فہرست مضامین
دعوت القرآن
حصہ ۱۴: قٓ (۵۰) تا حدید (۵۷)
شمس پیر زادہ
(۵۰) سورۂ ق
(۴۵ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کا آغاز حرف "ق” سے ہوا ہے۔ اور یہی اس سورہ کا نام ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
زندگی بعد موت، حشر اور جنت و جہنم کا یقین پیدا کرنا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۵ میں قرآن کی عظمت کو پیش کرتے ہوئے زندگی بعد موت کے بارے میں کافروں کے شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے۔
آیت ۶ تا ۱۱ میں آسمان و زمین کی ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اللہ کی قدرت، اس کی ربوبیت اور اس کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور جن پر غور کرنے سے زندگی بعد موت کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
آیت ۱۲ تا ۱۵ میں ان قوموں کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جنہوں نے رسولو ں کو اسی لیے جھٹلایا تھا کہ وہ انہیں زندگی بعد موت سے خبردار کر رہے تھے۔
آیت ۱۶ تا ۳۵ میں اعمال کے ریکارڈ ،حشر، جہنم اور جنت کی ایسی تصویر پیش کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے حشر برپا ہو گیا ہے اور یہ سب چیزیں سامنے موجود ہیں۔
آیت ۳۶ اور ۳۷ میں تذکیر ہے۔
آیت ۳۸ تا ۴۵ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موقف پر جمے رہنے ، اللہ کی تسبیح کرنے اور قرآن کے ذریعہ تذکیر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اہمیت
یہ سورہ گو چھوٹی چھوٹی آیتوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں دیگر اہم اور بنیادی باتوں کے علاوہ حشر و نشر کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے کہ گویا حشر برپا ہو گیا ہے اور جنت اور دوزخ سامنے موجود ہیں۔ اس کی اس خصوصیت کی بنا پر عید اور جمعہ کی نمازوں میں اس کی قرأت زیادہ موزوں خیال کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز میں اور جمعہ کے خطبہ میں اسے پڑھا کرتے تھے(مسلم کتاب صلاۃ العیدین) نیز فجر کی نماز میں بھی اس کا پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے۔(مسلم کتاب الصلوٰۃ)
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاف۔ ۱* قسم ہے قرآنِ مجید کی۔ ۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ایک خبردار کرنے والا آیا چنانچہ کافروں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟ یہ لوٹایا جانا تو(عقل سے) بعید ہے۔ ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ گھٹاتی ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو تمام باتوں کو محفوظ رکھتی ہے۔ ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان لوگوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آ گیا۔ اس لیے وہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ کس طرح ہم نے اس کو بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ ۷*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ ڈال دئے اور اس میں ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگا دیں۔ ۸*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر اس بندہ کی بصیرت اور یاد دہانی کے لیے جو(اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والا ہو۔ ۹*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا ۱۰* اور اس سے باغ اگائے اور فصل کے غلے بھی جو کاٹی جاتی ہے۔ ۱۱*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کھجور کے بلند درخت بھی جن کے شگوفے تہ بہ تہ ہوتے ہیں۔ ۱۲*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندوں کے رزق کے لیے۔ اور اس(پانی) سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح مرنے کے بعد زمین سے نکلنا ہو گا۔ ۱۳*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے قومِ نوح، اصحاب الرس۱۴* اور ثمود جھٹلا چکے ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائی بھی۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اَیکہ والے۔ ۱۶* اور تُبع ۱۷* کی قوم بھی۔ ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میری وعید ان پر واقع ہو کر رہی۔ ۱۸*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ؟(نہیں) بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں گزرنے والے وسوسوں کو ہم جانتے ہیں۔ ۲۰*اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ ۲۱*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دو اخذ کرنے والے دائیں اور بائیں بیٹھے اخذ (ریکارڈ) کر رہے ہوتے ہیں۔ ۲۲*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی لفظ بھی زبان سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہوتا ہے۔ ۲۳*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی۔ یہ ہے وہ چیز جس سے تو کتراتا تھا۔ ۲۴*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صور پھونکا گیا۔ یہ ہے وہ دن جس سے ڈرایا گیا تھا۔ ۲۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر شخص اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہ ہے۔ ۲۶*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں رہا۔ ہم نے وہ پردہ ہٹادیا جو تجھ پر پڑا تھا۔ اس لیے آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔ ۲۷*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھی نے کہا یہ جو میرے پاس تھا حاضر ہے۔ ۲۸*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(حکم ہوا) ڈال دو جہنم میں ہر کافر دشمنِ حق کو۔ ۲۹*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر سے روکنے والے ، حد سے تجاوز کرنے والے ، شک میں ڈالنے والے کو۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرے معبود ٹھہرائے تھے۔ ۳۰* تو اس کو سخت عذاب میں ڈال دو۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھی نے کہا اے ہمارے رب میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود دور کی گمراہی میں پڑ گیا تھا۔ ۳۱*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشاد ہوا میرے پاس جھگڑا نہ کرو۔ میں نے تمہیں پہلے ہی اپنے عذاب سے خبردار کر دیا تھا۔ ۳۲*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ ۳۳* اور میں بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔ ۳۴*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جبکہ ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کچھ اور بھی ہے ؟۳۵*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ور جنت متقیوں کے قریب لائی جائے گی ، کچھ بھی دور نہ ہو گی۔ ۳۶*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہر اس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والا ۳۷* اور حفاظت کرنے والا تھا۔ ۳۸*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو رحمن سے بے دیکھے ڈرتا رہا۔ ۳۹* اور جو انابت (رجوع) والے دل کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔ ۴۰*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داخل ہو جاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ ۴۱* یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ ۴۲*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔ ۴۳*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں۔ ۴۴* انہوں نے دنیا کے ملکوں میں نفوذ کیا تھا تو کیا انہیں کہیں جائے پناہ ملی۔ ۴۵*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دلِ رکھتا ہو یا توجہ کے ساتھ بات سے۔ ۴۶*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ ۴۷* اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہیں ہوئی۔ ۴۸*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو ان کی باتوں پر اور تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ۔ سورج کے طلوع ہونے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ ۴۹*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کرو۔ ۵۰* اور سجدوں(نمازوں ) کے بعد بھی۔ ۵۱*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنو جس دن پکارنے والا قریب کی جگہ ہی سے پکارے گا۔ ۵۲*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اس ہولناک آواز کو حق کے ساتھ سنیں گے۔ ۵۳* وہ نکل کھڑے ہونے کا دن ہو گا۔ ۵۴*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن زمین ان کے اوپر سے پھٹ جائے گی اور وہ تیزی سے نکل رہے ہوں گے۔ ۵۵* یہ حشر ہمارے لیے نہایت آسان ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اور تم (اے نبیؐ!) ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔ ۵۶* تو اس قرآن کے ذریعہ سے تذکیر کرو ان لوگوں کو جو میری وعید (عذاب کی آگاہی) سے ڈریں۔ ۵۷*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۔
اس سورہ میں ” ق” کا اشارہ قرآن کی طرف ہے جس کی عظمت کا ذکر پہلی آیت میں ہوا ہے اور جس کے ذریعہ تذکیر کی ہدایت آخری آیت میں ہوئی ہے۔ اس حرف سے سورۂ کا آغاز کرنے میں صوتی لحاظ سے اعجاز کا پہلو بھی ہے۔ یہ حرف اس سورہ کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اس کا تلفظ چونکا دیتا ہے کہ نہایت اہم بات ارشاد ہو رہی ہے اس لیے اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاؤ۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی صفت” مجید” بیان ہوئی ہے جس کے معنی ہیں عظمت و رفعت والا(Glorious) اور قسم جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے عربی میں شہادت کے معنی میں آتی ہے۔ یہاں قرآن کے اس وصف کو کہ وہ ایک عظیم اور نہایت بلند پایہ کلام ہے رسالت کی شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ بلند پایہ کلام اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جو شخصیت اس کو پیش کر رہی ہے یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ نے اس پر نازل کیا ہے اور اسے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اس بات سے خبردار کرے کہ موت کے بعد انہیں دوبارہ اٹھایا جایے گا اور جزائے عمل کے لیے اللہ کے حضور ان کی پیشی ہو گی۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بجائے اس کے کہ یہ لوگ قرآن کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اس کے کلام الٰہی ہونے اور اس کو پیش کرنے والے کے رسول ہونے پر ایمان لاتے انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی جیسا ایک بشر رسول کیسے ہوا۔ رسول تو کوئی فوق البشر ہی ہوسکتا ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید تعجب انہیں اس بات پر ہو رہا تھا کہ جس بات سے قرآن اور اس کا پیغمبر انہیں خبردار کر رہا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔ مگر وہ سمجھتے تھے کہ یہ دوبارہ زندہ ہونا کس طرح ممکن ہے جبکہ مرنے کے بعد آدمی سڑگل کر مٹی میں مل جاتا ہے اور جب اس کا جسم باقی نہیں رہتا تو اسے کس طرح قیامت کے دن اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ وہ کہتے تھے یہ بات بعید از عقل ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے جو اجزاء مٹی میں مل جاتے ہیں ان کا علم اللہ کو بخوبی ہے اور اللہ نے ذرہ ذرہ کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کا اہتمام بھی کر رکھا ہے اس لیے اللہ کا حکم ہوتے ہی ہر شخص اپنے سابقہ جسم کے ساتھ زمین سے نکل پڑے گا۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے کے بعد کیا کچھ پیش آنا ہے اس کے بارے میں حقیقت وہ ہے جو قرآن پیش کر رہا ہے مگر ان لوگوں نے جب قرآن کی پیش کر دہ حقیقت کو جھٹلایا تو دوسری زندگی کے بارے میں شک اور تردد میں پڑ گئے اور متضاد اور الجھی ہوئی باتیں کرنے لگے۔
انسان جب امر حق کا انکار کرتا ہے تو اس کے پاس یقین کے لیے کوئی بنیاد نہیں رہ جاتی پھر وہ متضاد اور الجھی ہوئی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کی واضح مثال مشرکین ہند کا عقیدۂ تناسخ ہے جو متضاد باتوں کا مجموعہ ہے اور انسان کو سخت الجھن میں ڈال دیتا ہے بخلاف اس کے قرآن زندگی بعد موت کے بارے میں جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے وہ واضح حقیقتیں ہیں جو دل کو اپیل کرتی ہیں اور یقین پیدا کرتی ہیں کہ یہ لازماً وقوع میں آئیں گی۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ منکرینِ قیامت اس پہلو سے آسمان کا مشاہدہ کرتے کہ انہیں اس کے خالق کی معرفت حاصل کرنا ہے تو انہیں اس کی صناعی میں قادرِ مطلق کا ہاتھ دکھائی دیتا اور ان پر اس کا جلال بھی ظاہر ہوتا اور جمال بھی اور جب انہیں خالق کائنات کی یہ معرفت حاصل ہوتی تو پھر انسان کو دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ان کو عجیب معلوم نہ ہوتی اور وہ اس کو نا ممکن خیال نہ کرتے کیونکہ جس ہستی کے لیے اتنے وسیع آسمان کو بنانا، اس کو بے شمار ستاروں سے آراستہ کرنا اور اسے ایسا مضبوط بنا دینا کہ ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود اس میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا کمالِ قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے اور موجودہ سائنس نے تو آسمانی دنیا کے عجائبات کوبڑی تفصیل سے پیش کر دیا ہے لیکن انسان اس سے صرف اپنی معلومات میں اضافہ کر لیتا ہے اور اس بات کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیتا ہے کہ یہ کس ہستی کی کارفرمائی ہے اور وہ کیسی زبردست قدرت والا اور کیسی عظمت والا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح آسمان میں اللہ کی قدرت کے عجائبات دیکھے جا سکتے ہیں اسی طرح زمین میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ زمین کی سطح کو اتنا وسیع کر دینا کہ اس پر اربوں انسان آباد ہوسکیں، اس میں بڑے بڑے پہاڑ گاڑ دینا جو زمین کے توازن کو برقرار رکھیں اور جن سے گوناگوں فوائد انسان کو حاصل ہوں اور زمین سے ایسی نباتات اگانا جن کا منظر دلوں کو موہ لینے والا ہو کمال قدرت رکھنے والی اور جلال و جمال کی صفات سے متصف ہستی ہی کی کاریگری ہوسکتی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین کے یہ عجائبات انسان کی آنکھیں کھول دینے والی ہیں اور ان پر غور کرنے سے نصیحت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے بشرطیکہ انسان دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی بارش جس سے سیراب ہو کر زمین زر اُگلنے لگتی ہے اور جو انسان کو بہ کثرت فائدے پہنچاتی ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش ہی سے فصلیں اُگتی ہیں اور پھر ان کو کاٹ کر اناج کے ذخیرے حاصل کئے جاتے ہیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھجور کے شگوفے کی پتیاں غلاف کے اندر تہ بہ تہ ہوتی ہیں جو صناعی اور آرٹ کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں اور یہ تو ایک نمونہ ہے جس کا ذکر یہاں ہوا ہے ورنہ طرح طرح کے پودوں اور درختوں پر لگنے والے شگوفوں، پھولوں اور پھلوں کی بناوٹ پر آدمی غور کرے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس اہتمام کے ساتھ یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں اور ان کی ترکیب میں کس طرح لطافت اور کمالِ صناعت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس طرح جب آدمی ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو اسے ان چیزوں میں اللہ کی قدرت کا کمال بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا جلال و جمال بھی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ جہاں اللہ کے بندوں کے لیے رزق کا ذریعہ بنتا ہے وہاں وہ اللہ کی اس نشانی کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ جو زمین مردہ تھی وہ اللہ کے کرشمۂ قدرت سے زندہ ہو گئی اور اس کے کرشمۂ قدرت سے جس طرح زمین زندہ ہوسکتی ہے اسی طرح مردے بھی زندہ ہو کر زمین سے باہر آ سکتے ہیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فرقان نوٹ ۵۱
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم اور عمورہ کی بستیوں کی طرف جو بحر مردار کے کنارے واقع تھیں رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ چونکہ اس قوم میں پیدا نہیں ہوئے تھے اس لیے انہیں اخوان لوط(لوط کے بھائی) کہا گیا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۷۷
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ دُخان نوٹ ۳۹
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں ان قوموں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا تاکہ پیغمبر قرآن کو جھٹلانے والے اپنا انجام سوچ لیں۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ انسان کو پہلی بار پیدا کر کے تھک نہیں گیا ہے کہ اس کے لیے دوسری بار پیدا کرنا مشکل ہو۔ پہلی تخلیق کو دیکھتے ہوئے دوسری تخلیق کے بارے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وسوسہ کے معنی صوتِ خفی (آہستہ آواز) کے ہیں اور مراد وہ خیالات ہیں جو انسان کے نفس میں پیدا ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ انسان کے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ انسان سے دور نہیں بلکہ ہر لحاظ سے قریب ہے اور اتنا قریب کہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ۔ اللہ کی قدرت اور اس کا علم پوری طرح اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور جب انسان پر اس کی گرفت اس قدر مضبوط ہے تو وہ اس سے ڈرتا کیوں نہیں اور یہ خیال اس کے ذہن میں کہاں سے سما جاتا کہ وہ اس کے حضور جواب دہ نہیں ہے۔
آیت کا اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ جب اللہ انسان کے دل میں گزرنے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو قیامت کے دن ہر ہر شخص کے اعمال اور اس کے دل کے اسرار کو سامنے لانا اور ان کا حساب چکانا کیا مشکل ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو ہر شخص کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک اس کی دائیں جانب بیٹھتا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ یہ دونوں فرشتے اس شخص کی ہر بات کو اخذ کر لیتے ہیں۔ اخذ کرنے سے مراد اس کو ریکارڈ کرنا اور محفوظ کر لینا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب آدمی اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے تو جو فرشتہ اس کی نگرانی پر مامور ہوتا ہے وہ نہایت مستعدی سے اس کو ریکارڈ کر لیتا ہے۔ کوئی بات بھی ریکارڈ ہونے سے رہ نہیں جاتی۔ ان دو فرشتوں کے درمیان تقسیم کار کس طرح ہے اور یہ انسان کی دہنی اور بائیں جانب کس طرح بیٹھے رہتے ہیں اس کی وضاحت نہ قرآن میں ہوئی ہے اور نہ صحیح حدیث میں اس لیے قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایک لفظ نوٹ کر لینا تو موجودہ دور کے انسان کے لیے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں رہی جبکہ ٹیپ ریکارڈ جیسی مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں بلکہ یہ ایجادیں قرآن کی صداقت کا تازہ ثبوت ہیں۔
اس آیت میں اقوال کو ثبت کر لینے کی بات ارشاد ہوئی ہے اور سورۂ انفطار میں افعال کو :
وَ اِنَّ عَلَے ْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کاَتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ۔(انفطار: ۱تا۱۲) ” تم پر نگراں مقرر ہیں۔ گرامی قدرت کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔ ”
اور سورۂ زلزال میں ارشاد ہوا ہے :۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّاً یَّرَہٗ۔(زلزال:۷،۸) ” تو جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔ ”
قرآن کے ان بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر شخص کے ہر قول، عمل اور اس کی تمام حرکات کو محفوظ(ریکارڈ) کیا جا رہا ہے اس طور سے کہ قیامت کے دن وہ اپنے ہر ہر عمل کو خواہ کوئی نیکی ہو یا بدی اور خواہ وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ گویا دنیا میں ہر شخص کی پوری زندگی فلمائی جا رہی تھی اور قیامت کے دن وہ اپنی اس بولتی فلم کو دیکھ لے گا۔ اور یہ فلم انسان کی ایجاد کر دہ فلم کے مقابلہ میں ایسی معیاری ہو گی کہ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
یہ حقیقت اگر آدمی کے پیش نظر رہے تو اس کی زندگی بڑی محتاط ہو جائے۔ وہ کوئی بات زبان سے نکالنے سے پہلے سوچے گا کہ اس پر گرفت تو نہیں ہو گی اور کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کو یہ فکر ہو گی کہ اس کا شمار نیکی میں ہو گا یا بدی میں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کے وقت انسان پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مگر اس کی روح پر حق آشکارا ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کافر تھا تو اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ حق ہے جس سے تو دنیا میں کتراتا رہا گویا موت قیامت کی تمہید ہے۔ موت آتے ہی آدمی فرشتوں کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اس عالم کو بھی جو اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کی تصویر ہے کہ دوسرا صور پھونکتے ہی تمام مرے ہوئے انسان زندہ ہو کر قبروں سے نکل پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی دن ہے جس سے تمہیں دنیا میں ڈرایا گیا تھا۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے۔ ایک اس کو میدانِ حشر کی طرف لے جا رہا ہو گا اور دوسرا وہ جو اس کی عملی زندگی کے بارے میں گواہی دینے والا ہو گا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات قیامت کے دن ہر اس شخص سے کہی جائے گی جو آخرت سے غافل تھا۔ اس غفلت کے نتیجہ میں اس کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا جس کو قیامت کے دن ہٹادیا جائے گا اس لیے اس کی نگاہیں قیامت کے احوال دیکھنے کے لیے تیز ہوں گی۔
معلوم ہوا کہ جو لوگ قیامت کا احساس رکھتی ہیں ان کی نگاہیں دنیا میں بھی تیز ہوتی ہیں اور وہ قیامت کے احوال کا قرآن کی روشنی میں مشاہدہ کر لیتے ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھی (قرین) سے مراد وہ فرشتہ ہے جو اس شخص کے اعمال کی نگرانی کے لیے مقرر تھا۔ وہ اس کے اعمال کا ریکارڈ کرتے ہوئے کہے گا کہ یہ ریکارڈ بالکل تیار ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکم ان دو فرشتوں کو ہو گا جو عدالتِ خداوندی میں مجرموں کو حاضر کریں گے۔ یعنی سائق (ہانکنے والا فرشتہ) اور شہید (گواہی دینے والا فرشتہ)۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کافر کی پانچ خصلتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حق کا مخالف اس کا دشمن ہوتا ہے، وہ دوسروں کو بھی قبول حق سے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے، وہ اخلاقی اور شرعی حدود کو توڑتا ہے، اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ جو شرک اور ناقابل معافی گناہ ہے۔ یہ کافروں کی چند خصلتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے مقامات پر ان کی اور خصلتیں بیان ہوئی ہیں۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں ” قرینُہٗ ” (اس کے ساتھی) سے مراد شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کا ساتھی بنا رہا۔
انداز کلام سے واضح ہے کہ اس شخص کو جب سخت عذاب میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو وہ اپنی سرکشی کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائے گا اور شیطان اس کی تردید کرتے ہوئے کہے گا کہ میں نے اس پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی بلکہ یہ خود پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ لہٰذا قصور وار اور مجرم یہ خود ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب اس بحث سے کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے تمہیں دنیا میں اپنے رسولوں کے ذریعہ خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم نے کفر کیا تو اس کی سخت سزا تمہیں قیامت کے دن بھگتنا ہو گی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا فیصلہ اٹل ہے اور اس فرمان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی کہ میں شیطان اور اس کے پیروؤں سے جہنم کو بھر دوں گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کی یہ ابدی سزا جو کافروں کو دی جائے گی ظالمانہ نہیں ہو گی بلکہ عدل و حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہو گی۔ جو لوگ خدا پر اعتراض کرنے کی جسارت کرتے ہیں وہ قرآن میں ان سخت سزاؤں کا ذکر سن کر اللہ کو نعوذ باللہ ظالم خیال کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک انصاف کی بات یہ ہے کہ اللہ اپنے وفادار بندوں اور اپنے باغیوں میں کوئی فرق نہ کرے۔ باغیوں کو سزا دینے کے بجائے اپنے انعام سے نوازے یا پھر سرے سے آخر برپا ہی نہ کرے۔ مگر ان کی یہ دونوں باتیں صریحاً غلط اور خلاف عدل ہیں۔ دنیا کی حکومتیں اپنے باغیوں اور سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کی سزا بھی دیتی ہے اور عمر قید کی بھی اور اس کو عدل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے پھر اللہ کی طرف سے اس کے سرکش بندوں کو دی جانے والی ابدی سزا کو وہ کس طرح ظالمانہ قرار دیتے ہیں ؟ رہی یہ بات کہ اللہ سرے سے آخرت برپا ہی نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا اور اس میں انسان کا وجود سب عبث ہیں۔ انسان کو اگر مر کر بالکل فنا ہی ہو جانا ہے تو دنیا کی چند روزہ زندگی کا حاصل کچھ نہیں۔ وہ بالکل بے فائدہ اور بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ظلم کسی کے حق کو چھین لینے یا کسی نا جائز غرض کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مگر اللہ کے بارے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بے نیاز ہے اور اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے پھر وہ اپنے بندوں پر کیوں ظلم کرنے لگا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ نہ خیال کرو کہ کافروں اور مجرموں کی اتنی بڑی تعداد جو معلوم نہیں کتنے بلین(Billon) انسانوں اور جنوں پر مشتمل ہو گی جہنم میں کس طرح سما سکے گی۔ اس کی وسعت کا حال یہ ہو گا کہ انس و جن کی بڑی تعداد سے اس کو بھر دینے کے باوجود وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہوں تو ان کے لیے گنجائش ہوسکتی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت میں جانے کے لیے متقیوں کو کوئی فاصلہ طے کرنا نہیں پڑے گا جوں ہی فیصلہ ہو گا وہ جنت میں پہنچ جائیں گے۔ زماں اور مکاں کا کوئی فاصلہ ان کے اور جنت کے درمیان حائل نہ ہو گا۔
قرآن کی آیتوں سے یہ بات تو واضح ہے کہ حشر زمین ہی پر ہو گا۔ رہا متقیوں کے لیے جنت کا قریب ہونا تو اس کی نوعیت اللہ ہی کو معلوم ہے۔ آخرت کے زمان و مکان کو ہم دنیا کے زمان و مکان پر قیاس نہیں کرسکتے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوّاب یعنی بار بار توبہ کرنے والا اللہ کی طرف پلٹنے والا اور ہر معاملہ میں اور ہر موقع پر اسی کی طرف رجوع کرنے والا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد حدود الٰہی کی حفاظت کرنا ہے۔ یعنی وہ شرعی حدود کا پابند تھا۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رحمن کو اگرچہ اس نے نہیں دیکھا تھا لیکن اس کی عظمت کے تصور سے وہ لرزاں رہتا تھا۔ واضح رہے کہ رحمن کی صفت اس کی عظمت پر بھی دلالت کرتی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۶۸۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” قلب منیب” سے مراد اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا دل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا دل لے کر آیا جو اللہ کے معاملہ میں ہمیشہ بیدار رہا اور اس کی طرف متوجہ رہا۔ اس کا سر ہی نہیں بلکہ اس کا دل بھی اللہ کے آگے جھکا ہوا تھا اور وہ دل کی انابت کے ساتھ اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا۔
ان آیتوں میں متقیوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن سے تقویٰ کا مفہوم بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر خطرہ اور ہر آفت سے محفوظ۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج کی کامیابی ہمیشہ کے لیے اور آج کا انعام ہمیشہ کے لیے انعام ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جو چاہیں گے وہ تو انہیں جنت میں ملے گا ہی اس کے علاوہ ہم انہیں اپنی طرف سے مزید انعامات سے نوازیں گے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ روم نوٹ۱۶۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ گزری ہوئی طاقتور قومیں مختلف ممالک میں اپنا اثر و نفوذ رکھتی تھیں لیکن جب ان پر عذاب آیا تو انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہ مل سکی۔ پھر یہ لوگ کس گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس کا دل زندہ اور بیدار ہو۔ ایسا شخص خود ہی ان قوموں کے عبرت ناک انجام سے سبق لے گا لیکن جس کا دل اس حد تک بیدار نہ ہو تو کم از کم وہ توجہ سے ان واقعات کو سنے۔ اس صورت میں بھی وہ نصیحت حاصل کر لے گا لیکن جو شخص تاریخ کے ان عبرت آموز واقعات پر نہ خود غور کرتا ہو اور نہ ناصح کی نصیحت پر کان دھرتا ہو وہ برے انجام سے کس طرح بچ سکتاہے ؟
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۲۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تردید ہے یہود کے اس خیال کی کہ اللہ نے ساتویں دن جو ان کے نزدیک سبت کا دن ہے آرام کیا۔
بائبل میں ہے :
” کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان و زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اس لیے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔ "(خروج ۲۰:۱۱)
اللہ کے بارے میں یہ تصور ہی باطل ہے۔ اس کو نہ تکان لاحق ہوتی ہے اور نہ اس کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ زبردست قوت والا ہے۔ اگر اس کو انسان اپنے پر قیاس کرتا ہے تو اس کی کوتاہ نظری ہی نہیں حماقت بھی ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ جو باتیں تم کو جھٹلانے کے لیے کہہ رہے ہیں ان سے کبیدہ خاطر نہ ہو جاؤ بلکہ صبر و ضبط سے کام لو اور اپنے رب کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہو کہ یہ سکونِ قلب کا سامان ہے۔
حمد کے ساتھ تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی پاکی اس طرح بیان کی جائے کہ اس کے پہلو بہ پہلو اس کے خوبیوں اور کمالات سے متصف اور اس کے لائق ستائش ہونے کا ذکر بھی ہو۔
سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تسبیح کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے تو اس سے مراد نماز فجر ہے اور غروب سے پہلے کی تسبیح سے مراد نمازِ عصر ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد عشاء کی نماز ہے۔
فجر، عصر اور عشاء کی نمازیں ادا کرنے کا حکم آغاز میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پانچ وقت کی نمازوں کا حکم دیا گیا ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۰۸
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سجود سے مراد جیسا کہ موقع کلام سے واضح ہے نمازیں ہیں۔ یہ اس بات کی ترغیب ہے کہ نمازوں کے بعد بھی اللہ کی تسبیح کی جائے کیونکہ تسبیح ذکر بھی ہے عبادت بھی ہے اور روح کی غذا بھی نیز بہت بڑے اجر کا موجب بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت اور فضیلت اس طرح بیان فرمائی ہے :
لَاَنْ اَقُوْلَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ الِلّٰہِ وَلاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتُ عًلَیْہِ الشِّمْسُ۔(مسلم کتاب الذکر) ” سبحان والحمد اللہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہنا مجھے اس دنیا سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ ”
نیز فرمایا:
اَلاَ اُخْبِرُکَ بِاَحَبِّ الْکَلاَمِ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اَحَبَّ الْکَلاَمِ اِلیَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ (مسلم کتاب الذکر) ” کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام کیا ہے ؟ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام سبحان اللہ و بحمدہ ہے۔ ”
اور حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ ہر نماز کے بعد حمد و تسبیح کے کلمات کہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
تُسَبِّحُوْنَ وَتُکَبِّرُوْنَ وَتُحَمِّدُوْنَ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلوٰۃٍ ثَلاَثاً وَّثَلاَ تِیْنَ مَرَّۃً۔ (مسلم کتاب المساجد) ” ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ کہا کرو۔ ”
اوپر آیت ۱۸ میں گزر چکا ہے کہ انسان کی زبان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے نوٹ کر لیا جاتا ہے پھر ایک مومن اپنی زبان سے زیادہ سے زیادہ حمد و تسبیح کے کلمات کیوں نہ ادا کرے اور اپنے عمل کو کیوں نہ ان جواہرات سے مزین کرے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس پکار کو جو قیامت کے دن قبروں سے نکلنے کے لیے ہو گی سننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہ پکار ہر شخص جو مرگیا تھا سن لے گا اور اسے ایسا محسوس ہو گا کہ قریبی جگہ ہی سے پکار نے والا پکار رہا ہے۔
ماضی کا انسان سوچ سکتا تھا کہ حشر کی آواز پوری زمین پر جس میں مردے دفن ہیں کس طرح نشر ہو گی۔ مگر موجودہ دور میں ریڈیو کی ایجاد نے اس سوال کا بھی جواب دے دیا اس طرح قرآن کی صداقت کی نشانیاں آفاق میں ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حشر کی یہ ندا ندائے حق ہو گی اور سننے والے پر حق کو آشکارا کرے گی۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ندا کو سنتے ہی تمام مرے ہوئے انسان زمین سے نکل پڑیں گے خواہ ان کی قبر بنی تھی یا نہ بنی تھی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن زمین سے نکلنے کی تصویر ہے۔ جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو زمین جگہ جگہ سے شق ہو گی او ر ساری خلقت جو زمین میں دفن ہوئی تھی زندہ ہو کر باہر نکل آئے گی اور عالم یہ ہو گا کہ لوگ زمین سے تیزی کے ساتھ نکل کر دوڑ رہے ہوں گے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا کام فہمائش کرنا ہے۔ جبر کر کے اپنی بات منوانا نہیں ہے اور جب ایک پیغمبر کسی کو دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا تو مسلمان غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر کس طرح مجبور کرسکتے ہیں ؟ رہا جہاد تو اس کا تعلق جنگی مقاصد سے ہے نہ کہ لوگوں کو دین زبردستی بدلنے سے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ واضح ہدایت ہے اس بات کی کہ قرآن کو تذکیر کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ حق کو واضح کرنے، اللہ کی حجت اس کے بندوں پر قائم کرنے اور نصیحت کرنے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس ہدایت کے پیش نظر دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کا کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کریں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور حالات اور موقع کی مناسبت سے قرآن کی رہنمائی کو اجاگر کریں۔ موجودہ دور میں دینی کتابوں کی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں کا ہر حلقہ اپنی کتابوں اور اپنے لٹریچر پر نازاں ہے اور قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ پیش کرنے کا اتنا اہتمام نہیں کر رہا ہے جتنا کہ اپنی کتابوں اور اپنے لٹریچر کو پیش کرنے کا اہتمام کرتا ہے بہت کم لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس بنا پر فہم دین کے معاملہ میں لوگوں کا تعلق قرآن سے براہ راست قائم نہیں ہو پاتا۔ اور اس کی فکر خالص قرآنی نہیں بنتی وہ اسی فکر کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے حلقہ کی کتابوں یا لٹریچر میں پیش کی گئی ہو۔ ہر قسم کے گروہی اور جماعتی تعصب سے بلند ہو کر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فہم قرآن پر زور دیا جائے اور اسی کو فہمائش اور تذکیر کا اصل ذریعہ بنایا جائے۔
٭٭٭
(۵۱)سورۂ الذاریات
(۶۰ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آغاز میں الذاریات(گرد اڑانے والی ہواؤں)کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” الذاریات” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
جزائے عمل ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۶ میں طوفانی اور بارش برسانے والی ہواؤں میں غافل انسانوں کو چونکا دینے، انہیں اللہ کی طرف متوجہ کرنے اور جزائے عمل کا یقین پیدا کرنے کا جو سامان ہے اس کی طرف متوجہ کر کے جزا و سزا کو لازماً واقع ہونے والی حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۷ تا ۱۴ میں جزائے عمل کا انکار کرنے اور اس کا مذاق اڑانے والوں کو اس کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
آیت ۱۵ تا ۱۹ میں اللہ سے ڈرتے رہنے اور نیکی کی زندگی گزارنے کی ترغیب ہے چنانچہ ان کا بہترین صلہ بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۲۰ تا ۲۳ میں ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں نیز انسان کے اپنے نفس میں موجود ہیں اور جن پر غور کرنے سے جزا و سزا کے برحق ہونے کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
آیت ۲۴ تا ۲۶ میں انبیائی تاریخ کے چند اہم واقعات سے عبرت دلائی گئی ہے اور جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ کا قانونِ سزا اس دنیا میں بھی کافر قوموں پر نافذ ہوتا رہتا ہے۔
آیت ۴۷ تا ۶۰ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں اللہ کی قدرت و عظمت کو بیان کرتے ہوئے اس کی طرف لپکنے اوراسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
ترجمہ
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
(۱)قسم ۱* ہے ان ہواؤں کی جو گرد اڑاتی ہیں۔۲*
(۲)پھر (پانی سے لدے بادلوں کا)بوجھ اٹھاتی ہیں۔ ۳*
(۳)پھر روانی کے ساتھ چلتی ہیں۔ ۴*
(۴)پھر ایک امر (بارش)کی تقسیم کرتی ہیں۔۵*
(۵)یقیناً جس چیز کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے۔۶*
(۶)اور جزا و سزا یقیناً واقع ہو کر رہے گی۔۷*
(۷)قسم ہے تہ بہ تہ بادلوں والے آسمان کی۔۸*
(۸)تم مختلف باتیں کرتے ہو۔۹*
(۹)حق سے وہی پھیرے جاتے ہیں جن کی عقل ماری گئی ہو۔۱۰*
(۱۰)ہلاک ہوں اٹکل سے باتیں کرنے والے۔ ۱۱*
(۱۲)پوچھتے ہیں جزا و سزا کا دن کب آئے گا؟۱۳*
(۱۳)جس دن یہ آ گ پر تپائے جائیں گے۔
(۱۴)چکھو مزا اپنے فتنہ کا۔۱۴* یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔
(۱۵)بلا شبہ اللہ سے ڈرنے والے ۱۵* باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
(۱۶)ان کے رب نے انہیں جو کچھ بخشا ہو گا اسے وہ لے رہے ہوں گے۔۱۶** وہ اس سے پہلے نیکو کار تھے۔۱۷*
(۱۷)وہ راتوں میں کم ہی سوتے تھے۔۱۸*
(۱۸)اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے۔۱۹*
(۱۹)اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔۲۰*
(۲۰)اور زمین میں بڑی نشانیاں ہیں۔یقین کرنے والوں کے لیے۔۲۱*
(۲۱)اور خود تمہارے اندر بھی کیا تم دیکھتے نہیں؟۲۲*
(۲۲)اور آسمان میں تمہارا رزق بھی ہے۔۲۳* اور وہ چیز بھی جس کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے۔۲۴*
(۲۳)تو آسمان و زمین کے رب کی قسم یہ بات حق ہے۔۲۵* ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔۲۶*
(۲۴)کیا تمہیں ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے؟ ۲۷*
(۲۵)جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام۔اس نے کہا آپ لوگوں پر بھی سلام ہو__اجنبی لوگ ہیں۔
(۲۶)پھر وہ چپکے سے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک فربہ بچھڑا(کا بھُنا ہوا گوشت)لایا۔ ۲۸*
(۲۷)اور اس کو ان کے سامنے پیش کیا۔ اور کہا کھاتے نہیں!
(۲۸)(اور یہ دیکھ کر کہ وہ کھاتے نہیں)اس نے اندیشہ محسوس کیا۔ ۲۹* انہوں نے کہا ڈرئیے نہیں۔ اور اسے ایک ذی علم فرزند کی خوشخبری دی۔۳۰*
(۲۹)یہ سن کر اس کی بیوی ۳۱* چیختی ہوئی آگے بڑھی۔ اس نے اپنا منہ پیٹ لیا ۳۲* اور کہا بڑھیا بانجھ۔
(۳۰)انہوں نے کہا ایسا ہی فرمایا ہے تیرے رب نے۔۳۳* وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔
(۳۱)ابراہیم نے پوچھا اے فرستادو! تمہارے سامنے کیا مبہم ہے۔
(۳۲)انہوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ۳۴*
(۳۳)تاکہ ان کے اوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائیں۔ ۳۵*
(۳۴)جو آپ کے رب کے پاس حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زد ہیں۔ ۳۶*
(۳۵)پھر ہم نے مومنوں کو وہاں سے نکال دیا۔ ۳۷*
(۳۶)اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوامسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ ۳۸*
(۳۷)اور ہم نے وہاں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔۳۹*
(۳۸)اور موسیٰ کے ۴۰* واقعہ میں بھی نشانی ہے۔ جب ہم نے اسے فرعون کے پاس صریح قاہرانہ حجت کے ساتھ بھیجا۔
(۳۹)تو اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں منہ موڑا اور کہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔
(۴۰)بالآخر ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا اس حال میں کہ وہ اپنے کو ملامت کر رہا تھا۔ ۴۱*
(۴۱)اور عاد ۴۲* کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ہم نے ان پر خشک ہوا بھیج دی۔
(۴۲)وہ جس چیز پر سے بھی گزری اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔ ۴۳*
(۴۳)اور ثمود ۴۴* کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو۔ ۴۵*
(۴۴)مگر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ تو ان کو کڑک نے آ لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ۴۶*
(۴۵)پھر نہ وہ اٹھ سکے اور نہ اپنا بچاؤ کرسکے۔
(۴۶)اور نوح کی قوم ۴۷* کو بھی ہم نے ان سے پہلے پکڑا۔ وہ بھی نافرمان لوگ تھے۔
(۴۷)اور آسمان کو ہم نے قدرت سے بنایا اور ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں۔ ۴۸*
(۴۸)اور زمین کو ہم نے بچھایا تو کیا خوب بچھانے والے ہیں۔ ۴۹*
(۴۹)اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔۵۰*
(۵۰)تو اللہ کی طرف دو ڑو۔۵۱* میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔۵۲*
(۵۱)اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ۔ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔۵۳*
(۵۲)اسی طرح ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے پاس جو رسول بھی آیا اس کو انہوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ ۵۴*
(۵۳)کیا وہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کر گئے ہیں؟ در حقیقت یہ سرکش لوگ ہیں۔ ۵۵*
(۵۴)لہٰذا تم ان سے رخ پھیر لو۔تم پر کوئی الزام نہیں۔ ۵۶*
(۵۵)اور نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ ۵۷*
(۵۶)میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔۵۸*
(۵۷)میں نہ ان سے رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ ۵۹*
(۵۸)یقیناً اللہ ہی رزاق” قوت والا” زور آور ہے۔ ۶۰*
(۵۹)پس ان ظالموں کے لیے ویسا ہی پیمانہ ہے جیسا ان کے ہم مشروبوں کے لیے تھا۔ ۶۱* تو یہ جلدی نہ مچائیں۔
(۶۰)ان کافروں کے لیے اس دن تباہی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۶۲*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ہواؤں کی قسم شہادت کے طور پر ہے یعنی یہ ہوائیں جزائے عمل کا یقین پیدا کرتی ہیں۔ شہادت کے معنی میں قسم عربی زبان میں بلاغت کا اسلوب ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ گرد اڑانے والی ہوائیں بارش کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اور کبھی آندھی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ غافل انسانوں کو چونکا کر اللہ کی عظمت ، اس کی قدرت اور اس کی شانِ جلالت کا یقین پیدا کرتی ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں نہایت لطیف ہوتی ہیں لیکن کروڑ ہا لیٹر پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ موسم باراں میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کو نیچے کی جانب ایسا منظر دکھائی دیتا ہے کہ گویا فضا میں بادلوں کا ایک سمندر ہے جو افق تک پھیل گیا ہے۔ ہواؤں کا اپنے دوش پر پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو لئے ہوئے پھرنا ایک با عظمت اور با اقتدار ہستی کی کارفرمائی کی واضح علامت ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں جب پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا بوجھ اٹھا لیتی ہیں تواس بوجھ کے اثر سے ان کی رفتار کم نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت آسانی اور روانی کے ساتھ چلتی ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی باگ ڈور ایک قادرِ مطلق اور مدبر ہستی کے ہاتھ میں ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بارش کو ” امر” سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ یہ نہایت اہم چیز ہے اور ہوائیں اللہ کے حکم سے پانی کی تقسیم کا کام انجام دیتی ہیں۔ وہ کسی خطہ میں ہلکی سی بارش برساتی ہیں تو کسی خطہ میں موسلا دھار، کہیں سیلاب لاتی ہیں تو کہیں طوفان اور کہیں بارانِ رحمت بن کر برستی ہیں تو کہیں تباہی اور عذاب بن کر۔ گویا ہوائیں ایک منصوبہ بند طریقہ پر پانی کی تقسیم عمل میں لاتی ہیں۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت رکھنے والی، نہایت مدبر اور دانا و بینا ہستی کا ہاتھ کارفرما ہے۔
تقسیم امر کی نسبت ہواؤں کی طرف مجازی ہے۔ اور اس مجاز کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں مثلاً دیوار کی طرف ارادہ کی نسبت جِدَ راً یرِیدُ اَنْ ینْقَضَّ۔ (دیوار جو گرا چاہتی تھی۔ سورہ کہف : ۷۷)
ایک روایت میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ مُقَسِّمَاتِ اَمْلاً سے مراد فرشتے ہیں لیکن یہ روایت جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے ضعیف ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۲۳۲)اس لیے لائقِ حجت نہیں۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے نیز وہ دن بھی جو رسول کو جھٹلانے والی قوم کے لیے دنیا میں عذاب کا دن ہو گا۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجئے تو ہواؤں کے اس تصرف میں اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا سامان بھی ہے اور جزا و سزا پر یقین کرنے کا سامان بھی۔ یہ ہوائیں جب چلتی ہیں تو دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرتی ہیں اور اس کی رحمت کا تصور بھی۔ گویا یہ اپنے عجیب و غریب تصرفات سے اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں کے لیے عذاب کا کوڑا ہے اور اس کے نیک اور وفادار بندوں کے لیے رحمت ہے۔ اس سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جزا و سزا کا واقع ہونا بالکل یقینی اور حق ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں لفظ حُبُک استعمال ہوا ہے جو حباک کی جمع ہے۔ ہوائیں پانی میں جو لہریں پیدا کرتی ہے ان کو حُبُک کہا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے یہ تہ بہ تہ اور مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے والے بادلوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ امراء القیس کہتا ہے۔
لہا جک کا نہا من وصائل
(ان پر تہ بہ تہ بادل چھائے ہوئے ہیں گویا کہ دھاری دار چادریں ہیں)
ہوائیں آسمان میں بادلوں کو اس طرح بکھیرتی ہیں کہ وہ تہ بہ تہ نظر آنے لگتے ہیں اور ان کی مختلف شکلیں بن جاتی ہیں۔ آسمان کا یہ منظر بڑا چونکا دینے والا ہوتا ہے اور دیکھنے والوں میں خدا کا خوف پیدا کرتا اور انہیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ یہ خوف اس بات کی دلیل ہے کہ انسان خدا کے حضور جوابدہ ہے اور اس سے سرکشی کر کے اس کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ لہٰذا قرآن جزا و سزا کے دن کی جو خبر دے رہا ہے اس کی تائید ہیبت پیدا کرنے والے بادلوں سے بھی ہوتی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کا واقع ہونا ایک حقیقت ہے لیکن تم اس کا انکار کر کے الجھن میں پڑ گئے ہو چنانچہ مختلف لوگ مختلف باتیں کہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے جزا وسزا کی کوئی حقیقت نہیں۔ کوئی کہتا ہے جزا و سزا جو کچھ بھی ہے اس دنیا ہی میں ہے۔ کوئی کہتا ہے اگر مرنے کے بعد جزا و سزا کا معاملہ پیش آ ہی گیا تو ہمارے معبود ہماری شفاعت کریں گے اور کوئی پونر جنم کا فلسفہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اقوال اور عقائد کا یہ اختلاف جزا و سزا کی اصل حقیقت سے انکار و انحراف ہی کا نتیجہ ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ق نوٹ ۶۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کو ماننے سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں۔ جن کی عقل ماری گئی ہے ورنہ جو شخص بھی اللہ کی بخشی ہوئی عقل سے کام لے گا وہ اس واضح حقیقت کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ کا قانونِ ضلالت یہ ہے کہ جس شخص کے سامنے حق پیش کیا جاتا ہے اور وہ عقل سے کام لینے کے بجائے خواہشات کے پیچھے پڑ کر انکار کرتا ہے اس کی توجہ حق کی طرف سے پھیر دی جاتی ہے پھر وہ اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان اپنے کئے کی جزا و سزا پائے گا یا نہیں؟ یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جو انسان کے رویئے کو متعین کرتا ہے اور اس پر اس کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار ہے اس لیے اس کا جواب علمی بنیاد پر اور دلائل و شواہد کی روشنی میں ملنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری کر کے اس کا علم بخشا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ایک ذمہ دار اور خدا کے حضور جوابدہ مخلوق ہے اور جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آئے گا اور کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان ایمان لا کر نیکی کی روش اختیار کرے۔ اس علم حق کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور خود انسان کے اپنے نفس کے اندر ایسی نشانیاں رکھی ہیں جو دلائل و شواہد کی حیثیت رکھتی اور اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہیں۔ اس ٹھوس علم کو چھوڑ کر زندگی کے اس اہم ترین مسئلہ میں اٹل کے تیر چلانا اور قیاس و گمان سے باتیں کرنا اس کے سوا کیا ہے کہ آدمی روشنی کو چھوڑ کر تاریکی(اندھیرے)میں چلنا پسند کرے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے کو تباہی کے راستے پر ڈالتے ہیں انسانوں کی بہت بڑی تعداد مذہبی تعصبات، اندھی خواہشات اور مادہ پرستی کی بنا پر تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ پونر جنم اور تناسخ کا فلسفہ ہو، یا ” موت کے بعد کوئی زندگی نہیں” کا دعویٰ ہو یا عمل کے بجائے شفاعت پر تکیہ کئے رہنے کا عقیدہ ہو۔ یہ سب قیاس اور وہم و گمان کی باتیں ہیں جو برے انجام کو پہنچانے والی ہیں۔ علم کی روشنی وہی ہے جو قرآن بخشا ہے اور وہ کامیابی کی ضامن ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ شدید غفلت میں مبتلا ہیں اس لیے انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ آگے کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ سوال کہ وہ دن کب آئے گا جب آدمی اپنے کئے کا پھل پائے گا۔ قامت کا مذاق اڑانے کے لیے تھا اس لیے اس کا جواب بھی آگے سخت تنبیہی انداز میں دیا گیا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ فتنہ سے مراد شر ہے جس میں وہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ شر عذاب بن کر ان کو اپنی گرفت میں لے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متقین (اللہ سے ڈرنے والوں)سے مراد جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے وہ لوگ ہیں جو بدلہ کے دن پر یقین رکھتے تھے اور اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی بخشی ہوئی ابدی نعمتوں کو وہ ہنسی خوشی قبول کر رہے ہوں گے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں انہوں نے نیک عملی کی زندگی گزاری تھی۔ محسن(نیکو کار)وہ ہے جو اللہ کے احکام کو نہ صرف بجا لائے بلکہ حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے اور بہترین کردار کا ثبوت دے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ رات کا زیادہ حصہ اللہ کی عبادت تھے۔ ان کو اپنے آرام سے زیادہ اللہ کی عبادت عزیز تھی اور قیامت کا کھٹکا انہیں چین کی نیند سونے نہیں دیتا تھا۔ قرآن نے اس شب بیداری کو معیار مطلوب کی حیثیت سے پیش کر دیا ہے تاکہ جو شخص جتنا اونچا اٹھنا چاہے اٹھے لیکن اس کو واجب نہیں کیا چنانچہ سورہ مزمل میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے۔
احنف بن قیس صحابیٔ رسول ہیں وہ اعتراف کرتے تھے کہ : لَسْتُ مِنْ اِہْلِ ہٰذہِ الآ یۃِ ” میں اس آیت کا اہل نہیں ہوں” (تفسیر طبری ج ۲۶ ص ۱۲۲)
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۲۳۔ اور ۲۴۔ سحر کا وقت قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔حدیث قدسی ہے:
اَنَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ینْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیلَۃٍ اِلٰی السَّمٓاءِ الدُّ نْیا حِینَ یبْقٰی ثُلُثُ اللَّیلِ الآخِرِ یقُوْلُ: مَنْ یدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیبُ لہٗ من یسْألُنِیْ فَاُعْطِیہٗ مَنْ یسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفَرَلَہٗ(صحیح البخاری ابواب التہجد)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات جبکہ رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی پکار کا جواب دوں، کوئی ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں ، کوئی ہے جو مجھ سے معافی چاہے تو میں اسے معاف کر دوں”
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ سائل وہ ہے جو اپنی حاجت کو پورا کرنے کے لیے مالی مدد طلب کرے۔ اگر مانگنے والا بظاہر حالات حاجت مند ہو تو اس کا حق سمجھ کر اس کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر فی الواقع وہ حاجتمند نہیں ہو ا تو اس کی کوئی ذمہ داری صدقہ دینے والے پر عائد نہیں ہو گی۔ رہے ہو بھیک منگے جو تندرست ہونے کے باوجود فقیری کو پیشہ بنا لیتے ہیں اور مزید یہ کہ غیر اللہ کے نام پر بھیک مانگ کر شرک کا پرچار کرتے رہتے ہیں وہ ہرگز صدقہ و خیرات کے مستحق نہیں ہیں۔ حدیث میں آتا ہے:
مَایزَالُ الرَّجُلُ یسْألُ النَّاسَ حَتّٰی یأْتِیَ یوْمَ الْقِیامَۃِ لَیسَ فِیْ وَجْہِہٖ مُزَعۃٗ لَحْم ٍ (صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ)
” آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن وہ حاضر ہو گا تو اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہو گا۔”
اور محروم وہ لوگ ہیں جو اپنی کسی معذوری یا حالات کی ناسازگاری یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے اپنی گزر بسر کا سامان نہ پاتے ہوں اور اپنی خود داری کی وجہ سے کسی سے کچھ مانگتے بھی نہ ہوں۔ ایسے لوگ حقیقتاً مدد کے مستحق ہیں۔ قرآن نے خاص طور سے ان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت سے نوازا ہے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے مفلوک الحال لوگوں کو شناخت کر کے ان کی مدد کریں جبکہ انہوں نے مانگنے کا عار گوارا نہ کی ہو۔
آیت سے یہ بھی واضح ہے کہ سوسائٹی کے حاجتمند افراد کی مدد اصحاب مال کی طرف سے کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان افراد کا ان کے مال میں حق ہے جس کی ادائیگی ان پر واجب ہے۔
یہ سورہ مکی ہے اور زکوٰۃ کے تفصیلی احکام مدنی دور میں دیئے گئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ حق تفصیلات کے بغیر بھی ایک معروف حق تھا اور اس کا ادا کرنا اہل ایمان کا وصف ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین میں اللہ کی قدرت، اس کی ربوبیت اور اس کے علم و حکمت کی نشانیاں بالکل نمایاں ہیں اور اللہ کی ان صفات پر غور کرنے سے اس کے بارے میں جو تصور قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرنے والا اور عدل کرنے والا ہے اور اس نے اپنی مخلوق کو ایک غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس سے اس بات کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان اللہ کے حضور جوابدہ ہے اور اپنے عمل کے مطابق اسے جزا یا سزا پانا ہے۔
موجودہ دور میں جیالوجی (Geology)نے زمین کی ساخت، اس کی تہوں، اس کے پرت، اس کے اندر کے لاوے، اس میں پائی جانے والی معدنیات، اس کی کشش اور اس کی گردش وغیرہ کے بارے میں عقل کو حیرت میں ڈالنے والے اکتشافات کئے ہیں۔ یہ سارا اہتمام اس لیے ہے کہ انسان زمین پر آباد ہو۔ تو کیا جس کو زمین پر آباد کرنے کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے اس کی زندگی بے مقصد ہوسکتی ہے؟ اور کیا وہ ہستی جس نے انسان کو زمین پر بسانے کیلئے یہ سارا اہتمام کیا ہے اور شعور اور عقل و تمیز رکھنے والی مخلوق بنایا ہے اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا اور اس کے اچھے اور بُرے عمل میں کوئی تمیز نہ کرے گا؟ ان خطوط پر جو شخص بھی قرآن کی روشنی میں غور کرے گا اسے اللہ کی ربوبیت کا اور پھر اس کی طرف سے ملنے والی جزا و سزا کا یقین لازماً پیدا ہو گا۔
زمین پر زلزلوں کے جھٹکے سونے والوں کو جگا دیتے ہیں اور ان میں خوف و دہشت پیدا کر کے اس بات کی وارننگ (Warning)دیتے ہیں کہ اس کائنات کا رب عذاب کا کوڑا برسا سکتا ہے اس کی طرف سے بے پروانہ ہو جاؤ بلکہ اس سے ڈرتے رہو۔ ایسی کھلی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد یہ کہنا کہ خدا کو جزا و سزا سے کوئی سروکار نہیں اور انسان اس سے بے تعلق ہو کر اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہے کس قدر غلط ،غیر منصفانہ، نامعقول اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے!
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی فطرت بھلائی اور برائی میں تمیز کرتی ہے اس کا نفس برائی پر ملامت کرتا ہے اور بھلائی پر اسے سکون بخشتا ہے۔ گویا ایک طرح کی عدالت انسان کے اپنے نفس ہی میں موجود ہے اس طرح اس کا وجدان پکار پکار کر کہتا ہے کہ اپنے رب سے ڈرو۔ کیا یہ اس بات کی واضح علامت نہیں ہے کہ نا فرمانوں پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برس سکتا ہے اور کیا یہ اس بات کا ثبوت تمہیں ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ان کے رویہ کے مطابق معاملہ کرے گا؟
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش جس سے پینے کے لیے پانی بھی مہیا ہو جاتا ہے اور کھانے کے لیے غلے، پھل اور نباتات بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب جو بجلی ، کڑک، طوفان، وغیرہ کی شکل میں تم پر نازل ہوسکتا ہے۔ آسمان میں بارانِ رحمت بھی ہے اور عذاب کا کوڑا بھی جس سے اللہ کی دونوں صفتیں ظاہر ہوتی ہیں یعنی وہ رحیم بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی۔ اس سے لازم آتا ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جب وہ اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت نچھاور کرے اور سرکشوں کو سخت سزا دے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں قسم بات کو پورے وثوق اور تاکید کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی یہ علامتیں جو اوپر پیش کی گئیں رب حقیقی کا یقین پیدا کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا یقین بھی کہ جزا و سزا کا معاملہ بالکل برحق ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان جب بولتا ہے تو اسے پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ یہ میرا نفس ہی ہے جو بول رہا ہے اور اسے اس میں کوئی شبہ لاحق نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح جزا و سزا کا معاملہ شبہ سے بالاتر اور بالکل یقینی ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ واقعہ سورۂ ہود اور سورہ حجر میں تفصیل سے بیان ہوا ہے وہاں تشریح طلب باتوں کی وضاحت بھی کی جاچکی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ ہود نوٹ ۹۶ تا ۱۰۴ اور سورہ حجر نوٹ ۴۹ تا ۵۵۔
یہ معزز مہمان فرشتے تھے جو انسان کی شکل میں آئے تھے اور جن کے چہرے بشر ے سے وقار ظاہر ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ وہ انہیں بڑھاپے میں ایک ایسے بیٹے کی خوشخبری دیدیں جو صاحب علم ہو گا اور جسے نبوت عطا کی جائے گی اور جس سے ایک ایسی نسل وجود میں آئے گی جس کو دنیا والوں پر فضیلت حاصل ہو گی اور جس کے کار ہائے نمایاں تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھا جو اس نے دنیا میں ابراہیم علیہ السلام کو عطا کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو ان کی نیکی بدولت نوازتا ہے۔ اسی طرح آگے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کے نازل ہونے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کفر و سرکشی کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی سخت سزائیں دیتا ہے۔اور جب دنیا میں رحمت اور عذاب دونوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے تو پھر عمل کو بے نتیجہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے اور قیامت کے دن کی جزا و سزا سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ مختصر یہ کہ جزا و سزا کا یقین پیدا کرنے کیلئے یہاں دونوں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ضمناً مہمان نوازی کے آداب بھی واضح ہوئے۔ ضیافت کا سامان اس طرح کیا جائے کہ مہمان کو اس کی خبر نہ ہونے پائے اور خاطر تواضع میں تنگی نہ برتی جائے بلکہ وسعت اخلاق کا ثبوت دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فَربہ بچھڑے کو بھون کر لانا اور مہمانوں کے سامنے وافر غذا پیش کرنا ان کی کریم النفسی اور فیاضی پر دلالت کرتا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور فرشتوں کا انسانی صورت میں آنا کسی اہم مقصد کے لیے ہی ہوسکتا ہے اس لیے انہیں خوف محسوس ہوا کہ معلوم نہیں معاملہ کیا ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری تھی۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت سارہ۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حیرت ہے۔ یہ حضرت سارہ کا نسوانی انداز تھا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی باوجود بڑھیا بانجھ ہونے کے لڑکا پیدا ہو گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قوم لوط کی طرف۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۰۵ تا ۱۲۱ اور سورۂ حجر نوٹ ۵۶ تا ۷۴۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے ہے کہ کونسا پتھر کس کو لگے گا اور اس کی ہلاکت کا باعث بنے گا۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بستی سے صحیح سلامت نکال لیا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بستی میں مسلمانوں کا صرف ایک گھر تھا اور وہ تھا حضرت لوط کا۔ ان کے خاندان کے افراد کے سوا کسی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
حضرت لوط علیہ السلام کی دعوتی و اصلاحی جدوجہد کا یہ نتیجہ کہ صرف ان کا اپنا گھر ہی مسلمانوں کا گھر بن سکا۔ دعوت و اصلاح کا کام کرنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ باوجود اس کے کہ دعوت و اصلاح کا کام کتنے ہی بہترین طریقہ پر انجام دیا گیا ہو اور اس کام کو انجام دینے والی اعلیٰ کردار کی حامل نبی کی شخصیت ہی کیوں نہ رہی ہو ضروری نہیں کہ لوگ دعوت قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں۔ بہت کم لوگوں کو قبول حق کی توفیق نصیب ہوسکتی ہے۔ لہٰذا نتائج کو اللہ پر چھوڑ کر اپنا فریضہ بحسن و خوبی ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۲۱۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مختصراً فرعون، عاد ، ثمود اور قومِ نوح جیسی سرکش قوموں کے عبرتناک انجام کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ یہ واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے سرکش قوموں پر اس کے عذاب کا کوڑا برابر برستا رہا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نے جو باغیانہ اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا تھا اس کا احساس اسے موت کے وقت ہوا۔ اس بناء پر وہ خود اپنے کو ملامت کرنے لگا۔
فرعون کے غرقاب ہونے کا واقعہ سورۂ یونس اور سورۂ طٰہٰ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ احقاف میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ احقاف نوٹ ۴۱ اور ۴۲۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ ہود اور دسری متعدد سورتوں میں بیان ہوا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کا فائدہ تھوڑے دن کے لیے ہے لہٰذا اسے مقصود نہ بناؤ اور آخرت پر اسے ترجیح نہ دو۔ آخرت کو مقصود بنا کر دنیا کا جتنا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اتنا ہی حاصل کرو۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی نظروں کے سامنے ان کو کڑک نے آ لیا اور وہ شسدر رہ گئے۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۲۳۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ ہود میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں تذکیر کے انداز میں توحید، آخرت اور رسالت کو مربوط شکل میں پیش کر دیا گیا ہے چونکہ اللہ کی صحیح معرفت ہے جزا و سزا کا تقاضا ابھرتا ہے اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے رسالت ضروری ہے۔
آسمان کو دیکھنے سے اللہ کی وسیع قدرت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ دور میں سائنس نے طاقتور دور بینوں کی مدد سے جو اکتشافات کئے ہیں۔ وہ آسمانی دنیا کی وسعت کا حیرت انگیز تصور پیش کرتے ہیں۔ اربوں ستاروں کا وجود، کہکشاؤں کا نظام اور بڑی بڑی متعدد کہکشائیں اتنی بلندی پر ستارے جن کی روشنی کئی نوری سال (Light Years)میں زمین پر پہنچتی ہے اور ان سب معلومات کے بعد اس بات کا ماہرین فلکیات کی زبان سے اعتراف کہ اس کائنات کی انتہاء کا ہمیں علم نہیں اور یہ مسلسل پھیلتی (Expand)جا رہی ہے اس آیت کی صداقت کی واضح دلیل ہے اور اس سے اللہ کی بے پناہ قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پھر جو خدا اتنی وسیع قدرت رکھتا ہو وہ ایک ایسا عالم کیوں نہیں برپا کرسکتا جس میں تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بچھا دیا ہے کہ ان پر اربوں انسان سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کی سطح کو اس خوبی سے پھیلا دیا ہے کہ اس پر چلنا پھرنا نہایت آسمان ہو گیا جغرافیہ کے لحاظ سے دیکھیں تو زمین کا قطر تقریباً تیس ہزار میل اور اس کی سطح تقریباً پچاس کروڑ کلو میٹر ہے اس سے اس کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے مگر انسان کی تنگ نظری کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کی قدرت کو محدود سمجھ کر آخرت کا منکر بنتا ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یسٰین نوٹ ۳۹، ، ۴۰ ، ۴۱ ، ۴۲۔
دنیا میں جب ہر چیز جوڑے جوڑے ہے اور اپنی تکمیل اپنے جوڑے سے مل کر کرتی ہے تو دنیا کا بھی جوڑ ہونا چاہیے اور قرآن بتلاتا ہے کہ اس کا جوڑ آخرت ہے اور آخرت سے مل کر ہی دنیا کی تکمیل ہوتی ہے ورنہ دنیا کا وجود نا مکمل، بے مقصد اور عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس کے بعد کی دو آیتیں اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان کو اس اسلوب میں پیش کیا گیا ہے کہ متکلم(بولے والے)نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تاکہ یہ کلمات زبانِ رسالت سے ادا ہوں اور واضح ہو جائے کہ رسول کا مشن کیا ہے۔
یہاں مختصر الفاظ میں اللہ کی طرف دوڑنے اور لپکنے کی دعوت دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف نہ صرف بڑھو بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھو کہ اس کو پا لینا اپنے مالکِ حقیقی کو پا لینا اور منزل مقصود کو پہنچ جانا ہے۔ اللہ کی طرف لپکنے میں اس کے ساتھ جذبات کی وابستگی کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور اس میں امیدوں کی ایک دنیا بھی بسی ہوئی ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں قیامت کے دن سے خبردار کروں کہ اس دن کیا کچھ پیش آنے والا ہے تاکہ تم چونک جاؤ اور اپنا رویہ اللہ کے ساتھ درست کر لو۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں تمہیں شرک کے برے انجام سے کھلے بندوں خبردار کرتا ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کے باوجود لوگ بت پرستی اور شرک میں مبتلا رہیں گے وہ قیامت کے دن عذاب کو دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہمیں اس کے برے انجام سے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح ا س رسول کو جادوگر یا دیوانہ کہا جا رہا ہے اسی طرح اس سے پہلے بھی رسولوں کو یہی کچھ کہا جاتا رہا ہے۔
پیغمبر کی باتیں چونکہ وحی کی بناء پر ہوتی ہیں اس لیے نہایت موثر اور دلوں میں نفوذ کرنے والی ہوتی ہیں جس کی توجہ منکرین اس طرح کرتے ہیں کہ یہ جادو منتر ہے جس سے وہ لوگوں کو مسحور کر رہا ہے۔ مگر وہ نہیں سوچتے کہ جادوگر کے بس میں کہاں کہ وہ دل میں اتر جانے والی حقیقتیں بیان کرے اور لوگوں کی زندگیوں کو سنوارے۔
اسی طرح منکرین پیغمبر کے اس دعوےٰ کی کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے یہ توجہ کرتے ہیں کہ یہ دیوان پن ہے۔ مگر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کیا کوئی دیوار نہ حکیمانہ باتیں بھی کرسکتا ہے اور انسانی زندگی کے لیے ایک نظامِ فکر و عمل بھی دے سکتا ہے؟
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قوموں کی طرف سے رسولوں کو جادوگر یا دیوانہ قرار دینے کا یہ تسلسل ایسا ہے کہ گویا ہر قوم اپنے بعد آنے والی قوم کو یہ وصیت کر گئی کہ جب تمہارے پاس کوئی رسول آئے تو اسے جادوگر یا دیوانہ قرار دو۔ اور حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ سب سرکش قومیں رہی ہیں اور اس رسول کے مخالف بھی سرکش ہیں۔ اور ان کی یہ سرکشی ہی ہے جو رسول کو رسول تسلیم کرنے پر انہیں آمادہ نہیں کرتی اور خلافِ واقعہ باتیں کہنے پر انہیں اکساتی ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر! تم نے ان پر حجت قائم کر دی۔ اب اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آنا نہیں چاہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو تم اپنا فرض ادا کر چکے اب تم پر کوئی ملامت نہیں۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ سرکش لوگوں سے ان پر حجت قائم ہو جانے کے بعد اعراض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تذکیر کا کام ختم کر دیا جائے۔ نہیں بلکہ تذکیر کا کام جاری رکھنا چاہیے کہ یہ ایمان لانے والوں کے حق میں مفید ہوتا ہے اور وہ نصیحت پذیر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اب ان سرکشوں کو سمجھانے کی کوشش تو بے سود ہے البتہ عمومیت کے ساتھ یاد دہانی اور نصیحت کا کام جاری رکھنا چاہیے اور اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے خواہ حالات کیسے ہی نا مساد ہوں کیونکہ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اس کے خوشگوار اثرات قبول کرنے والے ہوں۔ دعوت و تذکیر کا کام کرنے والوں کے لیے یہ ہدایت بڑی اہم ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت کی تشریح سورہ کہف نوٹ ۱۲۵ میں کی جاچکی ہے۔ اس موقع پر اس نوٹ کو نیز سورہ ہود نوٹ ۵ کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔
قرآن نے عبادت کا لفظ پرستش کے معنی میں اس کثرت سے استعمال کیا ہے کہ اس کا ابھرا ہوا مفہوم پرستش ہی قرار پاتا ہے۔ چنانچہ بت پرستی کے لیے قرآن میں عبادت کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے جو ظاہر ہے پرستش ہی کے معنی میں ہے اور جہاں تک لعنت کا تعلق ہے عربی کی مشہور اور مستند لغت میں اس کے معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں:
واصلُ العُبودیۃِ النحضوعُ وَاِلتَّذَلُّلُ وَعَبَدَ اللّٰہَ یَعْبُدُہٗ عِبَادۃً۔۔۔۔۔۔ثَأَ لَّہَ لَہٗ۔
” عبودیت کی اصل خضوع اور تذلل ہے” ” اس نے اللہ کی عبادت کی یعنی اس کو الٰہ (معبود)بنایا”
وَالتَّعْبُدُ التَّنْسُّکُ۔قَالَ (الَفرائُ)وَمَعْنَی الْعِبَادَۃِ فِی اللُّغَۃِ الطَّاعَۃُ مَعَ الْنَّحضُوْعِ(لسان العرب ج ۳ ص ۲۷۳۔۲۷۲)
” تعبد یعنی مراسم عبودیت کی ادائیگی۔ ”
” فراء کہتے ہیں لغت میں عبادت کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کرنے کے ہیں۔”
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل لغت نے اگر عبادت کے معنی اطاعت بیان کئے ہیں تو اس کے ساتھ خضوع کی قید بھی لگائی ہے یعنی ایسی اطاعت جس میں دل کا خضوع اور اپنی سرافگندگی و بندگی کا اظہار ہو۔ ظاہر ہے یہ اطاعت اللہ ہی کے لیے خاص ہوسکتی ہے اور یہ پرستش کے لازمی مفہوم میں شامل ہے مگر پرستش عبادت کا اولین مفہوم ہے اور اللہ سے تعلق کا یہ نقطۂ آغاز ہے اور اگر آغاز ہی درست نہ ہو تو کوئی بات بھی درست نہیں ہوسکتی اس لیے دین میں پرستش کو اولین اہمیت دی گئی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مرکز و محور یہی رہا ہے کہ اُعْبُدُ اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔ (ہود:۵۰)
” اللہ کی پرستش کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔”
آیت زیر تفسیر میں جنوں اور انسانوں کا مقصدِ تخلیق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس سے درجِ ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے:
ایک یہ کہ جب جنوں اور انسانوں کی تخلیق اللہ کی عبادت کے لیے ہوئی ہے تو نہ جنوں کو معبود بنانا صحیح ہے اور نہ انسانوں کو۔ وہ ہرگز مستحق عبادت نہیں ہیں اس لیے ان کی عبادت باطل ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی اللہ کی پرستش نہیں کرتا یا اس کے ساتھ غیر اللہ کو پرستش میں شریک کرتا ہے۔ خواہ وہ بت ہو یا فرشتہ یا فرضی خدا (دیوی دیوتا)یا بزرگ انسان وہ اپنے مقصدِ تخلیق سے انحراف کرتا ہے اس لیے اس کا وجود عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور جب لکڑی بے کار ہو جاتی ہے تو جلانے کے کام آتی ہے اسی طرح جو لوگ اپنے مقصد تخلیق کو نظر انداز کر کے اپنے وجود کو بے معنی بنا لیتے ہیں وہ اپنے کو جہنم کا مستحق بناتے ہیں۔
تیسری یہ کہ اللہ کی عبادت کرنا بندوں پر اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے لہٰذا اسے اپنی ڈیوٹی سمجھ کر انجام دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کی عبادت کے لیے وقت نہیں ہے یا نماز کے لیے فرصت نہیں ہے تو وہ سخت جہالت کا ثبوت دیتا ہے اسے نہ اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس ہے اور نہ عبادت سے لگاؤ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں کھانے اور کمانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں اس لیے وہ انسان نہیں بلکہ معاشی حیوان بن کر رہ جاتا ہے اور جب انسان میں یہ گراوٹ آ جاتی ہے تو فلاح کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔
چوتھی یہ کہ عبادت الٰہی جب مقصد تخلیق ہے تو اس کے ساتھ گہرا قلبی لگاؤ ضروری ہے۔ نماز ،ذکرِ الٰہی، تسبیح و تحمید، قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اور دوسرے مراسم عبودیت کا اہتمام اور ان سے شغف تخلیق کے عین مقصد کو پورا کرنا ہے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کا پرستار اس کی اطاعت کا منکر ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ کی اطاعت سے انکار سرکشی ہے ایک طرف اللہ کے آگے جھکنا اور دوسری طرف جھکنے سے انکار دو متضاد باتیں ہیں جو پرستش کو بے معنی بناتی ہے۔ اوپر کی آیات میں سرکشوں کا ذکر جس طرح ہوا ہے اس پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ابلیس نے اللہ کی پرستش سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا جس کی بناء پر وہ ملعون قرار پایا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بے نیاز ہے اس کو کسی چیز کی بھی حاجت نہیں اور نہ اس کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہ ہے کہ اس کے لیے سامانِ رزق کا انتظام کریں۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں کہ یہ اس کا حق بھی ہے اور عدل کا تقاضا بھی۔ پھر اس عبادت کا فائدہ بھی خدا کو پہنچنے والا نہیں بلکہ عبادت کرنے والے ہی کو پہنچے گا۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وہ رازق ہے یعنی وہ رزق طلب نہیں کرتا بلکہ رزق دیتا ہے اور رازق بھی ایسا کہ بے شمار انسانوں اور حیوانوں کو زمانۂ دراز سے مسلسل رزق دیئے چلا جا رہا ہے اور اس سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ پھر اس کو چھوڑ کر انسان کسی اور کو رازق اور ان داتا کیسے سمجھنے لگتا ہے!
دوسری صفت یہ کہ وہ قوت والا ہے اس لیے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ وہ بلا شرکت غیر سے صرف اپنی قدرت سے کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔
تیسری صفت یہ کہ وہ زور آور (متین)ہے اس لیے کوئی نہیں جو اس پر اپنا زور چلا سکے۔ جن ہستیوں کو مشرکین نے معبود بنا لیا ہے وہ ہرگز اللہ پر اپنا زور نہیں چلا سکتے۔ اس کے آگے سب بے بس ہیں۔
اللہ کی یہ معرفت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسی کو معبود مان کر اس کی مخلصانہ عبادت کی جائے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مقصدِ تخلیق کو بھلا دیا اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کرنے لگے۔ مزید برآں رسول کے متنبہ کرنے کا بھی کوئی اثر انہوں نے قبول نہیں کیا۔ ایسے ظالموں کا وہی حشر ہونا ہے جو ان سے پہلے گزری ہوئی ظالم قوموں کا ہوا۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے جب کفر کرنے والے کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔
٭٭٭
(۵۲) سورۂ الطور
(۶۰ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آغاز ہی میں الطور (کوہِ طور) کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ الطور‘ ہے۔
زمانۂ نزول
مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہوگی۔
مرکزی مضمون
رسول قیامت کے آنے اور عمل کا بدلہ دئے جانے کی جو خبر دے رہا ہے وہ لازماً پیش آنے والی حقیقت ہے۔
نظمِ کلام
آیت۱ تا ۱۶ میں روز جزا کو جھٹلانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ کا عذاب ان پر واقع ہو کر رہے گا۔ اس کا یقین پیدا کرنے کے لیے شہادتیں بھی پیش کی گئی ہیں اور عذاب کی تصویر بھی۔
آیت ۱۷ تا ۲۸ میں جھٹلانے والوں کے بالمقابل اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والوں اور احساس ذمہ داری کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو جس انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اس کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
آیت ۲۹ تا ۴۷ میں معترضین کے سامنے ایسے سوالیہ نشان رکھ دئے گئے ہیں جن سے ان کے شبہات کا خود بخود ازالہ ہو جاتا ہے۔
آیت ۴۸ اور ۴۹ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حدیث
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں بیمار ہوں۔ (لہٰذا طواف کیسے کروں) آپ نے فرمایا سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کر لو۔ چنانچہ میں نے طواف کیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے ایک طرف نماز پڑھ رہے تھے جس میں سورۂ طور کی قرأت فرما رہے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے ۱*طور کی ۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک ایسی کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھلّی کے کھلے اوراق میں۔۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آباد گھر کی۔ ۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔ اور بلند چھت کی۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔ اور لبریز سمندر کی۔ ۶*
۷۔۔۔۔۔۔۔ کہ تمہارے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔ ۷*
۸۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اسے دفع کرنے والا نہیں۔۸*
۹۔۔۔۔۔۔۔ جس دن آسمان تھر تھرانے لگے گا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔اور پہاڑ چلنے لگیں گے۔۹*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ جو بحث میں پڑے کھیل رہے ہیں۔۱۰*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکے دے دے کر لے جایا جائے گا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ جہنم جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھ نہیں رہا ہے؟۔۱۱*
۱۶*۔۔۔۔۔۔۔داخل ہو جاؤ اس میں۔ اب صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لیے یکساں ہے ۱۲* تمہیں وہی بدلہ میں دیا جا رہا ہے جو تم کرتے رہے۔۱۳*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ متقی ۱۴* باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔۱۵*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ لطف اٹھا رہے ہوں گے ان نعمتوں کا جو ان کے رب نے انہیں بخشی ہوں گی اور ان کے رب نے انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھا ہوگا۔۱۶*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اعمال کے بدلہ میں جو تم کرتے رہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ وہ قطار در قطار تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔۱۷* اور حسین چشم حوروں سے ہم ان کا بیاہ کر دیں گے۔۱۸*۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے۔ ۱۹* اور ان کے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے۔ ۲۰* ہر شخص اپنی کمائی کے بدلہ رہن(گروی) ہے۔ ۲۱*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ جس قسم کے میووں اور گوشت کی خواہش کریں گے ہم ان کو برابر دیتے رہیں گے۔۲۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ وہ آگے بڑھ کر ایک دوسرے سے ایسی شراب کے جام لے رہے ہوں گے جس میں نہ بے ہودگی ہو گی اور نہ گناہ کی کوئی بات۔ ۲۳*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ ایسے خوبصورت لڑکے ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے جو گویا چھپائے ہوئے موتی ہیں۔ ۲۴*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر دریافت حال کریں گے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ کہیں گے اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں میں (اللہ سے) ڈرتے رہتے تھے۔ ۲۵*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جھلسا دینے والے عذاب سے بچا لیا۔ ۲۶*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے ہم اس کو پکارتے تھے۔ ۲۷* واقعی وہ بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔ ۲۸*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ تو(اے پیغمبر!) تم فہمائش کرو اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ دیوانے۔۲۹*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے لیے ہم گردشِ ایام کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۳۰*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔(ان سے)کہو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔۳۱*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان کی عقلیں ان کو ایسی ہی باتیں سکھاتی ہیں یا ہیں ہی یہ سرکش لوگ؟ ۳۲*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن )کو اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ ۳۳*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام لائیں۔ ۳۴*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود ہی (اپنے) خالق ہیں؟ ۳۵*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے رب کے خزانے ان کے پاس ہیں یا ان پر ان کا تسلط ہے؟ ۳۶*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ (آسمان کی باتیں) سن لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو سننے والا واضح حجت پیش کرے۔ ۳۷*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کے لیے بیٹیاں ہیں اور تم لوگوں کے لیے بیٹے! ۳۸*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہو۔ ۳۹* کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جار ہے ہیں؟
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ لکھ رہے ہوں؟۴۰*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کفر کرنے والے ہی اس چال میں گرفتار ہوں گے۔۴۱*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ کے سوا ان کے لیے کوئی اور معبود ہے؟ پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں گے تو کہیں گے تہ بہ تہ بادل ہے۔ ۴۲*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔ ۴۳*
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ جس دن نہ ان کی کوئی چال ان کے کام آئے گی اور نہ ان کو کوئی مدد مل سکے گی۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔اور ظالموں کے لیے اس سے پہلے بھی عذاب ہے ۴۴* مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔(اے پیغمبر!) تم صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ۴۵* تم ہماری نگاہ میں ہو۔ ۴۶* اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو جب تم اٹھتے ہو۔ ۴۷*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ اور رات میں بھی اس کی تسبیح کرو۔ ۴۸* ار اس وقت بھی جب ستارے غروب ہوتے ہیں۔ ۴۹*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں قسم شہادت کے معنی میں ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۱۴۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد کوہِ طور ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور شریعت عطا ہوئی۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد تورات ہے جس کے نسخے چمڑے کی باریک جھلی پر لکھے جاتے تھے پھر ان کے اوراق کو کھول کر پڑھا جاتا تھا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خانہ کعبہ ہے جو طواف کرنے والوں اور عمرہ اور حج کرنے والوں سے معمور رہتا ہے۔ بیتِ معمور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے آسمان پر ہے لیکن اس کا اطلاق مکہ کے خانۂ کعبہ پر بھی ہوتا ہے اور چونکہ یہاں اسے ایک تاریخی شہادت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اس لیے اس سے مراد مشاہدہ میں آنے والا بیتِ معمور ہے جس کی چھت نہایت بلند ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد آسمان ہے جس کی چھت نہایت بلند ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی سے بھرے ہوئے سمندر کی۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ بات جس کی شہادت میں مذکورہ بالا چیزیں پیش کی گئی ہیں۔ پیغمبر قرآن یوم جزا سے جو باخبر کر رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جسے شاعرانہ تخیل یا دیوانگی پر محمول کیا جائے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انبیائی تعلیم کا لازمی جز رہی ہے اور تاریخ اس پر شاہد ہے چنانچہ کوہِ طور کی چوٹیوں سے یہی صدا بلند ہوئی تھی اور توریت کے کھلے اوراق میں یہ تعلیم موجود ہے۔ اسی طرح خانہ کعبہ جو قدیم ترین عبادت گاہ ہے اور عبادت کرنے والوں سے ہمیشہ معمور رہا ہے اس کی اساس توحید اور روز جزا کے عقیدہ ہی پر رکھی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعٰیل علیہما السلام کی تعلیم کے یہ نہایت روشن پہلو تھے لہٰذا یہ آباد گھر روزِ جزا کے عقیدہ کو تسلسل کے ساتھ لوگوں تک منتقل کر رہا ہے۔
یہ تو ہیں روزِ جزا ء کی تائید میں تاریخ کے آثار۔ رہا اس کا خوف تو وہ اللہ کی عظمت کے تصور ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی عظمت کا تصور آثارِ کائنات کے مشاہدہ سے قائم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آسمان کی وسیع چھت جس کی بلندی کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اللہ کے کمال کی قدرت پر دلالت کرتی ہے اور اس کے مشاہدہ سے دلوں میں اس کی عظمت قائم ہوتی ہے اسی طرح زمین پر پانی سے لبریز اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر ب العالمین کی زبردست ہیبت پیدا کرتے ہیں۔ گویا اس کائنات کا پورا ماحول انسان کے لیے یک تربیت گاہ ہے جہاں اللہ کی قدرت اور اس کی عظمت کا یقین پیدا ہوتا ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر چھا جاتی ہے لیکن انسان ہے کہ اس تربیت گاہ میں رہ کر بھی کوئی تربیت حاصل نہیں کرتا اور خدا سے بے خوف ہو کر اور روزِ جزا سے بے پرواہ ہو کر زندگی گزارتا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا واقع ہونا بالکل اٹل ہے اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو روزِ جزا کو آنے سے روک سکے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہاڑ زمین سے اکھڑ کر ہوا میں بکھر جائیں گے۔
مکان کو جب ازسر نو تعمیر کرنا ہوتا ہے تو پرانے مکان کی عمارت ڈھا دی جاتی ہے اسی طرح اس دنیا کی توڑ پھوڑ اس لیے کی جائے گی تاکہ ایک نئی دنیا وجود میں لائی جا سکے۔ ایسی دنیا جس میں انسان اس فصل کو جو اس نے دنیا میں بوئی تھی کاٹ سکے اور اپنے اعمال کا پھل پا سکے۔ اسی کا نام آخرت ہے۔
جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ زمین وآسمان ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ سائنسداں اس کائنات کی لمبی عمر بتاتے ہیں لیکن اس بات سے وہ انکار نہیں کرسکتے کہ کسی وقت بھی یہ کائنات ناگہانی حادثہ سے دو چار ہوسکتی ہے۔ زمین پر بظاہر سکون کی کیفیت ہوتی ہے لیکن زمین کے اندر کی گیس حرکت میں آتی ہے اور زمین زلزلہ سے دو چار ہو جاتی ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کے بارے میں انہوں نے طرح طرح کی بحثیں کھڑی کر دی ہیں اور جنت و دوزخ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب پیغمبر تمہارے سامنے جہنم کا نقشہ کھینچتا تھا تو تم اسے الفاظ کی جادو گری بتاتے تھے اب دیکھ لو جہنم ایک حقیقتِ واقعہ کے طور پر موجود ہے یا نہیں؟ کیا اب بھی تمہیں اس کے جادو ہونے یا کچھ سجھائی نہ دینے کا شبہ ہو رہا ہے؟
۱۲ یعنی اب خامشی کے ساتھ عذاب سہتے رہو یا چیخ پکار کرتے رہو تمہاری کوئی سنوائی ہونے والی نہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو تم نے بویا تھا وہی آج کاٹ رہے ہو۔ یہ تمہارے اعمال کے نتائج ہی ہیں جن کو تمہیں بھگتنا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھٹلانے والوں کے مقابل متقین کا ذکر ہو رہا ہے جس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ اور روز جزا پر ایمان لا کر اس دن کی جوابدہی سے ڈرتے رہے اور پرہیزگاری اختیار کی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھا جانا بجائے خود بہت بڑی نعمت ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی نشستیں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی تاکہ وہ باہم مذاکرہ کرسکیں۔ اور یہ نشستیں نہایت آرام دہ ہوں گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ دخان نوٹ ۵۵ میں گزر چکی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اہل ایمان کے لیے مزید خوشخبری ہے کہ ان کی وہ اولاد جو ایمان لائی اور ان کے پیچھے چل کر اسلام کی پیرو بنی ان کو جنت میں ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور نہیں قلبی سکون حاصل ہو۔
اس الحاق (ملا دینے) کی صورت کیا ہوگی وہ جنت میں پہنچ کر ہی معلوم ہوگی۔ اس سلسلہ میں قیاس آرائی درست نہیں۔
رہی اہل ایمان کی نابالغ اولاد جس کا انتقال بالغ ہونے سے پہلے ہوا ہو تو حدیث میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ جنت میں ہوگی (ملاحظہ ہو۔ بخاری کتاب الجنائز باب ماقال فی اولاد المسلمین)
یہ آیت اہلِ ایمان کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے کہ اگر وہ اپنی اولاد کو اپنے ساتھ جنت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے اندر نور ایمان پیدا کر نے اور انہیں اسلام کا پیرو بنانے کی کوشش کریں۔ موجودہ دور کا مسلمان اپنی اولاد کے دنیوی مستقبل کو شاندار بنانے کے لیے تو سب کچھ کر گزرتا ہے لیکن ان کی آخرت بنانے کی کوئی فکر نہیں کرتا اور کچھ لوگ اگر اپنے بچوں کو دین سکھاتے ہیں تو محض رسمی حد تک۔ اور اس بات کی طرف سے بے اعتنائی برتتے ہیں کہ ان میں شعوری دینداری پیدا کی جائے اور ان کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ اللہ سے ڈرنے لگیں اور دین کو پوری طرح اپنا لیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اولاد سے ملانے کے لیے ان کے درجہ کو گھٹایا نہیں جائے گا بلکہ وہ اپنے اعمال کے مطابق جس درجہ کے مستحق ہوں گے ان کو اسی درجہ میں رکھا جائے گا۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ اولاد خواہ بے عمل ہی کیوں نہ ہو والدین اگر نیک ہیں تو وہ بھی ان کے طفیل جن میں داخل ہوگی۔نہیں بلکہ ہر شخص اپنے عمل کے لیے گروی ہے اور اپنے کئے کا ذ مہ دار ہے۔ چھٹکارا(نجات) اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ وہ نیک اعمال کے ساتھ حار ہو اور نیک اعمال کے لیے ایمان لازم ہے۔ اگر ایمان اور عمل صالح سے اس کی زندگی خالی رہی ہے تو قیامت کے دن وہ اپنے کو چھڑا نہ سکے گا اور جہنم کے عذاب سے نجات نہ پا سکے گا۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ نفیس غذائیں ہم انہیں دیتے ہی چلے جائیں گے۔ اور جس قسم کے میوے اور گوشت وہ پسند کریں گے ان کو دیا جائے گا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ گوشت خوری جنت میں بھی ہوگی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بے تکلف ہو کر ایک دوسرے سے شرابِ خالص کے جام لیں گے جس سے ان کے باہمی انس و محبت کا اندازہ ہوتا ہے جنت کی یہ شراب برے اثرات سے بالکل پاک ہوگی۔ اس کو پی کر آدمی نہ تو بکواس کرے گا اور نہ گناہ کا کوئی کام۔ دنیا کی شراب سے وہ بالکل مختلف ہوگی اور اس سے سرور کی وہ کیفیت پیدا ہوگی جس کا اندازہ اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح محفوظ موتی صاف اور آبدار ہوتے ہیں اسی طرح یہ لڑکے پاک صاف اور جمیل ہوں گے جو جنت والوں کے لیے انسیت کا باعث ہوں گے۔
جن کا یہ تفصیلی نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کے حقیقت ہونے کا یقین پیدا کرتا ہے اور یہ قرآن ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے اس وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جنت کے احوال بیان کئے ہیں جبکہ جنت کا ایسا تفصیلی اور دل لگتا تعارف نہ بائیبل پیش کرتی ہے اور نہ دوسرے مذاہب کی وہ کتابیں جو مقدس سمجھی جاتی ہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کی جوابدہی سے غافل ہو کر اپنے گھر والوں کی دنیا بنانے میں نہیں لگ گئے تھے بلکہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی آخرت سنوارنے میں لگے ہوئے تھے اور محتاط زندگی گزارتے تھے کہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کے عذاب سے جس کا جھلسا دینے والا عذاب بھی بہت بڑا عذاب ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو الٰہ واحد سمجھ کر پکارتے تھے، اسی کی عبادت کرتے تھے اور اسی سے دعائیں مانگتے تھے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت میں اہل ایمان اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں گے جن سے اس نے نوازا ہوگا اور ان کی احسان شناسی کی وجہ سے ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوں گے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکین کے الزام کی تردید ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن اور دیوانہ کہتے تھے۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ شعراء نوٹ ۱۸۰ اور سورۂ حجر نوٹ ۸۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور اس شخص نے رسالت کا جو دعویٰ کیا ہے اس کا کیا انجام ہوتا ہے
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ بات پورے وثوق اور قطعیت کے ساتھ کہتی تھی کہ اگر تم اس انتظار میں ہو کہ رسول کا دنیا میں کیا انجام ہوتا ہے تو منتظر رہو۔ اس کی صداقت ثابت ہو کر رہے گی اور جھٹلانے والے بُرے انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔ اس اعلان کو چند سال ہی گزرے تھے کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، رسول کو عزت اور غلبہ حاصل ہوا اور اس کے جھٹلانے والے ذلت کی موت مرے۔
۳۲ یعنی رسول کی شخصیت کو کاہن، مجنون اور شاعر کہہ کر جس طرح مجروح کرنے کی یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں تو کیا واقعی ان کی عقلیں ان کو یہی باور کراتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کیوں کہ عقلِ سلیم ایسے شخص پر دیوانے کا حکم نہیں لگا سکتی جس کی زبان سے حکیمانہ کلمات ادا ہو رہے ہوں اور نہ دل لگتے حقائق کو پیش کرنے والی شخصیت کو کاہن قرار دے سکتی ہے اور نہ ہی رسول کے مشن کو جس کے ساتھ حجتِ قاہرہ ہوتی ہے شاعری سے تعبیر کرسکتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منکرین کے یہ الزامات عقل کی غلط رہنمائی کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر کا شر ان کو یہ باتیں کہنے پر اکسا رہا ہے اور وہ اپنے غلط جذبات اور خواہشات سے مغلوب ہو کر نافرمانی اور سرکشی پر تل گئے ہیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا کلام الٰہی ہونا ایک واضح حقیقت ہے لیکن چونکہ یہ ایمان لانا نہیں چاہتے اس لیے اس کو پیغمبر کا خود ساختہ کلام قرار دے رہے ہیں۔
آج بھی کتنے ہی لوگ قرآن کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف اس لیے قرار دیتے ہیں کہ اس کو کتاب الٰہی ماننے کی صورت میں انہیں ایمان لانا اور دین اسلام میں داخل ہونا پڑے گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چیلنج تھا جو قرآن کے من گھڑت ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو دیا گیا اور اس چیلنج کو بعد میں بھی متعدد سورتوں میں دہرایا گیا لیکن اس چیلنج کا جواب نہ اس وقت کوئی دے سکا اور نہ بعد کے کسی دور میں۔ اور یہ حقیقت واقعہ ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی کوئی مثال اور کوئی نظیر نہ موجود ہے اور نہ پیش کی جا سکتی ہے۔ الفاظ کی نشست، آیتوں کا نظم، کلام کی روانی، اسلوب کا انوکھا پن، صوتی ہم آہنگی اور دلوں کو مسخر کرنے والا اور روح کو بیدار کرنے والا بیان اس کے معجزہ ہونے کی بین دلیل ہے۔ قرآن کی معجزانہ خصوصیات کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بڑا چبھتا ہوا سوال ہے کہ انسان بغیر خالق کے پیدا ہو گیا ہے یا وہ خود اپنا خالق ہے؟ ظاہر ہے ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں۔ انسان کا مخلوق ہونا ایک واقعہFact ہے اور کوئی مخلوق بغیر خالق کے کس طرح وجود میں آسکتی ہے؟ وہی دوسری صورت کہ انسان خود اپنا خالق ہو تو یہ ناقابلِ تصور اور خلافِ واقعہ ہے۔ جب انسان کا وجود ہی نہیں تھا تو وہ اپنا خالق کیسے بنا اور اگر انسان اپنا خالق ہے تو وہ اپنی تخلیق میں تنوع کیوں نہیں پیدا کرتا۔ کیا ایک سانچہ میں اپنے کو ڈھال دینے کے بعد اس کی قوت تخلیق ختم ہو گئی؟
واضح ہوا کہ تمام خدائی صفات کے ساتھ ایک خالق کا وجود ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور ہر شخص کے ضمیر کی پکار بھی۔ اسی لیے قرآن کی یہ آیتیں دلوں میں نفوذ کرتی چلی گئیں۔ بخاری میں جبیر بن مُطِعم رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۂ طور کی قرأت فرما رہے تھے جب آپ ان آیتوں پر پہنچے تو دل کی یہ کیفیت ہوئی کہ گویا وہ اڑا جا رہا ہے۔(بخاری کتاب التفسیر)
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب یہ نہ اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں اور نہ ان پر ان کا حکم چلتا ہے کہ جس کو جتنا چاہیں دیں تو پھر ان کا غرور اور گھمنڈ کس بات پر ہے؟ جب وہ خدائی منصوبہ کے مطابق ہی اپنے حصہ کا رزق پا رہے ہیں تو ان میں اللہ کی ربوبیت کا احساس بیدار ہونا چاہیے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے کہ وہ آسمانی دنیا کی باتیں معلوم کرسکیں۔ اگر کوئی اس کا دعویدار ہے اور اس نے عالم بالا کی باتیں سن گن لی ہیں تو اس کی واضح حجت پیش کرے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ نہیں ہے تو پھر یہ خدا، فرشتے اور مذہب کے تعلق سے جو باتیں کرتے ہیں ان کا ماخذ کیا ہے؟
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ صافات نوٹ ۱۳۱
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ شعراء نوٹ ۹۸۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا ان پر وحی نازل ہوتی ہے جس کو وہ تحریر میں لا کر کتاب کی شکل دے رہے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ نہیں ہے تو پھر کس بنیاد پر وہ اس ہدایت سے بے نیاز ہو رہے ہیں جو قرآن کی صورت میں نازل ہو رہی ہے؟
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاطر نوٹ ۱۷۸ اور سورۂ طلاق نوٹ ۱۷۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی ہٹ دھرمی ایسی ہے کہ وہ کسی معجزہ پر بھی یقین کرنے والے نہیں۔ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتے ہوئے انہیں دکھایا جائے تو وہ اس کی تاویل یہ کریں گے کہ یہ تہ بہ تہ بادل ہے۔ یہ یقین اسی وقت کریں گے جب کہ عذاب ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تمہاری نصیحت سننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ قیامت کے دن انہیں پتہ چلے گا جب اس ہولناکی سے ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔
کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کا یہ حکم نصیحت کے تعلق سے ہے ورنہ جہاد کے مرحلہ میں ان کی سرکوبی ضروری ہے چنانچہ مدنی دور میں طاقت کا جواب طاقت سے دیا گیا۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے عذاب سے پہلے اس دنیا میں بھی عذاب ہے۔ مراد وہ عذاب ہے جو رسول کو جھٹلانے والی قوم پر آتا ہے۔
چنانچہ مشرکینِ عرب پر اللہ کا عذاب مسلمانوں کی تلوار کے ذریعہ ٹوٹ پڑا اور وہ ذلت کی موت مر گئے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے اور اللہ کی تسبیح و تمجید میں سرگرم رہنے کی ہدایت بھی۔
فیصلہ سے مراد اللہ کا وہ فیصلہ ہے جو کافروں کو سزا دینے کیلئے ظہور میں آئے گا۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر! اللہ تعالیٰ تمہاری نگرانی فرما رہا ہے لہٰذا تم ان کی چالوں کی کوئی فکر نہ کرو۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تم سوکر اٹھو تو اللہ کو یاد کرو اور اس کی پاکی اور اس کی حمد بیان کرو۔ اس میں اشارہ ہے تہجد کی نماز کی طرف۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی شامل ہیں اور رات کے اوقات میں تسبیح کے کلمات کہنا بھی کہ یہ عبادت ہے اور اس سے دل اللہ کی طرف لگا رہتا ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد فجر کا وقت ہے جب کہ ستارے ڈوب رہے ہوتے ہیں آسمان کی بزم سونی پڑ جاتی ہے۔ یہ وقت انسان کے نفس اور اس کی روح کو بیدار کرنے والا ہوتا ہے اس لیے اس وقت تسبیح کا حکم دیا گیا ہے جس میں فجر کی نماز بھی شامل ہے۔
٭٭٭
(۵۳) سورۂ النجم
(۶۲ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کا آغاز نجم (تارے) کی قسم سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” النجم” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے۔ اس سورہ میں معراج کے واقعہ کا اہم ترین پہلو بیان ہوا ہے اس لیے یہ سورۂ بنی اسرائیل کے بعد ہی کی تنزیل ہوسکتی ہے۔ یعنی ۱۲ نبوی کی۔
بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سب سے پہلی سورہ جس میں سجدۂ تلاوت کا حکم دیا گیا وہ سورۂ نجم ہے چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں اس سورہ کی آیتِ سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا تو مشرکین بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے (بخاری کتاب التفسیر)۔ اس روایت کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سورۂ اقراء اس سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی جس میں آیتِ سجدہ ہے اور ہجرتِ حبشہ سے پہلے سورۂ مریم بھی نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔ غالباً حضرت عبداللہ بن مسعود کا منشاء یہ رہا ہو گا کہ سورۂ نجم وہ پہلی سورہ ہے جس کی آیتِ سجدۂ پر مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے ان کے اس بیان کو نقل کرنے میں راوی سے کچھ سہو ہوا ہے۔
ان مفسرین کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا جو سورۂ نجم کو ۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں۔ ان کے بیان کا تضاد اس سے ظاہر ہے کہ وہ ایک طرف تو اس سورہ کو واقعہ معراج سے متعلق مانتے ہیں جو ان کے نزدیک ہجرتِ مدینہ سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے اور دوسری طرف سورۂ نجم کو جس میں معراج کا ذکر ہے ۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں۔
مرکزی مضمون
وحی و رسالت کے سلسلہ میں ان حقیقتوں کو پیش کرنا ہے جن سے ایمان و یقین پیدا ہوتا ہے اور کہانت کے الزام کی تردید ہوتی ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۱۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان شبہات کو دور کیا گیا ہے جو وحی کے تعلق سے منکرین پیش کرتے تھے اور آپ کے عینی مشاہدات کو جو عالم بالا سے تعلق رکھتے ہیں امرِ واقعہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۱۹ تا ۳۰ میں وحی الٰہی کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے اور اس کے نتیجہ میں شرک میں مبتلا ہونے اور جزا و سزا سے انکار کرنے پر گرفت کی گئی ہے اس طور سے کہ ان عقائد کا باطل ہونا بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
آیت ۳۱ اور ۳۲ میں نیکو کاروں کو مغفرت اور انعام کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔
آیت ۳۳ تا ۵۵ میں منکرین کو دعوت فکر دی گئی ہے۔
آیت ۵۶ تا ۶۲ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نذیر ہونے کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے قیامت کے دن سے خبردار کیا گیا ہے اور اللہ ہی کو سجدہ کرنے اور اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔قسم ۱* ہے تارے ۲* کی جب کہ وہ غروب ہو۔۳*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔۴*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے۔ ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔جو بڑا توانا ہے۔۷* وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔۸*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ ۹*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر قریب ا گیا اور معلق ہو گیا۔۱۰*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ ۱۱*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔تب اس نے وحی کی اس کے (اللہ کے) بندہ کی طرف جو کچھ وحی کی۔ ۱۲*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔جو کچھ اس نے دیکھا دل نے اسے جھوٹ نہ کہا۔۱۳*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جس کا وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ ۱۴*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس نے ایک مرتبہ اور بھی اس کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔سدرۃ المنتہی کے پاس۔ ۱۶*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے پاس جنت المأویٰ ہے۔ ۱۷*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ سِدْرَہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ ۱۸*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔نگاہ نہ کج ہوئی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ ۱۹*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ۲۰*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا؟
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک اور مَنات کو جو تیسرا ہے ؟ ۲۱*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں ؟
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہوئی؟ ۲۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے کی رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ ۲۳*۔ یہ لوگ محض گمان اور خواہشاتِنفس کی پیروی کر رہے ہیں ۲۴* حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ ۲۵*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔کیا انسان جس چیز کی بھی تمنا کرے وہ اسے ملے گی؟
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا اور آخرت تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ۲۶*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آ سکتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کو چاہے اور جس کے حق میں پسند کرے۔ ۲۷*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ۲۸*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں۔ ۲۹* وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی مفید نہیں۔۳۰*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹا دو جنہوں نے ہمارے ذکر ۳۱* کی طرف سے رُخ پھیرا ہے اور جن کا مقصود صرف دنیا کی زندگی ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے علم کی پہنچ یہیں تک ہے۔ ۳۲* تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون راہِ راست پر ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو کچھ آسمان اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ___ (اور ا س نے اس لیے پیدا کیا ہے) تاکہ جن لوگوں نے بُرے کام کئے ہیں ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے اچھے کام کئے ہیں ان کو اچھی جزا دے۔ ۳۳*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔جو بڑے بڑے گناہوں ۳۴* اور کھلی بے حیائی کے کاموں ۳۵* سے بچتے ہیں الاّ یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائے۔ ۳۶* بلا شبہ تمہارے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ ۳۷* وہ تمہیں خوب جانتا ہے جس اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا۔ ۳۸* اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین (بچہ) تھے۔ ۳۹* تو اپنے کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ وہی بہتر جانتا ہے کون متقی ہے۔ ۴۰*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے منہ موڑا۔ ۴۱*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔اور تھوڑا سا دیا اور رک گیا۔ ۴۲*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اسے دیکھ رہا ہے۔ ۴۳*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے۔ ۴۴*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابراہیم کے ۴۵* جس نے اپنا قول پورا کر دکھایا۔ ۴۶*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیفوں کی) یہ بات کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ۴۷*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ ۴۸*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ ۴۹*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تمہارے رب ہی کے پاس ہے۔ ۵۰*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔ ۵۱*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ۵۲*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی ہے جس نے مرد اور عورت کا جوڑا پیدا کیا۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بوند سے جب وہ ڈالی جاتی ہے۔ ۵۳*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ ۵۴*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اسی نے غنی کیا اور مال بخشا۔ ۵۵*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ وہی شِعریٰ (تارے) کا رب ہے۔ ۵۶*
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اسی نے اگلے عاد کو ہلاک کیا۔ ۵۷*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور ثمود کو کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ ۵۸*
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان سے پہلے قومِ نوح کو۔ ۵۹* وہ نہایت ظالم اور سرکش تھے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور الٹی ہوئی بستیوں کو بھی گرا دیا۔ ۶۰*
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان پر چھا دیا جو کچھ کہ چھا دیا۔ ۶۱*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔تو اپنے رب کی کن کن نشانیوں میں تم شک کرو گے۔ ۶۲*
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خبردار کرنے والا ہے ان خبردار کرنے والوں میں سے جو پہلے آ چکے ہیں۔ ۶۳*
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔آنے والی گھڑی قریب آ لگی ہے۔ ۶۴*
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے سوا اس کو ظاہر کرنے والا کوئی نہیں۔ ۶۵*
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو۔ ۶۶*
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ ۶۷*
۶۱ا۔۔۔۔۔۔۔۔ور غفلت میں پڑے ہو۔ ۶۸*
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔تو (سنو) اللہ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔ ۶۹*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔قسم یہاں شہادت کے معنی میں ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۱۴
۲۔۔۔۔۔۔۔۔نجم (تارہ) یہاں جنس کے معنی میں ہے اس لیے مراد تارے ہیں نہ کہ کوئی ایک تارہ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔تاروں کے غروب کا منظر انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ تارے جب غروب ہوتے ہیں تو آسمان کی سجی سجائی بزم برخواست ہوتی ہے اس سے ایک طرف تو ان ستاروں کے رب ہونے ، ان کے قسمتوں پر اثر انداز ہونے اور دنیا کے احوال و واقعات میں ان کے دخیل ہونے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ جب وہ خود ایک قانون کے پابند اور ایک نظام میں جکڑے ہوئے ہیں تو وہ رب اور متصرف کیسے ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نہ ستارہ پرستی کیلئے کوئی وجہ جواز ہے اور نہ ان اوہام کی کوئی حقیقت ہے جن کی بنا پر ستاروں کو سعد یا نحس قرار دیا جاتا ہے اور کہانت (جوتش) کا کاروبار چلا کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری ہے۔ چنانچہ اخبارات کے کالموں میں "ستارے کیا کہتے ہیں ” (What Stars foretell) کے عنوان کے تحت مستقبل کا حال بتایا جاتا ہے اور جھوٹی پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔
دوسری طرف ستاروں کے غروب ہونے کا یہ منظر رب کائنات کی معرفت بخشتا ہے کہ اس کائنات پر ایک ایسی ہستی کا اقتدار ہے جس کی عظمت کے آگے سب ہیچ ہیں اور وہ نہایت حکمت کے ساتھ اس کائنات کا انتظام فرما رہا ہے۔ کسی اور رب، الٰہ اور متصرف کا اس کائنات میں کوئی وجود نہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ تمہارے ساتھ ہی انہوں نے عمر گزاری ہے اس لیے تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ غلط راہ پر چلنے والے اور بہکی بہکی باتیں کرنے والے آدمی نہیں ہیں۔ ان کو تم محض اس بنا پر غلط راہ پر پڑا ہوا اور بہکا ہوا قرار دیتے ہو کہ وہ تمہیں توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پیش کرتا ہے حالانکہ آثارِ کائنات سے ان باتوں کی صداقت واضح ہوتی ہے جس کی مثال ستاروں کا غروب ہونا ہے۔
واضح رہے کہ ضلالت (گمراہی) ہدایت کے مقابلہ میں اور غوایت (بہکنا) رُشد (سوجھ بوجھ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں زیر بحث قرآن ہے۔ اس لیے اس کے تعلق سے ارشاد ہوا ہے کہ یہ قرآن اس شخص نے اپنی خواہش سے مرتب نہیں کیا ہے بلکہ یہ سرتا سر وحی ہے جو قرآن کی شکل میں اس پر نازل ہوئی ہے۔
اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب رسالت کا منصب ہے تو آپ کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی نفسانی خواہشات کی بنا پر نہیں ہوسکتی بلکہ اس علم کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا تھا۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔مراد حضرت جبرئیل ہیں جو فرشتوں کے سردار ہیں۔ (دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۲۱ اور ۲۳)۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی حضرت جبرئیل اپنی خلقت میں مضبوط اور توانا ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت اور قوت بخشی ہے کہ وہ آناً فاناً آسمان سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ اور ان کے کام میں جِن اور شیاطین کوئی مداخلت نہیں کرسکتے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح نمودار ہوئے کہ بالکل سیدھے کھڑے تھے تاکہ آپ ان کو اچھی طرح دیکھ لیں۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔وہ آسمان کی بلند افق پر نمودار ہوئے تھے تاکہ آپ انہیں زیادہ روشن فضا میں دیکھ سکیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔پھر حضرت جبرئیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور معلق ہو گئے۔ یعنی ان کو زمین پر پاؤں رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ فرشتہ تھے اس لیے ہوا میں لٹک کر کھڑ ے ہو گئے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔” دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم” عربی کا محاورہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت جبرائیل نمودار تو افق پر ہوئے تھے لیکن پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب آ گئے کہ مشکل سے دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا ہو گا۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں واضح طور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اور اس میں شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی۔
واضح رہے کہ عربی میں اَوْ (یا) بَلْ (بلکہ) کے معنی میں بھی آتا ہے (لسان العرب ج۱۴ ص ۵۴) اس لیے ہم نے آیت میں اَوْ کا ترجمہ بلکہ کر دیا ہے۔
حضرت جبرائیل سب سے پہلے غارِ حرا میں وحی لے کر نازل ہوئے تھے اور اس کے بعد بارہا آپ کے پاس وحی لے کر آتے رہے لیکن جس واقعہ کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں قوت پرواز کے ساتھ دیکھنے کا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ (مسلم کتاب الایمان)
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جبرائیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے نزدیک آ کر جو وحی کرنا تھی کی۔ عبدہ سے مراد اللہ کے بندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ موقعِ کلام سے واضح ہے اور یہاں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے موزوں ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جبرائیل کے اس عینی مشاہدہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے تصدیق کی۔ آپ کو پورا یقین ہو گیا کہ یہ فرشتہ جبرائیل ہی ہیں جن کو وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں فریب نظر کا ادنیٰ احتمال بھی نہیں تھا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ایک عام آدمی نہ فرشتہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور نہ اسے وحی الٰہی کا تجربہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو فرشتہ کا بھی مشاہدہ کراتا ہے اور اس پر وحی بھی نازل کرتا ہے اور اللہ کے رسول کی صداقت پر اس کی پوری شخصیت اور نفسِ کلام جس کی وحی کی گئی دلیل ہوتا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دوسری مرتبہ بھی اپنی اصل شکل میں دیکھا جس سے پہلے مشاہدہ کی مزید توثیق ہو گئی۔ دوسری مرتبہ جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں دیکھنے کا واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔”سِدرہ” کے معنی بیری کے درخت کے ہیں اور منتہٰی کے معنی انتہائی کے ہیں۔ یعنی بیری کا وہ درخت جو اس عالم کے آخری سرے پر واقع ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس درخت کو آپ نے معراج کے موقع پر ساتویں آسمان پر دیکھا۔
بیری کا درخت گھنا اور سایہ دار ہوتا ہے اور اس کے پتے خوشبودار ہوتے ہیں۔ اس سے اس درخت کے بارے میں جو اس عالم کی آخری سرحد پر ہے ایک ہلکا سا تصور ذہن میں آتا ہے ورنہ عالم بالا کی چیزیں ہمارے لیے مشابہات میں سے ہیں جن کی اصل حقیقت نہ ہمارے ذہن کی گرفت میں آ سکتی ہے اور نہ اس کو معلوم کرنے کے درپے ہونا ہمارے لیے جائز ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔جنت الماویٰ کے معنی وہ جنت میں جو رہائش گاہ یعنی مومنوں کا ٹھکانا ہو گی چنانچہ سورۂ سجدہ میں ارشاد ہوا ہے :
اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَعَمِلُو الصٰالِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ المَأوٰینُزُلاْ بِمَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ۔ (السجدہ:۱۹)
” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ان کے لیے جنات المأویٰ (رہائشی باغ) ہیں۔ ضیافت کے طور پر ان کے اعمال کے صلہ میں۔”
قرآن کی یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ جنت آسمان پر سِدْرۃ المنتہیٰ کے پاس موجود ہے۔ سدرۃ المنتہٰی کے پاس جنت المأویٰ کے ہونے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں اس عالم کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں وہیں سے جنت کی سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں اور معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسائی اس مقام تک ہوئی تھی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اسرارِ الٰہی تھے جو جلوہ گر ہو گئے تھے جیسا کہ آگے آیت ۱۸ سے اشارہ ملتا ہے۔ اور یہ بات کہ چھا رہا تھا” جو کچھ اس پر چھا رہا تھا” ان اسرار سے ہستم بالشان ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی پیغمبر کی نگاہیں ٹھیک ٹھیک ان چیزوں پر جمی رہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں اور آپ نے ان چیزوں کو نگاہوں کی صحت کے ساتھ دیکھا۔ آپ کو نہ نظر کا دھوکا ہوا اور نہ نگاہیں منتشر ہوئیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ مشاہدہ کیا۔
اس سے واضح ہوا کہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ آپ کا عینی مشاہدہ تھا نہ کہ خواب اور یہ معراج صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی بھی تھی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم بالا میں عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ کیا جن میں حضرت جبرائیل کو ان کی اصل شکل میں ان کی بلند ترین پرواز کے مقام سدرۃ المنتہی پر دیکھنا بھی شامل ہے۔ معراج کے اس واقعہ کی تفصیل حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں واقعہ ا سرار (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لے جانے) کا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ:
لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاَتِنَا "تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔” (بنی اسرائیل:۱)
اور یہاں ارشاد ہوا ہے :
لَقَدْ رَایٰمِنْ آیَاتِ رَبِّہٖ الْکُبْریٰ ” بلا شبہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔”
ان نشانیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عینی مشاہدہ اس لیے کرایا گیا تاکہ آخری رسول ہونے کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے لوگوں پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہو جائے کہ رسول نے جو باتیں وحی کی بنا پر پیش کی ہیں ان میں ادنیٰ شک کے لیے بھی گنجائش نہیں ہے۔ وہ یقینی علم کی بنیاد پر ہیں اور رسول نے عالمِ بالا کا عینی مشاہدہ کیا ہے اس لیے اسرار کائنات پر سے وہ پردہ اٹھا رہا ہے جس سے توحید کا پہلو اور اجاگر ہو کر سامنے آ رہا ہے اور آخرت کے شواہد بھی۔ یہ وہ شخصیت ہے جس کی پہنچ ساتویں آسمان (سدرۃ المنتہیٰ) تک ہوئی اس لیے اس کے علم سے تم اپنے علم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا وہ اپنے اس غیر معمولی علم کی روشنی میں تمہاری جو رہنمائی کر رہا ہے اس کو قبول کرنا اپنی منزل کو پا لینا ہے۔
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے رب کو دیکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ اس کی آیتوں (نشانیوں) کو دیکھنے کا ذکر ہے اس لیے جن حضرات کا یہ قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا وہ صحیح نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذکر ان آیتوں میں ضرور ہوتا کیونکہ اتنی اہم بات سے یہ بیان کس طرح خالی ہوسکتا تھا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی پُر زور تردید کی ہے۔ چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ:
” حضرت عائشہ نے مسروق سے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جو اس کا قائل ہو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق کہتے ہیں میں نے پوچھا وہ کیا ہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) جو شخص خیال کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے اللہ پر بہت بڑا جھونٹ باندھا۔” (مسلم کتاب الایمان)
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مشرکین کے بتوں کے نام ہیں جن کو وہ پوجتے تھے قرآن نے نام لے کر شرک کے ان مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی تاکہ ان کا بے حقیقت ہونا واضح ہو جائے اور ان کے پرستار ہوش کے ناخن لیں۔
یہ تینوں قریش اور دیگر قبیلوں کے بڑے بت تھے اور ان کو وہ مؤنث مانتے تھے یعنی یہ ان کی دیویاں تھیں۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے۔
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِنَا ثاَ "یہ لوگ اس کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں۔” (نساء: ۱۱۷)
اور جیسا کہ آگے آیت ۲۱ اور ۲۶ سے واضح ہے یہ فرشتوں کے بت تھے جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ ان ناموں کی اصل کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے تاہم ان کی لغوی ہیئت سے اندازہ ہوتا ہے کہ:
"اللات” لفظ الا لہٰ (خدا۔معبود) سے کچھ حروف حذف کر کے اور ” ت” جو مؤنث کی علامت ہے بڑھا کر بنایا گیا ہے۔ اس لفظ کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ لفظ ” اللہ” کا مؤنث ہے کیونکہ یہ اسم خاص اور بے مثال ہے اور اس سے کوئی لفظ بھی مشتق (Derived) نہیں۔ قرآن میں ہے :
ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیَّا ” کیا تمہارے علم میں اس کا ہمنام کوئی ہے ؟ ” (مریم: ۶۵)
اور مشرکین عرب کے نزدیک بھی اللہ کا نام اس ہستی کے لیے خاص تھا جو کائنات کی خالق اور معبود خلائق ہے وہ اس کے لیے دیوی بمعنی بیوی سے قائل نہیں تھے البتہ وہ فرشتوں کو اس کی بیٹیاں (دیویاں) قرار دیتے تھے۔
” اَلْعُزَّی” اَلْاَعُزَّ کا مؤنث ہے جس کے معنی ہیں بہت عزت اور غلبہ والا۔ ان کے نزدیک نصرت اور غلبہ کی دیوی تھی جس کا انہوں نے بت بنا لیا تھا۔ جنگ اُحُد میں ابوسفیان نے اسی کی جئے پکارتے ہوئے کہا تھا:
لَنَا الْعُزّٰی وَلاَ عُزّٰی لَکُمْ ” ہمارے لیے عُزّٰی (دیوی) ہے اور تمہارے لیے کوئی عُزّٰی نہیں۔”
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب اس طرح دینے کے لیے فرمایا تھا:
اللّٰہُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ ” ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔” (تفسیر ابن کثیر ج ۴ص ۲۵۳)
المناۃ۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان قدید کے مقام پر بت تھا جس کے پاس سے مشرکین احرام باندھا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر)
یہ تیسرا بہت بڑا بت تھا اور قرآن نے اس کو الثالثۃ (تیسرا) کہہ کر تثلیث (تین خداؤں) کے فاسد عقیدہ کی طرف اشارہ کیا ہے تثلیث (Trinity) کا عقیدہ نصاریٰ میں تھا چنانچہ انہوں نے باپ، بیٹا اور روح القدس کے نام سے تین خدا بنا لئے تھے اور مشرکینِ عرب نے لات، عُزّٰی اور منات کے بت نصب کر کے تین دیویوں کا عقیدہ گڑھ لیا تھا۔
مشرکینِ ہند بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ اور زیادہ فساد عقیدہ میں مبتلا ہیں چنانچہ ان کے ہاں تین خاص دیوتاؤں۔ برہما، وشنو اور شیو کا تصور پایا جاتا ہے جس نے تین مورتی کی شکل اختیار کر لی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کو بھیج کر لات، عزّی اور مناۃ ان تینوں بتوں کو تڑوا دیا تھا یہاں تک کہ ان کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ان بتوں کے اندر اگر واقعی دیویوں کا وجود تھا تو وہ اپنا بچاؤ کیوں نہیں کرسکتے ؟
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اول تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا ایک خلافِ واقعہ بات ہے دوسرے اس کی نا معقولیت اس سے بھی ظاہر ہے کہ تم جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتے ہو اسی کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہو۔ تم اپنے لیے لڑکے پسند کرتے ہو اور جب کوئی لڑکی تمہارے یہاں پیدا ہو جاتی ہے تو تم اپنے لیے اسے باعثِ عار سمجھنے لگتے ہو لیکن اللہ کے لیے اس بات کے قائل ہو کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور لات، عزّی اور منات کے مؤنث نام سے ان کی مورتیاں بنا لی ہیں۔ یہ ایسی بھونڈی بات ہے کہ ہر معقول آدمی اس کو محسوس کرسکتا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ محض نام ہی نام ہیں ان کا کوئی مسمّٰی موجود نہیں ہے۔یہ بت حقیقۃً دیویاں نہیں ہیں۔ ان کے اندر خدائی کی کوئی صفت بھی موجود نہیں ہے پھر ان کو معبود بنانے کا کیا مطلب ؟
مشرکینِ ہند نے بھی بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی مورتیاں بنا لی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو پوجنے سے وہ خوش ہو جاتے ہیں اور ان کی حاجتیں پوری کرتے ہیں مگر حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فرضی نام ہیں جن کو پکارا جاتا ہے۔ نہ کہیں کسی دیوتا کا وجود ہے اور نہ دیوی کا اور نہ ان مورتیوں میں خدائی کی کوئی صفت ہے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ بتوں کو معبود بناتے ہیں ان کے پاس اس کے جواز کی کیا دلیل ہے ؟ انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ ان کے اپنے ہاتھ کے تراشتے ہوئے بتوں میں خدائی کی صفات موجود ہیں ؟ اور انہیں اس بات کا کیسے پتہ چلا کہ دیوی دیوتاؤں کا بھی وجود ہے ؟ انسان کا اور پوی کائنات کا خالق تو اللہ ہے اور اس نے اس کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ خدا کی کسی کتاب میں اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں ہرگز اس کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا بت پرستی کے لیے کوئی علمی بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ محض وہم و گمان کی باتیں ہیں اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں وہ اندھے ہو رہے ہیں۔
عقیدہ دراصل کسی ٹھوس علمی بنیاد ہی پر ہوسکتا ہے لیکن مشرکین نے دیوی دیوتاؤں کا جو فلسفہ گھڑا ہے وہ محض وہم و گمان اور اٹکل پچو باتیں ہیں اور چونکہ اس پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے اس لیے ان کی خواہشات نے انہیں ان کا عقیدت مند بنا دیا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب ان کے رب کی طرف سے واضح ہدایت قرآن کی شکل میں آ گئی ہے تو اب بت پرستی سے یہ کیوں چمٹے رہنا چاہتے ہیں ؟
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان اگر تمناؤں اور آرزوؤں کی دنیا میں جینا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس لیے اسی سے توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں اور یہ توقعات اسی کی ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اس سے رکھی جانی چاہئیں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی آسمانوں میں بہ کثرت فرشتے ہیں لیکن ان کی سفارش کسی کے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہوسکتی الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو سفارش کرنے کی اجازت دے اور جس کے حق میں سفارش کرنا پسند فرمائے۔
مشرکین فرشتوں کو اللہ کے حضور سفارشی سمجھتے تھے یعنی وہ سمجھتے تھے کہ ہم اگر ان کی پرستش کریں گے تو وہ اپنے پرستاروں کے حق میں اللہ سے سفارش کریں گے کہ وہ ہمیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ لہٰذا اگر آخرت برپا ہو ہی گئی تو یہ فرشتے جن کی ہم پرستش کرتے رہے ہیں ہمیں عذاب سے نجات دلا کر رہیں گے۔ ان کے اسی باطل عقیدہ کی یہاں تردید کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ کسی فرشتہ کا بھی اللہ کے آگے زور نہیں ہے کہ وہ اپنی بات منوا کر رہے۔ قیامت کے دن سفارش کے لیے وہی فرشتے زبان کھول سکیں گے جن کو اجازت دی جائے گی اور ان ہی کے حق میں وہ سفارش کریں گے جن کے لیے سفارش کرنا اللہ نے پسند فرما لیا ہو۔یہ ایک استثنائی صورت ہو گی جس کا فائدہ مشرکوں اور کافروں کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔
شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے لات، عزّیٰ اور منات۔ یہ سب مؤنث نام ہیں جیسا کہ سیاقِ کلام (Context) سے واضح ہے کہ یہ فرشتوں کے بت تھے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کی یہ بات کہ فرشتے مؤنث ہیں اور دیویاں ہیں علم پر نہیں بلکہ جہالت پر مبنی ہے۔ انہیں آخر کیسے معلوم ہو گیا کہ فرشتے مؤنث ہیں اور دیویاں ہیں ؟
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔”ظن” عربی میں کئی معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ وہم کے معنی میں ہے۔ مشرکین کے خدا وہم کی پیداوار ہیں جبکہ قرآن ایک خدا کا جو عقیدہ پیش کر رہا ہے وہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور ان کا امر حق کے مقابل میں وہم و گمان کو ترجیح دینا بے معنی اور بے سود بات ہے۔
واضح ہوا کہ عقیدہ کا معاملہ نہایت اہم اور بنیادی معاملہ ہے جو علم حق پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور وہم و گمان پر۔ اور علم حق کے حصول کا ذریعہ وحی الٰہی (قرآن) ہے۔ مگر مسلمان کے مختلف فرقوں نے عقیدہ کے معاملہ میں بھی ضعیف اور موضوع (گھڑی ہوئی) حدیثوں کا سہارا لیا ہے اور ان کے مطابق قرآن کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں اس طرح شرک نے قبر پرستی اور اولیاء پرستی کی شکل میں مسلمانوں کے اندر راہ پالی ہے۔ اگر وہ عقیدہ کے معاملہ میں قرآن پر انحصار کرتے جس کی ہر بات قطعی ہے اور ان کمزور روایتوں کو جو اس سے مطابقت نہیں رکھتیں رد کر دیتے تو شرک سے ملوث نہ ہوتے کیونکہ قرآن میں عقائد بڑے واضح انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور خود قرآن نے ان کو ” بیّنات” سے تعبیر کیا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قرآن ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی وہ نہیں جانتے کہ دنیا کے بعد آخرت بھی ہے۔ انہوں نے دنیا کے خول میں اپنے کو ایسا بند کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے عالم کا جہاں اعمال کے نتائج رونما ہوں گے تصور بھی نہیں کر پاتے۔ عالمِ آخرت کی جو جھلک قرآن انہیں دکھا رہا ہے اس کو دیکھنے سے ان کی کوتاہ بین نگاہیں قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بڑے بڑے سائنس داں اور جدید علوم کے ماہرین آخرت کے بارے میں بالکل کورے ثابت ہو رہے ہیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اس نے اس کائنات کو جس کا وہ تنہا مالک ہے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ اس کی صفتِ عدل اور صفتِ رحمت کا ظہور ہو لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جب انسان اپنے کئے کا پھل پائے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔کبائر (بڑے بڑے گناہ) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۷۹
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔فواحش (بے حیائی کی باتوں) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۷۷
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔اصل میں لَمَم لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گناہ سے قریب ہونے کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے :
وَللَّمَمُ:۔ مقاربۃ الذنب: ” لمم یعنی گناہ سے قریب ہونا۔” (لسان العرب ج ص ۵۴۹)
مراد لغزشیں اور چھوٹے چھوٹے قصور ہیں جو نادانستہ یا جذبات کے غلبہ سے سرزد ہو جائیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ نیک عمل کرنے والے جن کو اللہ اچھی جزا دے گا وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ اپنے دامن کو ان گناہوں سے پاک رکھتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ بے احتیاطی کی وجہ سے گناہ کے چکھ چھینٹے ان پر پڑ جائیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ گناہوں کی گندگی میں لت پت ہو جائیں۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچنے والوں سے جو چھوٹے چھوٹے قصور سرزد ہوئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ سخت معاملہ نہیں کرے گا بلکہ ان کو اپنے دامن مغفرت میں لے گا اس کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ یہ متقیوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ یہ نہیں بتلایا گیا ہے کہ یہ اور یہ گناہ چھوٹے (صغیرہ) ہیں الا یہ کہ کہیں کوئی اشارہ نکلتا ہو۔ اور اس کی صراحت نہ کرنا ہی حکمت کا تقاضا تھا ورنہ لوگ ان کو ہلکا سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے لگتے۔ لہٰذا صغیرہ گناہوں کی بحث میں پڑنا اور ان کی تعین کرنا غیر حکیمانہ بات ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی مٹی سے پیدا کیا؟ تورات میں بھی اس کا ذکر ہے :
” اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔” (پیدائش ۲:۷)
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب تم ماؤں کے پیٹ میں زندگی کی ابتدائی حالت میں تھے۔تمہیں کوئی ہوش نہیں تھا اور ایک خول میں بالکل بند تھے اس وقت تمہاری جو حالت تھی اس کو اللہ ہی جانتا تھا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تنبیہ ہے کہ کوئی شخص بھی اپنی پاکیٔ داماں کی حکایت نہ بڑھائے بلکہ اپنے کو قصور وار سمجھتے ہوئے یقین رکھے کہ اللہ ہی اس کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ وہ اس کے حال سے اس وقت بھی واقف تھا جب کہ مٹی سے بشر کی پیدائش کا آغاز ہوا تھا اور پھر وہ جنین (Embryo) کی شکل میں ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ خود اپنی حالت کو نہیں جانتا پھر وہ کس بنا پر اپنے بے خطا اور معصوم ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اللہ ہی اس کے حال سے اس کی پیدائش کے وقت بھی بخوبی واقف تھا، بشریت کی کمزوریوں کو بھی وہ خوب جانتا ہے اور ہر ہر شخص کی ظاہری اور باطنی، قلبی اور عملی حالت سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہے لہٰذا اسے خوب معلوم ہے کہ کون متقی ہے اور کس درجہ کا تقویٰ اس کے اندر ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قرآن اور پیغمبر کی ہدایت کو قبول کرنے سے منہ موڑا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی محتاجوں کو کچھ دیا اور پھر ہاتھ روک لیا۔ یہ ایسے شخص کا کردار ہے جو اپنا مال مسکینوں پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ نہیں کرتا بلکہ کچھ ” خیرات” کر کے چھدّا اتارنے کا کام کرتا ہے۔ دل کا یہ بخل ایس ایمان لانے پر آمادہ نہیں کرتا جو قربانیوں کا طالب ہے۔
معلوم ہوا کہ بخل ایک نفسیاتی مرض ہے جو انسان کو تنگ نظری میں مبتلا کر دیتا ہے اور یہ تنگ نظری قبولِ حق سے روکتی ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ایسا شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر آخرت برپا ہوئی تو اس کی یہ رسمی مذہبیت اس کی نجات کا باعث ہو گی۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ کھلے ذہن سے سوچیں کہ ان کا یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے۔ کیا انہوں نے غیب میں جھانک کر دیکھا ہے کہ قیامت کے دن کامیابی کا انحصار کس بات پر ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ سارے مذہبی دعوے کھوکھلے ہیں اور حق وہی ہے جو قرآن اور اس کا پیغمبر پیش کر رہا ہے کیونکہ پیغمبر جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو اللہ تعالیٰ اس پر نازل کر رہا ہے اور یہ وحی ہی ہے جو علمِ غیب کا ذریعہ ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔موسیٰ کے صحیفوں سے مراد تورات ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم کے صحیفے قدیم ترین صحیفے ہیں جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ان پر وحی تو ضرور نازل ہوتی رہی اور انہوں نے اپنی تعلیمات بھی اپنے پیروؤں میں چھوڑیں لیکن آیا صحیفہ کے طور پر کوئی چیز ان کو دی گئی تھی اس کا ذکر قرآن میں نہیں ملتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں ہی کو اولین حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس سے اہل مذاہب کے ان دعووں کی تردید ہوتی ہے جو اپنی ” مقدس کتابوں ” کو حضرت ابراہیم سے بھی پہلے کی آسمانی کتابیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم کے صحیفے تو اب باقی نہیں رہے اور نہ تورات اپنی اصل شکل میں باقی ہے لیکن قرآن نے ان کی بنیادی تعلیمات کو اپنے اندر محفوظ کر لیا۔ آگے ان تعلیمات کا ذکر نہایت دلنشیں اسلوب میں کیا گیا ہے جس کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے صحیفے ہی پڑھ رہے ہیں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جو قول و قرار ابراہیم نے اپنے رب سے کیا تھا وہ اس نے بدرجۂ اتم پورا کیا ان کی بے شمار قربانیاں ان کی وفا شعاری کا ثبوت ہیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانا ہو گا اس روز کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ جن مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں وہ اگر انہیں گمراہ کر رہے ہیں تو اس گمراہی کا وبال ان ہی پر پڑے گا اور ان کے پیرو کار سزا سے بچ جائیں گے۔ نہیں بلکہ ان گمراہ پیشواؤں اور لیڈروں کے پیچھے چلنے والے اپنی گمراہی کے ذمہ دار ہوں گے اور اس کی سزا پائیں گے کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں بھی دی تھیں ، عقل بھی دی تھی اور ان پر ہدایت کی راہ بھی واضح کر دی تھی پھر وہ کیوں اندھے بن کر گمراہی کی طرف بلانے والوں کے پیچھے چلتے رہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آیت اس بارے میں قاطع (قطعی ثبوت) ہے کہ انسان کو اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے کیا ہو گا۔ کسی دوسرے کے عمل کی جزا وہ نہیں پا سکتا۔ ثواب اس شخص کو ملے گا جس نے نیک عمل کیا ہو گا اور اس کے اثرات جہاں تک بھی پہنچیں گے ان سب پر وہ اجر کا مستحق ہو گا چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے :
مَنْ یَّشْفَعُ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا ” جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے ایک حصہ پائے گا۔” (نساء: ۸۵)
اور حدیث میں آتا ہے :
مَن دَعَااِلٰی ہُدیً کَانَ لَہٗ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلَ اُجُوْرِمَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اُجُوْرِہِمْ شَی ْئاً۔
” جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو اسے ان لوگوں کی طرح اجر ملے گا جو اس کی اتباع کریں گے۔ ان کے اجر میں کسی کمی کے بغیر” (مسلم کتاب العلم)
اور ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے :
اِذَامَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَ ثَۃٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ جَارِی َۃٍ اَوْعِلْمٍ یُنّتَفَعُ بِہٖ وَوَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْلَہٗ
” جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے بجز تین چیزوں کے ایک صدقۂ جاریہ دوسرے علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔” (مسلم کتاب الوصیۃ)
یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جن میں انسان کے اپنے عمل کا دخل ہے صدقۂ جاریہ اس کا اپنا عمل ہے۔ علمی خدمات جن سے لوگ اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھائیں اسی کی کوششوں کے اثرات ہیں اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے اسی کی تربیت یافتہ ہے۔ بصورت دیگر وہ کیوں اجر کا مستحق ہو گا۔
قرآن کی اس اصولی تعلیم کے باوجود جو بینات میں سے ہے اور جس کے سلسلہ میں ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے مسلمانوں میں ایصالِ ثواب کی رسم جو سراسر اس اصولی تعلیم کے خلاف ہے چل پڑی ہے اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک عمل کا ثواب کسی مسلمان کو بخش سکتا ہے مگر یہ دعویٰ بلا دلیل ہے کیونکہ نہ قرآن میں ایسی کوئی بات کہی گئی ہے اور نہ حدیث میں۔ جن حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان سے ایصا لِ ثواب ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مرنے والے کے وارثوں کو ایسے کام کی تکمیل کی اجازت دی گئی جس میں اس کی نیت اور عمل کا دخل تھا مثلاً وصیت، نذر وغیرہ یہ ایصالِ ثواب نہیں بلکہ نیابت یا وکالت ہے اس شخص کی طرف سے جو ایک فریضہ کو ادا کرنے سے معذور رہا۔ ورنہ اگر ثواب کی منتقلی کو مطلقاً جائز قرار دیا جائے تو پھر زندوں کے لیے بھی ایصالِ ثواب جائز قرار پائے گا۔
تعجب ہے کہ صاحب تفہیم القرآن نے بھی ایصال ثواب کے سلسلہ میں متضاد باتیں کہی ہیں۔ ایک طرف فاضل مفسر آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ :
” اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پا سکتا۔ الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔” (تفہیم القرآن ج ۵ ص ۲۱۵۷)
اور دوسری طرف وہ چند حدیثوں کو استدلال میں پیش کر کے ایصالِ ثواب کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم طوالت کے خو ف سے بچتے ہوئے یہاں مختصراً ان کی پیش کردہ احادیث کا جائزہ پیش کرتے ہیں :
۱) بخاری، مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ مگراس میں ایصالِ ثواب کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ پوری امت کی طرف سے مینڈھا قربان کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا اور امت کے ولی ہونے کی حیثیت سے آپ نے یہ قربانی پیش کی تھی جو زندوں کی طرف سے بھی تھی اور آئندہ پیدا ہونے والے افراد امت کی طرف سے بھی۔ اگر اس کو ایصالِ ثواب کے لیے دلیل بنایا جائے تو پھر لا تعداد زندہ اور مردہ نیز آئندہ پیدا ہونے والے مسلمانوں کی طرف سے ایک مینڈھے کی قربانی جائز قرار پائے گی جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں۔
۲) بخاری ،مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں۔
اس حدیث کے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس شخص کی ماں کو اگر موقع ملتا تو وہ اپنے مال میں سے صدقہ کرنے کی وصیت کرتیں اور چونکہ اس کا موقع نہیں ملا اس لیے اس کی نیت کو وصیت کے قائم مقام سمجھ کر صدقہ کرنے کی اجازت دی گئی۔اس سے جس بات کا جواز نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی اچانک موت واقع ہو گئی ہو اور اندازہ یہ ہو کہ اگر اسے موقع ملتا تو وہ اپنے مال میں سے صدقہ کرنے کی وصیت کرتا تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے صدقہ کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں مرنے والے کی نیت اور اس کا چھوڑا ہوا مال دونوں شامل ہیں۔ مگر اس سے ایصالِ ثواب کا ثبوت نہیں ملتا۔
۳) مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کر دئے۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ حضورؐ نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا قرار کر لیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لیے نافع ہو گا۔
یہ حدیث بھی بشرطِ صحت نذر سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا مفاد یہی ہے کہ بیٹا باپ کے مرنے پر اس کی نذر کو پورا کرسکتا ہے اگر وہ توحید پر مرا تھا۔ اس میں اول تو نذر ماننے والے کی نیت کا دخل ہے۔ دوسرے اس نذر کو اس کا وارث پورا کر رہا ہے جب کہ وہ اپنی موت کے سبب اپنی نذر کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔ اس کا ایصالِ ثواب سے کیا تعلق؟ پھر یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے۔ مسند احمد میں (ج ۲ص ۱۸۲) یہ روایت عمرو بن شعیب سے ہے اور عمرو بن شعیب ثقہ ہونے کے بارے میں محدثین میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے ہیں ابن معین کہتے ہیں وہ بذاتِ خود ثقہ ہیں لیکن جب وہ اپنے باپ اور ان کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں تو وہ لائق حجت نہیں ہوتی اور نہ متصل ہوتی ہے بلکہ ضعیف ہوتی ہے جو مرسل کے قبیل سے ہے۔ (تہذیب التہذیب حج ۸ ص ۵۴) اس لیے اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں۔
۴) مسند احمد ،ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حس بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔
یہ روایت حسن بصری کی ہے اور حسن بصری سعد بن عبادہ کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ہیں اس لیے درمیان کا ایک راوی چھوٹ گیا ہے لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے جو حجت نہیں بن سکتی۔ البتہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری کتاب الجنائز)
اس حدیث پر امام بخاری نے مَوْتُ الْفَجَأَۃِ بَغْتَۃً (اچانک موت) کا باب باندھا ہے نہ کہ ایصال ثواب کا۔ اسی طرح انہوں نے کتاب الوصایا میں باب باندھا ہے مَایُسْتَحَبُّ لَنْ ی ُّتَوْفَّی فَجْأَۃً اَنْ یَّتَصَدَّ قُوَاعَنَہٗ وَقَضَاءِ النُّذُوْرِعَنِ الْمًیّتِ (جس کا اچانک انتقال ہو گیا ہو اس کی طرف سے صدقہ کرنا اور میت کی طرف سے نذریں پوری کرنا مستحب ہے) اس باب کے تحت امام بخاری نے دو حدیثیں نقل کی ہیں۔ ایک تو وہی حضرت عائشہ کی حدیث ہے جس کا ذکر اوپر ہوا اور دوسری ابن عباس سے کہ ” سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ نذر ہے۔ آپ نے فرمایا تم اس کی طرف سے نذر پوری کرو۔” غور طلب بات یہ ہے کہ امام بخاری نے ان حدیثوں پر ایصالِ ثواب کا باب نہیں باندھا بلکہ میت کی طرف سے نذر وغیرہ پوری کرنے کا باب باندھا۔ مختصر یہ کہ ان حدیثوں کو ایصالِ ثواب کی تائید میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
۵) دارقطنی میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو ا اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کر دیا جائے گا۔
یہ حدیث دارقطنی میں راقم سطور کو کہیں نہیں ملی اور علامہ ناصر الدین البانی نے بھی سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں حافظ سخاوی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ” دارقطنی کی سنن میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔”
علامہ البانی کہتے ہیں کہ ویلمی اور ابویعلی نے اسے روایت کیا ہے لیکن یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔ اس کا ایک راوی عبداللہ بن احمد بن عامر ہے جس کے بارے میں ” میزان الاعتدال” میں ہے کہ وہ حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا۔ سیوطی نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور حافظ سخاوی نے لکھا ہے کہ اس کے راوی عبداللہ اور اس کے والد دونوں جھوٹے ہیں اور اگر اس حدیث کی کوئی اصل ہوتی تو وہ اس اختلافی مسئلہ میں حجت ہوتی اور اختلاف باقی نہ رہتا۔ (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی ج۳ ص ۴۵۲)
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے مولانا مودودی کی انہوں نے ایصالِ ثواب کو ثابت کرنے کے لیے ایک موضوع حدیث اپنی تفسیر میں نقل کی اور اس کی صحت کے بارے میں تحقیق کرنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ ایصالِ ثواب کے بارے میں انہوں نے سورۂ بقرہ آیت ۲۸۶ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا تھا:
” بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا جس برائی میں آدمی کی نیت اورسعی و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو اس کی جزا یا سزا اسے مل جائے مکافاتِ عمل کوئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔” (تفہیم القرآن ج ۱ص ۲۲۴) لیکن سورۂ نجم کی تفسیر میں انہوں نے بڑی فراخی سے ایصال ثواب کو جائز قرار دیا۔
ایصال ثواب کی ایک شکل ” قرآن خوانی” ہے جس کا رواج آج کل عام ہے۔ قرآن کا فہم حاصل کرنے اور اس کی تذکیر و ہدایت سے فائدہ اٹھانے سے مسلمانوں کو اتنی دلچسپی نہیں ہے جتنی کہ قرآن خوانی کی مجلسِ منعقد کر کے مردوں کو بخشوانے سے ہے۔ کاش کہ وہ اس رسمی دینداری کو چھوڑ کر اسلام کی مخلصانہ پیروی کرتے !
” ایصال ثواب ” پر مزید بحث کے لیے دیکھئے سورۂ حٰم السجدہ نوٹ ۷۱
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنی یا کسی اور کی حرکات و سکنات کو ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لے اور پھر اسے دیکھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے زیادہ اعلیٰ طریقہ پر ہر شخص کی حرکات و سکنات کو فلمانے کا اہتمام کیا ہو گا اور قیامت کے دن ضرور اس کے اعمال کی جانچ ہو گی۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان کی آخری منزل اللہ کے حضور پہنچنا ہے اس لیے انسان کو اسی کی فکر کرنی چاہیے۔ اس سے اس مشرکانہ عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ انسان مرنے کے بعد اللہ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز جا ملے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے حیوان کے مقابلہ میں انسان کو یہ امتیاز بخشا ہے کہ وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ وہ ایک با شعور مخلوق ہے اس لیے جب وہ خوش ہوتا ہے تو ہنسنے لگتا ہے اور جب وہ غمزدہ ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ یہ شعور اللہ ہی کا بخشا ہوا ہے کسی اور کا نہیں۔ مگر دیوی دیوتاؤں کو ماننے والوں کا عقیدہ بہت عجیب ہے۔ درجِ ذیل اقتباس سے ان کے فاسد عقیدہ کا اندازہ ہو گا:
‘There is a Deva for every organ for every function, for every Limb and for every disease. In fact as we have said the whole of the body will be found to have been exhaustively partitioned among the Devas.” (Out Lines of Vedhta by R.Krishna Swamy Aiyarchetna Publication Bombay P.152)
یعنی ہر عضو، اس کے ہر عمل ، ہر بازو اور بیماری کے لیے ایک الگ دیو ہے۔ اور ان دیوؤں کے درمیان پورا جسم بٹا ہوا ہے :۔
سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُوْنَ۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان ایسا بے بس ہے کہ
اپنی خوشی نہ آئے ، نہ اپنی خوشی چلے
پھر وہ تکبر کس بات پر کرتا ہے !
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان صرف ایک بوند رحم میں ڈالنے کا عمل کرتا ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو اس پانی کی حقیر بوند سے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق پیدا کرتا ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے لہٰذا وہ لازماً اپنے وعدہ کو پورا کر لے گا۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی محتاجی کی حلت سے نکالنے والا بھی وہی ہے اور مال و اسباب بخشنے والا بھی وہی۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔شِعریٰ ایک سفید چمکدار ستارہ کا نام ہے جسے انگریزی میں (Sirius) کہتے ہیں۔ ستارہ پرست قومیں اپنی بد عقیدگی کی بنا پر اس کی پرستش کرتی چلی آ رہی تھیں اور عرب کے بعض مشرک قبیلے بھی اس کی پرستش کرتے تھے اس لیے قرآن نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا کہ یہ ستارہ رب نہیں ہے کہ اسے معبود بنا لیا جائے بلکہ اس کا رب بھی اللہ ہی ہے اور وہی سب کا حقیقی معبود ہے۔ موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں یہی حقیقت بیان کی گئی تھی۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قومِ ہود ہے جو عذاب الٰہی سے ہلاک ہوئی۔ (تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ احقاف نوٹ ۴۱۔ ۴۰)۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ثمود کی ہلاکت کا ذکر تفصیل سے سورۂ ہود اور متعدد سورتوں میں ہوا ہے۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔قومِ نوح کی ہلاکت کا ذکر بھی سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکا ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قومِ لوط کی بستیاں ہیں جو زلزلہ کے ذریعہ الٹ دی گئی تھیں اور زمین کے اندرونی دھماکہ نے جو لاوے کی صورت میں پھٹ پڑا تھا بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے گرا دیا۔ اب یہاں سمندر ہی سمندر ہے جسے بحر میت کہتے ہیں۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی پکے ہوئے پتھروں کی بارش ہوئی۔ دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔آلاء کا ترجمہ عام طور سے نعمتیں کیا جاتا ہے مگر اوپر قوموں کی ہلاکت کا ذکر ہوا ہے اس لیے یہ ترجمہ یہاں موزوں نہیں۔ ہم نے عربی شاعری میں اس لفظ کے استعمال اور موقع کلام کا ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ” نشانیاں ” کیا ہے۔ اس لفظ کی مزید تشریح سورۂ رحمن میں انشاء اللہ کی جائے گی۔ اس آیت پر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا بیان ختم ہوا۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ رسول بھی ان رسولوں ہی کی طرح جو پہلے گزر چکے خبردار کرنے والا ہے اور ان ” نذیروں ” کے زمرہ ہی سے تعلق رکھتا ہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قیامت کی گھڑی ہے جس کے بارے میں کوئی یہ خیال نہ کر ے کہ ابھی بہت دور ہے۔ نہیں بلکہ اس کا وقت قریب آگلا اور روز بروز قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے موجودہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہر طرف سے قیامت کا الارم (Alarm) سنائی دے رہا ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کا ظہور اسی وقت ہو گا جب کہ اللہ اس کو وقوع میں لانا چاہے۔ اس کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کو ظہور میں لائے۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے واقع ہونے پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے۔ تعجب تو اس کا انکار کرنے والوں پر ہونا چاہیے کیونکہ قیامت کا واقع ہونا معقول بھی ہے اور عدل و انصاف کا تقاضا بھی۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کی خبر سن کر تم ہنسی دل لگی کرتے ہو حالانکہ تمہیں اس پر رونا چاہیے کہ معلوم نہیں اس روز تمہاری کیا حالت ہو گی۔
قرآن دلوں میں رقت پیدا کرتا ہے اور خاص طور سے وہ قیامت کے جن ہولناک حالات سے آگاہ کرتا ہے ان پر اگر انسان کان دھرے تو اس کے اندر ایک اضطراب پیدا ہو اور اپنی نجات کی فکر میں اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جائیں۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی تمہاری غفلت کی بھی انتہا ہے کہ دلوں کو لرزا دینے والی باتوں کو سن کر بھی تم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ہوش کے ناخن لو اور اللہ کے حضور دل سے جھکو ،سجدہ ریز ہو جاؤ اور اس کی عبادت کرو صرف اس کی عبادت۔
انجیل میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے : ” یسوع نے جواب میں اس سے کہا لکھا ہے تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر” (لوقا۔ ۴:۸)۔
یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ بخاری کی روایت ہے ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نجم کی قرأت پر سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں ،مشرکوں ، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا” (بخاری کتاب التفسیر)
٭٭٭
(۵۴) سورۂ القمر
(۵۵ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں قمر(چاند) کے پھٹ جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” القمر” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آیت بل الساعۃ موعد ہم والساعۃ ادھی وامر(بلکہ ان سے قیامت کا وعدہ ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت کڑوی ہے۔ آیت ۴۶) نازل ہوئی تو میں کم سن لڑکی تھی اور کھیل رہی تھی۔ (بخاری کتاب التفسیر) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول ۱۰ ھ نبوی کے گل بھگ زمانہ میں ہوا ہو گا۔
مرکزی مضمون
قیامت اور عذابِ الٰہی سے خبردار کرنا اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۵ میں کافروں کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اب جبکہ قیامت کی نشانی ظاہر ہو گئی ہے اور وہ تاریخی واقعات بھی جن میں درسِ عبرت ہے ان کے علم میں آ چکے ہیں تو وہ اپنے کفر پر کس طرح جمے ہوئے ہیں !
آیت ۶ تا ۸ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ کٹر کافر اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب قیامت ظہور میں آئے گی۔
آیت ۹ تا ۴۲ میں مختصراً ان قوموں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا کہ وہ کس طرح دنیا ہی میں عذاب کی لپیٹ میں آ گئیں۔
آیت ۴۳ تا ۵۳ میں قریش سے خطاب کر کے انہیں قیامت کی تلخیوں سے خبردار کیا گیا ہے۔
آیت ۵۴ تا ۵۵ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں متقیوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے جو چلا آ رہا ہے۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ اور ہر معاملہ کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے پاس ان تاریخی واقعات کی خبریں پہنچ چکی ہیں جن میں جھنجھوڑنے کا کافی سامان موجود ہے۔۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت مؤثر حکمت لیکن تنبیہیں ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہیں۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان سے رخ پھیر لو۔ ۶* جس دن پکار نے والا انہیں ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا۔ ۷*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نگاہیں ذلت سے جھکی ہوئی ہوں گی۔ ۸* اور اس طرح قبروں سے نکلیں گے کہ گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ ۹*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارنے والے کی طرف سہمے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے۔ ۱۰* اس وقت کافر کہیں گے یہ بڑا کٹھن دن ہے۔ ۱۱*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ ۱۲*انہوں نے ہمارے بندے کو ۱۳* جھٹلایا اور کہا یہ دیوانہ ہے اور وہ جھڑک دیا گیا۔ ۱۴*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ اب تو ان سے انتقام لے۔ ۱۵*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہم نے آسمان کے دروازے موسلا دھار بارش سے کھول دیئے۔ ۱۶*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین پر چشمے بہا دئے ۱۷* تو پانی اس کام کے لیے مل گیا جو مقدر ہو چکا تھا۔ ۱۸*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اسے ایسی کشتی میں سوار کر دیا جو تختوں اور میخوں والی تھی۔ ۱۹*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ صلہ تھا اس شخص کے لیے جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ ۲۰*
۱۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس(کشتی ) کو ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ ۲۱* تو ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ لو کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ ۲۲*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد ۲۳* نے جھٹلایا تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں !
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن ۲۴* ان پر تند ہوا بھیج دی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگوں کو اکھاڑ کر اس طرح پھینک رہی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہیں۔ ۲۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود ۲۶* نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کیا ہم ایک بشر کی پیروی کریں گے جو ہم ہی میں سے ہے ؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم غلط راہ پر جا پڑے اور دیوانگی میں مبتلا ہوئے۔۲۷*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہمارے اندر سے اسی پر ذکر (نصیحت) نازل کیا گیا ؟ ۲۸* نہیں بلکہ یہ بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔۲۹*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کل انہیں معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔ ۳۰*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اونٹنی کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیج رہے ہیں۔ ۳۱* تو ان کو دیکھتے رہو اور صبر کرو۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو بتا دو کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا۔ ہر ایک کو اپنی باری کے دن پانی پر آنا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس نے آگے بڑھ کر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ ۳۲*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔
۳۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر ایک ہی ہولناک آواز بھیجی تو وہ باڑ والے کی باڑ کے چورے کی طرح ہو کر رہ گئے۔ ۳۳*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لوط ۳۴* کی قوم نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دی۔ ۳۵* صرف لوط کے متعلقین اس سے بچے۔ ۳۶* ہم نے ان کو سحر کے وقت نجات دی۔ ۳۷*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خاص فضل سے اس طرح ہم جزا دیتے ہیں ان کو جو شکر کرتے ہیں۔۳۸*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ان کو ہماری پکڑ سے خبردار کر دیا تھا مگر وہ تنبیہات میں شک کرتے رہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے اس کو اپنے مہمانوں کی عزت بچانے سے باز رکھنا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ ۳۹ *کہ چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزہ۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح سویرے ان کو قائم رہنے والے عذاب نے آ لیا۔ ۴۰*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزا
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے۔ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آلِ فرعون کے پاس بھی تنبیہیں آتی تھیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو پکڑا جو ایک غالب اور قدرت والے کی پکڑ تھی۔۴۱*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے بہتر ہیں۔ ۴۲* یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت لکھی ہوئی ہے ؟ ۴۳*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یا وہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب ان کا جتھا شکست کھائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔۴۴*
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ان سے اصل وعدہ تو قیامت کا ہے۔ ۴۵ اور قیامت کی گھڑی بڑی سخت اور کڑوی ہو گی۔ ۴۶*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرم گمراہی اور عقل کی خرابی میں مبتلا ہیں۔ ۴۷*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے۔ اب چکھو جہنم کی لپیٹ کا مزا۔ ۴۸*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہر چیز ایک تقدیر(منصوبہ) کے ساتھ پیدا کی ہے۔ ۴۹*
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا حکم تو بس یک بارگی پلک جھپکنے کی طرح عمل میں آ جائے گا۔ ۵۰*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہارے ہم مشربوں۔ ۵۱* (تمہارے طریقہ پر چلنے والوں ) کو ہلاک کر چکے ہیں تو ہے کوئی سبق لینے والا۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر چھوٹی بڑی بات ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔ ۵۲*
۵۴)۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ متقی باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ ۵۳*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سچے مقام میں ۵۴* ایک با اقتدار بادشاہ کے پاس۔ ۵۵*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاند کے پھٹنے کا واقعہ جو مکہ سے قریب منیٰ میں غالباً ۸ نبوی میں پیش آیا قرآن اور احادیث صحیحہ دونوں سے ثابت ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ چاند پھٹ گیا جو اس بات کی علامت ہے کہ قیامت قریب آ لگی ہے اور یہ علامت قیامت کا نشان بن کر ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن اس صریح نشانی کو دیکھ کر کافروں نے قبولِ حق سے گریز کیا اور واقعہ کی توجیہ اس طرح کی کہ یہ اس شخص (یعنی پیغمبر) کا جادو ہے جس نے ہماری نظریں باندھ دی ہیں اور یہ جادو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔
اور جہاں تک احادیث صحیحہ کا تعلق ہے بخاری” مسلم ” ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں بہ کثرت روایات موجود ہیں جو اس واقعہ کی صراحت کرتی ہیں۔ بخاری کی حدیث ہے :
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ: اِنْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم فِرْقَتَیْنِ فِرْقَۃٌ فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃٌ دَوْنَہ” فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم اِشْہَدُوْا۔
” حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا اس کے پیچھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گواہ رہو۔” (صحیح البخاری کتاب التفسیر)
حضرت عبداللہ ابن مسعود اس کے عینی گواہ ہیں۔ اس طرح اس واقعہ کو حضرت علی” حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم نے بیان کیا ہے جنہوں نے اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دیگر صحابہ کی روایت سے بھی جو اگرچہ اس کے عینی شاہد نہیں ہیں لیکن ان کے بیان پر شبہ کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے اس واقعہ کی تائید ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی رسول کو بھیجتا ہے تو ایسی علامتوں کا ظہور ہوتا ہے جو اس کی صداقت پر دلالت کرنے والی ہوتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے زمانہ میں آسمان پر خاص حفاظتی انتظامات اور شہاب ثاقب کی کثرت کا اہتمام ہوا جس کا ذکر سورۂ جن میں جنوں کی زبانی ہوا ہے۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں چاند کے شق ہونے کا واقعہ ظہور میں آیا۔ منکرین قیامت کو ناممکن خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لمحہ کے لیے چاند کے دو ٹکڑے کر کے انہیں قیامت کی ایک جھلک دکھا دی اور یہ بات ظاہر ہو گئی کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو اجرام فلکی بھی درہم برہم ہو سکتے ہیں اس لیے قیامت کے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور چاند کے پھٹ جانے سے اس کا وقوع قریب تر ہو گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے قیامت کی ہولناکیوں کا آغاز بھی چاند کے گہنا جانے سے ہو گا۔ سورۂ قیامۃ میں ہے : یَسْئَلُ اَیَّاکَ یَوْمُ الْقِی َامَۃِ فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُوَ خسَفَ الْقَمَرُ۔
” انسان پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہو گا؟ تو جب آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنائے گا۔”(القیامۃ: ۶تا ۸)
جہاں تک چاند کی سطح کا تعلق ہے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پر بہ کثرت آتش فشانی گڑھے (Craters) موجود ہیں اور چاند کی سطح کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں ان سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے اس لیے عجب نہیں کہ کسی آتش فشانی دھماکہ کے نتیجہ میں چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں اور پھر قانونِ انجذاب (کشش) نے دونوں کو فوراً ملا دیا ہو۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ چاند کے پھٹ جانے کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ انداز میں دکھایا تھا اور جس چیز کا صدور معجزہ کے طور پر ہوتا ہے اس کی نوعیت غیر معمولی ہوتی ہے یعنی وہ عام طبیعی قوانین کے تابع نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر بلقیس کا تخت حضرت سلیمان(علیہ السلام) کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ان کے دربار میں پہنچ گیا تھا(سورہ نمل آیت ۴۰) جبکہ اس کو فضا میں اڑتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی صورت کیا رہی ہو گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی سانپ بن جایا کرتی تھی۔ مگر اس سانپ نے کسی کو کاٹا نہیں البتہ جادو گروں کے طلسم کو وہ نگل گیا۔ اور سانپ کی تو ایک نسل ہوتی ہے مگر لاٹھی کے سانپ بن جانے اور اس سانپ کے پھر لاٹھی بن جانے کا واقعہ ظاہر ہے طبعی قانون(Physical Laws) سے اک مستثنیٰ (Exceptional) صورت تھی۔ اسی طرح چاند کا پھٹ جانا غیر معمولی(خارقِ عادت) طریقہ پر ہوا تھا اس لیے نہ دنیا میں اس کا کوئی دھماکہ سنائی دیا اور نہ دنیا بھر کے لوگوں کو بروقت اس کی خبر ہوئی۔ چاند کی رفتار میں بھی کوئی فرق نہیں آیا اور نہ اس کا اثر دنیا کے طبیعی حالات پر پڑا۔معجزاتی طور پر قیامت کی یہ نشانی ان لوگوں کو دکھانا مقصود تھی جن کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی۔چنانچہ مسلمانوں اور کافروں دونوں نے دیکھا کہ چاند کا ایک ٹکڑا حراء پہاڑ کے اوپر ہے اور دوسرا ٹکڑا اس کے پیچھے چلا گیا ہے۔ اہل ایمان کے ایمان میں تو اس سے اضافہ ہوا لیکن کافروں نے اسے جادو قرار دیا۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ شق القمر کا معجزہ کافروں کے مطالبہ پر نہیں دکھایا گیا تھا کیونکہ قرآن نے بہ کثرت مقامات پر ان کے مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کیا ہے اور جواب دیا ہے کہ ایمان لانے کے لیے قرآن کا معجزہ ہی کافی ہے۔ یہ معجزہ لاٹھی کے سانپ بن جانے جیسا نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ سے وہ صادر ہو جاتا بلکہ اس کی نوعیت انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے مختلف تھی۔ یہ آسمانی دنیا میں واقع ہوا تھا اور مقصود قیامت کو قریب الوقوع ظاہر کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کو روشن کرنا تھا۔ اس نشانی کے ظہور میں آنے اور قرآن کی ان آیتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے جن میں کافروں کے اس مطالبہ کو کہ پیغمبر کوئی معجزہ دکھائے، رد کر دیا گیا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی چاند کے پھٹ جانے کی اتنی بڑی نشانی سے بھی انہوں نے کوئی سبق نہیں لیا بلکہ اس کو جادو پر محمول کیا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے جھٹلانے کا انجام وقت پر سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ کے لیے جو وہ بندوں کے ساتھ کرتا ہے وقت مقرر کر رکھا ہے لہٰذا تاخیر کو دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اور اچھے یا بُرے نتائج کبھی سامنے آنے والے نہیں ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قوموں کے بُرے انجام کی خبریں جنہوں نے سرکشی کی تھی۔ اشارہ ہے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے والی قوموں کی طرف۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن ان تباہ شدہ قوموں کے واقعات کو ایسے موثر پیرایہ میں بیان کر رہا ہے کہ دل و دماغ کے دریچے کھل جائیں اور دانائی کی باتیں ان میں نفوذ کر جائیں مگر ان کی ہیٹ دھرمی ایسی ہے کہ یہ حکیمانہ تنبیہیں بھی ان پر کارگر نہیں ہو رہی ہیں۔ ایسے کافر تو عذاب کو دیکھ کر ہی ہوش میں آئیں گے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ سمجھنا نہیں چاہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اسی وقت ہوش آئے گا جب وہ قیامت کے دن میدان حشر میں جمع ہونے کے لیے پکارنے والے فرشتہ کی پکار سنیں گے۔ میدانِ حشر میں انہیں اپنی عملی زندگی کا حساب پیش کرنا ہو گا جو ان کے لیے سخت ناگوار چیز ہو گی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے کفر اور بد عملی کی وجہ سے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ٹڈی دل فضا میں پھیل جاتا ہے اسی طرح یہ لوگ قبروں سے ____ یعنی جہاں بھی وہ مر کھپ گئے تھے ___نکل نکل کر ہر طرف پھیل جائیں گے۔ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو گا جو ہر طرف دکھائی دے گا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارنے والے سے مراد فرشتہ ہے جو انہیں موقف(کھڑے ہونے کی جگہ) کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ سہمے ہوئے پکارنے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔ آج وہ داعی حق کی پکار سننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے موقف کی طرف بلانے والے داعی کی طرف دوڑنے کے لیے مجبور ہوں گے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن ان لوگوں کو جو اس کا انکار کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی محسوس کریں گے کہ یہ تو بڑے کٹھن دن کا سامنا ہے۔ مگر اس وقت اس احساس کے ابھرنے کا کیا فائدہ!
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم نوح کی سرگزشت سورۂ ہود اور دوسری متعدد سورتوں میں گزر چکی۔ یہاں مختصراً اس کے اس پہلو کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اس قوم نے اللہ کے رسول کی ناقدری کی اور اس کے نتیجہ میں اسے کیسا عذاب بھگتنا پڑا۔ آگے دوسری سرکش قوموں کے واقعات بھی اسی پہلو سے مختصراً بیان ہوئے ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کا ذکر عَبْدَنا(ہمارا بندہ) کے الفاظ سے کیا ہے جس سے ان کی شانِ عبودیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے بندہ نوازی کا بھی۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس قوم کی انتہائی سرکشی تھی کہ حضرت نوح کی عظیم شخصیت کو خاطر میں نہیں لایا اور ان کو دھمکیاں دیں یہاں تک کہ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی جس کا ذکر سورۂ شعراء آیت ۱۱۶ میں ہوا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ شر پر آمادہ ہو گئے ہیں اور میرے بس میں نہیں ہے کہ ان کا زور توڑ سکوں لہٰذا تو ان پر عذاب نازل کر کے میری نجات کا سامان کر۔
یہ مثال ہے اس بات کی کہ رسولوں کو بھی ایسے سنگین حالات سے گزرنا پڑا ہے کہ وہ اپنے کو مغلوب محسوس کرتے رہے ہیں لیکن اس سے نہ ان کی استقامت میں کوئی فرق آیا اور نہ ان کے حوصلے پست ہوئے بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس سے نصرت کی دعا کی۔ اس میں ان مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا سامان ہے جو کافروں کے زیر اقتدار اپنے کو مغلوبی کی حالت میں پا رہے ہوں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بلاغت کا اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے بہ کثرت اور زور دار بارش ہوئی۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی زمین کے نیچے سے بھی ابل پڑا اور ہر طرف چشمے بہنے لگے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی اس مقدار کو پہنچ گیا جو اس کام کے لیے مقرر کر دی گئی تھی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کشتی بہت سادہ تھی لکڑیوں اور میخوں سے بنی ہوئی جس کا اس زبردست طوفان میں سلامت رہنا مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی کو حضرت نوح کے لیے ذریعۂ نجات بنایا۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور اس کی مدد ہے نہ کہ ظاہری اسباب۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کافروں نے نوح کی ناقدری کی تھی حالانکہ وہ اللہ کے رسول اور نہایت معزز شخصیت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ جزا دی کہ جہاں ان کی کافر قوم ” ڈوب رہی تھی وہاں ان کی کشتی سفینۂ نجات بن گئی۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ عنکبوت نوٹ ۲۶۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن لفظاً لفظاً کلامِ الٰہی ہے جس میں معنی کی گہرائی بھی ہے اور حکمت کے گوہر نایاب بھی” وہ اسرارِ کائنات پر سے بھی پردہ اٹھاتا ہے اور انسانی فطرت کے رموز کو بھی آشکارا کرتا ہے وہ مکمل ہدایت کی کتاب ہے اس لیے اس کے مضامین نہایت وسیع الاطراف ہیں۔ اس میں علوم و معارف کے خزانے بھی ہیں اور نفس کے ارتقاء اور روح کی بالیدگی کا سامان بھی۔ ان گوناگوں خصوصیات کے باوجود وہ اپنے مقصد کی وضاحت اور انسان پر ہدایت کی راہ روشن کرنے کے پہلو سے ایسی سہل کتاب ہے کہ ہر خاص و عام اس سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ فہمائش اور نصیحت پذیری کے لیے دقیق مضامین کو بھی نہایت سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مخاطب ہر شخص ہے اور یہ خیال کرنا کہ اس کو علماء ہی سمجھ سکتے ہیں سراسر غلط ہے۔ قرآن ہر شخص کو اس کا براہِ راست مطالعہ کرنے ، اس پر غور فکر کرنے اور اس کی نصیحت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ عربی نہ جانتے ہوں وہ کسی معتبر ترجمہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر قرآن کے معنی و مطلب کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا اس سے بڑی بے تعلقی اور بہت بڑی محرومی ہے افسوس کہ مسلمانوں میں یہ غفلت عام ہے اور علماء نے جہاں ترجمہ و تفسیر کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور درس قرآن کا سلسلہ چلاتے رہتے ہیں وہاں کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو ترجمہ کی مدد سے قرآن کو سمجھنا پسند نہیں کرتے اور تلاوتِ قرآن اور حفظِ قرآن کی فضیلتیں بیان کر کر کے انہیں صرف اسی میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں۔ فضائل سے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ علماء اس بات پر زور کیوں نہیں دیتے کہ لوگ قرآن کا فہم حاصل کریں۔ اور تعجب ہے کہ بعض حضرات تو اس آیت کا ترجمہ ہی اس طرح کرتے ہیں کہ نصیحت کی جگہ حفظ پر توجہ مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ نے سورۂ قمر کی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
” ہم نے کلامِ پاک کو حفظ کرنے کے لیے سہل کر رکھا ہے کوئی ہے حفظ کرنے والا۔”(تبلیغی نصاب فضائل قرآن ص ۵۵)
اس آیت میں لفظ ” ذکر” نصیحت کے معنی میں اور لفظ ” تذکر” نصیحت حاصل کرنے والا کے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ حفظ کے معنی میں۔ اس پر دلیل اس کا سیاق و سباق بھی ہے اور اس قسم کی دوسری آیات بھی۔ سورۂ قمر میں خطاب کافروں سے ہے۔ انہیں قیامت کے انکار پر سخت تنبیہ کی گئی ہے اور قرآن کی نصیحت پر کان دھرنے کی دعوت دی گئی ہے اسی سلسلہ میں قومِ نوح اور دیگر سرکش قوموں کا انجام پیش کیا گیا ہے تاکہ منکرین عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ فرمایا۔
” ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔”
اگر ذکر کا ترجمہ نصیحت کے بجائے حفظ کر دیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کافروں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے تو ہے کوئی حفظ کرنے والا۔ گویا قرآن کافروں کو حفظِ قرآن کی دعوت دے رہا ہے جب کہ انہوں نے ابھی نہ اس کی نصیحت کو قبول کیا ہے اور نہ ایمان لائے ہیں۔ظاہر ہے ایسی بے تکی بات قرآن کی طرف ہرگز منسوب نہیں کی جا سکتی۔ اس سلسلہ میں لغت کا سہارا بھی لیا جاتا ہے کہ اس کے ایک معنی حفظ کے بھی ہیں چنانچہ لسان العرب میں ہے :
الذکر الحفظ لشی تذکرہ ” ذکر کے معنی کسی چیز کو محفوظ کر لینے کے ہیں جس کو تم یاد رکھ سکو۔”
لیکن اول تو صاحب لسان العرب نے حفظ کا لفظ معنی سے بے تعلق ہو کر حفظ کرنے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا ہے اس لیے اس کو اردو کے لفظ حفظ کے محدود معنی میں لینا صحیح نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر لغت میں ذکر کے مختلف معنی میں سے ایک معنی محض "حفظ” کرنے کے ہوں بھی تو آیت زیر بحث میں ذکر کے وسیع مفہوم میں یہ بات ضمناً ہی شامل ہوسکتی ہے ورنہ اس کا ابھرا ہوا مفہوم نصیحت ہی ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ دوسری جگہ قرآن کو ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے اس بناء پر کہ وہ سرتاسر نصیحت ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ”لَحَافِظُوْنَ۔ ” بلا شبہ ہم نے یہ ذکر (یاد دہانی) نازل کی ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔”(حجر: ۹)
سورۂ دخان میں ہے :
فَاِنِّمَا یسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یتَذَکَّرُوْنَ۔ ” ہم نے (اے پیغمبر!) تمہاری زبان میں اسے آسان بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔”(دخان: ۵۸)
اس آیت میں قرآن کو آسان بنانے کا مطلب واضح طور سے تذکرہ یعنی یاد دہانی اور نصیحت حاصل کرنا بیان ہوا ہے اس لیے سورۂ قمر کی زیر بحث آیت کو بھی اسی معنی میں لینا صحیح ہو گا۔ ابن جریر طبری نے بھی اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں۔
وَلَقَدْ سَھَّلْنَا الْقُرآنَ بَینَّاہُ وَفَصَّلَنَا لِلذِّکْرِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یتَذَکَّرَ وَیعْتَبَروَیتَعَظَّ وَہَوَّنَّاہُ۔
” ہم نے قرآن کو سہل بنایا ، اس کو واضح کیا، کھول کر بیان کیا اور آسان بنایا نصیحت کے لیے یعنی اس کے لیے جو نصیحت عبرت اور موعظت حاصل کرنا چاہے۔” (تفسیر طبری ج ۲۷ ص ۵۷)
قرآن کی اصطلاحات کے معنی محض لغت کے ذریعہ متعین نہیں کئے جا سکتے بلکہ قرآن میں اس کے استعمالات کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر عبادت کے لفظ ہی کو لیجئے۔ لسان العرب میں اس کے ایک معنی اطاعت کے بیان ہوئے ہیں۔
والعبادۃ: الطاعۃ ” عبادت یعنی طاعت۔”(لسان العرب ج ۳ ص ۲۷۲)
جبکہ قرآن میں اس کا ابھرا ہوا مفہوم پرستش ہے چنانچہ بتوں کی پرستش کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے البتہ عبادت کے وسیع مفہوم میں اطاعت بھی شامل ہے مگر یہ بات صحیح نہ ہو گی کہ ہم عبادت کے ابھرے ہوئے مفہوم پرستش پر زور نہ دیں یا اس سے قطع نظر کر کے اس لفظ کو اطاعت کے مفہوم میں لینے لگیں۔ اس کی دوسری مثال لفظ صلوٰۃ ہے جس کے معنی لغت میں دعا کے ہیں لیکن قرآن نے اس کو شرعی طریقہ پر ادا کی جانے والی ایک خاص عبادت کے لیے جسے ہم اردو میں نماز کہتے ہیں استعمال کیا ہے۔ تو کیا محض لغت کی مدد سے اقیمو الصلوٰۃ کے معنی ” دعا قائم کرو” کرنا صحیح ہو گا؟ اگر نہیں تو ذکر کے معنی بھی قرآن کے استعمالات کو نظر انداز کر کے محض لغت کے ذریعہ متعین کرنا صحیح نہ ہو گا اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قرآن میں ذکر کا لفظ کہیں بھی معنی سے بے تعلق ہو کر محض زبانی یاد کرنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔
یہ آیت اس سورہ میں بار بار دہرائی گئی ہے اور مقصود اس بات کی تاکید کرنا ہے کہ لوگ قرآن سے نصیحت حاصل کریں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کا واقعہ بھی سورۂ ہود میں تفصیلاً نیز دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نحوست کے دن سے مراد عذاب کا دن ہے اور یہ عذاب جیسا کہ سورۂ حاقہ میں بیان ہوا ہے آٹھ دنوں تک مسلسل رہا۔ دن کوئی بھی بجائے خود منحوس نہیں۔ وہم پرست لوگ دنوں کے منحوس ہونے کا فاسد عقیدہ رکھتے ہیں مگر قرآن کے نزدیک منحوس دن وہ ہے جس میں اس کا عذاب نازل ہو۔ عاد پر آٹھ دن تند ہوا کا عذاب مسلط رہا جب کہ ہفتہ سات دن کا ہوتا ہے۔ واضح ہوا کہ اس قوم کے لیے ہفتہ کا ہر دن عذاب کا دن ہونے کی حیثیت سے منحوس تھا۔ اور جب پورا ہفتہ منحوس قرار پایا تو وہم پرستوں کے لیے کون سا دن منحوس قرار دینے کے لیے باقی رہا؟
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس تند ہوا نے اس قوم کو بالکل جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ہر طرف ان کی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود کی سرگزشت سورۂ اعراف، سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے نزدیک رسول کو بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ یہی ذہنیت مشرکین مکہ کی بھی تھی۔ ثمود کا کہنا تھا کہ یہ شخص ہدایت کے نام پر ہمیں غلط راہ پر ڈالنا چاہتا ہے اور یہ عقل کا دیوالیہ پن ہو گا کہ ہم اس کی بات کو مان کر اس کی پیروی کرنے لگیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے تھے اگر اللہ کی طرف سے نصیحت نازل ہوتی تو اسی شخص پر کیوں نازل ہوئی جبکہ ہمارے درمیان بہتر افراد موجود ہیں۔ ان کے نزدیک بہتر ہونے کا معیار سیرت نہیں بلکہ دنیوی شان و شوکت تھی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک رسول پر جو مجسم سچائی ہوتا ہے اور جس کے خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا جھوٹا اور گھمنڈی ہونے کا الزام لگایا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غداً(کل) سے مراد عذاب کا دن بھی ہے اور قیامت کا دن بھی جو اتنا قریب ہے کہ گویا کل ہی واقع ہونے والا ہے۔ اس روز ان لوگوں کو جو رسول پر الزام تراشی کرتے ہیں معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور گھمنڈی کون تھا۔ اللہ کا رسول یا وہ خود۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اونٹنی ایک معجزہ کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی اور اس قوم کے لیے وجہ آزمائش تھی کہ وہ اس کے پانی پینے کے باری کا خیال رکھتے ہیں یا نہیں اور اس کو کوئی گزند تو نہیں پہنچاتے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ شعراء نوٹ ۱۲۱۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر معمولی قد کی اونٹنی کو مارنا بھی آسان نہ تھا اس لیے اس بدبخت نے اس کے پاؤں کاٹ ڈالے تاکہ وہ ہلاک ہو۔ ثمود نے اس کام کے لیے ایک شخص کو آگے بڑھایا تھا اس لیے اس گناہ کی مرتکب پوری قوم ہوئی اور اس نے اللہ کی عذاب کو دعوت دی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باڑھ والا اپنے جانوروں کی حفاظت کے لیے جھاڑ جھنکار کی باڑھ لگاتا ہے جو ایک وقتی چیز ہوتی ہے اور پھر خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ یہی حال ثمود کا ہوا کہ ان کو عذابِ الٰہی نے اس طرح روند ڈالا کہ ان کا سارا دم خم نکل گیا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ لوط پرکی سرگزشت سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ لوط پر پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوط کے متعلقین جو ایمان لائے تھے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحر رات کے آخری حصہ کو کہتے ہیں۔ آلِ لوط کو اخیر شب میں نجات ملی۔ حدیث میں آتا ہے کہ شب کا آخری حصہ نزولِ رحمت اور قبولیتِ دعا کا وقت ہوتا ہے۔ اور قرآن میں اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان ہوا ہے کہ:
وَ بِالْاَسْحَارِہُمْ یسْتَغْفِرُوْنَ ” وہ سحر کے اوقات میں استغفار کرتے ہیں۔”(الذاریات:۱۸)
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو اللہ کی نعمتوں اور اس کی ہدایت کی قدر کرتے ہیں۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہمان فرشتے تھے جو قومِ لوط کے لیے آزمائش بن کر انسانوں کے روپ میں آئے تھے۔ حضرت لوط نے ان کو اپنے یہاں ٹھہرایا تھا مگر شر پسندوں نے بد کاری کے لیے ان کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ جب انہوں نے برے ارادہ سے حضرت لوط کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں ہی اندھی کر دیں شہوت پرستانہ نظر سے ان مہمانوں کو دیکھنے کی جو ظاہر ہے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں رہے ہوں گے یہ فوری سزا انہیں مل گئی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد صبح ہوتے ہی اس مفسد قوم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی زبردست پکڑ تھی کہ فرعون والوں کا سارا دم خم جاتا رہا اور وہ قہر الٰہی کے آگے بالکل بے بس ہو کر رہ گئے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب قومِ عرب سے ہے کہ تم میں جو لوگ کافر ہیں ان کی روش بھی وہی ہے جو گزری ہوئی کافر قوموں کی تھی۔ پھر ان میں کیا خوبی ہے کہ ان کا انجام وہ نہ ہو جو گزری ہوئی کافر قوموں کا ہو چکا ہے۔ کافر تو اللہ کا باغی اور پرلے درجہ کا مجرم ہوتا ہے لہٰذا ایک کافر قوم لازماً سزا کی مستحق ہوتی ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ تمہارے اعمال کیسے ہی ہوں تمہیں سزا نہیں دی جائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہے اور نجات کا پروانہ تمہیں مل نہیں گیا ہے تو پھر اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنے کی جسارت کیسے کرتے ہو!
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ بات مکہ میں کہی تھی جبکہ قریش کی شکست کے بظاہر کوئی آثار نہیں تھے لیکن اس کی یہ پیشین گوئی چند سال بعد بدر میں پوری ہوئی۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنگ بدر(۰۲ھ) کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ آیت پڑھتے ہوئے باہر تشریف لائے۔
سَیہْزَمُ الْجَمْعُ وَیوْلُّوْنَ الدُّبُرِ
” عنقریب ان کا جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔”
اور تھوڑی ہی دیر میں کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اسی طرح جنگ خندق(۵ھ) میں بھی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں ان کو اللہ کے رسول کے مقابلہ میں جو شکست ہو گی وہ تو ہو گی ہی۔ اس کے علاوہ اصل سزا تو انہیں قیامت کے دن ملے گی جو زبردست اور دائمی سزا ہو گی۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت بہت بڑی مصیبت اور بہت سی تلخیوں (کڑواہٹوں ) کو اپنے اندر لیے ہوئے ہو گی۔ لہٰذا خبردار ہو جاؤ اور اس دن کی مصیبت سے بچنے کا سامان کرو۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جواب ہے کافروں کی اس بات کا جو آیت ۲۴ میں بیان ہوئی ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں لفظ ” سقر” استعمال ہوا ہے جو جہنم کا نام ہے اور جس کے معنی ہیں شدید حرارت والی۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز منصوبہ بند طریقہ پر پیدا کی ہے۔ اسے کیا کام کرنا ہے کس وقت تک کرنا ہے اور کس غایت کو اسے پہنچنا ہے۔ اس طرح پوری کائنات کی ایک تقدیر ہے اور اپنے مقررہ وقت ہی پر اس میں وہ انقلاب آئے گا جس کا نام قیامت ہے۔ کسی کے جلدی مچانے سے قیامت وقت سے پہلے نہیں آ سکتی۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے برپا کرنے میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دیر نہیں لگے گی۔ اس کا حکم ہو گا اور چشم زدن میں وہ برپا ہو جائے گی۔ آنکھ اس تیزی سے جھپکتی ہے ، اس کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ہوتا اسی طرح قیامت کا حکم ہوتے ہی وہ فوراً برپا ہو جائے گی۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری روش پر چلنے والوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ مراد کافر اور سرکش قومیں ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۷۰۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں متقیوں کا ذکر مجرموں کے مقابلہ میں ہوا ہے یعنی وہ لوگ جو اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرتے رہے اس کی ہدایت کو قبول کیا اور گناہوں سے پرہیز کرتے رہے۔ ان کا صلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ آخرت میں جنت کے باغوں میں ہوں گے جہاں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے مقام میں جہاں وہ سچا انعام پائیں گے اور انہیں سچی عزت و سر افرازی حاصل ہو گی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں اللہ کا جو بادشاہ حقیقی ہے اور جس کی قدرت اور جس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے۔ قُرب حاصل ہو گا اور یہ سب سے بڑا انعام ہو گا۔
٭٭٭
ای بک: اعجاز عبید
ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود
(۵۵) سورۃ الرحمن
(۷۸ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کا آغاز خدائے رحمن کے نام سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” الرحمن” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں سورۂ احقاف کے بعد نازل ہوئی ہو گی کیونکہ سورۂ احقاف میں جنوں کے ایک گروہ کے قرآن کو سننے اور اپنی قوم میں جا کر اس کو خبردار کرنے کا ذکر ہے اور اس سورہ میں جنوں سے خطاب کر کے انہیں جھنجھوڑا گیا ہے اس لیے یہ تنبیہ اس کے بعد ہی کی ہوسکتی ہے۔
مرکزی مضمون
نئے نظام کے ساتھ ایک نئے عالم کے وجود میں آنے اور اس میں جزا و سزا کا معاملہ پیش آنے کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس کو نا ممکن خیال کرنے اور اس کا انکار کرنے والے انسانوں اور جنوں کو کمالاتِ قدرت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ ان کی حیرت دور ہو۔ اور وہ اس خبر پر یقین کرنے لگیں۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جن میں خدائے رحمن کی سب سے بڑی رحمت کا ذکر ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس نے انسان کو کتابِ ہدایت (قرآن) کا علم بخشا اور یہ اسی کی رحمت کا فیضان ہے کہ انسان کو قوتِ گویائی حاصل ہوئی جو اس مخلوق کا ایک امتیازی وصف ہے۔ آیت ۵ تا۱۲ میں زمین و آسمان کے عجائبات قدرت کا ذکر کر کے یہ سوال قائم کیا گیا ہے کہ تم اپنے رب کے کن کن کمالات قدرت کا انکار کرو گے؟
آیت ۱۴ تا ۳۰ میں انس و جن کی تخلیق، دو مشرقوں اور دو مغربوں کا بُعد، دو سمندروں کا ملنا اور اس قسم کی دوسری حیرت انگیز نشانیوں نیز اللہ کی شانِ کریمی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
آیت ۳۱ تا ۴۵ میں انسانوں اور جنوں کو ان کے مجرمانہ رویہ پر سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ دن بس آ ہی رہا ہے جب تمہیں اپنے کئے کی سزا ملے گی اور وہ سزا نہایت درد ناک ہو گی۔
آیت ۴۶ تا ۷۸ میں ان لوگوں کا خوشگوار انجام بیان ہوا ہے۔ جو اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرتے رہے۔ اس سلسلہ میں جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ جس سے اس کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمن نے ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی تعلیم دی۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے انسان کو پیدا کیا۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کو بولنا سکھایا۔ ۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔ ۶*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کو اس نے بلند کیا۔ ۷* اور میزان رکھ دی۔ ۸*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ تم میزان میں تجاوز نہ کرو۔ ۹*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹھیک تولو انصاف کے ساتھ اور وزن میں کمی نہ کرو۔ ۱۰*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کو اس نے خلق کے لیے بچھایا۔ ۱۱*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں میوے ہیں اور کھجور ہیں غلاف چڑھے ہوئے۔ ۱۲*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غلے ہیں بھس والے ۱۳* اور خوشبو دار پھل بھی۔ ۱۴*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ( اے گروہِ جن و گروہِ انس !) ۱۵* تم اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرو گے۔ ۱۶*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو اس نے ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔۱۷*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جِن کو آگ کے شعلے سے۔۱۸*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ( اے گروہِ انس و جن) تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!۱۹*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا رب ہے۔۲۰*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کس کس قدرت کا انکار کرو گے!
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دو سمندروں کو چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ ۲۱*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن عجائبِ قدرت کا انکار کرو گے !
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ ۲۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کے اختیار میں ہیں سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے جہاز۔ ۲۳*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر جو بھی ہیں فنا ہونے والے ہیں ۲۴*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے رب کی ذاتی ہی باقی رہنے والی ہے جو صاحبِ جلال و اکرام ہے۔ ۲۵*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن خوبیوں کا انکار کرو گے!
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب اس سے مانگتے ہیں ۲۶* ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہے۔ ۲۷*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالات کا انکار کرو گے!
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے دو عظیم گروہو! ۲۸* ہم تمہارے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں۔ ۲۹*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے! ۳۰*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے گروہِ جن و انس ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ نہیں نکل سکتے بغیر اختیار کے۔ ۳۱*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے!
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم پر آگ کے شعلے اور دھواں ۳۲* چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر تم اپنا بچاؤ نہ کرسکو گے۔ ۳۳*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کیا حال ہو گا) جب آسمان پھٹ جائے گا اور چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا۔ ۳۴*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز کسی انسان یا جِن سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔ ۳۵*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرم اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہی جہنم ہے جس کا مجرم انکار کرتے رہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے جوار میں کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے رہیں گے۔ ۳۶*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے لیے جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا، دو باغ ہوں گے۔ ۳۷*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے! ۳۸*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کثیر ڈالیوں والے ہوں گے۔ ۳۹*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے۔۴۰*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ہر میوے کی دو قسمیں ہوں گی۔ ۴۱*
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے بیٹھیں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے۔ ۴۲* اور باغوں کے پھل جھکے پڑے ہوں گے۔ ۴۳*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں شرمیلی نگاہوں والی (حوریں) ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جِن نے چھوا نہ ہو گا۔ ۴۴*
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔ ۴۵*
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا اور کیا ہو گا! ۴۶*
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ د و باغ اور بھی ہوں گے۔۴۷*
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!۴۸*
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں گہرے سبز۔۴۹*
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں ۵۰* کا انکار کرو گے!۴۸*
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں دو چشمے ہوں گے جوش مارتے ہوئے۔ ۵۱*
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن کمالات کا انکار کرو گے!
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں میوے اور کھجور اور انار ہوں گے۔ ۵۲*
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے!
۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں خوش اخلاق حسینائیں ہوں گی۔ ۵۳*
۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!
۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حوریں خیموں میں ٹھہری ہوئی۔ ۵۴*
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے! ۵۵*
۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ان جنتیوں سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جِن نے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!
۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت نفیس اور سبز مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔۵۶*
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!
۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی برکت والا ہے تمہارے رب کا نام جو جلال اور بزرگ والا ہے۔ ۵۷*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظ ” الرحمن” کی تشریح سورۂ فاتحہ نوٹ ۵اور سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۵ میں "گزر چکی۔ رحمن کا اسم اللہ کے لیے عبرانی زبان میں بھی موجود ہے جو قدیم سے یہود کی مذہبی زبان رہی ہے۔ عبرانی میں اسے اس طرح لکھا جاتا ہے۔
ןםַהר
(المعجم الحدیث عبری۔ عربی دارالملایین۔ بیروت ص ۴۴۶)
گویا زمانہ قدیم سے الرحمن اللہ کے لیے ایک معروف نام چلا آ رہا ہے۔
اس سورہ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت سے ہوا ہے جس کے ذکر سے انسان کے اندر اس کی رحمت کا احساس ابھرتا ہے۔ اور اس احساس ہی کے نتیجہ میں وہ اپنے رب کی نعمتوں کا قدر شناس بنتا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدائے رحمن کی رحمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ وہ انسان کی ہدایت کے لیے اپنی طرف سے ایک حکمت بھری کتاب نازل کرے اور انسان کو اس کا علم اور اس کا فہم بخشے چنانچہ اس نے اپنے پیغمبر پر قرآن نازل کر کے انسان کی تعلیم و ہدایت کا انتظام کیا۔ یہ قرآن اس کی بہت بڑی رحمت ہے اور جہاں وہ رحمت ہے وہاں وہ علم کا خزانہ بھی ہے اور انسان پر اس کا یہ عظیم ترین احسان ہے کہ اس نے انسان کو کلامِ الٰہی کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت بخشی اور اس کا فہم عطا کیا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی تعلیم کا ذکر پہلے کیا گیا اور انسان کی تخلیق کا ذکر بعد میں کیا گیا تاکہ واضح ہو جائے کہ قرآن کی تعلیم ہی وہ چیز ہے جو اس کے مقصد وجود کو پورا کرتی ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو قوتِ گویائی (بولنے کی صلاحیت) عطا کر کے اپنے بہت بڑے فضل سے نوازا ہے۔ قوتِ گویائی اس کے ضمیر کی ترجمان ہے اور اس کا تعلق اس کے با شعور ہونے سے ہے۔ انسان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ با شعور مخلوق ہے جسے گویائی کی فضیلت بخشی گئی ہے جس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر "گزار بنے اور اس اعلیٰ صلاحیت کو قرآن سیکھنے کے لیے استعمال کرے۔ اس کی زبان پر کلامِ الٰہی جاری ہو اور وہ ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے کرے۔ اس کی زبان پر کلامِ الٰہی جاری ہو اور وہ ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے تر رہے۔ یہ اور اس قسم کے اعلیٰ مقاصد ہی ہیں جس کے لیے اسے بولنے اور بیان کرنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انسان نے جس کائنات میں آنکھیں کھولی ہیں اس میں ہر طرف وہ اپنے رب کی کرشمہ سازی کے جلوے دیکھ سکتا ہے سورج اور چاند جیسے عظیم اجرامِ فلکی (Heavenly bodies) کو کس طرح اس نے ایک حسا کا پابند بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے ذرہ برابر تجاوز نہیں کرسکتے۔ ان کو زمین سے جن فاصلوں پر رکھا گیا ہے ان فاصلوں پر رہنے ہی سے انسان کی زندگی زین پر ممکن ہوئی ہے۔ اگر سورج زمین سے قریب آ جائے یا زیادہ دور چلائے جائے تو زمین پر حرارت کا توازن بگڑ جائے گا اور انسان اور حیوانات زندہ نہیں رہ سکیں گے اسی طرح چاند کے بھی اپنے دائرہ سے ہٹنے کا زبردست اثر سمندر کے جوار بھاٹے پر پڑے گا جس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔ تو انسان دیکھئے کہ سورج اور چاند کا اپنے اپنے دائرہ میں رہنا اور ان کا وقت پر طلوع و غروب خواہ وہ زمین کی گردش کے نتیجہ میں وقوع میں آ رہا ہو اللہ کی قدرت کا کتنا عجیب نمونہ ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے انتہائی بلندی پر ہو کر بھی اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور ان کا جھکنا ظاہری اعتبار سے اللہ کے حکم کے آگے پست ہونا ہے۔ مثال کے طور پر ان کو آسمان میں جس زاویہ پر رکھا گیا ہے اسی زاویہ پر رہنا اور مسلسل گردش میں رہنا اس کی واضح دلیل ہے۔ اسی طرح زمین پر درخت اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی پتہ اس کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا اور ان کے سائے اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے مظہر ہیں۔ یہ اس کی قدرت کی کیسی عجیب نشانی ہے!
ستاروں اور درختوں کے سجدہ کرنے کا ذکر سورۂ حج (آیت ۱۸) میں بھی ہوا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بلند کر دیا ہے کہ جدید سائنس بھی باوجود اپنے ترقی یافتہ وسائل کے اس کی بلندی کو چھو نہیں سکی ہے۔ یہ اس کے کمالِ قدرت کا ایسا ثبوت ہے کہ ہر شخص اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میزانِ عدل کے معنی میں آتا ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔آسمان کی بلندی کی طرف جب نگاہیں اٹھتی ہیں تو اجرام فلکی کا ایک ایسا نظام مشاہدہ میں آتا ہے جو نہایت متوازن ہے اور کوئی چیز بھی ذرہ برابر اعتدال سے ہٹی ہوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی چیز غیر متوازن ہو جائے یا اعتدال سے ہٹ جائے تو یہ نظام زبردست حادثہ سے دوچار ہو جائے۔ اس سے ذہن رب کائنات کی صفتِ عدل کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ وہ عدل کرنے والا ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے اسی لیے اس نے کائنات کے اس نظام میں کمال درجہ کا اعتدال رکھا ہے۔ گویا دیدۂ بینا رکھنے والے آسمان و زمین کے درمیان ایک میزان لٹکتی ہوئی دیکھ سکتے ہیں اور وہ ہے میزانِ عدل۔ اور یہ غیر مادی میزان بھی اللہ کی کرشمہ سازی ہی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میزان عدل جو زمین و آسمان کے درمیان قائم ہے اور بصیرت کی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے انسان کو عدل کا سبق دے رہی ہے کہ وہ راستی پر قائم رہے اور خلافِ عدل کوئی کام نہ کرے نہ اپنے رب کے تعلق سے اور نہ بندگان رب کے تعلق سے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میزانِ عدل کا ذکر ہوا تو اس کی مناسبت سے اس می2زان (ترازو) کی طرف توجہ دلائی جس کو انسان تولنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے میزانِ عدل اس لیے قائم کی ہے تاکہ تم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرو اور انصاف کے ساتھ تولو اور تولنے میں ڈنڈی نہ مارو کہ یہ بہت بڑی حق تلفی بھی ہے، فریب دہی بھی ہے اور عظیم گناہ بھی۔
سورۂ مطففین میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو سخت وعید (عذاب کی دھمکی) سنائی گئی ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین کو اس قابل بنایا کہ مخلوق اس پر آباد ہوسکے۔ سائنس کی ترقی نے انسان کو چاند پر پہنچادیا لیکن سکونت کے لیے اسے موزوں نہیں پایا یہی حال دوسرے سیاروں کا بھی ہے کہ وہ اس قابل نہیں کہ انسان وہاں زندگی گزار سکے لیکن زمین وہ کرہ ہے جہاں زندگی "گزارنے کی ساری سہولتیں اور آسائشیں مہیا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خالق نے زمین کو اپنی مخلوق کے لیے خاص طور سے بنایا ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر انسان کو جو رزق حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے اور اس میں اس کی ربوبیت اور کمالِ قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔ یہاں مثال کے طور پر چند نعمتوں کا ذکر ہوا ہے۔ میوے کیسے خوش ذائقہ رنگ بہ رنگی اور مختلف نمونوں کے پیدا کئے گئے ہیں۔ کھجور ہی کو لیجئے اس کا گودا اس طرح جھلی میں لپٹا ہوا ہے کہ صاف نظر آتا ہے کہ اسی رازق نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے تاکہ گودا محفوظ رہے اور انسان کو یہ نعمت بہترین شکل میں مل جائے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اناج کے ایک ایک دانہ پر باریک پتی کا کور چڑھا ہوا ہوتا ہے جس کے اندر وہ محفوظ رہتا ہے اور یہ پتی یا چھلکا کا بھس کا کام دیتا ہے جو جانوروں کی غذا ہے۔ مثال کے طور پر گیہوں کے دانہ پر جو تہ سی چڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ پیسنے پر بھس بن جاتی ہے اور چاول کے دانہ پر تو جھلکا ہوتا ہے اسی طرح چنے پر بھی۔ گویا اناج کے ایک ایک دانہ کو پیک کر کے محفوظ شکل میں انسان کو پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ اہتمام کتنا عجیب ہے! رزق کا یہ سامان کیسا نفیس ہے!
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریحان خوشبودار نباتات کو بھی کہتے ہیں اور پھول کو بھی۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف ذوق یہ بھی عطا کیا ہے کہ خوشبو سے وہ فرحت و انبساط کی کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے اس ذوق کو پورا کرنے کے لیے خوشبو دار نباتات مثلاً لونگ، دارچینی، وغیرہ اور طرح طرح کے پھول مثلاً گلاب، چمیلی وغیرہ پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ پھول کیسے نرم، نازک اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ اور ان کی خوشبو کس طرح دماغ کو تازگی بخشتی ہے! انسان کے مالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان کس خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے !
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب دو گروہوں یعنی انسان اور جنوں سے ہے جیسا کہ آگے آیت ۳۳میں صراحت کے ساتھ یا معتر الجن والانس (اے گروہ جن و انس) فرمایا گیا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” آلاء” کو عام طور سے نعمتوں کے معنی میں لیا جاتا ہے جو لغت کے لحاظ سے صحیح ہے لیکن یہ اس لفظ کا اصل مفہوم نہیں ہے اصلاً یہ لفظ جیسا کہ اشعارِ عرب میں استعمال ہوا ہے ان کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خوبی کے ہوں اور حکمت اور حسن تدبیر کی بنا پر حیرت میں ڈالنے والے ہوں۔ چنانچہ تفسیر طبری میں اس کے ایک معنی قدرت کے بھی منقول ہیں (دیکھئے تفسیر طبری ج ۲۷ ص ۷۳) اور امام رازی نے بھی آیت کی ایک توجیہ یہ بیان کی ہے کہ
” مذکورہ آیت قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمت کے بیان میں۔” (تفسیر رازی ۲۹ ص ۹۸)
اور علامہ فراہی نے اس پر محققانہ بحث کی ہے اور اس کے معنی ” کرشموں اور افعال محمودہ ” کے بیان کئے ہیں۔ (دیکھئے مفردات القرآن۔ فراہی ص ۱۱)
اس سورہ میں یہ آیت ۳۱ مرتبہ دہرائی گئی ہے اور ہر جگہ نعمتوں ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ عذاب کا بھی ذکر ہوا ہے نیز سورہ کا مرکزی مضمون بھی قیامت کے وقوع سے متعلق ہے اس لیے کمالاتِ قدرت (قدرت کی کرشمہ سازیوں) کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے لہٰذا اس آیت کے ترجمہ میں اس کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔
تکذیب کا تعلق جب کسی چیز سے ہو تو اس کے معنی انکار کرنے کے ہوتے ہیں۔ قاموس میں ہے:
وَ کَذَّبَ بِالْاَمْرِ تَکْذیْباً وَ کِذَابًا اَنْکَرَہُ "کسی امر کی تکذیب کی یعنی اس کا انکار کیا۔” (القاموس ا لفیروز آبادی ج ۱ ص ۱۲۷)
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی مٹی سے جو ٹھیکری کی طرح پکی ہوئی ہو۔ انسان کا قالب جب کہ دوسرے مقامات پر صراحت ہے سڑی ہوئی مٹی سے تیار کیا گیا تھا اس کے بعد اس کو خشک کر کے پکی ہوئی مٹی کی طرح سخت بنا دیا گیا اور جب اس میں روح پھونک دی گئی تو وہ گوشت پوست کا انسان بن گیا۔ اللہ کی قدرت کا کتنا عجیب نمونہ ہے انسان!
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۴۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح انسان کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اسی طرح جِن کو اسی زمین پر پائی جانے والی آگ کے شعلہ سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی لُو سے۔ اسی لیے جِن ایک لطیف مخلوق ہے جو دکھائی نہیں دیتی اور جِن کی پرواز بہت تیز ہوتی ہے۔ جن کی اس طرح تخلیق اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۵۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیت اس سورہ میں بار بار دہرائی گئی ہے جو محض تکرار نہیں بلکہ توجہ کو اللہ کے احسانات، کمالات اور کرشموں پر مرکوز کرنے اور قلب و روح کو بیدار کرنے کے لیے ہے۔ اس تکرار کی مثال زبور میں بھی ملتی ہے جس کے باب ۱۳۶ میں فقرہ "کہ اس کی شفقت ابدی ہے” ۲۶ بار دہرایا گیا ہے۔
” خداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے
کہ اس کی شفقت ابدی ہے
………. ..اسی کا جو اکیلا بڑے بڑے عجیب کا م کرتا ہے
کہ اس کی شفقت ابدی ہے۔
اسی کا جس نے دانائی سے آسمان بنایا۔
کہ اس کی شفقت ابدی ہے۔
اسی کا جس نے زمین کو پانی پر پھیلایا
کہ اس کی شفقت ابدی ہے۔
اسی کا جس نے بڑے بڑے نیّر بنائے
کہ اسی کی شفقت ابدی ہے۔
دن کو حکومت کرنے کے لیے آفتاب
کہ اس کی شفقت ابدی ہے۔
رات کو حکومت کرنے کے لیے ماہتاب اور ستارے
کہ اس کی شفقت ابدی ہے۔”
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تکرار کا اسلوب آسمانی کتابوں کی خصوصیات میں سے ہے اور تعلیم و تربیت کے پہلو سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرفی معنی میں تو زمین پر ایک ہی مشرق اور ایک ہی مغرب ہے لیکن موسم سرما میں سورج کا طلوع اور غروب افق کے ایک نقطہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور موسم گرما میں دوسرے نقطہ انتہا کو جس سے موسمی تغیرات واقع ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ باقاعدگی کے ساتھ ہوتا ہے اس مناسبت سے سورج کے طلوع و غروب کے دو مشرق اور دو مغرب ہوئے۔ اور یہ بھی اللہ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے۔
ایک اور پہلو سے بھی دو مشرقوں اور دو مغربوں کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ قطب شمالی میں جہاں چھ مہینے دن رہتا ہے سورج سر پر نہیں رہتا بلکہ ایک کنارے پر چلتا ہے۔ مشرق سے نکل کر جب مغرب میں پہنچتا ہے تو ڈوبتا نہیں ہے بلکہ پھر مشرق کی جانب چلتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سمت سے دوسری سمت چکر کاٹتا ہے۔ قطب شمالی کے قریبی علاقہ میں جہاں انسان کی آمد و رفت ہے یہ منظر دکھائی دیتا ہے۔ ان دنوں میں مغرب بھی مشرق بن جاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے چھ مہینوں میں جب رات ہی رات رہتی ہے مشرق بھی مغرب بن جاتی ہے۔ اسی طرح قطب جنوبی پر بھی چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات رہتی ہے تو کیسا کمال ہے قدرت کا!
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ فرقان نوٹ ۷۱ میں گزر چکی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرجان (Coral) ایک آبی درخت ہوتا ہے جسے سمندر میں کیڑے بناتے ہیں۔ پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اور رنگ خوبصورت گلابی اور کچھ دوسرے رنگ بھی ہوتے ہیں۔ اس کا شمار جواہرات میں ہوتا ہے اور آرائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے تاکہ انسان کے ذوقِ جمال کی تسکین کا سامان ہو اور جس عجیب طریقہ سے کیا ہے وہ اس کا کرشمہ ہی ہے۔
اس آیت کے تعلق سے ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ موتی اور مرجان صرف سمندر سے نکلتے ہیں جبکہ آیت میں سمندر اور دریا دونوں سے نکلنے کا ذکر ہے اس لیے بعض مفسرین نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ دونوں کے مجموعہ سے یہ چیزیں نکلتی ہیں بچہ اگرچہ ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے لیکن وہ ماں اور باپ دونوں کی اولاد ہوتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ موتی صرف سمندر سے نکلتے ہیں بلکہ دریا سے بھی نکلتے ہیں جس کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔ ذیل میں ہم انسائیکلو پیڈیا آف مینسرلس اینڈِیم اِسٹون کا اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے اس دعوےٰ کی تردید ہوتی ہے۔
They are found in both sea water and fresh water-Pearls are found in the Persian Gulf, the Gulf of Manaar between Ceylon and India, the Red sea, the Gulf of Mexico and Panama, and the waters off Australia and Venezuela. Fresh Water Pearls are found in many rivers including those of Scotland and North America – in particular the Mississippi river”.
)The Encyclopedia of Minerals & Gem stones by Michal of O’Donaghne – Orbis Publ. London P.286 (
” موتی دونوں میں پائے جاتے ہیں سمندر کے پانی میں بھی اور دریا کے پانی میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موتی خلیج فارس” خلیج منار جو سیلون اور انڈیا کے درمیان ہے” بحر احمر” میکسیکو اور پناما کے خلیج اور اسٹریلیا اور وینزولا سے دور پانی میں۔ میٹھے پانی کے موتی بہت سے دریاؤں میں پائے جاتے ہیں بشمول اسکاٹ لینڈ اور شمالی امریکہ کے دریاؤں کے اور خاص طور سے دریائے مسی سی پی میں۔”
جواہرات کی اس انسائیکلو پیڈیا کے صفحہ ۱۲۷ پر بھی یہ صراحت موجود ہے کہ :
"Pearls may be obtained from both freshwater and Saltwater molluscs.” (P.127(
” موتی میٹھے پانی کے صدفہ سے بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں اور کھاری پانی کے صدفہ سے بھی۔”
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی میں کتنی ہی چیزیں ڈوبتی ہیں لیکن بڑے بڑے جہاز جو پہاڑوں کی طرح اونچے اُٹھے ہوئے ہوتے ہیں سمندر میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ اللہ کی قدرت کا جلوہ نہیں ہے؟ ان جہازوں پر اس کا کنٹرول ایسا ہے کہ جب وہ چاہتا ہے جہاز کو ڈبو دیتا ہے۔
آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں بھی بڑے بڑے جہاز ہوا کرتے تھے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی میں ” مَنْ” (جو) جاندار کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین پر جو مخلوق بھی زندہ ہے اس کو ایک دن مرنا اور ختم ہو کر رہ جانا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ قیامت کے دن مُردوں کو زندہ کر ے گا اور انس و جِن دونوں گروہوں کو وہ اپنے حضور جوابدہی کے لیے حاضر کرے گا۔ بعد کی آیتوں میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی ذات جو عظمت اور عزت والا ہے ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اس کے لیے بقاہی بقا ہے وہ اپنی بقا کے لیے نہ کسی کا محتاج ہے اور نہ اس کی عظمت و عزت میں کبھی کوئی فرق آسکتا ہے۔ رہی مخلوق تو اس کا بقا اس کے رب کی مشیت ہی پر موقوف ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتے ہوں، انسان ہوں یا جن سب اس کے محتاج ہیں اور اس کے آگے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر آن وہ نئی شان میں ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرح طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ ان کی دعائیں سننا، بیماروں کو شفا بخشنا، کمزوروں کی دستگیری کرنا، مظلوموں کی فریاد رسی کرنا، بے کسوں کی مدد کرنا، خطرات میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچانا تکلیف سے نجات دینا اور مشکل کشائی کرنا، گناہوں کو بخشنا، بندوں کو ہدایت دینا اور انہیں اپنی رحمت اور فضل سے نوازنا، فتح و کامرانی اور عزت و غلبہ عطا کرنا، غرضیکہ بے شمار کام ہیں جن کو انجام دینے میں وہ ایسا لگا ہوا ہے کہ کوئی دن اس سے خالی نہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثقل وزنی، بھاری بھرکم اور نفیس چیز کو کہتے ہیں۔ عربی کی مشہور لغت قاموس میں ہے:
والثَّقَلُ۔۔۔۔۔۔۔ کل شئی نفیس مصون و منہ الحدیث انی تارک فیکم الثقلین
"ثَقْلَ یعنی ہر نفیس اور محفوظ چیز۔ اسی معنی میں وہ حدیث ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔” (القاموس ج ص ۲۵۲)
جن اور انس زمین پر دو عظیم گروہ ہیں جو دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز ہیں اس لیے ان کو ثقلان سے تعبیر کیا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات بطور تنبیہ کے ہے یعنی ہم عنقریب تمہاری طرف حساب کتاب کے لیے متوجہ ہوتے ہیں اور تمہاری خبر لیتے ہیں۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اپنی عدالت برپا کرے گا اور دونوں گروہوں کی پیشی ہو گی تو تم اس کی کرشمہ سازیوں کا چشم دید مشاہدہ کرو گے گو آج تم ان کا انکار کر رہے ہو۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے مراد اس عالم کے حدود ہیں اور انسان اور جن مجبور ہیں کہ وہ اسی عالم میں رہیں۔ آسمان میں جن پرواز کرتے ہیں اور اب انسان بھی خلا میں پرواز کر رہا ہے مگر ان کی یہ پرواز اس عالم کی سرحدوں سے باہر نہیں ہے۔ وہ اس عالم کے باہر کہیں نہیں جاسکتے۔ اگر جاسکتے ہیں تو اس صورت میں جب کہ انہیں اللہ تعالیٰ اس کا اختیار بخشے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی طرف سے اس کا پروانہ (پاسپورٹ) مل جائے۔ مقصود یہاں انسانوں اور جنوں کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے کہ جب وہ اللہ کی بنائی ہوئی اسی دنیا میں رہنے کے لیے مجبور ہیں تو پھر اس سے بغاوت کر کے انہیں کہاں پنا ہ مل سکتی ہے؟
یہاں اس شبہ کا بھی ازالہ ہونا چاہیے کہ انسان نے خلا میں پہنچ کر زمین کے اقطار (حدود) سے نکلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آیت میں زمین سے پہلے آسمانوں کا ذکر ہوا ہے چنانچہ اقطار السمٰوٰت والارض (آسمانوں اور زمین کے حدود) فرمایا گیا ہے اور مراد بحیثیت مجموعی یہ عالم رنگ و بو ہے ورنہ اگر زمین کی کشش سے باہر خلا میں نکل جانا مراد ہوتا تو یہ چیلنج جنوں کو کیس کیا جاسکتا تھا جو پہلے ہی سے اوپر پرواز کرتے رہے ہیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نحاس کے معنی لسان العرب میں دخان (دھوئیں) کے دئے ہیں اور اکثر مفسرین نے دھواں ہی مراد لیا ہے اور وہی یہاں موزوں بھی ہے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن کا حال بیان ہو رہا ہے کہ سرکش انسانوں اور جنوں پر آسمان سے آگ کے شعلے برسائے جائیں گے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر اللہ کے تازیانوں کا کس طرح انکار کرو گے؟
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ایسا معلوم ہو گا جیسے آسمان پر آگ لگ گئی ہے اور یہ نیلگوں آسمان سرخ آسمان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ اشارہ ہے زبردست آسمانی تغیر کی طرف جب آسمان آگ کا منظر پیش کر رہا ہو گا تو انسان کے ہوش کہاں رہ جائیں گے۔ اللہ کی قدرت کا یہ مشاہدہ بھی انسان ایک دن کر ہی لے گا مگر آج وہ اس کا انکار کر رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ یہ آسمان اور یہ زمین ہمیشہ اسی طرح رہیں گے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجرمین سے باز پرس نہیں ہو گی۔
ان سے جیسا کہ قرآن نے دوسرے مقامات پر صراحت کی ہے سخت باز پرس ہو گی۔ یہاں جو بات مقصود ہے وہ یہ ہے کہ مجرمین سے میدان حشر میں کسی کو بھی ان کے جرم کی نوعیت پوچھنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ان کے گناہ کے اثرات ان کے چہرے بشرے سے ظاہر ہوں گے اور ان کا حلیہ دیکھتے ہی انہیں مجرم کی حیثیت سے پہچانا جائے گا۔ چنانچہ آگے آیت ۴۱ میں اس کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں جلتے ہوئے جب انہیں شدت کی پیاس محسوس ہو گی تو وہ پانی کی طرف دوڑیں گے مگر پانی بھی ایسا گرم ہو گا کہ بالکل کھولتا ہوا۔اسی طرح وہ جہنم میں آگ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر کاٹتے رہیں گے۔
اللہ نے جہنم کو اپنے غضب کا کیسا نشان بنایا ہے اور اس میں کیسی دردناک سزائیں رکھی ہیں۔ یہ بھی اللہ کی قدرت کے عجائب ہی میں سے ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے حضور پیشی کا ڈر گناہوں سے بچاتا اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ڈر جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی کردار صالح ہو گا۔
اللہ کے حضور پیشی سے ڈرنے والے جنت میں داخل ہوں گے جہاں ہر شخص کو دو باغ دیئے جائیں گے۔ دو باغ دو قسم کے ہوں گے تاکہ وہ خوب محظوظ ہو۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی نوازشوں کا انکار کرنے والے انکار ہی کرتے رہیں مگر سن لو کہ اللہ کیسی نوازشوں سے اپنے بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہے سر فراز کرنے والا ہے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب درخت اور ان کی ڈالیاں بہ کثرت ہوں گی تو پھل بھی بہ کثرت ہوں گے نیز باغوں کی رونق میں بھی اضافہ ہو گا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر باغ میں ایک چشمہ ہو گا جو اس کو سرسبز اور شاداب رکھے گا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح باغ دو قسم کے ہوں گے اسی طرح ان کے میوے بھی دو قسم کے ہوں گے اپنی لذت اور اپنی دیگر خصوصیات کے اعتبار سے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب استر موٹے ریشم کا ہو گا تو بالائی حصہ کتنا نفیس ہو گا!
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان باغوں کی ڈالیوں میں پھل جھکے پڑے ہوں گے تاکہ آسانی سے ان کو توڑا جاسکے۔ دنیا میں کتنے ہی درختوں کے پھل اونچائی پر ہوتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے مگر جنت کے درختوں اور ان کے پھلوں کی شان ہی نرالی ہو گی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیچی نگاہیں رکھنا شرم و حیا کی تعبیر ہے اور شرم و حیاء عورتوں کا اعلیٰ وصف اور ان کی زینت ہے۔ جنت کی حوریں بالکل پاک دامن ” عفت مآب اور شرم و حیاء کا پیکر ہوں گی۔ انسان کے لیے جو حوریں ہوں گی ان کو ان جنتیوں کو ملنے سے پہلے کسی انسان نے چھوا تک نہ ہو گا وہ بالکل باکرہ ہوں گی۔ اسی طرح جنوں کو جو حوریں ملیں گی ان کو ان جنتی جنوں کو ملنے سے پہلے کسی جن نے ہاتھ نہ لگایا ہو گا۔ یہ حوریں انس کے لیے انسیات اور جن کے لیے جنیات ہوں گی۔ کیونکہ انس و جن دو الگ الگ جنس ہیں اور ہر جنس اپنی ہی جنس کے مقابل کی طرف مائل ہوتی ہے۔
ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ جنت جس طرح اللہ سے ڈرنے والے انسانوں کو ملے گی اسی طرح اس سے ڈرنے والے جنوں کو بھی ملے گی۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے حوروں کو یاقوت اورمرجان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یاقوت (Ruby) ایک نہایت قیمتی ہیرا ہوتا ہے جس کا رنگ سُرخ ہوتا ہے۔ یہ ہیرا بہت صاف اور روشن اور نہایت خوبصورت ہوتا ہے۔ مرجان بھی جواہرات میںسے ہے اور زیورات میں گلابی رنگ کا مرجان استعمال ہوتا ہے۔گویا جنت کی حوریں اپنی نفاست، اپنی گوری اور گلابی رنگت اور حسن و جمال میں یاقوت و مرجان ہوں گی۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اچھے عمل کی جزاء اللہ کے ہاں اچھی ہی ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ نیکی کی روش اختیار کرنے والے کا انجام بُرا ہو۔ خوب کار کو بہترین صلہ ہی ملے گا۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جن دو باغوں کا ذکر ہوا وہ ان دو باغوں پر فوقیت رکھتے ہوں گے جن کا ذکر اب ہورہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے حضور پیشی سے ڈرنے والوں کو ان کے مرتبہ کے لحاظ سے جنت میں باغ عطا کئے جائیں گے۔ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہوں گے اور دوسرے دو باغ عام صالحین کے لیے۔ اس کی تائید سورۂ واقعہ کی تصریحات سے ہوتی ہے جس میں مقربین اور اصحابِ یمین (داہنے ہاتھ والے) کے لیے الگ الگ انعامات بیان ہوئے ہیں۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو جزا کے قائل نہیں ہیں وہ ان انعامات کا بھی جن سے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو نوازنے والا ہے انکار ہی کریں گے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہرے سبز رنگ کے باغ سے اشارہ ان کے نہایت سرسبز و شاداب اور خوشنما ہونے کی طرف ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے ان باغوں کا ہمیشہ سرسبز و شاداب رہنا اللہ کی قدرت کا کتنا بڑا کرشمہ ہو گا!
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے ان باغوں میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ ایسے چشمے ہوں گے جن سے پانی ابل رہا ہو گا اور یہ در حقیقت اللہ کی رحمت ہو گی جو ابل رہی ہو گی۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھجور اور انار میوؤں میں شامل ہیں لیکن ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا کیونکہ کھجور سب سے زیادہ شیریں اور لذیذ میوہ ہے اور انار فرحت بخش۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان میں باطنی خوبیاں بھی ہوں گی اور ظاہری حسن بھی۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حُور کی تشریح سورۂ دخان نوٹ ۵۵ میں "گزر چکی۔
جنت کے خیمے نہایت شاندار ہوں گے ان کو دنیا کے خیموں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ان خیموں میں حوریں قیام پذیر ہوں گی جو اپنے شوہروں ہی سے واسطہ رکھیں گی۔ رہیں اہل جنت کی نیک بیویاں تو وہ اپنے شوہروں کے ساتھ ان کے محل میں ہوں گی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی آخرت کے منکرین جب جنت کی حوروں کا ذکر سنتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض دل بہلانے کی باتیں ہیں حالانکہ انسانی فطرت ایسی ہی جنت کی خواہشمند ہے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے متقی بندوں کو نعمتوں بھری جنت میں داخل کرے گا جہاں اس کی تمام خواہشیں اور تمام آرزوئیں پوری ہوں گی۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبز رنگ خوبصورت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوتا ہے۔ جنت کی مسندیں اس کے جمال کا اعلیٰ نمونہ پیش کررہی ہوں گی اور ان پر اہل جنت کا تکیہ لگائے بیٹھنا ان کی شانِ بادشاہی کا مظہر ہو گا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جلال والا ہے اس لیے اس کے حضور پیشی سے تمہیں ڈرنا چاہیے اور وہ بزرگی والا ہے اس لیے اس کے کمالات اور اس کی کرشمہ سازیوں پر بھی یقین رکھنا چاہیے۔
اس کے نام کی یہ برکت ہے کہ جب اس کا ذکر کیا جاتا ہے تو رحمتوں کا نزول ہونے لگتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے اور اس نے اپنے نیک بندوں کے لیے آخرت میں جو خیر اور برکتیں رکھی ہیں وہ ایسی ہیں کہ وہ نہال ہو جائیں گے۔ اس کے کمالات اور اس کی کرشمہ سازیوں کی کوئی حد نہیں ہے اور اس کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جن کو اس کی صحیح معرفت حاصل نہیں ہے اور جو اس کے احسانات کے قدر داں نہیں ہیں۔
٭٭٭
(۵۶)سورۂ الواقعۃ
(۹۶آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں الواقعۃ یعنی واقع ہونے والی ( قیامت) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "الواقعہ ” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
قیامت اور جزا و سزا کے احوال کو پیش کرنا اور اس کا یقین پیدا کرنا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۶ میں قیامت کے ہولناک واقعہ سے خبردار کیا گیا ہے۔
آیت ۷ تا ۵۶ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ پھر ہرگروہ کا انجام وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۵۷ تا ۷۴ میں وہ حقیقتیں بیان کی گئی ہیں جن سے جزا و سزا کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
آیت ۷۵ تا ۹۶ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں قرآن سے بے اعتنائی برتنے والوں کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ ہوش میں آؤ اور دیکھو کہ قرآن جو تمہیں قیامت کے احوال اور جزا و سزا سے آگاہ کررہا ہے سرتا سر وحی الٰہی ہے جس میں شیطان کے لیے دخل اندازی کا کوئی موقع نہیں۔
اخیر میں موت کے وقت کی بے بسی کا حال بیان کرتے ہوئے آخری انجام سے آگاہ کیا گیا ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب واقع ہونے والی واقع ہو گی۔ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پست کر دینے والی اور بلند کر دینے والی۔۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب زمین شدید اضطراب کے ساتھ لرزنے لگے گی۔ ۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ غبار بن کر اڑنے لگیں گے۔۵*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔۶*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو داہنے ہاتھ والے۔۷* کیا ہیں داہنے ہاتھ والے!
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بائیں ہاتھ والے۔۸* کیا ہیں بائیں ہاتھ والے!
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورسبقت کرنے والے تو ہیں ہی سبقت کرنے والے۔
۹۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مُقرب ہیں۔ ۱۰*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعمت کے باغوں میں۔۱۱*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا گروہ اگلوں میں سے ہو گا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے سے پچھلوں میں سے۔ ۱۲*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُرصّع (جڑے ہوئے) تختوں پر ۱۳*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے۔ ۱۴*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے۔۱۵*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیالے اور جگ اور بہتی ہوئی شراب کے جام لیے ہوئے۔ ۱۶*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے نہ سردرد ہو اور نہ عقل جاتی رہے۔ ۱۷*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میوے جو وہ پسند کریں۔ ۱۸*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پرندوں کے گوشت جو ان کو مرغوب ہوں۔ ۱۹*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے لیے حسین چشم حوریں ہوں گی۔ ۲۰*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے محفوظ موتی۔ ۲۱*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاء ان کے ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔ ۲۲*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ وہاں نہ کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ گناہ کی کوئی بات۔۲۳*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس سلامتی ہی سلامتی کی باتیں ہوں گی۔
۲۴۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور داہنے ہاتھ والے تو کیا شان ہے داہنے ہاتھ والوں کی۔۲۵*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے خار بیریوں میں ہوں گے۔ ۲۶*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تہ بہ تہ کیلوں۔ ۲۷*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھیلی ہوئی چھاؤں۔۲۸*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آبِ رواں۔۲۹*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہ کثرت پھلوں میں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے روکا جائے گا۔ ۳۰*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اونچے بستروں میں ہوں گے۔ ۳۱*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بیویوں کو ہم نے خاص اٹھان پر اٹھایا ہو گا۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو باکرہ بنایا ہو گا۔ ۳۲*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاری ۳۳* اور ہم عمر۔۳۴*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داہنے ہاتھ والوں کے لیے۔۳۵*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اگلوں میں سے بڑی تعداد میں ہوں گے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بعد والوں میں سے بھی بڑی تعداد میں۔ ۳۶*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بائیں ہاتھ والے! کیا حال ہو گا بائیں ہاتھ والوں کا!۳۷*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لُوکی لپٹ، کھولتے ہوئے پانی،
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کالے دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ ٹھنڈا ہو گا اور نہ مفید۔ ۳۸*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اس سے پہلے خوش حال تھے۔ ۳۹*
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہت بڑے گناہ پر اصرار کرتے رہے۔ ۴۰*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہتے تھے کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے تو پھر اٹھائے جائیں گے؟ ۴۱*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا ہمارے باپ دادا بھی؟
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو یقینا اگلے اور پچھلے ،
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ایک مقررہ دن کی میقات پر جمع کئے جائیں گے۔ ۴۲*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو!
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم زقوم ۴۳* کے درخت کی غذا کھاؤ گے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی سے پیٹ بھرو گے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تونسے (پیاسے) اونٹ کی طرح۔ ۴۴*
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ان کی ضیافت ۴۵* جزا کے دن۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے تو تم سچ کیوں نہیں مانتے؟ ۴۶*
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے غور کیا جو منی تم ڈالتے ہو۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو (انسان کی)شکل تم دیتے ہو یا ہم دیتے ہیں؟ ۴۷*
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کی ہے۔ ۴۸* اور ہم عاجز نہیں ہیں۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات سے کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور تمہیں ایسی مخلوق بنا دیں جن کو تم نہیں جانتے۔۴۹*
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو پھر کیوں یاددہانی حاصل نہیں کرتے۔ ۵۰*
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے غور کیا اس چیز پر جو تم بوتے ہو؟
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے کھیتی تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہم ہیں؟ ۵۱*
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر کے رکھ دیں اور تم باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ہم تو تاوان میں پڑ گئے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ محروم ہو کر رہ گئے۔ ۵۲*
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے اس پانی پر غور کیا جو تم پیتے ہو؟
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے اس کو بادل سے اتارا ہے یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں؟ ۵۳*
۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا بنا کر رکھ دیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے! ۵۴*
۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس آگ پر بھی غور کیا جس کو تم سلگاتے ہو۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا درخت ۵۵* تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ ۵۶* اور مسافروں کے لیے مفید چیز بنایا ہے۔ ۵۷*
۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ( اے نبی!) تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کرو۔ ۵۸*
۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ ۵۹* میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے غروب ہونے کے مقامات کی۔۶۰*
۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو۔ ۶۱*
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ یہ ایک عزت والا قرآن ہے۔ ۶۲*
۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک محفوظ کتاب میں۔ ۶۳*
۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو نہیں چھوتے مگر پاکیزہ۔ ۶۴*
۸۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا تم اس سے سہل انگاری برتتے ہو۔ ۶۵*
۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس (نعمت میں) اپنا حصہ یہ رکھتے ہو کہ اسے جھٹلاؤ؟
۸۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توکیوں نہیں ( کچھ کر پاتے) جب جان حلق تک پہنچتی ہے۔ ۶۶*
۸۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔ ۶۷*
۸۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم تمہاری نسبت اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔ ۶۸*
۸۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اگر تم محکوم نہیں ہو تو کیوں نہیں۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جان کو لوٹا لیتے اگر تم سچے ہو؟ ۶۹*
۸۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اگر وہ ہوا مقربین ۷۰* (جن کو اللہ سے قریب ہونے کا درجہ حاصل ہوا )میں سے۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمت بھری جنت ہے۔ ۷۱*
۹۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہوا۔ ۷۲*
۹۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سلامتی ہے تیرے لیے کہ تو اصحابِ یمین (داہنے ہاتھ والوں) میں سے ہے۔۷۳*
۹۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہوا۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کی تواضع گرم پانی سے ہو گی۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراس کا داخلہ جہنم میں ہو گا۔ ۷۴*
۹۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب بالقین حق ہے۔ ۷۵*
۹۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ( اے نبی!) اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ ۷۶
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت ہے جو لازماً واقع ہو گی۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے واقع ہونے میں نہ کوئی چیز مانع ہوسکتی ہے اور نہ کوئی طاقت اسے ٹال سکتی ہے اور نہ ہی یہ خبر جھوٹی ہوسکتی ہے۔ اس کا واقعہ ہونا بالکل حق ہے۔
قیامت صرف ممکن ہی نہیں بلکہ واقعہ بن کر سامنے آنے والی ہے لہٰذا ہر شخص کو اپنے مستقبل کی فکر کرنا چاہیے۔ مگر موجودہ دور کا تعلیمی، تمدنی، معاشی اور سیاسی نظام انسان کو دنیا ہی میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے جب تک قیامت کی شدت کا احساس نہیں ابھرتا اس کا زاویہ نظر بدل نہیں سکتا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کتنوں کو پست کر دے گی ور کتنوں کو بلند کر دے گی ، جو لوگ دنیا میں بلندی مقام پر تھے درآنحالیکہ وہ اس کے مستحق نہیں تھے ! نہیں قیامت پستی میں ڈال دے گی اور جو لوگ دنیا میں بلند مقام حاصل نہیں کرسکے تھے در آنحالیکہ وہ اس کے مستحق تھے انہیں قیامت رفعت اور بلندی عطا کرے گی۔ اس طرح قیامت کی گھڑی اپنے ساتھ انسانی سوسائٹی کے لیے زبردست انقلاب لائے گی اور عزت و ذلت کے لیے نئے پیمانے اور نئے معیار قائم ہوں گے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کا زلزلہ زمین کو اس طرح ہلا دے گا کہ وہ لرزنے لگے گی اور شدید گھبراہٹ کا عالم ہو گا۔ سورۂ حج کی ابتدائی آیتوں میں اس اضطراب کا نقشہ پیش کیا گیا ہے نیز سورۂ زلزال میں بھی زلزلہ کے نتیجہ میں پیش آنے والے واقعات بیان ہوئے ہیں۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے پہاڑوں کو دیکھ کر تنگ نظر انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ زمین ہمیشہ اسی طرح رہے گی لیکن قرآن ایک عظیم انقلاب کی خبر دے رہا ہے جو اس زمین پر واقع ہو گا۔ قیامت کی گھڑی جب آئے گی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح ہوا میں اڑنے لگیں گے پہاڑوں کو اس لیے ہٹایا جائے گا تاکہ زمین ایک چٹیل میدان بن جائے اور حشر برپا ہو۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تین گروہ کون سے ہوں گے ان کا ذکر آگے ہوا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مومنین صالحین ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۷۔
واضح رہے کہ قرآن نے یہاں اس بات کی صراحت نہیں کی کہ فاسق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اول تو جس زمانہ میں اس سورہ کا نزول ہوا ہے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں میں بد عمل اور فاسق مسلمانوں کا کوئی گروہ موجود نہیں تھا دوسرے ترغیب اور ترہیب کے پہلو سے مخلص مومنین کی جزاء اور مجرم کافرین کی سزا کو ایک دوسرے کے مقابل بیان کرنا حکمت و مصلحت کا تقاضا تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر مخصوص شرائط کے ساتھ شفاعت کے قبول کئے جانے کا ذکر کیا اور ایسے لوگوں کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اور معلوم نہیں قیامت کے دن کیسے کیسے کٹھن حالات اور سزاؤں سے گزرنے کے بعد ان لوگوں کے لیے شفاعت کا مرحلہ آ جائے گا۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد کافر اور مجرم ہیں جن کے بائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ ایمان لانے کے بعد نیکی میں سبقت لے گئے اور دین کے لیے قربانیاں دینے میں پیش پیش رہے وہ انعام پانے والوں میں اول درجہ کے لوگ ہوں گے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ توبہ نوٹ ۱۸۰۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہو گا اور مقرب ہونے کا اعزاز سب سے بڑا اعزاز ہو گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے نعمت بھرے باغوں میں وہ عیش و عشرت کے ساتھ رہیں گے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقربین کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص پیروؤں کو اس بات کی بشارت سنا دی گئی کہ اس امت کے دورِ اول کے لوگوں میں سے ایک بڑی تعداد مقربین کی ہو گی اور بعد کے لوگوں میں بھی مقربین ہوں گے۔ لیکن تعداد میں کم۔ چنانچہ صحابہ کرام میں اپنے خلوص ، اپنے نیک سیرت ہونے اور دین کے لیے قربانیاں دینے کے اعتبار سے بلند مقام رکھنے والے لوگ زیادہ تھے اور بعد والوں میں اس معیار کے لوگ کم ہوتے چلے گئے۔ ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ۔ ” بہترین لوگ میرے دور کے ہیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔”
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ تخت شاہی تخت ہوں گے جو جواہرات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شاہانہ شان کے ساتھ ان تختوں پر ٹیک لگائے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنتیوں کی مجلسیں کیسی آراستہ اور شائستہ ہوں گی۔ کوئی کسی سے نہ منہ پھیرے گا اور نہ پیٹھ بلکہ سب ہنسی خوشی دوستانہ ماحول میں رہ رہے ہوں گے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طور نوٹ ۲۴۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی تواضع کے لیے یہ لڑکے مشروبات سے لبریز جگ لئے حاضر ہوں گے اور پیالوں میں انہیں پیش کریں گے اور چھلکتے ہوئے جام بھی جو شرابِ خالص کے بہتے ہوئے چشمے سے لبریز ہوں گے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ صافات نوٹ ۳۹۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے جن میں سے وہ اپنے ذوق اور اپنی پسند کے میوے چن لیں گے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طور نوٹ ۲۲۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن پرندوں کے گوشت کی انہیں اشتہاء اور رغبت ہو گی وہ ان کو مل جائے گا۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طور نوٹ ۱۸۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے موتی جن کو کسی نے چھوا نہ ہو۔ نہایت صاف اور چمکدار۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ان کو ان کے اعمال کی جزا کے طور پر دیا جائے گا۔ اور جب وہ اپنے اعمال کی جزا کے طور پر جنت کی ان نعمتوں کو پائیں گے تو خوشی سے جھوٹ اٹھیں گے کہ ہماری محنت ٹھکانے لگی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نباء نوٹ ۲۲۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر طرف سے انہیں سلام کا تحفہ پیش کیا جائے گا اور جو باتیں بھی وہاں ہوں گی سلامتی ہی کی باتیں ہوں گی۔ کوئی بات بھی ایسی نہیں ہو گی جو معیوب ہو یا جس سے کسی کو اذیت پہنچے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہو گی جب کہ دنیا میں ایسا ماحول کسی کو بھی میسر نہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کی بہ نسبت مضبوط ہوتا ہے۔ اسے سعادت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن جن لوگوں کو ان کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا وہ بڑے مبارک لوگ ہوں گے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیری کے جس درخت کے کانٹے کم ہوتے ہیں ان کا پھل زیادہ میٹھا ہوتا ہے اور بیر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی خوشبو بہت میٹھی ہوتی ہے اور جنت کے بے خار بیروں کا کیا کہنا!دنیا کے بیروں سے تو ان کا ایک ہلکا سا تصور ہی بندھتا ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیلا ایک میٹھا اور لذیذ پھل ہے اور جنت کے کیلے کے ذائقہ کا کیا کہنا! اور ان کا تہ بہ تہ ہونا ان کے پیدا کرنے میں سلیقہ مندی کو ظاہر کررہا ہو گا اور نظروں میں خوب جچ رہا ہو گا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے درخت کا سایہ کتنا لمبا ہو گا اس کا اندازہ حدیث نبوی سے ہوتا ہے جس میں ارشاد ہواہے:
اِنَّ فِی الْجَنَۃِ شَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّہَا مِأَۃَ عَامٍٍ لاَ یَقَطَّعُہَا۔
” جن میں ایک درخت ایسا ہے کہ اگر سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔”(بخاری کتا ب التفسیر)
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت میں پانی کی فراوانی ہو گی وہاں ہمیشہ پانی بہتا رہے گا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ دنیا میں پھل اپنے اپنے موسم میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جنت میں سدا بہار درخت ہوں گے اور ان کے پھل ہر وقت ملتے رہیں گے۔ پھر وہاں پھل حاصل کرنے کے لیے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہو گی نہ کوئی قانون ان کے حصول میں مانع ہو گا اور ہ ملکیت کا کوئی سوال ہی پیدا ہو گا۔ ہر جنتی کسی بھی رکاوٹ کے بغیر وافر پیمانہ پر پھل حاصل کرسکے گا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن سے ان کی رفعت شان کا اظہار ہو رہا ہو گا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خواتینِ جنت کو موزوں ترین جسم عطا کئے جائیں گے۔ ان کو کنواری بنایا جائے گا خواہ وہ دنیا میں اولاد والی کیوں نہ رہی ہوں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے شوہر سے پیار کرنے والی اور پیاری صورت والی شوہر کی نظر میں محبوب۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ص نوٹ ۷۶۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ حسین و جمیل عورتیں داہنے ہاتھ والوں کے لیے ہوں گی۔ جو نیک عورتیں نیک مردوں کے نکاح میں تھیں وہ جنت میں بھی ان کو ملیں گی اور جن مردوں کی عورتیں نیک نہیں تھیں ان کی زوجیت میں دوسری نیک عورتیں دی جائیں گی۔
تفصیلات اور جزئیات میں گئے بغیر سمجھنے کے لیے اتنی بات کافی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی داہنے ہاتھ والے اس امت کے اول لوگوں میں سے بھی بڑی تعداد میں ہوں گے اور بعد والوں میں سے بھی بڑی تعداد میں۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس امت میں قیامت تک نیک لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو جنت کے مستحق بنیں گے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن نے جنت کی بشارت متقیوں ہی کو سنائی ہے اور داہنے ہاتھ والے متقی ہی ہوں گے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے بائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا ان کا حال بہت بُرا ہو گا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سایہ ٹھنڈا اور خوشگوار ہوتا ہے لیکن یہ سایہ کا بے دھوئیں کا ہو گا جس سے نہ ٹھنڈک حاصل ہوسکے گی اور نہ وہ خوشگوار ہو گا۔
سورۂ مرسلات میں فرمایا ہے:
لاَ ظَلِیْلٍ وَّلاَ یُغْنِیْ مِنَ اللَّہَبِ ” ایسا سایہ جو سایہ دار نہ ہو گا اور نہ شعلوں سے بچا سکے گا۔”(مرسلات: ۳۱)
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں وہ خوشحال تھے اس لیے چاہئیے تھا کہ وہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے لیکن انہوں نے اپنی خوشحالی کو کفر کا ذریعہ بنایا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے گناہ سے مراد شرک ہے۔ یہ لوگ شرک اور بت پرستی سے باز آنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے بلکہ اس کے جائز ہونے پر انہیں اصرار رہا اور اس پر مرتے دم تک جمے رہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبر میں دن ہو جانے کے بعد جسم کا گوشت کچھ ہی دنوں میں خاک میں مل جاتا ہے اور صرف ہڈیاں رہ جاتی ہیں۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ جب مرنے والے کا جسم ہی باقی نہیں رہا تو پھر اسے کس طرح قیامت کے دن اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ انہوں نے اللہ کی قدرت کا غلط تصور قائم کر رکھا تھا اور اللہ اپنے رسول کے ذریعہ ان کے دوبارہ اٹھائے جانے کی جو خبر دے رہا تھا اس کو بھی وہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس طرح وہ جرم پر جرم کے مرتکب ہوئے۔
بائیں ہاتھ والوں کے دو سنگین جرائم کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ایک شرک اور کفر اور دوسرے آخرت سے انکار۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان بالفاظ دیگر پوری نوع انسانی کو قیامت کے دن اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ یہ دوسری زندگی انہیں اس لیے بخشی جائے گی تاکہ اپنی پہلی زندگی میں کئے کا وہ پھل پائیں۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زقوم کی تشریح سورۂ صافات نوٹ ۵۱ میں گزر چکی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہِیم( تونسے ہوئے) ان اونٹوں کو کہتے ہیں جو پیاس کی شدت کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ ایسا اونٹ کتنا ہی پانی پئے اس کی پیاس بجھتی نہیں ہے۔ یہی حال ان دوزخیوں کا ہو گا وہ گرم پر گرم پانی پئیں گے مگر ان کی پیاس بجھنے والی نہیں۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان مجرموں کا استقبال قیامت کے دن ان سزاؤں سے کیا جاء گا۔ یہ طنز یہ یہ کلام ہے اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ ان لوگوں کے جرائم اتنے سنگین تھے کہ ان کے انعام پانے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ان کو کڑی سزائیں ہی بھگتنا ہوں گی۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ تمہارا خالق اللہ ہی ہے تو پھر وہ تمہیں روز جزاء سے خبردار کرتے ہوئے تمہاری رہنمائی کے لیے جو وحی نازل کر رہا ہے اس کو سچ کیوں نہیں مانتے؟
اس آیت سے آیت ۷۱ تک توحید اور روز جزاء کا انکار کرنے والوں سے متعدد سوالات کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کر کے صحیح نتیجہ پر پہنچ جائیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم تو صرف رحم میں حقیر پانی کی بوند ڈال دیتے ہو اس کے بعد بوند کو جن مراحل سے گذارکر بچہ کی شکل دی جاتی ہے اور پھر اس میں جس طرح جان ڈال کر اسے با صلاحیت انسان بنادیا جاتا ہے وہ کیا تمہاری اپنی کار فرمائی ہے یا تمہارے رب کی؟
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت لازماً ہر انسان کو آتی ہے جو اس کی بے بسی اور اللہ کی قدرت و غلبہ کا واضح ثبوت ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو ہستی تمہاری موت پر قادر ہے وہ تمہاری شکلوں کو بدلنے اور تمہیں ایک دوسری مخلوق کا روپ دینے پر بھی قادر ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر پہلی بار انسان کو پیدا کرنا اللہ کے لیے ممکن ہوا تو دوسری بار پیدا کرنا کیوں نا ممکن ہو گا؟ اگر مٹی سے انسان پیدا کیا جاسکتا ہے تو دوبارہ اسی مٹی سے اسے کیوں نہیں اٹھا کھڑا کیا جاسکتا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم تو صرف بیج بونے کا کام کرتے ہو اس سے لہلہاتی فصل پیدا کرنا اللہ ہی کا کا م ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فصل کو تباہ کر دیں پھر تم افسوس کرنے لگو کہ ہم اس نقصان سے زیر بار ہو گئے بلکہ فائدہ سے یکسر محروم ہو کر رہ گئے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادلوں سے پانی برسانا تاکہ پینے کے کام آئے اللہ ہی کا کام ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنس کی ترقی سے انسان اگر اس قابل ہوا ہے کہ کسی مقام پر بادلوں سے پانی برسائے تو یہ بھی اللہ ہی کی بخشی ہوئی صلاحیت ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بادلوں کو سمندروں سے اٹھانے ان کو ہواؤں کے دوش پر سوار کر کے فضا میں بکھیرنے اور دنیا کے مختلف خطوں میں پانی برسانے پر انسان قادر ہو گیا ہے۔ یہ نظام انسان کی دسترس سے بالکل باہر ہے۔ اس کو اپنی کوششوں میں جو کامیابی ہوئی ہے وہ ایسی ہی ہے جیسے کوئی غبارہ میں ہوا بھر دے اور پھر یہ دعویٰ کرے کہ ہوا پر اسے تصرف حاصل ہو گیا ہے!
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمندر کا پانی کھاری اور کڑوا ہوتا ہے لیکن جب بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس میں نمک کے اجزاء شامل نہیں ہوتے اس لیے بادلوں سے جو پانی برستا ہے وہ خالص ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے جس کا انسان رات دن مشاہدہ کرتا ہے پھر اس میں اپنے رب کے لیے شکر کا احساس کیوں نہیں ابھرتا؟ اگر اللہ چاہے تو سمندر سے اٹھنے والے بادلوں میں نمک کے اجزاء شامل کرسکتا ہے اور کڑوے پانی کی بارش ہوسکتی ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں "مَرْخ” اور "عفار” کے نام سے دو درخت پائے جاتے تھے جن کی ٹہنیوں کو رگڑ دینے سے آگ پیدا ہوتی تھی۔ سبز درخت سے آگ پیدا کرنا اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہی ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگ جہنم کی آگ کو یاد دلاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ آگ کو دیکھ کر اللہ کے عذاب سے ڈرے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں آگ سلگانے کے لیے ماچس وغیرہ ایجاد نہیں ہوئی تھی اس لیے مذکورہ درختوں کی ٹہنیوں کو مسافر آگ سلگانے کے لیے استعمال کرتے جو پکانے کے بھی کام آتی اور اس سے وہ تپش بھی حاصل کرتے۔ مسافروں کے حق میں یہ کتنی بڑی نعمت تھی۔ موجودہ دور میں آگ سلگانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں وہ بھی نت نئی نعمتیں ہی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر واجب ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے واسطہ سے آپ کے پیروں کو دی گئی ہے کہ ان کھلی حقیقتوں سے لوگ اگر آنکھیں بند کئے رہتے ہیں تو رہیں۔ تم اپنے ربِ عظیم کی پاکی بیان کرو کہ وہ ہر قسم کے عیب اور شرک سے منزہ ہے اور اس کے نام کی تسبیح کرو۔ اللہ کے نام کی تسبیح مثلاً سُبْحَانَ اللّٰہ یا سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظَیْم۔ کہنا عقیدہ کی صحت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور بہترین عبادت بھی ہے۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم سے پہلے جو ” لا”( نہیں) آتا ہے وہ غلط بات کی تردید کے لیے آتا ہے۔ یہاں منکرین کے باطل عقائد کی تردید مقصود ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستاروں کے غروب ہونے کے مقامات سے مراد ان کا اپنے اپنے مقام پر غروب ہونا ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح کے وقت جب ستارے غروب ہونے لگتے ہیں تو آسمان کی آراستہ بزم کے برخواست ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ منظر ہر دیدۂ بینا رکھنے والے کو دعوتِ فکر دیتا ہے اس لیے اس کو توحید اور جزا و سزا کی تائید میں پیش کیا گیا ہے قرآن کی دعوت ان ہی بنیادی باتوں کی دعوت ہے اس لیے اس سے اس کی بھی صداقت روشن ہو جاتی ہے۔ سورۂ نجم میں بھی تاروں کے غروب ہونے کی قسم اسی بات پر کھائی گئی ہے اور سورۂ تکویر میں بھی تاروں کی رفتار” ان کے چھپ جانے” رات کے رخصت ہو جانے اور صبح کے نمودار ہونے کو روز جزاء کی شہادت میں جس سے قرآن کی صداقت بھی روشن ہوتی ہے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں اس قسم کو عظیم قسم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان کے یہ آثار توحید اور روز جزا کے حق میں بہت بڑی دلیل ہیں کیونکہ ان آثار کا ہر شخص مشاہدہ کر کے بہ آسانی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے منطق لڑانے اور صغریٰ اور کبُریٰ کو جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے اندر اگر حق کو پالینے کی طلب ہے تو م ان آثار کے مشاہدہ میں حق کو پالو گے اور تاروں کے غروب ہونے میں بھی تم کو اللہ کا بہت بڑا کرشمہ دکھائی دے گا۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کے معنی بہ کثرت پڑھی جانے والی کتاب کے ہیں۔ قرآن کلام الٰہی ہونے اور اپنی بہترین خصوصیات کی بناء پر اس لائق ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے اور اس کا اہتمام شریعت نے اس طرح کیا ہے کہ ہر نماز میں بلکہ اس کی ہر رکعت میں قرآن کی قرأت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی تلاوت اس کثرت سے ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس کی تلاوت کا نہایت خوشگوار اور روح پرور منظر رمضان کی راتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
قرآن کی صفت ” کریم” بیان ہوئی ہے جس کے معنی عزت والے کے بھی ہیں اور فیض بخشی کے بھی۔ قرآن نہایت وقیع اور بلند پایہ کلام ہے۔ اس میں جو بات بھی کہی گئی ہے بلند سطح سے کہی گئی ہے۔ اس کلام کی ایک شان ہے اور وہ ہر لحاظ سے قابل احترام ہے۔ مزید برآں اس کی فیض بخشی ایسی ہے کہ گو یا خیر کے چشمے بہا دیئے گئے ہیں۔ بڑے ناقدرے ہیں وہ لوگ جو اس کی قدر نہ کریں۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” کتابٍ مکنون”( محفوظ کتاب) سے مراد لوحِ محفوظ ہے جیسا کہ سورۂ بروج میں ارشاد ہوا ہے: بَلْ ہُوَقُرُآنٌ مَّجِیدٌ فِی لَوْحٍ مَّحفُوظٍ۔ "بلکہ یہ بزرگ قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔” ( بروج: ۲۱۔۲۲)
یعنی آسمان میں یہ کتاب نہایت اہتمام کے ساتھ محفوظ کر دی گئی ہے جہاں فرشتوں کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مُطَہَّرِیْنَ”( پاکیزہ) سے مراد فرشتے ہیں جو ہر قسم کے گناہ اور شر سے پاک ہیں۔ طبری اور دوسرے مفسرین نے بھی اس سے مراد فرشتے ہی لیے ہیں۔ سورۂ عبس میں تصریح ہے:
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ۔
” ایسے صحیفوں( اوراق) میں ہے جو نہایت قابلِ احترام ہیں۔ بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معزز اور وفا شعار ہیں۔”(عبس: ۱۳ تا ۱۶)
اور یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ قرآن کے بارے میں منکرین کا یہ شبہ کہ وہ شیطان کا اتارا ہوا ہے بالکل غلط اور سراسر جھوٹ ہے۔ قرآن کلامِ الٰہی ہے اور اس کا منبع Sources لوحِ محفوظ ہے جو آسمان میں ہے۔ وہاں کسی شیطان کی رسائی ممکن ہی نہیں کہ اس کو لے کر اڑیں اور اس میں آمیزش کریں۔ وہاں پاکیزہ فرشتے ہی پہنچتے ہیں، وہی اس کتاب کو چھوتے ہیں اور وہی حکم الٰہی کے مطابق قرآن کی آیتوں کو جوں کا توں لے کر نازل ہوتے ہیں ان کے سردار جبرائیل پیغمبر پر وحی کرتے ہیں۔ نزولِ قرآن کا یہ کام پاکیزہ صفت فرشتوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے اس لیے اس میں نہ فرشتوں کے اپنے کلام کا دخل ہوسکتا ہے اور نہ شیطان کی کسی بات کا۔
آیت کا اصل مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا لیکن فقہاء نے اس آیت سے قرآن کو بلا وضو چھونے کی حرمت پر استدلال کیا ہے اور اس کی تائید میں وہ مؤطا کی یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بِنْ اَبِیْ بَکْرِ بِنْ حَزْمٍ اَنَّ الْکِتَابِ الَّذِیْ کَتَبَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَمْرٍ وبْنِ حَزْمٍ اَنْ لاَ یَمَسَّ الْقُرْآنَ اِلاَّ طَاہِرٌ۔
” عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ اس مکتوب میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن حزم کو لکھ کر دیا تھا یہ حکم تھا کہ قرآن کو وہی چھوئے جو طاہر ہو۔”
یہاں اس پر مبسوط فقہی بحث کا توقع نہیں ہے اس لیے ہم مختصراً چند باتیں عرض کریں گے:۔
۱) اس آیت میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ یہ حقیقتِ واقعہ بیان کی گئی ہے ہ قرآن کا نزول ٹھیک ٹھیک اس کتاب کے مطابق ہو رہا ہے جو آسمان پر محفوظ ہے اور جس کو صرف فرشتے جو پاکیزہ صفرت اور امانت دار ہیں چھوتے ہیں اور اسی کے مطابق وحی لے کر پیغمبر پر نازل ہوتے ہیں۔ شیطانوں کا نہ وہاں گزر ہے اور نہ ان ناپاکوں کے ہاتھ اس کو لگ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ فرشتوں کے کام میں مداخلت کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ حکم مستبظ کرنا کہ بلا وضو قرآن کو ہاتھ نہ لگایا جائے ایک غیر متعلق بات ہے ” طاہر” اور ” مُطَہَّرٌ ” کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اگر قرآن کو ہاتھ لگانے کے لیے با وضو ہونا مراد ہوتا تو ” طاہرین” کا لفظ استعمال کیا جاتا نہ کے مُطَہَّرِینَ کا۔ اس آیت میں جس طرح فرشتوں کے قرآن کو چھونے کا ذکر ہے اسی طرح سورۂ عبس میں ان کے لکھنے کا بھی ہے:
بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ ٍکِرَامٍ بَرَرَۃٍ ” ایسے لکھنے والوں کے ہاتھ سے جو معزز اور نیک ہیں۔” ( عبس: ۱۵۔۱۶)
تو کیا اس پر قیاس کر کے قرآن یا اس کی کسی آیت کے لکھنے کے لیے معزز اور نیک ہونے کی شرط عائد کی جاسکتی ہے؟ اگر یہ استنباط صحیح نہیں تو مُطَہَّرِیْنَ والی آیت سے جو استنباط کیا جاتا ہے وہ بھی صحیح نہیں۔
۲) اور جہاں تک موطا کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ : اَنْ لاَ یَمَسَّ القُرْآنَ اِلاَّ طَاہِرٌ ” قرآن کو صرف وہی چھوئے جو طاہر ہو۔”
تو اول تو یہ حدیث مرسل ہے ( عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ج ۱ ص ۳۸۴) دوسرے یہ کہ طاہر سے لازماً مراد باوضو شخص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو جنابت سے پاک ہو چنانچہ اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں جنبی( جس نے جنابت کے بعد غسل نہ کیا ہو) کو قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے گو ان حدیثوں میں بھی کلام کی گنجائش ہے وَفِیْ کُلِّہَا مَقَال (عون المعبود ج ۱ ص ۳۸۳) اور قرآن میں جنبی کو غسل کر کے پاک ہونے کا حکم دیا گیا ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّہَّرُوْا۔ ” اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر کے پاک ہو جاؤ۔” ( مائدہ: ۶)
قرآن اور حدیث کے ان تصریح احکام کے پیش نظر موطا کی مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم یہی متعین ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے جنابت سے اور کسی عورت نے حیض سے پاکی حاصل نہ کی ہو وہ قرآن کو ہاتھ نہ لگائے۔
۳) بعض فقہاء نے تو قرآن کو بلا وضو ہاتھ نہ لگانے کا حکم دیتے ہوئے اس میں اس قدر شدت پیدا کر دی ہے کہ جن کتابوں میں قرآن کی آیتیں درج ہوں یا جس ورق میں بھی قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو اس کو ہاتھ لگانا ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بلا وضو نہ کسی خط پر بسم اللہ لکھ سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی آیت درج کرسکتا ہے کیونکہ بسم اللہ بھی قرآن کی ایک آیت ہی ہے۔ اسی طرح ان رسائل کو بھی ہاتھ نہیں لگاسکتا جن میں قرآن کی آیتیں درج ہوتی ہیں۔ اس شدت کی تردید بخاری کے اس باب سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے ابراہیم نخی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” بغیر وضو کے خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔” (بخاری کتاب الوضوء باب قرأۃ القرآن بعد الحدیث وغیرہ)
ظاہر ہے خط میں بسم اللہ بھی لکھی جائے گی اور اگر ضرورت ہوئی تو آیتیں بھی لکھی جائیں گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کو خط لکھا تھا اس میں قرآن کی چند آیتیں بھی درج تھیں تو کیا جو شخص اس خط کو لے گیا تھا اس کو اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ وہ بلا وضو اسے ہاتھ نہ لگائے؟
۴) حضرت ابن عباس، شعبی، ضحاک، زید بن علی، مؤید باللہ، داؤد، ابن حزم اور حماد بن سلیمان اس بات کے قائل ہیں کہ بلا وضو قرآن کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔
(فقہ السنہ۔ السید سابق ج۱ ص ۵۷)
۵) قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعہ کے لیے با وضو ہونا یقیناً باعثِ خیر و برکت ہے کیونکہ با وضو ہونے کی صورت میں پاکیزگی کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور خیالات کو پاکیزہ رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے لیکن وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کو حرام قرار دینا فقہی شدت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شدت موجودہ زمانہ میں لوگوں کو زبردست مشکلات میں ڈالنے والی ہے کیونکہ قرآن کے نسخوں کو فروخت کرنا” ان کو خریدنا اور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا” ان کو چھاپنا اور ان کی جلد بندی کرنا سب کے لیے وضو کی قید کوئی عملی بات نہیں ہے۔ یہ قید اشاعتِ قرآن کے سلسلہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کتاب خوبصورت جزدان میں بند رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اس سے قدم قدم پر رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کو بہ کثرت پھیلا یا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ دین میں جو آسانیاں تھیں وہ فقہی شدت کی وجہ سے برقرار نہیں رہ سکیں۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی عظمت کو محسوس نہیں کرتے اور اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جان کنی کے وقت تمہاری جو بے بسی ہوتی ہے اس پر بھی تو سوچو۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری نظروں کے سامنے مرنے والے کی روح قبض کی جارہی ہوتی ہے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے والے سے تمہاری بہ نسبت اللہ زیادہ قریب ہوتا ہے۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ق نوٹ ۲۱۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم اپنے رب کے مملوک اور محکوم نہیں ہو تو موت کے بعد روح کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ جب یہ واقعہ ہے کہ روح کو جب کہ وہ جسم سے نکل چکی ہو کوئی شخص بھی لوٹا نہیں سکتا نہ اپنی روح کو نہ کسی دوسرے شخص کی روح کو تو پھر وہ اس حقیقت کو کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ وہ اپنے رب کا مملوک اور محکوم ہے اور جب وہ اس کا مملوک اور محکوم ہے تو اس کی بندگی اور اطاعت کرنا چاہیے۔ پھر اس سے کفر اور سرکشی کیسی ؟
۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقربین کی تشریح اوپر نوٹ ۱۰ میں گزر چکی۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے والا اگر مقربین میں سے ہوتا ہے تو اس کی روح کے لیے راحت ہی راحت ہوتی ہے اور ایسی خوشبو پیش کی جاتی ہے جو اس کے لیے تازگی اور فرحت کا باعث ہوتی ہے اور اسے نعمت بھری جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ سورۃ حم السجدہ (آیت ۳۰) میں بھی گزر چکا کہ جو لوگ استقامت کا ثبوت دیتے ہیں ان پر فرشتے جنت کی بشارت لیے ہوئے نازل ہوتے ہیں۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داہنے ہاتھ والوں سے مراد عام نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر مرنے والا نیک ہے تو اسے فرشتے روح قبض کرتے وقت خوشخبری دیتے ہیں کہ تیرے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ کسی آفت اور تکلیف سے واسطہ نہیں پڑے گا۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر مرنے والا توحید اور آخرت کو جھٹلانے والا اور گمراہ تھا تو اس کا استقبال گرم پانی سے کیا جاتا ہے اور اسے یہ بُری خبر سنائی جاتی ہے کہ قیامت کے دن اس کا داخلہ جہنم میں ہو گا۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سب باتیں جو بیان ہوئیں قطعی حق ہیں۔ ان میں ذرہ برابرشک کی گنجائش نہیں۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے نوٹ ۵۸۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اپنے رکوع میں رکھو اور جب آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی نازل ہوئی تو آٖ نے فرمایا اسے اپنے سجدہ میں رکھو۔(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ)
چنانچہ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیم( پاک ہے میرا ربِ عظیم) اور سجدہ میں ( سُبْحَانَ رَبِیَّ الْاَعْلٰی) ( پاک ہے میرا ربِ اعلیٰ) اسی حکم کی تعمیل میں کہا جاتا ہے
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نماز کے اذکار قرآن کے اشارات پر مبنی ہیں۔
٭٭٭
(۵۷) سورۂ الحدید
(۹۶ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت ۲۵ میں حدید( لوہے) کے نازل کئے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” الحدید” ہے۔
زمانۂ نزول
مدنی ہے اور آیت ۱۰ میں فتح سے پہلے انفاق اور جہاد کرنے والوں کے درجہ کی بلندی کا جو ذکر ہوا ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ سورہ فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی تھی غالباً ۵ ۰ ہجری یا ۶ہجری میں۔
مرکزی مضمون
اس سورہ میں خلوص کے ساتھ ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور اس کا ابھرا ہوا تقاضا یہ پیش کیا گیا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنا مال خرچ کیا جائے۔
نظمِ کلام
آیت۱ تا۶ میں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی صفات بیان ہوئی ہیں۔
آیت ۷ تا ۱۱ میں خلوص کے ساتھ ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
آیت ۱۲ تا ۱۵ میں مخلص مومنوں کو یہ بشارت دیتے ہوئے کہ ان کا ایمان قیامت کے دن ان کے لیے نور ہو گا منافقین کے اس نور سے محرومی اور ان کے عذاب سے دو چار ہونے کا منظر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۱۶ تا ۲۴ میں ایمان کے تقاضے پیش کئے گئے ہیں اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو مقصود بنانے کی ترغیب دی گئی ہے
آیت ۲۵ تا ۲۷ میں قیامِ عمل کے لیے طاقت کے استعمال کو ضروری قرار دیتے ہوئے جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور دین کے رہبانی تصور کی تردید کی گئی ہے۔
آیت ۲۸ اور ۲۹ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں متقی اور مخلص مومنوں کے لیے روشنی اور فضلِ عظیم سے نوازے جانے کی بشارت دی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ساری چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ۱*اور وہ غالب ہے۔ ۲ *حکمت والا ۳*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے۔۴ *وہی زندہ کرتا اور مرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی۔ ۵ *اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۶*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ ۷*وہ جانتا ہے جو چیز بھی زمین میں داخل ہوتی ہے۔ ۸* اور اس سے نکلتی ہے۔ ۹* اور جو کچھ آسمان میں سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ ۱۰* وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو ۱۱* اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ ۱۲*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں ۱۳* اور وہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ ۱۴*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر ۱۵* اور خرچ کرو اس مال میں سے جس پر اس نے تم کو اختیار بخشا ہے۔ ۱۶* جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم مومن ہو۔۱۷*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جو اپنے بندہ پر واضح آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ یقیناً اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔۱۸*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۱۹* یکساں نہیں ، تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑے ان کا درجہ ان لوگوںسے بڑا ہے جو بعد میں خرچ کریں گے اور لڑیں گے۔ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھا وعدہ کیا ہے ۔ ۲۰* اور تم جو کچھ کرتے ہو ا س سے اللہ با خبر ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض؟ کہ وہ اس کے لیے اس کو کئی گنا کر دے۔ اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔ ۲۱*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑ رہا ہو گا۔ ۲۲* آج تمہارے لیے خوشخبری ہے جنتوں کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے، یہی ہے بڑی کامیابی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے ذرا توقف کرو کہ ہم تمہارے نور سے فائدہ اٹھا لیں۔۲۳* ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے پلٹو اور وہاں نور تلاش کرو۔ ۲۴* پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی۔۲۵* جس میں ایک دروازہ ہو گا۔ اس کے اندر کی جانب رحمت ہو گی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہو گا۔ ۲۶*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ جواب دیں گے ہاں مگر تم نے اپنے کو فتنہ میں ڈالا۔۲۷* ہمارے لیے بُرے ( انجام کا) انتظار کرتے رہے۲۸*، شک میں مبتلا رہے۔ ۲۹* اور جھوٹی تمناؤں نے تمہیں دھوکہ میں رکھا۔ ۳۰* یہاں تک کہ اللہ کا حکم ا گیا ۳۱* اور اس فریب کار ۳۲*نے تمہیں اللہ کے معاملہ میں فریب ہی میں رکھا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج نہ تم (منافقوں) سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔ ۳۳ * اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا ۔ *۳۴ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔ وہی تمہاری رفیق ہے۔ ۳۵* اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ایمان لانے والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھک جائیں ۔۳۶* اور ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ ۳۷*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان لو کہ اللہ زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ۳۸*ہم نے نشانیاں تمہارے لیے واضح کر دی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ صدقہ دینے والے مرد اور عورتیں اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا ان کو کئی گنا کر کے دیا جائے گا۔ ۳۹*اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ۴۰* ان کے لیے ان کا اجر بھی ہو گا اور نور بھی۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل اور لہو، زینت ، ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی طلب ہے۔۴۱* اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش جس کی نباتات کو دیکھ کر کافر خوش ہو جاتے ہیں پھر وہ لہلہانے لگتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ زرد ہو گئی ہے۔ پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے۔ ۴۲* اور آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی۔ ۴۳*اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکہ کا سامان ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے مانند ہے۔ ۴۴* وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ ۴۵* جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ۴۶*یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مصیبت بھی زمین پر نازل نہیں ہوتی اور نہ تمہارے نفس کو پہنچتی ہے مگر ہے کہ وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ ۴۷*یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔۴۸*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے تمہیں آگاہ کر دیا گیا ہے)تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تم سے جاتی رہے اور اس چیز پر اتراؤ نہیں جو تمہیں عطا فرمائے۔ ۴۹* اللہ اترانے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ۵۰*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بخل کرتے ہیں اوردوسروں کو بخل کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ ۵۱* اس (نصیحت سے) جو رخ پھیرے گا تو وہ یا د رکھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔۵۲*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ ۵۳* اور ان کے ساتھ کتاب ۵۴* اور میزان ۵۵*نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں ۵۶* اور لوہا اتارا جس میں زبردست خوفناکی ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدہ بھی۔۵۷*یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اللہ جان لے کہ کون ان کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ ۵۸*بلا شبہ اللہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔ ۵۹*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ ۶۰ * تو ان میں سے کچھ لوگوں نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ۶۱*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہم نے ان کے نقشِ قدم پر اور رسول بھیجے اور پھر عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل عطا کی۔ ۶۲* اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا۔ ۶۳* اور رہبانیت کا نیا طریقہ انہوں نے خود نکالا۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے یہ بدعت نکالی پھر اس کی رعایت نہ کرسکے جیسا کہ رعایت کرنے کا حق تھا۔ ۶۴ * تو ان میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ان کا اجر ہم نے انہیں عطا کیا۔ ۶۵*مگر ان میں زیادہ تر لوگ فاسق ہیں۔ ۶۶*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ ۶۷*وہ تمہیں اپنی رحمت میں سے د و حصے دے گا۔ ۶۸* اور تمہیں نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحیم ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ نہیں۔۶۹* اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ ۷۰* اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سَبَّحَ ماضی کا صیغہ ہے جس کے لفظی معنی ہیں "تسبیح کی”اور دوسری سورتوں میں "یُسَبِّحُ "مضارع کا صیغہ بھی آیا ہے جو حال اور مستقبل دونوں کے لیے یعنی تسبیح کرتی ہے اور تسبیح کرے گی۔ان دونوں صیغوں کے استعمال سے اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ کائنات کی ہر چیز بلا قید زماں اللہ کی تسبیح میں زمزمہ سنج ہے۔ زبانِ حال اور زبانِ قال دونوں سے اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۸۔
۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا اقتدار اور غلبہ ہر چیز پر ہے۔ کوئی چیز بھی اس کے قابو سے باہر نہیں۔
۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اقتدار اور غلبہ کو حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے اس نے یہ نظام کائنات ایک سنجیدہ حقیقت ہے۔ نہ وہ مقصدیت سے خالی ہے اور نہ اس کی سلطنت میں اندھیر نگرسی ہے۔
۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ کائنات کا فرمانروا ہے۔ اس کی بادشاہ میں کوئی شریک نہیں۔ وہ پوری شانِ بادشاہت کے ساتھ اپنی سلطنت پر حکومت کر رہا ہے۔
۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح اس طرح فرمائی ہے ۔اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْ ءٌ وَاَنْتَ الآخِرُ فَلَیسَ بَعْدَکَ شَیٌٔ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیسَ فَوْقَکَ شَیٌٔ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیسَ دُوْنَکَ شَیٌٔ۔
"تو اول ہے تجھ سے پہلے کوئی نہیں تو آخر ہے تیرے بعد کوئی نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اوپر کوئی نہیں تو باطن ہے تجھ سیزیادہ پوشیدہ کوئی نہیں۔”مسلم کتاب الذکر،
مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہر چیز کا وجود اس کے وجود کے بعد ہے اور ہر چیز قانونی ہے بقا اور دوام اسی کے لیے ہے اور اس کے باقی رکھنے ہی سے کوئی چیز باقی رہ سکتی ہے۔ اس کے وجود سے زیادہ کسی چیز کا وجود بھی ظاہر نہیں۔پوری کائنات اس کے وجود کو ظاہر کر رہی ہے اور وہ ہر جگہ آشکارا ہے مگر وہ ایسا پوشیدہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ جو اس کا ادراک نہیں کرسکتے اور عقل اس کی کہنہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ لہٰذا اس کی ذات و صفات کے بارے میں جو معرفت وحی الٰہی نے بخشی ہے اس پر اکتفا کرنا چاہیے اور ایسے سوالات میں ذہن کو الجھانا نہیں چاہیے جو ہماری معرفت کے دائرہ سے باہر ہیں۔
جو لوگ وحدۃ الوجود، یعنی نعوذ باللہ اللہ اور مخلوق کا سب کا وجود ایک ہی ہے،کے قائل ہیں۔ انہوں نے یہیں ٹھوکر کھائی ہے۔ انہوں نے اللہ کی ذات میں عقل و فطرت کے حدود سے متجاوز ہو کر غور کیا جس کے نتیجہ میں ان کا عقیدہ فاسد ہو گیا اور گمراہی ان کے حصہ میں آئی۔ آدمی جب تک پانی میں تیرتا ہے سلامت رہتا ہے لیکن جب زمین پر تیرنا شروع کرتا ہے تو گھٹنے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عقل کے گھوڑے کے لیے زمام نہایت ضروری ہے۔
۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان اپنے علم پر اللہ کے علم کو قیاس نہیں کرسکتا۔ اللہ کا علم بحرِ بے کراں ہے اور انسان کا علم سمندر کے ایک قطرہ کے برابر بھی نہیں۔
۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۸۲ ، ۸۳ میں گزر چکی۔
۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً اناج کے دانے، پانی اور مُردے جو اس میں دفن ہوتے ہیں۔
۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً کونپلیں،پانی کے چشمے، دھاتیں ، قیمتی پتھر اور تیل، پٹرول ، گیس وغیرہ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ سبا نوٹ ۵ میں گزر چکی۔
۱۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جہاں کہیں ہو اللہ تمہیں جانتا ہے ، دیکھتا ہے، تمہاری باتیں سنتا ہے ، تم پر قدرت رکھتا ہے اور تمہاری روح قبض کرتا ہے۔ اس کے حاضر و ناظر ہونے کا تصور ہی انسان کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بادشاہ ہے اس لیے آسمانوںاور زمین میں اسی کے فرمان جاری ہوتے ہیں اور وہ مرجع ہے اس لیے تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔
۱۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۳۹ میں گزر چکی ۔
۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جزئی سے جزئی اور سب سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے یہاں تک کہ دلوں میں چھپے ہوئے بھید بھی اس پر عیاں ہیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کلمہ گو مسلمانوں سے خطاب ہے کہ صرف کلمہ گو ہونا کافی نہیں بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ ایمان وہی معتبر ہے جو دل کی تصدیق کے ساتھ ہو اور اس میں شک اور تذبذب نہ ہو بلکہ اس کے حق ہونے پر یقین ہو۔
۱۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو مال اس نے امانۃً تمہارے سپرد کیا ہے اور تم کو شرعی حدود میں تصرف کا اختیار بخشا ہے۔ خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور اس سورہ میں انفاق خرچ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ جہاد کی ضرورتوں کے پیشِ نظر ہے تاکہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں اسلام کو سر بلندی حاصل ہو۔
۱۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان مسلمانوں سے خطاب ہے جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا لیکن ایمان ابھی ان کے دل میں نہیں اترا تھا۔ ان کو فہمائش کی گئی کہ جب رسول تمہیں بنفس نفیس ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تم مخلصانہ ایمان نہیں لاتے؟ جب کہ رسول تم سے عہد لے چکا ہے۔ عہد اس بات کا کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے۔ جب کوئی شخص کلمہ شہادت ادا کر کے اسلام میں داخل ہوتا ہے تو وہ دراصل اس بات کا عہد کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوا ہے:
وَاِذْکُرُوْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیکم وَ مِیثَاقَہٗ الَّذِیْ وَاَثقَکُمْ بِہٖ اِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ مائدہ: ۷ "اور اللہ نے جو فضل تم پر کیا ہے اسے یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جو اس نے تم سے لیا ہے جب تم سے کہا تھا ہم نے سنا اور اطاعت کی۔”
لہٰذا اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو اس کے تقاضوں کو پورا کرو۔
۱۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہالت اور خواہشات کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں اس لیے اس نے واضح آیتیں نازل کر کے ان کو روشنی میں لانے کا اہتمام کیا۔ وہ اپنے بندوں کے حق میں شفیق ہے اس نے انہیں برے انجام سے بچانا چاہتا ہے اور وہ رحیم ہے اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اس کی رحمت کے مستحق نہیں۔
۱۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کو جو مال عطا ہو ا ہے وہ بالآخر اللہ کے قبضہ میں جانے والا ہے۔ تمہارے ساتھ ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے پھر تم اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کیوں نہیں کرتے کہ تمہارے لیے اجر کا باعث بنے۔
۲۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فتح سے مراد فتحِ مکہ ہے ۔ فتح مکہ سے پہلے حالات نہایت کٹھن اور صبر آزما رہے ہیں۔ اس وقت اسلام کی سربلندی کے لیے جانی و مالی قربانیاں دینے کی شدید ضرورت تھی۔ ان حالات میں میں وہی لوگ قربانیاں دینے کے لیے آگے بڑھے جو بلند حوصلہ تھے اس لیے ان کا درجہ بھی اللہ کے یہاں بلند ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو اسلام کی عظیم فتح۔فتح مکہ۔کے بعد جب کہ حالات اتنے سخت نہیں رہیں گے جانی و مالی قربانیاں پیش کریں گے۔ درجہ کے اعتبار سے تو دونوں یکساں نہیں ہوسکتے لیکن دونوں ہی کی قربانیاں لائق قدر ہیں اور اللہ نے اچھے اجر کا وعدہ دونوں ہی سے کیا ہے۔
اس آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اسلام کے لیے جب کبھی حالات ناسازگار ہو کر رہ جائیں اور اس کی سربلندی کے لیے اپنا مال خرچ کرنا اور اپنی جانیں لڑا دینا بڑے حوصلہ کا کام ہو تو جو لوگ ان خطرات کو مول لے کر آگے بڑھیں گے ان کا رتبہ بلند ہو گا بہ نسبت ان لوگوں کے جو عام حالات میں اسلام کی سربلندی کے لیے انفاق اور جہاد کریں گے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قرضِ حسن سے مراد وہ انفاق خرچ ہے جو اپنی جائز کمائی میں سے خالصۃً اللہ کی رضا خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ نہ اس میں ریا ہو اور نہ اس کے بعد احسان جتانے اور اذیت دینے کی کوئی بات۔ یہ انفاق جہاد کے مقاصد کے لیے خاص طور سے مطلوب ہے اس لیے اس کا مطالبہ دل کو اپیل کرنے والے انداز میں کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ شانِ کریمی ہے کہ وہ اس انفاق کو اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے جس کو وہ آخرت میں کئی گنا کر دے گا اور بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔
۲۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نور ایمان اور عملِ صالح کا ہو گا۔ حدیث میں نماز کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے: الصلوٰۃ نورٌ "نماز نور ہے۔” مسلم کتاب الطہارۃ۔
یہی نور ہے جو قیامت کے دن مومنوں پر جنت کی راہ روشن کرے گا۔ یہ سعادت جس طرح مومن مردوں کو حاصل ہو گی اسی طرح مومن عورتوں کو بھی حاصل ہو گی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق یعنی وہ لوگ جو بظاہر مسلمان تو ہو گئے تھے لیکن اپنے ایمان میں مخلص نہ تھے۔ آگے آیت ۱۴ میں اس کی وضاحت ہوئی ہے۔ یہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل تھے اس لیے قیامت کے دن بھی وہ مومنوں کے پیچھے پیچھے ہوں گے لیکن چونکہ ان کی زندگیاں ایمان اور عملِ صالح سے خالی تھیں اس لیے قیامت کے دن ان کو نور سے محروم رکھا جائے گا۔ وہ اپنے کو اس حا ل میں دیکھ کر کہ اس نور سے محروم ہیں۔ مومنوں کو آواز دیں گے کہ ذرا ٹھہرو تاکہ تمہارے نور کی روشنی سے ہم بھی فائدہ اٹھا لیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہو گی۔
۲۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا جس کو تم پیچھے چھوڑ کر آئے ہو نور حاصل کرنے کی جگہ تھی۔ اب اگر تم پلٹ کر دنیا میں جاسکتے ہو تو جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو مگر یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ آخرت میں نور اسی کے ساتھ ہو گا جو دنیا سے ایمان اور عملِ صالح کا نور لے کر آیا ہو گا۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مومنوں اور منافقوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی۔ اس طرح دونوں گروہ الگ ہو جائیں گے تاکہ اپنی الگ الگ منزل کو پہنچ جائیں۔
۲۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دیوار کے دروازہ سے مومن اندر داخل ہوں گے جہاں رحمت ہی رحمت ہو گی۔ یعنی جنت ۔ اور یہ دروازہ در حقیقت رحمت کا دروازہ ہو گا۔
اس دروازہ کے باہر کی طرف عذاب ہو گا جو منافقین کو اپنی گرفت میں لے گا۔
۲۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مومنوں کو اپنی روشنی کے ساتھ جدا ہوتے دیکھ کر منافق انکو پکاریں گے کہ ہم کو پیچھے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو۔ کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ جواب دیں گے تم ہمارے ساتھ ضرور تھے__ یعنی مسلم سوسائٹی میں شامل تھے__لیکن تم نے دو رخی پالیسی اختیار کر کے اپنے کو زبردست فتنہ میں ڈالا۔ ایک طرف مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے رہے اور دوسری طرف کافروں سے بھی ساز باز کرتے رہے۔ ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر و بدترین شر تھا جس میں تم نے اپنے کو مبتلا کر رکھا تھا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس انتظار میں رہے کہ کب مسلمانوں پر ایسی افتاد پڑتی ہے کہ پھر وہ اٹھ ہی نہ سکیں۔
یتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِرَ عَلَیہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِتوبہ:۹۸۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ تم کسی نہ کسی گردش میں آ جاؤ اور واقعہ یہ ہے کہ بری گردش میں وہ خود ہی آ گئے ہیں۔”
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں نہ رسول کی رسالت پر یقین تھا اور نہ آخرت پر۔ ان باتوں پر تم شک ہی کرتے رہے۔
۳۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہماری یہ پالیسی کامیاب رہے گی۔ ہم اپنا مفاد اسی طرح حاصل کرسکیں گے اور اگر آخرت برپا ہوئی تو ہم مسلمانوں میں شامل ہونے کی بنا پر بخش دیئے جائیں گے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے حکم سے مراد موت ہے یعنی مرتے دم تک تم نفاق ہی میں مبتلا رہے۔
۳۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد شیطان ہے جو کفر اور گناہ پر آمادہ کرتا ہے اور سبز باغ دکھاتا ہے۔
۳۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تمہارے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور تم اپنی نجات کے لیے اسے فدیہ میں دینا چاہو تو بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ دنیا میں تو جو مال تمہیں میسر تھا اس کا ایک حصہ الہ کی راہ میں خلوصِ دل سے اور سچے مومن بن کر خرچ کرتے تو آج تمہارے لیے وہ ضرور ذریعہ نجات بن سکتا تھا۔ مگر اب اس کا کوئی بدل نہیں۔
۳۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نہ کھلے کافروں سے فدیہ قبول کر لیا جائے گا۔
۳۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب تمہارا اگر کوئی رفیق ہے تو یہی جہنم۔ دیکھو اب وہ تمہاری کیسی خبر گیری کرتی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب ان ایمان لانے والوں سے ہے جن کے دل خشوع سے خالی تھے خشوع دل کی وہ کیفیت ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کے حضور جوابدہی کے تصور سے پیدا ہوتی ہے اور جو عبارت ہے احساس بندگی، پستی، اور عجز و نیاز سے۔ یہ چیز سچے ایمان کا خاصہ ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کو جن کا ایمان محض زبانی جمع خرچ کی حد تک تھا اور جن کے دل میں وہ سرایت نہیں کر گیا تھا جھنجھوڑا گیا ہے کہ اسلام اور کفر کی اس طویل کشمکش میں جو کئی سال سے چلی آ رہی ہے اور جس کے دوران وہ اہلِ ایمان کی مظلومی بھی دیکھتے رہے ہیں اور اسلام کی حقانیت اور پیغمبر کی صداقت کی نشانیاں بھی ، ان کے دل اب بھی نہیں پسیجتے اور اللہ کو یاد کر کے پست نہیں ہو جاتے اور اس حق کو دیکھتے ہوئے جو قرآن کی شکل میں اس نے نازل کیا ہے ان کے اندر اس کے حضور جوابدہی کا احساس نہیں ابھرتا اور اس کے لیے عجز و نیاز کی کیفیت ان کے اندر پیدا نہیں ہوتی !
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلِ کتاب پر جب کتاب کے نازل ہونے اور رسول کے رخصت ہو جانے کے بعد ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کا رشتہ کتابِ الٰہی سے کمزور پڑتا چلا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دل کا خشوع رخصت ہوا اور خشوع کے رخصت ہو جانے سے دل سخت ہو گئے اور پھر ان کی زندگیاں فاسقانہ بن کر رہ گئیں۔ یہاں ان کی اس حالت سے عبرت دلائی گئی ہے۔
مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ابھی قرآن نازل ہو رہا ہے اور اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے پھر تمہارا حال ان اہلِ کتاب کا سا نہیں ہونا چاہیے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال بھی ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ویسا ہی ہے جیسا کہ اہلِ کتاب کا بیان ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے رخصت ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں اس لمبی مدت میں ان کا تعلق کتابِ الٰہی سے کمزور ہوتا چلا گیا جس کی بہت بڑی وجہ بدعات سے ان کی دلچسپی ہے اور واسطہ وسیلہ کا باطل تصور ہے جس نے ان کو جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر دیا چنانچہ وہ اپنی نجات کے بارے میں بڑی خوش فہمی میں ہیں جب کہ ان کی زندگیاں کھلی فاسقانہ ہیں۔ ان پر نصیحت کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ معصیت میں مسلسل مبتلا رہنے کے نتیجہ میں ان کے دل سخت ہو گئے ہیں۔
۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مرنے کے بعد جی اٹھنے پر جس کے بارے میں منافقین شک میں مبتلا تھے دلیل بھی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کہ مردہ دلوں کو بھی اللہ زندہ کرسکتا ہے اور وہ ہدایت پاسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی نشانیوں پر غور کریں جن میں سے ایک بہت بڑی نشانی زمین کا مردہ یعنی خشک ہو جانے کے بعد زندہ ہونا یعنی سرسبز ہونا ہے۔
۳۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ صدقہ سے مراد عام صدقہ و انفاق ہے اور قرضِ حسن سے مراد و ہ انفاق ہے جو اسلام کی جنگی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کیا جائے اور جس میں ریاء وغیرہ کا شائبہ نہ ہو۔ چونکہ یہ پیش آمدہ ضرورت کے تحت مطالبہ کی شکل میں تھا اس لیے اسے قرض سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کو کئی گنا بڑھا کر آخرت میں لوٹا دینے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اس طرح صدقہ دینے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ اضافہ کر کے دے گا۔
۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے نزدیک صدیقیت اور شہادت کا مرتبہ پانے والے مخلص اہل ایمان ہی ہوں گے۔ نام نہاد مسلمان جو اپنے دلوں میں کفر کو چھپائے رہے وہ اللہ کے ہاں کوئی مقام پا نہ سکیں گے۔ آیت کے اس مفہوم کو اس کا آخری فقرہ واضح کر رہا ہے جس میں کفر کرنے والوں کا مقام جہنم بتایا گیا ہے۔ صدیق یعنی بہت سچا۔ صداقت شعار اور شہید یعنی گواہ۔ مراد اسلام کی حقانیت کی گواہی دینے والا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا کُمْ اُمَّۃٌ وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْ شُہَدآءَ عَلَی النَّاسِ۔ "اس طرح ہم نے تم کو بہترین امت بنایا تاکہ لوگوں پر گواہ ہو۔”بقرہ: ۱۴۳۔
اس معنی میں دینِ حق کی گواہی دینے والا ہر مومن شہید ہے اور شہادت کا اونچا مقام وہ ہے جو ایک مومن اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر کے حاصل کرتا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں دنیا کی زندگی کو جب کہ اسے آخرت کی کامیابی کا ذریعہ نہ بنایا جائے بے وقعت قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بناتے ہیں ان کی زندگیاں کھیل تماشا بن کر رہ جانتی ہیں۔ وہ دنیا کو سیر گاہ خیال کرتے ہیں اور تفریحِ طبع کا سامان مہیا کرنے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔
لَعِب یعنی کھیل جو محض دل کے بہلاوے کے لیے ہوتا ہے۔
لَہْو یعنی اصل مقصد سے غافل کر دینے والی چیز۔دنیا کے وہ تمام مشاغل جو آخرت سے غافل کر دینے والے ہوں لَہْو ہیں خواہ وہ عیش و عشرت کے لیے ہوں یا جاہ و منصب کے حصول یا قوم کو دنیا پرستی میں مبتلا رکھنے کے لیے ہوں۔
زینۃ ( آرائش) سے مراد دنیا کی ظاہری چمک دمک اور دل فریبی ہے ۔ جس کی لذتیں گناہ میں مبتلا کرتی ہیں اور جس کی کشش خواہشات کا غلام بناتی ہیں۔
تفاخر(باہم فخر کرنا)فخریہ ہے کہ آدمی حسب و نسب ، مال و دولت اور جاہ و منصب وغیرہ کی بنا پر اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے۔ ایک فنکار اپنی فنی مہارت پر، ایک شاعر اپنے داد ملنے والے کلام پر، ایک صحافی اپنی صحافیانہ صلاحیت پر ایک مصنف اپنی قابلیت پر اور ایک سیاست داں اپنی شاطرانہ سیاست پر فخر کرتا ہے اور یہ نہیںسوچتا کہ یہ اپنی بڑائی کا اظہار ہے جو اسے زیب نہیں دیتا۔ نعمتیں اور صلاحیتیں سب اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ذریعہ آزمائش ہیں اس لیے ان کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا احساس ابھرنا چاہیے نہ کہ اپنی بڑائی کا ہے۔
تکاثر۔ ایک دوسرے سے مال و اولاد میں بڑھ جانے کی طلب وہ حرص ہے جو دنیوی اغراض کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے پر آدمی کو آمادہ کرتی ہے اور اس زمانہ میں جبکہ اولاد کی کثرت ایک قوت اور جتھے کا کام دیتی تھی مقصود بن جایا کرتی تھی اور اس کے پیشِ نظر مرد بہت سی عورتوں سے شادیاں بھی کر لیتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں خود غرض انسان چاہتا ہے کہ اس کے بچے کم سے کم ہوں۔
تکاثر کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکاثر نوٹ ۱۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیوی زندگی کی رونق جس پر لوگ ریجھتے ہیں ایسی ہے جیسے کھیتی کی رونق جو بارش ہونے پر بہار پر آ جاتی ہے مگر یہ بہار چند روزہ ہوتی ہے اس کے بعد وہ چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے اس لیے یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے کہ آدمی دنیوی زندگی کی ظاہری چمک دمک سے ایسا متاثر ہو جائے کہ اس کے بعد کیا پیش آنے والا ہے اس کو نظر انداز کر دے۔
یہ مثال دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوئی ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۶۳۔
واضح رہے کہ دنیوی زندگی کا بے وقعت اور حقیر ہونا اس پہلو سے ہے کہ اسے آخرت پر ترجیح دی جائے اور اپنا نصب العین بنا لیا جائے۔ قرآن میں اسی پہلو سے یہ مذمت کی گئی ہے چنانچہ سورۂ ابراہیم آیت ۳ میں ارشاد ہوا ہے:
اَلْذَینَ یسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیا عَلَی الْآخِرَۃِ "جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی پسند کرتے ہیں۔”
اور سورۂ اعلیٰ آیت ۱۶ میں فرمایا
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا "لیکن تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔”اور سورۂ نجم آیت ۲۹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کافر دنیوی زندگی کو اپنا مقصود بناتے ہیں۔
وَلَمْ یرِدْ اِلاَّ الْحَیٰوۃَالدُّنْیا "اور اس نے دنیوی زندگی ہی کو مقصود بنایا۔”
لیکن اس کے برعکس جو لوگ دنیوی زندگی کو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور شرعی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں ان کی دنیوی زندگی نہایت سنجیدہ ہوتی ہے نہ کہ کھیل تماشا اور وہ اس امتحان گاہ سے کامیابی کا سرٹیفکیٹ لے کر نکلتے ہیں۔
۴۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت میں دو طرح کے انجام سامنے آنے والے ہیں۔ ایک عذاب شدید یعنی جہنم کی سزا جو ان لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھگتنا ہو گی جنہوں نے دنیوی زندگی کو اپنا مقصود بنا لیا تھا اور جو آخرت کے منکر تھے۔
دوسرا انجام اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی کی شکل میں ظاہر ہو گا اور یہ ان لوگوں کا انجام ہو گا جنہوں نے دنیا کو امتحان گاہ سمجھ لیا تھا۔ اور جو آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصدِ حیات بنائے ہوئے تھے۔ اللہ کی خوشنودی کا مظہر جنت ہے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کی دولت کے حصول کیلئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کے بجائے اللہ کی مغفرت اور جنت کے لیے بازی لے جانے کی کوشش کرو کہ اصل چیز اللہ کے عذاب سے محفوظ رہنا اور جنت میں داخل ہو جانا ہے۔
جنت کی وسعت سے مراد اس کی پہنائیاں ہیں جو آسمان و زمین کی پہنائیوں کی طرح ہوں گی۔ یعنی جنت کوئی محدود جگہ نہیں ہو گی بلکہ ایک وسیع عالم ہو گا جس کی سیر آسانی کے ساتھ اہل جنت کرسکیں گے اور اللہ کی قدرت اور اس کی رحمت کے جلوے انہیں ہر جگہ دکھائی دیں گے جو ان کے لیے سرور اور لذتِ دید کا باعث ہوں گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ جنت تیار کی جائے گی بلکہ کہتا ہے کہ جنت تیار کی گئی ہے جس سے اس کے موجود ہونے کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ جنت اہل ایمان ہی کے حصہ میں آئے گی۔ کافروں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگ سکے گی۔
۴۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر مصیبت نازل ہونے کی مثال قحط، سیلاب، طوفان وغیرہ ہے۔ اور نفس کو مصیبت پہنچنے کی مثال بیماریاں، جسمانی و قلبی تکلیف اور موت ہے۔
اس آیت میں قضا و قدر کے تعلق سے نہایت اہم بات ارشاد ہوئی ہے اور وہ یہ کہ مصیبت وہی پہنچتی ہے جو پہلے سے لکھ دی گئی ہے یعنی ٹھیک اللہ کے منصوبہ کے مطابق لہٰذا کسی مصیبت کے پہنچنے پر کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ یہ یکایک نازل ہوئی ہے اور اس سے بچنا میری دسترس میں تھا۔
۴۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام مصائب کو پہلے سے ضبطِ تحریر میں لانا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے جس ہستی کے اشارہ پر مصیبتیں نازل ہوتی ہوں اس کے لیے یہ کام کیا مشکل ہے کہ ان کی پہلے سے منصوبہ بندی کر کے ان کو ایک کتاب میں لکھ دیا جائے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس حقیقت سے جو مصیبت کے تعلق سے بیان ہوئی تمہیں اس لیے آگاہ کر دیا گیا ہے تاکہ کسی مصیبت کے پہنچنے پر تم افسوس نہ کرنے لگو کہ اس کو ٹالا جاسکتا تھا اور کسی نعمت کے حاصل ہو جانے پر اترانے لگو کہ یہ ہماری اپنی قابلیت کا نتیجہ ہے بلکہ مصیبت میں صابر اور نعمت کے پا جانے پر شاکر رہو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ توکل ہی انسان پر حوصلہ پیدا کرتا ہے اور اسے اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
کسی مصیبت کے پہنچنے پر انسان کو فطرۃً صدمہ ہوتا ہے لیکن اگر وہ اس کو جزع فزع اور شکوہ شکایت کا ذریعہ نہیں بناتا اور صبر و ضبط کا دامن تھام لیتا ہے تو محض اس صدمہ کے پہنچ جانے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
اسی طرح کسی نعمت کے حاصل ہو جانے پر انسان کو فطری طور سے خوشی ہوتی ہے لیکن اگر یہ خوشی اترانے کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو وہ مذموم ہے۔
۵۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ لقمان نوٹ ۲۹ اور ۳۰ میں گزر چکی۔
۵۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اترانا اور فخر کرنا تنگ ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ ایسا شخص نہ دوسروں کے حقوق ادا کر پاتا ہے اور نہ انہیں ان سے صحیح ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ مال جمع کر کر کے رکھتا ہے تاکہ اسے دوسروں پر برتری حاصل ہو اور وہ اپنی دولت پر فخر کرسکے۔
۵۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نصیحت میں تمہارا اپنا فائدہ ہے ورنہ اللہ تمہاری کسی چیز کا بھی محتاج نہیں ہے اور تم اس کا شکر ادا کرو یا نہ کرو وہ بہترین صفات سے متصف اور لائق حمد ہی ہے۔
۵۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی نشانیاں جن سے واضح ہوتا تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ نشانیاں ان کی سیرت ، ان کی زندگیوں اور ان کی تعلیمات میں بھی تھیں اور ان معجزات میں بھی جو ان کو دیئے گئے تھے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانی کتاب جو ذریعہ ہدایت تھی۔ کتاب کا لفظ واحد ہے جو جنس کے طور پر استعمال ہوا ہے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں۔
۵۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میزان یعنی شریعت جو انفرادی و اجتماعی زندگی میں قیامِ عدل کا ذریعہ ہے اور جس سے عملی زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ رحمن نوٹ ۸۔
۵۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عدل پر قائم ہونے کا مطلب انصاف اور راستی کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ آدمی اپنے عقائد و اعمال میں بھی یہی طریقہ اختیار کرے اور دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی۔
اس آیت سے اجتماعی زندگی میں عدل کو قائم کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ رسولوں کے مقاصد بعثت میں سے ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلام انسانی سوسائٹی کے لیے عادلانہ نظام قائم کرنے کا داعی ہے جو اللہ کی شریعت کو قائم کئے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت، سیاست، معیشت، عدالت سب کو اللہ کے قانونِ عدل کا پابند ہونا چاہیے۔ یہ بات اسلام کے اجتماعی پہلو کو بھی نمایاں کرتی ہے اور اس کے وسیع تصور دین کو بھی۔
۵۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔”لوہا اتارا”لوہا پیدا کرنے کے معنی میں ہے جس طرح چوپایوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ "ہم نے چوپائے اتارے”جو پیدا کرنے ہی کے معنی میں ہے ۔ پیدا کرنے کو نازل کرنے سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ انسان میں یہ احساس ابھرے کہ لوہا اللہ کے حکم سے پیدا ہوا ہے اور اس کے عطا کرنے سے انسان کو یہ نعمت حاصل ہوئی ہے۔
لوہے میں زبردست خوفناکی بأس شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ قوّت ہے جو جنگی مقاصد کے لیے ضروری تھی۔اس سے تلوار،توپ، اور ٹینک جیسے اسلحہ تیار کئے جاسکتے ہیں جو دشمن کو خوف زدہ کرنے والے اور اس کا زور توڑ دینے والے ہیں۔ اسی طرح مجرمین کو سزا دینے کے لیے بھی اس قوت کو استعمال کیا جاسکتا ہے علاوہ ازیں لوہا عام منفعت کی چیز ہے چنانچہ صنعت و حرفت میں اس کا استعمال عام ہے۔
۵۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوہا جس سے جنگی اسلحہ تیار کئے جاتے ہیں اس لیے مہیا کر دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون ہے جو اس کو مقصدِ حق کے لیے استعمال کرتا ہے یعنی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے رسولوں کی حمایت و نصرت میں۔ گویا اس جنگی قوت کا اصل مصرف جہاد فی سبیل اللہ ہے جس کے ذریعہ نظامِ عدل قائم ہوتا ہے۔
۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان صفات کو بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے دین کو چاہے تو اپنے تکونی حکم کے ذریعہ بھی غالب کرسکتا ہے لیکن وہ اس بات کا موقع دے رہا ہے کہ اس کے دین کی حمایت و نصرت کر کے اور اس کو غالب کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر کے اس کی خوشنودی حاصل کرو کہ یہ اصل کامیابی ہے۔
۶۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سلسلہ رسالت میں حضرت نوح اور حضرت ابراہیم خاص طور سے قابل ذکر ہیں کہ ان کی نسل میں انبیاء بھی مبعوث ہوئے اور کتابیں بھی نازل ہوئیں۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ نبوت و کتاب کا سلسلہ ان دو رسولوں کی نسل ہی میں رہا چنانچہ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت ابراہیم اور حضرت لوط سب حضرت نوح ہی کی نسل سے تھے۔ پھر حضرت ابراہیم کی نسل کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ ان کی نسل کی دو شاخیں ہوئیں ایک بنی اسرائیل جن میں متعدد انبیاء مبعوث ہوئے اور تورات ، زبور اور انجیل بھی ان ہی میں نازل ہوئیں۔ دوسرے بنی اسمعٰیل جن میں محمد صلی اللہ علیہ آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث ہوئے اور جن پر قرآن نازل ہوا۔
قرآن کی اس صراحت کے پیش نظر وہ قیاس آرائیاں غلط قرار پاتی ہیں جو مختلف شخصیتوں کے نبی ہونے کے بارے میں کی جاتی ہیں جبکہ ان شخصیتوں کا زمانہ حضرت ابراہیم کے بعد کا رہا ہے اور ان کا حضرت ابراہیم کی نسل سے ہونا ثابت بھی نہیں۔
۶۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان دونوں رسولوں کی نسل میں راہِ ہدایت اختیار کرنے والے کم ہی نکلے اور بڑی تعداد فسق نافرمانی میں مبتلا رہی۔
آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں راہ ہدایت پر چلنے والے کم ہیں اور بڑی تعداد فسق و فجور میں غرق ہے جبکہ قرآن کی روشنی ان کی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔
۶۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اخیر میں عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ ہدایت پائیں۔ واضح رہے کہ یہ انجیل اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے البتہ اس کے متفرق اجزاء اناجبلِ اربعہ متی، لوقا، مرقس، اور یوحنا میں پائے جاتے ہیں۔
۶۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رافۃ یعنی دل کی نرمی اور رحمۃ یعنی مہربان ہونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت میں یہ دو وصف نمایاں تھے۔ ان کی مسیحائی سے خلقِ خدا سے ہمدردی کرنے اور اس پر رحم کرنے کا جذبہ ابھرتا تھا۔ اس کے اثرات ان کے پیروں پر بھی پڑے اور ان میں بھی شفقت و رحمت کے جذبات پیدا ہوئے۔ یہ جذبات اپنے معروف حدود میں مطلوب تھے مگر انہوں نے اس میں غلو کر کے خانقاہیت اختیار کر لی جس کے نتیجہ میں جہاد معطل ہو گیا۔
حدود تعزیری قوانین کے نفاذ کے معاملہ میں نرمی برتنے سے منع کر دیا گیا ہے۔
وَلاَ تَأخُذْکُمْ بِہِمَارَأفَۃٌفِیْ دِیْنِ اللّٰہِ۔”اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آئے۔” نور: ۲۔
اور لوہے (اسلحہ)کا استعمال عدل قائم کرن کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد بھی اشد ضروری ہے۔ یہ سب کام سختی کے ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے کترا کر نرمی اور رحم کے دائرہ میں اپنے کو محصور کر لینا راہِ اعتدال سے ہٹ جانا ہے۔ دین نے ایک طرف فطری جذبات کی پرورش کا سامان بھی کیا ہے اور دوسری طرف اجتماعی مصالح اور غلبہ دین کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ اس کے ایک پہلو کو لینے اور دوسرے پہلو کو نظر انداز کرنے سے افراط و تفریط کی صورت پیدا ہوتی ہے۔
۶۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رہبانیت سے مراد تعبد (عبادت گزاری) کا وہ طریقہ ہے جو نصاریٰ نے ایجاد کیا تھا یعنی دنیا کے مشاغل اور اس کی لذتوں کو ترک کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لینا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تجرد کی (غیر ازدواجی) زندگی اختیار کی اور پہاڑوں ، غاروں اور خانقاہوں میں رہنے لگے۔ تعبد میں ان کا یہ غلو تھا جس نے ان کو فطری تقاضوں کو بھی پورا کرنے نہیں دیا اور دینی تقاضوں کو بھی پورا کرنے سے روکا خاص طور سے جہاد فی سبیل اللہ اور کفر و اسلام کی کشمکش میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز اختیار کیا۔ قرآن ان کے اسی طریقہ کو بدعت قرار دے رہا ہے اور صاف کہہ رہا ہے کہ تعبد کا یہ طریقہ اللہ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر انہوں نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے یہ نیا طریقہ رائج کر دیا۔ اس طرح انہوں نے تعبد کے معاملہ میں اپنے کو ایسی مشقت میں ڈال دیا جس کو وہ سہار نہ سکے۔ گو انہوں نے یہ نیا طریقہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اختیار کیا تھا لیکن بدعت بدعت ہے خواہ وہ نیک نیتی کیساتھ کیوں نہ کی گئی ہو۔ قرآن رہبانیت کو بدعت قرار دیتا ہے اور اس کی مزید مذمت اس پہلو سے بھی کرتا ہے کہ اس کو وہ پوری طرح نبھا نہ سکے۔ یعنی دنیا سے قطع تعلق کا یہ طریقہ ایجاد کرنے کو تو انہوں نے ایجاد کر لیا لیکن پھر وہ اس پر کار بند نہ ہوسکے۔ ظاہر ہے جب فطرت کے خلاف کوئی جنگ کرتا ہے تو فطرت اس سے جنگ کرتی ہے اور رہبانیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ شادی بیاہ سے نفرت کرنے والے بدکاری کا شکار ہو گئے اور راہبوں اور راہبات کے میل جول نے خانقاہوں کو بدکاری کے اڈوں میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح جب انہوں نے کسب معاش کے جائز طریقے چھوڑ دئے تو حرام خوری ان میں عام ہو گئی۔ سورۂ توبہ آیت ۳۴ میں احبار و رہبان اہل کتاب کے علماء اور راہبوں کی اس مذموم حرکت کا ذکر ہوا ہے کہ وہ باطل طریقہ سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔
ہندوستان کے مشرکوں میں بھی ترک دنیا اور تپسیا کا تصور چلا آ رہا ہے ۔ اس طریقہ کو جنہوں نے اختیار کیا وہ سادھو اور جوگی کہلائے۔ ترکِ زینت میں انہوں نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ اپنے بلاس ہی اتار پھینک دیئے۔ پھر مندروں میں ان کی خدمت کے لیے "دیو داسیاں”بھی رہنے لگیں نتیجہ یہ کہ وہ بری طرح بے حیائی بدکاری اور حرام خوری میں مبتلا ہو گئے۔ ترک دنیا کی آڑ میں یہ صریح دنیا پرستی ہے۔
مسلمانوں میں بھی تصوف کی راہ سے خانقاہیت آ گئی جس میں گوشہ نشینی، مراقبے، ریاضتیں اور نفس کشی جیسی چیزیں شامل تھیں۔ پھر جب انہوں نے طریقت کو ایجاد کیا تو اس نے شریعت کی جگہ لے لی۔ اس طرح دین میں بدعات کی بھر مار ہوئی اور اس کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ گیا۔
حالانکہ حدیث میں ہر نئی بات کو جو دین میں نکالی جائے مردود قرار دیا گیا تھا۔
مَنْ اَحْدَثْ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَاَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ "جو ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات نکالے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔”بخاری کتاب الصلح۔
وَشَرَّالاُمُوْرِ مُحَدَّثَاتُہَا وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ "اور بدترین باتیں وہ ہیں جو نئی نکالی جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے”مسلم کتاب الجمعۃ۔
اس حدیث میں ہر بدعت کو گمراہی قرار دیا گیا ہے مگر علماء کے ایک گروہ نے بدعت کی دو قسمیں حسنہ (اچھی) اور سیہ (بُری) قرار دے کر بہت سی بدعتوں کے لیے راہ ہموار کر لی اور آج امت کا بہت بڑا طبقہ بدعات کی گمراہیوں میں پھنسا ہوا ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروؤں میں جو لوگ صحیح العقیدہ اور اپنے ایمان میں مخلص تھے ان کو ان کے عمل کے لحاظ سے اجر عطا کیا۔
آگے کے فقرہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو اجر سے نوازے گئے فاسق نہیں تھے بلکہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے۔
۶۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی (عیسٰی علیہ السلام) کے پیروؤں کی کثیر تعداد فسق گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہے جس کی بہت بڑی وجہ دین کی مخلصانہ پیروی نہ کرنا اور اس میں نت نئی باتیں (بدعتیں) نکالنا ہیں۔
آج مسلمانوں کا حال بھی یہی ہے کہ ان میں سے اکثر فسق میں مبتلا ہیں اور دین کی مخلصانہ پیروی کرنے والے کم ہی ہیں۔
۶۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں سے خطاب ہے جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم ایمان کے دعویدار ہو تو اس رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر بھی ایمان لاؤ۔ ایسی صورت ہی میں تمہارا ایمان معتبر ہو گا۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمت کا ایک حصہ اس بنا پر کہ تم پہلے بھی ایمان لائے تھے اور دوسرا حصہ اس لیے کہ پیغمبر قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ایمان لائے۔ سورۂ قصص آیت ۵۳ ، ۵۴ میں ہے:
وَاِذَا یتْلٰی عَلَیہِمْ قَالُوْااٰمَنَّابِہٖٓ اِنَّہٗ الحَقُّ مِنْ رَبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِینَ۔ "اور جب یہ (قرآن) ان کو سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے۔ بلا شبہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔ ہم پہلے ہی سے مسلم ہیں۔”
اْوْلٓئِکَ یوْتَوْنَ اَجْرَہُمّْ مَرَّتَینِ بِمَا صَبْرُوْا وَیدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیئَۃِ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یینْفِقُوْنَ۔ "یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کا اجر دوبارہ دیا جائے گا اس وجہ سے کہ وہ ثابت قدم رہے۔ وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔”
اور حدیث میں آتا ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے جن میں سے ایک:
رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ ا آمَنَ بِنَبِیہٖ وَآمَنَ بمُحَمَّدٍ "اہل کتاب میں سے وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا تھا اور محمدؐ پر بھی ایمان لایا۔”بخاری ،مسلم۔
۶۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ” لا” (نہیں) تردید میں مزید تاکید کے لیے ہے۔ جس طرح اردو میں بولتے ہیں نہیں نہیں۔
۷۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو جو نبی اسمعٰیل میں سے ہیں اس لیے رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ اہل کتاب پر واضح ہو جائے کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل میں رسالت کا جو سلسلہ چلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس خاندان کی کوئی اجارہ دار کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسالت کا منصب اللہ کا فضل ہے اور وہ پوری طرح اسی کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے عطا فرماتے اس سے پہلے اس کی مشیت بنی اسرائیل میں رسول بھیجنے کے لیے ہوئی اور اب اس کی مشیت یہ ہوئی کہ بنی اسمعٰیل میں سے رسول اٹھایا جائے۔ اس کی مشیت پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ وہ جسے چاہے رسالت کا منصبِ جلیل عطا کرے اور جس گروہ کو چاہے اپنے فضل سے نوازے کہ رسول اس کے اندر سے برپا کیا گیا۔
٭٭٭
ای بک: اعجاز عبید
ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید