسے سمجھنے کے لئے کئی بار پڑھنا پڑا ہوا۔ آپ کا جواب یقیناًاثبات میں ہوگا کیونکہ سائنس کے موضوع پر لکھی گئی بیشتر تحریروں کو ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا پڑتا ہے، تبھی وہ سمجھ میں آتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ، سائنسی تحریروں میں سلاست و روانی کا فقدان ہے۔
سلاست نکلا ہے ’’سلیس‘‘ سے، جس کے معنی ’’آسان‘‘ کے ہیں۔ جبکہ روانی ماخوذ ہے ’’رواں‘‘ سے، جس سے مراد ’’چلتا ہوا‘‘ لی جاسکتی ہے۔ سائنسی و تکنیکی اصطلاحات کا معاملہ دوسرا ہے، لیکن اگر آپ کے پاس کسی جملے میں استعمال کے لئے مشکل اور آسان، دونوں طرح کے الفاظ موجود ہوں تو ہمیشہ آسان الفاظ کو ترجیح دیجئے۔
تحریر کی ’’روانی‘‘ کیا ہے؟ اپنی سہولت کے لئے یوں سمجھئے کہ جملے کا کوئی بھی حصہ ’’اٹکتا ہوا‘‘ محسوس نہ ہو۔ یعنی قاری کا ذہن، آپ کی تحریر کے ساتھ ساتھ اس طرح چلے جیسے پانی میں مچھلی تیرتی چلی جاتی ہے۔ غیر مبہم اور درست معلومات کی بحث میں ہم نے تین جملے بطور مثال پیش کئے ہیں جو سلاست و روانی کی شرط پر پورا اُترتے ہیں۔
سلاست و روانی کے ضمن میں یہ نصیحت گرہ میں باندھ لیجئے کہ قارئین کو آپ کی تحریر کا ہر جملہ پہلی بار پڑھتے ہی پوری طرح سے، درست طور پر سمجھ میں آجانا چاہئے۔ اگر قاری کو آپ کے جملے دو یا دو سے زائد مرتبہ پڑھنے کے بعد ہی سمجھ میں آسکے، تو وہ بوریت کا شکار ہوجائے گا … اور بہت ممکن ہے کہ آپ کی تحریر مکمل طور پر پڑھے بغیر ہی چھوڑ دے۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/5#sthash.zd0CDZUB.dpuf
مخاطبین سے وابستگی
مخاطبین (audience) وہ لوگ ہیں جنہیں آپ اپنی تحریر پڑھوانا یا تقریر (گفتگو) سنانا چاہتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سائنسی صحافت کا مقصد ’’عوام تک سائنس کا ابلاغ‘‘ ہے تو ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ’’عوام‘‘ سے ہماری کیا مُراد ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرف نگاہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہاں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کی اوسط عمر (Average Schooling Life) بارہ سے پندرہ سال کے درمیان ہے۔ یعنی ترقی یافتہ ممالک کا ایک عام شہری بھی اوسطاً بارہ سے پندرہ جماعتیں پڑھا ہوا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں وہاں شرح خواندگی بھی تقریباً 100 فیصد ہے اور سائنس پر وہاں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ پھر وہاں کا معیارِ تعلیم بھی (بڑی حد تک) اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ طالب علموں کو ’’سمجھ کر‘‘ پڑھنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ یا برطانیہ سے (انگریزی میں) سائنس کی کوئی ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو ’’عوام الناس‘‘ کے لئے ہو، تو اسے ایک ایسے فرد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے جو وہاں کی تعریف کے مطابق ایک ’’عام فرد‘‘ ہو۔
اسٹیفن ہاکنگ کی ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ ہی کو لے لیجئے۔ 1988ء میں اپنی اوّلین اشاعت سے لے کر آج تک یہ کتاب ایک کروڑ سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوچکی ہے۔ درجنوں زبانوں میں اس کے ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔ آزمائش کے لئے اس کتاب کا درست اور لفظی اردو ترجمہ،میٹرک / انٹرمیڈیٹ کے کسی ایسے پاکستانی طالب علم کو پڑھوا دیجئے جس نے صرف درسی کتابوں ہی کے ذریعے سائنس پڑھی ہو۔ وہ بمشکل تمام آدھی کتاب ہی سمجھ پائے گا جبکہ باقی کی آدھی کتاب (جو اس کتاب کا اصل مغز ہے) اس کے پلّے ہی نہیں پڑے گی۔ کیوں؟ ظاہر ہے کہ یہ کتاب ترقی یافتہ معاشرے کے ایک ’’عام فرد‘‘ کے لئے لکھی گئی ہے، کسی عام پاکستانی کے لئے نہیں۔
پاکستان میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کی اوسط عمر صرف 2 سال ہے۔ سرکاری دعووں کے مطابق ہماری شرح خواندگی 40 سے 50 فیصد کے درمیان ہے۔ لیکن ہمارے ہاں خواندگی کی تعریف بڑی عجیب و غریب ہے: ’’ہر وہ شخص جو اپنے (تحریری) دستخط کرسکتا ہو، اور اخبار کی شہ سرخی پڑھ سکتا ہو، خواندہ ہے۔‘‘ پھر ہمارا نظامِ تعلیم بھی ماشا اللہ سے ایسا ہے کہ جس میں ’’رٹنا‘‘ ہی بہترین قابلیت ہے۔ یہ بات سائنس کے لئے بطورِ خاص درست ہے جسے دنیا بھر میں ’’سمجھ کر پڑھنے والا‘‘ مضمون قرار دیا جاتا ہے۔
جس طالب علم نے سائنس ’’رٹی ہوئی‘‘ ہو، اور جسے یہی پتا نہ ہو کہ جو کچھ وہ سمجھے بغیر ’’حفظ‘‘ کررہا ہے اُس کا کیا مفہوم ہے ۔۔ اور اس کی روزمرہ زندگی سے کیا تعلق ہے ۔۔ تو بریف ہسٹری آف ٹائم جیسی آسان کتاب کا درست اور لفظی اُردو ترجمہ بھی اس کے سر سے گزر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ برِصغیر میں مغرب کی مقبولِ عام سائنسی کتابوں کے اردو ترجمے کی تحریک (جس میں لفظی ترجمے ہی پر زیادہ زور رہا ہے) عوامی حلقوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ حقیقت تلخ ضرور ہے لیکن اس کا سامنا کئے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں۔
میٹرک (سائنس)، ایف ایس سی اور بی ایس سی کرنے کے باوجود بھی ایک عام طالب علم خود کو سائنس سے لاتعلق ہی محسوس کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں سائنس کی حیثیت صرف اتنی رہتی ہے کہ وہ امتحان میں کامیابی حاصل کرے، ڈگری لے، کہیں ملازم ہوجائے اور تجربہ گاہ میں تحقیق کرتے ہوئے اپنی عمر گزار دے یا پھر سائنس پڑھاتے ہوئے۔ یعنی اپنی روزمرہ زندگی میں سائنس کے حوالے سے اُس کے جذبات و خیالات کسی دوسرے عام شہری سے مختلف نہیں ہوتے۔ پاکستان کے بلند پایہ شاعروں کی ایک اچھی تعداد سائنس دانوں اور ماہرینِ فنیات پر مشتمل ہے، لیکن وہ سائنس کو مارے باندھے ہی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ یعنی سائنسی شاعری کے حوالے سے اُن کے ہاں ’’آوُرد‘‘ کی کیفیت ہے، نہ کہ ’’آمد‘‘ کی۔
اس ’’سخن گسترانہ‘‘پس منظر (بلکہ پس و پیش منظر) کے بعد صرف اتنا جان لیجئے کہ سائنسی صحافت میں اپنے مخاطبین سے وابستگی بھی اشد ضروری ہے۔ یعنی آپ کے قاری، ناظر یا سامع کو ایسا لگنا چاہئے کہ اس کا کوئی ’’اپنا‘‘ اُس سے باتیں کررہا ہے۔
آپ کا مخاطب جب تک آپ کی تحریر/ تقریر میں اپنائیت محسوس کرتا رہے گا، تب تک وہ آپ کی طر ف متوجہ رہے گا اور آپ کی باتیں سمجھنے کے لئے اپنا ذہن کھلا رکھے گا۔ یہی وہ ’’وابستگی‘‘ ہے جو کسی اچھے سائنس نگار کے لئے ضروری ہے۔ مخاطبین سے وابستگی یا ہم آہنگی کے حصول میں چند باتیں ذہن نشین رکھنی چاہئیں:
* تحریر میں آسان روزمرہ اور محاورے کے علاوہ ضرب الامثال، کہاوتیں، حکایتیں، اقتباسات اور اشعار بھی شامل کئے جاسکتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ موقع کی مناسبت سے ہوں۔ اگر یہ سب چیزیں آپ کے مخاطبین کے معاشرتی، تہذیبی اور تمدنی پس منظر کی مطابقت میں ہوں تو اور بھی بہتر رہے گا۔
* منظر نگاری سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ بھی آپ کے مضمون کی مطلوبہ طوالت سے مشروط ہے۔ لمبے مضمون کے لئے نسبتاً طویل منظر نگاری کی گنجائش ہوتی ہے۔ تاہم مختصر مضمون میں ہر ممکن حد تک مختصر منظر نگاری کرنی چاہئے۔ اس ضمن میں دو مثالیں درج کی جارہی ہیں:
1۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم، انتہائی ضعیفی کے باوجود بھی روزانہ پابندی سے ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آیا کرتے تھے۔
2۔ یہ 1991ء کی بات ہے جب میں جامعہ کراچی کا طالب علم تھا، اور دوپہر کے وقت گھر واپس جانے کے لئے شعبہ اطلاقی کیمیا کے کونے پر لگے ایک درخت کے نیچے، اپنے دوستوں کے ہمراہ، جامعہ کراچی کی بس کا انتظار کیا کرتا تھا۔ اسی جگہ سے متعدد بار ہم نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم کو ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری آتے جاتے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک گاڑی میں ہوتے تھے جسے ان کا ڈرائیور چلا رہا ہوتا تھا۔ اُس وقت بھی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی عمر 95 سال تھی مگر تحقیق کے لئے اُن کے شوق اور جنون کا وہ عالم تھا کہ آندھی ہو یا طوفان، بیماری ہو یا تکلیف، ہر حالت میں وہ روزانہ پابندی سے ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ جاتا کرتے تھے اور تحقیقی امور میں دوسروں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہی معمول 14 اپریل 1994ء کے روز، اپنی وفات سے چند دن پہلے تک برقرار رہا۔
ملاحظہ فرمائیے کہ دونوں مثالوں کا مفہوم کم و بیش ایک ہی ہے، لیکن دوسری مثال میں منظر نگاری کے ذریعے قاری کو زیادہ متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
* اصطلاح کی ساخت پر بھی بحث کی جاسکتی ہے تاکہ قاری کو وہ اصطلاح ذہن نشین ہوجائے۔ علاوہ ازیں، اصطلاح کی وضاحت کرتے وقت آپ مقامی مثالیں، یا ایسی غیر مقامی مثالیں بھی لے سکتے ہیں جو آپ کے متوقع مخاطب کے لئے قابلِ فہم ہوں۔
مثلاً اگر کہیں پر ایٹمی انشقاق (atomic fission) کی وضاحت کرنی ہے تو ’’کسی بھاری ایٹم کے مرکزے کا ٹوٹنا اور نسبتاً ہلکے، دو ایٹمی مرکزوں میں تقسیم ہوجانا‘‘ لکھ کر بھی کام چل جائے گا۔ لیکن اگر آپ اس میں یہ بھی اضافہ کردیں گے کہ ’’انشقاق‘‘ اصل میں عربی لفظ ’’شق‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ’’پھٹ جانا، یا ٹکڑوں میں تقسیم ہوجانا‘‘ ہیں تو بات عام فہم اور زود ہضم ہوجائے گی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر، آپ اپنی تحریر کو دلچسپ بنانا چاہتے ہیں تو یہ بھی لکھ سکتے ہیں کہ انشقاق (fission) کی اصطلاح، حیاتیات میں پہلے سے رائج ہے جس سے مُراد کسی ایک خلئے والے جاندار کا تقسیم ہوکر ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے آٹھ ہونا ہے۔ جب ماہرینِ طبیعیات نے ایٹمی مرکزے کی تقسیم کے لئے ’’انشقاق‘‘ کی اصطلاح پہلے پہل استعمال کی، تو حیاتیات داں بہت ناراض ہوئے کہ حیاتیات میں برسوں سے رائج ایک اصطلاح کو نیا مفہوم پہنا دیا گیا ہے۔
اسی طرح کیمیا میں جب ’’الکحل‘‘ (Alcohol) کا تذکرہ آئے تو جہاں آپ یہ لکھیں گے کہ الکحل ’’نامیاتی مرکبات کی وہ شاخ ہے جس میں مرکزی ہائیڈرو کاربن زنجیر کے ایک ہائیڈروجن ایٹم کی جگہ ہائیڈرو آکسل آئن (-OH) جڑا ہوتا ہے،‘‘ تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھ سکتے ہیں کہ ’’الکحل‘‘ اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’سرمہ۔‘‘ تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یہ لفظ پہلی بار 1543ء میں لاطینی زبان میں استعمال ہوا اور اس کا مطلب وہی لیا جاتا تھا جو عربی میں رائج تھا۔ البتہ، مسلمان کیمیا دان ’’الکحل‘‘ کا لفظ مختلف طریقوں سے انتہائی خالص حالت میں حاصل کئے گئے مختلف مرکبات کے لئے بھی استعمال کرتے تھے۔ 1672ء میں جب یہ لفظ (الکحل) انگلش میں رائج ہوا تو انگریز کیمیا دانوں اس کا یہی مفہوم لیا تھا۔ دوسرے خالص مرکبات کے ساتھ ساتھ، ان کے ہاں ایک مرکب ’’الکحل آف وائن‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا جسے وہ مہنگی شراب بنانے میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ہوتے ہوتے ایک وقت وہ بھی آگیا جب ان کے یہاں ہر طرح کی شراب کے لئے ’’الکحل‘‘ کا لفظ رائج ہوگیا۔ لیکن جدید کیمیا میں لفظ ’’الکحل‘‘ کو ایک باقاعدہ اصطلاح کے طور پر متعارف کروانے کا سہرا ’’آگست ساونتے آرہینئس‘‘ کے سر جاتا ہے، جو سویڈن کا ایک کیمیا دان تھا۔
ہوا یو ں کہ آرہینئس صاحب 1880ء کے عشرے میں مختلف مرکبات اور تیزابوں کے درمیان کیمیائی عمل پر تحقیق کررہے تھے۔ ان پر انکشاف ہوا کہ نامیاتی مرکبات کی ایک پوری جماعت (جس میں مختلف شرابوں کے علاوہ بھی کئی مرکبات شامل ہیں) خاصے ملتے جلتے انداز سے کیمیائی عمل میں حصہ لے رہی ہے۔ مزید چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ ان تمام مرکبات میں مرکزی ہائیڈرو کاربن زنجیر کے ایک ہائیڈروجن ایٹم کی جگہ ایک ہائیڈرو آکسل آئن موجود ہے۔ اپنی اس دریافت کے لئے نام سوچنے بیٹھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لہٰذا مشقت سے بچنے کے لئے انہوں نے نامیاتی مرکبات کی اس نئی جماعت کو ’’الکحل‘‘ کا نام دے دیا؛ جو آج تک چلا آرہا ہے۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/7#sthash.P6vyrcup.dpuf
ختصر یہ کہ اپنے مخاطبین سے وابستگی یا ہم آہنگی کے لئے آپ کو بہت مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا مشاہدہ کرکے اور ان کے رہن سہن، مزاج، علمی سطح اور رجحان کے بارے میں جان کر آپ معاشرے کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ لیکن سائنس کے مطالعے کے لئے مستند ذرائع سے معلومات کا حصول بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے ہم ’’ماخذات میں احتیاط‘‘ کے تحت خاصی بحث کرچکے ہیں۔
جملوں کی لمبائی
تحریر میں جملے کتنے طویل ہونے چاہئیں؟ اس سوال کا کوئی لگا بندھا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا کی ہر زبان میں اس حوالے سے دو مکاتبِ فکر ہیں۔ ایک کا کہنا ہے کہ چھوٹا جملہ آسان اور زود ہضم ہوتا ہے، لہٰذا تحریر میں چھوٹے جملے ہی استعمال ہونے چاہئیں۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ چھوٹے جملے لکھنا تو بچوں کا کام ہے۔ زبان پر اصل عبور اور مہارت کا مظاہرہ، طویل جملو ں ہی سے ممکن ہے ۔۔ خصوصاً جب معلومات دینا مقصود ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ دونوں مکاتبِ فکر ہی اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ ایک اچھی تحریر کو چھوٹے اور لمبے، دونوں طرح کے جملوں کا متوازن مجموعہ ہونا چاہئے۔ اُنیس سال کے صحافتی تجربے کے بعد، جملوں کی طوالت سے متعلق ہم نے درج ذیل نتائج اخذ کئے ہیں:
1۔ اگر آپ تحریر میں کوما (،) ، کولن (:)، سیمی کولن (؛) ، اُلٹے واوین (’’ ‘‘ اور ’ ‘)، قوسین ( ) اور طویل سکتہ (یعنی ایم ڈیش) وغیرہ کے استعمال سے واقف نہیں، جسے ’’رموزِ اوقاف‘‘ (punctuation) بھی کہا جاتا ہے، تو بہتر ہے کہ مختصر جملے استعمال کیجئے؛
2۔ جملے صرف ’’جائزحد تک‘‘ ہی طویل رکھئے۔ یعنی غیر ضروری طور پر ’’اور‘‘ لگا کر اپنے جملے کو خواہ مخواہ طول دینے سے بہتر ہے کہ اپنی بات کو ایک سے زیادہ جملوں میں توڑ لیا جائے۔ اس کا اُلٹ بھی درست ہے۔ یعنی اگر کوئی جملہ فطری طور پر طویل ہورہا ہو تو اسے زبردستی چھوٹے جملوں میں توڑنے کی کوشش نہ کیجئے۔ کسی جملے کی ’’فطری‘‘ یا ’’غیر فطری‘‘ طوالت کا صحیح فیصلہ کرنے کے لئے بہت مشق اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر کوئی جملہ، اپنی ابتداء سے اختتام تک، الجھے اور اٹکے بغیر چل رہا ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی ’’فطری لمبائی‘‘ کے مطابق ہے۔ ایسا نہ ہونے کے صرف دو اسباب ہی ممکن ہیں: پڑھنے والے کو درست طور پر زبان سے واقفیت نہیں، یا پھر زبان کے معاملے میں لکھنے والے کی گرفت کمزور ہے؛
3۔ ایک قدیم چینی کہاوت ہے: اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بلی کالی ہے یا سفید،دیکھنا یہ چاہئے کہ چوہا پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔ مختصر اور طویل جملوں کی بحث ادیبوں، دانشوروں اور نقادوں کے لئے چھوڑ دیجئے۔ آپ تو صرف ویسا ہی جملہ لکھئے جو مطلوبہ مفہوم کو درست اور مؤثر انداز سے ادا کرتا ہے۔
اختصار، جامعیت اور دلچسپی
’’مخاطبین سے وابستگی‘‘ کے ذیل میں ہم ایسی کئی باتیں بیان کرچکے ہیں جن کی مدد سے مضمون میں قارئین کی دلچسپی بڑھائی جاسکتی ہے۔ ان میں کچھ اور نکات کا اضافہ کرلیجئے:
الف۔ تشبیہات اور استعاروں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے؛
ب۔ آپ کسی نامور ادیب کے اندازِ بیان کی نقل کرکے بھی اپنی تحریر کو دلچسپ بنا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہم نے ’’اندازِ بیان‘‘ کہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کسی مشہور ادیب کا پورا مضمون، حرف بحرف نقل کر بیٹھیں اور اسے ’’اپنی کاوش‘‘ قرار دے ڈالیں۔ ایسی حرکت ’’سرقہ‘‘ (چوری) کہلاتی ہے اور جرم کے زمرے میں آتی ہے؛
ج۔ تجربے کی بات ہے کہ اگر کسی سنجیدہ موضوع پر لکھے گئے مضمون میں مزاح کا عنصر بھی بڑھا دیا جائے تو وہ تحریر کی اثر پذیری اور مقبولیت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ اشعار میں تحریف بھی کرسکتے ہیں اور ادب پاروں کی ’’پیروڈی’’ بھی بنا سکتے ہیں۔ یوں تو ہم نے کئی ادیبوں کی تصانیف بیان کی ہیں لیکن پیروڈی کے حوالے سے ’’پیر جنگلی علیہ ما علیہ‘‘ کے زیرِ ادارت ماہنامہ ’’چاند‘‘ کے 1990ء سے قبل شائع شدہ شمارے زبردست ہیں۔ اس میں ایک مستقل عنوان ’’ٹکریں‘‘ کے تحت مشہور غزلوں اور نظموں کی پیروڈیاں خاصّے کی چیز ہیں۔
جہاں تک اختصار اور جامعیت کا تعلق ہے تو یہ طویل و مختصر جملوں کی بحث سے بالکل مختلف چیز ہے۔ کوزے میں دریا بند کرنے والا محاورہ آپ نے سن رکھا ہوگا۔ اختصار اور جامعیت اسی کو کہتے ہیں۔ قرآنِ پاک اس کی عظیم ترین مثال ہے کہ روئے ارض پر اس سے جامع کتاب کوئی نہیں۔ اپنی آسانی کے لئے اختصار اور جامعیت کا مفہوم یوں سمجھئے کہ مضمون میں کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کردی جائیں۔
البتہ، اختصار اور جامعیت سے استفادے کے لئے قاری، سامع یا ناظر کی ذہنی و علمی سطح کا ایک خاص درجے تک بلند ہونا لازمی ہے۔ یہ بات ہم موجودہ دور کے تناظر میں کہہ رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں علم حاصل کرنے کا شوق اور فکری نوعیت کی گفتگو کرنے کا رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ لہٰذا، اپنے مضمون میں اختصار و جامعیت شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اپنے مخاطبین کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیجئے۔
یعنی اگر آپ کی کوئی تحریر 8 سے 15 سال کے بچوں کے لئے ہے تو اختصار اور جامعیت کو بھول جائیے۔ تاہم، اگر آپ اپنا مضمون ایسے افراد کے لئے لکھ رہے ہیں جن کی قابلیت کم از کم گریجویشن تک ہے، تو آپ اختصار اور جامعیت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
غیر ضروری تکرار (Redundancy) سے بچئے
کولہو کا بیل ہو یا رہٹ کا، دونو ں میں ایک قدر مشترک ہے: دونوں ہی سارا سارا دن ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور دونوں ہی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اسی پٹی کی وجہ سے وہ بے چارے سمجھتے ہیں کہ وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں، لیکن درحقیقت وہ بار بار ایک ہی جگہ سے گزرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی بات اور ایک ہی جیسے حقائق کو بار بار دوہرانا ہی ’’تکرار‘‘ کہلاتا ہے۔ تحقیقی مقالہ نگاری میں تکرار ’’حرام‘‘ ہے تو سائنس کے عوامی ابلاغ میں اسے ’’مکروہِ تحریمی‘‘ کا درجہ ہے۔
مطلب یہ کہ اگر آپ کسی بنیادی تحقیقی جریدے (پرائمری ریسرچ جرنل) کے لئے کوئی تحقیقی مقالہ لکھنے جارہے ہیں تو اُس میں آپ نے جو معلومات ایک بار دے دی ہیں، وہ پورے مقالے میں دوبارہ آنی نہیں چاہئیں۔۔۔ ورنہ آپ کا تحقیقی مقالہ مسترد بھی ہوسکتا ہے۔
سائنسی صحافت میں تکرار کی بہت معمولی اور مشروط اجازت ہے۔ اگر آپ کوئی مختصر تحریر لکھ رہے ہیں (جو 500 سے 1,000 الفاظ کے درمیان ہے) تو آپ معلومات کی تکرار نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی سابقہ تحریر کے حوالے سے کچھ لکھ رہے ہیں (جیسا کہ ’’بازگشت‘‘ میں اکثر ہوتا ہے) تو اُس کا مختصر تذکرہ ہی کافی ہے۔ البتہ اگر آپ کوئی طویل مضمون (جو 3,000 یا زیادہ الفاظ پر مشتمل ہو) تو ’’جیسا کہ ابتداء میں بیان کیا جاچکا ہے،‘‘ یا ’’ہم بتا چکے ہیں کہ۔۔۔‘‘ جیسے جملوں کے ساتھ، پہلے دی گئی معلومات کا مختصر سا تذکرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیے۔ تاہم، یہ بھی صرف اُسی صور ت میں کیجئے جب آپ کی فراہم کردہ معلومات کا پہلا تذکرہ آئے ہوئے کم سے کم ایک ہزار الفاظ گزر چکے ہوں۔ یاد رکھئے، بہت زیادہ تکرار سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ آپ کے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں، اور آپ صرف صفحات کا پیٹ بھرنے کے لئے لکھ رہے ہیں۔ یعنی اس طرح آپ کا مضمون ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ بھی قرار پا سکتا ہے۔
تکرار کی مذکورہ بالا قسم ’’معلومات/ حقائق کی تکرار‘‘ کہلاتی ہے۔ لیکن تکرار کی ایک قسم اور بھی ہے جسے ’’الفاظ کی تکرار‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا تعلق آپ کے ذخیرۂ الفاظ اور لسانی نزاکتوں سے آپ کی واقفیت سے ہے۔ ایک بار پھر، یہاں ہم سائنسی اصطلاحات کو اپنی بحث میں شامل نہیں کررہے کیونکہ ایک سائنسی اصطلاح، دوسری کا متبادل نہیں ہوتی۔
لیکن جب عام اور روزمرہ الفاظ کی بات آئے تو ہمیں ایک جیسا مفہوم رکھنے والے کئی الفاظ بھی مل جاتے ہیں۔ جب آپ اپنی تحریر میں الفاظ کی تکرار سے بچنے کی شعوری کوشش کریں گے تو آپ کی تحریر میں بھی نکھار پیدا ہوگا اور آپ موقع کی مناسبت سے متنوع فیہ (طرح طرح کے) الفاظ استعمال کرنے کا سلیقہ سیکھیں گے۔ اس بارے میں ہمارا تجربہ یہ ہے:
الف۔ اگر کسی جملے میں کوئی لفظ ایک مرتبہ آگیا ہے تو پوری کوشش کیجئے وہ لفظ (اسی جملے میں) دوبارہ استعمال نہ ہو۔ خصوصاً چھوٹے جملے میں۔ قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ ’’حروفِ جار‘‘ یعنی کا، کے، کی، گا، گے، گی، کو، پر، نے، اور، تک، میں، پر وغیرہ ہماری اس بحث سے خارج ہیں۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/9#sthash.UMMD0RR8.dpuf
ب۔ اگر ایک ہی جملے میں کوئی لفظ دوسری مرتبہ لکھنے کی ضرورت پڑ جائے (جیسا کہ طویل جملہ لکھتے وقت اکثر ہوتا ہے) تو کوشش کیجئے کہ اُس لفظ کے پہلی اور دوسری بار استعمال کے درمیان پندرہ سے بیس الفاظ کا وقفہ ہو۔
ج۔ محاورے اور ضرب المثل کو چھوڑکر، ایک جیسی شکل رکھنے والے دو الفاظ ایک ساتھ نہ لکھئے۔ مثلاً، دو جملے دیکھئے:
1۔ 1997ء میں میں اسلام آباد گیا۔ 2۔ میں 1997ء میں اسلام آباد گیا۔
دونوں جملوں کا مفہوم، اور ان میں الفاظ کی تعداد یکساں ہے۔ لیکن ’’میں‘‘ اور ’’میں‘‘ کے درمیان صرف ایک سن (1997ء) آجانے سے دوسرا جملہ زیادہ رواں ہوگیا ہے۔ بھی ابھی، سے اسے، کیا کیا اور کبھی کبھی وغیرہ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ (ساحر لدھیانوی کی نظم ’’کبھی کبھی‘‘ اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔)
منطقی آغاز، منطقی انجام
ساحر لدھیانوی کا نام یاد آتے ہیں ذہن میں ’’چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘ کا خیال مچل اُٹھا، جو برمحل بھی ہے۔ اسی نظم کا ایک بند ہے:
تعارف روگ ہوجائے تو اُس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اِک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
گھبرائیے نہیں، ہم آپ کو عشق و عاشقی کے چکر میں الجھانا نہیں چاہ رہے بلکہ صرف اتنا بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو مضمون بھی لکھئے، اس کا ایک واضح اور منطقی آغاز ہونا چاہئے۔ اسی طرح وہ مضمون ایک واضح اور منطقی انداز میں انجام پذیر ہونا چاہئے۔
منطقی آغاز اور منطقی انجام سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی قاری آپ کی تحریر کو بالکل ابتداء سے پڑھے، تو اُسے احساس ہو کہ مضمون واقعی شروع ہورہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایک جھٹکے سے اصل نفسِ مضمون کے تذکرے سے بات شروع کریں اور قاری اُلجھ کر رہ جائے۔ اگر آپ کا قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ مضمون ’’درمیان سے شروع ہوا ہے‘‘ اور یہ کہ اس مضمون کی ابتداء سے بھی پہلے کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے تھا، تو سمجھ لیجئے کہ آپ کا مضمون منطقی انداز میں شروع نہیں ہوا۔
انسانوں کی مانند ہر تحریر کا بھی ایک ’’مزاج‘‘ ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے مزاج کی مناسبت ہی سے ایک مخصوص برتاؤ (ٹریٹمنٹ) کا تقاضا کرتی ہے۔ یعنی کسی مضمون میں ایک یا دو تعارفی جملوں ہی سے منطقی آغاز کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے جبکہ بعض مضامین ایک، دو یا زیادہ پیراگرافوں میں منطقی ابتداء کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ نکتہ بھی اچھی خاصی مشق کے بعد ہی سمجھ میں آئے گا، تاہم اس بارے میں کچھ باتیں ذہن نشین کرلیں گے تو آپ کو بہت آسانی ہوجائے گی:
1۔ مختصر تحریر کی ابتداء 20 سے 30 الفاظ پر مشتمل ہونی چاہئے۔ یہ تعارفی الفاظ دو سے تین جملوں کی شکل میں ہوں تو بہتر ہے۔
2۔ طویل مضمون کے ابتدائی تعارفی کلمات اگر دو سے تین پیرا گرافوں کی شکل میں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہاں ہم ایک معیاری پیراگراف کی بات کررہے ہیں جس میں لگ بھگ 50 الفاظ ہوتے ہیں جبکہ جملوں کی تعداد 2 سے 5 ہوتی ہے۔ یعنی کسی طویل مضمون کا منطقی آغاز کم و بیش 150 الفاظ میں مکمل ہوجانا چاہئے۔ (طویل اور مختصر مضمون کی وضاحت ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔)
3۔ مضمون چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کی ابتداء (منطقی آغاز) پورے مضمون کے 3 سے 5 فیصد میں آجائے تو بہتر ہے۔ ٹھیک یہی فارمولا مضمون کے اختتام (منطقی انجام) کے لئے بھی درست ہے۔
ویسے تو مضمون کو منطقی انجام تک پہنچانے کے تمام اُصول وہی ہیں جو منطقی آغاز کے حوالے سے بیان کئے گئے ہیں، تاہم صرف ایک فرق ہے۔ اگر ہم مضمون کے تعارفی کلمات (آغاز) کو کسی خاص موضوع پر بحث شروع ہونے کا اعلان قرار دیں تو مضمون کے اختتامی جملے (انجام) اس امر کا اعلان ہوں گے کہ ہماری بحث اب ختم ہوا چاہتی ہے ۔۔ لہٰذا قارئین بھی خود کو ذہنی طور پر اس کے لئے تیار کرلیں۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/10#sthash.3Xt6lN27.dpuf
لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس موضوع پر ہم اپنا مضمون قلم بند کررہے ہیں، اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے اور حتمی نتائج موجود نہیں ہوتے۔ یعنی وہ معاملہ خود سائنسدانوں کے درمیان بحث کا موضوع ہوتا ہے، جس پر کوئی نتیجہ خیز رائے آنے میں وقت باقی ہوتا ہے۔ یہ ممکنہ وقت چند ہفتوں کا بھی ہوسکتا ہے اور چند مہینوں یا برسوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں بحث کو سمیٹتے ہوئے، قارئین کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اگرچہ اب تک کی (یا حالیہ) تحقیق سے فلاں فلاں بات سامنے آئی ہے لیکن ابھی اس معاملے میں مزید تحقیق ، مزید چھان بین کی ضرورت باقی ہے۔ اب آپ یقیناًسمجھ گئے ہوں گے کہ ہمیں بے اختیار ساحر لدھیانوی کیوں یاد آگئے۔
ذیلی سرخیاں
ہر انسان اپنی ذات میں ایک وجود ہے۔ لیکن وہ متعدد ذیلی نظاموں کا مجموعہ بھی ہے جس میں نظامِ ہاضمہ سے لے کر نظامِ تنفس اور نظامِ دورانِ خون تک، سینکڑوں چھوٹے بڑے نظام موجود ہیں۔ مضمون کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔اُس کا مرکزی خیال صرف ایک ہی ہوتا ہے، لیکن اس کے تحت متعدد ذیلی مباحث بھی چل رہے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے مرکزی خیال کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ طویل مضمون میں (اصولی طور پر) ایسا ضرور ہوتا ہے۔
تحریر کو منظم کرنے ۔۔ یعنی ذیلی مباحث کو واضح انداز سے مضمون کا حصہ بنانے کے لئے ۔۔ ذیلی سرخیاں ہی بہترین معاون ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ مضمون کے مرکزی خیال اور ذیلی مباحث کے درمیان جو رشتہ ہے، ٹھیک وہی تعلق اُس کے عنوان (شہ سرخی) اور ذیلی عنوانات (ذیلی سرخیوں) میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے مضمون میں کسی ذیلی نکتے پر بحث کا آغاز ہو تو آپ کو اسی حوالے سے وہاں ایک مناسب ذیلی سرخی لکھ دینی چاہئے۔ یہ ذیلی سرخی آپ کے قارئین کو متوجہ کرے گی کہ یہاں سے کسی ذیلی نکتے پر گفتگو شروع ہورہی ہے۔
اگر کوئی مضمون طویل ہے، اور اس میں کوئی ذیلی سرخی بھی نہیں، تو یہ تحریر کی زبردست خامی تصور کی جائے گی۔ قارئین اور مدیر، دونوں کے نقطۂ نگاہ سے ذیلی سرخیوں کی زبردست اہمیت ہے۔ بغیر ذیلی سرخیوں کا ایک طویل مضمون، آپ کے قاری کو بوریت میں بھی مبتلا کر سکتا ہے۔ اس طرح بہت ممکن ہے کہ جو بات آپ اپنے قاری تک پہنچانا چاہ رہے ہیں، وہ مؤثر طور پر نہ پہنچ پائے۔
جہاں تک مدیر کا تعلق ہے تو وہ کسی باورچی کی مانند ہوتا ہے۔ جس طرح باورچی ایک دیگ میں سے صرف چند دانے چکھ کر کھانے کے خوش ذائقہ یا بد ذائقہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، بالکل اسی طرح ایک مدیر بھی آپ کی تحریر میں اٹکل سے (randomly) چند جملے پڑھ کر اس کے قابلِ اشاعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ اس ضمن میں بامعنی، غیر مبہم اور متن کی بھرپور نمائندگی کرنے والی ذیلی سرخیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
گزشتہ دس سال کے دوران (خصوصاً انٹرنیٹ کی غیر معمولی ترقی سے) بین الاقوامی سائنسی صحافت میں ایک نئے رجحان نے زور پکڑا ہے۔ اب اوسط لمبائی کی خبروں میں (جو 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل ہوں) کم سے کم ایک ذیلی سرخی ضرور لگائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً 1,000 الفاظ والی خبروں میں دو سے تین ذیلی سرخیاں ہوتی ہیں۔ اب آپ اسے ہمارا تعصب کہئے یا جانب داری، لیکن ہمارے نزدیک (سائنسی صحافت کے معاملے میں) نیچر اور نیو سائنٹسٹ ہی قابلِ تقلید معیار کا درجہ رکھتے ہیں ۔۔ خصوصاً ان کی ویب سائٹس۔ ان دونوں جرائد میں خبروں کی ذیلی سرخیوں کے حوالے سے یہی اصول اپنایا گیا ہے۔
ذیلی سرخیوں کی افادیت اور مدح سرائی میں اتنا سب کچھ لکھ جانے مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی تحریر میں ذیلی سرخیوں کی بھرمار کردیں اور ہر پیرا گراف کو ایک نئی ذیلی سرخی سے شروع کریں۔ یاد رکھئے کہ ذیلی سرخیوں کا براہِ راست تعلق، آپ کے مضمون میں ذیلی مباحث کی آمد و رفت سے ہے۔ لہٰذا، ایسا کوئی لگا بندھا اور ’’ٹھوس‘‘ فارمولا نہیں دیا جاسکتا کہ دو ذیلی سرخیوں کے درمیان اتنے لفظوں، اتنے جملوں اور اتنے پیراگرافوں کا فاصلہ ہونا چاہئے۔
اس بارے میں صرف یہ اصول ذہن نشین رکھئے کہ مضمون کے ہر چھوٹے موٹے ذیلی نکتے (یعنی ذیلی بحث) کو ایک جداگانہ ذیلی سرخی دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسا صرف اسی وقت کیجئے جب متن میں کوئی اہم اور قابلِ توجہ ذیلی نکتہ آرہا ہو۔
ج۔ تحریر کے بعد (post-writing)
لیجئے جناب! کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ یعنی قبل از تحریر اور دورانِ تحریر کے مراحل بخیر و عافیت پورے ہوئے۔ اب سائنسی قلم نگاری کا تیسرا مرحلہ یعنی ’’بعداز تحریر‘‘ آرہا ہے۔ اگر آپ نے پہلے دو مراحل میں پیش کئے گئے نکات کا مکمل مطالعہ، پوری توجہ سے کرلیا ہے تو تحریر کے بعد والی احتیاطوں میں آپ کو کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں ہوگا۔
تنقیدی جائزہ لیجئے
ایک اچھے قلم نگار کے پاس تنقیدی نگاہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مضمون مکمل کرنے کے بعد تنقیدی نظر سے اس کا مطالعہ کیجئے اور معمولی جزئیات تک کو اہمیت دیجئے۔ بس یوں سمجھئے کہ آپ کو اپنا ہی مضمون کسی دشمن کی نگاہ سے دیکھنا ہے ۔۔ ایک ایسا دشمن جو آپ کی تحریر میں کیڑے نکالنے پرتُلا بیٹھا ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ جو مضمون آپ نے پوری توجہ، محنت اور جانفشانی سے قلم بند کیا ہے، اگر اس میں کوئی دوسرا بھی خامی نکال دے تو آپ تلملا اُٹھیں گے۔ اور یہاں ہماری فرمائش ہے کہ نہیں جناب، اپنے مضمون کو اتنی ہی بے رحمی اور بے دردی سے پڑھئے جیسے آپ کا کوئی دشمن پڑھ سکتا ہے۔
اگر آپ واقعی ایک کامیاب سائنسی قلم کار بننا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے دل پر پتھر رکھ کر یہ بھاری پتھر اُٹھانا لازمی ہے۔ اپنے ہی مضمون کو کسی غیر کی نگاہ سے پڑھنے کی مشق سے آپ میں رفتہ رفتہ ایک کشادہ ذہنی پیدا ہوگی جس سے آپ کو دو فائدے ہوں گے:
اوّل۔ آپ کی تحریر بہتر ہوتی جائے گی اور آپ ’’خوب سے خوب تر‘‘ کا سفر جاری رکھیں گے؛
دوم۔ آپ میں تنقید کا سامنا کرنے اور مخالفانہ رائے برداشت کرنے کی صلاحیت پروان چڑھے گی، جو گاہے گاہے آپ کو ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ تجزیئے کے قابل بنائے گی۔
اپنے مضمون کے تنقیدی جائزے کا کام آپ دورانِ تحریر بھی کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کم از کم دس شائع شدہ مضامین کے مصنف بن چکے ہوں۔ اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ ایک جملہ لکھنے کے فوراً بعد اُسے دوبارہ (تنقیدی نظر سے) پڑھئے۔ اگر جملے میں ترمیم کی ضرورت ہو تو کر ڈالئے۔ پھر اگلا جملہ لکھئے اور اُسے بھی کڑی نظر سے پڑھئے… یہاں تک کہ چار سے چھ جملوں میں ایک پیراگراف مکمل ہوجائے۔
پیراگراف مکمل ہونے کے بعد پورا پیراگراف ایک بار پھر پڑھئے تاکہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ جملوں کے درمیان کوئی ربط اور تسلسل بھی ہے یا نہیں۔ ایک بار پھر، اگر ضرورت محسوس ہو تو پیراگراف میں ترمیم و تبدیلی کیجئے۔
اب مندرجہ بالا طریقے پر عمل کرتے ہوئے اگلا پیرا گراف لکھ کر تنقیدی نظر سے جائزہ لیجئے۔ اس کے بعد، دونوں پیراگرافوں کو ایک تسلسل میں پڑھ کر جائزہ لیجئے کہ ان میں باہمی ہم آہنگی ہے یا نہیں۔ یہ تجزیہ بھی کیجئے کہ ان دو پیراگرافوں میں نفسِ مضمون پر بات آپ کی مطلوبہ رفتار سے آگے بڑھ سکی ہے یا نہیں۔ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ملے تو خود کو شاباش دیتے ہوئے تیسرا پیرا گراف لکھنا شروع کردیجئے۔
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/11#sthash.fsVYRf7B.dpuf
لیکن اگر جواب ’’نہیں‘‘ میں ہو تب بھی خود کو ایک اچھی کوشش پر مبارکباد دیتے ہوئے یہ دونوں پیراگراف ازسرِنو لکھنے کی ہمت پیدا کیجئے۔ ارے بھئی ’’ہمتِ مرداں، مددِ خدا‘‘ پر یقین بھی آخر کوئی چیز ہے یا نہیں؟
خود کو اپنی ہی نگرانی اور تنقید کا پابند بنانا ’’خود احتسابی‘‘ (Self accountability) بھی کہلاتا ہے۔ یہ مشق آپ کو مستقبل میں بہت سی دوسری الجھنوں، مشکلات اور سب سے بڑھ کر ناقابلِ اشاعت مضامین کا مصنف بننے سے بچانے میں بہت مددگار رہے گی۔
دوسروں کو پڑھوائیے
بنیادی تحقیقی جرائد (پرائمری ریسرچ جرنلز) میں جب بھی کوئی تحقیقی مقالہ (اشاعت کے لئے) موصول ہوتا ہے تو اُسے فوراً ہی شائع نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اُسی شعبے اور خصوصی مہارت کے اُسی میدان سے تعلق رکھنے والے دو ماہرین کو اُس مقالے کی نقول بھیجی جاتی ہیں۔ یہ ماہرین ’’ریفری‘‘ کہلاتے ہیں۔ البتہ، ریفریوں کو مقالے کی نقلیں بھیجنے سے پہلے اُس پر سے مقالہ نگار (یا نگاران) کے نام اور پتے حذف کردیئے جاتے ہیں تاکہ ریفری بالکل غیر جانبدار ہوکر مقالے پر تنقید کرسکیں۔ اسی طرح مقالہ نگار کو بھی ریفریوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ کسی بھی بنیادی تحقیقی جریدے میں ایک رازدانہ تنقید اور نظرثانی (peer-review) کے بعد ہی کوئی تحقیقی مقالہ شائع ہوپاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ سائنس کا عوامی ابلاغ اس سے بہت مختلف ہے جس میں اتنی سخت جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن پھر بھی، اپنی تحریر (اشاعت سے پہلے) چند ایک لوگوں کو پڑھوانے کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ لہٰذا:
1۔ اپنا مضمون کسی چھوٹے اور (نفسِ مضمون کے بارے میں) کم تر معلومات رکھنے والے کسی فرد (مثلاً اپنے چھوٹے بہن بھائی یا اس کے ہم جماعت) کو پڑھوائیے۔ جب وہ مضمون پڑھ چکے تو اس سے مضمون کے موضوع (نفسِ مضمون) کے بارے میں تبادلہ خیال کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجئے اس نے مضمون سے کیا کچھ سمجھا ہے۔ اس مشق کو مؤثر بنانے کے لئے اپنے تبادلہ خیال کے ایجنڈے پر یہ سوال بھی شامل رکھئے کہ مضمون کے کون کون سے حصے سمجھنے میں اُسے زیادہ دشواری ہوئی۔ بخدا یہ تدبیر ہماری نہیں بلکہ پاکستان کے بابائے سائنسی صحافت، استادِ گرامی جناب عظمت علی خاں کی بتائی ہوئی ہے اور نہایت آزمودہ ہے۔
2۔ اگر آپ کے اسکول، کالج یا جامعہ کے اساتذہ میں سے کسی کو مطالعے کا شوق ہو، اور وہ سائنس کی تازہ بتازہ (لیکن مستند) معلومات سے خود کو واقف رکھتا ہو، تو ایسے استاد کو بھی آپ اپنی تحریر پڑھوا سکتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی اُستاد نہ ملے (جس کا امکان بہت قوی ہے) تو اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور محلے داروں وغیرہ میں مذکورہ خصوصیات کا کوئی شخص تلاش کیجئے جو بے شک استاد نہ ہو لیکن صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ ضرور ہو۔ اپنے سے زیادہ علم، زیادہ مطالعہ اور زیادہ تجربہ رکھنے والے لوگوں کی رائے بھی ہماری زبردست رہنمائی کرسکتی ہے۔
حوالہ جات/ ماخذات کا اندراج
تحریر، تنقید اور نظر ثانی کی منزلیں طے کرنے کے بعد، ایک الگ صفحے پر، مضمون کی تیاری میں استعمال کئے گئے ذرائع معلومات کو ترتیب وار فہرست کی شکل میں لکھ لیجئے۔ اس کے بھی کچھ اُصول ہیں:
1۔ اگر کوئی کتاب استعمال کی ہے تو اُس کا عنوان، مصنف (یا مصنّفین) کا نام، مترجم کا نام (بشرطیکہ وہ ترجمہ شدہ کتاب ہو)، صفحہ نمبر، اشاعت کا سال اور شائع کرنے والے ادارے کا نام/ مختصر پتا لکھئے۔
2۔ اخبار استعمال کیا ہے تو اس کی تاریخِ اشاعت، مقام اشاعت (شہر)، بطور حوالہ استعمال کئے گئے مواد (خبر / کالم) کا عنوان اور صفحہ نمبر لکھئے۔
3۔ ہفت روزہ/ پندرہ روزہ/ ماہنامہ/ دو ماہی یا سہ ماہی جریدے وغیرہ سے معلومات لینے کی صورت میں اُس جریدے کا نام اس طرح سے لکھئے کہ جس سے اُس کی فریکوئنسی بھی واضح ہو۔ مثلاً ’’گلوبل سائنس‘‘ کے بجائے ’’ماہنامہ گلوبل سائنس،‘‘ جدید سائنس کے بجائے’’دو ماہی جدید سائنس‘‘ اور اردو سائنس میگزین کے بجائے ’’سہ ماہی اردو سائنس میگزین‘‘ لکھنا زیادہ مناسب رہے گا۔ اس کے بعد وہی سلسلہ: یعنی تاریخِ اشاعت، مقامِ اشاعت (شہر)، بطور حوالہ استعمال کئے گئے مواد (خبر/ مضمون / کالم) کا عنوان اور صفحہ نمبر تحریر کیجئے۔
4۔ کسی تحقیقی جریدے کا حوالہ دے رہے ہیں تو اُس کا نام، جلد نمبر، مضمون کا صفحہ نمبر اور اشاعت کا سال دینا ہی کافی ہے۔
4A۔ آج کل بہت سے تحقیقی جرائد آن لائن (انٹرنیٹ پر) بھی دستیاب ہیں اور doi نظام یعنی ’’ڈیجیٹل آبجیکٹ آئنڈنٹی فائر‘‘ سے استفادہ کررہے ہیں۔ ایسے ہر تحقیقی جریدے کو ایک منفرد doi نام دیا گیا ہے جو عددی و ابجدی (الفا نیو میرک) شکل میں ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے ہر تحقیقی جریدے میں شائع ہونے والے، ہر تحقیقی مقالے کی بھی ایک منفرد ’’ڈی اور آئی قدر‘‘ (doi value) ہوتی ہے جس کی مدد سے انٹرنیٹ پر اس کی فوری تلاش کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ بھی ایسے ہی کسی تحقیقی مقالے کا حوالہ دے رہے ہیں تو اُس کی doi ویلیو ہی لکھ دینا کافی ہوگا۔
5۔ اگر کسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے کسی مضمون کا حوالہ دے رہے ہیں تو صرف اس ویب سائٹ کا ایڈریس دینے سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ آپ کو مضمون تک کا پورا یو آر ایل (URL) لکھنا ہوگا۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ آپ نے اُس مضمون کا ویب پیج کس سال اور کس تاریخ کو دیکھا (ایکسس کیا) تھا۔
6۔ ان سب کے علاوہ آپ اس فہرست میں ایسی کتب، رسائل، جرائد، مقالہ جات اور ویب سائٹس کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں جنہیں آپ نے مضمون کی تیاری میں براہِ راست استعمال تو نہیں کیا لیکن نفسِ مضمون کو سمجھنے اور اس کے پس منظر سے متعلق تفصیلی معلومات کے حصول میں ان سے خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ ناک بھوں چڑھا کر کہیں ’’حوالہ جات پر اتنی محنت کرنے کا فائدہ ہی کیا، جبکہ ان کے چھپنے کا امکان کم اور نہ چھپنے کی توقع زیادہ ہے۔‘‘ یہ اعتراض بالکل بجا ہے لیکن یاد رکھئے کہ جب آپ نے اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کے بعد، مستند ذرائع ہی سے اپنی تحریر مرتب کی ہے تو اسے قابل بھروسہ ثابت کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ فرض صرف حوالہ جات و ماخذات کی فہرست دے کر ہی بخوبی پورا کیا جاسکتا ہے۔
ارے ہاں! یہ بتانا تو ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ اپنے مضمون کے شروع اور آخر میں اپنا مکمل نام، پتا، فون نمبر اور ای میل ایڈریس وغیرہ ضرور دیجئے تاکہ ضرورت پڑنے پر آپ سے فوری رابطہ کیا جاسکے۔
کوئی اختتام نہیں
خوش ہوجائیے کہ سائنسی قلم نگاری کا یہ تعارفی مضمون اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ اس تحریر کو سائنسی صحافت میں آنے کے لئے ایک سنجیدہ نقطۂ آغاز بناتے ہیں یا چند دن کے لئے بطور مشغلہ اختیار کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ مضمون ضرور ختم ہورہا ہے، لیکن سائنسی صحافت سیکھتے رہنے والا عمل ہے۔ چلتے چلتے ہماری ایک اور نصیحت بھی گرہ میں باندہ لیجئے: اپنی تحریر کو مناسب کہئے، بہتر کہئے، بُرا کہئے، اچھا کہئے یا بہت اچھا، لیکن اسے کبھی ’’بہترین‘‘ نہ سمجھئے۔ اگر آپ کا عزیز ترین دوست بھی آپ کی کسی تحریر کو بہترین قرار دے تو خوشی سے پھولے نہ سمائیے بلکہ اپنی تحریر میں چھپی ہوئی، معمولی معمولی خامیاں تلاش کرکے خود کو احساس دلائیے کہ آپ اس سے بھی بہتر لکھ سکتے تھے۔
یہ نصیحت ہم اس لئے کررہے ہیں کیونکہ جس دن بھی آپ نے اپنی تحریر کو بہترین سمجھ لیا، اسی دن سے آپ کے قلم کو زوال شروع ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ’’بہترین‘‘ تو وہی ہوتا ہے جس سے بہتر کوئی نہ ہو۔ انسان ہونے کی حیثیت سے، ایک مخلوق کے طور پر، ہمیں ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے کام کو ’’بہترین‘‘ کے درجے پر فائز کریں۔ اسی بارے میں ہزاروں بار سنا ہوا ایک شعر عرض کرتے ہوئے اجازت چاہیں گے:
ابھی منزلوں کے نشاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
– See more at: http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php/12#sthash.Bpx92vNk.dpuf
ماخذ:
http://urdu.globalscience.net.pk/2012/06/20/beginners-guide-to-science-writing-urdu.php