FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دردؔ کا نظریۂ تصوّف اور اُن کی شاعری

 

                وحید اختر

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

 

 

دردؔ کی شاعری کا ذکر آئے تو جو اشعار اپنی طرف دامنِ دل کو کھینچتے ہیں وہ اس قبیل کے ہیں   ؎

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی !!

ہم نے سَو سَو طرح سے مر دیکھا

 

قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر تِرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

 

میرے ہونے سے عبث رُکتے ہو

پھر اکیلے بھی تو گھبرائیے گا

 

تم آ کر جو پہلے ہی مجھ سے مِلے تھے

نگاہوں میں جادو سا کچھ کر دیا تھا

 

جب نظر سے بہار گزرے ہے

جی پہ رفتار یار گزرے ہے!

—————

یہی پیغام درد کا کہنا

گر صبا کوئے یار میں گزرے

 

ون سی رات آن ملئے گا

دن بہت انتظار میں گزرے

 

دردؔ کے دیوان کی ورق گردانی کیجیے تو اس طرح کے اشعار ہر صفحے پر مل جائیں گے۔ میرؔ صاحب کے متعلق تو مشہور ہی ہے کہ وہ چھوٹی بحروں میں نشتر رکھتے چلے جاتے ہیں ۔ مگر دردؔ کی وہ غزلیں جو چھوٹی بحروں میں ہیں ، اپنی کیفیت کے لحاظ سے میرؔ کی ان غزلوں سے بہت کم دبتی ہیں ۔ دردؔ کی زندگی ایک صاحبِ حال صوفی کی زندگی ہے، 29 برس کی عمر میں باپ کے سجادے پر بیٹھے اور ایسے بیٹھے کہ پھر دہلی کی تباہی و بربادی بھی ان کے تو کل کو جنبش نہ دے سکی، تمام تذکرہ نگار ان کی شرافت و نجابت، فضیلت و سیادت، علم و عمل، زہد و تقویٰ ، جلالت و معرفت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ آزادؔ کی جادو بیانی نے میرؔ کی زبان سے کہلوا دیا کہ ’’دردؔ آدھے شاعر تھے۔‘‘ اور یہ بات چل پڑی، لیکن خود ’’نکات الشعرا‘‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ میرؔ نہ صرف ان کی شرافت و فضیلت کے قائل تھے بلکہ ان کو پورا شاعر بھی مانتے تھے۔

’’میاں صاحب میاں خواجہ میر سلمہ اللہ تعالیٰ المتخلص بہ دردؔ جوشِ بہار گلستانِ سخن، عندلیب خوش خوانِ چمن این فن، زبان گفتگویش گرہ کشائے زلفِ شام مدعا مصرع نوشتہ اش بر صفحہ، کاغذ از کاکل صبح خوش نما۔ طبعِ سخن پروازِ او سر و مائلِ چمنستانِ اندازاست۔ گاہے در کوچۂ باغ تلاش، بطریق گل گشت قدم رنجہ می فرماید، در چمنِ شعرش لفظ رنگین چمن چمن۔ گلچینِ خیال اورا گل معنی دامن دامن، شاعر زور آور ریختہ …‘‘                                                                   (نکات الشعرا، ص: 50-49)

دردؔ کا کلام کمیت کے لحاظ سے میرؔ اور سوداؔ کے مقابل نہیں ٹھہرتا۔ ان کے مختصر سے دیوان میں نہ قصاید ہیں نہ مثنویات،ہجویں ہیں نہ ترجیع بند۔ بیشتر غزلیں ہیں ، کچھ قطعات اور رباعیات۔ ان کی تعداد بھی کوئی بہت زیادہ نہیں ، دردؔ نے غالبؔ کی طرح اپنے اشعار کا انتخاب بھی نہیں کیا، انھوں نے جو کچھ کہا اس دیوان میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ چند سو اشعار ہیں جو مثنوی ’’خواب و خیال‘‘ میں شامل ہیں ۔ اس مختصر سے شعری سرمایے کے باوجود دردؔ نے اپنے عہد میں بھی اپنی شاعری کا لوہا منوایا اور بعد کے زمانوں میں بھی ان کی استادی فن کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ میرحسن کی نظر میں ان کا دیوان ’’حافظ کی طرح سراپا انتخاب ‘‘ہے — اور یہ حقیقت ہے کہ دردؔ کی شاعری کی سطح بلند و پست کی ناہمواری سے پاک ہے۔ بغایت بلند اشعار تو ان کے یہاں مل جائیں گے، مگر بغایت پست کا سراغ نہیں مل سکتا۔ ان کے علم اور تصوف نے جذبات کی اس طرح تنظیم و تربیت کی تھی کہ وہ ’’آدابِ عشق‘‘ سے بھی بے اعتنائی نہ برت سکے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض ناقدین کو ان پر یہ اعتراض ہو کہ ان کے یہاں کہیں کہیں عریانی بھی ملتی ہے۔ لیکن اگر بہ نظرِ غایر دیکھا جائے تو یہ عریانی اس سے زیادہ نہیں جتنی خود فطرت میں ہے۔ دوسری بات یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ دردؔ کا زمانہ قدیم آداب معاشرت کی سخت گیر پابندی کے باوجود بعد کے زمانوں کی طرح کا شکار نہ تھا، میرؔ اور سوداؔ ہجو لکھتے وقت جس طرح کھیل کھیلتے تھے اسے دیکھتے ہوئے بھی ان کی سنجیدگی، وقار اور شرافت کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ دردؔ نے ہجو و مدح سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا۔ اس لیے ان کے یہاں ’’گالی دینے کا آرٹ‘‘ بھی نہیں ۔ وہ اپنی مسندِ رشد و ہدایت پر بیٹھ کر ایسی غیر ثقہ حرکت کے مرتکب ہو بھی نہ سکتے تھے لیکن وہ معاشرہ جو شاہد بازی کی رنگینیوں کو ہر سطح پر اپنائے ہوئے تھا، جہاں طرفدار ان بازاری مہذب سوسائٹی کی زندگی کا لازمی جُز تھیں وہاں صوفیا بھی اپنی ریاضت و تزکیۂ نفس کی کوششوں کے درمیان اتنا وقت نکال لیتے تھے کہ ایک نگاہِ غلط انداز اس طرف بھی ڈال لیں ، دردؔ کے یہاں ہوس و رنگینی کا یہ عنصر نگاہِ غلط انداز سے زیادہ ہے بھی نہیں ۔ اگر دردؔ اپنے دور کی اس رنگینی سے ذرا بھی متاثر نہ ہوتے تو ہم انھیں فرشتہ بھی مان لیتے اور خدا رسیدہ صوفی بھی مگر انھیں انسان یا شاعر ماننے میں تامل ہوتا، وہ درد جس نے یہ شعر کہا ہے   ؎

آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاج دہر

میں گرچہ گرم و سرد زمانہ سمو گیا

اسی بلندی سے اور ایسے ہی اشعار کہہ لیتا مگر دامنِ دل کو پکڑ لینے والے نشتر نہ ملتے۔ دردؔ کا نام اساتذۂ متقدمین کی صفِ اوّل میں ان کی عاشقانہ شاعری ہی کی وجہ سے لیا جاتا ہے، وہ مرتاض صوفی نہ تھے ان کے تصوف میں زندگی کا عطر بھی شامل تھا۔

دردؔ کی شخصیت اور سیرت کو سمجھنے کے لیے جہاں یہ واقعہ پیشِ نظر ہونا چاہیے، کہ وہ عاشق مزاج شاعر تھے وہاں اس حقیقت سے بھی آنکھ نہیں چرائی جاسکتی کہ وہ صوفی بھی تھے —اور صوفی بھی وہ نہیں جو خانقاہوں میں دنیا کی دکانداری کرتا ہے بلکہ اپنے عہد کے صاحبِ کتاب صوفی تھے۔مجدد الف ثانی کے بعد دردؔ ہی نے تصوف کو ایک نیا نظام دیا اگرچہ اس کارنامے میں تقدیم کا شرف ان کے والد بزرگوار خواجہ ناصر عندلیب کو حاصل ہے مگر ان کے نظریے کی تشریح و تعبیر جس انداز سے دردؔ نے کی، اس کی روشنی میں خود دردؔ کا مقام بلند تر نظر آتا ہے۔ صوفیا میں وحدت الوجود کے ہمہ گیر اثر کو وحدت الشہود کی ’’مذہبیّت‘‘ اور ’’تقشف‘‘ نے گھٹانے کی سعی کی مگر شیخ احمد سرہندی اور ان کے مقلدین ابن عربی کی گرفت سے پوری طرح خود کو بھی آزاد نہ کرسکے۔ دردؔ کا سلسلہ شیخ مجدد ہی سے ملتا ہے، وہ نقش بندی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے ، جو سلاسل صوفیا میں سب سے زیادہ ’’متشرع‘‘ سلسلہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر دردؔ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں کو مانا، انھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح نہ تو دونوں کی تطبیق کی نہ میرزا مظہر جان جاناں کی طرح وحدت الوجود کی تردید کی۔ وہ دونوں سے فیض اٹھاتے رہے اور دونوں مسلکوں کے درمیان اپنی راہ نکالتے رہے۔ خواجہ ناصر اور دردؔ کے علاوہ ہندوستان کے کسی صوفی نے اس دعویٰ کی جسارت نہیں کی کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں نزاعاتِ لفظی ہیں اور اصل صراطِ مستقیم وہ ہے جس کی طرف وہ خود دعوت دے رہے ہیں ۔ اس طرح کا پیغام ذہنی اور اخلاقی جرأت کے ساتھ فکر و نظر کا بندوبست اجتہاد بھی چاہتاتھا۔ دردؔ نے صوفیا اور عام مسلمانوں کی تفرقہ پسندی کو دیکھتے ہوئے ’’طریق محمدیؐ‘‘ کی طرف انھیں دعوت دی ان کی وسیع النظری اور آزادہ روی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ انھوں نے فنِ موسیقی میں مہارت حاصل کی، اور مہارت بھی ایسی کہ اس فن کے ماہرین ان کے آگے زانوئے ادب تہہ کرتے تھے۔ وہ محفل سماع بھی منعقد کراتے رہے اور اپنے سلسلۂ خانوادہ کی روایت کی خلاف ورزی کے لیے اگر کوئی عذر بھی پیش کیا تو یہ کہ ’’خدا نے مجھے ایک صلاحیت دی ہے اور میں اپنے اس ذوق سے مجبور ہوں ‘‘دوسروں کے لیے انھوں نے جواز کا کوئی فتویٰ نہیں دیا بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ’’نہ ایں کار می کنم نہ انکار می کنم‘‘— تصوف و شعر و موسیقی کے اس خوشگوار امتزاج کے ساتھ ان کے مزاج میں درویشانہ بے نیازی اور شاعرانہ خود داری بھی موجود تھی، آزاد نے کتنی ہی مبالغہ آرائی سے داستان طرازی کی ہو مگر اس واقعہ میں حقیقت کا کچھ نہ کچھ شائبہ تو موجود ہی ہے کہ دردؔ نے شاہ عالم کو اپنی محفل سے اس لیے اٹھا دیا تھا کہ بادشاہ نے تکلیف کا عذر کر کے پیر پھیلا دیئے تھے — دردؔ کی بے دماغی نے اشتہار نہیں پایا اور میرؔ بے دماغ مشہور ہو گئے۔ یوں دیکھا جائے تو اپنے گھر آئے ہوئے بادشاہ کو نہیں ٹوکنا، آصف الدولہ کے حضور سے بے باکانہ اٹھ کر چلے آنے سے زیادہ سنگین واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ دردؔ بادشاہ کے دست نگر نہ تھے اور میرؔ دست نگر تھے۔اس لیے میرؔ کی یہ گستاخی اخلاقی جرأت کی زیادہ اہم مثال بن جاتی ہے، میرؔ عشق میں جنون کی حد تک پہنچے۔ دردؔ کی زندگی میں کسی تذکرہ نگار نے از خود رفتگی کا کوئی واقعہ تلاش نہیں کیا۔ اس سراغ رسی میں شاید ان کی دینی روحانی اور علمی فضیلت آڑے آئی۔ ورنہ یہ تو ناممکن ہے کہ جس دردؔ نے عاشقانہ شاعری کو روایتی عشق بازی سے ہٹ کر بھی بہت کچھ دیا ہے، عشق کے کوچے سے ناآشنا رہا ہو۔ دردؔ کی روحانی عظمت کے ساتھ جس چیز نے ان کی شخصیت کو ’’اتہامات عشق و انانیت‘‘سے بچائے رکھا، وہ ان کی متصوفانہ تربیت تھی، ان کے مزاج کا اعتدال، ان کی سلامت روی اور فکرو توکل۔ میرؔ اول و آخر شاعر تھے۔ دردؔ شاعر بھی تھے اور صوفی بھی، انھیں دونوں ہی منصب نبھانے پڑے، اس لیے وہ شاعرانہ از خود رفتگی کی ان منزلوں تک نہ پہنچ سکے جہاں پہنچ کر میرؔ کی انا آفاق سے ہم آہنگ بھی ہو جاتی ہے، اس کا احاطہ بھی کر لیتی ہے اور اس کے باوجود آفاق پر چھا کر اس سے ممتاز و منفرد بھی نظر آتی ہے۔ دردؔ کی انا میں یہ فعال توانائی نہ تھی۔ اسی لیے اس کی تخلیقی رو بھی دبی دبی سی رہی۔ دردؔ کے تصوف میں عاشقانہ رنگ ہے۔ مگر ان کا عشق ایک صوفی ہی کا عشق ہے۔

ہماری تنقید تذکرہ نگاری کی منزل سے تو گزر آئی۔ مگر اس نے جو کچھ تذکرہ نگاروں سے لیا اب تک اس کی بار برداری کے فرض سے اپنے کو سبکدوش نہیں کرسکی۔ تذکرہ نگار نے لکھ دیا کہ دردؔ صوفی تھے، تو اکثر ناقدین محققین کی معیّت میں پہاڑ کھود کر صرف یہی دکھاتے رہے کہ دردؔ کی شاعری میں تصوف ہی تصوف ہے — پھر ایک ہوا چلی کہ دردؔ کا شاعرانہ مقام ان کی عشقیہ شاعری کی وجہ سے ہے تو سب نے آنکھیں بند کر کے یہی مان لیا اور یہاں تک لکھنے لگے کہ دردؔ کی شاعری میں جو کچھ تصوف ہے وہ محض روایتی ہے اور اس میدان میں ان کی شاعری بے جان و بے رنگ ہے۔ تصوف میں ان کی شاعری نے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ رائے نہ پہلی صحیح ہے نہ دوسری۔ اردو شاعروں میں دو ہی ایسے خوش قسمت گزرے ہیں ۔ غالبؔ اور اقبالؔ جن کی طرف ناقدین نے توجہ کی تو اس طرح کہ کثرت تعبیر سے ان کے خواب ہی پریشان ہو گئے۔ محققین کو میدان ہاتھ لگا تو انھوں نے سنین پیدائش و وفات سے لے کر اسی طرح کے غیر اہم اور غیر ضروری مواد کی تفتیش میں دفتر کے دفترسیاہ کر دیے۔ یوں ان دفتروں کی خاک اُڑائیے تو نہ غالبؔ ملیں گے نہ اقبالؔ۔ دونوں اس گردِ کارواں میں گم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ میرؔ کا شہرہ بھی بہت رہا اور ان کا اثر بھی زبردست ہے۔ لیکن چیدہ چیدہ مضامین کے علاوہ ان پر جو کتابیں لکھی گئیں ، تسلّی بخش نہیں —— تنقید و تحقیق کی اس دوڑ دھوپ میں دردؔ کی طرف بھی اسی طرح نظر نہیں گئی۔ جس طرح اور شعرا ’’تماشائے اہلِ کرم‘‘ دیکھتے رہ گئے۔

دردؔ نے مسائل تصوف کو اپنی شاعری میں بھی پیش کیا ہے اور اپنے نظریات میں بھی ان کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر دردؔ کے نظریات تصوّف کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کی شاعری سے ان نظریات کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے اور اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو ان کے اشعار ہی کے ذریعے ان نظریات کو ترتیب بھی دیا جاسکتا ہے۔ دردؔ نے اپنی شاعری میں تصوف کا کوئی مکمل نظام پیش نہیں کیا۔ اس لیے ان کی شاعری کو محض ان کے نظریاتِ تصوف کی ہی توجیہ و تعبیر سمجھنا غلطی ہوگی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے اشعار میں تصوف کے بعض اہم مسائل جس شرح و بسط سے سامنے آتے ہیں اس کی مثال نہ میرؔ کے ہاں ملے گی، نہ آتشؔ کے یہاں اور نہ غالبؔ کی شاعری میں ۔ میرؔ و غالبؔ و آتشؔ نے تصوف کے وہ مسائل شعر میں بیان کیے ہیں ، جو عام طور پر رائج اور مقبول تھے۔ دردؔ نے بعض مخصوص و منفرد خیالات کو بھی شعر کا جامہ پہنایا۔ کہیں وہ شاعری کی شرائط کو بڑی خوبی سے پورا کرسکے اور کہیں اس قسم کے اشعار محض کلام موزوں بن کر رہ گئے، لیکن ان کے اس کارنامے کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ، کہ وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایک نظریۂ حیات و مذہب کو شعوری طور پر شاعری میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ انھیں اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اس کا بڑا سبب غزل کی ریزہ خیالی اور انتشار پسندی ہے۔ جہاں انھوں نے رباعی کا سہارا لیا، وہاں وہ نسبتاً زیادہ کامیاب ہوئے۔ مثال کے طور پر ان کے رسائل اربعہ یعنی نالۂ دردؔ، آہِ سرد ، دردِ دل اور شمعِ محفل ان کی ابیات و رباعیات پر ہی مشتمل ہیں اور ہر ہر مصرع کی تشریح انھوں نے تصوف ہی کے نظریات کی مدد سے کی ہے۔

تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور صاحبانِ دل میں اس کی اثر آفرینی نے شعرا کو تصوف کے مضامین کی طرف متوجہ کیا۔ اردو شاعری میں جہاں بہت سی روایات فارسی سے آئیں ، وہیں تصوف بھی روایت ہی بن کر اردو شاعری سے روشناس ہوا۔ لیکن صاحبانِ حال شعرا نے اس وارداتِ دل کی زندہ تصویر بنا دیا۔ تصوف کی وہ شاعری جس کا آغاز فارسی میں ابوسعید ابی الخیر سے ہوا تھا، اوحدیؔ، عراقیؔ، سنائیؔ ، عطارؔ، رومیؔ، سعدیؔ، حافظؔ اور جامیؔ کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ توحید و معرفت کا وہ کون سا راز تھا جو ان شعرائے کرام نے پردۂ شعر میں فاش نہیں کیا۔ بعض نے براہِ راست صوفیانہ مضامین کو باندھا اور بعض نے تشبیہہ و استعارہ کا پیرایہ اختیار کیا ہے:

ہرچند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

حافظؔ کی متصوفانہ شاعری پوری کی پوری حدیث بادہ ٔ و ساغر ہی ہے۔ تصوف کی وجہ سے شرابِ معرفت کی علامت کے لیے خمریاتی شاعری کا رواج ہوا۔ صوفیا کے تصور عشق کی پاکیزگی اور بلندی نے شعرا کو عشق کے وسیع اور ہمہ گیر معنوں سے آگاہ کیا۔ عشق کی راہ میں ظلم اٹھانا، صعوبتیں سہنا، قتل ہونا، رسوائی و خواری مول لینا، بے وفائی محبوب کے باوجود اس کی نظرِ لطف کے لیے کوشاں رہنا، یہ علامتیں عشقِ حقیقی کے تصور سے بھی وابستہ ہیں ۔ کیونکہ صوفیا میں عشقِ خداوندی کے ساتھ یہ تصور بھی وابستہ رہا کہ خدا جسے محبوب رکھتا ہے اُسے اپنی راہ میں مبتلائے آلام کرتا ہے، قتل کرتا ہے، جان و مال و اسباب و اولاد سے آزماتا ہے۔ شاعری میں عشق مجازی و حقیقی اس طرح ایک دوسرے میں مل گئے ہیں کہ اکثر اوقات یہ بتانا بھی دشوار کیا ناممکن ہو جاتا ہے کہ شاعر کا محبوب اسی آب و گِل سے بنا ہوا گوشت پوست کا انسان ہے، یا وراء الوریٰ محبوب حقیقی جو جسم اور متعلقات جسم کی قید سے آزاد ذاتِ مطلق ہے۔ جو اس سرا پردۂ محبت میں حسن افروز ہے۔ اردو نے فارسی کی ان متصوفانہ روایات سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ ولیؔ سے پہلے دکنی شاعری میں ہمیں تصوف کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں ۔ ولی تو شاہ گلشن کے حلقۂ ارادت ہی میں شامل تھے۔ ان کا دامن سخن گل ہائے معرفت سے کیوں کر تہی رہتا۔ شمالی ہند کے اولین شعرا میں مرزا جان جاناں اور میرؔ تک تصوف کے مضامین کا رواج رہا۔ مرزا مظہر مجددی سلسلے کے امام اور تصوف میں مشہور نظریۂ توحید کے قائل تھے لیکن ان کی شاعری سے ان کے عارفانہ تصورات کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی۔ فارسی شاعروں کی طرح اردو میں بھی تصوف کا غالب رجحان وحدت الوجود ہی سے عبارت ہے۔ حتی کہ دردؔ بھی جو مسلک محمدیؐ کے شارح اور مبلغ ہیں ، اس اثر سے آزاد نہیں نظر آتے۔

دردؔ کے عہد ہی کا قول ہے ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘——اس زمانہ میں تصوف کے مضامین روایتی شاعری کا لازمی حصّہ بن چکے تھے۔ مگر دردؔ کی شاعری میں تصوف کے جو بھی نظریات ہیں ، انھیں روایتی نہیں کہاجاسکتا ۔ وہ عام جادے سے بھی ہٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے تصوف کے حالات و واردات کو جامۂ شعر پہنانے میں ہر جگہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ وہ کبھی اپنی زبان کو مجذوبوں اور مغلوب الحال صوفیا کی طرح آلودۂ کلماتِ بے ادبانہ نہیں ہونے دیتے۔ یہ ضبط و احتیاط اس لیے ہے کہ دردؔ نے تصوف کو صرف شاعری کے چٹخارے کے لیے اختیار نہیں کیا تھا،بلکہ وہ سالکانِ راہِ حق کے قافلہ سالار بھی تھے۔

ہوں قافلہ سالارِ طریقِ قدما دردؔ

جوں نقشِ قدم خلق کو میں راہ نما ہوں

شعر ان کے نزدیک ایک وسیلۂ عزت و شہرت اور ذریعہ معاش نہ تھا۔ انھوں نے ہجو گوئی کی نہ قصیدہ خوانی۔

’’شاعری چنداں کمالے نیست کہ مرد آدمی آں را پیشۂ خود سازد و برآں بہ نازد۔ دیگر این کہ ہنری از ہنر ہائے انسانی ست بشرطیکہ مشروط ستانی و جا بجا دویدن نہ باشد۔ و مدح و ہجو گفتن برائے دنیا اتفاق نہ شود   ؎

ہیچ در دِل ہوس نمی باشد

غیر تو ہیچ کس نمی باشد

(نالۂ دردؔ ص 6-10)

ان کے نزدیک شاعری کا ایک مقصد تھا۔

’’سخن ہائے شیرینی کہ نامی نویسم خوانِ نعمت است کہ برائے اہلِ ذوق می چینم و نالہائے حزینی کہ از صریر قلم بر می آریم، نغمہ ہائے دلکش است کہ بہر اصحابِ شوق می سرایم۔ ایں ہمہ برائے رہنمای گمرہان است و باعثِ رسائی دیگراں ۔‘‘                                                       (نالۂ دردؔ ص 46)

بشنو بشنو سخن ز دردی دارم

روشن ایں انجمن ز دردی دارم

تقریرِ زبانِ شمع پیشش خنک است

آہی سردی کہ من زدردی دارم

دردؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ بعض موزوں طبع بظاہر مسلک شاعرانہ اختیار کر کے مضامین عارفانہ باندھتے ہیں ۔ مگر وہ صاحب حال نہیں ۔ ان کے پاس صرف قال ہی قال ہے۔ (آہ سرد۔ آہ) اس کے برخلاف دردؔ کا اپنی شاعری کے متعلق دعویٰ ہے کہ

’’تمام نظم و نثر من جانب اللہ است کہ بطریق وارد گرویدہ و ہر مصرع و ہر فقرۂ آں برایں امر گواہ است بعجب تحریر رسیدہ۔‘‘   (شمع محفل، ص 227)

ان تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دردؔ کے نزدیک شاعری نہ کاسۂ گدائی تھی، نہ اشتہارِ دکانداری۔ ان کے نزدیک شاعری واردات قلبی کا بے محابا اظہار ہے جسے وہ صفائی و بے باکی سے قلم بند کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے یہاں متصوفانہ مضامین کے ساتھ حسرتؔ کی اصطلاح میں ’’فاسقانہ مضامین‘‘ بھی مل جاتے ہیں — ریا کاری ان کے مشرب میں گناہ تھی، اسی لیے وہ خانقاہ پرست صوفیا اور زہّاد و عبّاد کی غیر فطری ریاضتوں کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتے —— یہی نہیں بلکہ وہ دونوں سے اپنی بیزاری کا بھی اعلان کرتے ہیں ۔

’’من صوفی نیستم تا بابِ تصوف کشایم و ملاّ نیم تا بحث و جدل نمایم ……‘‘

صوفی بہ تصوف شدہ صرف مطلق

مُلاّبہ ذکر نحو سیہ کردہ ورق

بادل شدگان بہ مکتبِ عشق اے دردؔ

از نالۂ عندلیب خواندیم سبق

(نالۂ دردؔ ، ص 56)

دردؔ نے تصوف میں بھی وجودیّہ اور شہودیہ مسالک کی لفظی نزاع سے اپنا دامن بچایا اور ملاّئیت کی جنگ جویانہ روش کو بھی ٹھکرایا ، محبت ان کا مقصود تھی اور ایک صوفی ہونے کی حیثیت سے یہ محبتِ حق تھی۔ مگر ان کی زندگی کے رویّے اور شاعری سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محبتِ خلق کو محبت حق سے جدا نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ انھیں خود اقرار ہے کبھی محبتِ اہل و عیال میں گرفتار ہوں اور انھیں ترک نہیں کرسکتا۔ دردؔ نے تجردّ و ریاضت کی بے مقصد زندگی پر متاہّل زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کو فوقیت دی اور یہی محبتِ اقربا وسیع و ہمہ گیر ہو کر انسانیت کا درد، اور عامۃ الناس کی محبت بن گئی۔

یا رب درست، گو نہ رہوں عہد پر ترے

بندے سے پر نہ ہو کوئی بندہ شکستہ دل

نقشبندی سلسلے کی چند اصطلاحات ایسی ہیں جن کا اثرو نفوذ ہم کو دردؔ کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتا ہے ’’دست بہ کار و دل بہ یار‘‘ ’’خلوت در انجمن‘‘ ’’سفر در وطن ‘‘ —— ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ دنیا میں رہ کر دنیا کی جدوجہد اور حصولِ معاش کی ایماندارانہ جدوجہد میں شریک رہتے ہوئے بھی دنیا کا ترک ——اسی لیے ترکِ دنیا نہ کرنے کے باوجود انھوں نے فکر و توکل پر بہت زور دیا ہے اور اس کے لیے جو دعویٰ پیش کیا ہے وہ شاعرانہ تعلّی کا عمدہ نمونہ بھی ہے، اور ان کے نظریۂ زندگی کا پرتو بھی   ؎

آساں مداں بفقر چنیں ما نشستہ ایم

از سرگذشتہ ایم کہ از پا نشستہ ایم

دوسری طرف ہم کو ایسے صوفیا کی کثرت نظر آتی ہے جو بہ ظاہر ترک دنیا کا غازہ اپنے چہرہ پر مل لیتے ہیں ، مگر بہ باطن دنیاداری کے تمام ہتھکنڈے جانتے اور استعمال کرتے ہیں ۔ قرونِ وسطیٰ میں تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت نے اسے بھی ایک ذریعہ معاش اور پیشہ بنا دیا تھا۔ سعدیؔ و حافظؔ کے زمانے میں بھی ان دنیا دار صوفیوں کی دُکانیں کھلی ہوئی تھیں اور دردؔ کے زمانے میں بھی اس کاروبار کی گرم بازاری تھی۔ اس لیے دردؔ نے اپنے کو صوفی کہلوانا پسند نہ کیا اور جہاں ملاّ اور زاہد ان کے طنز کا ہدف بنے، وہیں انھوں نے دنیا دار صوفیوں کو بھی نہیں بخشا —— زاہد اور ملاّ کے خلاف طنز و مزاح کے تیر پھینکنا تو مشرقی شاعری کی ایک روایت تھی اور یہ روایت اس لیے پروان چڑھتی رہی کہ شعرا کو رند مشرب اور صلح کل صوفیا کے یہاں ملاّئیت کی سخت گیری کا تریاق نظر آیا۔ انھوں نے تصوف کی انسان دوستی اور آزادہ روی کو قبول کر لیا۔ اور اس کی آڑ میں کٹّر مذہبیت اور زہدِ ریائی کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ میرؔ کے یہاں تو شیخ اور ملاّ کا ذکر اپنی تمام تر تلخی کے ساتھ ملتا ہے وہ مذاق ہی نہیں اڑاتے گالی دیتے ہیں ۔ سوداؔ کے طنز میں خود وہ دھار تھی جو گالی سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔ دردؔ کے یہاں موضوع سنجیدگی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ مگر انداز رندانہ ہے ؎

شیخ نتواند پیشم دم زند از زہدِ خشک

آں قدر تر می کند آلودہ دامانی مرا

 

ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدانِ شہر

اے دردؔ آکے بیعتِ دستِ سبو کریں

 

زاہد کیا کرے ہے وضو گو کہ روز و شب

چاہے کہ دل سے دھوئے کدورت سو دھو چکا

 

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو!

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

 

گو کھینچ کھینچ چلّے جان اپنی شیخ کھو دے

کوئی زندہ دل کرے ہے اس مردہ شو سے بیعت

 

نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے

گنہ گاروں میں سمجھا کر تو اپنی بے گناہی کو

شاعری کے علاوہ نثر میں بھی انھوں نے اس مسئلہ پر رائے دی ہے، جو زیادہ تلخ و تند ہے۔

’’پارسائی شیخ پیش عرفائے با صفا روئے نادارد و زہد خشکی مزورنزدِ بندگانِ خدا آبے بروئے کار نیارد۔‘‘                         (نالۂ دردؔ، ص 54)

ایک اور جگہ وہ شیخ کی تواضع کثیر کو دغا پیشگی و نفاق اندیشگی سے تعبیر کرتے ہوئے تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ کوئی اخلاق اور ادائے حق نہیں کہ مراتب کو نظر میں نہ رکھا جائے — اسے وہ ’’دام دردی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، جس کا کوئی حاصل نہیں ۔ دوسری جگہ انھوں نے درویشی و زہد کا فرق اسی طرح واضح کیا ہے کہ درویشی رضائے مولا کے مطابق خلائق کی راحت رسانی ہے اور زہد دماغ میں خشکی و یبوست پیدا کرتا ہے اور غرورِ عبادت رعونت کا روپ دھارتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’زاہدانِ خشک مغز‘‘ جنت کی نعمتوں کی ہوس میں گرفتار ہیں ۔اور ’’عارفانِ تر مغز‘‘ وہ عشاق ہیں جنھیں سوائے طلب دیدار یار کے اور کسی کام سے سروکار نہیں ۔

در ملت عشق خوب و زشت دگر است

ہم کعبہ دیگر و کُنشت دگر است

زاہد تو و گل چینی گلزار بہشت!

خندیدنِ یارِ ما بہشتِ دگر است

دردؔ نے زہد و عبادت و ریاضت کی بجائے گداز قلب و شدّ تِ عشق پر زیادہ زور دیا ہے۔ صوفیا میں ابتدا سے دو مکاتیب خیال رہے ہیں ۔ ایک وہ جو خوف خداوندی پر زیادہ زور دیتا رہا۔ حسن بصری اس کے سرگروہ ہیں ۔ دوسرا گروہ رابعہ بصری کے تصورِ عشق خداوندی سے متاثر ہے ان کا گریہ و زاری، تڑپ اور کاوش دیدار محبوب کی حسرت کا اظہار تھی۔ صوفی مشرب شعرا نے بھی اسی تصورِ عشق کو اپنایا۔ دردؔ نے اپنی تصنیف ’’علم الکتاب‘‘ میں نسبت عشقیہ پر ایک پورا وِرد لکھا ہے اور اس کے علاوہ بھی جا بجا عشق کی نسبت پر بہت زور دیا ہے، عشق ہی معرفت کا دروازہ ہے، ان کا رجحان ’’خلاف عقلیت‘‘ جسے ہم جدید اصطلاحات کی زبان میں Intuitionism اور Anti-intellectualism کہہ سکتے ہیں ۔ کیونکہ عقل پر باب معرفت و قرب بند ہے۔ اس مقام پر جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں ، وجدان جسے تصوف کی زبان میں کشف کہہ لیجیے اور عشق ہی راہ نمائی کر کے مقصود تک پہنچاتا ہے۔ اس موضوع پر دردؔ کے نظریات نقل کرنے کی بجائے میں ان کے اشعار سے ہی اس رجحان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں   ؎

اے بند بعقل نیستی آگہہِ عشق

برتر بود از عقل بسے در گہہِ عشق

 

گفتم بہ تو انچہ گفتم بود اکنوں

خواہی رہِ عقل گیر و خواہی رہِ عشق

عشق و عقل کا تقابل ’’علم الکتاب‘‘ کے ورد (۱۰۵) میں تفصیل سے کیا گیا ہے، ورد(۱۱۰) میں اسرارِ مودت و فوایدِ محبت کے ذیل میں انھوں نے اسی عشق کی توضیح کی ہے۔ایک مسلسل نظم کے کچھ شعر سنئے ۔   ؎

محبت جوش زد از ہر کنارہ

نمودہ سینۂ دل پارہ پارہ

 

محبت جاں خراشِ اہل درد است

محبت خانہ سوزِ فرد فرد است

 

محبت کرد چوں دریا تلاطم

محبت کرد عقل و ہوش را گم

 

محبت سنگ را آئینہ سازد

محبت سینہ را بے کینہ سازد

 

محبت مخزنِ رازِ الٰہی ست

محبت نغمۂ سازِ الٰہی ست

 

محبت چشمِ دل را نور باشد

محبت نورِ کوہِ طور باشد

 

محبت خانہ را آباد سازد

محبت بندہ را آزاد سازد

 

محبت بندہ گرداند شہاں را

محبت خاک سازد درگہاں را

 

محبت ناصرِ اربابِ عشق است

محبت یاورِ اصحابِ عشق است

 

محبت گلشنِ دل را بہاراست

محبت چوں درختِ بارداراست

 

محبت باعثِ عیش و نشاط است

محبت سنگ و روئے ایں بساط است

 

محبت آتش از جاں برفروزد!

محبت ہرچہ جز معشوق سوزد!

 

محبت بہر آمرزش بہانہ!

محبت رخشِ دل را تازیانہ!

 

محبت باعث قربِ الٰہی!

محبت کاشفِ سر کماہی

 

محبت حاصلِ پیدائشِ ما

محبت زینتِ آرائشِ ما

ان اشعار سے دردؔ کے نظریۂ عشق کی پوری توضیح ہوتی ہے۔ دردؔ کا یہ نظریہ خود اس دور کی آواز باز گشت بھی ہے جس نے میرؔ سے بھی اسی طرح کے اشعار کہلوائے ؎

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور

نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

ایک طرح سے یہ موضوع پوری صوفیانہ شاعری میں مقبول و مروج رہا ہے —— جب ہم اقبالؔ کے یہاں اسی انداز اور اسی سطح پر عقل و عشق کا موازنہ دیکھتے ہیں تو ہم اسے بلا چوں و چرا کے فلسفۂ عشق سے تعبیر کرتے ہیں ، پھر کیا سبب ہے کہ دردؔ کے یہاں بھی ایک مستقل نظریۂ عشق کی موجودگی سے انکار کیا جائے ۔ اقبال نے بھی اپنا یہ تصور بڑی حدتک صوفیا ہی سے مستعار لیا ہے، جس پر صیقل برگساں کی وجدانیت اور خلافِ عقلیت تصورات نے کی، دردؔ کا تصورِ عشق خالص متصوفانہ ہے اور اگر انھوں نے کسی کی خوشہ چینی کی ہے تو صرف صوفیا کی مگر اس شرح و بسط کے ساتھ اس تصور کو شاعری میں پیش کرنا خود کم اہم کام نہیں ——

دردؔ کے فارسی اور اردو دواوین اس تصور کی تعبیر کرنے والے اشعار سے بھرے ہوئے ہیں ۔ جن میں عشق کی مختلف کیفیتوں کا اظہار ملتا ہے   ؎

کسی سے کیا بیاں کیجے اس اپنے حال ابتر کا

دل اس کے ہاتھ دے بیٹھے جسے جانا نہ پہچانا

 

کیا فرق داغ و گل میں اگر گل میں بو نہ ہو

کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو

 

مرا جی ہے جب تک تیری جستجو ہے

زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

 

تمنا ہے تیری اگر ہے تمنّا!!

تیری آرزو ہے اگر آرزو ہے

 

ہم جانتے نہیں ہیں اے دردؔ کیا ہے قبلہ

جیدھر ملے وہ ابرو، اُودھر نماز کرنا

 

شیخ کعبے ہو کے پہنچا ہم کنشتِ دل سے ہو

دردؔ منزل ایک تھی ٹک راہ ہی کا پھیر تھا

 

تو چاہے نہ چاہے مجھے کچھ کام نہیں ہے

آزاد ہوں اس سے بھی گرفتار ہوں تیرا

 

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری

جی میں یہ کس کا تصور آگیا!

————

عشقے کہ نصیبِ ما شد از روزِ الست

در سینہ بغیر نقش تسلیم نہ بست

 

یعنی شدہ دردؔ عینِ درماں مارا

دل آبلہ بود بہ پہلو بشکست!

————

نے مسجد و نہ مدرسہ بنیاد می کنم!

نے طرح دیر و بتکدہ ایجاد می کنم

 

از کفر و دیں جدا غرض ارشاد می کنم

تعمیر انچہ بر سرم افتاد می کنم

دل نام خانہ ایست کہ آباد می کنم

————

بہ تیغِ عشق توسل گرفتن آسان نیست

کہ می کنند جدا بند را ز بند آں جا

یہ اور اس قبیل کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں جن میں ہم عشق کی وہ سطح نہیں پاتے جو خالص عشقیہ شاعری میں ملتی ہے۔ بلکہ یہ عشق ایک ہمہ گیر، تخلیقی اور آفاقی قول ہے جو ایک طرف دردؔ پر معرفت کے اسرار منکشف کرتی ہے اور دوسری طرف انھیں انسان کی عظمت کا راز داں بناتی ہے اور صوفیا کے تصورِ عشق میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ انسان کے شرف و فضیلت کا سبب یہی ہے کہ اس میں وہ بار امانت اٹھانے کی سکت ہے جسے جمادات نباتات، جن و ملائک نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی عقیدے نے انسان کو خلیفۃ الارض اور جامع صفاتِ حق قرار دے کر اس کی عظمت کے گیت گائے   ؎

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروّبیاں

تصورِ عشق سے وابستہ ان دونوں پہلوؤں پر دردؔ کی شاعری میں روشنی پڑتی ہے، ایک طرف یہی تصور قرب و معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے اور دوسری طرف حضرتِ انسان کی معرفت و قرب کا راستہ دکھاتا ہے۔

دردؔ وحدت الوجودی نہ ہونے کے باوجود شیخ مجدّد کی طرح اس بات کے قائل ہیں ، کہ راہِ سلوک میں ایک مقام جسے مقامِ فنا یا جمع الجمع کہا جاتا ہے، ایسا آتا ہے جب خلق اور حق کی عینیت ثابت ہوتی ہے۔ اگرچہ نظریاتی طور پر دردؔ وحدت الشہود کے نظریے کو قبول کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ آخری منزل نہیں جسے ابن عربی نے معرفت کی آخری منزل سمجھ لیا تھا۔ اس کے بعد ہی سالک پر حق و خلق کی غیریت کا راز بھی منکشف ہوتا ہے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ ہر سالک کو وحدت الوجود کے کشف کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے اور خود دردؔ کی شاعری میں وہ اشعار جو وحدت الوجود کی تعبیر و تفسیر ہیں بکثرت ملتے ہیں ۔ میں چند ایسے اشعار پیش کرتا ہوں جن میں تصوف کی اصطلاحات بھی ملتی ہیں   ؎

ماہیتوں کو روشن کرتا ہے نور تیرا

اعیان ہیں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا

 

یاں افتقار کا تو امکاں سبب ہوا ہے

ہم ہوں نہ ہوں ، ولے ہے ہونا ضرور تیرا

 

ہے جلوہ گاہ تیرا، کیا غیب ،کیا شہادت

یاں بھی شہود تیرا، واں بھی حضور تیرا

 

اے دردؔ منبسط ہے ہر سو کمال اس کا

نقصان گر تو دیکھے تو ہے قصور تیرا

 

موجود پوچھتا نہیں کوئی کسی کے تئیں !

توحید بھی تو ہوتی نہیں ہے عیاں ہنوز

 

وہ مرتبہ ہی اور ہے فہمید کے پَرے

ہم جس کو پوجتے ہیں ، وہ اللہ ہی نہیں

نہیں ممکن کہ ہم سے عظمتِ امکان زائل ہو

چھڑاوے آہ کوئی کیونکہ زنگی سے سیاہی کو

————

اے بے خبر از آب و گِل تخم و ثمر

واقف نۂ از رازِ دل تخم و ثمر

 

آگاہ شوی ز سرِّ مبدا و معاد

گر تہیہ کنی تو حاصل تخم و ثمر

————

اے دردؔ دریں کارگہہِ کون و مکاں

از ہستی بے نشاں تو ایں یافت نشاں

 

اعنی واجب چو دید سوئے ممکن

امکانِ وجوب شد وجوبِ امکاں

ایک مختصر مضمون میں زیادہ اشعار نقل کرنے کی گنجائش نہیں ، میں نے صرف ایسے اشعار پیش کیے ہیں ، جو تصوف کے نظریاتِ وجود کو ان کی اصطلاحی زبان میں پیش کرتے ہیں اور یہی وہ اشعار ہیں جو دردؔ کو اردو کے دوسرے ایسے شاعروں سے ممتاز و منفرد قرار دیتے ہیں ۔ جن کے یہاں تصوف کے مضامین کثرت سے باندھے گئے ہیں ۔ دردؔ تصوف کے مضامین کو محض ایک مقبول عام روایت سمجھ کر نہیں باندھتے بلکہ ان کی متصوفانہ شاعری ان کے سلوک و معرفت کی ریاضتوں کا پرتو لیے ہوئے ہے۔ ان اشعار کی شاعرانہ حیثیت سے بحث کرنا مقصود نہیں ، مقصود تو یہ ہے کہ دردؔ کی شاعری میں تصوف کے ایک مستقل و منضبط نظریے کی نشان دہی کی جائے۔

دردؔ کے نظریۂ وجود کی شعری تفسیروں سے قطع نظر کرتے ہوئے اب ان کے تصور عشق و معرفت کے دوسرے پہلو کو دیکھیے۔ جہاں وہ معرفتِ نفس یا معرفت انسان کو معرفتِ رب کے مترادف قرار دیتے ہیں ۔ صوفیا کے اس تصور کی بنیاد اس مشہور قول پر ہے ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ اس معرفت کا ذریعہ عقل نہیں عشق ہے اور عشق کا نام دل ہے۔

آئینے کی طرح غافل کھول چھاتی کے کواڑ

دیکھ تو ہے کون بارے تیرے کاشانے کے بیچ

 

احوالِ دو عالم ہے مرے دل پہ ہویدا

سمجھا نہیں تا حال پر اپنے تئیں کیا ہوں

 

مرے دل کو جو تو ہر دم بھلا اتنا ٹٹولے ہے

تصور کے سوا تیرے بتا تو اس میں کیا نکلا

 

نظر جب دل پہ کی دیکھا تو مسجودِ خلائق ہے

کوئی کعبہ سمجھتا ہے، کوئی سمجھے ہے بت خانہ

دردؔ صوفیا کے اس مکتبِ خیال سے تعلق رکھتے ہیں جو تصوف کا ماحصل، دل کی پاکیزگی اور اخلاق کی تکمیل ہی کو سمجھتا ہے۔ آئینہ دل کو مصفّا و مجلا کرنے کے لیے معرفت حق کے ساتھ اپنی معرفت بھی ضروری ہے ؎

اے از پے نورِ جاں شہودت باعث

وز بہرِ ظہورِ تن نمودت باعث

 

ہر چیز برائے خویش باعث دارد

شد بہرِ وجود ما وجودت باعث

’’جان روشن از حضورِ اوست و تن منور از وجود او۔‘‘             (نالۂ درد، ص 16)

اب ’’ مرتبۂ جامع حضرت انسان‘‘ کی تشریح بھی دردؔ کی زبان سے سن لیجیے۔

’’الٰہی ہر صفتِ کمالی کہ در تو شنیدہ شد در انسان دیدہ شد۔ بیشک برائے وجہہ اللہ ہمیں آئینہ درکار بود و بلا ریب بہر خلافت اللہ ہمیں خلیفہ سزاوار حیات و علم و سمع و بصر و کلام و قدرت و ارادہ بوسعِ امکان حوالہ ہمیں امانتدار گشتہ و جامعیّت جملہ مراتبِ کونیہ و الٰہیہ و تنزیہہ و تشبیہ و مجردہ و مادیّہ سپرد ہمیں مظہرِ انوار گردیدہ — سبحان اللہ مخلوق بہ وجود آوردہ باہمگی خود بہ وجود آوردہ۔‘‘ ؎

مرا در عرصہ آوردی کہ خود را جلوہ گر کردی

فگندی چشم بر آئینہ یا بر خود نظر کردی

(نالۂ درد، ص 31)

اسی تصور کی شرح کرنے والے کچھ اشعار یہ ہیں   ؎

جلوہ تو ہر اک طرح کا ہر شان میں دیکھا

جو کچھ کہ صفا تجھ میں سو انسان میں دیکھا

 

انساں کی ذات سے ہیں خدائی کے کھیل یاں

بازی کہاں بساط پہ گر شاہ ہی نہیں

 

باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں

گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں

 

دریائے معرفت کے دیکھا تو ہم ہیں ساحل

گر وار ہیں تو ہم ہیں ور پار ہیں تو ہم ہیں

 

الفاظِ خلق ہم بن سب مہملات سے تھے

معنی کی طرح ربطِ گفتار ہیں تو ہم ہیں

واجب الوجود سے ممکن الوجود اشیاء کے سرتاج کا جو رشتہ ہے، وہی انسان کی عظمت کے تصور کی کلید بھی ہے   ؎

ہر جلوہ کہ او دارد دل نقش بہ بست استش

از صورتِ ما یعنی آئینہ بدست استش

انساں کہ چراغ خانۂ امکان است!!!

ہر قدر بیانِ خویشتن انسان است

 

اے دردؔ ما برائے خدا جلوہ گر شدیم

دیگر ہر انچہ ہست ہمہ از برائے ماست

مگر خود انسان کو اپنے اس مرتبے کا عرفان نہیں   ؎

طریقِ ذکر تو ہے دردؔ یاد عالم کو

طرح بنائیے کچھ اپنے تئیں بھلانے کی

اپنے تئیں بھلانے کی طرح‘‘ ہی صفائے قلب و تکمیل اخلاق کا راز ہے۔ دردؔ نے مراتبِ اقربیت کا یقین اسی لحاظ سے کیا ہے۔ (۱) بالنقل یا بالیقین، مومنین علماء و معتقدین باصفا کے لیے (۲) بالعقل یا بالتالیف عقلا و حکما کے لیے (۳) بالملکہ یا بہ مواظبت سالکان فی سبیل اللہ کے لیے (۴) بالمکاشفہ یا بہ معاملہ —— انبیاء و اولیا کے لیے۔                             (نالۂ درد، ص 11)

یہ تمام مراتبِ معرفت انسان ہی سے مخصوص ہیں اور یہ حاصل ہوتے ہیں صفائے قلب اور نسبت عشق کی قوت کی مناسبت سے اور ان منزلوں سے گزرتے ہوئے بے اعتباریِ دنیا سامنے آتی ہے۔ دردؔ نے عام صوفیا کی طرح دنیا کی بے اعتباری اور بے ثباتی کو محض ایک روایتی مضمون کی طرح نہیں باندھا ہے۔ دردؔ کے زمانے کی دہلی ہندوستان کا دل تھی اور اس دل کی حالت خود دگرگوں تھی۔ اس دور میں دہلی نے ہندوستان میں آنے والے ہر روز ہ انقلابوں کو محسوس بھی کیا اور ان سے گزری بھی۔ دردؔ جو توکل و فقر کے سجّادے پر ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے تھے۔ روز سر پر آنے والی نئی آفتوں کو دیکھ رہے تھے۔ ہر روز خوف و ہراس کے اندھیرے میں طلوع ہوتا اور ہر شام نئی مایوسیوں ، محرومیوں اور تلخیوں کی تاریک یادیں دامن میں چھپائے آتی۔ دلی بار بار لٹی، بار بار برباد ہوئی۔ وہ جو میرؔ نے دلّی کی آبادی کے لیے کہا ہے کہ جیسے یہاں سے لشکر گزرا ہے، یہ بھی اپنے دور کی تباہی کا داخلی اظہار ہے، دلّی سے ایک نہیں کئی لشکر روز ہی اسے پامال کرتے اور تاراج کرتے گزرتے تھے۔ کل جو صاحبِ جاہ و حشم تھے، بادشاہت کی مسند جن کی نگاہِ کرم کی منتظر ہوتی تھی، آج وہ بے خانماں دربدر جان کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں ۔ ایسے ہزاروں افراد کو دردؔ نے دیکھا—یہ واقعات ایسے نہ تھے، کہ کوئی حساس آدمی ان سے اثر قبول نہ کرتا۔ اسی بے اعتباری اور بے ثباتی کا احساس تھا کہ دلّی اپنے سہاگ کے اجڑنے کے دنوں میں ایک بار پھر صوفیا کی خانقاہوں سے آباد ہو گئی تھی۔ جب خارجی دنیا میں تباہی و انتشار ہو تو دل جمعی اپنے اندر کی دنیا میں چھپ جانے کا دوسرا نام کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے تصوف کو اس دورِ انحطاط و زوال میں فرار کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر یہ فرار اپنی تہذیب کی مٹتی ہوئی قدروں کو اپنے اندر مستحکم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔دردؔ کے یہاں یہ دونوں پہلو ملتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ فقر و توکل کے نام پر دنیا ترک کر بیٹھے تھے اور زندگی کی سعی و جہد سے دامن بچا لیا تھا۔ دوسری طرف وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ جو اس سعی و جہد میں شریک ہیں ،ان کا جہاد عمل بھی بے مقصد و بے سمت ہے۔ اس علم نے ان سے دنیا کی بے ثباتی کے نقشے کھنچوائے۔ آپ ان اشعار میں اس دردؔ کی دلّی کو بالخصوص اور ہندوستان کو بالعموم مٹتا اور پامال ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں   ؎

میں اپنا دردِ دل چاہا کہوں جس پاس عالم میں

بیاں کرنے لگا قصہ وہ اپنی ہی خرابی کا

 

جلتا ہے اب پڑا خس و خاشاک میں ملا

وہ گل کہ ایک عمر چمن کا چراغ تھا

 

گزروں ہوں جس خرابے پہ کہتے ہیں واں کے لوگ

ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا یہ باغ تھا

 

اپنے عہد کی اس خصوصیت کو وہ عمومیت کا رنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں   ؎

نے تخمہِ ہواؤ ہوسے کاشتہ ایم

نے خرمن عیش و عشرت انباشتہ ایم

 

زیں مزرعہ اے درد کہ دنیا باشد

غیر از دل خود ہیچ نہ برداشتہ ایم

ان کے فلسفۂ فقر و توکل کا راز یہی ہے کہ انھوں نے اس بے اعتبار دنیا سے صرف دلِ زندہ ایسے معتبر رفیق و رہنما کو چن لیا تھا۔

مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

اور اسی سے ان کی زندگی کا رویہ بنا — زندگی کی طرف ان کا درویشانہ اور قلندرانہ انداز اشعار میں آتشؔ کے لہجے کی بے باکی، گرمی اور بے نیازی کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ دونوں ایک ہی نظریۂ زندگی کو مانتے تھے جو تصوف کی دین تھا   ؎

شاہ و گدا سے اپنے تئیں کام کچھ نہیں

نے تاج کی ہوس نہ ارادہ کلاہ کا

 

آزاد کسی کی بھی اٹھاتے نہیں منّت

دیکھا نہ کسی سرو کو تہہ بار ثمر کا

 

نہیں مذکور شاہاں دردؔ ہرگز اپنی مجلس میں

کبھو کچھ ذکر آیا بھی تو ابراہیم ادھم کا

 

اگر جمعیتِ دل ہے تجھے منظور قانع ہو

کہ ا ہلِ حرص کے کیا کام خاطر خواہ ہوتے ہیں

 

ہمت رفیق ہووے تو فقر سلطنت ہے

آتا ہے ہاتھ یعنی یہ تخت دل کے ہاتھوں

 

زنہار ادھر کھولیو مت چشمِ حقارت

یہ فقر کی دولت ہے کچھ افلاس نہیں ہے

 

کیا کام مجھے خوف و رجا سے کہ مرے پاس

ہے جان سو بے جان ہے دل ہے سو غنی ہے

 

تن پروریِ حلق مبارک ہو انھیں یاں

جوں نقشِ قدم اور ہی آسودہ تنی ہے

 

سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف

جس کے ہاتھ آوے جام وہ جم ہے

 

آں کس کہ دست یافت بہ ملکِ غنائے دل

پائے طلب بہ گوشۂ تسکیں شکستہ است

ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ دردؔ کا توکل زندگی کا منفی یا فراری رجحان نہیں ، بلکہ انھوں نے تصوف کے مثبت اور متحرک تصور کے تحت دنیاداری کی طرف سے بے نیازانہ رویّہ اختیار کیا تھا۔ وہ تصوف جس نے نوائے ملّت کو مضمحل کردیا تھا اس سے بالکل مختلف چیز ہے اور خانقاہوں کی دکانداری سے عبارت ہے یا رہبانیت و مرتاضیت سے — دردؔ نے ایک طرف تو خانقاہی نظام اور دنیا پرست صوفیوں کی مذمت کی ہے، دوسری طرف انھوں نے رہبانیت کے خلاف علی الاعلان اپنے کو مقابل زندگی، محبت اولاد اور زندگی کی ذمہ داریوں سے وابستہ رکھتے ہوئے، وہ راستہ اختیار کیا، جو غیر صحت مند معاشرے میں ان کے نزدیک صحت مند ذہنی اور روحانی زندگی گزارنے کا واحد راستہ تھا۔ اس بے تعلقی میں تعلق کا جواز بھی انھوں نے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔یہ منزل وہ تھی جہاں دعا سے ہاتھ اٹھانا ہی دعا بن جاتا ہے   ؎

غنا از خلق در معنی بخالق التجا باشد

کہ دست از مدعا برداشتن دستِ دعا باشد

 

نہ ہم کچھ آپ طلب، نَے تلاش کرتے ہیں

جو کچھ کہ یاں ہے مقدّر معاش کرتے ہیں

لیکن اس کے باوجود دردؔ تقدیر پرست یا جبریّہ نہیں انسان کی مجبوری اور بے اختیاری بھی تصوف کے اثر سے فارسی اور اردو شاعری کی ایک عام روایت رہی ہے، جس کی ایک آواز میرؔ کے یہاں بھی سنائی دیتی ہے ؎

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

اور یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی کہ جبر کا یہ فلسفہ اس شاعر کے یہاں آج بھی ملتا ہے جسے انقلاب کا نقیب سمجھا جاتا رہا ہے۔ میرا اشارہ جوشؔ کی طرف ہے، جوشؔ نے دنیا کی بے اعتباری و بے ثباتی پر جس طرح سے لکھا ہے وہ ہمیں مرتاضیت و رہبانیت کی یاد دلاتا ہے۔ دوسری طرف ان کی کئی نظمیں تقدیر پرست صوفیا سے بھی زیادہ انسان کی مجبوری کا احساس دلاتی ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بے ثباتی دنیا اور جبر پرستی کی روایت اردو شاعری میں کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔یوں تو تصوف کے مختلف نظریات اور پہلوؤں کاعکس ہم کو جدید دور کے نبض شناس شعرا کے یہاں بھی مل جاتا ہے۔ خود فراقؔ گورکھپوری کے اکثر اشعار میں تصوف کے وحدت الوجودی فلسفہ کی پرچھائیاں نظر آ جاتی ہیں ۔ اب اسے آپ ویدانت کے فلسفۂ وحدت الوجود کا اثر کہیے یا اردو شاعری کی روایت کا تسلسل۔ بات ایک ہی ہے۔ دراصل قرونِ وسطیٰ میں تصوف جن مختلف تحریکوں اور شکلوں سے ہماری زندگی میں جاری و ساری تھا آج تک اس کا اثر باقی ہے اور انقلابی و سائنسی نظریات پر یقین رکھنے والے بھی غیر شعوری اور بالواسطہ طریقے سے اس کا اظہار کر جاتے ہیں ۔ یہ بات تو سمجھ میں آسکتی ہے کہ جدید دور میں تصوف کے مثبت پہلوؤں اور اس کی عام انسان دوستی، اور ہمہ گیر تصور عشق کی روایت نئے روپ میں شاعری و ادب کے سہارے آگے بڑھے، مگر انسان کی مجبوری اور دنیا کی بے ثباتی کا تصور سائنسی عہد کی ترقی یافتہ فکر سے کسی طرح میل نہیں کھاتا اور یہ حقیقت ہے کہ آج متصوفانہ اندازِ فکر و زندگی مغرب کی جدید ادبی تحریکوں میں بھی ملتا ہے۔ اس کی تعبیر و توجیہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارا عہد بھی مادّی ترقی کے باوجود ذہنی انتشار اور بے یقینی کا دور ہے۔ دردؔ کے عہد میں مادّی اور خارجی ماحول کے انتشار کے باوجود ذہنی اور روحانی تنظیم و تہذیب کے لیے کچھ معیّن قدریں تھیں جو اخلاقی اور ذہنی سہارا بن سکتی تھیں ۔ اس لیے اس دور کی متصوفانہ شاعری آج کے اس قبیل کے ادب سے زیادہ جاندار اور بامعنی ہے۔ اس کا ثبوت ایک طرف تو دردؔ کے اس رویّے سے مل سکتا ہے، جس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے ساتھ کیا۔ دوسرے وہ تقدیر پرستی اور جبریت کا بھی شکار نہیں — ان کا مسلک ابنِ عربی کی طرح جبر و قدر کی درمیانی راہ اختیار کرتا ہے، وہ امام جعفر صادق کے اس قول کو مانتے ہیں کہ ’’نہ جبر ہے نہ قدر بلکہ دونوں کے بین بین ہے۔‘‘اس کی تشریح تصوف کی اصطلاحوں میں یوں کی جاتی ہے کہ ہر ممکن کا ایک عین ہوتا ہے، جو علم خداوندی میں ہے، اس عین کو امکانی وجود عطا کرتے ہوئے یہ ہوتا ہے کہ ’’تمھارے عین نے اپنی لسان استعداد سے جو مانگا، وہی اسے دیا گیا۔‘‘اس طرح انسان کی خیر و شر کی صلاحیت اس کے اپنے عین کے ظرف کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ اس حد تک تو مجبور ہے کہ اپنے عین کی فطرت سے متجاوز نہیں ہوسکتا، مگر اس حد تک آزاد ہے کہ نیکی اور بدی میں سے جسے چاہے منتخب کرے۔ دردؔ نے اپنی تصنیف ’’علم الکتاب‘‘ اور ’’رسائل اربعہ‘‘ میں خیرو شرا ور جبر و قدر کے اس نظریے کی وضاحت کی ہے اور اشعار میں بھی اپنے اسی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے   ؎

وابستہ عین سے ہے گر جبر سے گر قدر

مجبور ہیں تو ہم ہیں ، مختار ہیں تو ہم ہیں

 

ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں

جو ہم سے ہوسکے ہے سو تم سے کبھو نہ ہو

دردؔ کے یہاں ایسے اشعار بھی مل جائیں گے، جن سے انسان کا مجبور ہونا ثابت ہوتا ہے، مگر یہ جبر اضافی ہے۔ ہم کسی کے شعر کو اس کے نظریات سے الگ کر کے نہ سمجھ سکتے ہیں ، نہ سمجھا سکتے ہیں ۔ اس لیے ان اشعار کی تفسیر خود دردؔ کی زبان سے اس طرح سننی چاہیے، جیسی کہ انھوں نے اپنی نثر کی کتابوں میں کی ہے   ؎

آنچہ ما نسبت بخود کردیم بود از بے خودی

یعنی از بے اختیاری اختیارے داشتیم

در دستِ خالق است ہم اختیار خلق

تقریر دیگر یست چو خامہ بیانِ ما

سردفترِ قدرت ہمہ جا فرد وجود ست

بر صفحہ امکاں ز خطِ عجز قلم زن

ان اشعار کی خود دردؔ نے شرح کی ہے، اور ان کا مفہوم اپنے نظریے کی روشنی میں متعین کیا ہے۔ اس اضافی جبر کو دیکھتے ہوئے یہ نہ بھولنا چاہیے، کہ دردؔ کا خدا قادر مطلق ہے اور مطلق اختیار صرف اسی کو حاصل ہے، اس لیے اگر انھیں زندگی میں جبر کا پہلو دکھائی دے تو یہ ان کے مسلک کے خلاف نہیں ۔

اسی مسئلے کے ساتھ تصوف اور علم کلام میں خدا کی تنزیہ و تشبیہ کا مسئلہ بھی ہمیشہ معرض بحث میں رہا ہے۔ دردؔ تنزیہ اور تشبیہ، عینیت اور غیریت دونوں کے قائل ہیں   ؎

در مرتبۂ قدس عجب نیرنگ است

تنزیہ و تشبیہ دراں ہم رنگ است

در صحنِ چمن رنگِ دگر دارد گل !!

در آئینہ رنگِ آں بہ دیگر رنگ است

بسکہ باعث جلوۂ تنزیہ و تشبیہ تو شد

زیں سبب خود را سوئے جان و تن آوردہ ایم

نقشبندی صوفیا کی دو اصطلاحیں اپنی شاعرانہ معنویت کے لحاظ سے اہم ہیں ، خلوت در انجمن اور سفر در وطن — دردؔ نے ان دونوں اصطلاحات کو ان کی پوری معنویت کے ساتھ شعر کا جامہ پہنایا ہے، خلوت در انجمن — اس کی تشریح دردؔ نے یوں کی ہے کہ اس کی تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دل اپنے خالق کی طرف رجوع رہے، اور کثرت میں وحدت پیشِ نظر ہو ؎

خلق میں ہیں پھر جدا سب خلق سے رہتے ہیں ہم

تال کی گنتی سے باہر جس طرح روپک میں سم

————

آواز نہیں قید میں زنجیر کی ہرگز

ہرچند کہ عالم میں ہوں ، عالم سے جدا ہوں

————

خلوتِ دل نے کر دیا اپنے حواس میں خلل

حُسن بلائے چشم ہے، نغمہ وبالِ گوش ہے

————

گو خلق پر از شور و شر و غوغا باش

تو از ہمہ کس یک طرف و تنہا باش

————

مائیم و کنج وحدت و آسودگیِ دل!!

اے دردؔ گوشہ گیر بہ دارالامانِ ما

————

در گلشنِ دہر چوں خوشۂ تاک!

خود شیشہ و خود بادۂ و خود انجمنم

————

سفر در وطن — دردؔ نے اکثر مقامات پر اس دوسری اصطلاح کو خلوت در انجمن کے ساتھ ہی لکھا اور دونوں کی ایک دوسرے کے تعلق سے ہی تشریح کی ہے۔ سفر در وطن دراصل روحانی سفر کی علامت ہے۔جس طرح انجمن میں خلوتِ دل نصیب ہوسکتی ہے، اسی طرح بظاہر دنیا کی مادّی آلائشوں میں گھر کر بھی روحانی ترقی کا سفرکیاجاسکتا ہے   ؎

مادام کہ اے دردؔ دریں انجمنم

ہرچند کہ محبوس بہ فانوس تنم

در راہِ فنا دمے ز پا نہ نشینم!

چوں شمع زبس گرمِ سفر در وطنم

بود چوں نور نظر دردؔ را شر بوطن

بخانہ ماند مدام و گہی بہ خانہ نماند

از گردشِ زمانہ نیاسودہ ام کہ ہست

مثل فلک مدام سفر در وطن مرا

آپ سے ہم گذر گئے کب کے

کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا

اے بے خبر تو آپ سے غافل نہ بیٹھ رہ

جوں شعلہ یاں سفر ہے ہمیشہ وطن کے بیچ

اسی اصطلاح کے ساتھ دردؔ نے ایک اور اصطلاح اپنی طرف سے اضافہ کی ہے، وطن   در سفر—

’’سفر در وطن کہ اشارت از مقام و رایٔ انفس و آفاق ست و در مرتبہ سیر من اللہ فی اللہ رو می نماید۔ اصطلاحِ جدید محض بایں فقیر و مسلوک اصحابِ طریقۂ محمدیہ است‘‘                      (در د دل (رسالہ اربعہ دردؔ، ص 149)

مانند وطنِ دل متوطن ہے مسافر کا

معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کدھر کا

اور ان دونوں اصطلاحات کی معنویت کا شعری امتزاج یہ شعر ہے   ؎

وہ ز خود رفتہ ہوں کہ میرے تئیں

نہ خیال سفر نہ یادِ وطن !!!

ان عنوانات کے ذیل میں دردؔ کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک حقیقت واضح ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دردؔ کی شاعری محض روایتی متصوفانہ رنگ لیے ہوئے نہیں ہے، بلکہ تصوف کے مہمات مسائل، اس کے طرزِ زندگی اور رویّے، اس کی فعّال قوت اس کے تصورِ عشق اور ہمہ گیر انسان دوستی سے، دردؔ کی شاعری کا خمیر اٹھا ہے۔ کسی شاعر کا مطالعہ کرنے کے لیے ہم اسے خانوں میں نہیں بانٹ سکتے، نہ اس کے فن کو اس کی زندگی اور اس کے نظریات سے الگ کرسکتے ہیں ۔ دردؔ زندگی میں اول و آخر صوفی تھے۔ مگر ایسے صوفی جو شعر و موسیقی کا تخلیقی ذوق بھی رکھتے تھے۔ بے اعتباری دنیا کے باوجود حسنِ دنیا کے بھی گرویدہ تھے، یہی ان کی عاشقانہ یا ’’فاسقانہ شاعری‘‘ کا بھی سبب ہے۔ انھوں نے تصوف کو ایک نظامِ حیات کی طرح قبول کیا اور اپنی زندگی اور شاعری میں اسے برتا۔ فکری لحاظ سے انھوں نے تصوف کے آخری دور کو ایک نیا طریقہ دیا اور شاعری کو ایک نئی آواز۔ اس لحاظ سے یہ کہنا خلاف حقیقت ہوگا کہ دردؔ کی شاعری کی اہمیت محض ان کی عاشقانہ شاعری کی وجہ سے ہے۔ یہ تو ماناجاسکتا ہے، کہ دردؔ کے جو شعر دل میں گھر کرتے ہیں اور جنھوں نے دردؔ کو دردؔ بنایا وہ ان کی اسی ارضی اور مادی دنیا اور اس کے حسن و جسم سے عشق کی وارداتِ قلبی ہے مگر یہ نہیں مانا جاسکتا، کہ دردؔ نے اس کے علاوہ اردو شاعری کو اور کچھ دیا ہی نہیں ۔ ان کے وہ شعر جو تصوف کے فکری سرمائے کو دامن میں لیے ہوئے ہیں ، اس اردو شاعری اور بطور خاص غزل کے دامن کا بیش بہا سرمایہ ہیں جس کی فکری متاع بہت ہی کم ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید