فہرست مضامین
- دریچۂ دل
- انتساب
- پیش لفظ
- درد و کرب کے اظہار کی شاعرہ۔ روبینہ نازلی
- روبینہ نازلی ایک باخبر قلم کار
- روبینہ نازلیؔ خوش قسمت لکھاری
- حمد
- نعتِ شریف
- پتھر
- کشتیِ نوح
- لکیر
- ہم تم جیسے نہ ہو جائیں
- حجاب
- یہ جو عشق ہے
- دریچۂ دِل
- قطعہ
- گرداب
- اے زندگی
- عورت
- دشمن
- یہ دنیا ہے
- سہارا
- راز
- رُخِ زندگی
- دلیر
- انتظار
- آگہی
- روشنی
- اہلِ جنوں
- حجابِ علم
- سازش
- تیرانہ میرا
- چہرے
- ریاضت
- پاگل
- مری وفا کا یہ صِلہ
- غلطی
- وہ
- وہ تھا
- درد
- گمراہی
- ظلم
- عدم وجود
- وہ محبت
- دریچۂ دِل
- دغا باز نہیں ہم
- آگہی
- حسن
- صبر صمیم
- یاد
- دنیا کی لڑکی
- سیاست
- حیات
- عہدِ شباب
- فاصلے
- ایک حقیقت
- دِل
- حکم ربانی
- سمجھو کہ بہار اب آئی
- ہمسفر
- شوہر
- چلو ہم بھی چپ رہیں
- فانی
- اب کہاں جائیں
- کچھ کر دکھانا ہو گا
- بے لگام
- عشقِ حقیقی
- چیز
- محبت
- عمل
- مُقدر
- امان
- ساون
- اس دور کے رنگ
- غداری
- چور
- مہمان
- رشوت
- اَچھے
- شاعر
- بھوت
- کامیابی
- مہنگائی
- قائد اعظم
- سسرال کے رنگ
- ہماری نہر
- مقام
- ہرجائی
- اختتام
- اللہ
- نعتِ شریف
- دُعا
دریچۂ دل
روبینہ نازلیؔ
انتساب
اپنی والدہ سیدہ بلقیس بانو
اور والدِ محترم سید حکمت علی رضوی
پیش لفظ
شعر وہ کلام ہے جو اچھا ہے تو بہت خوب بُرا ہے تو بلائے جان
جب انسان پر اس کے اپنے ہی دل کا کوئی در، وا ہوتا ہے تو وہ اس در کا مشاہدہ کرتا ہے دل کے نت نئے بے شمار دریچوں میں سے ایک دریچہ شاعری بھی ہے
کسی احساس سے مہمیز پا کر جب یہ دریچہ وا ہوتا ہے تو شاعری کی آمد ہوتی ہے، اور پھر ہوتی ہی رہتی ہے۔ اور یہ مرضِ شاعری فطری شے ہے جبکہ
شاعر سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا وہ مرضِ عشق میں مبتلا ہے جو شاعری کا مرض لاحق ہوا۔ ؟(یعنی شاعری اور عشق لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں میں ایسا کوئی ربط نہیں )یہ انتہائی نازیبا سوال ہے۔ کیونکہ اب تو آدھی دنیا مرضِ عشق میں مبتلا ہے اور یہ سب انتہائی مریض یقیناً شاعر نہیں، جبکہ کتنے ہی شاعر مرضِ عشق سے نا آشنا ہیں، یعنی یقیناً مرضِ عشق اور مرضِ شاعری دو بالکل مختلف امراض ہیں۔ ویسے بھی مصنف کی تحریر چاہے وہ نظم ہو یا نثر یا کوئی اور صنف کسی کو بھی محض مصنف کی ذات سے منسوب نہیں کیا جا سکتا، مصنف، محقق، شاعر کی تحاریر محض زاتیت کا اظہار نہیں بلکہ پورے معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں۔ مصنف ہر شے ہر فرد کو دیکھتا، پرکھتا، محسوس کرتا اور بیان بھی کرتا ہے، لہذا صاف ظاہر ہے کہ اس کا ہر بیان ہر تحریر اس کی ذات کا بیان نہیں ہے۔ اور شاعر بے چارے سے جس بے سروپاعشق کا سوال کیا جاتا ہے آخر اس سوال کا کیا جواز ہے۔ ؟
میں ناجائز کو رد کرتی ہوں اور جائز ہی کو حق مانتی ہوں، میرے صرف دو خدا ہیں ایک مجازی ایک حقیقی اور یہی حقیقت ہے۔ جو من گھڑت بتوں کے پجاری ہیں اور جو ان آفاقی حقائق سے نظریں چُراتے ہیں وہ راہ بھولے ہیں۔ لیکن غلطی پر ہونا اتنا غلط نہیں جتنا غلط کو صحیح قرار دینا غلط ہے، جیسا کہ آج کیا جاتا ہے۔ لہذا میں یہ غلط فہمی دور کرنا بہت مناسب سمجھوں گی کہ
میری شاعری میں جس محبوب کا تذکرہ ہے ( وہ کوئی غلطی نہیں ) وہ مجازی اور حقیقی خدا ہیں۔ جن کو میں یہاں جائز، کہہ رہی ہوں۔ حقیقی خدا میرے اس کلام کی خطائیں معاف کرے، میری یہی گذارش ہے۔ جبکہ مجازی خدا کے نام میں یہ کلام منسوب کروں گی۔ ۔ ۔ ۔
از قلم۔ ۔ ۔ ۔ روبینہ نازلی۔ ۔ ۔ ۔
درد و کرب کے اظہار کی شاعرہ۔ روبینہ نازلی
روبینہ نازلی نئی نسل کی شاعرات میں اپنا ایک منفرد مقام اِس لیے رکھتی ہیں کہ اُن کا شعری اظہار سیدھے سادے بیانیہ کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ لفظ کو استعارہ یا علامت بنائے بغیر بھی وہ اپنے جذبات اور احساسات، تصوّرات اور خیالات کو نہایت عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔
اُن کی شاعری ژولیدہ بیانی اور ادق پسندی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی اور انہیں تفہیمِ معنی کے معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آتی۔
روبینہ نازلی نے غزل اور پابند نظم کے علاوہ نظمِ معرّا، آزاد نظم اور نثری نظم جیسے آزاد شاعری کے اسالیب کا بھی استعمال کیا ہے اور اپنے تجربات کی وسعت کو اُن کے توسط سے بساطِ شعری پر پھیلا دیا ہے۔
روبینہ نازلی نے اپنی غزلوں میں جہاں طویل بحروں کا استعمال کیا ہے وہیں مختصر بحروں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے اظہار کو کامیابی عطا کی ہے۔ کبھی کبھی تو اُن کی مختصر سی بحروں کے آدھے سے زیادہ مصرعوں پر ردیف حاوی ہو جاتی ہے اور قافیے کا تسلّط دیگر لفظوں کے استعمال کے لیے تنگ دامانی کو ہوا دیتا ہے مگر نازلی کا کمال یہ ہے کہ ایسی بحروں میں بھی انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو کام میں لا کر مضامین کی بھر پور ادائیگی کے لیے گنجائش پید اکی ہے۔ اُن کی غزل کے اشعار کے دونوں مصرعوں میں کمال درجہ کا ربط پایا جاتا ہے اور معنوی حُسن کی ایک سجتی سنورتی دنیا آباد نظر آتی ہے۔ بعض غزلوں میں تو انہوں نے بہت دقیق اور کم تعداد رکھنے والے قافیوں کا بھی استعمال کیا ہے، ممکن تھا کہ ایسے وقت تجربوں کے کامیاب اظہار میں کچھ دھُند سی شامل ہو جاتی مگر نازلی نے اپنے تخلیقی ذہن کے توسط سے ہر شعری تجربے کو نہایت واضح انداز میں نمایاں کیا ہے۔
روبینہ نازلی نے قدیم لفظیات ہی کے ذریعے نئے خیالات اور تصوّرات کے چراغ جلائے ہیں اور اپنی داخلی کیفیتوں کی روشنی سے قاری کے لیے بصیرتِ باطنی اور مسرّت روحانی کا اہتمام کیا ہے۔ نازلی کی شاعری میں جہاں ذات کا کرب اُبھر کر سامنے آتا ہے وہیں کائنات کے ہنگاموں سے پیدا ہونے والے تصادمات اور انتشار کا ماحول بھی درد کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی آگ نے نازلی کی ذات کوجھُلسا دیا ہے جس کی تمازت سے اُن کی شاعری میں ایک کرب و اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
روبینہ نازلی کی ذات ایک ایسا کربلا بن گئی ہے جس میں ہر طرف سے آنے والے تیروں اور سِنانوں نے اُن کے وجود کو چھلنی کر دیا ہے اور تشنہ لبی اُن کی قوّتِ ارادی کو زائل کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئی ہے۔ ایسے وقت میں بھی نازلی کے قدم نہیں ڈگمگاتے بلکہ وہ اپنی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حق کی طرفدار ہیں اور باطل نظریات کی پیروی کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ دنیا کے ظالموں اور ستم گروں سے لڑنا جانتی ہیں اس لیے کہ اُن کو کامل اعتماد ہے کہ ربِ تعالیٰ کی ذات اُن کی حامی و ناصر ہے اور وہی مشکل کُشا اور کارساز ہے، وہ اپنے چاہنے والے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا چاہے ساری دنیا بے وفا کیوں نہ ہو جائے۔
وہ تو صرف رات کی سنگینی سے نکل کر صبح کے رنگین اُجالوں میں زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ وہ کسی سے بیر نہیں رکھتیں۔
غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کے سائے بھی نازلی کی شاعری پر دراز ہوتے چلے گئے ہیں۔ نازلی کے رومانی ذہن نے جہاں اُن کو کھُل کر داخلی کیفیات کے اظہار کی کشادگی عطا کی ہے وہیں اُن کو عصری حسّیت کی ترجمانی کا شعور بھی بخشا ہے جس کی وجہ سے اُن کی شاعری میں عصری موضوعات اور مسائل کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور زندگی کی تہی دامانی کا دُکھ بھی دکھائی دیتا ہے۔ آج کے تلخ حالات، دہشت گردانہ ماحول، مجبور اور بے بس انسان اور مجروح ہوتی ہوئی انسانیت کا نوحہ بھی اُن کی شاعری کو ایک خاص منصب عطا کرتا ہے جس سے اُن کی عصری آگہی کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔
غرض روبینہ نازلی کی شاعری میں جہاں داخلی کیفیتوں کا درد روشن ہے وہیں خارجی دنیا کے اَن دیکھے حوادث، انوکھے واقعات اور نامساعد حالات سے جنم لینے والی تباہیوں اور بربادیوں کے کرب کا بھی اظہار ہے جس نے انسانی زندگی کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اُس کی شادابی کو چوس لیا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین شاعرہ ہی نہیں ایک محقق اور ایک افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’کہانی‘‘ ادبی دنیا میں ایک اور منفرد اضافہ ہے۔
وہ کالم نگار بھی ہیں اور ان کے کالم بہت پُر مغز اور نہ صرف نئے دور کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔ اسی لیئے ان کی مضامین کی کتاب، ’’دیدۂ بینا ‘‘ایک منفرد کتاب ہے۔ روبینہ نازلی کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’’ علم الا انسان ‘‘کے مطالعہ سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ان کی عالمانہ سطح نہایت صاف و شفاف ہے جس سے گذر کر قاری حقائق کی تہہ تک با آسانی پہنچ جاتا ہے بلکہ ان کی صوفیانہ فکر بھی کافی بلند پرواز ہے جو قاری کو مذہب، تاریخ، تہذیب اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنٹفک دنیاؤں کی سیر کراتی ہے۔ نازلی کی معلومات بے حد وسیع اور ان کا جذبہ و احساس سیقل شدہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کے نہ صرف پاکستان کا انسان اور معاشرہ منتشر خیالی کا شکار ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی انسان اپنا تشخص کھو تا جا رہا ہے۔ ان کی خداداد صلاحیتوں نے کمال دکھایا اور ان کی کتاب منظرِ عام پر آئی، جس کے مطالعے سے کوئی بھی انسان خود کو شناخت کرنے کی کوشش کر سکے گا۔ یقیناً یہ کتاب(علم الانسان) روبینہ نازلی کو یونیفایڈ سائنس کی بنیاد گذار کا درجہ عطاء کرے گی۔
انہوں نے اس کتاب میں جسم، روح، قلب، دل، نفس، ضمیر، ہمزاد، اور اورا کے حوالے سے جو مواد اور جو نظریات خوش اسلوبی سے پیش کیئے ہیں اور سائنٹفک انداز میں پیش کئیے ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ قابلِ قدر بھی ہے۔ روبینہ نازلی خداداد صلاحیتوں کی حامل ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ اور ایسی منفرد شخصیات اب خال خال ہی ہیں۔
روبینہ نازلی کی تمام مطبوعہ کتابوں پر اور ان کے مزید منفرد تخلیقی کام پر میں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر محمد صدّیق نقوی۔ ۔ ادونی۔ آندھرا پردیش(انڈیا)
٭٭٭
روبینہ نازلی ایک باخبر قلم کار
صاحبِ قلم تہذیب و ثقافت کے رکھوالے ہوتے ہیں، اور کتاب ہماری ہماری تاریخ کا ایک موثر حوالہ ہوتی ہے۔
روبینہ نازلی ایک ایسی ہی با خبر قلم کار ہیں وہ نثر لکھ رہی ہوں، نظم یا کوئی افسانہ، ان کا لہجہ ملائم اور سچائی کی چاشنی سے بھر پور ہوتا ہے۔ روبینہ دل کی بات تو سیدھی سادھی شاعری میں کرتی ہیں، مگر بات پھر بھی فلسفے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں نئی جہت، تازہ احساس اور منفرد فکر کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ شاعری حسنُ عشق کے تذکرے اور گُل و بُلبل کی کہانی کا نام نہیں شاعری تو جُستجو اور آرزو کا نام ہے، آرزو زندگی کی علامت اور زندگی جستجو کا نام ہے۔ ،
دریچۂ دل میں آرزو اور جستجو کو بہت بلند مقام حاصل ہے۔
فوزیہ مغل
شاعرہ۔ (بھرم)
ڈائریکٹر۔ مغل پبلشنگ ہاؤس۔ لاہور
چیئر پرسن۔ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن
چیف ایڈیٹر۔ ماہنامہ ’’سخن شناس‘‘
٭٭٭
روبینہ نازلیؔ خوش قسمت لکھاری
روبینہ خوش قسمت لکھاری ہیں جنہوں نے کم وقت میں زیادہ شہرت اور پذیرائی حاصل کی ہے ۔ ان کی کہانیوں کی کتاب ’’کہانی‘‘ اور شعری مجموعہ ’’دریچۂ دل‘‘ پڑھنے والوں کے لیئے انمول تحفہ ہیں۔ روبینہ نازلی نے اظہارِ خیال کے لیئے بڑی سادہ اور عام فہم زبان استعمال کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے اشعار، یا کالم پڑھنے والوں کو جلدی یاد ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ہر طبقے کے لوگوں کے لیئے لکھا ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی حقوق کی بات کی ہے۔ چند لفظوں میں بڑی بات کہنا شاعری کا ایک بڑا وصف گنا جاتا ہے، یہ کمال روبینہ نازلی کو حاصل ہے، اسی کمال کے سبب وہ پڑھنے والوں سے بے پناہ داد حاصل کر چکی ہیں۔ ۔ !
جاوید صدیق بھٹی
(چیئر مین، چنن رائٹرز فورم لاہور، پاکستان)
٭٭٭
حمد
سارے عالم کا بادشاہ ہے تُو
ذرّے ذرّے میں خود نُما ہے تُو
تیری قوّت عیاں ہے اِک کُن سے
سارا عالم بیاں ہے اِک کُن سے
تیری رحمت جہاں پہ طاری ہے
تیری رحمت سے دُنیا جاری ہے
تجھ سے پہلے کہاں سویرا تھا
تجھ سے پہلے جہاں اندھیرا تھا
نور ہے روشنی اُجالا ہے
نازلیؔ وہ سمجھ سے بالا ہے
٭٭٭
نعتِ شریف
چلوں پا پیادہ، یہی ہے ارادہ
ہوں پاؤں میں کانٹے، پھٹا ہو لبادہ
میں قربان ہو جاؤں عشقِ نبی میں
ہو قسمت میں میری وفاؤں کا جادہ
پہنچ کر مدینہ درِ مصطفی پر
میں نعتوں کا اپنی کروں پھر اعادہ
چلوں مصطفی کے میں نقشِ قدم پر
ہو دل میرا روشن، طبیعت ہو سادہ
نبی کی زیارت سے مہکاؤں خود کو
میں خوشبو سے اُن کی کروں استفادہ
خودی سے گزر کر خدا تک میں پہنچوں
جو مِل جائے مجھ کو مدینے کا بادہ
محمد کا روضہ ہے کعبے کا کعبہ
میں آؤں یہاں خواہشوں سے زیادہ
دُعا نازلیؔ کر نبی کے سبب سے
گُناہوں کا دل میں نہ آئے ارادہ
٭٭٭
دائم عذابِ زیست ہی ڈستا رہا مجھے
مرنا تو زندگی سے بھی سستا رہا مجھے
لفظوں کے تیِر سے میرا چھلنی رہا جگر
کوئی نہ کوئی قتل بھی کرتا رہا مجھے
خود ساختہ اصولوں پہ مصلوب میں ہوئی
تو دہر دیکھ دیکھ کے ہنستا رہا مجھے
مذہب، زبان، فرقہ، کہیں نسل کی تھی جنگ
دورِ جنوں یہ دور تو لگتا رہا مجھے
دنیائے زرق برق میں تھی تو کشش بہت
اک سیدھا سادھا شخص ہی جچتا رہا مجھے
دل جوئی اس کی کرتی رہی میں تمام عمر
کیا کیا وہ میرے سامنے کہتا رہا مجھے
ناقدری سے وہ نازلی پہلے تو کھو دیا
پھر دیکھنے وہ روز ترستا رہا مجھے
٭٭٭
ذخم سینے میں پال رکھا ہے
دردِ دل کیوں سنبھال رکھا ہے
وہ ستمگر جو دل ہی توڑ گیا
دل میں اس کا خیال رکھا ہے
فکر میں جس کی مر ہی جانا ہے
اس کا ہم نے ملال رکھا ہے
دشمنوں سے نباہ کرتے ہو
گرد اپنے ہی جال رکھا ہے
بے وفا سے لگا کے دل اپنا
خود کو ہر پل نڈھال رکھا ہے
ایک اپنی انا سے ہر اک کو
کیوں ہلاکت میں ڈال رکھا ہے
کبھی دل سے تلاش کر دیکھو
شاید اپنا وصال رکھا ہے
عشق میں کیوں فنا نہیں کوئی
نازلی نے سوال رکھا ہے
٭٭٭
وہ اپنا دل جو کھو بیٹھے
زمانے بھر میں رو بیٹھے
جو ان کے ہاتھ آیا تھا
وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے
مہکتے تھے جو سانسوں میں
بدن کے خار ہو بیٹھے
تھی جن سے نغمگی باقی
وہی جھنکار کھو بیٹھے
لگی ہے آنکھ تاروں کی
ہیں دل بے دار دو بیٹھے
جو اب تک دشمنِ جاں تھے
ہمارے یار ہو بیٹھے
گریزاں نازلیؔ تھے جو
وہی دوچار ہو بیٹھے
٭٭٭
صورتِ شمع جلی
بات پھر بھی نہ بنی
ہائے قُربانی مری
رائگاں کیسی گئی
وہ جو بہتان لگے
میں سمجھ بھی نہ سکی
خود کو سوچوں میں کبھی
ایسی مہلت نہ ملی
موم ہو جاتا کبھی
نہیں ایسا بھی کو ئی
بے وفا سے کی وفا
یہی غلطی تھی مری
٭٭٭
پتھر
پتھر اگر ہوتا کوئی
آنسوؤں سے میرے
پڑ جاتا اس میں شگاف
مگر۔ ۔ ۔ !
وہ پتھر نہیں۔ ۔ ۔
اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ !
٭٭٭
تم نے کیے تھے ہم پہ ستم، چاہتے رہے
لے کر تمہارے زخم صنم، چاہتے رہے
رشتے کو توڑنے کی سدا تم نے بات کی
لے کر جدائی کا بھی الم، چاہتے رہے
سنگ باری کا مزاج لیے تم نے کی جفا
ہم نے کیا ہمیشہ کرم، چاہتے رہے
چنگاریاں چبھونے کا آتا ہے تم کو فن
ہم نے رکھا تمہارابھرم، چاہتے رہے
شیشہ بدن پہ تم نے کیے ظلم بے شمار
لیکن نہ ڈگمگائے قدم، چاہتے رہے
احساس اب ہوا ہے کہیں جاکے نازلیؔ
کیسے عجیب شخص کو ہم، چاہتے رہے !
٭٭٭
شعر
وحشتِ زیست میں پہلا حسیں پیکر تُو ہے
دیکھ کر جس کو مرے دل نے تراشا بتِ عشق
٭٭٭
ثمر صفت نہ ہو سکا
محبتیں نہ بو سکا
نہ میں کسی کی بن سکی
نہ کوئی میرا ہو سکا
قرار میرا لُوٹ کے
نہ چین سے وہ سو سکا
ہنسی اُڑائی عمر بھر
نہ کوئی مُجھ پہ رو سکا
یہ دل ہیں داغدار سب
نہ داغ کوئی دھو سکا
ہے خود پہ بوجھ آدمی
کسی کو کون ڈھو سکا
اے نازلیؔ یہ کیا ہوا
کہ تم سے کچھ نہ ہو سکا
٭٭٭
کشتیِ نوح
دشمنی دنیا سے کر لی، عشق میں تیرے خدا
ذات سے میری تجھے بھی پیار ہونا چاہیے
نوح کی کشتی کی طرح وہ بھی ہے طوفان میں
نازلی کا اب تو بیڑا پار ہونا چاہیے
٭٭٭
عجیب سُر ہیں یہ کھنک کے
عجیب ساز ہیں چھنک کے
عجب بہار موسموں کی
عجیب رنگ ہیں دھنک کے
عجیب تر فضا چمن کی
عجیب رمز ہیں مہک کے
صبح کی تاز گی کو طائر
بیان کرتے ہیں بہک کے
عجیب رمز ہیں جہاں میں
کہا فقیر نے لہک کے
تو دیکھ آنکھ بند کر کے
نظارے نازلی فلک کے
٭٭٭
خدا کے دستِ ہنر کا حسین فن تُو ہے
لُٹائے بیٹھی ہوں جس پر میں جان و تن تُو ہے
تری ادائیں ہیں معصوم، دل کو بھاتی ہیں
مرے لیے تُو ہی یوسف مرا حسن تُو ہے
میں رہتی آئی ہوں جس میں ہزار صدیوں سے
وہ میرے عشق کا مہکا ہوا چمن تُو ہے
میں ناز کرتی ہوں تجھ پر تری وفاؤں پر
تُو ہی بھرم ہے مرا، میرا حُسنِ ظن تُو ہے
نہ میرا ساتھ کبھی چھوڑ رہتی دنیا تک
مرا تو کوئی نہیں صرف جانِ من تُو ہے
٭٭٭
لکیر
کوئی باطن میں جھانک کر دیکھے
میرا اندر بھی کچھ حقیر نہیں
پڑھنے والا کوئی پڑھے گا کی
میرے ماتھے پہ تو لکیر نہیں
٭٭٭
بے حسی عام ہے
اور کہرام ہے
چھائی ہے بے خودی
رقص میں جام ہے
روحِ مذہب گئی
صرف اسلام ہے
کون بانٹے گا غم
سب کو ہی کام ہے
گھر کی جانب چلو
ہونے کو شام ہے
نازلیؔ آپ کا
شعر الہام ہے
٭٭٭
زخم دینا ہے تو دیتے جائیے
دردِ دل کی بھی دوا بتلائیے
ہے محبت آپ کو ہم سے بہت
کیا کروں میں اور کچھ فرمائیے
بے وفا سے ہم کو اُمیدِ وفا
آئیے ہم کو زرا سمجھائیے
آپ ہیں میرے حقیقی مہرباں
زندگی کو پھر مری مہکائیے
دردِ دل سے میں ہوں زندہ نازلیؔ
جو کوئی پوچھے تو یہ بتلائیے
٭٭٭
تجدیدِ عَہد کر چلے
کچھ جد و جَہد کر چلے
روح و بدن نِکھر گئے
جب ترکِ مَہد کر چلے
آنا نہیں تھا جن کو ’وہ‘
پیمان و عَہد کر چلے
تلخی کسی کی پاٹنے
ہونٹوں کو شَہد کر چلے
کوئی نہ نازلیؔ بنا
کتنے ہی جَہد کر چلے
٭٭٭
ہم تم جیسے نہ ہو جائیں
دل کو اتنا بھی نہ دکھاؤ!
ہم کو اتنا بھی نہ رُلاؤ!
روتے روتے تھک جائیں گے !
آخر آنسو تھم جائیں گے !
درد ٹھہر جائے گا دل میں !
اشک بہیں گے لہو جگر میں !
اتنا ہم پرستم نہ ڈھاؤ!
ہم کو اتنا بھی نہ ستاؤ!
ڈر ہے تم پر ستم نہ کر دیں !
غم کے مارے آہ نہ کر دیں !
ہم تم جیسے نہ ہو جائیں۔ ۔ !
٭٭٭
سرِ مژگاں ستارے چمکنے لگے
گال شرم و حیا سے دمکنے لگے
سینۂ شوق میں آگ سی لگ گئی
لوگ مجھ کو دوانہ سمجھنے لگے
میرے احساس کو جیسے پر لگ گئے
یہ ہواؤں میں ہم کیسے اُڑنے لگے
میری پہچان تو سادگی تھی مگر
آجکل جانے کیوں ہم بھی سجنے لگے
ذات میں ان کی ہم کھو گئے ہیں کہیں
وہ پرائے ہمیں کتنے اپنے لگے
کیسا احساس ہے کیا کوئی خواب ہے
کیسے دن ہیں سہانے یہ سپنے لگے
ہوش آ جائے نہ بے خودی سے ہمیں
نازلیؔ ہم خودی سے ہی ڈرنے لگے
٭٭٭
حجاب
جسم و جاں قریب ہیں
پر اجنبی حجاب ہے !
اس کے میرے درمیاں۔ !
٭٭٭
آنسو بھی خشک ہو گئے
جب سے وہ میرے ہو گئے
آنکھوں میں اب بھی رہتے ہیں
دنیا سے میری جو گئے
وہ ابدی نیند سو گئے
وہ اب وہیں کے ہو گئے
چاروں طرف ہیں اجنبی
میرے تو اپنے کھو گئے
وہ دل میں میرے درد کے
اَن مِٹ نقوش بو گئے
ہم کو رُلایا زیست نے
رو رو کے ہم بھی سو گئے
بارِ گراں تھی زندگی
بیزارگی سے ڈھو گئے
ہم تھے مسیحا نازلیؔ
خود اپنے زخم دھو گئے
٭٭٭
شعر
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہوں
دُکھ درد سمیٹے ہیں وہی بانٹ رہی ہوں
عشق کی آگ جب لگائی ہے
دل پہ آفت سی ایک آئی ہے
ایک تصویر ذہن میں رکھ کر
ساری دنیا پہ کی خدائی ہے
بے مروّت سے کی مروّت ہے
بے وفا سے وفا نبھائی ہے
ہم کو غیروں سے کیا علاقہ تھا
ہم نے اپنوں سے چوٹ کھائی ہے
کوئی اپنا نہ کوئی ساتھی ہے
ہم نے بس کی یہی کمائی ہے
٭٭٭
مرا اقرار کچھ تو ہے
ترا انکار کچھ تو ہے
جو ہے ہر ذہن پہ طاری
پسِ اِسرار کُچھ تو ہے
نظر محجوب ہے لیکن
پسِ دیوار کُچھ تو ہے
کہاں ڈوبا ہے پھر سورج
اُفق کے پار کُچھ تو ہے
بدن کیوں چھوڑتی ہے روح
بدن کے پار کچھ تو ہے
اندھیرا کیوں ہے قسمت میں
یہ شب آثار کچھ تو ہے
٭٭٭
یہ جو عشق ہے
یہ جو عشق ہے !
جانے کیا ہے یہ!
کچھ خبر نہیں !
یہ کسی نے بھی کیا نہیں
یہ ہوا ہے خود
ہے جنوں یا خرد!
کچھ پتا نہیں !
یہ وہ مرض ہے !
کہ دوا نہیں۔ ۔ !
٭٭٭
آپ کے ایک مسکرانے سے
غم ہیں تازہ اِسی بہانے سے
رکھے مرہم کبھی تو زخموں پر
کیا توقع تھی اِس زمانے سے
چلو پہچان تو ہوئی ہم کو
پہلے لگتے تھے سب دِوانے سے
ایک چہرے پہ تھے کئی چہرے
مرے دشمن تھے سب یگانے سے
نازلیؔ زخم کھا کے مسکاؤ
کچھ مزا بھی لو تازیانے سے
٭٭٭
موسموں کے خُمار دیکھے ہیں
ہم نے رنگوں کے ہار دیکھے ہیں
حُسن کو چار چاند دیکھا ہے
ہم نے سولہ سنگھار دیکھے ہیں
یہ بدن آشنا ہے ان کا بھی
ہم نے کتنے ہی خار دیکھے ہیں
پہلے انساں جہاں پہ رہتا تھا
ہم نے ایسے بھی غار دیکھے ہیں
جو یہ کہتے ہیں تُم نے کیا دیکھا
ہم نے وہ دین دار دیکھے ہیں
نازلیؔ ہم نے کیا نہیں دیکھا
حادثے بے شُمار دیکھے ہیں
٭٭٭
شعر
آپ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں
عاشق لیے پھرتے ہیں محبت کا فسانہ
کیا کِیا میں نے ناخدا کے لیے
زندگی تج دی بے وفا کے لیے
زندگی میں تجھے طلب کر لوں
ہاتھ اُٹھتے نہیں دُعا کے لیے
اب نہیں، تُو کبھی تو تھا میرا
لب نہیں ہِلتے بد دُعا کے لیے
کی محبت تو اب جدائی سہہ
ہم بھی تیّار ہیں سزا کے لیے
نازلیؔ عشق تو ہے قربانی
دینی پڑتی ہے نا خدا کے لیے
٭٭٭
جو اپنے رہنما نکلے
وہ اندر سے خدا نکلے
نہ جانے کس گماں میں ہم
تیرے کوچے میں آ نکلے
چلے منہ پھیر کے وہ بھی
جو آخر بے وفا نکلے
بہ ظاہر خوش نما تم بھی
مگر پرکھا تو کیا نکلے
جنہیں تھا زعمِ فرعونی
وہ مصنوعی خدا نکلے
وہ سمجھے نازلیؔ کچھ بھی
مرے دل سے دعا نکلے
٭٭٭
دریچۂ دِل
دریچہ دل کا وا کیِا
سِتم یہ تم نے کیا کیِا
دِکھا کے میرے زخم سب
زمانے سے وفا کیا۔ !
اس دل لگی نے کیا کِیا
مرا ہی دل جلا دیا
تم نے جدائی خوب کی
مجھے قضا نے آ لیا
مجھے تم اب بھی یاد ہو
تم نے مجھے بھُلا دیا
مجھے بتاؤ آج تک
میں نے کوئی گِلہ کیا
میں بے وفا ہوں ٹھیک ہے
پر تم نے مجھ سے کیا کِیا
٭٭٭
موجِ دریا تو کنارہ چاہے
چھونا ساحل کو دوبارہ چاہے
لذّتِ وصل کی خواہش دل میں
برف پیکر بھی شرارہ چاہے
نہیں تم میرا مقدّر پھر بھی
دِل فقط ساتھ تمہارا چاہے
جسم اور روح کی تسکیں کے سِوا
آدمی کیا یہ بے چارہ چاہے
تنہا آتا ہے چلا جاتا ہے
پھر بھی انسان سہارا چاہے
شاطروں سے بھری دنیا میں ’’بھلا‘‘
نازلیؔ کون ہمارا چاہے
٭٭٭
داغ دامن پہ لیے بیٹھے ہیں
جانے کیوں ہونٹ سیے بیٹھے ہیں
پھر بھی مدہوش سے لگتے ہیں سدا
ہم تو مئے غم کی پیے بیٹھے ہیں
نازلی ہم بھی ہیں دیوانے سے
کیسی حالت یہ کیے بیٹھے ہیں
٭٭٭
شعر
روگ سا لگ گیا جوانی کو
نازلیؔ کیا یہی محبت ہے
ہر ذات تھی عدم میں اِس زندگی سے پہلے
ہر شئے تھی تیرگی میں اِس روشنی سے پہلے
روح و جسد سے ہٹ کر قُربت میں اپنے رب کی
انساں کا رنگ کیا تھا اِس آدمی سے پہلے
رنگ اور نسل نے تو پیدا کیے تصادم
ورنہ تھا آدمی کچھ اِس دشمنی سے پہلے
بربادیوں پہ اپنی خاموش سا پڑا ہے
اتنا نہیں تھا بے بس اِس بے بسی سے پہلے
حق کو سمجھنے والے یوں تو بہت ہوئے ہیں
کوئی سمجھ سکا کب میرے نبی سے پہلے
٭٭٭
قطعہ
خود ہی جل گئے ہیں ہوا دینے والے
دغا کھا گئے سب دغا دینے والے
زمانے نے ان کا نشاں بھی نہ چھوڑا
زمانے کو تھے جو بھلا دینے والے
بات دل کی میں اپنے کہہ جاتی
کاش یہ درد بھی میں سہہ جاتی
پیار کا تُو جو ہوتا دریا تو
میں ترے ساتھ ساتھ بہہ جاتی
تُو سمجھتا اگر مجھے اپنا
تری پرچھائیں بن کے رہ جاتی
اک اشارے پہ، تیری چوکھٹ پر
عمر ساری میں یونہی رہ جاتی
نہ ہوا جلوہ گر تُو اچھا ہوا
ورنہ تنویرِ مہر و مہ جاتی
کبھی ہوتے نہ اپنی ضد سے جُدا
جو عمارت اَنا کی ڈھ جاتی
نازلی ؔ پہ جو ہوتا دستِ کرم
آبرو کیوں تری اے شہہ جاتی
٭٭٭
ہول اُٹھا ہے مہر کے بیچ
دشت اور صحرا شہر کے بیچ
خواب محل اونچا لمبا
اور بنیادیں نہر کے بیچ
مزاج سمندر لیے ہوئے
کھڑی ہوئی ہوں لہر کے بیچ
سانپ سے گھبرانے والی
رہتی رہی میں زہر کے بیچ
خدا بنے ہیں انساں اب
گھِری ہوئی ہوں قہر کے بیچ
نازلیؔ جینا یہ بھی کیا
زیست پھنسی ہے دہر کے بیچ
٭٭٭
گرداب
گرداب میں پھنسی ہوں
مجھ کو کوئی نکالے
تصویرِ بے بسی ہوں
٭٭٭
اے زندگی
اے زندگی یہ کیا ہے
بس تجھ سے دکھ ملا ہے
خوشیاں ہیں۔ نامکمل
جو غم ہے وہ سِوا ہے۔ !
اے زندگی یہ کیا ہے۔ ؟
٭٭٭
وہ جو خوب صورت ہے
ذہن و دل کی راحت ہے
اُس کی ذات میں شامل
گلشن بھر کی ندرت ہے
اُس کے مہکے لفظوں میں
میٹھے پن کی لذّت ہے
تنہائی میں یاد اُس کی
اُجڑے دل کی دولت ہے
دل کو موم کر دینا
اُس کی اپنی فطرت ہے
اُس پر نازلیؔ مرنا
پاگل دل کی چاہت ہے
٭٭٭
عورت
میں ایک بے چاری عورت ہوں
میرے دو خدا
ایک مجازی، ایک حقیقی
شرط ہے مانے گا رب میرا
جب مجازی مان لے
یعنی میرا مصرف
مرد کی دلجوئی ہے
میں صرف اپنے رب کے لیے
اس کی امان میں ہوں قید
اس جبر کو صبر کہہ کر
میرے محافظ خوش رہیں
یہ خوشی ہی میرا کام تھا
بس یہی میرا انجام تھا
٭٭٭
ظالم کے ظلم بڑھ چکے
یومِ حساب آ گیا
اُن کے سبھی گناہوں کی
کھولے کتاب آ گیا
ان کے ہی مکر کے سبب
ان پر عذاب آ گیا
اچھوں بروں میں آج تو
گہرا حجاب آ گیا
٭٭٭
دشمن
دشمنوں کی سازش میں
گولیوں کی بارش میں
خون کی سیاست ہے
عدل کی نمائش میں
مکرو خود فریبی ہے
طالبان و داعش میں
جی رہے ہیں ہم کیسی
سخت آزمائش میں
نازلیؔ کیوں مرتے ہیں
زندگی کی خواہش میں
٭٭٭
محبت سے خود کو بچانا ہے مشکل
مقدر کا لکھا مٹانا ہے مشکل
کہیں بھول کر بھی نہ دل یہ لگانا
لگی چوٹ دل پہ بھلانا ہے مشکل
محبت نے بھی اوڑھ لی ہیں جفائیں
وفا سے وفا کا نبھانا ہے مشکل
زمانہ ہے اک ایسا پتھر کہ جس کو
کبھی اپنے غم سے رُلانا ہے مشکل
یہ دنیا بُری ہے یہ سب پہ ہنسی ہے
یہاں رنگ اپنا جمانا ہے مشکل
نکل جاتے ہیں نازلیؔ اشک بن کر
یوں جذبوں کو اپنے دبانا ہے مشکل
٭٭٭
یہ دنیا ہے
یہ دنیا ہے پیارے
یہاں غم کے مارے
پھریں مارے مارے
نہ جانے ہے کوئی۔ !
نہ پہچانے کوئی۔ !
بڑے ہی بے چارے
ہیں سارے کے سارے۔ !
٭٭٭
شعر
جو حسرت کریں گے دید کی وہ دیکھتے رہ جائیں گے
جو بڑھ کے اُٹھا لیں گے، بس جام اُن ہی کا ہے
تجھے پانے کی اب بھی آرزو ہے
دِلِ ناداں کی کیسی جستجو ہے
میں بس جاؤں تیری خو شبو میں جانم
تیری اُلفت میں میری آبرو ہے
تو اس میں بس گیا تو آئینہ ہے
وگرنہ دل فقط ٹوٹا سبو ہے
تصور میں بسا تیرا ہی چہرہ
تری تصویر سے بھی خوبرو ہے
میں پیاسا ہی رہا عہدِ وفا میں
گو میرے پاس میٹھا آبِ جُو ہے
منع کرتا ہے مجھ کو گفتگو سے
یہ کیسی قید میرے روبرو ہے
مسیحا جس کو سمجھا نازلیؔ وہ
رُلاتا مجھ کو ہر اک پل لہو ہے
٭٭٭
جانے کیا ہو گیا زمانے کو
یہاں جیون بِتانا مشکل ہے
اپنی عزت بھی یاں پرائی ہے
صاف دامن بچانا مشکل ہے
خواب تعبیریں سب بھیانک ہیں
کوئی سپنا سہانا مشکل ہے
٭٭٭
شعر
جھوٹی انا میں تیری ہیں کتنے ہی پیچ و خم
اُلجھا کے رکھ دی تو نے یونہی میری زندگی
ٍمسئلے جو پرانے والے ہیں
کب کسی کو بتانے والے ہیں
لاکھ چرچے ہوں پارسائی کے
راز کُچھ تو چھپانے والے ہیں
جان کر دل کو کُچھ تو رو دیں گے
کیا ہوئے جو ہنسانے والے ہیں ؟
آج روٹھے ہوئے ہیں خود ہم سے
وہ جو ہم کو منانے والے ہیں
کیا ہوا لوٹ کر نہیں آئے
وہ جو اپنے ٹھکانے والے ہیں
کب تلک کوئی انتظار کرے
جلد آئیں جو آنے والے ہیں
٭٭٭
سہارا
۔
جو حرف تسلی کے
میری ماں نے دیئے مُجھ کو
اب میرا سہارا ہیں۔ !
٭٭٭
راز
راز ایسے ہیں میرے سینے میں
جیسے دولت کسی دفینے میں
اب کوئی مجھ کو بھی کرے ایجاد
اس خزینے سے سب ہوئے ہیں شاد
کاش دولت یہ کام آ جائے
علم ہر آسماں پہ چھا جائے
کاش شیطان کو زوال آئے
کاش انسانیت سنور جائے
ہو گا کرنوں میں ارتعاش آخر
یہ حقیقت بھی ہو گی فاش آخر
٭٭٭
رُخِ زندگی
غم سے ہم آغوش
بارِ گراں بر دوش
رُخ یہ زندگی کا۔ ۔ !
یونہی بے سبب نہ ہو گا۔ !
٭٭٭
رابطے استوار کرنے ہیں
ابھی کچھ دل کے داغ بھرنے ہیں
ابھی کچھ آنسوؤں کو پینا ہے
ابھی کچھ دل پہ جبر کرنے ہیں
روح کا کرب بھی چھپانا ہے
ابھی سولہ سنگھار کرنے ہیں
رزمِ موت و حیات جاری ہے
ابھی کچھ اور دن گزرنے ہیں
نازلیؔ وہ جو میرا حصہ ہیں
ابھی وہ درد ہم کو سہنے ہیں
٭٭٭
دلیر
سہہ رہی ہوں ظلم !
خاموشی کے ساتھ !
کتنی ہوں میں دلیر۔ ۔ !
٭٭
شعر
خود کو بہادر کہتے ہیں
ظلم جو ہم پہ کرتے ہیں
٭٭٭
موسمِ غم گذر ہی جائے گا
وہ بھی دل سے اُتر ہی جائے گا
خامشی پھر جنوں دبا دے گی
یہ بھی ریلا گذر ہی جائے گا
بے وفا کو وفا ستائے گی
چلو کچھ تو اثر ہی جائے گا
مارا مارا پھرے گا آوارہ
تھکا ہارا تو گھر ہی جائے گا
ہاتھ جلتے ہیں تھوڑے جلنے دو
بچہ شعلوں سے ڈر ہی جائے گا
خود ہی خود کو تلاشنا ہو گا
ورنہ پھر بے خبر ہی جائے گا
درد سہنے سے کیوں مرے گا بشر
موت آئے تو مر ہی جائے گا
ڈرتے رہنا تو روز مرنا ہے
بے ڈرے کچھ تو کر ہی جائے گا
نازلیؔ دل سنبھال کر رکھو
یہ بھی دنیا سے بھر ہی جائے گا
٭٭٭
انتظار
کس طرف گیا وہ شخص!
مُجھ کو زندگی اپنی!
بار بار کہتا تھا!
میرے دل کے موسم کو!
خوش گوار کہتا تھا!
میرے جھوٹ کو اکثر!
اعتبار کہتا تھا!
میری اس اُداسی کو!
پُر بہار کہتا تھا!
ہر نفس، جسے میرا!
انتظار رہتا تھا
سوچتی ہوں میں اب بھی
بس اسی کے بارے میں۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
مُدّت گُذر گئی ہے شبِ غم گُذارتے
کوئی تو صبح آتی کہ ہم دل اُجالتے
کہتے رہے وہ ہم کو ستمگر تمام عُمر
ہم سے کہاں بنی کہ کسی کو بگاڑتے
بس ایک غم نے ہم کو تو بیگانہ کر دیا
ورنہ کسی کی ذات کو ہم بھی نکھارتے
اپنوں کی بد گُمانی سے پژ مُردہ ہو گئے
دل کی تمنّا تھی کہ گلستاں سنوارتے
تم نے پلٹ کے نازلیؔ دیکھا نہیں مجھے
برسوں گذر گئے مرے، تم کو پُکارتے
٭٭٭
آگہی
عشق ہوا پہچان گئی!
مُجھ کو کوئی جان نہ پایا۔ !
میں ہی سب کو جان گئی۔ !
٭٭٭
حقیقت مجھ کو میری ہی جتا دی
کہ کیسی عقل نے میری خطا کی
حقیقت کی وہاں سے ابتداء ہے
جہاں میری خرد نے انتہا کی
مجھے اُلجھا دیا ہے اور اُس نے
نشانی تھوڑی جو تُو نے بتا دی
مری بھی عقل کی اب ابتداء ہے
مجھے تائید حاصل ہو خدا کی
ہے جس پر نازلیؔ کو ناز اتنا
یہ اس کو عقل بھی تُو نے عطا کی
٭٭٭
دشمن کے تیر زخم پہ کھائیں گے اب نہ ہم
مکر و فریبِ دنیا میں آئیں گے اب نہ ہم
ٹپکا جو آنکھ سے وہ تو خونِ جگر ہی تھا
اک بے وفا پہ اس کو بہائیں گے اب نہ ہم
مجھ کو ڈرا کے سارے زمانے سے آج وہ
گویا ہیں اے عزیز ستائیں گے اب نہ ہم
اوقات میری گِن کے کسی اور کے لیے
کہتے ہیں سر پہ تم کو بٹھائیں گے اب نہ ہم
وہ کیا ہیں، کیا ہے ذات ہماری اے نازلیؔ
اُن کو کبھی یہ راز بتائیں گے اب نہ ہم
٭٭٭
شعر
جنوں کی آگ لگا دے گا شعلۂ دل تو
خرد سے کہہ دو کہ وہ عشق پر نہ وار کرے
چراغِ محبت جلا کے تو دیکھو
کبھی مجھ کو دل میں بسا کے تو دیکھو
تمھیں ہمسفر اور منزل ملے گی
قدم سے قدم تم ملا کے تو دیکھو
ہر اِک راز ہو جائے گا منکشف بھی
تکلّف کے پردے اُٹھا کے تو دیکھو
میں فیضان کا اک سمندر ہوں اب بھی
جو پیاسے ہو نزدیک آ کے تو دیکھو
جو خودساختہ ڈر ہے دل میں تمھارے
اُسے چھوڑ کر آزما کے تو دیکھو
کسی کے لئیے میں کنول بن گئی ہوں
روبینہ کرشمے خدا کے تو دیکھو
٭٭٭
روشنی
اے کاش میرے ہاتھ میں
وہ چراغ ہو۔ !
کہ لئے پھروں اسے کُو بہ کُو!
کرے روشنی جو جہان میں !
رہے ہر کوئی اس امان میں۔ ۔ !
٭٭٭
غیروں نے حق ادا کیا
اپنوں نے گھر کو ڈھا دیا
پہلے ہی دل تھا غم زدہ
غم اور بھی بڑھا دیا
جس چارہ گر سے بات کی
اس نے بھی زخم ہی دیا
ہر جا تو میں جھکی نہیں
سجدہ بس ایک جا کیا
بس دشمنی ہی مول لی
ہر اک کو بس خفا کیا
جو بھی سہا بُرا سہا
جو بھی کیا بھلا کیا
میری انا تھی مضطرب
میں نے یہ زہر کھا لیا
حق کے لئے اے نازلیؔ
میں نے بھی سر کٹا لیا
٭٭٭
اہلِ جنوں
اہلِ جنوں، جنون میں !
پا لیں گے منزلِ مقصود!
خرد مند محتاط رو!
رہ جائیں گے کہیں دور
ہو جائیں گے پھر خرد مند
اہلِ جنوں۔ !
اہلِ جنوں پھر خرد مند کہلائیں گے !
٭٭٭
وہ جو بگڑی بنانے والے ہیں
ہم تو ان کے منانے والے ہیں
پھر بھی جینے ہمیں نہیں دیتے
یہ جو اپنے زمانے والے ہیں
ہم کو جانا ہے ان کے آنے کو
وہ جو دنیا میں آنے والے ہیں
زندگی کو اُجاڑ دیتے ہیں
وہ جو بستی بسانے والے ہیں
اب وہ ہم کو بلانے والے ہیں
ہم بھی اس بار جانے والے ہیں
٭٭٭
حجابِ علم
رگ و جاں کے ہے وہ قریب تر!
کوئی فاصلہ نہیں درمیاں !
مگر اک حجاب ہے علم کا!
مرے باخبر تجھے کیا خبر۔ !
٭٭٭
ایسے وہ میری زندگانی میں
جیسے کنکر ہو ٹھہرے پانی میں
تجھ سے پہلے تھا مگر تیرے بعد
اب نہیں چین زندگانی میں
میں تو سمجھی تھی محبت ہے خطا
ہوہی جاتی ہے نوجوانی میں
بہت اچھی ہے مگر تیرے سوا
نہیں ہے کچھ بھی اس کہانی میں
نازلی زندگی کا مطلب
ہم نے سمجھا ہے ناگہانی میں
٭٭٭
سازش
حالات کی گردش سے !
نازلیؔ تنگ آئی!
گھر والوں کی سازش سے۔ !
٭٭٭
میرا غم جُدا ہے سب سے
مجھے دُکھ ملا ہے سب سے
میں نصیب کی ہوں شاکی
میں بڑی خفا ہوں ربّ سے
نیا رُخ تھا زندگی کا
مجھے وہ ملا تھا جب سے
میں وفا نبھا رہی ہوں
کوئی بے وفا ہے کب سے
مرا توڑتے ہیں دل سب
میں بڑی خفا ہوں سب سے
٭٭٭
تیرانہ میرا
وہ مجھ سے یہ کہتا تھا!
میرا سب کُچھ تیرا ہے !
اب ہے اور کسی کا وہ!
تیرا ہے نہ، میرا ہے۔ !
٭٭٭
زخم سینے پہ کھائے ہیں ہم نے
صِلے جینے کے پائے ہیں ہم نے
ہے جگر چھلنی، خون آنسو ہیں
درد اپنوں سے پائے ہیں ہم نے
حرف آنے نہیں دیا اُن پر
کیسے رشتے نبھائے ہیں ہم نے
کتنے بُہتان سہہ لیے خاموش
کرب کتنے اُٹھائے ہیں ہم نے
آندھیوں کو چھُپایا سینے میں
کتنے طوفاں دبائے ہیں ہم نے
نازلیؔ روشنی لہو کی ہے
دیپ کیسے جلائے ہیں ہم نے
٭٭٭
شعر
محبت کا ناٹک اگر کھیل بھی لو
مقدّر کا لکھا مٹا کیا سکو گے
خود کو سُبکی سے بچائے رکھنا
درد دل میں ہی چھپائے رکھنا
کبھی تعبیر نکل آئے گی
خواب آنکھوں میں سجائے رکھنا
ظلمتِ کفر ہے نا اُمیّدی
اپنا ایمان بچائے رکھنا
آنے والا نہ بھٹک جائے کہیں
دیپ راہوں میں جلائے رکھنا
نازلیؔ دل کی جلا کر مشعل
تم اندھیروں کو دبائے رکھنا
٭٭٭
چہرے
زبان پہ تعریف ہے !
دلوں میں حسد ہے بھرا!
چہروں پہ تو تھکان ہے !
ہونٹوں پہ جو مسکان ہے !
یہ جھوٹی سچی آن ہے !
وہ چہرے جو روشن ہیں !
کیا مومن ہیں ؟
شاید نہیں !
اب چہرے سب پُر غاز ہیں !
چہرے پڑھنا چھوڑ دو!
اب چہرے دھوکے باز ہیں !
جھوٹ کے انداز ہیں !
٭٭٭
عہدِ ماضی کا تقاضا ہو گا
حال اب جو بھی ہمارا ہو گا
اب دکھائے گی اثر خود غرضی
حشر اب خوب ہمارا ہو گا
اب تو کچھ حال سنور سکتا ہے
بعد میں خون خرابا ہو گا
فصل ظلمت کی اُگانے والو
کس طرح بولو سویرا ہو گا
نازلیؔ کس لیے مایوس رہیں
اپنا بھی کوئی مسیحا ہو گا
٭٭٭
ریاضت
وحشت زدہ لمحوں کو سنوارے گر تو
سر سے یہ جنوں بار اُتارے گر تو
بن جائے تری ذات بھی ابرِ گُہر بار
دن رات ریاضت میں گذارے گر تو
٭٭٭
نہ جانے کس گماں میں تھی
یا ماضی کے زماں میں تھی
مسلسل بارشوں میں تھی
یا مٹّی کے مکاں میں تھی
تھی اک کمزور سی کشتی
میں بحرِ بے کراں میں تھی
سرابوں کے تعاقب میں
میں خوابوں کے جہاں میں تھی
ہے احساسِ زیاں اب تک
میں دشمن کی کماں میں تھی
تھا ڈر بھی نازلیؔ ہمراہ
اگر چہ کہکشاں میں تھی
٭٭٭
شعر
آنکھیں تو میری برسیں ہیں برسات کی طرح
پتھر پگھل گئے وہ مگر سنگدل رہا
محبت کے منظر اُجالے گا وہ
مجھے اپنے دل میں بسا لے گا وہ
میرے ایک اک پل میں سمٹے ہوئے
میری زات میں خود کو ڈھالے گا وہ
پلائے گا آنکھوں سے پہلے مجھے
بہکنے پہ میرے سنبھالے گا وہ
میری قربتوں سے وہ کھل جائے گا
جدائی میں آنسو بہا لے گا وہ
مجھے نازنین، دلنشیں کہہ کہ وہ
میرے ناز ہر دم اُٹھا لے گا وہ
٭٭٭
پاگل
سچ کا فقدان ہے اس قدر!
ہمیں جھوٹ کی عادت ہے جسقدر
نازلی اب سچ کی!
شاید یہی تعریف ہے !
جو جھوٹا ہے وہ سچا ہے !
جو سچا ہے وہ پاگل ہے۔ !
٭٭٭
مری وفا کا یہ صِلہ
وہ کہہ رہا ہے ’بے وفا‘
بھنور میں ناؤ ڈال دی
یہ کیا کیِا اے نا خدا
مجھے اکیلا چھوڑ کر
غضب کی چال چل گیا
جفائیں تو نے کیں مگر
نہیں تھا تجھ کو یہ پتا
جہاں نہ ساتھ دے کوئی
وہاں ہے رب کا آسرا
ہمارے راستے الگ
ہمارے دل ہوئے جدا
کہ صفحۂ نصیب پر
یہی تھا نازلیؔ لکھا
٭٭٭
غلطی
میں آگ میں جلتی رہی
میں خاک میں پلتی رہی
میں خود کو سمجھی پارسا
یہ میری غلطی رہی
٭٭٭
وہ روٹھنے کی مجھ کو اجازت نہیں دیتا
خود روٹھتا ہے مجھ کو یہ دولت نہیں دیتا
وہ مرد ہے اِس واسطے بن بیٹھا خدا وہ
وہ اپنی محبت میں شراکت نہیں دیتا
میں اُس کی فقط باندیِ بے دام ہوں لیکن
مالک وہ مرا ہو کے بھی راحت نہیں دیتا
جتلا کے وہ مردانگی کرتا ہے گُنہ سو
اور حق میں مرے کوئی سہولت نہیں دیتا
قیدی وہ بناتا ہے مجھے اپنی انا کا
آزادی کی کوئی مجھے صورت نہیں دیتا
٭٭٭
نہیں اک لمحہ شادمانی کا
کیا کروں پھیکی زندگانی کا
جس نے مجھ کو بنا دیا پاگل
ناش ہو ایسی نوجوانی کا
حادثے در پہ دیتے ہیں دستک
خوف ہے مرگِ نا گہانی کا
سچ نہیں بولنے دیا جاتا
ہے مجھے دُکھ تو بے زبانی کا
کیا شرافت کو اپنی دفنا دوں
دور دورہ ہے بے ایمانی کا
نازلیؔ اِس قدر نہ اِتراؤ
’آدمی بُلبلہ ہے پانی کا‘
٭٭٭
وہ
پیکر ہے وہ حسیں جو نظروں میں آ گیا ہے
بندہ وہی بھلا ہے جو دل پہ چھا گیا ہے
شیریں سخن سے بڑھ کر کردار ہے نہ کوئی
ہے نازلیؔ سبب یہ، وہ دل کو بھا گیا ہے
٭٭٭
گو زخموں سے ہر آدمی چُور ہے
مگر جیتے رہنے پہ مجبور ہے
جو امن و اماں کا طلب گار تھا
وہ دہشت پسندی میں مشہور ہے
اُجڑنے لگے آرزو کے چمن
ہر اک سوچ گھائل ہے معذور ہے
جو رہبر تھے وہ بن گئے راہزن
اب امکان لٹنے کا بھر پور ہے
کسی کی مدد کوئی کرتا نہیں
ہر اک شخص خود سے بھی مفرور ہے
ہیں حق گو بہت شہر میں نازلیؔ
بتاؤ بھی کیا کوئی منصور ہے
٭٭٭
وہ تھا
اب بھی تو میرے پاس ہے
یا یہ میرا خیال ہے !
جب تومیرا خیال ہے !
پھر کیوں کسی کے پاس ہے !
وعدے کر کے بھلا دیا۱
یہ تیری وفا کا حال ہے !
محبت تو تجھ سے میں نے کی!
محبت کا پھر یہ کیا جواب ہے !!!
٭٭٭
درد
ہم پھر تنہا رہ گئے
درد اُتر آیا آنکھوں میں
جب سب آنسو بہہ گئے !
قربتوں میں دوریاں
وہ جان ہے میری جان کی!
جو مجھ پہ جان دے رہے !
پر اُن کی جان ہے کہاں !
کہیں دور اس کا مکان ہے !
پر مکیں ہے میرے مکان میں !
وہ مکین اس دل کی ہے !
وہ دل جو میرے دل کا ہے !
وہ رہتی ہے اس وجود میں !
وہ وجود جو میرے وجود کا ہے !
وہ وجود جو قریب ہے !
جو قریب ہے مگر دور ہے !
مجھے ہے خبر تجھے ہے خبر!
یہیں ہو رہا یہ فریب ہے !
یہ صرف میرا دکھ نہیں !
کون جانے کہاں کہاں !
ہیں یہ قربتوں میں دوریاں۔ !
٭٭٭
خود کو سمجھ رہے تھے سویرے میں آ گئے
لیکن ہم ایک گہرے اندھیرے میں آ گئے
آنکھیں تھیں دل تھا عقل تھی لیکن نہ جانے کیوں
ہم اک عجیب شخص کے گھیرے میں آ گئے
دنیا میں چند پل کے لیے روشنی ملی
پھر یوں لگا کہ ہم تو بسیرے میں آ گئے
جینے کے واسطے تو رہے دور سانپ سے
لیکن تمام زہر سپیرے میں آ گئے
سوچا تھا بھاگ جائیں گے دنیا سے نازلیؔ
پھر سے اِسی کے دیکھیے پھیرے میں آ گئے
٭٭٭
گمراہی
باطن کی سیاہی
چہروں پہ چھا گئی ہے
لوگوں نے اس سیاہی
کو یوں چھپا لیا ہے
غازہ لگا لیا ہے۔ !
عاصی سمجھ کے بیٹھے
ہوئے پارسا ہیں خود کو
بدی خوش نما ہے اس نے
ان کو لُبھا لیا ہے۔ !
جھوٹے ہی آج سچے
کہلا رہے ہیں لوگو
سچ جھوٹ ہو چلا ہے
ہائے یہ کیسی بلا ہے۔ !
راہ چھوڑ ہم چلے ہیں
پرائے ہم سے بھلے ہیں
بے عقلی نے ہماری
گمراہ کر دیا ہے
رستہ بھلا دیا ہے۔ !
اُداسی چھپا رہی ہے
لوگوں کی خوش لباسی
ہنسنے والے سے پوچھو
غم سے بھرا پڑا ہے
نفرت حسد بھرا ہے۔ !
نمود و نمائش نے ہم کو
چھوڑا نہیں کہیں کا
پاگل بنا دیا ہے۔ !
حرص و ہوس نے سب کی
بینائی چھین لی ہے
اندھا بنا دیا ہے
فتنہ جگا دیا ہے۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
ظلم
کیوں غمزدہ نظر آ رہے ہو
یہ کس خوشی کو چھپا رہے ہو
کسی کی خوشی سے جلن کیسی
کیوں سب سے تم جلے جا رہے ہو
یہ کون سی حس کی تسکین ہے
پتا غلط کیوں بتا رہے ہو
ملاوٹ میں تھوڑی سی جو غذا ہے
یہ قوم کو کیا کھلا رہے ہو
گناہ کیوں اتنا کما رہے ہو
نشہ سبھی کو پلا رہے ہو
سلیبس کی بے کار چند کتابیں
کیوں سال بھر میں پڑھا رہے ہو
وی سی آر، ڈش اور اب یہ کیبل
یہ قوم کو کیا سکھا رہے ہو
تعلیم ہم کو کیا دے رہے ہو
زبان اپنی سکھا رہے ہو
ہمارا ملک ہے تم یہاں کیوں
قانون اپنے چلا رہے ہو
ظلم میں بڑھتے ہی جا رہے ہو
کیوں خلق کو تم ستا رہے ہو
٭٭٭
عدم وجود
انسان مٹ گیا!
انسانیت بھی کب کی مٹ چکی!
احساس سے عاری!
یہ چلتی پھرتی لاشیں !
ثمر ہیں اک خوف کا!
اِک موت کا!
یہ جو بھوک یہ جو ننگ ہے !
یہ ثمر ہے اسی خوف کا!
وہ خوف جو پورا ہو چکا!
یہ وجود جو فانی ہے !
وہ موت جو اک دن آنی ہے !
اس وجود کی موت کے خوف سے !
اب جسم ہیں وجود میں !
انسان عدم میں۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
میرا لہو چراغوں میں جب صرف ہو گیا
راتوں کے دل میں پیدا بڑا ظرف ہو گیا
بُجھنے نہیں دیا تھا مجھے سرد رات میں
شعلہ کی طرح میرا ہر اک حرف ہو گیا
میں عشق میں تو جلتا رہا تھا ہر ایک پل
تیری نگاہِ سرد سے میں برف ہو گیا
پیروں میں خون جم گیا، پتھرائی آنکھ بھی
رستہ مری حیات کا کیوں برف ہو گیا
انسان ہوکے پیتا ہے انسان کا لہو
ظلِّ الٰہی کس کیے کم ظرف ہو گیا
یہ شاعری تو لفظوں کا حرفوں کا کھیل ہے
احساس بھی اے نازلیؔ کچھ صرف ہو گیا
٭٭٭
وہ محبت
وہ محبت کیا ہوئی!
جو میرا مقدر تھی!
ہاتھ کی لکیروں میں !
تیرے میرے لکھی تھی!
ہاتھ سے کہاں گئی!
جو ملن سے پہلے تھی!
ملن کے بعد کیا ہوئی!
دل سے جو اُتر گئی!
کیا یہی محبت تھی۔ ۔ ؟
٭٭٭
دریچۂ دِل
دریچہ دل کا وا نہیں
یہ ہر گھڑی کھُلا نہیں
گزر رہے ہیں لوگ کیوں ؟
یہ کوئی راستہ نہیں
شکایتوں سے فائدہ؟
مجھے کوئی گلہ نہیں
پر اس کے بعد پھر کبھی
یہ دل کا در کھلا نہیں
مجھے تو نازلیؔ کبھی
وہ راہ میں ملا نہیں
٭٭٭
دغا باز نہیں ہم
ہم اس لیے رُسوا ہیں کہ واہ واہ نہیں کرتے۔ !
ہم جھوٹے خداؤں کے قصیدے نہیں پڑھتے۔ !
جھوٹ بولنے کے روادار نہیں ہم۔ !
ہاں۔ ۔ !
دغا باز نہیں ہم۔ ۔ !
٭٭٭
اپنی زہریلی طبیعت کو چھپا لو لوگو
پھر سے چہروں پہ نئے خول چڑھا لو لوگو
دل مرا ہونے لگا آئینہ دھیرے دھیرے
پھر سے پتھر زرا ہاتھوں میں سنبھالو لوگو
آہ بن کر نہ جلا دے کہیں دنیا ساری
آگ سینوں کی یونہی دل میں دبا لو لوگو
وقتِ رخصت ہے، رہے ساتھ عمل پاکیزہ
سیج ایمان کی الفت سے سجا لو لوگو
نازلی کہتی ہے دل توڑو کسی کا نہ کبھی
دل خدا کا ہے مکاں اس کو بچا لو لوگو
٭٭٭
شعر
روشنی کو روشنی کچھ ایسے کر دیتی ہے ماند
سامنے سورج کے جیسے چاندنی ہو اور نہ چاند
آگہی
اپنے آپ کو منوانے میں !
کیا کیا میں نے جتن کئے ہیں !
مُجھ کو کوئی جان نہ پایا!
میں ہی سب کو جان گئی۔ !
٭٭٭
حسن
یہ حسن تو جادو ہے
سو اس کو توچلنا ہے
یہ ہوا کا جھونکا ہے
جسے صرف گذرنا ہے
بس ایک ساعت ہے
پھرسماں بدلنا ہے
یا شاید سورج ہے
جسے روز ہی ڈھلنا ہے
یا آگ کا دریا ہے
جہاں دل کو جھلسنا ہے
یہ فریب ایسا ہے
کہ سب ہی کو پھنسنا ہے
٭٭٭
زخمِ دل کا رکھو ذرا تو بھرم
مانگتے کیوں ہو غیر سے مرہم
جو لگاتے ہیں آگ دامن میں
وہ کریں گے کہاں سے تم پہ کرم
ایک الزام ہے ہر اک لمحہ
زندگی ہو گئی ہے وقفِ الم
کون سا اس کو ہم کہیں جذبہ
لب پہ مسکان آنکھیں ہیں پُر نم
ہیں خواتین آج بھی لیکن
عائشہ ہے نہ ہے کوئی مریم
آنکھ دکھلا رہی ہے سورج کو
گھاس کی نوک پر ٹکی شبنم
نازلی زندگی نے توڑے ہیں
ہم پہ کوہِ گرانِ ظلم و ستم
٭٭٭
صبر صمیم
یا رب!
مرے دل کو
وہ صبر دے
کہ میں ہنس کے ہر غم سہوں
اور پھر یوں کہوں
’’ترا شُکر ہے ‘‘ !
٭٭٭
یاد
کوئی پوچھے کہ کہاں ہوں میں !
میں ہوں آجکل تیری یاد میں !
کبھی رو پڑوں تیری یاد میں !
کبھی ہنس پڑوں تیری یاد میں !
مجھے کہہ رہے ہیں دوانی سب!
ہیں یہ لوگ عشق سے بے خبر!
ان کو جنوں کا کیا پتا۔ !
ان کو خرد کی کیا خبر۔ !
انہیں کیا خبر اس آگ کی!
جو میرے من میں لگ گئی!
میری زندگی کو ڈس گئی!
تو چلا گیا تو کیا ہوا!
تیری یاد دل میں تو بس گئی!
اس زندگی سے کٹ کے بھی!
ہوں ابھی میں تیری امان میں !
تیری یاد کے جہان میں !
٭٭٭
شعر
ہم خوش نہیں تو اس کا مطلب ہے نازلیؔ کیا
اِس غم میں حق خوشی کا ہم چھین لیں سبھی سے
دنیا کی لڑکی
وہ گلبدن۔ !
جس کے سُرخ گال!
وہ جس کے چاندی جیسے بال!
ہرنی چال، موتی دانت!
وہ جس کے لب ہیں رس بھرے !
وہ جس کی آنکھیں جھیل سی!
وہ لڑکی اک حسین سی!
نہیں حور کوئی وہ جنت کی!
یا رب میں نے یہ منت کی!
میری ساری حوریں لے لے !
وہ لڑکی مجھ کو دے دے !
٭٭٭
زندگی تُو بخش دے انعام کچھ
یا مرے سر پہ بھی رکھ الزام کچھ
نفس کب کا ہو چکا تائب تو پھر
دل پہ کیوں ہوتا نہیں الہام کچھ
صبح لاتی ہے حوادث کا ہجوم
رنگ دکھلاتی ہے اپنا شام کچھ
ہر کوئی اب ہو گیا ہے بے لگام
کس کو ہے اندیشۂ انجام کچھ
ذہن و دل پہ چھا گئیں مایوسیاں
کون لے گا رحمتوں سے کام کچھ
نازلیؔ ہم جیسے لوگوں کے سبب
رہ گیا انسانیت کا نام کچھ
٭٭٭
سیاست
سیاست کا بازار گرما رہے ہیں
قیامت ہر اک رُخ بپا ہو رہی ہے
کسی پارٹی کو لگی ملنے شہرت
کوئی پارٹی اپنا دم کھو رہی ہے
٭٭٭
حیات
موت اور حیات کی کشمکش تھمی نہیں !
کہہ رہے ہیں بشر۔ !
نہیں نہیں ابھی نہیں !
کوئی کہہ رہا ہے موت تو!
میری زندگی مجھے بخش دے !
کوئی کہہ رہا ہے حیات تو!
میرا پیچھا کرنا چھوڑ دے !
اسی کشمکش میں ہے زندگی!
یہی کشمکش تو حیات ہے !
٭٭٭
عہدِ شباب
عہد شباب پیش ہے !
اے غم اسے بھی بسر کر
میری آنکھ خشک ہو چلی
کچھ تو یہاں بھی ابر کر۔ !
خوشیاں مجھے ہیں کہہ رہیں !
کچھ اور تھوڑا صبر کر!
میری آنکھ بھی اب نم نہیں
کوئی خوشی نہیں کوئی غم نہیں
میں کوئی خوش فہم نہیں
کہہ دو مجھے طلب نہیں !!
مجھے چاہیے ہی نہیں حیات!!!!!
٭٭٭
چھوڑ کر شرافت کو
ڈھونڈتے ہیں شہرت کو
کوڑیوں میں بیچا ہے
سب نے اپنی غیرت کو
اور ذلیل مت کرنا
اپنی قوم و ملّت کو
سب اصول کہتے ہیں
اپنی اپنی فطرت کو
نئی ردّ کرتی ہے
ہر پرانی بدعتّ کو
کون جان پایا ہے
آدمی کی فطرت کو
نازـلی چھپا لو اب
تم بھی اپنی حیرت کو
٭٭٭
فاصلے
دُوریاں بڑھتی گئیں
فاصلے بڑھتے گئے
پھر یوں ہوا کہ ایک دن
اس نے کہا، سُنیے زرا
دیکھا ہے میں نے آپ کو
پہلے بھی شاید۔ ۔ ۔
میں نے کہا کُچھ سوچ کے
شاید غلط فہمی ہے یہ
کیا ملے تھے ہم کبھی ؟
آپ کو دھوکا ہوا !
٭٭٭
مصیبتوں کوہنس کے جھیلنا پڑا
بدل کے خود کو کیا کیا دیکھنا پڑا
عجیب ڈھب کی پائی ہم نے زندگی
ہمیشہ حادثوں سے کھیلنا پڑا
کہانی درد کی ہماری، آنکھ سے
نکل کے آنسوؤں کو بولنا پڑا
کسی سے دوستی نبھانے کے لیے
ہر ایک لمحہ خود کو سوچنا پڑا
جسے بسایا اپنے دل میں نازلی
اُسے تمام عُمر ڈھونڈنا پڑا
٭٭٭
ایک حقیقت
علم کیا ہے !
علوم کیا ہیں !
تلاش مقصد!
سعیِ منزل!
بھلا کہاں تک ؟
علم کی انتہا خدا ہے !
تلاش کی آخری وہی حد!
منزل و مقصد بھی بس وہیں تک!
یہ دنیا ہے اک سراب!
سب خواب!
بس اک حقیقت ہے !
وہ خدا ہے۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
مرجھا کے بھی جو پھول ہے وہ مرد ہی تو ہے
عورت سفید کپڑا ہے جو داغدار ہے
دِل
دل کانچ کا ٹکڑا ہے !
کہیں ٹھیس نہ لگ جائے !
یہ ریت گھروندا ہے !
کہیں خود ہی نہ گر جائے !
یہ محل ہے خوابوں کا!
ڈر ہے نہ بکھر جائے !
ممکن ہو اگر!
دل کو۔ !
آئینہ بنا لینا!
اس میں کوئی آئے تو!
شاید کہ سنور جائے !
٭٭٭
کیسا غم ہے شبِ تنہائی میں
جی الجھتا ہے شناسائی میں
روح تک کھینچ کے لے جاتی ہے
کیا کشش ہے تری شہنائی میں
ہم کو ڈر ہے تو فقط لوگوں کا
ورنہ کیا ہے بھلا رسوائی میں
٭٭٭
حکم ربانی
عرصۂ جہالت کی
ریت اور رواجوں کو
یہ سنبھالے بیٹھے ہیں
عورتوں کے پیچیدہ
کچھ مسائل ایسے ہیں
جن کو لے کے بیٹھے ہیں
مرد کب سمجھتے ہیں
وہ یونہی اُلجھتے ہیں
بے حسی برتتے ہیں
پنکھڑی سی عورت کو
اس حسین مورت کو
سنگ کیوں سمجھتے ہیں
کوئی ان کو بتلا دے
یہ ہے حکم ربانی
مرد اور عورت تو
دونوں ہی مساوی ہیں
٭٭٭
سمجھو کہ بہار اب آئی
جب بادل گھِر گھِر آئیں
موسم پہ گھٹا سی چھائے
جب مست چلے پُروائی
سمجھو کہ بہار اب آئی
پھولوں پہ پڑے جو شبنم
خوشبو سے جھومے موسم
جب کلی کلی مسکائی
سمجھو کہ بہار اب آئی
جب بادل چھم چھم برسیں
جب ملنے کو دل ترسیں
جب یاد کسی کی آئی
سمجھو کہ بہار اب آئی
ہو جو بھیگی بھیگی رات
جب ہوش کی نہ ہو بات
تن من پہ خماری چھائی
سمجھو کہ بہار اب آئی
جب ختم ہو جائے اندھیرا
جب چونک کے جاگے سویرا
موسم بھی لے انگڑائی
سمجھو کہ بہار اب آئی
٭٭٭
ہمسفر
میرے جذبوں کا جاننے والا
میری قدروں کو ماننے والا
میرے خوابوں کا بھی قمر ہو گا
میں نے سوچا تھا ہمسفر ہو گا
پھول میرے لیے وہ لائے گا
لا کے کنگن مجھے پہنائے گا
بیٹھ کے کچھ تو مجھ کو دیکھے گا
حالِ دل مجھ سے میرا پوچھے گا
حسن کے گیت میرے گائے گا
مجھ کو ہر اک جگہ گھمائے گا
مگر افسوس میرے دلبر کو
اتنی فرصت کہاں ہے شوہر کو
جب سے گونجی ہے میری شہنائی
ہمسفر ہے، مگر ہے تنہائی
پہلے سے بھی تو تھی اکیلی میں
آپ اپنی تو تھی سہیلی میں
اب تو اپنی نہیں ہے فکر مجھے
اور نہیں بھاتا کوئی ذکر مجھے
دین دنیا سے ہوں میں بے گانی
بنی رہتی ہوں سب سے انجانی
جس نے آنکھوں سے خواب چھینے ہیں
غیر کب وہ تو میرے اپنے ہیں
پیار کے بدلے پائی نفرت ہے
زندگی اب تو میری حسرت ہے
٭٭٭
شوہر
کالا سا رنگ
موٹی سی ناک
ذرا چھوٹا قد
کالے کالے بال
بھاری آواز
ٹیڑھی سی چال
میرے شوہر میں ہے یہ حسن و جمال
یہ سب پائے جاتے ہیں اس میں کمال
٭٭٭
چلو ہم بھی چپ رہیں
تیری بے وفائی کا کچھ تذکرہ کریں !
یا ہم بھی چپ رہیں !
سہیں ہنس کے ہم جدائی!
یا ہم بھی کوئی آہ کریں !
یا تجھ کو کہیں ظالم!
یا گھٹ کے خود مریں !
ہاں ہم کو ہے محبت!
ہاں ہم بھی کچھ کریں !
کہیں تو نہ ہو رُسوا!
چلو ہم بھی چپ رہیں !
٭٭٭
ہم سے نہ کچھ کہو یہ خطا کر چکے ہیں ہم
قاتل سے رسم و راہ سِوا کر چکے ہیں ہم
آئی قریب منزلِ مقصود تو لگا
قربان بے وفا پہ وفا کر چکے ہیں ہم
ہر دم اُسی کو یاد کیا تھا تمام عُمر
سانسوں کا جیسے قرض ادا کر چکے ہیں ہم
اُس کی نظر میں ہم ہیں، ہماری نظر میں وہ
نظروں میں منزلوں کا پتا کر چکے ہیں ہم
اُس کی جفا کے خوف سے لازم تھی خود کُشی
یہ کیسا اپنا آپ بھلا کر چکے ہیں ہم
ہر کوئی اپنے نفس کے دوزخ میں ہے پڑا
خواہش کو اپنی، اپنا خدا کر چکے ہیں ہم
جاں کے قریب اُس کی تھی خوشبو بھری بہار
اپنی اَنا میں اُس کو فنا کر چکے ہیں ہم
اُگنے لگے ہیں نازلیؔ دشتِ بدن میں زخم
درد و الم کو دل کی دوا کر چکے ہیں ہم
٭٭٭
فانی
اپنے جب اپنے نہ رہے
غیروں کو کیا اپنانا
وہ سب رشتے توڑ گئے
نہیں ہمیں یہ جتلانا
رفتہ رفتہ بیتی عمر
جیسے کوئی افسانہ
نکل گیا وقت ہاتھوں سے
آخر اب کیا پچھتانا
نازلی اب یہ لگتا ہے
دنیا بھی ہے فانی ٹھکانہ
٭٭٭
ترے دل سے گزر کر میرے دل تک راستہ نکلے
ملاقاتوں کا کوئی تو حسیں اک سلسلہ نکلے
اُٹھا کر آنکھ ہم کو دیکھنا تجھ پر قیامت تھی
نہ جانے کس گماں میں ہم ترے کوچے میں آ نکلے
وہی اندازِ فرعونی جھلکتا ہے نگاہوں سے
جنھیں ہم آدمی سمجھے تھے وہ سب تو خدا نکلے
سخاوت میں خود اپنے آپ کو بھی رکھ دیا گِروی
مرے احبابِ خوش قسمت زمانے سے جدا نکلے
نہیں ہے دوست دشمن میں کوئی بھی فرق ہلکا سا
جنھیں سمجھا مسیحا تھا وہی قاتل ادا نکلے
روبینہ نازلیؔ جو کانچ کے پیکر سے لگتے تھے
بہ ظاہر خوش نما تھے سب بہ باطن بد نما نکلے
٭٭٭
اب کہاں جائیں
یوں زندگی کو کھو رہے ہیں ہم!
رو رہے ہیں ہم۔ !
پر اس کے بعد کیا ہو گا!
نہ جانے حال کیا ہو گا!
کہیں ایسا نہ ہو وہاں !
جانا چاہتے ہیں ہم جہاں !
وہاں پہنچیں تو پچھتائیں !
دن پچھلے پھر یاد آئیں !
کہیں ایک بار پھر سے ہم!
میرے خدا تو اب بتا!
بھلا اب ہم کہاں جائیں !
٭٭٭
کچھ کر دکھانا ہو گا
پُر خار رہگذر ہے
دامن بچانا ہو گا
دامن بچا کے ہم کو
کچھ کر دکھانا ہو گا
بہروں کو آگہی کا
دامن تھمانا ہو گا
اندھوں کو راستی کا
رستہ سُجھانا ہو گا
غدّارِ مُلک کا بھی
چہرہ دکھانا ہو گا
تم بھاگتے ہو کیوں خود
اُن کو بھگانا ہو گا
اپنے ہی مُلک میں گھر
اپنا بنانا ہو گا
ہو کس کے منتظر تم
ہل خود چلانا ہو گا
بنجر زمیں پہ ہم کو
گلشن کھلانا ہو گا
ہاں ! نازلیؔ ہمیں ہی کچھ کر دکھانا ہو گا
٭٭٭
بے لگام
جھوٹی دنیا کہ دام میں آ کر!
خواہشوں کے غلام بیٹھے ہیں !
علم کو بیچتے ہیں علم کے سگ!
بے عمل لوگ عام بیٹھے ہیں !
دین و دنیا سے کیا غرض ان کو!
کاروباری ہیں خام بیٹھے ہیں !
ان کو قرآن سے نہیں مطلب!
مرشدِ بے لگام بیٹھے ہیں !
٭٭٭
اِک نئی اپنی وہ پہچان لئیے بیٹھے ہیں
خود کے حق ہونے کا عرفان لئیے بیٹھے ہیں
آرزوؤں کے مطابق ہے وضاحت اُن کی
گو کے تصدیق کو قرآن لئیے بیٹھے ہیں
ذکر میں چھوڑ کے محبوب کی چاہت کا کمال
منطق و فکر کے سامان لیئے بیٹھے ہیں
خُلد میں جائیں گے وہ اپنے عمل کے بدلے
اک غلط نفس کا ارمان لیئے بیٹھے ہیں
تنگِی علم کا اِس طرح سے دیتے ہیں ثبوت
اِک بشر ہونے کا فرمان لئیے بیٹھے ہیں
نازلی اُن کو سُنا دو کہ ہلاکت میں ہیں
خواہشِ نفس کی جو شان لیئے بیٹھے ہیں
٭٭٭
عشقِ حقیقی
عشق تھا۔ !
ہے اب بھی عشق!
قدرت ہی۔ فطرت ہے مری!
بیگانگی۔ عادت مری!
دیوانگی۔ ۔ شہرت مری!
کردار ہے میری شناخت!
عشق کی تفسیر!
ہے میری حیات!
جانتے ہیں خود کو سب۔ ہیں با شعور!
اور کہتے ہیں مجھے !
مجنوں صفات
کیا پتا اُن کو!
خدا کا رازِ مکنوں !
میری ذات۔ ۔ !
٭٭٭
چیز
بہت ہی لا پروائی سے۔ !
اس نے مُجھ کو یوں برتا
چیز پرائی ہو جیسے۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
محبت
محبت اِس کو کہتے ہیں !
حوالے !
جان اپنی کر کے !
اپنے جانِ من کو!
کہا !
جاناں !
یہ تیری جان!
جو تیری عطا تھی!
تجھے ہی سونپ دی ہے !
ہے میرے پاس !
بس۔ ۔ ۔ اک دل!
اور اِس دل میں محبت ہے !
جو تُو نے !
ڈال دی اِس میں !
ترا احسان ہے جاناں !
مجھے تجھ سے محبت ہے !
٭٭٭
عمل
گزرا لمحہ نہ ہاتھ آئے گا
وقت ہر پل پھسل ہی جائے گا
اس سے پہلے کہ موت آ جائے
جسم و جاں پہ سکوت چھا جائے
عملِ صالح کی ابتدا کر دو
فرض اپنا ہر اک ادا کر دو
نیک اعمال کام آئیں گے
موت کے بعد ساتھ جائیں گے
عیش و عشرت نہ کوئی کام آئے
صرف رہ جائیں گے یہ پچھتاوے
٭٭٭
مُقدر
ارادے باندھتے ہیں ہم
ارادے ٹوٹ جاتے ہیں
ہمارے فیصلے ہی!
ہم سے اکثر روٹھ جاتے ہیں
کوئی مانوس!
کوئی اجنبی طاقت
ہماری بے بسی کا یوں
ہمیں احساس دلاتی ہے
خود اپنی ذات کا وشواس دلاتی ہے !
٭٭٭
چاند چہروں کی ادائیں پڑھ لو
جھیل آنکھوں کی صدائیں پڑھ لو
آنکھیں آنچل میں ہیں کس حالت میں
جاننا ہے تو ردائیں پڑھ لو
جسم اور روح کے زخموں کی جلن
کیسی پھیلی ہے، قبائیں پڑھ لو
کھینچتی ہیں تمہیں اپنی جانب
خوبصورت سی فضائیں پڑھ لو
کس قدر برسیں گے اب کے بادل
ہو گا اندازہ گھٹائیں پڑھ لو
شہر میں پھیل چکے ہیں عفریت
کچھ حفاظت کو دعائیں پڑھ لو
اپنی بد عملی کے بدلے میں یہاں
کیسے آتی ہیں بلائیں پڑھ لو
کیا دیا تم کو جفاؤں نے بھلا
ہو سکے گر تو وفائیں پڑھ لو
نازلی تم بھی ہو کتنی ناداں
ہیں مخالف میں ہوائیں پڑھ لو
٭٭٭
امان
بارہا سوچا ہے یہ
زندگی آخر ہے کیا ؟
بے بسی اتنی ہے کیوں ؟
مختصر سی ہے خوشی
اور زیادہ غم ہے کیوں ؟
آنکھ اپنی نم ہے کیوں ؟
کیوں نہیں ہے ہم کو چین
کر رہے ہیں کیسا بین
شُکر کرنا چھوڑ کر
نعمتوں سے منحرف
رحمتوں سے بے خبر
گر حقیقت جان لیں
رب کا احساں مان لیں
غم سے پا جائیں اماں
زندگی ہو مہرباں
٭٭٭
ساون
اے ساون اب کہ آنا تو
خیر کی بارش برسانا
سیلابوں اور طوفانوں کو
اب مت لانا
اب کے ان گنت گناہوں کو
چپکے سے ذرا دھو دینا
اے لوگو ! تم بھی چپکے سے
اس ساون رُت میں رو دینا!
٭٭٭
اس دور کے رنگ
اس دور کے رنگ نرالے ہوئے
عجب لوگ عجب زمانے ہوئے
اقبال کی خودی کے درپے
غالب بھی دیوانے ہوئے
افلاطون ارسطو جیسے
پاگل اور دیوانے ہوئے
عقل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
عقل سے یہ بیگانے ہوئے
پیسہ منہ سے بول رہا ہے
پاگل اب سیانے ہوئے
عالم کی جگہ نقال مراسی
جانے اور پہچانے ہوئے
جدت اور جدید ہوئی
مذہب کے طور پرانے ہوئے
عورت کا مطلب پردہ ہے
پردے کو گذرے زمانے ہوئے
فقیر کی جھونپڑی ڈھائی گئی
چرواہوں نے محل بنانے ہوئے
ؑ غریب کا لہو نچوڑا گیا
ایٹم بم بنانے ہوئے
سوچ رہی ہوں نازلی
پورے سب نشانے ہوئے
ہونی پوری ہونے والی
قیامت کے دن آنے ہوئے
٭٭٭
غداری
انتہا ہو گئی غداری کی
اس نے پھر قوم سے مکاری کی
سب کی آنکھوں میں جہالت کا نشہ
اب ضرورت نہیں بیداری کی
جس کی عزت سے بھی چاہا کھیلے
اب بڑی شان ہے سرداری کی
اب شریفوں کا ہے پلہ بھاری
یعنی شامت ہوئی زرداری کی
اُس کو اک تیر لگا تھا کاری
عمر بھر میں نے عزاداری کی
نازلی گھر سے نکل، باہر جا
تجھ کو کیا پڑ گئی گھر داری کی
٭٭٭
چور
لُوٹ کر گھر کو، گھر بساتے ہیں
کیا حسیں آشیاں بناتے ہیں
اسلحہ ہے تو کیساڈر ان کو
چور اب دن میں دندناتے ہیں
تالہ چابی یوں ہی لگاتے ہو
وہ تو اُوپر سے کود آتے ہیں
اب نہیں چھوڑتے چونّی بھی
اب تو کھانا بھی کھا کے جاتے ہیں
میں فلاں پارٹی کا ممبر ہوں
اپنا حال و پتا بتاتے ہیں
ایک تو مال یہ چُراتے ہیں
اور ہنگامے بھی مچاتے ہیں
خوف طاری رہے عوام پہ بس
ایسا ماحول یہ بناتے ہیں
نازلیؔ آپ بھی تو ڈرتی ہی
چور بھی اب ڈرانے آتے ہیں
٭٭٭
مہمان
شوہر۔ ۔ اِس سے پہلے کہ وہ یہاں آئیں
چاہیے ہم کو، ہم وہاں جائیں کتنی مہنگائی ہے پتہ ہے تمھیں
چلو کھانا ہی تھوڑا کھا آئیں
آج چھُٹّی کا دِن ہے بیگم جی
آؤ چھُٹّی کہیں منا آئیں
بیگم۔ ۔ ۔ اِتنی گرمی میں ہم کہاں جائیں
کرو آرام، چین کچھ پائیں
شوہر۔ ۔ کوئی آئے تو کہنا گھر پہ نہیں
وہ گئے ہیں ابھی ابھی تو کہیں
تھوڑی چائے انھیں پِلا دینا
سادہ پانی پہ ہی بھگا دینا
بیگم۔ ۔ چائے پانی میں کر نہیں سکتی
یوں ہی بے موت مر نہیں سکتی
اور بھی کام ہیں جی کرنے کو
ہانڈی چولھے پہ سواد دھرنے کو
شوہر۔ ۔ ۔ کوئی تالہ ہی ڈال دو در پہ
وہ یہ سمجھیں گے ہم نہیں گھر پہ
بیگم۔ ۔ ۔ آئیڈیا یہ بہت ہی اچّھا ہے
تالہ ڈھونڈو کہاں پہ رکھا ہے
٭٭٭
رشوت
روپے کہاں سے ڈھیروں یہ لانے لگے ہیں لوگ
خرچے کہاں سے اپنے چلانے لگے ہیں لوگ
تنخواہ ہے مختصر سی مگر پیٹ ہے بڑا
لا کر کہاں سے دنیا کا کھانے لگے ہیں لوگ
گھر ہیں بڑے بڑے سے عجب ٹھاٹ باٹ ہیں
کاریں کہاں سے لا کے چلانے لگے ہیں لوگ
مونچھوں پہ تاؤ دے کہ بتاتے ہیں بے دھڑک
کہ کس طرح سے رشوتیں کھانے لگے ہیں لوگ
ہُشیار خود کو کہتے ہیں غدّار ہیں مگر
اپنے وطن کو خود ہی جلانے لگے ہیں لوگ
شرعی جواز ڈھونڈ کے اپنے مفاد کا
رشوت کا مال گھر میں سجانے لگے ہیں لوگ
یہ سب نشانیاں ہیں قیامت کی نازلی
احکامِ رب کو دل سے بھُلانے لگے ہیں لوگ
٭٭٭
اَچھے
بیویاں اچھی ہیں اُن مردوں کی
چار پیسے جو کمانا جانیں
مرد اچھے ہیں وہی دنیا میں
اپنی بیوی کا جو کہنا مانیں
شاعر
تجھے عشق کا کوئی غم نہیں
تیری شاعری میں تو دم نہیں
جسے سیلِ درد بنانا تھا
اُسی آنکھ میں تری نم نہیں
وہ جو لفظ پھول سے کھلتے ہیں
نہیں اُن میں کچھ بھی بھرم نہیں
ترے رات دن میں خزاں بہار
تیری کیفیت میں الم نہیں
کبھی رو پڑے کبھی ہنس پڑے
کوئی آگے نقشِ قدم نہیں
ہے نظر میں تیری جو شاعری
وہ فضول باتوں سے کم نہیں
متشاعروں کے سے وصف ہیں
مگر شاعروں سے تُو کم نہیں
٭٭٭
بھوت
اک دن کی ہے یہ بات ذرا غور سے سنو
ظلمت بھری تھی رات ذرا غور سے سنو
میں سو رہا تھا بے خبر بس اپنے صحن میں
کوئی نہیں خیال تھا تب میرے ذہن میں
شاید ہوا تھا کھٹکا مری آنکھ جو کھلی
موجود کوئی تھا جو مری نیند اُڑ گئی
فوراً نظر جو سامنےد یوار پر پڑی
محسوس یہ ہوا کہ قیامت کی ہے گھڑی
دیوار پر عجیب ہیولا تھا محو رقص
آسیب، بھوت، کوئی بگولا تھا محوِ رقص
دہشت ذدہ جو ہو گیا میں کانپنے لگا
بھیگا ہوا پسینے میں میں ہانپنے لگا
ہلتا رہا وہ اور مجھے دیکھتا رہا
کیا دشمنی ہے مجھ سے، یہ میں سوچتا رہا
جب سرسراہٹیں سی ہوئیں میں سمٹ گیا
اوڑھے لحاف تکیے سے اپنے لپٹ گیا
ڈر سے میں ساری رات یونہی جاگتا رہا
باہر نہ سر نکال سکا کانپتا رہا
مجھ کو جگایا بیوی نے جب ہو گئی سحر
ڈرتے جھجکتے میں نے اُٹھایا جو اپنا سر
میرے خدا یہ خوف کی منطق نرالی تھی
میری ہی تھی قمیض جسے میں نے ٹانگی تھی
٭٭٭
کامیابی
کامیابی کا گُر بتاؤں تجھے
اپنے لیڈر کے گیت گائے جا
جھوٹ بولے تو سچ سمجھ اس کو
اور ڈانٹے تو مسکرائے جا
٭٭٭
مہنگائی
مہنگی سی مہنگی سبزیاں جو کھا رہے ہیں ہم
جانے یہ کس گُنہ کی سزا پا رہے ہیں ہم
پھل، گوشت، شہد حصّۂ تاریخ بن گئے
بچّوں کو اُن کے خواب ہی دِکھلا رہے ہیں ہم
تنخواہ میں اپنی، جوتوں کا مِلنا مُحال ہے
جانے کہاں سے گاڑیاں پھر لا رہے ہیں ہم
کل گھر میں دال روٹی پکانے کے واسطے
ڈاکا کسی کے ڈالنے گھر جا رہے ہیں ہم
بھرنے کو ایک پیٹ کا دوزخ، تمام عُمر
بے خوف بس گناہ کیئے جا رہے ہیں ہم
مجبوری میں حرام بھی ہو جاتا ہے حلال
یہ سوچ کر حرام ہی بس کھا رہے ہیں ہم
مہنگائی نے غریبوں کی روٹی بھی چھین لی
اب زندگی سے نازلی گھبرا رہے ہیں ہم
٭٭٭
قائد اعظم
ہے قائدِ اعظم کا کرم مجھ پہ مسلسل
بس نام پہ انہی کے مجھے سیٹ ملی ہے
اپنے سے بڑوں کے ہمیں گُن گانا ہے لازم
منزل پہ پہنچنے کی یہی ریت چلی ہے
٭٭٭
سسرال کے رنگ
بیٹھ جا آج بیٹا میرے سات
سُن لے تو آج میرے من کی بات
تیری بیوی بُری جہاں بھر کی
میں نے شادی تیری کہاں کر دی
کام دن بھر نہیں یہ کرتی ہے
سوئی سوئی پڑی یہ رہتی ہے
سُرخی پاؤڈر تو یہ لگاتی ہے
ہنڈیا کیسی بُری پکاتی ہے
دونوں ہی وقت روٹی کھاتی ہے
روز ہی میرا من جلاتی ہے
کسی مہمان سے نہیں ملتی
گھر کے لوگوں سے بھی ہے یہ چھپتی
چائے پانی کہاں سے کرتی ہے
یہ تو نیچے ہی کب اُترتی ہے
اسے اپنوں کو بھرنا آتا ہے
کام یہ بھی تو کرنا آتا ہے
ہمیں یہ رہ کے خار سمجھی ہے
ہمیں اس گھر پہ بار سمجھی ہے
اب تو پیسے بھی تو نہیں دیتا
الٹا مجھ سے ہی لیتا ہے خرچا
ساری دولت پہ بن گئی ناگن
دل کی رُکنے لگی مری دھڑکن
پھوٹی قسمت یہاں تو میری ہے
یہ بہو ہے کہ بس اندھیری ہے
اب بڑھاپا تو میرا خوار ہوا
سارا گھر مجھ پہ آج بار ہوا
بہو۔ ۔ ایک تو کام میں کروں گھر کے
روٹی کھاؤں نہ پھر شکم بھر کے
چاہے جیتی ہوں چاہے مرتی ہوں
کام گھر بھر کے خود میں کرتی ہوں
کام کو ہاتھ کب لگاتی ہیں
کام سے جی یہ سب چُراتی ہیں
دیکھ کر آپ کو اجی شوہر
ڈوئی ہنڈیا پہ بس بجاتی ہیں
کام گھر بھر کے میں کروں اور یہ
کام کے تمغے خود سجاتی ہیں
کان بھرتی ہیں رات دن تیرے
قصے جھوٹے تجھے سُناتی ہیں
سارا کچھ ان کو بھر رہی ہوں میں
یہاں بے موت مر رہی ہوں میں
پھر بھی میں ہوں بُری جہاں بھر کی
یہی سچ ہے قسم تیرے سر کی
کام کر کر کے مر گئی میں تو
ایسی آفت سے بھر گئی میں تو
میں چلی اپنا گھر سنبھالو تم
سارے تمغے خود ہی سجالو تم
ساس۔ ۔ تو کہاں جاتی ہے بہو رانی
بن کے بس بیٹھ یہاں تو چودھرانی
میرا بیٹا مجھے لے جائے گا
اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آئے گا
بیٹا۔ ۔ ماں کے رشتے کو توڑ ڈالوں میں
اس کی گردن مروڑ ڈالوں میں
کیسی تو ناہنجار عورت ہے
دے رہی کفر کی تو دعوت ہے
ساس۔ ۔ اب تو اس کو نکال باہر کر
اپنے دل کا غبار ظاہر کر
بیٹا۔ ۔ ماں مرے واسطے تُو لائی تھی
میں نے کب یہ بلا منگائی تھی
میری قسمت تو تو نے پھوڑی تھی
یہ جو جوڑی ہے تو نے جوڑی تھی
تو ہی اب اس کی ہے بنی دشمن
ہُنر اس کے تھے اب وہ ہیں لچھن
٭٭٭
ہماری نہر
حالتِ آب اب تو پتلی ہے
زیادہ ہیضہ ہے تھوڑی متلی ہے
جتنے گھر اس نہر سے پیتے ہیں
کچھ نہ پوچھو وہ مر کے جیتے ہیں
عورتیں اس سے سب پکاتی ہیں
گائے بھینسیں بھی یاں نہاتی ہیں
کتے بلے اسی میں پڑتے ہیں
سارے مینڈک اسی میں بڑھتے ہیں
مذبح خانے کا گند ڈلتا ہے
سارہ کوڑا اسی میں پڑتا ہے
رنگ دیکھو تو اس کا دھانی ہے
گھر یہ بیماریوں کا پانی ہے
کپڑے دھُلتے ہیں اس کے پانی میں
کچھ سہولت ہے زندگانی میں
٭٭٭
مقام
جب سے مہنگائی سے پالا پڑ گیا
عورتوں کا اب نہیں گھر میں مقام
اُس کی ہے اب قدر جگ میں نازلیؔ
جس کو ٹیکنیکل کوئی آتا ہے کام
٭٭٭
ہرجائی
پریم کا رنگ کیوں چڑھایا تھا
یہ بھلا ڈھونگ کیوں رچایا تھا
جب پتا تھا جدائی ہونی ہے
یاں بھی ظاہر خدائی ہونی ہے
اپنی مجبوریوں پہ مٹ جاتی
اندھیری کوٹھڑی میں گھٹ جاتی
اُسے بس میرا من جلانا تھا
اور کیا اس کے ہاتھ آنا تھا
آج میں رہ گیا تہی داماں
اس نے پورے نہیں کیے ارماں
وہ جو عورت ہے صرف ظلم سہی
مرد کے ساتھ بھی کیا خوب رہی
وہ سہاگن بنی ہے بے چاری
اور میں بن گیا ہوں ہرجائی
٭٭٭
جہاں سے چلے تھے وہیں آ گئے ہیں
سفر زندگی تھی میں تھی اک مسافر
اختتام
لو ختم ہوا باب
ہوئی زندگی تمام
لو پھر سے بھرو پیالہ
پھر خالی ہوا جام
بس یہ ہی ابتدا ہے
اور یہ ہی اختتام
٭٭٭
اللہ
مرے دل میں صرف تُم تھے
مرے دل میں صرف تُم ہو
مرے دم میں تُم رہو گے
مرا دل تمھارا گھر ہے۔ !
جہاں میں ہوں اور تم ہو۔ !
٭٭٭
نعتِ شریف
جس نظر میں بھی جالی رہے گی
کتنی تقدیر والی رہے گی
ذہن میں اب نہ آئے گا کُچھ بھی
ذہنیت اب مثالی رہے گی
میری صورت پہ جائے نہ کوئی
روح میری بلالی رہے گی
وہ تو کرتے ہیں تقسیم رحمت
میرے ہاتھوں میں تھالی رہے گی
کوئی آیا نہ آئے گا اُن سا
شخصیت وہؐ مثالی رہے گی
بانٹتے وہ رہیں گے ہمیشہ
ساری دُنیا سوالی رہے گی
فیض ان سے نہ جس نے اُٹھایا
جھولی اس کی تو خالی رہے گی
نازلیؔ نعت کہتی رہو تم
زندگی میں بحالی رہے گی
٭٭٭
دُعا
دل یہ دنیا سے بھر گیا یا ربّ
اپنی رحمت میں دے جگہ یا ربّ
آزمائش نے کر دیا بے بس
میری ہمت تو اب بندھا یا ربّ
ؓ
بخش دے تو کسی کے صدقے میں
مجھ کو نہ زیادہ آزما یا ربّ
بوجھ نہ ڈال پہلے والوں سا
مجھ میں کب اُن سا حوصلہ یا ربّ
راندۂ بارگاہ نہ کر مجھ کو
کر انا کو میری فنا یا ربّ
نازلی صرف لکھے اشکوں سے
نعتِ احمد تیری ثنا یا ربّ
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید