فہرست مضامین
”ربا” کی حرمت۔۔ قرآن و سنت کی روشنی میں
نا معلوم
”ربا ” کے لغوی اور اصطلاحی معنی
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
”ربا ”کے لغوی معنٰی ہیں کسی چیز کا بڑھنا پھولنا۔ از روئے شرع اس سے مراد وہ خاص قسم کی زیادتی اور بڑھوتری ہے جو بغیر کسی مالی عوض کے وصول کی جائے۔ اس سے قبل کہ ہم آگے بڑھیں یہ امر ضروری ہے کہ دورِ جاہلیت میں چلنے والے سودی کاروبار کا جائزہ لیں کیونکہ ہماری تمام بحث کا مطمح نظر یہ ہے کہ سود کی تعریف اور اس کی نوعیت کو ہم اچھی طرح سمجھ سکیں اس کے سمجھنے کے لیے کوئی دقت باقی نہ رہے۔
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ہر دور اور زمانہ میں سامراج نے غریبوں اور کمزور لوگوں کا ہر قسم کا استحصال کیا ہے آئے دن ان لوگوں نے کمزوروں اور غریبوں کا خون چوسا ہے۔ دورِ حاضر کی طرح دورِ جاہلیت میں بھی سرمایہ دار لوگ غریبوں کا معاشی استحصال کرنے میں مختلف طریقے اپناتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تمام عرب معاشرہ سودی کاروبار میں مبتلا تھا۔وہ بیع اور سود کو ایک جیسا سمجھتے تھے کیونکہ ان دونوں میں نفع مقصود ہوتا ہے۔اس لیے ان دونوں کی حیثیت ایک جیسی ہے۔لہٰذا اُصولی طور پر بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں ہے۔علاوہ ازیں چند اونچے خاندان والے دولت اور تجارت کے مالک تھے یعنی دولت چند گنتی کے افراد کے پاس موجود تھی،بقیہ معاشرہ بری طرح افلاس اور بھوک کا شکار تھا الغرض انسانیت کا ہر لحاظ سے اخلاقی، معاشرتی اور معاشی استحصال کیا جا رہا تھا۔ قرض لینے کی صورت کچھ یوں تھی کہ جب غریب آدمی بوجہ غربت قرضہ لینے کے لیے امیر آدمی کے در پر جاتا، سر مایہ دار غریب آدمی کو اپنے دروازے پر حاضر دیکھ کر اتنا خوش ہوتا تھا جس طرح کہ بھیڑیا بکری کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
بیچارگی اور لاچاری کے پیش نظر غریب شخص امیر آدمی کی ہر قسم کی جائز و نا جائز شرائط کو قبول کر لیتا تھا۔قرضہ کی ادائیگی کے لیے وقت کا تعین کیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ہی اصل رقم کے علاوہ میعاد کے بدلے اس وقت کے مقرر کردہ شرح کے لحاظ سے مزید رقم بھی غریب آدمی کو ادا کرنا پڑتی تھی اس مزید رقم کو سرمایہ دارنفع سے تعبیر کرتے تھے۔اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ مقروض شخص مقررہ وقت پر قرضہ ادا کرنے سے قاصرہو جاتا اس لیے اسے مزید وقت کی ضرورت درکار ہوتی تھی مزید وقت دینے کے لیے سرمایہ داراصل رقم کے ساتھ مقرر کردہ شرح کے لحاظ سے مزید رقم بڑھا دیتا تھا یہ سلسلہ سال درسال تک جاری رہتا تھا۔نوبت بایں جا رسید کہ چند سالوں کے بعد اصل قرض سے سود کی رقم بڑھ جاتی تھی۔
سود کی مذ کورہ نوعیت کو ”ربابالنسیہ” سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اُدھار دے کر میعاد کے بدلے نفع حاصل کرنا ”ربابالنسیہ” کے علاوہ سود کی ایک اورقسم ہے جس کو” ربا بالفضل ”کہتے ہیں یعنی ہم جنس اشیا ء کا تبادلہ کرتے وقت کمی و بیشی اور اُدھارسے کام لینا۔ر با با لفضل کی مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث عبادۃ بن صامت
الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیربالشعیر والتمر با لتمر والملح بالملح مثلاً بمثل سواء بسواء یدا بید فان اختلفت ھٰذالاصناف فبیعوا کیف شئتم۔ (صحیح مسلم)
سونا سونے کے عوض،چاندی چاندی کے عوض، گندم گندم کے عوض، جو جو کے عوض، کھجور کھجور کے عوض برابرسرابر اوردست بدست ہو لیکن جب یہ اصناف ایک دوسرے سے مختلف ہوں یعنی ہم جنس نہ ہوں تو برابر یا کمی بیشی کے ساتھ جیسے چاہو خرید و فروخت کر سکتے ہو۔
حدیث عبادہ بن صامت کے ترجمہ سے یہ مسئلہ واضح ہو جاتا ہے کہ عموماً اشیاء ستہ(چھ اشیاء ) کے تبادلہ میں کمی و بیشی اور اُدھار کرنے کے عمل میں سود ہوتا ہے۔
اشیاء ستہ کے تبادلہ کی جائز صورتیں اور شرائط
(١) ہم جنس اشیاء کا باہمی تبادلہ کے وقت موجود ہونا ضروری ہے۔
(٢) ان اشیاء کا مساوی ہونا۔
(٣) باہمی تبادلہ کے وقت کمی و بیشی سے کام نہ لینا۔
(٤) اُدھار کا نہ پایا جانا یعنی سود ے کا دست بدست ہونا۔
مندرجہ بالا شرائط میں سے ایک شرط بھی مفقود پائی گئی تو معاملہ سود میں چلا جائے گا۔
ا س حدیث کے بارے میں ائمہ اربعہ کے مسالک اور اُن کا نقطہ نظر
(١) مسلک ا مام ابو حنیفہ
اگر کیلی یا قدری اشیاء کا باہمی سوداکیا جائے تو احناف کے نزدیک دونوں طرف سے اشیاء کا برابر ہونا اور معاملہ کا دست بدست قرار پانا ضروری ہے۔
اگر صرف اتحاد قدر یا اتحاد جنس ہے توسودا میں برابر ہونا شرط نہیں مگر لین دین کی صورت میں دست بدست ضروری ہے۔
(٢) مسلک امام مالک
امام مالک سونے چاندی کو ثمن قرار دیتے ہیں یعنی سونے چاندی کی حیثیت نقدی جیسی ہے، بحیثیت ثمن وہ علت حرمت کا ا ستخراج کرتے ہیں۔کھانے کی اشیاء میں ان کا مسلک یہ ہے کہ ان اشیاء کی باہمی لین دین میں ادھار حرام اور سود ہے۔
جن اشیاء میں انسانی غذا موجود ہو اور ذخیرہ کرنے سے یہ اشیا ء نہ خراب ہوتی ہوں اور نہ گل سڑ جاتی ہوں تو ان اشیا ء کے باہمی لین دین میں مساوی ہونا ضروری ہے۔
(٣) مسلک امام شافعی
امام شافعی کے نزدیک سونے چاندی کی حیثیت نقدی جیسی ہے، ثمن ہونے کی وجہ سے علت حرمت کا استخراج کرتے ہیں۔ جبکہ اشیاء طعم میں باہمی لین دین میں مساوی ہونا اور سودے کا دست بدست ہونا شرط ہے۔
(٤) مسلک امام احمد بن حنبل
مشہور روایت کے مطابق ان کا مسلک حنفیہ کے ساتھ ہے یعنی سود کی علت اتحاد جنس مع الوزن یا اتحاد جنس مع الکیل ہے۔ ان کی دوسری روایت شافعیہ کے مطابق ہے۔تیسری روایت یہ ہے کہ سونے چاندی کے علاوہ باقی اشیا ء میں علت حرمت ”طعم ” کیل اور وزن ہے۔
جو خوردنی اشیاء تول یا ناپ کے ذریعے فروخت کی جاتی ہیں،صرف ان ہی اشیاء میں سود کے احکامات جاری ہو سکتے ہیں باقی اشیاء میں نہیں ہوں گے۔
اب ہم ان آیات کریمہ و احادیث مبارکہ کا ذکر کریں گے جو” ربا” کی حُرمت اور مذمت کے بارے میں بیان کی گئی ہیں۔
الذین یا کلون الرّبٰولایقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطٰن من المس ذالک بانھم قالوا انماالبیع مثل الربٰوواحل اللّٰہ البیع وحرم ا لربٰوا۔
جو لوگ کھاتے ہیں سود، نہیں اُٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اُٹھتا ہے وہ شخص جس کے حواس کھو دیئے ہوں جن نے لپٹ کر، یہ حالت ان کی اس واسطے ہو گی کہ اُنہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سود اگری کو اور حرام کیا ہے سود کو۔
سود خور پر اللہ کی دائمی اور ابدی ناراضگی ہوتی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ آیت کریمہ میں سود خور کی مذمت سخت لہجے میں بیان کی گئی ہے۔سود خود کو ایسی سرزنش کی وعید کی گئی ہے جو اس کے لیے دائمی شرم کا باعث ہے۔فرمایا گیا ہے کہ ربا کے خوگر قیامت کے دن جب قبروں سے اُٹھیں گے تو ان کی حالت ایسی بد ترسے بدتر ہو گی جیسے آسیب زدہ مجنوں شخص کی حالت ہوتی ہے یہ خباثت اور بد بختی ان پر اس لیے مسلط ہو گی کہ ان بد بخت لوگوں نے حلال اور حر ا م میں کوئی تمیز روا نہ رکھی ہو گی۔قرآن مجید کی واضح آیات کو پس پشت ڈال کر غریبوں کا استحصال کرنے کے لیے اور اُنہیں ہر سطح پر اپنا معاشی غلام بنانے کے لیے بیع اور ربا میں تمیز ختم کر دی۔دنیا و آخرت کی ہر قسم کی نیکیوں کو یہ لوگ بھول گئے ان لوگوں کی مطمح نظر صرف اور صرف نفع کمانا رہ گیا۔
آیت کریمہ میں علامہ شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر کے اندر بیع اور سود کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”بیع میں جو نفع ہوتا ہے وہ مال کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسے کسی نے ایک درہم کی قیمت کا کپڑا دو درہم کو فروخت کیا اور سود وہ ہوتا ہے جو نفع بلا عوض ہو جیسے ایک درہم سے دو درہم خرید لیے۔اول صورت میں چونکہ کپڑا اور درہم دو جدا جدا چیزیں ہیں اور نفع اور غرض ہر ایک کی ایک دوسرے سے علیحدہ ہے اس لیے ان میں فی نفسہ موازنہ اور مساوات غیر ممکن ہے بضرورت خرید و فروخت موازنہ کرنے کی کوئی صورت اپنی اپنی ضرورت اور حاجت کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی اور ضرورت اور رغبت ہر ایک کی از حد مختلف ہوتی ہے۔کسی کو ایک درہم کی اتنی حاجت ہوتی ہے کہ دس روپیہ کی قیمت کے کپڑے کی بھی اس قدر نہیں ہوتی۔اور کسی کو ایک کپڑے کی جو کہ بازار میں ایک درہم کا شمار ہوتا ہے اتنی حاجت ہو سکتی کہ دس درہم کی بھی اتنی حاجت اور رغبت نہیں ہوتی۔تو اب ایک کپڑے کو ایک درہم میں کوئی خرید ے گا تو اس میں سود یعنی نفع خالی عن العوض نہیں اور اگر بالفرض اسی کپڑے کو ایک ہزار درہم کو خریدے گا تو سود نہیں ہوسکتا کیونکہ فی حد ذاتہ ان میں موازنہ اور مساوات ہوہی نہیں سکتی اس لیے اگر پیمانہ ہے تو اپنی اپنی رغبت اور ضرورت اور ا س میں اتنا تفاوت ہے کہ خدا کی پناہ سود متعین ہو تو کیونکر ہو،اور ایک درہم کو دو درہم کے عوض فروخت کرے گا تو یہاں فی نفسہ مساوات ہوسکتی ہے جس کے باعث ایک درہم ایک درہم کے مقابلہ میں معین ہو گا۔ اوردوسرا درہم خالی عن العوض ہو کر سود ہو گا اور شرعاً یہ معاملہ حرام ہو گا۔
اسی رکوع میں خالق ارض وسماء کا ارشاد مبارک ہے۔
یا ایھاالذین آمنوا اتقوااللّٰہ وذرواما بقی من ا لربوا ان کنتم مؤمنین فان لم تفعلوا فاذنوابحرب من اللّٰہ ورسولہ وان تبتم فلکم رُئُ وْسُ اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون۔
اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود، اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمان کا پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اگر توبہ کرتے ہو تو تمھارے و اسطے ہے اصل مال تمھارا، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر۔ (سورہ البقرہ)
سود خور کو اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے براہ راست اعلان جنگ کی دعوت
جو لوگ سود خور ہیں اور آئے دن معاشرہ کا سود کے ذریعے معاشی گلا گھونٹ رہے ہیں اور اپنی اس نا عا قبت اندیش اور بُری روش سے باز نہیں آتے تو ایسے لوگوں کو خدا اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ کی دعوت ہے۔ایسے شخص پر خدا کی طرف سے براہ راست پھٹکار اور لعنت ہے۔
آیت کریمہ کا شان نزول کچھ یوں بیان کیا گیا ہے قبیلہ ثقیف کے خاندان عمرو بن عمیر کے مخزومی بنو مغیرہ کے ذمے کچھ سودی قرضے تھے۔ربا کی حرمت کے بعد جب ان خاندان والوں نے قرض بالسود کا مطالبہ کیاتو بنو مغیرہ نے جواب دیا کہ اب ہم مسلمان ہیں اس لیے زمانہ جاہلیت کا سود جو ہمارے ذمہ ہے ہم ادا نہیں کرتے یہ دونوں خاندان اپنا یہ معاملہ مکہ کے گورنر حضرت عتاب بن اُسید کے سامنے پیش کیا، گورنر نے ان کا یہ معاملہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف لکھ کر بھیج دیا۔اللہ کے پیغمبر نے فیصلہ کے لیے درج با لا آیت لکھ کر بھیج دی۔ بنو ثقیف نے جب اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے یہ تنبیہ آمیز فیصلہ سُنا تو بہت نادم ہوئے اور کہا کہ ہم خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں اور ہمارا جو بقایا سود بنو مغیرہ کے ذمہ ہے اس سے دستبردار ہوتے ہیں۔
عن سمرہ بن جندب رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأیت اللیلۃ رجلین اتیانی فاخرجانی الی ارض مقد سۃ فانطلقناحتّٰی اتینا علی نھرمن دم فیہ رجل قائم وعلی وسط النھروفی روایۃ علی شط النھر رجل بین یدیہ تجارۃ فاقبل الرجل الذی فی النھر فاذا اراد الرجل ان یخرج رمی الرجل بحجرفی فیہ فردہ حیث کان فجعل کلما جاء لیخرج رمی فی فیہ بحجرفیرجع کما کان فقلت من ھذافقال الذی رأیتہ فی النھرآکل ا لربوٰ۔ (صحیح بخاری)
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رات میں نے خواب دیکھا دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک پاکیزہ سر زمین کی طرف لے گئے ہم چلتے رہے حتی کہ خون کی ایک نہر پر پہنچے جس میں ایک آدمی کھڑا تھا اور نہر کے کنارے ایک اور آدمی کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے جو شخص نہر کے اندر تھا اس نے چلنا شروع کیا جب اس نے نہر سے نکلنا چاہا تو کنارے پر کھڑے شخص نے پتھر مارکر اسے اس کی پہلی جگہ کی طرف لوٹا دیا۔ اسی طرح وہ جب بھی نکلنے کی کوشش کرتا یہ اس کے منہ پر پتھر مار کر اس کی پہلی جگہ کی طرف لوٹا دیتا، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟اس نے کہا کہ نہر کے اندر کا شخص (جس پر سنگ باری ہو رہی ہے ) سود خور ہے۔
عن جابر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم آ کل الربٰووموکلہ وکاتبہ و شاھد یہ و قال ہم سواء۔ (صحیح مسلم ص ٢٧ج ٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو دکھانے والے،سود کھلانے والے، سودکی تحریر لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شامل ہیں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ علیہ وسلم لیلۃاسری بی لما انتھینا الی السماء السا بعۃ فنظرت فوق قال عیفان فوقی فاذاانا برعدٍو برق فصوا عق قال فاتیت علیٰ قوم بطونھم کا لبیوت فیھا الحیات تری من خارج بطونھم قلت من ھو لا ئِ یا جبریل قال ھو لائِ آکلۃ الربوا۔ (مسند احمد ص ٥٦ ج٢
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پرپہنچے تو آپ نے اوپر کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو اچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی آپﷺ نے ارشاد فرمایا ایک ایسی قوم پر میرا گزرہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے (بڑے بڑے ) مکان ہوں جن میں سانپ (بھرے ہوئے) تھے جو پیٹوں سے باہر صاف طور پر نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبریل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں۔
قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی خطبۃ حجۃ الوداع : الاکل شی ء من امرالجاھلیۃ تحت قدمی موضوع ودما ء الجاھلیۃ موضوعۃ وان اول دم اضعہ من دمائنا دم
ابن ربیعۃ بن الحارث کان مسترضعا فی بنی سعد فقتلتہ ھذ یل وربا ء الجاھلیۃ موضوعۃ واقل ربا اضع ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب فانہ موضوع کلہ۔ (صحیح مسلم ص ٣٩٧ ج١)
آپﷺ نے حجۃ الوداع کے طویل خطبہ میں ارشاد فرمایاسن لو زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے روندی گئیں اور زمانہ جاہلیت کے خو ن (ان کے قصاص و دیت ) ختم کر دیے گئے۔سب سے پہلا قتل جسے میں معاف کرتا ہوں وہ اپنے خاندان میں سے ربیعہ بن حارث کا قتل ہے جو قبیلہ بنی سعد میں شیر خوار تھے اور انھیں قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود بھی (پاؤں تلے ) روند دیے گئے اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں میرے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے وہ سب کا سب چھوڑ دیا گیا۔
سودی نظام کو پروان چڑھانے اور اس نظام کو غریب اور پسماندہ ممالک پر مسلط کرنے کے لیے بینکاری سرمایہ داری، اشتراکی نظام اور گلو بلا ئزیشن نے کلیدی کردار ادا کیا۔
اب ہم قدرے بسط سے ہر ایک صنف کا جائزہ لیں گے اور اس بات کو معلوم کریں گے کہ استعماری قوتوں نے کس طرح ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو تہس نہس کیا ہے۔آئیے ذرا پہلے بینکاری نظام کا جائزہ لیں۔
بینکاری نظام کی تاریخ
شروع شروع میں لوگ اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کرتے، حفاظت کے لیے یہ سونا سنار لوگوں کے پاس جمع کر دیتے تھے۔سنار لوگوں کو سونے کے عوض رسیدیں جاری کر دیتے تھے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سونے کے بجائے انہی جاری کردہ رسیدوں پر کاروبار شروع ہو گیا۔آخر کا ر بات بایں جا رسید ان رسید وں نے وہی حیثیت اختیار کر لی جو آج کل نوٹ کی ہے۔کاروبار کی تمام نوعیت ان رسیدوں پر موقوف ہو گئی یعنی کاروبار ان رسیدوں پر رواں دواں ہو گیا۔لالچ اور حرص کے مد نظر سنار لوگوں نے یہ چال بازی اپنائی کہ لوگوں کا امانت شدہ سونا سود پر چلانا شروع کر دیا۔اس سے سنارلوگ دو گنا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ایک طرف امانت رکھنے کا معاوضہ رنگے ہاتھوں وصول کر تے دوسری طرف سود کی رقم سے لوگوں سے دوگنی ر قم وصول کرتے رہتے تھے۔ پھر ان سناروں نے خباثت کا مزید قدم آگے بڑھایا اپنی پاس رکھی ہوئی امانتوں کی بیشمار جعلی رسیدیں بنا کر کاغذی سکے کی حیثیت سے چلانا شروع کر دیں تاکہ لوگوں سے مزید سود کی رقم وصول کی جائے۔
نتیجہ بایں جارسید کہ تمام تر دولت اور کاروبار پر ان لوگوں نے مکمل طور پر اپناتسلط جما لیا اور معاشرہ کے تمام طبقے سناروں کے قرض اورسود در سودکے شکنجے میں ایسے پھنس گئے کہ عمر بھر سودی کاروبار سے نکلنا ان لوگوں کے لیے دشوار ہو گیا۔ایک دن ایسا آیا کہ ان سناروں نے مہاجنوں اورساہوکاروں کا کلی طور پر روپ دھار لیا۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب دنیا میں صنعتی،تجارتی،سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں ترقی شروع ہو چکی تھی۔اس ترقی کی وجہ سے مزید سرمایہ کی ضرورت بڑھ گی۔ صورت احوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاجنوں اور ساہو کاروں نے آگے بڑھ کر ساری معیشت پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔ اب ان مہاجنوں نے اپنی انجمنیں قائم کر لیں اور انفرادی طور پر سودی کاروبار کرنے کے بجائے یہ خطرناک جونکیں اجتماعی اور منظم طورپر عوام کا خون چوسنے لگیں۔ بینکنگ کی اس نئی تنظیم نے پرانے مالی اقتصادی قاعدے اور ضابطے ایسے بگاڑ کر رکھ دیے کہ ہمیشہ کے لیے معاشرہ کی نظروں میں ان کی افادیت کو ختم کر دیا۔ چند غیر مرئی حکومتوں کی پالیسی درآمد و بر آمد،اندرونی و بیرونی معاملات، صنعت و تجارت، سیاست و حکومت غرض دنیا کی ہر چیز پر مسلط ہو گئے۔قانون، پولیس، فو ج سودخور کی حفاظت کرنے لگی،یہ تھی بینکا ری کی بھیانک تاریخی روداد۔
اغیار نے ملت اسلامیہ کو ہر دور میں معاشی، معاشرتی،غرض ہر قسم کا نقصان پہنچایا۔ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو نا کام کرنے کے لیے اُنہوں نے کبھی سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا،کبھی اشتراکی نظام کے فوائد بتا کر ملت اسلامیہ کی ہر سطح پر بیخ کنی کی ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتصادی طور پر غلام بن کر رہیں۔لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے پاس الٰہی تعلیمات ہوتے ہوئے بھی اغیار کی تقلید کی اور اس میں اپنی معاشی کامیابی اور نجات سمجھنے لگے۔از روئے مضمون یہ امر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اشتراکی نظام، سرما یہ دارانہ نظام اور اسلامی نظام معیشت کی وضاحت ہو جائے۔
سرما یہ داری نظام
سرما یہ داری نظام کو دوسرے لفظوں میں تہذیب جدید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے پیش نظر دولت پرستی، دوسروں کی حق تلفی،کمزور کو دبانا،خود غرضی اور ذاتی نفع کے لیے سب کچھ کر گزرنے کا داعیہ ہے۔ سرمایہ دار کے پاس چونکہ وسائل اور ذرائع موجود ہیں لہٰذاسے حق حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ کسی فرد کی کیا مجال کہ سرمایہ دار کو اس کی بُری روش سے منع کرے۔سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کو یہ قانونی طور پر حق حاصل ہوتا ہے کہ حکومت قانون اور پولیس اس کی پشت پناہی کرے۔اس نظام میں سود اور بینکنگ کو پروان چڑھایا جاتا ہے گویا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سود اور بینکنگ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔اس نظام میں عوام اور محنت کش طبقہ کو ہر قسم کی خوشی اور آرام سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
اشتراکی نظام
سرمایہ دارانہ نظام کے بعد اشتراکی نظام نے جنم لیا۔ اوائل میں اشتراکی نظام کے دو مرحلے تھے۔سوشلزم اور کمیونزم۔سوشلزم نے سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کرتے ہوئے یہ نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ تمام مسائل اور مشکلات کا حل صرف قومی ملکیت میں مضمر ہے ہر قسم کی ذاتی ملکیت کو ختم کر دیا جائے اور معاشی نظام کو اجتماعی اور قومی ملکیت پر استوار کیا جائے۔ ابتدائی مراحل میں سودی نظام کوختم کر دیا گیا مگر جلد ہی اس پر نظر ثانی کر کے دوبارہ اس میں سود شامل کر دیا گیا بلکہ انفرادی ملکیت کی بھی اجازت دے دی گئی۔
اشتراکی نظام کو دوسرے لفظوں میں قوم یا پارٹی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ تمام قسم کی حاکمیت پارٹی کے سپرد کی جائے۔پارٹی جسے چاہے جتنا چاہے دولت سے نوازے،جسے چاہے جب چاہے بھوک اور افلاس کے حوالے کر دے،سرما یہ دارانہ نظام میں مزدوروں محنت کشوں کو یہ حق حاصل ہے کہ حقوق کی پاسداری کے لیے ہڑتال اور مطالبے کرے،مگر اشتراکی نظام مزدور سے احتجاج اور ہڑتال کے حق بھی چھین لیتی ہے۔بظاہر تو یہ بات نظر آ رہی تھی کہ اشتراکی نظام کے ذریعے سرمایہ داری نظام کا علاج ہو رہا ہے مگر یہ علاج بیماری سے بھی بد تر ثابت ہوا۔
اشتراکی نظام سے صرف معاشی نظریہ کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی بلکہ بنیادی طور پر اشتراکی نظام دین و مذہب اور اخلاقی کی نفی پر مشتمل ہے۔بعض لوگوں کایہ خیال اور نظریہ باطل ہے کہ اشتراکی نظام صرف معاشی نظام کے خدوخال کی رہنمائی کرتا ہے۔اس نظام کا مذہب سے کوئی سرو کار اور واسطہ نہیں ہے۔ دراصل یہ لوگ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ہمیں ان چالاک باز اور اشتراکی نظام کے ایجنڈو ں سے بچنا چاہیے۔
اب ہم گلو بلا ئزیشن کے ذریعے جاری کردہ ان پالیسیوں کا ذکر کریں گے۔جس کی وجہ سے غریب اور پسماندہ ممالک کا استحصال ہو رہا ہے۔
یونان میں ہزاروں افراد نے بین ا لاقوامی تجارتی میلے کے خلاف سڑکوں پر احتجاجی مارچ کیا اور گلوبلائزیشن کے تحت اختیار کردہ غیر انسانی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سرما یہ دارانہ نظام اور آزادانہ عالمی تجارت کے خلاف نعرے لگا کر اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا۔پولیس نے احتجاج کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا،جس کے بعد مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ گزشتہ چند برسوں سے یورپ اور امریکہ میں سرمایہ داری نظام اور گلوبلائزیشن کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور حال ہی میں اٹلی کے ساحلی شہر جنیوا میں ہونے والی جی۔ایٹ سربراہی کانفرنس کے موقع پر کم و بیش دو لاکھ افراد نے سرمایہ داری نظام اور گلوبلائزیشن کے خلاف تاریخی احتجاج کیا،ان مظاہروں میں پانچ سو افراد گرفتار جبکہ تین سو سے زائد شدید زخمی ہوئے اور ایک شخص محض پولیس کے وحشیانہ تشدد سے ہلاک ہو گیا۔
جنیوا کے بعد اب عالمی سرمایہ داری کے محافظوں نے عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لیے ایک بار پھر یونان کے ساحلی شہر کا انتخاب کیا لیکن یونان کے جری عوام نے گلو بلائزیشن کے ذریعے کرہ ارضی پر اپنے پنجے گاڑ نے کی سرمایہ دارانہ چال کو پوری طرح سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر صدائے احتجاج بلند کر کے ایک بار پھر اس اعلیٰ انسانی نصب العین کے ساتھ و ابستگی کا ثبوت پیش کیا ہے کہ اس دنیا کی دولت پرکرہ ارض کو منڈی میں تبدیل کرنے والی بھیڑوں کا نہیں بلکہ دھرتی پر بسنے والے تمام انسانوں کا حق ہے۔یونان میں سرمایہ داری اور گلو بلائزیشن کے خلاف ہزاروں افراد کی احتجاجی مظاہروں کی ایک خصوصی اہمیت یہ بھی ہے کہ سرمایہ داری نظام کے پروردہ کاغذی دانشور اپنے تئیں اس غیر انسانی نظام کو انسانیت کی منزل مقصود اور حرف آخر قرار دے کر تاریخ کی موت کا اعلان کر چکے ہیں اور تاریخ کا جشن مرگ بھی منا چکے ہیں لیکن یونان کے لوگوں نے ان عقل کے اندھے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ارض یونان نے انسانی عقل و دانش اور فکر و فلسفہ کے ارتقا ء میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ وہ کسی بھی غیر انسانی،استحصالی اور ظالمانہ نظام کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترنے کے بجا ئے اسے خود اپنے بے رحم ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا کرتی ہے۔
ارض یونان کے باشندوں سے زیادہ بہتر طور پر کون اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے کہ وہ یونانی عقل و دانش اور فکر و فلسفہ کی گُل ہو جانے والی شمعیں ہی تھیں جنہیں ابن رشد اور اس جیسے دیگر مسلمان فلسفیوں اور شارحین نے اپنے خون جگر سے از سرنو روشن کیا اور پھر یورپ کے ظلمت کدے اس روشنی سے منور ہوئے۔ اسی طرح انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں یونان قدیم کی تہذیب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یونان کے عوام نے عالمی سرمایہ داری نظام اور اس کے سفاکانہ گلوبلائزیشن کے باعث کرہ ارض پر انسانی تہذیب و تمدن کو لا حق سنگین خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کے ذریعے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔اور تاریخ کی مو ت کا دعویٰ کرنے والے سرمایہ دارانہ دانشوروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تاریخ تو یونانی دیومالا کے پرندے قفس کی مانند ہے جو آگے کی جانب اپنی ہر پرواز کے بعد نیا جنم لے کر نئی تب و تاب کے ساتھ محو پرواز رہتی ہے اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک اڑان کے بعد اپنے پروں کی پھر پھڑاہٹ سے نکلنے والی چنگاریوں میں جل کر بھسم ہوں جائیگی تواسے یہ خوش فہمی دور کر لینی چاہیے کیونکہ یہ چنگاریاں تواسے حیات نو اور ولولہ تازہ سے ہمکنار کرتی ہیں۔آخر میں ہم گلوبلائزیشن کے خلاف احتجاج کرنے والے یونانی عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہ اُنہوں نے دنیا بھر میں سرمایہ داری نظام اور گلو بلائزیشن کے ستائے ہوئے مفلوک الحال عوام کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ (روزنامہ اوصاف اسلام آباد ١١ستمبر ٢٠٠١ء)
اسلامی نظام
اب ہم اسلامی نظام معیشت پر روشنی ڈالیں گے کہ اسلام کس حد تک سود اور سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کا حامل ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اس کا معاشی نظام سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام سے یکسر مختلف ہے۔اسلامی نظام معیشت کی تمام تر شقیں اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم ہیں۔
اسلامی نظام معیشت فرد اور جماعت کے دونوں باہمی روابط کو قائم و دائم رکھتا ہے۔ اسلام فرد و جماعت کے مابین اتحاد یگانگت کی فضا معاشرہ میں استوار کرتا ہے اسلام نے ذاتی ملکیت کی اجازت دی ہے اور دوسری طرف افراد پر ایسی کڑی پابندیاں لاگو کی ہیں کہ کوئی بھی فرد واحد اپنی ذاتی ملکیت کی بنا ء پر اجتماعی مواد کو قد غن نہ لگا سکے۔اسلام فرد کے نقصان کو جماعت کے نقصان سے تعبیر کرتا ہے اور جماعت کے نقصان کو فرد کا نقصان قرار دیتا ہے۔اسلام نے فرد پر جمع شدہ مال کے جماعت کے حقوق و فرائض لاگو کیے ہیں، جن کی ادائیگی صلوٰ ۃ خمسہ کی طرح فرض کی گئی ہے۔دنیا کے تمام معاشی نظاموں میں سے اسلام کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نظام الٰہی نے کسب کے ذرائع میں حلال و حرام کی تمیز قائم کی ہے۔جائز و نا جائز کی حد یں استوار کی ہیں۔
ارشاد گرامی ہے :
یاایھا الذین آمنو ا لا تا کلوا موالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ من تراضٍ منک
اے ایمان والو نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں نا حق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس میں خوشی سے (النساء)
اس آیت کریمہ میں باطل اور ناجائز طریقہ سے مال حاصل کرنے اوردوسروں کے مال پر ڈاکہ ڈالنے اور راتوں رات امیر بننے سے منع کیا گیا ہے۔ لین دین اور باہمی خریدو فروخت کا دار مدار جانبین کی رضا مندی اور تجارت پر موقوف کیا گیا ہے۔سود لعین، جھوٹ،دغا بازی جیسی بُری خصلتوں سے منع کیا گیا ہے۔
والذین یکنزو ن الذہب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللّٰہ فبشرہم بعذاب الیم
جو لوگ گاڑھ رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں ان کو خوشخبری سنا دو عذاب درد ناک کی۔
اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو معاشرہ میں دولت کا پھیلاؤ نہیں کرتے۔ایسے لوگوں کا نظریہ باطل یہ ہوتا ہے کہ وہ آئے دن سونے اور چاندی کے ذخائر جمع کرتے رہیں اور ان پر سانپ بن کر مسلط ہو جائیں اسلام ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے افراد کو انفاق فی سبیل اللہ کی طرف رغبت دلاتا ہے اور دولت کو بے جا عیش و عشرت کے استعما ل سے روکتا ہے۔
کی لایکون دولۃ بین الا غنیا ء منکم (الحشر)
تاکہ نہ آئے لینے دینے میں دولت مندوں کے تم میں سے
ٰیعنی یہ مصارف اس لیے ذکر کیے گئے ہیں کہ ہمیشہ یتیموں،بیکسوں، محتاجوں اور تمام مسلمانوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور تمام اسلامی ضروریات انجام پاسکیں۔یہ اموال محض دولت مندوں کے اُلٹ پھیر میں پڑ کر اُن کی محض جاگیریں بن کر نہ رہ جائیں جن سے سرما یہ دار مزے لوٹیں اور غریب فاقوں مریں۔
دوسرے مقام پر ارشاد گرامی ہے
وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین والجا رذی القربیٰ والجارالجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وماملکت ایما نکم (النسائ)
اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ ا ور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اورہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
یتامیٰ اورنساء اور ورثا ء اور زوجین کے حقوق اور اُن کے ساتھ حسن معاملہ کو بیان فرما کر اب یہ ارشاد ہے کہ ہر ایک کا حق درجہ بدرجہ تعلق کے موافق اور حاجتمندی کے مناسب ادا کرو۔سب سے مقدم اللہ تعالی کا حق ہے پھر والدین کا پھر درجہ بدرجہ سب واسطہ داروں اور حاجتمندوں کا اور ہمسایہ قریب اور غیر قریب سے مراد قرب و بعد نسبی ہے یا قرب و بعد مکانی۔صورت اولیٰ میں یہ مطلب ہو گا کہ ہمسایہ قرابتی کا حق ہمسایہ اجنبی سے زیادہ ہو گا اور صورت ثانیہ کا مدعا یہ ہو گا کہ پاس کے ہمسایہ کا حق ہمسایہ بعید جو کہ فاصلہ سے رہتا ہے اور پاس بیٹھنے والے رفیقِ سفراور آقا کے دو نو کر اور ایک استاد کے دو شاگرد اور دوست اور شاگرد اور مرید وغیرہ سب داخل ہیں اور مسافرمیں مہمان اور غیر مہمان دونوں آ گئے اور مال مملوک غلام اور لونڈی کے علاوہ دیگر حیوانات کو بھی شامل ہے۔ آخر میں فرما دیا کہ جس مزاج میں تکبر اور خود پسندی ہو تی ہے کسی کو اپنے برابر نہ سمجھے اپنے مال پر غرور اور عیش میں مشغول ہو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتا۔سو اس سے احتراز رکھو اور جدا رہو۔
درج بالا آیت کی رو سے والدین، قرابت داروں، یتیموں، ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری کی طرف واضح انداز میں نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ان کے حقوق کی ادائیگی کو فرض قرار دیا گیا ہے اور اس کو نیکی سے تعبیر کیاگیا ہے علاوہ برآں ہر شخص کے حقوق اپنے ا پنے درجہ پر مساوی حیثیت کے حامل قرار دیے گئے ہیں۔ میرے ناقص خیال کے مطابق اگر ہم سماج کے بالا افراد کے حقوق کی بجا آوری احسن طریقہ انجام دیں تو اس سے سماج میں دولت کا ارتکاز ہو گا، شخصی اجارہ داری ختم ہو جائیگی اور اس سے سرمایہ داری کی حوصلہ شکنی ہو گی۔سماج میں نیکی، ہمدردی اور حسن سلوک کا رواج عام ہو جائے گا۔ مصارف زکٰوۃ کی تفصیل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔
انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھاوالمؤلفۃ قلوبھم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللّٰہ وابن السبیل فریضۃ من اللّٰہ (التوبہ)
زکٰوۃ جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور زکٰوۃ کے کام پر جانے والوں کا اور جن کا دل پر جانا منظور ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور جو تاوان بھریں اور اللہ کے راستہ میں اور راہ کے مسافر کو ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا۔
آیت کریمہ کی تفسیر کا پس منظر بیان فرماتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیا گیا تھا اس لیے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقر ر کیا ہوا ہے۔ اس نے صدقات وغیر ہ کے مصارف متعین فرما کر فہرست بنی اکرمﷺ کے ہاتھ میں دے دی ہے آپ اسی کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔کسی کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتے۔ حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ صدقات کی تقسیم اللہ نے نبی یا غیر نبی کی مرضی پر نہیں چھوڑ ا ہے بلکہ اس کے مصارف بذات خود متعین کیے ہیں جو آٹھ ہیں :
(١) فقراء : (جن کے پاس کچھ نہ ہو )
(٢) مساکین : ( جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو)
(٣) عاملین : جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات کے کاموں پر مامور ہوں۔
(٤) مؤ لفۃ القلوب : (جن کے اسلام لانے کی اُمید ہویا اسلام میں کمزور ہوں وغیرہ ذالک۔اکثر علما ء کے نزدیک حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی۔
(٥) رقاب : یعنی غلاموں کو بدل کتابت ادا کر کے آزاد ی دلائی جائے یا خرید کر آزاد کیے جائیں یا اسیروں کا فدیہ ادا کر کے رہا کیے جائیں۔
(٦) غار مین : جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہو گئے یا کسی ضمانت وغیرہ میں دب گئے۔
(٧) سبیل اللہ : جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے۔
(٨) ابن السبیل : مسافر جو حالت سفر میں صاحب نصاب نہ ہوں مکان پر دولت رکھتا ہو۔حنفیہ کے نزدیک یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے۔
علاوہ برآں از روئے مضمون آیت کریمہ میں سماج کے غریب ترین اور نہایت ہی پست زندگی گزارنے والے افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بیا ن کیے گئے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں حکومت وقت اور عوام الناس پریہ امر ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ معاشرہ کے ان غریب ترین اور لاچار طبقہ کی ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت،غم خواری اور ہمدردی جیسا سلوک روا رکھیں تاکہ اللہ تعالی نے جو آپ پر فریضہ عائد کیا ہے وہ احسن طریقہ سے پور ا ہو جائے۔الغرض اسلامی نظام معیشت ایک مکمل ضابطہ حیات کی طرح مسلمانوں کو ودیعت کر دی گئی ہے اور ایسے سنہری اصول بتائے گئے ہیں جو ابدی دنیا تک رہنمائی کے حامل ہیں۔ اسلام ایک طرف تو دولت جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس دولت کو اللہ تعالی کی طرف سے امانت قرار دے کر اس کے استعمال کرنے میں جائز و نا جائز حلال و حرام کے طریقے بتاتا ہے۔ اسلام ایک طرف تو رہنے سہنے کھانے اور اوڑھنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے بنی نوع انسان کی زینت قرار دیتا ہے تو دوسری طرف اسراف کرنے، فضول خرچی اور دولت کو بے جا خرچ کرنے سے منع کرتا ہے تاکہ سوسائٹی کے دوسرے افراد کی حق تلفی نہ ہو۔دولت کی افادیت سے امیر و غریب یکساں طور پر فائدہ اُٹھا سکیں۔ایسا نہ ہو کہ چند افراد عیش و عشرت کی زندگی گزاریں اور باقی لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہو جائیں۔
بینکاری کا موجودہ نظام
بینکاری کا موجودہ سودی نظام جو دور حاضر میں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے سب سے اہم ستون ہے جس کی بقا ء اور تحفظ سود خوروں کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ملکی معیشت میں ان کا اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ سود کے خلاف کئی سالوں سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کو روکے ہوئے ہیں۔کوئی حکومت ان کے منشاء کے خلاف عدالتی فیصلہ کو نافذ نہیں کر اسکی حالانکہ سود کی قطعی حرمت اور اس کی واضح قباحتیں اہل عقل و دانش سے مخفی نہیں ہے۔
موجودہ زمانے کے سود خوروں نے اپنی جانب سے یہ بات گھڑ لی ہے کہ حرام usury (مہاجنی سود) ہے ناکہ Commercial Interest (تجارتی سود )۔حالانکہ قرآن و سنت سے ہر قسم کے سود کی حرمت بالتصریح ثابت ہے۔تجارتی سود کی حرمت کو بالتفصیل جاننے کے لیے ہم مولانا محمد عمران صاحب عثمانی کی کتاب ”شرکت و مضاربت عصر حاضر میں ” سے ایک اقتباس نقل کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔وہ تحریر فرماتے ہیں :
سترہویں صدی عیسوی میں نظام بینکاری وجود میں آنے کے بعد سود کی دو نئی اصطلاحات بھی اُبھریں۔ان دو اصطلاحات کی تعریف یہ کی گئی ہے :
(١) تجارتی سود : (Commercial Interest)
کسی نفع آور پیداواری (Productive) مقاصد کے لیے حاصل کردہ قرضہ پر جوسود لیا جائے وہ تجارتی سود کہلاتا ہے۔
(٢) مہاجنی یا صرفی سود : (Usuary)
قرض اگر ذاتی ضرورت او ر صرفی مقاصد کے لیے لیا گیا ہو تو اس پر اضافہ مہاجنی یا صرفی سود کہلاتا ہے۔
دونوں اصطلاحات کا پس منظر
بینکاری کا موجودہ نظام جس نے سود کو اخلاقی اور قانونی سندِجواز فراہم کی، عصر حاضر کے سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔جب مسلم ممالک سیاسی طور سے مغرب کے زیر نگیں اور معاشی میدان میں ان کے دست نگر ہو گئے تو انیسویں صدی کے بعض مغرب زدہ مسلمانوں نے ایک طرف تو مغرب کی ان روز افزوں ترقیات کو دیکھا جو صنعت اور تجارت کے میدان میں انہیں حاصل ہو رہی تھیں اور دوسری طرف ان کی نگاہ اپنی ہم مذہب قوم کی معاشی پستی اور اقتصادی زبوں حالی پربھی پڑی،ساتھ ہی انہیں ا س بات کا بھی احساس ہو ا کہ صنعت و تجارت کے میدان میں بینک ایسے ناگزیر ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی اہمیت صرف قومی ہی نہیں بین الاقوامی ہے اس چیز نے انہیں یہ کہنے پر آمادہ کیا کہ حرام صرف مہاجنی یا صرفی سود ہے نہ کہ تجارتی سود (Interest)،کیونکہ تجارتی سود کو حرام سمجھنے سے اس صنعت و تجارت کی راہ میں ناقابلِ عبور دشواریاں حائل ہو جائیں گی۔ مگر یہ پریشان کن مسئلہ کہ قرآن وسنت نے ربا اور ربا پر مبنی سارے معاملات کی بالتصریح حرام کیا ہے اس طرح حل کیا گیا کہ ربا کے لفظ کا ترجمہ”یوژری ”کر دیا گیا،اوراسے” انٹر سٹ ”کے لفظ کے مغربی تصور سے مختلف بتایا گیا اس طرح یہ سمجھا گیا کہ قرآن کا ربا جو حرام قرار دیا گیا تھا وہ یوژری تھا،انٹرسٹ کی حرمت سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔
ہند وستان میں اس طرز فکر کی ابتداء سرسید احمد خان مرحوم سے ہوئی اور ان کی پیروی ان کے مکتب خیال کے لوگوں نے کی مثلاً نذیر احمد، سیّد طفیل احمد منگلوری اور اقبال سہیل وغیرہ،بعض مصری علما ء مثلاً شیخ محمد عبدہ، توفیق آفندی، شیخ اسماعیل خلیل اور ترکی کے تجدد پسند حضرات نے بھی اس طرح کے خیالات ظاہر کئے۔
تجارتی سود کو جائز قرار دینے والے حضرات فقہی زاویۂ نگاہ سے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان کے دو گروہ ہو گئے ہیں :
پہلا گروہ
بعض تو وہ ہیں جو اپنے استدلال کی بنیاد اس بات پر رکھتے ہیں کہ تجارتی سود عہدِرسالت میں رائج تھا یا نہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میں حرام سود کے لیے ”الربا” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،جس سے مراد سود کی وہ مخصوص شکل ہے جو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یا آپﷺ سے پہلے عہد جاہلیت میں رائج تھی،ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے بلاواسطہ مخاطب اہل عرب ہیں، ان کے سامنے جب ”الربا ”کا ذکر کیا جائے گا تو مراد وہی ربوٰ ہو گا جو ان کی نگاہ میں جانا پہچانا اور معروف ہو،جب ہم اس زمانے میں سود کی مروجہ صورتوں میں جستجو کرتے ہیں تو ہمیں کہیں تجارتی سود کی شکل نہیں دکھائی دیتی۔ تجارتی سود اہل یورپ کی ایجاد ہے اور صنعتی انقلاب کے بعد جب صنعت و تجارت کو فروغ نصیب ہوا ہے اس وقت تجارتی سود (Commercial Interest) کا لین دین شروع ہوا ہے،لہذا جن آیا ت سے سود کی حرمت معلوم ہوتی ہے ان سے تجارتی سود کے حرام ہونے پر استدلال صحیح نہیں۔
ہم پہلے اسی گروہ کے اس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں :
ہماری نگاہ میں ان حضرات کا یہ استد لا ل بہت سطحی ہے،اس لیے کہ ان حضرات نے اپنی اس دلیل کی اس عمارت کو دوہی ستونوں پر کھڑا کیا ہے،ایک تو یہ کہ ”الربا” سے مراد ”ربا” کی وہی شکل و صورت ہے جو زمانہ ٔ رسالت میں رائج تھی، اوردوسرے یہ کہ تجارتی سود اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن اگر دلائل کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ بالکل بے وزن ہیں۔
اول تو یہ بات ہی بے وزن ہے کہ ”الربا”کی جو شکل عہد جاہلیت میں رائج نہ ہو وہ حرام نہیں ہے اس لیے کہ اسلام کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دیتا ہے تو اس کی ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے،اسی پر احکام کا دارومدار ہوتا ہے،شکل و صورت کے بدلنے سے احکام میں کوئی فرق نہیں آتا،قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ہے،زمانۂ نبوت میں وہ جس شکل و صورت کے ساتھ معروف تھی اور اس کے بنانے کے جو طریقے رائج تھے وہ سب بدل گئے مگر چونکہ حقیقت نہیں بدلی اس لیے حکم بھی نہیں بدلا،وہ بدستور حرام رہی۔قرآن کریم نے خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا،چاہے جدید دور میں اسے کتنی ہی اعلی غذا دے کر فارموں میں پالا جائے وہ پھر بھی حرام ہی رہے گا۔الفحشاء (بدکاری ) کی صورتیں اس زمانے میں کچھ اور تھیں آج کچھ اور ہیں،ان میں زمین آسمان کا تفاوت ہے مگر بدکاری بدکاری ہی ہے اور قرآن کے وہی احکام اس پر نافذ ہیں۔سود اور قمار کا بھی یہی حال ہے،اس زمانے میں اس کی جو شکل و صورت رائج تھی آج اس سے بہت مختلف صورتیں رائج ہیں،مگر جس طرح شراب،خنزیر اور بدکاری حرام ہے اسی طرح سود و قمار بھی حرام ہے۔
پھر اس دلیل کا دوسرا مقدمہ بھی درست نہیں کہ تجارتی سود عہد جاہلیت میں رائج نہ تھا،یہ کہنا دراصل تاریخ اور ناواقفیت پر مبنی ہے، جاہلیت عرب اور پھر اسلامی دور کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد یہ بات بالکل آشکارا ہو جاتی ہے کہ اس زمانے میں سودکالین دین صرف احتیاجی اور صرفی قرضوں پر نہیں تھا بلکہ تجارتی اغراض اور نفع بخش مقاصد کے لیے بھی قرض لیے اور دئیے جاتے تھے چنانچہ ذیل میں اس قسم کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں :
کانت بنو عمرو بن عامر یا خذون الربا من بنی المغیرۃ،وکانت بنو المغیرۃ یربون لھم فی الجاہلیۃ،فجا ء الاسلام ولھم علیھم مال کثیر۔
جاہلیت کے زمانے میں بنو عمرو بن عامر، بنو مغیرہ سے سود لیتے تھے اور بنو مغیرہ انہیں سود دیتے تھے،چنانچہ جب اسلام آیا تو ان پر ایک بھاری مال واجب تھا۔
اس روایت میں عرب کے دو قبیلوں کے درمیان سودی لین دین کا ذکر کیا گیا ہے،یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ان قبیلوں کی حیثیت تجارتی کمپنیوں جیسی تھی،ایک قبیلے کے افراد اپنا مال ایک جگہ جمع کر کے اجتماعی انداز میں اس سے تجارت کیا کرتے تھے،پھر یہ قبیلے اچھے خاصے مالدار بھی تھے اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ کیا دو مال دار قبیلوں کے درمیان سود کا مسلسل کاروبار کسی ہنگامی ضرور ت کے لیے ہو سکتا ہے ؟یقیناً یہ لین دین تجارتی بنیادوں پرتھا۔
اس کے علاوہ ہم طائف کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں جو قبیلہ ثقیف کا مسکن تھا،طائف مکے سے پچھتر میل کے فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ہے اس کی زمین نہایت زر خیز اور سرسبز و شاداب تھی۔اس کے ارد گرد وادیوں سے باہر بھیجی جانے والی تجارتی اشیاء کافی مقدار میں حاصل ہوتی تھیں جنہیں حجاز جیسے بے آب و گیا علاقہ میں کہیں بھی فروخت کیا جا سکتا تھا۔طائف سے برآمد کی جانے والی چیزوں میں کشمش،منقیٰ،شراب،گیہوں اور لکڑی ہوتی تھی،طائف کی مخصوص صنعت چمڑے کی تیاری اور رنگائی تھی۔ مغربی عرب میں طائف مکے کے بعد دوسرے درجہ کا شہر سمجھا جاتا تھا،قرآن مجید نے طائف کا ذکر مکہ کے ساتھ ”القریتین ” کے فقرے سے کیا ہے،جس سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ ان دونوں شہروں کے روابط ایک مخصوص اہمیت کے حامل تھے۔ آبادی کا ایک حصہ کثیر تعداد پر مشتمل یہودیوں کا بھی تھا جو یمن اور یثرب سے نکال دئیے جانے کے بعد طائف میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں مستقل مقیم ہو گئے تھے۔ طائف کے باشندوں کا جو زیادہ تر ثقیف کے قبیلے سے تھے سب سے بڑا کاروبار ربا (سودی لین دین )تھا اور سودی لین دین کے اس طرح معاشی زندگی کی گہرائیوں میں پیوست ہو جانے کی وجہ سے حضور اکرمﷺ نے طائف سے صلح کرتے وقت ایک شرط صراحۃ ً یہ رکھی تھی کہ سودی لین دین بالکلیہ موقوف کر دیا جائے گا، ساتھ ہی ساتھ جو سود دوسروں کا ان پر یا ان کا دوسروں پر چڑھ چکا ہے اسے بالکل ترک کر دیا جائے گا۔
طائف کاسودی کاروبار کرنے والے صرف اپنے شہر کے لوگوں سے ہی سود کا لین دین نہ رکھتے تھے بلکہ مکے والوں کو بھی جو بنیادی طور پر تاجر تھے سو دپر روپیہ فراہم کرتے تھے،یہ سود روپیہ اور سامان دونوں صورتوں میں وصول کیا جاتا تھا اور مغیرہ جو مکے کے قریشیوں کی ایک شاخ تھے ان کے مستقل گاہک تھے۔سود کی وصولیابی کا طریقہ یہ بھی تھا کہ عدم ادائیگی کی صورت میں اصل مع سود کو دوگنا کر دیا جاتا تھا اور یہ صورت روپیہ اور سامان دونوں کے لیے اختیار کی جاتی تھی۔
مکہ کے باشندوں کے ساتھ طائف والوں کے معاشی تعلقات او ر سودی کاروبار کی اہمیت اور زیر بحث مسئلہ پر ان کے اثرات کا حقیقی اندازہ اسی وقت صحیح طور پر لگایا جا سکتا ہے جب مکہ کے باشندوں کی تجارتی سرگرمیوں اور جدو جہد کو بھی سامنے رکھا جائے۔مکہ کی زمین ناقابل زراعت تھی وہاں نہ جنگلات تھے او ر نہ معدنیات چنانچہ خام اشیاء کی بڑی کمی تھی،صنعت بھی صرف دباغت کی پائی جاتی تھی۔ ان وجوہات کی بنا ء پر اہل مکہ کو تجارت اور کاروبار پر گزارا کرنا پڑتا تھا چنانچہ مکہ عرب کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہو گیا۔
قریش دو تجارتی سفر کیا کرتے تھے جن کی ابتداء ہاشم نے کی تھی۔ایک یمن کی طرف جاڑے میں او ر دوسرے شام کی طرف گرمی میں۔قریش کے لیے یہ سفر نہایت سود مند ثابت ہوئے،خاص کر اس وجہ سے کہ کعبہ کے محافظوں کی حیثیت سے قریش کو بنظر احترام دیکھا جاتا تھا انہیں مخصوص رعایتیں دی جاتی تھیں او ر ان کا تحفظ کیا جاتا تھا جو اس وقت کے عرب میں نقل و حرکت کے لیے نہایت ضروری تھا۔ اس طرح تجارتی کاروبار ان کا واحد ذریعہ معاش اور گزر اوقات کا ذریعہ بن گیا،تجارتی قافلوں کی آمد رفت کے مواقع قریب آ جاتے تو اہل مکہ کی دلچسپی،ذوق و شوق اور مصروفیت کی انتہا نہ ہوتی،عورتیں تک تجار ت میں حصہ لیتی تھیں اور اپنا روپیہ کاروبار میں لگاتی تھیں وہ قافلہ جو ابو سفیان کی قیادت میں تھا اور جس پر حملہ کرنے کا ارادہ مسلمانوں نے کیا تھا اور جو آخر کار جنگ بدر کا باعث بنا مکہ کا کوئی فرد بشر ایسا نہ تھا جس کا کچھ نہ کچھ روپیہ اس میں نہ لگا ہو۔ اہل مکہ کی زندگی میں اس طرح سرمایہ کی اہمیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ ان کی زندگی کا ایک ناگزیر عنصر بن گیا،یہاں تک کہ ان کی تمام تر توجہ اس کے حصول،بہم رسانی اور گردش پر لگ گئی چنانچہ یہ بات ظاہر ہے کہ مکے جیسی تجارتی جگہ نے رفتہ رفتہ ایک قسم کے بینکنگ شہر اور کلئیر نگ ہاؤس کی خصوصیات اپنے اندر پید ا کر لی ہوں گی اوراس طرح کے مبادلات،کاروبار اور تنظیم سے متعلق ادارے اور رواج بھی آہستہ آہستہ وجود میں آ گئے ہوں گے۔ اس طرح کے حالات کے تحت یہ فطری سی بات تھی کہ اہل مکہ میں سود کے لین دین کا ایک عام رواج ہو گیا تھا،جب قرآن مجید نے ربا کو حرام اور قبیح قرار دیا تو قریش نے اس پر اعتراض اس دلیل کے ذریعے کیا کہ سودی لین دین بھی ایک قسم کی تجارت ہی ہے جس میں سرمایہ کا معاوضہ بدل لیا جاتا ہے، اور سرمائے کو کرایہ پرچلایا جاتا ہے،وہ کہتے تھے کہ انہیں ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا کہ سرمائے پر بڑھوتری یا تو نفع کی صورت میں شروع ہی میں لے لی جائے جیسا کہ تجارت میں ہوتا ہے یا کچھ عرصہ بعد لی جائے،یعنی جب رقم واجب الادا ہو جائے،تو اس کے انتظار کے عوض میں سود کی شکل میں اصل رقم کے علاوہ کچھ اور بھی وصول کر لی جائے۔قریش نے اس سودی کاروبار کو بہت اونچے معیار تک ترقی دی تھی وہ صرف اپنے قبیلے والوں کوہی نہیں حجاز کے دوسرے شہروں کے باشندوں کو بھی سودی قرضے دیتے تھے۔ سود کی حرمت سے قبل حضرت عباس بن عبدالمطلب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما نے باہم مشترکہ سرمائے سے ایک کمپنی سی قائم کر رکھی تھی، جس کا خاص کاروبار سود پر روپیہ چلانا تھا۔ان حضرات کا کاروبار مکہ تک محدود نہ تھا، طائف کے باشندوں کو وہ مستقل قرضے دیا کرتے تھے خاص کر بنو عمر وبن عمیر کو جو قبیلہ بنو عوف کی ایک شاخ تھے۔حضرت عثمان بھی ان مالدار تاجروں میں سے تھے جو زبردست پیمانہ پر سودی کاروبار کرتے تھے۔ بدر کے تجارتی کارواں کے منتظمین خصوصاً وہ لکھ پتی تھے جنہوں نے کارواں میں ہزاروں دینار تجارت میں لگا نے کے علاوہ اپنا سرمایہ مختلف سودی کاروبار میں پھیلا رکھا تھا۔
اس کے علاوہ حضرت زبیر بن عوام کا جو طرز عمل اس سلسلے میں روایات سے ثابت ہوتا ہے وہ بڑی حد تک اس طریقہ سے مشابہ ہے جو آج بینکنگ کے نظام میں رائج ہے کیونکہ حضرت زبیر اپنی امانت و دیانت کے اعتبار سے مشہور تھے اس لیے بڑے بڑے لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں جمع کرایا کرتے تھے او ر اپنی مختلف ضروریات کی بنا ء پر وہ اپنی پوری یا تھوڑی رقمیں واپس بھی لیتے رہتے تھے۔حضرت زبیر کے بارے میں صحیح بخاری میں یہ تصریح موجود ہے کہ یہ لوگوں کی رقموں کو بطور امانت رکھنا منظور نہیں کرتے تھے بلکہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ”لا ولکن ہو سلف ” یعنی یہ امانت نہیں قرض ہے اور علامہ حافظ ابن حجر نے اس بات کا مقصد یہ بیان کیا کہ :
انہیں خطرہ تھا کہ کہیں مال ضائع نہ ہو جائے اور یہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی ہو گی اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے(قرض بنا کر ) بہر صورت واجب الادا قرار دے لیں تاکہ مال والے کو بھروسہ زیادہ رہے اوران کی ساکھ بھی قائم رہے۔ابن بطال نے یہ بھی فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے بھی کرتے تھے تاکہ اس مال سے تجارت کرنا اور فائدہ کمانا ان کے لیے جائز ہو جائے۔
اس طریقے سے حضرت زبیر کے پاس لاکھوں کی تعداد میں رقمیں جمع ہو جاتیں،حضرت زبیر کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ذمہ واجب الادا ء قرضوں کا حساب لگایا تو و ہ بائیس لاکھ نکلے۔ حضرت زبیر جیسے متمول صحابی پریہ بائیس لاکھ روپے کا قرضہ ظاہر ہے کہ کسی صرفی اور وقتی ضرورت کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ امانتوں کا سرمایہ تھا اور یہ تمام سرمایہ کاروبار ہی میں مشغول تھا کیونکہ حضرت زبیر نے وفات سے قبل اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ ہماری املاک کو فروخت کر کے یہ رقم ادا کی جائے۔
علامہ طبری نے ٢٣ھ کے واقعات میں ایک واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ ہند بنت عتبہ حضرت عمر کے پاس آئی او ر بیت المال سے چار ہزار قرض مانگے تاکہ ان سے تجارت کرے او ر ان کی ضامن ہو حضرت عمر نے دے دیے چنانچہ وہ بلا دِ کلب میں گئی اور مال فروخت کیا۔ اس میں خاص تجارت کے لیے تجارت کے نام سے روپیہ قرض لینے اور دینے کا ذکر ہے۔کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرونِ اولی میں تجارت کے لیے قرض لینے دینے کا رواج نہ تھا۔ہاں یہ صحیح ہے کہ اس قرض پر سود لینے دینے کا رواج احکام قرآنی نازل ہونے کے بعد نہ رہا تھا جیساکہ اس واقعہ میں چار ہزار قرض بلا سود دینا مذکور ہے۔
ایک بہت واضح دلیل
در منثور ہی میں علامہ سیوطی نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے :
”من لم یترک المخابرۃ فلیؤذن بحرب من اللّٰہ ورسولہ”
جو شخص مخابرہ نہ چھوڑے وہ اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ سن لے۔
اس روایت میں رسول اللہﷺ نے مخابرہ کو سود کی طرح ناجائز قرار دیا اور جس طرح سود خور کے خلاف خدا اوررسول نے اعلان جنگ کیا ہے اسی طرح مخابرہ کرنے والے کے خلاف بھی کیا،استد لال کی وضاحت سے قبل مخابرہ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے۔مخابرہ دراصل بٹائی کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ زمیندار کسی کاشتکار کو اپنی زمین اس معاہدے پردے کہ کاشتکار اس کو ایک معین پیداوار دیا کرے۔ فرض کیجئے کہ زید کی ایک زمین ہو اور وہ اسے عمر کو اس معاہدے پر کاشت کے لیے دے کہ وہ غلہ کی ایک معین مقدار مثلاً پانچ من ہر فصل پر زید کو دے گا خواہ اس کی پیداوار کم ہو یا زیادہ یا بالکل نہ ہو،یا مثال کے طور پر یہ طے کریں کہ جو پیداوار پانی کی نالیوں کے قریبی حصہ پر ہو گی وہ زید لے گا باقی عمر (کاشتکار) لے گا،یہ معاملہ مخابرہ کہلاتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے اس معاملے کو ربا کی ایک شکل قرار دے کر حرام فرمایا ہے۔اب آپ ہی غور فرمائیں کہ یہ معاملہ ربا کی کون سی صورت سے متعلق ہے ؟ صرفی اور احتیاجی سود سے یا تجارتی سود سے،ظاہر ہے کہ یہ صورت تجارتی سود سے مشابہ ہے کیونکہ جس طرح تجارتی سود میں مقروض قرض کی رقم تجارت یا نفع آور کام میں لگاتا ہے اسی طرح مخابرہ میں بھی،کہ کاشتکار زمین کو نفع آور کام میں لگا رہا ہے، صرفی اور احتیاجی سود میں ایسا نہیں ہوتا،کیونکہ اس میں وہ قرض لے کر اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر دیتا ہے۔
پھر جو علتِ تحریم مخابرہ کو ناجائز قرار دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کاشت کے بعد کل پیداوار پانچ من ہی ہو اور بیچارے کاشتکار کو کچھ بھی نہ ملے،یہی علت تجارتی سود میں بھی پائی جاتی ہے کہ ممکن ہے جو رقم قرض لے کر تجار ت میں لگائی گئی ہے اس سے صرف اتنا ہی نفع ہو جتنا کہ اُسے سود میں دے دینا ہے، یا اتنا بھی نہ ہو،اور یہ علت صرفی اور احتیاجی سود میں نہیں پائی جاتی کیونکہ مقروض قرض کی رقم کسی تجارت میں نہیں لگاتا،اس کے حرام ہونے کی علت کچھ اور ہے۔
خلاصہ یہ کہ رسول اللہﷺ نے مخابرہ کو ربا میں داخل فرمایا اور مخابرہ صرفی سود کے مشابہ نہیں ہو سکتا وہ تجارتی سود کے مشابہ ہے اس سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ عہد رسالت میں نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے سود ی لین دین کا رواج تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ سود حرام ہے۔
دوسرا گروہ :
تجارتی سود کو جائز کہنے والوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنے استدلال کی بنیاد سود کے عہد جاہلیت میں رائج ہونے یا نہ ہونے پر نہیں رکھتا،بلکہ وہ اس کے جواز پر کچھ اور ایجابی دلائل پیش کرتا ہے،اس گروہ نے کئی دلائل پیش کئے ہیں،ذیل میں ان میں سے چند ایک ذکر کئے جاتے ہیں۔
پہلی دلیل اور استدلال کا جواب
اس گروہ کا یہ کہنا ہے کہ سود کے حرام ہونے کی علت یہ ہے کہ اس میں قرض لینے والے کا نقصا ن ہوتا ہے،اس بیچارے کو محض اپنی تنگدستی کے جرم میں ایک چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے زائد دینی پڑتی ہے،اور دوسری طرف قرض دینے والا اپنے فاضل سرمایہ سے بغیر کسی محنت کے مزید مال وصول کرتا ہے جو سراسر ظلم ہے لیکن یہ علت تجارتی سود میں نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں قرضدار اور قرض خواہ دونوں کا فا ئدہ ہے،قرضدار قرض کی رقم کو تجارت میں لگا کر نفع حاصل کر لیتا ہے، اور قرض خواہ قرض کی رقم پر سود لے کر،اس لیے اس میں کسی کے ساتھ ناانصافی اور ظلم نہیں ہوتا۔
یہ دلیل آج کل لوگوں کو بہت اپیل کرتی ہے اور بظاہر بڑی خوشنما ہے لیکن تھوڑے سے غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ دلیل بھی حقیقت میں بے وزن ہے کیونکہ اس کاسارا دار و مدار اس بات پر ہے کہ تجارتی سود میں کسی کا نقصان نہیں،کیونکہ حرمتِ سود کی حکمت صرف وہ نہیں جو تجارتی سود کے حامی حضرات نے پیش کی ہے اس کے بہت سے اسباب ہیں،ان حکمتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی فریق کا نقصان اس میں ضرور ہوتا ہے اور نقصان والا معاملہ ناجائز ہوتا ہے مگر تھوڑے سے تغیر کے ساتھ۔ ان حضرات نے تو بات یہیں تک ختم کر دی کہ اگر ایک فریق کا نقصان اور دوسرے کا فائدہ ہو تو معاملہ ناجائز ہوتا ہے اور دونوں کا فائدہ ہو تو جائز،حالانکہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اگر دونوں کا فائدہ ہوسکتا ہو مگر ایک کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا غیر یقینی اور مشتبہ ہو تب بھی معاملہ ناجائز ہوتا ہے جیسا کہ پیچھے مخابرہ کے بیان میں ذکر کیا گیا۔
دوسری دلیل اور اس کا جواب
اس گروہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا :
یا ایھا الذین آمنو ا لا تاکلو ا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کامال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ،ا لّا یہ کہ وہ تجارت ہو اور آپس کی رضا مندی سے ہو۔
مندرجہ بالا آیت میں قرآن حکیم نے اکل بالباطل سے منع فرمایا ہے لہٰذا تجارت کے جن طریقوں میں اکل بالباطل موجود ہو وہ حرام ہیں،اور ظاہر ہے کہ جہاں اکل باطل ہو گا وہاں ایک فریق کی عدم رضا ضرور ہو گی،اکل باطل میں کھانے والا تو راضی ہوتا ہے لیکن جس سے کھایا جاتا ہے وہ کبھی راضی نہیں ہوتا،وہ اسے صرف اپنی مجبوری سے برداشت کرتا ہے، اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایسی تجارت ہو جس میں دونوں فریقوں کی رضامندی اور خوشدلی ہو تو وہ یقینا اکل بالباطل نہ ہو گا۔اس توجیہ کی رو سے کمرشل انٹرسٹ (تجارتی سود ) کو دیکھیے کہ اس میں قرض لینے والا مجبور اور مظلوم نہیں ہوتا،اور اسی طرح وہ دائن کے نفع سے ناخوش بھی نہیں ہوتا،لہٰذا جو ربوٰ حرام ہے وہ وہی ہے جس میں ایک فریق کا خود غرضانہ نفع اور دوسرے کا نقصان ہے کمرشل انٹرسٹ پرجو تجارت کی جاتی ہے اس میں دونوں کی باہمی رضامندی اور خوش دلی ہوتی ہے۔
لیکن حقیقت میں اس گروہ کا یہ استدلال بھی سطحی نوعیت کا ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ فریقین کی رضامندی کو حرام چیز کے حلال ہونے کے لیے سبب قرار نہیں دیا جا سکتا،کیا فریقین رضامند ہوں تو زنا کو جائز کہا جا سکتا ہے ؟ تجار ت میں ایسی بہت سی انواع ہیں کہ جن میں دونوں فریق راضی اور خوش ہوتے ہیں مگر وہ ناجائز ہیں،حدیث کی کتابوں میں ”ابواب البیوع الباطلۃ ” میں دیکھئے کہ محاقلہ،تلقی الجلب،بیع کی ان تمام صورتوں میں فریقین کی رضامندی اور خوش دلی ہوتی ہے،مگر ہر ایک کو رسول اللہﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔
صرف سود اور قمار میں بھی فی الجملہ فریقین معاملے پر راضی ہوتے ہیں اس کے باوجود اسے حرام قرار دیا گیا، لہٰذا صرف اس بنا پر کوئی سودی معاملہ جائز قرار نہیں پا سکتا کہ اس پر دونوں فریقین راضی ہیں بلکہ دونوں کی رضامندی کے ساتھ وہ ایسا معاملہ ہونا چاہئے جسے شریعت نے حرام قرار نہ دیا ہو اسی کو قرآن کریم نے الا ان تکون تجارۃسے تعبیر فرمایا ہے۔ (شرکت ومضاربت عصر حاضرمیں ص ٦٥تا٧٧)
٭٭٭
ماخذ: انوارَ مدینہ، لاہور کے شمارے
تشکر: اردو محفل کے اسد، جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
This is an ordinary. Copy paste article. It lacks in depth knowledge. Since maulana modaudi every one is just copying adding few things and think that this is Islamic banking system. Why then it lacks is not working.