FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

روشن چراغ

 

(حصہ اول)

 

 

                   محمد حماد کریمی ندوی

 

خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

 

 

 

 

 

 

 

 

… نوٹ …

(۱) شخصیات کی ترتیب میں عمر کا خیال رکھا گیا ہے۔

(۲) تفصیلی فہرست ہر شخصیت کے تعارف کے شروع میں دے دی گئی ہے۔

 

 

انتساب

 

حمد وستائش تمام کی تمام اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے ہے، جس نے علم اور اہل علم کو فضیلت بخشی۔

درود وسلامتی ہو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر جنہوں نے اُس دور میں جب کہ جہالت کا دور دورہ تھا، علم کی شمع جلائی، اور اہل علم کی فضیلت و برتری بتلائی۔

جس کے نتیجہ میں علم کی شمع اور روشنی کے چراغ ہر سو جگمگائے، اور پورے عالم کو چمکائے۔

انہیں میں ایک نامِ نامی استاذِ گرامی

جناب مولانا عبد الباری ندوی رحمۃ اللہ علیہ

کا بھی ہے، جو ابھی کچھ دنوں قبل مختصر علالت کے بعد اس دارِ فانی سے دارِ آخرت کی طرف کوچ کر گئے۔

میں اپنی اس چھوٹی سی کوشش اور حقیر کاوش کا انتساب ان کی طرف کرنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔

اور بارگاہِ الٰہی میں دست بدعا ہوں، کہ اللہ مولانا کو غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے۔ آمین

محمد حماد کریمی ندوی

٭٭٭

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

عرضِ ناشر

 

سوانح نگاری ایک فن ہے، جس کی مختلف قسمیں ہیں، الگ الگ حصے ہیں، بعض سوانحی تصنیفات وہ ہیں جو خالص معلوماتی ہوتی ہیں اور بعض وہ جن میں معلومات کے ساتھ ساتھ تحقیقات بھی ہوتی ہیں، جبکہ بعض سوانح پر خالص ادبی رنگ رہتا ہے، ان میں زبان و بیان کی چاشنی ہوتی ہے، جو ادبی شہ پاروں اور خاکوں میں شمار کئے جاتے ہیں، جس میں معلومات میں اضافہ کے ساتھ دلوں کی لذت اور ذہنوں کی حلاوت کا سامان بھی ہوتا ہے، سننے والوں کے کان کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں، مزید سننے کی تشنگی باقی رہتی ہے، اور پڑھنے والا اس قدر مست ہوتا ہے کہ کتاب ختم کئے بغیر نہیں رہتا۔

پیشِ نظر تصنیف مولانا محمد حماد کریمی ندوی کی ہے، جسے آپ نے ” روشن چراغ ” کے نام سے موسوم کر کے اس میں موجود شخصیتوں کی زندگیوں، کار ناموں اور تذکروں کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ ان شخصیات پر تحریر کردہ تحقیقی اور معلوماتی مقالات ہیں جو بقیدِ حیات ہیں، جن کی زندگیاں مشعلِ راہ اور جن کی خدمات کے دائرے انتہائی وسیع ہیں، اللہ نے جنہیں یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی دولت سے نوازا ہے، یہ ان شخصیات کے تذکرے ہیں جنہوں نے علم کا خزانہ ورثہ میں پایا ہے، جن کی علمی نسبتیں موروثی ہیں اور ان کے آباء و اجداد بھی علومِ شرعیہ کی نشر  و اشاعت اور دینِ اسلام کی خدمت میں صفِ اول میں رہے ہیں، لہذا یہ علمی، دینی، دعوتی اور فکری ورثہ کا تسلسل ہے، جن ہونہار اولاد کے حق میں آباء کی دعائیں بھی شامل رہی ہیں۔

فاضل مصنف اور نوجوان عالمِ دین نے اس زرین سلسلہ کا آغاز کر کے ایک نئی سمت قدم رکھا ہے اور وہ یہ کہ زندوں کی قدر اُن کی زندگیوں میں کی جائے، ان کے کاموں کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے، ان کے کارناموں سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے، جس کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم علماء کی صحیح قدر ان کی زندگیوں میں پہچانیں گے، داعیانِ حق سے مستفیض ہوں گے، ان کی مجلسوں میں شرکت سے روحانی غذا حاصل کریں گے، نورانی اور ایمانی فضا سے اپنے ذہن و دماغ اور قلب و جگر کو نورانی بنائیں گے، تاکہ ہمیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور صرف مرثیوں یا تعزیتی جلسوں میں تذکروں پر اکتفا کرتے ہوئے یہ نہ کہا جا سکے :ع

جیتے جی ہم نے نہ جانی قدر تیری اے عزیز

اپنی اس تقصیر پہ ہم کس قدر رویا کئے

پیش نظر کتاب کا یہ اسلوب بہت پسند آیا کہ آپ نے ابتدائی زندگی سے لے کر اب تک کے اہم اور روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، ان کی کتابوں، علمی کاوشوں اور تحقیقی کارناموں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، طبع شدہ یا زیرِ طبع کتابوں کو جمع کر کے اس کی فہرستیں بھی دی ہیں، ساتھ ہی ان میں سے ہر ایک کا مختصر سوانحی خاکہ لکھا ہے۔

اور دوسری بات جو قابلِ توجہ ہے وہ مکرمی و مخدومی مولاناسید سلمان حسینی ندوی کے متعلق مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ نے کاروانِ زندگی میں جہاں جہاں ذکر فرمایا ہے، اس کا احاطہ اور مکمل تذکرہ ہے، چونکہ کاروانِ زندگی کی حیثیت علمی، تاریخی، دستاویزی اور توثیقی ہے اور شخصیات کے کارناموں پر ایک گرانقدر شہادت بھی، اس لئے اگر یہی کام دیگر شخصیات بالخصوص مخدومی و مکرمی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے سوانحی خاکہ میں بھی کیا جاتا تو کتاب کی قیمت میں اضافہ ہوتا اور علمی وزن بڑھتا۔

ہمیں انتہائی خوشی ومسرت محسوس ہو رہی ہے کہ اپنے ادارہ ” مکتبۃ الشباب العلمیۃ۔ لکھنو ” سے اس زرین سلسلہ کی اشاعت کے ذریعہ ایک نئے سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں، یہ ہمارے ادارہ سے اس موضوع یعنی زندوں کی زندگیوں میں قدر دانی کی پہلی کڑی ہے اور ہمارے سلسلۂ تصنیفات میں نئے باب کا اضافہ بھی؛ جس شرف کے حصول پر ہم مصنف کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔

ماشاء اللہ، مصنف پر بھی اپنے والدِ ماجد مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی کی محنتوں کے آثار ظاہر و نمایاں اور روشن مستقبل کے آثار واضح و عیاں ہیں، آپ میں عمدہ تحقیقی ذوق اور علمی شوق پایا جاتا ہے، اس سے قبل بھی آپ کے موئے قلم سے اچھی اور عمدہ تحریریں نظرِ قارئین ہو چکی ہیں، اردو کے علاوہ عربی میں بھی اچھا لکھتے ہیں، اب تک دو چار تصانیف آ چکی ہیں، درجنوں مضامین لکھ چکے ہیں، النصیحۃ کے نام سے عربی مجلہ کا اجرا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی علمی کاوشوں کو قبول فرمائے، اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں مکتبہ کے مینیجنگ ڈائرکٹر مولانا محمد ریان ندوی بھٹکلی کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اس گرانقدر سرمایہ کو طباعت کے تمام مراحل سے گزار کر قابلِ استفادہ بنانے میں پوری جد و جہد فرمائی ؛ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام میں اخلاص عطا فرمائے، ہر گام پر مدد فرمائے اور شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین

سید ہاشم نظام ندوی

( مکتبۃ الشباب العلیمیۃ۔ لکھنو )

یکم رجب المرجب ۱۴۳۷ہجری

مطابق : ۹ اپریل ۲۰۱۶ ء عیسوی

٭٭٭

 

 

 

 

دعائیہ کلمات

 

                   از: والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد!

مالکِ کائنات، حاکم ارض وسماوات، خالق حیات و ممات، اور وجود پائے جس کی ذات وبات سے دن و رات، جب کسی بندہ سراپا نیک دھندہ کو غیر معمولی امتیازات و خصوصیات، گوناگوں کمالات و جمالات، بلند پایہ و پاکیزہ عادات و صفات سے نوازتا ہے، اس کو کارہائے نمایاں و گراں قدر علمی و عملی، لسانی و قلمی، فقہی و اصلاحی، تصنیفی و تالیفی، ایمانی و ایقانی، رحمانی و روحانی، ثقافتی و تہذیبی، قومی وسیاسی، تعمیری و تبلیغی، ادبی و تجدیدی اور صحافتی و تحقیقی خدمات کا قابلِ قدر و فخر، باعثِ شکر و شرف اور لائق عز  و رشک موقعہ نصیب فرماتا ہے، پھر اللہ کا یہ پاکیزہ و برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ اپنے خالق و مالک اور حاکم و رازق کی خوشی و خوشنودی کے لئے اپنا سب کچھ لٹا مٹا، یہاں تک کہ سر بھی کٹا دیتا ہے، اوراس کے لازوال، بے مثال، باکمال و با جمال، پسندیدہ وسنجیدہ، دین اسلام، {اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاسْلَام} (سورۂ آل عمران:۱۹) کا بول بالا، حق کا اجالا، نیز باطل کا منہ کالا کرنے کے لئے جی توڑ کوشش و کاوش کرتا ہے، طریقِ مصطفوی، اسوۂ نبوی اور شریعتِ محمدیﷺ کی نشر و اشاعت، خدمت و حفاظت اور اس کی سربلندی، اقبال مندی، شادابی وسرفرازی کے لئے تن من دھن سب قربان کر دیتا ہے، اور اپنا سب کچھ جھونک کر، یا پھونک کر ان اشعار کا مصداق بن جاتا ہے :

پھونک کر اپنے آشیانے کو

روشنی بخش دی زمانے کو

اور :

میری زندگی کا مقصد، تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی

تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس دین کے علمبردار، وفادار، تقویٰ شعار و فرماں بردار بندے کو عزت و عظمت، شان و شوکت، رفعت و شہرت اور مقبولیت و محبوبیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز فرما دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو نہایت ہی خوبصورت و دلکش انداز میں یوں بیان کیا ہے، { اِ نَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّْالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا}(سورۂ مریم:۹۶) ترجمانی: ’’جن لوگوں نے ایمان کیا قبول، نہیں کیا کوئی کام غلط و فضول، اور نیکی کے کام میں سدا رہے مشغول، ان کی محنت اس طرح ہو گی وصول، کہ محبوبیت کا اس کو بنا دیا جائے گا خوشبودار وسدابہار پھول، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو ایک ایسا اعزاز و اکرام اور احسان و انعام دے گا کہ دنیا کا ذرہ ذرہ، چپہ چپہ، کونہ کونہ، گوشہ گوشہ، قریہ قریہ، شہر شہر، پتہ پتہ اور بچہ بچہ ان کا پیروکار اور تابعدار بن جائے گا‘‘، لہٰذا قرآن ذی شان بڑے ہی فکر انگیز، عطر بیز، حکمت ریز اور دلآویز انداز سے اس حقیقت کا یوں اعلان و بیان فرماتا ہے، {وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أنَابَ اِلَیِّ} (سورۂ لقمان:۱۵) اور ایک شاعر نے اپنے ایک پر مغز، معنی خیز، ولولہ انگیز شعر میں کسی حد تک اس حقیقت کی ترجمانی اس طرح کی ہے :

پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

اور پھر جب اللہ کا یہ بندہ دنیا سے اپنا رخ موڑتا ہے، اس کی ہر عزیز و لذیذ اور قیمتی چیز کو چھوڑتا ہے، سب سے اپنا رشتہ توڑتا ہے، اور آخرت و مالک حقیقی سے اپنا تعلق جوڑتا ہے، تو دنیا والے اس کی حیات و خدمات پر، اس کی سیرت و صورت پر، اس کے طعام و قیام کی تفصیلات پر کانفرنس کرتے ہیں، سیمینار منعقد کرتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں، مقالے و مضامین تحریر کر کے ان پر اپنے جرائد، پرچوں اور ماہناموں کے خصوصی نمبر نکالتے ہیں، ان کو خوب خوب خراجِ عقیدت اور تحسین و تبریک پیش کرتے ہیں، اور اس تعلق سے وجود پانے والی کتابیں، تحقیقی مقالے و ادبی مضامین نسلِ نو کے لئے نہایت ہی مفید، قابلِ تقلید اور مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں، ان کی زندگی میں تابندگی آتی ہے، اور بندگی ٔ رب کا شعور پیدا ہوتا ہے، لیکن صاحب فضل و کمال زندہ شخصیات پر بہت ہی کم لکھا جاتا ہے، جب کہ زندہ شخصیات سے استفادہ کا موقعہ بہت ہی زیادہ و بے اندازہ ہوتا ہے، اور علم و عمل، یقین و ایمان خوب خوب تازہ ہوتا ہے، چنانچہ مشہور و عظیم اسلامی رائٹر، عربی مجلّہ ’’الداعی‘‘ دار العلوم دیوبند کے ایڈیٹر، اور اردو ادب میں نرالے شگوفے کھلانے، سدا بہار بیل بوٹے اگانے، اور مخصوص طرزِ فکر کے فاؤنڈر، استاذِ محترم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی کا نہایت ہی معلومات افزا، چشم کشا، بصیرت افروز وسبق آموزاقتباس پیش ہے :

’’لیکن کسی زندہ پر لکھنا، ہم جیسوں کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے، حالانکہ زندہ با کمالوں کی قدر و قیمت سے انسانوں کو متعارف کرانا زیادہ مفید ہے، اس لئے کہ ان سے استفادہ اور فیضیاب ہونے کی راہ کھلی ہوئی ہوتی ہے ‘‘۔

حضرت مولانا اس سلسلہ میں مزید لکھتے ہیں :

’’زندوں کے زندہ رہتے ہوئے ان کے کمال و ہنر کی صحیح معرفت کے بعد ان سے بلاواسطہ و بر وقت فائدہ اٹھا کر، ان کی نکالی ہوئی راہ، انجام دیئے ہوئے کارناموں اور روشن کی ہوئی شمع سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جا سکتا، اور دین و دنیا کی ترقی کی منزلیں زیادہ آسانی اور تیزی سے طئے کی جا سکتی ہیں، کیونکہ زندوں کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے، کہ نظریہ اور نمونۂ عمل دونوں موجود ہوتے ہیں ‘‘۔

آگے مزید لکھتے ہیں :

’’مشین کے ساتھ رہنما کتاب اور کتابِ مبین کے ساتھ نورِ عظیم ایساقانونِ فطرت ہے، جس کو خود خدائے ذو الجلال نے وضع کیا، اس کی راہ دکھائی، اور خلق کو اس پر چلایا ہے، نیز اس کے بندوں نے اس کو طبعی طور پر قبول کر کے اس پر عمل کیا ہے ‘‘۔ (پسِ مرگ زندہ، ص:۹۱۴- ۹۱۶)

ہاں البتہ بعض شخصیات نے اپنی حیات ہی میں اپنے حالات و خدمات پر نہایت ہی بلند پایہ، گراں قدر، نرالی و البیلی کتابیں لکھی ہیں، نمونہ و مثال کے طور پر چند کے نام لکھے جاتے ہیں : (۱) نقشِ حیات، از:حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، استاذِ تفسیر مجاہدِ آزادی حضرت مولانا محمد علی جوہر (۲) آپ بیتی، از:حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلویؒ، مربی ٔ خاص وسرپرست با اخلاص حضرت مولانا علی میاں حسنی ندویؒ (۳) آپ بیتی، از: مشہور فلسفی و صاحبِ طرز اردو ادیب ومفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، دست گرفتہ حضرت مدنیؒ، فیض یافتہ حضرت تھانویؒ (۴) کاروانِ زندگی، از:شہرۂ آفاق، ہمہ گیر و عالمگیر عظمت و محبوبیت کی حامل شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ، بانی عالمی رابطہ ادب اسلامی (۵) داستان میری، از:حضرت مولانا تقی الدین ندوی مظاہری مدظلہ العالی، شاگرد رشید حضرت شیخ الحدیثؒ و حضرت مفکر اسلامؒ۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ، ماشاء اللہ ثم ماشاء اللہ! راقم آثم کے نورِ نظر، لخت جگر، جانِ پدر محمد حماد کریمی ندوی سلمہ اللہ و حفظہ اللہ (بانی و صدر مجلس ثقافت و نشریات اسلام، بانی و ناظم ’’ المعہد الاسلامی العربی‘‘ مظفر پور بہار، مدیر مسؤل سہ ماہی عربی مجلہ ’’النصیحۃ‘‘ جنرل سکریٹری الاسلام اکیڈمی مرڈیشور  بھٹکل، و نائب ناظم جامعہ ربانیہ اشفاقیہ، مظفر پور، بہار، انڈیا) نے زندہ و تابندہ، اور مستقبل کے لئے انشاء اللہ پائندہ (اللہ ہی ہمارے پیارے بیٹے، محمد حماد کو ان بزرگوں میں شامل کرے آئندہ) شخصیات پر ’’ روشن چراغ‘‘ کے نام سے ایک کتاب اپنے قلم سفرنامۂ حج و عمرہ رقم سے لکھنے کا شرف حاصل کیا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ان کی یہ کتاب قبولِ خاص و عام حاصل کرے، اور پوری دنیا میں اس کتاب کا فیض عام و تام ہو، جس طرح کتاب میں مذکور تمام شخصیات عالمی و آفاقی طور پر مقبول و محبوب ہیں، اسی طرح اس کتاب کو بھی یہ شرف و مجد حاصل ہو، آمین

روشن چراغ میں جن پاکباز، صاحبِ سوز وساز، دلنواز، حق کی آواز، ممتاز و باعث صد ناز شخصیات کا ذکرِ خیر ہے، وہ تمام کی تمام آہِ سحرگاہی و نالۂ نیم شبی کی دولت سے خوب خوب نہال و مالامال اور بجا طور پر ان اشعار کی مصداق ہیں :

کون سی خوبی پر جان دوں، کس ادا پر مر مٹوں ؟

خوبیاں لاکھ بھری ہیں آپ کی تصویر میں

خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

جو ذکر کی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن

جو فکر کی صورت میں بجلی سے زیادہ تیز

میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں

جس درۂ نایاب سے خالی ہے صدف کی آغوش

گلشن مین چار سو، ان کے ارماں کے داغ ہیں

روشن ان کے لہو سے گلوں کے چراغ ہیں

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے

جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

ہماری دعا ہے کہ کتاب میں مذکور روشن چراغ سے صرف لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں چراغ روشن ہوں، اور یہ عظیم شخصیات تا دیر روشن رہیں، اور عالم اسلام کو اپنی علمی و عملی روشنی اور تصنیفی و تالیفی چاندنی سے مالامال و نہال کرتے رہیں۔

آمین، یا أرحم الراحمین۔

محمد شرف عالم کریمی قاسمی

بانی و مشرف سہ ماہی عربی مجلہ ’’النصیحۃ‘‘ مرڈیشور، بھٹکل

بانی و ناظم عمومی

جامعہ ربانیہ، انکھولی بیلکونہ، بھروارہ، مظفر پور، بہار

خادم الحجاج و المعتمرین والزوار، مسقط، مکہ و مدینہ

٭٭٭

 

 

 

 

مقدمہ

 

                   از: جناب مولانا سید صہیب حسینی ندوی مد ظلہ العالی

 

اللہ تعالیٰ نے کائناتی کارخانہ بنا کر اس کو مختلف چیزوں سے سجا دیا، پھر ان چیزوں کو خصوصیات و امتیازات سے آراستہ کر دیا، اور اس نظام دنیا کواسباب ومسببات سے جوڑ کر دار الاسباب بنا دیا، اب اگر چیزوں کو پہچاننا ہو تو ان کی خصوصیات و امتیازات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا آسان ہے، مثلاً جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اس کی امتیازی حیثیت کو دیکھنا ہو گا، جو چیزیں حس و حرکت اور نمو نہیں رکھتی ہیں ان کو جمادات میں رکھا جائے گا، جن چیزوں میں نمو اور بڑھنے کی صفت ہو گی ان کو نباتات میں داخل کر دیا جائے گا، جن چیزوں میں نمو کے ساتھ حس و حرکت پیدا ہو جائے گی، اور عقل ناقص ہو گی ان کو حیوانات کے زمرہ میں داخل کر دیا جائے گا، جس کے اندر نمو، حس و حرکت کے ساتھ ساتھ عقل کامل پیدا ہو جائے گی اس کو انسان کہا جائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کہلانے کا وہ مستحق ہو گا جو سب سے اعلیٰ صفات کا حامل ہو، اور عقلِ زائد رکھتا ہو، اسی امتیازی شان کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے : {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم} ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت و پرداخت کے ساتھ وجود عطا کیا‘‘۔

اور کہیں فرمایا: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوَّی، وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدَی} ترجمہ: ’’اپنے بلند و بالا مالک اعلیٰ کی تسبیح کرو، جس نے پیدا کیا، اعضاء درست کئے ‘‘۔

اور کہیں اس طرح ذکر کیا: {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ} ترجمہ: ’’اور ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ہے، شرف عطا کیا ہے ‘‘۔

لہٰذا انسان کی امتیازی شان میں تین چیزیں بنیادی ہیں :۱) عقل، ۲) نقل، ۳) ظرافت، یعنی اچھے انداز سے کاموں کو انجام دینا، یہ تین بنیادی صفات انسان کا جوہر ہیں، جب انسان ان فطری صلاحیتوں کو کسبی اور عملی کاموں کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تو اس کی پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار آنا شروع ہو جاتا ہے، اور جتنا زیادہ عملی چیزوں میں لگے گا اتنا زیادہ ترقیوں کی طرف گامزن ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ اس کی صفت میں جس میں اس نے محنت کی ہے حدِ کمال تک پہنچ جائے گا، انسانی امتیاز میں عقل سب سے بنیادی چیز ہے، اور نقل کے ذریعہ سے ترقیوں کے مراحل طئے ہوتے چلے جاتے ہیں، اور ظرافت کے نتیجے میں اس کے اندر حسن پیدا ہو جاتا ہے، جب ہم اس ناحیہ سے انسان پر غور کرتے ہیں تو وہ ہمارے سامنے آفتاب و ماہتاب، کہکشاؤں اور روشن چراغوں کی شکل میں نظر آنے لگتا ہے، مثلاً جب ہم ایک ماہر ڈاکٹر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حیواناتی نظامِ قدرت پر عقل کے ذریعے غور کر کے اور نقل والی صفت کو استعمال کر کے وہ صلاحیت پیدا کر لی، جس کے نتیجہ میں وہ نازک سے نازک جسمانی مراحل کو پار کرتے کرتے اس پر مکمل دسترس حاصل کر کے حیرت ناک کامیابیوں کے مناظر دکھاتا ہے، اسی طرح ایک سائنسداں کائناتی نظامِ قدرت کو سامنے رکھ کر آگے بڑھتا رہتا ہے، اور عقل و نقل کے ذریعہ وہ کارنامے انجام دیتا ہے جسے سوچ کر انسان ششدر و حیران اور دم بخود رہ جاتا ہے، مثلاً آسمانوں میں ٹنوں سامان جہازوں کی شکل میں اڑاتا ہے، سمندروں میں مچھلیوں پر غور کر کے پورے پورے محلے قائم کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی منتقل ہوتا رہتا ہے، اور اسی طرح یہ انسان جب نبوی زندگی کو سامنے رکھ کر جس کو قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا ہے قدم بڑھاتا ہے، اور اپنی عقلی صلاحیتوں کو اور نقلی شان کو استعمال کرتا ہے تو فرشتے بھی اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں، معاون و مددگار بن جاتے ہیں، اور رحمتِ الٰہی کا ایسا نزول ہوتا ہے کہ حیرت ناک اور سبق آموز واقعات سامنے آنے لگتے ہیں، اور یہ کسبی علوم، علم لدنی اور کشف و کرامات کے پیدا ہونے کا ذریعہ بن جاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے لوگ ایسے اشخاص کی طرف مائل ہوتے ہوتے ان کے تابع ہوتے چلے جاتے ہیں، یہ جوہر جہدِ مسلسل، عملِ پیہم اور اخلاص و للہیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے : {وَأَنْ لَیْسَ لِلانْسَانِ الآَ مَا سَعَی، وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی، ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجَزَائَ الَٔاوْفَی}(سورۂ نجم: ۳۹ تا ۴۱) ترجمہ: ’’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ محنت کرتا ہے، اور اس کی جد و جہد کا نتیجہ سامنے آتا ہے، پھر اس کی جزا اس کو بھر پور دی جاتی ہے ‘‘۔

دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے : {وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنھَْدِیَنّھَُمْ سُبُلَنَا} (سورۂ عنکبوت: ۶۹) ترجمہ: ’’جو لوگ ہماری خاطر جد و جہد کریں گے، جہاد کریں گے، ہم انہیں اپنے راستوں کی رہنمائی کریں گے ‘‘۔

ایک مسلمان کی کد و کاوش، جہدِمسلسل، عملِ پیہم، اخلاصِ کامل اور نیتِ صادقہ جب تفسیری میدان میں لگتی ہے تو مفسر کامل بنا دیتی ہے، اور جب احادیث مبارکہ میں لگتی ہے تو محدث بنا دیتی ہے، اور جب فقاہت میں لگتی ہے تو مجتہد کے درجہ تک پہنچا دیتی ہے، اور جب امامت و قیادت کے میدان میں ایسا مؤمن کودتا ہے تو خلیفۃ اللہ فی الارض اور خلفائے راشدین کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے۔

جب یہ ساری باتیں اور حقائق ہم اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں گے، تو شخصیات کو پہچاننا ہمارے لئے آسان ہو جائے گا، اور اس کی امتیازی حیثیت جس میدان میں بھی ہوں گے، اس کو سمجھنا دشوار نہیں ہو گا، اس کی سیرت بیان کرنے میں ہم حق بجانب ہوں گے، توازن کا پیمانہ قائم رہے گا، اس کے بعد ہماری سیرت وسوانح اور تاریخی محنت قابل قبول ہی نہیں بلکہ مرجعِ خلائق بنے گی، بعد کے زمانوں کے لئے معتبر ومستند اور تحقیقی سرمایہ کی شکل میں یاد کی جاتی رہے گی، اور نسلیں اس سے استفادہ کریں گی، دوسری طرف ان کتابوں کے ذریعہ نسلِ انسانی کو اور طالبان علومِ نبوت کو وہ روشنیاں حاصل ہوں گی، جن کو دیکھ کر اور جن کے عملِ پیہم کو اختیار کر کے کوئی امام ابوحنیفہ بنے گا، کوئی امام شافعی بنے گا، کوئی امام غزالی بنے گا، کوئی شاہ ولی اللہ بنے گا، کوئی شیخ الیاس بنے گا، کوئی شیخ زکریا بنے گا، اور کوئی شیخ ابو الحسن علی ندوی بنے گا، لیکن شرط وہی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں بیان فرما دی ہے، اور اللہ کے کلام میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ پیدا کرنے والا یہ بھی فرما رہا ہے : {أَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وھَُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (سورۂ ملک: ۴۱) ترجمہ: ’’کیا وہ نہیں جانے گا، جس نے پیدا کیا ہے ؟ اور وہ بڑا باریک بین اور بہت باخبر ہے ‘‘۔

ہمارے مولوی حماد کریمی ندوی سلمہ نے روشن چراغ کے نام سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں، کارناموں اور ان کے عملی میدان کو قلم بند کر دیا ہے، اور انشاء اللہ ان کا یہ عمل آگے بھی جاری رہے گا، جیسا کہ انہوں نے اس کو جلدوں میں بانٹا ہے، یہ بہت مبارکبادی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مختلف انداز سے قلمبند کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے، اور یہ پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے سامنے جو شخصیات رہی ہیں، ان سے انہوں نے صرف استفادہ ہی نہیں کیا، بلکہ ان کے اثرات بھی قبول کئے، اور اب اس کو اپنے قالبِ تحریر میں ڈھال کر پیش کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو قبول فرمائے، اور مزید سے مزید، بہتر سے بہتر انداز میں کام لے کر دین و دنیا کی بھلائیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار فرمائے۔

آمین یا ربّ العالمین، وآخر  دعوانا  أن الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

سید صہیب حسینی ندوی

صدر شعبۂ تفسیر واستاذ حدیث

دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، یوپی

٭٭٭

 

 

 

 

پیش لفظ

 

                   بقلم: جناب مولانا محمود حسن حسنی ندوی مد ظلہ العالی

 

الحمد للّٰہ کفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد!

انسان کی شخصیت کی تشکیل میں گھر، ماحول اور موروثی صفات و خصوصیات کی کارفرمائی کے ساتھ مشائخ، اساتذہ اور دیگر مربیوں و معلمین کے علم و اخلاق کا جہاں بڑا دخل و اثر ہوتا ہے، وہیں اس کے عہد کی مثالی اور نمونہ کی شخصیات کا بھی اثر پڑتا ہے، جو بیک وقت علم و حکمت، رشد و ہدایت، ارشاد و تربیت، فکر امت وانسانیت اور ربانیتِ صادقہ کی جامع ہوں، ان میں وہ شخصیات بھی ہوتی ہیں جن کو سنا اور پڑھا گیا، اگرچہ ان کی زیارت و ملاقات نہ کی جا سکی، لیکن ان کو سن کر اور ان کو پڑھ کر اور بالواسطہ ان کی تعلیمات و ہدایات سے استفادہ سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، ان میں قریب العہد شخصیات اور بعید العہد شخصیات دونوں ہی ہوتی ہیں، تاریخ اور سیر وسوانح کی کتابوں سے بعید العہد شخصیات سے استفادہ بہت آسان ہو جاتا ہے، قریب العہد لوگوں سے استفادہ ان پر لکھے گئے وفیاتی مضامین و مقالات اور تذکروں سے زیادہ آسان ہوتا ہے، اس سلسلہ میں بھی بڑا ذخیرہ ہمارے اہلِ قلم نے پیش کیا ہے، ان میں سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی کی ’’یادِ رفتگاں ‘‘، حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی کی ’’معاصرین‘‘، اور ان کی دوسری کتاب ’’نثری مرثیے ‘‘، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کی ’’پرانے چراغ‘‘، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی ’’یادوں کے چراغ‘‘، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی ’’ نقوشِ رفتگاں ‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی نے ’’۴۸ سال شفقتوں کے سائے میں ‘‘ اور حضرت مولانا تقی الدین ندوی نے ’’داستاں میری‘‘ میں بھی اس کا بڑا حصہ رکھا ہے۔

اپنے عہد کی موجودہ شخصیات پر مولانا عبد الماجد دریابادی کا سلسلۂ مضامین ’’معاصرین‘‘ بڑا مفید سلسلۂ مضامین سمجھا گیا تھا، جو ان کے رسالہ ’’صدق‘‘ کا شاہکار تھا، اور بھی اہلِ قلم نے ایسے قابل ذکر اور باکمال افراد پر اپنے عقیدت کے پھول نچھاور کئے، جن کی روشنی جاری تھی، اور ان کے چراغ کی لَو مدھم نہیں ہوئی تھی، بہت سے ایسے مضامین و تاثرات شائع ہوئے، اور بہت سے شائع نہ ہو سکے۔

اس بات سے بڑی مسرت ہوئی کہ عزیز مکرم و جواں سال مصنف و محقق مولانا محمد حماد کریمی ندوی (أدام اللہ نفع کتبہ وبحوثہ، واطال بقاءہ لاعلاء کلمتہ ونصرۃ دینہ ونشر علوم دینہ) نے دس ممتاز ترین شخصیتوں کے احوال و تذکرہ پر مشتمل کتاب ’’روشن چراغ‘‘ تیار کی ہے، جن کی روشنی چار دانگِ عالم میں پھیل رہی ہے، اور عرب و عجم ان کے فیوض و برکات، علوم و معارف اور افکار سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں، ان کے نام کے ذکر کی ضرورت نہیں، کہ وہ اپنے نام ونسبت، تذکرہ و تعارف کے ساتھ فرق مراتب سے ایک ایک کر کے سامنے آتے جائیں گے، اور پھر انہی چراغوں کی لو سے دوسرے چراغ روشن ہوں گے، اور پھر وہ دوسروں کو روشن کریں گے۔

یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ سیرت سازی میں یہ بات بڑی موثر ہوا کرتی ہے کہ ان شخصیتوں میں سے جو گذر گئی ہیں، کسی معروف ومستند شخصیت کو آئیڈیل بنا جائے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نے سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے حوالہ سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ دینی و دنیوی، علمی و ادبی جامعیت، تقویٰ و للہیت میں بھی وہ امتیازِ خاص کے مالک ہوں، بر صغیر کی تین اہم مرکزی اور عظیم درسگاہوں کی ان عظیم و جلیل القدر جامع صفات و کمالات شخصیات میں ان چند نامور شخصیات کا انتخاب کیا ہے، جن کا تعلق اگرچہ برصغیر ہند و پاک سے ہے، اور وہ دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور اور دار العلوم ندوۃ العلماء کی نمائندگی کرتی ہیں، البتہ ان کا فیضان عالمگیر ہے، اور عہدِ حاضر میں علم و دین کے وہ ایسے چراغ ہیں جو تعارف کے بھی محتاج نہیں، لیکن اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ صرف یہی چند باکمال اور عظیم القدر شخصیتیں نہیں ہیں، جن کا ذکر ضروری تھا، دین و دعوت، علم و حکمت اور تربیت و ارشاد کے میدان میں اور بھی شخصیتیں ہیں جو لائق تقلید و اتباع قرار پا سکتی ہیں، انتخاب میں مصنف کے ذوق و رجحان، محبت و عقیدت، مزاج و طبیعت اور بھی بعض باتوں کا دخل ہوتا ہے، اور اس میں وہ معذور ہوتا ہے، مزید اسے کسی مقام پر اپنے قلم کو روکنا اور اپنے جذبات کو دبانا پڑتا ہے، والعذر عند کرام الناس مقبول۔

مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا تھا کہ:

’’ آپ اپنی زندگی کے لئے ایک شخصیت کا انتخاب کر لیں، یہ حقیقت ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ کوئی بھی مخلص بندہ آپ کو کہیں مل جائے، تو اس کو آپ اپنا رہنما مان کر اپنی زندگی کی نئی تعمیر شروع کریں، اس میں آپ کو پورا پورا اختیار ہے کہ جس کو چاہیں، جہاں چاہیں، ایشیا یا ایشیا سے باہر دنیا کے کسی گوشہ میں آپ اس کو دریافت کر لیں، بلکہ میں آگے بڑھ کر یہاں تک کہتا ہوں کہ زندوں میں آپ کو کوئی ایسا نظر نہ آئے تو ماضی کی شخصیتوں میں اس کو تلاش کیجئے، اور جہاں کہیں یہ بندۂ خدا آپ کو ملے، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیجئے، اور کچھ دنوں تک اس کی ہر چیز کو اپنے اندر منتقل کرنے کی کوشش کیجئے، انسان میں یہ صفت بہت نمایاں طور پر ہے کہ وہ جس چیز کو چاہتا ہے اس کی نقل کر لیتا ہے، آپ اس کی ہر چیز کی نقل اتارئیے، اس کے بعد آپ بڑے ہو سکتے ہیں، آپ اس سے آگے بھی نکل سکتے ہیں، اور ایسی جگہ بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں آپ کو اس تعلق کی ضرورت نہ ہو گی، اگرچہ یہ بات بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔ (پا جا سراغِ زندگی، ص:۳۲)

امید ہے کہ پیشِ نظر کتاب ’’روشن چراغ‘‘ ہمارے قارئین پراس حقیقت کو کھولنے میں پوری طرح معاون اور رہنما ثابت ہو گی، یہ ایک قابلِ مبارکباد اور لائقِ تحسین علمی و دعوتی کام اور خدمت ہے جو انجام دی گئی ہے، اس کی قبولیت کے لئے ہم دست بدعا ہیں، واللّٰہ ولی التوفیق۔

 

محمود حسن حسنی ندوی

نائب مدیر تعمیر حیات، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

۲۷  صفر المظفر ۱۴۳۷ھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

تقدیم

 

                   از: جناب مولانا قاری شبیر صاحب دامت برکاتہم

 

دنیا کے عظیم انسانوں کی سوانح عمریاں اور ان کی زندگی کے حالات و واقعات انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور اس کی زندگی کو صحیح سمت اور صحیح رخ دینے میں بڑا مؤثر اور اہم کردار ادا کرتے ہیں، چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم رازیؒ اور غزالیؒ کی زندگی کا مطالعہ کریں اور ہمارے اندر شوقِ علم اور ذوقِ مطالعہ پیدا نہ ہو، علماء کی محبت اور عظمت کے خوبصورت نقوش ہمارے دل پر مرتسم نہ ہوں۔

ممکن نہیں کہ کوئی جنید بغدادیؒ اور شبلی نعمانیؒ کے واقعات کو پڑھے، بایزید بسطامیؒ اور رابعہ بصریہؒ کے ذوقِ عبادت ومجاہدہ کی حکایات سنے اوراس کو طاعتوں میں لذت وسرور نہ آئے، عبادت و مجاہدہ کا ذوق پیدا نہ ہو۔

حضرات صحابہ کے ایمان افروز واقعات کو پڑھئے، ان کے ایمان و یقین کی حیرت انگیز طاقت و قوت آپ کے یقین و اعتماد علی اللہ میں اضافہ کا باعث ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک معتد بہ حصہ گذشتہ قوموں کے واقعات و حکایات پر مشتمل ہے، قرآن میں ان قصص و واقعات کے ذکر کا مقصد محض قصہ نگاری نہیں ہے، بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پچھلے لوگ ان واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں، اور اس کی روشنی میں اپنی منزل کا تعین کریں، قرآن کہتا ہے : {وَکُلآً نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنْبَائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ، وَجَائَ کَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْریٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۂ ہود: ۱۲۰)

انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے تاثر اور انفعال کا خاصہ رکھا ہے، اس لئے حضرات انبیاء علیہم السلام کو اس نے انسانوں کے لئے آئیڈیل اور نمونہ بنا کر بھیجا، تا کہ ان کے صحبت یافتہ ان کی صحبت سے فائدہ اٹھا کر اپنے نفس کی تربیت اور باطن کا تزکیہ کریں، اور بعد والوں کے لئے ان کی تاریخ وسیرت صحبت کا کام دے، { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الأحزاب:۲۱)

اسی وجہ سے قدیم زمانے سے ہی تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کا سلسلہ جاری ہے، عزیز گرامی مولوی حماد کریمی ندوی کی زیر نظر کتاب ’’روشن چراغ‘‘ بھی اسی سلسلۂ زریں کی ایک اہم کڑی ہے۔

مولوی حماد کریمی ایک صالح اور با توفیق نوجوان ہیں، گذشتہ چند سالوں میں ان کی متعدد تالیفات منظر عام پر آ چکی ہیں، یہ کتابیں ان کے روشن مستقبل کی غماز ہیں، یہ ان کی شبانہ روز کی محنت و کوشش کا ثمرہ اور ان کے والد گرامی قدر جناب مولانا شرف عالم صاحب کی دعائے نیم شبی اور آہِ سحرگاہی کا نتیجہ ہے، خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں زندہ شخصیات کے تذکرے لکھے ہیں، اور ان کے لمحاتِ زندگی اور واقعاتِ حیات کو مرتب کیا ہے، ورنہ تو ماضی قریب تک نہ صرف یہ کہ زندہ شخصیتوں پر لوگ قلم نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ بعض حضرات اس کو کسی قدر معیوب خیال کرتے تھے، اللہ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے، ان کے لئے اور ان کے والدین کے لئے اس کو ذخیرۂ آخرت اور سرمایۂ نجات بنائے، آمین

قاری شبیر احمد

ناظم مدرسہ اسلامیہ، شکرپور، بھروارہ، دربھنگہ

٭٭٭

 

 

 

 

صاحب انتساب اور مرتب کتاب

 

                   (استاذ محترم جناب مولانا عبد الباری ندویؒ کی وفات پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون)

 

بعنوان: میں کیسے بھول سکتا ہوں ؟؟؟

 

میں کیسے بھول سکتا ہوں ؟اس ذاتِ عالی صفات کو جنہوں نے بچپن ہی سے مجھ پر شفقتوں کا ہاتھ رکھا۔

پھر طالب علمی کے نازک  وفیصلہ کن مرحلہ میں خاص طور پر جب میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں زیر تعلیم تھا، کبھی درجہ میں تو کبھی مسجد میں، کبھی جلسہ میں، تو کبھی نجی گفتگو کے دوران باتوں باتوں میں نہ جانے زندگی کے کتنے آداب سکھائے، خود داری کے ساتھ جینے کے طریقے اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کے قرینے سکھائے۔

اس دوران جو اہم واقعات رونما ہوئے، وہ بالترتیب یکے بعد دیگرے میرے ذہن و دماغ میں گردش کر رہے ہیں۔

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو

لوٹ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو

وہ وقت بھی مجھے یاد ہے جب طالب علمی کے اسی مرحلہ میں کرکٹ کا جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا، اور میں بھی اس سے کچھ کچھ متاثر ہونے لگا تھا، ان کی محبت بھری تنبیہ نے نہ صرف یہ کہ اس میں وقت ضائع کرنے سے بچایا، بلکہ تعلیم کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونے کی راہ کو میرے لئے ہموار کر دیا۔

میں ان اوقات کو بھی نہیں بھول سکتا کہ دوران تعلیم ذرا بھی تعلیم سے جی اکتایا، یا پڑھائی سے من گھبرایا، ان کی محبت بھری باتوں، اصلاحی تنبیہوں اور بے پناہ ہمت افزائیوں نے حوصلہ دیا، بلکہ حوصلے کو بڑھایا۔

ع۔ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

جب حفظ کی تکمیل ہوئی، تو ایک دن ترانہ کے فوراً بعد تمام طلبہ واساتذہ کے سامنے بلا کر دی ہوئی ان کی دعاؤں کو میں کیسے بھول سکتا ہوں ؟؟؟

جامعہ اسلامیہ میں آخری تعلیمی سال کے آغاز میں جب طلبہ کے مابین اللجنۃ العربیۃ کی ذمہ داریاں تقسیم کی گئیں، تو طلبہ کے عربی ترجمان ’’الزہرۃ‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری راقم کے سپرد کرنے والے، پھر سب سے پہلے اس کی خوشخبری دینے والے، پھر اس سلسلہ میں مکمل رہنمائی وسرپرستی کرنے والے، پھر پرچہ منظر عام پر آنے کے بعد جلسہ عام میں اس کے اجرا کی سفارش کرنے والے، اور ہمت بڑھانے والے کو میں کیسے فراموش کر سکتا ہوں ؟؟؟

میں سمجھتا ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ کچھ ماہ قبل جوسہ ماہی عربی مجلہ ’’النصیحہ‘‘ منظر عام پر آیا، اور مقبولِ خاص وعام ہوا، اس میں ان کا بھی بڑا حصہ ہے۔

جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد جب اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے راقم نے تصنیفی میدان میں قدم رکھا، تو ہر کتاب پر مبارکباد دینے والے، دعاؤں کے ذریعہ ہمت بڑھانے والے، مزید ترقی کی دعا دینے والے، آگے بڑھنے کی ترغیب دینے والے، اور ملاقات ہونے پر ’’لکھاڑ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے والے کی آوازوں کو میں کیسے اپنی سماعت سے دور کر سکتا ہوں ؟؟؟

فراغت کے بعد ملاقات پر تفصیلی احوال دریافت کرنے والے، کبھی ملاقات میں تاخیر ہونے پر اس کا احساس دلانے والے، اور ہر ملاقات کے بعد اپنے گہرے انمٹ نقوش چھوڑنے والے کو میں اپنے ذہن سے کیسے محو کر سکتا ہوں ؟؟؟

چھوٹوں کی ہمت افزائی اور خردوں کی ذرہ نوازی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے، کہ جب راقم کی ترتیب شدہ کتاب ’’عجالہ نافعہ‘‘ منظر عام پر آئی، اس کے کچھ دنوں کے بعد جب ملاقات کے لئے حاضری ہوئی، تو میز پر وہ کتاب کھلی رکھی تھی، نظر پڑتے ہی فرمایا: ’’آؤ! تمہاری ہی کتاب دیکھ رہا تھا‘‘۔

اسی طرح جب راقم کی کتاب ’’یادِ حرم‘‘ (سفرنامۂ حج و عمرہ) کا عربی ایڈیشن ’’أذکر دوماً، أربعین یوماً‘‘ منظر عام پر آیا، تو اس کے اجرا کے لئے مدرسہ رحمانیہ منکی میں منعقد جلسہ میں دوسری اہم مشغولیات کے باوجود شرکت کی، بلکہ اس جلسہ کی صدارت بھی قبول فرمائی، اور اپنے صدارتی خطاب میں ڈھیر ساری دعائیں دیں، پھر کچھ دنوں بعد اسی سلسلہ میں مدرسہ تنویر الاسلام مرڈیشور میں جلسہ ہوا، تو وہاں بھی باوجود مصروفیات کے تشریف لائے، اور مختصر خطاب بھی فرمایا۔

یہ اعلیٰ ظرفی، وسعت قلبی، اور اخلاق کی بلندی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

بیماری کے ایام میں جب تکلیف زیادہ تھی، کچھ وقت کے لئے جامعہ تشریف لایا کرتے تھے، والد ماجد کے ساتھ ملاقات کے لئے حاضر ہوا، مجلہ ’’النصیحہ‘‘ کا پہلا شمارہ اور اپنی اس وقت منظر عام پر آنے والی عربی کتاب ’’مولانا قاسم نانوتوی‘‘ پیش کی، تو مسکرا کر دعائیں دیں، اور وہی شعر دہرایا جو عموماً وہ اپنے شاگردوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے، گویا کہ وہ میرے لئے مولانا کا آخری پیغام بھی تھا:

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

پھر فرمایا: ’’خوب ترقی کرو، ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔ (اور بھی دعائیہ کلمات کہے تھے )۔

ان صفات کی مالک، ان خصوصیات کی حامل، اور ان اخلاق عالیہ سے متصف وہ شخصیت ہے، جن کو ہم اور آپ سب مولانا عبد الباری ندوی (رحمۃ اللہ علیہ)کے نام سے جانتے ہیں، اللہ مولانا کو غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ راقم نے جب اس کتاب کا کام شروع کیا تھا، اور مولانا سے اس کا تذکرہ ہوا تھا، تو راقم کی درخواست پر مولانا نے فرمایا تھا کہ : کام مکمل ہو جائے تو مقدمہ لکھ دیں گے، ولکن کان أمر اللّٰہ قدراً مقدوراً۔

مقدمہ کی جگہ مولانا کی وہ تقریر شامل کتاب کرنے کو میں اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں، جو ’’أذکر دوماً، أربعین یوماً‘‘ کے اجرا کے موقع پر مولانا نے کی تھی، جس میں طلبہ اور عصر حاضر کے نوجوانوں کے لئے ایک موثر پیغام بھی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

٭٭٭

زمزموں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہے

 

 

 

 

تمہید

 

بسم اللّٰہ، والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أمابعد!

آج سے تین سال قبل ایک روز والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کا فون آیا کہ میرے ذہن میں ایک کام ہے، اور تمہیں وہ کرنا ہے، پھر فرمایا: پرانے چراغ، از: حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ، اور یادوں کے چراغ، از: حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ العالی کے طرز پر روشن چراغ کے نام سے یہ کام کرنا ہے، فرق صرف یہ ہو گا کہ اول الذکر دونوں کتابیں وفیاتی مضامین سے متعلق ہیں، جب کہ روشن چراغ کا تعلق زندہ اہم شخصیات سے ہو گا، اور تعارف ذرا تفصیلی ہو گا۔

عموماً زندہ شخصیات پر لکھنے کے سلسلہ میں لوگ احتیاط برتتے ہیں، اور یہ بجا بھی ہے، جس کی وجہ سے میں بھی ایک عرصہ تک اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں پس و پیش میں رہا، اسی دوران والد ماجد نے کتاب کے مقدمہ کے طور پر ایک مضمون ارسال فرمایا، جس میں تفصیل سے اس کام کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی، خصوصاً والد ماجد نے اپنے استاذِ محترم جناب مولانا نور عالم خلیل امینی کے جو اقتباسات پیش کئے تھے ا اس سے کام کو شروع کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

پھر جب میں نے کام شروع کیا، تو خود مجھے اس سے بہت فائدہ محسوس ہوا، اور اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ عام طور پر زندہ شخصیات کا مکمل تعارف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صحیح قدر نہیں ہو پاتی، اور مکمل استفادہ نہیں ہوپاتا، بعد از مرگ جب ان پر مقالات لکھے جاتے ہیں، کتابیں تصنیف کی جاتی ہیں، مجلات اور رسالے شائع کئے جاتے ہیں، تو ان کی بہت سی خوبیاں سامنے آتی ہیں، جب کہ ان سے استفادہ کا وقت باقی نہیں رہتا۔

کتاب کے موضوع، اس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے واقفیت کے لئے والد ماجد کے دعائیہ کلمات، جناب مولانا سید صہیب حسینی ندوی دامت برکاتہم کا مقدمہ، اور محسن و مشفق جناب مولانا محمود حسن حسنی ندوی کے پیش لفظ کے بابرکت کلمات کافی و وافی ہیں، حق اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی توفیق کے بعد ان حضرات کے ان مخلصانہ کلمات ہی کی برکت سے مجھے اس کام کو جاری رکھنے، بلکہ اس کے ایک اہم حصہ کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی سعادت نصیب ہوئی، اللہ ان حضرات کو جزائے خیر سے نوازے، آمین

زندہ شخصیات کا تفصیلی جامع تعارف پیش کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے، ہر ایک اس سے بخوبی واقف ہے، جس کی وجہ سے یہ کام بڑی سست رفتاری سے آگے بڑھا، چھوٹی چھوٹی معلومات کے حصول کے لئے بارہا کئی کئی دن صرف ہو گئے، کئی کئی دن انتظار کرنا پڑا، یہاں تک کہ محض اللہ کے فضل سے کچھ دن قبل عالم اسلام کی دس اہم، چیدہ و چنیدہ شخصیات، ان کے ابتدا سے لے کر اب تک کے حالات، علمی، دعوتی وسماجی خدمات پر مشتمل یہ مجموعہ تیار ہو گیا۔ فللّٰہ الحمد والشکر۔

کوشش یہ کی گئی ہے کہ ہر شخصیت سے متعلق مختصر مگر جامع تعارف جمع ہو جائے، جس کے لئے مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوئیں، صاحب تذکرہ شخصیات کی خدمات، ان کے اداروں اور کارناموں سے مقدور بھر واقفیت کی سعی کی گئی، نیز ان پر لکھے ہوئے مضامین و مقالات، تعارفی واستقبالیہ کلمات سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا۔

کام کے آغاز سے لے کر کتاب کے منظر عام پر آنے تک جن حضرات نے اپنی قیمتی آرا کے ذریعہ، مواد کی فراہمی کے ذریعہ، کمپوزنگ و پروف ریڈنگ کے ذریعہ، یا کسی بھی طرح سے اپنا تعاون پیش کیا ہے، ان کی فہرست کافی طویل ہے، سب کا میں شکر گزار ہوں، اور بارگاہِ خداوندی میں دعاگو ہوں کہ اللہ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔

انتخاب شخصیات اور فراہمی معلومات کے سلسلہ میں والد ماجد کے ساتھ جناب مولانا محمود حسن حسنی ندوی، جناب مولانا منور سلطان ندوی، جناب مولانا فرمان ندوی وغیرہ کا ذکر ضروری ہے کہ ان حضرات سے اس کام میں بڑی مدد ملی۔

کمپوزنگ و کتابت کے سلسلہ میں برادر عزیز مولوی مسیب محتشم ندوی، برادر محترم مولوی نوید جبلین ندوی، عزیز مکرم مولوی عمیس احمد ندوی، رفیق محترم مولوی عمر سیاف ندوی، اور برادرم مولوی شاہ رخ ندوی کا میں ممنون و مشکور ہوں، کہ ان حضرات نے اس کے لئے وقت نکالا۔

محترم جناب مولانا عبد السلام خطیب ندوی اور محترم جناب مولانا فیصل صاحب ندوی کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے، کہ ان حضرات نے کتاب کے مختلف حصوں پر نظر ثانی فرمائی، اور غلطیوں کی اصلاح بھی فرمائی۔

رفقاء محترم مولوی شاہد ندوی (استاذ جامعہ سید احمد شہید، کٹولی)، مولوی ابوالجیش ندوی (استاذ مدرسہ سیدنا بلال)، مولوی طلحہ نعمت ندوی (استاذ جامعہ سید احمد شہید، کٹولی)بھی شکریہ کے مستحق ہیں، کہ ان حضرات نے اس کی پروف ریڈنگ کے لئے اپنا وقت دیا۔

مکتبۃ الشباب العلمیۃ کے ذمہ دار، میرے محسن و کرم فرما جناب مولانا سید ہاشم نظام ندوی کا بھی میں شکر گذار ہوں، کہ مولانا نے اس کتاب کا کام شروع ہونے کے بعد سے ہمیشہ اس سلسلہ میں ہمت افزائی فرمائی، نیزکتاب کی تکمیل کے بعد اپنے مکتبہ سے اس کو شائع کرنے کی ذمہ داری لی، اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین

اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس کوشش و کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین

محمد حماد کریمی ندوی

مدیر مجلہ ’’النصیحۃ‘‘ لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

(۱) حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی

دامت برکاتہم     

 

ولادت: ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء

 

 

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لئے

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:             محمد سالم

والد کا نام:      (حکیم الاسلام قاری) محمد طیب

جائے پیدائش: دیوبند، سہارنپور، انڈیا

تاریخ پیدائش:  ۲۲  جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء

ابتدائی تعلیم:    مختلف اساتذہ سے انفرادی طور پر

ثانوی تعلیم:     دار العلوم دیوبند

تکمیل:         دار العلوم دیوبند

موجودہ اہم ذمہ داری:سرپرست دار العلوم وقف، نائب صدر مسلم پرسنل لاء

حالیہ پتہ:               دیوبند، سہارنپور، انڈیا

 

تمہید

 

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی خانوادۂ قاسمی کے گل سر سبد اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کے خلف اکبر و جانشین اور دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم اور اس کے سرپرست ہیں۔

نیز حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے صحبت یافتہ اور شاگرد بھی ہیں، زمانۂ تعلیم کے ان کے رفقاء میں کئی ممتاز شخصیات میں سے ایک نام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدّظلّہ العالی کا بھی ہے، جو ہدایہ کے سبق میں ان کے ساتھ تھے، ان کے معاصرین اور رفقاء تعلیم میں حضرت مولانا اسعد مدنی ابن شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عتیق الرحمن بن مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ شامل ہیں۔ (مولانا محمود حسن حسنی ندوی)

 

نام ونسب

 

(حضرت مولانا) محمد سالم بن (مولانا قاری) محمد طیب بن (مولانا) محمد احمد بن (حجۃ الاسلام مولانا) محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین ابو الفتح بن محمد مفتی بن عبد السمیع بن محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طہٰ بن مفتی امان اللہ بن قاضی جمال الدین بن قاضی میراں بن قاضی مظہر الدین، جن کا سلسلۂ نسب حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

 

ولادت باسعادت

 

اس علمی خانوادہ اور بزرگ والدین کی گود میں آپ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ ۲۲ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی۔

 

خاندان و اجداد

 

جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے، اس خانوادہ کی ہندوستان آمد کے متعلق الامام الأکبر کے مصنف ڈاکٹر محمد اویس صدیقی نانوتوی فرماتے ہیں :

’’سب سے پہلے اس خاندان کے جس فرد نے ہندوستان کا رُخ کیا وہ قاضی مظہر الدین ہیں، جو نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانے میں اس کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ و اطراف میں جاٹوں نے سر اٹھایا، جن کی سر کوبی کے لئے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہو کر سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کر دیا، اس کے بعد سے اس خاندان نے نانوتہ میں بود و باش اختیار کی، پھر دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے اہل خانہ دیوبند کے ہو کے رہ گئے۔ (الإمام الاکبر ص:۷۴-۷۵)

 

والد ماجد

 

مولانا کے والد ماجد حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی ذاتِ گرامی سے کون واقف نہیں ہو گا؟آپ علم و کمال، حکمت و بصیرت، فہم وفراست، اخلاق و عمل، پاکیزگی وتقدس کی ایک خوبصورت تصویر، مسلکِ دیوبند کے ترجمان اور ملّت کے صالحین کی سیرت و کردار کے عکسِ جمیل تھے، آپ کی بھی ولادت باسعادت دیوبند ہی میں ہوئی، سات سال کی عمر میں تعلیم کی ابتداء کی، حصولِ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیا اور مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں پڑھائیں، ۱۳۴۱ھ تا ۱۳۴۸ھ تک آپ دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے، پھر آپ کو مہتمم منتخب کیا گیا، اس عہدے پر آپ تقریباً تا حیات فائز رہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

یوں تو حضرت قاری صاحب پر بہت کچھ لکھا گیا، اور لکھا جاتا رہے گا، جس میں حضرت قاری صاحب کی انفرادی خصوصیات، امتیازی صفات اور روشن خیالات کا اعتراف کیا گیا، جن کا احصاء مشکل ہے اور نہ ہی یہ اس وقت کا ہمارا موضوع ہے، اس موقع پر ہم اپنے استاذِ محترم، ندوۃ العلماء کے ناظم جناب مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؔ دامت برکاتہم کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

’’حکیم الاسلام کی شخصیت اپنے عہد کی بڑی مایہ ناز علمی و ادبی شخصیت تھی، علم دین اور حکمت و دانش کے بلند پایہ حامل تھے، انھوں نے اپنے عظیم مورث اور علومِ دینیہ میں مقام بلند رکھنے والے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ سے علمی گیرائی اور وسعت کی وراثت پائی تھی، اس کو ان کی تقریروں تحریروں اور دروس میں محسوس کیا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے اس بلند علمی مقام کے ساتھ ساتھ دارا لعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ کو جو اُن کے اسلاف کی کوشش کا مرکز رہی تھی، اپنے آغاز جوانی میں سنبھالا، اور اس کی خدمت میں اپنی پوری عمر لگا دی، ان کی کوششوں کا مظہر صرف دار العلوم دیوبند کی ترقی اور مضبوطی ہی میں نمایاں اور محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے نمائندۂ خاص ہونے کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ بھی اثر پذیری کے ساتھ انجام دیا، مسلمانوں میں جو دینی انحراف یا عقائد کی خرابی پائی جاتی تھی اس کے ازالہ میں بھی خصوصی حصہ لیا۔

وہ ایک دلنواز اسلوب کے حامل خطیب تھے، ان کی شخصیت بھی دل نواز تھی، وہ اپنی باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ دل نواز طرزو انداز کے بھی مالک تھے، طبیعت میں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی تھی، ان سے مل کر مسرّت حاصل ہوتی تھی اور طبیعت ان کی طرف مائل ہوتی تھی، گفتگو اور انداز کلام دل کو متأثر کرنے والا اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا تھا، اپنی بات کو علمی و تاریخی حوالوں اور مثالوں سے واضح کرتے تھے، بعض اہم ترین موقعوں پر علماء کی طرف سے ان کی نمائندگی بڑی مؤثر ثابت ہوئی، اس طریقہ سے در اصل دیوبند جو علوم دینیہ کا ایک مؤثر ترین ادارہ رہا ہے اور ہے، اس کی صحیح نمائندگی کا مولانا نے حق ادا کیا، اور اس کے مہتمم کے منصب پر فائز رہے، اور جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی تھی اس کو بھی ادا کیا‘‘، شوال ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ (حیات طیب ج:۱، ص:۲۲-۲۳)

 

والدہ ماجدہ

 

آپ کی والدہ سہارنپور کے ایک قصبہ رامپور منیھارن کے ایک انصاری علمی خاندان کی چشم و چراغ، مولانا حافظ محمد صاحب کی دختر نیک اختر حنیفہ خاتون تھیں، ان کے متعلق خود مولانا کے والد حکیم الامت قاری محمد طیب صاحبؒ کے یہ تأثرات ہیں، فرماتے ہیں :

’’خود اپنی ذات سے صالحہ، پابندِ اوقات اور اپنے معمولات پر مستقیم تھیں، میں ان کے معمولات غبط کی نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا، اور بسا اوقات ذہن میں تصور بندھ جاتا ہے کہ شاید یہی خاتون میرے لئے بھی نجات کا ذریعہ بن جائے، مرحومہ کو فرائض کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام تھا، گھر کے کیسے ہی کام میں مصروف ہوں، اذان کی آواز سنتے ہی ہر کام سے بیگانہ وار اُٹھ کر اوّل اوقات میں نماز ادا کئے بغیر مطمئن نہ ہوتی تھیں، ایک ہزار دانے کی تسبیح ان کے سرہانے رہا کرتی تھی، نمازِ عشاء کے بعد ایک ہزار بار کلمہ طیّبہ اور ادعیہ ماثورہ پڑھنے کا معمول تھا، جو سفر و حضر میں جاری رہتا، نمازِ صبح کے بعد تلاوتِ قرآن کریم سفر و حضر میں بغیر کسی شدید اور غیر اختیاری مجبوری کے ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘ (جذبات الم ص:۶-۷)

۱۰ محرم ۱۳۹۴ھ کو ان کا انتقال ہوا۔

مزید لکھتے ہیں :

’’حج کا بھی ایک شوق ان کے دل میں تھا، میری معیت میں سات بار حج و زیارت روضۂ اقدس سے مشرف ہوئیں۔

حج و نماز اور اوقات کی پابندی کے ساتھ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا یہ شغف تھا کہ پائی پائی کا حساب کر کے ادا کیا کرتی تھیں، شہر کے عزیزوں میں غریبوں اور بالخصوص غریب بیواؤں کی فہرست ان کے سامنے رہتی تھی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات و کمالات کی حامل تھیں ‘‘۔ (حوالۂ سابق)

 

تعلیم و تربیت

 

مولانا نے اپنے والد حضرت حکیم الاسلام کی نگرانی و تربیت میں پرورش پائی، ۱۳۵۱ھ میں تعلیم کا آغاز ہوا، ناظرہ و حفظ قرآن کریم کی تکمیل جناب پیر جی شریف صاحب گنگوہی کے یہاں ہوئی۔

فارسی کا چار سالہ نصاب مکمل کیا، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقل صاحبؒ، مولانا ظہیر صاحبؒ، مولانا سید حسن صاحبؒ تھے۔

۱۳۶۲ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی زبانِ مبارک سے میزان پڑھی، یہ عظیم سعادت اس وقت پوری دنیا میں آپ کو ہی حاصل ہے، آپ کے علاوہ حکیم الامت سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والوں میں اب کوئی موجود نہیں ہے۔

علوم و فنون کی کتابوں میں کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں صاحبؒ سے، میبذی قاری اصغر صاحبؒ سے، مختصر المعانی و نظم العلوم حضرت مولانا عبدالسمیع صاحبؒ سے اور ہدایہ حضرت مولانا عبدالاحد صاحبؒ سے پڑھی۔

آپ نے ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں فراغت حاصل کی، آپ کے دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ وغیرہ ہیں۔ (الشیخ محمد سالم القاسمی)

 

درس وتدریس

 

ذاتی صلاحیت، علمی پختگی اور خطابی قابلیت کا نتیجہ تھا کہ تعلیمی مراحل سے فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقر ر ہوئے اور ابتداء ً نورالایضاح اور ترجمۂ قرآن کریم کا درس آپ سے متعلق رہا، پھر بعد میں بخاری شریف، ابوداؤد شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ، شرح عقائد وغیرہ کتابیں آپ سے متعلق رہیں، اور اس وقت بخاری شریف میں آپ سے استفادہ جاری ہے۔

تدریسی زندگی کے متعلق ان کے ایک شاگردِ رشید جناب مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی (استاذ حدیث دار العلوم وقف، دیوبند) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’حضرت مولانا دار العلوم کے وہ استاذ ہیں، جو تدریس کے ساتھ وقت کے اتنے پابند کہ بلاشبہ طلبہ درسگاہ میں ان کی آمد پر اپنی گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کرتے، طلبہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ متعینہ درسگاہ (دار التفسیر) میں ایک قدم اندر رکھتے اسی وقت گھنٹہ بجتا تھا، وقت کے منٹوں اور سیکنڈوں کے لحاظ سے اتنے پابند دارالعلوم کے اساتذہ و کارکنان میں سے کوئی نہ تھا، یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ تدریس کے لیے وہ اپنے گھر سے نکلتے اور براہ راست درسگاہ پہنچتے، اختتامی گھنٹہ بجتا اور وہ واپس صدر گیٹ کے راستے اپنے گھر کو، نہ کسی سے ملاقات، نہ کسی دفتر میں جانا‘‘۔ (ندائے دار العلوم)

 

امتیازی کمالات

 

آپ جملہ علوم و فنون میں ممتاز صلاحیتوں کے مالک، بالغ نظر، بلند فکر کے حامل ہیں، علوم قاسمی کی تشریح و تفہیم میں حکیم الاسلامؒ کے بعد شاید ہی آپ کا کوئی ہم پلّہ ہو، ہمیشہ علمی کاموں کے محرک رہے، زمانۂ تدریس میں دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبہ مرکز المعارف کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے ذمہ دار بنائے گئے، ۱۹۹۶ء میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو جدید جامعات میں مصروفِ تعلیم طلباء و طالبات کے لئے آسان و قابلِ حصول بنانے کی غرض سے جامعہ دینیات دیوبند قائم فرمایا، جو کہ اُس دور کا خوبصورت ترین طریقۂ تعلیم تھا، آپ نے قرآن کریم پر ایک خاص حیثیت سے کام کا آغاز کیا، افسوس کہ یہ عظیم فاضلانہ علمی کام شورش دار العلوم کی نذر ہو گیا، آپ کے عالمانہ و حکیمانہ خطاب کا شہرہ عہدِ شباب ہی میں ملک کی سرحدوں کو پار کر چکا تھا، علم میں گہرائی، فکر میں گیرائی، مطالعہ میں وسعت، مزاج میں شرافت اور باقاعدگی، زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ فکر و بصیرت سے منور، حکمت وفلسفہ کے رنگ میں کتاب وسنت کی بے مثال تشریح و تفہیم کا ملکہ، مدلّل اسلوبِ گفتگو و صاحب الرائے، یہ وہ امتیازی کمالات ہیں جن سے آپ کی ذات مرصع و مزین ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

 

قیام دار العلوم وقف دیوبند

 

۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۲ء میں دار العلوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد آپ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے دار العلوم وقف کے نام سے دوسرا دار العلوم قائم کر لیا، جس کے شروع سے مہتمم اور اب سرپرست ہیں، ساتھ ہی بخاری شریف کی تدریسی خدمات کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔

 

عہدے و مناصب

 

(۱) مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماضی میں رکن مجلس عاملہ اور اب نائب صدر۔

(۲) سرپرست دار العلوم وقف دیوبند۔

(۳) صدر مجلس مشاورت۔

(۴) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء۔

(۵) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف۔

(۶) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن۔

(۷) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد۔

(۸) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا۔

 

انعامات و اعزازات

 

(۱) مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز۔

(۲) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ۔ (۳) حضرت شاہ ولی اللہؒ ایوارڈ۔

اور بہت سے انعامات و اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ہے ۔

 

انفرادی خصوصیت

 

اللہ تبارک  و تعالیٰ نے مولانا کو گوناگوں خصوصیات اور بے شمار امتیازی صفات سے نوازا، لیکن مولانا کی ایک اہم خصوصیت جس کا ہر ایک کو اعتراف ہے وہ امت اور ملّت کی فکر میں اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہے، اسی کا نتیجہ ہے اب بھی جبکہ مولانا کی عمر ہجری تقویم کے اعتبار سے ۹۲ سال سے تجاوز کر چکی، کمزوری غالب آ چکی ہے، پھر بھی ہند و بیرونِ ہند کے اسفار کرتے رہتے ہیں، جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، عوام سے مخاطب ہوتے ہیں، اداروں اور مدارس کی سرپرستی  و نگرانی فرماتے ہیں، ہر وقت امت کی فکر میں اور اس کی خیر و صلاح کے سلسلہ میں متفکر رہتے ہیں، اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تمام کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔

 

ایک اہم کارنامہ

 

یوں تو مولانا نے مختلف طریقے پر دین کی خدمت انجام دی، لیکن مولانا کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ دینیات کے نصاب کا قیام اور اس کی اشاعت و ترویج ہے۔

مولانا نے جب محسوس کیا کہ بچّوں اور بچّیوں کی تعلیم کے ادارے تو بہت ہیں، اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لئے دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر ۱۹۹۶ء میں مولانا نے جامعہ دینیات کے نام سے ایک ا دارہ قائم کیا، اور اس کے ذریعہ گھر بیٹھے دینی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ متعارف کرایا، جو آج تک آپ کی سرپرستی میں اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

اولاد

 

(۱) محمد سلمان قاسمی

شرحِ جامی تک دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی، ایم۔ اے کرنے کے بعد ۱۹۸۰ء میں بہ غرض ملازمت جدّہ چلے گئے، چار سال وہاں قیام رہا، ۱۹۸۶ء میں پاکستان منتقل ہو گئے، اور وہیں آئی۔ اے میں ملازم ہوئے۔

 

(۲) (مولانا) محمد سفیان قاسمی

حفظِ قرآن کریم کے بعد دار العلوم دیوبند میں تعلیم مکمل کی، ۱۹۷۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، دورانِ تعلیم ہی پرائیوٹ طریقے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہائی۔ اسکول سے ایم۔ اے تک امتحانات دیے، ۱۹۷۶ء میں جامعۃ الازھر، قاہرہ میں کلیۃ الشریعہ سے ماجستیر (ایم۔ اے ) کیا، ۱۹۸۰ء میں واپسی ہوئی، ۱۹۸۳ء سے دار العلوم وقف سے وابستگی ہوئی، اور ابتدائی کتب زیرِ تدریس رہیں، تدریجاً انتظامی ذمہ داریاں بھی سپرد ہوئیں، ۲۰۰۷ء کے کلکتہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رُکن منتخب کئے گئے، اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بھی رُکن ہیں۔

 

(۳) محمد عدنان قاسمی

جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی سے ہائی اسکول کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم۔ کام، تک تعلیم حاصل کی، تجارتی سرگرمی کے لئے ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۲ء ساؤتھ امریکہ کے ملک چلّی میں مقیم رہے، فی الحال دہلی میں مقیم ہیں اور تجارتی مصروفیات میں مشغول ہیں۔

 

(۴) حافظ محمد عاصم قاسمی

حفظِ قرآن کے بعد جامعہ ملّیہ دہلی سے ہائی اسکول پاس کیا، جیّد حافظ ہونے کے ساتھ خوش لحن انداز میں قرأت سے متأثر ہو کر بعض عرب حضرات نے بہ غرض تراویح امریکہ کی دعوت دی، بقیہ تعلیم وہیں مکمل کی، تعلیم کے بعد تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے اسلامک سینٹر سے بھی وابستہ رہے، اور اپنے حلقۂ اثر میں تبلیغ اسلام خاص موضوع رہا، چالیس سے زائد افراد نے دل نشیں انداز تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، جنھیں قرآن کی تعلیم دی، دنیا کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہوئے، اور امریکی شہریت اختیار کی، اب دہلی میں مقیم ہیں۔

 

(۵) اسماء اعجاز

سید اعجاز حسنی صاحب، جو کہ چاندپور، ضلع بجنور کے ایک معروف گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، سے منسوب ہیں، ایم اے اُردو تک تعلیم حاصل کی، اس وقت دہلی میں مقیم ہیں۔

 

(۶) عظمیٰ ناہید

مولانا حامد انصاری غازی صاحب کے صاحبزادے سلمان منصور غازی صاحب کے نکاح میں ہیں، إقراء ایجوکیشنل فاؤنڈیشن شکاگو کی ہندوستانی شاخ کی چیرمین ہیں، اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک اصلاحی تحریکات سے فعال وابستگی کی بنیاد پر ملک کی معتبر ترین خاتون کی حیثیت سے متعارف ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں خواتین ونگ میں نہایت فعال شخصیت کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ (پس مرگ زندہ)

 

اخلاق  و عادات

 

مولانا خاندانِ قاسمی کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے وارث و امین ہیں، ہر جماعت اور ہر طبقے کے لئے محترم، باوجود یکہ ان کے خلاف باضابطہ مہم بھی چلائی گئی، ان کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کبھی تقریر یا تحریر کے ذریعہ کسی کے خلاف بولنے کے روا دار نہیں ہوئے، نہ غیبت کرنا جانتے ہیں، نہ سننا پسند کرتے ہیں، سخت ترین مخالفین کے خلاف بھی لب کشائی نہیں فرماتے، مجلس میں ہوں تو با وقار، اسٹیج پر ہوں تو نمونۂ اسلاف، سفر میں ہوں تو مرنجا مرنج و خوش مزاج، مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، مگر سفر کے تعب و مشقت کا قطعی تذکرہ نہیں، ہر طرح کے سفر اور محنت و مشقت کے خوگر۔

 

اساتذہ

 

مولانا نے اپنے زمانے کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا، جن میں سے کچھ یہ ہیں :

(۱) مولانا اشرف علی تھانویؒ

(۲) علامہ ابراہیم بلیاویؒ

(۳) شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ

(۴) شیخ الحدیث مولانا فخر الحسن گنگوھیؒ

(۵) شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ

(۶) حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ

(۷) شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ

 

خطابت واسفار

 

مولانا کا ایک اہم اور نمایاں وصف خطابت ہے اور وہ خطیب الاسلام، خطیب العصر اور جانشین حکیم الاسلام جیسے القاب و خطابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔

چونکہ خطابت میں روانی تھی اور حلقہ معتقدین کا، اس لئے ملک و بیرون ملک دعوتی اسفار ہوتے رہے ہیں، بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوبند میں قیام اور تدریس و اہتمام کے ایّام کے مقابلے میں اسفار اور اجلاس، کانفرنس، سیمینار وغیرہ میں شرکت کے لئے دورے زیادہ ہیں، کئی جلدوں پر مشتمل ان کے خطبات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔

 

ذوقِ تحقیق و تصنیف

 

کثرتِ اسفار اور بے پناہ مشغولیات کے باوجود مولانا مضمون نویسی اور تالیف و تصنیف کے لئے کچھ وقت نکالتے ہیں، مختلف عنوانات پر بیش قیمت مقالے تحریر کئے ہیں، کتابوں کے لئے تمہیدی مقدمات اور بے شمار تقریظات لکھیں ہیں، چند کتابیں بھی طبع ہو چکی ہیں اور بہت سارا مواد منتظر طباعت ہے، مطبوعہ کتب میں ’’مبادی التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ (عربی) ’’تاجدارِ ارضِ حرم کا پیغام‘‘، ’’ مردِ غازی‘‘ اور ایک ’’عظیم تاریخی خدمت ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے باضابطہ طور پر اگرچہ تصنیف و تحقیق کا میدان اختیار نہ کیا، لیکن ان کے تبحر علمی سے مستفید ہو کر اربابِ علم و فضل نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں، اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کے خطبات، مقالات، ملفوظات اور رسائل کے مجموعے ان کی رہنمائی اور نگرانی میں شائع ہو چکے ہیں، ادھر قریبی عرصہ میں حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ذریعہ بہت سے علمی کام انجام پائے ہیں، خصوصاً سوانحی موضوعات پر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

 

 

 

تعلق بیعت و ارشاد

 

مولانا محمد سالم صاحب نے بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے قائم کیا، لیکن اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ سے لی، اور ان کے مجازِ بیعت و ارشاد ہو کر ان کے متوسلین اور خلفاء کی تربیت فرمائی۔

مولانا کے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، اجازت یافتہ حضرات کی تعداد ۱۰۰  سے متجاوز ہے۔

 

عظیم قاسمی علمی میراث

 

حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازا تھا، علم و عمل کے میدان میں ایک عظیم الشان مجدد کی حیثیت سے اسلامی دنیا آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی، امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی اسلامی علمی وراثت کے محافظ ہونے کے سبب مولانا کا مقام یگانہ ہے، دار العلوم جیسے عظیم اسلامی ادارے اور اس کے علاوہ کئی اور دینی مدارس کے بانی ہونے کی حیثیت سے مولانا کی فوقیت مسلم ہے۔

اس کے ساتھ ہی اللہ نے مولانا کو ایک اور عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور وہ ہے آپ کے نہایت ہی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء۔

آپ کے بعد آپ کے مسندِ علم پر جلوہ افروز ہونے والے آپ کے لائق و فائق فرزند ارجمند مولانا محمد احمد صاحب نانوتویؒ نے اپنی لیاقت اور نسبت کے ذریعے دار العلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اور دار العلوم دیوبند کے مسندِ اہتمام پر ۴۰ سال تک جلوہ افروز رہتے ہوئے دار العلوم دیوبند کی تمام ابتدائی عمارتوں کی تکمیل فرمائی۔

ان کے بعد ان کے فرزند حجۃ الاسلام کے پوتے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ نے علمی حلقوں میں عظیم الشان مقام حاصل کیا، امام نانوتو یؒ کے اس عظیم اور مقر ر بے مثال پوتے کو دار العلوم دیوبند کا ’’معمار ثانی‘‘ کہا جاتا ہے، امام نانوتوی کے علوم کے شارح ہونے کے ساتھ مسلکِ دیوبند کے سب سے عظیم ترجمان کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلام کا مقام مسلم ہے، علمائے دیوبند میں حکیم الاسلام کو عظیم الشان مقر ر تسلیم کیا جاتا ہے، ’’ خطبات حکیم الاسلام‘‘ جو کہ آپ کی تقاریر کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف، اسرار شریعت کا خزانہ ہونے کے علاوہ مسلک علمائے دیوبند کی ترجمان ہیں، حکیم الاسلام دار العلوم دیوبند کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت یعنی ۵۳ سال تک منصب اہتمام پر فائز رہے، اور دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دار العلوم دیوبند کی خدمات سے اہل علم کو متعارف کروایا۔

علاوہ ازیں امام نانوتوی کے پڑ پوتوں اور حکیم الاسلام کے دو فرزندوں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور آپ کے برادر محترم حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم علومِ حدیث وتفسیر میں اپنا اہم اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

فی الحال حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی بلاشبہ مکتبۂ فکر دیوبند کو امام نانوتوی اور تمام اکابر علمائے دیوبند کی فکر  و بصیرت اور علمی وراثت سے جوڑے رکھنے والی ایک اہم کڑی ہیں۔

اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحرِ بیکراں جو امام نانوتوی کے ہاتھوں کی انگلیوں سے جاری ہوا تھا، اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھا، اسے ان کے انتہائی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء نے جاری و روشن رکھا، اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے خانوادۂ علمیہ قاسمیہ کو خانوادۂ والی اللٰہی کا متبادل بنا کر ہندستان کے مسلمانوں کا ناخدا بنا دیا۔ (Islamicthought.edu )

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) حیات طیب، شائع کردہ: حجۃ الاسلام اکیڈمی۔

(۲) پس مرگ زندہ، از: مولانا نور عالم خلیل امینی۔

(۳) خطیب الاسلام الشیخ محمد سالم القاسمی۔

(۴) ندائے دار العلوم کے مختلف شمارے۔

(۵) مولانا اسلام صاحب کا مضمون، شائع شدہ ندائے دار العلوم وقف۔

ٍ        (۶) الامام الأکبر، از: محمد اویس صدیقی نانوتوی۔

(۷) دیوبند و علمائے دیوبند سے متعلق ویب سائٹس

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

(۲) حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی

دامت برکاتہم     

 

                   ولادت:۱۳۴۷ھ/ ۱۹۲۹ ء

 

زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کے رہو

زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کے رہو

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            محمد رابع حسنی

والد کا نام:      سید رشید احمد حسنی

جائے پیدائش: تکیہ کلاں، رائے بریلی، اتر پردیش، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۹  اکتوبر ۱۹۲۹ ء

ابتدائی تعلیم:    مکتب رائے بریلی

ثانوی تعلیم:     دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

تکمیل:         دار العلوم دیوبند

موجودہ اہم ذمہ داری: ناظم ندوۃ العلماء، و صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

حالیہ پتہ:       دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

والدہ کا نام : امۃ العزیز صاحبہ، ہمشیر ۂ مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ

 

پیدائش و خاندانی پس منظر

 

آپ کی پیدائش ۱۳۴۷ھ مطابق۲۹  اکتوبر ۱۹۲۹ء کو تکیہ کلاں رائے بریلی، اتر پردیش میں ہندوستان کے معزز سادات کے گھرانے میں ہوئی، یہ وہ گھرانہ ہے جس کو حضرت سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کی داستانِ عزیمت وراثت میں ملی ہے، جو آج بھی اپنی زبان، اپنے نسب، اپنے عقیدہ نیز ساداتِ ہاشمی کی تمام خصوصیات کے ساتھ باقی ہے، جس کے بارے میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے فرمایا تھا کہ ــ ’’اگر یہ خانوادہ اور تحریک سید احمد شہید نہ ہوتی تو آج ہم مسلمان نہ ہوتے ‘‘، یہ خاندان دورِ عالمگیری سے لے کر آج تک اس تحتی بر اعظم میں دعوت و ارشاد کی اہم ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہا ہے، پورے عالمِ اسلام میں پاکیزہ اسلامی خیالات اور توحید وسنت کے صاف ستھرے و صحیح تصورات قائم کرنے میں اس خانوادہ کا اہم رول رہا ہے۔

خاندان کی ان صالح اور قابل قدر روایات نے آپ کی شخصیت، ذہنیت اور صلاحیت کے بنانے میں بہت ہی موثر کردار ادا کیا، بالخصوص آپ نے صدی کی عظیم شخصیت، شیخ العرب و العجم، آفتابِ علم  وعرفاں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی نگہداشت اور سرپرستی میں علم و صلاح کی انتہائی بلند و بالا اور قابل رشک منازل طے کیں، آپ کی علمیت میں خاندانی شرافت، اودھ کی تہذیبی حلاوت، تاریخ و ادب کی حرارت اور ندوہ کی صدا ’’جدید نافع اور قدیم صالح ‘‘ کا ایسا زبردست اثر رہا کہ آپ عام سطح سے بہت بلند ہو گئے۔ (حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی: ایک عہد ساز شخصیت)

 

تعلیمی مراحل

 

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مکتب رائے بریلی میں حاصل کی، اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیمی سلسلہ رہا، اور وہیں سے ۱۹۴۸ء میں سند فراغت حاصل کی، اس کے بعد ایک سال دارالعلوم دیوبند میں گذارا، وہاں فقہ، تفسیر، حدیث اور بعض فنون کی ایک ایک کتاب پڑھی، تعلیم کے سلسلہ میں چند روز مظاہر علوم سہارنپور میں رہنا ہوا، اعلیٰ تعلیم کے لئے حجاز کا بھی سفرکیا۔

 

تزکیہ و تربیت

 

آپ کی نیک بختی اور کامرانی یہ بھی ہے کہ آپ کو وقت کے عظیم اساتذہ اور کبار علماء سے استفادہ کا شرف بھی حاصل ہوا، جن میں نمایاں ترین حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ، شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ، مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھیؒ اور حضرت مولانا ابرارالحق صاحبؒ کے نام نامی ہیں، مگر خاص فیض آپ کو اپنے خالِ معظم حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت و صحبت سے حاصل ہوا، جس کے متعلق ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ فرماتے ہیں ’’مولانا رابع حسنی ندوی نے مولاناؒ کے نظریۂ تعلیم کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے، وہ خود ایسی آنکھ بن گئے ہیں جس سے مولانا دیکھا کرتے تھے ‘‘۔

استاذِ محترم جناب مولانا الیاس صاحب ندوی بھٹکلی نے ایک مرتبہ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ ہر کام میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے مشورہ لیا کرتے تھے، یہاں تک کے ندوہ میں حضرت مولانا کا جملہ ’’رابع سے پوچھو ایک اصطلاح بن گئی تھی‘‘۔

 

تدریسی و انتظامی خدمات

 

اس سلسلہ میں آپ کے برادر مکرم جناب مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی فرماتے ہیں ’’حضرت مولانا رابع حسنی ندوی چونکہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے سب سے زیادہ قریب رہے ہیں اور ان کے اسفار میں شریک رہے ہیں، جن میں اہم شخصیتوں اور حکمرانوں سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کا بھی کثرت سے موقع ملا، اس لئے مولانا کو  حقیقت حال اور مسائل کی نزاکت سے واقفیت کا جو موقع ملا وہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ‘‘۔

دارالعلوم دیوبند میں ایک سال گذارنے کے بعد ۱۹۴۹ ء میں آپ کا دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبۂ ادبِ عربی میں بحیثیت معاون استاذ تقرر ہوا۔

۱۹۵۲ ء میں ندوہ کے ادیب دوم مقر ر ہوئے۔

۱۹۵۵ء میں صدر شعبۂ ادبِ عربی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

۱۹۷۰ء میں عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ (دارالعلوم ندوۃ العلماء) مقر ر ہوئے۔

۱۹۹۳ ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا منصب اہتمام آپ کے سپرد ہوا۔

۱۹۹۸ ء میں نائب ناظم مولانا معین ا اللہ صاحب ندویؒ کی خرابی صحت کی وجہ سے منصب اہتمام کے ساتھ بحیثیت معاون نائب ناظم کے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

اخیر میں ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ ء کو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے انتقال کے بعد جنوری ۲۰۰۰ء میں ندوۃ العلماء کی نظامت کا عہدۂ جلیلہ آپ کو تفویض ہوا، جس کو آپ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں، آپ کے خلوص کی وجہ سے ندوہ نہایت ہی تیزی، بہت ہی خوبصورتی اور بڑی کامیابی کے ساتھ شاہراہِ ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔

اہم اور قابل شکر و شرف بات یہ ہے کہ حضرت اقدس مولانا علی میاںؒ جیسی عالمگیر عظمت و شہرت اور مقبولیت و محبوبیت کی حامل شخصیت کے تمام اہم کام و پیام کو لے کر آپ بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس تمام عرصے میں آپ بحیثیت مدرس تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں، اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، اب تک تقریباً ۶۵ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔

 

ملی وسماجی خدمات

 

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مدرس کی کل کائنات اور اس کی کوششوں کا کل مرکز مدرسہ کی چہار دیواری ہوتی ہے، اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو بیک وقت تدریسی خدمات کے ساتھ ملی وسماجی خدمات میں بھی نمایاں ہوں۔

حضرت مولانا اس سلسلہ میں ایک امتیازی شخصیت کے حامل ہیں، کہ ایک عالمی ادارہ کی تدریسی و انتظامی خدمات کے ساتھ ساتھ اس سے بھی وسیع پیمانے پر ہندوستانی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ ملی وسماجی خدمات انجام دے رہے ہیں، جو ہندستان میں تمام مسلمانون کا متحدہ پلیٹ فارم ہے۔

۲۰۰۳ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تیسرے صدر قاضی مجاہدالاسلام صاحب قاسمی کے وجود سے جب ملت اسلامیہ محروم ہو گئی، تو بیک وقت پورے ہندوستان کی نگاہیں آپ پر آ کر ٹِک گئیں، اور یہ حسن اتفاق ہے کہ آپ اپنے نام کی مناسبت سے بورڈ کے چوتھے صدر منتخب ہوئے، آپ کو خداوند قدوس نے جو اعلیٰ علمی فکری اور انتظامی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، کسی دوسری جگہ ان کا وجود خال خال ہی نظر آتا ہے۔

ہندستان بلکہ عالم اسلام کے مشہور و معروف فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں :

’’مجھے مولانا کا جو وصف سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے وہ ان کے اندر پایا جانے والا سمندر کا سا سکوت، زمین کا سا بچھاؤ اور جھکاؤ ہے، اس وقت ملت اسلامیہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لئے ایسی ہی قیادت مطلوب ہے، جو حضرت عثمان غنیؓ کی زبان میں اقوال سے زیادہ فعال ہو اور جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتی ہو ‘‘۔ (مسلم پرسنل لاء بورڈ کام اور پیام ص:۶، مرتب :الیاس ہاشمی)

مولانا اس وقت اپنی عمر کی ۸۵ بہاریں دیکھ چکے ہیں، لیکن ملت کی مسیحائی کے لئے ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے ہیں، خاص طور پر پیامِ انسانیت کے اسٹیج سے جو خدمات جاری ہیں وہ عدیم المثال ہیں، اللہ کرے حضرت والا کا سایۂ عاطفت تا دیر سلامت با کرامت رہے، آمین یا رب العالمین۔

 

تصوف وسلوک میں آپ کی خدمات

 

مولانا کو بہت سے بزرگوں کے علاوہ خود حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے بیعت و ارشاد کے سلسلے (قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ )کی اجازت و خلافت حاصل ہے، مولانا ہر وقت لوگوں کی اصلاح و فکر میں لگے رہتے ہیں، خاص طور پر طلبہ کی اصلاح کے حد درجہ فکرمند رہتے ہیں، اس سلسلے میں جب بھی ندوہ میں قیام ہوتا ہے تو بعد نماز عشاء مجلس لگتی ہے، جس میں اساتذہ و طلباء حاضر ہو کر مستفید ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سال میں ایک دوبار عمومی خطاب بھی طلبہ کے لئے ہوتا ہے، اس میں بھی اصلاحی باتیں ہوتی ہیں، نیز رمضان کا پورا مہینہ اسی اصلاح کی فکر کے لئے وقف ہوتا ہے، آپ رمضان کا پورا مہینہ اپنے وطن رائے بریلی میں گزارتے ہیں، نیز آخری عشرہ کا اعتکاف بھی کرتے ہیں، مسجد میں ہر طبقہ کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد حاضر ہوتی ہے، اور پورا مہینہ افادہ واستفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور آخری عشرے میں یہ تعداد کبھی ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔

 

مولانا بحیثیت واعظ و مقر ر

 

مولانا جس طرح ایک مدرس و منتظم اور مصلح و مرشد ہیں، اسی طرح آپ واعظ و مقر ر بھی ہیں، آپ کی تقاریر اور بیانات حد درجہ تاثیر رکھتے ہیں، جس میں جوش سے زیادہ ہوش کی باتیں ہوتی ہیں، مولانا کی ہر تقریر جامعیت اور معانی کی وسعت کا نمونہ ہوتی ہیں، مولانا نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اسٹیج سے بحیثیت صدر اور پیام انسانیت کے اسٹیج سے بحیثیت سرپرست بارہا لاکھوں کے مجمع کے سامنے تقریر کی، جس میں آپ نے اپنا دل کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے، مولانا کے خطبات کا ایک مجموعہ خطبات رابع کے نام سے مرتب ہو کر شائع ہو چکا ہے۔

 

ادبی خدمات

 

مولانا بیک وقت اردو و عربی دونوں زبانوں کے ادیب تسلیم کئے گئے ہیں، موجودہ زمانے میں جبکہ ادب برائے نام ادب رہ گیا ہے، اور جو کسر باقی تھی مادیت نے اس کی بھی روح نکال کر رکھ دی ہے، اس وقت ایک ایسے ادب کی ضرورت ہے جو مادیت کے اثرات سے خالی اور ادب کے اعلیٰ معیار سے متصف ہو، مولانا کی تحریریں وتقریریں ادب کے سرمایہ میں ایک قیمتی اضافہ ہے، خاص طور پر مولانا نے اپنی کتاب ’’منثورات‘‘ کے ذریعہ ثانوی درجات کے طلبہ کے لئے ایک بیش بہا مواد جمع کر دیا ہے، اس میں مولانا نے ان زندہ اور حسین اقتباسات کا انتخاب کیا ہے، جو زبان کے محاسن اور کلام کی بلاغت کے ساتھ، دینی  واخلاقی تربیت کا کام بھی انجام دیتے ہیں، اس میں نثر قدیم کے ساتھ نظم قدیم کے نمونے بھی شامل ہیں، جو طلباء میں عربی ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لئے معاون و مددگار ہیں، نیز معلم الانشاء (تیسرا حصہ ) کے ذریعہ طلباء کی ادب عربی کی طرف پیش رفت کرنے اور مختار الشعر (دو حصے ) کے ذریعے طلباء و عربی داں حضرات میں عربی اشعار کا ذوق پیدا کرنے کی قابل مبارکباد کوشش کی ہے۔

 

صحافتی خدمات

 

موجودہ زمانے میں صحافت کی اہمیت و افادیت سے کون صاحب بصیرت انکار کر سکتا ہے، مولانا نے عصر حاضر کے اسی تقاضے کے پیش نظر ایک پندرہ روزہ عربی صحیفہ ’’ الرائد‘‘ جاری کیا، جو۱۹۵۹ء سے آج تک مسلسل شائع ہو رہا ہے، اب بھی مولانا ہی اس کی سرپرستی فرما رہے ہیں، جس میں مولانا کے قیمتی و وقیع مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں، اور اب تک ہزاروں مضامین شائع ہو چکے ہیں، جس میں زمانے کی نبض شناسی اور امت کے موجودہ مسائل اور ان کا حل پیش کیا جاتا ہے۔

مولانا ندوۃ العلماء کے پندرہ روزہ رسالہ تعمیر حیات کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں، اس میں بھی مولانا کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، نیز مولانا کے اسفار کی روداد اور تقاریر کا خلاصہ بھی اس میں شائع ہوتا ہے، تعمیر حیات میں شائع شدہ مولانا کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ‘‘لکھنؤسے بعنوان ’’عالم اسلام اور سامراجی نظام ‘‘مرتب ہو کر شائع ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ مولانا اردو کے پرچوں سہ ماہی ’’تعمیرِ افکار ‘‘ماہانہ ’’پیام عرفات‘‘ رائے بریلی، ماہنامہ ’’ ندائے حرم‘‘ احمد آباد گجرات، ندوہ سے شائع ہونے والے انگریزی کے سہ ماہی مجلہ ’’دی فریگرینس آف ایسٹ ‘‘((The Fragrance of east))اور ہندی ماہنامہ ’’سچاراہی ‘‘ کے سرپرست بھی ہیں۔

لکھنؤ سے شائع ہونے والے اخبار ’’کاروانِ ادب ‘‘کے بھی آپ ہی ایڈیٹر ہیں، اور ماہنامہ ’’ معارف‘‘ اعظم گڑھ کی مجلس ادارت کی رکنیت بھی آپ کو حاصل ہے۔

یہ آپ کی صحافتی خدمات کی ایک جھلک ہے، اس سلسلہ میں مولانا نے جو قربانیاں دی ہیں اس کی تفصیل کے لئے مستقل ایک مضمون درکار ہے۔

 

تصنیفی خدمات

 

مولانا تصنیفی دنیا میں بھی اپنی مثال آپ ہیں، مولانا کی تصنیفات کا مطالعہ متنوع سمتوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، مولانا نے بہت سے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں، جن میں سیرت، تاریخ، ادب، جغرافیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں، مولانا کی تحریریں آسان اسلوب اورشستگی و شگفتگی کا مرقع ہوتی ہیں، مولانا کا مخصوص طرز تحریر ہے جو دل ودماغ دونوں کی راحت کا باعث ہوتا ہے، اسلوب بالکل عام فہم، نفسِ مضمون سنجیدہ اور علمی بیان سادہ ہوتا ہے۔

مولانا کی تصانیف میں سیرت کے موضوع پر معرکۃ الآراء تصنیف ’’رہبر انسانیت ‘‘ہے، جو کئی زبانوں میں منتقل ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے، اس کتاب کے متعلق مولا ناسید واضح رشید حسنی ندوی مدظلہ العالی یوں رقم طراز ہیں :

’’سیرت کی اس کتاب میں آپﷺ کی جامع تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کتاب سے اندازہ ہو گا کہ یورپی مصنفین نے کتنی بہتان تراشی اور کذب بیانی سے کام لیا ہے ‘‘۔

اور ایک جگہ اس کتاب کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’کتاب کی زبان سلیس اور استدلال بھی علمی و تحقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم ہے، اس میں معاندین و مخالفین کے ذہن کو سامنے رکھا گیا ہے، اس کتاب کے ذریعہ مولانا نے مسلمانوں کو تعلیماتِ نبوی اپنانے اور سیرت رسول کو ماڈل بنانے کی دعوت دی ہے ‘‘۔ (مقدمہ رہبر انسانیت)

سیرت کے موضوع پر آپ کی دوسری تصنیف ’’نقوش سیرت ‘‘ہے۔

پروفیسر وصی احمد صدیقی مرحوم اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۲ پر لکھتے ہیں :

’’پوری کتاب حضور کی اعلیٰ اور پاکیزہ زندگی سے مملو ہے ‘‘۔

اسی طرح مولانا کی جغرافیہ کے موضوع پر مشہور و معروف کتاب ’’جزیرۃ العرب ‘‘ہے، جس میں عربوں کی ثقافتی، حربی، معاشرتی، سماجی زندگی، زبان عربی اور جزیرہ العرب کے جغرافیہ پر جامعیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، جو کہ جغرافیہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک نادر و نایاب تحفہ ہے، باوجود خشک موضوع ہونے کے مولانا نے جس اسلوب میں اس کو عام فہم بنا کر پیش کیا ہے، یہ مولانا کو اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ایک امتیازی خصوصیت ہے۔

مولانا کی تصانیف کی تعداد فی الوقت پچاس سے تجاوز کر چکی ہیں، جن میں اردو و عربی کی تعداد تقریباً نصف نصف ہے۔

مولانا کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :

عربی کتب:

(۱)الأمۃ الاسلامیۃ ومنجزاتہا، (۲)مقالات فی التربیۃ و المجتمع، (۳)منثورت من أدب العرب، (۴)الأدب العربی بین عرض ونقد، (۵)تاریخ الأدب العربی (العصر الاسلامی)، (۶)الأدب الاسلامی وصلتہ بالحیاۃ، (۷)الأدب الاسلامی فکرتہ ومنھاجہ، (۸)رسائل الأعلام، (۹)معلم الانشائ(تیسرا حصہ)، (۱۰)مختار الشعر (دو حصے )، (۱۱)واقع الثقافۃ الاسلامیۃ، (۱۲)التربیۃ و المجتمع، (۱۳)بین التصوف والحیاۃ، (۱۴)أضواء علی الادب الاسلامی، (۱۵) فی وطن الامام البخاری، (۱۶)العالم الاسلامی الیوم، (۱۷) فی ظلال السیرۃ، (۱۸)الفقہ الاسلامی، (۱۹) حرکۃ ندوۃ العلماء وفکرتھا ومنھاجھا۔

اردو کتب :

(۱)دین و ادب، (۲)جغرافیہ جزیرۃ العرب، (۳)حج و مقامات حج، (۴)مقامات مقدسہ، (۵)اسلامی شریعت: ایک محکم قانون اور انسانی زندگی کی ضرورت، (۶)امت مسلمہ :رہبر اور مثالی امت، (۷)امت اسلامیہ اور اس کی ثقافت، (۸)دو مہینے امریکہ میں، (۹)مسلمان اور تعلیم، (۱۰)سماج کی تعلم و تربیت، (۱۱)سمرقند و بخارا کی بازیافت، (۱۲) غبارِ کارواں، (۱۳) حالاتِ حاضرہ اور مسلمان، (۱۴) نقوشِ سیرت، (۱۵)عالم اسلام، اندیشے اور امکانات، (۱۶) مسلم سماج، (۱۷) رہبرِ انسانیت (اردو، ہندی، انگریزی )، (۱۸) قرآن مجید انسانی زندگی کے لئے رہبر کامل (اردو، عربی)۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی کتابیں اور سینکڑوں اردو عربی مقالات و مضامین ہیں۔

 

مولانا کی امتیازی خصوصیت

 

باوجود اس کے کہ مولانا مختلف علمی و تصنیفی میدان میں دسترس رکھتے ہیں، اور کسی ایک چیز کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی ان کا اصل موضوع ہے، لیکن مولانا کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ مولانا عربی کے ادیب ونقاد ہیں، اس کی سب سے بڑی دلیل مولانا کی کتاب ’’الأدب العربی بین عرض و نقد ‘‘ہے، اس میں مولانا نے مختصر اور جامع انداز میں ادب اور اس کی اقسام، نیز مختلف زبانوں میں ادب کی قسمیں و دیگر چیزوں کو واضح اور سہل انداز میں پیش کیا ہے، جو عربی زبان و ادب کے طلباء کے لئے گراں مایہ تحفہ ہے۔

 

مولانا بحیثیت مفکر اسلام

 

مولانا جس طرح بحیثیت ناظم ندوۃ العلماء اور اس کے دارالعلوم کے لئے نیز بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے فکر کرتے ہیں، ان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح بحیثیت مسلمان اور ایک عالم ہونے کے آپ کو ہر وقت عالمی سطح پر پوری امت مسلمہ کی بھی فکر ستاتی رہتی ہے، اس کی واضح مثال آپ کا رابطہ عالم اسلامی سے جڑے رہنا، اور رابطہ ادب اسلامی عالمی کے ذریعہ تمام عالم کے مسلمانوں کو جوڑنا ہے، اس کے علاوہ آپ کے تعمیر حیات میں شائع شدہ مضامین بھی اس کے شاہد ہیں، ان ہی مضامین کے مجموعہ کی اشاعت کے متعلق عالم اسلامی، خصوصاً عالم عربی پر گہری نظر رکھنے والے، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فائق استاذ جناب مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ازہری دامت برکاتہم فرماتے ہیں :

’’عالم اسلام اور سامراجی نظام ‘‘حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے ان مضامین کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے عالمِ اسلام خصوصاً عرب ملکوں کے مسائل و مشکلات اور امت مسلمہ کو درپیش خطرات اور چیلنجز، اور مغربی ملکوں کی فکری یورش اور ان کی نسل کشی کی سازشوں کے بارے میں لکھے تھے، چونکہ بیشتر مضامین عرب ملکوں سے متعلق تھے، اس لئے وہ عربی میں براہِ راست لکھے گئے، پھر ان کا ترجمہ ’’تعمیر حیات‘‘ میں شائع ہوا، انھیں مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے، تاکہ برصغیر کے مسلمان عالم اسلام اور عرب ملکوں کو درپیش خطرات سے اچھی طرح واقف ہوں اور ان کا دینی وملی شعور بیدار ہو کہ وہ بھی اس عالمگیر ملت کا جزء ہیں۔

چونکہ یہ مضامین ایک درد مند دل کے قلم سے نکلے ہیں اور ان کا محرک بھی دینی جذبہ ہے، اس لئے ایک ایک سطر سے دردو سوز اور عالم اسلام کے سیاسی قائدین کی بے دانشی بلکہ ضمیر فروشی اور ملت کی بے بسی اور بے حسی پر خون کے آنسو بہتے نظر آتے ہیں، اس وقت کے عالم اسلام کی تصویر کشی کا کام خون دل بہانے سے زیادہ مشکل ہے، بلکہ ترجمان حقیقت شیخ سعدی کے الفاظ میں سقوط بغداد پر آسمان بھی اگر خون کے آنسو بہائے تو اس کو یہ حق ہے۔

آسماں راحق بود گر خوں ببارد برز میں       برزوال ملک مستعصم امیر المؤمنین

مشہور مؤرخ ابن کثیر ایک سال تک متردد رہے کہ زوالِ بغداد پر کیسے قلم اٹھائیں، لیکن مؤرخین کو ایسے دشوار گزار بلکہ دل گداز سانحوں کے بارے میں بھی دل پر پتھر رکھ کر لکھنا پڑا، مگر اس دور میں قلم اٹھانا تو خون دل بہانے سے زیادہ مشکل اور خطرناک ہے، بڑے سے بڑے مؤرخ اور تجزیہ نگار کے لئے یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ اس صورت حال کی توجیہ کیا کرے، جب استعماری طاقتوں کا قبضہ مسلم ملکوں پر تھا تب تو استعمار کو برا کہنا اور مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان بیان کرنا آسان تھا، اب جبکہ برسوں سے یہ ممالک آزاد ہو گئے اور دینی، سیاسی و اقتصادی اور تہذیبی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہی، پھر ان کے پاس مادی و روحانی ترقی کے وہ سارے وسائل ہیں جو دشمنوں کے پاس نہیں، اس کے باوجود بھی مسلمان کیوں استعماری طاقتوں کی چیرہ دستی اور تہذیبی غلامی اور اعتقادی ارتداد کے شکار ہیں ؟ یہ تمام مسلم ممالک آزاد ہیں اور مسلمان ہی حکمراں ہیں، لیکن وہ اپنے دشمنوں سے نبرد آزما ہونے کے بجائے برادر کشی میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہے ہیں، ترقی کے کمال سے لے کر جمال تک اور صدام سے حسنی مبارک تک اور بورقیبہ سے لے کر زین العابدین بن علی تک کے جائزے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ استعماری طاقتوں نے مسلمان ملکوں پر وفادار ایجنٹوں کو مسلط کر دیا ہے، ہر روز نت نئی مشکلات سامنے آ رہی ہیں، عالم اسلام کی آزادی پر نصف صدی گزرنے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟ ‘‘

آگے لکھتے ہیں :

’’مولانا نے اس کتاب میں سب سے پہلے مسلمان ملکوں کی سنگین صورت حال کا جائزہ لے کر بتایا کہ امت اسلامیہ کا اصل ناسور کیا ہے، مغربی استعمار نے کس طرح فکری اور تہذیبی طور پر اسلامی معاشرہ کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ نصف صدی ہماری آزادی پر گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک بیدار تو کیا ہوتے مغربی احکام کے مسلط کئے ہوئے حکام کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوئے، جاپان و چین اور ہندوستان نے پچاس سال کے عرصہ میں صنعت وسائنس کے میدان میں زبردست ترقی کی ہے، جاپان تو اپنی صنعتی ترقی کی وجہ سے خود سپر پاور امریکہ کو چیلنج دے رہا ہے، لیکن ہم تمام وسائل کا خود اپنے ہی ملک کے باشندوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، اس کے بنیادی اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ اصل میں مستشرقین نے عالم اسلام کو تباہ و برباد کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے سہارے استعماری طاقتیں کامیاب رہیں، آج سے ایک صدی پہلے ان کا منصوبہ تھا کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا جائے، وہ انھوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے پورا کیا، پھر انھوں نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کو سائنسی، صنعتی میدانوں میں ترقی نہیں کرنے دیں گے، تاکہ وہ ہمیشہ مغربی ملکوں کے دست نگر رہیں، اسرائیل کے خنجر کو عرب ملکوں کے قلب میں گاڑ کر ہمیشہ ان کی طاقت کو کمزور کرتے رہیں گے، تیسری طرف صحیح آزادی سے ان کو محروم کر کے اپنے تیار کردہ حاکموں کو بطور ڈکٹیٹر ان پر مسلط کیا جائے گا، دینی بنیادوں پر جماعتوں کے قیام کو روکا جائے گا، ان کے اندر انتشار و اختلاف کو ابھارا جائے گا، ان مقاصد کو استعماری طاقتوں نے کس طرح بروئے کار لانے کی کوشش کی، اس کا اندازہ کمال سے جمال تک اور قذافی سے صدام تک کے ڈکٹیٹرس کی پھیلائی ہوئی تباہی سے ہوتا ہے، استعماری طاقتوں نے اگرچہ سیاسی آزادی مسلمان ملکوں کو دے دی، لیکن ان کا مجرمانہ کردار نام نہاد مسلم حکمراں ادا کرتے رہے، اس کے نتیجہ میں اسرائیل کا ناسور پیدا ہوا، ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے، گولان جیسا بہترین دفاعی قلعہ ہم نے دشمنوں کے حوالہ کر دیا، بلکہ اب تو ہم نے اپنا دفاعی نظام بھی اس کے حوالے کر دیا ہے، اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم و تربیت کا نظام جو ہمارا آخری محاذ تھا اس کو بھی ہم نے دشمنوں کے قبضے میں دے دیا ہے، یہ سب باتیں اگرچہ دل شکن بلکہ ہمت شکن ہیں، لیکن مصنف اسلامی تاریخ میں پیش آنے والے حوادث سے قرآن مجید کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، یہ ہوتا آیا ہے۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

اس تاریک صورت حال سے مصنف مایوس نہیں، بلکہ پر امید ہیں، سب سے پہلے وہ اس جائزہ میں ترکی کی اسلامی بیداری پر روشنی ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جس ملک کو استعماری طاقتوں نے مرد بیمار کہا تھا اور جس کو کمال نے ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر نہیں رکھی تھی، وہ پھر بیدار ہو رہا ہے، اور یہ بیداری صرف ترکی تک نہیں، پورے عالم اسلام تک پھیل گئی ہے، یہ بات خوش کن ہے، لیکن اس کے ساتھ ہماری ذمہ داریاں اور تقاضے بھی ہیں، مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو زبردست پروپیگنڈہ کر رکھا ہے اور مسلسل کر رہا ہے اس کے ازالہ کے لئے ہم کو کیا کرنا چاہئے ؟ مولانا نے چونکہ مشرق و مغرب کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور وہاں کی سیاسی و دینی تحریکات سے ان کی واقفیت بڑی گہری ہے، وہ خود ’’ندوہ‘‘جیسی تحریک کے ذمہ دار اور ہندوستانی مسلمانوں کی معتبر تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سربراہ بھی ہیں، عالم عربی سے گھر کی طرح واقف ہیں، اس لئے وہ اپنی جچی تلی رائے بھی رکھتے ہیں، ان کے نزدیک عالم اسلام کی قیادت کے لئے سیاست  وقیادت کے امتزاج کی ضرورت ہے، مولانا قرآن مجید اور تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پچھلے پچاس برسوں میں امت اسلامی نے اپنی نفسیاتی اورانسانی طاقت کا ایک ایسا جزء گنوایا ہے، جو ان کے ماضی کی تاریخ کے تمام ادوار میں ان کے پاس محفوظ رہا تھا، ان کی طاقت کا یہی جزء ان کی عظیم طاقت کی بنیاد اور کلید تھی، جس کے ذریعہ وہ ہر باہری حملہ کا مقابلہ کرتی تھی، اسی گم شدہ طاقت کو پھر سامنے لانے کی ضرورت ہے، اور اس کے آثار پائے جاتے ہیں اور امت کے عروج و زوال کی تاریخ کے مطالعہ پر اس کی پوری توقع کی جانی چاہئے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اعتدال و توازن اور حقیقت پسندی اور ہر دور میں اسلام کی قیادت کی صلاحیت پر غیر متزلزل یقین ہے، اس کی بنیاد قرآن مجید، سیرت نبوی اور تاریخ کا گہرا مطالعہ ہے، اس میں عالم اسلام اور یورپ و امریکہ کے قریبی مشاہدہ کو بھی بڑا دخل ہے، ان کو یہ موقع مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی معیت میں ملا، اس کتاب میں سیرت کے گہرے مطالعہ کا عکس ہر ہر سطر میں ملے گا، اسی لئے امت مسلمہ کے ہر قضیہ کو انھوں نے دینی و اخلاقی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے اور اسی کسوٹی پر حوادث کو پرکھنے کی کوشش کی ہے، انسانی دنیا پر صرف مسلمان ہی وہ امت ہے جس کے دین کی خصوصیت احتساب کائنات اور سیادت و قیادت ہے، جب بھی مسلمان اس منصب سے ہٹے تو پوری انسانیت کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا، اور ان کو برابر یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کو انجام دینی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی مدد کی پوری امید رکھنی چاہئے۔

۱۱  ستمبر کے بعد پوری دنیا میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے ساتھ مختلف طریقوں سے ان کی معنوی قوت کو کمزور کرنے اور ان کی ہمتوں کو توڑنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ مسلمان اپنے دین و مذہب سے مایوس و متنفر ہو جائیں اور جو غیر مسلم دین اسلام کو قبول کر رہے ہیں، ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، اس کتاب کے مطالعہ سے انشاء اللہ یہ مایوسی دور ہو گی اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مستقبل درخشاں اور تاباں نظر آئے گا۔

امید ہے یہ کتاب بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا کام دے گی ‘‘۔ (مقدمہ عالم اسلام اور سامراجی نظام )

 

اسفار

 

سفر ہر زمانہ میں افادہ واستفادہ کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ پچھلے زمانہ میں جبکہ سفر کی موجودہ سہولیات معدوم تھیں، اس کے باوجود لوگ افادہ واستفادہ کے خاطر دور دراز کا سفر طے کرتے، مشقتیں برداشت کرتے، اس زمانہ میں سہولیات کی فراوانی کی بناء پر سفر زندگی کا جزء لاینفک بن کر رہ گیا ہے، اور مقاصد کی براری کا ایک مفید و مؤثر ذریعہ بھی ہے، مولانا نے اندرون ملک و بیرون ملک بہت سے علاقوں کے اسفار کئے، بیرونی ممالک میں اکثر ممالک اسلامیہ عربیہ، نیز بلاد یورپ و امریکہ، مشرق بعید جاپان، ملیشیا، افریقہ میں مراکش، مصر، تیونس، الجزائر، جنوبی افریقہ، پاکستان، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں، وہاں کی علمی و ادبی کانفرسوں میں شرکت کی اور مقالے پیش کئے، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

 

عہدے و مناصب

 

۱)ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔

۲)صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ۔

۳)نائب صدر عالمی رابطہ ادب اسلامی۔

۴)صدر مجلس تحقیقات و نشریات، لکھنؤ۔

۵)صدر دینی تعلیمی کونسل اتر پردیش، لکھنؤ۔

۶) صدر دار عرفات، رائے بریلی۔

۷) رکن تاسیسی رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ۔

۸) رکن دار المصنفین اعظم گڑھ۔

۹) ٹرسٹی آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز، آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ۔

۱۰) سرپرست مولانا محمد ثانی حسنی میموریل سوسائٹی، رائے بریلی۔

۱۱) صدر مولانا عبدالباری سوسائٹی، لکھنؤ۔

۱۲) رکن مولانا ابوالکلام آزاد اکیڈمی، لکھنؤ۔

۱۳) سرپرست تحریک پیام انسانیت۔

۱۴) سرپرست مولانا ابوالحسن علی ندوی اکیڈمی، بھٹکل، کرناٹک۔

۱۵) سرپرست جامعہ اسلامیہ بھٹکل، کاروار، کرناٹک۔

 

مولانا اور ندوۃ العلماء

 

ندوۃ العلماء سے مولانا کا تعلق خاندانی بھی ہے اور ذاتی بھی، خاندانی اس طور پر کہ روزِ اول سے مولانا کے خاندان کے افراد اس تحریک سے وابستہ رہے اور اس کے اہم مناصب پر فائز رہ کر اس کے لئے قربانیاں دیں، اور ذاتی اس طور پر کہ مولانا نے یہیں تعلیم حاصل کی، ابتدائے وقت سے اب تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، نیز مختلف حیثیتوں سے اس کی انتظامیہ میں شریک رہے، اور اب بحیثیت ناظم پوری ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی صاحب (جنرل سکریٹری دینی تعلیمی کونسل، یوپی) لکھتے ہیں :

’’دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شناخت محض ایک تعلیمی ادارہ کی نہیں ہے، اور خدا نہ کرے کہ مستقبل میں اس کی یہ پہچان بنے، اس کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اس وقت مدارس کے درمیان گل سر سبد ہے، وہ ایک تحریک اور فکری مرکز ہے، اس کے قیام کے ابتدائی تصور میں بھی یہ بات شامل تھی، اور الحمد للہ صدیوں کی علمی مسافت طے کرنے کے بعد آج بھی وہ اسی صراطِ مستقیم پر گامزن ہے، علم کا ایک مخصوص چشمۂ فیض ہے جو دل و نگاہ ونفس کی آبیاری کا فریضہ انجام دے رہا ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی شخصیت، ان کے مزاج اور طرزِ عمل، ان کی علمی عظمت اور ملک و ملت کے تعلق سے بین الاقوامی سطح پر ان کی فکری بلندی نے ندوہ کی تحریک و امتیاز میں چار چاند لگائے اور یہ ادارہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سے برصغیر کی فضاؤں سے نکل کر عالمی سطح پر عرب و عجم کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب دامت برکاتہم اس وقت اس کی فکری وراثت کے امین اور ایک جہاندیدہ، مخلص، صاحبِ بصیرت محافظ کی حیثیت سے علمی اور دینی حلقوں میں محبوب و مقبول ہیں، مولانا علی میاںؒ کی شخصیت کا ایک خوبصورت عکس جمیل، ان کے فکری توازن، تواضع اور انکسار و محبت، روا داری اور مروت، طرزِ گفتگو کا دلنشیں انداز و اظہار اس بات کی علامت ہے کہ وہ مولانا علی میاںؒ اور ندوۃ العلماء کی تحریک و دعوت دونوں کے بہترین ترجمان اور اس پورے اثاثے کے ذمہ دار و نگہبان ہیں ‘‘۔ (حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی: ایک عہد ساز شخصیت)

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے

 

(۱)حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی: ایک عہد ساز شخصیت (مضامین کا مجموعہ)

(۲) مولانا محمود حسنی ندوی کی تحریریں اور زبانی معلومات۔

(۳) مولانا کی تصنیفات اور ان پر لکھے گئے مقدمات۔

٭٭٭

 

 

 

(۳) حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی

دامت برکاتہم     

 

ولادت:۱۳۵۲ ھ / ۱۹۳۴ء

 

 

 

 

 

ہیں سعید الاعظمی سے سب باغ باغ

جن کی آمد سے ہوئے ہیں علم کے روشن چراغ

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            سعید الرحمن

والد کا نام:      (مولانا) محمد ایوب

جائے پیدائش: بختارو گنج، ضلع مؤ، یوپی، انڈیا

تاریخ پیدائش:  ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۴  مئی ۱۹۳۴ء

ابتدائی تعلیم:    مدرسہ مفتاح العلوم، مؤ

ثانوی تعلیم:     مدرسہ مفتاح العلوم، مؤ

تکمیل:         دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

موجودہ اہم ذمہ داری: مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی

حالیہ پتہ:               مکارم نگر، ڈالی گنج، لکھنؤ، انڈیا

 

تمہید

 

۱۸۵۷ء میں سرزمین ہند پر سلطنت اسلامیہ کا پر شکوہ دور برطانوی استعمار کے بے رحم ہاتھوں سے ختم ہوا، پھر کیا تھاسرزمین ہند مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار کی رزم گاہ بن گئی، جس کے علمی، فکری اور صنعتی انقلاب کے سامنے عالم اسلام کی چولیں ہلنے لگیں، جس کے گندے جراثیم سے دنیا کے اکثر و بیشتر خطے کراہنے لگے، پھر کیا تھا ایک طرف برطانوی استعمار کی تلوار بے گناہ ہندستانیوں کے خون سے سرخ ہو رہی تھی، تو دوسری طرف ان کے متعفن اور ناپاک خیالات نے آنے والی نسلوں کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کر رکھا تھا۔

ایسے نازک مرحلہ میں جہاں چہار جانب سے ملت اسلامیہ کے سروں پر مصائب و آلام کی ننگی تلواریں لٹک رہی تھیں، امت مسلمہ مسائل و مشکلات کی لامتناہی کھائی میں سسکیاں لے رہی تھی، دنیا کا ہر فرد مغربی تہذیب و تمدن کے قافلہ میں شامل ہونا اپنے لئے باعث فخر سمجھ رہا تھا، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ اپنے بے باک قلم سے امت کی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دیتے رہے، مغرب کے ایوانوں پر تیشے چلاتے رہے، اس کے غلط افکار و نظریات پر کھلے عام تنقید کرتے رہے، صرف اسی پر اکتفا نہ کر کے آپ نے اپنی آغوش میں ارباب قلم کا ایک ایسا تازہ دم لشکر بھی تیار کیا جن کی نگاہیں جلوۂ دانش فرنگ سے خیرہ نہ ہو سکیں، جن کا طاقتور و بے باک قلم حق و صداقت کا آوازہ کل بھی بلند کرتا رہا، اور آج بھی وہ پاکیزہ گروہ اپنے محسن کی دکھائی ہوئی ڈگر پر پوری صلابت واستقامت سے قائم و دائم ہے، ان کی جرأت و بیباکی، اخلاص و مروت اور ذکاوت و ذہانت نے ان کے قلم کو تلواروں کی صفت عطا کر دی ہے، ان کے نوک قلم کی تیزی اور بے باکانہ طرز تحریر دلوں پر ضرب لگاتی ہوئی اور میدان فکر و عمل کی طرف للکارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر سعید اعظمی ایک مثالی شخصیت، ص:۳ تا ۹)

ان ارباب قلم کی طویل فہرست میں ایک نام نامی اسم گرامی، استاذی، مخدومی و مکرمی حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کا ہے۔

 

ولادت با سعادت

 

آپ کی ولادت ۱۳۵۲ھ مطابق ۴  مئی ۱۹۳۴ء کو یوپی کے مشہور ضلع مؤ میں ہوئی۔

 

جائے ولادت

 

صوبہ اترپردیش کے مشرقی اضلاع میں سے ضلع اعظم گڑھ اپنی مردم خیزی اور نابغۂ روزگار شخصیتوں کے حوالہ سے ہندستان کی اسلامی، علمی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے، اعظم گڑھ کے بعض قصبات جیسے گھوسی، مبارک پور، چریاکوٹ اور مؤناتھ بھنجن وہ قصبات ہیں جو ماضی میں علم و فن کا گہوارہ تھے، اعظم گڑھ اور چریاکوٹ کے بیچ میں مؤناتھ بھنجن واقع ہے، جس کا حوالہ اعظم گڑھ کے راجاؤں کے شاہی فرمان میں ہے، اس ق/صبہ نے صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ علم و فن کی گرانقدر خدمت بھی انجام دی ہے، قدیم شاہی مسجد میں اب بھی ایک مدرسہ مفتاح العلوم قائم ہے، اس قصبہ میں کثرت سے علماء پیدا ہوئے، اور اب بھی ایسے نامور علماء اس سرزمین کی آغوش میں پرورش پا رہے ہیں، عرب و عجم میں جن کی شہرت کی بادِ نسیم چل رہی ہے، یہ قصبہ مؤ جو اب ایک مستقل ضلع کی حیثیت سے معروف ہے، ماضی میں ضلع اعظم گڑھ کا ایک کثیر آبادی والا مسلم قصبہ تھا، اس قصبہ کی تاریخ بڑی قدیم ہے، یہی وہ سرزمین ہے جس نے زبدۃ المحدثین مولانا حبیب الرحمن اعظمی کو اپنی آغوش میں پالا، اور یہاں کے دانش کدوں نے ہزاروں تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ (ہندستان میں عربی صحافت کا خورشید جہاں تاب، مضمون سید ازہر حسین ندوی، ص: ۱۱ و ۱۲)

 

جد امجد جناب شیخ محمد صابر صاحبؒ

 

مولانا کے جد امجد شیخ محمد صابر بن شیخ محمد احمدؒ اپنے زمانے کے نامور علماء میں سے تھے، اور بڑے علمی کمالات کے حامل تھے، آپ بختاور گنج سے ہجرت کر کے مؤ چلے آئے، اور یہیں بود و باش اختیار کر لی، ایک عرصۂ دراز تک آپ مؤ ہی کے اندر اپنے علوم و فنون کا دریا بہاتے رہے، پھر آپ نے ریاست حیدرآباد کا رخ کیا، اور وہاں نظام حیدرآباد کے بچوں کے اتالیق متعین ہوئے، سالہا سال تک آپ نظام حیدرآباد کے بچوں کی اتالیقی کے منصب پر فائز رہے، نظام آپ کے علمی کمالات، نسبی شرافت اور ر اخلاقی محاسن کا بڑا قائل و مداح تھا، اور ر بے انتہا آپ کا ادب و احترام کرتا تھا، شیخ صابرؒ صرف صاحب علم ہی نہیں تھے، بلکہ صاحب دل اور بادۂ معرفت سے بھی سرشار تھے، اللہ نے آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائی، ۱۹۵۵ء میں قید حیات سے آزاد ہوئے اور ر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی، دنیا سے کوچ کے وقت آپ کی عمر ایک سو دو سال تھی۔

 

والد ماجد شیخ الحدیث جناب مولانا محمد ایوب صاحبؒ

 

مولانا کے والد ماجد جناب مولانا محمد ایوب صاحبؒ اپنے وقت کے بڑے علماء میں تھے، فن حدیث کے افق پر آپ ایک روشن ستارے کی حیثیت سے پوری زندگی چمکتے رہے، ہندستان کی متعدد شہرت یافتہ اداروں میں آپ کی مسند حدیث سجی رہی، اور آپ اس کی زینت بنے رہے، فن حدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا، مگر سرمایۂ کمال حدیث ہی رہا، اور کیوں نہ ہو، جن اساتذۂ حدیث کے چشمۂ صافی سے آپ نے استفادہ کیا تھا، ان میں ایک نہایت ہی تابندہ و روشن نام فخر ہندستان علامہ انور شاہ کشمیری کا ہے، آپ علامہ موصوف کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، باکمال استاذ کی نظر عنایت و توجہ خاص نے آپ کی رگ رگ میں حدیث کا ایسا ذوق سمویا کہ یہ فن ان کی پہچان بن گیا، اور اسی فن کے ہو کے رہ گئے، فراغت کے بعد برسوں مفتاح العلوم مؤ میں حدیث کی اہم کتابیں پڑھاتے رہے، ۱۹۶۰ء میں آپ کو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بحیثیت شیخ الحدیث آنے کی دعوت دی گئی، آپ اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے تشریف لائے، مگر یہ سلسلہ ڈیڑھ سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکا، یہاں قیام کے دوران بخاری ومسلم کے خزانوں کو طلبا کے درمیان لٹاتے رہے، اور اپنے دلنواز و البیلے انداز تدریس کی بدولت شہرت کے بال و پر لگا کر اڑنے لگے، ۱۹۶۲ء میں ڈابھیل کے دار العلوم میں بحیثیت شیخ الحدیث تشریف لے گئے، اور تا دمِ واپسیں وہیں حدیث شریف کی تدریس میں ہمہ تن مصروف رہے۔

آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی ذوق تھا، وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر مضامین سپرد قرطاس کرتے رہتے تھے۔

آپ علم و آگہی، زہد و تقوی، معرفت و للہیت، ایثار و تواضع کا پیکر تھے، حدیث شریف سے اشتغال کے اثرات آپ کی پوری زندگی میں دیکھے جا سکتے تھے، آپ کی بے ریا زندگی، صلح پسندی، تقویٰ و طہارت کو دیکھ کربلا شبہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کی زندگی حدیث شریف کی برکتوں سے مشکبار تھی، ۱۹۸۴ء میں آپ اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کر گئے۔ (آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے حضر میں، مضمون جناب مولانا مرزا محمد احمد بیگ صاحب ندوی، ص:۳۸ تا ۴۱)

 

والدہ محترمہ

 

مولانائے محترم کی والدہ محترمہ ایک ایسے علمی و دینی گھرانے کی چشم و چراغ تھیں، جہاں ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کی جلوہ گری تھی، مشہور عالم دین استاذ الاساتذہ جناب مولانا عبداللہ مؤوی ثم غازیپوری مولانا کی والدہ کے پرنانا تھے، بے شمار علوم میں کامل دستگاہ رکھتے تھے، علامہ موصوف کے خاندان میں علم کی فرمانروائی کی داستان کافی قدیم ہے، بڑے بڑے علماء و ارباب کمال اس خاندان میں پیدا ہوئے، اور دوام کے دربار میں جگہ پائی، یہاں کے علماء کے تذکروں میں ان کے علمی کمالات کی تفصیلات دیکھ کر بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس خاندان کے علماء و فضلاء ہندستان کی اسلامی، علمی، تہذیبی، ثقافتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں، ایسے مقدس و دلآویز علمی خاندان کی روح پرور فضاؤں میں استاذ محترم کی والدہ نے آنکھیں کھولیں، مشرقی روایات کے مطابق اگلے وقتوں میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا جو نظم تھا، اس کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت ہوئی، آپ بڑی نیک اور خدا رسیدہ بندی تھیں، بڑی لمبی عمر پائی، ۲۰۰۰ء میں اللہ کو پیاری ہوئیں، مولانا کی دینی واسلامی ذہن کی تشکیل میں آپ کی والدہ کا بڑا کردار ہے، خدا غریق رحمت کرے، آمین۔ (ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی: ایک مثالی شخصیت، ص:۴۱)

 

ابتدائی تعلیم

 

مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی، کیونکہ آپ کا گھر کسی مدرسہ سے کم نہیں تھا، ہر آن علم کی گفتگو اور علم کا چرچا رہتا تھا۔

 

عالمیت کی تکمیل

 

کچھ سالوں بعد آپ نے اپنے قصبہ کی شاہی مسجد میں قائم مدرسہ مفتاح العلوم میں کئی سال تک رہ کر اپنی علمی تشنگی بجھائی، اور عالمیت کی سند حاصل کی۔

 

ندوۃ العلماء میں

 

عالمیت کی تکمیل کے بعد تخصص کے لئے ۱۹۵۲ء کو آپ نے لکھنؤ میں عالمگیر شہرت کی حامل درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا، ندوہ میں آپ کی باقاعدہ مدت تعلیم صرف دو سال ہے، جہاں سے آپ نے ۱۹۵۴ء کے اوائل میں تخصص فی الادب العربی کی سند امتیازی نمبرات سے حاصل کی، اس دوران آپ نے حضرت مولانا علی میاںؒ کے خرمن علم و ادب اور فکر و نظر سے جی بھر کر خوشہ چینی کی، اور عربی زبان و ادب میں وہ کمال بہم پہنچایا کہ اس جوہر کمال نے آپ کے سر پر عظمت کا وہ تاج سجایا جس کی جلوہ طرازیوں نے عربی زبان و ادب کے ذخیرہ کو چمکایا، جس کا ذکر آپ نے اپنی کتاب ’’۴۸ سال شفقتوں کے آئینہ میں ‘‘ تفصیل سے کیا ہے۔

 

ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی کی خدمت میں

 

باوجود اس کے کہ اوائل عمر ہی میں آپ کو عربی زبان میں مہارت و قدرت حاصل ہو گئی تھی، مگر خوب سے خوب تر کی تلاش کا شوق بے اختیار سن ۱۹۵۸ء میں آپ کو عروس علم بغداد کی سرزمین پر شیخ علامہ ڈاکٹر محمد تقی الدین ہلالی مراکشی کے در علم پر لے گیا، اور گیارہ مہینہ ان کے فیضان علم و ادب میں رہ کر آپ نے اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشا، اور آپ کی زبان و ادب میں چار چاند لگ گئے۔

اسی کا نام ہے جہد مسلسل اور محنت پیہم، جس کے بغیر دنیا میں انسان کو نہ تو عظمت حاصل ہوتی ہے، اور نہ ہی دلوں میں آفاق گیری کے ولولے اٹھتے ہیں، یہی انداز آفاق ہے کہ جب اس کی کرن کسی انسان کی زندگی میں پھوٹتی ہے تو اس کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے :

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شر ر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد

(ہندستان میں عربی صحافت کا خورشید جہاں تاب، مضمون سید ازہر حسین ندوی، ص: ۱۴ و۱۵)

عملی میدان اور مولانا کی خدمات:

مولانا کے کارناموں کی ایک حسین دنیا ہے، جو کہکشاں کی مانند جگمگا رہی ہے، عربی صحافت کا میدان ہو، تصنیف و تالیف کی دنیا ہو، دار العلوم میں تدریسی فرائض اور اہم عہدوں کو بحسن و خوبی انجام دینے کی بات ہو، اندرون ہند یا دیگر اسلامی ممالک کے دعوتی واسلامی اسفار ہوں، انٹگرل یونیورسٹی کے تئیں آپ کی مخلصانہ جد و جہد کی داستان ہو، ہندستان کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس کے تعاون اور ان کی ترقی کے لئے سفارشات اور توصیات لکھنے کا معاملہ ہو، یہ اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے نمایاں پہلو ہیں، جو الگ الگ عنوانات کے تحت لکھے جانے کے متقاضی ہے:

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے

حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ مولانا متنوع مصروفیتوں کے باوجود ساری ذمہ داریاں بڑے سلیقہ کے ساتھ نبھاتے ہیں۔

 

ندوہ سے مستقل وابستگی اور تدریسی خدمات

 

۱۹۵۴ء میں فراغت کے بعد ہی دار العلوم ندوۃ العلماء میں عربی زبان و ادب کے مدرس کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا، بڑے بڑے عہدوں اور کثرت اسفار کے باوجود اس طویل عہد میں تدریسی فرائض کو آپ نے پورے اہتمام کے ساتھ انجام دیا، اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، گویا ان کا ذوق و مزاج بن گیا ہے۔

جنوری ۲۰۰۰ء سے مولانا دار العلوم ندوۃ العلماء کے منصب اہتمام پر فائز ہیں، اس سے پہلے ۱۹۹۱ء میں آپ ندوۃ العلماء کے مشرف ادارہ بنائے گئے، دو سال تین ماہ اس منصب پر فائز رہے، پھر ۱۹۹۳ء میں آپ نے عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ وآدابھا کے عہدہ کو زینت بخشی، جس کو اہتمام سے قبل تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔

 

میدان صحافت اور مولانا کا اشہب قلم

 

صحافت کا میدان نہایت نازک اور کانٹوں سے گھرا ہوتا ہے، قدم قدم پر اس وادی میں لوگ اپنے اصول و نظریے کو نیلام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس کے برعکس یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ سچائی، ایمانداری اور علم کی خوشبو صالح مقصد رکھنے والے قلم کی انگلیوں سے پھوٹنے لگتی ہے۔

مولانا کی عربی صحافت کا آغاز ماہنامہ مجلہ ’’البعث الاسلامی‘‘ سے ہوا، جو ۱۹۵۵ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کا ترجمان بن کر ہندستان کے مطلع صحافت پر طلوع ہوا، اس کے پہلے شمارہ ہی سے آپ اس کے قلم کاروں میں شامل ہوئے، اور اس مجلہ کے پہلے ایڈیٹر مولانا محمد الحسنی کے اسٹینٹ کی حیثیت سے جڑے رہے، ۱۹۷۸ء میں جب مولانا محمد الحسنی اللہ کو پیارے ہو گئے، تو آپ نے باقاعدہ اس کی ادارت سنبھالی، جو آج تک پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔

اسی طرح ۱۹۵۹ء میں جب پندرہ روزہ ’’الرائد‘‘ منظر عام پر آیا، تو اس میں بھی نائب الرئیس کی حیثیت سے آپ نے قلمی تعاون کیا۔

دونوں پرچوں کے صفحات سچے گواہ ہیں کہ مولانا کے رشحات قلم نے فکر اسلامی کی ترویج و آبیاری میں زبردست حصہ لیا، آپ کی کوئی تحریر ایسی نہیں ہو گی جو اسلامی شعائر و اقدار کے کسی پہلو کو اجاگر نہ کرتی ہو۔

دونوں پرچوں کے مضامین کا اگر حساب لگایا جائے، تو ہزاروں مضامین کا تناسب نکلے گا، اور اگر موضوعات کے اعتبار سے ان کو اکٹھا کیا جائے تو بلا مبالغہ دسیوں جلدیں تیار ہو جائیں گی، آپ نے عربی صحافت کے معیار و وقار کو بلند کیا، اور ایسا اسلوب نگارش اختیار کیا جو صحافت سے زیادہ ادبی اسلوب سے قریب ہے، بالفاظ دیگر ایسا اسلوب جو ہمیشہ تر و تازہ اور بالیدہ رہنے والا ہے۔

عربی صحافت کے دوش بدوش آپ نے اردو صحافت کی وادی میں بھی ایک ماہر صحافی کی حیثیت سے قدم رکھا، اور اردو صحافت کے دامن کو اپنے رشحات قلم سے مالا مال کیا، ’’تعمیر حیات‘‘ کے صفحات اور ’’ندائے ملت‘‘ کے اوراق پر آپ کی جاندار اور خوبصورت تحریریں اس کے لئے بطور شاہد کافی ہیں، ڈاکٹر منظور عالم صاحب آپ کی اردو خدمات کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں :

’’اہل علم کی رائے میں مولانا اگرچہ عربی کے بلند پایہ ادیب و صحافی اور مایہ ناز قلم کار ہیں، جن کی تحریروں نے عالم عرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات سے عربی زبان و ادب کے میدان میں اپنی عبقریت کا لوہا منوایا ہے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاہم پیش نظر مجموعۂ مضامین سے مؤلف کی اردو زبان و ادب پر دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، بلاغت، زورِ بیان، تاثیر، سلاست، دل میں اتر جانے کا وصف ان تحریروں کا طرۂ امتیاز ہے۔

مولانا کی تحریر کی ایک خوبی یہ ہے کہ سخت ترین حالات اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی مولانا امید کی کرن اور روشنی کی چمک دیکھ لیتے ہیں، اور کہیں مایوس نظر نہیں آتے، بلکہ مخالف حالت میں بھی دھارے کو بدل ڈالنے اور طوفان کا رخ پلٹ دینے کی دعوت دیتے ہیں، قرآن کریم اور اسوۂ رسولﷺ سے استدلال مولانا کے زورِ قلم میں چار چاند لگا دیتا ہے ‘‘۔ (پیش لفظ اسلام اور مغرب)

 

تصنیفات و تالیفات

 

صحافتی میدان میں پورے انہماک کے پہلو بہ پہلو آپ کے قلم گوہر بار سے مستقل کتابیں بھی عربی اور اردو میں منصۂ شہود پر آئیں :

عربی میں آپ کی تصنیفات یہ ہیں :

(۱) ساعۃ مع العارفین (دو حصے ) جو روحانی پیشواؤں کے تذکرے پر مشتمل ہے، جس میں ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ ان ہدایت کے میناروں نے اپنے اپنے دور میں کس طرح سماج کے اندر اصلاح و تجدید کے کارنامے انجام دیئے۔

(۲) شعراء الرسول فی ضوء الواقع والقریض یہ کتاب آپ کے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کا مقالہ ہے، جس پر دار العلوم ندوۃ العلماء نے ۱۹۹۲ء میں آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی، یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد اور البیلی کتاب ہے، اس میں ان سخنوروں کا تذکرہ ہے جو دامن رسالت مآبﷺ سے وابستہ تھے۔

(۳) ندوۃ العلماء تواجہ التحدی الکبیر۔

(۴) محدث الھند الکبیر حبیب الرحمن الاعظمی۔

(۵) الأدب والاسلام۔

(۶) الدعوۃ الاسلامیۃ۔

(۷) صور من واقع الدین۔

(۸) الامام أحمد بن عرفان الشہید۔

(۹) الصحافۃ العربیۃ: نشأتھا وتطورھا۔

اردو میں آپ کی تصنیفات یہ ہیں :

(۱) علم التصریف

(۲) اسوۂ حسنہ کے آئینہ میں

(۳) اسلام، اجتماعیت اور اس کا ادب

(۴) تذکرہ اہل ادب

(۵) خطبات علم و دعوت

(۶) اسلام اور مغرب

(۷) اسلامی ثقافت اور ندوۃ العلماء

(۸) حضرت مولانا ابرار الحق حقی رحمۃ اللہ علیہ: ایک تذکرہ

(۹) حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور ان کے خلفاء

(۱۰) ۴۸  سال شفقتوں کے سایہ میں

(۱۱) تذکرہ مولانا حکیم الرحمن اعظمیؒ

اس کے علاوہ آپ نے بعض اہم اردو کتابوں کو عربی کا جامہ پہنایا، جو مندرجہ ذیل ہے :

(۱) الحافظ ابن تیمیۃ جو مولانا علی میاںؒ کی تصنیف تاریخ دعوت و عزیمت جلد دوم کا ترجمہ ہے۔

(۲) القرن الخامس عشر جو پندرھویں صدی ہجری نامی کتاب کا ترجمہ ہے۔

(۳) توزیع الثروۃ فی الاسلام، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی کتاب کا ترجمہ۔

(۴) منھج الدعوۃ فی والاسلام، مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب کا ترجمہ۔

(۵) القرآن یتحدث الیکم، مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ کی کتاب کا ترجمہ۔

(۶) أسباب سعادۃ المسلمین وشقاہم، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کی کتاب کا ترجمہ۔

(۷) صورتان متضادتان، حضرت مولانا علی میاںؒ کی کتاب ’’دو متضاد تصویریں ‘‘ کا ترجمہ۔ (مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی: شخصیت اور علمی و ادبی خدمات)

 

اسفار

 

مولانا اپنی تمام تر مصروفیتوں کے باوجود علمی و دعوتی اسفار بھی کرتے رہتے ہیں، اندرون ملک تو اسفار کا لا متناہی سلسلہ ہے، بیرون ملک بھی آپ کے بہت سے اسفار قابل ذکر ہیں، جیسے عراق، امارات، عمان، قطر، سعودیہ عربیہ، کویت، پاکستان، سنگاپور، بنگلہ دیش وغیرہ، ۱۹۷۷ء میں شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کی دعوت پر جامعہ ازہر کے مہمان کی حیثیت سے استفادۂ علمی کے لئے مصر تشریف لے گئے تھے۔

 

امتیازی خصوصیت

 

جرمنی کے ایک فلسفی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کا اس قدر پابند تھا کہ لوگ اس کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کر لیتے تھے، بعض یورپ پرست اس کو یورپ والوں کا حصہ خیال کریں تو کرتے رہیں، ہمارے حلقۂ علماء میں پابندی اوقات میں مولانا کا کوئی جواب نہیں، کیسے ہی حالات ہوں، مگر کیا مجال کہ معمولات کی پاکیزہ رفتار میں کچھ فرق ہو۔

 

اہم کارنامہ

 

۱۸۵۷ء کے خونچکاں سانحہ کے بعد اسلامیان ہند کے دلوں پر شکست اور مایوسی کے جو گہرے زخم تھے، اس پر مرہم رکھنے اور مایوسی کے سیاہ بادل کو چاک کرنے کے لئے جہاں ایک طرف علمائے امت نے عملی اقدام کیا، اور سرمایہ ملت کی نگہبانی کے لئے سرگرم عمل ہو گئے، تو دوسری طرف سر سید احمد خان اور ان جیسے لوگوں نے بھی خون دل و جگر کی پونچی لے کر مسلم قوم کی آبرو رکھنے کے لئے جدید تعلیم کا ڈول ڈالا، مسلمانان ہند کو دونوں نوعیتوں کی تعلیم کی سخت ضرورت کل ماضی میں بھی تھی، اور آج بھی ہے، بلکہ آج اس کی ضرورت دوچند ہو گئی ہے۔

مولانا نے ندوۃ العلماء سے پوری وفاداری و جاں نثاری کے ساتھ قوم کی عصری ضرورت کی بنا پر جو خاموش مگر جرأت مندانہ قدم اٹھایا، وہ یقیناً آپ کا زبردست کارنامہ ہے، اور وہ ہے انٹیگرل یونیورسٹی کا قیام، جو ہندستان کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے ایک بیش بہا اور لازوال تحفہ ہے، جس سے مسلم قوم کے لئے اپنی دنیوی ترقی کے راستے ہموار ہوں گے، مولانا اس کے چانسلر ہیں، اور آپ کی قیادت وسرپرستی میں یہ یونیورسٹی اپنا علمی و ترقیاتی سفر طے کر رہی ہے۔

 

انعامات و اعزازات

 

(۱) ۱۹۹۴ء میں عربی خدمات پر صدر جمہوریہ ایوارڈ۔

(۲) ۱۹۹۸ء میں مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی ایوارڈ۔

(۳) ۱۹۹۸ء میں اسلامی کونسل کی جانب سے قومی ایوارڈ برائے ادب۔

(۴) ۲۰۰۱ء میں دینی خدمات کے اعتراف میں ہارون رشید علیگ ایوارڈ۔

(۵) ۲۰۰۶ء میں محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن اعظمی ایوارڈ۔

(۶) ۲۰۰۸ء میں موسسۃ زائد بن سلطان آل نہیان، دہلی ایوارڈ۔

(۷) ۲۰۱۱ء میں علامہ سید سلیمان ندوی صحافتی ایوارڈ۔

 

 

 

علمی و انتظامی مشغولیات

 

(۱) مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

(۲) ایڈیٹر مجلہ ’’البعث الاسلامی‘‘

(۳) بانی و چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی

(۴) نائب صدر دینی تعلیمی کونسل، اتر پردیش

(۵) ممبر تاسیسی عالمی رابطہ ادب اسلامی

(۶) ناظم اعلیٰ معہد الفردوس الرحمانی، دوبگا، لکھنؤ

(۷) سرپرست جامعۃ المومنات الاسلامیۃ، دوبگا، لکھنؤ

(۸) مشرف جامعہ ام الخیر نسواں، ہردوئی روڈ، لکھنؤ

(۹) امام وخطیب جامع مسجد، ندوۃ العلماء، لکھنؤ

یہ کچھ اہم عہدے اور مناصب ہیں، ان کے علاوہ مولانا اور بھی بہت سے اداروں کے بانی، سرپرست اور رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱)ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی: ایک مثالی شخصیت، از:ازہر حسین ندوی

(۲) مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی، شخصیت اور علمی و ادبی خدمات، از: مولانا محمد فرمان ندوی۔

(۳) مولانا کی تصنیفات اور ان پر لکھے گئے مقدمات۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴) حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی

دامت .برکاتہم    

 

                   ولادت:۱۳۵۲ھ/۱۹۳۴ء

 

 

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شر ر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            تقی الدین

والد کا نام:      بدر الدین بن محمد حسن

جائے پیدائش: مظفر پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۲۴  دسمبر ۱۹۳۴ء

ابتدائی تعلیم:    پرائمری اسکول، مظفر پور، اعظم گڑھ

ثانوی تعلیم:     مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ

تکمیل:         دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

تخصص فی الحدیث: مظاہر العلوم، سہارنپور

موجودہ اہم ذمہ داری: بانی وسرپرست جامعہ اسلامیہ مظفرپور، اعظم گڑھ

حالیہ پتہ:               العین یونیورسٹی، ابوظبی۔

 

 

 

ولادت باسعادت

 

مشرقی یوپی کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے ایک مشہور خاندان میں مولانا کی ولادت ۲۴  دسمبر ۱۹۳۴ء کو ہوئی، پیدائش کے ایک ماہ کے اندر ہی مولانا کے والد ماجد اس دنیا سے کوچ کر گئے، والد کی وفات کے بعد دادا محمد حسن صاحب اور نانیہال کے لوگوں نے آپ کی تربیت و پرورش کی۔

 

ابتدائی تعلیم

 

چھ سال کی عمر میں گاؤں ہی میں ایک نیک سیرت خاتون کے ذریعہ قرآن شریف سے تعلیم کا آغاز ہوا، قرآن ناظرہ کی تکمیل کے بعد سات سال کی عمر میں گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخلہ کروایا گیا، جہاں درجۂ چہارم تک تعلیم حاصل کی۔

 

مدرسۃ الاصلاح میں داخلہ

 

اس کے بعد ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۹۴۷ء میں آپ کے سرپرستوں نے آپ کا داخلہ مدرسۃ الاصلاح میں کروایا، یہاں آپ کا داخلہ مکتب درجہ چہارم میں ہوا، وہاں عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔

 

مدرسۃ الاصلاح سے مظاہر العلوم تک

 

درجہ عربی چہارم میں تعلیم کے دوران بعض حالات کی بنا پر وہاں تعلیم سے آپ کا دل اچاٹ ہو گیا، لہٰذا آپ وہاں سے ندوہ آ گئے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ندوہ میں داخلہ نہ ہو سکا۔

البتہ لکھنؤ کے تبلیغی مرکز کے اس وقت کے ذمہ داران جناب آزاد مرحوم صاحب کی کوششوں اور جناب صوفی انعام اللہ مرحوم کی سفارش سے مظاہر العلوم میں داخلہ ہو گیا، لیکن بعض حالات کی بنا ء پر وہاں کے اساتذہ خصوصاً حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ سے اجازت لے کر بغرض تعلیم ندوہ چلے گئے۔

 

دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ

 

ندوہ میں مولانا کا داخلہ فضیلت اول میں ہوا، فضیلت کی تکمیل کے بعد مولانا نے مزید ایک سال ندوہ میں تخصص فی الحدیث کی نیت سے قیام کیا، اس دوران بہت سے مراجع و مصادر سے استفادہ کا موقع ملا۔

 

زمانۂ طالب علمی کے کچھ اہم واقعات

 

جیسا کہ معلوم ہوا، مولانا کے والد کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے مولانا کو اپنی طالب علمی کی زندگی میں بہت سی مشقتوں کو برداشت کرنا پڑا، جس کا مولانا نے اپنی کتاب ’’داستان میری‘‘ میں تفصیلی ذکر کیا ہے، یہاں کچھ اہم واقعات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے :

۱) ’’دادا صاحب میرے نفقات کا بار اٹھاتے تھے، اس زمانے میں فیس خوراک دس روپئے تھی، اس کو فراہم کرنا میرے دادا کے لئے دشوار ہوتا جا رہا تھا، اگرچہ میرے دادا زمیندار تھے، مجبوری دیکھ کر الاصلاح کے صدر مدرس مولانا اختر احسن اصلاحی جو میرے والد صاحب کے نانیہال سلطانپور کے تھے، وہ میرا بہت خیال کرتے تھے، نحو و صرف کی تعلیم میں ان سے بڑا فائدہ ہوا، ان سے میں نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو انہوں نے مدرسہ سے وظیفہ مقر ر کر دیا، اس طرح دادا صاحب کا بار ہلکا ہوا‘‘۔ (داستان میری، ج:۱، ص:۴۶ و۴۷)

۲) ’’مجھے کتاب النحو الواضح جو مدرسۃ الاصلاح میں پڑھائی جاتی تھی اور المنجد خریدنے کا شوق ہوا، المنجد کی قیمت اکیس روپئے اورالنحو الواضح کی قیمت اٹھارہ روپئے تھی، النحو الواضح کے لئے ماموں نے پیسے دئیے، مگر المنجد کے پیسوں کا سوال تھا، والدہ کے پاس ایک بکری تھی، اس کے ایک بچے کو فروخت کر کے مجھے المنجد خریدنے کے لئے پیسے دئیے ‘‘۔ (داستان میری، ج:۱، ص:۴۷ و۴۸)

۳) ’’دادا صاحب دس روپئے ہر مہینے بھیجتے تھے، کبھی ماموں صاحب بھیج دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ روپئے کسی وجہ سے نہیں آئے تو جن ساتھیوں کے ساتھ ناشتہ کیا کرتا تھا، ان سے معذرت کر دی، کہ میں ناشتہ کہیں اور کروں گا، میرا انتظار نہ کریں، میں نے اپنے حال کا اخفاء کیا، میرے پاس دو ایک روپئے بچ گئے تھے، ڈالی گنج سے چنا اور بھیلی لا کر غسل خانے کے قریب کھا کر پانی پی لیا کرتا، انہیں ایام میں ’’بخاری شریف‘‘ کا پرچہ تھا، جب پرچہ حل کر کے اٹھا تو بھوک کی شدت سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اللہ کا شکر ہے کہ گھر سے پیسے بھی آ گئے ‘‘۔ (داستان میری، ج:۱، ص:۵۶ و۵۷)

انہیں واقعات سے متاثر ہو کر حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’وہ جن مجاہدات سے گذرے ان کا تذکرہ ہم جیسے آرام طلب لوگوں کے لئے درسِ عبرت ہے، کہ علم کی دولت اس کے لئے سختی جھیلنے سے ہی حاصل ہوتی ہے ‘‘۔

 

تلاشِ معاش کے لئے ممبئی کا سفر

 

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا کو تلاشِ معاش کی فکر ہوئی، اس کے لئے مولانا نے ممبئی کا سفر کیا، لیکن طبیعت کی ناسازی کی بنا پر واپس ہو گئے۔

 

ندوۃ العلماء میں تقرر

 

ممبئی سے واپسی کے بعد مختلف جگہوں سے مختلف خدمات کے لئے آپ کو دعوت دی گئی، اور ایک جگہ فوری طور پر ملازمت بھی اختیار کر لی تھی، لیکن مولانا کی طبیعت کسی علمی ماحول کی متلاشی تھی، جس کا غیب سے انتظام ۱۹۵۷ء میں مولانا کی ندوۃ العلماء میں تقرری کے ذریعہ ہوا، شروع میں ابتدائی صرف و نحو کی کتابیں اور ریاض الصالحین زیر تدریس رہیں، پھر کچھ عرصہ بعد بتدریج مشکاۃ شریف، ابوداؤد شریف اور ترمذی شریف کی بھی تدریس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی، اور آپ نے بحسن و خوبی اس کو انجام دیا۔

یہ زمانہ جناب مولانا عمران خان صاحب ندوی کے اہتمام کا آخری زمانہ تھا، ندوہ کے لئے مالی وسائل کے اعتبار سے مشکل زمانہ بھی تھا، جس کے لئے تعطیلات وغیرہ کے موقع پر مولانا کے مختلف علاقوں کے دورے ہوئے، اس نازک و دشوار کام کو بھی مولانا نے اچھی طرح انجام دیا۔

 

 

 

حدیث میں تخصص کے لئے مظاہر کا قیام

 

دوران تدریس ندوہ کی طرف سے حضرت مولانا علی میاںؒ اور دیگر اکابر کے مشورہ سے ایک سال مظاہر میں قیام کیا، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے درسِ بخاری، حضرت مولانا امیر احمد صاحب کے درسِ ترمذی اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے درسِ ابو داؤد اور شرح معانی الآثار کے دروس میں شرکت کی۔

 

تالیف و تصنیف کا آغاز

 

۱۹۶۲ء میں سنن ابو داؤد کی تدریس کے زمانہ میں مولانا نے ’’امام ابو داؤد اور ان کی سنن‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر فرمایا، جو اس وقت کے مشہور پرچوں میں شائع ہوا، یہ مولانا کا پہلا مقالہ تھا، اس کے بعد اسی موضوع سے متعلق مختلف مقالات تحریر فرمائے، جن کا مجموعہ ’’محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔

 

پہلا سفر حج

 

۱۹۶۴ء میں ممبئی سے بذریعہ بحری جہاز جدہ کے راستے حج کا سفر کیا، اسی سال حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلویؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ اور دیگر کئی اکابر نے بھی حج کا سفر کیا، جس کی وجہ سے مولانا کو ان بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا زریں موقع ہاتھ آیا، اسی سفر میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت منعقد کئے گئے علماء کے ایک اجتماع میں بھی شرکت کا موقع ملا، جس میں بہت سے عرب علماء سے ملاقات و بات ہوئی۔

 

ترکیسر، گجرات کا قیام

 

دس سال کے طویل عرصہ کے قیام اور مختلف جہات سے دار العلوم ندوۃ العلماء میں خدمات انجام دینے کے بعد تسلسل امراض و دیگر وجوہات کی بنا پر اپنے بڑوں کے مشورہ سے مولانا نے ترکیسر، گجرات کا سفر کیا، پہلے سال مشکاۃ، جلالین و دیگر کتب آپ کے ذمہ رہیں، پھر ۱۳۸۹ھ میں جب وہاں دورہ کا آغاز کیا گیا تو بخاری شریف اور ترمذی شریف آپ کے حوالہ کی گئی، یہاں آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی خوب موقع ملا، اس زمانہ میں آپ کی کئی کتابیں مثلاً ’’صحبتے با اولیاء‘‘ ’’علم رجال الحدیث‘‘ ’’اسباب زلزلہ‘‘ اور ’’ چاند کی تسخیر‘‘ وغیرہ کتابیں شائع ہو کر مقبول ہوئیں، اس کے علاوہ اس وقت کے اہم رسالوں اور پرچوں میں آپ کے مضامین و مقالات شائع ہوتے رہے، اسی زمانہ میں ایک سال کے لئے حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا صاحبؒ کی کتاب ’’بذل المجھود‘‘ کی کتابت و طباعت کے لئے سہارنپور قیام فرمایا۔

 

 ’’بذل‘‘ و ’’اوجز‘‘ کی طباعت کے لئے مصر کا سفر

 

مولانا خود اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت مولانا علی میاںؒ سہارنپور تشریف لائے، تنہائی میں اس ناچیز سے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ دمشق و قاہرہ کا ایک علمی سفر ہو جائے، حدیث شریف پر جو کام ہو رہا ہے، اس سے واقفیت ہو، دمشق کے المکتبۃ الظاہریۃ اور قاہرہ کے دار الکتب سے حدیث شریف پر متقدمین کی کتابوں سے متعارف ہونا ضروری ہے، لکھنؤ حضرت مولانا واپس پہنچے ہوں گے کہ مولانا عبد الحفیظ صاحب مکی کا خط حضرت شیخ کے نام آیا، کہ ہم بذل المجھود و اوجز المسالک کی طباعت کے لئے کوشاں ہیں، ہمیں مولانا تقی الدین ندوی صاحب کی ضرورت ہے، کام قاہرہ میں شروع کر دیا ہے، اس پر حضرت شیخ بہت خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے بذل المجھود اور اوجز المسالک کے چھپنے کا غیبی انتظام فرما دیا، اس ناچیز سے فرمایا کہ اللہ کا شکر ادا کرو، اور دو رکعت شکرانہ پڑھو‘‘۔ (داستان میری، ج:۱، ص:۲۴۳)

لہٰذا ۱۷  ستمبر ۱۹۷۲ء کو سہارنپور سے ممبئی کے راستے جدہ گئے، وہاں سے عمرہ سے فراغت کے بعد قاہرہ کے لئے روانہ ہوئے، قاہرہ میں تقریباً ایک سال قیام رہا، قاہرہ میں قیام کا اصل مقصد تو حضرت شیخ کی کتابوں کی طباعت و اشاعت تھا، اسی میں اکثر اوقات صرف ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے اہم علماء شیخ محمد الغزالی، شیخ سید محمد سابق، شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم، محدث حافظ تیجانی اور بھی دیگر اہم علماء سے ملاقات کا موقع ملا، قاہرہ میں قیام کے دوران کتابوں کی اشاعت کا مرحلہ کن دشواریوں کے بعد تکمیل کو پہنچا، اس کی تفصیل مولانا نے اپنی کتاب ’’داستان میری‘‘ میں بہت اچھے اور موثر انداز میں پیش کی ہے۔

 

مکہ مکرمہ میں قیام اور رابطہ کی ملازمت

 

قاہرہ کے کاموں سے فراغت کے بعد آپ مکہ تشریف لائے، حج وغیرہ سے فارغ ہو کر رابطہ عالم اسلامی میں ملازمت کے لئے کوشش کی، جس میں کامیابی بھی ہوئی، اکابر کے مشوروں سے وہاں ملازمت کرنے لگے، لیکن طبیعت مطمئن نہ ہوئی، اور ایک سال کے اندر ہی وہاں سے واپس ہو گئے۔

 

قیام امارات اور وہاں کی تفصیلات

 

مکہ مکرمہ سے واپسی کے موقع پر شیخ احمد بن عبد العزیز آل مبارک سے ملاقات ہوئی، سابقہ تعارف کی بنا پر انہوں نے مولانا کو امارات آنے کی دعوت دی، لہٰذا مولانا ۱۳  جون ۱۹۷۵ء کو امارات پہنچے، اور کچھ عرصہ بعد محکمہ شرعیہ میں باحث شرعی کی حیثیت سے تقرر ہوا۔

 

جامعہ ازہر سے دکتورہ کی تکمیل

 

مولانا نے اپنے قاہرہ کے پہلے سفر میں جامعہ ازہر میں دکتورہ کے لئے کاغذات داخل کر دئیے تھے، جو منظور ہو گئے، اور ’’کتاب الزھد الکبیر للامام البیہقی تحقیقہ والتعلیق علیہ‘‘ موضوع اپنے لئے اختیار کیا تھا، ۱۹۷۶ء میں قاہرہ میں اس کا مناقشہ ہوا، اور آپ کو دکتورہ کی ڈگری تفویض کی گئی۔

 

العین یونیورسٹی میں تدریس

 

۱۹۷۷ء میں العین یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، چونکہ اس وقت تک مولانا کی حدیث شریف کے سلسلہ میں شہرت ہو چکی تھی، اس لئے یونیورسٹی والوں نے آپ کو تدریس کی دعوت دی، آپ نے تین سال تک ہفتہ میں دو دن اور ۱۹۸۲ء میں مستقل طور پر وہاں کے مدرس ہو گئے، اس دوران آپ کو عربی میں درس وتدریس کا موقع ملا، نیز جدید تحقیق سے شائع ہونے والی کتابوں کے مطالعہ اور جامع ازہر و دیگر یونیورسٹیوں سے فارغ اساتذہ سے استفادہ و تبادلۂ خیال کا موقع ملا، مولانا نے سولہ سال تک العین یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس دوران تقریباً تین ہزار عرب طلبہ نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، جو کچھ ہی عرصہ بعد اہم عہدوں پر فائز ہوئے، اور ابھی بھی آپ کا فیض جاری وساری ہے۔

 

شیخ سلطان بن زائد کے دیوان کی طرف منتقلی

 

العین یونیورسٹی میں سولہ سالہ طویل تدریسی خدمات کی انجام دہی کے بعد مولانا امارات کے نائب وزیر اعظم شیخ سلطان بن زائد آل نہیان کے دیوان کی طرف منتقل ہو گئے، گرچہ قیام یونیورسٹی ہی میں رہا، کہ وہاں کی فضا علمی تھی، اور اب بھی ماشاء اللہ اسی حیثیت سے وہاں خدمات انجام دے رہے ہیں، اور اسی بہانہ ہندستان کے اہم اداروں اور مدرسوں کی بھی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔

 

جامعہ اسلامیہ مظفر پور کی تاسیس

 

۱۹۸۹ء کو مولانا نے اپنے اکابر خصوصاً حضرت مولانا قاری صدیق صاحب کے مشورہ سے اپنے علاقہ میں آبادی سے کچھ دور اپنی موروثی زمین پر ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، اور اس کا نام جامعہ اسلامیہ رکھا، درجہ حفظ سے یہاں تعلیم کا آغاز ہوا، یہاں کا نصاب دار العلوم ندوۃ العلماء کے مطابق رکھا، اب یہاں درجۂ عالمیت تک تعلیم ہوتی ہے، طلباء یہاں سے فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء و دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، ۱۹۹۷ء میں جامعہ کا ترجمان ’’الشارق‘‘ کا اجراء ہوا، جامعہ میں درسگاہ کے علاوہ اور بھی کئی شعبۂ جات ہیں، جن میں بعض مندرجہ ذیل ہیں : ۱) مرکز الشیخ أبی الحسن للبحوث والدراسات الاسلامیۃ، ۲) مرکزی کتب خانہ، جس میں اسی ہزار کتابیں ہیں، ۳) شعبۂ مخطوطات، ۴) گوشۂ مفکر اسلام، ۵) شعبۂ بحث و تحقیق۔

 

تصنیفات و تالیفات

 

اردو:

۱) محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے

۲) فن اسماء الرجال              ۳) اسباب زلزلہ

۴) صحبتے با اولیاء                ۵) چاند کی تسخیر

۶) داستان میری

 

عربی:

۱) الامام أبوداؤد المحدث الفقیہ

۲) الامام البخاری سید الحفاظ و المحدثین

۳) الامام مالک ومکانۃ کتابہ الموطأ

۴) موطأ الامام مالک مع التعلیق الممجد (تحقیق)

۵) ظفر الأمانی فی مختصر الجرجانی۔ (تحقیق)

۶) أوجز المسالک الی موطأ امام مالک۔ (تحقیق)

۷) بذل المجہود۔ (تحقیق)

۸) کتاب الزھد الکبیر للامام البیھقی۔ (تحقیق)

۹) الجامع الصحیح للامام البخاری مع حاشیۃ السہارنفوری۔ (تحقیق)

۱۰) السنۃ مع المستشرقین و المستغربین

۱۱) علماء الحدیث بالھند

 

مولانا کی نظر ثانی کے بعد شائع ہونے والی کتابیں :

۱) الابواب والتراجم: للامام الکاندھلوی

۲) الشیخ یوسف الکاندھلوی ومنھجہ فی الدعوۃ

۳) الامام المحدث محمد زکریا، للشیخ أبی الحسن الندوی

۴) المواہب اللطفیہ، للعلامۃ محمد عابد السندھی

۵) ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للامام ولی اللہ الدہلوی

۶) رسائل الأرکان فی الفقہ

۷) لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح

۸) جامع الترمذی مع الکوکب الدراری (ویب سائٹ جامعہ اسلامیہ)

 

اہم اردو مقالات:

۱) امام ابوداؤد (رسالہ برہان، دہلی)

۲) صحابہ کرام کا مقام (رسالہ برہان، دہلی)

۳) مانعین زکاۃ کے بارے میں شیخین کا اختلاف (رسالہ برہان، دہلی)

۴) ہندستان میں علم حدیث (الفرقان، لکھنؤ)

۵) شاہ ولی اللہ دہلوی اور علم حدیث (الشارق)

۶) حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ اور علم حدیث (الفرقان، لکھنؤ)

۷) امام صنعانی اور ان کانسخہ بخاری (الشارق)

۸) امام سالم بن عبد اللہ بصری اور ان کانسخہ بخاری (الشارق)

اس کے علاوہ وفیات پر تقریباً تیس مضامین ہیں، جن میں اکثر مجلہ الشارق میں اور کچھ دیگر مجلات میں شائع ہوئے ہیں۔

 

اہم عربی مقالات:

۱) قبسات من القرآن والسنۃ

۲) الامام الطحاوی المحدث

۳) التحقیق فی صنیع البخاری فی أبواب صحیحہ وتراجمہ

۴) الامام النسائی والصناعۃ الحدیثیۃ

۵) السیرۃ النبویۃ للعلامہ شبلی النعمانی وتکملتہ للعلامۃ السید سلیمان الندوی، دراسۃ وتحلیل

۶) الامام مالک ومنھجہ فی کتابہ موطأ

۷) تراث الحدیث الشریف فی الہند

۸) السیرۃ النبویۃ ومصادرھا الأولی

۹) الامام الترمذی ومکانۃ کتابہ السنن

۱۰) الجامع الصحیح مع حاشیۃ السہارنفوری

۱۱) فقہ البخاری وأسرار تراجمہ

عربی کے یہ تمام مقالات عربی کے اہم مجلات میں شائع ہوئے، اور پسند کئے گئے۔

 

عہدے و مناصب

 

۱) رکن مجلس شوری، ندوۃ العلماء، لکھنؤ

۲) رکن مجلس شوری، دار المصنفین اعظم گڑھ

۳) رکن مجلس شوری، مظاہر العلوم سہارنپور

۴) رکن مجلس شوری، دار العلوم تاج المساجد، بھوپال

۵) صدر محب الدین مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی، منگراواں، اعظم گڑھ

۶) بانی وسرپرست جامعہ اسلامیہ، مظفر پور، اعظم گڑھ

۷) رئیس مرکز الشیخ أبی الحسن الندوی، مظفرپور، اعظم گڑھ

 

ایوارڈ و اعزاز

 

۱) علوم عربیہ کی خدمات کے اعتراف میں صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ ۲۰۰۸ء

۲) علوم حدیث کی عظیم خدمات کے اعتراف میں شاہ ولی اللہؒ ایوارڈ ۲۰۱۰ء

۳) مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی ایوارڈ ۲۰۱۱ء

 

اہم کارنامہ

 

یوں تو مولانا نے اپنی زندگی میں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے، جن کا ذکر اختصار کے ساتھ پچھلے صفحات میں گذرا، مولانا کا اہم کارنامہ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کو بے پناہ مقبولیت و محبوبیت سے نوازا، وہ علم حدیث شریف کی خدمت و اشاعت ہے، مولانا نے اس علم کی ہر جہت سے خدمت کی، ایک عرصہ تک ہند و بیرون ہند کے اہم مدارس و جامعات میں حدیث کا درس دیا، اس سے بڑی اہم بات یہ کہ مولانا کی وجہ سے ہندستانی علماء کی حدیث سے متعلق وہ کتابیں جو گوشۂ گمنامی میں تھیں، جدید معیار و انداز کے مطابق منصۂ شہود پر آ کر چار دانگِ عالم میں پھیل گئیں، یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس معاملہ مولانا کی ذات انفرادیت کی حامل ہے، مولانا کی اس خدمت کا عرب و عجم سبھوں نے اعتراف کیا ہے، موجودہ زمانے کی دو اہم شخصیات کے اقتباسات اس سلسلہ میں پیش کرنا کافی معلوم ہوتا ہے :

(۱) ’’مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری کی شخصیت کی علوم دینیہ میں اشتغال رکھنے والوں میں ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے جو اہمیت سامنے آتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں، وہ ساٹھ سال سے علوم حدیث کی درس وتدریس پھر ان کی تحقیق و شرح کے کاموں میں مشغول ہیں، یہ بات ان کی کتابوں کے سامنے آنے سے ظاہر ہوتی ہے، جن کی تحقیق و تحشیہ کا کام انہوں نے انجام دیا ہے ‘‘۔

(حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہم العالی)

(۲) ’’ حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری صاحب کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی سعادتوں سے نوازا ہے، انہوں نے علوم ظاہر کی تکمیل کے علاوہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاپ گڑھی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی تینوں سے روحانی فیض بھی حاصل کیا، اللہ تعالیٰ نے ان سے بڑے بڑے عظیم کام بھی لئے، جن میں احادیث کی عظیم کتابوں کی تحقیق و اشاعت بطور خاص قابل ذکر ہے ‘‘۔

(حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مد ظلہ العالی)

 

 امتیازی خصوصیات

 

ہم جیسے طالب علم سوچتے ہوں گے کہ مولانا کو یہ سب چیزیں کیسے حاصل ہوئیں ؟ واقعی مولانا کی خدمات کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے، لیکن خود مولانا کی زبانی ہمیں اس کے اسباب کا پتہ چلتا ہے، کہ مولانا ہر کام اپنے بڑوں کے مشوروں سے کیا کرتے تھے، اور جو بھی کام کرتے بڑی محنت و لگن سے کرتے۔

جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہندستان کے زرخیز علاقہ گجرات کے مشہور عالم دین جناب مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی (ناظم دار العلوم فلاح دارین ترکیسر، گجرات)مولانا کی کتاب ’’داستان میری‘‘ کی جلد دوم کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت مولانا نے اپنی ابتدائی طالب علمی کے جو حالات قلم بند فرمائے ہیں، وہ خصوصی طور پر طالب علموں کو پڑھنا چاہئے، علم کے حصول میں یتیمی اور مسکینی مانع نہیں ہو سکتی، اگر آدمی مضبوط ارادہ کے ساتھ کام میں لگا رہے۔

حضرت مولانا کا تعلق اپنے وقت کے اکابر سے بہت گہرا رہا ہے، جن میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ، قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد زکریاؒ، اور شیخ طریقت حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھیؒ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔

مولانا ابو الحسن علی میاںؒ کے تعلق نے مولانا میں فکری بلندی اور وسعت ذہنی پیدا کی، شیخ الحدیثؒ نے حدیث پاک کا ذوق اور طہارت باطنی پیدا کیا، اور مولانا محمد احمد صاحبؒ نے عشقِ الٰہی اور عشق محمدی کی آگ کو مزید بھڑکایا۔

انہیں اللہ والوں کی خصوصی دعاؤں اور توجہات عالیہ نے مولانا مدظلہ سے اشاعت حدیث اورتدریسِ حدیث کا عظیم کام کروایا‘‘۔

 

اسفار

 

مشہور مقولہ سفر وسیلۂ ظفر کے تحت مولانا نے علمی و دعوتی مقاصد کے تحت مختلف ممالک کے اسفار کئے، مولانا خود اپنے اسفار کے متعلق فرماتے ہیں :

’’علمی و تحقیقی کاموں کے لئے جس یکسوئی کی ضرورت ہے، سفر سے اس میں فرق آ جاتا ہے، اس لئے ناچیز سفر سے حتی المقدور گریز کرتا ہے، لیکن دوستوں کا اصرار جب غالب آ جاتا ہے، اور علمی  ودینی تقاضے مجبور کر دیتے ہیں، تو سفر پر آمادہ ہونا ہی پڑتا ہے، اس طرح طبعی مناسبت نہ ہونے کے باوجود ناچیز کے اسفار کثرت سے ہوئے، ہندستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ افریقہ اور یورپ کا بھی سفر ہوا، عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب میں منعقد ہونے والی مختلف کانفرنسوں میں شرکت اور حج و عمرہ کے اسفار نسبتاً زیادہ ہیں ‘‘۔ (داستان میری، ج:۲)

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) داستان میری (دو جلدیں )

(۲) جامعہ اسلامیہ مظفرپور، اعظم گڑھ کی ویب سائٹ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(۵) حضرت مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری

دامت برکاتہم     

 

                   ولادت: ۱۳۵۵ھ/ ۱۹۳۷ء

 

 

نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو

رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز

 

 

 

مختصر س

وانحی خاکہ

 

نام:            محمد یونس

والد کا نام:      شبیر احمد

جائے پیدائش: مانی کلاں، جونپور

تاریخ پیدائش:  ۲۵  رجب ۱۳۵۵ھ مطابق ۲  اکتوبر ۱۹۳۷ء

ابتدائی تعلیم:    مدرسہ ضیاء العلوم، مانی کلاں، جونپور

ثانوی تعلیم:     مظاہر العلوم، سہارنپور

تکمیل:         مظاہر العلوم، سہارنپور

موجودہ اہم ذمہ داری: شیخ الحدیث مظاہر العلوم، سہارنپور

حالیہ پتہ:               مظاہر العلوم، سہارنپور

 

 

 

تمہید

 

حق تعالیٰ شانہ نے اپنے آخری دین متین کو حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ پر نازل فرما کر اسے قیامت تک کے لئے محفوظ فرمانے اور اعداء دین کی شرپسندیوں سے بچانے کا خود ہی وعدہ اور انتظام فرما دیا ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ} (سورۂ حجر:۹) ترجمہ: ’’ہم نے یہ نصیحت نامہ اتارا ہے، اور ہم نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ‘‘، اور ارشاد ہے : {یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِأَفْوَاھھِِمْ، وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ} (سورۂ توبہ: ۳۲) ترجمہ: ’’یہ اپنے پروپیگنڈہ اور زبانی مہم کے ذریعہ اللہ کی روشنی بجھا دینا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا، چاہے ان منکروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو‘‘، اور اسی دین متین کی تشریح احادیث رسولﷺ ہیں، جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ: {اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ} (سورۂ قیامہ) ترجمہ: ’’پھر اس کی وضاحت وتفسیر بھی ہماری ذمہ داری ہے ‘‘۔

البتہ اسبابِ ظاہری کے طور پر اس کی حفاظت کا کام اپنے بندوں سے لیا، چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ و حروف اور اس کو صحت سے پڑھنے کا التزام حفاظ و قراء کرام سے کروایا، اور اس کے معانی کی حفاظت مفسرین کرام سے اور احادیث رسولﷺ کی حفاظت محدثین عظام سے، اور دونوں سے معانی و احکام کا استنباط فقہاء کرام سے کروایا۔

حفاظت کے دو طریقے ہیں : ۱) حفظ، ۲) کتابت۔

چنانچہ رسول اللہﷺ کے شاگردوں کی پہلی جماعت یعنی صحابہ کرام اور پھر درجہ بدرجہ خیر القران کے حافظہ اس قدر قوی تھے کہ جو سنتے مِن و عن وہ محفوظ ہو جاتا، اور پھر انہیں حضور اقدسﷺ کے ساتھ اس قدر محبت و عشق تھا کہ آپ کی ہر ہر ادا اور کیفیت بیان تک کو محفوظ رکھا، اور پھر اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اگلوں تک بھی پہنچا دیا، اور اس کا خود رسولﷺ نے حکم اور ترغیب دی، چنانچہ ارشاد ہے : (أَلاَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ)، اور ارشادِ نبوی ہے : (نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِیْ، فَحَفِظھََا، وَوَعَاھَا، وَأَدَّاھَا کَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَی لَہُ مِنْ سَامِعٍ)، پھر جب حفظ میں کمزوری آنی شروع ہوئی تو اس کی جگہ کتابت نے لے لی، اور کتابت حدیث بھی خود رسول اللہﷺ کے دور سے ثابت ہے، اور آج تک اس کا تعامل جاری ہے۔

اب ممکن تھا کہ کوئی فضائل کی تحصیل کے شوق میں ہر رطب ویابس روایت کرنا شروع کر دے، جس سے خلل فی الحدیث واقع ہو تو اس کا سد باب {یٰأَیّھَُا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا}(سورۂ حجرات: ۶) ترجمہ: ’’اے ایمان والو!اگر تمہارے پاس کوئی غیر متقی کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو‘‘ کے عام حکم سے اور (مَنْ کَذَبَ عَلَیََّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ ا النَّارِ) کے خاص حکم سے کر دیا، جس کی وجہ سے ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین کرام نے وضع حدیث کے تمام راستوں کو بند کر دیا، اور چودہ صدی گذرنے کے باوجود آج بھی صحیح و ضعیف اور موضوع و مکذوب روایات میں امتیاز سہل ہو گیا۔

الحمد للہ ہر صدی میں ایسے اصحاب الجرح والتعدیل اور محقق علماء محدثین موجود رہے، اور نہ صرف عرب اور اسلامی ممالک میں بلکہ عجم و ہند میں ایسے علماء کثیر تعداد میں رہے ہیں، جنہوں نے محنت کر کے دودھ کا دودھ اور پانی پانی کر دیا۔

ماضی قریب میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اور ان کے بعض تلامذہ، اسی طرح حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ اسی شان کے محدثین میں سے تھے۔

عہدِ حاضر میں حضرت مولانا شیخ محمد یونس صاحب جونپوری اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہیں۔ (ماخوذ باختصار، از عرض مرتب بر کتاب الیواقیت الغالیۃ، بقلم: محمد ایوب سورتی، ص:۱۵ و ۱۶)

مولانا ایشیا کے عظیم الشان ادارہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی مسندِ درس پر تقریباً چالیس سال سے فائز ہیں، اور ہزاروں تشنگانِ علم و معرفت کی پیاس بجھا رہے ہیں۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ نے اپنی حیات ہی میں آپ پر اعتماد فر ما کر بخاری شریف کی تدریس کی خدمت آپ کے سپرد فرما دی تھی، پھر کچھ دن کے بعد بیعت و ارشاد کی بھی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔

بر صغیر میں بخاری شریف کا درس معیارِ فضل و کمال ہی نہیں، بلکہ علم و فضل اور تقدیس و پاکیزگی کا بھی امین سمجھا جاتا ہے، آپ کی ذاتِ گرامی یقیناً فضل و کمال، علم و عمل، تقویٰ و طہارت، صبر و قناعت، توکل و رضا، خوف و خشیت اور انابت الی اللہ کی ایک جامع و مکمل تصویر ہے۔

تمام علوم و فنون میں آپ کو مرجعیت کا مقام حاصل ہے، خصوصاً علم حدیث میں تو آپ ہندستان و ایشیا ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس وقت سند کا درجہ رکھتے ہیں، بہت سے علماء و محدثین مختلف مقامات سے حاضر خدمت ہوتے رہتے ہیں، اور آپ سے حدیث کی سند حاصل کرتے ہیں، نیز اپنے علمی اشکالات پیش کر کے ان کا حل طلب کرتے ہیں، اور یہاں آ کر انہیں تشفی ہو جاتی ہے، بہت سے علمائے عرب بھی آپ سے مراجعت کرتے ہیں، اور بہت سے حدیث سے شغف رکھنے والے آپ سے سند حاصل کرنے کو اپنے لئے باعث فضل و کمال سمجھتے ہیں۔

دیگر علوم و فنون کے مقابلہ میں حدیث کا علم غیر معمولی ہے، اس میں ان تمام روات کے احوال سے باخبر ہونا ضروری ہے، جن کے ذریعہ یہ علم پہنچا ہے، پھر ان لکھوکھا افراد کی زندگی کی تفصیلات، ان اکا مزاج و مذاق، ان کا کردار، معاصرین کا ان کے بارے میں خیال کہ وہ ثقہ یا کامل الضبط ہیں یا نہیں وغیرہ، یہ خود ایک مستقل فن ہے۔

اس فن پر آپ کی گرفت ہے، یہ فضلِ الٰہی اور امتیازی خصوصیت ہے جو حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے آپ کو ودیعت کی گئی ہے، متن حدیث، سند حدیث، اور حدیث کے مقتضیات و مطالبات اور اس کے معانی و مفاہیم پر نہ یہ کہ آپ کو گرفت ہے، بلکہ بفضل ایزدی اس کا القاء ہوتا ہے، آپ کی تحقیقات، روایت و درایت پر نقد، وسعتِ مطالعہ اور متقدمین و متاخرین کی کتابوں پر بھرپور نقد و تبصرہ اور علامہ ابن حجر عسقلانیؒ جیسے جبل العلم فی الحدیث کے مسامحات کا تذکرہ، یہ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پوری بصیرت، انہماک، عشق کے سوز اور مجتہدانہ فراست کے ساتھ پورے ذخیرۂ احادیث کو کھنگال ڈالا ہو۔

در اصل ابتدا ہی سے آپ نے علم حدیث کے ساتھ اشتغال رکھا، آپ خود فرماتے ہیں کہ اگر مجھے کسی سے کچھ پیسے میسر آ جاتے تو ان سے حدیث کی کتابیں خرید لیتا، اب آپ کی قیام گاہ پر اپنا ذاتی علم حدیث کا اتنا بڑا کتب خانہ ہے کہ شاید ہی برصغیر میں کسی کے پاس ہو۔

اب آخری دور میں تو آپ نے عوام و خواص سے کچھ ملنا جلنا بھی شروع کر دیا ہے، اور آپ کی خدمت میں جو حاضر ہوتے ہیں، ان کی اصلاح و تربیت، تزکیۂ روحانی، اور ان کی اخلاقی حالت پر توجہ فرماتے ہیں، ورنہ اس سے قبل تو آپ نے اپنے آپ کو درس و مطالعہ کے لئے وقف کر رکھا تھا۔

آپ کو صرف فن حدیث ہی پر مکمل گرفت نہیں، یہ تو آپ کی امتیازی خصوصیت ہے، بلکہ دیگر علوم و فنون، صرف و نحو، عروض و معانی، نقد و بلاغت، منطق وفلسفہ، کلام و عقائد، زبان و ادب، فقہ وتفسیر وغیرہ پر بھی مکمل درک ہے۔

آپ نے ابتدا میں حدیث کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں پڑھائی ہیں، اور ان فنون کا حق ادا کیا ہے، اس کے علاوہ تاریخ و جغرافیہ، سیر وسوانح، اور قوموں و ملکوں کے حالات پر بھی آپ کی گہری نظر ہے، جب بھی مجلس میں کوئی موضوع زیر بحث آ جاتا ہے اس پر سیر حاصل مواد میسر ہوتا ہے۔

بر صغیر، مشرق وسطی، عالم اسلام اور دنیا کے حالات پر آپ کی گہری نظر ہے، کسی بھی گوشہ میں جو حالات پیش آتے ہیں، ان پر آپ کا دل دھڑکتا اور بے چینی محسوس کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خصائص و امتیازات عطا فرمائے ہیں، ملت کو آپ کی ذات سے نفع کثیر حاصل ہو رہا ہے۔ (ماخوذ باختصار، الیواقیت الغالیہ، و:۲۱ تا ۲۴)

آپ کے حالات زندگی آپ ہی کے دست مبارک سے ’’ایک خود نوشت مرقع‘‘ کے نام سے لکھے ہوئے ہیں، اسی کی تلخیص پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

 

ایک خود نوشت مرقع

اسم گرامی:      محمد یونس

ولادت:                تاریخ پیدائش :صبح ۷ بجے بروز دو شنبہ ۲۵   رجب ۱۳۵۵ھ ۲ اکتوبر ۱۹۳۷ء۔

طفولت و تعلیم :

ابتداء ً جب عمر چھ سات سال کے مابین ہوئی، اپنے شوق سے ایک مکتب میں جانا شروع کیا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ والدہ مرحومہ کا تو انتقال ہو گیا تھا، جبکہ میری عمر ۵سال ۱۰ ماہ کی تھی، نانی کے پاس رہتا تھا، وہ چھوٹے ماموں کو مکتب جانے کے لیے مار رہی تھی، میرے منھ سے نکل گیا کہ ہم بھی پڑھنے جائیں گے، اسی وقت کھانا پک گیا اور ڈیڑھ میل پر ایک مکتب تھا جہاں بڑے ماموں کے ساتھ بھیج دئیے گئے، مگر راستہ میں تھک گئے تو ماموں نے کاندھے پر اٹھایا، تھوڑی دور چل کر اتار دیا، اسی طرح کبھی اٹھا لیتے اور کبھی اتار دیتے، سارا راستہ قطع ہو گیا مگر بچپن کی وجہ سے پڑھنا نہیں ہو سکا، صرف کھیل کود کام تھا، پھر ایک اور مکتب میں بیٹھے، وہاں کچھ قاعدہ بغدادی پڑھا، ماموں صاحب نے پڑھنا چھوڑ دیا تو ہمارا پڑھنا بھی چھوٹ گیا۔

پھر کچھ دنوں بعد ایک پرائمری اسکول ہمارے گاؤں میں قائم ہو گیا، اس میں جانے لگے، درجہ دوم تک وہاں پڑھا، پھر درجہ سوم کے لیے مانی کلاں کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا، سوم پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے یہ کہہ کر چھڑا دیا کہ انگریزی کا دور نہیں اور ہندی میں پڑھانا نہیں چاہتا۔

ایک دلچسپ قصہ پیش آیا کہ میں اپنے طور پر ہندی کی پہلی کتاب پڑھ رہا تھا، اس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’طوطا رام رام کرتا ہے ‘‘، والد صاحب نے جب مجھ کو پڑھتے سنا تو فرمایا : ’’کتاب رکھ دو، بہت پڑھ لیا‘‘۔

اس کے بعد تقریباً دو سال تعلیم چھٹی رہی۔

علاقہ کا حال :

علاقہ میں عام طور سے جہالت تھی، لیکن عام طور پر لوگ صحیح العقیدہ اور دین کی طرف مائل تھے۔

میرے نانا مرحوم تو میری والدہ کی ولادت سے غالباً پہلے وفات پا گئے تھے، پھر نانی مرحومہ کی دوسری شادی میرے دادا مرحوم کے بڑے بھائی سے ہوئی، جن کو ہم ساری عمر اپنا نانا سمجھتے رہے، اور وہ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے تھے، وہ بچپن سے نمازی اور دین دار تھے، عام طور سے برما رہا کرتے تھے، وہاں کوئی عالم رہتے تھے، جو حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے سلسلے میں منسلک تھے، ان سے اچھا تعلق تھا، جس کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے گاؤں میں تعزیہ بنتا تھا، جس میں ہمارے خاندان کے بعض لوگ شریک ہوتے تھے، سنا ہے کہ دادا مرحوم بھی شرکت کرتے تھے، مگر نانا مرحوم نے ڈھول وغیرہ توڑ ڈالے، اور اس بدعت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

والد صاحب تو ہمیشہ ہی بدعت سے دور ہے، لیکن ایک چیز کوئی بھی بدعت نہیں سمجھتا تھا، وہ مولود شریف اور قیام تھا، حضرت اقدس مولانا عبدالحلیم صاحبؒ کی جب آمدو رفت شروع ہوئی تو ہمیشہ کے لئے اس کا خاتمہ ہو گیا۔

مجھے اپنے بچپن کا واقعہ یاد ہے جب میری عمر ۹، ۱۰ سال کی ہو گی، میں بچوں کے ساتھ مولود کی مجلس کرتا تھا، ہماری بیل گاڑی تھی، اس پر ہم عمر تین چار بچے جمع ہو جاتے، اور ہم سب سے بڑے علامہ سمجھے جاتے اور مولود پڑھتے، اور پڑھتے کیا، صرف کھڑے ہو کر درودو سلام پڑھ لیتے اوراس کے بعد گھروں سے جو کھانا وغیرہ لاتے وہ مل کر سب کھا لیتے اور مجلس برخواست ہو جاتی۔

اپنے علامہ سمجھے جانے کا ایک دل چسپ قصہ لکھتا ہوں، میں اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، نو سال کی عمر ہو گی، ماسٹر صاحب موجود نہیں تھے، تھوڑی دیر میں دیکھا ایک جنازہ قریب کے قبرستان میں لایا گیا اور اس کو دفن کیا جانے لگا، ہم نے سب لڑکوں سے کہا کہ ہم نے نماز جنازہ نہیں پڑھی، جلدی سب لوگ وضو کر لیں، سب نے وضو کیا اور ہم نے نماز جنازہ پڑھائی، نا معلوم کیا ہوا دوبارہ پڑھائی، غالباً سہ بارہ بھی، اور یہ سب مکتب میں ہو رہا تھا، جو اس وقت گاؤں سے باہر ایک شخص کی ایک عمارت میں تھا، جہاں ان کے بیل اور مزدور رہتے تھے۔

بچہ کا خطبہ، بڑے کی امامت :

ایک اور دل چسپ قصہ لکھ دوں، ہمارے گاؤں میں جمعہ ہوا کرتا تھا، ہم سب سے پہلے غسل کر کے پہنچ جاتے تھے اور خطیب صاحب کی نقل اتارا کرتے تھے، ایک مرتبہ اتفاق سے خطیب صاحب موجود نہ تھے اور گاؤں کے بڑے بوڑھے موجود تھے، جن میں میرے نانا بھی تھے، میری عمر ۹، ۱۰سال سے زیادہ نہ ہو گی، کوئی پڑھا لکھا نہ تھا، صرف قرآن شریف پڑھے ہوئے تھے، اس کے علاوہ کچھ پڑھ نہیں سکتے تھے، حضرت عمرو بن سلمہ الجرمیؓ کی طرح ہم ہی اس وقت سب سے بڑے پڑھے لکھے تھے، ایک صاحب نے ہمیں حکم دیا :

’’چل منبر پر اور خطبہ پڑھ‘‘۔

ہم بے خوف چڑھ گئے اور خطبہ شروع کر دیا، ایک جگہ تو ذرا اٹک سی ہو گئی، باقی الحمد للہ صاف ہی پڑھا گیا، نماز ایک دوسرے صاحب نے پڑھائی، ہماری نانی صاحبہ اور دوسرے اعزہ اس سے بہت مسرور ہوئے، مگر خیال یہ پڑتا ہے کہ خطبہ ایک ہی ہوا تھا۔

گاؤں کا حال:

ہمارے گاؤں سے تین میل کے فاصلہ پر مانی کلاں میں جامع مسجد میں تو حفظ پڑھایا جاتا تھا اور اتنا با برکت درس تھا کہ سینکڑوں حفاظ پیدا ہوئے، ہمارے مختصر سے گاؤں میں جس کی اس وقت کی مسلم آبادی زیادہ سے زیادہ پندرہ مکانات پر مشتمل تھی اس میں چھ حفاظ تھے، وہیں مدرسہ ضیاء العلوم تھا، جس میں ہماری ابتدائی تعلیم ہوئی، ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے اس مدرسہ میں مولوی نور محمد صاحب نے پڑھا، جن سے ہم نے تعلیم الاسلام کے کچھ اسباق پڑھے، وہ پھر پاکستان چلے گئے۔

عربی کی تعلیم :

پھر تقریباً ۱۳ سال کی عمر میں مدرسہ ضیاء العلوم قصبہ مانی کلاں میں داخلہ ہوا، ابتدائی فارسی سے لے کر سکندر نامہ تک اور پھر ابتدائی عربی سے لے کر مختصر المعانی، مقامات و شرح وقایہ و نور الانوار تک وہیں پڑھیں۔

اکثر کتابیں استاذی مولانا ضیاء الحق صاحب سے اور شرح جامی بحث اسم حضرت مولانا عبدالحلیم صاحبؒ سے، مگر کثرت امراض کی وجہ سے بیچ میں طویل فترات واقع ہوتی رہیں، اس لئے تکمیل کافی مؤخر ہو گئی۔

پھر یہ بھی پیش آیا کہ ہماری جماعت ٹوٹ گئی، ہم نے اولاً شرح جامی، شرح وقایہ، نور الانوار مولانا ضیاء الحق صاحب سے پڑھی تھیں، مگر جماعت نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب نے اگلے سال پھر انھیں کتابوں میں داخل کر دیا اور خود پڑھایا۔

مظاہر علوم میں داخلہ:

اس کے بعد شوال ۱۳۷۷ھ میں مدرسہ مظاہر علوم میں بھیج دیا، یہاں آ کر پہلے سال جلالین، ہدایہ اولین، میبذی اور اگلے سال بیضاوی، سلّم، ہدایہ ثالث، مشکوۃ شریف اور تیسرے سال یعنی شوال ۱۳۷۹ھ تا شعبان ۱۳۸۰ھ دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی، اور اس سے اگلے سال کچھ مزید کتابیں ہدایہ رابع، صدرا، شمس بازغہ، اقلیدس، خلاصۃ الحساب، درمختار پڑھیں۔

مظاہر علوم کی مسند تدریس پر :

شوال ۱۳۸۱ھ میں معین المدرس کے عہدہ پر تقرر ہوا، وظیفۂ طالب علمی کے ساتھ سات روپیہ ماہانہ ملتا تھا، شرح وقایہ اور قطبی زیر تعلیم و تدریس تھیں، اگلے سال بھی یہی کتابیں رہیں اور وظیفہ ۱۰ روپے ماہانہ ہو گیا، اس سے اگلے سال تیس روپے خشک (یعنی بلا طعام)پر تقرر ہوا، اور مقامات و قطبی سپرد ہوئیں، اور اس سے اگلے سال یعنی چوتھے سال شوال۱۳۸۴ھ سے ہدایہ اولین، قطبی و اصول الشاشی زیر تدریس تھیں۔

درس حدیث :

اسی سال ذی الحجہ ۱۳۸۴ھ میں حضرت استاذی مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کا انتقال ہو جانے کی وجہ سے مشکوۃ شریف استاذی مفتی مظفر حسین صاحب کے یہاں سے منتقل ہو کر آئی، جو باب الکبائر سے پڑھائی، پھر آئندہ سال شوال ۸۵ھ میں مختصر المعانی، قطبی، شرح وقایہ، مشکوۃ شریف مکمل پڑھائی، اور شوال ۸۶ھ میں ابو داود شریف ونسائی شریف و نور الانوار زیر تعلیم رہیں، اور شوال ۸۷ھ سے مسلم شریف، نسائی و ابن ماجہ وموطئین زیر درس رہیں۔

شیخ الحدیث کے منصب پر :

اس کے بعد شوال۱۳۸۸ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف و ہدایہ ثالث پڑھائی، وللّٰہ الحمد حمداً کثیراًطیباً مبارکاً فیہ ومبارکاًعلیہ، اس کے بعد سے بحمد اللہ سبحانہ و تعالیٰ بخاری شریف اور کوئی دوسری کتاب ہوتی رہتی ہے۔

امراض کے باوجود علمی شغل :

میں مسلسل بیمار رہا، مظاہر علوم آنے کے چند دن بعد نزلہ و بخار ہو گیا اور پھر منہ سے خون آ گیا، حضرت اقدس ناظم (مولانا اسعد اللہ) صاحب نور اللہ مرقدہ کا مشورہ ہوا کہ میں گھر واپس ہو جاؤں، لیکن میں نے انکار کر دیا، حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ واعلیٰ اللہ مراتبہ نے بلا کر ارشاد فرمایا کہ: ’’جب تو بیمار ہے اور لوگوں کا مشورہ بھی ہے تو مکان چلا جا‘‘، میں نے عرض کیا جو اب تک یاد ہے، کہ: ’’حضرت! اگر مرنا ہے تو یہیں مر جاؤں گا‘‘ حضرت نے فرمایا کہ : ’’بیماری میں کیا پڑھا جائے گا؟ ‘‘میں نے عرض کیا، اور اب تک الفاظ یاد ہیں کہ: ’’حضرت ! جو کان میں پڑے گا وہ دماغ میں اتر ہی جائے گا‘‘اس پر حضرت قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’پھر پڑا رہ‘‘۔

یہ ہے حضرت قدس سرہ سے پہلی بات چیت، اس کے بعد ہم تو بہت بیمار رہے، اور گاہ بگاہ جب طبیعت ٹھیک ہو جاتی تو اسباق میں بھی جاتے رہتے، انھیں ایام میں حضرت اقدس مولانا عبدالحلیم صاحبؒ کو اپنی بیماری کا خط لکھا، مولانا نے جواباً لکھا کہ یہ کیا یقین ہے کہ ’’خون پھیپڑے سے آیا ہے ؟‘‘ اس سے طبیعت کو کچھ سکون ہو گیا، لیکن سینے میں درد رہا کرتا تھا۔

یہ بات اور بھی لکھ دوں کہ جن ایام میں طبیعت خراب تھی، کبھی کبھی دار الحدیث کے شرقی جانب بیٹھ کر حضرت اقدس نور اللہ مرقدہٗ کا درس سنتا اور سوچا کرتا تھا کہ نامعلوم ہم کو بھی بخاری شریف پڑھنی نصیب ہو گی یا نہیں ؟ اور رویا کرتا تھا، اس مالک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے توفیق عطا فرمائی اور پڑھنے کی منزل گزر گئی، اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے پڑھانے کی توفیق بخشی، حالات کی ناسازگاری سے جس کی توقع بھی نہیں تھی، لیکن سب فضل و کرم ہے۔

کہاں میں اور کہاں یہ نکہتِ گل

نسیمِ صبح تیری مہربانی!

امراض کے تسلسل کی وجہ سے شادی کی ہمت ہی نہ ہوئی اور اب بڑھاپا شروع ہو چکا، حدود خمسین کے آخری سالوں میں چل رہا ہوں، اب اپنی بیماریوں کی وجہ سے ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر ہوتا کیا ہے، وقت گزر گیا۔

(الحمد للہ عمر مبارک  کی اسی بہاریں دیکھ چکے ہیں، اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ عمر میں برکت عطا فرمائے۔ آمین)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کی پہلی زیارت :

حضرت نور اللہ مرقدہٗ کا نام نامی تو مدرسہ ضیاء العلوم میں اپنے اساتذہ اور خاص طور سے استاذی حضرت اقدس مولانا عبد الحلیم صاحبؒ سے سنا، پھر جب سہارنپور بغرض تکمیل حاضر ہوئے تو حضرت نور اللہ مرقدہٗ کی زیارت ہوئی، سب سے پہلی زیارت کی شکل یہ ہوئی کہ میں کسی ضرورت سے مدرسہ کے دفتر میں گیا تو حضرت نور اللہ مرقدہٗ کو دیکھا، ایک سادہ کرتا پہنے ہوئے تھے جس کا رنگ زرد تھا، غالباً ڈوریا کا ہو گا، لیکن بات چیت نہیں ہوئی، بات چیت تو بیماری کے وقت ہوئی، اس کی ابتداء میں تردد ہے کہ پہلے وہ واقعہ پیش آیا جو اولاً لکھا گیا یا دوسرا واقعہ جو لکھ رہا ہوں۔

’’وہ تو بہت پکا تھا تو تو بہت کچا ہے ‘‘:

ہمیں جذبہ پیدا ہوا کہ حضرت نور اللہ مرقدہ سے دعا کروانی چاہئے، حضرت مغرب کے بعد طویل نوافل پڑھتے تھے، ہم بیٹھ گئے، ایک صاحب نے غالباً بیعت کی درخواست دے رکھی تھی، حضرت نو راللہ مرقدہٗ نے سلام پھیرا اور فارغ ہو کر فرمایا : ’’آ بھائی ‘‘۔

ہم نے سمجھا کہ شاید ہمیں بلا رہیں، ہم آگے بڑھ گئے، حضرت نے فرمایا : ’’تو نہیں ‘‘ ہم بلبلا کر رو پڑے۔

بہر حال پہلے حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے ان صاحب کی ضرورت پوری کی، اس کے بعد احقر کا ہاتھ پکڑا، اور ساتھ لے کر کچے گھر چلے اور حال پوچھتے رہے اور بیماری کا تذکرہ کرتے رہے، حضرت نے پوچھا کہ : ’’تو کہاں سے پڑھ کر آیا ہے ؟‘‘

میں نے عرض کیا ’’مدرسہ ضیاء العلوم مانی کلاں ‘‘ سے۔

حضرت قدس سرہٗ نے فرمایا : ’’کس سے پڑھا؟‘‘

عرض کیا ’’حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب سے ‘‘فرمایا: ’’وہ تو بہت پکا تھا، تو تو بہت کچا ہے ‘‘۔

اس کے بعد حضرت نے برف کا ٹھنڈا پانی جس میں عرق کیوڑہ ملا ہوا تھا، نوش فرمایا اور کچھ بندہ کے لئے بچا دیا، مگر زیادہ آنا جانا نہیں رہا۔

دستر خوان پر اکرام :

اصل جان پہچان اس وقت ہوئی جب بندہ کا قیام دفتر میں ہو گیا۔

رمضان شریف میں میں اپنی سحری الگ کھا لیتا تھا، ایک رات خواب دیکھا کہ مولانا اکرام الحسن صاحب مرحوم والد ماجد حضرت مولانا انعام الحسن صاحبؒ بندہ کی طرف متوجہ ہیں اور کچھ بات کر رہے ہیں، اسی رات سحری میں حضرت نے بلوایا اور جب کوئی اکرام کی صورت ہونے والی ہوتی تو مولانا اکرام صاحب کو دیکھا کرتے تھے، بہر حال حضرت نو ر اللہ مرقدہٗ نے بلوا کر فرمایا کہ:

’’مجھے معلوم ہوا کہ تو تنہا ہی سحری کھا لیتا ہے، دیکھ ! سحری ہمارے ساتھ کھا لیا کر اور اپنی سحری مولوی نصیر کو دے دیا کر ‘‘ اور پھر فرمایا : ’’سحری کھا لی؟‘‘

میں عرض کیا جی ہاں، فرمایا: ’’اور کھائے گا؟‘‘ عرض کیا میں کھا چکا ہوں، فرمایا : ’’اور کھانے پر بھی تو کھایا جاوے ‘‘ہم بیٹھ گئے، اس کے بعد روزانہ حضرت نور اللہ مرقدہ کے دسترخوان پر سحری میں حاضر ہو جاتے، اس زمانہ میں حضرت کے یہاں سحری میں پلاؤ کے ساتھ گھی لگی ہوئی روٹیوں کا دستور تھا، حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے ایک مرتبہ پو چھا : ’’گھی چپڑی روٹی مل گئی ؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں ! حضرت نے پوچھا ’’کتنی آئی؟ ’’میں نے عرض کیا: ایک، حضرت نے دوسری سرکا دی، اس کے بعد سے ہمارے لئے دوکا دستور ہو گیا۔

دلچسپ بحث :

ایک مرتبہ دیر سے پہنچا اور حضرت نور اللہ مرقدہٗ سے ایک بحث بھی کی، جس کا افسوس اب تک ہے۔

حضرت نے پہنچتے ہی فرمایا کہ ’’خالی جگہ نہیں ! بیٹھ جا ‘‘ میں نے کہا بیٹھ کر کیا کروں گا ؟ فرمایا: ’’قل ہو اللہ پڑھ کر ایصال ثواب کر ‘‘میں نے پوچھا کسے ؟ فرمایا : ’’مجھ کو‘‘ عرض کیا زندوں کو ؟ تو نے مشکوۃ شریف نہیں پڑھی ؟‘‘عرض کیا پڑھی تو ہے، فرمایا ’’مسجد عشّار والی روایت نہیں پڑھی ؟‘‘ عرض کیا :پڑھی تو ہے، پوچھا کہ ’’کہاں ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کیا مشکوۃ کتاب الفتن میں، (یہ روایت مشکوۃ کتاب الفتن میں باب الملاحم کی فصل ثانی میں ہے ) حضرت نور اللہ مر قدہٗ بہت خوش ہوئے اور فرمایا مولا نا سید سلیمان ندوی اس حدیث پر میرے معتقد ہو گئے، فرمایا: ’’ایک مرتبہ سید صاحب تشریف لائے، انھوں نے یہ حدیث معلوم کی، میں نے کہا: ابو داود میں ہے، سید صاحب نے پوچھا کہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا : کتاب الملاحم میں، اور پھر کتاب منگوا کر دکھا بھی دی۔

تزکیہ کی طرف عدم التفات :

ابتداء ً بالکل بچپن میں تو طبیعت کا رجحان تھا، لیکن بعد میں بعض وجوہات سے یہ خیال نکل گیا، اور یہی نہیں بلکہ کچھ اس کی اہمیت ہی نہیں رہی، حضرت عبدالحلیم صاحب مرحوم نے بعض خطوط میں ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور لکھا : ’’تزکیہ ضروری ہے ‘‘۔

لیکن اس وقت کتابوں کی طرف غیر معمولی رجحان تھا، ادھر بالکل التفات ہی نہیں، بلکہ ایک مرتبہ جب حضرت نور اللہ مرقدہٗ اپنے دارالتصنیف میں تشریف فرما تھے اور میں حسب معمول حاضر ہو ا، تو تھوڑی دیر کے بعد سوال کیا، کیا بیعت ہونا ضروری ہے ؟ حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے ارشاد فرمایا : ’’بالکل نہیں ‘‘۔

پھر ایک زمانہ گزر گیا، بہت سے لوگ بیعت کی طرف توجہ دلاتے تھے، جیسے مولانا منور حسین صاحب، مولانا عبدالجبار صاحب اور بعض اصرار کرتے تھے، جیسے صوفی انعام اللہ صاحب، مگر کچھ التفات ہی نہ تھا۔

بیعت میں انقیاد ضروری:

اچانک رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ کے عشرۂ اخیر میں خیال پیدا ہوا اور بہت زور سے، حضرت نور اللہ مرقدہ سے عرض کیا، حضرت نے فرمایا : ’’بیعت میں انقیاد اور عدم تنقید ضروری ہے، استخارہ کر لے ‘‘۔

میں نے عرض کیا: حضرت! میں نے دعاء کی ہے، اس زمانہ میں اپنی دعا پر بڑا اعتماد تھا، مگر حضرت نے فرمایا کہ : ’’استخارہ کم از کم تین مرتبہ، اور رات گزرنا اور سونا ضروری نہیں ہے ‘‘۔

منامی بشارت :

تیسرے استخارہ میں خواب دیکھا، مولانا اکرام صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’مدرسہ قدیم آ جاؤ آباد ہو جائے گا‘‘۔

ہمارا قیام اس زمانہ میں دار الطلبہ قدیم میں ہو چکا تھا، حضرت نے سن کر فرمایا : ’’یہ خواب امید افزا ہے ‘‘۔

خصوصی بیعت:

ایک دن رمضان میں ظہر بعد اپنے خلوت خانہ میں طلب فرما کر بیعت فرمایا۔

میں نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ حضرت! جب عمومی بیعت ہوتی ہے میں بھی سب کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا، مگر حضرت نور اللہ مرقدہ نے انکار فرمایا۔

ایک بات یہ بھی لکھ دوں کہ اس وقت بعض ایسے مشا ئخ کبار حیات تھے جن سے بندہ کو بہت عقیدت تھی، لیکن بیعت میں حضرت نور اللہ مرقدہٗ ہی کی طرف طبعی رجحان تھا اور عقلاً بھی رجحان تھا، نیز یہ بھی کہ حضرت استاذ تھے اور پھر قریب بھی تھے۔

قیمتی نصائح :

ہر وقت پاس رہنا تھا، اس لئے خط و کتابت تو ہوتی نہیں تھی، بعض اوقات یونہی بعض پرچے مدینہ طیبہ سے بھجوائے ان میں بعض نصائح لکھیں اور بعض اوقات زبانی نصائح کیں :

(۱) ایک گرامی نامہ میں لکھا : ’’جہاں تک ہو سکے اکا بر کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنا اور ظاہر سے زیادہ باطن میں ‘‘۔

(۲)تیسرے سال بلڈ پریشر کی تکلیف پر تحریر فرمایا: ’’ایک بات کا خیال رکھیو کہ اگر بیماری میں زبانی معمولات نہ ہو سکیں، تو قلب کو ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھیو، اور زبانی معمولات میں درود شریف کو مقدم رکھیو، میں نے درود شریف کے بہت فوائد دیکھے ہیں ‘‘۔

(۳) اور یہ تو کئی مرتبہ نصیحت کی : ’’کبر سے پورا اجتناب کرنا، اور اپنی نا اہلی پیش نظر رہے، اگر کوئی کہے تو اس پر طبعی اثر غیر اختیاری چیز ہے، لیکن برا نہ ماننا چاہئے ‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عقلاً یہ خیال ہو کہ ہم تو بہت گندے ہیں، نہ معلوم کتنے عیوب ہیں، اس لئے عقلاً برا نہ مانے، واللہ اعلم۔

(۴) ایک خط میں نے لکھا تھا کہ ایک طالب علم بہت اصرار کرتا ہے کہ بیعت کر لو، حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے تحریر فرمایا : ’’ضرور کر لو، سلسلہ چلانے کے لئے بیعت تو ضرور کرنا، مگر اپنی نا اہلیت کا استحضار رہنا چاہئے، اگر نہ کرو گے تو یہ سلسلہ بند ہو جائے گا، جو سلسلہ حضورﷺ سے چلا آ رہا ہے ‘‘ ( یہ خط اسٹینگر جنوبی افریقہ سے لکھوایا تھا)۔

(۵)ایک خط میں لکھوایا تھا: ’’مدرسہ کے مال میں بہت احتیاط کرنا‘‘۔

(۶)مرکز نظام الدین دہلی میں جب حضرت نور اللہ مرقدہ سے ملاقات ہوئی، تو بالکل خلاف توقع معانقہ فرمایا، اور فرمایا کہ: ’’اخلاص سے کام کرنا‘‘۔

(۷) آخری خط جو ۱۲/اپریل ۸۲ئ کا تحریر کردہ ہے، اس میں میرے ایک خط کے جواب میں لکھا، جس میں میں نے اپنے امراض کی شدت اور خواب میں اموات و مقابر دیکھنے کا تذکرہ کیا تھا لکھا کہ: ’’اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے اور تم کو دونوں کو حسن خاتمہ کی دولت سے مالا مال کرے، ہر وقت اپنے عمل سے ڈرتے رہنا چاہئے، اگر چہ مالک کا کرم بڑا ہے، اس کے کرم ہی کا سہارا ہے، پھر بھی استغفار کثرت سے کرتے رہنا چاہئے ‘‘۔

مقرباں رابیش بود حیرانی:

بھائی! ہم تو حضرت نور اللہ مرقدہٗ کے سب سے نالائق شاگرد اور ناکارہ و کم فہم مرید تھے، اور پھر مدرسہ کے متعلق معاملات پڑتے تھے، اس میں کثرت سے ڈانٹ پڑتی تھی اور پھر حضرت نور اللہ مرقدہٗ ویسے ہی ہو جاتے تھے جیسے پہلے۔

ہاں ایک آدھ مرتبہ بعض حضرات نے حضرت کو بہت ہی مکدر کر دیا، لیکن معاملہ کسی اور ذات کے حوالہ تھا، اللہ تعالیٰ نے پھر صفائی کرا دی ہے۔

اور ہمارا مزاج یہ تھا کہ فضول ہم کسی کام میں پڑتے نہیں، اس لئے جب اپنا کام بن جاتا تو پیچھے نہیں پڑتے تھے۔

ایک عجیب قصہ مجمل لکھتا ہوں، لکھنے کے لئے نہیں۔

بعض حضرات نے شکایت کر کے حضرت کو مکدر کر دیا، حضرت ایک رمضان میں رنجیدہ رہے، رمضان تو گزر گیا، اس کے بعد ہم نے ایک پرچہ لکھا جس میں معافی مانگی اور یہ لکھ دیا کہ ’’اگر کوئی کام ہو تو میرے حجرہ میں بھجوا دیا جائے، مجھے سردی بہت لگتی ہے ‘‘۔

حضرت بہت خوش ہوئے اور کئی بار دعوت کی، اور رمضان شریف میں جن بعض حضرات نے فقرے کسے اور ستایا وہ آئے، اور شرمندہ ہوئے، ہم نے اپنے دل میں کہا کہ ہم حضرت کے شاگرد و خادم ہیں، آپ حضرات کو ان قصوں میں نہ پڑنا چاہئے، اس کے بعد سے وہ صاحب تو ہمیشہ کے لئے بحمد اللہ خاموش ہو گئے۔

عطایا کی بارش:

بارہا حضرت نے روپے دئے، ۸۴ھ کے حج میں جاتے ہوئے پچاس روپے دئے تھے، اس کی نصب الرایۃ خرید لی، حج سے آ کر پوچھا کہ: ’’میں نے چلتے ہوئے تجھے روپے دیئے تھے کچھ تیرے کام آئے ؟‘‘میں نے عرض کیا کہ میں نے نصب الرایہ خرید لی، تو فرمایا کہ: ’’اس کے لئے تو عمر پڑی تھی‘‘۔

مقصد یہ تھا کہ دوسری ضروریات میں خرچ کرتے، ’’لامع الدراری‘‘ کے ختم پر تین سوروپے دیئے، جس کی ہم نے ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ منگوائی، اور متفرق اوقات میں دیتے رہے، کبھی تیس، کبھی پچاس، اکثر پچاس، اور بذل المجھود مکمل، لا مع الدراری مکمل، أوجز المسالک مکمل، جزء حجۃ الوداع والعمرات اور مختلف رسائل دیئے، اور جب بندہ کی حاضری مدینہ طیبہ میں ہوئی تو فرمایا کہ ’’میری کتابوں میں جو پسند ہولے جا‘‘ وہاں اس وقت اردو کتابیں تھیں، ایک کتاب ’’اللؤلؤو المرجان فیما اتفق علیہ الشیخان‘‘ تھی، وہ ہم نے لے لی، حضرت نے اس کے بعد ایک کتاب بھجوائی ’’أبوھریرۃ فی ضوء مرویاتہ‘‘، تالیف ضیاء الرحمن الأعظمی، اس میں حضرت ابوہریرہؓ کی دوسوروایتیں جمع کر کے اس کے طرق وغیرہ پر کلام کیا گیا ہے اور مستشرقین نے جو حضرت ابوہریرہؓ کی کثرت روایت پر شکوک و شبہات کئے ہیں ان کی تردید کی ہے، اور تصوف سے متعلق حضرت کی جتنی تالیفات ہیں، یا صوفی اقبال صاحب نے لکھی ہیں، تقریباً سبھی عطا فرمائیں، اور بعض تو بار بار بھجوائی۔

ذکر کی تجویز میں توارد:

حضرت نور اللہ مرقدہٗ سے بیعت تو ہو گیا، لیکن ذکر پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوتی، اپنے امراض کی وجہ سے یہ سمجھتا رہا کہ میرے بس سے باہر ہے اور نہ حضرت نے بیعت کے وقت کچھ فرمایا، ایک مرتبہ رمضان میں از خود اپنے لئے ایک نصاب مقر ر کر لیا، یعنی تین تسبیح لا الہ الا اللہ کی اور پانچ تسبیحات اللہ اللہ کی، اس کے بعد جب چند روز بعد غالباً عشاء کے بعد حاضر ہوا تو حضرت نے فرمایا: ’’ذکر کر لیا کرو‘‘ اور مذکورہ بالا نصاب بتایا، بس میں تو سمجھتا ہوں کہ اعتکاف میں حضرت کے ساتھ تھا، حضرت کے مبارک قلب کا اثر پڑا، جو خود ایک نصاب مقر ر کر لیا اور حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے وہی بتلایا، پھر معلوم ہوا کہ حضرت مشغول حضرات کو یہی نصاب بتاتے تھے۔

معمولات میں اضافہ:

کچھ دنوں کے بعد حضرت کے بعض ارشادات کی بنا ء پر تھوڑا تھوڑا اسم ذات کا اضافہ شروع کیا، اور سترہ سوتک پہنچا دیا، لیکن حضرت نے کم کرنے کو فرمایا، اور فرمایا: اسم ذات ایک ہزار رکھو، یہی اب تک معمول ہے، پاسِ انفاس کا حکم بار بار دیا اور مراقبہ دعائیہ بھی بتایا، بس جیسے ہم ہیں ویسا ہی ہمارا ذکر، حضرت کے زمانہ میں اور اب بھی نفی و اثبات واسم ذات کا تو معمول ہے، الا یہ کہ مرض یا کوئی شدید مانع ہو باقی اور چیزیں کبھی ہو گئیں کبھی نہیں۔

ایک مرتبہ ایک گرامی نامہ میں تحریر فرمایا، جبکہ میں بہت بیمار ہو گیا تھا کہ: ’’دل سے ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ رہے ‘‘یہ بھی لکھ دوں کہ زیادہ مجاہدہ میرے بس کا نہیں تھا، اور نہ ہے، ایک مرتبہ رمضان شریف میں حضرت سے عرض کیا کہ: ’’حضرت!یہ رات بھرکی بیداری میرے بس کی نہیں ‘‘تو فرمایا: ’’سب کو اس کی ضرورت نہیں ‘‘۔

ایک مرتبہ اعتکاف میں خواب دیکھا کہ حضرت لوگوں کو کچھ تقسیم فرما رہے ہیں، میں اگلے روز حاضر ہوا، خواب عرض کیا، اور عرض کیا: ’’حضرت!اگر بیداری کرنے والوں کو ملے گا تو ہم محروم ہو جائیں گے ‘‘حضرت نے فرمایا: ’’نہیں انشاء اللہ‘‘، ایک مرتبہ اعتکاف میں بہت بیمار ہو گیا، اس زمانہ میں کچھ ذکر وغیرہ نہیں کرتا تھا، حضرت نے غالباً بھائی ابوالحسن صاحب یا کسی اور سے کہلوایا کہ: ’’اگر اختیاری مجاہدہ نہیں کرتے تو اضطراری کرایا جاتا ہے ‘‘مگر ہم نے اپنی نالائقی سے کوئی اثر نہیں لیا۔

ناظم صاحبؒ کی طرف سے خلافت:

حضرت اقدس مولانا اسعداللہ صاحب(سابق ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر علوم)نور اللہ مرقدہ نے بروز پنجشنبہ۵  محرم الحرام۱۳۹۶ھ میں ظہر کے بعد اجازت مرحمت فرمائی، جس کا از خود شہرہ ہو گیا، چونکہ احقر کا بیعت کا تعلق حضرت قطب العالم شیخ الحدیث کاندھلوی ثم المہاجر المدنی نور اللہ مرقدہ سے تھا، اس لئے حضرت ناظم صاحب کی اجازت کے بعد بھی اپنے حضرت نور اللہ مرقدہٗ سے ہی تربیت کا تعلق رہا، اور بحمد للہ بالکل کبھی اجازت کا کوئی خیال بھی نہیں آتا تھا، گو اہل اللہ کے ارشاد کی دل میں قدر تھی اور ہے۔

حضرتؒ کی طرف سے اجازت:

پھر جب حضرت اقدس نور اللہ مرقدہٗ رمضان شریف کے لئے مدینہ منورہ سے سہارنپور تشریف لائے تو حسب معمول اعتکاف کیا، اور رمضان کے بعد شوال میں مجلس شریف میں حسب معمول حاضری ہوتی رہی، غالباً۵ ذی قعدہ تھی، بروز پنجشنبہ صبح کی مجلسِ ذکر میں حاضر ہوا تو حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے ذکر سے فراغت کے بعد بلوایا، اور فرمایا کہ : ’’تو جمعہ کے دن حاجی شاہ جاتا ہے ؟‘‘ ( حاجی شاہ سہارنپور کا مشہور قبرستان ہے )، عرض کیا حضرت !مجھ کو سردی بہت لگتی ہے، حضرت نے فرمایا کہ : ’’یہاں آ ‘‘ اور چارپائی پر بیٹھنے کے لئے فرمایا، اور فرمایا کہ : ’’میرا ارادہ تین چار سال سے تجھے اجازت دینے کا ہے، لیکن تیرے اندر تکبر ہے ‘‘، میں خاموش رہا اور الحمد للہ حضرت کے کہنے پر طبیعت پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔

اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت والا کو حضرت ناظم صاحب کی اجازت کا علم ہو گیا ہو گا ؟ فرمایا کہ، ’’ہاں ‘‘ میں نے عرض کیا: حضرت میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا کہ حضرت ناظم صاحب نے کیوں اجازت دی ؟ حضرتؒ نے اس پر کیا ارشاد فرمایا یاد نہیں رہا، پھر فرمایا کہ : ’’ تجھے میری طرف سے اجازت ہے ‘‘۔

اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے کچھ دن پیشتر ایک عجیب حالت طاری ہوئی تھی، جیسے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں اور نماز سے فراغت پر نقص ہی نقص نظر آتا تھا اور اسی وقت نماز کے بعد استغفار پڑھنے کی حقیقت سمجھ میں آئی، اور ایسا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی مجھے چار پائی کے سرہانے بیٹھنے کو کہتا تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے، اور ایک مرتبہ ایک جگہ لوگوں نے امامت کے لئے کہہ دیا تو آنسو آ گئے، لیکن نادانی سے ایک جملہ کہنے پر ساری حالت جاتی رہی، میں نے کہہ دیا کہ :’جب آدمی ذکر پر مداومت کرتا ہے تو اس کو ہمہ وقت ایک معیت حاصل ہو جاتی ہے اور اپنی نا اہلی کا ہر وقت استحضار ہو جاتا ہے ‘‘، اس میں عجب نفس شامل تھا، بس ساری حالت کافور ہو گئی۔

حضرتؒ نے فرمایا : ’’انشاء اللہ تعالیٰ پھر حاصل ہو جائے گی ‘‘، اب تک تو حاصل نہیں ہوئی، لیکن حضرت کی برکت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ناکارہ روسیاہ پر نظر کرم فرماویں، اور دوام حضوری عطا فرمائیں، اس کے بعد حضرت کے یہاں کچھ مہمان آ گئے، حضرت نے فرمایا : ’’ان کے ساتھ بیٹھ جا ‘‘، ناشتہ سے فراغت کے بعد واپس ہوئے تو مدرسہ قدیم کے دروازہ پر پہنچ کر ایسا معلوم ہوا جیسے سینے میں کوئی چیز داخل ہو گئی، اس کی تعبیر الفاظ میں نہیں ہو سکتی، اور دل میں ذکر کا ایک شدید شوق پیدا ہو گیا اس کے بعد۔

خواب میں حضرت مدنیؒ کی زیارت

ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ حضرتؒ معتکف میں ہیں اور حضرت مدنی نوراللہ مرقدہٗ بھی تشریف فرماہیں، حضرت مدنیؒ کا مصلیٰ بچھا ہوا ہے، میں اس پر آ کر کھڑا ہو گیا، حضرت سے اگلے سال عرض کیا: تو ایک مصلیٰ عنایت فرمایا۔

میں تو ہمیشہ سہارنپور ہی رہتا تھا، ہاں جب پاکستان حاضری ہوئی تو فرمایا : ’’اپنی جگہ کام کرنا چاہئے تھا‘‘۔

٭٭٭

 

مصادر و مراجع

 

(۱)الیواقیت الغالیہ (اکثر حصہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے )

(۲) خود نوشت۔ الیواقیت الغالیہ ہی کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

 

 

 

 

(۶) حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری

دامت برکاتہم     

 

                   ولادت: ۱۳۶۰ھ/ ۱۹۴۰ ء

 

 

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 

 

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            (سعید) احمد

والد کا نام:      جناب یوسف صاحب

جائے پیدائش: کالیڑہ، شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۱۹۴۰ ء کا آخر مطابق ۱۳۶۰ھ

ابتدائی تعلیم:    مکتب (کالیڑہ) شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا

ثانوی تعلیم:     مدرسہ سلم العلوم (پالنپور)، مظاہر العلوم (سہارنپور)

تکمیل:         دار العلوم دیوبند، (دورۂ حدیث، ۱۳۸۲ھ موافق ۱۹۶۲ئ)

موجودہ اہم ذمہ داری: شیخ الحدیث و صدر مدرسین دار العلوم دیوبند

حالیہ پتہ:               دار العلوم دیوبند، سہارنپور، اتر پردیش، انڈیا

 

 

 

ولادت باسعادت اور نام

 

آپ کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں، البتہ والد محترم نے اندازے سے آپ کاسن پیدائش ۱۹۴۰ ء کا آخر مطابق ۱۹۹۷سمت بکرمی مطابق ۱۳۶۰ھ بتایا ہے، آپ موضع ’’کالیڑہ‘‘ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات )میں پیدا ہوئے، یہ پالن پورسے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے اور علاقہ پالن پور کی مشہور بستی ہے۔

آپ کا نام والدین نے ’’احمد‘‘ رکھا تھا، سعید احمد آپ نے اپنا نام خود رکھا ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ’’یوسف‘‘اور دادا کا نام ’’علی‘‘ ہے، جو احتراماً ’’علی جی‘‘ کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ’’ڈھکا‘‘ اور برادری ’’مومن‘‘ ہے، جس کے تفصیلی احوال ’’مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینہ میں ‘‘ مذکور ہیں۔

 

تعلیم و تربیت

 

جب آپ کی عمر پانچ، چھ سال کی ہوئی، تو والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا، لیکن والد مرحوم کھیتی باڑی کے کاموں کی وجہ سے موصوف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتے تھے، اس لئے آپ کو اپنے وطن ’’کالیڑہ‘‘ کے مکتب میں بٹھا دیا، آپ کے مکتب کے اساتذہ یہ ہیں : (۱)مولانا داؤد صاحب چودھری (۲) مولانا حبیب اللہ صاحب چودھری (۳)اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب جو نکیہ، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم آنند (گجرات ) میں شیخ الحدیث رہے۔

مکتب کی تعلیم مکمل کر کے موصوف اپنے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ ’’چھاپی‘‘ تشریف لے گئے، اور دارالعلوم چھاپی میں اپنے ماموں اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں چھ ماہ تک پڑھیں، چھ ماہ کے بعد آپ کے ماموں دارالعلوم چھاپی کی تدریس چھوڑ کر گھر آ گئے، تو آپ بھی اپنے ماموں کے ہمراہ آ گئے، اور چھ ماہ تک اپنے ماموں سے ان کے وطن ’’جونی سیندھی ‘‘ میں فارسی کی کتابیں پڑھتے رہے۔

اس کے بعد مصلحِ امت حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدس سرہ کے مدرسہ میں جو پالن پور شہر میں واقع ہے داخلہ لیا، اور چار سال تک حضرت مولانا مفتی محمد اکبر میاں صاحب پالن پوری اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری رحمہما اللہ سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں …مصلح امت حضرت مولانا محمد نذیر میاں صاحب قدس سرہ وہ عظیم ہستی ہیں، جنھوں نے اس آخری زمانہ میں ’’مومن برادری ‘‘کو بدعات و خرافات اور تمام غیر اسلامی رسوم سے نکال کر ہدایت وسنت کی شاہراہ پر ڈالا، اور ’’مومن برادری‘‘ کی مکمل اصلاح فرمائی، آج علاقۂ پالن پور میں جو دینی فضا نظر آ رہی ہے، وہ حضرت مولانا ہی کی خدمات کاثمرہ ہے، اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری، بخاریٰ سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے، فراغت کے بعد پہلے پالن پور، پھر امداد العلوم وڈالی گجرات، پھر جامعہ حسینہ راند یر (سورت) پھر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمات انجام دیں، اور آخر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔

 

مظاہر علوم میں داخلہ

 

شرح جامی تک پالن پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ نے ۱۳۷۷ھ میں سہارنپور (یو، پی) کا سفر کیا، اور مظاہر علوم میں داخلہ لے کر تین سال تک امام النحو و المنطق حضرت مولانا صدیق احمد صاحب جموی قدس سرہ سے نحو اور منطق وفلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں، نیز حضرت مولانا مفتی یحییٰ صاحب سہارنپوری، حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائے پوری رحمہم اللہ اور حضرت مولانا وقار صاحب بجنوری سے بھی کتابیں پڑھیں۔

 

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

 

پھر فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۳۸۰ھ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر پہلے سال حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے تفسیر جلالین مع الفوزالکبیر، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی قدس سرہ سے ہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں، اور ۱۳۸۲ھ موافق ۱۹۶۲ء میں جو کہ دارالعلوم دیوبند کاسوواں سال ہے دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جن حضرات اکابر سے پڑھا وہ مندرجہ ذیل ہیں :

(۱)حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی (۲) حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری(۳)حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی (۴) حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کیرانوی(۵)حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی(۶)حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی (۷)حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مراد آبادی (۸)حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی (۹) فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی (۱۰) امام المعقول و المنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی (۱۱)مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری (۱۲) شیخ محمود عبد الوہاب صاحب مصری قدس اللہ اسرارہم و نور اللہ قبور ہم

موصوف اپنے بعض احوال اور کتب حدیث کے اساتذہ کرام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔

خاکپائے علمائ:سعید احمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یعنی یحییٰ )بن نور محمد پالنپوری، گجراتی ثم دیوبندی، تاریخ ولادت محفوظ نہیں، والد ماجد رحمہ اللہ نے اندازے سے ۱۳۶۲ھ مطابق ۱۹۴۲ء بتائی ہے، دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ۱۳۸۰ھ میں لیا، اور ۱۳۸۲ھ میں فاتحۂ فراغ پڑھا، بخاری شریف حضرت فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مراد آبادی سے، مقدمۂ مسلم شریف ومسلم شریف کتاب الایمان و ترمذی شریف جلد اول حضرت علامہ بلیاوی سے، باقی مسلم شریف حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے، ترمذی جلد ثانی مع کتاب العلل و شمائل اور ابوداؤد شریف حضرت علامہ فخر الحسن مراد آبادی سے، نسائی شریف حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی سے، طحاوی شریف حضرت مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاں پوری سے، مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی سے، ان کے انتقال کے بعد جلد اول حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب دیوبندی سے، اور جلد دوم حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظم سے پڑھی، اس سال موطا مالک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور موطا محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندی کے پاس تھی۔ (مشاہیر محدثین و فقہائے کرام ص/۲۷و۲۸ )

آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین، کتب بینی اور محنت کے عادی تھے، اس پر مذکور بالا اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت نے آپ کی استعداد و صلاحیت کو بائیس سال کی عمر میں ہی بام عروج پر پہنچا دیا تھا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم دینی درسگاہ کے سالانہ امتحان میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی تھی۔

 

دارالافتاء میں داخلہ

 

دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے شوال ۱۳۸۲ھ میں تکمیل افتاء کے لئے درخواست دی، یکم ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ کو آپ کا دار افتاء دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہو گیا، اور حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی کی مشق کا آغاز فرمایا۔

آپ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں، اس لئے دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد اپنے بھائیوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، اسی سال آپ نے سماحۃ الشیخ محمود عبدالوہاب مصری کے پاس حفظ بھی شروع کیا، جو قرآن کریم کے جید حافظ اور مصری قاری تھے، اور جامعۃ الازہر قاہرہ کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں مبعوث تھے۔

الغرض ۱۳۸۲ھ اور ۱۳۸۳ھ میں آپ ایک طرف کتب فتاوی کا مطالعہ، فتوی نویسی کی مشق کرتے تھے، دوسری طرف اپنے بھائی کو حفظ کراتے تھے اور خود بھی حفظ کرتے تھے، اور ان کاموں میں ایسے مصروف ومنہمک تھے کہ رمضان المبارک میں بھی وطن تشریف نہیں لے گئے، ادھر افتاء کمیٹی نے آپ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے کے لئے دارالافتاء کے داخلہ میں ایک سال کی توسیع کر دی، چھ ماہ بعد دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام نے آپ کا معین مفتی کی حیثیت سے دارالافتاء دار العلوم دیوبند میں تقرر کر دیا، جب کہ اس زمانہ میں معین مفتی رکھنے کا رواج نہیں تھا، جیسا کہ اب ہے۔

 

راندیر میں آپ کا تقرر

 

دار الافتاء کے نصاب کی تکمیل کے بعد حضرت علامہ بلیاویؒ کے توسط سے آپ کا تقرر دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے ہوا، چنانچہ آپ ۲۱ شوال ۱۳۸۴ ھ کو مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے اپنے گھر تشریف لے گئے، والدین کی زیارت کا شرف حاصل کیا، پھر اپنے بھائیوں کو ساتھ لے کر راندیر (سورت) تشریف لے گئے، اور دارالعلوم اشرفیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔

 

راندیر میں آپ کی خدمات

 

ذیقعدہ ۱۳۸۴ھ سے شعبان ۹۳ ۱۳ھ تک (۹سال)دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت)میں موصوف نے ترجمہ قرآن کریم، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف، شمائل، موطین، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، جلالین شریف مع الفوزالکبیر، ہدایہ آخرین، شرح عقائد نسفی، اور حسامی وغیرہ بہت سی کتابیں پڑھائیں، اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، اسی عرصہ میں موصوف نے داڑھی اور انبیاء کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر اور مولانا محمد بن ظاہر پٹنی قدس سرہ کی ’’المغنی‘‘ کی عربی شرح وغیرہ تصانیف ارقام فرمائیں، جن میں سے اکثر شائع ہو چکی ہیں، نیز اسی زمانہ میں موصوف نے قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتابوں اور علوم و معارف کی تسہیل و تشریح کا آغاز فرمایا، ایک مضمون ’’افادات نانوتوی ‘‘کے نام سے اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا، جو نہایت قیمتی مضمون ہے۔

 

دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر

 

اسی دوران موصوف کے استاذ محترم حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری نے جو پہلے جامعہ حسینیہ راندیر میں پڑھا تے تھے، پھر دارالعلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہو گیا تھا، موصوف کو خط سے مطلع کیا کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک جگہ خالی ہے، لہٰذا آپ دارالعلوم میں تدریس کی درخواست بھیجیں، موصوف نے جناب مولانا حکیم محمد سعد رشید صاحب اجمیری کے مشورہ سے درخواست بھیج دی، اس کے ہمراہ ایک مکتوب حضرت قاری محمد طیب صاحب کے نام ارسال فرمایا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ نے اس کے جواب میں جو گرامی نامہ بھیجا وہ درج ذیل ہے :۔

محتر می ومکرمی زید مجدکم!

سلام مسنون، نیاز مقرون، گرامی نامہ باعث مسرت ہوا، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر کام کرنے کی اطلاع سے غیر معمولی خوشی ہوئی جو صورت آپ نے اختیار فرمائی ہے وہ مناسب ہے، خود میرے ذہن میں ان کتب کی خدمت کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ صورت بھی تھی، الفرقان میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی، ان شاء اللہ رسائل منگوا کر مستفید ہوں گا، اور جو رائے قائم ہو گی وہ عرض کروں گا۔

درخواست منسلکہ مجلس تعلیمی میں بھیج رہا ہوں، اس پر وہاں سے کوئی کار روائی ضرور کی جائے گی، اس کی اطلاع دی جائے گی، دعا کی درخواست، قاسم العلوم کے میرے پاس دو نسخے تھے، ایک نسخہ اسی ضرورت سے وہاں بھیجا گیا، مگر واپس نہیں ہوا، اب ایک رہ گیا ہے جو صاحب نقل کرنا چاہیں وہ ایک وقت مقر ر کر کے میرے کتب خانہ میں ہی بیٹھ کر نقل فرما لیا کریں، اور یہاں بحمد للہ خیریت ہے۔ والسلام

محمد طیب از دیوبند

۷-۷-۹۳ھ

یہ گرامی نامہ ۷/رجب ۱۳۹۳ھ کا لکھا ہوا ہے، اسی سال شعبان میں جب مجلس شوری کا انعقاد ہوا، اور درجات عربیہ کے لئے ایک مدرس کے تقرر کا تذکرہ آیا تو حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہ نے موصوف کا نام پیش کیا اور اسی مجلس میں موصوف کا تقرر ہو گیا، موصوف کو شعبان ہی میں اس کی اطلاع دے دی گئی، رمضان المبارک کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے، اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ عمر میں برکت عطا فرمائے، اور ان کے فیوض و برکات کو عام اور تام فرمائے۔ آمین یارب العالمین

 

دیگر خدمات

 

تعلیمی وتدریسی خدمات کے علاوہ موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں جو خدمات انجام دیں، اور دے رہے ہیں ان کے مفصل تذکرہ کی اس مختصر تعارف میں گنجائش نہیں، صرف چند خدمات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے :

(۱)۱۴۰۲ھ میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب نے طویل رخصت لے لی تھی، حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ سہانپور چلے گئے تھے، اور کچھ مفتیان کرام نے دارالعلوم سے علاحدگی اختیار کر لی تھی، اس لئے ارباب انتظام نے موصوف کو کتب متعلقہ کی تدریس کے ساتھ شعبۂ افتاء کی نگرانی اور فتوی نویسی کا حکم دیا تھا، جس کو بحسن و خوبی موصوف نے انجام دیا، اس سے پہلے ۱۳۹۵ھ میں بھی موصوف کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی نگرانی سپرد کی گئی تھی۔

(۲)جب سے دارالعلوم دیوبند میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے، آپ اس کے ناظم اعلیٰ ہیں، ۱۴۱۹ھ میں آپ نے اس منصب سے سبکدوش ہونے کی مجلس شوری سے درخواست کی تھی، مگر مجلس شوری نے منظور نہیں فرمائی، اور ایک ہزار روپئے ماہانہ الاؤنس کے طور پر طے فرمائے، مگر آپ نے الاؤنس لینے سے انکار کر دیا، اور ذمہ داری کو سنبھال رہے ہیں۔

(۳)مذکورہ بالا خدمات کے علاوہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم جو تحر یری اور تقریری خدمت موصوف کو سپرد فرماتے ہیں، اس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔

 

تصنیفی خدمات

 

حضرت مولانا کی تصانیف جو شائع ہو کر مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہیں، ان میں سے کچھ کا تعارف درج ذیل ہے :

(۱) تفسیر ہدایت القرآن :یہ مقبول عام و خاص تفسیر ہے، پارہ ۳۰ اور ایک تا ۹ حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی صاحب رحمہ اللہ کے لکھے ہوئے ہیں، بقیہ کام حضرت والا نے کیا ہے۔

(۲)الفوزالکبیر کی تعریب جدید:یہ سابقہ تعریب کی تہذیب ہے، دار العلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصابِ درس میں داخل ہے۔

(۳)العون الکبیر :یہ الفوز الکبیر کی عربی شرح ہے، پہلے قدیم تعریب کے مطابق تھی، اب جدید تعریب کے مطابق کر دی گئی ہے۔

(۴)فیض المنعم:یہ مقدمۂ مسلم شریف کی معیاری اردو شرح ہے، جو ترکیب، حل لغات اور فن حدیث کی ضروری بحثوں پر مشتمل ہے۔

(۵)تحفہ الدر ر:یہ نخبۃ الفکر کی بہترین اردو شرح ہے، کتب حدیث پڑھنے والوں خصوصاً مشکوۃً شریف پڑھنے والوں کے لئے نہایت قیمتی سوغات ہے۔

(۶)مبادی الفلسفہ:اس میں فلسفہ کی تمام اصطلاحات کی عربی زبان میں مختصر اور عمدہ وضاحت کی گئی ہے، دارالعلوم دیوبند، اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے۔

(۷)معین الفلسفہ:یہ مبادیِ الفلسفہ کی بہترین اردو شرح ہے، اور حکمت وفلسفہ کے پیچیدہ مسائل کی عمدہ وضاحت پر مشتمل معلومات افزا کتاب ہے۔

(۸)مفتاح التہذیب:یہ علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب المنطق ‘‘کی ایسی عمدہ شرح ہے کہ اس سے ’’شرح تہذیب‘‘جو مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے، خوب حل ہو جاتی ہے۔

(۹)آسان منطق:یہ تیسیرا لمنطق کی تہذیب ہے، دارالعلوم دیوبند اور بہت سے مدارس میں ’’تیسیرالمنطق‘‘کی جگہ پڑھائی جاتی ہے۔

(۱۰)آسان نحو(دو حصے )۔

(۱۱)آسان صرف (دو حصے ) علم نحو اور علم صرف کی جو کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں، ان میں عام طور پر تدریج کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ یہ بات نہایت ضروری ہے، یہ نصاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، یہ نصاب نہایت مفید اور بہت سے مدارس میں داخل درس ہے۔

(۱۲)محفوظات:(تین حصے )یہ آیات و احادیث کا مجموعہ ہے، جو طلبہ کے حفظ کے لئے مرتب کیا گیا ہے، بہت سے مدارس و مکاتب میں داخل نصاب ہے۔

(۱۳)آپ فتوی کیسے دیں ؟:یہ علامہ محمد امین بن عابد ین شامی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح عقودرسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔

(۱۴)کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے ؟:یہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ’’توثیق الکلام‘‘ کی نہایت آسان عام فہم شرح ہے۔

(۱۵)حیات امام ابوداؤد:اس میں امام ابوداؤد سجستانی کی مکمل سوانح، سنن ابی داؤد کا تفصیلی تعارف، اور اس کی تمام شروحات و متعلقات کا مفصل جائزہ سلیس اور دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

(۱۶)مشاہیر محدثین و فقہائے کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث :اس میں خلفاء راشدین، عشرۂ مبشرہ، ازواج مطہرات، بنات طیبات، مدینہ کے فقہائے سبعہ، مجتہدین امت، محدثین کرام، راویان کتب حدیث، شارحین حدیث، فقہائے ملت، مفسرین عظام، متکلمین اسلام اور مشہور شخصیات کا مختصر جامع تذکرہ ہے۔

(۱۷)حیات امام طحاوی:اس میں امام ابو جعفر طحاوی کے مفصل حالات زندگی، ناقدین پر رد، تصانیف کا تذکرہ، زبدۃطحاوی کی توضیح اور شرح معانی الآثار کا تعارف ہے۔

(۱۸)اسلام تغیر پذیر دنیا میں :یہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ اور جامعہ ملیہ دہلی کے سمیناروں میں پڑھے گئے چار قیمتی مقالوں کا مجموعہ ہے۔

(۱۹)نبوت نے انسانیت کو کیا دیا؟:یہ مقالہ جامعہ ملیہ دہلی کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا تھا، پہلے وہ علاحدہ شائع ہوا تھا، اب اس کو ’’اسلام تغیر پذیر دنیا میں ‘‘ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔

(۲۰)داڑھی اور انبیاء کی سنتیں :ناخن تراشنے، حجامت بنوانے، مسواک کرنے، کلی اور ناک صاف کرنے، جسم کے جوڑوں کو دھونے، ختنہ کرنے، پانی سے استنجاء کرنے، بالوں میں مانگ نکالنے، مونچھیں تراشنے اور داڑھی رکھنے کے متعلق واضح احکامات، مسائل، دلائل اور فضائل کا مجموعہ ہے، داڑھی پر ہونے والے اعتراضوں کے جوابات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔

(۲۱)حرمت مصاہرت:اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے مفصل احکام، اور ناجائز انتفاع کا مد لل حکم بیان کیا گیا ہے۔

(۲۲)تسہیل ادلۂ کاملہ:یہ حضرت شیخ الہند کی مایۂ ناز کتاب ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس میں غیر مقلدین کے چھیڑے ہوئے دس مشہور مسائل کی مکمل تفصیل ہے، یہ شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔

(۲۳)حواشی وعناوین ایضاح الادلۃ :ایضاح الادلۃ حضرت شیخ الہند کی شہرۂ آفاق کتاب ہے، اس پر موصوف نے نہایت مفید حواشی ارقام فرمائے ہیں، اور ذیلی عناوین بڑھائے ہیں، یہ کتاب بھی شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔

(۲۴)حواشی امداد الفتاوی:موصوف نے قیام راندیر کے زمانے میں یہ حواشی لکھنے شروع کئے تھے، یہ حواشی بھی اہل علم میں وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

(۲۵)افادات نانوتوی:یہ موصوف کا ایک نہایت قیمتی مضمون ہے، جس کو دارالعلوم اشرفیہ راندیر کی تدریس کے زمانہ میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا۔

(۲۶)افادات رشیدیہ :یہ موصوف کا دوسرا نہایت مفید مضمون ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے آغاز میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی وقت رسالہ دارالعلوم دیوبند میں قسط وار شائع ہوا تھا۔

(۲۷)رحمۃ اللہ الواسعۃ:یہ حجۃ اللہ البالغہ کی مبسوط اردو شرح ہے، حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح ایک بھاری قرضہ تھا، جو ڈھائی سوسال سے امت کے ذمہ باقی چلا آ رہا تھا۔

(۲۸)تہذیب المغنی:المغنی علامہ محمد طاہر پٹنی قدس سرہ کی اسماء رجال پر بہتر ین کتاب ہے، موصوف نے اس کی عربی میں شرح لکھی ہے۔

(۲۹)زبدۃالطحاوی:یہ امام طحاوی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی عربی تلخیص ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابیں ہیں۔

 

دعوتی و تبلیغی خدمات

 

مذکورہ بالا تعلیمی وتدریسی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود آپ ملک و بیرون ملک کے دورے کرتے رہتے ہیں، اور جو حضرات دینی باتیں سننے کے مشتاق ہیں، ان کو اپنی نواسنجیوں سے نوازتے رہتے ہیں، آپ دارالعلوم دیوبند کی تدریس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے اور تصنیفی کام جاری رکھتے ہوئے، درمیان سال میں وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک کے مختصر دورے کرتے رہتے ہیں، اور رمضان المبارک کی طویل تعطیل میں کبھی برطانیہ، کبھی کناڈا، کبھی افریقہ اور امریکہ تشریف لے جاتے ہیں، ایک دن میں کئی کئی تقریریں کرتے ہیں، سعادت مند سامعین کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت، خوف خدا و فکر آخرت اور اعمال صالحہ پر ابھارتے رہتے ہیں، حرام اور منکر باتوں سے نہایت مؤثر انداز میں باز رہنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں۔

 

انداز خطابت اور تصنیفی خصوصیات

 

جس طرح موصوف کا انداز خطابت نہایت مؤثر، درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا ہے، اسی طرح آپ کی تمام تصانیف نہایت آسان، عام فہم اور مقبول عام و خاص ہیں، آپ کی تقریریں نہایت مبسوط اور علمی نکات سے پر، اور تحریر یں نہایت مرتب، واضح اور جامع ہوتی ہیں، اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہیں۔

 

ترقیات کا راز

 

موصوف کو اللہ جل شانہ و عم نوالہ نے بہت سی خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس ہے، مزاج میں استقلال اور اعتدال ہے، فطرت میں سلامت روی اور ذہن رسا کے مالک ہیں، زود نویس اور خوش نویس ہیں، حق و باطل اور صواب و خطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں اور حقائق و معارف کے ادراک میں یکتائے زمانہ ہیں۔

اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موصوف اپنے کاموں میں نہایت چست اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے والے ہیں، موصوف کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت اقدس جیسا شب و روز محنت کرنے والا مصروف آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، آپ کے تمام شاگرد جانتے ہیں کہ آپ کادرس کتنا مقبول ہے ؟اور جن حضرات کو آپ کی تصانیف دیکھنے، اور تقاریر سننے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ آپ کی تصانیف اور تقاریر کتنی پر مغز، مرتب اور جامع ہوتی ہیں ؟اور آپ کے خدام جانتے ہیں کہ حضرت اقدس اپنی اور اپنے متعلقین کی کتابوں کی تصحیح و طباعت کا کتنا اہتمام فرماتے ہیں اور اپنے بھائیوں اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا کس قدر خیال فرماتے ہیں۔

 

اجازت بیعت و ارشاد

 

موصوف جس طرح علوم ظاہری میں درک و کمال رکھتے ہیں، اسی طرح علوم باطنی سے بھی بہرہ ور ہیں، مگر اس کا اس قدر اخفاء فرماتے ہیں کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صرف علوم ظاہری میں مہارت رکھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ طالب علمی کے زمانہ سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ سے بیعت تھے، اور دیگر بزرگان دین سے بھی فیض یافتہ ہیں، خاص طور پر حضرت اقدس مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری قدس سرہ کی مجالس میں مظاہر علوم کی طالب علمی کے زمانہ میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری کے مجاز بیعت و ارشاد ہیں۔

 

زیارت حرمین شریفین

 

موصوف کئی بار زیارت حرمین شریفین کا شرف حاصل کر چکے ہیں، سب سے پہلے ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں اہلیہ محترمہ کے ساتھ پانی کے جہاز سے سفر کیا، اور فریضۂ حج ادا کیا …پھر ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں افریقہ سے دوسرا حج کیا، چونکہ آپ پہلے فرض حج ادا کر چکے تھے، اس لئے موصوف نے یہ دوسرا حج آنحضرتﷺ کی طرف سے حج بدل کے طور پرکیا ہے …پھر ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء میں سعودی وزارت حج و اوقاف کے مہمان کی حیثیت سے تیسرا حج کیا…اور ایک بار ربیع الاول ۱۴۱۴ھ میں عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔

 

 والد ماجد کی وفات

 

اس سلسلہ میں مولانا کے برادر مکرم جناب مولانا مفتی امین صاحب (استاذ حدیث و فقہ و مرتب فتاوی دارالعلوم دیوبند)نے تفصیل سے لکھا ہے، فرماتے ہیں :

’’جس زمانہ میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی اور محدث کبیر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ڈابھیل میں پڑھاتے تھے، اس وقت والد صاحب ڈابھیل میں پڑھتے تھے، اور حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی قدس سرہ کے خادم خاص تھے، مگر گھریلو احوال کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے، اس لئے اپنے صاحب زادوں کو علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا بدر عالم میرٹھی، اور محدث کبیر مولانا محمد یوسف صاحب بنوری جیسا عالم بنانے کا عظیم جذبہ رکھتے تھے، حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی قدس سرہ نے والد صاحب کو یہ وصیت کی تھی کہ:

’’یوسف ! اگر تم اپنے لڑکوں کو اچھا عالم بنانا چاہتے ہو، تو حرام اور ناجائز مال سے پرہیز کرنا، اور بچوں کو بھی ناجائز اور حرام مال سے بچانا، کیونکہ علم ایک نور ہے، ناجائز اور حرام مال سے جو بدن پروان چڑھتا ہے اس میں یہ نور داخل نہیں ہوتا ‘‘ … یہ نصیحت حضرت مولانا نے والد ماجد کواس لئے کی تھی کہ اس زمانہ میں ہماری ساری قوم بنیوں کے سود میں پھنسی ہوئی تھی، اسی زمانہ میں ہمارے دادا نے بنیے سے سودی قرض لے کر ایک زمین کرایہ پر لی تھی، والد صاحب اس زمانہ میں ڈابھیل کے طالب علم تھے، والد صاحب نے اس معاملہ میں دادا سے اختلاف کیا تو والد صاحب کو حرام سے بچنے کے لئے مجبور اً تعلیم چھوڑ کر اپنا گھر سنبھالنا پڑا اور تہیہ کیا کہ چاہے بھوکا رہوں گا مگر حرام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا تاکہ میں نہیں پڑھ سکا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد کو علم دین عطا فرمائیں۔

چنانچہ والد صاحب، ناجائز اور حرام مال بلکہ مشتبہ مال سے بھی پرہیز کرتے تھے، اور اپنی اولاد کو بھی بچاتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ فرماتے تھے، صوم و صلوٰۃ کے ایسے پابند تھے کہ میرے علم کے مطابق ان کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی، والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد والد صاحب نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا تھا، سات آٹھ پارے حفظ کر لئے تھے، مگر عمر نے وفا نہیں کی، اور ذیقعدہ ۱۴۱۱ ھ میں تہجد کے وقت اللہ کو پیارے ہو گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔

والدہ ماجدہ کی رحلت: حضرت مفتی صاحب کی والدہ ماجدہ دین کی ضروری باتوں سے واقف، امور خانہ داری میں ماہر، نہایت سلیقہ مند، نماز روزے کا خوب اہتمام کرنے والی صالحہ عابدہ اور صابرہ شاکرہ خاتون تھیں، ۱۰ محرم الحرام ۱۴۹۹ھ کو روزہ رکھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا، نماز پڑھی، اسی دن عشاء کی نماز کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے والدین ماجدین کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبروں کو نور سے بھر دیں، اور مفتی صاحب کا سایۂ عاطفت تا دیر قائم رکھے !آمین۔

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱)العون الکبیر میں شامل مولانا مفتی محمد امین صاحب کا مضمون۔

(۲) رحمۃ اللہ الواسعۃ میں درج حالات۔

(۳) مفتی صاحب کی تصنیفات۔

 

 

 

 

 

(۷) حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب

دامت برکاتہم

 

                   ولادت: ۱۳۶۲ھ / ۱۹۴۳ء

 

 

 

 

میری زندگی کا مقصد ہر ایک کو فیض پہنچے

میں چراغِ رہ گزر ہوں، مجھے شوق سے جلاؤ

 

 

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            محمد تقی عثمانی

والد کا نام:      (حضرت مولانا مفتی) محمد شفیع عثمانی

جائے پیدائش: دیوبند، سہارنپور، یوپی، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۵ شوال ۱۳۶۲ھ مطابق ۲۵  اکتوبر ۱۹۴۳ء

ابتدائی تعلیم:    دار العلوم، کراچی

ثانوی تعلیم:     دار العلوم، کراچی

تکمیل:         کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی

موجودہ اہم ذمہ داری: نائب صدر دارالعلوم، کراچی، واسلامک فقہ اکیڈمی، جدہ

حالیہ پتہ:               کراچی، پاکستان

 

 

 

 

سلسلۂ نسب :محمد تقی عثمانی بن محمد شفیع عثمانی بن محمد یاسین بن خلیفہ تحسین علی بن میاں جی کریم اللہ بن میاں جی خیر اللہ بن میاں جی شکر اللہ۔

یہ سلسلہ صحابی رسولﷺ اور خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ سے جا ملتا ہے، اسی لئے نام کے ساتھ عثمانی کا اضافہ ہے۔

 

جد امجد

 

آپ کے دادا مولانا محمد یاسین صاحب بہت بڑے عالم اور فارسی و عربی کے ادیب تھے، ان کا شمار دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی طلبہ میں تھا، انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز اساتذہ سے کسبِ فیض کیا تھا، جن میں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی، مولانا سید احمد دہلوی اور شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی قابل ذکر ہیں، انھوں نے فارسی ادب کی تعلیم اردو اور فارسی کے مشہور شاعر مرز ا اسداللہ خاں غالب سے حاصل کی، جس کی بناء پر وہ فارسی کے ادیب ہوئے، اور دارالعلوم دیوبند میں فارسی ادیب کے مدرس کی حیثیت سے ان کی تقرری عمل میں آئی، بعد ازاں شعبۂ فارسی کے صدر مدرس کی حیثیت حاصل کی، اور چالیس سال تک شعبۂ فارسی کے صدر مدرس کے عہدہ پر فائز رہے، ساتھ ہی ساتھ وہ عربی کے بھی استاذ رہے، انھوں نے فارسی میں چند کتابیں بھی اپنی یادگار چھوڑی ہیں، جو عموماً ً برصغیر کے عربی مدارس میں فارسی کی تعلیم میں داخل نصاب ہیں۔

 

والد ماجد

 

مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے والد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ بھی ایک مایہ ناز عالم اور مشہور ترین شخصیت تھے، ان کی ولادت دیوبند میں ۱۳۱۴ھ کو ہوئی، دارالعلوم دیوبند میں ۱۳۲۵ھ میں تعلیم کا آغاز ہوا، اور ۱۳۵۰ھ میں فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں فتوی نویسی کے مسند پر مقر ر ہوئے، تقسیم ہند کے بعد کراچی (پاکستان) کو انھوں نے اپنا وطن بنایا اور وہیں انتقال فرمایا، وہاں انہوں نے ایک مایہ ناز ادارے ’’دارالعلوم کراچی ‘‘کی بنیاد رکھی، جو آج تک برگ و بار لا رہا ہے، اس وقت اس کا دنیا کے با اعتبار و با وقار مدرسوں میں شمار ہوتا ہے، عالم اسلام کے تمام خطوں و علاقوں کے طلباء اس سے روحانی فیض پاتے ہیں، اور علم و عمل کی بیش بہا دولت سے نہال ہوتے ہیں۔

 

ولادت

 

مفتی صاحب نے ۵ شوال ۱۳۶۲ھ مطابق ۲۵  اکتوبر ۱۹۴۳ء کو دیوبند، ضلع سہارنپور، یوپی، انڈیا میں آنکھ کھولی۔

 

ہجرت

 

مولانا کی عمر ابھی پانچ ہی سال کی تھی کہ تقسیم ہند عمل میں آئی، چونکہ آپ کے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ بھی قیامِ پاکستان کے حامی تھے، اسی لئے انھوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کی طرف ہجرت کی، چنانچہ مفتی صاحب کا خاندان یکم  مئی ۱۹۴۸ء کو دیوبند سے نکل کر ۳  مئی کو کراچی پہنچا، اس طرح مفتی صاحب کا وطن کراچی ہو گیا۔

 

مفتی صاحب کے برادران 

 

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے کل پانچ بیٹے تھے، مفتی تقی صاحب سب سے چھوٹے فرزند ہیں، جو فکر بلند، زبانِ ہوش مند اور دلِ دردمند کے حامل، غیر معمولی عظمت و شہرت اور گوناگوں خصوصیات و امتیازات کے مالک ہیں۔

آپ کے سب سے بڑے بھائی محمد زکی کیفی تھے، جو عنفوانِ شباب ہی میں چل بسے، وہ ادب و ثقافت میں خوب دسترس رکھتے تھے، اردو زبان کے ممتاز شاعر تھے، مزاج میں ادب و تنقید کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، ان کے جگر ؔمرادآبادی سے گہرے مراسم تھے، فارسی اور اردو شاعری کا انتہائی وسیع مطالعہ کیا تھا، ان کے اشعار کے مجموعے کا نام کیفیات ہے، جس پر مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے حرف آغاز لکھا ہے، محمد زکی کیفی صاحب ۱۰ محرم ۱۳۹۵ ھ، مطابق ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے دارِ آخرت کی طرف کوچ کر گئے اور لاہور میں مدفون ہیں، انھیں کا عشق نبوی و حب محمدیﷺ میں ڈوبا ہوا اور ایمان افزا یہ شعر ہے :

اس لئے آرزو ہے جینے کی

دیکھ لوں پھر زمیں مدینے کی

مفتی صاحب کے دوسرے بھائی مولانا محمد رضی عثمانی صاحب ہیں، جو صاحبِ علم اور بیدار مغز انسان ہیں، انھوں نے کتابوں کا ایک ادارہ ’’دار الاشاعت ‘‘ کے نام سے قائم فرمایا ہے، یہ ادارہ دینی کتب شائع کرتا ہے، اب وہ دنیا میں نہ رہے، اللہ کی ان پر ہو، خوب خوب نوازش اور رحمت و مغفرت کی بہت بہت بارش۔

ان سے چھوٹے یعنی تیسرے بھائی مولانا محمد ولی رازی صاحب ہیں، جو کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے پروفیسر رہے ہیں، سیرت نبویﷺ پر ان کی کتاب ’’ہادی عالم ‘‘ کافی مشہور ہوئی ہے، جو غیر منقوط ہے، اور تقریباً پانچ سو صفحات کی ہے۔

مفتی صاحب کے چوتھے بھائی مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مد ظلہ ہیں، جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر ہیں، پاکستان کے مفتی اعظم ہیں، کئی دینی کتابوں کے مصنف ہیں، انتہائی قابل اور منتظم شخصیت کے مالک ہیں، اس وقت دنیا کے مشہور و معروف اور لائق و فائق علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔

 

تعلیم و تربیت

 

اس زمانے کے دینی گھرانے کے مزاج کے مطابق مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد اور والدہ کے زیر نگرانی ہوئی، بعد ازاں دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا، اور کچھ فارسی و اردو اسباق پڑھے، اس کے بعد ۱۹۵۱ء میں لگ بھگ آٹھ سال کی عمر میں دارالعلوم کراچی میں ہندوستان کے مدارس عربیہ کے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی، مفتی صاحب مد ظلہ طالب علمی کے دور میں بے انتہا محنتی اور جفا کش تھے، ہر وقت اسباق اور علمی انہماک میں لگے رہتے، مختلف علوم و فنون سے استفادہ میں سچی لگن اور تڑپ کے ساتھ مشغول رہتے، یہاں تک کہ کھیل کود اور چھٹی کے لیے جو وقت ملتا اس میں بھی مطالعہ اور ورق گردانی میں مشغول رہتے، ہفتہ وار چھٹی پر گھر پہنچتے تو اپنے والد محترم کی لائبریری میں چلے جاتے، اور وہاں گھنٹوں کتابوں کی دنیا کی سیر کرتے یا پھر دوسری علمی مصروفیت جو والد کی طرف سے سپرد ہوتی اس کو انجام تک پہچانے کی فکر کرتے، اس طرح ہفتہ وار تعطیل کا تصور اس عظیم طالب علم کو تھاہی نہیں۔

مولانا محمد تقی عثمانی صاحب ۱۹۵۹ء میں مدرسہ کی تعلیم (درس نظامی ) سے فارغ ہوئے، مدرسہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد مفتی صاحب نے عصری علوم کی طرف توجہ دی، مقصد ان کا یہ تھا کہ اقتصادی، سیاسی اور قانون کی تعلیم حاصل کر کے احکام شرعیہ کو موجودہ صورت حال کے مطابق سمجھا جائے، چنانچہ مفتی صاحب اپنے والد کے حکم پر عصری علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہوئے، معاشیات میں بی، کام کی سند کراچی یونیورسٹی سے ۱۹۶۴ء میں حاصل کی، اور ۱۹۶۷ء میں کراچی یونیورسٹی ہی سے ایل، ایل، بی کی ڈگری حاصل کی، سیاسیات و معاشیات کے بعد انہیں عربی کا ذوق ہوا، لہٰذا پنجاب یونیورسٹی میں انھوں نے داخلہ حاصل کیا، اور ۱۹۷۰ء میں ایم، اے عربی سے فارغ ہوئے، اس وقت پوری یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن کے ساتھ امتحان سالانہ میں کامیاب ہوئے اور سند حاصل کی، بعد ازاں ان تینوں مضامین (سیاسیات، معاشیات اور قانون ) پر سیر حاصل مطالعہ کیا، اور باکمال سیاست داں، ممتاز ماہر معاشیات اور نامور قانون داں شمار ہوئے۔

مفتی صاحب کے تعلیمی مراحل کے متعلق مشہور قلم کاار ابن الحسن عباسی اپنی کتاب ’’متاعِ وقت اور کاروانِ علم ‘‘ میں رقمطراز ہیں :۔

’’دس سال کی عمر میں آپ نے درس نظامی کا آغاز کیا اور سترہ سال کی عمر میں اس کی تکمیل کر کے فارغ ہوئے، تاہم انھوں نے درس نظامی کی چند کلیوں پر قناعت نہیں کی، بلکہ اس نصاب کے پڑھنے سے حاصل ہونے والی صلاحیت واستعداد کو علم کے مقفل دروازوں کی چابی سمجھ کر اسلام کے وسیع کتب خانے کی طرف بڑھے اور علوم کے بند دروازے وا کرتے رہے، تاریخ کا مطالعہ کیا، فقہ کو تعمق سے دیکھا، تفسیر و اصول تفسیر پر بار بار نظر ڈالی، حدیث سے متعلقہ علوم کو محنت سے پڑھا اور ادب کی چاشنیاں چکھنے کے لئے راتوں جاگے، ساتھ ساتھ عصری علوم کی طرف توجہ دی، ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا، ۱۹۶۴ئ میں کراچی یونیورسٹی سے بی، اے کا امتحان دیا، ۱۹۶۷ ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان دوسری پوزیشن اور ۱۹۷۰ئ میں ایم اے عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن لے کر پاس کیا، جدید معاشیات کا مطالعہ کیا اور اس میں مہارت ہی نہیں مجتہدانہ بصیرت حاصل کی اور پاکستان کی طرح ہر مغرب زدہ ملک پر چھائی ہوئی انگریزوں کی وہ زبان سیکھی جس سے واقفیت ایک عالم دین کے لئے اس دور میں اسلام کے مؤثر تبلیغ کے نقطہ نظر سے نہ صرف استحسان بلکہ ضرورت کی حدود میں داخل ہے، اور جس کو جنٹلمین طبقہ کسی انسان کی سعادت و قابلیت کا معیار سمجھتا ہے، اور یوں وہ قدیم و جدید، دینی و دنیوی علوم کے ایسے سنگم بن گئے جس میں مختلف علوم کی حسین لہریں جمع ہیں ‘‘۔ (متاع وقت اور کاروانِ علم)

دینی گھرانے کے طریقے کے مطابق اس دور کے مشہور صوفی بزرگ جو حضرت حکیم الامت تھانوی کے خلیفہ تھے، یعنی حضرت ڈاکٹر  عبدالحئی عارفی صاحب سے رجوع ہوئے، اور عرصۂ دراز تک اصلاح باطن کے سلسلہ میں انہیں سے فیضیاب ہوتے رہے، پھر جب ۱۴۰۶ھ میں ڈاکٹر عبدالحئی صاحب راہی اجل ہوئے تو مفتی صاحب نے حضرت تھانویؒ ہی کے دوسرے مشہور خلیفہ حضرت مسیح اللہ خاں سے اپنا ربط قائم کیا، انھوں نے بھی ۱۴۱۳ھ مطابق ۱۹۹۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ کر اس دنیا کو داغ مفارقت دے دی، اس طرح مفتی صاحب کو باکمال بزرگوں سے مستفید ہونے کا خوب موقع ملا، تزکیۂ نفس اور اصلاحِ باطن کے اعتبار سے پوری دنیائے اسلام کے لوگ آپ سے رجوع ہوتے ہیں، اور امراضِ باطنی سے شفا پاتے ہیں۔

 

 علمی مقام

 

ممتاز قلم کار ابن الحسن عباسی نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے علمی مقام پر یوں تبصرہ کیا ہے :

’’اردو ان کے گھر کی لونڈی ہے، عربی ان کی جیب کی گھڑی ہے، اور انگریزی وہ ضرورت کے تحت لکھتے اور بولتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو قلم کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے، محرم ۱۳۸۶ھ سے ان کی زیرِ ادارت ماہنامہ ’’البلاغ ‘‘ کا اجراء عمل میں آیا، البلاغ کے اداریوں میں انھوں نے اسلامیات کے علاوہ عصر جدید کے پیدا کئے ہوئے اکثر مسائل پر بھی قلم اٹھایا، البلاغ کے یہ ادارئے مختلف کتابوں کی شکل میں شائع ہو کر عام ہو گئے ہیں ‘‘۔ (متاع وقت اور کاروانِ علم۔ ص:۲۷۵)

 

کارنامے

 

مفتی صاحب کے کارناموں کا دائرہ وسیع ہے، انھوں نے بحیثیت مدرس، مدبر، مفتی، مصنف، سیاست داں، قانون داں اور ماہر معاشیات کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں، ذیل میں ان کے چند کارناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

۱) بحیثیت مدرس :

دارالعلوم کراچی سے عالمیت کی سند کے حصول کے بعد تدریس کی ذمہ داری سنبھالی، اور بڑے کامیاب مدرس کے طور پر اب تک تدریسی خدمات انجام دیتے چلے آ رہے ہیں، ان کی تدریس خصوصاً فقہ اور حدیث کے سلسلے میں کافی مقبول ہے، وہ حدیث شریف کی مشہور کتاب جامع الترمذی کے ایک کامیاب مدرس ثابت ہوئے، اس کتاب کے دروس کا مجموعہ ’’ درسِ ترمذی‘‘ کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے، جو بر صغیر کے طلبائے مدارس میں بے انتہا مقبول ہے، ترمذی کے دروس کی بے انتہا مقبولیت کے بعد انھیں حدیث کی سب سے بڑی کتاب صحیح بخاری کے درس کی ذمہ داری دی گئی، اس میں بھی انھوں نے خوب مقبولیت حاصل کی، اس کتاب کے دروس کا مجموعہ بھی ’’انعام الباری‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہو چکا ہے، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ایک اہم خاص بات یہ بھی ہے کہ اسفار کے بہت زیادہ ہونے اور دیگر بہت سی سیاسی، سماجی و معاشی مصروفیات کے باوجود ان کے مدرسہ کی تدریسی مصروفیت میں کسی طرح کا فرق نہیں ہوتا، وہ ان تمام مشغولیات کے ساتھ بھی اپنی تدریسی ذمہ داری بخوبی نبھاتے ہیں۔

احقر کی ناقص معلومات اور محدود خیالات کے باوجود یہ بات یقینِ کامل کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وقت کی پابندی اور اس کے ایک ایک لمحہ سے فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔

دین اسلام ویب سائٹ پر اس سلسلہ میں درج ذیل تفصیلات ملتی ہیں : ’’جامعہ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری کی مسند تدریس پر رونق آراء شخصیت شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم (سابق جسٹس شریعت بنچ، سپریم کورٹ آف پاکستان ) علمی وسعت، فقیہانہ بصیرت، فہم دین اور شگفتہ طرز تفہیم میں اپنی مثال آپ ہیں، درسِ حدیث کے طلبہ اس بحر بے کنار کی وسعتوں میں کھو جاتے ہیں، اور بحث و نظر کے نئے نئے افق ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتے ہیں، خاص طور پر جب جدید تمدن کے پیدا کردہ مسائل سامنے آتے ہیں تو شرعی نصوص کی روشنی میں ان کا جائزہ مفتی صاحب کا وہ میدان بحث و نظر ہے جس میں ان کا ثانی نظر نہیں آتا ‘‘۔

۲)بحیثیت مفتی :

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جس طرح ایک کامیاب مدرس ہیں، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اہمیت ان کی میدان افتاء میں ہے، عالمیت سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی آپ فتوی نویسی میں مشغول رہے، اور تادم تحریر ہزاروں فتاویٰ آپ کے دستخط کے ساتھ جاری ہوئے، ان کے بعض فتاویٰ ویب سائٹ ’’دین اسلام ‘‘پر بھی پیش کئے جاتے ہیں، فتوی نویسی کے سلسلہ میں ان کی سوچ اور علمی گہرائی مسلم مانی گئی ہے، اب بھی دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء میں کوئی اہم سوال شرعی حکم کے سلسلہ میں آئے تو جواب میں مفتی صاحب کے دستخط بھی رہتے ہیں۔

بحیثیت جج :

مفتی صاحب ایک کامیاب قانون ساز اور قانون داں بھی ہیں، جن کی پاکستان میں غیر معمولی اہمیت ہے، جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ قانون ساز کمیٹی کے اہم رکن بھی رہے ہیں، مزید برآں ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۲ء فیڈرل شریعہ کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدہ پر فائز رہے ہیں، اسی دوران شرعی معاملات سے متعلق کئی اہم فیصلے انھوں نے صادر فرمائے ہیں، اس سلسلہ میں عدالتی فیصلہ کے نام سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی جو شرعی عدالت عظمیٰ کے آٹھ فیصلوں پر مشتمل ہے۔

بحیثیت ماہر معاشیات :

مفتی صاحب نے جس چیز سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے وہ ان کا معاشیات اسلامی میں ماہر ہونا ہے، دنیا کے ان گنے چنے ماہر معاشیات اسلام میں مفتی صاحب کا نام ہے، جنھوں نے اسلامی بینکنگ کا نظریہ پیش کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کے معاشی نظام پر چھا گیا ہے، چنانچہ اب کئی یورپی، افریقی عرب اور مشرق بعید کے ممالک میں اسلامک بینکنگ نظام وہاں کی معیشت کا مضبوط ستون ہے، مفتی صاحب کے دنیا بھر کے اسفار میں زیادہ سفروں کا تعلق معاشیات ہی کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں سے ہے، معاشیات کے کئی اہم اعزازات سے مفتی صاحب کو نوازا جا چکا ہے، در حقیقت مفتی صاحب کی سوچ و فکر اس پر مرکوز تھیں کہ کوئی ایسا معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا جائے، جو موجودہ بینکنگ سے علاحدہ ہو، موجودہ بینکنگ سود پر مبنی ہے، جو اسلامی شریعت کے مطابق جائز نہیں، لہٰذا کروڑ ہا کروڑ مسلمان اس سے بیزار ہیں، اسی غور و فکر میں انھوں نے کراچی میں ایک مرکز قائم کیا، جو اس سلسلہ میں تحقیق میں لگا رہا، مزید یہ کہ دنیا بھر کے ایسے مراکز سے انھوں نے روابط قائم کئے، خصوصاً ’’مجمع الفقہ الاسلامی، جدہ ‘‘کے تعاون سے اس مرکز کے تحقیقی کاموں میں مزید نکھار آیا، کئی علمی مجلسیں منعقد ہوئیں، اور کامیاب پروگرام منعقد ہوتے رہے، نتیجۃ ً اسلامی معاشی نظام کا قیام عمل میں آیا۔

مفتی صاحب بحیثیت واعظ و مقر ر :

مفتی صاحب ایک اہم مقر ر اور واعظ بھی ہیں، شریعت اسلام کے مختلف موضوعات کو انھوں نے اپنے وعظ میں سمیٹا ہے، ان کے وعظ کافی مشہور ہیں، اکثر وعظ شائع بھی ہوئے ہیں۔ ’’اصلاحی خطبات ‘‘نامی کتاب ان کے مواعظ کا مجموعہ ہے، جس کی اب تک کئی جلدیں آ چکی ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے، جامع مسجد بیت المکرم کراچی میں ہر جمعہ، بعد نماز عصر وعظ ہوا کرتا تھا، اب ہر اتوار کو ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریک خطاب ہو سکیں، مفتی صاحب کی تقاریر کے اکثر موضوعات احکامات شریعت اسلام پر مبنی ہیں، جن میں عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت و اخلاق کے اکثر موضوعات اور حقوق العباد شامل ہیں۔

 

مفتی صاحب اور تصوف وسلوک

 

جیسا کہ تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ مفتی صاحب کا خاندان علمی اور دینی خاندان ہے، دیوبند جیسا دینی و علمی مرکز ان کی جائے ولادت ہے، لہٰذا دیگر علمی و دینی کاموں کے ساتھ تصوف کا حامل ہونا بھی از حد ضروری ہے، مسلک دیوبند سے مفتی صاحب کا تعلق ہے، تصوف میں وہ اپنا روحِ رواں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو بتلاتے ہیں کہ انھوں نے صحیح اور خالص تصوف کو غلو و مبالغہ سے علیٰحدہ کر دیا ہے، مفتی صاحب نے تصوف میں بھی کافی خدمات انجام دی ہیں، کئی حضرات ان سے مستفید ہوئے ہیں، اور ہو رہے ہیں۔

 

مفتی صاحب بحیثیت صحافی

 

مفتی صاحب میدانِ صحافت کے بھی ایک اہم شہ سوار ہیں، بحیثیت صحافی مفتی صاحب کا دائرہ کافی وسیع ہے، اس سلسلہ میں ان کا اہم کارنامہ ’’البلاغ ‘‘ ہے، جس کا آغاز ۱۹۶۷ء میں ہوا، اور تا دمِ تحریر یہ سلسلہ جاری ہے، البلاغ کا اداریہ مفتی صاحب کے قلم سے رقم ہوتا ہے، البلاغ کا مقصد در حقیقت اصلاحی پیغام عام کرنا ہے، تاہم وہ اردو ادبی معیار کا ایک بلند پایہ رسالہ بھی تسلیم کیا گیا ہے، خصوصاً مفتی صاحب کے جتنے سفرنامے شائع ہوئے ہیں پہلے البلاغ ہی کا حصہ رہے ہیں، اسی طرح البلاغ میں اردو کے بعض ادیبوں اور نقادوں کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں، خصوصاً ماضی قریب کے اہم افسانہ نگار، مایہ ناز نقاد محمد حسن عسکری کے بلند پایہ مضامین بھی البلاغ کا حصہ رہے ہیں۔

 

مفتی صاحب بحیثیت اردو ادیب

 

اردو ادبی دنیا میں مفتی صاحب نے اگرچہ زیادہ شہرت حاصل نہیں کی، تاہم ان کی تحریریں اس قابل ضرور ہیں کہ ادب کا حصہ بنیں، بعض ایسی دینی کتب پر انھوں نے مقدمے لکھے ہیں جو ادبی اعتبار سے بھی اعلیٰ معیار کے ہیں، مثلاً مفتی صاحب نے اپنے بھائی مولانا محمد ولی رازی کی تصنیف ’’ہادی عالمﷺ ‘‘ کا مقدمہ لکھا، اسی طرح ایک شعری مجموعہ ’’قوس‘‘ پر ابتدائیہ لکھا، نیز اپنے بڑے بھائی محمد زکی کیفی کے شعری مجموعہ ’’کیفیات‘‘ پر حرفِ آغاز کے نام سے ایک طویل ابتدائیہ لکھا، ان تمام چیزوں کے مطالعہ سے مفتی صاحب کے ادبی مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے۔

 

مفتی صاحب بحیثیت نثر نگار

 

مفتی صاحب بہترین نثر نگار بھی ہیں، خصوصاً شخصیات کے سلسلہ میں وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں، کسی شخصیت سے اپنے تعلق کو ظاہر کرنے میں الفاظ کے دریا بہاتے چلے جاتے ہیں، اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ذرا چشمِ تصور سے کام لوں تو یہ کل کی بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت والد ماجدؒ با حیات تھے، آپ کے جلوۂ جہاں آراء کی زیارت ہر وقت میسر تھی، اور ان کی دلآویز شخصیت میں ہر مشکل کا حل، ہر پریشانی کا علاج اور ہر غم و فکر کا مداوا موجود تھا، ہزار ذہنی الجھنوں کے عین درمیان جب قدم ان کے سادہ مگر با وقار کمرے کی طرف بڑھتے تو ان کی شفقتوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہر الجھن کافور ہو جاتی اور ایسا محسوس ہوتا جیسے کائنات کا سارا روحانی سکون و اطمینان سمٹ کر اس کمرے میں جمع ہو گیا۔

حادثہ کو دو سال گزر چکے، لیکن اب بھی یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے وہ ہماری ہر ہر نقل و حرکت میں شریک اور ہر ہر قدم پر ساتھ ہیں، کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو اچانک تصور کو ان کی آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی کبھی تو اس آواز کا لہجہ ہی نہیں، اندازِ تخاطب بھی ایک پیکرِ محسوس میں تبدیل ہو کر دل کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔

تصور کی دنیا میں حضرت والد صاحبؒ سے ہر وقت اس قدر قریب ہونے کے باوجود جب کبھی عالم واقعات میں اپنے گرد و پیش کو دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اباجی کی زندگی کے زمانہ کو صرف دو سال نہیں گذرے بلکہ صدیاں بیت گئی ہیں، وہ کائنات کچھ اور تھی اور یہ کچھ اور ہے اور دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بہار اور خزاں اور آبادی اور ویرانے کے درمیان ہو سکتی ہے ‘‘۔ (نقوش رفتگاں )

مذکورہ اقتباس سے مفتی صاحب کی نثر نگاری کا اندازہ ہوتا ہے، انتہائی دلچسپ اور درد بھرا اندازِ بیان ان کی خصوصیت ہے۔

اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر ایک مضمون رقم کیا، جو نقوش رفتگاں میں شامل ہے، ایک ماں کی محبت میں لڑکا جو کچھ سوچ سکتا ہے، دیکھئے مفتی صاحب نے اسے کس خوبصورت انداز میں الفاظ میں پرو دیا ہے :

’’اس دنیا میں ماں باپ کی محبت و شفقت کا کوئی بدل نہیں، یہاں پر ہر ایک محبت میں کوئی نہ کوئی غرض ضرور شامل ہوتی، لیکن اولاد کے لیے صرف ماں باپ کی محبت ایسی ہے جو بالکل بے غرض ہوتی ہے، اس دنیا میں کوئی کسی کے دکھ درد پر اس خلوص کے ساتھ نہیں تڑپ سکتا جس خلوص کے ساتھ ماں باپ اپنی اولاد کے لیے تڑپتے ہیں، اس سایے سے محرومی کوئی معمولی محرومی نہیں اور آج جب یہ تصور کرتا ہوں کہ اب ہمیں بیٹا کہنے والا باقی نہیں رہا تو نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے ‘‘۔ (نقوش رفتگاں۔ ص:۱۶۳)

اسی مضمون میں لکھتے ہیں :

’’اولاد پر ماں باپ کے احسانات کو کون شمار کر سکتا ہے ؟ ہم نے تو انھیں جب بھی دیکھا ہمارے ہی کسی نہ کسی فائدے کے کام میں مصروف دیکھا، لیکن بحیثیت ماں کے ان کے جو بے شمار احسانات احقر پر ہیں، ان کے علاوہ وہ میری استاذ بھی تھیں، میرے بچپن میں جب حضرت والد صاحب قدس سرہ پاکستان تشریف لائے تو یہاں کوئی باقاعدہ دینی درسگاہ نہیں تھی، اس لئے احقر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، اس دوران والدہ صاحبہ (قدس سرہا)سے احقر نے ’’سیرت خاتم الانبیاء ‘‘اور ’’بہشتی گوہر ‘‘کا معتد بہ حصہ پڑھا اور یہی دو کتابیں میری اردو کی تعلیم کی کل کائنات تھی، اس سے پہلے یا اس کے بعد احقر نے اردو زبان درساً کبھی نہیں پڑھی، اس لحاظ سے بھی حرف شناسی کی جو کوئی مقدار احقر کے پاس ہے، وہ بنیادی طور پر والدہ صاحبہ ہی کے واسطے سے ہے اور انہی کی رہین منت ہے ‘‘۔ (نقوش رفتگاں۔ ص:۱۶۰، ۱۶۱)

خلاصہ یہ ہے کہ مفتی صاحب کی نثر نگاری انتہائی شیریں، جاذبیت سے پُر، گنجلک اور خشک پن سے خالی ہے، اسی خصوصیت نے ان کو ایک مقبول نثر نگار بنایا ہے۔

 

مفتی صاحب بحیثیت شاعر

 

یوں تو اردو ادبی دنیا میں مفتی صاحب ایک صحافی، مضمون نگار، سفرنامہ نگار ہی کی حیثیت سے شناسا ہیں، تاہم مفتی صاحب نے بہت اچھی نظمیں بھی کہی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صنف نثر میں مفتی صاحب نے جس طرح طبع آزمائی کی ہے اسی طرح صنف نظم کے بھی وہ تخلیق کار ہیں، ان کی شاعری میں سب سے زیادہ مشہور وہ مرثیہ ہے، جو انھوں نے اپنے والد محترم حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحبؒ کی وفات پر کہا ہے، اس کے چند اشعار یہ ہیں :

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج

کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

کیا نخل تمنا کو مرے آگ لگی ہے

رہ رہ کے یہ سینے سے جو اٹھتا ہے دھواں آج

ابا مرے جنت کے بسانے کو چلے ہیں

ائے موت! ترا مرتبہ پہنچا ہے کہاں آج

یوں برق و شر ر نے مرا پھونکا ہے نشیمن

باقی ہے کوئی شاخ، نہ تنکوں کا نشاں آج

کبھی ہم زیست ہارے نہ تھے کوئی

تو جیت گئی مگر فصل خزاں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے

اور آنکھ ہے ظالم! کہ بس اک خشک کنواں آج

مرثیے کے یہ چند اشعار مفتی صاحب کی شاعری کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں، جذبات کو نظم کی لڑی میں پرونے کا انہیں بہترین ہنر آتا ہے، مرثیہ کا یہ شعر تو کافی مشہور ہوا :

آسی یہ غنیمت ہیں تری عمر کے لمحے

وہ کام کر اب، تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج

اس مرثیہ کے علاوہ چند منا جاتی نظمیں ہیں، اور بھی کئی نظمیں مفتی صاحب کی ہیں، لیکن اب تک ان کے کلام کا مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔

 

مفتی صاحب بحیثیت نقاد

 

مفتی صاحب نہ صرف ایک تخلیق کار، خاکہ نگار، سفرنامہ نگار اور شاعر ہیں بلکہ ان کے اندر ایک نقاد کی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

’’تنقید‘‘ جانچ اور پرکھ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ چیز ان کے سفرناموں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے، جس علاقہ اور قوم کو وہ دیکھتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتے ہیں، ایک ماہر نقاد کی طرح اس کو جانچتے اور پرکھتے بھی ہیں، اچھائی کو سراہتے ہیں، دوسری اقوام کو ان اچھائیوں کے اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، نیز برائیوں پر تنقید کرتے ہیں، اور خود اس قوم کو اور دیگر اقوام کو ان سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

جہاں تک ادبی تنقید کا معاملہ ہے، تو اس سلسلہ میں وہ ’’نعتیہ نقاد ‘‘کہلائے جانے کے مستحق ہیں، جس کے لیے ان کا ایک مضمون ’’نعت رسول اور ان کے آداب ‘‘ بطور دلیل کافی ہے، جو ماہنامہ ’’ندائے شاہی ‘‘کی خصوصی اشاعت ’’نعت نبیﷺ نمبر ‘‘میں شائع ہوا ہے۔

 

مفتی صاحب بحیثیت سفرنامہ نگار

 

مفتی صاحب کے سفرناموں کی تعداد کافی زیادہ ہے، ان کے سفر نامے کافی دلچسپ اور معلوماتی ہیں، اگر چہ ان کے سفرنامے زیادہ تر دینی نوعیت کے ہیں، تاہم وہ معلومات کا خزانہ ہیں۔

مفتی صاحب نے دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیا اور تقریباً ہر سفر کے احوال کو قلمبند کیا، وہ اپنے سفرناموں میں کبھی ایک ماہر ادیب کی طرح الفاظ کے دریا بہاتے ہیں، تو کہیں ایک نقاد کی طرح کسی قوم کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، خوبیوں کو سراہتے ہیں، اور خامیوں پر سخت نقد کرتے ہیں، اپنی ملت و قوم کو ان کی خوبیاں اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، خامیوں سے بچنے کا پیغام سناتے ہیں۔

مفتی صاحب ایک کثیر الاسفار اور عظیم سفرنامہ نگار ہیں، ان کے سفرنامے اردو کی غیر افسانوی صنفِ ادب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔

مفتی صاحب نے سفرنامہ ۱۹۶۳ء سے لکھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری وساری ہے۔

 

مفتی صاحب کی اہم خصوصیت

 

مفتی صاحب نے اپنی عمر کی پانچ دہائیوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں کہ اس کی نظیر مشکل ہی سے ملے گی، ادبی و دینی، علمی و معاشی، سیاسی و قانونی ہر فن میں کمال حاصل کیا، تینوں زبانوں (اردو، عربی، انگریزی ) کے ادب سے وافر حصہ پایا اور تینوں زبانوں میں ان کی کتابیں مقبول ہیں۔

آخر مفتی صاحب نے اتنی کم مدت میں مختلف جہتوں کے ایسے ستاروں کو کیسے چھو لیا ؟اس کا جوب انہیں کے اس شعر سے ملتا ہے :

آسی یہ غنیمت ہیں تیری عمر کے لمحے

وہ کام کر اب، تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج

مفتی صاحب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ وقت کے بے انتہا قدر داں ہیں، وقت کو تول تول کر خرچ کرتے ہیں، ایک لمحہ ضائع جانے نہیں دیتے، ابن الحسن عباسی لکھتے ہیں :

’’وقت کی قدر اور راہِ علم میں محنت کا جذبہ ان کو اپنے عظیم والد سے ورثہ میں ملا ہے، وہ زندگی کا ایک ایک لمحہ تول تول کے خرچ کرتے ہیں، حتیٰ کہ جب کسی محفل ومجلس میں وہ جاتے ہیں اور ابھی ان کے خطاب میں کچھ وقت باقی ہو تو اس عرصہ میں وہ تسبیح لے کر ذکر شروع کر دیتے ہیں، تاکہ یہ مختصر سا وقت بھی رائے گاں نہ جائے، سفر کے دوران بھی وہ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں اور کوئی لمحہ ضائع جانے نہیں دیتے ‘‘۔ (متاع وقت اور کاروانِ علم)

در حقیقت مفتی صاحب کو وقت کا احساس بچپن ہی سے تھا، کمسنی ہی سے وہ وقت کے بے انتہا قدر داں رہے، کھیل کود اور چھٹی کے اوقات کو بھی پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں صرف کرتے تھے۔

 

مفتی صاحب کے عہدہ جات و مناصب

 

مفتی صاحب سابقہ اور موجودہ درج ذیل اہم عہدہ جات و مناصب کے حامل ہیں۔

جسٹس :سپریم کورٹ پاکستان شریعت بنچ ۱۹۸۲ء تا ۲۰۰۴ ء

مستقل رکن و نائب صدر :مؤتمر عالم اسلامی کے اہم شعبہ اسلامک فقہ اکیڈیمی (مجمع الفقہ الاسلامی )جدہ سعودی عرب

نائب صدر :جامعہ دارالعلوم کراچی، پاکستان

صدر :مرکز اسلامی معیشت، پاکستان

رکن :مرکز تحقیقات اسلامیہ، پاکستان

چیرمین :شریعت اسٹانڈرڈ کونسل، اکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیشن آف اسلامک فینانشیل انسٹی ٹیوشن، بحرین

چیرمین :شریعہ بورڈ، سنٹرل بینک آف بحرین، بحرین

چیرمین :شریعہ بورڈ، امنہ انوسٹ منٹ لمیٹیڈ، سری لنکا

چیرمین :شریعہ بورڈ، ابو ظبی اسلامک بینک، متحدہ عرب امارات

رکن :شریعہ سوپر وائزری بورڈ، گائیڈنس فینانشیل گروپ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ

چیرمین :شریعہ بورڈ، میزان بینک لمیٹیڈ، پاکستان

رکن وچیرمین :شریعہ بورڈ، ایم ایس، بی سی، امنہ فینانس، دبئی متحدہ عرب امارات

چیرمین :شریعہ بورڈ، بینک اسلامی پاکستان لمیٹیڈ، پاکستان

مشیر :جمعیۃ العلماء، یوایس اے، امریکہ

یہ وہ چند عہدہ جات و مناصب ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے مفتی صاحب مد ظلہ کو دئے گئے ہیں، ان کے زیادہ تر عہدہ جات و مناصب کا تعلق معاشیات اسلام (اسلامک فینانس )سے ہے۔

 

بحیثیت مصنف

     

مفتی صاحب نے چھوٹی بڑی کئی دینی و علمی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان کی کتب کی فہرست کافی طویل ہے جو اردو، عربی اور انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔

ابن الحسن عباسی مفتی صاحب کے تصنیفی مقام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی لکھی ہوئی مسلم شریف کی شہرۂ آفاق لیکن نامکمل شرح فتح الملہم کا تکملہ لکھا اور ایسا لکھا کہ اگر اور کچھ بھی نہ لکھتے تو یہ ان کی زندگی کی قیمت وصول کرنے کے لیے کافی تھا، اگر کسی مصنف کے حصہ میں صرف یہی ایک کتاب آ جائے تو اس کو زندہ جاوید بنا دے۔ ‘‘(متاعِ وقت اور کاروانِ علم:۲۷۵ )

عالم عرب کے نہایت ہی مشہور و معروف اور باعثِ صد ناز عالمِ دین علامہ یوسف القرضاوی نے مذکورہ کتاب کے مقدمہ میں اپنے اس خیال کا نہایت ہی طاقتور و مدلل انداز میں اظہار کیا ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے حدیث پاک کے تعلق سے جو علمی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں وہ اس زمانہ کی سب سے اہم ہیں۔

 

اردو کتابیں

 

(۱) انعام الباری شرح صحیح البخاری، (۲)اسلام اور جدید معیشت و تجارت، (۳) اندلس میں چند روز، (۴) اسلام اور سیاست حاضرہ، (۵) اسلام اور جدت پسندی، (۶) اصلاح معاشرہ، (۷)اصلاحی خطبات، (۸) اصلاحی مواعظ، (۹)اصلاحی مجالس، (۱۰) احکام اعتکاف، (۱۱) اکابر دیوبند کیا تھے ؟(۱۲)اپنے گھروں کو بچائیے، (۱۳) آسان نیکیاں، (۱۴) بائبل سے قرآن تک (حواشی)، (۱۵) بائبل کیا ہے ؟(۱۶) پر نور دعائیں، (۱۷) تراشے، (۱۸) عیسائیت کیا ہے ؟ (۱۹) علوم القرآن، (۲۰) عدالتی فیصلے، (۲۱) فرد کی اصلاح، (۲۲) فقہی مقالات، (۲۳) تاثر حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ، (۲۴) میرے والد میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ، (۲۵) ملکیت زمین اور اس کی تجدید، (۲۶) نشری تقریریں، (۲۷) نقوش رفتگاں، (۲۸) نفاذ شریعت اور اس کے مسائل، (۲۹) نمازیں سنت کے مطابق پڑھئے، (۳۰) ہمارے عائلی مسائل، (۳۱) ہمارا معاشی نظام، (۳۲) ہمارا تعلیمی نظام، (۳۳) دینی مدارس کا نصاب و نظام، (۳۴) تقلید کی شرعی حیثیت، (۳۵) جہانِ دیدہ، (۳۶) حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق، (۳۷) حجیت حدیث، (۳۸) حضورﷺ نے فرمایا، (۳۹) حکیم الامت کے سیاسی افکار، (۴۰) درس ترمذی، (۴۱) دنیا مرے آگے، (۴۲) ذکرو فکر، (۴۳) ضبط ولادت، (۴۴) تبصرے، (۴۵)تذکرے، (۴۶) تقریر ترمذی، (۴۷) سود پر تاریخی فیصلہ (۴۸) فتاویٰ عثمانی، (۴۹) قادیانی فتنہ اور ملت سلامیہ کا موقف، (۵۰) حدود آرڈینس۔ ایک علمی جائزہ

 

عربی کتب

 

(۱) ما ھی النصرانیۃ ؟ (ترجمہ) (۲) نظرۃ عابرۃ حول التعلیم الاسلامی، (۳) احکام الذبائح، (۴) بحوث فی قضایا فقیہۃ المعاصرہ، (۵) تکملہ فتح الملھم (شرح صحیح مسلم )

 

انگریزی کتب و ترجمے

 

Islamic Months

Quranic Science

What is Christianity

The Historic Judgement of Interest

The Rule of I`tikaf

The Language of The Friday Khutbah

Discourses on The Islamic Way of Life

Easy Good Deeds

Sayings of Muhammadﷺ

The Legal Status of Following a Madhab

Contamporary Fatawa

Perform Salah Correctly

The Authority of Sunnah

The Noble Qur`an(2vols)

Spritual Discourses(4vols)

An Introduction to Islamic Finance

Our Economic System

Radiant Prayers(pocket size)

Qasdianism on Trail

Islamic and Modarnism

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) مفتی تقی عثمانی بحیثیت سفر نامہ نگار، از: مفتی مجاہد قاسمی۔

(۲) متاعِ وقت اور کاروانِ علم، از: ابن الحسن عباسی

(۳) مولانا کی تصنیفات۔

(۴) دین اسلام ویب سائٹ۔

 

 

 

(۸) حضرت مولاناسید سلمان حسینی ندوی

دامت برکاتہم     

 

                   ولادت: ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴ء

 

 

 

 

 

آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی

اللہ کے شیروں کو، آتی نہیں روباہی

 

 

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            سلمان حسینی

والد کا نام:      (مولانا )محمد طاہر حسینی

جائے پیدائش: منصور پور، مظفر نگر، یوپی، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۱۳۷۴ھ مطابق۱۵ ستمبر۱۹۵۴ء

ابتدائی تعلیم:    شعبۂ حفظ، دار العلوم ندوۃ العلماء

ثانوی و اعلیٰ تعلیم:       دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

تکمیل:         جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض

موجودہ اہم ذمہ داری: استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء، و صدر جمعیت شباب الاسلام

حالیہ پتہ:               دار الغرباء، عدنان پلی، دوبگا، لکھنو، انڈیا

 

 

ولادت

 

حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی پیدائش۱۳۷۴ھ ۱۵ ستمبر۱۹۵۴ء کو ان کے نانیہالی مکان (مکان ڈاکٹرسید العلی حسنی، گوئن روڈ لکھنو)میں ہوئی۔

 

خاندان

 

حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے والد کا نام سیدمحمد طاہر حسینی ہے، مولانا سید محمد طاہر حسینیؒ (سابق مددگار ناظم ندوۃ العلماء )کے بارے میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم (ناظم ندوۃ العلماء لکھنو )کہتے ہیں کہ: ’’آپ ضلع مظفر نگر کے مشہور و مردم خیز قصبہ منصور پور کے محترم گھرانہ کے (جس کا تعلق سادات بارہہ سے ہے )معزز فرد تھے، ہندوستان کے مسلم اقتدار کے ایک عہد میں یہ خاندان خصوصی اثرو شہرت کا مالک رہا ہے، اس میں اہم شخصیتیں پیدا ہوئیں، موجودہ عہد میں بھی اس میں معروف افراد پیدا ہوئے اور ان کا اپنے وقت کے بزرگوں سے تعلق رہا، اسی مناسبت سے مولانا طا ہر صاحب کو بھی اپنے زمانے کی مشہور دینی شخصیتوں سے وابستہ ہونے کا موقع ملا، ان کو خصوصیت سے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مشہور بزرگ مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہم سے فیض حاصل ہوا، تعلیم بھی انہیں شیوخ کی رہنمائی میں حاصل کی، جس میں حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی توجہات کا ابتداسے حصہ رہا، اور دینیات کی اعلیٰ تعلیم سے فراغت حضرت شیخ الحدیث صاحب کے درس سے حاصل کی، اس کے بعد ندوۃ العلماء میں مولانا سید ابو الحسن علی حسنی صاحب ندویؒ کی سرپرستی میں عربی کی صلاحیت بڑھانے اور استعداد کو ترقی دینے میں ایک سال کا وقت گزارا۔ (بانگ حراء، خصوصی شمارہ)

 

والد ماجد مولانا سید محمد طاہر منصورپوری

 

مولانا محمد طاہر حسینی مظاہریؒ کے بارے میں ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی (معتمد تعلیمات، ندوۃ العلما ء، لکھنو)لکھتے ہیں :

’’حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہ کے خلیفہ و مجاز تھے، اور انہی کے توسط سے ان کی شادی حضرت مولانا ڈاکٹر عبد العلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوئی، کسب حلال کے لئے چھوٹی اور معمولی قسم کی تجارت بھی کی، گھاٹا اٹھایا، مشقتیں برداشت کیں، مگر ایک پیسہ بھی غلط طریقہ سے ان کے ہاتھ تک نہیں پہنچا، ان کی صداقت، طہارت و تقویٰ و خشیت کے قائل بزرگان دین اور اہل اللہ تھے۔

مولانا محمد طاہر صاحب کو فقہ و دینیات سے مناسبت تھی، حجاز میں پڑھنے کا حاصل یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہاں ادب عربی میں مشق و مہارت پیدا کی جائے، مولانا طاہر صاحب نے مجھ سے مدینہ منورہ میں کہا کہ ادب سے مجھے کوئی مناسبت نہیں ہے، مگر فقہ و حدیث کی کتابیں پڑھتا ہوں تو ذہن کھل جاتا ہے، میں نے کہا مناسب یہی ہے کہ آپ دینیات کا مطالعہ بڑھائیں، وہ فقہ و فتاویٰ سے مناسبت رکھتے تھے، خاموش طبیعت، تقریر و تحریر سے ان کو دلچسپی نہیں ہوئی، مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی اولاد میں یہ سب ہنر جمع ہو گئے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے صاحبزادے مولانا سید سلمان حسینی ندوی استاد حدیث دارالعلوم کو ایک پر جوش و بے باک خطیب، ملک کے اندر و باہر مقبول، صاحبِ زبان و قلم دیکھ لیا اور سب ہی صاحبزادگان ماشاء اللہ حافظِ قرآن، عالم دین، صورت وسیرت میں شریعت کے پابند قابل عزت و احترام ہوئے ‘‘۔

ایک غیر معروف مرد عارف یعنی مولانا محمد طاہر صاحب کے متعلق آپ کے فرزند حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی فرماتے ہیں : ’’ وہ حضرت اقدس مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ کی تربیت میں بچپن سے رہے، اور ان کو بہت عزیز رہے، پھر وہ حضرت شیخ الحدیثؒ کے منظورِ نظر رہے، حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ سے تعلق شاگردی کا بھی رہا، اور دعوتی سرگرمی کا بھی، ۱۹۷۴ء میں حضرت شیخ الحدیثؒ نے ان کو خلافت و اجازت سے نوازا، خطوط میں ان سے حضرت شیخ کی محبت و تعلق کا اظہار ہوتا ہے، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے وہ گویا داماد بھی تھے، اور دفتر نظامت میں ان کے مدد گار سکریڑی مالیات بھی، حضرت والا ان کے بہت قدر داں تھے اور ان کے حال پر بہت کرم فرما۔

اس سب کے باوجود وہ ’’کنز مخفی‘‘ بنے رہے، تواضع تو ان کے اندر فطری اور طبعی تھا، اس کے لئے ان کو کسی تقاضۂ نفس کو دبانا نہیں پڑتا تھا، پیری اور مشیخت کے کسی بھی انداز سے وہ طبعاً کوسوں دور تھے، خلافت و اجازت اور سلسلۂ تصوف کو انہوں نے ’’پیری مریدی‘‘ کا ذریعہ نہیں بنایا، بہت اصرار سے کچھ ’’فقیر‘‘ بیعت ہو گئے تو انہیں معمولات بتا دئیے، ہم گھر کے لوگوں کو کبھی پتہ نہیں چل پاتا تھا کہ ان کا کوئی مرید بھی ہے، کبھی کسی مرید کے تذکرہ سے معلوم ہو سکا تو ہو سکا، اخفائے نفس کا حال یہ تھا کہ جب تک صحت رہی تو خود ان کے معمولات کا صحیح پتہ نہ چل سکا، بیماری میں اضطراری حالت اور بیقراری کی کیفیت میں دعاء و ابتہال، گریہ و زاری، رحم و مغفرت کی درخواست مسلسل، اور دنیا کی کسی بات کے زبان پر نہ آنے، اور صرف خدا کی چوکھٹ پر عفو و کرم کی صدا لگاتے رہنے کی ادا نے جہاں ان کے اپنے پروردگار و مالک سے تعلق کا پردہ فاش کیا، وہیں ہر دل کو جس نے یہ رٹ سنی پگھلا دیا، تڑپا دیا، اور ایک اضطراری کیفیت انابت پیدا کر دی، شاید آخری دور کی تبلیغ و دعوت یہی ان کی رٹ تھی، جوہر وارد و صادر کو انسان کی بے کسی و بے بسی کا جہاں یہ نمونہ دکھاتی تھی، وہیں خدا کی قدرت، اس کی عظمت و جلال، اپنے بندوں کے ساتھ اس کے مختلف انداز، اور اس کی ذات پر یقین کا زندہ سبق بھی دیتی تھی‘‘۔ (بانگ حرا، خصوصی شمارہ)

 

والدہ ماجدہ سید فاطمہ بی

 

مولانا کی والدہ ماجدہسید فاطمہ بی کے بارے میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم (ناظم ندوۃ العلماء لکھنو)لکھتے ہیں : ’’عزیزی مولوی سید سلمان حسینی ندوی کی والدہ سیدہ فاطمہ بنت ڈاکٹر حکیم مولانا سید عبد العلی حسنیؒ ایک صالح خاتون تھیں، وہ اپنی نیک صفت و اخلاق کی بنا پر اپنے خاندان میں سب کے حسنِ ظن اور تعریف کی مستحق رہیں، انھوں نے لکھنو میں ۷۱ سال کی عمر میں ۱۱ نومبر ۱۹۹۸ء کو اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف رحلت کی، انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

مولانا حکیم ڈاکٹرسید عبد العلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادہ برادر مکرم مولانا سید محمد الحسنی مرحوم کو علم دین کی اعلیٰ تعلیم دلائی، بشمول سید فاطمہ صاحبہ کے تمام صاحبزادیوں کو بھی ضروری تعلیم دی، جس میں دینی پہلو غالب تھا، ان کو ان کی ابتدائی عمروں میں شہر کے ایک مولوی صاحب تعلیم دینے آتے تھے، جنھوں نے قرآن مجید کا ناظرہ اور اردو وغیرہ کی تعلیم دی، ذرا بڑی ہونے پر ان کے والد صاحب بزرگوار نے خود تعلیم دی، اور قرآن مجید کو با معانی پڑھایا، چنانچہ قرآن مجید کے شروع کے پاروں کی عربی ان کو باقاعدہ پڑھائی اور ان کا ترجمہ پڑھایا، اور دینی کتابوں کے مطالعہ پر ان کو ڈالا، چنانچہ ایک خاتون کے لیے جتنا علم مطلوب ہوتا ہے وہ ان کو حاصل ہوا، اور اس کی بنیاد پر ان صاحبزادیوں کو اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینے میں مدد ملی۔

مرحومہ نے اپنے بچوں کی تربیت محبت اور نرم خوئی کے ساتھ انجام دی، اس میں سختی کے تقاضے جب پیدا ہوئے تو ان کو عموماً اپنے خاوند پر چھوڑنا پڑا، وہ خود اس کے نرم پہلو پر اکتفا کرتی تھیں، لیکن اس میں عزم ہوتا تھا، اور ضروری دائرے کے اندر رکھ کر معاملہ کرتی تھیں ‘‘۔ (یادوں کے چراغ)

 

تعلیم و تربیت

 

حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے ابتدائی تعلیم گھر پراور محلہ کے مکتب میں حاصل کی، پھر دار العلوم ندوۃ العلماء کے درجہ حفظ میں داخلہ لیا، اور قرآن شریف حفظ کرنے کے بعد ساری تعلیم ابتدائیہ، ثانویہ، عالیہ، علیا(پرائمری، سکنڈری، بی -اے، اور ایم -اے )کے تمام مرحلوں کی ندوۃ العلماء لکھنو میں حاصل کی، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۷۷ء میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ الریاض سے حدیث میں ماجستیر (M.A.)کی ڈگری حاصل کی، اور ’’الفاظ الجرح والتعدیل‘‘ کے موضوع پر ایک مقالہ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں لکھا، جو ان کے استاد بھی تھے، واضح رہے کہ شیخ عبد الفتاح ابو غدۃؒ اپنے وقت کے عالم شہیر، محدث کبیر اور فقیہِ جلیل تھے۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے نانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی تھے۔

 

علمی و دعوتی خدمات

 

جب حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ علیہ ریاض سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۸۰ء میں واپس لکھنو آئے، تو دار العلوم ندوۃ العلماء کے کلیۃ الشریعہ اور اصول الدین کے شعبۂ حدیث میں بحیثیت استاد ان کا تقرر ہوا اور علوم قرآن و علوم حدیث کے محاضرات وتدریس ان کے ذمہ ہو گئے، انہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ درس دینے کا اہتمام کیا، باوجود دعوتی، تبلیغی اسفاراوردوروں کے وہ اسباق کی پابندی کا بہت خیال رکھتے تھے، اور اس بات کے ہمیشہ کوشاں رہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام تعلیم وتدریس کے کام میں مخل نہ ہونے پائے، اور تعلیم وتدریس کا عمل دعوت و تبلیغ کے کام میں حارج نہ ہو، وہ بڑے ہی فعال، عبادت گزار اور مستعد عالم کے طور پر دین کا درد لے کر ملک کے اندر اور پھر ملک کے باہر جاتے رہے، ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا مقام اور تفوق عطا کیا، ایک مرتبہ ان کے شیخ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نے ان سے یہ بات فرمائی تھی: ’’جاؤ غالب تم ہی رہو گے ‘‘، آپ کلیۃالشریعہ واصول الدین کے وکیل، پھر کلیۃ الدعوۃ والاعلام کے عمید مقر ر ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ جامعۃ الامام احمد بن عرفان الشہید(جامعہ سید احمد شہید)کے صدر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی، مجلس منتظمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممبر ہیں، نیز بعض بین الاقوامی جامعات کے رکن اور انٹر نیشنل اداروں کے ممبر و مشیر بھی ہیں، ان کی مقناطیسی شخصیت ان کو مسلسل دوسری جگہوں، ملکوں، علاقوں کے سفر پر مجبور کرتی رہتی ہے، یو رپ، امریکہ، افریقہ کے ممالک، بلاد عربیہ اور قزاقستاں، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کے محیرالعقول نتائج و اثرات کے حامل دورے فرما چکے ہیں، ان ملکوں میں انڈونیشیا، ملیشیا اور تھائی لینڈ بھی ہیں، اور بھی دوسرے ممالک جاپان وغیرہ بھی ہیں، وہاں بعض ملکوں کے سربراہان اور مؤثر شخصیات ان پروگراموں میں شریک رہی ہیں، جہاں آپ نے خطابات کئے، اس کے علاوہ انہوں نے کئی موقعوں پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی اور ان کے بعد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی بھی بھر پور نمائندگی کی، سعودی عرب، اور سری لنکا کے سفروں میں وہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے رفیق بھی رہے، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے اس پروگرام میں بھی وہ شریک تھے، جس میں تنظیم آزادیِ فلسطین (P.L.O.)کے سربراہ یاسرعرفات نے بھی شرکت کی تھی اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا وہ معرکۃ الاراء خطاب ہوا تھا جو ان کو پیش نظر رکھ کر کیا تھا، جس میں قضیۂ فلسطین کو علاقائی و قومی سطح سے بلند کر کے اسلامی و دینی سطح پر اٹھایا تھا۔

 

احقاق حق و ابطال باطل کے فریضہ کا احیا

 

مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے مراسلات اور ملاقات کے ذریعہ حکمرانوں کو دعوت حق دینے کے مواقع کا ہمیشہ پورا استعمال کیا، سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود سے بھی ملاقات کی، امیر نائف بن عبد العزیز آل سعود کو خط کے ذریعہ خطاب کیا، اس کے علاوہ مصر و شام، ایران، فلسطین، ترکی، بنگلہ دیش، پاکستان سبھی کے قضایا سے دلچسپی رکھتے ہوئے ان کے مسائل انسانی واسلامی اصولوں کے مطابق حل کرنے کی طرف توجہ دلائی، اور اپنے نانا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی اس سلسلہ میں پوری نیابت کی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نے آپ کو متعدد بار یہ وصیت فرمائی کہ بلاد عربیہ کے مسائل اور عربوں کی رہنمائی کے کام کو ترجیح دی جائے، آپ نے ان کی وفات کے بعد اپنے دعوتی کاموں میں اس کام کو سب پر ترجیح دی، گزشتہ سالوں میں عالمِ عرب پر صہیونی سیاست کا جو دور دورہ رہا ہے اس کے مقابلے کے لئے آپ نے علماء و قائدین اور اہل اقتدار کو بھی متوجہ کیا، اس سلسلہ میں بعض حکومتوں اور بعض تنظیموں کی طرف سے جو بے اعتدالی اور جانبداری اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے پیش نظر برتی گئی تھی، اس پر قد غن لگانے کا کام بھی کیا، اس میں کبھی بھی کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہ کی، اور اللہ کی محبت اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے بے چینی نے ان کو اس آیت کا مصداق کیا:۔ {یٰأَ یّھَُا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُحُبّھُُمْ وَیُحِبُّوْنَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ، ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ}(المائدہ:۵۴)۔ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے مرتد ہو گا (تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ) اللہ (ان کی جگہ پر) ایسے لوگوں کو لے آئے گا، جن سے اللہ محبت فرماتا ہو گا، اور وہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے، وہ ایمان والوں کے لئے نرم اور متواضع ہوں گے، اور کافروں کے مقابلہ میں خود دار با عزت اور غالب ہوں گے، وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے، طعن و تشنیع کرنے والے کی پرواہ نہیں کریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عنایت فرمائے، اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے ‘‘۔ [آخری وحی، جلد اول]

والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی کے الفاظ میں :

’’مولانا فکر اسلامی کے نقیب، پر جوش و بے باک خطیب، امت اسلامیہ کے نباض و طبیب، مشہور اردو و عربی ادیب، عالمی عظمت و شہرت کے حامل، آفاقی مقبولیت و محبوبیت کے مالک اور علامہ اقبال کے ان اشعار کے مصداق ہیں :

آئین جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی       اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

اور

نقش تو حید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

اور کسی شاعر نے کہا ہے :

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی

کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

(عجالۂ نافعہ، ص:۹ -۱۰)

 

علماء حق و مشائخ عصر کی توجہات

 

مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے علومِ شریعہ و  ادبیہ میں ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی، اور وہ اپنے ادارے ندوۃ العلماء کی طرف سے علم حدیث میں مزید امتیاز پیدا کرنے کے لئے محدثِ عصر علامہ ابو الفتاح ابو غدہ کی خدمت میں ریاض کی جامعۃ الامام بھیجے گئے، جہاں ان کی نگرانی میں انہوں نے الفاظ الجرح والتعدیل پر ماجستیر کا مقالہ لکھا، جس کا مناقشہ ممتاز اہل علم اور عمائدین مملکت کے سامنے ہوا، اور آپ نے اپنی علمیت اور زبان سے سبھی کو مسحور کیا، آپ کے استاد علامہ عبدا لفتاح ابو غدہ نے ایک موقع پر آپ کی اس بات کے جواب میں کہ حضرت العلامہ ریاض میں ہمارے مقالہ کے مشرف تھے، ہمیں اس کا شرف حاصل ہوا، شیخ نے فرمایا: ’’انھیں نہیں مجھے شرف حاصل ہوا، اور یہ تو ہدایت یافتہ اور ہدایت پر لانے والے موفق انسان ہیں ‘‘، ریحانۃ الہند بلکہ ریحانۃ الاسلام حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کو ان کا یہ مقالہ حضرت مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے نظر ڈالنے کے لئے بھیجا تو انہوں نے نہایت پسندیدگی کا اظہار کیا اور انہیں تہنیت پیش کی، اور اپنے مکتوب کے ذریعہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو اپنے ان جذبات سے آگاہ کیا، مولاناسید سلمان حسینی ندوی کے علمِ حدیث میں درک ورسوخ کا اعتراف ممتاز اہل تحقیق جیسے علامہ عبد الرشید نعمانی کراچوی، اور علامہ نورالدین عتر، مولانا محمد یو نس جونپوری شیخ الحدیث مظاہر علوم سہانپور، مولانا سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، مولانا ناصر علی ندوی شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء علامہ محمد تقی عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی، علامہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شریعہ بہار کر چکے ہیں، اور برصغیر کے سب سے مستند اور مؤقر تحقیقی مجلہ معارف کے ایڈیٹر جناب سید صباح الدین عبدالرحمن نے حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی سے کہا اور لکھا بھی کہ سلمان آپ کے بہترین جانشین ثابت ہوں گے، عالم اسلام کی عہد حاضر کی سب سے قد آور شخصیت علامہ یوسف القرضاوی نے آپ کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ ’’یہ الفاظ کا ترجمہ اس کی روح کے ساتھ کرتے ہیں ‘‘۔

 

علمی و تحقیقی خدمات

 

اصول حدیث پر آپ کی نظر بہت گہری ہے، آپ کا علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب تہذیب التہذیب پر تحقیقی کام اگر مکمل منظر عام پر آ جاتا، تو یقیناً علمی حلقوں کے لئے اس صدی کا سب سے بڑا تحفہ ہوتا، یہ مقالہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو اب انشاء اللہ مراکش سے طبع ہونے جا رہا ہے، (ابھی حال میں کچھ اجزاء دہلی سے شائع ہوئے ہیں )، حضرت شاہ ولی اللہ دھلویؒ کی کتاب الفوز الکبیر پر آپ کا عربی زبان میں کام اور پھر المصفی اور المسویٰ پر محققانہ و فاضلانہ کام منظر عام پر آ کر قبول عام پا چکا ہے، مولانا نے قرآن پاک کا ایسا معنی خیز ترجمہ کیا ہے، جو ایک عام قاری کو فہم قرآن کے لئے بڑی تفاسیر سے ایک حد تک بے نیاز کر دیتا ہے، اور جس کے ذریعہ پورے قرآن کو جدید عصری ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، نیز ’’ تبویب القرآن‘‘ کے نام سے مضامین قرآنی کے مطابق آیات کی ترتیب پر مولانا کا کام منظر عام پر آ چکا ہے، اور مشکوۃ شریف کی شرح اور بعض دوسرے کام ہنوز جاری ہیں۔

 

تصنیفی خدمات

 

مولانا کی عربی تصانیف:

(۱)لمحۃ عن علم الجرح والتعدیل(۲)حیاۃ الامام البخاری(۳)مفردات القرآن للبخاری (۴)دروس من الحدیث النبوی الشریف (۵)مقدمۃ سنن الترمذی (تحقیق) (۶)بین أھل الرأی وأھل الحدیث (۷)الا جتھاد والتقلید(۸)التعریف الوجیز (۹)العقد اللجینی(مجموعہ اسانید مرتبہ مولانا اکرم ندوی)(۱۰)الأ مانۃ فی ضوء القرآن (۱۱)الفوز الکبیر(عربی ترجمہ) (۱۲)حوار فی قضایا من الحدیث النبوی الشریف(۱۳)الفرائض السراجیۃ (تہذیب جدید)(۱۴)المدخل الی دراسۃ جامع الترمذی (۱۵)المقدمۃ فی اصول الحدیث (۱۶)مذکراتی(۱تا ۱۲)[اور مزید اس پر کام ہو رہا ہے ](۱۷)العلالۃ الناجعۃ(عن ترجمہ العجالۃ النافعۃ)(تقدیم وپیشکش)(۱۸)العالم العربی فی کتابات الامام الندوی (۱۹)رسالۃ الامام ولی اللہ الدھلوی فی المواریث(۲۰)المسوی من احادیث المؤطا (تحقیق) (۲۱)المصفی شرح المؤطا(تحقیق)۔

مولانا کی اردو تصانیف:

(۱)خطباتِ سیرت (۲)ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟(۳)خطبات بنگلور(۴)محدثین کی نظر میں فقہ اور فقہا کی اہمیت (۵)ہزارۂ سوم کی قیامت صغریٰ(ترجمہ) (۶)حدیث نبوی کے چند اسباق (۷)امانت کا قرآنی تصور (۸)قانون اسلامی کا ارتقاء (۹) امام بخاری اور ان کی الجامع الصحیح (۱۰)چند فکری زاوئیے (۱۱)یہودی خباثتیں (تلخیص و ترجمہ، از: عربی)(۱۲)دینی مدارس کا نصاب تعلیم (۱۳)حج کا دعوتی نظام سیرت نبوی کے آئینہ میں (۱۴)آزادیِ ہند حقیقت یا سراب (۱۵)ماہِ رمضان اور پیام قرآن (۱۶)اخلاق و شمائل نبوی (۱۷)عمل پیہم (۱۸)مقدمہ سنن امام ترمذی (۱۹) کلیم پھلتی [اپنے دعووں اور اعترافات کے آئینہ میں ](۲۰) سفر نامہ ایک طالب علم کا (۲۱)تحریک ندوۃ العلماء (۲۲)ہندوستان میں اسلامی شریعت (۲۳)درس قرآن (۲۴) علماء اور سیاست(۲۵)عالم عربی کی صورت حال اور اس کا علاج (۲۶)آخری وحی -ایک تعارف (۲۷)آخری وحی [اردو ترجمانی کے جدید قالب میں ](ترجمۂ قرآن)، (۲۸) تبویب القرآن (دو جلدیں ) (۲۹) انتخاب تفاسیر۔

یہ تمام تصانیف منظر عام پر آ کر لوگوں کی نظروں میں مقبول ہو چکی ہیں، ان تصانیف کے علاوہ اور بھی تصانیف پر کام ہو رہا ہے، جو انشاء اللہ جلد منظر عام پر آئے گا۔

 

تحریکی کردار

 

مولانا نے دور طالب علمی میں ہی نو جوانوں میں دعوتی اور اصلاحی کام کے لئے ۱۹۷۴ ء میں جمعیت شاب الاسلام قائم کی، مولانا نے عنفوان شباب سے امیر المومنین حضرت سید احمد شہید کی تحریک اصلاح و دعوت و جہاد کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا، اس کے احیاء کے لئے ۱۹۸۵ ء میں انھوں نے جامعہ سید احمد شہید قائم کیا، علمی، فکری، عملی، سبھی میدانوں میں کوششیں کیں، انہوں نے علامہ اقبال کے بقول:’خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات ‘‘ پر ’’وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل کو ‘‘ترجیح دی۔

مختصر تعارف جمعیت شباب الاسلام :

’’جمعیت شباب الاسلام-الہند‘‘ ایک غیر سرکاری تعلیمی و رفاہی سوسائٹی ہے، جس کا قیام ۱۹۷۴ء میں حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔

مولانا کی تنظیم جمعیت شباب الاسلام نے ابتداء ہی سے دینی تعلیم، عصری تعلیم اور میڈیکل تعلیم کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے، چنانچہ ابتداء ہی سے جمعیت ان تینوں میدانوں میں کام کرتی آ رہی ہے۔

جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے تو جمعیت کے تحت اس وقت لڑکے اور لڑکیوں کے چھوٹے بڑے نو(۹) مدرسے اور پچاس مکاتب کام کر رہے ہیں، مدارس میں جامعہ سید احمد شہید سب بڑا مدرسہ ہے، پھر کلیۃ حفصہ للبنات، مدرسہ طیبہ جانسٹھ، مدرسہ سیدنابلال ڈالی گنج، لکھنؤ درمیانی درجے کے مدرسے ہیں، جن کی اپنی اپنی عمارتیں ہیں اور سب میں طلبہ و طالبات کے لئے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام ہے، باقی جو پچاس مکاتب ہیں ان میں رہائش کا کوئی نظم نہیں، وہاں تمام طلبہ صبح یا شام کو پڑھنے آتے ہیں اور اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں، تمام مدارس و مکاتب میں طلبہ و طالبات کی تعداد تقریباً ۲۸۰۰ سو ہے۔

جمعیت شباب کے دوسرے میدان عصری تعلیم میں جمعیت کے تحت چھ اسکول ہیں جو سب کے سب ’’حراء‘‘ کے نام سے چلتے ہیں، ان میں دو اسکول دسویں جماعت تک اور باقی چار پرائمری درجات تک ہیں، اسکولوں کے اخراجات کا تمام تر نظام فیس پر مبنی ہے، البتہ عمارتیں جمعیت کی طرف سے تعمیر کرائی گئی ہیں۔

جمعیت شباب الاسلام کا تیسرا میدان میڈیکل یعنی طبی خدمات اور طبی تعلیم ہے، طبی خدمات میں جمعیت کا سب پہلا کام میڈیکل کیمپ کا قیام ہے، جو ہر سنیچر کے دن کچھ ڈاکٹروں کی مدد سے جمعیت شباب الاسلام کے گراؤنڈ فلور کے ہال میں لگتا ہے۔

میڈیکل لائن میں دوسرا کام ’’ مولانا علی میاں میموریل شباب پالی کیئر ہاسپٹل‘‘ ہے، جو ۲۰۰۲ء میں قائم ہوا تھا اور آج تک برابر کام کر رہا ہے، ندوہ اور جمعیت شباب کے ہیڈ کوارٹر کے آس پاس چونکہ غریب مسلم آبادی زیادہ ہے اس لئے اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے یہاں یہ اسپتال قائم کیا گیا۔

اس میدان میں تیسرا کام ’’ ڈاکٹر عبد العلی یونانی میڈیکل کالج اور ہاسپٹل‘‘ کا قیام ہے، یہ ہاسپٹل اور کالج ۲۰۰۶ء میں قائم ہوئے تھے، لیکن کالج کو منظوری۲۰۰۸-۲۰۰۷ء کے تعلیمی سیشن میں حاصل ہوئی، چنانچہ وہاں دوسال سے برابر تعلیم جاری ہے۔

مذکورہ بالا تعلیمی خدمات کے علاوہ علم و ادب کی آبیاری کے لیے اور عام افراد کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کے لیے جمعیۃ کے صدر آفس سے اردو زبان میں ماہنامہ ’’بانگ حرا‘‘ اور دیگر شعبوں سے اردو میں ماہنامہ ’’خبرنامہ‘‘ انگریزی میں ماہنامہ ICL عربی میں ماہنامہ ’’رسالۃ الشباب‘‘ اور ششماہی مجلہ ’’ تحقیق و نظر‘‘ شائع ہوتے ہیں۔ (تعارف نامہ جمعیت شباب الاسلام)

 

استفادۂ دینی واسترشاد روحانی

 

مولانا نے اصلاحِ نفس، روحانی ترقی اور تقرب الی اللہ کے لئے اوراستفادہ واسترشاد کے لئے سب سے پہلے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی سے تعلقِ بیعت و ارادت قائم کیا، جن کے ان کے والد مولانا سید محمد طاہر منصورپوری خلیفہ و مجاز بیعت و ارشاد تھے، اور اس حلقہ میں اس نسبت سے آپ کی بڑی قدردانی تھی، خاص طور پر حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کی غیر معمولی شفقت و محبت آپ کو از اول تا آخر حاصل ہے، اسی طرح حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی کی بھی آپ کو بڑی شفقت، توجہ اور محبت حاصل ہے، وہ بھی آپ کی بڑی قدردانی فرماتے ہیں، حضرت شیخ کی وفات کے بعد سلسلہ مجددی و نقشبندی کے سب سے قوی نسبت شیخ حضرت مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی کی شفقت و محبت اور توجہ آپ کو بھر پور حاصل رہی، وہ اپنے عارفانہ کلام کی تشریح اپنی مجلس میں آپ سے کراتے تھے، آپ کو رخصت کرنے اسٹیشن تک جانے کا بھی اہتمام کرتے اور خوب اظہارِ محبت و تعلق کرتے، آپ نے ان سے بیعت کی تجدید بھی کی، عارف باللہ حضرت حکیم محمد اختر صاحب کراچوی نے آپ سے کراچی کی ملاقات میں یہ بات کہی کہ مجھے آپ سے محبت ہے، اس لئے کہ آپ ہم سے محبت کرتے ہیں، ہم نے اولیاء اللہ کو دیکھا ہے، حضرت سید احمد شہید کے سلسلہ میں ان کے طریقۂ محمدیہ میں اپنے نانا حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی سے ان کی وفات سے دو ہفتہ پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں ان سے بیعت کی، ان کے بعد اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد طاہر صاحب سے بھی بیعت ہوئے۔

سلسلہ حضرت سید احمد شہید وسلسلہ امدادی ورائے پوری کے گل سرسبد، ایک ممتاز روحانی شخصیت کے مالک حضرت سید شاہ نفیس الحسینی لاہوری نور اللہ مرقدہ متوفی ۲۰۰۸ء نے آپ کے ساتھ ہمیشہ نہایت تکریم و محبت کا معاملہ فرمایا، اور اپنے ایک مسترشد سے یہ بات کہی کہ ہمیں مولانا سید سلمان صاحب سے اللہ کے لئے محبت ہے، انہوں نے آپ کو اجازت و خلافت سے بھی سرفراز کیا، اسی طرح حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے بھی آپ کو اس خصوصیت سے سرفراز کیا ہے، جب آپ چوٹ کھا جانے سے کچھ بیمار اور اسپتال میں زیر علاج تھے، تو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بستر پر بیٹھے ہوئے ایک دم ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے اللہ! سلمان کو صحت عطا فرما، ان کی ملت کو ضرورت ہے، یہی بات آپ کے علوم شریعہ کے شفیق استاد حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی زید مجدہ نے آپ کی عیادت کر کے واپس ہوتے ہوئے کہی اور دعا کی، ایک مرد نیک و بے آزار ومستجاب بزرگ حضرت مولانا سید محمد ثانی حسنی (جو آپ کے خالو تھے اور ماموں بھی ہوتے تھے ) کے مرض الوفات میں آپ نے جس طرح خدمت کی وہ آپ کے ایمان و یقین اور تسلیم و رضا اور تعلق مع اللہ کی صفت کو اجاگر کرتی ہے، مولانا محمد ثانی حسنی نے ان سے خوش ہو کر کہا کہ کچھ قرآن مجید سناؤ، جب سورہ والضحی انہوں نے سنائی تو اتنے متاثر ہوئے کہ فرمانے لگے اپنی پیشانی لاؤ، ہم تمہاری پیشانی چومیں گے۔

آپ کے سفر و حضر کے رفیق اور بچپن و عنفوانِ شباب کے ساتھی اور بھائی مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی مرحوم آپ کے عفیف ہونے کی گواہی دیتے تھے، آپ کی اس صفت کا اعتراف آپ کے ایک دوسرے رفیق مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ابن حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، و خلیفہ پیر فقیر حضرت مولانا ذوالفقار نقشبندی کو بھی ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی کسی پر نگاہِ بد نہیں پڑی، یہ بات انہوں نے مولانا ظفر الدین ندوی مقیم تبوک سے کہی، اور ان کے رفقاء یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کے نظریات اور طرز تخاطب سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے اخلاص میں شبہ نہیں کیا جا سکتا، محقق العصر مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی زید مجدہ (جو ان کے پھوپھا بھی ہیں )نے ایک موقع پر فرمایا: ’’ ان کا تعلق مع اللہ بہت مضبوط ہے ‘‘، اور یہ بات بھی فرمائی کہ ’’ لوگوں کو معلوم نہیں انھیں حضرت مولانا محمد احمد پرتاپگڑھی علیہ الرحمہ سے خاص نسبت حاصل ہے ‘‘۔ (مولانا محمود حسن حسنی ندوی)

علامہ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ جب ہتھوراباندہ عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کے یہاں تشریف لے گئے، تو مولانا بھی ساتھ تھے، جب ان کی تقریر کا وقت آیا تو حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ مائک پر آئے، اور فرمایا: ’’ یہ ہمارے آپ کے مخدوم و بزرگ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے نواسہ ہیں، آپ حضرات اس نسبت کا خیال رکھ کر ان کی بات غور سے سنیں، توجہ دیں، اور فائدہ اٹھائیں۔

 

عہدے و مناصب

 

(۱) عمید کلیۃ الدعوۃ والاعلام، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

(۲) صدر جمعیت شباب الاسلام، لکھنؤ

(۳) بانی وسرپرست جامعہ سید احمد شہید، کٹولی

(۴) رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

(۵) سرپرست معہد حسن البنا شہید، بھٹکل

(۶) رکن رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ

(۷) رکن ندوۃ الشباب العالمیۃ

یہ چند اہم عہدے ہیں، اس کے علاوہ بھی مولانا کئی اداروں کے سرپرست و رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ مولانا کی عمر دراز کرے، آمین

 

حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم… مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ کی نظر میں

 

۲۶ تا ۲۸ ربیع الآخر ۱۴۰۲ھ ۲۱ تا ۲۳ فروری ۱۹۸۲ئ میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کی طرف سے اسلام اور مستشرقین کے موضوع پر ایک بین الا قوامی سمینار علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صدارت میں منعقد ہوا تھا، حضرت فرماتے ہیں : ’’ میرا مضمون اصلاً عربی میں تھا، عزیز القدر سید سلمان حسینی ندوی نے اس کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے، جس سے مضمون کی روح اور اس کا مرکزی نقطہ عرب فضلا ء کے سامنے آ گیا‘‘۔  (کاروان زندگی :ج/۲٭ص/۳۵۰)

’’۷ مئی ۱۹۸۲ء کو سری لنکا کا سفر ہوا جس میں عزیزی سید سلمان ندوی نے اس سفر میں رفاقت کی، عزیز موصوف بھائی صاحب مرحوم ڈاکٹر عبد العلی صاحبؒ کے حقیقی نواسہ اور عزیزی مولوی سید محمد طاہر منصور پوری کے فرزند ہیں، دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تکمیل کرنے کے بعد جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض سے بڑے امتیاز اور نیک نامی کے ساتھ فراغت حاصل کی، ان کا تحقیقی مقالہ جس کو وہاں کے اساتذہ بالخصوص علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے بہت پسند کیا، کا عنوان تھا ’’جمع الفاظ الجرح والتعدیل ودراستھا من خلال تھذیب التھذیب‘‘ الاجزاء -۱-۲-۳-حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نے بھی اس مقالہ سے بڑی دل چسپی کا اظہار کیا اور وہ عرصہ تک مطالعہ کے لئے ان کے پاس رہا، اب دارالعلوم ندوۃ العلماء میں استاد ہیں، عربی زبان میں تحریر و تقریر پر یکساں قدرت ہے، میرے متعدد خطبات ورسائل کا اردو میں تر جمہ کیا، ’’تاریخ دعوت و عزیمت کے حصہ چہارم و پنجم ‘‘کوبڑی خوبی اور کامیابی سے عربی میں منتقل کیا، چوتھا حصہ ’’الامام السر ہندی‘‘ کے نام سے شائع ہو گیا ہے، اور پانچواں حصہ ’’الامام الدہلوی‘‘ کے نام سے عنقریب شائع ہونے والا ہے‘‘۔  (کاروان زندگی:ج/۲٭ص/۳۵۹)

’’۹ مئی ۱۹۸۲ء کو کولمبو کی جمیعۃ العلماء کے ارکان کے سامنے عزیزی سید سلمان نے اہم خطاب کیا، جس سے جامعہ نظامیہ کے اساتذہ اور طلباء بہت مانوس ہوئے، اور ان کے بار بار عربی خطابات ہوئے، جن میں انھوں نے تعلیمی مشورے دئیے اور اخلاقی و دینی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی‘‘۔      (کاروان زندگی: ج/۲٭ ص/۳۶۳)

مئی ۱۹۸۳ء کے اوائل کی کوئی تاریخ میں آکسفورڈ یو نیورسٹی کا اسلامک سنٹر میں مقالاتی پروگرام تھا، جس میں حضرت نے ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے عنوان پر اردو میں مضمون تیار کیا، مضمون کا عربی ترجمہ عزیزی سید سلمان ندوی کے قلم سے ’’الاسلام والغرب ‘‘ کے عنوان سے علیٰحدہ رسالہ کی شکل میں اور متعدد عربی اخبارات و مجلات میں شائع ہوا ہے۔   (کاروان زندگی:ج/۲٭ص/۳۷۶)

۹تا ۱۹ مارچ ۱۹۸۴ء میں بنگلہ دیش کا سفر پیش آیا تھا، بنگلہ دیش کے دس روزہ قیام میں عزیزی مولوی سید سلمان ندوی کی تقریروں کا سلسلہ بھی جاری رہا، ا اور ان سے بہت فائدہ پہونچا، عزیزی سلمان کو اردو و عربی تقریر پر یکساں قدرت حاصل ہے، بالعموم (مدارس میں )عربی میں انھیں کی تقریر یں ہوتی تھیں، اس طرح یہ دورہ مختلف طبقات کے لئے مفید رہا اور خطابات و تقاریر میں تنوع اور مختلف سطح کے لوگوں کی رعایت رہی۔  (کاروان زندگی:ج/۳٭ص/۶۳و۶۴)

۱۹  جون ۱۹۸۶ء میں استنبول (ترکی)میں رابطۂ ادب اسلامی کا جلسہ تھا، اس کی ایک نشست کے لئے ’’روائع اقبال‘‘ کا وہ حصہ پڑھنے کے لئے انتخاب کیا تھا، جس میں ان کی معرکۃ الآراء اور ولولہ انگیز نظم ’’طلوع اسلام ‘‘کا ترجمہ عربی میں پیش کیا گیا تھا، یہ ترجمہ عزیزی مولوی سید سلمان ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے قلم سے ہے۔  (کاروان زندگی:ج/۳٭ص/۱۶۵)

۱و۲جون ۱۹۸۹ء کو کل ہند پیمانہ پر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک دینی تعلیمی کنونشن کا انعقاد ہوا تھا، جس میں عزیزی مولوی سید سلمان حسینی ندوی استاد دارالعلوم نے مفصل و مؤثر تقریر کی۔ (کاروان زندگی: ج/۴٭ ص/۸۸)

۱۲  شعبان ۱۴۱۲ھ فروری کی ۱۷  تاریخ ۱۹۹۲ء میں جب مسجد اقصیٰ کے سابق امام و خطیب اور فلسطینی تحریک کے سرگرم علم بردار ڈاکٹر محمد صیام دارالعلوم آ رہے تھے، تو اس وقت جمعیۃ شاب الاسلام کے ناظم مولوی سید سلمان حسینی ندوی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔                    (کاروان زندگی:ج/۵٭ص/۶۱)

جون ۱۹۹۳ء کی آخری تاریخوں میں پٹنہ میں پیام انسانیت کا جلسہ تھا، جس میں جمعیۃ شباب الاسلام کا تربیتی کیمپ تھا، اس کے بانی اور روح رواں عزیز گرامی مولوی سید سلمان حسینی ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء ہیں۔(کاروان زندگی: ج/ ۵٭ ص/۱۸۸)

۲۴ اکتوبر ۱۹۹۱ ء میں جب سمرقند کا سفر ہوا تو اس وقت تاریخی زیارتوں کے اس موقع پر عزیز فاضل سید سلمان حسینی ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء اور متعدد احباب و رفقاء بھی موجود تھے۔ (کاروان زندگی: ج/۵٭ ص/۲۹۲)

۵ جنوری ۱۹۹۵ء کو جب دوسرا اقدام تحفظ مدارس کمیٹی کا ایک اہم مشاورتی جلسہ تھا، جو کتب خانہ علامہ شبلی نعمانیؒ کے زیریں ہال میں ساڑھے دس بجے صبح منعقد ہوا، جس کے کنوینر عزیز القدر مولوی سید سلمان حسینی ندوی تھے۔  (کاروان زندگی:ج/۶٭ص/۴۸)

شروع شوال ۱۴۱۵ھ فروری ۱۹۹۵ء میں جب سوڈان کا سفر ہوا تو اس کی ایک اسلامی کانفرس میں عزیز گرامی قدر مولوی سید سلمان حسینی ندوی کو جو عربی زبان میں خطابت اور اظہار خیال پر امتیازی قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں اور جو چند افراد راقم کی صحیح اور مؤثر ترجمانی کر سکتے ہیں ان میں وہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں، اپنا نمائندہ و ترجمان بنا کر سوڈان کی کانفرس کے لئے انتخاب کیا۔

عزیز موصوف راقم کے برادر اکبر و مربی ڈاکٹر مولوی سید عبد العلی صاحب مرحوم سابق ناظم ندوۃ العلماء کے حقیقی نواسہ ہیں، انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فضلیت اور جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض سے فراغت حاصل کی، اور عرصہ تک علامۂ عصر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی نگرانی اور سرپرستی میں حدیث پر تحقیقی کام کیا۔ (کاروان زندگی:ج/۶٭ص/۵۸)

۷ ۸ اکتوبر ۱۹۹۵ ء کو احمد آباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا عظیم اجلاس تھا، تو اس موقع پر ان کے ساتھ اس دعوت و تحریک میں عزیز گرامی قدر مولوی سید سلمان حسینی ندوی کا بھی حصۂ تھا، جو ایک مقبول مؤثر وداعی ہیں۔   (کاروان زندگی:ج/۶٭ص/۱۶۱)

۱۹۹۶ء میں لندن کا سفر طے ہوا تھا، لیکن اس سال جانے کی خاص وجہ یہ ہوئی کہ عزیز القدر مولوی سید سلمان ندوی استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء کو انگلستان آنے کی دعوت دی گئی تھی، جس کے خاص محرک مولانا عیسیٰ منصوری تھے، وہاں ایک دینی مدرسہ کے قیام کا منصوبہ چل رہا تھا، مولوی سلمان کے اس سفر سے اس منصوبہ کی تکمیل اور تجویز میں رہنمائی حاصل کی گئی کہ نوٹنگھم(NOTTINGHAM)میں جو لندن سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر ہے ندوۃ العلماء کے طرز فکر پر اور اس کی شاخ کے طور پر دینی و عربی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا جائے اور اس میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نصاب جاری کیا جائے، اس کے لئے طے ہوا کہ راقم کو ہندوستان سے دعوت دی جائے اور وہ اس کا عملی افتتاح کرے۔  (کاروان زندگی:ج/۶٭ص/۳۰۰)

گیا کا سفر ایسے وقت درپیش ہوا کہ سفر سے ایک ہی روز پہلے ایک سخت خانگی صدمہ سے ہم کو دوچار ہونا پڑا، کہ ۱۱  نومبر ۱۹۹۸ء کو بدھ کے دن بالکل اچانک میری بھتیجی، عزیز القدر مولوی سید سلمان حسینی ندوی کی والدہ سیدہ فاطمہ کا اکہتر سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ (کاروان زندگی:ج/۷٭ص/۲۰۱)

۲۳ شعبان المعظم ۱۴۱۹ ھ ۱۳ دسمبر۱۹۹۸ء کو دبئی کا ایک اضطراری سفرپیش آیا جس میں عزیزی مولوی سید سلمان حسینی ندوی (استاددارالعلوم )نے بھی راقم کی ترجمانی اور نمائندگی کی۔   (کاروان زندگی۔ ج/۷ ٭ص/۲۱۷)

۸ جنوری ۱۹۹۹ء ۲۱ رمضان ۱۴۱۹ھ کو راقم کی اردو تقریر کے علاوہ جو نماز سے پیشتر کی گئی عزیز القدر مولوی سید سلمان ندوی نے عربی اردو میں ایک زوردار تقریر کی اور نماز بھی پڑھائی۔  (کاروان زندگی۔ ج/۷٭ ص/۲۱۸)

٭٭٭

 

مصادر و مراجع

 

(۱)کاروان زندگی، از: حضرت مولانا علی میاں ندویؒ۔

(۲) بانگ حرا کے مختلف شمارے۔

(۳) برادر مکرم مولوی عمر سیاف ندوی کا مضمون(غیر مطبوعہ)

(۴) مولانا محمود حسنی ندوی سے حاصل کردہ زبانی معلومات۔

(۵) یادوں کے چراغ، از: حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی۔

(۶) بانگ درا کا خصوصی شمارہ بر وفات مولانا طاہر حسینی ندوی۔

 

 

 

(۹) حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

دامت برکاتہم

 

 

                   ولادت: ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۶ء

 

 

 

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل

اس کی ادا دلفریب، اس کی نگاہ دلنواز

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            (نور خورشید) خالد سیف اللہ

والد کا نام:      (مولانا) حکیم زین العابدین

جائے پیدائش: جالے، دربھنگہ، بہار، انڈیا

تاریخ پیدائش: ۱۰ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ء

ابتدائی تعلیم:    قاسم العلوم حسینہ، دوگھرا، دربھنگہ، بہار

ثانوی تعلیم:     جامعہ رحمانی مونگیر، بہار

تکمیل:         دار العلوم دیوبند، امارت شرعیہ، پٹنہ

موجودہ اہم ذمہ داری: جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیدمی، ومسلم پرسنل لاء

حالیہ پتہ:               المعہد العالی الاسلامی، حیدر آباد

 

 

تمہید

 

محترم جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی شخصیت علمی دنیا کے لئے محتاجِ تعارف نہیں رہی، آپ نے ’’جدید فقہی مسائل‘‘ کے ذریعہ علمی و فقہی دنیا میں قدم رکھا اور پھر جلد ہی اپنی خدا داد  صلاحیت، متوازن فکر، ہمہ جہت علمی سرگرمیوں اور اپنے خصوصی اوصاف و کمالات کے ذریعہ اس مقام پر جا پہونچے، جہاں اس عمر میں کم لوگ پہونچتے ہیں، اور آج کے ہندوستان کے علمی افق پر نمودار ہونے والا یہ ہلال بدرِ کامل بن کر اپنی ضیا پاشیوں سے ایک دنیا کو روشن کئے ہوئے ہے۔

 

مختصر حالاتِ زندگی

 

۱۰ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ء میں بہار کے ایک مردم خیز قصبہ ’’جالے ‘‘ (ضلع دربھنگہ) کے ایک معروف علمی گھرانہ میں آنکھیں کھولیں، تاریخی نام نور خورشید رکھا گیا، جبکہ اصل نام خالد سیف اللہ طے پایا، آپ اسی نام سے معروف ہوئے، والد محترم مولانا حکیم زین العابدین علاقہ کے معروف لوگوں میں تھے، جبکہ آپ کے دادا حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور اس دور کے اہم علماء میں تھے، وہ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی کے شیخ بھی رہے ہیں، جب کہ چچا مشہور عالم اور دینی و ملی رہنما حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی تھے، فقہ اور قضاء کے باب میں جن کا مقامِ بلند معروف و مسلم رہا ہے۔

آپ کا نانیہالی خاندان بہار کے مشہور بزرگ مولانا بشارت کریم گڑھولوی سے وابستہ تھا، مادری و پدری ان دونوں نسبتوں کے ساتھ سسرالی خاندان بھی دینداری اور تقویٰ و طہارت میں کم معروف نہیں، اس خانوادہ کے مورث اعلیٰ ملا سید محمد علی ہیں، جو ’ملاسیسو‘ کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے حضرت سیداحمد شہیدؒ کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور معرکہ بالاکوٹ کے بعد بہار لوٹے۔

 

تعلیمی مراحل

 

مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنی دادی، والدہ اور پھوپھا مولانا وجیہ الدین صاحب سے حاصل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم سے پڑھیں، اس کے بعد قاسم العلوم حسینہ ( دوگھرا، ضلع دربھنگہ) میں رہ کر کسبِ فیض کیا، پھر یہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر کا رخ کیا، جو اس وقت ہندوستان کا معروف ادارہ اور تشنگانِ علم دین کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا، مولانا نے یہاں متوسطات سے دورۂ حدیث تک تعلیم حاصل کی، یہاں امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا، وہ آپ پر خاص شفقت فرمایا کرتے تھے، ان کے علاوہ آپ نے وہاں کے اساطین علم و اصحاب فضل اساتذہ سے خوب خوب استفادہ کیا، آپ کے اساتذہ میں مولاناسیدشمس الحق صاحب قاسمی، مولانا اکرم علی صاحب قاسمی، مولانا حسیب الرحمٰن صاحب قاسمی، مولانا فضل الرحمٰن قاسمی صاحب اور جناب مولانا فضل الرحمٰن رحمانی وغیرہ شامل ہیں۔

مونگیر کے زمانۂ طاب علمی میں ہی آپ کے جوہر کھلنے شروع ہو گئے تھے، چنانچہ چند سالوں میں ہی اساتذہ اور طلبہ کے محبوب بن گئے، اور اپنی علمی استعداد وصالحیت کی بنیاد پر مثالی طالب علم شمار ہونے لگے، اساتذہ بھی اس ہونہار طالب علم پر خاص توجہ دیتے، سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ حضرت امیر شریعت کی خصوصی توجہ و عنایات بھی آپ کے حصہ میں آئیں، یہ مولانا کی فراست اور دور بینی تھی کہ انہیں اس طالب علم میں مستقبل کا فقیہ نظر آ رہا تھا، چنانچہ وہ نہ صرف آپ کو اپنے قریب رکھتے، بلکہ علمی رہنمائی کرتے اور آگے بڑھانے کی کوشش کرتے، ایک موقع پر جب دارالافتاء کی ڈاک بہت زیادہ ہونے لگی، تو حضرت اسے اساتذہ اور بعض طلبہ میں تقسیم فرماتے، ان طلبہ میں مولانا بھی تھے، اسی ایمرجنسی کے موقع پر جبری نسبندی کے سلسلہ میں جب ادارہ مباحث فقہ کی طرف سے سوالنامہ حضرت کو موصول ہوا، تو انہوں نے مولانا کو اس کا جواب لکھنے کا حکم دیا، مولانا نے اس حکم کو سعادت مندی سمجھا اور اس کا مفصل جواب لکھا، جسے حضرت امیر شریعت نے بہت پسند کیا۔

دار العلوم دیوبند میں : مونگیر میں دورہ مکمل کرنے کے بعد مزید اپنی علمی تشنگی کو بجھانے کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، یہ ۱۳۹۵ھ کا زمانہ تھا، مولانا نے وہاں دورہ حدیث مکمل کیا، اس دوران جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا، ان میں مولانا شریف حسین دیوبندی، مولانامفتی محمودالحسن گنگوہی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا معراج الحق، مولانا سید انظر شاہ کشمیری، مولانا مفتی نظام الدین صاحب، مولانا محمد نعیم صاحب اور مولانا محمد سالم قاسمی صاحب سرفہرست ہیں۔

 

تربیت قضاء و افتاء

 

دیوبند سے فراغت کے بعد آپ امارت شرعیہ پٹنہ آئے، اور افتاء و قضاء کی تربیت حاصل کی، یہ زمانہ آپ کی علمی زندگی کی اٹھان میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہیں آپ کو ایسا خضر طریق ملا، جنہوں نے اس جوہر کو خوب نکھارا، آپ کے علمی ذوق کو صیقل کیا اور اس گوہر کو تابدار کرنے کی پوری کوشش کی، ان کی رہنمائی اور تحریک ایسی رنگ لائی کہ مولانا خود پارس بن گئے اور یہی کام دوسروں کے لئے کرنے لگے، یہ خضر طریق کوئی اور نہیں خود آپ کے چچا حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ تھے۔

 

تدریسی زندگی

 

۱۳۹۷ھ میں مولانا نے تدریسی سفر کا آغاز کیا، حیدرآباد کی مشہور دینی و ملی شخصیت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی صاحب کی دعوت پر دارالعلوم حیدرآباد تشریف لائے اور ایک سال تک وہاں تدریسی خدمت انجام دی، اس وقت قدوری، شرح تہذیب، رحمت عالم اور شرح مأۃ عامل وغیرہ کتابیں آپ کے زیر تدریس رہیں، اس کے بعد ۱۳۹۸ھ میں دارالعلوم سبیل السلام منتقل ہوئے، یہاں بحیثیت صدر مدرس تدریس اور انتظامی امور میں مصروف ہوئے، بائیس سال کا طویل عرصہ آپ نے یہاں گزارا، اس دوران رحمت عالم سے بخاری شریف تک درس دیا، آپ کی شبانہ روز کوششوں سے دارالعلوم سبیل السلام کو بڑی شہرت اور ترقی ہوئی، طلبہ کثرت سے ان کی طرف رجوع کرنے لگے، تدریس کے ساتھ تعمیرات میں بھی آپ نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا، اور ہمیشہ وہاں کے ذمہ دار مولانا محمد رضوان القاسمی کے دست و بازو بن کر کام کرتے رہے، ان کوششوں کے نتیجہ میں مدرسہ چند کمروں سے نکل کر ایک وسیع اور کشادہ دارالعلوم میں تبدیل ہو گیا، جہاں عربی کے چند طلبہ تھے اب وہاں دورۂ حدیث کے علاوہ اختصاص کے شعبے بھی قائم ہوئے۔

قرآن سے مولانا کا کیا تعلق ہے اور اس کی تدریس کا کیا انداز ہے ؟ اس کی وضاحت کے لئے مولانا ہی کے ایک شاگرد کا یہ اقتباس پیش کرنا مناسب ہو گا:

’’شہرہ تو مولانا کی حدیث و فقہ کی تدریس کا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید سے آپ کی مناسبت ان کتابوں سے بڑھ کر ہے، آپ نے ترجمہ قرآن اور جلالین کا درس بھی طویل عرصہ تک دیا ہے، اختصاص فی القرآن کے شعبہ میں جن طلبہ نے مولاناسے تفسیر پڑھی ہے، ان میں فہم قرآن کا ایک خاص سلیقہ ہو گیا ہے، آپ قرآن مجید کے الفاظ کی تحقیق و تعبیر کے لئے انہی الفاظ کا انتخاب اور ان الفاظ کے لانے کے پس منظر پر خاص توجہ دیتے ہیں، اور اس سے طلبہ میں ایک خاص طرح کا ذوق پروان چڑھتا ہے، اور روحِ قرآن تک پہنچے کی جستجو پیدا ہوتی ہے، اس نقطۂ نظر سے آپ طلبہ کو خاص طور پر کشاف سے مراجعت کا مشورہ دیتے ہیں۔ ‘‘ (قاموس الفقہ)

مولانا اشرف علی قاسمی استاذ المعہد العالی الاسلامی آپ کے درسِ حدیث کے انداز کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’آپ نے طویل عرصہ تک ترمذی کا درس دیا ہے، احادیث احکام پر مولانا کی گفتگو عدل اور اعتدال کا نمونہ ہوتی ہے، اس مسئلہ پر فی الجملہ کیا کیا احادیث ہیں ؟ اور کون سی حدیث کس مضمون کی مؤید ہے ؟ پھر حدیث کے تعارض یا الفاظ حدیث میں ایک سے زیادہ معنوں کے احتمال کی وجہ سے فقہاء کے یہاں کے کیا کیا آراء ملتی ہیں، ان آراء کی تنقیح اور نصوص شارع اور نصوص فقہاء میں قربت پیدا کرنے کی کوشش، یہ سارے پہلو طلبہ کے ذہن میں راسخ ہو جاتے ہیں، آپ ائمہ مجتہدین کے نقاط نظر میں قربت پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، اگر حنفیہ کا مشہور قول ظاہر حدیث کے خلاف ہو، تو اصحاب مذہب اور مشائخ کے یہاں ظاہر نص سے قریب تر قول کا ممکن حد تک تعین، احادیث کی توجیہ میں اقوال کا انبار لگانے کے بجائے صحیح تر اور اشکال سے محفوظ توضیح کا بیان اور کمزور توجیہات پر نقد و جرح وغیرہ کی وجہ سے آپ کا درس ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، نقد کے موقع پر بھی دوسرے فقہا ء اور محدثین کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہیں ‘‘۔

 

اصلاحی تعلق

 

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہم جامع علم و عمل اور حامل دلِ دردمند و فکر ارجمند شخصیت ہیں، سوزِ عشق پیدا کرنے کے لئے انہوں نے اپنا اصلاحی و روحانی تعلق مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ سے قائم کیا، ان کی خدمت میں حاضری اور مراسلت کے ذریعہ اصلاح واستفادہ کا عمل جاری رکھا، اور ان کی تلقینات کو حرزِ جان بنایا، وہ ان کی اس نصیحت کو حاصل سلوک سمجھتے ہیں، کہ ’’کوئی بھی کام کریں، تصحیح نیت کا اہتمام رکھیں ‘‘ ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا قاری امیر حسن مظاہریؒ (ہردوئی) سے تجدید بیعت کی، اور ان کی پوری تابعداری کی، وہ بھی ان سے بہت خوش تھے، اب وہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں، اور جو تعلق ان دو مشائخ سے تھا وہ اب ان سے قائم ہے، اور ان کے مجاز بھی ہیں۔ (مولانا محمود حسن حسنی ندوی)

 

’’ المعہد العالی الاسلامی‘‘ کا قیام

 

اس طویل تدریسی سفر میں مولانا نے محسوس کیا کہ مدارس میں طلبہ کی کثرت کی وجہ سے افراد سازی پر توجہ پوری طرح نہیں ہوپا رہی ہے، چنانچہ مولانا نے فراغت کے بعد چند باصلاحیت طلبہ کو کسی خاص فن میں تربیت دینے کا خاکہ بنایا، دار العلوم سبیل السلام میں اختصاص فقہ کے شعبے مولانا کے اسی خواب کی تعبیر تھے، جس نے کم وقت میں بڑی شہرت پائی، مگر بعض اسباب کی بناء پر مولانا اپنے خاکہ میں پوری طرح رنگ نہیں بھر سکے، اسی مقصد کے لئے آپ نے باضابطہ ایک مستقل ادارہ قائم کرنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ ۱۴۲۰ھ میں یہ علمی و تربیتی ادارہ ’’ المعہد العالی الاسلامی‘‘ کے نام سے وجود میں آیا، جو افراد سازی اور طلبہ میں علمی ذوق پیدا کرنے کے سلسلہ میں پورے ملک میں خاص مقام حاصل کر چکا ہے، مولانا کے اس اقدام کی بڑی ستائش ہوئی اور اکابر علماء نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا، اس وقت سے مولانا اسی ادارہ کے انتظام و انصرام میں مصروف ہیں، اس کے علاوہ اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی اور دوسرے مختلف اداروں اور تنظیموں سے وابستہ ہیں، اور ملت کو اپنا فیض پہنچا رہے ہیں۔

 

علمی خدمات

 

مولانا فعال، متحرک، ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، مولانا موصوف کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے، جنہیں ان کے فکر و عمل کے تنوع اور خدمات کی مختلف جہات کی وجہ سے ہمہ جہت کہنا بجا ہے۔

مولانا کا علم بڑا ٹھوس، گہرا اور متنوع ہے، تفہیم کی قوت اور زبان و بیان کا حسن اس پر مستزاد، جس کے نتیجے میں آپ کے قلم سے نکلنے والی ہر تحریر اپنے موضوع پر حاوی اور دلچسپ ہوتی ہے، شہرت آپ کو فقہ اور اس میں بھی جدید مسائل کے عنوان سے ملی، مگر اسلامیات کے ذیلی فنون سے لے کر زبان و ادب تک کونسا ایسا گوشہ ہے جو آپ کے حیطۂ تحریر سے باہر ہو، اکثر موضوعات پر آپ کی نگارشات موجود ہیں، اور ان میں بھی اکثر اپنے موضوع پر اہم اور مستند شمار کی جاتی ہیں۔

تصنیفی خدمات:

اللہ تعالیٰ نے مولانا کو تصنیف و تالیف کا اعلیٰ ذوق بخشا، چنانچہ آپ اس میدان میں مستقل سرگرم عمل رہے، تصنیفات کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید آپ ہر وقت اپنے علمی کام میں ہی مشغول رہتے ہوں گے، مگر اہل علم واقف ہیں کہ تصنیف کی طرح تدریس بھی آپ کا محبوب مشغلہ ہے، مختلف تعلیمی اداروں سے وابستگی، ملکی و بیرونی اسفار اور اسلامک فقہ اکیڈمی کی مصروفیت، مگر اس سب کے باوجود آپ کا قلم تازہ دم رہتا ہے، مضامین جدت لئے ہوئے ہوتے ہیں اور علمی بنیادیں نہایت مستحکم ہوتی ہیں۔

قرآنیات کے موضوع پر آپ کی پہلی کتاب ’’قرآن ایک الہامی کتاب‘‘ ہے، چند سال قبل ہندو تنظیم کے بعض ذمہ داروں کی طرف سے قرآن کی بعض آیات پر اعتراضات سامنے آئے، آپ نے فوراً ہی ان اعتراض کا علمی جائزہ لیا، اور پھر ان کی قلعی کھولتے ہوئے تسلی بخش جواب دیا، یہ تحریر ’’۲۴ آیتیں ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، فقہ القرآن کے موضوع پر آپ کے متعدد مقالات ہیں، قرآن کا ترجمہ و مختصر تشریح پر بھی آپ نے کام کیا ہے، لیکن ابھی یہ مکمل نہیں ہوا ہے، اس کی ایک جلد ’آسان تفسیر‘کے نام سے شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکی ہے۔ (اب یہ کام مکمل ہو گیا ہے )

حدیث کے موضوع پر بھی آپ کی چند کتابیں ہیں، مدارس کے طلبہ کے لئے آپ نے ’آسان اصول حدیث‘ تحریر فرمائی ہے، جو متعدد مدارس کے نصاب میں شامل ہے، آثارالسنن کا تکملہ بھی ایک اہم کام ہے، جبکہ علوم حدیث کے موضوع پر متعدد مقالات اور تحریریں کسی مجموعے میں شامل ہونے کی منتظر ہیں، ایک طویل عرصہ تک حدیث کی مشہور کتابیں صحیح بخاری اور سنن ترمذی کے درس کی سعادت بھی آپ کو حاصل رہی ہے، ان دونوں نسخوں پر آپ کے قیمتی حواشی اور تعلیقات ہیں۔

فقہ آپ کا خاص موضوع ہے اور یہی آپ کے فکرو عمل کا اصل محور رہا ہے، آپ کی تصنیفی زندگی کا آغاز بھی اسی موضوع سے ہوا، ۱۹۷۶ء میں ابھی آپ جامعہ رحمانی مونگیر میں زیرِ تعلیم تھے کہ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی جبری نسبندی تحریک کے تناظر میں ادارۃ المباحث الفقہیہ کی جانب سے ایک مفصل سوالنامہ امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ کو موصول ہوا، حضرت امیر شریعت نے اس سوالنامہ کا جواب لکھنے کی ذمہ داری اپنے اس فیض یافتہ شاگرد کو بھی دی، لائق شاگرد نے جواب لکھا اور خوب لکھا، یہی تحریر بعد میں ’’فیملی پلاننگ اور اسلام‘‘ کے نام سے دار التصنیف ہاپوڑ سے شائع ہوئی، اب یہ جدید فقہی مسائل جلد سوم کا حصہ ہے۔

جدید فقہی مسائل کو مولانا نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور خوب خوب دادِ تحقیق دی، آپ کی یہ کاوشیں بڑی مقبول ہوئیں اور ہر طبقہ کے علماء سے خراجِ تحسین وصول کیا، فقہ کے موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں ائمہ اربعہ کے علاوہ صحابہ و تابعین اور محدثین کی آراء سے استفادہ، ائمہ کے آراء کے درمیان تطبیق و ترجیح، مقاصد شریعت کی رعایت، مسائل کے حل میں عرف و زمانہ سے آگہی، دلائل کی بنیاد پر دوسرے امام کی رائے پر فتوی، اسی طرح ضرورت پڑنے پر خود ائمہ احناف کے مفتی بہ قول کے علاوہ دوسرے قول پر فتوی، اور مسائل کی تحقیق میں اجتہادی شان، یہ وہ امتیازی پہلو ہیں جو دوسرے مصنفین سے آپ کو ممتاز کرتی ہیں۔

جدید مسائل کیسے حل کئے جائیں ؟ اس سلسلہ میں مولانا نے مسائل کی تبدیلی کے اسباب اور حل کے رہنما اصول سے متعلق تفصیلی تحریر جدید فقہی مسائل کے شروع میں بطور مقدمہ شامل کیا ہے، اس کے علاوہ اجتہاد، تقلید، تلفیق، دیگر دبستان فقہ سے استفادہ، اجتماعی اجتہاد، جیسے موضوعات پر آپ کے تحقیقی مقالات ہیں، جس میں آپ کی فکر پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتی ہے، اس طرح آپ نے جدید مسائل کے حل کے لئے رہنما اصول بھی بتائے اور پھر عملی طور پر اسے برت کر دکھایا۔

فقہ کے موضوع پر مولانا کے قلم سے بڑا علمی سرمایہ تیار ہو گیا ہے، آپ کی کتاب جدید فقہی مسائل کو جو پذیرائی ملی وہ کم کتابوں کو ملی ہو گی، یہ پہلے دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی، جس میں ہر باب سے متعلق جدید مسائل کا بیان تھا، اب یہ پانچ جلدوں میں شائع ہو رہی ہے، اخیر کی تین جلدیں آپ کے فقہی مقالات پر مشتمل ہیں، جو موضوعی ترتیب: عبادات کے مسائل، معاشرتی مسائل اور معاشی مسائل کے عنوان سے ہیں، اس کتاب کا ترجمہ و تلخیص عربی میں نوازل فقہیۃ معاصرۃ کے نام سے شائع ہو چکی ہے، اس پر مشہور فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کا مقدمہ ہے، اس کا فارسی ترجمہ بھی ایران سے شائع ہوا ہے۔

کتاب الفتاوی آپ کے فتاوی کا مجموعہ ہے، جو روز نامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد اور دوسرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں، اس میں جدید مسائل کثرت سے آئے ہیں، اخبار کے قارئین کے لحاظ سے مسائل میں مصالح کا پہلو، آسان زبان، سہل اسلوب، جواب کے ساتھ نصیحت اور تذکیر، یہ اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

قاموس الفقہ آپ کی بلا مبالغہ ایک شاہکار تصنیف ہے، یہ اسلامی علوم کا ایک عظیم الشان انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے شرعی مسائل کے علاوہ فقہی اصطلاحات، ایمان و کفر سے متعلق اہم مسائل اور مستشرقین کے تختۂ مشق بنائے گئے موضوعات مثلاً پردہ، جہاد وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے، کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، ہر جلد پر ہندوستان کے مشاہیر اہل علم میں کسی ایک کا مقدمہ ہے، ان حضرات نے مذکورہ کاوش کو جس طرح سراہا ہے اور جن تاثرات کا اظہار کیا ہے اس سے کتاب کی قدرو منزلت کا اندازہ ہوتا ہے، کئی سال قبل جب اس کتاب کی پہلی جلد اشاعت پذیر ہوئی تو اس کے مقدمہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے تحریر فرمایا تھا:

’’یہ کتاب مکمل ہونے کے بعد انشاء اللہ بڑی مفید اور اپنے موضوع پر منفرد ہو گی، جس میں مصنف کے وسعت مطالعہ، دقت نظر، مسائل حاضرہ سے واقفیت اور ان کے حل کی مخلصانہ فکر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ نمایاں ہے ‘‘۔ (مقدمہ قاموس الفقہ، جلد اول)

بیرون ممالک کے فقہی سیمیناروں میں آپ نے جو فقہی مقالات پیش کئے ہیں ان کا مجموعہ ’’قضایا فی الٔاقلیات المسلمۃ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔

ان کے علاوہ اسلام کا نظام عشر و  زکوٰۃ، طلاق و تفریق، نیا عہد نئے مسائل، خواتین اور انتظامی مسائل، مسجد کی شرعی حیثیت، آسان اصول فقہ، مختارات النوازل کی تحقیق و تعلیق مولانا موصوف کی اہم فقہی کاوشیں ہیں، یہ تمام کتابیں اپنے موضوع پر اہم شمار کی جاتی ہیں اور تحقیقی رنگ لئے ہوتی ہیں۔

مولانا نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز جن کتابوں سے کیا ان میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی مشہور کتاب ’’رحمت عالم‘‘ بھی ہے، اس کتاب کو پڑھانے کے لئے مولانا سیرت ابن ہشام کا مطالعہ کرتے، سیرت ابن ہشام مولانا کو بہت پسند آئی، چنانچہ آپ نے اردو میں اس کی تلخیص فرمائی، یہ مختصر سیرت ابن ہشام کے نام سے شائع ہوئی ہے، خطبات سیرت سیریز بنگلور کے لئے آپ بھی مدعو کئے گئے، آپ نے اپنے خطبہ کے لئے پیغمبر انسانیت کا عنوان منتخب کیا اور پھر جس دلنشیں انداز میں اس اچھوتے موضوع پر اپنا خطبہ پیش کیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، خطبہ ہونے کی حیثیت سے جہاں زور اور روانی ہے، وہیں علمی مواد، سیرت کے واقعات سے نتائج کا استنباط، اس کتاب کی نمایاں خصوصیت ہے۔

روز نامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے کالم ’’شمع فروزاں ‘‘ میں سیرت کے موضوع پر جو تحریریں لکھیں ہیں، ان کا مجموعہ ’پیام سیرت عصر حاضر کے پس منظر میں ‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے، اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں سیرت محمدیﷺ کے نقوش اجاگر کرنے کے ساتھ سیرت کے مختلف واقعات سے مسلمانوں کو جوسبق ملتا ہے، جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے اس کو اجاگر کرنے کی خاص طور پر کوشش کی گئی ہے، اس طرح یہ اہل علم کے ساتھ عام قارئین کے لئے بھی قابل قدر علمی تحفہ بن گیا ہے۔

فقہی دنیا کی معروف شخصیت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کے انتقال کے بعد مولانا نے ’’بحث و نظر‘‘ کا خصوصی شمارہ قاضی نمبر مرتب کر کے شائع کیا، یہ تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے اور ایک علمی دستاویزی مجلہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی ابتداء میں حضرت قاضی صاحب کے حالات زندگی، آپ کی خدمات اور علمی کاموں کے تعارف پر ایک مبسوط تحریر لکھی ہے، یہ تحریر ’حیات مجاہد‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، حضرت قاضی صاحب کی خدمات اور آپ کے افکار کو سمجھنے کے لئے یہ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔

ان کے علاوہ ہندوستان کی مختلف علمی و دینی شخصیات پر آپ قلم اٹھاتے رہے ہیں، اسی طرح وفیاتی مضامین اور اپنے اساتذہ سے متعلق تحریروں کا مجموعہ ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔

المعہد العالی کے قیام کے سلسلہ میں مولانا کے ذہن میں جو خاکہ تھا، اس میں غیرمسلموں میں دعوت دین کا فریضہ انجام دینے کے لئے افراد کی تربیت و ذہن سازی بھی ہے، اس مقصد کے تحت ابتداء سے ہی دعوت کا شعبہ قائم ہے، جہاں نظری و عملی دونوں تربیت کا انتظام ہے، اس کے نصاب کے لئے مولانا نے خود ہی ایک کتاب تیار کی ہے، جس میں دعوت کی اہمیت اور طریقہ کار سے متعلق آیات و احادیث کو جمع کیا ہے اور پھر ان سے مستنبط ہونے والے مسائل کی وضاحت کی ہے، یہ اہم کتاب عربی میں ’فقہ الدعوہ‘ کے نام سے شائع ہو گئی ہے، اسی موضوع پر آپ نے رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں مقالہ پیش کیا تھا جو ’’الدعوۃ الی اللّٰہ وواجب المسلمین نحوھا‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔

ان کے علاوہ مدارس کے طلبہ کے لئے آسان دینیات، منصف کے مضامین کا مجموعہ: نقوشِ موعظت، عصر حاضر کے سماجی مسائل، دینی و عصری تعلیم: مسائل اور حل، شمع فروزاں، دعوتی و تذکیری انداز کی کتابیں ہیں۔

دیگر کتب: آپ کی بقیہ کتابیں حسب ذیل ہیں :

راہ اعتدال: اس کتاب میں علماء احناف اور علماء اہل حدیث کے مابین بعض اختلافی مسائل کی توضیح اور دونوں مکاتب فکر کے درمیان اختلاف کو علمی اختلاف کے دائرے میں رکھنے اور افراط و تفریط سے بچنے کی معتدلانہ فکر پیش کی گئی ہے۔

مروجہ بدعات: یہ کتاب فقہاء اسلام کی نظر میں مختلف بدعات کے بارے میں فقہاء کی آراء پر مشتمل ہے۔

مسلم پرسنل لا ایک نظر میں : مسلم پرسنل لا اور اس کی سرگرمیوں پر مشتمل یہ کتاب حیدرآباد میں بورڈ کے اجلاس کے موقعہ پر پیش کی گئی۔

حقائق اور غلط فہمیاں : یہ کتاب روز نامہ ’’مصنف‘‘ کے مضامین کا مجموعہ ہے۔

عورت اسلام کے سائے میں : اس کتاب میں اسلام میں عورت کے حقوق کا دیگر مذاہب سے موازنہ کیا گیا ہے۔

متاعِ سفر: مختلف ممالک اور ہندوستان کے بعض اہم اسفار کی دلچسپ و معلومات افزا روئداد، جو وہاں کے گوناگوں حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔

 

شعر و ادب کا ذوق

 

اللہ تعالیٰ نے مولانا کو شعر و ادب کا بھی خاص ذوق عطا فرمایا ہے، آپ کی کوئی بھی تحریر ادبی چاشنی اور زبان و بیان کی حلاوت سے خالی نہیں ہوتی، فقہ کے دقیق اور خشک مسائل کی توضیح و تشریح میں بھی زبان کی مٹھاس باقی رہتی ہے، جدید مسائل، حلال و حرام، قاموس الفقہ، کوئی بھی کتاب اٹھا لیجئے ! کہیں آپ کو بوجھل پن، الفاظ کا غیر موزوں استعمال یا ثقالت نظر نہیں آئے گی، بلکہ آپ ہر جگہ اور ہر عبارت میں روانی، سلاست، اور زبان کی حلاوت محسوس کریں گے، مولانا کی کتابوں کی مقبولیت اور زیادہ پڑھی جانے کے پیچھے ایک بڑا محرک یہی ادب نوازی اور زبان شناسی ہے، فقہ کے علاوہ اصلاحی و  تذکیری انداز کی تحریروں، شخصیات کے تعارف میں خاکہ نگاری، سفرناموں کی منظر کشی میں آپ کا ادبی ذوق طبیعت پر غالب آ جاتا ہے اور آپ کا قلم گل بوٹے کھلاتا نظر آتا ہے۔

اردو کے صاحب طرز ادیب و نامور مصنف پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے مولانا کی زبان و بیان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ سند کا درجہ رکھتا ہے، پروفیسر صاحب قاموس الفقہ کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں :

’’۔ ..۔ کتاب اس جلیل القدر عالم کے قلم سے ہے، جو فقہ اسلامی پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ بہترین انشاء پرداز بھی ہے، اس کی تحریر آراستگی اور مشاطگی کی بہت شعوری کوششوں اور خون جگر کی کشید کے بغیر ادبی اعتبار سے نفیس اور آبدار ہوتی ہیں، ان کی تحریروں کے درمیان ایسے جملے ملتے ہیں، جنہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نسیم سحرکا جھونکا آ گیا:

ع۔ جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم‘‘   (قاموس الفقہ مقدمہ)

ادب کے بارے میں مولانا کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ادب کو فکر کی تعمیر اور اخلاق کی اصلاح میں استعمال ہونا چاہیے، مولانا اپنے ایک مضمون ’’جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا‘‘ میں رقمطراز ہیں :

’’اسلام نے اس مزاج کو بدلا اور ایک ایسے ادب کو وجود بخشا، جو صالح انقلاب کا داعی تھا، جوانسان کے اندر اپنے خالق و مالک کی محبت پیدا کرتا ہے، بغاوت کے بجائے محبت و ایثار کی تعلیم دیتا ہے، خوشامد کے بجائے حقیقت پسند بناتا ہے، محبوب کے نقش و نگار اور خدوخال کو بے پردہ کرنے کے بجائے شرافت و پاکیزگی اور حیا کی تعلیم دیتا ہے، زندگی کے حقیقی مسائل کو ابھارتا ہے، اور پاکیزہ اخلاقی جذبات کی طرف دعوت دیتا ہے، یہ ادب برائے ادب اور شعر برائے شعر کا قائل نہیں بلکہ ادب برائے تعمیرو اصلاح کا قائل ہے۔

شعراء و ادباء اسی فرسودہ تصور کے اسیر ہو کر رہ گئے، جس کا مقصد خیالی شاعری اور خیالی جذبات نگاری کے سوا اور کچھ نہیں، آج کا ادیب و شاعر آسائش گاہوں میں بیٹھ کر غریبوں کا فسانہ بیان کرتا ہے اور جشن و طرب کی بزمیں سجا کر نوحہ وفاتحہ کرتا ہے، ایسے ادب میں دلوں کی دنیا کو بدل دینے اور برف میں آگ لگانے کی صلاحیت کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے ؟ جس شاعری اور ادب میں خون جگر شامل نہ ہو، جس کی تہوں میں درد انگڑائیاں نہ لیتا ہو، جس کے الفاظ کے پس پشت حقیقی معنوں میں درد وکسک نہ ہو، اس ادب سے کان کی لذت کا سامان تو ہو سکتا ہے دلوں کی دنیا نہیں بدل سکتی۔ ‘‘ (نقوش موعظت)

یہ مولانا کے نثری ادب کا مختصر تذکرہ تھا، مگر اس فقیہ کے اندر چھپا ادب شناس اور سخن نواز ادیب بھی ہے، یہ شاید کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مولانا موصوف شعر و شاعری کا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، طبع آزمائی بھی فرماتے ہیں، آپ نے زیادہ تر حمد و نعت اور اصلاحی نظمیں کہی ہیں، بہت سی غزلیں بھی دورِ شباب کی یادگار ہیں، بعض حمدیہ اور نعتیہ اشعار اور اصلاحی نظمیں پندرہ روزہ ’قرطاس و قلم‘ اور ماہنامہ ’صفا‘ کی زینت بن کر قارئین تک پہنچ چکی ہیں، البتہ اس کا اکثر حصہ اب بھی ڈائری کے صفحات میں موجود ہیں، ایک طویل حمدیہ نظم کا آخری بند اس طرح ہے :

یہ بہار و کیف، یہ دلکش گلستاں و چمن

یہ سبھی ہیں اس کے حسن ناز کی اک انجمن

وہ نہیں رہتا ہے سنگ و خشت کی دیوار میں

وہ نہیں رہتا ہے عیش و طرب کے بازار میں

وہ نہیں رہتا ہے کوہ و دشت میں یا غار میں

ہاں اگر رہتا ہے تو رہتا ہے قلب یار میں

ہر جگہ موجود ہے ہر گام پہ رہتا ہے وہ

بادشاہوں کی نہیں، مظلوموں کی سنتا ہے وہ

بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو دل کے زخموں کو رسالت مآب کی خدمت میں اس طرح پیش کیا:

کچھ غلامانِ ہندی ہیں آئے ہوئے

چوٹ کھائے ہوئے دل دکھائے ہوئے

خون دل میں سراپا نہائے ہوئے

زخم سینوں میں اپنے سجائے ہوئے

سنگ پر سنگ، ہنس ہنس کے کھائے ہوئے

غم کے بادل ابھی تک ہیں چھائے ہوئے

ایک مدت ہوئی گیت گائے ہوئے

ایک زمانہ ہوا مسکرائے ہوئے

ہیں کھڑے چشم پر نم جھکائے ہوئے

ہاتھ اپنی طلب کے اٹھائے ہوئے

شعر و ادب کا خصوصی ذوق پانے کے نتیجے میں مولانا کے اسلوب میں موثر اور پرکشش اسلوب نگارش کے اوصاف پیدا ہو گئے ہیں، علمی مواد کے ساتھ زبان و بیان کی چاشنی بھی ہو تو تحریروں میں شتابہ لگ جاتا ہے، مولانا کی تحریروں کا یہی حال ہے، مولانا کی کتابوں کی مقبولیت میں اس کا بھی بڑا دخل ہے، فقہ کی کتابیں عموماً خشک شمار کی جاتی ہیں، مگر مولانا کی فقہی تحریروں میں ایسی سلاست، روانی اور شستگی نظر آتی ہے جو آپ کے ادبی ذوق کا حصہ ہے۔

مولانا محمد رضوان القاسمی اس خصوصی وصف کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’عزیز گرامی جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جن کو عرصہ سے حدیث کی تدریس کا شرف حاصل ہے اور اپنی تدریسِ حدیث کے اعتبار سے وہ طلبہ میں بڑی وقعت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، مشکل اور خشک مضمون کو بھی دلآویز اور شگفتہ زبان میں بیان کرنا ان کا امتیاز ہے، قاموس الفقہ، جدید فقہی مسائل، حلال و حرام، عورت اسلام کے سائے میں اور طلاق و تفریق وغیرہ ان کے قلم کی پختگی اور رعنائی کی شاہد عدل ہے۔ ‘‘

فقہی تحریروں میں ادب و انشاء کا اظہار کمال کی بات ہے، اور مولانا کو یہ کمال حاصل ہے، قاموس الفقہ میں آپ نے دعا اور دوسرے عناوین پر جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

 

صحافت سے تعلق و وابستگی

 

مولانا کی خدمات کا ایک روشن پہلو صحافت بھی ہے، آپ نے صحافت کو اپنے مادی مفاد کا ذریعہ تو کبھی نہیں سمجھا، البتہ اسے اپنی فکر و خیال کے اظہار کا وسیلہ بنا کر اس وسیع میدان سے فائدہ اٹھایا، اور امت کی دینی رہنمائی اور ان میں دینی مزاج پیدا کرنے کا کام کیا۔

مونگیر کے زمانہ طالب علمی میں ہی مولانا کا پہلا مضمون ہجرت سے متعلق ہفت روزہ نقیب میں شائع ہوا تھا، فراغت کے بعد دوسال امارت شرعیہ میں قیام رہا، اس زمانہ میں نقیب میں مسلسل آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے، رانچی میں بورڈ کے اجلاس کے موقع پر نقیب کا پرسنل لا نمبر، اور پھر اس کے بعد مولانا سجاد نمبر کی ترتیب میں شریک رہے، حیدرآباد پہنچے تو وہاں ماہانہ ’رہ گذر‘ پندرہ روزہ ’قرطاس و قلم‘ کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا، دارالعلوم سبیل السلام سے سہ ماہی ’صفا‘ جاری کیا اور اس کی ادارت میں شریک رہے، اس کے دو خصوصی شمارے ’’ ادب اسلامی نمبر‘‘اور ’’ فقہ اسلامی خدمات اور تقاضے ‘‘ نمبر آپ کے صحافتی ذوق کی کامیاب مثالیں ہیں، ادھر تقریباً ۱۹۹۸ئ سے روزنامہ منصف حیدرآباد کے جمعہ ایڈیشن میں دو کالم دینی و اصلاحی مضامین پر مشتمل ’’شمع فروزاں‘‘ اور ’’شرعی مسائل‘‘ مسلسل لکھ رہے ہیں، المعہد العالی کے قیام کے بعد آپ نے سہ ماہی ’حراء‘ جاری کیا، جو بعد میں سالانہ ہو گیا، اس کی ادارت بھی آپ سے متعلق تھی، اب فقہی مسائل پر منفرد مجلہ سہ ماہی ’بحث ونظر‘ بھی آپ کیا دارت میں شائع ہو رہا ہے، ان کے علاوہ متعدد رسائل و جرائد کے نگراں و شریک ادارت ہیں۔

 

چند امتیازی خصوصیات

 

مولانا جہاں ایک عظیم علمی شخصیت کے مالک ہیں، وہیں آپ کی زندگی میں متعدد ایسے اوصاف ملتے ہیں، جن کی وجہ سے آپ کا قد اپنے ہمعصروں کے درمیان ممتاز اور نمایاں نظر آتا ہے، آپ کی شخصیت کا سب سے امتیازی پہلو فکری اعتدال ہے، یہ اعتدال و توازن آپ کے فکر و عمل میں پوری طرح رچا بسا نظر آتا ہے، فقہی تحریروں میں اسلاف کے علمی سرمایہ، فقہاء کے اختلافات، محدثین کی آراء، صاحبِ تحریر کی تحقیق اور زمانہ کے تقاضوں کی رعایت، ان سب سے بیک وقت واسطہ پڑتا ہے، ایسے موقعہ پر حسب مراتب و مدارج، احکام و آراء کو مناسب حیثیت دینا، قلم کو اعتدال کے دائرے میں رکھنا اور انصاف کے دامن کو تھامے ہوئے تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کرنا، بڑا نازک اور جان گسل کام ہوتا ہے، بلاشبہ مولانا اس وادی سے کامیاب گزر جاتے ہیں، آپ کی تحریریں اس باب میں نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مولانا حنفی دبستانِ فقہ سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا عام مسائل میں آپ فقہ حنفی کے پابند ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں، مگر جب نئے مسائل میں غور کرتے ہیں، یا عرف کی تبدیلی، سیاسی اور معاشی نظام میں تغیر، حالات کے اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر کسی قدیم مسئلہ کو غور و فکر کا موضوع بناتے ہیں، تو کتاب و سنت کے نصوص کے ساتھ صحابہ و تابعین کی آرائ، ائمہ اربعہ و دیگر فقہاء متقدمین کے استنباطات کو سامنے رکھتے ہیں، مقاصد شریعت اور مصالح شریعت پر نظر رہتی ہے، فقہاء کے اصول بھی اور زمانہ کے تقاضے بھی پیشِ نظر ہوتے ہیں، ان ساری چیزوں کو سامنے رکھ کر دلائل کی قوت اور دیگر چیزوں کی رعایت کے ساتھ کسی حکم تک پہنچتے ہیں۔

مسائل کے حل کے عمل میں مولانا کی حیثیت ایک بالغ نظر محقق کی ہوتی ہے، جو فن پر حاوی ہوتا ہے، اور اس فن کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کے ساتھ کوئی رائے پیش کرتا ہے۔

اہل علم مولانا کے اس فکری اعتدال و توازن کے معترف رہے ہیں، مولاناسید سلمان حسینی ندوی کو آپ کی تحریروں میں شاہ ولی اللہ دہلوی کا رنگ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے، جبکہ مولانا سید جلال الدین انصر عمری ان الفاظ میں اپنا تاثر بیان کرتے ہیں :

’’مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا قلم بڑا معتدل اور متوازن ہے، وہ بالعموم فقہ حنفی کی ترجمانی اور اس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی دوسرے مسالک فقہ کا بڑے احترام کے ساتھ ذکر کرتے اور ان کے دلائل کی روشنی میں بناء اتفاق و اختلاف واضح کرتے ہیں، ان کی بحث تعصب اور جذباتیت سے پاک ہوتی ہے۔ ‘‘ (قاموس الفقہ، مقدمہ:۱۸۲)

مولانا کا دوسرا امتیازی وصف علم و عمل میں تنوع ہے، مولانا کا اصل موضوع فقہ اور بالخصوص جدید مسائل ہے، مگر جیساکہ پیچھے گزرا مولانا قرآنیات، حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی زبان، مقاصد شریعت اور ان سب سے متعلق ذیلی فنون پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر موضوعات پر آپ کی علمی نگارشات بھی ہیں جو مختلف علوم سے واقفیت پر شاہد عدل ہیں۔

علم کی طرح عملی زندگی بھی متنوع ہے، تدریس آپ کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے، اور حیات مستعار کے زیادہ تر لمحات اسی میں صرف ہوئے، تدریس کے ساتھ انتظامی امور کو سنبھالنا اور دونوں ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا عموماً مشکل ہوتا ہے، مولانا کے ساتھ یہ مسائل شروع سے متعلق رہے اور آپ دونوں ذمہ داریوں کو بحسن خوبی نبھاتے رہے، ان کے علاوہ مولانا غیر مسلموں میں دعوتی کام کا بڑا جذبہ رکھتے ہیں، آپ نے المعہد العالی میں اس کا مستقل شعبہ قائم کیا، جہاں دعوتی کیمپ بھی لگواتے ہیں، اور طلبہ عملی طور پر بھی اس کام کی مشق کرتے ہیں، آپ ان سارے کاموں کی نگرانی فرماتے ہیں، اسی کے ساتھ حیدرآباد شہر کا دعوتی مرکز ’دی ٹرومیسج سینٹر‘ آپ کی نگرانی میں ہی اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے، علمی و دعوتی اسفار، متعدد مدارس کی نگرانی، تنظیموں اور اداروں سے وابستگی اور ملی کاموں میں شرکت اور بطور خاص اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کی سرگرمیوں کی نگرانی ان سب پر مستزاد ہیں۔

تیسرا اہم امتیازی پہلو افراد سازی کا ملکہ ہے، اللہ تعالیٰ نے افراد کی تربیت اور فضلاء مدارس میں علمی ذوق و شوق پیدا کرنے کی خاص صلاحیت آپ میں رکھی ہے، آپ کی اس خصوصی صلاحیت کا اعتراف اکابر علماء نے کیا ہے، مولانا محمد برہان الدین سنبھلی صاحب لکھتے ہیں :

’’راقم الحروف عرصہ دراز سے برادر محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا قائل و معترف، ان کی فاضلانہ کتابوں اور محققانہ مضامین کی بناء پر رہا ہے، اس کے ساتھ تدریسی و تربیتی امتیاز کا تذکرہ بھی ادھر عرصہ سے سننے میں آ رہا ہے ‘‘۔

مولانا عتیق احمد بستوی صاحب لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو فضلاء کی تربیت اور افرا سازی کا خصوصی ملکہ اور سلیقہ عطا فرمایا ہے ‘‘۔

مولانا نعمت اللہ اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں :

’’مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو اختصاصی شعبوں میں تربیت دینے کی مہارت حاصل ہے اور اس کا طویل تجربہ ہے ‘‘

مولانا کے تربیت یافتہ تلامذہ اور آپ سے خصوصی فیض اٹھانے والوں میں ایک اہم نام مولانا اشرف علی قاسمی کا بھی ہے، جو اس وقت المعہد العالی کے استاد ہیں، انہوں نے آپ کی تربیت کا نقشہ کھینچا ہے، جوان کا دیدہ بھی ہے اور شنیدہ بھی، مولانا لکھتے ہیں :

’’مولانا کی سب سے نمایاں صفت تربیت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا عجیب ملکہ عطا فرمایا ہے، تربیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ معمولی طالب علم کا بھی حوصلہ اس قدر بڑھاتے ہیں کہ اس کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ محنت کر کے بڑے سے بڑا سفر طئے کر سکتا ہے، طلبہ عام طور پر اپنے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ بڑی حکمت کے ساتھ ان کے اس احساس کو دور کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم فلاں فلاں مراجع سے رجوع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو، پھر جو طلبہ لکھنے میں مبتدی ہیں ان کی تحریر یا مواد کی تخریج پر خوب تحسین کرتے ہیں، وہ لکھ کر لائیں تو بہت سی غلطیوں کو بلا ارادہ نہیں کاٹتے، تاکہ وہ ہمت نہ ہارے، اگر پوری سطر میں صرف ایک لفظ رکھے جانے کے لائق ہو تو اس ایک لفظ کو رکھتے ہوئے پوری سطر کی اصلاح کرتے ہیں، تاکہ طالب علم کو یہ خیال نہ ہو کہ اس کی پوری تحریر کٹ گئی، غلطیوں سے پُر تحریر کی بھی اصلاح کرتے ہوئے کہتے کہ ماشاء اللہ تمہارے اندر بڑی صلاحیت چھپی ہوئی ہے، بس کسی قدر محنت کی ضرورت ہے، اس سے طالب علم حوصلہ پا کر محنت کرتا ہے اور پھر واقعی کسی لائق ہو جاتا ہے، پھر اسی طالب علم کی جب کسی قدر تربیت ہو جائے تو اس کی گرفت بھی کرتے ہیں اور حسب موقع ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی ہے۔ ‘‘

مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی محبت کرتے ہیں، طلبہ پر ایسی شفقت فرماتے کہ ہر طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ مولانا مجھے زیادہ چاہتے ہیں، مولانا انہیں اپنے فرزندوں کی طرح اور بسا اوقات اس سے بڑھ کر چاہتے ہیں، چھوٹے کام پر بھی اس قدر خوشی کا اظہار کرتے اور ایسی حوصلہ افزائی کرتے کہ بڑے سے بڑے کام کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے، کسی سے تھوڑا سا بھی علمی تعاون لیں تو مقدمہ میں اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں، طلبہ کے مقالات کی نظر ثانی کے وقت نہ صرف سطر سطر پڑھ کر اصلاح کرتے ہیں، بلکہ ضرورت ہو تو اپنی طرف سے کئی کئی پیراگراف لکھ کر اس میں قیمتی اضافہ فرما دیتے ہیں۔

علمی کاموں سے مولانا بے حد خوش ہوتے ہیں اور کھل کر ان کی پذیرائی کرتے ہیں، کام معیاری درجہ کا ہو یا نہ ہو، مگر مولانا اس طرح تاثر کا اظہار کرتے ہیں گویا کوئی بڑا علمی کام کیا گیا ہو۔

مولانا کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو آپ کی وسیع النظری اور وسیع المشربی ہے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ہیں، تاہم بڑے کشادہ ذہن اور کھلے فکر کے حامل ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی کی ذمہ داری کے بعد تو بہت زیادہ اور اس سے پہلے بھی آپ کا دوسرے مکاتب فکر کے علماء سے قریبی رشتہ رہا ہے، آپ کے قائم کردہ تحقیقی و تربیتی ادارہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں ندوہ اور دیوبند کے فضلاء کے ساتھ ساتھ جامعۃ الفلاح، عمر آباد، نیز دیگر اداروں کے طلباء بھی ہوتے ہیں، آپ ان سب کے درمیان نہ صرف یکساں سلوک کرتے ہیں، بلکہ موقع بہ موقع اور مختلف نشستوں میں طلباء کے مابین فکری بعد کو کم کرنے اور ان کے مزاج میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کے اس خاموش عمل کا طلباء پر خاصا اثر ہوتا ہے، چنانچہ جب معہد کی علمی فضاء میں دوسال گزار کروہ رخصت ہوتے ہیں، تو ان کے دامن میں علم و تحقیق کے شوق کے ساتھ فکری اعتدال کی عطر بیز خوشبو بھی ہوتی ہے، جو ان کو ہر علاقہ اور ہر مزاج کے افراد کے درمیان رہنے اور کام کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔

مولانا کی زندگی کے حالات، علمی خدمات، اور فقہی افکار و خیالات کو چند صفحات میں سمیٹنا مشکل ہے، اس مضمون میں مولانا کے علمی کاموں کا مختصر تعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ آپ کی خدمات کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے۔

اللہ تعالیٰ مولانا کی عمر دراز فرمائے اور طالبان علوم نبوت کو زیادہ دنوں تک آپ سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) مضمون مولانا منور سلطان ندوی، از: پیام سیرت۔ (اکثر حصہ اسی سے ماخوذ ہے )

(۲) مولانا کی تصنیفات اور ان پر لکھے گئے مقدمات۔

(۳) المعہد العالی کی ویب سائٹ۔

 

(۱۰) فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس

حفظہ اللہ

 

                   ولادت: ۱۳۸۲ھ /۱۹۶۲ء

 

 

 

 

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا

 

 

 

مختصر سوانحی خاکہ

 

نام:            عبد الرحمن السدیس

والد کا نام:      عبد اللہ السدیس

جائے پیدائش: بکیریہ، القصیم، سعودیہ عربیہ

تاریخ پیدائش: ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۰  فروری۱۹۶۰ء

ابتدائی تعلیم:    مثنی بن حارثہ ایلیمینٹری اسکول، ریاض

ثانوی تعلیم:     المعہد العلمی، امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، ریاض

تکمیل:         جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ

موجودہ اہم ذمہ داری: امام و خطیب مسجد حرام، صدر امور حرمین شریفین

حالیہ پتہ:       مکہ مکرمہ

 

 

تمہید

 

عصر حاضر میں ایسی شخصیات بہت کم ہوں گی، جنہیں عالم اسلام میں نہایت محبت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس انہی خوش قسمت اور نامور شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہیں عالم اسلام میں نہایت اعلیٰ اور ممتاز مقام حاصل ہے، بلا مبالغہ دنیا میں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی ہے، خطبات جمعہ میں حاضر ہوئے ہیں، اور ختم قرآن کے موقع پر شریک ہوئے ہیں۔

ولادت با سعادت:

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس سعودی عرب میں صوبہ قصیم کے علاقہ بکیریہ میں ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۰  فروری۱۹۶۰ء کو پیدا ہوئے۔

 

نام ونسب اور کنیت

 

عبد الرحمن بن عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز بن محمد بن عبد اللہ السدیس، کنیت: ابو عبد العزیز۔

 

تعلیم و تربیت

 

تعلیم کا آغاز ریاض کے ایک ادارہ جمعیۃ تحفیظ القرآن الکریم سے ہوا، اور بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس بچپن ہی سے نہایت ذہین اور فطین تھے، حافظہ بلا کا تیز تھا، والدین نے بھی اپنے ہونہار بچے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی، متعدد نامور علماء اور قراء نے ان پر خوب محنت کی، تکمیل حفظ کے بعد ابتدائی تعلیم ریاض کے ایک مدرسہ مثنی بن حارثہ میں حاصل کی۔

پھر آپ کا داخلہ ریاض کے المعہد العلمی میں ہو گیا، یہاں آپ نے اسلام کے بنیادی علوم حاصل کئے، اور ۱۹۷۹ء میں امتیازی نمبرات کے ساتھ یہاں سے فراغت حاصل کی۔

مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آپ نے کلیۃ الشریعہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے اس وقت کے اہم علماء سے خوب خوب استفادہ کیا، اور ۱۹۸۳ء میں یہاں سے تعلیم مکمل کی۔

 

علمی حلقوں میں شرکت اور اہم علماء سے استفادہ

 

ریاض کی بڑی بڑی مساجد میں بہت سے علمی حلقے قائم ہیں، جس دور میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس طالب علم تھے، شیخ علامہ عبد العزیز بن باز کا دیرہ کی مسجد میں علمی حلقہ معروف تھا، ریاض و اطراف سے طلباء آتے اور تفسیر، حدیث و فقہ کے علوم کو حاصل کر کے اپنے دلوں کو نور علم سے منور کرتے، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے ان علمی حلقوں سے خوب استفادہ کیا، جن دیگر اساتذہ سے انہوں نے فیض حاصل کیا، ان میں علامہ عبد الرزاق عفیفی، ڈاکٹر صالح الفوزان، شیخ عبد الرحمن البراک اور شیخ عبد العزیز الراجحی جیسی شخصیات شامل ہیں۔

 

آغازِ تدریس و خطابت

 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے علم میں بتدریج پختگی آتی چلی گئی، خطابت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، انہوں نے ریاض کی بڑی بڑی مساجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیا، پھر وہ ریاض کی ایک بڑی مشہور و معروف مسجد، جو ان کے استاد شیخ عبد الرزاق عفیفی کے نام سے موسوم تھی، بطور خطیب متعین کئے گئے، ساتھ ساتھ وہ کلیۃ الشریعہ، ریاض میں تدریس کے فرائض بھی انجام دینے لگے۔

 

ڈاکٹریٹ کی تکمیل

 

امامت و خطابت کے ساتھ آپ نے تعلیم وتدریس کو بھی جاری رکھا، اور ریاض کی امام سعود یونیورسٹی سے ۱۴۰۸ھ میں فقہ اسلامی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

اس کے بعد انہوں نے جامعہ ام القری کے قسم القضاء (لاء کالج) میں طلبہ کو پڑھانا شروع کیا، اس دوران پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھتے رہے، اور ۱۹۹۶ء میں امتیازی حیثیت سے فقہ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ ام القری مکہ مکرمہ سے حاصل کی۔

 

مسجد حرام میں امامت و خطاب

 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کو ۱۹۸۴ء میں مسجد حرام کا امام اور خطیب مقر ر کیا گیا، اس وقت سے اب تک اس عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں، اس دوران ہر سال انھیں رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کا موقع ملا، دیگر ائمۂ حرمین اور بطور خاص فضیلۃالشیخ سعود الشریم کے ساتھ نہ جانے کتنی بار قرآن مجید حرم شریف میں سنایا ہے، حرم مکی میں آپ کی امامت کا آغاز ۲۲  شعبان ۱۴۰۴ ہجری مطابق ۲۳  مئی ۱۹۸۴ء سے ہوا، جہاں آپ نے سب سے پہلے عصر کی نماز کی امامت کی، نیز اسی سال رمضان میں آپ نے حرم مکی میں پہلا جمعہ کا خطبہ بھی دیا۔

 

مسجد حرام میں مجالس درس

 

اللہ کی طرف سے ان کو اور ایک اعزاز یہ بخشا گیا کہ ۱۴۱۶ھ میں بیت اللہ شریف کے صحن میں مغرب بعد درس وتدریس کے لئے انھیں بطور مدرس مقر ر کیا گیا، جہاں پر وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کے سامنے عقیدہ، فقہ، تفسیر اور حدیث کے موضوعات پر درس دیتے ہیں، اور لوگوں کو ان کے سوالات کے شافی جوابات دیتے ہیں۔

 

صدارت امور مسجد حرام ومسجد نبوی

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیخ پر اور بہت سے انعامات کے ساتھ ایک بڑا انعام و اکرام کا معاملہ یہ بھی کیا کہ آپ کو امور حرم مکی و حرم مدنی کی صدارت کا منصب عطا کیا گیا، ۱۷  جمادی الثانی ۱۴۳۳ھ بروز منگل شاہی فرمان جاری ہوا، جس میں سابق صدر صالح بن عبد الرحمن الحصین کی صحت کی خرابی کے پیش نظر ان کا استعفاقبول کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمن السدیس کو ان کی جگہ صدر مقر ر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔

 

تصنیفی و تالیفی خدمات

 

امامت و خطابت اور درس وتدریس نیز اہم اسفار و دیگر مشغولیات کے ساتھ شیخ کا میدان قلم وقرطاس میں بھی اپنا ایک منفرد مقام اور یگانہ اسلوب ہے، اب تک آپ کے قلم گوہر بار سے کئی کتابیں اور رسالے سپرد قرطاس ہو کر قبول خاص و عام حاصل کر چکے ہیں، جن کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے، چند کتابوں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں :

(۱) تحزیب القرآن فی قیام رمضان

(۲) الرقیۃ الشرعیۃ: أحکام وآداب

(۳) المبھج فی الفتوی المفھوم و المنھج

(۴) طرف وملح وفوائد متنوعۃ

(۵) العلامۃ الشیخ عبد الرزاق العفیفی ومنھجہ الأصولی

(۶) السیاحۃ فی میزان الشریعۃ

(۷) تنبیھات ھامۃ بمناسبۃ عام ۲۰۰۰ م

(۸) کوکبۃ الخطب المنیفۃ من منبر الکعبۃ الشریفۃ

ان کتابوں کے علاوہ آپ کے خطبات کے مجموعے بھی مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں۔

اساتذہ:

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس نے اپنے وقت کے اہم اور جید علماء سے کسب فیض کیا، اور ان سے بھرپور استفادہ کیا، جن کی فہرست طویل ہے، ذیل میں چند اہم اساتذہ کا ذکر کیا جاتا ہے :

(۱) فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن آل فریان

(۲) شیخ قاری محمد عبد الماجد ذاکر

(۳) شیخ محمد علی حسان

(۴) شیخ عبد اللہ المنیف

(۵) شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن تویجری

(۶) شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ

(۷) شیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن جبرین

(۸) علامہ عبد العزیز بن باز

( ۹) علامہ عبد الرزاق عفیفی

(۱۰) ڈاکٹر صالح الفوزان

(۱۱) شیخ عبد الرحمن البراک

(۱۲) شیخ عبد العزیز الراجحی

کسی بھی معروف علمی شخصیت کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے، برصغیر کے بیشتر قارئین کے لئے مندرجہ بالا اساتذہ یقیناً غیر معروف ہوں گے، مگر اہل علم حضرات کے لئے یہ شخصیات جانی پہچانی اور بڑے علمی مقام کی حامل ہیں، جس سے ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے علمی رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

اسفار

 

مقامی مشغولیات کے ساتھ بطور امام حرم امت مسلمہ کے حالات سے واقفیت اور ان کی صحیح رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً دنیا کے مختلف علاقوں کے اسفار بھی ہوتے رہتے ہیں، ابھی چند سال قبل ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۱ ء کو امام حرم کا ہندستان کا بھی سفر ہوا تھا، جس میں آپ ازہر ہند دار العلوم دیوبند بھی حاضر ہوئے تھے، اور پورے ہندستان میں ہر طرف اسی کا تذکرہ  وچرچہ تھا، اس سے پہلے بھی ۱۹۸۴ء میں ہندستان کا سفر ہوا تھا، جس میں دار العلوم ندوۃ العلماء بھی حاضری ہوئی تھی۔

 

انعامات و اعزازات

 

امام حرم کی ان قابل قدر خدمات کے اعتراف میں بہت سے جلسے ہوئے، اور انعامات و اعزازات سے نوازا گیا، خاص طور پر ۲۰۰۵ء میں دبئی کی ایک تنظیم کی طرف سے انہیں سال رواں کی اسلامی شخصیت کے انعام کے لئے منتخب کیا گیا، اور انہیں اسلام اور قرآن مجید کے تعلق سے نمایاں ترین شخصیت قرار دیا گیا۔

 

شیخ سدیس اور امامت و خطابت

 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس اپنی خوبصورت آواز، قرآن کریم کی بہترین اور پُر اثر تلاوت کے لئے مشہور ہیں، جب وہ اپنی دل کش آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو سننے والے جھوم اٹھتے ہیں، خود ان پر اور سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے، وہ قرآن حکیم کی تلاوت کے دوران خود بھی روتے ہیں اور اپنے سامعین کو بھی رلاتے ہیں۔

تلاوت قرآن کریم کی تاثیر ہی نرالی ہے، جتنی بار پڑھ لیں یا سن لیں، ہر دفعہ ایک نئی لذت محسوس ہوتی ہے، شیخ عبد الرحمن السدیس کی آواز میں تلاوت قرآن کریم پوری دنیا میں مقبول خاص و عام ہے، ہر شہر اور ہر بستی میں ان کی آواز گونجتی ہے، حرم پاک میں جائیں تو آپ کی پرسوز آواز کو سن کر دل کو سکون ملتا ہے۔

آپ قرأت کی مشہور روایت حفص عن عاصم الکوفی کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، آپ کی تلاوت پر مشتمل پورا قرآن عموماً دستیاب ہے، قرأت کے ساتھ تلاوت کی ریکارڈنگ بھی کی گئی ہے۔

جہاں کئی افراد نے آپ کی تلاوت کو سن کر اپنا قرآن درست کیا ہے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے صرف آپ کی تلاوت سن کر قرآن یاد کر لیا ہے۔

خود راقم کا تجربہ ہے، نیز والد ماجد اور دیگر کئی حضرات کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ حرم مکی میں امام حرم کی آمد کے ساتھ ہی ایک سماں بندھ جاتا ہے، ہر ایک آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا متمنی ہوتا ہے، اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر فخر کرتا ہے، اور اگر کچھ دنوں یا کسی سفر میں کسی کو یہ سعادت حاصل نہ ہو تووہ افسوس کا اظہار کرتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی دوسری وجہ شہرت وہ بلیغ و موثر خطبے ہیں، جو وہ مسجد حرام کے منبر سے دیتے ہیں، اسلام میں خطبۂ جمعہ کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت و فضیلت سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، گویا امت مسلمہ کو قدرتی طور پر ہفتہ میں ایک دن ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے نہایت زریں موقع دیا گیا ہے، جمعہ اور اس کے خطبہ کی اس اہمیت کے پیش نظر خطیب کی بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفت روزہ پروگرام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے، اور خطبات جمعہ تبرک یا وقت گزاری کے بجائے اصلاح اور دینی پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ بن سکیں، لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ خطبائے کرام کی اکثریت اس سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھا پاتی، خطیب کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ حالات حاضرہ کے مطابق خطبات مرتب کرے، جس کی وجہ سے یہ زریں موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

 

خطبۂ جمعہ کی اہمیت اور شیخ سدیس کی انفرادیت

 

خطیب کو سنت کے مطابق حالات و ضروریات کا ادراک اور لحاظ کرتے ہوئے موضوع اختیار کرنا چاہئے، موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیات اور صحیح احادیث کا انتخاب کرنا چاہیے، مستند کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، پھر حالات سے اس کی مطابقت ضروری ہے تا کہ لوگوں کی بروقت رہنمائی ہو سکے۔

خطبات جمعہ چاہے کسی بھی مسجد میں دیئے جائیں ان کی اپنی مستقلاہمیت و افادیت ہے، لیکن اس بنیادی اہمیت و افادیت میں زمان و مکان اور خطیب کی شخصیت کے لحاظ سے اضافہ ہوتا رہتا ہے، محلے کی مسجد کے مقابلے میں شہر کی جامع مسجد میں دئیے جانے والے خطبہ کا دائرۂ افادیت زیادہ وسیع ہو گا، شہر سے آگے بڑھ کر ملک کی مرکزی مسجد ہو تو اس میں دئیے جانے والے خطبوں کی افادیت دوچند ہو گی، اسی طرح خطیب کی شخصیت کے اعتبار سے بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے، اور اگر یہ خطبہ دنیا کے مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ کی مرکزی مسجد، مسجد حرام میں دیا جائے تو اس کی اہمیت، جامعیت اور افادیت کے کیا کہنے، جہاں دنیا بھر کے حجاج، معتمرین اور زائرین کا ہر وقت جم غفیر رہتا ہے، خطیب جمعہ کی آواز دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچتی ہے، یہ وہ بے مثل اعزاز و امتیاز ہے جو ائمہ حرمین کے علاوہ دنیا کے کسی اور امام یا خطیب کے حصہ میں نہیں آیا، ان میں بھی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کا مقام سب سے اعلیٰ ہے۔

آپ کے خطبات کی شان نرالی ہوتی ہے، عموماً حمد و ثنا ہی میں خطبہ کا موضوع سمیٹ دیتے ہیں، پھر حالات حاضرہ پر بقدر ضرورت تبصرہ اور عالم اسلام کے مرکزی منبر سے متعلقین، حکام، علماء، مبلغین، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ان کی ذمہ داریوں کی حکیمانہ اسلوب میں یاددہانی آپ کا خاص امتیاز ہے، موصوف کے دل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے جو تڑپ ہے، اس کا اندازہ ان خطبات پر نظر ڈالتے ہی ہو جاتا ہے، امت مسلمہ کے لئے شیخ محترم کی پرسوز دعاؤں کا تذکرہ تو زبان زد عام و خاص ہے، ولا أزکّی علی اللّٰہ أحداً۔

 

خطبۂ جمعہ کی تیاری میں شیخ سدیس کا طریقۂ کار

 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس خطبۂ جمعہ کی تیاری کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے :

’’ کویت کے مشہور عالم دین ڈاکٹر محمد العوضی کہتے ہیں : ایک دفعہ جب شیخ کویت کے دورے پر تھے، میری ان سے ملاقات ہوئی، میں نے ان کی شخصیت میں تواضع، حکمت و دانش اور علم و عمل کا ایک عمدہ نمونہ دیکھا، اسی دوران انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’کوکبۃ الکوکبۃ‘‘ کا ایک نسخہ ہدیہ کیا، اور فرمایا: ’’جب میں حرم مکی کے لئے خطبہ تیار کرتا ہوں، تو ہر خطبہ کو ایک عظیم مشن سمجھ کر تیار کرتا ہوں، جمعہ سے ایک دو روز پہلے ہی میں لوگوں سے ملاقاتیں بند کر دیتا ہوں، تا کہ پوری توجہ اور انہماک سے اپنے موضوع کا حق ادا کر سکوں، اور اس کے لئے درست ترین معلومات جمع کر سکوں، اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ عظیم مقام ہے جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور مقام نہیں، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے رسولﷺ نے کھڑے ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو خطاب فرمایا تھا‘‘۔

 

مجموعۂ خطبات اور مختلف زبانوں میں اس کی اشاعت

 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے اہم خطبات کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے، جس کے متعلق خود فرماتے ہیں :

’’میرے لئے یہ باعث مسرت وسعادت ہے کہ کچھ عرصہ قبل میرے ان خطبات جمعہ کا پہلا مجموعہ جو مسجد حرام میں دیئے گئے خطبات پر مشتمل تھا ’’کوکبۃ الخطب المنیفۃ من منبر الکعبۃ الشریفۃ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا، اس مجموعہ میں ربع صدی کے خطبات کا خلاصہ ہے، پھر میرے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ قارئین کرام نے اس مجموعہ پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اس کاوش کو بہت سراہا، خصوصاً علمی حلقوں اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں کام کرنے والوں میں اس کتاب کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

قارئین اور مختلف کرم فرماؤں کی طرف سے جو مختلف تجاویز پیش کی گئیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس مجموعہ کو مختصر کر کے شائع کیا جائے، تاکہ مزید افادۂ عام کی گنجائش پیدا ہو سکے، چنانچہ یہ مجموعہ جو پچاس خطبات اور بارہ ابواب پر مشتمل ہے، اس کے جواہر پاروں کو انیس خطبات کی شکل میں یکجا کیا گیا، اور ہر باب کے ایک یا دو خطبات کو اس میں شامل کیا گیا، جس سے کتاب کا مقصد بھی پورا ہو، اور تقسیم کرنے میں بھی سہولت ہو، اس مختصر مجموعہ کا نام ’’کوکبۃ الکوکبۃ‘‘ رکھا گیا، اسی مجموعہ کو دارالسلام نے ’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے اردو میں شائع کیا ہے ‘‘۔

 

شیخ سدیس کے ایک خطبہ کی ترجمانی

 

والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی مد ظلہ العالی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ادھر چند سالوں سے یہ موقع نصیب کیا ہے کہ ہر پندرہ دن میں ایک عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی ہے، اور دیگر نمازوں کے ساتھ ایک جمعہ بھی مسجد حرام میں ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے، ابھی کچھ دنوں قبل ایک جمعہ شیخ سدیس حفظہ اللہ کی اقتدا میں پڑھنے کا موقع ملا، والد ماجد نے ’’کعبہ معزز اور حرم معظم کی پاکیزہ فضا اور عرفانی ہوا سے ‘‘ کے عنوان سے اس جمعہ کی حاضری کی دلچسپ تصویر کشی کرتے ہوئے امام حرم کا مختصر تعارف پیش کیا ہے، اور خطبہ کی جامع ترجمانی بھی کی ہے، ذیل میں یہ مضمون پیش کیا جاتا ہے :

’’ الحمد للہ ثم الحمد للہ ۲۰  ربیع الاول ۱۴۳۷ھ مطابق یکم جون ۲۰۱۶ء کو راقم آثم (جس پر حق تعالیٰ بلند و بالا کا لطف و کرم ہے خاص، جس کی وجہ سے ہی وہ ہوتا رہتا ہے کعبۂ مشرفہ کی زیارت اور حج و عمرہ جیسی عبادت کے لئے پاس، جس سے شیطان رہتا ہے بے حد اداس، خدا کرے کہ اس کا ہو جائے ستیاناس، اور مجھ جیسے کمزور و بے زور سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائے وہ خناس، تا کہ اس ناکارہ کے دل مین پیدا ہو سوز اور روح میں احساس، اور پیغام محمدی واسوۂ نبوی کا ہمیشہ رہے پاس) پر اللہ رب العزت کا مزید ہوا کرم، ماشاء اللہ یہ ناچیز پھر حاضر ہوا حرم۔

آج جمعہ ہے، غسل وغیرہ سے فارغ ہوا جلدی، دس بجے حرم پاک میں حاضری کی الحمد للہ ہمیشہ رہی پابندی، آج پورا حرم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، حرم کا ذرہ ذرہ، چپہ چپہ، کونا کونا، گوشہ گوشہ نمازیوں سے اٹا پٹا ہے، کہیں تل دھرنے کی نہیں جگہ ہے، زائرین کعبہ اور حاضرین حرم کی کثرت و زیادت ستائیس رمضان المبارک اور حج کے ایام کی یاد تازہ و بے اندازہ زیادہ کر رہی ہے۔

اللہ اللہ کر کے ایک چھوٹی سی جگہ ملی، جس میں سنت کی ادائیگی کی سعادت ملی، سنت سے فراغت ہوئی، کچھ دیر بعد حرم کی نورانی فضا و روحانی ہوا میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کی ایمان پرور، حیات آفریں اور یقین بخش آواز بلند ہوئی۔

اللہ اللہ، سبحان اللہ اور ماشاء اللہ! یہ آواز تو تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، عالم اسلام کی متاع عزیز، ہر دلعزیز، جن کی تلاوت قرآن ذی شان تمام ائمہ حرمین محترمین میں سب سے زیادہ ہے عزیز و لذیذ، اور جو اپنے جمعہ کے خطبوں میں پیش فرماتے رہتے ہیں قیمتی سے قیمتی چیز، اور جن پر دل و جان سے فدا و شیدا ہے یہ ناچیز۔

اللہ تعالیٰ نے امام عالی مقام، باعث صد احترام، قابل اعزاز و اکرام کے والدین کریمین کو اس بات کی توفیق دی کہ وہ اپنے نورِ نظر، لخت جگر اور صاحب فکر و نظر کا ایسا اچھا رکھیں نام، جس پر اللہ کی بہت ہی زیادہ پسند کا ہے انعام، اور قادر مطلق و معبود برحق نے آپ کو ایسا عظیم الشان اور بلند پایہ عطا فرمایا مقام، اور آپ کے سپرد کیا ایسا لائق شرف و مجد کا، کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ فرشتوں جیسی نورانی مخلوق کو بھی یقیناً آپ پر رشک آتا ہو گا، اور خدا کی قسم شیطان مردود آپ کے اعلیٰ و بلند و بالا رتبہ و مرتبہ پر خون کے اشک برساتا ہو گا۔

بلاشبہ و بلا مبالغہ عالم اسلام کے چوٹی کے پاکیزہ و برگزیدہ، چیدہ و چنیدہ، سنجیدہ و جہاں دیدہ، اہل دل و خدا رسیدہ علماء کی کوئی فہرست بنائی جائے، تو اس میں ایک نام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ کا ہو گا۔

آپ اپنے خاص امتیازات، گوناگوں کمالات، اور غیر معمولی اعلیٰ صفات و خصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر ان اشعار تقویٰ شعار کے مصداق ہیں :

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان

قہاری و غفاری وقدوسی و جبروت

یہ چار عناصر جمع ہوں تو بنتا ہے مسلمان

اور:

زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کے رہو

زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کے رہو

اور:

جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا

اور:

خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

امام عالی مقام باعث صد اعزاز و اکرام نے آج جمعہ کے خطبہ میں نیکی و تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینے، فریق نہیں بلکہ رفیق بننے پر بہت ہی زیادہ زور دیا، اور اتقان و اتحاد کے ساتھ کام کرنے کی ناصحانہ و دردمندانہ گذارش کی، ہر حال میں حق وسچ کا ساتھ دینے اور باطل طاقت و شیطانی قوت کو بالکل ہی توڑ دینے کی عاجزانہ اپیل کی، یہودی لابی اور عیسائیوں کی عیارانہ، مکارانہ و شاطرانہ سازش اور ناپاک کوشش کو دنیا کے تمام مسلمان مل کر ناکام و نامراد بنانے کی وصیت کی، آپسی انتشار و خلفشار اور بگاڑ کو دور کرنے کے لئے کہا، اور فلسطین و شام، لیبیا و عراق، اور خصوصاً یمن کے حق پرست، خدا مست بھائیوں کی کامیابی کی دعا کی، اور مذکورہ ملکوں میں جاری خطرناک، کربناک اور افسوس ناک جنگ پر دکھ درد اور دلی افسوس کا اظہار کیا، اور ان ملکوں کے مظلوم مسلمانوں سے حد درجہ پیار کیا۔

اللہ ہی ان کے حالات کرے درست، اور جنگ کے زخمی چھلنی، لاچار و بیمار کو کر دے تندرست۔

آمین یا رب العالمین۔

٭٭٭

 

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) خطبات حرم

(۲)ویکیپیڈیا

(۳) مسجد حرام اور ائمہ حرمین سے متعلق ویب سائٹس

 

 

تاثرات (۱)

 

( کتاب ’’أذکر دوماً، أربعین یوماً‘‘ (سفرنامہ حج وعمرہ عربی) کے اجرا کی مناسبت سے بروز جمعرات، بتاریخ ۱۳ محرم ۱۴۳۶ھ مطابق ۶  نومبر ۲۰۱۴ء مدرسہ رحمانیہ، منکی کے حسین ہال میں منعقد کئے گئے جلسہ سے صدارتی کلمات کے طور پرکہے گئے استاذ محترم جناب مولانا عبد الباری صاحبؒ کے تاثرات، موضوع کی مناسبت سے شامل اشاعت ہیں )

(تمہیدی کلمات محفوظ نہ رہ سکے۔ )

محمد حماد کریمی ندوی نے اپنی چھوٹی سی عمر میں ماشاء اللہ اتنا بڑا کام کیا ہے، وہ واقعی اس کے مستحق ہیں کہ ان کو مبارکباد دی جائے، اور ان کو سراہا جائے، ان کی خدمات کو لوگوں کے سامنے دکھلایا جائے، اور یہ اس لئے نہیں کہ ان کی ناموری ہو، یا ان کا دل بہت خوش ہو، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آدمی جب دین کی خدمت کرتا ہے، محنت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ اس کو اس کا اجر دنیا میں بھی دیتے ہیں، اور آخرت میں بھی اس کے اخلاص پر دیں گے، {وَأَنْ لَیْسَ لِلانْسَانِ الِآَ مَا سَعَی، وَأَِنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی، ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجَزَائَ الَٔاوْفَی}(سورۂ نجم: ۳۹ تا ۴۱) ترجمہ: ’’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ محنت کرتا ہے، اور اس کی جد و جہد کا نتیجہ سامنے آتا ہے، پھر اس کی جزا اس کو بھر پور دی جاتی ہے ‘‘۔

میں بہت ہی خوشی کا اظہار کرتا ہوں، اور اپنے اس طالب علم کو دل سے دعا بھی دیتا ہوں، اور مبارکباد پیش کرتا ہوں، کہ جس کم عمری میں، صغیر السنی میں جو کام کیا ہے، واقعی دل سے دعا نکلتی ہے، یہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اساتذہ کا نام روشن کرتے ہیں، مدارس کا نام روشن کرتے ہیں، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ملت کا نام روشن کرتے ہیں، اب آپ بتائیے کتنی ان کی عمر ہے ؟ فراغت کے بعد ابھی دوسرا سال ہے، اور اس مدت میں تین کتابیں اب تک عربی میں لکھ چکے ہیں، اور ماشاء اللہ پانچ کتابیں اردو زبان میں اب تک آ چکی ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ آپ کے لئے، اس مدرسہ کے لئے نیک شگون ہے، نیک فال ہے، آپ کتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے، آپ کے مدرسہ سے اچھا، ثمر آور پھل لوگوں کے سامنے نظر آیا، یہ ایک نمونہ ہے کہ مدرسہ نے کیا دیا، اس کے بعد ان شاء اللہ یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا، اور آپ کے سامنے آپ کے مدرسہ کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی، کہ مدرسہ نے کیا دیا، امت کو اس کا کیا فائدہ پہنچا، یہ ایک کتاب لکھی گئی ہے، نہ معلوم کتنے لوگ اس کو پڑھیں گے، اور کتنا فائدہ اٹھائیں گے، نام تو انہوں نے اچھا سا رکھا ہے، ’’أذکر دوماً، أربعین یوماً‘‘، (میں مدتوں یاد رکھوں گا، چالیس دن کا دورہ، چالیس دن کا سفر)۔

اب یہ دیکھنے کو تو قصہ گوئی معلوم ہوتی ہے، کہ اپنے سفر کی داستان ہو گی، لیکن یہ صرف سفر کی داستان نہیں، میں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ اپنے سفر کی داستان سنائی ہو گی، لیکن جستہ جستہ ابھی دیکھا تو معلوم ہوا کہ پوری معلومات اس میں انہوں جمع کر دی ہے، کیسے حج کیا جائے ؟ کیسے عمرہ کیا جائے ؟ حجر کی کیا حقیقت ہے ؟ رکن یمانی کا کیا قصہ ہے ؟ حجر اسود کسے کہتے ہیں ؟ ماشاء اللہ یوں سمجھ لیجئے معلومات کا ایک خزانہ ہے، جو حج و عمرہ سے متعلق پیش کیا جا سکتا ہے۔

میں واقعی بڑا خوش ہو رہا ہوں، یہ سوچ کوئی معمولی سوچ نہیں ہوتی، ان کی عمر ہی کیا ہے ؟ کون سا تجربہ ہے ان کو؟ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں، غیر تجربہ کار ہوتے ہوئے، ان ساری چیزوں کو کتاب میں سمیٹنا، اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنا، یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ ان کے والدین کی دعائیں ہیں، اساتذہ کی دعائیں ہیں، ان کے بڑوں کی کچھ نیکیاں ہیں جو کام کر رہی ہیں، ہم اس موقع پر ان کے والد صاحب کو بھی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

یہاں طلبہ بھی موجود ہیں، ہم ان سے کہیں گے کہ آپ اس موقع سے فائدہ اٹھایئے، کوئی چیز دنیا میں دشوار نہیں، کوئی چیز دشوار ہے تو نبی بننا دشوار ہے، باقی سب آسان ہے :

نہیں مشکل، کوئی مشکل، سوائے ایک مشکل کے

کوئی کام دنیا میں مشکل نہیں، ہاں ایک مشکل ہے کہ آپ خود ہی یہ سمجھیں کہ ہم اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکیں گے، یہ اصل مشکل ہے، جب انسانوں نے آسمانوں میں اڑنا سیکھا، سمندروں کی تہوں میں جا کر وہاں کے حالات سے باخبر ہوئے، اور نہ معلوم کہاں کہاں اپنی پہنچ کا اعلان کیا، تو کیا اس کے بعد بھی بہانہ ہو سکتا ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے ؟ کیا نہیں۔

سوال صرف یہ ہے کہ اندر کا داعیہ ہونا چاہئے، داعیہ اور جذبہ جب آپ کے اندر ہو گا، تو سب کچھ آسان ہے، لیکن آپ ہی کے اندر داعیہ نہ ہو تو دنیا جہاں کی سہولت دے دی جائے، ساری کتابیں مہیا کر دی جائیں، کچھ حاصل ہونے والا نہیں، جتنوں نے کچھ پایا ہے محنت سے پایا ہے، اندرون کے جذبہ سے حاصل کیا ہے، اگر جذبہ آپ کا کام کرے گا، پھر دیکھئے کتنی عزت آپ کو نصیب ہو گی، کتنا کام اللہ آپ سے لے گا۔

علی میاںؒ، امام غزالیؒ اور ایک سے بڑھ کر ایک ستارے، علم کی دنیا میں اپنا اور ملت کا نام روشن کرنے والے ایسے ہی نہیں ہوئے، یہ محنت سے ہوئے، جد و جہد سے ہوئے، مشکلات کو انہوں نے برداشت کیا، کھانا پینا، عیش و آرام سب کو تج دیا، قربان کیا، تب جا کر اللہ نے ان سے وہ کام لیا۔

جتنوں کی آپ تاریخ پڑھیں گے، ہم آپ سے کہتے ہیں کہ بڑوں کی سوانح ضرور پڑھئے، بڑوں کی سوانح پڑھنے سے جذبہ پیدا ہو گا، ان کی قربانیوں سے اندازہ ہو گا کہ وہ کیا قربانی دے گئے، اس کے بعد ہم ان کا نام لینے کے لئے تیار ہیں، علی میاں صاحبؒ، قاری طیب صاحبؒ وغیرہ

بعد کی زندگی کو نہ دیکھئے، ان کی پہلی والی زندگی کو دیکھئے، کبھی کھانے کو تھا، کبھی نہیں، کبھی آرام کرتے، کبھی آرام کرنا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا، پھر اللہ نے دیکھئے کیسا ان کا نام روشن کیا۔

عزیزو! اپنے وقت کا صحیح استعمال کیجئے، محنت کیجئے، کام کیجئے، اب تو حال یہ ہے کہ رات بھر موبائل کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آوے کا آوہ بگڑتا جا رہا ہے، معاشرے کے اندر گندگی پھیلتی جا رہی ہے، اخلاق سوز واقعات رونما ہوتے جا رہے ہیں، تعلیم کی طرف توجہ ختم ہو گئی، سب اسی میں مست ہو گئے، وقت ضائع ہو رہا ہے، کھانا پینا تباہ ہو رہا ہے، ماں باپ کی خدمت ختم ہو رہی ہے، استاذ کا احترام ختم ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مر مٹنے کا احساس ختم ہو رہا ہے، ساری چیزیں تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔

میرے بزرگو اور بھائیو! اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ایک عالمی سازش ہے، جس کے ذریعہ انسانی صلاحیتوں کو اور طاقتوں کو پامال کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں، اور ایسے وقت میں اس طرح کے نیک بخت، نیک سیرت، نیک اعمال والے صالح ترین نوجوان مل جائیں، یہ کچھ کم بات ہے ؟ یہ قسمت کی بات ہے، ایسی قسمت والے بچے مل جائیں، ماں باپ کو اس پر فخر کرنا چاہئے، ملتوں کو اس پر ناز کرنا چاہئے، آج کے اس گئے گزرے دور میں اللہ کے نیک بندے، اچھی صفات والے طالب علم موجود ہیں، جو اپنی زندگی کو برائیوں سے بچا کر اچھائیوں کی طرف لے جا رہے ہیں، اور امت کا نام روشن کر رہے ہیں۔

میں بہت مسرور ہوں، اور دل کی گہرائیوں سے ان کو مبارکباد دیتا ہوں، پورے بھٹکل کی طرف سے، پورے جامعہ کی طرف سے، بلکہ آپ تمام حضرات کی طرف سے، خوشی کے ساتھ ان کے لئے مبارکبادی کا اعلان کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ترقی عطا فرمائے، ان سے بہت کام لے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے دین کا، ملت کا، مدرسہ کا اور آپ کے اس شہر منکی کا نام روشن فرمائیں، دور دور تک اللہ ان کے ناموں کو اونچا کرے، اور ان سے ایسی خدمت لے کہ دنیا بڑی دیر تک، قیامت تک ان سے مستفید ہوتی رہے، پھر ایک بار میں ان کو اور مدرسہ کے لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے، شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

وصلّی اللّٰہ علیٰ سیّدنا محمد، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، والحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

٭٭٭

 

 

 

تاثرات (۲)

 

(اسی کے کچھ دنوں بعد بروز پیر، بتاریخ ۱۷ محرم ۱۴۳۶ھ مطابق ۱۰  نومبر ۲۰۱۴ء اسی مناسبت سے مدرسہ تنویر الاسلام مرڈیشور میں بھی علماء کی ایک نشست رکھی گئی، اس میں بھی مولانا نے شرکت کی، اور مختصر خطاب بھی فرمایا، پیش خدمت ہے )

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد!

بزرگو، بھائیو اور دوستو! میں اس سے پہلے بھی ان کی اس طرح کی مجلس میں شریک ہو چکا ہوں، اور اس موقع پر ہم نے کچھ کلمات بھی ان کی خدمت میں عرض کئے تھے، اور آج پھر دوسری مرتبہ مجھے سعادت حاصل ہو رہی ہے، کہ میں ان کی اس مجلس میں شریک ہو کر پھر دوبارہ مبارکباد پیش کروں، یہ میرے لئے واقعی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہی تصور کرتا ہوں، کہ اپنے عزیز کی خوشی کے موقع پر ان کو دوبارہ تہنیت پیش کرنا، مبارکباد دینا، یہ خود سعادت کی بات اپنے لئے میں تصور کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ مبارک فرمائے، دن دوگنی رات چوگنی اللہ تعالیٰ ان کو علم میں، عمل میں، تقویٰ میں، طہارت میں، اور دونوں جہاں کی سرفرازی میں ترقی عطا فرمائے۔

وصلّی اللّٰہ علیٰ سیّدنا محمد، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، والحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید