FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ذبح عظیم

(ذبح اسماعیل سے ذبح حسین تک)

 

 

               ڈاکٹر طاہر القادری

 

 

 

 

پیش لفظ

 

تمام تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کر کے خدا بننے کا جنون تاریخ انسانی کے ہر دور اور ہر عہد میں مسند اقتدار پر براجمان مطلق العنان بادشاہوں کے ذہنوں میں فتور برپا کرتا رہا ہے۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر کے اپنی انا کو تسکین دینے کے اس شیطانی عمل نے اس کرۂ ارضی پر شاداب موسموں کی چاندنی بکھرنے کی بجائے تاریخ کے اوراق پر جبر و استبداد کی ان گنت داستانیں رقم کی ہیں۔ یہ جنون آج کی نام نہاد مہذب اور جمہوری دنیا میں ظلم، بربریت، درندگی اور وحشت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر روشن خیالی، سائنسی اور فنی ارتقاء کے باوجود انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے قریب تر ہو رہے ہیں، جنگل کا قانون آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اولاد آدم پر مسلط ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ کار مذمت، خوشنما اور دلفریب عنوانات کے تحت جاری ہے۔ اب توسیع پسندی کے پیمانے بدل گئے ہیں، اب جسمانی غلامی کی جگہ سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے نئے انداز متعارف ہو رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، آتش نمرود سے میدان کربلا میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خیموں کو آگ لگائے جانے تک ریاستی دہشت گردی کی ان گنت مثالیں بکھری ہوئی ہیں، ریاستی دہشت گردی جسے عموماً قانونی اور آئینی تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے ہمارے پورے عہد کی پہچان بن گئی ہے، کہنے کو تو نسلی تعصبات کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن مغرب سمیت امریکہ جیسے نام نہاد مہذب اور جمہوری معاشروں میں گورے اور کالے کے خون میں عملاً آج بھی تمیز روا رکھی جاتی ہے۔

 

تاریخ عالم شاہد عادل ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابن آدم کو قانون اور حقوق دینے والے پیغمبر امن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دہلیز سے اپنی غلامی کا رشتہ استوار کر کے افق عالم پر دائمی امن کی بشارتوں کے نزول کو یقینی نہیں بناتی۔

 

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں بے خطر کود کر کلمۂ حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبح اسماعیل سے ذبح حسین علیہ السلام تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کی ان کائناتی سچائیوں کی امین ہے جن کے بغیر تہذیب انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہر تفہیم اور توجیہہ بے معنی اور غیر مؤثر ہو  کر رہ جاتی ہے تاریخ اسلام حریت فکر کے امین انہی لمحات جاوداں کی عینی شاہد ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے :

 

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل(ع)

 

اس ابدی حقیقت کی ترجمانی پر مبنی اقبال کا یہ شعر ہمیشہ سے اہل علم و نظر کو متوجہ کرتا رہا، ضرورت اس بات کی تھی کہ حکیم الامت کے ان جذبات کو باقاعدہ علمی اور تحقیقی قالب میں ڈھالا جاتا سو اس سعادت کے لئے قدرت نے مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زبان حقیقت ترجمان کا انتخاب کیا۔ چنانچہ یہ کتاب آپ کے مختلف مواقع پر کئے گئے خطبات کا مجموعہ ہے جن میں محترم محمد تاج الدین ہاشمی صاحب نے بعض ضروری حوالہ جات کا اضافہ بھی کر دیا ہے یوں اس اچھوتے موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب آپ کے ہاتھوں میں موجود ہے۔

 

ریاض حسین چوہدری


 

 

بارگاہ خداوندی سے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم

 

اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ ان کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتا ہے اور انہیں ارفع و اعلیٰ  مقامات پر فائز بھی کرتا ہے۔ انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انہیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔ انہیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم ہوا لیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ سر مو حکم ربی سے انحراف یا تساہل نہیں برتا، ان کی اطاعت، خشیت اور محبت کا یہی معیار تھا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اور اس میں موجود جملہ نعمتوں کو اپنے مولا کی رضا کیلئے وقف کیے رکھا، حتی کہ اولاد جیسی عزیز ترین متاع کے قربان کرنے کا حکم بھی ملتا تو ثابت کر دیا کہ یہ بھی اس کی راہ پر قربان کی جا سکتی ہے۔ جملہ انبیائے کرام اپنی شان بندگی میں یکتا اور بے مثال تھے لیکن سلسلہ انبیاء میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے۔ ان کے لیے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورا اترے کیسے؟ قرآن کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔

 

رَبِّ ہَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ        O        فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ        O        فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِينَ        O        فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِينِ        O        وَنَادَيْنَاہُ أَنْ يَا إِبْرَاہِيمُ        O        قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ        O        إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ        O        وَفَدَيْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ        O

 

اے میرے پروردگار مجھ کو نیک بیٹا عطا فرما۔ پس ہم نے ان کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (اسمٰعیل) ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچے فرمایا اے میرے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں پس تم بھی غور کر لو کہ تمہارا کیا خیال ہے (اسمٰعیل نے بلا تردد) عرض کیا اے ابا جان (پھر دیر کیا ہے) جو کچھ آپ کو حکم ہوا کر ڈالئے (جہاں تک میرا تعلق ہے) آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے (اللہ کا) حکم مان لیا اور (ابراہیم نے) ان کو ماتھے کے بل لٹایا۔ اور ہم نے ان کو ندا دی کہ اے ابراہیم (کیا خوب) تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (بے شک باپ کا بیٹے کے ذبح کے لئے تیار ہو جانا) یہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی (حضرت ابراہیم اس آزمائش میں پورا اترے) اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔

 

(الصفت، 37 : 100 – 107)

 

پیکرِتسلیم و رضا

 

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ رب العزت کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجد، ابتلا و آزمائش کے ان گنت مراحل سے گزرے، سفر ہجرت اختیار کیا، اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور ننھے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑا۔ تبلیغ دین کا ہر راستہ دراصل انقلاب کا راستہ ہے اور شاہراہ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔

 

سیدنا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں التجا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ مجھے ایک نیک، صالح اور پاکباز بیٹے سے نواز، اللہ پاک دعائے ابراہیمی کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہیں، بارگاہ خداوندی سے انہیں اطاعت گزار بیٹا عطا ہوتا ہے جن کا نام اسماعیل رکھا جاتا ہے۔ باپ کی آنکھوں کا نور، اور اس کی دیرینہ محبتوں اور چاہتوں کا مرکز، حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر کا سہارا بھی تھے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اس بے پناہ محبت کو دیکھ کر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم! اپنے لخت جگر اسماعیل کو ہماری راہ میں قربان کر۔

 

غور کیا جائے تو یہ مقام حیرت و استعجاب ہے۔ اللہ کا پیغمبر یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آج تک کسی انسان کی قربانی کا حکم نہیں دیا گیا، وہ اس پر لیت و لعل سے بھی کام لے سکتے تھے اور اس کا قرینہ بھی تھا کیونکہ یہ حکم آپ کو خواب میں دیا گیا تھا لیکن دیکھیے پیغمبر کے ایمان و عمل کی رفعتیں! انہوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر سارا ماجرا اپنے بیٹے اسماعیل کو سنایا لیکن انہیں حکم نہیں دیا بلکہ ان سے رائے پوچھی۔ قربان جائیں اس پیغمبر زادے کی ایمانی عظمتوں پر بھی جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کر کے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔

 

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مخاطب ہوتے ہیں کہ بیٹا ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے اللہ کی راہ میں ذبح کر رہا ہوں۔ باپ بیٹا دونوں جانتے ہیں کہ پیغمبر کا خواب اللہ کی وحی ہوتا ہے اس لئے باپ بیٹے سے پوچھتا ہے بیٹا! بتا تیری کیا رائے ہے؟ اطاعت گزار بیٹا جواب دیتا ہے ابا جان! آپ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کیجئے آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ قرآن بتاتا ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے اوندھے منہ لٹا دیتے ہیں اور اپنے لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے چھری ہاتھ میں لیتے ہیں۔ غیب سے آواز آتی ہے

وَنَادَيْنَاہُ أَنْ يَا إِبْرَاہِيمُ        O        قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ        O

ابراہیم! تو نے اپنا خواب اور اللہ کا امر سچا کر دکھایا، ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزاء دیتے ہیں، اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم اللہ کے نبی کی بہت بڑی آزمائش اور ایک بہت بڑا امتحان تھا، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس بڑے نازک امتحان میں کامیاب و کامران رہے۔ آسمان سے ایک مینڈھا آتا ہے اور حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈے کو ذبح کرتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے ابراہیم! تمہاری قربانی قبول ہو گئی۔ ہم نے اسماعیل کی ذبح کو ’’ایک عظیم ذبح،، کے ساتھ فدیہ کر دیا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی بھی بارگاہ خداوندی میں مقبول و منظور ہو گئی اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی بھی بچ گئی۔

 

حیات اسماعیل علیہ السلام کو تحفظ کیوں دیا گیا؟

 

اب ذہن انسانی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم کیوں ہوا؟ اور اگر حکم ہوا تھا تو ان کی زندگی کو تحفظ کیوں دیا گیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حکم اس لئے ہوا کہ سراپائے ایثار و قربانی پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ہو جائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیاء کی سنت ہے اور بچا اس لئے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہونا تھی۔ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تشریف لانا تھا اس لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذبح کو جنت سے لائے گئے مینڈھے کی قربانی کی صورت میں ’’عظیم ذبح‘‘ کے ساتھ بدل دیا گیا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام محفوظ و مامون رہے۔

 

تعمیر کعبہ سے کائنات کی امامت تک

 

سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام سن بلوغت کو پہنچے، تو مکہ معظمہ کی وادی میں اپنے والد بزرگوار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تشریف لائے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم ہوا، یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو سرورکائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجد کے حصہ میں آیا۔ انہی کی نسل پاک میں مبعوث ہونے والے پیغمبر اعظم و آخر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصے میں یہ سعادت بھی آئی کہ کعبۃ اللہ کو تین سو ساٹھ بتوں سے پاک کر کے اس پر پرچم توحید لہرایا۔

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مقدسہ پر ایک نظر ڈالیں تو کار نبوت کی انجام دہی میں انہیں ان گنت مصائب کا سامنا رہا اور آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ اللہ کے اس عظیم پیغمبر نے راہ حق میں آنے والی ان مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور ہر آزمائش پر پورا اترے۔ کامیابی نے قدم قدم پر ان کے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت کو شاندار الفاظ میں دہرایا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد خداوند ی ہے۔

 

وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاہِيمَ رَبُّہُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَہْدِي الظَّالِمِينَ        O        وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّى وَعَہِدْنَا إِلَى إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَہِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ        O        وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِيمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہُم بِاللّہِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُہُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّہُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ        O        وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاہِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ        O        رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ        O        رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ يَتْلُو عَلَيْہِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيہِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ        O

 

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ (اور یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کیلئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقام نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو۔ اور جب ابراہیم نے عرض کیا اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کیلئے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کفر کے باعث) دوزخ کی عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسمٰعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا، اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔

 

(البقرہ، 2 : 124 – 129)

 

آزمائش کا مرحلہ گزر گیا۔ کامیابی کا نور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مقدس پیشانی پر چمکنے لگا، اس وقت پیغام حق آیا کہ ابراہیم! ہم نے تیری عبدیت کو پرکھ لیا، ہم نے تیری شان خلیلی کا امتحان لے لیا۔ ہم نے دیکھ لیا کہ تیرے دل میں ہماری محبت کے کتنے سمندر موجزن ہیں، ہم نے تیری قربانیوں کا بھی مشاہدہ کیا، قدم قدم پر تیرے صبر و استقامت کو بھی دیکھا۔ ہم نے تیرے توکل اور کلمہ شکر کی ادائیگی کا حسن بھی دیکھا۔ ان تمام آزمائشوں پر پورا اترنے کے بعد آ ! ابراہیم اب ایک خوشخبری بھی سن لے، ایک مژدہ جانفزا بھی سماعت کر، وہ خوشخبری کیا ہے، وہ مژدہ جانفزا کیا ہے؟ وہ خوشخبری یہ ہے کہ ابراہیم ! میں تجھے نسل بنی آدم کی امامت عطا کرتا ہوں۔ پوری انسانیت کی امامت، تمام امتوں کی امامت، اقوام عالم کی امامت۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

 

إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

 

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ یہ امامت صرف میرے لئے ہے یا میری ذریت اور نسل کے لئے بھی؟ ارشاد ہوا

’’لاَ يَنَالُ عَہْدِي الظَّالِمِينَ        O   ،

ابراہیم! ہم نے تجھے بھی امامت دی اور یہ امامت تیری ذریت اور نسل کو بھی عطا کی، مگر شرط یہ ہے کہ یہ امامت اس کا مقدر بنے گی جو تیرے نقش قدم پر چلے گا جو صراط مستقیم کو اپنائے گا وہ دنیا کی امامت پائے گا لیکن جو تیری راہ سے منحرف ہو گا، امامت کا بھی حق دار نہ ہو گا۔

 

پھر تعمیر کعبہ کا حکم ہوا۔ عظیم باپ اور عظیم بیٹا تعمیر کعبہ میں مصروف ہو گئے ایک ایک پتھر لاتے اور کعبہ کی دیواریں تعمیر کرتے۔ دیواریں بلند ہو گئیں، ایک پتھر عطا ہوا جس پر کھڑے ہو  کر تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔ جوں جوں دیواریں اونچی ہو رہی تھیں توں توں یہ پتھر بھی بلند ہوتا جاتا اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام تعمیر کعبہ میں اپنے والد گرامی کی معاونت فرماتے، پتھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاہِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ، جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام تعمیر کعبہ میں مصروف ہوتے تو یہ کلمات ان کی زبان اقدس پر جاری ہوتے ’’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‘‘ مولا! ہم تیرے گھر کی تعمیر کر رہے ہیں ہماری یہ مشقت قبول فرما، ہماری اس مزدوری کو قبولیت کا شرف عطا کر، رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ، یا باری تعالیٰ! ہماری جبینیں تیرے حضور جھکی رہیں، ہمارے سجدوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ، ہماری آل اور ذریت میں سے امت مسلمہ پیدا کر۔ پھر اگلی آیت میں حکم ہوا تم نے آج ہمارا گھر تعمیر کیا ہے جو مانگنا ہے مانگ لو، اپنی مشقت کا صلہ طلب کر لو، بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھ گئے ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ يَتْلُو عَلَيْہِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيہِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ        O      ‘‘ باری تعالیٰ ہم نے تیرے گھر کی دیواریں بلند کی ہیں ہم نے اپنی ذریت میں سے امت مسلمہ مانگ لی ہے۔ اے خدائے رحیم و کریم، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر مجھ تک ہر زمانے میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظہور کا اعلان کرتا رہا ہے، یہ سلسلہ نبوت و رسالت اس مقدس ہستی پر جا کر ختم ہو جائے گا۔ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس کی خاطر تو نے یہ بزم کائنات سجائی۔ کرہ ارض پر ہزارہا انبیاء کو مبعوث فرمایا وہ رسول آخر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس کے لئے تو نے ملتوں کو پیدا کیا۔ دنیائے رنگ و بو کو آراستہ کیا، آبشاروں کو تکلم کا ہنر بخشا، ہواؤں کو چلنے کی خو عطا فرمائی۔ وہ رسول برحق جس کی خاطر تو نے اپنا جلوہ بے نقاب کیا، جس کی خاطر تو نے اپنی مخلوقات کو پردہ عدم سے وجود بخشا، جس کی خاطر تو نے انسانوں کے لئے ہدایت آسمانی کے سلسلے کا آغاز کیا، اس رسول معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوراس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس کائنات رنگ و بو میں ظہور ہونے والا ہے، باری تعالیٰ نے فرمایا ہاں ابراہیم ہمارا وہ محبوب رسول آنے والا ہے، بتا ابراہیم! تو کیا چاہتا ہے۔ فرمایا رب کائنات! اگر تو تعمیر کعبہ کی ہمیں مزدوری دینا چاہتا ہے، اگر تعمیل حکم میں ہمیں تو کچھ عطا کرنا چاہتا ہے تو اے پروردگار اپنے اس آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میری اولاد میں مبعوث ہونے کا شرف عطا فرما۔ میری ذریت کو نور محمدی کے جلووں سے ہمکنار کر دے، میری اولاد کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قدم بوسی کی سعادت بخش دے، مولا! مجھے اپنا محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دے دے۔ ارشاد ہوا، ابراہیم تو نے تین چیزیں

 

(1) نبوت و رسالت

 

(2) ختم نبوت اور

 

(3) امت مسلمہ اپنی ذریت کے لئے مانگ لی ہیں، ابراہیم تو نے میری محبت اور رضا کیلئے میرا گھر تعمیر کیا ہے اور دعا بھی وہ مانگی ہے جسے میں رد نہیں کرسکتا اس لئے ابراہیم! جا ہم نے تجھے تیری مزدوری کے صلے میں یہ تینوں چیزیں عطا کر دیں۔

 

پتھر کی عظمت

 

روایات میں ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو  کر اپنی نسل میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی دعا مانگی تھی یہ وہی پتھر تھا جس پر کھڑے ہو  کر آپ نے تعمیر کعبہ کا کام سر انجام دیا تھا۔ اس مقدس پتھر کی عظمت پر جان و دل نثار جس پر کھڑے ہو  کر اپنی اولاد میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث ہونے کی دعا مانگی جا رہی ہے۔ رب نے کہا اے بے جان پتھر تجھے خبر ہے تجھ پر کھڑے ہو  کر ابراہیم علیہ السلام نے ہم سے کیا مانگ لیا ہے اس لمحے کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے کہ یہ لمحہ قبولیت کا لمحہ ہے۔ اس لمحے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تذکار جلیلہ سے روح کائنات معطر ہے، قدرت خداوندی سے پتھر موم ہو گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان قیامت تک کے لئے اس میں پیوست ہو گئے۔

 

اس پتھر کا اعزاز یہ تھا کہ اس پر کھڑے ہو  کر اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر نے اس کے محبوب کا تذکرہ چھیڑ دیا تھا۔ اللہ کے نبی کی نسبت سے وہ پتھر بھی محترم ہو گیا۔ بے شمار پتھروں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان لگے ہوں گے، ان گنت پتھروں نے کف پائے ابراہیم علیہ السلام کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہو گا لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ وہ نقوش مٹتے گئے، ماہ و سال کی گرد انہیں اپنے دامن میں چھپاتی رہی مگر جس پتھر پر کھڑے ہو  کر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طلوع صبح میلاد کی دعا مانگی تھی، اللہ سے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مانگا تھا۔ کونین کی دولت کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی آرزو کی تھی وہ پتھر حرم اقدس میں مقام ابراہیم پر قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔

 

ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبولیت کی خلعت فاخرہ عطا کی، اور جو پتھر ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نشان تھا اسے صحن کعبہ میں قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا اور باقی تمام پتھر حدود کعبہ سے ہٹا دئیے کیونکہ کعبہ میری سجدہ گاہ ہے۔ یہ میری توحید کا مرکز ہے، اس کی سمت منہ کر کے عبادت کی جاتی ہے یہ محور حق ہے۔ خلقت کا منبع و مرکز ہے، مشرق سے مغرب تک لوگ میرے کعبے میں حج و عبادت کے لیے آئیں گے، حرم کی زمین کو اپنے سجدوں سے بسائینگے۔ یہ فضاء ان کے نالہ ہائے نیم شبی سے معمور ہو گی۔ میں انہیں یہ پتھر دکھاؤں گا جو دعائے خلیل علیہ السلام کی یادگار ہے جس پر کھڑے ہو  کر اس نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اپنی نسل میں مبعوث ہونے کی دعا مانگی تھی۔ اے حرم کعبہ تک آنے والو! اے میرے گھر کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے والو! یہ صدقہ ہے اس پتھر کا جن پر ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہیں کیونکہ یہ دعائے مصطفےٰ کا نقش ہے۔

 

حکم ہوا وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّى، سوال ہوا کہ باری تعالیٰ اس پتھر کو کیسے محفوظ کریں۔ فرمایا اس پتھر کو کعبے کے سامنے گاڑ دو، اس وقت تک میرے گھر کا طواف مکمل نہیں ہو گا جب تک طواف کرنے والے اس پتھر کے سامنے میرے حضور سجدہ ریز نہ ہوں گے تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ تمام انعامات و اکرامات صدقہ ہے اس پتھر کا۔

 

دعائے خلیل کی قبولیت

 

دعائے خلیل کو خلعت قبولیت عطا ہوئی، کونین کی دولت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دامن طلب میں ڈال دی گئی یہ دعا پہلے پارے کے آخر میں آئی ہے دوسرے پارے کے شروع میں اس کا جواب بھی آ گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ        O        فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ        O        يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِينَ        O        وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ        O        وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ        O        الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ        O        أُولَـئِكَ عَلَيْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ        O

 

اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا ) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔ اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا ) ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا ) شعور نہیں۔ اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اس کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

 

(البقرہ، 2 : 151 – 157)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے قوموں کی امامت کا سوال کیا، امامت کی دو شکلیں کر دی گئیں۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نبوت کو ختم ہونا تھا اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا جانا مقصود تھا اس لئے امامت کے دو جزو کر دیئے گئے۔ ایک امامت سے نبوت اور دوسری امامت سے ولایت۔ حکمت یہ تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو جائے تو پھر فیض نبوت بشکل امامت میرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو ملنا شروع ہو جائے یوں سورہ بقرہ آیت 151 سے 157 تک دعائے ابراہیم کا جواب ہے۔

 

دعا تو فقط یہ تھی کہ مولا! اپنا وہ پیغمبر، رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری آل میں میری نسل میں مبعوث فرما۔ اللہ رب العزت نے جواب میں فرمایا کہ دو چیزیں عطا کرتا ہوں ایک نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت اور پھر شہادت۔ فرمایا ’’ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ ،، آگے اس سے متعلق فرمایا يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِينَ        O        اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگنا ’’وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ،، جو اللہ کی راہ میں شہید ہوں انہیں مردہ نہ کہو بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ        O        ’’وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں‘‘

 

بعثت محمدی اور شہادت کا باہمی ربط مذکورہ آیات میں بڑے اہم نکات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دعائے ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت بیان کی جا رہی ہے تو دوسری طرف شہادت کا ذکر ہے۔ اس وجدانی اور عرفانی نکتے کی وضاحت تو آئندہ صفحات میں کی جائے گی، تاہم یہاں صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان ختم نبوت کے ساتھ آپ کو مرتبہ شہادت پر بھی فائز کرنا مقصود تھا جس کا مظہر نواسۂ رسول سیدنا امام حسین قرار پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہی ذبح عظیم کا مصداق سمجھتے ہیں۔

 

ذبح عظیم کا مفہوم

 

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات مقدسہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی وجہ سے انہیں بارگاہ خداوندی سے شرف امامت بھی عطا کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے خود بھی تیار ہو گئے تھے اور سعادت مند بیٹے نے بھی حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔ باپ بیٹے نے تسلیم جاں کا یہ اظہار زبانی کلامی نہیں کیا بلکہ عملاً حکم کی بجا آوری کے لئے بیٹے کی قربانی کی غرض سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں چھری بھی لے لی تھی۔ اس کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی محفوظ رہی کہ ان کی نسل پاک سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونا تھی، خدائے بزرگ و برتر نے وفدیناہ بذبح عظیم کہہ کر اسماعیل کے ذبح کو ذبح عظیم کا فدیہ قرار دیا۔ فرزند پیغمبر کی قربانی ہونا بعثت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر موقوف ہوئی۔ حکمت خداوندی یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لئے شہادت کے لئے اس کے لخت جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ذبح اسماعیل علیہ السلام کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لخت جگر سیدنا امام حسین علیہ السلام سے ذبح عظیم بنا دیں گے۔

 

ذبح اسمٰعیل اور شہادت امام حسین کا باہمی تعلق

 

اگر شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ذبح اسماعیل سے جوڑا نہ جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی، شہادت کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے اور بات مکمل طور پرسمجھ میں نہیں آتی۔ حضر ت اسماعیل کی قربانی کو صرف ’’ذبح،، کے لفظ سے ذکر کیا گیا۔ ان کی جگہ مینڈھے کی قربانی ہوئی تو اسے ’’ذبح عظیم،، کہا گیا۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم اور پیغمبر کے بیٹے کی قربانی کو محض ذبح کہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ذبح عظیم سے مراد کونسی قربانی ہے؟ ذبح عظیم یقیناً وہی قربانی ہو گی جو ذبح اسمٰعیل سے بڑی قربانی کی صورت میں ادا ہو گی۔

 

اسماعیل علیہ السلام حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لخت جگر اور نور نظر تھے۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن نسبت ابراہیمی سے نسبت مصطفوی یقیناً ارفع و اعلیٰ ہے علاوہ ازیں سیدنا حسین علیہ السلام کو سبط پیغمبر اور پسر بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادت امام حسین چونکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہی باب ہے اس لئے کائنات کی اسی منفرد اور یکتا قربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لہذا بڑی صداقت کے ساتھ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے ضمن میں جس ذبح عظیم کا فدیہ دیا گیا وہ ایک مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ لخت جگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی قربانی تھی۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت شعری قالب میں ڈھالا ہے۔

 

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر

معنیِ ذبح عظیم آمد پسر

 

ذبح عظیم کے لئے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتخاب کیوں؟

 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذبح عظیم کا مصداق اگر امام حسین ہیں تو آپ کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وہ نہیں جو سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ یعنی وہ باپ بیٹا تھے اور یہاں بیٹا نہیں بلکہ نواسہ رسول کا انتخاب ہو رہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ذبح عظیم کا اعزاز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی بیٹے کے حصے میں آتا۔ اس ممکنہ سوال کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بیٹا جوانی یا بلوغت کی عمر کو پہنچا ہی نہیں، ایسا کیوں ہوا؟ یہ اللہ تعالی کی حکمت تھی جسکی طرف قرآن نے یوں رہنمائی فرمائی۔

 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا        O

 

محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں (یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آ گیا ہے۔)

 

(احزاب، 33 : 40)

 

یعنی اب وحی الہٰی کا دروازہ بند ہوتا ہے، حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں۔ قرآن آسمانی ہدایت پرمشتمل آخری صحیفہ ہے جو قیامت تک اللہ کے بندوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہے۔

 

اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہوتا؟

 

آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، یہ نکتہ قابل غور ہے وہ تو اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی ہیں۔ اللہ رب العزت نے اس بات پر کیوں زور دیا کہ میرا رسول تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں یعنی یا وہ کسی جوان بیٹے کے باپ نہیں؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی جوان بیٹے کا باپ یا مخاطبین میں سے کسی مرد کا باپ ہونے والا شخص اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا مثلاً

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور جوان بیٹوں کے باپ بھی ہیں۔ حضرت اسحق اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد گرامی بھی ہیں۔ اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام خود نبی ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والد بھی ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے پیغمبر اور حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کے فرزند ارجمند۔

 

بنی اسرائیل میں نسل در نسل نبوت کا سلسلہ جاری رہا، پیغمبروں کی اولاد (بیٹے) بھی پیغمبر ہوئی۔ تو پھر اللہ رب العزت نے کیوں فرمایا کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں، یا کسی جوان مرد کے باپ نہیں۔ آخر اس میں کیا حکمت کار فرما ہے؟ رسول ہونا کسی مرد کے باپ ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

 

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدائے علیم و خیبر نے اس نکتے پر اس لئے زور دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبین ہیں۔ وہ میرے آخری نبی ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی مرد کے باپ ہوتے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بیٹا ہوتا اور وہ جوان ہوتا تو دو صورتیں ممکن ہوتیں۔

 

1۔ ایک یہ کہ وہ بیٹا بھی اللہ کا رسول یا نبی ہوتا جیسا کہ سابقہ انبیاء کے باب میں ہم نے دیکھا کہ اگر باپ نبی ہے تو بیٹے کو بھی خدا نے نبوت عطا کی۔

 

2۔ دوسری صورت یہ تھی کہ بیٹا نبی نہ ہوتا یعنی دو ہی امکانات ممکن تھے پہلی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبین نہ رہتے، بیٹا بھی جوان ہو  کر نبی بنتا تو سلسلہ ختم نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم نہ ہوتا اور یہ بات خدا کے فیصلے کے خلاف ہوتی اس لئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ختم نبوت کی صفت سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری صورت میں اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بیٹا جوان ہوتا اور نبی نہ بنتا تو دوسرے نبیوں کی امتیں طعنہ دیتیں کہ ہمارے نبی کا تو بیٹا بھی نبی تھا، ہمارے پیغمبر کا تو پوتا بھی پیغمبری کی صفت فاخرہ سے نوازا گیا، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوری نسل میں نبوت تھی۔ کوئی اعتراض کرسکتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیروکارو! تمہارے پیغمبر کا تو بیٹا بھی ہوا لیکن اسے نبوت سے سرفراز نہ کیا گیا۔ اس اعتراض میں بظاہر دوسرے انبیاء کے مقابلے میں شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک طرح کی کمی آجاتی اور اس جہت سے دیگر انبیاء فضیلت لے جاتے لیکن اللہ رب العزت کو یہ بات منظور نہ تھی جس طرح اسے یہ منظور نہ تھا کہ آمنہ کے لال کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج نہ سجایا جائے اسی طرح اسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہو اور نبوت کی سعادت سے محروم رہے، ظاہراً ہی سہی خدا کو کسی حوالے سے بھی یہ بات منظور نہ تھی کہ کوئی پیغمبر فضیلت میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ جائے اس کی مثال یوں ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اے محبوب فرما دیں ان کافروں اور مشرکوں کو جو کبھی عیسیٰ کو میرا بیٹا سمجھتے ہیں اور کچھ عزیر کو میرا فرزند قرار دیتے ہیں۔

 

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ        O

 

آپ (ان احمقوں سے) کہئیے کہ اگر (خدائے) رحمٰن کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔

 

(الزخرف، 43 : 81)

 

مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بیٹا ہوتا تو میں اس کی عبادت نہ کرتا؟ اللہ کی شان کا تقاضا ہوتا کہ اس کا بیٹا بھی الوہیت کا حامل ہوتا۔ اگر رب کا بیٹا ہو  کر رب نہ بنتا تو اس کی فضیلت میں کمی آ جاتی۔ لوگ طعنہ دیتے کہ خدا کا بیٹا ہو  کر خدا نہ بن سکا۔ اسی طرح اگر (نعوذ باللہ) کوئی خدا کا بیٹا ہوتا اور وہ بھی الوہیت کے منصب میں اللہ تعالی کا شریک ہوتا تو ظاہر ہے باپ کے ساتھ خدائی میں شراکت دار ہوتا، اور یوں تصور توحید ختم ہو جاتا۔ اس لئے فرمایا :

 

قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ        O        اللَّہُ الصَّمَدُ        O        لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ        O        وَلَمْ يَكُن لَّہُ كُفُوًا أَحَدٌ        O

 

(اے نبی مکرم) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔

 

(الاخلاص، 112)

 

اللہ جل شانہ نے اس مختصر سورہ پاک میں عقیدہ توحید کی تمام جزئیات اور شرک کی ممکنہ شکلوں کو باطل قرار دیا، عقائد اسلامیہ کا یہ خوبصورت خلاصہ اپنے اعجاز و اختصار کے باوجود اتنا جاندار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ اخلاص کو قرآن کا تیسرا جزو قرار دیتے ہوئے فرمایا جس نے تین مرتبہ اس سورت کو پڑھا گویا اس نے پورا قرآن پڑھ لیا۔ (متفق علیہ)

 

حضور کے صاحبزادگان کی بچپن میں وفات کی حکمت

 

جس طرح اس سورہ مبارکہ میں بیان کئے جانے والے مضامین کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالی وحدہ لاشریک ہے، وہ بے نیاز ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں، اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ بھی خدا ہوتا اور یہی یہ شرک ہوتا اور اس کی وحدانیت پر حرف آتا۔ توحید، توحید نہ رہتی۔ جس طرح توحید الوہیت نے رب کو بیٹے سے پاک رکھا اسی طرح شان ختم نبوت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جوان بیٹے سے علیحدہ رکھا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہوتا تو وہ بھی پیغمبر ہوتا اور اگر پیغمبر نہ ہوتا تو (نعوذ باللہ) شان رسالت میں کمی آتی اور پیغمبر ہوتا تو ختم نبوت کی شان ختم ہو جاتی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبین نہ رہتے، حدیث پاک میں آتا ہے، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے تھے بچپن ہی میں وفات پاگئے لیکن ان کی عمر باقی صاحبزادگان حضرات سے نسبتاً زیادہ تھی۔

 

1۔ ان کی وفات پر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

 

عن ابن عباس قال لمامات ابراہيم ابن رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم وقال ان لہ مرضعا في الجنة ولو عاش لکان صديقا نبياً

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وفات پا گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا ان کے لئے جنت میں دودھ پلانے والی ہے اور اگر زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے۔

 

(سنن ابن ماجہ : 108)

 

2۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی انہی کے بارے میں کہتے ہیں۔

 

مات صغير ولو قضي ان يکون بعد محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نبي عاش ابنہ ولکن لا نبي بعدہ

 

آپ (حضرت ابراہیم) صغر سنی میں وصال فرما گئے اور اگر یہ فیصلہ قدرت کا ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے یہ صاحبزادے زندہ ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔

 

(صحيح البخاري، 2 : 914)

 

3۔ اسی طرح مسند احمد میں روایت ہے :

 

عن السدی قال سمعت أنس بن مالک يقول لوعاش ابراہيم ابن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لکان صديقاً نبياً.

 

حضرت سدی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے تو وہ اللہ کا سچا نبی ہوتا۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 3 : 133)

 

اس لئے اللہ رب العزت نے انہیں بچپن ہی میں اپنے پاس بلالیا، انہوں نے موت کو قبول کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان ختم نبوت کو زندہ رکھا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب صحاح کی روایات سے معلوم ہوا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو زندہ رکھا جاتا۔ انہیں بچپن ہی میں موت کی آغوش میں اس لئے دے دیا گیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا تھا۔

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو دعائیں مانگی تھیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما۔ دوسرے میری ذریت کو منصب امامت عطا کر چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شکل میں نبی آخر الزماں تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نبوت ختم ہو جانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ولایت بھی آ گئی، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا۔ سو اب نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض اور امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا اسلئے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے۔ ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشۂ رسول، چنانچہ اس منصب عظیم کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا پر قدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا آسمانی فیصلہ

 

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ حدیث پاک میں ہے :

 

عن عبداللہ بن مسعود عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم قال ان اللہ امرني ان ازوج فاطمة من علي رضي اللہ عنہما

 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔

 

(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 156، ح : 10305)

 

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ آئندہ صفحات میں ہم دو الگ الگ فصلوں میں ان دونوں مقدس ہستیوں کے فضائل و مناقب جو صحیح روایات سے ثابت ہیں اور اہل سنت والجماعت کے ہاں ان کی کتابوں میں درج ہیں کو بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو جائے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے اور ایسا ہو بھی کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔

 

 

 

فصل اول

فضائل مولا ئے کائنات رضی اللہ عنہ

 

خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفیٰ اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

 

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلب سے نبی کی ذریت

 

1. عن جابر رضي اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ان اﷲ عز و جل جعل ذرية کل نبي في صلبہ و ان اﷲ جعل ذريتي في صلب علي رضي اللہ عنہ بن ابي طالب رضي اللہ عنہ رضي اﷲ

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔

 

1. المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630

2. مجمع الزوائد، 9 : 172

3. تاريخ بغداد، 1 : 317

4. کنزل العمال’ 11 : 400، ح : 32892

5. لسان الميزان، 3 : 429، ح : 1683

6. ميزان الاعتدال، 2 : 586، ح : 4954

7. العلل المتناہية لابن جوزي، 1 : 210

حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کے قائم مقام

 

2. عن سعد بن ابي وقاص قال خلف رسول اﷲ علي بن ابي طالب في غزوہ تبوک فقال يا رسول اﷲ تخلفني في النساء والصبيان فقال اما ترضي ان تکون مني بمنزلة ہارون من موسي غير انہ لا نبي بعدي

 

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔

 

1. صحيح مسلم، 4 : 1870- 1871، کتاب فضائل الصحابہ، باب 4 من فضائل علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ، ح : 2404

2. صحيح البخاري، 3 : 1358، کتاب المناقب باب 9 فضل الصحابہ، ح : 3503

3. صحيح البخاري، 4 : 1602، کتاب المغازي، باب 74غزوہ تبوک،ح : 1454

4. سنن الترمذي، 5 : 640 – 641، کتاب المناقب، باب 30 مناقب علي رضي اللہ عنہ بن ابي طالب، ح : 3724، 3730، 3731

5. سنن ابن ماجہ، 1 : 42، المقدمہ، باب فضل علي بن ابي طالب ح : 115

6. المستدرک للحاکم، 3 : 109، کتاب معرفة الصحابہ، باب ذکر بغض فضائل علي رضي اللہ عنہ

7. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 146، ح : 328

8. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 148، ح : 333، 334

9. المعجم الکبير لطبراني، 2 : 247، ح : 2036

10. المعجم الکبير لطبراني، 5 : 203، ح : 5094، 5095

11. المعجم الکبير، 11 : 61، ح : 11087

12. مسند احمد بن حنبل، 3 : 32،

13. مسند احمد بن حنبل، 4 : 438

14. مسند احمد بن حنبل، 3 : 338

15. مسند ابي يعلي، 1 : 286، ح : 345

16. مسند ابي يعلي، 2 : 57، ح : 698

17. مسند ابي يعلي، 2 : 66، ح : 709

18. مسند ابي يعلي، 2 : 73، ح : 718

19. مسند ابي يعلي، 2 : 86، ح : 739، 738

20. مسند ابي يعلي، 2 : 99، ح : 755

21. مصنف عبدالرزاق، 11 : 226، ح : 20390، باب اصحاب النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم

22. مجمع الزوائد، 9 : 109، باب منزلة رضي اللہ تعالي عنہ

23. سنن ابن ماجہ، 1 : 42 – 43. المقدمہ، باب 11 فضل علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ، ح : 115

 

امام ترمذی نے اس حدیث پاک کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال اور سند کو ثقہ کہا ہے۔

 

1۔ امام ابو یعلی اور امام طبرانی نے جو حدیث ام سلمہ سے روایت کی ہے اس کی اسناد ثقہ ہے۔

2۔ امام بزار اور امام طبرانی نے جو حدیث ابن عباس سے روایت کی ہے اس کی اسناد بھی ثقہ ہے۔

3۔ امام طبرانی نے حضرت زبیر سے جو روایت کی ہے اس کے رجال کی اسناد بھی ثقہ ہے۔

 

3. عن زيد بن ارقم قال کانت فلنفرمن اصحاب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ابواب شارعة في المسجد فقال يوماً سدوا ہذہ الابواب الاباب علي قال فتکلم في ذالک ناس فقام رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فحمد اﷲ و اثني عليہ تم قال اما بعد فاني امرت بسد ہذہ الابواب غير باب علي فقال فيہ قائلکم واللہ ماسددت شيئا ولا فتحتہ ولکن امرت شي فاتبعتہ

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ می گوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 125)

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا، غسل واجب ہو تو صرف دو افراد مسجد میں قدم رکھ سکتے ہیں ایک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔ حدیث پاک میں آتا ہے :

 

4. عن ابی سعید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی یا علی لا یحل لاحد ان یجنب فی ہذا المسجد غیری و غیرک

 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے علی میرے اور تمہارے سوا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس مسجد (نبوی) میں حالت جنابت میں رکھے۔

 

یہ اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اطہر اور روح اقدس سے ظاہری بھی اور باطنی بھی ایک خاص تعلق قائم ہو چکا تھا۔

 

اس حدیث کو جن اجل ائمہ کرام نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

 

1. مسند ابی یعلی، 2 : 311، ح : 1042

2. مجمع الزوائد، 9 : 115

3. المعجم الکبیر الطبرانی، 2 : 246، ح : 2031

4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 175

5. مسند احمد بن حنبل، 1 : 331

6. مسند احمد بن حنبل، 2 : 26

7. مسند احمد بن حنبل، 4 : 369

8. کنزالعمال، 11 : 598، فضائل علی رضی اللہ عنہ، رقم حدیث : 32877

 

منافق کی نشانی

 

حدیث میں آتا ہے :

 

5. عن زر قال قال علی والذی فلق الحبة و برالنسمة انہ لعہد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی ان لا یحبنی الا مومن ولا یبغضنی الا منافق

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔

 

(صحیح مسلم، 1 : 60)

 

حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

 

6۔ ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :

 

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول لا یحب علیا منافق ولا یبغضہ مومن

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

 

(جامع الترمذی، 2 : 213)

 

ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔

 

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جتنی احادیث روایت کی گئی ہیں پاکی جائیں گی سب صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث سے لی گئی ہیں یہ اس لئے تاکہ معلوم ہو کہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج حائل کر دی گئی ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے فکری مغالطوں اور غلط فہمیوں کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے :

 

7. عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال ان کنا لنعرف المنافقین نحن معشر الانصار ببغضہم علی ابن طالب

 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔

 

(جامع الترمذی، 2، 213)

 

فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں۔

 

1. سنن نسائی، 8 : 116، کتاب الایمان، باب علامة الایمان

2. سنن نسائی، 8 : 117، کتاب الایمان، باب علامة المنافق

3. سنن ابن ماجہ، 1 : 42، المقدمہ، فضل علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ح : 131

4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84، 95، 128

5. مسند ابی یعلی، 1 : 251، ح : 291

6. مسند الحمیدی، 1 : 31، ح : 58

7. المعجم الاوسط لطبرانی، 3 : 89، ح : 2177

8. مسند ابی یعلی، 3 : 179، ح : 1602

9. مجمع الزوائد، 9 : 132

10. مسند احمد بن حنبل، 6 : 292

 

علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں

 

8۔ بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

 

انت منی و انا منک

 

(صحیح البخاری، 2 : 610)

 

اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔

 

فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہ علی! اعلان کر دو کہ دنیا والے جان لیں کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت عام ہے :

 

عن یعلی بن مرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیہ السلام حسین منی و انا من حسین، احب اللہ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط

 

حضرت یعلی بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔

 

(جامع الترمذی، 2 : 29)

 

جبکہ مذکورہ بالا روایت میں یہی بات حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے۔ اب تو غلط فہمیوں کا گرد و غبار چھٹ جانا چاہئے، محبت کی ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہونا چاہئے، مسالک کو ختم کرنا ممکن نہیں لیکن مسالک کے نام پر نفرتوں کی تقسیم کا کاروبار تو بند ہونا چاہئے، حدیث مذکورہ کا مطلب ہے کہ علی! تو میرا مظہر ہے اور میں تیرا مظہر ہوں، تیرا صدور مجھ سے ہے اور میرا ظہور تجھ سے ہے۔ دیگر بہت سے ائمہ حدیث نے بھی اس مفہوم کی روایات بیان کی ہیں مثلاً۔

 

1. سنن الترمذی، 5 : 635، کتاب المناقب، باب 21، ح : 3716

2. المستدرک للحاکم، 3 : 110، 111، 120

3. المعجم الکبیر لطبرانی، 1 : 318، ح : 941

4. المعجم الکبیر للطبرانی، 4 : 16، ح : 13، 12، 3511

5. مسند احمد بن حنبل، 4 : 438

 

علی کرم اللہ وجہہ شہر علم و حکمت کا دروازہ

 

ایک حدیث عام ہے کہ تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے :

 

  1. عن ابن عباس رضی اللہ عنہ انہ قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انا مدینة العلم و علی بابہا فمن اراد العلم فلیات الباب

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔

 

1. المعجم الکبیر لطبرانی، 11 : 55

2. مستدرک للحاکم، 3 : 126 – 127، رح : 11061

3. مجمع الزوائد، 9 : 114

 

حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے، بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم درکار ہے وہ علی کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔

 

10۔ اسی طرح ایک روایت ہے کہ :

 

عن علی رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انا دارالحکمة و علی بابہا

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

 

1. جامع الترمذی، 5 : 637، کتاب المناقب باب 21

2. کنز العمال، 13، 147، ح : 36462

 

علی کا ذکر عبادت ہے

 

اصحاب رسول اخوت و محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے تھے، یہ عظیم انسان حضور کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل خود معلم اعظم حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی تھی، حکمت اور دانائی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کے گھر کی باندی تھی، ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں موجزن تھا۔ مواخات مدینہ کی فضا سے اصحاب رسول کبھی باہر نہ آ سکے یہ فضا اخوت و محبت کی فضا تھی، بھائی چارے کی فضا تھی۔ محبت کی خوشبو ہر طرف ابر کرم کی طرح برس رہی تھی، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار میں کوئی فرق نہ تھا۔ اعتماد اور احترام کے سرچشمے سب کی روحوں کو سیراب کر رہے تھے اور عملاً ثابت ہو رہا تھا کہ فکری اور نظریاتی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں پر مبنی تفریق و دوری کی خودساختہ کہانیاں بعد میں تخلیق کی گئیں۔ جنگ جمل کے تلخ واقع کو ذہن میں رکھتے ہوئے عام طور پر بعض کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے درمیان بغض و عداوت کی بلند و  بالا دیواریں قائم رہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جنگ جمل کے اسباب کچھ اور تھے جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں لیکن ان دونوں عظیم ہستیوں میں مخاصمت کے افسانے تراشنے والوں کو اس روایت پر غور کرنا چاہیے۔

 

11. عن عائشہ انہ قال ذکر علی عبادة

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حضرت علی کا ذکر عبادت ہے۔

 

1. فردوس الاخبار للدیلمی، 2 : 367، ح : 2974

2. کنزالعمال، 11 : 601، ح : 32894

 

گھر میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن رہی تھیں اگر چاہتیں تو باہر کسی سے بیان نہ کرتیں۔ دل میں (خدانخواستہ) کھوٹ یا میل ہوتا تو چپ سادھ لیتیں اور یہ حدیث چھپا لیتیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے۔ لیکن بلا کم و کاست فرمان رسول نقل کر دیا کیونکہ حقیقت چھپا کر رکھنا منافقت کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو بغض و منافقت جیسی روحانی بیماریوں سے کلیتاً صاف فرمایا تھا۔

 

اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی میں علی علی کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان کے مطابق علی کا ذکر عبادت ہے۔

 

چہرہ علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا بھی عبادت

 

12۔ اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں۔

 

کان ابوبکر یکثر النظر الی وجہ علی فسالہ عائشة فقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم النظر الی وجہ علی عبادة

 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔

 

(الصواعق المحرقہ، 177)

 

13۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے :

 

عن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال النظر الی وجہ علی عبادة

 

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔

 

1. المستدرک للحاکم، 3 : 141 – 142

2. المعجم الکبیر للطبرانی، 10 : 77، ح، 32895

3. فردوس الاخبار للدیلمی، 5 : 42، ح : 1717

4. کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895

5. مجمع الزوائد، 9 : 111، 119

 

یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے پھر ابوبکر کے ماننے والوں اور حضرت علی کے پیروکاروں میں یہ دوریاں کیوں؟ یہ فاصلے کیوں؟ علی کو ماننے والو! تم ابوبکر کو ماننے والوں سے دور کیوں ہو گئے ہو؟

 

ان مقدس ہستیوں میں کوئی مغائرت اور دوری نہیں تھی وہ تو ایک ہی مشعل کی نورانی کرنیں تھیں مگر آج مسلمانوں نے خود ساختہ ترجیحات نکال نکال کر کئی گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور آئے روز ان کے درمیان خون ریزی کا بازار گرم رہتا ہے۔

 

اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش

 

حضرت علی (رض) مولائے کائنات

 

چونکہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض حضرت علی سے چلنا تھا اور ’’ذبح عظیم،، حسین کو ہونا تھا اس لئے ضروری تھا کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ولایت علی شیر خدا بن جائے اور ولایت علی شیر خدا ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تصور کی جائے۔ روایت کے آئینہ خانے میں ایک اور عکس ابھرتا ہے غبار نفاق چھٹ جاتا ہے اور حقائق کا چہرہ مزید اجلا ہو جاتا ہے :

 

1. عن ریاح بن الحرث قال جاء رہط الی علی بالرحبط فقالوا السلام علیکم یا مولانا قال کیف اکون مولا کم و انتم قوم عرب قالوا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یو غدیرخم یقول من کنت مولاہ فان ہذا مولاہ

 

حضرت ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علی کے پاس رحبط کے مقام پر آیا انہوں نے کہا اے ہمارے مولا تجھ پر سلام ہو آپ نے فرمایا میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم،، کے مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ (علی) مولا ہے۔

 

(مسند احمدبن حنبل، 5 : 419)

 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے۔

 

15۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے :

 

عن زید بن ارقم عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من کنت مولاہ فعلی مولاہ

 

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔

 

(جامع الترمذی، 2 : 213)

 

پہلے تاجدار عرب و عجم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ نبی ہونے اور نبی کا امتی ہونے کا فرق رہتا ہے لیکن دوئی کا ہر تصور مٹ جاتا ہے اس لئے کہ باطل دوئی پسند اور حق لا شریک ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا یعنی جو علی سے دوستی کرے تو بھی اس کا دوست بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا، ذیل میں متعلقہ حدیث پاک درج کی جا رہی ہے:

 

16. عن عمرو بن ذی مرو زید بن أرقم قالا خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم غدیرخم فقال من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عادہ وانصرمن نصرہ و اعن من اعانہ

 

حضرت عمرو بن ذی مرو اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کے ولی ہیں۔ ’’ اے اللہ تو اس سے الفت رکھ جو علی سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے اور تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی اعانت کر جو علی کی اعانت کرتا ہے۔،،

 

المعجم الکبیر للطبرانی، 4 : 17، ح : 3514

 

گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔

 

17. عن ابی طفیل قال جمع علی رضی اللہ عنہ الناس فی الرحبة ثم قال لہم انشد اللہ کل امرئی مسلم سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول یوم غدیرخم ماسمع لما قام فقام تلاثون من الناس و قال ابو نعیم فقام ناس کثیر فشہدوا حین اخد بیدہ فقال للناس اتعلمون انی اولی بالمومنین من انفسہم قالوا نعم یا رسول اللہ قال من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ

 

حضرت ابی طفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رحبہ کے مقام پر بہت سارے لوگ جمع تھے ان میں سے ہر ایک نے قسم کھا کر کہا کہ ہم میں سے ہر شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے غدیر خم کے موقع پر خطاب فرمایا جس کو وہاں کھڑے ہوئے تیس آدمیوں نے سنا۔ ابو نعیم نے کہا کہ بہت سارے لوگ جمع تھے انہوں نے گواہی دی کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ میں مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے اے اللہ تو بھی الفت رکھ جو اس سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 4 : 370)

 

اصحاب بدر کی گواہی

 

روایات میں مذکور ہے کہ ان تیس صحابہ میں اصحاب بدر بھی موجود تھے، غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں نے بھی گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا اور ہم نے سنا تھا اور دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا اور ہم سب سے کہا تھا کہ مسلمانو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا سچ فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے، آپ ہم سب کی جانوں سے بھی قریب تر ہیں، فرمایا مجھے عزیز رکھنے والو سنو! میں اس کا عزیز ہوں جو علی کو عزیز رکھتا ہے جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے، اے مالک! تو بھی اس کا ولی بن جا جو علی کو ولی جانے۔

 

18. عن زیاد بن ابی زیاد سمعت علی بن ابی طالب ینشد الناس فقال انشد اللہ رجلا مسلما سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول یوم غدیرخم ما قال فقام اثنا عشر بدر یا فشہدوا

 

حضرت زیاد بن ابی زیاد نے حضرت علی سے سنا کہ جو لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے غدیر خم کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا وہ سچ ہے اور اس چیز کی بارہ بدری صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 1 : 88)

 

اس حدیث کو روایت کرنے والوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مالک بن حویرث، ابو سعید خدری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت براء بن عازب، عمر بن سعد، عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

 

جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔

 

19۔ فرمایا رسول محتشم نے :

 

عن عمار بن یاسر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوصی من آمن بی وصدقنی بو لایة علی بن ابی طالب من تولاہ فقدتولانی ومن تولانی فقد تولی اللہ عزوجل ومن احبہ فقد اجنی

 

حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت تک مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے۔ علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، ولایت علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ کی ولایت کو مانا، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔

 

20. ومن احبنی فقد احب اللہ تعالی ومن ابغضہ فقد ابغضی ومن ابغضی فقد ابغض اللہ عزوجل

 

اور جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔

 

(مجمع الزوائد، 9 : 109)

 

اسی مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کریں۔

 

1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84

2. مسند احمد بن حنبل، 1 : 119

3. مسند احمد بن حنبل، 4 : 370

4. ابن ماجہ المقدمہ : 43، باب 11 فضل علی ابن ابی طالب، ح : 116

5. المعجم الکبری للطبرانی، 2 : 357، ح : 2505

6. المعجم الکبری للطبرانی، 4 : 173، ح : 4052

7. المعجم الکبری للطبرانی، 4 : 174، ح : 4053

8. المعجم الکبری للطبرانی، 5 : 192، ح : 4059

9. المعجم الاوسط لطبرانی، 3 : 69، ح : 2131

10. المعجم الکبری الاوسط لطبرانی، 3 : 100، ح : 2204

11. المعجم الصغیر، 1 : 64

12. مسند ابی یعلی، 1 : 428، 429، ح : 567

13. مسند ابی یعلی، 2 : 80 – 81، ح : 458

14. مسند ابی یعلی، 2 : 87، ح : 464

15. مسند ابی یعلی، 2 : 105، ح : 479

16. مسند ابی یعلی، 2 : 105، ح : 480

17. م سند ابی یعلی، 2 : 274، ح : 454

18. مسند ابی یعلی، 3 : 139، ح : 937

19. کنز العمال، 13 : 154، ح : 3648

20. کنز العمال، 13 : 157، ح : 36486

21. کنز العمال، 13 : 158، ح : 36487

22. مجمع الزوائد، 9 : 106، 107

23. موارد النعمان، 544، ح : 2205

بغض علی رضی اللہ عنہ  بغض خداش

 

21۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ فرمائیں :

 

عن ام سلمہ قالت اشہد انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول من احب علیا فقد احبنی ومن احبنی فقد احب اﷲ ومن ابغض علیا فقد ابغضنی ومن ابغضنی فقد ابغض اﷲ

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تحقیق اس نے اللہ سے بغض رکھا۔

 

(ایضاً : 132)

 

دونوں جہانوں کے سید

 

22. عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال نظر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی علی فقال یا علی انت سید فی الدنیا سید فی الاخرہ حبیبک حبیبی و حبیبی حبیب اللہ وعدوک عدوی و عدوی عدواللہ والویل لمن ابغضک بعدی

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب (دوست) ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 128)

 

بڑی واضح حدیث ہے فرمایا علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے تیرا حبیب میرا حبیب ہے اور میرا حبیب خدا کا حبیب، تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن، آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ولایت علی کو ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ یہ حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تکرار کے ساتھ فرمایا :

 

23. فانہ منی و انا منہ وہو ولیکم بعدی

 

علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 5 : 356)

 

24۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ملاحظہ ہو وہ فرماتے ہیں کہ :

 

قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادعوا لی سید العرب فقالت عائشة رضی اللہ عنہ الست سید العرب یا رسول اللہ فقال انا سید ولد آدم و علی سید العرب

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں۔

 

1. مستدرک للحاکم، 3 : 124

2. مجمع الزوائد، 9 : 116

3. کنزالعمال، 11 : 619

 

غوثیت سے قطبیت تک وسیلہ جلیلہ

 

ولایت علی کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علی کے بغیر نہ کسی کو غوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علی کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علی ہے، اس لئے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔

 

25. عن أم سلمہ قالت سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول من سبعلیا فقدسبنی

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

 

(مسند احمد بن حنبل، 6 : 323)

( المتدد، للحاکم، 3 : 121)

 

جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔

 

اس سے بڑ ھ کر دوئی کی نفی کیا ہو گی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہو گا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی وہ علی کو نہیں مجھے دی۔

 

طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا

 

26. محبک محبی ومبغضک مبغضی

 

علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔

 

المعجم الکبیر للطبرانی، 6 : 239، رقم حدیث : 6097

 

حدیث پاک اپنی تشریح آپ ہے۔ اوپر ہم نے اس حوالے سے سیدنا علی کے جو فضائل علی رضی اللہ عنہ بیان کئے ہیں وہ محض استشھاد ہیں ورنہ حضرت علی کو رب کائنات اور رسول کائنات نے جو فضیلتیں عطا کیں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔

 

اطاعت علی اطاعت خدا کی ضمانت

 

27. عن ابی ذر رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من اطاعنی فقد اطاع اﷲ ومن عصانی فقد عصی اﷲ ومن اطاع علیا فقد اطاعنیومن عصی علیاً فقد عصانی

 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی اور جس نے (حضرت) علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (حضرت) علی کی نا فرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی۔

 

المستدرک للحاکم، 3 : 121

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی کی نا فرمانی کو اپنی نا فرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا  جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔

 

قرآن اور علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ

 

28۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔

 

علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفر قاحتی یر دا علی الحوض

 

علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔

 

(ایضاً، 124)

 

یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

 

قرابت دارانا ن رسول ہاشمی

 

29. صحیح مسلم شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.

 

ولما نزلت ہذہ الایة ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیا و فاطمة و حسناً و حسیناً فقال اللہم ہؤلاء اہلی

 

جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔

 

(الصحیح لمسلم، 2 : 278)

 

جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ

 

1۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کر دیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ

 

تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم

 

آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔

 

(آل عمران 3 : 61)

 

حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا ًو حسینا ًیعنی علیا ً (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا ً و حسینا ً(ابناء نا) ہوئے۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و الجماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے۔

 

رسول اور علی ایک ہی درخت ہے

 

30۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

 

سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول الناس عن شجر شتی و انا و علی من شجرة واحدة

 

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔

 

(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)

 

ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔

 

31. عن علی رضی اﷲ عنہ إبن أبی طالب ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أخذ بید حسن و حسین فقال من احبنی و احب ہذین و اباہما و امہا کان معی فی درجتی یوم القیامة

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔

 

( جامع الترمذی، 5 : 642، ح : 3733)

 

فرشتوں کی نصرت

 

32. عن ابی رافع ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعث علیا مبعثا فلما قدم قال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ و رسولہ و جبریل عنک رضوان

 

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔

 

(المعجم الکبیر، 1 : 319)

 

33. خطب الحسن بن علی حین قتل علی فقال یا اہل الکوفہ او یا اہل العراق لقد کان بین اظہرکم رجل قتل اللیلة او اصیب الیوم ولم یسبقہ الاولون بعلم ولو یدرکہ الاخرون کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا بعثہ فی سریة کان جبریل عن یمینہ و میکائیل عن یسارہ فلا یرجع حتی یفتح اﷲ علیہ

 

حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہو  کر واپس لوٹتے۔

 

(مصنف ابن ابی شیبہ، 12 : 60)

 

جلال نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت گفتگو کا یارا

 

34. عن ام سلمة رضی اللہ عنہ قالت : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا غضب لم یجتری احدان یکلمہ الا علی

 

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔

 

(2) المستدرک للحاکم، 3 : 130

 

علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کا پلٹنا

 

35. عن اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یوحی الیہ و راسہ فی حجر علی فلم یصل العصر حتی غربت الشمس فقل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصلیت یا علی قال لا فقال اللہم انہ کان فی طاعتک و طاعة رسولک فاردد علیہ الشمس قالت اسماء رضی اللہ عنہ فرایتہا غربت ثم رایتہا طلعت بعد ما غربت

 

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔

 

(مشکل الآتار، 4 : 388)

 

علی رضی اللہ عنہ کی قوت فیصلہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ثمر

 

36. عن علی رضی اللہ عنہ قال بعثنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی الیمن فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثنی و انا شاب اقضی بینہم ولا ادری ما القضاء فضرب صدری بیدہ ثم قال اللہم اہد قلبہ ثبت لسانہ فوالذی خلق الحبة ما شککت فی قضاء بین اثنین

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔

 

(المستدرک، 3 : 135)

 

یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔

 

جنت علی رضی اللہ عنہ کا منظر

 

37. ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ان الجنة لتشتاق الی ثلاثة علی و عمار و سلیمان

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔

 

(جامع الترمذی، 5 : 667، 7 : 3797)

 

جنت میں داخل ہونے والا ہراول دستہ

 

38. عن ابی رافع ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لعلی ان اول اربعة یرضون الجنة انا و انت والحسن والحسین و ذرا رینا خلف ظہورنا و ازواجنا خلف ذرا رینا و شیعتنا عن ایماننا و عن شمائلنا

 

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔

 

المعجم الکبیر، 3 : 119، ح : 950

 

متبعین کے ہمراہ حوض کوثر پر خوشنما چہروں کے ساتھ حاضری

 

39. عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لعلی انت و شیعتک تردون علی الحوض رواء مروین مبیضة وجوہکم و ان عدوک یردون علی ظماء مقبحین

 

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بد نما صورت میں آئیں گے۔

 

المعجم الکبیر، 1 : 319

 

40. عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الحسن والحسین سید اشباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہا

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔

 

ابن ماجہ، 1 : 44، ح : 118

المستدرک، 3 : 167

 

محبت علی میں افراط و تفریط کرنے والے گمراہ

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔

 

41. محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحملہ شناني علي ان يبہتني

 

1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 160

2. المستدرک، 3 : 123

3. مسند ابي لعلي، 1 : 407

4. مجمع الزوائد، 9 : 133

 

ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔

 

 

 

مناقب فاطمۃ الزہرا رضي اللہ عنہا

 

ذبح عظیم کی تکمیل اور ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور عام کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے جس عالی مرتبت جوڑے کا انتخاب ہوا یہ جوڑا حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کا جوڑا تھا جن کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ قدرت نے ان دو منتخبہ شخصیات کے نور نظر سیدنا امام حسین کی قسمت میں ذبح عظیم کا منصب جلیلہ لکھ دیا تھا۔

 

حضرت فاطمہ الزہرا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی لاڈلی بیٹی ہیں، خاتون جنت انہی کو کہتے ہیں۔ ان کی فضائل کے حوالے سے چند ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیں۔

 

رسول کی محبوب ترین ہستی

 

1. عن جميع بن عمير التيمي قال دخلت مع عمتي علي عائشة فسئلت اي الناس کان احب الي رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟ قالت فاطمة : فقيل من الرجال؟ قالت زوجہا ان کان ما علمت صواماً قواماً

 

حضرت جمیع بن عمیر التیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ مل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے پوچھا لوگوں میں سے کون سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو محبوب تھا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا حضرت فاطمہ، دوبارہ پوچھا گیا کہ مردوں میں سے کون سب سے بڑھ کر محبوب تھے؟ فرمایا فاطمہ کا شوہر (علی رضی اللہ عنہ) اور پھر فرمایا کہ میں خوب جانتی ہوں کہ وہ بڑے روز ہ رکھنے والے اور تہجد پڑھنے والے تھے۔

 

(جامع الترمذي، 2 : 227)

(المستدرک، 3 : 155)

 

اصحاب رسول اور صحابیات رسول رضی اللہ عنھم اپنے قول و عمل میں بھی سچے اور کھرے تھے، مصلحت، منافقت اور ریاکاری کا ان پر شائبہ تک نہیں پڑا تھا۔ اندر بھی روشن اور باطن بھی روشن، ذہنی اور جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے پیکر، اپنی ذاتی رائے کی بنیاد بھی عدل کو بناتے، سچ ان کا شعار، ہدایت قرآنی ان کا معیار۔ اب یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر رہی ہیں، اس رائے سے بے پناہ خصوصی، اپنائیت اور رواداری کا اظہار ہو رہا ہے اور یہی اوصاف اسلامی معاشرے کے بنیادی پتھر ہیں۔ یہی اوصاف اپنے اندر پیدا نہ کرسکنے کی وجہ ہے کہ ہم قوت برداشت کے وصف سے محروم ہو چکے ہیں، تحمل اور بردباری کے الفاظ کو ہم نے اپنی لغت ہی سے خارج کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فتویٰ پوچھا جا رہا تھا کہ بتائیے محبوب خدا کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہستی کون تھی؟ ذہن پر زور دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی بلا توقف فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پوری کائنات میں سب سے بڑھ کر محبت شہزادی کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے تھی۔ پوچھا گیا بتائیے مردوں میں محبوب تر کون تھا؟ انہوں نے بے ساختہ ارشاد فرمایا فاطمہ کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ۔

 

شیعہ سنی فسادات کی حقیقت

 

شیعہ سنی فسادات کا یک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے غیض و غضب اور لعن طعن کی غلیظ حرکت میں مبتلاء ہیں اور دوسری طرف بعض بدبخت اہل بیت اطہار سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، یہ دونوں رویے اپنے پس منظر اور حالیہ شدت میں بہت سی غلط فہمیوں سے پیدا ہیں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کئے بغیر اختلافات کی خلیج  مٹانی مشکل ہے بلکہ اسلام دشمن انہی غلط فہمیوں کو ہوا دے کر لڑائیاں اور فسادات کرواتے ہیں اور امت کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ تحمل اور حقیقت پسندی سے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی تلخیوں کا تدارک ممکن ہے۔ مثلا زیر نظر روایت ہی کو لیجئے اس میں بہت سی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا ازالہ ہو رہا ہے۔ حضرت فاطمہ حضرت علی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مخاصمت کو ہوا دینے والے خود سوچیں کے کتب احادیث میں سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب کی بیشتر روایات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جو شخص دوسرے کے متعلق حسد بغض اور کینہ رکھتا ہو بھلا وہ اس طرح کی روایات بیان کرتا ہے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چاہتیں تو سائل کے سوال پر یہ بھی فرما سکتی تھیں کہ حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے زیاد محبوب میں خود تھی، اور مردوں میں میرے والد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ اگر یہ روایت ہوتی بھی تو قرین قیاس تھی، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے والد گرامی سے تعلق محبت ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن جو چیز حق ہے اسے بیان کرنے میں ذرا تامل نہیں فرمایا۔ اسی طرح اور کئی روایات ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ لوگ آپس میں کتنے رحیم کریم تھے، باہمی احترام کی فضاء آخر وقت تک قائم رہی، فسادی اور مجرمانہ خصلت لوگوں کو اس وقت بھی بدامن اور مخاصمت منظور تھی اور آج بھی ہے یہ ابلیس مشن کے کارندے ہیں جو ہر دور میں سرگرم رہتے ہیں۔

 

خاتون جنت

 

یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہی لاڈلی بیٹی ہیں جن سے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری فاطمہ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ ساری کائنات کے مومنوں کی عورتوں کی تو سردار ہو۔

 

صحیح مسلم میں حضرت عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے آخری دنوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کانوں میں کچھ راز کی بات کہی جس سے ایک دفعہ تو وہ مغموم ہو  کر رونے لگیں جبکہ دوسری دفعہ مسکرا پڑیں بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ رونے کی کیا وجہ تھی تو وہ فرمانے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کی خبر کی وجہ سے روئیں جبکہ مسکرا نے کی وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگیں کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

 

  1. الاترضين ان تکوني سيدة نساء اہل الجنة او نساء المؤمنين

 

اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام جنتی عورتوں کی سردار تم ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار تم ہو۔

 

(صحيح البخاري، 1 : 512)

(الصحيح لمسلم، 2 : 291)

 

3۔ اما م حاکم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :

 

يا فاطمة الاترضين ان تکوني سيدہ نساء العالمين؟ و سيدة نساء المؤمنين؟ و سيدة نساء ہذہ الامة

 

اے فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنائی جاؤ اور تمام مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو؟ اور اس امت کی تمام عورتوں کی سردار ہو؟

 

1. صحيح مسلم، 2 : 291

2. المسند، 3 : 156

3. طبقات، 2 : 248

 

رضا فاطمہ کی رضائے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کی رضا چاہتے ہیں اور پوری کائنات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کی طالب ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔

 

4۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے :

 

عن المسور بن مخرمہ ان رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قال فاطمة بضعة مني فمن اغضبہا فقد اعضبني

 

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (میری بیٹی) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا بے شک اس نے مجھے ناراض کیا۔

 

(صحيح البخاري، 2 : 532)

 

جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونے کے حوالے سے تمام کتب احادیث میں بکثرت روایات موجود ہیں مثلاً(1) صحیح مسلم، 2 : 290، (2) جامع ترمذی، 2 : 226، (3) مسند احمد بن حنبل، 4 : 326، (4) المستدرک، 3 : 159۔

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور جس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ناراض کیا اور ارشادات نبوی سے رو گردانی کی بلا شبہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

 

حشر میں فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد

 

عرش اور فرش ہر جگہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے سر اقدس پر احترام اور تقدس کی چادر ہے۔ اہل محشر سے کہا جائے گا کہ اپنی نگاہیں جھکاؤ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لا رہی ہیں۔

 

5. عن علي عليہ السلام قال سمعت النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم يقول اذا کان يوم القيامة ناد منادٍ من وراء الحجاب يا اہل الجمع غضوا ابصارکم عن فاطمة بنت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حتي تمر.

 

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو (اچانک) پردوں کے پیچھے سے کوئی منادی اعلان کرے گا اے اہل محشر! اپنی نگاہیں جھکا لو فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے (وہ آ رہی ہیں) حتی کہ وہ گزر جائیں گی۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 153)

 

چشم تصور! ذرا میدان حشر میں چل، مخلوق خدا بارگاہ خداوندی میں حاضر ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہے۔ اچانک پردوں کے پیچھے سے آواز آتی ہے، منادی دینے والا منادی دے رہا ہے، اہل محشر سے مخاطب ہے کہ اپنی نگاہوں کو جھکا لو، سر تاپا پیکر نیاز بن جاؤ، کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آ رہی ہیں جب تک فاطمہ رضی اللہ عنہا گزر نہ جائیں قیامت کے دن کسی کو اپنی نگاہ اٹھانے کی اجازت نہ ہو گی، روز محشر یہ عزت، یہ احترام یہ تقدیس کسی اور کے حصے میں نہیں آئے گی، یہ مقام کسی اور کو عطا نہ ہو گا صرف اور صرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی اس سلوک کی سزاوار ٹھہریں گی۔

 

ناراضی فاطمہ ناراضی خدا

 

6. عن علی رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم لفاطمة ان اللہ يغضب لغضبک و يرضي لرضاک

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مخاطب ہو  کر فرمایا (اے بیٹی) اللہ تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہوتا ہے اور تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 154)

 

کائنات کے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اے فاطمہ! اللہ تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے اور تیری ناراضی کو دیکھ کر ناراض ہو جاتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتی ہے تو خدا خوش ہوتا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوتی ہے تو خدا بھی اس طرف سے چہرہ پھیر لیتا ہے۔

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کائنات میں افضل ترین

 

7. عن عائشة قالت مارأيت افضل عن فاطمة غير ابيہا

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا۔

 

(رواہ الطبراني في الاوسط)

(مجمع الزوائد، 9 : 201)

 

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نہیں گیا بلکہ خود فرماتی ہیں کہ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم کہ میں نے مصطفیٰ مجتبیٰ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا فاطمہ سے افضل کائنات میں کوئی نہیں دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفقتوں کا یہ عالم ہے کہ اس عالم کی کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ ولایت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آغاز علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہونا تھا۔ امامت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہو گی مگر چلے گی فاطمہ اور علی سے۔

 

8. عن ام المؤمنين عائشہ رضي اﷲ عنہا انہا قالت مارأيت احداً کان اشبہ کلاماً و حديثاً من فاطمة برسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و کانت اذا دخلت عليہ رحب بہا وقام اليہا فاخذ بيدہا فقبلہا واجلسہا في مجلسہ

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کسی کو فاطمہ سے بڑھ کر مشابہ نہیں پایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معمول تھا کہ خوش ہو جاتے اور (محبت سے استقبال کیلئے) کھڑے ہو جاتے، حضرت فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیتے اس کو بوسہ دیتے اور پھر اپنی نشست پرحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیتے۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 154)

 

اور ایک جگہ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔

 

9. قامت اليہ مستقبلة وقبلت يدہ

 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے استقبال کیلئے (از راہ محبت) کھڑے ہو جاتے اور سیدہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ چومتیں

 

(ايضاً : 140)

 

بیٹی! میرے ماں باپ تجھ پر قربان

 

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں شرف حاضری حاصل کرتیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ازرہ شفقت اور از راہ محبت اپنی لاڈلی بیٹی کے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے، مرحبا یا فاطمہ! کہہ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اسے چومتے اور پھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اپنی جگہ پر بیٹھا دیتے جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ احتراماً کھڑے ہو  کر اپنے ابا جان کا استقبال کرتیں اور ان کی دست بوسی فرماتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی لاڈلی بیٹی پر نثار ہو ہو جاتے، اپنے پاس بٹھاتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔ امام شوکانی روایت کرتے ہیں۔

 

10. عن عمر بن خطاب رضي اﷲ عنہ ان النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قال لفاطمة فداک ابي و امي.

 

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب ہو کر فرمایا میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

 

(در السحابہ : 279)

 

ساری دنیا جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخاطب ہوتی ہے یا اصحاب رسول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یہ تھا صحابہ رضی اللہ عنہ کا عمل، سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی عزت کی قسم میں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی سنا ہے کہ جب آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلاتے تو فرماتے، فاطمہ! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ماں باپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا پر قربان کر رہے ہیں اس لئے کہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امین ہیں، یہ محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، یہ قربت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، حقیقت یہ ہے کہ خاندان رسول کی غلامی ہی غلاموں کا سب کچھ ہے جو فاطمہ کے در کا دربان گیا وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام ٹھہرا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا صرف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لخت جگر ہی نہیں حسنین کریمین کی امی جان بھی ہیں اس گود میں حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی ہے۔ جنت کے سرداردوں کی تربیت ہوئی ہے۔ اس لئے فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

 

غلام بے نوا کا سلام

 

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نام نامی ہونٹوں پر آتا ہے تو پلکیں بہر احترام جھک جاتی ہیں، فضا میں احترام کی چادر سی تن جاتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سے میری عقیدت اور احترام کا یہ عالم ہے کہ میں خود کو در فاطمہ رضی اللہ عنہا کا منگتا سمجھتا ہوں اور اپنے لئے اسے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہوں، مدینہ منورہ کی حاضری کے دنوں میں میرا معمول یہ ہوتا ہے کہ جنت البقیع میں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی قبر انور پر حاضری دیتا ہوں، سامنے گنبد خضرا اپنے جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے بصد ادب عرض کرتا ہوں کہ اے حسنین کریمین کی امی جان! اے جنت کی خواتین کی سردار! اے سیدہ کائنات! آپ کے در کا کتا آیا ہے اپنے ابا حضور سے ایک ٹکڑا لے کر دے دیجئے۔ میرے کشکول آرزو میں خیرات ڈال دیجئے۔ اپنے ابا حضور سے سفارش فرما دیں کہ بابا! آپ کا ایک غلام بے نوا دراقدس پر حاضری کی اجازت چاہتا ہے، بابا! اس کی چشم تر کے آبگینے قبول فرمائیں، اس کو اپنے دامن رحمت میں چھپا لیجئے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمر بیت گئی بارگاہ سیدہ کائنات میں یہ التجا کرتے ہوئے کہ کبھی تو وہ اپنے منگتے کو کرم کے ٹکڑوں سے نوازیں گے، کبھی تو دامن طلب میں رحمت کے سکے گریں گے۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کون سا لمحہ ہے جو ان کے کرم سے خالی ہے ان کے کرم کی چادر تو ازل سے برہنہ سروں کو کڑی دھوپ سے بچا رہی ہے، ہر ساعت کے ہونٹوں پر ان کی رحمت کا زمزم بہہ رہا ہے اور میں کہ ایک تشنہ لب اسی چشمہ رحمت سے اپنی تشنگی کا مداوا کر رہا ہوں۔ یہ سب کچھ اسی خانوادہ پاک کی عطا ہی تو ہے۔

وہ ذبح اسماعیل جس کا فدیہ ذبح عظیم سے کر دیا گیا تھا بعثت محمدی کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔ امامت اور ولایت کی دعائے ابراہیمی کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اجرا ہو رہا تھا۔ اب اس وجود مسعود کی شہادت کا وقت قریب آ گیا تھا جسے ذبح اسماعیل کا مظہر بنایا گیا تھا یعنی کربلا کے میدان میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم قربانی، ذبح عظیم کا منظر پیش کرنے والی تھی۔ میدان کربلا میں خاندان رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدس خون سے روشن ہونے والے چراغوں کا منظر شام غریباں کے اندھیروں میں اترنے والا تھا۔ مٹتی ہوئی قدروں کو خون حسین رضی اللہ عنہ سے نئی توانائی عطا ہونے والی تھی۔ ازلی صداقتوں کے تحفظ کے لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خون سے افق عالم پر حریت فکر کا نیا عہد نامہ تحریر کرنے والے تھے۔ شہید کربلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضیلت کا عمامہ بھی جن کے سر اقدس پر باندھا گیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محبوبیت کی دستار سے بھی جنہیں نوازا، عظمت کی خلعت بھی عطا ہوئی اور شہادت کا پیرہن بھی جن کا مقدر بنا۔ اس لئے کہ اس عظیم انسان کی قربانی کو مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قربانی قرار دیا جا سکے۔

 

 

مناقب حسین رضی اللہ عنہ

 

حسنین رضی اللہ عنھما جنت کے جوانوں کے سردار

 

1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

 

الحسن و الحسين سيد اشباب اہل الجنة

 

حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

 

(جامع الترمذی، 2 : 218)

 

خاتون جنت کے فرزندان ذی حشم علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے لخت جگر حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا۔

 

حسنین کی محبت، محبت رسول ہے

 

2۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے :

 

عن أبی ہريرة رضي اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم من أحبہما فقد أحبني و من أبغضہا فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً.

 

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 2 : 288)

 

تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟

 

باری تعالیٰ حسنین کریمین سے تو بھی محبت کر

 

3. عن عطاء ان رجلاً اخبرہ أنہ رأی النبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم يضم اليہ حَسَناً و حسيناً يقول اللہم أني أحبہا فأحبہا.

 

حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،،

 

(مسند احمد بن حنبل، 5 : 369)

 

بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہ اللہم انی احبہما فاحبہما ….. فمن احبہما فقد احبنی، مولا ! مجھے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔

 

دوش پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سواری

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑ گئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت نبوی رضی اللہ عنھم اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے۔ خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی۔ علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر، اصحاب رسول کی آنکھوں کا تارا تھے۔

 

4. عن عمر يعني ابن الخطاب قال رأيت الحسن والحسين علي عاتقي النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ونعم الفارسان

 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔

 

(مجمع الزوائد، 9 : 182)

(رواہ ابو يعلي في الکبير ورجالہ رجال الصحيح)

 

وہ منظر کیا دلکش منظر ہو گا۔ جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے : عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما، جنہیں آقائے دو جہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نواز، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔

 

حالت نماز میں پشت اقدس کے سوار

 

5. عن ابی ہريرة رضي اﷲ عنہ قال کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم العشاء فاذا سجد وثب الحسن والحسين علي ظہرہ فاذا رفع رأسہ أخذہما بيدہ من خلفہ أخذاً رقيقاً و يضعہما علي الارض فاذا عاد عادا حتي قضي صلوتہ. فاقعدہما علي فخذيہ.

 

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔

 

(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)

 

یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت نماز میں ہیں، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں یہ معصوم شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے انہیں زمین پر بٹھا دیا۔ حسن اور حسین نماز کے دوران پشت مبارک پر چڑھے رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت نماز میں احتیاط سے انہیں اتارتے رہے حتی کہ نماز مکمل ہوئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دونوں شہزادوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔

 

جن کے لئے سجدہ طویل کر دیا گیا

 

6. عن أنس قال کان رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم يسجد فيحبئي الحسن و الحسين فيرکب ظہرہ فيطيل السجود فيقال يا نبي اﷲ أطلت السجود فيقول ارتحلني ابني فکر ہت ان اعجلہ

 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حسن اور حسین آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کر دیا (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آ گیا۔ فرمایا نہیں میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں۔

 

(مسند من حديث عبداللہ بن شداد، 3 : 495)

(مجمع الزواند، 9 : 181)

 

یعنی حسن اور حسین رضی اللہ عنہم جب حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کر دیا تا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھم گر نہ پڑیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔

 

یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہو  کر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔

 

7. فاطمة مضغة منی يقبضني ماقبضہا ويبسطني ما بسطہا و ان الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي و سببي و صہري.

 

فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔

 

1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323

2. المستدرک، 3 : 158

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہت

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چونکہ قربانی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مظہر بنایا گیا تھا اور انہیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سما جاتا۔ صحابہ یہ بھی جانتے تھے کہ نواسۂ رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس سے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے اس حوالے سے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔

 

8. عن علی قال الحسن اشبہ برسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم مابين الصدر الي الرأس والحسين اشبہ برسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ما کان النفل من ذلک

 

حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی ہے کہ حضرت حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ تھے۔

 

(جامع الترمذي، 2 : 219)

 

حسین کی محبت اللہ کی محبت

 

9. عن يعلي بن مرہ قال قال رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حسين مني و انا من حسين احب اﷲ من احب حسيناً

 

حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔

 

(جامع الترمذی، 2 : 219)

 

وہ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کر لے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کر دیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہو جاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہو جاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہو جاتا۔

 

10۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے :

 

عن ابی ہريرة رضي اﷲ عنہ قال رأيت رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و ہو حامل الحسين بن علي و ہو يقول اللہم اني احبہ فاحبہ

 

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

 

(المستدرک للحاکم، 3 : 177)

 

اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔

 

اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کر نا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اس ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کو مٹا کر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا گویا حسین سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

 

11. عن علی رضی اﷲ تعالی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم للحسين بن علي ’’من احب ہذا فقد أحبني‘‘

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا "جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی”۔

 

(المعجم الکبير، 3، ح : 2643)

 

عالم بیداری میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی خبر

 

حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا؟ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لا  کر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین رضی اللہ عنہ جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آ جائے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پر تشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔ اس حوالے سے چند روایات مندرجہ ذیل ہیں۔

 

1۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی روایت

 

عن ام سلمہ قالت قال رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيہا، فجاء فہذہ تربتہا.

 

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔

 

1. البدايہ والنہايہ، 8 : 196 – 200

2. کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313

 

2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت

 

ایک دوسری روایت ہے :

 

عن عائشة عنہ انہ قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔

 

(المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہو گی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے۔

 

3۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چشمان مقدس میں آنسو

 

اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ

 

ان امتک ستقتل ہذا بأرض يقال لہا کربلاء

 

آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔

 

(المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)

 

4۔ 61 ہجری کے اختتام کی نشاندہی

 

عن ام سلمة قالت قال رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المہاجري

 

(مجمع، 9 : 190)

 

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا۔

 

(بحوالہ طبراني في الاوسط)

 

غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کر دی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہو گا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہو گا۔

 

5۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے :

 

اللہم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان

 

اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

 

الصواعق الحرقہ : 221

 

60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جا چکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کر کے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی۔

 

حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے :

 

ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربتہ

 

حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہو گا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔

 

(الخصائص الکبریٰ 2 : 12)

 

حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گا۔

 

6۔ مقتل حسین رضی اللہ عنہ

 

حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

 

اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ہہنا مناخ رکابہم و موضع رحالہم و مہراق دمائہم فئة من ال محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم يقتلون بہذہ العرصة تبکی عليہم السماء والارض

 

ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہو گا جس پر زمین و آسمان روئیں گے۔

 

(الخصائص الکبری، 2 : 126)

(سر الشہادتين : 13)

 

گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہو گا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا۔

 

7۔ جس دن یہ مٹی سرخ ہو جائے گی

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کر دیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لا  کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

 

يا ام سلمہ اذا تحولت ہذہ الترتہ دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتہا ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليہا کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم

 

اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہو گیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہو گا۔

 

(الخصائص الکبری، 2 : 125)

(سر الشہادتين، 28)

( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)

 

شہادت امام حسین کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے۔ کسی واقع کا وقوع سے قبل شہرت اختیار کر لینا اس کے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

 

 

 

خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لہو سے تحریر ہونے والی داستان حریت و ایثار

 

10 محرم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اضطراب

 

گزشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ’’ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کا وقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر دیکھ کر آیا ہوں، ادھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اور ادھر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔

 

اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ 72 شہیدوں کا خون ایک شیشی میں کیسے سما سکتا ہے تو جواب محض یہ ہو گا کہ جس طرح 1400 صحابیوں کے غسل کا پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک لوٹے میں بند ہو گیا تھا یا پندرہ سو صحابہ کا کھانا ایک ہنڈیا میں سما گیا تھا اسی طرح 72 شہداء کا خون بھی ایک شیشی میں سما سکتا ہے۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں :

 

دخلت علی ام سلمة و ہی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم في المنام و علي رأسہ ولحيتہ التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شہدت قتل الحسين انفا.

 

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد و غبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،

 

(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)

 

شب عاشور، عبادات کی رات

 

البدایہ والنہایہ اور ابن کثیر میں کثرت کے ساتھ ان روایات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ 9 محرم الحرام کو نواسہ رسول، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھکے ماندے جسم کے ساتھ اپنی خیمے کے سامنے میدان کربلا کی ریت پر تشریف فرما ہیں۔ اپنی تلوار سے ٹیک لگا رکھی ہے، یوم عاشور کا انتظار کر رہے ہیں کہ اونگھ آ گئی، ادھر ابن سعد نے حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد اپنے عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کر دو، یزیدی عساکر حملہ کی نیت سے امام عالی مقام کے اہل بیت اطہار کے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔ یزیدی عساکر کا شور و غوغہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا۔ آپ نے سر انور اٹھایا اور پوچھا زینب رضی اللہ عنہا کیا بات ہے؟ عرض کی امام عالی مقام ! دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے فرمایا ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا! ہم بھی تیاری کر چکے ہیں’’ بھائی جان تیاری سے کیا مراد ہے؟ زینب رضی اللہ عنہا نے مضطرب ہو  کر پوچھا۔ ۔ ۔ فرمایا! زینب رضی اللہ عنہا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن ! ہم اس انتظار میں ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں تو بھیا! یہ مصیبت کی گھڑی آ پہنچی؟ فرمایا زینب رضی اللہ عنہا افسوس نہ کر، صبر کر بہن! اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ یزیدی لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگی کہ زندگی کی آخری رات ہے میں اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ یزیدی لشکر نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک رات کی مہلت دے دی۔

 

حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب وفادار

 

البدایہ النہایہ میں ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یوم شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی کڑی گھڑی آنے والی ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفا دار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ جودوسخا کے پروردہ امام حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفا داری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں……. آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ہم کٹ مریں گے۔ ۔ ۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی ……ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے…… ہماری لاشوں پر سے گزر کر کوئی بدبخت آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ۔ ۔ ہم ہرگز ہرگز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب وفادار کا یہ جذبہ ایثار دیکھا تو فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت اور مناجات میں گزری۔ جان نثاران حسین کے خیموں سے رات بھر اللہ کی حمد و ثنا کی صدائیں آتی رہیں۔

 

یوم عاشور

 

نماز فجر جان نثار اصحاب نے امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہ خداوندی میں کربلا والے سربسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا، اللہ رب العزت کے حضور جھکے ہوئے تھے مولا! یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں! یزیدی لشکر نے بھی بدبخت ابن سعد کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔

 

حر کی توبہ

 

یزیدی 72 جان نثاروں اور عورتوں اور بچوں کے خلاف صف آراء  ہوئے، دستور عرب کے مطابق پہلے انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ یزیدی لشکر سے ایک شہ سوار نکلا، ابن سعد سے پوچھا کیا واقعی تم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ وہ بدبخت جواب دیتا ہے کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔ یہ سن کر شہ سوار پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ بدبخت تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کردے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے کا خون بہائے گا۔ اس کے دل میں ایمان کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے جوش مارا، قدرت نے اسے اس محبت اہل بیت کا ثمر دیا، اس کے اندر کا انسان بیدار ہو گیا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اس سے پوچھتا ہے، تم تو کوفہ والوں میں سے سب سے بہادر شخص ہو، تمہاری بہادری کی تو مثالیں دی جاتی ہیں، میں نے آج تک تمہیں اتنا پژمردہ نہیں دیکھا، تمہاری حالت غیر کیوں ہو رہی ہے؟ وہ شخص سر اٹھاتا ہے اور امام عالی مقام کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ ہے۔ ۔ ۔ مجھے آج اور اسی وقت دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ! تھوڑے سے توقف کے بعد وہ شہ سوار سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے …….میں نے دوزخ کو ٹھکرانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنے لئے جنت کو منتخب کیا ہے، پھر وہ اپنے گھوڑے کو ایڑی لگاتا ہے اور امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے : حضور! میں آپ کا مجرم ہوں، میں ہی آپ کے قافلے کو گھیر کر میدان کربلا تک لایا ہوں کیا اس لمحے میں بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ شافع محشر کے نور نظر امام عالی مقام نے فرمایا کہ اگر توبہ کرنے آئے ہو تو اب بھی قبول ہوسکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کیا میرا رب مجھے معاف کر دے گا؟ حسین رضی اللہ عنہ : ہاں تیرا رب تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن یہ تو بتا کہ تیرا نام کیا ہے، اس شہسوار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، عرض کرتا ہے میرا نام حر ہے، امام عالی مقام نے فرمایا حر تمہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آزاد کر دیا گیا ہے۔ فرمایا : حر نیچے آؤ! وہ کہتا ہے : نہیں امام عالی مقام! اب زندہ نیچے نہیں آؤں گا، اپنی لاش آپ کے قدموں پر نچھاور کروں گا اور یزید کے لشکر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤں گا۔ اس کے بعد خوش بخت حر نے یزیدی لشکر سے خطاب کیا لیکن جب آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ دی جائے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ کوفی لشکر پر حر کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔

 

(البدايہ والنہايہ، 8 : 180 – 181)

 

انفرادی جنگ کا آغاز

 

اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آ رہا تھا آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہو جاتے، پہلے اصحاب حسین شہید ہوئے، غلام نثار ہوئے، قرابت دار ایک ایک کر کے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔

 

خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانثاری

 

اب پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان کے افراد کی باری تھی۔ ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا لیکن جذبہ شہادت کے جوش میں دنیا کی یہ چیز ان کے نزدیک بے وقعت ہو  کر رہ گئی تھی۔ علی اکبر، جسے ہمشکل پیغمبر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، بارگاہ حسین رضی اللہ عنہ میں حاضر ہوتا ہے کہ ابا جان! اب مجھے اجازت دیجئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی پیشانی پر الوداعی بوسہ ثبت کرتے ہوئے جواں سال بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور بیٹے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور دعائیں دے کر مقتل کی طرف روانہ کیا کہ بیٹا! جاؤ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرو علی اکبر شیر کی طرح میدان جنگ میں آئے، سراپا پیکر رعنائی، سراپا پیکر حسن، سراپا پیکر جمال، مصطفیٰ و مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر کامل، یزیدی لشکر سے نبرد آزما تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مقتل کی طرف بڑھے کہ اپنے بیٹے کی جنگ کا نظارہ کریں وہ دشمن پر کس طرح جھپٹتا ہے؟ لیکن لشکر یزید میں اتنا گرد و غبار چھایا ہوا تھا کہ امام عالی مقام داد شجاعت دیتے ہوئے علی اکبر کو نہ دیکھ سکے۔

 

امام عالی مقام آرزو مند تھے کہ دیکھیں میرا بیٹا کس طرح راہ حق میں استقامت کا کوہ گراں ثابت ہوتا ہے کس طرح یزیدی لشکر پر وار کرتا ہے، شجاعت حیدری کے پیکر علی اکبر برق رعد بن کر یزیدی عسا کر پر حملے کر رہے تھے، صفیں کی صفیں الٹ رہے تھے۔ لشکر یزید جس طرف دوڑتا امام عالی مقام سمجھ جاتے کہ علی اکبر اس طرف داد شجاعت دے رہا ہے، اسی طرح سمتوں کا تعین ہوتا رہا، یزیدی سپاہی واصل جہنم ہوتے رہے، علی اکبر مردانہ وار جنگ کر رہے تھے۔ تین دن کے پیاسے تھے، گرد و غبار سے فائدہ اٹھا کر گھوڑے کو ایڑی لگا کر واپس آئے عرض کی ابا جان! اگر ایک گھونٹ پانی مل جائے تو تازہ دم ہو  کر بدبختوں پر حملہ کروں۔ فرمایا : بیٹا! میں تمہیں پانی تو نہیں دے سکتا میری زبان کو چوس لو، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی اپنی زبان خشک ہے، امام عالی مقام نے اپنی زبان مبارک علی اکبر کے منہ میں ڈال دی کہ بیٹا اسی طرح ناناجان اپنی زبان میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے۔ شاید وہ میرے منہ میں اپنی زبان آج کے دن کے لئے ڈالتے تھے۔ علی اکبر نے اپنے بابا کی سوکھی ہوئی زبان چوسی، ایک نیا حوصلہ اور ولولہ ملا۔ پلٹ کر پھر لشکر یزید پر حملہ کر دیا اچانک لڑتے لڑتے آواز دی۔

 

يا ابتاہ ادرکنی

 

ابا جان آ کر مجھے تھام لیجئے

 

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ جواں سال بیٹے کی شہادت کی گھڑی آ گئی، دوڑ کر علی اکبر کی طرف آئے، قریب ہو  کر دیکھا تو ہمشکل پیغمبر علی اکبر زمین پر تھا۔ لشکر یزید کے کسی بدبخت سپاہی کا نیزہ علی اکبر کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا، امام عالی مقام زمین پر بیٹھ گئے اپنے زخمی بیٹے کا بوسہ لیا، علی اکبر نے کہا ابا جان! اگر یہ نیزے کا پھل سینے سے نکال دیں تو پھر دشمن پر حملہ کروں۔ امام عالی مقام نے علی اکبر کو اپنی گود میں لے لیا، نیزے کا پھل کھینچا تو سینے سے خون کا فوارہ بہہ نکلا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی انا للہ و انا الیہ راجعون۔

 

امام عالی مقام جواں سال بیٹے کی لاش کو لیکر اپنے خیموں کی طرف پلٹے، راوی بیان کرتا ہے کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں آئے تھے تو 10 محرم کے دن آپ کی عمر مبارک 56 برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی مگر سر انور اور ریش مبارک کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن جب جوان علی اکبر کا لاشہ اپنے بازوں میں سمٹ کر پلٹے تو سر انور کے سارے بال اور ریش مبارک سفید ہو چکی تھی۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کہہ رہی تھیں کہ پھوپھی جان! بابا جان بوڑھے ہو گئے ہیں۔ غم نے باپ کو نڈھال کر دیا تھا۔

 

علی اکبر کے بعد قاسم بھی شہید ہو گئے

 

امام عالی مقام رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں کہ اب کونسا گل رعنا عروس شہادت سے ہمکنار ہونے کے لئے مقتل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون علی اکبر کے ساتھ اپنی مسند شہادت بچھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون مفارقت کے داغوں سے سینہ چھلنی کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون تشنہ لب حوض کوثر پر پہنچ کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون اپنے لہو سے داستان حریت کا نیا باب تحریر کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سامنے امام حسن رضی اللہ عنہ کے لخت جگر قاسم کھڑے ہیں، یہ وہ جوان ہیں جن کے ساتھ حضرت سکینہ کی نسبت طے ہو چکی ہے، عرض کرتے ہیں چچا جان! اجازت دیجئے کہ اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کر دوں، امام عالی مقام جو مقام رضا پر فائز ہیں فرماتے ہیں۔ قاسم! تو تو میرے بڑے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کی اکلوتی نشانی ہے، تمہیں دیکھ کر مجھے بھائی حسن رضی اللہ عنہ یاد آ جاتے ہیں، تجھے مقتل میں جانے کی اجازت کیسے دے دوں؟ قاسم نے کہا چچا جان! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے خون سے حق کی گواہی نہ دوں؟ چچا جان! مجھے جانے دیجئے، میری لاش پر سے گزر کر ہی دشمن آپ تک پہنچ پائے گا، اگر آج آپ کے قدموں پر جان نثار نہ کرسکا تو کل ابا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ہزاروں دعاؤں کی چھاؤں میں خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ چشم و چراغ بھی میدان شہادت کی طرف بڑھنے لگا۔

 

حمید بن زیاد، ابن زیاد کی فوج کا سپاہی ہے، البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر کی روایت کے مطابق وہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے اچانک دیکھا کہ اہل بیت کے خیموں میں سے ایک خوبصورت اور کڑیل جوان نکلا، اس کا چہرہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تلوار لہرا رہی تھی۔ غالباً اس کے بائیں جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا وہ شیر کی طرح حملہ آور ہوا، ابن سعد کے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور یزیدیوں کو واصل جہنم کرنے لگا، یہ جوان امام حسن کا بیٹا قاسم تھا، یزیدیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا کسی بدبخت نے شہزادہ قاسم کے سر پر تلوار ماری آواز دی یا عماہ! اور چکرا کر گر پڑے، امام عالی مقام علی اکبر کے غم میں نڈھال تھے، بھتیجے کی لاش کے گرنے کا منظر دیکھا تو اٹھے، قاسم کی لاش پر آئے، فرمایا بیٹے قاسم، یہ کیسی گھڑی ہے کہ میں آج تیری مدد نہیں کرسکا ! امام عالی مقام نے قاسم کے لاشے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ امام ابن کثیر کے مطابق راوی کا کہنا ہے کہ امام عالی مقام ایک جوان کی لاش اٹھا کر خیموں کی طرف لائے، وہ اتنا کڑیل جوان تھا کہ اس کے پاؤں اور ٹانگیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ جوان جس کو حسین رضی اللہ عنہ اٹھا کر لے جا رہے ہیں کون ہے کسی نے مجھے بتایا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کا بیٹا قاسم ہے، امام عالی مقام نے قاسم کی لاش کو بھی اپنے شہزادے علی اکبر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا۔

 

معصوم علی اصغر کی شہادت

 

علی اکبر اور قاسم کے لاشوں کو ایک ساتھ لٹا کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کے لئے خیمے کے دروازے پر بیٹھے، دکھ اور کرب کی تصویر بنے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ زبان حال سے کہہ رہے تھے نانا جان! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گلشن کو تاراج کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہزادے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیکھئے علی اکبر اور قاسم کے لاشے پڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کچھ دیر بعد خیموں کو آگ لگا دی جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نانا۔ ۔ ۔ ! آپ کی بیٹیوں سے ردائیں چھین لی جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں قیدی بنا کر شام کے بازاروں میں پھیرایا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بیبیوں نے خیموں کے اندر سے علی اصغر کو آپ کے پاس بھیج دیا۔ امام عالی مقام نے اپنے ننھے منے بیٹے کو اپنی گود میں سمیٹا، بے ساختہ پیار کیا اور اس کا سر منہ چوم کر آنے والے لمحات کے لئے نصیحتیں فرمانے لگے کہ بنی اسد کے قبیلے کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو معصوم علی اصغر کے حلقوم میں پیوست ہو گیا۔ ننھا بچہ اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ امام عالی مقام نے اس معصوم کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیا کہ باری تعالیٰ ہم تیری رضا اور خوشی کے طلب گار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ننھے علی اصغر کی یہ قربانی قبول فرما۔ ابن کثیر کی روایت ہے جسے طبری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی اصغر کی ولادت بھی میدان کربلا ہی میں ہوئی تھی، بیبیوں نے نو مولود علی اصغر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ وہ نو مولود کے کان میں اذان کہیں ادھر امام عالی مقام نے اللہ اکبر کے الفاظ ادا کئے ادھر یزیدی لشکر کی طرف سے تیر آیا جو علی اصغر کے گلے سے پار ہو گیا اور ان کی معصوم روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ بعض روایات کے مطابق شہادت کے وقت علی اصغر کی عمر چھ ماہ تھی اور وہ پیاسے تھے امام عالی مقام کی خدمت میں انہیں اس لئے روانہ کیا گیا کہ یزیدیوں سے کہا جائے کہ ہمارا پانی تو تم نے بند کر دیا ہے لیکن اس معصوم بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے اس کے لئے تو پانی دے دو۔

 

غیرت حسین کے منافی روایت کا تجزیہ

 

میں سمجھتا ہوں کہ پانی مانگنے کی روایت امام عالی مقام کی غیرت اور حمیت کے منافی ہے وہ حسین رضی اللہ عنہ جو اصولوں کی خاطر میدان کربلا میں اپنے شہزادوں کی قربانیاں دے سکتے ہیں، پانی کی ایک بوند کے لئے یزیدی لشکر کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرسکتے تھے۔ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ کی غیرت دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر علی اصغر کے لئے پانی مانگنا ہی تھا تو اس کا سوال یزیدی لشکر سے کیوں کیا جاتا؟ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ! اگر حسین رضی اللہ عنہ پانی کے لئے بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھاتے اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو چاروں طرف سے گھٹائیں دوڑ کر آتیں اور کربلا کی تپتی ہوئی زمین تک کی پیاس بجھ جاتی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی سے زم زم کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا اگر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میدان کربلا میں ایڑی مارتے تو ریگ کربلا سے لاکھوں چشمے پھوٹ پڑتے، مگر نہیں یہ مقام رضا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مقام توکل تھا۔ ۔ ۔ یہ مقام تفویض اور مقام صبر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرحلہ استقامت تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لمحہ امتحان کا لمحہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ آزمائش کی اس گھڑی میں ڈگمگا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ صبر و رضا کے مقام پر استقامت کا کوہ گراں بنے رہے اس لئے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے ان کا خدا تھا۔ چشم فلک حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت کا یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ مکین گنبد خضرا کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ کی نظریں بھی عزم و استقلال کے پیکر حسین رضی اللہ عنہ کے جلال و جمال کا نظارہ کر رہی تھیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا زبان حال سے کہہ رہی تھیں بیٹا حسین رضی اللہ عنہ ! میں نے تجھے دودھ پلایا ہے۔ آج میں کربلا کے میدان میں اپنے دودھ کی لاج دیکھنے آئی ہوں۔ بیٹا! میرے دودھ کی لاج رکھنا۔ دیکھنا علی اکبر اور علی اصغر کی قربانی کے وقت تیرے قدم ڈگمگا نہ نہ جائیں، ادھر علی مرتضیٰ شیر خدا فرما رہے تھے حسین رضی اللہ عنہ! راہ خدا میں استقامت سے ڈٹے رہنا، اپنے بابا کے خون کی لاج رکھنا۔ ادھر محبت حسین! میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کربلا کے شہیدوں کا خون ایک شیشی میں جمع فرما رہے تھے، حسین! میرے کندھوں پر سواری کی لاج رکھنا۔

 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لیکر علی رضی اللہ عنہ اور اپنی امی جان فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے مقدس چہرے سامنے ہوں تو حسین رضی اللہ عنہ جیسے بہادر شخص کے قدم شاہراہ شہادت پر کیسے ڈگمگا سکتے ہیں؟ آپ یزیدیوں کے سامنے دست سوال کس طرح دراز کرسکتے تھے؟ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے والے بھلا موت سے کب ڈرتے ہیں؟ جو مرنا نہیں جانتے انہیں جینے کا بھی کوئی حق نہیں اور جو مرنا جانتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے حیات جاوداں پالیتے ہیں اسی لئے کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں ثابت قدم رہے اس لئے کہ آج انہیں ذبح اسماعیل کا فدیہ بنا کر ذبح عظیم کے مقام بلند پر رونق افروز ہونا تھا آج حسین رضی اللہ عنہ کو دعائے ابراہیم علیہ السلام کی تکمیل کا باعث بننا تھا۔

 

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

 

نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہا تھا آج نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام کے جان نثار ایک ایک کر کے راہ حق میں توحید کی گواہی دیتے دیتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمنستان فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عون و محمد بھی رخصت ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عباس علمدار مقام شہادت پا چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے سے لگا چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضا کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام اپنے جان نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، بہادری اور جوانمردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں، امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے ہیں۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر کے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوار کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔

 

یزیدی لشکر نے جان نثاران حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفرادی جنگ بند کر دی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے’ کئی گھنٹوں تک حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کا زخم نہ لگا کیونکہ قریب آ کر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہو گیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آ گئے، یکبارگی حسین رضی اللہ عنہ کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آ گئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کر دیا گیا۔

 

زندگی کا آخری لمحہ آ پہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کر لینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہو گئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور چاہا کہ امام عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ میرے نانانے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔

 

1۔ امام ابن عساکر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 

کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اہل بيتی

 

(کنز العمال، ح : 34322)

 

گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔

 

2۔ محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :

 

کنا مع الحسين بنہر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسولہ! فقال رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أہل بيتي و کان شمر أبرص

 

ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر  برص کے داغوں والا تھا۔

 

(کنز العمال فضائل اہل بي، قتل حسين، 13)

 

چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔

 

يَا أَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ        O        ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً        O      

 

اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)

 

حسین! میں تجھ پر راضی ہو گیا۔ اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں، حور و غلمان تیرے منتظر ہیں، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں۔

 

 

 

ذبح عظیم

 

امام عالی مقام اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کر چکے ہیں۔ اسلام کی عزت و حرمت پر علی اصغر جیسے معصوم فرزند کی بھی قربانی دے چکے ہیں۔ اپنی جان کا نذرانہ دے کر توحید الہٰی کی گواہی دے چکے ہیں، آپ مقام صبر و رضا پر استقامت سے ڈٹے رہے، قدسیان فلک متحیر ہیں کہ پیکران صبر و رضا ایسے بھی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

 

امام عالی مقام نے اپنے نانا اور ابا کے خون اور اپنی امی کے دودھ کی لاج رکھ لی، حسین کامیاب ہو گئے۔ حسینیت زندہ ہو گئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ آج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی انکی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حسین رضی اللہ عنہ اس عظیم کامیابی پر قدسیان فلک باشندگان کرہ ارضی کا سلام قبول ہو، حسین راہ خدا میں نذرانہ جان پیشں کر کے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کر کے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے، شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نشان بنا دیا۔ حسین رضی اللہ عنہ قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے۔

 

شہادت حسین پر آسمان کا نوحہ

 

شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سر اقدس نیزے پر سجایا۔ یہی نہیں خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہزادوں اور اصحاب حسین کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا، انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

 

محدثین بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے، شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا، شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا۔ محدثین کا کہنا ہے کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہو گیا۔ پھر سیاہ ہو گیا۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہو جائے گی یوں لگا جیسے قیامت قائم ہو گئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔

 

1۔ امام طبرانی نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ :

 

لما قتل الحسين بن علي انکسفت الشمس کسفة حتي بدت الکواکب نصف النہار حتي ظننا أنہاہي

 

جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے۔

 

مجمع الزوائد، 9 : 197

معجم الکبير، ح : 2838

 

2۔ امام طبرانی نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا!

 

لما قتل الحسين احمرت السماء

 

جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسماں سرخ ہو گیا۔

 

معجم الکبير، ح : 2837

مجمع الزوائد، 9 : 197

 

3۔ عیسی بن حارث الکندی سے مروی ہے کہ :

 

لما قتل الحسين مکثنا سبعة أيام اذا صلينا العصر نظرنا الي الشمس علي أطراف الحيطان کأنہا الملاحف المعصفرة و نظرنا إلي الکواکب يضرب بعضہا بعضاً

 

جب امام حسین کو شہید کر دیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا وہ زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتا اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے۔

 

معجم الکبير، ح : 2839

 

4۔ امام طبرانی نے معجم الکبیر میں محمد بن سیرین سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں !

 

لم يکن في السماء حمرة حتي قتل الحسين

 

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے وقت آسمان پر سرخی چھائی رہی۔

 

معجم الکبير، ح : 2840

مجمع الزوائد، 9 : 197

 

5۔ امام طبرانی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں۔ سیدہ فرماتی ہیں!

 

سمعت الجن تنوح علی الحسين بن علی رضی اﷲ عنہ

 

میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین بن علی کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں۔

 

معجم الکبير، ح : 2862، 2867

مجمع الزوائد 9 : 199

 

6۔ امام طبرانی نے زھری سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔

 

لما قتل الحسين بن علی رضی اﷲ عنہ لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحتہ دم عبيط.

 

جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔

 

معجم الکبير، 3، ح : 2834

 

7۔ امام طبرانی نے امام زہری سے ا س قسم کی ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا!

 

مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دم

 

شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا

 

معجم الکبير، ح : 2835

مجمع الزوائد، 9 : 194

 

شام غریباں

 

کربلا میں شام نے اپنے پر پھیلا دیئے۔ سور ج نے فرط خوف سے مغرب کی وادیوں میں اپنا منہ چھپالیا۔ آسمان کی آنکھیں خون کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ خاندان رسول ہاشمی کے ایک ایک فرد کو قتل کرنے کے بعد یزیدیوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا، انتقام کی آگ سرد نہ ہوئی، امام حسین اور ان کے جان نثار رفقا کے لاشوں پر گھوڑے دوڑنے لگے، گھوڑوں کی ٹاپ سے شہزادگان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نازک جسموں کو روند ڈالا۔ یہ نازک جسم پہلے ہی تیغ و تیر سے چھلنی ہو چکے تھے۔ پھر خانوادہ اہل بیت کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ سکینہ طمانچے کھا چکی تو خیموں کا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ اپنے پیغمبر کے گھرانے کی برہنہ سر بیبیوں کو قیدی بنایا گیا۔ بیمار کربلا زین العابدین بھی قیدی بن گئے۔ شہیدان کربلا کے سروں کو کاٹ کر نیزوں پر چڑھا لیا گیا۔ اور اسیران کربلا کا قافلہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی قیادت میں شہیدوں کے سروں کے ساتھ کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ شام کے سائے کچھ اور بھی گہرے ہو گئے، بیبیوں کی برہنہ سروں کو رات نے اپنے سیاہ آنچل سے ڈھانپ دیا۔ ابھی اس قافلے کی قیادت بیمار کربلا حضرت زین العابدین کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ چودہ برس کے قریب تھی۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شہزادی زینب رضی اللہ عنہا خواتین کی دیکھ بھال کرتیں کہ کوئی بچہ قافلے سے بچھڑ نہ جائے، کسی بی بی کے سر سے دوپٹہ لڑھک نہ جائے۔

 

عیسائی راہب کا اظہار عقیدت

 

اسیران کربلا کا قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ راستے میں رات ہو گئی، چنانچہ ’’فاتحین کربلا،، نے پڑاؤ کا فیصلہ کیا۔ پڑاؤ کی جگہ کے قریب ہی ایک گرجا گھر تھا۔ اس گرجے میں ایک ضعیف العمر عیسائی راہب رہتا تھا۔ بڑا پرہیزگار اور متقی راہب تھا۔ عبادت گزار بھی تھا اور خدا ترس بھی۔ اسے جب معلوم ہوا کہ قافلے والے اپنے پیغمبر کے نواسے اور اس کے اصحاب کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر لے کر یزید کے پاس جا رہے ہیں تو اس نے قافلہ کے یزیدی امیر سے کہا میں تمہیں دس ہزار دینار دوں گا شرط صرف یہ ہے کہ آج کی رات تمہارے پیغمبر کے نواسے کا سر میرے پاس رہے گا۔ اس کے لئے تم پڑاؤ ہمارے پاس کرو۔ تمہاری خدمت بھی کروں گا اور تمہیں عزت کے ساتھ روانہ کروں گا۔ یزیدی امیر دنیا دار شخص تھا حرص دنیا کا طالب، اس نے راہب کی شرائط مان لیں اور حسین کا سر اس راہب کے حوالے کر دیا۔ راہب حسین رضی اللہ عنہ کا سر لے کر اندر چلا گیا۔ راہب نے نیزے پر سے سر انور کو اتارا اور اس کو خوشبودار پانی سے دھویا اسے صاف کیا اور خوشبو لگائی، خوبصورت غلاف میں رکھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ رات بھر چہرہ حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت میں مصروف رہا۔ وہ راہب بیان کرتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر پڑا ہے اور اس سر سے نوری شعاعیں اٹھ کر عرش معلی تک جا رہی ہیں، نور کا ہالہ سر اقدس کا طواف کر رہا ہے جب اس نے یہ کیفیت دیکھی تو ساری رات قتل حسین رضی اللہ عنہ پر آنسو بہاتا رہا۔ حسین رضی اللہ عنہ کے احترام اور توقیر کا اسے یہ صلہ ملا کہ صبح جب باہر نکلا رحمت خداوندی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اس نے کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ ایک طرف وہ شقی القلب ابن سعد کے سپاہی تھے کہ بے ادبی کا ارتکاب کر کے دولت ایمان سے محروم ہو گئے اور ایک یہ راہب تھا کہ حسین کے سر کی عزت کرنے کے صدقے میں اس کا دامن ایمان کی نعمت سے بھر دیا گیا۔

 

ایک قاتل کی بیوی کی گواہی

 

روایات میں ہے کہ ابن سعد نے امام عالی مقام کے سر اقدس کو خولی کے ہاتھ ابن زیاد کے دربار میں بھیجا جب خولی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اقدس لے کر کوفہ میں پہنچا تو قصر امارت کا دروازہ بند ہو چکا تھا چنانچہ وہ سر انور کو اپنے گھر لے آیا اور ایک برتن سے سر انور کو ڈھانپ دیا اس کی بیوی نوار سخت ناراض ہوئی کہ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے کا سر لے کر آیا ہے چنانچہ وہ اس جگہ آ بیٹھی جہاں امام عالی مقام کا سر اقدس رکھا تھا۔ وہ روایت کرتی ہے۔

 

قواﷲ مازلت انظر الی نور يسطع مثل العمود من السماء الي الاجانة ورايت طيراً بيضاء ترفرف حولہا

 

خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک ستون کی مانند چمک رہا ہے اور میں نے سفید پرندے دیکھے جو برتن کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔

 

الطبري، 6 : 33

ابن اثير، 4 : 80

 

دربار یزید میں

 

ابن زیاد کے قصر امارت کے بعد اسیران کربلا کا یہ قافلہ جب دمشق میں یزید کے دربار میں پہنچا تو وہ بدبخت اس وقت مسند شاہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس بدبخت نے امام عالی مقام کی دندان مبارک پر اپنی چھڑی ماری اور اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ آج ہم نے بدر میں اپنے مقتولین کا بدلہ لے لیا ہے، اس بدبخت نے اپنے اندر چھپے ہوئے کفر کو ظاہر کر دیا۔ (ابن زیاد کے دربار میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے تھے) یہ منظر دیکھ کر دربار یزید میں موجود ایک صحابی اٹھا اور یزید کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی فرمایا : خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے، دربار میں قیصر روم کا سفیر جو ایک عیسائی تھا بھی مسند نشین تھا اس نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بدبخت اور بے ایمان ہو، تم نے اپنے پیغمبر کے نواسے کو شہید کر کے اس کا سر تن سے جدا کر دیا ہے اور اب اپنی چھڑی سے اس مقدس سر کی بے حرمتی کر رہے ہو، میں مذہبا ً عیسائی ہوں ایک علاقے میں ہمارے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سواری کے پاؤں کے کھر ہیں، ہم نے انہیں محفوظ کر لیا ہے خدا کی قسم ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی ہم اس سواری کے نعل کی عزت کرتے ہیں جس طرح تم اپنے کعبہ کی عزت کرتے ہو۔ ہم اپنے نبی کی سواری کے قدموں کا یہ احترام کرتے ہیں، ہر سال اس نعل کی زیارت کرتے ہیں اس کا ادب کرتے ہیں۔ بدبختو! تم اپنے پیغمبر کے شہزادے کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔ ۔ ۔ ! لعنت ہے تمہارے عمل اور کردار پر، یزید سمجھ رہا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر کے اس نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اب اس کے جبر مسلسل کے سامنے کوئی دیوار بن کر کھڑا نہ ہو گا اب دین کی تحریف میں وہ آزاد ہو گا لیکن اس بدبخت کو یہ معلوم نہ تھا کہ یزیدیت جیت کر بھی ہار گئی ہے اور حسینیت بظاہر ہار کر بھی جیت گئی ہے۔

 

ابن زیاد کا انجام

 

مختار ثقفی کے لشکر کے سپہ سالار نے ابن زیادہ کا سر قلم کیا اور اسے نیزے پر چڑھا کر مختار ثققی کے پاس بھیجا۔ بدبخت ابن زیاد کا سر مختار ثقفی کے سامنے رکھا تھا۔ ایک سانپ کہیں سے نمودار ہوا وہ مقتولین کے سروں کو سونگھتا رہا جب مختار ثقفی کے سر کے قریب پہنچا تو اس کے منہ میں داخل ہوتا اور ناک کے نتھنوں سے باہر آتا اور یہ عمل اس نے کئی بار دہرایا گویا زبان حال سے کہہ رہا تھا یزیدیو! تمہارے چہروں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ ابن زیاد قتل ہوا۔ یزید برباد ہوا لیکن حسین رضی اللہ عنہ زندہ ہے اور قیامت تک حسین زندہ رہے گا۔ یزید مرگیا آج کوئی یزید کا نام بھی نہیں لیتا۔ کربلا میں آج حسین رضی اللہ عنہ کی قبر بھی زندہ ہے۔ جبکہ دمشق میں یزید کی قبر بھی مردہ ہے وہاں ہر لمحہ لعنت برس رہی ہے لیکن ساری دنیا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر صلوۃ و سلام کے پھول نچھاور کر رہی ہے۔

 

شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے، یزید قیامت تک کے لئے مردہ ہے اور یزیدیت بھی قیامت تک کے لئے مردہ ہے، حسین رضی اللہ عنہ کی روح ریگ کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج علی ا کبر اور علی اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ ۔ ۔ ہر دور کے یزیدوں کو پہچانو۔ ۔ ۔ یزیدیت کو پہچانو۔ ۔ ۔ یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے، یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے، حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزید ظلم کا اور حسین امن کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

آئیے سب مل کر یزیدیت کے خلاف ایک عہد کریں اور وقت کے یزیدوں کے قصر امارات کو پاش پاش کر دیں، مسلمانو! یزیدیت کا تختہ الٹنے، ظلم و استحصال کا نام و نشان مٹانے اور غریب دشمنی پر مبنی نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے اٹھو، اپنے اندر حسینی کردار پیدا کرو اور کربلائے عصر میں ایک نیا معرکہ بپا کر دو، ایک نئی وادی فرات کو اپنے لہو سے رنگین بنادو، اپنی جان اور اپنے اموال کی قربانی دے کر مصطفوی انقلاب کی راہ ہموار کرو، تاکہ افق عالم پر مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو اور حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر یزیدیت کا آخری نشان بھی مٹ جائے۔ دلوں کی سلطنت حسینی کردار کے ساتھ آباد کریں اور اپنی سر زمین کو یزیدی فتنوں سے یکسر پاک کر دیں۔ اس خطے کو ہم ایک بار پھر اہل بیت اور صحابہ کرام کی محبتوں کا مرکز و محور بنا دیں، فتنہ فساد، جنگ، قتل و غارتگری کی آگ کو بجھا کر حسین رضی اللہ عنہ کے جلائے ہوئے چراغ امن سے اپنے ظاہر و باطن کے اندھیرے دور کریں اور سر زمین پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیں کہ پاکستان ہماری ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کی امانت ہے۔ یہ خطہ دیدہ و دل عالم اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ آئیے اسے اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیں۔

 

مسلمانو! حسینی مشن کے چراغ جلانے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم صحابہ رضی اللہ عنھم کے نقش قدم اجاگر کرنے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک ہو جاؤ یہی وقت کی آواز ہے کہ شیعہ سنی اکٹھے ہو  کر عالم کفر کے خلاف ایک ہو جائیں۔ اپنے اندر کی نفرتوں کو مٹا دو، کدورتوں کو ختم کردو اب ہمیں بستی بستی قریہ قریہ محبتوں کے چراغ جلانا ہوں گے۔ مدینے سے کربلا تک کے سفر میں قربانیوں کی ان گنت داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان داستانوں کو اپنا شعار بنالو، شعور کربلا کو ہر سطح پر زندہ کرو، تاریخ کربلا ایک واقعہ نہیں ایک تحریک ہے۔ شعور کربلا کو ایک عوامی تحریک بنا دو۔ شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں انہیں بھائی بن کر اسلام کی سربلندی کے لئے اور قوموں کی برادری میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کے لئے ایک ساتھ جدوجہد کرنا ہو گی، دشمنان اسلام مسلمانوں کے اسی اتحاد سے خائف ہیں۔ اپنے قول و عمل سے انہیں بتا دو کہ ہم ایک ہیں، بانہوں میں بانہیں ڈال کر قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسی اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرو۔

 

عالمی سامراج ہمیں فرقہ واریت میں الجھا کر ہمیں علم کی روشنی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ علوم جدیدہ اور جدید تر ٹیکنالوجی کو ہمارے لئے شجر ممنوعہ قرار دینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے مذموم ارادوں کو اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے جب ہم اپنی اجتماعی قوت فرقہ واریت کی نذر کرتے رہیں گے۔ ہمارا اتحاد عالمی سامراج کی موت ہے۔ شیعہ اور سنی اٹھیں اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر دشمنان اسلام کی سازشوں کو خاک میں ملا دیں۔ اٹھو! نفرتوں اور کدورتوں کے بت پاش پاش کردو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریخ کا رخ بدل دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عالم کفر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو کہ یہی شعور کربلا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی پیغام کربلا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پیغام کی خوشبو کا پرچم لے کر نکلو کہ منزلیں تمہارے قدم چومنے کے لئے بے تاب ہیں۔

٭٭٭

http://www.minhajb        o               o       ks.c        o       m/urdu/btext/bid/159/read/txt/%D8%B0%D8%A8%D8%AD-%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85-%D8%B0%D8%A8%D8%AD-%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C%D9%84-%D8%B3%DB%92-%D8%B0%D8%A8%D8%AD-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%AA%DA%A9.html