فہرست مضامین
دعوت القرآن
حصہ ۳: مائدہ، انعام
شمس پیر زادہ
(۵) سورۂ مائدہ
(۱۲۰ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت ۱۱۲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا قصہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان سے مائدہ (کھانے سے بھرا ہوا خوان) اتارے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام المائدہ ہے۔
زمانۂ نزول
مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا نزول صلح حدیبیہ کے بعد ۷ ھ میں ہوا ہو گا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت مل گئی تھی اس لیے موقع پیدا ہو گیا تھا کہ زیارتِ کعبہ اور شعائر اللہ کے تعلق سے انھیں ضروری ہدایتیں دی جائیں۔
مرکزی مضمون
یہ اس مجموعہ کی جس کا سلسلہ سورۂ بقرہ سے شروع ہوا تھا آخری سورہ ہے جس میں شریعت کی تکمیل کے اعلان کے ساتھ اس کے احکام و قوانین کی پابندی اور شرعی قوانین کو نافذ کرنے پر زور دیا گیا چونکہ یہ تکمیل شریعت کا مرحلہ تھا اس لیے انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق شرعی احکام بیان کرنے کے ساتھ اہل ایمان کو عہد الٰہی پر قائم رہنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں امت مسلمہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی سی روش اختیار نہ کرے جنہوں نے نقص عہد کیا اور جو شریعت کے نظام کو تہ و بالا کرنے، اس کی پابندیوں سے نکل بھاگنے اور دین میں بدعات (نئی نئی باتیں) پیدا کرنے کے مرتکب ہوئے۔ چونکہ قرآن کا اسلوب ہدایت و تربیت کا ہے۔ اس لیے ان تمام امور و مسائل پر ملے جلے انداز میں گفتگو کی گئی ہے تاکہ شرعی پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی موقع پیدا ہو جائے، اسی طرح موقع کی مناسبت سے یہود (مغضوب علیھم) اور نصاریٰ (ضالین) کو آخری حد تک جھنجھوڑا گیا ہے تاکہ ان پر حجت پوری طرح قائم ہو جائے اور ان کے مقابلہ میں اہل ایمان (انعمت علیھم) کی راہ روشن ہو۔
نظم کلام
آیت نمبر۱ آغازِ کلام ہے جس میں شرعی عقود (قیود) کی پابندی کی تاکید کی گئی ہے۔
آیت نمبر ۲ تا ۶ میں شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں آیت۶ نمبر۷ تا ۱۱ میں اللہ کے عہدو پیمان پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی ضمن میں ایک عہد شکن قوم کی ایک سازش کا ذکر کیا گیا ہے۔
آیت نمبر ۱۲ تا ۲۶ میں یہود و نصاریٰ کے نقصِ عہد کے واقعات بیان کئے گئے ہیں تاکہ اہلِ ایمان اس سے سبق لیں۔ ساتھ ہی اہلِ کتاب کو اپنے رب سے عہد استوار کرنے کی پھر سے دعوت دی گئی ہے۔
آیت نمبر۲۷ تا ۳۲ میں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان ہوا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عہدِ الٰہی پر قائم رہنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہ ہو تو مجرمانہ ذہنیت پرورش پاتی ہے۔
آیت نمبر ۳۳ تا ۴۰ میں فساد فی الارض اور جرائم کے انسداد کے لئے قوانین بیان کئے گئے ہیں ، ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور کفر کے انجامِ بد سے آگاہ کیا گیا ہے۔
آیت نمبر۴۱ تا ۵۰ میں یہودو نصاریٰ کی عہدِ شکنی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح کتاب الٰہی کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں شریعت کے فیصلہ کو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ آیت نمبر ۵۱ تا ۶۶ میں اہلِ ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے عہدِ شکن اور مفسد لوگوں (یہودو نصاریٰ) کو اپنا دوست نہ بنائیں اور ان کے اثرات قبول کرنے سے احتراز کریں۔
آیت نمبر ۶۷ تا ۸۶ میں نبیﷺ کی زبانی اہلِ کتاب کو دعوت اصلا ح دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے نقصِ عہد، عقیدہ میں بگاڑ ، منکر کے ارتکاب اور کافروں سے دوستی کا ذکر ہوا ہے ، اس ضمن میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو نبیﷺ کی دعوت کو قبول کر کے تقویٰ کی زندگی اختیار کر رہے تھے۔
آیت نمبر ۸۷تا ۱۰۸ میں شریعت کے وہ احکام بیان کئے گئے ہیں جو حلت و حرمت سے تعلق رکھتے ہیں اخیر میں قانونِ شہادت بیان کیا گیا ہے۔ آیت نمبر ۱۰۹ تا ۱۲۰ خاتمۂ کلام ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن رسول شہادت دیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں تک خدا کا دین اور اس کی شریعت ٹھیک ٹھیک پہنچا ئی تھی۔ اس سلسلہ میں بطورِ مثال عیسیٰ علیہ السلام کی مثال پیش کی گئی ہے تاکہ نصاریٰ پر حجت قائم ہو۔ یہ وہ شہادت ہے جو عیسیٰ علیہ السلام عدالتِ خداوندی میں پیش کریں گے۔
ترجمہ
نوٹ: نشان ” *” سے تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! (شرعی) قیود کی پابندی کرو ۱*۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے جانور حلال کر دئے گئے ۲* سوائے ان کے جس کا حکم تمہیں سنایا جا رہا ہے ۳*لیکن احرام ۴*کی حالت میں شکار کو جائز نہ کر لو ۵*بیشک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۶*
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کے شعائر ۷* کی بے حرمتی نہ کرو،اور نہ حرمت وا لے مہینوں کی ۸* نہ قربانی کے جانوروں کی نہ (قربانی کی علامت کے طور پر) پٹے پڑے ہوئے جانوروں کی ۹*نہ بیتِ حرام (کعبہ) کے عازمین کی جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں نکلے ہوں ۱۰* اور جب تم حالتِ احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور کسی قوم کی دشمنی اس بنا پر کہ اس نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے ۱۱*اس بات پر نہ ابھارے کہ زیادتی کرنے لگو ۱۲*نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تم ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ۱۳*اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے ۱۴*
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پر حرام کیا گیا مردار ۱۵*خون ۱۶*سور کا گوشت ۱۷*وہ (جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ۱۸*وہ جو گلا گھٹنے سے ۱۹* یا چوٹ لگنے سے ۲۰* یا اوپر سے گر کر۲۱* یا سینگ لگنے سے مرا ہو ۲۲* یا جسے کسی درندہ نے پھاڑ کھایا ہو ۲۳* سوائے اس کے جسے تم (زندہ پاکر) ذبح کر لو ۲۴* اور وہ (جانور) جو کسی تھان ۲۵* پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم پانسوں کے تیروں سے فال نکالو ۲۶*۔ یہ فسق ہے۔ آج ۲۷*کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے بالکل مایوسی ہو گئی ہے۔ لہذا ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۲۸*آج ۲۹*میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ۳۰*اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ۳۱*اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا ۳۲*پس جو کوئی بھو ک سے مجبور ہو جائے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لے) بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے ۳۳*۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ کہو تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۳۴*اور جن شکاری جانوروں ۳۵*کو تم نے سدھا یا ہو ۳۶*جنہیں تم اللہ کے دئیے ہوئے علم کی بناء پر شکار کی تعلیم دیتے ہو ۳۷*وہ جس شکار کو تمہارے لئے روک رکھیں اس کو تم نہ کھاؤ ۳۸*البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو ۳۹*اور اللہ سے ڈرو۴۰*کہ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ۴۱*اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے ۴۲*اور تمہارا کھانا ان کے لئے ۴۳*تمہارے لئے پاکدامن عورتیں جو اہل ایمان میں سے ہوں حلال ہیں نیز وہ پاکدامن عورتیں بھی جو ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ۴۴*بشرطیکہ ان کے مہر ان کو دو اور مقصود قید نکاح میں لانا نہ ہو نہ کہ بدکاری کرنا ، یا چوری چھپے آشنائیاں کرنا۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا ۴۵*تو اس کا سارا کیا کرایا اکارت جائے گا اور آخر ت میں وہ تباہ حال ہو گا ۴۶*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم نماز کے لئے اٹھو ۴۷*تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۴۸*اگر جنابت ۴۹*کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ اور اگر بیمار ہو یاسفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو ۵۰* (مباشرت کی ہو) اور پانی نہ ملے تو پاک زمین سے تیمم کرو۵۱* یعنی اپنے منہ اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں تنگی میں ڈالے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دے ۵۲*تاکہ تم شکگزار بنو۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جو فضل۵۳* تم پرکیا ہے اسے یاد رکھو اور اس کے اس عہد و پیمان ۵۴*کو نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرو۵۵* اللہ کو ان باتوں کا بھی علم ہے جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کی خاطر اٹھ کھڑے ہونے وا لے ۵۶*اور انصاف کے گواہ بنو ۵۷*اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ نا انصافی ۵۸*عدل کرو کہ یہ تقویٰ سے لگتی ہوئی بات ہے اور اللہ سے ڈرو جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہو گا۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلا یا وہ دوزخی ہیں۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے اوپر اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دئیے ۵۹*اللہ سے ڈرتے رہو اور مؤمنوں کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا ۶۰*اور ہم نے ان میں سے بارہ افراد کو نگران کار مقرر کیا تھا ۶۱*اور اللہ نے فرمایا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں ۶۲*اگر تم نے نماز قائم کی، زکوٰۃ دیتے رہے۶۳*، میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کی ۶۳*اور اللہ کو قرض حسن دیا ۶۵*تو میں ضرور تمہاری برائیاں تم سے دور کر دوں گا ۶۶*اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۶۷* لیکن تم میں سے جو کوئی اس کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہ راست سے بھٹک گیا ۶۸*
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا ۶۹*۔ وہ کلمات کو ان کی اصل جگہ (موقع و محل) سے پھیر دیتے ہیں ۷۰*اور جس (کتاب) کے ذریعہ انہیں نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک حصہ وہ بھلا بیٹھتے ۷۱*اور تمہیں برابر ان کی کسی نہ کسی خیانت کا ۷۲*پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں ایسے لو گ بہت کم ہیں جو اس سے بچے ہوئے ہیں ۷۳*لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو۷۴* اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ۷۵*ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا ۷۶*مگر جس (کتاب) کے ذریعہ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک حصہ وہ بھلا بیٹھے ۷۷*تو ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے بغض و عناد کی آگ بھڑکا دی ۷۸*اور عنقریب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا بناتے رہے ہیں۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب !ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب کی بہت سی ان باتوں کو جن کو تم چھپاتے رہے ہو ظاہر کر رہا ہے اور بہت سی باتوں کو نظر انداز بھی کرتا ہے ۷۹*تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور ۸۰* (روشنی) اور ایک واضح کتاب آ گئی ہے ۸۱*۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا پر چلتے ہیں سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے ۸۲*اور اپنی توفیق سے انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۸۳*اور راہِ راست ۸۴*کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ ہی ہے مسیح ابن مریم ۸۵*۔ (ان سے) کہو اگر اللہ مسیح ابن مریم کو،اس کی ماں کو اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو اللہ کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے ۸۶*آسمانوں اور زمین کی اور ان کے درمیان کی ساری موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۸۷*اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۸۸*ان سے کہو کہ پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے ۸۹*در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے دوسرے انسان اس نے پیدا کئے ہیں ۹۰*وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے ۹۱*آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ساری موجودات کی فرماں روائی اللہ ہی کے لئے ہے اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب !ہمارا رسول تمہارے پاس ایسے وقت آگیا ہے جبکہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا ۹۲*وہ (اصل دین) کو تم پر واضح کر رہا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اب بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا تمہارے پاس آ گیا ہے ۹۳*اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۹۴*۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو!اپنے اوپر اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے ، تم کو صاحبِ اقتدار بنا یا اور تم کو وہ کچھ عطا کیا جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں عطا کیا گیا ۹۵*۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے میری قوم کے لوگو!اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے مقدر کر دی ہے ۹۶*اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نامراد ہو جاؤ گے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے لگے اے موسی!وہاں تو جبّار (زبردست) لوگ رہتے ہیں ۹۷*ہم وہاں ہر گز نہ جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل گئے تو ہم ضرور داخل ہوں گے۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ڈرنے والوں میں سے دو اشخاص نے جن پر اللہ نے فضل فرمایا تھا کہا : ان کے مقابلہ میں دروازہ میں گھس جاؤ۹۸* جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مؤمن ہو۔
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولے اے موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز داخل ہونے وا لے نہیں۔ تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے دعا کی اے میرے رب !میں اپنی ذات اور بھائی ۹۹*کے سوا کسی پر اختیار نہیں رکھتا۔ پس تو ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۱۰۰*۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا تو اب یہ سرزمین چالیس سال تک ان پر حرام کر دی گئی۔ یہ لوگ زمین میں بھٹکتے پھریں گے ۱۰۱*تو تم ان نافرمان لوگوں (کے حال) پر افسوس نہ کرو۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم ان کو آدم کے دو بیٹوں ۱۰۲*کا واقعہ صحیح طریقہ پر سنا دو ۱۰۳*جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ۱۰۴* اس نے کہا میں تجھے قتل کر دونگا ۱۰۵*اس نے جواب دیا اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ ۱۰۶*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۱۰۷*میں اللہ رب ّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے ۱۰۸*اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے کہ ظالموں کی یہی سزا ہے۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر ہی لیا ۱۰۹*اور اسے قتل کر کے ۱۱۰*وہ تباہ ہونے والوں میں شامل ہو گیا ۱۱۱*
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے ۱۱۲*وہ بولا افسوس مجھ پر !میں اس کوّے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ غرض یہ کہ وہ اس پر پشیمان ہوا ۱۱۳*
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی بنا ۱۱۴*پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی کو قتل کیا جبکہ وہ (مقتول) کسی کا خون کرنے یا زمین میں فساد برپا کرنے کا مرتکب نہیں ہوا تھا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بچائی ۱۱۵*اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لیکر آئے لیکن اس کے باوجود ان میں بہ کثرت لو گ ایسے ہیں جو زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔ ۱۱۶*
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۱۱۷*یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے ۱۱۸*اور آخرت میں بھی ان کے لئے عذابِ عظیم ہے۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۱۹*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان۱۲۰* والو ! اللہ سے ڈرو ۱۲۱*اور اس کا قرب تلاش کرو ۱۲۲*اور اس کی راہ میں جہاد ۱۲۳*کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقین جانو کہ جن لوگوں نے کفر کیا اگر ان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آ جائے جو روئے زمین میں موجود ہے اور اتنا ہی اور بھی انہیں حاصل ہو جائے اور وہ روز قیامت کے عذاب سے بچنے کے لئے یہ سب کچھ فدیہ میں دینا چاہیں تب بھی وہ ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ۱۲۴*اور انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہو گا۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چاہیں گے کہ آگ سے باہر نکل آئیں لیکن وہ اس سے باہر کبھی نکل نہ سکیں گے ۱۲۵*ان کے لئے قائم رہنے والا عذاب ہو گا۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چور مرد ہو یا عورت ۱۲۶*دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۱۲۷*یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے ۱۲۸*اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۱۲۹*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس کسی نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کر لی تو اللہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا ۱۳۰*اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے وہ جسے چاہے عذاب دے اور جسے چاہے بخش دے ۱۳۱*اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسول !تم ان لوگوں کی وجہ سے غمگین نہ ہو جو کفر میں بڑی سرگرمی دکھا رہے ہیں ۱۳۲*خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو زبان سے تو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا ۱۳۳*یا ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں یہ لوگ جھو ٹ کے لئے کان لگانے وا لے اور دوسروں کے لئے جو تمہارے پاس نہیں آئے کان لگانے وا لے ہیں ۱۳۴*وہ کلام کو اس کا محل متعین ہونے کے باوجود اس کے اصل محل سے ہٹا دیتے ہیں ۱۳۵*اور کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو قبول کر لو اور اگر نہ دیا جائے تو اس سے بچو ۱۳۶*اور جسے اللہ ہی فتنہ میں ڈالنا چاہے اس کے لئے اللہ کے مقابلہ میں تمہارا کچھ بس نہیں چل سکتا۱۳۷*یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنا اللہ کو منظور نہ ہوا ۱۳۸*ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں قبول کرنے وا لے اور حرام مال کھانے میں بے با ک ہیں ۱۳۹*لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے ان کے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے اعراض کرو ۱۴۰*اگر اعراض کرو تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۱۴۱*کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہیں حکم کس طرح بنا تے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجو دہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے پھر بھی یہ منہ موڑتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان ہی نہیں رکھتے ۱۴۲*
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ۱۴۳*انبیاء جو مسلم تھے ۱۴۴*اسی کے مطابق یہود کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے نیز علماء اور فقہاء بھی۱۴۵* کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے ۱۴۶*تو دیکھو لوگوں سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو۱۴۷* اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں ،وہی کافر ہیں ۱۴۸*۔
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان کے لئے اس میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے قصاص (برابر کا بدلہ) ہے ۱۴۹*پھر جو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے ۱۵۰*اور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۱۵۱*۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے ان (پیغمبروں) کے پیچھے ان ہی کے نقش قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا ۱۵۲*تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا ۱۵۳*اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور متقیوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل انجیل کو چاہئے کہ وہ اسی کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں اتارا ہے ۱۵۴*اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لیکر آئی ہے اور (سابق) کتاب ۱۵۵*میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ ہے ۱۵۶*لہذا تم خدا کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۱۵۷*ہم نے تم میں سے ہر ایک (گروہ) کے لئے ایک شریعت اور ایک منہاج (راہِ عمل) ٹھہرا دی ۱۵۸*اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا ،لیکن اس نے چاہا کہ جو کچھ اس نے تم کو عطا کیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۱۵۹*لہذا بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۱۶۰*تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتلائے گا کہ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے رہے ہو ان کی اصل حقیقت کیا تھی ۱۶۱*۔
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں حکم دیا کہ جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو نیز ہوشیار رہو کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کے کسی حکم سے وہ تمہیں برگشتہ نہ کریں ۱۶۲*پھر اگر یہ رو گردانی کریں تو جان لو کہ اللہ نے ارادہ کر لیا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی سزا دے اور حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ ۱۶۳*جو لوگ یقین رکھنے وا لے ہیں ان کے لئے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے ؟
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا تو اس کا شمار ان ہی میں ہو گا ۱۶۴*اللہ ان لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا جو ظلم کرنے وا لے ہوں۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے ۱۶۵* وہ ان ہی کے درمیان دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم کسی مصیبت میں پھنس نہ جائیں ۱۶۶*مگر عجب نہیں کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر فرما دے اور انہیں اس بات پر جس کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہونا پڑے ۱۶۷*
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت اہل ایمان کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کی سخت سے سخت قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال اکار ت گئے ۱۶۸* اور وہ تباہ ہو کر رہ گئے۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا) اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو گا اور جو اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے۔ مؤمنوں کے حق میں نرم اور کافروں کے مقابلہ میں سخت ہوں گے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے وا لے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۱۶۹*یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا فرمائے اور اللہ بڑی وسعت رکھنے والا ۱۷۰*اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا دوست تو در حقیقت اللہ ہے ،اس کا رسول ہے اور وہ اہل ایمان ہیں ۱۷۱*جو نماز قائم کرتے ہیں ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۱۷۲*
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو دوست بنا لے تو (وہ اللہ کا گروہ ہے اور) اللہ ہی کا گروہ ہے جو غالب ہو کر رہے گا۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے ان کو نیز دوسرے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۱۷۳*اور اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نماز کے لئے پکارتے ہو تو یہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں ۱۷۴*۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !تمہارے ہم پر برہم ہونے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہدایت ہماری طرف بھیجی گئی اور جو اس سے پہلے نازل ہو ئی تھی اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۱۷۵*
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بدتر انجام کس کا ہوا ؟ ۱۷۶*وہ جن پر اللہ نے لعنت کی ۱۷۷*جن پر اس کا غضب ہوا ۱۷۸*اور جن میں سے اس نے بندر اور سور بنائے ۱۷۹*اور وہ جنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ۱۸۰*یہی وہ لوگ ہیں جن کا درجہ سب سے بدتر ہے اور وہ راہِ راست سے بالکل بھٹکے ہوئے ہیں۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لئے ہوئے آئے تھے اور کفر لئے ہوئے ہی واپس گئے اور جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپا رہے ہیں اسے اللہ خوب جانتا ہے۔
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہ کثرت لوگ گناہ ،زیادتی اور مال حرام کھانے میں تیز گام ہیں۔ بہت برے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے علماء اور فقہا ء ان کو گناہ کی بات کرنے اور حرام کھانے سے روکتے کیوں نہیں ؟ ۱۸۱*بہت بری حرکت ہے جو یہ کر رہے ہیں۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھ گیا ہے ۱۸۲*بندھ گئے ان کے ہاتھ اور لعنت ہوئی ان پر اس وجہ سے کہ انہوں نے ایسی بات کہی ۱۸۳*ا س کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں ۱۸۴*جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۱۸۵*در حقیقت تمہارے رب کی طرف سے جو چیز تم پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کا موجب بن گئی ہے۔ ۱۸۶*اور ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے ۱۸۷*جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے ۱۸۸*یہ زمین میں فساد بر پا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ دور کر دیتے اور ان کو نعمت بھرے باغوں میں داخل کر دیتے ۱۸۹*۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تورات اور انجیل ۱۹۰*اور اس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ۱۹۱*قائم کرتے تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ۱۹۲*ان میں ایک گروہ ضرور راست رو ۱۹۳*ہے لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جن کے اعمال بہت برے ہیں۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسول !تمہارے رب کی جانب سے جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے وہ (لوگوں تک) پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا ۱۹۴*اللہ تم کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ۱۹۵*اللہ ان لوگوں کو ہر گز راہ یاب نہیں کرے گا جو کافر ہیں ۱۹۶*
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !تم کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور اس (کتاب) کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے۱۹۷*مگر جو (کلام) تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہی کرے گا ۱۹۸*تو تم ان کافروں (کے حال) پر افسوس نہ کرو۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان ہوں یا یہودی اور صابی ۱۹۹*ہوں یا نصاریٰ جو بھی اللہ ا ور یومِ آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۲۰۰*
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ۲۰۱*اور ان کی طرف رسول بھیجے۔ مگر جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس ایسی بات لیکر آیا جو ان کی خواہشاتِ نفس کے خلاف تھی تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا ۲۰۲*
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ گمان کر بیٹھے کہ (ان پر) کوئی آفت نہیں آئے گی اس لئے اندھے اور بہرے بن گئے ۲۰۳*پھر اللہ نے (ان کی توبہ قبول کی اور) انہیں معاف کر دیا مگر پھر ان میں بہت سے لوگ اندھے اور بہرے بن گئے ۲۰۴*اور اللہ ان کے کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے۔ ۲۰۵*
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ یہی مسیح ابن مریم ہے ۲۰۶*حالانکہ مسیح نے کہا تھا : "اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا ارب بھی ۲۰۷*” بے شک جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آتشِ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ۲۰۸*حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اور اگر یہ ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کو دردناک عذاب بھگتنا ہو گا ۲۰۹*
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا یہ اللہ کی طرف رجو ع نہیں کرینگے اور اس سے معافی نہیں چاہیں گے۔ اللہ تو مغفرت فرمانے والا رحم کرنے والا ہے۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک رسول تھے ان سے پہلے بھی کتنے رسول گزر چکے ہیں ۲۱۰*اور ان کی ماں نہایت صداقت شعار تھیں ۲۱۱*دونوں کھانا کھاتے تھے ۲۱۲*دیکھو کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں واضح کر رہے ہیں اور پھر دیکھو کہ ان کی عقل کس طرح ماری جا رہی ہے۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ نفع پہنچانے کا ۲۱۳*؟ حالانکہ اللہ ہی ہے جو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۲۱۴*۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو ۲۱۵*اور ان لوگوں کے خیالات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور راہِ راست سے بالکل بھٹک گئے ۲۱۶*۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۲۱۷*یہ اس لئے کہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کے ارتکاب سے وہ ایک دوسرے کو روکتے نہ تھے بہت بری بات تھی جو وہ کر رہے تھے ۲۱۸*
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں ۲۱۹*نہایت برا سامان ہے جو انہوں نے اپنے مستقبل کے لئے کیا کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں رہنے وا لے بنے۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر یہ اللہ ،نبی اور اس کی طرف سے نازل شدہ (کتاب) پر ایمان رکھنے وا لے ہوتے تو کبھی کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے ۲۲۰*لیکن ان میں زیادہ تر نافرمان ہیں۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور اہل ایمان کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں ۲۲۱*یہ اس لئے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور راہب پائے جاتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے ۲۲۲*
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں وہ بول اٹھتے ہیں : اے ہمارے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ ۲۲۳*
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر ہم اللہ پر اور اس حق پر جو ہمارے پاس آیا ہے کیوں نہ ایمان لائیں جبکہ ہم اس بات کے خواہشمند ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالحین کے زمرہ میں شامل کرے۲۲۴*۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اللہ نے ان کے اس قول کے صلے میں ان کو ایسے باغ عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور نیک روی اختیار کرنے والوں کی یہی جزاء ہے۔
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں ۲۲۵*
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ ٹھہراؤ ۲۲۶*اور حد سے تجاوز نہ کرو ۲۲۷*اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو حلال اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم نے جان بوجھ کر کھائی ہوں ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ۲۲۸*اس کا کفارہ ۲۲۹*یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہویا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو اور جس کو یہ میسّر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا بیٹھو۲۳۰* اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ۲۳۱*اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام واضح کر دیتا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !شراب ، جوا ، تھان ۲۳۲*اور پانسے کے تیر سب نجس اور شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ فلاح پاؤ۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مشغول کر کے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے ۲۳۳*پھر کیا تم باز نہ آؤ گے ؟
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور محتاط رہو لیکن اگر تم نے رو گردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر تو صرف واضح طور سے پیغام پہنچا دینے کی ذمّہ داری تھی۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہوں نے جو کچھ کھا پی لیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ انہوں نے پرہیز گاری اختیار کی ، ایمان لائے پھر تقویٰ اختیار کیا اور نیک کردار بن گئے ۲۳۴*اور اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ تمہاری کسی ایسے شکار کے ذریعہ آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہو گا ۲۳۵*تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور جس نے اس کے بعد (حدود سے) تجاوز کیا اس کے لئے دردناک سزا ہے۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !احرام کی حالت میں شکار کو نہ مارو ۲۳۶*اور جو کوئی تم میں سے قصداً مار ڈالے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے اسی جیسا جانور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بطور قربانی کعبہ پہنچا دینا ہو گا ۲۳۷*یا یہ کفارہ دینا ہو گا کہ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا اس کے بقدر روزے رکھے ۲۳۸*تاکہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکھ لے اس سے پہلے جو ہو چکا اس سے اللہ نے درگزر کیا لیکن جو کوئی پھر کرے گا اسے اللہ سزا دے گا ۲۳۹*اللہ غالب اور سزا دینے والا ہے۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے لئے حلال کر دیا گیا سمندر کا شکار اور اس کی (یعنی سمند ر ی اور دریائی) غذا ۲۴۰*تاکہ تم بھی فائدہ اٹھاؤ اور قافلے وا لے بھی۔ لیکن خشکی کا شکار جب تک کہ احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم سب حاضر کئے جاؤ گے۔
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے حرمت وا لے گھر کعبہ کو لوگوں کے لئے قیام کا ذریعہ بنا یا ہے ۲۴۱*اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور (قربانی کی علامت کے طور پر) پٹے پڑے ہوئے جانوروں کو بھی ۲۴۲*یہ اس لئے کہ تم جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے او رجو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۲۴۳*۔
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ۲۴۴*۔
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور (یاد رکھو) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو او جو کچھ چھپاتے ہو۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہہ دو ،نا پاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہو سکتے اگر چہ نا پاک کی کثرت تمہیں بھلی لگے ۲۴۵*تو اے عقل والو!اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!ایسی باتوں کے بارے میں سوالات نہ کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ۲۴۶*اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوال کرو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے ان باتوں سے درگزر فرمایا ۲۴۷*اور اللہ بخشنے والا اور بردبار ہے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی قسم کے سوالات تم سے پہلے ایک گروہ نے کئے تھے پھر وہ لوگ انہی کی وجہ سے منکر ہو گئے ۲۴۸*۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے نہ "بحیرہ ” مقرر کیا ہے اور نہ "سائبہ ” اور نہ "وصیلہ ” اور نہ "حام ” ۲۴۹*لیکن کافر جھوٹ گڑھ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس بات کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور آؤ رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہمارے لئے تو وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ اس صور ت میں بھی (باپ دادا کی تقلید کرتے رہیں گے) جب ک ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ ہدایت پر رہے ہوں ؟۲۵۰*
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو۔ اگر تم ہدایت پر ہو تو دوسروں کا گمراہ ہونا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۲۵۱*تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو تو وصیت کے وقت تمہارے درمیان شہادت (کی صورت) یہ ہے کہ تم میں سے دو عادل (معتبر) آدمی گواہ بنائے جائیں ۲۵۲*یا اگر تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت آ پہنچے تو غیر مسلموں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنایا جائے ۲۵۳* (پھر) اگر تمہیں شک ہو جائے تو انہیں نماز کے بعد روک لو۲۵۴* اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی قیمت پر بھی شہادت کا سودا نہیں کریں گے خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو گنہگار ہوں گے ۲۵۵*۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر معلوم ہو جائے کہ وہ دونوں گناہ (حق تلفی) کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور شخص جو شہادت دینے کے زیادہ اہل ہیں ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کی حق تلفی ہوئی ہے ۲۵۶*اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ درست ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی ہے اگر ہم ایسا کریں تو ظالم ہوں گے ۲۵۷*۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طریقہ سے زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے یا اس بات سے ڈریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد کچھ قسمیں رد نہ کر دی جائیں ۲۵۸*اللہ سے ڈرو اور سنو۔ اللہ نافرمانی کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا اور پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ۲۵۹*؟وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے ۲۶۰*
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ دن) جب اللہ فرمائے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ۲۶۱*میری اس نعمت کو یاد کرو جس سے میں نے تم کو اور تمہاری والدہ کو نوازا تھا جب میں نے روح القدس۲۶۲*سے تمہاری مدد کی ، تم گہوارے میں بھی لوگوں سے کلام کرتے تھے اور بڑی عمر میں بھی ۲۶۳*اور جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندہ کی سی صورت بناتے تھے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۲۶۴*اور تم میرے حکم سے پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتے تھے ۲۶۵*اور جب تم مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے ۲۶۶*اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو تم سے روک دیا تھا ۲۶۷*جبکہ تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر پہنچے تھے اور جو لوگ ان میں سے کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کھلی جادوگری ہے ۲۶۸*
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں نے حواریوں پر الہام کیا تھا ۲۶۹*کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں ۲۷۰*
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حواریوں نے کہا تھا اے عیسیٰ ابن مریم کیا آپ کا رب آسمان سے ہم پر کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ۲۷۱*؟ (عیسیٰ نے) کہا اللہ سے ڈرو ۲۷۲*اگر تم مؤمن ہو۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ۲۷۳* ہو جائیں۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی اے اللہ اے ہمارے رب ۲۷۴*!ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے ۲۷۵*اور تیر ی طرف سے ایک نشانی ہو ، اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے ۲۷۶*۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے فرمایا میں اس کو ضرور تم پر نازل کروں گا ۲۷۷*لیکن اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۲۷۸*۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اللہ فرمائے گا : اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا ک اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو؟۲۷۹*وہ عرض کرینگے تو پاک ہے ۲۸۰*، میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا تھا جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں ۲۸۱*اگر میں نے یہ بات کہی ہو تو وہ ضرور تیرے علم میں ہو گی۔ تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ تو ہی ہے غیب کی ساری باتیں جاننے والا۔
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۲۸۲*میں ان کا نگرانِ حال تھا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے قبض کر لیا (میرا وقت پورا کر دیا) ۲۸۳*تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور توہر چیز پر نگران ہے ۲۸۴*۔
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے توتو غالب اور حکمت والا ہے۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ فرمائے گا : یہ وہ دن ہے کہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ۲۸۵*ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے بڑی کامیابی۔
آسمانوں اور زمین کی اور ان میں جو کچھ ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفسیر
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احکامِ شریعت کے نزول کے لحاظ سے چونکہ یہ آخری سورہ ہے اس لئے اس کا آغاز ہی اس ہدایت کے ساتھ ہوا ہے کہ عقود۔ شرعی عقود۔ کی پابندی کرو۔ یہ گویا آخری عہد ہے جو اہلِ ایمان سے لیا گیا ہے کہ وہ شرعی احکام و قوانین اور حدود و قیود کی پوری پوری پابند ی کریں گے اور اس سے سرِ مو انحراف نہیں کریں گے۔
اس کے بعد اگر مسلمان شرعی احکام کو پسِ پشت ڈالتے ہیں یا شرعی حدود و قیود کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا شرعی قوانین پر وضعی (خود ساختہ) قوانین کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ اس آسمانی ہدایت کی بھی خلاف ورزی ہے جو انہیں آخری طور سے دی گئی ہے اور اس عہد کی بھی جو انہوں نے قرآن اور پیغمبر پر ایمان لا کر اپنے رب سے باندھا ہے۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام (مویشی) کا لفظ عربی میں اونٹ ،گائے بل اور بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے اور بہیمہ کا لفظ اس سے عام ہے۔ ا س میں دوسرے چوپائے بھی داخل ہیں پس بھیمۃ الانعام سے مراد وہ چرنے والے چوپائے ہیں جو انعام (مویشی) کی قسم کے ہوں یعنی جو جگالی کرتے ہوں ،کچلیاں نہ رکھتے ہوں اور غذا وغیرہ میں مویشیوں سے مماثلت رکھتے ہوں مثلاً ہرن ، نیل گائے (وحشی گائے) وغیرہ۔
"حلال کر دئے گئے” کا مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کا گوشت کھانا، دودھ پینا، ان کی جلد، ہڈی اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز کر دیا گیا لہٰذا اوہام کی بنیاد پر ان کو ذبح کرنے یا ان کا گوشت کھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس حلت سے مستثنیٰ وہ جانور ہیں جن کی حرمت کا حکم اس سے پہلے قرآن میں بیان کیا جا چکا ہے اور آگے آیت نمبر ۳ میں) بیان کیا جا رہا ہے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خانۂ کعبہ کی زیارت (حج یا عمرہ) کرنے والے پر لباس وغیرہ کی مخصوص پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ ان پابندیوں میں داخل ہونے کا نام حالتِ احرام ہے۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نو ٹ نمبر ۲۸۴
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالت احرام میں خشکی کا شکار ممنوع ہے اس کی صراحت آیت نمبر ۹۶ میں ا رہی ہے۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو حکم دینے کا مطلق اختیار ہے اور بندوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے کسی حکم پر چوں و چرا کریں۔ اللہ کے احکام اگر چہ کہ مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ امتحان کے مقصد سے مصلحت کو مخفی رکھ دیا گیا ہو اس لئے انسان کے لئے صحیح ا ر مناسب رویہ یہی ہے کہ وہ خدا کی ،بے چون و چرا اطاعت کرے۔
حکم دینے کا مطلق اختیار صرف اللہ ہی کو ہے لہٰذا جو شخص بھی اس کے ٹھہرائے ہوئے حلال و حرام سے بے پرواہ ہو کر اپنے کو یا کسی شخصیت کو یا جمہور کو مطلق طور پر حکم دینے کا مجاز سمجھتا ہے و ہ در حقیقت اس بات کی نفی کرتا ہے کہ یہ اختیار اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اس کا یہ طرز عمل سراسر مشرکانہ اور کافرانہ ہے۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شعائر کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۹۰۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرمت کے مہینوں کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۶۹۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن جانوروں کو قربانی کی غرض سے بیت اللہ کی طرف لے جایا جاتا تھا ان کی گردنوں میں پٹے ڈال دئے جاتے تھے تاکہ وہ پہچان لئے جائیں اور کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ یہ پٹے عموماً درخت کی چھال کے ہوتے تھے اور اونٹ اور گائے کی گردنوں میں ڈالے جاتے تھے بکرے عام طور سے اس سے مستثنیٰ تھے۔ گویا قربانی کے جانوروں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک پٹے پڑے ہوئے ، دوسرے بغیر پٹوں کے۔ یہاں دونوں کی بے حرمتی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا پٹے پڑے ہوئے جانوروں کا ذکر بطورِ تاکید کے ہے کہ جب ان کے گلے میں قربانی کی علامت موجود ہے تو ان سے تعرض کرنے کے لئے کیا عذر ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت مدینہ کے اطراف سے بیت اللہ کے زائرین کے قافلے گزرتے تھے اور حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھیں جس سے شعائر اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو اس لئے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت کی گئی۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ حج یا عمرہ کے ارادہ سے نکلے ہوں وہ احترام کے مستحق ہیں کیوں کہ ان کا یہ سفر اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی طلب ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنا یا انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانا سخت گناہ کا کام ہے۔ اس حکم میں جو عمومیت پائی جاتی ہے وہ ا س وقت کے حالات کے لحاظ سے تھی کیوں کہ اس وقت حج مسلمان ہی نہیں کرتے تھے ، بلکہ عرب کے گوشہ گوشہ سے لو حج کے لئے آیا کرتے تھے۔ بعد میں جب سورۂ توبہ کی آیت۔ (مشرک نجس ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔ تو بہ ۲۸) نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو مسلمان زائرین کے لئے خاص کر دیا۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے کفار مکہ کی طرف جنہوں نے مسلمانوں کو حج اور عمرہ سے روک دیا تھا۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ شرعی حدود کو پھاند ڈالو اور نہ عدل و انصاف کے خلاف کوئی کام کرو۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بہت بڑی اصولی بات ہے جو اس آیت میں ارشا ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا دستور العمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ نیکی اور خدا ترس کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہیں اور گناہ اور زیارتی کے کاموں میں کسی کے بھی معاون نہیں۔ یہ اصولی موقف انہیں ہر جگہ اور ہر میدانِ عمل میں اختیار کرنا چاہئے خواہ وہ کسی ملک میں رہتے ہوں اور معاملات مذہبی و اخلاقی نوعیت کے ہوں یا سیاسی و بین الاقوامی نوعیت کے ، ان کی اجتماعی پالیسی اسی اصول پر مبنی ہونی چاہئے نہ کہ منافقانہ طرز کی ڈپلومیسی پر۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ کا تقویٰ اختیار نہ کرو تو وہ سخت سزا دے گا۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردار کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۰ میں گزر چکی۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۱۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۲۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۳۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلا گھٹنے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جانور کی گردن کسی چیز میں پھنس گئی ہو ،جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے اور دوسری صورت یہ کہ گلا دبا دینے سے وہ مر گیا ہو۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوٹ کھا کر مرنے کی بھی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً لاٹھی کی مار سے مر جانا ،دیوار یا چھت کا جانور پر گر پڑنا یا موٹر وغیرہ کے حادثہ کا شکار ہونا۔
موجودہ زمانہ میں ذبح کرنے کا ایک نیا طریقہ رواج پا رہا ہے۔ چنانچہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے الکٹرک شاک، (Electric Shock) دے کر بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔ جسے (Stunning) کہتے ہیں۔ یہ شاک با لعموم معمولی قوت کا ہوتا ہے اس لئے اس سے جانور مرتا نہیں بلکہ صرف بے ہوش ہو جاتا ہے اور اسی بیہوشی کی حالت میں اسے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ شاک زیادہ قوت کا ہو تو جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے ہی واقع ہو گئی ، اور ایسی صورت میں اس پر بھی موقوذہ (چوٹ کھا کر مرا ہو ا) کا اطلاق ہو گا کیوں کہ اس کی موت شاک لگنے سے ہوئی نہ کہ ذبح کرنے سے۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس کی موت کنویں میں گر جانے سے یا پہاڑی وغیرہ سے گر کر ہوئی ہو۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کسی جانور کے سینگ مار نے کی وجہ سے زخمی ہو کر مر گیا ہو۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی درندے نے پھاڑ کر اس کا کچھ حصہ کھا لیا ہو۔
” رہی درندے کے پھاڑ کھائے ہوئے جانور کی حرمت تو اس معاملہ میں انسان کی بزرگی ملحوظ رہی ہے اور اسے درندے کے پھاڑ کھائے ہوئے ،گائے وغیرہ کو کھا لیا کرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا پس خوردہ مومنوں پر حرام کر دیا۔
اسلام میں حلال و حرام۔ از یوسف قرضاوی ص ۶۶)
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جانور ذبح کر نے ہی سے حلال ہوتا ہے اور ذبح کرنے سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے کہ رگیں کٹ جائیں اور جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے سے دماغ کا تعلق جسم سے فورا ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے خون اچھی طرح خارج نہیں ہوتا بلکہ گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اسلئے جھٹکے کا طریقہ غیر شرعی ہے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نصب (استھان) وہ پتھر تھے جن پر مشرکین اپنے معبودوں کے تقرب کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ چونکہ یہ مقامات غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے مخصوص تھے اس لئے ان مقامات کے ذبیحہ کو حرام قرار دیا گیا خواہ ذبح کرتے وقت جانور پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ اس کی حرمت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اسے استھان پر ذبح کیا گیا ہے۔ اسی لئے ما اہل بغیر اللہ بہ (جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو) کے بعد نصب (استھان) کے ذبیحہ کا ذکر علیحدہ سے کیا گیا۔
اس حکم کا اطلاق ان قربانیوں پر بھی ہوتا ہے جو بزرگوں کے آستانوں یا اولیا ء کے مزاروں پر ان کا تقرب اور خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے پیش کی جاتی ہیں نیز اس سے اہلِ بدعت کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ جانور کو کسی بزرگ یا ولی کی نیاز کے لئے نامزد کر نا جائز ہے اور ایسا ذبیحہ حلال ہے اگر ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ در اصل قرآن کے واضح حکم سے انحراف ہے کیوں کہ قرآن نے صرف اس ذبیحہ کو حرام نہیں قرار دیا جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو بلکہ ایسے ذبیحہ کو بھی حرام قرار دیا جو استھان پر ذبح کیا گیا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ اس کو استھان پر ذبح کرنا اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے ہے۔ لہٰذا جو جانور کسی بزرگ یا ولی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے یا جن وغیرہ کو بھینٹ چڑھانے کے لئے ذبح کیا جائے وہ کس طرح جائز ہو گا ؟شرک بہر حال شرک ہے ، خواہ بت پرستی کی شکل میں ہو یا اولیاء پرستی کی شکل میں۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب جاہلیت میں مشرکانہ فال گیر ی کا طریقہ رائج تھا۔ اس غرض کے لئے مشرکین مکہ نے تین قسم کے تیر ہبل دیوتا کے استھان میں رکھ دئیے تھے۔ جن میں سے ایک پر لکھا ہوا تھا یہ کام کر و، دوسرے پر تھا نہ کرو اور تیسرا خالی ہوتا۔ فال نکالنے پر جو تیر نکل آتا اس کو غیب کا حکم سمجھ کر اس کے مطابق عمل کیا جاتا اور اگر خالی نکل آتا تو دو باہ فال نکالی جاتی یہ تیر قمار بازی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ اس طرح یہ فال گیری شرک ، توہم پرستی اور قمار بازی کا بہت بڑا ذریعہ تھی اس لئے اس کو حرام قرار دیا گیا۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حکم کے اطلاق ہر اس فال گیر ی پر ہوتا ہے جو شرک اور توہم پرستی کا ذریعہ ہو خواہ اس کے لئے تیر استعمال کئے جائیں یا کوئی اور چیز اور خواہ اس سے چور کا پتہ معلوم کرنا ہویا بیمار کا حال۔ غیبی امور کو معلوم کرنے کے لئے فال گیری کا طریقہ اختیار کرنا توہم پرستی کے سو ا کچھ نہیں ہے۔
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے مایوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب جب کہ شریعت کی تکمیل ہو گئی ہے اور ا سلام کو اقتدار بھی حاصل ہو گیا ہے ، دشمنانِ اسلام کو امید نہیں رہی کہ وہ اسلام کو مہِ کامل بننے سے روک سکیں گے یا اسے مٹانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ لہٰذا ان سے ڈر کر شرعی احکام کی تعمیل میں مداہنت (نرمی) برتنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اب اسلام اپنا لوہا منوا چکا ہے لہٰذا تمہارا کام شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرنا اور اسلامی قوانین پر کسی مفاہمت کے بغیر کار بند ہونا ہے۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ” سے مراد کوئی مخصوص دن نہیں بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں شریعت کی تکمیل ہوئی۔ تکمیل کا یہ مرحلہ صلح حدیبیہ کے بعد سے یعنی ذی قعدہ ۰۶ ھ سے شروع ہوتا ہے ، جو اوائل ۰۱۱ ھ تک رہ ا۔ حجۃ الوداع (ذی الحجہ) ۱۰ ھ کے موقع پر شریعت بیضاء نے ماہ کامل کی شکل اختیار کر لی تھی اور تکمیل دین کا اعلان پوری شان و شوکت کے ساتھ ہوا تھا اور اس آیت کریمہ کی صداقت کا ظہور اس طرح ہوا تھا کہ گویا یہ آیت اسی دن نازل ہوئی تھی ،اسی لئے راویوں نے اس آیت کے نزول کو اس دن کے نزول پر محمول کیا۔ ورنہ سلسلۂ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حلت و حرمت کے بیان کا ایک جزء ہے اور اس کا نزول حجۃ الوداع سے کافی پہلے ہو گیا تھا۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دین کو مکمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قصرِ دین کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ اس میں نہ تو کوئی خلا رہ گیا ہے اور نہ کسی اضافہ کی گنجائش ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کو جو ہدایت دینا تھی وہ دے چکا اور جو نظامِ عبادت و اطاعت نازل کرنا تھا وہ نازل کر چکا۔ اب اس دین کو اسی شکل میں قیامت تک باقی رہنا ہے۔ اور اقوامِ عالم کے لیے یہی مینارۂ ہدایت ہے۔
دین اسلام کی یہ تکمیل شان دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ایک یہ کہ یہ دین زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک کے لئے جس رہنمائی کی ضرورت تھی اور انفرادی اجتماعی زندگی کے لئے جو آسمانی ہدایات مطلوب تھیں ان سب کا اہتمام اس دین میں کیا گیا ہے لہٰذا جس شان کا یہ دین ہے اسی شان کا اس کے پیروؤں کو بھی ہونا چاہیے یعنی یہ کہ وہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس کی مخلصانہ پیروی کریں ، اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اسی کی روشنی میں بسر کریں۔ اور اس کے تقاضوں کو پورا کریں۔
دوسری حقیقت یہ کہ جب دین کی تکمیل ہو گئی تو رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا کیوں کہ دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اور جب کہ قیامت تک اس کے تحفظ کا سامان بھی کر دیا گیا ہے کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے حضرت محمدﷺ کو سلسلۂ رسالت کے آخری کڑی قرار دیا گیا اور قرآن کو آخری کتاب۔ اس حقیقت کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بعثت قصرِ دین کی آخری اینٹ ہے۔
بخاری شریف کتاب احادیث الانبیاء)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : میری اور گزشتہ انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور شاندار مکان بنایا لیکن اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی جگہ چھوڑ دی۔ لو گ اس کے گر د گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے البتہ (خالی جگہ کو دیکھ کر) کہتے کیا بات ہے یہاں اینٹ نہیں رکھی گئی۔ آپ ؐ نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبین ہوں۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تکمیل دین تمہارے حق میں اتمام نعمت ہے ، کیوں کہ ایک مکمل اور جامع شریعت نے تمہارے لئے ہر شعبۂ زندگی میں حقیقی ارتقاء کی بے شمار راہیں کھول دی ہیں اور ایک ایسا چمنستان مہیا کر دیا ہے جس کا ہر پھول مشامِ جاں کو معطر کر دینے والا ہے۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے واحد پسندیدہ دین کے ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آخری اعلان ہے ورنہ اس سے پہلے بھی یہ بات مختلف پیرایوں میں بیان ہو چکی ہے۔ مثلاً سورہ آل عمران میں فرمایا ؛
اللہ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہے۔ آل عمران۔ ۱۹) اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہو گا۔ آل عمران۔ ۸۵)
یہاں تکمیل دین کے اعلان کے ساتھ اسلام کے پسندیدہ دین ہونے کا اعلان گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری انتباہ ہے کہ اسلام کے ایک مکمل دین کی حیثیت سے ظہور میں آنے کے بعد بھی جو لوگ دوسرے مذاہب سے چمٹے رہیں گے وہ اپنی گمراہی کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد ٹمٹماتے ہوئے دئے بیکار ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی شخص کو اپنے دئے سے ایسی محبت ہو کہ وہ سورج کی روشنی کو دیکھنا بھی پسند نہ کرے تو اس کی یہ عصبیت اسی کے خلاف پڑے گی اور اس کے حصہ میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شریعت مطہرہ میں حقیقی مجبوریوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ ان کا لحاظ کرتے ہوئے رخصتیں دے دی گئی ہیں۔ لہٰذا یہاں جن چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے ان کے سلسلہ میں یہ رخصت موجود ہے کہ اگر واقعی کوئی شخص بھوک سے مجبور ہو جائے اور جان بچانے کے لئے بقدر ضرورت کوئی حرام چیز کھا لے تو وہ گنہگار نہ ہو گا لیکن یاد رہے کہ جو شخص اس رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھا گا اور حرام کھانے کا خواہش مند ہو گا تو اس پر ضرور گرفت ہو گی۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طیبات (پاکیزہ چیزوں) سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کو نہ شریعت نے حرام ٹھہر یا ہے اور نہ جن کو انسان کی فطرتِ سلیمہ ہی خبیث قرار دیتی ہے۔
سوال جانوروں کے تعلق سے تھا اس لئے اس کے جواب میں جو بات ارشا د ہوئی ہے اس سے واضح ہوا کہ جانوروں کا گوشت کھانے کے معاملہ میں نہ شرعی پابندیوں سے آزاد ہونا صحیح ہے اور نہ وہمی پن میں مبتلا ہو کر گوشت خوری سے پرہیز کرنا بلکہ انسان کے لئے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ شرعی پابندیوں کا لحاظ کرتے ہوئے پاک جانوروں کا گوشت کھائے۔
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شکاری جانوروں سے مراد وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کا کام لیتا ہے مثلاً کتے ، چیتے ، باز ، شکرے وغیرہ۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدھا ہوا یعنی جن جانوروں کو تم نے شکار کی ٹریننگ دی ہو۔ ایسا جانور جس جانور کا شکار کرتا ہے اسے پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لئے روک رکھتا ہے۔ اس لئے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار حلال ہے۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جانوروں کو شکار کی جو تعلیم دیتا ہے وہ اس علم کی بناء پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بخشا ہے لہٰذا اس نعمتِ خداوندی پر اسے اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس شکاری کو وہ خود نہ کھائیں بلکہ تمہارے لئے روک رکھیں اس کو تم کھا سکتے ہو۔
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شکاری جانور کو چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ عدی بن حاتم نے نبیﷺ سے پوچھا کہ کیا میں کتے ذریعہ شکار کر سکتا ہوں ؟آپؐ نے فرمایا اگر اس کو چھوڑتے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیوں کہ اس نے شکار کو تمہارے لئے نہیں پکڑا ہے بلکہ اپنے لئے پکڑا ہے۔ (بخاری کتاب الذبائح والصید)
شکار کے سلسلہ میں یہاں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے مانوس جانوروں کو ذبح کرنے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے یعنی حلق کے ایک حصہ کو کاٹ دینا جیسا کہ بھیڑ بکری کو ذبح کیا جاتا ہے یا لبہ کو کاٹ دینا جیسا کہ اونٹ کو ذبح کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ایک خاص طریقہ اس نے شکار کے حلال ہونے کے لئے بھی مقرر کیا ہے اور وہ ہے تربیت یافتہ شکاری جانور کو اللہ کا نام لے کر شکار کے لئے چھوڑ دینا۔ یہ چھوڑ ا ہوا شکاری جانور اگر پاک جانوروں میں سے کسی کا شکار کرے یعنی اسے مار ڈالے لیکن شکار کو خود نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے پکڑ رکھے تو وہ اسے کھا سکتا ہے اور اگر وہ زندہ حالت میں مل جائے تو اس صورت میں لازما اللہ کا نام لے کر ذبح کر نا ہو گا۔
وہ اگر شکار کو تمہارے لئے روک رکھے اور تم اسے زندہ پاؤ تو ذبح کرو۔
مسلم کتاب الصید)
واضح رہے کہ شکار عربوں کے ہاں محض تفریح طبع کا سامان نہ تھا بلکہ گز ر بسر کا ایک اہم ذریعہ تھا خاص طور سے وہ سفر میں اس پر گزارہ کرتے تھے اس لئے قرآن نے شکار کے بارے میں شرعی احکام واضح کر دئے تاکہ اس معاملہ میں انسان کی صحیح رہنمائی ہو۔ چنانچہ اس نے مانوس جانوروں کو ذبح کرنے کے لئے جو طریقہ مقرر کیا ہے اس سے نسبتا ً آسان طریقہ غیر مانوس جانوروں کو شکار کی صورت میں ذبح کرنے کا مقرر کیا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تنبیہ ہے کہ اگر شکار کے شوق میں تم نے شرعی حدود کی پرواہ نہیں کی تو خدا کے ہاں گرفت ہو گی لہٰذا اس سے ڈرو اور شرعی حدود کو نہ توڑو۔
۴۱ "۔ "آج ” سے مراد وہ زمانہ ہے جب کہ دین اسلام اپنے تکمیلی مرحلہ میں داخل ہو گیا اس موقع پر اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کی نازل کردہ اس آخری شریعت میں تمام پاکیزہ چیزوں کو حلال اور صرف نا پاک چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے سابقہ شریعتوں میں مخصوص حالات کی بناء پر جو پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں ان سب کو ختم سمجھنا چاہئے۔ اسی طرح جو پابندیاں اہلِ مذاہب نے توہم پرستی کی بنا پر عائد کر رکھی ہیں مثلاً گوشت خوری ہی کو انہوں نے سرے سے حرام قرار دیا تو اس قسم کی تمام پابندیاں تکمیلِ شریعت کے بعد از خود کالعدم ہو گئی ہیں۔
شریعت محمدیہ کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے حلال و حرام کے سلسلہ میں انسان کو تمام غیر ضروری پابندیوں سے آزاد کر دیا ہے اور تمام پاکیزہ کھانوں کے دستر خوان بچھا کر پوری انسانیت کو اس سے مستفید ہونے کی دعوت دی ہے۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں اہلِ کتاب کے کھانے (طعام) سے مراد ان کا (یعنی یہود و نصاریٰ کا) ذبیحہ ہے جب کہ وہ پاک جانور کا ہو اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر وہ نا پاک جانور کا گوشت پیش کریں تو وہ مسلمانوں کے لئے حلال ہو گا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب لینا صحیح ہو گا کہ وہ اپنے ذبیحہ پر اللہ کا نام لیں یا نہ لیں مسلمان اسے کھا سکتے ہیں اس قسم کا مطلب نکالنے کی یہاں مطلق گنجائش نہیں ہے کیوں کہ اگر ایک مسلمان بھی دانستہ اللہ کا نام لینا ترک کر دے تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہو گا کجا یہ کہ کسی یہودی یا نصرانی کا ذبیحہ حلال ہو جب کہ وہ اس کو اللہ کے نام سے ذبح نہ کرے۔
رہا مشینی ذبیحہ جو موجودہ زمانہ کی ایجاد ہے ، تو یہ محض گردن اڑا دینے کا عمل ہے اور یہ عمل اللہ کا نام لینے کی قید سے بھی آزاد ہے اس لئے اس پر شرعی ذبیحہ کا اطلاق نہیں ہوتا خواہ مشین چلانے والا مسلمان ہو یا کتا بی۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ یہود پر ان کی سر کشی کی وجہ سے جو چیزیں حرام کر دی گئی تھیں وہ آخری نبی کے ظہور اور آخری شریعت کے نزول کے بعد حرام نہیں رہیں لہٰذا اب ان کے لئے کھانے پینے کے سلسلہ میں صرف وہی پابندیاں ہیں جو شریعت محمدیہؐ میں مسلمانوں پر عائد کر دی گئی ہیں یعنی خبیث اور نا پاک چیزیں اس لئے مسلمانوں کا ذبیحہ کھانے میں ان کے لئے قانونِ خداوندی کی رو سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے یہ اعلان در اصل اہلِ کتاب کے لئے آسانی کی راہ کھول دینے والا ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدر کریں۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یہودو نصاریٰ کی عورتیں ہیں ان سے نکاح کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی ہے کہ وہ پاکدامن ہوں۔ بد چلن اور آوارہ کتابی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت نہیں ہے۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قرآن کی اس اجازت کے پیشِ نظر متعدد صحابہ نے نصرانی عورتوں سے نکاح کر لیا تھا اور اس میں انہوں نے کوئی حرج محسوس نہیں کیا (تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۰)
کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت اصل میں اس بنا پر دی گئی ہے کہ اس صورت میں ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے امکانات قوی ہیں لیکن اگر اس کے برعکس شوہر یا اولاد کے کافرانہ تہذیب سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھانا صحیح نہ ہو گا چنانچہ آگے یہ تنبیہ بھی کر دی گئی ہے کہ جو اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا وہ تباہ حال ہو گا۔
مسلمان مردوں کو یہودی اور نصرانی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے اور مسلمان عورتوں کو یہودیوں اور نصرانیوں سے نکاح کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت کے لئے قوام کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اس پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اسلام کے طرزِ معاشرت کو گھر میں قائم رکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ صحیح معنی میں مسلمان ہو بخلاف اس کے عورت مرد کی دست نگر ہوتی ہے اس لئے اگر ایک مسلمان عورت کسی یہودی یا نصرانی مرد کی بیوی ہو تو اس کا عقیدۂ توحید پر قائم رہنا اور اسلامی طرزِ معاشرت کو اختیار کئے رہنا مشکل ہو گا۔ اس واضح حقیقت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام کے اس حکم پر ناک بھوں چڑھاتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کی فطر ت غلبہ چاہتی ہے اس لئے وہ کسی دائرہ میں بھی مغلوبیت کی پوزیشن کو قبول نہیں کرتا۔ الا اسلام یعلو ولا یعلیٰ
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کے ساتھ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دعویٰ تو اپنے مسلمان ہونے کا کرے لیکن عملاً ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس انتباہ کا مطلب یہ ہے کہ کتابی عورتوں سے نکاح کی جو اجازت دی گئی ہے اس سے جو شخص فائدہ اٹھانا چاہے وہ اس بات سے ہوشیار رہے کہ کہیں یہ رشتہ اس کے دین و ایمان کے لئے فتنہ کا باعث تو نہیں بنے گا۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب نماز کا قصد کرو۔
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے اور طہارت کا جو طریقہ یہاں بتایا گیا ہے اس کو شرعی اصطلاح میں وضو کہتے ہیں۔ ا س حکم کی جو تشریح نبیﷺ نے فرمائی ہے اس کے مطابق وضو کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ پہنچوں تک دھوئے جائیں ، اس کے بعد منہ میں پانی ڈال کر کلی کی جائے ، پھر منہ دھو لیا جائے اس کے بعد دایاں ہاتھ اور پھر بایا ں ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا جائے ،پھر پانی سے سر کا مسح کیا جائے ، اور دونوں کانوں کو بھی مسح میں شامل کر لیا جائے ، اخیر میں پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا جائے۔ وضو کے سلسلہ میں طویل مباحث سے قطع نظر چند ضروری باتوں کی وضاحت یہاں کی جاتی ہے۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وضو کے اعضاء کو ایک مرتبہ دھونے سے وضو ہو جاتا ہے لیکن تین تین مرتبہ دھونا بہتر ہے۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں کہنیاں اور پاؤں میں ٹخنے دھونا بھی شامل ہے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسح بہتر ہے کہ پورے سرکا کر لیا جائے اور ساتھ ہی کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصہ کا بھی مسح کر لیا جائے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وضو کے اعضاء اس طرح دھوئے جائیں کہ کوئی حصہ خشک نہ رہنے پائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے پاؤں ٹھیک سے نہیں دھوئے تھے اس لئے ان کی ایڑیاں خشک رہ گئی تھیں آپؐ نے فرمایا:ویل للاعقاب من النار (مسلم کتاب الطہارۃ) یعنی ان ایڑیوں پر افسوس جو (خشک رہنے کی وجہ سے) آگ میں جلیں گی۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں کے سلسلہ میں بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انکا مسح کر لینا کافی ہے جب کہ قرآن و سنت کی روسے دھو لینا ضروری ہے۔ اگر مسح کر لینا کافی ہوتا تو الی الکعبین "ٹخنوں تک ” کی قید نہ ہوتی اور نہ ایڑیاں خشک رہ جانے پر وہ وعید سنائی جاتی جس کا ذکر اوپر حدیث میں ہوا۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک نماز کے لئے جو وضو کیا گیا وہ جب تک کہ ٹوٹ نہیں جاتا دوسری نمازوں کے لئے کافی ہے۔
رہی وضو کی حکمت و مصلحت تو اس سے نہ صرف یہ کہ ظاہری نظافت حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ باطنی پاکیزگی کے حصول کا بھی ذریعہ ہے چنانچہ وضوء کرنے سے گناہ جھڑنے لگتے ہیں اور آدمی اپنے کو طہارت کی حالت میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بندہ مومن جب وضوء کرتا ہے تو چہرہ اور ہاتھ ، پاؤں سے پانی کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ساقط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔
حتی یخرج نقیا من الذنوب (مسلم کتاب الطھارۃ)
اور قیامت کے دن وضو کے اثر سے چہرہ اور ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے۔
ان امتی یاتون یوم القیامۃ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنْ اَثَرِ الوُضُوْئِ
مسلم کتاب الطھارۃ)
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنابت کی تشریح سورہ نساء نوٹ ۹۹ میں گزر چکی۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۰۱
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیمم کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۱۰۲ میں گزر چکی۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وضو اور غسل کی پابندیاں تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں ہے بلکہ پاکیزہ بنانے کے لئے عائد کی گئی ہیں۔ جسم کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اس لئے وضو، غسل اور تیمم کا طریقہ بتا کر اللہ نے اپنی نعمت اہلِ ایمان پر تمام کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہیں تنگی میں ڈالے۔ یہ ایک بہت بڑا رہنما اصول ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ اس سے طہارت کے باب میں یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ پاکیزگی حاصل کرنے کے جو طریقے اسلام نے بتلائے ہیں ان پر اگر نیک نیتی کے ساتھ اور سیدھے سادے طریقہ پر عمل کیا جائے تو یہ حصولِ طہارت کے لئے کافی ہو گا۔ ان طریقوں میں تشدد پیدا کرنا ، شارع کا منشاء ہر گز نہیں ہے۔ لہٰذا فقہی موشگافیوں کے نتیجہ میں جو تشددات پیدا ہو گئے ہیں وہ در اصل غیر ضروری پابندیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں۔
۔ مراد وہ فضل ہے جو کامل شریعت نازل کر کے اہلِ ایمان پر کیا گیا۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ ذمہ داری ہے جس کو قبول کر کے آدمی دینِ اسلام میں داخل ہوتا ہے ، یعنی یہ بات کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا۔ کلمۂ شہادت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے اور صراحت کے ساتھ بھی یہ عہد پیغمبر کے واسطہ سے اہلِ ایمان سے لیا گیا ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس بات سے ڈرو کہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اللہ کے ہاں اس کی سخت سزا تمہیں بھگتنا ہو گی۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری ساری تگ و دو اللہ کے لئے ہونی چاہئے اور تمہاری تمام سر گرمیوں کا محور و مرکز رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ یہ بات اہلِ ایمان سے فرداً فرداً بھی مطلوب ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ افراد میدانِ عمل میں خلوص و للٰہیت کا ثبوت دیں اور امت مسلمہ اجتماعی طور پر دینِ حق کی علمبردار بن جائے۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۲۲۰۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی قوم کی دشمنی انسان کو تعصب میں مبتلا کر تی ہے جس کی وجہ سے وہ اس قوم کے ساتھ غلط رویہ اختیار کر بیٹھتا ہے پھر اس میں انصاف اور ناانصافی کی تمیز باقی نہیں رہتی لیکن امتِ مسلمہ کا تو مقصدِ وجود ہی قیام عدل ہے اس لئے اسے کسی قوم کی دشمنی سے ایسا متاثر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ عدل کا دامن چھوڑ دے بلکہ اس کا امتیاز ی وصف یہ ہونا چاہئے کہ اپنے تمام معاملات میں حتی کہ اپنی سیاسی پالیسی میں بھی اور تمام لوگوں کے ساتھ یہاں تک کہ دشمنِ قوم کے ساتھ بھی وہ عدل و انصاف پر کار بند رہے۔
نبیﷺ کے تربیت یافتہ گروہ میں یہ وصف بدرجۂ کمال موجود تھا وہ نہ تو اپنے دشمنوں کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے اور نہ ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے حتی کہ جنگ میں بھی وہ زیادتی کے مرتکب نہ ہوتے۔ وہ مقتولین کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرتے اور نہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے۔ بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرتے اور نہ عورتوں کی عزت لوٹتے۔ اسی لئے وہ اس بات کے اہل قرار پائے کہ عدل کے ساتھ حکومت کریں اور زمین کو عدل سے بھر دیں۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودی (بنی النضیر) نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کرنے کے لئے کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بر وقت آپ کو مطلع فرما کر محفوظ رکھا۔
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عہدِ اطاعت ہے۔ تورات میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خدا کی بات ماننے اور اس عہد پر چلنے کی تلقین کی تو انہوں نے کہا ” جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔ (خروج ۱۹:۸) نیز استثناء میں ہے ” تو نے آج کے دن اقرار کیا ہے کہ خداوند تیرا خدا ہے اور تو اس کی راہوں پر چلے گا اور اس کے آئین اور فرمان اور احکام کو مانے گا اور اس کی بات سنے گا۔
استثناء ۲۶ :۱۷)
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کے قبیلے بارہ تھے اس لئے ہر قبیلہ میں سے ایک ایک شخص کو نگراں مقرر کیا تھا تاکہ شرعی احکام پر عمل در آمد کے سلسلہ میں وہ لوگوں کی نگرانی کریں اور ان میں بگاڑ پیدا ہونے نہ دیں۔ بارہ سرداروں کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو (گنتی باب ۱۳ استثناء ۱: ۳۲)
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خدا جس قوم کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ساتھ لازما اس کی تائید و نصرت ہوتی ہے۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی تھی اس میں نماز اور زکوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل تھی لیکن جہاں تک موجودہ تورات کا تعلق ہے اس میں زکوٰۃ کا ذکر تو ہے لیکن نماز کو اس کے صفحات سے بالکل غائب کر دیا گیا ہے۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھی آئیں گے ان پر تم ایمان لاؤ گے اور ان کی تائید و حمایت کرو گے۔ اس میں آخری رسول حضر ت محمدﷺ پر ایمان لانا اور آپؐ کی مدد کرنا بھی شامل ہے اور خاص طور سے اشارہ اسی کی طرف ہے۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ انفاق زکوٰۃ کے علاوہ ہے کیوں کہ زکوٰۃ کا ذکر اوپر گزر چکا۔ زکوٰۃ کے علاوہ مزید انفاق کی ضرورت جہاد کے لئے بھی ہو سکتی ہے اور دعوتِ دین کی اشاعت کے لئے بھی۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۸۱۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن بنیادی اوصاف کا اوپر ذکر ہوا وہ اگر انسان اپنے اندر پید ا کر لے تو اس کی کمزوریاں اور برائیاں زائل ہونے لگتی ہیں۔
ان الحسنات یذھبن السیئات
نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں (ہود ۱۱۴) اور جو قصور اور لغزشیں اس سے سرزد ہو گئی ہوں اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دیتا ہے۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنت کے سدا بہار باغ ہیں۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان واضح ہدایات کے بعد بھی جس نے کفر کی روش اختیار کی اور محمدﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اس نے اصل شاہراہ جو خدا تک پہنچنے کی واحد راہ ہے اور جس کا نام اسلام ہے اپنے اوپر گم کر دی۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو قوم اللہ کے عہد کو توڑ دیتی ہے وہ لعنت کی مستحق ہو جاتی ہے اس کے بعد دل کی اثر پذیری باقی نہیں رہتی اور تذکیر و نصیحت کی باتیں بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
بائبل کی کتاب زکریا ہ میں بنی اسرائیل کی سنگ دلی کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے۔
"اور انہوں نے اپنے دلوں کو الماس کی مانند سخت کیا تاکہ شریعت اور اس کلام کو نہ سنیں جو رب الافواج نے گزشتہ نبیوں پر اپنی روح کی معرفت نازل فرمایا تھا اس لئے رب الافواج کی طرف سے قہر شدید نازل ہوا۔ (زکریا ۷:۱۲) ۔
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بات ہوتی کچھ ہے اور بنا کچھ دیتے ہیں جب دل سخت ہو جاتے ہیں تو ان میں قبولِ حق کی استعداد باقی نہیں رہتی ایسے لوگوں کے سامنے حق بات آ جاتی ہے تو اسے اپنی خواہشات کے خلاف پا کر ایسے معنی پہنانے لگتے ہیں جو نہ سیاقِ کلام سے مناسبت رکھتے ہیں ، اور نہ منشائے کلام سے۔
یہود کتاب الٰہی میں جس قسم کی تحریفات کرتے تھے اس کی وضاحت سورہ بقرہ نو ٹ ۹۶ میں کی جا چکی ہے۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہوں نے تورات کو جس کے ذریعہ انہیں نصیحت کی گئی تھی محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس کے ایک حصہ کو وہ بھلا بیٹھے چنانچہ موجودہ تورات (بائبل) میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کی جز او سزا کا ذکر مشکل ہی سے ملے گا۔ البتہ دنیوی عذاب اور انعامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور شریعت کی پابندی کرنے پر جو بڑے سے بڑا انعام دینے کا وعدہ بار بار کرایا گیا وہ ملک ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں یعنی سرزمین فلسطین، ظاہر ہے کسی کتاب الٰہی کا اندازِ ترغیب و ترہیب یہ نہیں ہو سکتا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تورات کا وہ حصہ جو تذکیر آخرت پر مشتمل تھا یہود نے فراموش کر دیا۔
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب الٰہی میں تحریف امانت میں خیانت ہے۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس قسم کی شرارتیں نہیں کرتے۔ اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں قبولِ اسلام کی توفیق ہوئی۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسے لوگ تکلیف و اذیت کی جو باتیں بھی کریں وہ ان سے بعید نہیں لیکن تم عالی ظرفی کے ساتھ انہیں معاف کر دو اور ان کی حرکتوں سے در گزر کرو۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ” نصاریٰ” مذہبِ نصرانیت کے پیروؤں کا اپنا رکھا ہوا نام ہے۔ اللہ نے تو اپنے دین کے پیروؤں کا نام جیسا کہ سورۂ حج کی آخری آیت میں ارشاد ہوا ہے "مسلمین” رکھا تھا نہ کہ نصاریٰ اور جہاں تک لفظی تحقیق کا تعلق ہے نصاریٰ نصراج کی جمع ہے جیسے ندامیٰ ندمان کی جمع ہے (الصحاح للجوہر ج ۲ص ۸۲۹) اور یہ ناصرہ کی طرف منسوب ہے جو شام کا ایک شہر ہے جہاں حضرت عیسیٰ ؑ نے سکونت اختیار کی تھی چنانچہ بائبل میں ہے:
اور ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔ ” (متی ۲:۲۳) ۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عہد اطاعت ہے۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد انجیل ہے جس کا بڑا حصہ وہ فراموش کر بیٹھے۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی ہدایات کو فراموش کر دینے کا لازمی نتیجہ باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں ہیں چونکہ یہ نتیجہ قانون الٰہی کے مطابق ظہور میں آتا ہے اس لے اس بات کو "ہم نے ان کے درمیان بغض و عناد کی آگ بھڑکا دی” سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے نجات کی صورت یہی ہے کہ وہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا کر اسلام کی شاہراہ پر چل پڑیں لیکن جب انہوں نے تعصب میں مبتلا ہو کر اس رہنمائی کو قبول نہیں کیا تو اللہ نے انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ وہ قیامت تک آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور عیسائیت کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں مذہبی بحث و جدال کے معرکے خوب گرم رہے۔
اس واقعہ کے ذکر سے مقصود محض نصاریٰ کو متنبہ کرنا نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کو بھی آگاہ کرنا ہے کہ وہ اس سے سبق حاصل کریں ورنہ قرآن کی تعلیم کو فراموش کرنے کی صورت میں ان کے اندر بھی ملی انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ پیغمبر ان باتوں کو بے نقاب کر رہا ہے جن پر اہل کتاب نے پردہ ڈال رکھا تھا اور جن کی تجدید دین کی غرض سے کھولنے کی ضرورت تھی ان کے علاوہ بہ کثرت تحریفات ایسی ہیں جن سے براہ راست تعرض کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقت قرآن کی اصول رہنمائی سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے اس لیے ایسی بہت سی باتوں کو پیغمبر نظر انداز کر دیتا ہے۔
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور (روشنی) رسول کی صفت ہے۔ مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کے ظہور سے دینِ حق کی روشن پھیل۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کی تعلیمات نہایت واضح ہیں۔ اہل کتاب نے کتاب الٰہی کی تعلیمات کو ایسا الجھا کر رکھ دیا تھا کہ ان کو سلجھانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی لکن قرآن کی روشن تعلیمات نے ان تمام الجھی ہوئی باتوں کو ختم کر دیا۔ اس لیے قرآن کی دعوت یہ ہے کہ جن الجھی ہوئی باتوں میں اہل مذاہب گرفتار ہیں ان سے نکلنے کی راہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی روشن تعلیمات کو قبول کر لیں۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر دینِ حق کی مخلصانہ پروی کرے گا اس کی تمام الجھنیں رفع ہو جائیں گی اور وہ ہر قسم کے شر سے محفوظ رہے گا۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے غلط راہوں سے بچنے اور سلامتی کی راہوں پر چلنے کی توفیق نصیب ہو گی۔
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں اور روشنی سے مراد علم کی روشنی۔
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہِ راست (صراطِ مستقیم) سے مراد اسلام ہے۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ مسیح ابن مریم میں حلول کر گیا ہے اور حقیقت الوہیت مسیح ہی میں پائی جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر مسیح خدا کا جسمانی ظہور ہے۔
بائبل کی کتاب اعمال میں ہے:
"پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔ ” (اعمال ۲:۳۶)
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ مسیح ان کی والدہ اور ساری مخلوق کو فنا کر دینا چاہے تو کون اسے اس ارادہ سے روک سکتا ہے؟ اور جب مسیح خود اپنے کو ہلاک ہونے سے روک نہیں سکتے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ اتنی موٹی بات بھی مسیح کے پرستاروں کی سمجھ میں نہیں آتی!
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جس طرح چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ کسی کا بغیر باپ کے پیدا ہو جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خدا ہے یا خدائی میں شریک ہو گیا ہے۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تورات اور انجیل میں بھی تحریف کی چنانچہ جہاں بنی اسرائیل کو خدا کے بندے کہا گیا تھا وہاں انہوں نے خدا کے بیٹے لکھ دیا۔
"تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو” (استثناء ۱۲:۱)
"دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم ہیں بھی”۔ (یوحنا کا پہلا عام خط ۳:۱)
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے اس دعوے کی تردید تمہاری اپنی تاریخ سے ہوتی ہے کہ تمہاری سرکشی کی وجہ سے تمہیں کیسی سخت سزائیں دنیا میں ملتی رہی ہیں۔ دشمنوں کا ان پر مسلط ہونا، پوری قوم کو غلط بنا دینا، قتل عام، بیت المقدس کی تباہی جیسے عبرتناک واقعات کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ خدا کے نزدیک نہ تو کوئی قوم چہیتی ہے اور نہ کسی گروہ کو اس نے پروانۂ نجات لکھ کر دیا ہے بلکہ وہ عمل کی بنیاد پر جزا و سزا کا فیصلہ کرتا ہے، پھر آخرت میں فصلہ عمل کی بنیاد پر کیوں نہیں ہو گا؟
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء کی نسل سے ہونے کی بنا پر کوئی قوم نجات کی مستحق نہیں قرار پاتی۔ نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بخشنا اور عذاب دینا کلی طور پر اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو بخشش کا مستحق سمجھے گا اسے بخش دے گا اور جس کو عذاب کا مستحق سمجھے گا اسے عذاب دے گا۔ رہا یہ سوال کہ وہ کس کو بخشش کا مستحق سمجھے گا اور کس کو عذاب کا تو اس سلسلہ میں اس نے اپنا قانون جزا و سزا قرآن میں واضح کر دیا ہے اور یہ قانون نسل کی بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی۔ آپ کی بعثت ۶۱۰ عیسوی میں ہوئی یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریباً پونے چھ سو سال بعد۔
اس طویل مدت میں اہل کتاب نے کتاب الٰہی میں تحریف کر کے اور اپنی بدعات کے ذریعہ جو گمراہیاں پھلائی تھیں اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہو گا تھا کہ خدا کا اصل دین کا ہے۔ ان حالات کا تقاضا تھا کہ اللہ اپنا رسول بھیجے جو ان تمام گمراہیوں کے مقابلہ میں ہدایت کی راہ واضح کرے اور لوگوں کو بتائے کہ خدا کا اصل دین یہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اسی مقصد کے لیے ہوئی۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب اپنی گمراہی پر جمے رہنے کے لیے تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خوب سمجھ لو کہ اگر اب بھ تم اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے تو اللہ تمہیں سخت سزا دینے پر قادر ہے۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے شاندار ماضی کی طرف۔ ان کی تاریخ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء سے وابستہ ہے اور یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ان کو مصر میں اقتدار نصیب ہوا۔
بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے دوسری قوموں کے مقابلہ میں یہ امتیاز بخشا کہ انہیں منصب امامت عطا کیا تاکہ وہ دینِ حق کے علمبردار بنکر شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ان کی غیر معمولی مدد فرماتا رہا ہے فرعون جیسے زبردست اور ظالم بادشاہ سے نجات اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت ہی کا نتیجہ تھی۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کنعان (فلسطین) کی سرزمین ہے اس کو مقدس سرزمین سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دعوت اسلامی کا مرکز بنایا تھا اور بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ یہ سرزمین ان کو میراث میں دے گا۔ تورات میں ہے:
"دیکھو میں نے اس ملک کو تمہارے سامنے کر دیا ہے۔ بس جاؤ اور اس ملک کو اپنے قبضہ میں کر لو جس کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادا ابراہام اور اسحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ وہ اسے ان کو اور ان کے بعد ان کی نسل کو دے گا۔ ” (استثناء ۱:۸)
واضح رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعوت اسلامی کے دو مرکز (Centre) قائم کئے تھے۔ ایک مکہ میں جہاں اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کو بسایا تھا اور دوسرا کنعان (فلسطین) جہاں اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو بسایا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب سے جن کا لقب اسرائیل ہے جو نسل چلی وہ بن اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کے ساتھ حضرت یوسف کے اقتدار کے زمانہ میں مصر منتقل ہو گئے تھے وہاں سالہا سال تک رہنے کے بعد ان کی تعداد کافی بڑھ گئی مگر اس وقت فرعون ان پر حکمرانی کر رہا تھا۔ حضرت موسیٰ کو جو بنی اسرائیل ہی میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنا کر بھجا، انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے چڑایا اور ہجرت کر کے سینا میں آئے۔ یہاں انہیں کوہِ طور کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے شریعت عطاء کی۔ اس کے بعد جب وہ دشتِ فاران میں پہنچے اور فلسطین کا علاقہ قریب آیا تو انہیں حکم دیا گا کہ وہ اپنی اصل منزل کی طرف کوچ کریں جو ان کا اصل وطن ہے یعنی کنعان اور فلسطین کا علاقہ تاکہ اس کی یہ حیثیت کہ وہ مرکزِ دعوت ہے بحال ہو۔ بعد میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں اسی کے مشہور شہر یروشلم میں بیت المقدس کی تعمیر ہوئی۔
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہاں ایسے زبردست لوگ رہتے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
بائبل میں ان کا بیان اس طرح نقل ہوا ہے:
"وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد اور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنے ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ ” (گنتی ۱۳:۳۲، ۳۳)
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں ان دو اشخاص کے نام یوشع اور کالب آئے ہیں اور اس کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے بارہ سرداروں کو اس مہم پر بھجا تھا کہ وہ فلسطین جا کر وہاں کے حالات معلوم کر آئیں۔ وہاں سے واپس آ کر انہوں نے مجمع عام میں بیان کیا کہ اس ملک میں تو "دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ” لیکن وہاں کے لوگ نہایت زبردست اور طاقتور ہیں۔ ان کا یہ بیان سن کر مجمع چیخ اٹھا اور واویلا کرنے لگا "اے کاش ہم مصر ہ میں مر جاتے یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے! خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچ لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہو گا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں۔ ” (گنتی ۱۴:۲تا۳)
اس موقع پر ان بارہ سرداروں میں سے دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں نے ان کی ہمت بندھانے کی بہت کوشش کی اور کہا "ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو”۔ مگر انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ "ان کو سنگسار کرو”۔ (گنتی ۱۴۔ ۱۰)
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد حضرت ہارون ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھائی تھے اور نبی بھی۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس کو فتح کر لینے کا جواب حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لیے قوم کسی طرح تیار نہیں ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایک طرف میں اور میرا بھائی ہارون ہے جو ہر طرح ترے کم کی تعمیل کے لیے آمادہ ہیں اور دوسری طرف قوم ہے جو نافرمان پر تل گئی ہے۔ ایسی صورت میں تو ہی فیصلہ فرما کہ ،ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اور اگر تیرا غضب اس پر بھڑکنے والا ہو تو ہمیں اس سے علیحدہ رکھ۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کو اس کی نافرمانی کی سزا ہ ملے کہ وہ چالیس سال تک ارض مقدس میں داخل نہیں ہو سکیں گے بلکہ بیابان میں مارے مارے پھریں گے۔ تورات میں ہے:
"اور تمہارا حال یہ ہو گا کہ تمہاری لاشیں اس بیان میں پڑی رہیں گی اور تمہارے لڑکے بالے چالیس برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے اور تمہاری زناکاریوں کا پھل پاتے رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں خداوند یہ کہہ چکا ہوں کہ میں اس پوری خبیث گروہ سے جو میری مخالفت پر متفق ہے قطعی ایسا ہی کروں گا۔ ان کا خاتمہ اس بیابان میں ہو گا اور وہ یہیں مریں گے”۔ (گنتی ۱۴:۳۲ تا ۳۵)
چنانچہ بنی اسرائیل کو چالیس سال اسی صحرا نوردی میں گزارنا پڑے۔ اس عرصہ میں سب جوان مرد مر گئے اور ان کی جگہ نئی پود نے لی۔ آخری ایام میں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی وفات ہو گئی اور بنی اسرائیل ان کی قیادت سے محروم ہو گئے۔ البتہ حضرت موسیٰ اپنی وفات سے پہلے بن اسرائیل کو لے کر شہر اریحا کے قریب پہنچ گئے تھے جہاں سے فلسطین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور کوہِ عباریم پر چڑھ کر اس ملک کا مشاہدہ کیا تھا جس کو بنی اسرائیل عنقریب فتح کرنے والے تھے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل یوشع بن نون کی قیادت میں آگے بڑھی اور اس نے موعودہ ملک کی فتح کر لیا جس کی تفصیل بائبل کی کتاب یشوع میں موجود ہے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں ان کے نام قائین (قابیل) اور ہابل آئے ہیں۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نسلِ انسان کے ابتدائی زمانہ کا ایک اہم واقعہ ہے یہ واقعہ تورات میں بھی مذکور ہے لکن اس کے سبق آموز اجزاء غائب ہو گئے ہیں۔ یہاں قرآن نے اس قصہ کو نہ صرف بے کم و کاست بیان کر دیا بلکہ ساتھ ہی اس کی مقصدیت بھی پور طرح واضح کر دی۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی کیونکہ وہ متقی تھا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی کیونکہ وہ متقی نہیں تھا۔ قربانی کی قبولیت کی کوئی علامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ظاہر ہوئی ہو گی۔ یہ علامت کیا تھی اس کی وضاحت قرآن نے نہیں کی البتہ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسان سے آگ نازل ہوتی اور قربانی کو کھاجا تی (تفیسر کبیر ج ۱۱ص ۲۰۵) ممکن ہے اس وقت کے حالات میں جبکہ انسانی آبادی چند نفوس پر مشتمل تھی سوختنی قربان کا یہ غیر معمول واقعہ پیش آیا ہو (سوختنی قربانی کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۲۱۳)
ضمناً قربان کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ وہ قدیم ترین زمانہ میں بھی اللہ کی عبادت کا اہم جزء رہی ہے نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اولین تہذیب جس میں انسان نے آنکھیں کھولیں خالص خدا پرستی کی تہذیب تھی۔
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قابیل کو حسد پیدا ہوا کہ ہابیل کی قربانی کیوں قبول ہوئی اور اس کی قربانی کیوں نہیں قبول ہوئی۔ اس حسد کی وجہ سے اس نے اپنے بے گناہ بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔
معلوم ہوا کہ حسد وہ خطرناک بیمار ہے جو انسان کو قتل جیسے سنگین جرم پر آمادہ کرتی ہے۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قربان کی قبولیت کے لیے تقویٰ کے لیے تقویٰ کی شرط اس طرح ہے جس طرح کہ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے لن ینال اللہ لحو مھا ولا دماء ھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم (خدا تک ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کے حضور صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (حج ۳۷) گوا اول روز ہ سے انسان پر دین کی یہ حقیقت واضح کر دی گئی تھی کہ مراسم عبودیت کی تقویٰ (خدا خوف) کے بغیر ادائیگی اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تو اقدام قتل کرتا ہے تو کر میں اپنی طرف سے قتل کا آغاز کرنے والا نہیں۔ واضح رہے کہ قتل کا آغاز کرنا اور بات ہے اور مدافعت کرنا اور بات ہے اور مدافعت کرنا اور بات۔ یہاں قتل کا آغاز کرنے کی نف کی گئی ہے نہ کہ مدافعت کی۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تو نے قتل کرنے کا جو چیلنج کیا ہے اس سے مشتعل ہو کر میں تیرے قتل کے درپے ہوا تو میں بھی گنہگار ہو جاؤں گا لکن چونکہ میں ترے خلاف اس قسم کی کوئی کار روائی نہیں کر رہا ہوں اس لیے قتل کا لجو گناہ مجھ س سرزد ہوتا وہ بھی تیری ہی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ اب تو مجھے قتل کر کے دوہرے گناہ کا بار اٹھائے گا۔ ایک گناہ اقدام قتل کا اور دوسرا گناہ ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا جس نے باوجود اس بات کے کہ تو نے اس قتل کرنے کی دھمکی د تھی تیرے قتل کے درپے نہیں ہوا۔
حدیث میں آتا ہے:
اذالتقی المسلمان بسیفیما فاالقاتل والمقتول فی النار۔ قیل یارسول اللہ ہذا القاتل فما بال لمقتول؟ قال انہ قد ارار قتل صحابہ۔ (مسلم کتاب النفستن)
"جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے۔ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول! یہ اس لیے جہنم کا مستحق ہے کہ قاتل ہے لیکن مقتول کسی وجہ سے جہنم کا مستحق ہوا؟ فرمایا اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھ کو قتل کرنا چاہتا تھا”۔
یعنی جب دونوں کی نیت ایک دوسرے کو قتل کرنے کی ہو اور اس ارادہ سے دونوں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں گنہگار ہوں گا اور جہنم کے مستحق ٹھہریں گے۔
واضح رہے کہ مدافعت نفس (Self Defense) کی صورت میں اس سے مختلف ہے شریعت نے ہر شخص کو اپنی جان ، مال اور آبرو بچانے کا حق دیا ہے اسلئے اگر مدافعت کرنے والے کو دست درازی کرنے والے کا خون بہانا پڑتا ہے تو اس کا گناہ ست درازی کرنے والے ہر پر ہے اور اسلامی قانون میں ایسے خون کا نہ قصاص ہے اور نہ دیت۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جب کوئی گناہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو روکتا ہے لیکن جب وہ مسلسل اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے لگتا ہے تو پھر اس کا نفس اسے گناہ کے لئے آمادہ کر ہی لیتا ہے۔
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں ہے۔
” اور قارئین نے اپنے بھائی ہابل کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قارئین نے اپنے بھائی ہابل پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا (پیدائش ۴:۸)
معلوم ہوتا ہے کہ یہ قتل غفلت کی حالت میں کیا گیا تھا۔
۱۱۱یہ پہلا خون تھا جو زمین پر بہایا گیا۔ حدیث میں آتا ہے۔
لاتقتل نفس ظلما الا کان علی ابن آدم الاول کفلٌ من دمھا لا نہ اول من سن القتل (مسلم کتاب القسامہ)
جو شخص بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کے وبال میں آدم کا پہلا بیٹا شریک ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا طریقہ رائج کیا۔
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش یوں ہی چھوڑ دی تھی اور لاش کو میدان میں یوں ہی چھوڑ دینا کہ وہ سڑ گل جائے اس کی بے حرمتی ہے یہ بے حرمتی نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کے ذریعہ قابیل کو لاش دفن کرنے کا طریقہ بتلا یا اس وقت نسل انسانی کا آغاز تھا اور یہ پہلی لا ش تھی جو زمین پر گرا دی گئی تھی اس لئے قابیل کے ذہن میں دفن کرنے کی بات اس وقت آئی جب کہ اس نے کوے کو زمین کر ید کر کوئی چیز چھپاتے ہوئے دیکھا۔ کوے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ زمین کریدتا ہے اور اس میں کھانے کی کوئی چیز چھپا دیتا ہے کوے کی اس حرکت کو دیکھ کر قابیل کا ذہن لاش کو دفن کرنے کی طرف منتقل ہوا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی لاش کو زمین میں دفن کرنا فطرت کی رہنمائی ہے اور یہی طریقہ قدیم ترین زمانہ سے چلا ا رہا ہے۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جرم کا انجام پشیمانی ہی ہے۔ ظالمانہ حرکتیں کر کے انسان کبھی اطمینان اور سکونِ قلب حاصل نہیں کر سکتا۔ بخلاف اس کے حق و انصاف کی روش اختیار کر کے وہ اطمینان اور سکون کی دولت حاصل کر لیتا ہے۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں میں یہ مجرمانہ ذہنیت پرورش نہ پائے اور انسانی خون کی ارزانی نہ ہو اس لئے قتل نا حق کی سنگینی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اچھی طرح واضح کر دی تھی۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ، قتل ناحق کتنا بڑا جرم ہے اور کسی انسانی جان کو بچانا کتنی بڑی نیکی ہے جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ ایک جرم ہی نہیں کرتا بلکہ انسانیت کے خلاف اقدام کرتا ہے کیوں کہ اصل چیز جان کا احترام ہے اور خون آدمی اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل میں جان کا احترام باقی نہیں رہتا اور جب جان کا احترام باقی نہ رہا تو ایسا شخص پوری انسانی سوسائٹی کے لئے خطرناک بن جاتا ہے۔ وہ کب کیا اقدام کر بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بخلاف اس کے جو شخص کسی ایسے شخص کی جو موت کی چنگل میں ہو جان بچاتا ہے وہ نہ صرف ایک نیکی کا کام کرتا ہے بلکہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کے دل میں انسانی جان کا احترام موجود ہے اور وہ انسانیت کا ہمدرد اور بہی خواہ ہے۔ ایسا ہی شخص انسانی سوسائٹی کا محافظ ہوتا ہے۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کے لئے قتل کی سنگینی کا حکم لکھ دینے کے بعد ان کے اندر رسول بھی بھیجے جو ان پر خدا کے احکام واضح کر تے رہے اور خدا کی نافرمانی اور مجرمانہ حرکتوں پر انہیں جھنجھوڑتے رہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اکثر لوگ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے رہے اور آج بھی وہ مفسد ہی بنے ہوئے ہیں۔ ان آیتوں کے نزول کے زمانہ میں یہود مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہتے تھے۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو جنگیں لڑی تھیں ان سب میں در پردہ مدینہ کے یہود کا ہاتھ تھا اور انہوں نے نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کرنے کی بھی سازش کی تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکتے۔ یہاں اسی پس منظر میں قتل و خونریزی کی سنگینی واضح کر تے ہوئے یہود کو جھنجھوڑا گیا ہے۔
۱۱۷۔ یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت کریں اور ا پنی باغیانہ اور مفسدانہ حرکتوں سے اسلام کے قانون اور اس کے نظم کو چیلنج کریں۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس حکم کا اطلاق ایسے گروہ پر بھی ہوتا ہے جو اسلام کے قائم کردہ نظام حق و عدل کو الٹنے کے لئے مسلح بغاوت کرے اور اس جتھے اور ٹولی پر بھی جو قتل و غارت گری ،ڈکیتی، آتش زنی ، تخریب کاری ، اغوا۔ خواہ وہ عورتوں کا ہو یا طیاروں وغیرہ کا۔ جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کر کے حکومت کے لئے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید ا کر دے ایسے مجرموں سے نمٹنے کے لئے اسلام کے عام تعزیری قوانین کافی نہیں ہو سکتے اس لئے شریعت نے ان کی سرکوبی کے لئے خاص ضابطہ بنایا ہے اور اسلامی حکومت کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے حالات و مصلحت کے مطابق ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔
ینفوامن الارض۔ (جلا وطن کئے جانے) کے مفہوم میں قید کرنا بھی شامل ہے۔
۱۱۸ یعنی جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور اس کے قانون کا احترام نہیں کیا تو وہ عزت کے کہاں مستحق ہیں ؟ایسے لوگوں کو عبرتناک اور ذلت آمیز سزا دینا انصاف کا کھلا تقاضا ہے۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلامی حکومت کے ان پر قابو پانے یا گرفتار کرنے سے پہلے اگر وہ توبہ کر کے اپنے رویہ کی اصلاح کر چکے ہوں تو پھر ان کے خلاف اس قانون کے تحت کار روائی جائز نہیں ہو گی کیوں کہ توبہ کرنے والوں کو اللہ معاف کر دیتا ہے
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر باغیانہ سرگرمیوں اور شر و فساد کے انسداد کی تدابیر بیان ہوئی تھیں اب اہلِ ایمان کو خطاب کر کے وہ بنیادی اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے جو انہیں با کردار اور نیک بنا سکتے ہیں۔
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ اور معصیت کے کاموں سے بچو۔
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ کام کر و جن کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تقرب حاصل کرنے کے لئے صرف گناہوں سے بچنا کافی نہیں بلکہ مثبت طور پر عبادت و اطاعت کا اہتمام ضروری ہے اس لئے تقویٰ کے ساتھ ان اعمال کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو ذریعۂ تقرب ہیں۔
وسیلہ کا یہ مفہوم سیاقِ کلام کے لحاظ سے بھی صحیح ہے اور قرآن کے عام بیان سے بھی مطابقت رکھتا ہے کیوں کہ قرآن نے خدا تک پہنچنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہی کو قرار دیا ہے اور اسی پر فلاح آخرت کا دار و مدار ہے۔
متن میں لفظ وسیلہ نکرہ نہیں بلکہ معرفہ استعمال ہوا ہے۔ معرفہ کا یہ اہل نحوی اصطلاح میں یہاں عہد ذہنی کے لئے ہے۔ یعنی یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں وسیلہ سے مراد وہی وسیلہ ہے جس کی طرف قرآن کے ایک قاری کا ذہن منتقل ہوتا ہے اور ظاہر ہے قرآن کا مطالعہ کرنے والے کا ذہن وسیلہ ذریعہ تقرب سے اعمالِ صالحہ ہی کی طرف منتقل ہو تا ہے اس لئے وسیلہ سے دوسرا کوئی ذریعہ مراد لینے کی عربی قاعدہ کی رو سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جہاں تک لغت کا تعلق ہے لسان العرب میں جو عربی کی سب سے بڑی اور مستند لغت ہے وسیلہ کے معنی قربت ہی بیان کئے گئے ہیں۔
الوسیلۃ: القربۃ”وسیلہ یعنی قربت ” (لسان العرب ج ۱۱ص ۷۲۷اور قدیم ترین لغت صحاح جوہری میں ہے۔
وسل فلان الیٰ ربہ وسیلۃ ای تقرب الیہ بعمل (الصحاح للجوھری ج ۵س ۱۸۴۱)
"فلاں نے اپنے رب کے حضور وسیلہ اختیار کیا یعنی اس کے حضور عمل کے ذریعہ تقرب کا طالب ہو ا
اور سلف صالحین نے اس آیت میں وسیلہ سے قربت یا ذریعۂ قربت ہی مراد لیا ہے۔ چنانچہ ابن جریر طبری نے وسیلہ کے معنیٰ قربت بیان کرتے ہوئے مجاہد، عطاء ،ابو وائل ، حسن وغیرہ کے اقوال اس کی تائید میں نقل کئے ہیں اور قتادہ کی یہ تفسیر بھی کہ:
ای تقربو ا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ
"یعنی اس کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عمل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کر و۔ (تفسیر الطبری ج ۴ص ۱۴۷)
اور علامہ ابن کثیر یہی معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"یہ بات جو (لفظ وسیلہ کی تفسیر میں) ان ائمہ نے کہی ہے مفسرین کے درمیان اس (لفظ کے اس معنی) کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
تفسیر ابن کثیر ج ۲ص ۵۲)
اس وضاحت کے بعد”واسطوں اور وسیلوں "کی عمارت جو اہلِ بدعت نے اس آیت کو غلط معنی پہنا کر تعمیر کی ہے آپ سے آپ ڈھ جاتی ہے۔ انہوں نے آیت کی تاویل یہ کی کہ "انبیاء و اولیاء کا وسیلہ ڈھونڈو "اور پھر حاجت روائی کے لئے ان کو پکارنا اور ان سے فریاد کرنا جائز قرار دیا اور یہ تصور پیدا کر لیا کہ خدا جن نعمتوں سے نوازتا ہے وہ ان ہی کے واسطے سے نوازتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کا یہ من گھڑت وسیلہ شرک کا وسیلہ بن گیا اور وہ اس توحید پر قائم نہیں رہ سکے جس کی تعلیم قرآن اور اس کے لانے والے نے دی تھی۔
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد سے مراد وہ جدو جہد ہے جو دین حق پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اس کی دعوت کو عام کرنے ، اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے اس کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے کی جائے۔ اس مقصد کے لئے اپنی قوتیں اور صلاحیتیں لگائی جائیں اور اس راہ میں اپنے اسباب و وسائل جھونک دئے جائیں یہاں تک کہ اس مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔
جہاد کا اطلاق اللہ کی راہ میں جنگ کرنے پر بھی ہوتا ہے اور پرا من جدو جہد کرنے پر بھی جب کہ داعی کو مخالفتوں کے طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین آخرت دنیا کی دولت کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن جب قیامت برپا ہو گی تو انہیں محسوس ہو گا کہ اصل مسئلہ تو نجاتِ اخروی کا تھا ، اس کو نظر انداز کر کے انہوں نے دنیا میں زبردست غلطی کی تھی جس کی وجہ سے وہ سخت گھاٹے میں رہے۔ وہ چاہیں گے کہ اس کی تلافی کی کوئی صورت ہو لیکن تلافی کی کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو گی۔ ان کی اسی بے بسی کی تصویر ان الفاظ میں کھینچ لی گئی ہے کہ اگر زمین کی ساری دولت اور اس کے سارے خزانے ان کے پاس ہوں اور اسی کے بقدر مزید دولت اور خزانے انہیں حاصل ہو جائیں اور وہ یہ سب کچھ فدیہ میں دے کر عذاب آخرت سے نجات حاصل کرنا چاہیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی بات حدیث میں اس طرح ارشاد ہوئی ہے۔
یُقال لِلْکَافِرِ یوم القیامۃ اَرَأَیْتَ لَوْکَانَ لَکَ مِلْأُ الْاَرْضِ ذَھَباً أَکُنْتَ تَقْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُقَالُ لَہٗ قَدْ سُئِلْتَ اَیْسَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَاَبَیْتَ۔
"قیامت کے دن کافر سے کہا جائے گا کہ اگر زمین بھر سونا تجھے حاصل ہو جائے تو کیا اسے فدیہ میں دینے کے لئے تیار ہے ؟وہ کہے گا ہاں ضرور۔ اس سے کہا جائے گا کہ اس سے کم مطالبہ تجھ سے کیا گیا تھا مگر تو نے نہیں مانا۔ (بخاری و مسلم)
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل بھاگیں لیکن اس جیل خانہ سے باہر نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کا قانون تعزیرات (حدود) جنس کی بنیاد پر مجرمین کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ جرم کا مرتکب مرد ہو یا عورت دونوں سزا کے مستحق ہیں۔
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوری کا جرم ثابت ہو جانے پر صرف ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یعنی داہنا ہاتھ۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے تعزیری قوانین (حدود) جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان کے نفاذ کا مطالبہ کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ اہلِ ایمان کی سوسائٹی سے کیا گیا ہے اور اس سورہ کا زمانۂ نزول بتاتا ہے کہ اس وقت کیا گیا جب کہ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ ا گیا تھا اور ان کا اپنا عدالتی نظام قائم ہو گیا تھا۔
رہا یہ سوال کہ جس ملک میں مسلمان اپنا عدالتی نظام قائم کرنے کے لئے آزاد نہ ہوں وہاں اسلام کا مطالبہ ان سے کیا ہے ؟تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کے تعزیری قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں ان کی معذوری ظاہر ہی ہے لیکن اس معذوری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اسلام کے تعزیری قوانین کی تائید و حمایت سے دستبردار ہو جائیں اور انسانوں کے خود ساختہ قوانین کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ان کی تائید و حمایت کر لگیں کیوں کہ خدا کے قانون کے مقابلہ میں انسانی قانون کو صحیح سمجھنا ایمان کے بھی منافی ہے اور حق و انصاف کے علمبردار ہونے کے بھی۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے علمبردار بن کر دعوت اسلامی کو لوگوں کے سامنے پیش کریں تا آنکہ یہ دعوتی جدو جہد کسی اور مرحلہ میں داخل ہو جائے۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس سزا کی حکمت ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا یقیناً ایک سخت سزا ہے لیکن یہ سخت سزا اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔ چوری صرف چوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ” سینہ زوری ” بھی ہوتی ہے چنانچہ چوری کے ساتھ آبرو ریزی اور قتل کی وارداتیں بھی پیش آنے لگتی ہیں۔ اس لئے اسلام نے یہ سخت سزا تجویز کر کے نہ صرف چوری کا بلکہ دوسرے جرائم کا بھی انسداد کیا ہے۔ موجودہ وضعی قوانین نے چوری کی سزا ہلکی تجویز کر کے اس جرم کو ہلکا ثابت کر نا چاہا ہے۔ در آنحالیکہ چوری کی بہ کثرت وارداتوں اور اس کے ساتھ دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد نے سوسائٹی کے امن کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ ماہرین قانون جرائم کے فلسفے بیان کر کے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو چور پر رحم آتا ہے مگر سوسائٹی پر رحم نہیں آتا جس کے امن اور نظم کو چور چیلنج کرتا ہے وہ چور کے ہاتھ کٹتے دیکھ کر بلبلا اٹھتے ہیں لیکن چور کے ہاتھوں بے گناہوں کے سر کٹتے دیکھ کر چیخ نہیں اٹھتے۔ آج اسلام کا یہ تعزیری قانون جہاں کہیں نافذ ہے وہاں اس کی دھاک ایسی ہے کہ چوری کے واقعات برائے نام ہی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت واقعہ ان تمام اعتراضات کی تردید کے لئے کافی ہے جو شرعی قانون کو وحشیانہ ثابت کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ غالب ہے اس لئے اسی کے قوانین اس لائق ہیں کہ ان کو غالب اور نافذ کیا جائے اور وہ حکیم ہے اس لئے اس کے قوانین حکمت و مصلحت سے ہرگز خالی نہیں ہو سکتے۔ چوری کی سزا گو سخت ہے مگر یہ انسانیت کے مفاد کے خلاف ہر گز نہیں بلکہ اس کی بھلائی ہی کے لئے ہے۔
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توبہ کرنے اور اپنے رویہ کی اصلاح کرنے کی صورت میں وہ آخرت کی سزا سے بچ جائے گا۔ واضح رہے کہ قانون کی گرفت میں آ جانے کے بعد توبہ کرنے سے شریعت کی کوئی حد ساقط نہیں ہوتی۔
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سزا دینے اور بخشنے کا سارا اختیار اللہ ہی کو ہے۔ کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس میں مداخلت کر سکے۔
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اس بات کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلام برسراقتدار نہ آئے اور شریعت عادلہ کے مطابق مقدمات کے فیصلے نہ ہوں ایسے لوگوں کی حرکتوں کو دیکھ کر ایک داعی کو فطری طور پر رنج ہوتا ہے مگر اس سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد منافقین ہیں۔ خاص طور سے وہ منافقین جو یہود سے ساز باز رکھتے تھے۔
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گروہِ یہود کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نبیﷺ سے آ کر ملتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو آپ سے آ کر نہیں ملتے جو لوگ آپ سے آ کر ملتے ہیں۔
ان کا حال یہ ہے کہ وہ سچائی کی تلاش میں نہیں آتے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ جو کچھ سنیں اس میں جھوٹ کی آمیزش کر کے ان لوگوں تک پہنچائیں جو آپ سے آ کر نہیں ملے ہیں تاکہ انہیں آپ سے متنفر کیا جا سکے۔ گویا جو یہودی نبیﷺ کے پاس آتے تھے وہ ایک سازشی ذہن لے کر آتے تھے۔
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح اوپر نوٹ ۷۰ میں گزر چکی۔ یہاں اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جب وہ کلامِ الٰہی میں بھی تحریف کرنے سے باز نہیں رہتے تو ان کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ نبیﷺ کی باتوں کو سن کر ان کو غلط معنیٰ پہنائیں۔
۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے علمائے یہود کی طرف جو عوام سے کہتے تھے کہ جو حکم ہم تمہیں بتاتے ہیں وہ اگر پیغمبر اسلام بھی دیں تو قبول کر و ورنہ قبول نہ کر و۔
۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ جان بوجھ کر اپنے کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز کو مردہ بنا لیتے ہیں ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو اللہ جب آزمائش میں ڈالتا ہے تو وہ اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے شر و فساد میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو راہِ راست پر لانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وہ قانون ضلالت ہے جس کو "اللہ ہی فتنہ میں ڈالنا چاہے ” اسے تعبیر کیا گیا ہے۔
۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب وہ گناہوں کی نجاست سے اپنے دلوں کو آلودہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کیوں ان کو پاک کرنے لگے۔
۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "سحت ” استعمال ہوا جس کے معنی حرام کی کمائی کے ہیں۔ عربی میں اس کا استعمال زیادہ تر رشوت کے لئے ہوتا ہے۔ یہاں اشارہ خاص طور سے یہود کے قاضیوں کی طرف ہے جو رشوت لے کر اور جھوٹی شہادتوں کو قبول کر کے حق و انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے۔
۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ اگر تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار ہے ان کا فیصلہ کرو یا اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دو۔
اس وقت مدینہ کے اطراف میں یہود کی جو بستیاں تھیں وہ اپنا الگ دائرہ اقتدار رکھتی تھیں۔ اس لئے ان لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کرنے کی کوئی ذمہ داری مدینہ کی اسلامی حکومت پر عائد نہیں ہوتی تھی لیکن یہود جن مقدمات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون۔ تورات کے مطابق کرنا نہ چاہتے تھے ان کا فیصلہ نبیﷺ سے اس امید پر کرانا چاہتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں کوئی آسان حکم ہو۔
۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا مطلب جہاں یہ ہے کہ مقدمہ کے کسی فریق کے ساتھ جانبداری نہ برتی جائے یا زیادتی نہ کی جائے وہاں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شریعت عادلہ کے قوانین کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔
۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں یہود کی اس حرکت پر اظہار تعجب کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مقدمات لے کر آتے ہیں جن کے سلسلہ میں تورات میں واضح حکم موجود ہے تاکہ آپﷺ تورات کے حکم کے بجائے کوئی اور فیصلہ صادر فرمائیں۔ وہ تورات پر ایمان کے بھی مدعی ہیں اور ساتھ ہی اس کا حکم بھی انہیں منظور نہیں۔ اسی طرح حضرت محمدﷺ کو وہ پیغمبر بھی تسلیم نہیں کرتے اور ساتھ ہی تورات کو چھوڑ کر آپ سے اپنے مقدمہ کا فیصلہ بھی کرانا چاہتے ہیں ان کی یہ حرکت اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ ان کا کسی چیز پر بھی ایمان نہیں۔
یہاں یہ بات جو فرمائی گئی ہے کہ تورات میں اللہ کا حکم موجود ہے تو اس سے مراد حدود تعزیرات ہیں جس کی صراحت آگے آیت ۴۵ میں کی گئی ہے۔ ا س سے ان مقدمات کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے جن کو لے کر یہود نبیﷺ کے پا س آتے تھے یعنی یہ مقدمات حدود تعزیرات کی نوعیت کے تھے جن کے سلسلہ میں تورات میں واضح احکام موجود ہیں مگر وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔
۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب اتاری تھی اس میں دین حق کی طرف رہنمائی کا سامان بھی تھا اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو منضبط کرنے اور اس کو حق و عدل پر استوار کرنے کے لئے روشن شریعت بھی تھی۔ نزولِ قرآن کے وقت اصل تورات کا جو حصہ یہود کے پاس موجود تھا اس میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی اور آج بائبل کے مجموعہ میں جو ابتدائی پانچ صحیفے پیدائش ،خروج ، احبار، کنتی ، اور استثناء کے نام سے پائے جاتے ہیں ان میں اصل تورات کے جو اجزا موجود ہیں۔ اور قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے سے اصل تورات کے اجزاء کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان میں اب بھی ہدایت اور روشنی کی خصوصیات موجود ہیں۔ قرآن کا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تورات کے نام سے پائے جانے والے مذکورہ صحیفے تمام تر ہدایت الٰہی پر مشتمل ہیں کیوں کہ یہود نے تحریف کر کے ان میں بہت سی گمراہ کن باتیں شامل کر دی ہیں اور اصل شریعت پر حاشیہ آرائی بھی کی ہے۔
۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل میں جو انبیاء بھی خدا کی طرف سے بھیجے گئے ان سب کا دین اسلام تھا اور وہ سب مسلم تھے۔ اپنے کو یہودی کہلانے والے تو یہ نبی اسرائیل ہیں نہ کہ ان کے اندر مبعوث ہونے والے انبیاء۔
۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء نیز حق پرست علماء و فقہا ء شریعت الٰہی کے مطابق یہود کے معاملات و مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔
۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہیں اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ وہ کتاب الٰہی کی اس طرح حفاظت کریں کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے پائے اور اس کو دستور العمل بنا کر اس کی صداقت کی گواہی دیں۔
۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احکامِ الٰہی کی تعمیل و تنفیذ میں نہ کسی کا ڈر مانع ہونا چاہئے۔ ا ور نہ کسی قسم کا لالچ۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۶۴
۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ا س آیت میں صراحت کے ساتھ ان لوگوں کو کافر کہا گیا ہے جو قانونِ خداوندی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔ اگر چہ کہ یہ بات یہود کے باغیانہ رویہ پر گرفت کرتے ہوئے ارشاد ہوئی ہے لیکن چونکہ بات اصولی نوعیت کی ہے اس لئے اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو قانونِ الٰہی کے خلاف فیصلہ صادر کرے خواہ اس کا تعلق کسی گروہ سے ہو اور خواہ اس کا شمار مسلمانوں ہی میں کیوں نہ ہو تا ہو کیوں کہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر خدا کے قانون کو رد کرنا اس دستور (کتاب) سے کھلی بغاوت ہے ، جو فرمانروائے کائنات نے نازل کیا ہے صحابیٔ رسول حضرت حذیفہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا یہ آیتیں جن میں شریعتِ الٰہی کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ؟انہوں نے برجستہ جواب دیا کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لئے بنی اسرائیل کہ سب کڑوی باتیں ان کے لئے ہیں اور سب میٹھی باتیں تمہارے لئے۔ نہیں قسم خدا کی تم ان ہی کے طریقہ پر قدم بہ قدم چلو گے۔ (تفسیر ابن جریر ج ۶ص ۱۶۴)
واضح رہے کہ قانونِ شرع کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو کافر اس صورت میں قرار دیا گیا جب کہ ان پر احکامِ شر ع بھی واضح تھے اور وہ ان کے نفاذ کے معاملہ میں بھی آزاد تھے۔ بالفاظ دیگر یہ ان کی باغیانہ ذہنیت تھی جس نے انہیں شرعی قوانین سے انحراف کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ لہٰذا آج جو بھی مسلمان دیدہ و دانستہ اسی طرز عمل کا ثبوت دے رہے ہیں وہ بھی یہود ہی کے نقشِ قدم پر ہیں لیکن ان کی تکفیر ہم اس لئے نہیں کر سکتے کہ اسلام نے کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کرنے منع کر دیا ہے اور ان لوگوں کے معاملہ کو جن کی عملی زندگی اسلام اور کفر دونوں کا مخلوطہ ہوتی ہے خدا کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ وہی نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہی اس بات سے باخبر ہے کہ کس کے لئے کیا موانع رہے ہیں۔
۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں یہ حکم اس طرح مذکور ہے :
"لیکن اگر نقصان ہو جائے تو تو جان کے بدلے جان لے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت ، اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، پاؤں کے بدلے پاؤں ، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔ (خروج ۲۱ : ۲۳ تا ۲۵)
لیکن یہود نے اس حکم پر عمل درآمد کے سلسلہ میں شریف ور ذیل کی تفریق پید ا کر دی تھی۔ ان کے دو قبیلوں بنی نضیر اور بنی قریظہ میں بنی نضیر اشرف سمجھے جاتے تھے۔ اگر بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کے ہاتھوں مارا جاتا تو اسے قصاص میں قتل کر دیا جاتا لیکن اگر بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کی طرف سے مقتول کے ورثاء کو لازما دیت قبول کرنا پڑتی اور وہ بھی نصف دیت۔
شرعی قانون کے نفاذ میں انہوں نے یہ جو تبدیلی کی تھی اس پر ان آیات میں سخت گرفت کی گئی ہے۔
قرآن نے تورات کے حوالہ سے جو قانون بیان کیا ہے وہ اسلام کے تعزیری قوانین ( (Islamic penal lawsکی اہم ترین دفعہ ہے۔ تمام زخموں میں برابر کا بدلہ بظاہر سخت ترین سزا ہے مگر نہ صرف یہ کہ یہ عین تقاضائے عدل ہے بلکہ اس سے مجرمین کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے اور سوسائٹی کو امن بھی میسر آتا ہے۔ موجودہ دور میں مساوات کا نعرہ تو خوب چل پڑا ہے لیکن جب جرائم کے معاملہ میں مساویانہ کا ر روائی کی حمایت کیجئے تو مساوات کے یہ علمبردار چراغ پا ہونے لگتے ہیں۔
واضح رہے کہ زخموں کا قصاص ایسی صورت میں لیا جائے گا جب کہ اسی کے بقدر زخم پہنچنا نا ممکن ہو لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور زیادتی کا احتما ل ہو تو پھر زخمی کرنے والے کو دیت ادا کرنا ہو گی جو اس زخم کی مناسبت سے مقرر کی جائے گی۔
۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص قصاص معاف کر دے اس کے لئے یہ نیکی گناہوں کا کفارہ بنے گی۔
۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظالم اس لئے کہ خدا کے عادلانہ قوانین کو چھوڑ کر انہوں نے انسان کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلہ کیا جا عدل کے تقاضوں کو پورا کر ہی نہیں سکتے
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ فیصلہ کرنے کا مطلب صرف عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر مقدمات کا فیصلہ کرنا ہی نہیں بلکہ قانون سازی کرنا اور حاکمانہ فیصلے صادر کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے لہٰذا جو شخص بھی شرعی قوانین کے خلاف قانون سازی کرتا ہے یا جو صاحبِ اقتدار اپنے حاکمانہ اختیارات کو شریعت الٰہی کے مدمقابل استعمال کرتا ہے تو وہ کفر، ظلم اور فسق تینوں کا مرتکب ہوتا ہے خواہ اس کے احکام و قوانین ، رسم و رواج (Customary Law) پر مبنی ہوں یا مذہبی روایات ( (Religious Mythology) پر اور کلچرل اساس پر ہوں یا سیکولر ازم کے نظریہ پر۔
۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان انبیاء کے نقشِ قدم پر جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہوئی تھی۔
۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ نے تورات کی تصدیق کی تھی۔ انجیل میں ہے۔
"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شو شہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔
متی، ۵: ۱۷،۱۸)
۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انجیل کو اس لئے نازل فرمایا تھا کہ لوگ اپنے معاملات زندگی میں اسے فیصلے کی بنیادی بنائیں اور اہلِ انجیل اگر انجیل کے مطابق فیصلہ کرتے تو وہ ضرور قرآن کو پاتے کیوں کہ آنے والے پیغمبر کی جو انجیل میں دی گئی ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے نیز اگر خدا کی آواز کو انجیل میں پہچانا جا سکتا ہے تو قرآن میں بدرجۂ اتم پہچانا جا سکتا ہے کیوں کہ دونوں ایک ہی ساز سے نکلے ہوئے دو سر ہیں۔
۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مراد تورات ہے۔
۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے تورات پر محافظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تورات کی اصل تعلیمات کو قرآن نے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے اور وہ تحریف شدہ تورات کے لئے کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کو ن سی باتیں اصل تورات کی ہیں اور کون سی باتیں یہود کی من گھڑت۔
۱۵۷ یعنی اہلِ کتاب نے دین میں جو اختلافات پیدا کر دئے ہیں ان کے لئے یہ کتاب (قرآن) فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اللہ کا دین ان تمام آمیزشوں سے پاک کر کے جو اہلِ کتاب نے اس میں کی تھیں ، اپنی اصل شکل میں پیش کیا گیا ہے لہٰذا زندگی کے جملہ معاملات و مسائل میں یہی کتاب معیارِ حق ہے اور تمام نزاعات و مقدمات میں اسی کو فیصلہ کی بنیاد بنا نا چاہئے۔
۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شریعت یعنی فرائض اور احکام و قوانین اور منہاج (راہِ عمل) یعنی ان فرائض کو ادا کرنے کے طور طریقے اور ان احکام و قوانین پر عمل در آمد کی شکلیں۔ واضح رہے کہ جہاں شریعت کا لفظ تنہا استعمال کیا جائے وہاں اس کا اطلاق دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔
مختلف امتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ شریعتیں اور عمل کی الگ الگ راہیں مقرر کر دی تھیں جو حالات و ظروف کا تقاضا تھا لیکن یہ اختلاف اصل دین کا اختلاف نہیں تھا بلکہ طور طریقوں کا اختلاف تھا۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے وہ تمام امتوں کیلئے ایک ہی رہا ہے مثلاً عقیدۂ توحید، آخرت، رسالت ، ایک اللہ کی عبادت و اطاعت اور اس کے حضور جو اب دہی کا تصور ، تزکیۂ نفس اور اخلاقی و عملی پاکیزگی کے اصول وغیرہ۔ اس لئے شریعتوں اور منہاجوں کے اختلاف کو دین کے اختلاف پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا لیکن جہاں تک قالب اور اس کی تفصیلات کا تعلق ہے وہ مختلف رہی ہیں مثلاً قربانی کہ اس کے اللہ ہی کے لئے خاص ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ر ہی یہ تفصیل کہ یہ کب کب واجب ہوتی ہے اور اس کے لئے کس قسم کے جانور مطلوب ہیں اور ان کو ذبح کرنے کے بعد کیا کیا جائے۔ اسی طرح نماز کے آداب مثلاً قبلہ وغیرہ کا تعین تو ان باتوں میں حالات و ظروف کے لحاظ سے شریعتوں میں فرق رہا ہے۔
۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک دین پر چلنے کے لئے مجبور کر دیتا لیکن یہ بات اس منصوبہ کے خلاف ہوتی جس کے پیش نظر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے یعنی یہ بات کہ انسان کی آزمائش ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ امتحان کے مواقع بھی پیدا کر دئے جائیں۔ شریعتوں کا یہ اختلاف امتحان کے مواقع پیدا کر دیتا ہے۔ جو لوگ دین کے ظاہری طور طریقوں کے تعصب میں گرفتار ہوتے ہیں وہ دین کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور خدا کی ہدایت جب ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں بخلاف اس کے جو لوگ حقیقت پسند ہوتے ہیں ان کی نگاہ اصل دین پر ہوتی ہے اور خدا کی ہدایت جس شکل میں بھی ان کے سامنے آتی ہے وہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ تھے جنہوں نے قرآن کی ہدایت قبول کی۔
۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ اگر مذہبی بحثوں میں الجھنا چاہتے ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور تم نیکی کی راہ میں سبقت کرو۔
۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخری فیصلہ اللہ ہی کی عدالت میں ہو گا اور اس وقت لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جو مذہبی بحثیں انہوں نے کھڑ ی کر دی تھیں ان کی حقیقت کیا تھی۔
۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مزید انتباہ ہے کہ مخالف قوتیں تمہیں کتابِ الٰہی سے منحرف کرنے کے لئے جو زور لگا رہی ہیں اور تمہارے خلاف جو سازشیں کر رہی ہیں ان سے چوکنا رہو۔
افسوس ہے کہ اس انتباہ کے باوجود مسلمانوں نے مغربی فلسفۂ قانون اور لا دینی طرزِ حکومت سے متاثر ہو کر شرعی قانون اور اسلامی طرزِ حکومت کو ترک کر دیا ہے اور جہاں انہیں بلا شرکت غیرے اقتدار حاصل نہیں ہے وہاں وہ غیر اسلام احکام و قوانین سے اظہار بیزاری کرنے کے بجائے ان کی تائید و حمایت کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے نہ صرف شہادت حق کے منافی ہے بلکہ اصل ایمان ہی کے لئے خطرناک ہے۔
۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاہلیت” کی اصطلاح اسلام کے مقابل استعمال ہوتی ہے اور یہاں جاہلیت کے فیصلہ سے مراد وہ احکام، قوانین اور رسوم ہیں جو شریعت الٰہی کے مقابلہ میں لوگوں نے رائج کر رکھے ہیں۔ ان کو جاہلیت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر ان میں سوسائٹی کا مفاد نظر آتا ہو مگر وہ علم حق پر مبنی نہیں بلکہ جہالت اور جذباتیت پر مبنی ہیں۔
یہ جاہلیت اس زمانہ کے ساتھ خاص نہیں جو اسلام سے پہلے تھا بلکہ اس کے بعد کے ادوار میں بھی رہی ہے اور آج کے علوم و فنون کے دور میں بھی اس کی تاریکی پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔
علامہ ابن کثیر اپنے زمانہ (چودھویں صدی عیسوی) کی جاہلیت کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
"]اور جس طرح تا تاری کہ اپنے شاہی فرامین سیاست کے ذریعہ فیصلہ کر تے ہیں جو ان کے بادشاہ چنگیز خاں کی ہدایت سے ماخوذ ہیں اور جن کو اس نے ” الیاسق ” کے نام سے وضع کیا تھا۔ یہ در اصل اس کتاب کا نام ہے جو احکام کا مجموعہ ہے اور جن کو اس نے مختلف شریعتوں مثلاً یہودیت، نصرانیت اور دین اسلام وغیرہ سے اخذ کیا تھا اور اس میں بہ کثرت احکام ایسے ہیں جو مجرد اس کی رائے اور ہوائے نفس پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ ایک خود ساختہ شریعت بن گئی ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے حکم اور فیصلوں پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ تو جو کوئی ایسا کرے وہ کافر اور گردن زدنی ہے جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف رجوع نہ کرے اور کسی بھی معاملہ میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کو چھوڑ کر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ (تفسیر ابن کثیر ۲ص ۶۷)
۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے ایمان میں مخلص نہ تھے اس لئے وہ اپنے ذاتی مفاد ات کے پیشِ نظر یہود سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے در آنحالیکہ اس کی ممانعت اس سے پہلے کی جا چکی تھی (سورۂ آل عمران آیت ۲۸) یہاں پھر اس کی تاکید کر تے ہوئے متنبہ کر دیا گیا ہے کہ ایمان اور دشمنانِ اسلام سے دوستی دونوں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں لہٰذا جو لوگ ان کی طرف پنکیں بڑھائیں گے ان کا شمار ان ہی لوگوں میں ہو گا۔
واضح رہے کہ یہود و نصاریٰ نیز کفار سے دوستی کی جو ممانعت کی گئی ہے وہ ایک تو اس معنیٰ میں ہے کہ ان کے ساتھ قلبی محبت کا تعلق نہ ہو کیوں کہ خدا کے باغیوں اور رسول کے مخالفین کے ساتھ قلبی لگاؤ ایمان کے منافی ہے۔ دوسرے اس معنی میں کہ آدمی اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور سیاسی مصالح و مفادات کو نظر انداز کر کے کافروں کے کسی گروہ یا ان کے افراد کے ساتھ خو غرضی کی بنا پر یا ناجائز مفادات کی خاطر ان سے دوستی نہ گانٹھ لیں۔ ان آیات کے نزول کے وقت کے سیاسی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ مسلمان غیر اسلامی عناصر کے ساتھ ربط ضبط پیدا کرنے میں محتاط رہیں تاکہ ان پر خفی راز ظاہر نہ ہونے پائیں نیز اگر ان کے کسی گروہ کے خلاف کوئی کا ر روائی کرنا پڑتی ہے تو اس میں کسی کے لئے اس کی "ذاتی دوستی” مانع نہ ہو بلکہ وہ ان تمام دوستانہ تعلقات سے بالا تر ہو کر خدا اور اس کے رسول سے وفا داری کا ثبوت دے۔
رہی عام حالات میں غیر مسلموں کے ساتھ انسانی دوستی تو اس کی ممانعت نہیں کی گئی ہے مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو آل عمران نوٹ ۴۱
۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفاق کا روگ۔
۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافق یہ اندیشہ محسوس کرتے تھے کہ اگر آخری جیت اسلام کے مخالفین کی ہوئی تو ہمارا کوئی مستقبل نہ ہو گا اس لئے وہ کھل کر اور یکسو ہو کر اسلام کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، ان کے نزدیک مصلحت اس میں تھی کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں بھی رہیں اور مخالف اسلام قوموں سے راہ و رسم بھی رکھیں۔
۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمانوں کو آخری فتح سے نوازے یا اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں لائے جو منافقین کے لئے رسوائی کا باعث ہو۔
۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اعمال کی قبولیت کا دار و مدار مخلصانہ ایمان پر ہے۔ منافقت کے ساتھ دین داری کا جو مظاہر ہ کیا گیا ہو وہ اللہ کے نزدیک بالکل بے وزن ہے اس لئے ایسے لوگوں کے وہ تمام اعمال جن پر دین داری کا نمائشی لیبل لگا ہوا ہو بالکل اکارت جانے والے ہیں۔
۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ دین کی جدو جہد کے لئے مصلحت پرست اور منافق قسم کے لوگ بالکل بے کا رہیں اس بلند مقصد کے لئے جن صفات کے لوگ مطلوب ہیں وہ یہ اور یہ ہیں۔
منافقوں کو دنیا سے محبت تھی۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کو اپنی دنیا بنانے سے فرصت ہی کہاں ہو سکتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کرنے لگیں۔ دشمنانِ دین کے لئے وہ اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے پھر ان میں یہ حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ میدانِ جنگ میں ان کے خلاف صف آرا ہوں۔ وہ اپنی تعریف کے خواہاں تھے اس لئے ان میں بے لاگ حق پر ستی کہاں ہو سکتی ہے کہ حق و انصاف کی راہ اختیار کرنے پر دنیا کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔
آیت میں مثبت طور پر جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں راہ حق کے سپاہیوں کے لئے تربیت کا بھر پور سامان ہے۔
۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ اپنے فضل سے نوازنے میں تنگی نہیں برتتا بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت وسعت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔
۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری دوستی کے مستحق وہ لوگ نہیں ہیں جو خدا کے وفادار نہیں ہیں بلکہ اس کا مستحق خدا، اس کا رسول اور اس کے وفادار بندے ہیں ان کو تم اپنا معتمد بناؤ۔
۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں ” یہ نماز اور زکوٰۃ دونوں کی روح بیان ہوئی ہے کہ یہ مخلص مومن اس طرح نماز کا اہتمام کر تے ہیں کہ ان کے دل میں خشوع کی کیفیت ہوتی ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو اس وقت بھی انکے دل خدا کے حضور جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن منافقین کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے وہ نمازیں اور ان کی زکوٰۃ سب دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں ان کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے نہیں ہوتے اور جب دل جھکا ہوا نہ ہو تو سر جھکانے سے کیا فائدہ؟
۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسے لوگوں کو دوست بنانا جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔
۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اذان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اذان شعائر اللہ میں سے ہے اور اس بات کی دعوت ہے کہ اللہ کی عبادت کے لئے آؤ۔ ایسی چیز کو کھیل تماشہ بنا لینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حرکت وہی کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔
۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم محض اس بنا پر ہم پر غصہ اتار رہے ہو کہ ہم ہر اس صداقت پر ایمان لائے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے خواہ وہ پچھلی کتابیں ہوں یا قرآن۔ اس کے سوا اگر ہمارا کوئی قصور ہے تو بتلاؤ۔ اور اگر یہی بات تم کو کھٹکتی ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم اللہ کی نا فرمانی پر تل گئے ہو ورنہ کوئی صاحبِ ایمان سچائی کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا۔
۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اسلام دشمنی کی وجہ سے ہمارے لئے جس انجام کے منتظر ہو اس سے بدتر انجام کی مثالوں سے تو تمہاری اپنی تاریخ کے اوراق بھرے ہوئے ہیں اور تم خود اسی ڈگر پر چل رہے ہو اس لئے دوسروں کے برے انجام کا انتظار کر نے کے بجائے اپنا انجام سوچ لو۔
۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل میں اس لعنت کا ذکر متعدد مقامات پر ملتا ہے مثلاً
"اور تو ان سے کہہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ لعنت اس انسان پر جو اس عہد کی باتیں نہیں کر سکتا اور غیر معبودوں کے پیرو ہو کر ان کی عبادت کی۔ اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے نے اس عہد کو جو میں نے ان کے باپ دادا سے کیا تھا توڑ دیا اس لئے خداوند یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں ان پر ایسی بلا لاؤں گا جس سے وہ بھاگ نہ سکیں گے اور وہ مجھے پکاریں گے پر میں ان کی نہ سنوں گا۔ (یرمیاہ باب۱۱)
۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل کی کتاب یرمیاہ میں ہے :
"کہ رب الافواج اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم نے وہ تمام مصیبت جو میں یروشلم پر اور یہوداہ کے سب شہروں پر لایا ہوں دیکھی اور دیکھو اب وہ ویران اور غیر آباد ہیں۔ اس شرارت کے سبب سے جو انہوں نے مجھے غضبناک کرنے کو کی کیوں کہ وہ غیر معبودوں کے آگے بخور جلانے کو گئے اور ان کی عبادت کو۔ اس لئے میرا قہر و غضب نازل ہو ا۔
۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں معزز انسان بنایا تھا اور ان کے اخلاقی و روحانی ارتقاء کے لئے ہدایت کا سامان بھی کیا تھا لیکن جب انہوں نے اپنے اس مقام کی ناقدری کی اور انسانیت کے مرتبہ سے اپنے کو گرانا چاہا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو ذلت میں بدل دیا اور ان کو بندر اور سور بنا کر ایک عبرتناک مثال قائم کی۔
یہ ایک المناک واقعہ ہے جو یہود کے ایک گروہ کے ساتھ اس کی سر کشی کے نتیجہ میں پیش آیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ انسان کس طرح بند ر اور سور بنائے گئے تو اس کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں جو خدا انسان کو انسان کی صورت عطا کر سکتا ہے وہ اس کی صورت کو مسخ بھی کر سکتا ہے اس لئے اللہ کے دین کو مسخ کرنے والوں کی صورتیں مسخ ہو کر بندر اور سور کی سی ہو گئی ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طاغوت سے مراد شریر اور سرکش لوگ ہیں اور پرستش (عبادت) سے مراد ان کی اندھی تقلید اور معصیت کے کاموں میں ان کی اطاعت ہے۔ یہاں پرستش (عبادت) کا لفظ اطاعت میں غلو کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ امام رازی طاغوت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"ایک قول یہ ہے کہ طاغوت سے مراد وہ بچھڑا ہے جس کی پرستش کی گئی اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد احبار یعنی فقہائے یہود ہیں اور ہر وہ شخص جس نے اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت کی اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی۔ (التفسیر الکبیر ج ۱۲ ص ۳۷)
آیت میں جو ارشا د ہوا ہے اس کا مدعا یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے کے بجائے اس کے سرکش بندوں کی اطاعت کرنا ان کو پوجنے کے ہم معنی ہے اور یہ بہت بڑی ذلت ہے جو کسی کے حصہ میں آئے۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ذلت ان کے حصہ میں آئی۔
۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ ایک بگڑی ہوئی سوسائٹی میں اصلاح کی بہت بڑی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔ گناہ کی باتوں اور خاص طور سے حرام مال کھانے سے لوگوں کو روکنا ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے لیکن جب علماء کے طبقہ پر زوال آ جاتا ہے تو وہ برائیوں سے دوسروں کو کیا روکیں گے خود بھی ان میں شریک ہو جاتے ہیں اور "حرام کی مرغی قاضی کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔ ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ علماء کو اس سے زیادہ سختی کے ساتھ جھنجھوڑنے والی کوئی آیت نہیں۔ اس کی تائید میں انہوں نے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے (تفسیر طبری ی جزء ۶ ص ۱۹۳)
یہ ایک آئینہ ہے جو قرآن نے مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے تاکہ ان کے علماء اس میں اپنا عکس دیکھ لیں
۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں جب خرچ کرنے کے لئے کہا جاتا تو یہود طنزاً کہتے کہ اللہ کے ہاتھ تنگ ہو گئے ہیں یعنی وہ بخیل ہو گیا ہے اس لئے ہم سے خرچ کرنے کے لئے کہہ رہا ہے۔ ان کی اسی گستاخی پر یہاں گرفت کی گئی ہے۔
۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والا لعنت کا مستحق ہے۔
۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی معرفت جس طرح بخشی گئی ہے وہ نہایت ساہ ، فطری اور قابل فہم انداز میں ہے۔ اس لئے یہود کے اس قول کی تردید میں کہ اللہ بخیل ہو گیا ہے یہ جو فرمایا کہ” اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ تو اس کا مدعا بالکل واضح ہے۔ مگر بعد میں متکلمین نے یہاں یہ بحث کھڑی کر دی کہ اللہ کے ہاتھ سے کیا مراد ہے؟اس قسم کی بحثیں نہ صرف بے فائدہ ہیں بلکہ قرآن کی اصل دعوت اور اس کے اصل مدعا سے قاری کے ذہن کو ہٹا دیتی ہیں اور وہ غیر ضروری باتوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے قرآن نے مشابہات میں کرید کر نے سے منع کیا ہے اور سلف کا طریقہ یہی تھا کہ وہ ان کی تاویل سے اجتناب کرتے تھے۔ امام رازی فرماتے ہیں۔
” رہا یہ سوال کہ ہاتھ سے مراد کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے تو ہم اس کی معرفت اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرتے ہیں اور سلف کا یہی طریقہ تھا۔ (التفسیر الکبیر ج ۱۲ص ۴۳)
۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے حق میں نہایت فیاض اور سخی ہے اور کمالِ فیاضی کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے۔
۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تعصب نے انہیں اندھا کر دیا ہے اس لئے ہدایت سے بھی وہ گمراہی اخذ کرتے ہیں۔
۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نصاریٰ کے درمیان بغض و عناد کی آگ بھڑکانے کا ذکر آیت نمبر۱۴ میں ہوا تھا یہاں یہود کے درمیان دشمنی و نفرت ڈال دینے کا ذکر ہوا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے درمیان جو جنگ و جدال کی فضا پائی جاتی ہے اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس سلسلہ میں ہر گروہ نے اپنی ایک تاریخ بنا لی ہے اس لئے ان کے درمیان وقتی طور پر کچھ مصلحتوں کے پیش نظر فضا درست ہو جائے تو اور بات ہے لیکن ان کے سینہ کے داغ مٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے ہمیشہ لڑتے اور مرتے ہی رہیں گے۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۷۸)
۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب کبھی یہود نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے فرو کرنے کا سامان کیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو زمین میں زبردست فساد رونما ہوتا۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ جو جنگیں بھی لڑیں ان سب کے پیچھے یہود کا ہاتھ تھا۔ وہ اپنے سازشی ذہن کے تحت جنگ کی آگ بھڑکاتے رہے مگر اللہ تعالیٰ اس آگ میں جلنے سے مسلمانوں کو بچاتا رہا۔
آج بھی اسرائیل (یہود) جنگ کی آگ بھڑکانے میں بری طرح سر گرم ہے اور اس سے قرآن کی صداقت نمایاں ہوتی ہے۔
۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اہلِ کتاب حضرت محمدﷺ پر ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو اللہ ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا اور ان کو جنت کے نعمت بھرے باغوں میں داخل کرتا۔
۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد اصل تورات اور اصل انجیل کو قائم کرنا ہے نہ کہ تحریف شدہ تورات و انجیل کو۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۱۴۳۔ ۱۹۷
۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن۔ اللہ کی کتاب کو قائم کرنے کا مطلب اس کو اپنا رہنما اور دستور زندگی بنانا ہے۔
۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دنیوی نعمتیں اور برکتیں ہیں۔
تورات میں ہے :
"اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لئے بر وقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہو گا اور میدان کے درخت پھلیں گے۔ (احبار۲۶: ۳،۴)
"اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا۔ (استثناء ۲۸: ۲، ۳)
مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن دنیوی فوائد کو اطاعتِ الٰہی کے ثمرہ کے طور پر پیش کرتا ہے نہ کہ اصل محرک اور غایت کے طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فوائد اور یہ برکتیں قرآن میں ضمناً بیان ہوئی ، ہیں جبکہ رضائے الٰہی کو اطاعت و بندگی کے اصل محرک اور فلاح آخرت کو غایت اور مقصود کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور یہ بات قرآن میں اتنی بار اور اتنے مؤثر طریقہ سے دہرائی گئی ہے کہ یہ دعوتِ اسلامی کا مخصوص مزاج بن گئی ہے اور بلا استثناء تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا رنگ یہی رہا ہے۔ مگر محرف شدہ تورات میں آخرت کا پہلو دب گیا ہے اور ا طاعت الٰہی کے دنیوی ثمرات بار بار اور اصل غایت کے طور پر بیان ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مرتبین کے ذہن پر دنیا کس قدر چھائی ہوئی تھی۔
آج بھی مرعوب ذہن کے لوگ جب دعوتِ اسلامی کو پیش کرنے کے لئے اٹھتے ہیں تو نظامِ اسلامی کے دنیوی اور مادی فوائد بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے لگتے ہیں۔
رہا آخرت کا پہلو تو وہ برائے بیت ہوتا ہے۔ یہ طریقۂ دعوت نہ انبیائی ہے اور نہ قرآنی اور نہ ہی اس سے انسان کا اندروں بدل سکتا ہے۔
۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہلِ کتاب کا وہ گروہ ہے جو اگر چہ تعداد کے لحاظ سے قلیل تھا لیکن حق پر قائم تھا اور جب قرآن کی دعوت اس پر واضح ہوئی توا س نے اس پر لبیک کہا۔
۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت تاکیدی حکم ہے جو نبیﷺ کو دیا گیا۔ رسول، اللہ کا پیغمبر ہوتا ہے اس لئے اس کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو بے کم و کاست اور کسی بھی اندیشہ کو خاطر میں لائے بغیر لوگوں تک پہنچا دئے۔ اس میں کوتاہی کا مطلب فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ نبیﷺ نے اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا اور پورا قرآن جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیا۔ حجۃ الوداع (آخری حج) کے موقع جو آپ نے اپنی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا مجمعِ عام سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
واَنْتُمْ تُسْألُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ:
تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے۔
قَالُوْانَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَادَّیْتَ وَنَصَحْتَ
حاضرین نے کہا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپؐ نے ہم تک (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ،اپنا فرض ادا کیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا
اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ
"خدا یا تو گواہ رہ (مسلم کتاب الحج)
آج قرآن جیسا کہ وہ نازل ہوا تھا ہمارے ہاتھ میں موجود ہے اس لئے کل عدالتِ خداوند ی میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ اللہ کا پیغام پہنچا نہیں تھا
۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قرآن کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی چنانچہ مخالفین کی سازشوں اور جنگی کار روائیوں کے باوجود لوگوں کے شر سے محفوظ رہے اور کوئی طاقت بھی آپ کو قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافر اپنے ارادوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ خدا کا جو منصوبہ آخری نبی کے سلسلہ میں ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔
۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کتاب کو قائم کرنے سے مراد کو قائم کرنا ہے اور قرآن کو قائم کرنا در حقیقت تورات اور انجیل کو بھی قائم کرنا ہے اس لئے کہ جہاں تک اصل تورات اور انجیل کا تعلق ہے ان کی بنیادی تعلیمات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں ہے یہ ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔ اگر اہلِ کتاب تورات اور انجیل کی تعلیمات پر کاربند ہوتے تو انہیں قرآن میں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوتی بلکہ جس راہِ ہدایت پر وہ چل رہے تھے قرآن کی روشنی میں اسی راہ پر اپنا سفر آگے جاری رکھ سکتے تھے۔
۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے۔
۱۹۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۶۔
۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۸۷ میں گزر چکی۔
۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد شریعت کی پابندی کا عہد بھی ہے اور اس بات کا عہد بھی کہ جب کبھی ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی رسول آئے گا تو وہ اس کی تائید و حمایت کریں گے۔
۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک طرف شریعت کی پابندی کا عہد بھی اور دوسری طرف یہ جسارت بھی کہ پیغمبروں کو قتل کرنے کے درپے ہوں۔ انسان جب خواہشات کا پرستار بنتا ہے تو وہ اس قسم کی متضاد باتیں اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔
۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان جرائم کے ارتکاب کے بعد جب ان پر فوری طور سے کوئی آفت نہیں آئی تو وہ یہ خیال کر بیٹھتے کہ ان کو اس کی سزا ملنے والی ہی نہیں۔ حالانکہ یہ ڈھیل ہے جو اللہ مجرموں کو دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کریں۔
۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور ا پنی اصلاح کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا لیکن اس کے بعد پھر وہ اندھے اور بہرے بن گئے۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی تاریخ کی طرف کہ اس میں ان کے دینی و اخلاقی عروج و زوال کے واقعات متعدد بار پیش آئے ہیں۔ بائبل کی کتاب نحمیاہ میں ہے۔
"پھر وہ کھا کر سیر ہوئے اور موٹے تازہ ہو گئے اور تیرے بڑے احسان سے نہایت خط اٹھایا۔ تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیری طرف پھر ا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے۔ اس لئے تو نے ان کو ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا۔ تو بھی جب وہ رجوع لائے اور تجھ سے فریاد کی تو تو نے آسمان پر سے سن لیا اور اپنی اور اپنی رحمتوں کے مطابق ان کو بار بار چھڑایا پرا انہوں نے گھمنڈ کیا اور تیرے فرمان نہ مانے (نحمیاہ ۹: ۲۵ تا ۲۹)
۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اگر چہ اندھے بن گئے ہیں لیکن اللہ تو ان کے کرتوتوں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔ زبو رمیں ہے۔ ” وہ بیوہ اور پردیسی کو قتل کرنے اور یتیم کو مار ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند نہیں دیکھ گا اور یعقوب کا خدا خیال نہیں کرے گا۔ اے قوم کے حیوانو ذرا خیال کرو۔ اے احمقو ! تمہیں کب عقل کب آئے گی ؟جس نے کان دیا کیا وہ خود نہیں سنتا ؟جس نے آنکھ بنائی کیا وہ دیکھ نہیں سکتا ؟کیا وہ جو قوموں کو تنبیہ کرتا ہے اور انسان کو دانش سکھاتا ہے سزا نہ دے گا (زبو ر ۹۳: ۶تا۱۰)
۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۸۵میں گزر چکی۔
۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ اپنے الٰہ یا رب ہونے گا دعویٰ کیا تھا اور نہ یا فرمایا تھا کہ میری عبادت کرو بلکہ ایک اللہ کو الٰہ اور رب ماننے اور صرف اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا۔ آج بھی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
"تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر (متی ۴: ۱۰) ۔
اور اس سے قرآن کے بیان کی پوری پوری تصدیق ہوتی ہے۔
۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۲۸۰ نیز سورہ اخلاص نوٹ۔ ۳ واضح رہے کہ عیسائیوں کے بھی مختلف فرقے ہیں اور ان کے عقائد میں باہم اختلاف ہے۔ کوئی اس بات کا قائل ہے کہ خدا مسیح میں حلول کر گیا ہے یعنی مسیح خدا کا جسامتی وجود ہے اور کوئی تین خداؤں کا قائل ہے اور پھر ان تین خداؤں کی تعیین میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کوئی باپ ، بیٹا اور روح القدس کو اقانیم ثلاثہ کے طور پر مانتا ہے تو کوئی روح القدس کی جگہ ماں (حضرت مریم) کو خدائی کا درجہ دیتا ہے۔ (خدا کی پناہ ان باطل عقائد سے)
۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان میں سے جو لوگ ان باتوں سے باز آئیں گے ان کو سزا نہیں ملے گی لیکن جو لوگ باز نہیں آئیں گے اور کفر پر اڑے رہیں گے انہیں سخت سزا بھگتنا ہو گی۔
۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت مسیح اسی طرح رسول تھے جس طرح دوسرے بہت سے رسول گزر چکے ہیں پھر اگر ان رسولوں میں سے کوئی بھی خدا نہیں تھا تو مسیح کو خدا سمجھنے کی کیا وجہ ؟
۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسیح کی والدہ حضرت مریم نہایت راست باز اور صدق و صفا کا پیکر تھیں۔ اس صفت نے ان کو یقیناً اخلاق کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تھا مگر تھیں بہر حال انسان۔
۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مسیح اور ان کی والدہ (مریم) کے خدا نہ ہونے کا بین ثبوت یہ ہے کہ دونوں کھانا کھاتے تھے اور جو کھانے کا محتاج ہو وہ خدا کیوں کر ہو سکتا ہے ؟اور جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی احتیاج کس طرح دور کر سکتا ہے ؟
جہاں تک انجیل کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو انسان ہی کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور اس میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کھانا کھاتے تھے۔
اور جب وہ گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تھا تو ایسا ہوا کہ بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار آ کر یسوع اور اس کے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے۔ فریسیوں (فقہائے یہود) نے یہ دیکھ کر اس کے شاگردوں سے کہا تمہارا استاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے ؟ (متی،۹:۱۰،۱۱)
اور انجیل کی شہادت یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بھوک لگتی تھی: اور جب صبح کو پھر شہر کو جا رہا تھا اسے بھوک لگی (متی، ۲۱:۱۸)
۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک اللہ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو حقیقی معنیٰ میں نفع اور نقصان پہنچانے والی ہو پھر اس کے سوا کسی کی پرستش کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے ؟
مسیح کے اللہ کا رسول ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہیں اس لئے ان کی پرستش کے لئے سرے سے کوئی بنیاد موجود ہی نہیں ہے۔
۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سب کچھ سننا اور سب کچھ جاننا نہ مسیح کی صفت ہے اور نہ کسی اور کی بلکہ صرف اللہ کی صفت ہے پھر مسیح یا کسی اور کو فریاد رسی اور حاجت روائی کے لئے پکارنا کیا معنی؟وہ جب تمہاری فریاد کو سنتے ہی نہیں اور نہ تمہارے حالات سے باخبر ہیں تو تمہاری حاجت روائی کیا کریں گے ؟
۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲۷۷ میں گزر چکی۔
۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ان کے وہ پیشرو ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کی عقیدت میں غلو کیا ا ور دور از کا ر تاویلات اور بدعات میں پڑ کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسرو ں کو بھی گمراہ کر دیا اور گمراہی چونکہ بنیادی عقائد میں تھی اس لئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صراطِ مستقیم ہی ان پر گم ہو گئی اور وہ اسلام کی شاہراہ سے بہت دور جا پڑے۔
عیسائیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولسس (پال) اور اس کے ساتھیوں نے حضرت مسیح کے بارے میں غلو میں مبتلا ہو کر ان کے لئے خداوند اور خدا کا بیٹا جیسے القاب تجویز کئے اور کفارہ کا عقیدہ گڑھا۔ بائبل میں اناجیل اربعہ کے ساتھ پولسس وغیرہ کے جو خطوط شامل کر دئے گئے ہیں ان میں ان کے ان گمراہ کن فلسفوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ قرآن کا اشارہ ان کے انہیں باطل عقائد اور بدعات کی طرف ہے۔
۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ سرکش ہو گئے تھے اور احکام الٰہی کی کھلی نافرمانی کر نے لگے تھے ان کو حضرت داؤد علیہ السلام نے سخت جھنجھوڑا۔ زبور میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً :
"اے خداوند شریر کی مراد پوری نہ کر۔ ا س کے برے منصوبہ کو انجام نہ دے تاکہ وہ ڈینگ نہ مارے۔ مجھے گھیرنے والوں کے منہ کی شرارت ان ہی کے سر پر پڑے۔ ان پر انگارے گریں۔ وہ آگ میں ڈالے جائیں اور ایسے گڑھوں میں کہ پھر نہ اٹھیں۔ (زبور ۱۴۰ : ۸تا ۱۰)
” وہ اپنے منہ کے گناہ اور اپنے ہونٹوں کی باتوں اور اپنے لعن طعن اور جھوٹ بولنے کے باعث اپنے غرور میں پکڑے جائیں۔ قہر میں ان کو فنا کر دے۔ فنا کر دے تاکہ وہ نابود ہو جائیں۔ (زبور۵۹: ۱۲، ۱۳)
” اس نے لعنت کو اپنی پوشاک کی طرح پہنا ، اور وہ پانی کی طرح اس کے باطن میں اور تیل کی طرح اس کی ہڈیوں میں سما گئی۔ خداوند کی طرف سے میرے مخالفوں کا اور میری جان کو برا کہنے والوں کا یہی بدلہ ہے۔ (زبور ۱۰۹: ۱۸ تا ۲۰)
اور عیسیٰ علیہ السلام نے ان علماء کو جو عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جو دین کی اصل حقیقت کو نظر انداز کر کے محض ظاہر داری کو لے بیٹھے تھے سخت لعنت ملامت کی۔ اس سلسلہ میں انجیل کے چندا قتباسات ملاحظہ ہوں۔
"اے ریا کارو فقیہو اور فریسیو (عالمو!) تم پر افسوس ! آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیوں کہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہو نے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس !کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو اندھے فریسی پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس !کہ نبیوں کی قبریں بناتے اور راستبازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانہ میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے۔ اے سانپو ! اے افعی کے بچو !تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے ؟
اے یروشلم ! اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے ! دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ (متی ۲۳: ۱۳ تا ۳۸)
۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کی عام حالت بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے برائی کے ارتکاب سے ایک دوسرے کو روکنا چھوڑ دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرپسندوں کے حوصلے بڑھ گئے اور بگاڑ عام ہو گیا۔ اس میں امت مسلمہ کے لئے زبردست انتباہ ہے۔
۲۱۹ یعنی ان کو سچے اہلِ ایمان سے تو بیر ہے لیکن کافروں سے محبت ، چنانچہ وہ مسلمانوں کے تو دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن مشرکین مکہ سے انہوں نے دوستی گانٹھ لی۔
آج یہی حال منافق صفت مسلمانوں کا بھی ہے کہ وہ مؤمنین مخلصین سے بیزار ہوتے ہیں اور کافروں اور مشرکوں کی طرف دوستی کے لئے پینگیں بڑھاتے ہیں۔
۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اپنے اس دعوے میں بالکل جھوٹے ہیں کہ ہم اللہ ، نبی اور کتاب پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ چنانچہ ہم موسیٰ کو اللہ کا پیغمبر اور تورات کو کتاب الٰہی مانتے ہیں۔ اگر یہ اپنے دعوے سچے تلے تو اہلِ ایمان (مسلمانوں) کے دشمن اور کافروں کے دوست نہ بن گئے ہوتے کیوں کہ ہر جنس اپنی جنس کے ساتھ ہی پرواز کرتی ہے۔ کبوتر با کبوتر باز با باز
۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود اور مشرکین تو مسلم دشمنی میں مرے جا رہے ہیں البتہ نصاریٰ کو تم نسبتاً دوستی میں قریب تر پاؤ گے اور س کی وجہ جیسا کہ بعد کے فقرہ میں واضح کر دی گئی ہے کہ ان میں خدا ترس لوگ موجود ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں نصاریٰ کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس گروہ نے اسلام دوستی کا ثبوت دیا ہے اس لئے آیت کا اشارہ اسی گروہ کی طرف ہے اس سے مطلقاً ہر زمانہ کے عیسائی مراد لینا صحیح نہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائیوں نے بارہا اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے چنانچہ اندلس کے واقعات صلیبی جنگیں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے سیکولر زم پر یقین رکھنے والے مسیحی بھی اس کے مصداق نہیں ہو سکتے کیوں کہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ وہ ان خصوصیات سے عاری ہیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوا ہے۔
۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہب سے مراد زاہد قسم کے خدا ترس لو گ ہیں۔ اور تکبر نہیں کرتے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں غرور نفس نہیں ہے اس لئے جب حق ان کے سامنے واضح ہو کر آتا ہے تو وہ اسے ٹھکراتے نہیں ہیں۔
۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو نصاریٰ کے گروہ میں سے تھے لیکن ان کے اندر حق پسندی تھی اس لئے جب انہوں نے قرآن کو سنا تو پہچان لیا کہ واقعی یہ کلامِ الٰہی ہے اور حق شناسی کی وجہ سے بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
اس سورہ کے نزول سے کافی پہلے یعنی ہجرت حبشہ (سنہ۵ نبوی) کے موقع پر یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ جب حضرت جعفر نے حبش کے فرمانروا نجاشی کو سورہ مریم کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں کلامِ الٰہی کی تاثیر سے اس کا دل دہل گیا اور جو ش گریہ سے آنکھیں بہہ پڑیں یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی اور دربار میں موجود اساقفہ (Bishops) بھی رو پڑے۔ پھر نجاشی نے کہا” یہ کلام اور عیسیٰ پر نازل شدہ کلام ایک ہی چراغ سے نکلی ہوئی دو شعاعیں ہیں۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج۱ص ۳۵۹)
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی طالب حق ہو گا اور قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ حق کو قرآن میں جلوہ گر پائے گا اور جوشِ مسرت سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوں گی کہ تلاش جس خزانہ کی تھی وہ ہاتھ لگ گیا۔ کلامِ الٰہی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔
۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صالحین کے زمرہ میں شامل کرے تو اس کا تقاضا ہے کہ ہم مذہبی گروہ بندی سے بلند ہو کر حق کا استقبال کریں۔
۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان عیسائیوں کے انجام کی طرف جو اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور دعوتِ قرآنی کو قبول نہیں کریں گے۔
۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر راہبوں کا ذکر ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی راہبوں نے پاک چیزوں اور دنیا کی جائز لذتوں سے اپنے کو محروم کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ صحیح نہیں۔ قرآن کے پیروؤں کو چاہئے کہ وہ رہبانیت کے اس طریقہ کو اختیار کر کے حلال چیزوں کو حرام نہ کر لیں۔
افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں میں رہبانیت کے طور طریقے تصوف کے نام سے داخل ہو گئے اور نفس کو مارنے اور جائز لذتوں سے اپنے کو محروم کرنے کو زہد سمجھا جانے لگا اور عزلت نشینی کی زندگی تو رع کی زندگی قرار پائی۔
خدا کے ٹھہرے ہوئے حلال کو حرام کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو ہندوستان کے مشرکین نے گوشت خوری کے سلسلہ میں اختیار کی ہے چنانچہ وہ پاکیزہ جانوروں کا گوشت کھانے میں سخت کراہت محسوس کرتے ہیں اور محض توہم کی بنا پر اس سے اس طرح پرہیز کرتے ہیں ، جس طرح حرام چیز سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اور چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس سے پرہیز کریں۔
۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حد سے تجاوز کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ حلال کو حرام کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ حلال چیزوں کے استعمال میں اسراف سے کام لیا جائے۔
۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۳۳۲ میں گزر چکی۔
۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم توڑنے کا کفارہ۔ کس خطا کے سرزد ہو جانے پر اس کے گناہ کو محو کرنے کا جو طریقہ شریعت نے مقرر کیا ہے یعنی صدقہ وغیرہ کر نا اس کو کفارہ کہتے ہیں جس کے لفظی معنیٰ ڈھانکنے والی چیز کے ہیں۔
۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم کھانے کے بعد اگر تم اسے توڑ دو تو تمہیں اس کا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم کھانے میں محتاط رہو اور جب کھا چکو تو اسے یاد رکھو اور پورا کرو اور اگر توڑنا پڑے تو اس کا کفارہ ادا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ قسم کے معاملہ میں بے پروا ہونا بڑی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔
۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھان کی تشریح نوٹ ۲۵ اور پانسہ کے تیر کی تشریح نوٹ ۲۶ میں گز ر چکی۔
۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں شراب اور جوئے کے تین اہم مفاسد بیان کئے گئے ہیں :
ایک یہ کہ یہ چیزیں آپس میں بغض و عداوت کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ جہاں تک شراب کا تعلق ہے وہ چونکہ محرک بھی ہے اور عقل و شعور کو متاثر کرنے والی بھی اس لئے شراب پینے کے بعد طبیعت میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے نیز عقل اس حالت میں نہیں ہوتی کہ آدمی صحیح فیصلہ کر سکے یا ا پنے کو قابو میں رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ شراب پینے کے نتیجہ میں حادثات بھی زیادہ ہونے لگتے ہیں اور جرائم بھی۔ گویا شراب کا اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
رہا جوا تو ہارنے والے کے دل میں جیتنے والے کے خلاف کینہ پیدا ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال حق و انصاف کی بنیاد پر بازی جیتنے والے کی طرف منتقل نہیں ہوا ہے بلکہ محض اتفاق (Chance) کی وجہ سے ہوا ہے۔ تجارت میں آدمی نقصان اٹھاتا ہے لیکن ہارتا نہیں ہے جب کہ جوئے میں نقصان کے ساتھ ہار لازم ملزوم ہے اور ہار کا تصور آدمی کے اندر جتنے والے کے خلاف غلط جذبات پیدا کر دیتا ہے۔
دوسرے یہ کہ شراب اور جوا دونوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ شرابی فسق و فجور میں غرق ہو کر داد عیش دے رہے ہوتے ہیں اسی طرح جوئے باز کے ذہن پر ہار جیت کا تصور ایسا مسلط رہتا ہے کہ ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا احساس اس میں ابھرنے ہی نہیں پاتا اور میلان عیش کوشی کی طرف ہو جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ یہ چیزیں نماز سے روکتی ہیں۔ اور یہ عام مشاہدہ میں آنے والی بات ہے کہ شراب اور جوئے کے رسیا نماز سے بے پروا ہوتے ہیں۔ در حقیقت نماز وہی شخص پڑھتا ہے جس کا نفس جاگ رہا ہو لیکن شراب اور جوا تو آدمی کے نفس کو سلانے والی چیزیں ہیں پھر ایسا شخص نماز کے لئے کس طرح اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۱۶ ،۳۱۷،۳۱۸ ،نیز سورۂ نساء نوٹ ۹۷۔
واضح رہے کہ خمر (شراب) سے مراد جیسا کہ نبیﷺ نے واضح فرمایا
کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ
ہر وہ چیز جو سکر (نشہ) پیدا کرے خمر ہے اور ہر نشہ اور چیز حرام ہے۔
دوسری حدیث میں ہے : کل ما آ سکر عن الصلوٰۃ فھو حرام
"ہر وہ چیز جو نشہ لا کر نماز سے روک دے حرام ہے۔ (مسلم کتاب الاشربہ) معلوم ہوا کہ حرمت کی اصل علت نشہ ہے اس لئے جو بھی چیز بھی نشہ پیدا کرنے والی ہو وہ خمر یعنی شراب ہے خواہ وہ انگور سے بنائی گئی ہو یا کھجور سے اور خواہ لوگوں نے اس کا کوئی نام رکھا ہو۔ Whisky, Beer Wine اور جو سے بنائی گئی ہو یا گڑ کے علاوہ شراب کی غرض سے استعمال کئے جانے والے الکحل اور تمام منشیات پر خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس اس حکم کا اطلاق ہوتا ہے نیز حدیث میں ارشا د ہوا ہے۔
مَا آ سکرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ (الترمذی ابواب الاشربہ)
جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
یہ اس لئے کہ حرام کی طرف رغبت نہ ہو اور فتنہ کا دروازہ بند ہو جائے۔ جوئے کے بارے میں بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہر وہ لین دین جس کی بنیاد محض اتفاق اور ہار جیت پر ہو قمار ہے خواہ سٹے کی شکل میں ہو یا گھوڑوں کی ریس (Race) کی شکل میں یا کسی اور شکل میں۔ موجودہ زمانہ کی لاٹریاں جوئے ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں خواہ وہ سرکاری لاٹریاں (State Lotteries) ہی کیوں نہ ہو ں۔
۲۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شراب وغیرہ کی حرمت کا واضح اور قطعی حکم آنے سے پہلے جن لوگوں نے جو کچھ کھا پی لیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مواخذہ نہ ہو گا بشرطیکہ انہوں نے ہر آزمائش کے موقع پر خدا خوفی ، استقامت ، اور نیک روی کا ثبوت دیا ہو۔ آیت میں تقویٰ ،ایمان اور عمل صالح کا جو بار بار ذکر ہوا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ احکام الٰہی کی تعمیل کے سلسلہ میں آزمائش کے مرحلے بار بار پیش آئے اور اللہ کے ان مخلص بندوں نے ہر ایسے موقع پر کامل وفا داری کا ثبوت دیا۔
۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالتِ احرام میں شکار کی ممانعت کا حکم آیت ۱ میں گزر چکا۔ یہاں اسی سلسلہ میں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملہ میں تمہاری سخت آزمائش ہو گی یعنی اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا کرے گا کہ شکار تمہارے نیزوں کی بالکل زد میں ہو گا۔ اگر تم چاہو تو بہ آسانی شکار کر سکتے ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ خدا سے ڈرو اور شریعت کی پابندی کا جو عہد تم نے کیا ہے اس پر قائم رہو۔ نزولِ قرآن کے زمانہ میں اہلِ عرب کے لئے دورانِ سفر شکار ایک ضرورت کی چیز تھی اس لئے یہ پابندی ان کے لئے آسا ن نہ تھی اور اس میں ان کا کھلا امتحان تھا۔
۲۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احرام کی حالت میں شکار کرنے کی ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جن جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے ان میں سے اگر کوئی جانور اتفاقا نزدیک آ جائے اور اسے پکڑ کر ذبح کیا جا سکتا ہو تو بھی اسے پکڑنا اور ذبح کرنا جائز نہ ہو گا۔
۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح کا جانور اس نے مارا ہے اس جیسا جانور جو گھریلو چوپایوں میں سے ہو قربانی کے لئے خانۂ کعبہ بھیج دینا ہو گا۔ مثلاً ہرن کو اگر مارا ہے تو اس کے ہم پلہ بکری ہو سکتی ہے اور نیل گائے کے ہم پلہ گائے لیکن اس بات کا فیصلہ کہ کون سا جانور ہم پلہ ہے اہلِ ایمان میں سے دو ثقہ اور انصاف پسند آدمی کریں گے۔
۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فیصلہ بھی دو عادل آدمی ہی کریں گے کہ کتنے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا کتنے روزے رکھے جائیں۔
۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کفارہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی نافرمانی کرتا رہے اور کفارہ دیتا رہے اور یہ سمجھتا رہے کہ اس پر آخرت میں کوئی سزا نہ ہو گی۔
۲۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سمندر اور دریا کا شکار کرنا حالتِ احرام میں بھی جائز ہے۔ اسی طرح اس سے جو غذا حاصل ہوئی ہو خواہ محرم کے شکار کرنے سے حاصل ہوئی ہو یا غیر محرم کے شکار کرنے سے وہ محرم اور غیر محرم سب کے لئے جائز ہے۔
طعامہ: (سمندری غذا) کے الفاظ اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ بغیر شکار کے جو غذائی چیزیں سمندر یا دریا خود اگل دے ان کا کھانا بھی جائز ہے۔
۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگوں کے لئے نقطۂ اجتماع ہے اور ان کی تمام سرگرمیوں کے لئے محور ہے ، حج و عمرہ کی عبادتیں اسی سے متعلق ہیں۔ نماز کے لئے یہ قبلہ ہے، دینی مصالح اسی سے وابستہ ہیں ، یہاں ہدایت کا چشمہ ابلتا ہے ،یہ امن کا گھر ، انسانیت کی پناہ گاہ اور ملت کی شیرازہ بندی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
۲۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان چیزوں کا حکم آیت ۲ میں بیان ہو چکا ہے یہاں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ خانۂ کعبہ کی حرمت کے ساتھ ان چیزوں کی حرمت بھی اپنے اندر اہم ترین دینی مصالح کو لئے ہوئے ہے اس لئے ان کے احترام کے سلسلہ میں جو ہدایتیں دی گئی ہیں ان کا پورا خیال رکھو۔
۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان شعائر کے ساتھ جو عظیم مصالح وابستہ ہیں ان کو دیکھ کر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ جس ہستی نے حرمتوں کا یہ نظام بنایا اور حکمتوں سے لبریز شریعت نازل فرمائی ا س پر آسمان اور زمین کی ساری حقیقتیں عیاں ہیں اور وہ اپنے علم میں بالکل کامل ہے۔
۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو لوگ ان شعائر کی بے حرمتی کریں گے وہ سزا کے مستحق ہوں گے اور جو ان کا احترام کریں گے وہ بخشش و رحمت کے مستحق ہوں گے۔
۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس غلط ذہنیت پر ضرب کاری ہے جو اچھائی اور برائی کے بارے میں عام طور سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جب کسی برائی کا چلن عام ہو جاتا ہے تو اس میں لوگوں کو بڑی کشش محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ اس کی طرف لپکتے ہیں پھر نہ وہ پاک و ناپاک میں تمیز کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ انہیں اس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ مگر برائی کی کثرت کو دیکھ کر اس سے متاثر ہو جانا نادانوں کا کام ہے عقلمندوں کا نہیں۔ کیوں کہ عقل و فطرت اچھائی اور برائی کو یکساں قرار نہیں دیتی اور نہ اچھے اور برے لوگوں کو ایک سطح پر رکھتی ہے۔ وہ دودھ اور گوبر میں اور شہد اور شراب میں امتیاز کرتی ہے اور گندگی کی مقدار کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس سے نفرت ہی کرتی ہے۔
یہ ایک اصولی حقیقت یہاں اس لئے واضح کر دی گئی ہے تاکہ شریعت نے جن چیزوں کو ناپاک اور حرام قرار دیا ہے ان سے لوگ اس بنا پر ملوث نہ ہوں کہ عوام کی کثرت اس پر ٹوٹ پڑی ہے یا زمانہ کا رخ یہی ہے۔
۲۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرعی احکام کے سلسلہ میں غیر ضروری سوالات نہ کر و۔ کیوں کہ اس کے نتیجہ میں پابندیوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ اور اسی طرح کی دوسری آیات کے ذریعہ قرآن نے اپنے اصحاب کی جس طرح تربیت فرمائی اس کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ احکامِ شریعت پر پورے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوتے اور اس کے اصل منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ غیر ضروری بحثیں کھڑی کرنے اور باتوں کو کریدنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیوں کہ کریدنے اور موشگافیاں کرنے سے وہ وسعت جو احکام کے سلسلہ میں شریعت کے پیشِ نظر رہی ہے باقی نہیں رہتی اور تنگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن بعد کے ادوار میں یہ خصوصیت کم ہوتی چلی گئی اور جو مزاج بن گیا اس کے صحابۂ کرام کے مزاج سے مناسبت نہیں تھی چنانچہ ایک خاص انداز کا فقہی ذہن پرورش پایا اور جب کرید شروع ہوئی اور تفصیلات میں ذہن الجھنے لگا تو عمل کم اور باتیں زیادہ ہونے لگیں۔ اور ایک خاص طبقہ کو تو کاوش کر کے سوالات کرنے ، بال کی کھال نکالنے اور غیر ضروری اور فرضی مسائل پیدا کرنے میں ایسی ہی مہارت ہو گئی جیسی کہ موجودہ دور کے قانون دانوں اور وکیلوں (Lawyers & Advocates) کو ہوتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ کوئی شخص حج کے لئے جائے اور صفا و مروہ کے درمیان برہنہ ہو کر سعی کرے تو اس کی سعی ادا ہو گی یا نہیں ؟ظاہر ہے یہ ایک فرضی سوال ہے کیوں کہ جو شخص حج کے لئے جائے گا وہ بے حیائی کا کام کیوں کرنے لگے؟یا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی اذان دیتے ہوئے بیچ اذان کے مرتد ہو جائے تو دوسرا مؤذن اذان کہاں سے شروع کرے؟غالباً یہ مسئلہ نہ کبھی پیش آیا ہو گا اور نہ قیامت تک پیش آنے کا امکان ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا تیرے ہاتھ کو طلا ق یا تیرے پاؤں کو طلا ق یا تیرے سر کو طلاق واقع ہوئی یا نہیں یا اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ آسمان میں جتنے تارے ہیں تجھے اتنی ہی طلاقیں تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ؟
یا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص بنت الزنا سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟جب اس قسم کے سوالات پیدا کر دئے گئے تو اس کا اثر لازما ذہنوں اور سیرتوں پر پڑا اور وہ طرز فکر ، وہ مزاج اور وہ روح باقی نہیں رہی جو قرنِ اول کے پروانِ اسلام کا طرۂ امتیاز تھی۔ حدیث میں آتا ہے :
وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَاءِ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلاَ تَبْحَثُوْا عَنْھَا (مشکوٰۃ کتاب الایمان باب الاعتصام)
اور اللہ نے کچھ چیزوں کی نسبت خاموشی اختیار کر لی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو تو ایسی چیزوں کو کرید و مت۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کثرتِ سوال سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الاقضیہ)
ایک موقع پر آپ نے فرمایا: لوگو تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا حج کرو۔ جب اس شخص نے کہا کیا ہر سال یا رسول اللہ ؟آپ خاموش رہے۔ جب اس شخص نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا تو آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر فرض ہو جاتا پھر تم اس کی تعمیل نہ کر پاتے۔ پھر آپ نے فرمایا "میں تمہیں جس حال میں چھوڑوں اسی پر مجھے چھوڑ دو کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگ کثرتِ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلافات ہی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جس حد تک تمہاری استطاعت ہے اس پر عمل کر و اور جب کسی بات سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔ (مسلم کتاب الحج با ب ۷۳)
۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے شرعی احکام کی تفصیل کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے غیر ضروری سوالات کئے تھے۔ اس سلسلہ میں فرمایا کہ اللہ نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ البتہ آئندہ کے لئے محتاط رہو۔
۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے یہود کی طرف جنہوں نے سوالات کر کر کے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں اور احکام کی تفصیلات میں اس طرح گئے کہ موشگافیاں کر کے اپنے لئے جکڑ بندیاں پیدا کر لیں اور پھر ان میں اس طرح الجھ گئے کہ نافرمان اور منکر ہو کر رہ گئے۔ سورۂ بقرہ آیت ۶۷تا۷۱ میں گائے کا قصہ گزر چکا کہ جب ان کو ذبح کرنے کا حکم کیا گیا تو انہوں نے طرح طرح کے سوالات کر کے شریعت کے ایک آسان حکم کو مشکل بنا دیا اور اپنے اوپر پابندیوں میں اضافہ کرا لیا۔
۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے یہ چیزیں مشروع نہیں کی ہیں۔ یہ چیزیں توہمات میں سے ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ بحیرہ ،سائبہ ، وصیلہ اور حام ان جانوروں کے نام ہیں جن کو مشرکین پُن کر کے دیوتاؤں کے نام چھوڑ دیتے تھے۔
بحیرہ:اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا پانچواں بچہ نر ہوتا۔ ایسی اونٹنی کے کان چیر کر اسے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس کا دودھ دوہتے اور نہ اس کو ذبح کر تے۔
سائبہ : اس اونٹ یا اونٹنی کو کہتے جو کسی کی منت کے پورا ہو جانے یا مریض کے شفا یاب ہو جانے پر بطور شکرانے کے دیوتاؤں کے نام آزاد چھوڑ دی جاتی۔ پھر اس سے سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔
وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جو ایک مقررہ تعداد میں بچے جنتی اور آخری بار نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے۔ ایسی بکری کا دودھ عورتوں پر حرام ہوتا اور اسے دیوتاؤں کے نام پر چھوڑ دیتے۔
حام اس اونٹ کو کہتے جس سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے ایسے اونٹ کو بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے کوئی کام لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔
یہ سب خرافات اور توہم پرستی تھی اور یہ طریقہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے زمانہ جاہلیت میں عمر بن عامر الخزاعی نے رائج کیا تھا۔
"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا کہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا ہے۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے "سائبہ ” (دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کو آزاد چھوڑنے کا طریقہ رائج کیا۔ (بخاری کتاب التفسیر)
آج بھی مشرکین دیوی دیوتاؤں کے نام پر گائے، بیل وغیرہ کو پن کر کے آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی جو لوگ شرک و بدعت میں مبتلا ہیں وہ بکرے وغیرہ پیر یا ولی کے نام چھوڑ دیتے ہیں ان تمام خرافات سے اللہ کی شریعت پاک ہے۔
۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی طریقہ کا باپ دادا سے چلا آنا یا کلچر کا جزء ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ طریقہ صحیح ہے اور ہدایت پر مبنی ہے۔ اگر کسی کے باپ دادا علم کی روشنی یا ہدایت سے محروم رہے ہوں تو ان کی اندھی تقلید کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب اللہ کے رسول نے ان پر حجت قائم کر دی اور اس کے بعد بھی وہ گمراہی میں پڑے رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کی ہٹ دھرمی ان ہی کو برے انجام تک پہنچائے گی۔ تمہارا وہ کچھ نہیں بگاڑیں گے بشرطیکہ تم ہدایت پر جمے رہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی صرف اپنی فکر کرے اور دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی طرف سے بے پروا ہو جائے۔ قرآن نے امتِ مسلمہ پر شہادتِ حق ، دعوتِ دین ، تواصی بالحق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ان کو ادا کرنا آدمی کے ہدایت یافتہ ہونے کا صریح تقاضا ہے۔ اس لئے اس آیت کا ایسا مطلب لینا جس سے یہ ذمہ داریاں ساقط ہوتی ہوں ہر گز صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی غلط فہمی نہ ہو اس لئے حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا :
” لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو اور میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہو جائے کہ وہ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (ترمذی ابواب التفسیر)
۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب کسی شخص پر موت کی علامتیں ظاہر ہوں اور وہ وصیت کرنا چاہے یا اس کے لئے وصیت کرنا ضرور ی ہو تو وہ مسلمانوں سے دو معتبر (دیندار اور ثقہ) آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لے۔ وصیت اپنے مال سے بھی ہو سکتی ہے اور اس بات کی بھی ہو سکتی ہے کہ میرے پاس فلاں فلاں اشخاص کی یہ اور یہ امانتیں ہیں اور وہ ان کے حوالہ کر دی جائیں نیز قرض یا واجبات کی ادائیگی کی بھی ہو سکتی ہے۔ وصیت کے شرعی حدود کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲۹ میں گزر چکی۔
واضح رہے کہ وصیت اگر زبانی ہو Oral Willہو تو اسلام میں جائز ہے اور اگر تحریری شکل میں ہو تو بہتر ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج عام نہیں تھا اور کتابت کی اشیاء بھی بہ آسانی فراہم نہیں ہو سکتی تھیں اس لئے قرآن نے وصیت کے لئے تحریر کی قید نہیں لگائی البتہ اس پر دو راستباز مسلمانوں کو گواہ بنانا ضروری قرار دیا۔
۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر سفر میں موت کی مصیبت پیش آ جاتی ہے اور گواہ بنانے کے لئے دو مسلمان نہیں مل رہے ہیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ مجبوری کی صورت ہو گی اس لئے اسلام نے اس کا لحاظ کیا ہے ورنہ گواہوں کے سلسلہ میں اصل معیار وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
واضح رہے کہ غیر مسلموں میں سے ان ہی لوگوں کو گواہی کے لئے منتخب کیا جا سکتا ہے جو خدا کے قائل ہوں اور بوقتِ ضرورت اس کی قسم کھا کر بیان دے سکتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو خدا کے قائل ہی نہیں ہیں وہ کسی طرح گواہ بنائے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس پر دلیل آیت کا وہ مضمون ہے جو آگے بیان ہوا ہے۔
۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب وصیت کرنے والے کا انتقال ہو چکا ہو اور اس کی وصیت کے نفاذ کا مسئلہ در پیش ہو اور گواہوں کے بیان کے بارے میں شبہہ پیدا ہو تو انہیں نماز کے بعد روک کر ان سے حلفیہ بیان لیا جائے۔ نماز کے بعد یعنی فرض نمازوں میں سے کسی بھی نماز کے بعد تاکہ گواہ پر پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ حلفیہ بیان دیں۔
۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حلفیہ بیان کے ساتھ انہیں وصیت کے سلسلہ میں اپنی گواہی پیش کرنا ہو گی۔ اس بیان میں اس بات کی یقین دہانی کرنا ہو گی انہوں نے رشوت قبول کر کے یا اپنے کسی ذاتی فائدے کی بنا پر یا اپنے کسی رشتہ دار کی رعایت کی غرض سے وصیت کے معاملہ میں اپنی طرف سے کوئی تصرف یا تبدیلی نہیں کی ہے۔
۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مضبوط قرائن یا حالات کی شہادت (Circumstantial Evidence) کی بنا پر ورثاء پر یہ ظاہر ہو جائے کہ وصیت کے گواہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے یا وصیت کرنے والے نے جو امانت ان کے سپرد کی تھی۔ اور سفر میں اس طرح کے مواقع پیش آنا متوقع ہی ہے کہ مرنے والا اپنا اسباب وغیرہ اپنے ساتھیوں کے حوالہ کر کے ان کو وصیت کرے کہ یہ چیزیں میرے ورثاء کو پہنچا دو۔ اس میں وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان ورثاء میں سے دو اشخاص جو شہادت دینے کے نسبتاً زیادہ اہل ہوں مذکورہ گواہوں کی جگہ اپنا حلفیہ بیان دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔
۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اس حلفیہ تردیدی بیان کے بعد وصیت کے گواہوں کی گواہی رد ہو جائے گی اور اس نزاعی معاملہ کا فیصلہ ان لوگوں کے بیان کے مطابق ہو گا جن کی حق تلفی ہوئی ہے۔
اس سے اسلام کے طریقۂ شہادت کے سلسلہ میں یہ اصولی بات واضح ہوتی ہے کہ بعض صورتوں میں حالات کی شہادت (Circumstantial Evidence) نہ صرف قابلِ قبول ہے بلکہ اس کی بنا پر گواہیاں رد بھی کی جا سکتی ہیں بشرطیکہ اس کی توثیق حلفیہ بیان کے ذریعہ ہوئی ہو
۲۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہادت کا جو طریقہ یہاں بیان ہوا ہے وہ دو اہم باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک حلفیہ بیان اور دوسرے تردیدی قسمیں۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ موزوں ہے اس لئے کہ اس کے پیشِ نظر گواہ محتاط رہیں گے اور ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے ورنہ انہیں اس بات کا اندیشہ رہے گا کہ کہیں تردیدی قسموں کے ذریعہ ان کی گواہیاں رد نہ کر دی جائیں۔
۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جتنے پیغمبر بھی دنیا میں بھیجے گئے تھے ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ جو پیغام دے کر تم بھیجے گئے تھے اس کے ساتھ لوگوں نے کیا معاملہ کیا؟
۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیغمبروں کو ان کی زندگی میں ان کی قوموں کی طرف سے جو جواب ملا اس کے سلسلہ میں وہ ناواقفیت کا اظہار کریں گے کیوں کہ ان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کے شہادت دینے کا ذکر قرآن میں دوسرے مقامات پ ہوا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ عدالت خداوندی کی شانِ جلالت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے عجز کا اظہار کریں گے کہ علام الغیوب کے سامنے ان کے علم کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ جواب اس لحاظ سے بھی برمحل ہو گا کہ سوال کا تعلق منکرین ہی سے نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کی امتوں سے بھی ہو گا اس لئے وہ اس بات سے اپنی لا علمی کا اظہار کریں گے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے پیروؤں نے ان کی تعلیمات میں کوئی رد و بدل کیا یا نہیں اور کیا تو کس قسم کا۔
۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے جو کچھ فرمائے گا اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روح القدس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۱۱۰ اور ۴۰۵ میں گزر چکی۔
۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۶۸ اور ۶۹۔
۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مٹی سے پرندہ بنانے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ ہی کے حکم سے دکھایا تھا اور اس میں جان اللہ ہی کے حکم سے پڑتی تھی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود جان ڈالنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔
۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ بائبل میں بھی بیان ہوا ہے۔ پھر اس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا یہ کہہ کر اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر اس سے کہا جا شیلوخؔ کے حوض میں دھو لے۔ پس اس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپس آیا۔ انہوں نے پھر اس اندھے سے کہا کہ اس نے جو تیری آنکھیں کھولیں تو ا س کے حق میں کیا کہتا ہے ؟اس نے کہا وہ نبی ہے (یوحنا باب ۹) "اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی اس کو ملے۔ انہوں نے دور کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا اے یسوع! اے صاحب ! ہم پر رحم کر۔ اس نے انہیں دیکھ کر کہا جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ اور ایسا ہوا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہو گئے۔ پھر ان میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ میں شفا پا گیا بلند آواز سے خدا کی تمجید کرتا ہو ا لوٹا۔ (لوقا۱۷:۱۲ تا۱۶)
۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی موت کی حالت سے نکال کر زندہ کر دیتے تھے یہ معجزہ بھی انجیل میں بیان ہوا ہے۔ "وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادت خانہ کے سردار کے ہاں سے کسی نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔ استاد کو تکلیف نہ دے۔ یسوع نے سن کر اسے جواب دیا کہ خوف نہ کر فقط اعتقاد رکھ وہ بچ جائے گی۔ اور گھر میں پہنچ کر پطرس اور یوحنا اور یعقوب اور لڑکی کے ماں باپ کے سوا کسی کو اپنے ساتھ اندر نہ جانے دیا۔ اور سب اس کے لئے رو پیٹ رہے تھے مگر اس نے کہا ماتم نہ کر و۔ وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ وہ اس پر ہنسنے لگے کیوں کہ جانتے تھے کہ وہ مر گئی ہے مگر اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اٹھ۔ اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی۔
پھر یسوع نے حکم دیا کہ لڑکی کو کچھ کھانے کو دیا جائے (لوقا۸:۴۹تا۵۵)
۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کی سازشوں سے بچایا چنانچہ وہ صلیب پر چڑھانے یا قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۸۱) ۔
۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات کو انہوں نے جادو قرار دیا حالانکہ کسی جادو گر نے آج تک نہ کسی مرد کو زندہ کر دیا ہے اور نہ اندھے کو بینا اور نہ ہی کوئی جادو گر اخلاق و کردار کی پاکیزگی کا ثبوت دے سکا ہے۔
۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حواریوں کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ وہ ایمان لائیں۔ بالفاظ دیگر عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا ایمان لانا اللہ کی توفیق کا نتیجہ تھا۔ حواریوں کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۷۷ میں گزر چکی۔
۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا دین اسلام تھا نہ کی مسیحیت اور وہ اللہ ہی کو خدا مانتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ کو۔ اس عقیدہ کے خلاف مسیحیوں نے جو باتیں ان کی طرف منسوب کی ہیں وہ محض افتراء ہیں اور قیامت کے دن یہ سارے جھوٹ آشکارا ہو جائیں گے۔ ۲۷۱۔ اتار سکتا ہے۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کیا ایسا کرنے پر خدا قادر ہے ؟کیوں کہ حواری مخلص مومن تھے اس لئے خدا کی قدرت کے بارے میں ان کے شک میں مبتلا ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آیا آسمان سے خوان اتارنا خدا کی حکمت کے مطابق ہو گا؟یا اس کی شانِ حکمت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ معجزانہ طور پر خوان اتارنے کا فیصلہ کرے گا؟
۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی غیر معمولی چیز طلب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو کہ اگر اس نے عطا کی تو تم سخت آزمائش میں پڑو گے۔
۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حواریوں کے اس بیان سے واضح ہوا کہ انہوں نے خوان کے نزول کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ درخواست کی تھی اور ان کے یہ کہنے سے کہ ہم اس میں سے کھائیں ، انداز ہوتا ہے کہ یہ بات انہوں نے ایسے موقع پر کہی ہو گی جب کہ بھوک کی شدت نے انہیں پریشان کیا ہو گا۔
۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعائیہ کلمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کو باپ نہیں کہتے تھے بلکہ اپنا اور سب کا رب کہتے تھے۔ اس سے بائبل کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ وہ اللہ کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔
۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حواریوں کے لئے آسمان سے رزق اترنے کا یہ واقعہ اس امت کے تمام لوگوں کے لئے خوشی کی یاد گار قرار پائے۔ اگلوں سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے وہ لوگ ہیں جو ان کے زمانہ میں موجود تھے اور پچھلوں سے مراد بعد کے لوگ ہیں۔
عید سے مراد تہوار نہیں بلکہ خوشی و مسرت کا وہ واقعہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے یاد گار قرار پائے۔ بائبل میں گو یہ واقعہ صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام کے آخری کھانے (Last Supper) کا جو ذکر ہوا ہے وہ ایک اہم واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور عیسائیوں میں اسے کافی شہرت حاصل ہے۔ عجب نہیں کہ یہ واقعہ نزولِ مائدہ ہی کا ہوا اور اس کی تفصیلات اہلِ انجیل نے بھلا دی ہوں۔ بہرکیف اس میں طباق (خوان) کا ذکر ہے۔
"عید فطر کے پہلے دن جب شام ہوئی تو وہ اُن بارہ کے ساتھ آیا اور جب وہ بیٹھے کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھاتا ہے مجھے پکڑوائے گا۔ وہ دلگیر ہوئے اور ایک ایک کر کے اس سے کہنے لگے کیا میں ہوں ؟اس نے ان سے کہا کہ وہ بارہ میں سے ایک ہے ، جو میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالتا ہے کیوں کہ ابنِ آدم تو جیسا اس کے حق میں لکھا جاتا ہی ہے لیکن اس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے۔ اور وہ کھا ہی رہے تھے کہ اس نے روٹی لی اور برکت دیکر توڑی اور ان کو دی اور کہا لو یہ میرا بدن ہے۔ پھر اس نے پیالہ لے کر شکر کیا اور ان کو دیا اور ان سبھوں نے اس میں سے پیا (مرقس ۱۴: ۱۲تا ۲۳)
بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جمعہ کے دن شام میں پیش آیا تھا (اور اسی روز رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے) اور گڈ فرائی ڈے (Good Friday) جو منایا جاتا ہے اس کی اصل بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس روز شام میں عیسیٰ علیہ السلام نے آخری کھانا کھایا تھا۔
(And often Good Friday is a special day for the administration of the lords Supper The Oxford Dictionary of Christian Church P.571.
۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان دعائیہ کلمات میں عیسیٰ علیہ السلام نے نشانی (معجزہ) کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور رزق کو بھی یعنی معجزہ دکھانا بھی اللہ ہی کا کام ہے اور رزق دینا بھی۔ اس کی ان صفات میں نہ عیسیٰ علیہ السلام شریک ہیں اور نہ کوئی اور۔
۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوان نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس لئے اس کا نزول لازما ہوا ہو گا اور جمہور مفسرین اسی کے قائل ہیں۔
۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی کھلی نشانی دیکھنے کے بعد جو شخص کفر کرے گا اس کا کفر دنیا والوں میں سب سے بڑھ کر ہو گا اس لئے وہ سب سے بڑی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔
۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ ہی کی نہیں بلکہ ان کی والدہ حضرت مریم کی بھی پرستش کرتے ہیں اور یہ لازمی نتیجہ ہے ا ن کے اس عقیدہ کا کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں۔ جب نعوذ باللہ عیسیٰ خدا کے بیٹے قرار پائے تو ان کی والدہ جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے خدا کیسے قرار نہ پائیں گی چنانچہ انہیں "مادرِ خدا ” ("Mother of God ") کا لقب دیا گیا۔
It was at Ephesus the city of the goddess, that the earliest proof is found of an established cult of the Virgin Mary as the Mother of God, and in the Council held at Ephesus in A.D 431, this cult was definitely established as a feature of the Orthodox ritual (Ency. of Religion& Ethics IX D908)
واضح رہے کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں عیسائیوں کا پروٹسٹنٹ فرقہ موجود نہ تھا۔ یہ صدیوں بعد پیدا ہوا۔ اس زمانہ میں کیتھولک (ملہ کانی) اور دوسرے فرقے موجود تھے مثلاً یعقوبی (جاکوبائیٹ) نسطوری (نسٹورین) ،مارونی یا مریمی وغیرہ۔ ان فرقوں کے درمیان عقائد کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا تھا مثلاً کسی کا دعویٰ تھا کہ خدا ہی مسیح بن کر آیا تھا اس لئے مسیح کی ذات خدا ہی مسیح بن کر آیا تھا اس لئے مسیح کی ذات خدا کی ذات ہے۔ کوئی تثلیث کا قائل تھا یعنی باپ بیٹا ، اور روح القدس سے خدا کے مرکب ہونے کا اور کسی نے روح القدس کی جگہ حضرت مریم کو خدا کی حیثیت دی تھی اور کوئی اقانیم ثلاثہ کے ساتھ حضرت مریم کو خدا کی ماں کی حیثیت سے لائق پرستش جانتا تھا۔ (ملاحظہ ارض القرآن از سید سلیمان ندوی ج۲ص ۱۹۶تا ۱۹۹)
۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تو پاک ہے اس بات سے کہ خدائی میں تیر ا کوئی شریک ہو۔
۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ تردیدی بیان جو آخرت کی عدالت میں ہو گا قرآن اسے پیشگی دنیا والوں اور خصوصاً نصاریٰ کے سامنے لا رہا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ خدائی کے تعلق سے جو باتیں حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں ا ن کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ محض افتراء ہیں۔
۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۷۶۔
۲۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ توفیتنی "استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ یہاں قبض کرنے اور وقت پورا کرنے کے ہیں۔ اس لفظ کے سلسلہ میں بحث سورۂ آل عمران نوٹ ۸۲میں گزر چکی۔
چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا اس لئے موقع پر ان کی زبان سے "تو نے مجھے موت دی” کے بجائے "تون ے مجھے قبض کر لیا یا میرا وقت پورا کر دیا،کے الفاظ صورتِ واقعہ کی صحیح تعبیر پیش کر تے ہیں۔ اسی طرح "جب تک زندہ رہا "کے ان میں موجود رہا (مادمت فیھم) کے الفاظ کا استعمال بالکل بر محل ہوا ہے۔
۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ بیان درد مندانہ بھی ہو گا اور ذمہ دارانہ بھی۔ وہ نصاریٰ کے لئے شفاعت نہیں کریں گے کیوں کہ شرک کرنے والوں کے لئے شفاعت نہیں کریں گے کیوں کہ شرک کرنے والوں کے لئے شفاعت جائز نہیں ہو گی بلکہ وہ اس معاملہ کو اللہ کے حوالہ کریں گے کہ اسے اختیار ہے جو چاہے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ لازما بر حق ہو گا۔ اس سے بائبل کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ
’کیوں کہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔‘ (یوحنا۵:۲۲)
قیامت کے دن جب مسیح کے پرستار دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے خود عدالت برپا کی ہے اور حضرت عیسیٰ کو کوئی عدالتی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ گواہ کی حیثیت سے اس عدالت میں پیش ہوئے ہیں تو مسیحیت کی پوری عمارت ڈھ جائے گی اور ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔
عیسیٰ علیہ السلام کا یہ بیان اس قدر حقیقت افروز اور اتنا مؤثر ہے کہ کوئی انتہائی سنگدل ہی ہو گا جس کا دل پسیج نہ جائے۔ کاش کہ مسیح کے پرستار اس پر غور کرتے۔
۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج وہی لوگ با مراد ہوں گے جنہوں نے دنیا میں راست بازی کا ثبوت دیا تھا، جو توحید پر قائم رہے اور جنہوں نے اللہ کے دین میں کوئی بدعت نہیں نکالی۔
٭٭٭
(۶) سُوْرَۃُاَلْاَنْعَام
(۱۶۵ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت ۱۲۶ تا ۱۴۵ میں اس مشرکانہ بدعت کی تردید کی گئی ہے جو مشرکوں نے انعام یعنی مویشیوں کے سلسلے میں اختیار کی تھی۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’الانعام‘ ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
شرک کی تردید اور توحید، آخرت اور رسالت کے سلسلے منکرین کے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو دعوتِ ایمان۔
سابقہ تینوں سورتوں میں اہلِ کتاب ہر حجّت قائم کر دی گئی تھی۔ اس سورہ میں مشرکین پر حجّت قائم کی گئی ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں خالق کائنات کی صحیح معرفت بخشی گئی ہے۔ آیت ۴ تا ۲۱ میں منکرین کی غیر سنجیدہ باتوں پر گرفت کر تے ہوئے ان کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ آیت ۲۲ تا ۳۲ میں اللہ کا شریک ٹھہرانے والوں میں، اس کی آیات کا انکار کرنے والوں اور دوسری زندگی کی نفی کرنے والوں کی وہ حالت بیان کی گئی ہے جب کہ قیامت برپا ہو گی اور وہ خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔
آیت ۳۳ تا ۵۵ میں رسالت کے سلسلے میں اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا گیا ہے اور انہیں انکار کے انجام سے خبر دار کر دیا گیا ہے۔ نیز اہلِ ایمان کو مغفرت اور رحمت کی خوش خبری سنا دی گئی ہے۔
آیت ۵۶ تا ۶۷ میں غیر اللہ کی عبادت سے بیزاری کا اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور توحید کو پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۶۸ تا ۷۰ میں کج بحثی کرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
آیت ۷۱ تا ۷۳ میں شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔
آیت ۷۴ تا ۸۳ میں شرک اور بت پرستی کے خلاف اور توحید کے حق میں ابراہیم علیہ السلام کی اس حجت کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ توحید پر کار بند تھے اور شرک سے انہیں دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ اُن کی راہ ہدایت کی راہ ہے۔
آیت ۹۱ تا ۹۴ میں نزول وحی کے سلسلے میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اس صورتِ حال کو پیش کیا گیا ہے جس سے منکرین موت کے وقت اور پھر قیامت کے دن دو چار ہوں گے۔
آیت ۹۵ تا ۱۱۵ میں منکرین کو ان کے بے جا مطالبات پر سر زنش کی گئی ہے۔
آیت ۱۱۶ تا ۱۲۱میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ مذہب کے معاملے میں آدمی عوام کی اٹکل پچّو باتوں سے متاثر نہ ہو اور مشرکانہ اوہام سے بچ کر رہے۔
آیت ۱۲۲ تا ۱۳۵ میں رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ان کے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے۔
آیت ۱۳۶ تا ۱۵۰ میں مشرکین کی اس گمراہی پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے وہم پرستی میں مبتلا ہو کر بعض مویشیوں کو حرام قرار دے رکھا ہے اور اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اولاد کو ان کی بھینٹ چڑھاتے ہیں نیز کھیتی اور مویشیوں میں بھی ان کی نیاز کے لئے حصّہ مقرر کرتے ہیں۔
آیت ۱۵۱ تا ۱۶۵ میں اس بات کو اجمالاً بیان کرتے ہوئے کہ خدا نے حقیقۃً کیا چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں، قرآن پر ایمان لانے اور اس کی پیروی کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
آیت ۱۵۹ تا ۱۶۵ خاتمۂ کلام ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے الگ الگ مذہب بنا لئے ہیں، ان کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہر شخص اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمد ۱* اللہ ہی کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ۲* اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۳* پھر بھی کفر کرنے والے اپنے رب کا ہمسر ٹھہراتے ہیں ۴*
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۵* پھر (زندگی کی) ایک مدت مقرر کی ۶* اور اس کے ہاں ایک دوسری مد ت بھی مقرر ہے ۷* پھر بھی تم لوگ ہو کہ شک کرتے ہو ۸*
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ۹* تمہاری چھپی اور کھلی سب باتوں کو جانتا ہے اور جو (اچھی بری) کمائی تم کرتے ہو وہ بھی سب اسے معلوم ہے۱۰*۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے پاس آئی ہوں اور انہوں نے اس سے بے رخی نہ کر لی ہو ۱۱*۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ جب حق ان کے پاس آیا تو اس کو انہوں نے جھٹلا دیا ۱۲* تو جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ان کی خبریں عنقریب ان کے پاس پہنچ جائیں گی ۱۳*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے ہم کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کو ہم نے زمین میں وہ قوت بخشی تھی جو تم کو نہیں بخشی ۱۴* ہم نے ان پر خوب برسنے والی بارش بھیج دی تھی اور ان کے نیچے نہریں جاری کر دیں تھیں ۱۵* پھر ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو اٹھا کھڑا کیا۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر) اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب ناز ل کرتے اور یہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی جنہوں نے کفر کیا ہے یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادوگری ہے ۱۶*۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اگر ہم کوئی فرشتہ اتار تے تو معاملہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی ۱۷*
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تو انسانی شکل ہی میں بھیجتے اور انہیں ویسے ہی شبہہ میں ڈال دیتے جیسا شبہہ یہ اب کر رہے ہیں ۱۸*
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے تو جن لوگوں نے مذاق اڑایا تھا ان کو اس چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۱۹*
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ۲۰*
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو اللہ ہی کا ہے ۲۱* اس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے ۲۲* وہ تمہیں ضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ۲۳* جن لوگوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈال دیا ہے وہی ایمان نہیں لاتے ۲۴*۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے لئے ہے جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے رات اور دن میں ۲۵* اور وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ کیا میں اللہ کو چھوڑ کر جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور (سب کو) کھلاتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو کھلاتا ہو ۲۶* کسی اور کو ولی (حاجت روا) بنا لوں ۲۷* کہو ، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے کو اس کے حوالہ کرنے والا بنوں ۲۸* اور (اے پیغمبر !) تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ ۲۹*۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑ ے دن کے عذاب کا ڈر ہے ۳۰*
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن جس کو اس سے بچا لیا گیا اس پر اللہ نے رحم کیا اور یہ کھلی کامیابی ہے ۳۱*
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اللہ تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا کرے تو اس کو دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں اور اگر کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۳۲*
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے بندوں کے اوپر زور و غلبہ رکھنے والا ہے ۳۳* اور وہ حکیم بھی ہے اور باخبر بھی ۳۴*۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ان سے) پوچھو سب سے بڑھ کر گواہی کس کی ہے ؟ کہو اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے ۳۵* اور یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تم کو متنبّہ کروں ۳۶* اور ان کو بھی جن کو یہ پہنچے ۳۷* کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی گواہی نہیں دیتا کہو ، صرف وہی ایک خدا ہے ۳۸* اور تم جو شریک ٹھہراتے ہو ان سے میں بالکل بیزار ہوں۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۳۹* (لیکن) جن لوگوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اسکی آیتوں کو جھٹلائے ۴۰* ؟ یقیناً ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس ۴۱* دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر شریک ٹھہرانے والوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جس کو تم (خدا کا) شریک سمجھتے تھے ؟
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کے سوا کوئی اور بات بنا نہ سکیں گے کہ اللہ ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے ۴۲*
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ کس طرح اپنے اوپر جھوٹ بولیں گے اور جو کچھ انہوں نے گڑھ لیا تھا وہ سب ان سے گم ہو جائے گا ۴۳*
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں کہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۴۴* وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں جب بھی ان پر ایمان لانے والے نہیں۔ یہاں تک کہ جب تمہارے پاس آ کر تم سے جھگڑتے ہیں تو یہ کافر کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ۴۵*۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دوسروں کو بھی اس سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور رہتے ہیں (ایسا کر کے) وہ اپنے ہی کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر ان کو اس کا شعور نہیں۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اس وقت کی حالت دیکھ لیتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کر دئیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کا ش ہم پھر (دنیا میں) واپس بھیج دئیے جائیں اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں شامل ہو جائیں ۴۶*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ حسرت اس لئے نہیں ہو گی کہ حق ان پر واضح نہیں ہوا تھا) بلکہ (اس لئے ہو گی کہ) جس بات کو وہ اس سے پہلے چھپا یا کرتے تھے وہ کھل کر ان کے سامنے آ گئی ہو گی ۴۷* اگر انہیں (دنیا کی طرف) واپس بھیج دیا جائے تو پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا ۴۸* یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں (مرنے کے بعد) اٹھایا نہیں جائے گا۔ ۴۹*
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ان کی اس وقت کی حالت دیکھ لیتے جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے اس وقت وہ ان سے پوچھے گا کیا یہ حقیقت نہیں ہے ۵۰* ؟ وہ کہیں گے ہاں ہمارے رب کی قسم !وہ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تباہی میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب وہ گھڑی ۵۱* اچانک آ نمودار ہو گی ۵۲* تو کہیں گے افسوس !اس معاملہ میں ہم سے کیسی کوتاہی ہوئی !اور وہ اپنے بوجھ ۵۳* اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ تو کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہوں گے !
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دنیا کی زندگی تو بس کھیل تماشہ ہے ۵۴* البتہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۵۵*
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تمہارے لئے باعثِ ملال ہوتی ہیں لیکن یہ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۵۶*
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا جا چکا ہے مگر اس تکذیب اور اذیت دہی پر انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ کوئی نہیں جو اللہ کے کلمات کو بدل سکے ۵۷* اور پیغمبروں کے واقعات کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۵۸*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ان کی بے رخی تم پر گراں گزرتی ہے تو اگر تمہارے بس میں ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالو تاکہ ان لوگوں کے لئے کوئی نشانی لاسکو تو ایسا کر دیکھو ۵۹* اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا لہذا ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو نادان ہیں ۶۰*
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (حق کو) قبول وہی لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں ۶۱* رہے مردے تو اللہ انہیں (قبروں سے) اٹھائے گا ۶۲* پھر اسی کے حضور لوٹائے جائیں گے ۶۳*
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی ۶۴* کیوں نہیں اتری ؟ اللہ یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ نشانی اتار دے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۶۵*
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار اور پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں جس کی تمہاری طرح امتیں (انواع) نہ ہوں ۶۶* ہم نے نوشتہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۶۷* پھر سب اپنے رب کے پاس اکٹھے کئے جاتے ہیں ۶۸*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں تاریکیوں میں پڑے ہوئے ۶۹* اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے ۷۰*
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا وہ گھڑی (قیامت) آ پہنچے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بلکہ (جب مصیبت آتی ہے تو) تم اسی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو جس کے لئے تم اس کو پکارتے ہو دور کر دیتا ہے اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو تم بھول جاتے ہو ۷۱*
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے اور ان امتوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ گڑگڑائیں ۷۲*
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ہماری طرف سے سختی آئی تو وہ گڑگڑاتے ؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور جو (برے) کام وہ کر رہے تھے ان کو شیطان نے ان کی نظروں میں خوشنما بنا دیا ۷۳*
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب انہوں نے اس یاد دہانی کو بھلایا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوش حالیوں) کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں پر اترانے لگے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ نا امید ہو کر رہ گئے ۷۴*
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرض ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جو ظلم کے مرتکب ہوئے تھے اور تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ساری کائنات کا رب ہے ۷۵*
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور بصارت چھین لے اور تمہارے دلوں پر مُہر لگا دے ۷۶* تو اللہ کے سوا کون سا خدا ہے جو یہ (نعمتیں) تمہیں واپس دلا سکے ؟ دیکھو کس طرح ہم اپنی نشانیاں گوناگوں طریقہ سے بیان کرتے ہیں ۷۷* پھر بھی یہ لوگ ہیں کہ کنارہ کشی کرتے ہیں۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ تم نے (کبھی) سوچا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ آ جائے تو ظالموں کے سوا اور کون سا گروہ ہے جو ہلاک کیا جائے گا ۷۸* ؟
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم رسولوں کو اسی لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے ہوں ۷۹* پھر جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی اصلاح کر لی ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۸۰*
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ مجھے غیب کا علم ہے اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر کی جاتی ہے ۸۱* پوچھا کیا اندھا اور بینا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اس وحی کے ذریعہ ۸۲* ان لوگوں کو خبردار ۸۳* کرو جو اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے حضور اکٹھا کئے جائیں گے اس حال میں کہ اس کے سوا نہ تو کوئی مددگار ہو گا اور نہ سفارشی۔ تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ۸۴*
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی خوشنودی کی طلب میں پکارتے ہیں ۸۵* ان کے حساب کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی ذمہ داری ان پر ہے کہ تم ان کو دور کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہمارے درمیان سے چن کر اپنے فضل سے نواز ا ہے ۸۶* ؟ کیا اللہ اچھی طرح نہیں جانتا کہ شکر کرنے والے کون ہیں ۸۷* ؟
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر !) جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہو تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس نے توبہ اور اصلاح کر لی ہو تو وہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۸۸*
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ نمایاں ہو جائے۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو جن کو تم اللہ کے سوا پکار تے ہو ۸۹* ان کی عبادت کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے۔ کہو میں تمہاری خواہشوں پر چلنے والا نہیں ۹۰* اگر میں ایسا کیا تو گمراہ ہو جاؤں گا اور راہِ راست پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں ۹۱* اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے تم جس چیز کے لئے جلدی مچا رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں ہے ۹۲* فیصلہ کرنا تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے وہ حق بات بیان فرماتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ جس چیز کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اللہ ظالموں ۹۳* کو خوب جانتا ہے۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی ۹۴* نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے کوئی پتا نہیں گرتا مگر یہ کہ وہ اس کو جانتا ہے ۹۵* زمین کی تاریکیوں ۹۶* میں کوئی دانہ اور کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں جو ایک واضح کتاب میں درج نہ ہو۔ ۹۷*
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہیں وفات دیتا ہے ۹۸* اور جو کچھ دن میں تم نے کیا تھا اسے جانتا ہے پھر تمہیں دن کے وقت اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہو جائے ۹۹* پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے بندوں پر غلبہ رکھتا ہے ۱۰۰* اور تم پر نگرانی کرنے والے بھیجتا ہے ۱۰۱* یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آ جاتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کو (یعنی اس کی جان کو) قبض کرتے ہیں اور وہ (اس حکم کی تعمیل میں) کوتاہی نہیں کرتے ۱۰۲*
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سب اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جو ان کا مالک حقیقی ہے ۱۰۳* خبردار !فیصلہ کا سارا اختیار اسی کو ہے ۱۰۴* اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۱۰۵*
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو ، کو ن ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں ۱۰۶* سے نجات دیتا ہے جبکہ تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اسی کو پکارتے ہو کہ اگر اس نے اس (مصیبت) سے نجات دی تو ہم ضرور اس کے شکر گزار بن جائیں گے ؟
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، اللہ ہی تمہیں اس (مصیبت) سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے لیکن پھر تم شرک کرنے لگتے ہو ۱۰۷*
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب برپا کرے ، یا تم کو گروہوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے ۱۰۸* دیکھو کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں ۱۰۹*
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری قوم نے اسے ۱۱۰* جھٹلا دیا ہے حالانکہ وہ حق ہے۔ کہو میں تم پر داروغہ نہیں مقرر ہوا ہوں۔ ۱۱۱*
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر خبر کے وقوع میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے ۱۱۲* اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیتوں میں کج بحثی کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جاؤ یہانتک کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو ۱۱۳*
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر ان کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے البتہ نصیحت کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی ڈرنے لگیں ۱۱۴*
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے ۱۱۵* اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۱۱۶* تم اس (قرآن) کے ذریعہ یاد دہانی کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی شامتِ اعمال میں گرفتار ہو جائے۔ اس حال میں کہ اللہ کے مقابلہ میں نہ اس کا کوئی دوست ہو اور نہ سفارش کرنے والا اور اگر وہ فدیہ میں سب کچھ دینا چاہے تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا ۱۱۷* یہی لوگ ہیں جو اپنی شامتِ اعمال میں گرفتار ہوں گے ان کو پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا اور انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہو گا اس کفر کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے ہیں۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ۱۱۸* اور جبکہ اللہ نے ہمیں راہ ہدایت دکھا دی ہے تو کیا ہم الٹے پاؤں پھر جائیں اور ہمارا حال اس شخص کی طرح ہو جائے جس کو شیطانوں نے بیابانوں میں بھٹکا دیا ہو ۱۱۹ * اور وہ حیران و پریشان ہو اور اس کے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آؤ ۱۲۰* کہو اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۱۲۱* اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے کو ربّ العالمین کے حوالہ کریں ۱۲۲*
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرتے رہو ۱۲۳* اسی کے پاس تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو (مقصد) حق کے ساتھ پیدا کیا ۱۲۴* اور جس دن وہ فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ۱۲۵* اس کا قول حق ہے ۱۲۶* اور جس دن صور پھونکا جائے گا بادشاہت اسی کی ہو گی۔ وہ غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے اور وہ حکمت والا اور باخبر ہے۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (یاد کرو) جب ابراہیم ۱۲۷* نے اپنے باپ آزر ۱۲۸* سے کہا تھا : کیا آپ بتوں کو خدا بنا تے ہیں۔ میں تو آپ کو اور آپ کی قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں ۱۲۹*
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی حکومت (کا نظام) دکھاتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ۱۳۰*
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ جب رات اس پر چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا۔ کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو کہا ڈوب جانے والوں کو میں پسند نہیں کرتا۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا یہ میر ارب ہے یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اے میری قوم کے ‘لوگو ‘میں ان سب سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ۱۳۱*
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۱۳۲*
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے کہا کیا تم اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے ۱۳۲ الف* اور میں ان سے نہیں ڈرتا جن کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ ہاں اگر میرا رب کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے تو اور بات ہے ۱۳۳* میرا رب اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۱۳۴* پھر کیا تم یاد دہانی حاصل نہ کرو گے۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ان سے کیسے ڈروں جن کو تم ان کا شریک ٹھہراتے ہو جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراؤ جس کے لئے اس نے تم پر کوئی سند ناز ل نہیں کی ۱۳۵* ہم دونوں فریقوں میں سے کون اس کا زیادہ مستحق ہے ۱۳۶* ؟ بتلاؤ اگر تم جانتے ہو۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا ۱۳۷* ان ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی تھی ۱۳۸* ہم جس کے لئے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں ۱۳۹* یقیناً تمہارا رب نہایت حکمت والا اور علم والا ہے ۱۴۰*
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے ۱۴۱* اور ہر ایک کو ہدایت بخشی ۱۴۲* اور نوح کو بھی اس سے پہلے ہدایت بخشی تھی ۱۴۳* اور اس کی نسل سے ۱۴۴* داؤد ، سلیمان ، ایوب ، یوسف ، موسیٰ اور ہارون کو بھی ۱۴۵* (ہدایت بخشی تھی) اور ہم حسنِ عمل کی روش اختیار کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ عطا کرتے ہیں۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زکریا ، یحیٰ ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی ۱۴۶* یہ سب صالحین میں سے تھے ۱۴۷*
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسمٰعیل ، الیسع ۱۴۸* ، یونس اور لوط کو بھی ۱۴۹* ان سب کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان کے آباء و اجداد ، ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے کتنوں ہی کو ہم نے ہدایت بخشی اور چن لیا ۱۵۰* اور سیدھے راستہ ۱۵۱* کی طرف ان کی رہنمائی کی۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے ۱۵۲* جس سے وہ نوازتا ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اگر یہ لوگ شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا اکارت جاتا ۱۵۳*
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب ، حکم ۱۵۴* اور نبوت عطا کی تھی اب اگر یہ لوگ ۱۵۵* اس کا انکار کرتے ہیں تو (کچھ پرواہ نہیں) ہم نے یہ (نعمتِ دین) ایسے لوگوں کے سپر دکی ہے جو اس کے منکر نہیں ہیں ۱۵۶*
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی لہذا تم بھی ان ہی کی راہ پر چلو ۱۵۷* (اور) کہو میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۱۵۸* یہ تو ایک یاد دہانی ہے دنیا والوں کے لئے ۱۵۹*
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں جانی جب کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری کہو پھر وہ کتاب کس نے اتاری جس کو موسیٰ لیکر آئے تھے ۱۶۰* اور جو روشنی اور ہدایت تھی لوگوں کے لئے جس کو تم ورق ورق بنا کر دکھا تے ہو اور بہت سی باتیں چھپا تے ہو اور تم کو (اس کے ذریعہ) ان باتوں کی تعلیم دی گئی جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے با پ دادا۔ کہو (وہ کتاب) اللہ ہی نے اتاری ہے اور پھر انہیں ان کی کج بحثیوں میں چھوڑ دو کہ کھیلتے رہیں ۱۶۱*
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب ہے جسے ہم نے اتار ا ہے ۱۶۲* برکت والی ۱۶۳* اور تصدیق کرنے والی ہے سابقہ کتاب کی ۱۶۴* اور اس لئے ہم نے اتاری ہے تاکہ تم ام القریٰ ۱۶۵* اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو خبردار کرو ۱۶۶* جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں ۱۶۷* اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۱۶۸*
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے ۱۶۹* یا دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے در آنحالیکہ اس پر کوئی وحی نہ کی گئی ہو ۱۷۰* یا کہے کہ میں بھی ایسا کلام اتاروں گا جیسا کلام کہ اللہ نے اتار ا ہے ۱۷۱* کاش کہ تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ لیتے جب کہ وہ جانکنی کی تکلیف میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تمہیں رسوا کرنے والا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم اللہ کی طرف خلافِ حق باتیں منسوب کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں تکبّر کرتے تھے ۱۷۲*
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اللہ فرمائے گا) اور تم ہمارے حضور اکیلے اکیلے آ گئے ۱۷۳* جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے بارے میں تمہارا گمان تھا کہ تمہارے معاملہ میں وہ (اللہ کے) شریک ہیں ۱۷۴* تمہارا رشتہ ٹوٹ گیا ۱۷۵* اور تمہارے سارے دعوے بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے ۱۷۶* وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی نکالنے والا ہے مردہ کو زندہ سے ۱۷۷* وہی ہے اللہ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو ؟
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی (تاریکی کو) پھاڑ کر صبح نمودار کرتا ہے ۱۷۸* اسی نے رات کو باعثِ سکون اور سورج اور چاند کو حساب کا معیار بنایا ہے ۱۷۹* یہ منصوبہ بندی ہے ا سکی جو غالب بھی ہے اور علم والا بھی ۱۸۰*
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ تم خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعہ راستہ معلوم کرو ۱۸۱* جاننے والوں کے لئے ہم نے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں ۱۸۲*
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۱۸۳* پھر ہر ایک کے لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د کئے جانے کی ۱۸۴* سمجھنے والوں کے لئے ہم نے اپنی نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں ۱۸۵*
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا ۱۸۶* ، پھر ہم نے ۱۸۷* اس سے ہر قسم کی نباتات اگائیں ، پھر اس سے سر سبز شاخیں نکالیں جن سے ہم تہ بہ تہ دانے پیدا کر دیتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار باہم ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ۱۸۸* ان کے پھلوں کو دیکھو جب وہ پھلتے ہیں اور ان کے پکنے کو بھی دیکھو ۱۸۹* اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے حالانکہ اسی نے انہیں پیدا کیا ہے ۱۹۰* اور انہوں نے بے جانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں ۱۹۱* وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۱۹۲* اس کے اولاد کیسے ہو سکتی ہے جبکہ ا سکی کوئی بیوی نہیں ۱۹۳* اور اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا۔ لہذا تم اسی کی عبادت کرو ۱۹۴* وہ ہر چیز کی کفالت کرنے والا ہے ۱۹۵*
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے ۱۹۶* وہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت کی باتیں آ چکی ہیں تو جو کوئی سوجھ بوجھ سے کام لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنا رہے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا میں تم پر نگران نہیں مقرر کیا گیا ہوں ۱۹۷*
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم مختلف طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں اور اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ کہیں کہ تم نے (اچھی طرح) پڑھ کر سنا دیا نیز اس لئے کہ جو لوگ جانتے ہیں ان کے لئے ہم اس کو روشن کریں ۱۹۸*
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو ۱۹۹*
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کرتے ۲۰۰* اور ہم نے تم کو ان پر نگران نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو ۲۰۱*
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کوبرا بھلا نہ کہو کہ پھر وہ بھی حد سے تجاوز کر کے بے سمجھے بوجھے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں ۲۰۲* اس طرح ہم نے ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے ۲۰۳* پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے اس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے ۲۰۴* تو وہ ضرور ایمان لائیں گے کہو نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں ۲۰۵* اور تمہیں کیا معلوم ۲۰۶* کہ اگر وہ آ بھی جائیں تو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اسی طرح ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ رہے ہیں جس طرح یہ پہلی بار اس پر ایمان نہیں دلائے ۲۰۷* اور ہم انہیں چھوڑ رہے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے اور ان کے سامنے ساری چیزیں جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے اِلّا یہ کہ اللہ ہی کی مشیّت ہو ۲۰۸* مگر اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں ۲۰۹*
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنا لیا ہے ۲۱۰* جو فریب دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں خوشنما باتیں ڈالتے ہیں ۲۱۱* اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے لہذا تم انہیں چھوڑ دو کہ وہ افترا پردازیں کرتے رہیں۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (انہیں یہ ڈھیل اس لئے دی جا رہی ہے) تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس کی طرف مائل ہوں ۲۱۲* اور اس کو پسند کریں اور جو کمائی انہیں کرنا ہے کر لیں۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میں اللہ کے سوا کو ئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے جو کھول کھول کر باتیں بیان کرنے والی ہے ۲۱۳* اور جن کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب عطا کی ۲۱۴* وہ جانتے ہیں کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ ۲۱۵*۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہو گئی ۲۱۶* کوئی نہیں جو اس کی باتوں کو بدل سکے اور وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے ۲۱۷*
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر بسنے والوں میں اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے کہنے پر چلو تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکاتیں گے وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور اٹکل کی باتیں کرتے ہیں ۲۱۸*
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون لوگ اس کے راستہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور کون سیدھی راہ پر ہیں ۲۱۹*
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ۲۲۰*
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ (ذبیحہ) تم کیوں نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جبکہ اس نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے ساتھ ہی مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت بھی دی ہے ۲۲۱* اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب اچھی طرح جانتا ہے۔
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھلے گناہ کو بھی چھوڑ دو اور چھپے گناہ کو بھی ۲۲۲* جو لوگ گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اپنی کمائی کا بدلہ پائیں گے۔
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ یہ نافرمانی ہے ۲۲۳* اور شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے ۲۲۴*
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کو لے کر وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور ان سے نکل ہی نہ سکے ۲۲۵* اسی طرح کافروں کے لئے ان کے اعمال خوشنما بنا دئیے گئے ہیں ۲۲۶*
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہم نے ہر آبادی میں بڑے بڑے مجرموں کو اٹھا کھڑا کیا ہے تاکہ وہ چالبازیاں کریں ۲۲۷* اور در حقیقت یہ چالبازیاں وہ اپنے ہی خلاف کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا احساس نہیں ۲۲۸*
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم ماننے والے نہیں جب تک کہ ہمیں ویسی ہی چیز نہ دی جائے جیسی اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت (کا منصب) کسے عطا کرے ۲۲۹* جو لوگ جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں ان کی چالبازیوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرنا ہو گا ۲۳۰*
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کاسینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۲۳۱* اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو تنگ اور بھینچا ہوا کر دیتا ہے (اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے) گویا اسے بلندی پر چڑھنا پڑ رہا ہے ۲۳۲* اس طرح اللہ ان لوگوں پر نا پاکی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۲۳۳*
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ تمہارے رب کا راستہ ہے بالکل سیدھا۔ ہم نے اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کر دی ہیں ان لوگوں کے لئے جو یاد دہانی حاصل کرتے ہیں ۲۳۴*
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے ۲۳۵* ان کے رب کے پاس اور وہ ان کا رفیق ہو گا ان کی (بہتر) کارکردگی کی بنا پر۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا ارشاد فرمائے گا اے گروہ جِن!۲۳۶* تم نے انسانوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کیا انسانوں میں سے جو ان کے ساتھی تھے وہ کہیں گے اے ہمارے رب !ہم نے (گمراہی کے کاموں میں) ایک دوسرے کو خوب استعمال کیا ۲۳۷* (بالآخر) ہم اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا ۲۳۸* ارشاد ہو گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے مگر جو اللہ چاہے ۲۳۹* بیشک تمہارا رب حکمت والا اور علم والا ہے
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ۲۴۰*
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے گروہ جن و انس !کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے ۲۴۱* جو تم کو میری آیتیں سناتے تھے اور تمہارے اس دن کی ملاقات سے تم کو ڈراتے تھے وہ کہیں گے ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں دراصل ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں رکھا اور وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لئے کہ تمہارا رب ایسا نہیں ہے کہ آبادیوں کو نا انصافی کے ساتھ ہلاک کر دے جبکہ ان کے باشندے بے خبر ہوں ۲۴۲*
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہر ایک کے لئے درجہ ہے اس کے عمل کے لحاظ سے ۲۴۳* اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس سے تمہارا رب غافل نہیں ہے۔
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارا رب بے نیاز ہے رحمت والا اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ جس کو چاہے لے آئے (اسی طرح) جس طرح اس نے ایک دوسرے گروہ کی نسل سے تمہیں اٹھایا ہے ۲۴۴*
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ آ کر رہے گی ۲۴۵* اور تم ہمارے قابو سے نکلنے والے نہیں ہو۔
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے میری قوم ۲۴۶* کے لوگو !تم اپنی جگہ عمل کرو میں اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام اخروی کس کا بخیر ہے یقیناً ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں اللہ کا ایک حصہ مقرر کیا ہے اور محض اپنے گمان کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے (ٹھہرائے ہوئے) شریکوں کا۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں جاسکتا مگر جو اللہ کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جاسکتا ہے کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۲۴۷*
۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لئے ان کے (ٹھہرائے ہوئے) شریکوں نے ان کی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے ۲۴۸* تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈالیں ۲۴۹* اور ان کے دین کو ان پر مشتبہ کر دیں ۲۵۰* اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ جھوٹ گھڑتے رہیں۔
۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں یہ کھیت اور یہ مویشی ممنوع ہیں ان کو وہی لو گ کھا سکتے ہیں جن کو ہم کھلانا چاہیں یہ باتیں انہوں نے محض گمان سے طے کر رکھی ہیں ۲۵۱* اور کچھ چوپایوں کی پیٹھ (سواری اور بار برداری) کو حرام ٹھہرایا گیا ہے اور کچھ چوپایوں پر وہ (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام نہیں لیتے یہ سب ان کی من گھڑت باتیں ہیں جو انہوں نے اس کی طرف منسوب کر رکھی ہیں ۲۵۲* عنقریب اللہ ان کو ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔
۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہتے ہیں ان چوپایوں کے پیٹ میں جو (بچہ زندہ) ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر مردہ ہو تو اس میں سب شریک ہیں ۲۵۳* عنقریب اللہ ان کو ان من گھڑت باتوں کی سزاد ے گا بے شک وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے ۲۵۴*
۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً وہ لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے اپنی اولاد کو محض بے وقوفی سے اور جانے بوجھے بغیر قتل کیا اور اللہ نے انہیں جو رزق دیا تھا اسے اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام کر دیا وہ گمراہ ہوئے اور ہدایت قبول کرنے والے نہ بنے۔
۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے باغ پیدا کئے وہ بھی جنہیں ٹٹیوں پر چڑھایا جاتا ہے ۲۵۵* اور وہ بھی جنہیں نہیں چڑھایا جاتا ۲۵۶* اور کھجور اور کھیتیاں جن کی پیداوار مختلف ہوتی ہے اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی اور (مزے میں) مختلف بھی ۲۵۷* کھاؤ ان کے پھل جب کہ وہ پھلیں اور اس کا حق ادا کرو فصل کٹنے کے دن ۲۵۸* اور اسراف نہ کرو ۲۵۹* اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مویشیوں میں بوجھ اٹھانے والے بھی پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے بھی ۲۶۰* کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٹھ نر و مادہ ہیں ۲۶۱* بھیڑ کے قسم دو ، بکری کے قسم سے دو، ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو ان ماداؤں کے پیٹ میں ہوں ؟ اگر تم سچے ہو تو مجھے بتاؤ علمی شہادت کے ساتھ ۲۶۲*
۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اسی طرح) اونٹ کی قسم سے دو اور گائے کی قسم سے دو۔ پوچھو ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو ان کی ماداؤں کے پیٹ میں ہوں ؟ کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا ۲۶۳* ؟پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرے بیشک اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھاتا۔
۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو جو وحی مجھ پر کی گئی ہے اس میں کوئی چیز میں ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر جسے وہ کھائے حرام ہو اِلّا یہ کہ وہ مردار ہویا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام اس پر پکار ا گیا ہو ۲۶۴* پھر جو شخص مجبور ہو جائے اور نہ تو اس کا خواہشمند ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو یقیناً تمہارا رب بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۲۶۵*
۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان لوگوں پر جو یہودی ہوئے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا کسی ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو یہ ان کی سرکشی کی سزاتھی جو ہم نے انہیں دی تھی ۲۶۶* اور بلاشبہ ہم سچے ہیں ۲۶۷*
۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے ۲۶۸* مگر ا س کا عذاب مجرموں سے ٹالا نہیں جاسکے گا۔
۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی کسی چیز کو ہم حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا کہو تمہارے پاس کوئی علم ۲۶۹* ہے جسے ہمارے سامنے پیش کر سکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو ۲۷۰* ؟ اور اٹکل کی باتیں کرتے ہو۔
۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو دلوں میں اتر جانے والی حجت تو اللہ ہی کے پاس ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۲۷۱*
۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے کہو اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے پھر اگر وہ شہادت دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دو ۲۷۲* اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے رب کا ہمسر ٹھہراتے ہیں۔
۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے کیا چیزیں حرام کی ہیں : ۲۷۳* یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ ۲۷۴* والدین کے ساتھ نیک سلو ک کرو ۲۷۵* اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۲۷۶* بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ۲۷۷* اور کسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے قتل نہ کرو اِلّا یہ کہ حق کی بنیاد پر قتل کرنا پڑے ۲۷۸* یہ ہیں وہ باتیں جن کی اس نے تمہیں ہدایت کی ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۲۷۹*
۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر بہترین طریقہ پر یہاں تک کہ وہ اپنی عمر کی پختگی کو پہنچ جائے ۲۸۰* اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو ۲۸۱* ہم کسی نفس پر اس کے مقدور سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے ۲۸۲* اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ (تمہارا) کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ۲۸۳* اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تمہیں ہدایت کی ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو ۲۸۴*
۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہو کہ یہی میرا راستہ ہے بالکل سیدھا لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر تفرقہ میں ڈال دیں ۲۸۵* یہ ہیں وہ باتیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۲۸۶*
۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی ۲۸۷* جو نیک روی اختیار کرنے والے کے حق میں تکمیل نعمت تھی اور جس میں ہر بات کھول کھول کر بیان کی گئی تھی ۲۸۸* اور جو سر تا سر ہدایت و رحمت تھی تاکہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔
۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اب) ہم نے یہ کتاب اتاری ہے برکت والی ۲۸۹* لہذا اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اور یہ اس لئے اتاری ہے) تاکہ تم یہ نہ کہو کہ کتاب توبس ہم سے پہلے کے دو گروہوں پر اتاری گئی تھی ۲۹۰* اور وہ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے اس سے ہم بالکل بے خبر تھے ۲۹۱*
۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ نہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے تو دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی حجت اور ہدایت و رحمت آ گئی ہے پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے روگردانی کرے جو لوگ ہماری آیتوں سے روگردانی کرتے ہیں انہیں عنقریب ہم اس روگردانی کی پاداش میں بدترین سزادیں گے۔
۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے سامنے آئیں یا تمہارا رب خود آ جائے یا تمہارے رب کی بعض نشانیاں ظاہر ہو جائیں ۲۹۲* جس روز تمہارے رب کی بعض نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی تو کسی ایسے شخص کے لئے اس کا ایمان لانا کچھ بھی مفید نہ ہو گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں نیکی نہ کمائی ہو ۲۹۳* کہو تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں ۲۹۴* نے اپنے دین میں الگ الگ راہیں نکالیں اور گروہوں میں بٹ گئے ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ۲۹۵* ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالہ ہے پھر وہ انہیں بتلائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۲۹۶*
۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے دس گنا بدلہ ہے اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اسی کے بقدر بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی ۲۹۷*
۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میرے رب نے مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے ، بالکل صحیح دین ۲۹۸* ، ابراہیم کا طریقہ جو راست رو تھا اور ہر گز مشرکوں میں سے نہ تھا ۲۹۹*
۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا (سب کچھ) اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے ۳۰۰*
۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں ۳۰۱*
۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص پر اس کی اپنی کمائی کی ذمہ داری ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں ۳۰۲* اٹھائے گا پھر تمہارے رب ہی کی طرف تم کو لوٹنا ہو گا اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے ان کی کیا حقیقت کیا تھی۔
۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ ۳۰۳* بنا یا اور تم میں سے بعض کے درجے بعض پر بلند کئے تاکہ اس نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۳۰۴* یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں بھی تیز ہے اور بخشنے والا رحم فرمانے والا بھی ہے۔
تفسیر
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمد کی تشریح سورۂ فاتحہ نوٹ ۲ میں گزر چکی۔ ۲۔ اللہ کا آسمان و زمین کا خالق ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے جو محتاج دلیل نہیں۔ یہود و نصاریٰ تو اس پر اعتقاد رکھتے ہی تھے اور مشرکین عرب کو بھی اس سے انکار نہیں تھا اور جہاں تک آسمانی کتابوں کا تعلق ہے موجود کتابوں میں تورات سب سے قدیم کتاب ہے جس کا آغاز ہی اس حقیقت کا اعلان سے ہوتا ہے۔ "خدا نے ابتداء میں زمین و آسمان کو پیدا کا۔ (پیدائش ۱:۱)
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مسلمہ حقیقت سے انکار کی جرأت صرف ملحدین ہی کر سکے ہیں یا پھر وہ لوگ جو عقل سلیم کو چھوڑ کر فلسفیانہ بحثوں میں الجھ کر رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب میں خالقِ کائنات کا تصور کافی الجھا ہوا ہے۔ رگ وید میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ کسی مقتدر اعلیٰ ہستی نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ ان کے مختلف دیوتا کا جو کارنامہ بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو ایک خاص شکل اور ایک خاص شکل اور ایک خاص حیثیت دے دی نہ کہ دنیا کو عدم سے وجود میں لایا۔
It has not been said any where in the Rig Veda that there was a creation of the world , the bringing into being of what was not existing .by some Superior Power .The various gods are related to the formation of the world . But not one of them created, the world they gave the world a form and position.
البتہ اُپنیشد میں یہ صراحت ملتی ہے کہ سب سے پہلے آتما تھی اور ا س نے ان دنیاؤں کو پیدا کیا۔
In the beginning all this was, verily, the atman alone, there was nothing else living .He created these worlds (The Essence of Principal Upanishads by Swami Sivananda P 136)
ایک طرف یہ الجھی ہوئی باتیں ہیں اور دوسری طرف قرآن کا خالقِ کائنات کے بارے میں بیان ہے جو کتنا واضح، معقول اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا ہے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے زرتشتیوں (مجوسیوں) کے اس تصور کی تردید ہوتی ہے کہ نور اور ظلمت کے خدا الگ الگ ہیں انہوں نے اپنے اس زعم کے مطابق ایک کا نام یزداں اور دوسرے کا نام اہرمن رکھا ہے۔ یزداں روشنی اور خیر کا خدا ہے تو اہرمن تاریکی اور شر کا۔ اس تصور نے انہیں آگ کا پرستار بنا دیا۔ دو خداؤں (Dualism) کے اس عقیدہ کا مطلب اس بات کو تسلیم کر لینا ہے کہ س کائنات پر دو متعارض قوتوں کا تسلط ہے لیکن اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا یہ نظام کامل آہنگی کے ساتھ کس طرح چل سکتا تھا۔ پھر تو یہ کائنات دو متضاد قوتوں کی رزم گاہ بن جاتی۔ یہ ایک دلیل ہی اس عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے کافی ہے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ ہی نے پیدا کی ہے تو پھر کسی اور کے خدا ہونے یا دیوی دیوتا ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ؟
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اور ان ہی سے نسلِ انسانی چلی ہے۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مہلتِ عمل جس کا خاتمہ موت کر دیتی ہے۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ مدت جو تمام انسانوں کے دو باہ اٹھائے جانے کے لئے مقرر ہے۔ مراد قیامت کی گھڑی۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دو باہ اٹھائے جانے کے بارے میں انسان بلا وجہ شک میں پڑا ہوا ہے جس ہستی نے مٹی سے انسان کی تخلیق کی ہو وہ اسے دو بارہ مٹی سے اٹھا کھڑ ا کیوں نہیں کر سکتا ؟اور جس نے موت کی گھڑی مقرر کی کہ کوئی شخص اس کو ٹال نہیں سکتا وہ قیامت کی گھڑی کیوں نہیں مقرر کر سکتا ؟اور جب انسان اپنی موت کی گھڑ ی کو ٹال نہیں سکتا تو وہ قیامت کی گھڑی کو کس طرح ٹال سکے گا ؟جس طرح وہ وقتِ مقررہ پر مرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے اسی طرح وہ وقتِ مقرر ہ پر دو باہ اٹھ کھڑے ہونے کے لئے بھی مجبور ہو گا۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب وہی ہے جو ایک عام قاری کے ذہن میں آ سکتا ہے اور جس کی تائید بعد کے فقرہ سے بھی ہوتی ہے یعنی اللہ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے اور اس کا اقتدار آسمان و زمین کے چپہ چپہ پر قائم ہے۔
رہا حلول کا فلسفہ یعنی یہ خیال کہ خدا کی روح ہر چیز میں سرایت کر گئی ہے ، یا ہمہ اوست کا تصور یعنی یہ خیال کہ جو کچھ بھی ہے خدا ہی خدا ہے تو یہ مشرکانہ تصور ہے اور خالق کو مخلوق پر قیاس کرنے کا نتیجہ ہے۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے اس علم کا تقاضا یہ ہے کہ یومِ جزا برپا کرے اور ہر ایک کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ وہ ہستی جس کے علم میں سب کا کچا چٹھا ہو وہ ان کا حساب کیوں کر نہیں چکائے گی ؟
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی ہر آیت اللہ کی نشانی ہے اس لئے کہ اس سے اللہ کی راہ واضح ہو جاتی ہے اور اس لئے بھی کہ وہ بولتا ہوا معجزہ ہے لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان نشانیوں کے معاملہ میں بے رخی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پہلے تو انہوں نے آیات الٰہی کے سلسلہ میں بے رخ اختیار کی لیکن جب ان کے ذریعہ بالکل کھل کر سامنے ا گیا تو اس کو جھٹلانے پر تل گئے۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے ان کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں لیکن جب اس کا انجام ان کے سامنے آئے گا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا تھی۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب قوم قریش یعنی مکہ کے بت پرستوں سے ہے کہ تم کس گھمنڈ میں مبتلا ہو۔ اگر تمہیں اپنی قومی طاقت پر ناز ہے تو تمہیں معلوم ہو جانا چاہئے کہ تم سے پہلے تم سے کہیں زیادہ طاقتور قومیں گزر چکی ہیں جن کی شان و شوکت کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے لیکن جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور سرکشی کی تو ان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا۔ یہی حشر تمہارا بھی ہو سکتا ہے اگر تم نہ سنبھلو۔
جن قوموں کو گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا ان کا قصہ آگے سورۂ اعراف میں بیان ہوا ہے۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان قوموں کو قوت کے علاوہ رزق کی فراوانی بھی بخشی تھی۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ نہ ماننے کی قسم کھا بیٹھے ہیں انہیں خواہ کوئی نشانی دکھا دی جائے وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ اگر یہ قرآن آسمان سے لکھا لکھایا کتابی شکل میں نازل کیا جاتا تب بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ہو آسمانی کتاب تسلیم نہ کرنے کے لئے ایک نہ ایک بہانہ بنا لیتے اور اگر کوئی بات بن نہ پڑتی تو اسے جادو گری سے تعبیر کرتے اس لئے ایسے لوگوں کے اعتراضات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر واقعی یہ شخص پیغمبر ہے تو اس پر آسمان سے فرشتہ اس طرح کیوں نہیں نازل ہوتا کہ اسے ہم بھی دیکھ لیتے اور وہ اعلان کرتا کہ اس شخص کو اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ان کے اس اعتراض کا جوا ب یہ دیا گیا ہے کہ فرشتہ کو اس طرح نازل کرنے لگی صورت میں وہ مہلت عمل باقی نہیں رہے گی جو تمہیں دی گئی ہے بلکہ وہ فیصلہ کی گھڑی ہو گی کیوں کہ مہلتِ عمل اس وقت تک ہے جب تک کہ امتحان کا موقع باقی ہے لیکن جب فرشتوں کا علانیہ نزول ہونے لگے اور غیب غیب نہ رہے تو ایمان لانے کا کیا سوال باقی رہ جاتا ہے ؟اس لئے فرشتہ کا اس طرح نزول اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کے خلاف ہے جو اس نے انسان کا امتحان لینے کی غرض سے بنایا ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتہ کے نازل ہونے کی دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ فرشتہ کو رسول بنا کر انسانی صورت میں بھیجا جاتا۔ اس صور ت میں بھی ان لوگوں کو وہی اشتباہ پیش آتا جواب ا رہا ہے یعنی یہ کہتے کہ یہ تو انسان ہے یہ پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس عذاب کا وہ مذاق اڑا تے تھے وہ ان پر مسلط ہو کر رہا۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن قوموں کی طرف رسول بھیجے گئے اور انہوں نے ان کو جھٹلایا وہ عذاب الٰہی کے ز د میں آ گئے۔ ان کی اس تباہی کے آثار زمین میں کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں مثلاً وادیِ قریٰ میں ثمود کی تباہی کے آثار اور وہ آثار بھی جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں مثلاً مصر میں فرعون کا انجام (اس کی لاش آج بھی عبرت کے لئے موجود ہے۔) وغیرہ۔
قرآن اس قسم کے تاریخی مقامات کے مشاہدہ کے لئے سفر کرنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ ان کے لئے تفریح طبع کا سامان ہو یا ان کی معلومات میں اضافہ ہو بلکہ اس لئے کہ یہ مشاہدہ ان کے لئے عبرت پذیری کا باعث بنے۔
آج انسان بہ کثرت سفر کرتا ہے اور مختلف مقاصد کے لئے کرتا ہے لیکن نہیں کرتا تو عبرت حاصل کرنے کے لئے !
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم ان سے یہ سوال ضرور کرو کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات کا مالک کون ہے تاکہ وہ غور کریں اور اصل حقیقت کو پا سکیں۔ تاہم تم اپنا یہ جواب بھی انہیں سنا دو کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے تاکہ حقیقت کا اظہار ہو جائے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کو رحم کرنے کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خود یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہو گا۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن سب کو جمع کرنا اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔ قیامت اگر چہ کہ ایک ہولناک شکل میں ظاہر ہو گی اور منکرین پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے گا لیکن یہ قیامت کے ظہور کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو جو اس سے زیادہ اہم اور مثبت نتائج کا حامل ہے یہ ہے کہ اللہ اپنے وفادار بندوں پر اپنی بے پایاں رحمت کا فیضان کرے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے اس کی رحمت سے سرشار ہوں گے۔
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لوگوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت کی جو بارش ہونے والی ہے اس سے اپنے دامن بھر لیں وہ اس سے محروم ہی رہنے والے ہیں اور اللہ کی رحمت سے محرومی بہت بڑے گھاٹے کا باعث ہو گی ایسا گھاٹا جو ابدی ہلاکت کے ہم معنیٰ ہے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ زمان و مکان سب کا مالک ہے۔ رات اور دن کی حالت اس کے لئے یکساں ہے۔ کوئی چیز کسی حال میں اس کے اختیار سے باہر نہیں۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا پینا مخلوق کا خاصہ ہے خالق کا نہیں۔ اللہ خالق ہے اور اسے کھانے پینے کی کوئی ضرورت لاحق نہیں ہوتی بخلاف اس کے مشرکین اپنے دیوتاؤں کے بارے میں کھانے پینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ ایک خاص قسم کا مشروب سوما۔ پی کر زندہ رہتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ بت پرست اپنے خداؤں کے سامنے کھانا پیش کرتے ہیں۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے اور سب کھانے پینے اور پرورش کا سامان تنہا وہی کر رہا ہے اور وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے تو اس کے سوا کسی اور کو خدا بنانے کا کیا سوال پید ا ہوتا ہے ؟حاجت روا جب تنہا وہی ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو محتاج کو حاجت روا کا درجہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیغمبر دوسروں کو خداپرستی کی دعوت دینے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ وہ حکم الٰہی کے بموجب اپنے کام کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہے یعنی وہ اپنے مکمل طور سے اللہ کے حوالہ کرتا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کرے گا اور اس کا جو حکم بھی ہو گا بجا لائے گا۔
خدا کے اس حکم اور پیغمبر کے اس اسوہ میں ہر اس شخص کے لئے جو حق پسند ہے یہ رہنمائی ہے کہ وہ دینِ حق کے معاملہ میں سب سے پہلے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے قطعِ نظر اس سے کہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں کیوں کہ سب سے پہلے اسے خدا کے حضور اپنی ذات سے متعلق جوابدہی کرنا ہو گی۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے مسلم اور مشرک کا فرق واضح ہوتا ہے۔ ایک مسلم اپنے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالہ کر دیتا ہے بخلاف اس کے مشرک اپنے کو اللہ کے حوالہ کبھی نہیں کرتا۔ وہ خدا کو مانتا بھی ہے تو کچھ تحفظات (Reservation) کے ساتھ کیوں کہ اس کی وفاداریاں مختلف "خداؤں ” میں بٹی ہوئی ہوتی ہیں
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کے عذاب کا ڈر۔ اور یہ ڈر ہر بندۂ خدا کو ہونا چاہئے پیغمبر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اصل کامیابی یہی ہے کہ آدمی قیامت کے دن عذابِ الٰہی سے محفوظ ہو۔ اگر آج لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے تو قیامت کے دن انہیں اس کا احساس ضرور ہو گا۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دکھ سکھ پہنچانا سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دکھ دور کر سکتا ہے اور سکھ عطا کر سکتا ہے ایک ایسی بات ہے جس کا واقعتاً کوئی وجود نہیں۔ "مشکل کشا”، "غوث ” اور "بگڑ ی کے بنانے والے ” یہ سب کھوکھلے القاب ہیں جو لوگوں نے غیر اللہ کے لئے تجویز کر رکھے ہیں۔ حقیقت کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بندے پوری طرح اس کے قابو میں اور اس کی گرفت میں ہیں۔ وہ جس بندے کو جس حال میں رکھنا چاہے کوئی طاقت نہیں جو اسے اس سے روک سکے۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفات کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ ان خوبیوں سے متصف ہے اس لئے اس کا الٰہ اور معبود ہونا برحق ہے۔ رہے مشرکین کے خدا تو جب ان خوبیوں میں سے کوئی خوبی بھی کسی میں پائی نہیں جاتی تو وہ خدا کہلانے کے مستحق ہی کب ہیں جوا نہیں معبود بنایا جائے۔
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے تو وہی یہ بات بتا سکتا ہے کہ اس نے اپنی خدائی میں کسی کو شریک کیا ہے یا نہیں۔ اس کے بتائے بغیر تمہارا یہ دعویٰ کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنی خدائی میں شریک کر لیا ہے ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ خدائی کے معاملہ میں خالقِ کائنات کی گواہی ہی سب سے زیادہ معتبر اور فیصلہ کن ہو سکتی ہے اور میں اسی کی گواہی پیش کر رہا ہوں اور اس کی گواہی۔ جیسا کہ اس کے بعد واضح کیا گیا ہے۔ قرآن کی شکل میں تمہارے سامنے موجود ہے۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن اللہ کا کلام ہے اس لئے اس کا اللہ کی گواہی ہونا بالکل واضح ہے۔ اور اس کی گواہی یہ ہے کہ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں۔ اور قرآن اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ خدا کا شریک ٹھہرانے والوں کو اس بات سے متنبہ کر دیا جائے کہ انہیں اس جرم کی سخت سزا بھگتنا ہو گی۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن صرف اہلِ مکہ کے لئے یا عربوں کے لئے نہیں ہے بلکہ عرب و عجم سب کے لئے ہے جس جس تک اور جن جن قوموں تک یہ پہنچے ان سب پر یہ حجت قائم ہو گی کہ پیغمبر نے انہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور شرک و کفر اور سرکشی کے برے انجام سے انہیں خبردار کر دیا تھا۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سچی بات یہ ہے کہ اللہ ہی خدا ہے اور وہی معبود برحق ہے اس کے سوا نہ کوئی خدا ہے اور نہ پرستش کا مستحق۔
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح کسی کو اپنی اولاد کے پہچاننے میں اشتباہ نہیں ہوتا اسی طرح ان لوگوں کو جو آسمانی کتاب کے حامل ہیں اس نبی کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک نبی کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں نیز انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آسمانی کتابوں میں (تورات و انجیل میں) آنے والے نبی کے بارے میں جو پیش گوئیاں موجود ہیں ان کا صحیح مصداق نبیِ امیﷺ ہیں۔
اس آیت کا اشارہ اہلِ کتاب کے حق پسند گروہ کی طرف ہے اور اس سے مشرکین پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پیغمبر اور قرآن کا ظہور کسی خلا میں نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی ٹھوس بنیادیں ہیں اور اس کا تعلق اسی ربانی سلسلۂ ہدایت سے ہے جو پہلے سے چلا ا رہا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ منکرین کو دعوتِ فکر ہے کہ اگر تمہارا یہ الزام صحیح ہے کہ اس شخص (پیغمبر) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو پھر اس نے اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ باندھا ہے اس لئے وہ سب سے بڑا ظالم قرار پاتا ہے لیکن کیا تم کو واقعی یہ شخص اس سطح کا نظر آتا ہے ؟کیا وہ شخصیت جو پیکرِ صد ق ہو اتنا بڑا جھوٹ گڑھ سکتی ہے ؟کیا پاکیزگی سیرت کے ساتھ جھوٹے دعووں اور افتراء پردازیوں کا جوڑ لگ سکتا ہے ؟اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر سوچ لو کہ تمہاری پوزیشن کیا ہوئی؟کیا تم اللہ کی آیات کا انکار کر کے اپنے کو سب سے بڑا ظالم اور مجرم ثابت نہیں کر رہے ہو؟
اس آیت کے مفہوم کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جو شخص خدا پر یہ بہتان لگائے کہ اس نے اپنی خدائی میں فلاں اور فلاں کو شریک کر لیا ہے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی واقعی آیات کی تکذیب کرے اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج تو یہ مشرکین اپنے خداؤں "کو چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں لیکن کل جب کہ وہ عدالتِ خداوندی میں پنے کو حاضر پائیں گے تو ان سے اپنی ان مشرکانہ حرکتوں کا کوئی جواب بن نہ پڑے گا اور دردناک سزا کا ڈر انہیں ایسا بدحواس کرے گا کہ وہ شرک سے بیزاری کے لئے جھوٹ بولنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ مگر ان کا یہ جھوٹ ان ہی کے منہ پر مار دیا جائے گا۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن جن کو انہوں نے خدائی کا درجہ دے رکھا تھا وہ سب غائب ہو جائیں گے اور ان کا کوئی "خدا” بھی ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کچھ لوگ پیغمبر کی باتوں کو سنتے ہیں لیکن قبول حق کی غرض سے نہیں بلکہ کٹ حجتی کے لئے اور اللہ کا قانون ہے کہ جو شخص کھلے ذہن کے ساتھ حق بات سننے اور سمجھنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اس کو قبولِ حق کی توفیق نہیں بخشی جاتی اور خواہشات کے حجابات اس کے دل پر ایسے پڑ جاتے ہیں کہ داعی کتنی ہی وزنی دلیل پیش کرے بات اس کے دل میں اترتی ہی نہیں۔ چونکہ یہ نتیجہ اللہ کے مقررہ قانون یعنی قانونِ فطرت کے تحت رونما ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح تعبیر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کے دلوں میں پر دے ڈال دئے ہیں یا ہم نے ان کے کانوں میں گرانی ڈال رکھی ہے۔
مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۵۔
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن میں گزشتہ اقوام کی جو تاریخ پیش کی گئی ہے اور پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کی تباہی کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ پوری طرح صداقت پر مبنی ہیں اور اس لیے بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے آگاہ ہوں لیکن منکرین قرآن اس پر یہ پھبتی کستے تھے کہ یہ داستانِ پارینہ ہے جو ہمیں سنائی جا رہی ہے اور آج کے منکرین بھی یہ پھبتی چست کرتے ہیں کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین کے اس حسرت ناک انجام کی تصویر الفاظ کے روپ میں آج ہی دکھائی دی گئی ہے تاکہ جو لوگ شرک میں مبتلا ہیں یا کسی مشرکانہ مذہب سے وابستہ ہیں وہ ہوش میں آ جائیں اور اپنا طرز عمل درست کر لیں اور انہیں قیامت کے دن پچھتانا نہ پڑے۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ا ن کی یہ حیرت اور دنیا میں دو بارہ جانے کی خواہش اس لیے نہیں ہو گ کہ حق ان پر واضح ہوا ہے بلکہ اس لی ہو گی کہ انہوں نے جن بری اغراض اور جن غلط محرکات کے تحت حق کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ سب کل کر سامنے آ گئی ہوں گی اور عذر کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر دو باہ دنیا میں بھج دیا جائے تو وہاں کا ماحول آزمائشی ماحول ہی ہو گا اور جب یہ دو بارہ امتحان میں پڑیں گے تو اپنی خواہشات اور بری اغراض کے تحت پھر وہی طرزِ عمل اختیار کریں گے جو انہوں نے پہلے کا تھا۔
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ دوسری زندگی کے قائل نہیں تھے۔ وہ خدا کو انسان کا خالق مانتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ زندگی جو انسان کو عطا ہوئی ہے وہ پہلی اور آخری زندگی ہے۔ اس کے بعد دو باہ زندگی ملنے والی نہیں۔ مشرکین ہند بھی مشرکین مکہ ہی کے نقش قدم پر ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہ پونر جنم کا عقیدہ رکھتے ہیں یعنی انسان کے جانور، درخت وغیرہ میں تبدیل ہو جانے کا تصور اور پونر جنم اس دنیا ہی میں واقع ہو جاتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے انسان کی حیثیت سے دو باہ اٹھائے جانے کی نفی کرتا ہے۔ اس میں نہ قیامت کا تصور ہے اور نہ خدا کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینے اور اس کی طرف سے اعمال کا بدلہ پانے کا تصور رہے آج کے دور کے مذہب بیزار لوگ تو وہ مادہ پرستی میں اتنے غرق ہیں کہ انہیں دوسری زندگی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی ہیں۔ زندگی کی خر مستیوں نے انہیں آخرت کے بارے میں بالکل غیر سنجیدہ بنایا ہے چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے۔
مے نوش کل کے وعدہ پہ کیا حظ اُٹھائے گا
پی لے ابھی کہ کل کو یہ دن نہ آئے گا
اے چاند چاندنی کی قسم پی بھی لے کہ چاند
آئے گا لوٹ لوٹ کے ہم کو نہ پائے گا۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ یوم جزاء کو دلال کی روشنی میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ اسی وقت مانیں گے جب کہ انہیں اس کا مشاہدہ کرایا جائے گا۔ یہ مشاہدہ دنیا میں تو ہو نہیں سکتا البتہ جب قیامت برپا ہو گی تو وہ اس کا ضرور مشاہدہ کریں گے اور اس وقت اس بات کا اعتراف بھی کریں گے کہ یوم جزاء ایک حقیقت ہے مگر اس وقت کا اعتراف انہیں سزا سے نہ بچا سکے گا۔
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے لیے قرآن میں بہ کثرت "الساعۃ” کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خاص گھڑی اور مقررہ وقت کے ہیں۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت اس کائنات کا اچانک رونما ہونے والا حادثہ ہو گا۔ اس حادثہ کے واقع ہونے سے چند منٹ پہلے بھی کسی کو یہ خبر نہ ہو گی کہ اس زبردست دھماکہ کا وقت آ لگا ہے۔
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد گناہوں کے بوجھ ہیں۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد دنیا کی حیثیت کھیل تماشے سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہتی اسی لیے منکرینِ آخرت آج تک کسی سنجیدہ مقصد کی نشاندہی نہیں کر سکے ہیں۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخرت کا انکار عقلمندی نہیں بلکہ عقل سے کام نہ لینے کا نتیجہ ہے۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریش نبیﷺ کو امین صادق سمجھتے تھے لیکن جب آپ نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو وہ آپ کو جھٹلانے لگے۔ گویا تکذیب کا اصل نشانہ نبیﷺ کی ذات نہیں بلکہ قرآن کی آیات تھیں جن کو آپ پیش فرما رہے تھے۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اللہ کی وہ سنت (دستور) ہے جس کے مطابق نصرتِ الٰہی کا ظہور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان سے نصرت کا جو وعدہ کیا ہے وہ لازما پورا ہو کر رہتا ہے خواہ مخالفتوں کا طوفان کتنی ہی شدت اختیار کر لے لیکن اس نصرت کا ظہور وقت سے پہلے نہیں ہوتا، چنانچہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دعوتِ حق پیش ہوئی ہو اور اہلِ حق کو آزمائشوں سے گزرے بغیر اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل ہوا ہو۔
اللہ کے کلمات میں تبدیلی ممکن نہیں یعنی اس کے فیصلے، اس کے وعدے اور اس کی تمام باتیں بالکل اٹل ہیں اور کوئی طاقت ایسی نہیں جو ان کو تبدیلی کر سکے۔ اس کی ہر بات پتھر کی لکیر اور اس کا ہر فیصلہ ناقابلِ تغییر ہے۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء کی جو سرگزشتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت واضح ہوتی ہے کہ نصرتِ الٰہی اہلِ حق کے آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنے اور حق کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد ظہور میں آتی ہے۔ اس لئے مخالفین کی اذیتوں سے متاثر ہو کر اہلِ حق کو کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کفار نبیﷺ سے ایسے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جن کے بعد غیب غیب نہ رہے مثلاً فرشتوں کا اپنی اصل ہیئت میں نزول وغیرہ۔ اسی کے جواب میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے جس سے مقصود نبیﷺ کو تسلی دنیا بھی ہے نیز واضح کرنا بھی کہ معجزہ دکھانا نبی کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اسی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اور جہاں تک کفار کے مطلوبہ معجزات کا تعلق ہے اگر وہ دکھائے جائیں تو عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا اس لئے ان کو دکھانا حکمتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جب ایک نبی اللہ کی مشیت کے بغیر معجزہ دکھانے پر قادر نہیں ہوتا تو کسی ولی اور کسی بزرگ کے بس میں کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ کرامتیں دکھائے۔ طبعی قوانین پر حکومت صرف اللہ کی ہے اور ا ن کی گرفت سے آزاد ہو کر کوئی غیر معمولی چیز دکھانا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں خواہ وہ نبی ہو یا ولی البتہ جب اللہ چاہتا ہے نبی کے ہاتھ سے معجزہ صادر ہو جاتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے کسی نیک اور بزرگ شخص کی تائید غیر معمولی طریقہ پر کرتا ہے ورنہ کوئی بزرگ سے بزرگ شخصیت نہ کرامت دکھانے پر بجائے خود قادر ہوتی ہے اور نہ کرامت دکھانے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابۂ کرام میں سے کسی نے بھی کرامت دکھانے کا دعویٰ نہیں کیا۔
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی مشیت یہ نہیں ہے کہ لوگ لا محالہ ہدایت پر مجتمع ہو جائیں اور ا ن کے لئے عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی تو کوئی شخص بھی راہِ ہدایت سے انحراف نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کی مشیت یہ ہوئی کہ انسان کو عقل و شعور سے کام لینے کا موقع دیا جائے اس لئے کوئی ایسی نشانی (معجزہ) دکھانا جس کے بعد عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے اللہ تعالیٰ کی اس اسکیم کے خلاف ہے جو اس نے اپنی حکمت کے تحت اس دنیا کے لئے بنائی ہے جو لوگ اللہ کی اس اسکیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ نادانی کی باتیں کر نے لگتے ہیں۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سننے سے مراد وہ سنتا ہے جو قبول حق کی غرض سے ہو یعنی دل اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ جو بات سنائی جا رہی ہے وہ اگر حق ہے تو میں اسے ضرور قبول کروں گے اور اس معاملہ میں اپنی کسی خواہش یا کسی قسم کے مذہبی تعصب کو رکاوٹ نہ بننے دوں گا۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مر دے ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو پیغمبر کی دعوتِ حق کو سننے سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ دل کے مردہ ہونے کا نتیجہ ہے اور جب آدمی کا دل ہی مر گیا ہو تو اس کا وجود کہاں رہا۔ اس کی حیثیت ایک بے جان لاش سے زیادہ نہیں ایسے لوگ جب قیامت کے دن قبروں سے اٹھائے جائیں گے تب ہی ان پر حق کھل سکے گا۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیشی کے لئے۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ایسا معجزہ ہے جو محسوس بھی ہو اور جو غیب کے پردہ کو چاک کر کے دکھلا دے کہ اس شخص کو واقعی اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسا معجزہ نہ دکھانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ اس پر قادر نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے جس کو یہ جانتے نہیں ہیں۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا معجزہ طلب کر رہے ہیں جو اگر دکھایا جائے تو پھر غیب غیب نہیں رہتا۔
رہا یہ سوال کہ پھر دوسرے انبیاء علیہم السلام کو حسی معجزے کس طرح دیئے گئے تے تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ اول تو کفار مکہ کا مطالبہ اس طرح کے حسی معجزے کا نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جائے جس سے وہ غیب کے بعض حقائق کا مشاہدہ کر سکیں مثلاً فرشتہ کو اس کی اصل ہیئت میں دیکھنا۔ آسمان سے لکھی لکھائی کتاب کا اترنا ، پیغمبر کا آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھنا ، آسمان کا کوئی ٹکڑا زمین پر گرا دینا وغیرہ۔ ظاہر ہے پچھلے انبیاء کو جو معجزہ دئے گئے تھے ان میں سے کوئی معجزہ بھی اس نوعیت کا نہ تھا۔ دوم یہ کہ پچھلے انبیاء کو جو حسی معجزے دئے گئے تھے وہ بھی دو قسم کے تھے۔ ایک وہ جو بغیر مطالبہ کے دئے گئے تھے مثلاً موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا گیا تھا کہ آپ کی لاٹھی سانپ بن جایا کر تی تھی اور دوسری قسم کے معجزے وہ جو کفار کے مطالبہ پر دئے گئے مثلاً قوم ثمود کے مطالبہ پر صالح علیہ السلام کو اونٹنی کا معجزہ دیا گیا تھا۔ جہاں تک پہلی قسم کے معجزہ کا تعلق ہے نبیﷺ کو ان تمام وقتی معجزات سے بڑھ کر ایک دائمی معجزہ عطا کیا گیا ہے اور وہ ہے قرآن اسی لئے چیلنج کیا گیا کہ اگر قرآن تمہاری نظر میں معجزہ نہیں ہے تو تم بھی اس جیسا قرآن تصنیف کر کے لاؤ۔ رہا دوسری قسم کا معجزہ تو یہ کفار کا منہ مانگا معجزہ ہوتا ہے اور جب وہ عطا کیا جاتا ہے اور وہ ایمان نہیں لاتے تو ان کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور اللہ کا عذاب انہیں آ لیتا ہے اس لئے مصلحت الٰہی اس بات کی متقاضی ہوئی کہ کفار مکہ کو ان کا منہ مانگا معجزہ نہ دکھا یا جائے تاکہ ان کی مہلت عمل جلد ختم نہ ہو جائے۔ اور بعد کے حالات نے واضح کر دیا کہ اس قسم کے معجزے نہ دکھانا قریش کے حق میں بہتر ثابت ہوا کیوں رفتہ رفتہ ان میں سے کتنے ہی لوگوں کی سمجھ میں پیغمبر کی بات آ گئی اور انہیں ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی چرند ہو یا پرند، خشکی کے جانور ہو یا تری کے ، چونٹیاں ہوں یا تتلیاں سب الگ الگ انواع ہیں۔ اور جس طرح انسان کی نوع اپنے اندر ایک اجتماعیت اور ایک وحدت ہے اور اس کی پرورش اور اس کی معیشت کا بھی ایک نظام ہے۔ مثال کے طور پر چیونٹیوں کے نظام اور شہد کی مکھی کے نظام کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح باہم مربوط رہتی ہیں اور کتنی باقاعدگی کے ساتھ اس راہ پر چل پڑتی ہیں جو ان کی معیشت کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔
ان انواع اور اجناس کا آدمی اگر بغور مشاہدہ کرے تو اس کو خالقِ کائنات کی ایک سے ایک عجیب نشانیاں نظر آئیں گی اور یہ نشانیاں ان ہی حقیقتوں کی طرف اس کی رہنمائی کریں گی جن کی دعوت قرآن اور پیغمبر دے رہے ہیں۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اپنی مخلوقات کے لئے جو نوشتۂ تقدیر بنایا ہے اس میں چھوٹی بڑ ی ساری چیزیں درج ہیں۔ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو چھوٹ گئی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے ایک ایسی ہستی کا ارادہ اور تدبیر کا ر فرما ہے جو کامل علم رکھنے والی ہے۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام جاندار مخلوق کی جانیں ان کے مرنے بعد خدا ہی کے پاس اکٹھی ہو جاتی ہیں کیوں کہ وہی سب کا خالق اور وہی سے کا مرجع ہے۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت کی طرف رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نشانیاں اس کائنات میں رکھی ہیں آدمی جب ان نشانیوں کی غلط توجیہ کر بیٹھتا ہے اور پیغمبر کی بات پر دھیان نہیں دیتا تو اس کا حال ایک بہرے اور گونگے شخص کی طرح ہو جاتا ہے کہ حق بات نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے۔ ایسا شخص جہالت کی تاریکی میں پڑا رہتا ہے اگر چہ کہ اسے اپنے علم پر ناز ہو
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گمراہ ہونا یا راہِ راست پر ہونا اللہ ہی کی مشیت پر موقوف ہے کسی اور کا اس معاملہ میں دخل نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اس کی اس حکمت کے مطابق ہوتی ہے کہ نہ کسی کو گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لئے مجبور کیا جائے اور نہ ہدایت کی راہ پر چلنے کے لئے بلکہ جو شخص ہدایت کا طالب ہو اسے ہدایت دی جائے اور جو بھٹکنا چاہتا ہو اسے اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ بھٹکتا رہے۔ بالفاظ دیگر کسی کا ہدایت پانا یا گمراہ ہونا اللہ کے قانونِ ہدایت و ضلالت کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کی وہ نشانی ہے جو انسان کے اپنے نفس میں موجود ہے۔ جب انسان کسی غیر معمولی مصیبت میں پھنس جاتا ہے یا زبردست خطرہ سے دوچار ہوتا ہے تو اس وقت اسے خدا یاد آ جاتا ہے اور تمام بناوٹی معبودوں کو وہ بھول جاتا ہے یہاں تک کہ جو لوگ خدا کے قائل نہیں ہیں انہیں بھی ایسے نازک وقت میں خدا یاد آ جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے نفس میں خدائے واحد کی شہادت موجود ہے۔
مشرکین مکہ اگر چہ بت پرست تھے لیکن جب کسی غیر معمولی مصیبت میں گھر جاتے تو اللہ ہی کو پکارتے۔
انسان کے نفس کی اسی شہادت کو پیش کرتے ہوئے اسے دعوتِ فکر دی جا رہی ہے کہ کم از کم اسے اس امکانی بات پر تو غور کرنا چاہئے کہ اگر اللہ کا عذاب آ جاتا ہے یا قیامت کا دھماکہ ہو جاتا ہے تو ا س وقت انسان اپنے بچاؤ کے لئے کس کو پکارے گا ؟اگر انسان اس کا تصور ہی کرے تو خدا کی طرف لپکے۔
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشی تنگی اور جسمانی آلام میں قوموں کو جو مبتلا کیا جاتا ہے وہ بے مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے خدا کی یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ ان کو سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔ تنگی اور تکلیف انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں ، اسے اپنے رب کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اس کے دل کو اس بات کے لئے ساز گار بناتی ہیں کہ وہ اللہ کے حضور جھکے۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حالات کی شدت بھی کسی قوم کے دلوں میں نرمی پیدا نہیں کرتی پھر ان کے دل ایسے سخت ہو جاتے ہیں کہ کوئی نصیحت بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی اور شیطان کا جادو ایسا چل جاتا ہے کہ انہیں اپنا غلط طرزِ عمل بھی صحیح معلوم ہونے لگتا ہے ، وہ گناہ کے کاموں کو اپنا قابلِ فخر کارنامہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ان کی نظر میں قدریں بدل جاتی ہیں۔ تھا جونا خوب وہی خوب ہوا۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کوئی قوم حالات کی شدت سے سبق حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کی یہ توجیہ کرتی ہے کہ یہ محض حوادثِ زمانہ ہیں اور قوموں کو نرم گرم حالات تو پیش آتے ہی رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آزمائش کا ایک دوسرا باب کھول دیتا ہے اور ہر طرح کی خوش حالیوں سے ان کو بہرہ مند کرتا ہے تاکہ ان کے اندر اپنے رب کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو مگر جب وہ شکر گزار ہونے کے بجائے گھمنڈ کرنے اور اترانے لگتے ہیں تو پھر ان کا پیمانہ بھر جاتا ہے اور اللہ کا عذاب اچانک انہیں آ لیتا ہے۔ پھر یاس و نا امید کے سوا کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑتا۔
یہ حالات خاص طور سے رسولوں کی امتوں کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو لیکن اس قسم کے حالات عام قوموں کے ساتھ بھی پیش آتے رہتے ہیں تاکہ وہ ہوش میں آئیں۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرکش قوموں کو ہلاک کرنا تقاضائے عدل بھی ہے اور دنیائے انسانیت کے حق میں باعث خیر بھی کفر کا زور ٹوٹ گیا اور فاسد عناصر سے ماحول پاک ہو گیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کے ساتھ جو معاملہ کیا اس پر وہ تعریف ہی کا مستحق ہے۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقل و فہم کی قوتیں سلب کر لے۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن میں توحید کے دلائل مختلف پہلوؤں سے اور مختلف اسلوب میں پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ جو لوگ بات سمجھنا چاہیں وہ بہ آسانی سمجھ سکیں۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جو پیغمبروں کو جھٹلانے والی قوموں پر حجت تمام ہونے کے بعد آتا ہے اور چونکہ یہ عذابِ حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے آتا ہے اس لئے اس کی زد میں صرف باطل پرست آ جاتے ہیں اور اہلِ ایمان کو اس سے بچا لیا جاتا ہے چنانچہ قوم ثمود، قومِ عاد وغیرہ پر جو عذاب آئے ان کی زد میں صرف کفار آئے تھے۔ اہلِ ایمان ایسے ہر موقع پر محفوظ رہے ہیں۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسولوں کو بھیجنے کا اصل مقصد معجزے دکھانا نہیں ہے بلکہ دعوت ایمان پیش کرنا ہے۔ جو اسے قبول کریں ان کو ابدی کامیابی کی خوشخبری سناتا اور جو اس سے انکار کریں انہیں ابدی ہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔ معجزے اگر دکھائے جاتے ہیں تو محض اتمام حجت کے لئے جب کہ اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوتی ہے اس لئے رسول کے ساتھ معجزوں کو لازم و ملزوم سمجھنا صحیح نہیں۔
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی وہ بات ہے جس سے پیغمبر اپنی اپنی قوموں کو متنبہ کرتے رہے ہیں۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین نبیﷺ سے عجیب و غریب معجزے دکھانے کا جو مطالبہ کرتے تھے اس کے جواب میں آپ کی زبان سے یہ اعلان کر ا دیا گیا ہے کہ میں نے یہ دعویٰ ہی کب کیا ہے کہ میں تم کو ایک سے ایک عجیب چیز (چمتکار) دکھا سکتا ہوں جو تم مجھ سے اس طرح کے مطالبات کر رہے ہو۔ میں نے تمہارے سامنے پیغام حق پیش کر دیا ہے جو میری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے بھیجا ہے جو تمہارے لئے غیر مرئی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ ا س پیغام کی صداقت کو دلائل کی کسوٹی پر جانچو لیکن تم حق کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھنے کے بجائے عجوبے دیکھنا چاہتے ہو اور عجوبے دکھانا میرے اختیار کی بات نہیں ہے بلکہ خدا کے اختیار کی ہے۔ میں نے صرف پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں ہیں کہ ان میں جس طرح چاہے تصرف کروں اور نہ میں ان باتوں کو جانتا ہوں جو غیب میں ہیں سوائے ان کے جو اللہ اپنی وحی کے ذریعہ مجھے بتاتا ہے۔ اور نہ ہی میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہوں۔ میری حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ مجھے منصبِ رسالت عطاء کیا گیا ہو وہ انسان ہی رہتا ہے۔ نہ اس کے اندر خدائی صفت پیدا ہوتی ہے اور نہ وہ فرشتہ بن جاتا ہے مگر میرے دعوائے رسالت میں صداقت کا مشاہد ہ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی نہ باندھ لی ہو کیوں کہ حقیقت کتنی ہی روشن ہو مگر اس کو وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو آنکھیں رکھتا ہو۔
نبیﷺ کی زبانی یہ اعلان کہ ولا اعلم الغیب "اور نہ مجھے غیب کا علم ہے "ایک ایسی واضح بات ہے جس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر جن لوگوں کے ذہن میں ٹیڑھ ہے انہوں نے اتنی واضح بات میں بھی اختلافِ پیدا کر دیا چنانچہ مسلمانوں کے درمیان یہ بحث کھڑی ہو گئی ہے کہ نبیﷺ کو علم غیب تھا یا نہیں جو لوگ غلو اور بدعات میں مبتلا ہیں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کو علمِ غیب تھا جب کہ یہ آیت اس دعوے کی صریح تردید کرتی ہے اور پورے قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ نبیﷺ کو غیب داں بنایا گیا ہے بلکہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے اور وہ اپنے نبی پر غیب کی وہ باتیں ظاہر کر تا ہے جو فریضۂ رسالت سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے عام انسانوں کے مقابلہ میں ایک نبی کو یہ امتیاز ضرور حاصل ہوتا ہے کہ اس پر غیب کے وہ حقائق روشن ہوتے ہیں جو عام انسانوں پر نہیں ہوتے اور اس کو وہ علم حاصل ہوتا ہے جس تک کسی انسان کی رسائی ممکن نہیں مگر ان سب باتوں کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور علم غیب کے تعلق سے نبی کا یہ امتیاز در حقیقت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے لیکن بلا وجہ کی نزاع پیدا کر دی گئی ہے اور جس طرح اہلِ کتاب واضح تعلیمات کے آ جانے کے بعد اختلافات کا شکار ہو گئے تھے اسی طرح علم غیب کے سلسلہ میں قرآن کے واضح ارشادات کے باوجود مسلمان اختلافات میں پڑ گئے ہیں۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحی کے لفظی معنیٰ اشارہ کرنے کے ہیں۔ اللہ اپنا پیغام اپنے پیغمبروں تک جس مخفی ذریعہ سے بھیجتا ہے اس کا اصطلاحی نام وحی ہے۔ یہاں وحی سے مراد قرآن ہے۔
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے ذریعہ خبردار کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انذار و تبلیغ کے لئے براہِ راست قرآن کو پیش کیا جائے کیوں کہ کلامِ الٰہی سے بڑھ کر مؤثر کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور اللہ کی حجت بھی اس کے کلام ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتی ہے۔ یہ حکم نبیﷺ کو دیا گیا تھا جب کہ مخاطب قوم کی زبان عربی تھی۔ آج کے حالات میں اس حکم کی تعمیل کے لئے ضروری ہے کہ حاملین قرآن مخاطب کی زبان میں قرآن کا ترجمہ خاص طور سے ان آیات کا ترجمہ پیش کریں جو انذار پر مشتمل ہیں یعنی جن میں کفر و سرکشی کے اخروی انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
۸۴۔ یعنی جو لوگ اپنے اخروی انجام کی طرف سے بے پرواہ ہیں اور ان کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ متنبہ کرنے والے کی بات سنجیدگی کے ساتھ سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان لوگوں کی طرف توجہ کرو جن کے دل ابھی زندہ ہیں اور جو اپنی نجات کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ خدا کے حجور جوابدہی کا اندیشہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے یہ اور بات ہے کہ خواہشات کا غلبہ اسے دبا دے۔ قرآن کی تنبیہات (انذار) اس فطری اندیشہ کو قوی اور فعال بنات ہیں جس کے نتیجہ میں انسان متقیانہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکہ میں دعوتِ قرآنی پر لبیک کہنے والوں میں ایسے لوگوں کی تعداد خاصی تھی جن کی نہ کوئی مالی حیثیت تھی اور نہ جو دنیوی جاہ و حشمت رکھتے تھے اور بعض تو غلامی کی زندگی گزار رہے تھے مگر وہ اپنے رب کے لئے اپنے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل رکھتے تھے جس نے انہیں نبیﷺ کے گرد جمع کیا تھا اور وہ آپ کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ لیکن قریش کے سردار ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کا گھمنڈ اس بات کو گوارا نہیں کرتا تھا کہ وہ نبیﷺ کی اس مجلس میں آئیں جس میں امیر و غریب سب کا درجہ برابر تھا اس لئے ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیجئے تو ہم آپ کے پاس آئیں ان کے اسی مطالبہ کو یہاں سختی کے ساتھ رد کر دیا گیا ہے اور مخلص اہلِ ایمان کی قدر افزائی کی گئی ہے اگر چہ کہ وہ غریب اور بے نوا ہوں۔
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سوسائٹی کے غریب اور بے نوا لوگوں کو ایمان کی توفیق عطا کر کے ہم نے دولت اور جاہ و حشمت رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ اگر وہ سوجھ بوجھ سے کام لیں تو دولتِ ایمان کے قدر داں بن سکتے ہیں اور اگر غرور میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں توا س کی ناقدری کریں۔ اس آزمائش میں یہ لوگ ناکام ثابت ہو رہے ہیں چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ لوگ غریب اہلِ ایمان کی ناقدری کرتے ہوئے ان پر اس طرح کی پھبتیاں چست کر رہے ہیں کہ کیا خدا کو اپنے فضل سے نوازنے کیلئے یہی لوگ مل گئے ؟
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہلِ ایمان کی توفیق کے معاملہ میں اصل چیز انسان کی دنیوی حیثیت نہیں بلکہ اس کا وہ جذبۂ شکر ہے جو اپنے رب کے لئے وہ اپنے دل میں رکھتا ہے اس لئے وہ اپنے شکر گزار بندوں ہ کو دولتِ ایمان سے نوازتا ہے اگر چہ کہ وہ دنیوی لحاظ سے کتنی ہی مفلوک الحال ہوں۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر غریب اہلِ ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اور ان کی دل شکنی کے درپے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کو ایسا روح پر ور سنایا ہے جو ان کے سارے غم غلط کر دینے کے لئے کافی ہے اور ان کو وہ عزت و سرفرازی بخشی ہے جس کا تصور بھی دنیا پرست نہیں کر سکتے۔
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے سے مراد حاجت روائی کے لئے پکارنا، نام جینا اور دعا مانگنا ہے۔ یہ پکارنا عباد ت کے ہم معنی ہے اور اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ اسے پکارا جائے مگر مشرکین اللہ کو چھوڑ کر اپنے من گھڑت خداؤں کو پکارتے ہیں ، ان کے نام کی مالا جپتے ہیں ، ان سے دعائیں مانتے ہیں اور ان کے نام کی جے لگاتے ہیں۔
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک اور بت پرستی کا ہدایتِ خداوندی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انسان کی باطل خواہشات ہیں جن کو مذہب اور دھرم کے نام سے پیش کر کے بندگانِ خدا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جو اللہ کی طرف سے قطعی حجت ہے۔ نبیﷺ کی دعوتِ توحید اسی حجت پر مبنی ہے۔ وہ ایک ایسی معقول بات ہے کہ ہر انصاف پسند شخص کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ وہ فطرت کی آواز اور وجدان کو پکار ہے۔ اس کے برخلاف مشرکین جس چیز کی طرف بلاتے ہیں وہ کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ محض ان کی ذہنی اپج اور خواہش پر ستی ہے۔
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظالم سے مراد مشرکین ہیں۔ انہیں ظالم اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے شرک اور انکارِ حق کی راہِ اختیار کر کے اپنی فطرت کی آواز کو دبایا، اپنی عقل پر جہالت کے پردے ڈال دے اور اپنے رب کے ساتھ بے وفائی کی۔ اس طرح وہ اپنے کو برے انجام کے حوالہ کر کے اپنے آپ پر ظلم ڈھانے والے بنے۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی غیب کے خزانوں کا وہی مالک ہے اور ان کے دروازے اسی کے کھولنے سے کھلتے ہیں۔ جو چیز بھی عالمِ غیب سے عالمِ شہود میں آتی ہے اسی کے لانے سے آتی ہے اور اسی پر تمام اسرارِ کائنات اور راز ہائے سربستہ منکشف ہیں۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے وہ صرف بڑی بڑی چیزوں ہی کو نہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور صرف کلیات ہی سے نہیں جزئیات سے بھی واقف ہے۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زمین کے اندرونی حصے اور اس کی تہیں ہیں۔
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس تمام احوال واقعات کا ان کی تمام واقعات کی تفصیلات کے ساتھ نہایت واضح شکل میں ریکارڈ موجود ہے۔ پھر جس کے پاس پوری دنیا کی کرانولوجی (Chronology) تاریخ وار ریکارڈ) موجود ہو اس کے پاس انسانی اعمال کا ریکارڈ کیسے نہیں ہو گا؟
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ نیند کی حالت میں آدمی دنیا سے اسی طرح بے خبر ہو جاتا ہے جس طرح کہ موت کی حالت میں ہوتا ہے۔
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو خدا رات میں تم پر نیند طاری کرتا ہے وہ تمہارے دن کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے اور وہی ہے جو رات گزرنے کے بعد پھر تم کو اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ اور یہ سونے اور جاگنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، یہاں تک کہ تمہاری مدت مقررہ پوری ہو جاتی ہے اور تم موت کے آغوش میں چلے جاتے ہو۔ گویا مرنے کے بعد دو باہ اٹھائے جانے کا مشاہدہ تمثیلی رنگ میں تم روزانہ کرتے رہتے ہو پھر کیا اس سے زندگی بعد موت کی صداقت واضح نہیں ہوتی ؟اور کیا یہ مشاہدہ تمہارے اندر دو باہ اٹھائے جانے کا یقین پیدا نہیں کرتا۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام بندے اس کے قابو میں ہیں اور اشرار اور شیاطین سب پر اس کا کنٹرول ہے۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کے اعمال کا ریکارڈ محفوظ کرنے پر مامور ہیں۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ انفطار نوٹ ۱۰۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی موت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کسی کا حتی کہ فرشتوں کا بھی کوئی دخل نہیں فرشتے محض اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے روح قبض کرتے ہیں۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرنے کے بعد انسان کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کے حضور پہنچ جاتا ہے۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہوشیار ہو جاؤ کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری قسمتیں اسی کے ہاتھ میں ہوں گی اور اس خیال خام میں مبتلا نہ رہو کہ کسی کا دامن پکڑ کر نجات حاصل کر سکو گے۔
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اربوں انسانوں کا حساب لینے میں اللہ کو کچھ دیر نہیں لگے گی۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریکیوں سے مراد وہ تاریکیاں ہیں جو آفات کی شکل اختیار کر لیں مثلاً جب گھٹا ٹو پ اندھیر ا چھا جائے اور طوفانی ہوائیں چلنے لگیں یا صحرا میں آندھی آ جائے یا سمندر کی موجیں آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی چاہئے تو تھا کہ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتے مگر تم نذرانۂ شکر اپنے من گھڑت خداؤں کے حضور پیش کرتے ہو۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے جب یہ دیکھتے ہیں کہ گناہ اور برائی کے کام کرتے رہنے کے باوجود خدا کا عذاب نہیں آتا تو وہ چین کی بانسری بجانے لگتے ہیں کہ کوئی عذاب آنے والا نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو یہاں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ خطرہ کی گھنٹی ہر آن بج رہی ہے لیکن جن لوگوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں انہیں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اللہ کے عذاب کو آتے کیا دیر لگتی ہے۔
ہوا کا طوفان (Cyclone) اچانک نمودار ہو کر تمہارے پرخچے اڑا سکتا ہے ، سیلاب کا ایک ریلا تمہاری فصلوں سمیت تم کو بہا لے جانے کے لئے کافی ہے ، زلزلہ کا ایک جھٹکا تمہاری آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر سکتا ہے اور یہ بھی بعدی نہیں کہ تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے اور تم باہم گتھم گتھا ہو جاؤ یا قوموں کے عناد کے نتیجہ میں تمہیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھنا پڑے۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقتیں جو آیات قرآنی میں بیان ہوئی ہیں مختلف اسالیب اور مختلف پہلوؤں سے پیش کی گئی ہیں تاکہ بات آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کو۔
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میرے سپرد جو کام ہوا ہے وہ تبلیغ و تذکیر کا ہے ایمان لانے کے لئے جبر کرنے کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ڈالی گئی ہے۔
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن جو خبریں تمہیں دے رہا ہے مثلاً پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں عذاب کی خبر، قیامت کی خبر، کافروں کے لئے جہنم کی خبر وغیرہ تو ان میں سے ہر خبر کے ظہور کے لئے وقت مقرر ہے اور وہ لازما اپنے وقت پر ظاہر ہو کر رہے گی۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تذکیر و دعوت کے سلسلہ میں ایک اہم ہدایت ہے جو اہلِ ایمان کو دی گئی ہے۔ کسی ایسی مجلس میں جہاں قرآن کا یا اس کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا لوگ بحث میں الجھ کر کفر بک رہے ہوں وہاں بیٹھنا غیرتِ ایمانی کے خلاف ہے۔ کوئی مخلص مسلمان ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا گوار انہیں کر سکتا جہاں اس کے دین کو مجروح کیا جا رہا ہو۔ یہاں اس ہدایت کے ساتھ یہ تاکید بھی کر دی گئی ہے کہ اگر کبھی شیطان کے بھلاوے میں ڈالنے کی وجہ سے یہ ہدایت یا د نہ رہے تو جوں ہی یاد آ جائے ایسی مجلس سے اٹھ جاؤ۔
ایک طرف یہ تاکیدی ہدایت ہے اور دوسری طرف موجودہ دور کے لادینیت پسند مسلمان ہیں جو غیر مسلموں کو اپنی مجلسوں میں بلا کر ان سے ایسی تقریریں کراتے ہیں جن میں شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے خود بھی دین پر تیشہ چلانے ہیں تاکہ ان کے لادینی ہونے کی لاج رہ جائے۔
اس آیت میں جو ہدایت دی گئی ہے اس کا حوالہ سورۂ نساء کی آیت ۱۴۰ میں بھی دیا گیا ہے۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہلِ ایمان پر ان منکرین کے عمل کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے بلکہ صرف تذکیر کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
پھر وہ کیوں ان کے معاملہ میں بے جا روا داری سے کام لیں ؟ان کا کام یہ ہے کہ تذکیر و نصیحت کا اگر کوئی موقع ہے تو اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اگر دیکھیں کہ مخاطب سنجیدگی کھو بیٹھا ہے اور دین کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے تو اس کے پاس سے اٹھ جائیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دین سے مراد اسلام ہے اور اسے ان لوگوں کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ اللہ نے دینِ اسلام کو پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے نازل کیا تھا اس لئے یہ دین ہر شخص کا اپنا دین ہے لیکن ان ناقدروں نے اپنے اس دین کو اپنا رہنما بنانے کے بجائے کھیل تماشا بنا لیا کہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس ذہنیت کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جاتے رہے ہیں اور آج کا” ماڈرن” انسان بھی اسلام کو دقیانوسی قرار دیکر اس کی تعلیمات کا مذاق اڑاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ "روشن خیالی” ہے۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے دین کی یہ ناقدری وہ اس لئے کرتے ہیں کہ دنیا کی زندگی ان کی نظر میں ایسی کھب گئی ہے کہ وہ اس سے بلند تر کسی زندگی کا تصور تک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اول تو اس روز فدیہ میں دینے کے لئے اس کے پاس کچھ ہو گا نہیں لیکن بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کی دولت ہوتی تو وہ سب فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑانے کے لئے آمادہ ہو جاتا جب کہ دنیا میں مال کی خاطر اس نے اپنی زندگی کو غلط رخ پر ڈال دیا تھا اور اپنے برے انجام کی پرواہ نہیں کی تھی۔
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد بت ہیں جو پتھر کے ٹکڑے میں یا مٹی کے ڈھیر۔ ان میں یہ طاقت کہاں کہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔ دیوی دیوتاؤں کا تصور بھی محض خیالی ہے۔ نہ تو دولت کی کوئی دیوی ہے کہ آدمی کو مالامال کر دے اور نہ تکلیف اور امراض کی کوئی دیوی ہے کہ آدمی کو چیچک وغیرہ امراض اور دوسری تکلیفوں میں مبتلا کرے۔ یہ محض وہم پرستی ہے حقیقت میں ان خداؤں کا کوئی وجود ہی نہیں۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کا بیابان میں انسان کو بھٹکانا اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں کہ شیطان کا انسان کو بھلاوے میں ڈالنا۔
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مثال ہے شیطان کے زیرِ اثر بھٹکنے والوں کی۔ منکرین کا یہی حال ہے کہ انہیں شیاطین نے بھٹکا دیا ہے اور وہ ایسے حیران و پریشان ہیں کہ ان کے جو ساتھ انہیں راہِ راست کی طرف بلا رہے ہیں ان کی آواز پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں
یہ مثال پیش کر کے اہلِ ایمان منکرین سے کہہ رہے ہیں کہ تم خود بھٹکے ہوئے ہو اور چاہتے ہو کہ ہم بھی تمہاری ہی طرح بھٹک جائیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم ہماری پکار سنتے اور ہمارے پاس آ کر راہِ ہدایت پانے والوں میں شامل ہو جاتے۔
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا تک پہنچنے کی راہیں وہ نہیں ہیں جو لوگوں نے اپنی خواہشات یا وہم و گمان یا مذہبی خیالات فلسفیانہ توجیہات کی بنا پر تجویز کر رکھی ہیں بلکہ اس تک پہنچنے کی واحد راہ وہ ہے جس کی نشاندہی اس نے خود کر دی ہے اور جس کا نام اسلام ہے۔
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ اپنے کو مکمل طور سے اللہ کے حوالہ کر دیا جائے۔
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے کو اللہ کے حوالے کرنے کا اولین مظہر نماز ہے۔ جب تک آدمی نماز قائم نہیں کرتا اس حوالگی کے کوئی معنی نہیں۔ اور اس سے ڈرتے رہو (تقویٰ کا عملی ثبوت آدمی شرعی احکام کی پابندی کر کے ہی دے سکتا ہے۔
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اس کائنات کو بے مقصد اور بے غایت پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اس کا ایک مقصد اور ایک غایت ہے اور وہ ہے جزا و سزا کا معاملہ جس کے لئے نئی زمین ، نئے آسمان اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نیا نظام اسی کائنات کے بطن سے ابھرے گا اور قیامت اسی کائناتی انقلاب کا نام ہے۔
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت ، حشر اور دنیائے آخرت برپا کرنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی بلکہ جس طرح اس کے ایک حکم سے یہ کائنات وجود میں آئی اسی طرح اس کے ایک حکم سے قیامت ، حشر اور نظامِ آخرت برپا ہو گا۔
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی بات لازما حق ثابت ہوتی ہے اس لئے قیامت کے بارے میں بھی اس کی بات سچی ہو کر رہے گی۔
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ ان کی بود و باش عراق کے شہر "ار "میں تھی جو فرات کے کنارے واقع تھا۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آزر ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے جو بت پرست تھا۔ بائبل میں اس کا نام تارح آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ نام بائبل کے مرتبین یا مترجمین نے غلطی سے لکھ دیا ہے اور غالباً قرآن نے اس کے اصل نام کی صراحت اسی لئے کی ہے تاکہ اس غلطی کی اصلاح ہو جائے اور ابراہیم کا نسب صحت کے ساتھ محفوظ رہے۔
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم بت پرست تھی اور جب آپ نے بت پرستی اور شرک کے خلاف آواز اٹھانا چاہی تو اس کا آغاز اپنے گھر ہی سے کیا چنانچہ سب سے پہلے اپنے والد پر اس گمراہی کو واضح کیا اور ان کو توحید قبول کرنے کی دعوت دی۔ الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ دعوت نہایت بے لاگ طریقہ پر اور پوری جرأت ایمانی کے ساتھ اس طرح پیش فرمائی تھی کہ بت پرستی اور شرک کی نامعقولیت اور اس کا باطل ہونا واضح ہو جائے۔
بت پرستی کو کھلی گمراہی کہا گیا ہے کیوں کہ عقل عام (Common sense) کسی ایسی چیز کو خدا تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جس کو انسان نے خود تراشا ہو۔
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر چہ کہ ابراہیم نے ایک بت پرست خاندان اور ایک بت پرست قوم میں جنم لیا تھا لیکن اللہ کی بخشی ہوئی عقل سے کام لینے کے نتیجہ میں جس طرح ان پر بت پرستی کی گمراہی واضح ہو گئی تھی اسی طرح آسمان و زمین کے نظام پر غور کرنے سے انہیں اللہ کی وحدانیت پر بھی پورا یقین ہو گیا تھا کیوں کہ یہ نظام کائنات شہادت دیتا ہے کہ یہاں صرف ایک ہستی ہی کی فرماں روائی ہے جس نے تمام چیزوں کو اپنے قانون میں جکڑ رکھا ہے۔ ابراہیم نے خدا اور مذہب کے معاملہ میں اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید نہیں کہ بلکہ سوجھ بوجھ سے کام لیا اور نظام کائنات کے مشاہدہ سے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بصیرت سے نوازا اور ان کی رہنمائی کی۔ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے۔
ولقد آتینا ابراہیم رشدہٗ من قبل۔ اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سوجھ بوجھ عطاء کی تھی۔ (الانبیاء۔ ۵۱) کی تھی۔
نبی فطرتِ سلیمہ پر قائم ہوتا ہے اس لئے ابراہیم علیہ السلام بھی اس پر قائم تھے۔ وہ اللہ ہی کو اپنا رب مانتے تھے اور اس بارے میں وہ کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں تھے لیکن ملکوتِ الٰہی کے مشاہدہ نے ان کے تصور توحید کو اور پختہ کر دیا اور ان کے اندر یقین کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ قرآن اسی مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے جو شخص بھی نظامِ کائنات پر اس پہلو سے غور کرے گا کہ اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں اور اس پر ایک خدا کی فرمانروائی ہے یا بہت سے خداؤں کی اس پر توحید کی حقیقت منکشف ہو جائے گی۔
موجودہ زمانہ کے سائنس داں اور ماہرین فلکیات (Astronomers) چونکہ اس پہلو سے کائنات کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ان کا مطالعہ معروضی (Objective) نوعیت کا نہیں ہو تا بلکہ وہ خدا سے بے پروا ہو کر یا متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں اس لئے وہ توحید کے جلوے سے محروم رہتے ہیں اور ان کے اندر ایمان و یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعہ کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے درجِ ذیل باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
۱۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم ستارہ پرست قوم تھی۔ سیارہ زہرا جس کو اشترا کہا جاتا تھا حسن و محبت کی دیوی تھی ، چاند جس کا نام ننار تھا۔ خوشحالی کا دیوتا تھا اور سورج (شمس) ان کے نزدیک سب سے بڑا دیوتا تھا۔ اور جب ان کے نزدیک ستاروں اور سیاروں کی حیثیت دیوتاؤں کی تھی تو انہوں نے ان کے نام پر بہت سے بت تراش لئے تھے جو ان کے زعم کے مطابق ان کی نمائندگی کرتے تھے اور اس تصور کے تحت کہ ان بتوں کے آگے مراسمِ عبودیت پیش کرنا ان دیوتاؤں کو کوش کرنے اور ان کے ضر ر سے بچنے کا ذریعہ ہے وہ ان کی پوجا کرتے، ان کے ساتھ وہ تعلق جوڑتے جو خدا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور ان کے آگے عقیدت کے وہ نذرانے پیش کرتے جو خدا کے آگے پیش کئے جاتے ہیں۔ ا س طرح انہوں نے اپنے خداؤں کو آپ ہی تراش لیا تھا۔
ب۔ بت پرستی کا تعلق چونکہ ستارہ پرستی سے تھا اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی حجت پیش کی جس نے ان تمام آسمانی خداؤں کو ڈوبنے پر مجبور کیا اور جب وہ ڈوبے تو اپنے ساتھ زمینی خداؤں کو بھی لے کر ڈوبے۔
ج۔ تارے ، چاند اور سورج کے مشاہدہ کا یہ واقعہ ضروری نہیں کہ ایک ہی شب و روز میں پیش آیا ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ درمیان میں وقفہ رہا ہو یعنی ایک شب میں ستارے کے طلوع و غروب کا مشاہدہ کیا گیا ہو اور دوسری شب میں چاند کو اور پھر کسی دن سورج کو زیرِ بحث لایا گیا ہو۔
د۔ یہ واقعہ مناظرانہ نوعیت کا تھا جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے اس لئے اس کو ابراہیم علیہ السلام کے فکری ارتقاء پر محمول کرنا اور یہ خیال کرنا کہ انہوں نے ستارہ ، چاند اور سورج کے بارے میں "ھذا ربی "یہ میرا رب ہے "جو فرمایا تھا وہ تلاشِ حق کی راہ کا ایک مرحلہ تھا بہت بڑی غلط فہمی ہے اور یہ ٹھوکر افسوس ہے کہ بعض مفسرین نے بھی کھائی ہے۔ لیکن جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ تھا نہ کہ اپنا ذاتی مشاہدہ اس لئے ھذا ربی کی بات انہوں نے دورانِ مناظر ہ کہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ کیا واقعی یہ میرا رب ہے ؟ستارہ وغیرہ کو رب قرار دینے پر اظہار تعجب بھی تھا اور قوم کے سامنے یہ سوال بھی کہ کیا واقعی یہ چیزیں معبود بنائے جانے کے قابل ہیں ؟
جہاں تک کلام کے سیاق و سباق کا تعلق ہے اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ کے سامنے دعوتِ حق پیش کرنے کا ذکر ہوا ہے اور اس واقعہ کے متصلاً بعد یعنی آیت نمبر ۸۰ میں قوم کے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بحث و جدال کا ذکر ہے۔ پھر اس واقعہ کے دوران ابراہیم علیہ السلام چاند کو دیکھ کر جہاں ہذا ربی فرماتے ہیں وہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ "اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا تھا کہ اللہ ہی حقیقتاً میرا رب ہے اور ہدایت کے لئے اسی کی طرف رجوع کرنا چاہئے ورنہ گمراہی کے سوا کچھ پلے نہیں پڑ سکتا۔ یہ بات تو ابراہیم علیہ السلام کے موحدانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس کے بعد سورج کو دیکھ کر اس کو اپنا رب کہنا مخاطب کی دلیل کو اسی پر الٹ دینے ہی کی غرض سے تھا اور بحث و جدال کے موقع پر جو باتیں آدمی فرض کر کے کہتا ہے وہ اس کی اصل فکر نہیں ہوتی اور یہاں سیاقِ کلام دلیل ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات قوم کو بے دلیل کرنے کی غرض سے کہی تھی جس طرح کہ انہوں نے ایک دوسرے موقع پر بتوں کو توڑنے کے فعل کی نسبت بڑے بت کی طرف کی تھی جب کہ انہوں نے خود ہی بتوں کو توڑ دیا تھا۔
ہ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ پرستی کے باطل ہونے پر جو استدلال کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تارے ہوں یا سیارے ، چاند ہو یا سورج ان کی چمک دمک سے دھوکہ کھا کر لوگ ان کو خدا یا دیوی دیوتا سمجھنے لگے ہیں اور پھر ان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں لیکن لوگ جہاں ان کے طلوع کو دیکھتے ہیں وہاں ان کے غریب کو بھی دیکھیں تو ان کو صاف دکھائی دے گا کہ ان میں سے کوئی بھی خدا یا دیوی دیوتا نہیں ہے کیوں کہ یہ سب ایک لگے بندھے نظام کے پابند ہیں۔ یہ نہ وقت سے پہلے طلوع ہو سکتے ہیں اور نہ وقت سے پہلے غروب اور وہ خدا ہی کیا ہوا جو کسی قانون میں جکڑا ہوا ہو۔ ان کی یہ طبعی حالت اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر ایک بالاتر ہستی کی فرماں روائی ہے جس کے قانون میں وہ جکڑے ہوئے ہیں اس لئے پرستش کی مستحق وہ بالا تر ذات ہے جو ان سب کی خالق اور ان پر فرماں روا ہے اور نہ کر یہ اجرام سماوی جو بالکل بے اختیار ہیں۔
و۔ ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں اور سیاروں کے دیوی دوتا ہونے کے تصور کی جو نفی کی تھی اس کی تصدیق آج سائنس کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے کیونکہ سائنس نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات ہمارے سامنے رکھی ہے وہ کسی طرح مختلف شمسی نظاموں میں جکڑے ہوئے ہیں اور جن سیاروں کی چمک دمک سے آدمی متاثر ہو کر ان کو دیوی دیوتا سمجھتا رہا ہے ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کے لیے سورج کے محتاج ہیں اور سورج اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس میں آگ دہکتی رہتی ہے اور دھماکے ہوتے رہتے ہیں پھر کیا خدا ایسا بھی ہوتا ہے جس کے پیٹ میں دھماکے ہوتے ہوں۔ اسی طرح چاند پر پہنچ کر اس کی زمین کو روندنے کا تجربہ انسان نے کر لیا ہے پھر کیا خدا ایسا بھی ہو سکتا جس کو انسان اپنے پاؤں سے روندنے میں کامیاب ہو جائے ؟
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اعلان توحید ہے جس میں شرک سے اظہارِ برأت بھی ہے اور توحید کی دلیل بھی کہ جو آسمان و زمن کا خالق ہے وہی معبود حقیقی ہے اس لیے تمام معبود ان باطل سے کٹ کر میں نے اسی کا رخ کیا ہے اور اسی کو اپنا مقصود بنایا ہے۔ ان کلمات کی اس معنویت کے پیش نظر ان کو نماز کے آغاز میں ادا کیا جاتا ہے۔
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ بحث و جدال کا یہ واقعہ جس کا ذکر اوپر ہوا اس وقت کی بات ہے جب کہ ابراہیم علیہ السلام نبوت سے سرفراز کئے جا چکے تھے۔
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کی زبانی دیوی دیوتاؤں کے خلاف باتیں سنیں تو انہیں ڈرانے لگے کہ ان کی طرف سے تم پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آئے گی اور تم نحوست کا شکار ہو جاؤ گے۔ اسی کے جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہارے گھڑے ہوئے معبودوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ نقصان پہنچانا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہے گا تو نقصان پہنچے گا ورنہ ان بناؤٹی خداؤں کے بس میں کچھ بھی نہیں۔
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ربوبیت کے لیے وسیع علم کی ضرورت ہے اور یہ صفت اللہ کے سوا کسی کی نہیں۔ پھر اس کو چھوڑ کر کسی کو رب بنانے میں کیا معقولیت ہے؟ کیا یہ بت لوگوں کے احوال سے واقف ہیں جو ان کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں ؟
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کتابیں اللہ تعالیٰ پیغمبروں پر نازل فرماتا رہا ہے ان میں سے کسی کتاب میں بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی کہ اس نے یہ فرمایا ہو کہ میری خدائی میں فلاں اور فلاں شریک ہیں۔ اس طرح کوئی حجت اور کوئی دلیل بھی شرک کی تائید میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ پھر بلا سند اور بلا دلیل تم نے دوسروں کو خدائی کا درجہ کیسے دے رکھا ہے؟
۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سوچو کہ عذاب کا خطرہ ایک خدا کو ماننے والوں کے لیے ہے یا بلا دلیل اس کی خدائی میں اوروں کو شریک ٹھہرانے والوں کے لیے۔
۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ نے اس کو اپنے اوپر گراں محسوس کیا اور عرض کیا ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے کو ظلم سے آلودہ نہ کر لیا ہو؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے۔ تم نے لقمان کی بات پر توجہ نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا "شرک سب سے بڑا ظلم ہے” (بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین)
یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ کے ہاں ایمان وہی معتبر ہے جو عقیدہ و عمل کے شرک سے پاک ہو اس میں ان مسلمانوں کے لیے بھی بہت بڑ انتباہ ہے جنہوں نے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کر رکھی ہے۔
۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ہماری وہ دلیل تھی جس کا فہم ہم نے ابراہیم کو بخشا تھا تاکہ وہ شرک کے باطل اور توحید کے حق ہونے پر استدلال کریں اور استدلال کے ذریعہ اپنی قوم پر حجت قائم کیں۔
اس سے واضح ہوا کہ اوپر جو واقعہ بیان ہوا وہ ابراہیم کا اپنی قوم کے ساتھ بحث و جدال کا واقعہ تھا نہ کہ اپنی ذات کے لیے تلاش حق کا۔ اس لے ستارہ کو دیکھ کر اس کو اپنا رب کہنا اس مفہوم میں تھا کہ کیا یہ وہ تمہارا خدا ہے جس کو میں اپنا رب مان لوں ؟ اس کے بعد جب وہ غروب ہو گی تو انہوں نے مخاطب کی دلیل ان ہی پر الٹ دی۔ اس وضاحت کے بعد ان ب سروپا روایتوں کا سہارا لینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی جن میں اس واقعہ کو ابراہیم کا بچپن ایک بند غار میں گزر تھا ا س لیے جب وہ پہلی مرتبہ غار میں گزر ا تھ اس لیے جب وہ پہلی مرتبہ غار سے باہر آئے تو ستارہ دیکھ کر انہوں نے اسے سمجھ لیا۔ افسوس کہ اس قسم کی اسرائیلیات نے تفسیروں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔
۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کو یہ حجت ، یہ فہم ، یہ بصیرت اور ایک مشرک قوم کو توحید کی دعوت دینے کا یہ حوصلہ عطا کر کے ہم نے ان کے درجات بہت بلند کر دیئے تھے اور ہم اس طرح جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔
۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ درجات کی یہ بلندی جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے اس کے علم و حکمت کا فیضان ہ۔
۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسحاق ابراہیم کے بیٹے ہیں اور یعقوب ان کے پوتے۔ دونوں نبی تھے۔ یعقوب کا دورا نام اسرائیل ہے۔ جن کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔
۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو بھی اسی دینِ توحید کی ہدایت بخشی تھی۔
۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے کافی پہلے کا ہے۔ اور یہاں ان کے ذکر سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس دین توحید کی ہدایت ابراہیم اور ان کی اولاد کو بخشی گئی تھی وہ وہی دین ہے جس کی ہدایت ان سے کافی پہلے نوح کو بخشی گئی تھی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کا نازل کردہ دین ایک ہی ہے جس کا سلسلہ اوپر سے نیچے تک چلا ا رہا ہے۔ کسی نبی پر کوئی اور دین نازل نہیں کیا گیا تھا اور قرآن اسی دین کا علمبردار ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک دین ہے۔
۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کی نسل سے۔
۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مشہور اور جلیل القدر انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ داؤد ، سلیمان، ایوب، یوسف ، موسیٰ اور ہارون اس گروہ انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں جن کو سیاسی غلبہ یا قیادت حاصل رہی ہے۔
۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی سب جلیل القدر انبیائے نبی اسرائیل ہیں جن کا دین بھی دینِ توحید یعنی اسلام تھا۔ الیاس کا نام بائبل میں ایلیاہ آیا ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کی مشرکانہ حرکتوں پر گرفت کرتے ہوئے توحید خالص پر زور دیا تھا۔ ان کا ذکر سلاطین میں موجود ہے:
"اور شام کی قربانی چڑھانے کے وقت ایلیاہ نبی نزدیک آیا اور اس نے کہا اے خداوند ابرہام اور اسحاق اور اسرائیل کے خدا! آج معلوم ہو جائے کہ اسرائیل میں تو ہی خدا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے ان سب باتوں کو تیرے ہی حکم سے کیا ہے۔ میری سن اے خداوند میری سن تاکہ یہ لوگ جان لیں کہ اے خداوند تو ہی خدا ہے۔ ”
۱۔ سلاطین ۱۸:۳۶، ۳۷)
زکریا یحیٰ، عیسیٰ اور الیاس انبیاء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے "فقیری میں بادشاہی کی۔ ”
۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہایت بزرگ ہستیاں تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی خدا نہیں تھا بلکہ سب خدا کے نیک بندے تھے۔
۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الیسع کا ذکر بائبل کی کتاب سلاطین میں الیشع کے نام سے اور الیاس (ایلیاہ) نبی کے نائب کی حیثیت سے ہوا ہے۔ (ملاحظہ ہو سلاطین ۱۹:۱۶)
۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے نہیں تھے بلکہ آپ کے بھتیجے تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا تھا اس لیے ان کا ذکر یہاں خاندانِ ابراہیمی کے انبیاء کی حیثیت سے ہوا ہے۔
۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دن کی دعوت اور اس کی خدمت کے لیے چن لیا۔
۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دینِ اسلام ہے۔
۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہدایت سے مراد دینِ توحید یعنی اسلام ہے۔
۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بلند مرتبہ لوگ بھی اگر شرک کے مرتکب ہوتے تو ان کا یہ مقام ہر گز باقی نہیں رہتا اور ان کے تمام اعمال اکارت جاتے کیونکہ شرک ناقابل معافی جرم ہے۔ جو بھی اس کا مرتکب ہو گا سزا کا مستحق قرار پائے گا اور جب بڑے بڑے بزرگ بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں تو تم اس کی گرفت سے کیونکر بچ سکتے ہو۔
۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکم یعنی قوت فیصلہ ، حکمت اور ہدایتِ الٰہی کے تحت شرعی احکام دینے کا اختیار۔
۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اہل مکہ ہیں۔
۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے ان انبیاء کو جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، حکم اور نبوت سے سرفراز فرمایا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے سرفراز فرمایا ہے اور یہ اہل مکہ کے لیے آپ کے واسطہ سے بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر یہ لوگ اس سے انکار کرتے ہیں تو کریں وہ اپنے ہی کو اس کے فیضان سے محروم رکھیں گے۔ ہم نے تو اس نعمتِ دین کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا ہے اور انہیں اس کا ذمہ دار بنایا ہے جو اس کی ناقدری کرنے والے نہیں ہیں یہ اشارہ آپ کے ان ساتھیوں کی طرف ہے جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کے لائے ہوئے دین کے قدرشناس بنے۔
۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دین پر چلو جو ان تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک دین ہے۔ یہ دین دینِ توحید ہے اور اس کا نام اسلام ہے۔
۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میں اس خدمت پر جو انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے تم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں ہوں بلکہ یہ تمہارے ہی فائدہ کے لیے کر رہا ہوں۔ مانو گے تو اس میں تمہارا بھلا ہے اور نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کر لو گے۔
۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن دنیا کے تمام انسانوں کے لیے یاد دہانی اور نصیحت ہے۔ اس کا پیام عام ہے رہتی دنیا تک کے لیے۔ وہ کسی قوم اور کسی دور کے لیے مخصوص نہیں۔
۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ یہود کی طرف ہے جنہوں نے مشرکین مکہ کی اندھی حمایت میں یہ بات کہی تھی۔ وہ اگرچہ کہ سلسلہ رسالت کے قائل تھے اور موسیٰ کو نبی اور تورات کو خدا کی کتاب مانتے تھے لیکن اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان کے خاندان سے باہر بھی کوئی نبی مبعوث ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انہوں نے اس حقیقت ہی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اللہ نے کسی بھی انسان پر اپنا کلام نازل کیا ہے۔ ان کی اس بات پر گرفت کرتے ہوئے دو باتیں یہاں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ نزول وحی کا منکر درحقیقت اللہ کی حکمت کا منکر ہے کیونکہ یہ بات کس طرح حکیمانہ ہو سکتی ہے کہ اللہ انسان کی تمام ضرورتوں کا سامان کرے لیکن اس کی ہدایت اور رہنمائی کا کوئی سامان نہ کرے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ متضاد باتیں کہتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ نزولِ وحی کا انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف موسیٰ کو نبی اور تورات کو اللہ کی نازل کردہ کتاب بھی مانتے ہیں۔
۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بتا دینے کے بعد کہ اللہ ہی نے موسیٰ پر اپنا کلام نازل فرمایا تھا اور اسی نے آج اپنے پیغمبر پر قرآن نازل فرمایا ہے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جو لوگ دلیل سے بات سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ محض دلیل بازی کرنا چاہتے ہیں ان سے بحث کرنا بے کار ہے۔
۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کتاب انسانی تصنیف نہیں بلکہ فرمانروائے کائنات کی نازل کردہ ہے اور اس بنا پر اپنی ایک امتیازی ان رکھتی ہے۔
۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کتاب خیرو برکت کا سرچشمہ ہے جس سے دنیا کی قومیں فیض پاتی رہیں گی اور جس کی ضیا پاشیوں سے انسانی زندگی کے تمام گوشے روشن ہوں گے۔
۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے۔
۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ام القریٰ یعنی بستیوں اور آبادیوں کا مرکز۔ مراد شہر مکہ ہے۔ اسے امر القریٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا گھر ہے جہاں حج کا عالمگیر اجتماع ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کی بنا پر وہ تمام دنیا کے لیے ایک دینی اور روحانی مرکز قرار پایا ہے۔
۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے پیغام کے سب سے پہلے مکہ کے باشندوں تک پہنچاؤ اور پھر اس کے اطراف و اکناف کے لوگوں تک تاکہ تمہارا دائرہ تبلیغ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے۔
تبلیغ رسالت کے لیے مرکزی شہر مکہ کا انتخاب اسی لیے کیا گیا ہے کہ جو صدا مرکز سے بلند ہو گی اس سے دنیا کے دشت و جبل گونج اٹھیں گے اور اس کی صدائے بازگشت دنیا کے گوشہ گوشہ میں سنائی دے گی۔
۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہو نہیں سکتا کہ جو شخص واقعی آخرت کو مانتا ہو اور خدا کے حضور جوابدہی کا ڈر رکھتا ہو۔ وہ اس کتاب کو خدا کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ ایسا شخص اگر اس کتاب کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کرے گا تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہے اور اس کے بعد اسے ایمان لانے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔
یہاں اشارہ خاص طور سے اہل کتاب کے نیک لوگوں کی طرف ہے جو آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ قرآن پر بھی ایمان لائیں گے۔
۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس شخص کا آخرت پر واقعی ایمان ہو اس کی زندگی سے خدا پرستی کا اظہار ضرور ہو گا۔ اور خدا پرستی کی پہلی علامت نماز کی پابندی ہے۔
۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی مذہب کو گھڑنا یا کوئی بات گھڑ کر اس کو مذہبی حیثیت دینا اس کو اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہے اور ایسی حرکت کرنے والا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اس کے جرم کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کھوٹے سکے ڈھال کر ان کو چلانے کی کوشش کرے اور چونکہ یہ تجارت وہ خدا کے خلاف کرتا ہے اس لیے وہ نہایت سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہو کہ نبوت کے جھوٹے دعویدار سب سے بڑے مجرم ہیں کیونکہ وہ خدا اور مخلوق دونوں کے ساتھ فریب کاری کرتے ہیں۔
۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعوتِ حق کے مقابلہ میں آدمی جب مخالفت برائے مخالفت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں سنجیدگی باقی نہیں رہتی پھر وہ غیر سنجیدہ اور نامعقول باتیں کہنے پر اتر آتا ہے۔ آیت میں مخالفین کا جو قول نقل کیا گیا ہے وہ اس کی واضح مثال ہے۔
۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جواب ہے منکرین قرآن کے مہمل اعتراضات اور لغو دعووں کا کہ جب یہ ظالم دلیل سے کوئی بات سمجھنا نہیں چاہتے تو نہ سمجھیں۔ ان کو ہوش اس وقت آئے گا جب کہ موت کی گھڑی آ نمودار ہو گی اور فرشتے ان کے منہ پر طمانچے رسید کریں گے۔
آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ موت کے وقت آدمی پر وہ حقیقتیں کھل جاتی ہیں جن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے نیز یہ بھی کہ موت محض روح کے جسم سے نکل جانے کا نام ہے اور منکرینِ حق کی روحیں عالم برزخ میں مبتلائے عذاب رہتی ہیں۔
۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اللہ یہ ارشاد فرمائے گا۔
۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم نے دنیا میں یہ خیال کر رکھا تھا کہ تمہارے کام صرف خدا کے بنانے سے نہیں بنتے بلکہ اس میں ان کا بھ دخل ہے جس سے تم کو عقیدت تھی۔ تم سمجھتے تھے کہ ان کا خدا کے ہاں زور ہے اور ان کو خوش کرنے سے تمہارا بیڑا پار ہو گا مگر آج یہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں غائب ہو گئے کہ تمہاری مدد کے لیے کوئی بھی موجود نہیں۔
۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معبود ان باطل کے ساتھ محبت و عقیدت اور پرستش و بندگی کا جو رشتہ تم نے قائم کیا تھا وہ منقطع ہو گیا۔
۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اللہ کے کرشمۂ قدرت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ وہ کون ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر اکھوے نکلواتا ہے اور پھر سرسبز پودے اور ہرے بھرے درخت کھڑے کر دیتا ہے؟ کیا اس کی اس خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے؟ اگر نہیں تو پھر تمہاری قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں تمہیں نفع اور نقصان پہنچانے میں کسی کا کیا دخل ہو سکتا ہے؟
۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی اللہ ہی کا کرشمہ قدرت ہے کہ وہ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ انسان اس کا مشاہدہ رات دن کرتا ہے نباتات میں اس کی مثال گٹھلی سے ہرا بھرا درخت اور درخت سے گٹھلی، حیوانات میں انڈے سے پرندہ اور پرندہ سے انڈا اسی طرح مادہ سے انسان اور انسان سے مادہ۔ اس سلسلہ کی ایک واضح مثال زندہ عورت کے شکم سے مردہ بچہ کی ولادت بھی ہے۔
۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیت میں زمین پر ظاہر ہونے والے کرشمۂ قدرت کا ذکر تھا اس آیت میں آسمان میں ظاہر ہونے والے کرشمۂ قدرت کا ذکر ہے۔ افق پر صبح کی روشنی رات کی تاریکی کے پردہ کو چاک کر کے نمودار ہوتی ہے اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے انسان کو جگاتی ہے کہ وہ اپنی صبح زندگی کا آغاز اپنے رب کی کرشمہ سازیوں کے اعتراف سے کرے۔
۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورج اور چاند وقت اور تاریخ معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دن اور رات کا تعین سورج کے طلوع و غروب سے ہوتا ہے اور چاند کی مختلف شکلوں سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے پھر اسی سے مہینے اور سال بنتے ہیں۔ اوقات اور تاریخ کی تعین کا یہ معیار جو آسمان میں قائم کر دیا گیا ہے اور جو انسان کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے قدرت الٰہی کا کتنا بڑا کرشمہ ہے۔
۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین و آسمان کا یہ نظام نہ الل ٹپ ہے اور نہ اس میں کسی اور کی خدائی کا کوئی دخل ہے بلکہ یہ سب اس ہستی کی پلاننگ (Planning) ہے جس کی قدرت بھی زبردست ہے اور جس کا علم بھی ہمہ گیر۔
۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستارے صحرائی اور سمندری سفر کرنے والوں کے لیے تاریکیوں میں روشنی کا کام دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ سمت کا تعین بھی ہوتا ہے اس لیے سائنس کی ایجادات سے پہلے انسان ستاروں کو اللہ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن انان نے اپنی حماقت سے ان کو خادم کی جگہ مخدوم سمجھ لیا اور پھر ان کی پرستش کرنے لگے۔
۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عقل و شعور س کام لیتے ہیں وہ ان نشانیوں پر غور کر کے حقیقت کو جان لیتے ہیں۔
۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲ اور ۳ میں گزر چکی۔
۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھہرنے کی جگہ (مستقر) سے مراد دیتا میں رہنے اور بسنے کی جگہ ہے۔ اور سپرد کئے جانے کی جگہ (مستود) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ موت کے بعد سپرد کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ ہی کی زمن پر بستا ہے اور اللہ ہی کی زمین میں دفن ہوتا ہے اور جب انسان مہد سے لے کر لحد تک اسی کی سلطنت میں رہتا ہے تو پھر اس سے بغاوت کی جسارت کیسے کرتا ہے!
۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں وہ ان نشانیوں کے ذریعہ توحید کو پا لیتے ہیں جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔
۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پان چونکہ آسمان کی طرف سے یعنی بلندی سے برتا ہے، اس لیے محاورہ میں آسمان سے پانی برسنا کہتے ہیں ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے۔
۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے غائب کی ضمیر "جس نے” نے استعمال کی ہے۔ ضمیروں کی یہ تبدیلی اسلوبِ کلام کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دوسرے پہلوؤں سے بھی۔ یہاں ضمیر کی یہ تبدیلی اس لیے ہوئی ہے کہ کلام کا رخ اللہ کی قدرت کے بیان سے ربوبیت کے بیان کی طرف ہو گیا ہے۔
۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شکل میں ملتے جلتے لیکن ذائقہ اور خصوصیات میں مختلف۔
۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے لیے زمین پر جو دسترخوان بچھا دیا گیا ہے اس میں ہر قسم کا اناج بھی ہے اور طرح طرح کے پھل بھی۔ یہ چیزیں جس طرح پیدا ہوتی، بڑھتی اور پکتی ہیں ان پر اگر آدمی غور کرے تو اسے ہر چیز میں کاریگری کے عجیب نمونے اور ربوبیت کے حیرت انگیز کرشمے دکھائی دیں گے۔ اگر اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور ضمیر بیدار ہے تو اس کا ذہن اس کاریگری سے اس کے صناع کی طرف اور اس نظام ربوبیت سے رب کائنات کی طرف منتقل ہو گا اور اس کی صحیح پہچان اس کے اندر پیدا ہو گی۔
آج علم النباتات (Botany) نے انسان پر نباتات کی دنیا اس طرح روشن کر دی ہے کہ قدرت کے بے شمار کرشمے اس کے علم میں آ گئے ہیں مگر چونکہ ان چیزوں کا مطالعہ اس متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ انہیں اس مسئلہ سے تعرض ہی نہیں کرنا ہے کہ ان کا کوئی خالق ہے یا نہیں اور نہ اس کی معرفت حاصل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی ہے اس لیے معلومات کے اس ذخیرہ میں اصل حقیقت دب کر رہ جاتی ہے اور اس صنعت گری کے پیچھے ایک عظیم صناع کا ہاتھ اور اس نظام ربوبیت میں رب کائنات کا جلوہ دکھائی نہیں دیتا۔
۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم پرست لوگ جنوں کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ وہ ان پر بلا بن کر نازل ہو سکتے ہیں ، ان کی قسمتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں بیماریوں وغیرہ میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ مشرکین عرب اسی طرح کے اوہام میں مبتلا تھے اور ان آفتوں سے بچنے کے لیے وہ جنوں کی پرستش کرتے اور ان کو نذریں پیش کرتے تھے۔ مشرکین ، ہند بھی اس توہم پرستی میں مشرکین عرب سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں۔ جنوں کا تصور ان کے ہاں بھوت اور راکشس کی شکل میں پایا جاتا ہے اور ان کے ضر ر سے بچنے کے لیے وہ ان کی پرستش بھی کرتے ہیں ، ان پر بھینٹ بھی چڑھاتے ہیں اور ان کی جے بھی پکارتے ہیں۔
قرآن ان سب چیزوں کو لغو اور خرافات قرار دیتا ہے اور جنوں کے بارے میں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں لہذا ان کو خالق کے برابر سمجھنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ جس طرح انسان ایک بے بس مخلوق ہے اسی طرح جن بھی بے بس مخلوق ہیں۔ نفع نقصان کھ بھی ان کے اختیار میں نہیں ، وہ نہ بیماریاں لآ سکتے ہیں ار نہ ان کی پرستش کرنا یکسر باطل ہے۔
۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکینِ مکہ کا فرشتوں کے بارے میں تصور یہ تھا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں مگر اس پر کوئی علمی دلیل نہیں ہے ، بلکہ محض جہالت سے لوگوں نے اس قسم کے تصورات پیدا کر لیے ہیں۔
۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عدم سے وجود میں لانے والے اور بغیر کسی مثال اور نمونہ کے پیدا کرنے والا۔
۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی بیوی ہونے کے نہ مشرکینِ مکہ قائل تھے اور نہ اہل کتاب پھر بھی وہ اس کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے۔ گویا وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ خدا کے لیے بیوی تجویز کرنا اس کے شایانِ شان نہیں بلکہ ایک گھٹیا تصور ہے جو خدا کے تصور کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ لیکن ان کا یہ احسا س اس وقت مردہ ہو جاتا تھا جب کہ وہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے۔ یہاں ان کے ذہن کے اسی تضاد کو واضح کیا گیا ہے۔
ہی تو تھا مشرکینِ عرب کا تصورِ خدا لیکن مشرکینِ ہند کا تصور خدا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ انہوں نے جو بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تو ان کے لیے بیویاں بھی تجویز کی ہیں اور بعض دیوتاؤں کے بارے میں تو ان کا خیال ہے کہ ان کی کئی کئی بیویاں تھیں۔ اس طرح انہوں نے خدا کو انسان کی سطح پر لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان جب شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خدا کی قدر بھی گھٹا دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا بھی ثبوت دیتا ہے۔
۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ ہی تمہارا اور ہر چیز کا خالق ہے تو وہی سب کا رب بھی ہے۔ جب دوسرا کوئی خالق نہیں تو وہ رب کیسے ہو سکتا ہے اور عبادت کا مستحق کیسے قرار پا سکتا ہے۔ لہذا انسان کے لیے صحیح طرز فکر یہی ہے کہ وہ اللہ ہی کو اپنا رب اور معبود مانے اور اس کے لیے صحیح طرز عمل یہی ہے کہ وہ اسی کی عبادت کرے۔
۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی کفیل ہے لہذا اسی سے امیدیں وابستہ کرو۔
۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ کہ تم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے لیکن وہ اچھی طرح تمہیں دیکھ رہا ہے۔ لہذا کوئی شخص اس خیال خام میں مبتلا نہ رہے کہ جب خدا دکھائی نہیں دیتا تو اس کا وجود ہی نہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسان کی نگاہیں مادی دنیا کی کتنی ہی چیزوں کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ مثلاً وہ روح کو جو انسان ہی کے جسم میں رہتی ہے دیکھ نہیں پاتا، ہوا اور بجلی کی رو (Current) کو محسوس ہونے والی چیزیں ہیں لیکن آنکھوں کے بس کے بات نہیں کہ انہیں دکھ سکیں ، آسمان سے پرے جو کائنات ہے اس کو دیکھنے سے بھی آنکھیں قاصر ہیں تو پھر وہ خدائے ذوالجلال کو دکھنے کی تاب کہاں لآ سکتی ہے؟
اس لیے سر کی آنکھوں سے خدا کو دکھے کی کوشش ایک فضول کوشش ہے خواہ اس کے لے کتنی ہی اور کیسی ہی ریاضتیں کی جائیں۔ البتہ آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں کا مشاہدہ کر کے انسان خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور دل کی آنکھیں روشن ہوں تو ہر گل میں اور ہر شجر میں اس کا جلوہ دیکھ سکتا ہے۔
۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کا کلام ہے مگر اس میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
"میں تم پر نگراں نہیں ہوں "یعنی تمہارے عمل کی کوئی ذمہ د اری مجھ پر نہیں ڈالی گئی ہے۔
۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی یہ دلیلیں جو اوپر بیان ہوئیں مختلف پہلوؤں سے اور مختلف اسلوبوں میں قرآن میں بار بار بیان کی گئیں ہیں جن سے دو باتیں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور وہ آج نہیں تو کل اس بات کا اعتراف کریں کہ پیغمبر نے ہمیں توحید کا سبق پڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ اچھی طرح پڑھا دیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ ہی ان کا رب ہے ان پر توحید کی حقیقت پوری طرح روشن ہو۔
۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں مشرکین سے اعراض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ توحید کے ان واضح دلائل کو پیش کرنے کے بعد بھی اگر مشرکین کو اپنے عقائد و اعمال پر اصرار ہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ اگر دین کے معاملہ میں لوگوں کو مجبور کرنا چاہتا تو کوئی شخص بھی شرک نہیں کر سکتا تھا لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں ہوئی بلکہ اس نے چاہا کہ انسان کی آزمائش ہو اور اس کے لئے اس پر حق و باطل کی راہیں واضح کر کے اس کو انتخاب کی آزادی دی جائے۔ لہذا اللہ کی بخشی ہوئی اس آزادی کا کوئی شخص غلط استعمال کرنا چاہتا ہے اور تمھاری بات پرکان دھرنا نہیں چاہتا تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ وہ اس کا خمیازہ بھگت لے گا۔ تمہیں پریشان ہونے کے ضرورت نہیں ہے۔
۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے تم کو پیغامبر بنایا ہے۔ لوگوں کے عقائد و اعمال کا ذمہ دار نہیں بنایا ہے کہ تم سے ان کے رویہ کے بارے میں باز پرس ہو۔
۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل ایمان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جوش تبلیغ میں مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں ورنہ عجب نہیں کہ مشتعل ہو کر اللہ کوبرا بھلا کہنے لگیں۔ مشرکین عرب اللہ کو مانتے تھے پھر بھی یہ رد عمل ہو سکتا تھا کہ وہ اشتعال کی حالت میں خدا کو سب و شتم کرنے لگیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ رواداری برتتے ہوئے ان کے معبودوں کو باطل نہ کہا جائے کیونکہ حق کو واضح کرنے کے لئے باطل کو باطل کہنا ضروری ہے۔ اگر زہر کو مہلک نہ کہا جائے تو معلوم نہیں کتنے لوگ زہر کھا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اگر آگ سے بچہ کو دور نہ رکھا جائے تو وہ اس کی روشنی سے متاثر ہو کر اپنا ہاتھ اس میں ڈال ہی دے گا لہذا اگر لوگوں کو ہلاکت سے بچانا ہے تو بے جا رواداری اور غلط قسم کی رو رعایت کے بغیر مہلک چیزوں کو مہلک کہنا ہی پڑے گا اسی لئے قرآن میں بتوں کی بے بسی اور بت پرستی کے انجام بدکو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح ہم نے مشرکین کے عمل کو ان کی نظروں میں کھبا دیا ہے اسی طرح ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ہر گروہ اپنے عمل کو خوب سمجھ کر ہی اس پر کار بند ہوتا ہے گو فی الواقع وہ ناخوب ہو۔ اس لئے کسی بھی گروہ کے طور طریقوں پر نا روا حملے کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی بلکہ سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ ان کا غلط اور باطل ہونا ان پر واضح کر دینے سے اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ہر گروہ کو اس کے عمل کا خوشنما دکھائی دینا بھی قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے اور یہ قانون قدرت اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اللہ تعالی نے خوشنما کر کے دکھانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔
۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نشانی سے مراد محسوس نشانی یعنی معجزہ ہے۔
۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۵۶ میں گزر چکی۔
۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب مسلمانوں سے ہے جو چاہتے تھے کہ معجزہ ظہور میں آ جائے تاکہ کفار ایمان لائیں۔
۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح پہلی مرتبہ ایمان لانے میں ان کے دل اور ان کے نگاہوں کی کجی مانع رہی اسی طرح اب بھی مانع ہے اور اللہ کی سنت (قانون فطرت) یہ ہے کہ جو الٹی کھوپڑی سے سوچتا ہے اس کو ہر چیز الٹی دکھائی دے اس لئے ایسے لوگوں کو معجزے دکھانا بھی نتیجہ بخش نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر وہ سمجھنے کا طریقہ اختیار کریں تو جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں وہ حق کو پا سکتے ہیں۔
۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ضد یا عصبیت کی بنا پر حق کو قبول نہ کرنے کا ذہنی فیصلہ کر چکے ہوں ان کو حق کا قائل نہیں کیا جا سکتا خواہ ان کو ایک عجیب معجزے کیوں نہ دکھا دئے جائیں کیونکہ جب انہیں ماننا ہی نہیں ہے تو وہ ہر معجزہ کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کر لیں گے۔ البتہ اگر اللہ ان کو ایمان لائے کے لئے مجبور کرنا چاہتا تو کوئی شخص بھی ایمان لائے بغیر نہ رہتا مگر یہ بات اللہ تعالی کی اس اسکیم کے خلاف ہے جسکے تحت اس نے انسان کو ایمان لانے یا نہ لانے کا اختیار بخشا ہے۔
۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی اس اسکیم کو نظر انداز کر کے وہ جو باتیں کرتے ہیں وہ محض جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ علم اور حقیقت پر نہیں بلکہ جہالت پر مبنی ہوتی ہیں۔
۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف مخالفتوں کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے جس میں شیاطین انس و جن پیش پیش ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ معاملہ ہر نبی کے ساتھ پیش آتا رہا ہے۔
شیاطین کو شر اٹھانے کا یہ موقع اللہ تعالی کی دی ہوئی مہلت ہی کے نتیجہ میں ملتا ہے اس لئے اس صورت واقعہ کو نبی کا دشمن بنا کر کھڑا کر دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ شیاطین یہ شر برپا نہیں کر سکتے تھے اگر اللہ انہیں اس کی مہلت نہ دیتا لیکن اللہ نے انہیں اس کی مہلت اس لئے دی ہے تاکہ حق و باطل کی اس کشمکش میں اصل جو ہر چھٹ کر سامنے آ جائے۔
۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘زخرف القول’ (خوشنما بات) سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جن کو پر کشش بنایا گیا ہو۔ مثال کے طور پر قرآن میں جب مردار کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو کفار نے لوگوں کو ورغلانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ جس جانور کو انسان نے مارا ہو وہ تو حلال لیکن جس کو اللہ نے مارا ہو وہ حرام۔ یہ کیسی بات ہے!
اور موجودہ زمانہ میں نئے انداز سے چکنی چپڑی باتیں پیش کی جا رہی ہیں مثلاً یہ کہ "سب مذہب سچے ہیں۔ "یا یہ کہ "خدا تک پہنچنے کی راہیں مختلف ہیں منزل سب کی ایک ہی ہے۔ ” یا نسل انسانی کی تحدید کے لئے یہ دلفریب نعرہ کہ "ہم دو ہمارے دو۔ تیسرا ابھی نہیں اور اس کے بعد کبھی نہیں۔ ” اسی طرح "مذہب کا تعلق پرائیویٹ زندگی سے ہے۔ ” مساوات مرد و زن ” اور "مذہب افیون ہے "جیسے خوش آئند نعرے ، من چلے اور شر پسند لوگوں ہی کی اختراعات ہیں۔
۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ دین کے بارے میں شر پھیلانے والوں کی دلفریب باتیں ایسے ہی لوگوں کو اپیل کرتی ہیں جن کے ذہن آخرت کے تصور سے خالی ہوتے ہیں۔
۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حق کیا ہے اور باطل کیا ہے اس کے فیصلہ کا اختیار اللہ ہی کو ہے وہ خالق بھی ہے اور رب بھی اور اس نے اپنا فیصلہ قرآن کی شکل میں نازل فرمایا ہے اس لئے تمام نزاعی معاملات میں یہ کتاب فیصلہ کن چیز ہے اور خدائی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر تم چاہتے ہو کہ میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصلہ کرنے والا تسلیم کر لوں اور عقائد اور حلت و حرمت کے سلسلہ میں کسی ایسی چیز کی طرف رجوع کروں جس کو خدائی سند کا درجہ حاصل نہیں ہے مثلاً وہ باتیں جو مذہب کے نام سے رواج پا گئی ہیں یاوہ کلچر جو باپ دادا نے ورثہ میں چھوڑا ہے یاوہ اوہام و خرافات جو محض جاہلیت کی پیداوار ہیں۔
۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اہلِ کتاب کے گروہ سے تعلق رکھنے والے سچے اور ایمان دار لوگ ہیں۔
۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن روئے سخن ہر قاریِ قرآن کی طرف ہے اور سمجھا نا یہ مقصود ہے کہ قرآن کا نزول کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالی کتابیں نازل کر چکا ہے جس کے گواہ اہل کتا ب ہیں اور ان میں جو لوگ حق پرست ہیں وہ قرآن کی آواز سن کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ آسمانی آواز ہے اس لئے قرآن کے کتاب الہی ہونے کے بارے میں ادنی شبہہ کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے متعلق جو وعدہ اللہ تعالی نے اہل کتاب سے کیا تھا اور جس کا ذکر تورات و انجیل میں موجود ہے وہ پورا ہو کر رہا۔ اس طرح خدا کے فرمان کی سچائی بھی ثابت ہو گئی اور عدل کا تقاضا بھی پورا ہو گیا یعنی قرآن کے نزول سے اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گئی۔
۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جانتا ہے کہ کون اس کی باتوں کو جھٹلاتا ہے اور کون ا س کی باتوں کی سچائی پر یقین کرتا ہے۔
۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حق و باطل کے معاملہ میں معیار دلیل و حجت ہے نہ کہ لوگوں کی کثرت و قلت۔ خدا اور مذہب جیسے بنیادی اہمیت رکھنے والے امور میں دنیا کی اکثریت ہمیشہ جہالت میں مبتلا رہی ہے اور اٹکل کے تیر چلاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کی تاریخ اخلاقی و عملی انحطاط کی تاریخ بن کر رہ گئی اور آج کے دور میں تو کوئی برائی ایسی نہیں جس نے وبائے عام کی شکل اختیار نہ کر لی ہو۔ ایسی صورت میں انسانوں کی عددی اکثریت لوگوں کی رہنمائی تو کرنے سے رہی البتہ ان کی گمراہیوں میں اضافہ ضرور کر سکتی ہے اس لئے قرآن کا کہنا ہے کہ حق و باطل کے معاملہ میں جمہور یا ” رائے عامہ” حجت نہیں ہو سکتی بلکہ حجت یا تو وہ نشانیاں ہو سکتی ہیں جو آفاق و انفاس (یعنی نظام کائنات اور انسان کی اپنی فطرت) میں پھیلی ہوئی ہیں یا پھر کتا ب الہی جو خدائی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے اپنے رب کی رہنمائی قبول کرو اور لوگوں کی کثرت جس طرف جا رہی ہے اس سے دھوکا نہ کھاؤ۔
۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں نے گمان کی بنیاد پر جو طور طریقے رائج کر رکھے ہیں ان میں کھانے کے سلسلہ کی غیر ضروری پابندیاں بھی ہیں چنانچہ مشرکین عرب نے چوپایوں کی ایک قسم کو حرام قرار دیا تھا مثلاً وہ اونٹنی جس نے اتنے اور اتنے بچے جنے ہوں۔ اگر اس کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تب بھی ہو اس کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے ا س لئے فرمایا گیا کہ جن جانوروں کو اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے ان کو ذبح کرتے وقت اگر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو پھر ان کا گوشت کھانے میں اہل ایمان کو کوئی تائل نہیں ہونا چاہے۔ اس معاملہ میں پس و پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکانہ توہمات کا اثر ابھی باقی ہے۔
کھانے کے معاملہ میں وہم پرستی مشرکین ہند کے رگ و پے میں ایسی سرایت کر گئی ہے کہ نہ صرف بعض حلال چوپایوں کے سلسلہ میں وہ حساس واقع ہوئے ہیں بلکہ سر سے گوشت خوری ہی کو انہوں نے حرام ٹھہرا دیا ہے۔
۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ نحل کی آیت ۱۱۵ کی طرف جس میں یہ حکم بیان ہوا ہے : ا س نے تم پر حرام ٹھہرایا ہے صرف مردار خون سور کا گوشت اور وہ (ذبیحہ) جس پر غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو، البتہ جو شخص مجبور ہو جائے اور نہ تو آ سکا خواہشمند ہو اور نہ حدسے تجاوز کرنے والا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۂ نحل سورۂ انعام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔
۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ کے صرف ظاہر ی پہلو سے اجتناب کافی نہیں بلکہ اس کے باطنی اثرات سے بھی بچنا ضروری ہے۔
یہ ایک عام ہدایت ہے جو ہر قسم کے گناہوں کے بارے میں ہے لیکن محل کلام کے لحاظ سے اشارہ اس گناہ کی طرف ہے جس کا ذکر اوپر ہوا یعنی جن جانوروں کو اللہ نے حلال ٹھہرا یا ہے ان کا گوشت محض مشرکانہ توہمات کی بنا پر نہ کھانا۔ یہاں تاکید کی گئی ہے کہ نہ صرف ان مشرکانہ طور طریقوں کو چھوڑ دو بلکہ ساتھ ہی اپنے قلب و ذہن کو بھی اس کے اثرات سے پاک کرو۔
مشرکانہ توہمات کی طرف دل کا میلان یا اس کا کوئی اثر جو دل میں موجود ہو گناہ ہی ہے اگرچہ کہ چھپا ہوا ہے۔
۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اس حکم میں بڑی شدت برتی گئی ہے اور واضح کر دیا گیا ہے کہ ایسا کرنا اللہ کی کھلی نافرمانی ہے۔
جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ احساس ہمارے اندر زندہ رہے کہ کسی جانور کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ حق ہمیں اللہ کی اجازت ہی سے حاصل ہوا ہے جو جان کا خالق ہے۔ اس میں شکر کا اظہار بھی ہے اور عقیدہ توحید کی تقویت کا سامان بھی۔ نیز اس سے شرک کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے کیونکہ مشرکین جانوروں کی غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں اور انکی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ گویا یہ طریقہ مراسم عبودیت ہی میں سے ہے اس لئے قرآن نے اس طریقہ کو بھی اللہ ہی کے لئے مخصوص کر دیا۔ اور اس کو خدا پرستی کی علامت قرار دیا۔
۲۲۴۔ جب جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا توحید کی علامت اور اس کا نام نہ لینا شرک کی علامت قرار پایا تو اس معاملہ میں اہل ایمان کے لئے کسی قسم کی رعایت کرنے یا رواداری برتنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور اگر وہ اس معاملہ میں غفلت برتیں گے تو یہ ایک مجرمانہ غفلت ہو گی۔ اگر انہیں معلوم ہو کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے یاوہ جانتے ہوں کہ جن لوگوں کے ہاتھ کا یہ ذبیحہ ہے ان کا طریقہ ہی یہ نہیں ہے کہ اللہ کا نام لیکر ذبح کریں تو ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانے سے لازماً پرہیز کرنا چاہے۔ اس معاملہ میں کسی مسلمان کے ڈھیل برتنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاملہ میں ڈھیل برت رہا ہے جس کے ڈانڈے شرک سے ملے ہوئے ہیں اور شرک کے ساتھ سازگاری پیدا کرنا اپنے کو شرک کے حوالے کرنا ہے۔ اسی لئے یہاں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے شیطانوں کی بات مان لی تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔
۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں موت سے مراد جہالت و غفلت کی حالت ہے اور حیات سے مراد علم و بصیرت اور خدا شناسی کی کیفیت ہے۔ روشنی سے مراد ہدایت کی روشنی اور تاریکیوں سے مراد گمراہیاں ہیں۔
مقصد اس مثال سے یہ واضح کرنا ہے کہ اہل ایمان جن کے لئے اسلام کا پیغام حیات بخش ثابت ہو رہا ہے اسے چھوڑ کر وہ جاہلیت کی باتیں کیونکر قبول کر سکتے ہیں جوان کے لئے پیام موت ہیں ؟
۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حق کے لئے واضح ہو جانے کے بعد بھی اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے تو قانون الہی یہی ہے کہ جو جس چیز کو پسند کرتا ہے اس کی نظر میں وہ چیز کھبا دی جائے بالفاظ دیگر حق کو رد کر دینے کے بعد آدمی کی نفسیات ایسی بن جاتی ہیں کہ غلط کاموں کو وہ اپنا کارنامہ حیات سمجھنے لگتا ہے۔
۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کسی آبادی میں دعوت حق بلند ہوتی ہے تو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنے مفاد کے خلاف پا کر اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور ان کے سرغنے اہل حق کے خلاف شاطرانہ چالیں چلنے لگتے ہیں یہ صورت حال چونکہ اس قانون مہلت کے مطابق رونما ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے اس دنیا کے لئے مقرر کیا ہے اس لئے اس حقیقت کو اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ "ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرموں کو اٹھا کھڑا کیا ہے تاکہ وہ چالبازیاں کریں۔
۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حرکتیں کر کے وہ اپنے ہی لئے تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر چونکہ نتیجہ پران کی نگاہ نہیں ہے اس لئے وہ محسوس نہیں کر پاتے کہ کس برے انجام کی طرف جا رہے ہیں۔
۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر اللہ کی طرف سے رسولوں پر وحی نازل ہوتی ہے توہم پربھی نازل ہونی چاہے جب تک کہ ہم پر براہ راست وحی نازل نہ ہو ہم اللہ کی آیتوں پر ایمان لانے والے نہیں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسالت ایسی چیز نہیں ہے کہ یہ منصب ہر کس و ناکس کو عطا کیا جائے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس منصب جلیل کا سب سے زیادہ اہل کون ہے اور ایسے ہی شخص کو وہ اس سے سرفراز فرماتا ہے۔
ضمناً اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ رسالت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے بلکہ عطیہ الہی ہے جسے چاہے وہ بخشے۔
۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس قسم کے مطالبے کرنے والے مجرم ہیں اور وہ اپنے جرم کی سزا بھگت کر رہیں گے۔
۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینہ کھول دینے کا مطلب اسلام کے دین حق ہونے پر مطمئن کر دینا ہے کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہ رہے اور آدمی اسے بلا پس و پیش قبول کر لے۔
۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسے لوگوں کو اسلام کا راستہ ایک کٹھن چڑھائی معلوم ہوتا ہے جس کے تصور سے ان کا سینہ تنگ ہونے اور ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نا پاکی سے مراد کفر کی نا پاکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان نہ لا نے کی اصل وجہ کفر کی نجاست ہے جس نے ان کے دل و دماغ کو نا پاک کر دکھا ہے اس لئے اللہ کا پاکیزہ دین ان کے دل و دماغ میں اتر نہیں پاتا۔
۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام کی راہ بالکل سیدھی ہے اس میں کوئی ایچ پیچ نہیں اور یہ بات بدلائل قرآن میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو دلائل کو سمجھنا اور یاد دہانی حاصل کرنا چاہیں۔
۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی کا گھر یعنی جنت جہاں امن ہی امن ہو گا اور انسان پوری طرح چین کی زندگی گزار سکے گا نہ کوئی آفت آئے گی اور نہ کوئی خطرہ لاحق ہو گا بلکہ ہر قسم کی تکلیفوں اور اندیشوں سے محفوظ ہو گا۔
۳۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب شیاطین جن سے ہو گا۔
۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرکش جن گمراہی پھیلانے کے لئے انسانوں کو اپنا آلۂ کا ر بناتے رہے اور اس کام کے لئے انہوں نے وسوسہ اندازی اور پر فریب باتوں سے دل و دماغ کو مسحور کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ رہے سرکش انسان تو انہوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھہرا کر اور قربانیاں اور نذرانے پیش کر کے ان کے غرور میں اضافہ کر دیا نیز کہا نت ،جادو، ٹونا ٹوٹکا اور سفلی اعمال کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کرتے رہے اور ان کے اشاروں پر لوگوں کو چکمہ دیتے رہے اور اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔
۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا دن۔
۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ استثنا ء اللہ کے اختیار کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ سرکش جنوں اور انسانوں کو اگرچہ کہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا لیکن اس معاملہ میں حرف آخر اس کی مشیت ہی ہے اور اس کا ہر فیصلہ علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
۲۴۰۔ ۔ یعنی یہ ظالم جس طرح ظلم میں ایک دوسرے کے شریک رہے ہیں اسی طرح اس کی سزا بھگتنے میں بھی ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔
۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خطاب جن و انس کے مشترک گروہ سے ہو گا اس لئے اللہ تعالی کے ارشاد ” کیا تمھارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے ” کا مطلب۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔ یہ ہے کہ رسول اگرچہ کہ نسل انسانی میں سے تھے لیکن ان کی بعثت انس و جن دونوں گروہوں کی طرف تھی کیونکہ جن اس معاملہ میں انس کے تابع ہیں اور اس کی تائید قرآن کی متعدد آیات سے ہوتی ہے۔
مثلاً جنوں کا یہ بیان کہ ” ہم نے ایسی کتاب سنی جو موسیٍٰ کے بعد نازل ہوئی ہے ” (الاحقاف ۳۰) ان کا سلیمان علیہ اسلام کے تابع ہونا۔ (النمل ۱۷) ان کا قرآن سننا اور اس پر ایمان لانا (سورہ جن)
اور قرآن اور احادیث صحیحہ میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ جنوں کی طرف جنوں ہی میں سے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے البتہ بعض مفسرین نے یہ بات ضرور کہی ہے مگر وہ ایک شاذ قول ہے۔
۲۴۲۔ ۔ یعنی رسول اس لئے بھیجے گئے تاکہ اللہ کی محبت لوگوں پر قائم ہو اور اس کے بعد اگر وہ نہ سنبھلیں تو اپنی تباہی کے وہ خود ذمہ دار قرار پائیں۔ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کسی بستی پر اپنی حجت قائم کئے بغیر اور اس حال میں کہ لوگ راہ حق سے بالکل بے خبر ہوں۔ ظلماً ان کو ہلاک کر دے۔
۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس درجہ کا عمل ہو گا اچھا یا برا اسی درجہ کی کامیابی یا ناکامی ہو گی۔
۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمھارا محتاج ہے اگر تم نہ رہو تو اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی بلکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ تمھارے غلط طرز عمل کے با وجود تمہیں مہلت عمل دے رہا ہے تاکہ تم اپنی اصلاح کرو ورنہ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر تمھاری جگہ دوسری قوموں کو لا سکتا ہے۔ اور اس کی مثال خود تمھارا اپنا قومی وجود ہے کہ یہ سلسلہ ء نسل انسانی ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک گردہ جاتا ہے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس لئے کسی کو اپنے قومی وجود پر فخر نہیں کرنا چاہے اور یہ سمجھ لینا چاہے کہ جس ہستی نے ان کو وجود بخشا ہے اس کا ایک اشارہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا نے کے لئے کا فی ہے۔
۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا دن ،جب خدا کے حضور سب کی پیشی ہو گی۔
۲۴۶ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے ان کو میری قوم کہ کر خطاب کرتا ہے جس سے اپنائیت ،انسانی ہمدردی اور بہی خواہی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر” یا قومی ” کے الفاظ ” اے میرے لوگو! "کے سادہ معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کو اصطلاحی قومیت کے معنی میں لینا اور اس سے مذہبی یا سیاسی نظریہ قومیت کے سلسلہ میں استدلال کرنا بالکل غلط ہے۔
۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین نے مذہبی رسوم کی جو شریعت گھڑ رکھی تھی اس کا ایک اہم جزء ان کی وہ خیرات تھی جو خدا اور ان کے دوسرے معبود (بت وغیرہ) کے نام سے کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہ پیداوار اور مویشیوں میں ایک حصہ جس کی مقدار انہوں نے اپنی ہی طرف سے مقرر کر رکھی تھی ، مخصوص کر دیتے تھے۔ خدا کے حصہ کی خیرات تو فقیروں میں تقسیم ہوتی۔ رہی غیراللہ کے حصہ کی خیرات تو وہ بتوں پر چڑھاوے کی صورت میں پیش کی جاتی اور پھر پجاری اور پروہت اس کے حقدار بنتے۔ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے بتوں کے حصہ میں کوئی کمی ہو جاتی تو اس کی تلافی خدا کے حصہ سے کی جاتی لیکن اگر خدا کے حصہ میں کمی ہو جاتی تو اس کی تلافی بتوں کے حصہ سے نہیں کی جا سکتی تھی۔
یعنی ان کے نزدیک مقدم حق بتوں کا تھا اس کے بعد خدا کا۔
ان کا یہ طریقہ مشرکانہ بھی تھا اور احمقانہ بھی۔ خدا کا حصہ کہا ں سے نکل آیا؟ پھر اس شریعت سازی کا اختیار ان کوکس نے دیا؟ اور انکی یہ تقسیم کتنی بھونڈی تھی ؟
یہ مشرکین مکہ کی جہالت کا ایک نمونہ ہے۔ دوسرے مشرکین کے ہاں بھی جہالت کے ایسے کتنے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بزرگوں کی نذر و نیاز کے نام سے جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی غلط ذہنیت ہی کام کر رہی ہوتی ہے لیکن "بزرگ پرستی "، ” اولیا ء پرستی ” اور ” قبر پرستی ” پر اسلام کا خوشنما لیبل لگا کران کو مسلمانوں میں رائج کر دیا گیا ہے۔
۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح شیاطین نے ان پر یہ بات الہام کر دی کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ اپنے معبودوں کی نذرو نیاز کے لئے وقف کریں اسی طرح انہوں نے اپنے ان چیلوں کو یہ پٹی بھی پڑھا دی ہے کہ وہ اپنے معبودوں پر اپنی اولاد کو بھینٹ چڑھائیں۔
آیت میں (ان کے شریک) سے مراد شیاطین ہیں جن کے اشاروں پر مشرکین ہر قسم کی ناروا حرکتیں کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں اپنے بچوں کو ہلاک کرنے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔ وہ ان کے دل میں یہ خیال ڈال دیتے ہیں کہ فلاں اور فلاں معبود (جن دیوی وغیرہ) کے۔ ضر رسے بچنے کے لئے تمہیں اپنے بچوں کی بھینٹ دینا ہو گی۔ عربوں میں جہاں شیاطین ہی کے زیر اثر لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا وہاں ایک طریقہ یہ بھی رائج تھا کہ آدمی منت مان لیتا کہ اگر میرے اتنی اور اتنی اولا د ہوئی تومیں ان میں سے ایک کو فلاں معبود پر بھینٹ چڑھاؤں گا چنانچہ سیرت ابن اسحاق میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ عبدالمطلب نے اسی قسم کی منت ہبل بت کے پاس کھڑے ہو کر مانی تھی اور جب ان کے کا فی اولاد ہوئی تو عبد اللہ کی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے والد ہیں، بھینٹ دنیا چاہا لیکن قریش نے انہیں اس کا فدیہ دینے پر آمادہ کیا اس لئے ان کی جان بچ گئی۔
(سیرت النبی ابن ہشام ج اس)
آج بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ وہم پرست کسی جن یا دیوتا کو خوش کرنے یا کسی بلاسے بچنے یا کسی سفلی عمل کی غرض سے معصوم بچوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ اس وحشیانہ فعل پران کا دل اس لئے آمادہ ہو جاتا ہے کہ شیطان اس چیز کو مذہبی رنگ دے کریا اس کی کوئی دلفریب توجیہ کر کے ان کی نظروں میں کھبا دیتا ہے۔
ان شیاطین کو” شریک ” اس لئے کہا گیا ہے کہ مشرکین فاسد عقائد کے تحت ان کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح اللہ کی اطاعت کی جانی چاہے۔ وہ ان شیطانوں کے زیر اثر بڑے سے بڑا گناہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے جس کی مثال بچوں کو بھینٹ چڑھانا یا مفلسی کے ڈر سے ان کو زندہ در گور کرنا ہے۔
۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتل اولاد کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہے کہ آدمی اولاد جیسی نعمت سے محروم ہو جائے اور غضب الہی کا مستحق بنے۔
۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ جس دین کے وارث تھے وہ ابراہیم اور اسمعیل علیھم السلام کا دین یعنی اسلام تھا لیکن شیاطین کی باتوں میں آ کر انہوں نے اپنے اس دین میں طرح طرح کی بدعتیں نکالیں۔ نتیجہ یہ کہ اللہ کا دین اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہا بلکہ با طل کے ساتھ خلط ملط ہو کر رہ گیا۔
۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین عرب نے کچھ رسمیں تو غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے رائج کر رکھی تھیں اور کچھ رسمیں ایسی تھیں جن کا تعلق وہم پرستی سے تھا۔ پیداوار کا جو حصہ وہ غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے مخصوص کرتے اس کے بارے میں انہوں نے ایک ضابط بنا رکھا تھا کہ اس کو کون لوگ کھا سکتے ہیں اور کون نہیں۔
اسی طرح کا ایک ضابطہ جانوروں کا گوشت کھانے سے متعلق بھی تھا جس کی تفصیل آگے کی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ یہ محض ڈھکوسلے تھے جن کا کوئی تعلق اللہ کے دین سے نہ تھا۔ اس سے جس اصولی بات پر روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام رسمیں مردود ہیں جن کو مذہبی یا شرعی حیثیت دیکر رائج کیا گیا ہو جبکہ شریعت خداوندی کی سندان کو حاصل نہ ہو۔
۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ باتیں ہیں تو ان کی خوش ساختہ لیکن ان کو مذہبی رنگ دے کر اس طرح ان کی پابندی کرائی جا رہی ہے کہ لوگ باور کریں کہ یہ اللہ کی شریعت ہے۔
۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض چوپا یوں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا وہ زندہ پیدا ہونے کی صورت میں مردوں کے لئے حلال ہوتا یعنی وہ اس کا گوشت کھا سکتے تھے لیکن عورتوں کے لئے اس کا گوشت حرام ہوتا اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو پھر عورت مرد دونوں کے لئے اس کا کھانا جائز ہوتا۔
۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ شریعت سازی کرنے والوں کو سزا دے اور جن لوگوں نے یہ جسارت کی ہے ان کو وہ جانتا ہے۔
۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انگور وغیرہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔
۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "جنہیں ٹٹیوں پر چڑھایا نہیں جاتا ،سے مراد تناور درخت بھی ہیں اور وہ پودے بھی ہیں جو زمین ہی پر پھلتے ہیں مثلاً ککڑ یاں ،تربوزے وغیرہ۔
۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے جس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے لئے زمین پر جو دستر خوان بچھا دیا گیا ہے اس میں انواع و اقسام کے کھانے میں جو انسان کی صرف بنیادی ضرورت ہی کو پورا نہیں کرتے بلکہ اس کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی کرتے ہیں ورنہ زندہ رہنے کے لئے تو صرف روٹی کا فی ہو سکتی تھی مگر انسان کو جو اعلیٰ ذوق بخشا گیا ہے اس کی رعایت سے ہر قسم کے پھل بھی پیدا کئے۔ یہ سب اللہ تعالی کی ربوبیت اور اس کے کرم کا فیضان ہے تاکہ انسان اس کا شکر گزا ر ہو مگر انسان کا معاملہ عجیب ہے کہ وہ اس کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ توا ٹھا تا ہے لیکن ناشکرا بنا رہتا ہے یا شکر ادا کرتا ہے یا اس کا نہیں بلکہ غیراللہ کا چنانچہ پیداوار کا ایک حصہ وہ اپنے معبودوں کے لئے مختص کر دیتا ہے کہ یہ دولت تو لکشمی دیوی کی بخشی ہوئی ہے اور یہ فلاں دیوی کی اس لئے ان کے شکرہ کے طور پر ان کے نام سے یہ دان کیا جائے۔ اسی سے ملتی جلتی شکل وہ ہے جو اہل بدعت اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیروں۔ ولیوں ، اور بزرگوں کے لئے نذر و نیاز کرتے ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ ان ہی کے طفیل ہمیں یہ نعمتیں ملی ہیں۔ اس طرح دونوں گروہوں کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ ان کو جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کو وہ براہ راست اللہ کا انعام نہیں سمجھتے اور نہ براہ راست اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ واسطوں اور وسیلوں کے چکر میں اس طرح رہتے ہیں کہ ان کی شکر گزاری ان ہی تک پہنچ کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔
یہاں جو بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا یہ سمجھنا سراسر غلط ہے کہ خدا کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق تو مجھے پہنچتا ہے لیکن ان میں خدا کا کوئی حق نہیں ہے جس کے ادا کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہو۔ یہ تمام نعمتیں اس نے آزمائش کے طور پر انسان کو بخشی ہیں اور ان میں اپنا حق متعین کر دیا ہے تاکہ دیکھے کہ کون اس کا حق ادا کر کے اس کی شکر گزاری کا ثبوت دیتا ہے اور کون اس سے بے پروا ہو کر کفران نعمت کرتا ہے۔
پیداوار اور پھلوں میں اللہ کا حق کیا ہے اس کی تفصیل حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہے۔ یہاں اللہ کے حق کی ادائیگی کا اجمالی حکم دیا گیا ہے تاکہ سب سے پہلے انسان میں یہ احساس پیدا ہو کہ اللہ کا حق ادا کرنا ہے اس کے بعد اس کی تفصیلات کے لئے وہ شریعت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
یہ سورہ مکی ہے جس میں اللہ کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہو کہ پیداوار اور پھلوں میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم مکہ ہی میں نازل ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کو اسلام نے کتنا اہم مقام دیا ہے۔
آیت میں کھیتی اور پھلوں کا ذکر ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا ہے کہ فصل کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اس سے ایک شرعی اصول تو یہ واضح ہوا کہ ہر قسم کے غذائی اجناس اور ہر قسم کے پھل اور میوہ جات میں اللہ کا حق ہے۔ اس حق کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح فرمائی ہے۔
"جسے بارش یا چشموں نے سیراب کیا ہو یا جو سیلاب وغیرہ کے پانی سے سیراب ہو گئی ہو اس میں عشر ہے اور جیس آبپاشی (بخاری) کے ذریعہ سیراب کیا گیا ہو اس میں نصف عشر ہے۔ ”
عشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ (دس فیصد) نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (پانچ فیصد) بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا۔
دوسرا اصول یہ واضح ہوا کہ زرعی ہے۔ سال میں جتنی فصلیں ہوں گی ہر ہر فصل کی زکوٰۃ دینا ہو گی۔
اور تیسرا اصول یہ کہ فصل کٹنے پر لاتا خیر زکوٰۃ ادا کی جانی چاہے۔
۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسراف کا مطلب خرچ کرنے میں حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے۔ جو شخص اللّے تللّے خرچ کرتا ہے وہ اپنا شوق ہی پورا نہیں کر پاتا۔ بندگانِ خدا کے حقوق کہاں سے ادا کرے گا؟
۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مویشیوں میں تو کچھ اونچے قد کے ہیں جو سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں۔ مثلاً اونٹ، بیل، وغیرہ۔ اور کچھ پست قد ہیں گویا زمین ہی سے لگ کر چلتے ہیں، مثلاً بھیڑ، بکری جن کے گوشت اور دودھ وغیرہ سے آدمی فائدہ اٹھاتا ہے۔
۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن چوپایوں کو گوشت اور دودھ کے لئے پالا جاتا ہے اور جن کو اہلِ عرب انعام مویشی کے کہتے تھے، چار قسم کے ہیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے۔ بھینس کا شمار بھی گائے ہی میں ہے۔ مگر یہ عرب میں پائی نہیں جاتی تھی۔
ان چار پالتو جانوروں کے نر و مادہ کل آٹھ ہوئے جن کو اہلِ عرب حلال تو مانتے تھے لیکن مشرکانہ توہمات کی بناء پر بعض صورتوں میں ان پر بھی حُرمت کا حکم لگا دیتے تھے، مثلاً بعض چوپایوں کے پیٹ سے اگر بچہ زندہ پیدا ہوتا ہو وہ مردوں کے لئے حلال ہوتا لیکن عورتوں کے لئے اس کا گوشت کھانا حرام ہوتا۔ اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو عورت مرد دونوں کھا سکتے تھے۔ اسی طرح ان کے نزدیک بعض چوپایوں کا دودھ اور بعض کا سواری کے لئے استعمال ممنوع تھا (ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ، آیت نمبر ۱۰۳ اور نوٹ ۲۴۹) ۔ یہاں ان کی اسی توہم پرستی کی حقیقت واضح کی جا رہی ہے۔
۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض وہم و گمان کی بنا پر کسی چیز کو حرام سمجھنا صحیح نہیں، کیوں کہ کسی چیز کو حرام سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اسے حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ کی طرف کوئی بات وہم و گمان کی بنا پر منسوب کرنا سراسر جھوٹ ہے۔ اس کی طرف وہی بات منسوب کی جا سکتی ہے جس کی علمی شہادت موجود ہو۔ ظاہر ہے کہ علمی شہادت وحیِ الٰہی ہی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اگر ابراہیمؑ کی تعلیمات میں اس کی کہیں نشان دہی کی جا سکتی ہے یا پچھلی آسمانی کتابوں میں اس کا کوئی حکم۔ بشرطِ صحت۔ موجود ہو تو پیش کرو۔
علمی دلیل پیش کرنے کا یہ مطالبہ جو قرآن نے کیا ہے، عربوں ہی سے بلکہ ان تمام اقوام سے ہے جو اپنی خواہشات یا مشرکانہ توہمات کی بنا پر بعض مویشیوں کا گوشت حرام ٹھہراتے ہیں مثلاً گائے کا گوشت، یا مطلقاً گوشت ہی کو حرام سمجھتے ہیں۔ ، خواہ وہ کسی چرند یا پرند کا گوشت ہو۔
۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخر تمہیں معلوم کیسے ہوا کہ فلاں قسم کی اونٹنی یا فلاں قسم کی گائے یا ان کے فلاں قسم کے بچے اللہ نے تم پر حرام ٹھہرائے ہیں؟ انبیائی شریعت میں تم اس کی نشاندہی نہیں کر سکتے پھر کیا تم کو خدا نے براہِ راست یہ حکم دیا تھا اور تم نے اپنے کانوں سے اسے سن لیا تھا۔ اور جب یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں تو پھر ان چیزوں پر حرمت لگانے کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ تم نے رسموں کی ایک شریعت گھڑ لی ہے جس کو جھوٹ بول کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہو۔
۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت کا مطلب سمجھنے کے لئے اس سلسلۂ کلام کو سامنے رکھنا ضروری ہے جو اوپر سے چلا آ رہا ہے۔ بحث مویشیوں کی حلت و حرمت سے متعلق پیدا ہو گئی تھی۔ اہلِ عرب ان مویشیوں کا گوشت جن کا ذکر اوپر آیت ۱۴۳ اور ۱۴۴ میں ہوا، غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن بعض صورتوں میں محض توہمات کی بنا پر انہوں نے ان کا گوشت حرام ٹھہرا لیا تھا۔ ساتھ ہی بعض حرام چیزوں کو انہوں نے حلال ٹھہرا دیا تھا۔ یہ تھیں مردار، بہایا ہوا خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔ یہاں ان زہرِ بحث چیزوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر پر جو احکام نازل ہوئے ہیں، ان میں سے تمہاری حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے۔ بجز ان چار چیزوں کے۔ یعنی مردار وغیرہ۔ اس لئے آیت کا یہ مطلب لینا صحیح نہ ہو گا کہ اسلام میں ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے۔ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ اصولی بات واضح کر دی ہے کہ:
وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطّیِّبَاتِوَ یۃحَرِّمُ عَلَیہِمُ الخَبَائِثَ (الاعراف، ۱۵۷)
"یہ پیغمبر ان کے لئے پاک چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے اور نا پاک چیزیں ان پر حرام کرتا ہے۔ ”
اور حدیث میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"کسی بھی کچلی والے درندہ کا گوشت کھانا حرام ہے۔ ”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر کچل والے درندہ اور ہر پنجہ والے پرندہ (کا گوشت کھانے) سے منع فرمایا ہے۔ ”
(صحیح مسلم کتاب الصید و الذبائح)
نزول قرآن کے وقت یہ بحث کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ درندوں کا گوشت کھانا کیسا ہے یا چوہے ،سانپ ،بچھو اور کیڑے مکوڑے آدمی کھا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ فطرت انسانی ان چیزوں پر خباثت کا حکم لگا تی ہے اور طبیعتیں عام طور سے ان چیزوں کو کھانے سے نفرت کرتی ہیں پھر ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس کی قربانی بتوں کے لئے دی جاتی ہو اس لئے ان چیزوں کی حرمت کا حکم اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی جس اہتمام کے ساتھ کہ خون اور غیراللہ کے ذبیحہ جیسی چیزوں کی حرمت بیان کرنا ضروری تھا یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان چار چیزوں کی حرمت جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے بڑی شدت کے ساتھ بیان کی نیز متعدد سورتوں میں اس کو دہرایا تا کہ لوگوں کی ذہنی اور عملی اصلاح ہو۔
رہے دوسرے خبیث جانور تو ان کی حرمت بیان کرنے کا کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر چھوڑ دیا گیا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت (یہ نبی ان پر خبیث چیزوں کو حرام کرتا ہے) سے واضح ہے چنانچہ محرمات کی تفصیلات ہمیں احادیث صحیحہ میں ملتی ہیں۔
۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی نیز مردار وغیرہ کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۲۰۹ تا ۲۱۴ میں گزر چکی۔
۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوپایوں کی حلت و حرمت کے سلسلہ میں قرآن نے چار چیزوں کو مستثنیٰ کر کے بقیہ تمام مویشیوں کو جو حلال ٹھہرایا تو اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ ملت ابراہیم میں یہی چار چیزیں حرام تھیں۔ اس میں جو کچھ رد و بدل ہوا ہے وہ مشرکین عرب کی اپنی بدعات ہیں شریعت خداوندی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کے اس بیان سے یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے سے یہ چار چیزیں ہی حرام چلی ا رہی ہیں تو پھر یہود پر جو اہل کتاب ہیں کس طرح دوسری چیزیں حرام ہوئیں ؟ اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ یہود پر بعض اور چیزیں بھی یقیناً حرام کر دی گئی تھیں مگر یہ اسلئے نہیں کہ وہ چیزیں فی نفسہ نا پاک تھیں بلکہ وہ اصلا پاک تھیں لیکن ان کی سرکشی کی وجہ سے سزا کے طور پر ان کے لئے شریعت سخت کر دی گئی تھی۔ یہ ایک عارضی حکم تھا جوان کے فساد مزاج کے پیش نظر دیا گیا تھا جس طرح کہ ایک حکیم مرض کی شدت کو دیکھتے ہوئے مریض کو صالح غذا سے بھی پرہیز کرنے کے لئے کہتا ہے۔ اس لئے اب جبکہ قرآن کی شکل میں ایک دائمی شریعت کا نزول ہو رہا ہے تو اس میں ان تمام عارضی پابندیوں کو ختم کر دیا گیا ہے اس لئے اس میں تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور صرف خبیث چیزیں ہی حرام ہیں۔
یہود پر جیسا کہ اس آیت میں واضح کیا گیا ہے دو پاک چیزیں حرام کر دی گئی تھیں۔ ایک ہر قسم کے ناخن والے جانور خواہ چرند ہوں یا پرند اور دوسرے گائے اور بکری کی چربی بجز اس کے جو پیٹھ ،آنتوں یا ہڈیوں سے لگی ہوئی ہو کیونکہ اس کو آسانی سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دو چیزیں بنی اسرائیل پراس وقت حرام کی گئیں جبکہ انہوں نے سرکشی کر کے یہودیت اختیار کر لی ورنہ اس سے پہلے یہ چیزیں ان پر حرام نہیں تھیں۔
۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر اس سے مختلف کوئی بات موجودہ تورات میں پانی جاتی ہے تو وہ غلط ہے اور اس کی نسبت اللہ کی طرف صحیح نہیں۔
۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے تمہاری مجرمانہ حرکتوں کے باوجود تم پر فور عذاب نازل نہیں کر رہا ہے بلکہ تمہیں اصلاح کا موقع دے رہا ہے ۰۔
۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی چیز کو حرام ٹھہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کو یہ چیز پسند نہیں ہے اس لئے اس نے روکا ہے۔ اگر کوئی شخص یا کوئی قوم کسی چیز کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ حرام ہے تو اسے بتانا چاہے کہ اس کی بنیاد کیا ہے یعنی اسے کس طرح معلوم ہوا کہ اللہ نے اس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے۔
اگر اس کی کوئی سند یا دلیل موجود نہیں ہے تو پھر یہ محض وہم پرستی یا اٹکل کے تیر تکے چلانا نہیں تو اور کیا ہے ؟خدا کے بارے میں کوئی بات علم کی بنیاد پر ہی کہی جا سکتی ہے ورنہ سخت غیر ذمہ دارانہ بات ہو گی۔
۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمھارے عقائد علم پر مبنی نہیں بلکہ محض گمان کا نتیجہ ہیں کیونکہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا تمھارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
۲۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر خدا چاہتا تو بزور سب کو ہدایت کی راہ پر چلاتا لیکن اس کی مصیبت کا فیصلہ یہ نہیں ہوا بلکہ اس نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ ہدایت اور گمراہی دونوں میں سے جس راہ کا چاہے انتخاب کرے اور ہدایت کی راہ کو واضح کرنے کے لئے اس نے ایسی حجت نازل فرمائی ہے جو دلوں میں اتر جانے والی ہے۔ اس حجت کے مقابلہ میں تمہاری یہ حجت کہ اگر اللہ چاہتا توہم شرک نہ کرتے اور اسی قسم کی تمہاری دوسری حجتیں بالکل بے معنی ،بے اثر اور بے نتیجہ ہیں۔
۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شہادت علم کی بنیاد پر دی جانی چاہے۔ اگر یہ لوگ اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتے اور جھوٹی شہادت دینے کے لئے تیا رہو جائیں تو تم ان کی شہادت کی تصدیق نہ کرو کہ اللہ کی حجت کے مقابلہ میں ان کی شہادت نے وزن اور باطل ہے۔ دراصل ان سے شہادت کا مطالبہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کو ٹٹولیں اور انہیں اندازہ ہو کو وہ کتنی جسارت کے ساتھ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ خدا نے فلاں اور فلاں چیز کو حرام ٹھہرایا ہے در آنحالیکہ اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اٹکل پچو باتوں پر چلنے اور اوہام و رسوم کی جکڑ بندیوں میں رہنے کے بجائے ان پابندیوں کو قبول کرو جن کا حکم واقعی اللہ نے دیا ہے اور ان کے اللہ کی جانب سے ہونے کے لئے قرآن کی سند کا فی ہے۔ یہ پابندیاں صرف کھانے کے مسئلہ ہی میں نہیں بلکہ ان کا تعلق پوری فکری و عملی زندگی سے ہے تاکہ انسان کے خیالات میں پاکیزگی اور نکھار پیدا ہو اور وہ ایک پابند آئین صاف ستھری زندگی گزار سکے۔
یہاں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کو خطاب کر کے نہیں بلکہ مشرکین کو خطاب کر کے دیئے گئے ہیں اس لئے ان پر عمل در آمد کا مطالبہ مسلمانوں ہی سے نہیں غیر مسلموں سے بھی ہے بالفاظ دیگر قرآن کا مطالبہ ہر انسان سے ہے کہ وہ اپنے ر ب کے ان احکام کو قبول کر کے اس کا اطاعت گزار بندہ بن جائے۔
۲۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک حرام چیزوں میں سب سے پہلی حرام چیز ہے جس سے اس گناہ کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
شرک کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۱۱
۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم مثبت انداز میں دیا گیا ہے تاکہ موثر ہو سکے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ والدین کے ساتھ بدسلوکی حرام ہے۔
۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتل اولاد کی ایک صورت عربوں میں یہ تھی کہ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قتل کر دیتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کے رزق کے ذمہ دار ہیں حالانکہ ایک باپ کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کا کفیل ہوتا ہے نہ کہ رزاق ، رزاق تو اللہ ہی کی ذات ہے۔ رہی خوشحالی یا بد حالی تو وہ بھی اسی کے اختیار میں ہے اور دونوں حالتوں میں انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔
اللہ کی رزاقیت پرجن کو یقین نہیں ہوتا وہ بچوں کی پیدائش سے گھبرا جاتے ہیں اور پھر ان کی تعداد کو محدود کرنے کے لئے غلط طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بچہ صرف پیٹ لے کر دنیا میں نہیں آتا بلکہ دو ہاتھ اور دو پاؤں بھی لیکر آتا ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی آبادی میں اضافہ کے ساتھ وسائل رزق میں بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ اللہ کی رزاقیت کا بین ثبوت نہیں ہے؟
۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حیائی کی باتوں (فواحش) میں زنا، بدکاری ، برہنگی ،عریاں تصویریں یا فلمیں دیکھنا ،عشق لڑانا ، جنسی ہیجان پیدا کرنے والے گا نے گانا یا سننا ، عورتوں کا رقص و سرود اور فحش گوئی جیسی تمام چیزیں شامل ہیں اور ان سب میں زنا اول درجہ کی بے حیائی ہے۔
بے حیائی کی باتوں کے ارتکاب ہی کی ممانعت نہیں کی گئی بلکہ اس کے پاس پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے یعنی اس کے محرکات اور اس کی ترغیب دینے والی چیزوں سے بھی بچنا چاہے اور اس معاملہ میں ایسا محتاط ہونا چاہے کہ اس گناہ سے ظاہر ہی نہیں باطن بھی پاک رہے۔ اپنے نفس پر گرفت ایسی مضبوط رکھی جائے کہ برے خیالات پرورش نہ پا سکیں۔ اور بے حیائی کا یہی چھپا پہلو ہے جس پراس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے۔
امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں بڑی اہم بات بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں :
” انسان جب ظاہر میں گناہ سے بچتا ہے لیکن باطن میں نہیں بچتا تو اس کا یہ مطلب سے کہ اس کا یہ بچتا اللہ کی عبودیت و طاعت کی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لئے بچتا ہے کہ اسے لوگوں کی طرف سے مذمت کا ڈر ہوتا ہے اور یہ چیز باطل ہے کیونکہ جس کے نزدیک لوگوں کا مذمت کرنا اللہ کی سزا سے بڑھ کر ہو اس کے بارے میں تو کفر کا اندیشہ ہے۔
لیکن جو شخص معصیت کو ظاہری طور پر بھی ترک کرتا ہے اور باطنی طور پر بھی وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ اس نے اس گناہ کو محض اللہ کے حکم کی تعظیم، اس کے عذاب کے خوف اور اس کی عبودیت سے رغبت کی بنا پر ترک کیا ہے۔ (التفسیر الکبیر الرازی۔ ج ۱۳، ص ۲۳۳)
۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر انسانی جان محترم ہے۔ اگر کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ شریعت نے اس کا حق دیا ہو۔
۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم عقل سے کام لو تو تمہیں یہ احکام نہایت معقول نظر آئیں گے اور تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ انسانی زندگی کے لئے واقعی بہترین ہدایتیں ہیں۔
۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، نوٹ ۱۷۔
۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سور ۂ تطفیف، نوٹ ۱۔
۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک اہم اور اصولی بات ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ جس کا تعلق ناپ تول سے بھی ہے اور دوسری تمام ذمہ داریوں سے بھی۔ ناپ تول کے معاملے میں جو ذمے داری ڈالی گئی ہے، وہ یہ کہ آدمی پیمانے اور ترازو صحیح استعمال کرے اور ناپ تول میں کوئی کمی نہ کرے۔ اس کے با وجود بلا ارادہ کوئی بھول چوک ہو جائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ یہی اصول دوسری ذمہ داریوں کے بارے میں بھی ہے کہ آدمی حتی الوسع اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے باوجود اگر کوئی کمی رہ جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ بالفاظِ دیگر کسی بھی ذمے داری کی ادائیگی کے سلسلے میں آدمی کے بس میں جو کچھ ہے اسے اور اس کی نیت کو دیکھا جائے۔
یہ ایک رہنما اصول ہے جس سے آج کے حالات میں جب کہ غیر اسلامی معاشرہ اور غیر اسلامی نظام نے اسلام پر عمل کرنے والوں کے لئے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور وضعِ قوانین کی جکڑ بندیاں شرعی احکام کی تعمیل میں مانع ہو رہی ہیں، یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ اگر آدمی ایمان داری کے ساتھ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو جس حد تک واقعی مجبوریاں ہوں گی، ان پر اللہ کی طرف سے گرفت نہیں ہو گی۔ کیوں کہ ہر شخص اپنے مقدور کی حد تک عمل کے لئے مکلف ہے۔
۲۸۳۔ ۔ یعنی مونہہ سے جو بات بھی نکلے وہ حق و انصاف کی ہو۔ اگر واسطہ کسی رشتے دار سے ہے تب بھی کسی جانب داری اور رو رعایت سے کام لئے بغیر وہ بات کہنا چاہئے جو انصاف پر مبنی ہو۔
۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ سبق کوئی نیا سبق نہیں ہے۔ فطرتِ انسانی اس سبق سے پہلے ہی سے آشنا ہے اور انبیائی تعلیمات میں یہ باتیں تو بنیادی اصول کی حیثیت سے شامل رہی ہیں۔ اس لئے قرآن کے یہ احکام دئے ہو سبق ہی کی یاد دہانی ہیں۔
۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیدھے راستے سے مراد دینِ اسلام ہے جو اللی کی بندگی کی صحیح راہ ہے اور جس پر چلنے کی دعوت ہی صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں۔ اور دوسرے راستوں سے معاد اللہ کی بندگی سے انحراف کی راہیں ہیں خواہ وہ مذہب کی راہ ہو یا لا مذہبیت کی راہ۔ اور کفر کی ہو یا الحاد کی۔ اسلام کے سوا جس راہ کو بھی اختیار کیا جائے گا وہ خدا کی راہ نہ ہو گی اور اصلی شاہراہ سے ہٹنے کا لازمی نتیجہ تفرقہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی راہ پر چلنے سے انکار کر کے انسانیت کا قافلہ بالکل پراگندہ ہو گیا ہے۔ اور بے شمار فرقے وجود میں آ گئے ہیں۔ اس لئے انسانیت میں تفرقہ ڈالنے والے یہی فرقہ پرست لوگ ہیں نا کہ سچے پیروانِ اسلام کیوں کہ اصل اکسانی قافلے سے جو ابتدائے انسانیت ہی سے اسلام کی شاہراہ پر گامزن تھا، جدا ہونے اور اپنا الگ فرقہ بنانے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے نئی نئی راہیں نکالیں۔
مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۹)
۲۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقوی کی راہ یہ ہے کہ آدمی ان باتوں سے بچے جن کی ان آیات میں ممانعت کی گئی ہے اور ان باتوں پر عمل پیرا ہو جن پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اوپر جو احکام بیان ہوئے وہ کل دس ہیں اور ان کی حیثیت بنیادی احکام کی ہے جن کی پابندی اختیار کئے بغیر کوئی شخص بھی متقی نہیں بن سکتا۔
بنی اسرائیل کو بھی احکام عشرہ (Ten Commandments) دئے گئے تھے جو تورات میں اس طرح بیان ہوئے ہیں :
"میرے حضور تو غیر معبودوں کونہ ماننا ،تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ ۔ ۔ تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا ،۔ ۔ ۔ ۔ یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔ ۔ ۔ تو خون نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تو زنا نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تو چوری نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ ”
ان میں کی اکثر باتیں تو دونوں میں مشترک ہیں لیکن قرآن کے احکام زیادہ جامع و مانع ہیں۔
۲۸۷۔ یعنی انسان کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا اس کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ وحی الہی ہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ ہم ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ملت ابراہیم کے ذریعہ ہم نے انسان کی رہنمائی کی تھی اور پھر موسی کو تو ایک مفصل کتاب عطا کی تھی جس میں وضاحت کے ساتھ دین کی تمام باتیں بیان کر دی گئی تھیں۔ اس لئے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں انسان کی رہنمائی کا کوئی سامان اللہ کی طرف سے نہیں ہوا تھا یا نہیں ہوا ہے۔
۲۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا اس کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ وحی الہی ہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ ہم ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ملت ابراہیم کے ذریعہ ہم نے انسان کی رہنمائی کی تھی اور پھر موسی کو تو ایک مفصل کتاب عطا کی تھی جس میں وضاحت کے ساتھ دین کی تمام باتیں بیان کر دی گئی تھیں۔ اس لئے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں انسان کی رہنمائی کا کوئی سامان اللہ کی طرف سے نہیں ہوا تھا یا نہیں ہوا ہے۔
۲۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دین و شریعت سے متعلق تمام باتیں واضح طور سے پیش کی گئی تھیں۔
۲۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۱۶۳ میں گزر چکی۔
۲۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو گروہ سے مرا د یہود و نصاریٰ ہیں۔ نزول قرآن کے وقت یہی دو گروہ ایسے تھے جو کتاب الہی کے حامل تھے اس لئے ان ہی کو اہل کتاب کہا گیا۔ رہی دنیا کی دوسری قومیں تو ان کے پاس مذہبی کتابیں رہیں ہوں یا نہ رہی ہوں کتاب الہی کا کوئی جزء ان کے پاس موجود نہیں تھا اس لئے ان میں سے کسی کو بھی اہل کتا ب نہیں قرار دیا گیا مثال مجوس جن کے پاس مذہبی کتاب تھی اور عرب جو اپنے مذہب کو ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن ان میں سے کسی کا شمار بھی اہل کتاب میں نہیں کیا گیا۔
۲۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے نزول سے اس عذر کا خاتمہ ہو گیا ہے اور صرف عربوں کے عذر ہی کا خاتمہ نہیں ہو گیا ہے بلکہ دوسری قوموں کو بھی عذر پیش کرنے کا موقع باقی نہیں رہا کیونکہ اس کتاب کو اللہ تعالی نے ایسی شہرت بخشی اور اس کے پیغام کو اقوام عالم تک پہنچانے کا ایسا انتظام کیا کہ کوئی قوم بھی اس سے ناآشنا نہیں ہے اور ایسے وسائل پیدا کر دئے ہیں کہ جس قوم کے لوگ بھی اس کتاب کو سمجھنا چائیں، سمجھ سکتے ہیں۔
۲۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ایسی نشانیاں ہیں جو غیبی حقیقتوں سے پردہ ہٹا دیں اور آدمی سرکی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کرنے لگے۔
۲۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس دن خدا کی وہ مخصوص نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی جو غیب کی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والی ہوں گی تو آزمائش کا موقع باقی نہیں رہے گا اس لئے نہ کسی کافر کا ایمان لانا معتبر ہو گا اور نہ کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لئے سودمند ثابت ہو سکے گا جو ایمان کا مدعی تو تھا لیکن اس کی عملی زندگی میں ایمان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا۔
قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے کہ جن قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا وہ عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ایمان لائی تھیں لیکن اس وقت ان کا ایمان لانا بے سود تھا۔ ”
حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کے حوالہ سے متنبہ فرمایا ہے کہ قرب قیامت میں سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور ایسی کھلی اور زبردست نشانی کو دیکھ کر کسی کا ایمان لانا اس کے لئے سود مند نہ ہو گا۔
چنانچہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"قیامت کھڑی نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت کسی کا ایمان لانا اس کے لئے مفید نہ ہو گا۔ ”
۲۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز سے مشرکین کے ساتھ جو بحث چلی آ رہی تھی اس کو یہاں چند اصولی باتیں بیان فرما کر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ اصولی باتیں دین کی شاہراہ کو نمایاں کرتی ہیں اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ دین کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔
۲۹۵۔ ۔ یعنی اللہ کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے جو دین نازل ہوا تھا وہ خالصتہً توحید کی راہ تھی لیکن لوگوں نے اپنے اس دین میں الگ الگ اور نئی نئی راہیں نکالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فرقوں میں بٹ گئے۔ یہودیت ہو، نصرانیت ہو،عربوں کا مشرکانہ مذہب ہو یا کسی ملک اور کسی قوم کا کوئی اور مذہب سب کی حقیقت یہ ہے کہ اہل مذاہب نے دین خداوندی کی شاہراہ سے ہٹ کر الگ الگ پگڈنڈیاں نکالیں چنانچہ عبادات کی جگہ بدعات نے اور خدا کی شریعت کی جگہ خود ساختہ شریعت نے لی یہاں تک کہ ایک خدا کی جگہ کئی خدا بھی ایجاد کر لئے گئے۔ اب مختلف مذاہب کے نام سے جو فرقہ بندیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے کسی کی بھی راہ حق کی راہ نہیں ہے اس لئے اللہ کا رسول ان تمام راہوں سے بالکل بے تعلق ہے اور ہراس شخص کو جو راہ حق پر چلنا چاہتا ہو ان تمام مذاہب اور ان تمام فرقہ بندیوں سے بے تعلق ہونا چاہئے۔
۲۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کا کام راہ حق واضح کرنا ہے اس کے بعد بھی اگر اہل مذاہب اپنی فرقہ پرستی سے باز نہیں آتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے وہ قیامت کے دن اپنا انجام دیکھ لیں گے۔
۲۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی نیکی اور بدی کا بدلہ ملے گا اور اس بدلہ کے لئے اصول یہ ہو گا کہ نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا لیکن بدی کا بدلہ بدی ہی کے بقدر۔ اور مقصود اس سے یہ واضح کرنا ہے کہ جزا و سزا کے معاملہ میں نا انصافی تو کسی کے ساتھ بھی نہیں ہو گی البتہ نیکی کا نذرانہ لے کہہ آنے والوں کی اللہ تعالی اس طرح قدر افزائی فرمائے گا کہ انہیں ہر نیکی کا کم از کم دس گنا اجر ملے گا۔
واضح رہے کہ نیکی وہی معتبر ہو گی جو اللہ کو واحد الہ مان کراس کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے کی گئی ہو۔
۲۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو دین حضرت محمدؐ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا گیا ہے وہ صحیح معنی میں اللہ کا دین ہے۔ یہ دین ہر قسم کی کجی سے پاک ہے۔ یہود،نصاریٰ اور مشرکین نے اللہ کے دین کا جو حلیہ بگاڑ دیا تھا اس سے پاک کر کے اس کو اپنی اصل شکل میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اب اس کی شکل دیکھ کر ہی پہچانا جا سکتا ہے کہ یہ ہے سچا دین۔
۲۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مشرکین عرب اپنے مذہب کو ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ابراہیم ہرگز مشرک نہیں تھے بلکہ حنیف یعنی موحد اور راستی کے ساتھ اللہ کے دین پر چلنے والے تھے۔ اور حضرت محمدؓ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین بھی وہی دین توحید ہے جو ابراہیم علیہ اسلام صرف عربوں ہی کے پیشوا نہیں تھے بلکہ دنیا کے پیشوا تھے۔ اللہ تعالی نے ان ک لوگوں کا امام بنایا تھا اس لئے ان کا دین ان کے پیروؤں کے ذریعہ مختلف ملکوں اور مختلف قوموں تک پہنچا تھا یہ اور بات ہے کہ ان قوموں نے بعد میں بدعتیں ایجاد کر کے دین ابراہیم کو بگاڑا اور اس کا ایک نیا نام رکھا۔
۳۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ یہ دین دو رنگی اور پچرنگی کا قائل نہیں بلکہ یک رنگی کا قائل ہے۔ خالص خدا پرستی کا رنگ جو پوری زندگی پر چڑھا ہوا ہو۔ پرستش جو نہایت اعلی جذبہ ہے اللہ کے لئے خاص ہو، زندگی اللہ کے احکام کے مطابق بسر کی جائے اور اسی کو مقصود بنا کر بسر کی جائے اور جان کی بازی لگا دی جائے تو اسی کی راہ میں اور اسی کی خاطر۔ دین کی پیروی رسمی طور پر نہیں بلکہ اسی مقصد اور اسی روح کے ساتھ کی جائے۔
۳۰۱۔ ۔ یعنی کوئی اس کے حکم کو مانے یا نہ مانے اور اس کے دین کو قبول کرے یا نہ کرے میں نے سب سے پہلے اس کے حکم کو مان لیا ہے۔ اور اس کے دین۔ اسلام۔ کو سب سے پہلے قبول کرنے والا (مسلم) میں ہوں۔
۳۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ کا بوجھ۔
۳۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلیفہ یعنی صاحب اختیار۔ انسان کو زمین پر ایک با اختیار مخلوق بنایا گیا ہے یہ اختیار ات اللہ کی طرف سے امانت ہیں اور وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ ان اختیارات کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کرے۔
مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۔
۳۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی صلاحیت ،قوت کار کردگی اور وسائل کے لحاظ سے انسانوں اور انسانوں کے درمیان درجات کا فرق ہے اور یہ فرق اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ انہیں آزمایا جائے کہ کون خدا کا شکر گزار بندہ بنتا ہے اور کون ناشکرا،کون صبر کا دامن تھام لیتا ہے اور کون چھوڑ دیتا ہے ،کون انصاف کرتا ہے اور کون ظلم مختصر یہ کہ درجات میں تفاوت کے بغیر نہ انسانیت کا جوہر کھل سکتا تھا اور نہ اس کا کھوٹ ظاہر ہو سکتا تھا۔
٭٭٭
ای بک:اعجاز عبید
ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود