فہرست مضامین
دہلی میں عصری اُردو صحافت ۔۔ تصویر کا دوسرا رخ
شاہد الاسلام
تشکر: کتاب ایپ
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
ضروری نوٹ
اس برقی کتاب کے متن کو معیاری نہ مانا جائے اور اسے تکنیکی استعمال جیسے ورڈ لسٹس جنریٹ کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ اس کی کمپوزنگ میں بڑی خرابی یہ ہے کہ مختلف طریقوں سے آٹو کریکٹ کرنے کے باوجود اس میں بہت ساری سپیس کی اغلاط موجود ہیں، یعنی دو الگ الگ الفاظ کے درمیان سپیس نہ دے کر واحد الفاظ بنا دیا جانا۔ جیسے
’ اردو اخبارات تکنیکی طور پر دیگر ورناکیولر اخبارات سے مختلف ہیں‘ (۱۱ الفاظ، یعنی دس جگہ سپیس)
کو
’اردواخبارات تکنیکی طورپردیگرورناکیولراخبارات سے مختلف ہیں‘ (۶ الفاظ یعنی صرف ۵ جگہ سپیس)
کئی ہفتے اس کتاب کی تدوین میں ضائع کرنے کے بعد تنگ آ کر اس کو ایسے ہی شامل کر رہا ہوں
اعجاز عبید، ناشر، بزم اردو لائبریری، مفت کتب
انتساب
معروف صحافی اور
مدیر مؤسسِ ثانی روزنامہ قومی تنظیم
ایس ایم اجمل فرید (مرحوم)
کے نام
مقدمہ ۔۔۔ شاہین نظر
مقدمہ نگار شاہین نظر فی الوقت شاردا یونیورسٹی (گریٹر نویڈا) کے شعبۂ ماس کمیونیکیشن میں ’ایڈجنکٹ‘ کے عہدے پر فائز ہیں۔ فروری 2011 میں مذکورہ ذمہ داری سنبھالنے سے قبل وہ ’عرب نیوز‘ (جدہ) کے سینیر اڈیٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ اور اس سے بھی پہلے موصوف ’سعودی گزٹ‘ ( جدہ)، ’خلیج ٹائمس‘ (دبئی) اور ’ٹائمس آف انڈیا‘ (پٹنہ) جیسے معروف انگریزی روزناموں سے منسلک رہے ہیں۔ (ناشر)
ہندی روزنامہ ’دینک جاگرن‘ اِس وقت ہندوستان کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ انڈین ریڈرشپ سروے کے مطابق گیارہ صوبوں کے 38 شہروں سے شائع ہونے والے کانپور کے اس اخبار کو مجموعی طور پر روزانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ پڑھتے ہیں۔ 2010 میں اس اخبار نے ممبئی سے شائع ہونے والے اخبار 75 سالہ ’انقلاب‘ کو خرید لیا۔ تجارت کی دنیا میں یہ معمول کی بات ہے۔ اخبارات کا بیچا یا خریدا جانا، کسی دوسرے ادارے میں ضم ہونا یا بند ہو جانا ایسی خبریں ہیں جو امریکہ وغیرہ سے تقریباً ہر روز آتی ہیں مگر ہمارے لئے یہ ایک بڑا واقعہ تھا جس میں افسوس کا پہلو شامل تھا اور خوشی کا بھی۔ افسوس اس لئے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے ایک ادارہ چلا گیا۔ خوشی کا پہلو یوں کہ جاگرن نے اسے خریدتے ہی شمالی ہندوستان کے درجن بھر شہروں سے نکالنا شروع کر دیا جب کہ ’انقلاب‘ کے مالکان، باوجود اس کے کہ تجارتی طور پر کامیاب تھے، کبھی ممبئی سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ آج ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اردو کے پاس ایک نہیں بلکہ دو ’نیشنل ڈیلیز‘ ہیں۔ ’راشٹریہ سہارا‘ اردو کا دوسرا بڑا اخبار ہے جو اس وقت شمال و جنوب کے نو شہروں سے نکل رہا ہے۔ اردو کا ایک دوسرا بڑا اخبار کلکتے کا ’آزاد ہند‘ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ اس وقت یہ ایک نئے میڈیا ہاؤس شردھا گروپ کی ملکیت ہے۔
اس سے دو نتیجے اخذ ہوتے ہیں: ایک یہ کہ اردو کے قارئین موجود ہیں۔ دوسرے یہ کہ اردو اخبارات نکالنا آج بھی منافع کا سودا ہے ورنہ بڑے میڈیا ہاؤسیز پیسہ نہیں لگاتے اور نئے نئے ایڈیشنز شروع نہیں کرتے رہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ چھوٹے اخبارات اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں مگر ایسا صرف اردو کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے چھوٹے اور منجھولے اخبارات بھی ’کارپوریٹا ئزیشن‘ کے اس عمل کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کسی اخبار کی کامیابی یا ناکامی زبان سے زیادہ تجارت، بلکہ ٹھیٹھ لفظوں میں تجارتی گر، پر منحصر ہے۔ جہاں ہمارے لوگ ناکام ہو رہے ہیں، وہیں غیر، منافع کما رہے ہیں اور ہم سے ہی کما رہے ہیں۔ ’انقلاب‘ اور ’راشٹریہ سہارا‘ کے صرف دہلی ایڈیشنز کو دیکھیں تو پرائیویٹ سیکٹر کمپنیوں کے اشتہارات کے علاوہ جو اشتہارات چھپتے ہیں وہ قوم کے نام پر جمع کی ہوئی رقم سے خریدے جاتے ہیں: کسی مدرسے کا مہتمم ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے دوبارہ منتخب ہونے پر پورے صفحے کا جیکٹ ایڈ چھپواتا ہے، کوئی مسلم گروہ کسی وزیر یا ریاستی حکومت کو دھمکی دینے کے لئے پورے صفحے کا اشتہار چھپواتا ہے، کوئی مذہبی جماعت اپنے قائد کی مدح میں اشتہار چھپواتی ہے تو کوئی اور جماعت یا ادارہ اشتہار کے ذریعہ ایران، سعودی عرب اور شام کی حمایت یا مخالفت کا اعلان کرتا ہے۔ سیاسی اور نیم سیاسی جماعتوں کے چھٹ بھیے لیڈروں کے ذریعہ ایک دوسرے کو مبارکباد والے اشتہارات الگ سے ہیں۔ یہ فہرست طویل ہے اور ایک علاحدہ مضمون کی متقاضی۔
مواد اور پیش کش کے اعتبار سے ’انقلاب‘ اور ’راشٹریہ سہارا‘ دونوں ہی بھرپور ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی دلچسپی کے سبھی لوازمات موجود ہیں۔ سیاسی طور پر یہ اخبارات مسلمانوں کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ سنگھ پریوار، یہاں تک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سخت سے سخت جملہ لکھنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس کے بر عکس ان کے ہندی ایڈیشن یعنی ’راشٹریہ سہارا‘ (ہندی) یا ’دینک جاگرن‘ دیکھیں، آپ کو اندازہ ہو گا کہ مسلمانوں کا یا تو ہندوستان میں وجود ہی نہیں یا ہے تو وہ چور، اچکے اور اسمگلر قسم کے لوگ ہیں یا پھر فلم ایکٹرس یا نچنئے ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی مثبت خبر مشکل سے ہی دیکھنے کو ملے گی۔ یہ عجیب صورت حال ہے۔ مالک ایک، پالیسی دو! ۔ جب وہ اردو میں سوچے تو مسلمانوں کا حمایتی اور جب ہندی میں سوچے تو مسلمانوں کا مخالف۔ یہ پالیسی ان میڈیا ہاؤسیز کی نہیں ہے جو ایک ساتھ انگریزی اور ہندی کے اخبارات نکالتے ہیں۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ اور ’نو بھارت ٹائمس‘ ، ’ہندوستان ٹائمس‘ ، ’دینک ہندوستان‘ ، اور ’انڈین ایکسپریس‘ یا ’جن ستا‘ میں پالیسی کا اتنا بڑا تضاد دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس وقت ہندی کا بول بالا ہے۔ انڈین ریڈر شپ سروے، جس کی سہ ماہی رپورٹ براہ راست پرائیویٹ سیکٹر کمپنیوں اور ایڈ ایجنسیز کو جاتی ہیں، کی فہرست کے مطابق ’ٹاپ ٹن‘ اخبارات میں پانچ ہندی کے ہیں۔ انگریزی کا صرف ایک اخبار ٹائمس آف انڈیا 75 لاکھ کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔ ملیالم کے دو اور تمل اور مراٹھی کے ایک ایک اخبارات شامل ہیں۔ ہندی اور انگریزی کو چھوڑ کر ’ٹاپ لینگویج ڈیلیز‘ میں ملیالم، تمل، مراٹھی، بنگالی، گجراتی اور تیلگو کے نام موجود ہیں، اردو کا دور دور تک پتہ نہیں ہے! سرکاری ادارہ رجسٹرار آف نیوزپپیرس فار انڈیا کی مارچ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں اس وقت اردو کے 4770 اخبارات و جرائد ہیں جو کہ ہندی، انگریزی، مراٹھی اور گجراتی کے بعد پانچویں نمبر پر ہیں، مگر مارکیٹ میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔ ان کی غالب اکثریت سرکاری اشتہارات پر زندہ ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ سرکاری اشتہارات کے لیے زندہ ہے۔
اس پس منظر میں شاہد الاسلام کی زیر نظر کتاب ایسی حقیقت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتی ہے جس سے ہم واقف تو ہیں مگر اس پر بات نہیں کرتے۔ عام طور پر اردو صحافت پر کتابیں، جو بیشتر ہمارے ریسرچ سکالرز کی کاوشیں ہوتی ہیں، ماضی کے سنہرے دور کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں اور وہیں ختم ہو جاتی ہیں۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے شائع ہونے والے رسالوں کے خاص نمبروں کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی بھی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے کر اس پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا جوکھم لینا نہیں چاہتا ہے۔ شاہد الاسلام نے تھوڑی ہمّت کی ہے۔ گو ان کے ریسرچ کا دائرہ ذرا محدود ہے پھر بھی ایک عمومی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ 1990 کی دہائی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، خاص کر انٹرنیٹ کی مقبولیت اور ہندوستان کے اکنامک لبرلائزیشن، کا اردو اخبارات پر جو اثر پڑا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے۔ نئے دور کے تقاضوں کا مطالعہ کیا جائے۔ نئے امکانات پر غور کیا جائے۔ جو مشکلات اور مسائل ہیں ان پر حقیقت پسندانہ انداز میں گفتگو کی جائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ جب صحافت کی بات کرتے ہیں تو 1857، جنگ آزادی، سر سید اور مولانا آزاد سے آگے سوچ نہیں پاتے۔ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ روایتی طور پر اردو میں صحافت، ادب کا حصّہ رہا ہے جب کہ آج یہ دونوں الگ الگ شعبے بن چکے ہیں مگر ہماری یونیورسٹیز کے شعبہ اردو کے ذمہ داران اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لئے شاید تیار نہیں۔
شاہد الاسلام نے لکھا ہے کہ اس وقت دہلی سے اردو کے 85 روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ اور ہر روزنامے کا دعویٰ ہے کہ وہ ہزاروں میں چھپتا ہے۔ تقریباً آدھے اخبارات چالیس ہزار سے اوپر چھپتے ہیں۔ انہیں دعووں کی بنیاد پر انہیں ڈی اے وی پی کے ذریعہ سرکاری اشتہارات ملتے ہیں، مگر یہ اشتہارات کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں، یہ سب کو پتا ہے۔ یہ صورت حال صرف دہلی کی نہیں سبھی شہروں میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور صرف اردو میں ہو رہا ہے یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ چور بازاری کسی ایک زبان یا ایک قوم تک محدود نہیں ہو سکتی۔ 1981 میں بہار کے وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا نے اندرا گاندھی کے اشارے پر ایک پریس بل پیش کیا تھا جس کے ذریعہ اخبارات کے مالکان، مدیران یہاں تک کہ قارئین تک پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس بل کی مخالفت پورے ہندوستان میں ہوئی تھی اور صحافیوں نے ملک گیر تحریک چلائی تھی۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین نیشن‘ جو کہ اب بند ہو چکا ہے، اس احتجاج کی قیادت کر رہا تھا۔ ایک دن تمام اخبارات نے ہڑتال کی اور پٹنہ میں ملک بھر کے صحافی جمع ہوئے۔ اردو والے بھی پیش پیش تھے۔ میں اس وقت طالب علم تھا اور شوقیہ ہفتہ وار اردو بلٹز کیلئے رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔ میں بھی اپنے آبائی شہر گیا سے شرکت کرنے آیا تھا۔ ایک سینئر اردو صحافی نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اردو والے دل سے اس تحریک کے ساتھ ہیں مگر خوف کی وجہ سے آگے نہیں آ رہے ہیں۔ یہ سن کر مجھے بڑا غصّہ آیا۔ میں فوراً اسٹیج پر پہنچ گیا اور منتظمین سے اجازت لے کر ایک تقریر کر ڈالی کہ اردو والے پوری طرح اس تحریک کا حصّہ ہیں۔ ثبوت کے طور پر وہاں موجود اردو صحافیوں کے نام بھی لے ڈالے۔ تالیاں بھی بج گئیں مگر اگلے دن مجھے ایک زبردست جھٹکا لگا۔ خبر نشر ہوئی کہ سارے اخبارات بند رہے مگر اردو کے اٹھارہ روزنامے شائع ہوئے۔ ان اخبارات کے نام بھی جاری کیے گئے تھے جن میں سے بیشتر نام نامانوس تھے۔ چند سال بعد جب میں نے ٹائمس آف انڈیا کے پٹنہ ایڈیشن میں کام کرنا شروع کیا تو انہیں اٹھارہ میں سے ایک اخبار کے مدیر سے اکثر دفتر میں ملاقات ہو جایا کرتی تھی مگر وہ صاحب کبھی نیوز روم میں نہیں آتے تھے بلکہ سرکولیشن مینیجر کے پاس بیٹھے ہوتے تھے۔ سرکاری کوٹہ سے رعایتی قیمت پر ملنے والے نیوز پرنٹ کو بلیک میں بیچنے۔ انہیں دنوں کبھی کبھی شام میں میں ایک لیتھو پریس میں جایا کرتا تھا، جہاں کم از کم دو اردو روزناموں کے کتابت شدہ صفحات رکھے ہوتے تھے جو ہفتے میں ایک دن چھپا کرتے تھے۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن پر ’اردو کی خدمات‘ کا لیبل لگا کر پردہ ڈالا جاتا ہے۔
مگر یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصد قطعی یہ نہیں کہ ہم اردو اخبارات کا نوحہ لکھ دیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ، خاص کر ان کا لوور مڈل کلاس، مدرسہ اور اردو میڈیم اسکولوں کے فارغین، عورتیں اور سن رسیدہ لوگ، ان کی سرپرستی کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ان کی ایک بنیادی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ جو لوگ اردو اخبار نکالنے کے نام پر دھوکا کر رہے ہیں ان کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ ہاں جو بڑے میڈیا ہاؤسیز دوغلی پالیسی اپنا کر ہمارا استحصال کر رہے ہیں انہیں یقیناً بے نقاب کیا جانا چاہئے۔
شاہد الاسلام کی زیر نظر کتاب کا تعلق دہلی کی اردو صحافت سے ہے، لیکن مصنف نے جس کڑھن اور جذبے کے ساتھ اپنے موضوع کو برتنے کی سعی کی ہے اس سے صرف دلی ہی نہیں بلکہ پورے شمالی ہندوستان کی اردو صحافت(روزنامہ اخبارات کی حد تک) پر روشنی پڑتی ہے اوراس کی رو بہ زوال شبیہ کو بہتر کرنے کی کسی بھی کاوش میں یہ کتاب معاون و مددگار ہو سکتی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اردو صحافت کو عزیز رکھنے والا وہ طبقہ جو اسے پھلتا پھولتا بھی دیکھنا چاہتا ہے اس کتاب کا خاطر خواہ انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے اس سے استفادہ کرے گا۔
٭٭٭
بے چہرہ صحافت کا منظرنامہ۔ حقانی القاسمی
اپنی بات کا آغاز شاہد الاسلام کے مقالہ کی ان آخری سطروں سے کرنا زیادہ مناسب ہو گا جن میں خزاں رسیدہ اردو صحافت کو گلشن بہار میں تبدیل نہ کر پانے کی ناکامی کا ذکر ہے۔ ان کا دکھ یہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی وسائل اور افرادی قوت سے معمور بڑے اردو اخبارات بھی ’معیاری صحافت‘ کا نمونہ پیش نہیں کر پائے۔
ان کا یہ دکھ اردو معاشرے کا اجتماعی کرب بن گیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ جو اردو صحافت اپنے آغاز میں ارتقا پذیر تھی، اب ارتقائی دور میں زوال آشنا ہو گئی ہے۔ دور آشوب میں یہ پر بہار تھی تو اب عہد نشاط میں خزاں رسیدہ ہے —— یہ انقلابات ہیں زمانے کے۔
اردو صحافت کا یہ معکوسی سفربہت تشویش ناک ہے۔ اس تشویش کے ازالہ کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو حالت اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔
شاہد الاسلام نے اس کتاب میں تغیرات کے ان ہی مناظر سے روبرو کرایا ہے۔ ایک طرف ماضی کی معتبر اور معیاری صحافت کا منظر نامہ ہے تو دوسری طرف موجودہ صحافت کے زوال کی تصویریں۔ پستی و بلندی، عروج و زوال کی یہ ’داستان صحافت‘ دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی—— یہ ذہن کو جھنجھوڑتی ہے تو دل کو مضطرب بھی کرتی ہے۔
موجودہ صحافت کے منظرنامہ نے شاہد الاسلام کے ذہن و دل کو بہت مضطرب کر دیا ہے۔ یہ مقالہ اسی اضطراب کا عکس اظہار ہے۔
یہ نہ صحافت کی تاریخ پر مبنی مقالہ ہے اورنہ ہی اس نوع کے اردو صحافی کی کوئی کاوش جسے قربان علی جیسے معتبر صحافی ’کنوئیں کا مینڈک‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک تجسّس آشنا ذہن کے تحقیقی اور مشاہداتی سفر کی روداد ہے۔
یہ ذہن مفروضوں میں الجھے ہوئے صحافتی حقائق کی تہ تک پہنچتا ہے اور حقائق و مفروضات میں خط امتیاز کھینچ کر ایک نئے رُخ سے آشنا کرتا ہے۔
یہ موجودہ صحافت کی بے چہرگی کا سفاک اور دردناک منظرنامہ ہے۔ یہ اس صحافت کا داخلی چہرہ ہے جو لایعنی سمتوں میں سفر کر کے اپنی منزل کھو چکی ہے اور اپنے امتیازی نشانات سے محروم ہو چکی ہے۔
شاہد الاسلام نے صحافت کو تحریک اور تجارت دونوں شکلوں میں دیکھا ہے۔ صنعتی اور صارفی معاشرت کا حصہ بننے کا منظر ان کی آنکھوں میں تازہ ہے۔ اخلاقی اقدار سے انسلاک اور انحراف دونوں ہی تصویریں ان کے سامنے ہیں۔ اردو صحافت کے نشیب و فراز سے آگہی نے ہی ایک غیر مشروط ذہن کے ساتھ اردو صحافت کے مسائل و متعلقات کامبسوط تجزیہ کرنے کی قوت انھیں عطا کی ہے اور اس مقالہ سے اس قوت کا پورا احساس ہوتا ہے۔ عصری صحافت کے جملہ امراض کی تشخیص میں وہ بہت حد تک کامیاب ہیں اوراسی تشخیصی عمل نے اسی اردو صحافت سے متعلق مروجہ آرا و افکار سے انحراف پربھی مجبور کیا ہے۔ کسی بھی بات کو من و عن تسلیم نہ کرنے کی روش اور خود تفتیشی طریق کار نے ان کے معروضات کو اعتبار عطا کیا ہے۔
اس کتاب میں شاہد الاسلام کا مشاہداتی اور تجربی مطالعہ شامل ہے اس لیے اس کتاب کے بیشتر مشمولات، مندرجات اور معروضات سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے بھی اتفاق کی ایک صورت بہرحال قائم رہتی ہے۔
شاہد الاسلام نے ’جذباتی معروضیت‘ کے ساتھ صحافت کے جملہ عناصر و عوامل کا تجزیہ کیا ہے۔ جذباتیت اور معروضیت کے متضاد رشتوں کو بڑی خوبصورتی سے مربوط کر دیا ہے۔ مسائل کے تجزیے میں جتنی معروضیت ہے، بیان میں اتنی ہی جذباتیت، یہ ہنر بہت کم لوگوں کو نصیب ہے ورنہ صحافت سے جڑے ہوئے بیشتر افراد جذباتیت میں الجھ کر معروضیت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ صحافت کی سماجیات، لسانی مذہبی تعصبات، مالکوں کے منفعت پسندانہ مزاج، ملازمین کا استحصال، اخبارات کے مذہبی جنون، فرقہ وارانہ خطوط پر صحافت کی تقسیم، قاری کی کمی اور صحافت کی اشتعال انگیزی، سر کولیشن اور نظام تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہوئے بھی معروضی اور منطقی انداز اختیار کیا ہے اور ہر ایک بات دلائل و شواہد کے ساتھ کہی ہے۔
دلیل کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے ان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر مکمل اتفاق بقول فضیل جعفری فاتحہ خوانی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے تھوڑا بہت اختلاف بھی ضروری ہے۔ شاہد الاسلام کی بہت سی باتوں سے مجھے اختلاف ہو سکتا ہے مگر میں ان معروضات کی تائید کیے بنا نہیں رہ سکتا۔
دہلی کی وادی صحافت میں ایسے درجنوں افراد کی موجودگی دیکھنے کو ملتی ہے جو فی زمانہ فائل کاپیوں کی شکل میں اردو صحافت کی تعمیر و ترقی کے عمل کو فروغ دے رہے ہیں اور نتیجتاً ڈی اے وی پی یا دیگرسرکاری اداروں سے ہونے والی آمدنی ان کی انفرادی زندگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بن رہی ہے۔
دہلی کے بیشتر اردو روزنامے تواتر کے ساتھ پاکستانی اخبارات کی خبریں اور مضامین سرقہ کرنے کے عادی ہیں۔
طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے قارئین نے اردو صحافت کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔
تبدیل شدہ حالات میں اب نئی نسل اردو کی جگہ ہندی یا انگریزی سے سروکار بڑھانے میں لگ گئی ہے اور نتیجتاً ان علاقوں کی مسلم آبادی کے درمیان بھی ہندی اور انگریزی اخبارات کی کھپت اردو اخبارات سے 50 گنا زیادہ ہو گئی ہے۔
اردو اخبارات کا احتجاجی کردار کار لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔
اس نوع کے اور بھی کچھ بیانات ہیں جو اردو صحافت کی ایک نئی تصویر یا ایک نیا تصور ذہنوں میں نقش کرتے ہیں۔
شاہد الاسلام کی یہ کتاب کئی ابو اب پر مشتمل ہے۔ صحافت کا آغاز و ارتقا، دہلی میں اردو صحافت کی ابتدا، جدید ذرائع ابلاغ اور اردو صحافت وغیرہ کو چھوڑ بھی دیجیے کہ ان موضوعات پر دوسروں کے خرمن سے خوشہ چینی کرنے والوں نے بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ کتاب تو اپنے ان عناوین کی وجہ سے زیادہ متوجہ کرتی ہے جن میں صحافت کے تشکیلی، تکنیکی مسائل و متعلقات پر بے لاگ اور حقیقت پسندانہ گفتگو کی گئی ہے۔ جس موضوعات سے لوگ دامن بچا کر گزر جاتے ہیں، شاہد الاسلام نے ان ہی موضوعات میں اپنے دامن کو الجھا دیا ہے۔ مثلاً قارئین کی تشویش ناک حد تک کمی، اخبارات کی سرپرستی کامسئلہ، اردو اخبارات کے محدود وسائل، کمرشیل اشتہارات کی فراہمی، سرکولیشن کامسئلہ وغیرہ وغیرہ۔ ان مسائل اور موضوعات کی تہوں میں اتر کر شاہد الاسلام نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے، وہ واقعی حیران کن ہیں۔
شاہد الاسلام نے دہلی سے شائع ہونے والے 85 روزنامہ اردو اخبارات کی فہرست تعداد اور مقام اشاعت کے ساتھ دی ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان 85 روزناموں میں سے 6 درجن سے زائد روزناموں کی زیارت کا کبھی اتفاق نہیں ہوا اور ان میں بھی سرکولیشن کے اعتبار سے ’جدید ان دنوں‘ سب سے زیادہ ہے جو یقیناً حیرت انگیز ہے۔ اس طرح کی اور بھی چونکانے والی باتیں اس کتاب میں درج ہیں۔
شاہد الاسلام ایک حقیقت پسند صحافی ہیں، انھوں نے ہم عصر اردو اخبارات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ذہنی تعصبات کو راہ نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انھوں نے اردو کے راشٹریہ سہارا اور انقلاب کے معیار اور مزاج پر بے لاگ گفتگو کی ہے۔ وہیں ہندوستان ایکسپریس (جس سے وہ خود بھی وابستہ ہیں) پر سخت تنقید کی ہے۔ اردو کے بڑے اخبارات کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ ہندوستان ایکسپریس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ادارتی صفحہ پر شائع کیے جانے والے مضامین برسوں پاکستانی اخبارات سے سرقہ کی صورت میں حاصل کیے جاتے رہے۔ بین الاقوامی مضامین پر مبنی مضامین نہایت بے شرمی کے ساتھ پاکستانی ویب سائٹ سے چوری کیے جاتے تھے اور انھیں ادارتی صفحہ میں شائع اشاعت کر دیا جاتا تھا۔‘ یہ اقتباس ان کی بے باکی کا کھلا ثبوت ہے۔
معاصر اخبارات کے تجزیے میں بھی اسی حقیقت پسندی کی راہ اختیار کی ہے۔ مگر کہیں کہیں وہ غچہ کھا گئے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات سے تو اتفاق ہو سکتا ہے کہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ کے دہلی ایڈیشن کا معیار و مزاج حال کے دنوں میں خاصا سوقیانہ ہو کر رہ گیا ہے، مگر اس اخبار کی اسرائیل نوازی اور سابق گروپ ایڈیٹر عزیز برنی کے تعلق سے جو باتیں لکھی گئی ہیں اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ عزیز برنی کی وجہ سے ہی اردو صحافیوں کا معیار اور وقار بلند ہوا اور ان ہی کی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹر نے بھی اردو صحافت میں دلچسپی دکھائی ہے۔ اردو صحافیوں کو جو معقول تنخواہ مل رہی ہے اس میں عزیز برنی کا کردار بہت اہم ہے۔ ہاں شاہد الاسلام نے بڑے اخبارات سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ ان اخبارات نے بھی اردو صحافت کے معیار اور وقار کو مجروح کیا ہے۔ اسی وجہ سے اردو اخبارات کے قارئین کا دائرہ سمٹتاجا رہا ہے اور حلقہ دانشوراں سے اس طرح کی آوازیں بھی اٹھنی شروع ہو گئی ہیں کہ ’سستی جذباتیت اور خبر و نظر میں معیار و وقار کی کمی نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اردو اخبارات پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے۔‘ (شفیع مشہدی) مواد کے علاوہ اخبارات میں زبان کی سطح اتنی ناقص ہو گئی ہے کہ ایک مشہور افسانہ نگار محترمہ ذکیہ مشہدی کو لکھنا پڑا کہ ’روزناموں کی زبان اتنی ناقص ہے کہ طبیعت متعفن ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ میرے بچے ان اخبارات کو نہیں پڑھتے ورنہ ان کی زبان خراب ہو جاتی۔‘ (بحوالہ سید احمد قادری، اردو صحافت بہار میں)
شاہد الاسلام نے بہت اہم موضوع پر وقیع کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب اردو صحافیوں کے لیے ایک آئینہ ہے، اس میں انھیں ٹیڑھے میڑھے چہروں کو دیکھ کر ہنسی نہیں آئے گی بلکہ رونا آئے گا کہ مولانا ابو الکلام کے ’البلاغ‘ ، ’الہلال‘ ، ظفر علی خاں کے ’زمیندار‘ اور محمد علی جوہر کے ’ہمدرد‘ نے اردو صحافت کا جو معیار اور وقار قائم کیا تھا اسے قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہے۔ شاہد الاسلام نے ابتدا میں سوالات کے جو سلسلے قائم کیے ہیں ان پر صحافتی برادری کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ان کے تدارک کے بغیر اردو صحافت کی تصویر اور تقدیر نہیں بدل سکتی۔
بہتر اور پُر مغز مواد کے لیے شاہد الاسلام کو مبارک باد کے ساتھ ان کے ’زورِ بیان‘ کی داد بھی دینا چاہوں گا کہ آج کی نئی نسل کے صحافیوں میں اسی ’بیان‘ کی کمی ہے، جس کی وجہ سے ہم عصر اردو صحافت غیر معیاری اور بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔
Cell: 9891726444
haqqanialqasmi@gmail.com
٭٭٭
جواز۔ شاہد الاسلام
دہلی میں عصری اردو صحافت خوب پھل پھول رہی ہے۔
ثبوت۔ وادیِ صحافت میں اردو اخبارات کا متواتر مولود مسعود!
پہلا سچ!
اس وقت دہلی سے اردو کے تقریباً 85 روزنامہ اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔
دوسرا سچ!!
اردو روزناموں کا مجموعی سرکولیشن 15 لاکھ سے بھی زائد۔
تیسراسچ!!!
85 اردو روزنامہ اخبارات کو حکومت اشتہارات سے نواز رہی ہے۔
بظاہر یہ صورتحال اس ’’حقیقت‘‘ کی ترجمان ہے کہ اردو صحافت کے ارتقا کا سفر مسدود نہیں، مبارک ہے!!!
تصویر کا یہ رخ دیکھ کر کوئی بھی احساس طمانیت میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر تحقیق کی کسوٹی پر ان ’’سچائیوں‘‘ کو پرکھنے سے جو ’’حقیقت‘‘ سامنے آتی ہے، وہ حکومت کے ذریعہ پیش کردہ ’’حقیقت‘‘ کے برعکس ہے۔
……………
تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟ اس تحقیقی مقالے میں یہی دکھلانے کی کوشش کی گئی ہے! ۔
اردو صحافت کو فروغ دینے کے نام پر منظر عام پر آنے والے اُردو اخبارات کے اس ہجوم میں نمائندہ اُردو اخبارات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
در حقیقت انہیں کن مصائب و مشکلات کا سامنا ہے؟
بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
قاری کامسئلہ کیا ہے؟
وسائل کس حد تک کم ہیں؟
زرد صحافت سے اردو صحافت کا کیا رشتہ ہے؟
مقامی خبروں کی فراہمی کے لحاظ سے اردو روزناموں کی کیا صورتحال ہے؟
کمرشیل اشتہارات انہیں کس حد تک ملتے ہیں؟
سرکولیشن کا معاملہ کیسا ہے؟
ہم عصر صحافت سے مقابلہ و موازنہ کے بعد اردو صحافت کی کیا صورت سامنے آتی ہے؟
جدید تکنیکی وسائل کو بروئے کار لانے میں اردو صحافت کس حد تک کامیاب ہے؟
’’حقیقت پسندی‘‘ کا رجحان کس حد تک ’’فرقہ پرستی‘‘ کو فروغ دینے کا محرک بن رہا ہے؟
اردو صحافت نے خود کو کیوں کر ’’خودساختہ‘‘ قفس میں قید کر رکھا ہے؟
صحافتی اقدار و آداب اور تقاضوں کی پاسداری کس حد تک کی جا رہی ہے؟
اُردو صحافت کے اسلوب و آہنگ پر اردو زبان کی زوال پذیری کا احساس کس حد تک غالب ہے؟
احتجاج و اشتعال سے یہ وادی کیوں بھری پڑی ہے؟
اخلاقیات کو نباہنے کا کوئی تصور بھی ہے یا نہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں، جو دہلی کے اردو اخبارات کے تعلق سے فطری طور پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی بہتر صورت یہی سمجھ میں آئی کہ اردو روزناموں کی روشنی میں دہلی کی عصری اردو صحافت کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے۔ لہٰذا یہ ضروری معلوم ہوا کہ دہلی کے نمائندہ روزنامہ اردو اخبارات کے مزاج و انداز، اطوار و آداب اور صحافتی ترجیحات کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے مروجہ اصولوں کو پیش نظر رکھ کر مشمولاتِ اخبارات کا جائزہ لینے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں کماحقہ اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح کی جانبداری یا مصلحت کو پیش نظر نہ رکھا جائے اور حقائق کی کسوٹی پر صورتحال کا تجزیہ کیا جائے۔ دہلی کی اردو صحافت میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کے درمیان آئے دن نئے اخبارات کے ورود مسعود کی خوشخبری گرچہ سنی جاتی رہی ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اخبارات کی اشاعت کے بظاہر دراز ہوتے سلسلوں کے باوجود معیاری اردو صحافت عنقا دکھائی دیتی ہے۔
لہٰذا کوشش اس بات کی بھی کی گئی ہے کہ اردو صحافت کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کیلئے اہل علم کے خیالات سے بھی روشنی حاصل کی جائے۔ زیر نظر کتاب کا پہلا باب صحافت کے آغاز و ارتقا سے متعلق ہے جس میں نہ صرف یہ کہ صحافت کی ابتدا کی بابت محققین کے نئے پرانے خیالات سپرد قلم کئے گئے ہیں بلکہ ’دہلی میں اردو صحافت کی ابتدا‘ ، ’دہلی میں روزنامہ اردو صحافت کا آغاز‘ ، ’بیسویں صدی کے اوائل میں دہلی کی اردو صحافت‘ ، ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو صحافت‘ ، اور ’مختلف الجہات تبدیلیوں کا دور‘ جیسے ذیلی عناوین کے تحت بھی اردو صحافت کے قصۂ ماضی کو صفحۂ قرطاس پر لانے کی سعی کی گئی ہے۔ دوسرے باب کا مرکزی عنوان ’دہلی کی اردو صحافت کو درپیش چیلنجز‘ ہے جس کے تحت 10 ذیلی عناوین قائم کرتے ہوئے دہلی کی اردو صحافت کے پیچیدہ مسئلوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسرے باب کا عنوان ’اردو صحافت اور جدید تکنیکی وسائل‘ ہے جس کے ذیل میں ’ابلاغ وترسیل اور اس کی ارتقائی صورت گری‘ ، ’جدید ذرائع ابلاغ اور اردو صحافت‘ اور ’عہد بہ عہد اردو صحافت کی ارتقا کی کہانی، جدید تکنیک کی زبانی‘ کے تحت گفتگو کے سلسلے دراز کئے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب کا چوتھا باب ’ہم عصر صحافت اور اردو صحافت‘ کے درمیان پائے جانے والے زمین اور آسمان کے فرق کو نمایاں کرتا ہے۔
دہلی کی عصری اردو صحافت کا جائزہ لینے کی بات جب ذہن میں آئی تو اُس وقت بحیثیت مجموعی میر و غالب کے اِس شہر سے 47 اردو روزنامہ اخبارات منظر عام پر آ رہے تھے۔ جب خوابوں میں رنگ بھرنے کا عمل شروع ہوا تو اخبارات کی تعداد بڑھ کر 60 ہو گئی اور اب جبکہ دہلی کی صحافتی سرگرمیوں کا ایک اجمالیہ سامنے ہے، دہلی سے 47 اردو روزناموں کی جگہ 85 ایسے اردو روزنامہ اخبارات شائع ہو رہے ہیں جنہیں ڈی اے وی پی کی منظوری حاصل ہے۔ 2008 سے 2015 کے درمیان دہلی میں 40 سے زائد نئے روزنامہ اخبارات کا ورود مسعود یہ ظاہر کرنے کیلئے بہ ظاہر کافی ہے کہ دہلی کی سرزمین اردو صحافت کیلئے واقعی نہایت زرخیز واقع ہو رہی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ 2012 کے ابتدائی زمانہ تک کارپوریٹ گھرانہ سے تعلق سے رکھنے والا واحد اردو روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ ’انقلاب‘ کی اشاعت کے آغاز کے ساتھ ہی اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھ پایا اور یوں اردو صحافت میں دو بڑے کارپوریٹ گھرانوں سے متعلقہ اخبارات کے درمیان مسابقہ کا بھی ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ لہٰذا یہ ضروری معلوم ہوا کہ دہلی میں عصری اردو صحافت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی جائے کہ حال کے پانچ برسوں کے درمیان بطور خاص اردو صحافت کی دنیا میں کیا کوئی انقلاب برپا تو نہیں ہوا؟ ۔ اس طرح ’دہلی کی عصری اردو صحافت‘ کے حقیقی چہرہ کو متشکل کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہ سعی کس حد تک کامیاب ہے، اس بات کا فیصلہ بہرحال ناقدین اردو صحافت کریں گے۔
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں