فہرست مضامین
زمانۂ جاہلیت کے عرب
ماخذ: ’رحیق المختوم‘
صفی الرحمٰن مبارکپوری
عرب ۔۔۔ محل وقوع اور قومیں
سیرت نبوی در حقیقت اس پیغامِ ربانی کے پرتو سے عبارت ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانی جمیعت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اور جس کے ذریعے انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی میں داخل کر دیا تھا۔ چونکہ اس سیرتِ طیبہ کی مکمل صورت گری ممکن نہیں جب تک کہ اس پیغامِ ربانی کے نزول سے پہلے کے حالات اور بعد کے حالات کا تقابل نہ کیا جائے اس لیے اصل بحث سے پہلے بیش نظر باب میںاسلام سے پہلے کی عرب اقوام اور ان کے نشوونما کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان حالات کا خاکہ پیش کیا جا رہا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی۔
عرب کا محلِ وقوع
لفظ عرب کے لغوی معنی ہیں صحرا اور بے آب و گیاہ زمین۔ عہدِ قدیم سے یہ لفظ جزیرہ نمائے عرب اور اس میں بسنے والی قوموں پر بولا گیا ہے۔ عرب کے مغرب میں بحر احمر اور جزیرہ نمائے سینا ہے۔ مشرق میں خلیج عرب اور جنوبی عراق کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جنوب میں بحر عرب ہے جو درحقیقت بحر ہند کا پھیلاؤ ہے۔ شمال میں ملک شام اور کسی قدر شمالی عراق ہے۔ ان میں سے بعض سرحدوں کے متعلق اختلاف بھی ہے۔ کُل رقبے کا اندازہ دس لاکھ سے تیرہ لاکھ مربع میل تک کیا گیا ہے۔
جزیرہ نمائے عرب طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اندرونی طور پر یہ ہر چہار جانب سے صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے جس کی بدولت یہ ایسا محفوظ قلعہ بن گیا ہے کہ بیرونی قوموں کے لیے اس پر قبضہ کرنا اور اپنا اثر و نفوذ پھیلانا سخت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے قلب جزیرۃ العرب کے باشندے عہدِ قدیم سے اپنے جملہ معاملات میں مکمل طور پر آزاد و خود مختار نظر آتے ہیں حالانکہ یہ ایسی دو عظیم طاقتوں کے ہمسایہ تھے کہ اگر یہ ٹھوس قدرتی رکاوٹ نہ ہوتی تو ان کے حملے روک لینا باشندگانِ عرب کے بس کی بات نہ تھی۔
بیرونی طور پر جزیرہ نمائے عرب پرانی دنیا کے تمام معلوم براعظموں کے بیچوں بیچ واقع ہے اور خشکی اور سمندری دونوں راستوں سے ان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اس کا شمال مغربی گوشہ، براعظم افریقہ میں داخلے کا دروازہ ہے، شمال مشرقی گوشہ یورپ کی کُنجی ہے۔ مشرقی گوشہ ایران، وسط ایشیا اور مشرق بعید کے دروازے کھولتا ہے اور ہندوستان اور چین تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح ہر براعظم کے سمندر کے راستے بھی جزیرہ نمائے عرب سے جُڑا ہوا ہے اور ان کے جہاز عرب بندرگاہوں پر براہ راست لنگر انداز ہوتے ہیں۔
اس جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے جزیرۃ العرب کے شمالی اور جنوبی گوشے مختلف قوموں کے آماجگاہ اور تجارت و ثقافت اور فنون و مذاہب کے لین دین کا مرکز رہ چکے ہیں۔
عرب قومیں
مؤرخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی تین قسمیں قرار دی ہیں،
(1) عرب بائدہ ۔ ۔ یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہو گئیں اور ان کے متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔ مثلاً عاد، ثمود، طسم، جدیس، عمالقہ وغیرہ۔
(2) عرب عاربہ۔ ۔ یعنی وہ عرب قبائل جو یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں۔ انہیں قحطانی عرب کہا جاتا ہے۔
(3)عرب مستعربہ۔ ۔ یعنی وہ عرب قبائل جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ انہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔
عرب عاربہ۔ ۔ یعنی قحطانی عرب کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا۔ یہیں ان کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں میں پھوٹے، پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔
(الف)حمیر۔ ۔ جس کی مشہور شاخیں زید الجمہور، قضاعہ، اور سجا سک ہیں۔
(ب) کہلان۔ ۔ جن کی مشہور شاخیں ہمدان، انمار، طی، مذجج، کندہ، لخم، جذام، ازد، اوس، خزرج، اور اولاد جفہ ہیں، جنہوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غسّان کے نام سے مشہور ہوئے۔
عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ ان کے عمومی ترک وطن کا واقعہ سیل عرم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کر کے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلّط جما لیا، اور برّی شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کے کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی۔ کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیری خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترک وطن کا مؤثر سبب بنی ہو۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترک وطن کیا لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار رہے۔
جن کہلانی قبائل نے ترک وطن کیا ان کی چار قسمیں کی جا سکتی ہیں۔
1۔ ازد۔ ۔ انہوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیاء کے مشورے پر ترک وطن کیا۔ پہلے تو یہ یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتہ لگانے کے لئے آگے آگے ہراول دستوں کو بھیجتے رہے لیکن آخر کار شمال کا رخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پذیر ہو گئیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ثعلبہ بن عمرو: اس نے اولاً حجاز کا رخ کیا اور ثعلبیہ اور ذی وقار کے درمیان اقامت اختیار کی۔ جب اس کی اولاد بڑی ہو گئی اور خاندان مضبوط ہو گیا تو مدینہ کی طرف کوچ کیا، اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ اسی ثعلبہ کی نسل سے اوس اور خزرج ہیں جو ثعلبہ کی صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں۔
حارثہ بن عمرو: یعنی خزاعہ اور اس کی اولاد۔ یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہوئے مرّا الظہران میں خیمہ زن ہوئے، پھر حرم پر دھاوا بول دیا اور بنو جرہم کو نکال کر خود مکہ میں بو دو باش اختیار کر لی۔
عمران بن عمرو: اس نے اور اس کی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اس لئے یہ لوگ ازد عمان کہلاتے ہیں۔
نصر بن ازد: اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں قیام کیا۔ یہ لوگ ازد شنوءۃ کہلاتے ہیں۔
جفنہ بن عمرو: اس نے ملک شام کا رخ کیا اور اپنی اولاد سمیت وہیں متوطن ہو گیا۔ یہی شخص غسّانی بادشاہوں کا جدّ اعلیٰ ہے۔ انہیں آل غسّان اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غسّان نامی ایک چشمے پر کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔
2- لخم و جذام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ہی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہان آل منذر کا جدّ اعلیٰ ہے۔
3- بنو طی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قبیلے نے بنو ازد کے ترک وطن کے بعد شمال کا رخ کیا اور اجاء اور سلمیٰ نامی دو پہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہو گیا۔ یہاں تک کے یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طی کی نسبت سے مشہور ہو گئیں۔
4- کندہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ پہلے بحرین۔ ۔ موجودہ الاحساء۔ ۔ میں خیمہ زن ہوئے، لیکن مجبوراً وہاں سے دستکش ہو کر حضر الموت گئے مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخرکار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشّان حکومت کی داغ بیل ڈالی، مگر یہ حکومت پائیدار ثابت نہیں ہوئی اور اس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے۔
کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے۔ ۔ اور اس کا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے یمن سے ترک وطن کر کے حدود عراق میں بادیۃ السماوہ کے اندر بود و باش اختیار کی۔ (1)
عرب مستعربہ: ان کے جدّ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اصلاً عراق کے ایک شہر اُور کے باشندے تھے۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا۔ اس کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہوئے ان سے اس شہر کے متعلق بہت سی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی بعض تفصیلات اور باشندگان ملک کے دینی اور اجتماعی حالات سے بھی پردہ ہٹا ہے۔
یہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے ہجرت کر کے شہر حزان تشریف لے گئے تھے اور پھر وہاں سے فلسطین جا کر اسی ملک کو اپنی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا اور دعوت و تبلیغ کے لئے یہیں سے اندرون و بیرون ملک مصروف تگ و تاز رہا کرتے تھے۔ ایک بار آپ مصر تشریف لے گئے، فرعون نے آپ کی بیوی حضرت سارہ کی کیفیت سنی تو اس کے بارے میں بدنیّت ہو گیا اور اپنے دربار میں برے ارادے سے بلایا لیکن اللہ نے حضرت سارہ کی دعا کے نتیجے میں غیبی طور پر فرعون کی ایسی گرفت کی کہ وہ ہاتھ پاؤں مرنے اور پھینکنے لگا۔ اس کی نیت بد اس کے منہ پر مار دی گئی اور وہ حادثے کی نوعیت سے سمجھ گیا کہ حضرت سارہ اللہ تعالیٰ کی نہایت خاص اور مقرّب بندی ہیں اور وہ حضرت سارہ کی اس خصوصیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی ہاجرہ(2) کو ان کی خدمت میں دے دیا۔ پھر حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا۔ (3)
حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ کو ہمراہ لے کر فلسطین واپس تشریف لائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو ہاجرہ علیہ السلام کے بطن سے ایک فرزند ارجمند۔ ۔ ۔ اسمٰعیل علیہ السلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عطا فرمایا، لیکن اس پر حضرت سارہ کو جو بے اولاد تھیں بڑی غیرت آئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ وہ ہاجرہ کو ان کے نوزائیدہ بچے سمیت جلاوطن کر دیں۔ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ انہی حضرت سارہ کی بات ماننی پڑی اور وہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ہمراہ لے کر حجاز تشریف لے گئے اور وہاں ایک بے آب و گیا وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہرا دیا۔ اس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا۔ صرف ٹیلے کی طرح ابھری ہوئی زمین تھی۔ سیلاب آتا تھا تو دائیں بائیں سے کترا کر نکل جاتا تھا، وہیں مسجد حرام کے بالائی حصے میں زمزم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔ آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا۔ اس وقت مکہ میں پانی تھا نہ آدم اور آدم زاد۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا۔ اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے۔ لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہو گیا اور سخت مشکل پیش آئی مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل و کرم سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لئے سامان رزق اور متاع حیات بن گیا۔ تفصیلات معلوم و معروف ہیں۔ (4)
کچھ عرصہ بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کی گرد و پیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ (رہائش کی غرض سے ) یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے۔ لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ (5)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے متروکات کی نگہداشت کے لئے وقتاً فوقتاً مکہ تشریف لایا کرتے تھے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس طرح ان کی آمد کتنی بار ہوئی۔ البتّہ تاریخی مآخذ میں چار بار ان کی آمد کی تفصیل موجود ہے جو یہ ہے۔
1۔ قران مجید میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے صاحبزادے (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام) کو ذبح کر رہے ہیں۔ یہ خواب ایک طرح کا حکم الٰہی تھا اور باپ بیٹے دونوں اس حکم الٰہی کی تعمیل کو تیار ہو گئے۔ اور جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا تو اللہ نے پکارا: ” اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور اللہ نے انہیں فدیے میں ایک عظیم ذبیحہ عطا فرمایا۔ ” (6)
مجموعہ بائبل کی کتاب پیدائش میں مذکور ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام سے تیرہ سال بڑے تھے اور قران کا سیاق بتلاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اسحٰق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پیش آیا تھا، کیونکہ پورا واقعہ بیان کر چکنے کے بعد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی پیدائش کا کی بشارت کا ذکر ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے کم از کم ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا سفر ضرور کیا تھا، بقیہ تین سفروں کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک طویل روایت مین ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ (7) اس کا خلاصہ یہ ہے !
2- حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جب جوان ہو گئے، جرہم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے آپ کی شادی کر دی۔ اسی دوران حضرت ہاجرہ کا انتقال ہو گیا۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا کہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہیئے۔ چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے۔ لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے حالات دریافت کئے۔ اس نے تنگ دستی کی شکایت کی۔ آپ نے وصیّت کی کہ اسمٰعیل علیہ السلام آئیں تو کہنا اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دیں۔ اس وصیت کا مطلب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سمجھ گئے۔ بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی جو جرہم کے سردار مضاض بن عمرو کی صاحبزادی تھی۔ (8)
3- اس دوسری شادی کے بعد ایک بار پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے۔ مگر اس دفعہ بھی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہو ئی۔ بہو سے احوال دریافت کئے تو اس نے اللہ کی حمد و ثناء کی آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس ہو گئے۔
4- اس کے بعد پھر تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے۔ دیکھتے ہی لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقعے پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ ملاقات اتنے طویل عرصے بعد ہوئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کر سکتا ہے۔ اس دفعہ دونوں نے مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ بنیاد کھود کر دیواریں اٹھائیں اور ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لئے آواز دی۔
اللہ تعالیٰ نے مضاض کی صاحبزادی سے اسمٰعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے (9)۔ جن کے نام یہ ہیں۔ نابت یا نبایوط، قیدار، اوبائیل، مبشام، مشماع، دوما، میشا، حدد، تیما، یطور، نفیس، قیدمان۔ ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے ہی مکہ میں بودوباش اختیار کی۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور مصر و شام کی تجارت پر تھا۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں۔ ۔ بلکہ بیرون عرب بھی۔ ۔ پھیل گئے اور ان کے حالات زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے۔ صرف نابت، اور قیدار کی اولاد اس گمنامی سے مستثنیٰ ہیں۔
نبطیوں کے تمدّن کی شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل ہوا۔ انہوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کر کے گردوپیش کے لوگوں کو اپنا باج گذار بنا لیا۔ بطراء ان کا دارالحکومت تھا، کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ پھر رومیوں کا دور آیااور انہوں نے نبطیوں کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے ایک دلچسپ بحث اور گہری تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ آل غسّان اور انصار یعنی اوس و خزرج قحطانی عرب نہ تھے بلکہ اس علاقے میں نابت بن اسمٰعیل علیہ السلام کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی تھے۔ (10)
قیدار بن اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھلتی پھولتی رہی یہاں تک کہ عدنان پھر ان کے بیٹے معد کا زمانہ آ گیا۔ عدنانی عرب کا سلسلہ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے۔
عدنان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں۔ بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا سسلہ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے۔ فرماتے کہ ماہرین انساب غلط کہتے ہیں (11) مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں۔
بہرحال معد کے بیٹے نزار سے، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ معد کی کوئی اولاد نہ تھی، کئی خاندان وجود میں آئے۔ درحقیقت نزار کے چار بیٹے تھے اور ہر بیٹا ایک بڑے قبیلے کی بنیاد ثابت ہوا۔ چاروں کے نام یہ ہیں۔ ایاد، انمار، ربیعہ، مضر۔ ان میں مؤخر الذکر دو قبیلوں کی شاخیں اور شاخوں کی شاخیں بہت زیادہ ہوئیں۔ چنانچہ ربیعہ سے اسد بن ربیعہ، عنزہ، عبدالقیس، وائل، بکر، تغلب اور بنو حنیفہ وغیرہ وجود میں آئے۔
مضر کی اولاد(12) دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی۔
1- قیس بن عیلان بن مضر 2۔ الیاس بن مضر
قیس عیلان سے بنو سلیم، بنو ہوازن، بنو عطفان، غطغان سے عبس، ذبیان اشجع اور غنی بن اعصر کے قبائل وجود میں آئے۔
الیاس بن مضر سے تمیم بن مرہ، ہذیل بن مدرکہ، بنو اسد بن خزیمہ، اور کنانہ بن خزیمہ کے قبائل وجود میں آئے۔ پھر کنانہ سے قریش کا قبیلہ وجود میں آیا۔ یہ قبیلہ فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد ہے۔ عدی، مخزوم، تیم، زہرہ، اور قصّیٰ بن کلاب کے خاندان یعنی عبدالدار، اسد بن عبدالعزیٰ اور عبدمناف۔ یہ تینوں قصّی کے بیٹے تھے۔ ان میں سے عبدمناف کے چار بیٹے ہوئے جن سے چار ذیلی قبیلے وجود میں آئے۔ یعنی عبدشمس، نوفل، مطّلب اور ہاشم۔ انہی ہاشم کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا پھر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ کی نسل سے قریش کو چنا پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو انتخاب کیا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا۔ (13)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے خلق کی تخلیق فرمائی تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا، پھر ان کے بھی دو گروہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا، پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے کے اندر بنایا، پھر گھرانوں کو چنا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا، لہٰذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر ہوں۔ (14)
بہرحال عدنان کی نسل جب زیادہ بڑھ گئی تو وہ چارے پانی کی تلاش میں عرب کے مختلف اطراف میں بکھر گئی چنانچہ قبیلہ عبدالقیس نے، بکر بن وائل کی کئی شاخوں نے اور بنو تمیم کے خاندانوں نے بحرین کا رخ کیا اور اسی علاقے میں جا بسے۔
بنو حنیفہ بن صعب بن علی بن بکر نے یمامہ کا رخ کیا اور اس کے مرکز حجر میں سکونے پذیر ہو گئے۔ بکر بن وائل کی بقیہ شاخوں نے یمامہ سے لے کر بحرین، ساحل کاظمہ، خلیج، سواد عراق، ابلہ، اور ہیت تک کے علاقوں مین بود و باش اختیار کی۔
بنو تغلب جزیرۃ فراتیہ میں اقامت گزین ہوئے البتہ ان کی بعض شاخوں نے بنو بکر کے ساتھ مل کر سکونت اختیار کی۔
بنو تمیم نے بادیہ بصرہ کو اپنا وطن بنایا۔
بنو سلیم نے مدینہ کے قریب ڈیرے ڈالے۔ ان کا مسکن وادی القریٰ سے شروع ہو کر خیبر اور مدینہ کے مشرق سے گزرتا ہوا حرہ بنو سلیم سے متّصل دو پہاڑوں تک منتہیٰ ہوتا تھا۔
بنو ثقیف نے طائف کو اپنا وطن بنا لیا اور بنو ہوازن نے مکہ کے مشرق میں وادی اوطاس کے گرد و پیش ڈیرے ڈالے۔ ان کا مسکن مکہ بصرہ شاہراہ پر واقع تھا۔
بنو اسد تیماء کے مشرق اور کوفہ کے مغرب میں خیمہ زن ہوئے۔ ان کے اور تیماء کے درمیان بنو ظی کا ایک خاندان بحتر آباد تھا۔ بنو اسد کی آبادی اور کوفے کے درمیان پانچ دن کی مسافت تھی۔
بنو ذبیان تیماء کے قریب حوران کے اطراف میں آباد ہوئے۔
تہامہ میں بنو کنانہ کے خاندان رہ گئے تھے۔ ان میں سے قریشی خاندانوں کی بود و باش مکہ اور اس کے اطراف میں تھی۔ یہ لوگ پراگندہ تھے۔ ان کی کوئی شیرازہ بندی نہ تھی تاآنکہ قصّی بن کلاب ابھر کر منظر عام پر آیا اور قریشیوں کو متحد کر کے عزت اور بلندی و وقار سے بہرہ ور کیا۔ (15)
حواشی
(1) ان قبائل کی اور ان کے ترک وطن کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، محاضرات تاریخ۔ الامم الاسلامیہ للخضری1/11-13، قلب جزیرۃ العرب میں 231-235۔ ترک وطن کے ان واقعات کے زمانہ اور اسباب کے تعین میں تاریخی مآخذ کے درمیان بڑا سخت اختلاف ہے۔ ہم نے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے جو بات راجح محسوس کی اسے درج کر دیا ہے۔
(2) مشہور ہے کہ حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں لیکن علامہ منصور پوری نے مفصل تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لونڈی نہیں بلکہ آزاد تھیں اور فرعون کی بیٹی تھیں۔ دیکھئے رحمۃ للعالمین 2/36-37
(3) ایضاً 2/34 واقعہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو صحیح بخاری 1/484
(4) ملاحظہ ہو صحیح بخاری، کتاب الانبیاء 1/474-475
(5) صحیح بخاری 1/475
(6) سورۃ الصافّات 103-107، (فلمّا اسلما بذبحٍ عظیم)
(7) صحیح بخاری 1/475-476
(8) قلب جزیرۃ العرب ص 230
(9) ایضاً ایضاً
(10) دیکھئے تاریخ ارض القران 2/78-86
(11) طبری: تاریخ الامم والملوک 2/191-194۔ الاعلام 6/5
(12) محاضرات محضری 1/14-15
(13) صحیح مسلم 2/254، جامع الترمذی 2/201
(14)ترمذی 2/201
(15) محاضرات محضری 1/15-16
عرب حکومتیں اور سرداریاں
اسلام سے پہلے عرب کے جو حالات تھے ان پر گفتگو کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی حکومتوں، سرداریوں اور مذاہب اور ادیان کا بھی ایک مختصر سا خاکہ پیش کر دیا جائے تاکہ ظہور اسلام کے وقت جو پوزیشن تھی وہ باآسانی سمجھ آسکے۔
جس وقت جزیرۃ العرب پر خورشید اسلام کی تابناک شعاعیں ضو افگن ہوئیں وہاں دو قسم کے حکمران تھے، ایک تاج پوش بادشاہ جو درحقیقت مکمل طور پر آزاد اور خود مختار نہ تھے اور دوسرے قبائلی سردار جنہیں اختیارات و امتیازات کے اعتبار سے وہی حیثیت حاصل تھی جو تاج پوش بادشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل تھا کہ وہ پورے طور پر آزاد و خود مختار تھے۔ تاجپوش حکمران یہ تھے۔ شاہان یمن، شاہان آل غسّان(شام) اور شاہان حیرہ (عراق)۔ بقیہ عرب حکمران تاج پوش نہ تھے۔
یمن کی بادشاہی
عرب عاربہ میں سے جو قدیم ترین یمانی قوم معلوم ہو سکی وہ قوم سبا ہے۔ اور (عراق) سے جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان میں ڈھائی ہزار سال قبل مسیح اس قوم کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ صدی قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی تاریخ کے اہم ادوار یہ ہیں:
1- سنہ 650 ق م سے پہلے کا دور اس دور میں شاہان سبا کا لقب مکرب سبا تھا، ان کا پایہ تخت صرواح تھا جس کے کھنڈر آج بھی مآرب کے مغرب میں ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خریبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی دور میں مآرب کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں سلطنت سبا کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہوں نے عرب کے اندر اور عرب کے باہر جگہ جگہ اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں۔
2- سنہ 650 ق م سے سنہ 115 ق م کا دور۔ ۔ اس دور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر ملک(بادشاہ) کا لقب اختیار کر لیا اور صرواح کے بجائے مآرب کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ اس شہر کے کھنڈر آج بھی صنعاء کے 60 میل مشرق میں پائے جاتے ہیں۔
3- سنہ 115 ق م سے سنہ 300 ق م تک کا دور۔ ۔ اس دور میں سبا کی مملکت پر قبیلہ حمیر کو غلبہ حاصل رہا اور اس نے مآرب کے بجائے ریدان کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ پھر ریدان کا نام ظفار پڑ گیا جس کے کھنڈرات آج بھی شہر ” یریم” کے قریب ایک مدوّر پہاڑی پر پائے جاتے ہیں۔ یہی دور ہے جس میں قوم سبا کا زوال شروع ہوا۔ پہلے نبطیوں نے شمالی حجاز پر اپنا اقتدار قائم کر کے سبا کی ان کی نو آبادیوں سے نکال باہر کیا، پھر رومیوں نے مصر و شام اور شمالی حجاز پر قبضہ کر کے ان کی تجارت کے بحری راستے کو مخدوش کر دیا اور اس طرح ان کی تجارت رفتہ رفتہ تباہ ہو گئی۔ ادھر قحطانی قبائل خود بھی باہم دست و گریبان تھے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ قحطانی قبائل اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کر ادھر ادھر پراگندہ ہو گئے۔
4- سنہ 300 ق م کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور اس دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب و انتشار برپا رہا۔ انقلابات آئے۔ خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت کے مواقع ہاتھ آئے حتیٰ کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہو گئی۔ چنانچہ یہی دور ہے جس میں رومیوں نے عدن پر فوجی تسلط قائم کیا اور ان کی مدد سے حبشیوں نے حمیر و ہمدان کی باہمی کشاکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنہ 340ء میں پہلی بار یمن پر قبضہ کیا جو سنہ 378ء تک برقرار رہا۔ اس کے بعد یمن کی آزادی تو بحال ہو گئی مگر مآرب کے مشہور بند میں رخنے پرنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ بالآخر سنہ 450ء یا سنہ451ء میں بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قران مجید(سورۃ سبا) میں سیل عرم کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ بڑا زبردست حادثہ تھا، اس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئیں اور بہت سے قبائل ادھر ادھر بکھر گئے۔
پھر سنہ 523ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا یعنی یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں پر ایک ہیبت باک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا اور جب وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو ذونواس نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ قران مجید نے سورۃ بروج کی آیات قتل اصحاب الاخدود الخ میں اسی لرزہ خیز واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس واقعے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عسائیت جو رومی بادشاہوں کی قیادت میں بلاد عرب کی فتوحات اور توسیع پسندی کے لئے پہلے ہی چست و چابکدست تھی انتقام لینے پر تل گئی اور حبشیوں کو یمن پر حملے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں بحری بیڑہ مہیا کیا، حبشیوں نے رومیوں کہ شہہ پا کر سنہ 525 میں اریاط کی زیر قیادت ستّر ہزار فوج سے یمن پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ قبضہ کے بعد ابتداء میں تو شاہ حبش کے گورنر کی حیثیت سے اریاط یمن پر حکمرانی کی لیکن پھر اس کی فوج کے ایک ماتحت کمانڈر ابرہہ نے اسے قتل کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا اور شاہ حبش کو بھی اپنے اس تصرّف پر راضی کر لیا۔
یہ وہی ابرہہ ہے جس نے بعد میں خانہ کعبہ ڈھانے کی کوشش کی اور ایک لشکر جرّار کے علاوہ چند ہاتھیوں کو بھی فوج کشی کے لئے لایا جس کی وجہ سے یہ لشکر اصحاب فیل کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ادھر واقعہ فیل میں حبشیوں کی جو تباہی ہوئی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل یمن نے حکومت فارس سے مدد مانگی اور حبشیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے سیف ذی یزن حمیری کے بیٹے معد یکرب کی قیادت میں حبشیوں کو ملک سے نکال باہر کیا اور ایک آزاد خودمختار قوم کی حیثیت سے معد یکرب کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔ یہ سنہ 575ء کا واقعہ ہے۔
آزادی کے بعد معد یکرب نے کچھ حبشیوں کو اپنی خدمت اور شاہی جلو کی زینت کے لئے روک لیا لیکن یہ شوق مہنگا ثابت ہوا۔ ان حبشیوں نے ایک روز معد یکرب کو دھوکے سے قتل کر کے ذی یزن کے خاندان سے حکمرانی کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل کر دیا۔ ادھر کسریٰ نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صنعاء پر ایک فارسی النّسل گورنر مقرر کر کے یمن کو فارس کا ایک صوبہ بنا لیا۔ اس کے بعد یمن پر یکے بعد دیگرے فارسی گورنروں کا تقرر ہوتا رہا یہاں تک کے آخری گورنر باذان نے سنہ 628ء میں اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی یمن فارسی اقتدار سے آزاد ہو کر اسلام کی عملداری میں آ گیا۔ (1)
حواشی
(1) مولانا سیّد سلیمان ندوی رحم اللہ نے تاریخ ارض القران جلد اول صفحہ 133 سے خاتمہ کتاب تک مختلف تاریخی شواہد کی روشنی میں قوم سبا کے حالات بڑی بسط و تفصیل سے رقم فرمائے ہیں۔ مولانا مودودی نے تفہیم القران 4/195-198 میں کچھ تفصیلات جمع کی ہیں۔ لیکن تاریخی مآخذ میں سنین وغیرہ کے سلسلے میں بڑے اختلافات ہیں حتیٰ کے بعض محققین نے ان تفصیلات کو ” پہلوں کا فسانہ” قرار دیا ہے۔
جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں
جزیرۃ العرب کے سیاسی اور مذہبی حالات بیان کر لینے کے بعد اب وہاں کے اجتماعی، اقتصادی اور اخلاقی حالات کا خاکہ مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
اجتماعی حالات
عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقۂ اَشراف میں مرد و عورت کا تعلق خاصا ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی تھی۔ اور اس کا اتنا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا کہ اس راہ میں تلواریں نکل پڑی تھیں اور خونریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی جب اپنے کرم و شجاعت پر جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموماً عورت ہی کو مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خونریزی کے شعلے بھڑکا دیتی، لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے اولیاء کے زیرِ نگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔
ایک طرف طقہن اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دُوسرے طبقوں میں مرد و عورت کے اختلاط کی اور بھی کئی صورتیں تھیں جنہیں بدکاری و بے حیائی اور فحش کاری و زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں۔ ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیرِ ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو (یعنی زنا کراؤ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا یہاں تک کہ واضح ہو جاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب حمل واضح ہو جاتا تو اس کے بعد اگر شوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاح ِ اِستبضاع کہا جاتا تھا (اور اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں)۔ نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی۔ سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بدکاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلا بھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی اور وہ اُس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے۔ وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دوازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تا کہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کر دیئے۔ صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے 1۔
عرب میں مرد و عورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والا قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا، لیکن ایسی عورتوں سے پیدا ہونے والی اولاد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔
زمانۂ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی ایک معروف بات تھی۔ لوگ ایسی دو عورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہنیں ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور اس کی کوئی حد متعین نہ تھی 2۔
زناکاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستشنٰے نہ تھی۔ البتہ کچھ مرد اور کچھ عورتیں ایسی ضرور تھیں جنہیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا۔ اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اہل جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی چناچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہﷺ! فلاں شخص میرا بیٹا ہے۔ میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ! "اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جاہلیت کی بات گئی، اب لڑکا اسی کا ہو گا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے "۔ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زَمعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے عبدالرحمن بن زمعہ کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم و معروف ہے 3۔
جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا۔ کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے ؎
اِنَّمَا اَولَادُنَا بَینَنَا۔ ۔ اَکبَارُنَا تَمشیِ عَلی الاَرضِ
"ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ "
لیکن دوسر ی طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے 4۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اولاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔
جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں اور کنبے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کارفرما ہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ اُنصُر اَخَا کَ ظَالِماً او مَظلُوماً (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم) اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعد میں اسلام کے ذریعے کی گئی یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم سے باز رکھا جائے۔ البتہ شرف و سرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا جیسا کہ اَوس و خزرَج، عَبس و زُبیَان اور بَکر و تَغلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکستہ و ریختہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہو رہی تھی، البتہ دین اور خرافات کے آمیزے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حِدت و شِدت میں کمی آ جاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاۃ، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصولِ معاش کے لیے سراپا رحمت و مدد تھے۔
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف و بے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی، جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہوئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم اپنی رعایا سے خزانے بھرنے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔
حواشی
1۔ صحیح بخاری: کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الابولی 769/2 و ابو داؤد: باب وجوہ النکاح
2۔ ابو داؤد: نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، نیز کتب تفسیر متعلقہ اَلطَّلاقُ مَرَّتَانِ
3۔ صحیح بخاری 999/2، 1065، ابو داؤد: اَلولَدُ لِلفَراشِ
4۔ قران مجید 8:81-31:17-59, 58: 16-101:6
اقتصادی حالت
اقتصادی حالت، اجماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سے ہو سکتا ہے کہ تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی۔ اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد و رفت امن و سلامتی کی فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن و سلامتی کا کہیں وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار عُکاز، ذی المجَاز، اور مَجِنہ وغیرہ لگتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی دِباغَت وغیرہ کی شکل میں جو چند صنعتیں پائی جاتی تھیں وہ زیادہ تر یمن، حیرہ اور شام کے متصل علاقوں میں تھیں۔ البتہ اندرونِ عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔ ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ سارا مال و متاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر او ربھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی بری حد تک محروم رہتے تھے۔
اخلاق
یہ تو اپنی جگہ مُسلم ہے ہی کہ اہلِ جاہلیت میں خَسیس و رَذیل عادتیں اور وجدان و شعور اور عقلِ سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاقِ فاضلہ بھی تھے جنہیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے۔ مثلاً:
1۔ کرم و سخاوت: یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہو گئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے تو کسی نے کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آ جاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی ایسی سنگین حالت کے باوجود اس پر سخاوت کا جوش غالب آ جاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خونریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔
اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم و سخاوت کو آسان کر دیتی تھی کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَا دِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح و فخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا۔
عنترہ بن شداد عبسی اپنے مُعلّقہ میں کہتا ہے :-
ولقد شربت من المدامۃ بعد ما
رکدا لھوا جر بالمشوف المعلم
بزجاجۃ صفراء ذات اَسرۃ
قرنت با زھر بالشمال مفدم
فاذ اشربت فاننی مستھلک
مالی، و عرضی وافر لم یکلم
واذا اصحوت فما اقصر عن ندی
وکما علمت شمائلی و تکرمی
"میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا، نشان لگی ہوئی صاف شفاف شراب پی۔ اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھرپور رہتی ہے اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق و کرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے "
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآنِ پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ وَإِثمُہُمَا أَكبَرُ مِن نَفعِہِمَا (219:2) "ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے "۔
2۔ وفائے عہد: یہ بھی دورِ جاہلیت کے اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی جس سے وہ بہرحال چمٹے رہتے تھے۔ اور اس راہ میں اپنی اولاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ اسے سمجھتے کے لیے ہانی بن مسعود شَیبانی، سموال بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں۔
3۔ خود داری و عزتِ نفس: اس پر قائم رہنا اور ظلم و جبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت و غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت و اہانت کی بو آتی، شمشیر و سنان اٹھا لیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔
4۔ عزائم کی تکمیل : اہلِ جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کی جب وہ کسی کام کو مجد و افتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔
5۔ حِلم و بُردباری اور سنجیدگی: یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابلِ ستائش خوبی تھی، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادر الوجود تھی۔
6۔ بَدوی سادگی: یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤ پیچ سے ناواقفیت اور دُوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جزیرۃ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے علاوہ یہی وہ قیمتی اخلاق تھے جن کی وجہ سے اہلِ عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالتِ عامہ کا بوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ کیونکہ یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شَر و فساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آ جاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔
غالباً ان اخلاق میں بھی ایفائے عہد کے بعد عزتِ نفس اور پختگیِ عزم سب سے گراں قیمت اور نفع بخش جوہر تھا۔ کیونکہ اس قوتِ قاہرہ اور عزمِ مُصمَّم کے بغیر شَرّ و فساد کا خاتمہ اور نظامِ عدل کا قیام ممکن نہیں۔
اہلِ جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاقِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا احاطہ کرنا مقصود نہیں۔
عرب۔ اَدیان و مذاہب
عام باشندگانِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پیرو تھے، اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کاربند تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا ایک حصہ بھلا دیا۔ پھر بھی ان کے اندر توحید اور کچھ دینِ ابراہیمی کے شعائر باقی رہے، تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکو کاری، صدقہ و خیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی، اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور فاضل اولیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا۔ دیکھا تو وہاں بتوں کی پوجا کی جا رہی تھی۔ اس نے سمجھا کہ یہ بھی بہتر اور برحق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سرزمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہُبَل بت بھی لے آیا۔ اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقشِ قدم پر چل پڑے، کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ 1 اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔
ہُبَل کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے مَنَاۃ ہے۔ یہ بحرِ احمر کے ساحل پر قُدَید کے قریب مُثَلل میں نصب تھا 2۔ اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا۔ پھر وادئ نخلہ میں عزیٰ کی تنصیب عمل میں آئی۔ یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے۔ اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت اور بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جن عَمرو بن لحَی کے تابع تھا۔ اس نے بتایا کہ قومِ نوح کے بت، یعنی وَدّ، سُواع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسر، جدہ میں مدفن ہیں۔ اس اطلاع پر عمرو بن لحَی جدہ آیا اور ان بتوں کو کھود نکالا۔ پھر انہیں تہامہ لایا اور جب حج کا زمانہ آیا تو انہیں مختلف قبائل کے حوالے کیا۔ یہ قبائل ان بتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے۔ اس طرح ہر ہر قبیلے میں، پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت ہو گیا۔
پھر مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا چنانچہ جب مکہ فتح کیا گیا تو بیت اللہ کے گردا گرد تین سوساٹھ بت تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے توڑا۔ آپ ﷺ ہر ایک کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور وہ گرتا جاتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا اور سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا گیا۔ 3
غرض شرک اور بت پرستی اہلِ جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی تھی۔ جنہیں گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں۔
پھر اہلِ جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ خاص طریقے اور مراسم بھی رائج تھے جو زیادہ تر عمرو بن لحَی کی اختراع تھے۔ اہلِ جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحَی کی اختراعات دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعتِ حسنہ ہیں۔ ذیل میں ہم اہلِ جاہلیت کے اندر رائج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں:
1۔ دورِ جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، انہیں زور زور سے پُکارتے تھے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔
2۔ بتوں کا طواف و حج کرتے تھے، ان کے سامنے عجزونیازسے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کرتے تھے۔
3۔ بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لیجا کر ذبح کرتے تھے اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ارشاد ہے :وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ۔ (سورۃ المعائدہ، آیت نمبر: 3)
یعنی "وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں”۔
دوسری جگہ ارشاد ہے : وَلَا تَأكُلُوا مِمَّا لَم یُذكَرِ اسمُ اللَّہِ عَلَیہِ
(سورۃ الانعام، آیت نمبر: 121)
یعنی "اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ "
4۔ بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوابدید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چوپائے کی پیداوار کا ایک حصہ بتوں کے لیے خاص کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لیے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایک حصہ خاص کرتے تھے پھر مختلف اسباب کی بنا پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے لیکن بتوں کا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ کا ارشاد ہے :
وَجَعَلُوا لِلَّہِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الحَرثِ وَالأَنعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہَذَا لِلَّہِ بِزَعمِہِم وَہَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِہِم فَلَا یَصِلُ إِلَى اللَّہِ وَمَا كَانَ لِلَّہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَى شُرَكَائِہِم سَاءَ مَا یَحكُمُونَ (سورۃ الانعام، آیت نمبر: 136)
"اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کئے ہیں اس کا ایک حصہ انہوں نے اللہ کے لیے مقرر کیا اور کہا یہ اللہ کے لیے ہے۔ ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے، تو جو ان کے شرکاء کے لیے ہوتا ہے وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ ان کے شرکاء تک پہنچ جاتا ہے۔ کتنا بُرا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔
5۔ بتوں کے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے اندر مختلف قسم کی نذریں مانتے تھے۔ اللہ کا ارشاد ہے :
وَقَالُوا ہَذِہِ أَنعَامٌ وَحَرثٌ حِجرٌ لَا یَطعَمُہَا إِلَّا مَن نَشَاءُ بِزَعمِہِم وَأَنعَامٌ حُرِّمَت ظُہُورُہَا وَأَنعَامٌ لَا یَذكُرُونَ اسمَ اللَّہِ عَلَیہَا افتِرَاءً عَلَیہِ (سورۃ الانعام، آیت نمبر: 138)
"ان مشرکین نے کہا کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں۔ انہیں وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں۔ ان کے خیال میں اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ حرام کی گئی ہے (نہ ان پر سواری کی جا سکتی ہے نہ سامان لادا جا سکتا ہے ) اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن پر یہ لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتے "
6۔ ان ہی جانوروں میں بَحیرہ، سائبہ، وَصِیلَہ اور حَامی تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ، سائبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے۔ اور سائبہ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس سے دس بار پے دَر پے مادہ بچے پیدا ہوں، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری نہ کی جاتی۔ اس کا بال نہ کاٹا جاتا۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا۔ یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔
وصیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے دَرپے دو دو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس بار مادہ بچے پیدا ہوتے ) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے۔
حَامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت کی بُت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَا جَعَلَ اللَّہُ مِن بَحِیرَۃٍ وَلَا سَائِبَۃٍ وَلَا وَصِیلَۃٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَكِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا یَفتَرُونَ عَلَى اللَّہِ الكَذِبَ ۖ وَأَكثَرُہُم لَا یَعقِلُونَ
(سورۃ المعائدہ، آیت نمبر: 103)
"اللہ نے نہ کوئی بحیرہ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے "۔
ایک دوسری جگہ فرمایا:
وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ ہَذِہِ الأَنعَامِ خَالِصَۃٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزوَاجِنَا ۖ وَإِن یَكُن مَیتَۃً فَہُم فِیہِ شُرَكَاءُ ۚ (سورۃ الانعام، آیت نمبر: 139)
"ان (مشرکین) نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مَردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ البتہ اگر وہ مردہ ہو تو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں”۔
چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ، سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں 4 جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں۔
حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے 5۔ اور صحیح بخاری میں مرفوعا مروی ہے کہ عمرو بن لحَی پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑے 6۔
عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے :
مَا نَعبُدُہُم إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّہِ زُلفَى (سورۃ الزمر، آیت نمبر: 3)
"ہم ان کی عبادت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں”
وَیَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ مَا لَا یَضُرُّہُم وَلَا یَنفَعُہُم وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّہِ (سورۃ یونس، آیت نمبر : 18)
"یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ "
مشرکین عرب اَزلام یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے۔ (اَزلام، زَلَم کی جمع ہے۔ اور َزلم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پَر نہ لگے ہوں) فال گیری کے لیے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے۔ ایک وہ جن پر صرف "ہاں” یا "نہیں” لکھا ہوتا تھا۔ اس قسم کے تیر سفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ اگر فال میں "ہاں” نکلتا تو مطلوبہ کام کر ڈالا جاتا اگر”نہیں” نکلتا تو سال بھر کے لیے ملتوی کر دیا جاتا اور آئندہ پھر فال نکالی جاتی۔
فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دِیَت وغیرہ درج ہوتے تھے اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھا کہ "تم میں سے ہے ” یاً تمہارے علاوہ سے ہے ” یا "ملحق” ہے۔ ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے۔ اونٹوں کو تیر والے مَہَنت کے حوالے کر دیتے اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملا کر گھماتا جھنجھوڑتا، پھر ایک تیر نکالتا۔ اب اگر یہ نکلتا کہ "تم میں سے ہے "۔ تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ "تمہارے غیر سے ہے ” تو حلیف قرار پاتا اور یہ نکلتا کہ "ملحق”ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا، نہ قبیلے کا فرد مانا جاتا نہ حلیف۔ 7
اسی سے ملتا جلتا ایک رواج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا۔ اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے۔ 8
مشرکین عرب کاہنوں، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ کاہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے اور راز ہائے سر بستہ سے واقفیت کا دعویدار ہو۔ بعض کاہنوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایک جِن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے، اور بعض کاہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اس کے قول و فعل سے یا اس کی حالت سے، کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتا لگا لیتے ہیں۔ اس قسم کے آدمی کو عراف کہا جاتا تھا۔ مثلاً وہ شخص جو چوری کے مال، چوری کی جگہ اور گم شدہ جانور وغیرہ کا پتا ٹھکانا بتاتا۔
نجومی اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غور کر کے اور ان کی رفتارو اوقات کا حساب لگا کر پتا لگاتا ہے کہ دنیا مین آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے 9۔ ان نجومیوں کی خبروں کو ماننا درحقیقت تاروں پر ایمان لانا ہے اور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکین عرب نچھتَّروں پر ایمان رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے۔ 10
مشرکین میں بد شگونی کا بھی رواج تھا۔ اسے عربی میں طیِرَۃَ کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کسی چڑیا یا ہرن کے پاس جا کر اسے بھگاتے تھے۔ پھر اگر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گزرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے بھی منحوس سمجھتے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے اور بعض دنوں، مہینوں، جانوروں، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے اُلو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے، اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح اُلو بن کر بیابانوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور "پیاس، پیاس” یا "مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ” کی صدا لگاتی رہتی ہے۔ جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے۔ 11
حواشی
1۔ مختصر سیرۃ الرسول، تالیف شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی ص 12
2۔ صحیح بخاری 222/1
3۔ مختصر سیرۃ الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ص13، 50، 51، 52، 54
4۔ سیرت ابن ہشام 89/1، 90
5۔ صحیح بخاری 499/1
6۔ ایضاً ایضاً
7۔ محاضرت خضری 56/1، ابن ہشام 102/1, 103
8۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جُوا کھیلنے والے ایک اونٹ ذبح کر کے اسے دس یا اٹھائیس حصوں پر تقسیم کرتے۔ پھر تیروں سے قرعہ اندازی کرتے۔ کسی تیر پر جیت کا نشان بنا ہوتا اور کوئی تیر بے نشان ہوتا۔ جس کے نام پر جیت کے نشان والا تیر نکلتا وہ تو کامیاب مانا جاتا اور اپنا حصہ لیتا اور جس کے نام پر بے نشان تیر نکلتا اسے قیمت دینی پڑتی۔
9۔ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح 2/2، 3 طبع لکھنؤ۔
10۔ 10ملاحظہ ہو صحیح مسلم مع شرح نووی: کتاب الایمان، باب بیان کفر من قال مُطرنا بالنوء 951/
11۔ صحیح بخاری 851/2، 857 مع شروح۔
دینِ ابراہیمی میں قریش کی بدعات
یہ تھے اہل جاہلیت کے عقائد و اعمال، اس کے ساتھ ہی ان کے اندر دینِ ابراہیمی کے کچھ باقیات بھی تھے۔ یعنی انہوں نے یہ دین پورے طور پر نہیں چھوڑا تھا۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کی تعظیم اور اس کا طواف کرتے تھے۔ حج و عمرہ کرتے تھے، عرفات و مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور ہدی کے جانوروں کی قربانی کرتے تھے۔ البتہ انہوں نے اس دینِ ابراہیمی میں بہت سی بدعتیں ایجاد کر کے شامل کر دی تھیں۔ مثلاً:
قریش کی ایک بدعت یہ تھی کہ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں، حرم کے پاسبان، بیت اللہ کے والی اور مکہ کے باشندے ہیں، کوئی شخص ہمارا ہم مرتبہ نہیں اور نہ کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے مساوی ہیں۔ اسی بنا پر یہ اپنا نام حُمس (بہادر اور گرم جوش) رکھتے تھے۔ لہذا ہمارے شایان شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر جائیں۔ چنانچہ حج کے دوران یہ لوگ عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں سے اِفَاضَہ کرتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر کر وہیں سے افاضہ کر لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ أَفِیضُوا مِن حَیثُ أَفَاضَ النَّاسُ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر: 199)
یعنی "تم لوگ بھی وہیں سے اِفاضَہ کر و جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔ ” 12
ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ حمس (قریش) کے لیے احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ بال والے گھر (یعنی کمبل کے خیمے )میں داخل ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ سایہ حاصل کرنا ہو تو چمڑے کے خیمے کے سوا کہیں اور سایہ حاصل کریں۔ 13
ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ بیرونِ حرم کے باشندے حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور بیرونِ حرم سے کھانے کی کوئی چیز لے کر آئیں تو اسے ان کے لیے کھانا درست نہیں۔ 14
ایک بدعت یہ بھی تھی کہ انہوں نے بیرونِ حرم کے باشندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حرم میں آنے کے بعد پہلا طواف حمس سے حاصل کیے ہوئے کپڑوں میں ہی کریں۔ چنانچہ اگر ان کا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو مرد ننگے طواف کرتے۔ اور عورتیں اپنے سارے کپڑے اتار کر کر صرف ایک چھوٹا سا کھلا ہوا کرتا پہن لیتیں۔ اور اسی میں طواف کرتیں اور دوران طواف یہ شعر پڑھتی جاتیں:
اَلیَومَ یَبدُو بَعضُہ اَو کُلُّہ۔ ۔ وَمَا بَدَا مِنہُ فَلَا احِلُّہ
"آج کچھ یا کُل شرمگاہ کھل جائے گی۔ لیکن جو کچھ کھُل جائے میں اسے (دیکھنا) حلال قرار نہیں دیتی۔ "
اللہ تعالیٰ نے اس خرافات کے خاتمے کے لیے فرمایا:
یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ (سورۃ الاعراف، آیت نمبر: 31)
"اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کر لیا کرو۔ "
بہرحال اگر کوئی عورت یا مرد برتر اور معزز بن کر بیرون حرم سے لائے ہوئے اپنے ہی کپڑوں میں طواف کر لیتا تو طواف کے بعد ان کپڑوں کو پھینک دیتا، ان سے خود فائدہ اٹھاتا نہ کوئی اور۔ 15
قریش کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ حالتِ احرام میں گھر کے اندر دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے ایک بڑا سوراخ بنا لیتے اور اسی سے آتے جاتے تھے اور اپنے اس اُجڈ پنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے اس سے بھی منع فرمایا۔ (189:2)
یہی دین یعنی شرک و بُت پرستی اور توہمات و خرافات پر مبنی عقیدہ و عمل والا دین عام اہل عرب کا دین تھا۔
اس کے علاوہ جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں یہودیت، مسیحیت، مجوسیت اور صابئیت نے بھی دَر آنے کی مواقع پا لیے تھے۔ لہذا ان کا تاریخی خاکہ بھی مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
جزیرۃ العرب میں یہود کے کم از کم دو اَدوار ہیں۔ پہلا دور اس وقت سے تعلق رکھتا ہے جب فسطین میں بابل اور آشُور کی حکومت کے سبب یہودیوں کو ترکِ وطن کرنا پڑا۔ اس حکومت کی سخت گیری اور بُختِ نصر کے ہاتھوں یہودی بستیوں کی تباہی و ویرانی ان کے ہَیکل کی بربادی اور ان کی اکثریت کی ملک بابل کو جلا وطنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہود کی ایک جماعت فلسطین چھوڑ کر حجاز کے شمالی اطراف میں آ بسی۔ 16
دوسرا دَور اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ٹائیٹس رومی کی زیرِ قیادت 70ء میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ اس موقع پر رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی داروگیر اور ان کے ہیکل کی بربادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد یہودی قبیلے حجاز بھاگ آئے اور یَثرِب، خَیبَر اور تَیماء میں آباد ہو کر یہاں اپنی باقاعدہ بستیاں بسا لیں اور قلعے گڑھیاں تعمیر کر لیں۔ ان تارکینِ وطن یہود کے ذریعے عرب باشندوں میں کسی قدر یہودی مذہب کا بھی رواج ہوا اور اسے بھی ظہورِ اسلام سے پہلے اور اس کے ابتدائی دور کے سیاسی حوادث میں ایک قابلِ ذکر حیثیت حاصل ہو گئی۔ ظہورِ اسلام کے وقت مشہور یہودی قبائل یہ تھے۔ خَیبَر، مُصلَق، قُرَیظَہ اور قَینُقاع۔ سَمہوُدِی نے وفاء الوفا صفحہ 116 میں ذکر کیا ہے کہ یہود قبائل کی تعداد بیس سے زیادہ تھی 17۔
یہودیت کو یمن میں بھی فروغ حاصل ہوا۔ یہاں اس کے پھیلنے کا سبب تبان اسعد ابو کرب تھا۔ یہ شخص جنگ کرتا ہوا یثرب پہنچا۔ وہاں یہودیت قبول کر لی اور بنو قُریظہ کے دو یہودی علماء کو اپنے ساتھ یمن لے آیا اور ان کے ذریعے یہودیت کو یمن میں وسعت اور پھیلاؤ حاصل ہوا۔ ابو کرب کے بعد اس کا بیٹا یوسف ذونو اس یمن کا حاکم ہوا تو اس نے یہودیت کے جوش میں نَجران کے عیسائیوں پر ہلہ بول دیا اور انہیں مجبور کیا کہ کہ یہودیت قبول کریں، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر ذونواس نے خندق کھدوائی اور اس میں آگ جلوا کر بوڑھے، بچے مرد و عورت سب کو بلاتمیز آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد بیس سے چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ یہ اکتوبر 533 کا واقعہ ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ بروج میں اسی واقع کا ذکر کیا ہے 18۔
جہاں تک عیسائی مذہب کا تعلق ہے تو بلادِ عرب میں اس کی آمد حبشی اور رومی قبضہ گیروں اور فاتحین کے ذریعے ہوئی۔ ہم بتا چکے ہیں کہ یمن پر حبشیوں کا قبضہ پہلی بار 340 میں ہوا۔ اور 378 تک برقرار رہا۔ اس دوران یمن میں مسیحی مشن کام کرتا رہا۔ تقریباً اسی زمانے میں ایک مستجاب الدعوات اور صاحبِ کرامات زاہد جس کا نام فیمیون تھا، نَجران پہنچا اور وہاں کے باشندوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کی۔ اہل نجران نے اس کی اور اس کے دین کی سچائی کی کچھ ایسی علامات دیکھیں کہ وہ عیسائیت کے حلقہ بگوش ہو گئے 19۔
پھر ذونواس کی کاروائی کے رَدِّ عمل کے طور پر حبشیوں نے دوبارہ یمن پر قبضہ کیا اور اَبرہَہَ نے حکومتِ یمن کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی تو اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑے پیمانے پر عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس جوش و خروش کا نتیجہ تھا کہ اس نے یمن میں ایک کعبہ تعمیر کیا اور کوشش کی کہ اہلِ عرب کو (مکہ اور بیت اللہ سے ) روک کر اسی کا حج کرائے۔ اور مکہ کے بیت اللہ شریف کو ڈھا دے۔ لیکن اس کی اس جرأت پر اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی سزا دی کہ اولین و آخرین کے لیے عبرت بن گیا۔
دوسری طرف رومی علاقوں کی ہمسائیگی کے سبب آل، غَساّن، بنو تَغلب اور بنو طَی وغیرہ قبائل عرب میں بھی عیسائیت پھیل گئی تھی۔ بلکہ حِیرہ کے بعض عرب بادشاہوں نے بھی عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔
جہاں تک مجوسی مذہب کا تعلق ہے تو اسے زیادہ تر اہلِ فارس کے ہمسایہ عربوں میں فروغ حاصل ہوا تھا۔ مثلا عراق عرب، بحرین، (الاحساء) حجر اور خلیج عربی کے ساحلی علاقے۔ ان کے علاوہ یمن پر فارسی قبضے کے دوران وہاں بھی اکّا دکّا افراد نے مجوسیت قبول کی۔
باقی رہا صابی مذہب تو عراق وغیرہ کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کلدانی قوم کا مذہب تھا۔ دورِ قدیم میں شام و یمن کے بہت سے باشندے بھی اسی مذہب کے پَیروَ تھے، لیکن جب یہودیت اور پھر عیسائیت کا دَور دَورہ ہوا تو اس مذہب کی بنیادیں ہل گئیں اور اس کی شمعِ فروزاں گل ہو رہ گئی۔ تاہم مجوس کے ساتھ خلط ملط ہو کر یا ان کے پڑوس میں عراق اور خلیج عربی کے ساحل پر اس مذہب کے کچھ نہ کچھ پَیرو کار باقی رہے 20۔
حواشی
12۔ ابن ہشام 199/1، صحیح بخاری 226/1
13۔ ابن ہشام 202/1
14۔ ایضاً ایضاً
15۔ ایضاً 202/1، 203، ، صحیح بخاری 226/1
16۔ قلب جزیرۃ العرب ص 25
17۔ ایضاً ایضاً
18۔ ابن ہشام 201/1، 21، 22، 27، 31، 35، 36 نیز ملاحظہ فرمائیے کتب تفسیر سورۂ بروج
19۔ ابن ہشام 31/1، 32، 33، 34
20۔ تاریخ ارض القرآن 193/2، 208
دینی حالت
جس وقت اسلام کا نیرِ تاباں طلوع ہوا ہے یہی مذاہب و ادیان تھے جو عرب میں پائے جاتے تھے۔ لیکن یہ سارے ہی مذاہب شکست و ریخت سے دوچار تھے۔ مشرکین جن کا دعویٰ تھا کہ ہم دینِ ابراہیم پر ہیں، شریعتِ ابراہیمی کے اوامر و نواہی سے کوسوں دُور تھے۔ اس شریعت نے جن مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی تھی ان سے ان مشرکین کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان میں گناہوں کی بھرمار تھی اور طولِ زمانہ کے سبب ان میں بھی بُت پرستوں کی وہی عادات و رسوم پیدا ہو چکی تھیں۔ جنہیں دینی خرافات کا درجہ حاصل ہے۔ ان عادات و رسوم نے ان کی اجتماعی سیاسی اور دینی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ڈالے تھے۔
یہودی مذہب کا حال یہ تھا کہ وہ محض ریاکاری اور تحکم بن گیا تھا۔ یہودی پیشوا اللہ کے بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔ لوگوں پر اپنی مرضی چلاتے تھے اور ان کے دلوں میں گزرنے والے خیالات اور ہونٹوں کی حرکات تک کا محاسبہ کرتے تھے۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کسی طرح مال و ریاست حاصل ہو، خواہ دین برباد ہی کیوں نہ ہو اور کفر و الحاد کو فروغ ہی کیوں نہ حاصل ہو اور ان تعلیمات کے ساتھ تساہل ہی کیوں نہ برتا جائے جن کی تقدیس کا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حکم دیا ہے اور جن پر عمل درآمد کی ترغیب دی ہے۔
عیسائیت ایک ناقابلِ فہم بُت پرستی بن گئی تھی۔ اس نے اللہ اور انسان کو عجیب طرح سے خلط ملط کر دیاتھا۔ پھر جن عربوں نے اس دین کو اختیار کیا تھا ان پر اس دین کا کوئی حقیقی اثر نہ تھا کیونکہ ا س کی تعلیمات ان کے مالوف طرزِ زندگی سے میل نہیں کھاتی تھیں اور وہ اپنا طرزِ زندگی چھوڑ نہیں سکتے تھے۔
باقی ادیانِ عرب کے ماننے والوں کا حال مشرکین ہی جیسا تھا کیونکہ ان کے دل یکساں تھے، عقائد ایک سے تھے اور رسم و رواج میں ہم آہنگی تھی۔
حیرہ کی بادشاہی
عراق اور اس کے نواحی علاقوں پر کوروش کبیر (کورس یا سائرس، ذوالقرنین سنہ 557ءق م۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنہ 529ءق م) کے زمانے ہی سے اہل فارس کی حکمرانی چلی آ رہی تھی۔ کوئی نہ تھا جو انکے مد مقابل آنے کی جرأت کرتا، یہاں تک کہ سنہ 326 ق م میں سکندر مقدونی نے دارا اوّل کو شکست دے کر فارسیوں کی طاقت توڑ دی جس کے نتیجے میں ان کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور طوائف الملوکی شروع ہو گئی۔ یہ انتشار سنہ 230ء تک جاری رہا اور اسی دوران قحطانی قبائل نے ترک وطن کر کے عراق کے ایک بہت بڑے شاداب سرحدی علاقے پر بودوباش اختیار کی۔ پھر عدنانی تارکین وطن کا ریلا آیا اور انہوں نے لڑ بھڑ کر جزیرۃ فراتیہ کے ایک حصے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ادھر سنہ 326ء میں اردشیر نے فارسیوں کی شیرازہ بندی کی اور اپنے ملک کی سرحدپر آباد عربوں کو زیر کیا۔ اسی کے نتیجے میں قضاعہ نے ملک شام کی راہ لی، جن کہ حیرہ اور انبار کے عرب باشندوں نے باج گذار بننا گوارا کیا۔
ارد شیر کے عہد میں حیرہ۔ بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعی اور مضری قبائل پر جذیمۃ الوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردشیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنا دیا جائے جسے اپنے کنبے قبیلے کی حمایت و تائید حاصل ہو۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بوقت ضرورت رومیوں کے خلاف ان سے مدد بھی لی جا سکے گی اور شام کے روم نواز عرب حکمرانوں کے مقابل عراق کے ان عرب حکمرانوں کو کھڑا کیا جا سکے گا۔
شاہاں حیرہ کے پاس فارسی فوج کی ایک یونٹ ہمیشہ رہا کرتی تھی جس سے بادیہ نشین عرب باغیوں کی سرکوبی کا کام لیا جاتا تھا۔ سنہ 268ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلہ لخم کا پہلا حکمران تھا اور شاپور اور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذین فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی رہی۔ قباذ کے عہد میں مزدوک کاظہور ہوا جو اباجیت کا علمبردار تھا۔ قباذ اور اس کی بہت سی رعایا نے مزدوک کی ہمنوائی کی۔ پھر قباذ نے حیرہ کے بادشاہ منذر بن السماء کو پیغام بھیجا کہ تم بھی یہی مذہب اختیار کر لو۔ منذر بڑا غیرتمند تھا، انکار کر بیٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قباذ نے اسے معزول کر کے اس کی جگہ مزدکی کی دعوت کے ایک پیروکار حارث بن حجر کندی کو حیرہ کی حکمرانی سونپ دی۔ قباذ کے بعد فارس کی باگ ڈور کسریٰ نوشیرواں کے ہاتھ آئی، اسے اس مذہب سے سخت نفرت تھی۔ اس نے مزدوک اور اس کے ہمنواؤں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کروا دیا، منذر کو دوبارہ حیرہ کا حکمران بنا دیا اور حارث بن عمرو کو اپنے ہاں بلا بھیجا لیکن وہ بنو کلب کے علاقے میں بھاگ گیا اور وہیں اپنی زندگی گزار دی۔ منذر بن السماء کے بعد نعمان بن منذر کے عہد تک حیرہ کی حکمرانی اسی کی نسل میں چلتی رہی، پھر زید بن عدی عبادی نے کسریٰ سے نعمان بن منذر کی جھوٹی شکایت کی، کسریٰ بھڑک اٹھا اور نعمان کو اپنے پاس طلب کیا۔ نعمان چپکے سے بنو شیبان کے سردار ہانی بن مسعود کے پاس پہنچا اور اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کو اس کی امانت میں دے کر کسریٰ کے پاس گیا، کسریٰ نے اسے قید کر دیا اور وہ قید ہی میں فوت ہو گیا۔
ادھر کسریٰ نے نعمان کو قید کرنے کے بعد اس کی جگہ ایاس بن قبیصہ طائی کو حیرہ کا حکمران بنایا اور اسے حکم دیا کہ ہانی بن مسعود سے نعمان کی امانت طلب کرے، ہانی غیرت مند تھا اس نے صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ اعلان جنگ بھی کر دیا۔ پھر کیا تھا ایاس اپنے جلو میں کسریٰ کے لاؤ لشکر اور مرزبانوں کی جماعت لے کر روانہ ہوا اور ذی وقار کے میدان میں فریقین کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں بنو شیبان کو فتح حاصل ہوئی اور فارسیوں نے شرمناک شکست کھائی۔ یہ پہلا موقع تھا جب عرب نے عجم پر فتح حاصل کی تھی۔ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے تھوڑے ہی دنوں بعد کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش حیرہ پر ایاس کی حکمرانی کے آٹھویں مہینے میں ہوئی تھی۔
ایاس کے بعد کسریٰ نے حیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا لیکن سنہ 632ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ ڈور سنبھال لی، مگر اس کو برسراقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسلام کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہو گئے۔
شام کی بادشاہی
جس زمانے میں عرب قبائل کی ہجرت زوروں پر تھی قبیلہ قضاعہ کی چند شاخیں حدود شام میں آ کر آباد ہو گئیں۔ ان کا تعلق بنی سلیم بن حلوان سے تھا اور ان ہی میں ایک شاخ بنوضجعم بن سلیم تھی جسے ضجاعمہ ک نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ قضاعہ کی اس شاخ کو رومیوں نے صحرائے عرب کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اپنا ہمنوا بنایا اور اسی کے ایک فرد کے سر پر تاج حکمرانی رکھ دیا۔ اس کے بعد مدتوں ان کی حکمرانی رہی۔ ان کا مشہور ترین بادشاہ زیاد بن ہبولہ گزرا ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ ضجاعمہ کا دور حکومت پوری دوسری صدی عیسوی پر محیط رہا ہے۔ اس کے بعد اس دیار میں آل غسّان کی آمد ہوئی اور ضجاعمہ کی حکمرانی جاتی رہی۔ آل غسّان نے بنو ضجعم کو شکست دے کر ان کی ساری قلمرو پر قبضہ کر لیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر رومیوں نے بھی آل غسّان کو دیار شام کے عرب باشندوں کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ آل غسان کا پایہ تخت دومتہ الجندل تھا۔ اور رومیوں کے آلہ کار کی حیثیت سے دیار شام پر ان کی حکمرانی مسلسل قائم رہی تا آنکہ خلافت فاروقی میں سنہ 13ھ میں یرموک کی جنگ پیش آئی اور آل غسان کا آخری حکمران جبلہ بن ایہم حلقہ بگوش اسلام ہو گیا (2) (
اگرچہ اس کا غرور اسلامی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور وہ مرتد ہو گیا)
حجاز کی امارت
یہ بات تو معروف ہے کہ مکہ میں ابادی کا آغاز حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہوا۔ آپ علیہ السلام نے 137 سال کی عمر پائی۔ (3) اور تا حیات مکہ کے سربراہ اور بیت اللہ کے متولّی رہے۔ (4) آپ کے بعد آپ کے دو صاحبزادگان نابت پھر قیدار، یا قیدار پھر نابت۔ ۔ ۔ یکے بعد دیگرے مکہ کے والی ہوئے۔ ان کے بعد ان کے نانا مضآض بن عمرو جرہمی نے زمام کار اپنے ہاتھ میں لے لی، اور اس طرح مکہ کی سربراہی بنو جرہم کی طرف منتقل ہو گئی۔ اور ایک عرصے تک انہی کے ہاتھ میں رہی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام چونکہ اپنے والد کے ساتھ مل کر بیت اللہ کے بانی اور معمار تھے اس لئے ان کی اولاد کو ایک با وقار مقام ضرور حاصل رہا، لیکن اقتدار و اختیار میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ (5)
پھر دن پہ دن اور سال پر سال گزرتے گئے لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد گوشہ گمنامی سے نہ نکل سکی، یہاں تک کہ بخت نصر کے ظہور سے کچھ پہلے بنو جرہم کی طاقت کمزور پڑ گئی اور مکہ کے افق پر عدنان کا سیاسی ستارہ جگمگانا شروع ہوا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بخت نصر نے زات عرق میں عربوں سے جو معرکہ آرائی کی تھی اس میں عرب فوج کا کمانڈر جرہمی نہ تھا۔ (6)
پھر بخت نصر نے جب سنہ 587 ق م میں دوسرا حملہ کیا تو بنو عدنان بھاگ کر یمن چلے گئے، اس وقت بنو اسرائیل کے نبی حضرت یرمیاہ تھے۔ وہ عدنان کے بیٹے معد کو اپنے ساتھ لے کر ملک شام لے گئے اور جب بخت نصر کا زور ختم ہوا اور معد مکہ آئے تو انہیں مکہ میں قبیلہ جرہم کا صرف ایک شخص جرشم بن جلہمہ ملا۔ معد نے اس کی لڑکی معانہ سے شادی کی اور اسی کے بطن سے نزار پیدا ہوا۔ (7)
اس کے بعد مکہ میں جرہم کی حالت خراب ہوتی گئی، انہیں تنگدستی نے آ گھیرا، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے زائرین بیت اللہ پر زیادتیاں شروع کر دیں اور خانہ کعبہ کا مال کھانے سے بھی دریغ نہیں کیا (8)۔ ادھر بنو عدنان اندر ہی اندر ان کی حرکتوں پر کڑھتے اور بھڑکتے رہے اسی لئے جب بنو خزاعہ نے مراالظہران میں پڑاؤ کیا اور دیکھا کہ بنو عدنان بنو جرہم کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور انہیں مکہ سے نکال کر اقتدار پر خود قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ دوسری صدی عیسوی کے وسط کا ہے۔ بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت زمزم کا کنواں پاٹ دیا اور اس میں کئی تاریخی چیزیں دفن کر کے اس کے نشانات بھی مٹا دیئے۔ محمد اسحٰق کا بیان ہے کہ عمرو بن حارث بن مضاض (9) جرہمی نے خانہ کعبہ کے دونوں ہرن(10) اور اس کے کونے میں لگا ہوا پتھر،حجر اسود،نکال کر زمزم کے کنویں میں دفن کر دیا اور اپنے قبیلہ بنو جرہم کو ساتھ لے کر یمن چلا گیا۔ بنو جرہم کو مکہ سے جلا وطنی اور وہاں کی حکومت سے محروم ہونے کا بڑا قلق تھا چنانچہ عمرو مذکور نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے۔
کان لم یکن بین الحجون الی الصفا انیس ولم بمکہ سامر
بلیٰ نحن کنا املہا فابانا صروف اللیالی والجدود المواشر (11)
ترجمہ: "لگتا ہے حجون سے صفا تک کوئی آشنا تھا ہی نہیں اور نہ کسی قصہ گو نے مکہ کی شبانہ محفلوں میں قصہ گوئی کی، کیوں نہیں ! یقیناً ہم ہی اس کے باشندے تھے لیکن زمانے کی گردشوں اور ٹوٹی ہوئی قسمتوں نے ہمیں اجاڑ پھینکا۔”
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا زمانہ دو ہزار برس قبل مسیح ہے۔ اس حساب سے مکہ میں قبیلہ جرہم کا وجود کوئی دو ہزار ایک سو برس رہا اور ان کی حکمرانی لگ بھگ دو ہزار برس تک رہی۔ بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کرنے کے بعد بنوبکر کو شامل کئے بغیر تنہا اپنی حکمرانی قائم کی، البتہ تین اہم اور امتیازی مناصب ایسے تھے جو مصری قبائل کے حصے میں آئے۔
1- حاجیوں کو عرفات سے مزدلفہ لیجانا اور یوم النّفر۔ ۔ ۔ 13 ذی الحجہ کو جو کہ حج کے سلسلے کا آخری دن ہے۔ ۔ ۔ منیٰ سے روانگی کا پروانہ دینا۔ یہ اعزاز الیاس بن مضر کے خاندان بنو غوث بن مرّہ کو حاصل تھا جو صوفہ کہلاتے تھے۔ اس اعزاز کی توضیح یہ ہے کہ 13 ذی الحج کو حاجی کنکری نہ مار سکتے تھے جب تک کہ صوفہ کا ایک آدمی کنکری نہ مار لیتا۔ پھر حاجی کنکری مار کر فارغ ہو جاتے اور منیٰ سے روانگی کا ارادہ کرتے تو صوفہ کے لوگ منیٰ کی واحد گزرگاہ عقبہ کے دونوں جانب گھیرا ڈال کر کھڑے ہو جاتے اور جب تک خود گزر نہ لیتے کسی کو گزرنے نہ دیتے۔ ان کے گزر لینے کے بعد بقیہ لوگوں کے لئے راستہ خالی ہوتا۔ جب صوفہ ختم ہو گئے تو یہ اعزاز بنو تمیم کے ایک خاندان بنو سعد بن زید مناۃ کی طرف منتقل ہو گیا۔
2- 10 ذی الحج کی صبح کو مزدلفہ سے منیٰ کی جانب افاضہ (روانگی) یہ اعزاز بنو عدوان کو حاصل تھا۔
3- حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا۔ یہ اعزاز بنو کنانہ کی ایک شاخ بنو تمیم بن عدی کو حاصل تھا۔ (12)
مکہ پر بنو خزاعہ کا اقتدار کوئی تین سو برس تک قائم رہا۔ (13) اور یہی زمانہ تھا جب عدنانی قبائل مکہ اور حجاز سے نکل کر نجد، اطراف عراق، اور بحرین وغیرہ میں پھیلے اور مکہ کے اطراف میں صرف قریش کی چند شاخیں باقی رہیں جو خانہ بدوش تھیں۔ ان کی الگ الگ ٹولیاں تھیں، اور بنو کنانہ میں ان کے چند متفرق گھرانے تھے مگر مکہ کی حکومت اور بیت اللہ کی توّلیت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ قصّٰی بن کلاب کا ظہور ہوا۔ (14)
قصّیٰ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ابھی گود ہی میں تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد اس کی والدہ نے بنو عذرہ کے ایک شخص ربیعہ بن حرام سے شادی کر لی۔ یہ قبیلہ کیونکہ ملک شام کے اطراف میں رہتا تھا اس لئے قصیٰ کی والدہ وہیں چلی گئی اور وہ قصّیٰ کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔ جب قصّیٰ جوان ہوا تو مکہ واپس آیا۔ اس وقت مکہ کا والی خلیل بن حبشیہ خزاعی تھا۔ قصّیٰ نے اس کے پاس اس کی بیٹی حبی سے نکاح کا پیغام بھیجا۔ خلیل نے منظور کر لیا اور شادی کر دی۔ (15) اس کے بعد جب خلیل کا انتقال ہوا تو مکہ اور بیت اللہ کی توّلیت کے لئے خزاعہ اور قریش کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس کے نتیجے میں مکہ اور بیت اللہ پر قصّیٰ کا اقتدار قائم ہو گیا۔
جنگ کا سبب کیا تھا؟ اس بارے میں تین بیانات ملتے ہیں: ایک یہ کہ جب قصّیٰ کی اولاد خوب پھل پھول گئی اس کے پاس دولت کی فراوانی بھی ہو گئی اور اس کا وقار بھی بڑھ گیا اور ادھر خلیل کا انتقال بھی ہو گیا تو قصّیٰ نے محسوس کیا کہ اب بنو خزاعہ اور بنوبکر کے بجائے میں کعبہ کی توّلیت اور مکہ کی حکومت کا کہیں زیادہ حقدار ہوں۔ اسے یہ بھی احساس بھی تھا کہ قریش خالص اسماعیلی عرب ہیں اور بقیہ آل اسماعیل کے سردار بھی ہیں (لہٰذا سربراہی کے مستحق بھی وہی ہیں) چنانچہ اس نے قریش اور بنو خزاعہ کے کچھ لوگوں سے گفتگو کی کہ کیوں نہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کو مکہ سے نکال باہر کیا جائے۔ ان لوگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔ (16)
دوسرا بیان یہ ہے کہ خزاعہ کے بقول خود خلیل نے قصّیٰ کو وصیت کی تھی کہ وہ کنبہ کی نگہداشت کرے گا اور مکہ کی باگ ڈور سنبھالے گا۔ (17)
تیسرا بیان یہ ہے کہ خلیل نے اپنی بیٹی حبی کو بیت اللہ کی توّلیت سونپی تھی اور ابوغبشان خزاعی کو اس کا وکیل بنایا تھا۔ چنانچہ حبی کے نائب کی حیثیت سے وہی خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا۔ جب خلیل کا انتقال ہو گیا تو قصّیٰ نے ابو غشبان سے ایک مشک شراب کے بدلے کعبہ کی تولیت خرید لی لیکن خزاعہ نے یہ خرید و فروخت منظور نہ کی اور قصّیٰ کو بیت اللہ سے روکنا چاہا۔ اس پر قصّیٰ نے بنو خزاعہ کو مکہ سے نکالنے کے لئے قریش اور بنو کنانہ کو جمع کیا اور قصّیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے۔ (18)
بہرحال وجہ جو بھی ہو، واقعات کا سلسلہ اس طرح ہے کہ جب خلیل کا انتقال ہو گیا، اور صوفہ نے وہی کرنا چاہا جو وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے تو قصّیٰ نے قریش اور کنانہ کے لوگوں کو ہمراہ لیا اور عقبہ کے نزدیک جہاں وہ جمع تھے ان سے آ کر کہا کہ تم سے زیادہ ہم اس کے حقدار ہیں۔ اس پر صوفہ نے لڑائی چھیڑ دی مگر قصّیٰ نے انہیں مغلوب کر کے ان کا اعزاز چھین لیا۔ یہی موقع تھا جب خزاعہ اور بنو بکر نے قصّیٰ سے دامن کشی اختیار کر لی۔ اس پر قصّیٰ نے انہیں بھی للکارا، پھر کیا تھا فریقین میں سخت جنگ چھڑ گئی اور طرفین کے بہت سے آدمی مارے گئے، اس کے بعد صلح کی آوازیں بلند ہوئیں اور بنو بکر کے ایک شخص یعمر بن عوف کو حکم بنایا گیا۔ یعمر نے فیصلہ کیا کہ خزاعہ کے بجائے قصّیٰ خانہ کعبی کی توّلیت اور مکہ کے اقتدار کا نزیادہ حقدار ہے۔ نیز قصّیٰ نے جتنا خون بہایا ہے سب رائیگاں قرار دے کر پاؤں تلے روند رہا ہوں۔ البتہ خزاعہ اور بنوبکر نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کی دیت ادا کریں اور خانہ کعبہ کو بلا روک ٹوک قصّیٰ کے حوالے کر دیں۔ ۔ اسی فیصلے کی وجہ سے یعمر کا لقب شدّاخ (19) پڑ گیا۔ شدّاخ کے معنی ہیں پاؤں تلے روندنے والا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں قصّیٰ اور قریش کو مکہ پر مکمل نفوذ اور سیادت حاصل ہو گئی اور قصّیٰ بیت اللہ کا دینی سربراہ بن گیا جس کی زیارت کے لئے عرب کے گوشے گوشے سے آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مکہ پر قصّیٰ کے تسلّط کا یہ واقعہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط یعنی سنہ 440 کا ہے۔
(20)۔ قصّیٰ نے مکہ کا بندوبست اس طرح کیا کہ قریش کو اطراف مکہ سے بلا کر پورا شہر ان پر تقسیم کر دیا اور ہر خاندان کی بود و باش کا ٹھکانا مقرر کر دیا۔ البتہ مہینے آگے پیچھے کرنے والوں کو، نیز آل صفوان بنو عددان اور بنو مرہ بن عوف کو ان کے مناصب پر برقرار رکھا کیونکہ قصّیٰ سمجھتا تھا کہ یہ بھی دین ہے جس میں ردّ و بدل کرنا درست نہیں (21)۔
قصّیٰ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے حرم کعبہ کے شمال میں دار الندوہ تعمیر کیا۔ ( اس کا دروازہ مسجد کی طرف تھا) دارالندوہ دراصل قریش کی پارلیمنٹ تھی جہاں تمام بڑے بڑے اور اہم معاملات کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ قریش پر دارالندوہ کے بڑے احسانات ہیں کیونکہ یہ ان کی وحدت کا ضامن تھا اور یہیں انکے الجھے ہوئے مسائل بحسن و خوبی طے ہوتے تھے۔ (22)
قصّیٰ کو سربراہی اور عظمت کے حسب ذیل مظاہر حاصل تھے :
1- دارالندوہ کی صدارت: جہاں بڑے بڑے معاملات کے متعلق مشورے ہوتے تھے اور جہاں لوگ اپنی لڑکیوں کی شادیاں بھی کرتے تھے۔
2- لَواء- یعنی جنگ کا پرچم قصّیٰ ہی کے ہاتھوں باندھا جاتا تھا۔
3-حجابت: یعنی خانہ کعبہ کی پاسبانی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کا دروازہ قصیٰ ہی کھولتا تھا اور وہی خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید برداری کا کام انجام دیتا تھا۔
4- سقایہ: (پانی پلانا) اس کی صورت یہ تھی کہ کچھ حوض میں حاجیوں کے لئے پانی بھر دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ کھجور اور کشمش ڈال کر اسے شیریں بنا دیا جاتا تھا، جب حجّاج مکہ آتے تھے تو اسے پیتے تھے۔ (23)
5- رِفادہ: (حاجیوں کی میزبانی)——– اس کے معنی یہ ہیں کہ حاجیوں کے لئے بطور ضیافت کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے قصیٰ نے قریش پر ایک خاص رقم مقرر کر رکھی تھی، جو موسم حج میں قصیٰ کے پاس جمع کی جاتی تھی۔ قصیٰ اسی رقم سے حاجیوں کے لئے کھانا تیار کراتا تھاجو لوگ تنگ دست ہوتے یا جن کے پاس توشہ نہ ہوتا وہ یہی کھانا کھاتے تھے۔ (24)
یہ سارے مناصب قصّیٰ کو حاصل تھے۔ قصیٰ کا پہلا بیٹا عبدالدار تھا، مگر اس کے بجائے دوسرا بیٹا عبد مناف، قصیٰ کی زندگی ہی میں شرف و سیادت کے مقام پر پہنچ گیا تھا، اس لئے قصیٰ نے عبدالدار سے کہا کہ یہ لوگ اصل میں شرف و سیادت میں تم پر بازی لے جا چکے ہیں، مگر میں تمہیں ان کے ہم پلّہ کر کے رہوں گا۔ چنانچہ قصیٰ نے اپنے سارے مناصب اور اعزازات کی وصیت عبدالدار کے لئے کر دی، یعنی دار الندوہ کی ریاست، خانی کعبہ کی حجابت، لواء، سقایت اور رفادہ سب کچھ عبدالدار کو دے دیا۔ کیونکہ کسی کام میں قصیٰ کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی بات مسترد کی جاتی تھی بلکہ اس کا ہر اقدام اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی واجب الاتباع دین سمجھا جاتا تھا اس لئے اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں نے کسی نزاع کے بغیر اس کی وصیت قائم رکھی۔ لیکن جب عبد مناف کی وفات ہو گئی تو اس کے بیٹوں کا ان مناصب کے سلسلے میں اپنے چچیرے بھائیوں یعنی عبدالدار کی اولاد سے جھگڑا ہوا۔ اس کے نتیجے میں قریش دو گروہ میں بٹ گئے اور قریب تھا کہ دونوں میں جنگ ہو جاتی مگر بھی انہوں نے صلح کی آواز بلند کی اور ان مناصب کو باہم تقسیم کر لیا۔ چنانچہ سقایت اور رفادہ کے مناصب عبدمناف کو دئیے گئے اور دار الندوہ کی سربراہی، لواء، اور حجابت بنو عبدالدار کے ہاتھ میں رہی۔ پھر بنو عبدمناف نے اپنے حاصل شدہ مناصب کے لئے قرعہ ڈالا تو قرعہ ہاشم بن عبد مناف کے نام نکلا۔ لہٰذا ہاشم ہی نے اپنی زندگی بھر سقایہ اور رفادہ کا انتظام کیا۔ البتہ جب ہاشم کا انتقال ہو گیا تو انکے بھائی مطّلب نے ان کی جانشینی کی، مگر مطّلب کے بعد انکے بھتیجے عبدالمطلب بن ہاشم نے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے ، یہ منصب سنبھال لیا اور انکے بعد ان کی اولاد ان کی جانشین ہوئی۔ یہاں تک کہ جب اسلام کا دور آیا تو حضرت عبّاس بن عبدالمطلب اس منصب پر فائز تھے۔ (25)
ان کے علاوہ کچھ اور مناصب بھی تھے جنہیں قریش نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ ان مناصب اور انتظامات کے ذریعے قریش نے ایک چھوٹی سی حکومت ،بلکہ حکومت نما انتظامیہ، قائم کر رکھی تھی جس کے سرکاری ادارے اور تشکیلات کچھ اسی ڈھنگ کی تھیں جیسی آجکل پارلیمانی مجلسیں اور ادارے ہوا کرتے ہیں۔ ان مناصب کا خاکہ حسب ذیل ہے :
1- ایسار۔ یعنی فال گیری اور قسمت دریافت کرنے کے لئے بتوں کے پاس جو تیر رکھتے تھے ان کی تولیت۔ یہ منصب بنو جمح کو حاصل تھا۔
2- مالیات کا نظم۔ یعنی بتوں کے تقرّب کے لئے جو نذرانے اور قربانیاں پیش کی جاتی تھیں ان کا انتظام کرنا، نیز جھگڑے اور مقدمات کا فیصلہ کرنا۔ یہ کام بنو سہم کو سونپا گیا تھا۔
3- شوریٰ۔ یہ اعزاز بنو اسد کو حاصل تھا۔
4- اشناق۔ یعنی دیّت اور جرمانوں کا نظم۔ اس منصب پر بنو تمیم فائز تھے۔
5- عقاب: یعنی قومی پرچم کی علمبرداری۔ یہ بنو امیّہ کا کام تھا۔
6- قبہ: یعنی فوجی کیمپ کا انتظام اور شہسواروں کی قیادت۔ یہ بنو مخزوم کے حصے میں آیاتھا۔
7- سفارت: بنو عدی کا منصب تھا۔ (26)
بقیہ عرب سرداریاں
ہم پچھلے صفحات میں قحطانی اور عدنانی قبائل کے ترک وطن کا ذکر کر چکے ہیں اور بتلا چکے ہیں کہ پورا عرب ان قبائل کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی امارتوں اور سرداریوں کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ جو قبائل حیرہ کے اردگرد آباد تھے انہیں حکومت حیرہ کے تابع مانا گیا اور جن قبائل نے بادیۃ الشّام میں سکونت اختیار کی تھی انہیں غسّانی حکمرانوں کے تابع قرار دیا گیا، مگر یہ ماتحتی صرف نام کی تھی عملاً نہ تھی۔ ان دو مقامات کو چھوڑ کر اندرون عرب آباد قبائل بہرطور آزاد تھے۔
ان قبائل میں سرداری نظام رائج تھا، قبیلے خود اپنا سردار مقرر کرتے تھے اور ان سرداروں کے لئے ان کا قبیلہ ایک مختصر سی حکومت ہوا کرتا تھا۔ سیاسی وجود و تحفظ کی بنیاد قبائلی وحدت پر مبنی عصبیت اور اپنی زمین کی حفاظت دفاع کے مشترکہ مفادات تھے۔
قبائلی سرداروں کا درجہ اپنی قوم میں بادشاہوں جیسا تھا، قبیلہ صلح اور جنگ میں بہرحال اپنے سردار کے فیصلے کے تابع ہوتا تھا اور کسی حال میں اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔ سردار کو وہی مطلق العنانی اور استبداد حاصل تھا جو کسی ڈکٹیٹر کو حاصل ہوا کرتا ہے حتّیٰ کے بعض سرداروں کا یہ حال تھا کہ اگر وہ بگڑ جاتے تو ہزاروں تلواریں یہ پوچھے بغیر بے نیام ہو جاتیں کے سردار کے غصے کا سبب کیا ہے۔ تاہم چونکہ ایک ہی کنبے کے چچیرے بھائیوں میں سرداری کے لئے کشاکش بھی ہوا کرتی تھی اس لئے اس کا تقاضہ تھا کہ سردار اپنے قبائلی عوام کے ساتھ رواداری برتے۔ خوب مال خرچ کرے اور مہمان نوازی میں پیش پیش رہے، کرم و بردباری سے کام لے، شجاعت کا عملی مظاہرہ کرے اور غیرت مندانہ امور کی طرف سے دفاع کرے تاکہ لوگوں کی نظر میں عموماً اور شعراء کی نظر میں خصوصاً خوبی اور کمالات کا جامع بن جائے۔ (کیونکہ شعراء اس دور میں قبیلے کی زبان ہوا کرتے تھے ) اور اس طرح سردار اپنے مدمقابل حضرات سے بلند و بالا درجہ حاصل کر لے۔
سرداروں کے کچھ مخصوص اور امتیازی حقوق بھی ہوا کرتے تھے جنہیں ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔
لک المرباغ فینا والصفایا، وحکمک والنشیطۃ والفضول
"ہمارے درمیان تمہارے لئے مال غنیمت کا چوتھائی ہے اور منتخب مال ہے اور وہ مال ہے جس کا تم فیصلہ کر دو اور جو سر راہ ہاتھ آ جائے۔ اور جو تقسیم سے بچ رہے "۔
مرباع۔ مال غنیمت کا چوتھائی حصہ۔
صفی: وہ مال جسے تقسیم سے پہلے ہی سردار اپنے لئے منتخب کر لے۔
نشیطہ: وہ مال جو اصل قوم تک پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں سردار کے ہاتھ لگ جائے۔
فضول۔ وہ مال جو تقسیم کے بعد بچ رہے اور غازیوں کی تعداد پر برابر تقسیم نہ ہو۔ مثلاً تقسیم سے بچے ہوئے اونٹ گھوڑے وغیرہ ان سب اقسام کے مال سردار قبیلہ کا حق ہوا کرتے تھے۔
سیاسی حالت
جزیرۃ العرب کی حکومتوں اور حکمرانوں کا ذکر ہو چکا، بیجا نہ ہوگا کہ اب انکے کسی قدر سیاسی حالات بھی ذکر کر دئیے جائیں۔
جزیرۃالعرب کے وہ تینوں سرحدی علاقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب و انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ انسان، مالک اور غلام یا حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں بٹا ہو ا تھا۔ سارے فوائد سربراہوں، اور خصوصاً غیر ملکی سربراہوں ،کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غلاموں کے سر تھا۔ اسے زیادہ واضح الفاظ میںیوں کہا جا سکتا ہے کہ رعایا در حقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لئے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں انہیں لذتوں، شہوتوں، عیش رانی اور ظلم و جور کے لئے باستعمال کرتی تھیں۔ اور ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی۔ مگر وہ حرف شکایت زبان پر نہ لا سکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ طرح طرح کی ذلت و رسوائی اور ظلم و چیرہ دستی برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔ کیونکہ جبرواستبداد کی حکمرانی تھی اور انسانی حقوق نام کی کسی چیز کا کہیں کوئی وجود نہ تھا۔ ان علاقوں کے پڑوس میں رہنے والے قبائل تذبذب کا شکار تھے۔ انہیں اغراض و خواہشات ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر پھینکتی رہتی تھیں۔ کبھی وہ عراقیوں کے ہمنوا ہو جاتے تھے اور کبھی شامیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔
جو قبائل اندرون عرب آباد تھے ان کے بھی جوڑ ڈھیلے اور شیرازہ منتشر تھا۔ ہر طرف قبائلی جھگڑوں، نسلی فسادات اور مذہبی اختلافات کی گرم بازاری تھی، جس میں ہر قبیلے کے افراد بہرصورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ چنانچہ ان کا ترجمان کہتا ہے۔
وما انا الامن غزیۃ ان اغوت، غویت وان ترشد غزیۃ ارشد
” میں بھی تو قبیلہ غزیہ کا ایک فرد ہوں، اگر وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی غلط راہ پر چلوں گا، اور اگر وہ صحیح راہ پر چلے گا تو میں بھی صحیح راہ پر چلوں گاً۔
اندرون عرب کوئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی آواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع ہی تھا جس کی طرف مشکلات و شدائد میں رجوع کیا جاتا اور جس پر وقت پڑنے پر اعتماد کیا جاتا۔
ہاں حجاز کی حکومت کو قدر و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے مرکز دین کا قائدو پاسبان بھی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ حکومت درحقیقت ایک طرح کی دنیوی قیادت اور دینی پیشوائی کا معجون و مرکّب تھی۔ اسے اہل عرب پر اپنی دینی پیشوائی کے نام سے بالا دستی حاصل تھی اور حرم اور اطرافِ حرم پر اس کی باقاعدہ حکمرانی تھی۔ وہی زئرین بیت اللہ کی ضروریات کا انتطام اور شریعت ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کرتی تھی۔ اور اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیلات بھی تھیں۔ لیکن یہ حکومت اتنی کمزور تھی کہ اندرون عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی جیسا کہ حبشیوں کے حملے کہ موقع پر ظاہر ہوا۔
حواشی
(2) محاضرات خضری 1/34، تاریخ ارض القران 2/80-82
(3) پیدائش (مجموعہ بائیبل) 17:25
(4) قلب جزیرۃ العرب ص 230-237
(5) ایضاً ایضاً و ابن ہشام 1/ 111-113، ابن ہشام نے اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف نابت کی تولیت کا ذکر کیا ہے۔
(6) قلب جزیرۃ العرب ص 230
(7) رحمۃ للعالمین 2/48
(8) قلب جزیرۃ العرب ص 231
(9) یہ وہ مضاض جرہم نہیں ہے جس کا ذکر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعے میں گزر چکا ہے۔
(10) مسعودی نے لکھا ہے کہ اہل فارس پچھلے دور میں خانہ کعبہ کے لئے اموال و جواہرات بھیجتے رہتے تھے۔ ساما بن بابک نے سونے کے بنے ہوئے دو ہرن، جواہرات، تلواریں اور بہت سا سونا بھیجا تھا۔ عمرو نے یہ سب زمزم کے کنویں میں دال دیا تھا۔ (مروج الذہب 1۔ 205)
(11) ابن ہشام 1/ 114-115
(12) ابن ہشام 1/44، 119، 122
(13) یاقوت:۔ مادّہ مکہ
(14) محاضرات خضری 1/35، ابن ہشام 1/117
(15) ابن ہشام 1/ 117، 118
(16)ایضاً ایضاً
(17) ایضاً 1/118
(18) رحمۃ للعالمین 2/55
(19) ابن ہشام 1/123، 124
(20) قلب جزیرۃ العرب ص 232
(21) ابن ہشام 1/124، 125
(22)۔ ایضاً 1/125، محاضرات خضری 1/36، اخبار الکرام ص 152
(23)۔ محاضرات خضری 1/36
(24) ابن ہشام 1/130
(25) ایضاً 1/129، 132، 137، 142، 178، 179
(26) تاریخ ارض القرآن 2/104، 105، 106
خاندان نبوت
نسب
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب تین حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ جس کی صحت پر اہل سیئر اور ماہرین انساب کا اتفاق ہے۔ یہ عدنان تک منتہی کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ جس میں اہل سیئر کا اختلاف ہے اور کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے۔ یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ جس میں یقیناً کچھ غلطیاں ہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے۔ اس کی جانب اشارہ گزر چکا ہے۔ ذیل میں تینوں حصوں کی قدرے تفصیل دی جا رہی ہے۔
پہلا حصہ
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب(شیبہ) بن ہاشم(عمرو) بن عبدالمناف(مغیرہ) بن قصی(زید) بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن نظر(قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ(عامر) بن الیاس بن مضر بن معد بن عدنان۔ (1)
دوسرا حصہ
عدنان سے اوپر یعنی عدنان بن اٴدبن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن قموال بن اٴبی بن عوام بن ناشد بن حزابن بلد بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبرین بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن اٴرعوی بن عیض بن دیشان بن عیصر بن افناد بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن سمی بن مزی بن عوضہ بن قیدار بن اسماعیل بن ابراہیم۔ (2)
تیسرا حصہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر۔ ابراہیم بن تارح(آذر) بن ناحور بن ساروع (یا ساروغ) بن راعو بن فالح بن عابر بن شالہ بن ارمخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت ادریس علیہ السلام کا نام ہے ) بن ہرد بن مہلائیل بن قیتان بن آنوشہ بن شیث بن آدم علیہ السلام۔ (3)
خانوادہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خانوادہ جد اعلی ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادہ ہاشمی کے نام سے معروف ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم اور ان کے بعد کے بعض افراد کے مختصر حالات پیش کر دئیے جائیں۔
ہاشم: جب بنو عبد مناف اور بنو عبدالدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہو گئی تو عبد المناف کی اولاد میں ہاشم ہی کو سقایہ اور رفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔ ہاشم بڑے معزز اور مالدار تھے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مکے میں حاجیوں کو شوربہ روٹی سان کر کھلانے کا اہتمام کیا۔ ان کا اصل نام عمرو تھا لیکن روٹی توڑ کر شوربے میں ساننے کی وجہ سے ان کو ہاشم کہا جانے لگا کیونکہ ہاشم کے معنی ہیں توڑنے والا۔ پھر یہی وہ ہاشم ہیں جنہوں نے قریش کے لئے گرمی اور جاڑے کے دو سالانہ تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی انکے بارے میں شاعر کہتا ہے :
عمر والذی ھشم الثرید لقومہ
قوم بمکۃ مسنتین عجاف
سنت الیہ الوحتان کلاھما
سفر الشتاٴ ورحلۃ الصیاف
یہ عمرو ہی ہیں جنہوں نے قحط کی ماری ہوئی اپنی لاغر قوم کو مکہ میں روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو بھگو کر کھلائیں اور جاڑے اور گرمی کے دونوں سفروں کی بنیاد رکھی۔ ان کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ وہ تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے گئے۔ راستے میں مدینہ پہنچے تو وہاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون سلمی بنت عمرو سے شادی کر لی اور کچھ دن وہیں ٹھہرے رہے پھر بیوی کو حالت حمل میں ہی چھوڑ کر ملک شام روانہ ہو گئے اور وہاں جا کر فلسطین کے شہر غزہ میں انتقال کر گئے۔ ادھر سلمی کے بطن سے بچہ ہوا یہ سن497ء کی بات ہے چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لئے سلمی نے اس کا نام شیبہ رکھا(10) اور یثرب میں میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی بچہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوا۔ عرصے تک خاندان ہاشم کو اس کے وجود کا علم نہ ہو سکا۔ ہاشم کے کل چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں۔ اسد، ابوصیفی، نضلہ، عبدالمطلب، شفاٴ، خالدہ، ضعیفہ، رقیہ اور جنۃ۔ (5)
2- عبدالمطلب- سقایہ اور رفادہ کا منصب ہاشم کے بعد انکے بھائی مطلب کو ملا۔
یہ بھی اپنی قوم میں خوبی اور اعزاز کے مالک تھے۔ ان کی بات ٹالی نہیں جاتی تھی۔ ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب فیاض رکھ دیا تھا۔ جب شیبہ یعنی عبدالمطلب دس بارہ برس کے ہو گئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشکبار ہو گئے، انہیں سینے سے لگا لیا اور اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر جانے سے انکار کر دیا۔ اس لئے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے مگر ماں نے اجازت نہ دی۔ آخر مطلب نے کہا یہ اپنے والد کی حکومت اور اللہ کے حرم کی طرف جا رہے ہیں اس پر ماں نے اجازت دے دی اور مطلب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے۔ مکے والوں نے دیکھا تو کہا یہ عبدالمطلب ہے یعنی مطلب کا غلام ہے، مطلب نے کہا نہیں نہیں! یہ میرا بھتیجا ہے یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے۔ پھر شیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔ اس کے بعد مقام رومان(یمن) میں مطلب کی وفات ہو گئی اور انکے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے۔ عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف و اعزاز حاصل کیا کے انکے آباء و اجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا۔ قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی۔ (6)
جب مطلب کی وفات ہو گئی تو نوفل نے عبدالمطلب کے صحن پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ عبدالمطلب نے قریش سے کچھ لوگوں سے اپنے چچا کے خلاف مدد چاہی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہم تمہارے اور تمہارے چچا کے درمیان دخیل نہیں ہو سکتے۔ آخر عبدالمطلب نے بنی نجار میں اپنے ماموں کو کچھ اشعار لکھ بھیجے، جس میں ان سے مدد کی درخواست کی تھی، جواب میں ان کا ماموں ابو سعد بن عدی اسی 80 سوار لیکر روانہ ہوا اور مکے کے قریب البطح میں اترا۔ عبدالمطلب نے وہیں ملاقات کی، اور کہا ماموں جان! گھر تشریف لے چلیں۔ ابو سعد نے کہا: نہیں خدا کی قسم! یہاں تک کے نوفل سے مل لوں۔ اس کے بعد ابو سعد آگے بڑھا اور نوفل کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ نوفل حطیم میں مشائخ قریش کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ ابو سعد نے تلوار بے نیام کرتے ہوئے کہا: اس گھر کے رب کی قسم! اگر تم نے میرے بھانجے کی زمین واپس نہ کی تو یہ تلوار تمہارے اندر پیوست کر دونگا۔ (7) نوفل نے کہا اچھا! ابو میں نے واپس کر دی۔
اس پر ابو سعد نے مشائخ قریش کو گواہ بنایا۔ پھر عبدالمطلب کے گھر گیا اور تین روز مقیم رہ کر عمرہ کرنے کے بعد مدینہ واپس چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد نوفل نے بنی ہاشم کے خلاف بنی عبدشمس سے باہمی تعاون کا عہدو پیماں کیا۔ ادھر بنو خزاعہ نے دیکھا کے بنو نجار نے عبدالمطلب کی اس طرح مدد کی ہے تو کہنے لگے کہ عبدالمطلب جس طرح تمہاری اولاد ہے ہماری بھی اولاد ہے لہذا ہم پر اس کی مدد کا حق زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد مناف کی والدہ قبیلہ خزاعہ ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ بنو خزاعہ نے دار الندوہ میں جا کر بنو شمس اور بنو نوفل کے خلاف بنو ہاشم سے تعاون کا عہد و پیماں کیا۔ یہی پیمان تھا جو آگے چل کر اسلامی دور میں فتحِ مکہ کا سبب بنا۔ بیت اللہ کے تعلق سے عبدالمطلب کے ساتھ دو اہم واقعات پیش آئے، ایک چاہ زمزم کی کھدائی کا واقعہ اور دوسرا فیل کا واقعہ۔
چاہ زمزم کی کھدائی
پہلے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ انہوں نے بیدار ہونے کے بعد کھدائی شروع کی اور رفتہ رفتہ وہ چیزیں برآمد ہوئیں جو بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت چاہ زمزم میں دفن کی تھیں۔ یعنی تلواریں، زرہیں اور سونے کے دو ہرن۔ عبدالمطلب نے تلواروں سے کعبہ کا دروازہ ڈھالا۔ سونے کے دو ہرن بھی دروازے ہی میں فٹ کئے اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا بندوبست کیا۔
کھدائی کے درمیان یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب زمزم کا کنواں نمودار ہو گیا تو قریش نے عبدالمطلب سے جھگڑا شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کھدائی میں شریک کر لو۔ عبدالمطلب نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا میں اس کام کے لئے مخصوص کیا گیا ہوں، لیکن قریش کے لوگ باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ فیصلے کے لئے بنو سعد کی ایک کاہنہ عورت کے پاس جانا طے ہوا اور لوگ مکہ سے روانہ بھی ہو گئے لیکن راستے میں اللہ تعالی نے انہیں ایسی علامات دکھائیں کہ وہ سمجھ گئے کہ زمزم کا کام قدرت کی طرف سے عبدالمطلب کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لئے راستے ہی سے پلٹ آئے۔ یہی موقع تھا جب عبدالمطلب نے نذر مانی کے اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کئے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کرینگے۔ (8)
واقعہ فیل
دوسرے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ صباح حبشی نے ( جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا)جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاٴ میں ایک بڑا کلیسا تعمیر کیا، اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس کے قبلے پر پائخانہ پوت دیا۔ ابرہہ کو پتہ چلا تو سخت برہم ہوا اوور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرار لے کر کعبے کو کو ڈھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا، لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مغمس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دیکر اور ہاتھی کو تیار کر کے مکے میں داخلے کے لئے چل پڑا، جب مزدلفہ اور منی’ کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لئے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا تو بیٹھا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل یا قمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں، کنکریاں چنے جتنی تھیں مگر جس کو لگ جاتی تھیں اس کے اعضاٴ کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔ یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں، لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا، کچلتا گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔ پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رپے تھے۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاٴ پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہو گیا۔ پھر اس کا سینہ پھٹ گیا، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔
ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکے کے باشندے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے تھے اور پہاڑ کی چوٹیوں پر جا چھپے تھے۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہو گیا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔ (9)
یہ واقعہ بیشتر اہل سیئر کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے محرم کے مہینے میں پیش آیا تھا لہذا یہ 571ٴ کی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے۔ یہ درحقیقت ایک تمہیدی نشانی تھی جو اللہ نے اپنے نبی اور اپنے کعبہ کے لئے ظاہر فرمائی تھی کیونکہ آپ بیت المقدس کو دیکھئے کہ اپنے دور میں اہل اسلام کا قبلہ تھا اور وہاں کے باشندے مسلمان تھے۔
اس کے باوجود اس پر اللہ کے دشمن یعنی مشرکین کا تسلط ہو گیا تھا جیسا کے بخت نصر کے حملہ( 578ق م) اور اہل روما کے قبضے (سن 70ٴ) سے ظاہر ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف کعبہ پر عسائیوں کو تسلط حاصل نہ ہو سکا، حالانکہ اس وقت یہی مسلمان تھے اور کعبے کے باشندے مشرک تھے۔ پھر یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا کہ اس کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں یعنی روم و فارس میں آناً فاناً پہنچ گئی۔ کیونکہ حبشہ کا رومیوں سے بڑا گہرا تعلق تھا اور دوسری طرف فارسیوں کی نظر رومیوں پر برابر رہتی تھی اور وہ رومیوں اور انکے حلیفوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا برابر جائزہ لیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اہل فارس نے نہایت تیزی سے یمن پر قبضہ کر لیا۔ اب چونکہ یہ دو حکومتیں اس وقت متمدن دنیا کے اہم حصے کی نمائندہ تھیں اس لئے اس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ انہیں بیت اللہ کے شرف و عظمت کا ایک کھلا ہوا خدائی نشان دکھلائی پڑ گیا۔ اور یہ بات دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی کہ اس گھر کو اللہ نے تقدیس کے لئے منتخب کیا ہے لہذا یہاں کی آبادی سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت کے ساتھ اٹھنا اس واقعے کے تقاضے کے عین مطابق ہوگا۔ اور اس خدائی حکمت کی تفسیر ہوگا جو عالم اسباب سے بالا تر طریقے پر اہل ایمان کے خلاف مشرکین کی مدد میں پوشیدہ تھی۔
عبدالمطلب کے دس بیتے تھے جن کے نام یہ ہیں: حارث، زبیر، ابو طالب، عبداللہ، حمزہ، ابو لہب، غیداق، مقوم، صفا اور عباس۔ بعض نے کہا ہے گیارہ تھے ایک کا نام قثم تھا اور بعض اور لوگوں نے کہا ہے کہ تیرہ تھے ایک کا نام عبدالکعبہ اور ایک کا نام حجل تھا۔ لیکن دس کے قائلین کہتے ہیں کہ مقوم ہی کا دوسرا نام عبدالکعبہ اور غیداق کا دوسرا نام حجل تھا اور قثم نام کا کوئی شخص عبدالمطلب کی اولاد میں نہ تھا۔ عبدالمطلب کی بیٹیاں چھہ تھیں انکے نام یہ ہیں: امالحکیم ان کا نام بیضاٴ ہے۔ برہ، عاتکہ، صفیہ، ارو`ی اور امیمہ۔ (10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم
ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن تقیظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں۔ عبد المطلب کی اولاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت، پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے اور ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ جب عبدالمطلب کے لڑکوں کی تعداد پوری دس ہو گئی اور (10) وہ بچاؤ کرنے کے قابل ہو گئے، تو عبدالمطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا۔ سب نے بات مان لی۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے قسمت کے تیروں پر ان سب کے نام لکھے۔ اور ہُُبَل کے قیم کے حوالے کیا۔ قیم نے تیروں کو گردش دے کر قرعہ نکالا تو عبداللہ کا نام نکلا۔ عبدالمطلب نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا چھری لی اور ذبح کرنے کے لئے خانہ کعبہ کے پاس لے گئے، لیکن قریش اور خصوصاً عبداللہ کے ننہیال والے یعنی بنو مخزوم اور عبد اللہ کے بھائی ابو طالب آڑے آئے۔ عبدالمطلب نے کہا تب مین اپنی نذر کا کیا کروں؟انہوں نے مشورہ دیا کے وہ کسی خاتون عٌرافہ کے پاس جا کر حل دریافت کریں۔ عبدالمطلب ایک عرٌافہ کے پاس گئے۔ اس نے کہا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کریں اگر عبداللہ کے نام قرعہ نکلے تو مزید دس اونٹ بڑھا دیں۔ اس طرح اونٹ بڑھاتے جائیں اور قرعہ اندازی کرتے جائیں، یہاں تک کہ اللہ راضی ہو جائے۔ پھر اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے تو انہیں ذبح کر دیں۔ عبد المطلب نے واپس آ کر عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی مگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلا۔ اس کے بعد دس دس اونٹ بڑھاتے گئے اور قرعہ اندازی کرتے گئے مگر قرعہ عبداللہ کے نام ہی نکلتا رہا۔ جب سو اونٹ پورے ہو گئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ اب عبدالمطلب نے انہیں عبداللہ کے بدلے ذبح کیا اور وہیں چھوڑ دیا۔ کسی انسان یا درندے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس واقعے سے پہلے قریش اور عرب میں خون بہا(دیت) کی مقدار دس اونٹ تھی مگر اس واقعے کے بعد 100 سو اونٹ کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد مروی ہے کہ میں دو ذبیح کی اولاد ہوں، ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد۔
عبدالمطلب نے اپنے صاحبزادے عبداللہ کی شادی کے لئے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب اور رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔ انکے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعد عبداللہ کو عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے – 11
بعض اہل سیرۃ کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے۔ تدفین نابغہ جعدی کے مکان میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تھی۔ اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے۔ البتہ بعض اہل سیرۃ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ قبل ہو چکی تھی۔ (12)۔ جب ان کی وفات کی خبر مکہ پہنچی تو حضرت آمنہ نے نہایت درد انگیز مرثیہ کہا جو درج ذیل ہے۔
عفا جانب البطحاٴ من ابن ھاشم وجاوربحداخارجافی الغماغم
دعتہ المنایا دعوۃ فاجا بہا وما ترکت فی الناس مثل ابن ھاشم
عشیہ راحوایحملون سریرہ’ تعاورہ اصحابہ فی التزاحم
فان تک غالتہ المنایاورہبھا فقد کان معطاٴ کثیر التراحم (13)
بطحا کی آغوش ہاشم کے صاحبزادے سے خالی ہو گئی، وہ بانگ و خروش کے درمیان ایک لحد میں آسودہ خاک ہو گیا۔ اسے موت نے ایک پکار لگائی اور اسنے لبیک کہہ دیا۔ اب موت نے لوگوں میں ابن ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑا۔ (کتنی حسرت ناک تھی) وہ شام جب لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جا رہے تھے۔ اگر موت اور موت کے حوادث نے ان کا وجود ختم کر دیا ہے (تو انکے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے )۔ وہ بڑے دانا اور رحم دل تھے۔
عبداللہ کا کل ترکہ یہ تھا: پانچ اونٹ، بکریوں کا ایک ریوڑ، ایک حبشی لونڈی جن کا نام برکت تھا اور کنیت ام یمن، یہی ام یمن ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود کھلایا تھا۔ (14)
حواشی
(1) ابن ہشام 1/102، تلقیح الفہوم اہل الاثر ص:5-6 رحمۃ للعالمین 2/11، 14، 52
(2) علامہ منصور پوری نے بڑی دقیق تحقیق کے بعد یہ حصہ نسب کلبی اور ابن سعد کی روایت سے جمع کیا ہے : دیکھئے رحمۃ للعالمین 2/14 تا 17 تاریخی مآخذ میں اس حصے کی بابت بڑا اختلاف ہے۔
(3) ابن ہشام 1/2 تا 4۔ تلقیح الفہوم ص:6۔ خلاصہ السیرۃ۔ ص6۔ رحمۃ للعالمین 2/18 بعض کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے۔ اور بعض نام مآخذ سے ساقط بھی ہیں۔
(4) ابن ہشام 1/137۔ رحمۃ للعالمین۔ 1/26، 2/24۔ (5) ایضاً 1/107۔
(6) ابن ہشام 1/137، 138۔
(7) مختصر السیرۃ الرسول! شیخ الاسلام محمد بن ابن الوہاب نجدی ص: 41، 42۔
(8) ابن ہشام 1/142 تا 147۔
(9) ( ابن ہشام 1/43 تا 56)
(10) تلقیح الفہوم ص8، 9 رحمۃ اللعالمین56/2، 66)
(11) ابن ہشام 1/151 تا 155، رحمۃ للعالمین 2/89، 90۔ مختصر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم شیخ عبداللہ نجدی ص 12، 22-23)
(12) ابن ہشام 1/156۔ 156- فقہ السیرۃ از محمد غزالی ص 45، رحمتہ اللعالمین 2/91
(13) طبقات ابن سعد 1/62۔
(14) مختصر السیرۃ از شیخ عبداللہ صفحہ 12 تلقیح الفہوم صفحہ 14۔ صحیح المسلم 2/96
٭٭٭
ماخذ:
سیرت الہدیٰ فورم کی مختلف پوسٹس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید