فہرست مضامین
- خواب کمخواب
- حمد
- نعت رسولِ مقبول ﷺ
- سلام
- غزلیں
- آتشیں لہر نہ برفاب میں رکھی جائے
- آن پڑی ہے ہم پر کیسی مشکل اے صحرا
- اجالا ہی اجالا، روشنی ہی روشنی ہے
- اک طرزِ پُراسرار میں دیکھا ہے خدا خیر
- اندھیرا بھی دیا ہے
- ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
- بدن پر ٹانک کر تارے اڑایا جا رہا ہے
- بطرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
- بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
- بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
- پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے
- پیڑ میں آدمی بناؤں میں
- تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے
- تیز ہوا میں رکھتا میں خاموشی کو
- جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
- جنت کے پھل زمیں پہ گرانے کی دیر تھی
- چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہو سکتی
- چشم وا ہی نہ ہوئی جلوہ نما کیا ہوتا
- خاموشی کی قرأت کرنے والے لوگ
- نجانے رات مرے دل میں کیا خیال آیا
- خشک پات میرے ہیں پر نہیں ثمر میرا
- خواب کاری وہی کمخواب وہی ہے کہ نہیں
- دعا کرنے سے نفرت ہے، نہیں تو
- دل زدہ شہر کے آلام کو پر لگ جائیں
- دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے
- رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں
- روشنی ہے کہ دھواں اس کی خبر ہے مجھ کو
- ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا
- ساکت ہو مگر سب کو روانی نظر آئے
- رات کو آ کے ڈرائیں نہ بلائیں، آمین
- سبز اطلس کا تلک لے کے تجھے دیکھوں گا
- سرخ لمحوں کی کسک لے کے تجھے دیکھوں گا
- شعلۂ زر سے چمک لے کے تجھے دیکھوں گا
- شہر سے کیا گئی جانب دشت زر زندگی فاختہ
- شیلف کی ایک تصویر سے فرش پر گر پڑی فاختہ
- عجب رنگ طلسم و طرز نو ہے
- کھنڈر یہ پھر بسانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
- کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن
- کوئی کہاں ہے جہاں سے آگے اور اس سے آگے
- گماں اندر گماں کی کیفیت ہے
- گھُل گیا جسم، روح کہتی رہی
- گیا کہ سیلِ رواں کا بہاؤ ایسا تھا
- لے گئی دہر کو جب زر کی ضیا اور طرف
- مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے
- نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
- نیند بیچی جا رہی ہے کاروبار خواب ہے
- جو خود بھی قید ہے دیوار و در میں
- ہوا کے رقص میں رکھی تھی خاک کی ڈھیری
- ہوا کیا سانس بھی میری نہیں تھی
- یہ معجزہ بھی دکھاتی ہے سبز آگ مجھے
- وسعت گیر متخیلہ کا شاعر
خواب کمخواب
دانیال طریر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے!‘‘
الرحمن
رابطہ:
مکان نمبر ۲۸۶، ایل۵، بلاک ۴، سٹیلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ
۰۳۴۶۸۳۶۲۱۳۶
tareer@yahoo.com
قندیل
تمثیل
اور
انجیل
کے نام
شاعری ویسے بھی مشکل پھر غزل کہنا تو فن ہے
حرف کو الماس ریزہ، لفظ کو گوہر کیا ہے
سعید گوہرؔ
حمد
آب و گل کی سلطنت اپنی زبانی حمد ہے
پاک مٹی حمد ہے اور صاف پانی حمد ہے
فاختہ بن کر جو اڑتی پھر رہی ہے شہر میں
یہ حقیقت میں کوئی صدیوں پرانی حمد ہے
یہ جو مٹی کے پیالے دفن ہیں زیر زمیں
یہ دفینہ ہے خزینہ، یہ نشانی حمد ہے
کائناتی پانیوں پر جو ازل سے ہے رواں
یہ ہوا اور اس کی موجوں کی روانی حمد ہے
پیڑ پر اک گھونسلا اور گھونسلے میں مامتا
یہ زماں کی قید میں اک لا زمانی حمد ہے
ہاتھ کی محنت، محبت ہے خدا کی ذات سے
آبیاری حمد ہے اور باغبانی حمد ہے
دیکھتا ہوں راستے میں مڑ کے جب اپنی طرف
سوچتا ہوں سر بہ سر میری کہانی حمد ہے
٭٭٭
نعت رسولِ مقبول ﷺ
وقت بعثت سے مناظر سارے حیرانی میں ہیں
قمقمے ہیں خاک میں اور آئینے پانی میں ہیں
ایک در سے کیا جڑے ہیں ذہن و دل کے سلسلے
جسم ہے آرام سے اور سانس آسانی میں ہیں
غار میں اک لفظ کی قرأت ہوئی اور اس کے بعد
فیض کے چشمے ہیں جو اب تک فراوانی میں ہیں
ان دنوں ساری زمیں پر ابر ہیں بارش بھرے
ان دنوں میری دعائیں فضل ربانی میں ہیں
اک مقدس کوکھ میں اک روشنی کا پھول تھا
جس کی پیدائش سے یہ آفاق تابانی میں ہیں
سب شریر و شر مقابل آ گئے تو کیا ہوا
باب شہر علم ہے ہم جس کی دربانی میں ہیں
’’چھپ رہا ہوں میں محمدؐ سے خدا کے سامنے‘‘
تن برہنہ اور مرے اعمال عریانی میں ہیں
٭٭٭
سلام
باقی رہتی ہے سچائی، سچائی کا سراغ
کھول گئے یہ رازِ نہاں اک بچہ اور چراغ
اس کے لیے بے معنی ہیں سونے کی طشتریاں
جس کے پاس ہوں اپنا جھنڈا، نعرہ اور چراغ
سارا دشت ہے جائے نماز اور ہر ٹیلہ محراب
اس مسجد میں روشن ہیں وہ سجدہ اور چراغ
تیرا قصہ محل، حکومت، سطوت اور سپاہ
میری کہانی میرا حصہ خیمہ اور چراغ
ملے ہوئے ہیں جیسے تپتی ریت اور پیاسے ہونٹ
جڑے ہوئے ہیں اسی طرح سے نوحہ اور چراغ
جلتی ریت پہ کس نے اپنے لہو سے لکھا تھا
میں مر جاؤں تو ہو جائے پیدا اور چراغ
ظلم کی ایک کہانی دہراتے رہتے ہیں طریرؔ
شام، لہو، صحرا، سناٹا، دریا اور چراغ
٭٭٭
غزلیں
آتشیں لہر نہ برفاب میں رکھی جائے
شب غنودہ مرے اعصاب میں رکھی جائے
جس کے کردار پرندوں کی طرح اڑتے ہوں
وہ کہانی مرے اسباب میں رکھی جائے
غار در غار بھٹکتے ہوئے میں چیخ اٹھا
روشنی اب کسی محراب میں رکھی جائے
آنکھ لگ جائے تری چاند کی لوری سن کر
پھر تری نیند مرے خواب میں رکھی جائے
اتنا آسان نہیں میرا جنونی ہونا
تیری تصویر بھی مہتاب میں رکھی جائے
جس جگہ پھول کے بھی پنکھ ہوں تتلی کی طرح
آنکھ اس قریۂ شاداب میں رکھی جائے
دھوپ جب مشک لیے اترے تو مایوس نہ ہو
چشم گریہ کوئی تالاب میں رکھی جائے
٭٭٭
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے
مسخرے کا روپ دھاریں مسکرائیں بھی نہیں
آن پڑی ہے ہم پر کیسی مشکل اے صحرا
اک سینے میں دھڑک رہے ہیں دو دل اے صحرا
کیا تیرے بھی سارے خواب سراب نکل آئے
میری آنکھوں جیسی تیری جھلمل اے صحرا
تو بھی کھوج میں مست مگن ہے دھن میں رہتا ہے
میں بھی ڈھونڈ رہا ہوں اپنی منزل اے صحرا
جتنی پیاس ہو اتنا پانی کون دکھاتا ہے
کون ہے جگ میں تیرے جیسا عادل اے صحرا
رکھ دے اپنے ہونٹ مرے ماتھے پر سجدے میں
میری عبادت میں ہو جا تو شامل اے صحرا
الٹے ہاتھوں ہم نے جتنی دعائیں مانگی ہیں
جلتی دھوپ اور تو ہے ان کا حاصل اے صحرا
بارش ہوتی اور چراغاں کر دیتی ہر سو
اک دن یہ تنہائی بنتی محفل اے صحرا
٭٭٭
کھیت جب سوکھ گئے تب ہمیں احساس ہوا
گاؤں تک شہر کے موسم کو سڑک لے آئی
اجالا ہی اجالا، روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں
دئیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تجسس ہر افق پر ڈھونڈتا رہتا ہے اس کو
کہاں سے اور کیسی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
عمل کے وقت یہ احساس رہتا ہے ہمیشہ
مرے اندر سے اپنی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
میں جب بھی راستے میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں
وہی اشکوں میں بھیگی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
کہیں سے ہاتھ بڑھتے ہیں مرے چہرے کی جانب
کہیں سے سرخ ہوتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو! مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
٭٭٭
ہُو سے آوازوں کی دنیا پیدا کی
آوازوں کی دنیا، ہُو سے بھر دی ہے
اک طرزِ پُراسرار میں دیکھا ہے خدا خیر
سایا کوئی دیوار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہ برف کے پھولوں سے بھرا کھیت سلامت
میں نے اسے کہسار میں دیکھا ہے خدا خیر
پتوں کی صدائیں نہیں پھنکار سنی ہے
اژدر کوئی اشجار میں دیکھا ہے خدا خیر
وہ سرخ پرندہ جسے سب ڈھونڈ رہے ہیں
میں نے ابھی بازار میں دیکھا ہے خدا خیر
سر تا بہ قدم اپنی بقا مانگ رہا ہوں
آئینے کو زنگار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہ خوف تو ویرانی دل سے بھی گراں ہے
آسیب درِ یار میں دیکھا ہے خدا خیر
وہ رنگ کہ خود مجھ پہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا
وہ رنگ بھی اظہار میں دیکھا ہے خدا خیر
٭٭٭
تو خود کو ناخن پا تک چھپا لے اوڑھنی میں
میں تیری آبرو کا تذکرہ کرنے لگا ہوں
اندھیرا بھی دیا ہے
یہ کیسا تجزیہ ہے
نیا ہے متن دوراں
پرانا حاشیہ ہے
نظر منظر فسانے
حقیقت زاویہ ہے
خدا کو مار ڈالا
یہ تو نے کیا کیا ہے
انا کے پاس مت جا
دہکتا سوریا ہے
تری خوشبو سے جانا
تو شاید موتیا ہے
کنویں جتنی زمیں پر
بہت دن جی لیا ہے
٭٭٭
اور بھی کوئی روح ہے شاید
اور بھی ہے کوئی بدن مجھ میں
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے
خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی، شہد سے شیریں
گاؤ، ناچو، ناچو، گاؤ خواب کا کیا ہے
لایعنی ہے سب لایعنی، یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو، آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
٭٭٭
لوٹ کر آتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپیں اور خوف
فوج سے شاید کوئی شے خاص باقی رہ گئی
بدن پر ٹانک کر تارے اڑایا جا رہا ہے
مجھے آخر پرندہ کیوں بنایا جا رہا ہے
جہاں پر ختم ہوتی ہے سمے کی راجدھانی
بدن ٹھہرا ہوا ہے اور سایا جا رہا ہے
میں سویا بھی نہیں ہوں اور سپنا دیکھتا ہوں
زمیں کو آسمانوں پر بچھایا جا رہا ہے
نظر آتی نہیں ہے بولنے والے کی صورت
سنائی دے رہا ہے جو سنایا جا رہا ہے
اچانک اس صدا سے کانپ اٹھتی ہیں زمینیں
سنبھل جاؤ! پہاڑوں کو ہلایا جا رہا ہے
مجھے مٹی کا چہرہ اور آنکھیں دے کے بھیجا
کہا یہ صبر تیرا آزمایا جا رہا ہے
کہانی ختم ہونے کی نشانی ہے یہ لمحہ
دعا کو زرد پتوں میں چھپایا جا رہا ہے
٭٭٭
میں سورج ہوں آگ اگلنا کب چھوڑوں گا
کتنی برف میں کتنے پانی میں رکھو گے
بطرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
نئی زمین بنانی پڑی ہے آخر کار
تپش نے جس کی مجھے کیمیا بنانا تھا
مجھے وہ آگ بجھانی پڑی ہے آخر کار
بہت دنوں سے یہ مٹی پڑی تھی ایک جگہ
ہر ایک سمت اڑانی پڑی ہے آخر کار
جہاں پہ قصر بنائے گئے تھے کاغذ کے
وہاں سے راکھ اٹھانی پڑی ہے آخر کار
وہ پاؤں بھیگے ہوئے دیکھنے کی خواہش میں
چمن میں اوس بچھانی پڑی ہے آخر کار
مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں رات ملانی پڑی ہے آخر کار
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے، خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
٭٭٭
مہیب شب میں جلا ہوا تھا مرا بدن بھی
ہوا نے آ کر بجھا دیا ہے دیا بدن بھی
بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
میں تہذیب ادب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
سحر ہو گی تو شاید جاگنے والے پڑھیں گے
میں قصہ ہائے شب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ورق سونے کے مجھ کو کس نے دینے تھے کہ دیتا
سو اپنے خواب سب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
چمکتی نیل آنکھیں جھیل پر تحریر کر دیں
دہکتے سرخ لب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ستارا ٹوٹنے والا نہ ٹوٹا اور ٹوٹا
کوئی نظم عجب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ہمارے بیچ پڑنے والی ان صدیوں کا نوحہ
مجھے لکھنا ہے کب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
جنونی رقص میں ہوں اور تلوے جل رہے ہیں
طرب ہے یا تعب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
٭٭٭
جا دُور بیٹھ مجھ سے مرے طائرِ خیال
غصے میں نوچ لوں نہ ترے بال و پر کو میں
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
پھر ایک روز مرے پاس آ کر اس نے کہا
یہ اوڑھنی ذرا قوس قزح سے رنگ مری
جو کائنات کنارے سے جا کے مل جائے
وہی فراغ طلب ہے زمین تنگ مری
میں چیختے ہوئے صحرا میں دور تک بھاگا
نہ جانے ریت کہاں لے گئی امنگ مری
فنا کی سرخ دوپہروں میں رقص جاری تھا
رگیں نچوڑ رہے تھے رباب و چنگ مری
لہو کی بوند گری روشنی کا پھول کھلا
پھر اس کے بعد کوئی اور تھی ترنگ مری
٭٭٭
میں چھو سکوں نہ دیکھ سکوں اور نہ لڑ سکوں
کیسی عجب بلا سے مرا سامنا ہوا
رکھنے سے ڈر رہا ہوں اسے آگ کے قریب
رستے میں ایک سانپ ملا ہے جما ہوا
پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے
سندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے
چھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن
آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے
چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندا
رات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے
ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی
سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے
چھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں
وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے
رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے
قوسِ قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے
ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی
تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے
٭٭٭
سخت سردی تھی جب مری خاطر
اپنے حصے جلا رہی تھی رات
پیڑ میں آدمی بناؤں میں
کوئی دنیا نئی بناؤں میں
لوگ دیکھیں تو دنگ رہ جائیں
شے کوئی دیدنی بناؤں میں
کائنات اک سفید کاغذ ہو
ہر طرف روشنی بناؤں میں
کوہ قاف ایک میرا اپنا ہو
ایک اپنی پری بناؤں میں
بانجھ دھرتی مجھے عنایت ہو
سرخ پھولوں بھری بناؤں میں
دھوپ میں اور بھی چمک جائے
کانچ کی جھونپڑی بناؤں میں
برف جمنے لگی ہے آنکھوں میں
خواب کمخواب ہی بناؤں میں
٭٭٭
زمیں کی آگ سے جلتے صحیفے
لرزتے برف ہاتھوں سے چنے تھے
تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے
یقیں تو ناگہاں لکھا گیا ہے
مکمل ہو چکی قرأت فضا کی
پرندے اور دھواں لکھا گیا ہے
مرا دو پل ٹھہر کر سانس لینا
سر آب رواں لکھا گیا ہے
اگائے گی ستارے اب یہ مٹی
زمیں پر آسماں لکھا گیا ہے
کتاب غیب پڑھتا جا رہا ہوں
مرا ہونا کہاں لکھا گیا ہے
نہیں لکھا گیا کاغذ پہ کچھ بھی
فقط آئندگاں لکھا گیا ہے
٭٭٭
سفر کرتے ہوئے کیا آسماں تک آ گیا ہوں
زمیں پر ابر کے ٹکڑے دکھائی دے رہے ہیں
خبر ہے غیر ہوں گے اور گواہی دیں گے اک دن
یہ اعضا جو مجھے اپنے دکھائی دے رہے ہیں
تیز ہوا میں رکھتا میں خاموشی کو
کاش صدا دے سکتا میں خاموشی کو
تیرے لہجے سے یا اپنی حیرت سے
کس بادل سے ڈھکتا میں خاموشی کو
بھید کھلا جب اس نے اپنے لب کھولے
سمجھ رہا تھا سکتہ میں خاموشی کو
ہم ہوتے اور کُہرا ہوتا ہر جانب
تو آواز کو تکتا میں خاموشی کو
کیسی لایعنی خواہش ہے یہ خواہش
موت سے پہلے چکھتا میں خاموشی کو
الگ الگ آوازوں کی اس دنیا میں
ڈھونڈ رہا ہوں یکتا میں خاموشی کو
٭٭٭
جو اپنے مر گئے تھے جی اٹھے ہیں سوچتا ہوں
حقیقت سے تو بہتر واہمے ہیں سوچتا ہوں
فلک پر رنگ روغن ہو رہا ہے میری خاطر
فرشتے مجھ کو لینے آ رہے ہیں سوچتا ہوں
جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
جنونی ہو گیا ہے میرے دریاؤں کا پانی
پہاڑوں کے گھرانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
گزرنا چاہتی ہے بادلوں سے میری حیرت
میرا شک آسمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
پتنگا ایک پاگل ہو گیا ہے روشنی میں
فرشتوں کی اڑانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
کثافت ختم کر کے جسم کی مٹی کا پتلا
خدا کے کارخانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
نہیں آیا یہ اژدر پربتوں کی سیر کرنے
زمینوں کے خزانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
٭٭٭
جو شک رہا بھی تو کیا جو یقیں رہا بھی تو کیا
محاذِ جنگ پہ کوئی نہیں رہا بھی تو کیا
جنت کے پھل زمیں پہ گرانے کی دیر تھی
اک بار آسمان ہلانے کی دیر تھی
میں پیڑ میں قیام کروں گا تمام عمر
یہ بات طائروں کو بتانے کی دیر تھی
یہ رمز مجھ پہ غیر کا احسان جانیے
اس دل میں ایک پھول کھلانے کی دیر تھی
اس چشم نیم باز کی خوابیدگی کی خیر
جیسے اسے یہ خواب سنانے کی دیر تھی
افلاک چاک ہونے لگے چاند شق ہوا
شاید مرے چراغ جلانے کی دیر تھی
پھر میں تھا اژدہوں کا علاقہ تھا خوف تھا
اپنی طرف خدا کو بلانے کی دیر تھی
تجھ تک پہنچنے میں مجھ میں مجھے صدیاں لگیں مگر
میری نہیں تھی یہ تو زمانے کی دیر تھی
٭٭٭
ہزاروں سال کا بن باس کاٹا ہے تو مجھ کو
پرندوں کی زباں سے تھوڑی آگاہی ملی ہے
چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہو سکتی
کیا مری خاک چمک دار نہیں ہو سکتی
ہو نہ ہو اپنی بصارت نے مجھے روکا ہے
غیب جاتے ہوئے دیوار نہیں ہو سکتی
جتنی پیڑوں میں نظر آتی ہے تقلیب کے بعد
یہ زمیں اتنی پر اسرار نہیں ہو سکتی
میں نے ڈھونڈا ہے چراغوں کی لوؤں میں تجھ کو
تو ستارے میں نمودار نہیں ہو سکتی
یہ زمینوں پہ لہکتی ہوئی گندم کی مہک
آسمانوں کی طرف دار نہیں ہو سکتی
میں کسے خواب سنانے کے لیے آیا ہوں
شب اگر نیند سے بیدار نہیں ہو سکتی
جس نے آنسو پہ قناعت کا چلن سیکھا ہو
وہ نظر خوگر دینار نہیں ہو سکتی
٭٭٭
سماعت اور سامع دونوں زندہ ہیں کہ اک دن
کوئی آواز خاموشی کو بھی رخصت کرے گی
چشم وا ہی نہ ہوئی جلوہ نما کیا ہوتا
اور ہوتا بھی تو دیکھے کے سوا کیا ہوتا
ریت کے باغ میں کیا باد بہاری کی طلب
کوئی سبزہ ہی نہیں تھا تو ہرا کیا ہوتا
اتنی سادہ بھی نہیں آگ اور انگور کی رمز
اجر دیتا نہ سزا تو بھی خدا کیا ہوتا
میری خواہش کے علاقے سے پرے کچھ بھی نہ تھا
اور خواہش کے علاقے میں نیا کیا ہوتا
جسم پر سرد ہواؤں کی فسوں کاری تھی
دھوپ تعویذ نہ کرتی تو مرا کیا ہوتا
اژدھے بننے لگے پیڑ پرندوں کے لیے
شہر پر خوف میں اب اس سے برا کیا ہوتا
دیکھنے میں بھی گیا تھا وہ تماشا لیکن
کوئی باقی نہ رہا رقص فنا کیا ہوتا
٭٭٭
خوش پھرو موج کرو مست رہو مستی میں
ایک آواز سنائی نہیں جاتی جب تک
خاموشی کی قرأت کرنے والے لوگ
ابو جی اور سارے مرنے والے لوگ
روشنیوں کے دھبے ان کے بیچ خلا
اور خلاؤں سے ہم ڈرنے والے لوگ
مٹی کے کوزے اور ان میں سانس کی لو
رب رکھے یہ برتن بھرنے والے لوگ
میرے چاروں جانب اونچی اونچی گھاس
میرے چاروں جانب چرنے والے لوگ
آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے
دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ
٭٭٭
نجانے رات مرے دل میں کیا خیال آیا
پٹاریوں میں پڑے سانپ سب نکال آیا
جنہوں نے خاک سے مل کر مجھے بنایا تھا
میں اپنی راکھ انہی پانیوں میں ڈال آیا
وہاں پہ کوئی نہ تھا مجھ کو مانگنے والا
میں جس زمیں کے لیے ابر کی مثال آیا
٭٭٭
خشک پات میرے ہیں پر نہیں ثمر میرا
ہاتھ جیسے شاخیں ہیں جسم ہے شجر میرا
مجھ سے پوچھتا ہے کیا، میں ہوا ہوں چل ہٹ جا
کون روک پایا ہے آج تک سفر میرا
یہ اندھیرے رستے ہیں ان میں سانپ بستے ہیں
جس طرف اجالا ہے اس طرف ہے گھر میرا
فجر کی اذاں ہوں میں یا سحر ستارا ہوں
انتظار کرتا ہے کون رات بھر میرا
خود کو اک دلاسا ہوں جانے کب سے پیاسا ہوں
میں سراب آسا ہوں دشت ہے نگر میرا
مجھ سے بات کرتے ہیں پیڑ بھی، پرندے بھی
کیا ہوا ہے اس بن سے پہلے بھی گزر میرا
سانس آنچ لگتا ہے جسم کانچ لگتا ہے
مجھ کو مار ڈالے گا ایک دن یہ ڈر میرا
٭٭٭
لفظ اڑ جائیں گے مطلب دھند میں کھو جائے گا
ایک دن علم بشر سب دھند میں کھو جائے گا
خواب کاری وہی کمخواب وہی ہے کہ نہیں
شعر کا حسن ابد تاب وہی ہے کہ نہیں
کیا پری کو مجھے مچھلی میں بدلنا ہو گا
دیکھنے کے لیے تالاب وہی ہے کہ نہیں
میں جہاں آیا تھا پیڑوں کی تلاوت کرنے
سامنے قریۂ شاداب وہی ہے کہ نہیں
آنکھ کو نیند میں معلوم نہیں ہو سکتا
رات وہ ہے کہ نہیں خواب وہی ہے کہ نہیں
جس کو چھونے سے مرا جسم چمک اٹھے گا
دیکھ یہ شیشۂ مہتاب وہی ہے کہ نہیں
یہ کہانی کے الاؤ سے چرائی ہوئی آگ
محو حیرت ہے کہ برفاب وہی ہے کہ نہیں
سر جھکانے سے جہاں اشک تپاں جاگا تھا
سوچتا ہوں کہ یہ محراب وہی ہے کہ نہیں
٭٭٭
جو تن پہ راکھ لگاتے تھے پات کھاتے تھے
وہ برگدوں کو جلا آئے ہیں خبر نہیں کیا
دعا کرنے سے نفرت ہے، نہیں تو
خدائی کی ضرورت ہے، نہیں تو
پری اتری ہے پانی میں نہانے
یہ منظر خوبصورت ہے، نہیں تو
نہیں اک بھی ستارا آسماں پر
اسی باعث یہ ظلمت ہے، نہیں تو
بگولے سے ہراساں ہیں شجر کیا
ہوا سے بن میں وحشت ہے، نہیں تو
میں کیوں تصویر اپنی چومتا ہوں
مجھے خود سے محبت ہے، نہیں تو
ہوا بن کر چلوں اور خاک چھانوں
یہی کیا میری قسمت ہے، نہیں تو
سمندر اور صحرا جب نہیں ہیں
تو کیا رستے میں پربت ہے، نہیں تو
٭٭٭
سب لوگ اک چمک کی طرف بھاگنے لگے
میں دھند کے قریب دعا کی طرف رہا
دل زدہ شہر کے آلام کو پر لگ جائیں
مے کدے ناچ اٹھیں جام کو پر لگ جائیں
تیز کرتے ہیں سفر لوگ مکانوں کی طرف
جب پرندوں کی طرح شام کو پر لگ جائیں
دل تمناؤں کی تخلیق پہ مامور رہے
اور اس کوشش ناکام کو پر لگ جائیں
یہ طلسمات کی دنیا ہے یہاں کیا معلوم
ایک دن مصر کے اہرام کو پر لگ جائیں
لوح افلاک پہ بادل مجھے خوش خط لکھیں
تو پکارے تو مرے نام کو پر لگ جائیں
یہ نہ ہو جاگ اٹھے مجھ میں لپک اڑنے کی
یہ نہ ہو گھر کے در و بام کو پر لگ جائیں
آسمانوں پہ کہیں اگلا خدا تو ہی نہ ہو
کیا خبر کب مرے اوہام کو پر لگ جائیں
٭٭٭
کیا وحشت ہوتی ہے تیز بگولے کے دل میں
کیوں صحرا سے شہر کی جانب چلنا پڑتا ہے
دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے
ہوا اب صبح کے آثار لے کر جا رہی ہے
ہمیشہ نوچ لیتی تھی خزاں شاخوں سے پتے
مگر اس بار تو اشجار لے کر جا رہی ہے
میں گھر سے جا رہا ہوں اور لکھتا جا رہا ہوں
جہاں تک خواہشِ دیدار لے کر جا رہی ہے
خلا میں غیب کی آواز نے چھوڑا ہے مجھ کو
میں سمجھا تھا مجھے اس پار لے کر جا رہی ہے
مجھے اس نیند کے ماتھے کا بوسہ ہو عنایت
جو مجھ سے خواب کا آزار لے کے جا رہی ہے
یہاں پر رات کو اچھا نہیں کہتا ہے کوئی
سو اپنے کاسہ و دینار لے کر جا رہی ہے
تماشے کے سبھی کردار مارے جا چکے ہیں
کہانی صرف اک تلوار لے کر جا رہی ہے
٭٭٭
ہم کو منقش قصر بنانا آتا ہے اب بھی
اب بھی ہم کو بھاری پتھر ڈھونا آتا ہے
رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں
شب کا ماتم مری قندیل سے ہو گا کہ نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ جنگل کو چلانے کے لیے
مشورہ ریچھ سے اور چیل سے ہو گا کہ نہیں
اب نہ ہاتھی نظر آتے ہیں نہ ہاتھی والے
اب وہی کام ابابیل سے ہو گا کہ نہیں
آیت تیرہ شبی پڑھتے ہوئے عمر ہوئی
سامنا اب بھی عزازیل سے ہو گا کہ نہیں
زرد مٹی میں اترتی ہوئی اے قوس قزح
خواب پیدا تری ترسیل سے ہو گا کہ نہیں
اوس کے پھول مہکتے ہیں تری آنکھوں میں
ان کا رشتہ بھی کسی نیل سے ہو گا کہ نہیں
جب سخن کرنے لگوں گا میں تجھے عصر رواں
استعارہ کوئی انجیل سے ہو گا کہ نہیں
٭٭٭
صورت ریگ شہر پر برسا
دشت جو اَبر کی تھکن میں تھا
روشنی ہے کہ دھواں اس کی خبر ہے مجھ کو
اے چراغانِ گماں اس کی خبر ہے مجھ کو
دھوپ لے جاتی ہے پانی سے مرا نقش قدم
اور جاتی ہے کہاں اس کی خبر ہے مجھ کو
جب میں اس جسم کی مٹی سے نکل جاتا ہوں
کون آتا ہے یہاں اس کی خبر ہے مجھ کو
ایک بے رنگ دھنک آنکھ میں ڈالی گئی ہے
لا ہے بنیاد مکاں اس کی خبر ہے مجھ کو
کتنی مٹی تلے زرخیز ہے کاریز نمو
کتنا سبزہ ہے نہاں اس کی خبر ہے مجھ کو
پیاس لکھتے ہوئے جاتا ہے مری آنکھوں میں
ابر ہے ریگ رواں اس کی خبر ہے مجھ کو
سرخ مرجھائے ہوئے پھول ہیں تا حد نظر
سبز ہے رنگ خزاں اس کی خبر ہے مجھ کو
٭٭٭
صرف چیلیں دکھائی دیتی ہیں
چیخ جب آسمان ڈھکتی ہے
ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا
سخت مشکل میں تھا آسانی سے آغاز کیا
مجھ کو مٹی سے بدن بنتے ہوئے عمر لگی
میری تعمیر نے ویرانی سے آغاز کیا
یہ جہانوں کا زمانوں کا مکانوں کا سفر
غیب نے لفظ سے یا معنی سے آغاز کیا
جب بھی یہ آنکھ عناصر کی طرف دیکھتی ہے
یاد آتا ہے پریشانی سے آغاز کیا
جسم اور اسم مجھے کیسے ملے کس نے دیے
ان سوالات کی حیرانی سے آغاز کیا
ایک خاموش سمندر تھا مرے چار طرف
جس میں آواز نے طغیانی سے آغاز کیا
مجھ کو بدصورتی جسم کا اندازہ ہے
میں نے آئینۂ عریانی سے آغاز کیا
٭٭٭
حدِ نگاہ تک ہے خموشی کی سلطنت
شہزادیِ ملال مرے ساتھ ساتھ ہے
ساکت ہو مگر سب کو روانی نظر آئے
اس ریت کے صدقے کہ جو پانی نظر آئے
میں سبز پرندے کی طرح شہر سے جاوئں
پیڑوں کو مری نقل مکانی نظر آئے
تالاب مرے خواب کے پانی سے بھرا ہو
اور اس میں پڑا چاند کہانی نظر آئے
یہ آنکھ، یہ لو کتنے زماں دیکھ چکی ہے
جس چیز کو دیکھوں وہ پرانی نظر آئے
کیا کیا نہ میں مشکیزۂ الفاظ میں بھر لوں
اک بار اگر موج معانی نظر آئے
٭٭٭
شام ناراض پرندے کی طرح لوٹ گئی
رات کو آ کے ڈرائیں نہ بلائیں، آمین
خواب مر جائیں تو قبروں میں انہیں دفن کریں
اور ہر قبر پہ ہم دیپ جلائیں، آمین
میں دعا کرنے جو بیٹھوں تو زمیں اور فلک
میری آواز میں آواز ملائیں، آمین
٭٭٭
سبز اطلس کا تلک لے کے تجھے دیکھوں گا
حسن محتاط! جھجھک لے کے تجھے دیکھوں گا
کون سا رنگ مساموں میں اتر آتا ہے
جسم سے تیرے دھنک لے کے تجھے دیکھوں گا
تجھ کو چھونے کے لیے گھاس پہ رکھوں گا میں ہاتھ
اور شبنم سے چمک لے کے تجھے دیکھوں گا
برف پر لکھا ہوا حرف ترا روپ سروپ
میں کوئی سانس خنک لے کے تجھے دیکھوں گا
تیری آنکھوں کی اجازت سے اٹھیں گی پلکیں
دیکھنے کا تجھے حق لے کے تجھے دیکھوں گا
٭٭٭
خدا کی سمت شاید اس لیے جاتا نہیں ہوں
میں تیری چوڑیوں پر پاؤں رکھ پاتا نہیں ہوں
سفر میں دھند آئے، تیز جھکڑ یا اندھیرا
دعا کے ساتھ چلتا ہوں تو گھبراتا نہیں ہوں
کہاں سے اور کیسے لوٹ آتی ہے پلٹ کر
اگر اپنی صدا میں آپ دہراتا نہیں ہوں
سرخ لمحوں کی کسک لے کے تجھے دیکھوں گا
عصر موجود ! شفق لے کے تجھے دیکھوں گا
میں ہی گلیوں سے اٹھاؤں گا لہو کا سبزہ
میں ہی زخموں سے نمک لے کے تجھے دیکھوں گا
میں ہی سن سکتا ہوں یہ گونج یہ چیخوں کی گونج
میں ہی نغموں کی کھنک لے کے تجھے دیکھوں گا
میں ہی لاؤں گا ہتھیلی پہ دیا، دل میں دعا
میں ہی آنکھوں میں جھمک لے کے تجھے دیکھوں گا
میں ہی آواز لگاؤں گا تو سب جاگیں گے
میں ہی لہجے میں دھمک لے کے تجھے دیکھوں گا
٭٭٭
اُس کی کیا تعریف کروں
دودھ دھلی شہزادی ہے
بربادی نے سکھلایا
آبادی آبادی ہے
کس نے باقی رہنا ہے
بات یہی بنیادی ہے
شعلۂ زر سے چمک لے کے تجھے دیکھوں گا
اے یقیں ! تجھ سے میں شک لے کے تجھے دیکھوں گا
ایک دن میں مری اس میں سے نکل سکتا ہوں
سو نکلنے کی للک لے کے تجھے دیکھوں گا
میں کبھی آؤں گا بادل کے علاقے سے پرے
اور مٹھی میں شفق لے کے تجھے دیکھوں گا
تو زمیں اور فلک دے کے مجھے دیکھتا ہے
میں زمیں اور فلک لے کے تجھے دیکھوں گا
چشم اور دل ترے دیدار کو معیار نہیں
میں فرشتوں سے پرکھ لے کے تجھے دیکھوں گا
٭٭٭
کرب و بلا کے عالم میں آسانی بنتا جاتا ہے
کیا ہے میری آنکھوں میں جو پانی بنتا جاتا ہے
پاس آنے پر اور بھی دھندلا جاتا ہے منزل کا عکس
طے ہونے پر ایک سفر حیرانی بنتا جاتا ہے
اک اک کر کے سارے مکاں ہوتے جاتے ہیں دھواں دھواں
آبادی والا منظر ویرانی بنتا جاتا ہے
شہر سے کیا گئی جانب دشت زر زندگی فاختہ
بین کرنے لگی آ کے شام و سحر ماتمی فاختہ
مر گیا رات کو برف اوڑھے ہوئے ایک فٹ پاتھ پر
وہ جو کہتا رہا لفظ دو عمر بھر، شانتی، فاختہ
کیسی کیسی ہوائیں چلیں باغ میں کون آیا گیا
ساری تبدیلیوں سے رہی بے خبر بانوری فاختہ
وہ نگر چاند کا ہے وہاں تیری کرنوں کی خواہش کسے
اس طرف تیرگی ہے یہاں لاکے دھر طشتری فاختہ
بے اماں شہر میں کیسی دہشت سے گزری تھی میں کیا کہوں
جب عدو دیکھتی اپنے ہی بال و پر نوچتی فاختہ
وہ جو آنکھوں میں تھی کوئی دنیا الگ تھی، جہاں سے جدا
میرے خوابوں میں تھے امن کا راہبر، روشنی، فاختہ
میں تھا شاعر مجھے شہر آشوب لکھنے تھے لکھتا رہا
تیری قسمت میں لکھے گئے کیوں کھنڈر سندری فاختہ
٭٭٭
ایک دو بار مرے جسم میں جھنکار ہوئی
اور پھر ٹوٹ گیا ساز جو زنجیر میں تھا
شیلف کی ایک تصویر سے فرش پر گر پڑی فاختہ
بھر گئی جب دھوئیں سے فضا کی گگر مر گئی فاختہ
مجھ سے چیلوں کے رقص اور جلتے بگولوں کی باتیں کرو
میں نے دیکھے نہیں چھاؤں دیتا شجر، پریت کی فاختہ
اس کی آنکھوں میں ہے آسمانوں کی جانب سفر کی تڑپ
کاٹ سکتی نہیں قید دیوار و در یہ نئی فاختہ
میں ہواؤں کو نوحے سناتا رہا اور ہوائیں مجھے
گِدھ بہت تھے فضا کے سفر پر مگر ایک تھی فاختہ
سارے منظر سیاہی میں چلنے لگے دھوپ ڈھلنے لگی
اپنے دل میں لیے رات ہونے کا ڈر جب اُڑی فاختہ
جب یہ دیکھا کہ آندھی پلٹنے لگی پربتوں کی طرف
جی اُٹھی، سانس روکی ہوئی چھوڑ کر جی اُٹھی فاختہ
جس جہاں کو ہماری ضرورت نہ تھی کیوں وہاں بس گئے
ایک میرا دیا، ایک میں بے ہنر، اک مری فاختہ
٭٭٭
ایک طویل کہانی اور اک بوڑھا قصہ گو
دو کردار اور ان دونوں میں جنموں کا بندھن
عجب رنگ طلسم و طرز نو ہے
دیا ہے آگ کا مٹی کی لو ہے
مجھے سن لیں گی تو دیکھیں گی آنکھیں
مری آواز میں سورج کی ضو ہے
رکاب اور باگ قابو میں نہیں ہیں
یہ اسپ وقت کتنا تیز رو ہے
مری تعریف کے ہیں دو حوالے
قدم افلاک پر مٹھی میں جو ہے
نہیں ہے حریت کی کوئی قیمت
مگر پنجرے کی قیمت چار سو ہے
میں کیا ہریالیوں کی آس باندھوں
زمیں کے ساتھ سپنا بھی گرو ہے
طریر آنسو ہیں اور دھندلاہٹیں ہیں
یہ کیسی کہکشاؤں کی جلو ہے
٭٭٭
مجھے لوگوں میں جینا پڑ رہا ہے
کہ میں لوگوں میں جینا چاہتا ہوں
کھنڈر یہ پھر بسانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
بدن میں لوٹ آنے کا ارادہ ہی نہیں تھا
شکم کی آگ نے بیلوں کو ہنکانا سکھایا
وگرنہ ہل چلانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
وہ اپنے بھیڑیوں کو سیر پر لایا تھا بن میں
غزالوں کو ڈرانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
کہا تھا طائروں سے پیڑ کو دیمک لگی ہے
کسی کو آزمانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
خبر کب تھی کہ آنکھیں اوس برسانے لگیں گی
تجھے ورنہ جگانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
میں تیرے ساتھ اڑتا پھر رہا تھا آسماں میں
خدا کو بھول جانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
صدی بھر میں تمناؤں کو بال و پر دیے تھے
مگر ان کو اڑانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
٭٭٭
جسم کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے ایسا شجر
جس کی شاخوں پر پرندے لوٹنے کا وقت ہے
کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن
بدن میں گونج رہی ہے ابھی صدائے بدن
عجب ہے شہر مگر شہر سے بھی لوگ عجب
ادھار مانگ رہے ہیں بدن برائے بدن
جہاں ٹھٹھرتی تمنا کو آگ تک نہ ملے
وہاں پہ کون ٹھہرتا ہے اے سرائے بدن
کہیں چمکتی ہوئی ریت بھی دکھائی نہ دی
کہاں گیا وہ سمندر سراب کھائے بدن
چراغ بن کے چمکتے ہیں روز شام ڈھلے
ہمارے پہلو میں سوئے ہوئے پرائے بدن
ہر ایک راہ میں بکھرے پڑے ہیں برگ نفس
یہاں چلی ہے بہت دن تلک ہوائے بدن
وہ اپنی قوس قزح لے گیا تو کیا ہو گا
طریرؔ غور طلب ہے تری فضائے بدن
٭٭٭
سکوت کیسے آ گیا کلام کیسے آ گیا
یہ ہر شجر کو شاعروں کا کام کیسے آ گیا
کوئی کہاں ہے جہاں سے آگے اور اس سے آگے
نکل کے دیکھا گماں سے آگے اور اس سے آگے
عجیب بھیدوں بھرا ہوا کوئی سلسلہ ہے
مکاں سے اور لامکاں سے آگے اور اس سے آگے
ہزار نقشے ہیں نقش پا سے نہ ملنے والے
قدم کے انمٹ نشاں سے آگے اور اس سے آگے
یہی ہے منظر کہ مختلف ہے، جواب کوئی
لہو بھرے آسماں سے آگے اور اس سے آگے
ہمارے آنسو چمک رہے ہیں ستارے بن کر
تری حسیں کہکشاں سے آگے اور اس سے آگے
ابھی تلک دل نے فیصلہ یہ نہیں کیا ہے
رکے کہ جائے زیاں سے آگے اور اس سے آگے
کئی سمندر ہیں برف والے اور آگ والے
طریرؔ کوہ گراں سے آگے اور اس سے آگے
٭٭٭
کہاں اجالا کہاں اندھیرا ہے جانتے ہو
دیا کدھر ہے ہوا کدھر ہے خبر رسانو
گماں اندر گماں کی کیفیت ہے
زمیں پر آسماں کی کیفیت ہے
بدن پر برف کو محسوس کرنا
کوئی آب رواں کی کیفیت ہے
یہ کیسا تجربہ ہے سوچتا ہوں
مکاں میں لا مکاں کی کیفیت ہے
کوئی آواز ابھری ہے بدن میں
سکوت جاوداں کی کیفیت ہے
نہیں ہوں میں نہیں ہوں بولتا ہوں
نہیں میں یعنی ہاں کی کیفیت ہے
ترے لب جھیل پر ابھرے ہوئے ہیں
عجب زخم نہاں کی کیفیت ہے
طریر اک بار جینا چاہتا ہوں
جو سب آئندگاں کی کیفیت ہے
٭٭٭
کون سا موڑ ہے کہانی میں
لفظ گھلنے لگے ہیں معنی میں
گھُل گیا جسم، روح کہتی رہی
تیز بارش سے جنگ اور سہی
کاش آکاش تک رسائی ملے
اک دعا کی پتنگ اور سہی
ہجر میں حبس کا اضافہ ہو
سانس ہے تنگ، تنگ اور سہی
زندگی کی سرنگ کے اندر
تیرے غم کی سرنگ اور سہی
اب نہیں تیرا سر کہ سو جاؤں
خیر سینے پہ سنگ اور سہی
آسماں کو دھنک نہیں کافی
میری مٹی کا رنگ اور سہی
سب کی آنکھوں میں خواب ایک سے ہیں
خواب لکھنے کے ڈھنگ اور سہی
٭٭٭
دیے کی لو تلاوت کر رہا ہوں
روایت ہے کہ یہ بدعت ہے کیا ہے
٭٭٭
گیا کہ سیلِ رواں کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا
مری زمیں پہ ہوا کا دباؤ ایسا تھا
لہو کی دھار سلامت رہی، نہ سانس کا تار
مجھے جو کاٹ گیا وہ کٹاؤ ایسا تھا
وہ ٹمٹماتا، تو اس کی ضیا بھی کم پڑتی
کسی دیے سے لہو کا لگاؤ ایسا تھا
وہ ایک تھا جو مجھے چار سو دکھائی دیا
میں جنگ ہار گیا ہوں کہ داؤ ایسا تھا
مجھے تو لاج کے اُجلے لباس میں وہ بدن
گلاب برف میں جیسے چھپاؤ ایسا تھا
بنے ہیں ناگ، مرے بن میں پیڑ جتنے تھے
لگی ہے آگ، صبا کا سبھاؤ ایسا تھا
٭٭٭
اڑائی جا رہی ہے خاک بھر کر مٹھیوں میں
فضاؤں پر کوئی غصہ اتارا جا رہا ہے
لے گئی دہر کو جب زر کی ضیا اور طرف
میں چلا لے کے دیا اور دعا اور طرف
میں کسی اور طرف بھیج رہا تھا لیکن
لے گئی سانس کے پنچھی کو ہوا اور طرف
اور قریے میں لگی تھی مرے اظہار کو چپ
ڈھونڈنے نکلا ہوں میں اپنی صدا اور طرف
خواب اک اور طرف کھینچ رہے تھے مجھ کو
غیب کا ہاتھ مجھے لے کے چلا اور طرف
اک سفر، ایک خلا، ایک طرف ختم ہوا
اب کوئی اور سفر اور خلا اور طرف
٭٭٭
میں پھول چومنے آگے بڑھا تو پھول نہ تھا
وہ باغ کیسے طلسمات کا بنا ہوا تھا
شجر نہیں تھا وہ گوتم کھڑا تھا رستے میں
اور اس کا سایہ سوالات کا بنا ہوا تھا
میں جل پری کے لیے جل تلاش کرنے گیا
پلٹ کے آیا تو برسات کا بنا ہوا تھا
مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے
اک چاند کے وجود میں گوندھا گیا مجھے
میں نیست اور نبود کی اک کیفیت میں تھا
جب وہم ہست و بود میں گوندھا گیا مجھے
میں چشم کم رسا سے جسے دیکھتا نہ تھا
اس خواب لا حدود میں گوندھا گیا مجھے
خس خانہ زیاں کی شرر باریوں کے بعد
یخ زار نار سود میں گوندھا گیا مجھے
اک دست غیب نے مجھے لا چاک پر دھرا
پھر وقت کے جمود میں گوندھا گیا مجھے
اس میں تو آسماں کے شجر بھی ثمر نہ دیں
جس خاک بے نمود میں گوندھا گیا مجھے
قوس قزح کی سمت بہت دیکھتا تھا میں
آخر غبار و دود میں گوندھا گیا مجھے
٭٭٭
پھول پھنکارتے ہیں ڈستے ہیں
کیا عجائب بھری کہانی ہے
نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
لہو سے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں
وہ دل میں اتریں تو ایک ہو جائیں روشنی دیں
دھنک کے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں ڈالتا ہوں
زمین تلوؤں سے آ چمٹتی ہے آگ بن کر
ہتھیلیوں پر جب آسماں کو سنبھالتا ہوں
ہوا میں تھوڑا سا رنگ اترے سو اس لیے میں
گلاب کی پتیاں فضا میں اچھالتا ہوں
کوئی نہیں تھا جو اس مسلسل صدا کو سنتا
یہ میں ہوں جو اس دیے کو سورج میں ڈھالتا ہوں
طریرؔ سانسوں کا رنگ نیلا ہوا تو جانا
خبر نہیں تھی یہ سانپ ہیں جن کو پالتا ہوں
٭٭٭
جنوں کیا سات رنگوں سے ملا ہے
تصوف کا دریچہ کھل گیا ہے
کنارے پر اٹھائے ہاتھ میں نے
دعا کا عکس پانی پر بنا ہے
نیند بیچی جا رہی ہے کاروبار خواب ہے
پھر بھی آشفتہ سروں کو اعتبار خواب ہے
ان دنوں آنکھوں کی تقدیریں ہیں کس کے ہاتھ میں
کون آخر ان دنوں پروردگار خواب ہے
نقش پا ہے زندگی کا اور اس پر آبلے
جوئبار تشنگی ہے ریگ زار خواب ہے
ایک منظر بھی نہیں ہے میرے چھونے کے لیے
یہ جہاں کوئی خلائے شرمسار خواب ہے
سارے کرداروں کے چہرے زرد لہجے سرد ہیں
یہ کہانی کیا پڑھو گے داغ دار خواب ہے
آسماں کو دیکھتا ہوں چار جانب دیکھ کر
اور کتنے دن فضائے انتشار خواب ہے
رفتگاں میں اور ہم میں مشترک ہے ایک بات
انتظار خواب تھا اور انتظار خواب ہے
٭٭٭
جو خود بھی قید ہے دیوار و در میں
اسی قیدی پری میں قید ہوں میں
ہوا کے رقص میں رکھی تھی خاک کی ڈھیری
عجیب ڈھنگ سے صورت گری ہوئی میری
بہار آئی، گئی اب کی بار بھی لیکن
کٹی نہ شاخ تمنا ہری ہوئی میری
نجانے کس نے سکوت فنا سے بھر دی ہے
خیال و خواب سے بستی بھری ہوئی میری
تجھے سنائی نہ دی کیا دکھائی بھی نہیں دی
دعا، چراغ کی لو پر دھری ہوئی میری
وہیں پہ سوکھ گئی رعد کی صدا کے بعد
اڑی نہ شاخ سے چڑیا ڈری ہوئی میری
یہیں ستاروں بھری جھیل کے کنارے پر
پڑی ہوئی تھی محبت مری ہوئی میری
میں حیرتوں سے لڑا اور جنگ جیت گیا
تو کیا یقین کی اجلی پری ہوئی میری؟
٭٭٭
کیا کیا میں نے اگر پڑتی رہی خاک پہ خاک
مجھ پہ تف اور مرے شعلۂ ادراک پہ خاک
ہوا کیا سانس بھی میری نہیں تھی
تری تھی زندگی میری نہیں تھی
کسی کی تھیں وہ آنکھیں اور پلکیں
کسی کی تھی نمی میری نہیں تھی
مرے تو کھیت تھے، سپنے تھے، گھر تھے
زمیں چیخوں بھری میری نہیں تھی
پرستاں خواب تھا میرا ہی لیکن
وہاں کوئی پری میری نہیں تھی
مری تھیں سب دشائیں اور برگد
سمے کی شانتی میری نہیں تھی
دیا میرے لہو سے جل رہا تھا
فضا کی روشنی میری نہیں تھی
مرے تھے سبز مٹی کے پرندے
مگر چھاؤں گھنی میری نہیں تھی
٭٭٭
یہ کیسے شہر میں داخل ہوا ہوں رات کے وقت
کوئی مکیں ہے نہ مکاں ہے کچھ بھی نہیں
یہ معجزہ بھی دکھاتی ہے سبز آگ مجھے
پروں بغیر اڑاتی ہے سبز آگ مجھے
میں آیتوں کی تلاوت میں محو رہتا ہوں
ہر اک بلا سے بچاتی ہے سبز آگ مجھے
ہر ایک شاخ پہ رکھتی ہے زرد قندیلیں
پھر اس کے بعد جلاتی ہے سبز آگ مجھے
میں آب سرخ میں جب خواب تک پہنچتا ہوں
تو میرے سامنے لاتی ہے سبز آگ مجھے
حنائی پاؤں رگڑتے ہوئے نہ گھاس پہ چل
تجھے خبر ہے کہ بھاتی ہے سبز آگ مجھے
میں جب بھی جلتے ہوئے کوئلوں پہ سوتا ہوں
تو آسماں سے بلاتی ہے سبز آگ مجھے
زمیں پہ ناگ ہیں اور ان کے منہ میں خواب کی لو
کہانیوں سے ڈراتی ہے سبز آگ مجھے
٭٭٭
لفظ سینے میں صدا دیتا ہے
اور کاغذ پہ پڑا ہے میرا دل
وسعت گیر متخیلہ کا شاعر
آفتاب اقبال شمیم
ہر دہائی کے بعد غزل ایک نئے تجربے، ایک نئے طرز احساس اور تازہ کاری کے ساتھ وارد ہوتی ہے اور کثرت سے لکھی جانے والی اس صنف سخن میں ہر بار آواز کی کچھ ایسی اکائیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں جو ہمیں باور کراتی ہیں کہ اپنی روایت کی پابند غزل، ایک تنگ نائے ہونے کے باوجود کسی بحر سے جا ملنے کا امکان بھی رکھتی ہے۔ آج کی نمائندہ غزل عمومی طور پر مضمون آفرینی کی طرف مائل ہے۔ ہمارا آج کا شاعر جذبہ و خیال کو اپنے ہنر کے زور اور قافیہ و ردیف کی دل کش درو بست سے شعر کے اندر سے مضمون نکال لیتا ہے۔ مضمون نکالنے کی یہ کاوش جتنی بے ساختہ ہو، اتنی ہی داد وصول کرتی ہے۔ یہ مشکل کام بہ ہر حال ہمیں جمالیاتی تسکین فراہم کرتا ہے۔ کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جو اس تازہ رجحان کو اپناتے ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے تخلیقی عمل کو اپنے آئیڈیل سے مربوط رکھتے ہیں۔ جن میں سوال اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے۔ جو کثرتوں میں یکتائی اور یکتائی میں کثرتیں کھوجنے کے ویژن کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دانیال طریر ایک ایسا ہی شاعر ہے اور اسی منزل کی طرف گامزن ہے۔
یہ مجموعہ اس کی تمنا کا دوسرا قدم ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ جس وسعت میں اس نے پاؤں رکھا ہے اس کی کوئی انت نہیں۔ یہ ایک اور طرح کی مشکل پسندی ہے۔ دانیال طریر کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ اپنے شعری سفر میں وہ اپنے خارج و باطن کو یک جا رکھتے ہوئے خود اپنی دریافت کے مرحلے میں ہے۔ اس کی نفسی اور باطنی کیفیات یا وجودی کرب ایک مماثل معروضی حوالے کے توسط سے اظہار پاتے ہیں۔ اس مجموعے میں ایسے اشعار کم نہیں جو یوں تو غزل کی مروجہ ڈکشن میں لکھے گئے ہیں لیکن ان میں شامل شاعر کا انتہائی ذاتی تجربہ انہیں زرا مختلف بنا دیتا ہے۔
سانس آنچ لگتا ہے جسم کانچ لگتا ہے
مجھ کو مار ڈالے گا ایک دن یہ ڈر میرا
تخلیق کا عمل ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے، جو میلان طبع، احساس جمال، شعور غم، داخلی آزادی کے پھیلاؤ، عصری حسیت، روایت پر گرفت، ہنر پر دسترس اور ایسے ہی حلقہ ٔ صد کام نہنگ سے گزر کرقطرے کو گہر بناتا ہے۔ یہی تخلیقی عمل فکر و جذبہ کی انگیخت سے دو مصرعوں میں لفظ کی استعداد سے راسخ کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک جہان معنی پیدا کر دیتا ہے لیکن اس سارے عمل میں شاعر بہ طور ایک فرد مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے وجود کا رشتہ وقت، فطرت اور انسانی زندگی سے استوار کرتے ہوئے جس شعری تجربے سے گزرتا ہے، وہی اس کی تخلیق کا درجہ متعین کرتا ہے۔ یہ انفرادی اپج ایک خداداد شے ہے جو محض محنت سے نہیں ملتی۔ یہ اپج اور تخلیقی توانائی جو دانیال طریر کے حصے میں آئی ہے اپنی مقدار میں بڑی وافر ہے۔ شعریت جو شاعری کو نثر سے ممیز کرتی ہے، اسی وفور سے جنم لیتی ہے۔ دانیال طریر کے اشعار میں یہ شعریت یا تخلیقی حسن عموماً استعارے یا امیج کے توسط سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
ملے ہوئے ہیں جیسے تپتی ریت اور پیاسے ہونٹ
جڑے ہوئے ہیں اسی طرح سے نوحہ اور چراغ
وہ دل میں اتریں تو ایک ہو جائیں روشنی دیں
دھنک کے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں ڈالتا ہوں
گیا کہ سیل رواں کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
مجھے تو لاج کے اجلے لباس میں وہ بدن
گلاب برف میں جیسے چھپاؤ ایسا تھا
دانیال طریر ایک طبع زاد شاعر ہے۔ کئی سوال، کئی حیرتیں کبھی فکر کی اڑان میں، کبھی متخیلہ کی جولان گاہ میں اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ وہ اس سفر میں دور تک جانے کی جرأت رکھتا ہے اور جب لوٹتا ہے تو نئے تجربے سے ثروت مند نظر آتا ہے۔ اس کے عام ڈگر سے ہٹے ہوئے مضامین اور کسی واقعہ و واردات کو تھوڑا سا زاویہ بدل کر دیکھنے کا انداز ہمیں متاثر کرتا ہے۔
مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں رات ملانی پڑی ہے آخر کار
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے، خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
اس کی ندرت خیال اس کی اوریجنیلٹی کا اظہار تو ضرور بنتی ہے لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے خیال کے اچھوتے پن کو محض مضمون آفرینی کے لیے وقف نہیں کرتا بل کہ وہ اسے عصری منظر نامے اور انسانی صورت حال سے جوڑ کر بھی نئے مضامین نکالتا ہے۔
بدن پر ٹانک کر تارے اڑایا جا رہا ہے
مجھے آخر پرندہ کیوں بنایا جا رہا ہے
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے
مسخرے کا روپ دھاریں مسکرائیں بھی نہیں
دانیال طریر کے ہاں کچھ غزلیں ایسی ہیں جو عرف عام میں غزل مسلسل کہلائیں گی لیکن ہم انہیں نظم نما غزلیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ ماضی میں اردو نظم بڑی مدت تک غزل کے زیر اثر رہی لیکن دانیال طریر کی یہ غزلیں اپنے تمام تر غزلیہ مضامین اور کیفیات کے باوجود نظم کے مزاج سے متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً یہ غزل جس کا مطلع ہے۔
دعا کرنے سے نفرت ہے نہیں تو
خدائی کی ضرورت ہے نہیں تو
بہ ظاہر توخالصتاً غزل نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھیں تو یہ غزل نفی و اثبات اور انکار و اقرار کے جدلیاتی رویے کو بڑی خوبی سے مکالمے کی شکل میں پیش کرتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ غزل ایک جدلیاتی سچوئیشن کو کہیں نفسیاتی صداقت سے اور کہیں حوصلے کے اقرار سے سنتھے سائز (synthesize) کرتی دکھائی دیتی ہے اور اپنی ٹریٹ منٹ میں غزل ہونے کے باوجود اپنے موضوع کی یک سمتی میں نظم سے بہت قریب ہے۔ اس طرح ’فاختہ‘ ردیف والی غزل محض امن کا نوحہ نہیں، شاعر نے اسے زور تخلیق اور وسعت گیر متخیلہ سے کثیر المعانی بنا دیا ہے اور اس میں توسیع یافتہ استعارے کی خوبی پیدا ہو گئی ہے۔ جو کہیں فطرت کی رعنائی، کہیں جور و جبر کی تردید، کہیں حزن و ملال، کہیں تنہائی کے عالم گیر احساس اور کہیں خود شاعر کی فاختہ میں تقلیب، جیسے مضامین کو یک جا کرتا ہے اور غزل میں ایک مکمل نظم کی گونج سنائی دیتی ہے۔
جس جہاں کو ہماری ضرورت نہ تھی کیوں وہاں بس گئے
ایک میرا دیا، ایک میں بے ہنر، اک مری فاختہ
اسی طرح ایک اور غزل میں ردیف کی پابندی سے قطع نظر جو مجموعی تاثر ابھرتا ہے وہ بھی اپنے مرکز کی طرف مائل رہنے والی نظم ہی کا ہے۔ اس غزل کا مطلع یوں ہے:
آن پڑی ہے ہم پر کیسی مشکل اے صحرا
اک سینے میں دھڑک رہے ہیں دو دل اے صحرا
دانیال طریر کی غزل فنی اعتبار سے چاق و چوبند اور غزل کی تازہ روایت سے جوڑی ہوئی ہے اور مضامین کے تنوع اور کثرت سے خیال کی گنجان آبادی کا سماں پیدا کرتی ہے۔ ایسی غزل کے موضوعات کی ذیل میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
تشکر: سدرہ سحر عمران جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید