FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

داستان سے ناول تک

علی احمد فاطمی

(قومی فروغ اردو کونسل، ہند کی شائع کردہ کتاب ” عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار‘ کا باب دوم ’اردو ادب کی نئی راہوں سے شناسائی۔۔ ادبی پس منظر‘۔ شرر پر تیسرا باب ایک الگ ای بک کے طور پر شامل ہے)

فورٹ ولیم کالج

فورٹ ولیم کالج کی بنیاد780 1ء میں مدرسے کی شکل میں قائم ہوئی، جس کی بنیاد گورنر جنرل وارن ہسٹیٹنگز نے ڈالی تھی۔ جس میں زیادہ تر انگریز ملازم اور ہندستانی طلباء فارسی پڑھا کرتے تھے۔ کیونکہ اس عہد میں فارسی کا رواج تھا۔ مدرسے میں پڑھنے والے تمام طلباء فارسی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے کچھ اور بھی تقاضے پیش کیے جو اردو کے حق میں تھے۔ یعنی فارسی درباری زبان تھی اور دربار ختم ہو رہا تھا۔ دربار اور زبان کے تنزل نے اردو کے لیے ارتقا کی صورت اختیار کی اور انگریزوں نے شدت سے محسوس کیا کہ اردو تعلیم و تعلم سے مفر نہیں ہے۔ بقول حامد حسن قادری:”مغلیہ سلطنت اور فارسی کا تنزل اور اردو زبان کی ترقی اس سرعت کے ساتھ جاری تھی کہ لارڈ ویلزلی نے انگریزوں کے لیے اردو کی ضرورت کو محسوس کر لیا۔” اور یہی ضرورت ہی فورٹ ولیم کالج کی وجہ قرار پائی۔ دوسری بات جواس سلسلے میں مزید اہم مماثلت رکھتی ہے، وہ یہ کہ انگریزہندستان پر حکومت کرنے کی غرض سے داخل ہوئے۔ لہٰذا وہ جو بھی عملی قدم اٹھاتے ان کے سامنے یہی نقطۂ نظر ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں بھی انھوں نے یہ سوچاکہ جب حکومت کرنا ہے تو یہاں کی تمام زبانوں کو ہر حالت میں سیکھنا پڑے گا۔ لہٰذا کمپنی کے تمام حکام کواس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ فارسی کے ساتھ ساتھ یہاں کی اور دوسری زبانیں سیکھنا لازمی ہیں۔ لہٰذا ویلزلی نے وقت کے تقاضے کومحسوس کیا اور انگریزوں کوہندستانی تعلیم سیکھنے کے لیے ایک سمجھا بوجھا منصوبہ بنایا۔ اس طرح کالج کے قیام اور استحکام کے سلسلے میں لارڈ ویلزلی نے بہت محنت کی اور پھر اس کی نظر گلکرسٹ پر پڑی۔ جان گلکرسٹ اردو اور فارسی سے خاص دلچسپی رکھتا تھا۔ اس سے قبل اس نے ہندستانی زبانوں کے قواعد پر کئی کتابیں تیار کی تھیں جس کے باعث اس کو خاصی شہرت مل چکی تھی۔ 8؍اگست 1800ء کواس کا باقاعدہ تقرر ہوا۔ گلکرسٹ نے ابتدا میں اس مدرسہ کا نام اورینٹل سیمینری (Oriental Seminary) رکھا اور بہ حیثیت ہندستانی زبان کے معلم کے دل و جان سے کام کرنے لگا۔ گلکرسٹ کے سایۂ عاطفت میں یہ مدرسہ پروان چڑھنے لگا۔ کورٹ آف ڈائرکٹرس اور ویلزلی وگلکرسٹ کے درمیان نہ جانے کتنی پیچیدہ منزلوں کو طے کرتا ہوا لڑکھڑاتا اور تھپیڑے کھاتا ہوا یہ مدرسہ گلکرسٹ کی زبردست خدمات کی بنا پر ایک دن رنگ لے آیا۔ اور اپنی ڈیڑھ سالہ مدت گزارنے کے بعد ایک عظیم الشان موڑ پر گامزن ہو گیا۔ عتیق صدیقی لکھتے ہیں :
"اس کے ساتھ اور ینٹل سیمینری کی ڈیڑھ سالہ مختصر زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ پھراسی مدرسہ کی بنیادوں پروہ عظیم الشان عمارت تعمیر کی جو ادبی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کے نام سے مشہور ہوئی۔”
10؍ جولائی 1800ء میں اس کالج کابا ضابطہ آغاز ہو گیا۔ٹیپو سلطان کی شکست و شہادت کے چودہ مہینے کے بعد 10؍جولائی 1800ء مطابق 4؍ ساون 1857ء سمبت اور 17؍صفر 1215ھ کو گورنر جنرل مارکوئس آف ویلزلی نے فورٹ ولیم کالج کی باضابطہ داغ بیل ڈالی۔ ا س تاریخ یعنی 10؍جولائی کوگورنر جنرل کی کونسل نے کالج کے آئین و ضوابط کامسودہ منظور کر کے کالج کے قیام کو قانونی شکل دی۔ یہ کالج جو پہلے مدرسے کی شکل میں تھا، اب کالج کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کی طرف بھرپور اشارہ کرتا ہے۔ کالج کے آئین و ضوابط میں جو بات لکھی گئی وہ اہم ہے:
"خدائے قدوس کے فضل و کرم سے ہندستان میں برطانیہ عظمیٰ کے سپاہی، فوجی اقتدار کوجومسلسل کامیابی و کامرانی اور جنگوں میں جو پیہم فتح و نصرت نصیب ہوئی، اس کی وجہ سے نیز(برطانیہ عظمیٰ)منصفانہ، دانش مندانہ اور اعتدال پسندانہ پالیسی کی بدولت ہندستانی دکن کے وسیع علاقے برطانیہ عظمیٰ کے تحت اور انگلش ایسٹ انڈیا کے زیر حکومت آ گئے ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سلطنت قائم ہو گئی ہے، جو متعدد آباد اور زرخیز صوبوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں۔ جن کے مذہب جن کی زبان نیز جن کے عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان سب پر الگ الگ مختلف آئین و ضوابط اور مختلف رسوم کے مطابق اب تک حکومت کی جاتی رہی۔ برطانوی قوم کے مقدمین فرض، ان کے حقیقی مفاد، ان کی عزت اور ان کی حکمت عملی۔ اب تقاضہ یہ ہے کہ ہندستان کی برطانوی سلطنت کے حدود میں عمدہ عمل داری قائم کرنے کے لیے مناسب اقدام قائم کیے جائیں۔”
متذکرہ بالا عنوان سے کالج کے مقاصد پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مقصد ہی ہندستانی زبانوں کے روشن مستقبل کا باعث بن گیا۔ گلکرسٹ ہندستانی زبانوں کے صدر منتخب ہوئے۔ گلکرسٹ اردو زبان پر مہارت رکھتا تھا۔ اپنی ذات سے گذشتہ برسوں میں اردو کی خدمات انجام دے چکا تھا۔ کالج میں اس نے باقاعدہ اردو تعلیم کا آغاز کیا۔ اردو تصنیف و تالیف کی ابتدا کی۔ سب سے پہلے اس نے اردو تعلیم کے لیے منشیوں کا تقرر کیا۔ اور سال بھر کے اندر ہی اس نے اردو کی تالیف و تصنیف کا ایک محکمہ قائم کر دیا۔ اس نے اس وقت کے ہندستانی ماہر زبان کی تقرری کی اور ان سے اردو زبان میں ترجمہ اور تصنیف کا کام لینا شروع کر دیا۔ اس وقت اردو کا سرمایہ بہت زیادہ مضبوط نہ تھا۔ چھپی ہوئی کتابوں کا دستیاب ہونا تو تقریباً ناممکن سا تھا۔ چند قلمی کتابیں اس سے قبل فضلی کی "کربل کتھا” یا تحسین کی "نو طرز مرصع” آ چکی تھیں۔ گلکرسٹ نے تمام ماہرین اردو فارسی کو یکجا کیا۔ جس میں بہادر علی حسینی۔ شیر علی افسوس۔ مرتضیٰ خاں۔ غلام اکبر۔ میر امن۔ غلام اشرف۔ نصراللہ۔ میر حیدر بخش حیدری۔ اور کاظم علی جوان اہم تھے۔ ان تمام منشیوں کو ہر طرح کی آسانیاں مہیا کی جاتیں۔ ان کی ہمت افزائی کے لیے تمام وسائل فراہم کیے جاتے تھے۔ چار سال کے عہد میں گلکرسٹ نے عتیق صدیقی کے قول کے مطابق کم از کم چالیس ہندستانی مصنفین، مترجمین اور منشی مختلف اوقات میں کالج سے وابستہ رہے۔
فورٹ ولیم کالج کے اس ہندستانی شعبہ سے گلکرسٹ کے زیر سایہ جن کتابوں کے ترجمے یا تصنیف ہوئی ان کو زبان اردو کے ارتقاء کے سلسلے میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ میر امن کی "باغ و بہار” ان سب میں اہم ہے۔ میر امن نے اس کالج سے وابستہ ہو کر دو اہم کتابیں لکھیں "باغ و بہار” اور "گنج خوبی”۔ لیکن "باغ و بہار” نے اپنی زبان کی سلاست، روانی کے لیے جو شہرت حاصل کی وہ ان کی دوسری کتاب کو قطعی نہ مل سکی۔ یہ کتاب تحسین کی "نو طرز مرصع” کا ترجمہ ہے، لیکن میر امن نے اسے دلّی کی سلیس زبان، روز مرّہ کے محاورے، فقروں کی دل کشی سے اس کی شہرت میں چار چاند لگا دئے۔
یہ حقیقت ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے زیادہ مدت گذر جانے کے بعد بھی اس کتاب کی عظمت اور شہرت میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔ "باغ و بہار” نے اردو زبان کے لیے جو سلاست، روانی و دلفریبی کا راستہ کھولا اس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔ دوسرے اہم مصنفین میں حیدر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، مرزا علی لطف، میر بہادر علی حسینی، مظہر علی خاں ولا اور کاظم علی جوان ہیں، جو اپنے مختلف ترجموں و تالیف کی وجہ سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ حیدر کی کتابوں میں ان کا تذکرۂ "گلشن ہند” اور "آرائش محفل” اہم ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بھی اپنے زبان کی سلاست کی وجہ سے مشہور ہیں۔ "توتا کہانی” بھی ان کی مشہور کتاب ہے۔ افسوس کی تصانیف میں "باغ اردو” بہت اہم ہے۔گلشن ہند (لطف) نثر بے نظر (میر بہادر علی حسینی)، بیتال پچیسی (مظہر علی خاں ولا)، شکنتلا ناٹک (کاظم علی جوان)، مذہب عشق (نہال چند لاہوری) وغیرہ اہم کتابیں ہیں جن کی ذات سے اردو دنیا میں تصنیف و تالیف کا ایک ایسا مثبت انقلاب آیا جو اردو زبان کے لیے خوش گوار ثابت ہوا۔
فورٹ ولیم کالج کی عمر بہت زیادہ نہیں رہی۔ صرف پندرہ سال میں ہی اس نے ایسے کارنامے انجام دئے جو اردو دنیا میں ناقابل فراموش ہیں۔ جان گلکرسٹ کی اس کالج سے وابستگی صرف چار سال رہی۔ فروری 1804ء میں استعفیٰ دے کر انگلینڈ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد 1806ء میں کیپٹن ماؤنٹ آئے اور ان کے بعد 1808ء میں جان ولیم ٹیلر کی آمد ہوئی جو 1823ء تک رہے اور ان کے بعد ولیم پرائس 1823ء میں آئے اور 1831ء تک رہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلکرسٹ کے بعد کالج مسلسل مائل بہ زوال رہا۔ تصنیف و تالیف کے سارے کارناموں کا سہرا گلکرسٹ کے سر ہے۔ اور جب 24؍فروری 1804ء میں کالج کونسل نے گلکرسٹ کے استعفیٰ کو قبول کیا تو لکھا:
"مسٹر گلکرسٹ نے جس جوش و خروش، لیاقت و قابلیت اور انتھک محنت کے ساتھ ہندستانی زبان کے پروفیسر کی خدمات انجام دیں ان کا اعتراف کرنا کالج کونسل اپنا فرض سمجھتی ہے۔ نیز اس کا اعتراف بھی کرتی ہے کہ گلکرسٹ کی تصانیف ہندستانی زبان کی ان کتابوں نے جو انھوں نے چھاپی ہیں، کالج کے قیام کے مقاصد کو بدرجۂ اتم پورا کیا ہے۔”
امر واقعہ یہ ہے کہ گلکرسٹ نے خود اپنی تصنیفات اور ترجموں کے ذریعہ فورٹ ولیم کالج میں اردو ادیبوں کا تقرر کر کے ان سے ترجمے کرا کے خود ان ادیبوں اور اردو کی جو خدمات کی ہیں اس سے زبان اردو ہمیشہ ان کے احسانوں سے دبی رہے گی۔
اردو نثر کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کی اہمیت اور خدمات سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ اس کالج کی تخلیقات کے ذریعہ اردو نثر کو جو زندگی، روشنی اور توانائی حاصل ہوئی۔ وہ اس سے قبل نہ تھی۔ باغ و بہار، گلشن ہند، آرائش محفل، توتا کہانی جیسی تخلیقات سے اردو نثر میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور سنجیدگی آئی۔ اس سے قبل اردو کا نثری سرمایہ چند کتابوں پر مشتمل تھا۔ ان تخلیقات نے اس میں وسعت، وقار، بلندی کا اضافہ کیا۔ فورٹ ولیم کالج کی تمام تخلیقات اگرچہ ایک خاص نقطۂ نظر کے تحت لکھی گئیں۔ فارسی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو اردو زبان سے الگ کرنا۔ انگریزوں کا اقتدار ہندستان پر جو بڑھتا جا رہا تھا، ان کے خیالات اور رجحانات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ انگریزی طلباء یہاں کی دیسی زبانوں سے ناواقف تھے۔ لہٰذا ان کو یہاں کی زبانوں سے متعارف کرانا ہی دراصل اس کالج کا اہم مقصد تھا۔
اردو نثر کے ارتقاء میں اس وقت کے حکمراں طبقہ کا اپنا جو بھی مقصد ہو، لیکن یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہ ہونا چاہئے کہ اردو نثر کا ارتقاء دراصل انگریزوں کی دین ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کالج کی چھپی ہوئی تمام کتابیں کسی علمی اور سنجیدہ موضوع پر نہیں لکھی گئیں۔ ان میں اکثر و بیشتر کہانیوں اور قصوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ آسان راستہ اردو نثر کے فروغ کا سبب بن گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر حکومت (1857۔ 1751ء ) اردو نثر کے ارتقاء کی جب بھی بات آئے گی فورٹ ولیم کالج کا نام لیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اردو نثر کی اس اندھیری رات میں اس کالج نے ایک تاباں سورج کا کام کیا۔

دلّی کالج

فورٹ ولیم کالج کے بعد دلّی کالج اردو نثر کی ترقی کادوسرا زینہ کہا جاسکتا ہے اور اتفاق سے اس کو قائم کرنے والے بھی انگریز ہی تھے۔ فورٹ ولیم کالج زبان اور ادب کی طرف راغب ہونے کی پہلی کڑی تھی اور دلّی کالج دوسری۔ اگرچہ ان دونوں کے درمیان وقت کا بہت زیادہ تفاوت نہیں ہے۔ لیکن اتنا تھوڑا فرق بھی سمجھ بوجھ کر قدم اٹھانے والے کے لیے بہت کافی ہوتا ہے اور شاید اس وجہ سے دہلی کالج نسبتاً فورٹ ولیم کالج سے زیادہ نکھری اور سنوری ہوئی شکل تھی۔ دونوں کو قائم کرنے کا اگرچہ ظاہری مقصد ایک سا لگتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر دونوں میں یہ فرق تھا کہ فورٹ ولیم کالج انگریزی طلباء کو ہندستانی زبان سکھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور دہلی کالج ہندستانی طلباء کو انگریزی تعلیم سے واقف کرانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب فورٹ ولیم کالج رو بہ انحطاط تھا، سیاسی اعتبار سے ہندستان اپنی ساری طاقت کو کھو چکا تھا اور انگریز پورے طور پر ہندستان پر قابض ہو چکے تھے، لہٰذا اب ان کا دخل یہاں کی تہذیب و ادب میں بھی ہو چکا تھا۔ ہند ستانیوں کی اچھائی اور برائی کی ذمہ داری بھی انگریزوں کے سر آ چکی تھی۔ ایسے ماحول میں ہندستان کی تعلیم و ادب کی ترقی وغیرہ کی ذمہ داری بھی انگریزوں پر تھی۔ اپنے آپ کو یہاں کی زبانوں میں ڈھالنے کے بعد یہاں کے لوگوں پر اپنی انگریزی تعلیم کا بار اٹھانے کے لیے طرح طرح کے پروگرام بنائے۔ گروپ بنے۔ کمیٹیاں قائم کی گئیں اور اس طرح کی ایک کمیٹی 17؍جولائی 1823ء کو دہلی میں بنائی گئی۔ جس پر خرچ کرنے کے لئے ایک لاکھ روپئے کی رقم طے کی گئی۔ اس کمیٹی کے سکریٹری ولسن منتخب کیے گئے۔ جو سنسکرت اور دیگر علوم مشرقیات کے ماہر تھے۔ جے۔ ٹلرر۔ (J.TAYLER)نے اس منظوری کے بعد پورے دہلی شہر کا جائزہ لیا کہ کس مقام پر ایک ایسے کالج کی بنیاد ڈالی جائے جس میں مشرقی اور مغربی تعلیم کو جاری رکھا جا سکے۔ جائزہ لینے کے بعد جے ٹیلر نے جو رپورٹ دی وہ حسب ذیل ہے:
"دہلی میں تعلیم کی حالت بڑی افسوس ناک ہے۔ پرانے اوقاف بے توجہی کا شکار ہیں اور شرفاء تک اپنے بچوں کو پڑھانے کا انتظام نہیں کر سکتے۔ اس وقت پرانے مدارس سسک رہے ہیں، لیکن ان کی عمارتیں اور معلم موجود ہیں۔ اگر تعلیم کی ازسرِ نو تنظیم ہو تو اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔”
اس خیال کے تحت اس وقت کا ایک تعلیمی ادارہ مدرسہ غازی الدین جس کی بنیاد 1792ء میں پڑ چکی تھی اور اب تک یہ مدرسہ اسی نام سے مشہور تھا اور دہلی کی مذہبی اور ادبی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ 1828ء میں یہ مدرسہ دہلی کالج کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :
"غرض اس مجوزہ کالج کا افتتاح 1825ء میں ہوا اور اس شاہانہ عطیے میں سے اس کالج کے لیے پانچ سو روپئے ماہانہ مقرر کیے گئے۔ مسٹر جے۔ ٹیلر مقامی مجلس کے سیکریٹری ایک سو پچہتر روپئے ماہانہ پر اس کے پرنسپل ہوئے۔”
اور تین مقاصد کو لے کر (الف) علم و ادب کا احیاء اور انہیں ترقی دینا۔ (ب)ہندستانی علماء کی حوصلہ افزائی کرنا۔ (ج) علم اور سائنس کو ہندستان کے برطانوی مقبوضات کے باشندوں میں رائج کرنا اور انہیں فروغ دینا۔ کالج پر پوری توجہ دی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ حکمرانوں کی جانب سے اس کے اخراجات پر خاص توجہ دی جانے لگی۔ جلد ہی معاشی طور پر ایک انقلاب آیا۔
1825ء میں اعتماد الدولہ نے مدرسے میں مشرقی علوم کے لیے ایک لاکھ ستر ہزار کی رقم وقف کر دی، جس سے اس کالج کو بہت بڑا سہارا مل گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کالج کے تمام شعبوں نے پورے طور پر منظم ہو کر اپنے کارنامے انجام دینے شروع کر دئے اور اس مدرسے نے ایک نئی شکل اختیار کر کے دہلی کالج کے نام سے ملک بھر میں شہرت حاصل کی۔
دلّی کالج نے اپنی شہرت تو اختیار کر لی، لیکن جس مقصد کے لیے وزیر لکھنؤ کی جانب سے اتنی کثیر رقم دی گئی وہ فوت ہو گیا۔ یعنی اس رقم کا مقصد محض علوم مشرقی کو فروغ دینا تھا، لیکن انگریزوں نے اس پر توجہ کم دی اور تین سال بعد 1828ء میں کالج میں ایک الگ انگریزی شعبہ کھول دیا۔ ابتدا میں سماجی اعتبار سے اس کے اچھے اثرات نظر میں آئے، لیکن رفتہ رفتہ انگریزوں نے اپنے مقصد میں کامیابی پائی۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے انگریزی کا شعبہ کھولا، انگریزی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سنسکرت، عربی، فارسی کے درجوں پر بھی پوری اہمیت دی جاتی تھی۔ نتیجہ کے طور پر مشرقی اور مغربی تعلیم دونوں زور و شور سے آگے بڑھنے لگیں۔ دونوں زبانوں کی خصوصیات ابھر کر سامنے آنے لگیں۔ لیکن رفتہ رفتہ انگریز اپنے مقصد کی طرف بڑھنے لگے۔ انھوں نے انگریزی شعبہ کی اہمیت میں اضافہ شروع کر دیا۔ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے ایک خاص قسم کا وظیفہ مقرر کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ تر طالب علم انگریزی کی طرف بڑھنے لگے۔ اور اس کالج کے قائم کرنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ طلباء انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے، مشرقی علوم کی دلچسپی میں ذرا بھی کمی نہ آئی۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت کا ہر عالم اپنی زبان تو جانتا ہی تھا، ساتھ ہی اس نے انگریزی تعلیم کی شہرت اور اس کی ترقی کے راز کو بھی جاننے کی کوشش کی تھی۔ اور یہی بات انگریزی تعلیم کی کامیابی کی وجہ بن گئی۔
امتداد زمانہ کے تحت دلّی کالج کو باد سموم کے جھونکوں سے بیی دو چار ہونا پڑا اور 1857ء کا ہنگامہ اس کے لیے بھی مصیبت بن کے آیا۔ جب میرٹھ کی فوج دہلی میں گھس آئی تو تمام انگریز حکام ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اس میں ٹیلر صاحب (پرنسپل) باغیوں کے ہاتھوں مار ڈالے گئے۔ اساتذہ منتشر ہو گئے۔ کتابیں جلا دی گئیں۔ مالک رام لکھتے ہیں :
"اس شورش سے کالج کو بہت نقصان ہوا۔ مدرسوں میں جو لوگ دیسی سپاہی کے چنگل سے بچ نکلے، وہ تتر بتر ہو گئے۔ کتاب خانہ وقف تاراج ہوا۔ جاہلوں نے کتابوں کو چیر پھاڑ کے ورق ورق کر دیا۔ یہاں کا سامان توڑ پھوڑ کر اسے ہمیشہ کے لیے بیکار بنا دیا۔”
سات برس تک بند رہنے کے بعد 1864ء میں یہ کالج پھر قائم ہوا۔ اب اس کی جگہ بھی تبدیل ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 1857ء کے ہنگامے نے اسے اس قدر کمزور کر دیا کہ پہلے والی شکل اب نہ رہ گئی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ اب انگریزوں کے رویّے میں بھی تبدیلی آ چکی تھی۔ تقریباً نصف صدی کی عمر پانے کے بعد یہ کالج کتنی مشکلات سے گذرتا ہوا 1877ء میں اپنے اختتام پر پہنچ گیا۔
دلّی کالج اردو نثر کی ارتقا میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ رہی کہ تمام مضامین فلاسفی، سائنس یا کوئی بھی مضمون ہو اردو کے ذریعے پڑھائے جانے لگے۔ لہٰذا اردو نثر میں یہ پہلا موقع تھا جب مشرقی اور مغربی علوم آپس میں گلے مل رہے تھے۔ اور ایک دوسرے کی خصوصیات کو باہم جذب کرتے جا رہے تھے۔ اور صورت حال یہ تھی کہ دلّی کالج سے قبل کا ماحول محض داستانی تھا۔ لیکن دلّی کالج نے مغربی علوم کی روشنی میں مشرقی علوم کو چمکایا۔ فرسودگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور دل و دماغ میں علم و روشنی کی ایک نئی کرن جگمگائی۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کا لج سے رام چندر، پیارے لال آشوب، مولوی کریم الدین، امام بخش صہبائی، محمد حسین آزاد، ذکاء اللہ، نذیر احمد جیسی اہم اور نامور شخصیتیں وجود میں آنا مشکل تھیں۔ اس کے بعد گرد و پیش کے تمام ماحول کو بیدار کرنے اور جملہ علوم و فنون سے دلچسپی پیدا کرنے میں جو رول ادا کیا ہے اس کا اندازہ اس وقت کی اہم شخصیات اور تصنیفات کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ یہاں پر ان سب کا ذکر کر کے طوالت منظور نہیں۔ کالج کے اساتذہ اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر انگریز ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہندستانی بھی اس میں شامل تھے۔ مفتی صدر الدین آزردہ اور مولوی امام بخش صہبائی جیسے منتخب اساتذہ کا تعلق بھی اسی کالج سے تھا۔ پہلی بار دہلی کالج کے ذریعہ مشرق و مغرب کا اتنا بھرپور ملاپ ہوا۔ بقول عبدالحق مرحوم کے کہ ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی جماعت میں مشرق و مغرب کا علم و ادب ساتھ ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ اس ملاپ نے خیالات کے بدلنے، معلومات کے اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میں جادو کا سا کام کیا اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی اور ایک نئی جماعت ایسی پیدا کی جس میں سے ایسے پختہ، روشن خیال اور جامع النظر مصنف نکلے جن کا احسان ہماری زبان اور ہماری سوسائٹی پر ہمیشہ رہے گا۔ نذیر احمد، آزاد، ذکاء اللہ سب اس کالج کی ہی دین ہیں، جنہوں نے اردو نثر میں ایک انقلاب پیدا کیا۔ نذیر احمد نے ناولوں کا آغاز کیا۔ آزاد نے "آب حیات” لکھی اور جدید نظموں کی طرف ذہن موڑا۔ ذکاء اللہ نے ترجمے کیے۔ ان سب ادیبوں نے ادب کو ایک نئے ڈھرّے اور ایک نئی راہ پر لگایا اور ایک ایسا مستحکم راستہ نکالا جس پر آگے چل کر دوسرے ادیبوں نے اس راہ کو اور خوبصورت بنایا۔ نذیر احمد اپنے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
"معلومات کی وسعت، رائے کی آزادی، ٹالریشن، گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی، اجتہاد اعلیٰ وغیرہ۔ یہ چیزیں جو تعلیم کے لیے عمدہ نتائج ہیں اور جو حقیقت میں شرط زندگی ہیں ان کو میں نے کالج ہی میں سیکھا اور حاصل کیا۔ اور اگر میں کالج میں نہ پڑھا ہوتا تو کیا بتاؤں کا ہوتا؟ مولوی ہوتا۔ تنگ خیال ہوتا۔ ۔ ۔ اپنے نفس کے احتساب سے فارغ۔ دوسروں کے عیوب کا متمنّی۔ بر خود غلط مسلمانوں کا نادان دوست۔ تقاضائے وقت کی طرف سے اندھا۔”
اردو نثر کے ارتقاء میں دلّی کالج فورٹ ولیم کالج کے بعد اور علی گڑھ تحریک سے قبل ایک اہم کارنامہ ہے، جس کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ یہ ان دونوں کے بیچ کی ایک کڑی ہے۔ اس کی روشنی، اس کا بالغ ذہن، انگریزیت اور اس کی بیداری نے سر سید کی ہمت افزائی کی اور انھوں نے علی گڑھ تحریک کی بنیاد ڈالی۔
فورٹ ولیم کالج کے ذریعہ داستان ادب اور صحافت نے زور پکڑا اور سلیس اور آسان نثر کا اضافہ ہوا۔ دلّی کالج نے اس آسان نثر میں فکر و روشنی اور انگریزی علوم کے وہ عناصر جذب کر دئے جس سے اس زبان کے نثری سرمایہ میں ایسی چمک اور رنگینی آئی کہ اس کی شکل اچانک نکھر آئی اور وہ اس قابل ہو گئی کہ وہ اپنی خوبصورتی اور اپنی رنگینی سے دوسروں کی نظروں میں دلکشی کا سبب بن گئی۔ لوگوں کی نظریں اس کی جانب اٹھنے لگیں۔ علی گڑھ تحریک کا تمام نثری سرمایہ اسی کا ردّ عمل ہے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج اور علی گڑھ کالج کے درمیان تسلسل کے بارے میں ڈاکٹر صدیق الرحمٰن قدوائی کی یہ تحریر قابل توجہ ہے:
"اردو نثر کی تاریخ میں دلّی کالج، علی گڑھ تحریک اور فورٹ ولیم کالج کے درمیان ایک کڑی ثابت ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کے بعد نثر پر جمود طاری ہونے کے بجائے دلّی کالج اور اس سے متعلق حضرات کی بدولت چند اعلیٰ روایت کی داغ بیل پڑی اور ادب میں نمو اور بالیدگی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ فورٹ ولیم کالج سے یہ اس بنا پر ممتاز تھا کہ یہاں ہندستانیوں کو اردو کے ذریعے مغربی علوم و ادب سے آشنا کرانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جب کہ فورٹ ولیم کالج کا اصل مقصد حکومت کی ضروریات کے پیش نظر انگریزوں کو مشرقی علوم و ادب اور زبانوں سے واقفیت بہم پہنچانا تھا۔ یہ فرق ان دونوں اداروں کی شائع کی ہوئی کتابوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ علی گڑھ کالج اور دلّی کا لج میں کوئی بنیادی اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے ایک اہم فرق یہ تھا کہ مغربی علوم کی تدریس کا ذریعہ انگریزی ہی کو بنایا گیا، جب کہ دہلی کالج نے اردو کو بطور ذریعہ تعلیم تسلیم کیا اور اس زبان کے ذریعے ہندستان مغربی علوم کی اشاعت کو ترجیح دی۔”

داستان سےناول

صنف ناول کی جو شکل ہمارے ادب میں موجود ہے، وہ دراصل مغرب کی دین ہے لیکن یہ صنف مغرب سے مشرق میں اچانک جست کر کے نہیں آئی، بلکہ اس کے درمیان ایک کڑی ہے، جسے ہم داستان کہتے ہیں۔ مغرب میں بھی ناول کی ابتدا اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کے پس منظر میں اس کی رومانی قصہ گوئی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ادب میں قصہ گوئی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ قصّہ گوئی کا تعلق انسانی دلچسپی سے ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جیسے جیسے انسانی ذہن کی پرتیں ہٹتی گئیں قصہ گوئی بھی پہلو بدلتی گئی اور اس کی شکل تغیر پذیر ہوتی گئی۔ قصہ انسان کو ذہنی تفکرات اور تردّدات سے دور لے جاتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر کے لیے سیی لیکن سکون اور فرحت بخشتا ہے اور شاید اسی لیے ہر دور میں قصوں اور کہانیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، چاہے وہ سکون اور آرام کا دور ہویا اس کے برخلاف پریشانیوں اور الجھنوں کا۔ اسی لیے ادب میں بھی اس کا ایک اہم مقام ہے۔ کیوں کہ یہ قصے خلاء میں جنم نہیں لیتے بلکہ ان کی روشنی میں ہمیں اس دور کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ بقول کلیم الدین احمد:
"قدیم قصے جو عموماً کسی قوم میں متداول نظر آتے ہیں وہ مختلف دلچسپیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ قصے خلاء میں سانس نہیں لیتے اور نہ خلاء میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی اس قوم کے شعور و تخیل سے آبیاری ہوتی ہے۔ ان میں اس قوم کے تخیل کی ابتدائی نو خیز تخیل پرواز کا عکس نظر آتا ہے۔ ان میں اس قوم نے شعور کی پہلی معصوم تتلاہٹ سنائی دیتی ہے۔”
اردو نثر کی ابتدا بھی قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ ہوئی۔ فارسی کی بہت سی حکایتوں کے ترجمے اردو میں کیے گئے۔ اردو کی تمام نثری داستانوں میں ہمیں جو عناصر ملتے ہیں وہ آج کے دور کے مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔ مافوق الفطری عناصر، دیو پری کے قصے، ہیرو کی ہمیشہ فتح، اس کا جن کی شہزادی پر عاشق ہونا، حوض میں کودتے ہی پتھر ہو جانا، زمین کے نیچے خوبصورت باغ ہونا، آج کے لیے مضحکہ خیز ضرور ہیں لیکن اس عہد کی دلچسپی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ اس کے بعد کی داستانوں پر غور کیجئے خصوصاً فورٹ ولیم کالج کی داستانیں جو انگریزوں کی آمد کے بعد ترجمہ کی گئیں۔ ان میں زبان وبیان اور قصے کی ایک بدلتی ہوئی شکل ملے گی۔ خصوصاً سب رس، رانی کیتکی کی کہانی، باغ و بہار اور فسانہ عجائب وغیرہ۔ یہ داستانیں فورٹ ولیم کالج اور اس کے بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ ساری داستانیں اس وقت لکھی گئیں جب مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی۔ چاروں طرف غیر ملکیوں کا دور دورہ ہو رہا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ ان داستانوں میں بھی وہی عناصر ہیں جو اس سے قبل کی داستانوں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن بدلتا ہوا سماجی شعور، بیدار ہوتا ہوا سماجی ذہن، لاشعوری طور پر ان میں جھلکتا ہوا نظر آئے گا۔ اس وقت کے سیاسی اور افراتفری کے اثرات ملیں گے۔ بادشاہ کی بے بسی اور مجبوری نظر آئے گی۔ اعلیٰ طبقوں کا بکھرتا ہوا شیرازہ ملے گا۔ اس لیے میمونہ بیگم انصاری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:
"جیسے جیسے یہ قصے زمانے کے قریب لکھے جا رہے تھے۔ ان کے اندر ہلکا ہلکا احساس کروٹیں لیتا ہوا محسوس ہوتا جا رہا تھا۔ باغ و بہار کا اسلوب داستان امیر حمزہ کی زبان اور بوستان خیال کی سادگی ادب کو زندگی کے قریب لانے پر صاف دلالت کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔”
فورٹ ولیم کالج نے داستانوں کو ترقی دی اور فن داستان نویسی کو عام کیا۔ اگر ان داستانوں کا بالا ستیاب مطالعہ کیا جائے، اس میں تخیلاتی باتیں اور طلسماتی کیفیات نظر آئیں گی۔ لیکن ان سب میں ایک زوال پذیر تہذیب ماتم کناں نظر آئے گی۔ نا اہل بادشاہوں اور حاکموں پر طعنے و تشنے نظر آئیں گے۔ یہ تمام داستانیں زیادہ تر انیسویں صدی کی ابتدا میں لکھی گئیں۔ اس کے بعد غدر کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر اچانک 1857ء کے حادثہ نے ان سب کو چونکا دیا۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا جس نے زندگی کے ہر شعبہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ داستان کا دور ختم ہوا۔ لیکن اس حادثہ سے قبل انگریز حاکموں نے ہندستانی ادب میں بیداری کی ایک نئی روح پھونک دی تھی جس سے داستانی رنگ رفتہ رفتہ غائب ہوتا جا رہا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے بعد دلّی کالج اس کی مثال تھی۔ انگریز اپنے ساتھ ادب اور تمدن لے کر آئے تھے۔ یہاں فارسی کی دلچسپ اور شیریں حکایتیں سانسیں لے رہی تھیں۔ دونوں کا سنگم ہوا اور ایک نیا ادب وجود میں آیا۔ ناول نگاری دونوں کے امتزاج سے نکلے ہوئے نتیجے کی شکل ہے، جس میں فارسی داستانوں کی شیریں حکایتوں کے اجزاء بھی شامل ہوئے اور مغربی اثرات کی بیداری بھی۔ داستانوں نے ایک دم سے رخ پلٹا اور کہانیوں نے ناول کی شکل اختیار کر لی۔
یہ بات واضح ہو گئی کہ اردو میں ناول اور اس کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس سفر کو فورٹ ولیم کالج سے شروع کر کے دلّی کالج اور انقلاب 1857ء سے گذرتے ہوئے علی گڑھ تحریک پر ختم کرنا پڑے گا۔ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے قبل اردو نثر کے نمونے خال خال نظر آتے ہیں۔ پہلی بار باضابطہ طور پر اس کالج نے فارسی داستانوں، حکایتوں اور دلچسپ قصوں کا آسان اور سلس اردو زبان میں ترجمہ کیا۔
فورٹ ولیم کالج کے ذریعہ زبان کا جو اسلوب ہاتھ آیا وہ قابل قدر ہے۔ باغ و بہار اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس کے جواب میں فسانہ عجائب لکھی گئی۔ رانی کیتکی کی کہانی وجود میں آئی اور یہ سلسلہ جب دلّی کالج تک پہنچا تو اردو نثر کی نشو نما میں دلّی کالج نے کیا رول ادا کیا، یہ گذشتہ باب میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ دلّی کالج کے زیر اثر اردو نثر میں فکری انداز نمایاں طور پر نظر آنے لگے۔ 1857ء تک یہ تمام داستانیں اور داستانی فضا آخری ہچکیاں لے کر ختم ہو گئیں۔ اس ہنگامہ کے ساتھ ہی ساتھ پرانی تمام قدریں، روایتیں سب درہم برہم ہو گئیں۔ نیا نظام آیا۔ نئی سوسائٹی آئی۔ نئی ضروریات نے جنم لیا۔ نئے تقاضے پیش ہوئے۔ زبان کی صورت ان منازل کو طے کرتی ہوئی اپنے خوشگوار سفر پر پھر رواں تھی۔ ایسے ہی موقع پر ایک ایسے شخص نے جنم لیا جس نے ان تبدیلیوں کو ایک پوری تحریک میں بدل دیا، اس کا نام سر سید ہے جس نے بدلتے ہوئے حالات کو پڑھا۔ ادب میں، سماج میں، تہذیب میں ہر جگہ تبدیلیوں کا استقبال کیا اور ادب کو، سماج کو ایک نئی ڈگر سے نئی راہ پر لا کر چھوڑ دیا۔ آج جب ہم ناول کا مطالعہ کرتے ہیں تو آنکھ بند کر کے یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ ناول مغرب کی دین ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جدید ناولوں نے یقیناً مغربی ناولوں کا چربہ اتارا ہے اور آج اسی وجہ سے صنف ناول میں قابل قدر تجربے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان داستانوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے، جو ناول سے قبل اردو ادب میں لکھی گئیں۔ ان کا بھی اپنا ایک رنگ، ایک مزاج، ایک تہذیبی متانت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا مطالعہ ہمیں ایک طلسماتی ماحول میں لے جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اگر ان کی زبان پر توجہ دی جائے تو ہمیں محسوس ہو گا کہ آج کے ناول کی زبان دراصل انھیں داستانوں کی دین ہے۔ اب ان داستانوں کو غور سے پڑھیں ہر ایک کا اپنا ایک الگ رنگ ہے۔ دہلوی داستان گو دہلی کے ماحول میں لے جاتا ہے اور لکھنؤ کا داستان گو لکھنؤ کے ماحول میں۔ بقول علی عباس حسینی:
"دہلوی داستان گو اپنی داستانیں دہلی کے دربار کے ماحول سے سجاتا ہے اور اسی معاشرت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ جو قلعۂ معلی میں رائج تھی۔ لکھنؤ کا داستان گو جب سماں کھینچتا ہے تو ہم نوابین اودھ کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔”
اور یہ صرف زبان و بیان کی خوبی سے ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زبان کا اتار چڑھاؤ کہیں اور سے نہیں داستانوں سے لایا گیا۔ اس کے علاوہ منظر کشی، کردار نگاری کے بنیادی عناصر ناول کو داستانوں سے ملتے ہیں۔ عمرو عیاّر کا کردار ہمیں خوجی میں نظر آتا ہے اور اسی طرح خوجی کا کردار ترقی کرتے کرتے آج کے ناولوں میں سما گیا۔ لہٰذا یہ بات قابل غور ہے کہ آج جو داستانوں اور ناولوں میں فرق نظر آ رہا ہے وہ اس وجہ سے کہ زمانے اور شعور کی نوعیت بدل گئی ہے اور بقول احسن فاروقی:
"ناول اور داستان کے اجزائے ترکیبی میں بنیادی فرق نہیں۔ صرف زمانے اور انسانی شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت بدل گئی ہے۔ ناول کتنی حقیقی کیوں نہ ہو وہ ہر گز دلچسپ نہیں ہو سکتی جب تک اس میں تخیل کی آمیزش نہ ہو۔ اور کوئی داستان ایسی نہیں دکھائی جا سکتی جس میں تخیل کی فراوانی کے ساتھ کچھ نہ کچھ حقیقت نہ ملی ہوئی ہو۔”
فرق صرف ذہنی ارتقاء کا ہے۔ قصہ اس میں بھی ہے اور ناول میں بھی۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ داستان نویسوں کو بھی زندگی کا تجربہ پیش کرنا تھا اور اس تجربہ کو اپنے تخیل کے رنگ میں رنگ دینا تھا۔ مگر ان کے شعور نے اس درجہ تک ترقی نہیں کی کہ تخیل کو مبالغہ کی دنیا میں جولانی کرانے سے روکتے اور زندگی کا صحیح اور قرین قیاس انداز پیش کرتے۔ جب انسان کا شعور ترقی کر کے اس درجہ پہنچ گیا تو داستان ناول میں تبدیل ہو گئی۔ لہٰذا ناول کے مطالعہ کے وقت داستانوں کو درگذر نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انگریزی کے ذریعہ آئی ہوئی زبان کے مطالعہ کے بغیر بھی اردو ناول کی تشکیل کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ ان کی تہذیب ان کی زبان کا براہ راست اثر اردو زبان پر پڑا لیکن یہاں کے عوام جو پچھلی کئی صدیوں سے داستانی دور میں رہتے چلے آ رہے تھے، ابھی تک اس طلسماتی دنیا میں گم سم تھے۔ انگریز حاکموں نے اس فضا کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہندستان پر اپنے قدم جما لئے۔ نتیجہ کے طور پر غدر کی شکل میں اس کا ناکام ردّ عمل ہوا۔ اس ناکامی نے بھی اس بات کا ثبوت دے دیا کہ اب انگریزوں کی راہ پر چلنا ہی مناسب ہے۔ سر سید ایسے موقع پر سامنے آئے اور انھوں نے قوم اور ادب دونوں کو وقت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور ایک تحریک چلا دی۔ احسن فاروقی لکھتے ہیں :
"سر سید کی تحریک میں عجیب جادو تھا۔ یہ جادو فوراً سر چڑھ کر بولا۔ جو لوگ ان کے خلاف تھے وہی توہمات کی دنیا سے بلبلا کر نکل آئے اور حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے۔”
اس تحریک کے ذریعہ جو بیداری عمل میں آئی اس نے صنف ناول کے فروغ میں بڑا کام کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ داستان طلسماتی فضا سے نکل کر حقیقی رنگ میں آئی۔ دیو و پریوں و جنات کی جگہ سماج کے حقیقی کرداروں نے لے لی۔ اخلاقیات، سماجیات و معاشیات سے اس کا گہرا تعلق ہو گاو۔ قوم میں بھی ایک انقلاب آیا۔ سر سید کی آواز صرف ایک حلقہ میں ہی نہیں گونجی بلکہ دور دور تک اس کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے گردو نواح کے لوگوں پر تو اور تیزی سے اثر ہوا۔ مسلمان انگریزی پڑھنے لگے۔ نئی تہذیب کو گلے سے لگانے لگے۔ بقول علی عباس حسینی:
"ان حضرات کی آواز صدا بہ صحرا نہ بنی۔ مسلمانوں نے انگریزی بھی پڑھی اور سرکاری ملازمت بھی کی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اردو کا سب سے پہلا ناول نویس ملازم سرکار بھی ہے اور مولوی بھی۔”
لہٰذا اس امر میں اب وضاحت کی ضرورت نہیں رہی کہ داستان اور ناول میں انسانی تہذیب اور تمدن کے بدلتے ہوئے رجحانات نظر آتے ہیں۔ جب انسانی ذہن مں شعور کی کمی تھی، قصہ گوئی نے عروج حاصل کیا۔ لیکن جیسے جیسے انسانی زندگی کروٹیں لیتی رہی اس میں سائنس، معاشی اور سماجی حالات بدلتے رہے۔ زندگی صحیح راستے پر آنے لگی۔ انسان حقیقتوں کی تلاش میں پھرنے لگا تو ان طلسماتی فضا اور رنگین داستانوں نے دم توڑ دیا اور ناول کی شکل وجود میں آئی۔ بقول آدم شیخ:
"اب عوام کو صرف تفریحی ادب ہی سے دلچسپی نہیں رہ گئی بلکہ وہ ایسا ادب چاہتے تھے جو زندگی پر تنقید کر سکے۔ انھیں انسانی اور ادبی تقاضوں نے ناول کے لیے زمین ہموار کی اور ناول نگاری کے فن کی ابتدا ہوئی۔ بایں ہمہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو ناول کو فکر و فن کا ایک نیا ڈھانچہ بنانے کے لیے اردو داستانوں سے کافی مدد ملی۔”
زیادہ تر ناقدین اور مورخین کو اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اردو کا پہلا ناول مراۃ العروس ہے جو 1869ء میں شائع ہوا تھا۔ کیوں کہ اس سے قبل کے تمام نثری نمونے اس تصنیف کی شکل میں نہیں ملتے اور ڈپٹی نذیر احمد کے بعد کے ناول بھی اس کے بعد کی کڑیاں ہیں۔ لکنے اس درمیان ڈاکٹر محمود الٰہی نے مولوی کریم الدین کی تخلیق "خط تقدیر” کو تلاش کر کے ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں سے قبل کے نمونے میں ایک اہم اضافہ کر دیا۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خط تقدیر، مراۃالعروس سے سات سال قبل یعنی 1862ء میں شائع ہو چکا تھا۔ لہٰذا ناول کی ساخت جو ہمیں نذیر احمد کے یہاں ملتی ہے وہ کریم الدین کے یہاں دھندلی شکل میں پہلے سے آچکی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ نذیر احمد کے یہاں فکر کی بلندی و شعور کی پختگی، زبان و بیان کی صفائی، انگریزی تعلیم کے اثرات، تعلیم نسواں میں اصلاح کے عناصر نمایاں طور پر تھے اور انھیں عناصر نے ہی انھیں زندۂ جاوید ناول لکھنے پر مجبور کر دیا، جو ہمارے ناول کے خزانے میں بیش بہا موتی کی طرح ہیں۔ لیکن کریم الدین کی "خط تقدیر” پر ایک نظر ڈالے بغیر آگے نہیں جا سکتا۔
مولوی کریم الدین (1821۔ 1879ء ) نذیر احمد کی طرح دلّی کالج کی پیداوار تھے۔ مولوی کریم الدین نے دراصل اپنے تذکرے "طبقات شعر الہند” کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ مشہور مستشر ق گارسان دی تاسی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ جا بجا ان کے خطبوں میں دی تاسی کے خطبوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ مولوی کریم الدین کی یہ کتاب 1862ء میں شائع ہوئی۔ بقول پروفیسر محمود الٰہی:
"مولوی کریم الدین کی "خط تقدیر”(1862) نذیر احمد کی "مراۃالعروس” 1869ء سے سات سال قبل شائع ہوئی۔ اور 1865ء تک اس کے کم از کم تین اڈیشن نکلے، جس سے اس کے حسن قبول کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ "مراۃالعروس” کے دیباچے میں نذیر احمد کے ان جملوں کو پڑھ کر کہ بالکل نئے طور کی کتاب ہے یا اس طرز میں پہلی تصنیف ہے، یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ "خط تقدیر” ان کی نظر سے گزری تھی۔ لیکن اس سے یہ حقیقت متاثر نہیں ہوتی کہ "مراۃالعروس” سے کئی سال قبل "خط تقدیر” کو قبول عام مل چکا تھا۔
خط تقدیر کا انداز تمثیلی ہے۔ 1857ء کے بعد ہندستانی عوام جن مسائل سے دو چار ہو رہے تھے ان کو اس ناول میں تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا۔ تدبیر اور تقدیر کا ٹکراؤ دکھایا گیا۔ روزی روٹی حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیروں سے کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ عقلی تدبیر، ملکۂ تقدیر، فیضان، آمدنی، خرچ، کفایت شعاری وغیرہ اس کے کردار ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس کا انداز تمثیلی ہے، جو بعد کے ناولوں سے مختلف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طلسماتی فضا کو توڑنے کا ایک واضح تصور اس کتاب میں ملتا ہے۔ تمثیل کا یہ انداز بعد میں بہت کامیاب ہوا۔ سر سید اور آزاد کے یہاں یہی چہرے نظر آتے ہیں۔ تمثیل نگاری میں یہ خرابی ضرور ہوتی ہے کہ قصہ کے پلاٹ کا حسن بکھر سا جاتا ہے۔ کچھ خوبیاں سامنے آتی ہیں تو خامیاں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اس ناول میں بھی ایسا ہوا کہ پلاٹ بکھر جاتا ہے۔ بقول پروفیسر محمود الٰہی کہ تمثیل کے پلاٹ کے آداب کا لحاظ رکھنا یوں بھی مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کے با وصف "خط تقدیر” میں ناول کے پلاٹ کی جھلک ملتی ہے۔ اس کتاب میں خارجی حقیقتوں پر زور دیا گیا ہے۔ یہی اس کتاب کی خامی ہے جو اسے ناول کی حد سے نکال کر داستان کی حد میں لے جاتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب میں ایک ناول نگار کی روح پیوست ہے۔ کریم الدین در اصل تذکرہ نگار تھے۔ لہٰذا زبان و بیان کے نقطۂ نظر سے اگرچہ یہ کتاب پچھلے تمام نمونوں سے بہتر ہے لیکن کہیں کہیں یہ تذکرہ نگاری کے حدود میں بھی داخل ہو جاتی ہے۔ پوری پوری مثنوی اس کتاب میں نقل کر دی گئی ہے۔ اور بقول اشفاق احمد اعظمی کہ جو ناول کی ادبی زبان سے اس کو دور کر دیتی ہے۔ انسانی رشتوں کا واضح تصور اس میں نہیں ملتا۔ یہی اسباب ہیں جس سے یہ تصنیف ناول کا وہ درجہ نہ بنا سکی جو بعد کے ناولوں کو ملا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ خط تقدیر لکھتے وقت مصنف کے ذہن میں اس کی رائج داستانی فضا اور زبان و بیان کے خلاف ایک بغاوت ہے، ایک بیداری ہے جو اس نے اپنے دیباچے میں اس طرح سے لکھا ہے:
"اس کی ضرورت اس واسطے دامن گیر ہوئی کہ سات سو برس سے عربی اور ترکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اس زمانہ میں خوب طرح پر کھل گیا کہ عام طور پر تصنیف سابق اچھا نہ تھا۔ خصوصاً طلباء اور نوجوان کو ہر گز ایسی کتاب کا پڑھنا مناسب نہ تھا، اس لیے بندہ نے وہ عام طور پر چھوڑ کر نئے طور سے یہ قصہ لکھا اور کوئی لفظ بیہودہ اس میں نہ آنے دیا تاکہ عورتیں اور مرد دونوں اس کتاب سے حظ اٹھائیں۔ ”
ان تحریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کریم الدین نے یہ آواز اس وقت اٹھائی جب ہمارے ادب میں داستانوں کا تسلط تھا۔ مافوق الفطرت عناصر چاروں طرف چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس نے وقت کے ساتھ آواز اٹھائی۔ بدلتے ہوئے رجحانات میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ سچ ہے کہ ہم اس ناول کو نذیر احمد کی ناولوں کے مقابلے میں نہیں کھڑا کر سکتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کو جدید ناولوں کا پیش خیمہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔
مارچ965 1ء سے قبل لوگ اس ناول کو بھول چکے تھے۔ لیکن ڈاکٹر محمود الٰہی نے اسے دریافت کر کے داستانوں اور ناولوں کے درمیان ایک اہم کڑی کا اضافہ کیا ہے۔ محمود الٰہی نے کریم الدین کی تحقیقات اور خصوصاً "خط تقدیر” کو شہرت نہ ملنے کی کئی وجوہات بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"کریم الدین کی شخصیت کے پس پردہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ ان کے جذبۂ خدمت کو دلّی کالج سے قوت و توانائی ملی تھی اور وہ غدر کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس راستے پر وہ گامزن تھے ان سے زیادہ باصلاحیت اور سرگرم ہستیاں نظر آنے لگیں۔ ایسی صورت میر کارواں کا بھی گرد کارواں بن جانا بعید از مشاہدہ نہیں۔
اس کے علاوہ محمود الٰہی نے ایک اور کتاب کا تذکرہ کیا جس کا نام "جواہر اصل” بتلایا جس کے مصنف عزیز الدین خاں تھے۔ اس تخلیق کے سلسلے میں محمود الٰہی نے حالی کے تعارف سے یوں نقل کیا ہے:
"الہ آباد کے اخبار امین الاخبار کے مدیر نے جن کا نام عزیز الدین خاں ہے (PILGRIM’S PROGRESS) کے طرز پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام "جواہر اصل” رکھا ہے۔ اس کی عبارت نثر اور نظم دونوں میں ملتی ہے۔
محمود الٰہی نے اس کا سال تصنیف 1862ء بتایا ہے۔
اشفاق احمد اعظمی نے اپنے مقالے "نذیر احمد شخصیت اور کارنامے” میں رسم ہند کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"یہ پیارے لعل آشوب اور کپتان ڈبلو۔ جے۔ ہالرائڈ کی مشترکہ تصنیف ہے۔ اس کی تصنیف ایک کمیشن کے زیر سرپرستی 1864ء میں شروع ہوئی جس کے سربراہ میکلو ڈامنڈ گورنر پنجاب تھے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1868ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کی تالیف اس دور کے کالجوں اور اسکولوں کے نصاب کی فراہمی کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 1869ء میں شائع ہوا۔
اس کے بعد آگے بتایا کہ اس میں تین طویل کہانیاں ہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ بھی اقرار کر لیا کہ ان کہانیوں کو ناول کے زمرے میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :
"یہ کہانیاں طویل ضرور ہیں لیکن پھر بھی ایک کتاب کا طول(BOOK LENGTH) اختیار نہیں کر پاتیں۔ اس لیے ناول کے زمرے میں داخل نہیں کی جا سکتیں۔ پھر بھی ان کی فطری زبان اور ان کے حقیقت پر مبنی قصے۔ اس کو جدید قصہ نویسی سے بہت قریب کر دیتے ہیں۔ ان کہانیوں میں تمثیلیت کے بجائے براہ راست زندگی کا مطالعہ ملتا ہے۔
یہ موضوع ضرور بحث طلب ہے کہ نذیر احمد ان قصوں سے واقف تھے یا نہیں یہاں طوالت کے باعث یہ بحث اٹھانی مناسب نہیں۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ جہاں جہاں نذیر احمد نے اپنے دیباچوں میں ناول نگاری کے بارے میں رقم کیا ہے اپنے اعتبار سے نئی اور پہلی باتیں لکھی ہیں۔ کہیں بھی یہ اظہار نہیں ہوتا کہ انھوں نے ناول لکھنے سے قبل ان قصوں کا مطالعہ کیا یا نہیں یا ان کی شہرت ان کے کانوں تک پہنچی تھی یا نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان تخلیقات نے داستان کے دور کو ختم کر کے ناول کی فضا کو ہموار کرنے میں بڑی مدد کی، لیکن ناول کی وہ شکل جسے ہم مغرب کی دین کہتے ہیں وہ نذیر احمد سے پہلے نظر نہیں آتی۔ نذیر احمد باضابطہ طور پر انگریزی رجحانات سے متاثر ہوئے۔ انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انگریزی طرز پر ناول لکھے جس کا جائزہ آئندہ لیا جائے گا۔

ڈپٹی نذیر احمد

نذیر احمد کی شخصیت کی تعمیر میں دلّی کالج اور علی گڑھ تحریک دونوں کا برابر ہاتھ ہے۔ دلّی کالج نے ان کے دماغ کو روشن کیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ابھارا اور علی گڑھ تحریک نے ان کے شعور کی پختگی اور فکر کی بلندی میں اضافہ کیا۔ 1857ء کی غدر کے بعد جب قوم سماجی اور تہذیبی اعتبار سے مائل بہ زوال تھی تو ایسے موقع پر سر سید نے پوری قوم کو چونکا دیا اور ان میں آگے بڑھنے کی روح پھونکی تو پڑھے لکھے لوگ بھی سر سید کے ساتھ ہو گئے۔ ابتدا میں یہ ساتھ پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہا لیکن آگے چل کر یہ لوگ دو گروپ میں بٹ گئے۔ ایک گروپ تو سر سید کے ساتھ رہا۔ دوسرا مخالف ہو گیا۔ نذیر احمد کا شمار ان کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ لیکن تحریک کا مقصد اصلاح تھا اور اصلاحی عناصر نذیر احمد کی گھٹی میں سمائے ہوئے تھے۔ لہٰذا کسی نہ کسی اسٹیج پر دونوں کے خیالات میں ہم آہنگی بھی نظر آتی ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سر سید نے حالات کا تیزی سے مشاہدہ کیا اور اتنی ہی تیزی سے وہ آگے بڑھ گئے۔ مغرب کی روشنی میں مشرق کو کم تر سمجھ کر ان کی تمام کمیوں کو پورا کرنے میں ہی قوم کی بہبودی سمجھی اور مغرب کی پیروی شروع کر دی۔ لیکن نذیر احمد نے خالص اصلاح فرمائی۔ آپ نے مذہب اور تہذیب کی اصلاح، اپنی قوم کی اصلاح اپنی ہی روشنی میں کی۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے پس پردہ انھوں نے ان اصلاحی کارناموں میں مغرب کی بعض خوبیوں کو بھی سمیٹ لیا۔
نذیراحمد نے اپنی اصلاح قصہ گوئی کے ذریعہ کی۔ جب قصہ گوئی کی جانب نذیر احمد کا دھیان گیا تو اس وقت کا ہندستان تبدیلیوں سے دو چار ہو رہا تھا۔ ادب بھی ان تبدیلیوں کی لپیٹ میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ داستانی دور ختم ہوا اور اس کی جگہ ناول نے لے لی۔ نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار مانے جاتے ہیں۔ پہلی بار قصے اور کہانیوں کو نذیر احمد نے حقیقت سے قریب لانے کی کوشش کی۔ زندگی سے قریب ہو کر اور اس وقت کے مسائل سے متاثر ہو کر ناولیں لکھیں اور ان مسائل کو ان میں سمونے کی کوشش کی۔ مراۃالعروس (1869ء ) بنات النعش (1872ء ) توبۃ النصوح (1874ء )ان کے کامیاب ناول ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے دوسرے ناول ابن الوقت، فسانۂ مبتلا، رویائے صادقہ اور ایامیٰ ہیں۔ ان تمام ناولوں میں نذیر احمد نے مسلمانوں کے متوسط طبقے کے مسائل اٹھائے ہیں جو غدر کے بعد اپنی شان و شوکت کھو کر اپنی جھوٹی عزت و وقار اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ غدر کے بعد مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے اس نے رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کر ڈالی۔ مسلمان سیاسی اور سماجی اعتبار سے پورے طور پر ذلیل اور رسوا ہو رہے تھے۔ اپنی تہذیب کو لٹتے دیکھ رہے تھے۔ دوسروں نے ان تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے آپ کو بدلتے ہوئے وقت کی رفتار کے ساتھ ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن مسلمان ابھی تک خوابِ خرگوش میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اگرچہ سیاسی اور سماجی اعتبار سے بالکل گر چکے تھے لیکن انھوں نے پھر بھی نئی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھالنا خلاف مذہب اور خلاف مصلحت سمجھا اور اگر مسلمان اسی خواب میں ڈوبے رہتے تو خدا جانے کہاں جاتے، اگر ایسے موقع پر سر سید نہ کھڑے ہوتے۔ انھوں نے قوم کی اصلاح کی ذمہ داری اپنے سر لی اور آگ سے بھری ہوئی دنیا میں اپنے آپ کو ڈھکیل دیا۔ سر سید کے ساتھ ایک پورا گروپ تھا، سب نے اصلاحی قدم اٹھائے۔ سر سید نے مضامین لکھے۔ علی گڑھ تحریک کی ابتدا کی۔ حالی نے "مسدس مدو جزر اسلام” اور دوسری نظمیں لکھیں۔ شبلی نے "المامون”۔ "الفاروق”، "الغزالی” جیسی شخصیات پر قلم اٹھایا۔ نذیر احمد نے اردو ادب میں قصہ اور کہانی کو ایک نیا موڑ دیا۔
مراۃالعروس کا موضوع امور خانہ داری اور تعلیم نسواں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سر سید نے اس وقت نہ جانے کیا سوچ کر عورتوں کی تعلیم کو قبل از وقت سمجھا، لیکن نذیر احمد نے اپنی ساری قوت مسلم خاندان کی اصلاح میں صرف کر دی۔ آپ ان کے تمام ناول ملاحظہ فرمائیں ۔ محصنات کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں :
"۔ ۔ ۔ ۔ عورتوں کی تعلیم کا سلسلہ مرتب ہو گیا۔ خانہ داری مراۃالعروس۔ معلومات ضروری بنات النعش۔ خدا پرستی توبۃ النصوح۔ انھیں دنوں مجھے خیال ہوا تھا کہ مسلمانوں کی معاشرت میں عورتوں کی جہالت اور نکاح کے بارے میں مردوں کی آزادی دو بہت بڑے نقص ہیں۔ میں نے ایک نقص کو رفع کرنے میں جہد العقل کوشش کی ہے۔ تو دوسرے نقص کو رفع کرنے میں بھی کچھ کرنا ضروری ہے۔”
توبۃ النصوح کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
"اس کتاب میں انسان کے اس فرض کا ذکر ہے جو تربیت اولاد کے نام سے منسوب ہے۔”
بنات النعش کے دیباچے میں انھوں نے رقم کیا:
"معلومات علمی خاصہ تعلیم دین داری کا ایک مضمون رہ گیا ہے۔”
ان تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ہر ناول لکھنے کا مقصد محض اصلاح ہے اور یہی وجہ ہے کہ نذیر احمد کے ناولوں میں ہر جگہ اصلاحی عناصر رچ بس گئے ہیں، جو بعض اوقات ناول کی لطافت کو مجروح کر دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ناول ہمیشہ کسی مقصد کے تحت ہی لکھا جاتا ہے۔ لیکن مقصد اس حد تک ہونا چاہئے کہ اس کے فن کو چوٹ نہ پہنچ رہی ہو۔ بقول قمر رئیس:
"اس میں شک نہیں کہ ناول میں مقصد اور مصنف کے عقائد کا وجود ایک ناگزیر عنصر ہے۔ لیکن اس حد تک کہ وہ ناول کے دوسرے فنی لوازم کو مجروح اور متاثر نہ کرے۔ مصنف اپنے مقصد کو فن کی نزاکتوں اور تہوں میں اس طرح جذب کر دے کہ پھر اسے علیٰحدہ پہچانا نہ جا سکے۔ نذیر احمد کے ناولوں میں یہی کمزوری سب سے نمایاں ہے۔ اخلاقی اور مذہبی تصورات ان کے ذہن پر اس درجہ حاوی ہیں کہ نہ صرف اس کے اشخاص کے کردار و گفتار پر اس کی چھاپ ہے بلکہ کرداروں کے نام بھی ان کے مخصوص اخلاقی اوصاف کی مناسبت سے رکھتے ہیں۔”
اور یہ حقیقت ہے کہ نذیر احمد کے ناولوں میں جا بجا مقصدیت حاوی رہتی ہے۔ یہ تو کہئے کہ زبان وبیان پر نذیر احمد کو اتنی قدرت حاصل تھی، کرداروں کو قصہ کے اندر ڈھالنے کی اتنی صلاحیت تھی کہ یہ خوبیاں بھی پورے ناول میں مقصدیت کے ہم پلہ نظر آتی ہیں، ورنہ ان کی تمام تخلیقات خالص اصلاحی تحریریں ہو کر رہ جاتیں اور قصہ پن سے بہت دور ہو جاتیں۔ مراۃالعروس کا مقصد صرف مسلمان لڑکیوں کی تربیت ہے۔ اس میں انھوں نے دو لڑکیوں کا قصہ لیا، اکبری اور اصغری۔ اکبری جو بیحد پھوہڑ اور بدسلیقہ ہے اور اپنے اس پھوہڑ پن سے وہ اپنی آئندہ زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اصغری اپنی بڑی بہن کے خلاف نیک شریف اور سلیقہ مند ہے اور اپنی عقل مندی سے اپنے گھر کو تمام تباہیوں سے بچاتی ہے۔ اکبری کی خرابی بیان کرنے میں نذیر احمد اپنا پورا زور قلم صرف کر دیتے ہیں۔ اس میں دنیا جہان کی خرابیاں موجود ہیں۔ اور اصغری کی جو تعریف کرتے ہیں تو تعریفوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ پھر شروع سے آخر تک ان دو کرداروں میں ذرا بھی فرق نہیں آتا۔ اور بقول آل احمد سرور کے کہ ہر کردار پر ایک لیبل لگا ہوا۔ ان کے کردار فرشتے ہوتے ہیں یا شیطان۔ لیکن ان خامیوں کے باوجود وہ قصہ جس طرح سے ڈھالتے ہیں اور عورتوں کی گفتگو جس طرح پیش کرتے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ اور بقول علی عباس حسینی :”صنف نازک کے انداز تکلم، طرز گفتگو، نشست الفاظ اور روز مرہ محاورے پر جیسا انھیں عبور ہے، ویسا سرشار، جوش اور مرزا رسوا کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں۔”اسی طرح ان کے دوسرے ناولوں میں ہمیں معاشرت کی سچی تصویریں ملتی ہیں۔ بقول میمونہ بیگم:”دلّی کے گھرانوں کی معاشرت، لڑکیوں کی تعلیم و تربیت، امور خانہ داری کی واقفیت، شادی بیاہ کے طریقے، عزیز و اقارب کے تعلقات، ساس بہو کے تعلقات، نشست وبرخاست کے طریقے، آداب، جہالت کا اثر، علم کی برکتیں، پھوہڑ پن کی لعنت اور سلیقے کی برکت، لڑکیوں کے مستقبل پر رائے زنی، میاں بیوی کے تعلقات، سیاسی سماجی حالات، معاشرے پر نئے اثرات۔ غرض کہ ان تمام موضوعات سے اپنی ناولوں کو لبریز کر دیا۔” نذیر احمد اس ماحول کا بخوبی اندازہ لگا چکے تھے اور اس کے بعد مسلم گھرانوں کے ماحول کو بھی پڑھ چکے تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا ذہن مذہبیت اور اخلاقیت کی طرف مائل تھا۔ قلم تو اٹھایا لیکن اخلاقیات اور درس کے ساتھ۔ بقول اختر اورینوی کے کہ نذیر احمد اخلاق کے بڑے بیوپاری ہیں اور ان کی کھیپ بھی بھاری ہے۔ ان پر تو اصلاح کا سودا سوار ہے۔ وہ تو اخلاق و مذہب کے بغیر ایک لقمہ بھی نہیں توڑتے۔ لیکن مصلح کے اندر سے فنکار جھانکتا ہے لیکن اصلاح اس دور کا تقاضہ تھا۔ اس وقت کے مسلم سماج کو اسی طرح کی اصلاح کی ضرورت تھی۔ یہ سچ ہے کہ ان کے ناولوں میں اصلاح کا رنگ زیادہ بھر گیا لیکن جو کردار جو ماحول ان کے ناولوں میں ابھر کر آیا وہ غیر فطری قطعی نہ تھا۔ بقول احتشام حسین:
"نذیر احمد اسے خوب سمجھتے تھے کہ نئے سماجی ماحول میں مذہب، خاندانی وقار کے رکھ رکھاؤ، پرانی اور نئی تہذیب میں توازن قائم کرنے کی کیا ضرورت ہو گی۔ اس کش مکش کے سمجھنے ہی کے سلسلے میں اصغری، نصوح، مرزا ظاہر دار بیگ، ہریالی، مبتلا، مولانا عارف، حجۃ الاسلام اور ابن الوقت کے کردار ابھرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی محض تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ کوئی اپنے عہد کی کش مکش سے دور نہیں یہ کردار اپنے اپنے شعور کے مطابق سماجی ابتری کو مختلف ذرائع سے روک لینے کی جد و جہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر آپ ان ناولوں کو سرسید کی تعلیمی تحریک، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، دلّی کالج، انجمن حمایت الاسلام، طبیہ کالج، حالی، آزاد، ذکاء اللہ، چراغ علی اور تہذیب الاخلاق کو نگاہ میں رکھ کر پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا، نذیر احمد نے کس گہری واقفیت اور غیر معمولی بصیرت کے ساتھ ایک مخصوص طبقے کے نقطۂ نظر سے اس عہد کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں قید کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ناولوں میں دلّی کے گلی کوچے، پیشہ اور عمارتیں، انیسویں صدی کی بدلتی ہوئی فضا کے ساتھ موجود ہیں۔”
احتشام حسین کا یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے۔ علی گڑھ تحریک کا ہر فرد اصلاحی نقطۂ نظر سے سوچ رہا تھا۔ چاہے سر سید ہوں، حالی یا دوسرے لوگ۔ نذیر احمد نے بھی اسی انداز سے سوچا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی نظر مسلم گھرانوں کی گرتی ہوئی قدروں اور ان کے ابھرتے ہوئے اخلاقی مذہبی مسائل پر پڑی اور اپنی ناول کا موضوع انھیں مسائل کو بنا لیا۔
غور تو یہ کرنا ہے کہ نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں قدامت سے بغاوت کس انداز سے کی اور اپنے وقت کے حالات کو کس طرح سے اپنے ناولوں میں ڈھالا اور فنی نقطۂ نظر سے ناول کو کیا فروغ دیا۔ اس میں شک نہیں کہ نذیر احمد کے ناول، قصے کم وعظ زیادہ لگتے ہیں۔ لنکا ماحول کی مصوری، خاندانوں کی اندرونی حالات کی جو تصویریں نذیر احمد نے کھینچی ہیں وہ اس سے قبل نہیں ملتیں۔ ان کے قلم میں بلا کی طاقت ہے۔ ان کے اسلوب اور طرز تحریر نے ان کے کرداروں کو زندہ کر دیا۔ پہلی بار اردو ناول میں زندگی کی حقیقتوں کو سمویا اور ناول کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش کی۔ پہلی بار کہانیوں میں دنیا کے حالات کو ڈھالا۔ خود نذیر احمد مراۃالعروس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
"جو آدمی دنیا کے حالات پر کبھی غور نہیں کرتا اس سے زیادہ بیوقوف کوئی نہیں۔ غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں ہیں۔ لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا حال ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے، زندگی میں مرنے تک اس کو کیا باتیں پیش آتی ہیں اور کیوں کر اس کی حالت بدلا کرتی ہیں۔”
نذیر احمد نے اخلاق و درس پر یقیناً زور دیا لیکن پھوہڑ پنے کے ساتھ نہیں، بلکہ پوری فنکاری کے ساتھ۔ ورنہ آج ان کے ناولوں کا شمار نہ ہوتا۔ انھوں نے اپنی فنکاری کی وجہ سے ہی چند ایسے کردار پیدا کر دئے جو اردو ادب میں ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نذیر احمد ناول نگاری کی زبردست صلاحیت رکھتے تھے۔ نصیحت و پند کو جس انداز سے انھوں نے ناول کی شکل میں ڈھالا یہ انھیں کا حصہ ہے۔ انھوں نے اپنے ہر ناول میں ایک مقصد کو لیا۔ لیکن جا بجا اس میں فنکاری کے ایسے نمونے بھر دئے ہیں جو یادگار بن گئے۔ ماما عظمت کا کردار، عبرت بیگم سے حسد، کلیم کا گھر سے فرار ہو کر ظاہردار بیگ کے یہاں پہنچنا۔ اس طرح کے دوسرے واقعات جو اپنے اعتبار سے بہت معمولی ہیں، لیکن نذیر احمد نے اس کو پیش کرنے میں جو فنکارانہ ثبوت دیا ہے وہ عرصہ تک یاد کیے جائیں گے۔ ان کے ناولوں میں ہمیں اس عہد کے مسلمانوں اور ان کی گھریلو زندگی کی بھرپور جھلک ملتی ہے۔
زبان و بیان پر تو نذیر احمد کو قدرت حاصل تھی۔ تمام ناقدین نے ان کی بہترین مکالمہ نگاری کا اعتراف کیا ہے۔ عورتوں کی بول چال، ان کی لڑائی، اس وقت کے محاورے، دلّی کی زبان کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ان کی زبان میں بلا کی مٹھاس اور لچک پیدا ہو گئی۔ جا بجا طنز و مزاح کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔ مکالموں کے ذریعہ بھی ان کی تمام ناولیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں کہ ان کے ناولوں میں زبان و بیان کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر بہترین مکالمہ نگاری ہی ان کا مقصد ہوتا تو ان کا دائرہ کار تنگ ہو جاتا۔ لیکن نذیر احمد نے حقیقتاً مکالمہ نگاری اور اچھوتے قصہ پن کے ذریعے اپنے عہد کی حقیقی پیچیدگیوں پر نظر ڈالی۔ اسی وجہ سے ان کے ناولوں میں مکالمہ نگاری اور قصہ پن کے علاوہ ایک مقصد، ایک نظریہ اور ایک ادبی شعور کا احساس ہوتا ہے۔ آپ ان کے تمام ناولوں کو دیکھئے۔ بقول پروفیسر سید احتشام حسین:
"مراۃ العروس میں خانگی زندگی کو انتشار سے بچانے اور بدلے ہوئے حالات میں گھر کی فضا کو بنائے رکھنے کا مسئلہ ہے۔ توبۃ النصوح میں مذہبی اور اخلاقی مسائل کو خانگی زندگی کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ یہاں نصوح، کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ مشابہت رکھتے ہوئے بھی حقیقی کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔ فسانۂ مبتلا میں دو شادیوں کی وجہ سے گھر جس طرح دوزخ بن جاتا ہے اس کی تصویر کشی کی ہے۔ اس موقع پر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نذیر احمد مذہبی حیثیت سے ایک سے زیادہ شادی کرنے کے اصول سے منحرف نہیں تھے۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی دشواریوں پر بھی نگاہ رکھتے تھے۔ ورنہ ایسی کہانی وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ اسی طرح عقد بیوگان کا مسئلہ بھی اس وقت غیر معمولی سماجی اہمیت کا حامل تھا۔ جسے انھوں نے ایامٰی میں قصہ کا روپ دیا۔ ابن الوقت نذیر احمد کا آخری ناول ہے اور غالباً نامکمل۔ لیکن جتنا ہے اس میں نئی تہذیب کے قبول کرنے اور رد کر دینے کی کش مکش وہ کردار بن کر سامنے آتی ہے جوانیسویں صدی کے آخری حصے میں وجود پذیر ہوئے اور تغیر پذیر حالات میں اپناراستہ ڈھونڈنے لگے۔ اتنے مسائل کو پیش نظر رکھنا اور واقفیت کے انداز میں انھیں قصوں کی شکل میں پیش کرنا کسی معمولی فن کا کام نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے نقادوں نے نذیر احمد کی کہانیوں کے ان پہلوؤں پر گہری نگاہ ڈالی ہے جن سے اس عہد کے مسائل خاص کر اس طبقہ اور گروہ کے مسائل کا علم ہوتا ہے جس سے نذیر احمد واقف تھے۔”
اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ جن مسائل کو نذیر احمد نے ناولوں کی شکل میں پیش کیا ہے ان کو ہم آج کے ناولوں کے فنی لوازمات پر کیوں تولیں۔ آج ناول اپنے فنی عروج پر ہے۔ نذیر احمد کے ناولوں کا تجزیہ کریں تب ہمیں اندازہ ہو گا کہ نذیر احمد نے اردو ادب میں کس قدر گراں بہا اضافے کیے ہیں۔ یورپ میں ناول کا فن اس وقت وجود میں آیا، جب وہاں صنعتی انقلاب آیا اور ناول کے لیے جو فضا ہونی چاہئے تھی وہ اس کو ملی۔ نیا سماجی شعور آیا۔ نیا سماج آیا۔ نئے کردار آئے اور یہ سارے کردار اچانک بے حجابانہ طور پر سماج کے اونچے مقام پر کھڑے ہو گئے۔ سماج کو اپنی قوت، اپنی باطنی طاقت کا جب احساس ہوا تب ناول وجود میں آیا۔ اور بقول قمر رئیس:
"سیرت اور کارناموں کو صنعتی عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی پس منظر میں پیش کرنے کی کوشش کا نام ناول ہے۔”
لیکن ہندستان کا ماحول اس کے برعکس تھا۔ یہاں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں وہ کسی صنعتی و سماجی انقلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر ملکی اقتدار اور مغربی تعلیم و تہذیب کے اثر سے۔ جس کو بعض قوموں نے تیزی سے قبول کیا۔ لیکن مسلمانوں پر اس کے اثرات آہستہ آہستہ رونما ہوئے۔ اب اس کی روشنی میں ہم نذیر احمد کے ناولوں پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ نذیر احمد کا کوئی بھی ناول گھر کے باہر کے مسائل پر نہیں لکھا گیا۔ ان کے تمام ناول گھر کے آنگن میں، کمروں میں، باورچی خانہ پر ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک چہار دیواری میں سانس لیتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے ناولوں میں وہ پھیلاؤ نہ آسکا جو بعد کے ناولوں میں نظر آتا ہے۔ ان کا مقصد اصلاح ضرور تھا، لیکن ایک محدود اصلاح۔ اسی وجہ سے ان کا مقصد تنگ ہے۔ پلاٹ کوتاہ اور زندگی کا دائرہ محدود۔ بقول قمر رئیس:
"یہ زندگی چہار دیواری کے اندر کی زندگی ہے۔ باہر کی زندگی اور معاشرت کی جھلک ہمیں ان کے ناولوں میں اس وقت نظر آتی ہے جب ان کا کوئی کردار اس زندگی کی گھٹن، تلخی اور افسردگی سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا اس سے گریز اور سرکشی کرتا ہے۔”
نذیر احمد نے اصلاح ایک خاص ڈھنگ سے فرمائی۔ لیکن یہیں پر وہ اپنے گروہ سے ذرا الگ ہو جاتے ہیں۔ غدر کے بعد ہندستان بہت تیزی سے بدل رہا تھا۔ سر سید نے جو صورت حال دیکھی تو قوم کو مغرب پرستی اور نئی روشنی کی طرف راغب کیا۔ لیکن نذیر احمد حال پر یقین کرتے تھے۔ انھوں نے اصلاح کی لیکن، مشرق کی روشنی میں۔ نذیر احمد بھی سر سیدکی طرح آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ لیکن اپنے مذہب، اخلاق اور گذری ہوئی عظمتوں کو لے کر۔
نذیر احمد، اکبر الہ آبادی کی طرح یقیناً مات کھا جاتے اگر ان کے پاس نئے طرز کی تحریر، قصہ پن اور کردار نگاری کا نمونہ نہ ہوتا۔ اور وہ ناول کی طرف دھیان نہ دیتے۔ لیکن ہم غور سے اگر ان کے کرداروں کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ان کے نام روائجی انداز سے رکھے گئے۔ جس کردار کی جیسی خصوصیات ویسا ہی اس کا نام۔ اسی سے احسن فاروقی نے ان کے ناولوں کو تمثیل کہا اور وہ مقام نہیں دیا جو دوسرے نقادوں نے دیا۔ لیکن احسن فاروقی کی تمام باتوں پر یقین نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نذیر احمد محض اپنی کردار نگاری کی وجہ سے تمثیل نگاری کی حد میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن وہ مکمل تمثیل نہیں ہیں۔ ان کے مکالموں کی برجستگی، طرز ادا، زبان کی سلاست ان کے ناولوں کو تمثیل کی حد سے نکال کر ناول کے دائرے میں لے جاتی ہے۔ انگریزی ادب میں بھی ابتدائی ناولیں تمثیلیت سے لبریز ہیں۔ احسن فاروقی کی بعض نکتہ چینیاں نذیر احمد کی عظمت میں فرق تو نہیں ڈالتیں لیکن یہ ضرور ہے کہ پہلی بار مطالعہ کرنے والے کو گمراہی کی طرف ضرور لے جاتی ہیں۔
نذیر احمد بنیادی طور پر ناول نگار تھے۔ ناصح، مولوی یا اس طرح کے دوسرے الزامات سے نواز کر نذیر احمد کی خدمات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح اور مقصد دنیا کے ہر ناولوں میں پایا جاتا ہے۔ ہر ناول کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ہر ناول نگار کا اپنا ایک الگ موضوع ہوتا ہے۔ تعلیم، تہذیب و تمدن، معاشرت، نفسیات اور تاریخ نذیر احمد کے ناولوں کے اہم موضوعات ہیں ۔ انھوں نے گھریلو مسائل پر توجہ دی، اس وجہ سے ان کے تمام ناولوں کو گھریلو ناول کہا جا سکتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ان کے یہاں بقول اشفاق احمد اعظمی:
نذیر احمد کے ناولوں میں طبقاتی کش مکش، ذہنی تصادم اور ذاتی ٹکراؤ کا احساس بھی ملتا ہے اور انسانی رشتوں کے سیھ روپ ان کے ناولوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس طرح نذیر احمد نے قدیم قصوں کی روش کو چھوڑ کر ایک نئی روش ہی اختیار نہیں کی بلکہ انسانی زندگی کو اپنے قصے کا موضوع بنایا اور انھوں نے ناول کے فنی رموز واسرار کے نئے ہفت خواں بھی سر کر لیے۔ ان کا فن آہستہ آہستہ ارتقائی منزلیں طے کرتا گیا۔ اور اخیر میں چند اہم ناول وجود میں آئے جو فنی اور فکری ہر دو لحاظ سے ممکن کہے جا سکتے ہیں۔
اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ نذیر احمد نے فن ناول نگاری کو ایک نئی زبردست تحریک دی اور پہلی بار حقیقت کی طرف نگاہ ڈالی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ان سے قبل اردو قصہ نگاری داستانوں پر ہی مشتمل تھی۔ پہلی بار نذیر احمد نے داستانوں کو ناول کی طرف موڑا۔ مافوق الفطرت عناصر کی جگہ زندگی کے حقیقی کرداروں پر قلم کو جنبش دی اور اس میں جان ڈالی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ناول کا وہ نمونہ نہیں پیش کر سکے جیسا کہ ہمارے نقاد چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اختر اورینوی کا یہ اقتباس پیش خدمت ہے:
"انھوں نے قصوں کی ایک نئی دنیا بسائی۔ اس دنیا کو وہ فوراً سر سبز اور دلکش کیسے بنا دیتے۔ نئی دنیا تو بستے بستے بستی ہے اور سجتے سجتے سجتی ہے۔ حیرت یہ نہیں کہ نذیر احمد کی ناولوں میں اتنی دلکشی نہیں جتنی مغربی فنکاروں کی ناولوں میں ہے۔ بلکہ حیرت یہ ہے کہ نذیر احمد کے دکھائے ہوئے راستے پر کئی بعد میں آنے والے ناول نویس سلیقہ سے نہ چل سکے۔”
اصلاح، نصیحت و پند اگر تلخ انداز میں ہو تو وہ کڑوی دوا کی مانند ہوتی ہے۔ لیکن اس کو خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کات جائے تو کبھی کبھی اس کا ذائقہ شیریں شہد کاسا ہو جا تا ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ نذیر احمد کے ناول شیریں شہد کی مانند ہیں۔ لیکن وہ تلخ دواکسی صورت میں نہیں۔
نذیر احمد نے دلّی کالج، علی گڈھ تحریک اور اپنے مزاج کی آمیزش سے مسلمان طبقے کی جو زبردست اصلاح کی اور ناول کو ایک خوش گوار راہ پرلا کر چھوڑا، آگے چل کر شرر، رسوا اور پریم چند نے اس کینوس کو اور پھیلایا۔ شرر نے بھی اصلاح کی لیکن ان کاراستہ بدل گیا۔ رسوا نے ایک خاص ڈھنگ سے سماجی اصلاح کی۔ اور اصلاح تو پریم چند نے بھی کی لیکن ان کا فریم خاصا پھیل گیا۔ ان کی نظریں پورے ہندستان پر تھیں۔ لیکن ان سب پر نذیر احمد کا احسان ہے۔ ان سب کے لیے نذیر احمد کے ناول پیش خیمہ تھے۔ نذیر احمد نے پہلی بار صنفِ ناول کا اردو ادب سے تعارف کرایا۔ اور اویس احمد ادیب کی اس رائے سے ہم سب کو اتفاق ہونا چاہئے کہ :
مولانا نے ایک اعلیٰ ناول نگار کے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔
پروفیسر احتشام حسین بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:
"بہت سے نقاد نذیر احمد کو ناول نگار نہیں مانتے، لیکن یہ محض اصلاح کا چکر ہے۔ ان کی سماجی بصیرت اور تاریخی شعور پر نظر رکھ کر انھیں اردو کا پہلا اور بہت اہم ناول نگار تسلیم کرتا ہوں۔”

رتن ناتھ سرشار

1857ء کے بعد کے ماحول میں اگرچہ بلا کا انتشار آ گیا تھا، لیکن خطۂ لکھنؤ میں اس ہنگامے کے اثرات نسبتاً دلّی کے ذرا دیر میں رونما ہوئے۔ نوابی عہد کے خاتمہ کے بعد بھی لکھنؤ فطری گہما گہمی اور جھوٹی شان و شوکت کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حالانکہ حقیقت سے سب واقف ہو چکے تھے کہ وہ اب تہذیبی اور معاشرتی اعتبارسے کس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس پر پردہ ڈالنا اور گرتی ہوئی تہذیب و معاشرت کو بھول کر اسی انداز سے زندگی کے دن گزارنا لکھنؤ والوں کا شیوہ ہو چکا تھا۔ لیکن وہ کرتے بھی کیا۔ وہ تو مجبور تھے۔ عرصۂ دراز سے چلے آئے خوبصورت و رنگین ماحول کو شب و روز کے عیش و عشرت کو اور ایک خاص قسم کی فضا رومان پرور کو وہ اتنی جلدی کیسے بھلا دیتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غدر جیسے عظیم ہنگامہ خیز انقلاب نے جتنی تیزی سے دلّی پر اثر ڈالا اتنی تیزی سے وہ لکھنؤ پر اثر انداز نہ ہوسکا۔ اور جب ہوا تو ایک دوسری شکل میں، جو دلّی کے بالکل برعکس تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس سے قبل غدر کے یہ اثرات سرشار جیسے فنکار کو منظر عام پر لائیں۔ دلّی کے ماحول نے نذیر احمد کو پیدا کیا اور صنف ناول کی پیدائش اور اس کی ابتدا کاسہرہ بجائے لکھنؤ کے دہلی کے ہاتھوں آیا۔ جبکہ غدر کا ہنگامہ دونوں جگہ ایک ساتھ ہی ہوا۔ دونوں ایک ساتھ ہی لٹے اور برباد ہوئے۔
لکھنؤ غدر سے قبل کا ہویا بعد کا اس کی ادبی اہمیت کا اندازہ ہر دور میں لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں غدر سے قبل کے ادب کا محاسبہ مقصود نہیں، لیکن آتش، ناسخ، میر انیس، نسیم، شوق یا اس طرح کے دوسرے فنکاروں کے نام لکھنؤ کے ادبی ماحول اور کارناموں کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ ادب کا رنگین ماحول لکھنؤ کے درو دیوار میں سرایت کر چکا تھا۔ لکھنؤ کے گلی کوچوں سے شعر و نغمہ کی آوازیں پھوٹتی تھیں۔ میر انیس کے مرثیے، آتش کی غزلیں، شوق کی مثنویاں لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں سما گئی تھیں۔ ان کے خوبصورت اور عمدہ اشعار وہاں کے عام لوگوں کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ لیکن اچانک غدر نے سب کو تباہ کر دیا۔ وہ سڑکیں جہاں دلچسپی اور بے فکری منڈلاتی رہتی تھی وہاں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ نوابی عہد ختم ہوا۔ واجد علی شاہ مٹیا برج چلے گئے۔ محفلیں ختم ہو گئیں۔ بے فکری رخصت ہو گئی۔ انگریز آئے اور ان کی آمد سے ادب، تہذیب و معاشرت کا ایک نیا سورج طلوع ہوا، جو مغربی تہذیب، تفکر اور تمدن کی کرنوں سے منور تھا۔ ایک تہذیب مٹ رہی تھی تو دوسری جنم لے رہی تھی۔ ایک سماج ختم ہو رہا تھا دوسرا پیدا ہو رہا تھا۔ ایسے ہی میں طنز و مزاح کا ایک ادبی گروہ ابھر کر سامنے آیا جس کا خمیر تو پرانی تہذیب اور قدیم معیشت سے اٹھا تھا لیکن دل و دماغ کے دریچے قدیم تہذیب سے رخصت اور نئی تہذیب کی آمد کے درمیان کھلے۔ اس گروہ نے ان تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کیا اور زندگی کی حقیقتوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھا۔ اور رخصت ہوتی ہوئی تہذیب کی بعض خوبیوں کو چن کر ان کی ہنسی اڑائی۔ یہ گر وہ لکھنؤ کے مشہور و معروف اخبار اودھ پنچ سے تعلق رکھتا تھا۔ ان میں منشی سجاد حسین، مرزا محمود بیگ، ہمزاد، تربھون ناتھ ہجر، احمد علی شوق، اکبر الہ آبادی اور رتن ناتھ سرشار اہم تھے۔
خطّۂ دلّی میں غدر کے بعد ابھرنے والی اہم شخصیتوں میں سر سید، نذیر احمد، شبلی، حالی، چراغ علی اور دوسرے لوگ تھے۔ لیکن وہ لوگ جنھوں نے ان دونوں گروہ کی اہم شخصیات اور ان کے کارناموں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، وہ ان دونوں کے فرق سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ ان دونوں کے کارناموں کے پیچھے دونوں جگہوں کا ماحول پوشیدہ ہے۔ جس طرح کی تخلیقات سرسید، شبلی، حالی اور نذیر احمد کی منظر عام پر آئیں وہ باتیں لکھنؤ کے ادیبوں میں نہیں۔ حالانکہ دونوں گروہ غدر کے بعد کے ہیں۔ دونوں جگہیں ایک ساتھ تباہ ہوئیں اور دونوں جگہوں پر ہی ایک ساتھ انگریزوں کا قبضہ ہوا۔ دونوں کی تخلیقات کا مقصد بھی ایک تھا۔ پھر بھی دونوں میں ایک زبردست فرق۔ یہ بات قابل غور ہے اور یہی خط فاصل ہم نذیر احمد اور سرشار کے درمیان کھینچ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر قمر رئیس، نذیر احمد اور سرشار کے درمیان بنیادی فرق کو اس طرح لکھتے ہیں :
"نذیر احمد مولوی تھے۔ سرشار مست، لا اُبالی۔ نذیر احمد کی تعلیم و تربیت شیوخ و علماء کے گھر میں اور ان کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ سرشار کی لکھنؤ کے رنگین مزاجوں اور شعر و ادب کے دل دادگان میں۔ نذیر احمد نے انگریزی چھپ چھپا کر پڑھی تھی۔ سرشار نے اسکول اور کالج میں۔ نذیر احمد کے سامنے دلّی کے اجڑے ہوئے مسلمان تھے۔ سرشار کی نظر لکھنؤ کے ہر محلہ، ہر کوچہ اور ہر طبقہ پر تھی۔ نذیر احمد کے مذہبی اور اخلاقی عقائد اشخاص کے لطیف اور نازک جذبات کو دیکھنے اور دکھانے کے مانع رہے۔ سرشار کی رند مشربی نے ہر قسم کے جذبات کو ایسی گرم جوشی سے لبیک کہا کہ مذہب اور اخلاق منھ تکتے رہ گئے۔”
یہی دونوں میں بنیادی فرق ہے جس نے نذیر احمد کومراۃالعروس۔ توبۃ النصوح وغیرہ لکھوانے پر مجبور کر دیا۔ اور سرشار کو فسانۂ آزاد۔ جام سرشار وغیرہ۔ بعض لوگ نذیر احمد کی ناولوں کو پند و نصیحت کا پلندہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور سرشار کے ناولوں کو فنی اعتبار سے مکمل قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ جلد بازی کا ہے جو بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اتنی بات سب جانتے ہیں کہ نذیر احمد کے کئی ناول سرشار کے فسانہ سے پہلے شائع ہو چکے تھے۔ کیوں کہ فسانۂ آزاد اگرچہ اودھ اخبار میں بالا قساط چھپتا رہا لیکن کتابی شکل میں 1880ء میں شائع ہوا اور اس سے قبل نذیر احمد کے کم سے کم تین ناول (مراۃالعروس1869ء۔ بنات النعش1872ء۔ توبۃ النصحوح1874ء )سرشار کے سامنے آچکے تھے۔ لیکن بدمستوں اور بے فکروں کا یہ گروہ لکھنؤ کی اس زندگی میں ایسا مست اور سرشار تھا کہ اس نے ادھر نظر کیے بغیر اپنے تمام زورِ قلم کو وہیں کی نقش گری میں صرف کر دیا۔ یہ ان کی فنکاری تھی کہ اس میں چند نقوش ایسے تھے جس نے ان کو حیات جاوید بخش دی۔ فسانۂ آزاد اس کی جیتی جاگتی مثال ہے جو اودھ اخبار میں بالاقساط شائع ہوتا تھا اور جس کا مقصدِ خاص یہ تھا کہ خوبصورت اور دلکش پیرایہ میں گرتی ہوئی لکھنوی تہذیب کا اظہار کیا جائے اور قہقہوں کے دائروں میں بکھرے ہوئے لکھنؤ کے ادب کی عکاسی کی جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کا مقصد، اقتصادی اور معاشی حالات کی پیش کش بھی تھی، کیوں کہ سرشار ادب کے میدان میں صحافت کے راستے سے آئے تھے۔ اس سے قطع نظر اگر ہم سرشار کی فنکاری پر غور کریں تو بہت سے معاملات میں وہ نذیر احمد سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور صرف ناول کے ارتقاء میں نذیر احمد سے بڑا رول ادا کر جاتے ہیں۔ رتن ناتھ سرشار لکھنؤ کے اس ماحول کے پیداوار تھے جس کے لیے لکھنؤ مشہور ہے، اس کے لیے رجب علی بیگ سرور کی شاگردی اور رنگ لے آئی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ جب انھوں نے پورے طور پر ہوش و حواس کی آنکھیں کھولیں تو اپنے سر پر مغربی سورج کو ابھرتے دیکھا اور مشرقی تمدن کو غروب ہوتے دیکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قدیم اور جدید کے بھنور میں آ گئے۔ اب یہ ان کی قسمت تھی کہ پلّا جدیدیت کی طرف زیادہ جھک گیا، جو بعد میں ان کی عظمت اور شہرت کا باعث بن گیا۔ مذکورہ بالا تحریر کی روشنی میں اب ان کے تمام ناولوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نقص ضرور ہے کہ ان کے سب کے سب ناول ایک ہی موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ چاہے وہ فسانۂ آزاد ہو (1880ء ) جام سرشار (1887ء )سیر کہسار (1890ء ) کامنی (1894ء ) کڑم دھڑم(1894ء )بچھڑی ہوئی دلہن۔ پی کہاں۔ ہشو۔ طوفان بے تمیزی۔ خدائی فوجدار وغیرہ کوئی بھی ہو، ان کے فن کو جانچنے کے لیے ان کے دو ناول فسانۂ آزاد اور جام سرشار کافی ہیں۔ جس میں فسانۂ آزاد ہی شہرت و مقبولیت کا باعث بنا اور بقول آل احمد سرور، سرشار اپنے فن کی وجہ سے جانے گئے اور ان کی دوسری تصنیفات ان کے نام سے جانی گئیں۔
سرشار کے فسانہ میں پورا لکھنؤ سمایا ہوا ہے۔ وہ لکھنؤ جو اپنے جاگیردارانہ عہد کو کھو رہا ہے۔ اپنی عظمتوں سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ سرشار نے بہت ہی خوبی کے ساتھ لکھنؤ کے اس دور کی عکاسی کی ہے۔ وہی مسخرے، بے فکرے، شاعر، طوائفیں، رمال، کبابچی، قوال، مولوی، سب وہی جوسرور کے صفحات میں جگمگاتے ہیں۔ لیکن سرور کے یہاں ان تمام کرداروں کی عظمتیں ہیں۔ لیکن سرشار نے ان تمام کرداروں کو گرتی ہوئی تہذیب کا نمائندہ بنا کر پیش کیا اور اتنا ہی نہیں ان کرداروں کے ساتھ انھوں نے پروفیسر، فوٹوگرافر، وکیل، بیرسٹر، اخبار والے، ٹکٹ بابو وغیرہ جیسے کرداروں کو بھی پیش کیا اور یہیں سے سرشار سرور سے آگے نکل جاتے ہیں۔ کیوں کہ سرشار کے سامنے ایک نیا تعلیمی گروہ اور روشن خیال طبقہ ابھر رہا تھاجس کا سرشار نے استقبال کیا اور یہی بات سرور کے یہاں نہیں ملتی جو انھیں سرشار سے بالکل الگ کر دیتی ہے۔ یہ فرق سرشار کو نمایاں تو ضرور کر دیتا ہے لیکن ان کے اپنے نقطۂ نظر کو بہت زیادہ واضح نہیں کرتا۔ وہ بعض جگہوں پر مشرق کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور بعض قباحات پر اس کی روانگی پر افسوس بھی ظاہر کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ لطیف حسین ادیب نے یہ بتائی کہ:
"وہ مشرق کی پیداوار ہے لیکن مغرب کو نظر انداز نہیں کرتا، اس کا دل مشرق کے لیے دھڑکتا ہے۔ اس کو مشرق سے محبت ہے لیکن طرز فکر مغربی ہے۔ مغرب کی بہت سی باتوں کا حامی اور ممد۔ پھر وہ کسی خاص طبقہ سے وابستہ معلوم نہیں ہوتا، حالانکہ طبقاتی کش مکش پر گہری نظر ہے۔ اور چھوٹے طبقے کا دوست ہے۔”
سرشار نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب ادب اور زندگی کا نقطۂ نظر رفتہ رفتہ دھند سے نکل کر صاف مقام پر آ رہا تھا۔ سرسید، حالی، شبلی اور نذیر احمد کی تخلیقات منظر عام پر آ چکی تھیں۔ انگریزی ناول نگاروں میں ڈکسن۔ تھیکرے وغیرہ کے ناول بھی سرشار پڑھ چکے تھے۔ ایک طرف تو ان کا مطالعہ، دوسری جانب لکھنؤ کا ماحول، ان دونوں نے مل کر سرشار کو ایک ایسا فسانہ لکھنے پر مجبور کر دیا جو بعض نقادوں کے خیال کے مطابق داستان اور ناول کے بیچ کی چیز ہو کر رہ گیا۔ بقول قمر رئیس :
"ان کا فن ناول کی بہ نسبت داستانی اور رومانی سے زیادہ قریب ہے۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ سرشارنے سرورکے فسانۂ عجائب اور سروالٹس کے واقعاتی رومانس ڈان کوئک زوٹ سے متاثر ہو کر ناول نگاری یا حقیقت پسندانہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان قصوں کا انداز ان کی شخصیت کی مخصوص افتاد سے بھی مطابقت رکھتا تھا۔ لیکن اس اثر پذیری نے انھیں ناول کے فنی تقاضوں سے دور کر دیا۔‘‘
یہ سچ ہے کہ سرشار انگریزی ناولوں کے بعد اپنی تخلیق کو اس پایہ تک نہیں پہنچا سکے، لیکن ان خصوصیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ کردار نگاری، زبان وب یان، عشق، سماج یا اسی طرح کے دیگر موضوعات میں اپنی ذات سے پیدا کیں۔
فسانۂ آزاد ایک شہر، ایک سماج کی بہت سی پرتوں کو ہمارے سامنے الٹتا ہے۔ سرشار کے گہرے مشاہدے اور مطالعے کا ثبوت ملتا ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں، اپنے زبان و بیان کی قدرت سے اس میں ایسی جان ڈال دیتے ہیں کہ قاری بغیر مکمل کیے اٹھ نہیں سکتا۔ سرشار فطری طور پر طنز و مزاح نگار تھے۔ لکھنؤ کی گرتی ہوئی تہذیب کو انھوں نے اپنے مزاج کے اس سانچے میں ڈھالا۔ سرشار ہنسی ہنسی میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں لیکن جہاں سنجیدہ ہوئے لطف غائب۔ بقول علی عباس حسینی کہ:
"سرشار نے جہاں کہیں متین بننے کی کوشش کی وہ بالکل آورد ہے وہاں وہ روکھے پھیکے بن بیٹھے ہیں کہ بے ساختہ ضلع کے ضلع پلٹ دینے کو جی چاہتا ہے”
اور آگے لکھتے ہیں :
"ان کے ناولوں میں سارا لطف ان غپوں ہی میں ہے۔ جب وہ بقولے ’بے پر کی‘ اڑاتے ہیں۔ خوجی خود اپنے سورما ہونے کا قصہ سو بار سنائیں۔ آپ اسے بے پر کی سنیں گے۔ مگر اللہ رکھی کی درد بھری کہانی جہاں ایک بار کے بعد دوسری بار دہرائی گئی دم الجھنے لگا۔ مہراج بلی کی حماقتوں کا اعادہ ہنسائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر جہاں لکچروں کا ذکر چھڑایا ہندستان کا رونا شروع ہوا۔ طبیعت گھبرائی۔”
ان کے ناولوں کا پھکڑ پن اور غپیں ہی ان کی کامیابی کا راز ہیں۔ ورنہ اس کے بالکل برعکس نذیر احمد بعض ناولوں میں اخلاق اور درس سے لبریز تقریریں۔ مثلاً میر تقی کی تقریر مبتلا کو (فسانۂ مبتلا) نصوح کی نصیحتیں۔ اصغری کے والد کا خط (اصغری کے نام )بھی ان ناولوں کے بہترین حصے سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں سرشار کا فن قابل قدر ہے کہ انھوں نے ابھرتی ہوئی صنف ناول میں چاہے کوئی اور اضافہ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن نذیر احمد کے ناولوں کے متعدد موضوعات جو غیر دلچسپ اور روکھے سمجھے جاتے ہیں ان کو دلچسپ پیرائے میں ناول کے دائرے میں لا کر اضافہ کر دیا۔
سرشار نے پہلی بار اپنی ذات سے ناول نگاری میں مزاح کی بنیاد ڈالی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سرشار فطری طور پر مزاح نگار تھے۔ یہاں یہ بحث اٹھانی مناسب نہیں کہ ان کے اندر یہ فن ابتدا ہی سے پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ضرور ہے کہ اگر اودھ پنج کے گروپ میں یہ شامل نہ ہوئے ہوتے تو مزاح نگاری اتنی نکھری ہوئی شکل میں سامنے نہ آتی۔ اودھ پنج سے قبل اگرچہ غالب کے خطوط سامنے آ چکے تھے۔ لیکن ان کی تحریر کا اپنا ایک الگ رنگ تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس گروہ پر ان خطوط نے ضرور کوئی اثر ڈالا ہو گا۔ لیکن یہ طنز و مزاح کے اعتبار سے اس گروہ کا اپنا ایک الگ انداز تھا۔ اپنی ایک الگ کیفیت تھی۔ جس کی نمائندگی سرشار کر رہے تھے۔ سرشار کا فسانہ پڑھتے چلے جائیے، قہقہوں کی ایک دنیا الگ بسی ہوئی ہے۔ ہنسی کا ایک لازوال خزانہ امڈ پڑ رہا ہے۔ سرشار ہنساتے ہیں اور کبھی دوسروں کو ہنسانے کے لیے خود بھی ہنسنے لگتے ہیں۔ انھوں نے لکھنؤ کی ہر کیفیت کا بغور مطالعہ کیا۔ متضاد چیزیں دیکھیں اور اپنے عمیق مطالعہ سے ہر چیز کو اپنی ناولوں میں جذب کرتے چلے گئے۔ وہ اپنے عہد کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ کبھی شاعروں کا دلچسپ منظر پیش کرتے ہیں۔ کبھی بازاروں میں ٹہلاتے ہیں۔ وہ ہر نئی چیز اڑاتے ہیں جو اپنی جھوٹی شان پر مبنی رہتی ہے۔ وہ سارے لکھنؤ کو قہقہوں کے دائرے میں سمیٹ لیتے ہیں :
سرشار کے مزاج میں تمام لکھنؤ کا کارٹون بنایا گیا ہے۔ ایک ایسا لکھنؤ جو صورت سے زیادہ غازے کا شیدائی تھا۔ جو عمل کے بجائے تصورات کی دنیا میں مٹر گشت کر رہا تھا۔ ایک ایسا لکھنؤ جو چنڈو کی نگالی سے پٹتا رہا۔ لیکن پھر وار نہ کر سکا جس نے قرولی کی ہمیشہ جستجو کی لیکن قرولی میان کے باہر کبھی نہ آسکی۔
سرشار اپنے ناول میں کیسے کیسے تضاد پیش کرتے ہیں لیکن کہیں پر اپنے قلم کو روکتے نہیں۔ ان کا قلم پورے جوش و خروش کے ساتھ طنز و مزاح کے بھرپور وار کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ بقول قمر رئیس :
"اس تضاد میں ہی اس کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ وہ کسی حالت میں اور کسی شخص سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ہار کر بھی ہار نہیں جانتا۔ کبھی تو اپنی سرشت سے شرمسار نہیں ہوتا۔ بڑی سے بڑی شخصیت اور اہم سے اہم سانحہ بھی اس کے اندر کوئی تغیر پیدا نہیں کرتا۔ وہ ہر صورت حال کا اپنے انداز سے مقابلہ کرتا ہے اور وہ انداز جتنا انوکھا ہے، اتنا ہی مضحکہ خیز بھی ہے۔ اس لیے ہم اس کی حرکات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر قدم پر اتنی بار ہنساتا ہے کہ پھر وہ نقش غیر فانی ہو جاتا ہے۔‘
اور لطیف حسین ادیب کی یہ تحریر سو فی صدی حق بجانب ہے کہ:”سرشار نے طنز و تقریض، مزاح اور مذاق کے پیرائے میں لکھنؤ کی سماجی زندگی کی خامیاں طشت از بام کی تھیں جس کا اثر ذہنی مسرت، خوش طبعی اور دیر پا شگفتگی سے عبارت ہے۔”
علی عباس حسینی کی زبان سے متعلق یہ رائے بھی اہم ہے:
"جہاں تک انشا پردازی اور اسلوب بیان کا تعلق ہے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو کے ناول نویسوں میں سرشار کے برابر کوئی کامیاب نہیں ہوا ہے۔ شروع میں کہیں کہیں پر سرور کی تقلید کی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے۔ مگر بعد میں وہ تو سرور سے کوسوں آگے نکل گئے ہیں۔ اور خود اپنی طرز کے موجد بن بیٹھے ہیں۔ اگر ان کے طرز میں اس قدر دلچسپی نہ ہوتی تو اس قدر ضخیم کتابیں اس طرح دلچسپی سے نہ پڑھی جاتیں اور نہ طبع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔”
نذیر احمد کے ناول جب عام ہو گئے تو اصغری، نصوح، کلیم، ظاہر دار بیگ وغیرہ کرداروں کی دھوم مچ گئی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ نذیر احمد نے ان کرداروں کو سجانے اور ان کو اچھے ڈھنگ سے پیش کرنے میں بڑی مہارت سے کام لیا ہے۔ ظاہر دار بیگ کا کردار ناول میں چند لمحوں کے لئے آتا ہے، لیکن نذیر احمد نے انھیں چند صفحات میں اس کو اس انداز سے پیش کیا کہ وہ ان کے اچھے کرداروں میں گنا جانے لگا۔ سرشار کردار نگاری میں ایک منزل اور آگے بڑھ گئے۔ کردار نگاری کے مقابلے میں جو شہرت آزاد، خوجی، مہراج بلی کو ملی وہ نذیر احمد کے کرداروں کو بھی نہ مل سکی۔ خوجی کا کردار تو لافانی ہو گیا اور اردو ادب کے انگلیوں میں شمار ہونے والے کرداروں میں شامل ہو گیا اور بقول احسن فاروقی :
"وہ ایک معجزہ ہے اردو میں کردار نگاری کا پہلا معجزہ اور شاید اب تک سب سے بڑا معجزہ۔”
خوجی کے کردار کو جس انداز سے سرشار نے پیش کیا ہے وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کے کردار میں لکھنؤ کے معیار کو تولا جا سکتا ہے۔ وہ ہنستا بھی ہے اور ہنساتا بھی۔ لڑ بھی جاتا ہے اور پٹتا بھی ہے۔ اگرچہ اس کے علاوہ سرشار نے دوسرے مزاحیہ کرداروں کو بھی بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے، لیکن خوجی والی بات کسی میں پیدا نہ کر سکے۔ دوسرے کرداروں میں آزاد، مہابلی کردار زیادہ اہم ہیں۔ سرشار نے ان کرداروں کے ذریعہ صرف ہنسایا ہی نہیں بلکہ ان کے مزاح کے آڑ میں بعض دوسرے پہلوؤں کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کر دیا۔ ان کرداروں کی بے فکری، مزاحیہ حرکتیں اس وقت کے کھوکھلے سماج کی طرف غمازی کرتی ہیں۔ اور بقول احتشام حسین:
"سرشار کا کمال یہی ہے کہ ان کرداروں کے ذریعہ سے انھوں نے روایت اور تفسیر، اور جدید برتی ہوئی اخلاقی قدروں، تعلیمی مسئلوں، مذہبی اور سماجی اداروں، رسموں اور رہن سہن کے طریقوں کے راز فاش کیے ہیں۔”
یہاں پر سرشار کے فن کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں۔ صرف ان کا سرسری تذکرہ کر کے اس بات پر غور کرنا ہے کہ انھوں نے وقت اور ماحول سے کس طرح متاثر ہو کر صنف ناول کو اور اس کے فنی لوازمات کو کس انداز سے جلا بخشی اور کن کن موضوعات کا اپنی ذات سے اضافہ کیا۔ ادب اور ناول کو کس راہ پر چھوڑا کہ ان کے بعد کے لکھنے والوں نے کس طرح کا ادب پایا۔ سرشار کے یہاں اس میں شک نہیں کہ نذیر احمد کے یہاں سے زیادہ کرداروں کی بھیڑ ہے۔ لیکن نذیر احمد کے کرداروں کی ایک خوبی یہ نظر آتی ہے کہ ان کا ہر کردار تھوڑی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اصغری کے کردار کے ساتھ اکبری یا محمد کامل، محمد فاضل، ماما عظمت کے کرداروں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن سرشار اپنے تمام ناول میں صرف دو تین کردار زندہ کر سکے۔ لیکن وہ تین کردار ہی نذیر احمد کے کرداروں سے بہت آگے بڑھ گئے۔ فسانۂ آزاد میں آزاد اور خوجی کا کردار۔ سیر کہسار میں مہراج بلی اور جام سرشار میں روشن اور تراب کے علاوہ بھی دوسرے کرداروں کے نام بھی ذہن میں نہیں رہ جاتے، لیکن انھیں چند کرداروں کے ذریعہ ہی سرشار نے لکھنؤ کے بانکپن، حاضر جوابی، بے فکری اور مزاحیہ حرکتوں کا اظہار کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ اپنے ان کرداروں کے ذریعہ وہ بڑی سی بات کہہ جاتے ہیں۔ پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں :
"مہراج بلی کی خوش فہمیاں قمری سے عشق اور اپنی بیوی سے خوف وہراس اس طبقہ کی زندگی کے چند اہم لیکن مضحکہ خیز پہلو سامنے لاتا ہے۔ اس لحاظ سے خوجی کا کردار اپنی مبالغہ آمیزی کے باوجود لکھنؤ کی انحطاطی معاشرت کا سب سے نمائندہ اور سرشار کا غیر فانی کردار ہے۔ اس کا اعتراف اردو کے تمام ناقدین نے کیا ہے۔”
اس میں شک نہیں کہ سرشار اپنے نسوانی کرداروں میں نذیر احمد سے قطعی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ان کے یہاں اگرچہ اللہ رکھی، قمرن، اور ظہورن جیسے کامیاب نسوانی کردار ہیں۔ لیکن وہ اصغری، فہمیدہ، حسن آراء، محمودہ جیسے کرداروں کے مقابلے نہیں ٹھہر پاتے۔ لیکن اسی سے ملتی جلتی دو ایک باتوں کے سلسلے میں نذیر احمد اور سرشار کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ نذیر احمد نے جس انداز سے نسوانی کرداروں کو پیش کیا ہے، وہ بالکل منفرد ہے۔ ان کے تمام ناول زیادہ تر عورتوں کی اصلاح پر لکھے گئے ہیں۔ مراۃ العروس ہو یا بنات النعش یا دوسرے ناول، ان کے ناول میں عورت ایک پاکیزہ، مہذب، مقدس اور پردہ نشین عورت ہے۔ وہ ایک شادی کے حامی ہیں۔ تعلیم کے ضرور قائل ہیں لیکن حد کے اندر۔ بے پردگی کو ذرا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ لیکن سرشار اس معاملے میں نذیر احمد کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کے نسوانی کردار بازاروں میں گھومتے ہیں اور عشق کرتے پھرتے ہیں۔ عشق و محبت سے متعلق دلچسپ فقرے چست کرتے ہیں۔ یہ بے باکی اور بے حجابی سرشار کو نذیر احمد سے بالکل الگ کر دیتی ہے اور شاید اسی وجہ سے پنڈت بشن نرائن در نے ایک جگہ کہا ہے کہ ان کے ناول اس قابل نہیں ہیں کہ شریف لڑکیوں کو پڑھایا جا سکے، جس کا تفصیلی جواب علی عباس حسینی صاحب نے اپنی کتاب (ناول کی تاریخ و تنقید )میں دیا۔ سرشار نے جس انداز سے عشق و محبت کی داستان اپنے فسانہ میں پیش کی وہ قدامت سے بغاوت کرتی ہے۔ سرور کا عشق اندھا۔ وہ فسانۂ عجائب میں جان عالم اور انجمن آراء کا عشق بالکل اندھے پن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ داستان ہے۔ سرشار، سرور کے شاگرد تھے۔ انھوں نے بعض معاملات میں اپنے استاد کا چربہ اتارا، لیکن عشق کے معاملات میں وہ بغاوت کر گئے۔ ان کا عشق داستانی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقی عناصر بھی مل گئے ہیں۔ آزاد کی ہیروئن حسن آراء آزاد سے پیار تو کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرط لگاتی ہے کہ وہ جنگوں میں حصہ لے کر کارہائے نمایا ں انجام دے، نام پیدا کرے تب وہ شادی کرے گی۔ یا دوسری جگہ ثریّا ایک بوڑھے شوہر کی بیوی۔ لیکن شوہر کے انتقال کے بعد جب آزاد خط لے کر ثریّا کے پاس جاتا ہے تو ثریّا اس پر دل و جان سے عاشق ہو جاتی ہے اور اپنے آپ کو نچھاور کرنے لگتی ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے عشق میں ناکام ہو جاتی ہے اور ایک نواب سے شادی کر لیتی ہے۔ عشق کا یہ تصور داستانوں سے بالکل الگ ہٹ کر ہے۔ داستانوں میں ثریّا جیسا کردار موت کے منھ کا نوالہ بن جاتا ہے۔ لیکن سرشار نے عشق و محبت میں ناکامی کے بعد اپنے آپ کو موت کے حوالے نہیں کیا۔ بلکہ حالات کا مقابلہ کیا۔ وقت کے تقاضے کو گلے لگایا۔ ان معاملات میں سرشار کردار نگاری کے معاملے میں نیا پن پیدا کرتے ہیں اور عشق کا ایک نیا تصور پیش کرتے ہیں۔ جب کہ نذیر احمد کے ناولوں میں عشق کا قحط ہے۔ برائے نام کسی ناول میں ہلکی سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ورنہ سارے ناول میں اصلاحی کارنامے بھرے ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر سرشارنے ناول کو کیا دیا۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سرشار انگریزی کے مطالعہ سے صنف ناول سے واقف ہو چکے تھے اور اپنی ان تخلیقات کو انھوں نے ذہن میں ناول ہی سمجھ کر لکھا۔ لیکن کہیں وہ لا شعوری طور پر ناول کی حدود سے نکلتے چلے گئے۔ وہ اکثر لکھنؤ کی بھیڑ بھاڑ اور سرور کی زبان کے جادو میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ان کی تحریر اپنے آپ ان کو ناول نگاری سے دور لے جاتی ہے۔ یقیناً زندگی کو پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ صرف مصوری کرتے ہیں۔ لکھنؤ کے بازاروں، گلی کوچوں، محفلوں، طوائف کی کوٹھیوں، اس طرح کے دوسرے مناظر کا دل کش پیرائے میں تذکرہ کرنا ہی وہ ناول کے لیے لازم سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ذریعہ اپنی تحریر کو زندگی کے قریب تو کیا لیکن اپنا خیال، اپنا فلسفہ، اپنی تعبیر نہ پیش کر سکے۔ انھوں نے ناول کو دلچسپی کا مقصد بنا دینا ہی اپنا مقصد سمجھا۔ جب کہ صرف انھیں تذکروں کو ناول نہیں کہتے۔ بلکہ ناول نگاری کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ تو ہونا ہی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی اپنی روح اور اپنا فلسفہ بھی ہونا چاہئے۔ سرشار ہر جگہ ایسا نہیں کر سکے۔ بقول قمر رئیس:
"وہ مداری کی طرح زندگی کا تماشا دکھانے ہی کو ناول کا فن سمجھتے ہیں۔ انھیں یہ علم نہیں تھا اور نہ ہو سکتا تھا کہ ناول زندگی کی مصور ہی نہیں۔ اس کی فلسفیانہ تعمیر اور تعبیر بھی ہے۔ اور یہ کہ ناول کا تخلیقی عمل قارئین کے مذاق، پاس و لحاظ سے کہیں زیادہ عصری زندگی کے حقائق اور فن کے گہرے شعور کا مطالبہ کرتا ہے۔ ”
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ سرشار نے نذیر احمد سے بالکل الگ موضوع لے کر اپنی تخلیقات کے ذریعہ صنف ناول میں بہت اہم اضافے کیے۔ یہ بات ضرو رہے کہ ان کے ناول میں جو اہمیت فسانۂ آزاد اور اس کے بعد جام سرشار وسیر کہسار کو ملی وہ دوسروں کو نہ مل سکی، اور اسی سلسلہ میں تمام ناقدین میں یہ بحث چلتی رہے گی کہ سرشار کی ناول میں ناول نگاری کا پورے طور پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ لیکن اتنی بات حقیقت ہے کہ بقول احسن فاروقی:
"ناول سے سچا ذوق حاصل کرنے والے کے لیے اور سچے مذاق کی ناول لکھنے کے لیے پہلے سرشار کے پیر چھو لینا ضروری ہے۔”
٭٭٭

٭٭٭
ماخذ:
http://urducouncil.nic.in/ebooks/AbdulAleemSharar.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید