ذکر امیر
قیصر تمکین
جمع و ترتیب: عدنان مسعود
تعارف
قلندرانہ شاعر، مرد متقی حضرت امیر مینائی سے راقم کا پہلا تعارف چوتھی جماعت میں اس وقت ہوا جب ہمارے ہمارے عزیز دوست اور امیر مینائی کے پڑ پوتے مبین احمد مینائی نے خانوادہ مینائی سے اپنی وابستگی بتلاتے ہوئے کہا کی پی آئی بی کالونی کا مشہور مینا بازار دراصل امیر مینائی کے نام سے موسوم ہے۔ بیس سال گذرنے کے بعد آج بھی اس نجیب الطرفین خاندان سے ہمارے تعلقات تلمیذ قوی ہیں۔ قیصر تمکین صاحب کی کتاب جس کا تبصرہ پچھلے دنوں شائع کیا، ان میں ایک عدد مضمون امیر مینائی کے بارے میں تھا جو کہ ان کی حیات و خدمات کا بہت خوب احاطہ کرتا ہے۔ اس کے اقتباسات شائع کئے جا رہے ہیں، امید ہے قارئین کو پسند آئے گا۔ پسندیدگی کی صورت میں محترم قیصر تمکین صاحب کی کتاب ضرور خرید کر علم دوستی کا ثبوت دیں کہ وہ ایسے مضامین سے بھرپور ہے۔
عدنان مسعود
ذکر امیر
قیصر تمکین
ایک ایسے دور میں جب کہ علم و ادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں ،معجزہ فن کی ترکیب عوامی رابطہ اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کو حیثیت آثار کہنہ و فرسودہ کی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے۔ اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات و اعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بالکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی و شرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب و فن کار کا منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے۔ گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا۔ افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے۔ ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیے کہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواس کی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گی۔ امیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا۔ جن احباب کی نظر میں مذہب۔ خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہو وہ کسی ایسے شاعر یا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمت العالمینّ کی غلامی کا شرف حاصل ہے۔ امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں حضرت جد امجد مولانامحسن کاکوروی نے فرمایا تھا-
یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا
ثمر ہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا
جب ١٨٥٧ء میں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایا وکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔ اپنے دوست کے اخلاص و مروت اور عشق رسول سے محسن کاکوروی بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا-محسن کاکوروی کے بیٹے نورالحسن نیر کاکوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اس کے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں۔ اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نور اللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا۔ یہی دفتر نور اللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا۔ علامہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کے دادا تھے۔ اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیے موجب مسرت ہے۔ برسبیل تذکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نہ مناسب ہو گا۔ امیر مینائی علامہ محسن کاکوروی کے ہم عصر اور قریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کاکوروی امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھے یہ غلط فہمی یوں ہوئے کہ وہ مصنف نور اللغات اور محسن کاکوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے (انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیر کاکوروی مصنف نور اللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے ۔ وہ مصنف نور اللغات کو بزرگ سمجھے) والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظر کاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی۔ سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دیں گے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجائے ان کا بیٹا تصور کرتے ہیں۔ ‘‘افکار‘‘ کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے۔
میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا ۔ حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کاکوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:
’’امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی اس کے بعد علمائے فرنگی محل اور دیگر علمائے عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی۔
شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جائے تو علوم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا۔ ایک بار امیر اپنے والد کے پیر داب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو۔ ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے۔ جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا کہ بارش نہیں ہو رہی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم کیا ہے۔ ۔
’’ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی
اس غم سےہےیادوسرےاشکوں کی روانی‘‘
شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متداولہ سے کماحقہٗ واقفیت پیدا کر لیں اس کے بعد شاعری کریں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی۔ جس ماحول میں تربیت ہوئی اس کا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتے جو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفر علی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت و ابتذال سے بلند تھا۔ اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہو گیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پائے جاتے ہیں۔ مثلاً …
حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہے
دار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں
واجد علی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کاکوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی۔ محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے۔ امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا ہے۔ محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نام قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوا دیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے۔ احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسئلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ء میں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے ۔
اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ ’’دامن گلچیں‘‘ کے نام سے نکالا۔ ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراء طبع آزمائی کرتے تھے۔ امیر، داغ، جلال، ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا۔ منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا۔
غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر
بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی
غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تذکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کاکوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے۔ امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیر احمد علوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور ’’دامن گلچیں‘‘ کی کلیاں مرجھا گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ محسن کاکوروی نے جب اپنا مشہور نعتیہ قصیدہ‘‘سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل‘‘ لکھا تو امیر مینائی کو خواب میں زیارت رسولّ نصیب ہوئی انہوں نے دیکھا کہ سرکار دو عالمؐ نے اس قصیدے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ جب محسن کاکوروی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھا لی کہ اب صرف مدح رسولّ ہی میں ساری صلاحیتیں صرف کریں گے۔ انہوں نے عام گفتگو بھی کم کر دی بس ہر وقت درود پڑھا کرتے اگر فکر شعر کرتے تو صرف نعت لکھتے۔ اسی سے متاثر ہو کر حضرت امیر مینائی نے پورا ایک دیوان ہی مدح رسولّ میں مرتب کر ڈالا۔ ان سے پہلے نعتیہ دیوان کی روایت اردو میں نظر نہیں آتی ہے حالانکہ عربی و فارسی میں متعدد نعتیہ دوا دین موجود ہیں۔ اسی دیوان امیر میں وہ مشہور نعت بھی شامل ہے جس کا ایک شعر مرحوم ناصر جہاں کی مترنم آواز میں بہت مقبول ہے۔
جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
عشق رسولؐ کا اثر الله کے شکر سے ہمارے خانوادے پر بہت رہا۔ محسن کے صاحبزادے نورالحسن نیر کا کوروی نے بھی وکالت چھوڑ کر لکھنے پڑھنے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے سگے اور واحد بھانجے یعنی راقم کے دادا امیر احمد علوی نے بھی ڈپٹی کلکٹر چھوڑ کر قبل از وقت وظیفہ لے لیا اور کاکوری میں گوشہ نشین ہو گئے۔ بقیہ زندگی لگ بھگ بائیس برس،تصنیف و تالیف میں صرف کر دی۔ ان کا ذکر یہاں یوں ضروری ہے کہ انہوں نے بعض شعراء، انیس ، رند اور مظفر پر بڑا مجتہدانہ کام کیا اور جہاں تک مجھے علم ہے امیر مینائی پر پہلی باقاعدہ اور مبسوط کتاب ‘‘طرہ امیر ’’کے نام سے تصنیف فرمائی۔ اس کتاب میں امیر مینائی کے محاسن شعری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر مینائی کے بارے میں جو مصدقہ باتیں تذکروں میں پائی جاتی ہیں ان کی بنیاد ’’طرہ امیر ’’کے مندرجات پر ہی ہے اس کے علاوہ حضرت امیر مینائی پر مصدقہ معلومات منشی فدا علی عیش کی تحریروں سے حاصل ہوتی ہیں۔
منشی فدا علی عیش حضرت امیر مینائی کے ہم عصر اور شناسا تھے ان کا تذکرہ ١٨٦٩ء میں شائع ہوا اس کا نام منشی صاحب نے ’’مجموعہ واسوخت‘‘رکھا تھا لیکن بعد میں یہ ’’شعلہ جوالہ‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس کی پہلی جلد حضرت امیر مینائی کے نام سے ہی شروع ہوتی ہے۔ ان دو کتابوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی تاریخ پیدائش میں کئی جگہ فرق پایا گیا ہے۔ امیر کے معاصر داغ ،جلال ،تسلیم اور رند تھے ان سب کی زندگی ہی میں امیر مینائی کی تاریخ پیدائش ٢١ فروری ١٨٢٩ء مان لی گئی تھی لیکن پھر بھی بعض حضرات نے سال پیدائش ١٨٢٨ء لکھا ہے امیر احمد علوی کی تحقیق کی روشنی میں فرمان فتح پوری نے بھی قطعیت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ انتقال کے وقت حضرت امیر مینائی کی عمر ٧١ برس تھی جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے ہجری سال کو انگریزی تقویم کے مطابق بنانے میں قدرے تساہلی سے کام لیا ہے۔
امیر مینائی نے خود بھی لکھا ہے کہ ان کا سال پیدائش ١٢٢٤ ہجری تھا۔ انہوں نے اپنے حالات اپنے بڑے بھائی طالب حسین مینائی کی تصنیف ’’آئینہ ایمان‘‘ کے دیباچے میں تحریر کیے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ١٦٧٤ ہجری میں رام پور میں مفتی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے وہ تلاش روزگار میں کانپور اور ہمیرپور میں بھی رہے تھے۔ ‘‘طرہ امیر‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی ایک مختصر سوانح حیات ان کی زندگی ہی میں ان کے ایک شاگرد ممتاز علی آہ نے شائع کی تھی اور ایک شاگرد احسن الله خاں ثاقب نے ان کے خطوط کا مجموعہ بھی شائع کرایا جو مکاتیب امیر مینائی کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اصل میں یہ مجموعہ پہلے خطوط امیر احمد کے نام سے ١٩١٠ء میں چھپا تھا بعد میں اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٢٤ء میں مکاتیب امیر احمد مینائی کے نام سے نکلا۔
امیر مینائی کی شاعری اور ان کے مقبول عام اشعار کی ستائش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کی نثر پر کام نسبتاً بہت کم ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کہیں امیر مینائی کا ذکر چھڑتا ہے تو گفتگو ان کے نعتیہ کلام یا ان کی نامکمّل امیر اللغات پر ہونے لگتی ہے ان کی دوسری بہت اہم اور پر از معلومات نثری تصانیف نغمہ قدسی، شرح ہدایت السلطان ، سرمۂبصیرت، بہار ہند، خیابان آفرینش ،محاورات مصادر اردو وغیرہ سے نہ تو زیادہ تر ادب دوست حضرات واقف ہیں اور نہ ان کی نثری تصانیف پر توجہ ہی کرتے ہیں حالانکہ نثری تصانیف میں حضرت امیر نے جو تذکرہ یادگار چھوڑا ہے اس کے ذکر کے بغیر امیر مینائی کی ہمہ جہت شخصیت کا بہت ہی اہم پہلو پردۂ اخفا میں ہی رہ جاتا ہے۔
انتخاب یادگار کی وجہ تالیف امیر مینائی نے یہ لکھی ہے کہ ’’ایک دیں نواب یوسف علی خاں وائی رام پور کو یہ خیال آیا کہ ایک تذکرہ شعرائے ماضی و حال کا ایسا ہو کے اس سے خاص وائی ریاست کے متوطن و متوسل شاعروں کی مختصر کیفیت سخن گوئی کی حقیقت نقش صفحہ روزگار ہوں ’’اس بڑے میں واقف کار حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ یہ تذکرہ امیر مینائی نے نواب کی فرمائش پر لکھا تھا اس لیے مؤلف کو آزادانہ اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا کیونکہ بہت سے معمولی شعراء رام پور کے حالات بھی نواب کی سفارش پر امیر نے اس میں شامل کیے۔ پہلے شعراء کی تعداد ٤٧ تھی بعد میں یہ بڑھ کر ساڑھے پانچ سو کے قریب ہو گئی۔
لطیفہ یہ ہے کہ اس ’’بھرتی ’’کے باوجود راز یزدانی رام پوری نے ’’انتخاب یادگار ’’پر یہ اعتراض کیا ہے کے حضرت امیر مینائی نے شعرائے رام پور کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلوی دبستان سے متاثر شاعروں کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ صرف لکھنؤ کے شعراءکو دل کھول کر داد دی گئی ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں نیاز فتح پوری نے نگار کے ایک مخصوص شمارے میں لکھا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ تذکرے کی ترتیب و اشاعت میں قدم قدم پر نواب دخل اندازی کر رہے تھے اور معمولی معمولی شاعروں کے نام شامل کرا رہے تھے۔ شعرائے لکھنؤ کو جھنڈے پر چڑھانے کا دعویٰ قطعی غلط ہے۔ بہر حال یہ تذکرہ ١٨٨٠ء میں پہلی بار شائع ہوا لیکن اس کی اشاعت میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر امیر مینائی نے اپنے شاگرد اسد اللہ خاں کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے۔
’’میں اپنی تالیف کو اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کے ہدیہ احباب کروں علی الخصوص یہ تذکرہ جس میں مجھ کو حالات تاریخی اور انتخاب اشعار میں ایسی مداخلت ہے جیسے قلم کا دست کاتب میں۔ ‘‘
‘‘ فقیر
امیر
٢٩ نومبر ١٨٨١ء‘‘
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں۔
’’بندہ پرور اس تذکرے میں اگر کچھ محاسنہوں تو اہل ہنر جانیں اور جو اس میں بہ مجبوری قبائح ہیں قرار واقعی ان کو میرا دل جانتا ہے۔ مگر کیا کروں۔ مامور تھا ،مجبور تھا۔ اس کا اشارہ ہے آپ غور سے پڑھیے گا تو سمجھ جائیے گا کہ مؤلف مجبور تھا۔ ‘‘
اس معاملے میں اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ریاست رام پور کے حالات یا وہاں کے شب و روز کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ لکھنے کی آزادی تو امیر کو نہ تھی مگر شعراء کے ذکر اور ان کے کلام پر تبصرے انہوں نے پوری آزادی سے کیے ہیں یے ضرور ہے کے بہت سے غیر ضروری نام انہیں محض نواب کی سفارش پر تذکرہ میں شامل کرنا پڑے پھر بھی ان شعراء کے فن اور کلام کے حسن و قبح پر تبصرے کی آزادی امیر مینائی کو بہر حال حاصل تھی۔
امیر مینائی کی دوسری نہایت ہی اہم ادبی خدمت امیر اللغات کی ترتیب و تالیف ہے اس بارے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘جب سے ہوش سنبھالا ، آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھا کہ اچھے اچھے اہل زبان اور زباندان سر زمین سخن کے فرمانروا ہیں۔ انہیں کی صحبتوں میں اردو زبان کی چھان بین کا شوق مجھے بھی ہوا۔ اسی زمانے میں آرزو ہوئی اور بڑھ کر بے چین کرنے لگی کہ اردو زبان کے بکھرے ہوئے موتیوں کی ایک خوشنما لڑی بناؤں۔ اتنے میں لکھنؤ کی سلطنت مٹ گئی وطن کی تباہی اور گھر بار لٹنے سے چندے حواس ہی نہ جمع ہو سکے۔ الفاظ کیسے؟لیکن آرزو کی آگ دل میں سلگتی رہی یہاں تک کے فردوس مکاں نواب یوسف الی خاں وائی رام پور نے مجھے بلا کر اطمینان کا سایہ دیا۔ اتنی فرصت تو نہ پا سکا کہ اپنے ارادے کو پورا کر سکوں تا ہم کچھ کچھ شغل چلتا گیا۔ ١٨٨٤ء میں سر الفرڈ لائل صاحب بہادر، لیفٹنٹ گورنر مغربی و شمالی اور چیف کمشنر اودھ نے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش کی۔ نواب خلد آشیاں نے مجھے حکم دیا۔ یہاں تو تمنا ہی تھی۔ ۔ ‘‘
افسوس کہ یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ نواب خلد آشیاں مرض الموت میں مبتلا ہو کر رحلت فرما گئے اور الفرڈ لائل بھی انہی دنوں ہندوستان کو خیر باد کہہ گئے اس پر تاسف کرتے ہوئے امیر مینائی فرماتے ہیں:
’’اردو کی قسمت میں ہی یہ بدا ہے کہ سنورنے نہ پائے۔ میں اسے کیا کروں اور کوئی کیا کرے‘‘
اس کے باوجود امیر مینائی نے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ ہر جگہ لوگوں نے ہمت افزائی کی اور لغت مرتب کرنے کی ‘‘تمنا کو شہ دی‘‘ انہوں نے رام پور میں امیر اللغات کا دفتر قائم کیا اور محنت ویکسوئی سے تالیف لغت میں منہمک ہو گئے۔
امیر مینائی ایک نہایت ہی بلند پایہ شاعر تھے۔ داغ نے جن شوخیوں اور اکثر اوقات غیر شائستہ تراکیب کو رواج دیا ان سے امیر مینائی نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی۔ داغ امیر کی اس شائستگی کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی اس باب میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ نیاز فتح پوری نے ایک خط میں تقریباً اسی نکتے کو چھیڑَا ہے فرماتے ہیں۔ امیر و داغ کے موازنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں شمال و جنوب کی نسبت ہے۔ لیکن صنم خانہ عشق لکھ کر امیر نے خواہ مخواہ ایک عذاب مول لیا ہے۔ اسی لیے کہہ ان کے شایان شان نہ تھا اور دوسروں کے لیے بھی کہ ان کو داغ کی سطح پر گفتگو کرنا پڑتی ہے۔ ‘‘
آگے چل کر اسی خط میں نیاز لکھتے ہیں
‘‘امیر شاعر تھے اس میں کلام نہیں لیکن آپ کو معلوم نہیں شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ وہبی واکتسابی۔ میں نے یہ تقسیم اور طرح کی ہے مطلق شاعر اور شاعر با لقوت۔ یعنی ایک وہ جو سوائےشعر کہنے کے اور کسی کام کا نہیں، یعنی شعر نہ کہے گا تو کرے گا کیا۔ اور دوسرا وہ جو دوسری تمام انسانی اہلیتوں کے ساتھ شعر گوئی کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ سو ظاہر ہے کے جہاں تک محض شعر کا تعلق ہے امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں۔ داغ صرف شاعر تھے اور کچھ نہیں۔ امیر سب کچھ تھے مگر وہبی شاعر نہیں۔ داغ کا سرمایہ ہستی اس کی شاعری تھی اور امیر کے لیے یہ امر باعث فخر و ناز نہ تھا۔ داغ نے تمام عمراسی ماحول میں بسر کر دی جو گوشت پوست کے متعلق ہونے والی شاعری کے لیے ضروری ہے اور امیر کو نماز پنجگانہ اور تہجد گزاری سے کہاں فرصت تھی جو اس طرف توجہ کرتے۔
’’ہر چند مراۃ الغیب(امیر کا دیوان اول)کی شاعری بھی صرف اسیر کی سی شاعری ہے جس میں جذبات وغیرہ سے بہت کم سروکار ہے لیکن خیر ایک مخصوص رنگ اس زمانے کا ہے جو اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے لیکن ‘‘صنم خانہ عشق‘‘ لکھ کر انہوں نے کمال ہی کر دیا۔ غضب خدا کا امیر ایسا شخص اور عامیانہ جذبات نگاری میں اس سطح تک اتر آئے کہ،
رخسار نازک ہوں تو آج ایک مانوں گا نہ میں
دو بوسے لوں گا جان من اک اس طرف اک اس طرف
’’امیر ایسے سنجیدہ و متقی شخص کی طرف سے ہم یہ سب گوارہ نہیں کر سکتے۔ البتہ ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہ آئ کہ وہ ہی امیر جو مرات الغیب میں یکسر بے آب و رنگ نظر آتے ہیں اور صنم خانہ عشق میں شرمناک حد تک عریاں …… کیونکر لکھنؤ پہنچ کر دفعتاً دہلی کی فضاؤں میں پہنچ گئے۔ لکھتے ہیں۔
‘‘ کچھ آج نہیں رنگ یہ افسردہ دلی کا
مدت سے یہی حال ہے یاور مرے جی کا
کھاتے ہو قسم نہیں میں عشق
صورت تو امیر اپنی دیکھو
اک کنارے پڑا ہوا ہے امیر
کچھ تمہارا غریب لیتا ہے
کوئی امیر ترا درد دل سنے کیونکر
کہ ایک بات کہے اور دو گھڑی روئے‘‘
حیران ہوں کہ جس میں ایسے اشعار کہنے کی اہلیت ہو وو اپنے نام سے ’’مراۃ الغیب‘‘ اور ’’صنم خانہ عشق کی نسبت گوارہ کرے۔ ‘‘
(سالنامہ نگار پاکستان)مکتوبات نیاز نمبر دسمبر ١٩٨٥ء
امیر مینائی کے بارے میں نیاز کے استعجاب کی بنا پر کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ کچھ رنگ زمانہ ، کچھ شوخی احباب اور کچھ محض تفنن طبع،ان سب کا اثر ان پر ہوا ہو گا اور چونکہ بقول نیاز امیر مینائی محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے اس لیے بطور تفریح اوقات انہوں نے معاصرین کے رنگ میں کچھ کہا ہو۔ اس بارے میں سرراہے گفتگو کے نتیجے میں خلیق ابراہیم خلیق نے جو خود بھی دبستان لکھنؤ کے بہت ہی موقر مؤد رہے ہیں ایک ذاتی خط میں تحریر فرمایا۔
’’داغ اور امیر جس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں اور اس سے پہلے کے معاشروں میں جنسی خواہشات و واردات کا برملا کھلم کھلا اظہار عمومی طور پر معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علماء و مشائخ بھی فطری میلانات کو رد نہیں کرتے تھے اور حسرت موہانی کی زبان میں ’’زہد کی عصیاں نظری ’’عام تھی خواجہ میر درد جیسا صوفی صافی شاعر بھی اس سے مبرا نہیں تھا۔ ان کا شمار بھی حسرت موہانی کے نقطۂ نظر کے مطابق گنہگاران صالح میں ہو گا۔ وہ ذرا سنبھل کر چلتے تھے جبکہ دوسرے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آ جاتے تو ابتذال کی حدیں پار کر جاتے تھے۔ مومن جیسا متشرع بھی اپنی مثنویوں میں کھل کھیلا ہے۔ ۔ رہی ابتذال کی بات تو تقریباً سبھی اس سے آلودہ تھے۔ کسی کے ہاں مبتذل اشعار کی خاصی تعداد ہے کسی کے ہاں کم،کسی کے ہاں بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے منافقانہ معاشرے میں حسرت موہانی،ان کے ہمنوا ترقی پسندوں اور دوسرے وسیع النظر اور کشادہ دل لوگوں کے علاوہ بیشتر علماء و مشائخ اور نقادانہ ادب میں شوخی طبع یا شئے لطیف کا فقدان اور ہوس کا وفور ہے‘‘
بعض محققین اور تذکرہ نگاروں نے امیر و داغ کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے یا دونوں کے شاگرد اور طرف دار انیسیوں اور دبیریوں کی طرح ہر وقت لاٹھی پونگے پر آمادہ رہتے تھے۔ اس باب میں نیاز کا یہ جملہ کہ ‘‘امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں ہے‘‘ خاصا قابل غور اور لحاظ ہے۔ امیر احمد علوی نے طرہ امیر میں اکثر جگہوں پر امیر اور داغ کے طرز ادا پر تبصرہ سا کیا ہے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ نقوش کے ادبی معرکے میں کہیں امیر و داغ کی معاصرانہ چشمکوں کا ذکر نہیں ہے ہاں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ایک جگہ دونوں کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہا ہے انہوں نے ایسی محافل کا ذکر بھی کیا ہے جہاں داغ کے تلامذہ امیر کے فن یا ان کے قدردانوں کی ٹوپی اچھالنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اس بارے میں خاصی چن بین کے باوجود دوسری کسی جگہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے خود امیر مینائی انتہائی شریف النفس تھے اس بارے میں ان کے ایک خط کا حوالہ کافی ہو گا۔ امیر مینائی اور داغ میں بہت بے تکلفی تھی اس لیے داغ کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’مدت کے بعد نوازش نامہ آیا۔ ممنون یاد آوری فرمایا۔ بندہ نواز مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی خط کا جواب قلم انداز کیا ہو۔ یہ میرے مقدر کی نہ رسائی ہے کہ کوئی خط نہ پہنچا ہو۔ ‘‘
داغ نے نظام دکن سے سفارش کی تھی کے امیر مینائی کو سلطان الاساتذہ کا خطاب مرحمت فرمایا جائے۔ یہ ذکر جب امیر کے نام ایک خط میں آیا تو حضرت امیر مینائی نے لکھا –
’’اول تو میں خطاب لینے کے قابل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں اور پھر درخواست دے کر خطاب مانگنا تو بالکل پسند نہیں …… میاں اب وقت آ گیا ہے کہ مرحوم کے خطاب بارگاہ شہنشاہ حقیقی سے عطا ہو۔ اور کوئی حوصلہ نہیں … امیر فقیر۔ ‘‘
یہ خط ٣١ مارچ ١٨٩٠ء کو مرزا داغ کو دکن بھیجا گیا۔ ان دنوں امیر مینائی رام پور میں تھے اس کے کئی برس بعد دکن جانا ہوا جہاں وہ اپنی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں سرکاری گفتگو کے لیے گئے تھے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے نظام سے خطاب عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی (عام طریقہ یہی تھا کہ امراء درخواست کرتے اور نظام منظوری دیتے تھے)اور ایک طرح نظام کے طریقہ کار کی توہین کی تھی اس لیے لغت کے سلسلےمیں بھی کوئی مالی امداد کا سبیتا نہ ہو سکا۔ دربار حیدرآبادی کو مستقل بدنامی سے بچانے کے لیے کہا گیا کہ نظام اپنی علالت کی وجہ سے امیر مینائی سے نہ مل سکے۔
تھوڑے ہی دنوں بعد یعنی آج سے ٹھیک سو برس پہلے ١٣ اکتوبر ١٩٠٠ء کو حضرت امیر مینائی رحلت فرما گئے اور وہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیے گئے۔
حضرت امیر مینائی کی غزلیات مجموعہ نعت اور محاسن شعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ابو محمد سحرنے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ بھی کلام امیر کی خوبیوں پر لکھا ہے لیکن اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ امیر مینائی کی نثری تصنیفات اور ان کے نقد شعر کی روش پر تفصیل سے کام کیا جائے۔ اس کے لیے ضرورت ذہنی سکون اور مطالعے کی ہے کیونکہ ان کی نثری تصانیف کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے ان پر سیر حاصل تحقیقی کام کسی ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کام تو کسی یونیورسٹی یا ادبی ادارے کی سرپرستی میں آسانی سے ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کے خانوادہ مینائی کا کوئی امیر زادہ کمر ہمت کس لے۔ اگر نئی صدی میں بھی یہ کام نہ ہو سکا تو خود بقول امیر۔ ۔
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید