فہرست مضامین
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
طویل نظم
دانیال طریرؔ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے !‘‘
الرحمن
کمپوزنگ :سید عاصم آغا، وصاف باسط
رابطہ:
مکان نمبر ۲۸۶، ایل۵، بلاک ۴، سٹیلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ
۰۳۴۶۸۳۶۲۱۳۶
صائمہ
جذبیہ
اور
جذلان
کے نام
خدا بھی لفظ تھا لیکن اسے سمجھنے کو
نہ جانے کتنی کتابوں سے استفادہ ہوا
سعید گوہرؔ
ابتدائیہ
میں میرؔ کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھ کر لکھنو تک آیا
تو راز پایا
دہکتے شعلے رگوں کے اندر نہ بہہ رہے ہوں
تو حرف ہرگز ضیا نہ دیں گے
دھواں جو دل سے نہ اُٹھ رہا ہو
تو بانجھ آنکھوں میں اشک بونے کی آرزو تک نہ کرسکوگے
اگر فنا کر کے خود کو ریشم نہیں بنایا
تو زخم کوئی رفو نہ ہو گا
میں وجد کی کیفیت میں آیا
پھر اپنی آنکھیں زمیں پہ دھرتے
رسیلے آموں بھرا ہوا ٹوکرا اُٹھائے
میں بلّی ماراں حضورِ غالب میں جا کے بیٹھا
وہاں پہ ہفتہ بسر کیا اور ’الف‘ کمایا
(الف انا کا)
وہاں سے پلٹا تو راہ میں اک نظیرؔ سے گفتگو ہوئی تھی
وہ ’آدمی نامہ‘ لکھ رہا تھا، سو مجھ سے بولا
’آ ‘الف سے اعلا ہے سیکھ لو تو بھلا رہے گا
میں مسکرایا
مگر مجھے ’م‘ تک پہنچنے کی آرزو تھی
حضورِ اقبال ؔ میں مجھے ’م‘ سے محمد ﷺ کی رمز معلوم ہو گئی
تو میں مطمئن ہو گیا کہ اب بات بن چلی ہے
مگر کہاں
میرا جیؔ نے اپنے پلید ہاتھوں سے کائناتوں کا کوڈ یکسر بدل دیا تھا
وہ اپنے ہونے کی جستجو میں
اک ایسے جنگل تک آ گیا ہے
جہاں کی تاریکیوں میں بس جگمگاتے روزن تھے اور وہ تھی
وہ کون تھی، میں نے اُس سے پوچھا
تو اُس نے میراؔ کا شبد جاپا
تمام جنگل یہی الاپا
مگر وہ راشدؔ
وہ خواب کوزے بنانے والا
جسے جہاں زاد کی طلب تھی
وہ لا مساوی جہاں میں انسان کے لیے آگہی کی قندیل لے کے اُترا
تو لوگ سہمے ، ڈرے کہ یہ شعبدہ گری ہے
سو اُس نے سوچا
فرنگی عورت کوئی پری ہے
پری کی بانہوں میں رات کاٹے
فرار ہے یہ، میں چیخ اُٹھا
تو اُس نے بوسہ طویل کر کے اک اور لمبا سا کش لگایا
مجید امجدؔ نے چلتے کنویں میں ’وقت‘ دیکھا
درخت کاٹے گئے تو اُس نے بھی ضرب چاہی
وہ تپتی دھوپوں میں تین بیلوں کو دیکھ سکتا تھا
پھر بھی اپنے لیے گماں تھا، وہ بے نشاں تھا
مگر مجھے اُس سے ’نو نمبر کی بس ‘کا مفہوم پوچھنا تھا
نہ میں نے پوچھا، نہ اُس نے خود سے کبھی بتایا
میں فیضؔ کی روشنی سے بے فیض کیسے رہتا
سواُس سے کتے کی دم ہلانے پہ بات کی
اور بہت سی نظموں سے حِظ اُٹھایا
منیرؔ اسرار کا جہاں تھا
وہ خود کھنڈر تھا، وہ خود مکاں تھا
وہ خود تھا ہجرت کا استعارا
وہ خود سفر تھا وہ خود ستارا
وہ خوف سے اپنے شہر کو دیکھتے ہوئے گزری اُمتوں تک
پہنچ چکا تھا
وہ دیر کرتا تھا اور مجھے اُس کا دیر کرنا پسند آیا
ردائیں، منبر، لہو لہو آب و ناب سارے
ستم کشیدہ بدن ہمارے ، ہوا بریدہ گلاب سارے
زمیں کا مکتوب لکھنے والے سے میں نے مصرعوں کی لو اُٹھائی
وہ عصرِ حاضر کی تہ بہ تہ تیرگی کی تاریخ لکھ رہا تھا
سو میں نے بھی جھُک کے ضو اُٹھائی
زمانہ بازار بن گیا ہے
سو نظم لکھ کر وجود کے کرب کا ازالہ
زمیں کی مجبور خلقتوں کا کوئی حوالہ
چہار سو روشنی دکھاتا کوئی تخیل بھرا اُجالا
جواز جینے کا نظم کے ماسوا نہیں ہے
مکالمہ زید سے کوئی مسئلہ نہیں ہے
وہاں سے میں ’زید‘ ساتھ لایا
پھر اُس سے آگے
اور اُس سے آگے
کہاں کہاں تک نہ ہوکے آیا
دیے جلائے کہاں کہاں سے تو خوب صورت یہ بزم ٹھہری
کہاں کہاں کا سفر کیا تو سفر کا حاصل یہ نظم ٹھہری
یہ نظم جو میری آرزوؤں کی منتہا ہے
یہ نظم سارے سفر کی رُوداد بن گئی ہے
زمیں نژادوں کے دل کی فریاد بن گئی ہے
یہ نظم جس کے تمام حصے
وجود کے سلسلوں کے قصے
مگر مری داستاں کے قصوں کا بھید
دل زادگاں کی چشمِ رسا پہ یہ سطرِ آخری دیکھ کر کھُلے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب فضا میں قوسِ قزح نے پہلی جھلک دکھائی تھی، سب یہ سمجھے تھے یہ کوئی قاف کی پری ہے جو سات رنگوں کے پیرہن میں دھلے ہوئے آسماں کے نیچے اک آبگینوں کے حوض میں ناف تک اُتر کر زمیں کی مخلوقِ بے خبر کو جمال اورجنس کے علومِ ہزار در کا سبق پڑھانے ، ہوا کو طرزِ جنوں سکھانے ، یہ روشنی اوڑھ کر نہانے ……
مگر زمیں زادگاں نے اس کو نہ اسم جانا نہ جسم سمجھا
اسے کسی دیو کے صلاح کار سامری کا طلسم سمجھا
……
یہ وقت وہ تھا جب اپنا ظاہر اور اپنا باطن کسی پہ بھی منکشف نہیں تھا(تو کیا ابھی منکشف ہے سب پر؟)مگر وہاں تو کسی پہ بھی منکشف نہیں تھا، نہ مرد یہ جانتا تھا، مردانگی ہے کیا؟مرد کیا بلا ہے ؟نہ زن کو اپنے وجود کی معرفت ہوئی تھی……
وہیں کہیں ایک سبز جنگل میں دو برہنہ وجود اک دوسرے کے مد مقابل آ کر بدن کے آگے بدن کا اک آئینہ اُٹھائے کھڑے ہوئے تھے ، بدن بدن کے اس آئینے میں عجیب حیرت سے عکس اپنا شناخت کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے ، وہ خود کو چھُونا بھی چاہتے تھے ……
ہوا خنک تھی، زمیں پہ شعلے گرانے والا خود اپنی اگنی میں جل بُجھا تھا، زمیں کے سب سے بلند پربت کے سائے میں جو کھُلی ندی تھی، وہاں پڑا تھا، سسک رہا تھا اور اپنی آنکھوں سے چاند کے اک سفید سکّے کو گھُور تا تھا……
درخت میٹھی مدھر سی تانیں سُنا رہے تھے ، وہ خود کو چھونے کی آرزو میں سُلگ سُلگ کر بالآخر اک دوسرے میں پیوست ہو چکے تھے ، وہ اک برہنہ وجود ’ میں ‘تھا، وہ اک برہنہ وجود ’تو‘ تھی……
مگر وہ لمحہ ابھی محبت، ہوس کسی قید میں نہیں تھا
نہ مرد وزن کا وصال تھا وہ
یہ نظم کا من گھڑت فسانہ
وہ اس سے بہتر ہزار قصے پلک جھپک وقت میں گھڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲
بانسری کون بجا رہا ہے
جنگل کے درخت رونے لگے ہیں
اور ان کے سائے میں سوئے ہوئے بھیڑیوں کی
نیند میں خلل پڑ رہا ہے
زمیں بین کرنے لگی ہے
جس کی آواز کووں کے ذوقِ سماعت پر
گراں گزر رہی ہے
ہوا سینہ کوبی میں مشغول ہے
اور دھنک کا دوپٹہ تار تار
یہ آگ کس کے سینے میں لگی ہے
جس کی تپش سے دلوں کے کوئلے سُلگنے لگے ہیں
اور بدن کی لکڑی جل اُٹھی ہے
یہ زہر کس کے نفس میں اُتر آیا ہے
جس کی نیلا ہٹ سبز پتوں کی رگوں تک پھیل گئی ہے
اور آنکھوں کی پتلیوں سے جھلکنے لگی ہے
رات کی پہلی پھنکار میں
ستاروں سے اوس ٹپکنے لگی ہے
اور مہتاب کے توت کالے پڑ گئے ہیں
دیوں نے لویں مدھم کر لی ہیں
اور کھڑکیوں نے ہوا روک رکھی ہے
کمروں کا حبس سینے کی گھٹن بن گیا ہے
جب بانسری بجنا شروع نہیں ہوئی تھی
سب ٹھیک تھا
مگر آن کی آن سب بدل گیا ہے
بانسری کون بجا رہا ہے
وہ تمام بھیدوں کی طرح یہ بھید بھی جانتا ہے
اس لیے وہ میرے ساتھ اسے تلاش نہیں کرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۳
خلا بہت ہیں
خلا کے اندر خلا سے بھی ان گنت اچھوتے
خلا بہت ہیں
خلا کو بھرنا
وہاں کے لا کینوس پہ من چاہے رنگ کرنا
کسی بھی نا شاخ تک رسائی کی آرزو میں
نکل کے پوروں سے بھاگ جانا
مگر کہیں پر نہ پاؤں دھرنا
لرزتے رہنا
جہاں نہیں کچھ وہاں نہیں کے مہیب چہرے سے خوف کھانا
نہیں سے ڈرنا
خلا جو قرطاس پر ہے
لفظوں کے بیچ ہے
وہ خلا کے اندر کوئی خلا ہے
بہت اچھوتا
اچنبھے جیسا ہے
اَن کہا ہے
اس ان کہی کا کہاسمجھنا
جو نظم اندر ہزار نظموں کی ’ان کہی‘ کا وسیع علاقہ
کھلا ہوا ہے
اسے بھی ہر جا کہا سمجھنا
یہ نظم ایسے ہی اک علاقے کا واقعہ ہے
مگر خلا کے دروں خلا ہے
یہ ایک بے انت سلسلہ ہے
کوئی خلاؤں کی کن تہوں تک ضیا اُتارے گا
اور لفظوں سے کوئی کتنے خلا بھرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۴
میں اپنی تخلیق کا شجر ہوں
شجر جو مجھ سے قدیم تر ہے
عظیم تر ہے
یہ وہ نہیں ہے
بہار کی سبز رو ہوائیں
خزاں کی بد شکل، زرد اور تُند خو ہوائیں
مری ادائیں
یہ چہچہے
یہ پرندگاں کے مدھر مدھر گیت
سب مری گم شدہ صدائیں
یہ گھونسلے میرے رتجگے ہیں
یہ ڈال میں ہوں
یہ سبز پتوں کی شال میں ہوں
میں خود ہی اپنے لیے ہوں سایا
میں خود ہی اپنا، میں خود پرایا
نہ میرا ثانی، نہ میرا جایا
میں خود ہی خود ہوں پلٹ سکے میری کون کایا
میں اپنا آسیب خود ہوں
خود اپنا خشک و تر ہوں
میں خود غذا ہوں
میں خود ثمر ہوں
یہ شاخ پر جو لہک رہی ہے
یہ نظم میں ہوں
جو پتا پتا چہک رہی ہے
یہ نظم میں ہوں
مگر یہ دستورِ نا روا ہے
جو خود اُگا ہے ، وہ خود جھڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۵
تمام دُکھ ہے
تو کیا زمینوں میں، آسمانوں میں کوئی سرِ نہاں نہیں ہے
نہیں نہیں ہے
اگر کہیں ہے تو وہم ہے ، خواب ہے ، گماں ہے
وگر نہ سرِ نہانہ دُکھ ہے
ازل سے تا بہ ابد یہ سارا زمانہ دُکھ ہے
جو میں نے بچپن میں ماں کی چھاتی سے پی لیا تھا، وہ شِیر دُکھ ہے
یہ دُکھ وہ شے ہے کہ جس کا اسمِ صغیر دُکھ ہے
یہ دُکھ وہ شے ہے کہ جس کا اسمِ کبیر دُکھ ہے
یہ میں نہیں ہوں، یہ اپنے اندر جنم جنم کا اسیر دُکھ ہے
یہ صبح دُکھ ہے
یہ شام دُکھ ہے
تمام دُکھ ہے
وہ بھید جس کی تلاش میں صد ہزار صدیاں سفر کیا ہے
وہ بھید دُکھ ہے
وہ نام دُکھ ہے
تو اس کا مطلب ہے عید دکھ ہے ، مرے جتن کی نوید دُکھ ہے
جو کائناتوں کے قفلِ ابجد ہیں۔ ان کی گویا کلید دُکھ ہے
جو طے کیا ہے وہ دُکھ ہی دُکھ ہے ، مگر ابھی تو مزید دُکھ ہے
بزن سے آبِ قدیم کی ساحلوں تلک جو ہوا ہے ، دُکھ ہے
سمندرا کی صدا بھی دُکھ ہے
تری طرح کیا مری زمیں کا خدا بھی دُکھ ہے
یہ وہ حقیقت ہے جو سُنے گا وہ زندگی بھر دُکھی رہے گا
خد امری نظم کیوں پڑھے گا؟
(انوار فطرت کے لیے )
۶
میں آئینہ فاختہ کے آگے ادب سے بیٹھا اور اُس سے پوچھا
یہ چھپکلی کیوں چپک گئی ہے
بھبھوت اور بھوت کیوں مقدر بنے ہوئے ہیں
یہ حرف کی برف کیوں جمی ہے ؟
وہ مجھ سے بولی،
تُو مورکھ ہے
اُس تھاہ میں مت جھانک کہ جس کا انت نہیں ہے
تُو کوئی سادھو سنت نہیں ہے
پھر اس نے اک چیخ لگائی اور فلک تک جا کر لائی
فلک کی دُوری میں بھید کیا ہے
یہ چاند میں ایک چھید کیا ہے
میں پوچھ بیٹھا تو مجھ سے بولی،
جوگی جوگ میں خوش رہتے ہیں
روگی روگ میں خوش رہتے ہیں
پھر اُس نے اک آہ بھری اور دیر تلک تسبیح گھمائی
میں چُپ نہ بیٹھا
یہ ناگ کیوں آگ پھونکتے ہیں
سمے کی مے اتنی تلخ تر کیسے ہو گئی ہے
یہ گھاؤ کے بھاؤ کیوں گِرے ہیں
وہ مجھ سے بولی،
لوحِ غیب پہ سب تحریریں اور لکھی ہیں
آنکھ کے پردے پر تصویریں اور بنی ہیں
پھر وہ یک دم چیل بنی اور واپس اپنی جون میں آئی
سوال پوچھا،
یہ شام برتن لہو سے کب سے بھرا ہوا ہے
یہ رات توّا زمیں پہ کب سے دھرا ہوا ہے
وہ مجھ سے بولی،
رمز کشائی کوئی وعظ و پند نہیں ہے
ہر دروازہ بند نہیں ہے
پھر اس نے پانی برسایا ریت بھری گاگر چھلکائی
میں چیخ اُٹھا
پلید کیا ہے ، یہ پاک کیا ہے
اچھوت اور چھوت کن کتابوں کے واہمے ہیں
نفاق و مفہومِ خاک کیا ہے
وہ مجھ سے بولی،
پاکی کو پاکی سے مطلب خاکی کو خاکی سے
لومڑی آپ پھنسا بیٹھی ہے اپنی چالاکی سے
پھر اُس نے اک اسم پڑھا اور سوکھی ہوئی لکڑی سلگائی
سنبھال رکھے ہیں اُس نے ہفت آسمان کیسے
چلا رہا ہے یہ پُتلی گھر یہ جہان کیسے
سوال سن کر وہ مجھ سے بولی،
جو تیری منطق سے جدا ہے
اس ہستی کا نام خدا ہے
پھر اس نے پنکھوں کو جھاڑا کہت کبیر سے بات بنائی
لیکن میں تشکیک کا مارا پھر سے پوچھا،
گمان میں کیا گما ہوا ہے
سمندروں مندروں میں کیسی عبادتیں ہیں
مجاز کیا اور نماز کیا ہے
وہ مجھ سے بولی،
ایک کا کوئی نام نہ دوجا
روپ عبادت رنگ ہے پوجا
پھر تن پر وہ راکھ لگا کر دیر تلک باطن میں نہائی
میں اک نہ مانا
یہ سب مناظر جو غیب کے ہیں، دھوئیں میں کیوں ہیں
یہ سارے مینڈک ازل سے اک ہی کنویں میں کیوں ہیں
وہ مجھ سے بولی،
تیرے دل پر قفل لگے ہیں
میرے کشف بھرے چھتنار سے
مورکھ تجھ کو کچھ نہ ملے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۷
نہ جانے کتنی ہزار صدیاں
میں تیری آنکھوں میں سر بہ سجدہ پڑا رہا ہوں
نہ جانے کتنے کروڑ آنسو
میں تیری پلکوں کی پاک جائے نماز کے مخملیں سے ریشوں
میں بو چکا ہوں
نہ جانے کتنی ارب دعائیں
میں تیرے ہونٹوں کے برگزیدہ کبوتروں کے گلابی پنکھوں میں
رکھ چکا ہوں
مگر ابھی تک تری جبیں پر
مری محبت کا چاند سکہ نہیں کھِلا ہے
جو تو نے زانو سے رحل سی اک بنا رکھی ہے
وہاں مری نظم سورتوں کا کوئی صحیفہ نہیں کھُلا ہے
یہ چھوئی موئی سی پور ابھی تک
کسی بھی آیت کی روشنی پر نہیں پھری ہے
جو میں نے احساس کے علاقے میں
تتلیاں سی اُڑا رکھی ہیں
جو گھاس سی ہر طرف اُگائی ہے
اوس سی جو بچھا رکھی ہے
جو کیاریوں میں گلاب سے رنگ رنگ کے ہیں
جو خوشبوؤں سی فضا رکھی ہے
وہاں کی مٹی میں نم ابھی تک
ترے نقوشِ قدم کی خواہش میں جاگتا ہے
مگر تجھے کب وحی ہوئی ہیں
مری اُداسی کی زرد بیلیں
تُو بالکونی میں سو گئی ہے
میں اپنی یادوں کے قصر میں تجھ کو دیکھتا ہوں
مرے تخیل کی سلطنت کا ہر اک فرشتہ
تری شبستاں کو آسماں اور تجھے سراسر خدا کہے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۸
کیاری میں اُگی نظم
ساحل کی ریت سے زیادہ نم داری کی خواہش میں
ضرورت سے سوا پانی پی جاتی ہے
اُس کی اُلٹی سے پھول آتے ہیں
اور پھولوں سے خوشبو
خوش گمان مالی
پھولوں کو اپنی محنت کا ثمر سمجھتا ہے
اور خوشبو کو کارِ ثواب
ساحل کی ریت بادل کے بوسے کی خواہش میں
اپنے ہونٹ تر رکھتی ہے
اور صحرا بدن پر پیا س اوڑھ لیتا ہے
مگر بادل صرف کہساروں سے ہم آغوشی پسند کرتے ہیں
خواہش کے شور سے
وحشت جنم لیتی ہے
وحشت نظموں، ساحلوں اور صحراؤں کا مقدر ہے
بادل وحشت نہیں شانتی پسند کرتے ہیں
اُس کی طرح اُس کے ہمسائے بھی
صرف اُسی سے محبت کرسکتے ہیں جو خاموش ہو
اور بلند ہو
ہم بستیوں میں نہیں پستیوں میں رہتے ہیں
ہماری خواہش کا شور کہساروں سے اُونچا نہیں ہوسکتا
اگر اسے خوابوں کے پر لگا کر پرندہ بھی بنا دیا جائے
تب بھی یہ بادل کے متوازی اور مساوی نہیں اُڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۹
غنودگی اب غنودہ تر ہے
فلک کے کھیتوں میں خامشی ہے
نئے ستارے اُگانے والے کسان کو نیند کی پڑی ہے
ضعیف و بیمار چاند شب کی مہیب وسعت میں کھو چکا ہے
مگر مری نظم مرنے والوں کا ماجرا ہے
جو گھر سے نکلے تو روشنی کی تلاش میں تھے
پلٹ کے آئے تو سانس کی لو بجھی ہوئی تھی
یہ بند بوری میں کیا ہے بھائی
جو گھر کی دہلیز پر پڑی ہے
زمین قبروں سے بھر گئی ہے
حسن ! تمہارے تمام کوزے لہو لہو ہیں
عطا ! تمہارے تمام چشموں میں لوتھڑے ہیں
یہ قصۂ حور ہے نہ ذکرِ مئے مقدس
مگس کی قے کا نہ دودھ نہروں کا تذکرہ ہے
نہ اس میں باغِ بہشت میں اُڑتے پھرنے والا کوئی کبوتر
نہ کونج کوئی
نہ اس میں منبر، نہ صف بہ صف با وضو نمازی
نہ مسجدوں والی گونج کوئی
اذاں نہیں ہے نہ مصرعہ ء عطر دار کوئی
سڑاند ہے اور غبار آلود راستے ہیں
نظر پہ چھاتا، دلوں تک آتا گھنا دھواں ہے
فرشتگیاں کی طرف دھواں کس طرح بڑھے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۰
فنون و اوراق کے مدیران
قبرِ خاموش کی فضا سے
فلک کی آب و ہوائے تازہ کی سمت
کب کے چلے گئے ہیں
وہاں یہ دونوں کہ جیسے روزِ الست بچھڑے ہوئے
کوئی دوست مل گئے ہوں، بہت قریں ہیں
یہ زیرِ سایۂ شہپرِ جبرئیل امیں ہیں
خدا سے اس مسئلے پہ بحث و مباحثہ ہو چکا ہے ان کا
کہ یہ تخیل تہی تلذذ، فراغتِ بے ثمر کہاں تک
سو مجلسِ منتظم کا اجلاس ہو رہا ہے
علامہ اقبال کی صدارت میں پیش ہوں گی
شرائط اور ضابطے کہ جن پر
مجلہ ہائے فنون و اوراقِ بے بہا کو
فرشتگاں کی کتابتِ خوش نما میں
اِمسال غیب سے پھر شروع کریں گے
(مگر یہ طے ہے کہ غالبؔ اُس میں نہیں چھپیں گے )
فلک کے صفحاتِ ضو فشاں پر
قلم کے الماس سے زمیں زادگاں کی تخلیقِ خاک آور
نوشتگی کا شرف نہیں پا سکے گی اس پر سبھی
اراکین متفق ہیں
سو نظم میری
یہیں مجلوں کے صفحۂ خاک رو کی زینت بنی رہے گی
زمیں کا شاعر
فلک کے پرچے میں اپنے جائز حقِ اشاعت کی جنگ
ہر گز نہیں لڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۱
زمین اپنے خزانوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے
اور انسان اپنے خوابوں کی وجہ سے
تو کیا خزانے اور خواب مترادف ہیں
نہیں
کیوں کہ اگر ایسا ہوتا توسانپ خزانوں کے ساتھ
خوابوں کی بھی حفاظت کرتے
خواب بھی خزانے کی طرح تہِ خاک پوشیدہ ہوتے
اور تجوریوں میں سنبھالے جاتے
لیکن خواب تو خود آنکھوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے
راہ گیروں پر آوازے کستے
اور طوائفوں کی طرح انہیں ہم بستری کے لیے مدعو کرتے ہیں
مگر خزانوں کے ساتھ ہم بستری نہیں کی جاتی
زنا بالجبر کیا جاتا ہے
خواب اور خزانے مترادف نہیں
پھر بھی دونوں سے محل بنائے اور سجائے جاتے ہیں
تاہم یہ ضروری نہیں کہ جہاں آنکھوں میں خواب ہوں
وہاں زمین میں خزانے بھی پائے جائیں
وحشت وہاں کی فصل ہے
جہاں یہ دونوں نہیں اُگتے
اس فصل پر خوف اور ہوس کے پھول آتے ہیں
اور پھولوں سے بارود کی مہک
زمین اور انسان دونوں غیر محفوظ ہیں
کیوں کہ وحشت کو خزانوں اور خوابوں کی کھاد چاہیے
آسمان کے تماشائی
تھیٹر میں بیٹھے آخری منظر دیکھنے کے منتظر ہیں
تجسس نقطۂ عروج پر ہے
زمین یا انسان ……
پہلے کون لُٹے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۲
ذرا سا شاخوں پہ بور آیا تمنا تھوڑی ہری ہوئی ہے
درخت سہمے ہوئے کھڑے ہیں ہر ایک تتلی ڈری ہوئی ہے
یہ باغ ہے یا طلسم سا ہے نئی نویلی سی قسم سا ہے
ابھی وہ تتلی جو اُڑ رہی تھی پلک جھپک میں پری ہوئی ہے
دھنک تو کیا ہو رمق نہیں ہے سحاب کیا بوند تک نہیں ہے
زمین منہ کھولے دیکھتی ہے فضا نے جھولی بھری ہوئی ہے
پہاڑ دیکھو، ببول دیکھو، غبار دیکھو، یہ دھول دیکھو
یہ کیسی تقسیم کی گئی ہے یہ کیسی صورت گری ہوئی ہے
یہ تیز آرا، لہو کا دھارا، یہ کون موسم کا ہے اشارا
یہ گدھ جو آنکھوں سے نوچتے ہیں یہ فاختہ جو مری ہوئی ہے
سُلگتے سینے میں گل رہی ہے نفس کی لو سے پگھل رہی ہے
وہ ایک نیلی سی موم بتی جو میز اوپر دھری ہوئی ہے
تھکن نہیں ہے گھٹن نہیں ہے کہیں پہ کوئی شکن نہیں ہے
یہ شعر بالکل نئے ہوئے ہیں یہ بات پوری کھری ہوئی ہے
غزل کا موسم نہیں گیا ہے نہ اس کا رس انگبیں گیا ہے
مگر نظر کب جمی ہے اس پر نگاہ سی سرسری ہوئی ہے
اگن پرکھشا ہے اور جنگل سخن کی سیتا غزل ہے کیول
مگر یہ وہ نازنیں ہے جس کی ہمیشہ پردہ دری ہوئی ہے
نڈر جو سینہ سپر کھڑا ہے جو یُدھ میں ارجن سماں لڑا ہے
اُسی کے قدموں پر سر جھکے ہیں اُسی کی یاں سروری ہوئی ہے
جو نظم پنگھٹ کی گوریوں سے غزل کا گوپی نہیں ملے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۳
قاری کا منصب
اور قرات کی استعداد معمولی بات نہیں
مگر زبان حقیقتِ مطلق نہیں ہے
وہ آنسو نہیں پڑھ سکتا
اتنا تو زمین کے شجر حجر سب جانتے ہیں
سسکیاں، آہیں، چیخیں، بین
اور ان آوازوں کے مابین
جتنی اصوات ہیں
وہ اُن سے نابلد ہے
اتنا تو زمین کے شجر حجر سب جانتے ہیں
مگر وہ کون سی زبان سمجھتا ہے
کوئی نہیں جانتا
شاید اسی لیے زبانیں ہر خطۂ زمیں سے اُگتی ہیں
لہلہاتی ہیں
برگ و بار لاتی ہیں
اور مرجھا جاتی ہیں
آج تک کتنی زبانیں مرجھا چکی ہیں
اور کتنی مزید مرجھائیں گی
کوئی نہیں جانتا
مگر جو زبانیں مرجھا چکی ہیں
اور وہ جو تیار بیٹھی ہیں
وہ ان میں سے کوئی زبان نہیں سمجھتا
آخر تک صرف وہ زندہ رہے گا
اور وہ زبان جو اُسے سمجھ آئے گی
میری زبان اور میں
دونوں زندہ نہیں رہیں گے
مگر مجھے موت کا ڈر نہیں
اتنا تو زمین کے شجر حجر سب جانتے ہیں
سات آسمان رات دن گردش میں ہیں
جو ہونا ہے ہو رہے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا ؟
۱۴
مری نگاہوں سے سلویا پلاتھ بہہ رہی تھی
وہ سخت غصے میں کہ رہا تھا
یہ نعش آتش کی نذر کر دو
بتا دو سب کو کہ خود کشی کی سزا یہی ہے
جو کارِ ممنوعہ کر گیا ہے
سلوک اُس سے روا یہی ہے
مگر یہ سادات……
چُپ رہو جو زبان کھولی تو کاٹ دوں گا
یہ شعر ثروت ؔ کا یاد آیا:
’’یہ رسمِ انبیا زندہ ہمی سادات رکھیں گے
جہاں پر آگ دیکھیں گے وہیں پر ہات رکھیں گے ‘‘
تو سلویا پلاتھ کو سنایا
شکیبؔ جو میرے دل کی کھڑکی سے دیکھتا تھا یہ سارا منظر وہ مسکرایا
ہجوم سکتے میں تھا
میں صف توڑتے ہوئے سب سے آگے آیا
تمہیں خبر ہے
یہ نعش کس کی ہے
کس قبیلے کا فرد ہے یہ
یہ شاہزادہ ہے سرزمینِ سخن وراں کا
یہ نعش کاغذ کفن میں کفنائیں گے
غزل کی زمیں میں دفنائیں گے یہ لاشہ
وہ منہ میں لاحول بُڑبُڑایا
یہ نعش کافر ہے ، جانتے ہو
یہ صرف شاعر ہے
خود کشی کا فرشتہ ہے یہ
عمامہ پوشوں کے خشمگیں بازوؤں نے آ کر مجھے ہٹایا
وہ اور غیض و غضب میں آیا
یہ نعش شمشان لے کے جاؤ
فرشتۂ خودکشی ہماری زمیں کے اندر نہیں گڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۵
کہاں گیا وہ
جس کے دم سے ساری کتابیں
کھِلی کھِلی، مہکی مہکی رہتی تھیں جیسے
نئی نویلی دلہنیائیں
کہاں گیا وہ
جس نے میری ماں کے چہرے پر پڑتی
شکنوں کے موسم روک رکھے تھے
کہاں گیا وہ
جو میری بہنوں کے سر پر چھت بھی تھا
اور آسمان بھی
کہاں گیا وہ
جس نے میرے بھائی اور میرے کاندھوں کو
ہفت افلاک اُٹھا پانے کی قوت دی تھی
میری شادی کس سے ہوئی ہے
اور مرے بچے کیسے ہیں
اُس کو کیوں معلوم نہیں ہے
کیسا دُکھ ہے جو اپنی نظموں کا سب سے پہلا سامع
چھن جانے سے میرے اندر اُگ آیا ہے
اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں
اس کی شاخیں کون فلک تک پہنچ گئی ہیں
کسے بتاؤں
میں اس کے سگرٹ کا دھواں بننے کی خواہش میں جلتا تھا
میں اس کے خوابوں کے علاقے تک اُس کے پیچھے چلتا تھا
سچا شاعر بننے کی خاطراس جیسا
کتنے جتن کیے ہیں میں نے
کتنا کڑھا ہوں
میں اُس جیسا کہاں بنا ہوں
کسے بتاؤں
مجھے محبت ہے جتنی اُس سے
کسی سے کوئی نہ کرسکے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۶
ہماری سرزمین بنجر ہے
ہمیں یہ ماننے کے لیے کتنا وقت درکار ہے
یہ معلوم کرنا آسان نہیں
کیوں کہ ہم وقت کی پیمائش کے لئے سورج اور چاند کو معیار نہیں مانتے
ہم اُسے خواہشوں اور خوابوں سے ماپتے ہیں
ایک خواہش کے پیدا ہونے سے
اُس کے بر آنے کی آخری آس ٹوٹنے تک کا عرصہ
ہمارا ایک دن ہے
ایک خواب کو ہر زاویے سے دیکھ لینے کے لیے ناگزیر
ساری اماؤسیں اور پورن ماشیاں
ہماری ایک رات ہے
زمین بانجھ ہو چکی ہے
یہ ماننے کے لیے ہم گندم اور کپاس کی فصلیں نہیں دیکھتے
ہماری زرخیزی کا معیار آنکھوں کے نم سے طے ہوتا ہے
تم ٹھیک کہتے ہو
ہماری سرزمین اب صنعتیں اُگانے کے قابل نہیں رہی
صنعتیں روشنی کی محتاج ہوتی ہیں
اور ہماری سرزمین قمقمے روشن کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے
۔ مگر شاید تم نے
انتظار کے دِیوں کی لویں نہیں دیکھیں
وہ اندھیروں سے خوف نہیں کھاتیں
اُنہیں ایندھن بنا لیتی ہیں
انتظار کی لویں بُجھنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۷
یہ کیسی بے نام لائنیں ہیں
نہ حبشنیں ہے نہ ڈائنیں ہیں
نہ گوریاں ہیں یہ پنگھٹوں کی
نہ بیبیاں ہیں نہ رانیاں ہیں
نہ ہاتھ مہندی لگے ہوئے ہیں
نہ مانگ ان کی بھری ہوئی ہے
اُداسیاں ہیں نہ داسیاں ہیں
نہ گھر کی چوکھٹ نشست ان کی
نہ حوض میں یہ نہا رہی ہیں
نہ ان کی سکھیاں سہیلیاں ہیں
الگ الگ ہیں اکیلیاں ہیں
نہ شہر کی ہیں نہ گاؤں کی ہیں
کہیں نہیں ہے دیہات ان کا
نہ شعلہ رُخ ہیں نہ برف خو ہیں
نہ لب کُشا ہیں نہ رو بہ رو ہیں
نہ کھیت کھلیان جانتی ہیں
نہ پریت کی ریت کی خبر ہے
ادا نہیں ہے حیا نہیں ہے
اک ایسا بے معنی پن ہے ان میں
کہ جیسے کچھ بھی لکھا نہیں ہے
یہ ایسی ہم واریاں ہیں جن پر
زباں روانی سے چل سکے گی
نہ مصرع مصرع پہ وہ اڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۸
یہ راج دھانی ہے مکھیوں کی
یہ لال بیگوں کی سلطنت ہے
غلاظتیں ہیں گلی گلی میں
عجیب بد بو سی ہے کلی میں
بدن میں پانی ہے نالیوں کا
دلوں میں کیچڑ بھرا ہوا ہے
فرشتے کچرے کے ڈھیر سے چُن رہے ہیں روٹی کے صاف ٹکڑے
عجیب میلاہٹوں بھرے ہیں یہ چاند چہرے یہ پھول مکھڑے
نفس نہیں کھینچتے کہ اندر دھواں دھواں ہے
یہ سانس کی نالیاں نہیں ہیں یہ چمنیاں ہیں
تمام آنکھیں غبار پیچھے چھپی ہوئی ہیں
تمام سپنے غضب کی مٹی اَٹے ہوئے ہیں
کوئی سُریلی صدا نہیں ہے
تمام لہجے پھٹے ہوئے ہیں
جہاں پہ دیکھو نشے کے عادی
جہاں سے گزرو چرس کی بو ہے
بُرے لطائف پہ قہقہے ہیں
زنا کے بارے میں گفتگو ہے
نجس نحوست ہماری سوچوں کے گرد چکر لگا رہی ہے
ہزار کتے مرے ہوئے ہیں کہ جن سے بدبوئیں آ رہی ہیں
گھروں میں چوہوں کا خوف پھیلا ہوا ہے بندے ڈرے ہوئے ہیں
کوئی نہیں کھولتا دریچے کہ شہر مچھر بھرے ہوئے ہیں
ہے کوڑے داں جس کی جنم بھومی
وہ کوڑے داں میں پڑا سڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۱۹
(ا )
تارکول کی سڑک پر تیزی سے دوڑتا ہو ا خواب
بھک سے اُڑ گیا
اور تھوڑی دیر بعد
پارچہ پارچہ زمین پر گرنے لگا
(ب)
قبر کھودی گئی
خواب جو اک پلاسٹک کے شاپر میں تھا
اُس کو پہلے کفن میں لپیٹا گیا
پھر سلیقے سے تدفین کر دی گئی
فاتحہ پڑھ کے سب جب پلٹنے لگے
ہاتھ لایا گیا
(ج)
گھر دہلیز پہ ماں بیٹھی تھی
جس کے بدن میں روح کے شیشے
ریزہ ریزہ بکھر گئے تھے
آنکھیں چھلنی تھیں اور پلکیں
اک اک کر کے اُدھڑ رہی تھیں
چیخیں لب پر سوکھ چکی تھیں
سانس گلے میں رینگ رہی تھی
ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے
جیسے وہ کچھ باندھ رہی تھی
جیسے وہ کچھ جوڑ رہی تھی
(د)
یہ زخم وہ ہے
کہ جس کا پھاہا نہیں ہے کوئی
نہ وقت اس کے لیے ہے مرہم
نہ سوئی دھاگے سے اس کی بخیہ گری ہے ممکن
نہ اس کی گہرائی خاک سے
راکھ سے بھرے گی
ہزار خوشیاں اُتاری جائیں
یہ زخم یونہی ہرا رہے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲۰
چُپ !
میری گڑیا سو رہی ہے
جاگ جائے گی
یہ آبگینہ ہے کس کے گھر کا
جو کرچی کرچی بکھر گیا ہے
ہماری رانی نہیں ملی ہے
نہ جانے کس اسپتال لے کر گئے ہیں اس کو
وہ زخم خوردہ ہے
مر چکی ہے
کہ اس کے اعضا کسی کے ماں باپ لے گئے ہیں
یہ کس کے گھر کی پری ہے دیکھو
جو انگلیوں تک جھُلس گئی ہے
ڈائری ملی ہے
جس میں لہو میں تر بہ تر
مور پنکھ ہیں
اور شہزادی کے دل کی باتیں
جنہیں آگ نے چاٹ لیا ہے
یہ دیکھ گڑیا کے بال گرنے لگے ہیں امی!
یہ دیکھ اس کے فراک میں چاک پڑ گیا ہے
اماں !تھوڑا غور کریں
کیا آپ کی بیٹی نے پازیبیں پہن رکھی تھیں
کیا یہ چیتھڑے
اس کی چادر کی رنگت سے ملتے ہیں
اماں جی!
یہ بُندے دیکھیں
سہیلی!
آج میرے گھر ضرور آنا
میری گڑیا کی شادی ہے
مل کر گانے گائیں گے
اور میٹھے چا ول کھائیں گے
یہ خوب صورت کور کتابوں کے
استعارے ہیں اُن کے خوابوں کے
جن کی آنکھیں جلی ہوئی ہیں
بولو چندا!
کب تک لے کر بیٹھی رہ گی
ہاتھ اور پاؤں گڑیا کے
کب تک رو رو اپنے نین گنواؤ گی
یہ لو تھوڑا پانی لو
کھانا لاؤں کھاؤ گی؟
برقعے تھامو
یہ میری ان حوروں کے ہیں
جنت سے باہر جائیں تو پہن کے جائیں
جنگل یہ تنوروں کے ہیں
ابو!
مجھ کو یونی ورسٹی میں پڑھنا ہے
آپ اجازت دے دیں گے نا!
میں گھرکی ناموس کا ہر دم پاس رکھوں گی
صرف پڑھوں گی
گڑیا!
آفس میں بہت کام ہے
میں آج نہیں آسکوں گا
تم’’بس‘‘میں آ جانا
چڑیاں ایسے چیخ رہی ہیں
جیسے اُن کی ساری سکھیاں بچھڑ گئی ہوں
شہر میں ایسا سناٹا ہے
جیسے اُس کی ساری گلیاں اُجڑ گئی ہوں
میری ہرنیوں کی غزلیں
صرف گڑیوں کے دلوں تک پہنچ سکتی ہیں
آسمانوں تک نہیں
میری تتلیوں کی پتنگیں
صرف خوابوں کے باغوں تک اُڑسکتی ہیں
چٹانوں تک نہیں
یہ بم دھماکہ
فدائی حملہ
خدا نے اک بار پھر ہمیں سُرخرو کیا ہے
خدا ہمارا ہے
ہم خدا کے
یہ سلسلہ اب یوں ہی چلے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲۱
ہر ایک سائٹ پہ پیرا سائٹ
تمام ٹیوبوں پہ ٹیسٹ ٹیوبوں سے زندگی پانے والی
خلقت!
یہ ویب کیموں پہ اپنے اپنے بدن دکھاتے ہوئے عجوبے
یہ سرچ گوگل پہ اپنے افکار ڈھونڈنے والے
علم زادے !
یہ پور کے لمس پر تھرکتی برہنہ دُنیا
کلون چہرے
یہ سرجری بعد حسبِ منشا تمام اعضا
یہ آختہ آتمائیں ساری
یہ مرتبانوں کی مچھلیاں
یہ فریبِ آسودگی پہ شاداں
سنہری پریاں
یہ ہنس راجے
یہ کیمرے کے طلسم پر جان و دل سے قرباں
فریفتہ اپنی کور آنکھوں پہ
اپنے ذوقِ نظر پہ نازاں
یہ اپنے خالی پنے کو بھرنے کی جستجو میں
لگے طلب چُو
یہ فیس بُک پر ادب ادب کھیلتے
ادب چُو
یہ نیٹ ورکنگ میں محو
چیٹنگ میں غرق
خود ساختہ خداؤں کے آگے
مجبور، سر بہ سجدہ، سبھی مذہب چُو
یہ بے طرب چُو
یہ بے تعب چُو
انہی میں سے کوئی نظم میری سُنے گا
اور اپنی باس دیتی انوکھی دُنیا کے باسیوں سے
شیئر کرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲۲
زمین میزان میں رکھی ہوئی ہے
مگر اُس کی کمیت کے لیے باٹ مقرر نہیں کیے گئے
ستاروں کی لویں مدھم ہو گئی ہیں
کیوں کہ ان کا مول اُن کی روشنی دیکھ کر نہیں لگایا گیا
بلکہ اُنہیں صرف استعاروں کے بھاؤ خریدا گیا ہے
تاکہ مستعار معانی سے سرائے جنت نما میں موجود
وسائلِ عشرت کا اندازہ لگایا جا سکے
شاعری کی کتابوں سے اپنی مانگ کا اندازہ لگانے والا چاند
قیمت کی چِٹ لگنے کے خوف سے
میر ؔ کی شاعری میں موجود عاشق کی طرح زرد ہوتا جا رہا ہے
آدمی نے اُس دستِ دراز کو دیکھ لیا ہے
جس نے برائے فروخت کا بورڈ دکان سے اُتار کر کائنات پر
لگا دیا ہے
خدا چھُپ گیا ہے
فرشتے دستِ غیب اور دستِ دراز کے مابین معاہدہ کرانے کی
جستجومیں
نارسائی اور ناشنوائی کی اذیت جھیل رہے ہیں
فضاؤں میں یہ نظم گائی جا رہی ہے
دھوپ ہو یا سایۂ ابر رواں ہو
کھیت ہو یا ریت ہو یا سارباں ہو
آب ہو گرداب ہو یا بادباں ہو
شعلۂ دل گیر یا حسن بتاں ہو
گیت ہو سنگیت ہو یا داستاں ہو
خاک کے پردے میں وہ چاہے نہاں ہو
یا کوئی بھی شے ورائے آسماں ہو
دام لے لو آ کے اپنے تم جہاں ہو
جب ہر شے فروخت ہو گی
جب انسان، زمین، آسمان
سب بکے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲۳
مجھے نظم لکھنے سے پہلے ہی یہ سوچنا چاہیے تھا م
کہ نا خواندگی واقعہ نہیں المیہ بھی ہے
اہلِ زمیں کا
فلک پہ بھی نظموں کی قرات کا معمول کوئی نہیں ہے
یہی سا ل ہا سالکے بعد
اک دن کسی لمحۂ شوق میں
بے نیازی کی دلدل سے باہر
کشادہ فضاؤں میں دو چار گھنٹے سکونت
فقط چند نظموں کی قرات
وہ نظمیں بھی کیا
مصرعۂ تر سے عاری
تخیل کے دربار باہر اُٹھائے ہوئے خالی کشکول
جن کے لکھاری
بھکاری
کوئی نظم ’پنواڑی ‘ جیسی
’اجل !سن ذرا‘
’آئینہ خانہ‘ اور ’اے ہمیشہ کے زندانیو‘ سی
فرشتوں کی جس پر نظر ہی نہیں ہے
فقط چند نظموں کی قرات
زمیں کے مقدر میں ترمیم کرنے کی
تحریک کیا دے سکے گی
’مجازِ مرسل کی حد کہاں ہے ‘
’عجیب مافوق سلسلہ ہے ‘
’علینہ‘ بھی جب وہاں ابھی زیرِ التوا ہے
تو پھر مری نظم پر کوئی غور کیا کرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
۲۴
خدا زمانہ ہے جانتا ہوں
مگر زمانہ ہو ا یہاں تو وہ ایک لمحہ ٹھہر گیا ہے
طنابِ افلاک جب زمیں سے اکھڑ گئی تھی
وہ ایک لمحہ
درخت جب اپنے بازوؤں سے جڑیں پکڑنے کی
جستجو میں جھکے ہوئے تھے
لویں دِیوں کی گرفت سے جب نکل گئی تھیں
کبوتروں نے جب اپنی چونچوں سے بال نوچے
لہو سے احرام تر کیے تھے
ہوا نے چلنے سے صاف انکار کر دیا تھا
طیور جب رینگنے لگے تھے
فضائیں سانپوں کو اپنی خواہش کے پر لگا کر
اُڑا رہی تھیں
وہ ایک لمحہ
پہاڑ جب دوڑنے لگے تھے
سمندروں نے تمام پانی نگل لیا تھا
ہزار ہا مچھلیاں زمیں پر تڑپ رہی تھیں
جو چُپ تھے ، وہ چیخنے لگے تھے
جو چیختے تھے وہ سب زبانوں سے چُپ کی دیوار چاٹتے تھے
جو گھر میں تھے وہ گھروں سے باہر نکل پڑے تھے
جو راستے میں تھے
بیڑیاں ڈال کر مکانوں میں چھپ گئے تھے
الف سے یے پڑھنے والے
یے سے الف تہجی کو رٹ رہے تھے
بساط اُلٹی پڑی ہوئی تھی
سمے کی گردش رُکی ہوئی تھی
جو ایک لمحہ ٹھہر گیا ہے
قدم بڑھائے گا کب نہ جانے
نہ جانے آگے وہ کب چلے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
اختتامیہ
میں مر جاؤں گا
بالکل اُسی طرح
جیسے میرے ابو مر گئے ہیں
’’ جینا اگر اتنا آسان ہوتا
تومیں عمر بھر جیتا
اور اتنی نظمیں لکھتا
کہ دنیا لفظوں سے بھر جاتی ‘‘
لوگ لفظوں کی آکسیجن میں سانس لیتے
بارود کی بُو میں نہیں
سب لفظوں کی اُڑتی ہوئی تتلیاں پکڑتے
لفظوں کی کشتیوں میں سفر کرتے
اور اُن ساحلوں پر اُترتے
جہاں کے مچھیرے
لفظوں کی مچھلیاں بناتے اور پانیوں میں بہا دیتے ہیں
کوئی بکھرے ہوئے اعضا نہ چُنتا
کہیں مسخ شدہ لاش نہ ملتی
کسی گھر سے جنازہ نہ اُٹھتا
گلی گلی ماتم نہ ہوتے
قبرستان ہوتے مگر قبروں میں صرف وہ لفظ دفنائے جاتے
جنہیں متروک قرار دے دیا جاتا
کتبوں پر نظمیں لکھی جاتیں
جن میں مردہ لفظوں کے دوسرے جنم کی خوش خبریاں ہوتیں
دُنیا میں مزدوری صرف خوبصورت لفظ تلاشنے کے لیے کی جاتی
جس کی اُجرت لفظ ہوتے
لفظ کھو جاتے تو لوگ روتے
اور اُن کی آنکھوں سے زار و قطار لفظ بہتے
لفظ نئی ترتیب میں ڈھلتے تو لوگ قہقہے لگا تے
اور لفظ گونجتے ہوئے خلاؤں کی خامشی تک چلے جاتے
لیکن جینا آسان نہیں
"Dying is an art, like everything else
I do it exceptionally well ”
لیکن جینا آسان نہیں
وہ بھی لفظوں سے دنیا کو بھرنے کی آرزو کے ساتھ
دنیا وہ گھاؤ ہے جسے کسی ایک شاعر کے لفظ نہیں بھر سکتے
میں جانتا ہوں
’’ ایک روز موسم گدلا جائیں گے
چہرے ساکت ہو جائیں گے
شور تھم جائے گا
سارے دن
میرے اندر …… غروب ہو جائیں گے ‘‘
میں مر جاؤں گا
اور دنیا لفظوں سے نہیں بھر سکوں گا
لیکن جس طرح میں اپنے ابو کا ادھورا کام پورا کر رہا ہوں
بالکل اسی طرح
میرا ادھورا کام میرے طالب علم پورا کریں گے
جو نظمیں میں نہ لکھ سکا میری اولاد لکھے گی
دُنیا کو لفظوں سے میری جذبیہ بھرے گی
دُنیا کو لفظوں سے میرا جذلان بھرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟
خداااااااااااااااااااااااا!!!
مری نظم کیوں پڑھے گا؟؟
٭٭٭
عرضِ شاعر
یہ نظم اور اس کے مختلف حصے مخلوط بحور اور مخلوط ہئیتوں میں لکھے گئے ہیں۔ غزل، معریٰ، آزاد اور نثری نظم کی ہئیتیں اس نظم میں شامل ہیں اور بعض حصوں میں آزاد اور نثری ہئیتوں کو بہ یک وقت بہ روئے کار لایا گیا ہے ۔ الفاظ کو بعض مقامات پر غلط تلفظ سے برتا گیا ہے جس کا برتاوا شعوری ہے ۔ اس نظم میں مختلف تخلیق کاروں کی تخلیقات سے استفادہ کیا گیا ہے جس کی نشان دہی انھیں کومہ بند کر کے کر دی گئی ہے ۔ جہاں ایسا نہیں کیا گیا وہاں اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ نظم کا قاری ان حوالوں سے بہ خوبی آگا ہ ہے ۔
٭٭٭
تشکر: سدرہ سحر عمران جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید