فہرست مضامین
قضا نمازوں کے پڑھنے کا بیان
۱. کسی عبادت کو اس کے مقررہ وقت کے اندر شروع کر دینے کو ادا کہتے ہیں اور فرض و واجب عبادات کو اس کے مقررہ وقت گزر جانے کے بعد شروع کرنے کو قضا کہتے ہیں مثلاً ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں پڑھ لی تو ادا کہلائے گی اور ظہر کا وقت نکل جانے کے بعد پڑھی تو قضا کہلائے گی
۲. اگر نماز کے وقت کے اندر نماز کی تحریمہ باندھ لیا تو وہ نماز ادا ہو گی اگرچہ تحریمہ باندھنے کے بعد وقت نکل جائے سوائے فجر و جمعہ و عیدین کے کہ اگر ان میں سلام سے پہلے بھی وقت نکل گیا تو نماز جاتی رہی
۳. تمام فرض نمازوں کی قضا فرض اور واجب کی قضا واجب ہے اور بعض سنتوں کی قضا سنت ہے
۴. کسی فرض و واجب یا سنت نماز کو قصداً بلا عذر اس کے وقت پر ادا نہ کرنا گناہ ہے فرض و واجب کو وقت پر ادا نہ کرنے کا گناہ بہت بڑا ہے اس کے بعد سنت کا ہے ، لیکن اگر بلا قصد یا کسی عذر کی وجہ سے قضا ہو جائے تو گناہ نہیں ، عذرات کی تفصیل آگے آتی ہے
۵. اگر کسی کی فرض یا واجب نماز قضا ہو جائے تو جب یاد آ جائے یا جاگے یا وہ عذر دور ہو جائے تو فوراً پڑھ لے قضا نماز پڑھنے میں کسی عذر کے بغیر دیر لگانا گناہ ہے لیکن اگر وہ وقت مکروہ ہو تو مکروہ وقت نکل جانے کے بعد پڑھے
۶. اگر کسی وقت کی سنت قضا ہو جائیں تو ان کی قضا نہیں ہے سوائے سنت فجر کے کہ اگر فرضوں کے ساتھ قضا ہوئی ہوں تو طلوع آفتاب کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے سنت و فرض دونوں کو ادا کر لے اگر زوال کے بعد پڑھے تو صرف فرض پڑھے سنت نہ پڑھے اور اگر فجر کی صرف سنتیں قضا ہوئیں تو ان کو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھنا مکروہ ہے اور آفتاب نکلنے کے بعد پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ بہتر ہے لیکن وہ سنتیں نہ ہوں گی نفل ہو جائیں گی، ظہر اور جمعہ کی پہلی چار مؤکدہ سنتیں اگر فرض سے پہلے نہیں پڑھیں تو فرض نماز کے بعد کی مؤکدہ سنتوں سے پہلے یا بعد میں پڑھ لے بہتر ہے کہ ان سنتوں کے بعد پڑھے اور ان کو قضا کہنا مجازاً یا حقیقتہً نہیں
جن صورتوں میں نماز کی قضا واجب نہیں
۱. جو نمازیں جنون کی حالت میں فوت ہوئیں اور جنون نماز کے چھ وقت کامل تک برابر رہا ہو تو جنون دور ہونے کے بعد ان نمازوں کی قضا واجب نہیں لیکن اگر جنون پانچ نمازوں تک رہے اور چھٹی نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہوش آ جائے تو ان پانچ نمازوں کی قضا واجب ہو گی
۲. اگر کوئی شخص بیہوش تھا یا اس کو مرگی کا دورہ تھا ایسا مریض تھا کہ اشارہ سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تھا اور اس حالت میں اس کو پورے چھ وقت گزر گئے تو ان نمازوں کی قضا لازم نہیں
۳. اگر کوئی مسلمان شخص معاذاللّٰہ مرتد ہو گیا اس کے بعد پھر اسلام لے آیا تو جو نمازیں مرتد رہنے کی حالت میں چھوٹ گئیں ان کی قضا اس پر واجب نہیں لیکن جو نمازیں مرتد ہونے سے پہلے اسلام کی حالت میں چھوٹ گئیں تھیں ان کی قضا اس پر واجب ہے
۴. اگر کوئی کافر دارالحرب میں مسلمان ہوا لیکن اس کو نماز روزہ وغیرہ فرائض کا علم نہ ہوا اس لئے اس نے ادا نہیں کئے تو اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا لازم نہیں اور اگر کوئی کافر دارالسلام میں مسلمان ہوا یا مسلمان ہونے کے بعد دارالسلام میں آ گیا تو اب اس کی جو نمازیں فوت ہوں گی ان کی قضا اس پر فرض ہے کیونکہ دارالسلام میں معلوم نہ ہونا عذر نہیں ہے
نماز قضا کر دینے کے عذرات
۱. دشمن کا خوف مثلاً مسافر کو چور اور ڈاکوؤں کا صحیح اندیشہ ہو اور وہ کسی طرح نماز پڑھنےپر قادر نہ ہو، اگر سوری پر بیٹھ کر یا قبلے کی سمت کے سوا کسی اور طرف منھ دشمن کے خوف سے بچ سکتا ہو تو عذر نہیں بنے گا اور نماز قضا کر دینے سے گنہگار ہو گا
۲. بچہ جنانے والی دایا کو اگر نماز میں مشغول ہونے سے بچہ مر جانے کا یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہو جانے کا یا زچہ ( بچے کی ماں ) کی موت یا نقصان کا خوف غالب ہو تو اس کو نماز میں تاخیر کرنا یا قضا کر دینا جائز ہے اور اگر نماز میں ہو تو نماز کو توڑ دینا واجب ہے
۳. زچہ پر نصف بچہ پیدا ہونے تک نماز فرض ہے اس حالت میں بھی اس کو نماز پڑھنی چاہئے اگر اشارے سے پڑھ سکتی ہے تو اشارہ سے پڑھے لیکن اگر بچہ کے مر جانے یا اس کا کوئی عضو ضائع ہو جانے یا اپنی جان یا عضو ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو قضا کر دینا جائز ہے وہ نفاس ختم ہونے کے بعد اس کو قضا کرے
۴. سو جانا یا بھول جانا بھی عذر ہے لیکن جاگنے اور یاد آنے پر اگر وقت مکروہ نہ ہو تو وہ فوراً پڑھ لے اب تاخیر کرنا مکروہ ہے ، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سونے کی اجازت نہیں ہے اس لئے اس وقت سو جانے سے نماز قضا کرنے پر گنہگار ہو گا
قضا نمازوں کا حکم اور پڑھنے کا طریقہ
۱. قضا نمازوں کا حکم یہ ہے کہ جس صفت کی نماز قضا ہوئی ہے اس صفت کے ساتھ ادا کی جائے پس فرض کی قضا فرض ہے اور واجب کی قضا واجب ہے اور بعض سنتوں کی قضا سنت ہے ، فجر کی سنتیں اگر فرضوں کے ساتھ قضا ہو جائیں اور دوپہر شرعی سے پہلے قضا کرے تو ان سنتوں کو قضا کرنا سنت ہے ، حالت اقامت کی قضا حالت اقامت کی طرح ہے پس خواہ اس کو حالت اقامت میں قضا کرے یا حالت سفر میں ، چار رکعت والی نماز پوری یعنی چار رکعت پورا کرے اور حالت سفر کی قضا حالت سفر کی طرح ہے پس خواہ اس کو حالت سفر میں قضا کرے یا حالت اقامت میں وہ چار رکعت والی نماز کو قصر یعنی دو رکعت ہی قضا کرے
۲. قضا نماز کی ادائگی کے وقت اگر کوئی عذر ہو گا تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا پس جس وقت کی نماز قضا ہوئی اگر اس وقت کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا تھا اور جب اس کو قضا کرنے کا ارادہ کیا تو وہ کھڑا ہو کر پڑھنے پر قادر نہیں ہے تو بیٹھ کر پڑھ لے اور اگر بیٹھ کر پڑھنے پر قادر نہیں ہے اور اشارہ سے پڑھ سکتا ہے تو اشارہ ہی سے قضا کر لے اس کے بعد جب صحت و قیام پر قدرت حاصل ہو جائے اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر نماز قضا ہونے کے وقت قیام پر قادر نہیں تھا اور جب اس کو قضا کرنے کا ارادہ کیا تو قیام پر قادر ہو چکا ہے تو اب اس کے کھڑے ہو کر نماز قضا ادا کرنا واجب ہے
۳. اگر جہری قضا نمازوں کو جماعت سے پڑھے تو امام کو چاہئے کہ نماز میں جہر کرے اور اگر ان کو تنہا پڑھے تو جہر و آہستہ پڑھنے میں اختیار ہے مگر جہر افضل ہے اور آہستہ قرأت کی نمازوں کو امام و منفرد دونوں کے لئے آہستہ پڑھنا واجب ہے جیسا کہ وقت کے اندر حکم ہے
۴. زندگی میں جب چاہے قضا نماز پڑھ سکتا ہے لیکن تین اوقات مکروہہ یعنی طلوع آفتاب و نصف نہار شرعی سے زوال تک اور غروب آفتاب کے وقت میں نہ پڑھے قضا نمازوں کے ادا کرنے میں جلدی کرنا چاہئے بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ و گناہ ہے ، اگر بہت زیادہ قضا نمازیں جمع ہو گئی ہوں تو جس قدر فرصت ملے پڑھ لیا کرے ایک وقت میں دو یا تین یا چار یا جس قدر قضا نمازیں پڑھ سکے پڑھ لیا کرے ایک وقت میں کم از کم ایک ہی قضا نماز پڑھ لیا کریں ، نوافل پڑھنے کی بجائے قضا نماز میں مشغول ہونا اولیٰ و افضل ہے بلکہ اہم ہے لیکن وہ مشہور مؤکدہ وغیرہ مؤکدہ سنتیں جو فرضوں کے ساتھ ہیں اور نماز تراویح و نماز تہجد و اشراق و چاشت و اوابین و صلوة تسبیح و تحیتہ المسجد و تحیتہ الوضو جن کا ذکر احادیث میں ہیں اس سے مستثنٰی ہیں
۵.اگر قضا نمازوں کو ادا کی نیت سے پڑھ لیا تب بھی درست ہے قضا نمازوں کی نیت اس طرح کرنی چاہئے کہ میں فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھتا ہوں ، قضا کے وقت و دن کا تعین ضروری ہے صرف یہ نیت کر لینا کہ ظہر یا فجر کی قضا پڑھتا ہوں کافی نہیں ہے ، اور اگر مہینے و دن کا تعین یاد نہ ہو تو سہولت کے لئے اس طرح نیت کریں کہ مثلاً میرے ذمہ جس قدر فجر کی نمازیں باقی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز پڑھتا ہوں اسی طرح ہر نماز کے وقت کے ساتھ یہ الفاظ دل میں خیال کرے اور زبان سے بھی کہہ لے یا یوں نیت کرے کہ میرے ذمہ جس قدر فجر کی نمازیں ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز پڑھتا ہوں ہر دفعہ اسی طرح نیت کر لیا کرے
قضا نمازوں میں ترتیب کا حکم
۱. صاحبِ ترتیب کے لئے قضا نمازوں میں قضا و وقتی نماز میں ترتیب واجب ہے اور اسی طرح فرض اور وتر میں ترتیب واجب ہے پس اس کو چاہئے کہ پہلے قضا نمازوں کو ترتیب سے پڑھے یعنی جو سب سے پہلے قضا ہوئی ہے اس کو پہلے پڑھے پھر اس کے بعد والی پڑھے اسی ترتیب سے سب کو قضا کرے، وتروں کو بھی فجر کے فرضوں سے پہلے قضا کرے اگر کسی کی وتر کی نماز قضا ہو گئی اور اس کے سوا اور کوئی قضا نماز اس کو ذمہ نہیں ہے تو اس کو پہلے وتر کی قضا پڑھنی چاہئے اس کے بعد فجر کی نماز ادا کرے اگر وتر کی قضا یاد ہو اور وقت میں گنجائش ہوتے ہوئے پہلی فجر کی نماز پڑھ لی تو یہ درست نہیں ہوئی، اب پہلے وتر کی قضا پڑھے پھر فجر کی نماز دوبارہ پڑھے، اور وقتی نماز ان سب کے بعد میں پڑھے، اگر کسی نے فجر کی نماز پڑھی اور اس کو یاد تھا کہ وتر نہیں پڑھی تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی فجر کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن نفل و سنت کے لئے یہ حکم نہیں ہے
۲. صاحب ترتیب وہ ہے جس کے ذمہ کوئی قضا نماز نہ ہو یا پانچ نمازیں یا اس سے کم اس کے ذمہ ہوں خواہ وہ پانچ نمازیں نئی ہوں یا پرانی یا دونوں طرح کی ہوں خواہ مسلسل ہوں یا متفرق، اگر کسی کے ذمے چھ یا زیادہ قضا نمازیں ہو جائیں تو وہ شخص صاحب ترتیب نہیں رہتا اس لئے اس کو ترتیب سے پڑھنا واجب نہیں ہے اس کو اختیار ہے جس نماز کو چاہے پہلے پڑھے جس کو چاہے بعد میں پڑھے
ترتیب ساکت ہونے کی صورتیں
ترتیب تین صورتوں میں ساکت ہو جاتی ہے
اول:
تنگیِ وقت
اس کی چند صورتیں یہ ہیں
۱. تنگیِ وقت کی وجہ سے قضا اور وقتی فرض کے درمیان ترتیب ساکت ہو جاتی ہے لیکن وقت کی تنگی قضا نمازوں کے درمیان ترتیب کو ساکت نہیں کرتی پس اگر اتنا وقت ہو کہ صرف ایک نماز پڑھ سکتا ہے تو وقتی نماز پڑھ لے اس کے بعد قضا نمازیں پڑھے اگر اس نے قضا نماز پڑھی اور وقتی نماز کو قضا کر دیا تو وہ قضا نماز جائز ہو جائے گی، لیکن وقتی نماز کو قضا کر دینے کی وجہ سے گنہگار ہو گا
۲. اگر وقت اتنا تھوڑا ہو کہ وقتی اور قضا نماز دونوں کو سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اور سنن و مستحبات ترک کر کے دونوں نمازیں پڑھ سکتا ہے تب بھی اس پر ترتیب فرض ہے
۳. ترتیب ساکت ہونے کے لئے وقت کی تنگی کا اعتبار نماز کے شروع کرتے وقت ہے
۴. تنگیِ وقت کی وجہ سے ترتیب ساکت ہونے کے لئے اصل وقت کی تنگی کا اعتبار ہے مستحب وقت کا نہیں ، لیکن عصر کے وقت میں امام ابوحنیفہ و امام ابویوسف کے نزدیک اصل وقت کا اعتبار ہے اور امام محمد کے نزدیک مستحب وقت کا اعتبار ہے
۵. وقت تنگ ہونے میں نماز پڑھنے والے کے گمان کا اعتبار نہیں بلکہ حقیقت میں تنگ ہونے سے ترتیب ساکت ہو گی
۶. اگر قضا نمازیں ایک سے زیادہ ہوں اور وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ سب قضا نمازوں اور وقتی نماز کو ترتیب سے پڑھ سکے بلکہ صرف اتنی گنجائش ہو کہ وقتی نماز سے پہلے بعض قضا نمازیں پڑھ سکے تو اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس سے ترتیب ساکت ہے اور اس کو وقتی نماز پہلے پڑھ لینا جائز ہے اور بعض کے نزدیک جس قدر نمازوں کی ترتیب سے پڑھنے کی گنجائش ہے ان میں اور وقتی نماز میں ترتیب واجب ہے یعنی جب تک ان بعض نمازوں کو نہ پڑھ لے وقتی نماز جائز نہ ہو گی بعض نے اس کو صحیح کہا اور ترجیع دی ہے
دوم:
نسیان
اس کی چند صورتیں یہ ہیں
۱. قضا نماز کے بھولنے سے ترتیب ساکت ہو جاتی ہے جب تک یاد نہ آئے ترتیب لازم نہ ہو گی اور یاد آنے پر ترتیب لازم ہو جائے گی
۲. اگر وقتی نماز ادا کرنے کے بعد بھولی ہوئی قضا نماز یاد آئے تو وقتی نماز جائز ہو گی لیکن اگر سلام پھیرنے سے پہلے پہلے یاد آئی اور وقت میں گنجائش ہے اب اس پر ترتیب لازم ہو جائے گی اور وقتی نماز فاسد ہو جائے گی، پس پہلے قضا نمازیں ترتیب سے پڑھ لے پھر وقتی نماز ادا کرے، اگر وقت میں کل قضا نمازوں کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کچھ کی گنجائش ہے تو جتنی گنجائش ہے اتنی قضا نمازیں پہلے پڑھ لے پھر وقتی نماز پڑھے اور اگر کسی قضا کی گنجائش نہیں ہے تو وقتی نماز کو نہ توڑے بلکہ پورا کر لے اور قضا نمازیں بعد میں پڑھے یہ حکم منفرد کا ہے اگر امام کو مثلاً ظہر کی نماز میں یاد آئے کہ اس پر فجر کی قضا باقی ہے تو اس کو چاہئے کہ سلام پھیر دے اور پہلے فجر کی قضا پڑھے پھر ظہر ادا کرے اور اگر مقتدی کو یہ صورت پیش آئے تو امام کے ساتھ نماز پوری کر لے تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے یہ اس کے نفل ہو جائیں گے اس کے بعد پہلے فجر کی قضا پڑھے پھر ظہر کی وقتی نماز اکیلا پڑھے
۳. کوئی قضا نماز ذمہ نہ ہونے کا ظن معتبر بھی ترتیب ساکت کرنے میں نسیان کے حکم میں ہے اور اسی طرح بعض کے نزدیک ترتیب کی فرضیت سے ناواقف ہونا بھی بھولنے کی مانند ہے اور بعض کے نزدیک جہالت عذر نہیں ہے لیکن پہلا قول صحیح ہے
سوم:
بہت سے قضا نمازوں کا جمع ہونا
۱. جب بہت سے نمازیں قضا ہو جائیں تو ترتیب ساکت ہو جاتی ہے ، بہت سی نمازوں سے مراد چھ یا زیادہ نمازیں ہیں یعنی چھ یا زیادہ نمازیں جمع ہو جائیں خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی یا دونوں طرح کی ہوں ، متفرق ہوں یا متصل، حقیقتاً قضا ہوں یا حکماً، پس جب چھٹی نماز کا وقت نکل کر چھ نمازیں جمع ہو جائیں تو قضا نمازوں میں نیز قضاؤں اور وقتی نماز میں ترتیب واجب نہیں رہتی لیکن وتر کی نماز کا شمار ان چھ نمازوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کو نماز عشا کے ساتھ شمار کر کے دونوں کو ایک نماز شمار کیا جائے گا اور عشا اور وتر میں ترتیب بھی ساکت نہیں ہوتی
۲. حکماً قضا ہونے کی مثال یہ ہے کہ کسی صاحبِ ترتیب شخص کی کوئی نماز قضا ہو گی خواہ وہ نماز وتر ہی ہو اور اس قضا کے یاد ہوتے ہوئے وہ وقتی نمازیں پڑھتا رہا یہاں تک کہ اس نے پانچ یا زیادہ وقت کی نمازیں پڑھ لی اور اس عرصہ میں اس قضا نماز کو یاد ہونے اور وقت میں گنجائش ہونے کے باوجود نہیں پڑھا تو وہ ایک نماز حقیقتاً اور حکماً قضا ہے اور یہ پانچ نمازیں صرف حکماً قضا ہیں کیونکہ جب تک اس نے ترتیب کے مطابق قضا نماز پہلے ادا نہیں کی تو وہ وقتی نمازیں فاسد ہوتی رہیں لیکن ان کا فساد اس ایک حقیقتاً قضا نماز کو ان حکمی قضا نمازوں کے کثیر یعنی پانچ ہونے سے پہلے پہلے ادا کرنے پر ترتیب واجب ہونے کی وجہ سے موقوف ہے پس جب یہ سب مل کر چھ نمازیں قضا ہو گئیں تو ترتیب ساکت ہو گئی اب ان کا فساد جو ترتیب تک موقوف تھا ترتیب ساکت ہونے سے جاتا رہا اور وہ پانچوں حکمی قضا نمازیں صحیح ہو گئیں اب اس پر صرف وہی ایک نماز جو حقیقتاً قضا ہوئی تھی باقی ہے لیکن اگر اس نے پانچ نمازیں حکماً قضا ہونے سے پہلے یعنی دو یا تین یا چار وقت کے بعد وہ حقیقی قضا پڑھ لی تو یہ سب پڑھی ہوئی وقتی نمازیں فرض کے بجائے نہیں رہی بلکہ نفل ہو گئیں لہذا ان سب نمازوں کی قضا واجب ہے
۳. جب چھ یا زیادہ قضا نمازیں جمع ہونے کی وجہ سے ترتیب ساکت ہو گئیں تو اصح یہ ہے کہ اب ترتیب عود نہیں کرتی پس اگر کسی شخص نے ان قضا نمازوں میں سے کچھ نمازیں قضا کر لیں یہاں تک کہ اب چھ سے کم نمازیں اس کے ذمے باقی رہ گئیں تو اصح یہ ہے کہ ترتیب عود نہیں کرے گی اس لئے اب ان کو بھی وہ بے ترتیب ادا کر سکتا ہے ، یعنی جس کو چاہے پہلے پڑھ سکتا ہے اور ان کے یاد ہوتے ہوئے پہلے وقتی نماز پڑھ سکتا ہے یہی معتمد ہے اور اسی پر فتویٰ ہے
۴. اگر کسی کے ذمے چھ یا زیادہ نمازیں قضا تھیں اور اس نے سب کو ادا کر لیا اب نئی یا پرانی کوئی قضا نماز اس کے ذمہ نہیں رہی تو اب وہ بالاتفاق نئے سرے سے صاحبِ ترتیب ہو جائے گا پس ایک شخص زندگی میں کئی مرتبہ صاحبِ ترتیب ہو سکتا ہے اور کئی دفعہ اس سے ترتیب ساکت ہو سکتی ہے
قضا نماز کے متفرق مسائل
۱. کسی شخص کی ایک نماز قضا ہو گئی اور وہ یہ بھول گیا کہ وہ کون سے نماز تھی اور گمان غالب بھی کسی نماز پر نہیں ہوتا تو ایک دن رات کی نمازوں یعنی پانچوں نمازوں کا اعادہ کرے اسی طرح اگر دو دن کی دو نمازیں قضا ہوئیں اور یہ یاد نہیں کہ کون سے تھی تو دو دن کی سب نمازوں کا اعادہ کرے علی الہذا القیاس زیادہ دنوں کی ایک ایک نماز قضا ہونے اور بھول جانے پر بھی اتنے دنوں کی پانچوں نمازوں کا اعادہ کرے
۲. اگر ایک دن ظہر کی نماز اور ایک دن عصر کی نماز قضا ہوئی اور یہ یاد نہیں کہ کون سے نماز اول قضا ہوئی تھی اور کسی طرح گمان غالب نہیں ہوتا، تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں نمازیں پڑھ کر جس کو اول پڑھا ہے اس کو دوبارہ بھی پڑھے اس میں احتیاط ہے ، پس مثال مذکور میں اگر اول ظہر پڑھی پھر عصر پڑھی پھر ظہر کا اعادہ کیا تو یہ افضل ہے اور اگر اول عصر پڑھ کر پھر ظہر پڑھی پھر عصر کی نماز کا اعادہ کیا تو یہ بھی جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک اس سے ترتیب ساکت ہے پس پہلی نماز کے اعادہ لازم نہیں ہے
۳. کسی نابالغ لڑکے نے عشا کی نماز پڑھی پھر سو گیا اور اس کو احتلام ہو گیا تو اب اس پر نماز فرض ہو گئی پس اگر وہ فجر کی طلوع سے پہلے جاگ گیا تو عشا کی نماز دوبارہ پڑھے اس کی پہلے پڑھی ہوئی نماز عشا نفل ہو جائے گی اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد جاگا تو بعض کے نزدیک اس کو عشا کی نماز قضا کرنا لازم ہے یہی مختار ہے حیض کے ساتھ بالغ ہونے والی لڑکی کا حکم اس کے خلاف ہے پس اگر لڑکی فجر طلوع ہونے سے پہلے حیض کے ساتھ بالغ ہوئی تو اس پر نماز عشا کی قضا واجب نہیں لیکن اگر لڑکی بھی احتلام کے ساتھ بالغ ہوئی تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو لڑکے کا ہے اور اگر لڑکا یا لڑکی عمر کے لحاظ سے پورے پندرہ سال کا ہو کر بالغ ہو اور اس وقت تک بلوغ کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو جس وقت میں وہ پندرہ سال کا ہوا ہے اگر اس وقت کی نماز پہلے پڑھ چکا ہے تو وہ نفل ہو جائے گی اور اس پر اس نماز کا اعادہ فرض ہو گا
۴. ایام حیض کا فاصلہ ترتیب کا مانع نہیں ہے خواہ کتنا ہی ہو پس اگر کسی ترتیب والی عورت کی ایک نماز قضا ہو گئی پھر اس کو حیض ہوا جب وہ حیض سے پاک ہو جائے تو اس کو پہلے قضا نماز پڑھنی چاہئے پھر وقتی نماز پڑھے اگر قضا نماز یاد ہونے اور وقت کی گنجائش کے باوجود اس کو قضا نہ کیا اور وقتی نماز پڑھ لی تو یہ درست نہیں ہے وہ پہلے قضا پڑھے پھر وقتی نماز کا اعادہ کرے
۵. جس شخص کو یاد نہ ہو کہ اس کے ذمے کتنی قضا نمازیں ہیں وہ گمان غالب پر عمل کرے اور احتیاطاً کچھ زیادہ ہی پڑھ لے
۶. جن نمازوں کے قضا ہونے یا مکروہ تحریمی ادا ہونے کا شک ہے یا کراہتِ تنزیہی سے ادا ہوئی ہے ان کو قضا کرنا مستحب ہے اور وہ شخص ایسی نماز کی ہر رکعت میں الحمد اور سورت پڑھے اور مغرب کی نماز میں چار رکعتیں تین قعدوں سے پڑھے یعنی تسری رکعت کے قعدے میں تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت اور پڑھ کر چار پوری کر لے اور قعدہ کر کے سجدہ سہو کرے پھر تشہد درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، وتر کی بھی چار رکعتیں تین قعدوں سے مغرب کی طرح ادا کرے اور دعائے قنوت تیسری رکعت میں بدستور پڑھے
۷. بعض لوگ قضا عمری شبِ قدر یا آخیر جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس ایک نماز سے تمام عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی یہ باطلِ محض ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں
۸. کسی بے نمازی نے اس فعل سے توبہ کی تو جتنی نمازیں عمر بھر میں قضا ہوئی ہیں سب کی قضا پڑھنی واجب ہے توبہ سے نمازیں معاف نہیں ہوتی البتہ اب تک نہ پڑھنے کا گناہ معاف ہو جائے گا اگر اب ان کی قضا نہیں پڑھے گا تو پھر گناہگار ہو گا
فدیہ کے مسائل
۱. اگر کسی شخص کی کچھ نمازیں اور روزے قضا ہو گئے اور ان کو قضا کرنے کی مرتے وقت تک نوبت نہ آئی تو اس کو مرتے وقت ان قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینے کی وصیت کرنا واجب ہے اس کی وصیت نہ کرنے پر گنہگار ہو گا
۲. قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے فدیہ کی وصیت میت کے ترکے کے ایک تہائی مال میں جاری ہو گی، خواہ وصیت زیادہ کی ہو
۳. ہر نماز کا فدیہ صدقۂ فطر کی مقدار یعنی نصف صاع ( پونے دو سیر) گیہوں یا ایک صاع جو یا دونوں میں سے ایک کی قیمت دی جائے ، ہر وتر نماز اور ہر روزے کے لئے بھی اس قدر فدیہ دیا جائے
۴. اگر میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا یا اس نے کچھ وصیت نہیں کی تو اس کے وارث پر کوئی چیز واجب نہیں ہے لیکن اگر وارث اپنی طرف سے اپنے مال میں سے تقسیم کے بعد یا اپنے حصہ میں سے احسان کے طور پر ادا کرنا چاہے تو جائز ہے اور اگر وصیت کی لیکن اس کا تہائی حصہ قضا نمازوں اور روزوں کے فدیہ کے لئے کافی نہیں ہے تو جس قدر ادا ہو سکتا ہے اس قدر ایک تہائی میں سے دیا جائے اور باقی کے لئے وارث بطور احسان ادا کر دے
۵. بہت سے یا کل نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک ہی فقیر کو دے دینا جائز ہے لیکن قسم و ظہار وغیرہ کے روزوں کا فدیہ ایک فقیر کو ایک دن میں ایک سے زیادہ کا دینا جائز نہیں ہے
۶. مرض الموت میں کسی شخص کو اپنی نمازوں کا فدیہ دینا جائز نہیں کیونکہ جب تک اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے نماز پڑھنی چاہئے اور جب اس سے بھی عاجز ہو جائے تو اس زمانے کی نماز معاف ہے پس اگر اس کے ذمے قضائیں رہ گئیں تو اس کے لئے وصیت ہی کرنی چاہئے لیکن بہت بڑھاپا آ جانے اور روزہ رکھنے سے عاجز ہو جانے کے زمانے کے روزوں کا فدیہ اپنی زندگی میں ادا کرنا جائز ہے اس کے علاوہ اور کسی کو روزوں کا فدیہ اپنی زندگی میں ادا کرنا جائز نہیں
۷. بعض ناواقف لوگ نمازوں اور روزوں کے فدیے میں سب کے بدلہ میں ایک قرآن مجید دے دیتے ہیں یا کسی فقیر کو وہ نقد یا غلہ زبانی دے کر اپنے ذمے قرض کر لیتے ہیں اور اس قرض کے بدلے میں ایک قرآن مجید فقیر کو دے دیتے ہیں یہ محض بےاصل بات ہے اس طرح کل فدیہ ادا نہیں ہو گا بلکہ بازار کے حصاب سے جس قیمت ( ہدیہ) کا قرآن مجید اس نے دیا ہے اسی قدر ادا ہو گا اور بھی بہت سے غلط طریقے رائج ہیں ، ان سب سے بچنا چاہئے
۸. نماز و روزہ بدنی عبادت ہے اس میں نیابت جاری نہیں ہوتی یعنی کسی دوسرے کے ادا کرنے سے اس کی ذمہ سے وہ فرض ادا نہیں ہو سکتا خواہ وصیت بھی کی ہو بخلاف حج کے کہ یہ بدنی و مالی دونوں طرح کی عبادت ہے اس لئے اس میں ایسے عجز کے وقت نیابت درست ہے جو موت تک دائمی ہو، زکوة محض مالی عبادت ہے اس میں حالت عجز میں نیابت صحیح ہے ورنہ نہیں
سجدۂ سہو کا بیان
تعریف
سہو بھول جانے کو کہتے ہیں ، جب کبھی نماز میں بھولے سے ایسی کمی یا زیادتی ہو جائے جس سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی لیکن ایسا نقصان آ جاتا ہے جس کی تلافی نماز میں ہی ہو سکتی ہے اس نقصان کی تلافی کے لئے شرع شریف نے یہ طریقہ مقرر کر دیا ہے کہ آخری قعدے کے تشہد کے بعد دائیں طرف سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے جاتے ہیں ان کو سجدۂ سہو کہتے ہیں مفصل طریقہ آگے آتا ہے
حکم
سجدۂ سہو کی ضرورت کے وقت سجدۂ سہو کے لئے دو سجدے کرنا واجب ہے وقت کی گنجائش ہونے اور مکروہ وقت نہ ہونے کی صورت میں اس کے ترک پر گناہگار ہو گا اور اس نماز کا اعادہ واجب ہو جائے گا، نماز کا اعادہ کرنے سے وہ گناہ بھی دور ہو جائے گا سجدۂ سہو کا یہ حکم فرض و واجب و سنت و نفل سب نمازوں کے لئے یکساں ہے ، اگر نماز میں ایک سے زیادہ مرتبہ سہو ہوا ہو یعنی کئی باتیں ایسی ہو گئیں جن سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے تب بھی ایک ہی دفعہ سہو کے دو سجدے واجب ہوں گے
سجدۂ سہو کرنے کا طریقہ مع ضروری احکام
۱. سجدۂ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہِ آخرہ میں تشہد ( پوری التحیات) پڑھنے کے بعد صرف ایک طرف سلام پھیر کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے میں چلا جائے اور نماز کے سجدے کی طرح تین بار سجدہ کی تسبیح پڑھے پھر تکبیر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور اطمینان سے سیدھا بیٹھنے کے بعد پھر تکبیر کہتا ہوا دوسرے سجدے میں جائے اور اسی طرح سجدے کرے پھر تکبیر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور بیٹھ کر پھر سے تشہد (پوری التحیات) پڑھے اور درود شریف و دعا پڑھ کر نماز ختم کرنے کے لئے دونوں طرف کا سلام پھیر دے
۲. اگر کوئی بھول کر ایک طرف بھی سلام نہ پھیرے اور سجدۂ سہو کر لے تب بھی ادا ہو جائے گا اگر سامنے ہی سلام کہہ کر سجدۂ سہو کر لے تب بھی جائز ہے ، لیکن دانستہ ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
۳. اگر دونوں طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کیا تو ایک روایت کے مطابق یہ بھی جائز ہے لیکن قوی بات یہ ہے کہ ایک ہی طرف یعنی داہنی طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے اگر دونوں طرف سلام پھیر دیا اب سجدۂ سہو نہ کرے بلکہ نماز کا اعادہ کرے
۴. درود و دعا سجدۂ سہو کے بعد کے قعدہ میں پڑھے یہی صحیح و مختار ہے لیکن بعض علما نے سجدۂ سہو سے پہلے بھی التحیات کے بعد درود شریف و دعا پڑھنا احتیاطاً پسند کیا ہے اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ سجدۂ سہو سے پہلے اور بعد دونوں قعدوں میں یہ تینوں چیزیں پڑھ لے
۵. سہو کے دونوں سجدوں کے بعد قعدہ کرنا نماز کا رکن نہیں ہے بلکہ نماز کا رکن وہی قعدہ ہے جو سجدۂ سہو سے پہلے کیا گیا ہے اور وہ قعدہ سجدہ سہو سے باطل نہیں ہوتا کیونکہ وہ قوی ہے لیکن سجدۂ سہو کے بعد کا قعدہ کرنا اور سلام پھیرنا واجب ہے اگر اس کو ترک کر دے گا تو نماز کا اعادہ واجب ہو گا
جن چیزوں سے سجدہ واجب ہوتا ہے
۱. جب نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے
۲. جب بھولے سے کسی واجب میں تاخیر ہو جائے
۳. جب بھولے سے کسی فرض میں تاخیر ہو جائے
۴. جب بھول کر کسی فرض کو مقدم کر دے
۵. جب بھول کر کسی فرض کو مکرر ( دوبارہ) کر دے مثلاً رکوع کر دے
۶. جب بھول کر کسی واجب کی کیفیت بدل دے مثلاً آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر سے یا جہر کی جگہ آہستہ پڑھے(دراصل ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہونے کا سبب ترکِ واجب ہی ہے )
جن صورتوں میں سجدۂ سہو سے تدارک ممکن نہیں ہے بلکہ اعادہ ضروری ہے
جن امور کو بھول کر کرنے سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہو اگر قصداً کئے جائیں تو سجدۂ سہو سے اس کا تدارک نہیں ہو سکتا بلکہ لوٹانا واجب ہے اور اگر نماز کے فرائض میں سے کوئی فرض عمداً چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے اس کے لئے سجدۂ سہو جائز نہیں بلکہ اس کا لوٹانا فرض ہے اگر سجدۂ سہو واجب ہونے کی صورت میں سجدۂ سہو نہ کیا تب بھی اس نماز کا اعادہ واجب ہے
جن صورتوں میں نہ سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے اور نہ اعادہ ضروری ہوتا ہے
جن صورتوں میں نہ سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے اور نہ اعادہ ضروری ہوتا ہے
۱. سنت و مستحب کے ترک پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی نماز کا اعادہ لازم آتا ہے خواہ ترکِ سنت و مستحب سہواً ہو یا قصداً البتہ اعادہ مستحب ہے
۲. اگر کوئی ایسا واجب ترک ہوا جو نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا وجوب خارجی امر سے ہے تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا، مثلاً خلافِ ترتیب قرآن مجید کا پڑھنا یہ واجباتِ تلاوت میں سے ہے واجباتِ نماز میں سے نہیں اس لئے اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا لیکن سجدۂ تلاوت کی تاخیر پر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے کیونکہ یہ قرأت کے تابع ہو کر واجبات نماز میں بھی شمار ہو گا
جن صورتوں میں سجدۂ سہو ساقط ہو جاتا ہے
۱. وقت تنگ ہونا، پس اگر صبح کی نماز میں پہلا سلام پھیرا اور ابھی سجدہ سہو نہیں کیا کہ سورج نکل آیا، یا جمعہ و عیدین کی نماز میں ان کا وقت جاتا رہا تو سجدۂ سہو ساقط ہو جائے گا اور نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہو گا
۲. مکروہ و ممنوع وقت ہو جانا، پس اگر کسی شخص کو عصر کی نماز میں سجدہ واجب ہوا اور پہلا سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرنے سے پہلے سورج متغیر ہو گیا یا فجر کی نماز میں اس وقت سورج نکل آیا یا نصف النہار کا وقت ہو گیا تو سجدۂ سہو ساقط ہو گیا اور پھر اس نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہے
۳. اگر سلام کے بعد کوئی چیز نماز کو توڑنے والی پائی گئی مثلاً حدث یا کلام کرنا وغیرہ تو اس سے سجدۂ سہو ساقط ہو جائے گا پھر اگر وہ امر نمازی کے اپنے فعل سے واقع ہوا تو اعادہ واجب ہے ورنہ نہیں
۴. اگر کسی پر فرض نماز میں سجدۂ سہو واجب ہوا اور سلام سے قبل اس نے عمداً اس پر نفل نماز کی بنا کر لی تو نفل کے آخر میں سجدہ نہ کرے کیونکہ اب اس سے سجدۂ سہو ساقط ہو گیا لیکن ان فرضوں کا لوٹانا واجب ہو گا اور اگر فرضوں پر نفلوں کی بنا بھول کر ہو گئی تو سجدۂ سہو ساقط نہیں ہو گا، نفلوں کے آخر میں سجدۂ سہو کرے اس کے فرض اور دوگانہ نفل صحیح ہو جائیں گے
سجدۂ سہو واجب ہونے کے مسائل
قبل ازیں اصول بیان ہوئے اور اب ان کی جزئیات بیان ہوتی ہیں
اول: الحمد اور سورت کی قرأت کی متعلق جزئیات
۱. اگر فرض کی پہلی یا دوسری یا پہلی دونوں رکعتوں میں یا واجب یعنی وتر یا سنتوں و نفلوں کی کسی رکعت میں سورة الحمد چھوڑ دی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اور صحیح یہ ہے کہ اگر سورت الحمد کی ایک آیت بھی چھوڑ دی تو سجدۂ سہو لازم ہو گا اگر سورت پڑھنے کے بعد رکوع میں جانےسے پہلے یا رکوع میں یا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آیا کہ الحمد نہیں پڑھی تو واپس لوٹے اور پہلے الحمد پڑھے اور پھر سورت اور رکوع کا اعادہ کرے تاکہ یہ امور ترتیب وار ہو جائیں اور آخیر میں سجدۂ سہو کرے، اگر رکوع کا اعادہ نہیں کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر فرضوں کی آخیر کی دو رکعتوں یا ایک رکعت میں الحمد چھوڑی تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا
۲. اگر فرض کی پہلی دو رکعتوں میں سے کسی رکعت میں یا وتر و سنتوں و نفلوں کی کسی بھی رکعت میں سورت ملانے سے پہلے الحمد دوبارہ پڑھی یا دوسری دفعہ آدھی سے زیادہ پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا لیکن اگر سورت ملانے کے بعد الحمد دوبارہ پڑھی یا فرضوں کی آخیر کی رکعتوں میں الحمد دوبارہ پڑھی تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا
۳. اگر فرضوں کی پہلی دو رکعتوں یا ان دونوں میں سے ایک رکعت میں یا وتروں و سنت و نفل کی کسی رکعت میں الحمد پڑھی اور بھول کر سورت چھوڑ دی یا تین آیتوں کی مقدار سے کم قرأت کی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اگر بغیر سورت پڑھے رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا تو رکوع سے واپس لوٹے اور سورت پڑھے پھر دوبارہ رکوع کرے اور اس پر سجدۂ سہو بھی واجب ہو گا اگر صرف الحمد یا صرف سورت چھوٹ جائے اور رکوع میں یاد آنے کی صورت میں اس کو پڑھنے کے لئے رکوع سے واپس نہ لوٹے بلکہ اسی طرح نماز پوری کر لے اور آخیر میں سجدۂ سہو کر لے تب بھی نماز صحیح ہو جائے گی
۴. اگر فرضوں کی آخیر کی دونوں یا ایک رکعت میں الحمد کے ساتھ سورت ملائی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اگرچہ قصداً ملائی ہو لیکن امام کو اس سے بچنا چاہئے
۵. اگر الحمد سے پہلے سورت پڑھی، اگر کم از کم ایک آیت پڑھی ہو تو سجدہ سہو واجب ہو گا اس سے کم پڑھی ہو تو سجدۂ سہو واجب نہیں
۶. اگر بھول کر رکوع یا سجدہ یا پہلے قعدے میں قرأت کی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اور اگر آخیر قعدہ میں تشہد سے پہلے قرأت کی تب بھی سجدۂ سہو واجب ہو گا اور اگر تشہد کے بعد قرأت کی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اور نماز درست ہو گی
۷. اگر سجدے کی آیت پڑھی اور سجدۂ تلاوت متصل کرنا بھول گیا پھر آگے زیادہ پڑھنے کے بعد یاد آیا اور سجدۂ تلاوت کیا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا
دوم: فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کے لئے معین کرنا واجب ہے پس اگر فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں صورت ملانا بھول گیا تو پچھلی دونوں رکعتوں میں سورت ملائے اور سجدۂ سہو کرے اور اگر پہلی رکعتوں میں سے ایک رکعت میں بھولے سے صورت نہ ملائی تو پچھلی ایک رکعت میں سورت ملا لے اور سجدۂ سہو کرے اور اگر پچھلی رکعتوں میں سورت ملانا یاد نہ رہا اور بالکل آخیر رکعت میں التحیات پڑھتے وقت یاد آیا تب بھی سجدۂ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی
سوم:نماز کی ہر رکعت میں جو فعل مکرر ہے اس میں ترتیب واجب ہے اس لئے اس کے خلافِ ترتیب واقع ہونے سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے ، مثلاً اگر کسی سے کسی رکعت میں ایک سجدہ چھوٹ گیا اور آخیر نماز میں یاد آیا تو وہ سجدۂ نماز ادا کرے اور پھر قعدہ کر کے سجدۂ سہو کرے پھر قعدہ کر کے سلام پھیرے اس سے پہلے جتنے ارکان کر چکا ہو ان کا اعادہ واجب نہیں ہے
چہارم:تعدیل ارکان، اگر بھولے سے تعدیل ارکان نہ کرے یعنی رکوع و قومہ و دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار نہ ٹھہرے تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اور اگر دانستہ ایسا کرے تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہے
پنجم:اگر فرض نماز کا پہلا قعدہ بھولے سے کھڑا ہونے لگے تو جب تک بیٹھنے کے قریب ہو بیٹھ جائے اور سجدۂ سہو نہ کرے اور اگر کھڑا ہونے کے قریب ہو جائے تو قعدے کو چھوڑ دے اور کھڑا ہو جائے پھر آخیر میں سجدہ سہو کر لے نماز ہو جائے گی
ششم:تشہد ( التحیات) پڑھنا
۱. پہلے یا دوسرے قعدہ میں تشہد بالکل نہ پڑھا یا کچھ پڑھا اور کچھ نہ پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا واجب یا سنت یا نفل ہو
۲. اگر تشہد کی بجائے الحمد یا کوئی سورت پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا جیسا کہ پہلے بیان ہوا
۳. اگر فرض نماز کی پہلی رکعت کی قیام میں الحمد سے پہلے تشہد یا دعائے قنوت پڑھی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اور اگر فرض نماز کی دوسری رکعت میں الحمد سے پہلے تشہد پڑھا تو اس میں اختلاف ہے ، صحیح یہ ہے کہ تب بھی سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اور اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد سے پہلے تشہد پڑھا یا تسبیح وغیرہ کچھ ذکر پڑھا، الحمد کے ساتھ قرأت کی تب بھی سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا فرضوں کے علاوہ باقی نمازوں کی سب رکعتوں کے لئے وہی حکم ہے جو فرض نماز کے پہلے دو گانے کا بیان ہوا، اور اگر فرض نماز کی پہلی ایک یا دو رکعتوں میں اور وتر یا سنت و نفل کی کسی بھی رکعت میں الحمد کے بعد تشہد پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا
۴. اگر فرض یا غیر فرض کسی نماز کے پہلے قعدے میں دو بار تشہد پڑھا، یا فرض و واجب یا سنتِ مؤکدہ کے پہلے قعدے میں التحیات کو بعد درود شریف بقدر اللھم صلی علی محمد ط یا اس سے زیادہ پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اس مقدار سے کم پڑھا تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا، نفل و سنتِ غیر مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں اس قدر یا زیادہ درود شریف پڑھ جانے سے بھی سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا
ہفتم: اگر رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدے کی جگہ رکوع کیا یا کسی رکن کو دو بار کر دیا یا کسی رکن کو اس کے موقع سے آگے یا پیچھے کر دیا تو ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہو گا
ہشتم: کھڑا ہونے کی جگہ بیٹھنا یا بیٹھنے کی جگہ کھڑا ہونا
۱. اگر امام یا منفرد فرض یا وتر نماز کا قعدہ بھول کر کھڑا ہونے لگا تو جب تک بیٹھنے کے قریب ہے بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا یا کھڑا ہونے کے قریب ہو گیا تو واپس نہ لوٹے قعدہ ترک کر دے آخیر میں سجدۂ سہو کر لے نماز ہو جائے گی اور اگر پھر بھی واپس قعدہ کی طرف لوٹ گیا تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہو جائے گی، لیکن ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا اور اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا
۲. فرضوں اور وتروں کے آخری قعدہ اور سنتوں و نفلوں کے ہر قعدے کو بھولے سے ترک کر کے کھڑا ہونے کے بعد یاد آنے پر لوٹ آنا لازمی ہے اور اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا
۳. اگر کسی مقتدی کو یہ صورتیں پیش آئیں تو وہ امام کی متابعت کرے
۴. اگر کوئی شخص چار رکعت والی فرض نماز میں چوتھی رکعت میں بیٹھنا بھول گیا اگر بیٹھنے کے قریب ہے تو بیٹھ جائے اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں اگر سیدھا کھڑا ہو گیا یا کھڑا ہونے کے قریب ہو گیا تو یاد آنے پر قعدے کی طرف لوٹ جائے اور سجدۂ سہو کر لے حتیٰ کہ اگر اس رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے کسی وقت بھی یاد آنے پر لوٹ جائے اور سجدۂ سہو کر لے تو اس کی نماز درست ہو جائے گی اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر چکا تو اب نہ لوٹے بلکہ اگر چاہے تو ایک رکعت اور ملا کر دوگانہ پورا کر کے سلام پھیر دے اور سجدۂ سہو نہ کرے یہ سب نماز نفل ہو جائے گی لہذا فرض نماز کا اعادہ کرے اور اگر چاہے تو چھٹی رکعت نہ ملائے بلکہ پانچویں رکعت پر ہی سلام پھیر دے اس صورت میں یہ چار رکعت نفل ہو جائے گی اور اس پر فرض کا اعادہ لازم ہے ، پہلی صورت یعنی چھ رکعت پوری کر لینا مندوب و بہتر ہے اور قعدہ آخیرہ کو ترک کر کے کھڑا ہونا خواہ عمداً یا سہواً دونوں کا حکم ایک ہی ہے اور اگر زائد رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے لوٹ جائے تو سجدۂ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی اور زائد رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد فرض نماز نفل کی طرف منتقل ہو جائے گی اور فرض کا اعادہ لازم ہو گا
۵. اگر فرضوں کی چوتھی رکعت پر بقدر تشہد بیٹھا اور التحیات پڑھ کر کھڑا ہو گیا تو پانچوں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے جب یاد آ جائے بیٹھ جائے اور التحیات نہ پڑھے بلکہ بیٹھ کر اسی وقت سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے اور پھر قعدہ کر کے التحیات و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے اور اگر پانچوں رکعت کا سجدہ کر چکا تب یاد آیا تو ایک رکعت اور ملا کر چھ رکعت پوری کر لے اور آخر میں سجدۂ سہو کر لے اس کی چار رکعتیں فرض اور دو رکعت نفل ہو جائے گی، اگر مغرب کی نماز میں ایسا ہو تو بھی یہی حکم ہے ، اگر اس صورت میں چار رکعتی فرض میں پانچویں رکعت اور مغرب میں چوتھی پر سلام پھیر دے اور دوسری رکعت نہ ملائی تب بھی اس کی نماز درست ہو جائے گی اور وہ ایک رکعت بیکار ہو جائے گی لیکن ایسا کرنا مسنون طریقہ کے خلاف اور برا فعل ہے
۶. چار رکعت سنتِ مؤکدہ کے بیچ کا قاعدہ ترک کرنے کا حکم بھی چار رکعتی فرضوں کی مانند ہے
۷. اگر چار رکعت نماز نفل یا سنت غیر مؤکدہ پڑھی اور بیچ کے قعدے میں بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تب تک یاد آنے پر بیٹھ جانا چاہئے آخیر میں سجدۂ سہو کرے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو وہ چار رکعت پوری کر کے سجدۂ سہو کر لے تب بھی اس کی نماز ہو جائے گی
نہم: قنوتِ وتر
اگر بھول کر دعائے قنوت چھوٹ گیا اور سورت پڑھ کر رکوع میں چلا گیا تو سجدۂ سہو لازم ہو گا اور اگر قنوت کی تکبیر چھوٹ گئی تب بھی سجدۂ سہو واجب ہے ، بعض کے نزدیک یہ تکبیر واجب نہیں ہے اس لئے اس کے ترک پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے علامہ شامی نے واجبات نماز کے بیان میں اسی کو ترجیع دی ہے ، اگر بھولے سے وتر کی پہلی یا دوسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھ دی تو تیسری رکعت میں پھر پڑھے اور سجدۂ سہو کرے اگر نمازِ وتر میں دعائے قنوت کی جگہ سبحانک الھم الخ پڑھ گیا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے اگر اس وقت یاد آ جائے تو دعائے قنوت بھی پڑھ لینا بہتر ہے
دھم: عیدین کی تکبیریں
اگر عیدین کی زائد چھ تکبیریں بھولے سے چھوڑ دیں یا کم یا زیادہ کی یا ان کو اپنی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ ادا کیا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اگر امام عیدین کی تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو قیام کی طرف لوٹے اور تکبیریں کہہ کر رکوع کرے اور سجدۂ سہو کرے، لیکن جمعہ و عیدین میں جبکہ جماعتِ کثیرہ ہو تو امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ سجدۂ سہو نہ کرے تاکہ لوگ فتنہ ( گڑبڑ ) میں نہ پڑیں
یازدہم: جہر اور آہستہ پڑھنے میں سہو ہونا
۱. اگر امام نے آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر کیا یا جہر کی جگہ آہستہ پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اس کی مقدار امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک چھوٹی آیت ہے اور صاحبین کے نزدیک تین چھوٹی آیتیں ہیں یہی اصح ہے اور الحمد اور دیگر قرأت کا اس بارے میں یکساں حکم ہے
۲. اگر منفرد نمازی نے جہر کی جگہ آہستہ پڑھا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں اور آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر کرنے پر سجدۂ سہو واجب ہونے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس پر سجدۂ سہو واجب ہے کیونکہ ان کے نزدیک سری نماز میں منفرد پر بھی آہستہ پڑھنا واجب ہے اور بعض کے نزدیک یہ واجب نہیں ہے اس لئے اس پر سجدۂ سہو بھی واجب نہیں ہے یہ ظاہر الروایہ ہے اور اکثر فقہا کا اسی پر فتویٰ ہے
دوازدھم: رکن کی مقدار تفکر کرنا
اگر الحمد پڑھ کر سوچنے لگا کہ کون سی سورت پڑھوں اور ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار سوچتا رہا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا اسی طرح اگر پڑھتے پڑھتے درمیان میں اتنی دیر رک گیا یا پہلے یا دوسرے قعدے میں فوراً التحیات شروع نہیں کی بلکہ اتنی دیر رکا رہا یا رکوع سے اٹھ کر یا دونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ میں تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار سوچتا رہا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا اسی طرح اگر نماز میں یہ شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور ایک رکن کی مقدار خاموش سوچتا رہا یا چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہونے میں تاخیر ہو گئی اس لئے اس پر بھی سجدۂ سہو واجب ہو گا، اگر تفکر سے ادائے فرض یا ادائے واجب میں کوئی تاخیر واقع نہیں ہوئی یعنی وہ ارکان و واجبات نماز ادا کرتا رہا اور سوچتا بھی رہا تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہو گا تفکر کی مقدار ہر جگہ ایک رکن ادا ہو سکنے یعنی تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ سکنے کی مقدار ہے لیکن قرأت میں جس قدر کم از کم قرأت سے نماز جائز ہو جاتی ہے اس کی مقدار اور تشہد کے بعد الھم صلی علی محمد کی مقدار معتبر ہے کیونکہ یہ بھی اندازاً تین تسبیح کی مقدار ہی ہے
سیزدھم: تکرار رکن
اگر بھولے سے دو رکوع یا تین سجدے کر لے تو سجدۂ سہو واجب ہے
سجدۂ سہو کے متفرق مسائل
۱. امام کے سہو سے امام اور مقتدی سب پر سجدۂ سہو واجب ہے خواہ مقتدی مدرک یعنی امام کے ساتھ شروع سے پوری نماز پانے والا ہو یا لاحق ہو یا مسبوق ہواور خواہ وہ امام کے سہو کے بعد شریک ہوا ہو، اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں شریک ہوا جب کہ امام سہو کا ایک سجدہ کر چکا ہے اور دوسرے سجدہ میں اس کی متابعت کرے اور پہلے سجدے کو قضا نہ کرے اگر امام کے سہو کے دونوں سجدے کر لینے کے بعد جماعت میں شریک ہوا تو دونوں سجدے اس سے ساکت ہو گئے وہ ان کو قضا نہ کرے
۲. اگر امام کے پیچھے مقتدی سے کوئی ایسا سہو ہو جائے جس سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے تو مقتدی پر اس کے اپنے سہو سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا
۳. مسبوق سجدۂ سہو میں امام کی متابعت کرے
۴. اگے مسبوق کو امام کے سلام کے بعد اپنی باقی (مسبوقانہ) نماز کے پڑھنے میں سہو ہو گیا تو وہ اس کے لئے آخیر نماز میں سجدۂ سہو کرے
۵. جب امام ختم نماز کا سلام پھیرے تو مسبوق امام کےساتھ سلام نہ پھیرے اگر وہ قصدا سلام پھیر دے گا تو اس کی نماز جاتی رہے گی، اگر مسئلہ معلوم نہیں تھا اور اس نے یہ سمجھا کہ اس کو بھی امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہئے تو یہ بھی قصداً سلام پھیرنا ہوا اور اگر اس نے سہواً سلام پھیر دیا تو نماز فاسد نہ ہو گی لیکن اگر اس کا سلام امام کے سلام کے بالکل ساتھ واقع ہوا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں لیکن ایسا شاز و نادر ہی ہوتا ہے اور اگر مسبوق نے امام کے سلام کے بعد سلام پھیرا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا اس لئے وہ کھڑا ہو کر مسبوقانہ نماز پوری کر کے آخر میں سجدۂ سہو کرے اور پھر قعدہ کر کے تشہد و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیرے
۶. مسبوق کو چاہئے کہ امام کے سلام کے وقت تھوڑی دیر ٹھہرا رہے یعنی جب امام دوسری طرف کا سلام پھیر لے تب اپنی بقیہ نماز کے لئے کھڑا ہو تاکہ معلوم ہو جائے کہ امام پر کوئی سجدۂ سہو تو نہیں ہے
۷. اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہیں کیا اور بقیہ نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اس سے سجدۂ سہو ساکت نہیں ہو گا پس وہ اپنی نماز کے آخیر میں سجدۂ سہو کرے، اور اگر اس کو اپنی بقیہ نماز میں بھی سہو ہو جائے تو دونوں سہوؤں کے لئے ایک ہی دفعہ سجدۂ سہو کے دو سجدے کر لینا کافی ہے
۸. امام کے سہو سے لاحق پر بھی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے لیکن وہ اپنی لاحقانہ نماز پوری کرنے سے پہلے امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہ کرے اگر وہ امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا تو اس کا اعتبار نہیں اور اس کی نماز فاسد بھی نہیں ہو گی پس وہ پہلے اپنی لاحقانہ نماز پوری کرے اور اپنی نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کرے
۹. اگر لاحق کو اپنی لاحقانہ نماز میں سہو ہو جائے تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں اس لئے کہ وہ حکماً مقتدی ہے
۱۰. نمازِ خوف میں پہلا گروہ لاحق کے حکم میں ہے اس لئے اگر امام سجدہ سہو کرے تو یہ لوگ امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہ کریں بلکہ جب اپنی نماز پوری کر چکیں اس وقت سجدۂ سہو کریں اور دوسرا گروہ مسبوق کے حکم میں ہے اس لئے یہ لوگ امام کےساتھ سجدۂ سہو کریں
۱۱. مقیم مقتدی مسافر امام کی پیچھے نماز پڑھے تو صرف قرأت کے حق میں وہ لاحق ہے اس لئے وہ اکیلا ہونے کے بعد باقی نماز میں قرأت نہ کرے لیکن سجدۂ سہو میں مسبوق کے حکم میں ہے اس لئے امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے اور اگر اس کو اپنی نماز میں سہو ہو جائے تو آخر میں بھی سجدۂ سہو کرے
۱۲. اگر سہو کے سجدے میں یا اس کے بعد سہو ہوا تو دوبارہ سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا کیونکہ اس طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا اور نماز میں ایک ہی دفعہ سجدۂ سہو مشروع ہے
۱۳. چار یا تین رکعت والی نماز میں بھولے سے یا اس خیال سے کہ وہ چار یا تین رکعتیں پوری ہو گئیں دو رکعت پر سلام پھیر دیا جب تک کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے کھڑا ہو کر اس نماز کو پورا کر لے اور سجدۂ سہو کر لے البتہ اگر سلام پھیرنے کے بعد کوئی ایسی بات ہو گئی جس سے نماز جاتی رہتی ہے تو نئے سرے سے نماز پڑھے
مسائل شک
۱. شک کی صورت میں کسی طرف گمان غالب ہو جائے تو اس کو اختیار کرنا لازمی ہے اور سجدۂ سہو واجب نہیں لیکن اگر تفکر کرتے ہوئے ایک رکن ( تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے) کی مقدار تاخیر ہو جائے تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ، اور اگر کسی طرف گمان غالب نہ ہو سکے تو کمی کی جانب کو اختیار کرنا چاہئے تفصیل آگے آتی ہے ، اور اس پر مطلقاً سجدۂ سہو واجب ہے خواہ رکن مقدار تفکر کرے یا نہ کرے
۲. اگر کسی کو نماز میں شک ہوا کہ مثلاً تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، اگر ایسا اتفاق پہلی دفعہ ہوا یعنی اس کی عادت بھولنے کی نہ ہو تو پہلی نماز کو توڑ دے اور نئے سرے سے نماز پڑھے، اور اگر کسی کو شک کرنے کی عادت ہو اور اکثر اس کو شبہ پڑ جاتا ہو تو دل میں سوچ کر گمان غالب پر عمل کرے اور سجدۂ سہو نہ کرے اور اگر سوچنے کے بعد بھی دونوں طرف برابر خیال رہے تو کمی کی جانب کو مقرر کر لے اور اگر یہ شک ہے کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تو دوسری مقرر کر لے اور اگر یہ شک ہو کہ تیسری ہے یا چوتھی تو تیسری رکعت مقرر کر لے اور شک کے بعد کی ہر رکعت پر قعدہ کرے تاکہ قعدہ کا فرض و واجب ترک نہ ہو اور آخری قعدہ میں سجدۂ سہو کر ے، پس اگر چار رکعتی فرض نماز میں یہ شک ہوا کہ یہ پہلی رکعت ہو یا دوسری اور کسی طرف گمان غالب نہیں ہوا تو پہلی ہی سمجھے اور اس پہلی رکعت کو پڑھ کر قعدہ کرے اور التحیات پڑھے کہ شاید یہ دوسری رکعت ہو پھر دوسری رکعت پڑھے اور اس میں الحمد کے بعد سورت بھی پڑھے اور اس پر بیٹھے اور التحیات پڑھ کر کھڑا ہو کر تیسری رکعت پڑھے اس میں صرف الحمد پڑھے اور قعدہ بھی کرے کہ شاید یہ چوتھی رکعت ہو پھر چوتھی رکعت پڑھے اور قعدہ کرے اس قعدہ میں سجدۂ سہو کر کے نماز ختم کرے اور اگر یہ شک ہو کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تب بھی یہی حکم ہے کہ اس کو دوسری مقرر کر لے اور دوسری رکعت پر قعدہ کر کے تیسری رکعت پڑھے اور قعدہ بھی کرے کہ شاید یہ چوتھی ہو پھر چوتھی رکعت پڑھ کر قعدہ کرے اور سجدۂ سہو کر کے سلام پھیرے علی ہذا القیاس تیسری اور چوتھی میں شک ہو تو تیسری مقرر کر لے اور دو رکعتی نماز میں پہلی یا دوسری رکعت ہونے کا شک ہو تو پہلی مقرر کر لے اور اس رکعت پر قعدہ کر کے ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کرے اور سجدۂ سہو کرے
۳. اگر نماز پڑھنے کے بعد شک ہوا تو اس شک کا اعتبار نہیں لیکن اگر کوئی احتیاطاً نئے سرے سے نماز پڑھ لے تو اچھا ہے تاکہ دل کا کھٹک نکل جائے اور شبہ باقی نہ رہے لیکن اگر ٹھیک یاد آ جائے تو اس کے مطابق عمل کرے پس اگر تشہد سے فارغ ہونے کو بعد سلام سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد شک ہوا تو نماز کے جواز کا حکم دیا جائے گا اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد نماز توڑنے والا کوئی فعل سرزد ہونے سے پہلے یقین ہو گیا کہ مثلاً تین ہی رکعتیں ہوئی ہیں تو کھڑے ہو کر ایک رکعت اور پڑھ لے اور سجدۂ سہو کر لے ۴. اگر وتر کی نماز میں حالت قیام میں یہ شک ہوا کہ یہ دوسری رکعت ہے یا تیسری اور کسی طرف گمان غالب نہیں تو اس رکعت میں دعائے قنوت پڑھے اور رکعت پوری کر کے قعدہ کرے پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور پڑھے اور اس میں بھی دعائے قنوت پڑھے اور اخیر میں سجدۂ سہو کر لے ۵. نماز کے اندر شک ہوا کہ مسافر ہے یا مقیم تو چار رکعتیں پڑھے اور اس کو احتیاطاً دوسری رکعت پر قعدہ کرنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہو گی ۶. امام کو دوسری رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد شک ہوا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسری یا یہ شک ہوا کہ تیسری ہے یا چوتھی تو اپنے مقتدیوں کی طرف گوشہ چشم سے دیکھ لے اور اس پر اعتماد کر لے پس اگر وہ کھڑے ہو جائیں تو یہ بھی کھڑا ہو جائے اور بیٹھے ہوں تو یہ بھی بیٹھا رہے اور اس پر سجدہ سہو واجب نہیں جبکہ شک باقی نہ رہے ۷. اگر کسی کو شک ہوا کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں ، اگر وقت باقی ہے تو اس نماز کا اعادہ واجب ہے اور اگر وقت نکل گیا تو پھر کچھ واجب نہیں اگر یقین ہو جائے تو قضا کرے
سجدۂ تلاوت کا بیان
تمام قرآن مجید میں چودہ مقام ایسے ہیں جن کو پڑھنے یا سننے سے سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں
۱. سورة اعراف کے اخیر میں ،
۲. سورة رعد کے دوسرے رکوع میں ،
۳. سورة النحل کے پانچویں رکوع میں ،
۴. سورة بنی اسرائیل کو بارہویں رکوع میں ،
۵. سورة مریم کے چوتھے رکوع میں ،
۶. سورة الحج کے دوسرے رکوع میں ،
۷. سورة فرقان کے پانچویں رکوع میں ،
۸. سورة نمل کے دوسرے رکوع میں ،
۹. سورة الم تنزیل السجدہ کے دوسرے رکوع میں ،
۱۰. سورة ص کو دوسرے رکوع میں ،
۱۱. سورة حم سجدہ کے پانچویں رکوع میں ،
۱۲. اورسورة النجم کے اخیر میں ،
۱۳. سورة اذا السماء النشقت میں ،
۱۴. سورة اقراء میں ،
آیت سجدہ کے مقام پر عوام کی سہولت کے لئے قرآن مجید کے حاشیہ پر لفظ سجدہ لکھا ہوا رہتا ہے
سجدۂ تلاوت کا مسنون طریقہ
جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے سجدۂ تلاوت بھی اسی طرح کرنا چاہئے ، بعض لوگ قرآن شریف پر ہی سجدہ کر لیتے ہیں اس سے سجدہ ادا نہیں ہوتا پس جب سجدۂ تلاوت کرے تو کھڑا ہو کر سجدۂ تلاوت کی نیت دل میں کرے اور زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے نویت ان اسجد للّٰہ تعالیٰ عن تلاوت القران( اردو میں یوں کہے کہ اللّٰہ تعالی کے واسطہ سجدۂ تلاوت کرتا ہوں ) پھر ہاتھ اٹھائے بغیر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہے پھر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور کھڑا ہو جائے ، سجدۂ تلاوت میں تشہد پڑھنے اور سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں ، اگر بیٹھ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور سجدہ کے بعد اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور بیٹھ جائے کھڑا نہ ہو تب بھی درست ہے لیکن کھڑا ہو کر سجدہ میں جانا اور پھر کھڑا ہو جانا بہتر ہے اگر نماز میں آیت تلاوت کے بعد فی الفور سجدۂ تلاوت کرے تو نیت ضروری نہیں ہے
شرائط فرائض و سنن و مستحبات و مفسدات سجدۂ تلاوت
۱. سجدۂ تلاوت کے لئے بھی سب وہی شرطیں ہیں جو نماز کے شرطیں ہیں ، مثلاً طہارت و استقبال قبلہ و نیت و ستر عورت سوائے تکبیر تحریمہ کے کہ یہ سنت ہے ، یہ نیت کرنا شرط نہیں کہ فلاں آیت کا سجدہ ہے مطلقاً سجدۂ تلاوت کی نیت کرنا کافی ہے
۲. اس کا فرض پیشانی کا زمین پر رکھنا ہے ، نماز میں آیتِ سجدہ کے متصل رکوع کرنا اس کا قائم مقام ہے اور معذور کے لئے اشارے سے ادا کرنا کافی ہے
۳. سجدۂ تلاوت کے لئے دو تکبیریں کہنا سنت ہے امام کے لئے ان کا جہر سے کہنا سنت ہے ، سجدے میں تین بار سبحان ربی الاعلی کہنا سنت ہے
۴. کھڑا ہو کر سجدے میں جانا اور سجدے کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام مستحب و افضل ہیں ، سجدۂ تلاوت کے لئے اللّٰہ اکبر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا، التحیات پڑھنا اور سلام نہیں ہے
۵. جن چیزوں سے نماز فاسد ہو جاتی ہے انہی چیزوں سے سجدۂ تلاوت بھی فاسد ہو جاتا ہے لہذا اس سے سجدہ کا اعادہ واجب ہو گا لیکن سجدۂ تلاوت میں قہقہہ سے وضو نہیں ٹوٹتا البتہ سجدہ باطل ہو جاتا ہے اور عورت کی محاذات سے سجدۂ تلاوت فاسد نہیں ہوتا
سجدۂ تلاوت واجب ہونے کے اسباب
سجدۂ تلاوت واجب ہونے کے تین اسباب ہیں
۱. آیتِ سجدہ کو خود تلاوت کرنا، جس طرح پوری آیتِ سجدہ کی تلاوت سے سجدۂ تلاوت واجب ہوتا ہے آیت سجدہ کا بعض حصہ تلاوت کرنے سے بھی سجدۂ تلاوت واجب ہو جاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جو لفظ سجدہ پر دلالت کرتا ہے اس کے ساتھ ایک کلمہ شروع میں یا بعد میں ملا کر پڑھا ہو، آیت سجدہ لکھنے یا اس پر نظر کرنے یا زبان کے بغیر صرف دل میں پڑھنے یا بچوں کو ہجے کرانے کے طرح ایک ایک حرف کر کے پڑھنے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا اگر سجدہ کی آیت کا ترجمہ اردو فارسی وغیرہ کسی زبان میں پڑھا تو پڑھنے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا خواہ اس کو معلوم ہو کہ یہ آیت سجدہ کا ترجمہ ہے یا معلوم نہ ہے ، لیکن سننے والے پر آیت سجدہ کے ترجمے سے اس وقت سجدۂ تلاوت واجب ہو گا جبکہ اس کو معلوم ہو جائے کہ یہ آیت سجدہ کا ترجمہ ہے اسی پر فتویٰ ہے اگر بہرے آدمی نے آیت سجدہ پڑھی تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہے ، کسی نے سوتے ہوئے آیت سجدہ پڑھی اگر کسی نے اس کو جاگنے پر خبر دے دی تو سجدۂ تلاوت واجب ہو گا ورنہ نہیں
۲. آیت سجدہ کا کسی انسان سے سننا، خواہ قصداً سنے یا بغیر قصد کے سننے میں آ جائے اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا، کسی پرندے سے آیت سجدہ سنی یا گنبد کے اندر یا پہاڑ یا جنگل میں بلند آواز سے پڑھنے والے کی آواز ٹکرا کر جب واپس لوٹی تو آیت سجدہ اس گونج کی آواز سے سنی تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے ، اگر کسی نے نشے کی حالت میں آیتِ سجدہ پڑھی تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا، اگر بےوضو آیتِ سجدہ پڑھی یا سنی تو اس پر بھی سجدۂ تلاوت واجب ہو گا اگر کسی نے سوتے ہوئے آدمی سے آیتِ سجدہ سنی تو اصح یہ ہے کہ اس پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں
۳. ایسے شخص کی اقتدا کرنا جس نے آیت سجدۂ تلاوت کی ہو خواہ اس کی اقتدا سے پہلے تلاوت کی ہو یا اقتدا کے بعد کی ہو، خواہ امام نے آہستہ تلاوت کی ہو، پھر سب مقتدیوں پر امام کے ساتھ سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے ، عورت نے اگر اپنی نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور ابھی سجدہ نہیں کیا تھا کہ اس کو حیض آ گیا تو وہ سجدہ اس سے ساکت ہو گیا
نماز میں آیت سجدہ پڑھنے کے مسائل
۱. اگر امام سجدے کی آیت پڑھے تو اسی وقت سجدہ کرے اور مقتدی بھی اس کے ساتھ سجدہ کریں خواہ وہ آیت سجدہ سنیں یا نہ سنیں ، اور جہری نماز ہو یا سری، لیکن سری نماز میں مستحب یہ ہے کہ امام ایسا رکوع یا سورت یا اس کا حصہ تلاوت نہ کرے جس میں سجدے والی آیت ہو
۲. اگر امام کے آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد اور سجدۂ تلاوت ادا کرنے سے پہلے کوئی شخص اس نماز میں شریک ہوا تو وہ بھی امام کے ساتھ سجدہ کرے اور امام کے سجدۂ تلاوت کر لینے کے بعد شامل ہوا تو اب یہ سجدہ تلاوت نہ کرے نہ نماز میں اور نہ نماز کے بعد، امام کا سجدہ اس کے لئے بھی کافی ہے
۳. اگر مقتدی نے آیت سجدہ پڑھی تو نہ خود اس پر سجدہ واجب ہو گا اور نہ اس کے امام اور دوسرے مقتدیوں پر، نہ نماز میں اور نہ نماز کے بعد
۴. لیکن اگر اس مقتدی سے آیت سجدہ سننے والا اس مقتدی کی نماز میں شریک نہیں ہے تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا خواہ سننے والا کوئی دوسری نماز اکیلا پڑھ رہا ہو یا کسی دوسری نماز کا امام یا مقتدی ہو یا بالکل نماز میں نہ ہو لیکن دوسری نماز میں سننے کی صورت میں نماز کے بعد اس پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے ، اگر نماز میں کیا تو ادا نہیں ہو گا بلکہ نماز کے بعد اس کا اعادہ کرنا واجب ہو گا اور اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی لیکن کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہونے کی وجہ سے اس نماز کا بھی اعادہ واجب ہو گا
۵. سجدۂ تلاوت نماز کے اندر رکوع کرنے سے یا سجدہ کرنے سے ادا ہو جاتا ہے لیکن سجدہ کرنا افضل ہے اور رکوع سے سجدۂ تلاوت ادا ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ فوراً بلا تاخیر ہو اگر تاخیر کرے گا تو رکوع سے ادا نہیں ہو گا بلکہ اس کو سجدہ کرنا ہی متعین ہو جائے گا، تاخیر سے مراد آیت سجدہ کے بعد تین آیت یا اس سے زیادہ پڑھ لینا ایک یا دو آیت کے پڑھ لینے سے تاخیر لازم نہیں آتی بلکہ وہ فی الفور ہی کے حکم میں ہی ہے
۶. سجدے کی آیت پڑھ کر رکوع کر دے تو رکوع میں سجدۂ تلاوت ادا ہونے کے لئے رکوع کرتے وقت سجدۂ تلاوت کی نیت کرنا بھی ضروری ہے اگر نیت نہ کی تو رکوع میں سجدۂ تلاوت ادا نہیں ہو گا اور اگر رکوع میں جانے کی بعد سجدۂ تلاوت کی نیت کی تو اظہر یہ ہے کہ جائز نہیں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد نیت کی تو بالاجماع جائز نہیں ، مقتدی کے لئے بھی یہی حکم ہے
۷. رکوع کرتے وقت سجدۂ تلاوت کی نیت کرتے ہوئے نماز کے رکوع کی بھی نیت کرے ورنہ نماز کا رکوع ادا نہیں ہو گا
۸. نماز کے سجدے سے بھی سجدۂ تلاوت ادا ہو جاتا ہے جبکہ آیتِ سجدہ کی تلاوت کے بعد فوراً رکوع کر کے پھر سجدہ کرے اور اس کے لئے نیت کرنا بھی ضروری نہیں ہے پس اگر امام نے رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کی ہو تو نماز کے سجدے سے سجدۂ تلاوت بھی ادا ہو جائے گا اور مقتدیوں کے سجدہ نماز سے مقتدیوں کا بھی سجدۂ تلاوت ادا ہو جائے گا خواہ امام اور مقتدیوں نے سجدۂ تلاوت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، اس لئے امام کے چاہئے کہ اگر آیتِ سجدہ کے بعد فوراً رکوع کرے تو اس میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کرے تاکہ سجدۂ نماز میں سب کا سجدۂ تلاوت بھی ادا ہو جائے
۹. اگر امام نے جہری نماز میں آیت سجدہ پڑھی تو سجدۂ تلاوت کرنا اولیٰ ہے اور اگر سری نماز میں پڑھی تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد رکوع کرنا اور اس میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کرنا اولیٰ ہے تاکہ مقتدیوں کو دھوکا نہ لگے اور نماز کے سجدے سے سب کا سجدۂ تلاوت ادا ہو جائے گا
۱۰. جمعہ و عیدین و سری نمازوں اور جس نماز میں جماعت عظیم ہو امام کو سجدے کی آیت پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر آیت کے فوراً بعد نماز کے رکوع و سجود کر دے اور رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کرے تو کراہت نہیں ہے
۱۱. کسی نے نماز کے اندر سجدے کی آیت پڑھی اگر وہ آیت سورت کی بیچ میں ہے تو افضل یہ ہے کہ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد سجدۂ تلاوت کرے پھر کھڑا ہو کر سورة ختم کرے اور رکوع کرے اور اگر اس وقت سجدۂ تلاوت نہیں کیا بلکہ نماز کے لئے رکوع کر لیا سجدۂ تلاوت کی نیت بھی کر لی تب بھی جائز ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر اسی وقت سجدہ یا رکوع نہ کیا اور سورة پوری کرنے کے بعد رکوع کیا تو اب رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت سے ادا نہیں ہو گا اب اس کو سجدۂ تلاوت الگ سے کرنا ہی متعین ہو گا اور تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرنا بھی واجب ہے اور اگر آیتِ سجدہ سورت کے آخر میں ہے تو افضل یہ ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد رکوع کر دے اور منفرد ہو تو رکوع میں سجدۂ تلاوت کی بھی نیت کر لے اور اگر امام ہو تو بہتر یہ ہے کہ رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کرے کیونکہ نماز کے سجدے میں امام اور مقتدیوں سب کا سجدۂ تلاوت بھی ادا ہو جائے گا اور اگر وہ آیتِ سجدہ کی تلاوت کے بعد سجدۂ تلاوت کرے تو اس کو چاہئے کہ سجدے سے سر اٹھانے اور کھڑا ہونے کی بعد اگلی سورت میں سے کچھ پڑھے پھر رکعت کا رکوع کرے اگر سجدۂ تلاوت سے کھڑا ہونے کے بعد اگلی سورت میں سے کچھ نہ پڑھا اور رکوع کر دیا تب بھی جائز ہے
۱۲. اگر سجدۂ تلاوت فوراً یا ایک دو آیت پڑھنے کے بعد ادا نہیں کیا بلکہ اس سے آگے تین آیت یا اس سے زیادہ تلاوت کر گیا تو اب نماز کے اندر جب بھی سجدۂ تلاوت کرے تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب ہو گا حتیٰ کہ اگر قعدہ اخیرہ کرے اس پر قعدہ اخیرہ کا اعادہ فرض ہے ، اگر نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا تو جب تک اس سے کوئی منافی نماز فعل سرزد نہیں ہوا اس پر سجدۂ تلاوت ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب ہو گا اگر سورت کی ختم ہونے سے دو تین آیتیں پہلے آیت سجدہ ہو تو اختیار ہے کہ اس وقت سجدۂ تلاوت کرے یا ختم سورت کے بعد کرے اور اگر ختم سورت کی بعد سجدۂ تلاوت کرے تو پھر کھڑا ہو کر دوسری رکعت کا رکوع کرنا افضل ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا
۱۳. اگر نماز میں سجدۂ تلاوت اس کی جگہ پر کرنا بھول گیا اور تین آیت یا زیادہ آگے بڑھنے کے بعد یاد آیا، یا رکوع یا سجدہ یا قعدہ میں یاد آیا تو جس وقت یاد آیا اسی وقت سجدۂ تلاوت کر لے پھر جس رکن میں تھا اسی رکن میں آ جائے اور استحساناً اس رکن کا اعادہ کرے اگر اس رکن کا اعادہ نہ کیا تب بھی اس کی نماز جائز ہو گی، سوائے قعدہ اخیرہ کے کہ اس کا اعادہ فرض ہے اور ان سب صورتوں میں اس پر تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہو گا، عمداً تاخیر کرنے کی صورت میں بھی سلام سے پہلے تک یہی حکم ہے اور عمداً تاخیر کرنے کا گناہ بھی ہو گا اگر نماز میں پڑھی ہوئی آیتِ سجدہ کا سجدۂ تلاوت نماز میں ادا نہ کیا تو سلام پھیرنے اور منافیِ نماز فعل سرزد ہونے کے بعد اب ادا نہیں کر سکتا اور سوائے توبہ استغفار کے اس کی اور کوئی معافی کی صورت نہیں ہے
۱۴. جو سجدۂ تلاوت نماز سے باہر واجب ہوا ہو وہ نماز میں ادا نہیں ہو گا اور جو سجدۂ تلاوت نماز میں واجب ہوا وہ نماز سے باہر ادا نہیں ہو گا بلکہ دوسری نماز میں بھی ادا نہیں ہو گا اس کے لئے توبہ استغفار کرتا رہے ۱۵. اگر نماز میں پڑھی ہوئی آیتِ سجدہ کا سجدۂ تلاوت ادا کرنے سے پہلے حیض و نفاس کےعلاوہ کسی اور وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی تو اب یہ سجدہ نماز سے باہر ادا کرنا واجب ہے حیض و نفاس کی وجہ سے عورت کی نماز فاسد ہونے کی صورت میں سجدۂ تلاوت اس سے ساقط ہو جائے گا
۱۶. اگر امام نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدۂ تلاوت نہ کیا تو مقتدی بھی نہ کرے
تداخل سجود تلاوت و تبدیل و اتحادِ مجلس کا بیان
۱. تداخل کا مطلب یہ ہے کہ ایک سجدۂ تلاوت دوسرے کی تابع ہو کر ایک ہی سجدۂ تلاوت کافی ہو جائے اور اس کی بنا آیت و مجلس کا متحد ہونا ہے پس ایک ہی آیت کو ایک ہی مجلس میں مکرر پڑھنے یا مکرر سننے سے ہر پڑھنے یا سننے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اسی طرح اگر ایک آیت کو خود پڑھا اور اسی آیت کو اس مجلس میں کسی دوسرے سے سنا تب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اور جہاں ایک سجدہ کافی ہوتا ہے اس کا مکرر کرنا مندوب بھی نہیں ہے
۲. کئے سجدوں کے لئے ایک سجدہ کافی ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک ہی آیت ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ پڑھی جائے ، خواہ جتنی دفعہ پڑھی ہو ایک ہی سجدہ کافی ہے ، خواہ اخیر میں سجدۂ تلاوت کر لے یا پہلی دفعہ پڑھنے کے بعد کر لے اور پھر اُسی آیت کو بار بار پڑھتا رہے اور درمیان میں کسی وقت سجدہ کر لے اور اس کے بعد بھی اس آیت کو پڑھتا رہے ان سب صورتوں میں وہی ایک سجدۂ تلاوت کافی ہے اگر نماز میں سجدے کی ایک ہی آیت کو کئی دفعہ پڑھے تب بھی ایک ہی سجدہ کافی ہو گا خواہ سب دفعہ کے بعد اخیر میں سجدہ کرے یا پہلی دفعہ بیچ میں سجدہ کر لے
۳. سجدے کے مکرر ہونے کے لئے تین باتوں میں سے ایک بات کا پایا جانا ضروری ہے
اول: اختلافِ تلاوت یعنی ایک ہی مجلس میں سجدہ کی مختلف آیتین تلاوت کرنا
دوم: اختلافِ سماعت یعنی ایک ہی مجلس میں مختلف آیات سجدہ کا سننا
سوم: اختلافِ مجلس یعنی ایک ہی آیت کا مختلف مجلسوں میں سننا،
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سجدہ کافی ہونے کے لئے آیت و مجلس کا متحد ہونا شرط ہے پس اگر ایک ہی آیت مختلف مجلسوں میں پڑھی یا سنی یا مختلف آیتیں ایک ہی مجلس میں پڑھی یا سنی ہوں تو اتنے ہی تلاوت کے سجدے واجب ہوں گے، اگر سننے والے کی مجلس بدل گئی اور پڑھنے والے کی نہ بدلی تو ایک آیت کے مکرر سننے سے سننے والے پر مکرر سجدہ واجب ہو گا اور پڑھنے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اور اگر پڑھنے والے کی مجلس بدل گئی سننے والی کی نہ بدلی تو پڑھنے والے پر مکرر سجدہ ہو گا سننے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا
۴. مجلس بدلنے کی دو قسمیں ہیں
اول: حقیقی یعنی ایک ہی مجلس سے دوسری مجلس میں دو قدم سے زیادہ چل کر جانا، اب اگر اسی جگہ آ کر دوبارہ وہی آیت پڑھے تب بھی دو سجدے واجب ہوں گے اور بعض کے نزدیک تین قدم سے زیادہ چل کر جانا ہے لیکن اگر وہ جگہ مکان واحد کے حکم میں ہو مثلاً چھوٹی مسجد یا چھوٹا گھر یا کمرہ یا کوٹھری ہو تو اس میں جگہ تلاوت سے ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، یہی حکم کشتی پر تلاوت کرنے والے کا ہے اگرچہ چل رہی ہو اور یہی حکم سواری پر نماز پڑھنے والے کا ہے جبکہ وہ جنگل میں گزر رہا ہو اور ایک ہی آیت سجدہ چند بار تلاوت کرے کہ اس پر بھی ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، بڑی مسجد یا بڑے مکان میں جگہ بدل جانے سے مکرر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا
دوم: حکمی یعنی ایک ہی آیت سجدہ دو دفعہ پڑھنے کے درمیان میں عمل کثیر کرنا مثلاً خرید وفروخت کرنا ایک دو لقمے سے زیادہ کھانا، لیٹ کر سونا، عورت کا بچہ کو دودہ پلانا وغیرہ تو اس صورت میں بھی سجدۂ تلاوت مکرر واجب ہو گا، اگر عمل قلیل کیا ہو مثلاً ایک دو لقمہ کھایا یا ایک دو گھونٹ پیا یا بیٹھ کر سویا یا بیٹھا ہو آدمی کھڑا ہو گیا وغیرہ تو ان صورتوں میں ایک ہی سجدۂ تلاوت کافی ہو گا
سجدۂ تلاوت کے متفرق مسائل
۱. اگر غیر مکروہ، مباح وقت میں آیت سجدہ پڑھی اور مکروہ وقت میں سجدہ کیا تو جائز نہیں ہے اور اگر مکروہ وقت میں پڑھی اور اسی وقت میں سجدہ کیا تو جائز ہے
۲. اگر آیتِ سجدہ نماز سے باہر پڑھی تو فوراً سجدہ کرنا واجب نہیں ہاں بہتر و افضل ہے اور تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے کیونکہ شاید بعد میں یاد نہ رہے لیکن جب بھی سجدۂ تلاوت کرے گا ادا ہو جائے گا قضا نہیں کہلائے گا، اگر اس وقت سجدہ نہ کر سکے تو تلاوت کرنے اور سننے والے کو یہ کہہ لینا مستحب ہے سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر . لیکن عمر بھر میں کسی وقت وہ سجدہ کر لینا چاہئے ورنہ گناہگار ہو گا
۳. اگر تلاوت کرنے والے کے پاس ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کو سجدہ کرنے کی عادت ہو اور وہ وضو سے ہوں تو وہ آیتِ سجدہ جہر سے تلاوت کرے اور اگر وہ لوگ بےوضو ہوں یا یہ گمان ہو کہ یہ لوگ سجدہ نہیں کریں گے یا ان پر سجدہ گراں ہو گا یا ان کا حال معلوم نہ ہو تو آیتِ سجدہ آہستہ سے تلاوت کرے خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر تلاوت کر رہا ہو
۴. قران مجید کی تلاوت کرتے وقت صرف آیت سجدہ کی تلاوت چھوڑ دیا اور باقی سورت آگے پیچھے سے پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ سجدہ سے بچنا گویا سجدہ سے انکار ہے اور اگر سورت میں کوئی اور آیت نہ پڑھے صرف سجدہ کی آیت پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن نماز میں ایسا کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ وہ آیت اتنی بڑی ہو کہ تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو ورنہ جائز نہیں ہو اور بہتر یہ ہے کہ سجدہ کی آیت کو ایک دو آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے
۵. اگر کسی عورت نے حیض و نفاس کے حالت میں سجدہ کی آیت سنی تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہی نہیں ہو گا اور اگر کسی جنبی مرد یا عورت نے آیتِ سجدہ سنی تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہو گا لیکن اس کا ادا کرنا نہانے کے بعد واجب ہو گا
۶. اگر نماز سے باہر آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد سجدہ نہیں کیا پھر اسی جگہ نماز کی نیت باندھ لی اور وہی آیت پھر نماز میں پڑھی اور نماز میں سجدہ تلاوت کیا تو یہی سجدہ دونوں دفعہ کی تلاوت کو لئے کافی ہے لیکن اگر اس جگہ کی بجائے کسی اور جگہ نماز کی نیت باندھی اور وہی آیت پھر نماز میں پڑھی تو اس کا سجدہ نماز میں ادا کرے اور نماز سے باہر کی تلاوت کا سجدہ نماز سے باہر الگ ادا کرنا واجب ہے اور اگر سجدہ کی آیت پڑھ کر سجدہ کر لیا پھر اسی جگہ نماز کی نیت باندھ لی اور وہی آیت نماز میں پڑھی تو اب نماز میں پھر سجدہ کرے
سجدہ شکر کا بیان
۱. سجدہ شکر عبادت ہے اور اس پر ثواب ملتا ہو اسی پر فتویٰ ہے
۲. اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص پر کوئی خاص انعامِ الہی ہو مثلاً اللّٰہ تعالیٰ فرزند، یا مال دے یا گم شدہ شخص یا چیز مل جائے یا کوئے مصیبت دور ہو جائے تو اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ تکبیر یعنی اللّٰہ اکبر کہہ کر اللّٰہ تعالیٰ کے واسطے قبلے کی طرف کو شکر کا سجدہ کرے اور اس میں اللّٰہ کی حمد و تسبیح پڑھے پھر دوسری تکبیر کہہ کر سر اٹھا دے پس جیسا کہ سجدۂ تلاوت کا طریقہ بیان ہوا ہے اس کا بھی وہی طریقہ اور آداب ہیں
۳. مکروہ اوقات میں سجدہ شکر کرنا بھی مکروہ ہے
۴. کسی سبب کے بغیر سجدۂ شکر کرنا عبادت نہیں لیکن مکروہ بھی نہیں
۵. بعض لوگ نماز کو بعد جو ایک یا دو سجدے کیا کرتے ہیں وہ مکروہ ہے
۶. بعض ناواقف لوگ نماز وتر کے بعد دو سجدے کرتے ہیں اور اس کو مسنون سمجھتے ہیں ان کو سنت سمجھ کر ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے لہذا ہر حال میں ان کو ترک ہی کرنا چاہئے
مریض و معذور کی نماز کا بیان
١. نماز کسی حالت میں ترک نہ کرے جب تک کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی قوت ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور جس شخص کو بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے بالکل کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو یا کھڑے ہونے سے سخت تکلیف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا سر میں چکر آ کر گر جانے کا خوف ہو تو ان سب صورتوں میں فرض و واجب نماز بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور رکوع کے لئے اتنا جھکے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل ہو جائے
٢. اگر کسی شخص کو قیام کی طاقت تو ہے لیکن رکوع و سجود سے عاجز ہے یا قیام و رکوع و سجود تینوں کی طاقت نہیں ہے اور بیٹھنے پر قادر ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے۔سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ نیچے تک کرے یعنی رکوع کے لئے تھوڑا جھکے اور سجدے میں اس سے زیادہ جھکے-اگر دونوں برابر کرے گا تو نماز صحیح نہیں ہو گی
٣. اگر کوئی شخص قیام کے پورے وقت قیام نہیں کر سکتا لیکن تھوڑی دیر-کھڑا ہو سکتا ہے تو جس قدر قیام کر سکتا ہے اسی قدر قیام کرنا فرض ہے
٤. اگر دیوار وغیرہ کا سہارا لگا کر کھڑا ہونے پر قادر ہے تو صحیح یہ ہے کہ سہارا لگا کر کھڑا ہو کر نماز پڑھے ورنہ درست نہ ہو گی- اگر کوئی شخص طویل قرأت کے سبب سے کھڑا ہوا تھک جائے اور تکلیف ہونے لگے تو اس کو کسی دیوار یا درخت یا لکڑی وغیرہ کا سہارا لینا مکروہ نہیں ہے لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
٥. اگر گھر میں قیام کر کے نماز پڑھ سکتا ہو اور مسجد میں جماعت کے لئے جانے کے بعد قیام پر قادر نہیں رہتا تو اپنے گھر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھے پس اگر گھر میں جماعت میسر ہو تو جماعت سے پڑھے ورنہ اکیلا پڑھ لے۔ اگر رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی صورت میں کھڑا ہونے پر قادر نہیں رہتا اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں قیام کر سکتا ہے تو رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیٹھ کر نماز پڑھے
٦. بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں کسی خاص وضع پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح پر آسانی ہو اسی طرح بیٹھے لیکن اگر دو زانو یعنی تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بیٹھنا بہتر ہے
٧. سجدے کے لئے تکیہ یا اینٹ یا تختی وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب تک اٹھا کر اس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے خواہ خود اٹھائی ہو یا کسی دوسرے نے اس کے لئے اٹھائے ہو اگر تکیہ یا اینٹ وغیرہ کوئی اونچی چیز زمین یا چوکی وغیرہ پر رکھی ہو اس پر سجدہ کرے اور رکوع کے لئے بھی صرف اشارہ نہ ہو بلکہ پیٹھ جھکائی ہو تو رکوع و سجود کرنے والے کی نماز صحیح ہے
۸. اگر پیشانی پر زخم ہو ناک پر سجدہ کرنا فرض ہے اس کو اشارہ سے نماز پڑھنا درست نہیں ہے
۹. اگر مریض یا معذور بیٹھنے پر قادر نہیں تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھے اس کی صورت یہ ہے کہ چت لیٹ جائے اور اپنے دونوں پاؤں قبلے کی طرف کرے، اگر ہو سکے تو دونوں گھٹنوں کو کھڑا کر کے قبلے کی طرف پاؤں نہ پھلائے ، اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پاؤں پھیلا لے اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر سر کو ذرا اونچا کر دیا جائے اور رکوع و سجود کے لئے سر جھکا کر اشارہ سے نماز پڑھے اور سجدے کا اشارہ زیادہ نیچا کرے یہ صورت افضل ہے جائز یہ بھی ہے کہ شمال کی جانب سر کر کے داہنی کروٹ پر لیٹے یا جنوب کی جانب سر کر کے بائیں طرف کروٹ پر لیٹے اور اشارہ سے نماز پڑھے اور دونوں صورتوں میں داہنی کروٹ پر لیٹنا افضل ہے
۱۰. اگر تندرست آدمی نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی پھر اس کو کوئی ایسا مرض لاحق ہو گیا کہ قیام نہیں کر سکتا مثلاً رگ چڑھ گئی تو باقی نماز بیٹھ کر پڑھ لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ رکوع و سجود پر بھی قادر نہ رہے تو بیٹھ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے اور اگر بیٹھنے پر بھی قادر نہیں رہا تو لیٹ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے
۱۱. اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہا تھا کہ نماز میں تندرست ہو گیا اور قیام پر قادر ہو گیا تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری ادا کرے اور اگر بیماری کی وجہ سے رکوع و سجود کی قوت نہ تھی اس لئے سر کے اشارہ سے رکوع و سجود کیا پھر جب کچھ نماز پڑھ چکا تو رکوع و سجود پر قادر ہو گیا تو اب یہ نماز جاتی رہی اس کو پورا نہ کرے بلکہ نئے سرے سے رکوع و سجود کے ساتھ پڑھے، اور اگر ابھی اشارے سے رکوع و سجود نہ کیا ہو کہ تندرست ہو گیا تو نماز کا وہ ادا کیا ہوا حصہ صحیح ہے اسی کو رکوع و سجود کے ساتھ ادا کر لے
۱۲. جو نمازیں عذر کی وجہ سے اشارے سے پڑھیں ہیں صحت کے بعد ان کا اعادہ نہیں ہے جبکہ وہ عذر سماوی یعنی قدرتی ہو اور اگر عذر بندے کی طرف سے ہو تو عذر دور ہونے کے بعد اس کا اعادہ ضروری ہے
۱۳. جب مریض سر کے ساتھ اشارہ کرنے سے بھی عاجز ہو جائے تو اس وقت نماز پڑھنا اس پر فرض نہیں ہے اور اس کو آنکھ یا ابرو یا دل کے اشارہ سے نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان چیزوں کے اشارہ کا کچھ اعتبار نہیں ہے ، ان نمازوں کی قضا واجب ہونے یا نہ ہونے کے متعلق چار صورتیں ہیں
اول: اگر ایسا مرض ایک دن رات یعنی پانچ نمازوں سے زیادہ رہا ہو اور عقل بھی قائم نہ رہی تو بالاتفاق حالتِ مرض کی نمازوں کی قضا نہیں ہے
دوم: اگر ایک دن رات سے کم مرض رہا اور عقل قائم رہی تو ان نمازوں کی قضا بالاجماع لازمی ہے ، پس اگر ایک دن رات میں پھر اس قدر صحت ہو گئی کہ سر کے اشارہ سے ادا کر سکتا ہے تو ان نمازوں کو اشارہ سے ادا کر لے اور یہ خیال نہ کرے کہ جب بالکل اچھا ہو جاؤں گا تب پڑھ لوں گا کہ شاید مر جائے گا تو گناہگار ہو گا اور ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرنی لازمی ہو گی
سوم: اگر ایک دن رات سے زیادہ مرض رہا اور عقل قائم رہی اور
چہارم: اگر مرض دن رات سے کم رہا لیکن عقل قائم نہ رہی تو ان دونوں صورتوں میں اختلاف ہے ظاہر الروایتہ یہ ہے کہ ان کی قضا لازم ہے
۱۴. اگر کوئی شخص پانچ نمازوں کے وقت تک بیہوش رہا تو ان نمازوں کو قضا کرے، اگر بیہوشی پانچ نمازوں سے بڑھ جائے اور درمیان میں کچھ افاقہ نہ ہو تو اب ان نمازوں کی قضا نہ کرے کیونکہ اب نماز اس سے ساقط ہو گئی، جنون کا حکم بھی بیہوشی کی مانند ہے اور اگر کسی کو نشہ آور چیز کے استعمال سے ایک دن رات سے زیادہ عقل جاتی رہی تو اس سے نماز ساقط نہیں ہو گی خواہ اپنی مرضی سے استعمال کرے یا کوئی مجبور کر کے استعمال کرا دے کیونکہ بندوں کے فعل سے اللّٰہ تعالی کا حق ساقط نہیں ہوتا
۱۵. جو نمازیں حالتِ مرض میں قضا ہو گئیں جب صحت ہونے پر ان کو قضا کرے تو صحت کی حالت کی طرح ادا کرے بیماری کی حالت کی طرح بیٹھ کر یا اشارہ سے ادا کرے گا تو ادا نہ ہو گی اور اگر صحت کی حالت میں کچھ نمازیں قضا ہو گئیں تھیں پھر بیمار ہو گیا اور ان کو بیماری کی حالت میں قضا کرنا چاہتا ہے تو بیٹھ کر یا اشارے سے اس طرح پڑھے جس طرح پڑھنے پر اب قادر ہو اور یہ انتظار نہ کرے کہ جب قیام یا قعود اور رکوع و سجود کی طاقت آ جائے گی تب پڑھوں گا یہ سب شیطانی خیالات ہیں ، قضا کرنے میں دیر نہ کرے ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور یہ توفیق نہ ہو سکے
۱۶. اگر فالج وغیرہ کی وجہ سے ایسا بیمار ہو گیا کہ پانی سے استنجا نہیں کر سکتا تو کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھ ڈالے اور اسی طرح نماز پڑھ لے اگر خود تیمم نہ کر سکے تو کوئی دوسرا تیمم کرا دے، اگر کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھنے کی بھی طاقت نہیں ہے تب بھی نماز قضا نہ کرے اس طرح پڑھ لے ہاں اگر وہ خاوند والی عورت یا بیوی والا خاوند ہو تو ایک دوسرے کا بدن پونچھ دے اور اگر دھونا ضرر نہ کرے تو دھو دے، دوسرا کوئی ایسا نہ کرے خواہ ماں باپ اور لڑکا، لڑکی ہی ہو
۱۷. تندرست آدمی کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن بلا عذر ایسا کرنے میں نصف ثواب ملتا ہے اگر عذر کے ساتھ نفل بیٹھ کر پڑھے تو پورا ثواب ملتا ہے
مسافر کی نماز کا بیان
مسافر و سفر شرعی کی تعریف
۱. شریعت میں مسافر اس کو کہتے ہیں جو تین منزل تک جانے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے اس بارے میں عوام کی آسانی کے لئے ہمارے فقہائے کرام نے اڑتالیس میل انگریزی کی مسافت متعین کر دی ہے اور اکثر علمائے کرام کا اِسی پر فتویٰ ہے
۲. سمندری سفر اور پہاڑی راستوں میں وہاں کی رفتار کے مطابق کم و بیش مسافت مقرر کرنی پڑے گی
۳. اس مسافت کا اعتبار اس راستے سے ہو گا جس سے وہ جا رہا ہے پس اگر کسی جگہ کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ تین منزل کا ہے اور دوسرا راستہ تین منزل سے کم تو اگر وہ بعید کے راستہ سے جائے گا تو مسافر ہو گا اور تین منزل سے کم والے راستہ سے جائے گا تو مسافر نہیں ہو گا
۴. اگر کوئی جگہ عام عادت کو مطابق پیدل آدمی کے لئے تین منزل ہے اور کوئی شخص اس کو ریل گاڑی یا موٹر یا گھوڑا گاڑی وغیرہ پر جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہی جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہو جلدی پہنچ جائے
احکام سفر
۱. وہ احکام جو سفر سے بدل جاتے ہیں یہ ہیں
۱. نماز قصر ہونا،
۲. روزہ نہ رکھنے کی اجازت،
۳. مسح موزوں کی مدت کا تین دن رات ہو جانا،
۴. مسافر پر جمعہ و عیدین و قربانی واجب نہ ہونا،
۵. آزاد عورت کو محرم کے بغیر سفر پر جانا حرام ہونا،
اس بیان میں نماز قصر ہونے کی تفصیل بیان کی جاتی ہے ،
۲. نماز قصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرعی مسافر پر چار رکعتوں والی فرض نماز یعنی ظہر و عصر و عشا دو رکعتیں فرض ہیں اور فجر و مغرب اور وتر کی نماز میں کوئی کمی نہیں ہوتی
۳. مسافر کو قصر کرنا واجب ہے اور پوری رکعتیں پڑھنا گناہ ہے
۴. اگر مسافر نے قصر نماز میں چار رکعتیں پڑھ لیں اور دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ کیا تو اخیر میں سجدۂ سہو کر لینے سے نماز جائز ہو جائے گی اس کی پہلی دو رکعتیں فرض اور آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی لیکن قصداً ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا یعنی وہ مکروہ تحریمی کا مرتکب ہو گا اگر بھولے سے ایسا ہو گیا تو گناہ نہیں اور اگر دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ نہ کیا تو اس کی فرض نماز باطل ہو گئی اس لئے نئے سرے سے پڑھے اور یہ نماز نفل ہو جائے گی
۵. سنتوں میں قصر نہیں ہے پس جہاں چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں مسافر بھی چار ہی پڑھے اور مختار یہ ہے کہ سفر میں خوف اور جلدی کی حالت ہو تو سنتیں نہ پڑھے اگر امن و بے خوفی ہو مثلاً منزل پر ٹھہرا ہوا ہو تو پڑھ لے، فجر کی سنتیں خاص طور پر پڑھے بعض کے نزدیک مغرب کے بعد کی دو رکعت سنتِ مؤکدہ کا بھی یہی حکم ہے
۶. جب سفر شرعی کی نیت کر کے اپنے شہر یا بستی کی آبادی سے باہر نکل جائے اس وقت سے نماز قصر کرنے لگے، شہر سے متصل شہر کی ضروریات مثلاً قبرستان و گھوڑ دوڑ کا میدان، مٹی کوڑا ڈالنے کی جگہ وغیرہ بھی آبادی کے حکم میں ہیں ان سے بھی باہر نکل کر قصر کرنے لگے، جس طرف سے شہر سے نکلتا ہے اسی طرف کی آبادی سے باہر نکلنے کا اعتبار ہے
۷. اس طرح جب اپنے شہر کو واپس آئے تو جب تک آبادی کے اندر داخل نہ ہو جائے تب تک وہ مسافر ہے اور قصر نماز پڑھے گا اور جب اس آبادی میں داخل ہو جائے گا جس سے باہر نکنے پر قصر شروع ہوتی ہے مقیم ہو جائے گا اور اس پر پوری نماز پڑھنا لازم ہو جائے گی
۸. مسافر جب تک تین منزل پوری نہ ہو جائے صرف نیت سے مقیم ہو جاتا ہے پس اگر تین منزل کا ارادہ کر کے چلا پھر کچھ دور جا کر ارادہ بدل گیا اور واپس ہو گیا تو جب سے لوٹنے کا ارادہ ہوا تب ہی سے مسافر نہیں رہا اگرچہ وہ جنگل میں ہو اور اگر تین منزل طے کرنے کے بعد واپسی کی نیت کرے تو اب اپنے شہر میں داخل ہونے سے پہلے تک نماز قصر کرتا رہے
نیتِ اقامت کے مسائل
۱. جب تک سفر کرتا رہے اور جب تک تین منزل طے کرنے کے بعد کسی شہر یا قصبہ یا گاؤں (آبادی) میں ایک ساتھ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے تب تک برابر سفر کا حکم رہے گا اور نماز قصر کرتا رہے گا اور جب کسی آبادی میں پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے گا تو نیت کرتے ہی پوری نماز پڑھنی لازم ہو گی اور اگر تین منزل چلنے سے پہلے واپسی کا ارادہ کیا یا اقامت کی نیت کی تو جنگل میں ہی مقیم ہو جائے گا اور نیت کرتے ہی اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی
۲. مسافر کے مقیم ہونے اور پوری نماز پڑھنے کے لئے چھ شرطیں ہیں ۱. اقامت کی نیت کرنا،
۲. ایک ہی جگہ پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرنا،
۳. اپنا ارادہ مستقل رکھتا ہو یعنی کسی کا تابع نہ ہو،
۴. چلنا موقوف کرنا،
۵. وہ جگہ اقامت کے لائق ہو یعنی بستی ہو جنگل یا دریا وغیرہ نہ ہو،
۶. ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے،
۳. کشتی و جہاز میں اقامت کی نیت معتبر نہیں جب تک کہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ آبادی سے متصل نہ ہو، جہاز اور کشتی کے ملازمین ملاح وغیرہ مسافر ہی ہیں خواہ ان کے اہل و عیال اور مال و متاع ہمراہ ہو، اگر کشتی یا جہاز کی بندرگاہ آبادی کے ساتھ متصل ہو اور کشتی یا جہاز بندرگاہ سے روانہ نہ ہوئی ہو تو اس میں سوار مسافر ابھی تک اپنے اصلی وطن میں ہونے کی وجہ سے مقیم ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے اسی طرح اگر کشتی یا جہاز سفر کے دوران کسی شہر یا بستی سے متصل کنارے پر لنگر انداز ہو جائیں اور پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو اقامت کی نیت کرنے سے وہ لوگ مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے
۴. اگر ایک ساتھ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے تو نمازِ قصر پڑھے خواہ اس حالت میں پندرہ دن سے زیادہ گزر جائیں مثلاً یہ نیت ہے کہ دو چار دن میں کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا اور پھر دو چار دن میں کام ہو جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا پھر دو چار دن کی نیت کر لی پھر بھی کام پورا نہ ہوا اور ارادہ بدلتا رہا اس طرح خواہ پندرہ دن یا اس سے بھی زیادہ کتنے ہی دن گزر جائیں خواہ برسوں اسی ارادہ پر رہے اس کو نماز قصر ہی پڑھنا چاہئے
۵. نیتِ اقامت کے لئے شرط ہے کہ ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا پس اگر کوئی شخص دو مستقل جدا جدا مقامات میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو وہ مقیم نہیں ہو گا بلکہ مسافر ہی رہے گا اور نماز قصر پڑھے گا اور اگر ایک مقام دوسرے مقام کے تابع ہو تو دونوں مقامات میں مجموعی طور پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے مقیم ہو جائے گا
۶. اور اگر دو جدا جدا بستیوں میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت اس طرح کرے کہ دن میں ایک بستی میں رہوں گا اور رات کو دوسری بستی میں تو یہ نیت اقامت درست ہے پس جہاں رات کو رہنے کا قصد ہے وہاں کے حساب سے پندرہ دن کی نیت سے مقیم ہو جائے گا اور دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا
۷. اگر حج کو جانے والے لوگ ایسے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوں کہ منیٰ میں جانے تک ان کو مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا زیادہ مل جائیں تو وہ مکہ میں مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے اور اگر ایسے وقت پہنچے کہ پندرہ دن پورے ہونے سے پہلے ہی منیٰ کو جانا پڑے گا تو اب وہ نیتِ اقامت سے مقیم نہیں ہوں گے، ان کی نیتِ اقامت معتبر نہیں ہے
تابع و متبوع کی نیت کے مسائل
۱. جو شخص کسی کے تابع ہو وہ اُسی کی نیتِ اقامت سے مقیم ہو گا اور اسی کی نیت سفر سے سفر پر روانہ ہونے سے مسافر ہو گا
۲. عورت اپنے شوہر کے ساتھ، غلام اپنے مالک کے ساتھ شاگرد اپنے استاد کے ساتھ، نوکر اپنے آقا کے ساتھ، سپاہی اپنے امیر کے ساتھ سفر کرے تو وہ اپنی نیت سے مقیم نہیں ہو گا بلکہ یہ اپنے متبوع کی نیت سے مقیم ہوں گے لیکن عورت اپنے شوہر کے تابع اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس کا مہر معجل ادا کر دے، اگر ادا نہ کرے تو وہ اپنی شوہر کی تابع نہیں ہو گی اور مہر معجل والی عورت ہر حال میں اپنی خاوند کے تابع ہے
۳. نابالغ بیٹا اگر باپ کی خدمت کرتا جاتا ہو تو وہ باپ کے تابع ہے
۴. قیدی کی اپنی نیت معتبر نہیں بلکہ وہ قید کرنے والے کے تابع ہے اور جو شخص قرض کے بدلے قرض خواہوں کی قید میں ہو وہ قرض خواہ کے تابع ہے
۵. تابع کو اپنے متبوع کی نیت کا جاننا ضروری ہے اس لئے ہر تابع کو اپنی متبوع سے پوچھ لینا چاہئے اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرنا چاہئے اگر وہ کچھ نہ بتائے تو اس کے عمل سے معلوم کر لیں
مسافر و مقیم کی امامت و اقتدا کے مسائل
۱. مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت کے اندر درست ہے اور مقیم کی اقتدا کی وجہ سے مقتدی مسافر پر بھی چاروں رکعتیں فرض ہو جاتی ہیں
۲. مقیم کی اقتدا مسافر کے پیچھے ادا و قضا دونوں صورتوں میں درست ہے جب کہ دونوں ایک ہے نماز قضا کریں پس اگر مسافر امام ہے اور مقتدی مقیم ہے تو جب مسافر امام اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیر دے تو جو مقتدی ہو وہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں اور انفرادی طور پر اپنی اپنی دو رکعتیں پوری کر کے قعدہ کریں اور سلام پھیر دیں لیکن یہ ان دو رکعتوں میں فاتحہ و سورة نہ پڑھیں کیونکہ وہ لاحق کی مثل ہیں پس وہ سورة الحمد کی مقدار اندازاً چپ کھڑے ہونے کے بعد رکوع و سجود کریں ہر شخص اپنے اپنے اندازے کے مطابق قیام کرے اگر ان دو رکعتوں میں کوئی سہو ہو جائے تو سجدۂ سہو بھی نہ کرے
۳. مسافر امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد فوراً اپنے مقتدیوں کو کہہ دے” میں مسافر ہوں آپ اپنی نماز پوری کر لیں ” زیادہ بہتر یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے کہہ دیں ورنہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً کہہ دیں اگر شروع میں کہہ دیا ہے تب بھی بعد میں کہہ دینا بہتر ہے تاکہ بعد میں شامل ہونے والوں کو بھی معلوم ہو جائے
نماز کے اندر نیت بدلنے کے مسائل
۱. اگر مسافر وقتی نماز پڑھنے کی حالت میں اقامت کی نیت کر لے خواہ اول میں یا درمیان میں یا اخیر میں تو وہ پوری نماز پڑھے مثلاً اگر کسی مسافر نے ظہر کی نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد اقامت کی نیت کر لی تو وہ چار رکعت پوری کرے لیکن اگر وقت گزر جانے کے بعد یا مسافر لاحق نے مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد لاحق ہونے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو اس نیت کا اثر اس نماز میں ظاہر نہ ہو گا مثلاً کسی مسافر نے ایسے وقت ظہر کی نماز شروع کی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد ظہر کا وقت ختم ہو گیا اس کے بعد اس نے اقامت کی نیت کی تو یہ نیت اس نماز میں اثر نہ کرے گی اس لئے اس کو یہ نماز قصر کی پڑھنی ہو گی لیکن اگر ایک رکعت پڑھنے کے بعد وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی اور نیت کر لینے کے بعد ظہر کا وقت نکل گیا تو اس کو پوری نماز یعنی چار رکعت پڑھنی ہو گی اسی طرح اگر کوئی مسافر ظہر کی نماز میں کسی مسافر کا مقتدی ہوا اور پھر لاحق ہو گیا اور اپنی لاحقانہ نماز ادا کرنے لگا اور مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد اس لاحق مقتدی نے اقامت کی نیت کر لی تو اس نیت کا اثر اس کی نماز پر نہیں پڑے گا اور اس کو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی اور اگر امام کے فارغ ہونے سے پہلے اقامت کی نیت کر لی تو پوری نماز یعنی چار رکعتیں پڑھے
۲. اگر کسی نماز کے اول وقت میں کوئی شخص مسافر تھا وہ نماز اس نے قصر پڑھ لی پھر اُسی وقت میں اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اس کا اثر اس نماز میں ظاہر نہیں ہوا اور وہ قصر پڑھی ہوئی نماز کافی ہو گی اور اگر ابھی نماز نہیں پڑھی کہ وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اب پوری نماز پڑھے گا اس طرح اگر کسی مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی تھی کہ اس وقت میں وہ مسافر ہو گیا تو اب قصر نماز پڑھے گا اور اگر پوری نماز پڑھنے کے بعد اس وقت میں سفر ہو گیا تو وہی پڑھی ہوئی نماز کافی ہے غرض کہ وقتی فرض ادا کر چکنے کے بعد نیت و حالت بدلنے سے اس وقتی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کا اثر اگلے وقتوں پر پڑے گا
۳. اگر وقتی نماز نہیں پڑھی اور اس کا وقت نکل گیا اور اس کے بعد مسافر نے اقامت کی نیت کی تو وہ قصر نماز قضا پڑھے گا اور اگر مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی اور وقت نکل جانے کے بعد سفر شروع کر دیا تو وہ پوری قضا کرے گا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سفر میں قصر نماز قضا ہو گئی تو اس کو قصر ہی پڑھے خواہ سفر کی حالت میں قضا کرے یا اقامت کی حالت میں ، اور اگر اقامت کی حالت میں کوئی نماز قضا ہوئی ہو تو اس کو پوری یعنی چار رکعتیں ہی قضا کرے خواہ سفر میں قضا کرے یا حالت اقامت میں
وطنِ اصلی و وطنِ اقامت کی تشریح
۱. وطن دو قسم کا ہوتا ہو اول وطن اصلی اور وہ اس کو پیدا ہونے کی جگہ ہے جبکہ وہ وہاں رہتا ہو یا وہ جگہ جہاں اس کو اہل و عیال رہتے ہوں اور اس نے اس کو گھر بنا لیا ہو
۲. دوم وطنِ اصلی وطنِ اصلی سے باطل ہو جاتا ہے خواہ اس کے درمیان مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو، پس اگر کسی شخص نے اپنا شہر بالکل چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ اپنا گھر بنا لیا اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا، پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رکھا تو اب یہ دوسرا شہر اس کا وطنِ اصلی بن گیا اور پہلا شہر اس کے لئے پردیس ہو گیا
۳. وطنِ اصلی سفر کرنے سے باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت سے بھی باطل نہیں ہوتا، اس لئے جب بھی اپنے وطنِ اصلی میں آ جائے گا پوری نماز پڑھے گا اگرچہ ایک ہی نماز کے وقت کے لئے آیا ہو اور خواہ اپنے اختیار سے آیا ہو یا اثنائے سفر میں کسی ضرورت کے لئے یا وہاں سے گزرنے کی نیت سے اس میں داخل ہوا ہو اور خواہ اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے ہر حال میں پوری نماز پڑھے
۴. ایک وطنِ اقامت دوسرے وطنِ اقامت سے باطل ہو جاتا ہے نیز شرعی سفر کرنے یا وطنِ اصلی میں پہنچ جانے سے بھی باطل ہو جاتا ہو پس اگر ایک وطنِ اقامت کو ترک کر کے دوسری جگہ وطن اقامت بنا لیا یعنی دوسری جگہ پندرہ دن یا زیادہ قیام ٹھہرنے کی نیت کر لی تو پہلا وطنِ اقامت ختم ہو گیا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیاں مسافت سفر ہو یا نہ ہو، اسی طرح اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی یعنی تین منزل پر روانہ ہو جائے تو اقامت باطل ہو جائے گی اور دوبارہ اس جگہ پر آنے پر قصر نماز ادا کرے گا اور اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی سے کم مقدار پر روانہ ہو گا تو وطنِ اقامت باطن نہیں ہو گا اور دوبارہ یہاں آنے پر پوری نماز پڑھے گا اسی طرح اگر اپنے وطنِ اصلی میں داخل ہو گیا تب بھی وطنِ اقامت باطل ہو جائے گا اور دوبارہ یہاں آنے پر قصر کرے گا لیکن اگر ان صورتوں میں دوبارہ اس مقام پر آ کر پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے گا تو اب دوبارہ وطنِ اقامت ہو جائے گا
متفرق مسائل
۱. جمعہ کے روز زوال سے پہلے سفر کے واسطے گھر سے نکلنا مکروہ نہیں ، اگرچہ ایسی جگہ جائے جہاں جمعہ فرض نہ ہو
۲. جمعہ کے روز زوال کے بعد جمعہ ادا کرنے سے پہلے نکلنا مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ اس کو نماز جمعہ میں حاضر ہونا واجب ہے پس جمعہ ادا کر کے سفر کرے
۳. عورت شرعی سفر یعنی تین منزل یا اس سے زیادہ سفر بالغ محرم یعنی شوہر، بھائی، باپ وغیرہ کے بغیر نہ کرے اور محرم کے لئے بھی یہی شرط ہے کہ وہ فاسق بیباک اور غیر مامون نہ ہو پس جس کو اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ڈر نہ ہو اور شریعت کی پابندی نہ کرتا ہو ایسے محرم کے ساتھ بھی سفر کرنا درست نہیں ہے ، ایک یا دو دن کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنا بہتر نہیں ہے لیکن اگر قافلے کے ساتھ ہو تو تین دن سے کم کی راہ بغیر محرم کے جانا جائز ہے
۴. دو شنبہ ( پیر) اور پنجشنبہ ( جمعرات) کو سفر کرنا مستحب و بہتر ہے ، سفر پر جانے سے پہلے دو رکعت نماز نفل گھر پر پڑھنا اور سفر سے واپسی پر محلہ کی مسجد میں دو رکعت نماز نفل پڑھنا مستحب ہے
۵. اگر مسافر کو چوروں ، ڈاکوؤں یا کسی دشمن یا بلا کا خوف ہو یا قافلہ نماز پڑھنے کی مقدار نہ ٹھہرے تو نماز کو موخر یا قضا کر سکتا ہے جبکہ نماز پڑھنے پر کسی طرح قادر نہ ہو مثلاً سواری پر نہیں ہے ، پس قدرت ہوتے ہوئے قضا کر دینے سے گناہگار ہو گا اور اگر قادر نہ ہو تو گناہگار نہیں ہو گا
سواری پر اور کشتی میں نماز پڑھنے کے مسائل
۱. شہر یا بستی سے باہر گھوڑے وغیرہ جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے ، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، اور جدھر کو جانور جاتا ہو اُدھر ہی کو نماز پڑھے کیونکہ سواری پر نماز میں قبلے کی طرف منھ کرنا شرط نہیں ہے لیکن اگر شروع کرتے وقت ممکن ہو تو استقبالِ قبلہ مستحب ہے جانور کے رخ کے خلاف سمت کو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے
۲. شہر (آبادی) کے اندر جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز نہیں ، امام ابو یوسف کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے اور امام محمد کر نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے
۳. شہر سے باہر نکلنے کے بعد مسافر اور غیر مسافر اس حکم میں برابر ہیں اس لئے اگر کوئی شخص اپنی کھیتوں وغیرہ کی طرف یا گرد و نواخ میں جاتا ہو اور سفر شرعی نہ ہو تب بھی سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے
۴. سنتُ مؤکدہ و غیر مؤکدہ سب نفل کے حکم میں ہیں لیکن سنتِ فجر امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا عذر سواری پر پڑھنا جائز نہیں
۵. سواری پر نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اشاروں سے نماز پڑھے یعنی جس طرح سواری پر بیٹھا ہو نیت باندھ کر قرأت وغیرہ بدستور پڑھ کر رکوع و سجدہ اشارہ سے کرے اور سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھکا ہوا ہو اور بدستور قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے اور سجدہ میں کسی چیز پر اپنا سر نہ رکھے خواہ جانور چلتا ہو یا کھڑا ہو اس لئے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے
۶. شہر سے باہر سواری پر نماز پڑھنے میں اگر جانور اپنے آپ چلتا ہو تو ہانکنا جائز نہیں اور اگر اپنے آپ نہ چلتا ہو تو عملِ قلیل سے ہانکنے میں نماز فاسد نہیں ہو گی اور عمل کثیر سے ہانکنے میں نماز فاسد ہو جائے گی
۷. اگر نفل نماز زمین پر شروع کی پھر جانور پر سوار ہو کر اس کو پورا کیا تو جائز نہیں اور اگر سواری پر شروع کی اور زمین پر اتر کر پورا کیا تو جائز ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ عملِ قلیل سے اُترا ہو مثلاً پاؤں ایک طرف کو لٹکا کر پھسل جائے
۸. اگر سواری کے جانور پر نجاست ہو تو وہ مانع نماز نہیں ، خواہ قلیل ہو یا کثیر لیکن نمازی کے بدن یا لباس پر ناپاکی ہو گی تو نماز جائز نہ ہو گی
۹. ہر شخص کو اپنی اپنی سواری پر اکیلے اکیلے نماز پڑھنے چاہئے اگر وہ جماعت سے پڑھیں گے تو امام کی نماز جائز ہو گی جماعت کی جائز نہ ہو گی اور اگر مقتدی سب ایک ہی جانور پر سوار ہوں تو سب کی نماز جائز ہو جائے گی
۱۰. جانور پر محمل (عمّاری) میں اور گاڑی میں نفل نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو جانور پر پڑھنے کا بیان ہوا
۱۱. پیدل چلنے کی حالت میں بالاجماع نماز پڑھنا جائز نہیں ہے
فرض نماز سواری پر پڑھنے کے مسائل
۱. جانور پر سواری کی حالت میں فرض نماز پڑھنا بلا عذر جائز نہیں اور عذر کے ساتھ جائز ہے نماز جنازہ، نماز وتر، و نذر اور وہ نفل و سنت نماز جس کو شروع کر کے توڑ دینے کی وجہ سے قضا کرنا واجب ہے اور سوار نہ ہونے کی حالت میں پڑھی ہوئی آیت سجدہ ان کا حکم بھی فرض نماز کی طرح ہے
۲. وہ عذرات جن سے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز ہے ، یہ ہیں جانور سے اترنے میں اپنی جان و مال و اسباب یا جانور کی حق میں چور ڈاکو درندہ یا دشمن کا خوف ہو یا ساتھیوں کے چلے جانے کا خوف ہو یا جانور شریر ہو کہ اترنے کے بعد اس پر نہ چڑھ سکے گا یا بیماری یا ضعیفی کی وجہ سے دوبارہ نہ چڑھ سکے گا اور کوئی دوسرا آدمی چڑھانے والا بھی موجود نہ ہو یا عورت ہو جو بغیر مدد کے اتر چڑھ نہ سکتی ہو اور محرم موجود نہ ہو، یا عورت کو کسی فاسق سے خوف ہو، یا تمام زمین میں کیچڑ ہو کہیں خشک جگہ نماز کے لئے نہ ہو، عذر کی حالت میں سواری پر پڑھی ہوئی فرض و واجب نماز کا عذر دور ہونے کے بعد اعادہ لازم نہیں
۳. اگر سواری کو ٹھہرا کر قبلے کی طرف منھ کر کے نماز پڑھنا ممکن ہو تو فرض و واجب نماز کے لئے سواری کو ٹھہرانا اور قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے ورنہ نماز جائز نہیں ہو گی اور اگر ٹھہرانا ممکن ہے لیکن استقبال قبلہ ممکن نہیں تو ٹھہرانا لازمی ہو اور استقبال قبلہ معاف ہے اور اگر ٹھہرانا ممکن نہ ہو لیکن استقبال قبلہ ممکن ہو تو استقبال قبلہ لازمی ہے اور ٹھہرانا معاف ہے
۴. فرض و واجب نمازوں کے سواری پر ادا کرنے کے باقی مسائل وہی ہیں جو نوافل کے سواری پر ادا کرنے کے بیان ہوئے
۵. اگر محمل یا گاڑی ( بہلی یکہ وغیرہ) کا ایک سرا ( جوا) جانور کے اوپر رکھا ہو تو خواہ وہ گاڑی چلتی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو اس میں نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو جانور پر نماز پڑھنے کا ہے یعنی فرض و واجب بلا عذر جائز نہیں اور سنت و نفل بلا عذر جائز ہیں اور اگر گاڑی کا جوا جانور پر نہ ہو تو وہ زمین یا تخت کے حکم میں ہے پس اس میں نماز فرض بلا عذر بھی جائز ہے مگر قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر پڑھے اور اگر قیام پر قدرت نہ ہو اترنا بھی ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھے
کشتی و جہاز میں نماز پڑھنے کے مسائل
۱. اگر کشتی یا جہاز پانی پر چل رہا ہو تو فرض و واجب نماز عذر کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنا بالاتفاق جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر جائز نہیں یہی مختار و معتبر ہے ، عذرات یہ ہیں سر چکرانا، گر پڑنا اور قدم نہ جمنا، کشتی سے باہر نکلنے پر قادر نہ ہونا
۲. اگر کشتی پانی پر چل نہ رہی ہو بلکہ کنارے پر بندھی ہوئی ہو تو اس میں قیام پر قادر ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں کیونکہ یہ زمین کی مثل ہے لیکن جس عذر کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے اسی عذر سے کشتی و جہاز میں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے
۳. کشتی و جہاز میں نماز شروع کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور جب کشتی گھومے تو نماز پڑھنے والا بھی اپنا منھ قبلے کی طرف پھیر لے اور ہر دفعہ کشتی کے گھومنے کے ساتھ قبلے کی طرف گھومتا جائے یہاں تک کہ تمام نماز قبلے کی طرف پوری کر لے، اگر قدرت کے باوجود قبلے کی طرف نہیں گھومے گا تو اس کی نماز بالاتفاق جائز نہ ہو گی
۴. کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع و سجود پر قادر ہوتے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں ، اور اگر رکوع و سجود پر قادر نہ ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا جائز ہے
۵. ایک کشتی میں جماعت سے نماز پڑھنے کے وہی مسائل ہیں جو زمین پر جماعت کرنے کے ہیں ، ایک کشتی میں سوار آدمی کی اقتدا دوسری کشتی میں سوار آدمی کے پیچھے جائز نہیں یعنی امام کی نماز ہو جائے گی مقتدی کی جائز نہیں ہو گی لیکن دونوں کشتیاں ملی ہوئی ہوں خواہ بندھی ہوں یا ویسے ہی قریب قریب ہوں تو اقتدا جائز ہے
ریل گاڑی میں نماز پڑھنے کے مسائل
۱. ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ ریل گاڑی چل رہی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو اس لئے کہ ریل گاڑی زمین پر رکھے ہوئے تخت کی مانند ہے اور جانور پر رکھی ہوئی گاڑی کی مانند بھی مان لیا جائے تب بھی عذر کی وجہ سے اترنے کی ضرورت نہیں کیونکہ چلتی ریل میں سے اترنا ممکن نہیں اور کھڑی ریل میں سے اترے گا تو اس کے چل دینے یا مال و اسباب کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہے اور اگر یہ امید ہو کہ نماز کا وقت باقی رہنے تک اترنے کا موقع مل جائے گا تب بھی ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ نماز شروع کرتے وقت عذر کا ہونا معتبر ہے اگرچہ آخر وقت میں اس عذر کے دور ہو جانے کی امید ہو لیکن آخر وقت تک کا انتظار کرنا مستحب ہے
۲. ریل گاڑی میں نماز پڑھنے والے کے لئے استقبالِ قبلہ پر قادر ہوتے ہوئی قبلے کی طرف منھ کرنا ضروری ہے اور اگر ریل گاڑی گھومے تو نمازی بھی گھوم کر قبلے کی طرف منھ کر لے، اسی طرح قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہو گی اور قیام پر قادر نہ ہو تو اخیر وقت تک انتظار کرے پھر بھی قادر نہ ہو تو جس طرف کو ہو سکے نماز پڑھ لے اگر ریل گاڑی اسقدر ہلتی ہو کہ چکر کھانے یا گر جانے کاخوف ہو تو یہ عذر ہے اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے اگر یہ ممکن ہے کہ ریل گاڑی کے ڈبہ کے فرش پر ایک تختہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور دوسرے تختہ پر سجدہ کرے تو اسی طرح کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے اگرچہ اس صورت میں گھٹنے زمین پر نہیں لگتے پس ایسی صورت پر قدرت ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی اس طرح اگر اس شکل سے قبلے کی طرف منھ کرنے پر قادر ہو تو استقبالِ قبلہ ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہ ہو گی
نماز جمعہ کا بیان
فضائل یوم جمعہ
۱. یہ دن ہفتہ کے دونوں میں سب سے افضل دن ہے
۲. اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن آپ کو جنت سے زمین پر اتارا گیا جو تمام بنی آدم، اولیا و انبیا و عوام و خواص کی پیدائش کا سبب بنا اور اسی دن آپ کی توبہ قبول ہوئی
۳. یہ دن مسلمانوں کے لئے عید یعنی خوشی کا دن ہے
۴. اِسی دن قیامت قائم ہو گی
۵. اسی دن اہل جنت کو دیدار الہی ہوا کرے گا لیکن بعض کو اس سے کم مدت میں اور بعض کو اس سے دیر میں بھی ہوا کرے گا
۶. اس روز دوزخ گرم نہیں کی جاتی
۷. اس روز مردے عذاب قبر سے محفوظ رہتے ہیں
۸. جو مسلمان مرد عورت اس دن یا اس کی رات میں مرتا ہے وہ عذاب قبر و فتنہ قبر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے
۹. اس دن روحیں اکٹھی ہوتی ہیں
۱۰. جو شخص جمعہ کے دن آداب کے ساتھ اول وقت مسجد میں جا کر خطبہ سنے اور جمعہ ادا کرے اس شخص کے گزشتہ جمعہ سے اس وقت تک کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور ہر قدم کے عوض ایک سال کامل کی عبادت یعنی نمازوں اور روزوں کا ثواب ملے گا
۱۱. تارک جمعہ کے لئے سخت وعیدیں احادیث میں آئی ہیں
۱۲. اس دن میں ایک سائت ایسی ہے جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے یہ متعین نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے دو قول قوی ہیں
ایک یہ کہ امام کے خطبہ کے لئے ممبر پر بیٹھنے سے ختم نماز تک کسی وقت ہے ،
دوسرا یہ کہ جمعہ کی پچھلی سائت یعنی عصر سے غروب تک کسی وقت ہے ، ہر دن میں ایک سائت قبولیت کی ہوتی ہے پس جمعہ میں دو سائتیں ہو گئیں
۱۳. جمعہ کا دن جمعہ کی رات سے افضل ہے
نماز جمعہ کا حکم
جمعہ کی نماز فرض عین ہے اور اس کی فرضیت کی تاکید ظہر کی نماز سے زیادہ ہے جمعہ کے دن نماز جمعہ نماز ظہر کے قائم مقام کر دی گئی ہے اس لئے نماز جمعہ ادا کرنے سے ظہر اس کے ذمہ سے ساکت ہو جاتی ہے
نماز جمعہ واجب ہونے کی شرطیں
نماز واجب ہونے کی شرطوں کے علاوہ نماز جمعہ واجب ہونے کی کچھ اور بھی شرطیں ہیں جب تک یہ سب شرطیں نمازی میں نہ پائی جائیں اس وقت تک اس پر نماز جمعہ فرض نہیں ہوتی لیکن اگر ایسا شخص نماز جمعہ پڑھ لے تو اس کی نمازِ جمعہ ادا ہو جائے گی اور ظہر کا فرض اس کے ذمہ سے اتر جائے گا مثلاً کوئی مسافر یا کوئی عورت نماز جمعہ پڑھے تو نمازِ ظہر اس کے ذمہ سے اتر جائے گی بلکہ مسافر مرد و مکلّف کے لئے نماز جمعہ پڑھنا افضل ہے البتہ عورت کے لئے اپنی گھر میں نماز ظہر پڑھنا افضل ہے وہ شرطیں یہ ہیں
۱. آزاد ہونا پس غلام پر جمعہ فرض نہیں ہے البتہ مکاتب غلام پر یا جس غلام کا کچھ حصہ آزاد ہو یا باقی کے لئے کما کر مالک کو دیتا ہو اس پر جمعہ فرض ہے
۲. مرد ہونا، عورت اور خنثیٰ مشکل پر جمعہ فرض نہیں ہے
۳. شہر میں مقیم ہونا، مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے
۴. تندرست ہونا مریض پر جمعہ فرض نہیں ہے ، جو مرض جامع مسجد تک پیدل جانے سے مانع ہو اس کا اعتبار ہے بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے مسجد تک نہ جا سکے تو یہ مریض کے حکم میں ہے
۵. چلنے پر قادر ہونا، اپاہج پر جمعہ فرض نہیں ہے
۶. بینا یعنی آنکھوں والا یا ایک آنکھ والا ہونا، جو نابینا خود مسجدِ جمعہ تک بلا تکلف نہ جا سکتا ہو اس پر جمعہ فرض نہیں ہے بعض نابینا بلا تکلف اور بلا مدد بازاروں اور محلوں وغیرہ میں چلتے پھرتے ہیں اور جامع مسجد میں بلا تکلف جا سکتے ہیں ان پر جمعہ فرض ہے
۷. جماعت ترک کرنے کے جو عذرات بیان ہو چکے ہیں ان میں سے کوئی عذر موجود نہ ہونا، اگر ان عذروں سے کوئی عذر پایا جائے تو نماز جمعہ فرض نہیں ہو گی
نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں
۱. مصر یعنی شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں ہونا پس چھوٹے گاؤں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ، قصبہ یا بڑا گاؤں وہ ہے جس کی آبادی مثلاً تین چار ہزار کی ہو یا اپنے آس پاس کے علاقہ میں وہ بڑا گاؤں یا قصبہ کہلاتا ہو اور اس میں ایسی دکانیں ہوں جن میں روزمرہ کی ضروریات بالعموم میسر آ جاتی ہوں کوئی حاکم یا پنچائت وغیرہ بھی ایسی ہو جو ان کے معاملات میں فیصلہ کرتی ہو نیز کوئی ایسا عالمِ دین بھی رہتا ہو جو روزمرہ کے ضروری مسائل ان لوگوں کو بتا سکے اور جمعہ میں خطبہ پڑھ سکے اور نماز جمعہ پڑھا سکے پس ایسے گاؤں میں نماز جمعہ درست و فرض ہے ، شہر کے آس پاس کی ایسی آبادی جو شہر کی مصلحتوں اور ضرورتوں کے لئے شہر سے ملی ہوئی ہوں مثلاً قبرستان، چھاؤنی، کچہریاں اور اسٹیشن وغیرہ یہ سب فنائے مصر کہلاتی ہیں اور شہر کے حکم میں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا کرنا صحیح ہے
۲. بادشاہِ اسلام کا ہونا خواہ وہ عادل ہو یا ظالم یا بادشاہ کا نائب ہونا یعنی جس کو بادشاہ نے حکم دیا ہو اور وہ امیر یا قاضی یا خطیب ہو ان کے بغیر جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے ، بادشاہ کا نائب موجود ہو اور وہ کسی دوسرے شخص سے نماز پڑھوائے تو جائز و درست ہے ، اگر کسی شہر یا قصبہ میں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو اور وہ بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں تو شہر کے لوگ ایک شخص کو مقرر کر لیں اور وہ خطبہ و نماز جمعہ پڑھائے یہ جائز و درست ہے چونکہ ہمارے زمانے میں حکومت کو ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے لہذا لوگ خود کسی شخص کو مقرر کر لیں وہ ان کو خطبہ دے اور نماز پڑھائے یہ جائز و درست ہے
۳. دارالسلام ہونا، دارالحرب میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ( بعض فقہ نے دارالسلام کو شرائط جمعہ میں نہیں لکھا غالباً اس لئے کہ بادشاہِ اسلام ہونے میں یہ شرط خود ہی داخل ہے اور بعض نے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا ہونا بھی شرط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ شرط عقلی احتیاط کے درجہ میں ہے نہ یہ کہ اس کے بغیر شرعاً نماز جمعہ درست نہیں ہوتی اسی لئے بعض فقہ کے نزدیک بادشاہ کا مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے ، واللّٰہ اعلم بصواب)
۴. ظہر کا وقت ہونا، پس وقت ظہر سے پہلے یا اس کے نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں حتیٰ کہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قاعدہ اخیرہ بقدرِ تشہد ادا کر چکا ہو یعنی یہ نماز نفل ہو جائے گی اور اس کو نمازِ ظہر کی قضا دینی ہو گی جمعہ کی قضا نہیں پڑھی جاتی بلکہ اب ظہر ہی کی قضا واجب ہو گی اور اسی نیت جمعہ پر ظہر کی بنا نہ کرے کیونکہ دونوں مختلف نمازیں ہیں بلکہ نئے سرے سے ظہر قضا کرے
۵. وقت کے اندر نماز سے پہلے بلا فصل خطبہ پڑھنا، اگر بغیر خطبہ کے نماز جمعہ پڑھی گئی یا وقت سے پہلے خطبہ پڑھا یا نماز کے بعد پڑھا، یا خطبہ پڑھنے میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ نہ ہو یا خطبہ و نماز میں زیادہ فاصلہ ہو جائے تو نماز جمعہ درست و جائز نہیں ہے
۶. جماعت کا ہونا یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین آدمی خطبے کے شروع سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود ہوں ورنہ نماز جمعہ صحیح نہیں ہو گی، یہ ضروری نہیں کہ جو تین آدمی خطبے کے وقت حاضر تھے وہی نماز میں بھی ہوں پس اگر خطبے کے وقت موجود آدمی درمیان میں کسی وقت چلے گئے ان کے بجائے اور تین آدمی آ گئے اس طرح امام کے ساتھ خطبے کے شروع سے پہلی رکعت کے سجدے تک ہر حال میں تین آدمی موجود رہیں تو نماز جمعہ درست ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ تین آدمی ایسے ہوں جو امامت کر سکیں پس اگر عورتیں یا نابالغ لڑکے ہوں تو نماز جمعہ درست نہ ہو گی اسی طرح اگر پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے لوگ چلے جائیں اور تین آدمیوں سے کم باقی رہ جائیں یا کوئی نہ رہے تو نماز جمعہ فاسد ہو جائے گی لیکن اگر سجدہ کرنے کے بعد چلے جائیں تو کچھ حرج نہیں نماز جمعہ درست ہو جائے گی
۷. اذنِ عام، یعنی عام اجازت کے ساتھ علی الاعلان نمازِ جمعہ ادا کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کے دروازے کھول دئے جائیں اور ایسے سب لوگوں کو آنے کی اجازت ہو، جن پر جمعہ ادا کرنا فرض ہے پس ایسی جگہ جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہو گی جہاں خاص لوگ آ سکتے ہوں اور ہر شخص کو آنے کی اجازت نہ ہو، اگر کچھ لوگ مسجد میں جمع ہو کر مسجد کے دروازہ بند کر لیں اور نماز جمعہ پڑھیں تو جائز نہیں ہو گی
فائدہ: اگر شرائط صحتِ جمعہ سے کوئی شرط نہ پائی جائے اس کے باوجود کچھ لوگ نمازِ جمعہ پڑھیں تو ان کی نماز جمعہ ادا نہ ہو گی، ان پر نماز ظہر ادا کرنا فرض ہے اور یہ نماز نفل ہو جائے گی، چونکہ نماز نفل کا اہتمام سے پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اس لئے اس حالت میں نماز جمعہ پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے
مسائل خطبہ جمعہ
جمعہ کے خطبہ کے فرائض
۱. وقت اور وہ زوال کے بعد ہے یعنی ظہر کی نماز کا وقت ہے ، اگر زوال سے پہلے خطبہ پڑھا تو جائز نہیں
۲. خطبہ کا نماز جمعہ سے پہلے ہونا پس اگر نمازِ جمعہ کے بعد پڑھا تو جائز نہیں ہے
۳. خطبہ کی نیت سے لوگوں کے سامنے اللّٰہ تعالی کا ذکر کرنا، اگر صرف الحمد اللّٰہ یا سبحان اللّٰہ یا لا الہ الا اللّٰہ کہہ دے تو خطبہ کا فرض ادا ہو جائے گا لیکن صرف اسقدر پر اکتفا کرنا مخالفت سنت کی وجہ سے مکروہ ہے یہ کراہت بعض کے نزدیک تحریمی اور بعض کے نزدیک تنزیہی ہے صاحبین کے نزدیک ذکرِ طویل یعنی کم از کم تشہد کی مقدار ہونا ضروری ہے اس سے کم جائز نہیں
۴. خطبہ ایسے لوگوں کے سامنے پڑھنا جن کے موجود ہونے سے جمعہ درست ہوتا ہے یعنی کم از کم تین بالغ و عاقل مرد ہوں خواہ وہ معذور ہوں یعنی مسافر یا مریض یا غلام ہوں اور خواہ بہرے ہوں یا سوئے ہوئے ہوں یا دور ہوں ، آواز وہاں تک نہ پہنچتی ہو تب بھی خطبہ جائز و درست ہے بعض کے نزدیک ایک دو آدمیوں کے سامنے خطبہ پڑھنے اور تین آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے خطبہ و نمازِ جمعہ درست ہے لیکن پہلے قول میں احتیاط زیادہ ہے ، اگر امام نے تنہا خطبہ پڑھایا یا صرف عورتوں اور بچوں کے سامنے خطبہ پڑھا تو صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں اور جمعہ درست نہیں ہو گا
۵. خطبہ کا جہر سے ہونا یعنی اتنی آواز سے ہو کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو پاس والے لوگ سن سکیں
۶. خطبے و نماز کے درمیان زیادہ وقفہ نہ ہونا
خطبے کی سنتیں و مستحبات
۱. طہارت یعنی خطیب کا حدثِ اکبر و اصغر سے پاک ہونا محدث و جنبی کو خطبہ پڑھنا مکروہ ہے اور اس کا لوٹانا مستحب ہے
۲. ستر عورت ہونا، یہ اگرچہ فی ذاتہ فرض ہے خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ہو لیکن خطبے کے لئے سنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بغیر خطبہ پڑھا تو کراہت کو ساتھ صحیح ہو جائے گا اگرچہ بلا ستر ہونے کا گناہ اس پر الگ لازم آئے گا اس طرح مسجد میں داخل ہونے کے لئے حدث اکبر سے طہارت ہونا واجب ہے لیکن خطبے کے لئے سنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گا لیکن مسجد میں حدث اکبر کی حالت میں داخل ہونے کا گناہ الگ ہو گا
۳. خطبہ شروع کرنے سے پہلے خطیب کا منبر پر بیٹھنا
۴. خطیب کا منبر پر ہونا اور منبر کا محراب کے بائیں جانب ہونا اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اقتدا کی نیت سے خطبہ پڑھنا
۵. اگر منبر نہ ہو تو عصا(لاٹھی) ہاتھ میں لینا، اور منبر ہو تو عصا ہاتھ میں لینا سنتِ غیر مؤکدہ ہے
۶. جو شہر تلوار سے فتح ہوا ہو اس میں اگر خطیب امام المسلمین یا اس کا نائب ہو تو خطبے کے وقت تلوار گردن میں لٹکائے ، بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کے علاوہ اور کوئی ایسا نہ کرے اور جو شہر تلوار سے فتح نہیں ہوا وہاں ایسا نہ کرے
۷. جب خطیب منبر پر بیٹھ جائے تو دوسری اذان اس کے سامنے دینا، یہ اذان خطیب کے سامنے ہونے چاہئے خواہ منبر کے پاس پہلی صف میں ہو یا ایک دو صفوں کے بعد یا ساری صفوں کے بعد مسجد میں ہو یا باہر ہر طرح جائز ہے
۸. خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا عذر کی حالت میں بیٹھ کر خطبہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اور بلا عذر کراہت کے ساتھ جائز ہے ، خطبہ کا کسی کتاب وغیرہ سے دیکھ کر پڑھنا جائز ہے
۹. حاضرین کی طرف منھ اور قبلے کی طرف پیٹھ کرنا اور حاضرین کا قبلہ رو ہو کر بیٹھنا
۱۰. خطبہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دل میں اعوذباللّٰہ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا
۱۱. خطبہ جہر سے یعنی ایسی آواز سے پڑھنا کہ لوگ سن سکیں لیکن صحیح روایت کی بنا پر اتنی آواز سے پڑھنا کہ پاس والے سن سکیں فرض ہے جیسا کہ فرائض خطبہ میں بیان ہوا اور مناسب درجہ تک بلند آواز سے پڑھنا دونوں خطبوں میں سنت ہے لیکن دوسرے خطبے میں پہلے کی نسبت آواز پست ہو
۱۲. دو خطبے پڑھنا
۱۳. دونوں خطبے عربی میں پڑھنا
۱۴. خطبہ الحمد اللّٰہ سے شروع کرنا
۱۵. اللّٰہ تعالی کی حمد و ثنا کرنا جو اس کے لائق ہے
۱۶. شہادتین یعنی اشہد
۱۷. درود شریف پڑھنا
۱۸. وعظ و نصیحت کرنا
۱۹. قرآن مجید کی کچھ آیتوں یا کسی صورت کا پڑھنا اس کی کم سے کم مقدار ایک آیت ہے اور یہ دونوں خطبوں کے لئے الگ الگ سنت ہے
۲۰. دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھنا کہ تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ سکے یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے اس جلسہ کا چھوڑنا برا ہے
۲۱. دوسرے خطبے میں مذکورہ امور یعنی حمد و ثنا و درود شریف و کلمہ شہادتیں کا اعادہ کرنا
۲۲. دوسرے خطبے میں وعظ و نصیحت کے بجائے مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا کرنا
۲۳. خطبے کو زیادہ طویل نہ کرنا بلکہ نماز سے کم رکھنا، دونوں خطبے طوال مفصل کی کسی صورت کے برابر ہوں ، اس سے زیادہ کرنا مکروہ ہے
۲۴. دوسرے خطبے میں نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے آل و اصحاب و ازواج مطہرات خصوصاً خلفائ راشدین اور آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے دونوں چچا حضرت ہمزہ اور حضرت عبّاس رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کا ذکر اور ان کے لئے دعا کرنا مستحسن ہے ، صدر اول سے اس پر عمل چلا آ رہا ہے ، بادشاہ وقت کے لئے عدل و انصاف وغیرہ کی دعا کرنا لیکن ان کی غلط تعریف کرنا مکروہِ تحریمی ہے بلکہ حرام تک ہے
۲۵. دوسرا خطبہ الفاظ مسنونہ الحمد اللّٰہ نعمتہ و نستعینہ الخ سے شروع کرنا مستحب و بہتر ہے
۲۶. خطبے کے وقت حاضرین کا تشہد میں بیٹھنے کی طرح دو زانو بیٹھنا مستحب ہے ، چوکڑی مار کر یا دونوں گھٹنے کھڑے کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے ، یا جس طرح آسانی سے بیٹھ سکے بیٹھ جائے
۲۷. خطبہ ختم ہونے کے متصل ہی اقامت کہہ کر نماز شروع کرنا
ممنوعات و مکروہات خطبہ
۱. جو چیزیں نماز کی حالت میں حرام و ممنوع ہیں وہ خطبے میں بھی حرام و ممنوع ہیں پس جب امام خطبے کے لئے کھڑا ہو اس وقت سے کھانا پینا، کلام کرنا، تسبیح وغیرہ پڑھنا، سلام کرنا، سلام و چھینک کا جواب دینا وغیرہ سب امور منع و حرام ہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا اسم مبارک سننے پر زبان سے درود شریف نہ پڑھیں البتہ دل میں پڑھ لیں اسی طرح صحابہ کرام کے نام پر رضی اللّٰہ عنہ یا چھینک کا جواب الحمد اللّٰہ وغیرہ بھی دل میں کہہ لیں ، قریب و دور سب کے لئے یہی حکم ہے خطیب کے لئے بھی خطبے میں کلام وغیرہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے لیکن نیکی کا امر کرنا اور برائی سے روکنا اور کوئی شرعی مسئلہ بتا دینا جائز ہے
۲. ہر قسم کی نماز پڑھنا و سجدہ کرنا و قرآن مجید وغیرہ پڑھنا منع ہے سوائے صاحبِ ترتیب کے کہ اس کو قضا نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ، اگر کسی نے خطبہ شروع ہونے سے پہلے سنت مؤکدہ قبل جمعہ شروع کی ہوئی ہے تو راجح یہ ہے کہ وہ خطبہ شروع ہونے پر بھی پڑھتا رہے اور اس کو پورا کر لے
۳. اول سے آخر تک خطبہ سننا حاضرین پر واجب ہے ، امام سے قریب ہونا دور ہونے کی بنسبت افضل ہے لیکن قریب ہونے کے لئے خطبہ شروع ہونے پر لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر جانا مکروہِ تحریمی ہے خطبہ شروع ہونے سے پہلے اگر آگے جگہ ہو تو اس طرح جانا جائز ہے
۴. خطیب کے دعا کرتے وقت سامعین کا ہاتھ اٹھانا اور زبان سے آمین کہنا جائز نہیں ہے ایسا کریں گے تو گناہگار ہوں گے، بغیر ہاتھ اٹھائے دل میں دعا مانگنا جائز ہے
۵. خطبے میں درود شریف پڑھتے وقت خطیب کا دائیں بائیں منھ کرنا بدعت ہے اور اس کا ترک لازمی ہے
۶. رمضان المبارک کے آخری خطبے میں وداع و فراغ کے مضامین پڑھانا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ و سلم و اصحاب کرام رضی اللّٰہ عنہم و سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے اگرچہ فی نفس مباح ہے لیکن اس کے پڑھنے کو ضروری سمجھنا اور نہ پڑھنے والے کو مطعون کرنا برا ہے اور بھی کئی برائیاں ہیں ان خربیوں کی وجہ سے ان کلمات کا ترک لازمی ہے تاکہ ان خرابیوں کی اصلاح ہو جائے
۷. جب خطیب خطبے کے لئے منبر پر کھڑا ہو تو لوگوں کو سلام نہ کرے یہی راجح ہے
۸. خطبے کی سنتوں کے خلاف کرنا مکروہ ہے
۹. جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی خطبہ اور جمعے کے لئے سعی ( تیاری) واجب ہے اور خرید و فروخت یا کسی اور کام میں مشغول ہونا مکروہِ تحریمی ہے اور مسجد کے اندر یا اس کے دروازے پر خرید و فروحت کرنا سخت گناہ ہے ، سعی سے مراد اطمینان و وقار کے ساتھ جانا اور ان امور کو ترک کرنا ہے جو خطبہ اور نماز میں حاضر ہونے کے منافی ہیں
۱۰. عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ کسی اور زبان کے اشعار یا تکریر وغیرہ ملانا خلاف سنتِ متوارث اور مکروہِ تحریمی ہے اور اگر کبھی کبھی ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے
خطبہ پڑھنے کا مسنون طریقہ
نماز سے پہلے خطیب منبر پر بیٹھے اور اس کو سامنے مؤذن اذان کہے جب اذان ہو چکے تو امام نمازیوں کے طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور خطبہ پڑھے پہلا خطبہ پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائے پھر کھڑا ہو کر دوسرا خطبہ پڑھے جب دوسرا خطبہ ختم ہو تو امام منبر سے اتر کر محراب کے سامنے کھڑا ہو جائے اور مؤذن حسب دستور تکبیر کہے اور حاضرین کھڑے ہو کر امام کے ساتھ نماز ادا کریں نماز جمعہ کے متفرق مسائل
۱. بہتر یہ ہے کہ جو شخص خطبہ پڑھے وہی نماز پڑھائے اگر نماز کوئی دوسرا شخص پڑھائے تب بھی جائز ہے
۲. اگر امام کو خطبے کے بعد حدث ہو گیا تو اس شخص کو خلیفہ بنانا جائز ہے جو خطبے میں حاضر تھا جو حاضر نہیں تھا اس کو خلیفہ بنانا جائز نہیں ، اگر اس نماز میں حدث ہو تو ہر شخص کو خلیفہ بنانا جائز ہے خواہ وہ خطبے میں حاضر تھا یا نہیں
۳. اگر کسی سمجھدار نابالغ نے بادشاہ کے حکم سے خطبہ پڑھا اور بالغ نے نماز پڑھائی تو جائز ہے یہی مختار ہے
۴. خطبہ ختم ہونے کے بعد متصل ہی تکبیر اقامت کہہ کر نماز شروع کر دینا سنت ہے یعنی خطبہ اور تکبیر اقامت کے درمیان کوئی دنیاوی کام کرنا مکروہِ تحریمی ہے اگر فاصلہ زیادہ ہو جائے تو دوبارہ خطبہ پڑھا جائے لیکن دینی کام مثلاً کسی کو مسئلہ بتانے یا نیکی کا امر کرنے یا برائی سے روکنے یا وضو نہ رہے تو وضو کے لئے جانے سے کوئی کراہت نہیں اور خطبہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے
۵. نماز جمعہ کی نیت کے لئے عربی میں اس طرح کہے
نویت ان اصلی رکعتی الفرض صلوات الجمعہ
اردو میں یہ کہے
( میں نے ارادہ کیا کہ دو رکعت فرض نماز جمعہ پڑھوں ) باقی الفاظ دوسری نیتوں کی طرح کہے
۶. فرض نماز جمعہ دو رکعت ہے امام ہر رکعت میں الحمد کے بعد جو سورة چاہے پڑھے اور ہر رکعت میں قرأت جہر کے ساتھ کرے کبھی کبھی پہلی رکعت میں سورة جمعہ اور دوسری میں سورة منافقوں یا پہلی رکعت سبح اسم ربک العلی اور دوسری میں ھل اتک حدیث الغاشیہ پڑھا کرے لیکن ان پر ہمیشگی نہ کرے
۷. اگر نماز جمعہ میں عذر سے یعنی ہجوم کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کی پیٹ پر سجدہ کرے تو جائز ہے
۸. جو شخص جمعہ کی نماز میں تشہد یا سجدۂ سہو میں یا سجدۂ سہو کے بعد تشہد میں شامل ہوا وہ نماز جمعہ ہی کی نیت کر کے شامل ہو اور شیخین کے نزدیک وہ جمعہ کی نماز پوری کرے خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مسبوق کو اپنی مسبوقانہ نماز میں اختیار ہے کہ قرأت جہر سے پڑھے یا آہستہ پڑھے
۹. جو شخص دوسری نمازوں میں امام ہونے کے لائق ہے وہ نماز جمعہ کا امام ہونے کے بھی لائق ہے پس مسافر یا غلام یا مریض نماز جمعہ کا امام ہو سکتا ہو
۱۰. جس شخص پر جمعہ فرض ہے اسے شہر میں نماز جمعہ ہو جانے سے پہلے نماز ظہر پڑھ لینا مکروہِ تحریمی اور بعض کے نزدیک حرام ہے اور اس کو ظہر پڑھ لینے کے بعد بھی جمعہ کے لئے جانا فرض ہے لیکن اگر کسی کو نماز جمعہ نہ ملی تو اب اس کو ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے جبکہ دوسری جگہ جمعہ نہ مل سکے لیکن جمعہ ترک کرنے کا گناہ اس کے سر ہو گا جو معذور ہے مثلاً مریض و مسافر وغیرہ ان کو امام کے نمازجمعہ سے فارغ ہونے تک ظہر کی نماز ادا نہ کرنا مستحب ہے اور اس سے پہلے پڑھ لینا مکروہِ تنزیہی ہے
۱۱. اگر کوئی گاؤں کا آدمی جمعہ پڑھنے کے لئے شہر میں آیا اور اس کا زیادہ تر مقصد جمعہ پڑھنا ہے اگرچہ دوسری ضروریات کا بھی ارادہ ہو تو اس کو جمعہ پڑھنے کا ثواب ملے گا
۱۲. ایک شہر کی متعدد مسجدوں میں نماز جمعہ جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک ہی مسجد میں سب لوگ جمع ہو کر نماز جمعہ ادا کریں
۱۳. ایک مسجد میں دوبارہ نماز جمعہ کی جماعت کرنا جائز نہیں خواہ بہت سے لوگوں ہی کا جمعہ کیوں نہ فوت ہو جائے ، کسی دوسری ایسی مسجد میں جہاں ہمیشہ نماز جمعہ ہوتی ہے تو وہاں جا کر شامل ہو جائیں اور اگر ایسی کسی مسجد میں نماز جمعہ نہ مل سکے تو نئی جگہ یعنی کسی ایسی مسجد میں جہاں پہلے سے نماز جمعہ نہ ہوتی ہو جمعہ نہ پڑھیں بلکہ الگ الگ ظہر کی نماز پڑھیں ظہر کی نماز بھی جماعت سے نہ پڑھیں
جمعہ کے سنن و آداب
۱. ہر مسلمان کو جمعہ کا اہتمام پنجشنبہ ( جمعرات) سے کرنا چاہئے یعنی اس دن عصر کے وقت سے استغفار وغیرہ زیادہ کریں ، صاف کپڑے اور خوشبو وغیرہ مہیا کر کے رکھے
۲. جمعہ کے دن زیر ناف اور بغلوں کے بال صاف کرے، سر کے بال لبیں ناخن ٹھیک کرائے اگر یہ بہت زیادہ بڑھے ہوئے نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعد ٹھیک کرائے ورنہ نماز جمعہ سے قبل ٹھیک کرانا افضل ہے اور بعض کے نزدیک ہر حال میں جمعہ سے پہلے ہی ان کو ٹھیک کرانا افضل ہے اور احادیث سے بھی اس کی تاکید ہوتی ہے واللّٰہ اعلم بالصواب، مسواک کرے اور غسل کرے، غسل کے وضو سے ہی نماز جمعہ ادا کرنا افضل ہے اور اگر غسل کرنے کے بعد وضو جاتا رہا اور نیا وضو کر کے نماز ادا کی تب بھی سنت غسل ادا ہو گی، اچھے کپڑے پہنے بہتر ہے کہ سفید ہوں جمعہ اور عیدین کے کپڑے عام دنوں کے لباس سے الگ ہوں تو مستحب ہے یہ زہد کے منافی نہیں ہے ممکن ہو تو تیل و خشبو وغیرہ لگائے افضل خوشبو وہ ہے جس میں مشک کے ساتھ گلاب ملا ہوا ہو
۳. جامع مسجد میں بہت سویرے جائے اور پہلی صف میں جگہ لینے کی ہمت کرے جو شخص جتنا سویرے جائے گا اسی قدر ثواب پائے گا لیکن جگہ روکنے کے لئے سویرے سے مصلی بچھا کر چلے جانا ٹھیک نہیں ہے البتہ اگر پہلے سے آ کر ذکر و ورد میں مشغول تھا پھر کسی ضرورت کے لئے جانا پڑا اور کپڑا وغیرہ اپنی جگہ پر چھوڑ گیا تو مضائقہ نہیں
۴. مستحب یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لئے پیدل چل کر جائے سواری پر جانا بھی جائز ہے
۵. جمعہ کے دن سورة کہف پڑھنے میں بہت ثواب ہے خواہ نماز سے پہلے پڑھے یا پیچھے یا جمعہ کی رات میں پڑھے، اور رات یا دن کے اول حصہ میں پڑھنا افضل ہے ، جمعہ کے دن یا رات میں سورة دخان اور سورة یٰس پڑھنے کی فضیلت بھی آئی ہے
۶. جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے میں اور دنوں سے زیادہ ثواب ملتا ہے اس لئے کثرت سے درود شریف پڑھیں
۷. جمعہ کے روز زیارت قبور کرنا مستحب ہے
عیدین کی نماز کا بیان
نماز عیدین کا حکم وغیرہ
شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عید الفطر اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید الاضحٰی کہتے ہیں یہ دونوں دن اسلام میں عید اور خوشی کے دن ہیں ان دونوں عیدون میں دو دو رکعت نماز شکرانے کے طور پر پڑھنا واجب ہے اور یہ ان ہی لوگوں پر واجب ہے جن پر جمعہ فرض ہے جمعہ کی نماز کے فرض ہونے اور صحیح ہونے کے لئے جو شرطیں بیان ہو چکی ہیں وہی سب شرطیں عیدین کی نماز کے لئے بھی ہیں سوائے خطبے کے کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ فرض اور شرط ہے اور اس کا نماز سے پہلے پڑھنا ضروری ہے عیدین کی نماز میں خطبہ شرط یعنی فرض نہیں بلکہ سنت ہے اور نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے ، اگر عیدین کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھ لیا یا بالکل ترک کر دیا تو برا کیا مگر نماز ہو گئی عیدین کے خطبے کا بلکہ تمام خطبوں کا سننا جمعہ کے خطبوں کی طرح واجب ہے اور بولنا، کھانا پینا، سلام و جوابِ سلام وغیرہ سب امور ممنوع و حرام اور مکروہِ تحریمی ہیں تفصیل جمعہ کے خطبے میں بیان ہو چکی ہے ، نماز عیدین کے لئے اذان و اقامت نہیں ہے بلا وجہ عیدین کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے چھوٹے گاؤں میں جہاں جمعہ پڑھنا صحیح نہیں ہے نماز عیدین پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے یعنی وہ نفل ہوں گے اور نفلوں کا جماعت کے ساتھ پڑھانا مکروہِ تحریمی ہے ، اگر جمعہ کے روز عید الفطر یا عید الاضحٰی ہو تو نماز جمعہ اور نماز عید دونوں کا ادا کرنا لازمی ہے
عید کے دن کے سنن و مستحبات
۱. عید کے دن جلدی جاگنا اور صبح کی نماز اپنی محلہ کی مسجد میں پڑھنا
۲. غسل کرنا، اگر کسی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو سر کے بال و لبیں و ناخن وغیرہ نہ کٹائے ہوں تو عید الفطر کے دن کٹانا سنت ہے ، اور عید الضحی میں قربانی کرنے والے کو نماز و قربانی کرنے کے بعد بال بنوانا و ناخن کتروانا مستحب ہے اور اس کو جب ذی الحجہ شروع ہو اس وقت سے پہلے بال و ناخن کتروا لینا چاہئے ، ان دنوں میں مستحب یہ ہے کہ نہ کٹوائے بلکہ حاجیوں کے ساتھ مشابہت پیدا کرے لیکن اگر ذی الحجہ شروع ہونے سے پہلے نہ کتروا سکا اور اب زیادہ بڑے ہو گئے ہوں تو کتروا لینا چاہئے
۳. مسواک کرنا
۴. اپنے پاس موجود کپڑوں میں سے اچھے کپڑے پہنا خواہ نئے ہوں یا دھلے ہوئے سفید ہوں یا دوسری طرح کے
۵. خوشبو لگانا
۶. انگوٹھی پہننا
۷. عید الفطر کے روز عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا چھوارا یا کھجور کھانا افضل ہے ، عید الاضحٰی میں نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے ، اگر کھائے گا تو کوئی کراہت نہیں ہے اور مستحب یہ ہے کہ اس روز سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے
۸. جن پر صدقۂ فطر واجب ہے نماز عید الفطر سے پہلے اس کو ادا کرنا عید الفطر میں اہل وسعت پر صدقۂ فطر واجب ہے عید الاضحٰی میں نہیں بلکہ اہل وسعت پر بعد میں قربانی کرنا واجب ہے
۹. فرحت و خوشی کا اظہار کرنا
۱۰. حسب استطاعت صدقہ و خیرات میں کثرت کرنا
۱۱. عیدگاہ کی طرف جلدی جانا
۱۲. پیدل چل کر جانا افضل ہے سواری پر جانا بھی جائز ہے
۱۳. اگر کئی جگہ نماز عید ہوتی ہو تب بھی عیدگاہ میں جانا سنت ہے
۱۴. وقار و اطمینان کے ساتھ جانا جن چیزوں کو دیکھنا جائز نہیں ان سے آنکھیں ہٹانا اور نیچی نگاہ رکھنا
۱۵. نماز عیدالفطر کے لئے جاتے ہوئی راستہ میں آہستہ یعنی سری طور پر تکبیر کہتے جانا اور نماز عیدالاضحٰی کے لئے جاتے ہوئے جہر ( بلند آواز) سے تکبیر کہتے جانا، جب عیدگاہ میں پہنچ جائے تو تکبیر بند کر دے۔ تکبیر یہ ہے
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
۱۶. نماز کے بعد دوسرے راستے سے واپس آنا
۱۷. آپس میں مبارک باد دینا مثلاً یہ کہنا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے یا یہ کہنا کہ عید مبارک ہو
۱۸. عید کی نماز سےپہلے گھر یا عید گاہ میں نفل نماز نہ پڑھنا اور عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل نہ پڑھنا اور عیدین کی نماز سے واپس آنے کے بعد گھر پر چار رکعت یا دو رکعت نفل پڑھنا، چار رکعت افضل ہے
مکروہاتِ عیدین
۱. سنن و مستحبات کی رعایت نہ کرنا
۲. عیدین کر روز منبر عیدگاہ میں لے جانا مکروہِ تنزیہی و خلافِ اولیٰ ہے ، عیدگاہ میں منبر بنانا مکروہ نہیں یہی صحیح ہے بلکہ فی زمانہ بہتر ہے
۳. عیدین کی نماز سے قبل نفل نماز پڑھنا ہر ایک کے لئے مطلقاً مکروہ ہے خواہ گھر میں پڑھے یا عیدگاہ میں ، نماز عیدین کے بعد عیدگاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے گھر میں پڑھنا مستحب ہے
۴. عید کی نماز سے پہلے نمازِ فجر کی قضا پڑھے تو مضائقہ نہیں اگر فجر کی قضا نہ پڑھی تو عید کی نماز ہو جائے گی خواہ صاحبِ ترتیب ہو
۵. نماز عید کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنا ہر حال میں بدعت و مکروہ ہے اس سے بچنا چاہئے
عیدین کی نماز کا وقت
۱. سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے نصف النہار شرعی سے پہلے تک عیدین کی نماز کا وقت ہے
۲. افضل یہ ہے کہ نمازِ عید الاضحٰی میں جلدی کی جائے تاکہ قربانی میں جلدی کریں اور نمازِ عید الفطر میں دیر کی جائے تاکہ صدقہ فطر ادا کر سکیں
۳. اگر کسی عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز عید کے روز ادا نہ ہوئی تو دوسرے روز اسی وقت پڑھی جائے جو اوپر بیان ہوا لیکن یہ قضا ہو گی ادا نہ ہو گی بلا عذر دوسرے دن اور عذر کے ساتھ تیسرے دن نمازِ عید الفطر جائز نہیں ہے
۴. عیدالاضحٰی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تاریخ تک بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں پہلے دن کے بعد یہ بھی قضا ہو گی اور بلا عذر بارہویں تاریخ تک کراہت واسئات کے ساتھ ادا ہو سکتی ہے عید الفطر دوسرے دن ادا ہونے کے لئے عذرشرط ہے ورنہ جائز نہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا
عیدین کی نماز کا طریقہ
نماز عیدالفطر کی نیت کےعربی الفاظ یہ ہیں
نَوَیتُ اَن اُصَلِّیَ رَکَعتَیِ الوَاجِبِ صَلٰوةَ عِیدِ الفِطرِ مَعَ سِتَّ تَکبِیرَاتٍ وَّاجِبَتٍ
اردو میں یوں کہے
” میں نے نیت کی کہ دو رکعت واجب نماز عیدالفطر چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھوں ”
عید الاضحٰی کی نیت میں صلوة عیدالفطر کی بجائے صلوة عیدالاضحٰی کہے باقی الفاظ دوسری نیتوں کی طرح کہے واجب کا لفظ کہنا شرط نہیں لیکن بہتر ہے ، امام اور مقتدی یہ نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ کر بدستور ہاتھ باندھ لیں اور ثنا (سبحانک الھم) پڑھیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللّٰہ اکبر کہیں اور ہاتھ لٹکتے ہوئے چھوڑ دیں اسی طرح تین مرتبہ کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور ناف پر باندھ لیں ، امام ان تینوں تکبیروں میں تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے پھر امام اعوذ و بسم اللّٰہ آہستہ پڑھ کر الحمد شریف اور کوئی سورة جہر سے پڑھے مستحب یہ ہے کہ سورت الاعلٰی پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں پھر رکوع و سجود کریں اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو امام پہلے الحمد و سورة کی قرأت جہر سے کرے بہتر یہ ہے کہ سورة الغاشیہ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں قرأت ختم کرنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ زائد تکبیریں پہلی رکعت کی طرح کہے ، اب تیسری تکبیر پر بھی ہاتھ چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور دستور کے موافق نماز پوری کر لیں خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں چھ تکبیریں کہنا واجب ہے تین تکبیریں پہلی رکعت میں تحریمہ و ثنا کے بعد تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں الحمد و قرأت سورة کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے یہی افضل و اولٰی ہے لیکن اگر دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی مانند تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے کہہ لے گا تب بھی جائز ہے
خطبہ عیدین کے مسائل
نماز پوری کرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے، دونوں خطبوں کے درمیان خطبہ جمعہ کی طرح تسبیح کی مقدار بیٹھے، جو چیزیں جمعہ کے خطبے میں سنت یا مکروہ ہیں وہی عیدین کے خطبے میں بھی سنت یا مکروہ ہیں مگر دو باتوں کا فرق ہے ایک یہ کہ عیدین میں خطبے سے قبل تکبیر کہنا سنت ہے جمعہ میں نہیں ( پانچ خطبوں کو تکبیر سے شروع کرنا سنت ہے خطبہ عیدین، حج کے تین خطبے) دوسرے یہ کہ جمعہ میں خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا خطیب کے لئے سنت ہے عیدین میں سنت نہیں پس جب خطیب منبر پر چڑھے تو بیٹھے نہیں بلکہ کھڑا ہو کر خطبہ شروع کر دے عید الفطر کے خطبے میں تکبیر و تسبیح ولاالہ الا اللّٰہ و الحمداللّٰہ اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھے مستحب یہ ہے کہ خطبہ کے شروع میں لگاتار نو مرتبہ اللّٰہ اکبر کہے اور دوسرے خطبے کے شروع میں لگاتار سات مرتبہ اور منبر سے اترنے سے پہلے مسلسل چودہ مرتبہ اللّٰہ اکبر کہے ، خطبے میں لوگوں کو صدقہ فطر کے احکام بتائے اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں بھی یہ احکام بیان کرے، عیدالاضحٰی کے خطبے میں بھی خطبۂ عیدالفطر کی طرح پہلے خطبے کے شروع میں نو مرتبہ اور دوسرے خطبے کے شروع میں سات مرتبہ اور منبر سے اترنے کے وقت چودہ مرتبہ اللّٰہ اکبر کہنا مستحب ہے اور تسبیح و تہلیل و تحمید و درود شریف بھی پڑھے اور وعظ و نصیحت کرے، ذبح و قربانی کے احکام اور تکبیراتِ تشریق سکھائے جمعہ کے خطبے کے تمام آداب و سنن پر ان خطبوں میں بھی عمل کرے
عیدین کی نماز کے متفرق مسائل
۱. اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کر لے
۲. اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
۳. اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہے اور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرأت شروع کر چکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
۴. اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی متابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرأت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
۵. اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدۂ سہو کر چکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
۶. اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر ۴ میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر ۵ میں بیان ہوا
۷. لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے
۸. اگر امام عید کی نماز میں پہلی رکعت میں زائد تکبیریں کہنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی تو وہ قرأت کے بعد تکبیریں کہہ لے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو رکوع میں سر اٹھانے سے پہلے کہہ لے اور قرأت کا اعادہ نہ کرے اور اگر دوسری رکعت میں تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تب بھی رکوع میں کہہ لے اور قیام کی طرف نہ لوٹے اگر قیام کی طرف لوٹ جائے گا تب بھی جائز ہے نماز فاسد نہ ہو گی لیکن رکوع کا اعادہ کرے اور قرأت کا اعادہ نہ کرے
۹. عیدین کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع میں جاتے وقت کی تکبیر واجب ہے پس اگر امام سے زائد تکبیریں کل یا بعض یا رکوع میں جانے کی تکبیر فوت ہو گئی تو سجدۂ سہو لازم آتا ہے اگر کر لے تو جائز ہے لیکن جمعہ و عیدین میں کثرت ہجوم کی وجہ سے سجدۂ سہو کا ترک افضل ہے خواہ کسی وجہ سے لازم ہوا ہو اگر ان واجب تکبیروں کو قصداً ترک کرے گا تو مکروہِ تحریمی ہو گا
۱۰. اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو یا شامل ہوا اور اس کی نماز فاسد ہو گئی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا عید کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس میں جماعت شرط ہے اور فاسد ہو جانے کی صورت میں قضا بھی لازم نہیں ہے ، لیکن اگر دوسری جگہ عید کی نماز مل سکتی ہو تو وہاں جا کر شامل ہو جائے کیونکہ عید کی نماز بالاتفاق ایک شہر میں متعدد جگہ جائز ہے اور اگر کئی آدمیوں کو عید کی نماز نہ ملی ہو تو وہ دوسری مسجد میں جہاں عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو نماز عید کی جماعت کر لیں اور ان میں کوئی ایک شخص امام ہو جائے یہ جائز ہے اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہیں اور دوسری جگہ بھی نماز نہ ملے تو گھر آ کر چار رکعت نماز چاشت پڑھ لے اور ان میں زائد تکبیریں نہ کہے کیونکہ یہ نماز عید کی قضا نہیں بلکہ چاشت کے نوافل ہیں
۱۱. اگر امام نے عید الفطر کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد زوال سے پہلے نیز لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ امام نے بے وضو نماز پڑھائی تھی تو نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال سے پہلے لیکن لوگوں کے متفرق ہونے کے بعد معلوم ہوا تو اب اعادہ نہ کریں نہ اس روز اور نہ دوسرے روز، اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا تو دوسرے دن نماز کا اعادہ کریں اور اگر دوسرے دن زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کریں اور اگر عید الاضحٰی میں ایسا ہو تو اگر اسی روز زوال سے پہلے معلوم ہو گیا تو سب آدمیوں میں نماز کے اعادہ کے لئے منادی کرا دیں اور اعادہ کریں اور جس نے معلوم ہونے سے پہلے قربانی کر لی ہے اس کی قربانی جائز ہے معلوم ہونے کی بعد سے زوال تک قربانی جائز نہیں اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا اور لوگوں نے قربانیاں کر لیں تو قربانیاں جائز ہیں ، دوسرے روز نماز کا اعادہ کریں ، دوسرے روز معلوم ہو تو زوال سے پہلے نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال ہو چکا تو تیسرے دن ( بارہویں ذی الحجہ کو) زوال سے پہلے پڑھ لیں اگر تیسرے روز زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کرے
۱۲. اگر عید کی نماز کے وقت جنازہ بھی حاضر ہو تو عید کی نماز کو مقدم کریں گے اور عید کے خطبے پر نماز جنازہ کو مقدم کریں گے
۱۳. عیدین کی نماز کے بعد یا خطبے کے بعد دعا مانگنا منقول نہیں ہے لیکن عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے اس لئے عیدین میں بھی نماز کے بعد دعا مانگنا بہتر و افضل ہونا چاہئے نماز کے بعد کی بجائے خطبے کے بعد دعا مانگنا خلاف اولٰی ہونا چاہئے اور اگر دونوں جگہ ترک کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے
ایام تشریق کی تکبیروں کا بیان
۱. یوم عرفہ یعنی۹ ذی الحجہ و یوم قربانی یعنی۱۰ ذی الحجہ اور ایام تشریق یعنی ۱۱ ذی الحجہ تا ۱۳ ذی الحجہ، ان پانچ دن میں تکبیراتِ تشریق کہی جاتی ہیں
۲. یہ تکبیر کہنا واجب ہے
۳. ان تکبیرات کا وقت عرفہ یعنی ۹ ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے شروع ہوتا ہے اور تیرہویں ذی الحجہ ( ایام تشریق کا آخری دن) کی نماز عصر تک ہے یہ سب تئیس (۲۳) نمازیں ہوئیں جن کے بعد یہ تکبیر واجب ہے
۴. اس تکبیر کا بلند آواز ( جہر) سے ایک بار کہنا واجب ہے ذکر سمجھ کر دو یا تین بار کہنا افضل ہے اگر عورتیں کہیں تو آہستہ کہیں
۵. اس تکبیر کا کہنا نماز کا سلام پھیرنے کے بعد فوراً متصل ہونا واجب ہے اگر جان بوجھ کر یا بھول کر مسجد سے نکل گیا یا حدث کیا تو یہ تکبیر ساقط ہو جائے گی مقتدی کو امام سے پہلے تکبیر کہنا جائز ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ امام کے بعد کہے اور اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی فوراً کہہ دیں امام کا انتظار نہ کریں
۶. اس تکبیر کے الفاظ یہ ہیں
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
۷. اس کی شرائط یہ ہیں
۱. مقیم ہونا،
۲. شہر میں ہونا،
۳. فرض نماز جماعتِ مستحبہ سے پڑھنا،
پس یہ تکبیر مسافر اور گاؤں کے رہنے والے اور عورت پر واجب نہیں ہے لیکن اگر یہ لوگ ایسے شخص کے مقتدی ہوں جس پر تکبیر واجب ہے تو ان پر بھی واجب ہو جائے گی، اکیلے نماز پڑھنے والے پر بھی یہ تکبیر واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ کہہ لے تو بہتر ہے اسی طرح مسافر اور عورت بھی کہہ لے تو بہتر ہے
۸. یہ تکبیر مذکورہ وقتوں میں فرضِ عین نماز کے بعد واجب ہے پس نمازِ وتر و عیدالالضٰحی و نفل و سنت و نماز جنازہ وغیرہ کے بعد کہنا واجب نہیں ہے لیکن عیدالا ضٰحی کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہہ لے کونکہ بعض کے نزدیک واجب ہے
۹. مسبوق اور لاحق پر بھی یہ تکبیر واجب ہے مگر اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیرنے کے بعد کہیں اگر امام کے ساتھ کہہ لی تو نماز فاسد نہ ہو گی کیونکہ یہ ذکر ہے اور پھر نماز ختم کرنے کے بعد اس کا اعادہ بھی نہ کرے
نمازِ کسوف کا بیان
۱. کسوف یعنی سورج گہن کے وقت دو رکعت نماز ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے چار رکعت پڑھنا افضل ہے اس سے زیادہ پڑھنا بھی جائز ہو اور اس کا جماعت سے ادا کرنا مستحب و افضل ہے بشرطیکہ امام بادشاہ وقت یا اس کا نائب ہو یعنی وہ شخص امام ہو جو جمعہ و عیدین کا امام ہو، امام کی تفصیل جمعہ کے بیان میں دیکھیں ایک روایت میں ہے کہ ہر امامِ مسجد اپنی مسجد میں نمازِ کسوف پڑھا سکتا ہو عورتیں اپنے گھروں میں علیحدہ علیحدہ پڑھیں نیز چھوٹے گاؤں میں لوگ اکیلے اکیلے یہ نماز پڑھیں
۲. سورج گہن کی نماز عام نوافل کی طرح ہے کہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہیں اور اس میں اذان و اقامت نہیں ہے اور مشہور و صحیح قول یہ ہے کہ اس میں خطبہ بھی نہیں ہے ، اگر لوگوں کو جمع کرنا مقصود ہو تو ان لفظوں سے پکاریں الصلوة جامعہ
۳. اس نماز میں قرأت جہر( بلند آواز) سے نہ کریں بلکہ آہستہ پڑھیں یہی صحیح ہے
۴. اس نماز میں قرأت جس قدر چاہے کرے افضل یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں طویل قرأت کرے اگر یاد ہو تو سورة بقر و آل عمران وغیرہ بڑی سورتیں پڑھے رکوع و سجود بھی طویل کرے
۵. نماز کے بعد آفتاب صاف ہونے تک دعا میں مشغول رہے امام دعا مانگے اور مقتدی آمین آمین کہیں ، نماز طویل کرنا اور دعا میں تخفیف کرنا یا دعا میں طول کرنا اور نماز میں تخفیف کرنا دونوں جائز ہیں
۶. اس نماز کو عیدگاہ یا جامع مسجد میں پڑھنا افضل ہے اگر کہیں اور پڑھیں تب بھی جائز ہے اگر سب جمع ہو کر نماز نہ پڑھیں اور صرف دعا مانگ لیں تب بھی جائز ہے لیکن نماز پڑھنا افضل ہے ، امام دعا کے لئے منبر پر نہ چڑھے
۷. اس نماز کا وقت وہ ہے جب سورج گہن ہو رہا ہو، اگر گہن کے وقت یہ نماز نہ پڑھی اور سورج صاف ہو گیا تو پھر نہ پڑھیں اور وہ وقت ایسا ہو جس میں نمازِ نفل پڑھنا مباح و جائز ہو پس اگر ایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز نفل پڑھنا ممنوع و مکروہ ہے تو نماز نہ پڑھیں بلکہ دعا میں مشغول رہیں اور اگر گہن کی حالت میں سورج غروب ہو جائے تو دعا ختم کر کے مغرب کی نماز پڑھیں اسی طرح جس نماز کا وقت آ جائے دعا ختم کر کے اس کو ادا کریں
۹. اگر کسوف کے وقت کوئی جنازہ آ جائے تو نماز جنازہ ادا کریں
نماز خسوف کا بیان
۱. خسوف ( چاند گہن) کے وقت دو رکعت پڑھنا مستحب ہے اس کو جماعت سے پڑھنا نہیں ہو خواہ جمعہ و عیدین کا امام موجود ہو یا نہ ہو ہر حال میں اکیلے اکیلے پڑھیں مسجد میں جانا بھی مسنون نہیں ہے اپنے اپنے گھروں میں پڑھ لیں اگر امام کے علاوہ دو یا تین آدمی ہوں تو جماعت سے ادا کرنا بلا کراہت جائز ہے اس سے زیادہ کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ دیگر نوافل کا حکم ہو باقی مسائل وہی ہیں جو سورج گہن کی نماز کے بیان ہوئے ہیں
۲. اگر ہولناک اور دل کو پریشان کرنے والے حادثات پیش آئیں مثلاً دن یا رات میں بہت سخت آندھی آئے یا لگاتار بارش ہوتی رہے اور بند نہ ہو یا اولے یا برف بکثرت پڑے اور اس کا گرنا بند نہ ہو یا آسمان سرخ ہو جائے یا دن میں سخت تاریکی ہو یا زلزلے آئیں یا بجلیاں بکثرت کڑکیں یا گریں یا ستارے بکثرت چھوٹنے لگیں یا کوئی مرض طاعون ہیضے وغیرہ کا زور عام ہو جائے یا دشمن کا خوف غالب ہو وغیرہ تو مستحب ہے کہ ان حوادث کے دفعیہ کے لئے دو رکعت نماز اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں یا مساجد میں پڑھیں جماعت سے ادا نہ کریں اور نماز کے بعد اس کے دفعیہ کے لئے دعا کریں ان موقعوں کے لئے احادیث میں جو دعائیں آئی ہیں ان کا پڑھنا مستحب ہے
نماز استسقا کا بیان
۱. استسقا کے معنی خشک سالی کے وقت اللّٰہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے لئے کیفیتِ مسنونہ کے ساتھ نماز پڑھنا و استغفار و دعا کرنا ہے یہ نماز و دعا ایسے مقام میں مشروع ہے جہاں جھیلیں تالاب نہریں اور ایسے کنویں نہ ہوں جن سے لوگ پانی پئیں اور اپنے جانوروں کو پلائیں اور کھیتوں کو پانی دیں یا اگر ہو تو کافی نہ ہو
۲. نمازِ استسقا کا جماعت کے ساتھ پڑھنا سنتِ مؤکدہ نہیں ہے البتہ جائز بلکہ مستحب ہے اور اس میں خطبہ بھی نہیں ہے لیکن دعا و استغفار ہے ، اگر جدا جدا نفل پڑھیں تب بھی مضائقہ نہیں ، اگر جماعت سے ادا کریں تو امام عید کی نماز کی طرح اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت نماز استسقا پڑھائے دونوں رکعتوں میں جہر سے قرأت کرے افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورة ق اور دوسری رکعت میں سورت القمر پڑھے یا پہلی رکعت میں سورت الاعلی اور دوسری میں الغاشیہ پڑھے نمازے عید کی طرح تکبیراتِ زائد کہنے میں اختلاف ہے لیکن مشہور روایت کی بنا پر نہ کہے
۳. نماز کے بعد امام لوگوں کی طرف منہ کر کے زمین پر کھڑا ہو اور امام محمد کے نزدیک دو خطبے پڑھے جن میں اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر و تسبیح و تہلیل وغیرہ کے بعد دعا و استغفار زیادہ ہو، دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ کرے، امام ابو یوسف کے نزدیک ایک ہی خطبہ پڑھے جب کچھ خطبہ پڑھ چکے تو اپنی چادر کو پلٹ لے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اوپر کی جانب نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کی جانب کر لے اس طرح پر کہ دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں جانب کے نیچے کا کونہ پکڑ لے اور بائیں ہاتھ سے دائیں جانب کے نیچے کا کونہ پکڑ لے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے اس طرح پھیرے کہ دائیں ہاتھ والا سرا دائیں کندھے پر آ جائے اور بائیں ہاتھ والا سرا بائیں کندھے پر آ جائے ’ اس میں حال بدلنے کی نیک فال کی طرف اشارہ ہے مقتدی چادر نہ پلٹیں
۴. جب امام خطبہ سے فارغ ہو تو جماعت کی طرف پیٹھ کر کے قبلے کی طرف کو منھ کر لے اور پھر اپنی چادر کو پلٹے اور کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ خوب بلند اٹھا کر استسقا کی دعا میں مشغول ہو، مقتدی امام کی دعا پر آمین کہتے رہیں جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں بہتر ہے کہ ان کو پڑھے، اپنے الفاظ میں بھی دعائیں کرنا جائز ہے ، دعا کا عربی میں ہونا ضروری نہیں ، اگر احادیث کی دعائیں یاد نہ ہوں تو اپنی زبان میں اس مطلب کی دعائیں مانگے
۵. مستحب یہ ہے کہ امام لوگوں کے ساتھ برابر تین دن تک نماز استسقا کے لئے باہر نکلے تین دن سے زیادہ نہیں کیونکہ اس سے زیادہ ثابت نہیں ہے ، منبر نہ لے جائیں ، مستحب ہے کہ نماز استسقا کے لئے باہر نکلنے سے پیشتر لوگ تین دن تک روزہ رکھیں اور گناہوں سے خالص توبہ و استغفار کریں اور چوتھے روز امام ان کے ساتھ نکلے سب پیدل ہوں ، بغیر دھلے یعنی معمولی یا پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنیں ، اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے ذلت کی صورت بنائیں عاجزی و انکساری و تواضع کرتے ہوئی سروں کو جھکائے ہوئے چلیں ، پاؤں ننگے ہوں تو بہتر ہے ، ہر روز نکلنے سے پہلے صدقہ و خیرات کرنا مستحب ہے ، ہر روز نئے سرے سے دل سے توبہ و استغفار کریں ، بوڑھے مرد و عورت اور بچوں کو ساتھ لے جائیں ان کو آگے کر دیں تاکہ وہ دعا مانگیں اور جوان آمین کہیں ، بچے اپنی ماؤں سے جدا رکھے جائیں تاکہ ان کے بلبلانے سے رحمت الٰہی جوش میں آ جائے ، اپنے جانوروں کو بھی ہمراہ لے جانا مستحب ہے ، غرض کہ رحمت الٰہی کے متوجہ ہونے کے تمام اسباب مہیا کریں
۶. اگر امام نہ نکلے تو لوگوں کو نکلنے کے لئے کہے اور اگر اس کی اجازت کے بغیر نکلیں تب بھی جائز ہے ، کسی کافر کو اس وقت اپنے ہمراہ نہ لے جائیں
۷. مکہ معظمہ کے لوگ نمازِ استسقا کے لئے مسجدالحرام میں جمع ہوں ، بیت المقدس کے لوگ مسجد الاقصٰی میں اور مدینہ منورہ کے لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوں اور اپنے جانوروں کو ان مساجد کے دروازوں پر کھڑا کریں ، باقی جگہوں کے لوگ بستی کے باہر میدان میں نکلیں
۹. مستحب ہے کہ سر سبز جگہ کے لوگ قحط زدہ لوگوں کے لئے دعا کریں ،
نمازِ خوف کا بیان
۱. یہ کوئی الگ نماز نہیں ہے ، بلکہ جہاد کرتے وقت جب فرض و واجب نماز کا وقت آ جائے اور سب کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں دشمن کے حملہ کرنے کا خطرہ ہو یا کسی اور دشمن سے یہ خطرہ ہو تو جماعت کے دو گروہ کر کے ایک گروہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسراگروہ دشمن کے مقابل رہے جس کی ترکیب آگے آتی ہے یہ نماز کتاب و سنت سے ثابت ہے
۲. اس نماز کاسبب خوف ہے اور دشمن کا یقیناً موجود ہونا شرط ہے ، دشمن خواہ انسان ہو جیسے کفار وغیرہ یا درندہ جانور یا اژدھا وغیرہ بڑا سانپ ہو یا آتشزدگی یا ڈوبنے وغیرہ کا خواف ہو سب کے لئے اس نماز کاحکم برابر ہے
۳. دشمن یقیناً موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قریب اور سامنے ہو کہ نظر آ رہا ہو اور یقین کے ساتھ یہ خوف ہو کہ اگر سب جماعت میں مشغول ہوں گے تو وہ حملہ کر دے گا اگر دشمن دور ہو تو نماز خوف جائز نہیں
۴. نماز خوف کی کیفیت یہ ہے کہ اگر سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر ضد نہ کریں بلکہ اس بات پر راضی ہوں کہ کچھ لوگ بعد میں دوسرے امام کے پیچھے پڑھ لیں گے تو امام کے لئے افضل یہ ہے کہ دو گروہ کرے ایک گروہ کو دشمن کے مقابلے پر بھیج دے اور خود دوسرے گروہ کے ساتھ پوری نماز پڑھ لے، پھر یہ گروہ دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ مقابلے سے واپس آ جائے اور امام ان میں سے کسی آدمی کو حکم کرے کہ امامت کر کے اس گروہ کو پوری نماز پڑھائے اور اگر سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر اسرار کریں تو پھر دو گروہ کر کے نماز پڑھنے کے متعدد طریقے حدیثوں میں آئے ہیں وہ سب معتبر اور جائز ہیں لیکن اس میں فقہ کا اختلاف ہے کہ کون سا طریقہ اولٰی اور بہتر ہے ، امام ابو حنیفہ رحمت اللّٰہ کے نزدیک خضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ ہ کی روایت پر عمل کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ قرآن مجید میں مذکورہ کیفیت سے زیادہ ملتی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اگر وہ نماز دو رکعت والی ہو یعنی نماز فجر یا جمعہ یا عیدین یا نماز قصر ہو تو جب دوسرا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکے اور سجدے سے سر اٹھائے تو یہ گروہ دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ مقابلے سے واپس آ جائے اور امام اتنی دیر بیٹھا ان کا انتظار کرتا رہے اور ان کے آنے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت شروع کرے، یہ گروہ امام کے پیچھے دوسری رکعت ادا کر کے اور امام کے ساتھ تشہد میں بیٹھے جب امام سلام پھیر دے تو یہ گروہ سلام نہ پھرے اور اٹھ کر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا گروہ نماز کی جگہ پر واپس آ کر دوسری رکعت لاحقانہ یعنی بغیر قرأت کے پڑھے کیونکہ وہ اس رکعت میں لاحق ہے پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ نماز کی جگہ پر واپس آ کر ایک رکعت فرداً فرداً قرأت کے ساتھ مسبوقانہ پڑھے کیونکہ وہ سب مسبوق ہیں اور مسبوق منفرد کے حکم میں ہوتا ہے پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے
اگر عیدین کی نماز ہو تو دوسرے گروہ کا ہر شخص اپنی دوسری رکعت میں قرأت کی مقدار اندازاً قیام کرنے کے بعد اپنی اپنی زائد تین تکبیریں کہہ لے پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کرے اور جب پہلا گروہ اپنی مسبوقانہ پہلی رکعت ادا کرے تو وہ بھی قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کرے اور جب پہلا گروہ اپنی مسبوقانہ پہلی رکعت ادا کرے تو وہ بھی قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اگر امام اور قوم دونوں مقیم ہوں اور نماز چار رکعت والی ہو تو پہلا گروہ دشمن کے مقابلہ پر جائے اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اس گروہ کے لئے دو رکعتوں کا امام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اگر یہ گروہ ایک رکعت پڑھے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی پھر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے اور تشہد پڑھنے کے بعد یہ گروہ دشمن کو مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ واپس آ جائے ، امام اتنی دیر بیٹھ کر ان کا انتظار کرے پھر ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اور تشہد، درود و دعا پڑھ کر سلام پھر دے، پہلے گروہ کے مقتدی امام کے ساتھ سلام نہ پھیریں اور دشمن کے مقابلہ پر چلے جائیں اور دوسرا گروہ نماز کی جگہ واپس آ کر دو رکعت قرأت کے بغیر یعنی لاحقانہ پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے پھر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ واپس آ کر دو رکعتیں قرأت کے ساتھ مسبوقانہ پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے، یہ طریقہ مستحب و افضل ہے اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں اگر امام مقیم ہو اور جماعت کے لوگ مسافر ہوں یا بعض مقیم اور بعض مسافر ہوں تو وہی طریقہ ہے جو سب کے مقیم ہونے کی صورت میں بیان ہوا ہے ، اور اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہو تو ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر دشمن کو مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا دشمن کے مقابلہ والا گروہ واپس آ کر ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے اور دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے امام تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور پہلا گروہ واپس آ کر تین رکعت لاحقانہ بغیر قرأت کے پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر کر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا گروہ واپس آ کر تین رکعتیں مسبوقانہ پڑھے یعنی پہلی رکعت میں الحمد و سورت پڑھے اور دوسری اور تیسری رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اگر چار رکعتی نماز میں امام نے پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر دوسرے گروہ کو ساتھ ایک رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر پہلا گروہ آیا اور امام نے ان کے ساتھ یعنی تیسری رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر دوسرا گروہ آیا اور امام نے ان کے ساتھ چوتھی رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے تو سب مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح اگر قوم کے چار گروہ کر کے امام ہر گروہ کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھے تو پہلے اور تیسرے گروہ کی نماز فاسد ہو گی اور دوسرے اور چوتھے گروہ کی نماز صحیح ہو جائے گی پس دوسرا گروہ اپنی بقیہ نماز تین رکعتیں اس طرح پڑھے کہ پہلی دو رکعتوں میں قرأت نہ پڑھے اور ان میں وہ لاحق یعنی حکماً امام کے پیچھے ہے اور تیسری رکعت میں الحمد اور سورت پڑھے کہ اس میں وہ مسبوق ہے اور چوتھا پھر قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں بھی الحمد اور سورت پڑھے اور اس پر قعدہ نہ کرے پھر تیسری رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور قعدہ کر کے تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اگر نماز تین رکعت کی ہو تو پہلے گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اور دوسرے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اگر پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں اور دوسرے گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی
۵. نماز خوف میں حالت نماز میں دشمن کو مقابل جاتے وقت یا نماز پوری کرنے کے لئے وہاں سے واپس آتے وقت یا وضو نہ رہا ہو تو وضو کے لئے جانے آنے میں پیدل چلنا واجب ہے اور یہ چلنا عمل کثیر ہونے کے باوجود معاف ہے اگر ان حالتوں میں سوار ہو کر چلیں گے تو نماز فاسد ہو جائے گی ان حالتوں کےعلاوہ نماز میں کسی اور وجہ سے پیدل چلنے پر بھی نماز فاسد ہو جائے گی
۶. نماز کی حالت میں قتال کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی پس اگر نماز میں ایسی صورت پیش آ جائے تو نماز توڑ کر قتال کریں اور نماز بعد میں وقت ہو تو ادا ورنہ قضا پڑھیں
۷. نماز خوف میں اگر سجدۂ سہو لازم ہو جائے تو جو مقتدی اس وقت امام کے پیچھے ہیں وہ یعنی دوسرا گروہ، سجدۂ سہو میں امام کی متابعت کرے اور لاحق ( یعنی پہلا گروہ) اپنی نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کریں
۸. اگر دشمن کے خوف سے بھاگ کر پیدل چل رہا ہو اور نماز کا وقت آ جائے تو پیدل چلتا ہوا نماز نہ پڑھے بلکہ تاخیر کرے اور وقت جاتا رہے تو قضا پڑھے
۹. خوف کی وجہ سے نماز میں قصر کرنا جائز نہیں ہے
۱۰. اگر خوف اس قدر شدید ہو کہ مذکورہ طریقے پر بھی جماعت سے نماز نہ پڑھ سکے اور دشمن سواریوں سے اترنے کی بھی مہلت نہ دے تو سواری پر بیٹھے بیٹھے اکیلے نماز پڑھ لے اور رکوع و سجود اشارہ سے ادا کرے اگر قبلے کی طرف رخ نہیں کر سکتے تو جدھر کو ممکن ہو سکے نماز پڑھ لے، سوار ہو کر جماعت سے نماز نہ پڑھے لیکن اگر دو یا زیادہ آدمی ایک سواری پر ہوں تو اقتدا صحیح ہو جائے گی سواری پر پڑھی ہوئی نماز کا بعد میں اعادہ واجب نہیں ہو گا سواری پر فرض و واجب نماز اس وقت جائز ہے جب دشمن ان کا پیچھا کر رہا ہو اور اگر مسلمان دشمن کا پیچھا کر رہے ہوں تو سواری پر فرض نماز جائز نہ ہو گی
۱۱. اگر نماز کے اندر امن حاصل ہو گیا مثلاً دشمن چلا گیا تو نماز خوف کو پورا کرنا جائز نہیں بلکہ جس قدر نماز باقی ہے اس کو حالت امن کی طرح پڑھیں مثلاً اگر خوف کی وجہ سے قبلے کی طرف منھ نہیں کر سکا تھا تو اب باقی نماز قبلے کی طرف منہ کر کے پوری کرے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی یا جو گروہ اس وقت چل رہا تھا امن ہونے کی صورت میں اب اس کو چلنا درست نہیں ہے ہر گروہ جہاں ہے وہیں اپنی نماز پوری کر لے
۱۲. جن لوگوں کا سفر کسی معصیت کے لئے ہو ان کو نماز خوف پڑھنا درست و جائز نہیں ہے
۱۳. نماز شروع کرنے سے پہلے جو لوگ جنگ میں مصروف ہیں مثلاً تلوار چلا رہے ہیں اور اب نماز کا وقت ختم ہونے کو ہے تو نماز کو موخر کریں اور لڑائی سے فارغ ہو کر نماز پڑھیں
۱۴. تیرنے والا شخص تیرتا ہوا نماز نہ پڑھے اگر نماز کا وقت اخیر ہو جائے اور اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ کچھ دیر ہاتھ پیروں کو حرکت نہ دے اور ڈھیلے کر دے تو اشارہ سے نماز پڑھ لے نماز صحیح ہو جائے گی اگر یہ ممکن نہیں تو نماز صحیح نہ ہو گی
نمازِ جنازہ کا بیان
نمازِ جنازہ کا حکم
نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے اگر ایک مسلمان شخص نے ادا کر لی تو سب کے ذمہ سے فرض اتر جائے گا خواہ وہ نماز پڑھنے والا مرد ہو یا عورت اور خواہ غلام ہو یا لونڈی اگر ایک شخص نے بھی نمازِ جنازہ نہ پڑھی تو جن کو اس میت کا علم ہو گا وہ سب گناہگار ہوں گے جو اس نماز کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے
نمازِ جنازہ واجب ہونے کی شرطیں
نمازِ جنازہ کے واجب ہونے کی شرطیں وہی ہیں جو اور نمازوں کے واجب ہونے کی ہیں یعنی قادر ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، مسلمان ہونا وغیرہ اس میں ایک شرط اور زیادہ یعنی اس شخص کی موت کا علم ہونا پس جس کو خبر نہ ہو اس پر نمازِ جنازہ فرض اللکفایہ نہیں ہے
صحتِ نمازِ جنازہ کی شرطیں
نمازِ جنازہ کے صحیح ہونے کی شرطیں دو قسم کی ہیں
۱. ایک قسم کی شرطیں وہ ہیں جو نماز پڑھنے والے سے متعلق ہیں اور وہ سوائے وقت کے وہی ہیں جو اور نمازوں کے لئے ہیں یعنی طہارت حقیقی و حکمی، سترِ عورت، استقبال قبلہ، نیت، اس نماز میں تکبیر تحریمہ بھی شرط نہیں بلکہ رکن ہے اور نماز نہ ملنے کے گمان سے اس کے لئے تیمم جائز ہے ، جو شخص جوتا پہن کر نمازِ جنازہ پڑھے اس کے لئے جوتا اور اس کے نیچے کی زمین دونوں پاک ہونے چاہئے ورنہ نماز نہ ہو گی اور اگر کوئی جوتا پاؤں سے نکال جوتے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو صرف جوتے کا پاک ہونا ضروری ہے خواہ اس کے نیچے کی زمین پاک ہو یا نہ ہو
۲. دوسری قسم کی شرطیں وہ ہیں جو میت سے تعلق رکھتی ہیں وہ چھ ہیں
۱. میت کا مسلمان ہونا جب کہ وہ زندہ پیدا ہونے کے بعد مرا ہو، مسلمان خواہ فاسق یا بدعتی بھی ہو اور خواہ اس نے خودکشی کی ہو، اس کی نماز جنازہ صحیح ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا ذکر غسل کے بیان میں گزر چکا اور آگے بھی آتا ہے کافر اور مرتد کی نمازِ جنازہ صحیح نہیں ہے
۲. طہارت یعنی میت کے بدن و کفن اور جگہ کا نجاست حقیقیہ سے پاک ہونا اور میت کے بدن کا نجاستِ حکمیہ سے پاک ہونا میت کے بدن کا نجاست سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غسل دیا گیا ہو اور غسل ناممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہو، اگر غسل دینے کے بعد کفن پہنانے سے پہلے میت کے بدن سے نجاست نکلے تو اس کو دھو دیا جائے ، عسل اور وضو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور اگر کفن پہنانے کے بعد نجاست نکلے تو وہ معاف ہے اس کے دھونے کی ضرورت نہیں چاہے سارا بدن نجس ہو جائے کفن پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاک کپڑے کا کفن دیا گیا ہو پھر اگر بعد میں میت سے نجاست خارج ہو کر کفن نجس ہو گیا تو معاف ہے اور نماز درست ہے جگہ پاک ہونے سے مراد یہ ہے کہ میت پاک پلنگ یا تخت پر ہو، وہ جگہ جس پر پلنگ یا تخت رکھا ہوا ہو اس کا پاک ہونا شرط نہیں اور پلنگ یا تخت وغیرہ کے بغیر میت کو ناپاک زمین پر رکھ دیا جائے تو بعض کے نزدیک نماز درست ہو جائے گی اور بعض کے نزدیک درست نہیں ہو گی
۳. سترِ عورت یعنی جس حصہ بدن کا زندگی میں چھپانا فرض ہے میت کا بھی وہ حصہ بدن چھپا ہوا ہو ورنہ نمازِ جنازہ درست نہیں ہو گی
۴. میت کا کل جسم یا اکثر حصہ جسم امام کے آگے قبلہ کی جانب ہونا ورنہ نمازِ جنازہ درست نہ ہو گی اگر جنازہ الٹا رکھا یعنی امام کے داہنی طرف میت کے پاؤں اور امام کے بائیں طرف میت کا سر ہوا تو نماز ہو جائے گی، لیکن قصداً ایسا کرنے سے سنت متوارثہ کے خلاف کرنے کا گناہ ہو گا اور میت کے بدن کا کوئی حصہ امام کے بلمقابل ہونا بھی شرط ہے خواہ تھوڑا سا ہی ہو
۵. میت کا کل جسم یا اکثر حصہ جسم سر کے ساتھ یا بغیر سر کے یا نصف حصہ جسم مع سر کے موجود ہونا ورنہ نمازِ جنازہ صحیح نہیں ہو گی
۶. میت کا یا میت والے پلنگ یا تخت وغیرہ کا زمین پر رکھا ہوا ہونا اگر میت گاڑی یا جانور پر ہو یا لوگوں کو ہاتھ پر ہو تو نماز صحیح نہ ہو گی لیکن اگر عذر ہو مثلاً زمین پر کیچڑ ہو تو جائز و درست ہے
فائدہ: نمازِ جنازہ میں جماعت کا ہونا شرط نہیں ہے اکیلے شخص کے نماز جنازہ پڑھ لینے سے بھی اس کی فرضیت سب کے ذمہ سے ادا ہو جائے گی اگرچہ وہ اکیلی عورت ہی ہو اور خواہ وہ عورت لونڈی ہی ہو لیکن جماعت سے پڑھنے کی صورت ہر مقتدی کی نماز صحیح ہونے کے لئے ہر مقتدی میں اس کے متعلق شرائط صحتِ نماز کا پایا جانا ضروری ہے ا ور نمازِ جنازہ کی فرضیت ادا ہونے کے لئے صرف امام میں ان شرطوں کا پایا جانا کافی ہے بالغ کا امام ہونا بھی بعض کے نزدیک شرط ہے پس نابالغ کے پیچھے نمازِ جنازہ درست نہیں ہے اور لوگوں کے ذمہ سے یہ فرضِ کفایہ ادا نہیں ہو گا اکیلا نابالغ نمازِ جنازہ پڑھے تب بھی یہ فرضِ کفایہ ادا نہیں ہو گا
ارکان نماز جنازہ
نمازِ جنازہ میں دو رکن ہیں
۱. تکبیرِ تحریمہ سمیت چار تکبیریں کہنا پس تکبیر تحریمہ بھی اس میں رکن ہے شرط نہیں ہے
۲. قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا بلا عذر بیٹھ کر یا سواری پر نمازِ جنازہ پڑھی تو نہ ہوئی لیکن اگر عذر ہو تو جائز ہے
نمازِ جنازہ کی سنتیں
نمازِ جنازہ میں تین چیزیں سنت مؤکدہ ہیں
۱. پہلی تکبیر کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا یعنی سبحانک اللھم الخ پڑھنا
۲. دوسری تکبیر کی بعد نبی کریم صلی اللّٰہ الیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا
۳. تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا، ان تینوں سنّتوں میں ترتیب بھی سنت ہے
نمازِ جنازہ کا وقت
جب جنازہ حاضر ہو جائے وہی اس کا وقت ہے لیکن نماز کے اوقاتِ مکروہ ثلاثہ ( طلوع آفتاب و نصف النہار و غروب آفتاب) میں نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اس لئے ان وقتوں کو گزار کر پڑھے البتہ عصر کے مکروہ وقت میں جو جنازہ اسی وقت تیار ہوا ہو اس کی نمازِ جنازہ اسی وقت پڑھے جائے یہ مکروہ نہیں ہے
مفسداتِ نماز
جن چیزوں سے اور نمازیں فاسد ہو جاتی ہیں ان سے نمازِ جنازہ بھی فاسد ہو جاتی ہے لیکن عورت کی محاذات (برابر میں کھڑا ہونے) سے یہ نماز فاسد نہیں ہوتی
نمازِ جنازہ کا مفصل طریقہ
میت کو صفوں کے آگے وست میں رکھا جائے اور امام میت کے سینے کے مقابل قبلہ رخ کھڑا ہو اور لوگ پیچھے صفیں بنائیں جیسا کہ تفصیل آگے آتی ہے امام ! اور قوم نمازِ جنازہ کی نیت اس طرح کریں کہ
"میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی نیت کرتا ہوں اور خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوں نماز اللّٰہ کے لئے ہے اور دعا میت کے لئے ”
مقتدی امام کی اقتدا کی نیت بھی کرے پھر دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھا کر امام بلند آواز سے تکبیر ( اللّٰہ اکبر) کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہیں اور امام و مقتدی سب عام نمازوں کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں اور دوسری نمازوں کی طرح ثنا (سبحاک اللھم) آہستہ پڑھیں لیکن اس ثنا میں ! وتعالیٰ جدک کے بعد و جلّ ثناءُ ک زیادہ کرنا بہتر ہے پھر بغیر ہاتھ اٹھائے امام بلند آواز سے اس کے بعد مقتدی آہستہ اللّٰہ اکبر کہیں اور درود شریف پڑھیں بہتر وہی درود شریف ہے جو دوسری نمازوں میں آخری قعدہ میں پڑھتے ہیں پھر تیسری تکبیر اسی طرح بلا ہاتھ اٹھائے امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ کہیں اور اپنی اور میت اور تمام مومنین اور مومنات کے لئے دعا کریں جو دعائیں احادیث میں آئیں ہیں ان میں سے پڑھنا بہتر ہے مشہور دعا جو عام طور پر پڑھی جاتی ہے یہ ہے
” اَللّٰھُمَّ اغفِر لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِ نَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیرِنَا وَ کَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَ اُنثَانَا اللّٰھُمَّ مَن اَحیَیطَہُ مِنَّا فَاحیِہِ عَلَی الاِسلَامِ وَمَن تَوَفَّیتَہُ مِنَا فَتَوفَّہُ عَلَی الاِیمَانِ ط”
اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو جو دعا یاد ہو وہی پڑھ لے لیکن وہ دعا اور آخرت سے متعلق ہو اگر کوئی یاد نہ ہو تو یہ پڑھ لینا کافی ہے
"اللّٰھُمَّ الغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ”
اگر میت ایسے مجنون مرد کی ہو جو بالغ ہونے سے پہلے مجنون ہوا ہو یا نابالغ لڑکے کی ہو تو مذکورہ بالا دعا کے بجائے یہ دعا پڑھیں
” اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلہُ لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلہُ لَنَا شَافِعا وَّ مُشَفَّعاً "
اگر میت ایسی مجنون عورت یا نابالغ لڑکی کی ہو تو یہی دعا مونث کا صیغہ بدل کر یوں پڑھیں
” اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلھَا لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلھَا لَنَا شَافِعتً وَّ مُشَفَّعتً”
دعا کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ کہیں اس کے بعد اور کوئی دعا نہ پڑھیں بلکہ سلام پھیر دیں جیسا کہ اور نمازوں میں پھیرتے ہیں اور دوسرے سلام کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں دائیں طرف کے سلام میں دائیں طرف کے حاضرین اور فرشتوں کی نیت کرے اور بائیں طرف کے سلام میں بائیں طرف کے حاضرین اور فرشتوں کی اور امام و میت جس طرف ہوں اس طرف کے سلام میں ان کی بھی نیت کرے میت کے سلام کی نیت کرنے میں اختلاف ہے اور دونوں قول صحیح ہیں لیکن نیت میں میت کو شامل کرنے کے قول کو ترجیع معلوم ہوتی ہے
چار تکبیریں اور سلام امام جہر کے ساتھ کہے اور دوسرا سلام پہلے سے کچھ آہستہ ہو اور مقتدی سب کچھ آہستہ کہیں امام اور مقتدی صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھائیں پھر ہاتھ نہ اٹھائیں ، نمازِ جنازہ میں نہ قرأت قرآن ہے اور نہ رکوع و سجود و تشہد ہے
مسبوق و لاحق کی نمازِ جنازہ کا طریقہ
۱. اگر کوئی شخص ایسے وقت آیا کہ امام پہلی تکبیر کہہ چکا تو انتظار کرے اور جب امام دوسری تکبیر کہے یہ اس کے ساتھ تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو جائے اور جب امام سلام سے فارغ ہو جائے تو وہ مسبوق جنازہ اٹھنے سے پہلے اپنی فوت شدہ تکبیر کہہ لے اور اگر وہ اس وقت آیا جب امام دو یا تین تکبیریں کہہ چکا ہے تب بھی انتظار کرے اور جب امام تکبیر کہے اس وقت یہ تکبیر کہہ کر شامل ہو جائے اور فوت شدہ تکبیروں کو امام کے سلام کے بعد ادا کرے، اگر امام کی تکبیر کا انتظار نہ کیا اور فوراً شامل ہو گیا تب بھی اس کی نماز درست ہے لیکن امام کے تکبیر کہنے سے پہلے جو کچھ ادا کیا اس کا اعتبار نہیں
۲. اگر کوئی شخص ایسے وقت آیا جب امام چاروں تکبیریں کہہ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا تو اصح یہ ہے کہ تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد جنازہ اٹھنے سے پہلے تین مرتبہ اللّٰہ اکبر کہہ کر سلام پھیر دے کیونکہ وہ چوتھی تکبیر میں شامل سمجھا جائے گا
۳. مسبوق کو اگر اپنی بقیہ تکبیریں کہنے میں یہ خوف ہے کہ درود یا دعا وغیرہ پڑھنے میں اتنا وقت لگے گا کہ لوگ جنازے کو کندھے پر اٹھا لیں گے تو صرف تکبیریں کہہ لے اور دعا وغیرہ چھوڑ دے اور جب تک جنازہ کندھوں پر نہ رکھا جائے تکبیریں نہ چھوڑے پوری کر لے اور اگر جنازہ کندھے پر رکھنے تک اس کی تکبیریں پوری نہ ہوئی تو باقی کو چھوڑ دے
۴. اگر مسبوق کو یہ معلوم ہو سکے کہ یہ کون سی تکبیر ہے تو وہ بھی وہی مسنون ذکر پڑھے اور اگر کسی طرح یہ معلوم نہ ہو سکے یہ امام کی کون سے تکبیر ہے تو بلترتیب اذکار ادا کرے یعنی پہلے ثنا پھر درود پھر دعا پڑھے
۵. لاحق یعنی شروع شامل ہونے کے بعد جس کی بعض تکبیریں درمیان میں رہ گئیں مثلاً پہلی تکبیر میں امام کے ساتھ شامل ہوا پھر کسی دوسری وجہ سے دوسری اور تیسری تکبیر رہ گئی تو وہ امام کی چوتھی تکبیر سے پہلے ان دونوں کو کہہ لے پھر چوتھی تکبیر امام کے ساتھ کہے
صفوں کی ترتیب اور زیادہ جنازوں کی نماز کا بیان
۱. مستحب یہ ہے کہ امام میت کے سینے کے بالمقابل کھڑا ہو اور میت سے دور نہ ہو خواہ میت مرد ہو یا عورت بالغ ہو یا نابالغ
۲. مستحب یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں مقتدی تین صفیں بنائیں مثلاً اگر سات آدمی ہوں تو ان میں سے ایک امام ہو جائے اور تین آدمی پہلی صف میں دو آدمی دوسری صف میں اور ایک آدمی تیسری صف میں کھڑا ہو اگر آدمی بہت زیادہ ہوں اور زیادہ صفیں بنائیں تو طاق عدد یعنی پانچ یا سات وغیرہ بنانا مستحب ہے
۳. نمازِ جنازہ میں دوسری نمازوں کے برخلاف پچھلی صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے کیونکہ اس میں تواضع و انکساری زیادہ ہے
۴. اگر ایک سے زیادہ جنازے جمع ہو جائیں تو افضل یہ ہے کہ ہر ایک جنازے کی نماز علیحدہ علیحدہ پڑھائے اور سب جنازوں کی اکٹھی پڑھنا بھی جائز اور اس میں سب کے لئے نیت کر لے، اگر الگ الگ نماز پڑھے تو افضل یہ ہے کہ جو شخص سب سے افضل ہے پہلے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے پھر اس سے کم فضیلت والے کی پھر اس سے کم کی علٰی ہذاالقیاس اور اگر سب جنازوں کی نماز ایک ساتھ پڑھنا چاہے تو ان کے رکھنے کی تین صورتیں ہیں تینوں جائز ہیں بہتر صورت یہ ہے کہ سب جنازے ایک دوسرے کے پہلو میں رکھ دئے جائیں اس طرح کہ سب کے سر قبلے کی طرف منھ کرنے والوں کے دائیں طرف ہوں ایک کے آگے دوسرا پھر تیسرا جنازہ ہو علٰی ہذاالقیاس اور اس کا سینہ امام کے مقابل رہے اس کی شکل یہ ہے
__________________________________
___________________________
___________________
اگر سب جنازے ایک ہی جنس کے ہوں مثلاً سب مرد یا سب عورتیں ہوں تو جو سب سے افضل ہے وہ امام کے قریب ہونا چاہئے پھر اس سے کم فضیلت والا علٰی ہذالقیاس اگر فضیلت میں سب برابر ہوں تو جس کی عمر زیادہ ہو وہ امام کے قریب رکھا جائے اور اگر جنازے مختلف جنس کے ہوں تو جس طرح زندگی میں امام کے پیچھے صفوں کی ترتیب ہوتی ہے اسی طرح جنازوں کے رکھنے میں کیا جائے
نمازِ جنازہ پڑھنے کا زیادہ حق کس کو ہے
۱. سلطان یعنی مسلمان بادشاہ وقت اگر وہ حاضر ہو ورنہ اس کا نائب اگر وہ بھی نہ ہو تو قاضی شرعی اگر وہ بھی نہ ہو تو صاحب شرط یعنی حاکم اولٰی ہے لیکن آج کل بلعموم یہ بات مفقود ہے یہ حکم وہاں ہے جہاں شرعی حکومت قائم ہو
۲. بادشاہ یا اس کے نائب وغیرہ کی عدم موجودگی میں محلہ کا امام اگر میت کے ولی سے بہتر ہو تو وہ اولٰی ہے اور اگر میت کا ولی بہتر ہو تو وہ اولٰی ہے ، اگر امامِ محلہ نہ ہو تو ولیِ میت یا آدمیوں میں جو میت کا سب سے قریبی رشتہ دار ہے وہ اولٰی ہے ولی کا مذکر و بالغ و عاقل ہونا شرط ہے
۳. ولی اقرب کی موجودگی میں ولی ابعد کو امامت کا حق نہیں لیکن ولی اقرب کو اختیار ہے کہ وہ ولی ابعد کو امامت کے لئے مقدم کر دے اور اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ کسی اجنبی شخص کو مقدم کر دے، یا اجازت دیدے، اگر ولی اقرب موجود نہ ہو تو ولی ابعد جو موجود ہے وہ حقدار ہے
۴. اگر میت نے وصیت کی کہ فلاں شخص میری نمازِ جنازہ پڑھائے یا فلاں شخص غسل دے تو وہ وصیت باطل ہے اور ولی کا حق قائم رہے گا
۵. خاوند ولی نہیں ہے لیکن اگر کوئی نہ ہو تو اجنبی سے وہ زیادہ حقدار ہے
۶. میت پر صرف ایک بار نماز پڑھی جائے لیکن اگر ولی میت کی اجازت کے بغیر کسی ایسے اجنبی شخص نے نماز پڑھائی جس کو ولی پر تقدم نہیں تھا اور ولی نے موجود ہوتے ہوئے اس کی متابعت نہیں کی تو اگر ولی چاہے تو دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے اگر اس سے فرض کی ادائگی نہیں ہو گی کیونکہ فرض نماز کی ادائگی اس اجنبی کے پڑھنے سے ہو گئی ہے پس اگر ولی اعادہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ، جو لوگ پہلے نماز میں شریک تھے وہ ولی کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے اور جو اس وقت شریک نہیں تھے وہ شریک ہو سکتے ہیں اگر ولی اقرب کی عدم موجودگی میں ولی ابعد نے نماز پڑھائی تو ولی اقرب کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حق نہیں ہے
نماز جنازہ کے متفرق مسائل
۱. اگر امام نمازِ جنازہ میں پانچ تکبیریں کہے اور مقتدی امام سے تکبیریں سنے تو مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے اور امام کے سلام کے ساتھ سلام پھیر دے اور اگر امام کے پیچھے تکبیریں کہنے والے آدمی سے سنے تو سب تکبیروں میں متابعت کرے
۲. مسجدِ جماعت میں نمازِ جنازہ پڑھنا مطلقاً ہر صورت میں مکروہِ تحریمی ہے لیکن بارش وغیرہ کے عذر سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے جو مسجد نمازِ جنازہ ہی کے لئے بنائی جائے اس میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے
۳. عام راستہ اور پرائی زمین میں مالک کی رضامندی کے بغیر نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہ ہے
۴. قبرستان میں نمازِ جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے
۵. اگر مغرب کی نماز کے وقت جنازہ حاضر ہوا تو فرضوں کے بعد سنتوں سے پہلے پڑھا جائے اسی طرح ظہر و جمعہ و عشاء کے فرضوں کے بعد کی سنتوں سے پہلے پڑھا جائے
۱. اگر امام نمازِ جنازہ میں پانچ تکبیریں کہے اور مقتدی امام سے تکبیریں سنے تو مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے اور امام کے سلام کے ساتھ سلام پھیر دے اور اگر امام کے پیچھے تکبیریں کہنے والے آدمی سے سنے تو سب تکبیروں میں متابعت کرے
۲. مسجدِ جماعت میں نمازِ جنازہ پڑھنا مطلقاً ہر صورت میں مکروہِ تحریمی ہے لیکن بارش وغیرہ کے عذر سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے جو مسجد نمازِ جنازہ ہی کے لئے بنائی جائے اس میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے
۳. عام راستہ اور پرائی زمین میں مالک کی رضامندی کے بغیر نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہ ہے
۴. قبرستان میں نمازِ جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے
۵. اگر مغرب کی نماز کے وقت جنازہ حاضر ہوا تو فرضوں کے بعد سنتوں سے پہلے پڑھا جائے اسی طرح ظہر و جمعہ و عشاء کے فرضوں کے بعد کی سنتوں سے پہلے پڑھا جائے
٭٭٭
ماخذ:
http://majzoob.org
مواد کی فراہمی میں تعاون: سعادت
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید