فہرست مضامین
دوجی میرا
(ہندی کہانیوں کا مجموعہ)
سندیپ میل/مترجم: عامر صدیقی
تعارف
سندیپ میل۔ پیدائش: پندرہ مئی۱۹۸۸ء، پوشانی، سیکر، راجستھان۔ زبان: ہندی، راجستھانی۔ تعلیم: ایم اے (سیاست)، ایم فل، پی ایچ ڈی (جاری)، میدان: کہانی نویسی، مضامین، بچوں کا ادب۔ تصنیف و تالیف: کہانی کے مجموعے ’’کوکلا شاستر‘‘، ’’دوجی میرا‘‘، سیاسی مضامین کا تالیفی مجموعہ ’’انّا سے اروِند تک‘‘، بچوں کی کہانیوں پر بھی ایک مجموعے ’’ قصوں کا خزانہ‘‘کی اشاعت۔
٭٭٭
کھوٹ
میرے ایک بہت ہی عزیز دوست کی شادی تھی۔ عزیز اس لئے تھا کہ جب بھی مجھے علم بگھارنے کا دورہ پڑتا تو وہ ایک معصوم بچے کی طرح سامع بن جاتا۔ وہ مجھے برداشت کرتا تھا یا میں اسے، اس کا تو ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پایا، مگر اتنا ضرور طے تھا کہ کوئی تیسرا ہم دونوں کو قطعی برداشت نہیں کر پاتا۔ عجیب مصیبت آن پڑی تھی۔ اس کے دماغ پر پڑھنے کی دھن سوار ہو گئی اور میرے دماغ پر پیسہ کمانے کی۔ آج تو واضح ہو گیا ہے کہ نہ وہ پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی میں پیسے کما سکتا ہوں۔ لیکن ان دنوں کون سمجھاتا، جب ہم خواب کو حقیقت مان لیتے تھے، اب حالات یہ ہے کہ حقیقت بھی کبھی کبھار خواب سی ہی لگتی ہے۔
بہر حال، ہم دونوں اپنے اپنے راستوں پر چل پڑے تھے، یہ جانتے ہوئے کہ کبھی بھی گم ہو سکتے ہیں۔ وہ بنگلور پڑھنے چلا گیا اور میں دہلی کمانے۔ تین سال گزر گئے، میں اتنا کما لیتا تھا کہ اپنا پیٹ بھر سکوں اور وہ پاس ہونے بھر کو پڑھ لیتا۔ ان تین سالوں میں ہم دونوں میں کافی تبدیلیاں آ گئیں۔ میں مالک کی پھٹکاریں سن سن کر اچھا سامع ہو گیا اور وہ کالج میں ڈینگیں ہانک ہانک کر بہترین مقرّر بن گیا۔ یعنی ہم بالکل متضاد ہو گئے۔۔۔ زمانے کی طرح۔
’’ان تین سالوں میں مُنیندر کی صورت ضرور بدل گئی ہو گی مگر سیرت وہی ہو گی۔‘‘ اکثر میں یہی سوچتا تھا کیونکہ تین سالوں سے ہمارے درمیان تین بار فون پر باتیں ہوئی، وہ بھی دو دو منٹ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ جو لوگ گھنٹوں باتیں کرتے ہوئے بھی بور نہیں ہوتے تھے، فقط دو منٹ میں کیا باتیں کریں گے؟ لیکن ان چھ منٹوں میں مجھے احساس ہو گیا کہ مُنیندر کے اندر بہت بڑی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ ویسے بھی مجھے بلا وجہ شک کرنے کی عادت ہے۔
بنگلور بہت بڑا شہر ہے، دہلی اس سے بھی بڑا۔ جو نوجوان دہلی میں پہلی بار آیا ہو اور اگر بھول سے جن پتھ کے آس پاس سے گزر جائے تو یقیناً ایک بار سیاست میں آنے کا ضرور سوچے گا۔ اس زمین میں سیاسی کشش کچھ زیادہ ہی ہے۔ جب دو تین جوڑیاں چپلیں گھس جاتی ہیں، تب آہستہ آہستہ اس کا ارادہ بدل جاتا ہے۔ یہی حال بنگلور کا ہے، وہاں ایک بار آدمی کارخانہ لگانے کا سوچے گا ضرور، مگر پھر اس لائن پر جلد ہی آ جائے گا کہ کسی کارخانے میں نوکری مل جائے تو بھی گزارا ہو سکتا ہے۔
مُنیندر اور میں بھی اس دور سے گزرے، شہر نے اپنی بناوٹ کے حساب سے ہمیں ڈھالا۔ میں تو کبھی کبھی ضد پر اڑ جاتا تھا کہ مجھے شہر کے حساب سے نہیں بدلنا ہے، لیکن بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ میں بدل چکا ہوں۔ مگر مُنیندر میں جو تبدیلی واقع ہو رہی تھی وہ کچھ اور تھی۔
ایک دن شام کو مُنیندر کا فون آیا، ’’یار، تیئس مئی کو میری شادی ہے، ضرور آنا۔‘‘
میں نے اتنا ہی کہا، ’’وقت پر پہنچ جاؤں گا۔‘‘
نہ کوئی مبارکباد دی اور نہ ہی یہ پوچھا کہ اچانک شادی کرنے کا ارادہ کیسے بنا لیا۔ کیونکہ میں نے سوچا کہ شراب پی کر مذاق کر رہا ہو گا۔ مُنیندر کو جب بھی چڑھتی ہے تو وہ ایسے ہی مذاق کرتا ہے۔ کبھی کہتا کہ اس کا باپ مر گیا، کبھی بولتا کہ اس کی گرل فرینڈ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے، ایسی چیزوں پر آدمی بھلا کب تک یقین کرے گا۔ اب وہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ سناتا ہے، تو مجھے وہ ایک مذاق ہی لگتا ہے۔ اسی لئے میں نے اس بات پر کوئی غور نہیں کیا۔
تین دن کے بعد جب گھر پر فون کیا تو ممی نے بتایا، ’’تیرے دوست مُنیندر کی شادی ہے، آ جانا۔ گاؤں میں تو کہتے ہیں کہ لڑکی میں کوئی کھوٹ ہے۔‘‘
کچھ ضروری باتیں کرنے کے بعد فون رکھتے ہی میرے دماغ آیا کہ لڑکی میں کھوٹ ہے، کھوٹ تو مُنیندر میں بھی ہو سکتا ہے۔
آخر کیا کھوٹ ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے آتے ہی میرے ذہن میں سماج کی وہ تصویریں آ گئیں، جن میں، میں جی رہا تھا۔ چار دن تک یہی کھوٹ اور مُنیندر میرے دماغ میں گھومتے رہے لیکن کوئی قابل قبول جواب نہیں تلاش کر سکا۔ اس بات پر تو بالکل بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ مُنیندر کی شادی ہو رہی ہے۔ اس جیسا انسان، جو لڑکی دیکھتے ہی جھینپ جاتا تھا، شادی کر کے کیا خاک کرے گا؟ پانچویں دن طے کر لیا کہ آج گھر جانا ہے، مُنیندر کی شادی آٹھ دن بعد ہی تو تھی اور ویسے بھی ایک عرصے سے گھر نہیں گیا تھا۔
جب سوچ ہی لیا تھا، تو گھر کے لئے چل بھی پڑا۔ میں نے بس میں بیٹھتے وقت بیس روپے کی مونگ پھلی لے لی (پانچ روپے کی مونگ پھلی والا زمانہ اب نہیں رہابھائی)۔ مونگ پھلی اسی لیے لی کہ راجستھان روڑویز والے بس کو لازمی ڈھابے پر ہی روکتے ہیں، جہاں ہر چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ چلن یہیں پر ہے، جس کی مخالفت کرنے پر آپ کو ہوٹل کی لٹھیتی اور پولیس کا پرشاد مل سکتا ہے۔ عجب ملک ہے۔
مونگ پھلی کے ہر دانے کو توڑتے وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں مُنیندر کی شادی کی کھوٹ ڈھونڈ رہا ہوں۔ مونگ پھلی کا چھلکا اتارتا اور آہستہ آہستہ چباتا لیکن وہ مونگ پھلی ہی رہتی، اس میں کھوٹ نہیں ملتا۔ پھر کب آنکھ لگ گئی پتہ بھی نہیں چلا۔
ہوا کی ایک جانی پہچانی بو آ کر دل سے ٹکرائی تو اچانک آنکھ کھل گئی، میرا گاؤں آ چکا تھا۔ رات کے چار بجے تھے، سارا گاؤں سو چکا تھا، پھر بھی لگتا تھا کہ جاگ رہا ہے، جبکہ دہلی جاگتی ہوئی بھی سوئی ہوئی سی لگتی ہے۔ فصل کٹے ہوئے کھیت بالکل بچے کو جنم دینے کے بعد کی ماں کی طرح کھِل رہے تھے۔ فضاؤں میں مور کی گونجتی ہوئی آواز نے میرا استقبال کیا۔ گرمی میں لوگ گھر کے باہر چارپائی ڈال کر سو رہے تھے، ان کے خراٹوں کی آوازیں بہت سریلی لگ رہی تھیں، کبھی کوئی بزرگ کھانستا تو لگتا کہ جیسے تال ملانے کی کوشش کر رہا ہو۔ میں اپنے گھر کی گلی کی جانب مڑا، تو ’ٹیکو کاکا‘ کا اونٹ جگالی کر رہا تھا، جو غیر ملکیوں کی سواری کے لئے نہیں تھا، بلکہ کھیت جوتنے کے لئے تھا۔ ہر گلی کے پاس بورڈ لگا ہوا تھا، اتنے بورڈ جیسے گاؤں میں ترقی کی گنگا بہہ گئی ہو، لیکن سڑکوں کی جگہ اب بھی پتھریلے فرش تھے، اس صدی میں بورڈ آئے ہیں، شاید اگلی صدی میں ترقی بھی آ جائے۔
گھر میں جب مُنیندر کی شادی کی بات چلی تو عجب طرح کے قصے سننے میں آئے۔ ’’لڑکی لنگڑی ہے مگر چلنے پھرنے سے پتہ نہیں چلتا تھا۔ یہ رشتہ پیسے کی لالچ میں ہوا ہے۔ لڑکی میں کوئی کھوٹ ضرور ہے۔‘‘
جب میں نے گھر والوں سے پوچھا، ’’آپ کو کیسے پتہ کہ لڑکی میں کھوٹ ہے؟‘‘
’’سارا گاؤں یہی کہہ رہا ہے۔‘‘ سب کا ایک ہی جواب تھا۔
یہ درست تھا کہ مُنیندر کی شادی کا چرچا پورے گاؤں میں تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، ویسے لڑکی کو کسی گاؤں والے نے دیکھا نہیں تھا۔ مُنیندر اور ان کے گھر والوں کے سامنے کوئی کچھ نہیں کہتا، مگرپیٹ پیچھے اتنی باتیں ہوتی کہ بتانا مشکل ہے، اس لڑکی کے بارے میں جس پر دونوں شادی والے گھروں میں کوئی دقت نہیں تھی۔ لڑکی کی عمر کے بارے میں تو ۳۵ سے لے کر ۵۰ سال تک، کوئی بھی بتانے کا حق رکھتا ہو جیسے۔ آج کل اس لڑکی میں کھوٹ نکالنے کے لئے مُنیندر کی کافی تعریف ہوتی ہے۔ لوگ مُنیندر کی ایسی ایسی خوبیاں نکال کر لے آتے کہ اسے خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ خوبیاں اس میں کب پیدا ہوئیں۔
مجموعی طور پر بات یہ تھی کہ مُنیندر آج کل گاؤں میں ہیرو ہو گیا تھا۔ ایک میٹرک کا طالب علم بولا کہ وہ لڑکی مُنیندر کے باپ کے جوڑ کی ہے۔ جو شادی کی ’’ش‘‘ بھی نہیں جانتا، وہ بھی مُنیندر کی شادی پر فوجداری وکیل کی طرح دلائل دیتا۔ میرے ذہن میں اتنی باتیں بھر دی گئیں کہ مجھے اس کی شادی، تاج محل سے بھی بڑا عجوبہ لگنے لگی۔ لوگوں میں ایک عجب جوش تھا، کچھ تو ایسے تھے کہ کوئی نئی بات اس شادی کے بارے میں نہیں سنتے تو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
بارات کے پہلے دن مُنیندر کے گھر پر پارٹی تھی، جس میں لوگ بغیر بلائے ہی پہنچ گئے۔ اگر نیشنل میڈیا کو اس کی خبر لگ جاتی تو ملک کے تمام مسائل چھوڑ کر اس کی شادی کو کوریج ملتی شاید۔ لیکن بھلا ہو گاؤں والوں کا کہ میڈیا کو خبر نہیں دی اور ملک کو اس نئے مسئلے سے بچا لیا۔ پارٹی میں لوگ کھانے پینے کا کام چھوڑ کر فرصت ملتے ہی کھوٹ کی بحث میں لگ جاتے۔
جاتے ہی میں مُنیندر سے ملا۔ اس معاملے پر اس کا رد عمل جاننا چاہا۔ کیونکہ جب اتنی بحث ہو رہی ہے، تب بات تو اس کے کانوں تک بھی پہنچی ہی ہو گی۔ مگر مُنیندر کا چہرہ کسی راز میں ڈوبا سا تھا، وہ کوئی بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ گھما پھرا کر بات کو ٹال دیتا۔ عورتیں مُنیندر کو ایسے دیکھ رہی تھیں، جیسے وہ دنیا کا سب سے خوبصورت مرد ہو اور بیچارے کی شادی کسی انسان سے نہیں جانور سے ہو رہی ہو۔ عوام کی نظروں سے اس پر ترس کی بے حساب بارش ہو رہی تھی۔
’’ارے! اس کو مار ڈالو گے۔‘‘ اچانک میرے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا، تو مُنیندر دال باٹیوں کے پاس کھڑا تھا۔
میں نے بھی زیادہ گہرائی میں جانا مناسب نہیں سمجھا اور شادی کی مبارک باد دے کر پارٹی میں شامل ہو گیا۔ رات بھر ناچنے گانے کا سلسلہ چلتا رہا، لیکن دوسری شادیوں سے الگ اس شادی میں ناچنے گانے میں بھی کھوٹ تھا۔ لوگ کم ناچ رہے تھے، آنکھیں زیادہ ناچ رہی تھیں۔
رات کو دیر سے آنے کی وجہ سے صبح وقت پر نہیں اٹھ پایا تھا۔ جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ بارات تو جانے والی ہے۔ جلدی سے تیار ہو کر بارات میں شامل ہو گیا۔
بارات لڑکی کے گاؤں پہنچی، پوری بارات ہی بینڈ پر ناچ رہی تھی۔ مجھے عجیب لگا کہ آخر لوگوں کو ہو کیا گیا ہے؟ ہر جگہ لوگ اچھل رہے تھے، چاہے بچہ ہو یا بوڑھا۔ جب لڑکی کو لایا گیا تب تو حد ہو گئی، لڑکی دیکھنے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے ہا تھا پائی پر اتر آئے، مجھے انتخابات یاد آ گئے۔ میں نے بھی اس لڑکی کو دیکھا، مگر میری آنکھیں لاکھ کوششوں کے بعد اس میں کوئی کھوٹ نہیں نکال سکیں۔ یا تو میں پاگل ہوں یا پھر گاؤں والے۔
شادی دھوم دھڑکے سے ہوئی۔
دوسرے دن صبح صبح میرے ایک دادا آئے۔ وہ بولے، ’’تم بارات میں گئے تھے؟‘‘
میں نے کہا ’’ ہاں۔‘‘
وہ تھوڑے سے شرماتے ہوئے بولے، ’’میں نے سنا ہے کہ لڑکی کی مونچھ ہے۔‘‘
مجھے اچانک ہنسی آ گئی، ’’نہیں تو۔‘‘
کچھ دنوں تک مُنیندر کی شادی کے بارے میں ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں سننے کو ملیں، پھر گاؤں والوں کو کوئی دوسرا ٹاپک مل گیا۔ پھر شاید مُنیندر نے چین کی سانس لی ہو گی۔ اکثر بہت سوچا کہ اس بارے میں اس سے بات کروں، مگر بچکانہ سمجھ کر، کر نہیں پایا۔ وہ پہلے بہت ہی عزیز تھا، اب اس شادی والی باتوں سے بہت ہی عجیب ہو گیا ہے۔ جب بھی ملتا ہے تو کھویا کھویا رہتا ہے، نہ میری باتوں میں دلچسپی لیتا ہے اور نہ ہی کچھ بتاتا ہے۔ مجھے لگا کہ اب شاید میں اسے برداشت نہیں کر پاؤں گا، ایک پراسرار خاموشی برداشت کرنا میرے لئے سب سے خطرناک ہے۔ آہستہ آہستہ مُنیندر سے دوری بنانا شروع کر دی، پھر بھی وہ میرے ذہن میں اسی طرح چھایا ہوا تھا۔ آج کل ہم دونوں گاؤں میں ہی رہتے ہیں، اس نے پڑھنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور میں نے کمانے کا۔
کچھ دنوں بعد مُنیندر پھر سے میرے ذہن میں آیا، لیکن اس بار ایک سوال بن کر۔ ہوا یوں کہ اس کی بیوی کی نوکری لگ گئی۔ اس کی تقر ری جیسلمیر میں ہوئی۔ گاؤں میں خبر پھیلی کہ مُنیندر کی بیوی نے اسے طلاق دے دی۔
کھوٹ تو اس لڑکی میں تھا، پھر اس نے مُنیندر کو طلاق کیوں دی؟
اس سوال کا گاؤں والوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، مگر مجھے لگا کہ میں جواب کے بہت نزدیک پہنچ رہا ہوں۔
اتوار کا دن تھا، میرے ایک دوست ڈاکٹر نریندر نے مجھے ملنے کے لئے بلایا۔ آج کل آوارہ گردی کر رہا تھا، تو وقت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ لہذا دس بجے کے آس پاس ہی ڈاکٹر کے یہاں چل پڑا۔ نریندر پوشیدہ مرض کا ماہر ہے، اتوار کو فیس لے کر گھر میں مریضوں کو دیکھتا ہے۔ جب میں نریندر کے گھر میں گھسنے لگا، تو اندر سے ایک آدمی سر پر تولیہ ڈالے سیڑھیاں سے گزرا۔ پہلے میں نے توجہ نہیں دی۔
اچانک میرے دماغ کو جھٹکا سا لگا، ’’کون ہو سکتا ہے؟‘‘
دماغ نے ایک خاکہ بنا لیا لیکن چہرہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
اندر جاتے ہی نریندر بولا، ’’یار تم بھی عجیب ہو، میں نے تو شام کو بلایا اور تم صبح ہی ٹپک پڑے۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ جو ابھی ابھی گیا ہے اس مریض کو کیا بیماری تھی؟ ’’
’’ارے یار، اتنی دوائیں مارکیٹ میں ہیں، ان کے استعمال سے اس کی مردانگی خراب ہو گئی، جب کھوٹ ہو گیا تو بیوی کو چھوڑ کر چلی گئی، اب میرے پاس آیا ہے۔‘‘ نریندر بڑے مزے سے کہہ رہا تھا۔
’’کھوٹ!‘‘
’’نام کیا تھا اس کا؟‘‘ مجھے پسینہ آ گیا۔
نریندر ہنسا، ’’تم کہانی نویسوں کو لوگوں کی بیماری میں بھی کہانی سوجھتی ہے، مُنیندر نام ہے۔‘‘
’’ مُنیندر!‘‘
کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، لیکن میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ کھوٹ ہے تو ضرور مُنیندر ہی ہو گا۔
آج افسوس ہوتا ہے کہ گاؤں والوں نے زندگی کیلئے کہانی بُننے کی خاطر اور کہانی نویس نے کہانی کیلئے زندگی بُننے کی خاطر، کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا۔
مُنیندر اور سروج آج بھی ایک کامیاب ازدواجی زندگی جی رہے ہیں۔
٭٭٭
سرحدوں کے مسئلے
ہواؤں کے جھونکے ادھر سے ادھر آتے اور چند لمحات میں ہی ٹیلوں کی شکلیں بدل جاتیں۔ نہ جانے تقسیم کے بعد کتنے ریت کے ذرات، پرندے، انسانی جذبات اور دعائیں سرحد کو بے معنی کرتی ہوئیں، اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتی جاتی رہی ہیں اور سیاسی رنجشوں کو ٹھینگا دکھاتی رہی ہیں۔ ایسے میں افسوس یہی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں سینہ ٹھونک کر دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔ حکومتیں جانے اپنے دعوے، رنجیت سنگھ کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعہ کیا ہے؟
کرکٹ میچ کے دوران ذکر آتا کہ پاکستان نامی ملک کو ہرانا، ہندوستان کی ناک کا سوال ہے اور بھلا وہ ناک بھی کس نے دیکھی تھی۔ شاید ’’ ناک‘‘ ملکوں کے جسم کے کسی خفیہ حصے میں ہوتی ہے، لہذا وہ حکمرانوں کو ہی نظر آتی ہے، عوام کو نہیں۔ ویسے بھی عوام ملک کی ناک سے نہیں اپنی ناک سے سانس لے رہا تھے، جسے حکم کے ہتھوڑے سے چپٹا کیا جا رہا تھا۔
بہرحال، کرکٹ میچ کے دوران رنجیت سنگھ کے گاؤں میں جن کے گھروں میں ٹی وی تھے، وہاں دیکھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ اتفاق سے بجلی گل ہو جاتی تو دیکھنے والے بجلی کے محکمے کی ماں بہن کرتے ہوئے فوری طور پر ریڈیو کے پاس مورچہ سنبھال لیتے۔ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے پاکستان کے ہارنے کی پیشن گوئی کرتا۔ پھر ہندوستان زندہ باد سے شروع ہونے والے نعرے، پاکستان مردہ باد ہوتے ہوئے مسلمان مردہ باد تک پہنچ جاتے۔
بس، وہ پاکستان کو اتنا ہی جانتا تھا۔
ہندوستان دنیا کے کسی بھی ملک کی نو آموز ٹیم سے کرکٹ میچ کی شکست برداشت کر سکتا ہے پر پاکستان سے نہیں۔ شاید اُدھر بھی یہی حال ہو۔
گج سنگھ پور سے دس پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر کانٹوں کی سرحد تھی جو زمین کو بانٹتی تھی، دلوں کو نہیں۔ اسی کانٹوں کی سرحد سے سو فٹ آگے زمیں کے سینے پر خنجر کی طرح بھونکے ہوئے زیرو لائن بتانے والے پتھر تھے۔ اس سے اتنے ہی فاصلے پر پاکستانی واچ ٹاور تھے اور ویسے ہی ٹاور ادھر بھی کھڑے تھے۔ بس، اِدھر ٹاور اور باڑ کے درمیان ایک سڑک تھی۔ سڑک کے کنارے بھاری بھرکم سرچ لائٹیں جو رات کے اندھیرے کو دن جیسے اجالے میں تبدیل کر دیتیں۔ دونوں طرف بنے ان ٹاورز پر بیٹھ کر فوجی ایک دوسرے کی حرکتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ دونوں جانب کے ٹاورز کے درمیان فاصلے اتنا تھا کہ تبادلۂ خیال نا ممکن سا تھا۔
اس سرحد پر کچھ گونجتا تھا تو۔
’’ہندوستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد۔‘‘
’’پاکستان زندہ باد، ہندوستان مردہ باد۔‘‘
رنجیت سنگھ زندہ باد، مردہ باد کی وجہ جانے بغیر نعروں کو آسمان کی بلندیوں تک پہچانے کے لئے ایڑی چوٹی ایک کر دیتا۔ اس محاذ پر آئے ہوئے تین ماہ ہوئے ہیں۔ ایک سیدھا سادھا نوجوان تھا، جسے تربیت کے دور سے ہی نفرت کے زہریلے انجکشنوں سے پورا زہریلا بنایا گیا، مگر شکر ہے کہ وہ ابھی تک پھٹنے والا بم نہیں بنا تھا۔
رات کی ڈیوٹی کے دوران کبھی کبھار تیسرے پہر اس کی ٹھنڈی پڑتی ہوئی محبت، سردی کی لہر سے گرم مزاج ہو جاتی۔ چنانچہ وہ کسی ہندی فلم کا گیت گانا شروع کر دیتا۔ مگرمچھ کی طرح لیٹے ہوئے صحرا میں ہوا کی سنسناہٹ، ساز کا کام کر جاتی۔ گلا ٹھیک ٹھاک ہونے کی وجہ سے گیت کے بول ٹیلوں میں ایسے گونجتے کہ حوالدار مان سنگھ دہاڑ اٹھتا۔
’’اے چھورے، بڑا بھور سنگھ بن گیا ہے رے تُو۔‘‘
حوالدار کی آواز سن کر رنجیت سنگھ رک جاتا اور سوچتا کہ یہ بھور سنگھ کون تھا؟ اس کے ذہن میں ایسا کوئی نام اور چہرہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک دن پوچھ ہی لیا۔‘‘حوالدار صاحب یہ بھور سنگھ کون تھا؟‘‘
مان سنگھ جو ایک جھاڑی کے سہارے پیٹھ ٹکائے آرام کر رہا تھا، کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولا، ’’تیرے جیسا گلوکار تھا، میرے ہی گاؤں کا۔ تیری طرح پوں پاں کر کے مر گیا۔‘‘
اس کا طنز سن کر رنجیت سنگھ کے خون کی گرمی بڑھ گئی اور وہ تمتما کر بولا، ’’میرے گانے سے آپ کو کیا تکلیف؟‘‘
’’تیری۔۔ ۔۔ ہندوستانی گانے پاکستانیوں کو نہیں سنائے جاتے۔‘‘ حوالدار کھڑا ہو گیا۔
رنجیت سنگھ کو اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھی، اس لئے پر سکون ہو کر پوچھا، ’’تو پھر انہیں کیا سنائیں؟‘‘
حوالدار نے اونچی آواز میں کہا، ’’پاکستان کی ماں۔۔ ۔۔‘‘
’’ہندوستان کی بہن۔۔ ۔۔ ۔‘‘ جواب دینے کیلئے ادھر جیسے کوئی تیار ہی بیٹھا ہو۔
پھر کافی دیر تک ہندوستان، پاکستان کی ماں بہنوں کو موٹی موٹی گالیاں دی جاتی رہیں۔ یہ سننے کے بعد پتہ نہیں کیوں اس کا دل اچٹ گیا اور وہ خاموشی سے ٹاور پر بیٹھا سرحد تکتا رہا۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ دونوں ملکوں کی ماں بہنوں نے سرحد کا کیا بگاڑا ہے؟
لیکن آہستہ آہستہ یہ بات تھوڑی بہت اس کی سمجھ میں آنے لگی، جب صبح سے لے کر شام تک اس کی ٹکڑی بے خوف ہو کر ہندوستانی عورتوں کو بھی گالیاں دیتی۔ اس نے طے کر لیا کہ عورت کا کوئی ملک نہیں ہوتا، اسے ہندوستانی بھی گالی دیتے ہیں اور پاکستانی بھی۔ وہ صبح منہ بھی گالیوں سے دھوتے ہیں اور رات کا بستر بھی گالیاں۔ جب کوئی بڑا افسر ٹکڑی کو سنبھال کر جاتا تو مشکل سے دس قدم دور پہنچتا کہ سپاہی اسے دو چار موٹی موٹی گالیاں دے مارتے۔ اگر کان صحیح ہیں تو یہ اسے بھی سنائی دیتیں پر وہ مڑ کر نہیں دیکھتا۔ اس طرح یہ فوج کے غیر تحریر شدہ قوانین میں شمار ہو گئیں ہیں۔
جون کا مہینہ تھا۔ کانوں پر پڑتے ’’لو‘‘ کے تھپیڑے ایسے جیسے پاکستانی فوجی لبلبیوں میں کارتوسوں کی جگہ ’’لو‘‘ استعمال کرتے ہوں۔ ٹاور پر بیٹھ کر دوربین سے سرحد دیکھنا، رنجیت سنگھ کا روز کا کام تھا۔ لوہے سے بنے ہوئے ٹاور پر تین ہی چیزیں عام طور پر دیکھی جاتیں۔ بھورے رنگ کا ریڈیو، پانی کی بوتل اور خود رنجیت سنگھ۔ لبلبی اور دوربین کی شناخت رنجیت سنگھ ہی سے جڑی ہوئی تھی۔
ویسے تو حوالدار مان سنگھ سرحد سے جڑے ہزاروں قصے سناتا تھا، جن کا سر پیر تلاش کرنے نکل جاؤ تو عمر بسر ہو جائے گی۔ ایسی کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں تھی جو سرحد پر نظر آئے اور حوالدار صاحب اس پر کوئی قصہ نہ جڑ دیں۔ حوالدار کا قصہ سنانے کا انداز بھی خوب تھا۔ ایک دم سانپ کے بدن جیسا چکنا۔
ریڈیو کے بارے میں ان کا وہ مشہور قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔
ایک بار گاؤں میں ایک فوجی ریڈیو لے کر آیا۔ سارا گاؤں اسے دیکھنے آیا۔ بہت غضب کا بجتا تھا۔ فوجی صبح گھر سے باہر گیا ہوا تھا کہ اس کے پتا جی نے ریڈیو آن کیا لیکن ریڈیو بجا نہیں۔ کافی منت خوشامد کرنے کے بعد بھی نہیں بجا، تو انہیں غصہ آ گیا اور زور سے ریڈیو کو زمین پر دے مارا۔ ریڈیو ٹوٹ کر بکھر گیا اور اس میں سے ایک مردہ چوہیا نکلی۔ فوجی کے پتا جی نے گھر والوں کو سمجھایا، ’’جب گائک ہی مر گیا تو گیت کون گاتا۔‘‘
جو بھی ہو، حوالدار صاحب کے قصوں سے ٹائم پاس ضرور ہو جاتا۔
رنجیت سنگھ کے سامنے والے ٹاور پر ایک نوجوان آیا۔ اس کا ہم عمر، سیاہ داڑھی اور بڑی بڑی آنکھیں۔ شاید اس کا آج پہلا ہی دن تھا۔ جوں ہی دونوں کی دوربینیں ایک دوسرے کے چہروں پر پڑیں تو ان کی آنکھیں انگارے برسا نے لگی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو کچا چبا لینا چاہتے تھے، لیکن فاصلہ اتنا تھا کہ یہ کام ممکن نہیں تھا۔ دل ہی دل میں گالیاں دے کر رہ گئے۔ شام تک یہی حال رہا۔ تنگ آ کر رنجیت سنگھ نے ریڈیو آن کیا۔ یہ وہی ریڈیو تھا جس کا ذکر آتے ہی حوالدار صاحب اس فوجی والا قصہ جڑ دیتے تھے۔
ریڈیو پر خبریں آ رہی تھیں۔
’’ہندوستان نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تو کرارا جواب ملے گا۔‘‘
’’آج بھارت نے میزائل ’’وناش ۴۰۵‘‘ کا کامیاب تجربہ کر کے جنوبی ایشیا میں ٹھوس دبدبہ بنا لیا ہے۔‘‘
’’ہٹ! سالا کوئی ہندی فلم کا گانا ہی لگا دیتے، خبروں سے تو ٹھیک ہی تھا۔ من ہلکا ہو جاتا پر یہاں تو گولہ بارود کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’چھورے، فوجی ہو کر گولے بارود سے ڈرتا ہے۔ تیری عمر میں تو ہم آگ سے کھیل جاتے تھے۔‘‘
’’سنا ہے حوالدار صاحب آپ تو ہمیشہ ایسے ہی تھے، کیا آپ کبھی جوان بھی تھے؟‘‘
یہ سن کر حوالدار صاحب کو غصہ آ گیا اور انہوں نے ایک پتھر پاکستان کی جانب اس انداز میں پھینکا، جیسے بم داغ رہے ہوں۔ وہ کوئی قصہ سنانا چاہتے تھے پر اب گالی بکنا شروع کر دی۔ رنجیت سنگھ ان کے کو مزاج جانتا تھا، کوئی رد عمل نہیں دیا۔
دوسرے دن بھی اُدھر وہی نوجوان تھا۔ ویسے ہی دونوں میں تکراریں ہوئیں اور پھر رنجیت سنگھ نے ریڈیو آن کیا۔ انگریزی میں خبریں آ رہی تھیں۔
’’مادر۔۔۔ یا تو گولہ بارود دیں گے یا انگریزی میں خبریں۔ گدھے کو سمجھ نہیں آتا کہ سرحد پر تمہارا باپ انگریزی جانتا ہے۔‘‘
حوالدار صاحب نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بڑبڑا کر جتانے کی کوشش کی کہ وہ انگریزی جانتے ہیں، لیکن رنجیت سنگھ نے جب اس طرف کوئی توجہ نہیں دی تو مجبوراً انہیں چپ ہونا پڑا۔
اس طرف کا فوجی بھی ریڈیو آن کر کے جھلّانا شروع کر دیتا، شاید اس کا بھی وہی حال ہو۔
ایک دن دونوں فوجیوں نے اکتا کر کچھ مذاق کرنے کے لہجے میں اشارے کئے۔ رنجیت سنگھ نے ہاتھ ایسے ہلایا جیسے پاکستان پر حملہ بول دے گا، سامنے والے نے بھی ہندوستان کو تباہ کرنے کے انداز میں جواب دیا۔ وہ کئی دنوں تک ایسی ہی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہے، لیکن ہاتھوں کے اشاروں کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ آخر میں ایک دن تنگ آ کر رنجیت سنگھ ایک چاک کا ٹکڑا لے آیا اور ٹاور کی لوہے کی دیوار پر کچھ مقامی گالیاں لکھ ڈالیں۔ سامنے والا فوجی گالیاں سمجھ گیا کیونکہ تقسیم کے وقت گالیاں نہیں بانٹی گئی تھیں، کیونکہ حکومتوں کے پاس یہ کافی مقدار میں تھی اور انہیں ایجاد کرنے والی سماجی ذہنیت بھی تھی۔ سامنے والے نے بھی اس سے ڈھائی سیر بھاری گالی لکھ ڈالی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور ان کو پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کب گالیوں سے ہٹ کر اپنی اپنی دنیا کی باتیں کرنے لگے۔
صبح آتے ہی دونوں کی دوربین ایک دوسرے کے ٹاورز پر ٹک جاتیں۔ ایک دن رنجیت سنگھ کو حوالدار صاحب نے دیکھ لیا۔ پھر کیا تھا، انہوں نے ایک قصہ دے مارا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ دشمن سے دوستی اور تلوار سے شادی کبھی بھی گلا کٹا سکتی ہے۔
مگر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ رنجیت سنگھ حوالدار صاحب کے قصوں پر کہاں توجہ دیتا تھا۔
آفاق نام تھا اُس طرف کے ٹاور والے فوجی کا۔ یہ بات بھی رنجیت سنگھ کو چوک نے ہی بتائی۔ جب پہلی بار اس نے یہ نام سنا تو اتنا اچھا لگا کہ اپنے ہونے والے بچے کا یہی نام رکھنے کا ارادہ بنا لیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ نام مسلمان تھا اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت سے وہ واقف بھی تھا۔ اس لئے مستقبل کے مسائل کو ذہن میں رکھ کراس نے حل نکالا کہ بچے کو گھر میں آفاق کہا جائے گا اور باہر کا کوئی دوسرا نام ہو گا۔
ان کے درمیان ہونے والے اس گفتگو کی بھنک دونوں حکومتوں کو نہیں تھی، ورنہ کم از کم دو کمیشن تو بٹھا ہی دیے جاتے اور ممکن ہے کہ فوجیوں کے ساتھ چوک کو بھی کچھ نہ کچھ سزا ملتی۔ اپنی بات چیت کے ذریعے، وہ ایک دوسرے کی بہت چیزوں کے بارے میں جاننے لگے، مثلاً کھانے پینے سے لے کر فلمی گیتوں تک۔ ایک گفتگو کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے۔
’’یار، آج بہت خوش نظر آ رہے ہو؟‘‘
’’جناب، خبر ہی ایسی ہے۔‘‘
’’تو اب خبر سننے کے لئے ریڈیو آن کروں کیا، بتا دو نا؟‘‘
’’میری آپا کا نکاح طے ہو گیا ہے۔‘‘
’’اوئے، پھاتو کی شادی ہے اور ہم کو بلا نہیں رہے ہو۔‘‘
’’یار تو بھی کیسی باتیں کرتا ہے، بھلا دوستوں کو بھی دعوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیرے نکاح میں ہم بیس دن پہلے بن بلائے ٹپک جائیں گے۔‘‘
اتنے میں دونوں کی نظریں کانٹوں کی باڑ پر پڑی اور دوربینیں ٹاورز سے ہٹ گئیں۔
رنجیت سنگھ کے دماغ میں یہی گھوم رہا تھا۔ پھاتو، شادی، دعوت، کانٹوں کی باڑ، سرحد۔۔ ۔۔
رات بھر وہ نیند کو آنکھوں سے ہزاروں کوس دور پایا۔ اگلے دن آتے ہی اس نے ٹاور پر اپنی پورے تخیل اور حقیقت کو ملا ایک پھول بنایا۔ جب آفاق نے پھول دیکھا تو پوچھا، ’’بھائی جان، اس اجڑے ہوئے چمن میں یہ گل کس کے واسطے کھِلا ہے؟‘‘
’’یار، گفٹ ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ تحفہ کس کے لئے؟‘‘
’’آپ کی بہن کی شادی ہے نا، میری طرف سے ان کو دے دینا۔‘‘
اس بات پر آفاق کا گلا بھر آیا۔ ٹاور پر رومن میں ’’شکریہ‘‘لکھتے وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
کئی دنوں سے محاذ پر ہلچل نہیں ہو رہی تھی۔ آفاق بہن کی شادی میں گیا ہوا تھا، اس کی جگہ کسی کالے سے سپاہی نے لے لی۔ رنجیت سنگھ بیتاب رہنے لگا۔
اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ جنگ چھڑ گئی۔ چھٹی پر گئے ہوئے فوجیوں کو واپس بلا لیا گیا۔ آفاق بھی آ گیا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ کی جگہ توپ کے دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ فوجیوں میں دشمنی عروج پر تھی۔
رنجیت سنگھ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ گولی چلانے کا حکم دے دیا گیا۔ گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے آسمان گونجنے لگا۔ گولیاں کہیں ریت میں تو کہیں فوجیوں کے جسم میں گھس رہی تھیں۔ رنجیت سنگھ اور آفاق آمنے سامنے تھے۔ ٹاورز پر چاک سے لکھی ہوئی وہ تمام عبارتیں، ان کی یادوں میں ریل کی طرح چل رہی تھیں۔ بیچ میں ریڈیو کی خبریں اور باہمی رنجش کے منظر بھی آ رہے تھے۔
’’تم بھی گولی چلاؤ۔‘‘ حوالدار مان سنگھ دھاڑا۔
رنجیت سنگھ کے ہاتھ برف ہو چکے تھے۔ اس کے سوکھے حلق اور کانپتے ہوئے ہونٹوں نے بس اتنا ہی کہا۔‘‘حوالدار صاحب، بندوق کی نوک پر سرحدوں کے مسئلے حل نہیں ہوتے۔‘‘
٭٭٭
دوجی مِیرا
گاؤں کے گواڑ پر کھیلتے بچوں کو جب چودھری کے قدموں کی آہٹ کا احساس ہو جاتا، تو پل بھر میں سارا گواڑ خالی ہو جاتا تھا۔ بچے کسی جادو کے زیرِ اثر غائب ہو جاتے اور کسی بچے کا چہرہ اگر چودھری کو دِکھائی دے گیا تو سمجھو اُس کی گھر میں خیر نہیں۔ ماں باپ سب کہیں گے کہ تو گواڑ میں گیا ہی کیوں تھا؟
اب چودھری کل ہی صبح گواڑ سے نکلتے وقت ٹوک دے گا، ’’تیرے چھورے آج کل خوب کھیل رہے ہیں!‘‘
پھر سارے گھر میں چودھری کے بارے میں بحث شروع ہو جائے گی۔
چودھری کا پورا نام کانارام چودھری تھا۔ گاؤں کے گواڑ کے مشرق میں، بالکل ملی ہوئی چودھری کی حویلی کے وسیع دروازے کے سامنے گواڑ بونا سا لگتا تھا۔ دروازے کے دونوں طرف دو چبوترے تھے، جن پر ہردم ایک حقّہ، سیمنٹ فیکٹری کی طرح دھواں اگلتا رہتا تھا۔ ان چبوتروں پر بیٹھنے والے لوگ عموماً درمیانی عمر کے ہی ہوتے تھے۔ بائیں چبوترے پر چودھری کی چارپائی لگی رہتی تھی، جس پر اونٹ کے بالوں کی بنی دری بچھی رہتی۔ قد ساڑھے چار فٹ کا تھا۔ معمولی سی شکل و صورت اور ساٹھ کلو کے قریب وزن والے چودھری کی آواز بھی بالکل معمولی تھی۔ اسی چارپائی کے دائیں طرف ایک لکڑی کی کرسی رکھی رہتی تھی، جس پر چودھرائن براجمان ہوتی تھی۔ چودھرائن کے نام کا تو کسی کو پتہ نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ چودھری اسے پہاڑوں سے اٹھا کر لایا تھا، اس لئے گاؤں والے اس کو ’’ڈونگری دادی‘‘ کہتے ہیں۔
گورا بدن، ساڑھے پانچ فٹ کی لمبائی اور تیکھی آواز والی ڈونگری دادی سے چودھری بھی خوف کھاتا ہے۔ گاؤں میں جب بھی کوئی معاملہ الجھ جاتا ہے، تو اس کا تصفیہ اسی چبوترے پر ہوتا ہے اور ہمیشہ جج ڈونگری دادی ہی بنتی ہے۔ چودھرائن کے پاس اپنا چھوٹا حقّہ رہتا ہے، جس کو منہ لگانے کی اجازت چودھری کو بھی نہیں ہے۔ اس حقّے کے لئے ہنومان گڑھ سے خاص تمباکو منگوائی جاتی ہے۔
گردھاری کہتا ہے، ’’ ڈونگری دادی کے حقے سے چنبیلی کی خوشبو آتی ہے۔ اس کا کمال ہی کچھ اور ہے۔ اگر یہ خوشبو ایک بار ناک سے ٹکرا جائے، تو ناک سے زکام کی شکایت بھی چلی جاتی ہے۔‘‘
اسی لئے تو گردھاری چودھرائن سے چپک کر بیٹھتا ہے۔ وہ پانی لانے سے لے کر حقے کے لئے آگ لانے جیسے کاموں کا کسی کو موقع ہی نہیں دیتا۔ اب تو اسے یہ بھی پتہ چلنے لگا ہے کہ کب چودھرائن کو پیاس لگنے والی ہے اور کب حقے کی طلب۔ چودھری کو بھی گردھاری کی اس ”خاص خوشبو” کیلئے کی جانے والی خدمت گذاری ہر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گردھاری کتنا ہی مرید ہو جائے، پر چودھری کی حد کو پار نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی، آج تک کسی گاؤں والے نے چودھری کے کہے کو پاٹنے کی سوچی بھی نہیں۔ ایک چودھرائن ہی ہے جس کی زبان چودھری کے سامنے بھی چھری کی طرح کھچر کھچر چلتی ہے۔
گاؤں کے آدھے گواڑ پر چودھری کا غیر اعلانیہ قبضہ ہے، وہیں پر چودھری کا اونٹ بندھتا ہے اور وہیں پر پک اپ کھڑی ہوتی ہے۔ اونٹ رکھنا وہ آج بھی اپنی شان سمجھتا ہے، کہیں بھی جاتا ہے تو سواری اونٹ ہی کی کرتا ہے۔ جب چوہدری اونٹ کی زین میں سفید گدا ڈال کر روانہ ہوتا ہے، تو چودھرائن حقّے سے سلام ٹھوک کر اسے رخصت کرتی ہے۔ کبھی کبھار ہونے والے چودھری کے سفر کے علاوہ، یہ اونٹ کسی بھی کام میں نہیں لیا جاتا ہے، اس وجہ سے ’’بوچھاڑ‘‘ہو گیا ہے۔ دن رات جگالی کرتے کرتے دانت گھس گئے ہیں۔ بغیر محنت کے کھانے کی وجہ سے گردھاری اونٹ کو ’’سیٹھ جی‘‘ کہتا ہے۔
چودھرائن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑا والا بیٹا مہاویر، گاؤں میں کریانے کی دکان سنبھالتا ہے اور چھوٹا بیٹا بجرنگ ’’ماڈرن پہلوانی‘‘ کرتا ہے۔ یہ ماڈرن پہلوانی پرانے وقت کے اکھاڑے کی پہلوانی کی جدید شکل ہے۔ بجرنگ کسی بھی اکھاڑے میں نہیں جاتا ہے۔ اس نے اپنی حویلی کے ایک کمرے میں اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔ لوہے کی پلیٹوں سے یہیں پر دن بھر ورزش کرتا رہتا ہے اور صبح شام دو کلو دودھ پیتا ہے۔ چودھرائن کا کہنا ہے کہ آج کے زمانے کے دس لونڈوں کو بجرنگ اکیلے پچھاڑ سکتا ہے۔ تاہم، آج تک بجرنگ نے کسی کو تھپڑ بھی نہیں مارا اور نہ ہی مارنے کا موقع ملا، کیونکہ چودھری کے خوف سے گاؤں ویسے ہی سہما ہوا رہتا ہے۔ بجرنگ جب بھی گاؤں کی کسی گلی سے گزرتا ہے، تو بچے پیچھے سے اسے چڑھاتے ہیں۔
’’جے بجرنگ بلی، ٹوٹے نہ مونگ پھلی۔‘‘
’’بنے ہیں پہلوان، اٹھے نہ دو کلو سامان۔‘‘
ہاں، گاؤں کے بارے میں بتانا تو بھول ہی گیا۔ اس گاؤں کا نام امرنگر ہے۔ لگ بھگ تین سو کے آس پاس گھر ہیں۔ گاؤں میں تین کنویں ہیں، ایک دلتوں کے لئے، ایک برہمنوں کا اور ایک جاٹوں اور کھاتیوں کا۔ ایک ذات کے کنویں سے کوئی دوسری ذات کا پانی نہیں بھر سکتا۔ اگر کوئی پانی بھرتا ہوا پکڑا گیا، تو اسے چودھری کی عدالت میں حاضر ہونا ہو گا اور جج چودھرائن ایک طے شدہ سزا سنائے گی کہ گنہگار کو دو مہینے چودھری کے گھر میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑے گا۔
گردھاری بتاتا ہے، ’’سات برس پہلے ایک دلت پکڑا گیا تھا، جاٹوں کے کنویں سے پانی پیتے ہوئے۔ بارہ سال کا بچہ تھا، اسکول سے آ رہا تھا۔ بدن جلانے والی دھوپ تھی۔ دلتوں کے کنویں کا پمپ چار دن سے خراب تھا۔ وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے چپکے سے جاٹوں کے کنویں پر پورے پانچ گھونٹ پانی پی لیا تھا۔ چودھری کا بڑا بیٹا مہاویر شہر سے پک اپ میں کھل چُوری لے کر آ رہا تھا، اس نے دیکھ لیا۔ اسی رات عدالت بیٹھی اور اسے دو مہینوں والی سزا ملی۔ مسلسل دو مہینوں تک اسے چودھری کے گھر پر جھاڑو لگانی پڑی تھی۔ سارا گھر روہت کو ڈانٹتا تھا۔‘‘
روہت کے من کو اس گھر کے لوگوں کی یادوں میں سے، صرف میرا کی یادیں بے چین کرتی ہیں۔
ارے یار! آپ کو میرا کے بارے میں بتایا ہی نہیں ہے۔ چودھری کی بٹیا ہے۔ اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے ایک دم نک چڑھی۔ اس پر نہ کسی کا حکم چلتا ہے اور نہ کسی کی محبت۔ جو من میں آئے، وہی کرے گی۔
’’چودھری صاحب!‘‘
کچھ نہیں بولتے۔ اگر میرا کو کسی نے ایک لفظ بھی کہہ دیا تو چودھرائن کھال کھینچ لے گی اور پھر اس کھال میں کانٹوں والا بھوسا بھی بھر دے گی۔ ویسے بھی، چودھرائن کا تو نمبر ہی نہیں آتا، میرا خود ہی سامنے والے کا بھرتا بنا دے گی۔
’’عمر!‘‘
ہو گی تقریباً سولہ کے آس پاس۔
’’رنگ روپ پوچھ رہے ہیں؟‘‘
اس کے بارے میں کچھ بول دیا تو قلم کی قسم آپ کے اس لکھاری کی یہ آخری کہانی ہو گی۔ خیر، جو بھی ہو، میرا کی دنیا میں نہ چودھری کی سیاست تھی اور نہ ہی چودھرائن کا حقہ۔ انگریزی کی کتابیں، ہالی ووڈ کی فلمیں اور راک میوزک کے علاوہ اسے کسی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب میرا انگریزی میں بولتی تھی، تو گاؤں والوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا تھا۔ اس گاؤں کی وہ پہلی لڑکی ہے جو شہر میں جا کر ’’بی اے‘‘ کر رہی ہے۔ ویسے تو وہ بی ایس سی کر رہی ہے، لیکن گاؤں میں بارہویں کے بعد کی ساری تعلیم ’’بی اے‘‘ کے نام سے ہی جانی جاتی ہے اور اس سے آگے کوئی تعلیم نہیں ہوتی۔
جب پہلی بار میرا گاؤں سے جے پور پڑھائی کرنے جا رہی تھی، تو سارا گاؤں دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ گواڑ میں تل رکھنے کو بھی جگہ نہیں تھی۔ چودھری نے سب کو دال باٹی چُورما کھلایا اور چودھرائن نے میرا کو مشورہ دیا، ’’شہر جا کر تیرے باپ کے نام کا خیال رکھیو۔‘‘
میرا سوچ رہی تھی کہ شہر میں اس کے باپ کو کوئی جانتا بھی ہے یا نہیں؟
جو بھی ہو، اس دن گاؤں میں جشن کا ماحول تھا۔
آج تو غضب ہو گیا بھائی۔ گردھاری شام کے وقت چودھرائن کے پاس بیٹھا چنبیلی کی خوشبو کا انتظار کر رہا تھا۔ چودھرائن مسلسل حقّہ گڑ گ ڑا رہی تھی، لیکن چنبیلی کی خوشبو غائب تھی۔ گردھاری کو لگا کہ تمباکو بدل دی گئی ہے۔ اس نے حقے کی جانچ پڑتال کی تو تمباکو تو وہی تھی۔ پھر چنبیلی کی خوشبو کیوں نہیں آ رہی؟ اس خوشبو کیلئے ہی تو وہ روز چبوترے پر آتا تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی سے تین چار بار ناک صاف کی۔ لیکن آج کہیں چنبیلی کی خوشبو تھی ہی نہیں۔ تھک ہار کر وہ گھر آ گیا اور تقریباً ایک گھنٹے بعد اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ آج اسے زکام ہو گیا تھا۔
چودھری کی حویلی کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ رات کو چودھری اپنی چارپائی آدھی دروازے میں اور آدھی گواڑ میں رکھ کر اس پر سوتا تھا۔ سارے گاؤں کی عورتیں بھور کو ہی پانی بھرنے کے لئے گواڑ سے گزرتیں، تو گھونگھٹ نکالتی تھیں۔ کئی بار نیند میں چودھری کی دھوتی کھل جاتی تھی اور گاؤں والے بغیر ٹکٹ کا رنگین سنیما دیکھتے تھے۔ ایک دن تو ساورمل کے پوتے نے چودھری سے پوچھ بھی لیا تھا، ’’دادا جی، آپ انڈروئیر کیوں نہیں پہنتے؟‘‘
چودھری کو انڈروئیر کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا اور جب میرا شہر سے آئی تو اس سے پوچھا۔ پہلے تو وہ خوب ہنسی اور پھر بتایا کہ اس کا مطلب کچھا ہوتا ہے۔ گردھاری بتاتا ہے کہ اس کے بعد چودھری نے ساورمل کے پوتے کو ٹافی دینا بند کر دی۔ پتہ نہیں یہ بات گاؤں والوں کو کیسے معلوم ہوئی، اب سارا گاؤں پیٹھ پیچھے چودھری کو انڈروئیر کہتا ہے۔ آپ کی اجازت ہو تو یہ لکھاری بھی، ایک گاؤں والا ہونے کی وجہ سے آگے کی کہانی میں چودھری کو انڈروئیر ہی کہے۔
تو صاحب، انڈروئیر کے چبوترے کی بیٹھک میں کئی دنوں سے گردھاری کا آنا بند ہو گیا ہے۔ اس کا زکام ٹھیک ہی نہیں ہو رہا ہے۔ پہلے انگریزی ڈاکٹروں سے علاج کروایا۔ نہ جانے کتنی دوائیں نگلیں۔ دن میں تین بار ٹکیہ اور دو بار پینے کی دوا بھی لی۔ گردھاری نے زندگی میں پہلی بار انگریزی دوا لی تھی۔ بیماری ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھنے لگی۔ جب رات کو وہ پینے والی دوا لے کر سوتا تھا، تو عجیب خواب آنے لگے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی اسے تَیلی کی گھانی میں ڈال کر اس کا تیل نکال رہا ہے۔ لیکن تیل نکلتا ہی نہیں تھا، جسم سے آگ نکلتی۔ پھر اس آگ سے ساری گھانی دھُو دھُو کر جلنے لگتی اور بیل رسی توڑ کر بھاگ جاتے۔ بیل بھی عجیب طرح کے تھے، ایکدم ہرے رنگ کے۔ دس پاؤں اور آٹھ سر۔ اچانک وہ اٹھتا اور نومبر کے مہینے میں ٹھنڈے پانی سے نہاتا۔ جب سر پر پانی ڈالتا ہے، تو جسم کی آگ اور تیز ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آگ پانی کو جلا ڈالے گی۔
انگریزی ادویات سے تنگ آ کر وہ اب مقامی ویدوں کو کھوجنے لگا۔ اس کام میں بھی اسے زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی، پہلے گاؤں والے کو آزمایا۔ بخار تو کم ہوا لیکن زکام نہیں گیا اور رات والے خواب زیادہ پریشان کرنے لگے۔ پاس کے قصبے کے وید کی دوا شروع کی۔ بیماری ہی عجیب تھی، رات والے خواب بند ہوئے تو ان کے ساتھ نیند بھی جاتی رہی۔ ان خوابوں کو پھر بھی جیسے تیسے جھیل لیتا تھا، لیکن بغیر سوئے حالت خراب ہو گئی۔ دو تین راتیں تو بیداری میں نکال دیں، لیکن اب صورتِ حال یہ ہو گئی کہ رات دن کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
تمام دوائیں فیل ہو گئیں۔ آج صبح سے گردھاری کی طبیعت میں زیادہ گراوٹ آ گئی تھی۔ کس وید کے پاس جائے؟ ایک ہی حل تھا۔ چنبیلی کی خوشبو کہیں سے مل جائے تو زکام ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی وہ مہاویر کی دکان میں گیا اور آدھا کلو والی چنبیلی کے تیل کی بوتل لے آیا۔ جب دکان سے گھر آ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ اس میں خوشبو کیوں نہیں آ رہی ہے؟ کہیں جعلی تو نہیں دے دیا ہے؟ لیکن مہاویر پر اسے پورا بھروسہ تھا کہ چیزوں کے دام دو روپے زیادہ ضرور لیتا ہے پر مال کھرا دیتا ہے۔ شاید بند بوتل سے خوشبو نہیں آتی ہو گی۔ گھر آ کر تیل کی بوتل کا ڈھکنا کھولا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ڈھکنا کھولتے ہی پورے کمرے چنبیلی کی خوشبو پھیل جائے گی اور وہ خوشبو، ایکسپریس ریل کی طرح اس کی ناک کی پٹریوں سے اندر چلی جائے گی، پھر زکام کا جڑ سے صفایا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نہ کمرے میں کسی قسم کی خوشبو پھیلی اور نہ ہی ناک کی پٹریوں پر ریل کا چھک پھک ہوا۔ آج تیل کو کیا ہو گیا؟ تیل کی ایک انگلی بھر کر اس نے اپنے ناک پر لگائی، لیکن خوشبو نہیں تھی۔ اب کیا کرے؟ اس کا دل کیا کہ پوری بوتل کو گٹک جائے، شاید کچھ خوشبو تو ملے گی۔ جوں ہی تیل کی بوتل پینے کے لئے منہ کی طرف لے گیا تو خوشبو کی جگہ عجیب قسم کی بو آنے لگی۔
اب چنبیلی کی خوشبو ایک ہی جگہ مل سکتی تھی، چودھرائن کے حقے میں۔
اسے آخری کوشش سمجھ کر وہ انڈروئیر کی حویلی کی طرف چل پڑا۔ امید تو یہی تھی کہ بیماری ٹھیک ہو جائے گی۔ آج چودھری کے چبوترے پر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ لوگ تو کھانا کھانے کیلئے گئے ہوئے ہوں گے اور چودھری کہیں باہر گیا ہو گا۔ دروازے کے اندر رکھے ہوئے حقے کو ایک بار اس نے نزدیک سے سونگھا، شاید اب چنبیلی والی خوشبو آ جائے۔ لیکن حقے سے سڑی ہوئی تمباکو کی بدبو آ رہی تھی۔ آج گردھاری کو صرف وہ خوشبو ہی بچا سکتی تھی۔ خوشبو کی چاہت میں حویلی کے اندر داخل ہوتے ہوئے گردھاری کے نتھنے بار بار عجیب طرح سے پھول پچک رہے تھے۔ حویلی کے سامنے والے کمرے کے برابر میں چودھرائن دھوپ میں بیٹھی پیروں پر سرسوں کے تیل کی مالش کر رہی تھی۔ نظر پڑتے ہی ایک بار تو اس کے قدم ٹھٹکے اور وہ واپس مڑنے ہی والا تھا کہ چودھرائن نے آواز دے دی۔
’’آؤ گردھاری، آج تھوڑی طبیعت خراب تھی، بدن دُکھو ہو۔ سوچیوکے دھوپ میں بیٹھ کر تیل لگا لیو جاوے۔ کئی دنوں سے آئے نہیں، تیرا زکام ٹھیک ہوئی کے؟‘‘
وہ ٹھٹک کر کوئی جواب تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی ناک سے چنبیلی کے تیل کی خوشبو ٹکرائی۔ اس کے بدن میں سرسراہٹ ہونے لگی۔ لیکن چودھرائن جو تیل لگا رہی تھی، وہ تو سرسوں کا تھا۔ سرسوں کے تیل سے چنبیلی کی خوشبو، چودھرائن تیری مایا غضب ہے۔
’’کیا سوچو ہو بابو؟ بیٹھ جاؤ، اتنے دنوں بعد آئے ہو۔‘‘ چودھرائن نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
شام کو گاؤں میں چنبیلی کی خوشبو کی طرح خبر پھیلی کہ گردھاری کا زکام ٹھیک ہو گیا ہے۔
صبح صبح گاؤں میں اخبار پڑھنے کا واحد اڈہ بھی انڈروئیر کا چبوترہ ہی تھا۔ تقریباً دو گھنٹے تک اخبار کا مطالعہ ہوتا تھا اور لوگ اجتماعی طور پر خبروں پر تبصرے و تجزیے پیش کرتے تھے۔ ہر خبر پر رائے دینے کیلئے لوگوں کی اپنی اپنی مہارت تھی۔ بزرگ بھی مسلسل خبریں پڑھنے کے سبب کئی سیاستدانوں اور فلمی اداکاروں کے نام جاننے لگ گئے ہیں۔ خبروں کے علاوہ کچھ بزرگ ”تعزیتی پیغامات”بھی پڑھوا کر سنتے ہیں۔ بھِینوا رام نے تو ایک دن اپنے بیٹے کے سامنے خواہش ظاہر کی کہ اس کے مرنے پر مرتیوبھوج چاہے مت کرنا، پر اخبار میں ”تعزیتی پیغام”ضرور شائع کروانا۔ اس نے اس بابت بیٹے کو دس ہزار ایڈوانس بھی دے دیے اور پانچ لوگوں کے سامنے ”تعزیتی پیغام” چھپوانے کی قسم بھی دلوائی۔ اب ہر روز ہونے والے اخباری مطالعے میں ”تعزیتی پیغامات” پڑھے جانے کے وقت وہ کہتا ہے، ’’ویسے تو اپنے گاؤں کا، اخبار میں نام کبھی آیا نہیں ہے، پرمیرے مرنے پر ضرور آئے گا۔‘‘
اس کی اس بات پر مہاویر ہمیشہ مذاق کرتا ہے، ’’دادا، تو جلدی نپٹ جا، اخبار میں گاؤں کا نام تو آئے۔‘‘
اس اخباری مطالعے کے بھی کئی مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں سیاسی خبروں کا مطالعہ ہوتا ہے۔ دوسرے میں اپنے علاقے کی خبروں کا اور پھر باری آتی ہے پریمی بگلوں سے متعلق خبروں کی۔ ان خبروں کے تجزیے میں ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ اگر خبر پریمی لڑکی کے گھر سے بھاگنے کی ہو تو سب سے پہلے اس کی ذات کے بارے میں قیاس آرائیاں اور اٹکلیں کی جاتی ہیں۔ پھر ان دونوں کے خاندانوں کیلئے اپنے اپنے لامحدود خدشات کا اظہار کیا جاتا۔ اس بحث میں یکطرفہ باتیں کی جاتی ہیں اور زیادہ تر لوگ بیانات جاری کرتے ہیں۔
’’آج کل بھیا زمانہ ہی خراب آ گیا ہے۔ کسی کا وشواس کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔‘‘
’’چھوراں کو دوش نہیں ہے۔ چھوریاں کو رہن سہن ہی خراب ہو گیو۔‘‘
’’پڑھی لکھی چھوریاں جات دھرم ہی نہیں دیکھتی ہیں۔‘‘
’’پہلے تو بچپن میں شادی ہو جاتی تھی۔ آج کل تیس سال تک گھر والے شادی تو کرتے نہیں، چھوریاں بھاگیں گی نہیں تو کیا کریں گی۔‘‘
’’کچھ دنوں بعد شادی وادی کا جھنجھٹ ہی نہیں رہے گا۔ تمام بھاگ کے کر لیں گے۔‘‘
’’شہر میں رہنے والی چھوریوں کا تو پکا ہے کہ بھاگیں گی ہی۔۔ ۔‘‘
” شہر” کا نام آتے ہی سب کی ترچھی نظریں انڈروئیر پر آ ٹکتیں، کیونکہ اُس کی میرا بھی تو شہر میں پڑھ رہی تھی۔ ایک بار تو انڈروئیر کے گھر پر کسی انگریزی بولنے والے چھورے کا فون بھی آ چکا ہے۔‘‘کین آئی ٹاک ٹو میرا؟‘‘
فون چودھرائن نے ہی اٹھایا تھا۔ گاؤں والے کہتے ہیں کہ چودھرائن جب فون اٹھا کر دہاڑتی ہے، تو سامنے والے کا گوبر نکل جاوے ہے۔ وہ اپنی دھاردار آواز میں کہتی ہے، ’’کون بول ریا سے؟‘‘
اتنا سنتے ہی کئی تو فون کاٹ دیتے ہیں۔ لیکن اس دن ’’کین آئی ٹاک ٹو میرا؟‘‘ سن کر چودھرائن کی بھی بولتی بند ہو گئی۔
وہ پریشانی کی حالت میں انڈروئیر سے بولی، ’’میرا کے لکھن ٹھیک نے سے چودھری۔ کِن چھورے کا فون آیا سے۔ ’’ٹوک‘‘ کر ریا سے میرا سوں۔‘‘
یہ سوال سننے کے بعد سے انڈروئیر نے روزانہ دو روٹی کم کھانا شروع کر دی۔ اب وہ پہلے کی طرح نہ تو ہنستا ہے اور نہ ہی دہاڑتا ہے۔ چودھرائن کو بہلانے کے لئے اس نے پریقین انداز میں کہا، ’’مالکن، ڈرنے کی کوئی بات نے سے۔ میرا چودھری کی جلمی ہے۔‘‘
اس پر یقینی پر چودھرائن اس کی طرف ایسے دیکھتی جیسے انڈروئیر کا جھوٹ پکڑا گیا ہو۔
گاؤں میں خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ آپ دیوار کے پاس منہ کر کے ایک لفظ بھی بولیں، تو صبح تک پورے گاؤں میں بات اڑ جائے گی۔ لوگ دوسرے ہی دن کہنے لگے کہ ایک چھورا میرا کے ساتھ ”ٹوک ” کرتا ہے۔ کل اس نے چودھرائن کو بھی فون کر کے ’’ٹوک‘‘ کروانے کو کہا۔ اس ’’ٹوک‘‘ کا مطلب کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے معنی لگا رہا تھا، لیکن ہر ایک معنی میرا کے کردار پر ہی جا کر ٹکتا۔ پیٹھ پیچھے لوگ انڈروئیر کو مورکھ بتاتے، ’’ایک تو بیٹی کو اکیلے شہر بھیج دیا، دوسرا اس کی شادی بھی نہیں کر رہا ہے۔ ایسے میں لوگ ’’ٹوک‘‘ تو کریں گے ہی۔‘‘
میرا کالج میں ایک دم مست تھی، شروع میں تو شہر کے ریتی رواجوں سے واقف نہیں ہونے کی وجہ سے کچھ دل برداشتہ تھی، لیکن اب سب کچھ سمجھنے لگی تھی۔ اپنی مرضی کا پہننے اور بنداس رہنے کی وجہ سے وہ شہر کے لونڈوں کی توجہ کا مرکز بھی تھی۔ چہرے سے بے حد معصوم لگنے والی میرا کے پیچھے کئی لڑکے وقت ضائع کرتے تھے۔ لیکن جب میرا کو معلوم ہوتا ہے کہ پٹھّا اس کے پیچھے موٹر سائیکل کا پٹرول جلا رہا ہے، تو تڑاک سے ایسا جواب دیتی کہ بہت نے تو لڑکیوں کے پیچھے گھومنے کی عادت تک ختم کر دی۔ جب وہ رات کو ہاسٹل کی سڑک پر اکیلی ٹہل رہی ہوتی تھی، تو اچانک پیچھے سے تیزی سے دوڑ تے ہوئے گھوڑے کے پیروں کی ٹپ ٹپ سنتی، پیچھے مڑ کر دیکھتی تو سنسان سڑک۔ تبھی سامنے سے دودھ کی دکان والا آواز دیتا، ’’تیرا بنجارہ پیچھے سے نہیں، آگے سے آئے گا۔‘‘
’’تم نے ابھی تک دکان بند نہیں کی، روہت۔ جب تُو کہہ رہا ہے تو آئے گا میرا بنجارہ۔‘‘ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی میرا، دکان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ جاتی۔
یہ وہی روہت تھا، جسے کبھی پانچ گھونٹ پانی، جاٹوں کے کنویں سے پینے کے عوض میں، دو مہینے چودھری کے گھر میں بغیر تنخواہ کی مزدوری کی سزا ملی تھی۔ میرا کے ہاسٹل کے سامنے دودھ کی دکان کر رکھی ہے۔ ڈنر کے بعد اکثر میرا یہیں آ کر روہت کے ساتھ گپیں ہانکتی ہے۔ کبھی گاؤں کی، تو کبھی اُس بنجارے کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ بات میرا کے گاؤں والوں کو معلوم نہیں ہے، ورنہ ’’ٹوک‘‘ کے ساتھ روہت کا نام ضرور شامل ہو جاتا۔ آج پھر وہی پرانا راگ چھیڑ دیا روہت نے، ’’میں تو بھول ہی گیا، تیرا بنجارہ دِکھنے میں کیسا ہے؟‘‘
یہ سوال آتے ہی میرا پندرہ سال پیچھے چلی جاتی ہے، جب اس کے گاؤں میں ایک بنجارن میوہ بیچنے آتی تھی اور اس کے ساتھ ہوتا تھا ایک میرا کی ہی عمر کا اس کا بیٹا سلطان بنجارا۔ کیا سج دھج کے رہتا تھا سلطان۔ چوڑی دار پاجامہ، پٹھانی کرتا، جڑاؤ جوتی اور ہاتھ میں ہوتا تھا گھوڑے کا چابک۔ بنجارن اور اس کا بیٹا، دونوں سفید گھوڑے پر آتے تھے، لیکن آگے سلطان بیٹھتا تھا۔ گاؤں میں گھسنے سے پہلے ہی گھوڑے کی ٹاپ گھس جاتی تھی اور میرا دوڑ کر دروازے پر آ جاتی۔ بنجارن تو گھر گھر میوے بیچنے چلی جاتی اور سلطان گاؤں کے گواڑ میں گھوڑے کو دانہ کھلاتا رہتا۔ سارے گاؤں کے بچے جمع ہو جاتے۔ ہر بچہ سلطان اور اس کے گھوڑے کو دیکھتا رہتا۔ تبھی دروازے پر کھڑی میرا آواز دیتی، ’’اے سلطان، مجھے گھوڑے پر بٹھائے گا کیا؟‘‘
’’تو گر جاوے تو ڈونگری دادی مارے۔‘‘
’’نہیں گروں گی رے اور لگام تو تیرے ہاتھ میں ہے ہی۔‘‘
’’میں آگے بیٹھوں گا، تو پیچھے بیٹھنا۔‘‘
’’گھوڑے پر تو میں اکیلی ہی بیٹھوں گی، تو لگام پکڑ کر نیچے چلنا۔‘‘
’’میرو گھوڑوں اور میں ہی نیچے چالُوں۔‘‘
’’دونوں اوپر بیٹھ جائیں گے تو گھوڑا بھاگے گا۔ مجھے ڈر لگے گا۔‘‘
’’تو کہتی تھی نہ کہ تو ڈرتی نہیں ہے۔‘‘
’’گھوڑا ہے تو دادا گیری دکھا رہا ہے کیا سلطان؟ چل میں نہیں بیٹھوں گی۔‘‘
’’میرا، میں دادا گیری نہیں، دونوں کے بیٹھے کی بات بولوں ہوں۔‘‘
’’بول دیا نہ کہ گھوڑے پر اکیلی ہی بیٹھوں گی، تو نیچے چلے گا۔‘‘
’’میں تھارو نوکر ہوں کے؟‘‘
’’نوکر نہیں رے سلطان، بھایلو (دوست) ہے۔‘‘
’’بھایلو‘‘نام آتے ہی سلطان ہلکا سا ہنستا اور لگام پکڑ کر گھوڑے کو کہتا، ’’ چل جِلُو، میرا کو گھما کر لاتے ہیں۔‘‘
سلطان نیچے لگام پکڑ کر چلتا اور میرا گھوڑے پر۔ کچھ دور تو گاؤں کے لڑکے پیچھے شور شرابہ کرتے آتے، لیکن تبھی میرا پیچھے مڑ کر زور سے ڈاٹتی اور لڑکوں کی ٹولی واپس بھاگ جاتی۔ ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے سلطان تھک چکا تھا۔
’’میرا، میرے سے اب نہیں چلا جائے گا۔ کچھ دیر یہیں آرام کرتے ہیں۔‘‘
میرا بھی گھوڑے سے نیچے اتر جاتی ہے۔ چونکہ آس پاس کوئی درخت نہ ہونے کی وجہ سے سائے کے کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ لہذا اب دھوپ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟
’’مجھے بہت دھوپ لگ رہی سلطان۔‘‘ میرا کا چہرہ اداس ہو جاتا۔
’’یہاں پر تو چھاؤں ہے ہی نہیں۔‘‘ سلطان بھی فکر مند ہو گیا۔
’’ایسی دھوپ میں تو میں مر جاؤں گی۔‘‘
’’میں کچھ کرتا ہوں۔ اے جِلُو، ادھر آ۔‘‘
جِلُو نام سنتے ہی گھوڑا سلطان کے پاس آ گیا۔ سلطان نے گھوڑے کا منہ جنوب میں کیا تو سورج گھوڑے کے بدن کے پیچھے آ گیا اور ٹیلے پر تین فٹ کا سایہ ہو گیا۔
’’اب اس چھاؤں میں بیٹھ آرام سے۔‘‘ سلطان بڑا خوش ہوا۔
’’لیکن دھوپ تو تمہیں بھی لگ رہی ہے نا! تم بھی آ جاؤ۔‘‘ میرا نے نرمی سے کہا۔
پھر گھوڑا جگالی کرتا رہا اور وہ دونوں تین فٹ کی جگہ میں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ واپس گھر آتے تو میرا کے گھر پر ہی سلطان کو کھانا کھلایا جاتا۔
میرا جب اتنی لمبی کہانی سنا رہی تھی تو روہت بڑے اطمینان سے سن رہا تھا۔ کئی بار سنی ہوئی اس کہانی کو وہ اسی توجہ سے سن رہا تھا، جیسے پہلی مرتبہ سن رہا ہو۔
’’لیکن تیرو سلطان تجھے پہچان پائے گا؟‘‘
’’بالکل پہچان لے گا اور میرا سلطان ہے نا، اب بھی انتظار کر رہا ہو گا میرا۔ روہت، ہماری پریت سودا نہیں تھی رے کہ اس ہاتھ دو، اس ہاتھ لو۔ ہم نے تو بچپن میں ایک گانا بھی بنایا تھا اپنی محبت کے واسطے۔ اب بھی اس کے بول بنجارے کے کانوں میں پڑ گئے تو دوڑا چلا آئے گا۔ تم نے تو دیکھا ہے نا سلطان کو۔‘‘
’’میرا، سماج کی حقیقت کو سمجھو۔ وہ بنجارہ ہے اور تو چودھری کی بیٹی۔ سماج میں قطعی قبول نہیں کیا جائے گا یہ رشتہ۔ سوچو کہ کسی گاؤں والے نے دیکھ لیا کہ تم رات میں میری دکان میں اکیلے میں مجھ سے باتیں کر رہی ہو، تو کیا کیا بیہودہ باتیں بنائیں گے گاؤں والے؟ اور بنجارے سے تیری شادی کی بات پر تو دونوں کو کاٹ دیں گے۔‘‘
’’روہت، مجھے گاؤں، سماج اور ایسے لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ بتا تو میرا ساتھ دے گا کہ نہیں؟‘‘
’’میں تو ساتھ دوں گا، میرے ساتھ سے ہو گا کیا میرا؟‘‘
’’تیرے ساتھ سے میں مضبوط ہو جاؤں گی۔ تم نے سنا ہے نا کہ ہر کامیاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے؟‘‘
’’ ہاں، سنا ہے۔ پر اس کا ہم دونوں سے کیا ناطہ؟‘‘
’’دیکھ روہت، یہ کہاوت در اصل یہ بتاتی ہے کہ ایک تو عورت کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہ عورت کی قربانی صرف مرد کی کامیابی میں ہی کام میں آتی ہے۔ اور تیسرا سب سے اہم سوال اٹھتا ہے کہ عورت کیوں ہمیشہ مرد کے ساتھ مشروط ہے۔ ہمیں یہ کہاوت بدلنی ہے۔‘‘
’’میرا میں زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں ہوں، لیکن تمہاری بات کو سمجھ ضرور رہا ہوں۔ لیکن کس طرح بدلیں گے؟‘‘
’’ہم نے صرف کتابیں پڑھی ہیں روہت، تم نے تو زندگی کو پڑھ لیا ہے۔ آج سے یہ کہاوت ایسے کہی جائے گی۔ ہرباغی عورت کا بھی کوئی پیاراسا دوست ہوتا ہے، جو اس کے دل کو گہرائی تک جانتا ہے۔‘‘
’’اس میں نئی بات کیا؟‘‘
’’اس میں نئی بات یہ ہے کہ جسمانی تعلقات سے ہٹ کربھی مرد اور عورت کی دوستی ہو سکتی ہے، بالکل سچی۔ ہمارے سماج میں دوستی کا مطلب صرف دو جنوں کی یاری سے لگایا جاتا ہے۔‘‘
’’ارے! تمہیں پڑھنا نہیں ہے کیا؟ گیارہ بج گئے ہیں۔ تم جاؤ پڑھو اور میں تمہارے بنجارے کو ڈھونڈھ کر لاتا ہوں۔‘‘
’’روہت، یہ حکم دے رہے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں بابا، یہ ایک دوست کا مشورہ ہے۔ میرا کو کوئی حکم تھوڑا ہی دے سکتا ہے۔‘‘
روہت دکان بند کرنے لگ جاتا ہے اور میرا ہاسٹل کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔ دھند میں نہائی سنسان سڑک پر جاتی میرا کو پیچھے سے دیکھتا ہوا روہت، سوچتا ہے کہ یہ میرا بھی ایک جاگیردار کے گھر پیدا ہو گئی۔ وہ والی میرا تو روحانیت کے لباس میں بغاوت کر ہی رہی تھی اور یہ۔۔۔ جو بھی ہو، ایسی میرا ہر دور اور ہر گھر میں پیدا ہونی چاہیے۔
انڈروئیر کے چبوترے پر روز نئے نئے چودھری آ رہے ہیں۔ کوئی دو سو بیگھہ کا جاگیردار تو کوئی علاقے کا بڑا ٹھیکیدار۔ سفید دھوتی کرتہ اور سر پر پگڑیوں والوں کا تانتا سا لگا ہے۔ در اصل، اس ’’ٹوک‘‘ والے فون کے آنے کے بعد سے ہی انڈروئیر نے میرا کی شادی کرنے کی بات سوچ لی تھی۔ آس پاس کے رشتہ داروں میں جب اس بابت اطلاع دی گئی تو رشتے آنے شروع ہو گئے۔ کل بھوجاسر کا ایک چودھری آیا تھا۔ بڑے ٹھاٹ والا آدمی تھا۔ سو بیگھہ زمین تھی، دو کنویں تھے اور سیکر میں بھی مکان تھے۔ چھورا بھی خوب کما رہا تھا۔ سڑکوں کا ٹھیکہ لیتا ہے جی۔ ایک ٹھیکہ مطلب پیسوں کی پوٹلی۔ دِکھنے میں بھی بڑا دھاکڑ چھورا تھا۔ انڈروئیر کو تو سب چیزیں پسند تھیں، لیکن چودھرائن کو نہیں پسند آیا۔ جب بھوجاسر کے چودھری سے بات چیت ہوئی تو انڈروئیر نے چودھرائن کو حویلی میں لے جا کر رائے مشورہ کیا۔
’’مالکن، تیرے جچ یو کے سودو؟‘‘
’’دیکھ چودھری، باقی تو سب ٹھیک سے۔ لیکن چھورا نیں جچ یا۔‘‘
’’چھورا تو تنے دیکھیا ہی نیں ہے۔ ایسا گبرو جوان ہے کہ آس پاس کے کِن چودھری کے ایسا جنوائی نیں آیا سے۔‘‘
’’چودھری، چھورا پڑھا لکھا نہیں ہے۔ اپنی میرا کی جوڑی پڑھا تو چای۔‘‘
’’پڑھن لکھن سے کیا ہوتا ہے؟ اِن چھورے کے نیچے کئی انجینئر کام کرتے ہیں۔ اور سب ساب کہتے ہیں۔‘‘
’’میرے تو چھورو نیں جچ یو۔ اب تو جانے چودھری اور تیرا کام جاننے۔‘‘
اگرچہ انڈروئیر کو یہ رشتہ بہت پسند آیا تھا، لیکن چودھرائن کی ضد کی وجہ سے منع کرنا پڑا۔ آج والے چودھری ہریندر سنگھ کے ساتھ سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے بات پکی کر دی تھی۔ یہ چودھری بھی کسی بھی معاملے میں کمزور نہیں ہے اور چھورا پرائیویٹ بی اے پاس ہے۔ انڈروئیر چودھرائن کو بتا رہا تھا کہ بڑا چنگا چھورا ہے۔ ہنگلش بھی بول لیتا ہے اور آسٹریلیا میں اپنا ہوٹل بنا رکھا ہے۔ بی اے پاس کا نام سنتے ہی چودھرائن بھی گدگدا گئی۔ ویسے جہیز کا معاملہ بھی صرف دس لاکھ پر طے ہو گیا تھا۔ اب اکلوتی بیٹی کے باپ انڈروئیر کو دس لاکھ بہت زیادہ نہیں تھے۔
شام کو انڈروئیر کے چبوترے پر ویسے ہی مجمع لگا ہوا تھا۔ لوگوں کو جانکاری بھی ہو گئی تھی کہ میرا کا رشتہ طے ہو گیا ہے۔ چودھرائن حقّہ گڑ گ ڑا رہی تھی اور پاس میں بیٹھا گردھاری چنبیلی کی خوشبو لے رہا تھا اور انڈروئیر اپنے نئے سمدھی ہریندر سنگھ کی زمین جائداد کے بارے میں ہانک رہا تھا۔ چھورے کے بارے میں تو ایسا بتا رہا تھا کہ وہ ہندوستان کا سب سے کامیاب لونڈا ہو۔ جب ”آسٹریلیا”کی بات آئی تو سب نے تعجب سے پوچھا، ’’چودھری صاحب، یہ پڑتا کہاں ہے؟‘‘
چودھری نے اپنی پتلی مونچھوں پر تاؤ دیا اور پھر بتانا شروع کیا، ’’بہت دور پڑتا ہے۔ کانچ کی سڑکیں ہیں وہاں پر۔ اپنے جنوائی نے جو ہوٹل بنا رکھا ہے، وہاں بڑے بڑے لوگ آتے ہیں جی اور ایک لاکھ کا روز کا گلّا اٹھتا ہے۔ سب ہنگلش بولتے ہیں۔ دال روٹی بھی ہنگلش میں منگواتے ہیں۔‘‘
’’چودھری صاحب، دال روٹی کو ہنگلش میں کیسے منگوا جاتا ہے؟‘‘ گردھاری کو بھی بے چینی ہوئی۔
’’ارے تو کیا جانے بڑی باتیں۔ جنوائی آئے تو اس سے پوچھا۔ اور جنوائی ہنگلش میں ہی پیسہ مانگتے ہیں تو سارے گورے لوگوں کی پھٹ جاتی ہے۔ ایسی دھڑاکے کی زبان بولتے ہیں۔‘‘ آج چودھری کی آواز میں نئی طاقت آ گئی تھی۔
’’آپ کی میرا تو راضی ہے کیا اس رشتے سے؟‘‘ گردھاری نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہو جیسے۔
’’تنے بھوت بات آویں رے گردھاری۔ میری میرا کی مرضی اپنے باپ سوں الگ نہیں ہو سکے۔ جیادا لپر لپر مت کیا کر۔‘‘ چودھری کو طیش آ گیا۔
’’چودھری، گرم مت ہوُو۔ گردھاری تو بھولا بھنڈاری ہے۔ اس کے من میں کھوٹ نہیں ہے۔‘‘ چودھرائن نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی۔
چودھری کے چبوترے کی شام کی بیٹھک ختم ہوئی تو لوگ اپنے گھروں پر اس سوال کو ساتھ لے گئے، ’’میرا تو راضی ہے کیا اس رشتے سے؟‘‘
پھر کیا تھا، لوگوں نے اپنی اپنی سطح پر کہانیاں بنانی شروع کر دیں۔ گاؤں والوں کا میرا سے کوئی رابطہ تو تھا نہیں، وہ نہیں جانتے تھے اس کی مرضی اور چاہتوں کے بارے میں ذرا بھی، پھر بھی کہانیوں میں اپنی مرضی کو میرا کی مرضی مان کر پلاٹ کو آگے بڑھاتے رہے۔ ابتدائی دور میں کئی کہانیاں بنی تھیں۔ پھر کچھ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو لوگ جوڑنے لگے اور ایک لمبی داستان بنانے کا کام چلا۔
پھاگن کا مہینہ تھا اور ٹھاکر بنّی سنگھ کی ڈیوڑھی کے سامنے مجمع لگا تھا۔ لوگ چنگ بجا رہے تھے، کچھ شراب پی رہے تھے اور ٹھاکر اپنے دو چمچوں کے ساتھ چنگ کے رسِیوں کو واہ واہی دے رہا تھا۔ ہر پھاگن میں ٹھاکر کے یہاں گلال اڑتا ہے۔ یوں تو ٹھاکر کے مالی حالات بہت برے ہیں، لیکن دو سو بیگھہ زمین بچ گئی تھی سرکار کے پاس جانے سے۔ ضرورت کے مطابق فروخت کر لیتا ہے۔ اس ٹھاکر کے پاس دو ہی چیزیں بچی تھیں، ایک زمین اور دوجی ٹھاکُریت۔ سال بھر ٹھاکر ٹکا نہیں خرچ کرتا ہے، بیڑی بھی مانگ کر پیتا ہے، لیکن پھاگن میں ہزاروں اڑانا اس کی لت ہے۔ شاید اسی کیلئے زمین فروخت کرتا ہو گا۔ پھاگ گانے والے جب بھی گانا ختم کر کے بیڑی پینے کے لئے آرام کرتے، تبھی ٹھاکر اپنی بہادری کے کئی قصے سناتا۔ گردھاری جب بھی وہاں موجود ہوتا تو اسے ٹھاکر کے ان قصوں میں بالکل بھی رغبت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ٹھاکر کے قصوں کی کوئی زمین نہیں ہے۔ لیکن آج گھر سے چلتے وقت ہی اس کا دل ہوا تھا کہ کھل کر بولے گا اور سارے رَسِی سنیں گے مجھی سے۔ پہلا پھاگنی گیت گا کر جب رسیا رکے تو گردھاری شروع ہو گیا، ’’ٹھاکر سا، اب تو گاؤں میں کِن کایدو ہی نیں بچیوہے۔ بڑا خراب دن آئے گا گاؤں را۔‘‘
’’کس کی بات کر ریا ہو گردھاری، ٹھاکر کی نیت خراب ہو سکتی ہے لیکن دن خراب نہیں ہیں۔ راج پاٹ سب چلے گئے، اب کیا دن خراب آئیں گے پگلے۔‘‘ بنّی سنگھ نے گہری سانس لی۔
سارے رسِی بیڑی کا دھواں نکال کر گردھاری کی طرف ایک ٹک دیکھنے لگے۔ وہ سب جانتے تھے کہ وہ چودھری کے بارے میں بات کرے گا اور چودھری کے بارے میں تو صرف میرا کی ہی بات ہو سکتی ہے۔ اس بحث کو کئی بار سننے کے بعد بھی لوگوں میں برابر بے چینی بنی ہوئی تھی۔ آج وہ ٹھاکر کے منہ سے میرا کی کہانی سننا چاہ رہے تھے۔ گنیش نے ٹھاکر کو اکساتے ہوئے پوچھا، ’’ٹھاکر سا، میرا کے بیاہ کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟‘‘
بنّی سنگھ نے پاس رکھی بوتل سے دو پیگ دیسی کے مارے اور ایک بیڑی سلگائی۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد شروع ہوا، ’’ایک میرا راجپوت کے گھر بھی جلمی تھی پہلے۔ پوری ذات پر کوئی کلنک ہے تو وہ عورت۔ کیا کمی تھی اُس کو؟‘‘
’’لیکن اس نے توبھگتی کی تھی۔‘‘ مجمع میں سے کسی نے کہا۔
’’بھگتی کرنے کیلئے یادَو ہی ملا تھا کیا؟ راجپوتوں میں دیوتاؤں کی کمی تھوڑی ہی ہے۔ ہمارے پرکھوں میں تو سب ”شہادت ” کو ہی گئے تھے، سب کے مندربنیں ہیں، ان میں سے ہی کسی کی بھگتی کر لیتی۔ ابھی راجپوت جات میں کوئی چھوری کو نام میرا نہیں رکھے۔ چودھری کی ہی غلطی تھی کہ یہ نام رکھا، اب بھگتو اپنی۔ سب سے بڑا خطرہ جات کو ہے۔‘‘
’’کس ذات کو خطرہ ہے ٹھاکر سا؟‘‘ذات کا نام سنتے ہی سارے رسِیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’ٹھاکروں پر تو جتنے خطرے تھے سب آ گئے۔ اب جاٹوں کی باری ہے۔ انہوں نے ہی میرا نام دھریا ہے۔ ایک آدمی پوری جات نے آسمان بھی لے جا سکتا ہے اور پاتال بھی۔‘‘ ٹھاکر آگے کے دو نقلی دانتوں سے اصلی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
’’بھلا ایک چودھری کی وجہ پورَو جاٹ سماج خترو کیوں اٹھاوے؟‘‘ نریش کو غصہ آ گیا۔
ٹھاکر نے دائیں ہاتھ سے نقلی دانتوں کو جگہ پر جمایا اور پھر ٹھاکُریت کی آن میں کہا، ’’بیٹا، چودھری نے چھوری ہی جات کے کلنک لگان والی جلم دی۔ اب تو ایک ہی طریقہ ہے، یا تو چودھری جات میں رہے یا پھر جات رہے۔ دیکھ لو تم لوگوں کو کون جیادا پیارو ہے۔‘‘
’’میرا نے اَیسو کے کام کر دیو کہ جاتی پر سنکٹ آئے گو؟‘‘ آج پہلی بار رفیق رزاق نے ٹھاکر کے سامنے بولنے کی ہمت کی۔
’’پورے سماج کی ناک کٹوا دی۔ شہر میں جا کرچھوروں کے ساتھ ”ٹوک ” کرتی ہے۔ نہ جات دیکھتی، نہ دھرم۔‘‘ ٹھاکر کے بجائے جواب نریش نے دیا۔
’’اچھا، یو ’’ٹوک‘‘کا نئی ہووے ہے؟‘‘ رفیق کو اس بابت کوئی معلومات نہیں تھی۔
’’رپھیکڑا، چھوراں کے سامنے کیوں اپنی مٹی پلیت کروا ریا ہے۔ تو کون سا جانتا نہیں۔ بِنا ”ٹوک ” ہی چار بچوں کا باپ بن گیا۔ تھوڑی تو شرم کر گدھا۔‘‘ ٹھاکر نے بولنے کی بجائے تقریباً دہاڑنا ٹھیک سمجھا۔
یہ سنتے ہی سارے لونڈے کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ بعضوں کو تو اپنے علم پر ناز سا ہونے لگا کہ انہیں انگریزی آتی ہے۔ وہ بھی ’’ٹوک‘‘ کا یہی معنی نکال رہے تھے۔ اب تو طے ہو گیا کہ ’’ٹوک‘‘ کرنے سے بچے پیدا ہوتے ہیں، ٹھاکر بنّی سنگھ نے جو کہہ دیا۔ ٹھاکر بنّی سنگھ کے دادا انگریزوں کے راج میں داروغہ تھے اور تبھی سے ان کے خاندان والے ہر انگریزی لفظ کا مطلب بتا دیتے ہیں۔ جب بچے امتحان کے لئے تیاری کرتے اور انہیں ’’ ٹو دی ہیڈ ماسٹر‘‘کا مطلب نہیں معلوم ہوتا تو ٹھاکر ہی بتاتا۔
”سن ہیڈ ماسٹر کے بچے۔ ”
اتنے میں ہی رادھے شیام پنڈت کا چھورا نین آتے دِکھا۔
’’یہ بتائے گا صحیح، جے پور ہی رہتا ہے آج کل۔ میرا کی ساری کہانی جانتا ہے۔‘‘ نریش نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا۔
’’آؤ بیٹا نین، جے پور سے کب آیا؟‘‘ ٹھاکر نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’پائے لاگوں بابا سا۔ پرسوں ہی آیا تھا۔‘‘ نین نے موبائل میں ٹائم دیکھا تو رات کے قریب گیارہ بجے تھے۔
’’چودھری کی میری کی کہانی بتا رے۔۔ ۔‘‘ ٹھاکر نے نین کے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا۔
’’جے پور میں میرا جس کالج میں پڑھتی ہے وہ ایک بدنام کالج ہے۔ ہر لڑکی کو کوئی پنگا رہتا ہے۔ رات کو لڑکیاں سڑک پر لڑکوں کے ساتھ گھومتی ہیں۔ کئی بار تو بالکل اکیلے۔ ایسے میں میرا کون سی دودھ کی دھلی ہے۔ میرا ایک دوست بتا رہا تھا کہ وہ رات کو چائے والے کے پاس بیٹھی رہتی ہے۔ آدھی رات تک۔ بھئی، ہمارے پنڈتوں میں تو ایسی لڑکی ہوتی تو ابھی تک کریا کرم کر دیتے، لیکن اب جاٹوں کی ہی مت ماری گئی تو کیا کریں۔۔ ۔‘‘ نین نے نریش اور دیگر جاٹوں کے چھوروں کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھا۔
’’سسرے۔۔ ۔، شہر میں چار پیسے کما لیا تو کون سا بِرلا بن گیا۔ تیرا خاندان تو اب بھی آٹا مانگ کر کھاتا ہے اور ہم جاٹ ہی آٹا ڈالتے ہیں۔ زیادہ ہسیار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوقات میں ریا کر۔‘‘ نریش کو طیش آ گیا۔
’’دیکھو، بابا سا۔ آپ کے کہنے پر میں نے سچ بتایا اور مجھے ہی سمجھا رہا ہے۔ ایک ٹھاکر کی ڈیوڑھی پر ایک پنڈت کا ایسا اپمان تو کبھی نہیں ہوا ہو گا۔‘‘ نین سے ٹھاکر کو اکسایا۔
’’اے چھورے، جیادا بولے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچ سب سے برداشت نہیں ہوتا۔ اِتو ہی جاٹ بنے ہے تو چودھری کو جات کو باہر کر دو۔ اس بیچارے سمجھدار پنڈت پر کیوں ہیکڑی دکھا رِیا ہے۔ یاد رکھو کہ یا ٹھاکر کی محفل ہے، کوئی بھی زور سے نہیں بولے گا۔ اپنے گھر میں دینا گیان، یہاں نہیں ہو گا پنڈت کا اپمان۔‘‘ بنّی سنگھ کا زرد چہرہ لالی دکھا رہا تھا، جو اندھیرے میں آگ کی روشنی سے بھی دِکھائی دے رہی تھی۔
’’سن ٹھاکر، بہت دیکھی ہے تیری ہیکڑی۔ دو بیگھہ زمین بیچنے سے کوئی سیٹھ نہیں بنتا۔ پوّے کے بیس روپے مانگتا تھا تو۔‘‘ نریش بھی غصے میں کھڑا ہو گیا۔
’’ٹھہر، تنے میں آج ساری اوقات دکھا دوں گا۔‘‘ بنّی سنگھ حویلی سے تلوار لانے دوڑا۔
’’آ جانا چودھریوں کی چوکڑی میں رانگڑا۔‘‘ نریش کے ساتھ بہت سے جاٹوں کے چھوروں نے نعرہ لگایا۔
خبر میرا تک بھی پہنچ گئی تھی کہ روز اس کے بیاہ کیلئے چودھریوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ کہیں نہ کہیں معاملہ نبٹا ہی دیا جائے گا۔ لیکن جب آج چودھرائن نے سگائی کی بات پکی ہونے کی خبر دی، تو میرا کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی۔ بہت غصے میں چودھرائن کو ڈانٹا، ’’آپ کو میری زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق کس نے دیا؟‘‘
’’کس نے دیا کا مطلب؟ تیرے ماں باپ ہیں تو تیرو بیاہ کرنوں فرض ہے۔‘‘ چودھرائن نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’اپنے بارے میں، میں خود فیصلہ کروں گی۔ مجھے نہیں کرنی ہے شادی۔‘‘
’’بیاہ تو جگت کی رِیت ہے بیٹا۔ آج نہیں تو کل کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مجھے نہیں کرنا ہے اور میری شادی کے بارے میں آپ سوچنا بند کر دیجیے۔‘‘
’’تیرے باپ نے ہاں کر لی ہے، اب بیاہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ بیاہ میں ڈرن کی بات نیں ہے پگلی۔‘‘
’’باپ کی ہاں جائے بھاڑ میں۔ میں نے نہ بول دی ہے، یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔‘‘
’’تنے اِتی بڑی کری ہے، پیسا خرچ کیا ہے۔‘‘
’’کس نے آپ کو یہ سب کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس کی وصولی کرنا چاہتے ہو کیا؟‘‘
’’دیکھ بیٹی، اب بھی سوچ لے، چودھری کو موہ ہی دیکھیو ہے تنے، گسّو بھوت جورکو ہے۔‘‘
’’ہو گا تو، میں کیا کروں؟‘‘
’’اگلے ماہ سے پیسا بھیجنوں بند ہے۔‘‘
’’مجھے اپنی محنت پر جینا آتا ہے۔ نہیں چاہئے آپ کی دولت۔‘‘
اگرچہ جذبات میں آ کر میرا نے کہہ تو دیا تھا کہ اسے اپنی محنت پر جینا آتا ہے، لیکن ابھی تک تو کمانے کی سوچی بھی نہیں تھی۔ آج پہلی بار سوچنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی ہاسٹل کی فیس تو ہر مہینے دینی پڑتی ہے۔
کس کو کہے؟
روہت کو!
اسے ہی کیوں؟
دوست ہے نا، اس لئے۔
انہی الجھنوں میں پھنسی میرا، رات کے ٹھیک گیارہ بجے اکیلی روہت کی دکان کی طرف جا رہی تھی۔ جیسے ہی وہ دکان کے قریب پہنچنے والی تھی کہ پیچھے سے گھوڑے کے پیروں کی ٹپ ٹپ سنائی دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پھاگنی ہوا کی سنسناہٹ تھی، نہ گھوڑا تھا اور نہ ہی بنجارہ تھا۔
’’تیرا بنجارہ پیچھے سے نہیں، آگے سے آئے گا۔‘‘ روہت نے اپنے سدا بہار انداز میں کہا۔ اور اس کے کان سننے کو بے چین تھے کہ ’’تو کہتا ہے تو میرا بنجارہ ضرور آئے گا۔‘‘
آج میرا نے یہ جواب نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گئی۔ روہت کو بے چینی تو اس کا جواب نہ ملنے کی وجہ سے ہی ہو گئی تھی، لیکن اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہا۔ سارا سامان دکان میں جمایا اور پھر ایک کرسی لے کر میرا کے پاس بیٹھ گیا۔
’’کیا ہوا میرا، اتنی اداس کیوں ہو؟‘‘
’’تو کون ہوا میری اداسی کا سبب جاننے والا؟‘‘
’’میں تیرا دوست ہوں۔ تیرے صدیوں کے پریم قصے تو روہت سنے، تیری زندگی کے تمام خواب بھی سنے۔ بس، اسے تیرے غم سننے کا حق نہیں ہے۔ ٹھیک ہے پھر۔‘‘
’’یار، میں بہت ٹینشن میں ہوں۔‘‘
’’گھر والوں سے لڑائی ہو گئی نا؟ شادی کر رہے ہوں گے؟‘‘
’’تیرے کو کیسے پتہ چلا ظالم کہ یہ سب ہوا ہے۔‘‘
’’اکثر لڑکیوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ تیرے ساتھ بھی ہو گیا۔‘‘
’’تو پھر ایسی صورت میں لڑکیوں اکثر کرتیں کیا ہیں؟‘‘
’’مر جاتیں ہیں۔ یا تو خود کشی کر لیتی ہیں یا اپنے خوابوں کو مار دیتی ہیں یا اپنے پریمی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں، جسے وہ مناسب طریقے سے سمجھی تک نہیں ہوں یا پھر۔۔ ۔‘‘
’’یا پھر۔۔ ۔ کوئی اور بھی رستہ ہے کیا؟ بولو روہت۔‘‘
’’ڈگر کٹھن ہے مگر، تو کرے گی وہی۔‘‘
’’تو بھی آج کل باتوں کو گھما کر کہتا ہے، سیدھے بتاؤ نا؟‘‘
’’نجات کی راہ ہے نا، اپنی مرضی کی زندگی اسی میں ہے۔‘‘
’’آزادی کہاں، سوائے مردوں کے چنگل سے باہر نکلنے کے۔‘‘
’’یہی میں کہہ رہا تھا میرا۔ لیکن اپنے بنجارے کا کیا کرے گی؟ وہ بھی تو مرد ہے اور تو چوبیس گھنٹے تو اسی کی ادھیڑ بن میں رہتی ہے۔‘‘ روہت نے دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ مارا۔
’’تو کیا سوچتا ہے کہ میں نے اس بنجارے کی محبت میں پندرہ سال نکال دیے۔ وہ تو میرا شغل تھا، ایسا تھوڑا ہی ہوتا ہے کہ غیر محسوس محبت پر زندگی قربان کی جائے۔ یہ تو صرف دل بہلانے کے بہانے ہوتے ہیں۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تنہائی اپنے آپ، کئی بار انسان کا خون پینے لگ جاتی ہے، جب یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ اکیلی ہے، تبھی سے یہ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اپنی اسی اداسی کو بھولنے کا ایک طریقہ تھا بنجارہ۔ ہوا یوں کہ اس بہانے، میں اپنے آپ کو بہت گہرائی تک چھونے لگی۔ یار، یہ اندر کا سفر ہی مجھے نجات کی راہ دکھا گیا تھا۔ ویسے تو کہہ سکتا ہے کہ تو جس مرد کے خلاف لڑنا چاہتی ہے اسی کے ذریعے نجات کا راستہ تلاش رہی ہے۔ اگر تیرا بنجارہ واقعی محبوب ہوتا تو ابھی تک کیوں نہیں آیا۔
سچ بھی ہے کہ بچپن کی دوستی صرف جذبات کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں، وہاں خیال اور منطق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یوں تو جذبات کی عمارت بہت مضبوط ہوتی ہے، لیکن زندگی کے بھونچالوں سے اتنی ہی تیزی سے منہدم بھی ہو جاتی ہے۔ وہ کوئی بنجارہ نہیں تھا جس کی تلاش میں سردیوں کی بہت سی راتیں ان تاریک سڑکوں پر بے وجہ ضائع کر دی جاتیں۔ اسے اپنا آئیڈیل مرد بھی نہیں کہہ سکتی، ایسا کہہ سکتی ہوں کہ دنیا کو بہتر بنانے کا ساتھی ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی تخلیق میں نے اپنے دلائل کی چاک پر خیالات کی مٹی سے کی تھی۔ ہو تو یہ بھی سکتا ہے کہ کل کو میں ایک مرد بن جاؤں اور وہ مرد میرے خوابوں کے بنجارے جیسا مرد ہو۔ یہ ایک نفسیاتی کجی بھی ہے کہ انسان خواب میں خامیاں نہیں چھوڑتا اور اگر چھوٹ جائے تو ”ایڈٹ” کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اچھا یہ بتا کہ میں جب مردوں کے خلاف بغاوت کر رہی ہوں تو تیرے خلاف بھی ہوئی نا، تو کیا سوچتا ہے میرے بارے میں؟‘‘ کہتے ہوئے میرا نے ایک لمبی سانس لی۔
’’میں تو مرد ہوں ہی نہیں۔‘‘
’’تو تو کیا ناکارہ ہے؟‘‘
’’پتہ نہیں! کبھی چیک نہیں کیا۔ ہاں، تیرے ساتھ رہنے سے کچھ گڑبڑ ضرور ہو گئی۔‘‘
’’مردانگی میں لوچا ہو گیا کیا؟‘‘
’’نہیں رے، میں آہستہ آہستہ عورت ہوتا جا رہا ہوں۔‘‘
’’اپنے مرد کو مار کر عورت ہونے کا عمل ہی، ایک مرد کا انسان بننے کا عمل ہے۔‘‘
’’چلو، میں جانوروں سے انسان تو ہو رہا ہوں۔‘‘
’’ابھی بڑا بحران آنے والا ہے یار۔ امتحان کی گھڑیاں نزدیک آ گئی ہیں۔ شادی طے، پڑھنے کی ممانعت اور پیسہ بند۔‘‘
’’نجات کی حقیقی سیڑھی تو اب شروع ہوئی ہے۔ اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا، نجات کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اور وہ۔۔۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔ تو روز بولتی ہے نا۔۔۔ ارے۔۔۔ ہاں کارل مارکس۔۔۔ اس نے کیا کہا تھا۔‘‘
’’بند کر مارکس کے بچے۔ ہاسٹل بل کی سوچ۔‘‘
’’کتنا لگتا ہے؟ دو ہزار ہی لگتا ہے نا، لے جانا میرے سے۔‘‘
’’ابے ٹاٹا، برلا کے منیم، میں آزادی کی لڑائی لڑ رہی ہوں۔ تو دو ہزار دے کر پھر سے غلام بنانا چاہتا ہے۔‘‘
’’میں تو تیرا دوست ہوں نا، میرے سے لینے میں کیا ہرج، جب کمانے لگو تو چکا دینا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن دنیا کے سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، گھر پونجی کا معاملہ ہو تو سارے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘
میرا نے جے پور آ کر اپنی تعلیم کے ساتھ ادب اور دیگر نظریاتی کتابوں کو بھی پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ در اصل، اسے اپنے استاد مسٹر باسو سے اس طرح کی کتابوں کی تحریک ملی۔ بہت زیادہ تو نہیں لیکن کام بھر کی سب کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ ان کتابوں سے اپنے تبدیل ہوتے خیالوں کا ایک منظم خاکہ بنانے اور ان کو محدود کرنے میں سہولت ہوئی۔ اسی سلسلے میں وہ جو بھی پڑھتی اس پر بحث روہت سے ضرور کرتی۔ یوں روہت کو کچھ مصنفین اور دانشوروں کے نام یاد ہو گئے۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ وہ کوئی بات کہتا اور میرا ہنستی، ’’تیری بات، فوگو سے ٹکرا گئی۔ اس نے بھی یہی بات کہی ہے، تھوڑی سی زبان تبدیل ضرور ہوئی ہے۔‘‘
’’فوگو کون تھا؟ میں نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا۔ میری بات اس سے ٹکرا گئی، اس میں میری کیا غلطی ہے۔‘‘ روہت حیرت ظاہر کرتا۔
اور ایسے ہی فوگو سمیت مارکس، امبیڈکر کا نام بھی روہت کو معلوم ہو گیا تھا۔ اس نے ان کی کوئی کتاب نہیں پڑھی، پھر بھی وہ مانتا تھا کہ ان لوگوں نے بات تو ٹھیک ہی کہی ہے۔ میرا کو کالج کی زندگی میں کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ وہ کلاس میں جاتی اور اپنی مستی میں کچھ کتابیں پڑھتی رہتی اور اسی وجہ سے کالج میں اس کا کوئی دوست نہیں بن پایا۔ سب اسے گنوار لڑکی سمجھتے تھے۔ کتنا تضاد ہے کہ کُول رہنے اور ماڈرن ہونے کے باوجود، شہر والے گاؤں کی سمجھتے تھے اور گاؤں والے شہر کی۔ اس نے خود کبھی اس بارے میں کچھ طے نہیں کیا۔ کلاس میں اپنی عادات کے مطابق اسٹوڈنٹس کے گروپ تھے، لیکن میرا کسی میں بھی نہیں تھی۔
میرا کی عادتیں تو کسی سے میل ہی نہیں کھاتیں۔ اپنی روم میٹ نکیتا سے بھی میرا کا عجیب سا رشتہ تھا۔ دونوں بہت پیاری دوست تھیں اور اتنی ہی پیاری دشمن۔ ان دو انتہاؤں کی وجہ کیا تھی، معلوم نہیں۔ کئی بار تو دونوں ایک ہی بیڈ پر سوتیں اور دوسرا بیڈ کمرے سے باہر نکال دیتیں۔ دو چار دن گزر جاتے کہ بلا وجہ ہی باہر رکھا ہوا بیڈ اندر آ جاتا اور کمرے کی تمام چیزوں کا بٹوارا ہو جاتا۔ سرحدیں بھی طے ہوتیں۔ کمرہ ماپا جاتا اور پھر عین درمیان میں چاک سے لائن بنائی جاتی۔ کوئی بھی ایک دوسرے کی سر حد کو نہیں پھلانگتا۔
کمرے کو بھی معلوم نہیں چلتا کہ کب درمیان کی دیوار گرا دی گئی اور بیڈ کو آرام فرمانے کے لئے باہر پہنچا دیا گیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ دونوں ہی سست تھیں، سو کمرے کی صفائی کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جھاڑو کو دشمن مان رکھا تھا۔ ان سب کے باوجود وہ ایک دوجے کی زندگی کیلئے کوئی جذبات نہیں رکھتی تھیں۔ روم سے باہر ملتیں تو ایسا لگتا کہ آپس میں جان پہچان بھر ہے۔ لہذا میرا کی کہانی میں نکیتا کوئی جگہ نہیں بنا پائی۔ نہ کبھی اس نے آپ کے اس لکھاری سے شکایت کی کہ میرا میری روم میٹ ہے، تو مجھے بھی کہانی میں رکھو۔
راجپوتوں اور جاٹوں کے درمیان دنگل تو مچنا ہی تھا، نریش نے ٹھاکر بنّی سنگھ کو ٹکا سا جواب دے دیا تھا۔ ہولی کے رنگوں کے بجائے گاؤں اب رنجش کے رنگوں میں رنگ گیا تھا۔ دونوں طرف تیاریاں ہونے لگیں۔ جودھپور، بیکانیر سے لے کر جے پور تک کے، بنّی سنگھ کے رشتہ داروں کے رشتہ داروں کے رشتہ دار تک آ گئے تھے۔ ٹھاکر کی عزت کا سوال تھا۔ راجپوتوں کی ڈیوڑھی میں شراب کے پیالوں کا دور چل رہا تھا۔ زنگ آلود تلواروں کو دھار دی جا رہی تھی اور ان سب کے لئے بنّی سنگھ نے چار بیگھہ اور بیچ دی تھی۔
ایک طرف اینٹوں کے چولہے پر بکرا قربان کر پک ہو رہا تھا۔ دوسری جانب بنّی سنگھ بھی سج دھج کے تیار ہو گیا تھا، جیسا کہ رَن میں شہادت کو جاتے ہیں۔ باقی سارا گاؤں سہما ہوا تھا۔ لوگ گھروں میں دو چار دن کا کھانا ایک ساتھ بنا کر دبکے ہوئے تھے۔ اَسی برس کا ٹھاکر کُشال سنگھ راجپوتوں کی بہادری کے قصے سنا رہا تھا۔
اُدھر بھی ایسا ہی حال تھا۔ اگرچہ جاٹوں کے اکھاڑے میں گاؤں کے باہر سے کوئی نہیں آیا تھا، لیکن گنتی کرنے پر گاؤں کے ہی کل ایک سو بیس آدمی ہو رہے تھے۔ اگرچہ ٹھاکر بنّی سنگھ سے نمٹنا ایک چنوتی تھا، لیکن پہلے انڈروئیر سے بھی نمٹنا تھا۔
’’چودھری جات میں ریہسی یا اپن رہے گا۔ دونیوں ساتھ نہیں رہے گا۔‘‘ نریش جاٹوں کے پورے جماوڑے سے خطاب کر رہا تھا۔
’’بھئی، دونوں ہی رہ جاوو۔‘‘ گردھاری نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’نہ جی۔ آج پھیسلو کرنو ہی پڑے گا۔‘‘ ہٹھ تھا نریش کا بھی۔
’’پہلے ٹھاکر بڑو دشمن ہے، چودھری نے بعد میں سُلٹا دینگا۔‘‘ سانورمل نے کہا۔
’’آ بات ٹھیک لاگی منَے بھی۔‘‘ گردھاری بیچ بچاؤ کرنا چاہتا تھا۔
’’تنے تو ساری بات ٹھیک لاگے ہیں۔ ڈونگری دادی کے چپک کر بیٹھو ہو نہ۔‘‘ نریش نے طعنہ مارا۔
اتنا سنتے ہی گردھاری کو غصہ آ گیا اور وہ اٹھ کر جماوڑے سے باہر چلا گیا۔ بھیڑ میں لوگ اپنی بغل والے سے کھسر پھسر کرنے لگے۔ چاندنی رات میں حقوں سے نکلنے والا دھواں، لوگوں کے سر پر بادلوں کی طرح منڈلا رہا تھا۔ عین درمیان میں آگ جل رہی تھی اور اس کے ارد گرد کچھ پاورفل چودھری بیٹھے تھے۔ آہستہ آہستہ سارا مجمع چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تبدیل ہو گیا اور اس گھمبیر سوال پر بحث ہونے لگی کہ پہلے چودھری کو نپٹایا جائے کہ ٹھاکر کو۔ کوئی چودھری کو پہلے نپٹانے کے حق میں تھا تو کوئی ٹھاکر کو۔ ہر کسی کے اپنے اپنے دلائل تھے، لیکن اس پر رائے مشترکہ تھی کہ دونوں کو نپٹانا ہے۔
حقوں میں مسلسل تمباکو بھری جا رہی تھی۔ رات کے تقریباً دو بج گئے تھے، لیکن کوئی ایک رائے نہیں بن پائی۔ اصل میں اس سماج کے لوگوں میں کبھی ایک رائے بنتی ہی نہیں ہے، سب اپنی اپنی پر ڈٹے رہتے ہیں۔ فتوی ہی حتمی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ قریب آٹھ چودھریوں میں سے کوئی بھی کھڑا ہو کر فتوی جاری کر دیتا ہے، تب کسی کی بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ سبھی قبول کر لیتے ہیں اور اپنے دلائل کو زندہ ہی دفنا دیتے ہیں۔
آج بھی انتظار کیا جا رہا تھا کہ کب ان چودھریوں میں سے کوئی منہ کھولے اور کب آخری فیصلہ ہو، پر منہ کسی کا کھل ہی نہیں رہا تھا۔ ہر کسی کا چودھری کانارام سے اپنا رشتہ تھا، وہ پہلے بول کر دشمنی مول لینا نہیں چاہ رہے تھے۔ نریش نے اپنے گھر سے چائے، چینی اور دودھ بھی منگوا لیا تھا۔ چائے کا دور بھی شروع ہو گیا۔ نریش زیادہ جوش و خروش اس لئے دکھا رہا تھا، کیونکہ وہ اپنا مستقبل چودھری بننے میں دیکھ رہا تھا۔ یہ موقع تھا۔ وہ چُوکنا نہیں چاہتا تھا۔
اگرچہ بات انڈروئیر تک بھی پہنچ گئی تھی۔ وہ مسلسل دو دنوں سے پی رہا ہے، کسی سے بھی بات نہیں کرتا۔ چودھرائن کی طبیعت تو میرا سے شادی والی بات کرتے ہی ناساز ہو گئی تھی۔ کھاٹ ہی پکڑ لی تھی۔ گردھاری خدمت میں لگا رہتا ہے۔ آج رات کی سبھا میں چودھرائن نے ہی بھیجا تھا اس کو کہ کسی طرح بھی کر کے چودھری کو ذات میں رکھواؤ، لیکن وہاں سے بھی نا امیدی ہی ہاتھ لگی۔ گردھاری مایوس ہو کر جب انڈروئیر کی حویلی کی طرف آ رہا تھا، تو اس کا دل کیا کہ پھانسی کر لے۔ ایک بار تو ارادہ بھی بنا لیا تھا، لیکن پھر سوچا کہ چودھرائن کو مشکل میں اکیلے چھوڑنا بے وفائی ہے۔ سو، اس وقت کیلئے ارادہ ختم دیا۔ تذبذب تو یہ تھا اس کو کہ چودھرائن کہے گی کہ گردھاری تیرے پر ہی وشواس ہو، اب تو کشتی ڈوبے گی۔ وہ گردن جھکائے انڈروئیر کی حویلی میں داخل ہوا اور پھر مشکل سے، دل پر ہاتھ رکھ کر چودھرائن کی کوٹھری میں داخل ہوا۔
’’اے۔۔ ہو۔۔ دو دن میں ہی چودھرائن کی صورت ہی بدل گئی۔ وہ رونق تو گزرے زمانے کی بات ہو گئی اب۔‘‘ گردھاری یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے کانوں میں چودھرائن کی درد بھری دہاڑ پڑی۔
’’گردھاری، اونٹ پر زین مانڈ، جے پور چالسیاں۔‘‘
گردھاری اچانک جے پور جانے کی منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ تو نہیں سمجھ پایا، لیکن اس نے یہ اندازہ ضرور لگا لیا تھا کہ میرا سے ملنے جانا ہے اور اب یا تو اونٹ ٹیلا پار کرے گا یا پھر گھٹنے ٹیک دے گا۔ چودھرائن کا حکم بھلا کبھی گردھاری نے ٹالا ہے۔ فوری طور اونٹ پر زین باندھ کر چلنے کو تیار کر دیا۔ چودھرائن نے انڈروئیر کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور جا کر اونٹ پر سوار ہو گئی۔ اشارے کے مطابق گردھاری رسی پکڑ کر آگے روانہ ہو گیا۔ رات کے اس پہر عموماً گاؤں میں خاموشی ہوتی ہے، لیکن ٹھاکر اور جاٹوں کی جنگی تیاریوں کی وجہ سے لوگ سونے کے بجائے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔ گردھاری کے دل میں ایک تشویش تھی، سوچ رہا تھا کہ گاؤں کی بساوٹ سے باہر نکل کر پوچھوں گا، لیکن اتنا صبر نہیں کر پایا اور پوچھ ہی ڈالا، ’’ چودھرائن جے پور کو رستو جانو ہوکے؟‘‘
’’نہیں جانوں۔ لوگاں سوں پوچھتا پوچھتا ہی پُوگ جاواں گا۔‘‘ چودھرائن کو پورا یقین تھا۔
جب چودھرائن نے کہہ دیا کہ لوگوں سے راستہ پوچھ کر جے پور پہنچ جائیں گے، تو گردھاری کو ماننا ہی تھا۔ لیکن جب چودھرائن نے جواب دیا، تب وہ نریش کے گھر کے برابر ہی سے گزر رہے تھے۔ وہ چائے کے لئے دودھ لینے کے لئے آیا تھا اور چودھرائن کی آواز بھلا کوئی نہ پہچانے۔ اس کے گھر کے برابر ہی سے رستہ جاتا ہے، گردھاری اور چودھرائن کے بیچ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی، تب نریش برتن سے دودھ کا کٹورا بھر کر بوتل میں ڈال رہا تھا۔ چودھرائن کی آواز سنتے ہی اس کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹا کھنّن سے۔
’’چھریرے۔۔ ۔‘‘ نریش کی ماں بلی کے بھروسے فوری طور پر کھاٹ سے اتری۔
’’میں ہوں۔۔ ۔‘‘ نریش نے دبی آواز میں کہا۔
یہ سن کر اس کی ماں تو خاموش ہو گئی اور وہ دبے پاؤں دوڑ کر چھت پر چڑھا۔ اسے چاندنی رات میں جاتا ہوا ایک اونٹ دیکھا، جس پر شاید کوئی عورت بیٹھی تھی اور نیچے ایک مرد رسی پکڑے چل رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی اس نے درست اندازہ لگا لیا تھا، کیونکہ گاؤں میں چودھرائن کے علاوہ کوئی عورت اونٹ پر چڑھتی ہی نہیں ہے اور چودھرائن کے ساتھ چودھری نیچے رسی پکڑ کر چلتا نہیں ہے۔ ظاہر طور پر گردھاری ہو گا، اتنا سوچتے ہی نریش کے قدموں کے پنکھ لگ گئے اور پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب جاٹوں کی اس سبھا میں پہنچ گیا، جہاں پر آج کچھ فیصلے ہونے تھے۔
’’اب بتاؤ، ڈونگری دادی اونٹ پر چڑھی گاؤں سوں باہر گئی ہے۔ ساتھ میں گردھاری بھی ہے۔‘‘ نریش نے پورا دم لگا کر چلاتے ہوئے خبر اچھالی۔
اتنی دھماکے دار خبر سنتے ہی سب کے چہرے کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ مختلف دھڑوں میں بیٹھے لوگ دوڑ کر نریش کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ اپنے ارد گرد جاٹوں کا اتنا بڑا جھنڈ اپنی طرف تاکتے ہوئے دیکھ کر نریش کو ایک بارگی چودھری بننے کا احساس ہو گیا۔ یہ احساس ہوتے ہی اسے لگا کہ وہ زمین سے پانچ انچ اٹھ گیا ہے اور سینہ بھی سرک رہا ہے۔ چھوٹی سی مونچھیں بھی اچانک بڑھتی ہوئی لگیں۔ آہستہ آہستہ سارا چودھری پنا اس جسم میں اترنے لگا اور وہ ہر انگ میں اس کی سرسراہٹ محسوس کرنے لگا۔ بولنے سے ٹھیک پہلے اسے لگا کہ اس کی آواز بہت بھاری ہو گئی ہے، تو زور لگانا پڑا، ’’اِتّی رات کو ڈونگری دادی اِک پرائے مرد کے ساتھ جا رہی ہے۔ سماج کی ناک چودھری پوری کوٹیگو۔‘‘
’’اب کے پھیسلو کرنوں ہے پنچوں۔‘‘ بھیڑ نے ایک آواز میں بڑے چودھریوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
ان سات چودھریوں نے خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کوئی بھی پہلے بولنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ آنکھوں کے اشاروں سے الگ جا کر رائے مشورہ کرنے کو کہا کسی ایک چودھری نے۔ ساتوں فوری طور پر اس بھیڑ سے تقریباً اسی فٹ دور جا چکے تھے۔ اب بھیڑ کو تسلی ہو گئی تھی کہ جب یہ خفیہ اجلاس کرنے گئے ہیں، تو کچھ فیصلہ ضرور ہو گا اور یہ تو یقین تھا ہی کہ کچھ بھی ہو، فیصلہ ذات کے مفاد میں ہو گا۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد اجلاس کا دور ختم ہوا اور ساتوں چودھری بھیڑ کی طرف آئے اور ایک چودھری نے کہا، ’’دیکھو ذات بھائیوں، بات یاسے کہ چودھری نے جاتی سُوں باہر کرنو ہی پڑسی۔ بنّے ٹھاکر نے بھی سلجھانا پڑے گا۔ باری باری سوں سارے کام نپٹانے ہیں۔ اب پہلو کام ہے کہ چودھرائن کی خبر کرنی کہ وہ رات کو کہاں گئی ہے۔ پنچوں نے طے کیا ہے کہ سارے بھائی چودھرائن کے پیچھے چالیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کہاں گئی ہے۔‘‘
’’پنچوں کو حکم، سر ماتھے۔‘‘ ساری بھیڑ نے ایک آواز میں کہا۔
حکم پنچوں کا تھا اور باقی تیاری نریش کو کرنی ہے تھی، کیونکہ مستقبل میں وہ بھی پنچ بننے والا ہے اور پھر حکم بھی جاری کرے گا۔ اس وقت شاید کوئی دوسرا اس جیسا جوان تیاریوں میں لگا ہو گا، یہی چکر چلے گا، جب تک ذات رہے گی۔ پوری رات نہ سونے کے با وجود بھی بھیڑ کے چہرے پر کسی قسم کی تھکاوٹ کا احساس نہیں تھا، وہ پوری تھکاوٹ ذہن میں چھپا کر ذات کو بچانے کے لیے تیار تھے۔ گاؤں میں کل پانچ ٹریکٹر تھے اور ان میں سے ایک انڈروئیر کے پاس تھا۔ لہذا تین ٹریکٹر کے پیچھے ٹرالیاں جوڑی گئیں، لوگوں نے ان میں لاٹھیاں بھی بھر لیں اور پھر سوارہو چلے۔ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ چودھرائن گئی کس طرف ہے۔ اسے گاؤں کے باہر نکلتے ہوئے نریش نے ضرور دیکھا تھا۔ ابھی قافلے کی قیادت بھی وہی کر رہا ہے۔ آگے والی ٹرالی میں نریش زور سے جے بول رہا تھا، ’’بولو بجرنگ بلی کی۔‘‘
’’جے ہو۔‘‘ ہم آواز ہو کر سارے لوگ بولے۔
چودھرائن نے گاؤں سے نکلتے ہی گردھاری کو اونٹ روکنے کا حکم دیا۔ اس نے حکم کی فوری طور پر تعمیل کی۔ دوسرا حکم آیا کہ وہ بھی اونٹ پر چودھرائن کے ساتھ بیٹھ جائے، کیونکہ تھکا ہوا تھا اور سفر تو اتنا لمبا تھا کہ دونوں کو کلومیٹروں کا بھی کوئی حساب معلوم نہیں تھا۔ گردھاری کو تھوڑی سی ہچکچاہٹ ہوئی۔
’’کِن دقت نہیں ہے۔ میں تو پیدل ہی چالُوں ہُوں۔‘‘
’’ارے باؤلے، اِتی دور پیدل چلے گا تو جان نکل جائے گی۔ آ، بیٹھ جا۔‘‘ چودھرائن نے بڑے پیار سے کہا۔
گردھاری کیلئے چودھرائن کا یہ حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا۔ اس نے اونٹ کو بٹھایا اور چودھرائن کے آگے بیٹھ گیا۔ یوں تو گردھاری نے کئی بار اونٹ کی سواری کی ہے، لیکن آج کچھ الگ ہی محسوس ہو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ صحرائی جہاز پر نہیں، ہوائی جہاز میں اڑ رہا ہے۔ چونکہ جے پور کا راستہ نہیں جانتے تھے اور سڑک پر اونٹ آہستہ بھی چل رہا تھا۔ گردھاری کو سیکر تک کا راستہ معلوم تھا اور سڑک پر کسی کے دیکھنے کا ڈر بھی اسے ستا رہا تھا۔ سو، بیکانیر سے جے پور جانے والی مرکزی سڑک کو چھوڑ کر انہوں نے کچے راستے ہی جانا مناسب سمجھا۔ کچے راستے بھی سیکر تک تین جاتے تھے۔ انہوں نے سب سے سیدھا راستہ چنا، جس پر گاڑیوں کا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ پیچھے سے آ نے والی بھیڑ ویسے تو ان سے دو گھنٹے کی تاخیر سے چلی تھی، لیکن ٹرالی سے چلنے کی وجہ سے انہیں پکڑ سکتی تھی۔ ایک دم غصے سے بھری بھیڑ اس ویرانے میں، ممکن ہے کہ دونوں کو مار دیتی، قیدی بنا لیتی یا پھر انڈروئیر کے خلاف گواہی دلوا لیتی، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے سیکر جانے کا راستہ تو کچا چنا، لیکن دوراہا چن لیا۔
چودھرائن اور گردھاری کو یہ جانکاری تو نہیں تھی کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے، لیکن ان کے ذہن میں ایک ڈر ضرور تھا۔ تو خاموشی سے ہی سواری کر رہے تھے۔ کبھی کچھ اشاروں سے باتیں ہو جاتیں، تو کبھی پھسپھساہٹ سے کام نکالا جاتا۔
ادھر ٹھاکر کی ڈیوڑھی میں ویسے ہی محفل جمی ہوئی تھی۔ جنگ کی لگ بھگ تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ یہ طے کرنا تھا کہ جنگ کا آغاز کس طرح، کہاں اور کب کیا جائے۔ ان تین سوالوں پر کوئی ایک رائے نہیں بن رہی تھی۔ شیخاوتوں کا کہنا تھا کہ جاٹوں کو گھر میں گھس کر ماریں گے۔ راٹھوروں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم بزدل نہیں ہیں، دشمن کو للکاریں گے اور جنگ میدان میں ہو گی۔ ان دونوں کے علاوہ کچھ مڑتِیا راجپوتوں کا خیال تھا کہ جیسے موقع ملے، ویسے ہی مارو۔ اسی سوال پر رات بھر سے بحث چل رہی تھی۔ کئی بار تو وہ آپس میں ہی الجھ جاتے اور تلواریں تن جاتی۔ پھر کوئی انہیں یاد دلاتا کہ آج جنگ راجپوتوں کی آپسی نہیں، جاٹوں سے ہے۔
کچھ دیر معاملہ ٹھنڈا رہتا اور پھر ویسے ہی مونچھیں مروڑی جاتیں۔ بہت سے راٹھور زیادہ پینے کی وجہ سے لڑھک گئے تھے۔ کسی کے منہ میں کتا پیشاب رہا تھا، تو کوئی گوبر میں لوٹ پوٹ رہا تھا۔ ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا۔ درمیان میں کچھ شیخاوتوں اور راٹھوروں کے بیچ رشتوں کی بات پکی ہو رہی تھی۔ اگرچہ جو رشتوں کی بات کر رہے تھے وہ بالکل نوجوان تھے اور ان کی اولاد بھی نہیں تھی، لیکن اولاد ہونے سے پہلے ہی رشتہ طے کر رہے تھے۔ کچھ نے تو ایک دوسرے کو سمدھی کہنا بھی شروع کر دیا تھا۔
بکرا پک چکا تھا۔ جو ہوش میں تھے، انہوں نے تو بوٹیاں کھا ماری، کچھ کے سالن حصے میں آیا اور کچھ مد ہوش راٹھور ہانڈی چاٹ رہے تھے۔ تقریباً چار بجے کے آس پاس سارا مجمع لڑھک چکا تھا۔
سورج نکلنے سے اجالا ہو گیا تھا۔ سارے راجپوت ریت پر سوئے ہوئے تھے۔ آس پاس کہیں کہیں ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں، جن کو کھانے کے لئے کتوں کی ایک پوری ٹیم تعینات تھی۔ کچھ کوے بھی منڈرا رہے تھے کہ انہیں بھی کچھ نصیب ہو جائے۔ کسی کا پاجامہ گوبر میں بھیگ گیا تھا، تو کسی کی دھوتی کافی حد تک کھل چکی تھی۔ بس، اب کی بار کروٹ لی نہیں کہ نروکا اور شیخاوت، سب ننگے۔ پاس سے گزرتی ایک پِنہاری گھونگھٹ اٹھا کر اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔
تبھی کسی نے یہ خبر ٹھاکروں کی حویلی میں پہنچائی کہ ٹھاکر جنگ میں جانے کی بجائے ڈیوڑھی میں لوٹ رہے ہیں۔ مونچھیں تو سب کی ریت اور گوبر سے سنی ہوئی ہیں۔ یہ سنتے ہی بنّی سنگھ کی ٹھکرائن آئی اور اسے جھنجھوڑا۔ ٹھاکر بمشکل ہوش میں آ پایا۔ آتے اس نے جو نظارہ دیکھا تو خاموشی سے اٹھ کر حویلی کے اندر بھاگا۔ آہستہ آہستہ تمام ٹھاکر اٹھ کر اندر گئے اور نہا کر پھر اسی رنگت میں آ گئے۔ بوتلیں آ گئی، محفل سج گئی اور وہی بحث شروع۔ جنگ کہاں، کب اور کیسے کی جائے۔ کچھ بیداری اور کچھ مد ہوشی کی ملی جلی کیفیت میں بھی لوگ اپنی اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ سارے لوگ تین گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک میں شیخاوت تھے جو اسی گاؤں کے تھے اور ان میں کچھ آس پاس کے گاؤں والے بھی تھے۔ دوسرے گروہ میں راٹھور تھے، جو بیکانیر اور جودھپور سے آئے ہوئے تھے اور تیسری میں میڑتا کے میڑتیا راجپوت تھے۔ نروکا غیر جاندار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارے لوگ جو بھی طے کریں گے، وہ اس کو ماننے کو تیار ہیں۔
بنّی سنگھ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ راڑ شیخاوتوں کی ہے۔ گھروں میں گھس کر ماریں گے۔‘‘
’’خالی شیخاوتوں کی نہیں ہے راڑ اب۔ ساری راجپوت ذات کی راڑ ہے۔ میدان میں بلا کر لڑیں گے۔‘‘ راٹھوروں میں سے رائے سنگھ بولا۔
پھر ویسی ہی تکرار شروع ہو گئی۔ کوئی بھی رائے نہ بننے کی وجہ سے بنّی سنگھ کے رشتہ داروں کے رشتہ دار اپنے گھر لوٹ چکے تھے۔ انڈروئیر گھر میں اکیلا شراب پی رہا تھا۔ چودھرائن اور گردھاری راستہ بھٹک گئے۔ جے پور پہنچے ہی نہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ میرا سے ملنے نہیں، مٹرگشتی کرنے گئے تھے۔ جاٹوں کا قافلہ ضرور جے پور پہنچ گیا تھا اور جب وہ میرا کے ہاسٹل میں گئے، تو گارڈ نے چائے والے کو پوچھنے کو کہا۔ ساری بھیڑ نے روہت کو گھیر لیا۔ اس نے بتایا، ’’کل رات کو میرا جے پور چھوڑ کر چلی گئی۔ یہاں آئی تھی۔ اسے فرانسیسی حکومت نے اسکالر شپ دی ہے۔ وہ جاتے ہوئی، وہی پرانا گانا گا رہی تھی۔‘‘
سانجھی سجنا پریت ہے۔
تو نہ تھانیدار۔۔
دھوڑاں ماتھے ثبوت ہیں۔
ملنے کے نشان۔
نا تو سمجھیو مویہ کو۔
نہ مے سمجھی تو یہ۔۔
نہ تن دیوں، نہ من دیوں۔
مرجی اپنا یتھی ہویہ۔۔
سانجھی سجنا پریت ہے۔
تو نہ تھانیدار۔۔
آپ کو کہیں کوئی میرا ملے تو اس لکھاری کا ”سلام” کہنا۔
٭٭٭
قسطوں میں موت
انسان روز ہی نہیں ہر پل مرتا ہے، جب وہ حتمی طور پر مرتا ہے تو دنیا کو لگتا ہے کہ فلاں مر گیا۔ لیکن روزانہ جو قسطوں میں مرتا ہے اس کا کیا؟
راجستھان کے ریگستان میں ٹیلوں کے پیچھے اتنے گاؤں اور ڈھانیاں (گاؤں کا چھوٹا روپ) بکھرے پڑے ہیں کہ اگر سمیٹنے لگو تو ایک متوازی دنیا تیار ہو جائے گی۔
ان ٹیلوں کے درمیان ایک ایسا ہی گاؤں تھا کرم لیکا۔ ایک طرف سڑک اور تین اطراف ریت کے پہاڑ، جن پر کہیں کہیںک جنڈ کے پرانے درخت اپنے وجود کی آخری جنگ لڑ رہے تھے۔ اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر پیما پٹیل نے اپنا فیصلہ دیا تھا۔ اس جنڈ کے درخت کی آخری ٹہنی تک کوئی چڑھ جائے، تو اس کے ساتھ گاؤں کی کسی لڑکی کی شادی کر دیں گے۔ لیکن آج تک کوئی بھی نہیں چڑھ پایا۔ ایسی کئی کہانیاں ہر درخت کے ساتھ منسلک تھیں۔ آج ان کہانیوں کے کرداروں کو کوئی نہیں جانتا، مگر لاکھوں یادوں میں وہ اس قدر بیٹھے ہوئے ہیں کہ روز ایک نئی کہانی پیدا ہو تی ہے۔
یہ گاؤں صرف یہ کہنے بھر کو ہی گاؤں نہیں، اصل میں بھی گاؤں ہے۔ گلیوں میں کولتار کی سڑکوں کی جگہ کچی اینٹوں کا راستہ دیکھ سندھو گھاٹی کی تہذیب کی یاد آ جاتی ہے۔
بیر سنگھ اور اس کا باپ ہیر سنگھ، دونوں مر گئے۔ جب ہیر سنگھ مرا، تو ۱۵۰ بیگھہ زمین کا اکلوتا وارث بیر سنگھ کو چھوڑ گیا۔ کبھی کبھی زیادہ جائیداد بھی انسان کو کام چور اور نکما بنا دیتی ہے۔ پھر بیر سنگھ کس کھیت کی مولی تھا؟ اس نے ہوش سنبھالتے ہی طے کر لیا تھا کہ ہاتھ پاؤں ہلانا گدھے کا کام ہے اور وہ گدھا نہیں ہے۔ بس، اسی سوچ کی وجہ سے وہ جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا، یعنی زمین بیچ کر گزارا کرنا شروع کر دیا۔ جب ضرورت ہوتی ایک دو بیگھہ زمین بیچ دیتا۔ اور اس کی لگاتار ضرورت بھی پڑتی رہی۔
وہ صبح اٹھتے ہی کھیت کی طرف رفع حاجت کے لئے جاتا، واپس آتے وقت راستے میں دو پوا دیسی ٹھرکا دیتا۔ بیر سنگھ اتنا ہی کام کرتا، باقی دن بھر جو کرنا ہوتا، دارو کر دیتی۔
اس نے پچاس سال کی عمر میں پچاس بیگھہ زمین ختم کر لی اور خود کو بھی۔ اس کے مرنے سے کرم لیکا گاؤں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی سوائے بیر سنگھ کے کھیت میں تین مورتیوں کے قیام کے۔ اس کے پانچ بیٹے ہیں، جن کے نام گنانے سے بہتر ہے کہ انہیں نمبر ہی پہچانا جائے کیونکہ پھر کہانی میں اتنے ’’سنگھ‘‘ہو جائیں گے کہ قاری سمجھ نہیں پائیں گے۔ ایک نمبر بڑے والا، دو نمبر اس سے چھوٹے والا۔ باقی بھی اسی ترتیب میں۔
گاؤں کے شمال میں ایک طرف سڑک تھی اور دوسری طرف نہر، ان دونوں کے درمیان وہ کھیت تھا جسے بیر سنگھ اپنی تمام کوشش کے بعد بھی فروخت نہیں کر پایا اور اسی میں اس کے بیٹوں نے تین مورتیاں بنا دیں۔ ایک مورتی ہیر سنگھ کی، دوسری بیر سنگھ کی اور تیسرا خالی چبوترہ۔۔ ۔
پاس جانے پر پتہ چلتا ہے کہ مورتیاں سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہیں۔ دو چبوتروں پر دو مرد مونچھوں پر تاؤ دے رہے ہیں اور تیسری فقط چبوترہ۔
اسی خالی چبوترے کو دیکھ کر اُچت کا دماغ چکرا گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ وہ بائیس سال کا نوجوان تھا، لیکن عجیب عادتوں کا دھنی۔ فطرتاً گھمکّڑ۔ خالی جیب۔ نہ کمانے کی فکر اور نہ ہی کچھ کھونے کا ڈر۔ نتیجہ یہ تھا کہ کب کس کے یہاں ٹپک جائے، طے نہیں تھا۔
اسٹیشن پر پہنچ کر فون کرے گا کہ میں تیرے شہر میں آ گیا، لینے آ جاؤ۔ ایسے ہی اس گاؤں کا بھی نمبر آ گیا۔ لیکن اس خالی چبوترے کو دیکھ کر تو اس کا دماغ چکرا گیا کہ یہ کیا؟ جب نزدیک گیا تو تینوں چبوتروں پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ ایک پر ہیر سنگھ کی تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات، دوسرے پر بیر سنگھ کی تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات۔ مورتی کو دیکھ کر کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ بیر سنگھ دارو پی کر مرا ہے۔ پتھر کتنا کچھ چھپا لیتے ہیں اور کتنی چیزیں بیان بھی کر دیتے ہیں۔ اب تیسرا چبوترا تھا، جس پر بیر سنگھ کی بیوی رُکما کا نام، تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات۔ یہ کیا!
’’بیر سنگھ اور رُکما کی وفات کی تاریخیں ایک ہی! کیا دونوں ایک ہی دن مرے تھے؟ اگر ایسا تھا تو رُکما کی مورتی کہاں ہے؟ مورتی نہیں رکھنی تھی تو چبوترہ کیوں بنوایا؟‘‘
ایسے بہت سے سوالوں نے اُچت کو گھیر لیا۔ جھولے میں سے پانی کی بوتل نکال کر اس نے پانی پیا۔ سوچا، ایک فوٹو لے لوں۔ خیال آیا کہ ابھی حقیقی کہانی تو جان لے۔ کیمرے واپس جھولے میں رکھا اور آ کر نہر کے کنارے بیٹھ گیا۔
شام ڈھل رہی تھی۔ لوگ کھیتوں سے واپس آ رہے تھے۔ اُچت کے دماغ میں وہ حل طلب سوالات موم کی طرح منجمد تھے، جنہیں ایک آنچ کی ضرورت تھی کہ پگھل کر بہہ سکیں۔
راستے سے اونٹ گاڑیوں کا ریلا آ رہا تھا، جن پر بیٹھے رنگ برنگے کپڑے پہنے عورت مرد، قوس و قزح بناتے ہوئے، پسینے کی بو بکھیر رہے تھے۔ ایک، دو، تین۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ لمبی لائن تھی۔ لائن کے آخر والی اونٹ گاڑی جب نہر کے اوپر واقع پل سے گزری تو اُچت اس کے پیچھے ہو لیا۔ یہ سب کسان تھے جو کھیتوں سے واپس آ رہے تھے۔ اسے یہ رس بھری زندگی پسند تھی جو رات بھر سینچے رس کو صبح کھیت میں بکھیرتی ہو اور دن بھر اکٹھا کیے رس کی گرمی کو شام کو گھر لاتی ہو۔ زمین اور کسان۔ ایک دوجے کے لئے۔
بیر سنگھ کی حویلی گاؤں کے اہم مقام میں مشرق کی طرف تھی۔ حویلی اتنی بڑی تھی کہ پانچوں بیٹوں کے لئے کافی۔ پانچوں اسی میں رہتے تھے۔ رہتے کیا تھے، وہ ایک طرح سے اکھاڑہ تھی، جس میں آئے دن کوئی نہ کوئی دنگل چلتا رہتا تھا۔ گاؤں والوں کے پاس یہ ایک مستقل تفریح کا ذریعہ تھی۔ جن کی چھتیں پاس میں تھیں، وہ بالکنی سے لطف اٹھاتے تھے۔ باقی دیواروں پر چڑھ کر کام چلاتے۔ اُچت کچھ دن یہیں رکنے کی ٹھان چکا تھا۔ رہنے کے لئے اس گاؤں کا وہ ڈا کیا بجرنگ تھا ہی۔ بجرنگ پوسٹ آفس کے قریب ایک کرایہ کے کمرے میں رہتا تھا، جس میں اُچت بھی دو دن سے رہ رہا ہے اور اب تو یہ بھی طے ہو گیا ہے کہ وہ آگے سات مہینے یہیں رہے گا۔ یہ اس نے خود طے کیا تھا، پورے ہوش و حواس میں۔
ڈا کیا کے کمرے میں ایک چارپائی تھی، کسی سے ادھار لی ہوئی۔ کچھ کھانے پینے کے برتن تھے۔ اُچت کے مطابق کام بھر کا سامان تھا۔ چیزیں سب درہم برہم تھیں، جیسے عام طور پر کنواروں کے کمروں میں ہوتی ہیں۔ اس کمرے کی ایک خوبی اس کے بہت کام آئی کہ پیچھے ایک کھڑکی تھی جو بیر سنگھ کی حویلی کے پچھواڑے کی طرف کھلتی تھی۔ یعنی وہ اکھاڑہ تو نہیں لیکن پسِ پردہ دیکھ سکتا تھا۔ اس کیلئے پسِ پردہ ہی ضروری تھا۔ وہ وہیں سے بیر سنگھ کی بیوی رُکما کے ہرسرگرمی کو دیکھ سکتا تھا۔ پانچوں بیٹوں نے مل کر پیچھے جانوروں کو باندھنے کی جگہ رُکما کے رہنے کا بندوبست کر دیا تھا۔ انتظام کیا تھی، چھ اینٹوں سے ایک چولہا بنا دیا گیا تھا۔ ایک ٹوٹا ہوا کھاٹ اور ڈھکن والے پیپے میں آٹا، نمک اور مرچ۔ ایک توا اور چبھی رُکما کو نصیب ہوا۔
ہاں، ایک چیز اور تھی، ’’مورتی‘‘۔
رُکما کی سفید سنگ مرمر کی مورتی جو بیر سنگھ کے مرتے ہی دونوں کی ساتھ ہی بنوا دی تھی۔ رُکما کا خالی چبوترہ کھیت میں تھا اور مورتی گھر میں اس کے مرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ یعنی رُکما آدھی کھیت میں اور آدھی گھر میں۔
’’ایک انسان کے سامنے اس کی موت کا انتظار کرتا ہوا پتھر ہو تو کیسے جیتا ہو گا وہ؟‘‘ اُچت اس کھڑکی میں بیٹھا ہوا اکثر یہی سوچتا تھا۔
رُکما کے پاس ہی بھینس اور بکری کو باندھا جاتا تھا۔
وہ صبح اٹھتے ہی اس مورتی کو دیکھتی، دوپہر کو دیکھتی، شام کو دیکھتی اور رات کو دیکھتی یعنی چوبیس گھنٹے میں چار بار دیکھتی۔
ایک دن بھینس نے کھونٹا توڑ دیا۔
بیٹا نمبر ایک بولا، ’’دن بھر پڑی رہتی ہے، ایک کھونٹا ٹھیک سے نہیں گاڑ سکتی۔‘‘
اب رُکما چوبیس گھنٹے میں مورتی کو دو بار زیادہ دیکھنے لگی۔ ایسے ہی دیکھتے دیکھتے روز کوئی گھر کا فرد اسے کچھ کہہ دیتا اور رُکما کا غصہ مورتی پر اترتا۔ اُچت خاموش تماشائی تھا۔
ایک دن صبح صبح بیٹا نمبر پانچ کے پاس کوئی مہمان آیا ہوا تھا اور رُکما کے پاس ماچس ختم ہو گئی۔ وہ ماچس لینے حویلی میں چلی گئی۔ اسے دیکھتے ہی پانچ نمبر بیٹے کو غصہ آ گیا، ’’ہم نے تو مرنے سے پہلے مورتی بھی بنوا دی، مگر یہ مر کر پیچھا چھوڑے تب نہ! مہمان آیا ہوا ہے اور آ گئی اپنی منحوس صورت دکھانے۔‘‘
رُکما کے پاؤں وہیں رک گئے، اب ماچس میں کیا رکھا تھا۔
تیز قدموں سے وہ گھر کے پچھواڑے آئی اور دیوار کا سہارا لے کر وہ ایک ٹک اس مورتی کو دیکھنے لگی۔ صبح سے شام تک ویسے ہی دیکھتی رہی۔ ایک طرف زندہ عورت، جو مورتی جیسی کھڑی تھی اور ایک طرف مورتی، جو زندہ عورت کی تھی۔
اُچت کو لگا کہ اب شاید کہانی ختم ہو جائے، مگر کہانی کا اختتام کچھ اور ہی تھا۔ رُکما رات بھر بھی ویسے ہی کھڑی رہی، بیٹوں کو تو کچھ لینا دینا تھا نہیں، دوسرے اس معاملے میں بھلا کیوں پڑتے؟ دوسرے دن بھی ویسے ہی۔ اُچت کہانی کے ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا، مگر کہانی ختم نہیں ہو رہی تھی۔
اب اس سے نہیں رہا گیا، ’’ایک عورت میری آنکھوں کے سامنے ظلم سے تنگ ہے اور میں کہانی لکھ رہا ہوں؟‘‘
ڈائری میں اتنا ہی لکھا ہوا ہے باقی میں اپنی یادداشت کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔
اُچت نے جا کر رُکما کو بولا، ’’آپ دو دن سے کھڑی ہیں۔۔ ۔‘‘
کوئی جواب نہ ملنے کی وجہ سے اس نے سوچا کہ شاید کم سنتی ہو گی، زور سے کہا۔ مگر جواب کہاں تھا؟
اس نے کان میں زور سے کہنے کے لئے ہاتھ پکڑا۔۔ ۔ دھڑا۔۔ ۔ م!
وہ تو کب کی مر گئی تھی، ہلتے ہی گر گئی!
اُچت کچھ سمجھ پاتا اس سے پہلے ہی ایک سے پانچ نمبروں تک کے بیٹے آئے اور اسے پکڑ لیا کہ اس نے ان کی ماں کو مارا ہے۔
پولیس آئی۔ اسے تھانے لے گئی۔
مقدمہ چلا تو اُچت ایک ہی بات کہہ رہا تھا، ’’انسان خود نہیں مرتا، دوسرے لوگ مار دیتے ہیں۔‘‘
جج جو بھی سوال پوچھتا، جواب یہی تھا۔
میں نے بھی اُچت کی بات کو سمجھانے کیلئے یہ کہانی لکھی، مگر جج صاحب بولے، ’’قانون قصے کہانیوں کو نہیں مانتا، ثبوت مانگتا ہے۔‘‘
ڈا کیا کہاں سے ثبوت لاتا؟
ایمان کو بنیاد مان کر جس ملک میں فیصلے آ رہے ہیں، وہاں کہانی تو چلنی ہی چاہئے تھی، کیونکہ وہ بہت مضبوط دلیل اور وژن پیدا کرتی ہے۔ شاید جج صاحب چیزوں کو سمجھ جائیں، فیصلے کا انتظار ہے۔
٭٭٭
نیا دھندہ
’’چلو ایک افسانہ بُنتے ہیں۔‘‘
ہم چار دوستوں کے درمیان منجیت وا (ویسے تو سنگھ تھا) کسی کے بولنے کا نمبر ہی نہیں آنے دیتا تھا۔ چار لائن کسی مصنف کی یاد کر لاتا اور ہر بار کی طرح بحث میں نان اسٹاپ ایک گھنٹے تک بولتا رہتا۔ آج بھی شروع گیا۔
’’ہم مارواڑی بنیوں کے بارے میں تو نہ جانے دنیا میں کتنی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں ہیں۔ جھاڑکھنڈ کے قبائلیوں کو لوٹا، شمال مشرقی علاقوں میں استحصال کیا اور عورتوں کی عصمت دری وغیرہ وغیرہ۔ رام رام میں ایک نمبر کا دھندے باز آدمی ہوں، ان باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ رام گڑھ میں کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ سیٹھ گنگا ساگر کتنے بھلے آدمی ہیں۔ ارے بھائی صاحب، میں نے تو جنگل میں پانی کا حوض بنوایا، امیروں کیلئے دھرم شالا بنوایا۔ آپ ہی بتائیے کہ بنیوں سے زیادہ غریب کون ہے دنیا میں؟ پر بھلائی کا تو صاحب زمانہ ہی نہیں رہا۔ کسی کو دو روپے کیا دے دیئے کہ لوگ آپ کے تعلقات اس کی جورُو سے جوڑ لیں گے۔
بڑبولا آدمی ہوں اور آپ شاید یقین نہ کریں کہ گنگا ساگر میں کتنی خوبیاں ہیں۔ پھر بھی بتا دیتا ہوں اپنی کامیابی کا راز۔ میرا بھی ہاضمہ درست ہو جائے اور آپ کا۔۔۔ خیر، میں ہمیشہ ’’نیا دھندہ‘‘ کرتا ہوں۔ اپنے بھیجے میں پرانا دھندہ سیٹ ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں ماں کی موت ہوئی تھی، ہردوار کا بہانہ بنا کر یورپ جا پہنچا۔ کچھ سائنسدانوں سے سیٹنگ کر کے آیا، کبھی نئے دھندے میں کام آئیں گے۔ یہ تو ہوئی صاحب میری تعریف۔
گھر اپنا رام گڑھ میں ہے۔ وہی رام گڑھ جو راجستھان میں ’’سیٹھانا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘
اتنا سننے کے بعد مجھے لگا کہ یہ منجیت وا یوں ہی بک بک کر رہا ہے۔ اتنی آسانی سے کوئی شخص گنگا ساگر اپنی حقیقت تھوڑے ہی قبول کرتا ہے۔ کسی کی کہانی چار لائن یاد کر کے بقراطی جھاڑ رہا ہے۔
’’لگتا ہے اسی خاکسار نے افسانہ لکھ مارا۔‘‘ میں نے سوال کے بجائے جواب ہی سنا دیا۔
’’یقین کرو، سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
۔۔ ۔۔ اور میں نے یقین کر لیا۔
’’تو کہاں تھا میں؟‘‘
’’منجیت صاحب، آپ کسی گنگا ساگر کے رام گڑھ تک پہنچ گئے تھے اور اسی کے منہ سے مجھے پورا افسانہ سننا ہے، تمہارا کہیں بھی ذکر نہیں آنا چاہئے۔‘‘ میں اچٹ چکا تھا۔
تو سنو۔
’’رام گڑھ میں ایک بار گوشت کا کاروبار کیا تھا۔ ہرن تک کا گوشت کھلایا ان غیر ملکی سیاحوں کو۔ پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی بیک ورڈ ہیں۔ اس دھندے کو لے کر اتنا ہنگامہ ہوا کہ سارے بنیوں نے مل کر مجھے ’’جات باہر‘‘ کر دیا۔ رام رام اپنے مرے ہوئے دادا کی حویلی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک دن ساری دنیا کو فارورڈ بن کر دکھاؤں گا۔
رام گڑھ سے لے کر جے پور تک چھان مارا، لیکن کوئی دھندہ ہی نہیں ملا، گڑ، شکر اور وہی دھوتی کرتا بیچا جا رہا ہے۔ لیکن انسان جگاڑی ہوں اور کوئی طریقہ نکال ہی لوں گا۔
میرے شہر کے ہر بنئے کی مارکیٹ میں کم از کم ایک دکان ضرور تھی۔ لیکن میں نے نئے دھندے کی تلاش میں ساری بیچ دیں۔ یہاں کی حویلیوں کی عظمت کو دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم لوگ کتنے امیر تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر منجیت نے اپنے پرانے انداز میں سگریٹ نکال کر سلگائی۔
’’یار منجیت، تیرا یہ گنگا ساگر افسانے کو بہت کھینچتا ہے، ذرا فیس بک اسٹائل میں سنا دو نا۔‘‘ آج میرے پاس بھی وقت کا فقدان تھا۔
’’بیرون ممالک میں راجستھانی ہینڈی کرافٹ کا بڑا کریز ہے، ہر بنیا اسی کام میں ہاتھ آزما رہا ہے۔ پہلے پہل تو اسے بھی یہ خیال ٹھیک لگا۔ لیکن گزشتہ دنوں جب یورپ جانا ہوا تو یہ خیال بھی جاتا رہا۔ یوروپین یہاں سے نمونے لے جاتے ہیں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں ویسے ہی پیس مشینوں میں تیار کر لیتے ہیں۔ گنگا ساگر کو یہ دھندہ بھی راس نہیں آیا۔
اچانک رام گڑھ پر ایسا ہنگامہ برپا کہ ساری بنیا برادری میں ہاہاکار مچ گیا۔ ’’ایف ڈی آئی‘‘ آ رہا تھا۔ تب سب کو گنگا ساگر یاد آیا۔
جو راستے میں ملتے ہی منہ موڑ لیتے تھے، آج میرے پاس آ کر بکرے کی مانند ممیا رہے تھے، ’’ سیٹھ جی، چلنا ہی پڑے گا، آپ ہی مائی باپ ہیں۔‘‘
’’آناً فاناً بنیوں کی میٹنگ بلائی گئی۔ رام رام سب کا برا حال تھا۔ ایک ہاتھ کی توند نکلنے کے باوجود بھی سبھی غذائی قلت کے شکار نظر آ رہے تھے۔‘‘
منجیت وا نے ایک منٹ کا بریک لیا اور فیس بک چیک کی۔ مجھے تو پوری کہانی سننی تھی، انتظار کرتا رہا کہ کب منجیت سنگھ لب کھولے اور۔۔ ۔
’’شام کو سیٹھ دوارکا پرساد کے گھر میں میٹنگ ہوئی۔‘‘میزبان نے کہا، ’’بھائیوں، سیٹھ گنگاپرساد کو واپس برادری میں شامل کر کے ہم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ اب ہماری لاج ان کے چرنوں میں ہے۔‘‘
گلا بیٹھا ہوا تھا، گنگا ساگر نے کم بولنا ہی مناسب سمجھا۔
’’برادروں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہیں۔ میں نے کل دہلی جا کر حکومت کے سامنے اپنی مانگ رکھوں گا۔ وزیر جی سے صلاح مشورہ کر کے کوئی حل نکالیں گے۔‘‘
ان کے پاس میری بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اپنی محنت، ملاوٹ کی کھری کمائی سے چندہ کر کے میرے دہلی جانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔‘‘ اتنی کہانی کہنے پر منجیت وا کا فون آ جاتا ہے۔ اس کوبجلی سا جھٹکا لگا۔ دو تین بار ”یس سر ” کرنے کے بعد وہ پنکھ لگا کر دوڑا۔ میں نے صرف اتنا ہی سنا۔
’’سیٹھ کو دہلی پہنچا دیا ہوں۔ آگے کا افسانہ بُن لینا۔‘‘
سردی کا موسم ہے اور بنیا سردی اور چور کے علاوہ بھلا ڈرا ہے کسی سے آج تک۔ مست فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرنے اور خالص مانساہاری کھانا (معاف فرمائیں، میں رام گڑھ سے باہر خالص مانساہاری ہو جاتا ہوں )کا انتظام تھا۔ لیکن رام رام بنیا تو بنئے کو بھی لوٹ سکتا ہے۔ کس سالے کو وزیر، مشیر سے ملنا تھا، آپ کو تو نئے دھندے کی تلاش تھی۔ صبح اٹھتے ہی گرم مرغا کھایا اور انگریزی دیوی کی پوجا کی۔ مانس والی تجارت کرنے کے بعد سے انگریزی لغت کی پوجا کرتا ہوں۔ اسی لئے تو یورپ میں بھی دھڑ دھڑا کر انگریزی بول لیتا ہوں۔ خوب بکتا تھا ہرن کا گوشت اور من مانگا پیسہ۔ اگر شکاری منع نہیں کرتے تو اب تک لندن میں تاج محل بنوا دیتا۔ اُنہیں کی مت ماری گئی۔
بولے، ’’سب جانور مر جائیں گے تو ہم کھائیں گے کیا؟‘‘
وہ سب اسی طرح کنگال ہیں۔ اپنا کیا، کوئی دھندہ نکال ہی لیں گے۔
ہوٹل سے نکلا تو گیٹ پر ایک پولیس والا مل گیا۔ بالکل تمتمایا ہوا۔ آپ نے سپاہی کو اس رنگ میں کبھی نہیں دیکھا ہو گا، میں نے تو کم از کم نہیں دیکھا۔
میں نے پوچھا، ’’ارے بھئی، صبح صبح ایسی منحوس صورت کیوں بنا رکھی ہو؟ لگتا ہے پرساد، ورساد نہیں ملا۔‘‘
’’ایسی کی تیسی پرساد کی۔ یہاں جان پر آفت آئی ہوئی ہے۔ تیرے کو پرساد سوجھتا ہے۔‘‘ پولیس اہلکار کی آواز میں شدید درد تھا۔
’’کچھ ہمارے قابل کوئی کام ہو تو بتانا۔‘‘ جب درد ہی پوچھ لیا، تب ڈھارس بھی دینی پڑی۔
’’جس حکومت کی نوکری کرتے ہیں وہی دشمن بن گئی ہے۔ اب ”ایف ڈی آئی” آ رہا ہے۔ یہ ریڑی ٹھیلے والے سب رفوچکر ہو جائیں گے۔ ہمارا کام کیسے چلے گا؟ کچھ وصولی ہو جاتی تھی تو بچے پل رہے تھے۔‘‘ سپاہی درد سنا کر ہلکا ہو گیا جیسے۔
میں گاڑی میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ بیچارے سپاہی کا درد بھی رام گڑھ کے سیٹھوں سے کسی بھی معنی میں کم نہیں ہے۔ ریڑی ٹھیلے والے بھوکے مریں تو مریں، مگر پولیس کا خیال رکھنا تو حکومت کا فرض ہے۔
اچانک اچھی بات آئی، ’’پولیس والا بھی بھاڑ میں جائے، اپنے کو تو نیا دھندہ تلاش کرنا ہے۔‘‘
دہلی میں بہت خاک چھانی صاحب۔ گلی گلی بھٹکا پر دھندہ ملا ہی نہیں، لیکن جو ہار مان لے اس کا نام ”گنگا ساگر ” ہو ہی نہیں سکتا۔ ارد گرد کے صنعتی علاقوں میں بھی گیا۔ وہاں بھی وہی تیل صابن فروخت کیا جا رہا تھا۔ جب تیل صابن ہی بیچنا تھا تو اپنا رام گڑھ کون سا برا تھا۔
رام گڑھ سے بار بار فون آ رہا تھا، ’’وزیر جی سے بات ہوئی؟‘‘
میں نے کہا، ’’ہم لوگ کوئی حل نکال رہے ہیں۔ وزیر جی بول رہے تھے کہ آپ کے رام گڑھ میں مول نہیں کھلے گا۔‘‘
’’کچھ بھی ہو معاملہ نمٹ جانا چاہیے۔ آپ وہیں رک جائیں، ہم نقدی بھیج دیں گے۔‘‘
نئے دھندے کی تلاش میں ایک دن پارلیمنٹ کی طرف آ گیا۔ شاید یہاں کوئی دھانسو خیال آ جائے۔ جب جنتر منتر پہنچا تو ما تھا ٹھنک گیا۔ وہاں تو ویسے ہی خیالات کا قحط پڑا ہوا ہے۔ ریلی، دھرنے کے بغیر پارلیمنٹ کے اندر نیا خیال جاتا ہی نہیں ہے۔ ایسے میں انسان تھوڑا مایوس ہو ہی جاتا ہے۔ سست قدموں سے کانسٹیٹیوشن کلب کی طرف آ گیا۔ وہاں ایک پروگرام کا بینر لگا ہوا تھا، موضوع تھا۔ جمہوریت کا بحران۔
’’ارے باپ رے! رام گڑھ کے بنیوں سے لے کر جمہوریت تک، سبھی بحران میں ہیں۔ پھر بھی دیکھ لیا جائے کہ آخر جمہوریت کا بحران کیا ہے؟‘‘
پروگرام مقر رہ وقت سے گھنٹے بھر کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ہال میں چودہ لوگ موجود تھے۔ چار نیتا جی کے چمچے، چار آرگنائزر، ایک خود نیتا جی اور پانچ ہم پھوکٹ میں کھانا کھانے والے۔ نیند آنے کی وجہ سے پوری تقریر تو نہیں سن پایا۔ ہاں، نیتا جی نے آخر میں کہا تھا، ’’جمہوریت کا بحران یہی ہے کہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں۔ کبھی کبھار تو خالی ہال میں ہی تقریر کرنی پڑتی ہے۔‘‘
پروگرام ختم ہونے کے بعد باہر نکلتے ہی سیٹھ دھوتی کا کنارا پکڑ کر چلایا، ’’بیٹا گنگا ساگر، یہی نیا دھندہ ہے۔‘‘
سرکاری اسکیم تو تھی نہیں۔ اس لئے فوری طور پر پلان بنا اور پاس ہوا۔ دہلی میں ایک بڑا سا ہال بنوایا جس میں دو سو نشستیں تھی۔ بالکل جدید سہولیات پر مشتمل۔ یورپ میں بہت سے سائنسدان جاننے والے تھے ہی۔ ان سے ایک سو اسی رو بوٹ منگوائے۔ ہال میں بیس سیٹیں تو خالی بھی رہنی چاہیئیں، لوگ کل کو شک کر سکتے ہیں۔ اسی رو بوٹ عورتوں کے چہرے کے اور سو مردوں کے چہرے کے۔ عمر، رنگ، قد سب کا مناسب بنایا گیا تھا۔
اب دھندہ شروع ہوا۔ کسی لیڈر کو تقریر کے لئے بلایا جاتا۔ نیا نیا دھندہ ہے، ریٹ پانچ لاکھ فی تقریر کرنا پڑا۔ میڈیا کو بھی مینج کر دیا۔ ایک طرف عورت رو بوٹ اور ایک طرف مرد رو بوٹ کو بیٹھا دیا جاتا۔ سب کا ریموٹ کنٹرول میرے ہاتھ میں۔ جوں ہی نیتا جی ہال میں داخل ہوتے، میں بٹن پریس کر دیتا اور سب کھڑے ہو جاتے۔ بھیڑ دیکھ کر نیتا جی گدگدا جاتے۔ تقریر شروع کرتے تو میں اس کی سامنے والی لائن کی آگے والی عورت کو ہلکا سی ہنسا دیتا۔ نیتا جی کا سارا خون گالوں پر آ جاتا۔ اگر میں واپس بٹن دبا کر اس عورت کی مسکراہٹ بند نہیں کرتا تو شاید خون باہر بھی آ سکتا تھا۔ ہر پانچ منٹ پر جیب میں ہاتھ دے کر سبز والے بٹن سے تالیوں کی گڑگڑاہٹ کرانے میں مجھے بڑا مزا آتا۔ اجتماع ختم ہونے پر جب نیتا جی جانے لگتے تو پھر سب کھڑے ہو جاتے۔ وہی سامنے والی سیٹ کی عورت کھڑی ہو کر ہاتھ ملاتی۔ نیتا جی زندگی میں اتنے ہاتھ ملا چکے ہیں کہ اب انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ مشین کا ہاتھ ہے یا انسان کا۔
گیٹ پر چار پہلوان بیٹھا دیئے ہیں۔ کوئی بھی بغیر اجازت کے اندر نہیں آ سکتا۔ میڈیا میں بھرے ہوئے ہال میں نیتا جی کی تقریر کرتی ہوئی تصویر آتی۔ میرے پانچ لاکھ پکے۔ فوری طور پر بات پھیل گئی۔ مانگ بڑھنے لگی تو ہر ریاست میں سینٹر کھلوانا پڑا۔ دہلی میں حال یہ ہے کہ وزراء کے علاوہ کسی کی باری ہی نہیں آتی۔ ایڈوانس بکنگ رہتی ہے۔ انتخابات یا بجٹ کے سیزن میں تو ریٹ بھی بڑھانے پڑتے ہیں۔
پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انگریزی دیوی کی کرپا ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں ٹھہرا پاگل آدمی۔ اب یہ دھندہ بھی پرانا لگنے لگا۔ لیکن نیا دھندہ بھی تلاش میں رکھا ہے۔ ایک پارٹی بنا کر ان رو بوٹوں کو الیکشن لڑواؤں گا۔ پیسوں کی کمی نہیں ہے اور بنیا آدمی ہوں، حکومت بنا لوں گا۔ رو بوٹ پارلیمنٹ میں رہیں گے اور ریموٹ میری جیب میں۔
٭٭٭
ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ جاٹ
’’محبت کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’محبت کرنے والوں کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’سندیپ میل کو بھی پھانسی دے دو۔‘‘
’’سندیپ میل کو پھانسی کیوں؟‘‘
’’کیونکہ وہ جاٹ ہے۔‘‘
’’جاٹ تو ہم بھی ہیں۔‘‘
’’لیکن وہ جاٹ ہو کر محبت کرتا ہے، اس لئے اسے پھانسی دے دو۔‘‘
’’کھاپ پنچایت کے حکم کے مطابق محبت کو پھانسی دے دی گئی ہے۔‘‘
’’محبت کرنے والوں کو بھی پھانسی دے دی گئی ہے۔‘‘
’’سندیپ میل کا کیا ہوا؟‘‘
’’وہ بل میں گھس گیا ہے۔‘‘
’’باہر نکالو اسے۔‘‘
’’وہ باہر نکل ہی نہیں رہا ہے۔‘‘
’’بل پر کھاپ پنچایت کا پہرہ بٹھا دو۔ جب بھی وہ باہر نکلے، پکڑ کر پھانسی دے دو۔‘‘
’’محبت۔‘‘
’’مردہ باد!‘‘
’’محبت کرنے والے۔‘‘
’’مردہ باد!‘‘
’’کھاپ پنچایت۔‘‘
’’زندہ باد!‘‘
’’سندیپ میل۔‘‘
’’وہ بل میں گھس گیا ہے اور بل کے منہ پر کھاپ پنچایت کا پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔‘‘
’’چودھری صاحب کا حکم ہے کہ بل سے باہر نکلتے ہی اسے مردہ باد میں تبدیل کر دو۔‘‘
’’سندیپ میل جاٹ کیسے ہوا؟‘‘
’’یہ تو وہی بتا سکتا ہے۔‘‘
’’لیکن وہ تو بل میں گھس گیا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پیدا کرنے والے سے پوچھو؟‘‘
’’ان کو سورگ نصیب ہو گئی۔‘‘
’’ان سے اوپر کوئی پیدا کرنے والا رہا ہو گا، اس سے پوچھو۔‘‘
’’ان سے اوپر خدا ہے، کیا خدا سے پوچھا جائے؟‘‘
’’خدا کی ذات کیا ہے؟‘‘
’’صاحب، خدا کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔‘‘
’’تب وہ بالکل فیصلہ نہیں کر سکتا ہے، ہمارا فیصلہ ہماری ذات کا کرے گا۔‘‘
’’ہماری ذات کا کون کرے گا؟‘‘
’’چودھری صاحب، وہ ہماری ذات کے خدا ہیں۔‘‘
’’چودھری صاحب۔‘‘
’’زندہ باد!‘‘
’’خدا۔‘‘
’’مردہ باد!‘‘
’’سندیپ میل۔‘‘
’’وہ بل میں گھس گیا ہے۔۔ ۔‘‘
’’صاحب ساری مصیبتیں حل ہو گئیں۔‘‘
’’ہماری ذات میں کوئی بھی محبت نہیں کر رہا ہے۔‘‘
’’لیکن اس سندیپ میل کا کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ لکھتا ہے۔‘‘
’’لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’لکھنے سے لوگ پڑھتے ہیں اور لوگوں کے دماغ میں محبت بھر جاتی ہے۔‘‘
’’لوگوں کے دماغ کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’صاحب، دماغ کو پھانسی نہیں دی جا سکتی ہے۔‘‘
’’دماغ کو پھانسی کیوں نہیں دی جا سکتی؟‘‘
’’کیونکہ دماغ کا گلا نہیں ہوتا ہے۔‘‘
’’چودھری صاحب کا حکم ہے کہ ہماری ذات میں پڑھنے پر پابندی ہے۔‘‘
’’کتابیں جلا دو۔‘‘
’’اب تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔‘‘
’’خاتمہ نہیں ہوا۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’لوگ شادی کر رہے ہیں۔‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
’’وہ شادی میں ذات کو نہیں مانتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بڑی گڑبڑ ہے۔‘‘
’’کچھ بھی کرو ہماری ذات مقدس رہنی چاہئے۔‘‘
’’چودھری صاحب کا حکم ہے کہ ایسی شادی کرنے والوں کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
’’شادی کرنے والوں کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’شادی کو ہی پھانسی دے دو۔‘‘
’’سندیپ میل کو بھی پھانسی دے دو۔‘‘
’’اسے کیوں؟ ‘
’’وہ بھی شادی میں ذات کو نہیں مانتا۔‘‘
’’شادی کرنے والوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔‘‘
’’بہت درست کیا۔‘‘
’’شادی کو ہی پھانسی دے دی۔‘‘
’’اس سے بھی درست کیا۔‘‘
’’اب ذات کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن سندیپ میل کا کیا ہو گا؟‘‘
’’لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے پھانسی کیوں نہیں دی گئی۔‘‘
’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘
’’اپنی ہی ذات کے ہیں۔‘‘
’’چودھری صاحب کا حکم ہے کہ ہر طرف اعلان کر دو۔ سندیپ میل جاٹ نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن مِیل تو جاٹ ہوتے ہیں۔‘‘
’’وہ مِیل نہیں ہے، کچھ گڑبڑ ہوئی ہے جس کی جانچ چل رہی ہے۔ پتہ چلتے ہی سب کو اطلاع کر دی جائے گی۔‘‘
’’اس گڑبڑ میں جو بھی ملوث پایا جائے گا اس کو سزا دی جائے گی۔‘‘
’’اگر خدا ملوث پایا گیا تو؟‘‘
’’اسے بھی سزا دی جائے گی۔‘‘
’’سالا، ایک سندیپ میل کو تو سزا دے نہیں پا رہے ہو اور خدا کو سزا دینے کی بات کرتے ہو۔‘‘
’’یہ کون بولا؟‘‘
’’بل سے سندیپ میل کی روح بول رہی ہے۔‘‘
’’صاحب، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔‘‘
’’بل پر پہرہ بیٹھا ہے، حقّہ گڑگڑائے جا رہے ہیں۔ فتوے جاری کئے جا رہے ہیں، اسے باہر نکلتے ہی پھانسی دے دی جائے گی۔‘‘
’’اگر وہ باہر نہیں نکلتا تو؟‘‘
’’یہ تو چودھری صاحب ہی بتائیں گے۔‘‘
’’چودھری صاحب نے کہا ہے کہ اگر وہ باہر نہیں نکلا تو ڈرپوک سمجھا جائے گا اور ڈرپوک ہماری ذات میں نہیں ہوتے۔‘‘
’’اگر کسی نے ہماری ذات کو ہی ڈرپوک مان لیا تو؟‘‘
’’چودھری صاحب سے سوال نہیں کئے جاتے۔ جو کہا، وہی صحیح ہے۔‘‘
’’سب ٹھیک چل رہا ہے نا؟‘‘
’’ایک گڑبڑ ہو رہی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’لوگ سیکس کر رہے ہیں۔‘‘
’’اور سیکس میں کچھ نہیں دیکھتے ہیں۔‘‘
’’پیٹ ٹھہرنے سے ذات خراب ہو سکتی ہے۔‘‘
’’کچھ بھی کرو، ہماری ذات مقدس رہنی چاہئے۔‘‘
’’سیکس کو پھانسی دے دو۔‘‘
’’سیکس کرنے والوں کو بھی پھانسی دے دو۔‘‘
’’سندیپ میل کو بھی پھانسی دے دو۔‘‘
’’اسے کیوں؟‘‘
’’وہ بھی سیکس ہے اور سیکس میں کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ ہماری ذات کا بھی ہے۔‘‘
’’حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
’’سیکس کو پھانسی دے دی گئی۔‘‘
’’یہ اچھا کیا۔‘‘
’’سیکس کرنے والوں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔‘‘
’’یہ سب سے درست کیا۔‘‘
’’سندیپ میل کا کیا ہوا؟‘‘
’’وہ بل میں ہے اور بل کے منہ پر کھاپ پنچایت بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
’’خطرہ بنا ہوا ہے۔‘‘
’’خطرے پر کھاپ پنچایت بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
’’حقے گڑ گ ڑائے جا رہے ہیں، پگڑیاں لہرارہی ہیں۔ چودھری صاحب کا حکم جاری ہے۔‘‘
’’مرد تمام کھاپ پنچایت میں بیٹھے ہوئے ہیں، عورتیں گھر پر ہیں۔‘‘
’’کھیت سوکھ رہے ہیں۔‘‘
’’جناور بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘
’’کچھ بھی ہو فیصلہ ہونا چاہئے۔‘‘
’’یہ لو فیصلہ ہو گیا۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’سندیپ میل بل سے باہر نکل گیا ہے اور دیکھتا ہے کہ پگڑیاں ہیں پر جسم نہیں۔‘‘
’’ادھر ادھر کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘
’’ارے! یہ جاٹ لوگ کہاں گئے؟‘‘
’’یہ ”جاٹ” کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ایک قوم ہوا کرتی تھی جو اپنا ہی خون پی کر مر گئی۔‘‘
٭٭٭