FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

رئیس فروغ

شخصیت اور فن

جمع و ترتیب: طارق رئیس فروغ، اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں ……..

تعارف ۔۔ رئیس فروغ

 

رئیس فروغ کا پورا نام سیّد محمد یونس حسن تھا۔

مراد آباد یوپی ہندوستان میں ۱۵ فروری ۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔

دینی و مذہبی گھرانے سے تعلق تھا

ان کے جدِ امجد شاہ لطف اللہ کا مزار مبارک مراد آباد یوپی میں ہے

خاندان میں ان کے علاوہ کوئی شاعر و ادیب نہیں تھا۔

آپ نے شاعری کی ابتداء ہندوستان میں ہی کر دی۔

اکثر مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔

مراد آباد میں اپنا ایک حلقہ رکھتے تھے۔

شروع میں کچھ عرصہ قمر مرادآبادی کی محفل میں شرکت کی۔ لیکن جلد ہی اپنی راہ الگ متعین کر لی۔

۱۹۵۰ء میں شادی ہوئی۔

ہندوستان میں راشننگ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کی۔

۱۹۵۰ء ہی میں پاکستان آ گئے۔

کچھ عرصہ ٹھٹھہ، سندھ میں مقیم رہے۔ ٹھٹھہ میں اسکول ٹیچر رہے۔

پھر کراچی آ گئے۔

بی اے کراچی یونیورسٹی سے کیا۔

ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازم ہوئے۔ شاید پہلی پوسٹنگ منوڑہ پر ہوئی۔

ادبی ذوق کی وجہ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اکثر خاص موقعوں پر اسٹیج ڈرامے بھی لکھتے اور پیش کئے۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ایک رسالہ ’’صدف‘‘ کے نام سے اپنی ادارت میں شروع کیا۔

۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران قومی نغمات لکھے جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے۔

ایک نغمہ جنگ کے دوران بھی لکھا جسے تاج ملتانی اور ساتھیوں نے گایا۔ اس کے بول ہیں ‘‘شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک، ان غازیوں پہ سایہ فگن ہے خدائے پاک‘‘

اس کے علاوہ بے شمار قومی نغمے اور گیت لکھے۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بعد شاید ۱۹۶۸ء یا ۱۹۶۹ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔

ریڈیو پر بے شمار نغمے، گیت، فیچرز اور ڈرامے لکھے۔ جو بہت مشہور ہوئے۔

ان میں ڈرامہ سیریل ‘‘حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔

اس کے علاوہ اسٹوڈیو نمبر ۹ میں بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے۔

رئیس فروغ کے مشہور گیتوں میں ’’میری ہمجولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں‘‘، ‘‘’’دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے‘‘، ’’کان کا بالا ہاتھ کا کنگن اب کی فصل پہ لادوں گا‘‘، ’’جھلمل جھلمل ندی کنارا پل دو پل ہے ساتھ ہمارا‘‘، ’’اے وادی مہران‘‘، ’’ملت کو جو سچّا خواب ملا دھرتی پہ ہمیں مہتاب ملا‘‘ کافی مقبول ہیں۔

رئیس فروغ نے پی ٹی وی پر بھی اپنے جوہر دکھلائے۔

۱۹۷۰ء میں ‘‘بزمِ لیلیٰ‘‘ میں گیت لکھے جسے رونا لیلیٰ نے گایا۔

اس کے علاوہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران قوم کو حوصلہ دینے کیلئے بڑی تعداد میں خاکے لکھے جو ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہوئے۔

محمد علی شہکی، عالمگیر، مہناز، اور دیگر نے ٹی وی کے پروگرام جھرنے میں رئیس فروغ کے لکھے ہوئے بے شمار گیت گائے۔

پی ٹی وی سے بچوں کے گیتوں کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ میں تمام گیت رئیس فروغ نے لکھے۔ جو بہت مقبول ہوئے اور بعد میں ان گیتوں کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔

حلقۂ احباب میں قمر جمیل، ضمیر علی بدایونی، احمد ہمیش، محب عارفی، احمد ہمدانی، ابو اللیث قریشی، شمیم نوید، عزیز حامد مدنی، محبوب خزاں، وزیری پانی پتی، مخدوم منور، اسد محمد خان، رسا چغتائی، و دیگر شامل ہیں۔ ناصر کاظمی سے محبت کا رشتہ تھا۔

٭٭٭

میرے والد۔ میرے دوست

 

طارق رئیس فروغ

جب ابا ہم سے رخصت ہوئے تو میری عمر کچھ زیادہ نہیں تھی۔ گھر میں ہم تین افراد تھے۔ میرے والد، امی اور میں۔ میری اکلوتی بہن کی شادی ہو چکی تھی۔ امی اکثر بیمار رہتی تھیں۔ اس وجہ سے ابا کے انتقال کر جانے کے بعد، گھر میں تنہائی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ اور کچھ ہی عرصہ کے بعد میری شادی کر دی گئی۔

گو کہ ابا کے ساتھ میں نے اپنی پختہ عمر کا کچھ ہی عرصہ گزارا، لیکن اتنے کم عرصے میں بھی میں نے ابا سے زندگی گزارنے کے بہت سے گُر سیکھ لیے یا انھوں نے سکھا دئیے۔

میں نے جو کچھ ابا سے سیکھا، اس میں بیشتر ان کو دیکھ کر سیکھا۔ وہ کس طرح زندگی کو برتتے ہیں، کس طرح خاندانی تعلقات کو نبھاتے ہیں، کس طرح کسی جذباتی معاملے کو حل کرتے ہیں، کس طرح کسی کو مشورہ یا نصیحت کرتے ہیں۔

ابا انتہائی حساس انسان تھے۔ ان کا جو رویہ گھر سے باہر تھا، بالکل ویسا ہی گھر کے اندر بھی تھا۔ اور مزید تفصیل میں جا کر یہ کہوں گا کہ ان کا ظاہر اور باطن بالکل ایک جیسا تھا۔

ویسے اس پختہ عمر میں آ کر اب اندازہ ہوا کہ میرے والد کس قدر حساس اور معصوم انسان تھے۔ انہیں نہ سماجی چالاکی آتی تھی اور نہ ہی وہ کسی قسم کی گروہ بندی کے قائل تھے۔ ان کا حلقۂ احباب بہت مختصر تھا۔ ہر دوست پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ انہوں نے گھر میں اپنی شاعری اور ادب کو اپنے تک ہی محدود رکھا ہوا تھا۔ روایتی شاعر پن سے دور تھے۔ جب لکھنا ہوتا تو اپنے بستر پر جا کر لکھتے رہتے۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بچے گھر میں کس قدر شور کر رہے ہیں یا با آواز بلند ٹی وی چل رہا ہے۔

اکثر رات بھر لکھتے رہتے اور صبح کو جب ہم دیکھتے تو بستر کے اطراف سگریٹ کے فلٹرز کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ کسی بھی بچے کو کبھی ڈانٹتے نہیں تھے۔ ہمیں یعنی مجھے اور میری بہن کو بھی کبھی کسی بات پر باقاعدہ نہیں ڈانٹا۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرتی تو ہمیں ان کے رویے سے اندازہ ہو جاتا اور ہم محتاط ہو جاتے۔ ان کی ناراضی زیادہ عرصہ نہ رہتی۔ دوسرے دن اگر ہم ان سے اپنی غلطی کی معذرت کرتے تو کہتے ارے بیٹا چھوڑو رات گئی بات گئی۔

انھوں نے ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کے بغیر بہت ہی خوبصورت انداز میں ہماری تربیت کی۔ مجھ سے کہتے، بیٹا کبھی کوئی مسئلہ ہو تو پریشان نہ ہوا کرو، بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی تدبیریں کرو، اور مسئلے سے ہونے والے نقصان کی انتہا کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ، اس طرح تم ذہنی دباؤ سے بچے رہو گے۔

اسی طرح سمجھاتے ہوئے کہتے کہ سماجی تعلقات میں کسی بھی مسئلے کے سلسلے میں کسی بھی شخص سے کوئی امید نہیں باندھنی چاہئیے۔

اکثر ایسے مشہور و معروف شاعر اور ادیب ابا کے پاس آتے جو ابا سے کلام لکھواتے اور اپنے نام سے پیش کر دیتے، جس کے سلسلے میں ابا کو کوئی افسوس نہیں ہوا۔ میں اکثر ان سے کہتا کہ آپ دوسروں کو اتنا لکھ کر دے دیتے ہیں، کیا اس طرح آپ اپنا کلام دوسروں کو دے رہے ہیں؟ اس کے جواب میں وہ کہتے کہ مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ میں جو دوسروں کو لکھ کر دے دیتا ہوں، وہ ان کے ہی معیار کا ہوتا ہے۔

کہنے کو تو ابا دنیا دار تھے، مگر اپنے اجداد کے سلسلے سے روحانیت پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ اکثر ان کے اشعار اس کی گواہی دیتے ہیں:

لعل ولی کے درشن کو

مست قلندر جاؤں گا

داتا کے دربار تلک

اندر اندر جاؤں گا

کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری

کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے

کچھ قریبی دوستوں سے انھیں کافی دکھ ملے، لیکن اس کا اظہار انھوں نے کبھی کسی سے نہیں کیا۔ اور ان کے دل کی بیماری کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ ویسے ابا زیادہ لمبی بیماری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر آدمی لمبے عرصے کے لیے بیمار پڑتا ہے تو پھر گھر والوں کی بے توجہی ایک حقیقی امر ہے۔ آخر کوئی کب تک کسی کی تیمار داری کر سکتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی مصروفیت ہے۔ خدا نے ان کی بات سن لی۔ اور اسی لیے کسی کو تکلیف دئیے بغیر چپکے سے سوتے سوتے ہی کوچ کر گئے۔ ہم لوگ تو ان کی خدمت کرنے کی حسرت لیے ہی رہ گئے۔ رمضان کے مہینے میں جب اسپتال میں داخل ہوئے تھے تو بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو مجھے پہلی مرتبہ اب سے 9 مہینے قبل ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اور ان 9 مہینوں میں، میں اپنی کتاب ترتیب نہ دے سکا۔ مجھے اور تو کوئی فکر نہیں ہے، لڑکی کی شادی ہو گئی، لڑکے کو ملازمت مل گئی، بس ایک کتاب کی فکر ہے، وہ کسی طرح چھپ جائے۔ میں نے کہا، ابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، آپ خود ہی جلد گھر چل کر کتاب ترتیب دیں گے اور کتاب ضرور چھپے گی۔

ایک دن اسپتال میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے، کہنے لگے کہیں سے بھی ہمدانی (احمد ہمدانی صاحب) کو لاؤ۔ میں نے احمد ہمدانی صاحب کے آفس ریڈیو پاکستان فون کیا، مگر وہ آفس نہیں آئے تھے۔ ابا کہنے لگے میں نہیں جانتا کہیں سے بھی ہمدانی کو پیدا کرو۔ (معروف ادیب و نقاد احمد ہمدانی صاحب ابا کے قریبی دوست تھے)۔ میں ابا کو اسپتال میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اتنے میں میرا ایک دوست آ گیا تو اسے بٹھا کر چلا گیا۔ احمد ہمدانی صاحب کو ان کے گھر سے لے کر اسپتال آیا۔ ابا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دونوں خوشی میں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

میں نے ابا کو دو مواقع پر روتے ہوئے دیکھا۔ ایک مرتبہ جب انھیں ناصر کاظمی کی وفات کی خبر ملی تھی، تو وہ دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ دوسری مرتبہ جب ان کے چھوٹے بھائی کا مرادآباد انڈیا میں انتقال ہوا تھا۔

پی ٹی وی کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے تمام گیت ابا نے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان گیتوں کی ایک کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے ابا کی زندگی میں ہی شائع ہو چکی ہے۔ جس پر رائٹرز گلڈ کا انعام بھی ملا تھا۔ اس کے علاوہ ایک کامل القادری کے ادارے کی جانب سے گولڈ میڈل بھی ملا تھا۔

٭٭٭

 

ابّا

 

طارق رئیس فروغ

 

مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ ابا کے پی ٹی میں ملازم تھے جب دفتر سے آتے تھے تو میں ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا تھا۔ ابا مجھے گود میں اٹھا لیتے تھے اور مٹھائی والے کی دکان پر لے جاتے پھر میں جس مٹھائی پر ہاتھ رکھتا مجھے دلا دیتے تھے۔ ہمارے معاشی حالات زیادہ اچھے نہ تھے مگر ابا ہم کو ایسے رکھتے تھے جیسے کوئی مالی اپنے پھولوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اب نے ہر حال میں ہمیں محبت اور شفقت دی، وہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے جو ابا سے ایک دفعہ مل لیتا وہ ابا کا معترف ہو جاتا تھا۔

میرا کوئی مسئلہ ہو پڑھائی کا، سیاست کا، مذہب کا، دین کا، دنیا کا غرض مجھے جب بھی کسی بات کو معلوم کرنا ہوتا فوراً ابا سے کہتا تو وہ اتنے پیارے انداز میں سمجھاتے کہ بات دل میں اتر جاتی۔ میں ہی کیا بے شمار ایسے لوگ ہیں جو ابا کے پاس مسائل لے کر آتے۔

ابا کہتے تھے کہ ہر بچہ اپنے باپ کو دنیا کا عظیم ترین اور طاقت ور شخص سمجھتا ہے۔

ابا بچوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ابا سے بہت جلد مانوس ہو جاتے تھے وہ بچوں کی ہر بات کو بہت اہمیت دیتے تھے

جب کبھی ان کے سامنے کوئی خاندانی مسئلہ آتا تھا تو کہتے تھے کہ دیکھو بیٹا ہر آدمی کی نفسیات الگ ہوتی ہے۔ اسی لیے پہلے یہ سمجھ لو کہ کس آدمی کی کیا نفسیات ہے۔ اس کے بعد اس کے مطابق برتاؤ کرو کہتے کہ ہر آدمی ویسا نہیں ہو سکتا جیسی کہ تم اس سے توقع کر رہے ہو اسی لیے کبھی آدمی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے جب توقع نہیں ہو گی تو مایوسی بھی نہیں ہو گی اگر تم کسی سے محبت کرتے ہو اس کے لیے اچھے خیالات رکھتے ہو تو تم یہ کیوں فرض کر لیتے ہو کہ وہ بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے بارے میں اچھے خیالات رکھے۔

کبھی طبیعت خراب ہوتی تو میں یا امی ان سے کہتے کہ سو جائیے۔ آرام ملے گا تو مذاقاً کہتے کہ ہاں بھئی مریض کی خدمت سے بچنے کے لیے لوگوں نے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے مریض سے کہہ دیتے ہیں کہ سو جاؤ کبھی مذاق میں ڈانٹتے تو بعد میں کہتے کہ بھائی برا مت ماننا ہمارے باپ تو ایسے ہی ڈانٹتے تھے کہتے کہ ہم نے سنا ہے کہ جب بچے کے پیر میں باپ کا جوتا آ جائے تو اس کو ڈانٹنا اور مارنا نہیں چاہیے اب تو تمہارے پاؤں میں میرا جوتا آ جاتا ہے اس لیے مجھے احتیاط کرنی چاہیے۔

زیادہ لمبی بیماری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر آدمی زیادہ لمبا بیمار پڑتا ہے تو پر گھر والوں کی بے توجہی اور ایک حقیقی امر ہے آخر کوئی کب تک کسی کی تیمار داری کر سکتا ہے ہر آدمی کی اپنی مصروفیت ہے۔ خدا نے ان کی یہ بات بھی سن لی تھی اسی لیے بغیر کسی کو تکلیف دیے چپکے سے سوتے سوتے ہی کوچ کر گئے ہم لوگ تو ان کی خدمت کرنے کی حسرت لیے ہی رہ گئے۔

۴؍اگست کو رات آٹھ بجے (شمیم نوید) انکل آئے تھے ان سے کتاب ہی کے موضوع پر دو ڈھائی گھنٹے بات کی پھر ان کو اسٹاپ تک چھوڑنے گئے۔ پان کھلایا۔ پان والے نے کہا آپ کو پان دوں تو کہا کہ نہیں میں نے سینے میں تکلیف کی وجہ سے پان بھی چھوڑ دیا ہے۔ سگریٹ تو پہلے اٹیک (۹؍ستمبر ۱۹۸۱ء) کے بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔ ابا شمیم انکل کو چھوڑ کر واپس آئے تو کوئی گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے سونے کے لیے لیٹے اور کہنے لگے۔ بیٹا یہ اگست چل رہا ہے۔ اگلا مہینہ ستمبر کا ہے۔ انشاء اللہ ستمبر میں کتاب آ جائے گی۔

اس رات دو تین باتیں عجیب ہوئیں مثلاً جب شمیم انکل جانے لگے تو دروازے پر ہی کوئی کام انہوں نے ابا سے کہا کہ آپ وہ کام کر لیں مگر ابا نے فوراً ہی مجھے آواز دی، میں گیا تو شمیم انکل سے کہا کہ مجھے نہیں اسے سمجھا دو، اب یہی سارے کام کرے گا۔ انکل نے وہ کام مجھے سمجھا دیا۔ اس بات کی اہمیت اب معلوم ہو رہی ہے۔ اسی طرح جب اسٹاپ پر ابا انکل کے ساتھ کھڑے تو ابا نے انکل سے پوچھا کیوں بھئی اب تو میری ضرورت نہیں ہے۔ انکل کے منہ سے ابا کی ہمدردی میں یہ الفاظ نکلے ہاں فروغ صاحب اب آپ آرام کریں میں خود کر لوں گا ( یہ بات مجھے انکل نے بتائی) یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ ابا نے اپنی حیات میں ہی کتاب کا تقریباً ہر کام مکمل کر دیا تھا یہاں تک کہ میرے ساتھ جا کر کاغذ بھی لے آئے تھے۔ بس کتاب کا پریس میں جانا باقی تھا۔

انتقال سے تقریباً دس پندرہ دن پہلے ایک جمعہ کی بات ہے کہ میں دوپہر میں سو رہا تھا۔ ابا نے مجھے اٹھایا اور کہا کیوں کیا نماز کو نہیں جاؤ گے (مجھے انہوں نے پہلے کبھی بھی سوتے سے نہیں اٹھایا) میں اٹھ گیا۔ میں نے کہا ابھی تو کافی وقت باقی ہے۔ کہنے لگے ادھر آؤ، اپنے کمرے میں لے گئے۔ ان کے بستر پر کئی اخبار بے ترتیب سے پڑے ہوئے تھے ایک اخبار اٹھا کر کہنے لگے یہ خبر پڑھو۔ میں نے ان کی بتائی ہوئی خبر پڑھی جو کہ ایک عام سی خبر تھی لیڈی ڈائنا اور ملکہ الزبتھ کی لڑائی کی، میں نے کہا ابا کیا بات ہے کہنے لگے۔ اب ایسا کرو اس خبر کو ایک دفعہ اور پڑھو، اور ڈائنا کے بچے کی جگہ میرے مجموعہ کو رکھو۔ میں نے اس نظریے سے خبر کو دوبارہ پڑھا۔ پھر تو میں اچھل پڑا۔ پوچھنے لگے کیسا آئیڈیا ہے؟ میں نے کہا، ابا آئیڈیا تو فنٹاسٹک ہے مگر ایک بات ہے وہ یہ کہ کوئی بھی شاعر جب اپنا مجموعہ لاتا ہے تو بہت احتیاط برتتا ہے کیونکہ وہ اس کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے اس سے آپ کی امیج بنتی ہے یا بگڑتی ہے۔ مجموعے میں وہ کوئی اونچ نیچ نہیں کرتا آپ تو اتنا بڑا رسک لے رہے ہیں۔ اگر آپ نے پیش لفظ اس طرح دے دیا تو لوگ بہت باتیں بنائیں گے، بعض تو شاید مذاق بھی اڑائیں گے۔ ابا کہنے لگے مجھے اس کی پروا نہیں میں تو وہ کروں گا جو میرا دل چاہے گا، میرے نزدیک اس خبر کے ذریعہ میری بات کا اظہار ہو جائے گا۔ یہ بات روایت سے ہٹ کر ہو جائے گی اور ہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ابا نے مجھ پر یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ میں یہ کتاب کسی سے منسوب نہیں کر رہا۔

رمضان کے مہینے میں جب ابا ہسپتال میں داخل ہوئے تھے تو بہت زیادہ ڈپریشن میں تھے کہنے لگے، دیکھو! مجھے پہلی بار اب سے نو مہینے پہلے ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور اس نو مہینے کی مدت میں میں اپنی کتاب ترتیب نہ دے سکا۔ مجھے اور تو کوئی فکر نہیں ہے لڑکیوں کی شادی ہو گئی۔ لڑکا نوکر ہو گیا۔ بس ایک کتاب کی فکر ہے وہ کسی طرح چھپ جائے۔ ہم نے کہا ابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، آپ خود جلد ہی گھر چل کر کتاب کو ترتیب دیں گے اور کتاب ضرور چھپے گی۔

ایک دن اسپتال میں بہت زیادہ ڈپریشن میں تھے کہنے لگے طارق کہیں سے بھی ہمدانی صاحب کو لاؤ۔ میں نے ریڈیو فون کیا مگر وہ آئے نہیں تھے۔ ابا کہنے لگے میں نہیں جانتا کہیں سے بھی ہمدانی کو پیدا کرو۔ میں ابا کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اتنے میں میرا ایک دوست آ گیا تو میں چلا گیا۔ ہمدانی صاحب کو گھر سے لے کر آیا۔ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دونوں خوشی سے لپٹ گئے۔

میں نے ابا کو دو موقعوں پر روتے دیکھا ہے۔ ایک دفعہ جب انہیں ناصر کاظمی کی موت کی خبر ملی تو دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ ان سے ملنے ابا لاہور بھی گئے تھے۔ جب ناصر کاظمی میو ہسپتال میں داخل تھے۔ دوسری دفعہ جب ابا کے چھوٹے بھائی کا مراد آباد میں انتقال ہوا تھا۔

ابا کو اپنے کچھ دوستوں سے شکایت بھی تھی مگر کبھی انہوں نے ان دوستوں پر یا کسی دوسرے پر بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا۔ آخری دنوں میں ہسپتال ہی میں میری اور ہمدانی صاحب کی موجودگی میں ابا نے ان باتوں کا اظہار کیا جن سے ابا کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ اس طرح بقول خود انہوں نے اپنا کتھارسس کر دیا تھا۔

ابا کی کتاب چھپ گئی ان کی ایک بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اس کتاب کو تکمیل کے مراحل سے گزارنے میں اور اتنی جلد یعنی ابا کی خواہش کے مطابق ستمبر ۸۲ء میں لے آنے کا سارا کریڈٹ شمیم نوید انکل کو جاتا ہے۔

اگر میں اس موقع پر اپنے محترم بزرگ مولانا وزیر پانی پتی صاحب کا نام نہ لوں تو زیادتی ہو گی۔ مولانا صاحب ابا کے بے حد عزیز دوستوں میں سے ہیں اور بے لوث آدمی ہیں۔ کتاب کی تیاری میں آپ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

خرام عمر ترا کام پائمالی ہے

مگر یہ دیکھ ترے زیر پا تو میں بھی ہوں       ٭٭٭

 

کپاس کا پھول

 

ممتاز رفیق

 

رئیس فروغ صاحب ہمیشہ میرے لیے خوش بو سے بھری بند کتاب کی طرح رہے۔ مجال ہے کہ میں ان سے رات دن کی قربت کے با وصف انہیں اتنا جان سکتا کہ آج جب میں ان کی تصویر بنانے بیٹھا ہوں تو انہیں ان کے پورے جمال اور کمال کے ساتھ پوٹرے کر سکتا۔ یہ نہیں کہ وہ بولتے نہیں تھے یا میری ان پر توجہ کم تھی لیکن شاید ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ ابھی میں نے لفظی مصوری کا ارادہ نہیں باندھا تھا اور نہ ہی میرا مشاہدہ ایسا تھا کہ انسان کو پرت در پرت کھول سکوں۔ یہ تو بہت بعد کا قصہ ہے کہ میں نے جانا کہ آدمی کے بھیتر ایک پورا جہاں آباد ہوتا ہے اور اس کے رنگ کیسے پکڑ میں آتے ہیں۔ ان دنوں میں کچی عمر کا ایک مصرعہ ساز ہوا کرتا تھا، اور ریڈیو میں جناب قمر جمیل کا کلام دل نواز مجھے بولائے دیتا تھا وہ شاعری کی ایسی اعلی و ارفع مثالیں پیش کیا کرتے کہ مجھے ان کے سامنے میر و غالب کی شاعری بھی ایک کار زیاں محسوس ہوتی۔ یہ جدید طرز فکر رکھنے والوں کی منڈلی تھی اور ان دنوں وہ اپنے سرخیل قمر جمیل کے ساتھ غزل سے نالاں اور نثری نظم کے علم بردار تھے۔ ان میں افضال احمد سید، عذرا عباس، احمد ہمیش اور خود قمر بھائی کی نثری نظموں میں اس صنف کا مستقبل خاصا روشن نظر آتا تھا ان کے علاوہ سید ساجد، شوکت عابد، ناظمہ طالب اور کئی اور نوجوان بھی بڑی چوکسی سے نثری نظمیں لکھ رہے تھے۔ اسی محفل میں پہلی بار میں نے خوش قامت اور دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ کے مالک رئیس فروغ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قمر بھائی اور لڑکے لڑکیاں ان سے نیم وحشی صنف غزل سنانے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا یہ کیسے بے پناہ شاعر ہیں کہ باغیوں کا یہ گروہ ان سے غزل سننے کا متمنی ہے۔ فروغ بھائی نے غزل شروع کی تو کینٹین میں بیٹھے کتنے ہی دیگر نام ور اس میز کی طرف کان لگائے بیٹھے دکھائی دیئے یوں بھی رئیس فروغ بہت کھلے ڈھلے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں ایسی مخفی جاذبیت تھی کہ ان سے ملاقات کے دوران آدمی کے پاس ان میں محو ہو جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا تھا۔

فروغ بھائی طبعاً ایک خاموش انسان تھے جیسے ریشم کا ایک الجھا ہوا گچّھا، مجھے لگتا جیسے اس چپ میں کوئی بھید پوشیدہ ہے لیکن میں اس راز کو کبھی نہیں جان سکا۔ وہ اتنے مطمئن اور خوش باش نظر آنے والے فرد کے بارے میں صرف اندازے ہی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ مگر۔ ۔ ۔ کیا میں اور کیا میری اوقات کہ اپنے خیال کی تصدیق کر سکتا۔ میری کیفیت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ایسی تھی۔ نوجوان دانش وروں کی اس محفل میں رئیس فروغ، ثروت حسین اور افضال سید کے علاوہ میں نے کسی کو کبھی غزل سناتے نہیں دیکھا۔ یہاں ہمہ وقت رانبو، بودلیئر اور دیگر فرانسیسی شاعروں اور مفکروں کا چرچا رہا کرتا کبھی کبھار شوکت عابد ہسپانوی شاعروں کا ذکر بھی لے بیٹھتا لیکن اس بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا جاتا۔ فروغ بھائی اس گروہ میں قمر بھائی اور احمد ہمیش کے بعد سب سے زیادہ نمایاں فرد تھے۔ ایک با وقار اور با اعتماد انسان جو دوسروں پر جان وارنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا۔ میں نے فروغ بھائی کو ہمیشہ نوجوانوں کی ہمت افزائی کرتے دیکھا وہ مجھ ایسے بے نشان لڑکے کے اشعار بھی توجہ سے نہ صرف سنا کرتے بلکہ ان کی دل سے داد بھی دیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر وہ اسکرپٹ رائیٹر کی حیثیت سے فائز تھے اور اس قدر انہماک سے دفتری کام کرتے کہ اب سوچتا ہوں تو مجھے رشک آتا ہے جب وہ کاغذ پر پینسل سے حرف کاڑھنے میں مشغول ہوتے تو انوپا (صفیہ حیدر) کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی انہیں ڈسٹرب کر سکے۔ حالانکہ وہ انوپا کو نثری نظم کی شاعرہ کی حیثیت سے پسند کرتے تھے پھر دادا کو انوپا کی آواز بھی پسند تھی۔ رئیس فروغ صاحب دیکھنے میں کیسے دکھائی دیتے تھے؟ یہ سوال یقیناً آپ کے دماغ میں کھد بد کر رہا ہو گا۔ تو میرے عزیز وہ ایک نہایت دیدہ ذیب شخصیت کے مالک تھے۔ پیچھے کو پلٹے ہوئے چاندی کے لچھوں ایسے بال اور فراخ بے داغ ماتھا اور درمیانی بھوؤں کے نیچے جگ مگ کرتی روشن آنکھیں، جن میں ہر آن کوئی خیال تیرتا نظر آتا اور رنگت گیہوں کے نوخیز دانے ایسی اور باریک ہونٹوں پر ایک دائمی مسکراہٹ جو جیسے ان کی شخصیت میں آویزاں تھی اور ٹھوڑی کم زور یعنی ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں اور پیٹ کسی سلیقہ مند بی بی کی پکائی چپاتی کی طرح اور لمبی ٹانگیں ان سے مل کر انسان کو اپنی شخصی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ وہ بظاہر ایک لا پرواہ اور بے فکرے انسان دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا تھا نہیں انہوں نے تمام عمر ریڈیو میں نہایت ذمہ داری سے ملازمت کی اور میں دیکھتا کہ شام کو دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی جب کینٹین میں مکالمے کا بازار گرم ہوتا، فروغ بھائی پر ایک بے چینی سی سوار ہوتی جیسے وہ رسی تڑا کر بھاگ لینے کو بے تاب ہوں اور پھر کسی نہ کسی بہانے وہ واقعی گھر کے لئے نکل لیتے۔ ان کے جانے کے بعد قمر بھائی مسکرا کر ہانک لگاتے کوئی کسی دن دادا کو روک کر دکھاؤ۔ وہ واقف تھے کہ یہ ممکن نہیں ہے میں ان سے برسوں کے تعلق کے باوجود کبھی یہ نہیں جان سکا کہ ان کا قیام کراچی میں کہاں ہے۔ شاید وہ دوستوں کو گھر بلانا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ شاید یہ پورا سچ نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک دوست دار انسان تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دوستوں کو گھر پر خوش آمدید کہنا پسند نہ کرتے ہوں یقیناً اس کی کو ئی اور وجہ رہی ہو گی۔ جیسے کبھی کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ وہ اپنے ساتھ ایک مہلک بیماری کو لئے پھرتے ہیں۔ ریڈیو کینٹین میں ہی میرے گناہ گار کانوں نے رئیس فروغ صاحب کو نثری نظم سناتے سماعت کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قمر بھائی نے انہیں نثری نظم لکھنے پر مجبور کر کے ان کے ساتھ بہت ناانصافی کی کہ فروغ بھائی کا میدان تو رچی اور سجی ہوئی غزل ہی تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ دادا نے قمر بھائی کے کہنے پر نثری نظم لکھی وہ انکار کر سکتے تھے تو میرے بھائی وہ بھلے دن تھے دادا ٹھہرے ایک دوست پرست ان میں انکار کا یارا کہاں تھا۔ قمر بھائی کا یہ عمل ایسا ہی تھا جیسے میٹھے پانی کے چشمے پر سے اٹھا کر کھارا پانی پینے پر مجبور کیا جائے۔ دادا کو میں نے کبھی کوئی مشاعرہ پڑھتے نہیں دیکھا وہ اسے وقت کا زیاں خیال کرتے تھے کہا کرتے بھائی اتنے مجمع میں بھلا شاعری سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے یہ تو ہاؤ ہو کا میلہ ہوتا ہے اور میں اس تماشے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ جب کبھی وہ شعر پڑھتے تو ان کی آواز بہت بلند ہوتی اور ہر لفظ کو پوری صحت کے ساتھ ادا کیا کرتے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ شعر پڑھتے ہوئے وہ خود بھی شعر سے حظ اٹھاتے ہیں۔ شعر پڑھنے کا ان کا اپنا ایک منفرد ڈھنگ تھا، وہ ہر مصرعہ ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کر کے سامعین پر ایک نظر ڈالتے اور پھر ان کے لبوں پر ایک باریک سی مسکراہٹ جگہ بناتی اور اسی کے ساتھ وہ شعر مکمل کرتے۔ فروغ بھائی کے انتقال کے بعد ان کا مختصر سا شعری مجموعہ رات بہت ہوا چلی” شائع ہوا اور میں نے جانا کہ” اصل چیز کثرت نہیں معیار ہوتا ہے۔ اسی طرح ثروت حسین کا مجموعہ “آدھے سیارے پر”، بھی نہایت سرسری انداز میں شائع ہوا لیکن یہ تخلیق کی طاقت تھی کہ یہ دونوں شاعر آج بھی زندہ ہیں بلکہ ہمیں اپنے اردگرد موجود محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فروغ بھائی کا ریوائول ہو رہا ہے اور وہ نئے سرے سے شاعری کے شیدائیوں کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہوں۔ رئیس فروغ بھائی سے جو ایک بار مل چکا ہے اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ انہیں فراموش کر دے اور ہمارے تو خیر وہ دل میں رہتے ہیں۔ اب ان کی باتیں لاکھ قصہ کہانیاں سہی لیکن ان کا وجود پوری قوت سے ہمارے اردگرد موجود رہتا ہے۔ کیا نہیں؟

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل