فہرست مضامین
دیوندر ستیارتھی کی کچھ کہانیاں
حصہ سوم
دیوندر ستیارتھی
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
حصہ دوم
حصہ سوم
حصہ چہارم
نئے دیوتا
گاجر کے گرم حلوے کی خوشبو سے سارا کمرہ مہک اٹھا تھا اور اگر کسی دعوت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ہر کھانا نہایت سلیقے سے تیار کیا جائے اور معمولی معمولی چیز میں بھی ایک نیا ہی ذائقہ پیدا کر دیا جائے تو بلاشبہ دہلی کی وہ دعوت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔
اتنی بھی کیا خوشی ہے، میں سوچ رہا تھا، اتنا تو نفاست حسن پہلے بھی کما لیتا ہو گا۔ ڈیڑھ سو روپے کے لیے اس نے اپنی آزادی بیچ دی اور اب خوش ہو رہا ہے۔ وہ تو شروع سے باغیانہ طبیعت کا آدمی مشہور ہے، اس کے افسانے ترقی پسند ادب میں نمایاں جگہ پاتے رہے ہیں۔ پھر یہ نوکری اس نے کیسے کر لی؟ غریبوں پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں، زندگی کی ہتک کی جاتی ہے، سرمایہ دارانہ نظام مکڑی کی طرح برابر اپنا جالا بُنتا رہتا ہے اور غریب کسان مزدور آپ سے آپ اس جالے میں پھنستے چلے جاتے ہیں- ان خیالات کا مالک آج خود مکھی کی طرح اس جالے میں پھنس گیا اور اِس خوشی میں یاروں دوستوں کی دعوت دے رہا ہے! مگر میں نے اپنے خیالات کا اثر چہرے پر ظاہر نہ ہونے دیا۔
دعوت میں کئی ادیب شریک تھے۔ میں سوچنے لگا۔ ہندوستان کی آزادی کے متعلق اِن ہیٹ پہننے والے ادیبوں سے زیادہ مدد کی امید نہ رکھنی چاہیے اور براؤننگ کا خیال- ’’چند چاندی کے سکّوں کے عوض وہ ہمیں چھوڑ گیا!‘‘- میرے ذہن میں پھیلتا چلا گیا۔ ان رجعت پسندوں کو یہ گمان کیسے ہو گیا کہ وہ ترقی پسند ادب کا چرچا کر کے سننے والوں کی آنکھوں میں دھول ڈال سکتے ہیں؟ کہاں ترقی اور آزادی کا حقیقی نصب العین اور کہاں یہ چاندی کی غلامی! نفاست حسن کے گورے چہرے پر ہنسی ناچ رہی تھی۔ سچ پوچھو تو یہ ہنسی مجھے بڑی بھیانک دکھائی دیتی تھی۔
گاجر کا حلوا سچ مچ تھا بہت لذیذ اور وہ میرے خیالات پر حاوی ہو رہا تھا -مقناطیس اتنا قریب ہو اور لوہ چون کے ذرّے کھنچے نہ چلے آئیں! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ حلوا نہ ہوتا تو میں نفاست حسن کو اور بھی زیادہ تنقیدی زاویے سے دیکھتا ہوتا۔
بہتوں کے ناموں سے میں نا آشنا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کئی چہرے میرے لیے نئے نہ تھے۔ خاص کر مولانا نورحسن آرزو کو تو اس سے پہلے کبھی فوٹو میں بھی نہ دیکھا تھا۔ اُن کی آواز مجھے بہت پیاری لگی۔ بہت جلد میں نے ان کی فصاحت کا لوہا مان لیا۔ یہ محسوس ہوتے بھی دیر نہ لگی کہ انھیں ایسی ایسی دلیلوں پر عبور حاصل ہے کہ موقع پڑنے پر وہ اپنے حریف کو گھاس کے تنکے کی طرح اپنی راہ سے اڑا دیں۔ عمر میں وہ کوئی بوڑھے نہ تھے، ادھیڑ ہی تھے۔ مگر نئے زمانے سے اتنا ہی رشتہ رکھتے تھے کہ سرکاری نوکری کی وجہ سے پاجامے اور شیروانی کو خیرباد کہہ کر انگریزی وضع کا سوٹ پہننا شروع کر دیا تھا۔
برف میں لگی ہوئی گنڈیریوں کے ڈھیر پر سب ادیب دوست بڑھ بڑھ کر ہاتھ مار رہے تھے۔ جونہی گنڈیری کا گلاب میں بسا ہوا رس حلق سے نیچے اُترتا مولانا آرزو کی آنکھوں میں ایک نئی ہی چمک آ جاتی۔
نفاست حسن کہہ رہا تھا۔ ’’یہ گنڈیریاں تو خاص طور پر مولانا کے لیے منگوائی گئی ہیں۔‘‘
’’خوب‘‘ مولانا بولے ’’اور گاجر کا حلوا بھی شاید میرے ہی لیے بنوایا گیا تھا۔۔۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
نفاست حسن کی بیباک نگاہیں مولانا کی شوخ آنکھوں میں گڑ کر رہ گئیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسے اپنے محکمے میں نوکری دلانے میں مولانا کا بہت ہاتھ تھا۔ مگر خود نفاست حسن ایسا آدمی نہ تھا کہ احسان مندی کو تصور میں بھی لا سکے۔ اس کا خیال تھا کہ خود وقت کی کروٹ کی بدولت ہی وہ یہ نوکری حاصل کر سکا ہے، اور گاجر کا لذیذ حلوا اور گلاب میں بسی ہوئی گنڈیریاں کسی مولانا کا احسان اُتارنے کے خیال سے ہرگز پیش نہیں کی گئیں۔
مولانا ادھر بہت موٹے ہو گئے تھے اور وہ حیران تھے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے شہر میں لگاتار کئی سال گزارنے کے باوجود نفاست حسن نے اپنی بیٹھک میں ایک آدھ بڑی کرسی رکھنے کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی تھی۔ ابھی تک بڑھئیوں نے بڑی کرسیاں بنانا بالکل ترک تو نہیں کیا۔ یہ اور بات ہے کہ نئے زمانے میں اب لوگ کبھی اتنے موٹے نہ ہوا کریں گے! اپنی گول گول گھومتی ہوئی آنکھیں انھوں نے میری طرف پھیریں اور میں نے دیکھا کہ ان میں غرور اور غم گلے مل رہے ہیں اور وہ بیتے وقتوں کو پھر سے واپس آتا دیکھنے کے لیے بے قرار ہو رہے ہیں۔
دھیرے دھیرے محفل چھدری ہوتی گئی۔ نئے دوست یہ خیال لے کر لوٹے کہ نفاست حسن ایک نشاط پسند اور دوست نواز آدمی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ رسمی تکلفات کا کوئی بڑا حامی نہیں ہے۔ ہے بھی ٹھیک۔ دوستی ہونی چاہیے آزاد نظم سی -قافیہ اور ردیف کی قید سے آزاد۔
مولانا برابر جمے ہوئے تھے۔ مجھ سے مخاطب ہو کر بولے: ’’صاحب، سومرسٹ مام کا مطالعہ کیا ہے آپ نے؟‘‘
انھوں نے یہ بات اس لہجے میں پوچھی تھی کہ مجھے گول مول جواب پر اترنا پڑا۔ ’’صاحب، کہاں تک مطالعہ کیا جائے؟ ان گنت کتابیں ہیں اور ان گنت مصنّف۔ اب میں سومرسٹ مام کا خیال رکھوں گا۔‘‘
’’تو یہ کہیے نا کہ آپ نے سومرسٹ مام کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
اب میں سمجھا کہ سومرسٹ مام کوئی مصنف ہیں۔ میں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ ’’جی ہاں، یہی سمجھ لیجیے۔‘‘
’’تو اس کا یہی مطلب ہوا نا کہ اب تک آپ نے یونہی عمر ضائع کی۔‘‘
اِس پر نفاست حسن بگڑ اُٹھا۔ گرماگرم بحث چھڑ گئی۔ پتہ چلا کہ مولانا نے نفاست حسن کو چڑانے کے لیے ہی سومرسٹ مام کا تذکرہ کیا تھا۔ ایک دن خود نفاست حسن نے یہی سوال مولانا سے کیا تھا، اور جب اُنھوں نے میری طرح بات ٹالنی چاہی تو وہ کہہ اٹھا تھا ’’تو اس کا یہی مطلب ہوا نا کہ اب تک آپ نے یوں ہی عمر ضائع کی۔‘‘
ادھر مولانا نے انگریزی ادب سے ربط بڑھانا شروع کر رکھا تھا مگر نفاست حسن بدستور یہی سمجھتا تھا کہ یہ صرف ایک دکھاوا ہے اور انگریزی ادب کے نئے رجحانوں سے انھیں کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ جب بھی وہ ان کے ہاتھ میں کوئی انگریزی کتاب دیکھتا، اس کے ذہن میں طنز جاگ اُٹھتی، جیسے سانپ کے سر میں زہر جاگ اٹھتا ہے۔ اِس دکھاوے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ ۔۔۔ بیہودہ دکھاوا!۔۔۔ نیا رنگ تو سفید کپڑے ہی پر ٹھیک چڑھتا ہے!
مولانا بڑی سادہ اور پر اثر زبان میں شعر کہتے تھے۔ مضامین بھی لکھتے تھے۔ افسانہ نگاری کے باب میں انھوں نے کوئی کوشش نہ کی تھی۔ ہاں جب کوئی واقعہ سناتے تو یہی گمان ہوتا کہ کوئی کہانی جنم لے رہی ہے، اور اگر اس وقت کوئی آدمی ان کی تعریف کر دیتا تو خواہ مخواہ ان کی نگاہ میں بہت اونچا اُٹھ جاتا۔ داد پا کر ہی وہ داد دے سکتے ہوں، یہ بات نہ تھی۔ اکثر وہ کسی ایسے معاوضے کے بغیر بھی نوجوان ادیبوں کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے تھے۔ ان کی یہ سرپرستانہ طبیعت ہی نفاست حسن کے نزدیک وہ عیب تھا جس کی وجہ سے جیسا کہ اُس کا خیال تھا نہ وہ پرانے دور کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور نہ نئے دور ہی سے رشتہ جوڑ سکے تھے۔
جب بھی نفاست حسن مولانا کے خلاف بس اگلتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ادب کا نیا دور اپنے سے پہلے دور کی ہتک کر رہا ہے۔ یہ تو اپنی ہی ہتک ہے۔ سطحی طور پر اس کا گھناؤنا پن آنکھ سے کتنا ہی اوجھل رہے مگر جب یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ادب ایک ارتقائی چیز ہے تو کوئی بھی ادیب اپنا یہ وطیرہ جاری نہیں رکھ سکتا۔
ہاں، تو سومرسٹ مام والا مذاق نفاست حسن نہ سہار سکا۔ بولا ’’بس بس چپ رہیے۔ اتنی زبان مت کھولیے۔‘‘
نفاست حسن کی زبان پر رندہ چلنے کا گمان ہوتا تھا۔ مولانا نے قدرے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور بولے ’’اتنے گرم کیوں ہوتے ہو، میاں! عمر ہی میں سہی، میں تمھارے والد کے برابر ہوں۔‘‘
’’بس بس، یہ شفقت اپنے ہی پاس رکھیے۔ مجھے نہیں چاہیے یہ کمینی شفقت۔۔۔ یہ سرپرستانہ شفقت۔۔۔ بڑے آئے ہیں میرے والد۔۔۔ والد! اتنی زبان درازی!‘‘
مولانا نے اب تک یہی سمجھا تھا کہ وہ مذاق ہی کی سرحد پر کھڑے ہیں۔ معاملہ تو دوسرا ہی رنگ اختیار کر چکا تھا۔ اُن کے چہرے پر غصّے کی تہ چڑھ گئی۔ بولے ’’ایک سسرے سومرسٹ مام کی خاطر کیوں میری ہتک کرنے پر تلے ہو، میاں؟ ۔۔۔ کم بخت سومرسٹ مام!۔۔۔‘‘
بات تو تو میں میں کی شکل اختیار کر گئی۔ مجھے تو یہی خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں دونوں ادیب ہا تھا پائی پر نہ اُتر آئیں۔
نفاست حسن اس دن میزبان تھا اور گھر پر آئے ہوئے کسی مہمان کی شان میں ہر طرح کی زبان درازی سے اسے پرہیز کرنا چاہیے تھا اور پھر یہ مہمان کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ اُس کا ہم عصر ادیب تھا۔ عمر میں اس سے بڑا اور زبان دانی میں کہیں بڑھ کر۔ میں سوچنے لگا کہ سومرسٹ مام پر نفاست حسن اتنا کیوں فدا ہے؟ وہ بھی مولانا کی طرح ایک آدمی ہی تو ہے، کوئی فرشتہ نہیں ہے۔ اور میں تو سمجھتا ہوں ہر لحاظ سے نفاست حسن کے کمرے میں پڑی ہوئی کسی بھی ہلکے بھورے رنگ کی کرسی سے مولانا زیادہ قیمتی تھے۔ نفاست حسن اتنا گرم کیوں ہو گیا تھا؟ وہ شاید اپنے مہمان کو کرسی سے اٹھا دینا چاہتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مولانا کی طنز ذرا تیکھی تھی مگر تھی تو آخر یہ طنز ہی۔ اور اس کا جواب اگر طنز ہی سے دیا جاتا تو اِس قدر دلخراش مظاہرہ تو نہ ہوا ہوتا۔
سومرسٹ مام آخر کیا لکھتا ہو گا؟ کیا اسے اپنے وطن انگلستان میں بھی نفاست حسن جیسا کوئی عاشق زار نصیب ہوا ہو گا؟ مجھے یہ شک گزرا کہ نفاست حسن کے بہت سے جملے جنھیں وہ موقع بے موقع نہایت شان سے اپنی گفتگو اور تحریر میں نگینوں کی طرح جڑنے میں ہوشیار سنار بن چکا ہے، ضرور ولایت کی کسی فیکٹری سے بن کر آئے ہیں، اس کی اپنی تخلیق ہرگز نہیں۔ میں سوچنے لگا کہ پہلے پہل کب سومرسٹ مام کے قلم نے اس پر جادو سا کر دیا تھا اور کیا یہ جادو کبھی ختم بھی ہو جائے گا؟
ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’عورت کس وقت سندر لگتی ہے؟‘‘
مجھے کوئی جواب نہ سوجھا۔ میں نے کہا ’’آپ ہی بتلائیے۔‘‘
وہ بولا ’’ہاں تو سنو۔۔۔ جب وہ تین دن سے بخار میں مبتلا ہو، اور اُس کے ہاتھوں کی رگیں نیلی پڑ جائیں۔ تب عورت کتنی سندر لگتی ہے، کتنی سندر!‘‘
میں نے سوچا، شاید یہ نگینہ بھی سومرسٹ مام کی فیکٹری سے بن کر آیا ہو۔
میں نے نفاست حسن کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’خفگی چھوڑو میاں! سومرسٹ مام تو ایک دیوتا ہے۔‘‘
وہ بولا ’’اور میں؟‘‘
’’آپ بھی دیوتا ہیں، میاں!‘‘
میں نے اسے بتایا کہ دیوتاؤں میں تین بڑے دیوتا ہیں- برہما، وشنو اور شو۔ اپنی اپنی جداگانہ اہمیت کے باعث وہ بے حد ممتاز بن گئے ہیں۔ برہما جنم دیتا ہے، وشنو پرورش کرتا ہے، اور شو ٹھہرا موت کا ناچ ناچنے والا- نٹ راج!
نفاست حسن کا دھیان اب میری طرف کھنچ گیا۔ ادھر مولانا کی آنکھوں میں غصّہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ اور وہ میری بات میں دلچسپی لے رہے تھے۔ میں نے بتایا کہ ہر ادیب مختلف وقتوں میں برہما، وشنو اور شِو ہوتا ہے۔ جب ایک شخص ایک چیز لکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ میں اسے برہما کہنا پسند کروں گا۔ وہ اس چیز کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ ہر ممکن اصلاح کرتا ہے، اس وقت وہ وشنو کا ہم پلّہ ہوتا ہے اور جب وہ اپنے ہی ہاتھ سے کسی تحریر کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے، وہ سو فیصدی شو کا روپ دھار لیتا ہے۔
مولانا بولے۔ ’’بہت خوب! آپ کا تخیّل مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘
میں نے جھٹ سے کہہ دیا۔ ’’میرا تخیل! نہیں ’’ مولانا‘‘ نہیں۔ یہ میرا تخیل نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ میرا طبع زاد خیال نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’تو کس کا خیال پیش کر رہے ہیں آپ؟‘‘
’’بمبئی کی پی۔ ای۔ این سوسائٹی میں بلبلِ ہند مسز سروجنی نائیڈو نے میری ایک تقریر پر صدارت کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا تھا۔‘‘
’’بہت خوب!۔۔۔ بلبلِ ہند نے آپ کی تقریر پر صدارت کی تھی!۔۔۔ ہاں، تو اب کوئی طبع زاد خیال سنائیے نا!‘‘
’’طبع زاد!۔۔۔ طبع زاد کی بھی خوب کہی، مجھے تو سرے سے یہی شک ہو رہا ہے کہ طبع زاد نام کی کوئی چیز ہوتی بھی ہے یا نہیں۔‘‘
نفاست حسن بوکھلایا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو، میاں؟ سنیے میں ایک خیال پیش کرتا ہوں- جونہی صبح کی پہلی کرن آنکھیں ملتی ہوئی دھرتی پر اتری پاس کی کچّی دیوار انگڑائی لے رہی تھی۔‘‘
مولانا نے حیرت سے کہا۔ ’’دیوار انگڑائی لے رہی تھی!‘‘
میں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس وقت نفاست حسن ایک برہما ہیں، مولانا!‘‘
’’برہما؟‘‘
’’جی ہاں، برہما۔۔۔ اور نہ جانے کب تک وہ وِشنو بنا ہوا یہ خیال سنبھال سنبھال کر رکھے گا۔۔۔ اور پھر ایک دن وہ شو بن جائے گا اور خود اپنے ہاتھوں سے اس خیال کا گلا گھونٹ ڈالے گا۔ اسے خود اپنی تخلیق پر ہنسی آئے گی -صرف ہنسی، اگر یہ خیال اس کا سو فیصد طبع زاد خیال نہیں ہے۔ اور پوری پوری شرم، اگر یہ سچ مچ اس کا سو فیصدی طبع زاد خیال ہے۔‘‘
نفاست حسن چاہتا تو جھٹ میرے خیال کی تردید کر دیتا۔ مگر وہ چپ بیٹھا رہا۔ شاید وہ کچھ جھینپ سا گیا تھا اور اپنی کمتری کے جذبے کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مولانا بولے۔ ’’برہما، وشنو اور شو کے متعلق آج میں کچھ اور بھی سننا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا ’’سنیے وشنو اور شو کے ہزاروں مندر ہیں اور برہما کا ایک بھی مندر نہیں ہے کہیں‘‘
’’برہما کا ایک بھی مندر نہیں۔‘‘
’’جی نہیں، سنیے تو، بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ ایک بار وشنو اور برہما میں یہ مقابلہ ہو گیا کہ کون پہلے شولنگ کی گہرائی اور اونچائی کا پتہ لا سکتا ہے۔ وشنو جڑ کی طرف چل پڑا اور برہما چوٹی کی طرف۔ برہما اوپر چڑھ گیا۔ مگر شولنگ کی چوٹی کہیں نظر نہ آتی تھی۔ اوپر سے ایک چنبیلی کا پھول گرتا آ رہا تھا۔ برہما نے پوچھا ’’کدھر سے آنا ہوا؟‘‘
پھول بولا- ’’شولنگ کی چوٹی سے۔‘‘
برہما نے پوچھا- ’’کتنی دور ہے وہ چوٹی؟‘‘
پھول نے کہا- ’’دور بہت دور۔‘‘
برہما چنبیلی کے ہمراہ واپس ہوا۔ راستے میں اس نے اس پھول کو اتنا سا جھوٹ بولنے کے لیے رضامند کر لیا کہ وہ وشنو کے سامنے کہہ دے کہ وہ دونوں خاص شولنگ کی چوٹی سے ہوتے ہوے آ رہے ہیں۔ مگر شو تو ٹھہرا انتر جامی۔ برہما اور چنبیلی کو بڑی بھاری سزا دی گئی۔ رہتی دنیا تک برہما کا کہیں مندر نہ بنے گا۔ چنبیلی کسی مندر میں پوجا نہ چڑھائی جائے گی۔
نفاست حسن بولا۔ ’’مگر یہ تو نیا زمانہ ہے۔ اب تو شاید برہما کا بھی مندر بن جائے کہیں۔ اور میرا یقین ہے کہ اگر برہما پر کوئی پھول چڑھے گا تو وہ بلا شبہ چنبیلی کا پھول ہی ہو گا۔‘‘
نفاست حسن نے یقیناًاس وقت یہی سوچا ہو گا کہ اب تک وہ خود فقط ایک برہما ہی ہے، کیونکہ اس کے پبلشر نے اس کے افسانوں کا ضخیم مجموعہ شائع کرنے سے ابھی تک گریز ہی کیا ہے۔ مگر جونہی یہ کتاب شائع ہو گی۔ اس کی شہرت کا حقیقی مندر تعمیر ہوتے دیر نہ لگے گی۔ اور اس مندر میں چنبیلی کے پھول ہی اس پر چڑھائے جایا کریں گے۔
اپنے متعلق اس قدر غلط فہمی رکھنے میں اس کے دوچار گہرے دوستوں ہی کا ہاتھ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ آشا کے گھونگھٹ کھولنے سے پہلے کی ساری سیاہی اور سرخی- اندھیارے اور اجالے کی گنگا جمنی سرگوشیاں- اس کی طبع میں بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ اور اگر اس نے شروع میں روسی افسانوں کے ترجمہ میں اپنی اٹھتی جوانی کا زور لگانے کے بجائے طبع زاد افسانے لکھنے میں سرگرمی دکھائی ہوتی تو آج اس کا نام صف اوّل کے ترقی پسند افسانہ نگاروں میں شمار ہوتا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اب بھی گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔ اگر یہ سو فیصدی طبع زاد افسانہ نگار سو فیصدی وسیلہ ساز بھی ہوتا گیا، تو یقیناً وہ ہندوستان بھر کے افسانوی ادب کی چوٹی پر نظر آئے گا۔
ایک بار دوستوں نے اسے بتایا کہ وہ بڑا صاف گو ہے۔ چنانچہ سپنوں میں بھی یہ خیال اس کا تعاقب کرنے لگا کہ واقعی وہ بڑا صاف گو ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو سو فیصدی طبع زاد افسانہ نگار کو زندگی کے مطالعے میں حقیقی مدد دے سکتی ہے۔ جب اس نوکری کے لیے اس نے درخواست بھیجی تو اس سے پوچھا گیا کہ اس نے کس مضمون میں اپنا علم پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ بلا جھجک اس نے لکھ بھیجا کہ میں نے اپنی بیشتر زندگی بیسواؤں کا مطالعہ کرنے میں گزاری ہے۔ گو اس صاف گوئی سے کہیں زیادہ کسی کی سفارش ہی نے اسے یہ نوکری دلانے میں مدد دی تھی۔ مگر وہ برابر نئے ملنے والوں کے روبرو اس کا ذکر بڑے فخر سے کیا کرتا تھا۔ صاف گوئی، سو فیصدی صاف گوئی! میں نے سوچا شاید اس صاف گوئی کی سرحد نے ابھی گھر کی دیواروں تک پاؤں نہ پھیلائے ہوں گے۔ گھر میں آ کر تو اکثر بڑے بڑے ترقی پسند ادیب بھیگی بلّی بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس کی ترقی پسندی بڑی حد تک عریاں جنسی بیان سے گھری رہتی تھی مگر کچھ عرصے سے اس کے ذہن میں یہ وہم سما گیا تھا کہ وہ کسی بھی جاندار یا بے جان شے کے گرد اپنے افسانے کو گھُما سکتا ہے۔ اپنے ایک افسانے میں اس نے ایک پتھر کی سرگزشت بیان کی تھی جو ایکا ایکی کسی کنواری کی اُٹھتی مچلتی ہوئی چھاتی سے ٹکرانے کے لیے بے قرار ہو اٹھا تھا۔ آدمی بدستور آدمی ہے۔ مگر پتھر اب پتھر ہی نہیں ہے۔ یہ بات اس نے بڑی گہرائی سے لکھی تھی۔ نفسیات کی سرحدیں اب سکڑی نہ رہیں گی۔ پتھر اب پتھر ہی نہیں ہے، نہ بجلی کا کھمبا بجلی کا کھمبا ہی۔ وہ چاہتا تو اپنے سگرٹ کیس میں بھی دل ڈال دیتا اور اس کے گرد نفسیات کا باریک جال بن دیتا۔
اس کی زبان نہ بہت مشکل تھی نہ بہت آسان۔ یہاں وہاں نئی نئی تشبیہیں بھی حاضر رہتی تھیں۔ ابھی اسے کسی کا پھولا ہوا تھیلا دیکھ کر حاملہ عورت کے پیٹ کا دھیان آ گیا، ابھی کسی کی ذہنی کمزوری اس دوشیزہ سی نظر آئی جو آندھی میں اپنی ساری سنبھالنے سے قاصر ہو۔ کسی کے بول سوڈے کے بلبلے تھے تو کسی کی ناک چینی کی پیالی کی ٹھونٹھنی جیسی۔
شام ہو چلی تھی۔ نفاست حسن اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتا ہوا چھجّے پر آ گیا۔ نکلسن روڈ پر قریب ہی کے ٹیلر ماسٹر کی دکان میں برقی قمقمے روشن ہو چکے تھے۔ چھجّے پر کھڑا کھڑا نفاست حسن پلٹتے ہوئے بولا:
’’مولانا، چلو لگے ہاتھوں سردار جی ہی سے ملتے آئیں۔‘‘
میں حیرانی سے اپنی سیٹ میں دبکا بیٹھا تھا۔ میں نے سوچا یہ سردارجی کون ہیں۔ جن سے ملنے کے لیے نفاست حسن اتنا مشتاق نظر آتا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ وہ صرف اپنے فرق برائے فرق کے نظریہ کے مطابق ہی مجھ سے بھی لمبی داڑھی والے شخص سے ملنا چاہتا ہے۔ حالانکہ خود اس کے چہرے پر داڑھی تو داڑھی مونچھ تک کا نشان ہر دوسرے تیسرے دن ہٹا ڈالا جاتا تھا۔ اس سے پہلے بھی اس نے ایک ادیب کی مونچھوں کو محض اس لیے پسند کیا تھا کہ وہ مونچھیں مولانا نے ناپسند کی تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ اگر مولانا نے ان مونچھوں کی تعریف میں ایک آدھ بات کہہ دی ہوتی تو وہ فوراً کہہ اُٹھتا، مولانا آپ کی اندھا دھند پسند کی تو حد ہو چکی ہے۔ لاحول و لا قوۃ- آپ نے بھی خوب آدمیوں میں آدمی چنا!
یہ سردار جی کون ہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں پھیلتا چلا گیا۔ ان سے متعارف ہونے کی خواہش دیکھ کر نفاست حسن نے مجھے بھی اپنے ہمراہ لے لیا۔ وہ ایک عجب مستی کے عالم میں سیڑھیوں سے اتر رہا تھا۔ اپنے پاؤں کو وہ ضرورت سے زیادہ زور سے زمین پر پھینکتا تھا اور پھٹ پھٹ کی آواز سے شور پیدا کرتا ہوا پڑوسیوں کے آرام میں مخل ہو رہا تھا۔ اس قسم کی حرکت کو وہ آزادی تصور کرتا تھا۔ اور اسے کسی قیمت پر بھی دینے کو تیار نہ تھا۔
ایک بڑے لمبے چوڑے بازار میں گھومتے گھامتے ہم آخر سردارجی کی دکان پر پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ نفاست حسن اسم با مسمّیٰ تھا۔ کیونکہ شراب کی دُکان جہاں اُس نے سردارجی سے ملاقات کا وقت مقرر کیا تھا، سخت بدبو دار جگہ تھی۔ میز پر سنگ مرمر کی سلوں پر سوڈا اور وسکی جمی ہوئی تھی اور ہماری نشست گاہ کے قریب ہی ٹوٹے ہوئے آبخوروں کا انبار لگ رہا تھا۔ بغل میں ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اپنی ٹانگیں ایک بوسیدہ الماری کے اوپر ٹکائے اپنا منہ پوری طرح کھولے بے ہوش پڑا تھا۔ آبخوروں کے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے اس کا کھلا ہوا منہ ایک آبخورہ ہی تو دکھائی دیتا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے گمان ہوا کہ نفاست حسن اسی شخص سے ملنے آیا ہے۔ گویا اپنے آپ سے، اپنے سندر نام سے انصاف کرنے آیا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد نفاست حسن نے اپنی کرخت آواز سے، جس سے ہمیشہ کی طرح خواہ مخواہ رندہ چلنے کا گمان ہوتا تھا، پکارا:
’’او میاں جُمّاں!- لاؤ تو سردار جی کو۔‘‘
میاں جُمّاں ایک جھاڑن سے بوتل صاف کر رہا تھا۔ دن کے وقت وہ اسی جھاڑن سے سڑک پر سے اڑ کر آنے والی گرد کو شیشوں میں پڑی ہوئی پیسٹری پر سے جھاڑا کرتا تھا، یا آبخوروں کے درمیان تنے ہوئے جالوں کو صاف کرتا رہتا تھا۔ کچھ دیر بعد جُمّاں نے وسکی کی ایک بوتل اور سوڈے کی دو بوتلیں میز پر لا رکھیں۔
سردار جی کی شخصیت سے واقف ہوتے دیر نہ لگی۔ مگر میں بدستور افسانوں کی دنیا میں گھوم رہا تھا۔ پھر میں نے بے محل ہی نفاست حسن سے پوچھا:-
’’آپ کے افسانے تو بہت جمع ہو چکے ہوں گے؟‘‘
اس وقت تک وہ سوڈا اور وسکی دونوں کو ملا چکا تھا۔ میں نے سردار جی سے متعارف ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے اس نے اور مولانا نے گلاس ٹکرائے اور اپنے اپنے منہ سے لگا لیے۔ ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارتے ہوئے نفاست حسن بولا:-
’’میں افسانے وغیرہ کبھی اکٹھے نہیں کرتا۔ میرے افسانے کبوتر کے بچّے ہیں۔ جنھیں میں لکھتا ہوں اور کہتا ہوں- او کبوتر کے بچّو! اڑ جاؤ اور وہ اڑ جاتے ہیں۔‘‘
اس تشبیہ کے انداز کی میں نے بہت تعریف کی۔ سچ پوچھو تو اس وقت میرے ذہن میں آئین سٹاین کا نظریۂ اضافیت نمایاں ہو گیا تھا۔ ہر چیز کو دوسری چیز سے نسبت ہے، افسانے کو کبوتر کے بچّے سے، فاحشہ عورت کی مسکراہٹ کو بدر رو میں پھٹتے ہوئے بلبلے سے، صبح کی پہلی کرن کو انگڑائی لیتی ہوئی دیوار سے، نفاست حسن کو چرخے سے۔۔۔
اس وقت میں سوچنے لگا کہ یہ تشبیہیں، نادر اور دور از کار تشبیہیں اس عظیم الشان ادیب کے دماغ میں پیدا کہاں سے ہوتی ہیں۔ پھر مجھے فوراً ہی خیال آیا، یہ تو ایک سیدھا سادہ سا عمل ہے خود نفاست حسن نے ایک بار مجھے بتلایا تھا کہ اسے قبض کی شکایت کبھی نہیں ہوتی۔ بعض مصنف تو سخت قبض میں مبتلا نظر آتے ہیں، بے چارے بہت زور لگا کر لکھتے ہیں۔ میں نے سوچا، اس لحاظ سے تو نفاست حسن ہر روز رات کو دودھ کے ساتھ اطریفل زمانی کھاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ پتھّر، بلبلے، رگھبیر، پہلوان، کتاب، میز، کرسی، قلم، دوات، ہر چیز پر لکھ کر ان کے مجموعوں کے نام دوڑو، بھاگو، روؤ، پیٹو رکھ سکتا ہے۔
مگر میں بہت دیر تک ان افسانوں کی دنیا میں نہ رہ سکا۔ اس وقت تک دونوں ادیب وسکی کی بوتل آدھی کے لگ بھگ ختم کر چکے تھے۔ معاً ان کے خیال میں قسم قسم کی شراب کو ملا کر پینے کی دھن سمائی۔ چنانچہ جُمّن میاں نے بہت سی بوتلوں سے ایک ایک پیگ انڈیلا، اور پھر سب کو وسکی میں انڈیل دیا۔ اس وقت مولانا شراب میں اپنے آپ کو کھو رہے تھے۔ شاید اُنھوں نے اسی لیے نفاست حسن کی ادبی جولانیوں کو سراہنا چاہا اور پیگ حلق سے نیچے اتارتے ہوئے انھوں نے نفاست حسن کو ایک تھپکی دی اور بولے:-
’’شاباش! برخوردار -لکھے جاؤ!‘‘
نفاست حسن جو سردارجی کے مکان کی فضا سے بہت مانوس تھا اور جو بغیر بوکھلائے بہت سے پیگ پی سکتا تھا، بولا:-
’’بس بس مولانا! یہی ایک بات ہے جو مجھے سرے سے ناپسند ہے۔ اس بیہودہ سرپرستی کی مجھے چنداں ضرورت نہیں، آپ کی مدح و ذم کی مجھے مطلق پروا نہیں۔ سمجھے آپ؟ اگر آپ نے میرے افسانے پڑھے تو اس سے میرا کچھ سنور نہیں گیا۔ اگر نہیں پڑھے تو کچھ بگڑا نہیں۔‘‘
مولانا کو اس بے جا گفتگو سے سخت حیرت ہوئی۔ اپنے میزبان کے کندھے تھپکتے ہوئے بولے ’’برخوردار! اگر تم افسانہ نگاری کے بجائے مٹّی کا تیل بھی بیچا کرتے تب بھی میرے دل میں تمھاری ایسی ہی عزّت ہوتی۔‘‘
یہ دونوں ادیب تو آپس میں سنجیدگی سے گفتگو کر رہے تھے۔ مگر میں اس ماحول میں بوکھلا سا گیا۔ پھر مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ ادیب میری طرح پرہیزگار ہیں اور شراب در اصل میں پی رہا ہوں۔
ایک اور پیگ حلق سے نیچے اتارنے کے بعد نفاست حسن نے پاپڑ کا ایک ٹکڑا منہ میں ڈالا اور کہا:-
’’مولانا! میں لکھنا چاہتا ہوں، بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ میری کبھی کسی چیز سے تسلّی نہیں ہوتی‘‘
اور ابھی نفاست حسن نے گفتگو ختم بھی نہ کی تھی کہ مجھے خیال آیا کہ تسلّی کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے افسانے تو کبوتر کے بچّے ہیں اور جب تک وہ کبوتر کے بچّے رہیں گے وہ پھرسے نفاست حسن کے پاس سے اڑ جائیں گے۔ آخر نفاست حسن نے کوئی چھتنارا بھی تو قائم نہیں کیا تاکہ بیچارے اسی پر کبھی کبھی آ کر بیٹھ جائیں۔ اور اپنے گزشتہ مالک کو دیکھ لیں۔ اب وہ بے شمار آوارہ روحوں کی طرح ایک لایعنی آسمان میں پر پھڑپھڑاتے پھر رہے ہیں۔
نفاست حسن اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بولا:-
’’بس ایک چیز لکھ لوں گا، ایک چیز، تو میری تسلّی ہو جائے گی۔ اس کے بعد میں مر بھی جاؤں تو بھی یہی سمجھوں گا کہ میں نے زندگی میں ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔‘‘
مولانا کے اور میرے حقیقی اور قیاسی نشے ہرن ہو گئے۔ ہماری دونوں کی توجّہ اس افسانے کا پلاٹ سننے کے لیے نفاست حسن کے پتلے اور نحیف چہرے کی طرف اٹھ گئی۔ نفاست حسن بولا:
’’میں ان دنوں بمبئی میں رہتا تھا۔ میرے مکان کا ایک دروازہ ایک غسل خانے میں کھلتا تھا۔ اس غسل خانے میں ایک درز تھی۔ بس اسی درز میں سے میں کنواری لڑکیوں کو نہاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ادھیڑ عمر کی اور بوڑھی عورتوں کو بھی۔ اس کے علاوہ نوجوان مرد بھی نہانے کے لیے آیا کرتے تھے اور جیسا آپ کو معلوم ہے انسان عام زندگی میں وہ حرکتیں نہیں کرتا جو غسل خانے میں کرتا ہے۔‘‘
میں اس بات کو سمجھ نہ سکا۔ لیکن میرے سامنے آئین سٹاین کا نظریۂ اضافیت تھا۔ اس لیے میں نے چنداں پروا نہ کی اور سنتا چلا گیا۔ نفاست حسن بولا:
’’بس ان غسل خانے میں نہانے والیوں اور نہانے والوں کے متعلق میں لکھ کر مر جاؤں تو مجھے کوئی افسوس نہ ہو گا۔ اس افسانے کا نام رکھوں گا- ’ایک درز میں سے!‘۔۔۔ اور مر جاؤں گا۔‘‘
مجھے نفاست حسن کی اِس حرکت پر بہت ہنسی آئی اور میرا جی چاہنے لگا کہ اگر میں اس کا تذکرہ لکھ کر مر جاؤں تو مجھے بھی زندگی میں کوئی حسرت نہ رہ جائے گی۔
مولانا، جو نفاست حسن کی ’’بے تکیوں‘‘ کو بڑے غور سے سن رہے تھے، کچھ نہ بولے۔ نہ جانے نفاست حسن کے دل میں خود ہی خیال آیا کہ اس نے مولانا کی ہتک کی ہے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ بوسہ کے لیے اس نے اپنا دایاں گال مولانا کے سامنے پیش کر دیا۔ مولانا نے تبرّکاً ایک بوسہ لے لیا۔ اس کے بعد نفاست حسن نے بایاں گال پیش کر دیا۔ مولانا کے نزدیک اب تبرّک کا مسئلہ نہیں رہا تھا۔ لیکن انھوں نے بوسہ لے لیا۔
میں ان کی باہمی لڑائی کا متوقّع تھا۔ لیکن اچانک مولانا نے اٹھ کر بڑے خلوص سے چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:-
’’دیکھو بھائی اب تم مانو گے۔ میں سومرسٹ مام ہوں۔‘‘
نفاست حسن نے اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:-
’’میں سومرسٹ مام ہوں۔‘‘
مولانا نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے:-
’’میں سومرسٹ مام ہوں۔‘‘
پھر نفاست حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے:-
’’تم سومرسٹ مام ہو- ہم دونوں سومرسٹ مام ہیں۔۔۔ جو ہے سومرسٹ مام ہے، جو نہیں ہے وہ بھی سومرسٹ مام ہے۔۔۔ سومرسٹ مام بھی سومرسٹ مام ہے!۔۔۔‘‘
٭٭٭
مندر والی گلی
رائے صاحب کا گھر مندر والی گلی میں نہیں بلکہ گنگا کے کنارے تھا۔ وہ گھر گنگا کے کنارے نہ ہوتا تو مجھے کمرے کی کھڑکیوں سے گنگا کے درشن کیسے ہوتے۔ اَب آپ پوچھیں گے یہ کب کی بات ہے۔
آرام سے بیٹھ کر سنیے۔ بہت خوشحالی کا زمانہ تھا۔ ایک پیسے میں تین سودے آ جاتے تھے۔ آٹھ دِن، نو میلے والی بات سمجھیے۔ ایک روپے کے پندرہ سیر باسمتی آ جاتی تھی۔ دو روپے کا سولہ سیر دُودھ۔ روپے کی چھ من لکڑی۔ روپے کا ایک مَن کوئلہ۔ چھ آنے گز لٹھّ۔ سات پیسے گز بڑھیا ململ اور یقین کیجیے دس روپے میں بہت بڑھیا ریشمیں ساڑی مِل جاتی تھی۔ چنانچہ رائے صاحب بولے ’’مزے سے رہیے۔ جب تک آپ کا دل بھر نہ جائے۔‘‘
گھر کے سامنے ایک پیپل کا درخت کھڑا تھا۔ جس نے سینکڑوں باہیں پھیلا رکھی تھیں۔ مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا تھا کہ گنگا نے اس پیپل سے وہی بات کہہ رکھی تھی۔ جو رائے صاحب نے اپنے مہمان سے۔ رائے صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ اِسے اُن کے پڑ دادا نے یہاں لگایا تھا۔ واقعی یہ پیپل بہت بوڑھا تھا اور اس کے تَنے پر اُس کی عمر کا حساب لکھا ہوا تھا۔
رائے صاحب کی عمر اُس وقت تیس پینتیس کے بیچ میں ہو گی۔ ذرا سی بات پر وہ دانت نکال کر ہنس پڑتے اور زور دے کر کہتے۔ ’’ آدمی کا مَن بھی تو ہر وقت پیپل کے پتّے کی طرح ڈولتا رہتا ہے۔‘‘ کبھی وہ یہ شکایت کرتے۔ ’’موسلادھار بَرکھا سے تو پیپل کی کھال اُترنے لگتی۔‘‘ کبھی کہتے۔ ’’یہی تو سنسار کی لِیلا ہے۔ رات بھر کی شبنم کو سورج کی پہلی کرنیں آ کر پی جاتی ہیں۔‘‘
میں اکثر مندر والی گلی میں گھومنے نکل جاتا، اور واپس آ کر کبھی رائے صاحب سے اُس کی تعریف کرتا تو وہ کہتے وہاں کیا رکھا ہے؟ آنے جانے والوں کے دھکّے تو ہمیں ناپسند ہیں۔ اور وہ بھی بھانت بھانت کے پنچھی مِلتے ہیں۔ بھانت بھانت کے چہرے بھانت بھانت کے لباس۔‘‘
’’اَب دُور دُور کے یاتری اپنا لباس کہاں چھوڑ آئیں، رائے صاحب؟‘‘ میں سنجیدہ ہو کر جواب دیتا۔ ’’اور اُن بے چاروں کے چہرے مہرے جیسے ہیں ویسے ہی تو رہیں گے۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ کسی نے بھان متی کا کنبہ دیکھنا ہو تو مندر والی گلی کا ایک چکر لگا آئے۔ وہاں جگہ جگہ کے لوگوں کو ایک ساتھ گھومتے دیکھ کر مجھے تو یہ شک ہونے لگتا ہے کہ یہ ایک ہی دیس کے لوگ ہیں۔‘‘
’’یہ تو ٹھیک ہے رائے صاحب!‘‘ میں بحث میں اُلجھ جاتا۔ ’’بنگالی، مہاراشٹری، گجراتی اور مدراسی الگ الگ ہیں تو الگ الگ ہی تو نظر آئیں گے۔ اپنا اپنا روپ اور رنگ ڈھنگ گھر میں چھوڑ کر تو تیرتھ یاترا پر آنے سے رہے۔‘‘
رائے صاحب کے ساتھ باتیں کرنے سے زیادہ لطف مجھے مندر والی گلی کے چھ سات چکّر لگانے میں آتا تھا۔ میرا تو یقین تھا کہ بنارس کی رونق مندر والی گلی سے ہے۔ اس میں میرا ذہن ماضی کی بھول بھُلیاں میں گھومنے لگتا اور میرے ذہن کی پرانی سنسکرت کہاوت گدگدانے لگتی۔ ’’جسے کہیں بھی ٹھور ٹھکانا نہ ہو اس کے لیے کاشی ہی آخری ٹھکانا ہے۔‘‘
مندر والی گلی میں پوجا کے سامان اور عورتوں کے سنگار میں کام آنے والی چیزوں کی دوکانیں ہی زیادہ تھیں۔ ’’سویرے سے چاول کا دانہ بھی مُنھ میں نہیں گیا۔ ’’بابو!‘‘ کہنے والے بھکاری قدم قدم پر یاتریوں کا دھیان کھینچتے تھے۔ وہاں ہر قسم کے یاتری چلتے پھرتے نظر آتے اور ہر عمر کے بھکاری رسیلی آنکھیں اور خوبصورت ہونٹ اور تھوڑی پر تِل روپ کی یہ جھلک یاتریوں اور بھکاریوں میں یکساں تعداد میں تلاش کی جا سکتی تھی۔ ایک پیسہ بابو!‘‘ کہہ کر بھیک مانگنے والی جانتی تھی کہ ایک پیسہ میں تین سودے آ جاتے ہیں۔ اور بھِکارن کا یہ تجربہ بھی جیسے مندر والی گلی کا ایک اہم تجربہ ہو۔ گپیں ہانکنے میں یاتری اور بھکاری برابر تھے۔ پُوجا کے پھول اور ہاتھی دانت کی کنگھیاں بیچنے والے دوکاندار گاہک سے ایک دو پیسے زیادہ وصول کرنے کے ڈھنگ سوچتے رہتے۔ یوں معلوم ہوتا کہ مندر والی گلی کی آنکھوں میں تشکّر بھی ہے۔ اور لاپروائی بھی۔
یاتریوں کے کسی کنبے کی کوئی نوجوان لڑکی اپنی دو چوٹیوں میں سے ایک کو آگے لے آتی یا جسم سُکیڑ کر چلتی یا انگڑائی کے انداز میں محراب سی بنا ڈالتی۔ تو یہ منظر دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا کہ مندر والی گلی کی آپ بیتی میں یہ تفصیل بھی بڑے خوبصورت انداز میں درج ہو گئی۔ اسی طرح کوئی بھکارن نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر کسی بھاگوان یاتری عورت کا سنگار دیکھتی رہ جاتی اور پھر اپنی میلی کچیلی ساڑی کے باوجود سینہ تان کر کسی دُکان کے آئینہ میں اپنا روپ دیکھ کر مُسکرا اُٹھتی تو یہ بات بھی مندر والی گلی کی داستان میں قلمبند ہو جاتی۔
یہ سب باتیں میں رائے صاحب کو سُناتا اور وہ کہتے۔ ’’چوکھٹا مندر والی گلی کا ہے اور تصویر آپ کے من کی۔ ہم کیا بول سکتے ہیں؟ یہ تو کیمرے کی آنکھ نے نہیں، آپ کے دماغ کی آنکھ نے دیکھا۔‘‘
رائے صاحب کی بہت جائیداد تھی۔ سیاہ پتھر کے کھرل میں وہ ہاضمے کی گولیاں بنانے کی دَوا بڑا شوق سے بیٹھے گھونٹتے رہے۔ اس دوا کا نسخہ اُن کے پڑ دادا چھوڑ گئے تھے اور تاکید کر گئے تھے کہ اِن کی طرف سے ہاضمے کی گولیاں مندر والی گلی میں یاتریوں کو مفت تقسیم کی جایا کریں۔ اُن کے پڑ دادا نے یہ وصیت بھی کر رکھی تھی کہ کھرل میں دَوا گھونٹنے کا کام نوکروں سے ہرگز نہ کرایا جائے۔ اس میں شُدھ گنگا جل پڑتا تھا اور گنگا گھاٹ کی کائی بھی ایک خاص مقدار میں ڈالتے تھے۔
یہ کام کرتے وقت رائے صاحب سیاہ پتھر کے اس کھرل کی کہانی سنانے لگتے۔ اِسے اِن کے پڑ دادا جگن ناتھ پوری سے لائے تھے۔‘‘ جس کاریگر نے یہ کھرل بنایا تھا، اُس نے چار دھام کی یاترا کر رکھی تھی۔ اور رائے صاحب کے پڑ دادا سے اُس کی پہلی ملاقات بنارس کی اِس مندر والی گلی میں ہی ہوئی تھی۔
شادی شدہ زندگی کے سات برس گذارنے کے بعد رائے صاحب کے ایک بیٹا ہوا۔ اس کا نام اُنھوں نے رُوپم رکھا۔
پنجوں کے بَل چلنے والا روپم میرے ساتھ خوب ہِل مِل گیا۔ وہ مجھے دُور سے ہی پہچان لیتا۔ واقعی روپم بہت ہنس مُکھ تھا۔ میں اُسے اُٹھا لیتا اور اُس کے ہاتھ میری عینک کی طرف اُٹھ جاتے۔ رائے صاحب کہتے۔ ’’بیٹا! اِن کی عینک ٹوٹ گئی تو پیسے ہمیں ہی بھرنے پڑیں گے۔‘‘
مجھے محسوس ہوتا کہ پیپل کے درخت نے رائے صاحب کا یہ مذاق بھی اِسی طرح نوٹ کر لیا جیسے مندر والی گلی یاتریوں، دوکانداروں اور بھکاریوں کی داستان قلم بند کرتی رہتی تھی۔
رائے صاحب ہنس کر کہتے۔ ’’روپم کو بھی اِسی طرح اپنے ہاتھ سے سیاہ پتھر کے اِس کھرل میں ہاضمہ کی گولیوں کی یہ دوا گھوٹنی پڑا کرے گی۔ بڑوں کی ریت کو وہ چھوڑ تھوڑی دے گا۔‘‘ اور وہ ہاتھ اُٹھا کر پیپل کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے دِل ہی دِل میں کسی منتر کا جاپ کرنے لگتے۔ جیسے پیپل سے کہہ رہے ہوں۔ تم تو تب بھی ہو گے پیپل دیوتا جب ہم نہیں ہوں گے، دیکھنا ہمارے روپم کو سمجھاتے رہنا کہ خاندان کی رِیت کو چھوڑے نہیں۔
کبھی کبھی دوا گھونٹتے ہوئے رائے صاحب یہ بول اَلاپتے۔
ایک ماس میں گرہن جو دوئی
تو ہی انّ مہنگو ہوئی
میں ہنس کر کہتا۔ ’’آپ کو کیا پَروا ہے، رائے صاحب! بھلے ہی ایک مہینے میں دو گرہن لگنے سے اَن مہنگا ہو جائے۔ آپ کے بزرگ جو جائیداد چھوڑ گئے اِس پر چار روز کی مہنگائی بھلا کیا اَثر کرے گی؟‘‘
’’بات تو ساری دنیا کی ہے۔ اپنی ڈھائی اینٹ کی الگ مسجد کا قصّہ تھوڑی ہی ہے۔‘‘ رائے صاحب کی آنکھیں چمک اُٹھتیں۔ اور وہ دونوں بازو کھرل سے اُٹھا کر پیپل کی طرف دیکھنے لگتے، جیسے اُسے بھی اپنے جذبات میں شریک کرنا چاہتے ہوں۔
کبھی وہ سونا اُگلنے والی زمین کا قصّہ لے بیٹھتے تو کبھی کیسرکستوری کا بکھان کرنے لگتے، جن کی سُگندھ اُنھیں بیحد اچھی لگتی تھی۔ زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا ہی اُنھیں زیادہ پسند تھا۔ دھوپ میں چمکتا ہوا گنگا جَل اُن کے تخیل کو ہمالہ کی طرف موڑ دیتا۔ جہاں سے گنگا نکلتی تھی، وہ گنگا کی تعریف کرتے۔ جو بنارس پر خاص طور پر مہربان تھی۔ گنگا کے پکّے سیڑھیوں والے گھاٹ نہ جانے کتنے پُرانے تھے، کیا مجال گنگا اُنھیں بہا کر لے جائے۔ حالانکہ وہ چاہتی تو اُس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ گنگا کو غصّہ آ جاتا تو وہ سارے بنارس کو زندہ نگل سکتی تھی۔
یہ سب گنگا میّا کی دَیا درشٹی ہے کہ وہ ہمیں کچھ نہیں کہتی۔‘‘ رائے صاحب کھرل میں دوا گھونٹتے ہوئے پُرانا بول سناتے:
رانڈ، سانڈ، سیڑھی، سنیاسی
ان سے بچے تو سو دے کاشی
پھر رائے صاحب کی نظر میری طرف سے ہٹ کر جیسے پیپل کے پتّے گننے لگتیں۔
میں کہتا۔ ’’نہ پیپل کے پتّے گنے جا سکتے ہیں رائے صاحب نہ گنگا کی لہریں!‘‘
’’ماں کا دودھ پیتے وقت روپم کا منہ سیپی سا بن جاتا ہے۔‘‘ رائے صاحب موضوع بدل کر کہتے۔ ’’دیکھیے روپم اتنا لاڈلا کیسے نہ ہو۔ جب وہ سات برس کے انتظار کے بعد پیدا ہوا۔ میں اکثر اپنی شریمتی سے کہتا ہوں۔ دیکھو بھئی۔ روپم کو جلد اپنا دودھ چھڑانے کا جتن نہ کرنا!‘‘ اور پھر تو وہ گویا ماں کے دودھ پر ویاکھیان شروع کر دیتے اور نہ جانے کِس کِس شاستر سے حوالے ڈھونڈ کر لاتے۔
روپم کی جنم پتری کی بات چھڑنے پر رائے صاحب کہتے۔ ’’سب ٹھیک ٹھاک رہا۔ اس سمے۔ نہ آندھی آئی۔ نہ گرہن لگا۔ سمے آنے پر وہ دنیا میں اپنا لوہا منوا کے رہے گا۔‘‘ کہتے کہتے وہ ایک دم جذباتی ہو جاتے۔‘‘ بُڑا ہونے پر روپم کو میں ایک ہی نصیحت کروں گا۔ کہ جس ہانڈی میں کھائے اُسی میں چھید نہ کرے۔‘‘
میں کہتا۔ ’’چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رائے صاحب!‘‘
رائے صاحب بیٹھے بیٹھے کسی راگ کا اَلاپ شروع کر دیتے اور پھر بتاتے ’’راگ کوئی بھی بُرا نہیں ہوتا، ہر راگ کی اپنی خوبیاں ہیں۔ گانے والے کا کمال اِس میں ہے کہ وہ فضا پیدا کر دے۔‘‘
اَب یہ میرا کمال تھا کہ میں جب چاہتا بات کا رُخ مندر والی گلی کی طرف موڑ کر مندر کی فضا پیدا کر دیتا۔ کبھی میں کہتا۔ ’’ایک بات ہے۔ رائے صاحب مندر والی گلی میں جب میں کسی کو ٹانگیں اکڑا چلتے دیکھتا ہوں تو میرا دماغ اُس شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کیے بِنا نہیں رہتا کہ وہ بے سوچ اور سخت شخصیت کا مالک ہے۔‘‘ کبھی میں کہتا۔ ’’رائے صاحب، مندر والی گلی کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب وہاں کوئی عورت ایڑی پر زور دے کر پانو گھسیٹ کر چلتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ اُسے تغیر بالکل ناپسند ہے اور موقعوں سے لابھ اُٹھانے کی بات سوچتے ہوئے اُسے ہمیشہ ایک جھجک سی رہتی ہے۔‘‘
رائے صاحب کہتے۔ ’’اَب یہ بات تو اور جگہ بھی سچ ہو گی، ایک مندر والی گلی میں ہی تو نہیں۔‘‘
میں اپنی ہی دھُن میں کہتا۔ ’’مندر والی گلی میں چکّر کاٹتے ہوئے میرے مطالعے میں یہ بات بھی آئی ہے رائے صاحب کسی کی لڑکھڑاتی چال صاف پتہ دیتی ہے کہ اس بیچارے میں قوتِ ارادی کی ایک دم کمی ہے۔‘‘
میں بار بار رٹ لگاتا۔ ’’مندر والی گلی نے ہی مجھے سکھایا کہ ایک کھلی ہوئی مسکراہٹ کے پیچھے قوت اور خلوص کا ہاتھ رہتا ہے، اور رائے صاحب مندر والی گلی میں پوجا یا سنگھار کا سامان خریدنے والوں کے بیچ جب بھی میں نے کسی ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ قسم کے شخص کو دوسروں کی گفتگو میں بیکار کی دخل اندازی کرنے کا عادی پایا تو میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ اس شخص کو اپنے اوپر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔‘‘
رائے صاحب شہرت کے بھوکے تھے نہ دولت کے۔ بڑی تیزی سے بات کرتے تھے اور اپنے نظریے پر ڈٹے رہتے۔ گنگا کی عظمت کے وہ قائل تھے اور بنارس کی تاریخ میں سب سے زیادہ گنگا کا ہاتھ دیکھتے تھے، گنگا کی تعریف میں رائے صاحب شلوک پر شلوک سنانے لگتے، جیسے کوئی درزی دوپٹے پر گوٹے کی مغزی لگا رہا ہو۔
رائے صاحب کے گھر مہمان بنے مجھے تین ہفتے سے اُوپر ہو گئے تھے۔ میرے لیے یہ بات کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ میں رائے صاحب کا مہمان ہوں۔ کیونکہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا تو اُن کا مہمان نہیں ہو سکتا تھا، واقعی رائے صاحب کی مہمان نوازی کے قدم زندگی کے خلوص میں گڑے ہوئے تھے۔
ایک روز جب مجھے رائے صاحب کے یہاں رہتے ہوئے سوا مہینہ ہو گیا تھا، رائے صاحب سویرے سویرے میرے کمرے میں آئے۔
میں نے دیکھا۔ اُن کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔
’’کیا بات ہے۔ رائے صاحب!‘‘ میں نے پوچھا۔
رائے صاحب نے آج پہلی بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’بات ایسی ہے کہ بولنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
’’پھر بھی بتانا تو ہو گا۔‘‘
’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ آپ یہیں رہیے۔ اپنے مہمان سے بھلا میں یہ بات کہہ سکتا ہوں؟‘‘
’’میں سمجھ گیا، رائے صاحب! مجھے یہاں رہتے سوا مہینہ ہو گیا۔ یہ بہت ہے۔ اب واقعی مجھے چلا جانا چاہیے۔‘‘
رائے صاحب میرے سامنے کھڑے کھڑے کبوتر کی طرح پھڑپھڑائے۔ اُن کی آنکھوں میں بے حد ہمدردی تھی۔ لیکن اُن کے چہرے پر بے بسی کے آثار صاف دِکھائی دے رہے تھے۔
مجھے یاد آیا کہ اُس سے پہلے دن دوپہر کے وقت جب میں روپم سے کھیل رہا تھا۔ روپم کی ماں نے نوکرانی کو بھیج کر روپم کو منگوا بھیجا تھا۔
میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ ’’روپم کے ماتا جی کو میرے یہاں رہنے سے کشٹ ہوتا ہے تو مجھے واقعی یہاں سے چلا جانا چاہیے۔‘‘
نہیں نہیں۔ ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ یہ میرا دھرم نہیں۔ کہ مہمان چلا جائے۔ اپنا کام پورا کیے بِنا۔ ویسے اگر آپ کچھ دن کے لیے ہمارے مندر والی گلی کے مکان میں چلے جاتے تو ٹھیک تھا۔
’’میرا تو کوئی خاص کام نہیں۔ مندر والی گلی کو بھی بہت دیکھ لیا۔ اَب واقعی مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہیے۔‘‘
’’ہم آپ کے رہنے کا انتظام کل سے مندر والی گلی میں کر دیتے ہیں کل سے آپ مان جائیے۔ وہاں بھی ہمارا اپنا مکان ہے اور اس کی تیسری منزل پر ایک کمرہ آپ کے لیے خالی کرایا جا چکا ہے۔‘‘
’’نہیں میں وہاں جا کر نہیں رہوں گا۔ آپ یقین کیجیے۔ میری طبیعت تو بنارس سے بھر گئی ہے، اَب تو میں ایک دن بھی نہیں رُک سکتا۔‘‘
’’نہیں آپ کو رُکنا پڑے گا۔‘‘
رائے صاحب بار بار ہونٹوں پر زبان پھیر کر اُن کی خشکی کو چاٹنے لگتے۔ وہ بولے۔ ’’آپ چلے گئے تو ہمیں گنگا میّا کا شراپ لگے گا۔‘‘
’’گنگا میّا کے شراپ کی تو اس میں کوئی بات نہیں رائے صاحب! یہ تو ہماری آپ کی بات ہے۔‘‘
رائے صاحب ہنس کر بولے۔ ’’معاف کیجیے! شاید آپ مجھے دبُّو ٹائپ کا پتی دیو سمجھ رہے ہوں گے۔ جسے انگریزی محاورے میں مرغی زدہ خاوند کہتے ہیں۔‘‘
’’مجھے یہ بات ذرا بھی بُری نہیں لگی۔ رائے صاحب! میرے اوپر آپ کا احسان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر چیز اتنی سستی ہے کہ ایک پیسے کے تین سودے آ جاتے ہیں۔‘‘
ہاں تو آرام سے بیٹھ کر سُنیے۔ پورے پچیس برس بعد مجھے دوبارہ بنارس جانے کا موقع ملا اور اب بہت مہنگائی کا زمانہ تھا۔ کہاں ایک روپے کی پندرہ سیر باسمتی اور کہاں سوا روپے سیر۔ کہاں دو روپے من گیہوں اور کہاں سولہ روپے من۔ روپے کی پانچ سیر چینی کی بجائے پندرہ آنے سیر۔ روپے کا سولہ سیر دودھ کی بجائے بارہ آنے سیر۔ کہاں روپے کی چھ من لکڑی۔ کہاں ساڑھے تین روپے مَن۔ کہاں روپے کا ایک من کوئلہ۔ کہاں آٹھ روپے مَن۔ کہاں چھ آنے گز لٹھ۔ کہاں ڈیڑھ روپے گز۔ کہاں سات پیسے گز بڑھیا ململ۔ کہاں دو روپے گز۔ کہاں دس پندرہ روپے کی بڑھیا ریشمیں ساڑھی۔ کہاں سو سوا سو روپے کی۔ یہ مہنگائی جیسے آزادی کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ آج میں ایک ادبی بلاوے پر بنارس گیا تھا۔ پہلا گھر مجھے یاد تھا۔ جہاں میں پچیس برس پہلے ٹھہرا تھا۔
میں پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچا۔ تو دیکھا کہ وہاں نہ وہ گھر ہے نہ وہ پیپل کا پیڑ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ گھر اور پیپل تو بہت برس پہلے گنگا میں بہہ گئے۔
میرے دل و دماغ میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
رائے صاحب اَب دوسری جگہ چلے گئے تھے۔ اُن کے پُرانے پڑوسی سے اُن کا پتہ چلتے دیر نہ لگی۔ میں وہاں پہنچا تو رائے صاحب بہت تپاک سے ملے۔
پتہ چلا کہ روپم کا بیاہ ہوئے ساڑھے تین برس ہونے کو آئے۔ اَب تو روپم کا دو برس کا بیٹا ہے۔ ’’دیکھیے ہم پوتے والے ہو گئے۔‘‘ رائے صاحب ہنس کر بولے۔
رائے صاحب مجھے کھانا کھلائے بغیر نہ مانے۔ اُن کے چہرہ پر انسانیت کا جوہر صاف دِکھائی دے رہا تھا۔
پُرانے گھر کی بات چلی تو رائے صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’اُسے تو گنگا میّا لے گئی۔ اور ہمارے پڑ دادا کا لگایا ہوا پیپل بھی گنگا میں بہہ گیا۔‘‘
میں اُٹھنے لگا۔ تو رائے صاحب بولے۔ ’’اَب تو پچیس برس پرانی یاد ایسے ہے جیسے کسی کھنڈر کی دیوار، جس کا پورے کا پورا پلستر جھڑ گیا ہو۔‘‘
’’مجھے تو آپ کی مہمان نوازی میں ابھی تک نئے پن کی خوشبو آ رہی ہے۔ رائے صاحب!‘‘
’’ارے بھئی چھوڑو۔ موسم کی طرح حالات بھی بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ رائے صاحب نے ترش آواز میں کہا۔
میں نے کہا۔ ’’یاد ہے نا رائے صاحب۔ اُن دِنوں ایک پیسے کے تین سودے آ جاتے تھے۔‘‘
جب میں چلا تو رائے صاحب نے روپم کا پتہ لکھوا دیا۔ جو ان دِنوں مندر والی گلی میں رہتا تھا۔ ’’لیجیے روپم کے نام چٹھی لکھ کر سارا حال بتا دوں اُسے۔ نہیں تو وہ کیسے جانے گا کہ وہ آپ کی گود میں کھیل چکا ہے۔‘‘ رائے صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’دیکھیے! میں نے چودہ سطروں میں ساری بات لکھ ڈالی۔‘‘
میں مندر والی گلی میں پہنچا۔ تو یوں محسوس ہوا کہ مہنگائی کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا۔ اور وہ سنسکرت کہاوت پھر سے میرے ذہن کو گدگدانے لگی ’’جسے کہیں بھی ٹھکانا نہ ملے اسے کاشی ہی آخر ٹھورے!‘‘
روپم رائے صاحب کی چٹھی پڑھ کر اپنی بیوی کو بلا لایا اور ماں کی گود سے نکل کر ننھا شِوم جھٹ میرے پاس چلا آیا۔
روپم بولا آپ تو مندر والی گلی کے پُرانے پریمی ہیں نا۔ دیکھیے! ’’یہی وہ کمرہ ہے، جہاں پچیس برس پہلے پِتا جی آپ کو ٹھہرانا چاہتے تھے۔ پِتا جی نے لکھا ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ماتا جی آپ کو ہمارے گنگا گھاٹ والے گھر میں رکھ کر خوش نہیں ہیں۔ اُنھوں نے تو آپ کا مندر والی گلی کے ساتھ گہرا پریم دیکھ کر ہی یہ چاہا تھا کہ آپ کچھ دِن اس گلی میں آ کر بھی رہ جائیں۔‘‘
چھوڑو وہ پرانی بات ہے۔ ’’میں نے مسکرا کر بات ٹال دی۔ اس سے بھی کہیں زیادہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تب مجھے ننھا روپم ملا تھا اَب ننھا شِوم۔‘‘
شِوم کے ہاتھ میں وِشو ناتھ مندر کا لکڑی کا چھوٹا سا ماڈل تھا جسے وہ ہوا میں اُچھال رہا تھا۔
گھر کی بالکونی میں کھڑے کھڑے میں ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں شِوم اپنا لکڑی کا کھلونا نیچے مندر والی گلی میں نہ گِرا دے۔ ننھے شِوم کی ماں نے جلدی جلدی اپنے سسر کا خط پڑھا اور سر پر بنارسی ساڑھی ٹھیک کرتے ہوئے وہ بولی۔ ’’اب دیکھیے! ہم آپ کو یہاں سے جلدی جانے نہیں دیں گے جو غلط فہمی آپ کو روپم کے ماتا جی کے بارے میں ہوئی وہ شِوم کے ماتا جی کے بارے میں تو نہیں ہو سکتی۔‘‘
مندر والی گلی میں ایسے ہی اُتّر، دکھّن اور پُورب، پچھم کا سنگم ہو رہا تھا۔ جیسے مندر والی گلی بھی کسی گنگا میّا کی طرح پکار رہی ہو۔ آؤ یاتری! میری نئی پرانی لہرو میں اُترو!‘‘
٭٭٭
لا وارث
کُوچ بہار کے پلیٹ فارم پر گاڑی ایک چیخ کے ساتھ رُک گئی اور پریؔ توش کھڑکی کے راستے جھٹ ایک ڈبے میں گھُس گیا۔ نیچے سے سانیال اور بوسؔ سب سامان اُسے تھماتے چلے گئے اور بار بار تاکید کرتے رہے کہ وہ ایک پوری سیٹ پر قبضہ جما لے۔
سانیالؔ ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا: ’’پری توش ہمارا بھائی ہے۔ وہ ناراض نہیں ہو سکتا۔‘‘ بوسؔ یونہی مسکرا رہا تھا۔ اور پری توش ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔
پرے ڈبّے میں دھکا پیل ہو رہی تھی۔ باہر کا دروازہ بند کر لیا گیا تھا۔ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے پلیٹ فارم پر کھڑے اندر والوں کی مِنت سماجت کیے جا رہے تھے اب باہر والوں کو اندر آنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔
سامنے کی سیٹ پر پُرانے چیتھڑوں میں لپٹی سِمٹی ایک زندہ لاش نظر آ رہی تھی جس کے چہرے پر ایسی مُردنی ٹپکتی تھی کہ ہر دیکھنے والے کو خواہ مخواہ گھن آنے لگتی اور وہ سوچتا رہ جاتا کہ در اصل اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔ اس زندہ لاش کے پاؤں کی طرف ایک زرد چہرے والا انسان اُکڑوں بیٹھا نہ جانے کس سوچ میں کھویا ہوا تھا۔
اُدھر ایک کونے میں سفید دھوتی اور قمیص پہنے ہوئے ایک بھاری بھرکم شخص بڑی بے تکلفی سے سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لگا رہا تھا۔ اُس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی پنشن یافتہ ہے۔ وہ اپنے سگریٹ کیس کو کبھی کبھی یوں ہاتھوں میں اُچھالنے لگ جاتا جیسے وہ بیڑیوں اور سستے سگریٹوں کے دھوئیں میں لپٹی ہوئی فضا سے چڑ کر اب مہنگے تمباکو کی تعریف میں ایک زور دار تقریر کیا چاہتا ہو۔ پھر اُس کے چہرے پر ایک تلخی نمودار ہوئی جس کا تعلق اُس قحط سے تھا جو بنگال کا گلا گھونٹ رہا تھا۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اُس قحط نے امیروں کو بھی کچھ کم تنگ نہیں کیا۔ میں ہمیشہ پانچ سو پچپن کے سگریٹ پسند کرتا تھا اور اب کونڈر سے ہی کام چلا رہا ہوں۔
ڈبے میں ایک طرف فوجی جمے بیٹھے تھے۔ وہ اپنے قہقہوں سے اس فضا میں کچھ عجیب سی بے معنی رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پری توش نے سوچا کہ پاس کے سپاہی سے آسام کے محاذ کے حالات دریافت کرے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ کچھ سوچ کر چُپ ہو گیا۔
سانیال اور بوس نے بھی اپنا اپنا سگریٹ سُلگایا۔ لیکن بار بار جب اُن کی نگاہیں اُس زندہ لاش کی طرف اُٹھتیں تو اُنھیں ایسا محسوس ہونے لگتا کہ سگریٹ میں تمباکو کی جگہ گوبر بھرا پڑا ہے۔ سانیال نے بوس کی طرف دیکھتے ہوئے ایک کھوکھلا سا قہقہہ لگایا جیسے کہہ رہا ہو، آؤ سگریٹ باہر پھینک دیں اور اِس سِکھ سپاہی کو یہی سمجھنے کا موقع دیں کہ ہمیں اُس کے مذہبی جذبات کا احترام منظور ہے۔ لیکن بوس بے جان بُت کی طرح بیٹھا رہا۔ جیسے تیسے وہ زہر مار کرتے گئے۔ ایسے ماحول میں سگریٹ کے بغیر تو چارہ نہ تھا۔
پھر پری توش کی طرف دیکھتے ہوئے بوس کے چہرے پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ تھرک اُٹھی۔ سانیال بولا: ’’پری توش کو شاعر کس کمبخت نے بنایا تھا؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ سگریٹ پیے بغیر وہ کیسے گیت لکھ لیتا ہے۔‘‘
بائیں طرف سے ایک آواز آنے پر کہ ہم تباہ ہو گئے ہیں، بوس نے زور کا کش لگاتے ہوئے کہا: ’’پری توش، اُدھر بھی تمھارا ایک بھائی بیٹھا ہے۔ عجیب بکواس ہے۔ آخر تم لوگوں سے کوئی پوچھے کہ بتاؤ تم کیوں تباہ ہو گئے۔ اُدھر تو تم دھیان ہی نہ دو گے یونہی خواہ مخواہ چلّاتے رہو گے۔‘‘
پری توش اس کے جواب میں اونچی آواز سے اخبار پڑھنے لگا — کلکتے میں ایک ہفتے میں ایک ہزار سے اوپر موتیں ہوئیں۔
سانیال نے بیچ سے ٹوکتے ہوئے کہا: ’’مر گئے سو مر گئے تم کیوں اُن کا رونا روتے ہو؟‘‘
بوس نے پری توش کے ہاتھ سے اخبار چھین کر کہا: ’’بنگال میں لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی ہیں۔‘‘
بیمار نے اپنے زرد چہرے والے ساتھی کی طرف اپنا مریل ہاتھ اُٹھایا۔ لیکن اُس کے اپنے سینے پر گر گیا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا، مجھے مکھّیاں دِق کر رہی ہیں اور تم انھیں اُڑا بھی نہیں سکتے۔ سب لوگوں کی نگاہیں اُس کی طرف اُٹھ گئیں۔ سب حیران تھے کہ ابھی تک یہ لاش کس طرح زندہ رہنے کی کوشش کیے جاتی ہے۔ اُس کے چہرے پر میل کی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اُس کے بال کسی زمانے میں اپنے گھونگھروؤں پر ناز کرتے ہوں گے۔ لیکن اب تو اُن سے بڑی بھیانک سی بُو آ رہی تھی۔ شاید یہ بیمار اپنے گاؤں میں پہنچ کر مرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اب بھی کہاں زندہ تھا۔ لاش ہی تو تھا۔ اُس نے پھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ جیسے وہ بد قسمت انسان یہ کہنا چاہتا ہو- مجھے لاشوں میں کیوں شمار کرتے ہو۔ میں زندہ ہوں۔ میں زندہ رہوں گا۔
سانیال کہہ رہا تھا: ’’پری توش کے گیت ایک دن سارے دیس میں گونج اُٹھیں گے۔‘‘
بوس بولا: ’’مجھے پری توش کا وہ گیت بیحد پسند ہے۔ پھر جاگے گا بنگال۔‘‘
سب یہی سوچ رہے تھے کہ جانے گاڑی کب چھُوٹے گی۔ سب کے حلق خشک ہو رہے تھے۔ لعاب نگلنے کو بھی کسی کا جی نہ چاہتا تھا۔ ڈبّے کی گھُٹی گھُٹی سی فضا اور اُس پر اس زندہ لاش کی سڑانڈ نے بُری طرح ناک میں دم کر رکھا تھا اور ہر کوئی یہی محسوس کر رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں اُسے متلی ہونے لگے گی۔
پری توش نے سوچا سب خوشبوئیں بنتی جا رہی ہیں اور زندگی کو قے پہ قے آ رہی ہے۔ یقیناً میرے گیت اِس دُکھ درد کا مداوا نہیں کر سکتے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ سنگترے والے کو آواز دیتا۔ بنگال مر رہا ہو اور وہ گاڑی میں بیٹھا مزے سے سنگترے کھائے، اُسے کسی بھی صورت منظور نہ تھا۔ آج ریفریشمنٹ روم میں سانیال اور بوس پورا کیک ختم کر گئے تھے۔ لیکن اُس نے تو ایک کپ چائے تک قبول نہ کیا تھا۔ اب پلیٹ فارم سے آتی ہوئی خوانچہ والوں کی صدائیں اُس کے دماغ پر بُری طرح ہتھوڑے چلا رہی تھیں۔
سِکھ سپاہی اپنی پگڑی پر ہاتھ پھیرتا ہوا آس پاس کے لوگوں کا خیال اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ کہہ اُٹھا۔ ’’ہم لوگوں کو سب سے زیادہ دو پھول والے تنگ کرتے ہیں۔‘‘
سانیال اور بوس چونک کر بولے۔ ’’اجی یہ دو پھول والے کیا بلا ہیں؟‘‘
اُس وقت سِکھ سپاہی سانیال اور بوس سے زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے عجیب آدمی ہیں جنھیں زندہ جسم سے بھی مُردہ گوشت کی سڑانڈ آتی ہے۔ ہمیں تو کبھی مہینے مہینے کے مرے ہوئے جسموں سے بھی ایسی بدبُو نہیں آتی۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ آخر وہ اُس کی بات میں دلچسپی دِکھا رہے ہیں وہ کہہ اُٹھا: ’’یہ لوگ جو بی۔ اے، ایم۔ اے پاس کر کے اپنے کوٹ پر دو پھول لگا لیتے ہیں اور فوج میں بھرتی ہو کر ’’لفٹن‘‘ بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ بندوق اُٹھانا بھی نہیں جانتے۔ وہ صرف قلم اور حکم چلانا جانتے ہیں۔‘‘
پری توش نے سوچا، کیا خوب قلم اور حُکم یعنی دو پھول۔ اُسے خیال آیا کہ اِس سپاہی سے پوچھے آسامیوں کو اُس نے کیسا پایا اور کیا آسام میں بھی کسی شاعر سے اُس کی ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ سوچ کر کہ دو پھول والوں نے اُسے کب یہ اجازت دی ہو گی کہ وہ محاذ کے کام سے فرصت کی گھڑیوں میں آسامیوں سے میل جول بڑھائے، وہ چُپ بیٹھا رہا۔
بیمار کے چہرے پر مکھّیاں بدستور بھنبھنا رہی تھیں جنھیں وہ کمزور ہاتھوں سے اُڑانے کی ناکام کوشش کیے جاتا تھا۔ اُس کا ساتھی جانے کس سوچ میں گُم سُم بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
پری توش نے سوچا کہ سانیال اور بوس بھی تو دو پھول والے ہیں اور بی۔ اے، ایم۔ اے پاس کرنے کے سبب تو میں بھی دو پھول والا کہلا سکتا ہوں۔ لیکن میرا تو محض قلم چلتا ہے۔ اُن کے حکم نے میرے قلم کو خرید لیا ہے۔ میرے گیت اب اُن کی جائداد ہیں۔ چاہے میں پنجرے میں نئے پھنسے ہوئے پنچھی کی طرح لاکھ پھڑپھڑاؤں اِس سے اب کیا حاصل؟
بیمار نے پھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ مکھّیاں بدستور بھنبھنا رہی تھیں۔ اب جیسے کوئی اُس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ سب نے مُنھ پھیر لیا تھا۔ لیکن پری توش اور سِکھ سپاہی کی نگاہیں بار بار بیمار کی طرف اُٹھ جاتیں۔ وہ اُس کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ پری توش نے سوچا یہ سپاہی تو اِتنا بھی کر سکتا ہے کہ اب چھُٹی پر گھر جانے کی بجائے اس بیمار کو گاڑی سے اُتار کر کسی ہسپتال میں لے جائے اور جب تک یہ اچھا نہیں ہو جاتا اپنی چھُٹی میں اضافہ کرتا رہے۔ لیکن میں تو اِتنا بھی نہیں کر سکتا۔
سانیال نے بیمار کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’اِس اُمس میں ہم مرے جا رہے ہیں اور ابھی نہ جانے یہ گاڑی کب تک رُکی رہے گی۔‘‘ در اصل اُس کا اُمس سے اِتنا بُرا حال نہیں ہو رہا تھا جتنا کہ اُس زندہ لاش کی موجودگی سے۔ وہ چاہتا تھا کہ اگر کچھ اور نہیں ہو سکتا تو یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ اُسے سامنے کی سیٹ سے اُٹھوا دیا جائے۔
اُمس سے بچنے کے لیے بھاری بھرکم پنشن یافتہ ایک مصوّر رسالے سے اپنے مُنھ پر پنکھا کرنے لگا۔ اُس نے رسالے کو اُلٹا پکڑ رکھا تھا۔ پری توش نے محسوس کیا کہ یہ آدمی دو پھول والوں کا بھی دو پھول والا ہے اور اُس نے اس رسالے کو نہیں بلکہ بنگال کو اُلٹا پکڑ رکھا ہے۔
سانیال بولا: ’’بوس کیا کوئی ایسا قانون نہیں بنا جس کی رُو سے غلیظ بیماروں کو گاڑی میں سفر کرنے سے روکا جا سکے۔۔۔‘‘ وہ کچھ اور بھی کہتا مگر یکایک گاڑی کے چل پڑنے سے اُس کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔
سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ بیمار نے بھی اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ مکھّیاں کچھ دیر کے لیے اُس کے مُنھ سے اُڑ گئیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر اُس کے مُنھ پر بھنبھنانے لگیں شاید وہ موت موت کی رٹ لگا رہی تھیں۔ لیکن بیمار ابھی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ ابھی تو اُس کا خیال تھا کہ اُس کا خون کافی گرم ہے اور اُس کی ہڈیّاں بھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکتی ہیں۔ لیکن مکھّیاں تھیں کہ برابر اُسے یقین دِلائے جا رہی تھیں کہ اب جینے کی حرص بیکار ہے۔
پری توش نے ایک اور کروٹ لی اور وہ سوچنے لگا کہ در اصل بنگال ہی نہیں کُل ہندوستان اِس قسم کا ایک مریض ہے۔
بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے رو مال سے چہرہ پونچھ کر نیا سگریٹ سُلگایا اور اب وہ رسالے کے سرِ ورق کی حسینہ کا ملاحظہ کرنے لگا۔
فوجی سپاہی جنگ کی باتیں بھُلا کر گھر کی باتیں لے بیٹھے تھے۔ اُنھیں یقین تھا کہ گاڑی قحط زدہ بنگال سے گزر کر جلد اُن کھیتوں میں پہنچ جائے گی جہاں آج بھی سُنہری بالیاں خوشحالی کا پیغام سُناتی ہیں۔
بیمار کا ساتھی اُسی طرح سر گھُٹنوں میں دبائے بیٹھا اونگھے جا رہا تھا۔ شاید وہ مکھّیوں سے خوف کھاتا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہی ایک روز میرے مُنھ پر بھی بھنبھنائیں گی۔
سِکھ سپاہی نے اُس کا کندھا جھنجھوڑ کر کہا: ’’کہاں جاؤ گے تم لوگ؟‘‘
اُس نے جیسے خواب سے چونک کر سپاہی کی طرف دیکھا اور جب سپاہی نے ایک بار پھر اپنا سوال دُہرایا تو وہ کہہ اُٹھا: ’’رنگپور، رنگپور؟- رنگپور تو اب نزدیک ہی ہو گا۔‘‘
لیکن اس کے بعد اُس نے کچھ اس طرح سپاہی کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، تمھیں ہماری کیا فکر پڑی ہے؟ تم آرام سے بیٹھے رہو۔
پری توش اپنے خیالات میں مگن سوچ رہا تھا کہ یہ دیس کتنا وسیع ہے۔ لیکن یہ غلام کیوں ہے؟ یہ غلام ہے اسی لیے آج یہ قحط کا شکار ہو رہا ہے۔ ہر طرف چور بازار گرم ہے۔ ہر طرف کمینے رذیل نفع بازوں کی چاندی ہے۔ اُس نے سارے ڈبّے کا جائزہ لیا۔ اُس وقت سِکھ سپاہی بھی مزے سے کچھ چبا رہا تھا۔ پھر اُس نے سوچا کہ شاید اب یہ سپاہی اس لیے گھر جا رہا ہے کہ اس کی بیوی نے بیٹا جنا ہے۔ بیوی اور بیٹے کو دیکھ کر وہ آسام کے محاذ پر لوٹ آئے گا۔ وہ سپاہی سے کہنا چاہتا تھا کہ آج تم مُردہ دیس کی حفاظت کر رہے ہو، کل تمھارا بیٹا زندہ دیس کی حفاظت کرے گا۔
بار بار پری توش کی نگاہیں اُس بیمار کی طرف اُٹھ جاتیں۔ سپاہی کے بعد وہی دوسرا شخص تھا جِسے بیمار سے گھن نہیں آ رہی تھی۔
بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے جانے کیا کیا فیصلے کرتے ہوئے کہا: ’’سردار صاحب، وہ دو پھول والوں کی بات تو بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ تعلیم تو بُری چیز نہیں۔‘‘
سِکھ سپاہی ایک دم ہنس دیا۔ اور بولا: ’’چھوڑو جی بی اے، ایم اے ہی تو دو پھول والے نہیں۔ دو پھول والے تو ہر جگہ موجود ہیں۔ عدالت کے منشی، چپراسی، گاؤں کے پٹواری، زمیندار کے گماشتے اور پولیس والے- یہ لوگ بھی تو دو پھول والے ہیں۔‘‘
بھاری بھرکم پنشن یافتہ کے چہرے پر مُسکراہٹ تھرک اُٹھی۔ جیسے کہہ رہا ہو- شکریہ کہ کم از کم مجھے تو تم نے دو پھول والوں میں شامل نہیں کیا۔
فوجی سپاہی اب سیٹیاں بجا رہے تھے جیسے ہر لمحے کے بعد وہ اپنے گھروں کے نزدیک پہنچتے جا رہے ہوں۔ بندوقوں سے چھوٹتی ہوئی سنسناتی آوازوں کی بجائے اب نرم و نازک کلائیوں پر کھنکتی چوڑیوں کا تصوّر اُن کی آنکھوں میں نشہ پیدا کر رہا تھا۔
سانیال نے سرپرستانہ انداز میں کہا: ’’بوس، پری توش اپنی قیمت نہیں بتا سکتا۔ وہ جوہر ہے۔ جوہر کی قیمت جوہری ہی جانتا ہے۔‘‘
بوس نے ایک بار پری توش کی آنکھوں میں جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ اُس پر کیا اثر ہوا ہے۔ لیکن وہ تو گُم سُم بیٹھا تھا۔ سانیال نے پھر شہ دی۔ ’’پری توش کے گیت اپنا جواب نہیں رکھتے۔‘‘
بوس کہہ اُٹھا: ’’مجھے تو اُس کے کال گیت ہی سب سے زیادہ پسند ہیں۔ یہ ہمارے دیس کے دُکھ درد کا مداوا ہیں۔ ذرا انھیں شائع تو ہونے دیجیے۔ پھر ہم انھیں انگریزی میں بھی پیش کریں گے۔‘‘
’’ہم پری توش کو نوبل پرائز دلائیں گے۔‘‘
’’ایک ہی شرط پر کہ ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم ہمارے ’’شونار بانگلا ساہتیہ تیرتھ‘‘ کے فنڈ میں آ جائے۔ ربی بابو نے بھی تو اپنا انعام شانتی نکیتن کو دے دیا تھا۔ پری توش بھی قربانی کر سکتا ہے۔‘‘
’’قربانی کا کیا مطلب، بوس؟ پری توش ہمارا بھائی ہے۔‘‘
بوس نے اب کے پھر پری توش کے چہرے پر اس گفتگو کے تاثرات دیکھنے کی کوشش کی اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر وہ اُس کی پیٹھ تھپتھپانے لگا اور کہتا گیا: ’’پری توش تمھارے گیت ہمارے گیت ہیں۔‘‘
پری توش نے چونک کر اپنے پبلشروں کی طرف دیکھا اور پھر زندہ لاش کی طرف۔ جیسے وہ اپنے قدر دان پبلشروں سے کہنا چاہتا ہو، ایسی ہی ایک لاش پر بھی تو میرا ایک گیت ہے۔
بوس کہے جا رہا تھا: ’’تمھارے گیتوں پر دُنیا فخر کرے گی، پری توش۔ اِن کی نشر و اشاعت ہمارا کام ہے۔‘‘
پری توش کے جی میں تو آیا کہ اپنے پبلشروں سے صاف صاف کہہ دے کہ وہ اپنے گیت شائع نہیں کرانا چاہتا کیونکہ گیتوں سے قحط نہیں مِٹ سکتا۔ اور یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے کوئی مُردے کے کان میں ڈھول بجا کر توقع کرے کہ وہ جی اُٹھے گا۔
سانیال اور بوس کھڑکی سے اُفق کی طرف دیکھنے لگے۔ شاید وہ ’’شونار بانگلا ساہتیہ تیرتھ‘‘ کے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پری توش کو طالب علمی کا زمانہ یاد آ گیا جب وہ تینوں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، اُسے کبھی خیال نہ آیا تھا کہ وہ روٹی کے لیے اپنے ہم جماعتوں کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔ اُس کے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندنے کی طرح پیدا ہوا کہ اُن سے صاف صاف کہہ دے کہ میرے گیت مجھے واپس دے دو۔ میں انھیں کسی بھی قیمت پر تمھیں نہیں دے سکتا۔ میں شاعر بھی نہیں بننا چاہتا۔ میں اب اپنے لیے کوئی نئی راہ تلاش کروں گا۔ لیکن پھر اُس کے ذہن میں ملک کے سب سے بڑے شاعر کے الفاظ گونج اُٹھے- پری توش کے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔ وہ چڑ گیا۔ وہ کچھ فیصلہ نہ کر سکا۔
بیمار کے چہرے پر مکھّیاں جیسے جم گئی ہوں۔ معلوم ہوتا تھا یہ مکھّیاں نہیں، چیچک کے داغ ہیں۔ سب سے پہلے ان ہی نے بیمار کی موت کو آتے دیکھ لیا تھا۔ زندہ لاش مُردہ لاش میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اُس کے ساتھی نے اُس کے سر کو اپنے زانو پر رکھتے ہوئے چلّا کر کہا: دادا!- دادا!-‘‘
زندہ لاش نے دم توڑ دیا۔
لوگ گھبرا گئے۔ چند نوجوانوں کو تو اس قدر غصّہ آیا کہ لاش کو چلتی گاڑی سے نیچے پھینک دیں۔ لیکن وہ لاش کو چھُونا بھی تو نہ چاہتے تھے۔
لاش کے ساتھی نے روتے روتے اپنی جیب سے ایک ٹکٹ نکال کر مرحوم دادا کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ رو رو کر کہہ رہا تھا: ’’میرے پاس کچھ نہیں۔ مجھے بچا لو۔ پرماتما کے لیے دادا کو اگلے اسٹیشن پر ہی اُتروا دو۔‘‘
سِکھ سپاہی حیران ہو کر بولا: ’’تو رنگپور کون جائے گا؟‘‘
لاش کا مُنھ کھُلا ہوا تھا جیسے وہ مکروہ مریض مر کر بھی یہ کہنا چاہتا ہو- میں زندہ ہوں۔ میں زندہ رہوں گا۔
پری توش سوچنے لگا کہ یہ ملک کبھی نہیں مر سکتا۔ اسی کی چھُپی ہوئی قوتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ میرے گیت انہی قوتوں کے مرہونِ منّت ہی تو ہیں۔
لاش کا ساتھی رو رو کر کہہ رہا تھا: ’’مجھے بچا لو۔ مجھے پولیس پکڑ لے گی۔ پولیس مجھے پیٹے گی۔ میں مر جاؤں گا۔ وہ میرا خون پی لیں گے۔‘‘
پری توش نے اُس کے زرد چہرے کا ملاحظہ کرتے ہوئے سوچا کہ اس ستم رسیدہ شخص کے جسم میں اب اور کتنا خون باقی ہو گا۔ سانیال بوس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا: ’’میرے گیت تو جب شائع ہونے ہوں گے ہو ہی جائیں گے۔ آؤ اِس آدمی کی مدد کریں۔‘‘
لیکن سوائے سِکھ سپاہی کے کسی نے اُس کی ہاں میں ہاں نہ ملائی۔ دونوں نے لاش کے ساتھی کو سمجھایا کہ وہ اگلے اسٹیشن پر گاڑی رُکتے ہی کسی دوسرے ڈبّے میں چلا جائے۔ اور وہ سامنے سے یوں احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو، مجھے اس مدد کی بہت پہلے سے اُمید تھی۔
جونہی گاڑی اگلے اسٹیشن پر رُکی، وہ لپک کر نیچے اُتر گیا اور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔
پھر بھاری بھرکم پنشن یافتہ ایک تھانیدار کو بُلا لایا۔ لاش کے متعلق تفتیش کرنے کی غرض سے گاڑی تھوڑی دیر کے لیے اور رُک گئی۔ سپاہیوں کو آوازیں دی جا رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے دو سپاہی موقع پر نمودار ہوئے۔ سپاہی بھنگیوں کو آوازیں دینے لگے۔ لیکن وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔
سِکھ سپاہی پری توش کے کان کے پاس مُنھ لے جا کر بولا: ’’یہ سب دو پھول والے ہیں۔‘‘
پری توش نے سِکھ سپاہی کی بات سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے سانیال سے کہا: ’’آؤ ہم لاش کو کندھا دیں۔‘‘
’’ہم لاش کو کندھا دیں؟‘‘ سانیال نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا: ’’یہ کام تو قلی بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔‘‘
’’قُلی؟‘‘ بوس نے چڑ کر کہا: ’’لیکن پیسے کون دے گا۔‘‘
بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے کہا: ’’یہ لوگ مرتے وقت اتنا پیسہ بھی تو نہیں چھوڑ جاتے کہ قُلی کے دام چُکائے جا سکیں۔‘‘
لاش جیسے ہنس رہی تھی اور اُس کے خاموش قہقہے اس فضا میں عجب پھبتیاں کس رہے تھے۔ جیسے وہ مکروہ مریض کہہ رہا ہو -میں چاہوں تو خود بھی اُٹھ کر پلیٹ فارم پر لیٹ سکتا ہوں۔ مجھ میں ابھی اتنی طاقت باقی ہے۔
سِکھ سپاہی کہہ اُٹھا: ’’محاذ پر میں نے سینکڑوں لاشیں اُٹھائی ہیں۔ یہ بھی اپنے بھائی کی لاش ہے اور یہ کچھ وزنی بھی تو نہ ہو گی۔‘‘
پری توش اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اُنھوں نے لاش اُٹھا لی۔
وہ لاش کو پلیٹ فارم پر رکھ کر اُس کے سرہانے اور پائینتی کھڑے ہو گئے۔ لوگ جمع ہو رہے تھے۔ طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ تھانیدار، اسٹیشن ماسٹر اور گارڈ لوگوں کو لاش سے پرے رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ سپاہی بھنگیوں کو لے کر ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔
پری توش اور سِکھ سپاہی کی طرف لوگ یوں گھُور رہے تھے جیسے وہی در اصل اِس انسان کی موت کے لیے جواب دہ ہوں۔ طرح طرح کی آوازوں کو چیرتی ہوئی گارڈ کی وِسل ایک احتجاجی چیخ کی طرح گونج رہی تھی۔ اُس وقت بجلی کے کوندنے کی طرح گھر والوں کے چہرے سِکھ سپاہی کی آنکھوں میں پھر گئے اور وہ لپک کر گاڑی میں جا بیٹھا۔
پری توش لاش کے سرہانے کھڑا تھا۔ بھیانک سائے دِیے کی لَو کو نگل چکے تھے۔ موت نے لوری گا دی تھی۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ یہ دِیا تو دوبارہ روشن کیا جا سکتا ہے اور موت کی لوری کو جھُٹلانا بھی کٹھن نہیں۔
سانیال نے کھڑکی سے منھ نکالا اور چلّا کر کہا: ’’یہ تو محض ایک لاش ہے، پری توش۔ ہمارا دیش تو ایسی لاکھوں لاشوں سے پٹا پڑا ہے -‘‘
بوس جو اُس وقت گاڑی سے اُترنے کے انداز میں کھڑا تھا، اپنے ہاتھ میں ’’کال گیت‘‘ کا مسودہ سنبھالتے ہوئے رقت سے لبریز لہجے میں بولا: ’’تمھارے گیتوں سے ان لاشوں کا مداوا ہو جائے گا، پری توش۔ تم آ کیوں نہیں جاتے؟‘‘
گارڈ نے آخری وِسل دی اور گاڑی چل پڑی۔ سانیال اور بوس بدستور پری توش کو پُکار رہے تھے۔ یکبارگی پری توش کے قدم گاڑی کی جانب اُٹھے، جیسے وہ بھاگ کر سانیال کے ہاتھوں سے ’’کال گیت‘‘ کا مسودہ چھین لینا چاہتا ہو۔ لیکن دو قدم چل کر ہی وہ رُک گیا۔ اُسے خیال آیا کہ اُس کا شاہکار پلیٹ فارم پر اُس کے قدموں میں بے حِس و حرکت پڑا ہے۔ اور اُسے اِس بے حِس گیت کے خُنک پیکر کو اپنا گرم خون دے کر گرمانا ہے۔ اور اگلے ہی پل وہ ایک مائلِ پرواز سارس کی طرح بازو پھیلائے ہوئے اُس لاش پر جھُک گیا۔
٭٭٭
لال دھرتی
کوئی رنگ مظلوم نگاہوں کی طرح خاموش اور فریادی ہوتا ہے۔ کوئی رنگ خوبصورتی کی طرح کچھ کہتا ہوا اور داد طلب دکھائی دیتا ہے۔ کوئی رنگ مچلتا ہوا ہمیں کسی ضدّی بچّے کی یاد دِلا جاتا ہے اور کسی کو دیکھ کر غنودگی سی چھا جاتی ہے۔۔۔ لاری کے ڈرائیور نے دریا پار کرتے ہوئے کہا ’’اب ہم آندھر دیش میں داخل ہو رہے ہیں، بابوجی!‘‘ میں نے چاروں طرف پھیلی ہوئی سُرخ زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آندھر دیش کی سُرخ زمین کیا کہہ رہی ہے؟‘‘
آنکھیں میچ کر میں نے اپنے دل میں جھانکا۔ وہاں سبز رنگ لہلہا رہا تھا۔ اپنے دماغ سے اس رنگ کا مطلب سمجھنے کی میں نے چنداں ضرورت نہ سمجھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر سُرخ زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیا کہ یہ رنگ بہت بلوان ہے اور میرا اپنا سبز رنگ اِس کے سامنے ٹِک نہ سکے گا۔
ڈرائیور نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ایسا نظر آتا تھا کہ اُس نے سُرخ زمین کے بھید خود اُس کی زبانی سُن لیے ہیں اور اب اُس کے لیے یہ مشکل ہو رہا ہے کہ اُنھیں چھُپا کر رکھ سکے۔
لاری بھاگی جا رہی تھی۔ سُرخ دھول اُڑ کر ڈرائیور کے گالوں پر اپنا رنگ چڑھا چُکی تھی۔ میں نے اپنے گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ یہ دھول وہاں بھی آ جمی تھی۔ میں نے سوچا کہ میرے چہرے کی میل خوری زمین پر سُرخ رنگ چڑ ھ گیا ہو گا اور یہ بہت بُرا تو نہ لگتا ہو گا۔
’’پہلے یہ سارا ضلع بہار اُڑیسہ میں تھا بابوجی!‘‘
’’اور اب؟‘‘
’’اب نقشہ بدل گیا ہے، بابوجی!‘‘
’’نقشہ بدل گیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں، جب سے اُڑیسہ الگ صوبہ بن گیا ہے۔ اِس ضلعے کے تیلگو بولنے والے حصّے آندھر دیش کو مِل گئے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘
لیکن ہم خوش نہیں ہیں بابوجی! گورنمنٹ نے ابھی تک آندھر دیش کو الگ صوبہ بنانا منظور نہیں کیا۔‘‘
’’مگر کانگریس تو کبھی کی یہ قرار داد پاس کر چکی ہے کہ زبان کی اہمیت کو قبول کیا جائے۔ ہر بڑی زبان کا اپنا صوبہ ہو۔ تاکہ ہر زبان کے ادب کی پوری پوری پرورش کی جا سکے، ہر تمدّن اپنے ماحول میں آزاد ہو کر نشو و نما پا سکے -‘‘
’’جی ہاں- کانگریس نے تو یہی کہا ہے کہ آندھر دیش کا الگ صوبہ بنا دیا جائے مگر گورنمنٹ نہیں مانتی۔‘‘
’’گورنمنٹ کیوں نہیں مانتی؟ مدراس میں تو اب کانگریس منسٹری قائم ہو چکی ہے، اور اُس کے پردھان شری راجگوپال آچاریہ بڑے زبردست آدمی ہیں۔ وہ یہ کام ضرور کر سکتے ہیں۔‘‘
’’مگر اِس کا حکم تو لنڈن سے آنا چاہیے، بابوجی!‘‘
’’لنڈن سے؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ اور اگر یہ حکم نہ آیا تو ہم بڑی سے بڑی قربانی دیں گے، اپنا لہو بہانے سے بھی گریز نہ کریں گے۔‘‘
’’لہُو بہا دو گے اپنا؟ پہلے ہی یہ زمین کیا کم سُرخ ہے؟‘‘
ڈرائیور نے ایک بار پھر معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں نیا رنگ جھانک رہا تھا۔ وہ نیا آدمی معلوم ہوتا تھا۔
زمین سُرخ تھی۔ کبھی گہرا بادامی رنگ زور پکڑ لیتا۔ پھر یہ سیندوری بن جاتا۔۔۔ سیندوری رنگ گلناری میں تبدیل ہو جاتا۔۔۔
سُرخ رنگ مجھے جھنجھوڑ رہا تھا۔ میرے لہو کی روانی تیز ہو چلی تھی۔ کئی بڑے چھوٹے پُلوں اور ننھی ننھی پُلیوں کو پھاندتے ہوئے لاری وِجے نگرم کے قریب جا پہنچی۔ مندروں کے بڑے بڑے کلس دکھائی دینے لگے۔ اِس بھاگا دوڑی میں ہمیں وجے نگرم اپنی طرف بھاگتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ گویا ہماری لاری ساکن تھی۔
قصبے میں داخل ہوتے ہی سڑک تربینی کی طرح تین طرف دوڑی جاتی تھی۔ دو سڑکوں کے سنگم پر بھیم راؤ کا مکان تھا۔ ڈرائیور اُنھیں پہچانتا تھا۔ اُن کے گھر کے سامنے مجھے اُتارتے ہوئے اُس نے دوست نواز آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ’’آندھر دیش کی سُرخ زمین کیا کہہ رہی ہے؟‘‘- میں نے کہا۔ وہ مسکرایا۔ لاری آگے بڑھ گئی۔
میں نے آواز دی۔ بھیم راؤ باہر نکلے۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی تھے۔ چہرے پر سیتلا مائی کا آٹو گراف نظر آ رہا تھا- چیچک کے بڑے بڑے داغ! توند کی طرف دھیان گیا تو میں بڑی مشکل سے ہنسی کو روک سکا۔ ہمارے اسکول میں تو ایسا ہیڈماسٹر کبھی رُعب قایم نہ رکھ سکتا۔
تعارفی چٹھی کو پڑھتے ہی وہ مجھے اندر لے گئے۔ بولے ’’آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس غریب کے ہاں چلے آئے۔ اس چٹھی کی بھی کچھ ضرورت نہ تھی۔‘‘
’’آندھر دیش کی بہت تعریف سُنی تھی۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’بہت دنوں سے اِدھر آنا چاہتا تھا۔‘‘
’’آپ شوق سے رہیے۔‘‘
مجھے ایک تنگ کمرہ مل گیا۔ فرش پر سُرخ قالین بچھا ہوا تھا۔ ننگے پاؤں چلنے سے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا کہ آندھر دیش کی سُرخ زمین میرے پیروں سے چھو رہی ہے۔ اندر سے کمرے دروازہ بند کر کے کبھی کبھی میں اس قالین پر لیٹ جاتا اور دھیان سے اپنے دل کی دھڑکنیں سُننے لگتا۔ اچھا شغل تھا۔ سُرخ رنگ کیا کہہ رہا ہے؟- بار بار یہ سوال زبان تک آتا۔ مگر ہونٹ بند رہتے۔
بھیم راؤ کے مکان پر کانگریسی جھنڈا لہرا رہا تھا۔۔۔ سبز، سفید اور سُرخ۔۔۔۔ اس ترنگے جھنڈے کا مفہوم میرے ذہن میں اُجاگر ہو اُٹھتا۔ دِل ہی تو تھا۔ بیچ بیچ میں یہ کہنے لگتا کہ اس جھنڈے کا سُرخ رنگ آندھر دیش کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اور یہ خیال آتے ہی مجھے ایک ناقابلِ بیان مسرّت محسوس ہوتی۔ جہاں سفید رنگ ختم ہو کر سُرخ رنگ شروع ہوتا تھا۔ وہیں میری نگاہ جم جاتی۔ اور اُس نوجوان لاری ڈرائیور کے الفاظ میرے کانوں میں گونج اُٹھتے۔ ’’اب ہم آندھر دیش میں داخل ہو رہے ہیں، بابوجی!‘‘
میرے کمرے میں بڑا مختصر سا فرنیچر تھا۔ ایک طرف ایک ٹائلٹ میز پڑا تھا۔ دو کرسیاں، ایک تِپائی اور ایک طرف ایک تخت پڑا تھا جس پر مجھے سونا ہوتا تھا۔ بستر پر دن کے وقت کھادی کی دودھیا سفید چادر بچھا دی جاتی تھی۔ اب سوچتا ہوں کہ اُس ٹائلٹ میز کا گول آئینہ وہاں نہ ہوتا تو وہ چند ہفتے اتنے دلچسپ نہ ہو پاتے۔ میرے جذبات کا رنگ پکی ہوئی اینٹوں کی طرح سُرخ ہو چلا تھا۔ یہ رنگ میرے چہرے پر بھی تھِرک اُٹھتا۔ اس کے لیے میں آئینے کا ممنون تھا۔
میرے کمرے کی دائیں کھڑکی لان کی طرف کھُلتی تھی۔ وہاں سبز گھاس اُونگھتی ہوئی نظر آتی۔ پانی نہ ملنے پر یہ گھاس پیلی ہو سکتی تھی، سُرخ نہیں۔
دِن چڑھتا اور پتہ ہی نہ چلتا کہ کیسے بِیت گیا۔ وِجے نگرم میرے لیے نیا تھا۔ ہر آنکھ میں کوئی نہ کوئی صدیوں کا جمع شدہ رنگ تھرک اُٹھتا۔ اِس سے پہلے کہیں ماضی اور حال کو یوں بغل گیر ہوتے نہ دیکھا تھا۔ رات ختم ہوتی تو صبح، سورج کا تمتماتا ہوا تلک لگائے آ حاضر ہوتی۔ اُسے دیکھ کر مجھے کرشنا وینی کی پیشانی کا ’’بوٹّو‘‘ یاد آ جاتا۔
پیچھے سے آ کر کرشنا وینی میری آنکھیں بند کر لیتی۔ پھر کھِلکھلا کر ہنس پڑتی۔ اور یونہی وہ پرے ہٹتی، میری آنکھیں اُس کی پیشانی کی طرف لپکتیں۔ کُنکم کا سُرخ ’’بوٹّو‘‘ پانچ کینڈل کی بجائے پچیس کینڈل کا برقی قمقمہ بن کر اُس کی پیشانی کو روشن کرتا دِکھائی دیتا۔ کوشش کرنے پر بھی میں کبھی اُسے ایسی حالت میں نہ دیکھ سکا جب کہ غسل کے بعد یہ ’’بوٹّو‘‘ دھُل کر اُتر چکا ہو۔ پھر میں نے یہ کوشش ہی چھوڑ دی۔ بس ٹھیک ہے۔ یہ قمقمہ ہمیشہ روشن رہے، دن ہو چاہے رات- کُنکم کا سُرخ بوٹّو!
اَنّ پورنا اور کرشنا وینی دونوں بہنیں تھیں۔ وینی، پورنا سے دوسال چھوٹی تھی۔ دونوں گھر پر پڑھتی تھیں۔ بڑی بہن سنگیت کی ابتدائی منزلوں کو طے کر کے اس کی گہرائیوں میں پہنچ چکی تھی۔ چھوٹی بہن صرف بڑی بہن کی وِینا کو دیکھ چھوڑتی تھی، اُس کا گانا سُن لیتی تھی۔ اور اگر اس نغمہ نے اس کی فطانت کا کوئی سویا ہوا رنگ جگا دیا۔ تو اُس نے تھوڑی بہت تُک بندی کر لی، نہیں تو بس کون وِینا، کون اَنّ پورنا وہ اپنی کتابوں میں اُلجھی رہتی۔
بھیم راؤ اپنی بیٹیوں کی تعریف میرے سامنے بھی لے بیٹھتے۔ دونوں بہنیں مسکراتیں۔ دونوں کے سُر بوٹّو میرے ذہن میں تیرنے لگتے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ میرے مُنہ میں پان کی پیک اور بھی سُرخ ہو گئی ہے۔ میرے جذبات چھا لیا کے ننھے، باریک ریزے بن جاتے جو پان چباتے وقت پھُس سے دانتوں کی درزوں میں سے گزر جاتے ہیں۔
’’یہ تو اپنے آدمی ہیں، بیٹیو!‘‘ بھیم راؤ کہتے۔ ’’اِن سے خوب باتیں کرو، اِن کی کہانیاں سنو۔ دیس دیس کا پانی پی رکھا ہے انھوں نے- ہاں، دیس دیس کا۔‘‘ اپنی یہ تعریف سُن کر میرے ہر مُسام کے کان لگ جاتے، پٹھوں میں ایک عجیب سا تناؤ پیدا ہو جاتا، ذہن میں ایک گدگدی سی ہونے لگتی۔ یہ آندھر دیش کی سُرخ زمین کا خلوص تھا- ایک ترقّی پسند خلوص!
’’یہ کرشنا وینی تو نری گلہری ہے، مسٹر راؤ!‘‘ ایک دن میں نے دونوں بہنوں کی حاضری میں کہا ’’اور یہ اچھا ہی ہے -‘‘
’’خُوب خُوب! اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر، نچلی تو بیٹھ ہی نہیں سکتی۔ گلہری ہی تو ہے۔‘‘
کرشنا وینی ہنسی نہیں۔ آخر اِس میں گلہری کی بات ہی کیا ہے؟ شاید ہمارے معزز مہمان کے دیس میں کنّیائیں گلہریاں نہیں ہوتیں۔ وہ لجّا (حیا) سے سِمٹی رہتی ہوں گی۔ لیکن دیس دیس میں، دھرتی دھرتی میں فرق ہوتا ہے نا۔
بھیم راؤ بولے۔ ’’یہ آندھر دیش ہے -‘‘
اَنّ پورنا نے اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اور یہاں کی کنّیائیں سوتنتر کویتائیں بن گئی ہیں -‘‘
کرشنا وینی کی آنکھوں میں ایک بجلی سی چمک گئی۔ بولی۔ ’’جی ہاں، سوتنتر کویتائیں -‘‘
اور میں نے محسوس کیا کہ کم از کم کرشنا وینی ضرور ایک سوتنتر کویتا ہے، نہ بحر کی حاجت مند، نہ قافیے کی پابند۔
اَنّ پورنا نے اپنے بازو کرشنا وینی کے بازوؤں میں ڈال دیے اور بولی۔ ’’وینی، چلو آج وشیشری کے ہاں چلیں۔ کل تو آئی تھی اِدھر۔ آج اُس نے شکل ہی نہیں دِکھائی۔‘‘
کرشنا وینی نے اپنا چھوٹا سا خوبصورت سر ہلا دیا اور پنکھے کی ڈنڈی کو قالین پر پھیرتے ہوئے بولی۔ ’’اَنّ پورنا، میں باہر نہیں جا سکتی۔‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتی باہر؟‘‘ اَنّ پورنا نے حیران ہو کر پوچھا۔
وِینی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس نے اَنّ پورنا کے گلے میں بازو ڈال دیے۔ بولی ’’دِیدی-‘‘ اور اِس کے بعد اُس کے کان میں کچھ کہہ گئی۔ اَنّ پورنا اُچھل پڑی۔ بولی:
’’سچ؟‘‘
وِینی نے ہاں میں سر ہِلا دیا۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ میرا دل زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑایا۔ وینی اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور غسل خانے کی طرف چل دی۔ اَنّ پورنا نے تالی بجائی اور گھڑی کی طرف دیکھا۔ اُس وقت صبح کے دس بجے تھے۔ وہ بھی اپنی کھڑاؤں پر گھوم گئی۔ اور سامنے رسوئی کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی جہاں امّاں بیٹھی زمیں قند چھیل رہی تھی۔
اَنّ پورنا نے کہا ’’امّاں!‘‘
امّاں نے سر ہلایا- اَنّ پورنا اُس کے قریب پہنچ کر جھُک گئی اور اُس کے کان میں کچھ کہہ دیا۔ امّاں کا مُنہ کھلے کا کھُلا رہ گیا۔ اُس کے گالوں پر ایک تمتماتی ہوئی سُرخی نمودار ہوئی۔ پھر ایک مسکراہٹ ناچتی ہوئی اُس کے چوڑے چکلے چہرے پر چوگان کھیلنے لگی۔ امّاں نے چاقو اور زمیں قند کو ایک طرف رکھ دیا۔ اور اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ بولی:
’’پنتلو گارو (پنڈت جی!) -‘‘
میرے لیے یہ سب ایک پہیلی سے بڑھ کر تھا۔ میرا خیال تھا کہ بھیم راؤ بھی اِس سے کورے ہیں۔ وہ اُوپر اپنی بیوی کے پاس چلے گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ریل گاڑی میں بیٹھا ہوں، جو دندناتی ہوئی ایک سُرنگ میں سے گزر رہی ہے، گھُپ اندھیرا چھا گیا ہے۔۔۔ کوئی عورتوں کی بات ہو گی، یہ سوچتے ہی سُرنگ ختم ہو گئی۔
کرشنا وِینی نے پہلے کبھی وہ سبز رنگ کی۔۔۔؟ گھگھری نہ پہنی تھی۔ گھگھری کا رنگ گہرا سبز تھا اور انگیا کا پھیکا سبز۔ اُس کی آنکھوں کی جھیلوں میں بھی سبز رنگ کا عکس پڑ رہ تھا۔ یہ رنگ کیا کہہ رہا ہے، یہ سوال مجھے اُس سے ضرور پوچھنا چاہیے تھا۔ اُس کے لہُو میں کس نے سونا پِگھلا کر ڈال دیا تھا؟ یہ سونا ہی تو تھا جو اُس کے گالوں پر دمک رہا تھا۔ یہ سونا کیا کہہ رہا تھا، مانگ کیا تھی؟ پوری پوری پگ ڈنڈی تھی۔ کیا مجال کوئی لٹ پھسل پڑے، کوئی بال سرک جائے۔ کنگھی چوٹی کا فن تو اپنے کمال کو پہنچے گا ہی جوانی کے ساتھ ساتھ۔ ناک کی سیدھ رکھ کر سرکے بیچوں بیچ مانگ کاڑھنا اَنّ پورنا کو تو سرے سے ناپسند تھا۔ مگر نہیں کرشنا وِینی کی سیدھی مانگ اَنّ پورنا کی ٹیڑھی مانگ سے کہیں سُندر لگتی تھی۔ اُس وقت دونوں بہنیں میرے قریب بیٹھی ہوتیں تو میں اپنا ووٹ چھوٹی بہن کے حق ہی میں دیتا۔
کوئی ایک گھنٹہ بعد، پورے گیارہ بجے دور سے وِینا کے سُر سنائی دیے۔ صرف اَنّ پورنا ہی کی وِینا تو یہ رنگ نہ جما سکتی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ محلّے بھر کی وِینا بجانے والی سہیلیاں سُر میں سُر ملا کر کوئی راگ سادھ رہی ہوں۔ اِتنی بھی کیا خوشی تھی؟
بہت عورتیں اور لڑکیاں جن کا ٹھٹھا اور ہنسی مذاق ہوا کو چیرے ڈالتا تھا، آخر کس تقریب پر بُلائی گئی تھیں؟ مجھ سے نہ رہا گیا۔ بائیں کھڑکی کا پردہ کنارے سے ذرا سا سرکا کر میں نے آنگن کی طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کرشنا وِینی سامنے والے کمرے میں پیلی دھوتی پہنے بیٹھی ہے۔ اور دروازے کے قریب آرتی اُتاری جا رہی ہے۔ تھال میں کنکم نظر آ رہا تھا۔ لیکن اس میں کوئی چومُکھا دِیا نہیں جلایا گیا تھا۔ کرشنا وِینی نے آنکھیں جھُکا رکھی تھیں۔ اِتنی بھی کیا لاج تھی؟ یا کیا یہ کوئی دیوی بننے کا اُپائے تھا؟
کرشنا وِینی کی ماں کو بدھائیاں مِل رہی تھیں۔ انّ پورنا کی وِینا سب سے زیادہ چمک رہی تھی۔ رنگارنگ کی ساڑھیاں میرے ذہن میں خلط ملط ہو رہی تھیں۔ ابھی ایک بچّی رونے لگی، اُسے کیلا مل گیا۔ اُدھر ایک لڑکی اپنے چھوٹے بھائی کے منہ میں گُڑ اور تلوں کا لڈّو ڈالنے لگی کہ ایک لڑکا اُچک کر اِسے چھین لے گیا۔ کچھ پروا نہیں، لڈّو کی کیا کمی ہے؟ بھائی خوش رہے، جیتا رہے۔۔۔ میری فطرت کے ایک پُراسرار کونے میں کوئی تان سین جاگ اُٹھا جسے انّ پورنا نے اپنے گیت کی لہروں پر اُٹھا لیا۔ یہ کیسا گیت تھا؟ شاید یہ دودھ اور شہد کا گیت تھا۔ دودھ دوہتے وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے، کچھ ایسی ہی آواز اَنّ پورنا کی وِینا پر پیدا ہوئی تھی۔
’’اب تم گاؤ وشیشری!‘‘
’’تُم سے اچھا تو نہ گا سکوں گی اَنّ پورنا! اچھا بتاؤ کون سا گیت گاؤں؟‘‘
’’وہی جو تم نے اُس روز گایا تھا۔ جب میں نے وینی کی طرح پیلی دھوتی پہنی تھی اور اسی طرح، اِسی آنگن میں- برکت والے آنگن میں، عورتیں اور لڑکیاں جمع ہوئی تھیں- وہی شہد کی مکھیوں کا گیت۔‘‘
وشیشری نے گانا شروع کیا۔ آندھر دیش کی شہد کی مکھیاں کیا کہہ رہی ہیں۔ یہ سوال میرے ذہن کی چار دیواری ہی میں بند رہا۔ وِینا کے سُر آگے بڑھتے گئے، اُونچے اُٹھتے گئے۔ یہ کوئی معمولی گیت نہ تھا، صدیوں کی نسوانیت کا جذبۂ برتری تھا۔ ابھی تو دوپہر تھی۔ لیکن ہر عورت اور لڑکی کی پیشانی پر ایک ایک چاند نظر آ رہا تھا- کنکم کے سُرخ بوٹّو!
کرشنا وینی کی آنکھیں اُوپر نہ اُٹھیں۔ کیا یہ وہی لڑکی تھی جسے اب تک کبھی اپنی چوکڑی نہ بھولی تھی؟ اُس کے آویزے ساکن تھے۔ اُن کے نگینے چُپ تھے لاج اور دوشیزگی پہلے تو کبھی یوں توام بہنوں کے رُوپ میں نظر نہ آئی تھیں۔ مگر وہ کوئی کبوتری تو نہ تھی جسے پہلی بار انڈے سینے سے سابقہ پڑا ہو۔
ٹھٹھا اور ہنسی مذاق خاموشی میں بدلتے گئے۔ گیت بھی کافی ہو چکے تھے۔ وِیناؤں کے تار تھک گئے تھے۔ کرشنا وِینی کی ماں اور بہن نے کنکم کی تھالیاں اُٹھا کر ہرکسی کی پیشانی پر پھر سے نئے بوٹّو لگا دیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے لگائے ہوئے بوٹّو ہی جلّی کر دیے گئے۔ ایسا دن تو بہت مبارک تھا۔ ہر کسی کو پان پیش کیا گیا، ناریل اور کیلے تقسیم کیے گئے۔ اور یوں سب کو وداع کیا گیا۔ صدیوں سے یُونہی ہوتا آیا تھا۔ کُنکم کے سُرخ بوٹّو اَن گِنت نسلوں سے قائم رہے تھے۔ اِن کا رنگ کبھی پھیکا نہیں پڑ سکتا تھا۔
دوسرے روز یہ محفل شام کے قریب جمی۔ پھر تیسرے روز بھی شام ہی کو۔ چوتھے دن شام کی بجائے صبح ہی کو رونق شروع ہو گئی۔ اس اثنا میں مجھے پتہ چل چکا تھا کہ کرشنا وِینی رجَسّولا (حائضہ) ہو گئی ہے۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے کہیں کوئی ایسی رسم میرے دیکھے میں نہ آئی تھی۔
بھیم راؤ کی باتوں میں مینا کاری کا رنگ پیدا ہو گیا تھا بولے:
’’جھُوٹی شرم میں آندھر دیش کوئی وشواس نہیں رکھتا۔ سچ کہتا ہوں مجھے تو حیرانی ہے یہ سُن کر کہ آپ کے ہاں ایسی کوئی رسم منائی ہی نہیں جاتی۔‘‘
’’جی ہاں، حیرانی تو ہونی ہی چاہیے۔‘‘ میں نے بڑھاوا دیا۔
’’کتنا فرق ہوتا ہے دھرتی دھرتی کا۔‘‘
’’یہ تو ظاہر ہے۔‘‘
’’رجسّولا ہونے پر تو گویا کنّیا کو قدرت کا آشیرباد ملتا ہے۔‘‘
’’آپ کا مطمحِ نظر بالکل ٹھیک ہے، مسٹر راؤ، اور ایسے موقع پر خوشی منانے سے ہرگز نہ چوکنا چاہیے۔‘‘
’’ہمارے یہ گیت آپ کو کیسے لگتے ہیں۔‘‘
’’یہ سب گیت وِینا کے یہ سُر آندھر دیش کے ابدی بول ہیں۔‘‘
’’آندھر دیش کے ابدی بول! ہماری یہ رسم بہت پُرانی ہے۔‘‘
’’ضرور پُرانی ہو گی۔‘‘
’’پہلے روز جب کنیا کو اپنے رَجسّولا ہونے کا پتہ چلتا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح فوراً ماں تک یہ خبر پہنچا دیتی ہے۔ تین دِن تک اسے ہلدی کے پانی میں رنگی ہوئی دھوتی پہن کر ایک الگ کمرے میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ کوئی اسے چھُوئے گا نہیں۔ اُس کی آرتی بھی دُور ہی سے اُتاری جاتی ہے-
’’آرتی میں ہمارے ہاں ہمیشہ جلتا ہوا دِیا۔ چومُکھا دِیا نہ بھی ہو تو پروا نہیں، ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مگر آپ کے ہاں -‘‘
’’فرق تو ہوتا ہی ہے دھرتی دھرتی کا ہمارے ہاں بس کُنکم ہی سب سے ضروری مان لیا گیا ہے آرتی کے لیے۔‘‘
’’سُرخ کُنکم؟‘‘
’’کُنکم ہمیشہ سُرخ ہی ہوتا ہے۔‘‘
میں نے مسکرا کر آنکھیں جھُکا لیں۔ بھیم راؤ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’کھانے میں بھی رَجسّولا کو کافی پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ سُرخ مرچ اور گرم مصالحے اُس کے لیے منع ہیں۔ بیٹھے بٹھائے اُسے کھچڑی، دودھ اور کچھ پھل مِل جاتے ہیں۔ کھائے اور پورا آرام کرے۔ یہ تو ضروری ہے۔‘‘
’’تین دِن کے بعد کیا ہوتا ہے!‘‘ میں نے پھر بڑھاوا دیا۔
’’کنّیا اشنان کر کے پوتّر ہو جاتی ہے۔ اس کی وہ پیلی دھوتی گھر کی دھوبن کو بطور تحفے کے دے دی جاتی ہے۔ اب وہ ماتا پتا کی حیثیت کے مطابق نئے وستر پہن کر بیٹھتی ہے۔ اور یہ چوتھی، یعنی آخری، آرتی اُتارتے وقت اُس کی پیشانی پر بوٹّو لگایا جاتا ہے -‘‘
’’بوٹّو کے لیے کُنکم نہ ہو تو آندھر دیش کا کام ہی نہ چل سکے، مسٹر راؤ!‘‘
’’کُنکم؟ یہ تو بہت ضروری ہے۔‘‘
’’بلکہ یہ کہیے کہ آندھر دیش اور سُرخ کُنکم دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔‘‘
’’بس اب آپ نے ٹھیک سمجھ لی ہے بات۔‘‘
’’میرا رُجحان شروع سے سبز رنگ کی طرف رہا ہے، مسٹر راؤ!‘‘
’’سبزرنگ کی طرف؟ لیکن سُرخ رنگ نرالی زبان میں بولتا ہے۔۔۔ کُنکم کا پیغام آندھر دیش صدیوں سے سُنتا آیا ہے۔‘‘
’’رنگوں کا مطالعہ میں نے بھی بہت کر رکھا ہے، مسٹر راؤ! سبز رنگ کی اپنی جگہ ہے۔ یہ شانتی کا رنگ ہے۔ ہر سبز چیز امن و سکون کا اشارہ کرتی ہے۔ قدرت کو شاید یہی رنگ سب سے زیادہ پسند ہے۔ جب تک دھرتی بنجر نہیں ہو جاتی، اس کی کوکھ سے اِس رنگ کے کارنامے ہمیشہ ہمارا دھیان کھینچتے رہیں گے۔ کانگریس نے بہت اچھا کیا کہ اپنے جھنڈے پر اس رنگ کو اس کی جگہ دینے کی بات فراموش نہ کی۔ اور سفید رنگ؟ سفید رنگ میرے خیال میں پوِتّرتا (پاکیزگی) کا رنگ ہے۔ ہمارے جھنڈے پر تبھی یہ رنگ بھی موجود ہے۔ اور سرخ رنگ؟ میں سمجھتا ہوں، یہ خون کا رنگ ہے- اچھے تندرست خون کا رنگ- تازہ مضبوط زندگی کا رنگ۔۔۔ سبز، سفید، سُرخ- خوب رنگ چُنے ہیں کانگریس نے۔ یہ جھنڈا بنانے کا کام آندھر دیش کے سُپرد کر دیا جاتا تو سارے جھنڈے پر کُنکم ہی کُنکم پھیل جاتا۔‘‘
’’لیکن یاد رہے کہ سُرخ رنگ کا مفہوم سمجھنے میں آندھر دیش نے خوب قدم بڑھایا ہے۔۔۔ کانگریس کے بائیں ہاتھ نے اِدھر جو زور پکڑا ہے۔ وہ بھی ظاہر ہے۔ پچھلے دنوں جب شری سُبھاش چندر بوس کانگریس پردھان کے انتخاب میں دوبارہ کھڑے ہوئے تو آندھر دیش کے ووٹ بہت بھاری تعداد میں اُنھیں کو ملے تھے، حالانکہ اُن کے مقابلے پر کھڑے ہونے والے ڈاکٹر پٹّا بھی سیتا رامیّا آندھر دیش کے اپنے آدمی ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں اِن باتوں میں لحاظ داری تو ٹھیک نہیں ہوتی۔ سوشلزِم اور ہندوستان کی آزادی ہمارے بڑے آدرش ہیں۔ اور آندھر دیش کو الگ صوبے کا وقار حاصل ہو جائے، اس کے لیے ہم اپنی جانیں لڑانے پر آمادہ ہیں۔‘‘
’’پنتلُو گارو (پنڈت جی)۔‘‘ کسی نے باہر سے آواز دی۔
بھیم راؤ باہر چلے گئے۔ میں کھڑکی میں سے لان کی طرف دیکھنے لگا۔ یُوں محسوس ہوا کہ کسی کے غیر مرئی ہاتھ میری پیشانی پر کُنکم کا بوٹّو لگا رہے ہیں۔ میں جھٹ وہاں سے ہٹ گیا۔ اور کمرے کو اندر سے بند کر کے میں نے بائیں کھڑکی کا پردہ ہولے ہولے ایک کونے سے سرکایا۔ سامنے بڑی خوش نما مجلس نظر آ رہی تھی۔ کرشنا وِینی نے ہلکے نیلے انگیا کے ساتھ گہری نیلی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ آویزوں کے نگینے سردئی تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے ذہن کے بچے کھُچے سبزرنگ نے اِن نگینوں میں پناہ پالی ہے۔
انّ پورنا نے وینا پر ملہار کا اَلاپ شروع کیا۔ اُس کی اُنگلیاں بہت ہمک ہمک کر چل رہی تھیں۔ مگر اس راگ سے بھی کرشنا وینی کی آنکھیں اُوپر نہ اُٹھیں۔ انّ پورنا آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اور کرشنا وینی، دھرتی کی طرف آنکھیں جھُکائے بیٹھی تھی۔ کس نے چھُو دیا تھا اپنے غیر مرئی باغی ہاتھ سے اِس کنّیا کو؟ ۔۔۔ ہر رَجسّولا تو یُوں چھوئی موئی بن کر نہ رہ جاتی ہو گی۔۔۔ ہلکا نیلا انگیا، گہری نیلی ساڑھی اور آویزوں کے سردئی نگینے۔۔۔ باہر سے بیدار مغز ہوا کا جھونکا آ رہا تھا۔
’’بہت ہو چکی یہ لاج، وینی‘‘ انّ پورنا بولی ’’میں بھی ہوئی تھی رجسّولا، تیری طرح۔ میں نے پہلے ہی روز کے بعد سے مُسکرانا شروع کر دیا تھا، اوپر، دائیں، بائیں، سامنے، دیکھنا شروع کر دیا تھا۔‘‘
’’تُم بھی ایک ہی ہو مجھے ستانے والی، پورنا!‘‘
’’میں تو کبھی نہیں ستاتی کسی کو۔‘‘
کرشنا وِینی کے چہرے پر ہولے ہولے وہی پُرانی شوخی آتی گئی۔ امّاں نے آگے بڑھ کر کُنکم اُٹھایا اور اس کے بوٹّو کو جلی کر دیا۔
کرشنا وِینی اب کوئی چھوئی موئی نہ تھی۔ ہر چہرے کی طرف اُس کی آنکھیں اُٹھ جاتی تھیں۔ کالی جھیلوں میں نہ جانے کتنی لہریں تھرک رہی تھیں۔۔۔ کرشنا وینی کے صندلی بازو، جنھیں دیکھ کر تازہ تازہ رندہ کیے جانے کا گمان ہوتا تھا! اُوپر اُٹھے۔ اُس نے سب کو نمسکار کیا۔
سب عورتیں اور لڑکیاں مسکرائیں، سب کے سُرخ بوٹّو تازے کُنکم سے جلی کر دیے گئے۔ جانے کیا کہہ رہی تھیں کاجل کی لکیریں ہر آنکھ میں؟ ۔۔۔ پان بنٹے- سبزپان جو اپنے سینوں میں سرخ رنگ چھپائے پڑے تھے۔ کیلے بنٹے۔ ناریل بنٹے۔ سب اُٹھ کھڑی ہو گئیں۔۔۔ کیا لے کر رنگین تھیں یہ ساڑھیاں؟ کیا لے کے سُر تھی یہ زمین؟ ۔۔۔ اِس کے خط اس کی قوسیں- ہونٹ، گال، آنکھیں، سینے! کون فنکار اِن کی تخلیق کرتا تھا؟ کون تھا جو زمین کی ہر بیٹی کو ٹھیک وقت پر رجسّولا بنا دیا تھا؟ ۔۔۔ یہ تو بہت ضروری تھا۔ اَن گنت صدیوں سے، سبز، سفید اور سُرخ صدیوں سے یہی ہوتا آیا تھا۔
سب عورتیں چلی گئیں۔ سب لڑکیاں بھی تتّربتّر ہو کر اپنے اپنے گھر کو بھاگ گئیں۔ اب صرف کرشنا وینی اور انّ پورنا رہ گئیں۔ امّاں رسوئی میں جا چُکی تھی۔
’’اچھّا پورنا! ایک بات بتاؤ گی؟‘‘
’’پوچھو پوچھو۔‘‘
’’رَجسّولا ہو کر بھی میں اتنی کمزور نہیں ہوئی۔ بھلا کیسے؟
’’کیسے؟ یہی ہوتا آیا ہے بہن شروع۔۔۔۔ ۔۔؟ سے میں کون سی کمزور ہو گئی تھی؟ ۔۔۔ بلکہ رنگ نکھر جاتا ہے اِس سے۔۔۔ ہر مہینے بہا کرے گا یہ، ہر مہینے!‘‘
’’ہر مہینے؟ اِتنا لہو بہتے رہنے ہی سے تو ہماری زمین سُرخ نہیں ہو گئی؟‘‘
’’چپ، وینی! کوئی سُن لے گا۔‘‘
پھر دونوں بہنیں اُٹھ کر اندر چلی گئیں۔ میں اپنے سُرخ قالین پر لیٹ گیا۔ میری روح کی گہرائیوں سے ایک خیال اُٹھا اور باہر سے آنے والی ہوا کے جھونکے سے ٹکرا گیا۔
میرے ذہن میں کانگریس کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ سبز، سفید اور سرخ- اِس جھنڈے کی عمر بہت زیادہ تو نہ تھی۔ مگر یہ رنگ تو پُرانے تھے- ہمالہ کے ہم عُمر رنگ، گنگا، برہم پُتّر اور گوداوری کے ہم عُمر رنگ! ہو گا اِن رنگوں کا اپنا اپنا مفہوم۔ مگر میں تو اُس مفہوم پر لٹّو تھا جو خود ہندوستان نے اِن رنگوں کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا۔۔۔ اور میری آنکھوں میں وہی لاری پھرنے لگی جس پر سوار ہو کر میں بھیم راؤ کے مکان تک پہنچا تھا۔
دائیں بائیں، آمنے سامنے، جہاں تک میرے ذہن کی پہنچ تھی، سُرخ زمین لیٹی ہوئی تھی- ایک رَجسّولا کنّیا کی طرح وہ آرام کر رہی تھی۔ وہ وقت مجھے بہت قریب آتا دِکھائی دیا جب اُس کی کوکھ ہری ہو گی۔ اور کوئی ایسا آدمی پیدا ہو گا جو بہ آواز بلند پُکار کر کہہ اُٹھے گا- ہلوں کی جے۔ اب اِن کھیتوں میں غلام نہیں اُگیں گے۔ یہ لال دھرتی ہے۔
٭٭٭
کُنگ پوش
اور سب پھول بہار میں کھلتے ہیں۔ مگر کیسر خزاں میں کھِلتا ہے۔ وہ مٹیالی ابابیل، جو ابھی ابھی اُس ٹیلے سے پنکھ پھیلا کر اُڑ گئی، شاید کیسر کے پھولوں کو جی بھر کر دیکھنے کے لیے ادھر آ بیٹھی تھی۔ کیا یہ دھرتی کبھی اتنی بانجھ ہو جائے گی کہ کیسر اُگنا بند ہو جائے؟
کتنی چہل پہل ہے یہاں۔ یہ لڑکیاں ہیں یا رنگوں کی پریاں۔ اُن کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا دوپٹّہ ہے جس میں یہ رنگ کی دھاریاں بن کر لہرا رہی ہیں، وہ کیسر کے پھول چُن رہی ہیں۔ اُن کے اعضا کا تناسب دیکھتا ہوں تو اس بت تراش کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے گوشت میں پتھر کی سی نوک پلک پیدا کی۔
رنگ کی اِن لہروں میں میرا دل، جو پہلے امیراکدل پُل کے نیچے سے گزرنے والا خاموش اور بے رنگ جہلم تھا، اب اُچھلنے لگا ہے۔ کیا کشمیر کی سبھی عورتیں ایک سی خوبصورت ہیں۔ نہیں تو۔ نہ تو سبھی ایک سی نازک، نہ ایک سی لطیف اور مدماتی ہیں۔ رنگ الگ بات ہے، رُوپ الگ۔
ٹھیکیدار للکار رہا ہے۔ ’’جلدی ہاتھ ہلاؤ جلدی۔‘‘
لڑکیاں خوشی خوشی پھول چُن رہی ہیں۔ پہلے ٹھیکیدار کی کڑک سُن کر سہم جاتی ہیں۔ لیکن پھر باتوں کا وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جیسے ماضی، حال اور مستقبل کا سار حُسن اس کھیت میں جمع ہو گیا ہے۔ یہ گوری گوری گردنیں! کالی کالی آنکھیں، کالی کالی بدلیوں سی جن میں بجلی چمک رہی ہو۔ ہونٹ کاتک کے تازہ شہد سے کہیں رسیلے اور چمکیلے، باتیں کرتی ہیں تو ہونٹوں کے کونے ہلتے ہیں اور میرے دل پر رنگین پھُوار پڑتی ہے۔
چند بوڑھی عورتیں بھی پھُول چُن رہی ہیں۔ سال بسال کیسر چُنتے چُنتے اُن کی جوانی بیت گئی۔ جب وہ دُلہنیں بنی ادھر آنکلی تھیں تب بھی یہ کھیت اسی طرح کیسر پیدا کرتے تھے۔
وہ سُرخ پھِرن والی نوجوان عورت، جو کسی بچّے کی ماں بننے والی ہے، پھول چُنتی چُنتی تھک جاتی ہے، جیسے لالے کی ٹہنی بارش کے بوجھ سے جھُک جائے۔
میری نگاہ گھوم پر کر اُس بِن بیاہی الّھڑ لڑکی پر آ ٹھہرتی ہے۔ جس نے سبز اُونی پھِرن۱ پہن رکھا ہے۔ اُس کی نرگسی آنکھوں میں حیا ہے، جھجک ہے اور کچھ کچھ ڈر بھی۔ اُس کے چہرے پر بچپنے کی شریر لالی سنجیدگی کی طرف پہلا قدم اُٹھا رہی ہے۔ یہ نہیں کہ اُس نے مجھے دیکھا نہیں۔ دیکھنے میں تو کچھ بُرائی نہیں۔ اور اگر اس میں کچھ برائی ہے تو میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کنکھیوں سے کسی اجنبی کی طرف دیکھنا اور پھر پلکیں جھُکا لینا کیا کم بے انصافی ہے؟ اُس کے بازوؤں کی تراش دیکھوں یا اُس کی پتلی پتلی اُنگلیاں؟
ٹھیکیدار کے بول ڈانٹ رہے ہیں، جھنجوڑ رہے ہیں اور جب وہ لال پیلا ہو کر کہہ اُٹھتا ہے۔ ’’اور پھرتی سے -‘‘ تو ہر ایک کا چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے، بوڑھی عورتوں کا بھی۔
پھولوں کی پتیاں بیگنی رنگ کی ہیں۔ ہر ایک پھول میں چھ چھ تار ہیں- تین زرد اور تین نارنجی۔ پھول چُننے کے بعد انھیں دھوپ میں سُوکھنے کے لیے ڈال دیا جائے گا۔ اور پھر نارنجی تار، جو اصل کیسر ہے، الگ کر لیے جائیں گے۔ زرد تار پھینک دیے جانے چاہئیں۔ مگر یا تو وہ یوں ہی کیسر میں مِل جائیں گے یا جان بوجھ کر اس کا وزن بڑھانے کے لیے مِلا دیے جائیں گے۔
پچھلے ہفتے جب میں اپنی بیوی اور بیٹی سمیت چاندنی رات میں کیسر کے پھول دیکھنے آیا تھا، کیسر کے تار سونے کی طرح چمک رہے تھے۔ کبھی میں اُوپر آسمان پر تاروں کو دیکھتا رہا اور کبھی کیسر کے تاروں کو۔
میرے ذہن میں ایک خوبصورت تصویر بن گئی ہے۔ اُس سبز پھِرن والی الّھڑ لڑکی نے پھر ایک بار میری طرف دیکھ لیا ہے۔
سات سال پہلے بھی میں کشمیر آیا تھا۔ جو تصویر اُس وقت میرے ذہن میں خودبخود بن گئی تھی، وہ بھی تو قائم ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اُس میں کیسر کا کھیت موجود نہیں۔ اور یہ کمی اسی وقت پُوری ہو رہی ہے-
کیسر چُنتی چُنتی کنواریاں ایکا ایکی ایسا گیت مِل کر گانے لگی ہیں، جسے سُن کر ٹھیکیدار کے بوڑھے گلے میں بھی سُر خرخرانے لگے ہیں:
’’یار گو مئے پامپوروتے
کُنگ پوشو رُٹ نال متے
سوچھم تتے بُچھس یتے
بار صائیبو بوجتم زار!‘‘
– ’’میرا محبوب پامپور کی طرف چلا گیا (اور وہاں) کیسر کے پھول اُس سے ہم آغوش ہو گئے۔ (آہ!) وہ وہاں ہے اور میں یہاں! او خدا! میری آواز سُن!‘‘
وہ سبز پھِرن والی شرمیلی لڑکی بڑی ہو کر شاید اس گیت میں اپنی زندگی کا کوئی مدّھم پڑا ہوا رنگ اُبھارنے کی کوشش کرے گی۔
یہ اُونچی نیچی زمین ہے، کچھ جہلم کے کنارے کنارے اور کچھ اُس سے دُور ہٹتی گئی ہے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے، الگ تھلگ ٹیلے سے نظر آ رہے ہیں۔
میں ٹھیکیدار سے پوچھتا ہوں۔ ’’اِن ٹیلوں کو اِدھر کیا کہتے ہیں؟‘‘
وہ جواب دیتا ہے- ’’وُڈر‘‘ یا ’’کریوا‘‘۔
ٹھیکیدار کا چہرہ جس پر گہری جھرّیاں نظر آ رہی ہیں، اور بھی سنجیدہ ہو گیا ہے۔ گویا وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے اور جیسے اس سوال کا جواب وہی دے سکتا ہے۔
اس نے مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا ہے۔ وہ مجھے بتا رہا ہے کہ یہ وُڈر یا کریوا سب کے سب بارانی زمین کے ٹکڑے ہیں۔ مگر ہیں بڑے زرخیز۔
’’تو کیا ان سبھی وُڈروں میں کیسر پیدا ہوتا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔ کیسر تو پامپور کے وُڈروں ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ اس بارہ ہزار بیگھہ زمین پر خدا کا بڑا فضل ہے۔۔۔ یہاں مٹی کیسر پیدا کرتی ہے۔‘‘
اُس نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ زمین مہاراجہ کی ذاتی ملکیت ہے اور جو بھی اسے ٹھیکہ پر لیتا ہے، اس کا آدھا کیسر اپنے ماتحت کھیتی کرنے والوں میں بانٹ دیتا ہے اور آدھا خود لے لیتا ہے جس میں سے اُسے ٹھیکہ کا روپیہ چُکانا ہوتا ہے۔
’’آدھی چھٹانک کیسر تیار کرنے کے لیے چار ہزار تین سو بارہ پھول چاہئیں۔‘‘ وہ بڑے فخر سے کہہ رہا ہے، جیسے اس کے باپ دادا ہمیشہ کیسر کا ٹھیکہ لیتے رہے ہیں اور اُس کی جہاں دیدہ آنکھیں، جن میں کچھ خود بینی بھی جھلکتی ہے، مست ہو اُٹھی ہیں، جیسے اس نے کیسر کا یہ راز مجھے بتا کر کبھی نہ کبھی کیسر کا ٹھیکہ لینے کے لیے اُکسا دیا ہے۔
کیسر سے مجھے پیار ہو گیا ہے۔ میں اِسے سب جگہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان کے نقشے پر میں ہر جگہ کیسر چھڑک دینا چاہتا ہوں۔
’’دھنّیہ ہے وہ دھرتی جہاں کیسر نے جنم لیا-‘‘یہ کہتے ہوئے کل ایک دُکاندار نے میرے لیے پانچ روپے کا کیسر تول دیا تھا۔ جیب سے روپے نکالتا ہوا میں سوچ رہا تھا کہ کون جانے سری نگر کے اس دُکاندار کی بیوی کا نام کیسر ہو اور وہ رات کو گھر جا کر اس کے سامنے بھی کہہ اُٹھے۔ دھَنّیہ ہے وہ دھرتی جہاں کیسر نے جنم لیا! اور وہ عورت یہ سمجھے کہ اُس کے حُسن کی تعریف ہو رہی ہے، یہ نہیں کہ اس کے خاوند نے ایک خانہ بدوش ادیب کے پاس تھوڑا کیسر بیچ کر ایک آدھ روپیہ کما لیا ہے۔
میرے ذہن کی ساری شعریت سِمٹ سِمٹا کر کیسر کے ارد گرد گھومنے لگی ہے۔ میری بیوی نے کیسری ساڑھی پہن رکھی ہے۔ ماں کی دیکھا دیکھی میری بیٹی نے بھی کیسری فراک پہن لیا ہے اور میں خوش ہوں۔
کاش! اُس شرمیلی لڑکی نے کیسر کے کھیت میں کیسری پھِرن پہنا ہوتا۔ تب اُس کا گورا رنگ ایک سُنہری جھلک لے اُٹھتا۔ وہ مجھے اور بھی سُندر دِکھائی دیتی اور میں سوچتا کہ وہ کیسر کے کھیت کی بیٹی ہے۔۔۔ یا پھر کیسر کی دیوی ہے!
شفق کی کیسری بشاشت دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اُشاؔ نے میرے دلی رُجحان کو سمجھ لیا ہے۔ پر یہ رنگ تو اُسے ہمیشہ سے پیارا ہے۔ نت نئے ہیں کیسری اُشا کے چاؤ۔ اور وہ سب رنگین جذبات جو ہمیشہ سے شاعروں اور ادیبوں سے ہولی کھیلتے آئے ہیں۔
کیا کیسری اُشا کی طرف دیکھ کر اُس شرمیلی الّھڑ لڑکی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اُس کی طرح وہ بھی کیسری پھِرن پہن لے؟ یا کیا وہ ہر روز دن چڑھے جاگتی ہے؟ اُشا کو نہ سہی کیسر چُنتی چُنتی کیسر کے تار تو وہ دیکھتی ہی ہے اور اُنھیں دیکھ کر کھو سی جاتی ہو گی۔ یہیں سے وہ کیسری پھرن کا خیال بڑی آسانی سے لے سکتی تھی۔ پر کون بتائے اُسے کہ وہ سفید اُونی پھِرن، جسے اُس نے نہایت شوق سے سلوایا ہے یا سلوانا ہے، ضرور کیسری رنگا لے؟
پامپور سری نگر سے بہت دور نہیں۔ تانگہ جاتا ہے۔ مگر جو مزا پیدل جانے میں ہے وہ تانگے میں کہاں؟ میں کئی بار پامپور ہو آیا ہوں اور کیسر کے پھولوں سے کہیں زیادہ وہ الّھڑ لڑکی ہی مجھے اس کشش کی موجب معلوم ہوتی ہے۔
ہر بار وہی سبز پھرن۔۔۔ سبز پھرن! کیا اُس کے پاس صرف یہی ایک پھرن ہے؟ اتنی غریبی! جی چاہتا ہے آئندہ اپنی بیوی کو تب تک نئی ساڑھی نہ لے کر دوں جب تک اُس کی سب کی سب ساڑھیاں پھٹ نہیں جاتیں۔ اُس الّھڑ لڑکی میں کیا کچھ کم جان ہے؟ اِس کا دِل کیا کسی الگ مٹّی کا ہے؟
بہت کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح یہ الّھڑ لڑکی میرے دل سے نکل جائے۔ مگر اِس کے باوجود وہ میرے دل میں سما رہی ہے۔ کئی بار تو میں نے سپنے میں بھی اُسے دیکھ لیا ہے۔ وہ مجھے کیوں نہیں چھوڑتی؟ وہ کیوں گھورتی ہے؟ کیوں کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے؟ ۔۔۔ میں کیا جانتا تھا کہ جذبات اتنے اُچھل پڑیں گے۔ جسے وہ کہتی ہو- سبز پھرن سے اتنی نفرت کیوں؟ گھاس بھی تو سبز ہوتی ہے۔ بلکہ میں تو چاہتی ہوں تم بھی سبز کپڑے پہنو۔ درخت بھی تو سبز دو شالے اوڑھتے ہیں۔۔۔ پر تم نہ مانو گے۔۔۔ اچھا میں ہی مان جاؤں گی۔ میں کیسری پھِرن پہن لیتی ہوں۔۔۔ کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میرے پاس کیسری پھرن نہیں ہے؟ واہ خوب سوچا تم نے! پچھلے سال میں نے کیسری پھرن بنوایا تھا۔ پر یہ نہ جانتی تھی کہ ایک بنجارہ آئے گا اور اسے پہننے کی فرمائش کرے گا۔ میری طرف دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو تو۔۔۔ میں نے کیسری پھرن پہن لیا ہے۔ میں کیسر کے کھیت کی بیٹی ہوں۔۔۔ یا پھر کیسر کی دیوی ہوں۔
کل بھی دن بھر اسی کوشش میں رہا کہ کسی طرح یہ لڑکی میرے دل میں نہ آنے پائے۔ ایک مضمون لکھنے بیٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ کیسر کی دیوی مجھے کہہ رہی ہے- کس پر لکھو گے؟ اس کیسر کے کھیت پر جہاں تم نے مجھے پہلے پہل دیکھا تھا؟ یا اس ٹھیکیدار پر جس نے تمھیں اپنے قریب بڑے ادب سے چارپائی پر بٹھا لیا تھا؟
جب میں نہانے لگا تو میرے ذہن کی کسی نامعلوم گہرائی سے کیسر کی دیوی کی آواز بلند ہوئی- پانی بہت ٹھنڈا ہے کیا؟ میں جانتی ہوں تم ٹھنڈے پانی سے نہانا پسند نہیں کرتے۔ مجھ سے کیوں نہ کہا؟ میں کیا انکار کر دیتی؟ میں جھٹ آگ سُلگاتی۔ جھٹ پانی گرم کر دیتی۔ صابن ہے؟ ہے تو۔ اچھا نہا لو۔ میں جاتی ہوں۔
نہا کر غسل خانہ سے نکلا تو میرا چہرہ اُداس تھا۔ بیوی نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ کچھ کھوئے کھوئے سے دکھائی دیتے ہو!‘‘ مگر میں نے ہنس کر بات آئی گئی کر دی۔ آخر اُس سے کیا کہتا؟ میں اندر ہی اندر گھُلا جا رہا تھا اور پچھتاتا تھا کہ میں کیسر کے کھیت میں گیا ہی کیوں؟
اور جب میں سیر کرنے کے لیے بے رنگ جہلم کے کنارے ہولیا۔ تو بھی میں نے محسوس کیا کہ وہ کیسرکی دیوی میرا پیچھا کر رہی ہے۔ ایک پروں والا رنگ ہے جو اُڑتا چلا آ رہا ہے۔ یہ رنگ اپنی جگہ پر چسپاں ہو گیا اور تصویر بول اُٹھی -داسی کا کیا قصور ہے؟ یوں دِل ہٹا لینا تھا تو مجھے نہ بُلایا ہوتا! میرا سوتا پیار نہ جگایا ہوتا! یہ کہاں کی ریت ہے جی! کھیت کی منڈ کے پاس کھڑے ہو کر کیوں ٹکٹکی لگا کر تم میری طرف دیکھ رہے تھے؟ تم مجھ سے کچھ نہ بولے تھے۔ پر تمھاری آنکھیں تو بولی تھیں؟ تب اُنھیں کیوں نہ سمجھایاتم نے؟ ۔۔۔ ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تم تو پورے سات بار پامپور کے کھیتوں میں آنکلے اور وہ بھی پیدل۔ جب میں یہ جان گئی تو تم سے پیار کرنے لگی۔
میں پریشان سا ہو گیا۔ کچھ بول بھی تو نہ سکا۔ آخر کیا کہتا قصور وار تو تھا ہی۔ اُس کی باتوں کا میں نے بُرا نہیں مانا۔ مگر میں اس کا سواگت نہ کر سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ مجھے چھوڑ دے، مجھے معاف کر دے۔ اور جب اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں ڈرے ہوئے ہرن کی طرح رُک کر کھڑا ہو گیا۔ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ اُس سے صاف صاف کہہ دوں، کیسا پیار؟ کہاں کا آنند؟ مگر میں کھُلّم کھُلّا یہ نہ کہہ سکا۔ اس کے بجائے میں نے کہا۔ کیسر کی دیوی! نہیں۔ رونے سے کیا حاصل؟ دُنیا کو دیکھ، دُنیا کی وسعتوں کو دیکھ۔ دُور نہیں تو پامپور ہی کو دیکھ۔ آنسو بھری آنکھیں دیکھتی تو ہیں پر ایک دھندلی سی پن چادر کے بیچ میں سے۔۔۔ زندگی اور نگاہوں کے بیچ آنسو نہ ہونے چاہئیں کہ یوں رنگ اپنی اصلیت کھو دیتے ہیں۔۔۔ اور تیری زندگی تو اُڑنے والی ابابیل ہے۔۔۔ کیا آنسو تیرے پنکھ بھاری نہ کر دیں گے؟ تجھے تیرا پریمی مِل جائے گا اِک دن۔ پر مجھے چھوڑ دے، معاف کر دے! وہ نہ مانی۔ برابر روتی رہی۔ نہ میں کیسر کے کھیت میں گیا ہوتا، نہ یہ مصیبت آ کھڑی ہوتی۔
میں بازار میں جا نِکلا۔ پریشان خیال تب بھی تھا۔ اب یہ احساس بھی تھا کہ اکیلا ہوں اچھا ہی ہوا۔ پاؤں کی حرکت ہلکی معلوم ہو رہی تھی۔ بازار تو کسی کی ملکیت نہیں۔ میں آزاد تھا۔
پھر یوں ہی میری نگاہ ایک چھت کی طرف اُٹھ گئی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے ایسا معلوم ہوا کہ میرے ذہن سے رنگ کا ایک ٹکڑا اُڑ کر سامنے کھڑکی میں تھرکنے لگا ہے۔ میرے پاؤں رُک گئے۔ کتنا ہموار چہرہ تھا۔ سُرخ گال- جیسے دو اُجلے طاقوں میں دِیے جل رہے ہوں۔۔۔ اور آنکھیں!- دو اندھیری راتیں، جن میں ٹٹول ٹٹول کر چلنا پڑتا ہے۔
لاکھ کوشش کرنے پر بھی دل ہٹتا نہیں۔ اُلجھا ہوا رہتا ہوں۔ اپنے سر کے لمبے بالوں کی طرح۔ راہ چلتے ڈرتا ہوں۔ پہلے پامپور کی دیوی تھی۔ وہ میرے ذہن کا کیسری خیال۔ اب یہ عورت تھی جو کھڑکی میں یوں بیٹھی تھی جیسے فریم میں تصویر جڑ دی گئی ہے۔ وہ میری طرف کس طرح دیکھتی رہی تھی۔ میں نے اپنے دل میں ایک چٹکی سی محسوس کی تھی، جیسے کوئی نادان بچہ کسی خوش رنگ تصویر کی بوٹی نوچ لے- وہ قصور وار تھی؟ -نہیں، وہ بے قصور تھی- پھر قصور کس کا تھا؟ تو کیا یہ قصور میرا تھا؟
کل میں نے پھر دُور سے اُسے دیکھا تو وہ فاختہ کی طرح مجھے دیکھتی رہی۔ گھر لوٹنے پر میں نے محسوس کیا کہ دو کالی مدھ ماتی آنکھیں میرا پیچھا کر رہی ہیں، دو اندھیری راتیں میری زندگی کے اُجالے میں حل ہوا چاہتی ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کی پناہ لی۔ میرا دِل دھڑک رہا تھا۔
دِل مانتا نہیں۔ اس کے بھید میں خود نہیں سمجھتا۔
دِل دریا سمندروں ڈونگھا
کون دِلاں دِیاں جانے؟
وِچّے چپّو وچّے بیڑی
وِچّے ونج مہانے!
– ’’دِل بھی ایک دریا ہے، سمندر سے کہیں گہرا۔ کون جان سکتا ہے دِل کی باتیں۔ اس میں کیا چپُّو، کیا کشتی اور ملّاح۔ (سبھی ڈوب جاتے ہیں)۔‘‘
کیا پنجاب کے اس کسان کو بھی میری طرح ایسی اُلجھن میں پھنسنا پڑا تھا؟
اب جو اس چھت کی طرف دیکھتا ہوں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُس پامپوری کی دیوی ہی نے یہ رُوپ دھارن کیا ہے۔ مگر اُس کا پھِرن تو سبز تھا۔ اور اس کو لاجوردی رنگ پسند ہے۔ وہ کیسری پھرن کیوں نہیں پہن لیتی؟ مگر ہر پھول کو اپنا رنگ پسند ہے، جیسے ہر پرندے کو اپنا گانا۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ایک بار میں نے لاجوردی کوٹ سِلوایا تھا۔ بُرا تو نہ لگتا تھا۔ ماں کہا کرتی تھی، ہر رنگ نئی ہی خوشی دیتا ہے، بیٹا! اگر اس کو یہ بات معلوم ہو جائے تو وہ جھٹ کہہ دے -یہ لاجوردی پھرن تمھیں پسند نہیں۔ وہ دِن بھول کیے جب لاجوردی کوٹ پہن کر سکول جایا کرتے تھے اور یہ بھی تمیز نہ تھی کہ لاجوردی لڑکوں کو زیب دیتا ہے یا لڑکیوں کو۔
اُس کی آنکھیں کتنی لاج بھری ہیں۔ یہ لاج نہ ہوتی تو وہ کتنی اوچھی معلوم ہوتی۔ اتنی لاج بھی تو اچھی نہیں کہ دل کا راز دل ہی میں رہ جائے۔ میں اُس کی طرف کیوں دیکھتا ہوں؟ میرے دل کی دھڑکن تیز کیوں ہو رہی ہے؟
وہ کیسے بنی اس کھڑکی کی رانی؟ کس نے اُسے اس بھڑکیلے فریم میں جڑا؟ کس سے پوچھوں؟ کون سُنائے اس کی کہانی؟ اُسے اس محور کے گرد گھومنے پر کس نے آمادہ کیا؟ قصور کسی کا بھی ہو، وہ خود بے قصور ہے۔ میں اُسے دُور سے دیکھتا ہوں۔ دیکھنے میں تو کچھ بُرائی نہیں اور مجھے اس سے نفرت بھی تو نہیں۔
اس کالی آنکھوں والی کے چہرے پر کبھی کبھی ہنسی دوڑ جاتی ہے، جیسے اندھیری رات کے کالے کالے بادلوں میں بجلی گوٹے کی بے شمار دھاریاں ٹانک دے۔ میرا دل اندر ہی اندر سکڑ رہا ہے۔ سوچتا ہوں کہ وہ روتی بھی ہو گی۔ کاجل سا برس جاتا ہو گا!
کیا اُسے اس ہری ہری گھاس کی یاد نہیں آتی جو مخمل کی طرح اُس کے پاؤں تلے بچھی رہتی ہو گی؟ گھاس کی سوندھی سوندھی خوشبو، جس نے پھولوں کی مہک کے علاوہ ہزار بار اُسے رجھایا ہو گا، وہ بھولی تو نہ ہو گی، وہ ضرور کسی غریب کسان کے گھر میں پیدا ہوئی ہے۔ اس مٹیالے بالاخانے کے ساتھ اس کا رشتہ بہت پُرانا معلوم نہیں ہوتا۔ یہ بات تو میں بلا کسی تصدیق کے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی بیسوا کی بیٹی ہرگز نہیں۔ ورنہ وہ اتنی الّھڑ نظر نہ آتی اور اس کی لاج میں تو کھیت لہلہاتے ہیں۔
لیکن وہ کچھ گاتی کیوں نہیں؟ گانا جانتی تو ہو گی۔ ضروری نہیں کہ بنسری کسی کے ہونٹوں کا انتظار کرتی رہے۔ ہوا بھی تو سُر جگا دیا کرتی ہے۔ سُر نیند کے ماتے نہیں ہوتے۔ ان کی نیند بڑی ہلکی ہوتی ہے۔ کبھی نہ کبھی ضرور اُس کے حلق میں سُر جاگ پڑے ہوں گے، ڈر کر ہی سہی- چنانچہ اب آنکھیں ہی نہیں، میرے کان بھی اُس کے کوٹھے کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ اب تو میں دیکھتا ہوں کہ آنکھوں سے کہیں زیادہ کانوں کو بے قراری ہے۔ کاش! میں کبھی دُور سے اُس کا پھڑپھڑاتا نغمہ سُن پاؤں ۔ میں سوچتا ہوں۔ کان برابر ادھر متوجہ رہتے ہیں۔ آنکھوں میں اِک رنگین غبار سا چھا جاتا ہے۔ جب لونگ فیلو نے لکھا تھا ’’ رات موسیقی سے شرابور ہو جائے گی اور سب تفکّرات جو دن بھر ہمیں ستاتے رہتے ہیں، عربوں کی طرح اپنا ڈیرہ ڈنڈا اُٹھا کر خاموشی سے چلتے بنیں گے۔‘‘ تو شاید اُسے بھی یوں میری طرح ترسنا پڑا ہو۔ گاؤں کے خود رو گیت کبھی تو اس لڑکی کی زبان پر آتے ہی ہوں گے۔
کسے بناؤں ہمراز؟ ڈرتا ہوں کہ سماج کا ہاتھ بڑھ کر اُن تمام پیالیوں کو اپنے حلق میں نہ اُنڈیل لے جن میں میں نے بڑے چاؤ سے کئی رنگ گھولے ہیں۔ مگر یہ ڈر تو لگا ہی رہے گا۔ لاکھ سوچتا ہوں ڈر بیکار ہے۔۔۔ مذہب کا ڈر۔۔۔ خدا کا ڈر۔۔۔ سماج کا ڈر۔۔۔ یہ تمام ڈر پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔
وہ اخلاق کیا جو صرف ڈر پر مبنی ہو؟ وہ اخلاق کیا جو نفرت سکھائے، بَیر سکھائے! نہیں، اب میں نہیں ڈرتا۔
کل رات میں اپنی تمام جرأت کو جمع کر کے اُس کے ہاں چلا گیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جھٹ میرے استقبال کے لیے اُٹھی، بڑی عزّت سے اُس نے مجھے سیاہ کشمیری کمبل پر بٹھا دیا۔
’’پامپور کی دیوی!‘‘ اپنے ذہن میں میں اُس سے مخاطب ہوا۔ اور میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ آئے۔ ’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
شہد بھرے لہجے میں اُس نے جواب دیا۔ کُنگ پوش!‘‘
اور میں نے دیکھا کہ ایک زعفرانی حیا اس کے گالوں پر پھوٹنے لگی ہے۔
’’کُنگ پوش۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کُنگ پوش کے کیا معنی ہیں؟‘‘
’’کُنگ پوش یعنی کیسر کا پھول۔‘‘
اور اُسے ایسی جگہ دیکھ کر مجھے فوراً خیال آیا- اور سب پھول بہار میں کھِلتے ہیں۔ مگر کیسر خزاں میں کھِلتا ہے!
میں نے محسوس کیا کہ میرے کانوں میں وہی گیت گُونج رہا ہے جو میں نے پامپور کے کھیت میں سُنا تھا:
یار گو میے پامپور وتے
کُنگ پوشو رُٹ نال متے
سُوچھم تتے بچھُس یتے
بار صائیبو بو جتم زار!
میں سوچنے لگا کہ یہی خیال پیچھے میری بیوی کو نہ آ رہا ہو۔ ’’میرا محبوب پامپور کی طرف چلا گیا اور وہاں کیسر کے پھول اس سے ہم آغوش ہو گئے۔ وہ وہاں ہے اور میں یہاں۔ او خدا! میری آرزو سُن!
کُنگ پوش بہت خوش دکھائی دیتی تھی۔ اس کے چہرے پر مسرّت کی لال لال دھاریاں ایک جال سا بُن رہی تھیں۔ رات کا پہلا آدمی اُس کے ہاں آیا تھا۔ اُس نے سوچا ہو گا کہ میں اُسے روپیہ ہی نہ دوں گا، بلکہ چنار کا ایک سبز پتّا بھی دُوں گا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اُسے اپنی محبت بھی دے دی ہے۔
اور کنگ پوش لکڑی کے بنے چنار کے پتّے پر الائچی اور بادام کی گِریاں رکھ کر لے آئی۔ میں نے ایک گِری اُٹھا لی۔
’’شکریہ!‘‘
’’الائچی نہ لو گے؟‘‘
’’الائچی تو میں کھا چکا ہوں۔‘‘
کانگڑی میں کوئلے دہک رہے تھے- اُس کے گالوں کی طرح!- کنگ پوش نے یہ کانگڑی میری طرف سرکا دی۔
’’شکریہ!‘‘
کتنے قریب تھے اُس کے گال- کیسر اور اُشا کی لالی سے کہیں سُندر۔ کالے ریشمی بال- راتوں کے اَن گِنت سائے چھپائے ہوئے۔
کنگ پوش الّھڑ تو نہ تھی۔ ہاں، شرمیلی ضرور تھی۔ بجلی کی روشنی میں اُس کا لاجوردی پھرن اُسے زیب دے رہا تھا۔
بالا خانے کی زبان چند رسمی فقروں تک محدود رہتی ہے۔ میں اس سے واقف نہ تھا۔ شکوہ، شکریہ اور احسان کے جھٹ جھٹ بدلتے رنگ میں کنگ پوش کی آنکھوں میں کیسے دیکھتا۔ میرا دِل دھڑک رہا تھا۔ قہقہہ کیسے لگاتا- ایسا قہقہہ جو کسی پہاڑی چشمے کی آواز پیدا کرتا!
کنگ پوش نے لکڑی کا بنا ہوا پتّا جس پر بادام کی گِریاں اور الائچیاں بدستور پڑی تھیں، میری طرف بڑھایا اور یوں میں نے خاموشی سے ایک الائچی اُٹھا کر منہ میں ڈالی، وہ میری طرف دیکھنے لگی۔ سچ مچ وہ کیسر کا پھول تھی۔
میں مسکرایا۔ وہ بھی مسکرائی۔ میں شاید ایک ناگ رائے تھا اور وہ ایک ہیمال۔ اور شاید کشمیر کی پُرانی پریم کہانی ایک بار پھر دُہرائی جانے والی تھی۔ مگر میں نے سنبھل کر کہا۔ ’’میں تو گیت جمع کیا کرتا ہوں۔‘‘
’’گیت؟ -کیسے گیت؟‘‘
’’گاؤں کے گیت۔‘‘
’’گیت!- گیت!‘‘ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی دُلہن کا بھڑکیلا لباس میری آنکھوں کے سامنے مَیلا ہو گیا ہے۔
اُس نے اپنا تھکا ہوا بازو اُٹھایا اور کانپتی اُنگلی سے سامنے کے مکان کی طرف اشارہ کیا، جہاں گھُنگرو بج رہے تھے اور روشنی جھلملا رہی تھی۔ ’’جاؤ اس طرح چلے جاؤ۔ اُدھر گیت بھی بکتے ہیں، اور۔۔۔ اور۔۔۔۔‘‘
اُس کے لہجے میں کھیتوں کی گنگناہٹ تھی اور میں اُن کھیتوں کی طرف جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا، جہاں مٹی کیسر پیدا کرتی ہے۔
اور سب پھول بہار میں کھلتے ہیں، مگر کیسر خزاں میں کھلتا ہے۔
کیا یہ دھرتی کبھی اتنی بانجھ ہو جائے گی کہ کیسر اُگنا بند ہو جائے؟
٭٭٭
خوشبو کی کوئی منزل نہیں
سکھ وَنت کی زبان سے وہ بات ہزار بار سننے پر بھی ہمیشہ نئی معلوم ہوتی کہ تخلیق کے لمحے آوارہ تتلیوں کی طرح ہوتے ہیں، جو کبھی ایک پھول پر جا بیٹھتی ہیں، کبھی دوسرے پر یا یہ کہ گھوڑی اس وقت تک بوڑھی نہیں ہوتی جب تک گھوڑا بوڑھا نہیں ہوتا اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔
آتش دان کے دہکتے انگاروں کی طرح نہ جانے کیسے کیسے خیالات اس اسٹوڈیو میں جنم لیتے رہتے۔ پریوال اسٹوڈیو، یہ نام بھی برا نہ تھا۔ کوئی نہ کوئی نامکمل بُت تخلیق کے لمحوں کا انتظار کرتا رہتا۔ کمرشیل آرٹ جس سے پریوال اسٹوڈیو کی زندگی قائم تھی۔ نٹ کھٹ بانکی چھیلی سوت کی طرح سکھ وَنت کی انگلیوں کو چومتا چلا جاتا اسٹوڈیو۔ لیکن تخلیق کے لمحوں کی یاد بھلائے نہ بھولتی اور وہ ڈیزائن میں رنگ بھرتے بھرتے کہتا۔ ’’سر سے پیر تک بھیگی ہوئی جل پری کی طرح کوئی نہ کوئی مورتی خود میرے دل کا دروازہ کھٹکھٹانے چلی آتی ہے۔‘‘
اسٹوڈیو کے سامنے پیپل کے پتے تالیاں بجاتے رہتے۔ ادھر کوڑے کے ڈھیر پر مرغیوں کا آرکیسٹرا بجتا رہتا۔ اُدھر ہم کسی نہ کسی کی ٹانگ کھینچتے رہتے۔
سکھ وَنت کسی نہ کسی ڈیزائن پر جھکا جھکا موجو لینے کا تاثر قائم رکھتا جیسے کوئی ملاح کشتی کو ڈبو کر خود لطف اندوز ہو رہا ہو۔
اسٹوڈیو کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔ باہر کوڑے کے ڈھیر پر کبھی تیتر کے، کبھی بٹیر کے اور کبھی مرغے کے نچے ہوئے پَر دیکھ کر ہمیں اپنے نچے ہوئے جذبات کا دھیان آئے بغیر نہ رہتا۔
جے پال چائے کا گھونٹ بھر کر کہتا۔ ’’تو سکھ وَنت جی آبو چلنے کا پروگرام بنایئے نا۔‘‘
’’آبو بھی کوئی منتر ہے جس کی ہر وقت مالا جپی جائے‘‘ راجندر قہقہہ لگاتا۔‘‘
’’تم آبو کے پس منظر میں ایک ناول لکھو، راجندر جے پال نے گویا آبو کی لطیف سی یادوں کا اگر بتی کی خوشبودار دھوئیں کے حلقوں کی طرح جائزہ لیتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں بنتی۔ کوئی درد نہیں جاگا! پیارے! ویسے وہ تشبیہ خوب ہے کہ آدھی رات یوں آئی جیسے لجاتی شرماتی دُلہن آتی ہے۔ سچ سچ بتاؤ افسانوںکا چکر چھوڑ کر ناول لکھنا کب شروع کرو گے؟
’’ناول لکھنے کا وعدہ تو پہلے جے پال کو پورا کرنا چاہیے‘‘ کاشی ناتھ نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اتنی سخت ریاضت کے بعد بھی آپ چمتکاری پُرش نہ بن سکے۔‘‘
قہقہوں کی بارش ہونے لگی۔
پتھر کا نامکمل بت تخلیق کے انتظار میں بوڑھا ہو گیا۔
جے پال کو اندھیرے کی جھیل میں ڈبکی لگا کر اُبھرتی کرن کے انداز میں بات کرنا پسند تھا۔
راجندر اس شاعر سے متفق ہونے کی کوشش کرتا جس نے کہا تھا کہ آسمان پر چاند ایک لمحہ ہے اور غمِ دوراں ہو یا کسی انسان کی پوری عمر وہ بھی تو ایک لمحہ ہے۔
کاشی ناتھ کی آواز سمٹی مٹھی کی شکل اختیار کر لیتی۔ وہ رادھا کو زہرہ بنا ڈالتا اور قلوپطرہ کو اُروشی۔ اس کی باتوں میں ہوائیں سنکھ بجانے لگتیں۔ رات کی رانی کا دوپٹہ ڈھلک جاتا۔ راگنی جے جے ونتی خوشبو کی سیج پر جاگ اُٹھتی اور وہ میری طرف دیکھ کر کہتا۔
اب تو اس کا ایک ہی علاج ہے کہ آپ ایک ایک کر کے سبھی کپڑے اتار کر سرتا پا کرشمہ ہونے کا ثبوت دیجیے، تالیاں بج اٹھتیں۔ لیکن مجھے تاؤ نہ آتا۔
کوئی نہ کوئی کسی کی خامی کا انکشاف کرنے کی کوشش جاری رکھتا۔
سچ اور جھوٹ کے درمیان توازن قائم رکھنے کی خاطر کبھی کبھی معذرت کا انداز اپنایا جاتا۔ ایک دوسرے کا راز اُگلنے کی نیّت سے ہم بڑے بڑے شعبدہ بازوں کو مات دے دیتے جیسے ٹانگ کھینچنا ہی ہماری شخصیت کا اصل روپ ہو۔
سکھ ونت آواز میں لوچ لا کر کہتا ہے۔
’’میں تو یہ بات اپنے بڑے بڑے دشمن کے سامنے کہنے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ کہ گم نام سے گم نام لوگ بھی اپنی اپنی سوغات لائے اور شہد کی طرح میرے علم میں اضافہ کرتے رہے اور اب میں آپ لوگوں کی روشن چوکی کو نیک شگون سمجھتا ہوں۔‘‘
اپنی تعریف سن کر ہم پھولے نہ سمائے۔
سکھ وَنت کی بات اَن سنی کرتے ہوئے جے پال کسی غیرملکی ادب کے شاہکار کا حوالہ ربڑ کی گیند کی طرح اُچھالتا ہے۔
راجندر یہ شکایت کرتا کہ انسان کا بیش قیمت وقت تو روٹی کا ایندھن بن جاتا ہے۔
کاشی ناتھ سب پر لعنت بھیجنے کے انداز میں کہتا!
’’کچھ نہ کرنا کمال کرنا ہے‘‘
سکھ ونت ڈیزائن پر جھکا ہوا مبہم سے نقوش اُبھارتا رہتا۔ جیسے خوابگاہ کی کھڑکی کے شیشے پر سورج کی کرنیں مسکرا رہی ہوں۔
جے پال اپنے کسی افسانے کا موازنہ موپساں کی ’’چربی کی گیند‘‘ سے کرنے لگتا تو راجندر اس ہوٹل کا قصّہ لے بیٹھتا جسے اس نے ڈھائی برس تک متواتر نقصان اُٹھانے کے بعد بیچ باچ کر اب ایک ریستوراں میں نوکری کر لی تھی۔
کاشی ناتھ دلّی کا گن گان کرتے ہوئے کہتا!
’’یہ تو سدا سہاگن ہے، اس کی مانگ کسی نہ کسی کے لہو سے بھرتی ہی رہے گی۔‘‘
ہم آرزوؤں کے چہروں پر پھیلے تاثرات کو سمیٹنے کا جتن کرتے رہتے اور اکثر بلندی کے قدم لیتے لیتے پستی میں جا گرتے۔
عہدِ پارینہ کی ہر روایت کا منھ چڑاتے ہوئے ہم یہ کہنے سے گریز نہ کرتے۔ یہ دیوار جو غم کھا کر رہ گئی کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔
سکھ وَنت جیسے منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اپنا خیال کسی دھرم گرنتھ کے حوالے کی طرح پیش کرنے لگتا۔
’’یہ کون سا خوف ہے جس سے ہمارا غم پتھرا کر رہ گیا۔ سانپ اور نرتکی کہو چاہے نرتکی اور سانپ! ان دونوں سے خوف تو ہر حال میں آتا ہی ہے۔ اور یہ جے پال تو سانپ کو بھی دودھ پلانے کا دعویٰ کرتا ہے۔
یوں کوئی روشنی جاگتی رہتی۔ کوئی فن کار رانجھا الکھ جگا کر پریوال اسٹوڈیو کے سامنے سے گذر جاتا۔
ہر رات آنی جانی تھی۔
اسٹوڈیو کے ایک کونے میں رکھی جل پری کی مورتی ندی یا جھیل سے دور گرد کی موٹی تہوں کے نیچے منھ بسورتی سی نظر آئی۔
سکھ وَنت نے کہنا شروع کر دیا۔
’’کیا ہزاروں سوالوں کا ایک جواب ہمیں سچائی کی گپھا تک لے جا سکتا ہے؟‘‘
جے پال وہ بول اَن سنا کرتے ہوئے راجندر کے کسی افسانے کی تعریف کرنے لگا۔
’’عنوان تو بُرا نہیں۔ آئیں پجاری، جائیں پجاری، لیکن آرتی کا سُر نہیں اُبھرا نہ خوشبو کا شنکھ گونجا۔ نہ روشنی کی گھنٹیاں بجیں نہ دیوداسی ناچ کے آنگن میں من کی اداسی مٹانے آئی۔‘‘
ہمارے ذہن یوں کسی نہ کسی افسانے کی گلی میں جا نکلتے۔ کبھی لذّت شعلہ بن جاتی اور کبھی جسم سے روح کی دوری ایک وسیع خلیج کا روپ دھار لیتی اور تخلیق کا لمحہ کبھی روزن سے جھانکنے لگتا کبھی کھڑکی سے۔
کاشی ناتھ نے مسکرا کر کہا۔
عورت کی کوکھ نے جس شعلے کو جنم دیا وہ سب سے پہلے اسی کوکھ پر لپکا۔ یہی حالت ہمارے فن اور فنکار کی ہے۔
میں بھی چپ نہ رہ سکا!
’’ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں۔ ویسے اپنے سکھ ونت کا تو یہ حال ہے کہ نہ تو پامال موضوع سے دوستی کی ہے نہ الٹرا ماڈرن انداز سے دشمنی کرنا اس کے بس میں ہے۔ جڑیں پاتال میں چوٹی آسمان میں لیکن پھیلیں گے جہان میں۔‘‘
ہماری باتوں کے کنگن کھنکتے رہتے اور ہم باتوں ہی باتوں ایک دوسرے کے سایے کی لمبائی ناپنے کی کوشش کرتے رہتے۔
باتوں باتوں میں دریا رخ بدل لیتے اور چشمے سوکھ جاتے۔ جہاں آبشار وہاں دلدل، دعا بے کار لیکن بددعا لگنے کو تیار۔
کبھی یہ خیال اچھالا جاتا کہ دنیا بھر کے لوگ تین قسم کی مٹی سے بنے ہیں۔
کبھی چاند کی طرف منھ کر کے رونے والے کتے کی حالتِ زار پر تبصرہ شروع ہو جاتا۔
آندھی آئے لُو چلے۔ سکھ ونت کہنیاں پھیلائے کمرشیل ڈیزائن پر جھکا دوستوں کی چیخ چیخ کا مزہ لیتا رہتا۔
’’یہ تقدیر کا پھیر ہے کہ جے پال کا وہ ناول بیچ میں لٹک رہا ہے تِرشُنکو کی طرح۔‘‘
سکھ ونت نے مسکرا کر کہا۔ ’’جے پال جی اپنے ناول کے پیر دھرتی پر نہ لگنے دیجیے، دفتر پڑھتے جائیے۔ پہلا مسودّہ پسند نہیں تو دوبارہ لکھیے، سہ بار لکھیے۔ حتیٰ کہ نہ لکھتے ہوئے بھی لکھتے جائیے۔۔۔‘‘
قہقہوں کی پھلجھڑیاں فضا میں بکھر گئیں۔
سکھ ونت نے گمبھیر ہو کر کہا۔
’’اگر میں جے پال کی جگہ ہوتا تو ایسا ناول لکھتا کہ پڑھنے والا خودکشی کر لیتا۔۔۔
کاشی ناتھ نے چٹکی لیتے ہوئے کہا!
’’ہاں صاحب! جو خودکشی نہیں کر سکتا وہ دوسروں کو خودکشی کی تلقین ضرور کر سکتا ہے۔‘‘
راجندر اور جے پال نیلے نیلے رنگوں کی طرح گھل کر سبز رنگ کی جھلکیاں پیش کرنے لگے لیکن کاشی ناتھ قریب ہو کر بھی نہ تو گھلنے کو تیار تھا اور نہ سایے کی طرح خاموش رہ سکتا۔
کاشی ناتھ نے بازو لہرا کر کہا!
’’جے پال کا ناول تو شہر میں گھسنے والے گیدڑ کی موت مارا گیا۔‘‘
سکھ ونت نے اپنا قصّہ چھیڑ دیا۔
’’مجھے تو شہنائی پر بجنے والی میاں کی ٹوڈی بھی سانپ کی طرح ڈستی ہے۔ واقعی ہمارا قیمتی وقت بغیر اُجرت کے ہی بک جاتا ہے۔ جیسے کمرشیل آرٹ کے لمحے مداری کے بندروں کی طرح ناچتے رہتے ہیں۔ میں تو اس ڈگڈگی پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
ہماری گفتگو کی سیڑھیاں کبھی آکاش کی طرف اُٹھنے لگتیں کبھی پاتال میں اُتر جاتیں۔ اکثر آپس میں چخ چخ ہو جاتی۔ جیسے خوشبو کے سفر میں کانٹوں کی رفاقت بھی ضروری ہو۔
پریوال اسٹوڈیو طرح طرح کی سرگوشیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ جہاں ہر سرگوشی بغیر پاؤں کی ضربوں کے مسافت طے کرنے کا دعویٰ کرتی رہتی۔
ہماری گفتگو میں یادوں کی سیاہ بدلیاں چھائی رہتیں جیسے ہم قبرستان میں بھٹک رہے ہوں۔ کبھی ہم یوں بات کرتے جیسے کوئی کم ظرف شرابی اپنی پہچان کے صوفی پر گالی اُچھال دے۔ کبھی کسی تشبیہ میں گوبر کی بو آنے لگتی، کبھی ہم ایک دوسرے کی دلیل کو اَدھ جلی سگریٹ کی طرح ایش ٹرے میں مَسل دیتے۔
کمرشیل آرٹ کا کام چلتا رہتا۔ نقوش اُبھرتے رہتے۔ بات سے بات نکلتی رہتی اور ہماری گفتگو میں کبھی دیواریں چھٹیوں کا مذاق اُڑانے لگتیں تو کبھی چھت بنیادوں کو بوگس قرار دے دیتی۔
راجندر نے اپنے کسی افسانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے اپنے مرکزی کردار کے خلوص کا تو خیرمقدم کیا ہے اور اس کے کام میں روح کا نور دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن اس کی روشن چوکی کو میں نے حجلۂ تاریکی سے تعبیر کیا ہے۔ وہی سایے وہی روشنی، وہی دماغ کے چور دروازے اور وہی شاہکار مقولہ- مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔
ہم سمجھ گئے کہ راجندر کا اشارہ سکھ ونت کی طرف ہے لیکن سکھ ونت نے اس پہلو پر پردہ پوشی کے انداز میں طویل قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’لیجیے چائے آ گئی۔‘‘
جے پال نے راجندر کی بات اَن سنی کرتے ہوئے جیب سے وِٹامن اے اور وِٹامن بی کی شیشیاں نکال کر گولیاں تقسیم کرنی شروع کر دیں۔
کاشی ناتھ نے چائے میں چینی ڈالتے ہوئے کہا۔
’’صحت کی بجائے بیماریاں کیوں بانٹتے پھرتے ہو ’’پیارے۔‘‘
’’جے پال کو یہ گولیاں سرکاری ہسپتال سے مفت ملتی ہیں‘‘ سکھ ونت نے ہنس کر کہا۔ ’’چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ حاتم طائی پیچھے بننا۔‘‘
چائے کی پیالیوں میں طوفان آتا رہا۔ رنگوں، خوشبوؤں اور شعلوں کا طوفان۔
الٹی سیدھی باتوں کے ساتھ چائے رفاقت کو بھی ہوا دیتی رہی۔
میں بیٹھا سوچتا رہا کہ آگ کے پاس بیٹھنے سے واقعی پیاس نہیں بجھتی۔ پھر بھی وہاں سے اُٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ میں نندی گن کی طرح وہاں بیٹھا جگالی کرتا رہا۔
’’مجھ سے کوئی پوچھے کہ کس جانے پہچانے خوف کی تحت یہاں ڈٹا بیٹھا ہوں‘‘ میں نے گمبھیر آواز میں کہنا شروع کیا۔ راہ چلتے لوگ مجھے وِش پان کے لیے مجبور کرتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی میں ایک آدھ قطرہ اپنے ان کرم فرماؤں کے منھ میں بھی ڈال دیتا ہوں تاکہ وہ اس زہر کا ذائقہ تو چکھ لیں۔ اگرچہ مجلس ختم ہونے سے پہلے پہلے معذرت کا اظہار بھی مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں میں نے زندگی کو کیا دیا۔‘‘
’’آپ کی شکایت تو یہ ہونی چاہیے کہ آپ کو زندگی سے کچھ نہیں ملا۔۔۔ سکھ ونت نے میری بات کاٹ کر کہا، خیر چھوڑیئے میں تو آبو کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘
جے پال نے گفتگو کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’آبو بظاہر اراولی کی ایک چوٹی کا نام ہے۔ لیکن در اصل وہ ہمالہ کا ایک ٹکڑا ہے جسے برہما کی اچھّا پر شیش ناگ اپنے پھن پر اُٹھا کر وہاں لائے تھے۔ یہ بڑی دلچسپ داستان ہے جسے میں نے اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ اور وہاں ہریالی تو بس اسی حصّے میں ہے چاروں طرف علاقہ ویران ہے۔ دور دور تک مہیب چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں جو باد و باراں کے سبب ایسی ایسی شکلیں اختیار کر گئی ہیں کہ ان پر انسانی مجسموں کا گمان ہوتا ہے۔ باقی رہی بات کہ ہم نے زندگی کو کیا دیا یا زندگی سے کیا لیا یہ بحث بہت طویل ہے۔۔۔
کاشی ناتھ نے بازو لہرا کر کہا۔
’’تم جدید افسانہ نگار ہو۔ اس روایت میں ترمیم کر لو ہمالہ کے اس ٹکڑے کو شیش ناگ پھن پر اُٹھا کر نہیں دُم سے باندھ کر کھینچتے ہوئے لائے ہوں گے۔۔۔
جے پال نے لطیف انداز میں گویا کاشی ناتھ کی دُم پر پاؤں رکھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیے آبو کی جھیل اب تک نکی جھیل کہلاتی ہے جس کا پانی وہاں کے راکشش نے شیش ناگ سے ناراض ہو کر پی لیا تھا۔ لوگ پیاس سے تڑپنے لگے اور شیش ناگ کے اشارے پر لوگوں نے اپنے ناخنوں سے اس جھیل کو کھودنا شروع کر دیا اور پانی نکل آیا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ انسان کو تکمیلِ آرزو کے لیے اپنی جھیل خود کھودنی پڑتی ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ تم اس جنم سے پہلے بھی افسانہ نگار کے روپ میں پیدا ہو چکے ہو گے۔ اور یہی تمھاری روایتی علامت ہے، پیارے!‘‘
بیضوی، گول، مخروطی اور نوکیلی آوازیں آپس میں ٹکراتی رہتیں۔ سکھ ونت منھ لٹکائے بیٹھا رہتا۔ جیسے زمین سورج سے جدا ہو رہی ہو، کاشی ناتھ گمبھیر نظر آنے لگتا جیسے زمین اپنے صحیح مرکز کے گرد گھوم رہی ہو۔ جے پال کے چہرے پر محرومیت کا احساس اُبھر اٹھتا جیسے کوئی سیارہ فلک سے اکھڑ چکا ہو۔ راجندر کے چہرے پر گویا یہ تحریر نمایاں ہونے لگتی کہ جوالا مکھی کے لاوا گلنے سے پتھر پھٹ گئے ہوں۔ پیچھے دھکیلنے اور تھپکی دینے کے انداز میں تال میل رکھنے کی کوشش جاری رہتی۔
راجندر اور جے پال میں یہ بحث شروع ہو جاتی کہ ان میں با وقار عاشق کون ہے۔ ہماری نظر میں کاشی ناتھ کی طرف اُٹھ جاتیں جسے ہم لیڈی کِلر مانتے تھے اور پھر یہ لیڈی کِلر والا لطیفہ شٹنگ کرتے انجن کی طرح شوں کر کے نکل جاتا۔
سکھ ونت کی حالت اس چکور کی طرح نظر آتی جو انگارے کو چاند سمجھ کر اُڑنے کو بیتاب ہو، اور وہ پھر سے گرم چائے منگوا کر اپنی کلپنا پر خود ہی جھوم اُٹھتا جو اس نے جے جے وَنتی کی مورتی میں پیش کی تھی۔
اسٹوڈیو کے پاس سے کوئی ماڈرن چہرہ آئینے میں جھلملاتے عکس کی طرح گذرتا تو ہماری نظریں ایک ساتھ بڑے شیشے سے ٹکراتیں جیسے حسن و عشق کی تلاش کسی تردید کی محتاج نہ ہو۔
یک بیک یہ اعلان کرتے ہوئے کہ جے پال سات بار اپنے ناول کا مسودہ نذر آتش کر چکا ہے۔ سکھ ونت بڑے مزے مزے سے جے پال کو بوگس ڈیکلیر کر دیتا۔
اسی سال سکھ ونت کے فنِ بُت تراشی کی تیسری نمائش ہوئی تو ڈاکٹر صابری نے اس کی تخلیقی صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے خاص طور پر جے جے وَنتی، جل پری، ناکام انسان، باگیشتری، کنواری ماں اور پرایا شہر کی بے حد تعریف کی۔
ہم جب بھی پریوال اسٹوڈیو میں اکٹھے ہوتے تو سکھ ونت کو چھیڑتے۔
’’ڈاکٹر صابری کی جھولی میں شہرت مسکراتی ہے۔۔۔‘‘
راجندر نے بڑے لطیف انداز میں کہا۔
’’ڈاکٹر صابری نے تو گھوشال کی بھی بہت تعریف کی ہے۔۔۔‘‘
سکھ ونت نے اخبار کا پرانا تراشا فائل سے نکال کر دکھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ ڈاکٹر صابری کا نوٹ میرے متعلق ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔‘‘
میں بیٹھا سوچتا رہا کہ ہم سب بونے ہیں۔
میں شیشے سے باہر جھانکنے لگا جہاں ڈھلتی دوپہر کے وقت کوڑے کے ڈھیر پر نُچے ہوئے پَر ہوا سے سرگوشیاں کرتے معلوم ہوتے تھے۔
راجندر نے ناک سکوڑ کر کہا۔
ہمارے نقاد کوئی خدمت سرانجام دینے کی بجائے پبلک کو گمراہ کر رہے ہیں۔
’’ڈاکٹر صابری کا جواب نہیں‘‘ سکھ ونت کہتا چلا گیا، ان کی وسیع النظری کی داد دینی پڑتی ہے۔ میں ان کے ٹیسٹ کو بخوبی سمجھ گیا ہوں۔
مجھے ایک ضروری کام سے ٹی ہاؤس جانا تھا۔ لیکن مجھے یہ ڈر تھا کہ میرے یہاں سے اُٹھتے ہی میرا کچا چٹھا کھل جائے گا۔
میں وہاں بیٹھا اس کہاوت کا رس لیتا رہا کہ مرد جس جگہ خیمہ گاڑ دے وہیں رونق ہو جاتی ہے۔
سکھ ونت راجندر سے آنکھ بچا کر اپنے جے پال پر جھپٹا۔
’’روشنیوں کے شہر تک پہنچنا علامہ باطل کے بس کا روگ نہیں۔‘‘
میں بیٹھا سوچتا رہا کہ یہ تلخی روز بروز تلخ سے تلخ تر کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ کیا واقعی اس کے پیچھے سکھ ونت کی تیسری نمائش میں تیسرے پیگ کا ہاتھ ہے۔
میں نے اس روز جے پال کے متعلق پوچھا تو سکھ ونت نے فوراً اذیّت پسندی کی کیتلی آگ پر چڑھاتے ہوئے نمائشی انداز میں کہا۔
دہن تیری کی، تین پیسے کا گھن چکّر!! چڑیا کا غلام!! جینس کی راہ میں پیتل کے سانپ پھنکار مارنے سے رہے۔ واقعی علامہ باطل کا ناول تو پیدا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
آخر جے پال پریوال اسٹوڈیو کا راستہ بھول گیا۔
ایک روز راجندر نے مجھے لنچ پر بلا کر خاص طور پر بتایا۔
’’دیکھو تم ان بونوں میں کہاں آ ٹپکے؟ تم گریٹ ہو۔‘‘
میں نے بڑی مشکل سے حلق سے نوالہ اُتارا۔
میں کہنا چاہتا تھا کہ بھائی راجندر یہی بات تو اس روز لکشمی ریستوراں میں بیٹھے بیٹھے کاشی ناتھ سے کہہ رہے تھے۔ میں اتفاق سے اس کیبن کے قریب کسی کا انتظار کر رہا تھا۔
مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر کہیں میں نے یہ بات کھلم کھلّا کہہ ڈالی تو راجندر مجھ سے لنچ کا بل دھرا لے گا۔
میں جب بھی پریوال اسٹوڈیو جاتا سکھ ونت کو روشن اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے دیکھتا میں اس سے یہی کہتا!
ایک جن جائے دو جائے۔ گاندھی جی نے کہا ہے جوت سے جوت جلے۔ چھوڑو یار کسی نے کچھ بھی کہا ہو۔ جے پال کو گولی مارو۔ ہو سکے تو یار کاشی ناتھ کو شیشے میں اُتارو۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
ایک روز میں کوئی ہفتہ بھر غیر حاضری کے بعد پریوال اسٹوڈیو گیا تو سکھ ونت نے راجندر پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا۔
’’یار یہ جے پال تو بھُوسے کا ڈھیر نکلا اور اس پر وہ چنگاری راجندر نے پھینک دی۔‘‘
’’کہیں سرِ راہ جے پال مِل جاتا تو وہ اپنا زہر سکھ ونت پر اُگل دیتا۔‘‘
واقعی سکھ ونت اور جے پال ایک دوسرے پر بُری طرح چھا گئے تھے۔
وہ جس قدر ایک دوسرے کا مذاق اُڑاتے اتنے ہی مضحکہ خیز نظر آنے لگتے۔
کبھی سکھ ونت بتاتا کہ آج کل کام کا رش بہت بڑھ گیا ہے، کبھی مصروفیت کی بات چھوڑ کر کسی آفیسر کی شکایت کر دیتا جو اس کی محبوب مورتی جے جے ونتی اُٹھا کر لے گیا۔
وہ کہتا چلا گیا۔
’’دیکھیے میں نے نمائش کے دوران وہ مورتی سات ہزار میں بھی نہ بیچی۔ ابھی اس روز ڈاکٹر صابری یہاں آئے تو اس کالے پتھر کی اس مورتی کی تعریف کے پل باندھتے رہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میرا افسر دوست اسی مورتی کو اُٹھا کر لے جائے گا۔‘‘
وہ دیر تک ڈاکٹر صابری کی تعریف کرتا رہا۔ جنھیں جمیلہ سے بے پناہ عشق تھا۔ اب تو جمیلہ کی مورتی بنانی ہو گی جس کے گیسوؤں سے نہ جانے کیسی کیسی خوشبو لپٹیں مارتی رہتی ہے۔‘‘
جو کبھی سرگوشیوں کا رسیا تھا زیر لب بات کرنے لگا اور اب تو سکھ ونت زیر لب بولنے کی عادت اپنا رہا تھا۔ کمرشیل ڈیزائن میں رنگ بھرتے بھرتے برش روک کر سکھ ونت نے اپنی کسی مورتی کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’لذت سے بے نیاز، عمل سے بے نیاز، طلب سے بے نیاز، بتائیے وہ کون سی شے ہے؟ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی روح کے ساز پر میاں کو ٹوڈی چھیڑتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر صابری بھی خوب انسان ہیں۔ اُن کے اُداس چہرے پر ذہین آنکھیں چمکتی ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ میں کون سی مٹی کا بنا ہوا ہوں لیکن اُن کی تنقید کی روشنی میں میری آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔ اُس روز وہ سرِ راہ مل گئے جمیلہ ان کے ساتھ۔ اب صاحب۔ جمیلہ بولی- میری مورتی کب بنائیے گا۔ میں نے کہا۔ دیر نہ ہو گی۔ اگر ڈاکٹر صاحب اجازت دیں تو میں آپ کو سرخ پتھر میں للت راگنی کے روپ میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بولے ’’بصد شوق۔ خیر میں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے موڈ میں پا کر یہ سوال کر ڈالا کہیں میری پروگریس ایک جگہ پہنچ کر جام تو نہیں ہو گئی‘‘؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا۔ ’’میں کبھی تفصیل سے بتاؤں گا۔ شہرت کے لیے اپنے ایڈوائزر کو مٹھی میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔
کاشی ناتھ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’نقاد کے کندھوں پر کھڑا ہونا فنکار کی توہین ہے۔‘‘
’’یہاں تو جو بھی آتا ہے خوشبو لے کر ہی جاتا ہے۔‘‘ سکھ ونت نے کاشی ناتھ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’خوشبو؟‘‘ کاشی ناتھ بڑبڑاتا ہوا باہر چلا گیا۔
میں نے دل ہی دل میں کہا۔ اے دانش و شاعر! آج سے تم مردہ قرار پا گئے۔‘‘
اسی شام ٹی ہاؤس میں چائے پیتے ہوئے سکھ ونت نے کہا۔
’’کاشی ناتھ کی تازہ نظم دیکھی نہ جائے ہمارے ایڈیٹر صاحبان ایسی نظمیں کیوں شائع کر دیتے ہیں۔‘‘
میں نے مسکرا کر کہا۔
نہ سر نہ پیر۔ لعنت بھیجئے اس نظم پر۔ کاشی ناتھ کا بچہ! سناب کہیں کا!!‘‘
اتنے میں کاشی ناتھ آ نکلا۔
’’جسے لینے بھیجا تھا وہ نہیں آیا اور آپ نے خواہ مخواہ ہم سب کو ذلیل کر دیا۔‘‘ کاشی ناتھ نے کھڑے کھڑے کہا۔
’’وہ تو جس گپھا سے آیا تھا وہیں چلا گیا، سکھ وَنت مسکرایا۔‘‘
’’تو اُس گپھا کا ڈیزائن بھی آپ نے بنایا ہو گا۔ کاشی ناتھ چپ نہ رہ سکا، اور دیکھیے وہ ڈیزائن آپ کا کمرشیل کارنامہ ہے یا فنی شاہکار یہ تو آپ ہی بہتر جانتے ہوں گے۔‘‘
’’کمرشیل آرٹ اور فنی تخلیق کے درمیان میرا دو تین گھنٹے کا فاصلہ تو ہمیشہ قائم رہتا ہے‘‘ سکھ ونت اپنے خیال پر گویا خود ہی جھوم اُٹھا۔
کاشی ناتھ کی موجودگی میں بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا۔
میں نے دل ہی دل میں کہا۔ شاید اس تین گھنٹے کے وقفے میں سکھ ونت دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اپنی انا کی زرد گھاس چھیلتا رہتا ہے اور رات کو تان پورہ لے کر اسی گھاس کی آرتی اُتارتا ہے۔
اچانک ایک حسینہ دائیں دروازے ٹی ہاؤس میں داخل ہوئی اور ہمارے پاس والے صوفے پر آ بیٹھی۔
سکھ وَنت نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وہ میرا ماڈل نہیں ہو سکتی اس سے تو کہیں اچھا ہو گا کہ میں کسی چٹان کے نقوش سے عورت کی مبہم سی شکل اُبھاروں اور اب میں سوچتا ہوں چٹان کو ناول بنانا بھی فضول ہے۔‘‘
میں نے بازو لہرا کر کہا۔
خوشبو کی کوئی منزل نہیں۔
کاشی ناتھ نے مجھے گھور تے ہوئے کہا۔
پیارے تم اس جملے کا کاپی رائٹ کلیم نہیں کر سکتے۔ یہ تو جے پال کا کہیں سے اُڑایا ہوا تکیہ کلام ہے۔ تم یہ تسلیم کر لو ایسی بھی کیا شرم ہے۔
’’شرم‘‘ راجندر نے گردن بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’شرم تو وہ مرغ ہے جو روز کسی تندور کی آنچ سے نکل کر کھانے والے کی پلیٹ میں سج جاتا ہے۔‘‘
میں نے بات کا رخ جے پال کی طرف موڑتے ہوئے کہا۔
’’جے پال اپنے حجرے میں بیٹھا آرزوؤں کے اشارے پر خوشبوؤں کو آواز دے رہا ہو گا۔ اس روز سرِ راہ اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ اس کا سفر میناکشی کے دروازے پر کھڑے یاتری کا سفر نہیں ہے جو ہوا کے دامن پر اُڑتے ہوئے پھول کو پا کر دیوی کے چرنوں کو بھول جاتا ہے۔ اس کے بیاہ کے مطابق اس کے اور اس پاکیزہ بھسم کے درمیان ایک فرلانگ کا فاصلہ ہے جسے وہ تین گھنٹے میں طے کر لیتا ہے۔ اسی بھسم کے وَردان سے ہی وہ اپنا ناول لکھ رہا ہے۔ جس کے پہلے باب میں روشنیوں کے شہر کا دروازہ کھل گیا۔‘‘
سکھ ونت ہنس پڑا۔
’’بجّو کہیں کا! قبرستان کا مجاور نہ ہو تو!‘‘
مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہر میز پر کسی نہ کسی ایسے شخص کا کیری کیچر بنایا جا رہا ہے۔
راجندر نے مسکرا کر کہا۔ ’’جے پال کا ناول تو خود اسی کی طرح پورا نامکمل ہے۔‘‘
سکھ ونت نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’آپ کیوں چپ ہیں کچھ تو کہیے۔‘‘
میں نے بازو لہرا کر کہا۔ ’’جے پال کا ناول تو تا حیات نامکمل رہے گا۔ جھوٹی کتابوں کے فرضی مصنفوں کے من گھڑنت حوالے دیتے دیتے وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔‘‘
سکھ ونت نے گمبھیر آواز میں کہا ’’جھوٹ بھی پانی کی طرح رِس رِس کر جمع ہوتا رہتا ہے۔ پھر یہ پانی سڑنے لگتا ہے اور خوشبو کی بجائے بدبو آنے لگتی ہے۔‘‘
اتنے میں جے پال بائیں دروازے سے اندر داخل ہوا اور میرے پاس والی کرسی پر آ بیٹھا میں نے مسکرا کر کہا ’’اتنے دن کہاں رہے؟‘‘
میری بات اَن سنی کرتے ہوئے جے پال نے کہا۔ ’’ریل کی پٹریاں آمنے سامنے الگ الگ چلتی رہتی ہیں اور سوچنے والا سوچتا ہے کہ کسی روز ابدیت میں دونوں پٹریاں ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گی۔‘‘
کاشی ناتھ نے ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’بغیر کہانی کے عنوان کیوں بتاتے ہو؟ چائے پیو گے؟‘‘ چائے آئی تو کاشی ناتھ نے چونکتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’یار! تم تو ریلوائی ہو کر بھی نہیں جانتے کہ پٹریوں پر پٹریاں نہیں ریل چلتی ہے۔‘‘
جے پال کو چائے پیتے دیکھ کر میں نے کہا۔
’’ہماری تخلیق کا آخر کیا قصور ہے کہ ہم دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کیا شہرت ہمارا مدّعا ہے کیا یہ محض اظہار کی تمنا ہے نہ کوئی خوشبو دیتا ہے نہ لیتا ہے، ہم خوشبو کے آنچل میں بدبو چھپائے پھرتے ہیں۔‘‘
’’خوشبو کی کوئی غزل نہیں‘‘ جے پال کہتا چلا گیا ’’پھول خوشبو دیتا ہے لیتا نہیں اور خوشبو دینے کے بعد بھول جاتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی چھوٹے بڑے پوکھر میں روشنی کے کنول کھلائے اور اسے روشنیوں کے شہر کی طرف گامزن کر دیا۔‘‘
’’یہ جملے کے جملے کس کی کتاب سے اُٹھا لائے ہو‘‘ کاشی ناتھ نے نئی ڈگر اپناتے ہوئے کہا۔
ہم قہقہوں میں کھو گئے جیسے بہت دنوں سے ہمیں اس تماشے کا انتظار ہو۔
اچانک سکھ ونت نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا ’’مجھے کسی سے ملنا ہے۔ یقین جانیے میں آدھ گھنٹے بعد آ جاؤں گا۔‘‘
ہماری نظریں اسی کا تعاقب کرتی رہیں۔ وہ باہر نکل گیا۔
اِدھر اُدھر کی باتوں میں وہ غم کے پہاڑ تلے دبا جا رہا تھا۔
جیسے ہم ایک دوسرے کی بات سننے کے لیے نہیں بلکہ کاٹنے کے لیے یہاں اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘‘
سوا گھنٹے تک سکھ ونت لوٹ کر نہ آیا تو میں نے سوچا اب وہ کیا آئے گا؟‘‘
شور کے پھول کھلتے رہے۔
اڑتے پھرتے دھوئیں کے بادل جھوٹی سچی قسمیں کھاتے رہے۔
وہی شور، دھواں ہی دھواں، چہرے ہی چہرے، جیسے منڈپ کی آگ بجھ گئی ہو۔ صابری کی تعریف کے پل باندھتے ہوئے بڑے رکھ رکھاؤ سے سچ مچ۔ پاس بیٹھے ڈاکٹر صابری کو دکھاتے ہوئے اس مورتی میں للت راگنی کا تاثر پیدا کر رہا ہو۔ اتنے میں میری نظر سکھ ونت پر پڑی، لیکن جے پال کو میری بگل میں بیٹھا کر وہ دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا اور اس نے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی۔
میں نے محسوس کیا جیسے جے پال بھی اٹھ کر چل دیا ہو۔
میں نے دیکھا ایک دروازے سے سکھ ونت اور دوسرے دروازے سے جے پال باہر جا رہا ہے۔ میں نے من ہی من میں کہا ’’وِش بھی امرت کاہی ایک روپ ہے۔‘‘
٭٭٭
کتھا سرکس
ایک
ہیلو لاہور، تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟ ماں کا دیو –دیو گندھار۔ جھک گیا آسمان۔ ہم قربان! کتھا سرکس عرف صدیوں پہ پھیلا فاصلہ۔ سنت نگر، وشنو گلی، گھوڑا اسپتال کہاں کا؟ لاہور کا، اور کہاں کا؟ سپنے میں دیکھا نیلا گنبد۔ دیو گندھار کا ایک نام امرت یان۔ سوکھے ہونٹوں پر پیاس۔ امرت یان کی بیوی دیویانی۔ اپنی ساس کی بہو رانی۔ مٹھی میں لکھنؤ- امرت یان کی کہانی۔ ’’آوارہ‘‘ کا شاعر مجاز۔ اس کا ہیرو، اسے یہ کہانی سنانے کے لیے امرت یان اسے کناٹ پلیس کے نیرولا ہوٹل میں چائے پلانے لے گیا تھا۔
سرپٹ میدان گھوڑا ندارد۔ اس کے باوجود ’’میں ہوں اپنی شکست کی آواز!‘‘- نگری نگر پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا۔
’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ -امرت یان کی کتاب، میاں بشیر احمد ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے کے لیے لاہور سے کراچی جا کر سمندر کے کنارے بیٹھ کر قلم کا سفر طے کرنا مناسب سمجھا۔ ہاں ہاں، لاہور سے چھپی تھی یہ کتاب۔ آزادی سے سات برس پہلے۔ اب کون سا الاپ شروع کیا جائے؟
میری تیری اس کی بات، ایک اور سوغات۔ امرت یان کی ایک کتاب ’’گائے جا ہندوستان‘‘ الخاموشی نیم رضا۔۔۔ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا!
’’اپا برج لاہور دا‘‘ ایک کتاب، میرے ایک دوست کی جو اسی برس چھپی ہے۔ کاش! مجھے سوجھتا یہ نام کسی کتاب کے لیے۔
امرت یان اٹھارہ برس کا تھا، جب اس نے ڈاکٹر اقبال کا اُپدیش سُن کر خودکشی کے ارادے سے نجات پائی۔ ورنہ بیوی اور پہلوٹھی بٹیا کویتا کے ساتھ لنکا کی یاترا کیسے کر پاتا۔
میں نے کہا -تو کون ہے؟- اس نے کہا- آوارگی- اس دشت میں ایک شہر تھا۔ وہ کیا ہوا آوارگی؟ ۔۔۔ دل دریا سمندروں ڈونگھے!
آئینے کے سامنے -گردش کے دن۔ اس کے باوجود اس کہاوت پر میرا ایمان کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
لنکا دیش سے کولمبو- ایک شبد چتر امرت یان کے قلم کا سفر۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب-!
ماں کا مست قلندر۔ آنے والوں کا ہم سفر۔
سیما میں اسیم۔ سرگوشیاں- پرچھائیاں- جادوگر، او جادوگر!
دو
فوک لور کو لوک ورثہ کہنا تو مناسب نہیں، بڑے میاں! اسے تو آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی کہا جائے گا۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے مہایان، ہیں یان اور بجریان کی ڈگر پر چلتے ہوئے فوک لور کے لیے ’’لوک یان‘‘ سجھایا۔
بھئی خوب! کیا کہنے! ایک آئینے سے دوسرے تک۔ اگر لوک گیت چل سکتا ہے تو لوک یان کیوں نہیں؟ کیا امرت یان کیا لوک یان، دونوں جڑواں بھائی معلوم ہوتے ہیں۔ دونوں کے معصوم قہقہے۔ ان کی کہانی جیسے دُلہن کے ماتھے پر جھومر۔
واقعی ’’لوک یان‘‘ جادو کرنے والا ہے۔ جادوگر! او جادوگر! جیسے روپ میں سب سے نیاری کہانی خود اپنے آپ کو لکھ رہی ہو۔
ویسے تو ’’لوک ورثہ‘‘ کی طرح ’’کتھاسرکس‘‘ پر بھی ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر!‘‘ ہونے کا الزام لگانا ہو گا۔
اب لوک یان کا پرچم کیسے لہرایا جائے؟ ویسے یہ بڑی لمبی بحث ہے، بڑے میاں! بحث چھوڑو۔ کہانی کہو۔
امتحان کی گھڑی سر پر ہے۔ واقعی دوغلا پن نہیں چلے گا۔ کہو، میں کس سے آنکھ ملاؤں؟
نہیں چلے گا، نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔۔۔ لوک ورثہ نہیں چلے گا۔ بولو کم، اشاروں سے کام لو۔ لیکن ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے۔ سوال تو جمالیاتی توسیع کا ہے۔ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ بھابھی کا مزاج کیسا ہے۔ یہ تو بھابھی بھی کہتی ہو گی کہ شاخ نازک پر بننے والا آشیانہ نا پائیدار ہو گا۔
اب ٹیڑھی لکیر کو سیدھی کیسے کیا جائے؟ ہاں تو بھابھی کہاں جائے؟ ہاں ہاں! جائے بھی تو جائے کہاں؟ بمبیّا محاورے میں ایک لفظ ہے ’’خلاص‘‘ اور دوسرا ’’چالو‘‘۔ ہاتھ میں دے کر ہاتھ چلیں، ڈر اُترے گا۔ ہاں تو لوک یان زندہ باد۔ محبت اور احترام کے ساتھ۔
جیسے ’’فوک سانگ‘‘کے لیے دیہاتی گیت خلاص اور لوک گیت چالو، ویسے ہی- تخلیقی عمل زندہ باد۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، بے لاگ تخلیقی عمل کی قسم، فوک لور کے لیے ’’لوک یان‘‘ ہی مناسب ہو گا۔ ہم مسلسل خوش۔ ہوا دستک دیتی ہے۔ کاش ہماری دعا قبول ہو جائے۔
تین
دائرہ در دائرہ۔ دائرے میں ایک سیدھی لکیر۔
امرت یان کا ایک نام ستیہ کام۔ وقت کروٹ بدلتا ہے۔ کہو اب کون سی تصویر دیکھو گے؟
میرا نام، تیرا نام۔ اَن کہی سرگوشیاں۔ قلم قبیلہ- کتھاسرکس۔ جو ڈر جاتا ہے، خود اپنے سے پوچھتا ہے -کیا تمھیں ہنسنا نہیں آتا؟ کہیں موسم خراب نہ ہو جائے، کویتا کی ماں!
گفتگو میں جستجو-جستجو میں آرزو۔
آرزو میں کتھا سرکس۔ ہم چشم دید تماشائی، بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے۔ اس کے باوجود مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔
سڑک پر چلّا رہا ہے اخبار کا ہاکر-پنچم سے بلند آواز میں۔ میرا نام، تیرا نام- ویت نام۔ قصہ ادھورا ہی رہا۔ کبھی کبھی کتھاسرکس اُداس ہو جاتا ہے۔
صبح کا تازہ اخبار آج نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں ہم کیا ہیں۔ ایک نہ ایک معصوم سوال۔ کیا ہم اپنے آپ میں گم ہیں؟
کہاں کہاں دیکھے کرسی کیا حمق۔ بار بار کندھے اُچکائے، ارے کیا کہنے! ہماری آنکھوں کے سامنے کتھاسرکس ناچ رہا ہے۔
لفظ بیکار نہ ہوں۔ آؤ ہم کافی کی پیالیوں پر چمچوں سے جل ترنگ بجائیں، شبدوں سے رنگوں کا کام لیا جائے۔ گاڑی بھر راستہ۔
آ ملتے ہیں گیتوں میں گیتوں کے دھارے، کتھاسرکس اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے، کویتا کی ماں!
ہم بہت پاس سے گزرے تھے۔ دیکھیے نا۔ حقیقت سے دور رہنا تو بیوقوفی ہے۔ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوجھل۔ ہر کتھاسرکس کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ ارے میاں، آج تو سچ مچ آوارہ مسیحا بھی آئے گا کتھا سرکس دیکھنے، روز یہی ہوتا ہے، بڑی سرکار! دیکھتے جاؤ۔
ارے ہم تو خاموش تماشائی ہیں۔ اجنبی سمندر میں کون کسے پکارتا رہا؟ سچ پوچھو تو کتھا سرکس ہمیں اپنے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ چلو یہ دن ہماری کہانی میں بھی آ گیا۔
چار
ایک محاورہ ہے یا شاید ایک کہاوت۔
چڑی مار ٹولا، بھانت بھانت کا پنچھی بولا۔
چال ستھری چلو، چاہے مدّھم چلو۔
بقول ٹی ایس ایلیٹ اشارہ شریف گھرانوں کی عورتوں کی طرف جو آتے جاتے گفتگو کے دوران مائیکل اینجلو کا ذکر کرتی رہتی ہیں، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اس کی مصوری پر جان دیتی ہیں۔
ہم شہر میں ہیں، یہی بہت ہے، کویتا کی ماں!
منٹو نے ایک جگہ لکھا تھا۔
’’پہلا جملہ میں لکھتا ہوں۔ پھر بقیہ افسانہ وہ جملہ لکھواتا ہے۔‘‘
ہم نے کیا کیا نہ کیا! پہلی بارش آج اُتری۔ بقول امرت یان رات کہتی ہے ملاقات نہ ہو گی اپنی۔
ہماری پہچان مبہم ہی بنی رہتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور لمبی نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ یہیں ختم ہوتی ہے۔ اوم شانتی شانتی شانتی۔ ہاں ہاں، اصل چیز شانتی ہی تو ہے۔
حسن کا آئینہ ہے ٹوٹا ہوا!- امرت یان بول اٹھا۔ لیکن کبھی کبھی ہم شرم سے کٹ کٹ مرتے ہیں۔
اب تو ہر بات پر رو دیتے ہیں۔
زندگی سبھی حد بندیوں کو توڑنا چاہتی ہے۔ اسی کا نام آزادی۔ یہی تو ’’آگ کا دریا‘‘ ہے۔ حوالہ اتہاس کا۔ ہاں ہاں، ہم آگ بھی ہیں اور دریا بھی۔ قصّہ القصہ آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ یہ تو امرت یان بھی مانتا ہے، جو جنگلوں اور پہاڑوں کی خاک چھانتا رہا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا رہا۔
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے، کویتا کی ماں!
ایک کتھاسرکس، یہ بھی تو ہے کہ گرودیو کو بڑھاپے میں ایک کتاب لکھنی پڑی — ’’میرا بچپن‘‘ اس کا مطلب تو یہی ہوا ناکہ بڑھاپے میں بچپن قریب آتا جاتا ہے۔ لیکن ہم کہنا کچھ چاہتے ہیں مگر کچھ اور ہی کہہ جاتے ہیں، کویتا کی ماں! کیا ہم کسی کا انتظار کر رہے ہیں؟
آنند پربت کا پُرانا نام کالا پہاڑ۔ شاید فوک لور عرف لوک یان کا یقین دلانے کے لیے ہم اپنا ہی انتظار کر رہے ہیں۔
پانچ
ہیرو کو اینٹی ہیرو بنانے سے بچا جائے۔ پھر وہیں ہیں ہم کہ جہاں تھے پہلے۔ پِن اَپ بیوٹی سے کوئی کیسے کہے کہ دل والے دُلہنیا لے جائیں گے!
’’عشق ایک پل کا بھی ہو سکتا ہے اور ایک عمر کا بھی!‘‘ پیرس کا آدمی کہہ رہا تھا۔ بقول ساحر ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں!‘‘ فوک لور یعنی لوک یان- امرت یان کا اوڑھنا بچھونا- بقول میراجی ’’پربت کو ایک نیلا بھید بنایا کس نے؟ -دوری نے‘‘ جیسے لاہور کی شملہ پہاڑی کہہ رہی ہو کہ زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
’’جیسے پھول ابھی مہکا ہے- جیسے چاند ابھی چمکا ہے -کیا عشق کیا تھا شاعر! کبھی نہ اس کو اپنے من کی بات بتائی- اس کے باوجود اس کے نام کی مالا جپتے رات بتائی-کیسے تم مجنوں تھے تم نے- کبھی نہ اس کا دامن پکڑا- اک اَن جانے لمس کی خاطر- اپنی ساری عمر گنوائی- بستی بستی جیت تمھاری-شمع کی صورت جلتی ہے -ہر بنگالی لڑکی ہم کو میراثن سی لگتی ہے۔
۔۔۔ زبیر رضوی
کہو یہ کس زمانے کی بات ہے، کویتا کی مان! ارے وہی زمانہ، جب ہم لاہور میں تھے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
حسن، عشق اور موت۔ جیسے کوئی تکونہ پارک۔ تمھارا پیرہن اُٹھتا ہے گرتا ہے- اسے گرنے دو-آؤ- اوڑھ لیں اک دوسرے کے جسم کو- اور ایسے رستے پر جائیں- جہاں سے پھر کبھی واپس نہ آنا ہو۔
۔۔۔ کمار پاشی
لاہور سے دلّی۔ ہمارا سفر۔ اور ہم دلی والے بن کر رہ گئے۔ کتھا سرکس میں یہ بات کیسے نہ آتی کہ میراجی کا نام تو کچھ اور تھا۔ لیکن لاہور کی کسی گلی میں میراثن کو دیکھ کر اسے دل دے بیٹھے۔ بہرحال اپنا عشق تو اس پر ظاہر نہ ہونے دیا، بس اپنا نام ’’میراجی‘‘ رکھ لیا۔
لاہور سے دلی آنے پر میراجی نے لاہور کے کسی دوست کے نام ایک خط لکھا۔
’’خط کا جواب آنے پر لکھوں گا، کب لاہور آیا ہوں۔ آؤں گا تو زیادہ دن کے لیے نہیں آؤں گا۔ کیونکہ میراثن دارجلنگ میں ہے۔‘‘
دلّی سے دارجلنگ۔
لاہور سے دارجلنگ۔
چھ
یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور ہنستے ہوئے ننھّے بچے بھلائے نہیں بھولتا سائیں گھوڑے شاہ، جسے آزادی سے پہلے امرتسر میں دیکھا تھا۔
’’کومل آنچل، اُڑتا بادل۔ لمبی داڑھی، لمبے بال، ماں کا دیو۔۔۔ دیو گندھار۔ کون ہماری بات پر خوشی سے جھوم اُٹھا کہ دیو گندھار کا ایک نام امرت یان۔ اُس کو اُٹھنا ہے اِسے گرنا ہے، کوئی ملبوس ہو کوئی پردہ!‘‘
کالا دھن، رشوت اور سوئی بازار، جس کا ایک نام سوناگاچھی۔
’’دھیان کی جھیل میں ہر چیز ہے کومل شیتل- میلے کپڑوں کی طرح لٹکی ہوئی تصویریں- میں نکل آیا ہوں اب سنگ مرمر کی محرابوں سے- پھر وہی دور پلٹ آیا ہے -کیسے کہوں کہ یہ کہانی ایک ماسٹر پیس ہے، کویتا کی ماں!
واہ رے فلیش بیک! مورنی سی چال والی۔ اس کا نام ہم بھول گئے۔
’’ایک راجہ کا جلوس اور میں اس کے آگے -اک بھکاری کو ہٹاتے ہوئے دو گھوڑسوار-تو ہی داسی ہے تو ہی رانی ہے -آؤ اب سوئیں- بہت رات گئی-نیند آئی!!یہی شہر کلکتہ- دماغ پر سوار۔
چورنگی، بھوانی پور، شیام بازار، کالی گھاٹ۔
’’اُجالے کی ہر اک کرن جیسے بھٹکی ہوئی ہے- اندھیرے سے بڑھ کر اندھیرا ہے، کویتا کی ماں!- کلکتہ سے دلّی!- یہ رام لیلا میدان ہے۔
نغمہ بیدار ہوا- پُتلیاں پھیل گئیں- سانس تھی گہری گہری-جس پر بھی کوئی دُکھ بیتے، مجھ کو آ کے سناتا ہے -بپتا کی ہر راگنی میرے کان میں آ کر گاتا ہے- میں نے اوروں کے دُکھ میں اکثر اپنے دُکھ کو پہچانا ہے۔
سُنو، پھر سُنو۔ فوک لور عرف لوک یان۔
نقد کی بات کیا کرتا ہوں، میرے پاس اُدھار نہیں -تول میں کھوٹ ذرا آئے تو سودا پورم پار نہیں -میں بھوک پہنوں، میں بھوک اوڑھوں، میں بھوک پڑھوں، میں بھوک لکھوں۔
سکھ کے بدلے دُکھ تو کھرے ہیں، پر یہ پرکھ تمھاری ہے -کون ہے پار پہنچنے والا، کون بڑا سنساری ہے-
تین بنیادی رنگ- سرخ، نیلا اور زرد۔ کیا لاہور، کیا دلّی! اور لنکا دیش ہے کولمبو کی بھی یہی بات۔
سات
کیسے دن تھے کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں- من بالک ہے پہلے پیار کا مندر سپنا بھول گیا- ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو پونچھے ہوں گے۔
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی-دھندلی سی چھب یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا-راستہ مجھ کو نظر نہ آئے، یہی تو دُکھ ہے، کویتا کی ماں!
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی- ایک نظر کا نور مٹا جب، اک پَل بیتا بھول گیا- ہر بستی، ہر جنگل صحرا- روپ منوہر پربت کا- جس کو دیکھو اس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے- تمھیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا- واہ رے۔ واہ ہم۔ میٹھا جادو بنجارن کا۔
’’کون ہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے -میراجی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا۔‘‘
کتھا سرکس کا مرکزی خیال یہی سمجھیے جو کچھ عورتوں کو ہوتا ہے کہ ہر شخص ہر وقت انھیں ہی دیکھ رہا ہے۔ اسی لیے تو وہ ایک سے ایک بڑھ کر میک اَپ کی شوقین ہوتی ہیں۔ گاتا جائے بنجارا، کویتا کی ماں!
خود پسندی کے پاتال سے نکل دھرتی پر چلتے پھرتے لوگوں کے سُکھ دُکھ میں شامل ہونے کی اور بات ہے۔
کویتا کی کلکاریاں، امرت یان کے دماغ پر سوار۔ جاگتی آنکھوں کا سپنا، کتھاسرکس کی شان۔
جو احسان مانا نہ جائے وہ احسان نہیں ہوتا۔ میری تیری اس کی بات۔ فاصلوں کو پاٹنے کی البیلی سوغات۔ گفتگو میں بحث کا مطلب یہی کہ ہمیں اپنی جان بہت پیاری ہے۔
کتھا سرکس وہی جو انسان کو خود اپنے وجود کی طرف واپس بلائے۔ مڑ مڑ کے نہ دیکھ- مڑ مڑ کے!-
کتھا سرکس زندہ باد۔ لیکن اس کہانی کو ماسٹر پیس کہنا تو بہت بڑی گستاخی ہو گی۔
٭٭٭
کفن میں ایک سو ایک سال
ایک
ناگ دیو مر گیا — اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔
کل رات میں نے اس کی ار تھی دیکھی۔ سفید کفن میں رسیوں سے کس کر بندھا ہوا اس کا جسم ار تھی اٹھانے والوں کے کندھوں پر تیرتا ہوا نکل رہا تھا۔
میں ار تھی کے ساتھ نہ جا سکا۔
دماغ نے میرے جسم سے الگ ہو کر کہا۔ ’’جاؤ، ناگ دیوتا کو چِتا پر جلتے دیکھ آؤ۔‘‘
میں ار تھی کے ساتھ جانے والوں کی آہ و زاری سنتا رہا۔
انجام رسیدہ داستان کی طرح میرا دماغ ٹھنڈا ہو گیا۔
اندھیرے میں خارش زدہ کتا اسی طرح بھونکتا رہا جیسا کہ وہ کبھی تندرستی میں بھونکا کرتا تھا۔
سردار کیفے میں چائے پینے والے اسی طرح چائے کی چسکیاں بھرتے رہے۔
میرے ہاتھ میں وہ ہفتہ وار اخبار تھا، جو ہر مہینے سٹوری سپلیمنٹ شائع کیا کرتا ہے۔
اس اخبار کا یہ شمارہ وہی تھا، جس میں اس مہینے کاسٹوری سپلیمنٹ شائع ہوا تھا۔
اخبار کے معمولی شمارے کی قیمت پچاس پیسے ہوتی ہے۔ سٹوری سپلیمنٹ والے شمارے کی قیمت پچھتّرپیسے ہے۔ پچیس پیسے میں سٹوری سپلیمنٹ مہنگا نہیں۔ کبھی کہانی میں ’’اوپر، نیچے، درمیان‘‘ کی سی کیفیت، کسی میں ضد اور تندی کا تال میل، کسی میں منہ چڑانے کی سی نفسیاتی الجھن، کسی میں جسم کا دباؤ، کسی میں روح کی پرواز۔
دیوار کی کہانی لکھتے وقت دیوار بن جانا پڑتا ہے، اندھیرے کی کہانی لکھتے وقت اندھیرا۔
شبد بدکتے ہیں، رنگ ڈرتے ہیں۔ کیا کہانی گلوکوز کے انجکشن کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ جیسا کہ اس مہینے کی سٹوری سپلیمنٹ کے اداریے میں لکھا گیا ہے۔
یہ تو ناگ دیو بھی مانتا تھا کہ محض الفاظ کی بندش کافی نہیں۔ کہانی تو احساس کا سفر ہے۔
واقعی ناگ دیو نے زہر کو ہضم کرنے کا گُر سیکھ لیا تھا۔
اگلے مہینے کی سٹوری سپلیمنٹ میں میری کہانی چھپے گی۔ اس میں ناگ دیو کی تصویر پیش کی جائے گی۔
اس کہانی کا تال میل اس درویش سے ملایا جائے گا جو پہلے گانجا پیتا ہے اور پھر سنکھیا کھانے کا ابھیاس کرتے کرتے سانپ سے زبان ڈسوانے کا کرشمہ دکھانے لگتا ہے۔
ایک سو ایک سال کا ہو کر مرا ناگ دیو۔
دو
اس کے گلے میں پچھلے سال ایک سو ایک پھولوں کا ہار پہنایا گیا تھا اور جب اس نے سپیرے کی طرح جھولے سے سانپ نکال کر اس سے اپنی زبان ڈسوائی تو دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔
ناگ دیو کی ایک سو ایک ویں سالگرہ کے موقع پر جتنے حضرات نے اس کو خراج تحسین ادا کیا، ان کی مشترکہ آواز یہی تھی کہ ناگ دیو کے روپ میں درویش آخری منزل تک پہنچ چکا ہے۔
سردار کیفے کی میز پر بیٹھے بیٹھے میں نے وہ کہانی پڑھی، جس میں ہار سنگار سے دوپٹّہ رنگنے کا ذکر کیا گیا تھا۔
’’پیچھے کون جا سکتا ہے؟‘‘
یہ تھا دوپٹہ کہانی کا عنوان۔ یہ ایک حملہ آور کی داستان تھی، جو دولت لوٹ کر چلا گیا۔
’’میرا وطن وہی ہے!‘‘
یہ تیسری کہانی تھی، جس کا خمیر ڈھائی ہزار سال پہلے کے اتہاس سے اٹھایا گیا تھا۔
ناگ دیو زندہ ہوتا تو کردار، گفتار اور عمل کی ہم آہنگی کی کسوٹی پر کستے ہوئے ان کہانیوں کے احساس پر اپنی رائے دیتا۔
آج کوئی ناگ دیو ہیرو نہیں بن سکتا! اس طرح کا بیان دینے کی حماقت میں نہیں کروں گا۔
’’خدا کا قتل ہو گیا اور ہم سب اس کے قاتل ہیں۔‘‘ یہ قول سب سے پہلے میں نے ناگ دیو سے سنا۔
ناگ دیو کی کہانی ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے، جس کے اندر اتہاس دھندلے چہرے کے باوجود پوری طرح روشن ہے۔
وہ کہا کرتا تھا ’’اتہاس لمحاتی نہیں ہوتا۔‘‘
وہ ایک صفر کی موت مرنے کے خلاف تھا۔
وحشت کے ہر لمحے کے اندر اسے اتہاس کے دیوتا کی آواز سنائی دیتی-
’’شانتی! شانتی! شانتی!‘‘
ناگ دیو نے گروہ بندی کی دوڑ میں دوڑنے سے اپنے آپ کو الگ نہ کر لیا ہوتا تو اس کے نیچے بہت اونچی کرسی ہوتی۔
تنہائی کا جو راستہ ناگ دیو نے اپنایا، اسے کچھ لوگ زوال کا راستہ قرار دیتے ہیں۔
’’حواس کی دھار پر زندہ رہنا ہی زندگی ہے۔‘‘ ناگ دیو اکثر کہا کرتا تھا۔
شاید اسے میرا چہرہ پسند نہیں تھا۔ ادھر ادھر سے اٹھائی ہوئی باتیں اسے اچھّی لگتی تھیں۔
’’تم کب اپنے کو قبر سے باہر نکال کر دیکھو گے۔‘‘ یا
’’ان لوگوں کو یہاں سے بھگا دو، جو پانچ منٹ بھی اپنی تعریف کیے بغیر نہیں گزار سکتے۔‘‘ یا
’’ ہمارا بہترین دوست ہمارا جسم ہے۔‘‘
ناگ دیو کو نہ نمائشی جملے پسند تھے، نہ گستاخ مذاق، نہ اکتا دینے والے لطیفے۔
وہ یہ مانتا تھا کہ غصّے کا دائرہ بہت محدود ہے۔
’’محبت کی رچنا تو روح کی گہرائی میں ڈوب کر ہی ہو سکتی ہے۔‘‘
یہ کہتے کہتے ناگ دیو اسی عورت کا ذکر کرنے لگتا، جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ سانپ کو مار کر چھت پر پھینک دے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دے۔
غصّے کی رنگ بھومی سے دور رہ کر ناگ دیو کی موت ہوئی۔
شور کی رنگ بھومی سے اسے نفرت تھی۔
تین
میں جب بھی اس سے ملتا، وہ اس ناٹک کا ذکر کیے بغیر نہ رہتا جس میں ریت کے ٹیلے میں کمر تک دھنسی ہوئی عورت دکھائی گئی تھی۔ دھوپ اور لُو سے جھلسے ہوئے چہرے والی عورت، جو ٹیلے کے پیچھے بیٹھے ہوئے اپنے خاوند سے باتیں کر رہی ہے، اپاہج خاوند اخبار پڑھ رہا ہے۔ دوسرے منظر میں عورت گلے گلے تک ٹیلے میں دھنسی جاتی ہے۔ عورت تسلسل سے باتیں کرتی رہتی ہے۔ اناپ شناپ باتیں- خوف اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھیں ہم سب کو دیکھ رہی ہیں۔ ویسے ناٹک میں کسی حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔
ناٹک کار کا نام ناگ دیو نے بھلا دیا تھا۔ لیکن بیمار ذہن کی الجھی ہوئی باتیں اسے یاد رہ گئی تھیں۔
اسے اکثر یہی احساس ہوتا کہ اخبار پڑھنے والا اپاہج وہ خود ہے۔ اور اب اس عورت کا چہرہ بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے۔
چار
سٹوری سپلیمنٹ کی پانچویں کہانی کا عنوان ہے ’’عورت کہاں ہے؟‘‘
اسّی سال کی عمر میں ایک شخص شادی کرتا ہے چالیس برس کی عورت سے، جو اب تک نوکرانی رہی ہے۔
بوڑھا شوہر چاہتا ہے کہ وہ نوکرانی سے مالکن بن جائے۔ لیکن وہ مالکن نہیں بن پاتی۔
بوڑھا شوہر جانتا ہے کہ وہ عورت کو وہ کہانی سنائے جو اس نے اب تک کسی کو نہیں سنائی۔
لیکن وہ کہانی سننے کو تیار نہیں ہوتی۔
بوڑھا شوہر ہر وقت عورت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔
وہ یہ سوچ کر شرمندہ نہیں ہوتا کہ اس نے بُڑھاپے میں شادی کا ڈھول گلے میں ڈالا۔
بوڑھا شوہر ہر وقت محسوس کرتا ہے کہ وہ جِلا وطن ہے اور یہ عورت اس کا وطن ہے، لیکن وہ عورت کو ہر وقت اپنے آپ میں رکھنے کے لیے راضی نہیں کر پاتا۔
بوڑھا شوہر ہر وقت عورت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔
وہ یہ سوچ کر شرمندہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر وقت کام سوتر پڑھتا رہتا ہے اور تنہائی میں سانپ سے اپنی زبان ڈسواتا رہتا ہے۔
وہ کبھی نہیں سوچتا کہ عورت اس سے دور کیوں بھاگتی ہے۔
عورت کی چاہ، عورت کی یاد اسے بھی لگتی ہے۔ جھوٹ اور سچ کا تال میل، غصّے اور محبت کی داستان۔
وہ سوچتا ہے کہ اس کی زندگی میں عورت نہ آئی ہوتی تو اس کی کہانی کتنی بے ربط اور اوٹ پٹانگ ہوتی۔
اسے وہ دن یاد آتے ہیں، جب اسے پھانسی کی کوٹھری میں رہنا پڑا تھا۔
پانچ
کتنی دلچسپ کہانی ہے -پھانسی کی سزا ٹل گئی۔ عمر قید ہو گئی۔
کالے پانی میں گزارے ہوئے لمبے سال گھومتے پہیّوں کی طرح اس کے ذہن میں حرکت کرتے ہیں۔
چھ
کالے پانی سے واپس آ کر کرانتی کا مارگ اپنانے سے اس نے اپنے آپ کو دور رکھا اور عورت کی یاد پر غلبہ پانے کی کوشش میں سانپ سے اپنی زبان ڈسواتا رہا۔
سات
یہی تو ہے ناگ دیو کی کہانی۔
لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے ناگ دیو کی زندگی میں ہی اس کی موت کا نقشہ کھینچ دیا۔
اب میرے لیے لکھنے کو کیا رہ گیا ہے؟ میں تو یہی عرض کر سکتا ہوں کہ میں نے تو ہر سڑک پر ار تھی نکلتے دیکھی۔ لیکن سردار کیفے کے اندر سے یہ ار تھی دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ ہے۔
اب یہ منظر ہمیشہ میری آنکھوں میں تیرتا رہے گا۔
سفید کفن میں رسّیوں سے لپٹے ہوئے ایک سو ایک سال۔ ایک بوڑھے کرانتی کاری کا جسم۔
٭٭٭
جلوس
لوک ماتا کو شکایت ہے کہ انتر کے ساتھ رہتے اس کی زندگی برباد ہو گئی۔
انتر جب بھی اُسے ’جوہی کی کلی‘ کہہ کر پکارتا ہے، لوک ماتا کا سندیہہ بڑھ جاتا ہے۔
’’جنتر منتر کا کال کلنتر۔۔۔‘‘ بچّے گاتے ہیں۔
•••
جلوس بارہ دری سے چلا اور شام کو چوبُرجی میں بکھر گیا۔
راستے بھر سجے ہوئے دروازے۔
سونے کے رتھ میں سرسوتی کی مُورتی۔
سجے دھجے ہاتھیوں کی قطار، گھُڑسوار، پیادے- پانچویں صدی کے کسی بادشاہ کی یاد۔
ہرسال سرسوتی کا جلوس نکلتا ہے- اس راستے لارا لائی کے بیچ سے۔
’بڑھیا لارالائی کی
چھو منتر بھئی چھو منتر۔۔۔ ‘
بچّے گاتے ہیں۔
•••
جنتر اور منتر، انتر کی ہنسی اُڑاتے ہیں۔
’’لارالائی اصلی راجدھانی ہے‘‘ بادشاہ کے زمانے میں لوگ کہتے ہوں گے۔
لارا لائی کی کھڑکیوں سے چھنتی ہوئی رنگ برنگی روشنیاں برگد کے چکنے پتّوں پر راس رچاتی ہیں۔
ٹہنیوں پر بالغ اور نابالغ پرندے رین بسیرا کرتے ہیں۔
ہر روز چاند سے لے کر سورج تک کا سفر۔
آواز بدلتی ہوئی۔ انداز گھوم کر دیکھنے کا۔
’چاندنی ہے رات سجن جیّو کہ رہیّو، آواز لارا لائی کی
کھیل چور سپاہی کا۔ گھنگھرو بولتے ہیں
چُمبن کا احساس
کھڑکیاں کھلتی ہیں۔
نگاہیں کہانی کہتی ہیں۔ انتر کا قلم چلتا ہے۔
آدمی اونچی آواز میں بولتا ہے تو دل کی آواز دب جاتی ہے۔
•••
بڑھیا کی ایک بیٹی شبانہ، دوسری بلبل
بلبل نرتکی۔ شبانہ کشیدے کا کام کرتی ہے
بڑھیا کے ہاتھ دُعا مانگتے ہیں۔
انتر جانتا ہے کہ شبانہ اس کی نہیں ہے۔
رخسانہ اور انگوری بھی بڑھیا کو ماں کہتی ہیں۔
انتر نے شہر کا اتہاس موتی جھالر کے تکیے کی طرح کہانی کے غلاف میں رکھ دیا۔
’’قسم کھاؤ‘‘ انتر کے سر پر چُوڑی کا ٹکڑا رکھ کر رخسانہ کہتی ہے۔
اشارہ سمجھو استاد! جام سامنے ہے۔
انگوری انتر کو نیتا کہتی ہے تو شبانہ اور بلبل ہنس دیتی ہیں۔
ایک جھٹکے کے ساتھ انتر پیچھے ہٹتا ہے- دستخط کرنے کے انداز میں
آئینہ گھوم جاتا ہے- انگوری کے سامنے
’’آئینہ ہاتھ سے رکھ دو۔ ہم آتے ہیں!‘‘ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انتر کہتا ہے۔
واپس آتے ہوئے رنگ رخسانہ سے بات کرتے ہیں۔
•••
جتنی تیزی سے انتر اُگتے سورج کا گُن گان کرتا ہے، اتنی ہی معصومیت سے اُبھرتے چاند کو آنکھوں میں بھر لیتا ہے۔
شبانہ کے بال ایڑیوں کو چومتے ہیں۔
ماتھے پر ہاتھ
ہاتھ میں نیبو کا پھول
بڑھیا انوری بیگم سے رشتہ جوڑتی ہے۔
لوک ماتا نئی بیاہی گائے کا دودھ بانٹتی ہے۔ پڑوسیوں کے گھر جا جا کر۔
آئنہ بانو کی اُڑان اونچی۔ شبنم اسے ریس کورس کہتی ہے۔
شراب سے بھری سونڈسے ہاتھی چھڑکاؤ کرتا ہے۔
’’تجھ سے وفا کی اُمید نہیں‘‘ بڑھیا انتر کو کوستی ہے۔
آئنہ بانو کی شکل شبانہ سے ملتی ہے۔
ریلنگ پر کھڑا انتر ہر کمر کو شبانہ کی طرح ہلتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔
’’کمر کی ہڈّی کہاں ہے؟‘‘ انتر سوچتا ہے۔
•••
برگد کی چھانو میں چاندنی کے دھبّوں کی جھلمل بارہ دری میں طوائفوں کی مجلس جمتی ہے۔ انوری بیگم کی یاد میں خوشبو پھیل کر سواگت کرتی ہے
دادرا پسند نہیں تو ٹھمری حاضر ہے۔
’’جسے کل تک کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا، اب لوگوں کے پیٹ پر لات مارتا ہے۔‘‘ بڑھیا نیتا کو کوستی ہے۔
کسی کا پریم پتر تھا، جسے شبانہ نے پڑھ کر پھاڑ دیا
بلبل کی زلفوں پر جمی آنکھیں
دھُت ہو کر لارالائی میں گھومو
ریلنگ پر کھڑے انتظار نے کمر سیدھی کی۔
ہنسو بھی۔
انتر کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔
چھوٹے بڑے مکان بغل گیر ہوتے ہیں۔
راگنی میں کومل گندھار لگاؤ تو بات بنے۔
•••
لوک ماتا نے انتر کو لارالائی جاتے نہیں دیکھا۔ طعنہ وہیں کا دیتی ہے۔
’’شیطان کی اولاد، تیری توند کیوں نکل آئی؟‘‘ بڑھیا انتر کو کوستی ہے۔
چڑھائی کے بعد تھکن قدرتی بات ہے۔
تم شبانہ کو ڈھونڈ رہے ہو یا بلبل کو؟
سرسوتی کا جلوس سب دیکھتے ہیں۔
انوری بیگم کی داستان بھی بہت سے لوگ سُنتے ہیں، جس کی سواری بادشاہ کے ساتھ چھوٹے ہاتھی پر نکلتی تھی۔
•••
بچّوں کے کھیل میں سولہ کہاروں والی پالکی میں بیٹھتی ہے گڑیا۔
گڑیا لارالائی کی، جو پالکی میں بیٹھتی ہے اور خوشبو لارالائی میں ہی بانٹتی ہے۔
•••
بڑھیا جیب کترے کو بیٹا کہتی ہے، نیتا کو بھی۔
جنتر ہوا کا رُخ دیکھتا ہے، منتر دربار کا
بِنا شیڈ کا لیمپ۔ بوڑھی طوائف کا ننگا سر
جنم دن لوک ماتا کا، بدھائی بڑھیا کو۔
مسافر کتنی دور جا کر ملتے ہیں۔ لوک ماتا کو بتایا نہیں جا سکتا۔
داستان انوری بیگم کی، جس کی قبر طوائفیں شراب سے دھوتی ہیں۔
•••
رات کے دو بجے انتظار کرتی ہوئی لوک ماتا۔
چولہے کی آگ دروازے تک لپک کر سواگت کرتی ہے۔
لوک ماتا کی شکایت کہ انتر رات رات بھر کہاں رہتا ہے۔
•••
نتھنی کی رسم پر شبانہ کو بدھائی۔
طوائفوں نے چومکّھا مجرا کیا۔
لہنگوں کی لہروں سے گھنگھرو کھنکتے رہے۔
شبنم کی پازیب سے چنگاریاں چھوٹتی رہیں۔
شبانہ اوندھی لیٹ کر گھنگھرو بجاتی ہے
’’پیار شبنم ہے یا خوشبو؟ ۔۔۔‘‘ آواز لارالائی کی۔
پھولوں سے تُلی شبانہ۔ پھول چمپا، چنبیلی کے۔
انوری بیگم خوشبو سے سجتی تھی۔
مجرے کی رات بادشاہ شراب میں تیرتا تھا۔
•••
انتر کا بس چلے تو شہر کی ہر دیوار پر لارالائی کا نقشہ بنا دے۔
جیب میں ہاتھ ڈال کر انتر سکّے ٹٹولتا ہے۔
’’سرسوتی کے سامنے کاغذ کے پھول‘‘ تکیہ کلام انتر کا۔
ہنس اُڑا جا رہا ہے۔‘‘ انتر کہتا ہے۔
آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔
’’انتر اپنے کو راج ہنس سمجھتا ہے۔‘‘ انگوری بڑھیا سے کہتی ہے۔
’’ایک گھونٹ پیو گے۔‘‘ جمیلہ انتر سے پوچھتی ہے۔
گنبد کے پیچھے اُترتا ہوا سورج
رخسانہ ایک ہی سانس میں پورا جام چڑھا گئی۔
’’ارے تو جا! مچھلی بیچ‘‘ بڑھیا انتر کو ہٹاتی ہے۔
آواز کے لحاظ سے انگوری تھکتی نہیں۔
تلہٹی پہاڑ کی۔ آہٹ مسافر کی۔ داستان لارالائی کی۔
مشینیں نئی، ٹائپ پُرانا
•••
بڑھیا کبوتروں کی تعریف کرتی ہے۔ جو رنگ برنگی روشنی ہوتے ہی آسمان سے اُتر آتے ہیں۔
پُرانے پتّے جھڑتے ہیں۔ نئے پتّے آ جاتے ہیں۔ برگد اپنی اوقات چھپائے رہتا ہے۔
لوک ماتا کے سامنے انتر نئے نئے بہانے تراشتا ہے۔
گھر سے دُور۔ لارالائی نچاتی ہے۔ انتر ناچتا ہے۔
’’آٹھ روپے؟ ۔۔۔ آٹھ برس بعد آنا، میں تمھارا انتظار کروں گی‘‘ انگوری انتر کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔
’’انگوری او انگوری!۔۔۔ بلبل پکارتی ہے۔
بلبل اور شبانہ ایک دوسرے کو سیب چھیلنا سکھاتی رہتی ہیں۔
•••
انتر کا گھر بارہ دری میں ہے۔
سرنگ پار ریل کی پٹڑی
لوک ماتا کو شکایت ہے کہ چوبُرجی اور بارہ دری کے بیچ اس کے بال سفید ہو گئے۔
بیوی کو لوک ماتا کہتا ہے انتر
گنگا کی لہر آدھی رات کو آتی ہے!
’سیتا چلی ساسُرے، منانے والا کون؟‘ لوک ماتا گنگناتی ہے۔
•••
بارہ دری کے بغل میں انوری بیگم کا مقبرہ۔ مقبرے کے بغل میں گڑیا گھر، جس کا پُرانا نام ہے لارالائی۔
کنارا جھیل کا
جھیل میں برگد کی پرچھائیں
موسم شرابی۔ نغمہ گلابی۔ داستان لارالائی کی
•••
شبانہ رو دی — غلط سلائی لگنے سے۔
سرمہ بہہ گیا۔
’’شبنم آگ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ انتر سوچتا ہے۔
شبانہ کے جوڑے پر چمپا کا پھول، جس پر رات کو کئی بار خوشبو چھڑکی جاتی ہے۔
رخسانہ انگڑائی لیتی ہوئی اُٹھتی ہے۔
گاڑی سے کون اُترا؟
سامنے لال حویلی میں رہتی تھی انوری بیگم، جہاں سواری سے پہلے چھوٹے ہاتھی کی سونڈ میں شراب ڈالی جاتی تھی۔
•••
’’دیکھ دیکھ کدھر سے کدھر لے گیا بات، شرابی سانپ۔‘‘ یہی تھا انوری بیگم کا تکیہ کلام۔
انوری بیگم نے ناگ پال رکھا تھا، جسے دودھ میں انگوری ملا کر پلاتی تھی۔
مد ہوش ناگ انوری بیگم کی کمر سے لپٹا رہتا اور وہ مُجرا کرتی رہتی۔
انوری بیگم نے تین تالاب بنوائے، چار پُل، اور ایک مسجد، جو بعد میں ڈھا دی گئی۔
•••
گر جانے کے ڈر سے لوک ماتا سیڑھیاں نہیں چڑھتی۔
سیڑھیاں کہیں چھُپ جاتی ہیں، کہیں اُبھر آتی ہیں۔
بانسری پر جے جے ونتی۔
لارالائی کی بات لوک ماتا سے چھپانی پڑتی ہے۔
انتر کی کہانی میں لارا لائی کی تصویر دیکھ کر لوک ماتا نے کہانی چولہے میں جھونک دی۔ کہانی اَن چھپی۔
•••
لوگ لارالائی کے سیلاب میں بہہ جائیں، بڑھیا یہی چاہتی ہے۔
’’جام میں شراب ڈالتے وقت ہاتھ کانپنا نہیں چاہیے‘‘ انتر سوچتا ہے۔
لوک ماتا کا ہاتھ انتر کی جیب میں لارالائی کی تصویر ڈھونڈتا ہے۔
’’ہر راستہ لارالائی کو نہیں جاتا‘‘ انتر کہتا ہے۔
’’زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی؟ ۔۔۔‘‘
لوک ماتا ناراض ہے یا اُداس؟ انتر کی سمجھ سے باہر ہے۔
•••
لارالائی کے بیچ سے سرسوتی کا جلوس نکلنے پر گرما گرم بحث۔
سوال گُٹ بدلنے کا
ابھی یہ ناٹک کچھ دن اور چلے گا۔
کئی کئی دن لوک ماتا اور انتر کے بیچ ایک بھی بات نہیں ہو پاتی۔
لوک ماتا نے انتر کا جل پان بند کر دیا۔
انتر خاموش۔ ماتھے پر شکن نہیں۔
شبانہ کا نام بدل کر آئنہ بانو لکھ دیتا ہے، کبھی شربتی، کبھی انگوری، کبھی رخسانہ۔
•••
اٹھارویں بار لکھی ہوئی کہانی میں وہی طوائفوں جیسے نام لوک ماتا کی برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں۔
تصویر وہی کی وہی۔ داستان لارالائی کی۔
’’جب اتنا لکھتے ہو تو پیسہ کہاں جاتا ہے؟‘‘ لوک ماتا پوچھتی ہے۔
لوک ماتا نے بچّوں کے سامنے بھی بات کھول دی۔
انتر سر نہ اُٹھا سکا۔
•••
’’بابل کو نہیں دیکھا -پیدا ہونے کے بعد۔ دلبر چھوڑ گئے۔ ماں کو مرے برسوں بیت گئے۔ ہم سفر کوئی نہیں۔ سوائے اپنی سانس کے!‘‘ بڑھیا کا درد بولتا ہے۔
آنکھ میں آنسو
’’کیا گھر، کیا لارالائی۔ یہ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں؟‘‘ انتر اپنے آپ سے کہتا ہے۔
’’بھرت پور لُٹ گیو رات مورے سیّاں۔‘‘ آئنہ بانو گاتی ہے۔
آئنوں کا شہر لُٹ کر بھی آباد ہوتا رہتا ہے۔ داستان لارالائی کی۔
ہاتھی سجا کھڑا ہے۔
کیلے کے پتّے سے شبنم پھسل گئی۔
کوئی گنبد، کوئی مینار۔ پاس سے دیکھو۔
سگریٹ کا آخری کش- کرسمس کے نام۔
•••
لوک ماتا دروازے کے باہر جھانکتی ہے۔
آسمان پر بگلوں کی قطار اُڑی جا رہی ہے۔
’’انتر کہاں چل دیا؟‘‘ لوک ماتا سوچتی ہے۔
کبھی ایسا رشتہ ہوتا ہے جیسے جُڑواں بچّے۔
•••
بَل چلا گیا رسّی نہیں جلی۔‘‘ بڑھیا کو انتر کی یاد آتی ہے۔
نغمہ بانسری کا
کچھ دِنوں سے نغمہ گم ہو گیا۔
’’چشمہ پہن کر مت رو شبانہ!‘‘ بلبل کہتی ہے۔
•••
جنتر منتر کال کلنتر۔۔۔، بچّے گاتے ہیں۔
جلوس لارالائی کے بیچ سے گزرتا تھا۔
جلوس کی راہ پر چلتے ہوئے لوک ماتا کی آنکھیں لارالائی کے جھروکوں کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔
•••
میری ننھی منی لڑکی گا رہی ہے۔ ’’آ۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ‘‘ میں اس کا مطلب نہیں سمجھتا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ وہ کہنا چاہتی ہے:
کہ (دُنیا کی) ہر چیز میں دہشت نہیں، مسرّت چھُپی ہوئی ہے۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں